FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اسلامی بیداری

 

 

                ڈاکٹر علی اکبر ولایتی

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

 

کتاب ’’اسلامی تہذیب و ثقافت‘‘ کا دسواں باب

 

 

 

 

 

                1) عرب دنیا میں اسلامی بیداری

 

ایرانیوں کی مانند عرب بھی جب سے یورپی حکومتوں سے آشنا ہوئے تھے کی اسی زمانہ سے اپنی پس ماندگی اور یورپ کی ترقی سے آگاہ ہو گئے تھے۔ اب تک اس پسماندگی کے خلاء کو پر کرنے کیلئے بہت سے راہ حل سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک اسلام (بحیثیت ایک دین اور تمدن کے ) کی طرف لوٹنا ہے۔ (1) اس پسماندگی کی وجوہات کے بارے میں جو جوابات دے گئے ہیں انہیں ہم چار اقسام میں تقسیم کریں گے۔ البتہ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہونا چاہیے کہ یہ تقسیم ان جوابات کے بارے میں ہے کہ جو اسلامی بیداری کی بحث میں عرب دانشوروں کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ لہذا ان کا نیشنلزم، سوشلزم اور آئیڈلزم سے کوئی ربط نہیں ہے یہ رجحانات مندرجہ ذیل ہیں : 1۔ عرب تمدن پسند 2۔ مسلمان تمدن پسند 3۔ اسلامی روایت پسندی 4۔ اسلامی اصول پسندی۔

مندرجہ بالا تقسیم کی بناء پر پہلے رجحان کے بڑے مفکرین میں سے طہطاوی اور خیرالدین تیونسی(2) ہیں دوسرے رجحان کے سب سے بڑے مفکر سید جمال الدین اسد آبادی اور کچھ حد تک محمد عبدہ ہیں جبکہ تیسرے رجحان کے اصلی سخن گو رشید رضا ہیں اور چوتھے رجحان کے فعال مفکرین میں سے حسن البنا سید قطب اور اخوان المسلمین ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

1) محمد عمارۃ ” الاسلام و القومیہ العربیہ و العلمانیۃ ” قضایا عربیۃ السنۃ 7، 1980 العدد 5، ص 69۔

2) بنقل فرہنگ رجائی، اندیشہ سیاسی معاصر در جہان عرب، تہران 1381، ص 168۔

۔۔۔۔۔۔

تاریخی لحاظ سے ہم جوں جوں موجودہ زمانہ کے نزدیک ہوتے جاتے ہیں اسلامی اصول گرائی کا رجحان دیگر فکری رجحانات پر غلبہ پا جاتا ہے اور دیگر فکری رجحانات کو پس منظر میں لے جاتا ہے۔ اس رجحان میں اہل مغرب سے مخالفت کا عنصر بڑھ جاتا ہے اور جنگجویانہ صفات واضح ہونے لگتی ہیں اور یہ رجحان اسلامی ممالک کی حکومتوں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے، اسمیں سلفی نظریات مستحکم ہونا شروع ہو جاتے ہیں یہ ایک فکری تحریک سے بڑھ کر ایک عوامی اور سیاسی تحریک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے انقلابات میں ایک اہم مسئلہ گذشتہ نظریات کی شکست ہے کہ جس کی بناء پر اصول پسند رجحان کی تشکیل ہوتی ہے۔

الف) عرب تمدن پسند رجحان: نئے سرے سے اسلامی بیداری کی لہر مصر میں طہطاوی اور تیونس میں خیرالدین پاشا تیونسی کے ذریعے شروع ہوئی۔ طہطاوی کے افکار کا محور یہ تھا کہ مسلمان یورپی علوم کو حاصل کیے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ (1)

طہطاوی یورپ کا بہت تعریف سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے سیاسی شعبوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ مفکر اصل میں مغرب کی استعماری حیثیت کہ جو اسلامی معاشروں کی تنزلی کا باعث قرار پائی اس سے غافل ہیں، اس سوال کا جواب کہ ان کے رجحان کو” عرب تمدن پسند ”۔ رجحان کا نام کیوں دیا گیا ؟یہ ہے کہ طہطاوی فقط عربوں کی فکری ترقی پر مصر ہے۔

خیرالدین تیونسی، طہطاوی سے بھی زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں اگر چہ ان کے افکار کی اساس وہی یعنی طہطاوی کی مانند تھی۔ ان کی فکر دو بنیادوں پر استوار تھی پہلی یہ کہ اسلامی فقہ اقتصادی اور ثقافتی سطح پر زندگی کی ترقی اور بہبود کیلئے جاری ہونے والی اصلاحات کو منع نہیں کرتی، دوسرا یہ کہ یورپی تہذیب کی اساس چونکہ زیادہ تر ان چیزوں پر قائم ہے کہ جو ماضی میں اسلام نے انہیں عطا کیں اس لیے اب یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ انہیں لوٹائیں۔ (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔

1) حمید عنایت، سیری در اندیشہ سیاسی در اسلام، ترجمہ بہاء الدین خرمشاہی، تہران، خوارزمی ص 34۔

2) حشام شرابی، سابقہ حوالہ، ص 55۔

۔۔۔۔۔۔۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عرب تمدن پسند رجحان کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں :(1)

1: مغربی تہذیب و تمدن کے اصل ہونے اور اس کی بڑائی کو قبول کیا گیا ہے اور مسلمان یہ توانائی اور استعداد رکھتے ہیں کہ وہ مغربی فنون اور تمدن کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوں کیونکہ مغربی علوم وہی اسلامی علوم ہی ہیں۔

2: اس رجحان کے یہ دونوں برجستہ مفکر حکومتی عہدہ دار تھے مغربی تہذیب اور تکنیک کے حصول اور مسلمانوں کی ترقی کو حکومت کی ذمہ داری شمار کرتے تھے، اسی لیے ان کی تحریک کو لوگوں کی سیاسی تحریک شمار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عوام ان کے سب سے پہلے مخاطب تھے۔

3: ان کی روش اور انداز مصلحانہ ہے وہ یورپی اداروں اور شعبہ جات کے تجربوں کی بنیاد پر اپنے معاشرے کے سیاسی اور معاشرتی اداروں اور شعبہ جات کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔

4: یہ گروہ اسلام اور یورپی تمدن میں بنیادی طور پر تضاد کے امکان کے بارے میں غور نہیں کر رہا تھا، کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بنیادی طور پر مغربی تہذیب کا سرچشمہ اسلام ہے اور یہ یورپی علوم وہی گذشتہ ادوار میں اسلامی علوم کا ترجمہ ہیں، لہذا ان کا مقصد یہ تھا کہ یورپی تہذیب کو اپنے ہاں لانے کیلئے کوئی معیار بنایا جائے ان کی نظر کے مطابق فقط غیر دینی شعبہ ہائے زندگی کی بہتری کی ہی ضرورت ہے۔

5: یہ لوگ اسلامی امت کی وحدت کے افکار کے حامل نہ تھے ان کی نگاہ مکمل طور پر اپنے وطن کی حد تک محدود ہے۔ یہاں تک کہ جب بھی عربی وطن کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کی مراد تمام عرب زبان ممالک نہیں ہیں بلکہ اصل میں ان کا مقصود ایک ملک ہے مثلاً طہطاوی کی عربی وطن سے مراد مصر ہے۔

ب) مسلمان تمدن پسند رجحان: اس رجحان اور پہلے رجحان میں کچھ مشترکہ امور ہیں حقیقت میں اسلامی بیداری کی آواز اٹھانے والوں کی دوسری نسل کو مسلمان تمدن پسند کا نام دیا جا سکتا ہے کہ اس گروہ کی مشہور و ممتاز شخصیات سید جمال الدین افغانی اسد آبادی اور شیخ محمد عبدہ ہیں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ سید جمال پہلی نسل کے زیادہ قریب ہیں جبکہ شیخ عبدہ اپنے بعد والی نسل اسلامی روایت پسندوں کے زیادہ قریب ہیں، سید جمال کی اصلاحی تحریک کے مختلف پہلو ہیں لیکن ان کی اس اصلاحی تحریک کی اصلی روح عالم اسلام میں ”جدیدیت ” پیدا کرنا ہے۔ سید جمال کا ہدف یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمان عصر جدید۔ اس کی خصوصیات اور اس کی تشکیل کے بنیادی اسباب سے آشنا ہوں اور ایسے اسباب فراہم کیے جائیں تاکہ مسلمان بھی اس جدید دنیا اور نئی تہذیب میں کوئی کردار ادا کریں۔ اور وہ علم و عقل جیسے بنیادی عناصر اور دیگر عناصر مثلاً جمہوری سیاسی شعبہ جات کی مدد سے اپنی طاقت کو بڑھائیں۔

۔۔۔۔۔

1) حسن حنفی، الاصولیۃ الاسلامیۃ، قاہرہ، مکتبہ مدبولی، ص 20۔

۔۔۔۔۔۔

شاید اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ سید جمال کی توجہ کا بنیادی محور تشخص کا حصول نہ تھا بلکہ یہ تھا کہ کیسے عالم اسلام کو طاقت و توانائی دی جا سکتی ہے، سید جمال کے نظریہ کے مطابق مغرب کی جدید اور ماڈرن تہذیب اسلامی اصولوں کی اساس پر سامنے آئی ہے، یہاں سید جمال عرب تمدن پسند رجحان رکھنے والوں کے برعکس دو بنیادی چیزوں پر تاکید کرتے ہیں پہلی یہ کہ اقوام کی زندگی میں دین کا کردار ناگزیر ہے، دوسرا یہ کہ جدید زندگی کے تقاضوں کے مطابق جدید شعبہ ہائے زندگی اور نئی فنی مہارتوں کی ضرورت ہے۔ (1)

سید جمال کے دو اصلی مقاصد یعنی اتحاد بین المسلمین اور مغربی تسلط کے خلاف جنگ ان کی فکر کو عرب تمدن پسند رجحان والوں سے مختلف شمار کرتے تھے۔ سید جمال کی نظر میں عالم اسلام ایک متحد مجموعہ کی شکل میں ہے۔ کہ جس کے اتحاد اور منظم ہونے کی صورت میں مسلمان یورپی تسلط کے مقابلے میں دفاع کرسکتے ہیں۔ لہذا سید جمال کی یورپ اور ان کے کردار و رفتار پر نگاہ پہلے گروہ کی نسبت بہت زیادہ گہرائی پر مبنی تھی۔

۔۔۔۔۔

1) سید جمال نے عروۃ الوثقی کے اکثر مقالات اور بعض فارسی مقالات میں اس مسئلہ پر تاکید کی ہے بعنوان مثال رجوع کریں۔ سید جمال الدین اسد آبادی، مجموعہ رسائل و مقالات، با سعی سید ہادی خسروشاہی، انتشارات کلبہ شروق ص 134۔ 132۔

۔۔۔۔

اگر چہ سید جمال علم و صنعت میں یورپ کی ترقی کو قبول کرتے تھے مگر یورپ کے عالم اسلام پر تسلط پر بہت زیادہ حساسیت رکھتے تھے لہذا انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ اس تسلط کے خلاف جہاد میں صرف کیا، اس جہاد میں کبھی وہ اسلامی حکومتوں سے مخاطب ہوتے تھے اور کبھی اسلامی اقوام کو خطاب کرتے تھے۔ یہی چیزباعث بنی کہ ان کی سیاسی تحریک لوگوں کی طرف سے ایک عوامی تحریک کی شکل میں سامنے آئی ان کی فعالیت پہلے گروہ کے مصلحانہ افکار سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

یہاں تک کہ یہ تحریک ایران میں انقلابی رنگ اختیار کر گئی۔ اور اس نے ناصر الدین شاہ کے آمرانہ نظام کے مقابلے میں علماء اور عوام کو انقلاب کیلئے ابھارا اورسلطنت عثمانیہ میں یہ سیاسی تحریک عثمانی سلطان کی مخالفت کی شکل میں سامنے آئی اور شاید ”باب عالی” کے ہاتھوں اس کی موت کا باعث بھی قرار پائی۔

سید جمال کے جدت پسندانہ افکار کا ایک اور بنیادی نکتہ یہ تھا کہ جس وقت دہ واضح طور یہ مسلمانوں کو اسلامی سرزمینوں پر یورپ کے تسلط کے خلاف ابھار رہے تھے تو ساتھ ساتھ مغرب کی علمی اور صنعتی ثمرات سے سیکھنے اور استعمال میں لانے پر تاکید کرتے ہوئے مغرب کی تقلید کو مسترد بھی کر رہے تھے، اسی لیے وہ اسلامی معاشروں کی موجودہ صورت پر بھی تنقید کرتے رہے تھے۔ (1)

مجموعی طور پر مسلمان تمدن پسند گروہ کے بنیادی محور یہ تھے :1۔ مسلمانوں کی تہذیب کی تشکیل اور ان کے اقتدار کی وسعت کیلئے عقل، علم اور اسلامی توانائی و استعداد کی بنیادی اہمیت پر تاکید 2۔ اسلامی امم میں اتحاد اور یکجہتی اور یورپی تسلط کے خلاف جہاد ; یہ محور مختلف ادوار میں تشکیل پائے اور پھر تغیر و تبدیلی کا شکار بھی ہوئے۔

ج ) اسلامی روایت پسند رجحان: اگر مسلمان تمدن پسند رجحان والے اسلامی معاشروں میں علمی احیاء اور جدید افکار کو جذب کرنے اور یورپ کی جدید فنی ایجادات کے استعمال کو اسلامی احیاء سے تعبیر کرتے تھے تو اسلام روایت پسند رجحان والے بالخصوص ان کے برجستہ مفکر رشید رضا کہ جو سلفی روش کے عالم تھے، اسلامی احیاء کو ” اسلامی بزرگان” کی سیرت و روش کی طرف لوٹ جانے سے تعبیر کرتے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومتوں کی عصر جدید کی علمی و سیاسی ترقی کو جذب کرتے ہوئے گذشتہ گروہوں کے افکار کو لباس حقیقت پہنانے میں ناکامی اور اس کے بجائے نام نہاد ” تہذیب و ترقی ” کے جال میں پھنسنے نے اسلامی روایت پسند رجحان والے لوگوں کو مغربی ثقافت اور اسلامی تشخص کے پامال ہونے کے خطرات پر بہت زیادہ پریشان کر دیا تھا اور یہ اسلامی روایت پسند رجحان ان پریشانیوں کا جواب تھا۔

۔۔۔۔

1) سابقہ حوالہ ص 121۔

۔۔۔۔۔۔

ہرایر دکمجیان سید جمال، عبدہ اور رشید رضا کو سلفی رجحان کے حوالے سے مورد مطالعہ قرار دیتا ہے (1) حالانکہ یہ ترکیب واضح خطاء ہے کیونکہ اسلامی روایت پسند رجحان یقیناً جدت پسند رجحان سے دور ہو کر حتی قدامت پسندی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

جدت پسند لوگ عصر جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی مفاہیم کی اصلاح اور ان تقاضوں سے ہم آہنگی کے درپے تھے جبکہ روایتی اسلام پسند سختی سے اسلامی روایات کے پابند تھے اور مغربی تہذیب کی ثقافتی اور سیاسی پیشقدمی کے خلاف حساسیت رکھتے تھے۔ مجید خدوّری بالکل صحیح انداز سے رشید رضا کو روایت پسند رجحان کی حدود میں جن کو جدیدیت کی چمک دمک دی گئی ہے، محور تجزیہ قرار دیتے ہیں اگر چہ رشید رضا بظاہر جدت پسند ہیں لیکن اندرونی طور پر ان کا روایت پسند رجحان سے تعلق واضح تھا۔

رشید رضا کی سلفی روش نے انہیں احادیث پر توجہ میں افراط کی حد تک بڑھا دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ روایت پسند رجحان رکھتے تھے جس نے انہیں وسیع النظر نہ ہونے دیا، اسی لیے وہ سید جمال کے اتحاد و وحدت پر مبنی نظریات سے بھی دور ہو گئے اور ان کی شیعہ مسلک کے بارے میں معاندانہ روش شیعوں کے بارے میں سلفی دشمنی کی یاد دلاتی ہے۔

۔۔۔۔۔

1)ہرایر دکمجیان، جنبش ہای اسلامی معاصر، ترجمہ حمید احمدی، کیہان 1370 ص 33۔

۔۔۔۔۔

بہرحال رشید رضا کے روایت پسند سیاسی نظریات میں قانون کی حکومت، آزادی اور ان شرائط پر تاکید نہ تھی کہ جن پر طہطاوی اور سید جمال نے اپنے جدت پسندرجحان کی بنا پر بہت زیادہ زور دیا تھا بلکہ وہ اس اسلامی نظام کو دائرہ عمل میں لانے کے درپے تھے کہ جو صدر اسلام کے تخیل پسند عناصر پر استوار تھا جو ہر قسم کے دنیاوی رجحانات، قومی اور مسلکی تعصب سے پاک تھے ( 1)

رشید رضا کے نظریہ کے مطابق مغرب والوں نے ترقی کے مراحل کو طے کرنے کیلئے اسلامی اصولوں پر عمل کیا جبکہ خود مسلمانوں نے ان اصولوں کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر چہ رشید رضا نے اپنے روایت پسند رجحان کی طرف بڑھنے میں مغرب والوں کو مورد بحث قرار نہیں دیا بلکہ ان کے افکار کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل مغرب کی نسبت معاندانہ انداز رکھتے تھے اور ان میں مسلمان تمدن پسند اور عرب تمدن پسند رجحان والوں کی طرح کی روشن بینی کا فقدان تھا(2)۔

حسن حنفی رشید رضا کی فعالیت کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں کہ رشید رضا نے اصلاح پسند، جدت پسند اور ترقی طلب افکار میں ایک عمر گذارنے کے بعد طہطاوی، سید جمال اور عبدہ جیسے رہنماؤں کی تاثیر سے رہائی پاتے ہوئے محمد بن عبدالوہاب کے دامن میں پناہ لی۔ جس نے انہیں ابن قیم جوزیہ اور ابن تیمیہ اور پھر احمد بن حنبل تک پہنچایا۔ جس کی بناء پر رشید رضا نے بجائے اس کے کہ جدید دور کے ماڈرن اصولوں کی طرف رجحان اور عصر حاضر کی تبدیلیوں کے ساتھ مطابقت کی بجائے کے مغرب سے جنگ و یلغار کو ترجیح دی۔ (3)

۔۔۔۔۔

1) مجید خدوری، سابقہ حوالہ، ص 30، 9۔ 78، محمد رشید رضا، السنۃ و الشیعۃ، قاہرۃ، ص 59۔ 54 و 79، حمید عنایت، سابقہ حوالہ، ص 97۔

2) Albert Hourani، Arabic Thoagh in the Liberal Ages Oxford University Press، in 1962، p 239

3) حسن الحنفی، سابقہ حوالہ، ص 42۔

۔۔۔۔۔۔

د) اسلامی اصول پسند رجحان:جاک برک جو اسلامی اصول پسند رجحان کے بارے میں جو تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اس میں وہ بیسویں صدی میں اسلامی ممالک کی طرف سے سائنسی ترقی کے حامل موجودہ زمانے اور تمدن کے تقاضوں کے مطابق مناسب ماڈلز پیش کرنے میں ناکامی کو ان کے شدت پسند ہونے کی وجہ بتاتے ہیں، وہ اسلامی معاشروں کے اندر اس رجحان کی اہم ترین علت دروازہ اجتہاد کا بند ہونا اور بدعت سے جنگ کے بہانے اصلاحات کی تحریکوں کو کچلنا سمجھتے ہیں (1)

حقیقت میں ان شکستوں کے ساتھ ساتھ اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی نے ایک اندوہناک ٹریجڈی کی شکل میں عربوں کی روح کو آزرردہ کر دیا اور انہیں ایک ہٹ دھرم اور معاندانہ رویے کے حامل طبقے اور شدت پسند سیاسی گروہوں کے درمیان سرگردان کر دیا۔

اخوان ا لمسلمین کے بانی حسن البناء اسلامی اصلاح پسند مفکرین کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ: جمال الدین افغانی اسد آبادی مسلمانوں کی موجودہ مشکلات کیلئے ایک پکار اور تنبیہ تھے، شیخ محمد عبدہ فقط ایک معلم اور فلسفی تھے اور رشید رضا ایک مورخ اور وقائع نگار تھے جبکہ اخوان المسلمین جہاد، تلاش اور کام کا نام ہے نہ کہ محض ایک پیغامبر ہے۔ (2)

اخوان المسلمین ایک سیاسی اور مذہبی تحریک ہے کہ جو اسلامی معاشروں میں اساسی تبدیلی کی خواہاں ہے۔ اخوان المسلمین کا ایک اساسی عقیدہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل میں اسلام سے بڑھ کر کوئی اور طاقت موجود نہیں ہے(3) یہ عقیدہ حقیقت میں اسلامی اصول پسند رجحان کا محور اور روح ہے۔

اگر حسن النباء اخوان المسلمین کے سیاسی رہبر تھے تو سید قطب اور محمد غزالی جیسے افراد اخوان المسلمین کے فکری پہلو کے برجستہ نمائندے تھے۔

۔۔۔۔۔۔

1) سارا شریعتی، بنیاد گرائی و روایتی معقول از چپ اسلامی، روزنامہ ایران شنبہ 26/5/81، ص 8۔

2) بہمن آقای و خسرو صفوی، اخوان المسلمین، تہران، نشر رسام، 1365، ص 21۔

3) حمید عنایت، سابقہ حوالہ، ص 107۔

۔۔۔۔

کہنا یہ چاہیے اسلامی بیداری کی تحریک میں اوّل سے اب تک تغیر و تبدل کے اس دورانیے میں طہطاوی، خیر الدین پاشا تیونسی، سید جمال، محمد عبدہ، رشید رضا اور سید قطب بنیادی اور واضح فرق رکھتے ہیں اور ہم جوں جوں آگے بڑھیں تومبارزہ اور جہاد کی خصلت شدت اختیار کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور غربی ثقافت سے اقتباس کے رجحان سے جدا ہو جاتی ہے، سید قطب کے نظریات اسی اصول پسند اور جہادی رجحان کو بیان کرتے ہیں :

سید قطب عصر حاضر میں موجود تمام معاشروں کو جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں اور یورپی معاشروں کو ماڈرن جاہلیت کے عروج سے تعبیر کرتے ہیں یہیں سے ا نکے افکار کا گذشتہ اسلام پسند مفکرین کے نظریات سے اساسی فرق سامنے آتا ہے کہ جو یورپ کی برتر ی اور ترقی یافتہ تہذیب کو قبول کرتے تھے۔ سید قطب نے کلمات” ترقی” اور ”پسماندگی ” کی از سر نو تعریف کی اور ترقی کیلئے جدید معیار اور ضابطوں سے آگاہ کیا۔

سید قطب اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ ترقی یافتہ معاشرہ و ہ معاشرہ نہیں ہے کہ جو مادی ایجادات میں سب سے بلند ہو بلکہ وہ معاشرہ ترقی یافتہ ہے کہ جو اخلاقی برتری کو آشکار کرے، وہ معاشرہ جو علم و فن میں عروج پر ہے لیکن اخلاقیات میں پست ہے وہ ایک پسماندہ معاشرہ ہے جبکہ وہ معاشرہ جو کہ اخلاقیات میں سب سے بلند ہے اگر چہ علم اور مادی ایجادات میں پیچھے ہے وہ ترقی یافتہ معاشرہ ہے۔ (1)

۔۔۔۔۔

1) سید قطب، معالم فی الطریق، دارالمشرق، بیروت، قاہرہ، 198، ص 116، 117، 61۔ 60 دو رہیافت متفاوت، درجریان بازگشت بہ اسلام در جہان عرب۔ ترجمہ دکتر سید احمد موثقی، فصلنامہ علوم سیاسی ش 12، ص 274۔

۔۔۔۔۔

امام خمینی (رہ) کی تحریک اسلامی اصول پسند رجحان کا عروج شمار ہوتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کی صورت میں امام کی کامیابی سے متاثر ہو کر پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں نے قوت پکڑ لی۔ امام خمینی کا تفکر اور نظریہ در حقیقت جداگانہ تشخص اور جدیدیت کا امتزاج تھا جبکہ اسلامی بیداری کی تحریک کے گذشتہ قائدین مثلاً سید جمال ترقی اور جدت کے در پے تھے اور بعض جداگانہ اسلامی تشخص پر زور دیتے تھے، امام خمینی (رہ) جسطرح کہ جداگانہ اسلامی تشخص کو زندہ کرنے کے در پے تھے جدیدیت اور ترقی بھی ان کی بحث و گفتگو میں ایک خاص مقام کی حامل تھی۔ ایسی ترقی کہ جو اسلامی تشخص کی حد بندی میں تعریف ہوتی ہو۔ امام کا سیاسی نظریہ صرف اسلامی قالب اور صورت میں پیش کیا گیا تھا اسی وجہ سے عالم اسلام میں اسلام پسند تنظیموں اور تحریکوں میں امام خمینی نے ایک خاص مقام اور ممتاز حیثیت پائی۔ (1)

ایران میں امام خمینی کی رہبری میں اسلامی انقلاب عالم اسلام میں بہت سی اسلامی تحریکوں کے وجود میں آنے اور بعض کی تقویت کا باعث بنا۔

قوم پرستی، نیشنلزم اور لائیسزم کے زوال سے دنیائے اسلام میں اسلام پسندوں کو قوت بڑھانے کا موقع ملا۔ اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رہ) کے افکار نے بھی انہیں بہت متاثر کیا، عرب دنیا میں اسلامی بیداری کی تحریک کے قائدین میں سیدقطب کے افکار کسی حد تک امام (رہ) کے نظریات کے قریب تھے۔ آیت اللہ خمینی (رہ) اور سیدقطب دونوں کی نظر میں تمام مسائل کا حل اسلام کی فہم اور سمجھ بوجھ میں تھا۔ اور دونوں دنیا کو تقابل کی صورت میں یعنی ”ہم ”اور ”وہ ”کی صورت میں ملاحظہ کرتے تھے۔ آیت اللہ خمینی(رہ) نے اس تقابل کے دونوں کناروں کو ”مستکبر ”اور ” مستضعف” سے تعبیر کیا جبکہ سید قطب نے انہیں جاہلیت اور اسلام سے تعبیر کیا۔ دونوں نے دنیا کے وہ مقامات جہاں اسلامی نظام حکومت موجود نہیں ہے ( ہم یہاں یہ بھی اضافہ کریں گے کہ وہ جگہ جہاں دینی طور و اطوار رائج نہیں ہے) وہ جاہلیت اور استکبار کا مقام ہے۔ (2)

امام اور سید قطب جیسے مفکرین کی نظر میں اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی، لہذا مغرب کی اقدار اور رویّے اسلامی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔

۔۔۔۔۔۔

1) بابی سعید، ہراس بنیادین، ص 105، 109 نیز:

JohnL. Esposito، The Iranian Revolution: Its Global، Miami: Florida، International University Press، pp. 12-13.

2) فرہنگ رجالی، پدیدہ جہانی شدن وضعیت بشری و تمدن اطلاعاتی، ترجمہ عبدالحسین آذرنگ نشر آگاہ، 1380، ص 69۔

۔۔۔۔۔

 

                2) ایران میں اسلامی بیداری

 

تاریخ ایران میں آخری دو صدیاں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور دینی سطح پر مختلف تغیرات اور تبدیلیوں کی بنا پر۔ اہم ادوار میں سے شمار ہوتی ہیں یہ دور کہ جسے ” تاریخ معاصر ایران” کے عنوان سے شہرت حاصل ہوئی ایران میں قاجاریہ سلسلہ حکومت کے آغاز سے شروع ہوا۔

ایسی حالت میں جبکہ قاجار خاندان مملکت ایران پر پرانے رسم و رواج کے تحت بغیر لوگوں کی رائے اور شراکت کے اپنی آخری قبائلی حکومت کو مستحکم کرنے میں لگے ہوئے تھے دنیا کے ایک اورکو نے میں فرانس کا عظیم انقلاب آ چکا تھا اور وہ لوگ نئے افکار اور نظام سے لوگوں کو متعارف کروا رہے تھے، جس کی سب سے اہم خصوصیت سیاسی طاقت کی مرکزیت ایک فرد کی آمرانہ حکومت کے نظام سے ہٹاتے ہوئے جمہوریت اور ڈیموکریسی کی صورت میں لانا تھا۔

اس حساس دور میں قاجاری ایک دھائی تک تخت و تاج پر قبضہ کرنے کی کشمکش کے بعد بھی کوئی نیا نظام سامنے نہ لا سکے بلکہ انہوں نے اسی انداز سے اپنی مرضی اور ارادہ کو ان حالات پر مسلط کیا اور حکومتی عہدوں کو اپنے افراد میں تقسیم کر دیا اور حکومت اسی طرح بادشاہی نظام میں آمرانہ بنیادوں پر جاری رہی۔ (1) اقتصادی حوالے سے حکومت سابقہ ادوار کی مانند سب سے بڑی حیثیت کی مالک تھی، لوگوں کی اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی باگ دوڑ حکومت کے پاس تھی اور ئ۔۔۔۔۔درآمدات کے ذخائر میں بادشاہ لا محدود حقوق کا مالک تھا اسی طرح اس کے زیر حکومت سرزمین کے افراد کی جان و مال سب عملی طور پر اس کی مرضی اور منشا کے تحت تھے۔ (2)

ایران یورپ سے اگر چہ دور تھا جو طاقتور ممالک کی رقابتوں کا مرکز تھا لیکن انگریزوں کے ما تحت ہندوستان کی ہمسایگی کی وجہ سے اور یہ کہ ایران ہندوستان پر تسلط کیلئے بہترین تزویری محل وقوع کا حامل تھا (وہ ہندوستان جو دنیا میں انگلستان کی سیاست، اقتصاد اور طاقت کا سرچشمہ تھا) فتح علی شاہ قاجار کے زمانہ سے ایکدم استعماری ممالک کی توجہ کا مرکزبن گیا۔ دیگر ممالک سے ایران کے خارجہ تعلقات کے سلسلے میں نہ چاہتے ہوئے بھی کسی طرح سے روس، فرانس اور انگلستان بھی داخل ہو گئے اور ایرانی حکومت اور معاشرتی نظام میں کمزوریوں کے باعث ان ممالک سے روابط غیر متوازن ہو گئے کہ جس کا نتیجہ استعماری معاہدوں کو مسلط کرنا اور مملکت ایران کے شمال اور مشرق میں اہم علاقوں کا اس سے جدا ہونے کی صورت میں نکلا۔

۔۔۔۔۔

1) ویلم فلور، جستارہایی از تاریخ اجتماعی ایران در عصر قاجار، ترجمہ ابوالقاسم سری تہران، توس، ج 2، ص 20۔

2) احمد سیف، اقتصاد ایران در قرن نوزدہم، تہران، نشر چشمہ 1373، ص 49۔

۔۔۔

بڑی طاقتوں بالخصوص روس اور انگلینڈ کے مقابلے میں ایران کی شکست سے بتدریج سب سے پہلے مروجہ سیاسی نظام اور پھر معاشرتی سطح پر غیر رسمی نظام میں اہم تبدیلیاں پیدا ہوئیں، یہ اہم تبدیلیاں مندرجہ ذیل ہیں :اصلاحات کا حتمی طور پر عسکری اور صنعتی شعبوں میں جاری ہونا اور پھر دیگر شعبوں بالخصوص سیاسی سطح پر جاری ہونا، اسی طرح اسلام اور دین کی اساس کی حفاظت کیلئے اسلامی بیداری کے احساسات کا ظاہر ہونا اور اندرونی آمریت کا مقابلہ کیا جانا اور غیر ملکی استعمارگروں سے سامنا کی صورت میں قاعدہ ”نفی سبیل ”کا استعمال میں لانا … ہمارا اس تحریر میں ہدف یہ ہے کہ تاریخ معاصر ایران میں اسلامی بیداری اور اس کے نشیب و فراز کا تجزیہ کیا جائے۔

قاجاری حکومت کے اوائل میں ایرانی معاشرہ میں مذہبی قوتوں بالخصوص مراجع تقلید کا ہمیشہ کیلئے مذہبی قائدین کے عنوان سے سامنے آنے کے اسباب فراہم ہو چکے تھے نیز شیعہ علمی و دینی مراکز میں اہم تبدیلی رونما ہو چکی تھی، یہ تبدیلی مجتہدین کی محدثین پر فتح با الفاظ دیگر اجتہادی اور اصولی روش کا حدیثی اور اخباری روش پر غلبہ تھا(1) اجتہادی مکتب کو زندہ کرنے کے لیے وحید بہبہانی کی کوششوں کی اہمیت یہ تھی کہ انہوں نے ایسے شاگردوں کی تربیت کی کہ جنہوں نے ا سلامی بیداری کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً کاشف الغطاء ملا مہدی اور ملا احمد نراقی۔ (2)

۔۔۔۔۔۔

1) آقا احمد کرمانشاہی، مرآت الاحوال جہانما، بہ تصحیح و اہتمام علی دوانی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1375، ص 110۔

2) روح اللہ حسنیان، چہاردہ قرن تلاش شیعہ برای ماندن و توسعہ، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ج دوم 1382، ص 195۔ 194۔

۔۔۔۔

متعدد تالیفات اور بنیادی امور جنہیں اسلامی بیداری اور اصولی مکتب کے فکری مقدمات کی حیثیت حاصل تھی۔ طے کرنے کے بعد عملی مرحلہ شروع ہوا اس زمانہ میں شیعہ علماء کو ” بیرونی استعمار ” کے عنصر کا سامنا کرنا پڑا۔ علماء نے ان بیرونی تسلط پسندوں کے مد مقابل فقہی قانون” نفی سبیل” کا سہارا لیتے ہوئے محاذ قائم کیا۔ اس فقہی قانون کی اساس یہ قرآنی آیت ہے” لن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلاً” (1) یہ آیت مسلمانوں پر کفار کے تسلط کی نفی کر رہی ہے۔ جدید شیعہ انقلابی نظریہ میں ایسی تعابیرکہ جو آرام و سکون اور تسلیم و پسپائی کی طرف دعوت دیتی تھیں انہیں ترک کر دیا گیا اور ان کی جگہ مبارزانہ اور انقلاب پسند جذبات نے لے لی۔ (2)

فتح علی شاہ قاجار کے زمانہ میں ایران اور روس کے درمیان جنگوں میں ایران کی شکست کے بعد روس کا ایران کے ایک وسیع علاقہ پر قابض ہونے پر اصول پسند علماء کی طرف رد عمل کا اظہار تاریخ معاصر ایران میں اصولی علماء کی طرف سے پہلی عملی مداخلت شمار ہوتی ہے۔

۔۔۔۔

1) نساء، آیت 141۔

2) یداللہ ہنری لطیف پور، فرہنگ سیاسی شیعہ و انقلاب اسلامی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ج 2، ص 107۔

۔۔۔۔

علماء نے روس کے ساتھ جنگ کو جہاد کا عنوان دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایران و روس کے درمیان جنگوں سے قبل بھی جہاد کے افکار ایرانی معاشرہ میں موجود تھے ایران کے ساتھ دفاعی قرار دادوں کے باوجود انگریزوں اور فرانسیسیوں کا ایران پر روس کے حملے کے دوران ایران کی حمایت نہ کرنا اور روس سے ایران کی شکست کے بعد حکومت قاجاریہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ مسلمانوں کی سرزمین سے روسی افواج کو دھکیلنے کے لیے علماء شیعہ کی مدد لیے بغیر چارہ نہیں ہے، میرزا عیسی فراہانی کہ جسے قائم مقام اول کا لقب دیا گیا تھا نے اس مسئلہ میں فتوی حاصل کرنے کیلئے علماء کی حمایت اور تعاون حاصل کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی، کچھ مدت کے بعد مقدس مقامات ا ور ایران کے دوسرے شہروں سے بہت سے فتاوی اور جہادی رسالے سامنے آنے لگے جو سب روسی کفار کے مقابلے میں جہاد کے وجوب پر تاکید کرتے تھے میرزا عیسی قائم مقام نے ان سب کو جمع کرنے کے بعد ”جہادیہ ”کے عنوان سے ان کی اشاعت کی۔ (1)

علماء شیعہ کی طرف سے فوری رد عمل بتا رہا تھا کہ اصولی مکتب کے علماء کا اسلامی بیداری کے احساسات کو زندہ کرنے میں میلان اور سیاست میں ان کی مداخلت ہر روز بڑھ رہی تھی، کم از کم ایران و روس میں جنگوں کے دوسرے دور تک فتح علی شاہ کی مذہبی سیاست یعنی علماء حضرات کی حمایت و تعاون کا حصول اور انہیں ایرانی معاشرے میں کردار ادا کرنے کی دعوت اس طبقے (علما) کے معاشرے میں بھر پور مقام کا باعث بنی۔ (2)

ایران و روس میں جنگوں کے پہلے دور میں مذہبی قوتوں سے زیادہ تعاون حاصل نہیں کیا گیا تھا لیکن یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ یہ مذہبی طبقہ مسلمان مملکت کے دفاع میں اہم موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ البتہ فقط علماء کا کردار و عمل مکمل کامیابی کی ضمانت نہیں تھا بلکہ اس طبقہ کی سعی اس وقت نتیجہ خیز تھی کہ جب جنگ کے حوالے سے تمام متعلقہ ادارے اور شعبے اپنی ذمہ داریوں پر درست عمل کرتے۔ ایران و روس کی پہلی اور دوسری جنگ کے درمیانی فاصلہ میں کئی ایسے مسائل پیدا ہوئے کہ جن کی بناء پر اصولی علماء دوبارہ میدان جنگ میں روسیوں کے مد مقابل آ گئے۔

گریبایدوف کا قتل جو کہ بظاہر لوگوں کے مذہبی رد عمل کا نتیجہ تھا اورروس کے زیر تسلط سرزمینوں میں شیعہ و سنی علماء کے زیر قیادت اسی قیام کا تسلسل مثلاً قاضی ملا محمد کا شیعہ و سنی اتحاد کے نعرے کے ساتھ 1248 قمری تک قیام اور شیخ شامل داغستانی کا 1292 قمری تک کا قیام و غیرہ یہ سب در حقیقت وہی اسلامی بیداری کاہی تسلسل تھا(3)

۔۔۔۔

1) میرزا عیسی قائم مقام فراہانی، احکام الجہاد و اسباب الرّشاد، باسعی غلام حسین زرگری ناد، تہران، قبعہ، ص 6۔ 75۔

2) حامد الگار، دین و دولت در ایران، ترجمہ ابوالقاسم سرّی، تہران، توس، ج 2، ص 97۔ 87۔

3) حسین آبادیان، روایت ایرانی جنگہای ایران و روس، تہران، مرکز اسناد و تاریخ دیپلماسی، ص 110۔

۔۔۔۔۔

1343 قمری میں ایران وروس کے درمیان جنگوں کے اختتام سے لے کر تمباکو کی تحریک تک کے درمیانی عرصہ میں احیاء شدہ نظر و فکر اور اسلامی بیداری کی تحریک بظاہر سست اور ٹھہراؤ کا شکار ہو گئی۔ لیکن ان سب کے باوجود ایرانی شیعوں کی اپنی شیعہ تہذیب کے مفاہیم اور تعلیمات کے بارے میں فہم میں ٹھہراؤ نہ رہا بلکہ وہ روز بروز تغییر و تبدیلی محسوس کر رہے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اصفہان میں اس زمانہ کے سب سے بڑے عالم سید محمد باقر شفتی کی روز بروز محمد شاہ کی حکومت سے بڑھتی ہوتی مخالفت تھی انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک محمد شاہ کی حکومت پر اعتماد نہیں کیا تھا۔ مرکزی حکومت سے یہ ٹکراؤ بتاتا ہے کہ اجتہادی مکتب کسی صورت میں بھی بادشاہت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ (1)

اجتہاد ی مکتب کے محور پر شیعہ عقائد کے ارتقا کا سفر بیداری کی تحریک کی پیشرفت میں بہت زیادہ اثرات کا حامل تھا۔ اگر چہ ایران و ورس کی جنگوں سے لے   کر تمباکو کی تحریک تک کے درمیانی عرصہ میں ہم دینی قوتوں میں ٹھہراؤ اور سکون کی کیفیت کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن یہ ظاہری کیفیت ہے باطن میں اصلاح طلب اور دینی فکر کے احیاء کی یہ تحریک آئندہ اقدامات کیلئے تیاری کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ کیونکہ اس تیاری کے بغیر وہ بعد والے مسائل مثلاً تمباکو کی تحریک اور مشروطیت پسندی اور دیگر مسائل میں وسیع پیمانے پر سیاسی معاشرتی اور مذہبی یعنی تمام جوانب سے تحریک اور جوش و خروش نہیں پیدا کرسکتی تھی۔

اس درمیانی دور میں اجتہادی مکتب کے ٹھہراؤ اور جمود کی ایک وجہ اندرونی اور بیرونی مخالفین کا رد عمل بھی تھا یہ رد عمل صوفیت، بابیت، شیخیت اور اخباری رجحان جیسے باطل اور فاسد مکاتب کی ترویج کی صورت میں ظاہر ہوا، ان سب مسائل اور تحریکوں کے پس پردہ استعمار بالخصوص انگریزوں کے خفیہ ہاتھ اپنا کام دکھا رہے تھے نیز اجتہادی مکتب کی ترقی کی راہ میں ایک اور رکاوٹ لادینی اور الحادی افکار و عقائد کی نشر و اشاعت تھی با بالفاظ دیگر سکولاریزم اور فری میسن (freemason) کی وسیع پیمانہ پر ترویج تھی۔

۔۔۔۔

1) اندیشہ دینی و جنبش ضد ریم در ایران، تہران، موسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران، ص 45۔

۔۔۔۔

اس دور میں دینی قوتوں کی ایک ذمہ داری ” قاعدہ نفی سبیل” کی بناء پر استعمار سے جنگ اور فرقہ سازی کا مقابلہ کرنا تھا۔ کیونکہ استعماری پالیسیوں نے شیعوں کے درمیان تفرقہ اور انتشارڈالنے کیلے فرقہ سازی کی مہم شروع کر دی تھی مثلاً صوفی مسلک شیخ احمد احسایی کے شاگرد سید کاظم رشتی کے ذریعے شیخی فرقہ کا بنانا اور سید کاظم رشتی کے شاگرد علی محمد باب کے ذریعے فرقہ بابیہ کا بنایا جایا اسی استعماری اہداف کی تکمیل تھی۔ یہ فرقہ بابیہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دو شاخوں ازلیہ ( یحیی صبح ازل کے پیروکاروں ) اور بہائیہ ( میرزا حسین علی بہاء کے پیروکاروں ) میں تقسیم ہوا روسی استعمار نے ازلیہ اور انگلستان کے استعمار نے بہائیہ کی حمایت کی اور ان فرقوں کو اپنے آغوش میں پرورش دی اور ان کی نشر و اشاعت کا انتظام کیا۔ (1)

اگر چہ حاجی میرزا آقاسی کی صدارت کے دور میں صوفیوں کے امور کی طرف جھکاؤ نظر آیا اور محمد شاہ قاجار نے بھی اس پر اپنی رضامندی دکھائی تھی۔ لیکن میرزا تقی خان امیر کبیر کی صدارت کے دور میں صوفی و درویش مسلک عناصر کو حکومت و سلطنت سے مربوط محافل اور اداروں سے نکال دیا گیا اور بدعات و خرافات کا قلع قمع کیا گیا۔ گوشہ نشینی اور خانقاہوں کی رسم ختم کر دی گئی۔ نیز مذہبی بانفوذ شخصیات مثلاً میرزا ابوالقاسم جو کہ امام جمعہ تھے، کی سفارش قبول کرنے سے پرہیز کیا گیا وہ (امیر کبیر) فقط اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ علماء دین دینی اور شرعی امور میں قوت و طاقت سے فعالیت انجام دیں اور دین کو کمزور پڑنے کا موقع نہ دیں لیکن اس سیاست کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ استعمار کی فرقہ سازی اور انہیں نشر و اشاعت دینے والی سیاست کی بھی روک تھام کریں، اس حوالے سے سب سے واضح مثال فتنہ بابیہ کے مقابلے میں ان کا علماء کی حمایت کرنا۔ قضاوت کے امور میں بھی انھوں نے شرعی اور عرفی قوانین کی ترکیب اور امتزاج کیلئے اقدامات انجام دے اور اقلیتوں کے حقوق اور ان کی دینی آزادی کے حوالے سے بھی خاص توجہ کی(2)

۔۔۔

1) موسی نجفی و موسی فقیہ حقالی، تاریخ تحولات سیاسی ایران، بررسی مؤلفہ ہای دین، حاکمیت، مدنیت و تکوین دولت۔ ملت در گسترہ ہویت ملی ایران، تہران، موسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران، ص 119۔ 118۔

2) دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ج 10، ذیل امیر کبیر ( علی اکبر ولایتی)۔

۔۔۔۔۔

مجموعی طور پر امیر کبیر کی علماء کے کردار کو محدود کرنے والی مذہبی پالیسی نے اسلامی بیداری کی تحریک کی اعانت کی۔ انہوں نے دینی میدانوں میں آگاہی اور مختلف امور کے علمی اور عقلانی پہلو کو ترجیح دی، توہمات اور خرافات کا مقابلہ کیا درباری ملاؤں کی فعالیت کو کم کیا، آئمہ جمعہ، نظام العلماء و سلطان الذاکرین جیسے القاب والے علماء دین کے اختیارات کو کم کیا ان تمام امور کے ساتھ انہوں نے نادانستہ طور پر بتدریج اسلامی بیداری کی تحریک کی حمایت کی۔ جبکہ میرزا آقا خان نوری کی صدارت کے دور میں معاملہ الٹ ہو گیا درباری ملاؤں اور حکومت کی حامی اور باعتماد مذہبی قوتوں کو فعالیت کا زیادہ موقعہ ملا اور بعض علماء کی نظر مساعدت لینے کیلئے حکومتی وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔ (1)

میرزا حسین خان سپہسالار کے دور میں بھی دینی اداروں کو کمزور کیا گیا اس کی مغرب زدہ اصلاحات اور غیر ملکیوں کو امتیازی حیثیت دینا علماء کی مخالفت اور اعتراض کا باعث قرار پایا، سپہسالارکی اصلاحات لانے کی ایک روش یہ تھی کہ ناصر الدین شاہ کو فرنگیوں کے ملک کی طرف سفر کی ترغیب دی جائے تا کہ وہ مغربی ترقی کا مشاہدہ کرے۔ چونکہ سپہسالار کی مطلوبہ اصلاحات واضح طور پر مغربی زندگی کے قوانین اور اصولوں کی تقلید پر مبنی تھیں اور بہت سے امور میں تو یہ اصلاحات اسلامی قوانین اور شریعت کی مخالف بھی تھیں اس لیے دینی حلقے اس کے مخالف ہو گئے۔

اس مخالفت کی دوسری وجہ انگریزوں کو رویٹر کا اختیار عطا کیا جانا تھا۔ علماء دین بالخصوص ملا علی کنی کی نظر کے مطابق حکومت کی جانب سے اغیار کو رعایتیں اور اختیارات دینے سے ان کی ایران میں زیادہ سے زیادہ مداخلت کا راستہ ہموار ہو جاتا تھا۔ (2) ناصر الدین شاہ اور سپہسالار کے فرنگستان سے واپسی سے پہلے یہ اعتراضات سامنے آئے تو انہوں نے بادشاہ سے خط کے ذریعے مطالبہ کیا کہ سپہسالار کو ایران نہ لائے۔

۔۔۔۔

1) حامد الگار، سابقہ حوالہ، ص 236۔

2) حسین آبادیان، اندیشہ دینی ضد ریم در ایران، ص 50۔ 49۔

۔۔۔

یہ خطوط بادشاہ کو رشت میں موصول ہوئے ناصر الدین شاہ نے مجبوراً سپہسالار کو صدارت سے معزول کیا اور گیلان کا حاکم مقرر کیا اور اس کے بغیر تہران میں داخل ہوا (1) کیونکہ علماء نے بادشاہ کو خبردار کیا تھا کہ سپہسالار کو معزول نہ کرنے کی صورت میں وہ سب ایران سے چلے جائیں گے۔ بادشاہ نے یہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے تہران میں داخل ہونے کے بعد ملا علی کنی کی زیارت کیلئے حاضر ہوا اور مراتب احترام بجا لایا تا کہ علماء کی ناراضگی کم ہو، حاج ملا علی کنی کا سپہسالار سے طرز عمل قاجاریہ دور میں دینی اداروں اور شیعہ علماء کی قاجاری حکومت کے اراکین سے طرز عمل کی تمباکو کی تحریک سے پہلے کی واضح ترین مثال تھی (2)

سپہ سالار کے حوالے سے علماء کے سخت طرز عمل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سپہسالار عدلیہ کے وزیر کے عنوان سے یہ کوشش کر رہا تھا کہ شرعی قاضی و مرجع کے عہدوں پر مجتہدوں کے انتخاب کا اختیار حکومت کے پاس ہو (3) ملا علی کنی کی قیادت میں دینی قوتوں کے حکومت سے مسلسل ٹکراؤ کی وجہ سے آخر کار ویٹر کی رعایت و اختیار کو لغو کر دیا گیا۔ (4)

حاج ملا علی کنی کو اس زمانہ میں رئیس المجتہدین کا لقب حاصل ہوا تھا وہ ان اقدامات کا مقابلہ کرتے تھے کہ جو دین، حکومت اور لوگوں کیلئے مضر ہوں وہ ایک ماہر دینی سیاست دان کی حیثیت سے سیکولر اور دین مخالف روشن فکر حضرات کے افکار اور اقدامات پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں ایسے روشن خیال لوگوں میں سے ملکم خان ناظم الدولہ اور فتح علی خان آخوند زادہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ افراد بھی سپہسالار کے مذہبی پالیسی سازوں کی حیثیت سے سیکولر افکار و نظریات پیش کرتے تھے اور اقدامات انجام دیتے تھے۔ (5) میرزا ملکم خان کی بہت زیادہ کوشش تھی کہ ایک مذہبی شخصیت کے خول میں رہتے ہوئے اپنے جدت پر مبنی اہداف کو پیش کرے وہ عقائد اور فکری بنیادوں کے حوالے سے مغربی مادی مکاتب کا معتقد تھا۔ اگر وہ ان کو پنہان رکھتا تھا تو یہ سب مصلحت اندیشی کی بناء پر تھا چونکہ اس کے یہ عقائد اور اہداف ظاہر ہونے کی صورت میں وہ مسلمان معاشرہ سے دھتکار دیا جاتا۔

۔۔۔۔۔

1) احمد کسروی، تاریخ مشروطہ ایران، ج 1، تہران، امیرکبیر، ص 10۔

2) محسن بہشتی سرشت، نقش علماء در سیاست از مشروطہ تا ا نقراض قاجار، تہران، پوہشکدہ امام خمینی و انقلاب اسلامی، ص 81۔ 77۔

3) صادق زیبا کلام، سنت و مدرنیتہ، ریشہ یابی علل ناکامی اصلاحات و نوسازی سیاسی در ایران عصر قاجار، تہران، ص 294۔ 293۔

4) موسی نجفی، تعامل دیانت و سیاست در ایران، موسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران ص 100۔ 89، ابراہیم تیموری، عصر بی خیری با تاریخ امتیازات در ایران، تہران، ج جہاد، ص 112۔ 108۔

5) عبدالہادی حائری، تشیع و مشروطیت در ایران و نقش ایرانیان مقیم عراق، تہران، امیرکبیر چ دوم، ص 47۔ 40، 29۔ 26۔

۔۔۔۔۔

وہ 1289 قمری میں تفلیس میں قیام کے دوران اپنی اخوند زادہ کے ساتھ گفتگو میں دین کو عقل کی نابودی، نقل کو عقل پر ترجیح دینے اور عقل کے محبوس ہونے کا سبب سمجھتا تھا۔ یا اس نے لندن میں کسی مسئلہ میں ” ایرانی مدنیت ” کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے واضح کیا ہ وہ اپنے جدت پر مبنی نظریہ اور غربی تہذیب کے اقتباس کو دینی لفافہ میں ڈال کر پیش کرے گا کیونکہ وہ اسی راہ کو فقط مسلمانوں کی ترقی کی ضمانت سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کو فقط یہی بتایا جائے کہ مغربی ترقی کی اساس اسلامی اصولوں کے منبع سے لی گئی ہے اورمسلمان اس مغربی تہذیب میں ڈھل کر اپنے آپ کو اور جوان کا سرمایہ تھا اسے پھر پا لیں گے۔ (1)

بعض لوگوں نے ملکم خان کے متضاد اقوال اور کردار کی بناء پر اسے دورو اور منافق سے تعبیر کیاہے۔ اور وہ اس کی موقع پرستی اور خودغرضی جیسی خصلتوں کی مذمت کرتے ہیں۔ میرزا ملکم خان ایران میں سب سے پہلا فری میسن تھا جس نے اس ادارہ کو تشکیل دیا (2) لا تاری کے اختیارات عطا کرنے والے مسئلہ میں ملکم خان کی مالی اور سیاسی خیانت و رسوائی اپنے عروج کو پہنچی، اس زمانہ میں بعض کم فہم لوگ ان تمام دلائل کے باوجود اس کے دعووں کا فریب کھائے ہوئے تھے لیکن حاج ملا علی اس کا اصل چہرہ پہچان چکے تھے لہذا انہوں نے ناصر الدین شاہ کو اپنے ایک خط میں ملکم کے فری میسن ہونے اور اس کے عقائد کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے وہاں سے نکالے جانے پر زور دیا(3)

۔۔۔۔

1) حجت اللہ اصیل، زندگی و اندیشہ ای میرزا ملکم خان ناظم الدولہ، تہران، ص 83۔ 82۔

2) محمد مددپور، سیر تفکر معاصر، تجدد و دین زدایی در اندیشہ میرزا ملکم خان ناظم الدولۃ، تہران، ص 37۔ 33۔

3) موسی نجفی، سابقہ ماخذ، ص 104۔ 100۔

۔۔۔۔

1306 قمری میں ناصر الدین شاہ نے فرنگ کی طر ف اپنے تیسرے سفر کے ضمن میں سگریٹ اور تمباکو کی

صنعت کے اندرونی اور بیرونی معاملات کے حقوق ایک انگریز کمپنی کو عطا کر دیے البتہ اس قرار داد پر دستخط 1308 قمری اور 1890 عیسوی میں ہوئے۔ چونکہ اس قرارداد کی رو سے ہزاروں کسانوں، مزدوروں اور تاجروں کے مفادات اور ایران کا اقتصاد اغیار سے وابستہ ہو گیا تھا اس لیے یہ نقصان دہ ترین قرار دادوں میں سے شمار ہوتی تھی۔ نیز اس قرارداد کے ضمن میں علماء کے مقام اور کردار کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا تھا۔

لیکن کچھ عرصہ ہی نہ گذرا تھا کہ شیعہ علماء اور تجار نے متحد ہو کر اس قرار داد کی مخالفت میں قیام کیا۔ علماء نے اس لیے قیام کیا کہ ان کے تجزیہ کے مطابق یہ قرارداد ایک غیر ملک کے اسلامی مملکت کے ایک حصہ پر تسلط اور قبضہ کا وسیلہ تھی اور اس سے دینی اہداف اور اسلامی معاشرہ کا دینی تشخص خطرہ میں پڑ رہا تھا جبکہ تاجروں کی مخالفت کی وجہ ان کے اقتصادی مفادات کو بہت بڑا ضرر پہنچ رہا تھا لہٰذا یہ سب مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ انگریزوں کا ایران میں ایک بڑی تعداد کے ساتھ داخل ہونا اور ان کے افعال و کردار اور اقدامات کا لوگوں کے عقائد و تہذیب کے منافی ہونے کی وجہ سے اس کمپنی کی مخالفت روز بروز بڑھتی گی اور بتدریج علماء کی قیادت میں ایک بہت بڑے احتجاج کی شکل اختیار کر گئی۔ (1)

۔۔۔۔

1) حسین آبادیاں، سابقہ ماخذ، ص 80۔ 71۔

۔۔۔۔۔۔

بیداری کی اس تحریک میں علماء شیعہ اور دینی قوتوں کو ایک تاریخی موقعہ ملاتا کہ ثابت کریں کہ وہ لوگوں کو ساتھ ملا کر اندرونی آمریت اور بیرونی استعمار پر غلبہ پا سکتے میں اور میرزا شیرازی کے تمباکو کی حرمت پر تاریخی فتوی سے واقعاً ایسا ہی ہوا اور علماء کو دونوں ہی اہداف حاصل ہو گئے، حکومت نے اس وسیع احتجاجی تحریک کے سامنے پسپائی اختیار کی اور اس قرارداد کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ملا محمد علی ھید جی کے رسالہ ”دخانیہ ”کی تحریر کے مطابق میرزا شیرازی کے حکم کی پہلے نصف روز تک ایک لاکھ کاپیوں کی تقسیم نے ایرانیوں اور غیر ملکوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ھیدجی تحریر کرتے ہیں کہ یہاں تک کہ ناصر الدین شاہ کی بیگمات اور نوکروں نے سگریٹ اور تمباکو استعمال کرنا چھوڑ دیا، کوئی بھی کسی سڑک پر تمباکو استعمال کرتا ہوا یا خرید و فروخت کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا بلکہ مشہور تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے بھی اس حرمت شرعی کا خیال رکھا(1)

اہم نکتہ یہاں یہ ہے کہ علماء اور لوگوں کے باہمی جوش و خروش پر مشتمل اس تحریک کا روح رواں نظریہ یہ تھا کہ موجودہ حکام کی حکومت کے کچھ حد تک جواز کی شرط یہ ہے کہ وہ مملکت ایران کی تمام زمینی سر حدوں اور لوگوں کے دینی عقائد و نظریات کی نگہبان ہو، ا س چیز نے شیعہ سیاسی نظریہ کی اساس کو تشکیل دے دیا تھا اور اس نظریہ کے مطابق سلاطین اور بادشاہوں کی حکومت و طاقت اصل میں غیر شرعی اور ناجائز ہے سوائے اس کے کہ وہ نظم و ضبط پر کنٹرول کرے۔

دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس دور میں شیعہ مسلک لوگوں کے اتحاد اور فکری یکجہتی میں ایک اہم عنصر کی صورت میں ابھرا۔ اس تحریک سے یقیناً ثابت ہو چکا تھا کہ قاجاری بادشاہ اب بھرپور انداز سے حکومت چلانے کی طاقت نہیں رکھتا اور کسی صورت میں بھی بادشاہ کی حکومت و طاقت میں عنوان الوہیت موجود نہیں ہے، آخری نکتہ یہ ہے کہ اس بڑی آزمائش کی گھڑیوں میں لوگوں کو بیدار کرنے سے مراجع اور مجتہدین کی سیاسی اہمیت ثابت ہو چکی تھی اور اس مسئلہ کے بعد نجف میں مقیم ایرانی مجتہدین اور مراجع، مشروطہ کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد زیادہ اطمینان کے ساتھ لوگوں کی سیاسی قیادت اور رہبری میں اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہے لہذا یہ تمباکو کی تحریک اس مشروطیت کی تحریک کیلئے ایک پیش خیمہ تھی کہ جو تقریباً پندرہ سال کے بعد وجود میں آئی(2)۔

شاہ ناصر قاجار کے زمانے میں ایک اور بیداری کی تحریک کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ سیدجمال الدین (افغانی) اسدآبادی کی صورت میں تھی۔ سیدجمال ایران میں کچھ حد تک اسلامی علوم حاصل کرنے کے بعد نجف کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں ان کے تعلیمی اور ضروریات زندگی کے اخراجات شیخ مرتضی انصاری نے اپنے ذمہ لیے۔ سید جمال نے نجف میں چار سال تک تعلیم حاصل کی (3)۔

۔۔۔۔

1) محمد علی ھیدجی، رسالہ دخانیہ، علی اکبرولایتی کی سعی سے، تہران، ص 53، 52۔

2) حسین آبادیان، سابقہ ماخذ، ص 192۔ 189۔

3) سیدعباس رضوی ” سیدجمال الدین فرزند حوزہ” سید جمال، جمال حوزہ، با سعی مصنفین مجلہ حوزہ قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ص 229۔ 225۔

۔۔۔۔

سید جمال کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ وہ دینی حوزات اور علماء کے ذریعے ایرانی اور دیگر اسلامی معاشروں اور اقوام کو بیدار کریں۔ اسی لیے جب وہ کسی شہر یا ملک میں سفر کے دوران علماء کے استقبال کا محور قرار پاتے تو ان سے تفصیلی تبادلہ خیال کرتے۔ (1)

ان کی بیداری گر تحریک کا اہم ترین نظریہ اسلامی یکجہتی کا نظریہ تھا وہ کوئی شک و تردید نہیں رکھتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان سب سے مستحکم تعلق دینی تعلق ہے(2) لہذا ان کی سب سے اہم فعالیت یہ تھی کہ انہوں نے اسلامی معاشروں اور مسلمانوں کو جداگانہ تشخص بخشا۔ ان کے نعرے ”اسلام کی طرف پلٹنا”، ” قرآن کی طر ف پلٹنا” یا ” سلف صالح کی سنت کا احیاء کرنا” یہ سب مسلمانوں کو ان کے نئے تشخص سے روشناس کروانے کیلئے تھا۔ وہ مسلمانوں کی یکجہتی کا محور قرآن کو سمجھتے تھے۔ عروۃ الوثقی میں لکھتے میں کہ میری آرزو یہ ہے کہ سب مسلمانوں کا سلطان قرآن ہو اور ان کی وحدت و یکجہتی کا مرکز ایمان ہو۔ (3)

سیدجمال تمام مسلمانوں کی یکجہتی کے نظریہ کے ساتھ ساتھ ایران کے حالات اور وہاں بیداری کی ضرورت پر خاص توجہ رکھتے تھے۔ میرزا شیرازی کی طرف ان کا خط، قاجاری حاکموں کی بے دینی اور اغیار کے اقتصادی تسلط کے خطرات کے خلاف ان کی تقریروں کا اسلامی بیداری میں بہت زیادہ کردار ہے۔ (4)

۔۔۔۔۔

1) سابقہ ماخذ، ص 240۔ 235۔

2) غلام حسین زرگری ناد ” کاوشی در اندیشہ ہای سیاسی سیدجمال الدین اسدآبادی، اندیشہ ہا و مبارزات، با سعی غلامحسین زرگری و رضا رئیس طوسی، تہران، ص 35۔

3) حامد اسگار، سابقہ ماخذ، ص 295۔

4) سابقہ ماخذ، ص 302۔

۔۔۔۔۔

سیدجمال ایک طویل مدت تک مسلمانوں میں احتجاجی روح پھونکنے کے وجہ سے تحریک مشروطیت میں بہت سا حصہ رکھتے تھے۔ نے اعلانیہ ایران کے صدر اعظم اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اصلاح، آزادی عدالت اور قانون کو مد نظر رکھیں کہ یہ چیز ان کی ایران سے ملک بدری کا موجب بنی۔ وہ بہت سے دوسرے حریت پسندوں سے بھی خط و کتابت اور رابطہ رکھتے تھے اور ان کی آمریت کے خلاف قیام کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے(1)۔

مظفرالدین شاہ قاجار جب بادشاہ بنا( 1313قمری) تو اس وقت تمباکو کی حرمت کے فتوی کے بعد بظاہر حکومت کے علماء سے تعلقات بہتر ہو رہے تھے۔ لیکن حکومت کی طرف سے بلجیم ناد (ناز)کو ایرانی کسٹم کے ادارہ کا سربراہ مقرر کرنے اور اس کے ایرانی اور غیر ملکی تجار کے مابین جانبدارانہ سلوک اور عیسائی تجار کو نوازنے کا عمل ایرانی علما اور تجار کے اعتراض کا باعث قرار پایا۔ تہران میں مجتہد تفرشی، آیت اللہ میرزا ابوالقاسم طباطبایی اور دیگر شخصیات نے پروگرام بنایا کہ امین السلطان کو بر طرف کیا جائے جو اغیار کو مسلمانوں کے امور پر مسلط کرنے کا سبب تھا بتدریج شیخ فضل اللہ نوری بھی مخالفین کی صفوف میں داخل ہو گئے۔ نجف میں سکونت پذیر ایرانی علماء کے ایک گروہ کہ جن میں ملا محمد کاظم خراسانی جیسی علمی شخصیات شامل تھیں نے خطوط بھیجتے ہوئے اس مسئلہ پر اپنا اعتراض پیش کیا۔ (2) بالاخر 1221 قمری جمادی الثانی میں انہوں نے میرزا علی اصغر خان اتابک امین اسلطان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا(3) آخر کار بادشاہ کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ امین السلطان کو برطرف کرتے ہوئے اس کی جگہ عین الدولہ کو مقرر کرے۔

بتدریج علماء دین کی خود بادشاہ مظفر الدین شاہ سے بھی مخالفت شروع ہو گئی اس مخالفت کے بنیادی اسباب غیر ممالک سے قرضوں کا حصول، فرنگیوں کے ملک کے پر تعیش سفر، اغیار کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، ملکی صنعتوں کا زوال اور اس قسم کے دیگر مسائل تھے۔ (4)

۔۔۔۔

1) مقصود فراستخواہ”سید جمال الدین و نواندیشی دینی”، تاریخ و فرہنگ معاصر، سال پنجم شمارہ 3، 4۔ ص 212۔ 201۔

2) احمد کسروی، سابقہ ماخذ، ج 1، ص 31۔ 29۔

3) ہاشم محیط مافی، مقدمات مشروطیت، مجید تفرشی اور جواد جان خدا کی سعی سے، تہران ص 74۔

4) عبداللہ مستوفی، شرح زندگانی من یا تاریخ اجتماعی و اداری دورہ قاجار، ج2، ص 62۔ 61۔

۔۔۔۔

لیکن دینی طبقے کی پیدا کردہ بیداری کی لہریں ان مسائل سے کہیں زیادہ و سعت سے پھیل رہی تھیں اس زمانہ میں بیداری کے مراحل واضح طور پر ارتقاء کے مقام کو پار ہے تھے۔

مشروطہ کی تحریک میں بیداری اور آگاہی کا ایک وسیلہ اس تحریک کی موافقت یا مخالفت میں شایع ہونے والے جرائد و رسائل تھے۔ یہ جرائد و رسائل علماء اور اصولی مکتب سے وابستہ دانشوروں کی سعی سے سامنے آرہے تھے اور ان کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ لوگ اس تحریک کے تمام پہلوؤں سے آشنا ہوں اور اس تحریک کے اسلامی احکام سے مطابقت اور تضاد کو اچھی طرح جان لیں (1)

اس دور میں اسلامی بیداری کی تحریک اور دینی مکتب کیلئے ایک اہم مسئلہ فکری اور عملی میدان زندگی میں مغرب پسندی کی لہر کا سامنا تھا۔ ایرانیوں کے مغربی دنیا سے مختلف شعبوں مثلاً تجارت، سیاحت، تعلیم وغیرہ میں بڑھتے ہوئے تعلقات اور جدید مغربی کلچر کے حامل انسٹیٹیوٹس کا قائم ہونا اور جدید مغربی شہریت کے ضوابط کا رائج ہونا البتہ یہ ضوابط مغربی شہریت کے ظاہری اور اور نمایشی پرت سے لیے گئے تھے، ان سے دینی نظریات کے احیاء کی تحریک کو بڑھنے میں دشواریاں پیش آنا شروع ہو ئیں اور ساتھ ساتھ علماء کی آراء و افکار میں تناقص و تضاد نے بھی ان دشواریوں کو دو چند کر دیا۔

محمد علی شاہ کی آمریت کے دور میں نجف میں سکونت پذیر علماء جو ایران کے سیاسی دباؤ اور گھٹن سے دور تھے، نے ایرانی علماء کی نسبت زیادہ آسانی سے مشروطہ کی تحریک اور حریت پسندی کو جاری رکھا انہوں نے محمد علی شاہ کی آمرانہ حکومت کے حتمی خاتمہ اور کافر روسی سپاہیوں کے ایران سے نکلنے پر زور دیا(1)

۔۔۔۔۔۔

1) مزیدمعلومات کیلئے رجوع فرمائیں۔ غلام حسین زرگری ناد، رسائل مشروطیت، تہران۔ حسین آبادیان، مبانی نظری حکومت مشروطہ و مشروعۃ، تہران، ص 243۔ 132۔

2) عبدالہادی حائری، سابقہ ماخذ، ص 109۔

۔۔۔۔۔۔۔

نجف کے تین بزرگ علماء (تہرانی، خراسانی اور مازندرانی) نے اپنے ایک خط میں عثمانی حکومت سے ایران میں محمد علی شاہ کی حکومت کے خاتمہ اور روسیوں کے اخراج کیلئے مدد مانگی اس زمانہ میں عثمانی حکومت اسلامی وحد ت کے نظریہ کی حامی تھی۔ البتہ یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ سنی خلیفہ سے مدد مانگنے کی ضرورت اس زمانہ کے تقاضوں اور مشکلات کی بناپر محسوس ہوئی ایران کے اندر بھی محمد علی شاہ اور روسی افواج کے خلاف تحریک شروع تھی۔ نجف کے بزرگ علماء اپنے مقلدین کے ہمراہ ایران کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہونے والے تھے۔ کہ تحریک مشروطہ کی کامیابی، اصفہان اور گیلان سے افواج کا تہران میں داخل ہونا اور محمد علی شاہ کے فرار اور روسی سفارت خانہ میں پناہ لینے سے یہ پروگرام ملتوی ہو گیا۔ (1)

ان سالوں میں علماء کی دوسری تحریک 1329 اور 1330 کے دوران روس کی طرف سے ایران کو الٹی میٹم دینے سے پیدا ہونے والے بحران کے رد عمل کے طور پر سامنے آئی۔

دوسرے دور کی قومی پارلمینٹ نے اقتصادی امور کی بہتری کیلئے مورگن شاسٹراور دیگر چار امریکی مشیروں کا تقرر کیا۔ وہ ایران آئے اور انہوں نے مالی شعبہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ روس اور انگلینڈ نے شدت کے ساتھ ان کی مخالفت کی روس نے ابتداء میں تو زبانی کلامی پھر 7 ذی الحجہ 1339 کو تحریری طور پر ایران کو الٹی میٹم دیا کہ شاسٹر کو نکال دیا جائے پھر اس کے بعد فوراً ہی ایران کے بعض شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تبریز میں ثقۃالاسلام تبریزی کو پھانسی دی، مشہد میں امام رضا (ع) کے حرم پر گولہ باری کی اور لوگوں کو محصور کر لیا۔

سپیکر پارلیمنٹ نے نجف میں موجود آخوند خراسانی اور دیگر علماء کی طرف ٹیلی گراف بھیجتے ہوئے ان سے در خواست کی کہ وہ اسلامی ذمہ داری کے حوالے سے اقدام کریں اس درخواست کے جواب میں علماء نجف نے ایران کی خودمختاری کے دفاع کیلئے اقدامات انجام دیے انہوں نے درسی کلاسوں کی تعطیل کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کیا اور لوگوں کو کاظمین میں جمع ہونے کی دعوت دی تا کہ ایران کی طرف روانہ کیا جائے، اسی طرح قبائل کے سرداروں سے بھی مذاکرات ہوئے کہ وہ اپنے مسلح لشکروں سمیت روس کے خلاف جہاد میں شرکت کریں اور انہوں نے بھی قبول کیا۔ لیکن روانگی سے ایک روز قبل آخوندخراسانی کی وفات سے یہ پروگرام التواء کا شکار ہو گیا۔

۔۔۔۔

1) سابقہ ماخذ ص 117۔ 110۔

۔۔۔۔۔

کچھ مدت کے بعد آیت اللہ عبداللہ مازندرانی کی قیادت میں یہ پروگرام دوبارہ شروع ہوا تیرہ مجتہدین اور علماء کی منتخب انجمن تشکیل پائی اور اس انجمن کی روحانی صدارت (آخوند خراسانی کے فرزند) آقا میرزا مہدی آیت اللہ زادہ خراسانی کے کندھوں پر رکھی گئی بہت سے جہادی فتاوی صادر ہوئے اور مجتہدین نے ملت ایران کو متحد ہو کر دشمن سے مقابلہ کرنے پر زور دیا۔ اور ایران کے سرکاری عہدیداروں کو متعدد ٹیلی گراف بھی بھیجے گئے۔

علماء کرام اغیار کی یلغار کو ایران کی خود مختاری اور سالمیت کیلئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے اس دینی طبقے کی تحریک میں میرزا محمد تقی شیرازی، سید اسماعیل صدر اور شیخ الشریعہ اصفہانی بھی کاظمین میں علماء کے اجتماع سے پیوست ہو گئے، اگر چہ کہ وہ مشروطہ حکومت کے زیادہ حامی نہیں تھے لیکن ایرانی حکومت نے اس مسئلہ کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء کی ایران کی طرف جہاد کے عنوان سے روانگی کی مخالفت کی اور اس منتخب انجمن سے تقاضا کیا کہ لوگوں کو ان کے شہروں کی طرف لوٹا دیا جائے اور جہاد کا پروگرام ملتوی کر دیا جائے علماء بھی کاظمین میں تین ماہ کے اجتماع کے بعد نجف اور کربلا کی طرف لوٹ گئے اور یہ تحریک بغیر کسی عملی نتیجے کے ختم ہو گئی۔ (1)

لیکن اس تحریک سے واضح ہوا کہ شیعہ مرجعیت ایک طاقتور سیاسی طاقت میں تبدیلی ہو چکی ہے اور قلیل مدت میں عوامی گروہوں کو تیار کرسکتی ہے اور یہ مسئلہ شیعوں کے شعور و آگاہی میں ترقی کو ظاہر کرتا ہے اور بیداری اور احیاء کی تحریکوں کے مابین ان کے نفوذ کو واضح کرتا ہے۔

۔۔۔۔

1) حسن نظام الدین زادہ، ہجوم روس و اقدامات رؤسای دین برائے حفظ ایران، بہ کوشش نصر اللہ صالحی تہران، ص 24۔ 3۔

۔۔۔۔۔

احمد شاہ قاجار کے زمانہ حکومت میں ایرانی معاشرہ کو ایک کمزور حکومت اور بد امنی کے حالات کا سامنا تھا اس غیر مناسب صورت حال میں اصلاحی اور بیداری کی تحریک بھی جمود کا شکار ہو گئی۔ اور یہ تحریک جس کی بناء پر آئندہ سالوں میں رضا خان کی قیادت میں تشکیل پانے والی آمرانہ حکومت سے بچا جا سکتا تھا ایک مستحکم حکومت کے قیام اور امن و امان کی صورت حال کو درست کرنے کے گرما گرم موضوع کے نیچے دب گئی۔ (1)

البتہ اس دور میں بالخصوص پہلوی حکومت کی تشکیل کے قریب ترین سالوں میں بہت سی اسلامی رنگ و روپ کی حامل تحریکیں اور گروہ وجود میں آئے لیکن یہ بھی ایک مرکزی مستحکم حکومت اور امن و امان کی ضرورت کے مسئلہ کے پیش نظر ختم ہو گئیں، ان تحریکوں کے کامیاب نہ ہونے کی دوسری وجہ شیعہ مکتب کے بانفوذ علماء اور دینی مراجع کی ان تحریکوں کو سرپرستی کا حاصل نہ ہونا تھی نیز یہ تحریکیں ایک مخصوص اسلامی فکر کی حامل تھیں کہ جن کی بناء پر دینی مراجع و مراکز ان کی حمایت نہیں کرسکتے تھے۔

اس کے علاوہ یہ گروہ اور تحریکیں وقت کی قلت کی وجہ سے اپنی تحریک اور اس کے صحیح مقاصد سے آگاہ نہ کرسکیں جس کی وجہ سے یہ زیادہ عرصہ نہ چل سکیں اور غیرملکی استعمار نے بھی انہیں ناتوان کرنے میں براہ راست کردار ادا کیا کیونکہ بعض تحریکیں مثلاً تحریک جنوب غیر ملکیوں کی ایران میں موجودگی اور تجاوز کے خلاف تھی۔

میرزا کوچک خان جنگلی کی قیادت میں تحریک جنگل ان حالات میں وجود میں آئی کہ سرزمین ایران کا گوشہ گوشہ اغیار کے تسلط سے ایران کو آزاد کرنے اور بدامنی کی صورت حال کو ختم کرنے کیلئے انقلابات لانے کیلئے تیار تھا۔ میرزا کوچک خان نے تہران میں تنظیم اتحاد اسلام سے رابطہ کرنے اور ان سے بحث و مناظرہ کرنے کے بعد اس ہدف کو پانے کیلئے ایک تحریک شروع کی کہ جب کوئی حکومت اپنی مملکت کو اغیار اور دشمنوں کے تسلط سے آزاد نہ کرسکے تو ملت کا فرض ہے کہ اپنے وطن کو نجات دے۔

۔۔۔۔۔

1) علی رضا ملایی توانی، مشروطہ و جمہوری، ریشہ ہای نابسامانی نظم دوکراتیک در ایران، تہران، گسترہ 1381، ص 175۔ 162۔

۔۔۔

انہوں نے ایران کے شمالی جنگلوں سے قیام کا آغاز کیا اور یہ قیام شوال 1333 قمری سے لیکر ربیع الثانی 1340 قمری تک جاری رہا۔ انہوں نے اپنی سیاسی کاوش کا آغاز مذہبی و روحانی طبقے کی ہمراہی میں کیا، انقلاب مشروطہ کے دوران اور ان کے بعد کے حالات میں وہ آمریت کے ساتھ جنگ کرتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دو ران وہ گیلان کی طرف چلے گئے اور” انجمن اتحاد اسلام” کے عنوان سے ایک مخفی تنظیم کو تشکیل دیا اور بتدریج مجاہدین کو اپنی ساتھ شامل کیا۔ چند سال کے مقابلہ و جنگ کے بعد اس تنظیم کو بعض واقعات میں ہزیمت کا سامنا ہوا بالخصوص سرخ بغاوت کے واقعہ میں آخر کار وثوق الدولۃ کی حکومت، انگلستان اور روس کے باہمی مشترک حملہ سے جنگل کی اس تحریک کو شکست ہوئی۔ (1)

پہلوی حکومت کی تشکیل کے قر یب ترین دور میں دیگر اسلامی عناوین کی تحریکوں میں سے تبریز میں شیخ محمد خیابانی کا قیام قابل ذکر ہے۔ یہ قیام در اصل 1919 عیسوی میں وثوق الدولۃ کی حکومت کی انگلستان سے قرار داد کا رد عمل تھا۔ البتہ اسی دوران ملک کے دیگر مناطق میں اور بھی احتجاجی قیام سامنے آئے کہ جو قرار داد کے مخالف تحریکوں کے عنوان سے معروف ہوئے۔ (2) اس قرارداد کے مطابق ایران کے عسکری امور، اقتصادی امور، ذرائع ابلاغ کے امور اور دیگر انتظامی امور انگلستان کے کنٹرول میں آ گئے تھے۔

شیخ محمد خیابانی ایک شجاع اور اصول پسند عالم تھے جو قاجاریہ دور کے اواخر میں سامنے آئے اور حریت پسند مجاہد طبقہ سے تعلق رکھتے تھے کہ انہوں نے اس تحریک کے تمام مراحل میں ظلم و آمریت کے حامیوں سے مقابلہ کیا انہوں نے مندرجہ بالا قرار داد، آذربائیجان کی حکومت پر عین الدولہ کے تقرر اور دیگر چند مسائل کے رد عمل میں مرکزی حکومت کے خلاف تحریک کو تشکیل دیا اور آذربائیجان کے امور اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ وہ غیر ملکی قوتوں کے سخت دشمن اور ایران کے داخلی امور میں اغیار کی ہر قسم کی مداخلات کے سخت مخالف تھے وہ بھی میرزا کوچک خان کی مانند اس دھن میں تھے کہ آذربائیجان سے شروع کریں اور مکمل ایران کو اغیار کے تسلط اور استعمار سے نجات دلائیں۔ (3)

۔۔۔۔۔

1) نہضت جنگل بہ روایت اسناد وزارت امور خارجہ، رقیہ سادات عظیمی کی سعی سے، تہران، دفتر مطالعات سیاسی و بین الملل، 1377، ص 18۔ 15 ( مقدمہ )۔

2) داریوش رحمانیان، چالش جمہوری وسلطنت در ایران، زوال قاجار روی کار آمدن رضا شاہ، تہران، نشر مرکز، 1379، ص 42۔

3) علی اصغر شمیم، ایران در دورہ سلطنت قاجار، تہران، علمی، ج 2 ص 603۔ 599، محمد جواد شیخ الاسلامی، سیمای احمد شاہ قاجار، ج 2، تہران، ص 108۔ 90۔

۔۔۔۔۔

اعتراضات بڑھنے کی وجہ سے وثوق الدولۃ نے استعفی دے دیا۔ لیکن خیابانی کی تحریک بھی بعد والی حکومت کے ذریعے دبادی گئی اور خیابانی کے قتل ہونے کے ساتھ ہی یہ تحریک ختم ہو گئی۔ (1)

اہم نکتہ یہ ہے کہ خیابانی اور جنگلی کی تحریک کو اسلامی بیداری کے منظر سے محور تجزیہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کے اسلامی افکار اور اصول پسند علماء کے نظریات میں اساسی فرق تھا، اصول پسند علماء کی اہم خصوصیات یہ تھی کہ وہ دین اور سیاست کے امتزاج پر یقین رکھتے تھے جبکہ ان تحریکوں میں دین کے سیاست سے جدا ہونے پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن امور مسلمین پر کفار اور اغیار کے تسلط کی مخالفت میں یہ باہمی اور مشابہ نظریات رکھتے تھے۔ اور یہ موضوع بعد میں استعمار کی مخالف تحریکوں اور تنظیموں میں اہم تاثیر کا حامل تھا۔

دیگر واقعات میں سے کہ جن میں شیعہ علماء نے رد عمل کا اظہار کیا اور محاذ تشکیل دیا اور اُس موضوع کے خلاف آراء اور نظریات کا اظہار کیا۔ وہ رضا خان کا جمہوریت پسند پروگرام تھا۔ یہ پروگرام سال 1303 شمسی میں اس وقت سامنے آیا کہ جب سلسلہ قاجار کا نظام حاکمیت مکمل طور پر اپنی حیثیت کھو بیٹھا تھا اور ایران کے ہمسایہ ملک ترکی میں جمہوری نظام کا اعلان ہو چکا تھا۔ ایران میں اس پروگرام کے پیش ہونے اور بالخصوص ترکی سے متاثر ہونے نے علماء کو تشویش میں مبتلا کر دیا کیونکہ وہ اس اعلان جمہوریت کو اتا ترک کے اسلام مخالف پروگراموں سے مربوط سمجھتے تھے۔ (2)

جمہوریت کے مخالفین میں سے ایک آیت اللہ سید حسن مدرس تھے کہ جو قومی پارلمنٹ کے رکن بھی تھے۔ (3) جناب مدرس حقیقی جمہوریت کے مخالف نہیں تھے یہ بات وہ کئی بار معترضین کے اعتراض اور تنقید کے جواب میں کہہ چکے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ جمہوریت جو ہم پرمسلط کرنا چاہتے ہیں یہ ملت و قوم کی مرضی پر استوار نہیں ہے بلکہ انگریز ہمیں اسے قبول کرنے پر مجبور کر رہے ہیں تا کہ وہ اپنے سے وابستہ اور سو فیصد اپنی حامی حکومت کو ایران میں تشکیل دے سکیں۔

۔۔۔۔

1) علی اصغر شمیم، سابقہ ماخذ، ص 603۔

2) سلسلہ پہلوی و نیروہای مذہبی بہ روایت تاریخ کمبریج، ترجمہ عباس مخبر، تہران، ج3، ص 22۔ 21، علیرضا ملایی توانی، سابقہ ماخذ، ص 335۔

3) علی دوانی، استادان آیت اللہ شہید سید حسن مدرس، مدرس، تاریخ و سیاست ( مجموعہ مقالات ) موسسہ پوہش و مطالعات فرہنگی، ص 48۔ 44۔

۔۔۔۔۔

اگر ان جمہوریت پسندوں کی طرف سے نامزد شخص ایک ملت پسند اور حریت پسند فرد ہو تو میں ضرور اس کی ہمراہی کروں گا۔ (1)

حقیقت بھی یہی ہے کہ رضا خان کا جمہوری پروگرام کسی بھی طرح سے عوامی حکومت کے نظریہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ اہل فکر و سیاست کے ایک گروہ کی ایک کوشش تھی کہ انہی قوانین اور اداراتی نظام کے دائرہ کا ر میں ہی رہتے ہوئے مصالحانہ انداز سے حکومت کو تبدیل کیا جائے تا کہ ایک طاقتور مرکزی حکومت تشکیل پا سکے۔ گزرتے ہوئے وقت نے ان کے جمہوری نظام کے دعوی کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ (2)

جناب مدرس نے رضا خان کے جمہوری پروگرام کی مخالفت میں علماء کو ابھار نے میں بھی کردار ادا کیا انہوں نے ایران کی معاصر تاریخ کے اس دورانیہ میں ایک قوی سیاسی مجتہد کے مقام پر اپنا کردار کو بنھایا۔ علماء نے بھی قم میں اس پروگرام کی مخالفت میں احتجاجی مظاہرے تشکیل دیے۔ بالاخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود رضا خان نے بھی علما ء کے دامن کا سہارا لیا تا کہ اس جمہوری پروگرام پر ہونے والے اعتراضات اور احتجاج کو ختم کیا جا سکے۔

رضا خان اپنی حکومت کے پہلے دور میں یہ چاہتا تھا کہ اپنے زمانہ کے علماء بالخصوص علماء نجف کی مدد سے اپنے مقاصد کو پورا کرے۔ وہ اس دورانیہ میں بظاہر دین کی طرفداری کے عنوان سے اپنے آپ کو پیش کیا کرتا تھا۔ (3)

۔۔۔۔۔

1) حسین مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، تہران، علمی 1374، ص 495۔

2) علی رضا ملایی توانی، سابقہ ماخذ، ص 358۔ 345۔

3) عبدالہادی حائری، سابقہ ماخذ، ص 192۔ 187۔

۔۔۔۔

اس ترتیب سے جمہوریت پسند تحریک مذہبی قوتوں کی واضح مخالفت اور پارلمینٹ کی قلیل سی حزب اختلاف کی ثابت قدمی سے شکست سے ہمکنار ہوئی۔ (1)

مدرس نے پارلمنٹ کے پانچویں انتخابات کی روش پر بھی اعتراض کیا انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی بنا پر رضا خان کی جھوٹی جمہوریت پسندی کو بے نقاب کیا۔ مدرس نے کم نظیر ثابت قدمی اور مقابلہ کے ساتھ اس شدید دباؤ کے دور میں اسلامی بیداری کے چراغ کو سنبھالے رکھا۔

پہلوی دور کے پہلے مرحلے ( 1320۔ 1304 ) شمسی کواسلامی تہذیب اور دینی اداروں کے ساتھ شدید دشمنی کے دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ رضا شاہ کی آمریت کومستحکم انداز سے تشکیل دینے والے اسباب میں سے ایک سبب مشروطیت پسندی کی تحریک سے علماء کا دل اچاٹ ہونا اور رضا شاہ کا اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے مذہبی مراسم میں مسلسل شرکت کرتے ہوئے دوسروں کو گمراہ کرنا تھا در حقیقت اس حوالے سے اس کے دوغلے پن اور منافقت نے اہم کردار ادا کیا۔ (2) ان سب دشواریوں کے باوجود اسلامی بیداری کی تحریک اسی طرح آگے قدم بڑھاتی رہی۔

پہلوی دور میں ایک اہم واقعہ آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری کی کوشش سے قم کے حوزہ علمیہ کی تشکیل تھی انہوں نے مشروطیت پسندی کی تحریک میں خود کو غیر جانبدار رکھا اور سیاسی محاذوں سے دور رہے۔ ان کی کاوشوں کا عمدہ ترین نتیجہ قم میں حوزہ علمیہ کی تشکیل اور مقامات مقدسہ اور حوزہ علمیہ نجف اشرف سے مرجعیت کے مرکز کو اس حوزہ میں منتقل کرنا تھا کہ جس کے ایرانی معاشرہ اور لوگوں پر بہت زیادہ اثرات پڑے(3)

۔۔۔۔۔

1) علیرضا ملایی توانی، مجلس شورای ملی و تحلیم دیکتا توری رضا شاہ تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تہران، ص 129۔ 119۔

2) سلسلہ پہلوی و نیروہای مذہبی بہ روایت تاریخ کمبریج، سابقہ ماخذ، ص 279۔ 278۔

3) حمید بصیرت منش، علماء و ریم رضا شاہ، تہران، موسسہ چاپ و نشر عروج، ص 236۔ 235۔

۔۔۔۔۔

کچھ عرصہ بعد ہی اس حوزہ نے کمیونسٹ نظریات اور رضا شاہ کے دین مخالف اقدامات کے ساتھ مقابلہ کرنے میں شہرت پائی اور دینی و شرعی مسائل میں لوگوں کے سوالات اور ضروریات کو پورا کرنے کا خلا پر کر دیا مشروطیت کے مسائل اور علما کے انقلاب کے مرکز سے دور ہونے کی بنا پر اس قسم کے حوزہ کی تشکیل کو ایک ناگزیر امر بنا دیا تھا(1) حوزہ علمیہ قم کی تشکیل اور استحکام میں آیت اللہ حائری کی سیاسی احتیاط بہت تاثیر رکھتی تھی۔ انہوں نے حوزہ کے استحکام سے قبل سیاسی حوالے سے افراط و تفریط میں پڑنے سے مکمل طور پر پرہیز کیا۔

آیت اللہ حائری دینی اداروں کے جہاد کی ایک تیسری صورت کو وجود میں لائے اور وہ یہ تھی کہ مغربی تہذیب کی مہلک اور بڑھتی ہوئی لہروں کے مد مقابل حوزہ کی طرف سے صحیح شیعی تہذیب کے احیاء کی تحریک کی بنیاد رکھی۔

اگر ان سے قبل علماء سیاسی اور انقلابی محاذپر استعمار اور آمریت کا مقابلہ کر رہے تھے تو آیت اللہ حائری نے لائیسزم کے خلاف تیسرے محاذ پر توجہ کی اور اسے دین کے مقابلے میں اساسی محاذ شمار کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کیا۔ البتہ آیت اللہ حائری کی طرف سے دینی تہذیب کو مستحکم کرنے کی کاوشوں نے آئندہ دور تک دورس اثرات چھوڑے کہ جن کی بناء پر بالآخر دینی نظریے نے سیکولرزم پر برتری حاصل کر لی اور اسے شکست دی۔ (2)

رضا شاہ کے زمانہ میں ایک اور روشن فکر اور مجاہد عالم آیت اللہ محمد تقی بافقی تھے۔ انہوں نے 29 اسفند 1306 شمسی میں نوروز کی رسوم کی ادائیگی کے موقعہ پر کہ جب کچھ درباری بے حجاب خواتین حضرت معصومہ قم کے حرم میں داخل ہوئیں شدید مخالفت کی جس کی بناء پر انہیں گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد شہر بدر کر دیا گیا۔ (3) ان اعتراضات نے لوگوں اور اخبارات میں رد عمل پیدا کیا۔ اور دین مخالف سیاست کے مقابلے میں مجاہد علماء کے جہاد کو زندہ اور فعال رکھا۔

۔۔۔۔۔

1) حاج شیخ عبدالکریم حائری (مؤسس حوزہ علمیہ قم، عماد الدین فیاضی کی سعی سے، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 66۔ 62۔ تاریخ شفاہی انقلاب اسلامی (تاریخ حوزہ علمیہ قم، ج 1، غلام رضا کرباسچی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 27۔ 26۔

2) موسی نجفی و موسی فقیہ حقانی، سابقہ ماخذ، ص 427۔ 424۔

3) دانشنامہ جہان اسلام، ج 1، ص 1375، ” بافقی” کے ذیل۔ آیت اللہ محمد تقی۔

۔۔۔۔۔

رضا شاہ کی دین مخالف سیاسی حرکات کے مقابلے میں ایک اہم رد عمل 1306 شمسی میں آیت اللہ نوراللہ اصفہانی کی قیادت کی شکل میں سامنے آیا جناب نوراللہ نے 1306 شمسی میں علماء، پیشہ ور حضرات، انجمنوں، تاجر حضرات اور مذہبی طبقہ پر مشتمل ایک تنظیم” اتحاد اسلامی اصفہان” کی تشکیل دی اس تنظیم کا ہدف پہلوی حکومت کی مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی پالیسیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ (1)

1306 شمسی کا قیام بظاہر ”نظام وظیفہ ”کے قانون کے خلاف تھا کہ جس کی رو سے دینی طلاب کیلئے نظام وظیفہ کے عنوان سے سول اور ملٹری سروس (2)کرنا لازمی تھا۔ لیکن حقیقت میں یہ قیام رضا شاہ کی غیر مذہبی سیاست کے خلاف تھا اسی قیام کے سلسلے میں اصفہان کے علماء اور طلاب نے 21 شہریور 1306 شمسی میں قم کی طرف ہجرت کی کہ یہ قیام 4 دی 1306 شمسی (105 روز) تک جاری رہا، آیت اللہ حائری نے مہاجرین کا استقبال کیا اور ان کی خاطر تواضع کرتے ہوئے ان کے نظریات اور اہداف کی نشر و اشاعت کے تمام وسائل اور ذرائع فراہم کیے۔

دربار نے ابتداء میں اس مسئلہ کی پروا نہ کی لیکن جب دربار کے وزیر تیمور تاش نے مہاجرین سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کی، مشہد، ہمدان، کاشان، شیراز اور دیگر شہروں کے علماء اصفہانی مہاجرین کی صفوف میں شامل ہو گئے، پورے ملک سے علماء کی حمایت میں شاہ کو ٹیلی گراف ملنے شروع ہوئے اور نجف کے علماء سے بھی رابط برقرار ہوا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ حکومت قم پر حملے کا پروگرام بنانے لگی(3)

۔۔۔۔

1) حمید بصیرت منش، سابقہ ماخذ، َص294۔

2) یہ نظام اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں رائج ہے جس کے تحت ملک کے ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ شناختی کارڈ لینے اور بعض دوسرے شہری حقوق سے بہرہ مند ہونے کے لیے ایک یا دو سال گورنمنٹ یا فوج کے کسی بھی شعبے میں ٹریننگ کے بعد خدمات سر انجام دے۔ (مصحح)

3) مرجعیت در عرصہ اجتماع و سیاست، محمد حسین منظور الاجداد کی سعی سے، تہران، ص 225۔ 320۔

۔۔۔۔۔

حکومت نے علماء کے مطالبات کو تسلیم کر لیا لیکن علماء نے اس کی موافقت کو حکومت کی طرف سے رسمی بل کی تیاری اور پارلیمنٹ میں اس کی منظوری پر موقوف کر دیا، آخر کار مخبر السلطنۃ، رئیس الوزرا، اور تیمور تاش مہاجرین میں تفرقہ ڈالتے ہوئے اور اپنے وعدہ پر عمل کیے بغیر اس قیام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے اسی درمیان ناگہان آیت اللہ نور اصفہانی کی قم میں وفات نے بھی اس قیام کے بے نتیجہ اختتام میں کردار ادا کیا۔ (1) اگر چہ بظاہر یہ کاوش بے نتیجہ محسوس ہوتی ہے لیکن مختلف شہروں کے علماء اور طلاب کا قم میں اجتماع اور ان کا باہمی معلومات اور نظریات میں تبادلہ خیال اور اس احتجاج کی خبروں کی نشر و اشاعت سے مذہبی قوتوں کو یہ امید ملی کہ وہ آئندہ سالوں میں بھی یہ جہاد جاری رکھ سکتے ہیں، حقیقت میں اس قسم کی تحریکیں ایسے ہمت و صبر کے پیدا ہونے کا باعث بنیں جو آئندہ دور میں بڑے انقلاب کا سبب بنا تھا۔

1307 شمسی سے لیکر 1320 شمسی تک کا دور مذہبی قوتوں اور ان کی فعالیت پر سب سے زیادہ دباؤ اور تنگی کا دور تھا اسی دوران آیت اللہ مدرس کو رضا شاہ کی حکومت کی مسلسل مخالفت کی بناء پر شہر خواف کی طرف شہر بدر کر دیا گیااور آخر کار انہیں شہید کر دیا گیا۔ (2)

رضا شاہ کی حکومت کا ایک اور اہم واقعہ مسجد گوہر شاد کا قیام تھا، 1314 میں یہ واقعہ وقوع پذیرہوا۔ مشہد کے ایک عالم آیت اللہ حسین قمی یورپی طرز کی سبک ٹوپیوں کے رواج پر اعتراض کیلئے تہران آئے تا کہ رضا شاہ تک اپنی شکایت پہنچائیں لیکن انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، ان کی گرفتاری کے رد عمل میں مشہد کی مسجد گوہر شاد میں احتجاجی اجتماع ہوا کہ جو پولیس کے ہاتھوں لوگوں کے قتل عام پر ختم ہوا، یہ حکومت پہلوی کے ہاتھوں 15 خرداد 1343 تک سب سے بڑا قتل عام ہے۔ مشہور واعظ شیخ محمد تقی بہلول افغانستان کی طرف فرار ہو گئے اور آیت اللہ قمی کو عراق کی طرف ملک بدر کر دیا گیا، دیگر علماء اور کچھ مذہبی افراد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا یا جلا وطن کر دیا گیا (3)

۔۔۔۔۔

1) حاج شیخ عبدالکریم حائری، سابقہ ماخذ، ص 88۔ 87۔

2) حمید بصیرت منش، سابقہ ماخذ، ص 335۔ 333۔

3) سلسلہ پہلوی ونیروہای مذہبی بہ روایت تاریخ کمبریج ص 286۔ 285۔

۔۔۔۔۔

مجموعی طور پر ایرانی معاشرہ پر رضا شاہ کی حکومت کا غیر دینی طرز عمل لوگوں اور حکومت کے درمیان فاصلے اور مذہبی قوتوں میں شدت پسندی کے رجحان کے بڑھنے کا موجب بنا اور مذہبی قوتوں کی فعالیت زیر زمین چلے جانے سے بعد میں آتش فشان کی صورت پیدا ہوئی (1) نتیجہ یہ نکلا کہ ان اسلام مخالف سیاسی پالیسیوں نے اپنی مخالف قوت کو عوام میں پھلنے پھولنے کے اسباب فراہم کیے اور تیسرے عشرے کے انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

25 شہریور 1320 میں رضا شاہ کی آمریت کو شکست ہونے اور اس کے ایران سے نکلنے کے بعد یکدم ظلم و آمریت کی زنجیر ٹوٹ گی اور دیگر قوتوں کی مانند مذہبی اور دینی تفکر کی احیا گر قو توں نے بھی خود کو رضا شاہ کی حکومت کے دباؤ سے آزاد پایا۔ اس بہتر سیاسی فضا میں مذہبی قوتوں نے غیر دینی اور زبردستی کی لاگو اقدار کو ختم کرنے اور اسلامی دینی افکار کے احیاء اور لوگوں کی بیداری کے محاذ پر کام کرنا شروع کر دیا، اسی دوران حوزہ علمیہ قم نے لوگوں کی مذہبی راہنمائی کیلئے حوزہ کے تربیت شدہ اور جدید دینی فکر کے حامل سب سے پہلے گروہ کو معاشرہ میں بھیجا تا کہ ایک نئی زندگی کا آغاز ہو۔

تیسرے عشرہ کے اوائل میں مذہبی قوتوں کے جہاد کا محور مندرجہ ذیل موضوع تھے: احمد کسروی کے نظریات کا مقابلہ، خواتین کے حجاب کیلئے بھر پور کوشش، کمیونیزم سے مقابلہ اور بہائیت سے مقابلہ ان میں سے ہر ایک ہدف کیلئے بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا اور بہت سی کتب تالیف اور شایع ہوئیں۔ نیز مختلف رسالے بھی لکھے گئے کہ ان تالیفات میں معروف رسائل حجابیہ اور امام خمینی کی کتاب کشف الاسرار تھی کہ جو حقیقت میں حکیم زادہ کی تالیف اسرار ہزارسالہ اور احمد کسروی کی تالیفات کے رد میں تھی، نیز یہ کتاب ولایت فقیہ کا اجمالی سانظام بھی پیش کرتی تھی۔

سنن1327 شمسی سے مسئلہ فلسطین بھی اسلامی بیداری کی محافل میں داخل ہوا مذکورہ چاراہداف تک پہنچنے کیلئے اور بے دینی سے مقابلہ کرنے کیلئے تنظیمیں، انجمنیں، گروہ اورسیاسی جماعتیں بھی وجود میں آئے۔ (2)

۔۔۔۔۔

1) دانشنامہ جہان اسلام، ج 5، پہلوی کے ذیل میں عصر پہلوی اوّل، ص 7۔ 843۔

2) رسول جعفریان، جریانہا و سازمانہای مذہبی۔ سیاسی ایران ( سالہای 1357۔ 1320) تہران، موسسہ فرہنگی دانش واندیشہ معاصرچ3، ص 22۔ 18۔

۔۔۔۔۔

اس کاوش اور فعالیت کے ساتھ ساتھ مکتب اجتہاد کے علماء کا دو محاذوں یعنی آمریت اور استعمار کے خلاف جہاد پر بھی کام جاری رہا۔ جلاوطن علماء دوبارہ میدان عمل میں لوٹ آئے کہ جن میں آیت اللہ حسین قمی اور سید ابوالقاسم کاشانی قابل ذکر ہیں دینی اور مذہبی تعلیم کے نصاب کی اصلاح کی گئی اور موقوفات کے ادارہ کی حیثیت اور حالت کو تبدیل کیا گیا۔ (1)

تیسرے عشرہ میں دینی نظریات کے احیاء کی تحریک کا اہم مرحلہ امام خمینی کا ظہور اور ان کا مذہبی سیاست کے میدان میں داخل ہونا تھا۔ انہوں نے 1323 شمسی میں اپنا سب پہلا سیاسی مکتوب بیان جاری کیا کہ اس میں تحریر تھاکہ ” انبیاء الہی مکمل طور پر اللہ تعالی کی معرفت میں غوطہ زن ہوتے ہوئے انسانوں کی معاشرتی اور سیاسی 0حالت کو تبدیل کرنے کیلئے قیام کرتے تھے ان کے برعکس آج کے مسلمان فقط دنیاوی مفادات کیلئے قیام کرتے ہیں کہ جس کا نتیجہ اغیار کی غلامی اور ان کے حواری مثلاً رضا شاہ … وغیرہ کی حاکمیت کی صورت میں نکلتا ہے۔ (2)

ہجری شمسی کے تیسرے اور چوتھے عشرہ میں اسلامی بیداری کی اس تحریک کے ساتھ دو ارکان کا مزید اضافہ ہوا اور وہ دینی جرائد اور دینی رجحان کی حامل یونیورسٹی کے طلباء کی تنظیم تھی، اگر چہ دینی جرائد گذشتہ عشروں میں بھی دینی فعالیت انجام دیتے تھے لیکن ان دو عشروں میں کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ان کی فعالیت میں واضح طور پر اضافہ ہوا۔ اس دور کی دینی تحریروں میں فعال حضرات کی نئی خصوصیت یہ تھی کہ علماء کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات بھی دینی موضوعات پر قلمی کاوشیں کر رہے تھے اور جوان نسل کو اسلام سے آشنا کرنے کی سعی میں مصروف تھے، مذہبی جرائد کے بعض مقالات جدید علوم کے ذریعے سائنس و دین میں مطابقت اور دینی مسائل کے جدید علوم کی روشنی میں اثبات پر کام کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔

1)روح اللہ حسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران، تہران مرکز اسناد انقلاب اسلامی ص 98۔ 95۔

2) سلسلہ پہلوی ونیروہای مذہبی بہ روایت تاریخ کمبریج، ص 304، 203۔

۔۔۔۔۔

اس دور کے مذہبی رسائل و جرائد میں سے خرد، سالنامہ اور ہفتہ نامہ نور دانش، آیین اسلام، پرچم اسلام، دنیای اسلام، وظیفہ، محقق، تعلیمات اسلامی، ستارہ اسلام، ندای حق، حیات مسلمین اور تاریخ اسلام کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ (1)

اسلامی بیداری کی تحریک کا ایک شاہکار دور تیل کو قومیانے کی تحریک کا دور تھا۔ یہ تیسرے عشرہ میں استعمار کے خلاف ایک اہم ترین تحریک شمار ہوتی ہے تیل کو قومیانے کی تحریک کے دوران دو فکری رجحان قوم پرستی کی تحریک اور مذہبی تحریک متحد ہو گئیں دونوں نے متحد ہو کر لوگوں کے حقوق کے دفاع پر مشتمل اقدامات سے بھر پور نتیجہ لیا۔ اس دور میں قوی تحریک کے قائد محمد مصدق اور مذہبی تحریک کے متفقہ قائد آیت اللہ سیدابوالقاسم کاشانی تھے۔

آیت اللہ کاشانی نے سالہا سال سے ایران و عراق میں انگلستان کے استعماری تسلط کے خلاف جنگ کی تھی اور اس دور میں بھی قاعدہ ”نفی سبیل ” کی بناء پر انگلستان کے ایرن پر بالخصوص تیل کی صنعت پر تسلط کے خلاف کوشش کی، لوگوں میں ان کی مقبولیت اور ایرانی معاشرے کے مذہبی ہونے کی بناء پر وہ قادر ہوئے کہ مذہبی طبقے اور قوم پرست طبقے کے مابین پل کا کردار ادا کرتے ہوئے ان دونوں کو متحد کر دیں۔ (2)

ان کے اعلانات، تقاریر اور فتاوی نے اس عوامی جنگ کو دینی پشت پناہی عطا کی۔ انہوں نے تیل کو قومیانے کے شرعی اور عقلی دلائل بیان کیے، اور اس ضمن میں علماء اور دیگر مذہبی قوتوں کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی اور مختلف بین الاقوامی انٹرویوز میں اپنے اور قوم کے نظریات اور دلائل کو بیان کیا (3)۔

آیت اللہ کاشانی نے تیل کو قومیانے کی تحریک میں اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مجمع مسلمانان مجاہد اور جمعیت فدائییان اسلام کی تنظیموں سے بھی مدد لی۔

۔۔۔۔۔۔

1) رسول جعفریان، سابقہ مواخذ، ص 91۔ 74۔

2) فریدون اکبرزادہ، نقش رہبری در نہضت مشروطہ، ملی نفت و انقلاب اسلامی تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 103۔ 100۔

3) حسین گلی بیدی، آیت اللہ کاشانی ونفت، تہران، اسلامی، 1380، ص 220۔ 35۔

۔۔۔۔

” مجمع” کا پہلا گروہ جمعیت فداکاران اسلام تھا کہ جو 1322 شمسی میں تشکیل پایا البتہ جمعیت فدائیان اسلام کی ابتداء بھی اسی جمعیت سے ہوئی تھی، یہ مجمع” مہر میہن” اخبار کے ذریعے اپنے نظریات کی اشاعت کرتا تھا۔ (1)

فدائیان اسلام 1320 شمسی کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں زور و شور سے شریک تھے ان کی بنیادی جدوجہدکسروی اور اس کے ہم فکر لوگوں کے افکار کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ لوگ تبلیغی اور ثقافتی امور میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ عسکریت پربھی ایمان رکھتے تھے ان کے خیال کے مطابق مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کو قتل کرنے یا قتل ہونے پر خوفزدہ یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ایسے دشمن لوگ جو اسلامی حقائق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں اور مسلمانوں پر تجاوز کرنے کے عزائم رکھتے ہوں انہیں نابود ہو جانا چاہیے۔ (2)

انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر احمد کسروی، عبدالحسین ہیر اور حاجی علی رزم آرا کو قتل کر دیا۔ رزمآرا کے قتل نے تیل کی صنعت کو قومیانے اور اس قرار داد کے پارلمینٹ اور سینٹ میں پاس ہونے میں سرعت پیدا کی (3) حقیقت میں رزم آرا کا قتل تیل کی صنعت کے قومیا نے میں کامیابی کا آخری مرحلہ تھا۔

ایک اور مقام کہ جہاں شیعہ علماء آمریت اور استعمار کے مد مقابل کامیاب ہوئے 1331 شمسی میں 30 تیر کے مہینے کا قیام تھا، 1331 میں 25 سے 30 تیر تک کے درمیانی عرصہ میں مصدق نے استعفی دیا اور محمد رضا پہلوی نے بغیر کسی تعطل کے احمد قوام کو ان کی جگہ وزیر اعظم مقرر کیا تو فوراً آیت اللہ کاشانی میدان عمل میں آ گئے۔ ان کی تقاریر، اخبارات میں انٹرویوز اور اشتہارات نے ایسا ماحول بنا دیا کہ سارے ایران سے قوام کی حکومت کے خلاف اعتراضات شروع ہو گئے۔ ایک مجتہد کی سیاسی بصیرت پر لوگوں کا لبیک کہنا اسلامی بیداری کی تحریک کے تسلی بخش نتائج اور پورے ایران میں اس کے اثر و رسوخ کو بیان کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔

1) روح اللہ حسینیان، سابقہ ماخذ، ص 66۔ 63۔

2) داود امینی۔ جمعیت فدائیان اسلام و نقش آن در تحولات سیاسی و اجتماعی ایران ص 118۔ 12۔

3) سابقہ ماخذ ص 213۔ 212۔

۔۔۔۔

آیت اللہ کاشانی نے احمد قوام کے دھمکی آمیز اعلان کے رد عمل میں اپنے ایک اعلان میں فرمایا: اپنی حکمرانی کے ابتدائی ایام میں ان کا اعلان بخوبی بتا رہا ہے کہ اغیار کسطرح ان کے ذریعے یہ عزائم رکھتے ہیں کہ اس مملکت میں دین، آزادی اور خود مختاری کو جڑوں سے کاٹ دیا جائے اور دوبارہ مسلمان قوم کی گردن میں غلامی کا طوق ڈال دیا جائے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی سازش جو سالہا سال سے انگریزوں کے تمام پروگراموں میں سر فہرست تھی اور اس کی بناء پر انہوں نے مسلمانوں کو اپنے مستقبل اور اپنے دین و دنیاوی امور میں جد و جہد کرنے سے روکا ہوا تھا آج اس جاہ طلب شخص کے پروگرام میں سرفہرست ہے۔ احمد قوام کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ سرزمین کہ جہاں مصیبت زدہ لوگوں نے سالہا سال کے رنج و سختی کو تحمل کرنے کے بعد خود کو ایک آمر کے تسلط سے نجات دلوائی ہے انہیں آج اپنے عقائد افکار کو آزادانہ بیان کرنے سے نہیں روکنا چاہیے اور نہ انہیں اجتماعی پھانسی سے ڈرانا چاہیے، میں واضح انداز سے کہتا ہوں کہ تمام مسلمان بھائیوں پر ضروری ہے کہ وہ آمادہ ہو جائیں اور استعماری سیاست دانوں پر ثابت کر دیں کہ گذشتہ دور کی مانند وہ آج طاقت اور تسلط نہیں پا سکتے۔

29 تیر 1331 میں انہوں نے دربار کو ایک پیغام میں کہا: اعلی حضرت کو بتا دیں کہ اگر کل تک ڈاکٹر مصدق کی حکومت کی بحالی کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو انقلاب کی اس عظیم موج کو میں اپنی قیادت میں دربار کی طرف پھیر دوں گا۔ (1) اپنے انٹرویو میں اعلان کیا کہ : اگر کوئی ایک انگریز بھی آبادان کے تیل کے پلانٹ کی طرف آیا تو میں حکم دوں گا کہ اس تیل کے پلانٹ کو تمام ساز و سامان کے ساتھ جلا دیا جائے اور تباہ کر دیا جائے … اگر اس سے زیادہ مشکل پیدا ہوئی تو میں کفن پہن کر قیام کروں گا۔ (2)

۔۔۔۔۔

1) حسین گل بیدی، سابقہ ماخذ، ص 227۔ 274۔

2) روح اللہ حسینیان، سابقہ ماخذ، ص 176۔

۔۔۔۔

بالآخر مذہبی اور قوی تنظیموں کے باہمی اتحاد اور عوام کے احتجاجی مظاہروں کے نتیجہ میں احمد قوام کو ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ دوبارہ مصدق کو منتخب کیا گیا۔ 30 تیر کا یہ قیام در حقیقت سیاسی مسائل میں شیعہ مرجعیت اور دینی طاقتوں کی طاقت و قوت کے عروج کا دور تھا۔

دینی افکار کے احیاء کی صورت میں بیدار کرنے والا ایک اور اقدام آیت اللہ بروجردی کی عالم اسلام میں شیعہ علماء کو فعال اور تمام علمی اور عملی میدانوں میں لانے کی کوشش تھی انہوں نے شروع میں جوان مبلغین اور حوزہ علمیہ قم کے مذہبی دانشوروں کی مختلف ٹیمیں دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں اور شیعوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھیجیں اور یورپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں شیعہ اسلامک سینٹرز قائم کیے۔ اس حوالے سے ان کا اہم ترین قدم علامہ شیخ محمد تقی قمی کو قاہرہ کی طرف بھیجنا تھا جب وہ قاہرہ تشریف لے گئے تو اسوقت قاسم غنی وہاں ایرانی سفیر تھے وزارت خارجہ کی اسناد کے مطابق ان دونوں نے باہمی کوشش سے علماء اہلسنت کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعلقات قائم کیے تا کہ اہل تشیع کے بنیادی قواعد کی تشریح و تفسیر کی جائے جس کی بناء پر وہاں بالاخر دارالتقریب مذاہب اسلامی کا ادارہ تشکیل پایا۔ (1)

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے اسلامی بیداری کی تحریک کا ایک جدید رکن یونیورسٹی کے طلباء کی اسلام پسند تحریک تھی جو اسی زمانہ میں وجود میں آئی اور ثابت قدمی سے فعالیت کر رہی تھی، یونیورسٹیاں جو کہ مختلف افکار و نظریات کے تبادلے کا مرکز تھیں وہاں اسلامی نظریات اور دینی تشخص کے دفاع کے نظریات و خیالات بتدریج بڑھ رہے تھے۔ اس تحریک کا مقصد اسلام کو غلط عقائد سے پاک کرنا اور اسلام کا تعارف اس دین کے عنوان سے کروانا تھا کہ جو علم، معاشرتی انصاف، مساوات اور آزادی کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور جہالت، ظلم، بے انصافی، آمریت اور استعمار کا مخالف ہے۔

۔۔۔۔۔۔

1) سابقہ ماخذ ص 391۔ 390

اس تحریک کی تشکیل میں بڑا حصہ اہل فکر علما اور اسلام پسند اساتذہ کی کاوشوں پر مشتمل تھا مثلاً آیت اللہ طالقانی، استاد محمد تقی شریعتی، حسین علی راشد، محمد تقی فلسفی، ڈاکٹر محمود شہابی، ڈاکٹر عطاء اللہ شہاب پور، مہدی بازرگان، یداللہ سحابی اور دیگر افراد;بعد میں آنے والے عشروں میں ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

یونیوسٹی کے طلاب کے ایک گروہ نے ایک تنظیم ” انجمن اسلامی دانشجویان” قائم کی اور اسلامی بیداری کی مندرج بالا فعالیت کو مستحکم کیا اور وسعت بخشی۔ یہ انجمن 1320 شمسی میں تشکیل پائی اور بعد میں آنے والے دو عشروں میں اس نے کافی ترقی کی۔ (1)

چوتھے عشرہ میں اسلامی بیداری کے افکار کی ترویج کے مراکز مساجد تھیں ہر ایک مسجد میں کوئی مذہبی مجاہد تقریر اور تفسیر قرآن مجید کا پروگرام چلا رہا تھا ان سب میں تہران کی مسجد ہدایت اور اس کے امام آیت اللہ طالقانی کا کردار سب سے برجستہ تھا۔ آیت اللہ طالقانی کا پیش نظر ہدف جوانوں اور روشن فکر حضرات میں سچے اسلام کی ترویج اور کیمونیزم اور مغربی نظریات کے جال سے بچانا تھا۔

چوتھے عشرہ میں بالخصوص 1332 شمسی 28 مرداد میں امریکہ اور انگلستان کی مشترکہ سازش کی بناء پر بغاوت کے بعد کہ جب دوبارہ بادشاہت کی صورت میں ایک ڈکٹیٹر حاکم بن چکا اور دوبارہ دینی رسم و رواج کے ساتھ مقابلہ شروع ہوا اور دین کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر کوششیں کی جانے لگیں اور ایک طرح کا مذہبی و فکری خلا سا پیدا ہو چلا تھا کہ آیت اللہ طالقانی نے مذہبی ارتقاء کے قواعد و اصول کو پیش کیا۔ ان کی تقاریر اور تفسیر قرآن کی محفلوں میں مذہبی و سیاسی مجاہدین، دینی طلبا اور یونیورسیٹوں کے طلبا حضرات شرکت کیا کرتے تھے(2) ان اقدامات نے بیداری کی تحریک کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا۔

بتدریج مسجد ہدایت جوان نسل بالخصوص دینی معارف سے بہرہ مند یونیورسٹی کے طلبا اور دانشور طبقہ کا اہم مرکز بن گئی۔ جیسا کہ آنے والے سالوں اور عشروں میں مسجد ہدایت کے پروگراموں میں شریک ہونے ط والے بہت سے حضرات متحرک سیاسی اور ثقافتی شخصیات میں تبدیل ہو گئے۔ اور اسی مسجد ہدایت کے شاگردوں کا ایک گروہ دین کے احیاء اور اس کی حفاظت کی راہ میں مقام شہادت پر فائز ہوا۔ ان میں معروف ترین چہرے آیت اللہ مرتضی مطہری، محمد علی رجائی، مہدی بازرگان، جلال الدین فارسی اور محمد جواد باہنر … تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔

1) علی رضا کریمیان، جنبش دانشجویی در ایران، تہران مرکز اسناد انقلاب اسلامی ص 120۔ 115۔

2) بہرام افراسیابی و سعید دہقان، طالقانی و انقلاب، ج 2، تہران، ص 61۔ 59۔

۔۔۔۔

چونکہ مسجد ہدایت نے دینی معارف کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا اس لیے اسے ” دالان دانشگاہ” (یونیورسٹی کی دہلیز) کے عنوان سے یاد کیا گیا کیونکہ جہاں مذہبی محافل کے ساتھ ساتھ اس زمانہ کے روزمرہ کے مسائل کو اسلامی اقدار کے ساتھ مطابقت دیتے ہوئے محور تجزیہ قرار دیا جاتا تھا۔ (1)

چوتھے عشرہ میں پہلوی حکومت نے رضا شاہ کی دین مخالف پالیسی وسیع پیمانے پر دوبارہ اجرا کرنا شروع کر دی اور قومی آداب اور اسلامی اقدار کو غلط قرار دیا اور ایرانی آداب ور سوم اوراسلامی ثقافت کی جگہ مغربی کلچر کو رواج دیا۔ اسی دوران 1335 شمسی میں ساواک کی تشکیل نے اس حکومتی پالیسی کی حمایت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

ہجری شمسی سال کے پانچویں اور چھٹے عشرے ایران کی معاصر تاریخ میں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی دینی فکر کے احیاء اور اسلامی بیداری کی تحریک کے پھلنے پھولنے میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ان دو عشروں میں دینی فکر و نظریہ کے احیاء کی تحریک نے نئی کروٹ لی اس مرحلہ میں اس تحریک کے یکتا قائد امام خمینی تھے آپ حقیقتاً نظری اور عملی میدانوں میں گذشتہ مجدد بزرگوں سے مختلف اور منفرد کام کر رہے تھے اسی طرح اس دور میں دیگر سیاسی اسلام کے معتقد اور دینی حکومت کی بھرپائی کے خواہشمند عناصر نے امام خمینی کی قیادت میں ان کی حقیقی تحریک کو مستحکم کیا۔

۔۔۔۔۔

1 ) لطف اللہ میثمی، از نہضت آزادی تا مجاہدین، ج 1، تہران، ص 91۔ 88۔

۔۔۔۔۔۔

چوتھے عشرہ کے آخری سالوں میں بین الاقوامی حالات کے اثرات کی بناء پر ایرانی معاشرہ میں سیاسی گھٹن کی شدت کم ہوئی اور کسی حد تک آزاد سیاسی فضا اور محدود آزادی کا ماحول پیدا ہوا۔ بین الاقوامی حالات میں تبدیلی کی وجہ امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جان ایف کنیڈی کی قیادت میں کامیابی اور اس کا امریکہ کے زیر اثر ممالک میں سیاسی جمود کو ختم کرنے اور سیاسی اور معاشرتی سطح پر اصلاحی تبدیلیوں کو لانے پر زور دینا تھا۔

امریکہ کی اس پالیسی کا مقصد ان ممالک میں سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کو کنٹرول کرنا اور کمیونیزم کو پھلنے پھولنے سے روکنا تھا (1) ایران میں ارضی اصلاحات اور سفید انقلاب کے اصول و قوانین کا اجراء در اصل کنیڈی کی ڈیموکریٹ پارٹی کی منشاء کے مطابق تھا، پہلوی حکومت نے لاچار ہو کر اسے قبول کیا تھا۔

امام خمینی کی قیادت میں مذہبی قوتوں نے اس پالیسی کی (جو بظاہر اصلاح پسند لیکن عمل میں امریکہ کی مادی اور غیر مادی امداد کے ساتھ ایران کو مغربی طرز کا بنانے کی پالیسی تھی )مخالفت کی، یہیں سے ایران کی روشن فکر تاریخ کا تیسرا دور شروع ہوا اس تاریخی دورانیہ میں دینی روشن خیالی اور اسلامی بیداری کی تحریک تمام دیگر مسائل پر غالب تھی۔ اس مرحلہ میں ایران کی روشن خیال فضا میں ایک اہم تبدیلی پیدا ہوئی کہ اسے ” تو بہ روشفنکری ” (روشن خیالی کی توبہ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (2)

1340 شمسی کی ابتدائی ایام میں ایک حادثہ کہ جس نے اسلامی بیداری کے مسئلہ کو تیار کیا آیت اللہ بروجردی کی وفات تھا۔ وہ پندرہ سال تک شیعوں کے بلا مقابلہ مرجع تھے۔ لہٰذا اس حوالے سے ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوا اسی دور میں ایران اور نجف میں ایسے مجتہد تھے کہ جو صاحب رسالہ یا مرجعیت کی صلاحیت کے حامل تھے مثلاً امام خمینی (رہ) اور آیت اللہ گلپایگانی، آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ شریعت مداری، آیت اللہ حکیم، آیت اللہ خوئی، آیت اللہ شاہرودی، آیت اللہ شیرازی اور آیت اللہ یثربی … اسی گروہ میں سے تھے(3) حکومتی کابینہ اس کوشش میں تھی کہ مرکز مرجعیت کو نجف کی طرف منتقل کیا جائے لہذا انہوں نے آیت اللہ بروجردی کی وفات پر تسلیت کا پیغام آیت اللہ حکیم کی خدمت میں بھیجا(4)

۔۔۔۔۔

1) عباس خلجی، اصلاحات امریکای و قیام پانزدہ خرداد، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 45۔ 44۔

2) محمد علی ذکریابی، در آمدی بر جامعہ شناسی و روشنفکری دینی، تہران۔

3) روح اللہ حسینیان، سہ سال ستیز مرجعیت شیعہ (1343۔ 1341)، تہران، ص 126۔

4)محمد حسن رجبی، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی، ج1، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی ص 226، 225۔

۔۔۔۔

آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد اصولی مکتب کے جدت پست علماء کے ایک گروہ اور بعض دینی روشن خیال دانشوروں نے مرجعیت کے موضوع پر غور و خوض کرنے کیلئے نشستیں کیں اور اپنے تجزیہ و تحلیل کو ایک مقالہ کی شکل میں لا کر 1341 شمسی میں ایک کتاب بنام ” بحثی دربارہ مرجعیت و روحانیت” کی صورت میں شایع کیا (1) اس کتاب کی مباحث میں دین پر ایک نئی نگاہ اور دینی مسائل میں اصلاحی نظریات کو بیان کیا گیا تھا، مثلاً دین اسلام کے دامن کو خرافات سے پاک کرنا شیعہ رہبر کا اپنے دور جدید اور ضروری علوم سے ضروری طور پر آگاہ ہونا۔ مذہبی فعالیت کی پشت پناہی کیلئے جداگانہ اقتصادی اساس فراہم کرنے کی ضرورت پر زور تاکہ وہ حکومت یا عوامل کی طرف دست دراز کرنے سے بے نیاز ہو اور گروہی صورت میں مرجعیت بنام ”شورائے فتوا” (افتاء کونسل) کی رائے دینا۔ (2)

اسلامی بیداری کی اس نئی لہر میں امام خمینی (رہ) اور ان کے ہم فکر علماء نے یہ کوشش کی کہ سیاست کومرجعیت کے محور کی طرف لوٹا دیا جائے۔ یونیورسٹی طلباء کی مذہبی تنظیم نے بھی اس مقصد کی تکمیل کیلئے مدد کی۔ اور اس نظر کی تشریح اور وضاحت کیلئے ” سیاست میں روحانیت کی طرف رجحان” اور ” ایرانی مسلمان کا اپنی طرف لوٹنا” جیسی اصطلاحات سے مدد لی ہے (3) امام خمینی نے اس ہدف کے حصول کیلئے حوزہ علمیہ کو مستحکم کیا۔ (4)

16 مہر 1341 شمسی میں حکومتی اراکین میں قانون ” انجمنہای ایالتی و ولایتی ” (قومی اور صوبائی انجمنیں ) پاس ہوا کہ جس کی بناء پر منتخب ہونے ا ور منتخب کرنے والوں کی شرائط میں سے مذہب اسلام کی شرط ختم ہو گئی تھی اور قرآن کی قسم کی بجائے آسمانی کتاب کی قسم کو حلف نامے میں قرار دیا گیا تھا، یہ قانون پاس ہونے سے

۔۔۔۔۔

1) بحثی دربارہ مرجعیت و روحانیت ( مجموعہ مقالات)، تہران۔

2) آ۔ مراد حامد الگار، برک و دیگران، نہضت بیدارگری در جہان اسلامی، ترجمہ محمد مہدی جعفری تہران ص 113۔ 131۔

3) محمد تقی قزل سفلی ” امام خمینی، گفتمان احیاء و چالش با گفتمانہای غالب” ایدئولوی، رہبری و فرایند انقلاب اسلامی مجموعہ مقالات ” ج 2، تہران، موسسہ چاپ ونشر عروج ص 252۔

4) رسول جعفریان، سابقہ ماخذ، ص 139۔

۔۔۔۔

ایک بہت بحران پیدا ہوا کہ جو بذات آنے والے دور میں بہت سے بحرانوں اور تغیر و تبدل کا باعث بنا۔ (1) اس کے بعد امام خمینی نے علماء قم کو دعوت فکر دیتے ہوئے اور ان کے ساتھ مشورہ کیلئے نشستوں کا انعقاد کرتے ہونے رسمی طور پر اپنی فعالیت کا آغاز کیا۔ (2) امام خمینی کی زیر قیادت اس تحریک میں ایک نیا نکتہ یہ تھا کہ اب تک تمام تر تنقید کا مرکز حکومت تھی جبکہ اس کے بعد تنقید کا مرکز محمد رضا پہلوی تھا (3) اس مجددانہ فکر کے مد مقابل پہلوی حکومت کا مزاحمت کرنا باعث بنا کہ یہ اصلاحی تحریک ایک انقلابی فکر میں تبدیل ہو گئی۔ (4)

امام خمینی نے مذکورہ قانون پر شرعی اشکالات کرتے ہوئے اس کی مخالفت کا آغاز کیا اور اس کے لغو ہونے کا مطالبہ کیا، بادشاہ اور وزیر اعظم ” علم ” کو ایک ٹیلی گراف میں قرآن اور اسلامی احکام کی نافرمانی اور مخالفت کی صورت میں بھیانک نتائج سے آگاہ کیا۔ (5)

امام خمینی کی کوشش سے یہ مخالفت پورے ملک میں پھیل گئی۔ امام خمینی کے مقلدین اور شاگردوں نے مختلف طریقوں سے اما م کے بارے میں خبریں، معلومات اور ان کے پیغامات سارے ملک میں پھیلا دے۔ اور یوں یہ لوگ اپنے شہروں، حوزہ علمیہ قم اور امام خمینی کے درمیان ایک پل کی مانند کام کر رہے تھے۔ (6)

۔۔۔۔۔۔

1) عباس جلجی، سابقہ ماخذ، ص 123۔

2) روح اللہ حسینیان، سابقہ ماخذ، ص 127۔ 126۔

3) رسول جعفریان، سابقہ ماخذ، ص 142۔

4) محمد علی زکریایی، سابقہ ماخذ، ص 110۔ 104۔

5) صحیفہ نور، باسعی سازمان مدارک فرہنگی انقلاب اسلامی، تہران، ج 1، ص 43۔ 27۔

6 ) رحیم روح بخش ” چند شہری بودن جنبش ہای معاصر ایران، بررسی قیام 15 خرداد، گفت و گو، ش 29، ص 37۔ 36۔

۔۔۔۔۔

اسلامی بیداری کی تحریک کا پہلا مرحلہ 10 آذر 1341 میں پہلوی حکومت کی پسپائی اور مذکورہ قانون کے لغو کرنے سے کامیابی کے ساتھ طے ہو گیا اس کے بعد کا مرحلہ مراجع اور علماء کا سفید انقلاب کے چھ اصولوں کے بارے میں ریفرنڈم کی مخالفت تھا کہ جو چھ بہمن 1341 میں انجام پایا۔ اس مرحلہ میں اشتہارات لگانے، احتجاجی مظاہرے، تقاریر اور مشورہ کے حوالے سے نشستوں کا اہتمام کیا گیا کہ اس مخالفت کی بناء پراس ریفرنڈم میں بہت کم لوگوں نے شرکت کی۔ (1)

اسی دوران ایک اہم واقعہ 2 فروردین 1342 کا واقعہ تھا جسمیں پہلوی حکومت نے مدرسہ فیضیہ قم اورمدرسہ طالبیہ تبریز میں علماء پر حملہ کیا جس کے ضمن میں کچھ افراد قتل اور کچھ زخمی ہوئے، یہاں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ پہلوی حکومت نے عوام کو فریب دینے کیلئے اس واقعہ کو اصلاحات ارضی کے مخالف علماء اور اس کے موافق کسانوں کے درمیان نزاع قرار دیا۔ اور کہا گیا کہ یہ کسان زیارت کے لیے قم آئے تھے اور علماء سے ٹکرا گئے۔ لیکن حکومت کا یہ اقدام بھی گذشتہ دین مخالف اقدامات کی مانند برعکس نتائج کا سبب قرار پایا۔ پورے ملک میں حکومت کے خلاف غصہ و نفرت کی لہر چلی۔ یہاں تک کہ نجف اور کربلا کے حوزات سے رد عمل سامنے آیا اور ایران کی طرف ٹیلی گرافوں اور بیانات کا ایک سیلاب روانہ ہوا (2) سب سے شدید اللحن اعلان امام خمینی کی طرف سے صادر ہوا ان کا یہ اعلان ”شاہ دوستی یعنی غارتگری ”کے عنوان سے لوگوں میں مشہور ہوا۔ (3)

تحریک کا ایک اور مرحلہ کہ جو تحریک کے آنے والے دور میں دیگر مراحل میں بہت زیادہ اہمیت اور اثرات کا حامل تھا اور تاریخ معاصر کا بھی ایک مقطع شمار ہوتا ہے 15 خرداد 1342 کا قیام تھا۔

اس سال کے محرم میں مجاہد علماء نے پہلوی حکومت کی پر تشدد کا روائیوں پر تنقید کی جس کے نتیجہ میں پر عزاداری کی محافل، جہاد اور سیاسی فعالیت کے مراکز میں تبدیل ہو گئیں۔ اس مرحلہ تحریک میں عوام کے تین طاقتور اور

موثر طبقات تاجر، یونیورسٹی والے اور علماء نے اپنی وحدت و یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اس مرحلہ تحریک کا عروج امام خمینی کی عاشورا کے دن مدرسہ فیضیہ قم میں تقریر تھی کہ جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک کا مقصد بادشاہ اور اسرائیل سے مقابلہ اور اسلام کو ان کے خطرات سے محفوظ رکھنا ہے ”۔

۔۔۔۔۔

1) سابقہ ماخذ، ص 53۔

2) عباس علی حمید زنجانی، انقلاب اسلامی ایران ( علل، مسائل و نظام سیاسی )، تہران ص 146۔ 142۔

3) صحیفہ نور، ج 1، سابقہ ماخذ، ص 75۔ 73۔

۔۔۔۔۔۔

اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں محمد رضا پہلوی کو مخاطب کر کے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تیرا انجام تیرے باپ کی مانند ہو، یہ چاہتے ہیں کہ تجھے یہودی کے عنوان سے پیش کریں تا کہ میں کہوں کہ تو کافر ہے تا کہ تجھے ایران سے نکال دیں اور تیرا کام تمام کر دیں۔ (1)

پندرہ خرداد کا قیام در حقیقت علماء کا انتہائی سنجیدگی سے سیاسی فعالیت کا مظاہرہ اور سیاسی اسلام کو حقیقت میں سامنے لانے کی کوشش تھا۔ تاجر طبقہ بھی عشروں سے قوم پرستانہ نظریات سے منسلک رہنے کے بعد اب مراجع اور علماء کی راہنمائی سے سیاسی اسلام پسند نظریات کی طرف رخ چکا تھا اور یہ نیا مرحلہ پانچویں عشرہ میں اسلامی بیداری کی تحریک کی خصوصیات میں سے تھا، دوسرا قابل توجہ نکتہ ایران کی جغرافیائی سرحدوں کے اندر انتہائی سرعت سے پیغام و معلومات کا پہنچنا اور عوام کے مختلف طبقات کا ان کوششوں میں شریک ہونا تھا۔ (2) اس قیام نے ثابت کیا کہ اسلامی بیداری کی تحریک ایک طاقتور تحریک کی صورت میں سامنے آ چکی تھی۔

۔۔۔۔۔

1) سابقہ ماخذ، ص 93۔ 91۔

2) رحیم روح بخش، سابقہ ماخذ، ص 69۔ 68۔

۔۔۔۔۔۔

آیت اللہ بروجردی کی وفات سے لیکر 15 خرداد کے قیام تک کچھ اور ضمنی لہروں نے بھی اسلامی بیداری کی اس موج کو مزید مستحکم کیا کہ ان لہروں کی فعالیت کا مرکز بھی مذہبی اور اسلامی تھا۔ اس تحریک کے اس حصہ میں جس میں دینی علماء نہیں تھے مذہبی اور قوم پسند رجحانوں کے باہمی اختلاط سے دینی روشن خیالی اور دینی احیاء کی تحریک وجود میں آئی۔ اگر چہ اس تحریک کے تانے بانے کئی عشرے قبل کی تحریک سے ملتے ہیں۔

ایران میں نہضت آزادی ”تحریک آزادی ”ایک مذہبی و سیاسی تنظیم تھی کہ جو 1340 شمسی میں اردیبہشت (ایرانی مہینہ) کے آخر میں مہدی بازرگان، یداللہ سحابی، آیت اللہ طالقانی اور دیگر قوم پرست مذہبی لوگوں کی کوششوں سے وجود میں آئی۔ بازرگان نے اس تحریک کی تشکیل کا مقصد ” (ایرانی) قومیت اور تحریک کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی اسلامی بیداری سے ہم آہنگی برقرار کرنا ”بتایا (1) جلال الدین فارسی اور محمد علی رجائی کا اس تنظیم کا رکن ہونا اور آیت اللہ بہشتی، آیت اللہ مطہری اور محمد جواد باہنر جیسے افراد کا اس تحریک کے قائدین سے دوستی و رابطہ اس تحریک کے قائدین کے دین اسلام کی طرف میلان کو بیان کر تا ہے۔

نہضت آزادی کے منشور میں بھی ایرانی قوم کے اساسی حقوق کے احیاء کے ساتھ ساتھ اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی اصولوں کی دین مبین اسلام کی بنیاد پر ترویج کی تاکید ملتی ہے۔ (2)

اس تحریک کی فعالیت کے مقابلے میں پہلوی حکومت کا رد عمل اس تحریک کے قائدین کی گرفتاریوں اور عدالتی کا روائیوں کی صورت میں سامنے آیا اور یہ عدالتی کا روائیاں سیاسی جلسوں میں تبدیل ہو گئیں۔ دینی طلاب، سیاسی کارکن حضرات اور یونیورسٹی کے طلباء ان کا روائیوں کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے اور آیت اللہ طالقانی اور دیگران سے ملاقات اور گفتگو کر تے تھے(3) در حقیقت یہ عدالتی کاروائیاں خود حکومت کے محاکمہ اور حکومت کے طرز عمل کے بارے میں انکشافات میں تبدیل ہو چکی تھیں کہ مجموعی طور پر اس مسئلے نے اسلامی بیداری کے مراحل کو سرعت بخشی۔ (4)

ان سالوں میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی بیداری کی تحریک کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں :

۔۔۔۔

1) 60 سال خدمت و مقاومت ( خاطرات مہندس مہدی بازرگان )ج 1، غلام رضا نجاتی تہران، موسسہ خدمات فرہنگی رسا، ص 374۔

2) اسناد نہضت آزادی ایران، ج1، تہران، ص 44۔

3) عباسی علی عمید زنجانی، سابقہ ماخذ، ص 150۔

4) محمد حسن رجبی، سابقہ ماخذ۔ ص 341۔ 239۔

۔۔۔۔

دین و سیاست کے ملاپ کے نظریہ کو مستحکم کرنا۔ پہلوی حکومت کے ساتھ کوئی سمجھو تہ نہ کرنا، علمی میدان میں سیاسی اجتہاد کو استحکام دینا اور فکر و عمل میں ہم آہنگی برقرار کرتے ہوئے آمریت اور استعمار کا مقابلہ کرنا … ان میں سے سب سے اہم دنیا کی جدید آمریت کو نشانہ بنانا تھا، انہی سالوں میں دیگر بیدارگر شخصیات میں سے محمود طالقانی اور مرتضی مطہری قابل ذکر ہیں کہ جنہوں نے زیادہ تر فکری میدانوں میں فعالیت کی۔ (1)

انہی سالوں میں یونیورسٹی کے طلاب کی مذہبی تنظیم کا بھی اسلامی بیداری کی تحریک میں قابل ذکر حصہ ہے۔ وہ دانشور اور مجاہد علماء مثلاً علامہ طباطبائی، آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ طالقانی سے رابطہ میں رہتے تھے۔ ”انجمن اسلامی دانشجویان” کی تنظیم کی صورت میں طلباء نے دو عشروں تک علمی موضوعات مثلاً مارکسزم کے مقابلے میں دین اسلام کے دفاع کے موضوع پر فعالیت کی اور تمام اقوام اسلام کے اتحاد پر زور دیا انہوں نے امام خمینی کی اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی آپ سے رابطہ قائم کیا۔ امام خمینی نے ایک سیاسی مرجع تقلید کے عنوان سے اس طلباء کی تحریک کیلئے ایک مذہبی برجستہ قائد کے خلاء کو پر کیا(2)

امام خمینی کی سیاسی فعالیت بڑھنے اور بالخصوص ”کیپیٹلائزیشن” کے بل کے پاس ہونے پر اعتراض کی بناء پر امام خمینی کو پہلے ترکی اور پھر نجف اشرف کی طرف جلا وطن کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آمرانہ اقدامات اور سیاسی گھٹن میں اضافہ ہو گیا اور سیاسی فعالیت مخفی صورت میں انجام پانے لگی۔ اس زمانہ کے وزیر اعظم حسن علی منصور کے قتل نے بھی اس سیاسی گھٹن کو بڑھایا۔ لہذا ان سالوں میں اسلامی تحریک زیادہ ترعسکری اور نظریاتی صورت میں سامنے آئی۔ مؤتلفہ اسلامی، حزب ملل اسلامی اور مجاہدین خلق کی تنظیم کی فعالیت نئی صورت میں تشکیل پانے لگی ان میں حزب ملل اسلامی عالم اسلام پر چھائی ہوئی فکری فضا سے متاثر ہوتے ہوئے اور دینی روشن فکر اور مصلح حضرات کی پیروی میں بین الاقوامی اسلامی انقلاب کے ذریعے فرقہ و قوم کے تعصب سے قطع نظر ایک وسیع اسلامی حکومت کی تشکیل کی خواہاں تھی۔ (3) جبکہ مجاہدین خلق کی تنظیم 1344 سے 1350 تک فوجی اور عسکری تربیت اور اس حوالے سے نظری مطالعات میں مشغول رہی۔ جس کے نتیجہ میں سن پچاس کے عشرہ میں اسلامی بیداری کی تحریک کے مراحل کچھ زیادہ مؤثر نہ تھے۔

۔۔۔۔۔

1) مرتضی مطہری، احیاء فکر دینی، دہ گفتار ( مجموعہ مقالات) تہران، ج 5، ص 151۔ 129، احیاء تفکر اسلامی، تہران، ص 14۔ 7، رسول جعفریان، سابقہ ماخذ، ص 197۔ 193۔

2) علیرضا کریمیان، سابقہ ماخذ، ص 217۔ 214۔

3) اسماعیل حسن زادہ، تاملی در پیدایش و تکوین حزب ملل اسلامی، متین، س 2، ش 5، 6۔ ص 82۔ 62۔

۔۔۔۔۔۔

1350 سے لیکر 1353 شمسی تک اس تنظیم کے بہت سے قائدین اور بانی حضرات ان کی مسلحانہ سرگرمیوں کے انکشاف پر گرفتار ہوئے یا پھانسی چڑھ گئے۔ (1) یہ تنظیم 1354 شمسی میں اندرونی خلفشار کا شکار ہوئی اور دو گروہوں اسلامی اور کیمیونسٹ میں بٹ گئی اور پھر یہ اختلاف آپس میں خونی لڑائیوں تک پہنچ گیا۔ (2)

1356 شمسی سے سیاسی گھٹن کم ہونا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ سیاسی قیدی آزاد ہونا شروع ہوئے۔ ان سالوں میں اسلامی گروہوں میں بعض مجاہدین مثلاً محمد جواد باہنر، محمد علی رجائی، ہاشمی رفسنجانی، جلال الدین فارسی اور دیگر افراد کے ذریعے علمی فعالیت کہ جس کا سیاسی رنگ کم تھا کا آغاز ہوا (3) کو اپریٹو اشاعتی اداروں کی فعالیت کہ جو مذہبی مجاہد طرز کے دانشور حضرات کی قلمی کاوشوں کی اشاعت کرتے تھے، نے دینی تفکر کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ (4)

۔۔۔۔۔۔

1) غلام رضا نجاتی، تاریخ سیاسی بیست سالہ ایران، ج 1، تہران، ص 407۔ 393۔

2) بیانیہ اعلام مواضع ایدئو لویک، تہران، سازمان مجاہدین خلق ایران، 1354۔

3) جلال الدین فارسی، زوایای تاریک، تہران، حدیث، ص 138۔

4) حسن یوسفی اشکوری، در تکاپوی آزادی، ج1، تہران، ص 239۔ 238۔

5) مہرزاد، بروجردی، روشنفکران ایران و غرب، ترجمہ جمشید شیرازی، تہران، ج 2 ص 123۔ 118، محمد علی زکریایی، سابقہ ماخذ، ص 193۔ 189۔

۔۔۔۔

بیدارگر اور دینی مصلح شخصیات کے ساتھ ساتھ جلال آل احمد، مہدی بازرگان اور علی شریعتی جیسی شخصیات کے نظریات اور آثار نے بھی بتدریج اسلامی بیداری کے رجحان کو قوت بخشی۔ آل احمد نے اپنی دو کتابوں ”غرب زدگی و در خدمت و خیانت روشنفکران” میں مغرب پرستی اور روشن فکری کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا، وہ تشیع کو ایرانی تشخص کاجزو لاینفک سمجھتے تھے اور مغربی تسلط کے مقابلے میں دینی علماء کے کردار پر زور دیتے تھے۔ (1) بازرگان نے بھی وسیع سیاسی فعالیت کے ساتھ ساتھ پچاس کے عشرہ سے قلمی نظریاتی محاذپر کام شروع کیا۔ 1345 شمسی میں اپنی اہم ترین کتاب ” بعثت و ایدئولوی” (بعثت اور آئیڈیالوجی) کو تحریر کیا (1) اس قسم کی فعالیت ساٹھ کے عشرہ میں بھی جاری رہی۔ ڈاکٹر شریعتی کی خدمات اسلامی تحرک کو یونیورسیٹوں طلبا اور نوجوان نسل میں پھونکنے اور انہیں مغربی مارکسسی نظریات سے دور رکھنے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں انہوں نے اپنے نظریے”بازگشت بہ خویشتن”(اپنی طرف لوٹنا)کے ذریعے آل احمد کے مغرب پرستی کے موضوع کو آگے بڑھایا(2)

پچاس کے عشرہ میں بالخصوص اس کے دوسرے حصہ میں عالم اسلام میں بیداری کی لہر اور اسلامی اقوام کی خود مختاری کی کوششوں نے بھی ایران میں اسلامی بیداری کی تحریک پر اثرات مرتب کیے اس حوالے سے الجزائر کے مجاہد مسلمانوں کی کامیابی اور فلسطین کی تحریک زیادہ موثر رہی۔ (3)

اس دور کا اہم ترین واقعہ 1349 شمسی میں امام خمینی کی طرف سے نجف میں اسلامی حکومت کی علمی بحث کا ” ولایت فقیہ” کے عنوان سے آغاز تھا۔ انہوں نے ان نشستوں میں فقہاء کی حکومت، دین و سیاست کے ملاپ اور آئیڈیالوجی کے عبادت سے بالاتر ہونے کے اثبات اور وضاحت کو محور سخن قرار دیا، ان مباحث کے ضمن میں ایرانی حکومت اور دیگر اسلامی ممالک کے حالات پر بھی تنقید کی اور اہل نظر حضرات کو ان موضوعات پر مطالعہ اور تحقیق کیلئے دعوت دی۔ (5)ان کے افکار پیغام رسانی کے چینل کے ذریعے ایران منتقل ہوئے جو ایرانی مجاہدین میں نئی رو ح پھونکنے کا باعث بنے۔

یورپ اورامریکہ میں امام خمینی کے افکار کی مقبولیت اور اشاعت میں ایک سبب وہاں کے ایرانی مسلمان

1) سعید برزین، زندگینامہ سیاسی مہندس مہدی بازرگان، تہران، ج 2، ص 102۔ 201۔

2) مہرزاد بروجردی، سابقہ ماخذ، ص 167۔

3) رسول جعفریان، سابقہ ماخذ ص 222۔ 220، فرہدد شیخ فرشی، روشنفکری دینی و انقلاب اسلامی، تہران، ص 340۔ 339

4) حمید روحانی، نہضت امام خمینی، ج 2، تہران، ص 695۔ 681

۔۔۔۔۔

طلباء کا کردار تھا کہ جو اسلامی انجمنوں کی صورت میں فعالیت کر رہے تھے اور نجف سے رابطہ رکھے ہوئے تھے وہاں کی مناسب سیاسی فضاء اور ان طلباء کی ذرائع ابلاغ تک رسائی نے انہیں تبلیغ اور فعالیت کا زیادہ سے زیادہ موقعہ فراہم کیا، اس حوالے سے آیت اللہ بہشتی کہ جو جرمنی میں ہیمبرگ کے اسلامی مرکز کے سر براہ تھے ان کا ان طلباء سے رابطہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا سنہ 1345 شمسی میں یورپ کے مسلمان طلباء نے ایک رسالہ بنام ” اسلام مکتب مبارز” بھی جاری کیا(1) ساٹھ کے عشرہ میں حسینیہ ارشاد میں ڈاکٹر علی شریعتی کی تقاریر اور ان کی تالیفات کے ممنوع ہونے کی بناء پر یونیورسٹی کے طلباء میں ان کی تالیفات کے مطالعہ کا رجحان بڑھ گیا ان کی سماجیات، تاریخ، فلسفہ اور دین کے امتزاج پر مبنی گفتگو نے طلباء کے مذہبی ونگ میں اسلامی بیداری کے احساس کو مزید قوت بخشی(2)۔

مطہری، مفتح، محمد تقی جعفری اور فخر الدین حجازی کی یونیورسیٹوں میں تقاریر اور قلمی آثار نے جہاں حوزہ علمیہ اور یونیورسیٹوں کو ہم فکر اور ہمقدم بنانے میں کردار ادا کیا وہاں اسلامی بیداری کی تحریک کو علم، ایمان اور جدید دور کی معلومات سے بھی یکساں طور پرمسلح کیا۔

1351 شمسی میں پہلوی حکومت نے سپاہ دین کو تشکیل دیا تا کہ اپنے مخالف علماء کی فعالیت کو کنٹرول کرے۔ لیکن اس اقدام کا نتیجہ بھی الٹ نکلا امام خمینی کی قیادت میں علماء نے سختی سے اس اقدام کی مخالفت کی اور حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم چلائی۔

۔۔۔۔۔۔۔

1) علی رضا کریمیان، سابقہ ماخذ، ص 273۔ 271، یاران امام بہ روایت اسناد ساواک ( شہید بہشتی) مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات )۔ ص 127۔ 123، 78، 77، 67ؤ 39، 34 عباس علی عمید زنجانی، سابقہ ماخذ، ص 173۔ 170، علمی دوانی، نہضت روحانیون ایران، ج 5و 6 مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 208۔ 207۔

2) شریعتی بہ روایت اسناد ساواک، 3 جلد، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔

۔۔۔۔۔

1354 شمسی اور 1355 شمسی میں بے پناہ سیاسی گھٹن اور صف اوّل کے بہت سے مجاہدین اور دانشور شخصیات کو قید و بند میں ڈالنے کی فضاء سے اسلامی بیداری کی تحریک کچھ عرصہ کیلئے جمود کا شکار ہوئی اور زیادہ تر یونیورسٹی طلبا کی تحریک کی صورت میں جاری رہی، یونیورسٹی کے طلباء نے یونیورسیٹوں میں بہت سے نماز خانے قائم کیے۔ کوہ پیمائی کے پروگرام بنائے، نماز جماعت کا اہتمام کیا، اور گھروں میں علمی نشستیں رکھتے ہوئے نظریاتی جنگ اور یونیورسٹی اور معاشرہ میں فاسد کلچر کے مقابلہ پر مبنی گفتگو اور اسی طرح کے دیگر کام سرانجام دیتے ہوئے انہوں نے اس جمود کے دور کو بعد کے مرحلے کے ساتھ متصل کیا وہ مرحلہ جس میں انقلاب کی کامیابی کیلئے آخری جوش و خروش پیدا ہوا تھا۔ (1)

ساٹھ کے عشرہ میں اس معتدل اور اصولی فکری اور اسلامی سیاسی فعالیت کے ساتھ ساتھ کچھ اور گروہ بھی کام کر رہے تھے کہ جو مذہبی طور پر متشددانہ افکار کے مالک تھے ان میں سے وہ جو علماء کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے تھے، میں سے سات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہیں ”امت واحدہ، توحیدی صف، فلق، فلاح، منصورین اور موحدین کچھ ایسے گروہ بھی تھے کہ جو دینی رجحان کے حامل ہونے کے با وجود علما سے ہٹ کر کام کر رہے تھے گروہ فرقان اور گروہ آرمان مستضعفین وغیرہ ان میں سے تھے۔ (2)

50 اور 60 کے عشرہ میں اسلامی بیداری کی تحریک کو آگے بڑھانے کا ایک اہم ترین ذریعہ علمی حوزات، دینی مدارس اور مجاہد علماء کا تبلیغی پلیٹ فارم تھا۔ حوزات میں سب سے اہم اور وسیع ترین حوزہ حوزہ علمیہ قم تھا۔ اس دور میں حوزہ علمیہ قم سے وابستہ موسسات کہ جو اسی دور میں تشکیل پائے اور فعالیت کا آغاز کر چکے تھے ان میں سے مکتب اہل بیت ( تشکیل 1340 شمسی ) جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم ( تشکیل 1342 شمسی)اور موسسہ در راہ حق ( تشکیل 1345) قابل ذکر ہیں۔ (3)

۔۔۔۔۔۔

1) حمید روحانی، سابقہ ماخذ، ج 3۔ ص 1004۔ 998، عمادالدین باقی، جنبش دانشجویی ایران از آغاز تا انقلاب اسلامی، تہران، جامعہ ایرانیان، ص 253۔ 248۔

2) رسول جعفریان، سابقہ ماخذ، ص 179۔ 177۔

3) سابقہ ماخذ 134۔ 131۔ علی رضا سید کباری، حوزہ ہای علمیہ شیعہ در گستردہ جہان، تہران، امیرکبیر، ص 420۔ 414

۔۔۔۔

دار التبلیغ اسلامی کی تشکیل اور اس کے آثار اور مطبوعات اگرچہ امام خمینی کی تحریک کے ساتھ مکمل طور پر موافق نہ تھے بلکہ کبھی کبھی ان کی مخالفت بھی کرتے تھے اور امام خمینی بھی ان کی طرز فعالیت اور بعض کارکن حضرات کی تائید نہیں کرتے تھے اس کے باوجود یہ آگے کی طرف ایک قدم تھا اور دار التبلیغ نے علمی اور مذہبی سطح پر ایسی مسلسل فعالیت کے دوران جو ان طلباء کو علوم انسانی اور دینی میں جدید تعلیمات سے بہرہ مند کیا۔ دینی علوم کے مدارس مثلاً مدرسہ حقانی، مدرسہ منتظریہ، مدرسہ آیت اللہ گلپایگانی اور بعض دیگر مدارس اسی طرح بعض مطبوعات مثلاً مکتب اسلام، مکتب تشیع، بعثت، سالنامہ مکتب جعفری، طلوع اسلام، مسجد اعظم قم کا رسالہ ”پیک اسلام ”یہ سب مجاہد علماء کی سعی و کاوش تحت چل رہے تھے اور شایع ہو رہے تھے۔ اور مجموعی طور پر ان سب کااسلامی بیداری میں اہم کردار تھا۔ (1)

دیگر شہروں کے علمی حوزات بھی اہم فعالیت کر رہے تھے اس حوالے سے مشہد کا علمی حوزہ مشہور مجاہد علماء مثلاً آیت اللہ محمد ہادی میلانی، آیت اللہ حسن قمی، آیت اللہ علی خامنہ ای اسی طرح عبدالکریم ہاشمی ناد اور عباس واعظ طبسی کی موجودگی کی وجہ سے پہلوی حکومت کے خلاف ایک اہم محاذ کی شکل اختیار کر گیا تھا اور دینی تفکر کے احیاء میں موثر کردار ادا کرنے والے مراکز میں سے ایک اہم مرکز شمار ہوتا تھا۔ (2)

مبلغین علماء کرام بھی بالخصوص ماہ محرم، صفر اور رمضان المبارک میں اپنے تبلیغی سفر اور پروگراموں کی صورت میں اسلامی تحریک کی ہمراہی کر رہے تھے اور لوگوں کو جدید سیاسی اور مذہبی مسائل سے آگاہ کر رہے تھے۔ (3)

دیگر کاوشیں کہ جنہوں نے اس اسلامی بیداری کی لہر کی اعانت کی مصر کی دینی تنظیم اخوان المسلمین کے قائدین سید قطب اور ان کے بھائی محمد قطب کے بارے میں بارہ سے زیادہ قلمی آثار کا عربی سے فارسی زبان میں مجاہد دانشور حضرات کے ذریعے ترجمہ کیا جانا تھا۔ (4)

۔۔۔۔۔

1) رسول جعفریان، سابقہ ماخذ، ص 174۔ 159۔

2) مزیدمطالعہ کیلئے رجوع کریں : علی رضا سید کباری، سابقہ ماخذ، ص 769۔ 351، غلامرضا جلالی، مشہد در بامداد نہضت امام خمینی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 142 روح اللہ حسنیان، سہ سال ستیز در بعثت شیعہ، ص 1139۔ 137۔

3) رسول جعفریان، سابقہ ماخذ، ص 158۔ 156

4) سابقہ ماخذ، ص 179، 177۔

۔۔۔۔۔۔

1355 شمسی کے اواخر اور بالخصوص 1356 شمسی میں کچھ حد تک آزاد سیاسی فضا کا پیدا ہونا اور سیاسی قیدیوں کی رہائی نے اسلامی بیداری کی تحریک کے لیے مناسب حالات پیدا کیئے، اخبارات و رسائل کے سنسر میں کمی نے بھی یہ موقع فراہم کیا کہ ذرائع ابلاغ سے بہتر فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اور حکومت کے سیاسی مخالفین بالخصوص مذہبی قوتوں نے اس موقع کو غنیمت جانا تا کہ پہلوی حکومت کو وسیع سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ مثلاً جب ” کیہان” اخبار نے یہ سوال اٹھایا کہ ” ایران چہ دردی دارد(ایران کا مسئلہ کیا ہے) تو چالیس ہزار سے زیادہ خطوط اس سوال کے جواب میں حاصل ہوئے۔ (1)

مجموعی طور پر پہلوی حکومت کے زیر نگرانی (مجبوراً اختیار کی گئی) معتدل پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے سیاسی مخالفین متحد ہو گئے پہلوی حکومت کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور اسلامی بیداری کی تحریک بھی فکری اور انفرادی کاوشوں سے بڑھ کر وسیع پیمانے پر اپنی حتمی کامیابی کیلئے قدم اٹھانے لگی اور سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی سطح پر پہلوی حکومت کو اپنے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسی دوران امام خمینی کے بڑے فرزند سید مصطفی خمینی کی شہادت (1356 شمسی اول آبان) اور ان کے لیے مجالس ترحیم کے پروگراموں کا انعقاد ہوا اور یہ مجالس و محافل پہلوی حکومت پر تنقید اور امام خمینی اور ان کی اسلامی تحریک کی تعریف و تجلیل میں تبدیل ہو گئیں۔ (2)

ملک کے اندراور باہر مجاہدین کے نیٹ ورک نے اپنے تبلیغی اور پیغام رسانی کے گوناگون ذرائع کے توسط سے امام خمینی کی مرجعیت اور رہبری میں کامیابی کے حصول تک جہاد کی ہدایت اور تاکید کی۔ (3)

آخری نکتہ یہ ہے کہ سید مصطفی خمینی کی شہادت کے بعد جو تحریک شروع ہوئی وہ پھر کنٹرول نہ ہوسکی سیاسی اسلام اور دینی قیادت نے اسلامی حکومت کی تشکیل کیلئے اپنا نتیجہ خیز قدم اٹھایا جس کا نتیجہ بہمن 1357 میں صبر و کاوش کے بہت سے عشروں کے بعد امام خمینی کی رہبری میں اسلامی حکومت کی تشکیل کی صورت میں نکلا۔

۔۔۔۔۔

1) چمز بیل، عقاب و شیر، ترجمہ مہوش غلامی، ج 1، تہران نشر کوبہ، ص 459۔

2) مہدی بازرگان، انقلاب ایران در دو حکومت، تہران، نہضت آزادی، ایران، ج 5، ص 24۔

3) شہیدی دیگر از روحانیت، نجف، انتشارات روحانیوں خارج از کشور، ص 140، 126۔

٭٭٭

http://www.maaref-foundation.com/urdu/islamic۔ history/islamic۔ culture/11.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید