FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اقامت صلاۃ  اور ہماری زبوں حالی

 

 

                   أبو عبد الرحمان محمد رفیق  الطاہر

 

یونیکوڈ کاوش

www.KitaboSunnat.com

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رب العالمین کی توحید اور امام الانبیاءﷺ کی رسالت کے اقرار کے بعد انسان پر جو سب سے اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اپنے آپ کو مسلمانوں کی صف میں شامل کرنے اور اپنے کافروں کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے، وہ نماز ہے رسول اللہﷺ کا فرمان ہے : "بین العبد والکفر ترک الصلاۃ ” [[مسند المستخرج علی صحیح الامام مسلم ۱۶۰/۱ (۲۴۵)]]

"بندے اور کافر کے درمیان فرق نماز کے ترک کا ہے ”

یعنی جو شخص نماز کا تارک ہے وہ بندہ بلکہ کافر ہے اللہ تعالیٰ کا بندی حقیقی وہ ہو گا جو نماز ترک کرنے والا نہ ہو۔

نیز فرمایا: "من ترک الصلاۃ المکتوبۃ متعمداً فقد کفر” [[معجم الاوسط للطبرانی ۳۴۳/۳ (۳۳۴۸)]]

"جس بندے نے ایک بھی فرضی نماز جان بوجھ کر عمداً چھوڑ دی اس نے کفر کیا”

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

"اگر وہ (کفر و شرک سے ) توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تب وہ تمھارے دینی بھائی ہیں ” [[التوبہ]]

اگر ان تینوں کاموں سے کوئی ایک کام بھی نہ ہو، کفر و شرک سے توبہ نہ ہو یا نماز کا قیام نہ ہو یا زکوٰۃ کی ادائیگی نہ ہو تو پھر اخوت دینی پیدا نہیں ہوتی اور اسلامی برادری میں وہ بندہ داخل نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح فرمایا:

” اگر وہ (کفر و شرک) سے توبہ کر لیں اور نماز قائم کر لیں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھر تم ان کا راستہ چھوڑ دو۔ ” [[التوبہ]]

یعنی پھر تم نے ان کے خلاف تلوار اُٹھا کر جہاد نہیں کرنا۔ اور اگر ان تینوں کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی یہ لوگ نہیں کرتے تو ان کے خلاف قتال و جہاد کرنا تمھارے لیے روا اور جائز ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین کے ہاں یہ لوگ مسلم و مؤمن کہلوانے کے حق دار نہیں ہیں بلکہ یہ کفر کر چکے ہیں۔

اللہ رب العالمین جب اہل جنت کو جنت میں داخل کر چکے اور اہل جہنم کو جہنم میں باقی چھوڑ دیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی بھی شخص جہنم سے نکل کر جنت می نہیں جائے گا، شفاعت کرنے والے تمام تر انبیاء ورسل، صدیقین، شہداء، صلحاء سارے کے سارے شفاعت کر چکے ہوں گے، اللہ رب العالمین کی آخری شفاعت کے ذریعے بھی الہ واحد القہار کی مٹھی بھر لوگ جہنم سے نکل کر جنت میں جا چکیں گے تب اہل جنت اور اہل جہنم کے مابین مکالمہ ہو گا۔ جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے : "تمھیں جہنم میں کس چیز نے داخل کر دیا”

تو وہ جواب دیں گے کہ ہمارا جرم یہ تھا کہ:

"ہم نمازیوں میں سے نہ تھے اور نہ ہی ہم (زکوٰۃ ادا کر کے ) مسکین کو کھلاتے تھے اور ہاں باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر فضول بحثیں ضرور کیا کرتے تھے اور ہم جزا کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے پاس یقین آ گیا۔

تو اللہ رب العالمین نے ان اعمال کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی کہ:

"ان لوگوں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نے فائدہ نہ دیا” [المدثر:۱۲۔ ۔ ۔ ۱۸]

شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی وجہ سے لوگ جہنم سے نکل نکل کر جنتوں کی راہ لے گئے، جنتوں میں داخل ہو گئے لیکن نماز ادا نہ کرنے کی وجہ سے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان سفارش کرنے وا لوں کی سفارش نفع نہ دے گی اور یہ ابدی جہنمی ٹھہریں گے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ احادیث نبویہ میں جا بجا یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ جو بندہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیتا ہے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ [مسند احمد :۱۱۹۲۳]

لیکن اس بندے نے تو لا الہ الا اللہ پڑھا ہے اور نماز نہ پڑھنے اور زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے جہنمی ہی ہے اور اس کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی نفع نہ دے گی۔ آخر کیوں ؟

تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی وہ نہیں جو سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی الفاظ اس قدر ہیں جتنے کہ زبان زد عام ہیں بلکہ حدیث میں لا الہ الا اللہ کی گواہی "صدقا من قلبہ” کے الفاظ کے ساتھ مقید ہے یعنی دل سے جو توحید الٰہی اور رسالت نبوی کی گواہی دے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور اس پر آگ جہنم کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ [[صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما دون قوم ……(۱۲۸)]

اور اسی طرح وہ حدیث جس میں یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ روز محشر ایک ایسے بندے کو معاف فرما دے گا جس نے زندگی بھر کوئی نیکی کا کام نہ کیا ہو گا۔ [صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ عز و جل یریدون أن یبدلوا کلام اللہ (۷۵۰۶)]

اور اسی طرح جس حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات آئی ہے کہ قیامت کے دن جب تمام شفاعت کرنے والے شفاعت کر چکیں گے تو اللہ رب العالمین فرمائیں گے کہ فرشتوں، نبیوں اور مؤمنوں سب نے شفاعت کر لی ہے اب صرف أرحم الراحمین ہی باقی ہے تو پھر جہنم سے ایک مٹھی بھر کر نکالیں گے اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے کبھی "خیر کا کام” نہیں کیا ہو گا۔

تو یہ حدیثیں بھی مقید ہیں کیونکہ اس کو وضاحت بھی حدیث ہی میں موجود ہے کہ "ولم یعمل خیراً قط الا التوحید” [مسند أحمد (۷۹۸۰)]

” کہ اس نے توحید کے علاوہ خیر کا کوئی کام نہ کیا ہو گا”

جبکہ توحید پر کاربند رہنا اور شرک سے اجتناب کرنا بھی عمل خیر ہی ہے۔

اور اسی طرح نبی کریمﷺ کا فرمان

"لایدخل الجنۃ الا نفس مؤمنۃ” [صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، (۳۰۹۲)]

کہ جنت میں صرف اور صرف مؤمن جان ہی داخل ہو سکے گی۔

ان دونوں حدیثوں کو مد نظر رکھیں تو سابقہ دونوں حدیثوں کا معنیٰ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا جنھوں نے توحید اور ایمان کے سوا اور کوئی نیک عمل نہ کیا ہو گا یعنی موحد ہونے اور با ایمان ہونے کے لیے اپنے دل میں ایمان متحقق کرنے کے لیے جو ضروری اعمال ہیں وہ تو بجا لائے مگر اس کے علاوہ اور کوئی نوافل والا کام نہ کیا۔

اور ایمان قول و عمل اور تصدیق کے مجموعہ کا نام ہے اس کی تعریف میں اقامت صلاۃ، ادائے زکوٰۃ، صوم رمضان، حج بیت اللہ وغیرہ سب شامل ہیں۔

تو جس کے اندر ایمان و توحید نہ ہوں اس کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہ دے گی۔

تو نماز کا قائم کرنا اللہ رب العالمین کا حکم ہے۔ فرمایا:

” اقیموا الصلوٰۃ” [البقرۃ: ۴۳]

اور عربی لغت میں اقامت کا معنی ٰ ہے : "أن یوتی بھا بحقوقھا”

"کہ اس کو اس کے تمام تر حقوق سمیت ادا کیا جائے۔ ” اور نماز کے چھ حقوق ہیں۔

 

۱۔     تعدیل ارکان

 

کہ بندہ ہر رکن کو اطمینان و سکون کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے یعنی بندہ رکوع میں جاتے ہوئے تکبیر کہے اور جب مکمل طور پر رکوع میں پہنچ جائے، اس کی کمر مکمل سیدھی ہو چکی ہو، اس کے ہاتھ گھٹنوں کو پکڑ چکے ہوں، کہنیوں میں خم نہ ہو بلکہ بازو بالکل سیدھے تنے ہوئے ہوں پھر وہ رکوع کی تسبیحات کہنے کا آغاز کرے اور اسی حالت میں ہی رکوع کی تسبیحات مکمل کرے اور جب وہ رکوع کی تسبیحات مکمل کر چکے تو پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ہوئے اپنے سر کو رکوع سے اُٹھائے اور رفع الیدین کرے اور جب مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہو جائے تو اس کے بعد قومہ والی تسبیحات و ادعیہ کا آغاز کرے اور اسی حالت میں ہی ان کو مکمل کرے۔ جب ان دعاؤں کو سے فارغ ہو چکے تو پھر وہ تکبیر کہتا ہوا سجدہ کے لیے جھکے اور پھر جب تک اس کے دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، پاؤں کے دونوں پنجے، ما تھا اور ناک زمین پر نہ لگ جائے اس وقت تک سجدہ کی تسبیحات کا آغاز نہ کرے۔ جب یہ ساتوں اعضاء زمین پر لگ جائیں پھر وہ سجدہ کی تسبیحات کا آغاز کرے اور جب تک اس کی سجدے کی تسبیحات مکمل نہیں ہو جاتیں اس وقت تک ان اعضاء میں سے کسی ایک کو بھی زمیں سے نہ اُٹھائے۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے سر سجدے سے اُٹھائے اور مکمل طور پر اطمینان کے ساتھ بیٹھے دونوں بازو اس کی دونوں رانوں پر ہوں، بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھ کر انگلی کے ساتھ اشارہ کرے اور پھر "رب اغفرلی، رب اغفرلی” کی تسبیح و دعاء شروع کرے۔ یہ مکمل پڑھ لینے کے بعد جب اس وظیفہ سے رکے تو تب تکبیر کہتے ہوئے دوسرے سجدہ کے لیے جھکے اور اگلا سجدہ اسی طرح سے کرے، پھر تکبیر کہتے ہوئے سر کو اُٹھائے اور اُٹھ کر بیٹھے، اطمینان کے ساتھ، جلسۂ استراحت کرے پھر اگلی رکعت کے لیے اُٹھ کر کھڑا ہو اور جب تک وہ سیدھا کھڑا نہیں ہو جاتا اور ہاتھ باندھ نہیں لیتا اس وقت تک وہ قیام کی قرأت کا آغاز نہ کرے، یہ معنی ٰ ہے تعدیل ارکان کا۔ یہ ہو گا تو بندہ نماز قائم کرنے والا بنے گا، اگر اس طرح سے نماز ادا نہیں کرتا تو وہ نماز قائم کرنے والا نہیں ہے۔

 

۲۔    دوام اور ہمیشگی

 

یعنی نماز پر دوام کیا جائے ساری زندگی ہر روز تمام نماز یں پڑھی جائیں یہ نہ ہو کہ کبھی پڑھ لی اور کبھی چھوڑ دی یا دن میں ایک دو نمازیں پڑھ لیں باقی چھوڑ دیں تو یہ دوام نہ ہو گا اور یہ بندہ نماز قائم کرنے والا نہ بنے گا۔

 

۳۔    با جماعت نماز ادا کرنا

 

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ” واکعوا مع الراکعین ” [البقرۃ: ۴۳]

"رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو”

یعنی با جماعت نماز ادا کرو۔ اگر بندہ بے جماعت نماز ادا کرتا ہے تو وہ اقامت صلاۃ نہیں ہے، وہ نماز قائم کرنے والا تبھی بنے گا جب وہ با جماعت نماز ادا کرے۔

 

۴۔    صفوں کی درستگی

 

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :

"فان تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلاۃ” [صحیح بخاری، کتاب الآذان، باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ:۷۲۳]

"صفوں کو برابر کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا نماز قائم کرنے میں سے ہے۔ ”

لہٰذا صفیں اگر سیدھی اور برابر نہ ہوں تو تب بھی نماز "قائم” نہیں ہوتی۔ اقامۃ صلاۃ کے فریضہ سے بندہ تبھی سبکدوش ہو سکتا ہے جب صفیں برابر ہوں، پاؤں اچھی طرح ملے ہوں، درمیان میں خلا نہ ہو، کوئی شخص صف سے آگے نکلنے والا یا پیچھے ہٹنے والا نہ ہو۔

 

۵۔    مقر رہ اوقات میں نماز ادا کرنا

 

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

"ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا” [النساء:۱۰۳]

"یقیناً نماز اہل ایمان پر مقر رہ اوقات میں فرض کی گئی ہے۔ ”

تو بے وقتی نماز اقامت صلاۃ نہیں ہے کہ بندہ نماز کو تاخیر سے قضاء کر کے پڑھنے لگے وہ مقیمی الصلاۃ میں شامل نہیں ہو گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کو نماز کا قائم کرنا مطلوب ہے اور طلب الٰہی تبھی پوری ہو گی جب بندہ بروقت با جماعت نماز ادا کرے۔

کئی لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے کہ چلو کوئی بات نہیں، مسجد میں اگر جماعت کھڑی ہو بھی گئی تو کیا ہے ؟؟ ہم بھی بہت بڑے علامہ فہامہ ہیں بعد میں اپنی علیحدہ جماعت کروا لیں گے۔ یہ سراسر جہالت و نادانی، بیوقوفی و کم عقلی اور غیر دانشمندی کی دلیل ہے۔ نماز تو بروقت با جماعت مسجد میں آ کر ادا کی جائے تب قائم ہوتی ہے، تاخیر سے آ کر جماعت کروانا وہ حیثیت نہیں رکھتا جو پہلی جماعت کی ہے۔

 

۶۔    سنۃ کے مطابق نماز ادا کرنا

 

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :

"صلوا کما رأیتمونی أصلی” [بخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم، حدیث:۶۰۰۸]

"اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو۔ ”

لہٰذا اگر نماز سنت نبویہﷺ کے مطابق ہو گی تو بندہ نماز قائم کرنے والا بنے گا، وگرنہ نہیں ؛

اور جو بندہ نماز قائم کرنے والا نہیں ہوتا اس کو اس کی نماز فائدہ نہیں دیتی۔ نماز کا فائدہ یہ ہے : ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر” [العنکبوت: ۴۵]

"یقیناً نماز بندے کو بے حیائی اور برائی سے منع کرتی ہے ”

تو جو شخص نماز پڑھ کر مسجد میں بیٹھا ہی غیبتیں شروع کر دے، نماز پڑھ کر نکلتے ہی غیر محرموں کو دیکھنا شروع کر دے اور نماز پڑھ کر دھوکہ، فراڈ، چغلی، جھوٹ وغیرہ سے نہ رُکے، گالی گلوچ، بیہودہ باتیں، فحش گانے، گندے ناول، محرمات دینیہ اس کا معمول ہوں، برائی اور فحاشی کے کاموں سے نہ بچے تو وہ سمجھ لے کہ اللہ رب العالمین کی عدالت میں اس کی ادا شدہ نماز، نماز نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کا خاصہ بیان فرمایا ہے کہ نماز بندے کو بے حیائی اور فحاشی والے کاموں سے باز رکھتی ہے۔ نماز منکرات و نواہی سے انسان کو دور لے جاتی ہے۔

تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نماز کہتے، قرار دیتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ "شئے ” "نماز” ہے، اس چیز میں یہ قوت و طاقت پا۴ی جاتے ہے کہ وہ بندے کو بے حیائی اور برائی سے منع کرے۔ اور یہ بندہ مسجد میں جا کر کچھ کر کے آیا ہے، اور اس کے فعل نے بندے کو بے حیائی اور برائی سے منع نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس آدمی کے اس فعل کو اللہ رب العالمین نے اپنی مطلوبہ "نماز” نہیں سمجھا، تبھی تو اس میں وہ تاثیر پیدا نہیں کی جو ایک نماز میں اس نے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کہ نماز بندے کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ اگر آج کسی کی نماز میں تاثیر نہیں ہے تو اس کو اپنی نماز کی اصلاح کرنی چاہیے۔ وہ اپنی نماز کو ضائع ہونے سے بچائے اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائے کہ جنھوں نے ” أضاعوا الصلاۃ واتبعوا الشھوات” اپنی نمازوں کو "ضائع” کر لیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں نا خلف قوم قرار دیا اور "فسوف یلقون غیاً” کہتے ہوئے جہنم کی وعید سنائی۔ [مریم: ۵۹]

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک قوم کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر بعد میں انھیں خط لکھا اور فرمایا: اگر میں سو(۱۰۰) سے زائد مساجد میں بھی نماز ادا کروں تو پھر بھی مجھے کسی بھی ایک مسجد کے سارے نمازی اس انداز میں نماز پڑھنے والے نظر نہیں آتے جس طرح سے نماز رسول اللہﷺ نے سکھائی تھی۔ ” [رسالۃ "الصلاۃ” لابن حنبل]

لیکن آج ہماری زبوں حالی اور عدم توجہی و نماز سے غفلت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد نماز کے احکام و مسائل سے نا آشنا ہیں۔ ہاں چند ایک احکامات کا سبھی کو علم ہوتا ہے، حتی کہ نماز پڑھانے کا درست طریقۂ کار معلوم نہیں ہے۔ جبکہ امام صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ امامت کیسے کروائے۔ جب جماعت کروا رہا ہو تو اس کو کس طرح نماز پڑھنا چاہیے۔ کن کن باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اور جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو پھر کیسے پڑھے ؟؟ لیکن عموماً ائمہ کرام اس شعور سے عاری ہوتے ہیں اور مقتدیان کرام ہیں تو ان کے تو کیا ہی کہنے کہ نماز کو ایک عادت کے طور پر بجا لاتے ہیں اور اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نمازیں نہ ہمیں بے حیائی سے منع کرنے والی ہیں، نہ برائی سے روکنے والی۔ حقیقتاً ہماری نمازوں میں وہ لطف وسرور باقی نہیں رہا اور اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نماز صحیح طور پر ادا نہیں کرتے۔ بہت سی ادعیہ ادھوری، بہت سے ارکان ادھورے !! تعدیل تو دور کی بات ہے !!! نمازوں میں بھی ہم شارٹ کٹ مارنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رفع الیدین صحیح طور سے نہیں۔ ثناء میں سبحانک اللھم وبحمدک والی دعاء شروع کی تو لا الہ غیرک پر بریک لگ گئی۔ جبکہ یہ دعا ان الفاظ پر ختم نہیں ہوتی بلکہ رسول اللہﷺ اس کے بعد تین مرتبہ الا الہ الا اللہ اور تین مرتبہ اللہ کبیراً کہتے۔ [سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم وبحمدک، حدیث: ۷۷۵]

یہ الفاظ کہے جائیں تو یہ دعا مکمل ہوتی ہے۔ پھر اسی طرح ثناء کے بعد تعوذ کی باری آئی تو جو الفاظ نبی کریمﷺ نے قرأت قرآن سے قبل پڑھے ہیں اور نماز میں پڑھنا منقول ہیں وہ تو یوں ہیں :

"اعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ” [سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم وبحمدک، حدیث: ۷۷۵]

لیکن بالعموم وہ الفاظ پڑھے اور یاد کیے اور کروائے جاتے ہیں جو اس موقع پر پڑھنا ثابت نہیں ہیں، بلکہ وہ تو غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نبی کریمﷺ نے سکھائے ہیں کہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لینے سے غصہ کافور ہو جاتا ہے۔ [صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۶۱۱۵]

بس عادت پڑی ہوئی ہے اختصار کی، کہ نماز مختصر سے مختصر ترین ہو جائے خواہ وہ اختصار کتنا ہی مخل کیوں نہ ہو۔

پھر سورۃ الفاتحۃ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کو بھی دو تین سانسوں میں مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ رسول اکرمﷺ ” یقطع آیۃ آیۃ” [سنن ابی داؤد، کتاب الحروف والقرأت باب، حدیث: ۴۰۰۱] ” ہر ہر آیت پر وقف کر کے علیحدہ علیحدہ کر کے پڑھا کرتے تھے ” اور وہ بھی "کان عد مداً” [صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب مد القرأۃ، حدیث: ۵۰۴۰] "لمبا کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ ” اور ہمارے ہاں تو بعض افراد ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو سورۃ الفاتحہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہی نہیں۔ حالانکہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ہے، اس کو ملا کر فاتحہ کی سات آیات مکمل ہوتی ہیں۔ اور جو شخص فاتحہ مکمل نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی یعنی جس شخص نے کسی بھی رکعت میں فاتحۃ الکتاب بسم اللہ سمیت نہیں پڑھی گویا اس کی وہ رکعت نہیں ہے اسے وہ رکعت دوبارہ ادا کرنا پڑے گی، وگرنہ اس کی نماز نامکمل ہے۔

اور جب قرأۃ کا مرحلہ آتا ہے تو پھر بھی مختصر ترین آیت و سورۃ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ نہ بھی ملائی جائے تو نماز بہر حال ہو جاتی ہے۔ [صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب القرأۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔ ۔ ۔ ، حدیث: ۳۹۶] لیکن قرأۃ کرنا ہر رکعت میں افضل و مستحب ہے اور نبی کریمﷺ تو ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ السجدہ کی تلاوت کے برابر قیام فرماتے اور آخری دو رکعتوں میں نصف سورۃ کے برابر اور اسی طرح عصر کی پہلی دو رکعتوں میں نصف سورۂ سجدہ کے برابر قیام ہوتا اور آخری دو رکعتوں میں اس سے بھی نصف کے برابر۔ [سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب تخفیف الأخیرین، حدیث: ۸۰۴] اور مغرب میں عموماً سورۃ البینہ سے آخر قرآن تک والی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور عشاء میں البروج سے بینہ تک والی اور فجر میں الحجرات سے البروج تک والی سورتیں تلاوت فرماتے لیکن کبھی کبھی مغرب کی نماز میں سورہ طور جیسی لمبی لمبی سورتیں بھی پڑھ لیا کرتے۔ [بخاری، کتاب الآذان، باب الجھر فی المغرب، حدیث: ۷۶۵] اور آپﷺ نے زندگی میں جو آخری آخری مغرب کی جماعت کروائی اس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ [بخاری، کتاب الآذان، باب القرأۃ فی المغرب، حدیث: ۷۶۳] اور ظہر کی جماعت نبی کریمﷺ کرواتے تو جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد کوئی شخص مسجد سے نکل کر بقیع میں جا کر قضائے حاجت کر کے پھر گھر جا کر وضوء کر کے مسجد میں آتا تو رسول اللہﷺ کو دوسری رکعت میں پا لیتا تھا۔ [المسند المستخرج علی صحیح الامام، مسلم، کتاب الصلاۃ، باب القرأۃ فی الظھر ۷۴/۲، (۱۰۰۹)]

یعنی امام الانبیاء جناب محمد مصطفی ٰﷺ عموماً درمیانی قرأت کرتے، کبھی کبھی چھوٹی سورتوں سے ہلکا قیام فرما لیتے اور کبھی کبھی بڑی سورتوں سے لمبا قیام کرنا بھی فرضی نمازوں میں رسول اللہﷺ سے ثابت اور آپ کی سنت مطہرہ ہے۔

لیکن ہماری صورت حال تو بہت نازک ہے کہ فرضی نمازوں میں بھی مختصر ترین آیات و سور کا انتخاب اور نوافل میں تو سورۃ الکوثر اور سورۃ الاخلاص کے علاوہ کوئی اور سورۃ ہی زبان پر نہیں چڑھتی۔ اور اگر کبھی امام صاحب بھولے سے لمبی قرأت کر لیں تو ان کی "شامت "آ جاتی ہے کہ ہم سے اتنی دیر تک کھڑا نہیں ہوا جاتا، وقت نہیں ہے، کاروبار، دکانداری خراب ہوتی ہے، ہم مسیتٹر نہیں ہیں خواہ نماز سے فارغ ہوتے ہی مسجد کے دروازے پر کھڑے "گپ شپ ” میں آدھا گھنٹہ صرف کر دیں۔

رکوع و سجود میں عدم اطمینان کا عالم یہ ہے کہ قرأت کے الفاظ ابھی منہ میں ہوتے ہیں اور رفع الیدین کے لیے ہاتھ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات تو رفع الیدین مکمل بھی ہو چکتا ہے، قرأت سے فارغ ہونے سے قبل! اور اسی طرح حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے الفاظ منہ میں ہوتے ہیں اور ادھر سجدے کے لیے جھکتے ہوئے ہاتھ زمین پر لگ رہے ہوتے ہیں، اور اس پر مستزاد کہ پھر فوراً تکبیر کہہ کر رکوع اور سجدے میں مکمل طور پر پہنچنے سے قبل ہی تسبیحات کا آغاز ہو جاتا ہے کیونکہ زبانیں تو ماشاء اللہ کافی رواں ہو چکی ہیں اور وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں، سانس اندر کی جانب بھی کھینچیں تو زبانیں "نان سٹاپ” سلام پھیرنے سے قبل رک ہی نہیں سکتی ہیں، سکون اور اطمینان کا تصور معدوم ہے، جلسۂ استراحت کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ تشھد اول اس قدر مختصر کہ اللہ کی پناہ ! ایسا اختصار تو اللہ رب العالمین نے منافقین کا ذکر کیا ہے کہ : ” لا یذکرون اللہ ٳلا قلیلا” وہ (اپنی نمازوں میں ) اللہ کا بہت ہی کم ذکر کرتے ہیں۔ [النساء: ۱۴۲]

اور نبی رحمتﷺ نے بھی کیا خوب تبصرہ فرمایا ہے کہ منافق آدمی عصر کی نماز کو مؤخر کرتا ہے حتی کہ سورج شیطان کے دو سینگھوں کے درمیان ہوتا تو پھر وہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگے مارتا ہے اور نماز میں بھی اللہ کا بہت تھوڑا ذکر تا ہے۔ [مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استعجاب التکبیر بالعصر، حدیث: ۶۲۲]

ایسی ہی نماز کے متعلق رسول اکرمﷺ نے فرمایا تھا:

ان الرجل لینصرف وما کتب لہ الا عشر صلاتہ تسعھا ثمنھا سبعھا سدسھا خمسھا ربعھا ثلثھا نصفھا۔ ” [سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی نقصان الصلاۃ، حدیث: ۷۹۶]

کہ بندہ نماز کی رکعتیں ساری پڑھ کر چلا جاتا ہے لیکن اس کو نماز پڑھنے کا ثواب صرف دسواں حصہ یا نواں حصہ یا آٹھواں حصہ یا ساتواں حصہ یا چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا آدھا حصہ ملتا ہے، اس کی باقی آدھی یا زائد نماز ضائع کر دی جاتی ہے۔ محض اس کی غفلت اور عدم توجہی کی بنا ء پر نماز درست طور سے ادا نہ کرنے کی وجہ سے اور اگر نماز میں عدم اطمینان اور عدم تعدیل ارکان بھی ہو تو اللہ رب العالمین کے کاغذوں میں وہ نماز، نماز ہے ہی نہیں۔ وہ تو محض ورزش ہی کر کے آیا ہے کیونکہ وہ شخص جس کی نماز میں اطمینان اور سکون نہ تھا۔ ارکان میں تعدیل نظر نہ آتی تو اس کو سرور دو عالمﷺ نے بار بار یہی حکم دیا: ” ارجع فصل فانک لم تصل” جا، جا کر نماز پڑھ، تو نے نماز پڑھی ہی نہیں ہے۔ [صحیح بخاری، کتاب الآذان، باب امر النبیﷺ الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ، حدیث: ۷۹۳]

اور ایسے بندہ کو بدترین کہا ہے، چوری کے اعتبار سے جو بندہ رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے نہ کر کے نماز کی چوری کرتا ہے۔ [مسند احمد، ۳۱۰/۵، (۲۲۱۳۶)]

جب ہماری نمازوں کی یہ حالت ہو گی تو پھر وہ کیونکر ہمیں بے حیائی و برائی سے منع کرنے والی بنیں ہو گی۔ کیونکہ رسول اکرمﷺ اس نماز کو نماز ہی نہیں سمجھا ہے۔

اللہ رب العزۃ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عبادت کی اصلاح کر کے ان کو کما حقہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ان ارید الا الاصلاح ما استطعت، وما توفیقی الا باللہ

٭٭٭

ماخذ:

http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-97.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید