FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

اعتبار کی شبنم

 (شاعری)

 

 

 

 

سید انور جاوید ہاشمیؔ

 

 

حرفِ آغاز

 

 

رب العالمین کے بعد جو احباب اس کتاب کے لوازمات کی جمع آوری اور سوشل میڈیا کے متفرق فورم پر نشر و اشاعت میں شامل رہے ہیں ان کا شکریہ راقم پر فرض ہے۔ جناب اعجاز عبید (اردو لائبریری) نے میرے چار مجموعے شامل کیے۔ جناب رضا الحق صدیقی (لاہور) ادبستان بلاگ پر انٹرویو کے ساتھ میری پچاس غزلیں شامل کر چکے ہیں جو مجموعے کی زینت بن گئیں۔ برادر محترم محمد محسن اسرار کا تعارفی مضمون ، ڈاکٹر یونس حسنی صاحب کے محبت آفرین کلمات، مرحوم دوست برادر نور میرٹھی کی رائے قیمتی اور لائق فخر و امتنان ہیں۔ فیس بُک کے احباب سلامت رہیں جن کی حوصلہ افزائی نے مہمیز کیا اور ۱۹۶۹ء سے آغاز کیا گیا۔ سخن کا سلسلہ جاری ہے۔

جناب شہزاد نیازؔ نے گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ہماری جاپانی شعر و ادب پر تحقیق ’’نغمہ زار‘‘ اور زیرِ نظر مجموعۂ غزلیات ’’اعتبار کی شبنم‘‘ کی تہذیب و ترتیب اور آن لائن اشاعت میں ہماری معاونت کر کے ہمیں دو اور فخریہ تصانیف کا حامل بنوا دیا ہے۔ ہر چند ستائش و صلہ وہ نہیں چاہتے مگر لفظ ’’شکریہ‘‘ ادا کرتے رہیں  گے۔

سید انور جاوید ہاشمی

اے-۱۲۹/بی ، نزد بلال پارک،

گارڈن سٹی، کراچی

مارچ ۲۰۲۴ء

 

 

 

اعتبار کی شبنم کے شاعر سید انور جاوید ہاشمی

 

تعارف از قلم محمد محسن اسرار

 

ہر ایک فرد کو مت دستیاب و ارزاں ہو

اُس آدمی سے ملو جو واقعی انساں ہو

اُس آگہی کی تڑپ اپنے دل میں پیدا کرو

کہ جس سے فکر و عمل کا دیا فروزاں ہو

شُدہ و نا شُدہ دونوں معاملات الگ

ادائے فرض پے لازم کسی بھی عنواں ہو

سوالِ عزتِ سادات کرنا چاہو اگر

سنو! کہ عرض و گزارش بہت نمایاں ہو

(ہاشمی)

۱۹۷۰ء کی دہائی میں سرزمین ادب پر قدم رکھنے والے نوجوان اہل قلم بہت سے تھے۔ شہر کراچی ادبی گہوارہ بنا ہوا تھا۔ سلیم احمد، قمر جمیل، عبید اللہ علیم ، قمر ہاشمی ، خالد علیگ، سحر انصاری، عبد الرؤف عروج، جمیل جالبی ، احمد ہمدانی، عزیز حامد مدنی ، رضی اختر شوق، حمید نسیم ، ضیا جالندھری جیسے دیگر اہل قلم جن پر یہ عشرہ فخر کرتا رہا ، کراچی کی ادبی فضا میں سرگرم عمل تھے۔ کیفے ڈی پھونس، فریڈرک کیفے ٹیریا ، زیلن کافی ہاوس، علامہ اقبال لائبریری، عثمانیہ کالج نبی باغ ، ضیاء الدین میموریل کالج، کاشانۂ عزیر (قیام الدین کا مکان سلیم احمد اور شمیم احمد کی رہائش) اور متذکرہ بالا ادب و فن کے چھتنار سرپرست اپنی قیام گاہوں، تنقیدی نشستوں اور محافل میں جس طرح ہم نوجوانوں، نو آموز شعرا ء و اہل قلم کی حوصلہ افزائی کرتے۔ بعض اوقات مختلف ہوٹلوں اور گھروں پر جمنے والی نشستوں میں بحث و مباحثے ساری ساری رات چھڑے رہتے تھے۔ اخبارات کے ادبی صفحات میں بھی ان مباحثوں کو نمایاں طور پر جگہ دی جاتی اور بلا شبہ جو ادبی تحریک جاری و ساری تھی اس سے ہمارے معاصرین کے ادب میں قائم کیے جانے والے معیارات کا برملا تعین کر لیا جاتا تھا۔ تخلیقی استعداد اور ذہنی صلاحیتوں کو بھرپور طور پر بروئے کار لانے والے اس کارواں میں سلیم کوثر ، صابر ظفر ، ساجد امجد، جمال احسانی ، احمد فواد ، حسنین جعفری، احمد نوید ، شاہد حمید ، افضال احمد سید ، احمد جاوید ، سارہ شگفتہ ، فاطمہ حسن ، شاہدہ حسن ، عشرت آفرین، سید انور جاوید ہاشمی ، لیاقت علی عاصم ، جاوید صبا، عزم بہزاد، انور انصاری ، امتیاز ساغر، اجمل سراج ، اختر سعیدی اور شاداب احسانی تک کتنے ہی شعراء، ادیب ، صحافی اسی عصر کی پیداوار ہیں۔ اور بسا اوقات مجھے یہ سوچ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ میں بھی کتنا خوش نصیب ہوں کہ ایسے اچھے اور صاحب علم و ادب لوگوں کا ہم عصر رہا ہوں۔ مجھے یہ کہتے اور لکھتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ متذکرۂ بالا نو آموز اہلِ قلم میں سے کوئی بھی ایسا نام نہیں جس کی اپنی الگ راہ اور منفرد اسلوب و لہجہ نہ ہو۔ کسی نہ کسی سطح پر ان کی ادبی خدمات اپنی جگہ مسلم اور مانی جاتی رہی ہیں اور یہی نہیں بلکہ کراچی کی ادبی فضا کے تحفظ کے ذمہ دار بھی یہی اہل قلم قرار دیے گئے اور نظر آتے ہیں۔ آنے والے دو تین عشروں میں سلیم فوز، خالد معین کے بعد اس تحریر تک کوئی اور نوجوان اہلِ  قلم نظر نہیں آتا۔

’’ اعتبار کی شبنم‘‘ کے شاعر جن کا پہلا شعری مجموعہ ادارۂ فکرِ نو، کورنگی ، کراچی سے ہمارے عزیز محترم دوست نور احمد میرٹھی نے پروفیسر ثناء گورکھ پوری اور سرور اقبال کے تعارفی کلمات کے ساتھ انتظار کے پودے کے عنوان سے ۱۹۸۹ء میں شائع کیا تھا انہی نوجوانان میں شامل ہیں جن کا ذکر سطور بالا میں راقم نے کیا ہے سید انور جاوید ہاشمی! جن کی ادبی سرگرمیاں تواتر سے روز و شب جاری رہی ہیں ۱۹۷۰ء کی دہائی سے قبل بھی بزم اتحاد ادب کے معتمد نشر و اشاعت ، خبر نامے کے شریک مدیر ، نئی روشنی کے کالم نگار اور بچوں کے لیے نظمیں، کہانیاں لکھتے ہوئے مستقل مزاجی کو اپنا شعار بنائے رکھتے ہیں اور ان کا اپنا ایک معیار اور رجحان ہے۔ شاعری ، نثر ، نقد و نظر اور صحافت میں ہمہ وقت طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ابھرتے رہنے والوں کے تعارف اور ان کی تخلیقات، تالیفات پر ادبی رسائل، اخبارات کے ادبی صفحات پر ہی نہیں ، انٹرنیٹ فورمز پر بھی بھرپور طریقے سے اپنے آپ کو منواتے رہے ہیں۔

ان کا شخصی تعارف کچھ یوں ہے:

سید انور جاوید ہاشمی اپنے زمانے کے معروف ادیب و شاعر مدیر ماہنامہ مضراب، ماہنامہ الانسان و ترقی پسند ادب کے ترجمان جریدہ’’ ترکش‘‘ اور حسرت موہانی کے شاگرد سید عبد اللہ ہاشمی المعروف سالک الہاشمی علیگ ایڈوکیٹ کے چشم و چراغ ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء کو اسی شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ اپوا بوائز اسکول ، نئی کراچی کے قیام کے بعد پہلے بیج میں پروفیسر محمد ظریف خان نے اور دوسرے بیج ۶۸-۱۹۶۷ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انٹر کے لیے اسلامیہ کالج میں رہے اور مجلے میں اپنی غزل کی اشاعت کے بعد بین الکلیاتی شعری مقابلوں، ریڈیو پر سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی پہنچے جہاں سے گریجوایشن یعنی بی۔ اے پاس کی ڈگری ۱۹۷۴ء میں حاصل کرنے والے اس ادیب ، شاعر و صحافی نے شاعری کا آغاز اسکول وال میگزین ۱۹۶۶ء کے ساتھ کیا۔ ابتدائی عمر میں بچوں کے لیے کی گئی شاعری اور مضمون نویسی کے باقاعدہ بات باقاعدہ پہلی تخلیق چاند کی تسخیر یعنی نیل آرمسٹرانگ کے کارنامے کے پس منظر میں ہمدرد نو نہال رسالے کی ستمبر ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں منصۂ شہود پر آئی۔

 

چاند سے پہلی آواز

 

نہیں آثار کچھ بھی زندگی کے

زمین والوں یہاں میں ہوں اکیلا

سیاہی چار سُو پھیلی ہوئی ہے

چنبیلی ہے ، نہ جوہی ہے نہ بیلا

موصوف کا کلام اور مضامین و تبصرے پاکستان کے مشہوروں معیاری رسائل و جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ جن میں ادبِ لطیف، لاہور؛ تخلیقِ، اردو ادب ، اسلام آباد؛ تجدید نو؛ لندن؛ کشش؛ نشاط؛ چہار سو؛ دریچہ؛ نفاذِ اردو؛ انشاء؛ کلکتہ؛ عبارت؛ لوحِ ادب، انشاء، حیدرآباد؛ طلوعِ افکار اور روزنامہ جسارت؛ مشرق؛ جنگ؛ حریت؛ انصاف ، ڈھاکہ؛ قوم ، چٹاگانگ؛ شرارت ، ڈھاکہ؛ کلیم ،  سکھر وغیرہ کے ادبی صفحات قابلِ ذکر ہیں۔

موصوف نے محض شاعری پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اپنی خداداد صلاحیت اور بھرپور مطالعے، ادب سے سنجیدہ اور گہری وابستگی کی بنیاد پر ادبی صحافت کے میدان میں بھی یہ کافی فعال ثابت ہوئے ہیں۔

مختلف اخبارات اور رسائل میں معاون مدیر رہے جن میں ۱۹۷۰ء کی دہائی کے ہفت روزہ انکشاف؛ روز نامہ نئی روشنی؛ اعلان؛ ماہ نامہ کشش؛ نشاط؛ کھلتی کلیاں؛ نئی کرن؛ بچوں کا اخبار ہفتہ وار اقدام کا خصوصی شمارہ؛ بچوں کا مشرق؛ قافلہ انٹرنیشنل اور زیرِ لب جیسے جرائد بھی شامل ہیں۔ برصغیر کے اہم ادبی رسائل کی دستاویز کے ذیل میں ان کا اہم کام پاکستان کے ادبی رسائل کا اشاریہ (ہندوستانی رسائل کا ادارتی عملے نے مرتب کیا تھا) اور تعارف انٹرنیٹ اور بعض ادبی رسائل میں سامنے آیا۔

انور جاوید ہاشمی تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کی جو کتب منظر عام پر آئیں‘‘ نئے بت پرانے پجاری‘‘؛ ’’مشاہدۂ حق‘‘ اور ’’تکلف برطرف‘‘ نثری تالیفات۔ ان پر روزنامہ جنگ کے مبصر شفیق عقیل؛ ماہ نامہ صریر کے مدیر ڈاکٹر فہیم اعظمی، معروف افسانہ نگار ادیب جوگیندر پال، امن کے مبصر عاقل بریلوی اور دیگر لکھنے والوں نے ان کی نمایاں انداز میں ستائش و توصیف کی۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی ان کی شعری و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے ساتھ شام اعزاز کا انعقاد بھی کر چکی ہے۔ شاعر ، ادیب، صحافی اور محقق سید انور جاوید ہاشمی کی ۱۵ برسوں کی مشق اور مہارت تامہ کے بعد نشر و اشاعت کے سلسلے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ:

پہلی تالیف ۱۹۸۵ء میں ’’نئے بت پرانے پجاری‘‘  خود نوشت ہے جس میں انہوں نے معاشرتی مسائل پر طنزیہ اور مزاحیہ پیرایہ اختیار کرتے ہوئے خاکے پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے اس کی تعریف اس وقت کی تھی جب وہ اردو لغت بورڈ میں مدیر اعلی کے طور پر فرائض منصبی ادا کر رہے تھے۔ اگر اس کتاب کے مندرجات پر غور کیا جائے تو یقیناً معاشرتی کرب کا بھرپور اندازہ ہو سکتا ہے اور ساتھ ساتھ ذمہ داروں کی لا پرواہیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ یعنی معاشرے کے اہم فرد ہونے کے ناطے ایک ادیب کا جو کام ہے اسے ہاشمی صاحب نے بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیا ہے۔

ان کی دوسری کتاب مختلف مضامین پر مشتمل’’ مشاہدۂ حق‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ فضلی سنز پرنٹر سے شائع شدہ اس کتاب پر شفیع عقیل نے بہت عمدہ پیرائے میں تبصرہ کیا تھا۔ ان مضامین میں موصوف نے ذات و کائنات سے متعلق مواد یکجا کیا ہے اور ان حقائق پر روشنی ڈالی ہے جو انسانی زندگی کے لیے لازم و ضروری ہیں۔ اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد  دکھائی دینے والے اندھیرے آنے والی روشنیوں کو کھا رہے ہیں۔

محترم انور جاوید ہاشمی کی تیسری شائع شدہ کتاب ’’تکلف برطرف‘‘ تنقیدی مطالعہ ۱۹۸۸ء میں ہمیں موصول ہوئی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے معاصر شعراء اور ان کی تخلیقات اور تالیفات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ دبستانِ کورنگی اور لانڈھی سے مرکزی ادبی دھارے میں شامل ہونے والے جمال احسانی (ستارہ سفر کا شاعر) ڈاکٹر ساجد امجد (قافیہ پیمائی) ڈاکٹر یوسف جاوید؛ ڈاکٹر شاہد الوری (سخن در سخن)قابل اجمیری؛ مصطفی زیدی؛ نور احمد میرٹھی؛ انور انصاری کا ایک بھرپور مطالعہ قاری کے لیے دلچسپی و معلومات کا گوشہ ہی سامنے نہیں لاتا بلکہ تنقید کے کچھ نئے پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ موصوف نے ثابت کیا کہ ہر شاعر کے یہاں کچھ غیر مستند عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ اس کتاب کو اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے جس کے پڑھنے سے انور جاوید ہاشمی کی تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا ماننا پڑتا ہے۔

شاعر سید انور جاوید ہاشمی کا مجموعہ کلام ’’انتظار کے پودے‘‘ چوتھی کتاب ہے جو ۱۹۸۹ء میں ادارۂ فکرِ نو، کراچی کے نور احمد میرٹھی کی محبت و محنت کا عملی اظہار ہے ۱۹۷۰ء کی دہائی سے جون ۲۰۱۱ء نور احمد میرٹھی کی وفات تک ان دونوں صاحبان کی محبت آمیز دوستی قابل رشک ہے۔ جس کا اظہار مرحوم نے اپنی تالیفات میں کیا ہے۔ اس مجموعے میں شاعری کے جو گلہائے محبت کھلائے گئے ہیں۔ ان میں  غزلیں، نظمیں، نثری نظم، تراجم اور قطعات وغیرہ شامل ہیں۔

۲۵ برس کے مطالعے اور ادبی وابستگی کے کچھ اور نمونے ، تنقیدی مضامین، مطالعہ اہلِ قلم و تصانیف پر تبصرے کا کتابت شدہ مجموعہ ’’کاغذ کا رزق‘‘؛ کراچی کی منظوم تاریخ مع حواشی و تشریحات ’’کراچی نامہ‘‘؛ جاپانی شاعری، شعرائے جاپان و پاکستان کی مختلف اصناف میں طبع زاد و ترجمہ شدہ شاعری کے تعارف پر مبنی ’’نغمہ  زار‘‘ اور زیرِ نظر مجموعہ ان کے ادبی قدو قامت میں اضافے کا باعث ہیں۔

محترم انور جاوید ہاشمی اپنی زندگی کے لگ بھگ ۵۸ برس راہ گزارِ زیست کی مسافت میں گزار چکے ہیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نصف صدی جو کہ ایک نئے ہزاریے سے آمیز ہو چکی ہے اُنہوں نے تقریباً اس نصف صدی میں تقریباً کئی صدیوں کا تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ وہ دوستوں کے لئے ایک مخلص دوست اور زُود گو شاعر بھی ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اُن کی شاعری نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا ہے جو جمالیاتی کذب نگاری سے ہٹ کر حیاتیاتی حقائق کی ترجمانی تک جا پہنچی ہے۔ ان کے ہاں کلاسیک و روایات کی پاسداری تو ہے ، گل و بلبل کی داستانیں، ساغر و مینا کی سحر انگیزیاں نہیں ہیں۔ بلکہ زندگی کے تلخ حقائق سے ہٹ کر حیاتیاتی حقائق کی ترجمانی تک جا پہنچی ہے۔ ان کے ہاں کلاسیک و روایات کی پاسداری تو ہے گل و بلبل کی داستانیں، ساغر و مینا کی سحر انگیزیاں نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تلخ حقائق سے پردہ ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور وہ اسطرح شاعری میں مکتبۂ میر کے طالب علم دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح میر نے اپنے مسائل بہت خوش اسلوبی سے لکھے ہیں۔ اسی طرح انور جاوید ہاشمی کے بعض اشعار چونکا دینے کے لئے کافی ہیں۔

انور جاوید ہاشمی کے اندر کا آدمی سخت ہے بے چین دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ان کا یہ اضطراب بیرونی احتیاط کو محرک ثابت ہو رہا ہے۔ آج ان کی ذات سے کسی کو دکھ نہیں پہنچا بلکہ وہ خود ہی دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس کرب کو فطری برائی نہیں بننے دیا۔ وہ جب اپنے کہے کے نہ سمجھے جانے کا گلہ کرتے ہیں تو ایسا نہیں کہ وہ اہلِ سماعت سے سماعت کی کجی کا شکوہ کر رہے ہوں بلکہ وہ اپنا کرب اور وجۂ کرب لفظ، سخن یا فن میں سمو دینا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اندر چھپے ہوئے کرب کو بھی سمجھا جائے اس ضمن میں ان کے یہاں ایسے اشعار اکثر ملیں گے جو بہت جلد کتابی صورت میں قارئین تک پہنچ جائیں گے۔ وہ میر کا تذکرہ بھی اکثر اپنی شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ بھی یقیناً یہی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے میر کو خوب پڑھا ہے اور سمجھا بھی ہے وہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو مسائل میر کو در پیش تھے وہ انہیں بھی ہیں لیکن وہ ان مسائل کا حل اپنے عہد کی روشنی میں تلاش کرنا چاہتے ہیں اور وہ لفظ ’’سخن‘‘ کو بطور  استعارہ برائے ’’انسانی چیخ‘‘ جب کہ لفظ ’’میر‘‘ بطور فنکار استعمال کرتے ہیں۔

انور جاوید ہاشمی کی نثر میں بھی اچھی خاصی خدمات ہیں جیسا کہ ما قبل سطور میں جائزہ لیا گیا۔ یہ اہلِ علم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اسی لئے کسبِ علم ان کی فطرت ہے۔ ان کے قریب رہنے والے ان کے حصول علم کی رفتار سے واقف ہوں گے۔ ان کی معلومات عام طور پر اپ ٹو ڈیٹ رہتی ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے ان کے نہ تھکنے والی صلاحیت پر حیرت ہوتی ہے۔ حتٰی کہ جو کتابیں میرے پاس ہیں وہ بھی انور صاحب کے صرفِ نظر ہو گئیں اور ساتھ ساتھ مجھے بھی یہ نئی نئی کتابیں پڑھوانے لگے۔ وہ کتاب دیتے ہیں تو کتاب کے متن سے بھی آگاہ کر دیتے ہیں اس طرح  کتاب پڑھنا میرے لئے بہت آسان ہو جاتا ہے۔

ہاشمی صاحب میں ایک اور خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ اگر آپ کسی معاشرتی الجھن پر سوال کریں تو وہ طویل تمہید باندھے بغیر مختصر الفاظ میں اس کا جواب دے دیتے ہیں تاکہ سامنے والا بخوبی اور بہ آسانی الجھن کی سلجھن تک پہنچ جائے۔ یہ عنوان ایک کالم کا انہی سے مستعار لیا ہے جو وہ ماہ نامہ زیرِ لب میں فرضی نام سے لکھا کرتے تھے۔ ان کی اس کم گوئی کے سبب ان کے کچھ دوست ان کو انڈر اسٹیمیٹ کرتے چلے آئے ہیں۔ کیوں کہ بات خود ان کی سمجھ میں دیر سے آتی ہے تا آنکہ دو چار انگریزی فلاسفرز کے حوالے نہ دئیے جائیں۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ ہاشمی صاحب کو یہاں اوور اسٹیمیٹ کیا جا رہا ہو۔ وہ خود ہی اپنے لئے ایک اچھے محتسب ہیں کیوں کہ ایک زود گو شاعر کا اختصار سے کلام پیش کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اسے کیا کہنا چاہئیے۔ نثر نگاری کے متعلق انور جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ جہاں تک نثر نگاری کا احوال ہے میں نے طبع زاد بچوں کی کہانیاں ، غیر ملکی کہانیوں کے تراجم کئے، خبر نامہ جاپان اور ریڈیو کے لیے معقول محنتانے پر کام کسی کی وساطت سے کیا جاتا تھا، فلمی اور سیاسی تجزیہ نگاری بھی کی۔ حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے معاصر شخصیات کے انٹرویوز کئے۔ کتابوں پر تبصرے کا لگ بھگ دورانیہ تیس برس سے زائد ہو گیا ہے۔ روزنامہ نئی روشنی میں ہر دوسرے دن’’ یہ نئی کراچی ہے‘‘ نامی کالموں میں علاقائی ، معاشرتی، سماجی مسائل و سماجی کارکنوں کے بیانات، ایلیکشن مہم اور صحت و تعلیم کے حوالے سے مقامی سرگرمیوں کی جھلکیاں لکھتے رہے۔ صداقت، جسارت، آغاز، اعلان، انکشاف، پندرہ روزہ رابطہ (نسیم عثمانی) میں ادبی و ثقافتی محافل کی روداد لکھتے رہے اور کچھ شخصیات نگاری بھی کی۔ ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۱ء ورکنگ جرنلسٹ اس کے بعد روزنامہ جسارت، ملتان ، کراچی آیا تو اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی کی سربراہی میں ڈیسک پر سب ایڈیٹر کی ذمہ داریاں شوقیہ طور پر نبھائیں۔ ظہور نیازی جو لندن میں غالباً جنگ کے نمائندے یا جنگ لندان کی ادارت میں شامل ہوئے، نذیر احمد خان، نصیر ہاشمی ، عرفان علی یوسف، محمد نیاز، معین کمالی، اطہر ہاشمی ، احمد سعید قریشی وغیرہ ان کے سینیئر تھے۔ جسارت پر بندش کے باعث بہت سے ساتھی اعلان میں گئے، ۱۹۶۷ء مئی میں ایسا وقت بھی آیا کہ ہاشمی نے تنہا پورا اخبار نکالا۔ اعلان کے مالک رحیم اختر کا انتقال ہو گیا تھا ان کا بیٹا جو مالک بنا اس نے تنخواہیں روک لیں تو تمام عملے نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ جن میں جاوید اقبال قادری، حمیرا اطہر، فضل ادیب، شکیل احمد صدیقی کے نام شامل ہیں۔ ہاشمی کی بطور نامہ نگار کراچی سے باہر کے اخبارات کلیم، سکھر؛ انصاف، ڈھاکہ؛ قوم، چاٹگام؛ شعلہ، سرگودھا جیسے اخبارات سے بھی وابستگی رہی۔ کشش، نشاط، غنچہ، چہکار، کندن، قافلہ، زیرِ لب میں مجلسِ ادارت میں شامل رہے۔ ہاشمی صاحب کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں جن سے ان کی ذہنی بالیدگی کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے:

چلو چلتے ہیں اب اک فیصلے کے مرحلے میں ہم

بہت خوش ہو رہے تھے خوب یہ دنیا کما لی ہے

 

یہ گفتگو تھی کسی اور ہی تناظر میں

سو میں ہنوز وہی حرفِ نا شنیدہ رہا

 

زمین زادوں پہ افتاد ہر گھڑی کیوں ہے

چمکتی رہتی ہے بجلی تو آسمان میں بھی

 

یہ آدمی جو جزیروں میں بٹ گیا یارو

ہو متحد تو سمندر نگل نہیں سکتا

 

ہاشمی رنج کے عوض ہر گز

نفرتوں سے نہ واسطہ رکھنا

 

بخت سوئے تو کوئی خرابی نہیں

ہے بُری بات دل میں بدی جاگنا

 

کہا تھا ہم نے دُنیا ہے تماشا

تماشے کو کہاں دنیا کہا تھا

 

فراق وہ ہے کہ پتھر بنی رہیں آنکھیں

وصال کیسا جو مستی میں انگ انگ نہ ہو

 

سبھی کو نیند کے بدلے ہُنر کہاں ملتا

بہت سے لوگ فقط کروٹیں بدلتے ہیں

 

کائناتِ آئینہ میں ہو گئے محدود سب

خود سے باہر کون دیکھے یہ چلن آیا کہاں

 

کنارے ہی پہ ٹھہرے یا کہ نیّا پار لے جائے

بتا دو نا خُدا کو درمیاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

یہ آدھی رات یہ بیداریاں کہو صاحب

یہ شہرِ درد اُٹھا لائے تم کہاں اپنا!

 

اس کے بعد میں شاعر سید انور جاوید ہاشمی اور آپ کے درمیاں مخل نہیں ہونا چاہتا، کلام دیکھتے جائیے۔

 

محمد محسن اسرار

۱۵ جولائی ۲۰۱۱ء

 

 

 

کچھ انور جاوید ہاشمی کے بارے میں

 

نوُر احمد میرٹھی

مؤلف ’’اذکار و افکار‘‘

 

ہمارا عہد تحقیق اور جستجو سے عبارت ہے۔

اس عہد میں بزرگوں کی روشن روایات کو فروغ دینے اور اعتماد اور اعتبار کو مستحکم کرنے میں نوجوان ادیب اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی کاروانِ فکر و عمل کی ایک

متحرک شخصیت انور جاوید ہاشمی کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔

انور جاوید ہاشمی مزاجاً سادہ اور قلباً کشادہ ہیں۔ ایک طویل عرصے کی رفاقت میں موصوف ہمیشہ مخلص رہےاور اُن کا یہ اخلاص زندگی اور بندگی کے ہر تعلق میں

نمایاں ہے۔

انور جاوید ہاشمی اپنے فکر و عمل کے آئینہ میں آپ کے سامنے ہیں۔ اس میں آپ ان کی فکری لہریں بھی دیکھیں گے اور تجزیہ کا محور بھی۔ اختلاف کا حق رکھتے ہوئے بھی آپ اُن کے لہجے کے کھرے پن اور بیباکیِ اظہار کی داد ضرور دیں گے۔ اور یہ

بھی انور جاوید ہاشمی کے لئے ایک خراج سے کم نہیں ہے۔

۱۹۸۷؁ء

 

 

 

 

انور جاوید ہاشمی۔ ابھی اپنی تلاش میں

 

ڈاکٹر یونس حسنی

 

سید انور جاوید ہاشمی صاحب کوئی دو ماہ قبل مجھے اپنی کچھ مطبوعہ کتب (نظم و نثر) اور ایک سرگزشت دے گئے اور فرما گئے کہ اس پر کچھ لکھو۔ اُن کی فرمائش ایک ایسے وقت پر ہوئی جب میں متعدد معذوریوں سے ہم کنار ہوں۔ یادداشت ساتھ نہیں دیتی اور بینائی ایک ایسے مرض سے آشنا ہو گئی ہے کہ یہ تحریر بھی میں اندازے سے

کر رہا ہوں۔

تمہید اً یہ عرض کر دوں ہو سکتا ہے کہ انور جاوید صاحب میرے اور اپنے تعلق کو اس طرح نہ جانتے ہوں جس طرح جاننے کا حق ہے۔ ہمارے خاندانی تعلقات اور رشتے کئی پشتوں پر محیط ہیں اور تین پشتوں سے تو میں بخوبی آشنا ہوں۔ اُن کے دادا سید احمد ہاشمی صاحب اور میرے دادا مولانا سید محمد یعقوب صرف آپس میں گہرے دوست ہی نہیں تھے بلکہ ان کے درمیان رشتہ داری بھی تھی۔ اس تعلق کا سلسلہ نیچے تک چلا آرہا ہے۔ اُن کے والد سالک الہاشمی اور چچا میرے والد کو بھائی جان کہتے تھے۔ اور اپنی رشتہ داری کو جتایا بھی کرتے تھے۔ اب اپنی نسل میں انور جاوید

ہاشمی اور ان کے برادران سے بخوبی آشنا ہوں۔

مذکورہ تین نسلوں کا تعلق راجستھان کی واحد مسلم ریاست ٹونک سے رہا۔ ٹونک کا اپنا ایک کلچر تھا جو وہاں کے باسیوں کے رگ وریشے میں پیوست ہے۔ یہ لوگ شہرت کے پیچھے بھاگنے والے نہ تھے، منکسر المزاج، دین و دنیا آشنا اور علم و ادب خصوصاً ’’شعر گوئی‘‘ سے شغف رکھنے والے تھے۔ سالک الہاشمی صاحب اور قمر ہاشمی صاحب کراچی کے بعد یہاں کے ادبی حلقوں کی زینت رہے۔ یہی جرثومے انور جاوید ہاشمی کی شخصیت میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے نظم و نثر کی چند تخلیقات میرے پیشِ نظر رہی ہیں۔ مثلاً ’’خاکِ دل‘‘؛ ’’نئے بت پرانے پجاری‘‘؛ ’’انتظار کے پودے‘‘ وغیرہ۔ یہ ادبی سرمایہ ایسا ہے کہ اس میں جدید کاوشوں کو ملا کر ان کی از سرِ نو دیدہ زیب اشاعت ہونا چاہیے۔ مگر فوراً  ہی سوال پیدا ہوتا ہے کسی کو کیا پڑی جو ہماری تخلیقات کو چھاپے اور ادیب و شاعر خود اپنی ذات میں فقیرانہ مزاج ہوتا ہے۔ یہ مزاج ادبی دنیا سے لگا نہیں کھاتا۔ ادب کی دنیا آپ کو خود بخود نہیں مان لیتی اسے منوانا پڑتا ہے۔ اپنی لگاتار محنت و جدوجہد سے اور اس لمحہ سے جس میں آپ کے جوہر کو کھل کھیلنے کا موقع میسر آئے۔ میں یہ صرف ناصحانہ گفتگو نہیں کر رہا ہوں بلکہ ایک ایسے شخص سے جس سے میں ادبی جراثیم خاصے موجود ہیں کیا وجہ ہے کہ وہ اپنا کوئی مقام نہ بنا سکا؟ جواب خود اُن کی ذات میں پوشیدہ ہے کہ محنت وہ کرتے رہے ناموری کسی اور کی ہوتی رہی۔ اب آپ اُن کا کتنا ہی ذکر کر لیجیے وہ شاندار کاوشیں ہیں جو آپ کو وراثت میں ملی تھیں کسی اور کے دامن کو مایہ دار کر چکی ہیں۔

میں نظم و نثر میں آ پ کی کاوشوں کا مطالعہ کر سکا اپ کو وراثتاً نظم و نثر نگاری کے آداب آتے ہیں اور آپ کی کاوشوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے تھا مگر اس میں جہاں ہمارے ادبی ماحول کو دخل ہے وہیں آپ کی ذاتی بے نیازی بھی اس کا حصہ بنی ہے۔ اس لیے میں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بار پھر سے لنگوٹ کس لیجیے اور اپنی کاوشوں کو یکجا کر کے اُن میں اضافے بھی کر لیجئے پھر تو ہر کتاب پر ایک جامع تبصرہ لکھوائیے یا مجموعی ادبی حیثیت کے تعین کے لیے جامع مقالے کی ا ضرورت ہوگی۔ وہ بھی اس طرح کہ نظم کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں آپ کی نظم نگاری پر ایک مقالہ اور نثری خدمات پر ایک مقالہ ہو۔

میری ان تجاویز پر ضرور غور کر لیجئے تاکہ آپ کی علمی و ادبی اور شعری کاوشوں کے اعتراف کی صورت پیدا ہو سکے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک باصلاحیت نوجوان کی کاوشیں صدا بصحرا ہو کر رہ جائیں۔

اس وقت بھی جو ادبی سرمایہ ان کے پاس ہے وہ ایک ذہین شخص کی نشاندہی کرتا ہے جو اپنے قد کاٹھ میں اضافے کا خود باعث بن سکتا ہے۔ ان کاوشوں میں ایک تخلیقی ذہن صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے جس پر ذرا توجہ دی جائے تو ایک اچھے شاعر اور نثر نگار سے معاشرہ واقف ہو سکتا ہے۔ مگر عام طور پر ذہین آدمی اپنی طرف سے لا پرواہ ہو کر خود اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ کیوں نہ اپنی شناخت خود حاصل کریں۔

 

 

 

 

حمدِ ربِ جلیل

 

اذنِ ربّی سے عنایت ہو گئی
حمد کہنے کی ریاضت ہو گئی
جب پکارا سُن لیا اللہﷻ نے
ملتفت گویا سماعت ہو گئی
جو بھٹکتے رہ گئے الٹے قدم
دُور اُن لوگوں سے جنت ہو گئی
زندگی صرف عبادت کیوں نہ ہو
بندگی سے پوری حاجت ہو گئی
٭٭٭

 

 

حمدِ ربِ جلیل

 

یہی ہے مُدعائے دل کرم کر دے مرے اللہ
مرا عاجز قلم معجزِ رقم کر دے مرے اللہ
نہ میں صورت پر اِتراؤں، نہ میں دولت پہ اِتراؤں
وسیلہ حمد کا عزت، بھرم کر دے مرے اللہ
نہ الجھیں کارِ دنیا میں مری آنکھیں، یہ میرا دل
مری ہر سعی و کاوش محترم کر دے میرے اللہ
حرم کے بعد طیبہ اور بطحا پر نظر ٹھہرے
مقاماتِ مقدس یُوں بہم کر دے مرے اللہ
تمنائے زیارت بھی، مگر اسبابِ عُسرت بھی
جو تُو چاہے قدم سُوئے حرم کر دے مرے اللہ
٭٭٭

نعتِ رسول ﷺ

عصرِ حاضر میں بس وہ مسلمان ہے قلب سے روح تک
یعنی حاصل جسے اصل ایمان ہے قلب سے روح تک
حمدِ رب اور سیرت عیاں جن کی تصدیق سے ہو گئی
ہاں ابوبکرؓ سا جس کا ایقان ہے قلب سے روح تک
وہ جو تلوار سنتے نکل آئے تھے خود مسلمان ہوئے
پھر وہ فاروقؓ ان کا ثنا خوان ہے قلب سے روح تک
جس کو حاصل عطائے الہی ہو مخلوق کو بخش دے
مرتبہ منفرد، شاد عثمانؓ ہے قلب سے روح تک
جس کو بیٹی نبی کی ملی، بستر مصطفیﷺ بھی ملا
مرتضیؓ سا کوئی اہلِ ایمان ہے قلب سے روح تک
٭٭٭

 

نعتِ رسول ﷺ

یا رب بلالؓ جیسا ہی ہم کو ملے خلوص
دائم نبیﷺ کی ذات سے اپنا رہے خلوص
لے آئے تھے سمیٹ کے گھر بار جس طرح
صدیقؓ سا دکھایا نہ تاریخ نے خلوص
بعد از نبیﷺ، نبیﷺ اگر ہوتے تو بس عمرؓ
اللہﷻ کے رسولﷺ سے ان کا زہے خلوص
ہوتی اگر جو تیسری بیوی انہی کی بس
تھے مصطفیﷺ کے سامنے عثمانؓ کے خلوص
حسانؓ ہوں کے سعدی و جامی سے نعت گو
مدحِ نبیﷺ میں ہاشمی برتا کیے خلوص
٭٭٭

 

رات کو نغمہ و گریہ زاری ورنہ دن بھر سناٹا
کس نے شور بھرا ہے باہر، روح کے اندر سناٹا
زادِ سفر میں اس سے زیادہ اور بھلا ہم کیا رکھتے
ان جانی سی راہیں، مسافر، مٹی، پتھر سناٹا
بابِ سماعت وا نہیں رہتا، لفظ کہیں کھو جاتے ہیں
بر سرِ محفل بھر جائے دیوار کو چھُو کر سناٹا
کارِ جہاں میں خود کو کھپائیں ہفت افلاک سے کیا لینا
کیسی پستی کیسی بلندی دیکھا ہے یک سر سناٹا
یاد نگاری، نوحہ گزاری، شغل کہیں آزار لکھیں
خوش اوقات رہیں پل دو پل پھر ہو مکرر سناٹا
٭٭٭

 

 

 

تری مرضی جو تو میری پذیرائی نہیں کرتا
میں جھوٹی بات شعروں میں بیاں بھائی نہیں کرتا
حصولِ رزق کی گھاٹی سے بھی اکثر گزرتا ہوں
فقط کارِ سُخن میں آبلہ پائی نہیں کرتا
حدودِ وہم سے جب سرحدِ ادراک تک آئے
تخئیل وقت کی رفتار پیمائی نہیں کرتا
جب اپنے غم کو میں اظہار کی صورت میں لے آؤں
تو کیوں شکوہ کروں کوئی شکیبائی نہیں کرتا
تماشا کرنے والو تم تماشا کرتے جاؤ، میں
حریفِ آئینہ بن کر صف آرائی نہیں کرتا
صدائے حق لگانا ہاشمی ہے آزمائش کیا؟
بغیر اس کے کوئی تسلیم سچّائی نہیں کرتا
٭٭٭

 

 

کیا ہے دل کو شب و روز پارا پارہ کیا
کسی کی آنکھ میں آنسو ہوا ستارہ کیا
نظر لگی ہے ہنر مند بازوؤں کو عجب
سو کار و کسب پر اُکساؤ گے دوبارہ کیا؟
سپاہ و لشکر و اسباب سب تمہارے سہی
ہماری روح پر ہو جائے گا اجارہ کیا؟
توہّمات سے کوئی بچے تو کیسے بچے
!میانِ زیست میں نفع کیا خسارہ کیا
الَست و مَست و فراموش اور کیا کہتا
ہمارے حرف و نوا کیا ہمارا نعرہ کیا
سُنی سنائی کو دہرا رہا ہے ہر شاعر
غزل کہے گا نئی ہاشمی بچارہ کیا
٭٭٭

 

فیصلے کی گھڑیوں میں جس طرح کوئی مجرم مطمئن نہیں ہوتا
جاگتے ہیں شب میں ہم یوں بھی شعر لکھنا اب دن بہ دن نہیں ہوتا
اک طویل قصّے کو مختصر سے لفظوں میں کس طرح بیاں کرتے
ہم کہاں فغاں کرتے آسماں ہمارا گر ممتحن نہیں ہوتا
اب کڑی مشقّت ہی آدمی کو دنیا میں عیش کے وسائل دے
خواہشیں کرے پوری یا چراغ لا کے دے ایسا جِن نہیں ہوتا
عشق کے الاؤ پر رقص کرنے والے دل دھیمے دھیمے جلتے ہیں
اور یوں خموشی سے تال پر کہیں کوئی تاک دھِن نہیں ہوتا
اے گُمانِ آئندہ رکھ یقین وہ ساعت جلد آنے والی ہے
اس جہانِ فانی میں رفتگاں کے ماتم کا کوئی دِن نہیں ہوتا
٭٭٭

 

 

 

دل آنکھ کی حدّت سے جو آمیز نہ ہوتا
وہ شعلۂ جوّالہ بھی مہمیز نہ ہوتا
گل ہائے سخن نذر بھلا کرتا کہاں میں
یہ ذوقِ طلب آپ کا جو تیز نہ ہوتا
پھر چارہ گری کوئی کیا کرتا یہاں کیوں
پیمانۂ احساس جو لبریز نہ ہوتا
تقدیر کی میزان پہ اعمال نہ تُلتے
گر کوئی ہلاکو کوئی چنگیز نہ ہوتا
چپ چاپ گزرنا وہ ترا راہ گزر سے
گر دیکھتا نہ تجھ کو غم انگیز نہ ہوتا
٭٭٭

 

 

 

کیا حد سے سوا جاگتا سویا جو نہیں تھا
آنکھوں نے کوئی خواب پرویا جو نہیں تھا
تھا لفظ و معانی کے طلسمات میں گم میں
کل رات، ترے سامنے گویا جو نہیں تھا
کل رات سُنا اُس کو نظر ڈھونڈ رہی تھی
وہ عالمِ امکاں ابھی کھویا جو نہیں تھا
کل رات اُسے یاد کے پہلو میں بٹھا کر
میں ہنستا رہا سوچ کے رویا جو نہیں تھا
آ ہجر کے موسم کا ذرا بوجھ اُٹھا لیں
کل رات اسے آنکھوں نے ڈھویا جو نہیں تھا
٭٭٭

 

 

 

 

میں ہاشمی محفل میں لے کر جو غزل جاتا
کچھ لوگ بپھر جاتے، اک شخص بہل جاتا
اِک شغل محبت تھی سو کام تھے دُنیا کے
میزانِ عمل تھی سو، کیوں کر نہ سنبھل جاتا
ہاں اُس قد و قامت کی، آثارِ قیامت کی
تعریف نہ گر کرتا، اک آن میں جل جاتا
اس خواب سی دُنیا میں خوابوں کی حقیقت کیا
سو جاگتا ہوں شب میں، سوتا تو پگھل جاتا
میں دیکھ کر اُس کو جو رُخ پھیر نہیں لیتا
بچّے کی طرح پل میں کیا دل نہ مچل جاتا
٭٭٭

 

 

 

جذبات کو الفاظ سے بوجھل نہیں کرنا
ہم وہم تراشوں پہ یہ جادو نہیں ہوتا
تجھ لب کی طلب اور گریزاں ترا ہونا
پیاسا کوئی اتنا تو لبِ جُو نہیں ہوتا!
تفریق کا کیا خوب جواز اُس نے رکھا ہے
عاشق کوئی افسر کوئی بابو نہیں ہوتا
ہاتھ آئے ہمارے سو ترے ساتھ گزاریں
وہ وقت کہ جس وقت من و تُو نہیں ہوتا
درپیش تجھے مسئلہ ہجر بتا کیا
اے غافلِ چشم و لب و ابرو نہیں ہوتا؟
پہچان مری عصر میں یوں عام نہ ہوتی
میں ہاشمی گر شاعرِ اُردو نہیں ہوتا
٭٭٭

 

 

 

 

جب دل کی شاخ پر گل و لالہ نہ آئے گا
آنکھوں میں عکس کوئی نرالا نہ آئے گا
تھا اُس میں زہرِ آب یا تمثیل تھی فقط
سقراط لے کے اب وہ پیالہ نہ آئے گا
دہقان کو زمین سے بے دخل کیوں کیا
تقدیر میں نہیں جو نوالہ نہ آئے گا
تعمیر کر کے قصرِ تعصب نہیں کہو
دل کے مکان میں کوئی جالا نہ آئے گا
جب تک رہے گا سایہ فگن سر پہ آسماں
اہلِ زمیں کے پاؤں میں چھالا نہ آئے گا
ہاں تم اگر کرو گے مرتب یہ داستاں
بھولے سے ہاشمی کا حوالہ نہ آئے گا
٭٭٭

 

جُنوں کے بعد خرد مرحلہ لکھا جاتا
ہم اپنے آپ میں رہتے تو کیا لکھا جاتا
لکھا ہے اُس نے مقدر میں شاعری کرنا
تو اِس کے ساتھ ہی صبر آ ز ما لکھا جاتا
جو تم نے ہم کو کیا رَد تو کوئی بات نہیں
ہم ایسا کرتے تو یہ نا روا لکھا جاتا
علاوہ اپنے کسی کو نہ کچھ دکھائی دے
پھر اس کے بعد کسے آئینہ لکھا جاتا
تمہارے ساتھ اگر لکھنؤ میں ہم رہتے
ہمیں یقیں ہے ہمیں ایک سا لکھا جاتا
جو لکھ دیا ہے نظر اُس پہ ٹھہرتی ہی نہیں
طلب وہی کہ نیا قا فیہ لکھا جاتا
٭٭٭

 

 

 

سراسر وہم کہئے یا خیالِ خام ہے دُنیا
کسی کو رام کرتی ہے کسی کی رام ہے دنیا
تمنّا اور خواہش اور طلب کا نام ہے دُنیا
پسِ تصویر میں ہوں اور سرِ احرام ہے دنیا
جہاں تک سانس کی ڈوری ہمیں دوڑائے چلتے ہیں
بچھائے حرص کے رنگین کیا کَیا دام ہے دُنیا
مرے شوق و تقاضا پر مرے ذوقِ تماشا پر
ہنسی اکثر اُڑائی جس نے صبح شام ہے دُنیا
شکایت ہے نظر انداز کرنے پر سو کرتے ہیں
نظر اندازیوں پر مؤردِ الزام ہے دُنیا
مجھے دُنیا سے جو کچھ مل گیا تقدیر تھی میری
غلَط ہے گر کہوں پھر بھی غلط اقدام ہے دُنیا
یہ ہَست و نِیست کا احساس موجود و عدم کی دھُن
ہمیں باور کراتی ہے برائے نام ہے دُنیا
٭٭٭

 

 

شعر لکھنے کا سُنانے کا جتَن ڈھونڈ لیا
زندگی کیسے گزاریں یہ چلَن ڈھونڈ لیا
صَرف کرتے رہے یہ عمر ، توانائی بھی
اور اِسی دھُن میں رہے کارِ سُخَن ڈھونڈ لیا
درد کو جمع کیا حکمَت و دانائی سے
عشِق کے نام پر اِک زخمِ کُہَن ڈھونڈ لیا
رقصِ نظّارا ہر اِک آنکھ کی تقدیر نہیں
اے خوشا ہم نے بیاباں میں چمن ڈھونڈ لیا
خلقتِ شہر سُخن وَر اُسے گردانتی ہے
ہاشمی جس نے محبت سے یہ فن ڈھونڈ لیا
٭٭٭

 

جو بھی اوہام کے شر سے نکلا
گردشِ شمس و قمر سے نکلا
اُس میں موجود ہے امکانِ شجر
بیج جو بیچ ثمر سے نکلا
وحشتیں بھی مرے ہمراہ چلیِں
میں اکیلا کہاں گھر سے نکلا
شہرتیں ہوں تو سُخن ہوتا ہے
اب یہ سودا مرے سر سے نکلا
ہاشمی کرنے لگے میر  اسیر
میں جو غالب  کے اثر سے نکلا
٭٭٭

 

 

 

 

سخن کے بھاؤ خریدار دیکھئے صاحب
چلیں نا! گرمی ئ بازار دیکھئے صاحب
گلی گلی میں دُکان ہنر کھلی تو ہے
ہنر فروشی ئ فن کار دیکھئے صاحب
انہیں سمجھئے نہ کوتاہیاں مقدر کی
! ہمیں جو رنج سے دوچار دیکھئے صاحب
اگر بیاں نہ کریں کیفئیت تو کیسے کھُلے
میانِ ہجر دیئے جل کے بجھ گئے صاحب
اک عمر رہ لئے دیوار و در کے اندر ہم
سو اب چلیں ذرا دیوار سے ورَے صاحب
٭٭٭

 

 

 

 

دَر دیوار دریچے چپ
چپکے رہنے والے چُپ
اندر شور صداؤں کا
باہر سے سنّاٹے چپ
دُور فلک اندھیارے میں
خاک سے ہر دم اُبھرے چپ
منزل اوجھل نظروں سے
دیکھ مسافر رستے چپ
دُکھ ان مول خزانے سے
آئے کوئی خریدے چُپ
اک بازار خیالوں کا
بیچ دُکان لگائے چپ
٭٭٭

 

 

خود جلی اور ہمیں جلا کر دھوپ
سائے میں رک گئی تھی آ کر دھوپ
تم ہمیں چھوڑ آئے تھے تنہا
لے چلی راہ سے اُٹھا کر دھوپ
عشق پیچاں کی بیل تھی کہ زُلف
رقص میں تھی جسے سکھا کر دھوپ
از روئے شاعری درست نہیں
ڈائری میں رکھیں سجا کر دھوپ
٭٭٭

 

 

 

 

ساعتَ ہجر ہمیں یوں بھی بتانی ہے بہت
چشمِ پُر آب ٹھہر یوں بھی روانی ہے بہت
جھوٹ ارزاں ہے بہت حرف و حکایت کے لیے
سچ کے بازار میں لفظوں کی گرانی ہے بہت
جیتے جی کون بھلا چھوڑ کے گھر جاتا ہے
ساعتِ مرگ جو ہو نقلِ مکانی ہے بہت
میں نے یادوں کے دریچوں کو کھلا چھوڑ دیا
خود فراموشی مری طبع پرانی ہے بہت
سہو ہو جائے تو پھر جان پہ بن آتی ہے
بزمِ اربابِ ہنر میں نگَرانی ہے بہت
نیند سے خواب تلک ایک سفر آنکھ کا ہے
جاگنے والے تری اپنی کہانی ہے بہت
٭٭٭

 

 

ہیں گو ہم آئینے میں حیرتی صورت
مگر اندر کی تلخی کم نہیں ہوتی کسی صورت
لکھا جاتا نہیں مضمون ہر اک سانحے کا پھر
زمانہ دیکھتا ہے روز کیوں اخبار کی صورت
سنا ہے رزم گاہِ عشق میں وہ آنے والے ہیں
چلو ہم پیش کر دیتے ہیں اپنا دل کسی صورت
چلے تھے ہم تو یکجائی کا بھی امکان تھا دل میں
میانِ ما و تُو حائل ہوئی اِک اجنبی صورت
٭٭٭

 

 

 

 

 

کش مکش وہ بھی اس یقین کے ساتھ
آسماں زاد ہے زمین کے ساتھ
کھل گئے رنج کے معانی دل
آنکھ بھی نم ہے آستین کے ساتھ
عقل و دانائی آپ کی میراث
دن گزرتے ہیں کس ذہین کے ساتھ
پتلیاں عکس ریز رہتی ہیں
انگلیاں چمٹی ہیں مشین کے ساتھ
٭٭٭

 

 

گڑی ہوئی کسی منظر پہ تھی نظر ساکت
پھر اُس کے بعد دکھائی دیے نگر ساکت
ہماری چاند سے جس دم نگاہ ٹکرائی
ستارے شب کے نظر آئے تا سحر ساکت
پسِ غُبار کئی عکس یاد آنے لگے
قدم بڑھاتے ہوئے تھی جو رہ گزر ساکت
میں یہ کہوں گا ملا تُو، کہے گا تو ویسا
ملے نہ لفظ رہے ہونٹ سر بہ سر ساکت
پھر ان کے بعد تو مہلت کبھی ملے گی نہیں
صلیبِ وقت پہ لمحات ہیں اگر ساکت
٭٭٭

 

 

 

 

 

سچ کو چھپا کر اکثر جھوٹ
بولے سارا لشکر جھوٹ
جان بچانے کی خاطر
بولیں شاہ و گداگر جھوٹ
بوتل سے نہ اوک سے پی
ہم اور بادہ سراسر جھوٹ
سچ ہم کو تعلیم ہوا
ہوا کبھی نہ مُیسر جھوٹ
ہاشمی تم بنتے جھوٹے
بولتے قسمیں کھا کر جھوٹ
٭٭٭

 

 

 

 

 

کارِ مشکل ہے یہاں اظہارِ غم یعنی عبَث
ہاں اگر بن جائیں پتھر کے صنم یعنی عبث
لمحۂ موجود میں کیا کیا کریں آخر رقم
چار دن کی چاندنی یا اُس سے کم یعنی عبث
کس قدر پُر پیچ ہیں! ہاں لے سرِ تسلیم خم
گردشِ دوراں یہ تیرے پیچ و خم یعنی عبث
جب تک ان کی آب آنکھوں میں ہے سرمایہ کہیں
کیسے کہہ دیں حاصلِ رنج و الم یعنی عبث
ہاشمی آہستگی، آہستہ رو، آہستہ گو
ورنہ کھو سکتا ہے لفظوں کا بھرم یعنی عبث
٭٭٭

 

 

اتنا بولو جھوٹ کہ دُنیا اُس کو مانے سچ
طنز کیا تھا لیکن بولا تھا بابا نے سچ
رَد کرنا آسان کہاں ہے اپنی ہر خواہش
جھوٹ زباں پر آنکھیں بولیں سولہ آنے سچ
مانا جبر کے ہاتھوں میں انسان کھلونا ہے
اِک دن قائم ہوگی دنیا میں میزانِ سچ
دُنیا والے ہنستے ہنستے اک دن روئیں گے
ہاشمی تم جو بیٹھ گئے ہو اب دُہرانے سچ
٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی اپنی تنہائی ہے اپنی اپنی سوچ
دنیا چاہے جو بھی سوچے بھائی اپنی سوچ
کارِ سخن بھی سچ ہے یہاں ہر ایک نہیں کرتا
ڈھال نہیں سکتا اشعار میں کوئی اپنی سوچ
عمر گزر جاتی ہے سلیقہ مندی نہیں آتی
لوگ بدل گئے لیکن خود نہیں بدلی اپنی سوچ
بچ نہیں سکتا کوئی سزا سے بد اعمالی پر
نیکو کاروں کی ہوتی ہے اچھی اپنی سوچ
ڈھلتی رات کے سنّاٹے میں بیٹھے سوچئے اب
نیند لُٹا کر آئی کہاں پر ہاشمی اپنی سوچ
٭٭٭

 

 

یوں تو بجھنا تھا مجھے اک دن ستارے کی طرح
جگمگاتا ہی رہا روشن منارے کی طرح
آبلہ پائی میانِ عشق دکھلاؤں کسے
بے قراری کون دیکھے دل کے پارے کی طرح
چاندنی کے ساتھ رقصاں دل سرِ رقصِ وصال
خوب ڈالی چاند نے دل کش نظارے کی طرح
ہاشمی دنیا مری نسبت سے پہچانی اُسے
جو مری غزلوں میں آیا استعارے کی طرح
٭٭٭

 

 

 

جب یہ خزاں سے ٹوٹی شاخ
سوکھے پتّے ٹوٹی شاخ
عجز کا دیتی ہے یہ سبق
پھل سے لدی ہوئی جھکتی شاخ
اپنے زعم میں اکڑی رہے
سرو کی تارے چھوتی شاخ
فن کو مثالِ شجر کہئے
شعر سمجھئے اس کی شاخ
آلِ آدم ؑ کہلائیں
ہم جن کی ہیں ہاشمی شاخ
٭٭٭

 

 

 

بچھا کے ہم نے بساطِ سُخن سمیٹے درد
یہ جانتے ہوئے بھرنا پڑیں گی آہیں سرد
ہر ایک بات کا اظہار آگہی ہے اگر
ہے حرف و لفظ میں پوشیدہ کیوں ملال کی گرد
خیال و خوب میں یک جا جسے میں دیکھتا ہوں
کبھی اِکائی میں کُل ہے کبھی ہجوم میں فَرد
مت اتنے غور سے دیکھو میاں مرا چہرہ
میانِ ہجر سرِ آسماں یہ چاند ہے زَرد
پھر اُس کے بعد سے دشتِ سخن ہے پاؤں تلے
بس ایک دن ہمیں اُس نے کہا تھا صحرا نورد
٭٭٭

 

 

 

 

اُترے فلک سے جب کبھی اشعار خود بہ خود
ٹھہری وہیں پہ وقت کی رفتار خود بہ خود
ارزاں ہوا ہے فن کہ طلب گار بڑھ گئے
افزوں ہوئی ہے رونقِ بازار خود بہ خود
ہونٹوں پہ لفظ آن کے کیا منجمد ہوئے
آنکھیں ہوئی ہیں مائلِ گفتار خود بہ خود
تائیدِ ایزدی ہوئی حاصل انھیں کہ اب
تائب ہوئے شراب سے مئے خوار خود بہ خود
پیدا دلوں میں ہاشمی اُلفت کریں جو ہم
گر جائے نفرتوں کی یہ دیوار خود بہ خود
٭٭٭

 

 

 

سجا کے بیٹھ گئے کیوں یہ میز پر کاغذ
نہیں پڑھے گا وہ بھیجو ہزار اگر کاغذ
تبادلہ جو نگاہیں کریں تو پیش اُن کے
لگا ہے ہم کو نہایت ہی بے اثر کاغذ
کہیں بدل نہ دیا ہو تمہارے خط سے اُسے
اُٹھا کے لایا ہے سادہ سا نامہ بر کاغذ
پھر اُس کے بعد ہی بڑھتی ہے قدر کاغذ کی
مکین کو جو کرے گھر سے دَر بہ در کاغذ
٭٭٭

 

 

 

 

صحرا نشینو چونکو نہ میری اذان پر
آیا ہوں کھیلتا ہوا میں اپنی جان پر
رکھتا ہوں میں عزیز زمیں تیری خاک ابھی
قائم ہے اعتبار مرا آسمان پر
چلتا ر ہوں گا دھوپ میں سائے کے ہم قدم
جب تک نہیں بھروسہ مرا سائبان پر
رکھتا ہوں میں سنبھال کے سرمایہ علم کا
کیوں کر نہ ہوگا ناز مجھے خاندان پر
محفل میں آج مصرعہ اُٹھاتا نہیں کوئی
حیراں تھے لوگ پہلے ذرا سی اٹھان پر
اُن رفتگاں کے نام لکھو ہاشمی غزل
احسان کر گئے ہیں جو اُردو زبان پر
٭٭٭

 

 

 

تخلیق نمو پاتی ہے دُکھ درد اُٹھا کر
کیوں رائگاں و ارزاں رہو شعر سنا کر
پوشیدہ نگاہوں سے کہاں ہوگی حقیقت
آئینے سے لے جاؤ گے کیا عکس چُر اکر
اب دیکھے کس وقت وہ مجرم ہمیں ٹھہرائیں
دربار میں لائے تو ہیں الزام لگا کر
اس بات کا اندازہ کریں ہاشمی کیسے
رَم کون سی آنکھیں وہ کرے پھول کھلا کر
٭٭٭

 

 

 

 

میں نکلا ذات کی تہہ سے اُبھر کر
بہت نیچے، بہت اندر اُتر کر
خود اپنے آپ سے کترانے والو
ملا کیا پیشِ آئینہ مُکر کر
رہیں گے ایک سے دن رات شاید!
گزاریں گے یونہی شام و سحر کر
دواؤں پر گزارا کر رہے ہیں
سُنا ہے لوگ جی اُٹھتے ہیں مر کر
شعور و جون کی حد تک گوارا
غزل میں تُو نہ تقلیدِ ظفر کر
یہاں تک ہاشمی یہ فکر پہنچی
رسا چغتائی کی رہ سے گُزر کر
٭٭٭

 

گزارتے رہے اُس وقت کو تذبذب میں
اگر کھلا بھی ہے قسمت کا ہم پہ بند کِواڑ
یہی ہے عاشق و محبوب کے لیے خطرہ
کہ لوگ ڈال نہ دیں ان کے درمیان دراڑ
عجیب فطرتِ لاثانی ہے یہ عقرب کی
لگائے ڈنک بنا دیکھے رات ہے کہ دیہاڑ
بنے ہیں پہلواں اس دور کے سبھی ناقد
قلم کی نوک سے کرتے رہیں اُکھاڑ پچھاڑ
کہا تھا چودھویں شب کو اسے جو دیکھا تھا
‘‘تو چاند ہے تو کسی دن ذرا ہمیں بھی تاڑ’’
٭٭٭

 

 

 

 

اُس نے گر چھوڑ دیا ہم نے بھی رشتے دیئے توڑ
اب پریشان خیالی سے تعلق کو نہ جوڑ
ٹوٹ ہی جائے گی اک روز میاں سانس کی ڈور
بات یہ ہے کہ لگائے گا کہاں تک کوئی دوڑ
تازہ کاروں میں کئے جائیں شمار آپ ہمیں
کہنہ لفظوں سے دیئے ہم نے نئے معنیٰ جوڑ
ہاں میاں صورتِ آئینہ یہاں ہم تُم ہیں
ٹوٹ جائیں تو لگے اس میں نہ پیوند نہ جوڑ
ہاشمی گوشۂ تنہائی میں لکھے ہوئے شعر
عین ممکن ہے کبھی لوگ پڑھیں ایک کروڑ
٭٭٭

 

 

 

 

تو نہ مانے اگر نہ مان عزیز
ہے کوئی اپنا نگہ بان عزیز
مدعی تم ہی نہیں ہم کو بھی
رہتے ہیں زیست کے سامان عزیز
جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر لکھا
ہم کو بھی اپنا ہے ایمان عزیز
عشق کرتا ہے تقاضائے جنوں
کیا خطا کیجئے اوسان عزیز
طرزِ غالب میں لکھے کیا کوئی
لکھ رہے ہیں بہ ہر عنوان عزیز
خیر چلتے ہیں گلی میں اُس کی
‘‘واقعہ سخت ہے اور جان عزیز’’
٭٭٭

روح کرتی ہے کیا بدن سے گُریز
کیسے کر دوں میں اپنے فن سے گریز
خود کو حاضر کیے رکھا خود میں
بارہا کر کے انجمن سے گُریز
اچھی صورت پہ ہو رہا لہلوٹ
کیسے کرتا میں بانکپن سے گُریز
اپنا پندارِ عُمر بیچ گئے
جن کی تقدیر تھا وطن سے گُریز
دوستوں کی مثال سامنے ہے
کرتے رہتے ہیں جو اپَن سے گُریز
خیر کے ساتھ شر بھی لازم ہے
خار کرتے نہیں چمن سے گُریز
جب تصادم نہیں گریز سے پھر
ہاشمی کیسے ہو سُخَن سے گُریز
٭٭٭

 

 

کس کے مشامِ جاں سے یہ درماندہ سی روح معطرّ ہے
کیوں ہے گلاب کے ساتھ مہکتی رانی ایک طرف
دیکھ سنبھال کے رکھ لے جوبَن وقت کی گرد نہ بن جائے
سونے کے تاروں سے کَسی تری مست جوانی ایک طرف
خلوت میں رہنے والوں کو کاش کبھی معلوم نہ ہو
سُورج عمر کا رکتا نہیں ہے تن آسانی ایک طرف
کس نے کس کی نقل لکھی ہے، اصلی کون ہے نقلی کون؟
اک دن کھل جاتی ہے حقیقت، سحر بیانی ایک طرف
ہاشمی شہرِ سُخن میں ہم بھی کارِ سخن کرتے رہے پَر
من کی سندرتا، تن کی کویتا، لکھتا بانی  ایک طرف
٭٭٭

 

میرا غزال دل نشیں، فکرِ غزال ہر طرف
حجر ہ نشیں یہ دِل مرا، پھر بھی خیال ہر طرف
میرے توہمات ہیں، واقعی ثبات ہیں
کس نے پس و جلو میں رکھ دیے سوال ہر طرف
جس جَا نظر اُٹھائیے، جس سمت دیکھے جائیے
اُس کا کمال ہر طرف، اُس کا جمال ہر طرف
تخلیق کی لگن بھی ہے، تفریقِ انجمن بھی ہے
حُسنِ خیال سے سِوا ہے روٹی دال ہر طرف
میرے تصرّفات میں روز و شبِ حیات میں
بکھری ہوئی ہے کُو بہ کو گردِ ملال ہر طرف
تسخیرِ کائنات میں انسان اپنی ذات میں
کہنے کو بڑھ گیا، پہ ہے رو  بہ زوال ہر طرف
٭٭٭

 

لندن تمہیں جانے کی ضرورت نہ موزمبیق
ہو سکتی ہے احساس کی الفاظ سے توثیق
ہاں آدمی بے زار کہا جائے تو کہہ لو
تنہائی نے بخشی ہے غزل گوئی کی توفیق
اے شعبدہ گر لفظ کی تحقیر نہیں کر
حُرمت تجھے معلوم نہیں حرف کی زندیق
رکھ اپنے پٹارے میں جہالت کا خزینہ
کیا چرب زبانی سے حقیقت کی ہو تصدیق
لنگوٹ نہ کس ایسے اکھاڑے نہ بنا تُو
گم راہ نہ کر دے یہ روش تیری، یہ تحقیق
کیوں چھیڑتا ہے معرکہ کُہنگی و نَو
بے فائدہ ہے رفتہ و آئندہ کی تفریق
نقّاد کو معلوم نہیں ہاشمی ، شاید
تنقید جنم لیتی نہیں گر نہ ہو تخلیق
٭٭٭

 

جیسے سماعتوں میں کیا ہے ابھی شریک
ایسے ہی میرے ساتھ رہے آگہی شریک
احسان کیا ہے آپ جتا دیں جو دوستی
احساس کیسا گر نہ ہو چارہ گری شریک
گریہ کناں ہوے تو کھلے غم جہان پر
تنہائیوں میں دل کی رہی بے کلی شریک
سورج ڈھلا تو دھوپ درختوں میں سو گئی
بے داریوں میں میری رہا کب کوئی شریک
ساحل پہ اُڑ رہی تھیں پرندوں کی ٹولیاں
نغمات گونجتے تھے ہوا تھی مری شریک
اشعار میں کمال نہیں کرتا ہاشمی
نیت میں اس کے ہوتی جو کوئی بدی شریک
٭٭٭

 

 

 

سخن بڑھے گا علامت سے استعاروں تک
رسائی ہوگی نظر کی اگر ستاروں تک
حجابِ حرف و معانی کھلا نہیں آخر
یہ گفتگو رہی محدود بس اشاروں تک
سنا کے ہجر کا قصّہ ملال اُٹھاتے رہے
وہ تشنہ لب کہ جو پہنچے نہ آب شاروں تک
تر ا کرم کہ مرا دل بھی اس کی زَد پہ رہا
غبارِ غم کا تعلق تھا سو گواروں تک
نہ تاب لا سکے شہرت پسندوں کے ہاتوں
غزل جو میر کے لہجے میں پہنچی یاروں تک
٭٭٭

 

 

 

 

ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک
پھر ہوا نے بھی دکھا ڈالی ہمیں اپنی چمک
ایک ہی ناؤ، کنارے سے کنارے کا سفر
گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک
چاندنی پھیلی، دریچوں سے دھواں اٹھنے لگا
آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سے چمک
صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ لگی
بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک
آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی
چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک
٭٭٭

 

 

 

 

شعر میں جب سے نظر آئے تگ و تاز کے رنگ
جگمگانے لگے قرطاس پہ آواز کے رنگ
اِسم سب اُس سے ہیں منسوب، صفت اُس کی ہے
طائرِ فکر کو دیتا ہے جو پرواز کے رنگ
چاند کے ناز اُٹھانا کوئی دشوار نہ تھا
دسترس میں نہیں آتے کسی مہ ناز کے رنگ
ہاشمی سادہ بیانی میں یہ رنگا رنگی
ہیں بہت خوب سخن کے نئے انداز کے رنگ
٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

آنکھ نے منظر دکھائے ہیں یہاں سب سے الگ
دائیں، بائیں، آگے پیچھے، درمیاں سب سے الگ
آدمی تو آدمی ہے قدر کیوں یک ساں نہیں
خامیاں سب کی جُدا ہیں، خوبیاں سب سے الگ
چاند سورج، رات دن، شام و سحر یا دھوپ چھاؤں
ہر سخن ور کی ہے خواہش، ہو بیاں سب سے الگ
مشرق و مغرب میں اس کی دھُوم دیکھا چاہیے
سب زبانوں میں ہے یہ اُردو زباں سب سے الگ
کاروانِ شعر و نغمہ میں نہ ہم شامل ہوئے
ہے ٹھیہ اپنا جُدا ہے داستاں سب سے الگ
باوجود اِس کے نہیں ہوتی کہیِں آبادی کم
بستے ہی جاتے ہیں شہرِ رفتَگاں سب سے الگ
سارِقَانِ حرَف و معنیٰ مال اُڑا کر لے گئے
شہر میں کھولی تھی حالی نے دُکاں سب سے الگ
مشق سے حاصل مہارت، ہاشمی کیا خوب کی
تُم نے صحرائے سُخن میں دی اذاں سب سے الگ
٭٭٭

 

 

 

 

نغمَگی کو ہے مُیسر پیرہن سب سے الگ
آرزُو تھی ہو رہے اپنا سُخن سب سے الگ
آنکھ نظارے کی خوگر شب میں ہٹتی ہی نہیں
چاندنی ہم پر رہے سایہ فِگَن سب سے الگ
مشق کو ہم نے مشقت سے سِوا اپنا لیا
گوشہ گیروں کی طرح رکھا چلن سب سے الگ
ابتدا سے آج تک مصروفیت ہے بس یہی
ہو زمیں اپنی، کریں کشتِ سُخن سب سے الگ
نیٹ، چیٹنگ، شاعری، کیا کُچھ کیا کرتے نہیں
ہاشمی بھی خوب رہتے ہیں مگَن سب سے الگ
٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو دکھائی نہ دیا ڈھونڈنے والوں میں کہیں
اُس نے لکھّا تھا مرا نام حوالوں میں کہیں
آئنہ پوچھ رہا ہے مجھے گُم صم پا کر
آپ کھوئے ہوئے رہتے ہیں خیالوں میں کہیں
ہم نے اظہار کی خاطر نہ کی عُجلت، سو ملا
شعر لکھنے کا سلیقہ کئی سالوں میں کہیں
ہاتھ خالی ہیں اگر دولتِ دُنیا سے تو کیا
ہم کو دیکھا نہ گیا مانگنے والوں میں کہیں
حاصلِ کارِ سُخن ہاشمی ٹھہرے گا وہی
نام آ جائے گا جس روز مثالوں میں کہیں
٭٭٭

 

 

 

 

 

دھنک ملے تو نگاہوں میں قید رنگ کریں
رَم آج رات چلو چاندنی کے سنگ کریں
یہ آئینہ سا مرا دل ہے اِس میں سجتی رہو
پھر اُس کے بعد تمنّا، نئی اُمنگ کریں
بدَن تو مل گئے روحوں کی تشنگی بھی مٹے
سو اختیار چلو آج کوئی ڈھنگ کریں
نہیں ہیں فُرصتیں آلامِ روزگار سے گر
اب اِس کے بعد بتا کیا ترے ملنَگ کریں
یہی ارادہ ہے بزمِ سُخن سجائے کوئی
ردیف وار لکھیں، قافیہ نہ تنگ کریں
٭٭٭

اہلِ خانہ سو رہے ہیں اور گھر خاموش ہیں
بولتا ہے کون! اگر دیوار و دَر خاموش ہیں
رات جانے میری آنکھوں نے انہیں کیا کہہ دیا
جاگتے ہیں اور وہ وقتِ سحر خاموش ہیں
میرے فن کی عُمر ہی کیا ہے جو ہو گا تبصرہ
اہلِ فن؛ اہلِ ہنر، اہلِ نظر خاموش ہیں
اس سے ظاہر ہے تجسس آدمی کیا کیا کرے
پوچھتے تھے جان کر موسیٰؑ خضر خاموش ہیں
مصلحت کا ہے تقاضا ہاشمی سو اِن دنوں
وہ اُدھر لب بستہ ہیں اور ہم اِدھر خاموش ہیں
٭‎٭٭

 

تضمین بر غزل فیض احمد فیض

کتراتے ہو کیوں، شرم بھُلا کیوں نہیں دیتے
اِس عشق یا اُس عشق کی تفہیم ہوئی جب
پھر چھُونے ہمیں بند قبا کیوں نہیں دیتے
’’بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تُم کیسے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے‘‘

اخلاصِ فراواں کی جزا کیوں نہیں دیتے
جو تُم سے گریزاں ہو جزا دیتے ہو اُس کو
اخلاق کی ایماں کی جزا کیوں نہیں دیتے
’’دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خُونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے‘‘

پھر نظم کوئی شاملِ اصناف کرو گے
کب تک نہ بیاں فیض کے اوصاف کرو گے!
تا دیر ہمیں شاملِ اہداف کرو گے
’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
مُنصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے‘‘

قدموں سے ملا کرتی ہے منزل کی گواہی
موجیں ہی دیا کرتی ہیں ساحل کی گواہی
کیا ہاشمی کافی نہیں محفل کی گواہی
’’ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
اے نغمہ گرو سازِ صدا کیوں نہیں دیتے‘‘

یہ درد یہ آلام بھلا جائے گا کب تک!
یہ وقت کہانی وہی دُہرائے گا کب تک!
کب چاک کرے گا کوئی وہ دامنِ یزداں
’’پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والوں گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے‘‘

غم بارِ گراں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
نذرِ رگِ جاں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
باقی ہے کہاں فرق یہاں نیکی بدی کا
’’بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دُشمنِ جاں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے‘‘
٭٭٭

تشکر:  شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل