فہرست مضامین
- اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
- دیباچہ
- باب اول: معاشرے میں تبدیلی کا عمل
- باب دوم: انسانی نفسیات اور طرز فکر میں تبدیلی
- باب سوم: معاشرتی اور ثقافتی تبدیلی
- خاندانی نظام میں تبدیلی
- شخصی آزادی کا فروغ
- تعدد ازدواج میں کمی
- شادی کے طریقوں میں تبدیلی
- شادیوں میں تاخیر
- غلامی کا خاتمہ
- دیہاتی کی بجائے شہری معاشرے
- جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری
- نوجوانوں کے تناسب میں اضافہ
- خواتین کا فعال کردار
- رہن سہن کے طریقوں (Lifestyles) میں تبدیلی
- تعلیم کا فروغ
- میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار
- خلاصہ بحث
- باب چہارم: سیاسی تبدیلی
- باب پنجم: معاشی اور تکنیکی تبدیلی
- باب ششم: دور جدید کی تبدیلیاں اور ہمارا رد عمل
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
محمد مبشر نذیر
دیباچہ
ہمارے معاشرے میں بالعموم بہت سے لوگ دور جدید کی برائیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس کے مقابلے میں پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں اور انہیں بہتر قرار دیتے ہیں۔ مجھے اس نقطہ نظر سے اختلاف ہے۔ دور جدید جہاں اپنے ساتھ چند برائیاں لے کر آیا ہے وہاں اس میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔ ہم اس بات پر بھی بحث کریں گے کہ کیا یہ سب کی سب تبدیلیاں منفی ہیں یا ان میں خیر کا کچھ پہلو بھی ہے؟
معاشرتی تبدیلی ایک ہمہ جہت عمل ہے جو دنیا کے تمام معاشروں میں ہر دور میں وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے۔ تمام معاشرے ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ دور قدیم سے لے کر آج کے جدید دور تک یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مختلف معاشرے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوا کرتے ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ اپنی محنت یا قدرتی حالات کی بنا پر ایسا مقام حاصل کر لے جس کی بدولت وہ دوسرے معاشروں سے ممتاز حیثیت اختیار کر جائے تو یہ معاشرہ دوسرے معاشروں کو سیاسی، عمرانی، معاشی اور فکری اعتبار سے متاثر کرنے لگتا ہے۔
دور جدید بہت سی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔ مغربی ممالک میں وقوع پذیر ہونے والی بہت سے تبدیلیوں نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ عمرانیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے اس تحریر میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ دور جدید میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں اور ان تبدیلیوں پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟
اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین سے یہ امید ہے کہ وہ میری اس کوشش کے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کر کے اسے بہتر بنانے میں میری مدد کریں گے اور اپنے پر خلوص مشوروں سے اس کام کو آگے بڑھانے میں میری مدد کریں گے۔
محمد مبشر نذیر
باب اول: معاشرے میں تبدیلی کا عمل
دور قدیم میں مصری تہذیب نے دنیا بھر کے معاشروں کو متاثر کیا۔ اب سے تقریباً اڑھائی ہزار برس قبل یونان کے مفکرین اور فاتحین کی بدولت دنیا پر یونانی تہذیب کا غلبہ ہوا۔ اس کے بعد سلطنت روما نے بڑی حد تک یونانی افکار کی بنیاد پر اپنے معاشرتی نظام کو استوار کیا۔ چودہ سو برس قبل جب مسلمانوں نے دنیا کے متمدن حصے پر غلبہ پایا تو عرب اور عجم کے مختلف معاشروں کے ملاپ سے اسلامی تہذیب نے جنم لیا جو بارہ سو برس تک دنیا کی غالب تہذیب رہی۔ اس تہذیب میں غالب عنصر دین اسلام کی تعلیمات کا تھا۔
ان مختلف ادوار میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ غالب قوتیں، مغلوب قوتوں پر زندگی کے تمام میدانوں میں اثر انداز ہوئیں اور اس کے نتیجے میں ان اقوام کے رسم و رواج، ادب، لباس، رہن سہن کے انداز، تہذیبی اقدار، صلح و جنگ کے قوانین، شہری زندگی کے آداب غرض زندگی کا ہر شعبہ بری طرح غالب قوم سے متاثر ہوا۔
چار سو برس پر مشتمل رینی ساں (Renaissance) کی تحریک کے نتیجے میں یورپ میں سائنسی انقلاب برپا ہوا۔ اہل مغرب نے چند ہی صدیوں میں اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت پوری دنیا پر اپنا غلبہ قائم کر لیا جو کہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ سائنسی ترقی کے علاوہ اس عرصے میں مغربی تہذیب نے دنیا بھر میں سیاسی، عمرانی، معاشی اور فکری اعتبار سے دنیا بھر کے معاشروں کو متاثر کیا جس کے اثرات واضح طور پر دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تبدیلی ایک وسیع تصور ہے۔ ایک تحریر میں اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس تحریر میں ہم اپنے مطالعے کو صرف اور صرف مسلم معاشروں کے اندر دور جدید میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں تک ہی محدود رکھیں گے۔ اس تحریر میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ معاشروں میں تبدیلیاں کیسے رونما ہوتی ہیں؟ معاشرے کس طرح ایک دوسرے سے نئی نئی چیزیں سیکھتے ہیں، ان میں اضافہ کیسے کرتے ہیں اور انہیں اپنے معاشرے کا حصہ کیسے بناتے ہیں؟ اگلے ابواب میں ہم دور جدید میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کا جائزہ لیں گے۔ ان تبدیلیوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کریں گے۔ ان تبدیلیوں کے رد عمل میں اختیار کی گئی حکمت عملی کے مختلف پہلوؤں پر بحث کریں گے اور اس ضمن میں دور جدید کے مسلمان معاشروں کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، اس معاملے میں اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
معاشرے کیسے تبدیل ہوا کرتے ہیں؟
معاشروں کی تبدیلی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں سے اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
سیکھنے کا عمل
سیاسی عوامل
معاشی عوامل
قدرتی عوامل
سماجی عوامل
سیکھنے کا عمل
تمام معاشروں میں سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایک معاشرہ کسی ایک میدان میں دوسرے سے آگے ہوتا ہے اور دوسرا معاشرہ کسی دوسرے میدان میں۔ ان معاشروں کے اہل علم و دانش تقابلی مطالعے کے ذریعے بہتر سے بہتر کی تلاش میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دوسرے معاشروں سے سیکھ کر اپنے معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی ایک دلچسپ مثال اہل مغرب کے ماہرین مشرقیات یعنی مستشرقین (Orientalists) ہیں۔ اس طبقے کے اسکالرز، مشرقی اقوام کے علوم میں ماہر ہوتے ہیں اور اہل مشرق سے مختلف شعبوں میں سیکھ کر اپنے معاشروں کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
سیکھنے کے عمل میں سب سے اہم کردار کسی معاشرے کے اہل علم و دانش ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحقیق اور دوسرے معاشروں کے مطالعے سے اپنے معاشرے کو بہتر سمتوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرون اولی میں مسلمانوں کے اہل علم نے رومی و یونانی علوم کو سیکھ کر ان کا ترجمہ عربی میں کیا۔ اس کے بعد مسلم اہل علم و دانش کی کئی نسلوں نے اپنے علم و تحقیق کی بدولت اس علم پر قابل قدر اضافے کئے۔ اسی علمی برتری کے باعث مسلمان دنیا میں سپر پاور کی حیثیت سے تقریباً بارہ سو سال تک موجود رہے۔
اہل یورپ اس دوران تاریک دور سے گزرتے رہے اور دنیا میں ان کی حیثیت مغلوب اقوام کی رہی۔ جب ان کے ہاں سیکھنے کا عمل دوبارہ شروع ہوا تو انہوں نے مسلم اہل علم کی کتابوں کے ترجمے اپنی زبانوں میں کیے اور نت نئے علوم کو سیکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس علم میں اتنا اضافہ کر لیا کہ وقت کا پہیہ الٹی سمت میں گردش کرنے لگا اور اہل یورپ دنیا میں غالب اور مسلمان مغلوب ہوتے چلے گئے۔ دو عظیم جنگوں میں یورپ نے اپنی قوت کا بڑا حصہ تباہ کر لیا۔ اس کے بعد امریکہ کے عروج کے دور کا آغاز ہوا جو کہ دنیا پر مغربی غلبے کا ایک تسلسل ہی ہے۔
اہل مغرب کی قوت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے مادے کے توانائی میں تبدیل کرنے کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے جس کے باعث انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ پچھلے دو سو برس میں ریلوے، ٹیلی گرام، بلب، ٹیلی فون، ہوائی جہاز، موٹر کار، ٹیلی وژن، ادویات، میڈیکل کے آلات، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی بے شمار چیزیں ایجاد ہو چکی ہیں جنہوں نے انسان کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سماجی علوم (Social Sciences) کے میدان میں انہوں نے بے پناہ علمی کام سرانجام دیا ہے جس کے باعث جمہوریت اور فلاحی ریاست جیسے تصورات دنیا کے سامنے آئے ہیں۔
پچھلے بیس پچیس برس میں اہل مغرب ہی کی علمی ترقی کی بدولت دنیا میں ابلاغ (Communication) کے ایسے ذرائع وجود پذیر ہوئے ہیں جن کے باعث دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
موجودہ دور میں انہی علوم کو سیکھنے کے نتیجے میں ایشیائی ممالک نے بھی دنیا میں قابل ذکر مقام حاصل کر لیا ہے۔ پچھلے دس پندرہ برس میں چین اور بھارت کی تیز رفتار ترقی نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ یہ سب سیکھنے کے عمل کا نتیجہ ہے۔
سیاسی عوامل
معاشرتی تبدیلیوں میں سیاسی عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب مسلمانوں کا دنیا پر سیاسی غلبہ قائم ہوا تو یہ دنیا کی مجبوری تھی کہ وہ مسلمانوں کے دین اور ان کی تہذیب کا مطالعہ کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کرے۔ بعینہ یہی معاملہ اہل مغرب کے غلبے کے زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ چنانچہ جیسے ہی اہل مغرب نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا، مسلمانوں کے ہاں ان کی زبان، رہن سہن، علوم اور تہذیب کو اپنانے کا عمل شروع ہو گیا۔ یہی عمل مشرق بعید کے ممالک میں بھی جاری ہے اور ان کے معاشرے بھی ویسٹرنائز ہوتے جا رہے ہیں۔
سیاسی عوامل میں ایک اہم عنصر دوسری قوموں کے سیاسی حالات کا بھی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، اہل یورپ دنیا میں غالب ترین سیاسی قوت تھے۔ یکے بعد دیگرے دو بڑی جنگوں کے نتیجے میں یورپ کی قوت کا زور ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ امریکہ اور سوویت یونین نے لے لی۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں یہی دونوں قوتیں دنیا کے دوسرے تمام ممالک کے معاشروں کو متاثر کرنے میں فیصلہ کن حیثیت کی حامل رہی ہیں۔ یہ حیثیت اکیسویں صدی کے اوائل میں صرف امریکہ کو حاصل ہو چکی ہے۔ اگرچہ یورپ کی علمی روایت پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کے وہ اثرات دنیا پر نظر نہیں آتے جو امریکہ کی علمی روایت کے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ امریکہ کا دنیا پر سیاسی غلبہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ چند عشروں کے بعد چین اس پوزیشن میں آ جائے کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کر سکے لیکن فی الحال دنیا پر سیاسی غلبہ امریکہ ہی کو حاصل ہے۔
معاشی عوامل
جب کوئی قوم معاشی اعتبار سے ترقی کر جاتی ہے تو اس کے ہاں علم سے وابستگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ معاشروں میں نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو قوم کی علمی ترقی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ غربت کے منحوس دائرے میں گردش کرنے والی اقوام کے ہاں ایسا حادثہ کم ہی وقوع پذیر ہوا کرتا ہے۔
ترقی یافتہ اقوام، غریب ممالک کو امداد فراہم کرتی ہیں اور اس کے علاوہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے، ان ممالک میں سرمایہ کاری بھی کرتی ہیں۔ ابتدائی طور پر سرمایہ امیر ملک سے غریب ملک کی جانب منتقل ہوتا ہے لیکن جیسے ہی غریب ممالک میں قائم یہ پراجیکٹ نفع کمانے لگتے ہیں، سرمایہ دار اپنا منافع واپس لینا شروع کر دیتے ہیں جس کے باعث دولت کا بہاؤ غریب ممالک سے واپس امیر ممالک کی جانب ہونے لگتا ہے۔
سرمائے کے ساتھ ساتھ امیر ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیاں غریب ممالک میں اپنی ثقافت لے کر آتی ہیں اور ایڈورٹائزنگ اور دیگر معاملات کے ذریعے ان ممالک کی تہذیبی اقدار پر اثر انداز ہونا شروع ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں غریب اقوام میں متعدد معاشرتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس کی واضح مثال جنوبی ایشیائی ممالک میں مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاوشوں کے باعث معاشرے کی ویسٹرنائزیشن ہے۔
قدرتی عوامل
انسان کا قدرتی ماحول اس کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بڑی بڑی قدیم تہذیبوں نے دریاؤں یا سمندروں کے کناروں پر جنم لیا۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ برف پوش پہاڑوں یا تپتے صحراؤں میں کسی بڑی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا ہو۔ مسلمانوں کے دور میں عرب کے مرکزی شہروں مکہ و مدینہ سے شروع ہونے والی تہذیب بنو امیہ کے دمشق و غرناطہ اور بنو عباس کے بغداد میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ عباسی حکومت کے زوال کے بعد وسط ایشیا کے شہر بخارا، سمرقند، نیشاپور وغیرہ مسلم علم اور تہذیب کا مرکز بن گئے۔ یہی معاملہ قاہرہ، دہلی اور استنبول کے ساتھ پیش آیا۔ مغربی دنیا میں بھی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر وہی سمجھے جاتے ہیں جو دریاؤں اور سمندروں کے قریب آباد ہیں۔ ان کی مثال لندن، نیویارک اور پیرس ہیں۔
چونکہ یہ شہر باقی دنیا سے ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے ذرائع کے بدولت جڑے ہوتے ہیں اس لئے ان میں تبدیلی کا عمل تیز ہوتا ہے۔ دوسرے معاشروں سے سیکھنے کا عمل ان میں باقی شہروں کی نسبت تیز ہوتا ہے اور ان کے ہاں جلد تبدیلیاں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ ایسے شہر جو کہ مرکزی مقامات سے دور واقع ہوتے ہیں، ان کے ہاں تبدیلی کی رفتار نسبتاً سست ہوتی ہے لیکن اپنے رجحانات میں یہ ترقی یافتہ شہروں کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔
دور جدید کو پرکھنے کا معیار (Criteria)
دور جدید کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پرکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس تجزیے کے لئے کوئی معیار قائم کر لیا جائے۔ مختلف افراد کسی بھی معاملے کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہر شخص کے تجزیے کے مختلف ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ تجزیے کے لئے مختلف معیار استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ تحریر مذہبی نقطہ نظر سے کی جا رہی ہے اس لئے اس میں ہم معیار کے طور پر تین چیزوں کو استعمال کریں گے۔
اخلاقیات
شریعت
انسانیت کے لئے فائدہ
دور جدید کو پرکھنے کے لئے ہمارا بنیادی معیار "اخلاقیات” ہے۔ یہ وہ دین فطرت ہے جو پوری نسل انسانیت میں مشترک ہے۔ ہر انسان کو برائی اور بھلائی کا شعور دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض افراد اپنے مخصوص حالات کے باعث بسا اوقات اس فطرت کو مسخ کر بیٹھتے ہیں لیکن انسانوں کی غالب اکثریت کسی بھی چیز کے اخلاقی طور پر صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں مختلف آراء کی حامل نہیں ہو سکتی۔ اس معاملے میں کسی بھی اختلاف کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اس چیز کا اطلاق خود پر کرے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بعض دھوکے باز قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں دھوکہ دیے بغیر گزارا نہیں۔ اگر اسی بات کا اطلاق خود ان کی ذات پر کرتے ہوئے کوئی انہیں دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں کیونکہ وہ اس دھوکے کو اپنے لئے پسند نہیں کر رہے ہوتے۔
اخلاقیات کے علاوہ ہمارے نزدیک دور جدید کو پرکھنے کا معیار اللہ تعالی کی دی ہوئی "شریعت” ہے۔ شریعت سے ہماری مراد فقہ اور قانون کی ضخیم کتب نہیں بلکہ اس سے مراد وہ ہدایت ہے جو اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت و حدیث میں محفوظ کر دی ہے۔ یہ ہدایت پیچیدہ اور طویل احکام پر مشتمل نہیں بلکہ بہت مختصر اور آسان ہے۔ اس ہدایت کو سمجھنے کے لئے انسان کا بہت ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ ایک عام شخص بھی اس ہدایت سے اتنا ہی فیض یاب ہو سکتا ہے جتنا کہ کوئی ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ شخص۔
ان دو معیارات کے علاوہ ہم اس پہلو سے بھی دور حاضر کی کسی تبدیلی کا جائزہ لیں گے کہ آیا یہ تبدیلی قلیل اور طویل مدت میں انسانیت کے لئے فائدہ مند بھی ہے یا نہیں۔
ہمارے ہاں جدیدیت (Modernization) کو بالعموم مغرب زدگی (Westernization) کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف ہے۔ اگر کوئی تبدیلی مثبت سمت میں ہوئی ہے تو اسے محض اس بنا پر رد کر دینا کہ اس کا آغاز اہل مغرب کی جانب سے ہوا ہے نہایت ہی نامعقول حرکت ہے۔ اسی طرح کسی منفی تبدیلی کو محض اس وجہ سے اپنا لینا کہ اس کا آغاز مسلمانوں یا اہل مشرق نے کیا ہے، بذات خود ایک منفی رویہ ہے۔ ہمیں یہ تجزیہ کرتے ہوئے بالکل غیر جانبداری سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر تبدیلی مثبت ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور اگر منفی ہے تو اس سے ہر ممکن طریقے سے اجتناب کریں۔
باب دوم: انسانی نفسیات اور طرز فکر میں تبدیلی
موجودہ دور میں انسان کی نفسیات اور طرز فکر میں قدیم دور کے انسان کے زمانے میں بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سے اہم یہ ہیں:
عقل کے استعمال میں اضافہ
توہم پرستی میں کمی
قدیم فلسفے کا خاتمہ اور سائنسی طرز فکر
ان تبدیلیوں کی تفصیل یہ ہے۔
عقل کے استعمال میں اضافہ
قدیم دور کا انسان عقل کو کم ہی استعمال کیا کرتا تھا۔ عقل کا استعمال صرف غیر معمولی ذہین افراد کیا کرتے اور وہ بھی بہت سے معاملات میں عقل کو محدود سمجھتے ہوئے اس کے استعمال سے گریز کرتے۔ اس کی واضح مثال مذہب کا میدان ہے۔ مذہبی معاملات میں یہ فرض کر لیا گیا کہ خدا اس دنیا کو بہت سے نائبین کی مدد سے چلا رہا ہے جو بذات خود خدائی صفات کے حامل ہیں۔ ان نائبین کے بارے میں بہت سے قصے کہانیاں وضع کی گئیں اور انہیں دیوی دیوتاؤں کا مقام دے کر ان کی پرستش شروع کر دی گئی۔
یہودی، عیسائی اور مسلمان قوموں کے ہاں انبیاء کرام کی طویل تاریخ موجود ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اپنے پیروکاروں کو عقل استعمال کرنے کی تلقین کی۔ قرآن مجید بار بار عقل کو استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے پیروکاروں کی ابتدائی تاریخ میں ہر معاملے میں عقل کا واضح استعمال نظر آتا ہے۔
جب ان پیروکاروں کی بعد کی نسلیں دوسری اقوام کے فلسفے اور تصورات سے متاثر ہوئیں تو ان کے ہاں عقل ایک دوسرے درجے کی چیز بن کر رہ گئی اور اس کا استعمال برا سمجھا جانے لگا۔ بالخصوص مسلمانوں کے ہاں تنقید ایک شجر ممنوعہ قرار پایا اور تقلید کو ایک بڑی قدر کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔ یہ رویہ صرف مذہبی معاملات تک ہی محدود نہ رہا بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی یہی روش اختیار کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ مسلمان دوسری اقوام کے مقابلے میں پیچھے ہوتے چلے گئے۔
دوسری طرف اہل مغرب نے رینی ساں اور ریفارمیشن کی تحریکوں کے نتیجے میں عقلی طرز فکر کو اختیار کر لیا۔ انہوں نے زندگی کے تمام میدانوں میں تقلید کی بجائے تحقیق کا رویہ اپنایا۔ کسی بھی رائے کو محض کسی بہت بڑے بزرگ یا عالم کی رائے ہونے کے سبب ماننے کی بجائے اس کی چھان پھٹک اور دوسری آرا سے اس کے تقابل کا طریقہ اختیار کیا۔ نیوٹن نے ارسطو اور آئن اسٹائن نے نیوٹن سے اختلاف رائے کیا جس کے نتیجے میں ان کے ہاں ترقی ہوتی چلی گئی اور وہ علمی میدان میں آگے نکلتے چلے گئے۔
جدید دور میں اہل مغرب نے جہاں مسلمانوں کو اور بہت سے میدانوں میں متاثر کیا ہے وہاں ان کی یہ تبدیلی بھی مسلمانوں کے ہاں آ رہی ہے۔ اب مسلمانوں کے ہاں بھی سوچنا سمجھنا، غور و فکر کرنا، سابق آراء اور تصورات کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور مذہب سمیت ہر معاملے میں ان کے ہاں عقل کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ہم صرف برصغیر کے مسلمانوں کی سو سالہ فکری تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہو گا کہ ان کے اہل علم و دانش میں عقل کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
عقل کے استعمال کے نتیجے ہی میں انسان شرک کے تصور سے آزاد ہوا۔ اس کے علاوہ قدیم انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو دیوی دیوتا، ان کا اوتار یا پھر غیر معمولی صفات کا حامل سمجھ کر ان کی ظاہری یا باطنی پرستش کرتا رہا۔ جدید انسان عقل کے استعمال سے آہستہ آہستہ ان پابندیوں سے آزاد ہو رہا ہے۔
بعض لوگ متصوفانہ تعلیمات کے زیر اثر عقل کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے مقابلے پر عشق و محبت کو کھڑا کر دیتے ہیں۔
بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
عقل تھی محو تماشائے لب بام ابھی
اس شعر میں عقل کی تحقیر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آگ میں کودنے کا فیصلہ عشق کی بنیاد پر تھا اور عقل اس سے منع کر رہی تھی۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے شوق سے آگ میں نہ کودے تھے بلکہ انہیں جبراً حق کی آواز بلند کرنے کے سبب آگ میں پھینکا گیا تھا۔
اللہ تعالی سے محبت اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا اگرچہ بظاہر انسان کے لئے شارٹ ٹرم مسائل کا باعث بھی ہو تب بھی انسان کی اصل زندگی یعنی آخرت میں یہ آرام کا باعث ہو گا۔ یہ بات بجائے خود اتنی معقول ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آگ میں کودنے کا واقعہ سراسر عقلی و منطقی تھا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کر رہے تھے اور اس کے دنیاوی و اخروی نتائج سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ دقت نظر سے اگر دیکھا جائے تو عقل و محبت میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ تضاد بالعموم شاعرانہ تک بندیوں کے نتیجے میں مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا ہے ورنہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
جس طرح عقل کے استعمال سے اہل مغرب نے انسانیت کے فائدے کے لئے بہت سی چیزیں ایجاد کیں، اسی طرح ہم بھی عقل کے استعمال ہی کے ذریعے ہی نہ صرف دنیا بلکہ دینی معاملات میں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی پوری دعوت بلا سوچے سمجھے مان لینے کی بجائے علم و عقل کے استعمال کے ذریعے خدا اور اس کے رسول کو پہچان لینے کی دعوت ہے۔ یقین نہ آئے تو انہی آیات پر غور کر لیجیے۔
ان فی خلق السماوات والارض و اختلاف الیل و النھار لایت لاولی الباب۔ الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبہم و یتفکرون فی خلق السماوات و الارض۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا، سبحنک فقنا عذاب النار۔ (اٰل عمران 3:190-191)
بے شک آسمان و زمین کی تخلیق، اور رات و دن کے باری باری آنے میں ان اہل عقل کے لئے بہت سے نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں)، اے ہمارے رب! تو نے یہ سب کچھ فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے (اس سے کہ تو فضول کام کرے)۔ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔
والذین اذا ذکروا باٰیات ربھم، لم یخروا علیہ صما و عمیانا۔ (الفرقان 25:73)
جب انہیں ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے (بلکہ غور و فکر کر کے نصیحت قبول کرتے ہیں۔)
عقل کے استعمال کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے رب کو پہچان کر ہدایت قبول کرتا ہے بلکہ وہ ان طالع آزما سیاسی و مذہبی راہنماؤں کی چال بازیوں سے بھی بچ جاتا ہے جو اسے بے خبر رکھ کر اپنا ذہنی غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک دور جدید عقل کے استعمال میں اضافہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے اور اس معاملے میں ہم اپنے آباء و اجداد کے مقابلے میں نسبتاً بہتر مقام پر کھڑے ہیں۔
توہم پرستی میں کمی
قدیم دور میں عوام الناس تو کجا، خواص میں بھی توہم پرستی عام تھی۔ ایسے واقعات جن میں دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہوا کرتا تھا، لوگ اپنے توہمات کے ذریعے ان میں تعلق قائم کر لیا کرتے تھے۔ ہم اگر اپنے قدیم دیہاتی معاشرے کا جائزہ لیں تو ان توہمات کی طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بلی کے راستہ کاٹنے سے آفات اور سورج و چاند گرہن سے بیماریوں کو وابستہ کیا جاتا ہے۔ بیٹھ کر ٹانگیں ہلانے اور ٹوٹا ہوا آئینہ دیکھنے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے درد ناک مثال یہ ہے کہ اگر شادی کے فوراً بعد کوئی سانحہ رونما ہو جائے تو اس کا قصور وار لڑکی کو ٹھہرا کر اسے منحوس قرار دیا جاتا ہے۔
دین اسلام چونکہ توہم پرستی کو پسند نہیں کرتا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اس کی مذمت فرمائی اور عربوں کے توہم پرستانہ خیالات پر ضرب لگائی۔ آپ کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر اتفاقا سورج گرہن ہو گیا تو لوگوں نے یہ خیال کیا کہ شاید یہ آپ کے صاحبزادے کی وفات کے باعث ہوا ہے۔ حضور نے اس بات کی سختی سے تردید فرمائی۔
جب مسلمانوں کو دوسری اقوام سے معاملہ پیش آیا تو انہوں نے ان کی دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کے توہمات کو بھی اختیار کر لیا۔ ہمارے دیہاتی اور شہری معاشروں میں اس کی مثالیں بکثرت دیکھی جا سکتی ہیں۔
دور جدید میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کے باعث توہم پرستی میں کافی کمی آ چکی ہے۔ اگرچہ اہل مغرب کے ہاں بھی بہت سے توہم پرست لوگ پائے جاتے ہیں لیکن ان کی عمومی سوچ توہم پرستی سے بڑی حد تک پاک ہو چکی ہے۔ یہی اثرات اب مسلم دنیا میں آ رہے ہیں اور مسلمانوں کی جدید تعلیم یافتہ نسل اپنے والدین کی نسبت کم توہم پرست ہوتی جا رہی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بھی ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے اور ہم پر لازم ہے کہ اس کے تسلسل کو باقی رکھا جائے۔
قدیم فلسفے کا خاتمہ اور سائنسی طرز فکر
یونان کے قدیم فلسفے نے مسلمانوں کو بہت متاثر کیا۔ اس فلسفے کا طریق کار یہ تھا کہ چند تصورات (Postulates) کو بنیادی طور پر فرض کر کے انہیں مقدس اور ناقابل تنقید قرار دیا جاتا۔ اس کے بعد انہی تصورات کی بنیاد پر فلسفے کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جاتی۔ اس کی ایک مثال "ہیولیٰٰ” کا تصور ہے جسے درس نظامی کے نصاب میں فلسفے کی ابتدائی کتب میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر فلسفے کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ فلسفے میں ما بعد الطبیعات (Metaphysics) کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہو گئی۔
دور جدید میں سائنسی طرز فکر نے ما بعد الطبیعاتی فلسفے کی اہمیت کم کر کے عملی زندگی کے مسائل کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسفے کے بنیادی تصورات (Postulates) غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئے۔ جب کسی عمارت کی بنیاد ہی کو ڈھا دیا جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ دور جدید میں سائنس کا موضوع یہ نہیں رہا کہ خدا کی صفات کیا ہیں؟ اس کے لئے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ زندگی بسر کرنے کے لئے توانائی حاصل کیسے کی جائے تا کہ دنیا میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے؟ سیاسی نظام کر فلاحی ریاست میں کیونکر بدلا جائے؟ عدل و انصاف پر مبنی معاشی نظام کیسے قائم کیا جائے؟
قدیم فلسفیانہ طریقے میں ذہن کے تخیل کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ چند باتوں کو فرض کر کے ان سے فروعات نکال کر فلسفہ بنا لیا جاتا۔ جدید سائنسی طرز فکر نے مشاہدے کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ اب چیزوں کو ذہن کی تخیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ محسوس مشاہدے کی بنیاد پر پرکھا اور مانا جاتا ہے۔ ایک صاحب علم نے اسے ایک مثال کے ذریعے یوں بیان کیا ہے:
سائنسی ذہن کا مطلب حقائق کو اہمیت دینے والا ذہن ہے۔ سائنس کے انقلاب نے موجودہ زمانے میں انسانی فکر میں جو تبدیلی کی ہے وہ یہ ہے کہ جو بات کہی جائے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر کہی جائے نہ کہ مفروضات اور قیاسات کی بنیاد پر۔ موجودہ زمانہ میں جو انقلاب آیا ہے و حقائق فطرت کے مطالعے سے آیا ہے۔ بائیسکل سے لے کر ہوائی جہاز تک اور بجلی کے لیمپ سے لے کر بڑے بڑے صنعتی کارخانوں تک ہر چیز فطری حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ یہی انقلاب موجودہ زمانے کا غالب انقلاب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام پہلوؤں پر اثر ڈالا ہے۔ اسی نے موجودہ زمانہ میں اسلوب کلام کو بھی بدل دیا ہے۔ انسان ہزاروں سال سے پراسرار عملیات کی بنیاد پر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ کامیاب نہیں ہوا۔ اب حقائق فطرت کو دریافت کر کے وہ لوہے کو مشینوں میں تبدیل کر رہا ہے جو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ ایسی حالت میں بالکل قدرتی بات ہے کہ آج کا انسان حقائق فطرت کی بنیاد پر ثابت ہونے والی بات کو سب سے زیادہ با وزن سمجھے۔ آج کے انسان نے جو ترقیاں کی ہیں وہ حقائق کی بنیاد پر کی ہیں اس لئے آج کا انسان انہی باتوں کو اہمیت دیتا ہے جو حقائق کے زور پر ثابت ہوتا ہو۔
قدیم اور جدید ذہن کے فرق کو ایک سادہ مثال سے سمجھیے۔ پچاس سال پہلے اطباء کے یہاں اس قسم کے الفاظ بے حد پرکشش سمجھے جاتے تھے —– خاندانی نسخہ، پشتینی علاج، شاہی ترکیب سے بنی ہوئی دوا۔ کسی دوا یا منجن کے بارے میں یہ الفاظ بولنے کا مطلب یہ تھا کہ اس میں پراسرار خواص چھپے ہوئے ہیں۔ مگر آج ان الفاظ کے اندر کوئی قیمت نہیں۔ آج کا ڈاکٹر کسی دوا یا کسی ٹوتھ پیسٹ کی اہمیت کو بتانے کے لئے "قدیمی نسخہ” کی اصطلاح نہیں بولے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ سائنسی طریقوں سے بنایا گیا ہے۔ سائنسی طریقہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی افادیت کو معلوم تجربات و مشاہدات کے ذریعہ جانا جا چکا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی چاہے تو ان تجربات کو دہرا کر دوبارہ ان کے نتائج کی صحت کی تصدیق کر سکتا ہے۔ جب کہ خاندانی علاج کا مطلب یہ تھا کہ اس کے طبی خواص ہر ایک کے لئے قابل دریافت نہیں ہیں۔ دوا اور مرض کے درمیان تعلق کو متعین تجربات کے ذریعے معلوم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت بس یہ ہے کہ وہ قدیم زمانہ سے چلا آ رہا ہے۔ آج کا انسان اسی منجن کو استعمال کرنا پسند کرتا ہے جو سائنسی، بالفاظ دیگر، فطری حقیقتوں کی پیروی کرتے ہوئے بنا ہو۔ اسی طرح وہ صرف ان افکار کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے جن کا برحق ہونا فطری حقائق کے ذریعہ معلوم ہوا ہو۔ (وحید الدین خان، احیائے اسلام ص 72)
دور حاضر کی یہ تبدیلی بھی بہت مثبت ہے۔ جدید سائنس اس بات کو مان چکی ہے کہ انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی خیالی تک بندیوں سے خدا کی پہچان کر سکے۔ اس نے یہ میدان مذہب کے لئے چھوڑ دیا ہے اور خود مشاہدے اور تجربے کے ذریعے ان حقائق کی تلاش میں سرگرداں ہے جن کا تعلق محسوس واقعات سے ہے۔ اس تبدیلی کے مثبت اثرات ہم واضح طور پر اپنی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اب ہمارے ذہین ترین افراد کی دانش الٹے سیدھے فلسفوں کی گتھیاں سلجھانے کی بجائے زندگی کے عملی مسائل کے حل میں صرف ہو رہی ہیں جس سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
خلاصہ بحث
انسان کے طرز فکر میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کا جائزہ لے کر ہم بڑے اطمینان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے طرز فکر میں بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جس سے جہاں تو چند نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن اس سے مثبت سمت میں بڑھنے کے نئے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔
باب سوم: معاشرتی اور ثقافتی تبدیلی
دور جدید میں بہت سے عوامل کے نتیجے میں متعدد سماجی و معاشرتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ قدیم سماجی ڈھانچہ، معاشرتی اقدار، خاندانی نظام اور سماجی ادارے شکست و ریخت کا شکار ہیں اور ان کی جگہ نیا سماجی ڈھانچہ، اقدار اور ادارے بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل تبدیلیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں:
خاندانی نظام میں تبدیلی
شخصی آزادی کا فروغ
تعدد ازدواج میں کمی
ارینجڈ میرج کی بجائے لو میرج کا فروغ
شادی میں تاخیر
غلامی کا خاتمہ
دیہاتی کی بجائے شہری معاشرہ
قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا زوال
بڑھتی ہوئی آبادی
نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
بے روزگاری میں اضافہ
جرائم کی شرح میں اضافہ
گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ
مذہبی اور دانشورانہ معاملات میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار
رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلی
تعلیم کا فروغ
میڈیا کا معاشرے میں بڑھتا ہوا کردار
خاندانی نظام میں تبدیلی
قدیم دور میں مشترک خاندان کا رواج تھا۔ ایک باپ کے تمام بیٹے ایک ہی بڑے سے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ گھر کا کھانا مشترک طور پر ایک جگہ پکتا۔ گھر کے اخراجات کو مختلف بیٹوں میں ان کی آمدنی کے لحاظ سے تقسیم کر دیا جاتا۔ والد یا بڑے بھائی کو خاندان کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی اور اس کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاتا۔ خاندان کے سربراہ کی حکم عدولی کو ناقابل برداشت جرم سمجھا جاتا۔ وراثت تقسیم کرنے کی بجائے اکٹھی رکھی جاتی اور بڑا بیٹا اس میں تصرف کا حق دار ہوتا۔ چھوٹے بھائیوں اور ان کی اولاد کی کفالت بڑے بھائی ہی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ بیٹیوں کو بالعموم وراثت میں حصہ نہ دیا جاتا اور ان کی شادی کے موقع پر جہیز کی صورت میں انہیں کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جاتا۔
مشترک خاندان کا یہ تصور آج بھی ہماری دیہاتی معاشرت اور چھوٹے شہروں میں موجود ہے۔ دور جدید کی دیگر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشروں میں اہم ترین تبدیلی یہ آئی ہے کہ مشترک خاندانی نظام کی جگہ خاندانوں کی علیحدگی کا عمل جاری ہے۔ بڑے شہروں میں تو یہ عمل تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اب بڑے سے مشترک خاندان کی جگہ میاں، بیوی اور ان کے بچوں پر مشتمل چھوٹے خاندان وجود پذیر ہو رہے ہیں۔ بیٹیوں کی طرح بیٹوں کو بھی شادی کے بعد علیحدہ گھر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
مشترک خاندان میں کسی بھی فرد بالخصوص خواتین کو شخصی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ انہیں خود سے کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے خاندان کے سربراہ کے فیصلے پر سر جھکانا پڑتا ہے۔ دور قدیم میں خاندان کی اجتماعیت کو فرد کی انفرادیت پر فوقیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ دور شخصی آزادی کا دور ہے۔ اسی وجہ سے مختلف خواتین و حضرات میں مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت پیدا ہوئی ہے اور شادی کے موقع پر الگ گھر میں آباد ہونے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ اس رجحان میں جدید صنعتی نظام نے بڑا کردار ادا کیا ہے جس کی بدولت روزگار کی تلاش میں لوگ اپنے آبائی گاؤں یا شہر چھوڑ کر صنعتی و تجارتی مراکز کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔
ان تمام تبدیلیوں کے نتیجے میں خاندانی نظام میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ خاندان پہلے کی نسبت مختصر اور پابندیوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں۔ قدیم رسم و رواج کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے اور اجتماعیت کی بجائے انفرادیت پر زور دیا جا رہا ہے۔
اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ بڑے خاندان میں رہنے کے باعث بالعموم افراد کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ انہیں اپنی عقل سے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ چھوٹے خاندان میں یہ آزادی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے جو فرد کی فکری نشوونما کے لئے بہت اہم ہے۔ بڑے خاندانوں میں عموماً لڑائی جھگڑے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ساس بہو، نند بھابی، دیورانی جیٹھانی وغیرہ کے جھگڑے ہر خاندان میں عام ہیں۔ اگر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر رہا جائے اور کبھی کبھی ملا جائے تو یہ دوری انسان کو نفرت سے بچا کر محبتیں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔
شرعی اعتبار سے چھوٹے خاندان میں رہنے سے دو مسائل حل ہوتے ہیں۔ ایک تو مسئلہ وراثت کا ہے۔ مشترکہ خاندانوں میں بالعموم وراثت تقسیم نہیں کی جاتی اور اگر کی جاتی ہے تو خواتین کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی دی ہوئی شریعت میں وراثت کی تقسیم پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جب خاندان تقسیم ہو گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وراثت بھی تقسیم ہو گی۔
دوسرا مسئلہ شرم و حیا کا ہے۔ دین میں شرم و حیا کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ سورۃ نور میں مرد و خواتین کو شرم و حیا سے متعلق جو احکام دیے گئے ہیں، مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے ان احکام پر عمل کرتے ہوئے روزمرہ کے کام کاج کرنا نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لئے بھی بہت مشکل ہے۔ خود کو چادر میں لپیٹ کر چولہے پر کام کرنا کس قدر مشکل کام ہے، یہ خواتین ہی جانتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کام کی مشکلات کے باعث خواتین اکثر ان احکام سے بے پرواہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے مرد دیور اور جیٹھ وغیرہ کے لئے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں اپنی نگاہ کو بچا کر رکھیں۔علیحدہ خاندانوں میں یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں عرب معاشروں میں ایک نہایت اچھا رواج ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی کے موقع پر بیٹے کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ جب لڑکے اور لڑکی دونوں کے والدین ضعیف العمری کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی خدمت دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر ان کے ذمے لڑکے کے والدین کی خدمت ہوتی ہے تو لڑکی کے والدین کی خدمت بھی دونوں کی مشترک ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ یہ لوگ اگر افورڈ کر سکیں تو اپنے گھر کے قریب والدین کو الگ گھر لے کر دیتے ہیں اور ان کے لئے کل وقتی ملازموں کا بندوبست کر دیتے ہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں خدمت کے لئے اپنے گھر لے آتے ہیں۔
مشترک خاندانی نظام کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ اس میں گھر کے اخراجات تمام کمانے والوں میں تقسیم ہو جایا کرتے تھے۔ تقسیم شدہ خاندانوں کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں گھریلو اخراجات کا بوجھ ایک ہی شخص پر آ پڑتا ہے جو بسا اوقات تمام اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مرد کے ساتھ ساتھ خواتین بھی مالی معاملات میں ہاتھ بٹانے لگی ہیں تاکہ مردوں کا معاشی بوجھ کم کیا جا سکے۔ اس صورتحال سے کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں جو ہم آگے بیان کریں گے۔
شخصی آزادی کا فروغ
موجودہ دور شخصی آزادی کا دور ہے۔ ہماری قدیم معاشرت میں فرد کو زیادہ آزادی دینا برا سمجھا جاتا تھا۔ عادات، اطوار، رہن سہن، خیالات و نظریات ہر معاملے میں انسان اپنے گرد و پیش کا پابند ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی قسم کی تبدیلی کو نہایت ہی برا سمجھا جاتا۔ کسی شخص کی پرائیویسی کی کوئی اہمیت نہ ہوا کرتی تھی۔ شادی سے پہلے علیحدہ بیڈ روم کا کوئی تصور نہ تھا۔ لوگ بھی مسلسل ایک دوسرے کی سن گن لینے میں مشغول رہتے اور ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا کر رکھ دیتے۔
جدید معاشرت میں انسان کی شخصی آزادی ایک نہایت ہی اہم قدر (Value) بن چکی ہے۔ ایک شخص اگر اپنے ارد گرد کے ماحول کے خیالات و نظریات، عادات و اطوار اور رہن سہن کو اگر درست نہیں سمجھتا تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ انہیں چھوڑ کر بہتر نظریات و افعال کو اختیار کر لے۔ پرائیویسی ایک بڑی قدر بن چکی ہے اور جدید معاشروں میں رہنے والے لوگ اپنے پڑوسیوں کی ٹوہ میں نہیں رہتے۔ تبدیلی کے عمل کو برے کی بجائے بالعموم اچھا سمجھا جاتا ہے۔
ہمارا روایتی طبقہ عام طور پر شخصی آزادی کا مخالف ہے۔ ان کے نزدیک اس آزادی کے باعث لوگ گمراہی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ برائیوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ بات بذات خود درست ہے لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ اسی شخصی آزادی کی بدولت مغربی معاشروں میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر ان کے ہاں بھی ہماری طرح افراد کو معاشرے کی روایات اور مذہب سے سختی سے باندھ کر رکھا جاتا تو ان میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی۔
معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لئے بہترین طریقہ اخلاقی تعلیم و تربیت ہے۔ یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہے جس سے بچنے کے لئے ہمارے لوگ ڈنڈے کے زور پر اصلاح کے قائل ہو چکے ہیں۔ شاید وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ قوت کے زور پر کی گئی اصلاح ہمیشہ عارضی ہوتی ہے جبکہ تعلیم و تربیت کے ذریعے کی گئی اصلاح دیر پا۔ یہ الگ بات ہے کہ قوت کے زور پر کی جانے والی اصلاح کے نتائج فوراً نظر آتے ہیں جبکہ تعلیم و تربیت سے کی جانے والی اصلاح کے نتائج طویل عرصے میں سامنے آتے ہیں۔
جب انسان آزادانہ طور پر سوچتا ہے اور اسے فکر و عمل کی آزادی میسر آتی ہے تو اس کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو اپیل کر کے اسے حق قبول کرنے پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ان معاشروں میں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں فکر و عمل کی آزادی دستیاب ہے۔ اس کے برعکس ایسے معاشرے جو فکر و عمل کی جکڑ بندیوں کا شکار ہیں، وہاں اسلام کی دعوت پھیلنے کے مواقع بہت محدود ہیں۔
شخصی آزادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے فوائد و نقصانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس میں خیر کا پہلو زیادہ ہے اور شر کا کم۔ اس لحاظ سے یہ تبدیلی مثبت سمت میں ہے اور اس کے منفی اثرات کو بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
تعدد ازدواج میں کمی
جدید نسل میں پیدا ہونے والی ایک اور بڑی تبدیلی یہ ہے کہ متعدد شادیوں کی بجائے ایک شادی کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں بالعموم اور عرب معاشروں میں بالخصوص تعدد ازدواج (Polygamy) کا رواج عام رہا ہے۔ ایک مرد کی تین یا چار بیویاں ہونا عام تھا۔ موجودہ دور میں یہ رواج کافی کم ہو گیا ہے اور ایک مرد اور ایک عورت کی شادی کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔
دین اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی جو اجازت دی گئی ہے اس کا تعلق مخصوص حالات سے ہے جب خواتین کی تعداد مردوں سے بڑھ جائے۔ یہ اجازت بھی عدل و انصاف کے ساتھ مشروط کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیویوں میں عدل نہیں کر سکتا تو اسے یہ اجازت بھی حاصل نہیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ مخصوص حالات میں صرف اور صرف اجازت ہی ہے، یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے جس کی پابندی ہر مرد پر لازم ہو۔
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اس بات کے گواہ ہیں کہ جو خاندان ایک خاوند اور ایک بیوی سے وجود پذیر ہوتے ہیں ان کے ہاں لڑائی جھگڑوں اور دیگر نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی تعداد ان خاندانوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے جس میں ایک خاوند کے ذمے ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں۔
اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشروں میں وقوع پذیر ہونے والی یہ تبدیلی بھی مثبت ہے۔
شادی کے طریقوں میں تبدیلی
قدیم معاشرے میں سختی سے طے شدہ شادی (Arranged Marriage) کا رواج رہا ہے۔ والدین جہاں اولاد کی شادی طے کر دیں، ان کے لئے یہ لازم سمجھا جاتا رہا ہے کہ انہیں سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ موجودہ دور میں اپنے جیون ساتھی کا انتخاب لڑکے اور لڑکیاں خود کر رہے ہیں۔ اکثر اوقات طے شدہ شادی میں بھی لڑکے لڑکی کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات عام ہو چکے ہیں جن میں لڑکے یا لڑکی نے اپنے خاندان سے بغاوت کر کے اپنی پسند سے شادی کی ہو۔
جہاں تک تو طے شدہ شادی میں لڑکے لڑکی کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنے کا تعلق ہے، یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے اور عقل و فطرت اور دین اسلام کے احکام کے عین مطابق ہے۔ رہا معاملہ شادی سے پہلے ایک لو افیئر چلانے کا، تو اس میں چند حقیقی مسائل درپیش ہیں۔
لو افیئر میں سب سے بڑا مسئلہ جذباتیت کا درپیش ہوتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو جذباتی محبت کی عینک سے دیکھتے ہیں جس کے باعث انہیں ایک دوسرے کے منفی پہلو نظر نہیں آتے۔ یہ سلسلہ بالعموم ایک دوسرے کو سمجھنے کے خوبصورت نام سے شروع ہوتا ہے لیکن بعد میں سمجھنے کا یہ عمل عقل و دانش کی بجائے جذبات کی نذر ہو جاتا ہے۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد جذباتیت کا یہ بھوت اتر جاتا ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کی شخصیت کے منفی پہلو نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سے تلخیوں اور الزام تراشیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو اکثر اوقات طلاق ہی پر جا کر ختم ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ارینجڈ میرج میں معاملات کا تجزیہ کرنے اور مسائل کو طے کرنے کا کام ان تجربہ کار لوگوں کے سپرد ہوتا ہے جو جذباتیت کی پست سطح سے اٹھ کر عقلی اور منطقی انداز میں حقائق کا تجزیہ کرتے ہیں اور اکثر معاملات کو معقول حد تک میچ کرنے کے بعد اپنی اولاد کی شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارینجڈ میرج کے معاملے میں کامیابی کی شرح لو میرج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ایسا ضرور ہے کہ بعض اوقات والدین اپنی انانیت اور جاہلانہ روایات کا شکار ہو کر اولاد کے بارے میں غلط فیصلے بھی کر بیٹھتے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس کی اصلاح ضروری ہے۔
لو افیئر کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ جذبات کی رو میں بہک کر لڑکا اور لڑکی اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں جس کا نتیجہ دونوں ہی کے لئے پشیمانی کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ دونوں ہی اپنی عفت و عصمت کے اس گوہر نایاب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کی حفاظت ان کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
ہماری رائے میں اس معاملے میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد سے دوستانہ برتاؤ رکھیں اور ان کی پسند و ناپسند کو اہمیت دیں۔ دوسری طرف اولاد بھی بے جا شرم سے اجتناب کرتے ہوئے کھلے طریقے سے اپنی پسند و ناپسند سے والدین کو آگاہ کرے اور تمام معاملات انہی کے ذریعے طے کرے۔
اس تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جدید میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کا غالب پہلو منفی ہے۔
شادیوں میں تاخیر
موجود دور کی ایک اور اہم معاشرتی تبدیلی شادی میں تاخیر ہے۔ قدیم معاشرت میں لڑکے شادی زیادہ سے زیادہ بیس سال اور لڑکی شادی زیادہ سے زیادہ سولہ سال کی عمر میں کر دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خاندان کی کفالت مشترکہ طور پر کی جاتی تھی۔ موجودہ دور میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشی طور پر خود مختار ہونے کی بعد شادی کی جانی چاہیے۔ جدید شہروں میں اب بالعموم لڑکے کی شادی کی عمر تیس سے پینتیس سال اور لڑکی کی شادی کی عمر پچیس سے تیس سال ہو چکی ہے۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں صورتحال کچھ اس طرح کی ہو رہی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو اپنی بلوغت کے بعد طویل عرصے تک خود کو صنفی تعلقات کے اعتبار سے کنٹرول کرنا پڑتا ہے جس کے باعث یا تو یہ بہت سے نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور یا پھر جنسی بے راہروی اور گھناؤنی عادات کو اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسری انتہا غیر ضروری طور پر بہت چھوٹی عمر میں شادی کر دینا ہے جو ہمارے قدیم معاشرے کا خاصہ ہے۔ کم عمری کی شادی سے کچھ اور قسم کے پیچیدہ نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم عمری میں شادی کرنے والے جوڑے عموماً مالی مشکلات کا شکار بھی رہتے ہیں۔
اس تبدیلی کی بڑی وجہ مالی معاملات میں بہت بڑی بڑی توقعات وابستہ کرنا ہے۔ آج کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے میڈیا کو دیکھ دیکھ کر جس معیار زندگی کا تصور اپنے خوابوں میں سجایا ہوتا ہے اس کی تعبیر عموماً ایک مڈل کلاس کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کو بھی اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں ہی جا کر نصیب ہوتی ہے۔ اگر اپنی خواہشات کو حقیقت پسندانہ بناتے ہوئے مناسب عمر میں شادی کو فروغ دیا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے اس تجزیے کی روشنی میں دور جدید کی یہ تبدیلی بھی منفی نوعیت کی ہے۔
غلامی کا خاتمہ
تقریباً ایک سو سال قبل انسانیت غلامی کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی۔ انسانوں کی بڑی تعداد غلاموں کی صورت میں موجود تھی۔ اسی غلامی پر اس دور کی پوری معیشت کا انحصار تھا کیونکہ یہی غلام زرعی و صنعتی ورکرز تھے۔ پچھلی صدی میں دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو گیا ہے جس کی بدولت انسانیت ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں افراد کو آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوا ہے۔
دیہاتی کی بجائے شہری معاشرے
اب سے کچھ عرصہ پہلے تک آبادی کا بڑا حصہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں مقیم تھا۔ شہری زندگی کی کشش کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد شہروں کی طرف آ رہی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر اوقات روزگار زیادہ تر شہروں میں دستیاب ہوتا ہے۔ مزید برآں شہری زندگی کی سہولیات جیسے تعلیم اور صحت عامہ کے باعث دیہات اور چھوٹے شہروں کے رہنے والے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ان میں توسیع کا عمل مسلسل جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ شہروں میں مکانات کی قلت ہو رہی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سہولیات اس رفتار سے فراہم کرنا ممکن نہیں رہا جس رفتار سے شہروں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ انسان فطرت کے صاف ستھرے ماحول کی بجائے تنگ و تاریک علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس کی بڑی وجہ حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی ہے جس کے نتیجے میں چند شہروں میں ضرورت سے زیادہ صنعتی اور تجارتی ترقی ہو جاتی ہے اور باقی علاقے اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ان مسائل کے باعث ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دور جدید کی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے۔
جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری
شہروں میں نقل مکانی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں قدیم جاگیردارانہ یا قبائلی نظام کی طاقت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ دیہات کے لوگ اپنے علاقے کے چوہدری، وڈیرے، جاگیردار یا قبائلی سردار کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ شہر کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں تو پھر یہ اثر زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ جاگیردار یا سردار کی اصل قوت یہ رہی ہے کہ یہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے تھے۔ روزگار کے متبادل ذرائع کے نتیجے میں اب لوگ اپنے علاقے کے سرداروں کی محتاجی سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں۔
دور جدید کی یہ تبدیلی بجا طور پر ایک مثبت تبدیلی ہے۔
نوجوانوں کے تناسب میں اضافہ
مغربی معاشروں کے برعکس مشرقی اور بالخصوص مسلم معاشروں کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ ان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوان افراد پر مشتمل ہے۔ امریکہ کے پاپولیشن ریفرنس بیورو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2006ء میں ایشیائی ممالک میں نوجوان نسل کا تناسب مغربی ممالک کی نسبت دو گنا ہے۔
نوجوان آبادی کے اس تناسب میں اضافے کے باعث بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ نوجوان عموماً جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات ابھار کر اور انہیں سبز باغ دکھا کر بہت سے سیاسی و مذہبی راہنما اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیتے ہیں۔ نوجوان نسل کی اتنی بڑی تعداد کے باعث زیادہ تر مسلم ممالک میں روزگار کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مسلم معاشروں کی بڑی تعداد جرائم میں اضافے کا شکار ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں جرائم کی شرح اور ان کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے جرائم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
نوجوان نسل کا زیادہ ہونا بذات خود کوئی منفی تبدیلی نہیں۔ اگر اس نسل کو مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال کیا جائے تو یہ ملکی ترقی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ تبدیلی مثبت رخ اختیار کر سکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں چین اور بھارت نے اپنی نوجوان افرادی قوت کو استعمال کرتے ہوئے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم ممالک اس معاملے میں ان کی نسبت بہت پیچھے ہیں۔
اس تبدیلی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک آنے والے وقت میں نوجوان ورکرز کی کمی کا شکار ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ مشرقی ممالک سے نوجوان نسل امپورٹ کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرقی ممالک کے لئے نئے مواقع پیدا ہونے کا امکان پیدا ہو گا۔
خواتین کا فعال کردار
جدید معاشرے میں خواتین کا کردار بڑی حد تک تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے قدیم معاشروں میں خواتین کا اصل میدان عمل ان کا گھر قرار دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ قدیم دیہاتی معاشرت میں خواتین کی بڑی تعداد زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی ان کی معیشت مرد کے تابع ہی رہی ہے اور ان کا معاوضہ بالعموم ان کے خاوند ہی وصول کرتے رہے ہیں۔
خواتین کی بڑی تعداد اب صنعت و تجارت کی طرف آ رہی ہے۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں میں ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ سیاسی میدان میں خواتین اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو مذہبی یا سماجی بنیادوں پر خواتین کے گھر کے کردار ہی کی قائل ہیں۔
مذہبی معاملات میں بھی خواتین کا کردار بڑھ رہا ہے۔ پہلے عالم دین بننا صرف اور صرف مرد کا کام سمجھا جاتا تھا لیکن اب بہت سی خواتین اسکالرز بھی اعلی دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں مغربی ممالک میں رہنے والی مسلمان خواتین بہت آگے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں خواتین کا کردار مسلسل اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
خواتین کے روزگار کے نتیجے میں معاشرے میں "بے بی ہوم” کا نیا ادارہ وجود پذیر ہو رہا ہے۔ ایسے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کثیر تعداد میں ادارے بن رہے ہیں جو کام کرنے والی خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ ان اداروں کے نتیجے میں خواتین کی مزید ملازمتیں نکل رہی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی سماجی مفکرین میں زیر بحث ہے کہ اصل ماں کی بجائے رقم لے کر دیکھ بھال کرنے والی ماں بچے کی نشوونما اور اس کی اخلاقیات میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
خواتین کے روزگار کے نتیجے میں جنسی طور پر ہراساں کرنے (Sexual Harassment) کا مسئلہ درپیش آ رہا ہے۔ بعض لوگ خواتین کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مسلم معاشروں کے علاوہ یہ مسئلہ مغربی ممالک میں بھی درپیش ہے۔ اس مسئلے کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کا شعور پیدا کیا جائے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں سخت قانون سازی کر کے اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد بھی کیا جائے۔
اگرچہ اس تبدیلی سے چند مسائل پیدا ہو رہے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ تبدیلی مثبت ہے۔ معاشرے کا نصف حصہ جو پہلے معاشرے کی ترقی کے لئے اپنی صلاحیت سے بہت کم کردار ادا کیا کرتا تھا، اب اس میں پہلے کی نسبت زیادہ حصہ لے رہا ہے۔ دین اسلام میں خواتین کے روزگار کمانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی البتہ مردوں پر یہ ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیویوں کے نان نفقے کا بندوبست کریں۔
رہن سہن کے طریقوں (Lifestyles) میں تبدیلی
جدید نظام حیات میں لباس، قیام و طعام، اوقات کار اور زندگی کے دیگر شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اب سے تقریباً سو سال قبل پینٹ کوٹ کو انگریزوں کا لباس سمجھ کر رد کر دیا گیا تھا۔ اب یہی لباس بین الاقوامی دفتری لباس بن چکا ہے اور بشمول دین دار افراد کے بہت سے مسلمان اس لباس کو اپنائے ہوئے ہیں۔ خواتین کے لباس میں بڑی حد تک تبدیلی آ رہی ہے اور اس میں اب مغربیت کا رنگ نمایاں ہے۔
کھانے پینے کے آداب میں بھی بڑا تغیر رونما ہو چکا ہے۔ گھر سے باہر کھانا کھانا جو کبھی ایک بہت برا سمجھا جاتا تھا، اب ایک تفریحی صنعت بن چکا ہے اور بہت سے شہروں میں کثیر تعداد میں فیملی ریسٹورنٹ کھل چکے ہیں۔ بڑے بڑے کھلے گھروں کی جگہ اب فلیٹ لے رہے ہیں اور ان کا سائز بھی مختصر ہوتا جا رہا ہے۔
قدیم زرعی معاشرے میں اوقات کار کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لوگ عموماً فجر کے وقت کام پر جاتے اور سورج کے بلند ہونے سے قبل اپنے کام کاج سے فارغ ہو جاتے۔ صرف فصل کی بوائی اور کٹائی کے موقع پر ان کے دن رات صرف ہوتے۔ پورے دن کی فراغت کے باعث ان کے پاس زندگی کے دیگر مشاغل کے لئے وقت ہی وقت ہوا کرتا تھا۔
جدید صنعتی معاشرے میں کام کے اوقات اس طرح مقرر کئے گئے ہیں کہ پورا دن ہی اس میں صرف ہو جاتا ہے۔ مزید برآں کام کے پریشر اور دفاتر کے مالکان کے استحصالی رویے کے باعث طویل اوقات (Long Hours) کا رواج عام ہو چکا ہے۔ اب ایک دفتری یا صنعتی کارکن صبح نو بجے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے اور بالعموم رات نو بجے فارغ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو دینا ہوتا ہے۔ سونے کا موقع اسے رات ایک دو بجے ملتا ہے اور بمشکل چند گھنٹے کی نیند لینے کے بعد اسے صبح پھر کام پر جانا ہوتا ہے۔ ان اوقات کار کے باعث لوگوں کی پوری زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دینی اور اخلاقی اعتبار سے اوقات کار میں ہونے والی یہ تبدیلیاں ہمارے نزدیک مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کی حامل ہیں۔
تعلیم کا فروغ
قدیم معاشرے میں تعلیم برائے تعلیم کا تصور تھا۔ عام طور پر وہی لوگ باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے جنہیں اس سے دلچسپی ہوتی۔ موجودہ دور میں تعلیم کا مقصد روزگار کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ خود ناخواندہ ہی کیوں نہ ہو، اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کے باعث معاشروں میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف صرف انہی شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے جن کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں موجود ہے۔ دیگر شعبوں کو واضح طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
تعلیم کا فروغ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اس معاملے میں منفی پہلو یہ ہے کہ فنی تعلیم کے فروغ کے باعث اخلاقی تعلیم و تربیت کو وہ حصہ نہیں مل رہا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔
میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار
پچھلے دو عشروں میں الیکٹرانک میڈیا کو واضح طور پر غیر معمولی غلبہ نصیب ہوا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے قارئین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا کو دیکھنے اور سننے والوں میں بہت بڑی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں خاص طور پر ٹی وی اور انٹرنیٹ کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس میں دن بدن کثیر تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی کے اس پورے عمل میں کمرشلزم کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ پر اسی مواد کو زیادہ فروغ مل رہا ہے جس کے باعث زیادہ سے زیادہ لوگوں کو میڈیا کے استعمال پر راغب کیا جا سکے۔ لوگوں کے جذبات کا سستا استعمال بہت عام ہو چکا ہے۔
اس تبدیلی کا منفی پہلو یہ ہے کہ اکثر معاشروں میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ مل رہا ہے۔ قدیم دور میں رقص و سرود اور جنس سے متعلق کاروبار چند محدود علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔ میڈیا کے اس فروغ کے باعث اب یہ ہر شخص کے بیڈ روم میں داخل ہو گیا ہے۔ عریانی و فحاشی کے ساتھ ساتھ تشدد کا رجحان بھی میڈیا کے اسی منفی کردار کے باعث فروغ پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انسانیت اور اخلاقیات کے لئے مہلک ایسے نظریات اور تصورات جو پہلے چند افراد تک محدود ہوا کرتے تھے، اب انہیں ایک نئی زبان مل چکی ہے۔
میڈیا اپنی ذات میں کسی اچھائی یا برائی کا حامی نہیں ہوتا۔ اس کی اچھائی یا برائی اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں میڈیا نے برائی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہاں بھلائی کے فروغ میں بھی یہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت سے دینی اور علمی چینل اور ویب سائٹس منظر عام پر آ رہی ہیں جس کے نتیجے میں نیکی بھی پھیل رہی ہے۔ حقیقت البتہ یہ ہے کہ برائی کے فروغ کی رفتار نیکی کے مقابلے میں زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ میڈیا کا کمرشلزم ہے۔
میڈیا کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی بدولت عام لوگ پہلے کی نسبت زیادہ با شعور ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سے طالع آزما سیاسی و مذہبی رہنما پہلے لوگوں کو با آسانی بے وقوف بنا لیا کرتے تھے جو میڈیا کے فروغ کے بعد اب آسان نہیں رہا ہے۔
خلاصہ بحث
ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دور جدید کے مسلم معاشروں میں ایک نیا سماجی ڈھانچہ زیر تشکیل ہے۔ پرانے سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ اس کی اقدار بھی منہدم ہوتی جا رہی ہیں جبکہ جدید سماجی ڈھانچے کی نئی اقدار تخلیق ہو رہی ہیں۔ اس وقت ہم لوگ ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں جس میں نئے معاشرے کے خدوخال آہستہ آہستہ واضح ہو رہے ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل میں بعض مثبت اور بعض منفی پہلو ہیں لیکن بحیثیت مجموعی مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہیں۔
باب چہارم: سیاسی تبدیلی
دور جدید میں بعض اہم ترین سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں بہت سے تبدیلیاں نظریاتی اور بہت سے عملی سیاست میں میدان میں رونما ہوئی ہیں۔
جمہوریت
دور قدیم ہی سے بادشاہت اور آمریت کا نظام دنیا میں رائج رہا ہے۔ تاریخ انسانی میں اس سے استثنا صرف بنی اسرائیل کے ابتدائی دور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے بعد خلافت راشدہ کو رہا ہے۔ اس کے علاوہ یونان کے عروج کے دور میں بھی جمہوریت کا تجربہ کیا گیا۔ جمہوریت اور آمریت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں حکومت عام لوگوں کے مشورے سے قائم ہوتی ہے اور انہی سے مشورے سے ختم ہوتی ہے۔ حکومت اپنے عوام کے سامنے اپنے ہر فعل کے لئے جواب دہ ہوتی ہے۔ آمریت اس کے برعکس کسی فرد، خاندان یا گروہ کی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہوتی ہے اور آمر اپنے افعال کے لئے قوم کو جواب دہ نہیں ہوتا۔
دور جدید میں اہل مغرب نے سیاسی میدان میں جمہوریت کی روایت قائم کر دی ہے۔ مسلم ممالک میں اس روایت کو بالعموم اختیار نہیں کیا گیا اور زیادہ تر مسلم ممالک میں بادشاہت یا فوجی آمریت کا نظام قائم ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا میں سیاسی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور مسلم ممالک آہستہ آہستہ جمہوری نظام کی طرف جا رہے ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک میں لولی لنگڑی جمہوریت قائم ہو چکی ہے۔ بعض مسلم ممالک جیسے ملائشیا میں جمہوری نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔
میڈیا کی بڑھتی ہوئی آزادی کے باعث آمرانہ قوتوں کی معاشرے پر گرفت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ حکمرانوں کے احتساب کی روایت بھی آہستہ آہستہ طاقت پکڑ رہی ہے۔ اس سب کے باوجود اس معاملے میں مسلم ممالک ابھی مغربی ممالک سے سالوں پیچھے ہیں اور انہیں مغربی ممالک کے جمہوری نظام تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہیں۔
ہماری رائے میں دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اسلام نے معاشرے میں اجتماعیت کی جو بنیاد پیش کی ہے وہ صرف اور صرف شورائیت ہے یعنی معاشرے کا پورا نظام مشورے سے چلایا جائے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
والذین استجابوا لربھم و اقاموا الصلوۃ، و امرہم شوری بینھم و مما رزقنھم ینفقون۔ (الشوری 42:38)
اور وہ لوگ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
سید ابوالاعلی مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
"امرھم شوری بینھم کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت میں پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے:
اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کے ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو جو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں، احتجاج کر سکیں، اور اگر اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی امرھم شوری بینھم کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔
دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے۔ یہ رضامندی، ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص اور اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا، جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔
سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔
چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں، اور اس طرح کے اظہار رائے کی، انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھا بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہوگی نہ کہ امرھم شوری بینھم کی پیروی۔
پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوری کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی یہ نہیں فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے” بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں”۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔” (تفہیم القرآن ج 4 ص 510)
ایک صحیح جمہوری نظام میں یہ پانچوں شرائط پوری ہوتی ہیں جس کا تقاضا امرھم شوری بینھم کی یہ آیت کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی طرف یہ قدم نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔
آزادی رائے
موجودہ دور آزادی رائے اور آزادی اظہار کا دور ہے۔ اہل مغرب نے اس قدر کو اپنے معاشروں میں اس قدر ترقی یافتہ بنا لیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہاں بالعموم کھل کر ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں بالخصوص مذہبی معاملات میں بعض لوگ اس آزادی کا غلط استعمال کر لیتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔
قدیم مسلم معاشرے میں آزادی اظہار اپنے عروج پر تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھلے عام ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ یہاں تک کہ خلیفہ پر بھی کھلی تنقید کی جاتی۔ بنو امیہ کے دور میں ایک مخصوص دائرے کے علاوہ تقریباً یہی صورتحال رہی۔ بنو عباس کے دور سے مسلمانوں کے ہاں انسان کے اس حق پر حدود و قیود عائد ہونا شروع ہوئیں۔ موجودہ دور میں مسلم معاشروں کی بڑی تعداد اس حق سے محروم ہے۔ اکثر مقامات پر تو حکومت کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں لیکن بعض ممالک جیسے پاکستان میں حکومت کی طرف سے تو کوئی خاص پابندیاں نہیں لیکن بہت سے ایسے پریشر گروپ موجود ہیں جو اہل علم کو آزادی اظہار کا حق دینے کو تیار نہیں اور اپنے مسلک یا نظریات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دینے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔
اگرچہ آزادی اظہار کے معاملے میں بھی مسلم ممالک مغربی ممالک سے بہت پیچھے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے ہاں بھی یہ حق دینے کا سلسلہ اور فکر کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جمہوریت کی طرح اس معاملے میں انہیں عالمی معیار تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہوں گے۔
بعض لوگ اظہار رائے کی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں تاہم اس سے آزادی اظہار کے اس حق کی نفی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ "لا اکراہ فی الدین” یعنی "دین میں کوئی جبر نہیں”۔ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جس نقطہ نظر کو حق سمجھے، اسے اختیار کر لے کیونکہ قرآن مجید نے حق کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادی رائے کی یہ قدر بالکل مثبت تبدیلی ہے۔
سیکولر ازم
عام طور پر سیکولر ازم کا معنی لادینیت سمجھا جاتا ہے۔ سیکولرازم کے حامیوں کے نزدیک یہ لادینیت کے مترادف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ کر دیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ معاشروں کی اکثریت متعدد مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ اگر کسی ایک مذہب کو یہ حق دیا جائے کہ وہ پبلک لاء بن کر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو متاثر کر سکے تو یہ مذہبی آزادی کے منافی ہو گا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی اقلیتیں اس بات پر مجبور ہو جائیں گی کہ وہ ریاست کی وفادار شہری بن کر نہ رہیں۔
مغربی ممالک سیکولرازم کو پوری طرح اختیار کر چکے ہیں۔ ان کے ہاں سیکولرازم کے متعدد ماڈل موجود ہیں۔ ان میں ایک ماڈل فرانس (اور مسلم دنیا میں ترکی) کا ہے جس میں پبلک مقامات پر مذہبی علامات کے اظہار تک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا ماڈل ہے جہاں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن ریاست کے تمام تر معاملات میں مذہب کو استعمال نہیں کیا جاتا۔
مسلم ممالک کے ہاں اس معاملے میں متضاد رویے پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ کے نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں کو اجتماعی بنیادوں پر اپنا نظام صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم کرنا چاہیے۔ اقلیتوں کو ان کے پرسنل لاء کی آزادی دی جائے لیکن پبلک لاء صرف اور صرف اسلام کا ہونا چاہیے۔ اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں اسلامی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔ اسی نقطہ نظر کو سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں نے مکمل طور پر اور پاکستان کے آئین میں جزوی طور پر اختیار کیا گیا ہے۔
دوسرا نقطہ نظر بالعموم مسلم حکمرانوں کا ہے۔ یہ لوگ عام طور پر سیکولر ذہن کے مالک ہیں اور سیکولر ازم کو پسند کرتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتیں سیکولر ازم کی حامی ہیں اور ان کے مذہبی علماء اسی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔
اگر غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سیکولر ازم ایک مثبت تبدیلی ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں اسے منفی تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ دین اسلام ہر غیر مسلم قوم کو اس کے پرسنل لاء کی آزادی دیتا ہے۔ عبادات، فیملی لاء، وراثت اور بہت سے دیگر معاملات میں ہر غیر مسلم قوم کو اپنے عقیدے اور نظریے پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دینا مسلمانوں کی حکومت پر لازم ہے۔
رہا سوال پبلک لاء کا جس میں وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق بلا کسی مذہب کے تمام اقوام سے ہے۔ اس کی واضح مثال مملکت کا سیاسی نظام، اس کی معاشی پالیسی، عوام کو سہولیات فراہم کرنا، جرائم کی سزا، امن و امان وغیرہ کے مسائل ہیں۔
جب بھی کوئی قوم اپنے ملک کے پبلک لاء سے متعلق کوئی قانون سازی کرتی ہے تو وہ اپنی طرز معاشرت، تاریخ اور اقدار کو اہمیت دیتی ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہو تو یہ بالکل ہی نامعقول بات ہو گی کہ مسلمان قانون سازی میں اپنے طرز معاشرت، تاریخ اور اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے مذہب کو بالکل ہی نظر انداز کر دیں۔ ایسا مغربی ممالک میں بھی نہیں ہوتا اور ان کے ہاں بھی اکثریت کے مذہب یا روایات کو پبلک لاء سے متعلق قانون سازی میں اہمیت (Weightage) دی جاتی ہے۔ جمہوری نظام کا تقاضا یہ ہے کہ اکثریت کو اقلیتوں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اپنی روایات اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کا حق دیا جائے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولر ازم کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے جو پہلو دین اسلام سے متصادم ہوتے ہیں، ان میں ضروری تغیر و تبدل کر کے انہیں دین اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے۔
ریاست کا معاشرے میں مذہبی کردار
سیکولر ازم سے متعلق ایک اور تبدیلی جدید سیاسی نظریے میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ یہ سوال بھی دور جدید میں پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ریاست کو معاشرے میں مذہبی کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست کو اپنے شہریوں پر مذہب کو بزور طاقت نافذ کرنا چاہیے؟
جدید سیاسی نظریے میں اس سوال کا جواب نفی میں دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتی اگرچہ فرانس جیسے ممالک میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔
مسلم ممالک میں اس معاملے میں دو نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق ریاست کو مذہب جبراً اپنے شہریوں پر نافذ کرنا چاہیے۔ روایتی مذہبی طبقہ بالعموم اسی نقطہ نظر کا حامی ہے۔ دوسرا گروہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ہے جو اس معاملے مغربی نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک تیسرا نقطہ نظر بھی اس معاملے میں موجود ہے جس کے مطابق ریاست کو مذہب جبراً نافذ کرنے کی بجائے دعوت و اصلاح کے ذریعے پھیلانا چاہیے اور اس ضمن میں سرکاری وسائل کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔
اگر دین اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ اس کا اہم ترین حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے۔ ان اخلاقیات کے بارے میں اسلام، دیگر مذاہب اور یہاں تک کہ لادین حلقوں میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں۔ دین اسلام میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے عوام کی اخلاقی اصلاح کے لئے کوشش کرے۔ اس کوشش کو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا نام دیا گیا ہے۔
معروف سے مراد وہ نیکیاں ہیں جن کا نیکی ہونا انسانوں کے نزدیک مسلمہ حیثیت کا حامل ہو جیسے دیانت داری، عجز و انکسار وغیرہ۔ اسی طرح منکر سے مراد وہ برائیاں ہیں جو انسانوں کے نزدیک مسلمہ طور پر برائی سمجھی جاتی ہوں جیسے چوری، قتل، بد دیانتی، جھوٹ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان نیکیوں کی ترویج اور برائیوں کے خاتمے سے کسی غیر مسلم یا سیکولر شخص کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔
دین اسلام کا دوسرا حصہ عقائد اور شریعت پر مشتمل ہے۔ اس حصے سے غیر مسلموں کو اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ شریعت کے معاملے میں مختلف مسلم فرقوں اور مسالک کے مابین اختلافات بھی موجود ہیں۔ اس معاملے میں یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ ہماری رائے میں حکومت کو یہ معاملہ خود انجام دینے کی بجائے مختلف مذاہب کے ایسے اہل علم پر چھوڑ دینا چاہیے جو اپنے نقطہ نظر کو معقولیت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اگر حکومت ایک مسلک کو بزور نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے فرقوں کی جانب سے بغاوت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کو سوائے انتشار کے کچھ اور حاصل نہ ہو گا۔
ہمارے نزدیک موجودہ دور میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے کیونکہ اگر ریاست معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کے لئے کام نہ کرے گی تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار اور بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ ہماری رائے میں حکومت کو اخلاقیات کے فروغ کی حد تک اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ رہے دیگر مذہبی معاملات تو ان کو مذہبی علماء کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اس معاملے میں مذہبی علماء کی تربیت کی ضرورت بھی ہے تا کہ وہ ان اختلافات کو بڑھا کر تفرقہ بازی کی سطح تک نہ لے جائیں بلکہ مثبت انداز میں اختلافات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت سے واقف ہوں۔
عالمگیریت (Globalization)
موجودہ دور کی ایک اہم تبدیلی عالمگیریت کی تحریک ہے۔ دنیا بھر میں یہ تحریک جاری ہے اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو ایک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ معاشی میدان میں اس تحریک کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی صورت میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ معاشرت کے میدان میں بھی اس تحریک کو کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر کسی حد تک ایک ملٹی نیشنل کلچر وجود پذیر ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں اس تحریک کو اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
گلوبلائزیشن کی اس تحریک کے بالمقابل علاقائیت (Regionalism) کی تحریک بھی دنیا میں چل رہی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں یورپی یونین کا بہت بڑا اتحاد معرض وجود میں آ چکا ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی معاشی بنیادوں پر ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عالمگیریت کے خلاف اینٹی گلوبلائزیشن کی تحریک بھی موجود ہے جس میں مختلف سطحوں پر عالمگیریت کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
ہماری رائے میں، معاشی گلوبلائزیشن کو ایک طرف رکھتے ہوئے، دیگر میدانوں میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی مثبت ہے۔ دینی نقطہ نظر سے اس تبدیلی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ معاشروں کے اوپن ہونے کے نتیجے میں دین اسلام اور مثبت اقدار کی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بہت سے نئے مواقع پیش آ رہے ہیں۔
مذہبی جنگیں
بیسویں صدی کے وسط میں مسلمانوں کے اندر غلبہ اسلام کی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ ان تحریکوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ کسی بھی طریقے سے مسلم ممالک کی موجودہ حکومتوں کو ختم کر کے یہاں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین جلد ہی بہت سے حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ بعض نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور ان میں سے بعض مسلح جدوجہد کے راستے پر چل پڑے۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ مسلح جدوجہد عالمی سطح پر پھیل چکی ہے اور یہ مذہبی قوتیں بالخصوص عراق اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ کر رہی ہیں۔ بہت سے دیگر مسلم ممالک میں صورتحال یہ ہے کہ وہ بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
جدید دور میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے۔ موجودہ دور میں تکنیکی اعتبار سے جنگ نہ صرف شکست خوردہ قوم کے لئے تباہی کا باعث ہے بلکہ اکثر اوقات فتح حاصل کرنے والی اقوام کے لئے بھی جنگ تباہی کا پیغام ہی لے کر آتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اگرچہ اتحادی قوتوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن روس، برطانیہ اور فرانس میں ہونے والی تباہی، جرمنی، اٹلی اور جاپان کی تباہی سے کچھ کم نہ تھی۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ جنگوں کے نتیجے میں جہاں مسلم ممالک (جیسے افغانستان اور عراق) تباہی کا شکار ہوں گے وہاں ان کا مقابلہ کرنے والے غیر مسلم ممالک (جیسے امریکہ اور برطانیہ) بھی کچھ کم نقصان سے دوچار نہ ہوں گے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم ممالک دونوں میں امن کی اہمیت اجاگر کی جائے اور انہیں تصادم سے روکا جائے کیونکہ یہ تصادم دونوں کے لئے ہی مہلک ثابت ہو گا۔
خلاصہ بحث
سیاسی میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں مثبت اور منفی دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں۔ بعض تبدیلیاں منفی نوعیت کی ہیں جبکہ بعض مثبت نوعیت کی۔
باب پنجم: معاشی اور تکنیکی تبدیلی
عصر حاضر میں دور قدیم کے مقابلے میں بالکل مختلف معاشی نظام نے جنم لیا ہے۔ دور قدیم میں پوری معیشت زراعت کے گرد گردش کیا کرتی تھی۔ تجارت کا انحصار بھی زراعت ہی پر ہوا کرتا تھا۔ صنعت نہایت ہی ابتدائی درجے کی ہوا کرتی تھی۔ صنعتی اور مشینی انقلاب کے بعد بڑی بڑی جائنٹ اسٹاک کمپنیاں بنانے اور کاروبار کو عالمی سطح پر پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1990ء میں کمیونزم کے زوال کے بعد معاشی میدان میں عالمگیریت کا رجحان بہت تیز ہو چکا ہے۔ دور حاضر کی اہم معاشی تبدیلیاں یہ ہیں:
معلوماتی انقلاب (Information Revolution)
کمپیوٹر اگرچہ بیسویں صدی کے وسط میں ایجاد ہو چکا تھا لیکن اسے عوامی سطح پر عام کرنے کا عمل 1980ء کے عشرے میں شروع ہوا اور اکیسویں صدی کے آغاز تک یہ ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔ اس ایجاد کی بدولت دنیا میں معلوماتی انقلاب کا آغاز ہوا۔
اس معلوماتی انقلاب نے زندگی کے تمام شعبوں میں بڑی تبدیلی برپا کی ہے۔ کاروبار، بینکنگ، ابلاغ عامہ، کھیل اور تفریح، دوستی اور گپ شپ، پراجیکٹ مینجمنٹ، قانون، طب، انجینئرنگ غرض ہر کام میں کمپیوٹر کا استعمال اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا اثر ہماری روزمرہ کی زندگی پر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
اس تبدیلی کا منفی پہلو بے حیائی اور تشدد کے رجحانات کا فروغ ہے۔ دور قدیم میں جس طرح شرک ایک عالمگیر برائی کی حیثیت رکھتا تھا وہی حیثیت اب بے حیائی کو حاصل ہو چکی ہے۔ جدید ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کو اس برائی کو پھیلانے کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
معلوماتی انقلاب کا مثبت پہلو یہ ہے کہ نیکی کو پھیلانے کے لئے پہلے جو کام تقریباً ناممکن تھے، وہ اب بہت آسان ہو چکے ہیں۔ کسی مذہبی مبلغ یا مصلح کو پہلے پوری قوم تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے بہت سے ساتھیوں کی مدد سے بے پناہ جدوجہد کرنا پڑا کرتی تھی لیکن اب انٹرنیٹ کی مدد سے وہ یہ کام تن تنہا سر انجام دے سکتا ہے۔ اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے۔
سود پر مبنی نظام
قدیم معاشروں میں بھی انفرادی سطح پر سود موجود رہا ہے لیکن جدید دور میں سود کی بنیاد پر عالمی معاشی نظام کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پہلے کاروبار میں ملکیت (Ownership) اور کاروبار کا انتظام (Management) بالعموم ایک ہی شخص یا گروہ کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا۔ کاروبار چھوٹے چھوٹے اداروں کی صورت میں ہوا کرتا تھا جس کے لئے سرمایہ ان اداروں کے مالکان ہی فراہم کر دیا کرتے تھے۔ جائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی ایجاد کے بعد کاروبار میں ملکیت اور انتظام کو الگ الگ کر دیا گیا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو سرمائے کی فراہمی کے لئے بینکاری کا نظام وجود پذیر ہوا جس کی پوری بنیاد سود ہے۔
بینک پورے معاشرے میں پھیلے ہوئے تھوڑے تھوڑے سرمایے کو سود کی ادائیگی کے ذریعے اکٹھا کرنے کا کام سر انجام دیتے ہیں اور پھر اسی سرمائے کو کچھ زیادہ شرح سود پر کاروباری افراد کو دے دیتے ہیں۔ یہ کاروباری افراد اس سرمائے کو استعمال کر کے اس سے کئی گنا زیادہ نفع کماتے ہیں۔
سودی نظام کی بنیاد ہی استحصال پر ہے۔ قدیم مہاجنی نظام میں سرمایہ دار غریب افراد کو بھاری شرح سود پر قرضے دے کر ان کا جو استحصال کیا کرتا تھا، وہی استحصال آج کا جدید سرمایہ دار غریب افراد کی تھوڑی تھوڑی بچتوں کو کم شرح سود پر لے کر اس سے زیادہ سے زیادہ نفع کما کر کرتا ہے۔ استحصال کا یہ نظام اب پوری دنیا میں اس طرح سرایت حاصل کر چکا ہے کہ اسے وہی حیثیت حاصل ہو گئی ہے جو قدیم نظام معیشت میں غلامی کو ہوا کرتی تھی۔
اخلاقی اور دینی اعتبار سے یہ تبدیلی بدیہی طور پر منفی نوعیت کی ہے۔
بہتر معیار زندگی
جدید ترین سائنسی ایجادات کی بدولت عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں عام آدمی کو وہ سہولیات میسر ہیں جو دور قدیم میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہ ہوا کرتی تھیں۔ قدیم بادشاہ اہم ترین عسکری معلومات کے لئے کئی دن تک انتظار کیا کرتے لیکن آج ایک عام شخص کہیں غیر اہم معلومات انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے چند سیکنڈ میں حاصل کر لیتا ہے۔
پرانے بادشاہ گھوڑوں وغیرہ پر سفر کر کے دنوں اور مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا کرتے تھے لیکن آج ایک عام شخص ائر کنڈیشنڈ گاڑیوں، بسوں اور ہوائی جہاز پر سفر کر کے چند گھنٹوں میں وہی سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ایک متوسط طبقے کے شخص کا معیار زندگی پرانے بادشاہوں کی نسبت کافی بہتر ہے۔
بدیہی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے البتہ اس تبدیلی کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ معیار زندگی کی اس دوڑ میں انسانوں کی اکثریت اپنے رب سے غافل ہوتی جا رہی ہے۔
امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق
حالیہ معاشی ترقی کا ایک درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں امیر اور غریب کے مابین خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ورلڈ فیکٹ بک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کی کل آمدنی کا 80% حصہ صرف 20% امیر ترین افراد کے پاس چلا جاتا ہے اور باقی 20% حصہ دنیا کے 80% افراد کے لئے باقی رہ جاتا ہے۔
پچھلے چند برس میں دنیا کی معیشت میں تیز رفتار ترقی امر واقعہ ہے۔ چین اور بھارت کی ترقی تو ضرب المثل بن چکی ہے۔ اس ترقی کا سب سے زیادہ فائدہ امیر طبقے کو ہوا ہے اور بڑی حد تک متوسط طبقہ اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ جہاں تک غریب طبقے کا تعلق ہے، اس تک اس تیز رفتار ترقی کے اثرات تک نہیں پہنچ پا رہے۔ اگر صرف بھارت ہی کی مثال لی جائے تو اس کے مختلف حصوں میں بلاشبہ مڈل کلاس کی آمدنیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن غریب طبقے میں معاشی وجوہات کی بنیاد پر خود کشی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال دوسرے ممالک کی بھی ہے۔
دور جدید کی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے۔
معیشت کی تنظیم نو (Restructuring)
قدیم دور کی معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ اس کے علاوہ کسی حد تک کان کنی اور تجارت کے پیشے موجود تھے۔ اب سے دو سو سال پہلے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں صنعت کو معاشرے میں اہم ترین درجہ حاصل ہوا۔ 1990ء کے عشرے میں معلوماتی انقلاب (Information Revolution) کے بعد دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی ہوا شعبہ، سروس سیکٹر ہے۔ معیشت میں خدمات کی اہمیت، صنعت و زراعت کے مقابلے میں بڑھتی جا رہی ہے اور آہستہ آہستہ ان شعبوں کا انحصار بھی سروس سیکٹر پر ہوتا جا رہا ہے۔
دینی اور اخلاقی اعتبار سے یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سروس سیکٹر کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان اور اس کی خدمات کی قدر و قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ اب سے چند دہائی قبل کے سرمایہ دار مشینوں پر تو کروڑوں روپے خرچ کر دیا کرتے تھے لیکن انسان پر چند ہزار روپے خرچ کرتے ہوئے بھی دس مرتبہ سوچا کرتے۔ سروس سیکٹر کی ترقی کے نتیجے میں انسان کی قدر بڑھی ہے اور وہ پہلے کی نسبت بہتر معاوضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔
توانائی کا زیادہ اور بہتر استعمال
دور جدید کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ توانائی کے ذرائع کے استعمال میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ بڑی بڑی مشینوں سے لے کر گھر کے چولہے تک ہر چیز توانائی کی محتاج ہے۔ ہم صرف اپنے گھر ہی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ برقی یا گیس کے چولہے، اوون، فریج، بلب، واشنگ مشین، کمپیوٹر، ٹیلی وژن، ائر کنڈیشنر، ٹیلی فون اور گاڑی سب کے سب اپنا کام کرنے کے لئے توانائی کے محتاج ہیں۔
موجودہ دنیا کی توانائی کا انحصار بڑی حد تک تیل اور گیس پر ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ہم لوگ ہائیڈرو کاربن کے دور (Hydrocarbon Age) میں جی رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب دنیا میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اس وقت سے پہلے دنیا بھر کے سائنسدان توانائی کے متبادل ذرائع پر تحقیق کر رہے ہیں جن میں ہائیڈروجن، شمسی توانائی، ایٹمی توانائی اور سمندر اور ہوا کی توانائی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
ہمارے موجودہ معاشی ترقی اور معیار زندگی کا انحصار توانائی کی مسلسل فراہمی پر ہے۔ اس لئے پوری دنیا اس معاملے میں خاصی حساس ہو چکی ہے اور عین ممکن ہے کہ اس مسئلے پر دنیا میں مستقبل قریب میں جنگیں بھی وقوع پذیر ہو جائیں۔
اس تبدیلی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی نسبت انسان کا معیار زندگی بلند ہوا ہے لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ اس کی بدولت انسانوں میں نئے جھگڑے پیدا ہوئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ مستقبل میں انہی جھگڑوں کی بدولت نسل انسانیت کو کئی جنگوں کا سامنا کرنا پڑے جن کا نتیجہ انسانوں کے لئے تباہی کے سوا اور کچھ نہ نکل سکے گا۔
جینیاتی انجینئرنگ(Genetic Engineering)
جینیات کے موضوع پر تحقیق جاری ہے اور مصنوعی جاندار حتی کہ مصنوعی انسان تخلیق کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کی تیسری یا چوتھی دہائی میں ایسا ممکن بھی ہو سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ موجودہ معاشروں کی تشکیل نو (Transformation) میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس تبدیلی کے مثبت یا منفی پہلوؤں کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ حالیہ معلومات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کلوننگ کے نتیجے میں مصنوعی طور پر پیدا کیے جانے والے انسانوں سے بہت سے اخلاقی مسائل درپیش ہوں گے۔ ظاہر ہے اگر ایک شخص کا ہم شکل اس کے گھر میں گھس کر اس کی جان، مال اور آبرو کا صفایا کر جائے تو یہ انسانیت کے لئے کسی المیے سے کم نہ ہوگا۔ اس تبدیلی کے بعض مثبت پہلوؤں میں بہت سی بیماریوں جیسے شوگر، ایڈز وغیرہ کے علاج کی دریافت شامل ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں کو درپیش خوراک اور توانائی کی کمی کے مسائل کو اس کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے اور انسانیت کو کئی جنگوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
اگر اس میدان میں موجودہ ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الوقت یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے۔ مستقبل میں اس کے مثبت یا منفی ہونے کا انحصار جینیاتی انجینئرنگ کی ترقی اور اسے استعمال کرنے والے انسانوں کے رویے پر ہے۔
خلاصہ بحث
معاشی اور تکنیکی میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں بھی مثبت اور منفی دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں زیادہ تر مثبت نوعیت کی ہیں تاہم ان میں منفی استعمال کا امکان بھی موجود ہے۔ معاشی اعتبار سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں زیادہ تر منفی نوعیت کی ہیں۔
باب ششم: دور جدید کی تبدیلیاں اور ہمارا رد عمل
بعض افراد کا طرز فکر یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی تبدیلی کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ حضرات عموماً اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوتے ہیں۔ اس مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عمر بھر کے تجربات کے باعث یہ ایک خاص طرز زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں اور جب انہیں اس سے کچھ مختلف طرز زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کا ذہن اسے قبول نہیں کر پاتا۔
اس کے برعکس نوجوان عموماً انقلابی خیالات کے حامل ہوتے ہیں اور تبدیلی کے عمل میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان جب بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو وہ بعد میں آنے والی تبدیلیوں کے مخالف بن جاتے ہیں۔ دور جدید میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات جب مسلم ممالک میں پہنچے تو اس ضمن میں تین طرح کے طرز عمل سامنے آئے جن کی تفصیل یہ ہے۔
روایتی مذہبی طبقے نے تبدیلی کے بارے میں سوچنے کو بھی کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا کر رکھ دیا۔ اس طبقے نے دور جدید کی بعض مثبت تبدیلیوں جیسے عقل کے استعمال میں اضافے، آزادی رائے، جمہوریت اور یہاں تک کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں کی مخالفت کی۔ چونکہ اس طبقے کو مسلم اور غیر مسلم دنیا میں بالعموم اسلام کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، اس وجہ سے دنیا کے سامنے اسلام کا تصور یہ پیدا ہوا کہ یہ دور جدید کا کوئی مخالف مذہب ہے جسے دور جدید سے ہم آہنگ کرنا ممکن نہیں۔
دوسرا طبقہ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور ان کی اشرافیہ (Elite) کا طبقہ تھا۔ انہوں نے دور جدید میں ہونے والی تبدیلیوں کی حمایت کی۔ اس ضمن میں ان کی اکثریت نے سب سے مہلک رویہ اختیار کیا اور وہ یہ تھا کہ دور جدید کی منفی تبدیلیوں جیسے بے حیائی اور سودی نظام کو تو پوری طرح اختیار کر لیا لیکن مثبت تبدیلیوں کے بارے میں ان کی حمایت زبانی جمع خرچ کے درجے سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشروں کی اکثریت منفی پہلوؤں سے تو مغرب کی بھونڈی نقالی پر تیار ہو گئی لیکن مثبت تبدیلیوں کے فوائد ان معاشروں تک نہ پہنچ سکے۔
تیسرا رد عمل ایسے اہل علم کی جانب سے پیش آیا جو کہ دور جدید سے بھی پوری طرح واقف تھے اور دین میں بھی گہری بصیرت کے حامل تھے۔ ان اہل علم کی جانب سے تمام تبدیلیوں کا جائزہ لے کر ان کے مثبت پہلوؤں کو اختیار کرنے اور ان کے منفی پہلوؤں سے اجتناب کرنے پر زور دیا گیا۔ پچھلی ایک صدی میں اگرچہ ان اہل علم کے نظریات کو مسلم ممالک میں زیادہ فروغ نہیں مل سکا ہے لیکن موجودہ حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں اسی نقطہ نظر کو فروغ مل سکے گا۔
ہمارے نزدیک تبدیلی کے بارے میں صحیح رد عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے تبدیلی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے یا منفی نوعیت کی۔ مثبت تبدیلیوں کی بھرپور حمایت کی جائے اور منفی تبدیلیوں کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
اگر منفی نوعیت کی تبدیلی کے ساتھ ایسی قوتیں وابستہ ہو چکی ہیں جن کے باعث انہیں مکمل طور پر روکنا ممکن نہ ہو تو پھر ان میں اساسی نوعیت کی چند تبدیلیاں کر کے ان کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ موجودہ دور کی تبدیلیوں کے بارے میں کوئی رد عمل تجویز کرنے سے قبل ہم پچھلے ابواب میں کی گئی بحث کا خلاصہ ایک جدول کی صورت میں پیش کر دیں۔
تبدیلی مثبت یا منفی؟
فکری تبدیلیاں
عقل کے استعمال میں اضافہ نہایت مثبت
توہم پرستی میں کمی نہایت مثبت
قدیم فلسفے کا خاتمہ اور سائنسی طرز فکر نہایت مثبت
معاشرتی تبدیلیاں
خاندانی نظام میں تبدیلی مثبت
شخصی آزادی کا فروغ نہایت مثبت
تعدد ازدواج میں کمی مثبت
شادی کے طریقوں میں تبدیلی منفی
شادیوں میں تاخیر منفی
غلامی کا خاتمہ نہایت مثبت
دیہاتی کی بجائے شہری معاشرے بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری نہایت مثبت
نوجوانوں کے تناسب میں اضافہ بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
خواتین کا فعال کردار مثبت
رہن سہن کے طریقوں (Lifestyles) بالخصوص اوقات کار میں تبدیلی بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
تعلیم کا فروغ مثبت
میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
سیاسی تبدیلیاں
جمہوریت نہایت مثبت
آزادی رائے نہایت مثبت
سیکولر ازم بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
ریاست کا معاشرے میں مذہبی کردار بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
عالمگیریت (Globalization) مثبت
مذہبی جنگیں نہایت منفی
تکنیکی اور معاشی تبدیلیاں
معلوماتی انقلاب (Information Revolution) مثبت
سود پر مبنی نظام نہایت منفی
بہتر معیار زندگی مثبت
امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق نہایت منفی
معیشت کی تنظیم نو (Restructuring) بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
توانائی کا زیادہ اور بہتر استعمال بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
اگر اس جدول کا جائزہ لیا جائے تو ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ دور جدید میں رونما ہونے والی بہت سی تبدیلیاں مثبت نوعیت کی ہیں۔ چند تبدیلیاں منفی نوعیت کی ہیں اور اکثر ایسی تبدیلیاں ہیں جن کے مثبت اور منفی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ اب ہم ان تینوں قسم کی تبدیلیوں کے بارے میں مجوزہ رد عمل کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔
مثبت تبدیلیاں
موجودہ دور میں جو مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان میں عقل کے استعمال میں اضافہ، توہم پرستی میں کمی، سائنسی طرز فکر، شخصی آزادی، غلامی کا خاتمہ، جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری، جمہوریت اور آزادی اظہار نہایت ہی مثبت تبدیلیاں ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی نظام میں ہونے والی تبدیلیاں، تعدد ازدواج میں کمی، خواتین کا فعال کردار، تعلیم کا فروغ، سماجی عالمگیریت، معلوماتی انقلاب اور بہتر معیار زندگی بھی ایسی تبدیلیاں ہیں جن کے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔
ان مثبت تبدیلیوں کے بارے میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ مسلمانوں کے دانشور، مصلحین اور اہل علم اپنی پوری قوت ان تبدیلیوں کے دفاع پر خرچ کر دیں اور ان کی مخالفت میں پیدا ہونے والی ہر آواز کو اپنے دلائل کے ذریعے کمزور کریں۔ حکومتیں اپنی قوت ان مثبت تبدیلیوں کو فروغ دینے پر خرچ کریں۔ انفرادی سطح پر مسلمان ان تبدیلیوں کو اپنانے کی کوشش کریں اور اپنے ذاتی، خاندانی اور عملی دائروں میں ان کے فروغ کے لئے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کرتے رہیں۔
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض پہلوؤں سے منفی تبدیلیاں
ایسی تبدیلیاں جن میں خیر اور شر دونوں کے امکانات پائے جاتے ہیں ان میں میڈیا کا کردار، سیکولر ازم، ریاست کا کردار، توانائی کا استعمال، جینیٹک انجینئرنگ اور نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ شامل ہیں۔
ان تبدیلیوں کے بارے میں ہمارے نزدیک صحیح طرز عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے ان تبدیلیوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا شعور اپنے اور دوسروں کے اندر پیدا کیا جائے۔ ان کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے اور ان کے منفی پہلوؤں کے بارے میں ایک تحریک پیدا کی جائے تا کہ ان کے منفی پہلوؤں کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
معاشرتی تبدیلیاں
میڈیا کے کردار کے بارے میں درست طرز عمل یہ ہے کہ دانشور، مصلحین اور اہل علم میڈیا کے صحیح کردار کو متعین کرنے کے لئے ایک فکری تحریک کی بنیاد رکھیں۔ میڈیا کے منفی کردار کو واضح کیا جائے۔ میڈیا کے سرکردہ افراد سے براہ راست ملاقات کر کے انہیں مثبت کردار ادا کرنے پر تیار کیا جائے۔ اچھا اور مثبت ذہن رکھنے والے افراد کو میڈیا سے وابستہ اداروں میں داخل کیا جائے تا کہ میڈیا مثبت کردار ادا کر سکے۔ حکومتوں کو اس بات پر تیار کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق کو اہمیت دیں۔ عوام الناس اپنی اپنی سطح پر اچھے پروگرام دیکھنے، اچھی ویب سائٹس وزٹ کرنے اور اپنی اولاد کو مثبت انداز میں میڈیا کو استعمال کرنے کی ترغیب دیں۔
نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مثبت طور پر استعمال کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تعلیم ہے۔ مسلم ممالک کے ارباب دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں چین اور بھارت کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے فروغ کی تحریک پیدا کریں جس میں اپنی نوجوان افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنانے کی کوشش کی جائے۔ نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیوں جیسے کھیل، اسکاؤٹنگ وغیرہ کو فروغ دیا جائے۔ ان کی اخلاقی تربیت کو پورا معاشرہ اپنی ذمہ داری بنا لے۔ یہی عمل انفرادی سطح پر عام لوگ اپنی اولاد کے لئے اختیار کریں۔
سیاسی تبدیلیاں
سیکولر ازم کے ضمن میں مسلم اہل علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولر ازم کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے جو پہلو اسلامی شریعت سے متصادم ہوتے ہیں، ان پر تحقیق کر کے ان کے متبادل پیش کریں۔ دین اسلام کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جائے جس میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی، مساوات، مثبت طرز فکر اور آزادی اظہار کو فروغ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاست کے مذہبی کردار کے ضمن میں اخلاقیات کے معاملے میں ریاست کے کردار کی اہمیت پر زور دیا جائے۔ اختلافی معاملات کو طے کرنے کے لئے بین المسالک اور بین المذاہب مکالمے پر زور دیا جائے۔
معاشی اور تکنیکی تبدیلیاں
توانائی کے استعمال کے نتیجے میں دنیا میں جو جنگیں متوقع ہیں، اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا کہ تیل اور گیس کے علاوہ توانائی کے دیگر ذرائع کو فروغ دیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس پر جو تحقیق ہو رہی ہے، اس میں ترقی پذیر ممالک بھی حصہ لیں اور ہائیڈروجن، شمسی توانائی، ہوا اور پانی کی توانائی اور دیگر ذرائع سے توانائی کے حصول کے ذریعے اپنے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس معاملے میں انہوں نے غفلت برتی تو اس کا زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہونے کی توقع ہے۔
جینیاتی انجینئرنگ کے معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ سائنسدانوں میں اخلاقیات کو فروغ دیا جائے اور انہیں اس بات پر تیار کیا جائے کہ وہ اپنی ایجادات کو انسانیت کے فائدے کے لئے تیار کریں اور اس کے ان پہلوؤں سے اجتناب کریں جو انسانوں کے لئے نقصان دہ ہیں۔
منفی تبدیلیاں
دور جدید میں نہایت منفی تبدیلیوں میں مذہبی جنگیں، سود پر مبنی استحصالی نظام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امیر و غریب کا فرق ہے۔ دیگر منفی تبدیلیوں میں نوجوان نسل کی بے راہ روی، شہروں پر آبادی کا دباؤ اور اوقات کار میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
اہل علم، مصلحین، دانشوروں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پوری قوت ان تبدیلیوں کے خلاف صرف کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ان تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کرتے ہوئے انہیں کمزور کیا جا سکے۔
سیاسی تبدیلیاں
مذہبی جنگوں کے جنون کو کم کرنے کی ذمہ داری مذہبی علماء کی ہے۔ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے معتقدین کو یہ بتائیں کہ یہ جنگیں بجائے خود دین اسلام اور مسلمانوں کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہیں۔ قرآن و سنت کے دلائل سے نوجوان نسل کو یہ بتایا جائے کہ دین اسلام میں جہاد کا صحیح تصور کیا ہے اور دہشت گردی اسلام کی رو سے ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ امن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور نوجوان نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کی جائے۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں ان جنگوں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اہم کردار ادا کریں۔ مسلم ممالک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر دراصل اہل مغرب کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس وجہ سے اس ضمن میں کرنے کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ اہل مغرب سے اس باب میں مکالمہ کیا جائے اور انہیں اس ضمن میں اسلام کے اصل نقطہ نظر سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ مسلم ممالک میں مسلح مداخلت خود ان کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
معاشی تبدیلیاں
سود پر مبنی استحصالی نظام کے خاتمے کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلم ماہرین معاشیات پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ان کا کام ہے کہ وہ سود کے متبادل نظام ہائے حیات تیار کریں اور حکومت اور کاروباری اداروں کی مدد سے ان کو تجرباتی بنیادوں پر نافذ کر کے ان کا عملی تجربہ کریں۔ اہل علم اور مصلحین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سود کے خلاف عوام الناس میں زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اس کے مضر اثرات سے آگاہ کریں تاکہ موجودہ سودی نظام کی ڈیمانڈ کم سے کم ہو سکے۔ عام لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سودی ڈیپازٹس اور سودی قرضوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔
امیر و غریب کے فرق کو کم کرنے کی اصل ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس معاملے میں زکوٰۃ کے نظام کو اس کی اصل صورت میں نافذ کرنا سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ حکومتیں غربت میں کمی کے مغربی ماڈلز سے بھی استفادہ کر سکتی ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد یونس نے عملی طور پر ایسا ماڈل پیش کر کے بھی دکھا دیا ہے۔ اس ضمن میں علماء اور دانشوروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اس بات پر قائل کریں کہ غربت بذات خود ایک برائی ہے۔ اہل ثروت کو زیادہ سے زیادہ دولت غرباء کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے اور گداگری کو فروغ دینے کی بجائے غریب افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ انفرادی سطح پر ہر شخص جتنا کچھ اس ضمن میں خرچ کر سکتا ہے، خرچ کر کے کم سے کم ایک آدھ خاندان کی غربت کے خاتمے کی کوشش کرے۔
معاشرتی تبدیلیاں
نوجوان نسل کی بے راہ روی کی بڑی وجہ شادیوں میں تاخیر ہے۔ اس ضمن میں ایک طرف تو میڈیا نے صنفی جذبات کو بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور دوسری طرف غیر انسانی رسوم جیسے جہیز وغیرہ کے باعث شادیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس معاملے میں معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مصلحین اور اہل علم کی یہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عام لوگوں میں اس مسئلے کا شعور پیدا کریں۔ غیر انسانی رسم و رواج جیسے جہیز اور شادی کے غیر ضروری اخراجات کے خاتمے کے لئے بھرپور مہم چلائی جائے۔ لوگوں کو سادگی اپنانے پر زور دیا جائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جلد شادیوں کی ترغیب دے اور اس معاملے میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی حالیہ مثال سعودی عرب میں شادی کے لئے دیے گئے بلا سود قرضوں کا اجرا ہے۔ عام لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کی حد تک تاخیر سے اجتناب کریں اور نوجوانوں کی جلد شادیوں کی کوشش کریں۔
شہری معاشروں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں کو ترقی دی جائے۔ اس معاملے میں حکومت اپنا کردار دیہی علاقوں میں سہولیات اور روزگار کی فراہمی کے ذریعے انجام دے سکتی ہے۔ اس معاملے میں سول سوسائٹی کو حکومت کی مدد کرنی چاہیے اور کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ان علاقوں میں صنعتیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
اوقات کار میں تبدیلی کے مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متعین اوقات کار کی پابندی پر زور دے اور متعین اوقات سے زیادہ کام لینے پر اوور ٹائم کی ادائیگی کو قانونی حیثیت دے۔ اس سے طویل اوقات کار کی حوصلہ شکنی ہو گی اور کسی کی حق تلفی نہ ہو گی۔ اہل علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کو بیلنس کرنے اور وقت کو احسن انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیں۔ انفرادی سطح پر کارکن اور کمپنیوں کے مالکان اس تصور کو فروغ دیں کہ وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور غیر ضروری کاموں سے گریز کیا جائے۔
ہم نے مثبت و منفی تبدیلیوں پر رد عمل کی جو تجاویز پیش کی ہیں، یہ نئی نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سی تجاویز پر پہلے ہی کام ہو رہا ہے اور بہت سی تجاویز پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس معاملے میں ہر شخص کو اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر اپنا دائرہ عمل متعین کرنا چاہیے کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ اس دائرہ عمل کے مطابق ہر شخص کو اپنا کردار ادا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے بہتر سمت میں جا سکیں۔ ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ دور حاضر کی مثبت تبدیلیوں سے ہم فائدہ اٹھا سکیں اور منفی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کر سکیں۔
٭٭٭
ماخذ:http:// mubashirnazir.com
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید