فہرست مضامین
- اعتماد کا رشتہ
- انتساب
- کچھ اپنے بارے میں
- ہوا نے کل مرے زخموں کو پھر جِلا بخشی
- مرا دھیان مسلسل ہی دستکوں میں رہا
- حمدِ ربِ جلیل
- نعتِ رسولِ اکرم ﷺ
- سلام بہ حضور شہدائے کربلاؓ
- سلسلے ٹوٹ گئے جب سے رواداری کے
- جب زندگی میں خواب کے پیکر تراشنا
- چھوڑ دے تو محفلوں میں اب شناسا دیکھنا
- تم اگر ہم سے بچھڑنے میں نہ عُجلَت کرتے
- قدم قدم پہ جو شامل رفاقتوں میں رہا
- وحشت خزاں کی یا کہ ہو سطوت بہار کی
- محبت جستجو آمیز ایسا استعارا ہے
- دشتِ غربت میں بھی کچھ ایسی فراوانی تھی
- گو، زندگی نے مجھ کو بہت در بہ در کیا
- وہ اِک چہرہ جسے دِل ڈھونڈتا ہے
- وہ کیا دن تھے ہمیں بھی چاند کو پانے کی خواہش تھی
- ملتفت کر کے مجھے پہلے تو اپنایا گیا
- میراث جو سمجھتے تھے اُونچی اُڑان کو
- یادوں کی سیج زخم کو گہرائی دے گیا
- جب بھی کوئی خلوص کا دریا دکھائی دے
- روپ پتھر مزاج پتھر کا
- فرقت کے تصّور نے جو شعلوں کو ہوا دی
- جس کی جانب دیکھئے وہ ذات میں محصور ہے
- عزیز تھا جو مجھے دل کی دھڑکنوں کی طرح
- کیا جبیں کو ملے ترے در سے
- کاش سوچے تو کبھی روٹھ کے جانے والے
- اب کے تو بہاروں میں بھی بجلی کی چمک ہے
- یوں زندگی کے کرب کو آسان کیجئے
- رات جب تک چراغ جلتے ہیں
- گئے دنوں کا تمدّن مرے مزاج میں ہے
- رتوں کے روپ ہمیشہ سہانے لگتے ہیں
- آئنے سے نہ انحراف کرو
- یہ سوچ کے مدت سے میں نکلا نہیں گھر سے
- کبھی جو چاہو اگر خود کو معتبر رکھنا
- بھلاؤں کیسے جنوں کی میں وحشتیں اپنی
- گر ہوا کے رو بہ رو سینہ سپر ہو جائیں گے
- وہ اک چہرہ جسے دل ڈھونڈتا ہے
- جب دوستی کی رسم و روایت نہیں رہی
- جب زندگی میں خواب کے پیکر تراشنَا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط
اعتماد کا رشتہ
سہیل اخترؔ ہاشمی
شاعر: سہیل اخترؔ ہاشمی
آغازِ سُخن : ۱۹۷۲ء
انتخاب و ترتیب : انور جاوید ہاشمی
کمپوزنگ؍حروف بینی: ہاشمی کمپوزنگ سینٹر نارتھ کراچی
بارِ اوّل : ۲۰۱۲ء
ہاشمی پبلی کیشنز
اے۔ ۲۵۲ بلاک ۲ گلشنِ اقبال
کراچی ۷۵۳۰۰
انتساب
میرا یہ شعری انتخاب
شاعری سے رغبت رکھنے، سراہنے والے
سخن شناس، سخن فہم اور سخن دوستوں
کی نذر ہے کہ اس کے بغیر اعتماد کا رشتہ نہ قائم رکھا جا سکتا ہے نہ بحال رہ سکتا ہے
سہیل اختر ہاشمی
کراچی
کچھ اپنے بارے میں
راقم نے اپنے ذوق کی تسکین اور خاندانی میراث کی پرورش و تحفظ کے لیے شاعری سے اپنا ناتہ جوڑے رکھا۔ دبستان کورنگی لانڈھی سے شاعری کرنے اور مشاعروں میں شرکت کا آغاز ہوا۔ نور احمد میرٹھی، قمر ہاشمی، ڈاکٹریوسف جاوید، شکیل احمد ضیاء، جوہر سعیدی، ڈاکٹرساجد امجد، الیاس شاداں ، جمال احسانی، ضامن زیدی، شفق زیدی، انور انصاری، عبید الرحمٰن عبید، حکیم انجم فوقی بدایونی، انور جاوید ہاشمی، رشید خاں رشید، انور انصاری، محمود اختر، ثروت سعیدی اور کئی سینئر، معاصرین کے ہمراہ یہ سفر طے کرتا ہوا کچھ عرصے کے لیے عازم تہران ایران ہوا وہاں سے واپسی کے بعد نقل مکانی کا سلسلہ چلتا رہا۔ معاشی حالات بھی دگرگوں رہے اور شاعری سے بھی وہ قلبی و ذہنی وابستگی نہ رہی جو ۱۹۷۰ء کی دہائی میں تھی
کچھ غزلیں بالکل اوائل کی اور بہت سا نیا کلام اس انتخاب میں شامل کیا گیا ہے جب کہ کئی ڈائریاں میری اپنی غفلت کے باعث محفوظ نہ رہ سکیں ۔ امید کہ اس انتخاب کو آپ سند قبولیت بخشیں گے
فرصت ملے تو مطالعہ کیجئے گا اور اپنی محبت کا اظہار بھی کہ راقم کی طلب اس کے سوا کچھ نہیں
سہیل اختر ہاشمی
ہوا نے کل مرے زخموں کو پھر جِلا بخشی
مرا دھیان مسلسل ہی دستکوں میں رہا
یہ کون سی ہوَا ہے جو شاعر کے، جو ایک حسّاس طبعیت کا حامل و مالک ہے، زخموں کو جِلا بخش رہی ہے۔ یہ دستکیں اُسی کے گیان و دھیان میں تو نہیں جس کے لیے کان آہٹ پر لگے ہوں ، نظریں دَر پر جمی ہوں اور دِل ایک عجب اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہو رہا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ؎
فریب ا تنے دیے ہیں دستکو ں نے
و ہ آ یا بھی تو سمجھو ں گا ہوَا ہے
عزم بہزاد نے ۲۰۰۵ء کے ایک مشاعرے سے واپسی پر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہوئے کہا تھا کہ
’’انور بھائی!سہیل بھائی کا یہ شعر احمد ندیم قاسمی کے ’باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا‘ والے شعر سے بالکل مختلف اور منفرد ہے جسے کورنگی کے ایک مشاعرے میں جب کہ شاعری کا ہم نے آغاز کیا تھا سنتے ہی اپنی سماعت و یادداشت کا حصّہ بنا لیا تھا۔ سہیل بھائی کی غزلوں میں اس جیسا شعر دوبارہ ہم نے نہیں سُنا وہ جس انداز میں شاعری کرتے ہیں اور جس طرح وقت نکالتے ہیں یہ بھی غنیمت ہے۔ ‘‘صاحبو اور بیبیو بھلا یہ کیسا شاعر ہے کہ جو ہمیشہ تنہائی کا اسیر رہنے کے باوجود اپنی خلاقانہ طبعیت کے ہاتھوں مسحور ہو کر یہ کہتا ہے کہ جس کے ساتھ وحشت اور تنہائی کا ویرانہ ہو اسے تنہا کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ بظاہر وہ جبر کی زنجیروں میں جکڑا ضرور ہے مگر اپنی ذات کے خول میں اکٹر یا مجسمۂ غُرور نہیں ہے اسی لیے اُس کی متاعِ حیات آج بھی معصومیت کی عمر یعنی بچپن کے وہ بنتے اور آن میں ڈھ جاتے ہوئے مٹی کے گھروندے ہیں جنہیں وہ ساحل پر اکٹھا کر کے بناتا رہتا تھا اور پھر ہوا سے اُن کے ازسرنو اپنی اصلی حالت یعنی خاک میں ریت مدغم ہو جانے کے بعد وہاں سے خستہ و درماندہ مگر ایک انجان آشنا سرخوشی کے ساتھ پلٹ آیا کرتا تھا۔ اُسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ جس آشوب نگر کا باسی ہے وہاں انسان انسان کا لہو بہانے میں عار نہیں سمجھتا اور یہ رسم ِ زمانہ بھی اسے معلوم ہے کہ قاتل خود ہی سوگواروں میں شامل ہو کر شامل ہو کر نئے شکار کی گھات لگائے ہوئے ہیں ۔ اس لیے کہ اس سرزمین کی سیاست کی فصل اُس وقت تک نہیں پکتی جب تک اسے سینچنے کے لیے انسانی لہو نہ پہنچایا جائے۔ وہ غزل کے حُسن کو مجروح کرنے کا خواہاں نہیں ہے مگر جہاں نظم و ضبط کا فقدان ہو، وحشت و بربریت پر عقل واماندہ و حیران ہو سوائے نظمیہ اظہار بیان کے چارہ نہیں اور نقّادانِ سُخن کو یہ کسی طور گوارا نہیں ۔ ہرچند حالات و واقعات نے اُسے اوائل عمر میں ہی روزگار کی دلدل میں اُتار دیا تھا اور اس نے اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی اس صیغہ ٔ جانکنی میں وار دیا تھا۔ کچھ عرصہ ہست قرآں در زبان ِ پہلوی کے دل دادگان و وابستگان کے درمیان بسر کیا اور مشینی جادہ ٔ آمدنی کو اپنی رہ گزر کیا مگر تا کُجا، انقلاب زمانہ کہئے یا ایران کا مسئلہ اندرون خانہ جانیے، مراجعت کو مقدر جانا اورازسرِنو جنم بھومی کو بنا لیا ٹھکانہ۔ سُخن کوچے میں واپسی آسان نہیں اس کے باوجود اسے یہ پیغام بھی اپنی نسل ِ آئندہ کو دیتے رہنا ہے کہ آنگن میں لگے پیڑ کبھی مت کاٹنا ورنہ پرندے بے گھر ہو جائیں گے۔ اُسے زندگی کے جبر سے مفر نظر نہیں آتا اور یکہ و تنہا اُسی کی یہ کیفیت نہیں بلکہ جس کی جانب بھی دیکھے اسے اپنی ذات میں محصور پاتا ہے اور تمام تر زعم و طمطراق کے اُس کو انسان کی بے بسی و مجبوری کا ہی ادراک ہوتا ہے۔
’اعتماد کا رشتہ ‘بحال کرنے کی آرزو لیے یہ شاعر زندگی کی مسافتوں ، مسابقتوں میں نہ سست گام رہا نہ تیز رو بلکہ میانہ روی، اعتدال اس کے نفس کا خاصا رہا، اِس کی ہر آن آرزو رہی کہ وہ اپنی ذہنی استعداداور خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انسان، انسانیت، انسان دوست، امن کے داعی، بے بس و مجبور مگر غّیور عوام کی خدمت و رہنمائی کرتا رہے۔ اُن کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے اُس نے راہ ِ عمل کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور اختر شماری کے ساتھ پلکوں پر جھل ملاتے جگنوؤں کو لفظوں میں پرونا اپنا مسلک و معمول بنائے رکھا۔ تخلیق کے دیئے کو جلائے رکھا۔ فکر و عمل کی یہ آمیزش اس کی گفتار میں بھی، کردار میں بھی، زیست میں اطوار میں بھی، محبت کے اظہار میں بھی اور راست بازی کے ساتھ دُنیائے دنی کے بازار میں اُس کی اُجرت ہے، محنتانہ ہے، معاوضہ ہے جسے وہ عیال داری کے ساتھ احباب نوازی اور غریب نوازی کی مَد میں خود پر قرض جان کر لُٹاتا، اپنے مَن میں ایک احساسِ سرخوشی کو پاتا، دوسروں کے بخشے، اپنوں کے دیئے زخموں سے احساس کو سجاتا آپ تک اپنے اظہار کو پہنچاتا ہے۔ اگر آپ کے اور اُس کے درمیان ’اعتماد کا رشتہ‘ بحال رہا اور اس کو استقرار و استحکام نصیب ہوتا رہا تو جا ن لیجئے کہ اُس کو اپنے فن کے قدر دان اور شناساؤں کی صورت میں اب تک کی محنت کا ماحصل مل گیا۔
دنیائے شعرو ادب میں وہ بہت زیادہ نام ور نہیں تو نہ سہی پر ایسا گم نام بھی نہیں کہ جب اُس کا نام یا کلام سامنے آئے تو لوگ ایک دوسرے سے سوالیہ انداز میں ’’یہ سہیل اختر ہاشمی کون ہے؟‘‘پوچھنے لگیں ۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی سے درمیان میں تھوڑے بہت وقفوں کے باوجود اُس کا تخلیقی سفر، فکری گیان دھیان تا حال جاری ہے۔
ہر چند اُس کا دل شہرت کی تمنّا سے عاری ہے تاہم وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُس میں جو خُود داری ہے وہی اُس کی اصل کامیابی ہے جو سماجی و انفرادی سطح پر سُرخ روئی، شادکامی اور اطمینان ِ قلب و روح کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
فیصلہ آپ قارئین اور سخن شناسوں پر چھوڑتا ہوں اس لیے کہ کیا اس سے زیادہ بھی کسی فن کار کے لیے کوئی اور منزل سر کرنا باقی رہ جاتی ہے!
انور جاوید ہاشمی
٭٭٭
حمدِ ربِ جلیل
کہاں سے لاؤں میں اظہار و مدعا کے لیے
کہ حرف ملتے نہیں رب تری ثناء کے لیے
ازل سے تا بہ ابد چارسُو ترے جلوے
تو ابتدا سے بھی پہلے ہے انتہا کے لیے
خدا گواہ کہ عاجز زبان ہے اخترؔ
بس اپنے ہاتھ اُٹھائے رہوں دُعا کے لیے
٭٭٭
نعتِ رسولِ اکرم ﷺ
محفلِ میلاد میں شمعِ حرا کی دھوم ہے
نورِ اوّل مظہرِ نورِ خُدا کی دھوم ہے
چار جانب مرحبا صلِّ علیٰ کی دھوم ہے
آمدِ ماہِ مبارک مصطفیﷺ کی دھوم ہے
برسرِ قرآں خلیلؑ اللہ کی دیکھو دُعا
آج تک بعثت کی اُس پیاری دُعا کی دھوم ہے
آپ کی تخلیق و آمد کی خبر عیسیٰؑ نے دی
دیکھئے توریت میں خیر الوریٰﷺ کی دھوم ہے
دیکھ کر دائی حلیمہؓ نے رُخِ انور کہا
آمنہؓ کے لال ختم الانبیاء کی دھوم ہے
کعبہ بت خانہ تھا پہلے آپ نے تطہیر کی
پاک بیت اللہ کی، بیت الصفا کی دھوم ہے
جو قیامت تک ہدایت کا سبق سکھلاگئے
ہادیِ دینِ مبیں کی پیشوا کی دھوم ہے
خوف بخشش کا نہیں اخترؔ کہ محشر میں خُدا
شافعِ محشر شہِ روزِ جزا کی دھوم ہے
٭٭٭
سلام بہ حضور شہدائے کربلاؓ
اخترؔ زیارتوں کے لیے جائے کربلا
رکھتا ہے اپنے دل میں تمنائے کربلا
لڑتے ہیں جو بھی عصر کے شمر و یزید سے
ہوتا ہے اُن سروں میں ہی سودائے کربلا
ہم بھی حسینیت کے علَم کے طفیل ہیں
خواہاں ہیں پھر ہوں بادیہ پیمائے کربلا
’قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے‘
کرتے ہیں یاد ہم وہی ایفائے کربلا
ماتم گسار صبر کی میراث ہیں لئے
ڈھارس حسینیوں کی بھی بندھوائے کربلا
اخترؔ سلام آلِ محمدؐ پہ میں پڑھوں
بادِ صبا سلام یہ پہنچائے کربلا
٭٭٭
سلسلے ٹوٹ گئے جب سے رواداری کے
سارے موسم ہیں مرے شہر کے آزاری کے
وہ اگر روٹھ گیا ہے تو شکایت کیسی
عمر بھر ہم نے سہے زخم وفاداری کے
کل تلک جس نے مرے شہر کو تاراج کیا
آج دعوے ہیں اسے قوم سے غم خواری کے
مُدتوں ہم نے کیے نیند کے سکّوں کے عوض
خواب میں سودے اُمیدوں کی خریداری کے
پہلے تو اُس نے مجھے خود ہی فراموش کیا
اور پھر شکوے کئے راہ کی دشواری کے
سارے دُکھ جھَیل کے افلاس کے، ہنستا ہی رہا
کچھ نئے باب لکھے میں نے بھی خود داری کے
میں ترے دام میں اخترؔ نہیں آنے والا
تو کہیِں اور دِکھا گُر یہ اداکاری کے
٭٭٭
جب زندگی میں خواب کے پیکر تراشنا
پہلے ہجومِ یاس کے منظر تراشنا
لازم اگر ہو سوچنا ماضی کے باب میں
اشکوں کی اِک قطار کے لشکر تراشنا
بچپن کا شوق اب بھی متاعِ حیات ہے
ساحل پہ بیٹھے ریت سے کچھ گھر تراشنا
کشتی بھنور میں لاکھ پھنٗسی ہو مری مگر
سیکھا نہیں سراب کے لنگر تراشنا
ترکِ تعلقات کے شِکوے نہیں مجھے
لیکن وضاحتیں کوئی بہتر تراشنا
٭٭٭
چھوڑ دے تو محفلوں میں اب شناسا دیکھنا
تیری قسمت میں لکھا ہے خود کو تنہا دیکھنا
اپنے غم تو بانٹ دے اچھا نہیں لگتا مجھے
آنسوؤں کا تیری آنکھوں میں بسیرا دیکھنا
تم کو سننا ہو اگر محرومیوں کی داستاں
ایک لمحے کے لئے ہی میرا چہرا دیکھنا
ہم نے یوں دھوکے سہے ہیں دستکوں سے عمر بھر
ایک آہٹ پر ہمیشہ کر کے وَا دَر دیکھنا
تو اَنا کے خول سے باہر کبھی نکلے اگر
موج زن کیوں ہے مری آنکھوں میں دریا دیکھنا
٭٭٭
تم اگر ہم سے بچھڑنے میں نہ عُجلَت کرتے
ہم عبادت کی طرح تُم سے محبّت کرتے
میں نے پوچھا تھا فقط تم سے تغافل کا سبب
بھگی آنکھوں سے سہی کچھ تو وضاحت کرتے
اُن کو دعویٰ تھا مُحبّت میں جُنوں کاری کا
ہم سے وہ کیسے خسارے کی تجارَت کرتے
دُکھ کا ہر رُوپ بہر حَال ہمارا ہوتا
ہم جو تقسیم کبھی دل کی وراثت کرتے
فیصلہ اُس نے کِیا ترک ِ مرَاسِم کا مگر
زندگی بیت گئی میری وضاحَت کرتے
قدم قدم پہ جو شامل رفاقتوں میں رہا
مرے خلاف ہی مصروف سازشوں میں رہا
گماں سے ربط جو ٹوٹا تو وحشتوں میں رہا
عجیب دل ہے ہمیشہ مسافتوں میں رہا
ہوا نے کل مرے زخموں کو پھر جِلا بخشی
مرا دھیان مسلسل ہی دستکوں میں رہا
بساطِ زیست پر جس نے خِرد سے چال چلی
زمانہ اُس کی ہمیشہ ہی ٹھوکروں میں رہا
غنیمِ شہر کی خواہش پہ قتلِ عام کے بعد
منایا سوگ بھی اُس نے جو قاتلوں میں رہا
زمانہ اِس کے سوا مجھ کو کیا سزا دیتا
کہ عُمر بھر ہی تسلسل سا حادثوں میں رہا
مری اَنا سے ملا مجھ کو حوصلہ اخترؔ
میں آئینہ تھا مگر پھر بھی پتھروں میں رہا
٭٭٭
وحشت خزاں کی یا کہ ہو سطوت بہار کی
ہم نے چمن کی پرورش دیوانہ وار کی
کچھ وہ فریب دیتا رہا مجھ کو عادتاً
کچھ میں نے درگذر بھی بہت اختیار کی
دستار جس کے سر پہ بھی رکھی گئی یہاں
اس نے ہی ہم کو بخشی ہے یارو انارکی
شکوے تمام اُس کے ستم کے بھلا دیے
ایسی دلیل، ایسی وضاحت تھی یار کی
خوابوں کی اک طویل رفاقت کے باوجود
ہم نے نہ خودفریبی کبھی اختیار کی
یوں عمر بھر نہ روئے کبھی اس خیال سے
تہمت لگے نہ ہم پہ بھی راہِ فرار کی
میں زندگی میں کھاتا رہا مات اس لیے
جیتوں کبھی تو اُس کو میں قیمت میں ہار کی
اخترؔ نے اپنی زیست کا محور بنا لیا
سوغات جو ملی تھی اسے انتظار کی
٭٭٭
محبت جستجو آمیز ایسا استعارا ہے
ذرا سی بھول سے جس میں خسارا ہی خسارا ہے
مرا خاموش رہنا ہی مرے زخموں کا مرہم ہے
وگرنہ وار کس کا ہے، بہت واضح اشارا ہے
یہ کس کی بد دعا تھی جو روایت ہو گئی مدفن
پَسر کو باپ کہتا تھا مرا کل کا سہارا ہے
مرا ہر دکھ مزیّن ہے مرے اپنوں کی خواہش سے
چلو وہ خوش رہیں یوں ہی مجھے یہ بھی گوارا ہے
کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں میرے خیر خواہوں میں
مرے سب دشمنوں سے ربط جن کا گوشوارا ہے
خزاں کی سب رُتوں میں کی چمن کی پرورش ہم نے
شجر پہ جب ثمر آئے ہواؤں کا اجارا ہے
نجانے کن خطاؤں کی سزا مجھ کو ملی اخترؔ
کہ گردش میں ازل سے ہی مقدّر کا ستارا ہے
٭٭٭
دشتِ غربت میں بھی کچھ ایسی فراوانی تھی
آنکھ میں اشک نہیں سیل تھا طُغیانی تھی
عمر بھر اس کی وضاحت پہ کیا میں نے یقیں
یہ مرا ذوقِ جنوں یا کوئی نادانی تھی
اجنبی لہجے میں جب گھر کے مکیں خود سے ملے
صحن کی اک نئی تقسیم بھی امکانی تھی
آخری بار ملن کا رہا احوال عجب
لب تھے خاموش مگر آنکھ میں حیرانی تھی
میں نے اخترؔ کو کسی پل بھی نہ تنہا دیکھا
ساتھ اِس کے کبھی وحشت، کبھی ویرانی تھی
٭٭٭
گو، زندگی نے مجھ کو بہت در بہ در کیا
میں نے، نہ وحشتوں کو مگر ہم سفر کیا
اپنے جنوں کی اور کیا دیتا مثال میں
جس نے دیے تھے زخم اسے چارہ گر کیا
رہتا ہے آج بھی مرے خوابوں کے دیس میں
وہ جس نے عمر بھر ہی مجھے در گُزر کیا
قد قامتی پہ اب تو انھیں بھی غرور ہے
نسبت نے میری جن کو یہاں معتبر کیا
لہجے میں دوستوں کو جو بے گانگی ملی
میں نے حصارِ ذات کو اپنا نگر کیا
لفظوں کی دل کشی سے چھپائے ہیں دل کے زخم
میں نے یہ اہتمامِ فریبِ نظر کیا
اخترؔ نے تشنگی میں گزاری ہے زندگی
لیکن طلب کو اپنی نہ شوریدہ سر کیا
٭٭٭
وہ اِک چہرہ جسے دِل ڈھونڈتا ہے
نجانے کن خلاؤں میں چُھپا ہے
یہ افسانہ ہے یا کہ واقعہ ہے
مرے بارے میں وہ بھی سوچتا ہے
میں چونکا ہوں اگر پتّا گرا ہے
ترے آنے کا یوں دھڑکا لگا ہے
خُداؤں کی طرح خاموش کیوں ہو
تمہیں بھی کیا کوئی غَم لگ گیا ہے!
گلی میں آج پھِر رونَق ہے یارو
یقیناً کوئی انساں مرگیا ہے
٭٭٭
وہ کیا دن تھے ہمیں بھی چاند کو پانے کی خواہش تھی
کسی کی جھیل آنکھوں میں سما جانے کی خواہش تھی
کبھی جگنو چمکتے تھے مری یادوں کے جنگل میں
کبھی موتی سرِ مژگاں اُتر آنے کی خواہش تھی
کبھی وہ پھول رکھتا تھا کتابوں میں عقیدت کے
کبھی پھر ان کتابوں کے بدل جانے کی خواہش تھی
کبھی میں رت جگے کر کے کسی کے خواب چُنتا تھا
کبھی پھر خواب کی تعبیر کو پانے کی خواہش تھی
عجب نشہ رہا برسوں کہ اُس سے گفتگو کر کے
نہ ساغر کی تمنّا تھی نہ مئے خانے کی خواہش تھی
مجھے اعزاز جو اخترؔ ملا صحرا نوردی کا
اسی اعزاز پر خود پہ ستم ڈھانے کی خواہش تھی
٭٭٭
ملتفت کر کے مجھے پہلے تو اپنایا گیا
پھر ستم ایجاد کی خواہش پہ تڑپایا گیا
جو بظاہر میرے مرنے پر بہت مغموم تھا
قاتلوں کا وصف بھی کچھ اس میں تھا پایا گیا
جب بھی اُس سے راستے تبدیل کرنے کو کہا
خوش نما لفظوں تلے پھر مجھ کو بہلایا گیا
زندگی کے کرب کا مفہوم اُس سے پوچھ لو
بچپنے میں جس کے بھی ماں باپ کا سایا گیا
وحشتیں ہوں زیست کی یا خواہشوں کی آندھیاں
دھوپ کے ہر روپ سے ہی مجھ کو جھلسایا گیا
عشق کی تاریخ میں اخترؔ کا یہ اعزاز ہے
ابتدا سے انتہا تک تذکرہ پایا گیا
٭٭٭
میراث جو سمجھتے تھے اُونچی اُڑان کو
حسرت سے دیکھتے تھے مرے سائبان کو
اُن کو زمین پر ہی بالآخر پناہ ملی
خاطر میں جو نہ لائے کبھی آسمان کو
سرکش ہوا کے قرب پہ جن کو غرور تھا
بپھری تو لے اُڑی ہے انہی کے مکان کو
ایسے بھی خود فریب ہیں اس عہد میں کہ جو
بدلیں یقیں کے روپ میں اپنے گمان کو
اخترؔ کا تو مزاج ذرا مختلف سا ہے
دریا دلی کا درس دیا دُشمنان کو
٭٭٭
یادوں کی سیج زخم کو گہرائی دے گیا
وہ شخص مجھ کو، کوچۂ صحرائی دے گیا
زخموں کی پرورش بھی کی اولاد کی طرح
مجھ کو عزیز تھے کہ مرا بھائی دے گیا
کچھ میں بھی سرکشی میں سمندر مزاج تھا
کچھ وہ بھی مجھ کو شورشِ دریائی دے گیا
ماں باپ نے لہو سے تن آور کیا جسے
شادی کے بعد وہ انہیں تنہائی دے گیا
روشن خیال طرزِ سیاست کے نام پر
یہ کون ہم کو تمغہ ٔ رسوائی دے گیا
بچوں نے مفلسی کی شکایت کبھی نہ کی
یہ دور اُن کو ایسی توانائی دے گیا
٭٭٭
کون اب اُس کی دسترس میں رہے
کیوں پرندہ کسی قفس میں رہے
عہدِ نو کی کرامتیں دیکھو
آدمی، آدمی کے بس میں رہے
مات وہ دے گیا زمانے کو
ہم ہمیشہ ہی پیش و پس میں رہے
زندگی جبر کی علامت ہے
سو ہمیشہ ہی ہم قفس میں رہے
منزلیں کیا اُنھیں ملیں اخترؔ
عمر بھر جو فقط ہوَس میں رہے
٭٭٭
جب بھی کوئی خلوص کا دریا دکھائی دے
میرا وجود کیوں مجھے پیاسا دکھائی دے
باطن میں ظاہری کا سراپا دکھائی دے
اے کاش کوئی تو مجھے ایسا دکھائی دے
جس کی جبیں پہ آئے شکن مجھ کو دیکھ کر
اُس آئینے میں کیوں مرا چہرا دکھائی دے
اس طرح زندگی کا اڑا دے ورق ورق
دیباچۂ حیات بھی تنہا دکھائی دے
وہ اپنی آنکھ کا اگر شہتیر دیکھ لیں
پھر نہ کسی کی آنکھ کا تنکا دکھائی دے
تاریک رہ گزر پہ ستم کی یہ تیرگی
جگو ہمیں تو ٹوٹتا تارا دکھائی دے
اخترؔ ترا مزاج تو ہے تو دھوپ کا سفر
بارش نہیں تو ابر کا ٹکڑا دکھائی دے
٭٭٭
روپ پتھر مزاج پتھر کا
اُگ رہا ہے اناج پتھر کا
سب ہی اک دوسرے سے نالاں ہیں
آدمی پر ہے راج پتھر کا
سرکشی ہے ستم کی پیمائش
ہے رعونت رواج پتھر کا
آدمی آدمی کا دشمن ہے
کون بدلے سماج پتھر کا
کل جو شیریں دہن تھا، خوش بو تھا
وہ بھی پیکر ہے آج پتھر کا
جس کو بھجے تھے میں نے گل دستے
اس نے بھیجا خراج پتھر کا
کون شیشہ گری کرے اخترؔ
سب کے سر پر ہے تاج پتھر کا
٭٭٭
فرقت کے تصّور نے جو شعلوں کو ہوا دی
بھڑکے ہوئے جذبات نے اک آگ لگا دی
پُرسش کو نہ آنا تجھے معلوم تو ہو گا
دنیا نے وفاؤں کی مجھے خوب سزا دی
اے میری تمنائے محبت تو کہاں ہے
ہر سمت پکارا تجھے ہر سمت صدا دی
تو نے تو مجھے ایک تبسم بھی نہ بخشا
میں نے اسی اُمید پہ دنیا ہی لُٹا دی
دیکھو نہ مجھے گردشِ حالات سے پوچھو
آئینے نے چہرے پہ بہت گرد جما دی
٭٭٭
جس کی جانب دیکھئے وہ ذات میں محصور ہے
آدمی سب کچھ سہی لیکن بہت مجبور ہے
میں جسے کہتا رہا حالات سے مجبور ہے
زیست کے زنداں کا شاید وہ کوئی مفرور ہے
مصلحت گو تو رہا ہر دور میں فالج زدہ
کل بھی یہ معذور تھا اور آج بھی معذور ہے
ہم نے گم نامی کے طوفاں سے نکالا کل جسے
آج وہ سب کے لیے رستا ہوا ناسور ہے
ہم نے کل بھی حق نوائی کے لئے جھیلے ستم
آج بھی اخترؔ اسی اک جہد پر مامور ہے
٭٭٭
عزیز تھا جو مجھے دل کی دھڑکنوں کی طرح
گیا تو لوٹ کے آیا نہ راحتوں کی طرح
کوئی دلیل مراسم بحال کر نہ سکی
اٹل ہو جیسے کہ منصف کے فیصلوں کی طرح
وہ کرب آج مری زندگی کا حاصل ہے
مجھے جو سونپ گیا وہ رفاقتوں کی طرح
کبھی تو دھوپ، کبھی سائباں کی صورت میں
ملا وہ مجھ سے ہمیشہ ہی موسموں کی طرح
فصیلِ شہر پہ روشن ہیں ظلمتوں کے دیئے
امیرِ شہر ہے مصروف دیمکوں کی طرح
کچھ احتیاط بھی لازم ہے گفتگو میں اگر
کوئی ملے تو مِلو جھُک کے دوستوں کی طرح
٭٭٭
کیا جبیں کو ملے ترے در سے
شیشہ ٹکرا گیا ہے پتھر سے
شہر میں دل کسی کے پاس نہیں
ہم نے پوچھا ہر اک دلاور سے
اُف یہ ہوش و خرد کے دیوانے
بات کرتے ہیں مجھ سے خودسر سے
رہزنوں کا کوئی وجود نہ تھا
ہم لُٹے بھی تو اپنے رہبر سے
جس نے تجھ کو بنادیا شہکار
مل سکوں کاش ایسے آذر سے
لاکھ دشمن ہوں برسرِ پیکار
ہٹ نہیں سکتا اپنے محور سے
٭٭٭
کاش سوچے تو کبھی روٹھ کے جانے والے
حوصلے ڈھونڈ رہا ہوں میں منانے والے
دُور تو مجھ سے ہوا، صبر مجھے ہے لیکن
کتنے خوش ہو گئے تو دیکھ، زمانے والے
میرے بارے میں یقیناً تو پریشاں ہی نہیں
غم تو یہ ہے کہ نہیں زخم دکھانے والے
میں نے دیکھا ہے تجھے خواب میں کل رات کہ جب
ہاتھ مصروف تھے کچھ تجھ کو سجانے والے
تیرے ہاتھوں میں تھی، گو رنگِ حنا کی خوشبو
پَر ترے چہرے پہ جذبے تھے پُرانے والے
میں نے ہر دور میں اخترؔ کو فروزاں دیکھا
جاں بہ لب ہوتے گئے اُس کو مٹانے والے
٭٭٭
اب کے تو بہاروں میں بھی بجلی کی چمک ہے
ہر پھول کا چہرہ ہے کہ شعلے کی لپک ہے
جس شخص کو آغازِ محبت میں جھجک ہے
پھر اُس کے تو انجامِ محبت پہ بھی شک ہے
پچ رنگ دوپٹے کی پھبن زلف پہ تیری
برسات کے موسم میں گھٹاؤں کی دھنک ہے
یہ نرم و گداز آپ کا اندازِ تکلّم
آواز کا یہ لوچ کہ کلیوں کی چٹک ہے
احباب کا اس دور میں بے کار ہے شکوہ
اخلاق تو اس دور میں آٹے میں نمک ہے
اخترؔ گو مرے ظرف کو ہر دور نے کچلا
پھر بھی مرے سینے میں حقائق کی کسک ہے
٭٭٭
یوں زندگی کے کرب کو آسان کیجئے
پھر سے روایتوں کو نگہبان کیجئے
خواہش اگر ہے آپ کی کٹ جائے یہ سفر
رختِ سفر کا کوئی تو امکان کیجئے
دوچار دن کی زندگی ہنس کر گزارئیے
لازم ہے کیا کہ درد کو عنوان کیجئے
ترکِ تعلقات کا شکوہ نہیں مجھے
خود کو وضاحتوں سے نہ ہلکان کیجئے
جاری ہوا یہ عدل کو حکمِ غنیمِ وقت
جینا اگر ہے مدحتِ سلطان کیجئے
کب تک کریں گے رقص یہ وحشت کے قافلے
کچھ غور اس پہ حضرتِ انسان کیجئے
سود و زیاں گو تلخ حقائق سہی مگر
اخترؔ نہ خو کو سوختہ سامان کیجئے
٭٭٭
رات جب تک چراغ جلتے ہیں
دل ہواؤں کے بھی مچلتے ہیں
کب سے اِن خواہشوں کے جنگل میں
پھل ہی محرومیوں کے پھلتے ہیں
اُن کو منزل کبھی نہیں ملتی
روز جو راستا بدلتے ہیں
کتنے سادہ مزاج ہیں ہم بھی
اُن کے وعدوں سے ہی بہلتے ہیں
آؤ بے گانگی کی بستی سے
کوچۂ دشمناں کو چلتے ہیں
وہ ہی اس دور کے امین ہیں جو
موسموں کی طرح بدلتے ہیں
آج انساں کے روپ میں اخترؔ
آستینوں میں سانپ پلتے ہیں
٭٭٭
گئے دنوں کا تمدّن مرے مزاج میں ہے
وگرنہ شہر تو اب وحشتوں کے راج میں ہے
ہے آئنے سے بھی قامت کا اختلاف یہاں
عجیب طرزِ تغافل یہاں سماج میں ہے
سب اپنے حصّے کا سچ بول کر سزا پائیں
یہ درج آج بھی دستورِ سامراج میں ہے
مجھے وہ چھوڑ گیا تو ملال ہو کیسے
ہوا کی سمت ہی چلنا تو اب رواج میں ہے
دلیل، صبر، مروت، وفا کے بعد یہاں
اب اعتبار کی دیوی بھی اختلاج میں ہے
سجاکے اپنی جبیں پر منافقت کے دیئے
یہاں پہ جبر ہمیشہ سے تخت و تاج میں ہے
مرے قبیلے سے اخترؔ مجھے یہ وصف ملا
کچھ انکسار بھی شامل مرے مزاج میں ہے
٭٭٭
رتوں کے روپ ہمیشہ سہانے لگتے ہیں
مگر یہ زخم بھریں تو زمانے لگتے ہیں
کبھی جو پوچھے کوئی اُن سے بے رُخی کا سبب
ستارہ چشم میں موتی سجانے لگتے ہیں
کسی کے ظرف کے قامت کی گفتگو ہو اگر
ہم اپنے زخم سبھی سے چھپانے لگتے ہیں
جہاں مزاج بدل جائے موسموں کی طرح
خلوص و مہر و وفا بھی فسانے لگتے ہیں
یہ وصف اُس کی رفاقت کا فیض ہے اخترؔ
ہر ایک زخم پر ہم مسکرانے لگتے ہیں
٭٭٭
یہ جُرم جرمِ ضعیفی سے بھی سِوا ٹھہرے
اگر غریب کا بچّہ اناج مانگتا ہے
٭٭
آئنے سے نہ انحراف کرو
اب حقائق کا اعتراف کرو
قدّ و قامت کی دل کشی کے لیے
اپنے دُشمن کو بھی معاف کرو
پہلے سیکھو قناعتیں کرنا
پھر تمنائے کوہ قاف کرو
کس کو دل میں بسائے بیٹھے ہو
تم کبھی تو یہ انکشاف کرو
اپنے دروازے تم کھُلے رکھو
جب کسی سے بھی اختلاف کرو
٭٭٭
مرا جنوں کے مقابل یہ اک کمال تھا بس
کسی کی یاد تھی اور درد لازوال تھا بس
٭٭
یہ سوچ کے مدت سے میں نکلا نہیں گھر سے
کب جانے کوئی لوٹ کے آ جائے سفر سے
میں اپنے تعاقب میں ہی بکھرا ہوں کچھ ایسے
جیسے کوئی پتّہ ہو گِرا بوڑھے شجر سے
کوئی تو مرے شہر کو آئین یہ بخشے
جب لوگ رہیں پھر یہاں بے خوف و خطر سے
اک لمحۂ بے کیف نے کچھ رِیت یوں بدلی
پہچان مری اب ہے مرے دیدۂ تر سے
صحرا کی طرح اب میں بگولوں کی ہوں زد پر
وحشت کو مری اور کیا ملتا مرے گھر سے
برسوں سے کوئی بوند نہ بادل کہیں دیکھے
اللہ کرے میری زمیں اب نہیں ترسے
جو لوگ تھے شامل یہاں تزئینِ چمن میں
اخترؔ وہی محروم ہیں اب برگ و ثمر سے
٭٭٭
کبھی جو چاہو اگر خود کو معتبر رکھنا
ہوا کے رُخ نہ چراغوں کو طاق پر رکھنا
حصارِ ذات سے بڑھ کو کوئی فریب نہیں
مزاجِ وقت پرکھنے کا بھی ہُنر رکھنا
مزاج پھول ہے کھِل کر بکھر بھی سکتا ہے
کسی کی چاہ میں اس بات پر نظر رکھنا
کھلیں گے بھید کبھی تو تری وضاحت کے
اس اعتماد، ان لفظوں کو ہم سفر رکھنا!
ازل سے رِیت ہوا کی مزاجِ صحرا ہے
دیئے بجھا کے اندھیروں کو معتبر رکھنا
عذاب یہ بھی قیامت سے کم نہیں اخترؔ
گئے دنوں کی کسک یاد عمر بھر رکھنا
٭٭٭
بھلاؤں کیسے جنوں کی میں وحشتیں اپنی
حصارِ ذات ہوں جب دل کی حسرتیں اپنی
اُسے ستم پہ ہمیشہ دعائیں میں نے دیں
ہر آدمی کی یہاں ہیں روایتیں اپنی
تمام عمر سراپائے التفات ملا
چھپا کے مجھ سے وہ دل کی کدورتیں اپنی
بھلا چکا ہوں میں ترکِ تعلقات کے زخم
اب اپنے پاس رکھو تم وضاحتیں اپنی
کسی کی یاد جنوں اور دل کی تنہائی
نجانے کب سے ہیں اخترؔ علامتیں اپنی
٭٭٭
ممکن اُسے تحریر میں لانا ہی کہاں تھا
جو کربِ مسافت مرے چہرے سے عیاں تھا
٭٭
گر ہوا کے رو بہ رو سینہ سپر ہو جائیں گے
طاق پر رکھے دیے سب معتبر ہو جائیں گے
پیڑ آنگن میں لگا ہو تو کبھی مت کاٹنا
شاخ پر بیٹھے پرندے در بہ در ہو جائیں گے
اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی ستم کی پرورش
با ہنر لوگوں کے حاکم بے ہُنر ہو جائیں گے
اُس گلی سے میں کبھی یہ سوچ کے گزرا نہیں
زخم جو بھرنے لگے ہیں پھر امَر ہو جائیں گے
ہم چراغِ رہگزر ہیں اور ہوا کی زَد پہ ہیں
جانے کب لو بجھ اُٹھے گی ہم خبَر ہو جائیں گے
جن کے لہجے سے ملیں ہم کو ہمیشہ نفرتیں
تھا یہ قسمت کا ستم وہ ہم سفر ہو جائیں گے
ہم اگر غافل ہوئے اخترؔ، چمن کے سب شجر
برگ سے محروم ہو کر بے ثمر ہو جائیں گے
٭٭٭
وہ اک چہرہ جسے دل ڈھونڈتا ہے
نجانے کن خلاؤں میں چھپا ہے
یہ افسانہ ہے یا کہ واقعہ ہے!
مرے بارے میں وہ بھی سوچتا ہے
میں چونکا ہوں اگر پتّہ گرا ہے
ترے آنے کا یوں دھڑکا لگا ہے
خداؤں کی طرح خاموش کیوں ہو
تمہیں بھی کیا کوئی غم لگ گیا ہے؟
گلی میں آج پھر رونق ہے یارو
یقیناً کوئی انساں مر گیا ہے
فریب اتنے دیئے ہیں دستکوں نے
وہ آیا بھی تو سمجھوں گا ہوَا ہے
٭٭٭
جانتے تم جو پتھروں کا مزاج
ہم سے ہرگز نہ دوستی کرتے
کس سے پوچھوں میں اپنے گھر کا پتہ
یہ تکلف بھی آپ ہی کرتے
٭٭
جب دوستی کی رسم و روایت نہیں رہی
زخموں کے اِندمال کی صُورت نہیں رہی
ہر آدمی رواں ہے یو ں انَدھے سفر کی سمت
جیسے کسی کے پاس بصَارت نہیں رہی
وہ کیا گیا کہ سارے چلَن ساتھ لے گیا
اَب ہم کو آئِنے کی ضرورت نہیں رہی
میں نے یو ں اپنے آپ کو محِصُور کر لیا
دِل جوئی کی اُسے بھی تو فُرصت نہیں رہی
اِس دور کو ملی ہے وراثَت میں بے رُخی
اب گفتگو میں مِہر و مُروّت نہیں رہی
اخترؔ کے اس مزاج کی دُنیا ہے مُعتَرِف
دِل میں بھی دُشمنَوں سے کدورَت نہیں رہی
٭٭٭
جب زندگی میں خواب کے پیکر تراشنَا
پہلے ہُجوم ِ یاس کے منظَر تراشنَا
لازِم اگر ہو سوچنا ماضی کے باَب میں
اشکوں کی اک قطار کے لشکر تراشنا
بچپن کا شوق اب بھی متاعِ حیات ہے
ساحِل پہ بیٹھے ریت سے کچھ گھر تراشنَا
کشتی بھنوَر میں لاکھ پھنسی ہو مری مگر
سیکھا نہیں سَراب کے لنگَر تراشنَا
ترکِ تعلقات کے شکوے نہیں مجھے
لیکن وضاحتیں کوئی بہتر تراشنَا
٭٭٭
انتخاب و کمپوزنگ: سیدانورجاویدہاشمی
تشکر: سید انور جاوید ہاشمی جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید