FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اِس طرح تو ہوتا ہے

 

                بی۔ سی۔ لیز / نوید ظفر کیانی

 

یہ ڈرامہ سہ ماہی برقی مجلے ’ارمغانِ تبسم‘ میں قسط وار شائع ہوا

 

 

 

 

 

 

 

زمانہ: ۱۸۹۲ء

 

کردار

 

ڈک کمفرٹ:   شادی شدہ لیکن اکیلا

میریگیل:       ایک نامہربان دوست

الیگذینڈر مینڈر: کمفرٹ کا چچا۔ بد سے بدنام بُرا

ہیرس:        کمفرٹ کا نوکر۔ ماٹھے شاہ

مسز مینڈر:      کمفرٹ کی چچی۔ رانیوں جیسا نخرہ

ایڈتھ:         کمفرٹ کی بیوی۔ وفا کی دیوی

سیلی:           مسز مینڈر کی ملازمہ۔ کولہو کا بیل

 

 

 

 

پہلا ایکٹ

 

منظر:  انتہائی نفاست سے سجائے گئے کمفرٹ کے ڈرائنگ روم کا منظر۔ کمفرٹ بڑے انہماک سے ایک خط کا مطالعہ کر رہا ہے۔

 

کمفرٹ:(ایک وقفہ کے بعد) اب میں کیا کروں۔ ۔ ۔ مینڈر چچا اپنے خط میں فرما رہے ہیں کہ وہ ایک دن میرے ساتھ گزارنے آ رہے ہیں۔ چار برس پہلے جب اُنہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھے اپنا وارث بنا رہے ہیں  اور اس سلسلے میں وہ ہر برس پچیس سو ڈالر کی خطیر رقم مجھے دینا چاہتے ہیں تو میں نے کسی بھی قسم کے تعرض کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ سچ پوچھیں تو میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے لیکن پھر اُنہوں نے یہ شرط لگا دی کہ وہ یہ رقم مجھے اس شرط پر دیں گے کہ میں کبھی شادی نہ کروں۔ ۔ ۔ یہ تو دودھ میں مینگنیاں ملا دینے کے مترادف ہوا۔ ۔ ۔ خیر یہ چار سال پہلے کا تذکرہ ہے، اُس وقت تو میرا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بھلا محبت کرنے میں بھی کوئی دیر لگتی ہے (اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے )  اور وہ بھی مجھ جیسے نوجوان کے لئے۔ ۔ ۔ ایڈتھ جیسی لڑکی سے، ظاہر ہے محبت کا انجام شادی ہی ہوا کرتی ہے چنانچہ ایک برس قبل جب میری ایڈتھ سے شادی ہوئی اُس وقت سے لے کر اب تک ایک پل بھی چین سے نہیں گزرا ہے، ہر لمحہ یہی خوف دامن گیر رہا ہے کہ کہیں اس کی خبر مینڈر چچا کو نہ ہو جائے۔ اب چچا جان یہاں آ رہے ہیں، میں نے جو شیڈول اپنی زندگی کا بنا رکھا تھا، اُنہوں نے آ کراُسے اتھل پتھل کر دینا ہے۔ اُنہیں ایڈتھ کا پتہ چل جائے گا  اور پھر میرے مستقبل کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ ۔ ۔ اب کروں تو کیا کروں ؟ (دوبارہ خط پڑھنے لگتا ہے ) ۔ ۔ ۔ جمعرات تک پہنچ رہا ہوں۔ ۔ ۔ جمعرات؟؟  اور آج جمعرات ہی تو ہے۔ ۔ ۔ ’’ اور انشاء اللہ شام کی ٹرین سے واپس روانہ ہو جاؤں گا‘‘۔ ۔ ۔ شام کی ٹرین چار بجے روانہ ہوتی ہے (سوچتا ہے ) اب مجھے کرنا کیا چاہئیے ؟ اگر میں کسی طرح سے ایسے حالات پیدا کر دوں کہ ایڈتھ  اور چچا جان کاسامنا ہی نہ ہو پائے۔ ۔ ۔ اگر میں چچا جان کے سامنے کسی چھڑے چھانٹ نوجوان کا کردار ادا کروں، صرف ایک دن کے لئے، تو بچاؤ ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ٹرائی تو کرنی چاہئیے مجھے۔ ۔ ۔ یہی بچاؤ کی واحد صورت ہے ورنہ۔ ۔ ۔ ورنہ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ میں اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتا، مجھے ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ ۔ ۔ لیکن اب اس ایڈتھ کا کیا کیا جائے ؟؟

(مسز کمفرٹ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی ہے )

مسز کمفرٹ: کیا آج تم میرے ساتھ نہیں جا رہے ہو؟

کمفرٹ: نہیں ایڈتھ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں آج مصروف ہوں !

مسز کمفرٹ: بظاہرلگ تو نہیں رہے ہو۔

کمفرٹ: آج کا دن میں نے اپنے کامیڈی ڈرامے کی نوک پلک سنوارنے کے لئے مختص کر رکھا ہے۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ کل اس کو جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔ مجھے آج بہت محنت کرنی پڑے گی، ڈرامے کے پہلے ایکٹ میں بہت سی تبدیلیاں کرنی ہیں۔ ۔ ۔ اس لئے مجھے اس وقت کچھ آرام کی ضرورت ہے۔

مسز کمفرٹ: افوہ۔ ۔ ۔ پھر تم اُسی ڈرامے کو لے کر بیٹھ رہو گے۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں کہ اگر بالفرض پہلا انعام تمہیں مل بھی گیا تو تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟؟

کمفرٹ: فائدہ۔ ۔ ۔ ارے میں راتوں رات مشہور ہو جاؤں گا۔

مسز کمفرٹ:  اور اگر تم مشہور ہو بھی گئے تو پھر کیا ہو گا؟؟کیا اس سے تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ اپنی بیوی کو زیادہ وقت دے سکو۔ ۔ ۔ اُس کی خوشیوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھ سکو؟؟؟

کمفرٹ: نہیں، ہرگز نہیں کیونکہ تم تو جانتی ہی ہو کہ تمہیں خوش دیکھنا میری سب سے بڑی خواہش ہے۔ ۔ ۔ میرے لئے تمھارے ساتھ ڈرائیو پر جانا سارا دن کام کرنے سے زیادہ پُر کشش ہے لیکن کیا جائے، کام کام ہے۔

مسز کمفرٹ: لیکن تمہارے لئے تو تمہارا ڈرامہ ہی سب کچھ ہے !

کمفرٹ: ایسا بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ میں کسی عیاشی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا ہوں، یہ کام ہے  اور خاصی مشقت والا کام۔ ۔ ۔ ہاہاہا۔ ۔ ۔  اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کھیل نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک کھیل ہے، بس اِسی قسم کے کام کی لت نے مجھے تمہاری نظروں میں ڈل قسم کا نوجوان بنا کر رکھ دیا ہے۔ ۔ ۔ لیکن تم نے بہت اچھا سوچا ہے کہ لمبی ڈرائیو پر نکلا جائے۔ ۔ ۔ بہت اچھا موسم ہے، میرا تو خیال ہے کہ تم قصبے میں چلی جاؤ  اور آج کا خوشگوار دن اپنی ماں کے ساتھ گزار آؤ۔ ۔ ۔ باقی جیسی تمہاری مرضی!!

مسز کمفرٹ: نہیں ! اس طرح تو میرا آج کا سارا دن قصبے میں ہی گزر جائے گا۔ ۔ ۔ واپسی پر خاصی دیر ہو جائے گی!!

کمفرٹ: تو پھر کیا ہو گیا!

مسز کمفرٹ: پچھلا سارا ہفتہ بھی میں قصبے میں گزار چکی ہوں۔ ۔ ۔ نہیں ! بالکل بھی نہیں، تم میرے ساتھ چلو گے تو جاؤں گی!! آج اِتنی لمبی ڈرائیو پر نہیں جا سکتی!!

کمفرٹ: لیکن ایڈتھ ! میں تو چاہتا تھا کہ تم قصبے میں جاؤ تو میرا بھی ایک کام کر آؤ!!مجھے کچھ خالی پیپروں کی ضرورت تھی۔ ۔ ۔ بلکہ خاصی زیادہ ضرورت ہے اُن کی۔ ۔ ۔ اگر  اور خالی پیپرز نہ ہوئے تو میرا خیال ہے کہ میں آج اپنا ڈرامہ ہی مکمل نہ کر پاؤں گا۔

مسز کمفرٹ: لیکن تمہارے پاس تو کافی پیپر پڑے ہوئے ہیں ( میز سے بہت سے پیپر اٹھا کر دکھاتی ہے )

کمفرٹ : (گڑبڑا کر) ہاں۔ ۔ ۔ لل۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ اسطرح کے پیپر نہیں۔ ۔ ۔ دوسرے چاہئیں !!

مسز کمفرٹ: کس طرح کے پیپر چاہئیں ؟

کمفرٹ: کسی بھی قسم کے۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ ایسا کرو کہ ہر سائز کا ایک ایک دستہ لے آؤ!

مسز کمفرٹ: لیکن ڈک! تم ہیرس سے بھی تو منگوا سکتے ہو۔ ۔ ۔ میں ہی کیوں ؟؟

کمفرٹ: نہیں۔ ۔ ۔ تمہیں ہو جو اس قسم کا کام کر سکتی ہو۔ ۔ ۔ ہیرس کو کیا پتہ۔ ۔ ۔ میری خواہش کہ تم آج ضرور قصبے میں جاؤ۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ۔ ۔ ۔ وہ (کنفیوز ہو جاتا ہے ) ایڈتھ! اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو میری خاطر۔ ۔ ۔ میری خاطر تم ضرور جانا ہو گا!!

مسز کمفرٹ: ٹھیک ہے، اگر تم یہی چاہتے ہو تو ضرور جاؤں گی۔ ۔ ۔ لیکن میں ٹرین پر جانا زیادہ مناسب سمجھتی ہوں، آج اس قدر لمبی ڈرائیو کا موڈ نہیں بن رہا ہے۔ ۔ ۔ کتنے پیپرز چاہئیں ؟

کمفرٹ: جتنے ہو سکے۔ ۔ ۔ مجھے بہت سے پیپرز کی ضرورت پڑے گی!!جتنی لا سکتی ہو، لے آؤ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) جتنے زیادہ پیپرز خریدے گی، اُتنی ہی دیر لگے گی۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بیچارہ۔ ۔ ۔ کتنا کنفیوز ہو رہا ہے، کام کی زیادتی نے اس کے اعصاب کو مضمحل کر کے رکھ دیا ہے !

کمفرٹ: (دستی گھڑی کو دیکھتے ہوئے ) نو بج چکے ہیں۔ ۔ ۔ تم اگر ابھی چل پڑو تو ٹرین پکڑ سکتی ہو۔ ۔ ۔ ٹھہرو میں تمہارے لئے بگھی کا انتظام کرتا ہوں (پکارتا ہے ) ہیرس! ہیرس!!

مسز کمفرٹ: لیکن ڈک۔ ۔ ۔ ٹرین تو ساڈھے نو بجے روانہ ہوتی ہے !!

کمفرٹ: تم۔ ۔ ۔ تم اُس وقت تک پہنچ جاؤ گی، اب دیر مت کرو (پکارتا ہے ) ہیرس!

مسز کمفرٹ: ابھی کافی وقت ہے۔ (کمرے سے نکل جاتی ہے )

کمفرٹ: (با آوازِ بلند پکارتا ہے ) ہیرس !!

(ہیرس کمرے میں داخل ہوتا ہے )

ہیرس: آپ نے بیل دی تھی جناب؟

کمفرٹ: ( غصیلے انداز میں ) میں نے بیل نہیں بجائی تھی بلکہ آدھے گھنٹے سے حلق تک بج بج کر تمہیں بلاتا رہا ہوں !!

ہیرس: حکم جناب؟

کمفرٹ: بگھی والے کو بلاؤ۔ ۔ ۔ فوراً !!

ہیرس: بہتر جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) حضورِ والا تو بڑے رنگوں میں ہیں آج۔ ۔ ۔

(ہیرس کمرے سے نکل جاتا ہے )

کمفرٹ: اگر ایڈتھ چچا جان کے آنے سے پہلے روانہ ہو جائے تو مزا آ جائے۔ ۔ ۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا (میز سے سکرپٹ کے کاغذات اٹھاتا ہے )  اور یہ سکرپٹ۔ ۔ ۔ ابھی بھی پورے دو ایکٹ ایسے ہیں جن میں خاصی کاٹ چھانٹ کی ضرورت ہے،  اور وہ بھی آج رات تک۔ ۔ ۔ یہ چچا جان کو بھی آج ہی آنا تھا۔ ۔ ۔ مجھے بھلا اُن کی خاطر داری کی فراغت کہاں ملے گی، (ہنستا ہے ) خود ہی اپنے آپ کو اٹینڈ کرتے پھریں۔ ۔ ۔ خیر! اب موقع ملا ہے تو فائدہ اُٹھا لینا چاہئیے، بعد میں جانے کیا حالات ہوں (مطالعہ کی میز والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) دیکھوں تو سہی، کیا کچھ کرنا ہے ؟ ہا۔ ۔ ۔ شکر ہے کہ پہلا ایکٹ تو مکمل ہے، اب دوسرے ایکٹ کو دیکھتے ہیں (قلم اٹھاتا ہے لیکن پھر ٹھہر جاتا ہے  اور کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے ) بگھی کے پہیوں کی آواز؟ کہیں چچا جان تو نہیں آن ٹپکے ؟؟ (اُٹھتا ہے  اور سٹیج کی پچھلی طرف کھڑکی سے باہر جھانکتا ہے ) خدا کی پناہ! یہ تو وہی ہیں !! یہ تانگا اسٹینڈ والوں کی بگھی ہی ہے۔ ۔ ۔ اب کیا کیا جائے ؟؟

مسز کمفرٹ: (کمرے کے باہر سے آواز دیتی ہے ) ڈِک!

کمفرٹ: (اسٹیج کی سیڑھیوں سے نیچے آتا ہے ) کیا بات ہے ڈئیر۔ ۔ ۔ جلد بازی کی ضرورت نہیں، ابھی کافی وقت ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا (کمرہ نمبر ایک کے دروازے کو مقفل کر دیتا ہے ) لو جی! پنچھی قید ہو گیا!!

(بیرونی دروازے سے مینڈر چچا داخل ہوتے ہیں )

مینڈر چچا: لو بھئی بھتیجے، ہم آ گئے !

کمفرٹ: آہا چچا جان، آپ کو دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہو رہی ہے، ماشا اللہ اب تو آپ کی صحت بہت اچھی ہو گئی ہے۔

مینڈر چچا: بالکل، کبھی اتنی اچھی صحت نہیں رہی میری جیسی اب ہے۔ ۔ ۔ اب تمہیں سوچنا بھی نہیں چاہئیے کہ مجھ سے نجات پا سکو گے۔ ۔ ۔ کم از کم چند ایک برس تک تو بالکل بھی نہیں، میں جانتا ہوں کہ تم مدتوں سے اسی انتظار میں ہو، بڑے بدمعاش ہو تم!!

کمفرٹ: (شکایت بھرے انداز میں ) یہ کیا کہہ رہے ہیں چچا جان۔ ۔ ۔ اللہ نہ کرے !!

مینڈر چچا: ہا بھتیجے۔ ۔ ۔ اتنے برسوں بعد تمہاری شکل نظر آئی ہے۔ ۔ ۔ بہت خوشی ہو رہی ہے دیکھ کر، امید ہے کہ تم نے شادی وادی نہیں کی ہو گی۔ ۔ ۔ کیوں ؟

کمفرٹ: کیا کہا۔ ۔ ۔ شادی ؟ نہیں چچا جان۔ ۔ ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!

مسز کمفرٹ : (اسٹیج کے باہر سے آواز دیتی ہے ) ڈِک!

(کمفرٹ زور زور سے کھانستا ہے )

مینڈر چچا: کسی نے تمہیں آواز دی ہے غالباً۔

کمفرٹ: (بوکھلاتے ہوئے انداز میں ) نن۔ ۔ نہیں چچا جان، یہ ہمسائیوں کا طوطا ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب میں کیا کروں کہ ان دونوں کا سامنا نہ ہو پائے (مینڈر چچا سے ) چچا جان آپ بہت تھک گئے ہوں گے، اتنا لبا سفر جو کیا ہے آپ نے (اُنہیں بازُو سے پکڑ کر) میرا خیال ہے کہ آپ کو کچھ دیر کے لئے آرام کرنا چاہئیے۔ (ڈرائینگ روم کی طرف لے جاتا ہے ) اِدھر تشریف لے چلیں !

مینڈر چچا: (ہچکچاتے ہوئے ) لیکن بھتیجے، مجھے قطعاً تھکاوٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے۔

کمفرٹ: (مکھن لگاتے ہوئے ) یقیناً آپ نوجوانوں سے بھی زیادہ تندرست ہیں، لیکن پھر بھی۔ ۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: (باہر سے پکارتی ہے ) ڈِک!

کمفرٹ: (بوکھلاتے ہوئے ) افوہ۔ ۔ ۔ یہ طوطا بھی ناں، بڑا ہی شریر ہے یہ۔ ۔ ۔ کیسا انسانوں جیسا بولتا ہے۔ ۔ ۔ ہے ناں چچاجان؟

مینڈر چچا: پنجرے میں بند ہے کیا؟

کمفرٹ: جی؟ جی ہاں !! محترمہ پنجرے میں بند ہے۔ ۔ ۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ طوطا پنجرے میں بند ہے۔ ۔ ۔ اس طرف کو چچا جان (اُنہیں کمرے میں دہکیل دیتا ہے  اور درواز بند کر کے لقفل کر دیتا ہے ) لو جی یہ پنچھی بھی قید ہو گیا، اب میں ان کا کیا کروں، میرا خیال ہے کہ میں ایڈتھ سے پہلے نمٹوں  اور کسی طرح اُسے نکال باہر کروں (کمرہ نمبر ایک کی طرف جاتا ہے  اور نہایت احتیاط سے اس کا تالا کھولتا ہے ) ایڈتھ ڈارلنگ، تمھیں خاصی جلدی ہو گی (پکارتا ہے ) ہیرس، ہیرس (اسٹیج پر مسز کمفرٹ نمودار ہوتی ہے، روانگی کے لئے نیا لباس پہن رکھا ہے )۔

کمفرٹ: دیکھو کہیں ٹرین نہ چھوٹ جائے (دائیں جانب سے ہیرس داخل ہوتا ہے )۔

مسز کمفرٹ: لیکن ڈک، ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ کافی وقت ہے ٹرین کی روانگی میں !

کمفرٹ: اُس وقت کچھ ٹائم تھا لیکن اب نہیں بچا (ہیرس سے ) کیوں ہیرس، بگھی تیار ہے ؟

ہیرس: بگھی دروازے پر کھڑی ہے جناب!

کمفرٹ (تیزی سے ) وہی تو میں تم سے پوچھ رہا ہوں (مسز کمفرٹ سے ) اچھا ڈئیر، خدا حافظ! (کِس کرتا ہے ) میرا خیال ہے کہ تمھاری واپسی شام سے پہلے ممکن نہیں ہے، ظاہر ہے بھلا تم اتنی دور جا رہی ہو، شام سے پہلے کیسے لوٹ پاؤ گی(چچا مینڈر کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے )

مسز کمفرٹ: (چونکتے ہوئے ) ارے، یہ کیسی آواز تھی؟

کمفرٹ: (گھبرا کر) یہ۔ ۔ یہ غالباً کتّا ہے !

ہیرس: نہیں جناب، کتّا تو ابھی ابھی باہر گیا ہے، میرے سامنے۔

کمفرٹ: ابے چُپ رہ۔ ۔ ۔ یونہی اُول فُول بکے جاتا ہے، فضول میں اوور اسمارٹ بننے کی کوشش مت کرو (مسز کمفرٹ سے ) اللہ حافظ ایڈتھ (دوبارہ کِس کرتا ہے ) آج کا دن مزے سے اپنی ممی کے گھر گزارنا، اللہ حافظ (دروازہ نمبر ایک سے اُسے باہر نکال دیتا ہے، ہیرس بھی اُسی دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )

چچا مینڈر: (دروازے کوتھپتھپاتا ہوئے پکارتا ہے ) رچرڈ!

کمفرٹ: یہ کتّا تو بہت شور کر رہا ہے، شکر ہے ایڈتھ بروقت روانہ ہو گئی (دروازے کی چٹخنی کھولتا ہے ) کیا بات چچا جان، کیا ہوا؟ (چچا مینڈر اندر داخل ہوتا ہے ) کہیں آپ اپنے آپ کو لاک تو نہیں کر بیٹھے تھے غلطی سے ؟

چچا مینڈر : (تیز لہجے میں ) کیا کہا اپنے آپ کو لاک کر لیا تھا؟ ہرگز نہیں، یہ بھلا کیسے ممکن ہے، جب کہ لاک تو باہر کی جانب لگا ہوا ہے۔

کمفرٹ: (چابی کو انگلیوں پر گھماتے ہوئے ) افوہ، واقعی چٹخنی تو دروازے کے باہر لگی ہوئی ہے، لگتا ہے ہیرس نے غلطی سے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی تھی، نرا گدھا ہے وہ بھی۔ ۔ ۔ میں نے اُسے ہدایت کر رکھی ہے کہ دروازوں کو غیر ضروری طور پر کھلا نہ چھوڑا جائے، بس اُس نے اسی چکر میں دروازے کو مقفل کر دیا  اور آپ اندر بند ہو گئے۔

چچا مینڈر: ٹھیک ہے تمھارے نوکر نے غلطی سے ایسا کر دیا ہے لیکن آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔

کمفرٹ: امید ہے کہ آئندہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

چچا مینڈر: تو کیا اِس بار ضرورتاً ایسا کیا تھا اُس نے ؟

کمفرٹ: ارے چچا جان، ہی ہی ہی ہی۔ ۔ ۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔

چچا مینڈر: (مشتبہ انداز میں )  اور بھتیجے ! میں نے کسی عورت کی آواز بھی سُنی تھی، کون تھی وہ؟

کمفرٹ: ارے چچا جان، وہ طوطا تھا۔

چچا مینڈر: لیکن طوطا اس کمرے میں نہیں ہے، وہ کوئی عورت ہی تھا، مجھے سو فیصدی یقین ہے، کوئی عورت کسی مرد سے باتیں کر رہی تھی۔

کمفرٹ: (گھبرائے ہوئے انداز میں ) اوہ اچھا وہ۔ ۔ ۔ وہ تو ساتھ والوں کی نوکرانی تھی جو ہیرس سے باتیں کر رہی تھی (بیچینی سے ) لیکن چچا جان آپ نے سنا تھا کہ کیا باتیں ہو رہی تھی؟

چچا مینڈر: نہیں۔ ۔ ۔ کچھ خاص نہیں سنا، ہاں البتہ میں نے کسی شخص کو خدا حافظ کہتے ضرور سنا تھا۔

کمفرٹ: جی جی۔ ۔ ۔ ہیرس اُس نوکرانی کو خدا حافظ کہہ رہا تھا، در اصل وہ گاؤں جا رہی تھی۔

چچا مینڈر:  اور پھر کوئی کتے کی باتیں کر رہا تھا، کیا تم نے کوئی کتا بھی پال رکھا ہے ؟

کمفرٹ: جی جناب، کوئی درجن بھر!

چچا مینڈر: درجن بھر؟  اور طوطا تو تم نے خود ابھی ابھی کہا ہے کہ پال رکھا ہے۔ ۔ ۔ لگتا ہے کہ تمہیں گھرمیں چڑیا گھر بنانے کا بہت شوق ہے۔ ۔ ۔ کوئی  اور جانور بھی رکھا ہوا ہے ؟

کمفرٹ: نہیں  اور تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ جہاں تک شوقین مزاج ہونے کا تعلق ہے تو ایسا بھی نہیں ہے، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میری زندگی کتنی خاموش  اور الگ تھلگ ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ تقریباًکسی ریٹائرڈ شخص کی زندگی گزار رہا ہوں، ایسے میں کسی نہ کسی سنگت کا ہونا از حد ضروری ہوتا ہے۔

چچا مینڈر: تمہارے بیان سے تو لگتا ہے کہ تم معیار سے زیادہ مقدار پر یقین رکھتے ہو۔ بہرحال مجھے خوشی اس امر کی ہو رہی ہے کہ تم نے اپنی سنگت کے لئے اُن جانور کا انتخاب کیا ہے جو فطری طور پر تو وحشی ہوتے ہیں لیکن انسانوں کے وفادار ہوتے ہیں  اور اُن کے پاس کوئی عقل یا سوچ نہیں ہوتی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے تمہیں ہمیشہ جانوروں کی اُس نسل سے خبردار رہنے کی ہدایت کی ہے جو حیرت انگیز طور پر فکری  اور عقلی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے جانوروں کی نظروں میں ہم انسان لوگ وحشی ہوتے ہیں۔

کمفرٹ: ارے چچا جان، ایسا بھی نہیں ہے۔

چچا مینڈر: بہرحال یہ سچ ہے، اب تم اپنے ملازم کوہی لے لو (ہیرس سامنے والے دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے ) اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود وہ بہرحال بھرپور قوت۔ ۔ ۔

ہیرس: جناب کمفرٹ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (اُس کی طرف مڑتے ہوئے ) کیا ہے بے !

ہیرس: ایک صاحب۔ ۔ ۔

کمفرٹ: خاموش رہو!

ہیرس: ٹھیک ہے جناب لل۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔

کمفرٹ: میں کیا کہہ رہا ہوں ؟

ہیرس: وہ تو ٹھیک ہے جناب لل۔ ۔ لل۔ ۔ لیکن میریگل صاحب فرما رہے تھے کہ میں۔ ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: میریگل۔ ۔ ۔ جارج میریگل؟

ہیرس: یہ تو مجھے پتہ نہیں ہے لیکن وہ ابھی ابھی تشریف۔ ۔ ۔

کمفرٹ: ابے پہلے کیوں نہیں بتایا؟

ہیرس: میں بتانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن۔ ۔ ۔

کمفرٹ: تم بھی بہت ماٹھی چیز ہو۔

ہیرس: جی جناب!

کمفرٹ: اب میریگل کو فوراً بلا لاؤ۔ ۔ ۔ اب یہ نہ پوچھ بیٹھناکہ کتنا فوراً؟ (ہیرس سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )

ہیرس: (چچا مینڈر سے ) جارج میرا لنگوٹیا یار ہے، لیکن مدتوں سے میری اُس سے ملاقات نہیں ہو پائی ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک کچھ یاد کرتا ہے ) باپ رے باپ، میں تو بھول ہی گیا تھا، اُسے تو میری شادی کا علم ہے۔ ۔ ۔ کہیں چچا جان کے سامنے پھوٹ ہی نہ دے، میں تو تباہ ہو جاؤں گا (زوردار آواز میں ) چچا جان آپ نے آرام تو کیا ہی نہیں ہے، چلئے کچھ دیر مزید آرام کر لیجئے (اُنہیں بازو سے پکڑ لیتا ہے ) چلئے۔

چچا مینڈر: لیکن میں آرام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

کمفرٹ: تو پھرباہر کا ایک چکر لگا آئیں، بہت لطف آئے گا آپ کو۔ ۔ ۔ اس طرف کو چلئے (اُنہیں داہنی جانے لے جاتا ہے )

چچا مینڈر: نہیں رچرڈ، میں یہیں رہنا چاہتا ہوں (سامنے کے دروازے سے میریگیل داخل ہوتا ہے، جا بجا لباس پر کیچڑ کے چھینٹے ہیں )

میریگیل: آہا، ڈکی۔ ۔ ۔ میری یار، میرے جگر۔ ۔ ۔ مجھے از حد خوشی ہو رہی ہے تمہیں دیکھ کر ؎

وصالِ یار کی لذت بتا نہیں سکتا

کمفرٹ: ہاں یار، عرصہ دراز کے بعد تیری صورت نظر آئی ہے، سچ پوچھو تو ٹھنڈسی پڑ گئی ہے سینے میں۔

میریگیل: بالکل یار، کم از کم سال سے تو زیادہ عرصہ ہو گیا ہے تم سے ملے ہوئے، سچ بتاؤ، میری شکل بھی خاصی بدل گئی ہو گی؟

کمفرٹ: شکل تو خیر وہی ہے لیکن اس وقت تم زمین سے تازہ تازہ نکلے ہوئے آلو لگ رہے ہو۔

میریگیل: ہاہا ہاہا، مجھے پتہ تھا تم یہی کہو گے، یقین مانو یہ سارے کیچڑ کے دھبے میں تمہاری اَپروچ روڈ سے چنتا ہوا آیا ہوں۔ کیا بتاؤں کیسے سفر کر کے آیا ہوں اس راستے پر، ایمان سے تھکا مارا ہے کمبخت نے، سارا راستہ پیدل مارچ کرتے ہوئے کاٹا ہے، ڈپو میں ایک ہی بگھی تھی وہ بھی گاؤں کے کسی مشروٹ نے پہلے سے بُک کرا رکھی تھی ناچار اپنی دونوں ٹانگوں پر سوار ہو کر آنا پڑا ہے (چچا مینڈر کو دیکھتا ہے، منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے کہتا ہے ) لو جی، یہ بھی ٹپکے ہوئے ہیں (کمفرٹ سے ) آپ کی تعریف؟

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مارے گئے، اس سے تو چھٹکارا ممکن نہیں (چچا مینڈر سے ) چچا جان میں آپ سے اپنے ایک پرانے لنگوٹئیے سے تعارف کروانا چاہوں گا۔ ۔ ۔ یہ میریگیل ہیں !

میریگیل: آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ڈک کے خبطی چچا ہیں، مسٹر دولت خان ہوں گے صاف صاف۔

چچا مینڈر: (خفگی کے انداز میں ) میں نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا ہے۔

میریگیل: جی جناب، آپ کا بڑا پن ہے۔

چچا مینڈر: (پُر وقار انداز میں ) آپ نے جو ابھی ابھی مجھے طعنہ دیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہایت نامناسب ہے۔

میریگیل: اوہو، تو آپ نے سُن لیا کہ میں نے آپ کو  ’’بوڑھا خبطی‘‘ کہا ہے۔ ۔ ۔ ارے اس پر ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، ہر بوڑھا آدمی اعصابی کمزوری کا شکار ہوتا ہے، آپ بھی اس خصوصیت سے مستثنیٰ نہیں !

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خاصا کھُلا ڈھلا بندہ لگتا ہے۔

کمفرٹ: (میریگیل کو منظر سے ہٹانے کے لئے بہت بے چین ہے ) یار جارج! مجھے پتہ ہے کہ تم نے یہ کیچڑسے لتھڑے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے ہوں گے۔ ۔ ۔ کیوں ؟

میریگیل: نہیں یار، ابھی تو تم سے اچھی طرح ہاتھ بھی نہیں ملائے ہیں (کمفرٹ کا ہا تھاپنے ہاتھ میں لے کر) میرا ارادہ کچھ عرصہ یہیں قیام کرنے کا ہے۔ ابھی تو میں اپنے ایک  اور دیرینہ دوست سے ملنے جا رہا ہوں، ویسے یہاں چلت پھرت کرنا خاصا دشوار ہے میرے لئے، لیکن خیر، کچھ دِنوں میں عادی ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔ ہا، ڈکی۔ ۔ ۔ کتنا عرصہ ہو گیا ہے تم سے بات کئے ہوئے، لگتا ہے صدیاں بیت گئی ہیں۔ ۔ ۔ کیسے ہریل طوطے ہوا کرتے تھے تم شادی سے پہلے !!

کمفرٹ: ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ شاید پہلے۔ ۔ ۔

چچا مینڈر: ہیں۔ ۔ ۔ شادی؟

(کمفرٹ بُری طرح کھانستا ہے )

میریگیل: زیادہ شرمانے کی ضرورت نہیں (اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے ) کہاں چھپا رکھا ہے تم نے بھابی کو؟میں تو ابھی تک اُنہیں دیکھ بھی نہیں پایا ہوں۔ ۔ ۔ تم نے منگنی کا اعلان کیا تھا تو میری پوسٹنگ ہندوستان میں ہو گئی تھی۔ میں اُنہیں دیکھے بغیر ہی ہندوستان چلا گیا تھا۔

(کمفرٹ دوبارہ کھانستا ہے )

میریگیل: اس قدر کھانسی۔ ۔ ۔ ۔ تم تو واقعی بوڑھے ہو گئے ہو ڈکی!

چچا مینڈر: کیوں جی میریگیل! یہ آپ کس کی شادی کی بات کر رہے ہیں ؟

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ میرا تو قصہ ہی بیباق ہو گیا۔

میریگیل: ظاہر ہے جناب! میں ڈک کی بات کر رہا ہوں۔ عجیب احمق شخص ہے یہ ڈک بھی۔ ۔ ۔ کالج میں بھونڈ مشہور تھا، کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اسے کسی لڑکی سے اِسقدر جذباتی انسیت ہو سکتی ہے کہ اُس سے شادی پر ہی تُل جائے، اس کی شادی کی خبر ہم سب دوستوں کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھی۔

چچا مینڈر: کیوں رچرڈ، تم نے اس بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا؟ (سخت لہجے میں ) کہیں تم مجھے دھوکہ تو نہیں دیتے رہے ہو؟؟

کمفرٹ: اوہ چچا جان۔ ۔ ۔ اللہ کا نام لیں، میں بھلا ایسا کر سکتا ہوں ؟

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) شادی کے ذکر سے تو یہ چڑ ہی گیا ہے (زور دار آواز میں ) کیوں ڈک؟ کیا نسبت برقرار نہیں رہ پائی تھی؟اس کا بھی وہی انجام ہوا تھا جو ایسی حماقتوں کا ہوتا ہے ؟

کمفرٹ: جج، جی چچا جان۔ ۔ ۔ کیسی نسبت  اور کہاں کی شادی، جیسی طے پائی، ویسی فوراً ٹوٹ بھی گئی، قریباً چھ ماہ قبل کی بات ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے آنکھ مارتے ہوئے ) اُس وقت میں شادی شدہ تھا (میریگیل سے ) میرا خیال ہے کہ تمہیں اب اپنے کپڑے تبدیل کر لینے چاہئیں !!

میریگیل: وہ تو ٹھیک ہے یار لیکن میں تو کپڑے لایا ہی نہیں ! یہی کپڑے ہیں جو پہنے ہوئے ہیں !

کمفرٹ: میں تمہیں اپنے دئیے دیتا ہوں (پکارتا ہے ) ہیرس!

میریگیل: مجھے بہت افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ خصوصاً شادی والے ذکر پر!!

کمفرٹ: چھوڑو یار! لیکن اب مزید نہیں، ٹھیک ہے ناں !!

(ہیرس سامنے والے دروازے سے داخل ہوتا ہے )

کمفرٹ: (ہیرس سے ) ہیرس! محترم میریگیل کو میری خوابگاہ میں لے جاؤ۔ ۔ ۔  اور میریگیل! میرا خیال ہے کہ میرا ایک استری شدہ

سوٹ کرسی پر پڑا ہوا ہے، جب تک تمہارے کپڑے صاف نہیں ہو جاتے، تم وہی پہن لو!

ہیرس: ٹھیک ہے جناب! (ہیرس  اور میریگیل داہنی طرف والے دروازہ نمبر۲ سے نکل جاتے ہیں )

چچا مینڈر: اب بتاؤ رچرڈ۔ ۔ ۔ تم نے مجھے اپنی اُس نسبت کے بارے میں کیوں نہیں بتایا تھا؟

کمفرٹ: (بوکھلائے ہوئے انداز میں ) در اصل چچا جان۔ ۔ ۔ مم،م میں بتانا چاہ رہا تھا آپ کو لیکن آپ اُس وقت گھر پر نہیں تھے، کہیں گئے ہوئے تھے !

چچا مینڈر: تو کیا بنا تھا اُس نسبت کا، ٹوٹ گئی تھی؟؟

کمفرٹ: جی۔ ۔ ۔  اور باہمی مشاورت سے۔ ۔ ۔ مم میں کچھ زیادہ ہی حساس تھا اس معاملے میں، سچوئشن ہی کچھ ایسی ہو گئی تھی۔

چچا مینڈر: مجھے خوشی ہوئی یہ بات سن کر۔ ۔ ۔  اور میں بتاؤں کہ بیوی کا کام کیا ہوتا ہے، صرف  اور صرف مصیبتیں پیدا کرنا  اور بس!

کمفرٹ: جی، جی، یہی احساس تھا ہماری علیحدگی کا!!

چچا مینڈر: آئندہ ایسی کسی حماقت میں ملوث مت ہونا، مجھے تمہاری شادی کے متعلق کوئی خبر نہیں آنی چاہئیے ورنہ۔ ۔ ۔

کمفرٹ : نہیں چچا جان، اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب سے میری نسبت ٹوٹی ہے، میں نے کسی دوسری خاتون کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔

چچا مینڈر: بہت اچھے بھتیجے، اب تم عقل کی بات کر رہے ہو۔ ۔ ۔ یہ اگلی ٹرین کب تک آئے گی یہاں ؟

کمفرٹ: (گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے ) پانچ منٹوں میں آنے والی ہے اگلی ٹرین!

چچا مینڈر: بس اسی ٹرین سے آ رہی ہے میری بیوی!

کمفرٹ: (حیرانی سے ) آپ کی بیوی؟ آپ کا مطلب ہے آنٹی کلی مینٹینا؟

چچا مینڈر: ظاہر ہے، تمہارا کیا خیال ہے، کتنی بیویاں ہیں میری؟؟

کمفرٹ: آپ نے اُن کی آمد کا تذکرہ نہیں کیا تھا!

چچا مینڈر: ہیں ؟ میں نے نہیں لکھا تھا اپنے خط میں اس بارے میں ؟ بھئی مہا غلطی ہو گئی مجھ سے، اُنہوں نے آنا تو میری والی ٹرین میں تھا لیکن پھر کسی کام سے ٹھہر گئیں کہ اگلی ٹرین میں آ جائیں گی۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ آج کا دن استقبالوں کی نذر ہی ہو جائے گا۔

چچا مینڈر: اب اِسی کو لے لو رچرڈ، تم نے یہ بات محسوس کی ہو گی  اور اسی سے ضرور سبق سیکھا ہو گا کہ ہم میں ذرا سی غلط فہمی پیدا ہوئی تھی،  اور اب تک ہم میں بات چیت بند ہے۔

کمفرٹ: اوہ۔ ۔ ۔ یہ تو بہت بُرا ہوا۔

چچا مینڈر: ارے نہیں بھتیجے، میرے حق میں تو بہت ہی اچھا ہوا ہے۔ تم شاید اسے میری عادت سمجھ رہے ہو لیکن جب عادت پختہ ہو جائے تو فطرت کا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے، سمجھ رہے ہو ناں میری بات؟؟

کمفرٹ: جی چچا جان۔

چچا مینڈر:  اور اگر تمہاری چچی، یعنی میری بیوی تم سے یہ کہے کہ تم اس شخص کو، یعنی مجھے جانتے ہو تو تم بخوشی کہہ سکتے ہو کہ نہیں جانتے۔

کمفرٹ: کیا مطلب ہے آپ کا، کیا میں بالکل ہی اجنبیت کا اظہار کر دوں ؟

چچا مینڈر: ارے نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ بس جب وہ پوچھے تو برأت کا اظہار کر دینا۔ ۔ ۔ وہ تمہارے جواب سے خوش ہو جائے گی  اور یقین مانو اس سے میرے جذبات مجروح نہیں ہوں گے، میں خود جو تم سے ایسا کرنے کو کہہ رہا ہوں، یہی اُس کی فطرتِ ثانیہ کا تقاضہ بن گیا ہے۔ ہاں البتہ اگر تمہیں اس پر اعتراض ہے تو ہم یہ بیویوں والا باب ہی بند کر دیتے ہیں۔

کمفرٹ: یہ ٹھیک رہے گا چچا جان۔

چچا مینڈر:  اور ہاں، وہ تمہارا طوطا، کریسوٹس نسل کا ہے، یا ایریتھیکس ہے وہ؟

کمفرٹ: (شش و پنج میں ) پتہ نہیں جناب، بس سیدھا سا دا ساہرے رنگ کا طوطا ہے، بولنے والا طوطا!!

چچا مینڈر: بہت جی چاہ رہا ہے اُسے دیکھنے کا۔

(ہیرس داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتا ہے )

کمفرٹ: (پریشان ہو کر) مم۔ ۔ ۔ معذرت چاہتا ہوں جناب۔ ۔ مم مگر۔ ۔ ۔

چچا مینڈر: اگر مگر مت کرو بھتیجے، تمہارا یہ بندہ اُسے لے آئے گا (ہیرس سے ) جیمز، طوطا اُٹھا لاؤ!!

ہیرس: (حیرانی سے ) کون سا طوطا جناب؟

چچا مینڈر: طوطا۔ ۔ ۔ طوئیں وا طو، طوئیں الف طا، طوطا۔ ۔ ۔

ہیرس: (کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کمفرٹ کی طرف دیکھ کر) میرا خیال ہے جناب کہ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (تیزی سے ) خیال۔ ۔ ۔ لو بھئی اب اِن کا بھی کوئی خیال ہونے لگا۔ ۔ ۔ ابے خیال ویال کو چھوڑ  اور طوطے کو اٹھا کر لے آ۔ ۔ ۔

ہیرس: آپ کا مطلب ہے کہ لائبریری سے اُٹھا کر لے آؤں۔ ۔ ۔ وہ جو بھس بھرا طوطا ہے، اُون والا؟

کمفرٹ: کیا مطلب ہے تیرا۔ ۔ ۔ ابے ماٹھی سرکار! وہ جو اصلی پروں والا ہے وہ اُٹھا کے لا۔

ہیرس: (کچھ نہ سمجھتے ہوئے ) جج جی جناب

کمفرٹ: ابے جلدی بھاگ  اور اُس کے بغیر منہ نہ دکھانا۔ ۔ ۔

ہیرس: جج جج جی جناب (سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )

چچا مینڈر: کیا تمہارے پاس ایک سے زیادہ طوطے ہیں ؟

کمفرٹ: جی ہاں۔ ۔ ۔ کوئی درجن بھر ہوں گے، دوسروں کو تو میں بھول ہی گیا ہوں۔

(میریگیل داخل ہوتا ہے، جوکروں والے کپڑے پہنے ہوئے ہیں )

میریگیل: کیا اس سے بہتر کپڑے نہیں تھے میرے لئے ؟

کمفرٹ: ارے، یہ کیا پہنا ہوا ہے تم نے ؟؟

میریگیل: کیا کہہ رہے ہو یار، تم نے کہا تھا کہ کرسی پر رکھے ہوئے کپڑے پہن لوں، کرسی پر تو یہی رکھے ہوئے تھے۔ تمہارا بندہ میرے کپڑے اُٹھا کر لے گیا، وہاں اِن کپڑوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ نہ پہننے سے تو بہرحال بہتر تھا کہ یہی کپڑے پہن لوں !

کمفرٹ: شکر ہے کہ تم نے کچھ بھی نہ پہننے کو ترجیع نہ دی، میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں نے اس سوٹ کے بارے میں نہیں کہا تھا، یہ تو خول پارٹی میں پہننے کے لئے ہوتا ہے (قہقہہ لگاتا ہے ) یار، تم تو بالکل جوکر لگ رہے ہو اس میں۔

میریگیل: وہ تو لگنا ہی تھا، ظاہر ہے تم یہی چاہتے تھے کہ میں جوکر نظر آؤں۔

کمفرٹ: (بدستور ہنستے ہوئے )معاف کرنا یار۔ ۔ ۔ اب براہِ مہربانی ان کپڑوں کو اُتار ہی دو تو بہتر ہے۔

میریگیل: نہیں نہیں، مجھے اس میں بڑا مزا آ رہا ہے، دیکھو، دیکھو میں پھر جوان ہو گیا ہوں، (رقص کرنے کے انداز میں میز کے گرد ایک چکر لگاتا ہے، اُس کی نظر کارنس پر پڑی ہوئی مسز کمفرٹ کی تصویر پر پڑتی ہے، وہ رُک کر اُسے دیکھنے لگتا ہے )

چچا مینڈر: یہ انتہائی بچگانہ انداز سے نوجوان بننے کی کوشش کر رہا ہے، ذرا دیکھو تو سہی رچرڈ!

میریگیل: (تصویر کو دیکھتے ہوئے ) کیوں ڈِک، یہ کون ہے ؟ بڑی خوبصورت لڑکی ہے !!

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میری بیوی کی ہے  اور کس کی ہے (بُری طرح کھانستا ہے  اور پھر جلدی سے کہتا ہے ) تو میں آپ کو بتا رہا تھا چچا جان کہ مجھے طوطے پالنے کو بہت سے بھی کچھ زیادہ شوق ہے۔ ۔ ۔ بلکہ میں تو اُنہیں دوسرے تمام پالتو جانوروں پر ترجیع دیتا ہوں  اور یہ جو سبز رنگ والے طوطے ہیں، یہ تو میرے فیورٹ ہیں۔ ۔ ۔ کتنے۔ ۔ ۔ کتنے سبز ہوتے ہیں واہ!

میریگیل: (سٹیج کے نچلے والے حصے میں کمفرٹ کی طرف آتا ہے، تصویر اب بھی اُس کے ہاتھ میں ہے ) کیا کہا تھا تم نے کون ہے یہ، کوئی رشتہ دار ہے یہ تمہاری؟

کمفرٹ: (جان بوجھ کر لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ) کیا؟ رشتہ دار؟؟ کیسا رشتہ دار؟؟ کس کا رشتہ دار؟؟

میریگیل: ارے یہی جو من موہنی سی لڑکی ہے (تصویر چچا مینڈر کو دکھاتا ہے  اور کمفرٹ کو شرارت سے کمر پر ٹہوکا دیتا ہے ) خوبصورت ہے ناں ؟

کمفرٹ: (تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے ) ارے ! یہ کہاں سے ملی تمہیں ؟

میریگیل: کارنس سے  اور کہاں سے، کون ہے یہ؟

کمفرٹ: (شش و پنج میں کہ کیا کہے ) یہ۔ ۔ ۔ اچھا اچھا یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ تو ملازمہ کی تصویر ہے، جی ہاں ہماری ملازمہ ہے یہ!!

میریگیل: ملازمہ؟ کیا بدنصیبی ہے، اتنی خوبصورت لڑکی  اور ملازمہ، ارے یہ تو کسی شہزادی سے ہرگز ہرگز کم نہیں لگتی (تصویر چچا مینڈر کے حوالے کر دیتا ہے ) آپ خود ہی ایمان سے کہیں بزرگو، کیا یہ کسی شہزادی کی تصویر نہیں ہے ؟؟

چچا مینڈر: لیکن رچرڈ! ایک ملازمہ کی تصویر تمہارے نشست والے کمرے میں کیا کر رہی ہے، مجھے تو تمہارا ذوق قطعاً پسند نہیں آیا۔

کمفرٹ: مم مجھے نہیں پتہ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں یہ یہاں کیسے آ گئی، ہو نہ ہو یہ ہیرس کے کام ہیں، وہی اسے وہاں بھولے سے رکھ گیا ہو گا۔ یقیناً ملازمہ نے اُسے دی ہو گی  اور وہ اسے یہاں چھوڑ گیا ہو گا، یہ جارج کچھ ایسا ہی بھلکڑ ہے !

چچا مینڈر: بہت ہی ماٹھا ہے یہ جارج بھی!

کمفرٹ: بالکل جناب، سو فیصد ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔

میریگیل: (تصویر پر نظر جمائے ہوئے ہے ) اس پری کا نام کیا ہے ڈکی؟

کمفرٹ: نن نام۔ ۔ ۔ سس، سیلی، جی ہاں سیلی نام ہے اس کا!

میریگیل: کیا مجھے دیدار کرا سکتے ہو اس کا؟ یار نکالو کہاں چھپا رکھا ہے یہ حُسن کا خزانہ!!

کمفرٹ: ناممکن!

میریگیل: نہیں یار بس ابھی کے ابھی، پلیز!

کمفرٹ: میں نے کہا ناں کہ اس وقت یہ ممکن نہیں۔ ۔ ۔ یہ قصبے میں گئی ہوئی ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) آج تو اتنے جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں کہ اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہوں گے۔

میریگیل: واپس کب لوٹے گی؟

کمفرٹ: (قدرے غصے سے ) ایسا لگ رہا ہے میریگیل کہ تم میری۔ ۔ ۔ میری، میری ملازمہ میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہو۔

میریگیل: بالکل، یہ چیز ہی کچھ ایسی لگ رہی ہے۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میں اس بدبخت سے ٹھیک ہی ڈر رہا تھا، ایک دو سوال  اور کئے اس نے تو سارا دودھ کا دودھ  اور پانی کا پانی سامنے آ جائے گا۔

میریگیل: کیوں ڈک، تم نے بتایا نہیں کہ۔ ۔ ۔ ؟

کمفرٹ: (بات کاٹتے ہوئے ) نن نہیں اس تذکرے کو چھوڑیں، اس وقت مجھے ایک  اور فوری مسئلہ درپیش ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی ایک  اور جھوٹ کے لئے تیار ہو جائیں، واہ ! کیا شیطانی دماغ پایا ہے میں نے بھی، لیکن کیا کیا جائے اس مشروٹ کی بے لگام تیغ زنی سے بچنے کا  اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں ہے، یہ شخص اُس وقت تک منہ بند نہ کرے گا جب تک بات کے موضوع کو ہی تبدیل نہ کر دیا جائے (با آوازِ بلند) میں آپ دونوں سے کچھ دیر کے لئے معذرت چاہتا ہوں، بس تھوڑی دیر بعد حاضر ہوتا ہوں۔

(سامنے کے دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتا ہے )

میریگیل: کیوں انکل جی! کیا یہ قابلِ افسوس بات نہیں ہے کہ اس قدر حسین لڑکی اپنی زندگی کو ملازمہ کی حیثیت سے برباد کر رہی ہے، آپ کیا کہتے ہیں اس معاملے میں ؟

چچا مینڈر: (قدرے تلخی سے ) میں اِس معاملے میں کچھ نہیں کہتا (اپنے کوٹ کی داہنی جیب سے اخبار نکالتا ہے  اور کرسی پر دراز ہو کر پڑھنے لگ جاتا ہے )

میریگیل: مجھے پتہ تھا جناب کہ آپ یہی کہیں گے کہ آپ اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں، وہ تو میں خود بھی نہیں ہوں، لیکن ذرا سی دیر کے لئے یہی سوچ لیں کہ اس جیسی حسین و جمیل دوشیزہ ملازمہ کی حیثیت سے کیسے زندگی گزارتی ہو گی، کیسی کرب ناک زندگی ہو گی اس کی، یک و تنہا، جیسے صحرا میں کوئی اکیلا آدمی (جواب کا انتظار کرتا ہے ) ذرا اپنے آپ کو اس ملازمہ کی جگہ رکھ کر سوچیں، آپ کو پسند آئے گی ایسی زندگی؟ میرا مطلب ہے کہ آپ اس قسم کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے ؟ لطف اندوز ہونے سے میری مراد۔ ۔ ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ۔ ۔ ۔ (چچا مینڈر کی طرف دیکھتا ہے جو مطلقاً توجہ نہیں دیتے ہیں )

(منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میرا خیال ہے کہ اس وقت میرے بات کا کوئی مطلب نہیں نکل سکتا اس لئے کہ یہ موصوف تو مجھے قطعی طور پر نظر انداز کرنے کے چکر میں ہیں (کچھ توقف کے لئے چُپ چاپ کھڑا رہتا ہے پھر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) خاصا ماٹھا کر کے رکھ دیا ہے یہاں کی آب و ہوا نے بھی۔ ۔ ۔

(ہیرس سامنے والے دروازے سے داخل ہوتا ہے، اس کے پیچھے مسز مینڈر  اور اس کی ملازمہ سیلی ہیں، ہیرس اعلان کرنے والے انداز میں کہتا ہے ) مادام کلی مینٹینامینڈر(چچا مینڈر چوکنے ہو جاتے ہیں لیکن بدستور اخبار پڑھتے رہتے ہیں، میریگیل اُٹھ کھڑا ہوتا ہے )

مسز مینڈر: (تقریباً چیختے ہوئے ) اوئی سارا۔ ۔ ۔ یہ کیا چیز ہے ؟

سیلی: کسی سرکس کا جوکر لگتا ہے مادام!

ہیرس: ہو سکتا ہے کہ میریگیل صاحب نے بھیس بھر رکھا ہو (ہیریگیل سے ) میں اِنہیں آپ کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا جناب!

میریگیل: بھیس بھرا ہوا ہے ؟ چل بے !! (مسز مینڈر سے جھک کر کہتا ہے ) میں جارج میریگیل ہوں مادام، آپ کا خادم!!

مسز مینڈر: میرے خادم۔ ۔ ۔ ہا ہا ہا ہا، تم بھلا میری کیا خدمت کر سکتے ہو؟

ہیرس: مادام، یہ کمفرٹ صاحب کے دوست جارج میریگیل ہیں (میریگیل سے ) معذرت جناب، میرا خیال تھا کہ شاید آپ نے خول پارٹی کے لئے بھیس بھرا ہوا ہے۔

مسز مینڈر: اوہ تو یہ کمفرٹ کا دوست ہے !

ہیرس: جی مادام، یہ کمفرٹ کے دیرینہ دوست ہیں۔

مسز مینڈر: سارا، کیا واقعی ہیرس نے یہی کہا ہے کہ یہ کمفرٹ کا دوست ہے ؟

سیلی: جی مادام، سنا تو میں نے بھی یہی ہے۔

مسز مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اگر یہ کمفرٹ کادوست ہے تو اس کا دشمن کیسا ہو گا ؟

(ہیرس سامنے والے دروازے سے ہنستا ہوا چلا جاتا ہے )

میریگیل: مادام، میں معذرت چاہتا ہوں اگر میری کسی بات سے آپ کویا آپ کی بیٹی کو کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو۔

مسز مینڈر: میری بیٹی؟ کون میری بیٹی؟۔ ۔ ۔ یہ میری فرانسیسی ملازمہ ہے۔

(سیلی آداب کہنے کے انداز میں جھکتی ہے، چچا مینڈر ہونٹ سکوڑ کر ہلکی سی سیٹی بجاتے ہیں )

مسز مینڈر: (قدرے غصے سے ) کیوں سارا ! یہ کون صاحب ہیں ؟

سیلی: پتہ نہیں مادام، مجھے تو سیٹی بجانے والا کوئی باگڑ بلا قسم کی چیز دکھائی دیتی ہے۔

(چچا مینڈر اپنی بے عزتی کے احساس پر سرخ پڑ جاتے ہیں  اور سیٹی بجانا بند کر دیتے ہیں )

میریگیل: ارے آپ نہیں جانتیں ؟ یہ ڈِکی، میرا مطلب ہے کہ کمفرٹ کے چچا ہیں۔

مسز مینڈر: کیوں سارا؟ کیا اس نے کمفرٹ کا نام لیا ہے ؟

سیلی: سنا تو میں نے بھی یہی ہے مادام!

مسز مینڈر: مجھے تو یہ صاحب ایسے چمگادڑ دکھائی دیتے ہیں جو اپنے آپ کو عقاب کہہ رہے ہوں، لیکن میں دہوکہ نہیں کھا سکتی کیونکہ میں نے چمگادڑ کو دیکھا ہوا ہے (چچا مینڈر سے ) سُن رہے ہو تم؟

چچا مینڈر: جی جی، بالکل سُن رہا ہوں، ایک ایک لفظ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لیکن یہ کہہ کیا رہی ہے آخر؟

سیلی: چمگادڑ تو میں نے بھی دیکھ رکھا ہے مادام

میریگیل:  اور میں نے بھی (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اس سے زیادہ عزت افزائی اِس بڈھے کی  اور کیا ہو گی (مسز مینڈر سے ) میں آپ سے صاحب کا تعارف کرانا چاہوں گا مادام (چچا مینڈر بے چینی سے پہلو بدلتا ہے )

مسز مینڈر: خاموش! تم کیا جانتے ہوں ان کے بارے میں !!

میریگیل: نہیں مادام میں جانتا ہوں اِن۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: یہی ناں کہ یہ صاحب  اور میں اجنبی ہیں ؟

میریگیل: جج جی مادام لل لیکن۔ ۔ ۔

مسز مینڈر:  اور میں چاہوں گی کہ ہم بدستور اجنبی ہی رہیں (چچا مینڈر سے ) سُن رہے ہیں اجنبی صاحب؟

میریگیل: معذرت خواہ ہوں مادام، میرا یہ مطلب نہیں تھا، میں آپ پر اِن بزرگوار کی واقفیت زبردستی تھوپنا نہیں چاہتا ہوں لیکن میں بس اِتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ صاحب بہت اچھے اخلاق و عادات کے مالک ہیں  اور آپ ان کی معیت میں خوش رہیں گی۔ ۔ ۔ ۔ تاہم، جیسی آپ کی مرضی (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) عجیب گڑبڑ گھوٹالہ ہے بھئی ان خاتون کا مزاج بھی۔

مسز مینڈر: سارا۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ یہ جو اجنبی صاحب ہیں یہ اپنے متعلق میرے خیالات سے بخوبی واقف ہوں گے، کیوں ؟

سیلی : اگر ان میں کامن سینس ہے تو یقیناً واقف ہوں گے مادام !

(چچا مینڈر دوبارہ ہونٹ سکوڑ کر سیٹی بجانا شروع کر دیتے ہیں )

مسز مینڈر: دیکھو، دیکھو، اس نامعلوم شے نے پھر شونکنا شروع کر دیا ہے ! میرے تو دست و پے میں چنگاریاں نکلنے لگتی ہیں یہ آواز سن کر!

سیلی : (چچا مینڈر سے ) کیوں جناب، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے سیٹی بجانے کے شوق کو کسی دوسرے خوشگوار لمحے کے لئے موقوف فرما دیں، یہ معزز خاتون احتجاج کر رہی ہیں۔

(چچا مینڈر سیٹی بجاتے رہتے ہیں، کمفرٹ سامنے والے دروازہ نمبر ۲ سے ظاہر ہوتا ہے )

کمفرٹ : آخاہ۔ ۔ ۔ محترم چچی جان! مزاج شریف؟

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ایں ؟ ڈک کی چچی ؟ یہ کیا گیم ہے بھئی!

کمفرٹ: مجھے امید ہے کہ آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ہو گا۔

مسز مینڈر: (کمفرٹ کو آغوش میں لیتے ہوئے ) کیا حال ہے بچے ! کتنا عرصہ ہو گیا ہے تمھیں دیکھے ہوئے !!

کمفرٹ: مجھے امید ہے کہ میرے دوست میریگل نے آپ کو خاصا محظوظ کیا ہو گا۔

مسز مینڈر: تمھارا دوست؟ کیا واقعی یہ تمھارا دوست ہے (سیلی سے ) کہیں میرے کان دھوکا تو نہیں دے رہے، میں نے ابھی ابھی رچرڈ کو کہتے سُنا ہے کہ یہ شخص۔ ۔ ۔ یہ سامنے والا شخص اس کا دوست ہے ؟

سیلی: جی مادام، آپ نے بالکل ٹھیک سُنا ہے، ماسٹر کمفرٹ نے اِنہیں دوست ہی کہا ہے۔

مسز مینڈر: ہائے رچرڈ، تمھارا معیار کتنا گر گیا ہے۔ ۔ ۔ ٹھیک کہا ہے کسی نے، ہر آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کیا اب تم سرکس کے جوکروں اور بازیگروں سے بھی دوستی کرنے لگے ہو؟

(کمفرٹ بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکتا ہے )

میریگل: لل۔ ۔ ۔ لیکن محترمہ مم۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔

کمفرٹ: نہیں چچی جان آپ غلط سمجھ رہی ہیں، محترم میریگل نہ تو سرکس کے جوکر ہیں  اور نہ ہی کسی قسم کے بازیگر، بلکہ خاصا معزز قسم کا خوش پوش، یار باش انسان ہے۔ ان کے کپڑوں پر کیچڑ لگ گیا تھا، چنانچہ اِنہیں اپنے کپڑے اتارنے پڑے، غلطی سے یہ میرے خول پارٹی والا لباس پہن گئے ہیں۔ ۔ ۔ خاصے مضحکہ خیز لگ رہے ہیں، ہیں ناں ؟

(کمفرٹ ہنستا ہے، چچا مینڈر بھی اُن کی ہنسی میں شریک ہو جاتا ہے )

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ویسے سرکس کا جوکر قرار دینے والا آئیڈیا بُرا نہیں، بلکہ اس شخص کی شخصیت سے تو خاصا میل بھی کھاتا ہے یہ لقب۔ ۔ ۔ سرکس کا جوکر۔ ۔ ۔ ۔ ہاہاہاہا۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: (پُر وقار انداز میں ) حیرت ہے ڈک۔ ۔ ۔ تم کہہ رہے ہو کہ یہ شخص کوئی معزز شخص ہے، چلو مانا کہ ایسا ہی ہو گا، لیکن یہ کیسا معزز شخص ہے جس کے لباس پر کیچڑ لگا ہوا تھا۔ ۔ ۔  اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تم نے اس قسم کا جوکروں والا لباس اپنے گھر میں کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟

(چچا مینڈر ہنستے ہیں )

مسز مینڈر: اور، رچرڈ، یہ کون شخص ہے ؟

کمفرٹ: یہ۔ ۔ ۔ کک۔ ۔ ۔ کیا آپ نہیں جانتی کہ یہ کون ہیں۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ (اچانک اُسے چچا مینڈر کا کہا یاد آ جاتا ہے ) نن۔ ۔ ۔ نہیں چچی جان، مجھے نہیں پتہ کہ یہ کون ہیں !

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بال بال بچا ہے بچونگڑا۔ ۔ ۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ ڈک کہہ کیا رہا ہے ؟ باؤلا ہو گیا ہے کیا؟

مسز مینڈر: شکر ہے کہ تم نہیں جانتے اِسے۔ ۔ ۔ جب سے میں یہاں آئی ہوں، یہ میرا مذاق اُڑائے جا رہا ہے۔

کمفرٹ: ایں۔ ۔ ۔ مذاق اُڑا رہا ہے آپ کا؟

سیلی: جی جناب! جب سے ہم لوگ یہاں داخل ہوئے ہیں، یہ مالکن کو چڑائے جا رہے ہیں۔

مسز مینڈر: خاصی متنازعہ قسم کی شے ہے یہ۔ ۔ ۔ رچرڈ!اِسے کسی بھی طور یہاں سے چلتا کرو!

(چچا مینڈر سیٹی بجانے لگتے ہیں )

کمفرٹ: (انداز میں نخوت پیدا کرتے ہوئے زور سے ) کیوں محترم! آپ تشریف لے جائیں گے یہاں سے ؟ (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے عاجزی سے ) چچا جان! سٹنگ روم میں سگار کی نئی ورائٹی آپ کی منتظر ہے !!

چچا مینڈر: (اُٹھتے ہوئے ) مجھے سگار وگار کا کوئی شوق نہیں لیکن چلیں، یہاں سے جانے کا بہانہ ہی سہی!!

(سامنے والے دروازے سے نکل جاتا ہے )

کمفرٹ: (میریگل سے ) جارج۔ ۔ ۔ مجھے علم ہے کہ تمھیں سگار خاصے پسند ہیں !

میریگیل: ہاں ڈک، تمھاری معلومات میرے بارے میں بالکل صحیح ہیں، میں تو سگار کا دیوانہ ہوں اس لئے میں بھی چلا چچا مینڈر کے پاس!! (وہ بھی سامنے والے دروازے سے نکل جاتا ہے )

مسز مینڈر: (کمفرٹ کے گرد لاڈ سے اپنی بانہیں حمائل کرتے ہوئے ) آہ رچرڈ۔ ۔ ۔ میری زندگی تو افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔

سیلی: نہیں مادام۔ ۔ ۔ ایسا نہ کہیں !

مسز مینڈر: سارہ! تم میری سرپرست بننے کی کوشش مت کرو!!

سیلی: سوری مادام، میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا، میں کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ کمال کا صبر رکھتی ہیں۔

مسز مینڈر: بالکل درست کہا ہے سارہ تم نے، یہ میری شال  اور ہیٹ پکڑنا۔ ۔ ۔ ۔

(دونوں چیزیں اُسے پکڑاتی ہے  اور خود رونا شروع کر دیتی ہے )

مسز مینڈر: میری زندگی ایک سائے سے بندھی ہوئی ہے، ہر گزرتا لمحہ مجھ پر کوڑے برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتے رچرڈ کہ مینڈر مجھ سے کیسا سلوک کر رہا ہے۔

کمفرٹ: یہ تو بہت بُرا ہوا۔ ۔ ۔ کیا آپ دونوں میں اکثر جھڑپ رہتی ہے۔

مسز مینڈر: (روتے ہوئے ) جھڑپ؟ ارے جھگڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کہو!

سیلی: جناب! مادام صحیح فرما رہی ہیں، بہت زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں دونوں میں، مادام صاحب سے ہر وقت لڑتی رہتی ہیں۔

مسز مینڈر: (درشتی سے ) سارا؟ میں کب لڑتی ہوں اُن سے ؟

سیلی: (جلدی سے ) جج، جی مادام! آپ ان سے جھگڑا نہیں کرتی ہیں، وہی آپ سے ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔

مسز مینڈر: (کمفرٹ کے گرد بازو حمائل کرتی ہیں  اور اُس کے کندھے پر سر رکھ دیتی ہیں ) وہ مجھ سے اتنی بے اعتنائی برتتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنا یہ تھکا ماندہ سر کس کے کاندھے پر رکھوں !

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے خاصی پریکٹس کرتی رہی ہیں محترمہ اِس ایکٹ کے لئے !

مسز مینڈر: خود میرا شوہر بھی مجھے بوجھ سمجھتا ہے۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) محترمہ ہیں بھی تو خاصی وزنی۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: میں تو اُن کے نزدیک ملازمہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اِن محترمہ نے تو مجھے ہینگر ہی سمجھ لیا ہے۔

مسزمینڈر: تم شادی شدہ نہیں ہو ناں رچرڈ، ورنہ تم میرے دکھ کو با آسانی سمجھ جاتے۔

کمفرٹ: (چونک کر) ایں !کیا کہا؟ شادی شدہ؟؟شادی  اور میں۔ ۔ ۔ ہاہاہاہا

(سامنے والے دروازے سے مسز کمفرٹ داخل ہوتی ہے )

مسز مینڈر : لیکن تم نے کبھی نہ کبھی شادی تو کرنی ہی ہے۔

(سامنے والے دروازے سے چچا مینڈر  اور میریگیل بھی داخل ہوتے ہیں، میریگیل کے منہ میں سگار ہے )

کمفرٹ: لیکن چچی جان نہ تو میری شادی ہوئی ہے  اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسی کسی حماقت کا ارادہ رکھتا ہوں۔

(مسز کمفرٹ چیخ پڑتی ہیں )

مسز مینڈر: (مڑ کر اُس کی طرف دیکھتی ہے ) کیوں رچرڈ، یہ کون عورت ہے ؟

کمفرٹ: (بوکھلائے ہوئے انداز میں ) اوہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ کون ہو سکتی ہیں، ہاں ہاں ارے یہ تو میری ملازمہ ہیں۔

(سامنے والے دروازے سے ہیرس داخل ہوتا ہے، صندوق  اور بہت سے پیک سے لدا پھندا ہے، مسز کمفرٹ اس کے پیچھے جھکی ہوئی ہے )

پردہ گرتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دوسرا ایکٹ

 

منظر : وہی منظر جو پہلے ایکٹ میں تھا، پیکٹ میز پر سلیقے سے رکھے جا چکے ہیں، ہیرس گرد جھاڑتا ہوا نظر آتا ہے۔

ہیرس: (اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے ) میری تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا، مالک نے پہلے کبھی اِس طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا، کم از کم جب سے میں اُنہیں جانتا ہوں، پتہ نہیں اُن کے ذہن میں کیا پک رہا ہے ؟ بہرحال جو کچھ بھی ہے، اُن کے ذہن کا ہی کیا دھرا ہے۔ (سر کھجاتا ہے ) آج کل تو موصوف کچھ زیادہ ہی انہونیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ اب اسی کو لے لیجئے، ہر بات کا ملبہ میرے سر ڈال دینا، اُن کاموں کا بھی جو میں نے نہیں کئے،  اور طوطوں کے متعلق موشگافیاں کرنا  اور مجھ سے تقاضہ کرنا کہ میں اُنہیں پکڑ کر بھی لاؤں  اور یہ کہ جب تک میں اُسے پکڑ نہ لوں، اُنہیں شکل بھی نہ دکھاؤں، یہ تو بندے کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہوا۔ میں تو کبھی دوبارہ اُنہیں اپنی شکل نہیں دکھاتا اگر مادام کا معاملہ نہ ہوتا،  اور ان پیکٹوں کو یہاں نہ پہچانا ہوتا (میز پر رکھے ہوئے پیکٹوں کو دیکھتا ہے ) ذرا دیکھئے تو سہی، میں یہ سبھی پیکٹ باہر سے اٹھا کر لایا ہوں  اور یقین مانئے اِنہیں لانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا، لیکن ان میں ہے کیا؟ (جائزہ لیتا ہے )

(اسٹیج کے دروازہ نمبر دو سے کمفرٹ داخل ہوتا ہے )

کمفرٹ: (تیز آواز میں )ہیرس (ہیرس چونک کر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے ) اِن پیکٹوں کو ہاتھ مت لگانا!

ہیرس: نہیں جناب، میں تو صرف۔ ۔ ۔ آپ کب آئے ؟

کمفرٹ: تمھیں ہر قسم کی حماقت پر پرہیز کرنا چاہئیے (میز کی طرف جاتا ہے )

ہیرس: حماقت؟ کیسی حماقت جناب؟

کمفرٹ: (غصے سے ) نکل جاؤ کمرے سے !!

ہیرس: نہیں جناب، میں کوئی حماقت نہیں کر رہا تھا!

کمفرٹ: میں کیا کہہ رہا ہوں، کمرے سے نکل جاؤ!!

ہیرس: (آہستگی سے ) جی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میراخیال ہے کہ مالک کے اوپر والے خانے میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے ! (باہر کی جانب جانے لگتا ہے )

کمفرٹ: (پکارتا ہے ) ہیرس!

ہیرس: (رُکتے ہوئے ) جی جناب؟

کمفرٹ: (کرسی پر دراز ہوتے ہوئے ) تم غالباً یہ سوچ رہے ہو کہ میں کچھ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ آج میرا طرز عمل کچھ مناسب نہیں ہے ؟

ہیرس: لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے، لیکن یقین مانئے جناب! میں ایسا سوچ نہیں رہا ہوں۔

کمفرٹ: (دہاڑتے ہوئے ) کیا؟

ہیرس: مم میرے کہنے کا مطلب ہے جناب کہ میں سوچنے والا کون ہوتا ہوں، آپ مالک ہیں جیسا چاہیں، کریں !

کمفرٹ: اچھا؟ تو جو چاہوں کر سکتا ہوں ؟؟

ہیرس : جی جناب!

کمفرٹ: (خشک لہجے میں ) اطلاع کا شکریہ!

ہیرس: (حیرانی سے ) جی جناب؟

کمفرٹ: میں نے کہا، تمھارا شکریہ!

ہیرس: جی، جی، جی جناب! (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) قسم لے لیں جو مجھے پتہ ہو کہ مالک شکریہ کس بات کا ادا کر رہے ہیں۔

کمفرٹ: شاید دو تین ایسی باتوں پر بھی میں نے تمھاری سرزنش کر ڈالی ہے جو تم سے سرزد ہی نہیں ہوئی تھیں۔

ہیرس: جی جناب، اب آپ نے یہ تذکرہ چھیڑ ہی دیا ہے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئیے کہ آپ نے دو تین ایسی باتوں کا بھی مجھ سے کہا ہے جس کے بارے میں میں ابھی تک کنفیوز ہوں کہ آپ کا مطلب کیا تھا؟

کمفرٹ: (پُر تفکر انداز میں ) ہاں کچھ باتیں ایسی تھیں تو، لیکن ان سے اغماز بھی تو برتا نہیں جا سکتا تھا۔

ہیرس: جی جناب (ہچکچاتے ہوئے ) مم۔ ۔ ۔ میں کیا پوچھ سکتا ہوں کہ وہ کون سا طوطا تھا جس کو میں نے پروں سے پکڑ کر آپ کی خدمت میں پیش کرنا تھا؟

کمفرٹ: اُس طوطے کا تذکرہ تو اب جانے ہی دو۔ ۔ ۔ وہ طوطا ایک نہایت اَوپری سچوئیشن کا حصہ تھا (پیسے دیتے ہوئے )یہ کچھ پیسے ہیں، رکھ لو!

ہیرس: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مالک تو واقعی سٹھیا گئے ہیں۔

کمفرٹ:  اور یاد رکھنا کہ کسی سے بھی اس گفتگو کا تذکرہ نہیں کرنا ہے، کسی سے بھی، سمجھ گئے ناں، دوسرے کسی ملازم سے بھی نہیں، اب تم کمرے سے جا سکتے ہو۔

ہیرس: شکریہ جناب (کمرے سے نکل جاتا ہے )

کمفرٹ: خدا کی پناہ، کتنا کوڑھ مغز ہے یہ شخص بھی۔ ۔ ۔ یہ رہا میرا ڈرامہ، میں تو اِسے تقریباً بھول ہی بیٹھا تھا، ظاہر ہے دوسری ڈرامہ بازیوں سے فرصت ملتی تو اِس پر نظر جاتی، لیکن دوسرے ڈراموں نے تو میری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ جب سے میں نے اپنے ڈپلومیٹک کیرئر کا آغاز کیا ہے۔ ۔ ۔ میں اِس سلسلہ ہائے خرافات کو شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈپلومیسی کا نام دیئے دیتا ہوں، ویسے بھی ڈپلومیٹ لوگوں کا کام جھوٹ بولنا ہی تو ہے، کبھی دوسروں کے سامنے  اور کبھی خود اپنے لوگوں سے۔ ۔ ۔ خیر، تو میں نے آج اِس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ اب وہ کسی سبیل کی صورت خود ہی جاری ہو گئے ہیں، بغیر میری مدد کے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُن جھوٹوں نے خود ہی مجھ سے خود کو کہلوایا تھا  اور اس کثرت سے کہلوایا تھا کہ اب اُنہیں ٹھپنا دشوار ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ جھوٹ بولنا نہایت کمیں گی کا کام ہے لیکن ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ویسے بھی جھوٹ بولنے میں کون سے میرے پیسے لگتے ہیں۔  اور اگر کسی دن مجھے ان کی قیمت ادا کرنی پڑی تو غضب ہو جائے گا کیونکہ اُس وقت تک ان کی مقدار اس قدر ہو جائے گی کہ الامان الحفیظ کیونکہ اس کا کھاتا مسلسل جاری و ساری ہے، کسی بڑے بیوپاری کے کاروباری کھاتے کی طرح۔ اب جب کہ ایڈتھ واپس لوٹ آئی ہے تو میرا پول بھی کھلنے کو ہے، کم از کم اُس کے ذہن میں تو بہت سے سوالات ہوں گے، لیکن یہ واپس اِتنی جلدی آ کیسے گئی ؟ظاہر ہے کہ اُس نے گاؤں سے اسٹشنری بھی خریدی ہو گی۔ لگتا ہے کہ اسٹشنری کی دکان والا کچھ ضرورت سے زیادہ ہی چست ہے۔ ۔ ۔ میں تو اس کی واپسی کے بعد اس سے کسی بارے میں کوئی بات نہیں کر سکا ہوں، موقع ہی نہیں مل سکا ہے مجھے اس کا،  اور سچ پوچھیں تو مجھے ہمت بھی نہیں ہے اس کا سامنا کرنے کی (مسز کمفرٹ اسٹیج کے دروازہ نمبر ایک سے داخل ہوتی ہے  اور داخلی دروازے کی جانب بڑھتی ہے )

کمفرٹ: (اُٹھتے ہوئے ) لو بھئی، وہ وقت بھی آن پہنچا، یا شیطان تیرا ہی سہارا (اس کے راستے میں آتے ہوئے ) اوہ ایڈتھ!

مسز کمفرٹ: (بے نیازی سے ) جی!

کمفرٹ: (اس کے ساتھ قدم ملاکر چلتے ہوئے ) میں صرف یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ کہ تم نے کیا ان کاغذ کے رموں کی ادائیگی کر دی تھی؟

مسز کمفرٹ: مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔

(باہر نکل جاتی ہے )

کمفرٹ: لو جی، اس عزت کی کسر تھی۔ ۔ ۔ (میز پر بیٹھ جاتا ہے ) ( ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے ) ہاہاہا، میرے ٹھینگے سے، ویسے مذاق اچھا کر لیتی ہے میری بیوی (پھیکے انداز میں دوبارہ ہنستا ہے ) ہاہاہا (قلم اٹھاتا ہے ) اب مجھے کچھ لکھنا وکھنا بھی چاہئیے (لکھنے لگتا ہے )

(میریگیل دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتا ہے، ابھی تک اُسی جوکروں والے لباس میں ہے )

کمفرٹ: (قلم کو دور پھینکتے ہوئے ) آخر لکھوں تو کیا لکھوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا!

میریگیل: چھوڑو یار! مجھے پتہ ہے کتنے شیکسپئر ہو تم، اور ہاں، اِتنا شور شرابا مت کرو، تم اُنہیں جگا دو گے !

کمفرٹ: جگا دوں گا؟ کسے جگا دوں گا؟؟

میریگیل: اپنے چچا مینڈر کو  اور کسے، میں ابھی ابھی اُنہیں سٹنگ روم میں چھوڑ آیا ہوں، ایسے سوئے پڑے ہیں گویا قیامت کو ہی اُٹھیں گے، اور اُن کے خراٹے، توبہ ہے بھئی! میں تو اُنہیں اپنا قصہ سُنا رہا تھا  اور وہ سنتے سنتے سو گئے، حد ہو گئی!!

کمفرٹ: چچا جان کا یہ ردِ عمل فطری ہے، میں ہوتا تو میں بھی۔ ۔ ۔ ۔

میریگیل: ہاہاہا، بہت اچھا مذاق ہے یہ۔ ۔ ۔ یقین مانو میں اپنی زندگی کا انتہائی دلچسپ قصہ سنا رہا تھا۔ میں تو اُنہیں۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (بات کاٹتے ہوئے ) معذرت خواہ ہوں جارج لیکن اس وقت میں بہت مصروف ہوں، تمھارے ان دلچسپ قصے کہانیوں کے لئے میرے پاس وقت نہیں، پھر کبھی سہی۔

میریگیل: میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: کوئی طوطا کہانی نہیں جارج (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کہانیاں گھڑنے کی اجارہ داری تو صرف میرے پاس ہے اِن دنوں !

میریگیل: ٹھیک ہے یار، پھر کبھی سہی، لیکن میں تمھاری ملازمہ کے بارے میں ضرور پوچھنا چاہوں گا، تمھاری ملازمہ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (غصے سے ) گولی مارو ملازمہ کو!

میریگیل: گولی مار دوں، توبہ، میں تو یہ کہنا۔ ۔ ۔

کمفرٹ: تو پھر پھانسی پر چڑھا دو اُسے۔

میریگیل : کیوں یار، اِتنے تپ کیوں ہو جاتے ہو تم اس کے ذکر پر؟

کمفرٹ: کوئی بات نہیں یار (قدرے توقف سے ) اگر تم اُس کے بارے میں جاننا ہی چاہ رہے ہو تو تمھیں بتانا ہی پڑے گا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی ایک  اور جھوٹ سننے کی تیاری پکڑ لیں ! (میریگیل سے ) وہ میری رشتہ دار ہے۔

میریگیل: افوہ، تو یہ وجہ ہے تمھاری اُس میں دلچسپیوں کی!

کمفرٹ: میری دلچسپیاں، میرے خیال میں تو مجھ سے زیادہ تم اس میں دلچسپی لے رہے ہو۔

میریگیل: لیکن اگر وہ تمھاری رشتہ دار ہے تو تم نے اُسے ملازمہ کیوں بنا رکھا ہے ؟

کمفرٹ: (ہچکچاتے ہوئے ) وہ میری ملازمہ نہیں ہے وہ تو میری۔ ۔ ۔

میریگیل: گھر کی نگران ہے ؟ یہی کہنا چاہتے ہو تم؟؟

کمفرٹ: (جلدی سے ) بالکل بالکل، وہ میری ہاؤس کیپر ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے پہلے کیوں نہ سوجھی یہ بات؟ (میریگیل سے ) بات در اصل یہ ہے کہ وہ غریب دنیا میں یک و تنہا رہ گئی تھی بس مجھے اس کے سوا کوئی چارہ نہ نظر آیا کہ اُسے سر چھپانے کے لئے اپنے گھر لے آؤں، در اصل میں تمھیں اس لئے بھی بتا رہا ہوں کہ اگر تم کو اُس کی گفتگو میں میرے حوالے سے کوئی ایسی بات دیکھو تو کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جاؤ۔

میریگیل: بالکل کیوں نہیں، میں پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ کوئی معمولی ملازمہ نہیں ہے، اوربرسبیلِ تذکرہ، تم بھی نرے چغد ہو اس معاملے میں، نہ جانے کتنے ہی عرصے سے اُس کے جذبات کو مجروح کرتے رہے ہو اُسے ملازمہ قرار دے کر، اس قسم کے رشتہ دار خاصے حساس ہوتے ہیں ان معاملات میں !

کمفرٹ: تم ٹھیک کہتے ہو یار، مجھ سے واقعی غلطی ہوتی رہی ہے (داخلی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ارے باپ رے، محترمہ بھی آن ٹپکیں، اب مجھے ان دونوں کو باہمی ٹاکرے سے دور رکھنا پڑے گا (میریگیل سے ) جارج، جلدی سے کہیں اوٹ میں ہو جاؤ (اُسے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتا ہے ) اِدھر آ جاؤ، اس سکرین کے پیچھے !!

میریگیل: کیوں ؟ کیا ہوا؟؟

کمفرٹ: میری ہاؤس کیپر آ رہی ہے۔

میریگیل: تو پھر کیا ہوا، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے اُس سے ملاقات پر۔ ۔ ۔

کمفرٹ: وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اُس سے اپنے رویے کی معافی مانگوں  اور میں یہ کام کسی دوسرے کی موجودگی میں نہیں کرنا چاہتا، جلدی کرو۔

(میریگیل کو اسٹیج کی سکرین کے پچھلی طرف دھکیل دیتا ہے، داخلی دروازے سے مسز کمفرٹ داخل ہوتی ہے، کمفرٹ میز پر جھک سا جاتا ہے  اور دوسری سمت دیکھنے لگتا ہے )

مسزکمفرٹ: (کچھ توقف کے بعد آہستگی سے ) ڈِک!

کمفرٹ: مجھے ڈِک نہ کہو! تمھیں پتہ ہے کہ میں دوسروں کے سامنے ڈِک کہلوائے جانا پسند نہیں کرتا۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ جب کوئی دوسرا بھی موجود ہو۔

مسزکمفرٹ: لیکن کیوں ڈِک؟

کمفرٹ: پھر تم نے مجھے ڈِک کہا!

مسزکمفرٹ: تم جانتے ہو کہ میں دوسروں کے سامنے تمھیں ہمیشہ مسٹر کمفرٹ کہتی ہوں لیکن (چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے ) اس وقت تو یہاں کوئی دوسرا موجود نہیں !

کمفرٹ: (تیزی سے ) بالکل یہاں  اور کوئی بھی نہیں (بوکھلا کر) کس نے کہا ہے کہ کوئی  اور بھی یہاں موجود ہے ؟

مسزکمفرٹ: پلیز مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے ؟ مجھ سے ایسی کیا خطا سرزد ہو گئی کہ کہ تم ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہو، تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں ؟

کمفرٹ: بالکل! میں ٹھیک ٹھاک ہوں !! کوئی شک؟

مسزکمفرٹ: تو پھر تم مجھ سے ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو؟ تم نے مجھے ملازمہ کیوں کہا تھا؟

کمفرٹ: افوہ، وہ؟ وہ تو میری زبان سے غلطی سے نکل گیا تھا، زبان لڑکھڑا گئی تھی! میں معافی چاہتا ہوں۔

مسزکمفرٹ: کیا تم غلطی کے ازالہ کے طور پر مجھے کِس کر کے نہیں کہو گے کہ تمھیں اپنے گزشتہ رویے پرافسوس ہے  اور یہ کہ تم مجھ سے از حد محبت کرتے ہو؟

کمفرٹ: (بُری طرح کھانستے ہوئے ) کیا؟ ارے نہیں ؟؟ ہرگز نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا!

مسزکمفرٹ: (روہانسی ہوئی آواز میں ) کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ڈک؟

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) جارج کیا سوچے گا (مسز کمفرٹ سے ) تمھیں اس قسم کے رویے کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم اس موضوع پر بارہا بات کر چکے ہیں  اور تمھیں میرے احساسات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ میرے خیالات تمھارے بارے میں کتنے مثبت ہیں، اب اس وقت اس بات پر اصرار کرنا کہ میں تم سے ازسرِنو محبت کا اظہار کروں تو یہ نہ صرف یہ کہ بے معنی ہے بلکہ بڑی حد تک خاصا احمقانہ بھی ہے۔

مسزکمفرٹ: (روتے ہوئے ) مجھے نظر آ رہا ہے کہ تم مجھ سے بالکل بھی محبت نہیں کرتے۔ تم نے مجھے اسی لئے گھر سے دور بھیج دیا تھا تاکہ تم کسی دوسری عورت کے ساتھ وقت گزار سکو۔ کون ہے وہ؟ (مزید پُر جوش انداز میں ) تم میں اِتنی اخلاقی جرأت ہے کہ مجھے بتا سکو؟

کمفرٹ: تمھیں معلوم ہونا چاہئیے کہ میری محبت کون ہے۔

مسزکمفرٹ: تم اُس لڑکی کو بھول چکے ہو جس سے تم محبت کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ تم اُسے فراموش کر چکے ہو جس سے تم نے وعدہ کیا تھا کہ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: میں نے  اور کسی سے کوئی وعدہ شادہ نہیں کیا ہے، تم فضول باتیں کر رہی ہو۔

مسزکمفرٹ: تم نے بالکل وعدہ کیا تھا۔ ۔ ۔ تم نے کہا تھا کہ تم۔ ۔ ۔

کمفرٹ: وہی تو میں تمھیں بتانا چاہ رہا ہوں کہ وہ کون خاتون ہیں۔

مسزکمفرٹ: لیکن مجھے نہیں سننا۔

کمفرٹ: لیکن میں تمھیں بتانا چاہ۔ ۔ ۔

مسزکمفرٹ: میں تمھاری کوئی بات سننا نہیں چاہتی۔ (دائیں طرف کے دروازہ نمبر ایک کی جانب جاتی ہے )

کمفرٹ: تمھیں سننا پرے گا۔

مسزکمفرٹ: میں نہیں سننا چاہتی۔ (دروازے سے باہر نکل جاتی ہے  اور اندر سے کنڈی لگا لیتی ہے )

میریگیل: (سکرین کے عقب سے نکلتے ہوئے ) چلی گئی، تم نے مجھے اوٹ میں کر کے بہت اچھا کیا تھا۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (خشک لہجے میں ) ٹھیک ہے۔ ۔ ۔

میریگیل : خاتون کچھ غصے میں تھیں، تم نے اُنہیں ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ وہ ناراض ہو گئیں ؟

کمفرٹ: کوئی خاص بات نہیں، بس وہ بھی دوسری عورتوں کی طرح اپنی آئی پر آئی ہوئی ہے۔

میریگیل: ہا۔ ۔ ۔ یہی بات ہے کہ میں عورت ذات کو کبھی نہیں سمجھ سکا۔ ان کے جذبات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ کے ہی نہیں دیتا، لیکن یار۔ ۔ ۔ میرا تو خیال ہے کہ تم نے اُن خاتون سے خاصی بے اعتنائی برتی ہے، لگتا ہے کہ اُس نے تم سے خاصی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔

کمفرٹ: (بے اعتنائی سے ) یہ تمھارا خیال ہے۔

میریگیل: بالکل، لگتا تو کچھ ایسا ہی تھا۔

کمفرٹ: یہی تو مسئلہ ہے، مجھے اس بات پر قطعی کوئی اعتراض نہیں اگر اُس کے دل میں میرے بارے میں اچھے خیالات ہیں، بلکہ اُس کے یہ خیالات میرے نزدیک اُس کے اعلیٰ جمالیاتی ذوق کا مظاہرہ ہیں لیکن میں نہیں چاہتا ہوں کہ وہ اس امر کا اس قدر واشگاف انداز میں اظہار بھی کرے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کم از کم اس وقت تو بالکل نہیں۔

میریگیل: لیکن تم آخر اُس محترمہ کو اِتنی سپیس کیوں نہیں دیتے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکے۔ ممکن ہے کہ وہ بھی دوسری خواتین کی طرح شکی مزاج کی حامل ہو جب کہ دوسری طرف تمھارے بارے میں کچھ جذبات رکھتی ہو، اِسی زعم میں وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کر بیٹھی ہو۔ ایسے میں دوسری خواتین میں تمھاری دلچسپیوں پر اُس کا چراغ پا ہو جانا بنتا ہے۔

کمفرٹ: لیکن میں کسی کا پابند نہیں  اور نہ ہی دوسری عورتوں کے چکر میں رہتا ہوں۔ میں اس فطرت کا انسان نہیں۔

میریگیل: شاید تم سمجھتے ہو کہ تم ایسے نہیں ہو لیکن دوسرے کسی  اور نقطہ نظر سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ اُنہیں ایسا ہی نظر آتا ہو، یوں بھی تم پہلے بڑے ’’وہ‘‘ رہے ہو، مجھ سے چھپے ہوئے تو نہیں ہو تم۔

کمفرٹ: (قدرے طیش میں ) چھوڑو یار، میں اپنے معاملات تم سے بہتر جانتا ہوں۔

میریگیل: ممکن ہے، تمھیں جاننے بھی چاہئیں ویسے بھی۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کاش ایسا ہو سکتا (میریگیل سے )  اور تم بے سبب میرے ابا جی بننے کی کوشش بھی مت کرو۔

میریگیل: دیکھو دیکھو، یوں سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں، میرا کوئی غلط مطلب نہیں تھا۔

کمفرٹ: بہتر یہی ہے کہ ہم اس موضوع کو فی الفور موقوف کر دیں۔

میریگیل: ٹھیک ہے یار، اگر تم یہی چاہتے ہو تو یونہی ہی سہی۔

(ہیرس سامنے والے دروازے سے نمودار ہوتا ہے )

ہیرس: جناب، وہ آدمی کہہ رہا ہے کہ اُسے کب تک انتظار کرنے پڑے گا، آپ اُسے کب تک ادائیگی کر کے فارغ کریں گے ؟

کمفرٹ: کون آدمی؟

ہیرس: وہی آدمی جو کاغذوں کے رِم لے کر آیا تھا، وہ اُس وقت سے منتظر بیٹھا ہے۔

کمفرٹ: میں نے تو اُسے انتظار کرنے کا نہیں کہا تھا۔

ہیرس: میں نے بھی نہیں کہا تھا جناب۔

کمفرٹ: پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے، اُسے یہیں بھیج دو، لیکن نہیں، ذرا ٹھہرو، میں خود ہی جا کر اُس سے مل لیتا ہوں (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کہیں وہ نامعقول میریگیل کے سامنے میری بیوی کے بارے میں کچھ اُگل ہی نہ دے۔

(سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )

میریگیل: ہیرس، مسز مینڈر کہاں ہیں ؟

ہیرس: پتہ نہیں جناب، اپنے شوہر سے لڑ شڑ رہی ہوں گی کہیں۔

میریگیل: کس سے لڑ رہی ہوں گی؟

ہیرس: اپنے شوہر سے جناب، شاید آپ سمجھ رہے ہیں کہ مسز مینڈر صاحبہ کا کوئی خاوند نہیں ہے، نہیں جناب ایسا نہیں ہے، اُن کے بھی ایک شوہر ہیں۔

میریگیل: میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کہہ کیا رہے ہو۔

ہیرس: اس میں نہ سمجھنے والی کیا بات ہے جناب؟

میریگیل: کون ہیں اُن کے شوہر، ڈک تو نہیں۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ڈک کے چچا ہوں گے۔

ہیرس: ظاہر ہے جناب، وہ اُن کی چچی جان ہیں۔

میریگیل: تو پھر اُنہوں نے اپنا نام کیوں تبدیل کر لیا ہے ؟

ہیرس: (کھلکھلاہٹ کے ساتھ) جی جناب، اس بات پرتوبسا اوقات خود اُن کو بھی حیرت ہوتی ہے۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ہوں تو یہ بات ہے، اب مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ انہوں نے کمفرٹ کے بجائے مینڈر کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں لگا رکھا ہے، اب تو اُس خوبرو خادمہ سے ملنا  اور بھی ضروری ہو گیا ہے، وہی اس پر روشنی ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے (ہیرس سے ) میں اس گھر کی ہاؤس کیپر سے ملنا چاہتا ہوں۔

ہیرس: (حیرانی سے ) ہاؤس کیپر؟ یہاں کوئی ہاؤس کیپر نہیں ہے جناب۔ گھر کی نگرانی کا کام صرف  اور صرف مسز کمفرٹ کا استحقاق ہے  اور وہی یہ کام کرتی ہیں۔

میریگیل: مسز کمفرٹ؟ تمھارا مطلب اُن بوڑھی خاتون سے ہے ؟

ہیرس: اب میں تو ایسا نہیں کہہ سکتا جناب، ہاں البتہ مسٹر کمفرٹ اُنہیں از راہِ مذاق بوڑھی خاتون کہہ جایا کرتے ہیں (ہنستا ہے )

میریگیل: لیکن وہ تو مستقل یہاں نہیں رہتی ہوں گی۔

ہیرس: مستقل کی بھی آپ نے خوب کہی جناب، اُن کا تو زیادہ تر وقت یہیں گزرتا ہے، ہاں البتہ کبھی کبھار اُنہیں کہیں جانا پڑ جاتا ہے، قصبے میں بھی جا کر رہتی ہیں۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب معاملہ کچھ کچھ سمجھ میں آتا جا رہا ہے، دو چکیوں کا پسا ہمیشہ مصیبت میں رہتا ہے، اب کمفرٹ کا میٹر گھوما گھوما نہ رہے تو  اور کیا ہو۔ دونوں خواتین میں گھمسان کا رن پڑتا ہو گا  اور دونوں کا غصہ کمفرٹ پر اُترتا ہو گا (ہیرس سے ) وہ ملازمہ کہاں ہیں ؟ میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں۔

ہیرس: جی کیا کہا؟ ملازمہ جناب؟؟

میریگیل: (غصے سے ) ہاں، ملازمہ،  اور یہ تم میری ہر بات پر منہ کیوں کھول لیتے ہو؟ میں سیلی کا تذکرہ کر رہا ہوں، یہی نام ہے غالباً اُس کا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) عجیب ہے یہ ملازم طبقہ بھی، ہر وقت ایک دوسرے سے جلتے رہتے ہیں۔

ہیرس: جب سے میں یہاں ہوں، کوئی سیلی نام کی ملازمہ نہیں ہے یہاں پر جناب۔

میریگیل: وہ ملازمہ ہے یا نہیں ہے، میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں، اس سے کہو کہ میں اُسے یاد کر رہا ہوں۔

ہیرس: جی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) حیرت ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ صاحب سیلی سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔

(ہیرس دروازہ نمبر ایک سے باہر نکل جاتا ہے )

میریگیل: بہت پرُاسرار، بہت ہی۔ ۔ ۔

(چچا مینڈر داہنی طرف والے دروازے سے داخل ہوتے ہیں )

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی ڈھلڑ شاہ چلے آ رہے ہیں منہ اُٹھائے ہوئے، لگتا تو یہ ہے کہ ابھی ابھی جاگے ہیں خوابِ غفلت سے (چچا مینڈر سے ) تو جناب، آخر آپ کامیاب ہو ہی گئے۔

چچا مینڈر: (تیزی سے ) کامیاب ہو گیا؟ کس کام میں کامیاب ہو گیا؟؟

میریگیل: چھت پھاڑنے کے کام میں، میں آپ کو اِسی مشقت پر لگا کر آیا تھا، آپ یقیناً کامیاب لوٹے ہوں گے۔

چچا مینڈر: پتہ نہیں تم کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔ تم تو مجھے کمرے میں برانگیختہ چھوڑ آئے تھے، میری بات کو انتہائی بیہودہ انداز میں کاٹ کر۔

میریگیل: (ہنستا ہے ) ہا ہا ہا ہا، آپ نے بھی کیا خوب بات کہی ہے، میں آپ کی بات کاٹنے کا مرتکب ہوا تھا یا آپ نے میری گفتگو میں مداخلت کی تھی۔ آپ نے اِتنی زور سے خراٹے لینے شروع کر دئے تھے کہ مجھے اپنا قصہ روک دینا پڑا، اِتنا دلچسپ قصہ سُنا رہا تھا میں آپ کو۔

چچا مینڈر: کیا کہا؟ خراٹے لے رہا تھا؟؟ میں خراٹے نہیں لیتا ہوں، اس سے غلط بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

میریگیل: (طنزیہ انداز میں ) بجا کہا آپ نے جناب، آپ تو شاید سوئے بھی نہیں ہیں،  اور آپ اس وقت سٹنگ روم سے بھی نہیں آ رہے ہیں، کیوں جناب، میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں ؟

چچا مینڈر: نہیں، بالکل نہیں  اور یہ بھی سچ ہے کہ تم خود ہی پڑ کر سو رہے تھے۔

میریگیل: جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ ۔ ۔ چہ خوب، گویا وہ جو خراٹے لے رہا تھا وہ ذات شریف میں بقلم خود تھا، یہ بھی لطیفہ ہو گیا، اگر وہ واقعی میں تھا تو میں تو اپنی شکل بھی دیکھنا پسندنہ کروں گا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کیونکہ ایسی بھیانک آواز سے تو ہر کوئی دہل کر رہ جائے (چچا مینڈر سے ) اب مجھے پتہ چلا کہ آپ کی بیوی آپ سے کیوں لڑتی رہتی ہیں۔

چچا مینڈر: (غصے سے ) تمھیں میرے ذاتی معاملات میں مداخلت کی جرأت کیسے ہوئی؟ مجھے تو لگتا ہے کہ تمھیں ان باتوں کا رتی بھر بھی تجربہ نہیں۔

میریگیل: آپ نے درست کہا، میں ابھی کنوارہ ہوں۔

چچا مینڈر: اوہ، تو یہ بات ہے تمھاری کج فہمی کی، کیا خوب کہا ہے کسی نے ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ (دانت نکالتے ہوئے ) تو تم کنوارے ہو، کتنا بھلا لگتا ہے یہ لفظ، لیکن میاں، شادی شدہ لوگوں کی زندگی کے بارے میں رائے زنی نہیں کرنی چاہئیے، اس سلسلے میں میں تمھیں ایک کہانی سُناتا ہوں۔ (بیٹھ جاتا ہے )

میریگیل: آپ نے تو میری کہانی نہیں سُنی تھی۔

چچا مینڈر: تمھاری کہانی میں بے معنی مذاق  اور ہنسی کے علاوہ کچھ نہ تھا جبکہ میں تمھیں گُر کی باتیں بتانے والا ہوں۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یقیناً اب سنجیدہ خان کے پوتے بھی شرما جائیں گے۔ (بیٹھ جاتا ہے )

چچا مینڈر: یہ کہانی ایک نہایت رنجیدہ  اور سنجیدہ شخص کی ہے جس کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی۔

میریگیل: (منہ پر رکھے ہوئے رو مال پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کسی دردوں کی ماری ذی روح کی کہانی سنانے چلے ہیں بزرگوار۔

چچا مینڈر: بہت عرصہ گزرا (سوچتے ہوئے ) بھلا کتنا عرصہ گزرا ہو گا۔

میریگیل: کیا فرمایا ہے آپ نے کتنا عرصہ گزرا؟

چچا مینڈر: عرصے ورصے کو دفع کرو، بس یوں سمجھ لو کہ بہت عرصہ گزرا کہیں کوئی نوجوان ہوا کرتا تھا، یہی کوئی پینتیس چھتیس برس کا۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے، طنزاً) گویا کل کا بچہ ہوا۔

چچا مینڈر: اُس کی ملاقات ایک نوجوان  اور خوبصورت بیوہ سے ہوئی۔

میریگیل: (بات کاٹتے ہوئے ) دونوں میں محبت ہو گئی ہو گی جس کا انجام شادی خانہ آبادی پر ہوا ہو گا  اور اس کے بعد اُن دونوں نے اپنی بقیہ زندگی ہنسی خوشی گزار دی ہو گی  اور ہمارے لئے سبق یہ ہوا کہ ہمیشہ بیواؤں کو خوش رکھو، تم خود بھی خوش رہو گے  اور اللہ بھی تم سے خوش ہو گا، سب کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

چچا مینڈر: (پُر وقار انداز میں ) براہِ مہربانی کہانی کے بیچ میں مداخلت مت کرو۔ ویسے تمھارا یہ اندازہ دُرست ہے کہ وہ نوجوان اُس بیوہ خاتون کے عشق میں بُری طرح مبتلا ہو گیا تھا۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) وہ رہ بھی کیسے سکتا تھا محبت میں مبتلا ہوئے بغیر۔

چچا مینڈر: اُس نوجوان بیوہ نے بھی اُس کی محبت کا جواب محبت سے دیا۔

میریگیل: کہانی کے پلاٹ کی وجہ سے مجبور ہو گی بیچاری۔

چچا مینڈر: (غصے سے ) تمھاری بے وقت مذاق کرنے کی بیہودہ عادت میرے صبر کا امتحان لے رہی ہے، پلیز مجھے کہانی کو اپنے انداز میں بیان کرنے کی اجازت دو گے تم؟

میریگیل: کیوں نہیں جناب، بے شک یہ آپ کی کہانی ہے، آپ ہی سنائیں۔

چچا مینڈر: تو میں کیا کہہ رہا تھا، ہاں یاد آیا، نوجوان کو اُس کی محبت کا جواب محبت سے ملا۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بیوہ یقیناً ریپبلک پارٹی کی رُکن ہو گی۔

چچا مینڈر: اُن دونوں کی شادی ہو گئی لیکن توقعات کے بالکل برعکس، اُن کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ غیر معمولی بات ہے اس قصے میں۔

چچا مینڈر: اُس کی بیوی ہر وقت اپنے خاوند کو غصہ دلانے میں مشغول رہتی تھی۔

میریگیل: ایسا تو ہونا ہی تھا، ہمیشہ خاتونِ خانہ کو ہی فساد کی جڑ ٹھہرایا جاتا ہے اس قسم کے معاملات میں۔

چچا مینڈر: جی جناب اور یہ محض الزام تراشی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت تھی۔

میریگیل: (طنزیہ انداز میں ) ایسا تو ہونا ہی تھا۔

چچا مینڈر: در اصل اُس بیوہ کو جیسی توقعات اپنے مرحوم شوہر سے تھی وہی توقعات اپنے شوہر نمبر دو سے بھی وابستہ کر بیٹھی تھی۔

میریگیل: جبکہ اُس کے شوہر نمبر دو کے خیالات اس کے برعکس ہوں گے۔

چچا مینڈر: بالکل ٹھیک کہا تم نے، وہ ایک مختلف مزاج کا شخص تھا، وہ اُس خاتون کی ہر جائز و ناجائز بات پر آنکھ بند کر کے صاد کہنے کا عادی نہیں ہو سکا تھا۔

میریگیل: واقعی بہت دردیلی کہانی ہے۔

چچا مینڈر: (پُر جوش انداز میں ) برخوردار، یہ محض ایک کہانی نہیں ہے، اس ناکام زندگی کی کہانی کا جیتا جاگتا کردار میری صورت تمھارے سامنے موجود ہے (آہستگی  اور متانت سے ) میں ہی تھا جس نے اُس بیوہ سے شادی کی تھی۔

میریگیل: آپ کی ظاہری وضع قطع کو دیکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی کوئی اِتنی خوشگوار نہیں ہے۔

چچا مینڈر: بدترین کہو برخور دار لیکن اس کے باوجود میری زندگی کی زنبیل میں کچھ نہ کچھ خوشگوار لمحے موجود ہیں۔

میریگیل: ناممکن!

چچا مینڈر: ہماری ازدواجی معرکے عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ پھر جب جنگ کا خوفناک عقاب اپنے پر سمیٹ لیتا ہے  اور امن کی سفید فاختہ ہماری زندگیوں پر پر افشاں ہو جاتی ہے تو ہماری زندگی کے خوشگوار لمحے لوٹ آتے ہیں  اور میں بھی اِتنا ہی خوش ہو جاتا ہوں جتنے تم یا کوئی  اور شخص ہو سکتا ہے۔

میریگیل: جناب، اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں اُس جنگ کے عقاب کا ٹینٹوا دبا دیتا  اور امن کی فاختہ کو پنجرے میں ڈال دیتا، یوں وہ میری زندگی سے کبھی دور نہ ہو پاتی، عارضی طور پر بھی نہیں۔

چچا مینڈر: امن کی فاختہ کو پنجرے میں ڈال دیتے، یہ تو کچھ اچھی بات نہ ہوتی۔

میریگیل: ہو سکتا ہے کہ میں نے مثال غلط دے دی ہو، میں ان مسالوں وسالوں کے معاملے میں اِتنا اچھا نہیں۔

(دا ہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے مسز مینڈر اندر داخل ہوتی ہے )

چچا مینڈر: یہ پچھتاوا ساری زندگی میرا تعاقب کرتا رہا کہ میں نے وہ شادی کی ہی کیوں تھی، شاید اُس وقت میں نہایت احمق تھا۔

مسز مینڈر: اب بھی کچھ کم نہیں ہو۔

(چچا مینڈر  اور میریگیل چونک جاتے ہیں )

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی پھر کسی عالمی جنگ کا احتمال ہونے چلا ہے، میں کوشش کرتا ہوں ٹالنے کی (مسز مینڈر سے ) مادام، ابھی آپ کے شوہر آپ ہی کا تذکرہ کر رہے تھے۔

مسز مینڈر: (خشک لہجے میں ) جی ہاں، میں سُن چکی ہوں۔

میریگیل: لیکن آپ کے انداز سے لگتا ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی سی ہو گئی ہے، وہ آپ کا تذکرہ نہایت مثبت انداز میں کر رہے تھے۔

مسز مینڈر: مجھے اس کا اثبات ابھی تک ڈنک مار رہا ہے۔

میریگیل: یہ کہہ رہے تھے کہ اُسے اُس وقت کتنا افسوس ہوتا ہے جب میاں بیوی میں مسلسل لڑائی ہو رہی ہو۔

چچا مینڈر: میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔

میریگیل: جج جی آ۔ ۔ ۔ آپ نے اِن الفاظ میں تو نہیں کہا تھا لیکن آپ کا مطلب کچھ ایسا ہی تھا۔

مسز مینڈر: نوجوان، تم بلاوجہ ان صاحب کی ترجمانی کرنے کی کوشش مت کرو، یہ جو کچھ کہہ رہے تھے وہ میں سُن چکی ہوں، میری سماعت ابھی اِتنی بھی کمزور نہیں ہوئی ہے  اور مجھے کہہ لینے دو کہ حماقت کا اگر کوئی پیکر ہوتا تو وہ اِنہیں ذات شریف کی شکل میں ہوتا،  اور یہ کہ اگر یہ اپنے آپ کو احمق کہہ رہے ہیں تو بالکل درست کہہ رہے ہیں، کم از کم اس حد تک اِن کا تجزیہ بالکل صحیح ہے۔

چچا مینڈر: بات یہ ہے برخوردار کہ یہ جو خاتون ہیں یہ احمق شناسی میں ایکسپرٹ ہیں۔

مسز مینڈر: جی بالکل، لیکن مجھے ایسا ہونا پڑا ہے، میرا پالا ہی جب آپ جیسوں سے پڑتا ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

چچا مینڈر: بالکل، ان کا کام ہی اسی سے چلتا ہے۔

میریگیل: بزرگوار، میں استدعا کروں گا کہ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔

چچا مینڈر: میں ایک بار پھر یہ بات اعلانیہ کہہ رہا ہوں کہ میں اُس وقت دنیا کا احمق ترین شخص تھا جب میں نے شادی کا ارتکاب کیا تھا۔

مسز مینڈر: اور ہنوز افاقہ نہیں ہوا ہے۔

چچا مینڈر: ہاہاہا، گویا آپ ابھی تک۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ یہ خاتون ابھی تک اس کا حظ لے رہی ہیں۔

مسز مینڈر: میرا تو خیال ہے کہ یہ صاحب بھی اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ظاہر ہے کہ جب ایک تماشہ ہو رہا ہو تو تماشائی تو آئیں گے چاہے وہ خود اپنا ہی تماشہ کیوں نہ ہو، دلچسپ ہونا شرط ہے۔ ایسا تو کوئی نہیں ہے جو کسی ایسی بات پر ہنسے جو ہو ہی نہیں۔

چچا مینڈر: اب یہ خاتون خود کو ’’کوئی نہیں ‘‘ کہہ رہی ہیں، مجھے تو اس بات پر بھی ہنسی آ رہی ہے۔

مسز مینڈر: ان صاحب کو کوئی  اور نقطہ سجھائی نہیں دے رہا، یونہی ہواؤں میں مکے مار رہے ہیں۔

چچا مینڈر: ہنسی والا تو یہی موضوع ہے فی الحال۔

(داخلی دروازے سے کمفرٹ داخل ہوتا ہے )

میریگیل: محترم، محترم، شانت ہو جائیے، عمل  اور ردِ عمل کے اس معرکے میں خرابیاں ہی پیدا ہوں گی۔ (کمفرٹ کو دیکھ کر) یار ڈک، تمھیں کوشش کر کے اپنے چچا ، چچی کو شانت کرو، اِن دونوں میں اس وقت خاصی۔ ۔ ۔ خاصی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔

مسز مینڈر: تمھیں کس نے کہا تھا کہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرو؟

چچا مینڈر:  اور تمھارا ہمارے معاملات سے کیا لینا دینا ہے ؟

میریگیل: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ دونوں کسی ایک بات پر تو متفق ہوئے ہیں (کمفرٹ سے سرگوشی کرتے ہوئے ) یار ڈک، کسی طرح یہاں امن و امان قائم کرو۔

کمفرٹ: (میریگیل سے سرگوشی کرتے ہوئے ) ٹھیک ہے، تم اب کھسکو، میں یہاں امن کا پیغامبر بننے کی کوشش کرتا ہوں۔

میریگیل: (کمفرٹ سے سرگوشی کرتے ہوئے ) ٹھیک ہے ڈک، گڈ لک، میں اس دوران اپنے کپڑے تبدیل کئے لیتا ہوں، میرے اپنے کپڑے اب تک دھُل کر آ گئے ہوں گے، اس لباس نے تو مجھے نِکو بنا کر رکھ دیا ہے۔

(میریگیل داہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے نکل جاتا ہے )

کمفرٹ: چچاجان، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ سٹنگ روم چلے جائیں  اور سگار سے لطف اندوز۔ ۔ ۔ ۔

چچا مینڈر: نہیں، میں نے وہاں نہیں جانا، میں تمھیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے تمباکو نوشی کا کوئی شوق نہیں،  اور ویسے بھی میں اپنا بہت سا قیمتی وقت پہلے ہی اس کمرے میں برباد کر چکا ہوں۔

کمفرٹ: تو پھر کسی دوسری جگہ تشریف لے چلئے، کسی بھی کمرے میں (پشت پر موجود دروازوں کی طرف اشارہ کرتا ہے )

چچا مینڈر: نہیں، میں نے کہیں نہیں جانا،  اور یہ تو سراسر علاقۂ غیر ہے۔

مسز مینڈر: رچرڈ، انہیں کہیں بھی بھیجنے کی ضرورت نہیں، میں خود اپنا قیمتی وقت یہاں پر ضائع کرنے کی قائل نہیں۔

کمفرٹ: اوہ چچی جان، میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، مم۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: میں بخوشی جانے کو تیار ہوں رچرڈ، جہاں کی سکونت ناخوشگوار یادوں کا باعث بن جائے، وہاں سے کوچ ہی بہتر۔

(مسز مینڈر تن فن کر داہنی دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہے )

چچا مینڈر: یہ ڈائیلاگ میرے لئے بولا گیا تھا (پھیکے سے انداز میں ہنستا ہے )

کمفرٹ: (کچھ توقف کے بعد) چچا جان، کیا آپ کو خیال نہیں آتا کہ آپ دونوں میں یہ بے وجہ کی مسلسل لڑائیاں ضرورت سے زیادہ طوالت پکڑ جاتی ہیں۔

چچا مینڈر: میں بھلا ایسا کیوں نہیں سوچ رہا ہوں بھتیجے، یہ بات واقعی قابلِ افسوس ہے لیکن کیا کیا جائے، ہاں تمھارا یہ خیال کہ ہم میں تسلسل سے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، درست نہیں ہے۔ ہم میں جھڑپیں ہوتی ضرور ہیں لیکن کبھی کبھار، ہاں البتہ اس بار کی لڑائی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی ہے، پھر بھی، مجھے افسوس ہے کہ ایسا ہو رہا ہے، لیکن کیا کیا جا سکتا ہے ؟

کمفرٹ: اگر آپ کو بعد میں افسوس ہوتا ہے تو پھر آپ لڑتے ہی کیوں ہیں ؟

چچا مینڈر: مجھے لڑنے وڑنے کا شوق نہیں، میرا قطعاً کوئی قصور نہیں ہوتا۔

کمفرٹ: اوہ، تو ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے ؟

چچا مینڈر: ہاں، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

کمفرٹ: در اصل ہمارے  اور آپ کے باوا آدم نے اماں حوا کو کوسنے کا فیشن نکالا تھا، بس تبھی سے عورتوں کو الزام دینے کا سلسلہ جاری ہے، مرد حضرات یہ سوچنا ہی گناہ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہو سکتے ہیں۔

چچا مینڈر: تب پھر یہ باوا آدم کی غلطی ہے، میرا کیا قصور؟

کمفرٹ: آپ دونوں میاں بیوی یوں ایک دوسرے کو ملزم قرار دیتے ہیں جیسے یہ بھی کوئی کھیل ہو۔

چچا مینڈر: کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو لیکن مجھے بھی اپنی ہی بیوی کا دشمن بننے کا کوئی خاص شوق نہیں مگر۔ ۔ ۔

کمفرٹ: مگر یہ کہ آپ کو سمجھ میں نہیں آتا کہ معاملات کو درست کیسے کیا جائے ؟ یہی بات ہے ناں۔ ۔ ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں، نہایت آسان نسخہ ہے، سیدھے چچی جان کے پاس جائیے  اور اُن سے کہئیے کہ جو کچھ ہوا اس پر آ پکو افسوس ہے، اب آپ۔ ۔ ۔

چچا مینڈر: ارے ! بھلا میں یہ کیسے کر سکتا ہوں۔

کمفرٹ: لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہی وہ واحد رستہ ہے جس سے آپ کا یہ بلاوجہ کا بنایا ہوا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

چچا مینڈر: تم تو اپنی چچی کے دشمن بن گئے ہو۔ ۔ ۔ ذرا تصور تو کرو کہ اگر میں نے اُس سے افسوس کا اظہار کر دیا تو وہ تحیر کے اس جھٹکے کو برداشت ہی نہ کر سکے گی  اور لڑھک جائے گی۔

کمفرٹ: ارے نہیں چچا جان، اب ایسا بھی نہیں ہے، ہاں یہ کہا جس سکتا ہے کہ اُنہیں حیرانی ضرور ہو گی۔

چچا مینڈر: لیکن مجھے تو کچھ ایسا ہی خدشہ ہے۔

کمفرٹ: اُنہیں حیرت ضرور ہو گی لیکن یہ خوشگوار حیرت ہو گی۔ ۔ ۔ اب چھوڑیں بھی چچا جان، اُنہیں اس انبساط سے محروم نہ کریں، اُنہیں بتا دیں کہ اس جلتے ہوئے سورج کے نیچے کچھ بھی ہو سکتا ہے، کچھ بھی۔

چچا مینڈر: رچرڈ، میرے عزیز ترین بھتیجے، تم صحیح کہہ رہے ہو۔ واقعی ’’سوری‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جس میں پہاڑوں کا مردہ بھی دفن کیا جا سکتا ہے (اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ) ٹھیک ہے بھتیجے، میں یہ بھی کر گزروں گا۔ اِن معاملات میں تمھاری معاملہ فہمی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اب تمھیں بھی شادی کر لینی چاہیئے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کی جملہ صلاحیت رکھتے ہو۔

کمفرٹ: (کچھ خوشی سے ) اچھا، آپ ایسا سوچتے ہیں۔

چچا مینڈر: لیکن تم ابھی شادی شدہ نہیں ہو۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تم اِن معاملات میں دوسرے رخ سے بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔ ہماری تو مت ہی ماری گئی ہے۔

(صدر دروازے سے سیلی داخل ہوتی ہے )

سیلی: جونہی میرا کام ختم ہوا، میں یہاں چلی آئی ہوں جناب۔

چچا مینڈر: (غصیلے انداز میں ) آپ کو کہا کس نے ہے کہ یہاں تشریف لانے کی زحمت بھی گوارا کیجئے۔ بہتر ہے کہ آپ جلد از جلد اپنا کام ختم کریں  اور تشریف لے جائیں۔

سیلی: مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے، آپ کے مشورے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں (کمفرٹ سے ) مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ جو سرکس کے جوکر صاحب ہیں، اُنہوں نے مجھے بلایا ہے  اور میرے منتظر ہیں۔

کمفرٹ: جی اُنہوں نے بلایا ہو گا  اور یہ ماضیِ بعید کا تذکرہ ہے، فی الحال وہ یہاں تشریف نہیں رکھتے اس لئے آنسہ سیلی صاحبہ، آپ بھی تشریف لے جائیں۔

سیلی: میرا نال سیلی نہیں ہے جناب، فرانسیسی میں یہ لفظ ’’ساریئی‘‘ ہے، یہی میرا نام بھی ہے۔

کمفرٹ: مجھے مطلق جاننے کا شوق نہیں ہے کہ آپ کا نام فرانسیسی میں کیا ہے یا اسے چینی، جاپانی یا کسی  اور زبان میں کیا کہتے ہیں۔ مجھے بس یہ پتہ ہے کہ میری اپنی زبان میں یہ ’’سیلی‘‘ ہے۔

(مسز میڈ داہنیر دروازہ نمبر۲ سے داخل ہوتی ہیں )

مسز مینڈر: سارہ، فٹافٹ جاؤ  اور میرا بیگ پیک کرنا شروع کر دو!

سیلی: کیوں مادام، میرا تو خیال تھا کہ۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: اپنے خیالات کو اپنے پاس رہنے دو،  اور جو میں نے کہا ہے وہ کرو، فٹافٹ، سُن رہی ہو ناں۔

سیلی: جی مادام! ( داہنیر دروازہ نمبر۲ سے چلی جاتی ہے )

چچا مینڈر: ارے بھئی کلیمنٹینا، کدھر کا ادارہ ہے، میرا تو خیال۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: (کاٹ کھانے والے انداز میں ) آپ ذرا زبان سنبھال کر بات کریں محترم، آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس قدر بے تکلفی کے ساتھ، مجھے میرے نام سے مخاطب کریں۔

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر کمفرٹ سے ) اب کہو برخوردار، کون قصوروار ہے ؟

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے ) کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا کہ اس وقت چچی جان کا پارہ چڑھا ہوا ہے۔

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر کمفرٹ سے ) یہ کوئی خلافِ معمول وقوعہ نہیں ہے۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے ) آپ چچی جان سے اُس وقت بات کیجئے گا جب وہ غصے میں نہ ہوں  اور اطمینان سے آپ کی بات سُن سکیں۔

چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر کمفرٹ سے ) ایسا منظر تو چشمِ فلک نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔

کمفرٹ: لیکن ابھی آپ اُن سے کچھ نہ فرمائیے ابھی وہ غصے میں ہیں (مسز مینڈر سے ) کیوں چچی جان، آپ اپنا سامان پیک کیوں کروانا چاہ رہی ہیں ؟ کہیں آپ کا جانے کا ارادہ تو نہیں بن رہا ؟

مسز مینڈر: (طنزیہ انداز میں ) ارے نہیں میاں، میں تو یہاں ساری زندگی گزارنے آئی ہوں۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خدا نہ کرے (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے ) چچاجان، میرا خیال ہے کہ آپ کو فی الحال یہاں سے ٹل ہی جانا چاہئیے تا آنکہ طوفان کی شدت میں کمی آ جائے۔ چلیں میرے ساتھ، ہم پائیں باغ کو چلتے ہیں (مسز مینڈر سے ) چچی جان، میں ابھی چچا جان کو پائیں باغ دکھا کر لاتا ہوں۔

چچا مینڈر: جیسا تم کہو بھتیجے، لیکن ذرا ٹھہرو، میں اپنا ہیٹ لے کر ابھی آیا۔ (داہنی طرف والے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں )

مسز مینڈر: میرا خیال ہے کہ تمھارے چچا کے دماغ کو تھوڑی سے ٹھنڈی ہوا لگے گی تو اسے سکون ملے گا۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) راستے کا سائن بورڈ بننا  اور ناراض جوڑوں کو امن کی راہ دکھانا آسان ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس معاملے میں سائن پوسٹ اپنی جگہ پر دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ امن کا راستہ سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ کاش کوئی خضرِ راہ مجھے بھی امن کا راستہ دکھا پائے تاکہ میری ازدواجی زندگی کو بھی امن کی منزل حاصل ہو سکے (چچا مینڈر داخل ہوتے ہیں ) (چچا مینڈر سے ) تو پھر چلیں چچا جان؟

(چچا مینڈر  اور کمفرٹ داخلی دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں )

مسز مینڈر: نہیں، اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتا،  اور ہونا بھی نہیں چاہئیے، میں کب تک یہاں ٹھہر کر اپنی بے عزتی کرواتی رہوں۔ ان کا سلوک تو اب مجھ سے شرمناک حد تک بدترین ہو چکا ہے۔ ہائے۔ ۔ ۔ اب مجھے بارن مرحوم کی قدر ہو رہی ہے، اُس نے تو شاید زندگی میں مجھ سے اس قسم کا سلوک کرنے کا سوچا بھی نہ ہو گا۔ ۔ ۔ اِنہیں دیکھو، ہر بات کا الزام مجھ ہی پر دھرے جاتے ہیں  اور خود تو جیسے دودھ کے دھُلے ہوئے ہیں۔ اپنی غلطی ہو بھی تو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے۔ ۔ ۔ ایک بار، صرف ایک بار مان جائیں کہ وہ غلطی پر ہیں تو میں اگلی پچھلی تمام باتیں بھول کر اُنہیں معاف کر دوں۔ ۔ ۔  اور اگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا تو میں تو زندگی بھر اُنہیں معاف نہیں کروں گی۔ (مسز کمفرٹ بائیں طرف والے دروازے نمبر ۲ سے نمودار ہوتی ہیں )

مسز کمفرٹ: (مسز مینڈر کی موجودگی کے احساس سے لاعلم ہیں ) مجھے اس سے بات کرنی ہی پڑے گی۔

مسز مینڈر : (تیز لہجے میں ) کس سے بات کرنا پڑے گی تمھیں ؟

مسز کمفرٹ: (چونک جاتی ہے، منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) تووہ والی عورت یہاں پر ہے۔

مسز مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) سارہ اب تک میرا سامان پیک کر چکی ہو گی۔ (مسز کمفرٹ سے ) بھاگ کر اوپر جاؤ  اور میری ملازمہ سے کہو کہ میں اُس سے ملنا چاہتی ہوں، جلدی سے !

مسز کمفرٹ: (پُر وقار انداز میں ) میں ہر ایرے غیرے کی اس قسم کی تحکمانہ باتوں کی عادی نہیں۔

مسز مینڈر: (طنزیہ انداز میں ) اچھا؟ ماشا اللہ!! (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ٹھہرو! ذرا اسے مزا چکھاتی ہوں (مسز کمفرٹ سے ) اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم مجھے جانتی ہو یا نہیں جانتی، جب تک میں یہاں کمفرٹ کے گھر میں ہوں تو۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: اور آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ یہاں اس گھر میں کس استحقاق کے تحت ہیں ؟

مسز مینڈر: استحقاق۔ ۔ ۔ خوب گویا اب تم میری انکوائری بھی کرو گی؟ میں ہر قسم کا استحقاق رکھتی ہوں، تم کون ہوتی ہو جواب طلبی کرنے والی؟

مسز کمفرٹ: (آہستگی سے ) میرا خیال ہے کہ مسٹر کمفرٹ نے مجھے یہ فریضہ سونپا ہے۔

مسز مینڈر: کیا کہا، کمفرٹ نے تمھیں یہ فریضہ سونپا ہے، غلط، بالکل غلط۔ ۔ ۔ فٹافٹ نیچے جاؤ  اور تم سے جو کہا گیا ہے فوراً کرو، سُنتی ہو، میں کیا کہہ رہی ہوں ؟

مسز کمفرٹ:  اور یہ آپ کس خوشی میں مجھ پر حکم چلا رہی ہیں ؟

مسز مینڈر: ظاہر ہے کمفرٹ نے مجھے اس کا کلی حق دیا ہے، میرا اُن سے قریبی تعلق ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) انتہائی قریبی بھی کہنا ناموزوں نہ ہو گا۔

مسز کمفرٹ: یہ آپ کا محض خیال ہے، آپ یہاں صرف  اور صرف مسائل پیدا کرنے کے لئے آئی ہیں۔ ۔ ۔  اور یہ بات آپ خود بھی جانتی ہیں۔ آپ کمفرٹ کو مجھ سے چھیننا چاہتی ہیں لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ وہ صرف  اور صرف مجھ سے محبت کرتے ہیں۔

مسز مینڈر: کیا کہا؟ محبت ؟؟ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ لڑکی تو بالکل ہی کھسکی ہوئی ہے (مسز کمفرٹ سے ) بس ! بہت ہو چکا!! میں کمفرٹ سے تمھاری شکایت کروں گی  اور اُسے بتاؤں گی کہ تم اُس کے بارے میں کیا کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ غضب خدا کا، تم تو ساری حدود پھلانگنے پر تلی ہوئی ہو۔

مسز کمفرٹ: (پُر جوش انداز میں ) تم اب اس گھر میں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتی، نکل جاؤ یہاں سے، فوراً۔ ۔ ۔ (پکارتی ہے ) ہیرس!

مسز مینڈر: مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ ۔ ۔ تمھاری ہمت کہ تم مجھ سے اس لہجے میں بات کرو۔ ۔ ۔ تم، ایک معمولی ملازمہ، ایک انتہائی کم حیثیت عورت، ۔ ۔ ۔ میں ابھی تمھاری شکایت کرتی ہیں۔ ۔ ۔ میں دیکھتی ہوں کہ اس گھر سے کون جاتا ہے، تم یا میں۔ ۔ ۔ ابھی پتہ چل جائے گا۔ (داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے نکل جاتی ہے )

مسز کمفرٹ: اس عورت کو فوری طور پر یہاں سے چلے جانا چاہئیے (پکارتی ہے ) ہیرس!

(ہیرس صدر دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے )

ہیرس: جی جناب۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے مادام!!

مسز کمفرٹ: مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں ؟

ہیرس: پائیں باغ میں ہیں وہ۔ ۔ ۔ ۔ گلاب کے تختے کے پاس، جی مادام، آخری وقت وہیں تھے وہ۔

مسز کمفرٹ: اُن سے جا کر کہو کہ میں اُن سے ابھی ملنا چاہتی ہوں۔

ہیرس: مالک بزرگوار کو پائیں باغ کی سیر کروا رہے ہیں  اور ہر خوبصورت جگہ کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ وہ بلا تفریق ہر جگہ کو خوبصورت قرار دے رہے ہیں، میں نے تو کچھ ایسا ہی سُنا تھا۔

مسز کمفرٹ: تم سُن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں، میں اُن سے فوری طور پر ملنا چاہتی ہوں۔

ہیرس: جی جناب۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے مادام!! (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے لگتا ہے کہ آج پھر میاں بیوی میں کوئی جھڑپ ہونے والی ہے، اللہ خیر کرے۔ (صدر دروازے سے نکل جاتا ہے )

مسز کمفرٹ: ڈک کو اُس عورت کو نکال باہر کرنا پڑے گا ورنہ میں خود چلی جاؤں گی۔ ۔ ۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب اُسے مجھ سے محبت نہیں رہی؟اُسے میرے بجائے اُس دوسری عورت کی پرواہ ہے۔ مجھے تو وہ عورت زہر لگتی ہے۔ میں اپنی ساری زندگی میں کبھی اِتنی آزردہ خاطر نہیں ہوئی ہوں  اور اگر واقعی واقعی وہ اُس چھنال میں دلچسپی رکھتا ہے تو میں اُس سے ہمیشہ کے لئے علیحدہ ہو جاؤں گی۔ ۔ ۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ (بے دم سی ہو کر صوفے پر گر جاتی ہے  اور رونے لگتی ہے )

(سیلی داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتی ہے، ہاتھ میں بیگ ہے )

سیلی: (بیگ کو فرش پر پھینکتے ہوئے ) چلو خلاصی ہوئی، بیگ میں ہر شے ٹھونس دی ہے میں نے، میں تو، لگتا ہے پیدا ہی محترمہ کی خدمت کے لئے ہوئی ہوں، لحد سے محد تک۔ ۔ ۔ ہوں !! (مسز کمفرٹ پر نظر پڑتی ہے )  اور اس مریل مخلوق کو دیکھو، کرسی پر پڑی اینٹھ رہی ہے، کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی۔ ۔ ۔ یہ مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں ؟؟ (مسز کمفرٹ کا رونا دھونا رُک جاتا ہے )  اور یہ تم ٹسوے کس بات پر بہا رہی ہو؟ اتنی مسٹنڈی کاکی میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھی ہے۔ ۔ ۔ یہ مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں۔ ۔ ۔ ہیلو، میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔

مسز کمفرٹ: (آنکھیں پونچھتے ہوئے ) تمھیں مجھ سے اس انداز میں بات کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔

سیلی: جرأت کیسے ہوئی، ہاہا ہاہا، کیا بات ہے تمھاری بھی، تم نواب زادی سے تو جیسے کوئی عالی جناب کہے بغیر بات کرتا ہی نہ ہو گا، مجھے جرأت کیسے ہوئی، ابھی کچھ دیر میں تمھیں پتہ چلے گا کہ کتنے نو کا سو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ بس کچھ دیر  اور انتظار کرو۔

مسز کمفرٹ: (اُٹھتے ہوئے ) نکل جاؤ یہاں سے۔ ۔ ۔ فوراً۔ ۔ ۔

سیلی: ہاں ہاں جا رہی ہوں میں۔ ۔ ۔ لیکن تمھارے کہنے پر نہیں۔ ۔ ۔ خود اپنی مرضی اور بڑی خوشی سے چلی جاؤں گی کیونکہ مجھے تمھارا چہرہ دیکھنے کا کوئی خاص شوق نہیں۔

مسز کمفرٹ: میں کہتی ہوں دور ہو جاؤ۔

سیلی: مادام بخوبی جانتی ہیں کہ تمھاری اس گھر میں کیا حیثیت ہے۔ تم اس طرح کے میڈموں جیسے کپڑے منڈھ کر کوئی میڈم نہیں بن جاؤ گی۔ میں پوچھتی ہوں کہ تم ایسے کپڑے کیوں نہیں پہنتی جیسے دوسری ملازمائیں پہنتی ہیں۔ اب جو مادام نے کرنا ہے وہ کر گزریں گی۔

(داہنی طرف والے دروازے کی طرف بڑھتی ہے )

مسز کمفرٹ: تم کہنا کیا چاہتی ہو؟

سیلی: (باہر سے آواز آتی ہے ) میرے راستے سے ہٹ جائیں جناب کلاؤن صاحب۔ ۔ ۔

(میریگیل اندر داخل ہوتا ہے، جوکروں کے بجائے اپنے مناسب والے لباس میں ہے )

میریگیل: (دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ) انتہائی اجڈ  اور گنوار قسم کی خاتون ہے یہ سیلی نام کی بلا بھی، کاش یہ فرانسیسی ہونے کے بجائے آئرش ہی ہو تی، کم از کم نصف تہذیب سے تو بہرہ مند ہوتی۔ ۔ ۔  اور کچھ اسمارٹ بھی۔ ۔ ۔ (مسز کمفرٹ پر نظر پڑتی ہے، بوکھلا جاتا ہے ) معذرت خواہ ہوں میں خاتون، مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ یہاں ہوں گی، ورنہ اس طرح نہ چلا آتا، میں ایک مرتبہ پھر معذرت چاہتا ہوں، میں مخل تو نہیں ہوا؟مم میں ڈک کو ڈھونڈھ رہا تھا، مم میرا مطلب ہے مسٹر کمفرٹ کو (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کس قدر نفیس خاتون لگ رہی ہیں یہ محترمہ بھی۔

مسز کمفرٹ: مسٹر کمفرٹ یہاں آنے ہی والے ہیں، میں آپ کا نام دریافت کر سکتی ہوں ؟

میریگیل: اوہ کیوں نہیں مادام (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کس قدر نفیس اندازِ گفتگو ہے ان کا، یہ ڈک تو نرا گاؤدی ہے، کچھ سمجھتا ہی نہیں (ایک لمحے کو خاموشی چھا جاتی ہے )

مسز کمفرٹ: جی جناب، آپ کی تعریف؟

میریگیل: میریگیل مادام، مم میرا مطلب ہے جارج میریگیل۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: اوہ مسٹر میریگیل، میں نے آپ کا نام اکثر مسٹر کمفرٹ کی زبانی سُنا ہے، وہ اکثر آپ کا تذکرہ فرمایا کرتے ہیں۔ آپ اُن کے بہت پرانے دوست ہیں، یہی بات ہے ناں ؟

میریگیل: جج جی محترمہ، یہ امر میرے لئے باعث فخر ہے کہ آپ بھی مجھے جانتی ہیں۔

مسز کمفرٹ: (ہچکچاتے ہوئے ) تو محترم، اُن کے ایک دوست کی حیثیت سے کیا آپ نے یہ بات نوٹ نہیں کی کہ اُن کے طرزِ عمل میں کچھ تبدیلی آ گئی ہے، میرا مطلب ہے پہلے کے مقابلے میں، مم میرا مطلب ہے کہ کیا ضرورت سے زیادہ کام نے اُنہیں خاصا مضمحل نہیں کر دیا ہے ؟

میریگیل: جی بالکل، اس میں کوئی شک نہیں، آپ کا مشاہدہ بالکل ٹھیک ہے، وہ واقعی آج کل بہت مصروف ہو کر رہ گئے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہم دوستوں میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ کم از کم میں تو اِتنی محنت کا متحمل نہیں ہو سکتا(منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ڈک اگر میرے منہ سے ایسے الفاظ سنے تو خود کش بمبار کی طرح پھٹ پڑے لیکن خیر ہے، ایسی خوبصورت خاتون کے لئے تو میں اپنا قتل بھی معاف کر سکتا ہوں۔

مسز کمفرٹ: میرے بارے میں اُن کا رویہ عجیب سا ہو گیا ہے اِن دنوں، خصوصاً آج صبح سے تو خاصے عجیب انداز میں پیش آ رہے ہیں۔ پہلے کبھی ایسا سلوک نہیں کیا تھا اُنہوں نے مجھ سے، مم مجھے تو لگ رہا ہے کہ اُن کا میلان کسی دوسری۔ ۔ ۔ دوسرے مسئلے کی جانب ہو گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا، قطعاً نہیں ہو سکتا، وہ ایسا نہیں کر سکتے، وہ ایسے نہیں ہیں، اُن کے اعصاب پر بوجھ ہو گا زیادہ کام کا۔

میریگیل: جی مادام، آپ نے بالکل درست فرمایا ہے، وہ ہمیشہ سے محنتی رہے ہیں۔

مسز کمفرٹ: کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا، مم میرا مطلب ہے کہ کیا آپ نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ۔ ۔ ۔ کہ وہ کسی دوسری خاتون کی ضرورت سے کچھ زیادہ پرواہ کرنے لگے ہیں، مم میرا مطلب کہ اُن کی توجہ کسی دوسری خاتون کی طرف ہو گئی ہے، آپ میرا مطلب سمجھ رہے ہیں ناں ؟

میریگیل: نہیں ابھی تو ایسا کچھ نہیں ہے، ہاں البتہ آپ کو شاید علم نہیں ہے کہ مسٹر کمفرٹ بہت پہلے کسی سے بہت زیادہ محبت۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: کسی سے محبت کرتے تھے ؟ کس سے محبت کرتے تھے ؟؟

میریگیل: (جلدی سے ) اوہ، یہ بہت پرانی بات ہے لیکن اب وہ بظاہراُس حماقت کے حصار سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ابھی آج ہی اُنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ اب کسی بھی خاتون کی پرواہ نہیں کرتے، لیکن سچ پوچھیں تو مجھے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ در حقیقت، میں اس معاملے کو خاصی اچھی طرح جانتا ہوں  اور میں کسی بھی دوسرے فرد کی نسبت زیادہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ابھی تک اُن خاتون کے عشق میں گرفتار ہیں، پتہ نہیں کیوں، لیکن مجھے لگتا کچھ ایسا ہی ہے۔

مسز کمفرٹ: (تیزی سے ) یہ صحیح نہیں ہے جناب، مجھے اس پر رتی بھر بھی یقین نہیں، یہ بالکل جھوٹ کا پلندہ ہے۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خدا کی پناہ، میں بھی کیسا گدھا ہوں، کس سے کیسی بات کہہ رہا ہوں (مسز کمفرٹ سے ) جی بالکل آپ کا اندازہ بالکل درست ہے، واقعی اس بات میں کوئی سچائی نہیں، ساری کہانی ہی بے بنیاد مفروضوں پر گھڑی گئی ہے۔

(مسز مینڈر داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے اندر داخل ہوتی ہیں )

مسز مینڈر: تو تم نے میری ملازمہ کو بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں، کیوں ؟ تمھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میں خود اُنہیں تلاش کر لوں گی  اور جب وہ مل جائیں گے تو تم دیکھنا، تمھیں اس گھر سے چلتا کر دیا جائے گا۔

(سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتی ہیں )

مسز کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ عورت تو پیر تسمہ پا بن کر رہ گئی ہے، جان ہی نہیں چھوڑتی (میریگیل سے ) ایک بات تو بتائیں جناب، یہ کون خاتون ہیں ؟

میریگیل: ارے آپ کو پتہ نہیں ہے، یہ مسز کمفرٹ ہیں۔

مسز کمفرٹ: مسز کمفرٹ؟ آپ مجھے دھوکے میں رکھنا چاہ رہے ہیں ؟

میریگیل: نہیں محترمہ، مجھے پتہ ہے کہ یہ خاتون مسز کمفرٹ ہیں۔

مسز کمفرٹ: لیکن یہ کیسے ممکن ہے، مسز کمفرٹ تو میں ہوں۔

میریگیل: (ہکا بکا ہو کر) آ آ آپ؟ آپ مسز کمفرٹ ہیں ؟؟مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ آپ بھی شادی شدہ ہیں !

(مسٹر کمفرٹ، مسٹر  اور مسز مینڈر صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں )

مسز کمفرٹ: میں اپنی بات دھراتی ہوں جناب کہ میں ہی مسز کمفرٹ ہوں، مسٹر کمفرٹ کی منکوحہ۔

میریگیل: ڈک کی بیوی؟

مسز مینڈر: یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟

مسز کمفرٹ: (اُن سب کی طرف پلٹتے ہوئے )یہ سامنے مسٹر کمفرٹ کھڑے ہوئے ہیں  اور میں، مسٹر کمفرٹ کی قانونی بیوی ہونے کی حیثیت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس عورت کو (مسز مینڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) فوری طور پر میرے گھر سے نکال باہر کیا جائے۔

(پردہ گرتا ہے )

٭٭٭

 

 

 

 

تیسرا ایکٹ

 

منظر: وہی جو پہلے  اور دوسرے ایکٹ میں تھا۔

میریگیل: ( اسٹیج کے عین وسط میں ہے  اور اخبار کا مطالعہ کر رہا ہے ) کوئی فائدہ نہیں (اخبار میز پر رکھ دیتا ہے ) میرے خیالات منتشر ہو کر رہ گئے ہیں، ایک بے چینی سی ہے جس نے میرے قویٰ معطل کر کے رکھ دئے ہیں۔ ۔ ۔ چلیں میں ایک  اور کوشش کرتا ہوں، ممکن ہے کہ اس بار میں وہ سب کچھ بھولنے میں کامیاب ہو جاؤں  اور اپنی توجہ کو مربوط کر سکوں (اخبار اٹھا لیا ہے  اور اُسے آگے پیچھے سے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتا ہے  اور مطالعہ کی کوشش کرتا ہے ) نہیں، اب یہ مجھ سے نہیں ہونے والا، لگتا ہے کہ جیسے مجھے کبھی تازہ خبروں میں دلچسپی رہی ہی نہ ہو،  اور تو اور، اب تو ریسلرز کی خبروں سے بھی جی اوب سا گیا ہے۔ ۔ ۔  اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ڈِک کی بیوی؟؟ لیکن ڈک تو کہتا ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہے، کس کی بات پر یقین کیا جائے ؟ کچھ بھی ہو، خاتون کبھی بھی، کسی بھی حال میں غلطی پر نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ ممکن ہے کہ ڈک کے لئے اس شادی کو دوسروں کے سامنے مشتہر کرنے میں کسی قسم کے تحفظات لاحق ہوں، لیکن ایسا کیوں ہے، میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔ ( کسی خیال کے تحت چونک پڑتا ہے ) ارے باپ رے، اب میں سمجھا، ڈک اپنی ملازمہ سے شادی رچا بیٹھا ہے  اور ظاہر ہے کہ یہ بات دوسروں کے سامنے تسلیم کرنے والی نہیں ہے چنانچہ ہینکیاں پینکیاں مارتا پھر رہا ہے، ویسے بھی اُس کے چچا خاصے پرانے خیالات کے مالک ہیں  اور اِس قسم کی شادیوں کے تو سرے سے ہی خلاف ہیں  اور یہ شادی کا وقوعہ بھی کوئی زیادہ پرانا نہیں لگتا کیونکہ ابھی ایک برس قبل کا ذکر ہے کہ اُس کی منگنی کسی دوسری خاتون سے ہوئی تھی۔ ۔ ۔ کیا بھلا سا نام تھا اُس کا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں، اب نہیں یاد آنے والا اُس کا نام، بالکل ہی محو کر کر رہ گیا ہے دماغ سے۔ غالباً یہی ہوا ہو گا کہ اُس خاتون نے ڈک کی اپنی ملازمہ میں دلچسپی کی بابت سُن لیا ہو گا  اور اُس نے خود ہی منگنی توڑ دی ہو گی، ظاہر ہے جانتے بوجھتے مکھی کون نگلتا ہے۔

(صدر دروازے سے ہیرس داخل ہوتا ہے )

ہیرس: سیلی سے آپ کی بات ہوئی جناب؟ میں نے اُسے آپ کی طرف بھیجا تھا۔

میریگیل: ہاں آں، میں اُس سے مل چکا ہوں، مسز کمفرٹ کہاں ہیں ؟

ہیرس: پتہ نہیں جناب، مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، ہاں البتہ اس بات کا مجھے پتہ ہے کہ وہ کمفرٹ صاحب سے سخت ناراض ہیں،  اور اُن دونوں میں جھڑپ بھی ہوئی ہے۔

میریگیل: میں کمفرٹ صاحب کی چچی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔

ہیرس: مجھے پتہ ہے کہ آپ اُن کی بات نہیں کر رہے ہیں، میں بھی اُن کی بات نہیں کر رہا ہوں۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ممکن ہے اسے ڈک کی شادی کے بارے میں علم ہی نہ ہو۔ یہ ڈک بہت کائیاں بندہ ہے، مجھے بھی اس معاملے میں ذرا احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑے گا (ہیرس سے ) میری مراد اُن کی ملازمہ سے تھی، میرا مطلب ہے سیلی سے۔

ہیرس: جی جناب، مجھے پتہ ہے کہ سیلی اُن کی ملازمہ ہے، آپ نے مسز کمفرٹ کہا تھا تو میں اُن کے بارے میں بات کرنے لگا تھا۔  اور میرا نہیں خیال کہ کمفرٹ صاحب کسی بھی صورت پسند فرمائیں گے کہ اُن کی بیوی کو ملازمہ سمجھا جائے، یہ میرا ذاتی خیال ہے جناب۔

میریگیل: ظاہر ہے، کون شخص پسند کرے گا کہ اُس کی بیوی کو ملازمہ سمجھا جائے۔

ہیرس: لیکن آپ نے کچھ ایسا ہی تاثر دیا ہے جناب، پہلے آپ نے پوچھا ہے کہ مسز کمفرٹ کہاں ہیں  اور پھر کہا ہے کہ آپ سیلی کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اِسے تو اس بارے میں برابر بھی شبہ نہیں ہے، لگتا ہے کہ ڈک نے اس معاملے کو بہت زیادہ خفیہ رکھا ہوا ہے۔

ہیرس:  اور سیلی تو مسز کمفرٹ کی جوتیوں سے بھی نہیں ملتی جناب۔

میریگیل: کس کی مسز سے ؟

ہیرس: جی جناب

میریگیل: تم کہہ کیا رہے ہو؟

ہیرس: جوتیوں سے جناب۔

میریگیل: نہیں، میں پوچھ رہا تھا کہ سیلی کس کی جوتیوں سے نہیں ملتی؟

ہیرس: مسز کمفرٹ کی جناب۔

میریگیل: تمھاری مراد اُن بوڑھی خاتون سے ہو گی۔

ہیرس: مسز کمفرٹ بوڑھی تو ہرگز نہیں ہیں جناب۔

میریگیل: خیر، یہ تو تمھارا نقطۂ نظر ہے۔

ہیرس: وہ نوجوان ہیں  اور بہت خوبصورت ہیں۔

میریگیل: خوبصورت۔ ۔ ۔ خیر، یہ بھی تمھارا اپنا نقطۂ نظر ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ہاہاہا، ذرا سوچئیے تو کہ کوئی ڈک کی چچی کو بھی نوجوان  اور خوبصورت کہہ سکتا ہے (ہیرس سے ) بہرحال میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا  اور اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو یہ تمھارا ذوقِ نظر ہے  اور تمھارا ذوق نظر بھی قابلِ علاج ہے۔

ہیرس: لیکن جناب، اگر کمفرٹ صاحب کا خیال ہوتا کہ اُن کی بیوی خوبصورت نہیں ہیں تو وہ ہرگز ہرگز اُن سے شادی نہیں کرتا، وہ اس معاملے پر سمجھوتے کے قائل نہیں، وہ تو وہ، میں بھی ایسا نہیں سوچ پاتا۔

میریگیل: کیا کہہ سکتا ہوں میں، بس وہ بڈھا سٹھیا گیا ہو گا اگر اُس نے اُن خاتون میں کسی قسم کا حسن دریافت کر لیا ہو گا۔

ہیرس: بڈھا جناب؟

میریگیل: (جھنجھلاتے ہوئے ) ہاں ہاں، بڈھا، کیا تم بہرے ہو گئے ہو؟

ہیرس: آپ کہنا کیا چاہتے ہیں جناب؟

میریگیل:  اور میں پوچھتا ہوں کہ تم کیا کہہ رہے ہو، انتہائی احمق  اور ماٹھے ہو تم، کمفرٹ کا خیال بالکل ٹھیک ہے تمھارے بارے میں۔ ۔ ۔ حد ہو گئی، خود بھی الجھی الجھی باتیں کرتے ہو  اور مجھے بھی چکرا کر رکھ دیتے ہو۔

ہیرس: جیسی آپ کی مرضی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے تو لگتا ہے کہ یہ صاحب سٹھیا گئے ہیں، بھلا یہ ہمارے کمفرٹ صاحب کو بڈھا کیسے کہہ رہے ہیں (میریگیل سے ) میں رچرڈ صاحب کے بارے میں بات کر رہا ہوں جناب۔

میریگیل: نہیں، تم رچرڈ کے بارے میں نہیں بلکہ تم کہہ رہے تھے کہ سیلی تو مسز کمفرٹ کی جوتیوں سے بھی نہیں ملتی۔

ہیرس: وہ واقعی ایسی ہی ہیں جناب۔

میریگیل: واہ بھئی واہ، ثابت کرتے ہو کہ تم اول تا آخر سکاٹ ہو، تمھیں پتہ بھی ہے کہ اُس کی بیوی کون ہے۔

ہیرس: بالکل جناب، مجھے تو ایک سال پہلے سے پتہ ہے کہ مسز کمفرٹ کون ہیں۔

میریگیل: ایک سال سے، لیکن وہ ایک سال سے تو نہیں ہیں یہاں پر؟

ہیرس: جی جناب، جب سے اُن کی منگنی ہوئی، اس بارے میں کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا، میں نے بھی اس معاملے کو ویسا ہی سیکرٹ رکھا ہے جیسا مس ایڈتھ نے !

میریگیل: مس ایڈتھ، کون مس ایڈتھ؟

ہیرس: میں مس ایڈتھ کی بات کر رہا ہوں جناب، مس ایڈتھ بارلے کی، اگرچہ اب تو اُن کو اس نام سے کم ہی لوگ پکارتے ہیں، ظاہر ہے کہ شادی کے بعد خواتین کے نام بدل جاتے ہیں۔

میریگیل: ایڈتھ بارلے، بالکل، اب یاد آیا، یہی وہ خاتون تھیں جس کے ساتھ ڈِک کی نسبت طے ہوئی تھی۔

ہیرس: بالکل جناب، میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔

ہیرس: لیکن ڈک توا ب شادی شدہ ہے۔ ۔ ۔ (کہتے کہتے رُک جاتا ہے )

ہیرس: ظاہر ہے جناب، میں یہ بھی بتا چکا ہوں آپ کو۔

میریگیل:(منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ہوں، تو ثابت ہوا کہ اس بندے کو ڈک کی شادی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں (ہیرس سے )  اور اب مسز کمفرٹ کہاں ہیں ؟

ہیرس: پتہ نہیں اس وقت کہاں ہیں وہ۔ کہیں آس پاس ہی ہوں گی، وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتی ہیں، سوائے اس وقت کے کہ جب اُنہیں اپنی والدہ سے ملنے کے لئے قصبے جانا پڑے  اور یہ موقع ہفتے میں کم از کم ایک بار تو ضرور آتا ہے۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے ابھی  اور اسی وقت کمفرٹ سے ملنا ہو گا  اور اس بارے میں وضاحت طلب کرنی ہو گی، پتہ نہیں کیا گورکھ دھندہ پھیلاتا پھر رہا ہے یہ بندہ۔ (ہیرس سے ) کمفرٹ سے کہو کہ میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں، آج اُس سے دو دو باتیں ہو ہی جائیں۔

ہیرس: جی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ اِنہیں دو دو باتیں کرنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔ (صدر دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )۔

میریگیل:دودو بیویاں، ڈک ہمیشہ سے شوقین مزاج رہا ہے لیکن یہ تو حد ہی ہو گئی، یعنی کہ دو دو بیویاں  اور وہ بھی ایک وقت میں، واہ بھئی واہ،  اور اوپر سے موصوف اس امر کے بھی دعویدار ہیں کہ انہوں نے سرے سے شادی ہی نہیں کی، کہا کہنے ڈک کے واہ بھئی واہ۔

(مینڈر  اور مسز مینڈر داہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتے ہیں )

مینڈر چچا: ٹھیک ہے کلیمنٹائن، مجھے تمھارا ہر مطالبہ منظور ہے۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ایک  اور انہونی، مجھے مینڈر صاحب سے ڈک کے بارے میں بات کرنی ہی پڑے گی۔

مینڈر چچا: تم جو کچھ کہہ رہی ہو وہ بالکل ٹھیک ہے، کمفرٹ کو وضاحت پیش کرنی پڑے گی۔

میریگیل:  اور آپ کے خیال میں، میں کیا کہہ رہا ہوں جناب؟

مینڈر چچا: (میریگیل پر نظر پڑتی ہے تو آواز میں غصیلا پن آ جاتا ہے ) بھلا تمھیں کیا حق ہے کہ تم اس معاملے میں کچھ سوچو مسٹر؟

میریگیل: (بوکھلاتے ہوئے )ح ح حق جناب، میرا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: حد ہو گئی۔

مسز مینڈر: بالکل، یہ تو حد ہو گئی۔

مینڈر چچا: کیا تم نے یہ اپنا فرض سمجھ لیا ہے کہ ہر شخص کے معاملے میں اپنی ٹانگ اَڑاتے پھرو۔ ۔ ۔ تم نے تو میرے  اور میری بیوی کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے، آخر تم چاہتے کیا ہو۔

میریگیل: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، میں نے تو حتی ٰ المقدور کوشش کی ہے کہ آپ دونوں کے بیچ جو معاملات ہیں اُس میں بہتری پیدا کی جائے اور۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: بالکل نہیں، مُکے سے کبھی کیل نہیں ٹھونکی جا سکتی۔

مینڈر چچا:  اور اگر ایسا کرو گے تو نہ صرف اپنے ہاتھ کا ستیاناس کرو گے بلکہ نکو بھی کہلاؤ گے۔

میریگیل: لیکن میں نے تو بڑی نیک نیتی سے۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: (بات کاٹتے ہوئے ) تمھاری نیک نیتی کو شہد لگا کر چاٹا جائے صاحبزادے ؟ تمھاری کوششوں کا کوئی نتیجہ نکلا؟

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ویسے ہے تو یہ سچ کہ میں بیکار ہوا میں تیر چلاتا رہا ہوں۔

مینڈر چچا: جب تک پانی کی گہرائی کا اندازہ نہ ہو، بندے کو ڈُبکی لگانے سے پرہیز ہی کرنا چاہیئے۔

میریگیل: آپ ٹھیک فرما رہے ہیں جناب۔

مینڈر چچا: (قدرے تیز لہجے میں )تب پھر آپ بھی حماقت فرمانے سے پرہیز فرمائیں محترم۔

میریگیل: ٹھیک ہے جناب، اب میں احتیاط کروں گا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اِن لوگوں کو لڑتا مرتا دیکھوں گا تو رُخ موڑ کر گزر جاؤں گا، لیکن لگتا ہے کہ اِن دونوں میاں بیوی میں کوئی انہونا سا سمجھوتہ ہو چلا ہے (مینڈر چچا سے ) لیکن جناب، ایک معاملہ ایسا بھی ہے جس پر میں بات۔ ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: میرے پاس تضیعِ اوقات کے لئے وقت نہیں۔

میریگیل: اگر آپ کی بیوی ذرا سی دیر کے لئے یہاں سے تشریف لے جائیں تو میں۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: میری بیوی چلی جائے۔ ۔ ۔ بھلا وہ کس خوشی میں ؟

مسز مینڈر: اب ہمیں کوئی سازشی جدا نہیں کر سکتا۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) واہ، کیا ڈائیلاگ مارا ہے بڑھیا نے، تو پھر ٹھیک ہے، میرے بھی ٹھینگے سے، اگر یہ دونوں اِتنے ہی لیلیٰ مجنوں بنے ہوئے ہیں تو (مینڈر چچا سے ) مجھے آپ دونوں میاں بیوی میں اس قدر حسنِ اتفاق دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے لیکن۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: میں اپنی بیوی سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا۔

مسز مینڈر: (میریگیل کی طرف دیکھ کر، مسکراتے ہوئے )  اور اگر یہاں سے کسی کو کوچ کرنے کا شوق ہو رہا ہے تو وہ جا سکتا ہے۔ (کرسی پر بیٹھ جاتی ہے )

مینڈر چچا: بالکل، میری طرف سے پوری پوری اجازت ہے۔

(کمفرٹ اسٹیج کے داہنی طرف والے پہلے دروازے سے داخل ہوتا ہے )

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ایڈتھ تو مفاہمت پرکسی طور بھی آمادہ نہیں۔

میریگیل: ارے ڈک! شکر ہے تمھاری شکل تو نظر آئی، مجھے تم سے کسی۔ ۔ ۔ کسی موضوع پر بہت ضروری بات کرنی ہے۔

مینڈر چچا: بھتیجے، مجھے تمھارے قیمتی وقت سے چند لمحے درکار ہیں۔

کمفرٹ: واہ، میری تو بہت ضرورت پڑ گئی ہے دنیا والوں کو۔

میریگیل: بھتیجے، اگر تم میرے ساتھ سٹنگ روم میں چلو تو میں۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: نہیں رچرڈ، تم یہیں رکو۔

میریگیل: لیکن میں اِنہیں کافی دیر سے بلوا رہا ہوں  اور میرا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: تم اپنے فضول خیالات کو رہنے دو میاں۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب آپ لوگ ہی کہئے کہ میں کیا کروں۔ ۔ ۔ چکرا کر رکھ دیا ہے اِن لوگوں نے !

مینڈر چچا: تمھارے چچا ہونے کی حیثیت سے میرا حق فائق ہے کہ تم میری بات پہلے سنو۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بہتر ہے کہ میں یہیں رہوں  اور مقدور بھر کوشش کروں کہ طوفان ٹل جائے (مینڈر چچا سے ) چچا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں، سب سے پہلے اِنہیں کو استحقاق حاصل ہے کہ مجھ سے ہر قسم کی باز پرس کریں، میں انہیں مطمئن کرنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔

مینڈر چچا: خوشی کی بات ہے کہ تمھیں اب بھی مراتب کا خیال ہے۔ سامنے بیٹھ جاؤ۔

کمفرٹ: میں یہیں ٹھیک ہوں۔

مینڈر چچا: میں کہہ رہا ہوں بیٹھ جاؤ۔ ( کرسی پر بیٹھ جاتا ہے )

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ طوفان خاصا تیز رفتار ہے، مجھے اپنے قدم زمیں پر سختی سے گاڑنے ہوں گے۔

(مینڈر چچا کے داہنی والی کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے )

مینڈر چچا: بھتیجے، تمھیں اب تک ہونے والے تمام واقعات کی وضاحت پیش کرنی پڑے گی۔

کمفرٹ: جیسا آپ فرمائیں چچا جان، میں حاضر ہوں ہر خدمت کے لئے۔

مینڈر چچا:سوال تم نہیں میں کروں گا،  اور سب سے پہلے تم سے اس امر کی وضاحت چاہوں گا کہ یہاں میری بیوی کی توہین کی گئی ہے، کیوں ؟

مسز مینڈر: توہین  اور وہ بھی اِس گھر کی ایک معمولی ملازمہ نے۔

کمفرٹ: کیا؟۔ ۔ ۔ ناممکن!!

مینڈر چچا: تم کہنا کیا چاہتے ہو بھتیجے۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہوا ہے  اور میں تم سے اس کی وضاحت چاہتا ہوں۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ارے یہ تو طوفانِ باد و باراں ہے (مینڈر چچا سے ) لیکن چچا جان، میں تو چچی جان کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

مینڈر چچا: نہیں، تم نے ایسا ہی کیا ہے  اور اگر تم نے خود نہیں بھی کیا ہے تو جو کچھ ہوا ہے تمھاری اجازت  اور رضا مندی سے ہوا ہے، چنانچہ دونوں ایک ہی بات ہیں۔

مسز مینڈر: مطلب یہ کہ تمھیں نے اُس ملازمہ کو رکھا ہوا ہے۔

کمفرٹ: ہاں وہ ہے تو میری۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: اُسے فوراً سے پہلے چلتا کرو۔

کمفرٹ: لیکن چچا جان۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: تو تم اُسے برخواست کرنے سے انکار کر رہے ہو (مینڈر چچا سے علیحدگی میں ) لگتا ہے ہمارے شک میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے۔

مینڈر چچا:  اور بھتیجے، ایک  اور معاملہ بھی ہے۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی، اب تو یہ سیلاب سر سے گزرتا جا رہا ہے۔

مینڈر چچا: تم اپنی شادی سے متعلق میرے خیالات سے آگاہ ہی ہو، اب ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمھاری ملازمہ یہ کیوں کہہ رہی تھی کہ وہ تمھاری بیوی ہے۔ ۔ ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟؟

کمفرٹ: لیکن میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا ہے ناں چچا جان۔

میریگیل: لیکن ڈک، تم جانتے ہو کہ۔ ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: تم کون ہوتے میاں، ہماری باتوں میں مداخلت کرنے والے ؟ (کمفرٹ سے ) اُس ملازمہ نے جو کہا ہے تم اُس کی بات کرو۔

کمفرٹ: مم۔ ۔ ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں چچا جان، سوائے اس کے کہ وہ کچھ کھسکی ہوئی ہے۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) توبہ، یہ تو جھوٹوں کا سردار ہے۔

مینڈر چچا: تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ تم نے اُس خاتون سے شادی نہیں کی ہوئی ہے ؟

کمفرٹ: میں نے کسی بھی خاتون سے شادی نہیں کی ہوئی ہے۔

میریگیل: ڈک، تم کیسے بندے ہو، کس ڈھٹائی سے کھڑے ہوئے ہو جبکہ۔ ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: (میریگیل سے، خشک لہجے میں )اپنے کام سے کام رکھو میاں (کرسی سے اٹھتے ہوئے ) تمھارا اس سے کیا تعلق کہ رچرڈ کھڑا ہوا ہے یا بیٹھا ہوا ہے، تمھاری بلا سے اگر میرے بھتیجے نے ایک چھوڑ دس ہزار عورتوں سے شادی رچا رکھی ہو۔

مسز مینڈر: اسے حق پہنچتا ہے کہ یہ جس سے چاہے شادی کرے۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: ہم سے پوچھے بغیر؟

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اس سے پہلے کہ میں اس طوفان میں کسی تنکے کی طرح بہہ جاؤں، مجھے حسب ماتقدم کے طور پر یہاں سے کھسک لینا چاہیئے (اٹھتا ہے ) (میریگیل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ) کیا بات ہے، تم مجھ سے اکیلے میں کیوں ملنا چاہتے تھے ؟

میریگیل: اگر تم برا نہ مناؤ تو ہم کچھ دیر کے لئے سٹنگ روم چلے چلتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ تمھارے چچا  اور چچی میری یہاں موجودگی کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے۔

مسز مینڈر:  اور یاد رکھو رچرڈ، تمھیں اُس ملازمہ کو نکال باہر کرنا ہو گا۔

مینڈر چچا: بالکل، میں قطعاً برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی میری بیوی کی توہین کرے  اور اُسے اُس کی قرار واقعی سزا نہ دی جائے۔

کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خود اپنی بیوی کو ہی نکال باہر کروں ؟ اب میں کیا کروں ؟؟

(کمفرٹ  اور میریگیل اسٹیج سے باہر نکل جاتے ہیں )

مسز مینڈر: میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا، اُس عورت نے واضح طور پر کہا تھا کہ رچرڈ اُس کا شوہر ہے، بھلا وہ کس برتے پر ایسا کہہ رہی تھی؟

مینڈر چچا: یہ معاملہ تو کچھ زیادہ ہی پُراسرار ہوتا جا رہا ہے۔ (کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) لیکن رچرڈ بھی تو کہہ رہا ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں، تم خود ہی سُن چکی ہو اور ظاہر ہے ہمیں ایک معمولی باورچن کے مقابلے میں اپنے بھتیجے کی بات پر یقین کرنا ہے۔ مجھے بھی یہ عورت کچھ کھسکی ہوئی سی لگ رہی ہے، کیا پتہ یہ عورت ہمارے بھتیجے پر ریجھ گئی ہو  اور اس سے شادی کرنا چاہ رہی ہو  اور اُس کی یہ خواہش اس کے لاشعور پر اس قدر حاوی ہو گئی ہو کہ وہ شعوری طور پر سچ مچ خود کو اُس کی بیوی سمجھ بیٹھی ہو۔

مسز مینڈر: لیکن اگر وہ ایسی ہی پاگل ہے تو رچرڈ اُس کو نکال باہر کرنے میں ہچکچاہٹ سے کیوں کام لے رہا ہے۔

مینڈر چچا: یہی بات تو سمجھ میں نہیں آ رہی ہے، بہرحال، میں دیکھوں گا کہ وہ عورت کس طرح اس گھر میں رہتی ہے۔ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی ایرا غیرا میری بیوی کی توہین کرتا پھرے۔

مسز مینڈر: ایرا غیرا۔ ۔ ۔ تو کیا تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ واقف کار لوگ میری توہین کر سکتے ہیں۔

مینڈر چچا: اوہ ہرگز نہیں، کبھی نہیں۔

مسز مینڈر:  اور تم اب مجھ سے جھگڑا بھی نہیں کرو گے ؟

مینڈر چچا: نہیں آئندہ ایسانہیں ہو گا، لیکن ڈئر، یاد رکھو، تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

مسز مینڈر: کبھی کبھی ایک ہاتھ سے بھی بج جاتی ہے۔

مینڈر چچا: نہیں، اگر دوسرا بندہ نہ چاہے تو کوئی تنِ تنہا ہرگز نہیں لڑ سکتا۔

مسز مینڈر: لیکن کوئی تنِ تنہا لڑائی کا آغاز تو کر سکتا ہے۔

مینڈر چچا: ہاں یہ بھی سچ ہے، لیکن اب ماضی کو بھول جاؤ، میں تمھیں کوئی الزام تو نہیں دے رہا ہوں۔

مسز مینڈر: الزام  اور مجھے، تمھارے پاس مجھے الزام دینے کو ہے ہی کیا؟

مینڈر چچا: میں تمھاری لڑائی جھگڑوں کے حوالے دے سکتا ہوں۔

مسز مینڈر: میرا کبھی کوئی قصور نہیں رہا ہے۔

مینڈر چچا: چھوڑو بھی کلیمنٹینہ، ہم دونوں ہی۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: صرف اپنی بات کرو۔

مینڈر چچا: تمھارا پارہ تو ایک دم ہی چڑھ جاتا ہے۔ تم سے تو کوئی عقل والی بات کرنا ہی فضول ہے۔

مسز مینڈر: بالکل،  اور جب وہ تمھاری عقل والی بات ہو تو پھر تو کبھی بھی نہیں۔

مینڈر چچا: دیکھو کلیمنٹینہ، اب تم دوبارہ وہی کچھ شروع ۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: ہاں ہاں، کہو کہو، میں دوبارہ تم سے لڑنا چاہ رہی ہوں (طنزیہ انداز میں )  اور تم مجھ سے لڑنا ہی نہیں چاہ رہے، کیوں ؟ ہاہاہاہا، بات در اصل یہ ہے کہ تمھیں اپنے حواسوں پر کنٹرول رہا ہی نہیں ہے۔

مینڈر چچا: (آہستگی سے ) تو اب میں کیا کہہ۔ ۔ ۔

مسز مینڈر: تمھیں جرأت کیسے ہوئی مجھ سے اس انداز میں بات کرنے کی (اُٹھتے ہوئے ) تم ایک ناسور ہو، ایک ایسا ناسور، جس کا پارہ ہمیشہ بانس پر چڑھا رہتا ہے، اس وقت بھی تمھاری آنکھیں شعلے اُگل رہی ہیں۔ تمھاری باتوں میں زہر گھلا رہتا ہے، تمھارے لہجے میں سانپ لوٹتے ہیں۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ (مینڈر چچا کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں ) خبردار جو مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی، ایک لفظ بھی مت نکالنا اپنی زہریلی زبان سے، میں نے تمھاری کوئی بات نہیں سننی۔ (سامنے والے دروازے کے کمرہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہے )

مینڈر چچا:  اور سُنئے  اور سر دھنئے، میری زبان زہریلی ہے، میرا پارہ بانس پر چڑھا رہتا ہے، لڑائی کا آغاز میں کرتا ہوں، میری آنکھیں شعلے اُگلتی ہیں، بھلا میری آنکھوں میں کسی قسم کا کوئی غصہ دکھائی دے رہا ہے، کتنے افسوس کی بات ہے، ابھی تو ہم میں اچھی خاصی ہم آہنگی پیدا ہوئی تھی  اور محترمہ نے ایک منٹ میں لُٹیا ڈبو کر رکھ دی۔ اب کچھ بھی ہو جائے، میں نے کسی قسم کی لچک نہیں دکھانی، جب میرا اس معاملے میں کوئی قصور ہے ہی نہیں تو میں کیوں معذرتیں کرتا پھروں۔ (ڈرائنگ روم سے میریگیل اندر داخل ہوتا ہے )

میریگیل: (دروازے کی طرف منہ کر کے بآوازِ بلند) ٹھیک ہے ڈک، میرا اب اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، میں۔ ۔ ۔

کمفرٹ: (کمرے داخل ہوئے بغیر) تو پھر ٹانگ کیوں اڑاتے پھر رہے ہو؟

میریگیل: (دوبارہ دروازے کی طرف منہ کر کے بآوازِ بلند) تمھارا طرزِ عمل ہی کچھ اس قسم کا تھا،  اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔

کمفرٹ: (کمرے داخل ہوئے بغیر) جب میں جانتا ہوں تو تم مجھے بتانا کیا چاہتے ہو؟

میریگیل: (خود کلامی کے انداز میں ) کتنا ڈھیٹ  اور کمینہ بندہ ہے یہ ڈک بھی، ٹھیک ہے، اب میں بھی اسے ٹھینگے پر رکھوں گا، ڈوبتا ہے تو ڈوبے، میری بلا سے۔

مینڈر چچا: رچرڈ نے تمھیں مدد کے لئے پکارا تھا؟

میریگیل: نہیں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، جب کسی بندے کا جھاکا عورتوں کے معاملے میں کھل جائے تو وہ دو شادیاں کرے یادس شادیاں، اُسے کون منع کر سکتا ہے، پھر وہ کسی کی سنتا ہی کب ہے۔

مینڈر چچا: تم عجیب الجھی الجھی سی باتیں کر رہے ہو، کچھ عقل کو ہاتھ مارو۔

میریگیل: کاش میں ڈک کے کسی کام آ سکوں۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: یہ شادیوں سے تمھاری کیا مراد ہے ؟ رچرڈ کا اس سے کیا لینا دینا ہے ؟؟

میریگیل: سامنے کی بات ہے، ڈک انکار کر رہا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے جبکہ میرا دعویٰ ہے کہ اُس کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔

مینڈر چچا: ظاہر ہے اُس نے انکار ہی کرنا ہے، اُس نے جب شادی کی ہی نہیں تو بھلا وہ کیسے مانے کہ۔ ۔ ۔

میریگیل: ڈک نے نہ صرف اپنی ملازمہ سے شادی کر رکھی ہے بلکہ اُس کی ایک  اور بیوی بھی ہے۔

مینڈر چچا: ہیں۔ ۔ ۔ کیا کہا؟ دو دو شادیاں۔ ۔ ۔ ناممکن (مینڈر چچا اُٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں )

میریگیل: یہ آپ کا خیال ہے، میں تو کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے بلکہ ایسا ہو بھی چکا ہے۔ اُس نے دو دو شادیاں رچا رکھی ہیں۔  اور مجھے اس پر پورا پورا یقین ہے۔ اب اگر کوئی سوال ہے تو یہ ہے کہ اُس نے اس سلسلے کو کس حد تک پہنچایا ہوا ہے، میرا مطلب ہے کہ کتنی شادیاں کر رکھی ہیں۔

مینڈر چچا: مجھے تو تمھاری کسی بات پر بھی یقین نہیں آ رہا، بھلا تم ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہو؟

میریگیل: پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ اُس خاتون نے ایسا خود کہا ہے۔

مینڈر چچا: ایک ایسی عورت نے جو کھسکی ہوئی ہے۔

میریگیل: یہ آپ کا خیال ہے جناب، میں اُن خاتون سے بات چیت کر چکا ہوں  اور میں نے اُن کے انداز سے اخذ کیا ہے کہ اس بات میں اس قدر صداقت ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

مینڈر چچا: بکواس۔ ۔ ۔ بھلا تم نے ایسا کیا سُن لیا ہے اُس عورت سے ؟

میریگیل: اِتنا کہ جو میرے شبے کی تصدیق کے لئے کافی تھا،  اور جب سے میں نے ڈک کی باتیں سنیں تو میرا شک یقین میں بدل گیا ہے۔

مینڈر چچا:  اور وہ کیا تھا؟

میریگیل: یہی جو میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ڈک نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔

مینڈر چچا: مجھے تمھاری باتوں پر رتی برابر بھی بھروسہ نہیں لیکن۔ ۔ ۔ (طنزیہ لہجے میں ) تمھاری معلومات  اور مشاہدات دونوں عدیم المثال ہیں۔  اور وہ دوسری خاتون کون ہیں ؟

میریگیل: وہ لڑکی جس سے ایک برس قبل ڈک کی نسبت طے ہوئی تھی۔

مینڈر چچا: یہ کیسے ہو سکتا ہے، رچرڈ نے خود مجھے بتایا تھا کہ اُس کی تسبت جن خاتون سے طے ہوئی تھی وہ معاملہ کب کا ختم ہو چکا ہے، اب تو مجھے پورا یقین ہو گیا ہے کہ تمھارے شکوک و شبہات بالکل بے بنیاد ہیں۔

میریگیل: ٹھیک ہے ڈک نے ایسا ہی کہا ہو گا آپ سے لیکن کیا وہ جھوٹ نہیں بول سکتا؟

مینڈر چچا: (غصے سے ) خاموش ہو جاؤ، مجھ سے جھوٹ تم بول سکتے ہو لیکن رچرڈ، ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ اب تم ذرا یہ تو بتاؤ کہ اُس نے اگر یہ شادیاں کی ہوئی ہیں تو ہم سے چھپانے کی اُسے ضرورت ہی کیا ہے ؟

میریگیل: بظاہر تو کوئی وجہ نہیں لیکن کیا پتہ اُسے آپ کی طرف سے شدید ردِ عمل کا خطرہ ہو، اس لئے وہ اس سارے معاملے کو چھپانا چاہ رہا ہو۔

مینڈر چچا: میری جانب سے تو شدید ردِ عمل کا خطرہ اُسے ہونا بھی چاہیئے، وہ اس ضمن میں مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ ۔ ۔ تو کیا واقعی تم درست کہہ رہے ہو، میں اس کا پتہ لگا کر رہوں گا (صدر دروازے کی طرف جاتا ہے ) لیکن نہیں، تمھارے شبہات پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا، اس معاملے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے مزید ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ یہ ملازمہ کہاں ہے، سب سے پہلے میں اس سے ملنا چاہوں گا۔

میریگیل: آپ یہیں ٹھہریئے، میں اُسے آپ کی طرف بھیجتا ہوں، آپ خود دیکھیں گے کہ میرا دعویٰ کتنا درست ہے۔

مینڈر چچا: یہ تو ایک سکینڈل ہوا، صریحاً سکینڈل، یعنی کہ حد ہو گئی، لیکن نہیں، یہ محض شبہ ہی ہے، اس میں صداقت نہیں ہو سکتی، میرا دل کہتا ہے کہ یہ سب کسی قسم کی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔ ۔ ۔ دو دو بیویاں، اگر ایسا ہے تو مجھے تو غریب رچرڈ پر ترس آ رہا ہے، کیا تماشہ ہوتا ہو گا جب وہ اُن دونوں بیویوں سے بیک وقت لڑائی کر رہا ہوتا ہو گا، یا، یا وہ دونوں اُس سے بھِڑ پڑتی ہوں گی، غضب کا طوفانی منظر دکھائی دیتا ہو گا۔

(مسز کمفرٹ داہنی والے دروازے نمبر ۱ سے داخل ہوتی ہیں، مینڈر چچا منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی، یہ ملازمہ تو حاضر ہو گئی پیشی کے لئے، ویسے دیکھنے میں تو یہ کچھ ایسی بھی بُری نہیں ہے۔ (مسز کمفرٹ سے، انتہائی نرم لہجے میں ) دیکھیں محترمہ، میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہ رہا ہوں (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بہتر ہے کہ ابھی اِن خاتون سے پیار دُلار سے بات کی جائے۔

مسز کمفرٹ: آپ ہی مسٹر مینڈر ہیں، ڈک کے چچا؟

مینڈر چچا: جی بالکل، میں ہی ڈک کا چچا ہوں۔

مسز کمفرٹ: ڈک نے مجھے بتایا تھا کہ آپ ہمارے یہاں آئے ہوئے ہیں۔

مینڈر چچا: تم دونوں میں اِتنی بھی بے تکلفی نہ ہو گی کہ تم اُسے کمفرٹ صاحب کہنے کے بجائے ’’ڈک‘‘ کہہ کر پکارو۔

مسز کمفرٹ: افوہ، معذرت، میں بھول گئی، واقعی دوسروں کے سامنے مجھے اُنہیں کمفرٹ ہی کہنا چاہیئے تھا۔

مینڈر چچا: لیکن ایک ملازمہ کو تو اس امر کا استحقاق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مالک کو اُس کے سامنے بھی اُس کے نام سے پکارے۔

مسز کمفرٹ: میں ملازمہ نہیں ہوں بلکہ کمفرٹ کی بیوی ہوں۔ ۔ ۔ آپ مجھے ملازمہ کیوں سمجھ رہے ہیں، کیا کمفرٹ نے آپ سے کہا ہے کہ میں ملازمہ ہوں۔ ۔ ۔ میں یقیناً ملازمہ بن کر رہ جاؤں گی اگر کمفرٹ نے دوسرا بیاہ کر لیا ہو گا (رونے لگتی ہے )۔

مینڈر چچا: اچھا۔ ۔ ۔ اب روؤ تو نہیں۔ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب میں کیا کروں، روتی ہوئی عورت  اور غصیلی گھوڑی پر قابو پانا کسی خاص جادو ٹونے کا متقاضی ہے، جس سے کم از کم میں تو واقف نہیں۔ (مسز کمفرٹ سے ) رچرڈ کی کوئی بیوی نہیں، اس بات کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے (پھر تیزی سے ) سوائے تمھارے، اگر تم ہو تو۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: (بھرائی ہوئی آواز میں ) لیکن اُس کی دوسری بیوی بھی ہے، مم، مم، میں جانتی ہوں کہ وہ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) جب کسی خاتون کسی بات کو جاننے کا دعویٰ کرے تو اُس کو کوئی دوسری بات بتانا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

مسز کمفرٹ: وہ اسی گھر میں موجود ہے، میں ڈک  اور اُسے بغلگیر ہوتے ہوئے دیکھ چکی ہوں۔

مینڈر چچا: کیا کہا، تم اُسے دیکھ چکی ہوں، یہاں، اس گھر میں، ناممکن، کیا تمھیں یقین ہے ؟

مسز کمفرٹ: جی، میں نے خود دیکھا تھا۔

مینڈر چچا: کیا تمھارے پاس کوئی ثبوت ہے کہ تم رچرڈ کی بیوی ہو، میرا مطلب ہے کوئی نکاح نامہ ہے تمھارے پاس؟

مسز کمفرٹ: جی ہاں، میرے کمرے میں پڑا ہوا ہے۔

مینڈر چچا: اور تم نے اُس نالائق کو کسی دوسری عورت سے بغلگیر ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا؟ کیا تمھیں یقین ہے کہ وہ کوئی عورت ہی تھی؟؟

مسز کمفرٹ: مجھے سو فیصد یقین ہے۔

مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میرا میٹر پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے  اور غصہ ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، میری آنکھیں تو بالکل انگارہ بن کر رہ گئی ہوں گی۔ ۔ ۔ رچرڈ رچرڈ رچرڈ، یہ تم نے کیا کیا، میرے اعتماد کو اس بری طرح دھچکا کیوں لگایا ہے تم نے ( مسز کمفرٹ سے ) سیلی، کیا تم جانتی ہو کہ۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: جی میرا نام ایڈتھ ہے۔

مینڈر چچا: ایڈتھ؟ اُس نے تو مجھے تمھارا نام سیلی بتایا تھا۔ ۔ ۔ ایک  اور دھوکہ۔ ۔ ۔ ایڈتھ، کیا تم جانتی ہو کہ تمھارا شوہر کرتا کیا ہے، میرا مطلب ہے کہ اُس کی کمائی کا ذریعہ کیا ہے ؟

مسز کمفرٹ: فی الحال تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اُس نے مجھے بتا رکھا ہے کہ آپ اُسے سالانہ خطیر رقم دیتے ہیں گھر کے خرچے کے لئے، کیا یہ درست ہے ؟

مینڈر چچا: ہاں، افسوس کہ یہ درست ہے، لیکن کیا تم جانتی ہو کہ یہ رقم اُسے کس شرط پر ملتی ہے ؟

مسز کمفرٹ: نہیں، مجھے کسی شرط کا علم نہیں۔

مینڈر چچا: شرط یہ تھی کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گا۔

مسز کمفرٹ: ایسی تو کوئی بات نہیں بتائی اُنہوں نے مجھے۔

مینڈر چچا: ظاہر ہے، وہ بتا بھی کیسے سکتا تھا، انتہائی مکّار ہے وہ۔ ۔ ۔ گویا کہ ایک  اور دھوکہ۔ ۔ ۔ دیکھ لو ایڈتھ، میرا اپنا بھتیجا مجھ سے کیسا سلوک کرتا رہا ہے، وہ بھی ایسا بھتیجا جس سے میں بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ میرے لئے ناقابل برداشت ہے یہ بات، خیر، جو اُس سے ہو سکا وہ اُس نے کیا، اب میری باری ہے۔ اُس نے جتنا میرے ٹین باندھنا تھا باندھ چکا، اب جو ٹین میں اُس کے باندھوں گا وہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔

مسز کمفرٹ: اوہ چچا جان، پلیز ڈک کے ساتھ کچھ ایسا ویسا مت کیجئے گا، میں اب بھی اُسے اُسی قدر چاہتی ہوں جتنا پہلے چاہتی تھی، میری محبت کا کوئی رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے، مجھے یقین ہے کہ اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں ہو گا، یہ سب اُس مکروہ  اور مکار بڑھیا کا کیا دھرا ہے، اُسی نے اسے پٹیاں پڑھائی ہوں گی، اگر ڈک واقعی اُسے۔ ۔ ۔ اُسے۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: ڈک نے اُسے شہ دے رکھی ہو گی، کہاں ہے وہ، میں خود اُسے نکال باہر کروں گا۔

مسز کمفرٹ: (جذباتی ہو کر مینڈر چچا کا ہاتھ تھام لیتی ہے ) آپ بہت مہربان شخص ہیں، پلیز، ڈک کو کچھ مت کہئے گا۔

مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ تو بہت ہی پیاری بچی ہے (مسز کمفرٹ سے ) نہیں، میں اُسے معاف نہیں کر سکتا۔

(مسز مینڈر داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے کسی طوفان کی مانند داخل ہوتی ہیں )

مسز کمفرٹ: پلیز، میری خاطر۔

مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میری بیوی کا کیا ردِ عمل ہو گا اگر وہ ہم دونوں کو اس حالت میں دیکھ لے (مسز کمفرٹ سے ) چلو، میں کوشش کروں گا کہ تمھاری خاطراُسے کچھ زیادہ سزا نہ دوں لیکن ایک بار اُس کے ہوش ضرور اُڑاؤں گا، یہ تو طے ہے، بلکہ میں ابھی اُس کی خبر لیتا ہوں، وہ اس وقت سٹنگ روم میں ہے۔ (سٹنگ روم کی جانب جاتا ہے )

مسز کمفرٹ: اس سارے معاملے میں اُس کا کوئی قصور نہیں ہو گا، مجھے یقین ہے اس بات کا۔

مسز مینڈر: (پھنکارتے ہوئے ) لیکن تمھارا قصور تو بہرحال ہے، تم، تم۔ ۔ ۔ پتہ نہیں تمھیں ایسی کن شرائط پر یہاں رکھا گیا ہے لیکن میں تمھیں ہرگز ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دوں گی کہ تم اپنے آپ کو کمفرٹ کی بیوی کہو  اور اُس کو بدنام کرتی پھرو۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسری عورت کے خصم پر ڈورے ڈالو  اور اپنا مطلب نکلواؤ۔

مسز کمفرٹ: میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں تمھیں ابھی تک سمجھ نہیں پائی ہوں کہ تم ہو کیا شے،  اور تمھیں مجھ سے اس انداز مین باتیں کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔

مسز مینڈر: سچی بات کرنے کی جرأت ہے مجھ میں۔

مسز کمفرٹ: تم جانتی ہو کہ تم جھوٹ بول رہی ہو، میں پھر تمھیں حکم دیتی ہوں فوراً یہاں سے چلتی بنو۔

مسز مینڈر: میں تمھاری بات کیوں مانوں ( کرسی پر بیٹھ جاتی ہے ) تم دیکھتی جاؤ کہ میں کرتی کیا ہوں، میں یہاں بیٹھی ہوئی ہوں  اور اُس وقت تک بیٹھی رہوں گی جب تک میرا دل چاہے گا۔

مسز کمفرٹ: تو تم یہاں سے جانے سے انکار کر رہی ہو۔

مسز مینڈر: بالکل! میں صرف اُسی کی بات سنوں گی جس کے پاس اس بات اکاستحقاق ہو گا۔

مسز کمفرٹ: تو پھر ٹھیک ہے، تم میری بات نہیں مان رہی ہو تو پھر وہی تم سے آ کر نمٹ لے گا جو تمھیں یہاں سے اُٹھا کر باہر پھینکنے کی استطاعت رکھتا ہے۔

(سٹنگ روم کی طرف چلی جاتی ہے )

مسز مینڈر: یہ تو واقعی بالکل ہی پاگل ہے (سٹنگ روم کے دروازے سے مسز کمفرٹ  اور مینڈر چچا داخل ہوتے ہیں )

مینڈر چچا: (مسز کمفرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ) کہاں ہے وہ؟

مسزکمفرٹ: (مینڈر چچا کی طرف دیکھتے ہوئے ) یہ سامنے بیٹھی ہوئی ہیں، کہہ رہی ہیں کہ میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔

مینڈر چچا : (بدستورمسز کمفرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ) اچھا، ایسا کہہ رہی ہے وہ، اب نہیں کہہ سکے گی، میں ابھی اُسے نکال باہر کرتا ہوں۔ (مسز مینڈر سے، اُس کی طرف غور کئے بغیر) تم نے ان معزز خاتون کی بات ماننے سے انکارکیا ہے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے، اب تم میرا حکم تو مانو گی، اس گھر سے فوراً  اور ہمیشہ کے لئے نکل جاؤ  اور اگر آئندہ تم نے یہاں آنے کی کوشش کی تو۔ ۔ ۔ (مسز مینڈر اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں  اور مینڈر چچا کی نظر اُن پر پڑتی ہے )۔ ۔ ۔ مم میری بیوی۔ ۔ ۔

مسز مینڈر : (انتہائی نخوت کے ساتھ) ٹھیک ہے جناب، میں آپ کی بات مانے لیتی ہوں  اور اس کمرے سے تو کیا اس گھر سے ہی چلی جاتی ہوں، ابھی  اور اسی وقت، ہمیشہ کے لئے (داہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہیں، مینڈر چچا بے حال ہو کر کرسی پر گرتے ہیں  اور دھنس کر رہ جاتے ہیں )

مینڈر چچا: (کراہتی ہوئی آواز میں ) میری بیوی۔

مسز کمفرٹ: ایں، آپ کی بیوی، خدا کی پناہ، یہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہو گئی۔

مینڈر چچا:  اور مجھ سے کیسی غلطی سرزد ہو گئی۔

مسز کمفرٹ: مجھے تو بتایا گیا تھا کہ یہ مسز کمفرٹ ہیں، کمفرٹ کی بیوی۔

مینڈر چچا: ہائے، مین بھی کتنا بدنصیب بندہ ہوں، یہ تو گرینڈ کلائمکس ہوا، اب تک کئے گئے تمام جھگڑوں کا آخری انجام، وہ ہمیشہ کے لئے چلی گئی ہے (بے چینی سے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ) اُسے نہیں جانا چاہیئے، مجھے اُس سے بات کرنی پڑے گی۔ (تیزی سے دورازہ نمبر ۲ کی جانب لپکتا ہے لیکن پھر ٹھہر جاتا ہے ) لیکن اُسے میری بات پر ہرگز ہرگز یقین نہین آئے گا۔ ۔ ۔  اور وہ یقین کرے بھی تو کیوں، خود مجھے اپنی بات پر یقین نہیں آئے ایسے موقع پر۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: اوہ چچا جان، مجھے بہت افسوس ہے۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: افسوس تو مجھے بھی ہے لیکن اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں، تمھیں غلط اطلاع دی گئی تھی، خود مجھے دیکھنا چاہیئے تھا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں، یونہی انھے واہ انٹ شنٹ بولتا گیا لیکن اب کیا ہو، تمھیں میری مدد کرنی ہو گی، چلو ہم دونوں چلتے ہیں  اور اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید وہ سمجھ جائے۔

مسز کمفرٹ: لل لیکن چچا جان۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: (اُسے بائیں طرف والے دروازہ نمبر ۲ کی طرف دھکیلتے ہوئے ) تمھیں میرے ساتھ چلنا ہو گا میری بچی، اُسے میری بات پر یقین نہیں آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ چلو (میریگیل صدر دروازے سے داخل ہوتا ہے )

میریگیل: سیلی ابھی آتی ہے۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: سیلی کو دفع کرو  اور ہٹ جاؤ میرے راستے سے، فوراً (میریگیل کو ایک طرف دھکیلتا ہوا مسز کمفرٹ کو لیتا ہوا باہر نکل جاتا ہے )

میریگیل: یا وحشت، کیا بپتا پڑی ہے اِن بڑے میاں پر کہ اس قدر طوفانی انداز سے کوچ فرمایا ہے اُنہوں نے، ابھی تو سیلی سے گفتگو کرنے کے لئے بیقرار ہو رہے تھے۔ (صدر دروازے سے کمفرٹ داخل ہوتا ہے )

کمفرٹ: (مینڈر چچا کو نہ پا کر اطمینان کا سانس لیتا ہے ) ان لوگوں نے تو مجھے پاگل ہی کر کے رکھ دیا تھا اپنی لایعنی باتوں سے۔

میریگیل: میرا خیال ہے کہ وہ تمھارا ضمیر ہو گا جس نے تمھیں پاگل بنا رکھا ہو گا۔

کمفرٹ: ایں، بھلا وہ کس لئے ؟

میریگیل: یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اب تک مر ہی چکا ہو۔

کمفرٹ: (خنک مزاجی سے ) میریگیل، تم اول درجے کے احمق ہو۔

میریگیل: (آہستگی سے ) شکریہ۔

کمفرٹ: تم نے مجھ سے اکیلے میں ملنے کا کہا تھا، اکیلے میں تم نے اس قدر واہیات باتیں کی ہیں کہ میرے سر میں درد ہو گیا ہے، کس احمق نے تمھیں بتایا ہے کہ میں نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔ اب تم نئی بجھارتیں لے کر بیٹھ گئے ہو، کوئی نیا لطیفہ گھڑ لیا ہے کیا تم نے، اگر ایسا ہے تو نہایت ماٹھا لطیفہ ہے یہ۔ ۔ ۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔

میریگیل: لیکن ڈک، تم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ۔ ۔ ۔

کمفرٹ: کہ میری دو بیویاں ہیں۔ ۔ ۔ میں اس سے صریحاً انکار کروں گا، ارے بھئی جب ایسا ہے ہی نہیں تو میں کیوں نہ انکار کروں۔

میریگیل: ظاہر ہے تم نے تو ایسا ہی کہنا ہے۔

کمفرٹ: (غصے سے )  اور میں ایسا ہی کہتا رہوں گا، میں تمھاری اِن لایعنی باتوں سے ناکوں ناک آ چکا ہوں،  اور یہ تم نے میری بیوی سے کیوں کہہ دیا تھا کہ۔ ۔ ۔

میریگیل: تو تم اقرار کرتے ہو کہ تمھاری کوئی بیوی بھی ہے۔

کمفرٹ: بالکل ہے، لیکن صرف ایک۔

میریگیل: لیکن تم تو اس سے بھی انکاری تھے۔

کمفرٹ: اس کی بھی ایک وجہ تھی جس کا تم سے دور کا بھی تعلق نہیں، در اصل میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے چچا کو میری شادی کی سُن گن ملے، وہ اس معاملے میں بہت حساس ہیں۔ اب جبکہ اُنہیں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے بلکہ ’’ سب کچھ ‘‘سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہو چکا ہے، کیونکہ تم نے اپنی حماقتوں سے اُنہیں یقین دلا دیا ہے کہ میں دو دو شادیوں کے جرم میں ملوث ہوں۔  اور یہ تم نے ایڈتھ سے کس خوشی میں کہہ دیا تھا کہ میں نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔

میریگیل: ایڈتھ؟ میری تو اُس سے ابھی تک ملاقات ہی نہیں ہوئی ہے۔

کمفرٹ: خیر یہ تو تم سچ نہیں بول رہے۔

میریگیل: نہیں میں واقعی سچ کہہ رہا ہوں ڈک، میں تو تمھاری دوسری والی بیوی سے ہی مل پایا ہوں اب تک، میرا مطلب تمھاری ملازمہ سے ہے۔

کمفرٹ: وہی تو ایڈتھ ہے، میں اُسے ملازمہ اس لئے کہا تھا تاکہ چچا جان کو پتہ نہ چل جائے کہ میں شادی شدہ ہوں۔

میریگیل: ارے۔ ۔ ۔ تب تو میں بالکل ہی گھامڑ ہوں۔

کمفرٹ: وہ تو تم ہو۔

میریگیل:  اور میں نے تمھارے چچا جان سے بھی کہہ دیا تھا کہ تم نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔

کمفرٹ: تبھی میں کہوں کہ وہ ایسی الٹی اُلٹی باتیں کیوں کر رہے ہیں کیونکہ وہ تو اِتنے خر دماغ کبھی بھی نہ رہے تھے، تو یہ بھی تمھاری ہی کارستانی تھی (طنزیہ انداز میں ) میریگیل، میں تمھاری تمام تر خرافات پر تمھارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میریگیل: لیکن میں نے تمھاری ملازمہ کو، میرا مطلب ہے کہ تمھاری بیوی سے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ تمھاری ایک  اور بیوی بھی ہے۔

کمفرٹ: تم نے اُس کے سامنے کسی خاتون کا حوالہ دیا تھا، پتہ نہیں کس خاتون کا۔ ۔ ۔  اور اُسے مسز کمفرٹ پکارا تھا۔

میریگیل: بالکل کہا تھا لیکن میرا ایسا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ تمھاری چچی ہیں، اُنہیں اُن کے خاندانی نام سے پکارا تھا۔

کمفرٹ: میری چچی؟، لیکن اس نام سے تو میری کوئی چچی نہیں ہیں، ارے کہیں تمھاری مراد کلیمنٹینہ چچی سے تو نہیں ؟

میریگیل: نہیں، میری مراد اُن خاتون سے ہیں جو خود کو مسز مینڈر کہتی ہیں۔

کمفرٹ: ظاہر ہے کہ اُنہوں نے خود کو مسز مینڈر ہی کہنا تھا، یہی اُن کا نام ہے۔

میریگیل: لیکن یہ اُن کا اصلی نام تو نہیں ہے ناں۔ ۔ ۔ میرا خیال تو تھا کہ وہ خاتون بیگم۔ ۔ ۔ خدا کی پناہ، میرا خیال تھا کہ اُن کے شوہر بھی تمھاری طرح کمفرٹ خاندان سے ہوں گے۔

کمفرٹ: تمھاری طرح کا چغد بھی زمانے نے کم ہی پیدا کیا ہو گا، تم بھی اپنی نوعیت کے ہی ایک ہو۔

میریگیل: تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھ سے تو واقعی عظیم حماقت سرزد ہو گئی ہے۔

کمفرٹ: عظیم سے بھی کچھ بڑھ کر۔ ۔ ۔

میریگیل: مجھے بہت افسوس ہے یار، مم، میں۔ ۔ ۔

کمفرٹ: اب میں تمھارے افسوس کا کون سا چورن بناؤں کہ جو اس معمّے کو ہضم کرنے میں میری مدد کرے۔ اب میں کیا کروں کہاں جاؤں، اب میری گزر اوقات کیسے ہو گی، چچا جان کے سالانہ الاؤنسز پر میری گزر بسر ہو رہی تھی  اور وہ بھی اس شرط پر کہ میں شادی نہیں کروں گا، اب تو اس باب کو بھی ختم سمجھو۔

میریگیل: اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے کہ تمھارے چچا نے میرے بارے میں بالکل دُرست اندازہ لگایا تھا۔ میں واقعی تمھارے لئے اچھا دوست ثابت نہیں ہوا ہوں۔

کمفرٹ: تم میرے حق میں بہت بہتر ثابت ہوتے اگر ایک دانا دشمن ہوتے۔

میریگیل: ایسا نہ کہو ڈِک، کم از کم مجھے میری اپنی نظروں سے اِس قدر تو نہ گراؤ، میں پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں۔

کمفرٹ: ہوئے تم دوست جس کے اُس کا دشمن آسماں کیوں ہو۔ ۔ ۔ تم نے تو مجھے تقریباً پاگل کر کے رکھ دیا ہے (میز پر دھرے ہوئے کاغذات پر نظر پڑتی ہے ) لو، اب اِسی کو دیکھ لو، میں نے تو اپنے کامیڈی کھیل کو ادھورا ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ۔ ۔ بالکل ہی فراموش کر بیٹھا ہوں اِسے۔

میریگیل: تم نے کسے ادھورا چھوڑ رکھا ہے ؟

کمفرٹ: کامیڈی کھیل کو، میں ایک ڈرامہ تحریر کر رہا ہوں۔

میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ تو واقعی باؤلا ہو چکا ہے۔

کمفرٹ: اس کھیل کو آج رات تک مکمل ہو جانا چاہیئے تھا لیکن اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ اس کھیل کے دوران میری حقیقی زندگی میں اِتنی دخل اندازیاں ہو چکی ہیں کہ اسے مکمل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر یہ کھیل کامیڈی کی جگہ ٹریجڈی کا ہوتا تو یقیناً میں اس میں اپنے حالات کا مسالہ ڈال لیتا  اور اسے شاہکار قسم کا ٹریجڈی کھیل بنا دیتا، جس میں میرا اپنا کردار بنیادی نوعیت کا ہوتا۔

میریگیل: یہ سارا کیا دھرا میرا ہے،  اور مجھے اپنے کئے پر اس قدر شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں بھی کسی ٹریجڈی کھیل کے کردار کی طرح زہر کھا کر مر جانا چاہتا ہوں۔

کمفرٹ: زہر۔ ۔ ۔ ہا، زہر، کیا اس گلاس میں بھی زہر بھرا ہوا ہے ؟ (میز سے پانی سے بھرا ہوا گلاس اُٹھاتا ہے، اسی اثناء میں سیلی سامنے والے دروازے سے اندر داخل ہوتی ہے ) (مزید پُر جوش انداز میں ) زہر، ایسے حالات  اور ایسا زہر، واہ، کیا شاندار موت ہو گی، کتنا سکون ملے گا اسے پی کر، تمام دکھوں  اور پریشانیوں سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ ۔ ۔ زہر، میں ابھی یہ سارا گلاس پی جاتا ہوں، غٹا غٹ۔ ۔ ۔ (سیلی کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے  اور کمفرٹ کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ جاتا ہے )

سیلی: اُنہوں نے زہر پی لیا ہے (دوبارہ چیخ مارتی ہے ) قتل قتل، مدد مدد۔ ۔ ۔ (میریگیل سے ) ارے آپ مدد کیوں نہیں کرتے، کسی ستون کی طرح کھڑے ہوئے ہیں وہاں پر، کچھ کریں پلیز، مالکن کہاں ہیں، میں ابھی اُنہیں بتاتی ہوں جا کر۔ ۔ ۔ (سیلی داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہے )

میریگیل: یہ چغدسمجھتی ہے کہ تم نے زہر پی لیا ہے۔ (کمفرٹ گلاس اُٹھانے کے لئے جھکتا ہے )

(مسز کمفرٹ  اور سیلی دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتی ہیں )

سیلی: یہ رہے کمفرٹ صاحب جناب، سارا زہر پی لیا ہے اِنہوں نے۔

مسز کمفرٹ: (بھاگتی ہوئی کمفرٹ کی طرف جاتی ہے ) اوہ ڈک، یہ تم نے کیا کر دیا، کیوں کیا تم نے ایسا؟ یہ سب میرا قصور ہے ہے، میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔

کمفرٹ: لیکن ایڈتھ میں نے۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: بولنے کی کوشش مت کرو اس سے تم مزید متاثر ہو جاؤ گے، یہاں بیٹھ جاؤ، اس کرسی پر (اُسے کرسی کی طرف دھکیلتی ہے ) جلدی سے، کوئی پانی تو لا دے، جلدی سے۔ ۔ ۔

کمفرٹ: نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے پانی کی، اب  اور نہیں پینا میں نے پانی۔ ۔ ۔ میں بتا رہا ہوں کہ۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: تم مر جاؤ گے۔

کمفرٹ: نہیں، میں نے نہیں مرنا۔ ۔ ۔

مسز کمفرٹ: پلیز ڈک، میں تم سے تمھاری بھیک مانگتی ہوں، زندہ رہو، پلیز، میری خاطر۔ ۔ ۔

کمفرٹ: ایسی کوئی بات نہیں ہے ایڈتھ، میرا فی الحال مرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے )

مسز کمفرٹ: اٹھو نہیں، پلیز اٹھو نہیں، اُس وقت تک مت اٹھو جب تک بالکل ٹھیک نہ ہو جاؤ (جھکتے ہوئے ) ڈک، پلیز مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔

کمفرٹ: معاف کر دوں، لیکن کیا کیا ہے تم نے ؟

مسز کمفرٹ: میں نے تمھیں بالکل غلط سمجھا، کتنی بے رحمی کا سلوک کیا ہے تمھارے ساتھ، تم پر شبہ کیا۔ ۔ ۔ تمھارے جیسے شخص پر شبہ، خدا کی پناہ، پلیز ڈک، مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔

کمفرٹ: نہیں ایڈتھ، تم نے توایساکچھ بھی نہیں کیا ہے جس کی تمھیں معافی مانگنی پڑے (داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے مینڈر چچا  اور مسز مینڈر اندر داخل ہوتے ہیں ) لل۔ ۔ ۔ لیکن کیا تم مجھے معاف کر دو گی؟

مسز کمفرٹ: آ آپپ نے کیا کیا ہے ؟

کمفرٹ: ہر وہ برا کام کیا ہے جو کر سکتا تھا۔ میں نے انتہائی بزدلی کا ثبوت دیا ہے، میں اِتنا بزدل تھا کہ چچا جان کو یہ بھی بتا نے کی ہمت نہیں کر پایا کہ تم میری بیوی ہو، ایسا نہیں ہے کہ مجھے تمھیں بیوی کہتے ہوئے کسی قسم کی کوئی شرمساری لاحق تھی، نہیں، ہرگز نہیں، مجھے صرف  اور صرف چچا جان کے غصے کا خوف تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ اُنہیں پتہ چل جائے کہ میں شادی شدہ ہوں۔

مسز کمفرٹ: لیکن یہ سب میری خاطر ہی تو تھا۔

کمفرٹ: ہاں، تھا تو تمھاری خاطر ہی لیکن بہرحال میں نے بزدلی کا ثبوت تو دیا تھا، کاش میں تمھیں اُسی وقت سب کچھ بتا دیتا جب ہماری شادی ہوئی تھی۔

مسز کمفرٹ: چھوڑو بھی ڈِک، اب اِسے جانے بھی دو۔ اب تو سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔

کمفرٹ: ہاں ایڈتھ، اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ بس یہ ہے کہ اب مجھے کوئی ملازمت ڈھونڈنا ہو گی تاکہ میں تمھاری کفالت سے عہدہ برا ہو سکوں۔ شاید یہ ڈرامہ جو میں لکھ رہا ہوں، اس سے مجھے کچھ خاطر خواہ رقم مل جائے۔ اب مجھے توقع نہیں ہے کہ چچا جان۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: (آگے بڑھتے ہوئے ) نہیں رچرڈ، اب تمھیں مجھ سے کچھ نہیں ملنے والا۔ میں تمھیں اس بات کا الزام نہیں دے رہا ہوں کہ تم نے اس لڑکی سے شادی کیوں کی، یہ تو ہیرا ہے ہیرا۔ ۔ ۔ قسم سے، اگر تم نے اس سے شادی نہ کی ہوتی تو میں خود کر لیتا۔

مسز مینڈر: ارے !

مینڈر چچا: مم میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اگر میں تم جیسی نفیس خاتون سے پہلے اس سے ملا ہوتا تو۔ ۔ ۔ (کمفرٹ سے ) لیکن رچرڈ، مجھے تم سے شکایت ہے کہ تم اپنی بیوی پر قطعاً بھروسہ نہیں کرتے  اور اس سے اپنے مسائل کا اشتراک نہیں کرتے۔ ۔ ۔  اور جہاں تک تمھاری اس بات کا تعلق ہے کہ اب تمھیں مجھ سے کسی قسم کی مالی امداد کی توقع نہیں رہی تو تم غلطی پر ہو، ہاتھ ملاؤ رچرڈ! (اُس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے ) میں تمھیں معاف کرتا ہوں، دل کی گہرائی سے معاف کرتا ہوں۔

کمفرٹ: جی۔ ۔ ۔ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟

مینڈر چچا: ہاں، ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف  اور صرف تمھاری بیوی کی خاطر۔

کمفرٹ: میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں، مجھے توقع نہیں تھی کہ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: اگر معاملہ تمھارا ہوتا تو شاید میں تمھیں معاف نہیں کرتا۔

مسز مینڈر: تمھاری بیوی تمھارے لئے ایک رحمت سے کم نہیں رچرڈ!

کمفرٹ: مجھے پہلے ہی پتہ تھا  اور اب تو ثابت بھی ہو گیا ہے۔

میریگیل: مسز مینڈر، میں سوچتا ہوں کہ۔ ۔ ۔

مینڈر چچا: میں تمھیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں نوجوان،  اور وہ یہ ہے کہ تم سوچا نہ کرو، کم از کم تمھاری حد تک یہ ایک بہت بُری عادت ہے۔  اور رچرڈ، یاد رکھو، ڈرامہ نویسی سے اِتنی رقم حاصل نہیں ہوتی کہ جس سے زندگی سہل انداز سے گزر سکے جبکہ میں چاہتا ہوں کہ تمھاری زندگی خوشیوں سے بھرپور ہو۔ تم اپنی خوشی  اور طمانیت کے لئے ضرور ڈرامے لکھو لیکن جہاں تک مصارفِ حیات کا تعلق ہے تواس کے لئے تم اپنے اس چچا پر کُلی تکیہ کر سکتے ہو۔ میں ہر قدم پر تمھارے ساتھ ہوں۔ (کمفرٹ فرطِ انبساط سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے )

(پردہ گرتا ہے )۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید