FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سر شیخ عبدالقادر کی اُردو کے لیے مساعی

               محمد حنیف شاہد

 

اردو زبان نے مغلیہ عہد حکومت میں پھلنا پھولنا شروع کیا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زبان اپنی حیثیت منواتی چلی گئی۔  یہ زبان مختلف بولیوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی اور اس میں خود ہندی کے بے شمار الفاظ شامل تھے۔  مسلمان اس زبان کو اپنے ساتھ بیرون ملک سے نہیں لائے تھے بلکہ اس زبان نے اسی برصغیر میں جنم لیا تھا۔  مگر ہندوؤں نے ہمیشہ اس زبان کو مسلمانوں کی زبان سمجھا اور اس کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ [1]

 فرانس کے مشہور مستشرق گار سان دتاسی نے ہندوؤں کے بارے میں کہا تھا کہ: ‘‘ہندو  اپنے تعصّب کی وجہ سے ہر اُس امر میں مزاحم ہوتے ہیں جو اُن کو مسلمانوں کے عہد کی یاد دلائے‘‘۔ [2]

ہندوؤں کا اُردو زبان کے بارے میں بھی یہی رویہّ تھا جس کے نتیجے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہو گئی جس کو پاٹنا ناممکن ہو گیا۔

بدقسمتی سے ہندو اردو کی مخالفت میں ہمیشہ سرگرمِ عمل رہے اور اس لسانی مسئلے نے سیاسی حیثیت حاصل کر لی۔  اردو ہندی تنازع سرسید احمد خاں کے زمانے میں شروع ہوا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

سر سید احمد خاں کے زمانے میں اس تحریک کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوا اور اردو زبان جسے ۱۸۳۵ء سے باقاعدہ طور پر سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا اس کو مٹانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔  ۱۸۶۷ء میں بنارس کے ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اردو زبان اور فارسی رسم الخط کی بجائے ایک مردہ زبان ‘بھاشا’ رائج کی جائے جس کا رسم الخط دیوناگری تھا۔  سرسید احمد خاں کہتے تھے‘‘۔  یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لئے مشترک کوشش کرنا محال ہے‘‘____ ان کا بیان ہے کہ  ’’ان ہی دنوں جبکہ یہ چرچا بنارس میں پھیلا، میں ایک روز مسٹر شیکسپیئر سے جو اس وقت بنارس میں کمشنر تھے مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں کچھ گفتگو کر رہا تھا اور وہ متعجب ہو کر میری گفتگو سن رہے تھے‘‘۔  آخر انھوں نے کہا کہ ’’آج پہلا موقع ہے کہ میں نے تم سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا ذکر سنا ہے۔  اس سے پہلے تم ہمیشہ عام ہندوستانیوں کی بھلائی کا خیال ظاہر کرتے تھے۔ ‘‘ میں نے کہا کہ‘‘ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہو سکیں گی۔  ابھی تو بہت کم ہے آگے آگے اس سے بھی زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں بڑھتا نظر آتا ہے۔ ‘‘ انھوں نے کہا کہ‘‘ اگر آپ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی تو یہ ایک افسوسناک امر ہو گا۔  میں نے کہا مجھے بھی اس پر افسوس ہو گا۔  تاہم مجھے اپنی پیشین گوئی پر پورا یقین ہے۔ ‘‘[3]

سرسید احمد خاں اردو زبان کی بقا کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کس قدر اہم تصور کرتے تھے اس بات کا اندازہ اس واقعے سے بھی ہو سکتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ لندن میں مقیم تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ بابو شیو پرشاد نے تجویز کیا ہے کہ سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام کتابیں اردو کی بجائے ہندی میں ترجمہ ہوں۔  یہ بات معلوم ہونے پر انھوں نے نواب محسن الملک کو مندرجہ ذیل خط ۲۹؍ اپریل ۱۸۷۰ء کو لندن سے تحریر کیا:

 ایک اور خبر مجھے ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج و فکر ہے کہ بابو شیو پر شاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دلوں میں جوش آیا ہے کہ زبانِ اردو و خطِ فارسی جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیا جائے۔  میں نے سنا ہے کہ انھوں نے سائنٹیفک سوسائٹی کے ہندو ممبروں سے تحریک کی ہے کہ اخبار بجائے اردو کے ہندی میں ہو تو ترجمہ کتب بھی ہندی میں ہو۔  یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ ہندو مسلمانوں میں کسی طرح اتفاق نہیں رہ سکتا۔  مسلمان ہرگز ہندی پر متفق نہ ہوں گے اور اگر ہندو مستعد ہوئے اور ہندی پر اصرار کیا تو وہ اردو پر متفق نہ ہوں گے اور نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ ہندو علیٰحدہ اور مسلمان علیٰحدہ ہو جاویں گے۔ [4]

سرسید کی وفات کے بعد نواب محسن الملک ایم اے او کالج علی گڑھ کے سیکرٹری منتخب کیے گئے۔  ان کے زمانے میں اُردو ہندی تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔  یوپی کے گورنر انٹونی میکڈانل نے ۱۸ ؍اپریل ۱۹۰۰ء کو احکامات جاری کیے کہ دفاتر اور عدالتوں میں اُردو کی بجائے ہندی استعمال کی جائے۔

مسلمانوں نے حکومت کے اس فیصلے پر زبردست غم و غصے کا اظہار کیا اور انھوں نے اس کو اپنی قوم کے خلاف ایک حملہ تصور کیا، چنانچہ ۱۳ مئی ۱۹۰۰ء کو علی گڑھ کے ٹاؤن ہال میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں نواب محسن الملک نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’ہم بذریعہ ایک معزز وفد کے ایک میمورنڈم گورنر صاحب کو پیش کریں اگر ہم کامیاب ہو گئے تو فہوالمراد، اگر ناکام رہے تو ہمارا دل اس خیال سے مطمئن رہے گا کہ ہم نے اپنا حق ادا کیا۔ انھوں نے فرمایا: ’’ اے مسلمانو! آؤ خدا کے کرم سے اور گورنمنٹ کے انصاف پر بھروسا کر کے اس قومی کام میں بلا اس خیال کے تم جیتو یا ہارو یہ آخری کوشش کر لو تاکہ یہ بات کہنے کو رہ جائے:

شکست و فتح نصیب سے ہے ولے اے میر

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

نواب محسن الملک نے اردو زبان کی حفاظت کی غرض سے ’’اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی جس کے تحت مختلف مقامات پر حکومت کے اس فیصلے کے خلاف جلسے منعقد ہوئے۔  چنانچہ انھوں نے لاٹ صاحب کی ناراضی کا خطرہ تک مول لے کر لکھنؤ میں ۱۷، ۱۸ ؍اگست ۱۹۰۰ء کو ایک جلسہ منعقد کیا۔  اس جلسے کے متعلق سرعبدالقادر فرماتے ہیں :

 ۱۹۰۰ء میں جب یوپی کے گورنر انٹونی میکڈانل نے اُردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس مہم کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا۔  جس میں مَیں بھی شریک تھا۔  نواب محسن الملک نے اس جلسہ میں جس جوش و خروش سے تقریر کی اس کی نظیر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔  یوں سمجھیے کہ الفاظ کا لاوا تھا جو ابل ابل کر پہاڑ میں سے نکل رہا تھا۔  آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر حکومت اردو زبان کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔  ہم اردو کی لاش کو دریائے گومتی میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی والہانہ انداز میں مندرجہ ذیل شعر پڑھا:

چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اس پر تحسین و آفریں کا وہ شور اٹھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا چھت اڑ جائے گی۔ [5]

نواب محسن الملک کی یہ کارروائی لاٹ صاحب کو سخت ناگوار گزری۔  انھوں نے فوراً علی گڑھ کالج کے ٹرسٹیوں کا اجلاس بلوایا اور یہ دھمکی دی کہ اگر نواب صاحب نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کی رکنیت کو ترک نہ کیا تو حکومت کالج کی مالی امداد بند کر دے گی۔  گورنر نے نواب محسن الملک کو یہ کہا کہ وہ یا تو کالج کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیں یا اُردو کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔  اس نازک مرحلے پر نواب صاحب نے اپنا فیصلہ اُردو کے حق میں دیا اور انھوں نے ۲۶؍ اگست ۱۹۰۰ء کو کالج کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا۔  مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب میں نواب محسن الملک پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے گورنر کی دھمکی سے ڈر کر اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن سے استعفیٰ دے دیا تھا۔  مگر مولوی صاحب کا یہ کہنا بالکل غلط ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ جب نواب صاحب نے ایم اے او کالج علی گڑھ کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دیا توبہت سے مسلم زعماء نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔  مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مولانا حبیب الرحمن شروانی کو لکھا ’’نواب محسن الملک کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لیں۔  ورنہ پبلک میں کالج کی جانب سے بہت بے چینی پیدا ہو جائے گی۔ ‘‘

سرمزمل اللہ خاں نے نواب محسن الملک پر زور ڈالتے ہوئے لکھا کہ‘‘ اس وقت حضور کا سیکرٹری شپ سے علیحدہ ہو جانا کالج کی موت اور قومی مصیبت ہے اور اس کا مؤاخذہ حضور کے اوپر خدائے ذوالجلال کے حضور میں ہو گا، نیز میَں یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس وقت خود حضور نے کالج کی سیکرٹری شپ کو چھوڑ دیا اور ہمارے اصرار و الحاح پر توجہ نہ فرمائی تو میَں بھی جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔ ‘‘[6]

نواب وقار الملک کی سوانح حیات وقار حیات میں اس واقعے کے متعلق درج ہے کہ ’’انٹونی میکڈانل نے کالج کے پرنسپل سَر تھیوڈر ماری سن کے ذریعے نواب محسن الملک کو متنبہ کیا کہ وہ اس ایجی ٹیشن (اُردو زبان کی حفاظت) میں حصہ نہ لیں۔  اس نے ان الفاظ میں اپنی برہمی کا اظہار کیا:

استعفیٰ (کالج کی سیکرٹری شپ سے) منظور کرنا یا نہ کرنا ٹرسٹیوں کا کام ہے لیکن گورنمنٹ اور مدرسہ کے درمیان جو تعلقات قائم ہیں یہ امر ٹرسٹیوں کے معتمد اور نمائندہ کے مناسب نہیں کہ بغیر اس کے کہ ٹرسٹیوں کی رائے سے گورنمنٹ کو مطلع کیا جائے وہ ایک باضابطہ ایجی ٹیشن کا بانی مبانی ہو جو گورنمنٹ کی ایک تجویز کے خلاف کی گئی ہو۔ [7]

گورنر نواب صاحب کی سرگرمیوں پر اس قدر برہم ہوا کہ اس نے ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء کو انھیں اپنا خطاب ’’محسن الملک‘‘ استعمال کرنے کی ممانعت کر دی۔  یاد رہے کہ یہ خطاب انھیں ۱۸۸۷ء میں ملا تھا۔  سوال ہے کہ اگر نواب صاحب نے بقول مولوی عبدالحق میکڈانل کی حسب خواہش اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن سے استعفیٰ دے دیا تھا تو مختلف مسلم زعماء نے انھیں مندرجہ بالا خطوط کس سلسلے میں لکھے، نیز نواب صاحب اور گورنر کے درمیان تعلقات اس حد تک کیوں خراب ہو گئے کہ اس نے خطاب کے استعمال پر بھی پابندی عاید کر دی۔

خان بہادر سر شیخ عبدالقادر نے اس نازک صورت حال کے پیش نظر نواب وقار الملک، مولوی مشتاق حسین (۱۸۳۹ء  ۲۸ جنوری ۱۹۱۷ئ) کے نام ۹؍ستمبر ۱۹۰۰ء کو شملہ سے مندرجہ ذیل مکتوب ارسال کیا:

جو تفصیل نواب محسن الملک بہادر کے استعفی کی وجوہات کی آپ نے تحریر فرمائی اس کا شکریہ۔  نواب صاحب بہادر کا اپنا خط بھی اس سے پہلے اس مضمون کا پہنچ چکا تھا۔  مگر نواب محمد حیات خاں صاحب نے پھر زور سے ان کو تاکید واپسی استعفیٰ کی لکھی ہے۔  انھوں نے آنریبل مسٹر رواز ممبر کونسل عالیہ سے اس باب میں مشورہ کیا تھا اور صاحب موصوف نے جواب میں کہا کہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے گورنمنٹ آف انڈیا سیکرٹری کالج کی جانب سے بدستور مطمئن ہے اور شاید مسٹر انٹونی ویسے ہی سیکرٹری صاحب اُردو ڈیفنس کی وجہ سے ناراض ہوں۔  مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ اس سبب سے کالج کو نقصان پہنچائیں نیز یہ کہا کہ ان کی رائے میں نواب محسن الملک کی تقریر اور جو تجاویز اس میں پیش کی گئی ہیں، معقول معلوم ہوتی ہیں۔  ان سب باتوں کی اطلاع نواب صاحب کو دے دی گئی ہے۔  اب یہ بھی قرار پایا ہے کہ آنریبل نواب محمد حیات خاں صاحب دو سوال اُردو کے متعلق ۵؍ اکتوبر کی کونسل عالیہ میں کریں جن کا مضمون حسب ذیل ہو:

۱        کیا گورنمنٹ آف انڈیا کو اس اضطراب سے آگاہی ہے جو ممالک مغربی و شمالی کے مسلمانوں میں لوکل گورنمنٹ کے ریزولیوشن ۱۸ ؍ اپریل ۱۹۰۰ء کے نفاذ سے پیدا ہوا ہے جس کے ذریعہ سے ناگری کا رواج عدالتوں میں جائز قرار دیا گیا ہے اور جس کی ترمیم میں عدالتی عہدوں کے لیے ہندی زبان کا جاننا لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔

   ۲     کیا گورنمنٹ آف انڈیا الفاظ ’’عرضی و استغاثہ‘‘ کی تشریح کی بابت ہائی کورٹ الہ آباد اور عدالت جوڈیشل کمشنر اودھ میں اختلاف ہوا ہے تاکہ اس تشریح سے ناگری حروف کے استعمال کی اجازت ایسے لوگوں تک کر دی جائے جو سوائے ناگری حروف کے اور کوئی حروف نہیں جانتے اور جو اپنی عرائض بلاواسطہ اصحاب قانون پیشہ کے اپنے ہاتھ سے پیش کریں۔

میں جانتا ہوں کہ یہ سوالات عین آپ کی منشا کے مطابق ہوں گے۔  رقعہ نواب محسن الملک بہادر واپس ارسالِ خدمت ہے۔

نواب محمد حیات خاں نے ہوم سیکرٹری گورنمنٹ آف انڈیا مسٹر رواز سے نواب محسن الملک کے مستعفی ہونے کا ذکر کیا تو انھوں نے اظہار افسوس کیا نیز کہا کہ‘‘ وہ ہرگز سر انٹونی میکڈانل سے اس قسم کے رویّے اور سلوک کی توقع نہیں رکھتے۔ ‘‘ نواب صاحب کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔  شیخ عبدالقادر نے نواب وقار الملک کے نام ایک دوسرا خط شملہ ہی سے ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۰ء کو تحریر کیا جس میں لکھا:

تقریر آپ کی آبزرور میں چھپ گئی ہے۔  آخیر کے حصہ میں مَیں نے کسی قدر اختصار کر لیا ہے۔  معاف فرمائیے! اگر آبزرور کی کاپیاں جس میں وہ تقریر درج ہے آپ کو نہیں ملیں تو عنقریب مل جائیں گی۔

میں نے نواب محمد حیات خاں کو آپ کے دونوں خطوط کے پیغام دے دیے تھے۔  وہ جواب میں سلامِ شوق عرض کرتے ہیں اور یاد آوری کے ممنون ہیں مگر آپ نے جو ٹرسٹیانِ پنجاب میں کسی کے سیکرٹری ہونے کی نسبت تحریر فرمایا ہے اگر نواب محسن الملک صاحب استعفیٰ پر مُصر ہیں، اس کی توقع نہیں ہو سکتی۔  نواب محمد حیات خاں صاحب اپنے کاروبار میں اس قدر منہمک ہیں کہ ان کا چھٹکارہ مشکل ہے۔  آپ کو معلوم ہے پنجاب کی کونسل کے ممبر ہیں۔  راولپنڈی میں آنریری ڈسٹرکٹ جج اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہیں۔  دو تین ضلعوں میں زمینداری کرتے ہیں اور کئی جھگڑے ہیں جو وہ اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں وہ جب تک ان سب کو خیرباد نہ کہہ دیں علی گڑھ میں نہیں آ سکتے اور اس قدر ایثار اس زمانہ میں کس سے ہو سکتا ہے۔

خان بہادر برکت علی خاں صاحب کی نسبت آپ خود ہی تحریر فرماتے ہیں کہ وہ بہت بوڑھے ہیں۔

نواب محمد حیات خاں صاحب نے محسن الملک بہادر کے استعفیٰ کا ذکر آنریبل مسٹر رواز سے جو گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری ہیں، کیا ہے۔  انھوں نے نہایت افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ہم ہرگزسر انٹونی میکڈانل سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ رزولیوشن کی مخالفت کی ناراضگی کا کالج پر کچھ اثر ہونے دیں اور کم از کم گورنمنٹ آف انڈیا کو نواب محسن الملک سے کوئی ناراضگی نہیں۔  انھیں اپنے کام پر بدستور رہنا چاہیے، اس لیے نواب محسن الملک صاحب کو یہاں سے زور کا خط استعفیٰ واپس لینے کے لیے لکھا گیا ہے۔

شیخ عبدالقادر کے مذکورہ بالا مکتوب سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ سرسید احمد خاں کے رفقائے کار کی تحریریں پنجاب آبزرور (بعد میں آبزرور) کی زینت بنتی رہتی تھیں جن میں ملّی اور ملکی مسائل پر بحث ہوتی تھی۔  نیز یہ کہ نواب وقار الملک نے نواب محمد حیات خاں اور خان بہادر برکت علی خاں کے نام تجویز کیے کہ نواب محسن الملک اگر ایم اے او کالج کی سیکرٹری شپ سے مستعفی ہو جائیں تو ان میں سے کسی ایک کا تقر ر عمل میں لایا جائے۔  شیخ عبدالقادر نے اپنے جواب میں نواب وقار الملک کو صحیح صورت حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان میں سے کسی کا تقرر بھی ممکن نہیں نیز یہ کہ ہوم سیکرٹری حکومت ہند چاہتے ہیں کہ نواب محسن الملک استعفیٰ واپس لے لیں۔

دوسر ی جانب مسلمانوں کو علیحدہ سیاسی جماعت کے قیام پر زور دینے کے لیے اخبارات اور رسائل میں مضامین اور مراسلات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔  اس ضمن میں نواب محمد اسماعیل خاں (اگست ۱۸۸۴ء تا ۱۹۵۸ء ) پیسہ اخبار، نواب محسن الملک (۱۸۳۷ء  تا ۱۹۰۷ء) (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ) مولوی مہدی علی خاں اور سید رضا علی (۱۸۸۲ء تا ۱۹۴۹ء) پائنیر نے مسلمانوں کی الگ سیاسی تنظیم کے لیے مضامین لکھے۔

مسلم اخبارات نے جن میں شفاء الملک، عصر جدید، قلقل، ذوالقرنین، العزیز اور اردوئے معلی شامل تھے۔  لیجسلیٹو کونسل اور دیگر مقامات پر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کے قیام کی اہمیت کا احساس دلایا۔  سر فضل حسین (۱۴؍ جون ۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۶ئ) نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے ایک جلسے میں سیاسی جماعت کے قیام کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی۔

اگرچہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں صوبائی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی انجمنیں مثلاً محمڈن پولیٹیکل ایسوسی ایشن (یو پی) پروونشل محمڈن ایسوسی ایشن آف ایسٹرن بنگال وغیرہ موجود تھیں۔

شیخ عبدالقادر نے اپریل ۱۹۰۱ء میں انھی ناساز حالات اور واقعات کے پیش نظر اردو زبان کے دفاع اور بقا کے اعلیٰ عزم اور اس کی ترویج و اشاعت کی خاطر اپنا مجلہ مخزن نکالا۔  قابل ذکر یہ بات ہے کہ مندرجہ ذیل نقشہ پہلے شمارے سے لے کر مولانا تاجور نجیب آبادی کے زمانے تک سرورق پر چھپتا رہا۔  اس کی تفصیل اگلے صفحے پر پیش کی جار ہی ہے:

عکس مخزن

۱۹۰۹ء میں ایک مرتبہ پھر اس فتنے نے سر اٹھایا۔  اس موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ آگے بڑھی اور اس نے اردو زبان کی حفاظت اور ترویج کی خاطر مختلف قراردادیں پاس کیں۔  جنوری ۱۹۱۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے تیسرے اجلاس منعقدہ دہلی میں مندرجہ ذیل قرار داد پاس کی:

آل انڈیا مسلم لیگ کچھ حلقوں کی جانب سے اردو زبان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں پر اظہار افسوس کرتی ہے اور اردو زبان اور ادب کی ترقی اور بقا کو اس ملک کی عام بھلائی کے لیے ضروری خیال کرتی ہے۔

سر عبدالقادر نے مندرجہ بالا قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ‘‘ اُردو زبان کے علاوہ کوئی اور زبان ایسی نہیں جس کو ہندوستان کے تمام لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہوں۔ ‘‘

 سر عبدالقادر نے اُردو زبان کی موجودگی میں کسی اور زبان کو مشترکہ زبان کا درجہ دینے کی کوشش کو دریا کی موجودگی میں پانی کے لیے کنواں کھودنے کی کوشش کے مترادف قرار دیا۔ [8]

 جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوا انجمنِ دفاعِ اُردو کا ایک نمائندہ اجلاس ۱۸؍ اگست ۱۹۰۰ء کو لکھنؤ میں نواب محسن الملک کی صدارت میں ہوا جو انجمنِ دفاعِ اُردو کے صدر تھے۔  اس اجلاس کا مقصد حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا تھا جو وہ ہندی زبان کی شناخت اور سرپرستی کے لیے کر رہی تھی۔  اس اقدام کی واپسی کا مطالبہ سرفہرست تھا۔  نواب محسن الملک نے اردو کا دفاع کرتے ہوئے کہا:

اگرچہ قلم ہمارے قبضۂ اختیار میں نہیں ہے اور ہمارا قلم کچھ زیادہ طاقتور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اعلیٰ مناصب پر فائز بھی نظر نہیں آتے لیکن ہم میں یہ قدرت ضرور ہے کہ تلوار کو اپنے قبضہ اختیار میں لائیں۔  ہمارے قلوب میں بھی ملکہ کی محبت ہے ہم ایک ثانیے کے لیے بھی یہ تصور نہیں کر سکتے کہ حکومت ہم سے قطع تعلق کرے گی یا ہمیں نظر انداز کر دے گی یا پھر جن باتوں پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے انھیں تباہ و برباد ہونے دے گی اور ہمیں مصائب میں مبتلا کر دے گی۔  میَں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ حکومت ہماری زبان کو مرنے دے گی بلکہ یہ اسے زندہ رکھے گی۔  یہ کبھی نہیں مرے گی۔  تاہم اس اَمر میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ فریق ثانی کی طرف سے اگر ہماری زبان کو قتل کرنے کے اقدامات جاری رہتے ہیں تو وہ مستقبل میں کسی وقت اس کی ترقی اور بالیدگی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  ان خدشات نے ہمیں اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے کے لیے چوکنا کر دیا ہے اور اگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو پھر اس کا جنازہ بڑی دھُوم دھام سے نکال سکتے ہیں۔  جب کوئی مسئلہ ایک پوری قوم کو آزار اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے تو پھر کسی احتجاج کو منظم کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی لوگوں کو آمادہ عمل کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔  ایسے وقت  میں ہمارا فرض ہے کہ رائے عامہ کو معتدل کریں اور لوگوں کے دلوں میں حکومت کی نیّت اور عزائم کے بارے میں فاسد خیالات کا خاتمہ کریں۔ [9]

سر شیخ عبدالقادر مخزن کے اجرا کا مقصدِ وحید اور بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

ہر زمانہ اپنی ضرورت کے مطابق ہر کام کے لیے آدمی پیدا کرتا ہے اور ہمارے آج کل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بہت سے جوہر قابل موجود ہیں اور وہ اگر زبانِ اردو سے تغافل نہیں برتیں گے تو مخزن نئی زندگی پا سکتا ہے۔

افراد کی طرح قوموں میں بھی زندگی اور موت ہوتی ہے لیکن مر مر کے جینا افراد کو تو یہاں نصیب نہیں ہوتا بلکہ قوموں کا بھی بسا اوقات یہی حال ہے کہ مر کر مٹ جاتی ہیں۔  مگر بعض قومیں یا جماعتیں اور ان کے اصول و عقائد ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے لیے زوال ہے مگر فنا نہیں۔

اسلام ان عقائد اور اصولوں کا نمونہ ہے اور مسلمانوں کی قوم ایسی قوم ہے کہ جو گر گر کر سنبھلتی ہے اور مر کر زندہ ہوتی ہے۔  یہی حال زبانِ اُردو کا ہے جو پیدا تو مسلمانوں کی خاطر نہیں ہوئی تھی بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے ملاپ اور مشترکہ کوشش کا نتیجہ تھی مگر مدت سے ہندوؤں کا ایک طبقہ اس فکر میں تھا کہ اسے مسلمانوں کی خاص زبان قرار دیا جائے اور اس حد تک فی الحال وہ طبقہ کامیاب ہوا ہے کہ اس نے ہندوستان کے بہت سے حصوں میں سرکاری دفاتر سے اس زبان کو نکال دیا ہے۔  اس سبب سے مسلمانوں پر علی الخصوص اور اردو کے حامیوں پر علی العموم اردو کی حمایت اور بھی زیادہ واجب ہو گئی ہے باوجود اس دشمنی کے جو طبقۂ مذکورہ کی طرف سے اردو کے خلاف ظاہر کی جا رہی ہے مجھے یقین ہے کہ اردو زبان ہندوستان میں بھی بہت حد تک باقی رہے گی اور بیرونی دنیا میں جمع ہو گئی ہے۔  یہ اب ہر قسم کے خیالات اور مطالب کے اظہار پر قدرت رکھتی ہے اور ان کو خوبی اور عمدگی سے بیان کر سکتی ہے۔

اردو زبان کی وہ قوت جس سے ’’زخموں سے چُور‘‘ ہو جانے کے باوجود یہ سخت جانی سے ’’ہر زد کا مقابلہ‘‘ کر رہی ہے اور نئی زندگی کی علامات دکھا رہی ہے، اس کے ادبی رسالوں میں بھی موجود ہے اور مخزن کے نام سے اسی رنگ کے ایک نئے رسالے کا مخزن کی ابتدا سے تقریباً نصف صدی اور جاری ہونا اس کا مر کر جی اٹھنا ہے۔  اس تحریک میں جو احباب شامل ہیں ان میں دو خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ایک جناب حمید نظامی صاحب مدیر نوائے وقت اور دوسرے جناب ’’حامد علی خان صاحب‘‘ جو ایک مدتِ مدید تک رسالہ ہمایوں لاہور کو مرتب کرتے رہے، یہ دونوں صاحبان اس وقت اردو کے جوان ادیبوں کی صفِ اوّل میں ہیں۔  ان کے ہاتھ میں اس نئے پودے کے سرسبز اور بار آور ہونے کی وثوق سے امید کی جا سکتی ہے۔  ان کی جانب سے یہ قدیم مخزن کی قدردانی کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنے نئے رسالے کا نام مخزن ہی رکھا۔

میں نے جب ۱۹۰۱ء میں اس نام سے رسالہ جاری کیا تو بہت سے ناموں کو سوچنے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ اس خیال سے کیا کہ یہ لفظ جامع تھا اور مختصر انگریزی ڈکشنری سے مجھے یہ پتا چلا کہ لفظ میگزین جو انگریزی میں رسالوں وغیرہ کے لیے مستعمل ہے وہ دراصل عربی لفظ مخزن سے مشتق ہے۔  اس لیے اردو رسالے کے لیے موزوں معلوم ہوا اور اختیار کیا گیا۔  بعد ازاں قبولِ عام نے اپنی مہر اس پر لگا دی۔

مخزن کے اجرا کا خیال مجھے اردو کی حمایت کے ایک بڑے تاریخی جلسے میں بیٹھے ہوئے آیا جو مدت ہوئی لکھنؤ میں ہوا تھا۔  ان دنوں اردو کی مخالفت جو صوبجات متحدہ میں پنڈت مدن موہن مالوی نے شروع کی تھی۔  اس کا فائدہ اٹھا کر ایک برطانوی لیفٹیننٹ گورنر سرانٹنی میکڈانل نے پہلے ایک ’’ضرب کاری اردو کے جسم‘‘ پر لگائی اور ہندی کوا س کی جگہ دینی چاہی۔  مسلمانوں میں اس پر بہت اضطراب پیدا ہوا اور ’’اردو کے بچاؤ‘‘ کے لیے لکھنؤ میں ایک اہم جلسہ طلب کیا گیا جس کی صدارت نواب محسن الملک مرحوم نے کی۔  میَں اور میر نیَرنگ صاحب اور میرزا اعجاز حسین مرحوم پنجاب سے جا کر اس جلسے میں شریک ہوئے۔  لکھنؤ کے مشہور بیرسٹر حامد علی خان صاحب مرحوم سیکرٹری اردو ڈیفنس کمیٹی کے ہاں ہم لوگ ٹھہرے۔  مگر ہمیں جاتے ہی معلوم ہوا کہ اودھ کی حکومت ہم تینوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نگرانی کر رہی ہے۔  میکڈانل صاحب کا مزاج ان دنوں سخت برہم تھا اور وہ مسلمانوں کے بہت مخالف ہو گئے تھے۔  انھیں یہ تعجب تھا کہ پنجاب سے تین آدمی لکھنؤ کے جلسے میں شرکت کے لیے کیوں آئے ہیں ؟ میں نے ایک مختصر سی تقریر میں جس کا مجھے اس جلسے میں موقع ملا۔  لاٹ صاحب کے استعجاب کا جواب یہ دیا تھا کہ اردو کا مسئلہ صرف صوبجات متحدہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ سارے ملک کے ان حصوں سے متعلق ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ہم ’’مجروح اردو کی پکار‘‘ سن کر آئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہر جگہ کی اردو کے لیے ایک‘‘ دعوتِ جنگ ’’ہے۔  مجھے اس جلسے میں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ لکھنؤ جیسے شہر میں جس میں اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کے گھروں میں بولی جاتی ہے اور جہاں اردو کے کئی مشہور شاعر اور نثر نگار ہندوؤں میں بھی موجود ہیں وہاں صرف ایک دو ہندو شریک جلسہ تھے۔  ان میں ایک بنارس کا بوڑھا وکیل تھا اس نے اتنی ہمت کی کہ وہ جلسے میں شریک بھی ہوا اور اس نے بعض تجاویز کی بحث میں بھی حصہ لیا۔  یہ تو ظاہر تھا کہ اس کی وجہ وہ دباؤ تھا جو ہندی کے حامیوں اور حکومت کے کارکنوں نے مل کر ان ہندوؤں پر ڈالا ہو گا جو دوسری صورت میں کم از کم جلسہ دیکھنے کو تو آئے لیکن میَں نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان کی اس کم توجہی میں کچھ قصور مسلمانوں کا بھی ہے۔  بہت سے مسلمان شعراء نے اپنے اشعار میں تعلی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے شعر لکھے ہیں جن سے یہ مُترشحّ ہوتا ہے کہ زبان کے اصلی مالک یا اجارہ دار وہی ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ بولتے یا لکھتے بھی ہیں تو ان سے مستعار لیتے ہیں۔  اس سے کئی اردو لکھنے والے ہند و اردو سے علیحدگی اختیار کرنے لگے۔  اس لیے میَں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسا رسالہ جاری کیا جائے جو مذہبی اور سیاسی بحثوں سے جو عموماً جھگڑے کا سبب بنتی ہیں الگ رہ کر صرف ادبی خدمات تک اپنی مساعی محدود رکھے اور ہندو مضمون نگاروں کو شرکت کار کے لیے صلائے عام دے اور اس طرح اپنے ناظرین میں بھی ہندو مسلمان دونوں کو شامل کرنے کی کوشش کرے۔  میں نے اس خیال کا تذکرہ اپنے دونوں ہمسفر رفیقوں سے کیا تو انھوں نے اسے پسند کیا اور قلمی امداد کا پر جوش وعدہ کیا جو وہ ہمیشہ دیتے رہے۔  لاہور واپس آ کر شیخ محمد اقبال صاحب مرحوم سے جو ان دنوں گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے، مَیں نے اس تجویز کا ذکر کیا، انھوں نے بھی اسے پسند فرمایا اور اپنا کلام مخزن میں وقتاً فوقتاً شائع کرنے کا وعدہ فرمایا۔  اس کے بعد دیگر احباب سے خط و کتابت کے ذریعہ وعدے حاصل کیے گئے۔ [10]

زیر نظر غزل انجمن دفاع اُردو کے نمائندہ اجلاس منعقدہ ۱۸ اگست ۱۹۰۰ء بمقام لکھنؤ سے متعلق ہے جس میں شیخ عبدالقادر، میر غلام بھیک نیرنگؔ، میرزا اعجاز حسین و دیگر بزرگوں نے شرکت کی تھی۔

غزل

اگست ۱۹۰۰ء میں نیرنگؔ و اعجاز کو بہ ہمراہی جناب ایڈیٹر مخزن بہ تقریب جلسہ حمایت اردو لکھنؤ جانے اور وہاں مسٹر حامد علی خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لا کی خاص مہمان نوازی سے بہرہ اندوز ہونے کا موقع ملا۔ [11] ذیل کی غزل کا اہم حصہ واپسی پر لکھا گیا تھا مگر ایک گو نہ تامل کی وجہ سے یہ غزل آج تک نیرنگؔ و اعجازؔ ہی تک رہی۔  اب بہ مصداق   ؎  حیف بر جانِ سخن گر بہ سخن داں نرسد۔

 آخر کار اعجاز صاحب کو اس کی اشاعت پر مجبور کیا گیا۔  چنانچہ اب مصنف سے نظر ثانی کرا کر ہدیۂ احباب کی جاتی ہے۔   (نیرنگ)

خندہ زن ہے یاس میرا شوقِ ساماں دیکھ کر

مُسکرا دیتی ہے حسرت دل کے ارماں دیکھ کر

رحم کر صیّاد رہنے دے قفس ہی میں مجھے

بال و پر یاد آئیں گے صحنِ گلستاں دیکھ کر

یہ کہیں پردہ شکایت ہائے پنہاں کا نہ ہو

دل دھڑکتا ہے تبسّم ہائے پنہاں دیکھ کر

کیسے ذرّے شوق نظارہ کی آنکھیں ہیں بچھی

اپنے کوچے میں قدم رکھیو مری جاں دیکھ کر

گرمیاں آخر دلِ اُلفت کی ٹھنڈی پڑ گئیں

زمہریر سرد نہری ہائے یاراں دیکھ کر

کب تراشیں یوں زنانِ مصر اپنی انگلیاں

گر نہ ہوں دیوانہ رُوئے ماہِ کنعاں دیکھ کر

پاسبان و حاجب و درباں کی حاجت یاں نہیں

ہوش اُڑ جاتے ہیں وہ حُسنِ نگہباں دیکھ کر

بہر تاثیرِ فُغاں لازم ہے تحفیظِ فغاں

نالہ زن کچھ سیکھ انجام نیستاں دیکھ کر

اس قدر کم مایگی پر خود نمائی کا یہ حال

داغہائے دل، ہَنسے سرور چراغاں دیکھ کر

اے زلیخا سوچ تو لینا تھا کچھ انجامِ کار

پھاڑنا تھا حضرتِ یوسفؑ کا داماں دیکھ کر

یادگارِ صد تمنا داغِ دل یاد آ گیا

شمع افسردہ سرگورِ غریباں دیکھ کر

شوقِ گل میں ہر روش پر دوڑتی پھرنا کہاں

تھک گئے ہم وسعتِ صحنِ گلستاں دیکھ کر

جوششِ نظارہ نے گلشن بنائی ہے نگاہ

لکھنؤ دیکھا کہ آئے باغِ رِضواں دیکھ کر

کیا ہوا گر کہہ دیا ہم نے اُسے خُلدِ بریں

وہ چمن وُہ آبِ جُو وُہ قَصرو  اِیواں دیکھ کر

لکھنؤ اور لکھنؤ والوں کی ساری خوبیاں

آ گئیں باور ہمیں حامدؔ علی خاں دیکھ کر

ہو سخن کو ناز جتنا اپنی خُوبی پر بجا

وہ سخن فہم و سخن سنج و سُخنداں دیکھ کر

جنّتِ گوش و نظر تھی اس کی بزم مختصر

لطفِ جاں حاصل ہوا وہ سازو و ساماں دیکھ کر

خوانِ یغما کا سماں آنکھوں کے آگے پھر گیا

میز پر اُس کی ہجومِ میہماناں دیکھ کر

چشم و دل اعجازؔ احسان و تماشا دوست ہیں

آئیں گے پھر لکھنؤ اور اس کے اعیاں دیکھ کر[12]

آل انڈیا مسلم لیگ کا دوسرا اجلاس ۳۰ اور ۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء کو امرتسر میں سید علی امام کی زیر صدارت ہوا۔  خواجہ یوسف شاہ نے خطبۂ استقبالیہ پڑھا جب کہ میاں محمد شفیع، صاحبزادہ آفتاب احمد خان، مولوی رفیع الدین احمد، سید نواب علی، مولانا محمد علی، شیخ عبدالقادر اور نواب سلیم اللہ خان نے تقریریں کیں۔  اس اجلاس میں بہت سی قراردادیں پیش ہوئیں جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔  نواب وقار الملک نے اردو کے حق میں ایک قرارداد پیش کی۔  مسلم لیگ کے باقی اراکین نے اس کی پُر جوش حمایت کی اس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔

مسلم لیگ بھی اس بات کی قائل ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی کوششوں کی ہمت افزائی کی شدید ضرورت اور اردو میں صحیح تعلیم کی اہمیت کے پیشِ نظر، جو ہندوستانی سلطنت کی ’’لِنگوافرنکا‘‘ ہونے کے علاوہ، بمبئی پریذیڈنسی کے مسلمانوں کی بلاشبہ ورنیکلر بھی ہے۔  دکن مسلم لیگ اردو ٹریننگ کالج کے قیام کے لیے درخواست کو اور اردو سکولوں کے لیے مستند معائنہ افسروں کی تقرری کو انتہائی اہم قرار دیتی ہے اور یہ ایک ہمدردانہ نظر ثانی کی مستحق ہے۔ [13]

٭ ٭ ٭

آل انڈیا مسلم لیگ کا تیسرا اجلاس۲۹ اور ۳۰ جنوری ۱۹۱۰ء کو سنگم تھیٹر میں دہلی کے شاہانہ شہر میں منعقد ہوا۔  حکیم محمد اجمل خان، مجلس استقبالیہ کے صدر تھے، ہز ہائی نس آغا خان نے افتتاحی تقریر کی۔  اس اجلاس کے صدر سر غلام محمد علی خان بہادر، شہزادہ ارکوٹ نے اپنے صدارتی خطبے میں اس امر پر زور دیا کہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ورنیکلر کی حیثیت سے اُردو کی توسیع کی جائے ان کے اپنے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں :

Urdu as a Common Vernacular

A third way of bringing about the desired regeneration of the community is the extension of Urdu as the common vernacular of all the Mussalmans in the country. Community of language is universally admitted to be a powerful factor in securing the unity of a people, and Urdu, which is already spoken by considerable numbers and which is generally understood in all parts of this continent, is preeminently fitted to serve this purpose.

Moreover, Urdu has preserved all the good features of an Oriental language and has not been contaminated by the disturbing influences which, though foreign to our soil, have unfortunately begun to make inroads into the other vernaculars. The loyal and respectful tone towards the Government which the Urdu press has maintained in the hands of the Mussalmans, even during the most stirring period in recent times, illustrates clearly what I mean. Assuredly, a language which possesses such inherent capacity and virtues deserves the solid support of the community. It is encouraging to remember that, day by day, the sphere of the influence of Urdu is extending. Even in such a distant part of the Empire as Madras, people whose mother tongue is Tamil, Telugu, Malayalam or Canarese, are increasingly adopting Urdu for all practical purposes and are founding schools in which Urdu forms the medium of instruction. I trust that all lovers of the country and all lovers of peace and progress will try their best to strengthen this tendency and strenuously strive to make Urdu the common language of all India.[14]

یہ اجلاس پانچ نشستوں پر مشتمل تھا۔  حکیم محمد اجمل خاں صدر استقبالیہ کمیٹی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جبکہ افتتاحی خطبہ سر آغا خاں نے دیا اور سرسید امیر علی نے آخر میں تقریر کی۔

دوسری نشست قراردادوں کے لیے مخصوص تھی۔  چنانچہ‘‘ ریفارمز سکیم‘‘ کے حوالے سے میاں محمد شفیع، سید نواب علی چودھری، سید یعقوب حسن، سید وزیر حسن، مسعود الحسن، فضل بھائی اور صاحبزادہ آفتاب احمد خاں نے تقاریر کیں۔  اس کے بعد پبلک سروسز کے موضوع پر میاں محمد شفیع، سید یعقوب حسن، مولوی محبوب عالم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔  تیسری نشست میں عہدیداران اور اراکین کا انتخاب عمل میں آیا۔  آخری دو نشستیں قراردادوں کے لیے مختص تھیں جن میں ’’فرقہ وارانہ نمائندگی‘‘ اور ’’اُردو‘‘ کے بارے میں قرار دادیں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔  ہم دیکھتے ہیں کہ اس تاریخی اجلاس میں کتنی قد آور اور نابغۂ روزگار شخصیات جلوہ افروز تھیں لیکن ’’اردو ہندی تنازع‘‘ کے حوالے سے اردو کے بارے میں قرار داد پیش کرنے کی سعادت شیخ عبدالقادر مدیر مخزن کے حصے میں آئی۔ ہم اس اجلاس کی رپورٹ کے متعلقہ حصے کا اصل انگریزی متن پیش کر رہے ہیں :

URDU

The League then passed the following resolution on Urdu as a Vernacular of India:

"The All India Muslim League deplores the attempts made in certain quarters to damage the importance of Urdu as the principal vernacular of India and regards the preservation and advancement of the Urdu language and literature as essential for the general progress of the country”.

Sheikh Abdul Qadir, in proposing the resolution, said: "that no single factor had contributed more largely to the formation of national sentiments and ideas than the Urdu language.” It is, he said, "the only language which is understood by the educated classes all over India. The search after another common language looks like the digging of a well for a drinking water when the Ganga flows by and laves your feet. The need for Urdu has been felt on a wide scale by travellers and merchants in every part of India. Any practical step to be taken in the direction of supplying the need must depend upon the number of persons who feel the need. No one would think of learning a language if he could  make no use of it except once in a pilgrimage, twice or thrice in a lifetime, or to write a few letters in a year to a merchant in a neighbouring province. Urdu is in evidence not only in Government offices, in markets where articles of foreign manufacture are sold, but is also depended upon for interprovincial business transaction. Even foreing language are daily borrowing the names of commercial stuffs from Urdu. In a way Urdu is widening the circle of its operation and enriching foreign literature. Even in pure and faultless Hindi, Urdu words are largely adopted because no other vernacular can take the place of Urdu as the common language of India. Very often words used in newspapers and books written in pure Hindi are so out of the way that they are intelligible only to those who know Sanskrit. Urdu is the only language which is read and spoken both by Hindus and Mussalmans. Any attempt to damage its importance, he said in conclusion, would be suicidal to the best interests of the progress of India.

Kazi Kabiruddin, in seconding the resolution, said that the study of Urdu should be encouraged and all attempts to damage its utility should be boldly faced. It was highly desirable, on both patriotic and sentimental grounds, to encourage Urdu, the common medium of communication, by holding periodical conferences and creating competent bodies to look after its progress.

The resolution was also supported by Moulvi Mahbub Alum, who remarked that Urdu was the Lingua Franca of India, a fact which its most determined opponents could not deny. He observed that the development of the Muslim community was synonymous with the preservation of the Urdu language”.

The resolution was put to the vote and adopted unanimously. The meeting was then adjourned to the afternoon.[15]

ترجمہ:

شیخ عبدالقادر نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُردو زبان کے علاوہ کوئی اور ایسا واحد عامل نہیں ہے جس نے قومی احساسات اور خیالات کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر اتنا کثیر حصہ لیا ہو۔ ‘‘ انھوں نے کہا کہ‘‘ یہی وہ واحد زبان ہے جس کو پورے ہندوستان میں تعلیم یافتہ طبقہ سمجھتا ہے۔  اس کے علاوہ کسی اور مشترکہ زبان کی تلاش تو بالکل ایسی بات ہے کہ پینے کے پانی کے لیے اس جگہ کنواں کھودا جائے جہاں پہلے ہی گنگا بہہ رہی ہے اور ہمارے پاؤں دھو رہی ہے۔  اردو کی ایک نہایت وسیع پیمانے پر ضرورت تو سیاّح اور سوداگر بھی محسوس کرتے ہیں اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں محسوس کرتے ہیں۔  کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے رسد کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ضرورت مندوں کی تعداد کتنی ہے۔  کوئی بھی آدمی کوئی ایسی زبان سیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس کا مصرف محض اتنا ہو کہ وہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے دنوں میں کام آنے والی ہو جس کا موقع زندگی میں دو تین بار ہی آتا ہے یا پھر پڑوسی صوبے کے کسی تاجر کو سال میں دو تین بار خط لکھنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہو۔  اردو نہ صرف یہ کہ سرکاری دفاتر اور بازاروں میں مستعمل ہے جہاں غیر ملکی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں بلکہ یہ تو بین الصوبائی کاروباری لین دین میں بھی نمایاں ہے حتیٰ کہ یہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ غیر ملکی زبانیں بھی آئے دن، تجارتی اشیاء کے نام اردو زبان سے مستعار لے رہی ہیں۔ لہٰذا ایک طرح سے اردو اپنا دائرہ عمل وسیع کر رہی ہے اور غیر ملکی ادب کے سرمائے میں بھی اضافہ کر رہی ہے حتیٰ کہ خالص اور بے عیب ہندی میں بھی اردو الفاظ ماخوذ کیے جا رہے ہیں اس لیے کہ کوئی اور ورنیکلر ایسی نہیں ہے جو ہندوستان کی مشترکہ زبان اردو کی جگہ لے سکتی ہے۔  اکثر اوقات اخباروں اور کتابوں میں خالص ہندی زبان کے جو الفاظ لکھے جاتے ہیں وہ اس قدر مہمل اور بے تکے ہوتے ہیں کہ انہیں صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھیں سنسکرت آتی ہے۔  اردو ہی وہ واحد زبان ہے جس کو ہندو اورمسلمان دونوں لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ ‘‘ انھوں نے تقریر کے اختتام پر کہا کہ‘‘ اردو کی قدر و قیمت کو گھٹانے کی کوئی بھی کوشش، ہندوستان کی ترقی کے بہترین مفاد میں انتہائی مہلک ہو گی۔ ‘‘

قاضی کبیر الدین نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مطالعہ اردو اور اس کی تعلیم و تدریس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس کی افادیت کو خسارہ رساں اقدامات کا  ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔  اردو کی حوصلہ افزائی جذباتی اور حب الوطنی، دونوں بنیادوں پر اشد لازمی ہے، اردو جو کہ ایک مشترکہ ذریعۂ ابلاغ ہے اس کی ترقی و نگرانی اور جائزہ لینے کے لیے وقتاً فوقتاً کانفرنسیں منعقد کرنی چاہییں اور صاحب الرائے تنظیمیں بھی قائم ہونی چاہییں۔

اس قرارداد کی مزید حمایت اور تائید مولوی محبوب عالم نے کی اور کہا کہ‘‘ اردو تو ہندوستان کی‘‘ لنگوا فرانکا‘‘ ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اس کے ازلی دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ ‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’مسلم قوم کی ترقی اردو زبان کی حفاظت کے مترادف ہے۔ ‘‘

اس کے بعد قرارداد پر رائے شماری ہوئی اور اس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ [16]

آخر میں ہم بابائے قوم حضرت قائد اعظمؒ محمد علی جناح کا ’’اردو ہندی تنازع‘‘ کے حوالے سے بے لاگ تبصرہ اور وہ ایمان افروز اور روح پرور تجزیہ پیش کرتے ہیں جس کا نچوڑ انھوں نے کانگریسی وزارتوں یا ہندو راج کے قیام کے نتیجے کے طور پر ملتِ مسلمہ کی آنکھیں کھولنے اور صحیح راہ پر کاربند ہونے کے لیے پیش کیا اور صاف اور واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ’’مسلمانوں کے پاس مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن کریم فرقان حمید ہے‘‘ انھیں کسی دوسرے لائحہ عمل یا پروگرام کی ضرورت نہیں۔  زبان انسانی دل و دماغ پر کیا اثر کرتی ہے اس سلسلے میں انھوں نے اپنی مثال پیش کی ہے جو ہمارے لیے مشعلِ راہ بھی ہے اور قابلِ عمل بھی!

میمن چیمبرز آف کامرس اور میمن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سپاسنامے کے جواب میں ۱۰؍ جون ۱۹۳۸ء کو‘‘ اردو ہندی تنازع‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ:

زبان کا اثر قوم کے تمدن، معاشرت، مذہب اور تعمیر کردار پر پڑا کرتا ہے۔  میں اپنی ہی مثال پیش کرتا ہوں کہ مجھے شروع شروع میں گجراتی کی تعلیم دی گئی۔  اس کے بعد انگریزی پڑھائی گئی اور انگلستان بھیج کر انگریزی زبان کی انتہائی تعلیم دلوائی گئی اور اس کا  نتیجہ یہ ہوا کہ میری رگ رگ میں انگریزیت سما گئی۔  میں اپنی اس کمزوری کا احساس کرتا ہوں اور اس سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہوں لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔  میں اپنے پرقیاس کرتا ہوں کہ قوم کی تمدنی، معاشرتی اور مذہبی اصلاح و تعمیر پر زبان کا بہت زیادہ اثر مرتب ہوا ہے۔  اس چیز کو ملحوظ رکھ کر مسلمانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی مادری زبان اردو کو جاری رہنے دیا جائے لیکن کانگریس نے ہماری ایک نہ سنی۔  وہ عمداً ہندی یا ہندوستانی کو سب کے لیے لازمی کر رہی ہے اور صرف پبلک سکولوں میں نہیں بلکہ تمام سرکاری سکولوں میں بھی ہندی کو لازمی قرار دے رہی ہے۔  اب سوچیے کہ جب مسلمان بچے ہندی زبان پڑھیں گے، ہندو فلسفہ پڑھیں گے، ہندو لٹریچر کا مطالعہ کریں گے تو ان کی تمدنی، معاشرتی اور مذہبی حالت کیسی ہو جائے گی؟ کیا وہ برائے نام بھی مسلمان رہ جائیں گے؟ ہرگز نہیں ! اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اُردو زبان مٹ جائے گی اور مسلمان اپنی تمام اسلامی خصوصیات کھو بیٹھیں گے۔ [17]

 ٭٭٭

 

حواشی و حوالہ جات

[1] احمد سعید، حصول پاکستان، ایجوکیشنل ایمپوریم، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص ۵۴۔

[2] بحوالہ مولانا الطاف حسین حالی، حیات جاوید، لاہور، ۱۹۶۶ ء، ص ۱۴۲۔

[3] ایضاً، ص ۱۶۳۱۶۲۔

[4] سر سید احمد خاں، خطوط سر سید (مرتبہ : سر راس مسعود)، بدایوں، ۱۹۳۱ء، ص۶۶۔

[5] عاشق حسین بٹالوی، چند یادیں، چند تاثرات، لاہور، ۱۹۷۰ء، ص ۴۴، ۴۳۔

[6] شیخ محمد اکرام، موج کوثر، لاہور، سنہ ندارد، ص ۱۴۔

[7] اکرام اللہ ندوی، وقارِ حیات، علی گڑھ، ۱۹۲۵ء ص ۹۱۔

[8]  Syed Sharif ul Deen Pirzada, Foundations of Pakistan, Karachi, 1970, p. 132 .

[9] محمد حنیف شاہد، آل انڈیا مسلم لیگ اور اردو (دسمبر ۱۹۰۶ء تا دسمبر ۱۹۴۷ء)، انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ریاض (سعودی عرب)، ۱۹۹۲ء، ص ۱۷۔

[10] رسالہ مخزن، جنوری ۱۹۴۹ء، ص ۳ تا ۸۔

[11] نیرنگ اور اعجاز سے مراد میر غلام بھیک نیرنگ، میرزا اعجاز حسین اور ایڈیٹر مخزن سے مراد شیخ عبدالقادر ہیں۔  بیرسٹر حامد علی خان انجمن دفاع اردو کے سیکرٹری تھے۔

[12] ماہنامہ مخزن اپریل۱۹۰۴ء، جلد۷، نمبر ۱، ص ۵۸ تا ۵۹۔

[13] محمد حنیف شاہد، آل انڈیا مسلم لیگ اور اُردو، ص ۱۸۔

[14] Evolution of Muslim Political Thought in India: Volume One. Ed. A. M. Zaidi, S. Chand and Co., 1975, pp. 207208.

[15] Ibid, pp. 240241.

[16] محمد حنیف شاہد، آل انڈیا مسلم لیگ اور اردو، ۱۹۹۲ء، ص ۱۸ تا۲۱۔

[17] احمد سعید، گفتار قائد اعظمؒ، قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، اسلام آباد، ۱۹۷۶ء، ص۲۱۲ تا۲۱۴۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/7.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید