FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

اصول تفسیر اور تفہیم القرآن

 

الاتقان فی علوم القرآن کے اصول تفسیر کی روشنی میں تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

 

حصہ دوم

تحقیقی مقالہ برائے ایم۔ فل ۱۱۔ ۲۰۰۹

 

               عبد الحی عابد

نگراں کار: ڈاکٹر محمد شہباز منج

 

 

 

باب چہارم: تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

حصہ دوم:   اصول

 

 

               فصل اول: علم اصول الدین

 

اصول، اصل کی جمع ہے۔ عربی لغت میں ’’اصل‘‘ کسی چیز کے سب سے نچلے حصے اور بنیاد کو کہتے ہیں جس پر وہ چیز یا عمارت استوار ہو۔

الاصل:اسفل الشیئ، ویطلق علی مبداء الشیئ، القاعدہ:وھی الاساس الذی یبنی علیہ البیت۔ [۱]

اصول دین سے مراد وہ قواعد اور بنیادیں ہیں جن پر دین قائم ہے یا دین کی شرح و وضاحت کرتے وقت جن پر قائم رہنا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ ابن الاکفانی کے نزدیک:

علم یشتمل علی بیان الارا والمعتقدات التی صرح بھا صاحب التشریع، واثبا تھا بالادلۃ العقلیۃ ونصرتھا وتزییف کل ما خالفھا۔ [۲]

دین کے اصل الاصول دو چیزیں یعنی قرآن وسنت ہیں۔ ان کے بعد ایمانیات اور عبادات کو دین کی بنیادوں کا درجہ حاصل ہے۔ ایمانیات میں ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالرسل، ایمان بالکتب اور ایمان بالاخرہ شامل ہیں۔ اور عبادات میں توحید ورسالت کی شہادت، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج شامل ہیں۔

اصول الدین کے بارے میں ابتدائی تصانیف میں قواعد العقائد:خواجہ نصیر الدین محمد بن حسن بن علی الطوسی (۵۹۷ھ۔ ۶۷۲ھ) المحصل:امام ابی عبداللہ فخر الدین الرازی(۵۴۳ھ۔ ۶۰۶ھ)، لباب الاربعین:محمود بن ابی بکر بن احمد الارموی (م۶۸۲ھ) نہایۃ العقول:امام ابی عبداللہ فخرالدین الرازی، الصحائف:ابواللیث نصربن محمدبن احمد بن ابراھیم السمرقندی(۳۳۳ھ۔ ۳۷۳ھ)شامل ہیں۔

سیدابوالاعلیٰ مودودی کے نزدیک اسلامی شریعت کی اصل اور بنیاد دو چیزیں ہیں : قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ۔ باقی تمام اصول و ضوابط جو علما و فقہا نے متعین کیے ہیں انھی دونوں مصادر کے تابع ہیں۔  آپ سنت رسولﷺ کو شریعت کا دوسرا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ آپ کے نزدیک قرآن کی شرح و وضاحت کا پہلا حق نبی کریم ﷺ کا تھا۔ قرآن مجید کی تفسیروتشریح میں حدیث رسول ﷺ کی اہمیت اور مقام سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں :’’قرآن پر تدبر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ نبی ﷺ کی تشریح و تبیین اور آپ کے شاگرد صحابہؓ کی توضیحات اور ابتدا سے آج تک کے تمام علما و فقہا اور محدثین ومفسرین کی تحقیقات اور امت کے متواتر تعامل، ہرچیزسے بے نیاز ہو کربس مصحف کے الفاظ میں تدبر فرمائیں۔ ۔ ۔ یہ طریقہ اگر آپ اختیار فرمائیں گے تو قرآن سے ہدایت پانے کے بجائے گمراہی اخذ فرمائیں گے۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مساعد بن سلیمان الطیار، فصول فی اصول التفسیر، ص۱۱۔

۲۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۶۱۔

۳۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، ج۲، ص۴۷۔

__________________________________________

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :’’کتاب اللہ کوسمجھنے کے لیے احادیث و آثار اور سلف کی تحقیقات کی طرف رجوع کرنا ہرگز وہ فعل نہیں ہے جس پرماوجدنا علیہ اباءنا کی پھبتی کسی جا سکتی ہو۔ ۔ ۔ اگراس فعل کو آپ ماوجدنا علیہ اباءنا کے تحت لا کر قابل مذمت ٹھہراتے ہیں تو پھر قرآن کے ان ارشادات کا آخر آپ کے نزدیک کیا منشا ہے کہ:فَاسْأَلُوا أَہلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا َتعْلَمُونَ (الانبیا۲۱:۷)(اہل ذکرسے پوچھ لواگر تم نہیں جانتے۔ ) اور أُولَٰئِکَ الَّذِینَ ہدَى اللَّہ فَبِہدَاہمُ اقْتَدِہ۔ (الانعام۶:۹۰) (اے محمدؐ! وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو، )‘‘ [۱]

آپ کے نزدیک فرامین نبوی ﷺ بھی قرآن ہی کی طرح واجب الاطاعت ہیں، کوئی شخص صرف قرآن کے ساتھ منسلک ہو کرسنت رسول ﷺ سے استفادہ کیے بغیرمسلمان نہیں ہوسکتا۔ لکھتے ہیں :’’اس سے معلوم ہوا کہ تنہا کتاب اللہ کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ رسالت کا رشتہ ناقابل انقطاع ہے، اور احکام رسولﷺکی اطاعت اور اسوہ رسول ﷺ کی پیروی بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح خود کتاب اللہ کے احکام کی اطاعت فرض ہے۔ ‘‘ [۲]

سید صاحب کے نزدیک دین ایک جامع تصور کا نام ہے جو انسان کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ لفظ دین کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’دین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کا حامل ہے :

ایک مفہوم ہے غلبہ و اقتدار، مالکانہ اور حاکمانہ تصرُف، سیاست و فرمانروائی اور دوسروں پر فیصلہ نافذ کرنا۔

دوسرا مفہوم ہے اطاعت، فرمانبرداری اور غلامی۔

تیسرا مفہوم ہے وہ عادت اور طریقہ جس کی انسان پیروی کرے۔

ان تینوں مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اِس آیت میں اُس ’’ طرز عمل اور اس رویّے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔ ‘‘ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ‘‘۔ [۳]

قرآن وسنت کے بعد سید صاحب ارکان اسلام کو دین کی بنیادیں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت ہے۔ اور تمام انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کی تکمیل کے لیے دنیا میں بھیجا تھا۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، ج۲، ص۴۸۔

۲۔ ایضاً، تفہیمات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ج۱، اکتوبر۲۰۰۰ء، ص۳۲۶۔

۳۔ ایضاً، تفہیم القرآن، ج۴، ص ۳۵۵، حاشیہ:۳۔

۴۔ ایضاً، تفہیم احکام القرآن، ج۲، ص۲۷۔

__________________________________________

آپ کے نزدیک عبادت کا تصور محض پوجا پاٹ یا انسانوں سے الگ ہو کرخداسے لو لگانے کا نہیں ہے۔ اس طرح کے تصورات دیگر مذاہب میں پائے جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے، اللہ نے انسان کو خلیفہ کی حیثیت سے زمین پر مامور کیا ہے اور اس کو کچھ اختیارات دے کر کچھ ذمہ داریاں بھی سپرد کی ہیں۔ چنانچہ وہی شخص کامیاب قرار پائے گا جو اپنی ذمہ داریوں کوسمجھ کران کو ادا کرے گا۔ اسلام کے تصور عبادت کے بارے میں سید صاحب لکھتے ہیں :’’اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسرہو۔ آپ اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھیں۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ کریں، خدا کی شریعت کے مطابق کریں۔ آپ کاسونا جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو۔ ‘‘ [۱]

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو عبادات فرض کی ہیں انھیں ارکان اسلام کہا جاتا ہے۔ سید صاحب لکھتے ہیں : ارکان اسلام وہ ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے اور فرائض اہل ایمان وہ مقتضیات ایمان ہیں جنھیں اسلامی زندگی کی تعمیر کے بعد پورا کیا جانا چاہیے۔ [۲]

آپ کے نزدیک دین دنیا کے معاملات سے الگ کسی چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ دنیا کے کاروبار میں اللہ کے قانون کی پیروی اور اس کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کا نام ہے۔ سید صاحب نے مسلمان کی پوری زندگی کے اعمال و افعال کو شریعت کے مطابق ڈھالنے اور حکومت الٰہیہ کے قیام اور نفاذاسلام کو دین کی تکمیل قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’نماز روزے اور حج و زکوٰۃ کو عبادت اور فرض قرار دینے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ عبادت کو انھی اعمال میں منحصر کر دیا جائے، بلکہ دراصل یہ اعمال انسان کواس بڑی عبادت کے لیے مستعد کرنے والے ہیں جس کا دائرہ اس کی پوری زندگی پروسیع ہے۔ ‘‘[۳]

سید صاحب کے نزدیک دین ایک جامع اصطلاح ہے جو مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ بھی اس اصطلاح سے باہر نہیں ہے۔ لکھتے ہیں :قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے، جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے :

۱۔ حاکمیت و اقتدار اعلیٰ

۲۔ حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم و اطاعت۔

۳۔ وہ نظام فکر و عمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر بنے۔

۴۔ مکافات جو اقتدار اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت کے صلے میں یا سرکشی و بغاوت کی پاداش میں دی جائے۔ [۴]

سید صاحب قرآن مجید کی اس آیت: أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہ۔ (الشوریٰ۴۲:۱۳) ( کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ ) کی روشنی میں اقامت دین کو ایک الگ فریضہ قرار دیتے ہوئے دین کے تمام احکام کے عملی نفاذ کواس فریضے کی تکمیل قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دور نبوت ہے۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ ‘‘[۵]

__________________________________________

۱۔ مودودی، ابو الاعلی، تفہیم احکام القرآن، ج۲، ص۲۹۔

۲۔ ایضاً، رسائل ومسائل، ج۴، ص۳۴۷۔

۳۔ ایضاً، تفہیمات، ص۲۱۳۔

۴۔ ایضاً، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ِ، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، مئی ۲۰۰۰ء، ص۱۲۵۔

۵۔ ایضاً، تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۹۰، حاشیہ:۱۶۔

__________________________________________

آگے چل کر لکھتے ہیں :قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے، اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں۔ [۱]

سید صاحب دین کے بطور نظام حیات ایک جامع تصور کے قائل تھے اور ان کی ساری علمی و عملی جدوجہد نفاذ و اقامت دین کے گرد گھومتی تھی۔ انھوں نے اپنے اسی تصور دین کو بنیاد بنا کر قرآن مجید کی ایک عملی اور متحرک تفسیرلکھی اور ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک اسلامی تحریک بھی قائم کی۔ سید صاحب نے اپنے اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’چنانچہ اس وقت سے میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ جب تک اسلام کو ایک تحریک کی حیثیت سے نہ پیش کیا جائے اور مسلمانوں میں یہ احساس پیدا نہ کیا جائے کہ وہ محض نسلی قوم نہیں ہیں بلکہ عملاً، ایک تحریک کے کارکن ہیں، اس وقت تک اللہ کا دین اللہ کی زمین پرسربلند نہیں ہوسکتا۔ اسی خیال کولے کر میں برسوں سوچتا رہا کہ یہ کام کس طریقے سے کیا جائے۔ آخرکار ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی اور اس کے ساتھ ہی میں نے تفہیم القرآن لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ‘‘[۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۹۱، حاشیہ:۱۶۔

۲۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۱۱۶۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل دوم: علم اصول الفقہ

 

 

لفظ’’ اصول‘‘، ’’اصل‘‘ سے جمع ہے۔ اس کا مطلب بنیاد، جڑ وغیرہ ہے۔ یعنی جس چیز پر کسی اور چیز کا دارومدار ہو اسے اصل کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا کَلِمَۃ طَیِّبَۃ کَشَجَرَۃ طَیِّبَۃ أَصْلُہا ثَابِتٌ وَفَرْعُہا فِی السَّمَاءِ (ابراہیم ۱۴:۲۴)

’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ‘‘

فقہ لغت میں کسی چیز کے فہم اور سمجھ بوجھ کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

وَاحْلُلْ عُقْدَۃ مِّن لِّسَانِی۔ یَفْقَہوا قَوْلِی۔ (طٰہ۲۰:۲۷، ۲۸)

’’اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ ‘‘

یعنی دینی احکام کو اخذ کرنے کے لیے جن بنیادی اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ان کو’’ اصول فقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین کے تفقہ یعنی سمجھ بوجھ کو مومنین کے لیے ضروری قرار دیا، لیکن ایک رعایت یہ دے دی کہ اگرچہ تمام مسلمانوں کے لیے علم فقہ کا حصول ضروری نہیں ہے، لیکن ان میں سے کچھ لوگ ضرور ہر زمانے میں ایسے موجود ہونے چاہییں جو دین میں تفقہ حاصل کریں۔ ارشاد ہے :

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّۃ ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃ مِّنْہمْ طَائِفَۃ لِّیَتَفَقَّہوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَہمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہمْ لَعَلَّہمْ یَحْذَرُونَ (التوبۃ ۹: ۱۲۲)

’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔ ‘‘

﴿ شیخ صالح العثیمین کے نزدیک فقہ سے مراد ہے :معرفۃ الاحکام الشرعیۃ العملیۃ بادلتھا التفصیلیۃ۔ [۱]

یعنی’’         تفصیلی دلائل کے ساتھ شرعی احکام کی معرفت کا نام فقہ ہے۔ ‘‘

اسی طرح اصول فقہ کے بارے میں لکھتے ہیں :علم یبحث عن ادلۃ الفقہ الاجمالیۃ وکیفیۃ الاستفادۃ منھا وحال المستفید۔ [۲]

اسی طرح بقول محمد الخضری:

اصول الفقہ: ھو القواعد التی یتوسل بھا الیٰ استنباط الاحکام الشرعیۃ من الادلۃ۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ العثیمین، محمد صالح، الاصول من علم الاصول، ص۷۔

۲۔ ایضاً، ص۸۔

۳۔ محمد الخضری، اصول الفقہ، مصر:مکتبۃالتجاریۃ الکبریٰ، ۲۰۰۲ء، ص۱۳۔

__________________________________________

سب سے پہلے اصول فقہ پر، ایک مستقل فن کی حیثیت سے، امام محمد بن ادریس شافعی (م:۲۰۴)نے توجہ دی۔ آپ نے اپنے طالب علموں کو اس فن سے متعلق دروس دیے، جو کہ ان کی کتاب ’’کتاب الام‘‘ کے مقدمے میں شامل کیے گئے ہیں۔ [۱]

اس علم کا مقصد دلائل(قرآن، سنت، اجماع، قیاس) کے ذریعے سے احکام کا استنباط کرنا ہے۔ [۲]بعض اصولیین کے نزدیک علم الفقہ دوسرے علوم سے مستعار لیے گئے قواعد پر مشتمل ہے۔ [۳]چونکہ علم الفقہ زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ کرتا ہے اور اس کا دائرہ کار قرآن، سنت، اجماع وقیاس سب کو محیط ہے اس لیے ان سے متعلق تمام قواعد کو اصول فقہ سے متعلق کہا جا سکتا ہے۔

اصول فقہ کے بارے میں امام قرافی (م:۶۸۴ھ)لکھتے ہیں :

فان الشریعۃالمعظمۃ المحمدیۃ، زاد اللہ تعالیٰ منارھا شرفاوعلوا، اشتملت علیٰ اصول و فروع، واصولھا قسمان احدھما: المسمیٰ باصول الفقہ، وھو فی غالب امرہ لیس فیہ الا قواعد الاحکام الناشئۃ عن الالفاظ العربیۃ خاصۃ، وما یعرض لتلک الالفاظ من النسخ والترجیح ونحو: الامر للوجوب والنھی للتحریم، والصیغۃ الخاصۃ للعموم ونحوذالک وما خرج عن ھٰذا النمط الا کون القیاس حجۃ، وخبر الواحد، وصفات المجتھدین۔ ۔ [۴]

’’پس شریعت محمدیہ، اللہ تعالیٰ اس کی رفعت و عظمت کو اور بھی بڑھائے، کچھ اصول اور کچھ فروع پر مشتمل ہے۔ شریعت کے اصول دو طرح کے ہیں۔ ’’اصول‘‘ کی ایک قسم اس چیز کے لیے بولی جاتی ہے جسے اصول فقہ کہتے ہیں، اور اس میں غالب طور پروہ خاص قواعد ہی آتے ہیں جو عربی الفاظ سے وجود میں آنے والے احکام سے بحث کرتے ہیں۔ یا ان احوال سے بحث کرتے ہیں جو ان الفاظ کو پیش آ سکتے ہیں، مثلاً نسخ اور ترجیح۔ جیسے یہ قاعدہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہے اور نہی تحریم کے لیے۔ ان کے علاوہ پھر دوسری قسم کے قواعد ہیں جیسے قیاس کا حجت ہونا، خبر واحد یا مجتہد کے صفات وغیرہ سے متعلق مباحث۔ ۔ ‘‘

علامہ عبدالرحمن ابن خلدون(م۸۰۸ھ)کے بقول:’’فقہ انسان کے افعال کے بارے میں اللہ کے احکام کی اس حیثیت سے معرفت کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا حرام۔ مستحب ہیں یا مکروہ اور مباح ہیں یا نہیں۔ یہ باتیں قرآن و حدیث سے اور شرعی دلائل سے لی جاتی ہیں جو شارع علیہ السلام نے ان کو پہچاننے کے لیے قائم کیے ہیں۔ جب ان دلائل سے احکام نکالے جاتے ہیں تو انھیں فقہ کہا جاتا ہے۔ ‘‘[۵]

__________________________________________

۱۔ محمد الخضری، اصول الفقہ، ص۵۔

۲۔ ایضاً، ص۶۔

۳۔ ایضاً، ص۱۵۔

۴۔ القرافی، احمد بن ادریس، الصنہاجی، بیروت:دارالکتب العلمیۃ، ط۱، ۱۹۹۸ء، ص۵۔ ۶۔

۵۔ ابن خلدون، عبدالرحمن، مقدمہ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۲۸۲۔

__________________________________________

علامہ نظام الدین شاشی کے بقول:’’فقہ کے چار اصول ہیں :کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع امت اور قیاس۔

ان چاروں اقسام کے متعلق بحث کرنا اور تحقیق کرنا ضروری ہے تاکہ ان سے احکام شرعیہ کے نکالنے اور معلوم کرنے کا طریقہ معلوم ہو۔ ‘‘[۱]

فقہ کی ان چاروں بنیا دوں سے جب مسائل اخذ کیے جاتے ہیں تو اس سلسلے میں جو قواعد و ضوابط، اصطلاحات اور طریق کار فقہا استعمال کرتے ہیں ان سب کو بھی اصول فقہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاً عام و خاص کا تعین، مطلق و مقید، مشترک و مُاَوَل، حقیقت و مجاز، استعارہ، صریح و کنایہ، متقابلات، نصوص، عطف بیان وغیرہ۔ اسی طرح حدیث کے علوم، اجماع وقیاس کے اصول۔

سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے تحریری سرمائے کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ قانون سازی میں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کو اولین ماخذ کی حیثیت دیتے ہیں۔ آپ کے نزدیک اسلام میں حاکمیت اعلیٰ خالصتا، اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے۔ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور ہدایت الٰہیہ اور تشریع کے واحد ماخذ ہیں۔ آپ سے یہ ہدایت اور قانون ہمیں دو شکلوں میں ملا ہے۔ ایک قران جو لفظ بلفظ اللہ کے احکام پر مشتمل ہے۔ دوسرے محمدﷺ کا اسوہ حسنہ یا سنت جو قرآن کے منشا کی شرح و وضاحت اور آپ ﷺ کی نبوت کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ چنانچہ ایسے معاملات جن میں قرآن وسنت کے واضح نصوص موجود ہوں ان میں کوئی فقیہ، قاضی یا قانون ساز ادارہ تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا۔ ۔ باقی رہے وہ معاملات جن کے بارے میں شریعت نے کوئی واضح حکم نہیں دیا، ان میں احکام کی علتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر، شریعت کے جامع اصولوں کو سامنے رکھ کر، شارع کے منشا کوسمجھنے اور اس کو پورا کرنے کے لیے قیاس اور اجتہاد کے ذریعے سے ان کا حل نکالا جائے گا۔ [۲]

سید صاحب لکھتے ہیں :اسلام میں قانون سازی کی بنیاد یہ اصول ہے کہ عبادات میں صرف وہی عمل کرو جو بتا دیا گیا ہے اور اپنی طرف سے کوئی نیا طریقہ عبادت ایجاد نہ کرو۔ اور معاملات میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اس کے پابند رہو، جس چیز سے روک دیا گیا ہے اس سے رک جاؤ اور جس چیز کے بارے میں شارع(اللہ اور اس کے رسولﷺ) نے سکوت اختیار کیا ہے اسی میں تم اپنی صوابدید کے مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہو۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ الشاشی، نظام الدین، اصو ل الشاشی فی اصول الفقہ، ترجمہ مشتاق احمد، لاہور:ادارہ اسلامیات، اکتوبر ۱۹۸۲ء، ص۱۱۔

۲۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، تفہیمات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، جلد ۳، ص۷تا۱۱۔

۳۔ ایضاً، جلد ۳، اگست ۲۰۰۰ء، ص۳۷۔

__________________________________________

تفہیم القرآن کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سید مودودی اصول فقہ اور مصالح شریعت کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآنی آیات سے احکام کا استنباط کرتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ سابقہ فقہا، بالخصوص فقہائے اربعہ کی آرا سے مدد لیتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں جا بجا ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جہاں فقہ کے اصول و مبادی سے اچھی طرح واقف ہیں وہیں قرون اولیٰ کے فقہاء و محدثین کی آرا پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ آپ جہاں فقہائے سابقہ کی آرا نقل کرتے ہیں وہیں اس قول کا بھی ذکر کرتے ہیں جو خود انھوں نے اختیار کیاہو۔ اور اس کی تائید میں دلائل بیان کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پرسورۃ البقرۃ کی آیت:ّ لِلَّذِیْنَ یُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (۲:۲۲۶)کی تفصیل میں لکھتے ہیں : ’’آیت میں چونکہ’’قَسم کھا لینے ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قَسم کھائی ہو، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہو گا، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدّت کے لیے ہو، اس آیت کا حکم اُس صُورت پر چسپاں نہ ہو گا۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قَسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئے ہو، دونوں صُورتوں میں ترکِ تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مُدّت ہے۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ ( بدایۃ المجتہد، جلد دوم، ص ۸۸، طبع مصر، سن ۱۳۳۹ ھ) حضرت علیؓ اور ابنِ عباسؓ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اُس ترکِ تعلق کے لیے ہے، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا۔ لیکن دُوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ ء جسمانی کو منقطع کر دے، ایلاء ہے اور اسے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے۔ ‘‘[۱]

آگے لکھتے ہیں :’’حضرات عثمان، ابن مسعود، زید بن ثابت وغیرہم کے نزدیک رُجوع کا موقع چار مہینے کے اندر ہی ہے۔ اس مدّت کا گزر جانا خود اِس بات کی دلیل ہے کہ شوہر نے طلاق کا عزم کر لیا ہے، اس لیے مدّت گزرتے ہی طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی اور وہ ایک طلاق ِ بائن ہو گی، یعنی دَورانِ عدّت میں شوہر کو رُجوع کا حق نہ ہو گا۔ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں، تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ حضرات عمر، علی، ابنِ عباس اور ابنِ عمر سے بھی ایک قول اسی معنی میں منقول ہے اور فقہائے حنفیہ نے اسی رائے کو قبول کیا ہے۔

سعید بن مُسَیِّب، مکحُول، زُہری وغیرہ حضرات اس رائے سے یہاں تک تو متفق ہیں کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی، مگر اُن کے نزدیک وہ ایک طلاق رجعی ہو گی، یعنی دَورانِ عِدّت میں شوہر کو رجوع کر لینے کا حق ہو گا اور رجوع نہ کرے تو عدّت گزر جانے کے بعد دونوں اگر چاہیں، تو نکاح کر سکیں گے۔

بخلاف اس کے حضرت عائشہؓ، ابو الدَّرْدَاء اور اکثر فقہائے مدینہ کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہو گا اور حاکمِ عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رُجوع کرے یا اُسے طلاق دے۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور ابنِ عمرؓ کا ایک قول اس کی تائید میں بھی ہے اور امام مالک و شافعی نے اسی کو قبول کیا ہے۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۷۲۔ ۱۷۳۔ حاشیہ:۲۴۷۔

۲۔ ایضاً، ص۱۷۳، حاشیہ:۲۴۷۔

__________________________________________

سید صاحب آیات کی تشریح کے دوران میں ان آیات سے متعلقہ فقہی مباحث کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ان سے اخذ ہونے والے احکام کا ذکر کرتے ہیں۔ سورۃ الانفال کی درج ذیل آیت آپ کی اس خصوصیت کا واضح ثبوت ہے :وَالَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یُہاجِرُوا مَا لَکُم مِّن وَلَایَتِہم مِّن شَیْءٍ حَتَّىٰ یُہاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہم مِّیثَاق۔ (۷۲:۸)’’رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام میں ) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ ‘‘

سید صاحب نے حاشیہ میں اس آیت پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اس سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ’’ولایت‘‘کا تعلق صرف اُن مسلمانوں کے درمیان ہو گا جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آ جائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدودِ ارضی سے باہر ہوں، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی، لیکن ’’ولایت‘‘ کا تعلق نہ ہو گا، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دار الکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں۔ ’’ ولایت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے، اور شہریوں کا اپنی ریاست سے، اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت ’’دستوری و سیاسی ولایت‘‘ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفضیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہو گا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دار الکفر اور دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، ایک دوسرے کے قانونی ولی نہیں بن سکتے، با ہم شادی بیاہ نہیں کر سکتے، اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ داری کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دارالکفر سے شہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ س کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری آن مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو‘‘۔ اس طرح اسلامی قانون نے اُس جھگڑے کی جڑ کات دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ‘‘[۱]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۷۲۔ ۱۷۳۔ حاشیہ:۲۴۷۔

__________________________________________

درج بالا حاشیہ جہاں سید صاحب کی فقہ پر دسترس کو ظاہر کرتا ہے وہیں آ پ کی اظہار حق کی اس خوبی کا ثبوت بھی ہے کہ ایک عالم دین ہر حال میں کلمہ حق کہتا ہے، چاہے اس کو یا اس کے متعلقین کو کتنا ہی دنیاوی نقصان پہنچنے کا اندیشہ کیوں نہ ہو۔ اگرچہ آپ کی اس بے لاگ رائے سے ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے کے باعث، آپ کو سیاسی طور بہت سے نقصانات کا اندیشہ تھا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے آیات کی تشریح اور اسلام کے قانون ولایت و قانون بین الاقوام کے بیان میں نہ تو کوئی ابہام پیدا کیا اور نہ کسی مصلحت ہی کو آڑے آنے دیا۔ آپ کی اس رائے کی بنیاد پر آپ پر اس قسم کے فتوے لگنا شروع ہو گئے کہ آپ جہاد کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں سے شادی بیاہ کو حرام کہتے ہیں۔

سید صاحب اسی آیت کی تشریح کے دوران اگلے حاشیے میں لکھتے ہیں :’’ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھُند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔ ‘‘ [۲]

مولانا مودودی کی اسی تعبیر اور تفسیر پر تنقید کرتے ہوئے پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں :

’’علما نے مولانا شبیر احمد عثمانی کی سرگردگی میں مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کو آڑے ہاتھوں لیا اور جوابی فتاویٰ شائع کیے۔ اس غلط فتویٰ نے جماعت اسلامی کی ساکھ کوکس حد تک مجروح کیا اس کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا دیکھ لینا کافی ہو گا کہ جماعت اسلامی ابھی تک تاویلات کے چکر میں پڑی ہوئی ہے اور ان کانٹوں سے خلاصی نہیں پا سکی۔ [۳]

سید صاحب سورۃ الانبیا میں بیان کیے گئے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے (۲۱:۷۹) کوبیان کرتے ہوئے مختلف فقہا کی آرا اور فقہی اصول اس طرح سے بتا تے ہیں :’’ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی۔ ‘‘

آگے چل کر لکھتے ہیں :’’ضمناً اس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں تو اگر چہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا، لیکن دونوں بر حق ہوں گے، بشرط یہ کہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد و دونوں میں موجود ہو۔ ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ بخاری میں عمروؓ بن العاص کی روایات ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فاخطأ فلہ اجرٌ۔ ’’ اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر ‘‘۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بریدہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ قاضی تین قسم کے ہیں، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دے۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے۔ ‘‘[۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۱۶۱۔ ۱۶۲، حاشیہ: ۵۰۔

۲۔ ایضاً، ج ۲، ص ۱۶۲، حاشیہ: ۵۱۔

۳۔ رفیع اللہ شہاب، پروفیسر، احکام القرآن میں تحریف، لاہور:دوست ایسوسی ایٹس، ۲۰۰۰ء، ص۱۴۱۔

۴۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۱۷۳۔ ۱۷۴، حاشیہ:۷۰۔

__________________________________________

تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے جب ہم سورۃ النور کے مندرجات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سید صاحب کی فقہی بصیرت، تبحر علمی، وسعت مطالعہ، فقہی لٹریچر سے آگاہی، قانون دانی اور تقابل ادیان و مذاہب کی صلاحیتیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ سید صاحب اس سورہ کی آیت:الزَّانِیَۃ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہمَا مِائَۃ جَلْدَۃ۔ (۲۴:۲) کی شرح و وضاحت کے دوران میں زنا کے قانونی، اخلاقی اور تاریخی پہلوؤں کونہایت تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ نے زنا کے مفہوم کا تعین کرتے ہوئے لکھا ہے :’’ زنا کا عام مفہوم، جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے کہ’’ ایک مرد اور ایک عورت، بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں ‘‘۔ اس فعل کا اخلاقاً برا ہونا، یا مذہباً گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں، اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی جنس پرستی کے تبع کر دیا ہے، یا جنہوں نے خبطی پن کی اپج کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ ‘‘[۱]

اس کے بعد سید صاحب لکھتے ہیں کہ زنا کی حرمت و شناعت میں قدیم زمانے سے کوئی اختلاف نہیں رہا لیکن انسانی تمدن کی خرابی کے باعث اسلام کے علاوہ کچھ مذاہب اور معاشروں نے محض زنا اور زنا بزن غیر کی اصطلاحات کو استعمال کر کے اول الذکر کو معمولی غلطی اور آخر الذکر کو جرم قرار دے دیا۔ اس معاملے میں اسلام کے اصول دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے بالکل مختلف ہیں۔ دوسرے معاشرے شادی شدہ عورت اور غیر شادی شدہ عورت میں فرق کر کے جرم کی شدت کو طے کرتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں مرد کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ سید صاحب نے عہد نامہ قدیم، عہد نامہ جدید اور ہندوؤں کے شاستروں سے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ عورت کے محض معاشرتی رتبے کی بنیاد پر سزا کا تعین ہوتا تھا اور کم درجے کی خواتین سے زنا کی سزا بہت کم ہوتی تھی۔ اسی طرح موجودہ معاشروں میں ان جرائم کے قوانین پربھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے بعد آپ نے نہایت تفصیل سے زنا کے نقصانات اور اس سلسلے میں اسلام کا نکتہ نظر واضح کرنے کے بعد، قانونی نکات، تاریخی واقعات، احادیث رسول اللہﷺ اور صحابہ کے عمل کو بیان کرنے کے بعد مسلمان فقہا کی آراء کو نقل کیا ہے۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۱۹، حاشیہ:۲۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۳۱۹تا۳۳۹۔

__________________________________________

فقہی احکام پرسید صاحب کی بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فقہائے سابقہ، بالخصوص فقہائے اربعہ کے بیان کردہ مسائل اور ان کے دلائل سے آگاہی رکھتے ہیں۔ آپ بالعموم تمام فقہا کی آرا، ان کے دلائل کے ساتھ نقل کرتے ہیں اور جس رائے کی طرف خود ان کا رجحان ہواسے بھی بیان کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر زنا کی تعریف کے تعین میں آپ نے احناف، شوافع اور مالکیہ کی آرا کو درج کر کے خود احناف کی متعین کردہ رائے کو اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو ان کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاح خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاح خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم خاص کو ظاہر کر دیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا سے معروف معنی ہی میں لیا جائے گا، اور وہ عورت سے فطری مگر نا جائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ ‘‘[۱]

سید صاحب عام طور                                پر فقہی احکام کے معاملے میں امام احناف کی رائے کو اختیار کرتے ہیں لیکن رائے کے اس انتخاب میں دلائل کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ بعض مقامات پر آپ دلائل کی بنیاد پر احناف سے اختلاف اور دوسرے مسالک کو اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جرم زنا میں جبر کا عنصر پائے جانے کی صورت میں عورت کے معاملے میں تمام فقہا میں اتفاق ہے کہ عورت کے ساتھ اگر جبر کیا گیا ہو تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ لیکن مرد کے معاملے میں فقہا میں اختلاف ہے کہ آیا مرد کے لیے بھی جبر کا یہی کلیہ اختیار کیا جائے گا۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام حسؒن بن صالح کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَرؒ کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشار عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اور انتشار عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکاب زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کر سکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جا سکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔ ‘‘[۲]

سید صاحب کی آرا اور دلائل کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ فقہی احکام کے پس پشت حکمتوں اور مقاصد سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔ مثلاً جرم زنا کے بارے میں سید صاحب کی آرا سے کچھ اقتباس درج ہیں :

۱۔ فعل زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر و ا کراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو ہو نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ [۳]

۲۔ ’’اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کار روائی کرے، اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ ‘‘[۴]

۳۔ ’’اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ‘‘ [۵]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۲۸، حاشیہ:۲۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۳۳۱، حاشیہ: ۲۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۳۳۰، حاشیہ:۲۔

۴۔ ایضاً، ج۳، ص ۳۳۱، حاشیہ:۲۔

۵۔ ایضاً، ج۳، ص ۳۳۲، حاشیہ:۲۔

__________________________________________

۴۔ ’’ اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کار روائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بد کاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہر حال اس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ ‘‘[۱]

۵۔ ’’قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورہ نساء آیت :۱۵میں بھی گزر چکی ہے اور آگے اسی سورہ نور میں بھی دو جگہ آ رہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کر سکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔ ‘‘[۲]

۶۔ ’’شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے جب کہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بے حیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔ ‘‘ [۳]

سید صاحب کی فقہی بصیرت اور جدید و قدیم علما کی آرا پر آپ کی گہری نگاہ کی مثالیں تفہیم القرآن کے صفحات پر جا بجا موجود ہیں۔ تفہیم القران کے علاوہ عملی زندگی میں بھی آپ نے بہت سے متنازع، مشکل اور خصوصاً دور جدید میں پیش آنے والے مسائل کا حل، محکم دلائل کے ساتھ قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کیا۔ مثال کے طور پر لاؤڈ سپیکر کے جواز اور عدم جواز کے ضمن میں جب اکثر علمائے کرام نے عدم جواز کا فتویٰ دیا تو سیدصاحب کی اجتہادی بصیرت نے معاملے کو اس طرح سے دیکھا:’’کوئی امر ہمیں اس نتیجے تک پہنچنے سے نہیں روکتا کہ اس آلے کا استعمال مطلقاً مباح ہے اور نماز میں اس کا استعمال مستحسن ہے۔ یہ ان اسباب عالم میں سے ایک سبب ہے جنھیں خدا نے ہمارے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ قدرتی طور پر جو آواز نکلتی ہے یہ آلہ اس آواز کو لے کر زیادہ بلند کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا مقصد یہ ہے کہ سائنٹیفک ایجادات اور تمدن جدید کے آلات و وسائل کے متعلق مسلمان اپنا رویہ بدلیں۔ یہ آلات بجائے خود ناپاک نہیں ہیں۔ اصل میں وہ طریق استعمال ناپاک ہے جو مغرب کی باغیانہ تہذیب نے اختیار کر رکھا ہے۔ ‘‘[۴]

اسی طرح دیہات میں نماز جمعہ کے معاملے میں قدیم علما کے برعکس، جو مصر جامع کی کڑی شرائط پر مصر تھے، سید صاحب نے چند شرائط کے ساتھ دیہاتوں میں نماز جمعہ کے قیام کے حق میں رائے دی۔ [۵]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص ۳۳۳، حاشیہ:۲۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص ۳۳۳، حاشیہ:۲۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص ۳۳۳، حاشیہ:۲۔

۴۔ اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، لاہور:مکتبہ تعمیر انسانیت، ط۳، ۱۹۷۴ء، ص۲۲۳۔ ۲۲۴۔

۵۔ ۔ ایضاً، ص۲۲۵۔

__________________________________________

مسلمانوں کے د ور انحطاط کے ایک خطرناک فتنے ’تکفیر‘ کے موضوع پر سید صاحب نے، کسی مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر، قرآن و حدیث کے قوی دلائل کے ساتھ، اپنی رائے دی۔ انھوں نے ثابت کیا کہ کسی کلمہ گو کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا کوئی کھیل نہیں ہے۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’ جس نے کسی مومن پر لعنت کی اس نے گویا اسے قتل کر دیا۔ اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی اس نے گویا اسے قتل کر دیا۔ اس طرح کی تکفیر وتفسیق محض ایک فرد کے حق پر دست درازی نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی جرم بھی ہے۔ ‘‘[۱]

آگے چل کر اس روش پر کاربند علمائے کرام کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :’’افسوس ہے کہ مدتوں کی چلی ہوئی اس روش کو چھوڑنے پر ہمارے علمائے کرام کسی طرح راضی نہیں ہوتے۔ انھوں نے اصل اور فرع، نص اور تاویل کے فرق کو نظر انداز کر دیا ہے۔ وہ ان فروع کو بھی اصول بنائے بیٹھے ہیں جن کو انھوں نے خود یا ان کے اسلاف نے اپنے مخصوص فہم کی بنا پر اصول سے اخذ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے فروع اور دینی تاویلات کے منکر کو بھی اسی طرح کافر قرار دے رہے ہیں جس طرح اصول اور نصوص کے منکر کو قرار دیا جاتا ہے۔ ‘‘ [۲]

داڑھی کے متعلق ایک سائل کے سوال کے جواب میں سید صاحب نے جو رائے دی ہے وہ ان کے اعتدال، فقہی بصیرت، اور دین کے حقیقی فہم کی ایک مثال ہے۔ فرماتے ہیں :’’داڑھی کے متعلق شارع نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ علما نے جو حد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے، وہ بہرحال ایک استنباطی چیز ہے اور کوئی استنباط کیا ہوا حکم وہ حیثیت حاصل نہیں کرسکتا جو نص کی ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اگر فاسق کہا جا سکتا ہے تو صرف حکم منصوص کی خلاف ورزی پر کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، ص۲۲۶۔

۲۔ ایضاً، ص۲۲۶۔

۳۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، جلداول، نومبر۲۰۰۲ء، ص۱۱۸۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل سوم: علم اسباب النزول والقصص

 

 

سبب نزول سے مراد ان حالات و واقعات کا علم ہے جن میں قرآن مجید کی کوئی آیت نازل ہوئی۔ بنیادی طور پر قرآن مجید قیامت تک کے انسانوں کے لیے کتاب ہدایت ہے اور اس کا اصل سبب نزول یہی ہے۔ لیکن عام طور پر آیات کے نزول کا تعلق کچھ خارجی واقعات سے بھی ہوتا ہے جن پر کوئی آیت نازل ہوئی ہوتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کو شان نزول یا سبب نزول کہا جاتا ہے۔ امام ابن تیمیہ کے بقول:

معرفۃ سبب النّزول یعین على فہم الآیۃ فإن العلم بالسّبب یورث العلم بالمسبّب.[۱]

’’ سببِ نزول کا علم آیت کے سمجھنے میں معاون ہے۔ کیونکہ سبب کی معرفت کے ذریعے مسبّب تک رسائی ہو جاتی ہے۔ ‘‘

شاہ ولی اللہ کے نزدیک محدثین قرآنی آیات کے ضمن میں بہت سی باتیں ایسی بھی بیان کر دیتے ہیں جن کا تعلق اسباب نزول سے نہیں ہوتا مثلاً صحابہ کا باہمی مناظرات میں کسی آیت سے استشہادکرنا یا مثال دینا، کسی ایسی روایت کا بیان کرنا جس سے موقع نزول جاننے میں مدد ملے، کسی کلمہ قرآنی کا تلفظ بیان کرنا یا سورتوں اور آیات کے فضائل بیان کرنا۔ یہ چیزیں نہ تو اسباب نزول میں شمار ہوتی ہیں اور نہ ان کا احاطہ کرنا مفسرکی شرائط میں داخل ہے۔ ان کے نزدیک مفسرکے لیے دو چیزوں کا علم شرط ہے :’’ایک وہ واقعات جن کی طرف آیات مشیر ہوں، کیونکہ ایسی آیات کے ایما کاسمجھنابغیرعلم واقعات کے میسرنہیں آ سکتا اور دوسرے وہ قصے جن سے عام کی تخصیص یا کوئی اور فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ مثلاً آیت کو اس کے ظاہری معنیٰ سے پھرتے ہوں وغیرہ وغیرہ، کیونکہ آیات کے اصل مقصد کا علم ان قصص کی موافقت کے بدون ممکن نہیں۔ ‘‘[۲]

مثال کے طور پر غزوہ بدر کے موقع پر حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ سے قیدیوں کے بارے میں رائے لی کہ ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے۔ اس پر صحابہ کرامؓ نے مختلف آرا دیں اور نبی کریم نے فدیہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَکُونَ لَہ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللَّہ یُرِیدُ الْآخِرَۃ وَاللَّہ عَزِیزٌ حَکِیمٌ۔ (الانفال۸:۶۷)(کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ )

بعض مفسرین ہر آیت کو کسی نہ کسی قصہ کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ روش ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ نزول قرآن سے اصلی مقصد انسانوں کی اصلاح و تزکیہ اور باطل عقائد و اعمال کی تردید ہے۔ قرآن کی آیات کا نزول واقعات کے تابع نہیں ہے بلکہ یہ قیامت تک کے لیے راہ ہدایت اور ہر دور کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا باعث ہے۔

__________________________________________

۱۔ ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مقدمہ فی اصول التفسیر، قطر:وزارۃ الاوقا ف والشؤن الاسلامیۃ، ۲۰۰۹ء، ص۴۰۔

۲۔ شاہ ولی اللہ، الفوزالکبیرفی اصول التفسیر، ترجمہ مولوی رشید احمد انصاری، دہلی:مکتبہ برہان، جولائی۱۹۵۵ء، ص۳۹۔

__________________________________________

آیات کا جو سبب نزول بیان کیا جاتا ہے، وہ آیات اس سبب یا موقع کے لیے خاص حکم رکھتی ہیں اور ان کا حکم عام ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی جب کبھی بھی اس سے مشابہ صورت حال پیدا ہو گی اس حکم کا اطلاق اس صورت پر بھی کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آیات اسی واقعے سے متعلق ہیں اور اب ان کا حکم باقی نہیں رہے گا۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تمام سورتوں کے زمانہ نزول اوراسباب نزول کا تعین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ قرآن مجید کی کسی سورہ کو سمجھنے کے لیے جس ذہنی، تاریخی، تمدنی اور تحریکی پس منظر کی ضرورت ہوسکتی تھی اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ شان نزول کا تعین کرنے کے لیے آپ نے روایات و آثار کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی داخلی شہادتوں کو بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً، سورۃ الصف کے بارے میں لکھتے ہیں :’’کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہ ہو سکا لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانہ میں نازل ہوئی۔ کیونکہ اس کے بین السطور جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ‘‘۔ [۱]

آپ زمانہ نزول کے تعین کے لیے آثار و روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ مثلاً سورۃ الانعام کے زمانہ نزول کے تعین کے لیے لکھتے ہیں :’’اِبنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ پُوری سُورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی۔ حضرت مُعاذ بن جَبَل کی چچا زاد بہن اَسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ ’’جب یہ سُورۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اُونٹنی پر سوار تھے، میں ا س کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی‘‘۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلم بند کرا دیا۔ ‘‘[۲]

اسی طرح سورۃ التغابن کے بارے میں لکھتے ہیں :’’مضمون کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی اس وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا اور کچھ مدنی سورتوں کا پایا جاتا ہے ‘‘۔ [۳]

سورۃ البقرۃ کی ابتدا میں سید صاحب نے سورۃ کی وجہ تسمیہ بیان کرنے کے بعد، اس کا زمانہ نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :’’اِس سُورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرت ِ مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دَور میں نازل ہوا ہے، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت ِ مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ سُود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اُتری تھیں۔ سُورۃ کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اِسی سُورۃ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ ‘‘[۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۵، ص۴۵۲۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۵۲۰۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۵۲۴۔

۴۔ ایضاً، ج۱، ص۴۶۔

__________________________________________

اس کے بعد شان نزول کے ضمن میں مفصل بحث کی ہے کہ یہ سورۃہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی جہاں یہودی قوم آباد تھی۔ اس لیے اس سورۃ کا کافی حصہ ان سے متعلق ہے۔ اللہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے ان کی بداعمالیوں اور اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی نئی ریاست کے لیے اصولی ہدایات بھی اس سورۃ میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کو ثابت قدم رہنے اور اشاعت دین کے لیے جدوجہد کرنے کی تلقین بھی ہے۔ اسی طرح مدینہ میں موجود ایک تیسری قوت یعنی منافقین کا ذکر بھی ہے۔ چونکہ اس وقت منافقین ابھی ابتدائی حالت میں تھے اس لیے ان کا اجمالی ذکر کیا گیا ہے۔ [۱]

اسی طرح سورۃ المائدۃ کے زمانہ نزول کا تعین سورۃ کے مضامین سے کرتے ہیں :’’سُورۃ کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ اور روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صُلح حدیبیہ کے بعد سن ۶ ہجری کے اواخر یا سن ۷ ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدہ سن ۶ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ مگر کفّارِ قریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپؐ کو عمرہ نہ کر نے دیا اور بڑی ردّ و کد کے بعد یہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ ؐ زیارت کے لیے آ سکتے ہیں۔ ‘‘[۲]

پروفیسر خورشید احمد کے بقول:’’تفہیم القرآن میں شان نزول کے مواد کو بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ صاحب تفہیم نے یہ کوشش کی ہے کہ قاری کے سامنے اس صورت حال اور اس کیفیت کو ایک حد تک تازہ کر دیں جس میں ایک سورۃ یا اس کے کچھ حصے نازل ہوئے۔ ۔ ۔ تفہیم القرآن صرف قرآن کے تصورِ حیات ہی کی مفسر نہیں، بلکہ اس میں تاریخ انبیا اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داعیانہ سیرت اور آپ کی قیادت و امامت میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کی پوری تاریخ بھی آ گئی ہے ‘‘[۳]

سید صاحب نے قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کرتے وقت قرآن کے بیان کردہ قصوں اور واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تورات، انجیل، زبور اور تاریخ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ واقعات کو مکمل تحقیق کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور ایسے واقعات جن سے انبیا و صالحین کی توہین ہوتی ہو، دلائل کے ساتھ رد کرتے ہیں۔ مثلاً سورۃ الانعام کی آیت ۷۵ تا ۸۴ کی تفسیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کا تعین کرتے ہوئے ۲۱۰۰ق م بتایا ہے اور اس دور کے قبائل اور حالات و واقعات کا ذکر تاریخ سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ان کی دعوت کے طریق کاراور متعلقہ آیات کی توضیح میں پیش آنے والے اشکالات کو بہترین طریقے سے حل کیا ہے۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۴۶۔ ۴۸۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۴۳۴۔

۳۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، مقالہ:پروفیسر خورشید احمد، ص۲۶۔

۴۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۵۵۲تا۵۵۸۔

__________________________________________

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات کے ضمن میں سورۃ الانبیا کی آیت:قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیرُہمْ ہٰذَا فَاسْأَلُوہمْ إِن کَانُوا یَنطِقُونَ۔ (۶۳:۲۱)(اُس نے جواب دیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔ )کی تفسیر میں سید صاحب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر تین جھوٹ بولنے کے الزام کو رد کرتے ہوئے، اس امر کو مخالفین پر حجت قائم کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ ‘‘[۱]

اسی طرح احادیث کی کتب میں اس واقعے کے تناظر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ بولنے والی جو روایت موجود ہے، اس کو آپ نے دلائل کے ساتھ رد کیا ہے۔ آپ نے ثابت کیا ہے کہ یہ واقعہ دراصل بائیبل میں آیا ہے جسے بلا تحقیق روایت کر دیا گیا ہے۔ آپ نے ان تینوں واقعات پر جرح کر کے متعدد طریقوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دفاع کیا ہے۔ اس کے بعد آپ مسلمانوں کے دو گروہوں کا ذکر کرتے ہیں جواس واقعے کے تناظر میں اعتدال کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں ہ کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرا گروہ اس ایک روایات کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتوں پائی جاتی ہیں۔ ‘‘[۲]

سورۃ القمر کی آیت:وَلَقَد تَّرَکْنَاہا آیَۃ فَہلْ مِن مُّدَّکِرٍ۔ (۵۴:۱۵) (اُس کشتی کو ہم نے ایک نشانی بنا کر چھوڑ دیا، پھر کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت نوح کی کشتی کے بارے میں لکھا ہے :’’ لیکن ہمارے نزدیک زیادہ قابل ترجیح معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ ایک بلند و بالا پہاڑ پر اس کا موجود ہونا سینکڑوں ہزاروں برس تک لوگوں کو خدا کے غضب سے خبردار کرتا رہا اور انہیں یاد دلاتا رہا کہ اس سرزمین پر خدا کی نافرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی تھی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس سے بچایا گیا تھا۔ امام بخاری، ابن ابی حاتم، عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ مسلمانوں کی فتح عراق و الجزیرہ کے زمانے میں یہ کشتی جودی پر (اور ایک روایت کے مطابق ابقِردیٰ نامی بستی کے قریب) موجود تھی اور ابتدائی دور کے اہل اسلام نے اس کو دیکھا تھا۔ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر ایک کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے، اور اسی بنا پر وقتاً فوقتاً اس کی تلاش کے لیے مہمات جاتی رہی ہیں۔ ‘‘ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۱۶۷، حاشیہ:۶۰۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۱۶۷، حاشیہ:۶۰۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۲۳۴، حاشیہ:۱۴۔

__________________________________________

 

 

 

 

 

               فصل چہارم: علم الناسخ والمنسوخ

 

عربی لغت میں لفظ نسخ کا مطلب ’’مٹانا‘‘، ’’ازالہ کرنا‘‘ ہے۔ ابراہیم النعمہ کے نزدیک لفظنسخ درج ذیل تین مفاہیم کے لیے استعمال ہوتا ہے :

الازالۃ: کسی چیز کو ہٹا کراس کی جگہ دوسری چیز کو رکھنا۔

نقل الشیٗ من موضع الیٰ موضع آخر: کسی چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھنا۔

الابطال: کسی چیز کواس کا متبادل دیے بغیر اٹھا لینا۔ [۱]

اسلامی اصطلاح میں نسخ کا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ کسی زمانے کے حالات کے لحاظ سے کوئی شرعی حکم نازل کرتا ہے اور پھر کسی دوسرے زمانے میں اس حکم کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کر کے اس کی جگہ کوئی نیا حکم عطا فرما دیتا ہے۔ اس عمل کو’’ نسخ ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس میں جوسابقہ حکم ختم کیا جاتا ہے اسے ’’ منسوخ‘‘ اور جو نیا حکم نافذالعمل ہو کر پرانے حکم کومنسوخ کرتا ہے اسے ’’ناسخ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے :مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃ أَوْ نُنسِہا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہا أَوْ مِثْلِہا۔ (البقرۃ۲:۱۰۶) (ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھُلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ ) اصول تفسیر میں ناسخ ومنسوخ ایک اہم مسئلہ ہے۔ علمائے کرام نے اس موضوع پر بے شمار تصانیف مرتب کی ہیں۔ ناسخ ومنسوخ کے تعین میں بہت سے اختلافات قرون اولیٰ سے چلے آرہے ہیں۔ بعض لوگوں نے پانچ سو کے قریب آیات کومنسوخ قرار دیا ہے۔ سیوطی اور ابن عربی کے نزدیک اکیس آیتیں منسوخ ہیں۔ [۲]جبکہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیا ہے۔ [۳] وہ پانچ آیات (البقرۃ:۲:۱۸۰) (الانفال۸:۶۵) (الاحزاب۳۳:۵۱) (المجادلۃ۵۸:۱۲) اور (المزمل۷۳:۱) ہیں۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ ابراھیم النعمۃ، علوم القرآن، ۲۰۰۸ء، ص۸۳۔

۲۔ شاہ ولی اللہ دہلوی، الفوزالکبیرفی اصول التفسیر، ص۳۷۔

۳۔ ایضاً، ص۳۸۔

۴۔ تقی عثمانی، علوم القرآن، کراچی:مکتبہ دارالعلوم، ۱۴۱۵ھ، ص۱۶۸۔ ۱۷۱۔

__________________________________________

اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر جو احکام نازل فرمائے ہیں ان میں حالات کے پیش نظر تدریجی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو اللہ تعالی نے احکام کو تدریجاً نافذ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اچانک احکام نافذ کر دینے کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے۔ اس لیے پہلے ان احکام کے لیے لوگوں کے ذہنوں کو تیار کیا گیا اور اس کے بعد احکام دیے گئے۔ اسی طرح بعض احکام وقتی نوعیت کے تھے جن کا تعلق مخصوص حالات سے تھا۔ حالات تبدیل ہونے کے بعد اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا۔ علامہ ابن خلدون (م۸۰۸ھ)بھی نسخ کے قائل ہیں اور اس سے ان کی مراد بھی یہی نسخ ہے۔ علامہ صاحب کے بقول:

’’ہماری شریعت میں نہ صرف جواز نسخ ہے بلکہ نسخ واقع بھی ہے۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں پر بڑی    مہربانی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی مصلحتوں کے اعتبار سے، ان کی سہولت کے پیش نظر بعض احکام ہلکے کر دیے ہیں۔ ‘‘[۱]

قرآن مجید میں نسخ دو طرح سے واقع ہوسکتا ہے : ایک یہ کہ کسی آیت کوکسی آیت کے ناسخ کہنے سے مراد یہ لی جائے کہ منسوخ آیت کا حکم زائل ہو چکا ہے اور اس پر عمل قطعی طور پر ممنوع ہے۔ دوسرے یہ کہ مجاز، تخصیص عام و خاص، تعیین مدت یا تفصیل اجمال پرنسخ کا اطلاق کیا جائے۔ چنانچہ اگر نسخ کا پہلا مطلب لیا جائے تو اس کے اعتبار سے قرآن کی کوئی آیت بھی منسوخ قرار نہیں دی جا سکتی۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نزدیک بھی نسخ کا دوسرا مفہوم قابل قبول ہے۔ لکھتے ہیں :’’ قرآن میں نسخ، دراصل تدریج فی الاحکام کی بنیاد پر ہے۔ یہ نسخ ابدی نہیں ہے۔ متعدد احکام منسوخہ ایسے ہیں کہ معاشرے میں کبھی ہم کو پھر ان حالات سے سابقہ پیش آ جائے جن میں وہ احکام دیے گئے تھے تو انھی احکام پر عمل کرنا ہو گا۔ وہ منسوخ صرف اسی صورت میں ہوتے ہیں جبکہ معاشرہ ان حالات سے گزر جائے اور بعد میں آنے والے احکام کو نافذ کرنے کے حالات پیدا ہو جائیں۔ ‘‘ [۲]

اس تدریج کی ضرورت و حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سے ذہن نشین کر نے کی کوشش کرے، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔ ‘‘[۳]

بعض فقہا اس امر کے قائل ہیں کہ سنت قرآن کی ناسخ اور اس پر قاضی ہے۔ مودودی صاحب سے جب اس معاملے میں استفسار کیا گیا کہ کیا حدیث قرآن کومنسوخ کرسکتی ہے تو انھوں نے جواب دیا :’’ فقہائے حنفیہ جس چیز کونسخ الکتاب بالسنۃ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، اس سے مراد، دراصل قرآن کے کسی حکم عام کو مخصوص کرنا اور اس کے ایسے مدعا کو بیان کرنا ہے جواس کے الفاظ سے ظاہر نہ ہوتا ہو۔ مثلاً سورۃ البقرۃ میں والدین اور اقربین کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا تھا، پھرسورۃ النسا ء میں تقسیم میراث کے  احکام نازل ہوئے اور فرمایا گیا کہ یہ حصے متوفی کی وصیت پوری کرنے کے بعد نکالے جائیں۔ ‘‘[۴]

__________________________________________

۱۔ ابن خلدون، عبدالرحمٰن، مقدمہ ابن خلدون، ص۲۷۷۔

۲۔ مودودی، رسائل ومسائل، ج۳، ص۸۴۔

۳۔ مودودی، تفہیم القرآن، ص۵۷۳، حاشیہ:۱۰۴۔

۴۔ مودودی، سنت کی آئینی حیثیت، ص۵۱۔ ۵۲۔

__________________________________________

چنانچہ سید صاحب کے نزدیک سنت قرآن کومنسوخ نہیں کرسکتی بلکہ انھوں نے نسخ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سنت سے بعض آیات کی وضاحت اور بعض کے احکام کا تعین ہوتا ہے، جسے فقہا نے نسخ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ آپ کے نزدیک اس تعیین اور وضاحت کے علاوہ نسخ الکتاب بالسنۃ کا اور کوئی مفہوم قابل قبول نہیں ہے۔ [۱]

امام محمد بن ادریس شافعی بھی نسخ کے اسی مفہوم کے قائل ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :’’اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو یہ کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے۔ سنت کا دائرہ تو کتاب اللہ کے احکامات کی وضاحت ہی ہے۔ ‘‘[۲]

تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب ناسخ ومنسوخ کی حقیقت اور اس کی حدود سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس سلسلے میں ان کا نظریہ افراط و تفریط سے پاک اور اعتدال و توازن پر مبنی تھا۔ آپ نسخ القرآن بالقرآن کے قائل تھے۔ آپ کے نزدیک حدیث قرآن کی ناسخ نہیں بلکہ اس کی شرح و وضاحت کرتی ہے۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، رسائل ومسائل، ج۲، ص۱۰۷۔

۲۔ شافعی، محمد بن ادریس، کتاب الرسالۃ، (ترجمہ مبشرنذیر)۲۰۰۷ء، ص۷۳۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل پنجم : علم الفقہ

 

 

امام جلال الدین سیوطی نے علم الفقہ کو بھی ان ضروری علوم میں شمار کیا ہے جن کا جاننا ایک مفسر کے لیے نہایت ضروری ہے۔

فقہ کا لغوی مطلب ’’سمجھ بوجھ ‘‘ ہے۔ لسان العرب کے مطابق: الفقہ: العلم بالشیٗ والفھم لہ، وغلب علی علم الدین لسیادتہ وشرفہ وفضلہ علیٰ سائر انواع العلوم کما غلب النجم علیٰ الثریا۔ [۱](فقہ سے مراد کسی چیز کا علم اور اس کا فہم ہے۔ مگر علم دین پر اپنی سیادت، شرافت اور فضیلت کی وجہ سے یہ تمام علوم پر اس طرح حاوی ہو گیا ہے جیسے ستارہ ثریا پر۔ )

قرآن مجید میں بھی یہ لفظ انھی معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے :وَاحْلُلْ عُقْدَۃ مِّن لِّسَانِی۔ یَفْقَہوا قَوْلِی۔ (طٰہ۲۰:۲۷۔ ۲۸) (اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ ) اسی طرح سورۃ الاسرا میں ارشاد فرمایا ہے :وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ وَلَٰکِن لَّا تَفْقَہونَ تَسْبِیحَہمْ۔ (۱۷:۴۴) (کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ )

اسلامی اصطلاح میں فقہ سے مراد دین اسلام کا ایسا فہم، ادراک اور علم ہے جس کے ذریعے سے ہم اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی و منشا کے مطابق رواں دواں رکھ سکتے ہیں۔ بقول علامہ ابن خلدون(م۸۰۸ھ):’’فقہ انسان کے افعال کے بارے میں اللہ کے احکام کی اس حیثیت سے معرفت کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا حرام، مستحب ہیں یا مکروہ اور مباح ہیں یا نہیں۔ یہ باتیں قرآن و حدیث سے اور شرعی دلائل سے لی جاتی ہیں جو شارع علیہ السلام نے ان کے پہچاننے کے لیے قائم کیے ہیں۔ جب ان دلائل سے احکام نکالے جاتے ہیں تو انھیں فقہ کہا جاتا ہے۔ ‘‘ [۲]

امام ابوحنیفہ کے نزدیک علم الفقہ سے مراد ہے :ھو معرفۃ النفس ما لھا وما علیھا۔ [۳](علم الفقہ سے مراد یہ ہے کہ ہرانسان کو اس بات کا علم ہو جہ اس کے حقوق کیا ہیں اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔ )

چنانچہ علم فقہ، شریعت کے ان فروعی احکام کے علم کا نام ہے جن کا تعلق بندوں کے افعال سے ہو مثلاً ان کی عبادات و معاملات، ان کے خاندانی تعلقات، زمانہ امن و جنگ میں اپنوں اور غیروں سے معاملات وغیرہ۔ پھر ان افعال کے بارے میں اس بات کا علم کہ یہ واجب ہیں یا حرام، مکروہ یا مباح یا مستحب ہیں۔ ان سب چیزوں کی بنیاد ان دلائل پرہی ہو گی جو کتاب وسنت اور دیگر معتبر ذرائع سے ماخوذ ہوں۔

__________________________________________

۱۔ ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج۱۷، ص۴۱۸۔

۲۔ ابن خلدون، عبدالرحمٰن، مقدمہ ابن خلدون، ج۲، ص۲۸۲۔

۳۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۱۴۔ ۱، ص۱۱۔

__________________________________________

علم الفقہ کسی بھی مسلمان کے لیے انتہائی ضروری علم ہے۔ اسے شریعت کا اتنا علم ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت پورے شعور کے ساتھ کرسکے۔ اسے اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کیا کرنے کا حکم دیا ہے اور کن باتوں سے روکا ہے۔ عبادات، معاملات اور دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اللہ نے اس کے لیے کیا طریقہ مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّۃ ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃ مِّنْہمْ طَائِفَۃ لِّیَتَفَقَّہوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَہمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہمْ لَعَلَّہمْ یَحْذَرُونَ۔ (التوبۃ۹:۱۲۲) (اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔ )

اس آیت کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ تفقہ فی الدین فرض کفایہ ہے۔ اگرچہ یہ سارے مسلمانوں پر فرض نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ضرور ہربستی میں سے علم فقہ کو جاننے والے ہوں۔ لیکن قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے احکام کو بیان کرنے والے مفسرکے لیے اس علم کا حصول لازمی ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے حالات زندگی اور ان کی تفسیر اور فقہی مسائل کے متعلق ان کی آرا کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دین کے صحیح فہم سے نوازا تھا۔ انھوں نے دین کو ٹکڑوں میں دیکھنے کے بجائے یکجا اور قابل عمل نظام کی حیثیت سے دیکھا اور دین کی ایک ایسی قابل عمل تعبیر پیش کی جوانسانی زندگی کے تمام مراحل کا احاطہ کرتی ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت : لِّیَتَفَقَّہوا فِی الدِّینِ (التوبۃ۹:۱۲۲) کی شرح کرتے ہوئے سید صاحب نے لکھا ہے کہ یہ نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کی توسیع کے زمانے میں دی گئی تاکہ توسیع کے ساتھ ساتھ اس تحریک کے وابستگان کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام ہوسکے۔ اس تعلیم کا مقصد صرف لوگوں کو خواندہ بنانا نہیں تھا بلکہ ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا تھا، تاکہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اسلام کی پیروی کریں۔ اس کے بعد آپ فقہ کی رائج اور رسمی تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اس آیت میں لفظ لِّیَتَفَقَّہوا فِی الدِّینِ جواستعمال ہوا ہے جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدّت تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بُری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہُ فِی الدِّیْنِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تحا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا، اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا، اس کے مزاج اور اس کی رُوح سے آشنا ہونا، اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریقِ فکر اور کونسا طرزِ عمل روح دین کے مطابق ہے۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اصطلاحاً فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت (بمقابلۂ روح) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا، لوگوں نے اشتراکِ لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الٰہی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ وہ کل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزو ِ مقصود تھا۔ ‘‘[۱]آپ کے نزدیک اس غلط فہمی کے نتیجے میں ظاہری دین داری مسلمانوں میں رائج ہو گئی اور دین کی اصل روح اور حقیقی تعلیمات پس منظر میں چلی گئیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۲۵۰، حاشیہ:۱۲۰۔

__________________________________________

سید صاحب نے اپنی تفسیر میں جہاں بھی فقہی معاملات پر بحث کی ہے وہاں فقہی احکام کو اخذ کرنے کے بنیادی اصولوں تدریج، عدم حرج اور قلت تکلیف کو مد نظر رکھا ہے۔ آپ نے عام طور پر تمام فقہا کے اقوال کو درج کیا ہے اور ان کی آرا کے پس پشت دلائل کو بھی بیان کیا ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف معاملات میں خدا کے عطا کردہ اسلامی قوانین کی اہمیت اور دنیا میں رائج انسانی قوانین کا تقابل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ جب انسان طلاق، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آ سکا ہے جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسولؐ نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی نہ پیش آ سکتی ہے۔ ‘‘ [۱]

سید صاحب نے سورۃ النسا کی آیت:وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِّنْ أَہلِہ وَحَکَمًا مِّنْ أَہلِہا إِن یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہ بَیْنَہمَا۔ (۴:۳۵) (اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔ )کی تفسیر کرتے ہوئے ثالثوں کے اختیارات پر طویل بحث کی ہے کہ آیا ثالثوں کو میاں بیوی کو ملانے یا جدا کرنے کے اختیارات حاصل ہیں یا نہیں اوران کے فیصلے کوتسلیم کرنا فریقین کے لیے لازم ہے یا ان کا فیصلہ محض سفارش کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ سید صاحب نے لکھا ہے کہ حنفی اور شافعی علما کی نظر میں ثالثوں کا فیصلہ ماننا فریقین کے لیے واجب ہے، لیکن حسن بصری اور قتادہ کے نزدیک ثالث موافقت کرا سکتے ہیں لیکن انھیں علیحدگی کرانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح ابن عباس، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، شعبی، اور محمد بن سیرین ثالثوں کو مکمل اختیار دینے کے حق میں ہیں۔ سید صاحب نے ان علما کی آرا بیان کرنے کے بعد خلفائے راشدین کے فیصلوں کی مثالیں دے کر لکھا ہے :’’اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطورِ خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے۔ البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا۔ ‘‘ [۲]

سورۃ النسا کی آیت:وَإِذَا کُنتَ فِیہمْ فَأَقَمْتَ لَہمُ الصَّلَاۃ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃ مِّنْہم مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوا أَسْلِحَتَہمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْیَکُونُوا مِن وَرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃ أُخْرَىٰ لَمْ یُصَلُّوا فَلْیُصَلُّوا مَعَکَ وَلْیَأْخُذُوا حِذْرَہمْ وَأَسْلِحَتَہمْ۔ (۴:۱۰۲) (اور اے نبیؐ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالت جنگ میں ) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے، پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آ کر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے۔ ) کی تشریح کرتے ہوئے سید صاحب نے صلوٰۃ الخوف کے تمام مسائل پر تفصیلی بحث کی ہے۔ انھوں نے وَإِذَا کُنتَ فِیہمْ فَأَقَمْتَ لَہمُ الصَّلَاۃ کے الفاظ سے بظاہر متبادراس مفہوم پر بحث کی ہے کہ یہ حکم صرف نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ سید صاحب کے بقول اس رائے کو امام ابویوسف اور حسن بن زیاد نے اختیار کیا، لیکن نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ کو مخاطب کر کے ایک حکم دیا گیا لیکن وہ آپ کے جانشینوں کے لیے بھی تھا۔ اس لیے اس نماز کو آپ ﷺ کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۵، حاشیہ:۲۲۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۳۵۱، حاشیہ:۶۱۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۹۱، حاشیہ:۱۳۴۔

__________________________________________

احناف کے نزدیک یہ حکم حملے کے خطرے کے لیے ہے، لہٰذا عین حالت جنگ میں نماز موخر کی جا سکتی ہے، امام مالک اور سفیان ثوری کے نزدیک اشاروں سے پڑھی جا سکتی ہے اور امام شافعی کے نزدیک اسے مختصرکیا جا سکتا ہے۔ [۱]

اسی طرح نماز کو ادا کرنے کے طریقے کے بارے میں بھی سید صاحب نے مفصل بحث کی ہے کہ اس کی ترکیب کا انحصار جنگی حالات پر ہے اور نبی کریم ﷺ نے بھی کئی طریقوں سے اسے ادا کیا ہے۔ اس لیے حاکم وقت مجاز ہے کہ ان میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر لے۔ چنانچہ آپ نے نماز کے چار طریقے بیان کیے ہیں اور ان کو بالترتیب ابن عباس، جابر، مجاہد اور عبداللہ بن مسعود اور حسن بصری اور امام مالک و امام شافعی سے منسوب کیا ہے۔ [۲]

سورۃ النسا کی آیت:فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْہمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَیْہمْ أَمْوَالَہمْ۔ (۴:۶) (پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو۔ ) کی وضاحت کرتے ہوئے سید صاحب نے یتیموں کے اموال کو ان کے حوالے کرنے کی شرائط پر بحث کرتے ہوئے فقہائے اربعہ کی آرا کو بیان کیا ہے اور پھر اپنی رائے میں جو صورت زیادہ قرین صواب نظر آئی اس کی بیان کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں : ایک بلوغ، دوسرے رُشد، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے اُمّت میں اتفاق ہے۔ دُوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سنِّ بُلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رُشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کر نا چاہیے۔ پھر خواہ رُشد پایا جائے یا نہ پایا جائے، اس کا مال اس کے حوالہ کر دینا چاہیے۔ اور امام ابو یوسف، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رُشد کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ غالباً موخّر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرینِ صواب ہو گی کہ اس معاملہ میں قاضیِ شرع سے رُجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رُشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے۔ ‘‘ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۹۱، حاشیہ:۱۳۵۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۳۹۲، حاشیہ:۱۳۶۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۲۳، حاشیہ:۱۰۔

__________________________________________

اسی سورۃ کی آیت:لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہ أَوْ کَثُرَ ۚ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا۔ (۴:۷) (مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے ) مقرر ہے۔ )کی وضاحت کرتے ہوئے وراثت جیسے مشکل مسائل پرسیرحاصل بحث کی ہے اور اس آیت سے اخذ ہونے والے پانچ قانونی احکام کواس طرح سے بیان کیا ہے :’’اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں : ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔ دُوسرے یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے خو اہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصّوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اَور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے اُن کا حصّہ خرید لے۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہو گا۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنفِ مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اِس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔ ‘‘ [۱]

اسی سورۃ کی یہ آیت :یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃ وَأَنتُمْ سُکَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِی سَبِیلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا۔ (۴:۴۳) کی شرح و وضاحت کے دوران سید صاحب کی فقہی بصیرت، سلف صالحین کی آرا و اقوال کا علم اور فقہ پردسترس اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ سید صاحب لکھتے ہیں کہ یہ شراب کی ممانعت کے بارے میں دوسرا حکم ہے جس میں نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔ اسی آیت کی روشنی میں بنی کریمﷺ نے نیند کی شدت اور غلبے کی حالت میں نماز چھوڑکرپہلے نیند پوری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آپ نے اس آیت سے ماخوذ بعض فقہا کی اس رائے پر کہ جو شخص عربی عبارات نہیں سمجھتا اس کی نماز اد انہیں ہوتی تنقید بھی کی ہے۔ لکھتے ہیں :’’لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدّد ہے، خود قرآن کے الفاظ بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ قرآن میں حتیٰ تفقھو ا یا حتیٰ تفھمُو ا ما تقولون نہیں فرمایا ہے، بلکہ حتیٰ تعلمو ا ماتقولون فرمایا ہے۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غزل۔ ‘‘ [۲]

آگے چل کے اسی آیت کے دوسرے حکم جنابت کی حالت میں نماز کی ممانعت کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’فقہاء اور مفسّرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے۔ دُوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ، تو اس گروہ کی رائے میں جُنُبی کے لیے وضو کر کے مسجدمیں بیٹھنا جائز ہے۔ یہ رائے حضرت علیؓ، ابن عباسؓ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۲۴، حاشیہ:۱۲۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۳۵۴، حاشیہ:۶۶۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۵۵، حاشیہ:۶۸۔

__________________________________________

سید صاحب کی فقہ پردسترس کی ایک مثال سورۃ الحج کی یہ آیت ہے :إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِی جَعَلْنَاہ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاکِفُ فِیہ وَالْبَادِ۔ (۲۲:۲۴) (جن لوگوں نے کفر کیا اور جو (آج) اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔ ) سید صاحب نے اس آیت کی روشنی میں مسجد حرام کوکسی شخص، خاندان یا قبیلے کی ملکیت کے بجائے وقف عام قرار دیا ہے۔ اس کے بعد اس سے متبادر ہونے والے دوسرے مسائل پر بحث کی ہے کی کیا مسجد حرام کی اصطلاح سے مراد صرف خانہ کعبہ ہے یا پورا حرم مکہ۔ اس سلسلے میں سید صاحب نے مختلف فقہا کی آرا کو بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک امام شافعی اس سے مراد مسجد حرا م لیتے ہیں اور حقوق کی برابری کا مفہوم صرف عبادات کے معاملے میں اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ جس میں عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل وغیرہ پورا حرم مکہ مراد لیتے ہیں اور حقوق کی برابری کا مفہوم اخذ کرتے ہوئے موسم حج میں مکہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرنے کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آخر میں سید صاحب اس معاملے میں اپنی رائے اس طرح دیتے ہیں :’’یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہل مکہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکان زمین اور مالکان مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لوٹیں۔ وہ ایک وقف عام ہے تمام اہل ایمان کے لیے۔ اس کی زمین کسی کی ملک نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پائے ٹھیر جائے۔ ‘‘ [۱]

سید صاحب کی تفسیر کے مطالعے سے یہ بات متحقق ہوتی ہے کہ آپ علم فقہ کے قواعد، حدود اور ضروریات و لوازمات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ آپ فقہی معاملات میں صحابہ کرام، فقہائے اربعہ اور دیگر علمائے دین کی آرا سے واقفیت رکھتے ہیں۔ آپ کسی مسئلے کے بارے میں تمام آرا بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد جس رائے کو خود اختیار کرتے ہیں اس کو دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس معاملے میں سید صاحب کسی قسم کے تعصب سے گریز کرتے ہیں اور صرف اپنی رائے کی درستی پر اصرار نہیں کرتے، بلکہ ان کا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہر شخص اللہ کے ہاں اپنے علم اور فہم کی بنیاد پر اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ کسی فقہی معاملے میں اگر دلائل کی بنیاد پر کوئی شخص ایک رائے قائم کرتا ہے اور دوسرا مختلف رائے تو دونوں کی رائے درست ہوسکتی ہے۔ سید صاحب نے تفہیم القرآن کے علاوہ فقہی معاملات پر اپنی کتب رسائل ومسائل، تنقیحات اور تفہیمات وغیرہ میں بھی بحث کی ہے۔

__________________________________________

مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۲۱۷، حاشیہ:۴۳۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل ہفتم: علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبھم

 

 

علامہ جلال الدین سیوطی (م۷۱۱ھ)نے تفسیر قرآن کے ضمن میں وارد شدہ احادیث نبوی ﷺ کا علم بھی کسی مفسر کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ علم الاحادیث سے مراد نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریر کے ضمن میں تمام علوم و فنون مثلاسند، متن، رجال، روایت، درایت وغیرہ ہیں۔ قرآن مجید کی شرح و وضاحت اور احکام الٰہی کا عملی صورت میں نفاذ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کی نبوت کی ذمہ داریوں میں سے تھے۔ چنانچہ ماخذ دین کی حیثیت سے حدیث نبوی ﷺ کی اہمیت اور ضروت کے پیش نظر قرآن مجید کی تفسیر اور تشریح کرنے والے کسی بھی فرد کے لیے ان علوم کا جامع ہونا بہت ضروری ہے۔

علم الاحادیث کے بارے میں ابن الاکفانی لکھتے ہیں : علم یتعرف منہ انواع الروایۃ واحکامھا، وشروط الرواۃ، واصناف المرویات، استخراج معانیھا۔ [۱](علم حدیث وہ علم ہے جس میں روایات کی اقسام، شرائط، اصناف اور معانی کے بارے میں جانا جاتا ہے۔ )

نبی کریم ﷺ اور صحابہ کے دور میں باقاعدہ طور پر احادیث کی جمع و تدوین کا کام نہیں ہوا۔ اکثر صحابہ نے ذاتی طور پر احادیث اور احکام کو لکھ رکھا تھا۔ سب سے پہلے سرکاری سطح پر حضرت عمر بن عبدالعزیز (م۱۰۱ھ)نے مدینے کے عامل ابوبکر ابن عمرو بن حزم خزرجی (م۱۲۰ھ)کو جمع و تدوین حدیث کے احکام جاری کیے۔ اسی طرح کے احکام دیگر عاملین کو بھی ارسال کیے گئے۔ چنانچہ ان احکام کی تعمیل میں سب سے پہلے محمد بن مسلم بن شہاب الزہری (م۱۲۴ھ)نے احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا۔ اس کے بعد ابتدائی دور کی اہم کتب حدیث میں سنن ابو عبداللہ مکحول (م۱۱۶ھ)مسند امام ابوحنیفہ (م۱۵۰ھ)سنن ابن جریج (م۱۵۰ھ)الجامع معمر بن راشد الازدی(م۱۵۳ھ)موطا ابن ابی ذئب، محمد بن عبدالرحمن بن مغیرہ بن حارث(م۱۵۹ھ)موطا امام مالک(م ۱۷۹ھ)، مسند ابوداؤد الطیالسی (م ۲۰۴ھ)اور مسند امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ)قابل ذکر ہیں۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۶۰۔

۲۔ غلام جیلانی برق، تاریخ حدیث، لاہور:ادارہ مطبوعات سلیمانی، جون ۲۰۰۹ء، ص۳۸تا۵۲۔

__________________________________________

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور اس کے بعد متصل ادوار میں خوارج، سبائی، شیعی، زنادقہ فارس اور معتزلی فتنوں کے باعث وضع حدیث کا عمل شروع ہوا۔ اس دور میں لوگوں نے کثرت سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے احادیث وضع کرنا شروع کیں۔ علما و محدثین نے اس فتنے کا مقابلہ کرنے اور صحیح احادیث کا تعین کرنے کے لیے جرح و تعدیل، اسما الرجال اور دیگر فنون حدیث کا آغاز کیا۔ صحت حدیث کے تعین کے ضمن میں تحقیق و تفتیش اور جرح و تعدیل کے فن میں صحابہ میں سے عبداللہ بن عباسؓ (م۶۸ھ)، عبادہ بن صامتؓ، انس بن مالکؓ (م۹۱ھ)، تابعین میں سے سعید بن مسیب(م۹۴ھ)، ابن سیرین، مالک بن انس(م۱۷۹ھ) اور ان کے بعد کے دور میں ابو عروہ معمر بن راشد الازدی یمنی(م۱۵۳ھ)اوزاعی (م۱۵۶ھ) سفیان بن سعید بن مسروق ثوری(م۱۶۱ھ)لیث بن سعد (م۱۷۵ھ) ابن مبارک(م۱۸۱ھ) یحیٰ بن سعد القطان (م۱۸۹ھ) سفیان ابن عُیَینہ الکوفی (م۱۹۷ھ) وکیع بن الجراح (م۱۹۷ھ) یزید بن ہارون (م۲۰۶ھ)ابوداؤد الطیالسی (م۲۰۴ھ)عبدالرزاق بن ہمام(م۲۱۱ھ)کے نام قابل ذکر ہیں۔ [۱]فنون حدیث اورعلوم الحدیث کی ابتدائی اہم کتب میں المحدث الفاصل بین الراوی و الواعی: قاضی ابو محمد الحسن بن عبدالرحمٰن بن خلاد الرامھرمزی (م۳۶۰ھ) معرفۃ علوم الحدیث: ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیشاپوری (م ۴۰۵ھ)المستخرج علی معرفۃ العلوم الحدیث: ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصبھانی (م ۴۳۰ھ) الکفایۃ فی علم الروایۃ: ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی (م ۴۶۳ھ)الالماع الی معرفۃ اصول الروایۃ و تقیید السماع: قاضی عیاض بن موسی الیحصبی (م ۵۴۴ھ) التقریب والتیسیر فی حدیث البشیر والنذیر:ابی زکریا یحییٰ بن شرف النووی(م۶۷۶ھ)، علوم الحدیث: ابن صلاح، ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمٰن الشھرزوری (م ۶۴۳ھ)، اور الکفایۃ فی اصول علم الروایۃ:حافظ ابوبکر احمد بن علی البغدادی المعروف ابن الخطیب(م۴۶۳ھ) شامل ہیں۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ محمد حنیف ندوی، مطالعہ حدیث، لاہور:ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۷۹ء، ص۶۹۔

۲۔ محمود طحان، تیسیر مصطلح الحدیث، اسکندریہ:مرکز الھدیٰ للدراسات،، ۱۴۱۵ھ، ص۱۳تا۱۵۔

__________________________________________

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر امت مسلمہ کو آخری امت کی حیثیت عطا کی ہے۔ چونکہ اس کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا تھا اس لیے اللہ نے جہاں قرآن مجید کو آخری کتاب کے طور پر نازل کیا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے وہیں اپنے نبی ﷺ سنت کو محفوظ کرنے کا اہتمام بھی کر دیا ہے۔ قرآن پاک مسلمانوں کا دستور حیات، قانون اور آئین ہے، لیکن اس کی توضیح و تشریح سنت و سیرت رسولﷺ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ قرآن اصول کی کتاب ہے جس میں احکام و مسائل کی تفصیلات نہیں ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں جا بجا نماز پڑھنے کا تاکیدی حکم ہے۔ مگر اس کی ترتیب و کیفیت ہمیں رسول کریم ﷺ کے فرامین سے معلوم ہوتی ہے۔ ایسے ہی شریعت کے تمام احکام و مسائل ہیں۔ آپﷺ قرآن کے مبلغ بھی ہیں اور معلم بھی، اور منصب رسالت کے ان دونوں پہلوؤں کا ذکر قرآن کی متعدد آیات میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی نبوت کی ذمہ داریوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُون۔ َ (سورۃ البقرۃ۲:۱۵۱)

"(جس طرح (تمہیں اِس چیز سے فلاح نصیب ہوئی کہ) میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے، جو تم نہ جانتے تھے۔ )

اسی طرح سورۃ المائدہ میں ارشاد فرمایا: یَا أَیُّہا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ۔ (۶۷:۵)(اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ )

ایک اور مقام پر ارشاد ہے :وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہمْ وَلَعَلَّہمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (سورۃ النحل۱۶:۴۳)

(اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔ )

ان آیات کے مطالعے سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم و تبلیغ، تزکیہ و تربیت اور کتاب اللہ کی شرح و وضاحت بحیثیت رسول آپ ﷺ کی ذمہ داری تھی۔ آپ ﷺ نے اللہ کی طرف سے نازل شدہ تمام احکام و قوانین، عبادات، معاملات وغیرہ کو عملی طور پر امت کے سامنے پیش کرنا تھا۔ چنانچہ آپ نے قرآن کی تعلیم اپنے احکام و اقوال سے بھی فرمائی اور فعل و عمل سے بھی۔ عملی تعلیم کی مثال نماز، روزہ اور حج وغیرہ ہیں، جن کے بارے میں قرآن مجید میں اجمالی احکام ملتے ہیں اور ان کی تفصیل احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتی ہے۔ اور قولی تعلیم کی مثال رمضان کی راتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وضاحت ہے :وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(۲:۱۸۷) ’’اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ ظاہر ہو جائے تمہارے لئے سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے۔ ‘‘آپ ﷺ کی زبان سے اس آیت کی وضاحت ہمیں اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے :

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہ بْنُ إِدْرِیسَ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنْ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ لَہ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ یَا رَسُولَ اللَّہ إِنِّی أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِی عِقَالَیْنِ عِقَالًا أَبْیَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ أَعْرِفُ اللَّیْلَ مِنْ النَّہارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ إِنَّ وِسَادَتَکَ لَعَرِیضٌ إِنَّمَا ہوَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَبَیَاضُ النَّہارِ۔ ( صحیح بخاری، کتاب التفسیر)

’’ابوبکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، حصین، شعبی، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب آیت حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنْ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ۔ نازل ہوئی تو حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے سفید اور سیاہ رنگ کے دو دھاگے رکھ لئے ہیں جن کی وجہ سے میں رات اور دن میں امتیاز کر لیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ جس میں رات اور دن سما گئے ہیں "خَیْطِ الْأَسْوَدِ” سے رات کی تاریکی اور خَیْطُ الْأَبْیَضُ سے دن کی سفیدی مراد ہے۔ ‘‘

چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے حدیث کا جاننا ایک نا گزیر ضرورت ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی فصیح و بلیغ عربی زبان سے واقف ہونے، نبی کریم ﷺ سے تعلیم یافتہ ہونے اور زمانہ نزول قرآن میں موجود ہونے کے باوجود قرآن کی تفسیر میں نبی کریم ﷺ کے محتاج تھے۔ ابن خلدون (م۸۰۸ھ) لکھتے ہیں :’’نبی کریمﷺ مجمل آیات کی تشریح فرماتے۔ ناسخ ومنسوخ کے مابین امتیاز قائم کرتے۔ اور صحابہ کو بھی اس سے آگاہ کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہ آیات کے اسباب نزول اور ان کے موقع و محل سے آشنا تھے۔ انھوں نے یہ سب کچھ آپ ہی سے معلوم کیا تھا۔ ‘‘[۱]

__________________________________________

۱۔ ابن خلدون، عبدالرحمن، مقدمہ تاریخ ابن خلدون، ص۴۸۹۔

__________________________________________

تفسیر قرآن کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی اس حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے بہت سے ایسے احکام بیان فرمائے جن کی تفصیل ہمیں قرآن سے نہیں ملتی۔ محمد حسین الذہبی کے بقول:بیان احکام زائدۃ علیٰ ما جاٗ فی القرآن الکریم، کتحریم نکاح المراٗۃ علی عمتھا وخالتھا، وصدقۃ الفطر، ورجم الزانی المحصن، ومیراث الجدۃ، والحکم بشاہد ویمین، وغیر ھذا کثیر یوجد فی کتب الفروع۔ ‘‘[۱]

’’آپ ﷺ نے ایسے احکام بیان کیے جو قرآن میں بیان کردہ احکام سے زائد تھے، مثلاً کسی عورت کے اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ ایک نکاح میں جمع ہونے کی حرمت، صدقہ فطر، شادی شدہ زانی کا رجم، دادی کا وراثت میں حصہ، (دو گواہوں کے بجائے )ایک گواہ اور حلف(کی بنیاد پر فیصلہ)اور ان کے علاوہ بہت سے احکام جو فقہ کی کتب میں موجود ہیں۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی پیروی ہر مسلمان پر لازم کی ہے۔ آپ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ آپ کی ذات گرامی کو اللہ نے اسوہٗ حسنہ قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے :لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہ أُسْوَۃ حَسَنَۃ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہ کَثِیرًا۔ ( ۳۳:۲۱)(در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ )

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو بار بار نبی کریم ﷺکی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے :وَأَطِیعُوا اللَّہ وَرَسُولَہ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ۔ (سورۃ الانفال۸:۱) (اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔ )

اسی طرح سورۃ النسا میں ہے :مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہمْ حَفِیظًا [۴:۸۰]

(جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔ )

رسول اللہ ﷺ کی اس حیثیت کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورۃالنسا۴:۶۴، سورۃ آل عمران۳:۲۱، سورۃ النور ۲۴:۶۳، سورۃ النسا۴:۶۵، سورۃ آل عمران۳:۳۲، سورۃآل عمران۳:۱۳۲۔ سورۃالنسا۴:۵۹۔ سورۃالانفال۸:۲۰۔ سورۃ الانفال۸:۴۶۔ سورۃ النور۲۴:۵۴، سورۃ محمد۴۷:۳۳، سورۃ المجادلۃ۵۸:۱۳، اورسورۃ التغابن۶۴:۱۲ میں بھی فرمایا ہے۔

ان آیات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس اسلوب اور انداز سے اللہ کی اطاعت کو لازمی قرار دیا گیا ہے، بعینہ وہی انداز رسول اللہ ﷺ کے لیے بھی اختیار کیا گیا ہے۔ ان آیات کی تفہیم اور معانی میں کسی قسم کا کوئی شک اور ابہام نہیں ہے۔ یہ اپنے اس مفہوم میں بالکل واضح ہیں کہ اسلام اور قرآن مجید کی شرح و وضاحت نبی کریم ﷺ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات ہر مفسر کے لیے ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح کا ماخذ اول اگر خود قرآن ہے تو اس کا دوسر ا ماخذ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اس لیے کہ اس کتاب عظیم کی شرح و وضاحت آپ کی نبوت کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیرتفہیم القرآن اور دیگر تصانیف سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ حدیث نبوی کی اس حیثیت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں جہاں سب سے پہلی ترجیح رسول کریم ﷺ کے تفسیری اقوال کو دیتے ہیں، وہیں احادیث سے اپنی بات کو موکد کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

۱۔ الذہبی محمد حسین، التفسیر والمفسرون، ج ۱، ص۴۴۔

سید صاحب لکھتے ہیں :’’قرآن کی تصریحات، جن سے اس زمانے کے اہل علم نے عام مسلمانوں کے سامنے یہ بات ثابت کر دی کہ دین کے نظام میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حیثیت ہر گز نہیں ہے جو منکرین سنت حضور (ص) کو دینا چاہتے ہیں۔ آپ قرآن پہنچا دینے کے لیے محض ایک نامہ بر مقرر نہیں کیے گئے تھے، بلکہ آپ (ص) کو خدا نے معلم، رہنما، مفسر قرآن، شارع قانون اور قاضی و حاکم بھی مقرر کیا تھا لہذا خود قرآن ہی کی رو سے آپ (ص) کی اطاعت و پیروی ہم پر فرض ہے اور اس سے آزاد ہو کر جو شخص قرآن کی پیروی کا دعوی کرتا ہے وہ دراصل قرآن کا پیرو بھی نہیں ہے۔ ‘‘[۱]

آگے مزید لکھتے ہیں :’’قرآن مجید صاف و صریح اور قطعاً غیر مشتبہ الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کو خدا کی طرف سے مقرر کیا ہوا معلم، مربی، پیشوا، رہنما، شارح کلام اللہ، شارع (Law Giver) قاضی اور حاکم و فرمانروا قرار دے رہا ہے، اور حضورﷺ کے یہ تمام مناصب اس کتاب پاک کی رو سے منصب رسالت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ ‘‘[۲]

سید صاحب سورۃ النساٗ کی آیت:یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ (۴:۵۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے اسلامی نظام کی بنیادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، اللہ کی اطاعت کے بعد رسول اللہﷺ کی اطاعت کو دین کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’ اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔ ’’ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔ ‘‘ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آ رہی ہے۔ ‘‘ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سنت کی آئینی حیثیت، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ط۲۱، جنوری۲۰۰۳، ص۱۴۔

۲۔ ایضاً، ص۷۹۔

۳۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۶۳، حاشیہ: ۸۹۔

__________________________________________

اسی طرح آگے رسول اللہ ﷺ کی اس حیثیت مطاع کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ چوتھی بات جو آیت زیرِ بحث میں ایک مستقل اور قطعی اُصُول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسُول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند( Final authority)کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہو گی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہو گا اس کے سامنے سب سرِتسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسُول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصُوصیّت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔ ‘‘ [۱]

سورۃ البقرۃ کی آیت مداینت :یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاکْتُبُوہ ۚ وَلْیَکْتُب بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ۔ ۔ الخ(۲:۲۸۲)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ ‘‘ کی توضیح کے دوران میں سید صاحب نے قرض اور تجارتی قراردادوں کی کتابت کے بارے میں اللہ کے اس حکم کی حکمت کو بخوبی واضح کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی احادیث سے استدلال کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’ حدیث میں آتا ہے کہ تین قسم کے آدمی ایسے ہیں، جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں، مگر ان کی فریاد سُنی نہیں جاتی۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بد خلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دُوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے۔ ‘‘ [۲]

سورۃ آل عمران کی آیت:فَرِحِینَ بِمَا آتَاہمُ اللَّہ مِن فَضْلِہ (۳:۱۷۰) ’’جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں ‘‘، کی تفسیر نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے کی ہے :’’مسند احمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص نیک عمل لے کر دُنیا سے جاتا ہے اُسے اللہ کے ہاں اس قدر پُر لُطف اور پُر کیف زندگی میسّر آتی ہے جس کے بعد وہ کبھی دُنیا میں واپس آنے کی تمنا نہیں کرتا۔ مگر شہید اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ تمنا کرتا ہے کہ پھر دُنیا میں بھیجا جائے اور پھر اُس لذّت، اس سرُور اور اس نشے سے لُطف اندوز ہو جو راہِ خدا میں جان دیتے وقت حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘ [۳]

۱۔ مودودی، ابو الاعلیٰ، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۶۵، حاشیہ: ۸۹۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۲۱۹، حاشیہ: ۳۲۶۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۰۲، حاشیہ:۱۲۱۔

__________________________________________

سید صاحب نے وراثت جیسے مشکل اور دقیق موضوع پر بھی بخوبی بحث کی ہے۔ تمام اشکالات اور مسائل کو اپنی فقہی بصیرت، تدبر اور ذہانت سے اس طرح بیان کیا ہے کہ عام قاری کے لیے بھی ان ریاضیاتی کلیوں اور حصص کی تقسیم کے فارمولوں کو جان لینا آسان ہو جاتا ہے۔ تفسیر و تشریح کے ان تمام مراحل میں سید صاحب نے جہاں اپنی دینی بصیرت کو استعمال کیا ہے وہیں حسب معمول سب سے زیادہ ترجیح رسول اللہ ﷺ کے اقوال و ارشادات کودی ہے۔ جہاں آپ نے فرمان رسول ﷺ سے استدلال کیا ہے وہاں اپنی ذاتی رائے سے گریز کیا ہے۔

سورۃ النساکی آیت:إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہمْ نَارًا ۖ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا (۴: ۱۰)’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں در حقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ ‘‘ کی وضاحت رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے اس طرح کرتے ہیں :’’حدیث میں آیا ہے کہ جنگِ اُحُد کے بعد حضرت سعد بن رَبیعؓ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ’’ یا رسول اللہ! یہ سعدؓ کی بچیاں ہیں جو آپ ؐ کے ساتھ اُحُد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پُوری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہّ تک نہیں چھوڑا ہے۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا‘‘۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ‘‘ [۱]

اسی طرح تقسیم وراثت سے متعلق سورۃ النساٗ ہی کی آیت۴:۱۲ کی تفسیر کرتے ہوئے غَیْرَ مُضَارٍّ کی وضاحت میں وصیت میں ضرر رسانی اور حق تلفی کی نفی کرتے ہوئے، احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیّت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور ایک دُوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہلِ جنّت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیّت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے۔ ‘‘[۲]

اسی سورہ کی آیت:وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَہمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ۔ ۔ الخ( ۴:۱۸ ) ’’مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی۔ ‘‘ کی تفسیر میں توبہ کی قبولیت کی شرائط اور حدود بیان کرتے ہوئے، اسی مناسبت سے فرمان نبوی ﷺ کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یُغرغِر۔ ’’ اللہ بندے کی توبہ بس اُسی وقت تک قبُول کرتا ہے جب تک کہ آثارِ موت شروع نہ ہوں ‘‘۔ ‘‘[۳]

اسی سورہ کی آیت:یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ کَرْہا۔ (۴ :۱۹)کی شرح کے دوران میں عائلی اور ازدواجی زندگی کے مسائل بیان کرتے ہوئے، طلاق کے ذیل میں نبی کریم ﷺ کے اقوال و ارشادات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’طلاق بالکل آخری چارۂ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق، یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا تزوجوا وال تطلقو فان اللہ لا یحب الذواقین و الذواقات، یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں۔ ‘‘ [۴]

حرمات کے بارے میں اسی سورہ کی آیت:حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّہاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ۔ ۔ الخ (۴:۲۳) کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من نظر الیٰ فرج امراٴۃ حرمت علیہ امّھاو ابنتھا۔ ’’جس شخص نے کسی عورت کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالی ہو اُس کی ماں اور بیٹی دونوں اُس پر حرام ہیں۔ ‘‘ اور لا ینظر اللہ الیٰ رجل نظر الیٰ فرج امراٴۃ و ابنتھا، ’’ خدا اس شخص کی صُورت دیکھنا پسند نہیں کرتا جو بیک وقت ماں اور بیٹی دونوں کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالے۔ ‘‘ ان روایات سے شریعت کا منشاء صاف واضح ہو جاتا ہے۔ ‘‘[۵]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۲۵، حاشیہ: ۱۴۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۳۲۹، حاشیہ: ۲۴۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۳۳، حاشیہ:۲۷۔

۴۔ ایضاً، ج۱، ص۳۳۴۔ ۳۳۵، حاشیہ:۳۰۔

۵۔ ایضاً، ج۱، ص۳۳۷، حاشیہ:۳۴۔

__________________________________________

سورۃ النسا کی آیت:الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہ بَعْضَہمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہمْ۔ (۴:۳۴) ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ‘‘، کی تفسیرکے دوران میں، صالح، قناعت پسنداو رحافظات للغیب خواتین کا ذکر کرتے ہوئے، رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے : ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اُسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے ‘‘۔ یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے۔ ‘‘[۱]

اسی سورۃ کی آیت:الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُونَ مَا آتَاہمُ اللَّہ مِن فَضْلِہ (۴:۳۷) ’’ اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔ ‘‘کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں : ’’ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انّ اللہ اذا انعم نعمۃ علی عبد احبّ ان یظھر اثرھا علیہ، اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے۔ ‘‘[۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۴۹، حاشیہ:۵۸۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۳۵۲، حاشیہ۶۳

__________________________________________

سورۃ النسا کی آیت:یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ (۴:۵۹) کی شرح کرتے ہوئے سید صاحب نے اولی الامر کی اطاعت کی اہمیت اور اس کی حدود بیان کرتے ہوئے، اس امر کو لازم قرار دیا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر اولی الامرمسلمان ہو اور خدا اور رسولﷺ کا مطیع ہو تو اس کی اطاعت لازم ہے اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل نہیں ڈالا جا سکتا۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پُوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں :السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فا ذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری و مسلم)’’مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اُولی الامر کی بات سُنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند، تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سُننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔ ‘‘ لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف۔ (بخاری و مسلم)’’خدا اور رسُول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ’’معروف‘‘ میں ہے۔ ‘‘

یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بریٔ و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا۔ (مسلم)’’حضور ؐ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کے بعض باتوں کو تم معروف پا ؤ گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضی کیا وہ بَری الذّمّہ ہوا۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا، پھر جب ایسے حکّام کا دَور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں، آپ ؐ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔ ‘‘

یعنی ترکِ نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت ِ خدا و رسُول سے باہر ہو گئے ہیں، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا۔

شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضو نہم و یبغضو نکم و تلعنو نہم و یلعنو نکم قلنا یا رسول اللہ افلا ننا بذھم عند ذٗالک؟ قال لا ما اقامو ا فیکم الصلوۃ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ۔ (مسلم)’’حضُور ؐ نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! جب یہ صُورت ہو تو کیا ہم اُن کے مقابلہ پر نہ اُٹھیں ؟ فرمایا نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ ‘‘[۱]

سید صاحب سورۃ الاعراف کی آیت:قَالَ ادْخُلُوا فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِکُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِی النَّارِ۔ ۔ الخ (۷:۳۸)کی وضاحت کرتے ہوئے، ترجمے کی تائید اور مفہوم کی تاکید کے لیے احادیث رسول ﷺ سے اس طرح استشہاد کرتے نظر آتے ہیں :’’حدیث میں اسی مضمون کی توضیح یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا یر ضا ھا اللہ و رسولہ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من عمل بھا لا ینقص ذالک من اوزارھم شیئا۔ یعنی جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہو، تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہو گی جنہوں نے اس کے نکالے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے لاتقتل نفس ظلما الاکان علی ابن اٰدم الاول کفل من دمھالا نہ اول من سن القتل۔ یعنی دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خونِ نا حق کا ایک حصہ آدم کے اُس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا، کیونکہ قتلِ انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یا گروہ کسی غلط خیال یا غلط رویّہ کی بنا ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں اُن سب کے گناہ کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی غلطی کے اثرات چلتے رہتے ہیں اس کے حساب میں ان کا اندراج ہوتا رہتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب دہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے۔ ‘‘[۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۶۴، حاشیہ:۸۹۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ص۲۶۔ ۲۷، حاشیہ: ۳۰۔

__________________________________________

سورۃ المائدہ کی تفسیر کے دوران میں حلال و حرام کے احکام کے بیان کے دوران میں سید صاحب نے فرامین رسول ﷺ سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کر کے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں۔ ‘‘ [۱]

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سید صاحب جہاں علوم الحدیث سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں وہیں دین اسلام میں حدیث مبارکہ کی اہمیت اور مقام سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۴۳۷، حاشیہ: ۲۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل ہفتم: علم الموھبہ

 

 

علامہ جلال الدین سیوطی (م۷۱۱ھ)نے علوم تفسیر کے ذیل میں علم الموھبہ کا ذکر کیا ہے۔ موھبہ کا مطلب ہے ’عطا کیا گیا ‘۔ صاحب لسان العرب، ابن منظور الافریقی(م۷۷۱ھ)کے مطابق: الھبۃ: العطیۃ الخالیۃ عن الاعواض والاغراض۔ ۔ وکل ما وھب لک من ولد وغیرہ فھو موھوب۔ ۔ والاسم الموھب والموھبۃ بکسرالھا۔ والموھبۃ :العطیۃ۔ [۱]

یعنی یہ ایک ایسا علم ہے جو خالصتاً عطائے ربانی ہے اور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اسے اپنی کوشش اور جستجو سے حاصل کرسکے۔ سیوطی لکھتے ہیں :علم الموھبۃ، وھو علم یُورِثُہُ اللُہ تعالیٰ لمن عَمِلَ بما عَلِمَ، والیہ الاشارۃ بحدیث:من عمل بما عَلِمَ وَرَٓثَہُ اللہُ عِلمَ ما لم یعلم۔ ‘‘[۲]

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کتاب ہدایت سے اکتساب ہدایت کی شرط تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے :ذَٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ ۛفِیہ، ہدًى لِّلْمُتَّقِینَ۔ (البقرۃ۲:۱)(یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے ( اُن )پرہیز گار لوگوں کے لیے۔ )اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے ہدایت و راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین کے لیے اپنی کتاب کے اسرار ورموز کھول دیتا ہے اور ان کے اندر خصوصی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے جس کے باعث وہ راہ راست پر قائم رہتے اور شکوک و شبہات سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وَاتَّقُوا اللَّہ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہ۔ (البقرۃ۲:۲۸۲)(للہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ )

علامہ سیوطی لکھتے ہیں :ولعلک تستشکل علم الموھبۃِ، وتقول:ھٰذا شئ لیس فی قدرۃ الانسان تحصیلہ، ولیس کما ظننتَ من الاشکال، والطریق فی تحصیلہ ارتکابُ الاسباب الموجبۃ لہ من العمل والزھد۔ [۳](ہوسکتا ہے آپ کو علم الموھبہ کے متعلق اشکال ہو اور آپ کہیں کہ اس کا حصول انسان کے بس میں نہیں ہے۔ تو آپ کا یہ اشکال درست نہیں ہے۔ اس علم کے حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے اپنے اندر زہد و تقویٰ کو پیدا کیا جائے۔ )

بدر الدین الزرکشی کے بقول:

’’اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی حقیقۃ ‘ ولایظہر لہ اسرارالعلم من غیب المعرفۃ‘ وفی قلبہ بدعۃ او اصرار علی ذنب، او فی قلبہ کبراو ہویٰ او حب الدنیا، ا ویکون غیر متحقق الایمان او ضعیف التحقیق‘ او متعمدا علی قول مفسر لیس عندہ الاعلم بظاہر، اویکون راجعا الی معقولہ‘ وہذہ کلہا حجب وموانع‘ ‘۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ ابن منظور الافریقی، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۲، ص۳۰۳۔

۲۔ سیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، ص۲۲۹۷۔

۳۔ ا ایضاً، ص۲۲۹۸۔

۴۔ الزرکشی، بدرالدین، البرھان فی علوم القرآن، ص۱۸۰۔ ۱۸۱۔

__________________________________________

 

’’جاننا چاہیے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے ‘ جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو‘ یا تکبر ہو‘ یا اپنی ذاتی خواہش ہو‘ یا دنیا کی محبت ہو‘ یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو‘ یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو‘ یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو‘ یا وہ کسی جاہل مفسر کے قول پر اعتماد کرے ‘ یا وہ قرآن کریم کی تفسیر میں محض عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہو۔ یہ تمام چیزیں فہم قرآن سے حاجب اور مانع ہیں ‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :سَأَصْرِفُ عَنْ آیَاتِیَ الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۔ (الاعراف۷:۱۴۶)(میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔ ) محدث سفیان بن عُیَینہ الہلالی الکوفی(م۱۹۸ھ) نے اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو قرآن مجید کے فہم سے محروم کر دیتا ہے۔ [۱]

سید قطب شہید اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں لکھتے ہیں :’’ جو شخص قرآن سے ہدایت لینا چاہتا ہے اس کے لیے از حد ضروری ہے کہ وہ قرآن کے پاس قلب سلیم لے کر آئے اور اس کا دل خلوص سے پر ہو۔ پھر وہ دل تقویٰ اور خوف خداوندی سے بھی معمور ہو۔ اس کو اس بات کا خوف ہو کہ وہ کہیں گمراہی میں مبتلا نہ ہو یاضلالت اسے اپنی طرف کھینچ نہ لے۔ جب ایک شخص اس طرح قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو پھر قرآن بھی اس پر اپنے اسرار و رموز کھول دیتا ہے اور اس پر اپنے انوار و برکات کی بارش کر دیتا ہے۔ اوریوں اس خائف، متقی، حساس اور منیب دل میں شراب معرفت انڈیل دیتا ہے۔ ‘‘ [۲]

جب ہم سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیرتفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اکثر مقامات پر آپ کی وضاحتیں اور تشریح و توضیح جہاں دیگر علوم قرآن پر آپ کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے، وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سید صاحب کو قرآن مجید کے سلسلے شرح صدر عطا کیا گیا تھا۔ قرآنی مفاہیم کے بارے میں اللہ نے آپ کے سینے کو کھول دیا تھا۔ مبہم اور مشکل مقامات پر بھی آپ نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھآیات کی شرح و وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔

سورۃ البقرۃ کی آیت:قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ہُوَ أَدْنَی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْر۔ ٌ (۲:۶۱)کی وضاحت کرتے ہوئے اتستبدلون کے عام مفہوم (من وسلویٰ کے بدلے میں حقیر چیزوں کے مطالبے )کے بجائے ایک لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’یہ مطلب نہیں ہے کہ من وسلویٰ چھوڑ کر، جو بے مشقت مل رہا ہے، وہ چیزیں مانگ رہے ہو، جن کے لیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جا رہی ہے، اس کے مقابلے میں کیا تم کو کام و دہن کی لذت اتنی مرغوب ہے کہ اس مقصد کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرومی کچھ مدت کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ الزرکشی، بدرالدین، البرھان فی علوم القرآن، ج ۱، ص۶۔

۲۔ سید قطب، فی ظلال القرآن، مترجم:معروف شاہ شیرازی، ادارہ منشورات اسلامی لاہور، ط۴، اکتوبر۱۹۹۸، ص۵۲۔ ۵۳۔

۳۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۸۰، حاشیہ:۷۷۔

__________________________________________

سورۃ البقرہ ہی کی آیت :الَّذِینَ آتَیْنَاہمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاءَہمْ۔ (۲:۱۴۶)کی تشریح کرتے ہوئے سید صاحب نے جمہور مفسرین سے مختلف معنی مراد لیتے ہوئے، یعرفونہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع قبلہ کو قرار دیا ہے، جبکہ اکثر مفسرین اس ضمیر کا مصداق اور مرجع حضرت محمدﷺ کو قرار دیتے ہیں۔ [۱]

ضمیر کا یہ تعین کلام کے سیاق وسباق اور موضوع کے حوالے سے نہایت مناسب ہے اور سید صاحب پر اللہ کے اس خصوصی کرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ذریعے سے اللہ نے اپنے کلام کے اسرارورموز آپ پر عیاں کیے ہیں۔

اسی سورہ کی آیت : وَاللَّہ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیم۔ (۲:۲۷۶)’’اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ کی تفسیر میں سید صاحب نے ناشکرے اور بد عمل انسان کی نشان دہی اور وضاحت بہت خوب صورتی سے کی ہے۔ آپ کی بیان کردہ توضیح واقعتاً اس آیت کے مفہوم کا عمدگی سے احاطہ کرتی ہے۔ لکھتے ہیں :’’ظاہر ہے کہ سُود پر روپیہ وُہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصّہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصّہ، جو ایک شخص کو ملتا ہے، قرآن کے نقطۂ نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دُوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصّہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصّے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بد عمل بھی۔ ‘‘[۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۲۳۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۲۱۷، حاشیہ:۳۲۱۔

__________________________________________

سید صاحب کو ان کے خلوص اور تقوی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے وہ خصوصی صلاحیت عطا کر دی تھی جس سے اللہ کی کتاب کے اسرار و رموز ان پر کھلتے چلے گئے۔ قرآن مجید کے بہت سارے مشکل اور مبہم مقامات، جہاں مفہوم کے تعین میں لغزش اور اشتباہ کا خطرہ ہوسکتا تھا، سید صاحب پر عیاں ہوتے چلے گئے۔ سورۃ النسا کی آیت:إِن تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہوْنَ عَنْہ نُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مُّدْخَلًا کَرِیمًا۔ (۴:۳۱) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے جنھوں نے بڑے گناہ نہیں کیے ہوں گے، معافی اور در گزر کا معاملہ فرمائیں گے۔ اس کے بعد آپ نے چھوٹے اور بڑے گناہوں کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :’’جہاں تک میں نے قرآن اور سُنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم بالصواب، کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں :

(١) کسی کی حق تلفی، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو، یا والدین ہوں، یا دُوسرے انسان، یا خود اپنا نفس۔ پھر جس کا حق جتنا

زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر گناہ کو ’’ظلم‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اِسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلمِ عظیم کہا گیا ہے۔

(۲)اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر و نہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے، اور عمداً اُن کاموں کو نہ کرے جن کا اُس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ

ڈھٹائی اور جسارت اور ناخداترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہو گی اسی قدر گناہ بھی شدید ہو گا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ’’فسق‘‘ اور ’’معصیت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

(۳) اُن روابط کو توڑنا اور اُن تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان۔ ‘‘[۱]

اسی سورہ کی آیت:لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ۔ (۴:۳۲)’’جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اور یہ جو فرمایا کہ ’’ مَردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصّہ‘‘، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی بُرائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق، یا بالفاظِ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصّہ پائے گا۔ ‘‘[۲]

آگے اسی سورہ کی آیت:وَلَآمُرَنَّہمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللَّہ۔ (۴:۱۱۹) ’’ اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے۔ ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے، سید صاحب نے خدائی ساخت میں رد و بدل کی مختلف ممکنہ صورتوں پر بحث کی ہے۔ اس بحث سے جہاں سید صاحب کی قرآنی علوم پر دسترس ظاہر ہوتی ہے وہیں عمرانی وتمدنی معاملات کے بارے میں آپ کی آگاہی کا علم ہوتا ہے۔ خلق اللہ میں تغیر کی جو امکانی صورتیں ہوسکتی تھیں، سب کے بارے میں آپ نے حاشیے میں بحث کی ہے۔ مفاہیم قرآن کی وضاحت و بیان پر یہ دسترس صرف اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے جو اس نے سید صاحب پر کیا اور ان کے دل و دماغ کو اپنی کتاب کے لیے کھول دیا۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’خدائی ساخت میں رد و بدل کرنے کا مطلب اشیا کی پیدائشی بناوٹ میں رد و بدل کرنا نہیں ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذیب ہی شیطان کے اغوا کا نتیجہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ تہذیب تو نام ہی ان تصرفات کاہے جو انسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے۔ دراصل اس جگہ جس رد و بدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے، اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیا کی فطرت کے خلاف کرتا ہے، اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے، اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً عمل قوم لوط، ضبط ولادت، رہبانیت، برہمچرج، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، مردوں کو خواجہ سرابنانا، عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انھیں تمدن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۴۶، حاشیہ:۵۳۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۳۴۸، حاشیہ:۵۴۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۹۸، حاشیہ:۱۴۸۔

__________________________________________

سورۃ المائدہ کی آیت :وَمَن یُرِدِ اللَّہ فِتْنَتَہ فَلَن تَمْلِکَ لَہ مِنَ اللَّہ شَیْئًا۔ ( ۵:۴۱ )کی شرح کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں :’’اللہ کی طرف سے کسی کے فتنہ میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے بُرے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کے سامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر وہ شخص ابھی بُرائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں سے سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ اُبھر آتی ہیں۔ لیکن اگر وہ بُرائی کی طرف پُوری طرح جھُک چکا ہوتا ہے اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے کسی خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں۔ ‘‘[۱]

سورۃ الانعام کی آیت:وَہوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ بِالْحَقِّ۔ (۶:۷۳) کی شرح کرتے ہوئے سید صاحب نے حاشیہ میں زمین وآسمان کو حق کے ساتھ پیدا کرنے کی وضاحت نہایت عمدگی کے ساتھ کی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا معانی و مفہوم براہ راست آپ کے دل پر القا ہو رہا ہے۔ آپ نے اس آیت کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سارا کارخانہ قدرت محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پس پشت عظیم مقاصد ہیں۔ پھر اپنی بات کی تائید میں قرآن مجید کے دیگر مقامات سے استدلال کیا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظام عدل، راستی اور حکمت جیسی ٹھوس بنیا دوں پر قائم کیا ہے۔ اس میں باطل کا مکمل غلبہ ہونا ناممکن ہے اور آخری فتح حق ہی کی ہو گی۔ اور تیسر ا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو اپنے حق کی بنا پر پیدا کیا ہے اور اس میں حکمرانی کا اصل حق بھی اس کا ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اس کائنات میں پنا قانون اور حکم چلائے۔ [۲]

اسی سورہ کی آیت:وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوہ۔ (۶:۱۱۲) کی وضاحت کرتے ہوئے سید صاحب نے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور رضا کے بارے میں تفصیلی بحث کرتے ہوئے ان کے درمیان فرق کو عمدگی سے واضح کیا ہے۔ اس معاملے میں عام طور پر لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ سید صاحب نے یہاں انسان کی آزادی و خودمختاری کی حدود بھی بتائی ہیں اور اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقے کو بھی بیان کیا ہے۔ سید صاحب کی چند سطور ملاحظہ ہوں :’’ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کار گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۴۷۱، حاشیہ:۶۷۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۵۵۱، حاشیہ:۴۶۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۵۷۴، حاشیہ:۸۰۔

__________________________________________

اسی سورہ کی آیت:أَوَمَن کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہ (۶:۱۲۲) ’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی، ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’یہاں موت سے مُراد جہالت و بے شعوری کی حالت ہے، اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہِ راست کیا ہے وہ طبیعیات کے نقطۂ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسّر نہیں ہے۔ وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں۔ زندہ

انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل، نیکی اور بدی، راستی اور ناراستی کا شعور حاصل ہے۔ ‘‘[۱]

آگے چل کے سید صاحب اسی سورہ کی آیت: (۶:۱۳۷) کی شرح میں لفظ’ لیردوھم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’یہ ہلاکت کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔ اِس سے مراد اخلاقی ہلاکت بھی ہے کہ جو انسان سنگ دلی اور شقاوت کی اس حد کو پہنچ جائے کہ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے لگے اس میں جو ہر ِ انسانیت تو درکنار جوہرِ حیوانیت تک باقی نہیں رہتا۔ اور نوعی و قومی ہلاکت بھی کہ قتلِ اولاد کا لازمی نتیجہ نسلوں کا گھٹنا اور آبادی کا کم ہونا ہے، جس سے نوعِ انسانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے، اور وہ قوم بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی ہے جو اپنے حامیوں اور اپنے تمدّن کے کارکنوں اور اپنی میراث کے وارثوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی، یا پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہاتھوں اُنھیں ختم کر ڈالتی ہے۔ اور اس سے مراد انجامی ہلاکت بھی ہے کہ جو شخص معصُوم بچّوں پر یہ ظلم کرتا ہے، اور جو اپنی انسانیت کو بلکہ اپنی حیوانی فطرت تک کو یوں اُلٹی چھُری سے ذبح کرتا ہے، اور جو نوعِ انسانی کے ساتھ اور خود اپنی قوم کے ساتھ یہ دُشمنی کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو خدا کے شدید عذاب کا مستحق بناتا ہے۔ ‘‘[۲]

سیدصاحب کے فہم قرآن، قرآنی مفاہیم میں شرح صدر اور عصمت انبیاء کے تحفظ کی ایک مثال سورۃ الانبیا کی آیت:قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیرُہمْ ہٰذَا فَاسْأَلُوہمْ إِن کَانُوا یَنطِقُونَ۔ (الانبیاٗ۲۱:۶۳) کی تشریح ہے۔ یہود و نصاریٰ کے علما و مورخین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر معاذاللہ تین جھوٹ بولنے کے الزامات لگائے تھے۔ اسی طرح اسرائیلیات سے متاثر کچھ مسلمان مفسرین نے بھی من و عن ان واقعات کو اپنی تفاسیر میں نقل کر لیا تھا۔ سید صاحب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دامن اقدس پر لگائے گئے اس داغ کو دھونے کی کوشش کی ہے اور توفیق الٰہی سے وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’ جھوٹ‘‘ تو یہ ہے، اور دوسرا ’’ جھوٹ ‘‘ سور ہ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول : اِنِی سَقِیْمٌ ہے، اور تیسرا ’’جھوٹ ‘‘ ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۵۷۸، حاشیہ:۸۸۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۵۸۶، حاشیہ:۱۰۸۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۱۶۷، حاشیہ:۶۰۔

__________________________________________

سید صاحب نے پہلے جھوٹ کی قلعی خود قرآن مجید کے ذریعے سے کھولی ہے اور بیان کیا ہے کہ حضرت ابراہیم کا یہ فرمانا کہ ’فعلہ، کبیرھم ھذا‘(یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے۔ )اس سے آپ کا مقصد جھوٹ بولنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے، تاکہ جواب میں وہ لوگ خود ہی اپنے معبود کی بے بسی کا اقرار و اعلان کر لیں۔ اس واقعے پر جھوٹ کا اطلاق قطعاً نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد آپ نے روایت پر بحث کر کے، درایت کے ذریعے سے اس کا سقم واضح کیا ہے۔ دوسرے واقعے اِنِی سَقِیْمٌ کی توجیح یہ کرتے ہیں کہ روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حضرت ابراہیم واقعتاً بیمار نہیں تھے۔ رہی تیسری بات تو اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے بلکہ بائیبل کی روایت میں آیا ہے۔ اس کو سید صاحب نے بالکل بے ہودہ اور مہمل قرار دیتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ مذکورہ روایت دراصل بائیبل کے اسی قصے سے اخذ کی گئی ہے۔ [۱]

ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سید صاحب کے تقویٰ، خلوص اور تدبر فی القرآن کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو قرآن مجید کے مفاہیم کے لیے کھول دیا تھا۔ ان کے مستقل اور مسلسل تعلق بالقرآن، اور احکام قرآنی کی عملی اور نظام حیات کے طور پر تعبیر نے ان پر فہم قرآن کی راہیں کھول دی تھیں۔ خود فرماتے ہیں :’’اس میں شک نہیں ہے کہ تیس سال جس کام کو کرتے ہوئے گزریں اس کی ابتدا اور انتہا میں بڑا نمایاں فرق واقع ہو جاتا ہے۔ ایک لمبی مدت جس کام میں گزر گئی ہو، اس کے اندر آدمی کی اپنی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور خیالات میں بھی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے پہلی جلد کی بہ نسبت دوسری جلد زیادہ مفصل ہے۔ دوسری سے تیسری زیادہ مفصل ہے۔ تیسری سے چوتھی زیادہ مفصل ہے اور اس کے بعد پانچویں اور چھٹی جلدیں تو بہت زیادہ مفصل ہو گئی ہیں۔ ‘‘ [۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۱۶۸، حاشیہ:۶۰۔

۲۔ آئین تفہیم القرآن نمبر، ص ۱۱۶۔ ۱۱۷۔

__________________________________________

 

 

 

 

باب پنجم: تفہیم القرآن کا مقام و مرتبہ

 

 

               فصل اول:تفہیم القرآن معاصر و مابعد علماء و مفکرین کی نظر میں

 

پروفیسر غلام اعظم

سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش

 

تفہیم القرآن کا مطالعہ صرف جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں یا نوجوان علما کے لیے ہی ضروری دکھائی نہیں دیتا بلکہ ہم سب کے لیے ضروری دکھائی دیتا ہے۔ کیا یہ دنیا بھر کے مسلمان معاشروں کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ قرآن کے پیغام اور اس کی تعلیم کو اپنا کر چلیں ؟بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کیا یہ مسلمانان عالم کی آئندہ نسلوں کی ضرورت نہیں ہے کہ انھیں تہذیب جدید کی گمراہیوں اور اس کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے بچانے کا اہتمام کیا جائے ؟تفہیم القرآن نے یہ اہتمام کیا ہے اوراس طرح کیا ہے کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ سائنس کتنی ہی ترقی کر جائے، زمانہ کتنی ہی مسافت طے کر لے، انسان کہیں بھی جا پہنچے، اور وقت کیسی ہی کروٹ کیوں نہ بدل لے، عالم انسانیت اپنے خالق کی ہدایت(قرآن مجید) سے علیحدہ ہو کر نجات نہیں پا سکتی۔ انسان کی فلاح کی راہ کسی سائنس یا کسی مادی ترقی کے پاس نہیں ہے بلکہ صرف قرآن کے پاس ہے۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، تفہیم القرآن اور آپ:پروفیسرغلام اعظم، ص۳۵۔]

 

مولانا گوہر رحمٰن

مہتمم مدرسہ تفہیم القرآن، مردان

 

تفہیم القرآن پڑھتے ہوئے انسان دیکھتا ہے کہ ایک طرف تفسیر آیات کے دوران میں احادیث رسول اور اقوال صحابہ و تابعین سے استدلال ہے اور دوسری طرف دلائل عقلیہ اور تفقہ و درایت ہے۔ پھر خوبی یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب کے کلام میں طول بیان کے بجائے، مفسرین واسلاف کے بیان کا جامع ترین خلاصہ ہوتا ہے جو خیرالکلام ما قل و دل کا صحیح مصداق ہوتا ہے۔

قرآنی آیات کی تفسیر میں خود قرآنی آیات اور موضوع کے سیاق وسباق کو مد نظر رکھا گیا ہے اور جہاں ضرورت پائی گئی ہے وہاں احادیث اور آثار صحابہ کو پیش کیا گیا ہے۔ متقدمین میں یہ اندازتفسیرابن جریر اور تفسیرابن کثیر کاہے اور متاخرین میں تفسیردرمنثوراور تفسیرمظہری کا ہے۔ لغات قرآنیہ یعنی مفردات قرآن کے اصل عربی مفاہیم متعین کرنے میں لغت کی امہات الکتب مثلالسان العرب اور قاموس وغیرہ سے براہ راست استفادہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں تورات و انجیل اور صحف سماویہ کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں صاحب تفہیم القرآن نے بھی بائیبل کے ان حصوں کا حوالہ دیا ہے جن سے قرآنی حوالوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ ہماری بعض کتب میں اسرائیلی روایات آ گئی ہیں جس کی وجہ سے خطرناک حد تک الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں۔ مولانا مودودی نے ایسے تمام مقامات پران اسرائیلی روایات پر عقلاً اور نقلاً موثر اور دل نشیں پیرائے میں تنقید کر کے متعلقہ آیات کا صحیح مفہوم متعین کیا ہے اور براہ راست محققین کی تحقیقات کو پیش نظر رکھا ہے۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، اسلاف کا مشن اور تفہیم القرآن:مولانا گوہررحمٰن، ص۱۰۰۔ ]

 

ڈاکٹرسید عبداللہ

معروف محقق اور نقاد

 

سید مودودی نے جن اہم متنازع فیہ مسائل پر لکھا ان میں اسلام کا معاشی نظام، سرمایہ داری و جاگیرداری، سود، پردہ، سیاسی نظریات، جمہوریت، شورائیت وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔ ان مسائل کی بحث ان کی کتابوں میں ہے جو بڑی تعداد میں شائع ہو چکی ہیں۔ اوراس سلسلے میں ان کی تفسیر تفہیم القرآن جس کی حکیمانہ توجیہات اور عقلی انداز بیان، اکثرسلیم المزاج لوگوں کو قرآن فہمی کی دولت بخش چکا ہے۔ اور دین کی یہ خدمات اس وقت واقعی قابل رشک ہو جائیں گی، جب ان کی لکھی ہوئی کتاب سیر ت رسول پاک سامنے آئے گی۔

[تصدق حسین راجا، ڈاکٹر، سید مودودی، مرد عصر و صورت گرمستقبل، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۹۶ء، ص۲۰۔]

 

ڈاکٹر غلام جیلانی برق

معروف محقق اور استاد

 

اگر آپ تفہیم القرآن کے بارے میں میری رائے پوچھیں، تو میں اس کتاب کو پچھلے پانچ سوسالوں کی تفاسیر میں بلند ترین قرار دوں گا۔ زبان نہایت پاکیزہ، سلیس، شستہ اورشگفتہ، تشریحات عالمانہ، فلسفیانہ اور پیچیدہ مباحث سے پاک۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ مفسرین آیات کا ترجمہ ایسی گنجلک زبان میں کرتے ہیں کہ وہ کتاب مقدس کی عظمتوں اور رفعتوں کا ساتھ نہیں دیتی، لیکن مولانا نے دہلی کی دھلی ہو ئی ٹکسالی زبان استعمال کی ہے اور اس طرح الفاظ و معانی دونوں چمک اٹھے ہیں۔ آپ نے تمام مسائل جدیدہ، مثلاً بنکاری، ضبط ولادت، نظام سیاست، نظام تعلیم، اسلامی دستور، عمرانیات اور معاشیات وغیرہ پر ایک ماڈرن مفکر کی طرح بحث کی ہے۔ اس تفسیر کی دوسری خوبی ہر سورت پر ایک تعارفی دیباچہ ہے جو اس کے مرکزی مضمون، تاریخی پس منظر اور شان نزول پر روشنی ڈالتا ہے۔

[تصدق حسین راجا، ڈاکٹر، سید مودودی، مرد عصر و صورت گرمستقبل، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۹۶ء، ص۳۹۔]

 

مولانا عامر عثمانی

مدیر ماہ نامہ تجلی دیوبند انڈیا

 

نہ تو مولانا فراہی کی تفسیر کی طرح اس (تفہیم القرآن ) میں نکتہ آفرینیاں ہیں اور نہ رموز و غوامض کا بیان ہے، نہ سطر سطر میں لغت یا محاورہ کی تشریح میں جاہلیت کے اشعار سے استشہاد کیا گیا ہے، حکیم الامت کے ’’ بیا ن القرآن‘‘ کی طرح اس کے حواشی ’’التکشف فی مہمات التصوف ‘‘ جیسی چیزوں سے بھی خالی ہیں، شیخ التفسیر کے احادیث اور روایات سے پر فوائد سے بھی تقریباً یہ تہی دامن ہے اور مولانا آزاد کا خطیبانہ یا شاعرانہ انداز بیان بھی اس میں نہیں ہے، لیکن ایک چیز اس میں ضرور ایسی ہے جو مذکورہ بالا تفاسیر میں یقیناً نہیں ہے اور وہ ہے ’’نزول قرآن کا مقصد‘‘ قرآن اپنے ماننے والوں کو کس رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے ؟کس طرح صدر اول میں اسی قرآن کے ذریعہ اصلاحی انقلاب برپا ہو چکا ہے ؟اور مسلمان کس طرح قلیل عرصہ میں نصف دنیا پر چھا گئے ؟ آج حاملین قرآن کیوں ذلت و محکومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ؟مختصر یہ کہ ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ ہونے کی حیثیت سے امت مسلمہ کی کیا ذمہ داری ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی کیا صورت ہے ؟ دوسری تفاسیر میں یا تو ان سے تعرض ہی نہیں کیا گیا ہے، یا انداز بیان ایسا ہے جس سے بات واضح نہیں ہوتی کہ قرآن کا مطالبہ مسلم قوم سے کیا ہے ؟گویا تفہیم القرآن:

گر تو می خواہی   مسلمان زیستن             نیست   ممکن جز   بقرآن زیستن

کی تفسیر ہے۔

[عامر عثمانی، مولانا، تفہیم القران پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں، کراچی:مکتبہ الحجاز، مئی۲۰۰۱ء، ص۵۔ ۶۔ ]

 

محمد صلاح الدین

مدیر ماہنامہ تکبیر کراچی

 

انھوں ( سید مودودی)نے ایک عام مسلمان کا رشتہ قرآن کریم سے جوڑ دیا ہے، اپنے رب سے جوڑ دیا ہے، بے شمار چیزیں بندے اور اس کے رب کے درمیان حائل ہو گئی تھیں۔ کہیں کچھ افراد حائل تھے، کہیں کچھ عقیدتیں حائل تھیں، کہیں کوئی مدارات حائل تھیں۔ مختلف رکاوٹیں تھیں جو اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو جا تی تھیں۔ کہیں اس کی بے علمی اور عربی زبان سے اس کی ناواقفی رکاوٹ بنتی تھی کہ وہ اللہ کی کتاب سے براہ راست راہنمائی حاصل کر سکے، یہاں وہ کسی مولانا کا محتاج تھا۔

مولانا مودودی نے ہم پر اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر جو احسان عظیم کیا ہے، وہ یہ کہ تفہیم پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود اسی دور میں زندہ ہیں جس میں قرآن اتر رہا ہے۔ کوئی واسطہ ہمارے درمیان نہیں ہے کسی سے ہمیں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

[تصدق حسین راجا، ڈاکٹر، سید مودودی، مرد عصر و صورت گرمستقبل، ص۶۲۔]

 

مولانا عبدالرشید عراقی

معروف محقق اور مصنف

 

تفہیم القرآن وہ تفسیر قرآن ہے جس نے ایک کٹھن اور فیصلہ کن دور میں قرآن کے زیرسایہ ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے، اور یہ انقلابی دور ابھی جاری ہے۔ بلاشبہ جو خدمت تفہیم القرآن نے انجام دی ہے، وہ بڑی اہم اور تاریخی ہے۔ خالص علمی نقطہ نظر سے تفہیم القرآن کا مقام بہت بلند ہے۔ تفہیم القرآن میں جس نقطہ نظرسے قرآن کریم کا مطالعہ کیا گیا ہے وہ یہ کہ یہ کتاب صحیفہ ہدایت ہے۔ کتاب ہدایت کی حیثیت سے قرآن کریم ہر فرد میں اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعہ و نظر کا ایک خالص انداز پیدا کرتا ہے۔

[ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴، مرد مومن سید ابوالاعلیٰ مودودی:عبدالرشید عراقی، ص۱۴۸۔]

 

پروفیسر الیف الدین ترابی

مدیر مجلہ کشمیرالمسلمہ       اسلام آباد

 

سید مودودی کا اسلوب تفسیرروایت و درایت کے اصولوں پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ، موجودہ دور میں جب اسلام اور مسلمانوں کو طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے، دعوت دین کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے۔ انھوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے ذریعے ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق قرآن سے جوڑکراس میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ وہ جدید تہذیب سے پیدا ہونے والے جاہلی فلسفوں کے سحر سے نکل کر بھرپور انداز میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہو، اور دوسری طرف علما، مشائخ اور دینی طبقے کے لوگوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ جدید تہذیب کے چیلنجوں سے عہدہ برا ہوں۔

مجھے سید مودودی کی تفسیر کا کئی دوسری جدید و قدیم تفاسیر کے ساتھ موازنہ کرنے کا موقع بھی ملا ہے، جیسے تفسیر ابن جریر طبری، تفسیر رازی، تفسیر ابن کثیر، تفسیر روح المعانی، تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس تقابلی جائزے کے بعد سید مودودی کے اسلوب تفسیر پرمیرا یقین اس پہلوسے اور بھی پختہ ہو گیا ہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر کے دوران اصول تفسیر کے تمام پہلوؤں کو پوری طرح ملحوظ رکھنے کا اہتمام کیا ہے۔

[ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴، سید مودودی کا تفسیری اسلوب:پروفیسر الیف الدین ترابی، ص۳۰۱۔]

 

مولانا جلال الدین عمری

صدر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ، انڈیا

 

مولانا مودودی کی علمی خدمات میں تفہیم القرآن ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس میں مولانا کی پوری فکرسمٹ آئی ہے۔ اس میں مغرب کے فلسفوں پر علمی اور سنجیدہ تنقید ہے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا بھرپور جواب ہے۔ اس طرح یہ اسلام کی ہمہ جہت، دل نشیں اور واضح تشریح پیش کرتی ہے۔

[ماہنامہ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، مولانا مودودی، دینی خدمات:مولانا جلال الدین عمری، ص۴۷۲۔]

 

حکیم محمد عبداللہ، جہانیاں

 

میرے نزدیک تفہیم القرآن کی پہلی خوبی یہ ہے کہ اس کے مولف نے اپنی اس عظیم الشان تفسیر میں خداداد علم اور بے پناہ قوت بیان کے ذریعہ ایسی سدابہارتازگی سمودی ہے کہ تفسیر کے کسی ایک ٹکڑے کو آدمی خواہ کتنی بار پڑھے، ہر مرتبہ اسے ایک نیا کیف حاصل ہوتا ہے۔ ہر بار اس کی نگاہوں کے سامنے معانی کی نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ علم و آگہی کا ایک نیا دریچہ اس پر وا ہو جاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ اس بوقلموں جہان معنی کی سیر پہلی دفعہ کر رہا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ تحریر کا یہ جاودانی حسن اور اسلوب بیان کی یہ سدابہار شادابی اور تازگی اللہ تعالیٰ اسی اہل قلم کو ودیعت کرتا ہے جس کو بقائے دوام کی سندعطاء کرنا مطلوب ہو۔

مولانا مودودی کو اللہ تعالیٰ نے تفہیم القرآن لکھنے کی توفیق عطاء فرما کر حقیقت میں بقائے دوام کی سند بخش دی ہے اور مجھے کامل امید ہے کہ اپنی اس خصوصیت کے سبب مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن ان شاء اللہ، اس وقت تک زندہ و پائندہ رہے گی، جب تک دنیا میں قرطاس و قلم موجود ہیں۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، تحدیث نعمت:حکیم محمد عبداللہ، ص۹۸۔]

 

مفتی سیاح الدین کاکا خیل

معروف عالم دین

 

علمی مسائل پر تفہیم القرآن میں مکمل اور تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ جملہ معاشرتی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی امور کے بارے میں قرآنی تعلیمات کوجس انداز بیان اور جس طرزاستدلال کے ساتھ مختلف مقامات پر مختلف آیات کی تشریح و توضیح میں سامنے لایا گیا ہے، وہ نہایت اہم اور قابل قدر ہے جو علمائے دین، عام مسلمانوں کو یا عصری علوم کے تعلیم یافتہ حلقوں میں درس قرآن مجید دیتے ہوں، ان کے لیے میرا مشورہ اپنے تجربات کی بنا پر یہی ہے کہ وہ تفہیم القرآن کا مطالعہ عمیق نظر سے کر کے اگراسی طرز و انداز پر عام درس دیں گے تو یہ چیز بہت مفید ثابت ہو گی اور ان کے مخاطب قرآن مجید کے مطالب و معانی اور مقصد و مدعا کو خوب اچھی طرح سمجھ سکیں گے اور اس دور کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا بھی مکمل سدباب ہوسکے گا۔ میں جب کبھی قرآن مجید کی آیات سے متعلق تفہیم القرآن کی تشریحات و توضیحات پڑھتا ہوں تو میرا تاثر یہ ہوتا ہے کہ گویا ابھی ابھی یہ آیتیں، خود موجودہ حالات میں، ہماری رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہیں۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء تفسیر اور مفسر:مفتی سیاح الدین کاکاخیل، ص۱۰۶۔]

 

پروفیسر آسی ضیائی

معروف استاد اور ادیب

 

سید مودودی کا یہ اسلوب اسلاف کے اسالیب کا محض مجموعہ ہی نہیں، ان کا اپنا بھی رنگ اس میں شامل ہے، جس کی بدولت ایک شخص چندسطریں پڑھتے ہی پہچان لیتا ہے کہ اس کا لکھنے والا سید مودودی کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ اب گویا قرآن کی ترجمانی کا ایسا اسلوب سامنے آتا ہے، جس میں مختلف اسالیب بھی گھل مل گئے ہیں اور ان کے علاوہ اس کی لاتعداد انفرادی خصوصیات بھی ہیں۔ تفہیم القرآن اسی اسلوب کا شاہکار ہے۔ سید مودودی محض ترجمہ کرنے کے بجائے معانی اور ابلاغ دونوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ معلوم ہوتی ہے کہ ترجمہ اور ترجمانی اصل متن کے بنیادی مقاصد پورے کرے۔ اس کے لیے وہ موزوں اردو محاوروں سے بھی کام چلاتے ہیں، مکالموں کی ترجمانی میں حفظ مراتب بھی ملحوظ رکھتے ہیں اور تسلسل و ربط کی خاطر جدید اوقاف کا بھی بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ اور اس طرح پڑھنے والا اسے صرف ایک مسلسل کتاب کی طرح نہیں پڑھتا چلا جاتا، بلکہ اس سے مطلوبہ اثر بھی لیتا جاتا ہے۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، تفہیم القرآن کی ادبی اہمیت اور حیثیت:پروفیسر آسی ضیائی، ص۱۰۴۔]

 

مولانا مفتی محمد یوسف

شیخ الحدیث مدرسہ امینیہ دہلی

 

قرآن کے مضامین کی تشریح اور مطالب کی توضیح کے لیے تفہیم القرآن کے مولف نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو سلف کا معمول رہا ہے۔ چنانچہ توضیح و تشریح کے لیے پہلے قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے مدد لی گئی ہے، اس کے بعد تائید کے لیے کتب حدیث اور سنن سے صحیح اور معتمد روایات نقل کی گئی ہیں اور پھر آثار صحابہ اور اقوال تابعین سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس طرح تفہیم القرآن، تفسیر قرآن بالقرآن اور تفسیر قرآن بالحدیث کا صحیح منظر پیش کرتی ہے اور ایک قاری کے لیے اس کی پیش کردہ تشریح پوری طرح قابل اعتماد ہوتی ہے اور شک و شبہ کے لیے اس میں کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، ص۱۶۴۔]

 

مولانا راحت گل

اکوڑہ خٹک

 

کئی ترجمے اور تفاسیر دیکھ چکا ہوں مگر ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است کے پیش نظر، یہ ترجمہ کچھ اور رنگ اور کچھ اور مزہ رکھتا ہے۔ عام فہم اتنا ہے کہ وقت کی ضرورت کے بھی عین مطابق ہے اور نئی نسل کے مزاج کو بھی قرآن کی طرف موڑسکتا ہے۔ غیر عربی دان اور ترجمہ قرآن کے اصول و قواعد سے نابلد اشخاص قرآن کا ترجمہ وتفسیر پڑھتے ہوئے جو دقت محسوس کرتے ہیں، تفہیم القرآن میں وہ دقت بھی نہیں ہے۔ موجودہ سائنسی اور ایٹمی دور میں بے شمار جدید مسائل کے پیدا ہونے سے، بظاہر جو الجھنیں نظر آتی ہیں، تفہیم القرآن انھیں حل کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ اسلام سے راہ فرار اختیار کرنے کی تمام راہیں مسدودکر رہی ہے۔ اگر تعلیم جدید کے دلدادگان اور مغربی دانش وروں، فلسفیوں، قانون دانوں اور آئین سازوں سے مرعوب ہونے والے افراد صاف ذہن لے کر تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں تو وہ یہ تسلیم کرنے اوراس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ قرآن ہر دور کے مسائل کواسی طرح حل کرسکتا ہے جس طرح کہ اس نے اپنے زمانہ نزول میں پیش آمدہ مسائل کو حل کیا تھا۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء ص۱۵۱۔]

 

مولانا جان محمد بھٹو

 

تفہیم القرآن نے عصر حاضر کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی باتیں ایسے آسان اور دل نشیں پیرائے میں بیان کی ہیں کہ ایک طرف تو ہر بات سمجھ آ جاتی ہے اور دوسری طرف جدید فتنوں کی جڑوں پر کاری ضربیں لگتی ہیں۔ ایک اور اہم چیز تفہیم القرآن کا تحریکی انداز ہے۔ تفہیم القرآن کو پڑھتے ہوئے دل میں اسلام کی سربلندی کے لیے امنگ اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور انسان چاہتا ہے کہ جھوٹے فلسفوں کی ریل پیل کے اس دور میں وہ اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے اٹھے اور ایک طرف اسے اپنے معاشرے میں غالب کرے اور دوسری طرف اس کی سچائی کو پوری دنیا پر ثابت کر دے۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، ص۱۵۰۔]

 

علامہ محمد بشیر الابراہیمی

صدرجمعیۃ العلماء المسلمین، الجزائر

 

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ایسی شخصیت کے مالک ہیں کہ میں نے کم ہی ایسے باکمال دیکھے ہیں، بلکہ آپ چند ممتاز خصوصیات کے لحاظ سے فرد واحد ہیں جس کی نظیر میں اس زمانے کے علماء میں نہیں پاتا۔ مثلاً حق کے معاملہ میں نہایت سخت مداہنت سے کوسوں دور، اور راہ حق میں ابتلاء و محن کے وقت صبر و ثبات کے پیکر مجسم، حکام وقت کے تقرب سے متنفر، خوشامد و تملق تو دور کی بات ہے، پاکستان اور ہندوستان کے جن فضلاء سے میں متعارف ہوا ہوں، یا جن کے علم و فضل کے متعلق میری غائبانہ معلومات ہیں، مولانا مودودی ان میں سب سے زیادہ تفقہ فی الدین رکھنے اور اسلام کے تاریخی و تشریحی حقائق پر بصیرت رکھنے والے ہیں۔ آپ معلومات کے سمندرہیں، دقیقہ سنج اور بلا کے ذہین ہیں۔ روشن خیال، تدبر کے بادشاہ اور روحانیت کے صاف وشفاف آئینہ میں مسائل حاضرہ کواسلامی اصول پر تطبیق دینے میں ماہر ہیں اور استنباط کی بے پناہ قدرت رکھتے ہیں اور اس معاملے میں ایک مستقل جدید طرزاستدلال کے موجد ہیں۔

[عارف دہلوی، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی علماء کی نظر میں، فرینڈز پبلی کیشنز ملتان، س ن، ص۵۲۔ ۵۳۔]

 

علامہ مصطفیٰ زرقا

سابق وزیر تعلیم حکومت شام

 

حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دینی فکر کے لحاظ سے امام غزالی اور امام ابن تیمیہ کی صف کے مفکر ہیں۔

[عارف دہلوی، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی علماء کی نظر میں، فرینڈز پبلی کیشنز ملتان، ص۵۸۔ ]

 

پروفیسر خورشید احمد

سابق سینیٹر، رہنما جماعت اسلامی

 

تفہیم القرآن متجددین کی غلط فہمیوں یا بہ الفاظ صحیح تر ان غلط فہمیوں کو جن میں وہ دوسروں کو مبتلا کرتے ہیں، بھی دور کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اطاعت یا بغاوت کے راستے تو قابل فہم ہیں لیکن مان کر نہ ماننے کا یہ رویہ عقل، قرآن اور بنیادی اخلاق ہر چیز کے خلاف ہے۔ اس طرح تفہیم القرآن نے دور جدید کے چیلنج کے ہر پہلو کا مثبت جواب دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک نئے علم کلام کے ذریعہ قرآن کے تصور دین اور زندگی کے پروگرام کو مثبت طور پر پیش کیا ہے۔ اس طرح اس کتاب نے وہ کام کیا ہے جس کو انجام دینے کے لیے لائبریریاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ اس دور کا بہترین لٹریچر ہی نہیں، لٹریچرساز اورانسان گر ہے۔ اس سے وہ انسان بھی تیار ہو رہے ہیں اور ہوں گے جو دور جدید کے چیلنج کا جواب دے سکیں اور اس جھیل سے وہ دریا بھی نکلیں گے جو فکر و نظر اور علم و ادب کی نئی نئی وادیوں کوسیراب کریں گے۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، کتاب انقلاب، تفہیم القرآن:پروفیسرخورشید احمد، ص۳۲۔]

 

لالہ صحرائی

شاعر اور ادیب

 

تفہیم القرآن کا مطالعہ ہمیشہ میرے لیے ایک خاص تاثر اور ایک خاص کیفیت کا موجب ہوتا ہے، اس کتاب کے مطالعہ کے ہر مو قع پر ذہن میں ایک نئے تاثر کی شمع روشن ہوتی ہے اور باطن میں ایک نئی کیفیت کا دریچہ وا ہوتا ہے۔ ہر مرتبہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے میرا دل اور میرا دماغ خنک و شیریں روشنی کی دولت پا رہا ہے۔ جیسے میں چودھویں رات کے چمکتے ہوئے چاند تلے کھڑا ہوں، میرے قدم ایک سیدھی، کشادہ اور درخشاں راہ پر ٹکے ہوئے ہیں، یہ راہ پر پیچ وادیوں اور گھاٹیوں کے درمیان دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ اور آس پاس کے اندھیاروں میں چاندی کے ایک فیتے کی مانندلس لس چمک رہی ہے۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء ص۱۵۶۔]

 

شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ

 

میں اس رائے سے پوری طرح متفق ہوں کہ تفہیم القرآن نے تہذیب جدید کے اسلام کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شبہات کو دور کرنے میں بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ میں ان نوجوانوں کو جنھیں اسلام کے ہمہ گیر نظام حیات سے دلچسپی ہے اور جو اسے سمجھنا چاہتے ہیں، مشورہ دوں گا کہ وہ تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں۔ تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے یہ تاثر لیا ہے کہ مصنف مدظلہ العالی نے انکار حدیث، انکار ختم نبوت، کمیونزم، سوشل ازم اور الحاد کی ایسی مدلل تردید کی ہے اور پھر پیرایہ بیان اس قدر سلجھا ہوا ہے کہ انسان ان فتنوں کی اصل حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات میں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ ان فتنوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے مصنف کا قلم اسلام اور قرآن وسنت سے ذرا ہٹا ہوا نہیں۔ تفہیم القرآن میں قران کریم کو ایک نظام زندگی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور بعض مقامات پرتو اس طرح ترجمانی کی گئی ہے کہ دل کے کئی خلجان بالکل دور ہو گئے ہیں۔

[آئین تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء ص۲۴۷۔]

 

 

 

خلاصۂ بحث

 

مقالہ ہٰذا اصول تفسیر اور تفہیم القرآن کا آغاز اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام سے ہوا، جس نے بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب اپنے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ جو، معانی و مفہوم اور بلاغت کے اعتبار سے ایک بحر بے کنار ہے۔ اس کے مطالب و مفہوم کو بیان کرنے کی اولین ذمہ داری رب العالمین نے : یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ کہہ کے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذمہ داری کوبحسن و خوبی سرانجام دیا۔ قرآن کریم چونکہ ہر زمانے کے لیے ہدایت و راہ نمائی کا سرچشمہ ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس عظیم ذمہ داری کو علماء ہ دور میں سرانجام دیتے رہے۔ قرآن کریم کی اس تشریح و توضیح کو علم تفسیر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ علم ہر دور کی ضرورت رہا ہے اور علماء نے علم تفسیر کے مختلف پہلوؤں پر، اپنی اپنی علمی استعداد کے مطابق، روشنی ڈالی ہے۔ جب یہ علم بہت زیادہ وسیع ہوا تو اس کو بیان کرنے کے لیے، اسی فن کے اہل علم نے کچھ قوانین و ضوابط مقرر کیے، جو اصطلاحاً اصول تفسیر کہلاتے ہیں۔ تقریباً انھی اصول کی روشنی میں ابتداً عربی زبان میں جا مع البیان فی تفسیر آی القرآن از ابن جر یر طبریؒ(م۳۱۰ھ)، بحر العلوم   از ابو اللیث سمر قندی حنفیؒ (م۳۷۵ھ)، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ابو اسحاق الثعلبی النیشا پوریؒ (م۴۲۷ھ) ، معا لم التنز یل   از ابو محمد حسین البغوی الخرا سا نی الشا فعیؒ(م۵۱۰ھ)، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز از ابن عطیہ اَند لُسیؒ (م ۵۴۶ھ)، تفسیر القرآن العظیم (تفسیر ابن کثیر) از   حا فظ عماد الدین بن کثیر الد مشقی الشا فعیؒ (م۷۷۴ھ)، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن   از عبد الر حمٰن الثعا لبی الجزا ئری الما لکی ؒ(م۸۷۶ھ)، جیسی تفاسیر لکھی گئیں۔

نویں صدی عیسوی کے وسط میں علم تفسیرکے ایک امام جلال الدین سیوطی (۸۴۹ھ-۹۱۱ھ) پیدا ہوئے، جنھوں نے ماقبل تمام اہل فن کی اصول تفسیر پر لکھی ہوئی کتب سے استفادہ کیا اور نہایت ہی تدبر اور تعمق کے بعد ایک کتاب الاتقان فی علوم القرآن تصنیف فرمائی جس میں آپ نے مفسر کے لیے پندرہ علوم( ۱۔ علم اللغہ۲۔ علم النحو ۳۔ علم الصرف ۴۔ علم الاشتقاق ۵۔ علم المعانی ۶۔ علم البیان ۷۔ علم البدیع ۸۔ علم القراآت ۹۔ علم اصول الدین ۱۰۔ علم اصول الفقہ ۱۱۔ علم اسباب النزول والقصص ۱۲۔ علم الناسخ والمنسوخ ۱۳۔ علم الفقہ ۱۴۔ علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبھم ۱۵۔ علم الموھبۃ)کی مہارت کو کسوٹی قرار دیا۔ اور انھی پندرہ علوم کی روشنی میں الدر المنثور فی التفسیر با لما ثور تحریر فرمائی۔ بعد کے ادوار میں یہ علوم ہر زبان میں تفسیر قرآن کے لیے، بطور اصول تسلیم کیے گئے۔

برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان میں تفسیر نویسی کا آغاز، تفسیر مرادیہ (خدا ئی نعمت)سے ہوا جو حضرت شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلیؒ(م۱۱۸۵ھ)نے لکھی۔ یہ تفسیر صرف تیسویں پا رے کی مکمل اور سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر تھی، جو ۱۲۴۷ھ ۱۸۳۱ء میں کلکتہ میں چھپی۔ شاہ مراد اللہؒ کی یہ قرآنی تفسیر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ(م۱۷۶۳ھ)کی قرآنی تحریک کے زیر اثر وجود میں آ ئی۔ تفسیر مرا دیہ کے بیس سال بعد ۱۲۰۵ھ میں اردو کا پہلا مکمل تر جمہ و تفسیر ’’ مُوضحِ قرآن‘‘ وجود میں آ یا۔ یہ تر جمہ شاہ عبدا لقادر بن شا ہ ولی اللہ محدث دہلویؒ(م۱۲۳۰ھ/۱۸۱۵ء)نے لکھا۔ یوں اردو زبان میں ترا جم و تفا سیر کی روایت چل نکلی۔ تفسیر رفیعی از حضرت شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہؒ(م۱۲۳۳ھ/۱۸۱۷ء)، شاہ رفیع الدین کے شا گر سید نجف علی نے شاہ صاحب کے افادات سے مرتب کی۔ اس طرح علم تفسیراردو زبان میں پروان چڑھتا گیا اور چودھویں صدی ہجری کا نصف اول/انیسویں صدی عیسوی کے اختتام سے متعدد علماء بڑی کاوش اور ذوق و شوق سے اردو زبان میں تفاسیر لکھنے میں اپنی زندگی کے شب و روز صرف کر نے لگے۔ چنانچہ بہت سا ری اردو تفاسیر وجود میں آئیں جیسے، تفسیر القرآن از سر سید احمد خان(م ۱۳۱۵ھ / ۱۸۹۸ء )، غرائب القرآن از مولوی حافظ ڈپٹی نذیر احمد(م۱۳۳۱ھ/۱۹۱۲ء)، فتح المنان(تفسیر حقا نی) از مو لا نا عبد الحق حقانی دہلوی(م۱۳۳۵ھ/۱۹۱۶ء)، مواہب الر حمٰن از مو لا نا سید امیر علی ملیح آ با دی(م۱۳۳۷ھ/۱۹۱۲ء)، تفسیر وحیدی از مو لا نا وحید الزمان (م۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰ء)، خلا صۃ التفاسیر از مولوی محمد تائب(م۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء)، تر جمہ و تفسیر فرقان حمید از مولوی محمد انشاء اللہ(م۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء) تفسیر القرآن با لقرآن از مو لا نا ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی (م۱۳۵۹ھ /۱۹۴۰ء)، بیان القرآن از مو لا نا اشرف علی تھا نویؒ(م۱۳۶۲ھ/۱۹۴۲ء)، تفسیرثنا ئی از مو لا نا ثناء ُاللہ امرتسری(م۱۳۶۸ھ/۱۹۴۸ء)، تفسیرِ عثما نی از مو لا نا شبیر احمد عثما نیؒ(م۱۳۶۹ھ/۱۹۴۹ء)، تر جمہ و تفسیر بیان القرآن از مو لوی محمد علی قا د یا نی(م۱۳۷۱ھ/۱۹۵۱ء)، تر جمان القرآن از مو لا نا ابو الکلام آ زادؒ(م۱۳۷۸ھ/۱۹۵۸ء)، تر جمہ کشف الرحمٰن مع تیسیر القرآن و تسہیل القرآن از مو لا نا احمد سعید دہلویؒ (م۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء)تقریب القرآن از مو لا نا عبد الوہاب خان(م۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء) معارف القرآن از مو لا نا محمد ادریس کاندھلوی(م۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء)، معارف القرآن از مو لا نا مفتی محمد شفیع ؒؒ (م۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء)، تفسیر ما جدی از مو لا نا عبد الما جد دریا بادیؒ(م۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء)، تفہیم القرآن از مو لا نا سید ابو الاعلیٰ مو دو دیؒ(م۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء) تد بر قرآن از مو لا نا امین احسن اصلا حیؒ(م۱۹۹۷ء)، ضیا ء القرآن از مو لا نا پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری(م۱۹۹۸ء)۔ ان تمام مفسرین نے جلال الدین سیوطی کے مقرر کردہ ضوابط کی پابندی کی اور یہ تفاسیراپنے اپنے دور کے علماء کی عرق ریزی، قرآن فہمی اور وسعتِ علمی کا بحر بے کنار ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و ہند کی سرزمین میں علوم و معارف قرآن کا ایک درخشندہ ستارہ ابھرا جس نے علم تفسیرمیں کمزور روایات، رطب ویابس، تضادات اور اسرائیلیات وغیرہ کی چھان پھٹک کر کے، سابقہ تفسیری اقوال کو مہارت تامہ کے ساتھ یکجا کرتے ہوئے، تفہیم القرآن کے نام سے تفسیرمرتب کی۔ یہ ہستی سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)کی تھی جو گزشتہ صدی کے ایک معروف محقق، مفکر، عالم دین، اور کثیر التصانیف مصنف ہیں۔ آپ کے افکار اور تصانیف نے بر صغیر اور عالم اسلام میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ سید صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ آپ بیک وقت کئی محاذوں پرسرگرم عمل رہے۔ آپ ایک بہترین داعی حق، ذہین و فطین متکلم اسلام، مفکر حیات، خطیب، اصول پسندسیاسی قائد، اعلیٰ درجہ کے مصنف، ادیب اور تنظیم کار تھے۔ آپ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو صدیوں سے تزکیہ و تصوف، تبلیغ و اشاعت دین اور عوام الناس کی روحانی تربیت کرتا چلا آ رہا تھا۔ چنانچہ آپ کو بچپن ہی سے گھر میں اعلیٰ قسم کی تربیت اور عمدہ تعلیمی ماحول میسرآ گیا ہے۔ اس چیز نے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب کیے۔ آپ کا زمانہ اسلام اور مسلمانوں کی مغلوبیت، انحطاط اور اخلاقی و معاشی بدحالی کا تھا۔ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے فقدان، قیادت کی عدم موجودگی اورغیرمسلم قوموں کے سیاسی، مذہبی اور ثقافتی غلبے کے باعث اسلام محض چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گیا تھا۔ مسلمانوں کے تمام دردمند اور مخلص زعما و علماء اس صورت حال سے بہت پریشان تھے۔ سب لوگوں نے انفرادی سطح پر اصلاح احوال کی کوششیں کیں، اور اپنے ذہن اور استعداد کے مطابق برصغیر کے مسلمانوں کواس فکری وجسمانی غلامی سے نکالنے کی کوشش کی۔ مثلاً شیخ احمد سرہندی (۹۷۱ء-۱۰۳۴ء)نے فاسد عقائد و بدعات کے خاتمے کی تحریک چلائی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی(۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء )نے بھی مسلمانوں کوغیرمسلموں کے ذہنی و معاشی غلبے سے نکالنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے آپ نے قرآن مجید کی تعلیمات کو تمام مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اسی طرح حاجی شریعت اللہ، شاہ اسماعیل شہید، سرسیداحمدخان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، علامہ محمد اقبال، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا حسین احمد مدنی، عبید اللہ سندھی، احمد رضا خان بریلوی، مولانا الیاس، عطاء اللہ شاہ بخاری، شبلی نعمانی، عنایت اللہ المشرقی، سیدسلمان ندوی، قائد اعظم محمد علی جناح وغیرہ نے اپنی اپنی استعداداورفکر کے مطابق مسلمانان بر صغیر کے زوال و انحطاط کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے، حالات کوسدھارنے کی کوشش کی۔

سیدابوالاعلیٰ مودودی اس لحاظ سے ان علماء و مفکرین میں سر فہرست ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے قرآن اور اسلام سے دوری کو اصل وجہ قرار دیا اور اصلاح احوال کی جزوی کوششوں کے بجائے، اسلام کو ایک نظام حیات کی صورت میں نافذ کرنے کو اپنا ہدف بنا لیا۔ چنانچہ انھوں نے حکومت الٰہیہ کے قیام اور اقامت دین کے تصور کو اپنا مقصود و مطلوب بناتے ہوئے، جماعت اسلامی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔ لوگوں کو قرآن مجید کے قریب لانے اور ان کی عملی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تفہیم القرآن کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر کا آغاز کیا، جسے ابتدا میں اپنی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ ترجمان القرآن میں ہر ماہ شائع کرنا شروع کیا۔ سید صاحب کی تفسیرکامقصد، عام مسلمانوں کو قرآن مجید کے قریب لانے کے ساتھ ساتھ، جماعت اسلامی کے کارکنان کی فکری راہ نمائی بھی تھا۔

ابتدا میں سید صاحب قرآن کی مختصرتفسیر لکھنا چاہتے تھے، لیکن جیسے جیسے قرآنی مضامین کی وضاحت شروع کی تو تفاصیل میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ تفسیرچھ جلدوں میں، تیس سال کی مدت میں مکمل ہوئی۔ سیاسی جماعت کے قیام اوراقامت دین کے لیے حصول اقتدارکی حکمت عملی کو اختیار کرنے کے باعث، سید صاحب کوسیاسی جماعتوں، ان کے کارکنوں اور حکومتی طبقات کے ساتھ ساتھ، تمام مسالک کے علمائے کرام کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان میں زیادہ تر الزامات سوقیانہ، ذاتی اور ترجیح کے اعتبار سے ہیں۔ بعض سنجید ہ اور علمی نوعیت کے اعتراضات بھی ہوئے، لیکن ان کا شافی جواب بھی سید صاحب اور ان کے حلقوں کی طرف سے دیا جاتا رہا۔ جیساکہ مخالفین کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ سیدمودودی محض ادیب اور نثر نگار تھے۔ آپ فن تفسیر سے ناواقف تھے اور باضابطہ کسی دارالعلوم سے فارغ التحصیل نہ تھے۔ لیکن دوران تحقیق ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ نہایت اعلیٰ درجے کا خاندانی علمی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ سید صاحب نے، معروف مدارس اور ماہر اساتذہ کرام سے قرآن و حدیث، فقہ، ’’علوم عقلیہ و ادبیہ و بلاغت ‘‘، ’’علوم اصلیہ و فروعیہ‘‘ کی تدریس مکمل کی تھی۔ آپ کا سارا تحریری سرمایہ جس میں آپ نے اسلام کے تمام علوم سے تعرض کیا ہے اور تفہیم القرآن جیسی عظیم الشان تفسیران علوم و فنون پر آپ کی دسترس کا ثبوت ہے۔ ہم نے آپ پر لگائے گئے ان الزامات کو جانچنے کے لیے علامہ جلال الدین سیوطی کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کی کسوٹی پر تفہیم القرآن کو پرکھا۔

ہم نے سیوطی کے ان اصول و ضوابط کو اپنے مقالے میں دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ زبان و بیان سے متعلق علوم کے بارے میں ہے اور دوسرے حصے میں اصول کا بیان ہے۔ ہم ان دونوں حصوں کا مختصراً، خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ زبان و بیان کے حصہ میں علمِ لغہ، نحو، صرف، اشتقاق، معانی، بیان، بدیع اور قراءات شامل ہیں۔ اور حصہ دوم میں علمِ اصول الدین، اصول فقہ، اسباب نزول و قصص، ناسخ ومنسوخ، فقہ، احادیث اور موہبہ شامل ہیں۔ تفہیم القرآن میں ان تمام علوم کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ ذیل میں ہم ان علوم کی روشنی میں تفہیم القرآن کے کچھ مقامات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

تفہیم القرآن، اردو زبان میں قرآن مجید کی بلیغ ترجمانی ہے۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید صاحب عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان او ر محاورے کے مناسب استعمال پر قدرت رکھتے تھے۔ اسی طرح عربی الفاظ کے اردو مترادفات کا انتخاب بھی زبان وبیان پر آپ کی مہارت کا ثبوت ہے۔ مثال کے طور پر: قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِیْرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِیْ الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لاَّ شِیَۃَ فِیْہَا۔ (البقرۃ۲:۷۱) کا ترجمہ ’’اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے، نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے ‘‘ کیا ہے۔ اس میں آپ نے الفاظ کا ہو بہو ترجمہ کرنے کے بجائے اردو زبان کے مترادفات کو برمحل استعمال کیا ہے۔

اسی طرح آپ کو انگریزی زبان پربھی ملکہ حاصل ہے۔ آپ نے جہاں تک ممکن ہوسکا عربی الفاظ کے اردو مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ لیکن جہاں آپ نے محسوس کیا کہ یہ دونوں زبانیں کسی مفہوم کی وضاحت کے لیے ناکافی ہیں اور انگریزی زبان کے الفاظ کواستعمال کرنے کی ضرور ت پڑی تو کسی قسم کے تعصب کے بغیر آپ نے انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔ اسی طرح فارسی زبان کے الفاظ کی مثال:’بپائے مردی ہمسایہ‘(ج۱، ص ۲۸۰، حاشیہ۹۰)اور سورۃ المومنون کی آیت: وَمِن وَرَائِہم بَرْزَخٌ۔ (۲۳:۱۰۰)کی یہ تشریح ہے :’’ ’’ برزخ‘‘ فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘ کا معرب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی۔

علم نحو پر آپ کی دسترس کی مثال سورۃ الفتح کی آیت:وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاہدَ عَلَيْہ اللَّہ فَسَيُؤْتِيہ أَجْرًا عَظِيمًا۔ (۴۸:۱۰) ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے، عَلَيْہ اللَّہ کے غیر معمولی اعراب کی وجہ بیان کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں :’’اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جس کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ’’ہ‘‘ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر۔ لہٰذا یہاں اس کے اصلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ ‘‘

علم الصرف میں آپ کی دسترس کی مثال سورۃ النور کی آیت(۲۴:۲۷) ہے۔ اس کی تفسیر کرتے وقت آپ نے لفظ تستانسوا کے معنیٰ کا تعین کرتے ہوئے، عام مفسرین کے طریقے کے برعکس ’’اجازت لینے ‘‘ کے بجائے ’’مانوس کرنے ‘‘ کا مفہوم اخذ کیا ہے۔ پھر اپنی اس رائے کی تائید میں لکھتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مادے سے استیناس کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا، یا اپنے سے مانوس کرنا۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو‘‘، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اجازت لینے ‘‘ کے بجائے ’’ رضا لینے ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے، کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے۔ ‘‘

علم الاشتقاق کی مثال سورۃ الواقعہ کی آیت(۵۶:۸) ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے الْمَيْمَنَۃ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ اَصْحَابُ الْمَیْمَنَہ   استعمال ہوا ہے۔ میمنہ عربی قاعدے کے مطابق یمین سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں، اور یُمن سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں چال نیک۔ اگر اس کو یمین سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنہ ہوں گے ’’سیدھے ہاتھ والے ‘‘ لیکن اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے عالی مرتبہ لوگ۔ ‘‘

علم المعانی کی مثال سورۃ سورۃ الرحمٰن کی آیت(۵۵:۶) ہے۔ سید صاحب نے النجم کے تمام ممکنہ معانی بیان کیے ہیں اور ساتھ ہی دیگر مفسرین کی آرا اور ان کے دلائل بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد جو معنی خود اختیار کیے ہیں ان کودرج کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے انتخاب کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں : ’’اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر معنی تارے کے ہیں۔ لیکن لغت عرب میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا، مثلاً ترکاریاں، خربوزے، تربوز وغیرہ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر، سدی اور سفیان ثوری اس کو بے تنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر (درخت) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مجاہد، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہاں بھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں، کیوں کہ یہی اس کے معروف معنی ہیں، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگر چہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی رائے صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے۔ ‘‘

سید صاحب قرآن مجید کے الفاظ کا ترجمہ سیاق وسباق اور مضمون کے لحاظ سے نہایت عمدگی سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات عربی زبان کے ایک ہی لفظ کا ترجمہ اردو زبان کے مختلف الفاظ سے کرتے ہیں۔ آپ کا یہ الفاظ کا انتخاب ہی کلام میں خوب صورتی اور صحیح مفہوم کو واضح کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پرسورۃ النسا کی آیت۴:۵ میں وَقُولُوا لَہمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا کا ترجمہ ’’اور انھیں نیک ہدایت کرو‘‘ اور آیت۴:۸میں وَقُولُوا لَہمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًاکا ترجمہ ’’اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو‘‘ کیا ہے۔ یہاں پر یہ بات بخوبی ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ محض کلام کے سیاق وسباق کے لحاظ سے اردو زبان کے بہترین مترادفات کے استعمال سے سید صاحب نے کلام میں کتنی خوب صورتی اور مفاہیم میں حسن پیدا کر دیا ہے۔ اگر اسی ترجمے کو الٹ استعمال کیا جائے تو آیات کا مفہوم بالکل ہی مبہم ہو جاتا ہے۔ یہ زبان و بیان پر آپ کی دسترس کی ایک عمدہ مثال ہے۔

تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب کلام کے محاسن اور ان کے برمحل استعمال سے واقفیت رکھتے ہیں۔ آپ، بسا اوقات، آیات کے وہ معنی مراد نہیں لیتے جو ان کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہو رہے ہوتے ہیں، بلکہ وہ آیات اور سورتوں کے سیاق وسباق اور موضوع کی مناسبت سے تمثیلی معنی بھی مراد لیتے ہیں۔ جیسے کہ سورۃ البقرہ کی آیت:(۲۰:۲) کی شرح و وضاحت کرتے ہوئے قرآن مجید کے الفاظ سے تمثیلی معنی مراد لیتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مُراد مشکلات و مصائب کا وہ، ہُجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریکِ اسلامی کے مقابلہ میں اہل جاہلیّت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آ رہا تھا۔ مثال کے آخری حِصّہ میں ان منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے تو یہ چل پڑتے ہیں، اور جب مشکلات کے دَلْ بادَل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خواہشاتِ نفس اور ان کے تعصّبات ِ جاہلیت پر ضرب پڑتی ہے، تو ٹھِٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

سید مودودی علم القراءآت سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ آپ نہ صرف متعدد قراءات کے قائل تھے بلکہ اس کومستحسن بھی سمجھتے تھے۔ لکھتے ہیں :’’یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ ‘‘ان کے نزدیک جو لوگ اختلاف قرآت کو نہیں مانتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، وہ اس مسئلے کی صحیح حقیقت سے ناواقف ہیں۔ قرآن مجید کے نزول کے زمانے کی عربی زبان اعراب اور نقطوں سے خالی تھی۔ عرب خود اپنی عبارتوں کو اہل زبان ہونے کی وجہ سے پڑھ لیتے تھے لیکن غیر عرب لوگوں کے لیے اس کا پڑھنا مشکل تھا۔ اکثر اوقات مشابہ عبارتوں کے معاملے میں اہل زبان لوگوں کو بھی مفہوم کے تعین میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ سید صاحب لکھتے ہیں : ’’۔ مثلاً ایک فقرہ اگریوں لکھا ہو کہ ربنا بعد بین اسفارنا   تو اسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَابھی پڑھا جا سکتا تھا اور رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی۔ لیکن ان کے نزدیک وہ قراءت قابل قبول ہو گی جو مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مطابقت رکھتی ہو اور رسم الخط میں اس کی گنجائش موجود ہو۔ مثلاً اگر مصحف عثمانی میں لفظ بعد لکھا ہے تو اس کی قراءت بٰعِد اور بَعَّدَ     تو قابل قبول ہے، لیکن بَعَّدتَ قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ سرکاری متن کے خلاف ہے۔ وہ قراءت لغت، محاورے، قواعد زبان اور عبارت کے سیاق وسباق سے مناسبت رکھتی ہو اور اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطوں سے نبی کریمﷺ تک پہنچتی ہو۔

دوسرے حصے میں وہ علوم ہیں جن کو اصول کہا جاتا ہے۔ تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سید صاحب کو اصول الدین، اصول فقہ، اسباب نزول و قصص، ناسخ ومنسوخ، فقہ، احادیث اور موہبہ جیسے علوم سے بھی سرفراز کیا ہے۔ آپ کے نزدیک اسلامی شریعت کی اصل اور بنیاد دو چیزیں ہیں : قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ۔ باقی تمام اصول وضوابط جو علما و فقہا نے متعین کیے ہیں انھی دونوں مصادر کے تابع ہیں۔  آپ سنت رسولﷺ کو شریعت کا دوسرا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ آپ کے نزدیک قرآن کی شرح و وضاحت کا پہلا حق نبی کریم ﷺ کا تھا۔ قرآن مجید کی تفسیروتشریح میں حدیث رسول ﷺ کی اہمیت اور مقام سے کسی طوربھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں :’’قرآن پر تدبر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ نبی ﷺ کی تشریح و تبیین اور آپ کے شاگرد صحابہؓ کی توضیحات اور ابتدا سے آج تک کے تمام علما و فقہا اور محدثین ومفسرین کی تحقیقات اور امت کے متواتر تعامل، ہرچیزسے بے نیاز ہو کربس مصحف کے الفاظ میں تدبر فرمائیں۔ ۔ ۔ یہ طریقہ اگر آپ اختیار فرمائیں گے تو قرآن سے ہدایت پانے کے بجائے گمراہی اخذ فرمائیں گے۔ ‘‘

تفہیم القرآن کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سید مودودی اصول فقہ اور مصالح شریعت کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآنی آیات سے احکام کا استنباط کرتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ سابقہ فقہا، بالخصوص فقہائے اربعہ کی آرا سے مدد لیتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں جا بجا ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جہاں فقہ کے اصول ومبادی سے اچھی طرح واقف ہیں وہیں قرون اولیٰ کے فقہاء و محدثین کی آرا پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ آپ جہاں فقہائے سابقہ کی آرا نقل کرتے ہیں وہیں اس قول کا بھی ذکر کرتے ہیں جو خود انھوں نے اختیار کیا ہو۔ اور اس کی تائید میں دلائل بیان کر دیتے ہیں۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت (۲:۲۲۶) کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ احناف اور شوافع کے نزدیک جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قَسم کھائی ہو، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہو گا، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدّت کے لیے ہو، اس آیت کا حکم اُس صُورت پر چسپاں نہ ہو گا۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قَسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئے ہو، دونوں صُورتوں میں ترکِ تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مُدّت ہے۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ (بدایۃ المجتہد، جلد دوم، ص ۸۸، طبع مصر، سن ۱۳۳۹ ھ) حضرت علیؓ اور ابنِ عباسؓ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اُس ترکِ تعلق کے لیے ہے، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا۔ لیکن دُوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ ء جسمانی کو منقطع کر دے، ایلاء ہے اور اسے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے۔

سید صاحب نے اپنی تفسیر میں ہرسورۃ کے آغاز میں اس کے مضامین کے تعارف، وجہ تسمیہ اورسبب نزول کا اہتمام کیا ہے۔ آپ زمانہ نزول کے تعین کے لیے آثار و روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ مثلاً سورۃ الانعام کے زمانہ نزول کے تعین کے لیے لکھتے ہیں :’’اِبنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ پُوری سُورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی۔ حضرت مُعاذ بن جَبَل کی چچا زاد بہن اَسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ ’’جب یہ سُورۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اُونٹنی پر سوار تھے، میں ا س کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی‘‘۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلم بند کرا دیا۔ ‘‘اسی طرح سورۃ التغابن کے بارے میں لکھتے ہیں :’’مضمون کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی اس وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا اور کچھ مدنی سورتوں کا پایا جاتا ہے ‘‘۔

علم ناسخ ومنسوخ بھی مفسر کے لیے نہایت ضروری قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں نسخ دو طرح سے واقع ہوسکتا ہے : ایک یہ کہ کسی آیت کوکسی آیت کے ناسخ کہنے سے مراد یہ لی جائے کہ منسوخ آیت کا حکم زائل ہو چکا ہے اور اس پر عمل قطعی طور پر ممنوع ہے۔ دوسرے یہ کہ مجاز، تخصیص عام و خاص، تعیین مدت یا تفصیل اجمال پرنسخ کا اطلاق کیا جائے۔ چنانچہ اگر نسخ کا پہلا مطلب لیا جائے تو اس کے اعتبار سے قرآن کی کوئی آیت بھی منسوخ قرار نہیں دی جا سکتی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نزدیک بھی نسخ کا دوسرا مفہوم قابل قبول ہے۔ لکھتے ہیں :’’ قرآن میں نسخ، دراصل تدریج فی الاحکام کی بنیاد پر ہے۔ یہ نسخ ابدی نہیں ہے۔ متعدد احکام منسوخہ ایسے ہیں کہ معاشرے میں کبھی ہم کو پھر ان حالات سے سابقہ پیش آ جائے جن میں وہ احکام دیے گئے تھے تو انھی احکام پر عمل کرنا ہو گا۔ وہ منسوخ صرف اسی صورت میں ہوتے ہیں جبکہ معاشرہ ان حالات سے گزر جائے اور بعد میں آنے والے احکام کو نافذ کرنے کے حالات پیدا ہو جائیں۔ ‘‘ اسی طرح آپ حدیث سے قرآن کے نسخ کے بھی قائل نہیں ہیں۔

علم الفقہ کے تناظر میں سید صاحب کی تفسیر اور فقہی مسائل کے متعلق ان کی آرا کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دین کے صحیح فہم سے نوازا تھا۔ انھوں نے دین کو ٹکڑوں میں دیکھنے کے بجائے یکجا اور قابل عمل نظام کی حیثیت سے دیکھا اور دین کی ایک ایسی قابل عمل تعبیر پیش کی جوانسانی زندگی کے تمام مراحل کا احاطہ کرتی ہے۔ آپ نے جہاں بھی فقہی معاملات پر بحث کی ہے وہاں فقہی احکام کو اخذ کرنے کے بنیادی اصولوں تدریج، عدم حرج اور قلت تکلیف کو مد نظر رکھا ہے۔ آپ نے عام طور پر تمام فقہا کے اقوال کو درج کیا ہے اور ان کی آرا کے پس پشت دلائل کو بھی بیان کیا ہے۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت۴:۴۳، کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’فقہاء اور مفسّرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے۔ دُوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ، تو اس گروہ کی رائے میں جُنُبی کے لیے وضو کر کے مسجدمیں بیٹھنا جائز ہے۔ یہ رائے حضرت علیؓ، ابن عباسؓ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘

سید صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماخذ دین کی حیثیت دیتے ہیں اور قرآن کی شرح و وضاحت میں پہلاحق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ کی اطاعت کے بعد رسول اللہﷺ کی اطاعت کو دین کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’ اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔ ’’ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔ ‘‘ اور

یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آ رہی ہے۔ ‘‘اسی طرح آپ قرآنی اشکالات کی وضاحت کے لیے سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے منقول تفسیری روایات سے استنادکرتے ہیں۔

تفہیم القرآن کامطالعہ کرتے ہوئے اکثر مقامات پرسیدصاحب کی وضاحتیں اور تشریح و توضیح جہاں دیگر علوم قرآن پر آپ کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے، وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو قرآن مجید کے سلسلے میں شرح صدر عطا کیا گیا تھا۔ قرآنی مفاہیم کے بارے میں اللہ نے آپ کے سینے کو کھول دیا تھا۔ مبہم اور مشکل مقامات پر بھی آپ نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھآیات کی شرح و وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ سید صاحب کو ان کے خلوص اور تقوی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے وہ خصوصی صلاحیت عطا کر دی تھی جس سے اللہ کی کتاب کے اسرار و رموز ان پر کھلتے چلے گئے۔ قرآن مجید کے بہت سارے مشکل اور مبہم مقامات، جہاں مفہوم کے تعین میں لغزش اور اشتباہ کا خطرہ ہوسکتا تھا، آپ پر عیاں ہوتے چلے گئے۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت (۲:۱۴۶) کی تفسیر میں سید صاحب نے جمہور مفسرین سے مختلف معنی مراد لیتے ہوئے، یعرفونہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع قبلہ کو قرار دیا ہے، جبکہ اکثر مفسرین اس ضمیر کا مصداق اور مرجع حضرت محمدﷺ کو قرار دیتے ہیں۔

ضمیر کا یہ تعین کلام کے سیاق وسباق اور موضوع کے حوالے سے نہایت مناسب ہے اور سید صاحب پر اللہ کے اس خصوصی کرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ذریعے سے اللہ نے اپنے کلام کے اسرارورموز آپ پر عیاں کیے ہیں۔

انھی خوبیوں کی بنا پر آپ کے معاصرین، جید علماء، ادباء، معروف سکالرز، کالجز اور یونیورسٹیزکے اساتذہ اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ اہل علم و دانش نے تفہیم القرآن میں آپ کے علم تفسیراور اصول تفسیرکے فن کی داد دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام الناس میں اسے تلقی با لقبول کا درجہ ملا ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں اردو زبان میں سب سے زیادہ اشاعت کا مرتبہ حاصل کرنے والی تفسیرتفہیم القرآن ہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ضمیمہ: سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تصانیف

 

 

 

سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی ایک کثیر التصانیف مصنف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف کو بہت زیادہ تعداد میں شائع ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اردوسمیت پاکستان کی علاقائی زبانوں کے علاوہ، ان کی کتب کے تراجم دنیا کی کم ازکم تینتالیس زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسررفیع الدین ہاشمی نے سید صاحب کی تصانیف کی ایک فہرست مرتب کی ہے، جس میں باسٹھ ایسی کتب کا ذکر ہے جوسید صاحب کی موجودگی میں یا ان کی اجازت سے شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ مولانا کی ترجمہ کردہ ایک کتاب(المسئلہ الشرقیہ)، دس مجموعہ ہائے مکاتیب اور مولانا کے افادات و تحاریر پر مشتمل تیس کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ ہاشمی صاحب نے چوبیس متفرق خطبات اور کتابچوں کا ذکر بھی کیا ہے جوسیدصاحب کی فکر کا نتیجہ ہیں۔ مزید براں درجن بھر کتب ایسی ہیں جو مودودی صاحب کے ذخیرہ علمی پر مشتمل ہیں، لیکن ان کی حیثیت مکررات کی ہے۔ اس طرح سے ان مطبوعات کی کل تعداد تقریباً۱۳۹ ہے۔ [1] اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ دنیا بھر کی جامعات میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پرسید صاحب کی فکر، مطبوعات اور مساعی پر تحقیقی کام جاری ہے۔ اور ایسی تمام کاوشیں اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

ذیل میں ہم سید صاحب کی ایسی تصانیف کاذکر کرتے ہیں جوان کی موجودگی میں یا ان کی اجازت سے شائع ہوئیں :

۱۔ ترجمہ قران مجید، مع مختصر حواشی، لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۷۶ء۔

۲۔ قرآن مجید مترجم، (بین السطور)لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۹۰ء۔

۳۔ تفہیم القرآن، جلد اول، لاہور:مکتبہ تعمیرانسانیت، ۱۹۵۱ء۔

۴۔ تفہیم القرآن، جلد دوم، لاہور:مکتبہ تعمیرانسانیت، ۱۹۵۴ء۔

۵۔ تفہیم القرآن، جلدسوم، لاہور:مکتبہ تعمیرانسانیت، ۱۹۶۲ء۔

۶۔ تفہیم القرآن، جلد چہارم، لاہور:مکتبہ تعمیرانسانیت، ۱۹۶۶ء۔

۷۔ تفہیم القرآن، جلد پنجم، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۷۱ء۔

۸۔ تفہیم القرآن، جلد ششم، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۷۲ء۔

۹۔ سیرت سرورعالم، جلد اول، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۷۸ء۔

۱۰۔ سیرت سرورعالم، جلد دوم، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۷۸ء۔

۱۱۔ اسلام اور جدید معاشی نظریات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنر، ۱۹۵۹ء۔

۱۲۔ اسلام اور ضبط ولادت، پٹھان کوٹ:ادارہ دارالاسلام، ۱۹۴۳ء۔

۱۳۔ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۵ء۔

۱۴۔ اسلامی ریاست، لاہور:اسلامک پبلی کیشنر، ۱۹۶۲ء۔

۱۵۔ اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر، لاہور:اقبال اکیڈمی، ۱۹۴۴ء۔

۱۔ ترجمان القرآن، مئی 2001ء، سید مودودی کا ذخیرہ علمی:ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص233۔ 248۔

۱۶۔ اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنر، ۱۹۶۲ء۔

۱۷۔ الجہاد فی الاسلام، اعظم گڑھ:ادارہ دار المصنفین، ۱۹۳۰ء۔

۱۸۔ انتخابی تقاریر، لاہور:شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی، ۱۹۴۲ء۔

۱۹۔ پردہ، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۴۰ء۔

۲۰۔ تجدید ا حیائے دین، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۴۱ء۔

۲۱۔ تحریک آزادی اور مسلمان، جلد اول، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۴ء۔

۲۲۔ تحریک آزادی ہند اور مسلمان، جلد دوم، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۷۳ء۔

۲۳۔ تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان، ۱۹۸۵ء۔

۲۴۔ تحریک جمہوریت، اس کے اسباب اور اس کا مقصد، لاہور:شعبہ نشر و اشاعت تحریک جمہوریت مغربی پاکستان، ۱۹۶۸ء۔

۲۵۔ تعلیمات، حیدرآباد دکن:دار الاشاعت نشات ثانیہ، ۱۹۴۵ء۔

۲۶۔ تفہیمات، جلد اول، لاہور:دفتر رسالہ ترجمان القرآن، ۱۹۴۰ء۔

۲۷۔ تفہیمات، جلد دوم، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۵ء۔

۲۸۔ تفہیمات، جلد سوم، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۵ء۔

۲۹۔ تنقیحات، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۳۹ء۔

۳۰۔ ٹرکی میں عیسائیوں کی حالت، دہلی:دار الاشاعت سیاسیات شرقیہ، ۱۹۲۲ء۔

۳۱۔ جماعت اسلامی، اس کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۱ء۔

۳۲۔ جماعت اسلامی کے ۲۹ سال، لاہور:شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی، ۱۹۷۰ء۔

۳۳۔ حقوق الزوجین، پٹھان کوٹ:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۴۳ء۔

۳۴۔ حوادث سمرنا، اتحادی کمیشن کی رپورٹ، دہلی:دار الاشاعت سیاسیات مشرقیہ، ۱۹۲۱ء۔

۳۵۔ خطبات حرم، لاہور:دار العروبہ منصورہ، ۱۹۸۴ء۔

۳۶۔ خطبات، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۴۰ء۔

۳۷۔ خلافت و ملوکیت، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۶ء۔

۳۸۔ دکن کی سیاسی تاریخ، حیدرآباد دکن:دار الاشاعت سیاسیہ، ۱۹۴۴ء۔

۳۹۔ دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ، حیدرآبادد کن:سید علی شبر حاتمی، ۱۹۲۸ء۔

۴۰۔ دینیات، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۳۹ء۔

۴۱۔ رسائل ومسائل، جلد اول، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۱ء۔

۴۲۔ رسائل ومسائل، جلد دوم، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۴ء۔

۴۳۔ رسائل ومسائل، جلدسوم، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۵ء۔

۴۴۔ رسائل ومسائل، جلد چہارم، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۵ء۔

۴۵۔ رسائل ومسائل، جلد پنجم، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۸۳ء۔

۴۶۔ سانحہ مسجد اقصی، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۶۹ء۔

۴۷۔ سلاجقہ، لاہور:ناشر ابوالخیر مودودی، ۱۹۵۴ء۔

۴۸۔ سنت کی آئینی حیثیت، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۳ء۔

۴۹۔ سود، جلد اول، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۴۸ء۔

۵۰۔ سود، جلد دوم، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۲ء۔

۵۱۔ سود، اول و دوم، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۱ء۔

۵۲۔ قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلو، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۳ء۔

۵۳۔ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، پٹھان کوٹ:مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام، ۱۹۵۳ء۔

۵۴۔ مرتد کی سزا، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۱ء۔

۵۵۔ مسئلہ جبر و قدر، پٹھان کوٹ:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۴۳ء۔

۵۶۔ مسئلہ قومیت، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۳۹ء۔

۵۷۔ مسئلہ ملکیت زمین، لاہور:مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۰ء۔

۵۸۔ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، جلد اول، پٹھان کوٹ:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۳۸ء۔

۵۹۔ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، جلد دوم، پٹھان کوٹ:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۳۸ء۔

۶۰۔ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، جلدسوم، لاہور:دفتر ترجمان القرآن، ۱۹۴۱ء۔

۶۱۔ مشرقی پاکستان کے حالات ومسائل کا جائزہ اور اصلاح کی تدابیر، لاہور:مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی، ۱۹۵۶ء۔

۶۲۔ معاشیات اسلام، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۲۹ء۔

۶۳۔ نشری تقریریں، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۶۱ء۔

٭٭٭

 

 

 

               ماخذ و مراجع

 

 

1ابن الاکفانی، محمدبن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشادالقاصدفی اسنی المقاصد، قاہرہ:دارالفکرالعربی، ۱۹۹۰ء۔

2ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مقدمہ فی اصول التفسیر، قطر:وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیہ، ۲۰۰۹ء۔

3ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مقدمہ فی اصول التفسیر، قطر:وزارۃ الاوقا ف والشؤن الاسلامیۃ، ۲۰۰۹ء۔

4ابن خلدون، عبدالرحمٰن، مقدمہ ابن خلدون، (ترجمہ راغب رحمانی)کراچی :نفیس اکیڈمی اردو بازار، ج۲، ط۱۱، دسمبر۲۰۰۱۔

5ابن عطیۃ، أبي محمد عبدالحق بن غالب، المحرر الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، لبنان: دار الکتب العلميۃ، ۱۹۹۳ء۔

6ابن کثیر، عماد الدین ابوالفدا، تفسیر القرآن العظیم، بیروت:مطبعۃ التجاریۃ، ۱۳۵۶ھ۔

7ابو حیان الاندلسی، أبي عبداللہ محمد بن يوسف بن علي بن يوسف، البحر المحيط في تفسير القرآن العظيم، بیروت:دار النشر / دار الفکر، لبنان۔ س ن۔

8ابوشھبۃ، محمد، الدکتور، المدخل لدراسۃ القرآن الکریم، مصر:مطبعۃ الازھر، ۱۹۵۸۔

9ابوطارق، ایم اے، مولانا مودودی کے انٹرویو، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، مئی ۱۹۸۷ء۔

10ابونعمان بشیر احمد، اصول تفسیر سوالاً جواباً۔ لاہور:مکتبہ دارالسلام، س ن۔

11احمد الاسکندری ومصطفی عنانی، الوسیط فی الادب العربی وتاریخہ، مصر:دارالمعارف، ۱۹۱۶ء۔

12احمد منیر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور: آتش فشاں پبلی کیشنز، ۱۹۸۶۔

13ارثورجیفری، مقدمتان فی علوم القرآن، قاہرہ، مکتبۃ الخانجی، ۱۹۷۲۔

14اسعد گیلانی، سید، سید مودودی، دعوت و تحریک، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء۔

15اسعد گیلانی، سید، اقبال، دارالاسلام اور مودودی، لاہور:اسلامک اکیڈمی،، ۱۹۷۸ء۔

16اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی سے ملیے، سرگودھا، آزاد بک ڈپو، فروری ۱۹۶۲ء۔

17اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، لاہور:مکتبہ تعمیر انسانیت، ط۳، ۱۹۷۴ء۔

18اشرف علی تھانوی، بیان القرآن، کراچی، ایچ ایم سعید کمپنی، س ن۔

19اصلاحی، امین احسن، تدبر قرآن، لاہور:فاران فاوّنڈیشن، ط۵، مارچ۱۹۹۱ء۔

20الافغانی، سعید، فی اصول النحو، مدیریۃ الکتب والمطبوعات الجامعیۃ، ۱۹۹۴ء۔

21اقبال احمد ندوی، مولانا مودودی اور علمائے کرام، ایک تجزیہ، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، س ن۔

22امتیاز احمد، ڈاکٹر، مولانا مودودی کی نثرنگاری، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، ستمبر۲۰۰۷ء۔

23آلوسی، شہاب الدین السید محمود آفندی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و سبع المثانی، لاہور:المکتبۃ الرشیدیۃ، س ن۔

24البغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل، قاہرہ:مکتبۃ المنار، ۱۳۴۵ھ۔

25البیضاوی، عبداللہ بن عمر، ناصرالدین، انوارالتنزیل و اسرار التاویل، بیروت:دار النشر : دار الفکر، س ن۔

26پیر کرم شاہ، ضیا القرآن، لاہور:ضیا القرآن پبلی کیشنز، ۱۳۹۹ھ۔

27تحسین فراقی، ڈاکٹر، عبدالماجد دریابادی، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، ۱۹۹۳ء۔

28تصدق حسین راجا، ڈاکٹر، سید مودودی، مرد عصر و صورت گرمستقبل، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، ۱۹۹۶ء۔

29تقی عثمانی، محمد، علوم القرآن، مکتبہ دارالعلوم کراچی، ۲۰۰۵۔

30التھانوی، محمد بن علی، کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، بیروت:مکتبۃ لبنان ناشرون، ج۱، ۱۹۹۹ ء۔

31ثنا اللہ امرتسری، تفسیر ثنائی، کراچی، میر محمد کتب خانہ، آرام باغ، س ن۔

32ثنا اللہ پانی پتی، تفسیر المظہری، لاہور:المطبعۃ الماسوعۃ بحمایت اسلام، لاہور، ۱۹۸۸ء۔

33جلال الدین محلی، جلال الدین سیوطی، تفسیر جلالین، قاہرہ:دار الحديث، ۱۳۴۵ھ۔

34جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد، تذکرہ مودودی(اول تا سوم) لاہور:ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۹۸ء۔

35حالی، الطاف حسین، حیات جاوید، میرپور:ارسلان بکس، مئی ۲۰۰۰ء،

36خالد علوی، سید مودودی بحیثیت مفسر، لاہور:الفیصل ناشران کتب، ۱۹۹۹ء۔

37خلیل احمد حامدی، بانگ سحر، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، مارچ ۱۹۹۳ء۔

38دریابادی، عبدالماجد، تفسیر ماجدی، لاہور:تاج کمپنی، ۱۹۷۵ء

39الذہبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون، قاہرہ:مکتبہ وہبہ، ط۷، ج۱، ۲۰۰۰ ء۔

40الرازی، محمد بن عمر، فخر الدین، مفاتیح الغیب(التفسیر الکبیر)بیروت:دارالفکر، ۱۴۱۵ھ۔

41راغب الطباخ، تاریخ افکار و علوم اسلامی(ترجمہ:مولانا افتخار احمد بلخی)لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ط۱، ستمبر ۱۹۷۴ء۔

42رشید احمد جالندھری، ڈاکٹر، علم تفسیر اور مفسرین، مجلس ترقی ادب لاہور۱۹۶۱ء۔

43رفیع اللہ شہاب، پروفیسر، احکام القرآن میں تحریف، لاہور:دوست ایسوسی ایٹس، ۲۰۰۰ء۔

44الزرقانی، محمد عبد العظیم، مناھل العرفان فی علوم القرآن، مصر:داراحیأ الکتب العربیۃعیسیٰ البابی الحلبی، مصر، س ن۔

45الزرکشی، بدرالدین، البرھان فی علوم القرآن، تحقیق ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ:مکتبہ دارلتراث، ۱۹۵۷ء۔

46الزمخشری، ابوالقاسم محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق التحویل وعیون الاقاویل فی وجوہ التنزیل، بیروت:دار النشر : دار إحياء التراث العربي، س ن۔

47سجاد مرزا بیگ، تسہیل البلاغت، حیدرآباد دکن:نظام دکن پریس بازار عیسیٰ میان، ۱۳۳۹ھ۔

48سرسید احمد خان، تفسیر القرآن، لاہور:دوست ایسوسی ایٹس، ۱۹۹۵ء۔

49سعید احمد، اکبرآبادی، فہم القرآن، دہلی:ندوۃ المصنفین، ۱۹۵۹ء۔

50سفیر اختر، ڈاکٹر، بیاد سید مودودی، واہ کینٹ:ندوۃ المعارف، ۱۹۹۸ء۔

51سید قطب، فی ظلال القرآن، مترجم:معروف شاہ شیرازی، لاہور:ادارہ منشورات اسلامی، ط۴، اکتوبر۱۹۹۸ء۔

52السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، ج۱، ط۳، مصر:مکتبہ ومطبعہ مصطفیٰ البابی الحلبی، ۱۹۵۱ء۔

53السیوطی، جلال الدین، فی وضع علم العربیۃ، محقق مروان عطیۃ، بیروت:دارالہجرۃ للطباعۃ والنشر، ۱۹۸۸ء۔

54السیوطی، جلال الدین، کتاب التحدث بنعمۃ اللہ،، (تحقیق ایزابث ماری سارتین)قاہرہ:المطبعۃالعربیۃ الحدیثۃ، ۱۹۷۵ء۔

55الشاشی، نظام الدین، اصول الشاشی فی اصول الفقہ، ترجمہ مشتاق احمد، لاہور:ادارہ اسلامیات، اکتوبر ۱۹۸۲ء۔

56شافعی، محمد بن ادریس، کتاب الرسالۃ، (ترجمہ مبشر نذیر)۲۰۰۷ء۔

57شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، مترجم مولوی رشید احمد انصاری، دہلی: مکتبہ برہان، جولائی ۱۹۵۵ء۔

58شبیر احمد عثمانی، مولانا، تفسیر عثمانی، لاہور:نفیس پبلشرز، س ن۔

59شمس الدین فقیر، ترجمہ حدائق البلاغت، (مترجم امام بخش صہبائی)کانپور:مطبع نامی منشی نول کشور، ۱۸۸۷ء۔

60صبحی الصالح، الدکتور، مباحث فی علوم القرآن، بیروت:دار العلم للملائین، ۱۹۶۵ء۔

61صدیق بن حسن قنوجی، من ابجد العلوم، لاہور، المکتبۃ القدوسیۃ، ج۲، س ن۔

62الطبری، محمد بن جریر، ابوجعفر، جامع البيان عن تاويل آي القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ : الاولىٰ، ۱۴۲۰ھ۔

63عابد علی عابد، سید، البیان،، لاہور:مجلس ترقی ادب، ط۱، فروری ۱۹۸۹ء۔

64عارف دہلوی، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی علماء کی نظر میں، فرینڈز پبلی کیشنز ملتان، س ن۔

65عاصم نعمانی، سید مودودی کے ساتھ گزرے ہوئے یادگار لمحات، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، ط۲، مارچ۱۹۹۳ء۔

66عاصم نعمانی، مولانا مودودی پر اعتراضات کی حقیقت، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۹۴ء۔

67عامرعثمانی، مولانا، تفہیم القران پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں، کراچی:مکتبہ الحجاز، مئی۲۰۰۱ء۔

68عبدالحق حقانی دہلوی، البیان فی علوم القرآن، مقدمہ تفسیرحقانی، دہلی:مطبع تحفہ ہند، ۱۳۲۴ھ۔

69عبدالحق حقانی، فتح المنان(تفسیر حقانی)، مکتبہ الحسن لاہور، س ن۔

70عبدالرحمٰن عبد، سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۹۰ء۔

71عبدالصمد صارم، قاضی، تبیان الراسخ معروف بہ تاریخ تفسیر، کراچی:میر محمد کتب خانہ آرام باغ، ۱۳۵۵ھ۔

72عبید اللہ فہد فلاحی، تاریخ دعوت و جہاد، لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ۲۰۰۰ء۔

73العثيمين، محمد الصالح، الشيخ، أصول في التفسير، مکتبۃ صیدالفوائد، س ن۔

74علی بن سلیمان العبید، تفسیر القرآن العظیم، ریاض:مکتبۃ التوبۃ، ۲۰۱۰ء۔

75غلام جیلانی برق، تاریخ حدیث، لاہور:ادارہ مطبوعات سلیمانی، جون ۲۰۰۹ء۔

76فراہی، حمیدالدین، تفسیر قرآن کے اصول، (ترجمہ خالدمسعود)دہلی:قرآن وسنت اکیڈمی، اکتوبر۲۰۰۳ء۔

77قاضی عبدالنبی احمد نگری، جامع العلوم الملقب بہ دستور العلماء، حیدر آباد :مطبعہ دائرۃ المعارف النظامۃ، ج۲، ط۱، ۱۳۲۹ھ۔

78القرافی، احمد بن ادریس، الصنہاجی، بیروت:دارالکتب العلمیۃ، ط۱، ۱۹۹۸ء۔

79القرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن والمبین لماتضمنہ من السنتی آی القرآن، بیروت:دارالکتب، ۱۹۳۵ء۔

80گوہر رحمٰن، مولانا، علوم القرآن، مردان:مکتبہ تفہیم القرآن، ۲۰۰۳ء۔

81محمد ادریس کاندھلوی، معارف القرآن، لاہور:مکتبہ عثمانیہ جامعہ اشرفیہ، ۱۹۸۲ء۔

82محمد الخضری، اصول الفقہ، مصر:مکتبۃالتجاریۃ الکبریٰ، ۲۰۰۲ء۔

83محمد حسین شمیم، سید مودودی، پرعزم زندگی، گمنام گوشے، لاہور:حرا پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء۔

84محمد حنیف ندوی، مطالعہ حدیث، لاہور:ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۷۹ء۔

85محمد سلیم، پروفیسر، سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۹۷ء۔

86محمد شفیع، مفتی، معارف القرآن، کراچی، ادارۃ المعارف، س ن۔

87محمد علی الصابونی، التبیان فی علوم القرآن، عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزيع، ۱۹۸۵ء۔

88محمد محی الدین عبدالحمید، التحفۃ السنیۃ بشرح المقدمۃ الاجرومیۃ، قطر:ادارہ الشوؤن الاسلامیہ، ۲۰۰۸ء۔

89محمد یوسف مفتی، مولانا، مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ، (حصہ اول و دوم)لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء۔

90محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، لاہور:مکتبہ الحبیب اچھرہ، ۱۹۵۵ ء۔

91محمدزکریا کاندھلوی، تاریخ مشائخ چشت، کراچی:مکتبہ الشیخ بہادرآباد، ۱۳۹۲ھ۔

92محمود طحان، تیسیر مصطلح الحدیث، اسکندریہ:مرکز الھدیٰ للدراسات،، ۱۴۱۵ھ۔

93المراغی، احمد مصطفیٰ، تفسیر المراغی، بیروت:دار احیا التراث العربی، ۱۹۹۷ء۔

94مزمل حسین، ڈاکٹر، حدائق البلاغت، فیصل آباد:مثال پبلشرز، ط ۱، جنوری ۲۰۰۹ء۔

95مساعد بن سلیمان الطیار، فصول فی اصول التفسیر، دمام:دارابن الجوزی للنشر والتوزیع، ط۳، ۱۹۹۹ء،

96معروف شاہ شیرازی، سید مودودی کے فکری کام کا جائزہ، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۹۸ء۔

97مناع خلیل القطان، مباحث فی علوم القرآن، موسسۃ الرسالۃ بیروت، لبنان، ۱۹۸۰ء۔

98مودودی، ابوالاعلیٰ، پردہ، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، جون ۱۹۹۲ء۔

99مودودی، ابوالاعلیٰ، تجدید و احیائے دین، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، نومبر ۱۹۹۱ء۔

100مودودی، ابوالاعلیٰ، تعلیمات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، اپریل۱۹۸۸ء۔

101مودودی، ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، (جلد اول تا ششم)لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۱ء۔

102مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل و مسائل (حصہ اول تا پنجم)لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، جنوری ۱۹۹۳ء۔

103مودودی، ابوالاعلیٰ، اسلامی ریاست (مرتبہ خورشید احمد)لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، جنوری ۱۹۹۲ء۔

104مودودی، ابوالاعلیٰ، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، دسمبر ۱۹۹۱ء۔

105مودودی، ابوالاعلیٰ، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، مئی ۱۹۹۲ء۔

106مودودی، ابوالاعلیٰ، الجہاد فی الاسلام، لاہور:ادارہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۹۱ء۔

107مودودی، ابوالاعلیٰ، تفہیمات (حصہ اول تا پنجم)، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ستمبر ۱۹۹۱ء۔

108مودودی، ابوالاعلیٰ، مرتد کی سزا(اسلامی قانون میں )لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، دسمبر ۱۹۹۱ء۔

109مودودی، ابوالاعلیٰ، اسلام اور جدید معاشی نظریات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، نومبر ۱۹۹۱ء۔

110مودودی، ابوالاعلیٰ، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ِ، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، مئی ۲۰۰۰ء۔

111مودودی، ابوالاعلیٰ، سنت کی آئینی حیثیت، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ط۲۱، جنوری۲۰۰۳ء۔

112مودودی، ابوالاعلیٰ، قادیانی مسئلہ، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، مارچ۱۹۹۸ء۔

113نجم الغنی رام پوری، بحر الفصاحت، ج۵، ط۱، لاہور:مجلس ترقی ادب، جون ۲۰۰۶ء۔

114نعیم صدیقی، المودودی، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء۔

115وسیم احمد فاروقی، ندوی، علامہ اقبال اور سید مودودی:افکارو نظریات کا تقابلی مطالعہ، لاہور:حسنات اکیڈمی، ۱۹۸۸ء۔

116ولی اللہ، دہلوی، شاہ، الفوز الکبیرفی اصول التفسیر، قرآن محل، کراتشی، مولوی مسافر خانہ، ۱۳۸۳ھ۔

 

رساَئل و جرائد

 

1سہ ماہی سیارہ لاہور، سید مودودی نمبر، اپریل مئی۱۹۸۰ء۔ مارچ ۱۹۸۳ء۔ دسمبر۱۹۸۵ء۔

2سیارہ ڈائجسٹ، سید مودودی نمبر، دسمبر۱۹۷۹ء۔

3ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور، سید مودودی نمبر، ستمبر۱۹۷۸ء۔

4ماہنامہ ترجمان القرآن، سید ابو الاعلیٰ مودودی نمبر، اکتوبر۲۰۰۳ء۔

5ماہنامہ دعوہ اسلام آباد، دسمبر۲۰۰۳ء۔ جنوری ۲۰۰۴ء۔

6ماہنامہ رشد لاہور، قراآت نمبر، جون ۲۰۰۹ء، ستمبر۲۰۰۹ء، مارچ۲۰۱۰ء۔

7ہفت روزہ آئین لاہور، تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء۔

٭٭٭

تشکر” مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید