فہرست مضامین
- انتخاب تلخ و شیریں
- دعا ۔ اپنے جگر پاروں کے نام
- حمد باری تعالیٰ
- نعت رسول ﷺ
- یہ کس نے کہہ دیا سب کچھ ہوا پر منحصر ہے
- نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
- اِنصاف کا امکاں مجھے حاصل ہی نہیں ہے
- جس میں ذوقِ ستم نہیں ہوتا
- ستم،دیکھو شکیبائی سے بڑھ کر ہو نہ جائے
- اُنہیں خوشی ہے کہ باہم شکایتیں نہ رہیں
- سُخن کی اپنے نہ جانے حیات ہو کہ نہ ہو
- کئی دن سے حصار ِآزمائش میں کھڑا ہوں
- درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے
- ہے کہیں ہم سا مصور تو بتائے کوئی
- خرد کی پاسبانی میں دوانے دیکھتا ہوں
- یہ راز ِعشق تو اس کے خیال ہی میں نہیں
- شمع ِانمول کو ارزَاں نہیں ہونے دیتا
- ہمیں نہیں ہیں فقط جان سے لگائے ہوئے
- کسی منصور کو سمجھے کہ دیوانہ نہیں ہے
- ابھی مرہونِ لب اِک بات بھی باہم نہیں ہے
- حاصل بس اتنا خوبئ تدبیر سے ہوا
- حد ِنگاہ میں کوئی شجر تو آنے دو
- تمہارا جوَر و سِتم کچھ بیاں نہیں کرتے
- اگرچہ کہنے کو بے شک سبھی کے ساتھ رہا
- زندگی بھر زندگی سے یوں وفا کرتے رہے
- یادیں تمہاری آج بھی یوں دشتِ جاں میں ہیں
- کیا کروں موسم کوئی اے زندگی تیرے بغیر
- دل کا ہر داغ لہو دے کے جلا لیتا ہوں
- نباہ تجھ سے کیا ہے ہنسی خوشی ہم نے
- درد ،تقسیم کے اِمکاں سے بچا رکھا ہے
انتخاب تلخ و شیریں
تلخ و شیریں از سید منیف اشعر سے منتخب کلام
انتخاب: شیزان اقبال
دعا ۔ اپنے جگر پاروں کے نام
مری دعا ہے دعا مستجاب دوں بچو
تمہیں حیات سے بھر پور خواب دوں بچو
تمہارے بیچ اندھیروں کے سامنے آکر
تمہیں دمکتا ہوا آفتاب دوں بچو
٭٭٭
حمد باری تعالیٰ
حمدِ رب کر سکے بیاں کوئی
کاش ایسی بھی ہو زباں کوئی
اتنی قدرت کسے ہے دنیا میں
قدرت حق کرے عیاں کوئی
کیا ادا ہو کسی سے حقِ ثناء
ملتا جلتا کہاں گماں کوئی
رب ہے سب عالموں کا تُو یارب
ہے کہاں غیر کا نشاں کوئی
کیسے ممکن ہے اک سوا تیرے
دائیں بائیں، یہاں وہاں کوئی
اپنے سائے میں رکھنا اے ستار
ہم کو کہہ دے نہ بے اماں کوئی
ماسوا تیرے کِس کا ڈر ہم کو
کیا مٹائے گا عز و جاں کوئی
کوئی بھی عزم کیا چھُپے اُس سے
جس سے سینہ نہیں نہاں کوئی
تجھ سے اشعر کی التجا ہے یہی
دل میں آئے نہ بدگماں کوئی
٭٭٭
نعت رسول ﷺ
جن لبوں پر محمد ﷺ کا نام آئے گا
چومنے ان کو کوثر کا جام آئے گا
پشت پر جس کی ختم نبوت بھی ہو
لے کے وہ اک نظام ِدوام آئے گا
نفسا نفسی کے عالم میں یا مصطفٰی ﷺ
آپ ﷺ کا نامِ نامی ہی کام آئے گا
عاصی و ابن عاصی پہ اتنا کرم
کیا اسے اور اذنِ سلام آئے گا
کیا جبیں کے مقدر میں پھر یا نبی ﷺ
آپ ﷺ کے نقشِ پا کا مقام آئے گا
کاش کہہ دے خدا زندگی کا تری
جا مدینے میں ہی وقت شام آئے گا
مجھ کو اشعر یقین ہے وطن میں مرے
ایک دن مصطفائی نظام آئے گا
٭٭٭
یہ کس نے کہہ دیا سب کچھ ہوا پر منحصر ہے
ہمارا بجھ کے جل اٹھنا دعا پر منحصر ہے
ہم انداز جنوں اپنا ابھی کیسے بتا دیں
ہماری سرکشی طرز جفا پر منحصر ہے
ہماری بات کو کچھ لوگ مانیں یا نہ مانیں
جمال ِیار تو حسنِ حیا پر منحصر ہے
ہمارا زندگی بھر صرف تیرا ہو کے رہنا
نہیں مشکل مگر تیری وفا پر منحصر ہے
مری جانب سے امکان تقرب یا تردّد
سبھی کچھ آپ کے اذن و ادا پر منحصر ہے
تصور ایک پیکر تو بنا لاتا ہے لیکن
وصال خوشبوئے جاناں صبا پر منحصر ہے
مرض سے کیا علاقہ کوچ کر جانے کا اشعر
یہ قصہ تو محض امرِ قضا پر منحصر ہے
٭٭٭
نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
جیسے نادیدہ اندھیرے روشنی کے ساتھ ہیں
اب قلندر کی صدا میں کیا کشش پائیں گے لوگ
آج تو سب مال و زر کی دلکشی کے ساتھ ہیں
کون خوشیوں پر کرے تکیہ جو کل تک ہوں نہ ہوں
درد و غم اپنائیے جو زندگی کے ساتھ ہیں
خُود فریبی ہے کہ میں اُس کے لئے سجدے میں ہوں
ورنہ کتنی خواہشیں اِس بندگی کے ساتھ ہیں
ضرب تیر ِنیم کش کا لطف کچھ ہم کو بھی دے
ہم بھی اپنی آرزوئے خُودکشی کے ساتھ ہیں
کیسے آجائیں ابابیلیں لئے کنکر کہ ہم
جنگ ِبے مقصد میں شامل بے دلی کے ساتھ ہیں
ہو سکے تو دوستوں میں کچھ تبسم بانٹ دو
غم کے افسانے تو ورنہ ہر کسی کے ساتھ ہیں
برہمی و بے رخی سے واسطہ پڑنا ہی تھا
عشوہ و ناز و ادا تو عاشقی کے ساتھ ہیں
وہ ہمارا ہمسفر ہونے نہیں پایا مگر
ہم اُسی کے ساتھ تھے اشعر، اُسی کے ساتھ ہیں
٭٭٭
اِنصاف کا امکاں مجھے حاصل ہی نہیں ہے
مُنصف بھی وہی ہے مِرا قاتل ہی نہیں ہے
میں سمجھا تھا اُس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے
اور سینے میں جھانکا تو وہاں دل ہی نہیں ہے
میں کیسے کہوں اس سے بھی پہنچے گی اذیت
وہ شخص تو احباب میں شامل ہی نہیں ہے
امواج حوادث سے نہ کیوں ربط بڑھا لوں
تاحد ِنظر جب کوئی ساحل ہی نہیں ہے
پھر کیسے نہ رکھ دیتا مرے ہاتھ پہ قیمت
بے لوث محبت کا وہ قائل ہی نہیں ہے
کس کام کے پھر رہ گئے ماضی کے حوالے
تجدید وفا پر تو وہ مائل ہی نہیں ہے
مجھ سے مری بے مہری کا شکوہ ہی کرے کون
پیاراپنوں کا اتنا مجھے حاصل ہی نہیں ہے
آسکتی ہے مولا کی مدد آج بھی لیکن
حقدار جو کہلائے وہ سائل ہی نہیں ہے
سمجھے گا بھلا کون ترے درد کو اشعر
تجھ سا تو کوئی دہر میں گھائل ہی نہیں ہے
٭٭٭
جس میں ذوقِ ستم نہیں ہوتا
کچھ بھی ہو ،پر صنم نہیں ہوتا
سچ تو یہ ہے کہ سچی باتوں سے
تلخ تر کوئی سم نہیں ہوتا
صبر کا حوصلہ اُسے بھی ہو
اتنا ظالم میں دم نہیں ہوتا
جو بھی لکھ دے قصیدۂ حاکم
اُس پہ انعام کم نہیں ہوتا
میرے ساقی سبھی کی نظروں میں
حاصل زیست جم نہیں ہوتا
گر وفا ایک بار مر جائے
دوسرا پھر جنم نہیں ہوتا
عمر بھر ایک ساتھ رہنے کا
فیصلہ ایک دم نہیں ہوتا
شکر ہے مجلسی تبسم سے
اک ذرا درد کم نہیں ہوتا
اٹھ نہ پاتے مرے قدم اشعر
وہ اگر ہم قدم نہیں ہوتا
٭٭٭
ستم،دیکھو شکیبائی سے بڑھ کر ہو نہ جائے
دل دریا کہیں گر کر سمندر ہو نہ جائے
مری پستہ قدی کی بات ثابت کرتے کرتے
تری قامت کہیں میرے برابر ہو نہ جائے
محبت کر رہا ہوں میں جنوں کی آرزو میں
مگر دشت جنوں ہی کل مرا گھر ہو نہ جائے
اگر چہ عقل کے پہرے سے لگے رہتے ہیں اس پر
دل سرکش مگر قابو سے باہر ہو نہ جائے
فقط اس خوف سے اک اور ہجر ت کی ہے میں نے
مری طرح میری اولاد بے گھر ہو نہ جائے
وہ جب چاہے بھلا دے گا مجھے کہتا ہے اشعر
تو پھر کیوں بے نشاں وہ میرے اندر ہو نہ جائے
٭٭٭
اُنہیں خوشی ہے کہ باہم شکایتیں نہ رہیں
ہمیں یہ خوف کہ شاید محبتیں نہ رہیں
میں بے نیازِ زمانہ نہ ہوسکا پھر بھی
زمانے بھر کی اگرچہ ضرورتیں نہ رہیں
نہ کوہ کن ہے کوئی اب نہ کوئی دشت نوَرد
محبتوں میں اب ایسی قباحتیں نہ رہیں
سکون مجھ کو بہت مُضطرب سا کردے گا
میں کیا کروں گا جو اُس کی شرارتیں نہ رہیں
ہمارے آج کے بچے دلیل مانگتے ہیں
سو کوہ قاف کی شیریں حکایتیں نہ رہیں
سخن کو آگ لگا دوں گا میں سر محفل
غزل میں گر کبھی تیری شباہتیں نہ رہیں
یہ فیض وقت کے مرہم کا میری ذات پہ ہے
کہ سرخروئی پہ مائل جراحتیں نہ رہیں
گلہ کسی سے بھی مہر و وفا کا کیسے کریں
خود اپنی جھولی میں اپنی روایتیں نہ رہیں
میں صرف کانٹوں کی بد صورتی کو کیوں روتا
کئی گلوں میں بھی پہلی صباحتیں نہ رہیں
نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہمیں اشعر
ہماری ذات پہ اُن کی عِنایتیں نہ رہیں
٭٭٭
سُخن کی اپنے نہ جانے حیات ہو کہ نہ ہو
کسی کی بزم میں پھر اپنی بات ہو کہ نہ ہو
ابھی تو عیش کے دن ہیں مگر خدا معلوم
شریکِ غم بھی شریکِ حیات ہو کہ نہ ہو
وہ جس کے بعد بہت دیر تک سویرا رہے
نصیب شہر میں اب ایسی رات ہو کہ نہ ہو
جو متقی ہیں انہیں کو یہ ڈر بھی رہتا ہے
کہ سہل اپنے لئے پل صراط ہو کہ نہ ہو
ارادہ کرتا ہوں ،چلتا ہوں، لوٹ آتا ہوں
اب اس گلی میں وہ پہلی سی بات ہو کہ نہ ہو
جلانے والے مجھے اتنا سوچ لے تو بھی
تری خوشی کو بھی حاصل ثبات ہو کہ نہ ہو
تجھے مٹا کے بھی اشعر مجھے سکوں نہ ملا
میں جس کو مات سمجھتا ہوں مات ہو کہ نہ ہو
٭٭٭
کئی دن سے حصار ِآزمائش میں کھڑا ہوں
میں اپنے دوستوں سے طالبِ حرف ِدعا ہوں
سمجھتا ہے کوئی مخلص مجھے کوئی منافق
اُتر آتا ہے سب کا عکس مجھ میں ،آئینہ ہوں
دیا ہوں میں، بجھا دو یا مجھے تسلیم کرلو
ہواؤ ،تم مرے چاروں طرف ہو، جانتا ہوں
اب وجد کی طرح کاٹو زباں میری کہ میں بھی
اساسِ اہلیت پر اپنا حصہ مانگتا ہوں
بغاوت کے سب الزامات سچے کر دکھاؤں
مگر کیا کروں پابندِ زنجیرِ وفا ہوں
سوا تیرے نظر کچھ دیکھنا چاہے نہ میری
ہجومِ مہ و شاں میں بھی اکیلا سا رہا ہوں
وہ ظالم صبر کی طاقت سے واقف تھا نہ اشعر
وگر نہ سوچتا کیسے کہ میں بے آسرا ہوں
٭٭٭
درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے
مجھ سے دل ضبط کا انداز ِجوانی مانگے
بات ایک روز نئی چاہئے سچ ہو کہ نہ ہو
عالمِ طفل تو بس کوئی کہانی مانگے
کیا بھلا خاک کرے گا وہ کوئی راہبری
ہر مسافر سے جو منزل کی نشانی مانگے
عشق کیا عام ہوا اپنا کہ دنیا ہم سے
ایک اک لمحے کی اک رام کہانی مانگے
گھر تو پیارا ہے ہمیں اب بھی رگ جاں کی طرح
گھر کا ماحول مگر نقل مکانی مانگے
اپنا ہر عکس نئے رنگ میں دیتا ہے ہمیں
اور ہم سے وہی تصویر پرانی مانگے
درد اظہار کا طالب تو ہے اشعر لیکن
رونمائی کے لئے طرز نہانی مانگے
٭٭٭
ہے کہیں ہم سا مصور تو بتائے کوئی
عمر بھر ایک ہی تصویر بنائے کوئی
اپنی راہوں پہ مجھے ایسا لگائے کوئی
اور رستہ ہی نظر مجھ کو نہ آئے کوئی
اُن کے آنے کی خبر ہے تو بتاؤ کیسے
اپنی دہلیز پہ آنکھیں نہ بچھائے کوئی
دل میں بڑھ جائے تو آنکھوں سے چھلک پڑتا ہے
سرکشی درد کی پھر کیسے چھپائے کوئی
آ نہیں سکتا تو یادوں میں بسیرا کیوں ہے
اِس سے اچھا ہے کبھی یاد نہ آئے کوئی
میرے ہر خواب کو اِک چاند سا چہرہ دے کر
آرزو وصل کی ہر رات جگائے کوئی
کرکے ہر روز نیا وعدۂ تجدیدِ وفا
صاف کہہ دیجئے اب دل نہ جلائے کوئی
مینا و جام کی بانہوں میں نہ جاؤں لیکن
بادۂ چشم تو جی بھر کے پلائے کوئی
میں تو صحرا بھی چمن زار بنا دوں اشعر
اپنے پیکر کی بہاریں تو دکھائے کوئی
٭٭٭
خرد کی پاسبانی میں دوانے دیکھتا ہوں
حقیقت جانتا ہوں اور فسانے دیکھتا ہوں
حیات آگیں رہا ہے جن کی تعبیروں کا منظر
ابھی تک میں وہی سپنے سہانے دیکھتا ہوں
کوئی تعداد حمد ِرب مقرر کیسے کر دوں
ہر اک تسبیح میں گنتی کے دانے دیکھتا ہوں
تری نظر ِکرم اغیار پر اٹھتی ہے جب بھی
میں اپنے دل پہ تیروں کے نشانے دیکھتا ہوں
کسی راوی پہ اپنا فیصلہ دینے سے پہلے
میں اس کی داستاں کے تانے بانے دیکھتا ہوں
پلٹ کر دیکھنے سے ڈر ہے پتھر ہو نہ جاؤں
میں رکھ کر سامنے گزرے زمانے دیکھتا ہوں
یقیں سا ہے کہ تعبیریں بھی دیں گے خواب میرے
سویرا ہوتے ہی اٹھ کر سرہانے دیکھتا ہوں
میں جب بھی اعتبار زندگی کرتا ہوں دم بھر
اجل کے ان گنت رنگیں بہانے دیکھتا ہوں
بھلا کیا کام آیا وقت کا مرہم بھی اشعر
گل تازہ کی طرح دکھ پرانے دیکھتا ہوں
٭٭٭
یہ راز ِعشق تو اس کے خیال ہی میں نہیں
علاجِ درد بیانِ ملال ہی میں نہیں
تمہاری باتوں کا اپنا الگ ہی جادو ہے
کشش تمام بدن کے جمال ہی میں نہیں
فنِ سخن کی نمائش بھی ہے عزیز مجھے
کہ لُطف ِزیست حصولِ کمال ہی میں نہیں
مشاہدات کا اپنا ہے ایک پیمانہ
شمار عمر کا بس ماہ و سال ہی میں نہیں
تمہارے حسن کا پرتو ہے بس مری معراج
کہ تابِ جلوہ تو میری مجال ہی میں نہیں
میں تیری بات پہ خاموش ہوں تو حیرت کیا
کِسی جواب کا امکاں سوال ہی میں نہیں
اسے تو ہم نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے
وہ بے مثال سا کچھ خدو خال ہی میں نہیں
گزار آئے ہیں ماضی میں ایسے دور کئی
یہ عصرِ درد فقط اپنے حال ہی میں نہیں
فراق یار کا اپنا ہے اک مزہ اشعر
تمام لطفِ محبت وصال ہی میں نہیں
٭٭٭
شمع ِانمول کو ارزَاں نہیں ہونے دیتا
وہ اسے شعلہ بہ داماں نہیں ہونے دیتا
لاکھ ہو ذہن پراگندہ و برہم لیکن
وہ کبھی زلف پریشاں نہیں ہونے دیتا
عین ممکن ہے کہ پھر کوئی بلندی پا جائے
آدمی خود کو ہی اِنساں نہیں ہونے دیتا
میں تو جاتا ہوں تکلف کی ردا سر پہ رکھے
ہاں مگر وہ مجھے مہماں نہیں ہونے دیتا
درمیاں فاصلہ رکھتا ہے جو ساحل پہ سدا
مجھ کو تنہا پئے طوفاں نہیں ہونے دیتا
اشک نظروں میں جو آ جائیں تو عزت کھو دیں
میں نمائش سر ِمژگاں نہیں ہونے دیتا
بس دیئے جاتا ہے ہر وقت دعائیں اشعر
وہ مری موت کو آساں نہیں ہونے دیتا
٭٭٭
ہمیں نہیں ہیں فقط جان سے لگائے ہوئے
دلوں میں خواب سبھی لوگ ہیں سجائے ہوئے
زمانہ ہو گیا لب پر فغاں کو آئے ہوئے
"تمہاری تیغِ محبت کا زخم کھائے ہوئے”
مرے قلم کو ہے عادت نگارشِ حق کی
تمہارے حوصلے سو بار آزمائے ہوئے
اب اپنا کہتے ہوئے میں کِسی کو ڈرتا ہوں
کہ میرے اپنے تو سب لوگ ہی پرائے ہوئے
مری خوشی میں وہاں اِک عجب چراغاں تھا
دئے ہزاروں سجے تھے مگر بجھائے ہوئے
چلیں جو آندھیاں فرقت کی دیکھ لینا تم
نہ آسکے گا تمہیں بھی سکوں بن آئے ہوئے
اگر چہ بھول گئی رقصِ بے خودی لیکن
ہیں یاد شمع کو کچھ پَر مرے جلائے ہوئے
ہمیں پتا ہے تجھے جیتنے کی عادت ہے
سو آج ہم بھی ہیں جاناں ترے ہرائے ہوئے
انہی سے مہکی رہیں گی فضائیں اب اشعر
جنہیں زمانہ ہوا گلستاں میں آئے ہوئے
٭٭٭
کسی منصور کو سمجھے کہ دیوانہ نہیں ہے
ابھی دنیا میں ایسا کوئی فرزانہ نہیں ہے
جنونِ عشق و حسرتِ آبلہ پائی کی باتیں
محبت کا سفر نامہ ہے افسانہ نہیں ہے
سوا تیرے سبھی مجھ کو دوانہ کہہ رہے ہیں
یہ منصب مجھ کو دنیا بھر سے منوانا نہیں ہے
تجھے دستار کی حسرت ہے مل جائے گی لیکن
ترا قد شہر میں کیا جانا پہچانا نہیں ہے
مجھے یہ میکدہ بدمست و بے خود کیا کرے گا
مرے ساقی ترا انداز رندانہ نہیں ہے
کسی دل پر لگے زخموں کی گہرائی ہے کتنی
بجز احساس کوئی اور پیمانہ نہیں ہے
دکھاتا ہے سدا ہر آئینہ اپنا ہی چہرہ
مجھے یہ امر ِمشکل سب کو سمجھانا نہیں ہے
محبت ہے مرا ایمان بھی اور زندگی بھی
مجھے منہ موڑ کے ایماں سے مر جانا نہیں ہے
غزل تیری اگر چُھو جائے اُس کا دل تو اشعر
وہ شاید مان لے گا درد بیگانہ نہیں ہے
٭٭٭
ابھی مرہونِ لب اِک بات بھی باہم نہیں ہے
مگر جو اَن کہی سی ہوگئی ہے، کم نہیں ہے
رُکے آنسو چھلک پڑے ہیں جب بھی سوچتا ہوں
مرے گھر کی پلک میرے لئے کیوں نم نہیں ہے
سر ِمقتل تو دل پتھر کے تھے لیکن یہاں تو
کہیں مقتل سے باہر بھی صفِ ماتم نہیں ہے
مجھے کیا نیند آئی وقت نے دنیا بدل دی
میں جس عالم میں سویا تھا یہ وہ عالم نہیں ہے
یہ شہر ِعلم و دانش ہے زباں کو بند رکھنا
ہر اِک پیرو جواں اِس شہر کا حاتم نہیں ہے
ہم اِک کمرے میں ہیں اور اجنبیت درمیاں ہے
مری اِک بات پر بھی آج وہ برہم نہیں ہے
جو خود ان کے لگائے نشتروں کے زخم بھر دے
مرے چارہ گروں کے پاس وہ مرہم نہیں ہے
نہ لافانی ہو تم اشعر، نہ سقراطِ زمانہ
تمہارے ساغر فن میں کوئی بھی سم نہیں ہے
٭٭٭
حاصل بس اتنا خوبئ تدبیر سے ہوا
ہر روز اپنا سامنا تقدیر سے ہوا
دار و رَسن کا ہم کو ذرا دُکھ نہیں مگر
رسوا ہمارا یار بھی تعذیر سے ہوا
ہے دلکشی گنہ میں زیادہ کہ خُودکشی
طے مرحلہ یہ نفس کی تطہیر سے ہوا
سارا جہان بادِ مخالف میں ڈھل گیا
کیا فائدہ اڑان کی تشہیر سے ہوا
کیا جانے درمیان میں کس دن یہ اُٹھ گئی
دیوار کا پتا بڑی تاخیر سے ہوا
ہر شخص میری آنکھوں سے کرتا رہا سوال
میں لاجواب آپ کی تصویر سے ہوا
سوچا تھا جس کو گھر کہوں وہ آشیاں بنے
بے گھر میں اپنی کاوش تعمیر سے ہوا
کچھ دن رہا ہوں قید میں کچھ اپنے شہر میں
احساسِ فرق پاؤں کی زنجیر سے ہوا
دل سوزئ سخن کے سبب اہل درد کا
رشتہ سا ایک اشعر دلگیر سے ہوا
٭٭٭
حد ِنگاہ میں کوئی شجر تو آنے دو
کوئی پڑاؤ کی صورت نظر تو آنے دو
ہمیں بھی آتا ہے قسمت کو ڈھونڈنا لیکن
ہمارے شہر میں اِک دن سحر تو آنے دو
ذرا تو صبر کرو اے مری تمناؤ
دعا کروں گا ،مقام اثر تو آنے دو
سر ِنیاز تو ازخود ہی جھک پڑے گا، مگر
جو سر بلند کرے گا وہ دَر تو آنے دو
قبولیت کی گھڑی ڈھونڈتی پھرے گی مجھے
مری دعاؤں میں سحرِ اثر تو آنے دو
کہیں تو آہی ملے گا وہ ایک دن مجھ سے
پر اُس کو یاد مری رہ گزر تو آنے دو
کریں گے خواہش ِجلوہ بھی ایک دن، لیکن
ہماری آنکھ میں وصفِ بصر تو آنے دو
کریں گے قتل بھی، مظلوم بھی ہمیں ہوں گے
ہمارے ہاتھوں میں اُن کا ہنر تو آنے دو
کماں میں تیر ابھی کیا سجائیں ہم اشعر
جو آبروئے ہدف ہے، نظر تو آنے دو
٭٭٭
تمہارا جوَر و سِتم کچھ بیاں نہیں کرتے
دلِ حزیں کو کِسی پر عیاں نہیں کرتے
لبوں پہ اپنے تبسم سجائے رکھتے ہیں
جو عشق کرتے ہیں، آہ و فغاں نہیں کرتے
یہ اور بات کبھی آنکھ سے چھلک جائے
ہم آرزُو کو رہین ِزباں نہیں کرتے
نصاب ِعشق میں سود و زیاں کا سارا حساب
زیاں ہے وقت کا ،ایسا زیاں نہیں کرتے
ہمیں کوئی نہ ملا دہر میں دُکھوں کے بغیر
سو اپنے درد کو نذر ِجہاں نہیں کرتے
زمانہ لاکھ مجھے بے وفا کہے اشعر
خوشا کہ آپ کوئی بدگماں نہیں کرتے
٭٭٭
اگرچہ کہنے کو بے شک سبھی کے ساتھ رہا
میں جان و دل سے مگر روشنی کے ساتھ رہا
جو میری روح، مری زندگی کے ساتھ رہا
میں ایک عمر اُسی اجنبی کے ساتھ رہا
ہمارے درد کا ساتھی بھی جس کو ہونا تھا
وہ اپنی خواہشِ لذت کشی کے ساتھ رہا
بس ایک رات ہی مہماں رہا تھا چاند مرا
میں ساری عمر مگر چاندنی کے ساتھ رہا
نہ بھول جاتا میں کیسے عداوتیں تیری
تیرا خیال ہی بس دوستی کے ساتھ رہا
وطن میں اب کے سکونت کا دائمی تھا خیال
میں چار دن بھی مگر بے کلی کے ساتھ رہا
رہا ہے ظلم کی وادی میں پر دل اشعر
لگے ہے ایسا کہ بس آشتی کے ساتھ رہا
٭٭٭
زندگی بھر زندگی سے یوں وفا کرتے رہے
جیسے اپنے حق میں کوئی بدعا کرتے رہے
اور تنگ ہوتا گیا کچھ اُس کی یادوں کا حصار
جس قدر ہم بھول جانے کی دعا کرتے رہے
آرزوئے وصل پر لب بستگی کے جرم میں
وہ ہمارے نام فرقت کی سزا کرتے رہے
وہ ہمیں دیتے رہے مایوسیوں کی تیرگی
ہم نئی امید کا روشن دیا کرتے رہے
قصہ ویرانئ دل ہم بھی کہتے تو ،مگر
وہ بہارِ زندگی کا تذکرہ کرتے رہے
ہاتھ میں تھا جن کے اشعر کچھ مداوائے جُنوں
وہ مری آشفتہ سامانی سوا کرتے رہے
٭٭٭
یادیں تمہاری آج بھی یوں دشتِ جاں میں ہیں
آباد جیسے بستیاں خالی مکاں میں ہیں
رکھیں مزاجِ عشق کو ہم کِس کے سامنے
مدہوش عام لوگ بھی سود و زیاں میں ہیں
دستِ جہاں سے لینے مصائب نہ جائیے
درماں تمام درد کے اپنے جہاں میں ہیں
کیا منصفی ہے ،بے کس و مفلس ہے دار پر
اور قاتلوں کے نام پس ِزر اماں میں ہیں
ہے آزمائشوں کا تسلسل کچھ اس طرح
جیسے ازل سے تا بہ ابد امتحاں میں ہوں
بس فرقت و وصال نہیں اس کی داستاں
دنیا کے اور غم بھی دل بے کراں میں ہیں
دیکھی ہوئی ہیں آتشِ عارض کی سرخیاں
شعلے بھی دیکھ لیں گے جو برقِ تپاں میں ہیں
جب سے لٹی بہار ِچمن دیکھتے ہیں ہم
اشعر ترے سخن بھی حصار خزاں میں ہیں
٭٭٭
کیا کروں موسم کوئی اے زندگی تیرے بغیر
سب رُتیں ہیں اجنبی، اے زندگی تیرے بغیر
کوئی صحرا ہو، چمن ہو، دشت یا وادی کوئی
کس جگہ ہے دلکشی اے زندگی تیرے بغیر
رات دن یلغار ہے یادوں کی،درماں کچھ نہیں
درد کی پھر کیا کمی اے زندگی تیرے بغیر
دامنِ فرقت کو دیتی ہے اُمیدوں کے چراغ
آنکھ میری شبنمی اے زندگی تیرے بغیر
موت کیا ہوگی، نہیں معلوم ،لیکن زندگی
آج کل ہے موت سی اے زندگی ،تیرے بغیر
شہر کی رنگینیاں پہلی سی ہیں اب بھی ،مگر
دل میں ہے تیرہ شبی اے زندگی تیرے بغیر
تیرا اشعر کیا کرے تنہائیوں کی بھیڑ میں
کھو گئی ہے زندگی، اے زندگی تیرے بغیر
٭٭٭
دل کا ہر داغ لہو دے کے جلا لیتا ہوں
میں شب ِغم کو ستاروں سے سجا لیتا ہوں
کوئی پل جب کِسی پہلو مجھے دیتا ہے قرار
درد کی لو میں اُسی سمت بڑھا لیتا ہوں
آتشِ عشق تو اشکوں سے بھڑکتی ہے، مگر
اک ذرا آتش ِجذبات بُجھا لیتا ہوں
شبِ ڈھلے صبح کے تارے نے یہ پوچھا اکثر
کیا تری آنکھ سے میں نیند چرا لیتا ہوں
سرگراں تم نہ پھرو ایذا رسانی کو مری
میں تو خود گردشِ ایام کو جا لیتا ہوں
نا خدا تجھ پہ ہی اک تکیہ نہیں ہے، میں تو
موج ِبرہم سے بھی ساحل کا پتا لیتا ہوں
کون دیتا ہے تجھے طرز ِمسیحائی نئے
میں ہی ہر درد ترا جاں سے لگا لیتا ہوں
ایک مانوس مہک جب بھی صبا لاتی ہے
ان کو انفاس کی آغوش میں پالیتا ہوں
ڈال کر چہرے پہ اشعر میں تبسم کی نقاب
کربِ تنہائی کو دنیا سے چُھپا لیتا ہوں
٭٭٭
نباہ تجھ سے کیا ہے ہنسی خوشی ہم نے
تجھے برَت کے دکھایا ہے زندگی ہم نے
ملا ہے دل کی لگی کا مرض بطورِ سزا
سمجھ رکھا تھا محبت کو دل لگی ہم نے
بس اس لئے کہ کبھی دوست کہہ دیا تھا تجھے
بھلائے رکھی سدا تیری دشمنی ہم نے
خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثل ِجنت ہے
اسی بہانے جہنم بھی دیکھ لی ہم نے
لباسِ فکر و نظر جان کر تجھے اب تک
اک اہتمام سے بَرتا ہے شاعری ہم نے
سبب نہ پوچھئے ان آنسوؤں کا اے اشعر
کسی کو یاد کیا تھا ابھی ابھی ہم نے
٭٭٭
درد ،تقسیم کے اِمکاں سے بچا رکھا ہے
اپنا سرمایۂ کل دل میں چھپا رکھا ہے
وہ پلٹ آیا تو سینے سے لگا لیں گے اُسے
جانِ من چھوڑئے ،اِن باتوں میں کیا رکھا ہے
آؤ ،آرائشِ جاں کچھ تو بدل دیں مل کر
کتنی مدت سے غمِ ہجر بسا رکھا ہے
بُھولنا چا ہوں تو کچھ اور اُلجھ جاتا ہوں
اُس نے یادوں کا عجب جال بچھا رکھا ہے
تاکہ دنیا تری آمد کا نہ پا جائے سراغ
نام آہٹ کا تری، بادِ صبا رکھا ہے
دل کو میرے دلِ ویراں تو نہ کہئے صاحب
میں نے تو درد کا اک شہر بسا رکھا ہے
شامل زاد ِسفر رکھتے تو آساں تھا سفر
رات کا ساتھ ہے اور گھر میں دِیا رکھا ہے
کیا بجھا پائے گی تُو میری محبت کا چراغ
اے ہوا دیکھ تری زَد پہ جلا رکھا ہے
بے وفا کیسے کہوں میں کہ سرِ بزم ابھی
کل ہی تو نام ترا رشکِ وفا رکھا ہے
کوئی مُنصف نظر آئے تو میں پوچھوں اشعر
کیوں مرے شہر کو مقتل سا بنا رکھا ہے
٭٭٭
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہئے
آبروئے غم بکھرنے سے بچانا چاہئے
تاکہ پسپائی پہ ہو مجبور، شرمندہ رہے
درد جب حد سے بڑھے تو مسکرانا چاہئے
فرصتِ فکر رفوئے چاک دل کس کو، مگر
سب کو بہرِ داستاں کوئی فسانہ چاہئے
قافیہ بندی کا فن ہی تو نہیں ہے شاعری
شعر کو فکر و نظر بھی شاعرانہ چاہئے
عشق کا لمحہ بھی آتا ہے محبت میں ضرور
ہاں مگر اس ایک لمحے کو زمانہ چاہئے
بے سبب تو کوئی ہستی بھی عدم ہوتی نہیں
انتہائے زیست کو بھی اِک بہانہ چاہئے
گو کہ اب تا دیر مشکل لگ رہا ہے اُن کا ساتھ
پھر بھی اے اشعر جہاں تک ہو ،نبھانا چاہئے
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید