فہرست مضامین
- انتخابِ کلامِ جلیل مانک پوری
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
- حسن و الفت میں خدا نے ربط پیدا کر دیا
- دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا
- رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
- سخت نازک مزاج دلبر تھا
- ضبط نالہ سے آج کام لیا
- عشق اب میری جان ہے گویا
- کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا
- میری وحشت کا جو افسانہ بنایا ہوتا
- ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
- ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
- ہمارا دل وہ گل ہے جس کو زلف یار میں دیکھا
- وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
- یہ رنگ گلاب کی کلی کا
- کیا حنا خوں ریز نکلی ہائے پس جانے کے بعد
- اچھی کہی دل میں نے لگایا ہے کہیں اور
- بن ترے کیا کروں جہاں لے کر
- چلے ہائے دم بھر کو مہمان ہو کر
- دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہو کر
- راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر
- ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
- ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
- راز عشق اظہار کے قابل نہیں
- عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
- قفس میں ہوں کہ طائر آشیاں میں
- مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں
- نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
- نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
- ہستی ہے عدم مری نظر میں
- لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
- اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
- ابھی سے آفت جاں ہے ادا ادا تیری
- اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
- اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
- آج تک دل کی آرزو ہے وہی
- ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
- انہیں عادت ہمیں لذت ستم کی
- اور ان آنکھوں نے میرے دل کی حالت زار کی
- ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
- بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
- بہاریں لٹا دیں جوانی لٹا دی
- پلا ساقی بہار آئے نہ آئے
- جام جب تک نہ چلے ہم نہیں ٹلنے والے
- جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
- چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
- چاہیئے دنیا نہ عقبیٰ چاہیئے
- حسن کی لائی ہوئی ایک بھی آفت نہ گئی
- حسن میں آفت جہاں تو ہے
- دل گیا دل لگی نہیں جاتی
- دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
- دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے
- دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
- زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
- شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے
- ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائے گی
- عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
- عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
- غیر الفت کا راز کیا جانے
- قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
- کھو کے دل میرا تمہیں نا حق پشیمانی ہوئی
- کہوں کیا اضطراب دل زباں سے
- کیا جلد دن بہار کے یارب گزر گئے
- کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
- مار ڈالا مسکرا کر ناز سے
- محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
- مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
- مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
- موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
- نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے
- ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
- ہم تو قصور وار ہوئے آنکھ ڈال کے
- وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
- یہ کہہ گیا بت ناآشنا سنا کے مجھے
- یوں نہ ٹپکا تھا لہو دیدۂ تر سے پہلے
انتخابِ کلامِ جلیل مانک پوری
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
وعدۂ دید قیامت پہ نہ ٹالا ہوتا
بام پر تھے وہ کھڑے لطف دوبالا ہوتا
مجھ کو بھی دل نے اچھل کر جو اچھالا ہوتا
کیسے خوش رنگ ہیں زخم جگر و داغ جگر
ہم دکھاتے جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
دل نہ سنبھلا تھا اگر دیکھ کے جلوہ اس کا
تو نے اے درد جگر اٹھ کے سنبھالا ہوتا
تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے
لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا
تم نے ارمان ہمارا نہ نکالا نہ سہی
اپنے خنجر کا تو ارمان نکالا ہوتا
دل کے ہاتھوں نہ ملا چین کسی روز جلیلؔ
ایسے دشمن کو نہ آغوش میں پالا ہوتا
٭٭٭
حسن و الفت میں خدا نے ربط پیدا کر دیا
درد دل مجھ کو دیا تم کو مسیحا کر دیا
خوب کی تقسیم تو نے اے خیال زلف یار
دل کو نذر داغ سر کو وقف سودا کر دیا
جان لے لینا جلانا کھیل ہے معشوق کا
آنکھ سے مارا لب نازک سے زندہ کر دیا
مجھ کو شکوہ ہے کہ دل کا خون قاتل نے کیا
دل یہ کہتا ہے مجھے قطرے سے دریا کر دیا
ناز ہو یا دلبری افسوں ہو یا جادوگری
سب کو قدرت نے تری چتون کا حصہ کر دیا
دل ادھر رخصت ہوا ہوش اس طرف چلتے ہوئے
کس کی آنکھوں نے یہ در پردہ اشارا کر دیا
میں کہاں چاہت کہاں یہ سب کرشمے دل کے ہیں
تم پہ خود شیدا ہوا مجھ کو بھی شیدا کر دیا
مرحبا اے ساقیِ جادو نظر صد مرحبا
مست آنکھوں نے مرا نشہ دوبالا کر دیا
دل تڑپتا ہے تو کچھ تسکین ہوتی ہے جلیلؔ
جی بہلنے کو خدا نے درد پیدا کر دیا
٭٭٭
دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا
کر گئی کام وہ نظر اپنا
اب تو دونوں کی ایک حالت ہے
دل سنبھالوں کہ میں جگر اپنا
میں ہوں گو بے خبر زمانے سے
دل ہے پہلو میں با خبر اپنا
دل میں آئے تھے سیر کرنے کو
رہ پڑے وہ سمجھ کے گھر اپنا
تھا بڑا معرکہ محبت کا
سر کیا میں نے دے کے سر اپنا
اشک باری نہیں یہ در پردہ
حال کہتی ہے چشم تر اپنا
کیا اثر تھا نگاہ ساقی میں
نشہ اترا نہ عمر بھر اپنا
چارہ گر دے مجھے دوا ایسی
درد ہو جائے چارہ گر اپنا
وضع داری کی شان ہے یہ جلیلؔ
رنگ بدلا نہ عمر بھر اپنا
٭٭٭
رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
دامن میں کوئی پھول لیے ہے گلاب کا
چاروں طرف سے اس پہ نگاہوں کا بار ہے
مشکل ہے ان کو رخ سے اٹھانا نقاب کا
تسکین خاک دیتے ہیں رکھ کر جگر پہ ہاتھ
پہلو بدل رہے ہیں مرے اضطراب کا
مدت ہوئی وہی ہے زمانے کا انقلاب
نقشا کھنچا ہوا ہے مرے اضطراب کا
بچپن کہاں تک ان کی امنگوں کو روکتا
آخر کو رنگ پھوٹ ہی نکلا شباب کا
رونا خوشی کا روتی ہے بلبل بہار میں
چھڑکاؤ ہو رہا ہے چمن میں گلاب کا
جھلکی دکھا کے اور وہ بجلی گرا گئے
اچھا کیا علاج مرے اضطراب کا
خاک چمن پہ شبنم و گل کا عجب ہے رنگ
ساغر کسی سے چھوٹ پڑا ہے شراب کا
کھوئے ہوئے ہیں شاہد و معنی کی دھن میں ہم
یہ بھی جلیلؔ ایک جنوں ہے شباب کا
٭٭٭
سخت نازک مزاج دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا
مختصر حال زندگی یہ ہے
لاکھ سودا تھا اور اک سر تھا
ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں
یہ سمجھئے کہ روز محشر تھا
خاک نبھتی مری ترے دل میں
ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا
تم مرے گھر جو آنے والے تھے
کھولے آغوش صبح تک در تھا
ابر رحمت جو ہو گیا مشہور
کسی مے کش کا دامن تر تھا
جب انہیں شوق تھا سنورنے کا
ایک اک آئنہ سکندر تھا
آنسوؤں کی تھی کیا بساط مگر
دیکھتے دیکھتے سمندر تھا
کیسی آزاد زندگی ہے جلیلؔ
در دل پر جب اپنا بستر تھا
٭٭٭
ضبط نالہ سے آج کام لیا
گرتی بجلی کو میں نے تھام لیا
پائے ساقی پہ توبہ لوٹ گئی
ہاتھ میں اس ادا سے جام لیا
پھول کا جام جب گرا کوئی
ہم نے پلکوں سے بڑھ کے تھام لیا
آفریں تجھ کو حسرت دیدار
چشم تر سے زباں کا کام لیا
دل جگر نذر کر دیے مے کے
دے کے دو شیشے ایک جام لیا
الٹی اک ہاتھ سے نقاب ان کی
ایک سے اپنے دل کو تھام لیا
ترک مے کی ہوئی تلافی یوں
نام ساقی کا صبح و شام لیا
آ گئی کیا کسی کی یاد جلیلؔ
چلتے چلتے جگر کو تھام لیا
٭٭٭
عشق اب میری جان ہے گویا
جان اب میہمان ہے گویا
جس کو دیکھو وہی ہے گرم تلاش
کہیں اس کا نشان ہے گویا
ہے قیامت اٹھان ظالم کی
وہ ابھی سے جوان ہے گویا
مانگے جائیں گے تجھ کو ہم تجھ سے
منہ میں جب تک زبان ہے گویا
جی بہلنے کو لوگ سنتے ہیں
درد دل داستان ہے گویا
دل میں کیسے وہ بے تکلف ہیں
ان کا اپنا مکان ہے گویا
ہائے اس عالم آشنا کی نظر
ہر نظر میں جہان ہے گویا
اچھے اچھوں کو پھانس رکھا ہے
زال دنیا جوان ہے گویا
اس سخن کا جلیلؔ کیا کہنا
مصحفیؔ کی زبان ہے گویا
٭٭٭
کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا
آگ پھولوں میں لگی گھر جل گیا صیاد کا
سہل سمجھا تھا ستانا بلبل ناشاد کا
چار نالوں میں کلیجا ہل گیا صیاد کا
زیر خنجر میں تڑپتا ہوں فقط اس واسطے
خون میرا اڑ کے دامن گیر ہو جلاد کا
در پئے آزار پہلے آسماں اتنا نہ تھا
پا گیا ہے کچھ اشارہ اس ستم ایجاد کا
اب تو وہ بھی لوٹ ہے بلبل تری آواز پر
بارک اللہ خوب پھانسا تو نے دل صیاد کا
اس کے صدقے جائیے جس نے تجھے پیدا کیا
شکل دی حور و پری کی دل دیا جلاد کا
وصل میں کیسا ادب اے جان گستاخی معاف
آج لینا ہے مجھے تم سے عوض بیداد کا
آپ بھی خنجر بکف ہیں میں بھی ہوں سینہ سپر
رہ نہ جائے آج کوئی حوصلہ بیداد کا
مجھ کو ہے ایسا چمن درکار جس میں اے جلیلؔ
خوف گلچیں کا نہ ہو کھٹکا نہ ہو صیاد کا
٭٭٭
میری وحشت کا جو افسانہ بنایا ہوتا
سننے والوں کو بھی دیوانہ بنایا ہوتا
ان کے لانے کی نہ سوجھی تجھے قاصد تدبیر
جھوٹ سچ کوئی تو افسانہ بنایا ہوتا
دیکھتے تم کہ سنور جاتے نہ گیسو کیسے
میری پلکوں کا اگر شانہ بنایا ہوتا
مر کے بھی روح نہ پینے کو ترستی ساقی
میری مٹی سے جو پیمانہ بنایا ہوتا
تم نے زلفوں کو بنا کر ہمیں دیوانہ کیا
کیا بگڑتا تھا تمہارا نہ بنایا ہوتا
دل جو واعظ کا بنایا تھا الٰہی پتھر
کاش سنگ در مے خانہ بنایا ہوتا
دل وحشی جو چھٹا مجھ سے بہت خوب ہوا
ورنہ اب تک مجھے دیوانہ بنایا ہوتا
وسعت دل جو کوئی پیر مغاں دکھلایا
ایک اک جام کو مے خانہ بنایا ہوتا
منہ سے آنچل جو ہٹاتا وہ سر بزم جلیلؔ
بہ خدا شمع کو پروانہ بنایا ہوتا
٭٭٭
ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
ہاتھ سینے پہ کوئی دھر نہ سکا
آئینہ کس سے دیکھا جاتا ہے
رشک کے مارے وہ سنور نہ سکا
رہ گیا آنکھ میں نزاکت سے
دل میں نقشہ ترا اتر نہ سکا
وسعت ظرف سے رہا محروم
جام میرا کسی سے بھر نہ سکا
اس جہاں سے گزر گئے لاکھوں
اس گلی سے کوئی گزر نہ سکا
مے کشی سے نجات مشکل ہے
مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا
اشک جاری تھے یاد گیسو میں
رات بھر قافلہ ٹھہر نہ سکا
موسم گل میں بھی جلیلؔ افسوس
دامن اپنا گلوں سے بھر نہ سکا
٭٭٭
ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
ہاتھ سینے پہ کوئی دھر نہ سکا
آئینہ کس سے دیکھا جاتا ہے
رشک کے مارے وہ سنور نہ سکا
رہ گیا آنکھ میں نزاکت سے
دل میں نقشہ ترا اتر نہ سکا
اس جہاں سے گزر گئے لاکھوں
اس گلی سے کوئی گزر نہ سکا
مے کشی سے نجات مشکل ہے
مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا
میرا نامہ خط مقدر تھا
کہ نظر سے تری گزر نہ سکا
جو ترے عشق میں تباہ ہوا
کوئی اس کو تباہ کر نہ سکا
آگ ایسی لگی تھی سینے میں
آنکھ سے دل میں وہ اتر نہ سکا
موسم گل میں بھی جلیلؔ افسوس
دامن اپنا گلوں سے بھر نہ سکا
٭٭٭
ہمارا دل وہ گل ہے جس کو زلف یار میں دیکھا
جو زلفیں ہو گئیں برہم گلے کے ہار میں دیکھا
بھلا گل کیا ترا ہم سر ہو جس کی یہ حقیقت ہے
ابھی گلشن میں دیکھا تھا ابھی بازار میں دیکھا
بصیرت جب ہوئی پیدا ہمیں مشق تصور سے
جو کچھ خلوت میں دیکھا تھا ابھی بازار میں دیکھا
چمن میں اک بت نازک ادا محو تماشا ہے
نیا گل آج ہم نے دامن گلزار میں دیکھا
جلیلؔ اک ناز کی قیمت دل و جاں دین و ایماں ہے
عجب انداز ہم نے حسن کے بازار میں دیکھا
٭٭٭
وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
تم گلے سے کیا ملے سارا گلہ جاتا رہا
یار تک پہنچا دیا بیتابی دل نے ہمیں
اک تڑپ میں منزلوں کا فاصلہ جاتا رہا
ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا
کہیے اب تو کم نگاہی کا گلہ جاتا رہا
روز جاتے تھے خط اپنے روز آتے تھے پیام
ایک مدت ہو گئی وہ سلسلہ جاتا رہا
رو رہے تھے دل کو ہم یاں ہوش بھی جاتے رہے
گمشدہ یوسف کے پیچھے قافلہ جاتا رہا
مڑ کے قاتل نے نہ دیکھا وار پورا ہو گیا
کشتگان نیم بسمل کا گلہ جاتا رہا
وادئ غربت کے ساتھی ہیں ہمیں دل سے عزیز
رو دئیے ہم پھوٹ کر جب آبلہ جاتا رہا
بے خودی میں محو نظارہ تھے ہم کیوں چونک اٹھے
ہائے وہ اپنا مزے کا مشغلہ جاتا رہا
کیا مہذب بن کے پیش یار بیٹھے ہیں جلیلؔ
آج وہ جوش جنوں وہ ولولہ جاتا رہا
٭٭٭
یہ رنگ گلاب کی کلی کا
نقشہ ہے کس کی کم سنی کا
بلبل کی بہار میں نہ پوچھو
منہ چومتی ہے کلی کلی کا
ہر وقت ہیں موت کی دعائیں
اللہ رے لطف زندگی کا
غنچوں کو صبا نے گدگدایا
دشوار ہے ضبط اب ہنسی کا
سمجھے تھے نہ ہم کہ تم پہ مرنا
ہو جائے گا روگ زندگی کا
ہوں ایک سے سب حسین کیونکر
ہے رنگ جدا کلی کلی کا
منہ پھیر کے یوں چلی جوانی
یاد آ گیا روٹھنا کسی کا
آئینہ بنا رہے ہو دل کا
دل ٹوٹ نہ جائے آرسی کا
دیکھو نہ جلیلؔ کو مٹاؤ
مٹ جائے گا نام عاشقی کا
٭٭٭
کیا حنا خوں ریز نکلی ہائے پس جانے کے بعد
بن گئی تلوار ان کے ہاتھ میں آنے کے بعد
جام جم کی دھوم ہے سارے جہاں میں ساقیا
مانتا ہوں میں بھی لیکن تیرے پیمانے کے بعد
شکریہ واعظ جو مجھ کو ترک مے کی دی صلاح
غور میں اس پر کروں گا ہوش میں آنے کے بعد
شمع معشوقوں کو سکھلاتی ہے طرز عاشقی
جل کے پروانے سے پہلے بجھ کے پروانے کے بعد
آشنا ہو کر بتوں کے ہو گئے حق آشنا
ہم نے کعبے کی بنا ڈالی ہے بت خانے کے بعد
میں کروں کس کا نظارہ دیکھ کر تیرا جمال
میں سنوں کس کا فسانہ تیرے افسانے کے بعد
شمع محفل کا ہوا یہ رنگ ان کے سامنے
پھول کی ہوتی ہے صورت جیسے مرجھانے کے بعد
سچ یہ کہتے ہیں کہ ہنسنے کی جگہ دنیا نہیں
چشم عبرت ہیں چمن کے پھول مرجھانے کے بعد
فکر و کاوش ہو تو نکلیں معنیِ رنگیں جلیلؔ
لعل اگلتی ہے زباں خون جگر کھانے کے بعد
٭٭٭
اچھی کہی دل میں نے لگایا ہے کہیں اور
یہ جب ہو کہ تم سا ہو زمانے میں کہیں اور
گردوں پہ مہ و مہر گل و شمع زمیں پر
اک جلوۂ جاناں ہے کہیں اور کہیں اور
میں عکس ہوں آئینۂ امکاں میں تمہارا
تم سا جو نہیں اور تو مجھ سا بھی نہیں اور
احباب جو کرتے ہیں کرم حال پہ میرے
کہتا ہے جنوں آئیے چل بیٹھیں کہیں اور
جاتے ہیں مٹاتے ہوئے وہ نقش قدم کو
کہہ دے کوئی ان سے کہ ہے اک خاک نشیں اور
آنکھ اس نے ملائی تڑپ اٹھا دل مضطر
تاکا تھا کہیں اور پڑا تیر کہیں اور
ہم بھولے ہوئے راہ ہیں اے کعبہ نشینو
جاتے تھے کہیں اور نکل آئے کہیں اور
دیتی ہے مزہ ناصیہ سائی ترے در پر
اک سجدہ جو کرتا ہوں تو کہتی ہے جبیں اور
کچھ روز جلیلؔ اپنی رہی گر یہی حالت
ڈھونڈیں گے فلک اور نکالیں گے زمیں اور
٭٭٭
بن ترے کیا کروں جہاں لے کر
یہ زمیں اور یہ آسماں لے کر
اشک چھلکائے بال بکھرائے
وہ گئے میری داستاں لے کر
دو جہاں کی طلب سے فارغ ہوں
تیرا در تیرا آستاں لے کر
اڑ گئے سب چمن کو رہ گئے ہم
چار تنکوں کا آشیاں لے کر
رنگ محفل ترا بڑھانے کو
آئے ہم چشم خوں فشاں لے کر
سب گئے پوچھنے مزاج ان کا
میں گیا اپنی داستاں لے کر
سب پھرے لے کے اپنے یوسف کو
میں پھرا گرد کارواں لے کر
سب اڑے لے کے پھول گلشن سے
اور ہم اپنا آشیاں لے کر
میری تقدیر کیا بتاؤں جلیلؔ
جا رہی ہے کہاں کہاں لے کر
٭٭٭
چلے ہائے دم بھر کو مہمان ہو کر
مجھے مار ڈالا مری جان ہو کر
یہ صورت ہوئی ہے کہ آئینہ پہروں
مرے منہ کو تکتا ہے حیران ہو کر
جواں ہوتے ہی لے اڑا حسن تم کو
پری ہو گئے تم تو انسان ہو کر
بگڑنے میں زلف رسا کی بن آئی
لیے رخ کے بوسے پریشان ہو کر
کرم میں مزہ ہے ستم میں ادا ہے
میں راضی ہوں جو تجھ کو آسان ہو کر
جدا سر ہوا پر ہوئے ہم نہ ہلکے
رہی تیغ گردن پر احسان ہو کر
نہ آخر بچا پردۂ راز دشمن
ہوا چاک میرا گریبان ہو کر
حواس آتے جاتے رہے روز وعدہ
تری یاد ہو کر مری جان ہو کر
بتوں کو جگہ دل میں دیتے ہو توبہ
جلیلؔ ایسی باتیں مسلمان ہو کر
٭٭٭
دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہو کر
رنگ لایا ہے یہ غنچہ چمنستاں ہو کر
دامن تر ہے کہ دفتر ہے یہ رسوائی کا
میری آنکھوں نے ڈبویا مجھے گریاں ہو کر
نیند آئی جو کبھی زلف کے دیوانے کو
چونک اٹھا خواب پریشاں سے پریشاں ہو کر
نگہ شوق تو در پردہ خبر لیتی ہے
آپ جائیں گے کہاں آنکھ سے پنہاں ہو کر
جلوہ گر آئینہ خانے میں ہوا کون حسیں
نقش دیوار ہیں سب آئینے حیراں ہو کر
دل میں آئے ہیں تو اب دل سے نکلتے ہی نہیں
گھر پہ قبضہ کیے بیٹھے ہیں وہ مہماں ہو کر
شہرۂ حسن ابھی کیا ہے شباب آنے دو
نام چمکے گا تمہارا مہ تاباں ہو کر
قتل کے بعد وفا میری جو یاد آئی ہے
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں پشیماں ہو کر
مست آنکھوں پہ بکھر جاتی ہے جب زلف جلیلؔ
میں سمجھتا ہوں گھٹا چھائی ہے مے خانوں پر
٭٭٭
راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر
گردش میں ہوں میں گردش پیمانہ چھوڑ کر
خم میں سبو میں جام میں نیت لگی رہی
مے خانے ہی میں ہم رہے مے خانہ چھوڑ کر
آنکھوں کو چھوڑ جاؤں الٰہی میں کیا کروں
ہٹتی نہیں نظر رخ جانانہ چھوڑ کر
آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار
لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر
ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر
دو گھونٹ نے بڑھا دیے رندوں کے حوصلے
مینا و خم پہ جھک پڑے پیمانہ چھوڑ کر
پھر بوئے زلف یار نے آ کر ستم کیا
پھر چل دیا مجھے دل دیوانہ چھوڑ کر
یاد آئی کس کی آنکھ کہ رند اٹھ کھڑے ہوئے
پیمانہ توڑ کر مے و مے خانہ چھوڑ کر
دنیا میں عافیت کی جگہ ہے یہی جلیلؔ
جانا کہیں نہ گوشۂ مے خانہ چھوڑ کر
٭٭٭
ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
ہمارے باغ ہستی میں بہار آئی خزاں ہو کر
جوانی کی دعائیں مانگی جاتی تھیں لڑکپن میں
لڑکپن کے مزے اب یاد آتے ہیں جواں ہو کر
خدا رکھے دل مایوس میں امید باقی ہے
یہی گل ہے جو بو دیتا ہے پامال خزاں ہو کر
مجھے شبنم بنا رکھا ہے ان خورشید رویوں نے
رلاتے ہیں نہاں ہو کر مٹاتے ہیں عیاں ہو کر
ہمیں وہ تھے کہ ہوتی تھی بسر پھولوں کے غنچے میں
ہمیں اب اے فلک تنکے چنیں بے آشیاں ہو کر
در جاناں کے آگے کب تحیر بڑھنے دیتا ہے
جو آتا ہے وہ رہ جاتا ہے سنگ آستاں ہو کر
نہال شمع میں کیا خوشنما اک پھول آیا تھا
ستم ڈھایا نسیم صبح نے باد خزاں ہو کر
تقاضا سن کا بھی اللہ کیا شے ہے کہ یوسف سے
زلیخا ناز کرتی ہے نئے سر سے جواں ہو کر
جلیلؔ آخر جو کی ہے شاعری کچھ کام بھی نکلے
کسی بت کو مسخر کیجیے معجز بیاں ہو کر
٭٭٭
ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
میں بھی نازاں ہوں ترا عاشق شیدا ہو کر
میں نہ سمجھا تھا کہ اشکوں سے اٹھے گا طوفاں
چند قطروں نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر
چشم بیمار جو پہلے تھی وہی اب بھی ہے
کچھ بنائے نہ بنی تم سے مسیحا ہو کر
کس کے رخسار دم سیر چمن یاد آئے
پھول آنکھوں میں کھٹکنے لگے کانٹا ہو کر
درد تھا دل میں تو جینے کا مزہ ملتا تھا
اب تو بیمار سے بدتر ہوں میں اچھا ہو کر
دام سے چھوٹ کے بھی میری اسیری نہ گئی
زلف صیاد گلے پڑ گئی پھندا ہو کر
چھپ کے رہنا ہے جو سب سے تو یہ مشکل کیا ہے
تم مرے دل میں رہو دل کی تمنا ہو کر
کیا ستم ہے شب وعدہ وہ حنا ملتے ہیں
رنگ لائے نہ کہیں خون تمنا ہو کر
دہن یار کی تعریف جو کی میں نے جلیلؔ
اڑ گیا طائر مضموں مرا عنقا ہو کر
٭٭٭
راز عشق اظہار کے قابل نہیں
جرم یہ اقرار کے قابل نہیں
آنکھ پر خوں شق جگر دل داغ دار
کوئی نذر یار کے قابل نہیں
دید کے قابل حسیں تو ہیں بہت
ہر نظر دیدار کے قابل نہیں
دے رہے ہیں مے وہ اپنے ہاتھ سے
اب یہ شے انکار کے قابل نہیں
جان دینے کی اجازت دیجیے
سر مرا سرکار کے قابل نہیں
چھوڑ بھی گلشن کو اے نرگس کہیں
یہ ہوا بیمار کے قابل نہیں
شاعری کو طبع رنگیں چاہیئے
ہر زمیں گل زار کے قابل نہیں
خامشی میری یہ کہتی ہے جلیلؔ
درد دل اظہار کے قابل نہیں
٭٭٭
عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
مئے دو آتشہ بھر دی ہے دو پیالوں میں
سنیں جو آپ تو سونا حرام ہو جائے
تمام رات گزرتی ہے جن خیالوں میں
امید و یاس نے جھگڑے میں ڈال رکھا ہے
نہ جینے والوں میں ہم ہیں نہ مرنے والوں میں
چمن میں گل بھی حنا بھی مگر نصیب کی بات
کوئی تو سر چڑھے کوئی ہو پائمالوں میں
نسیم شمع لحد کو ذرا بچائے ہوئے
یہی ہے ایک غریبوں کے رونے والوں میں
یہاں خزاں کا نہ کھٹکا نہ خوف گلچیں کا
بہار گل میں رہے یا تمہارے گالوں میں
نہیں ہے لطف کہ خلوت میں غیر شامل ہو
اٹھا دو شمع کو یہ بھی ہے جلنے والوں میں
چبھے گا کیا دل پر خوں کا راز آنکھوں سے
جو ہوگا شیشے میں آئے گا وہ پیالوں میں
ہزار شکر کہ ہم نقص میں ہوئے کامل
جلیلؔ رہ گئی بات اپنی ذی کمالوں میں
٭٭٭
قفس میں ہوں کہ طائر آشیاں میں
ترا کرتے ہیں ذکر اپنی زباں میں
چمن یوں ہی رہے گا نذر صرصر
ہے اک تنکا بھی جب تک آشیاں میں
ہجوم اشک میں ملتا نہیں دل
مرا یوسف ہے گم اس کارواں میں
مذکر اور مؤنث کی ہیں بحثیں
بڑا جھگڑا ہے یہ اردو زباں میں
جلیلؔ اس باغ میں کانٹے کی صورت
کھٹکتا ہے نگاہ باغباں میں
٭٭٭
مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں
وہ ہم کو ہم انہیں سمجھا رہے ہیں
ابھی کل تک تھے کیسے بھولے بھالے
ذرا ابھرے ہیں آفت ڈھا رہے ہیں
کہا اس نے سوال وصل سن کر
کہ مجھ سے آپ کچھ فرما رہے ہیں
وہ بجلی ہیں تو ہوں ان کو مبارک
مجھے کس واسطے تڑپا رہے ہیں
مجھے تو انتظار چارہ گر ہے
الٰہی غش پہ غش کیوں آ رہے ہیں
رہے دامن بھرا ان کا ہمیشہ
لحد پر پھول جو برسا رہے ہیں
سنا کر قصۂ پروانہ و شمع
ہمارے دل کو وہ گرما رہے ہیں
دو روزہ حسن پر پھولے ہیں کیا گل
بڑے کم ظرف ہیں اترا رہے ہیں
کبھی ہم نے پیا تھا بادۂ عشق
جلیلؔ اس کے مزے اب آ رہے ہیں
٭٭٭
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
گنہ گنہ نہ رہا اتنی بادہ نوشی کی
اب ایک شغل ہے کچھ لذت شراب نہیں
ہمیں تو دور سے آنکھیں دکھائی جاتی ہیں
نقاب لپٹی ہے اس پر کوئی عتاب نہیں
پیے بغیر چڑھی رہتی ہے حسینوں کو
وہاں شباب ہے کیا کم اگر شراب نہیں
بہار دیتا ہے چھن چھن کے نور چہرے کا
سر نقاب ہے جو کچھ تہ نقاب نہیں
وہ اپنے عکس کو آواز دے کے کہتے ہیں
ترا جواب تو میں ہوں مرا جواب نہیں
اسے بھی آپ کے ہونٹوں کا پڑ گیا چسکا
ہزار چھوڑیئے چھٹنے کی اب شراب نہیں
بتوں سے پردہ اٹھانے کی بحث ہے بے کار
کھلی دلیل ہے کعبہ بھی بے نقاب نہیں
جلیلؔ ختم نہ ہو دور جام مینائی
کہ اس شراب سے بڑھ کر کوئی شراب نہیں
٭٭٭
نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
نئی اس بزم سے میں زندگانی لے کے آیا ہوں
کچھ اپنی ناتوانی کچھ ترا پاس نزاکت تھا
نگاہوں میں محبت کی کہانی لے کے آیا ہوں
ترے جلوے کے نظارے کو خالی ہاتھ کیا آتا
لٹانے کو بہار نوجوانی لے کے آیا ہوں
لبوں پر مہر خاموشی ہے آنکھیں ڈبڈبائی ہیں
اثر انداز اپنی بے زبانی لے کے آیا ہوں
خدا معلوم قاصد کیا سنائے دل دھڑکتا ہے
یہ کہتا ہے کہ پیغام زبانی لے کے آیا ہوں
مژہ پر گرم گرم آنسو لبوں پر سرد سرد آہیں
فسانہ درد کا غم کی کہانی لے کے آیا ہوں
سرشک خوں دل پر داغ افسردہ تمنائیں
ازل سے یہ متاع زندگانی لے کے آیا ہوں
مقام خضر تھا یا میکدہ تھا کیا کہوں کیا تھا
جہاں سے میں حیات جاودانی لے کے آیا ہوں
جلیلؔ ابر سیہ کیا جھومتا ہے سبزہ زاروں پر
یہ کہتا ہے کہ آب زندگانی لے کے آیا ہوں
٭٭٭
ہستی ہے عدم مری نظر میں
سوجھی ہے یہ ایک عمر بھر میں
او آنکھ چرا کے جانے والے
ہم بھی تھے کبھی تری نظر میں
پھیلاتی ہے پاؤں حسرت دید
ٹھنڈک جو ملی ہے چشم تر میں
کوئی نہ حجاب کام آیا
دیکھا تو وہ تھے مری نظر میں
کم ظرف تھے سارے غنچہ و گل
کیا پھولے ہیں ایک مشت زر میں
اتنا بھی نہ ہو کوئی حیا دار
دیکھا تو سما گئے نظر میں
تارے یہ نہیں ہیں آخر شب
کچھ پھول ہیں دامن سحر میں
ہے عمر رواں کا شمع میں رنگ
گھر بیٹھے گزرتی ہے سفر میں
دنیا ہے جلیلؔ ہاتھ اٹھائے
بیٹھے ہیں کسی کی رہ گزر میں
٭٭٭
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسم گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائر ہوش کے حق میں پر پرواز نہ ہو
دل بہت بلبل شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گل زار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو
کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو
آئینہ ہاتھ میں ہے حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مری حالت نظر انداز نہ ہو
ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو
اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا طاقت پرواز نہ ہو
اہل دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تری آواز نہ ہو
تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ درد جگر کا ابھی آغاز نہ ہو
٭٭٭
اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
او شوخ چشم پھونک دے برق نگاہ سے
کس شان سے چلا ہے مرا شہسوار حسن
فتنے پکارتے ہیں ذرا ہٹ کے راہ سے
جھپکی پلک تو برق فلک سے زمیں پہ تھی
سنبھلا نہ کوئی گر کے تمہاری نگاہ سے
دلچسپ ہو گئی ترے چلنے سے رہ گزر
اٹھ اٹھ کے گرد راہ لپٹتی ہے راہ سے
میزاں کھڑی ہوئی مرے آگے نہ روز حشر
دبنا پڑا اسے مرے بار گناہ سے
دیکھو پھر ایسے دیکھنے والے نہ پاؤ گے
کیوں خاک میں ملاتے ہو نیچی نگاہ سے
آئینے آرسی تو فقط دیکھنے کے ہیں
دیکھو تم اپنے حسن کو میری نگاہ سے
کثرت سے مے جو پی ہے نظر ہے مآل پر
رعشہ نہیں ہے کانپ رہا ہوں گناہ سے
پایا بلند کیوں نہ ہمارا ہو اے جلیلؔ
پایا ہے فیض امیر سخن دستگاہ سے
٭٭٭
ابھی سے آفت جاں ہے ادا ادا تیری
یہ ابتدا ہے تو کیا ہوگی انتہا تیری
مری سمجھ میں یہ قاتل نہ آج تک آیا
کہ قتل کرتی ہے تلوار یا ادا تیری
نقاب لاکھ چھپائے وہ چھپ نہیں سکتی
مری نظر میں جو صورت ہے دل ربا تیری
لہو کی بوند بھی اے تیر یار دل میں نہیں
یہ فکر ہے کہ تواضع کروں میں کیا تیری
سنگھا رہی ہے مجھے غش میں نکہت گیسو
خدا دراز کرے عمر اے صبا تیری
ادا پہ ناز تو ہوتا ہے سب حسینوں کو
فضا کو ناز ہے جس پر وہ ہے ادا تیری
جلیلؔ یار کے در تک گزر نہیں نہ سہی
ہزار شکر کہ ہے اس کے دل میں جا تیری
٭٭٭
اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
یہ قفس یہ آشیانا اور ہے
موت کا آنا بھی دیکھا بارہا
پر کسی پر دل کا آنا اور ہے
ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی
اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے
درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی
بندہ پرور یہ فسانا اور ہے
رات بھر میں شمع محفل جل بجھی
عاشقوں کا دل جلانا اور ہے
ہم کہاں پھر باغباں گلشن کہاں
ایک دو دن آب و دانا اور ہے
بھولی بھولی ان کی باتیں ہو چکیں
اب خدا رکھے زمانا اور ہے
چھوڑ دوں کیوں کر در پیر مغاں
کوئی ایسا آستانا اور ہے
یار صادق ڈھونڈتے ہو تم جلیلؔ
مشفق من یہ زمانا اور ہے
٭٭٭
اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
بیٹھا ہوں میں بھی دیدۂ پر نم لیے ہوئے
ساقی کی چشم مست کا عالم نہ پوچھیے
اک اک نگاہ ہے کئی عالم لیے ہوئے
شبنم نہیں گلوں پہ یہ قطرے ہیں اشک کے
گزرا ہے کوئی دیدۂ پر نم لیے ہوئے
طے کر رہا ہوں عشق کی دشوار منزلیں
آہ دراز و گریۂ پیہم لیے ہوئے
اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے
سنتا ہوں ان کی بزم میں چھلکیں گے آج جام
میں بھی چلا ہوں دیدۂ پر نم لیے ہوئے
موتی کی قدر سب کو ہے پھولوں کو دیکھیے
کیا ہنس رہے ہیں قطرۂ شبنم لیے ہوئے
جوش جنوں میں لطف تصور نہ پوچھیے
پھرتے ہیں ساتھ ساتھ انہیں ہم لیے ہوئے
دل کی لگی نہ ان سے بجھی آج تک جلیلؔ
دریا ہیں گرچہ دیدۂ پر نم لیے ہوئے
٭٭٭
آج تک دل کی آرزو ہے وہی
پھول مرجھا گیا ہے بو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تو ہے وہی
جو ہو پوری وہ آرزو ہی نہیں
جو نہ پوری ہو آرزو ہے وہی
مان لیتا ہوں تیرے وعدے کو
بھول جاتا ہوں میں کہ تو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے وہی
صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تو ہے وہی
ہو گئی ہے بہار میں کچھ اور
ورنہ ساغر وہی سبو ہے وہی
عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمیِ ہائے جستجو ہے وہی
مے کدہ کا جلیلؔ رنگ نہ پوچھ
رقص جام و خم و سبو ہے وہی
٭٭٭
ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی
غضب تھا ان کا تلون کہ چار ہی دن میں
نگاہ لطف نگاہ عتاب ہو کے رہی
تری گلی کی ہوا دل کو راس کیا آتی
ہوا یہ حال کہ مٹی خراب ہو کے رہی
وہ آہ دل جسے سن سن کے آپ ہنستے تھے
خدنگ ناز کا آخر جواب ہو کے رہی
پڑی تھی کشت تمنا جو خشک مدت سے
رہین منت چشم پر آب ہو کے رہی
ہماری کشتیِ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی
کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو
اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی
وہ بزم عیش جو رہتی تھی گرم راتوں کو
فسانہ ہو کے رہی ایک خواب ہو کے رہی
جلیلؔ فصل بہاری کی دیکھیے تاثیر
گری جو بوند گھٹا سے شراب ہو کے رہی
٭٭٭
انہیں عادت ہمیں لذت ستم کی
ادھر شمشیر ادھر تقدیر چمکی
کہوں کیا درد دل کب سے بڑھا ہے
نگاہ لطف تم نے جب سے کم کی
قدم چومیں گے تیرے ہو کے پامال
چلیں گے چال ہم نقش قدم کی
یہاں تک ان کے وعدے جھوٹ نکلے
قسم کو بھی ہوئی حاجت قسم کی
وہ زلف مشک بو بکھری ہوئی تھی
کھلی چوری نسیم صبح دم کی
یہاں تک ان کو پاس راز خط تھا
کہ خامے کی زباں پہلے قلم کی
زمیں پر اس ادا سے پاؤں رکھا
کہ آنکھیں کھل گئیں نقش قدم کی
کہاں پیری میں وہ روشن بیانی
زباں تو ہے چراغ صبح دم کی
کہاں ہم اور کہاں بخشش ہماری
جلیلؔ اک موج بھی ابر کرم کی
٭٭٭
اور ان آنکھوں نے میرے دل کی حالت زار کی
ہو نہیں سکتی دوا بیمار سے بیمار کی
مہر کی ان پر ضرورت کیا ہے اے پیر مغاں
ایک اک خم پر لگی ہے آنکھ ہر مے خوار کی
خیر ہو یارب کہیں وہ خود نہ بن جائیں رقیب
آئینے پر آج پڑتی ہیں نگاہیں پیار کی
خون کر کے دل ہمارا پھر گئی وہ مست آنکھ
ایک ہی چلو میں نیت بھر گئی مے خوار کی
دید کے طالب تھے موسیٰ طور کو تھی کیا خبر
پھونک کر رکھ دے گی بجلی جلوۂ دیدار کی
جلوۂ محبوب سے خالی نہ دیکھا دل کوئی
آئینے ہیں سیکڑوں اور ایک صورت یار کی
ہو سبک رفتار کتنی ہی نسیم صبح دم
آنکھ کھل جاتی ہے پھر بھی نرگس بیمار کی
دختر رز نے دیے چھینٹے کچھ ایسے ساقیا
پانی پانی ہو گئی توبہ ہر اک مے خوار کی
کچھ پھلے پھولے نہ یہ نازک مضامیں اے جلیلؔ
بے کھلے مرجھا گئیں کلیاں مرے گل زار کی
٭٭٭
ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
ہم کو کیا اے مہ جبیں گر چاند پیشانی ہوئی
سرد مہری کا تری ساقی نتیجہ یہ ہوا
آگ کے مولوں جو بکتی تھی وہ مے پانی ہوئی
اللہ اللہ پھوٹ نکلا رنگ چاہت کا مری
زہر کھایا میں نے پوشاک آپ کی دھانی ہوئی
ہم کو ہو سکتا نہیں دھوکا ہجوم حشر میں
تیری صورت ہے ازل سے جانی پہچانی ہوئی
لے اڑی گھونگٹ کے اندر سے نگاہ مست ہوش
آج ساقی نے پلائی مے ہمیں چھانی ہوئی
جان کر دشمن جو لپٹے جان میں جاں آ گئی
بارک اللہ کس مزے کی تم سے نادانی ہوئی
رفتہ رفتہ دیدۂ تر کو ڈبویا اشک نے
پانی رستے رستے کشتی میری طوفانی ہوئی
کر گئی دیوانگی ہم کو بری ہر جرم سے
چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی
خون کی چادر مبارک با حیا تلوار کو
میان سے باہر نکل کر بھی نہ عریانی ہوئی
رات کو چھپ کر نکل جاتی ہے آنکھوں سے جلیلؔ
سیر دیکھو نیند بھی کمبخت سیلانی ہوئی
٭٭٭
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
وہ سنورتے ہیں مجھے اس کی ہے فکر
آرزو کس کی نکالی جائے گی
دل لیا پہلی نظر میں آپ نے
اب ادا کوئی نہ خالی جائے گی
آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
کیا کہوں دل توڑتے ہیں کس لیے
آرزو شاید نکالی جائے گی
گرمئ نظارہ بازی کا ہے شوق
باغ سے نرگس نکالی جائے گی
دیکھتے ہیں غور سے میری شبیہ
شاید اس میں جان ڈالی جائے گی
اے تمنا تجھ کو رو لوں شام وصل
آج تو دل سے نکالی جائے گی
فصل گل آئی جنوں اچھلا جلیلؔ
اب طبیعت کچھ سنبھالی جائے گی
٭٭٭
بہاریں لٹا دیں جوانی لٹا دی
تمہارے لیے زندگانی لٹا دی
صبا نے تو برسائے گل فصل گل میں
گھٹا نے مئے ارغوانی لٹا دی
اداؤں پہ کر دی فدا ساری ہستی
نگاہوں پہ دنیائے فانی لٹا دی
عجب دولت حسن پائی تھی دل نے
نہ مانی مری اک نہ مانی لٹا دی
نہ کھونا تھا غفلت میں عہد جوانی
عجب رات تھی یہ سہانی لٹا دی
نہ کی حسن کی قدر اے ماہ کامل
فقط رات بھر میں جوانی لٹا دی
حسینوں نے رنگینییِ خواب شیریں
سنی جب ہماری کہانی لٹا دی
عجب حوصلہ ہم نے غنچہ کا دیکھا
تبسم پہ ساری جوانی لٹا دی
جلیلؔ آپ کی شاعری پر کسی نے
نگاہوں کی جادو بیانی لٹا دی
٭٭٭
پلا ساقی بہار آئے نہ آئے
گھٹا پھر بار بار آئے نہ آئے
تجھے ہم دیکھنے آئیں گے سو بار
کوئی دیوانہ وار آئے نہ آئے
کہے جائیں گے درد دل ہم اپنا
کسی کو اعتبار آئے نہ آئے
وہ آ جائیں ادھر کھولے ہوئے بال
نسیم مشک بار آئے نہ آئے
تمہیں آرام سے سونا مبارک
مجھے شب بھر قرار آئے نہ آئے
ہوائے شوق میں اب اڑ چلے ہم
ہوائے کوئے یار آئے نہ آئے
ترے دل میں مسرت کے کھلیں پھول
مرے دل میں بہار آئے نہ آئے
جلیلؔ اب مے کشی کا لطف اٹھاؤ
پھر ابر نو بہار آئے نہ آئے
٭٭٭
جام جب تک نہ چلے ہم نہیں ٹلنے والے
آج ساقی ترے فقرے نہیں چلنے والے
نام روشن جو ہوا حسن میں پروانوں سے
شمع کہتی ہے کہ ٹھنڈے رہیں جلنے والے
کیا حکومت مرے ساقی کی ہے مے خانے میں
جتنے ساغر ہیں اشارے پہ ہیں چلنے والے
فتنے اٹھ اٹھ کے یہ کہتے ہیں کہ او مست خرام
ہم بھی سائے کی طرح ساتھ ہیں چلنے والے
فائدہ کیا ہوس دل کے بڑھانے سے جلیلؔ
وہی نکلیں گے جو ارماں ہیں نکلنے والے
٭٭
جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
یاد کیا کیا تری مستانہ ادا آئی ہے
ایسے نازک کبھی پابند حنا ہوتے ہیں
ہاتھ دھو ڈالے ہیں رنگت جو ذرا آئی ہے
تم بھی رخسار پہ زلفوں کو ذرا بکھرا دو
کالی کالی سر گلزار گھٹا آئی ہے
حسن اخلاق بھی ہے حسن جوانی کی طرح
جھک گئی ہیں تری آنکھیں جو حیا آئی ہے
ہائے وہ کھول کے جوڑا یہ کسی کا کہنا
آئیے سو رہیں اب رات سوا آئی ہے
سچ ہے تم نے جو لگایا نہیں منہ غنچوں کو
انہیں پھر کس کے تبسم کی ادا آئی ہے
کس کا دل خون نہیں ہے چمن عالم میں
پتی پتی سے ہمیں بوئے وفا آئی ہے
رات بھر گریۂ شبنم سے جو غنچے تھے اداس
صبح ہوتے ہی ہنسانے کو صبا آئی ہے
شعر خوانی پہ تری سب کو گماں ہے کہ جلیلؔ
بزم میں روح امیر الشعرا آئی ہے
٭٭٭
چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
حشر کا جس پہ دم نکلتا ہے
اشک خوں کیوں نہ آنکھ سے ٹپکیں
دل کا ارماں یوں ہی نکلتا ہے
ساقیا ایک جام کے چلتے
کتنے پیاسوں کا کام چلتا ہے
میں کسی سرزمیں کا قصد کروں
آسماں ساتھ ساتھ چلتا ہے
ہائے گردش وہ چشم ساقی کی
میں یہ سمجھا کہ جام چلتا ہے
سرو ہے نام نخل الفت کا
پھولتا ہے کبھی نہ پھلتا ہے
کیا زمانہ بھی ہے اسیر ترا
کہ اشارے پہ تیرے چلتا ہے
تیر دل کا نہ کھینچ رہنے دے
لطف صحبت ہے جی بہلتا ہے
شعر رنگیں نہ سمجھو ان کو جلیلؔ
طوطی فکر لعل اگلتا ہے
٭٭٭
چاہیئے دنیا نہ عقبیٰ چاہیئے
جو تجھے چاہے اسے کیا چاہیئے
زندگی کیا جو بسر ہو چین سے
دل میں تھوڑی سی تمنا چاہیئے
تاب نظارہ ان آنکھوں کو کہاں
دیکھنے والوں سے پردا چاہیئے
مجھ کو دیکھو اور میری آرزو
اک حسیں اچھے سے اچھا چاہیئے
وہ بہت دیر آشنا ہے اے جلیلؔ
آشنائی کو زمانا چاہیئے
٭٭٭
حسن کی لائی ہوئی ایک بھی آفت نہ گئی
دل کی دھڑکن نہ گئی درد کی شدت نہ گئی
سایہ تک بھاگ گیا دیکھ کے وحشت گھر کی
کیا بلا ہے کہ الٰہی شب فرقت نہ گئی
حسن دل کش اسے کہتے ہیں کہ ہم ساری عمر
ان کو دیکھا کیے دیدار کی حسرت نہ گئی
اب بھی اس راہ گزر میں ہے جہاں تھی پہلے
سچ تو یہ ہے نہ کہیں آئی قیامت نہ گئی
میں زمانے میں ہوں آئینۂ تصویر جلیلؔ
کہ تصور سے کبھی یار کی صورت نہ گئی
٭٭٭
حسن میں آفت جہاں تو ہے
چال میں خنجر رواں تو ہے
دونوں ظالم ہیں فرق اتنا ہے
آسماں پیر ہے جواں تو ہے
بے کہے دل کا حال روشن ہے
اے خموشی مری زباں تو ہے
اپنے گھر میں خیال میں دل میں
ایک ہو کر کہاں کہاں تو ہے
دونوں جانب سے پردہ داری ہے
میں ہوں گمنام بے نشاں تو ہے
سب سے پیاری ہے جان دنیا میں
جان سے بڑھ کے جان جاں تو ہے
آئینے پر نہیں یہ چشم کرم
اپنی صورت کا قدر داں تو ہے
کیا برابر کا جوڑ ہے یہ جلیلؔ
یار نازک ہے ناتواں تو ہے
٭٭٭
دل گیا دل لگی نہیں جاتی
روتے روتے ہنسی نہیں جاتی
آنکھیں ساقی کی جب سے دیکھی ہیں
ہم سے دو گھونٹ پی نہیں جاتی
کبھی ہم بھی تڑپ میں بجلی تھے
اب تو کروٹ بھی لی نہیں جاتی
ان کو سینے سے بھی لگا دیکھا
ہائے دل کی لگی نہیں جاتی
بات کرتے وہ قتل کرتا ہے
بات بھی جس سے کی نہیں جاتی
آپ میں آئے بھی تو کیا آئے
لذت بے خودی نہیں جاتی
ہیں وہی مجھ سے کاوشیں دل کی
دوست کی دشمنی نہیں جاتی
ہو گئے پھول زخم دل کھل کر
نہیں جاتی ہنسی نہیں جاتی
٭٭٭
دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
میرے دل سوز مرے چاہنے والے نہ گئے
اپنے ماتھے کی شکن تم سے مٹائی نہ گئی
اپنی تقدیر کے بل ہم سے نکالے نہ گئے
تذکرہ سوز محبت کا کیا تھا اک بار
تا دم مرگ زباں سے مری چھالے نہ گئے
شمع رو ہو کے فقط تم نے جلانا سیکھا
میرے غم میں کبھی دو اشک نکالے نہ گئے
آج تک ساتھ ہیں سرکار جنوں کے تحفے
سر کا چکر نہ گیا پاؤں کے چھالے نہ گئے
وہ بھلا پیچ نکالیں گے مری قسمت کے
اپنے بالوں کے تو بل ان سے نکالے نہ گئے
کوئی شب ایسی نہ گزری کہ بنا کر گیسو
سیکڑوں بل مری تقدیر میں ڈالے نہ گئے
ہم سفر ایسے وفادار کہاں ملتے ہیں
تیرے وحشی کے قدم چھوڑ کے چھالے نہ گئے
اپنا دیوان مرقع ہے حسینوں کا جلیلؔ
نکتہ چیں تھک گئے کچھ عیب نکالے نہ گئے
٭٭٭
دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے
آزاد ہر خیال سے مست خیال ہے
کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال
مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے
فتویٰ دیا ہے مفتیِ ابر بہار نے
توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو رات کو
ان ساغروں میں بوئے شراب وصال ہے
برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو
پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے
آنکھیں لڑا کے ان سے ہم آفت میں پڑ گئے
پلکوں کی ہر زبان پہ دل کا سوال ہے
بت کہہ دیا جو میں نے تو اب بولتے نہیں
اتنی سی بات کا تمہیں اتنا خیال ہے
میں دامن نیاز میں اشک چکیدہ ہوں
کوئی اٹھا کے دیکھ لے اٹھنا محال ہے
پوچھا جو ان سے جانتے ہو تم جلیلؔ کو
بولے کہ ہاں وہ شاعر نازک خیال ہے
٭٭٭
دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چل گئی
ہم تم ملے نہ تھے تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
ساقی تری شراب جو شیشے میں تھی پڑی
ساغر میں آ کے اور بھی سانچے میں ڈھل گئی
دشمن سے پھر گئی نگہ یار شکر ہے
اک پھانس تھی کہ دل سے ہمارے نکل گئی
پینے سے کر چکا تھا میں توبہ مگر جلیلؔ
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی
٭٭٭
زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
یہ دریا ہے کہ بہتا جا رہا ہے
وہ اٹھے درد اٹھا حشر اٹھا
مگر دل ہے کہ بیٹھا جا رہا ہے
لگی تھی ان کے قدموں سے قیامت
میں سمجھا ساتھ سایا جا رہا ہے
زمانے پر ہنسے کوئی کہ روئے
جو ہونا ہے وہ ہوتا جا رہا ہے
مرے داغ جگر کو پھول کہہ کر
مجھے کانٹوں میں کھینچا جا رہا ہے
بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے
گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے
رواں ہے عمر اور انسان غافل
مسافر ہے کہ سوتا جا رہا ہے
سر میت ہے یہ عبرت کا نوحہ
محبت کا جنازہ جا رہا ہے
جلیلؔ اب دل کو اپنا دل نہ سمجھو
کوئی کر کے اشارا جا رہا ہے
٭٭٭
شباب ہو کہ نہ ہو حسن یار باقی ہے
یہاں کوئی بھی ہو موسم بہار باقی ہے
کچھ ایسی آج پلائی ہے چشم ساقی نے
نہ ہوش ہے نہ کوئی ہوشیار باقی ہے
پکارتا ہے جنوں ہوش میں جو آتا ہوں
ٹھہر ٹھہر ابھی فصل بہار باقی ہے
کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے
کسی شراب کی ہو کیا طلب جلیلؔ مجھے
مئے الست کا اب تک خمار باقی ہے
٭٭٭
ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائے گی
پتھر کی چوٹ دل سے اٹھائی نہ جائے گی
ہونے دو ہو رہے ہیں جو الفت کے تذکرے
بگڑو گے تم تو بات بنائی نہ جائے گی
کہہ دو یہ شمع سے کہ عبث تو ہے اشک بار
پانی سے دل کی آگ بجھائی نہ جائے گی
چلمن ہو یا نقاب ہو یا پردۂ حیا
صورت تری کسی سے چھپائی نہ جائے گی
ممکن ہے تیر ناز سے دل کو بچا بھی لوں
لیکن نظر کی چوٹ بچائی نہ جائے گی
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسن یار
کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی
توبہ کو منہ لگا کے خجل ہو گے تم جلیلؔ
جام و سبو سے آنکھ ملائی نہ جائے گی
٭٭٭
عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
یہ سن غضب کا ہے یہ جوانی بلا کی ہے
سچ پوچھیے تو نالۂ بلبل ہے بے خطا
پھولوں میں ساری آگ لگائی صبا کی ہے
دل ہے عجیب گل چمن روزگار میں
رنگت تو پھول کی ہے مگر بو وفا کی ہے
خلوت میں کیوں یہ ساتھ ہیں سب کو الگ کرو
شوخی کا ہے نہ کام نہ حاجت حیا کی ہے
وہ ہاتھ ان کے چومتی ہے میں ہوں پائمال
یہ ہیں مرے نصیب وہ قسمت حنا کی ہے
انجام کیا ہو داغ محبت کا دیکھیے
سینے میں ابتدا سے جلن انتہا کی ہے
موسم یہی تو پینے پلانے کا ہے جلیل
مے خوار باغ باغ ہیں آمد گھٹا کی ہے
٭٭٭
عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
کچھ حقیقت نہیں اتنی ہے حقیقت میری
دیکھتا میں اسے کیوں کر کہ نقاب اٹھتے ہی
بن کے دیوار کھڑی ہو گئی حیرت میری
روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو
میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری
سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے
چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری
آئینے سے انہیں کچھ انس نہیں بات یہ ہے
چاہتے ہیں کوئی دیکھا کرے صورت میری
میں یہ سمجھوں کوئی معشوق مرے ہاتھ آیا
میرے قابو میں جو آ جائے طبیعت میری
بوئے گیسو نے شگوفہ یہ نیا چھوڑا ہے
نکہت گل سے الجھتی ہے طبیعت میری
ان سے اظہار محبت جو کوئی کرتا ہے
دور سے اس کو دکھا دیتے ہیں تربت میری
جاتے جاتے وہ یہی کر گئے تاکید جلیلؔ
دل میں رکھیے گا حفاظت سے محبت میری
٭٭٭
غیر الفت کا راز کیا جانے
لطف ناز و نیاز کیا جانے
نیم جانوں پہ کیا گزرتی ہے
نرگس نیم باز کیا جانے
میرے طول شب جدائی کو
تیری زلف دراز کیا جانے
پاک بازانِ مے کدہ کا مقام
جو نہ ہو پاک باز کیا جانے
دل ہے اس پردہ میں کوئی ورنہ
شمع سوز و گداز کیا جانے
ہم جو مستی میں گرتے پڑتے ہیں
زاہد ایسی نماز کیا جانے
راہ الفت نہ جس نے طے کی ہو
وہ نشیب و فراز کیا جانے
جس کے دل میں نہ سوز ہو وہ جلیلؔ
کیف آواز ساز کیا جانے
٭٭٭
قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
یہی دانے کا دانا ہے یہی پانی کا پانی ہے
ملے تھے آج برسوں میں مگر اللہ کی قدرت
وہی صورت وہی رنگت وہی جوش جوانی ہے
ہمیں وہ جان بھی لیں گے ہمیں پہچان بھی لیں گے
اتر جائے گا سب نشہ ابھی چڑھتی جوانی ہے
کلیجے سے لگا رکھوں نہ کیوں درد جدائی کو
یہی تو اک دل مرحوم کی باقی نشانی ہے
یہ سچ ہے یا غلط ہم نے سنا ہے مرنے والوں سے
ترے خنجر میں قاتل چشمۂ حیواں کا پانی ہے
بتائے جاتے ہیں اوصاف وہ اپنی اداؤں کے
یہ شان دل رباعی ہے یہ طرز جاں ستانی ہے
یہاں کیا جانیے کس طرح دیکھا ہے تصور میں
وہاں اب تک وہی پردے کے اندر لن ترانی ہے
کریں تسخیر آؤ مل کے ہم تم دونوں عالم کو
ادھر جادو نگاہی ہے ادھر جادو بیانی ہے
جلیلؔ اک شعر بھی خالی نہ پایا درد و حسرت سے
غزل خوانی نہیں یہ در حقیقت نوحہ خوانی ہے
٭٭٭
کھو کے دل میرا تمہیں نا حق پشیمانی ہوئی
تم سے نادانی ہوئی یا مجھ سے نادانی ہوئی
اللہ اللہ پھوٹ نکلا رنگ چاہت کا مری
زہر کھایا میں نے پوشاک آپ کی دھانی ہوئی
ہم کو ہو سکتا نہیں دھوکا ہجوم حشر میں
تیری صورت ہے ازل سے جانی پہچانی ہوئی
اے صبا میں اور کیا دوں قبر مجنوں کے لئے
خاک تھوڑی سی چڑھا دینا مری چھانی ہوئی
یار کے ہاتھوں ہوا جو کچھ ہوا اے تیغ ناز
تیری عریانی ہوئی یا میری قربانی ہوئی
کر گئی دیوانگی ہم کو بری ہر جرم سے
چاک دامانی سے اپنی چاک دامانی ہوئی
باڑھ دی بانکی اداؤں نے جو خنجر کو جلیلؔ
ذبح کرنے میں مرے قاتل کو آسانی ہوئی
٭٭٭
کہوں کیا اضطراب دل زباں سے
رہے جاتے ہیں سب پہلو بیاں سے
انہیں چہکا رہا ہوں چاند کہہ کر
عوض لینا ہے مجھ کو آسماں سے
ہم ایسے ناتواں وہ ایسے نازک
اٹھائے کون پردہ درمیاں سے
شمیم گل نے بڑھ کر حال مارا
قدم باہر جو رکھا آشیاں سے
تڑپ میری ترقی کر رہی ہے
زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے
خدا رکھے چمن کا پھول ہو تم
ہنسو کھیلو نسیم بوستاں سے
نگاہ گل سے بلبل یوں گری ہے
گرے جس طرح تنکا آشیاں سے
زمین شعر ہم کرتے ہیں آباد
چلے آتے ہیں مضموں آسماں سے
بڑا لنگر تھا شعر و شاعری کا
اٹھا کیوں کر جلیلؔ ناتواں سے
٭٭٭
کیا جلد دن بہار کے یارب گزر گئے
بجلی ہوا سے پوچھ رہی ہے کدھر گئے
شاید اسی غرض سے چڑھے تھے نگاہ پر
وہ راہ پا کے آنکھ سے دل میں اتر گئے
وعدے کا نام لب پہ نہ آئے پیام بر
کہنا فقط یہی کہ بہت دن گزر گئے
اچھوں کا ہے بگاڑ بھی بہتر بناؤ سے
بکھرے تو اور بھی ترے گیسو سنور گئے
اک جلوہ گاہ حسن تھی محشر نہ تھا جلیلؔ
کیا کیا حسیں ہماری نظر سے گزر گئے
٭٭٭
کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے
مجھ پہ تلوار کا احساں نہ ہوا خوب ہوا
مار ڈالا تری آنکھوں نے اشارا کر کے
نگہ شوق کو مانع نہیں پردہ کوئی
آپ جائیں گے کہاں آنکھ سے پردا کر کے
تم نے کی وعدہ خلافی تو کوئی بات نہیں
سبھی معشوق مکر جاتے ہیں وعدا کر کے
ہر مرض کے لیے خالق نے دوا پیدا کی
مجھ کو بیمار کیا تجھ کو مسیحا کر کے
اڑ گیا رنگ جو مہندی کا تو کیا غم ان کو
پھر جما لیں گے ابھی خون تمنا کر کے
شکر اس بندہ نوازی کا ادا کیا ہو جلیلؔ
مرے سرکار نے رکھا مجھے اپنا کر کے
٭٭٭
مار ڈالا مسکرا کر ناز سے
ہاں مری جاں پھر اسی انداز سے
کس نے کہہ دی ان سے میری داستاں
چونک چونک اٹھتے ہیں خواب ناز سے
پھر وہی وہ تھے وہاں کچھ بھی نہ تھا
جس طرف دیکھا نگاہ ناز سے
درد دل پہلے تو وہ سنتے نہ تھے
اب یہ کہتے ہیں ذرا آواز سے
مٹ گئے شکوے جب اس نے اے جلیلؔ
ڈال دیں بانہیں گلے میں ناز سے
٭٭٭
محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے
کشش سے کب ہے خالی تشنہ کامی تشنہ کاموں کی
کہ بڑھ کر موجۂ دریا لب ساحل سے ملتا ہے
لٹاتے ہیں وہ دولت حسن کی باور نہیں آتا
ہمیں تو ایک بوسہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے
گلے مل کر وہ رخصت ہو رہے ہیں ہائے کیا کہنے
یہ حالت ہے کہ بسمل جس طرح بسمل سے ملتا ہے
شہادت کی خوشی ایسی ہے مشتاق شہادت کو
کبھی خنجر سے ملتا ہے کبھی قاتل سے ملتا ہے
وہ مجھ کو دیکھ کر کچھ اپنے دل میں جھینپ جاتے ہیں
کوئی پروانہ جب شمع سر محفل سے ملتا ہے
خدا جانے غبار راہ ہے یا قیس ہے لیلیٰ
کوئی آغوش کھولے پردۂ محمل سے ملتا ہے
جلیلؔ اس کی طلب سے باز رہنا سخت غفلت ہے
غنیمت جانیے اس کو کہ وہ مشکل سے ملتا ہے
٭٭٭
مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
سو رہے ہیں پاؤں پھیلائے ہوئے آرام سے
اور تو مطلب نہیں کچھ ہم کو دور جام سے
ہاں عوض لیتا ہے ساقی گردش ایام سے
گرچہ ترک آشنائی کو زمانہ ہو گیا
لیکن اب تک چونک اٹھتے ہیں وہ میرے نام سے
اشتیاق مے کشی کچھ مے کشی سے کم نہیں
ہم تو ساقی مست ہو جاتے ہیں خالی جام سے
مے کدے کا راز پردے ہی میں رہنا خوب تھا
دیکھ ساقی شیشہ کچھ کہتا ہے تھک کر جام سے
زلف سنبل نکہت گل موج سبزہ موج آب
باغ میں کوئی جگہ خالی نہ دیکھی دام سے
ہم فقیر مے کدہ ساقی ہمیں کیا چاہیئے
ہے وہی کافی چھلک جاتی ہے جتنی جام سے
بے نشاں تجھ کو سمجھ کر صبر آ جاتا مجھے
پر یہ مشکل ہے کہ میں واقف ہوں تیرے نام سے
کیا خدا کی شان ہے جن کا وظیفہ تھا جلیلؔ
آج وہ کہتے ہیں میں واقف نہیں اس نام سے
٭٭٭
مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
کام پتھر کا کیا شیشۂ صہبا تو نے
میں نے کی جامہ دری اور انہیں شکوہ ہے
کر دیا چاک مرے حسن کا پردا تو نے
کس قدر ہوش ربا ہے نگہ مست تری
اس کو دیکھا نہ سنبھلتے جسے دیکھا تو نے
تو نگاہوں میں تصور میں جگر میں دل میں
فائدہ کیا جو کیا آنکھ سے پردا تو نے
ہم نہ کہتے تھے نہیں طاقت دیدار جلیلؔ
کیا ہوا جلوہ گہ ناز میں دیکھا تو نے
٭٭٭
موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
اے مست ناز تم تو مرے ہوش ہو گئے
سوتے میں وہ جو مجھ سے ہم آغوش ہو گئے
جتنے گلے تھے خواب فراموش ہو گئے
وعدے کی رات آئی قضا اس ادا کے ساتھ
دھوکے میں تیرے اس سے ہم آغوش ہو گئے
برسوں ہوئے نہ تم نے کیا بھول کر بھی یاد
وعدے کی طرح ہم بھی فراموش ہو گئے
آنکھوں میں بھی جو آئے تو اللہ رے حجاب
بن کر نظر نظر سے وہ روپوش ہو گئے
کیا کیا زباں دراز چراغ انجمن میں تھے
دامن کشاں تم آئے تو خاموش ہو گئے
یاران رفتہ بات کا دیتے نہیں جواب
کیا کہہ دیا فضا نے کہ خاموش ہو گئے
آئی شب وصال تو نیند آ گئی انہیں
ہم ہوش میں جو آئے وہ مدہوش ہو گئے
مر کر تمام سر سے ٹلیں آفتیں جلیلؔ
ہم جان دے کے سب سے سبک دوش ہو گئے
٭٭٭
نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے
دل بیتاب کو پہلو میں مچلتے کیا دیر
سن لے اتنا کسی کافر کا جمال اچھا ہے
بات الٹی وہ سمجھتے ہیں جو کچھ کہتا ہوں
اب کے پوچھا تو یہ کہہ دوں گا کہ حال اچھا ہے
صحبت آئینے سے بچپن میں خدا خیر کرے
وہ ابھی سے کہیں سمجھیں نہ جمال اچھا ہے
مشتری دل کا یہ کہہ کہہ کے بنایا ان کو
چیز انوکھی ہے نئی جنس ہے مال اچھا ہے
چشم و دل جس کے ہوں مشتاق وہ صورت اچھی
جس کی تعریف ہو گھر گھر وہ جمال اچھا ہے
یار تک روز پہنچتی ہے برائی میری
رشک ہوتا ہے کہ مجھ سے مرا حال اچھا ہے
اپنی آنکھیں نظر آتی ہیں جو اچھی ان کو
جانتے ہیں مرے بیمار کا حال اچھا ہے
باتوں باتوں میں لگا لائے حسینوں کو جلیلؔ
تم کو بھی سحر بیانی میں کمال اچھا ہے
٭٭٭
ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
لذت زندگی نہیں آتی
جیسے اس کا کبھی یہ گھر ہی نہ تھا
دل میں برسوں خوشی نہیں آتی
جب سے بلبل اسیر دام ہوئی
کسی گل کو ہنسی نہیں آتی
سب شرابی مجھے کہیں تجھ کو
شرم اے بے خودی نہیں آتی
یوں تو آتی ہیں سیکڑوں باتیں
وقت پر ایک بھی نہیں آتی
سوچتا کیا ہے پی بھی لے زاہد
کچھ قیامت ابھی نہیں آتی
انتہا غم کی اس کو کہتے ہیں
زخم کو بھی ہنسی نہیں آتی
کوندتی ہے ہزار رنگ سے برق
پھر بھی شوخی تری نہیں آتی
صرف جب تک نہ خون دل ہو جلیلؔ
رنگ پر شاعری نہیں آتی
٭٭٭
ہم تو قصور وار ہوئے آنکھ ڈال کے
پوچھو کہ نکلے کیوں تھے وہ جوبن نکال کے
آنکھوں سے خواب کا ہو گزر کیا مجال ہے
پہرے بٹھا دیے ہیں کسی کے خیال کے
دل میں وہ بھیڑ ہے کہ ذرا بھی نہیں جگہ
آپ آئیے مگر کوئی ارماں نکال کے
صد شکر وصف قد پہ وہ اتنا تو پھول اٹھے
مضموں بلند ہیں مرے عالی خیال کے
لذت یہی کھٹک کی جو ہے راہ عشق میں
رکھ لوں گا دل میں پاؤں کے کانٹے نکال کے
دل رہ گیا الجھ کے نگاہوں کے تار میں
اچھا وہ جان ڈال گئے آنکھ ڈال کے
سنیے تو اک ذرا مرے اشعار درد ناک
لایا ہوں میں کلیجے کے ٹکڑے نکال کے
آئینہ ہے جو ان کا مصاحب تو کیا ہوا
ہم بھی کبھی تھے دیکھنے والے جمال کے
لکھی ہے کھا کے خون جگر یہ غزل جلیلؔ
مصرع نہیں ہیں شعر کے ٹکڑے ہیں لال کے
٭٭٭
وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
قمر بھی ہے مرے پہلو میں آفتاب بھی ہے
یہ حسن کی نہیں جادوگری تو پھر کیا ہے
کہ تیری آنکھ میں شوخی بھی ہے حجاب بھی ہے
کسی کو تاب کہاں ہے کہ تجھ کو دیکھ سکے
جو نور ہے ترے رخ پر وہی نقاب بھی ہے
ثبوت عشق کو یہ دو گواہ کافی ہیں
جگر میں داغ بھی ہے دل میں اضطراب بھی ہے
غرور حسن تجھے جس قدر ہو زیبا ہے
خدا کے فضل سے صورت بھی ہے شباب بھی ہے
ستم کی چال ستم کی ادا ستم کی نگاہ
ترے ستم کا ستم گر کوئی حساب بھی ہے
مرے لیے نہیں پینے کی کچھ کمی ساقی
کہ چشم مست بھی ہے ساغر شراب بھی ہے
جلیلؔ نے تمہیں چاہا تو کیا گناہ کیا
تمہیں بتاؤ تمہارا کوئی جواب بھی ہے
٭٭٭
یہ کہہ گیا بت ناآشنا سنا کے مجھے
کہ آپ میں نہیں رہتا ہے کوئی پا کے مجھے
نقاب کہتی ہے میں پردۂ قیامت ہوں
اگر یقین نہ ہو دیکھ لو اٹھا کے مجھے
ملوں گا خاک میں آنسو کی طرح یاد رہے
ملو نہ آنکھ کہیں آنکھ سے گرا کے مجھے
ادا سے کھینچ رہا ہے کماں وہ تیر انداز
قضا پکار رہی ہے ذرا بچا کے مجھے
تمہارے واسطے اس دل کا مول ہی کیا ہے
ادا سے دیکھ لو اک دن نظر اٹھا کے مجھے
ترے حساب میں تیری قبا کا دامن ہوں
کہ جب مزاج میں آیا چلا لٹا کے مجھے
میں ڈر رہا ہوں تمہاری نشیلی آنکھوں سے
کہ لوٹ لیں نہ کسی روز کچھ پلا کے مجھے
بلند نام نہ ہوگا ستم شعاری سے
تم آسمان نہ ہو جاؤ گے ستا کے مجھے
بتوں کو تاکتے گزری ہے شرم آئے گی
جلیلؔ لے نہ چلو سامنے خدا کے مجھے
٭٭٭
یوں نہ ٹپکا تھا لہو دیدۂ تر سے پہلے
دیکھنا آگ لگی پھر اسی گھر سے پہلے
جیسے جیسے در دل دار قریب آتا ہے
دل یہ کہتا ہے کہ پہنچوں میں نظر سے پہلے
نامۂ یار پڑھوں میں ابھی جلدی کیا ہے
نامہ بر کو تو لگا لوں میں جگر سے پہلے
بے حجابی جو سہی ہے تری شوخ آنکھوں کی
رسم پردے کی اٹھے گی اسی گھر سے پہلے
اے جلیلؔ آپ بھی کس دھیان میں ہیں خیر تو ہے
خواہش قدر ہنر کسب ہنر سے پہلے
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں