اقبال کی ایک پرستار : سیدہ اختر حیدر آبادی
ڈاکٹر معین الدین عقیل
کلام اقبال کی مقبولیت خود ان کے اپنے زمانے میں ایک مثالی حیثیت اختیار کر چکی تھی کہ اس کے مظاہر اور اس کی مثالیں، بالخصوص اقبال کی ملی اور قومی موضوعات پر تحریر کردہ نظموں کے تعلق سے متنوع ہیں۔ مسلمانان جنوبی ایشیا کی سیاسی اور قومی تحریکوں کے فروغ اور سیاسی و سماجی بیداری کے عرصے میں تو اقبال کی متعدد نظمیں ان تحریکوں اور جذبات و احساسات کا سہارا بھی رہی ہیں۔ اس ضمن میں کم از کم بلکہ محض ایک نظم ’’ شکوہ‘‘ اور ساتھ ہی ’’جواب شکوہ‘‘ کی مثال کافی ہے۔۔۔۔ جس کے زیر اثر بھی اور رد عمل و جواب میں بھی متعدد نظمیں لکھی گئیں۔ [1]
یہ کلام اقبال کی مقبولیت ہی تھی کہ جس کے نہ صرف موضوعات و مضامین نے مسلم عوام کو متاثر کیا اور اپنی جانب کھینچا بلکہ اس کے اسلوب اور لب و لہجے نے عام شاعروں کو بھی متاثر کیا اور یہی نہیں بلکہ انھیں کلام اقبال کی مختلف صورتوں میں اور متنوع ہیئت میں تضمین پر بھی مجبور کر دیا۔ چنانچہ اقبال کے اسلوب اور لب و لہجے کو، خصوصاً معاصر شعراء نے، اس طور پر اختیار کرنے کی کوشش کی کہ جو نہ صرف موضوعات، پیرایہ اظہار، لب و لہجے اور ہیئت سے بڑھ کر طباعت کے لحاظ سے بھی شعری مجموعوں کے اس صوری انداز اور جسامت میں بھی نظر آیا جس کے مطابق اقبال کے شعری مجموعے چھپتے رہے۔ یعنی متعدد شعراء نے اسلوب اور لب و لہجے اور موضوعات ہی نہیں اپنے مجموعوں کی طباعت اور ا ن کے صوری حسن کو وہی انداز دینے کی کوشش کی، جو اقبال کے شعری مجموعوں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، پیام مشرق اور ارمغان حجاز وغیرہ کا رہا۔
تضمیناتِ اقبال کے ضمن میں محققینِ اقبال کے لیے یہ ایک بڑا موضوعِ مطالعہ و تحقیق ہے کہ اقبال کے اپنے عہد سے اب تک اقبال کا کلام یا اس کی جزئیات نے کن کن شاعروں کو اور کس کس مرتبے کے شاعروں کو ان پر تضمین لکھنے پر آمادہ یا مجبور کر دیا اور ایسی تضمینات کی نوعیت، ہیئت اور معیار کیا رہا؟[2] اس حوالے سے تخلیقی سطح پر ایک نمایاں اور منتخب مثال اقبال کی ایک قریبی معاصر، بلکہ پرستار سیدہ اختر حیدر آبادی کی ہے، جن کی تخلیق کردہ تضمیناتِ اقبال کا ایک مکمل مجموعہ اختر و اقبال (یعنی تضمین بر کلام اقبال) ۱۹۴۸ء میں نسیم بک ڈپو، لکھنو سے شائع بھی ہوا تھا۔
اختر و اقبال کم یاب ہے اور راقم الحروف کو ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز(ٹوکیو، جاپان) کے مرکزی کتب خانے میں دستیاب ہوا تھا۔ اس نسخے کو سیدہ اختر نے ممتاز محقق سید نصیر الدین ہاشمی کو مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو دستخط کے ساتھ تحفتاً پیش کیا تھا۔ یہ مجموعہ بہ اہتمام زہرہ سخن اکاڈیمی، فردوس اختر، ٹپکا پور (کان پور) اور زہرہ سخن اکاڈیمی سبزہ زار اختر، السور (بنگلور) مرتب ہوا تھا۔ اس مجموعے پر سیدہ اختر کے نام کے ساتھ ’’زہرۂ سخن‘‘ ، [3] ’’ناہیدِ سخن‘‘ اور ’’خطیبہ ہند‘‘ لکھا جانا ان کی سماجی مقبولیت اور سرگرمیوں کا ایک مظہر ہے۔ ’’خطیبہ ہند‘‘ کا خطاب انھیں مولانا عبد الحامد بدایونی نے ۱۹۳۷ء میں صوبائی مسلم لیگ کے ایک جلسے میں ان کی ایک تقریر سن کر دیا تھا۔ [4]
معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ اختر نے بھرپور ادبی اور سماجی زندگی گزاری ہے۔ وہ بحیثیت شاعرہ اور سماجی و سیاسی کارکن بہت نمایاں اور ممتاز رہیں اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش تھیں۔ ان کا پیدائشی نام سیدہ نواب سردار بیگم تھا، لیکن سیدہ اختر حیدرآبادی کے نام سے معروف ہوئیں۔ ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا، لیکن ان کی پیدائش ۱۹۱۰ء میں حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ [5] چنانچہ وہ اپنے نام کے ساتھ حیدرآبادی بھی لکھتی رہیں۔ [6] شاعری کے ساتھ ساتھ خطابت میں بھی ممتاز رہیں، جو مذکورہ صدر خطاب، ’’خطیبۂ ہند‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ سماجی سرگرمیوں کے ذیل میں وہ سول ڈیفنس کونسل کی بھی رکن رہیں اور قومی و سیاسی سرگرمیوں کے تحت آل انڈیا مسلم لیگ کی سنٹرل سب کمیٹی کی رکن منتخب ہوتی رہیں۔ [7] اور بالآخر زنانہ مسلم لیگ کی صدر بھی نامزد ہوئیں۔ [8] ان کی شادی خان بہادر عبدالغنی، گورنمنٹ آرمی کنٹرکٹر اور مالک فرم شمس الدین اینڈ سنز، رئیس نصیر آباد، راجپوتانہ سے ہوئی تھی، جو بہت با اثر اور ذی حیثیت تھے۔ چنانچہ ان کے روابط معروف و ممتاز شعراء و نقادوں سے استوار تھے، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کے مجموعے اختر و اقبال کے آغاز میں ان کی شخصیت و شاعری کے بارے میں جو ش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، نیاز فتح پوری، ماہر القادری، سیماب اکبر آبادی وغیرہ کی آراء شامل ہیں۔ چونکہ ان اکابر ادب کی آراء غیر مدون ہیں اور توجہ کی مستحق ہیں اس لیے ان میں سے جوش، جگر اور ماہر کی تحریروں کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
جوش لکھتے ہیں :
ناہیدِ سخن
خطیبۂ ہند، ناہیدۂ سخن سیدہ اختر صدر ’’آل انڈیا زنانہ مسلم لیگ‘‘ کو میں ان کے بچپن سے جانتا ہوں اور میں ان کا ایک دیرینہ نیاز مند ہوں اور ان کو اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ ادب کے افق پر ستارہ بن کر طلوع نہیں ہوئی تھیں۔
اختر کے اندر ایک ایسی بے تاب روح کارفرما ہے جو عورتوں میں تو کیا ہزاروں مردوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اور ان کے جذبات اس قدر تند و تیز ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ’’نپولین‘‘ کی روح ان کے اندر حلول کیے ہوئے ہے۔
وہ شعر و ادب کے ساتھ ساتھ ’’قومی خدمات‘‘ کا بھی شدید جذبہ رکھتی ہیں اور جب کسی کام کا بیڑا اُٹھاتی ہیں تو اسے انجام دیے بغیر دم نہیں لیتیں۔ ایک عورت ہو کر و ہ خدمتِ خلق کے معاملات میں شدید سے شدید محنت کرتی ہیں لیکن تھکتی نہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔
اختر صاحبہ کی شاعری میں تصنع مطلق نہیں پایا جاتا۔ وہ جو کچھ محسوس کرتی ہیں اسی کو شعر کا پیکر دیتی ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ غزل کہتے ہیں وہ نظم نہیں کہہ سکتے اور جو نظم پر قادر ہوتے ہیں انھیں نثر پر قدرت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ اختر صاحبہ غزل، نظم اور نثر ان تینوں اصناف پر قادر ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک خاص دل کش اور کام کی صفت ان میں اور بھی ہے یعنی وہ ایک نہایت شیریں بیان اور جذبات انگیز خطیبہ بھی ہیں اور خطابت کے وقت ان کے الفاظ کی روانی، چہرے کی شگفتگی، آنکھوں کی شعلہ پرور چمک اور لہجہ کا پُر جوش بہاؤ سامعین کو ایک دوسرے عالم میں لے جاتا ہے۔
موصوفہ کا دل کش کلام سیدہ اختر و اقبال (تضمین بر کلام اقبال) آپ کے سامنے ہے۔ اسے ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ اس شاعرۂ نادرہ گفتار کے قلم نے رنگینیوں اور لطافتوں کے کیسے دریا بہائے ہیں اور اختر کے سینے میں کتنے جواہر جگمگا رہے ہیں۔
مجھے قوی اُمید ہے کہ ہندوستان کے ارباب ادب اس صحیفۂ درخشاں کو سرآنکھوں پر لیں گے اور ان کے آسمان شاعری پر یہ نجم درخشاں جو طلوع ہوا ہے اس کے نظارے سے اپنی آنکھوں کو روشن کریں گے۔
جوش (ملیح آبادی) بصد ہزار عجلت[9]
جگر مراد آبادی نے لکھا ہے:
کلامِ اختر
موجودہ اردو شعر و ادب نہایت ہی نازک دور سے گذر رہا ہے۔ مغربی استیلا و تسلط نے ہماری داخلی شاعری کا رخ قطعاً یا زیادہ سے زیادہ خارجی شاعری کی جانب پھیر دیا ہے۔ کتنی ہی عمدہ حسن کی شرح و تفصیل کرتے جائیے، حسن باقی نہیں رہے گا۔ اسی لیے اشارہ و کنایہ شعر کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی قوم اپنی خصوصیات سے اِبا کرنے لگے اور دوسری اقوام کی اندھا دھند تقلید، تو اندازہ کیجیے کہ وہ قوم ہلاکت کی طرف جا رہی ہے یا زندگی کی جانب؟
یاد رکھیے! آپ کی زندگی آپ کی خصوصیاتِ ملی و ملکی میں ہے نہ کہ تقلید و تائید میں۔ ایک بین الاقوامی کریٹک بہت آسانی کے ساتھ آپ کے شعر و ادب کا تجزیہ کر کے بتا دے گا کہ آپ کے شعر و ادب میں کہاں تک آپ کی انفرادیت ہے اور کہاں تک دوسروں کی۔ آپ کا شعر و ادب زبان کے اعتبار سے آپ کا سہی لیکن اندازِ بیان، خیالات و جذبات کے اعتبار سے آپ کا نہیں بلکہ اس قوم یا اقوام کا ہے جن کے آپ ’’ہز ماسٹرس وائس‘‘ بنے ہوئے ہیں یا بنتے جا رہے ہیں۔
ہماری جماعتِ ناقدین کو بے حد وسعتِ فکر و نظر کے ساتھ گرم و سرد ممالک کے اثرات کے ماتحت مشرقی و مغربی شعراء کا مزاج دریافت کرنا چاہیے! اور شعر و ادب کے متعلق ایک صراط مستقیم قوم و ملک کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ یہاں یہ موقع نہیں کہ زیادہ تحلیل و تفصیل سے بحث کی جائے۔
اس قدر اجمال و تفصیل یا تمہید کے بعد اصل موضوع یعنی خطیبۂ ہند، زہرۂ سخن سیدہ نواب سردار بیگم صاحبہ اختر کے متعلق کچھ کہنا ہے۔
شعر حقیقتاً شاعر کی ظاہر و باطن صورت کا آئینہ ہوتا ہے۔ اگر آپ دیکھ سکتے ہیں تو اس آئینہ میں شاعر کا ایک خدوخال واضح طور پر نظر آ جائے گا۔ تمام ادبی دنیا میں عام طور پر یوپی کی دنیا میں خاص طور پر بیگم صاحبہ سیدہ اختر کی شخصیت نہایت درجہ نمایاں اور با وقعت ہے۔ آپ کی سیاسی، ادبی، مذہبی اور قومی سرگرمیاں شاہد ہیں کہ آپ نے ہر موقع پر ایک غیر فانی شجاعت، عزت و بہادری، خود داری کا ثبوت دیا ہے جو قابلِ تحسین و آفریں ہی نہیں، قابلِ رشک بھی ہے۔ موصوفہ نہایت ہی شریف، نڈر، پاکیزہ اخلاق، با عصمت خاتون ہیں۔ گویا صحیح معنوں میں ’’مشرقی خاتون‘‘ ۔
شعر و ادب کی تعریف میں دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ اور پھر بھی شعر و ادب اپنی جگہ اسی طرح تشنۂ تعریف ہے۔
’’گشت راز دگر آں راز کہ افشا می کرد‘‘
رد و قبول کا معیار طلسم وہم سے زیادہ کچھ نہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
نور و ظلمت اعتباری سہی لیکن اس میں تو شک نہیں کہ یہ وہمِ اعتبارِ یا اعتبار وہم ہی ہے جس نے ایک کائناتِ حسن و جمال ہمارے سامنے لا کر کھڑی کر دی ہے۔ رد و قبول کا معیار بھی اگر کوئی ہوسکتا ہے تو یہی ظلمت و نور کی تقسیم!
میں صنفِ نازک کو شاعر کے لباس میں دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ وہ ایک شعرِ مجسم ہے، ایک نغمۂ سراپا۔ اس کی شعریت، جسے حقیقت میں شعریت کہا جاتا ہے، اس کی عظمت و پاکیزگی میں ہے۔ حسن عبارت ہے تناسبِ اعضا سے لیکن اگر تناسبِ باطنی بھی شامل ہو جائے تو یہ ایک ایسی قوت بن سکتا ہے جس سے اگر صحیح معنوں میں کام لیا جائے تو دنیا زیر و زبر ہوسکتی ہے۔ صنفِ نازک کی مثال ایک نہایت ہی نازک پھول سے دی جا سکتی ہے۔ اگر آپ اس کی حیاتِ جمال تا دیر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ اسے چھوئیے نہیں۔ اسے زیادہ گہری نگاہوں سے نہ دیکھیے ورنہ وہ جلد اپنی عمرِ طبعی کھو بیٹھے گی اور اس وقت آپ یا تو ایک بوالہوس کی طرح اس کے اوراقِ پریشاں کو پامال کرتے ہوئے گزر جائیں گے یا پھر آپ کو تمام زندگی قدرت کے ایک عطیہ یعنی مسرت سے کنارہ کش ہو کر اس کے دوسرے عطیۂ غم ہی تک محدود رہ جانا پڑے گا۔ عورت، شعر و نغمہ کی قوتوں کا مقابلہ کرنے میں اکثر و بیشتر اپنی خصوصیات کو بھول بیٹھتی ہے، بجز استثنا کے بہت کم مثالیں ایسی مل سکیں گی کہ عورت شاعرہ یا مغنیہ بن کر اپنی حقیقی شرافت و عظمت، عصمت و حرارت کو برقرار رکھ سکے۔
جہاں تک مجھے علم ہے خطیبۂ ہند، زہرۂ سخن، سیدہ اختر ان مغتنم ہستیوں میں سے ہیں جنھوں نے مغربی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مشرقی خصوصیات کو اپنی جگہ قائم و دائم رکھا۔
میں نے اختر صاحبہ کو دیکھا ہے اور انھیں جانتا ہوں، انھیں کی زبانی ان کے اشعار، ان کے مضامینِ تازہ بتازہ اکثر مشاعروں اور کانفرنسوں میں سنے ہیں۔ میں اپنے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ موصوفہ نہایت درجہ پاک طبیعت و استعداد لے کر آئی ہیں۔ موصوفہ نہ صرف نظم نگاری و غزل گوئی پر پوری قدرت رکھتی ہیں بلکہ نثر میں بھی ان کے مضامین کا معیارِ فکر و نظر بہت بلند اور وسیع ہے۔ وہ صرف قافیہ اور ردیف کی تعریف نہیں کرتیں بلکہ حقیقتاً وارداتِ قلبیہ ہوتی ہیں جو قوائے شعریہ سے متصل ہو کر از خود صورتِ شعری اختیار کر لیتی ہیں۔
دورِ حاضرہ میں شعراء کی بہتات وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ مبتدیوں کو چھوڑیے اساتذہ کی زندگی اور ان کے شعر و ادب کو جانچیے! آپ کو شاید ہی کچھ حضرات ایسے مل سکیں گے جن کی زندگی اور جن کے شعر و ادب میں کوئی تناقض اور تضاد نہ پایا جائے! اختر صاحبہ کے لیے یہ شرف کچھ کم نہیں کہ ان کی زندگی اور ان کے شعر و ادب میں بڑی حد تک یک رنگی و ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی ہی زندگی پیدا کرسکتی ہے۔ اگر شاعر کے شعر و ادب میں شاعر کی زندگی موجود ہو تو وہ کبھی فنا نہ ہوسکیں گے اور اگر ایسا نہیں تو ممکن ہے محض کمال کی بنا پر کچھ خصوصیات باقی رہ جائیں۔ ورنہ حقیقت میں جس کا نام زندگی ہے وہ کہاں ؟
سیدہ اختر و اقبال (تضمین بر کلامِ اقبال) آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان کے کلام سے میرے بیان کی خود ہی تصدیق کر لیں گے۔ میں شعر و ادب کو نقد و نظر کے ماتحت نہ مجروح کرسکتا ہوں اور نہ دیکھ سکتا ہوں، ورنہ موصوفہ کے اشعار کی خصوصیات نمایاں کر کے ثابت کرتا کہ ان کا درجہ شعر و ادب میں کس قدر بلند ہے؟
مخلص
جگر مرادآبادی [10]
ماہر القادری نے اس مجموعے کے بارے میں لکھا:
کلامِ اختر کی روانی و سادگی
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں۔ اس لیے تمام اصنافِ سخن کے مقابلہ میں غزل زیادہ لطیف اور نرم و نازک جذبات کی حامل ہوتی ہے لیکن اس غزل کی بے پناہی اور قیامت آفرینی کا کون اندازہ کرسکتا ہے جو خود صنفِ نازک کے جذبات و محسوسات کی ترجمان ہو۔
علامہ شبلی نعمانی نے عورت کو چہرۂ کائنات کا غازہ اور آب و رنگ کہا ہے، تو اسی آب و رنگِ کائنات کی طرف سے جب یہ کہا جائے کہ:
روداد غم بیان تو کیا کر رہی ہوں میں ؟
اک فرض ناگوار ادا کر رہی ہوں میں !
(اختر)
تو اس اثر انگیزی کی بھلا کوئی حدبندی ہوسکتی ہے؟
محترمہ خطیبۂ ہند، زہرۂ سخن سیدہ سردار بیگم اختر کو کون نہیں جانتا۔ تمام ہندوستان میں اخباروں اور رسالوں کے اوراق سے لے کر جلسوں اور کانفرنسوں کے پلیٹ فارموں تک ان کی خطابت وسخن سنجی کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ وہ بیک وقت آتش بیان مقررہ بھی ہیں، ڈسپلن قائم رکھنے والی کمانڈر بھی، شیریں مقال شاعرہ بھی، شعلہ وشبنم کی یکجائی۔۔۔۔ پھولوں اور انگاروں کا اجتماع۔
خصوصیاتِ کلام: اختر صاحبہ کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیات ترنم، روانی اور سادگی ہے۔ وہ شعر کو فیثا غورث کا نظریہ نہیں بناتیں، سیدھی سادی بات کہتی ہیں جو اندازِ بیان کی پاکیزگی اور دل کشی کے بعد سحرِحلال بن جاتی ہے۔
اختر کی غزل میں جدید تغزل کے قریب قریب تمام رجحانات پائے جاتے ہیں۔ الفاظ کو اپنے محل اور موقع سے برتنے کا بھی ان کو سلیقہ ہے، مفہوم ادا کرنے پر ان کو پوری قدرت حاصل ہے، اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس دور کے بے راہرو شاعروں کی طرح نامانوس، مغلق، خود تراشیدہ ترکیبوں سے ان کی غزلیں پاک ہوتی ہیں۔
ماہر القادری [11]
مملکت حیدرآباد میں اقبال کی ستائش و مطالعے کے لیے قائم ’بزمِ اقبال‘ کی شاخ واقع رائچور نے ۱۹۴۶ء میں ایک ’ہفتہ اقبال‘ کا اہتمام کیا اور ۱۱؍ مئی کو اہم تقریبات کا انعقاد کیا جس میں مقامی اور دور دراز سے مدعو کیے گئے متعدد مہمانوں و اکابر نے شرکت کی۔ بیگم اختر کو بھی ان تقریبات میں مدعو کیا گیا تھا، جس کے ایک اجلاس کی صدارت بھی ان کے سپرد کی گئی تھی۔ اپنے صدارتی خطاب میں بیگم اختر نے کہا:
اقبال اور ان کے بارے میں اتنا لکھا جا چکا ہے کہ شاید ہندوستان میں یہ شرفِ بلند کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہوا ہو۔ اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں بے شمار مقالے اور کتابیں منصۂ وجود میں آ چکی ہیں۔ اقبال نے اسلام کی تعلیمات میں جدید روح پھونکی ہے۔ اس کا فلسفۂ تدبیر انسان کی تقدیر اور اس کی کامیابی کے تمام امکانات پر حاوی ہے۔ وہ ایک ایک نقطۂ حیات کی عقدہ کشائی کرتا ہے۔ ہندوستان کا جذبۂ بقا دراصل نتیجہ ہے اس تصادم کا جو انگریزی اقتدار اور ہندوستان کے درمیان گزشتہ چھے سال سے ہو رہا ہے۔ یہ تصادم محض سیاسی نہیں بلکہ فکری اور ذہنی بھی ہے۔ اقبال کا کلام ہر گھر میں ہونا چاہیے تاکہ ہماری نئی نسل اس کو پڑھے اور قومی مستقبل تابناک ہو۔ [12]
مجموعہ اختر و اقبال تمام تر کلامِ اقبال کی تضامین پر مشتمل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ اختر شاعری میں نظم کو ترجیح دیتی تھیں۔ اس مجموعے کے تمام مشمولات نظم میں ہیں، پھر ان نظموں کی ہیئت بھی زیادہ تر مخمس میں ہے اور کچھ مسدس اور رباعی ہیں۔ شاعرہ کو فارسی زبان میں بھی درک تھا چنانچہ اقبال کے فارسی کلام پر بھی تضمینیں تخلیق کی ہیں اور بعض منظومات یا ان کے اجزاء بھی فارسی میں تخلیق کیے ہیں۔ تضامین میں جہاں سیدہ اختر نے اقبال کے مصرعے استعمال کیے ہیں، وہیں کچھ کوشش اقبال کے اسلوب کو اختیار کرنے کی بھی نظر آتی ہے اور کہیں عنوانات بھی اقبال کے مصرعوں یا تراکیب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ مجموعہ کل۳۳ منظومات پر مشتمل ہے۔ یہ عنوانات درج ذیل ہیں : ’’مناجات‘‘ ، ’’آہ دلی‘‘ ، ’’ناز و نیاز‘‘ ، ’’تمنائے انجم‘‘ ، ’’بارگاہِ شہود‘‘ ، ’’نورِ مطلق‘‘ ، ’’مجذوباتِ شیخ‘‘ ، ’’حرم و دیر‘‘ ، ’’گدازِ دل‘‘ ، ’’نغمۂ داؤد‘‘ ، ’’نغمہ ہائے الست‘‘ ، ’’زخمِ کرم‘‘ ، ’’مرگِ خودی‘‘ ، ’’شکر و قند‘‘ ، ’’مناصبِ حیات‘‘ ، ’’سحر‘‘ ، ’’صبح کا تارا‘‘ ، ’’حکومت‘‘ ، ’’علم دین‘‘ ، ’’پیرِ حرم سے‘‘ ، ’’اشارۂ فطرت‘‘ ، ’’کارگہِ شیشہ گراں ‘‘ ، ’’قندِ مکرر‘‘ ، ’’لوحِ قرآنی‘‘ ، ’’فکرِ راہ‘‘ ، ’’نوائے سوز‘‘ ، ’’مرغِ نوا طراز‘‘ ، ’’شاعر اور حور‘‘ ، ’’نئے دور کا آغاز‘‘ ، ’’فرمانِ ابلیس‘‘ ، ’’ماہِ تمام‘‘ ۔ دو نظمیں ’’اختر و اقبال‘‘ اور ’’سیدہ اختر و اقبال‘‘ بھی شامل ہیں۔ مگر ان کا جواز بظاہر واضح نہیں ہے۔ مختلف منظومات سے چند بند ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں تاکہ نمونۂ تضمینات ملاحظہ ہوسکے:
ہر اک ذرہ دردِ تمنا سے مضطر
ہر اک گام ہے تازہ سامانِ محشر
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
نگاہوں سے پوشیدہ لاکھوں ہیں منظر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں [13]
اگر چاک ہے گل کا دامن تو کیا غم
ہے نذرِ خزاں تیرا گلشن تو کیا غم
اگر چھن گیا تیرا مامن تو کیا غم
’’اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں ‘‘ [14]
لٹا کے سرمایۂ خودی کو زمانے میں سرفراز ہو جا
قتیلِ تیغِ نگاہ بن جا، شہیدِ حسنِ مجاز ہو جا
اٹھ اے حریصِ غمِ محبت، ہمہ غمِ جاں گداز ہو جا
’’سن اے طلب گارِ دردِ پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا‘‘ [15]
یقین ہے دولتِ نایاب کو کھوتا تو ہے لیکن
یہ مانا یادِ ماضی میں بہت روتا تو ہے لیکن
اثر تیری نوائے تیز کا ہوتا تو ہے لیکن
شرارے وادیِ ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن
نہیں ممکن کہ پھوٹے اس نوا سے تخمِ سینائی‘‘ [16]
مژدہ بادا کہ کنوں دیدہ ورے پیدا شد
نورِ خورشید بہ شکلِ شررے پیدا شد
محرمِ صدق و صفاے دگرے پیدا شد
نورِ مطلق بہ لباسِ بشرے پیدا شد
نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد
حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد‘‘ [17]
وہ دن بھی تھا کہ ہاتھ میں تھے تیرے روم و رے
پر اب نہیں ہے جز کفِ افسوس کوئی شے
آخر یہ سجدۂ درِ بت خانہ تا بہ کے
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول‘‘ [18]
وہ سحر جس نے کیا ختم زمانے کا جمود
وہ سحر جس کی تجلی ہے دو عالم کی نمود
وہ سحر ختم ہوئی جس سے شب زنگ آلود
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا‘‘ [19]
تمام عالمِ ہستیِ بے ثبات بھی ایک
صفات و ذات بھی ایک اور ممکنات بھی ایک
ہے غزنوی بھی یہاں ایک سومنات بھی ایک
’’زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم‘‘ [20]
تعمیر ہوئے مدرسے فردوسِ بریں کے
تعلیم ہی ناقص ہو تو کیسے کوئی جاگے
اس خاک سے کس طرح ستارہ کوئی چمکے
’’ممکن نہیں تعمیرِ خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نمناک سے ٹوٹے گا شرر کیا‘‘ [21]
ہر شاخ شاخِ تاک ہے، ہر غنچہ بادہ ریز
ہر برگِ سبز اب نظر آتی ہے تیغِ تیز
اختر کی فکرِ نو سے ہے ذروں میں جست و خیز
’’اقبال کی نوا سے ہے لالہ کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو‘‘ [22]
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
[1] جن کا ایک نمائندہ مجموعہ قمقام حسین جعفری کے مرتبہ انتخاب: شکوہ اور جواب شکوہ، مطبوعہ کراچی ۱۹۷۳ء میں دیکھا جا سکتا ہے۔
[2] اس ضمن میں ایک مثالی اور جامع کاوش کا نمونہ بصیرہ عنبریں نے پیش کیا ہے: تضمیناتِ اقبال، مطبوعہ لاہور ۲۰۰۷ء۔
[3] ’’زہرۂ سخن‘‘ کا خطاب انھیں سیماب اکبرآبادی نے ۹؍ نومبر ۱۹۴۲ء کو اردو کانفرنس و مشاعرہ، منعقدہ بنگلور کے جلسے میں دیا تھا۔ ان کے الفاظ یہ تھے: ’’اگر میں ریاست میسور کا فرمان روا ہوتا تو (اس کانفرنس و مشاعرے کے انعقاد پر) آج اختر صاحبہ کو اپنی حکومت کی طرف سے ’’زہرۂ سخن‘‘ کا تابناک خطاب دیتا، جس کی وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔ ‘‘ سیماب اکبرآبادی، مشمولہ اختر و اقبال، ص۸۔
[4] محمد جمیل احمد، تذکرہ شاعرات ہند، بریلی، ۱۹۴۴ء، ص۲۲۱۔
[5] فصیح الدین بلخی، نسوانِ ہند، پٹنہ، سن ندارد، ص۱۳۸۔
[6] ایضاً، و نیز محمد جمیل احمد، تصنیف مذکور، ص۲۲۱۔
[7] سرفراز حسین مرزا، Muslim Women’s Role in Pakistan Movement لاہور۱۹۶۹ء، ص۴۲، ۵۵، ۶۴۔
[8] بحوالہ: جوش ملیح آبادی ’’ناہید سخن‘‘ مشمولہ: اختر و اقبال، ص۹۔
[9] اختر و اقبال، ص۷، ۸۔
[10] ایضاً، ص۹، ۱۳۔
[11] ایضاً، ص۱۴، ۱۵۔
[12] عبد الرؤف عروج، اقبال اور بزمِ اقبال حیدرآباد دکن، کراچی ۱۹۷۸ء، ص۱۳۰، ۱۳۹؛ رات کے دو بجے سیدہ اختر صدارتی تقریر کے لیے کرسیِ صدارت سے اٹھ کر مائک پر تشریف لائیں۔ پورا لان ’’خطیبۂ ہند، زندہ باد‘ اور ’زہرۂ سخن‘‘ ، زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ عوام ان کی انقلابی نظموں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سیدہ اختر کی شاعری نے ملک کے نوجوانوں میں کس طرح بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ ایضاً، ص۱۳۹۔
[13] ایضاً، ص۷۵۔
[14] ایضاً۔
[15] ایضاً، ص۲۴۔
[16] ایضاً، ص۲۸۔
[17] ایضاً، ص۳۲۔
[18] ایضاً، ص۴۰۔
[19] ایضاً، ص۵۲۔
[20] ایضاً، ص۵۶۔
[21] ایضاً، ص۵۹۔
[22] ایضاً، ص۷۸۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/8.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید