FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

انتخاب میرا جی

 

حصہ اول

                میرا جی

انتخاب: حیدر قریشی

مدیر: جدید ادب
ماخذ:  جدید ادب، شمارہ ۱۹،  میرا جی نمبر

 

 

 

 

 

 

 

ایک کا گیت، جو سب کا ہے

 

چند کانت سے من میں آئے شانتی،

کملاؔ میری، بِملاؔ میری اور میری ہے کانتی،

پر میں جانوں،

اور یہ سمجھوں

چند کانت سے من میں آئے شانتی،

شیاماؔ میری۔۔۔۔ جس کے لمبے بال، من پنچھی کو جال

رادھاؔ میری۔۔۔ جس کی موہن چال، من کو کرے نڈھال

ہاں ہاں، پروتیماؔ میری ناچے سُندر ناچ

سودھاؔ میری گائے گانے جیسے دھیمی آنچ

آشاؔ میری، اوماؔ میری اور میری ہے کانتی

پر میں جانوں

اور یہ سمجھوں

چند کانت سے من میں آئے شانتی،

کملاؔ ضدی، آشاؔ چھوٹی،

بملاؔ بھدی، اوماؔ موٹی،

ہاں ہاں ہاں پروتیماؔ دبلی لمبی جیسے ہو اک بانس،

ہاں اور سودھاؔ پتلی جیسے من کی پھانس

چندرؔ کانت کو وہ کب پہنچیں ؟شیاماؔ ، رادھا، کانتی

چند کانت ہے سب سے پیاری،

چندر کانت ہے سب سے اچھی،

میں تو جانوں

چندر کانت بھی ہے اتنا تو جانتی

چند کانت سے من میں آئے شانتی،

اب میں سوچوں چندر کہوں یا کانتا؟

چُپ چُپ، چُپ۔۔۔ وہ دیکھو آئی چندرکانت، اور شانتا

لیکن سُن لو، میں ہوں اتنا جانتا،

یہ بھی مانے، وہ بھی مانے، سب دنیا ہے مانتی

چند کانت سے من میں آئے شانتی

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

اب جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

دکھ بھی سکھ ہے، کوئی جو بولے سُن لے، اکیلا بیٹھ کے رولے

چاہے سنبھلے، چاہے ڈولے

دل کو دے یہ گیان

جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

پہلا دھندلکا دور ہوا ہے جھنجھٹ کل کا دُور ہوا ہے

آنسو ڈھلکا، دُور ہوا ہے

دو پل کا مہمان

جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

تیری کٹیا میں۔۔ نادانی چھیڑ کے دکھ کی رام کہانی

تجھ سے کہتی تھی یہ بانی

میٹھے دکھ کے دھیان

جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

اب وہ بات نہیں ہے پہلی پریم نے جو کہنی تھی، کہہ لی

تُو نے بھی سب جی پر سہہ لی

اب تو نئی ہے تان

جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

دھو لے، مدھ کی گنگا گہری رنگ کئی ہیں،  بات اکہری

ایک ہیں سارے میٹھا، زہری

بِس کو امرت جان

جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

جی میں سوچا ایسے بِتائیں دل نے دیکھا کیسے بِتائیں

بیت رہی ہیں جیسے بیتائیں

اب ہے اسی میں آن

جس ڈھب آن پڑی، سُکھ جان

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

گیت

 

جیون رَن بھومی کے سمان

آن کے ساتھ جہان جیون رن بھومی کے سمان

گھر جو اجاڑے وہی لٹیرا دیکھ سکے کب تیرا میرا

ہاتھ پڑی ہر شے لے بھاگے موہ نے جس کے دل کو گھیرا

موہ نے جس کے دل کو گیرا

اُس کو بَیری جان

جیون رَن بھومی کے سمان

(۲)

جی دہلاتی آندھی آئی سارے جگت میں چھِڑی لڑائی

پورب پچھم اندھیاری ہے کون ہے بھائی، کون قصائی

کون ہے بھائی کون قصائی

اس کی کیا پہچان

جیون رَن بھومی کے سمان

(۳)

دیکھ دیکھ کر پاؤں بڑھانا آگے پیچھے دیکھتے جانا

جہاں بھی دیکھو مچی دھاندلی دیکھ نہ ہر گز دھوکا کھانا

دیکھ نہ ہر گز دھوکا کھانا

تو ہے ابھی نادان

جیون رَن بھومی کے سمان

جاگ گھٹا پورب سے آئی ہو نہ کہیں جگ میں رسوائی

بڑھے دیس کے سارے سورما سب کو دیں دشمن سے رہائی

سب کو دیں دشمن سے رہائی

اس میں ہے اب آن

جیون رَن بھومی کے سمان

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

گیت

 

جیون آس کا دھوکا گیانی

ہر شے جگ میں آنی جانی امر آس کی اٹل کہانی

کب سے کتھا یہ چھڑی ہوئی ہے اب تک کس نے ٹوکا گیانی جیون آس کا دھوکا

دھارا ساگر میں مل جائے سورج دھارا کو کلپائے

بادل بن کر پھر سے اُبھرے اونچے پربت سے ٹکرائے

من کی آس بدلتی دھارا اس کو کس نے روکا گیانی جیون آس کا دھوکا

آنکھیں دیکھیں محل سہانا ہنسنا رونا کھونا پانا

اس کے سامنے ایک فسانہ

لہر لہر کا بھید اچھوتا کبھی بھید ہے کبھی بہانہ

پل پل سیر نئی ہے اس میں بیٹھو کھول جھروکا گیانی جیون آس کا دھوکا

(گیت ہی گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

جگ میں ہر شے آنی جانی

موہ کا جال بچھا ہے ایسا اَن مِٹ موت کا پھندا جیسا

اس دھوکے سے کیسے نکلیں سوچ تھکے یہ لاکھوں گیانی

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

(۲)

جھوٹی کہانی جھوٹا سپنا کوئی نہیں دنیا میں اپنا

دل کا دردی کوئی نہ دیکھا کس نے سنی اور کس نے مانی

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

(۳)

آشا رنگ محل دکھلائے پاس گئے پر ٹھوکر کھائے

من مورکھ ہے ایک دوانہ گائے اپنی بے ڈھب بانی

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

(۴)

جگ میں اپنا آپ سہارا اور کی آس ہے گھور اندھیارا

پل میں ڈُبائے بہتی دھارا ہم نے اس کی چالیں جانی

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

(گیت ہی گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

 

دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے

جس گھر میں پہلے اندھیرا تھا جس دل کو دکھ نے گھیرا تھا

قسمت بدلی پُر نور ہوئے

دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے

(۲)

اب پہلی بیرن بات گئی وہ دن بھی گئے وہ رات گئی

رنجور تھے جو مسرور ہوئے

دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے

(۳)

جیسے دکھ دل نے اُٹھائے ہیں ویسے ہی سکھ اب پائے ہیں

مختار ہیں جو مجبور ہوئے

دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے

(۴)

چاہت کی جیت ہوئی آخر اب اَن مِٹ پیت ہوئی آخر

سکھ امرت سے مخمور ہوئے

دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے

(گیت ہی گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

مانگ پجاری، مانگ بھکاری

تیرے لئے ہے دنیا ساری

بَن ہیں تیرے بستی تیری تیری بلندی، پستی تیری

تیرا نور، اندھیرا تیرا ہوش بھی تیرا مستی تیری

تیرے لئے ہے سب تیاری

مانگ پجاری، مانگ بھکاری

سورج چاند ستارے تیرے اُجیالے اندھیارے تیرے

رنگ رنگ کی باتیں تیری پھول اور پتے سارے تیرے

تیری ہے یہ سب پھلواری

مانگ پجاری، مانگ بھکاری

پہلی بھولی پیت ہے کس کی؟ ہر مشکل پر جیت ہے کس کی؟

جگ میں تیرا جال بچھا ہے چنچل قسمت میت ہے کس کی؟

پہلے پیچھے تیری باری

مانگ پجاری، مانگ بھکاری

موہن میٹھی کا یا تیری درشن کی سب مایا تیری

ہر بستی کے دھن کا دھنی تو دھوپ بھی تیری چھایا تیری

دیکھ تو کس کے ہیں نر ناری

مانگ پجاری، مانگ بھکاری

(گیت ہی گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

انجانے نگر من مانے تھے

من مانے نگر انجانے رہے

اپنی باتوں کی مستی میں سنتے رہے دل کی بستی میں

وہی گیت جو کچھ من مانے رہے

وہی راگ جو سکھ کے بہانے رہے

راتیں بیتیں دن بیت گئے راتیں بھی نئی پھر دن بھی نئے

مُورکھ من ایسا ہٹیلا ہے

اسے یاد وہ رنگ پرانے رہے

انہونی کا جسے دھیان رہا ہونی نے اسے چپکے سے کہا

نہ وہ باتیں رہیں نہ زمانے رہے

جو رہے بھی تو باقی فسانے رہے

اب گیت میں رس ٹپکاتے ہیں یوں دل کی آگ بجھاتے ہیں

اب سب کے لئے وہی باولے ہیں

جو بیتے سمے میں سیانے رہے

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

گیت

 

 

اک بستی جانی پہچانی، یہ دھُن تو ہے بہت پرانی

دل میں ہے دھیان ہمارے

نیلے منڈل کے تارے

اور چندر جوت کے دھارے

سب گائیں میٹھی بانی

اک بستی جانی پہچانی، یہ دھُن تو ہے بہت پرانی

دل کو ہے رس کا بندھن

اِس اُجلی رات کا جوبن

آکاش کا اونچا آنگن

ظاہر میں ہے لافانی

اک بستی جانی پہچانی، یہ دھُن تو ہے بہت پرانی

تُو آئی،  میں بھی آیا

دونوں نے قول نبھایا

لیکن ہر بات ہے مایا

جگ کی ہر بات ہے فانی

سب فانی، فانی۔۔ فانی۔۔ یہ دھُن بھی ہے بہت پرانی

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

 

گیت

 

اندھی دنیا آدھی،  سادھو، اندھی دنیا آدھی

سوچ سمجھ کر جان لے مورکھ! بیٹھ لگا کے سمادھی

ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھے کسی کا چھایا گھور اندھیرا

گپت بھون میں بیٹھے روئیں مل کر سب اپرادھی

پوری بات سنی نہ کسی نے، دل کی دل سے دپوری

گیان گیت کی تان منوہر کیا پوری کیا آدھی

دھارتی چاند ستاروں سمان سبھی انجان پڑوسی

اپنے پرائے اور جگت کے، ہم نے بھی چُپ سادھی،

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

بات نئی، بات نئی

اب تو ہے ہر بات نئی

رات گئی، رات گئی،

کالی کالی رات گئی،

رات نئی اب آئے گی

چندرمان کو لائے گی

نُور کی ندی بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی

دل میں دکھ کے بندھن تھے جو

اَب وہ ٹوٹ ہی جائیں گے

لوٹ کے دھیان نہ آئیں گے

دُکھ والے،

سکھ والے

دھیان مِری پیاسی آنکھوں کو میٹھے رنگ دکھائیں گے،

آس بندھی، آس بندھی،

آس بندھی ہے من کی جیسے پیتم سے سنجوگ ہوا،

دور برہ کا روگ ہوا،

دور ہوئی، دور ہوئی،

دور ہوئی ہے من کی چنتا پھلواری میں پھول کھلے

برہن اب پیتم سے ملے،

آ ہی گئیں، آ ہی گئیں،

آ ہی گئیں اب سکھ کی گھڑیاں،

پل میں تارے آئیں گے

سُونے گگن میں اپنی اگن سے

جیون جوت جگائیں گے

رات نئی، رات نئی،

رات نئی اب آئے گی

چندر ماں کو لائے گی

نور کی ندی بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی،

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

 

گیت

 

برکھا کے لاکھوں ہی تیر دل پر کس کو سہوں میں

چاروں اور جھومے ہریالی

چھائی گگن پہ گھٹا متوالی

چھاجوں برسے نیر دل کی کس سے کہوں میں

رہ رہ آئیں پَوَن جھکولے

ڈولے، ڈولے، نیّا ڈولے

ٹھنڈ سے کانپے سریر، اب تو چپ نہ رہوں میں

بادل بن گئے پریم ہنڈولے

دُکھ کا بندھن کوئی نہ کھولے

آ جاؤ رن بیر! دُکھڑا تم سے کہوں میں

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

 

گیت

 

(۱)

جیون ایک مداری پیارے کھول رکھی ہے پٹاری

کبھی تو دُکھ کا ناگ نکالے پل میں اُسے چھپا لے

کبھی ہنسائے کبھی رجھائے بین بجا کر سب کو رجھائے

اس کی ریت انوکھی نیاری، جیون ایک مداری

(۲)

کبھی نراشا کبھی ہے آشا پل پل نیا تماشا

کبھی کہے ہر کام بنے گا جگ میں تیرا نام بنے گا

بنے دیالو ہتیا چاری، جیون ایک مداری

(۳)

جب چاہے دے جائے دھوکا اس کو کس نے روکا

تو بھی بیٹھ کے دیکھ تماشا کبھی نراشا کبھی ہے آشا

پت جھڑ میں بھی کھلی پھلواری، جیون ایک مداری

(۴)

آئے ہنسی مٹ جائیں آنسو اس میں ایسا جادو

بندر ناچے، قلندر ناچے، سب کے من کا مندر ناچے

جھوم کے ناچے ہر سنساری، جیون ایک مداری

(میرا جی کے گیت)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

 

مِرے دل کی باتیں کیا جانے۔۔۔ کیا جانے،

جو دیکھے سبھی جو سُنے نہ کبھی

مرے دل باتیں کیا جانے۔۔۔ کیا جانے،

من باؤلا ہے من چاہے وہی

جو کہی نہ سُنی

یہ جیون گیت انوکھا ہے

کبھی ایک ہی پل میں امر ہو جائے

کبھی یہ سمجھائے

جو روٹھے نہیں کیسے مانے

مرے دل کی باتیں کیا جانے۔۔۔ کیا جانے

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

من ہی من میں ہری دیپ جلے

کیوں چنتا ہو اندھیارے کی

سدھ بدھ نہیں سانجھ سکارے کی

اب آٹھ پہر ہم رہتے ہیں اُجیالے کی چھایا کے تلے

ہری دیپ بھی سُندر ناری ہے

اس بات میں سب سے نیاری ہے

جس من میں جیوتی جاگ اٹھے

وہ بھی اس کے سانچے میں ڈھلے

جس من میں رُوپ بسے اس کا

آنکھیں کس کی درشن کس کا

یہ بھید بتائے کون ابھی آنند سے ہم بھی نہیں سنبھلے

مت سوچ بٹوہی جیت کہاں

اس راہ میں من کا میت کہاں

یہی دھیان رہے ہر دم دل میں

لوبھی وہ نہیں جو بھی ہوں بھلے

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

بن آشا کیسے کاج بنے ؟

روکھا جیون سوکھے سپنے، بن آشا کیسے کاج بنے ؟

مالی سے خالی پھلواری، جیون کوئی ناری روٹھے نہ منے !

بن آشا کیسے کاج بنے ؟

جب کوئی کسی کو ساتھ لئے

بڑھے ہاتھ میں اپنا ہاتھ لئے

یوں ڈول اٹھے دل، بول اٹھے

اب سب جیون کے سکھ اپنے !

کوئی نئی امنگ سجھائی دے

تو ہوتی بات دکھائی دے

پھیلے آکاش پہ چھا جائیں جیون پل میں بادل گھنے گھنے

(نیا دور۔ کراچی)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

 

سمے گھور بٹ مار بٹو ہی،

پہلے جیون منزل کا تارا، یہ بھی کرے اشارا

وقت پڑے کب آنکھ ملائے

آپ ہی کاج سنوار، یہ کہہ دے سوہی

سمے گھور بٹ مار بٹو ہی

کہے دور سے جیت تمہاری، قسمت میت تمہاری

پاس گئے جب ایسے جیسے

ہر جائی کا پیار، بنے نرموہی

سمے گھور بٹ مار بٹو ہی

اس کو جان کے جانا جگ کو، بیری مانا جگ کو

اس کی چال میں آئے جو مورکھ

سُوجھے آر نہ پار، ہیں رستے دو ہی

سمے گھور بٹ مار بٹو ہی

(نیا دور۔ کراچی)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

ڈھول پکارے زور سے آؤ بھائی آؤ

بیت نہ جائے عمر کہیں آؤ چلتے جاؤ

کہتی ہے یہ بانسری رات اندھیری چھائے

ہنسو جو سمجھو دیکھنا پیت کہیں لگ جائے

تن تن تن تن تن تن تن کہتی ہے یہ ستار

گائے ناچے دل میرا دل کے اوپر بھار

لیکن غمگیں اور دکھی سارنگی بولے

پریت کے ہاتھوں روئی میں،  آ تو بھی رو لے

(شعرو حکمت۔ حیدر آباد دکن)

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

 

کیوں نہیں اکھیاں ندیاں سوکھی

کب تک دکھ کی مالا جپنا

سکھ کا سپنا

اس پر کوئی بس نہیں اپنا

نین بھر آئیں

دل یہ پکارے لوگ کہیں یہ دیکھ نہ پائیں

کیسے کہو اب بھید چھپائیں

آنسو پئیں تو سینے میں یوں چلے کٹاری

جیسے گلے میں اترے مدیرا راکھی

کیوں نہیں اکھیاں ندیاں سوکھی؟

(شعرو حکمت۔ حیدر آباد دکن)

٭٭٭

 

 

 

 

 

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھُول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھُول گیا

 

کیا بھُولا، کیسے بھُولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو

کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھُول گیا

 

کیسے دن تھے،  کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں

من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھُول گیا

 

اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی

دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بھُول گیا

 

یاد کے پھر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی

دُکھ میں سُکھ ہے سُکھ میں دُکھ ہے بھید یہ نیا را بھُول گیا

 

ایک نظر کی، ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی

ایک نظر کا نور مِٹا جب اک پل بیتا، بھُول گیا

 

سُوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ

لہر لہر سے جا سر پٹکا، ساگر گہرا، بھُول گیا

 

ہنسی ہنسی میں کھیل کھیل میں،  بات کی بات میں رنگ مٹا

دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھُول گیا

 

اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا

ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھُول گیا

 

جس کو دیکھو اُس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے

ہمیں تو سب کچھ یاد رہا —پ رہم کو زمانہ بھُول گیا

 

کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا کہہ دو جو کچھ جی میں ہے

میراجی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھُول گیا

٭٭٭

 

 

 

 

گناہوں سے نشو و نما پا گیا دل

در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل

 

اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا

اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل

 

یہ ننھّی سی وسعت یہ نادان ہستی

نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل

 

نہ تھا کوئی معبود، پر رفتہ رفتہ

خود اپنا ہی معبود، بنتا گیا دل

 

نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی

جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل

 

بجائے دل اک تلخ آنسو رہے گا

اگر ان کی محفل میں آیا گیا دل

 

پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ہے

ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل

 

کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے

اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل

 

بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن

ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل

 

کہی بات جب کام کی میراجی نے

وہیں بات کو جھٹ سے پلٹا گیا دل

٭٭٭

 

 

 

 

جیسی ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی

زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

 

گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے

ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

 

انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے

ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

 

سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ امید پر

جستجو آئینۂ مدو جزر ہو جائے گی

 

درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف

اب دعا اندیشہ یہ ہے کار گر ہو جائے گی

 

سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے

ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہیں سنتا دلِ ناشاد میری

ہوئی ہے زندگی برباد میری

 

رہائی کی امیدیں مجھ کو معلوم

تسلی کر نہ اے صیاد میری

 

نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی

یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

 

میں تم سے عرض کرتا ہوں بصد شوق

سنو گر سن سکو رُوداد میری

 

مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری

کبھی آئی تجھے بھی یاد میری

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی کش مکشِ حاصل و نا حاصل ہے

ماسوا اس کے ہر اک نقشِ جہاں باطل ہے

دُور ماضی کا اُفق، سامنے سیلِ امروز

وقت کا کٹتا کنارا تو یہ مستقبل ہے

 

دلِ محروم ہے عشاقِ تن آساں کا امیر

گرچہ ہر نورِ گریزاں کا یہی سائل ہے

 

مجھ سے تو بہجتِ آسودہ کا حاصل مت پوچھ

فکر، ہر رنگ میں لذت کے لیے قاتل ہے

 

ہاتھ پر ہاتھ دھرے عمر گزاری جس نے

کشتنی، سوختنی، جو بھی کہو یہ دل ہے

 

لبِ میگوں سے جو محرومی ہے تسلیم ہمیں

لذتِ تشنہ لبی اس میں مگر شامل ہے

 

تیرگی، موجۂ خونخوار، شکستہ کشتی

اور ذرا آنکھ اُٹھائی تو وہیں ساحل ہے

 

یہ تماشائے چمن نقشِ خط و رنگ نہیں

بہ تقاضائے حیا کاہشِ آب و گِل ہے

٭٭٭

 

 

 

 

لذتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں

اس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

 

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پوچھ

یہ وہ گلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

 

یک ہمہ حسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ

تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

 

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے

زندگی نقش گرِ خاطر ناشاد نہیں !

 

اُن کی ہر اک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط

ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں

 

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے

جنتِ حُسنِ نَفَس و جنتِ شداد نہیں

 

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے

باعثِ زینتِ گل تو قدِ شمشاد نہیں

 

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے

پُر سکوں آبِ رواں، نوحہ کناں باد نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے

میرا جیؔ دانا تو نہیں ہے عاشق ہے سودائی ہے

 

صبح سویرے کون سی صورت پھلواری میں آئی ہے

ڈالی ڈالی جھوم اُٹھی ہے، کلی کلی لہرائی ہے

 

جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی

نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے

 

ایک کھلونا ٹوٹ گیا تو اور کئی مل جائیں گے

بالک! یہ انہونی تجھ کو کس بَیری نے سُجھائی ہے

 

دھیان کی دھُن ہے امر گیت، پہچان لیا تو بولے گا

جس نے راہ سے بھٹکایا تھا وہی راہ پر لائی ہے

 

بیٹھے ہیں پھلواری میں دیکھیں کب کلیاں کھلتی ہیں

بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اتنی راہ دکھائی ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب دل گھبرا جاتا ہے تو آپ ہی آپ بہلتا ہے

پریم کی ریت اسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

 

امیدیں، ارمان سبھی جُل دے جائیں گے، جانتے تھے

جان جان کے دھوکے کھائے جان کے بات بڑھائی ہے

 

اپنا رنگ بھلا لگتا ہے۔۔ کلیاں چٹکیں، پھول بنیں

پھول پھول یہ جھوم کے بولا:کلیو! تم کو بدھائی ہے

 

آبشار کے رنگ تو دیکھے لگن منڈل کیوں یاد نہیں

کس کا بیاہ رچا ہے ؟ دیکھو! ڈھولک ہے شہنائی ہے

 

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا

دل کے اندر دھوم مچی ہے جگ میں اداسی چھائی ہے

 

لہروں سے لہریں ملتی ہیں ساگر اُمڈا آتا ہے

منجدھار میں بسنے والے نے ساحل پر جوت جگائی ہے

 

آخری بات سنائے کیوں کوئی، آخری بات سنیں کیوں ہم نے

اس دنیا میں سب سے پہلے آخری بات سنائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم پہ وہ کب نگاہ کرتے تھے

اک ہمیں اُن کی چاہ کرتے تھے

 

ہم تو بس اُن کی چاہ کرتے تھے

اور وہ ہم کو تباہ کرتے تھے

 

اُن کی زلفوں کی یاد میں شب کو

دل جلا کر سیاہ کرتے تھے

 

گاہ چپکے گزارتے تھے رات

گاہ روتے تھے آہ کرتے تھے

 

اُس کے گھر کے کئی کئی پھیرے

یونہی شام و پگاہ کرتے تھے

 

اور ہوں گے کوئی کہ تجھ کو چھوڑ

ہوسِ عزّ و جاہ کرتے تھے

 

سوچتا ہوں یہی کہ اُس دل میں

غیر کس طرح راہ کرتے تھے

 

چغلیاں کھا کے میری اُن سے رقیب

اپنا نامہ سیاہ کرتے تھے

 

ہم لہو آنکھ سے بہاتے تھے

وہ نہ ہم پر نگاہ کرتے تھے

 

داورِ حشر سے یہ کہہ دیں گے

ہم جہاں میں گناہ کرتے تھے

 

اب تو ہر شے سے بے نیازی ہے

دن گئے جب کہ چاہ کرتے تھے

 

شعر کہتے تھے اپنے میراؔ جی

لوگ سنتے تھے آہ کرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی ایک اذیت ہے مجھے

تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

 

دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال

تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے

 

تیری صورت، تری زلفیں،  ملبوس

بس انہیں چیزوں سے رغبت ہے مجھے

 

مجھ پہ اب فاش ہوا رازِ حیات

زیست اب سے تری چاہت ہے مجھے

 

تیز ہے وقت کی رفتار بہت

اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے

 

سانس جو بیت گیا، بیت گیا

بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے

 

آہ میری ہے تبسم تیرا

اس لیے درد بھی راحت ہے مجھے

 

اب نہیں دل میں مِرے شوقِ وصال

اب ہر اک شئے سے فراغت ہے مجھے

 

اب نہ وہ جوشِ تمنا باقی

اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے

 

اب یونہی عمر گزر جائے گی

اب یہی بات غنیمت ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ہے

رنگِ خونِ دل نہیں چمکا گردش میں پیمانہ ہے

 

مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا

اس کو یہاں سے کون نکالے یہ تو صاحبِ خانہ ہے

 

ایسی باتیں اور سے جا کر کہیے تو کچھ بات بھی ہے

اُس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے

 

طور اطوار انوکھے اس کے کس بستی سے آیا ہے

پاؤں میں لغزش کوئی نہیں ہے یہ کیسا مستانہ ہے

 

مے خانے کی جھل مل کرتی شمعیں دل میں کہتی ہیں

ہم وہ رند ہیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں

لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں

 

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی اس کی کچھ پروا ہی نہیں

تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

 

تجھ سے دُوری دُوری کب تھی، پاس اور دور تو دھوکا ہیں

فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

 

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا

عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

 

پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ

پاگل پن ہے ویسا ہی کچھ فرق نہیں دیوانے میں

 

خوشیاں آئیں ؟اچھا آئیں، مجھ کو کیا احساس نہیں

سُدھ بُدھ ساری بھول گیا ہوں دُکھ کے گیت سنانے میں

 

اپنی بیتی کیسے سنائیں مد مستی کی باتیں ہیں

میراؔ جی کا جیون بیتا پاس کے اک مے خانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیدۂ اشکبار ہے اپنا

اور دل بے قرار ہے اپنا

 

رشکِ صحرا ہے گھر کی ویرانی

یہی رنگِ بہار ہے اپنا

 

چشمِ گریاں سے چاکِ داماں سے

حال سب آشکار ہے اپنا

 

ہائے ہُو میں ہر ایک کھویا ہے

کون یاں غمگسار ہے اپنا

 

صرف وہ ایک سب کے ہیں مختار

اُن پہ کیا اختیار ہے اپنا

 

بزم سے اُن کی جب سے نکلا ہے

دل غریب الدیار ہے اپنا

 

اُن کو اپنا بنا کے چھوڑیں گے

بخت اگر سازگار ہے اپنا

 

پاس تو کیا ہے اپنے، پھر بھی مگر

اُن پہ سب کچھ نثار ہے اپنا

 

ہم کو ہستی رقیب کی منظور

پھول کے ساتھ خار ہے اپنا

 

ہے یہی رسمِ میکدہ شاید

نشہ اُن کا، خمار ہے اپنا

 

جیت کے خواب دیکھتے جاؤ

یہ دلِ بد قمار ہے اپنا

 

کیا غلط سوچتے ہیں میراؔ جی

شعر کہنا شعار ہے اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

دور و نزدیک

 

ترا دل دھڑکتا رہے گا

مِرا دل دھڑکتا رہے گا

مگر دُور دُور!

زمیں پر سہانے سمے آ کے جاتے رہیں گے

یونہی دُور دُور!

ستارے چمکتے رہیں گے

یونہی دُور دُور!

ہر اک شے رہے گی

یونہی دُور دُور!

مگر تیری چاہت کا جذبہ،

یہ وحشی سا نغمہ،

رہے گا ہمیشہ

مِرے دل کے اندر

مِرے پاس پاس

(۱۹۳۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ناگ سبھا کا ناچ

 

ناگ راج سے، ناگ راج سے ملنے جاؤں آج

ناگ راج ساگر میں بیٹھے سر پر پہنے تاج

ناگ راج کی سبھا جمی ہے خوشوئیں لہرائیں

بہتی، رُکتی، الجھتی جاتی، من کو مست بنائیں

چندر ماں کی کرنیں آئیں بل کھائیں۔۔۔ بل کھائیں

ننھے ننھے، ہلکے ہلکے، میٹھے گیت سنائیں

گاتے گاتے تھکتی جائیں، سوئیں سکھ کی نیند

(ناگ سبھا میں ) ہلکی ہلکی، میٹھی میٹھی نیند

کچھ گھڑیاں یوں بیتیں اور پھر سنکھ بجائیں ناگ

وحشی اور بے باک، انوکھے نشے لائیں ناگ

سوئی کرنیں جاگ اُٹھیں اور ناچیں سندر ناچ

دیوا داسی یاد آ جائے، ہاں۔۔۔ اور مندر۔۔۔ ناچ

ناگ سبھا کے ناچ انوکھے، سارا ساگر۔۔۔ ناچ

میرا من بھی بنتا جائے دیکھ دیکھ کر۔۔۔ ناچ

(۱۹۳۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

آمدِ صبح

 

 

دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا!

نہ ٹھہرے گا یہ سر پر رات کی رانی کے اک پل کو،

یہ روشن اور اجلا چاند یعنی رات کا پریمی

یہ اس کو جگمگاتے، پیلے تاروں سے

سجا کر لایا ہے گھر سے

مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد،

دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا

ہے دل میں چاند کے جذبہ محبت کا

چھپاتا ہے وہ غیروں کی نگاہوں سے

اُڑھا کر اک دوپٹہ اس کو تاروں کا

مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد،

فضا کے گلستاں میں پھرتی ہے اٹھکیلیاں کرتی،

ہوائیں گیسوؤں کو اُس کے چھو کر دوڑ جاتی ہیں،

دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا،

وہ لو، پیلا پڑا روشن سا چہرہ چاند کا بالکل

اسے افسوس !اندیشوں نے گھیرا ہے

اسے خطرہ ہے غیروں کا

ہے جذبہ اس کے دل میں تند چاہت کا

مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد

وہ ان کیفیتوں کو دل میں لاتی ہی نہیں بالکل

دوپٹہ شب کا ڈھلکا، ہاں وہ ڈھلکا جس طرح نغمہ

کسی راگی کے دل سے اُٹھ کے اک دم بیٹھ جاتا ہے

پرندے چہچہاتے ہیں

وہ لو، سورج بھی اپنی سیج پر اب جاگ اُٹھا ہے

گئی رات اور دن آیا

(۱۹۳۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک عورت

 

سُر میٹھے ہیں بول رسیلے، گیت سنانے والی تو

میرے ذہن کی ہر سلوٹ میں پھیلی نغمے کی خوشبو

راگنی ہلکے ہلکے ناچے جیسے آنکھوں میں آنسو!

میرے دل کا ہر اک تار

بن کر نغمے کی اک دھار

ظاہر کرتا ہے تیری پازیبوں کی مدھم، موہن

مستی لانے والی جھنکار!

تیرے دامن کی لہریں ہیں یا ہے مسلا مسلا گیت

یا ہے بھولے دل کی پہلی، ننھی، نازک، ناداں پریت

سادہ سادہ لیکن پل میں سب کے دل پر پائے جیت!

میرے دل کا ہر اک تار

ہوتا جاتا ہے سرشار

ایسے جیسے گہرے میٹھے سپنوں کی مدھم، موہن

مستی لانے والی جھنکار!

(۱۹۳۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک تصویر

 

سولہ سنگاروں سے سج کر اک سیج پہ گوری بیٹھی ہے

پیتم آئے نہیں،  آئیں گے،  چپکی رستہ تکتی ہے

لاکھ لگا کر پاؤں سجائے جگمگ جگمگ کرتے ہیں

پریمی دل کو گرم ’’ابلتے ‘‘ وحشی خون سے بھرتے ہیں

نینوں میں کاجل کے ڈورے انگ انگ برماتے ہیں

ننھے، کالے کالے بادل جگ پر چھائے جاتے ہیں

ماتھے پر سیندور کی بندی یا آکاس کا تارا ہے

دیکھ کے آ جائے گا جو بھولا بھٹکا آوارہ ہے

نرم، رسیلے، صاف، پھسلتے گال پہ تل کا بھنورا ہے

رُوم رُوم سندر کا سنگاروں سے سنورا سنورا ہے

کانوں میں دو بُندے جیسے ننھے منے جھولے ہیں

چنچل اچپل سندرتا کے سکھ میں سب کچھ بھولے ہیں

چوڑا بیل بنا لپٹا ہے بانہیں گویا ڈالی ہیں

بیل اور ڈالی کی روحیں یوں مست ہیں مد متوالی ہیں

لیکن پیتم آئے نہیں ہیں، آئیں گے، آ جائیں گے

اندر نگر کی خوشیوں والی بستی آ کے دکھائیں گے

پھر پاؤں کی پازیبیں پریمی کو راگ سنائیں گی

میٹھے لمحوں کی باتوں کے گیتوں سے بہلائیں گی

(۱۹۳۶ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ابوالہول

 

بچھا ہے صحرا اوراُسمیں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے

پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی

نہ اب وہ محفل، نہ اب وہ ساقی

مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے

فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا

مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے

زمانہ ایوان ہے، یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے

میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی

فضائے صحرا کے گرم و ساکن، خموش لمحے

مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے

ابھی وہ آ جائیں گے سپاہی؍وہ تُند فوجیں

دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے

آ جائیں گی اُفق سے

ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں

ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟

خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے، میں خیال سے

دل میں ڈر گیا ہوں

مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے

زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم

(۱۹۳۶ء)

٭٭٭

 

 

 

 

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

 

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

مِری ہستی ہے اک ذرہ

کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ

ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو

اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی

تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ ڈرتا ہوں

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

میں ڈرتا ہوں مسرت سے ؍

کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا

(۱۹۳۶ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بلندیاں

 

 

دیکھ انسانوں کی طاقت کا ظہور

اک سکونِ آہنیں ہمدم ہے میرا، اور میں

روزنِ دیوار سے

دیکھتا ہوں کوچہ و بازار میں

آ رہے ہیں، جا رہے ہیں لوگ ہر سُو۔۔۔ گرم رَو

اور آہن کی سواری کے نمائندے بھی ہیں

تیز آنکھوں، نرم قدموں کو لئے

محو گہرے نشّۂ رفتار میں

اور یہ اونچا مکان

جس پہ استادہ ہوں میں

جذبۂ تعمیر کا اظہار ہے

سرخرو، دل میں اولوالعزمی لئے

رات کی تاریکیاں ہر شے پہ ہیں چھائی ہوئی

لیکن ان تاریکیوں میں ہیں درخشاں چشم ہائے

دیوِ تہذیبِ جدید

اک سکونِ آہنیں ہمدم ہے میرا، اور میں

سوچتا ہوں عرصۂ انجم کے باشندے تمام

دل میں کہتے ہوں گے۔۔۔ ہیچ!

(۱۹۳۶)

٭٭٭

 

 

 

 

محبت

 

 

زرد چہرہ شمع کا ہے اور دھندلی روشنی

راہ میں پھیلی ہوئی،

اک ستونِ آہنیں کے ساتھ استادہ ہوں میں،

اور ہے میری نظر

ایک مرکز پر جمی،

آہ اک جھونکا صبا کا آ گیا

باغ سے پھولوں کی خوشبو اپنے دامن میں لئے

ساری بستی نیند میں بے ہوش ہے

راہ رَو کوئی نہیں،

راہ سب سُونی ہوئی،

آسماں پر حکمراں ہے شب کی گہری تیرگی،

اور فضا میں خامشی کے سانس کی آواز ہے،

اور ہے میری نظر

ایک مرکز پر جمی،

سامنے

روزنِ دیوار سے

ایک سایہ مجھ کو آتا ہے نظر

(۱۹۳۷ء)

٭٭٭

 

 

 

 

سنگِ آستاں

 

سکھا نغمہ محبت کا، مجھے محسوس کرنے دے

جوانی کو

ہے نغمہ جن میں خوابیدہ انہیں تاروں کی حرکت سے

میں لے آؤں گا ہستی کو مجسم شکل کی صورت،

اُنہیں تاروں کو خوابوں سے جگانے دے مجھے

اے رات کے ساقی!

دکھانے دے مجھے جلوہ ستاروں کے الجھنے کا

اُسی منظر کو لے آؤں گا میں پھر سے نگاہوں میں

جو ہے باقی

جو آویزاں ہے اب تک وقت کی دیوی کے آنچل میں

پکڑ کر ہاتھ میں پنچھی کو اس دھرتی کے جنگل میں

اسی خلوت کے محمل میں

ترے دل میں

جگا دوں گا میں اپنی گرم آہوں سے

اسی نغمے کو جو سویا ہے تیرے جسم کے محبوب تاروں میں

مجھے معلوم ہیں باتیں،

وہ باتیں جو اچھوتی اور پرانی ہیں

مگر نادان ہیں جذبے

ارادہ ہے کہ لے کر آج ان نادان جذبوں کو

میں تاریک غاروں میں

بنوں گا ہم سفر تیرا

چل آ! رنگیں کہانی کو

شروعِ عشق کی منزل سے لے بھاگیں

اُسے اس رات کے پھیلے اندھیرے میں

وہاں پر مل کے پہنچا دیں

جہاں ہے گوہرِ مقصود پوشیدہ نگاہوں سے

سہانی، گرم آہوں میں

(۱۹۳۹ء)

٭٭٭

 

 

 

 

مندر میں

 

 

منتر بول میٹھے،

منتر بول میٹھے، من بھاتے

دُکھ کو دُور کہیں لے جاتے

آئیں پجاری، جائیں پجاری

سُکھ کی برکھا لائیں پجاری

منتر بول سے

پرم ایشور کے

کومل من کو رجھائیں پجاری

گائیں پجاری

منتر بول میٹھے۔

آئے پروہت دُوب جلائے

آرتی کو ہاتھوں میں اُٹھائے

رُن جھُن رُن جھُن کیسی صدا ہے ؟

دل کا گنبد گونج رہا ہے،

سُکھ کی آشا

سُکھ کا سپنا

ناچ رہی ہے، جھوم رہا ہے،

یوں گاتا ہے

منتر بول میٹھے

جاگ اُٹھی ہیں بیتی باتیں

یاد آتی ہیں پہلی راتیں

یاد آتی ہے دیوا داسی

دل ہے پیاسا آنکھ بھی پیاسی

سُکھ ساگر میں

اس مندر میں

میرے دل میں چھائی اُداسی،

دیوا داسی،

منتر بول میٹھے۔

(۱۹۴۰)

٭٭٭

 

 

 

 

دھوبی کا گھاٹ

 

جس شخص کے ملبوس کی قسمت میں لکھی ہے

کرنوں کی تمازت

رشک آتا ہے مجھ کو

اُس پر

کیوں صرف اچھوتا،

انجان، انوکھا،

اک خواب ہے خلوت؟

کیوں صرف تصور

بہلاتا ہے مجھ کو؟

کیوں صبحِ شبِ عیش کا جھونکا

بن کر

رخسار کی بے نام اذیت

سہلاتا ہے مجھ کو؟

کیوں خوابِ فسوں گر کی قبا چاک نہیں ہے ؟

کیوں گیسوئے پیچیدہ و رقصاں

نمناک نہیں ہے

اشکِ دلِ خوں سے ؟

کیوں لمس کی حسرت کے جنوں سے

ملتی نہیں مجھ کو

بے قید رہائی؟

ملبوس پہ کرنوں کی تمازت

ہے دام نظر کا

اور صبحِ شبِ عیش کو گیسو کا مہکتا ہوا جھونکا

مرہون سحر کا

ہوتا ہی نہیں ہے

کیوں دھوئے نہ پیراہنِ آلودہ کے دھبے

مخمور، مسرت؟

کرنوں کی تمازت

بن جائے نہ کیوں رنگِ شبِ عیش کا اک عکسِ مسلسل؟

مجبورِ اذیت

تو مان لے، اس عکس کا منظر

دیتا ہے تجھے جامِ چشیدہ کی سی لذت

کیوں سوچ رہا ہے

جھوٹا ہے یہ پیالہ؟

کیا آج زمانے میں کہیں دیکھی ہے تو نے

دوشیزہ مسرت؟

پھیلے ہوئے ملبوس پہ کرنوں کی تمازت

ہے زیست کے گیسو کی حرارت

اس شخص کو پیراہنِ آلودہ کے دھونے ہی سے روزی

ملتی ہے جہاں میں

تو اس پہ نظر کر

(۱۹۴۱ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ایک منظر

 

پھیل رہی ہے سیاہی، رستہ بھول نہ جائے راہی

آج اشنان کیا گوری نے (آج بھلا کیوں نہائی؟)

یہ سنگار جال مایا کا، اس نے کس سے نبھائی؟

مُورکھ چھوڑ نادانی کی باتیں، کیسی دھُن یہ سمائی؟

پھیل رہی ہے سیاہی، رستہ بھول نہ جائے راہی

جھُومی گیسو کی چھایا تو دھیان انوکھا آیا

نٹ کھٹ برندا بن سے ساتھ میں رادھا کو بھی لایا

رادھا مُکھ کی اُجلی مُورت، شیام گیسو کا سایا

سامنے جیوتی جاگ رہی ہے، پیچھے گھور اندھیرا

دیکھ کے دو دنیاؤں کا جلوہ ڈول اُٹھا من میرا

دونوں اُڑانیں دھیان کے پنچھی کی جوگی والا پھیرا

پھیل رہی ہے سیاہی، رستہ بھول نہ جائے راہی

دونوں لوک دیکھ کے دھیان اک اور ہی جگ کا آیا

دُور سے دیکھو تو اندھیارا، پاس اُجیالے کی مایا

مایا کا جب بندھن ٹوٹے، چھائے تھکن کا سایا

پھیلے پھر سے سیاہی، رستہ بھول ہی جائے راہی،

(۱۹۴۱ء)

٭٭٭

 

 

 

 

لبِ جوئبارے

 

ایک ہی پل کے لئے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی

آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بُت ہے

یہ بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے

کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ

ایک لمحے کے لئے چشمے کی مانند بنا

پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اٹھی دل میں مرے

کاش! یہ جھاڑیاں اک سلسلۂ کوہ بنیں

دامنِ کوہ میں، مَیں جا کے ستادہ ہو جاؤں

ایسی انہونی جو ہو جائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو

خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھا ہے بستر

وہ بھی اک ساز بنے۔۔ ساز تو ہے، ساز تو ہے

نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی، کان ترے

کیوں اُسے سُن نہ سکے سننے سے مجبور رہے

پردۂ چشم نے صرف ایک نشستہ بت کو

ذہن کے دائرۂ خاص میں مرکوز کیا

یاد آتا ہے مجھے کان ہوئے تھے بیدار

خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا

اور دامن کی ہر اک لہر چمک اُٹھی تھی

پڑ رہا تھا اسی تلوار کا سایہ شاید

جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے

جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے

لیکن اس دامنِ آلودہ کی ہر لہر مٹی

جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی

میں ستادہ ہی رہا، میں نے نہ دیکھا(افسوس!)

کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ

ایک لمحے کے لئے چشمے کی مانند بنا

دامنِ کوہ میں استادہ نہیں ہوں اس وقت

جھاڑیاں سلسلۂ کوہ نہیں، پردہ ہیں

جس کے اس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے

منظر انجان، اچھوتی سی دلہن کی صورت

ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا

اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا

کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ

دلِ بے تاب کی مانند تڑپ اُٹھا تھا

ایک بے ساختہ انداز میں،  بجلی کی طرح

جل پری گوشۂ خلوت سے نکل آئی تھی

زندگی گرم تھی ہر بوند میں آبی پاؤں

خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے

میں بھی موجود تھا اک کرمکِ بے نام و نشاں

میں نے دیکھا کہ گھٹا شق ہوئی، دھارا نکلی

برق رفتاری سے اک تیر کماں نے چھوڑا

اور وہ خم کھا کے، لچکتا ہواتھرا کے گرا

قلّۂ کوہ سے گرتے ہوئے پتھر کی طرح

کوئی بھی روک نہ تھی اس کے لئے، اس کے لئے

خشک پتوں کا زمیں پر ہی بچھا تھا بستر

اسی بستر پہ وہ انجان پری لیٹ گئی

اور میں کرمکِ بے نام، گھٹا کی صورت

اسی امید میں تکتا رہا، تکتا ہی رہا

اب اسی وقت کوئی جل کی پری آ جائے

بنسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاؤں

جل پری آئے کہاں سے ؟وہ اسی بستر پر

میں نے دیکھا، ابھی آسودہ ہوئی، لیٹ گئی

لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا

ہاتھ آلودہ ہے، نمدار ہے، دھندلی ہے نظر

ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے !

(۱۹۴۱)

٭٭٭

 

 

سلسلۂ روز و شب

 

 

خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے

اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے

ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے

سمٹتے ہوئے، دل میں وہ سوچتا ہے

تعجب کہ نورِ ازل مٹ چکا ہے

بہت دور انسان ٹھٹکا ہوا ہے

اُسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے

مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے

تخیّل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے

ازل ایک پل میں ابد بن گیا ہے

عدم اس تصور پر جھنجھلا رہا ہے

نفس دو نفس کا بہانہ بنا ہے

حقیقت کا آئینہ ٹوٹا ہوا ہے

تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے، وہ کیا ہے ؟

خلا ہی خلا ہے، خلا ہی خلا ہے

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

اپنا پجاری

 

 

دل اکثر سوچا کرتا ہے ہر وقت اکیلا رہنے سے

اک نام کی پوجا ٹھیک نہیں دھوکے پر دھوکا دیتی ہے

اک نام کا منتر مورت کو مندر میں اجاگر کرتا ہے

مندر سے باہر ہر مورت یوں اپنی جوت جگاتی ہے

جیسے مندر کی مورت سے اس کا بندھن ہی پرانا ہے

دل اکثر سوچا کرتا ہے کبھی بات بنی ہے کہنے سے

کبھی آنکھ کا جال بھی لایا ہے پنچھی کو بس میں   شکاری کے

اُسے پاس کی جیت نہیں ملتی جو دور ہی دور سے مرتا ہے

جب ہات بڑھے جب بات بنے ناکامی راہ سجھاتی ہے

اک نام کی پوجا ٹھیک نہیں پر اس کو کس نے مانا ہے

دل اکثر سوچا کرتا ہے کیا حاصل ہے دکھ سہنے سے

جیسے پھلواری سینے میں سو رنگ کے پھول کھلاتی ہے

جیسے بادل کے ٹکڑوں میں چھپ چھپ کے

چاند چمکتا ہے

جیسے ساگر کی لہروں پر اک کشتی بہتی جاتی ہے

اک نام کی پوجا ویسے ہی اپنی پوجا کا بہانا ہے

(ادبی دنیا۔ لاہور)

٭٭٭

 

 

 

 

پاس کی دوری

 

منتظر ایک ہی لمحے کی تھیں دونوں روحیں

ابتدا دور ہوئی، دور بہانے، شوخی

دور۔۔ سیارے خراماں تھے فلک پر، دونوں

ایک منزل پہ پہنچنے کے لیے

پھر پرانا وہی افسانہ، وہی سیب کی، انجیر کی بات

لرزشِ قلب سے رفتار کی تیزی لپٹی

تیز طوفان سے ملنے چلی خوں کی گردش

جیسے کاجل سی گھٹا ساون کی

وحشیانہ سی اُمنگیں لائے

جسم کے ساز میں سب تار کھنچے اور پھیلے

نغمہ بیدار ہوا۔۔۔۔

نغمہ بیدار ہوا

نغمہ بیدار ہوا

پُتلیاں پھیل گئیں سانس تھی گہری گہری

آہ،۔۔۔ رقصاں ہوئی نکہت گل کی

اک تڑپ، ایک تھرکتی ہوئی نازک پتی

ہلکی ہلکی سی صدا، چیخ کی دھیمی لہریں

خلوتِ شب کی فضا میں ہوئیں سرگرمِ خرام

اور پھر آ ہی گئی نیند کی خاموش پری

صبح دم جیسے ہوا گال سے چھو جائے کبھی

ایک شاداب سکوں روح پہ چھایا، اس دم

دل میں بھرپور تھی احساس کی شیریں نرمی

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

ارتقاء

 

قدم قدم پر جنازے رکھے ہوئے ہیں، ان کو اُٹھاؤ جاؤ!

یہ دیکھتے کیا ہو؟کام میرا نہیں، تمہارا یہ کام ہے

آج اور کل کا

تم آج میں محو ہو کے شاید یہ سوچتے ہو

نہ بیتا کل اور نہ آنے والا تمہارا کل ہے

مگر یونہی سوچ میں جو دوبے تو کچھ نہ ہو گا

جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ، جاؤ!

چلو! جنازوں کو اب اٹھاؤ۔۔۔

یہ بہتے آنسو بہیں گے کب تک؟

اُٹھو اور اب ان کو پونچھ ڈالو

یہ راستہ کب ہے ؟اک لحد ہے

لحد کے اندر تو اک جنازہ ہی بار پائے گا یہ بھی سوچو

تو کیا مشیت کے فیصلے سے ہٹے ہٹے رینگتے رہو گے ؟

جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ، جاؤ!

لحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی منہ کھلا ہوا ہو

مگر کوئی تازہ۔۔ اور تازہ نہ ہو میسر تو باسی لقمہ بھی اسکے

اندر نہ جانے پائے

کھلا دہن یوں کھلا رہے جیسے اک خلا ہو

اٹھاؤ، جلدی اٹھاؤ، آنکھوں کے سامنے کچھ جنازے

رکھے ہوئے ہیں، ان کو اُٹھاؤ، جاؤ،

لحد میں ان کو ابد کی اک گہری نیند میں غرق کر کے آؤ

اگر یہ مُردے لحد کے اندر گئے تو شاید

تمہاری مُردہ حیات بھی آج جاگ اُٹھے

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

ترقی

 

بھید لکھا تھا یہ پتھر پہ پیا داسی نے

اسی چوکھٹ پہ نصیبا جاگا

جس پہ بڑھتے ہوئے پاؤں جھجکے

اور جنگل میں گئے

قصرِ عشرت میں وہ اک ذرہ تھا

قصرِ عشرت میں ازل سے اب تک

جو بھی رہتا رہا اک راگ نیا گاتا رہا

اور جنگل میں وہی راگ۔۔۔ پرانا نغمہ

گونجتا تھا کہ ہر اک بستی سے

آخری عیش کو دوری ہی بھلی ہوتی ہے

اس نے جنگل میں یہ جا کر جانا

بستیاں اور بھی ویران ہوئی جاتی ہیں

وہ چمک، منزلِ مقصود، چراغ

دائیں بائیں کی ہواؤں سے ہر اک پل، ہر آن

نور کھونے کو ہے، لو! نور مٹا، نور مٹا

اس کی لو کانپتی جاتی ہے ذرا تھمتی نہیں

ابھی بڑھنے کو ہے، بڑھنے کو ہے، بڑھ جائے گا

یہ چراغِ انساں

یہی اک دھیان اسے آگے لیے جاتا ہے

اور وہ بڑھتا گیا

پیڑ کی چھاؤں تلے سوچ میں ایسا دوبا

بن گیا فکرِ ازل، فکر، ابد

اور جنگل سے نکل آیا تو اس نے دیکھا

بستیوں میں بھی اسی چاہ کے انداز نرالے، پھیلے

اور پھر وہ بھی تھا بھائی، میں بھی

دیوتا اس کو بنایا کس نے ؟

کہہ تو دو قصرِ مسرت میں جو اک ذرہ تھا

اس کو اک عالمِ ادراک بتایا کس نے ؟

اسی انساں نے جو ہر بستی کو

آج ویرانہ بنانے پہ تلا بیٹھا ہے

اور اک ذرے کے بل پر افسوس

بھید کیوں لکھا نہیں تھا یہ پیا داسی نے

راستے اور بھی ہیں، اور بھی ہیں، اور بھی ہیں

اسی اک ذرے کی چوکھٹ پہ نصیبے کو بھی نیند آ ہی گئی

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

جُزو اور کُل

 

سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں

کہیں بھی نہیں ہے

سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے،  وہ یہیں ہے

یہیں ہے ؟مگر اب کہاں ہے ؟

مگر اب کہاں ہے

یہ کیا بات ہے، ایسے جیسے ابھی وہ یہیں تھی

مگر اب کہاں ہے ؟

کوئی یاد ہے یا کوئی دھیان ہے یا کوئی خواب ہے ؟

نہ وہ یاد ہے اور نہ وہ دھیان ہے اور نہ وہ خواب ہے،

مگر پھر بھی کچھ ہے

مگر پھر بھی کچھ ہے

وہ اک لہر ہے،۔۔۔ ہاں فقط لہر ہے

وہ اک لہر ہے ایسی جیسی کسی لہر میں بھی کوئی بات ہی تو

نہیں ہے

اسی بات کو رو رہا ہوں

اسی بات کو رو رہا ہے زمانہ

زمانہ اگر رو رہا ہے تو روئے

مگر میں ازل سے تبسم، ہنسی قہقہوں ہی میں پلتا رہا ہوں

ازل سے مرا کام ہنسنا ہنسانا رہا ہے

تو کیا جب زمانہ ہنسا تھا تو اس کو ہنسایا تھا میں نے ؟

(یہ تم کہہ رہے ہو جو روتے رہے ہو؟

اگر تم یہ کہتے ہو میں مانتا ہوں )

مگر جب زمانے کو رونا رُلانا ملا ہے تو روتا رہے گا زمانہ

فقط میں ہنسوں گا

یہ ممکن نہیں ہے

زمانہ اگر روئے، روؤں گا میں بھی

زمانہ ہنسے گا تو میں بھی ہنسوں گا

مگر یہ زمانے کا ہنسنا، یہ رونا، وہ شے ہے نظر آئے اور

یہ کہے میں کہاں ہوں کہیں بھی نہیں ہوں

زمانے کا ہنسنا، زمانے کا رونا وہ شے ہے

دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے۔۔۔۔۔

اور یہیں ہے

میں ہنستا چلا جاؤں گا اور روتا چلا جاؤں گا اور پھر بھی

زمانہ کہے گا تو روتا رہا ہے، تو ہنستا رہا ہے

مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے کہ میں ہی وہ شے ہوں

جو اب بھی نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں تو پھر بھی

دکھائی نہ دے اور کہے میں کہیں بھی نہیں ہوں

میں روتا رہا تھا میں ہنستا گیا ہوں

مگر تم تو ہنستے گئے تھے۔۔ بس اب تم ہی روؤ گے اور

صرف اک میں ہوں جو اب بھی ہنستا رہوں گا

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

’’جوہو‘‘ کے کنارے

 

 

افق پہ دور۔۔۔ کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں

کوئی قریب بارِ نور سے عیاں تو کوئی دور کہر میں نہاں

ہر ایک ایسے جیسے ساکن و خموش و پُر سکون۔۔۔ ہر ایک

بادباں ہے ناتواں

مگر ہر ایک ہے کبھی یہاں کبھی وہاں

سکوں میں ایک جستجوئے نیم جاں

حیاتِ تازہ و شگفتہ کو لیے رواں دواں

افق پہ دور کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں

۲

قریب شورِ ساحلِ خمیدہ ہے

ہر ایک موج یوں رمیدہ ہے

کہ جیسے آبدیدہ ہے

کہ دور افق پہ کشتیاں نہیں ہیں کوئی روح پارہ پارہ

غم گزیدہ ہے

کنارِ آب سیپیاں ہی سیپیاں ہیں ایک عکسِ ناتواں

اچانک اک گھٹا اُٹھی

اچانک اس کے پار آفتاب چھپ گیا

اچانک ایک پل میں کشتیاں بھی مٹ گئیں

کنارِ آب پر کھلی ہوئی پڑی ہوئی ہیں سیپیاں ہی سیپیاں

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

چھیڑ

 

’’بہت ہی نرم ہو تم

بہت ہی گرم ہو تم‘‘

’’بڑے بے شرم ہو تم‘‘

’’نہ شرماؤ،  سنو تو

اِدھر آؤ،  سنو تو‘‘

’’ہٹو جاؤ،  سنو تو‘‘

’’جو ہم کہتے ہیں، کی جے

جھجک رہنے بھی دیجے ‘‘

’’مِرے اللہ۔۔ لیجے ‘‘

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

خدا

 

میں نے کب دیکھا تجھے روحِ ابد

ان گنت گہرے خیالوں میں ہے تیرا مرقد

صبح کا، شام کا نظارہ ہے

ذوقِ نظارہ نہیں چشمِ گداگر کو مگر

میں نے کب جانا تجھے روحِ ابد

راگ ہے تو پہ مجھے ذوقِ سماعت کب ہے

مادیّت کا ہے مِرا ذہن، مجھے

چھو کے معلوم یہ ہو سکتا ہے شیریں ہے ثمر

اور جب پھول کھلے اس کی مہک اُڑتی ہے

اپنی ہی آنکھ ہے اور اپنی سمجھ، کس کو کہیں۔۔ تو مجرم

میں نے کب سمجھا تجھے روحِ ابد

خشک مٹی تھی مگر چشمِ زدن میں جاگی

اُسے بے تاب ہوا لے کے اُڑی

پھر کنارا نہ رہا، کوئی کنارا نہ رہا

بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل

زور سے گھومتے پہیے کی طرح

ان گنت گہرے خیال ایک ہوئے

ایک آئینہ بنا

جس میں ہر شخص کو اپنی تصویر

اپنے ہی رنگ میں اک لمحہ دکھائی دی تھی

ایک لمحے کے لیے

بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل

میں نے دیکھا ہے تجھے روحِ ابد

ایک تصویر ہے شب رنگ، مہیب

درِ معبد پہ لرز اٹھے ہرایک کے پاؤں

ہاتھ ملتے ہوئے پیشانی تک آئے دونوں

خوف سے ایک ہوئے

میں تجھے جان گیا روحِ ابد

تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں

(چشمِ ظاہر کے لیے خوف کا سنگیں مرقد)

اور مِرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں

اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

یعنی۔۔۔۔

 

میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں

لیکن اس میں کیا بات کہوں

اک بات میں بھی سو باتیں ہیں

کہیں جیتیں ہیں، کہیں ماتیں ہیں

دل کہتا ہے میں سنتا ہوں

من مانے پھول یوں چنتا ہوں

جب مات ہو مجھ کو چپ نہ رہوں

اور جیت جو ہو درّانہ کہوں

پل کے پل میں اک نظم لکھوں

لیکن اس میں کیا بات کہوں

جب یوں الجھن بڑھ جاتی ہے

تب دھیان کی دیوی آتی ہے

اکثر تو وہ چپ ہی رہتی ہے

کہتی ہے تو اتنا کہتی ہے

کیوں سوچتے ہو اک نظم لکھو

کیوں اپنے دل کی بات کہو

بہتر تو یہی ہے چپ ہی رہو

لیکن پھر سوچ یہ آتی ہے

جب ندی بہتی جاتی ہے

اور اپنی اننت کہانی میں

یوں بے دھیانی میں، روانی میں

مانا ہر موڑ پہ مڑتی ہے

پر جی کی کہہ کے گزرتی ہے

سر پر آئی سہہ جاتی ہے

اور منہ آئی کہہ جاتی ہے

دھرتی کے سینے پہ چڑھتی ہے

اور آگے ہی آگے بڑھتی ہے

یوں میں بھی دل کی بات کہوں

جی میں آئے تو نظم لکھوں

چاہے اک بات میں سو باتیں

جیتیں لے آئیں یا ماتیں

چاہے کوئی بات بنے نہ بنے

چاہے سُکھ ہوں یا دُکھ اپنے

چاہے کوئی مجھ سے آ کے کہے

کیوں بول اُٹھے، کیوں چُپ نہ رہے

چاہے میں کہہ کر چپ ہی رہوں

میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں

لیکن اس میں کیا بات کہوں

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

نغمۂ محبت

 

مجھے چاہے نہ چاہے دل تیرا تو مجھ کو چاہ بڑھانے دے

اک پاگل پریمی کو اپنی چاہت کے نغمے گانے دے

تو رانی پریم کہانی کی چپ چاپ کہانی سنتی جا

یہ پریم کی بانی سنتی جا، پریمی کو گیت سنانے دے

یہ چاہت میرا جذبہ ہے میرے دل کا میٹھا نغمہ ہے

ان باتوں سے کیا کام تجھے ان باتوں کو کہہ جانے دے

تو دور اکیلی بیٹھی ہے سکھ سندرتا کی مستی میں

میں دور بہا جاتا ہوں پریم کی ندی میں بہہ جانے دے

گر بھولے سے اس نغمے کا تو گیت جوابی گا بیٹھی

یہ جادو سب مٹ جائے گا اس کو جوبن پر آنے دے

ہاں جیت میں کوئی نہیں ہے نشہ یہ بات ہے جیت سے دوری میں

جو راہ رسیلی چلتا ہوں اس راہ پہ چلتا جانے دے

(پابند نظمیں )

٭٭٭

 

 

 

 

آشا اور آنسو

 

پیارے لمحے آئیں گے اور مجبوری مٹ جائے گی

ہم دونوں مل جائیں گے اور سب دوری مٹ جائے گی

ہر دَم بہنے والی آنکھوں کی مالا بھی ٹوٹے گی

تیری میری ہستی اس بَیری بندھن سے چھوٹے گی

لیکن یہ سب باتیں ہیں اپنے جی کے بہلانے کی

دکھ کی رات میں دھیرے دھیرے دل کا درد مٹانے کی

روتے روتے ہنستے ہنستے، رُکتے رکتے گانے کی

سکھ کا سپنا سوکھا ہے اور سوکھا ہی رہ جائے گا

سونی سیج پہ پریم کہانی پریمی یوں کہہ جائے گا

ہوتے ہوتے سارا جیون آنکھوں سے بہہ جائے گا

(پابند نظمیں )

٭٭٭

 

 

 

 

روحِ انساں کے اندیشے

 

 

خیال موت کے مجھ کو ستا رہے ہیں کیوں ؟

یہ سائے تیرہ و تاریک آ رہے ہیں کیوں ؟

اور عقل و ہوش کو بے خود بنا رہے ہیں کیوں ؟

کہ زندگی کا ابھی ہو نہیں چکا آغاز

ابھی ہزاروں برس اور آنے والے ہیں

مِرے عروج و تنزل کو لانے والے ہیں

مجھے عجیب زمانے دکھانے والے ہیں

مجھے دکھائیں گے لا انتہا زمین کے راز

ابھی تو شامِ غمِ عشق ہے،  سحر ہو گی

ابھی تو شاخِ تفکر بھی بار ور ہو گی

ابھی خیال کی وسعت کشادہ تر ہو گی

کہ لاکھوں نغمے ہے دل میں لیے فضا کا ساز

یہ پست ہمت و دردانہ رنگ کیسے ہیں ؟

یہ قلبِ کوہ میں گہرے سرنگ کیسے ہیں ؟

یہ بحرِ فکر میں وحشی نہنگ کیسے ہیں ؟

ابھی نہیں ہوئی پوری مری مہیب نماز

یہ کیسی وسعتِ کونین میں بجی شہنائی؟

تھا اس کا شور کہ بے باک زلزلہ آرائی؟

یوں دیو، فکر میں یہ عاجزی کہاں سے آئی؟

کہ سست رو ہے یہ بے چین، دہر گرد جہاز

(پابند نظمیں )

٭٭٭

 

 

 

 

 

اذیّت زندگی ہے

 

درد ادھورا نقشہ ہے اس دھرتی پر جیون کا

درد سے موسم آتا ہے ہر ہستی کے ساون کا

ماتھے پر چندن دیکھا آنکھ میں ڈورا انجن کا

ہر سنگار ہے دیباچہ درد کے گہرے مخزن کا

سندرتا تو دیکھتے ہی ملنا مقصد ہے من کا

ملنے کے دُکھ اُجیالا پریم کے موہن آنگن کا

جگ کے پہلے لمحوں میں دُکھ کی تان لرزتی تھی

اب تک گونج فضاؤں میں ہلکے ہلکے سسکتی تھی

مستقبل میں دُکھ ہو گا، دُکھ کی منزل تھا ماضی

دُکھ کے بندھن سے پہلے جیون کب تھا، تھی دھرتی

بیتے لمحوں میں جو بھی دیکھا درد کی مستی تھی

آنے والے لمحوں کی قسمت بھی یوں لکھی تھی

اس دھرتی پر جیون کا درد ادھورا نقشہ ہے

ہر ہستی کے ساون کا موسم درد سے آتا ہے

(پابند نظمیں )

٭٭٭

 

 

 

 

اجنتا کے غار

 

دھیان کی جھیل میں لہرایا کنول کا ڈنٹھل

سوچ آتی ہے مجھے کیوں ہوئی پُروا چنچل

دھیان کی جھیل میں ہر چیز ہے کومل شیتل

جیسے ناری ہو اٹھائے ہوئے امرت چھاگل

آج چھاگل سے ٹپک اٹھی ہیں ننھی بوندیں

دھیان کی لہریں ہیں یہ لاج سے رستی بوندیں

رستی بوندوں پہ نہیں اب مجھے کوئی قابو

شبِ فرقت میں چھلک آتے ہیں جیسے آنسو

پھیلتی جاتی ہے اب یاد کی چنچل خوشبو

دشت، ویران میں آ جاتے ہیں پہلے آہو

میلے کپڑوں کی طرح لٹکی ہوئی تصویریں

بِیتے دن رات مِرے سامنے لے آتی ہیں

کئی راجہ ہیں یہاں ایک ہی راجہ بن کر

ایک ہی تاج کے ہیرے ہیں کئی ہیرے ہیں

راج دربار ہو یا راج بھون ہو، دونو

ایک خوشبو سے بسے ہیں، وہی گرمی، خوشبو

جس نے دیوانہ بنایا ہے بھکاری کو مدام

بھید لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا ہے

اس کی نظروں کو دیا ہے دھوکا

بھوک نے پیاس نے۔۔۔ (کیا کہتے ہو

جسے تم پیاس سمجھ بیٹھے ہو

وہ بھی اک بھوک ہے اب۔۔ جان لیا

میں فقط پوچھتا ہوں

پانی پینے کو نہیں ملتا تو کیا۔۔ ایک لنگوٹی تن کی

داسی کی یاد نہیں لا سکتی؟)

کیا کنول تال کا منظر نہیں دیکھا تو نے

بالوں کو پھول سجاتے ہیں مگر کانوں میں

ننھی کلیوں کے لٹکتے بُندے

لڑکھڑاتی ہوئی نظروں کو لیے جاتے ہیں

اس کنول تال میں جس کے سائے

پیڑ کی چھاؤں سے بھی بڑھ کے سکوں لاتے ہیں

بات کیا ہے کہ وہ جیون جس کو

مشعلیں اپنے اجالے ہی سے دکھلاتی تھیں

دھیان کی لہر کے اک نرم جھکولے ہی سے

جاگ اُٹھا ہے

رات چھائی تھی مگر

رات بھی دن کی طرح نور کو لے آئی ہے

نُور تاروں کا بھی ہے، چاند بھی ہے، سورج بھی

تینوں اک دوسرے سے بازی لیے جاتے ہیں

چاند رانی ہے تو سورج راجا

داسیاں تاروں کی مانند نظر آتی ہیں

ان کی حرکات کے مفہوم مجھے کیا معلوم

میرا مفہوم ہے صرف ایک ہی بات

ایک ہی بات۔۔۔ مگر یہ تو ہے میرے بس کی

ایک ہی بات سے سو باتیں بنا لوں دن میں

اسی اک بات سے یاد آیا ہے

ناچنے والی کا ہلکا سا اشارہ مجھ کو

ناچ بھی کیا تھا وہ پھولوں کی لڑائی تھی مگر اس میں بھی

ہاتھ ہلتے تھے تو اک پوری لغت مجھ کو نظر آتی تھی۔۔۔

سُست مفہوم بھی تھے، تیز بھی تھے کچھ مفہوم

جب کسی نرم کلائی کی سنبھلتی لے میں

موج آتے ہوئے رک جاتی تھی

’’چھوڑ دو۔ چھوڑ دو‘‘ آواز یہی آتی تھی

اور وہ کانوں کی کلیاں اس پر

کھل کے جو بالوں میں دو پھول بنی بیٹھی تھیں

ایک بے نام سی لرزش کھا کر

کانپتے کانپتے رک جاتی تھیں، کہہ جاتی تھیں

وہی اک بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو

رات کو دن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے

دل پہ اک سحر سا کر دیتی ہے

کیا کنول تال کا منظر نہیں دیکھا تو نے

پیڑ بھی، پتے بھی ہیں، پودے بھی لہراتے ہیں

سوکھتے جاتے ہیں جو پتّے وہ گر جاتے ہیں

یہ سماں دیکھ کے اک دھیان مجھے آتا ہے

پہلے چپٹی تھی زمیں، سیب نے گر کر اس کو

کرّ ۂ ارض کی صورت دے دی

ایک ہی جست میں طے ہو گیا رستہ سارا

دل نے چھنا کی طرح اسپِ سبک سیر کو جب لیس کیا

راجدھانی میں کپل وستو کی

جلوۂ قلبِ جہاں مجھ کو نظر آنے لگا

ایک ہی رنگ پہ تھا وقت کے دریا کا بہاؤ

کس میں جرات تھی کہ اس سیل کو وہ روک سکے

ایک انسان مگر آیا اسی نے روکا

بن گیا وقت بھی اک ذہن کے دریا کا بہاؤ

میں نکل آیا ہوں اب سنگ کی محرابوں سے

جن کا اک گہرا تصور ہے مرے ذہن کے آئینے میں

ایک ہی جست نے پہنچایا ہے میرے دل کو

راجدھانی میں کپل وستو کی

آج بر آئی ہے رانی کی تمنا شاید

شہر ہنگامۂ عشرت ہے، ہر اک پیرو جواں

رقص و نغمہ کے دھندلکے میں چھپا جاتا ہے

گویا چکر یہ الٹ کر نہ چلے گا ہر گز

ان کا اندیشہ تھا اک خام خیال

پھر وہی دور پلٹ آیا ہے،  اب راجکمار

رشکِ فردوس محل کی زینت

یعنی شہزادی یشودھا کو لیے آتا ہے

ان کا اندیشہ تھا اک خام خیال

پھر وہی دور پلٹ آیا ہے

اب مہاراجہ نے پوتے کی مسرت کا سماں دیکھا ہے

لیکن افسوس کہ بیٹے کے جنم پر اس کے

عیش میں ایک چبھن درد کی در آئی تھی

وہم کیسے کہیں ؟، اک پنڈت نے

زائچہ دیکھ کے اک بات کہی تھی سب سے

اور مہاراجہ کے فرمان کی ہی دیر تھی اک چشمِ زدن میں

دیکھو

بن گیا جھیل کی آغوش میں اک راج محل

کس کو معلوم تھا اک آنکھ جھپکتے میں۔۔۔ تمام

نقشۂ عیش پہ یوں اوس ہی پڑ جائے گی

سجی محفل ہی اجڑ جائے گی

اک اچٹتی سی نظر۔۔ جاگ نہ اُٹھے۔۔ چل دو

یہ خیال آتے ہی چھنا کا خیال آیا اک

اور پھر اپنے وفادار ملازم سے بھی رخصت ہو کر چھوڑ کر زیست کے ہنگاموں کو

چل دیا دور کہیں۔۔ دور بہت دور کہیں

سوچتا جاتا ہے وہ۔۔ پاؤں زمیں پر اس کے

گرتے پھولوں کی طرح پڑتے ہیں

گرتے پھولوں کو مگر داسیاں چن لیتی تھیں

کہ کہیں دیکھ نہ پائے ان کو

سیر کرتے ہوئے وہ راجکمار

زندگی سے جسے بچپن میں، جوانی میں رہی نادانی

مجھ کو کیوں وقت کی رفتار نے الجھایا ہے

پھر سے لذت کا خیال آیا ہے

آم کے پیڑ، کنول تال کنارے جم کر

سرسراتے ہوئے پتوں کی صدا سے پیہم

اسی اک سوچ میں کھو دیتے ہیں

آم کیسے ہیں، کنول کیسے ہیں

اور میں سوچتا ہوں

آم شیرینی سے امرت کا مزہ دیتے ہیں

اور کنول جلوہ دکھاتے ہی ہر اک بات بھلا دیتے ہیں

یہ کنول تال پہ تو آم کا سایہ مت جان

کیا تجھے یاد نہیں آتی ہے

گیسوؤں کی وہ گھنیری چھاؤں

جس کے پردے میں کنول کھلتا ہے، ہنس دیتا ہے

زندگی کیا ہے کوئی اس کی خبر لیتا ہے

ایسے لمحوں میں تو صرف ایک ہی بات

وہی اک بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو

رات کو دن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے

دل پہ اک سحر سا کر دیتی ہے

اور پھر اس کی خبر دیتی ہے

زندگی کیا ہے یہ تو جان گیا

سوچ کیا جان لے اب بھید نیا

موت کیا ہے۔۔ مگر اس بات کو کیا جانے گا

موت کیا ہے۔۔۔ کوئی یہ پوچھتا تھا

اور پھر وقت کی رفتار الجھ کر مجھ کو

یہی دیتی ہے جواب

زیست کے پیڑ سے گرتا ہوا سیب

دیکھ کر جس کو کئی گیان کے چشمے پھوٹے

مجھ کو کیوں وقت کی رفتار نے الجھایا ہے

ابھی دل سینکڑوں برسوں کی خلا پھاند کے لوٹ آیا ہے

ایک ہی وقت سے۔ اک دور سے۔ رغبت کیوں ہے

ایک ہی نور مرے ذہن پہ کیوں چھایا ہے

نور کے رنگ کئی ہیں کوئی آئے۔۔۔ آئے۔۔۔

نور کا رنگ ہے صرف ایک، بدل دیتا ہے اس کو ماحول

وجہ تحریک ہیں پژ مردہ نقوش

علم ہی سینۂ ماضی میں لیے جاتا ہے

ورنہ فردا بھی مجھے دوش کی مانند نظر آتا ہے

جیسے اب دوش نظر آتا ہے دیوار کی تصویروں میں

در و دیوار کی تصویریں بتاتی ہیں مجھے

وقت کی رفتار کے ساتھ

ایک انسان لڑکپن سے جوانی میں گیا

اور جوانی کے گزرنے پہ بڑھاپا آیا

ہاں وہی راجکمار۔۔ باغ میں جس کے نہ تھی

کوئی بھی پژ مردہ کلی

دوش و فردا کی مصیبت ہی سے آزاد ہوا

تین منظر تھے فقط۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین

نوعِ انساں کے نصیبے کو بدلنے والے

نوعِ انساں تو ہے جاہل کا دماغ

جس نے بھی گیان کی اک بات کہی

دار پر اس کو چڑھا کر مارا

ایک کہتا تھا زمیں گول ہے اور گھومتی ہے

نوعِ انساں نے اسے صفحۂ ہستی سے مٹا کر چھوڑا

لیکن افسوس زمیں گول تھی اور گھومتی تھی

اس کا چکر بھی مگر نور نہیں لا سکتا

اس اندھیرے میں ازل سے جو ابد تک پھیلے

نوعِ انساں بھی تو اک گار کی مانند ہے۔۔ تاریک مقام

اس کی تاریکی اجالے کو دبا سکتی نہیں ہے لیکن

کیا اسی واسطے کچھ گیانی یہاں آئے تھے

تاکہ ان غاروں میں چپ چاپ۔ جہاں والوں سے

ہوکے روپوش۔۔۔ سفر طے کر لیں

لیکن افسوس یہاں بھی ان کو

نہ ملا مایا سے نروان۔۔۔ یہی دیواریں

ان کے افسردہ دلوں کی غماز

آج تک دشت میں سر مارتی ہیں

کوئی اتنا تو بتائے مجھے۔۔۔ اس داسی کو

اس طرح سامنے لے آنے کا مقصد کیا تھا

اس کی گردن سے پھسلتے ہوئے جاتی ہے نظر

ایک وادی سے گزرتے ہوئے بس بس۔۔ خاموش

سوچنے والوں کو صرف ایک سزا کافی ہے

دار پر ان کو چڑھا دیتی ہے

نوعِ انساں۔۔ وہی جاہل کا دماغ

ہاں۔۔۔ وہ کیوں غاروں میں پابند ہوئے تھے آ کر

سوچتے سوچتے جاگ اٹھتی تھیں دل میں یادیں

ایک جو بھاگ کے دربار سے آیا تھا یہاں

سوچتا تھا وہ محل کی داسی

جس پہ دربار میں راجے کی نظر رہتی تھی

کتنی سندر تھی، بڑی سندر تھی

ایک جو رانی سے اک رات ملا تھا چھپ کر

اس جگہ آ کے نقوش اس کے بنا بیٹھا تھا

اور اب اس کی بنائی ہوئی صورت پہ بھی اپنا دامن

وقت کی رات نے پھیلایا ہے

اسی دیوار پہ اس ٹکڑے پہ میں دیکھ رہا ہوں جس کو

منتری ایک تھا راجہ کا مگر اس کو بھی

راس آئی نہ ہوا، راج کا تانا بانا

ایک مکھی کی طرح نوچ کے لے آیا یہاں

اور اب دیکھ رہا ہوں میں بھی۔۔۔۔

اس نے جو نقش بنائے تھے وہ سب ہیں باقی۔۔۔۔

ایک راجا کا جلوس اور ہیں اس کے آگے

اک بھکاری کو ہٹاتے ہوئے دو گھوڑ سوار

کشمکش زیست کی ہمراہ یہاں لائے تھے

پھر وہ کیوں غاروں میں پابند ہوئے تھے آ کر؟

میں بھی پابند ہوں۔ کیوں وقت کی رفتار نے الجھایا ہے

میں نکل آیا ہوں ان سنگ کی محرابوں سے

جن میں کندہ ہے کہانی دل کی

دل وہی جس کے ہزاروں جلوے

دھندلی دیواروں نے اک پل میں دکھائے ہیں مجھے

ان کے اک گہرے تصور کو میں لے جاؤں گا

اور پھر گھر کے سکوں میں جا کر

ایک ہی دھیان مجھے آئے گا۔۔ اک ضدی دھیان۔۔

پہلے چپٹی تھی زمیں سیب نے گر کر اس کو

کرۂ ارض کی صورت دے دی

دھیان تو آتے ہی آئے گا مری آنکھوں میں

سیب ایک اور ہی شے بن کے نظر آتا ہے

اور تو سامنے لپٹی ہوئی ضدی مورت۔۔۔

چند آسودہ خطوط۔۔۔

جس نے بیتی ہوئی صدیوں میں مجھے الجھایا

تو ہی داسی ہے تو ہی رانی ہے

رات کی مہلتِ یک لمحہ کو انبار بنا دیتی ہے

رات کے جانے پہ بیزار بنا دیتی ہے

میرے دل کو۔۔۔ میرا دل راجہ ہے

اس کنول تال کے پژ مردہ کنارے یہ نشستہ ہے مگر

بات اس کی نہیں سنتا کوئی

اور یہ بیٹھے ہوئے سوچ کی لہروں میں بہا جاتا ہے

تیری بے باک اداؤں کا جلوس

دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے نکل جاتا ہے

اور پھر دھیان مجھے آتا ہے

لیٹے لیٹے جو تری آنکھوں میں نیند آ جائے

میں تجھے چھوڑ کے چل دوں، کہیں چل دوں،

چپ چاپ

اک اچٹتی سی نظر جاگ نہ اُٹھے چل دو

یہ خیال آتے ہی چھناکا خیال آتا ہے

وہ تو خوابیدہ ہے، انجان ہے ان باتوں سے

آؤ اب سوئیں بہت رات گئی۔۔۔ نیند آئی

(تین رنگ)

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ:  جدید ادب، شمارہ ۱۹،  میرا جی نمبر

تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید