فہرست مضامین
- ارمغانِ ابتسام
- جیپ جنازہ
- یہ ہے مظفر گڑھ
- واٹر پمپ مارکیٹ
- ہزلیات
- ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
- ضیاء اللہ محسنؔ
- عرفان قادرؔ
- نویدؔ صدیقی
- روبینہ شاہین بیناؔ
- تنویر پھولؔ
- سید فہیم الدین
- امجدؔ علی راجا
- گوہرؔ رحمان گہر مردانوی
- زبیر قیصرؔ
- ابنِ منیبؔ
- شاہین فصیح ربانی
- اعظم نصرؔ
- نیاز احمد مجازؔ انصاری
- عاجزؔ سجاد
- اقبالؔ شانہ
- احمدؔ علوی
- ڈاکٹر نشترؔ امروہوی
- ڈاکٹر امواج السّاحل
- اسانغنی مشتاق رفیقی
- نوید ظفرؔ کیانی
- میاں لچھن اور قربانی
- رن out
- مراثی کی قبر
- اَگے تیرے بھاگ لچھئے
- اشرف المخلوقات، گدھا اور سونامی لہر
- کاتبِ تحریر
- میرؔ کیا سادہ ہیں
- حسیں ہاتھ کا کنگن
- بھائی عبدالقدوس
ارمغانِ ابتسام
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۶ء، حصہ ۲
مدیر: نوید ظفر کیانی
سفر وسیلۂ ظفر
جیپ جنازہ
محمد عارف
رات بالا کوٹ کے ایک بلند و بالا گیسٹ ہاؤس میں گزری جو ایک پہاڑ کے دامن میں تھا۔ رات دیر تک گپیں ہانکنے کے باوجود صبح نماز کے لیے ’’ مولوی احباب‘‘ نے انھیں بھی جگا دیا جو جمعے یا عید والے تھے۔ سویرے جاگنے، جگانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم لوگ بارہ سے پہلے ناران پہنچ کر آج ہی جھیل سیف الملوک جانا چاہتے تھے۔ ناشتے کے بعد تصویر کشی اور خود کشی یعنی سیلفی سیشن کے بعد دو کوسٹروں پر مشتمل قافلہ روانہ ہوا۔ کاغان میں انتہائی مختصر قیام کے بعد ناران جا کر دم لیا۔ کوئی ساٹھ کے قریب لوگ تھے، اتنے زیادہ لوگوں کا قیام و طعام ایک الگ مسئلہ تھا، چند احباب کو اس کام پر معمور کر کے باقی لوگوں کو جھیل جانے کا عندیہ دے دیا گیا۔ ہفتے کا دن تھا، دن کے بارہ بجے تھے، موسم کھلا ہوا تھا اور ناران میں جھیل سیف الملوک کے جیپ اسٹینڈ پر جیپیں شارٹ ہو چکی تھیں، سب یکے بعد دیگرے نکلنے کے چکر میں تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آٹھ دس جیپیں بہ یک وقت موجود نہ تھیں، جو چار پانچ تھیں، ان میں سے بھی دو ہم سے بعد میں آنے والی ایک پارٹی ہائر کر چکی تھی۔ اب ہر گروپ کو الگ کر کے اپنے طور پر جانے کا ’’ گو ہیڈ‘‘ دیا گیا، کئی گروپ نکلے توہمارا گروپ اور دوسرے گروپوں میں ایڈجسٹ نہ ہونے والے چار چھے نگ باقی رہ گئے، جن میں سے کچھ واقعی نگ ہونے کے باعث خوار ہو رہے تھے، اب صورتِ حال یہ تھی کہ دُور دُور تک کوئی جیپ نظر نہ آتی تھی، سوبیش تر احباب ’’سن بلاک‘‘ ملتے، مٹر گشت کرتے تھے۔ ۔ ۔
تھوڑی دیر بعد غربی سڑک سے ایک مسلسل چنگھاڑ سنائی دینے لگی، پھر کسی عجیب و غریب جیپ نما گاڑی کے خدوخال واضح ہونے لگے۔ یہ گاڑی، شور مچاتی، تھر تھراتی، ہانپتی کانپتی اور گڑ گڑاتی بہ مشکل ہم سے چند قدموں کے فاصلے پر رکی، گردو غبار تھما تو محسوس ہوا کہ یہ مشین کسی زمانے میں جیپ رہی ہے یا ڈارون کی تھیوری کے مطابق مسلسل ارتقا پذیر توہے لیکن ابھی تک جیپ کی معراج تک نہیں پہنچی۔ یہ ماڈرن جیپ کے مقابلے میں بالکل یوں لگ رہی تھی جیسے انسان کے مقابلے میں کوئی گوریلا۔ ہم نے اس پر ایک نگاہِ غلط ڈال کر دوسری نگاہ ڈالنا گوارا نہ کیا۔ یکا یک اس کے ’’ڈالے‘‘ سے ایک صاحب انھیں ’’ صاحب‘‘ تو نہیں کہنا چاہیے، بندر کی طرح ٹپکے اور ہماری سمت آ تے آتے سوال کیا ’’جھیل جائیں گے ؟‘‘
ہماری طرف سے کسی نے جواب دیا ’’جی‘‘
’’آئیں پھر‘‘
’’کس پہ جائیں گے ؟‘‘ ہماری طرف سے سوال ہوا۔
اُس نے اسی جیپ کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔
’’یہ کبھی جھیل گئی ہے ؟‘‘
’’یہ جھیل جا سکتی ہے ؟‘‘
’’یہ جھیل چلی جائے گی؟‘‘
اس نے ہمارے سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ کتنے لوگ ہیں ؟‘‘
’’چودہ ہیں۔‘‘
اِدھر اُدھر دیکھا، دور دور تک کسی اور جیپ کا نام و نشان نہ پا کر ہم نے اس کی آفر کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔
’’کتنے لوگ لے جائیں گے آپ؟‘‘
’’سارے‘‘
’’ہیں‘‘ بیک وقت کئی لوگوں کی ’’ہیں‘‘ نکلیں۔
’’چلیں جائیں گے آپ بے فکر رہیں، جیپ میں سیٹیں نہیں ہیں، جگہ بچ بھی جائے گی!‘‘ اس نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا۔
’’کرایہ کیا ہو گا؟‘‘
’’دو سو روپیہ فی کس‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے مظہر اور عدنان کی طرف یوں دیکھا جیسے ہم پر احسان کر رہا ہو۔
نہیں جناب ہم ’’ پر ہیڈ‘‘ نہیں دیں گے، آپ یک طرفہ کرایہ بتائیں ؟
’’۳۰۰۰ دے دیں۔‘‘
’’ فی کس کے حساب سے ہی چلے جائیں گے، جوں ہی بات پکی ہوئی ایک ہا ہا کار مچی اور سب اس جیپ نما ٹرک یا ٹرک نما جیپ پر سوار ہو گئے۔‘‘
’’ہاں جی اپنا اپنا کرایہ دے دیں۔‘‘
’’راستے میں لے لینا‘‘
’’جناب یہ تیل پر چلتی ہے۔‘‘
’’ہم نے کب کہا ہے کہ پانی پر چلتی ہے۔‘‘ ہماری سائیڈ سے کسی نے زبان دانی کے جوہر دکھائے کہ ایک سے ایک زبان دراز ہمارا ہم رکاب تھا۔
’’آپ کرایہ دیں گے تو تیل ڈلے گا اور گاڑی جھیل تک جائے گی۔‘‘
’’پکی بات ہے، جائے گی نا؟‘‘
’’اللہ دی قسمے‘‘ یہ بھی کوئی اپنی سائیڈ کا تھا۔
کرایہ وصول پانے کے بعد موصوف نے ڈرائیور سے کین لیا، سامنے کی دُکان سے بھروا کر بونٹ اُٹھا، انجن کے حلق میں انڈیل دیا اور دوبارہ بھروا کر استاد کو دے دیا، جس نے بہ مشکل اسے اپنی بائیں جانب پاؤں میں رکھ لیا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ فرنٹ سیٹ پر فیصل بھائی اور شاہ جی بیٹھے ہیں۔ استاد نے جوں ہی چابی گھمائی تو یوں لگا جیسے کوئی شخص ڈراؤنا خواب دیکھتے ہوئے مسلسل چیخ و پکار میں مصروف ہو، ایک گھن گرج کے ساتھ جیپ کا رُواں رُواں متحرک اور زور و شور سے شور مچانے لگا۔ جیپ نے جھُرجھُراتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کیا تو ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے والا کنڈکٹر بھی پائیدان کے ساتھ لنگور ہو گیا، اب اس جیپ پر اگر یہ جیپ ہے تو ڈرائیور سمیت، اگر وہ ڈرائیور ہے تو، یا نہیں تو بھی ۱۶ لوگ ہو چکے ہیں، اگر یہ سب لوگ ہیں تو۔ ۔
بات تو اس نے ٹھیک کی تھی کہ جگہ بچ بھی جائے گی، اور جگہ بچ بھی گئی تھی، چار چھے اور پھنسائے جا سکتے تھے، سارے کھڑے تھے کہ نہ سیٹیں تھیں اور نہ دریاں۔ ۔ ۔ اب جو لوگ درمیان میں تھے وہ کھڑے ہونے کے باوجود بھی ارد گرد کے نظاروں سے محروم ہیں۔ دفعتاً میری نظر جیپ کی فرنٹ سیٹ کے چھت پر بنے کیبن پر پڑی، ایسا کیبن جیپ میں تو نظر نہیں آتا البتہ ’’بیڈ فورڈ ٹرکوں‘‘ میں لازم و ملزوم ہے۔ میں اس کیبن پر چڑھ کر بیٹھ گیا مجھے مزے میں دیکھ کر شہریار بھی میرے ساتھ آ بیٹھا یعنی یک نہ شد۔ ۔ ۔ اب ہم بیٹھے ہوئے تو ضرور تھے لیکن پتریوں کا چھت ’’تشریف‘‘ پر نقش ہوتا تھا، ایک دو بار پہلو بدلے اور بالآخر ٹانگیں اگلی سائیڈ سے گرا کر پرسکون ہو گئے۔ جوں ہی ہم پرسکون ہوئے جیپ بے چین ہو کر دائیں بائیں جھولنے لگی، کنڈکٹر نے چھلانگ لگائی اور جیپ سے آگے نکل کر دیکھا تو پتا چلا آگے ونڈ سکرین پر چار عدد ٹانگیں لٹک رہی ہیں اور استاد کھڑکی سے سر نکالے نہ صرف جیپ ڈرائیو کر رہا ہے بل کہ ٹانگوں کے قضیے پر نقار خانے میں توتی بھی بجائے جا رہا ہے، خیر ہم نے کنڈکٹر کے ’’توجہ دلاؤ نوٹس‘‘ پر اپنی ٹانگیں تہہ کر کے تشریف کے نیچے رکھ لیں۔
یہ جیپ عام جیپوں سے کافی اونچی ہے، میں اور شہریار اس کے چھت پر ہیں، نیچے ’’ ڈالے‘‘ میں دو قطاریں تھیں، ایک میں مظہر، عدنان، نعیم، زاہد، عمر اور مظہر خان تھے اور دوسری میں عمران، کرامت، فیاض، عبدل اور کوئی ایک ادھ نگ مزید بھی تھا، صبح بھاگ دوڑ میں دانت صاف کرنے کا وقت نہیں ملا تھا، اب کچھ آسودگی میسر آئی تو یاد آیا ایک عدد مسواک ہماری جیب میں محوِ استراحت ہے، اسے نکالا، چبا کر نرم کیا اور جیسے ہی پچکاری ماری، احتجاج کی کئی آوازیں بہ یک وقت بلند ہوئیں جن میں سے سب سے نمایاں آواز مظہر کی تھی ’’کیا بے غیرتی ہے یار!‘‘
’’کیا بے غیرتی ہے ؟‘‘ میں نے انجان بنتے ہوئے سوال دہرا دیا۔
’’ساراتھوک ہمارے چہرے پر آ رہا ہے، یہ کام بعد میں نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’میں جھیل پر پہنچنے سے قبل یہ کام مکمل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ہم نے جواب دیتے ہوئے پچکاری ماری، اب کے جیپ ایک موڑ مڑ رہی تھی، لہذا کچھ نہ پوچھیے، وہ ہاہاکار مچی کہ خدا کی پناہ۔ مسواک ہم نے تیس روپے میں خریدا تھا، سو احتجاج نظر انداز کر کے قدرے محتاط انداز میں پیسے پورے کرنے کا شغل جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن جان بچانا بھی تو فرض ہے نا، سو جان بچا لی۔
ہم سے لا تعلق، بندر کی طرح دائیں بائیں جھولتا، جیپ کے پائیدان کے ساتھ لٹکا کنڈکٹر، کسی بھی سخت مقام پر چھلانگ لگا کر پتھر اُٹھائے جیپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا تھا۔ تین کلو میٹر کے پکے رستے پر جیپ خراماں خراماں ہی سہی چل رہی تھی جس کا اندازہ دھوئیں کی اس لکیر سے بھی ہو رہا تھا جو ’’لکیری جہاز‘‘ کی طرح جیپ پیچھے چھوڑے جا رہی تھی۔
کچے راستے کے آغاز پر ہی جیپ کے ہچکولے اور ہچکیاں بڑھ گئیں، دھوئیں کی لکیر جو پہلے کسی سانپ کی طرح سلم اور سمارٹ تھی اب اژدھے کا روپ دھار چکی تھی، جیپ دھاڑ رہی تھی، جھول رہی تھی، ہانپ رہی تھی، شاید گھسٹ بھی رہی تھی، پیچھے سے آنے والی کئی جیپوں نے ہمیں کراس کیا اور نگاہوں سے اوجھل ہوئیں تو احساس ہوا تھوڑا صبر کر لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ ایک موڑ مڑنے کے بعد جیپ کا رخ اُس گلیشیئر کی طرف ہو گیا جو نشیب کی جانب تھا، جیپ کی رفتار بڑھ گئی، شور مزید بڑھ گیا یوں لگا جیسے استاد کے ایکسی لیٹر والے پاؤں پر فیصل بھائی نے بھی اپنا پاؤں رکھ دیا ہو، اب صورتِ حال یہ تھی کہ جیپ اپنی بساط بھر رفتار سے گلیشیئر کی جانب اُڑی جا رہی تھی، لگتا تھا کہ استاد بمع جیپ خودکشی کے چکر میں ہے، یک دم بریک کی خوف ناک چنگھاڑ گونجی، ’’ڈالے‘‘ والے ایک دوسرے سے ٹکرائے، ہم بونٹ پر جاتے جاتے رہ گئے اور یقیناً فیصل بھائی اور شاہ جی نے بھی ونڈ سکرین سے نکلنے کی کوشش کی ہو گی۔ جیپ رکی تو اس کی ایک سائیڈسُرنگ ہوتے گلیشیئر کے منہ میں چلی گئی۔ جیپ کے بونٹ پر گلیشیئر سے ٹپکنے والی بوندیں پڑیں تو بھاپ اُٹھنے لگی۔ ہم لوگ نیچے اُترے تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے شاہ جی اور فیصل بھائی بھی نیچے آ چکے تھے۔ فیصل بھائی شدید غصے میں، اُترتے ہی پوچھنے لگے ’’یہ جیپ کس نے ہائر کی تھی؟‘‘
’’پتا نہیں‘‘
’’بندہ دیکھ تو لیتا ہے، اس جیپ کی حالت ہے چلنے کی۔‘‘
’’فیصل بھائی!پہلی بات تو یہ کہ آپ ہمارے گروپ کے نہیں اور دوسری بات یہ جیپ ہائر نہیں کی گئی بل کی ’’پر ہیڈ‘‘ پر بات ہوئی ہے، اس لیے سب ذمہ دار ہیں اور بات ابھی پوری طرح ڈَن بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ نے فرنٹ سیٹ سنبھال لی تھی۔‘‘
اس بات پر فیصل بھائی قدرے ملائم ہو گئے ’’یار! اس جیپ کا تو حال ہی کوئی نہیں، استاد چڑھائی پر فور بائی فور گیئر لگاتا تو وہ ایک جھٹکے سے سلپ ہو کر نکل جاتا ایک بار تو جیپ پیچھے جانے لگی تھی۔‘‘
میں نے استاد کی طرف دیکھا تو استاد نے دوبارہ گیئر لگا کر کہا کہ اس کو اسی پوزیشن میں پکڑے رکھو، اب یہ نکلے ناں، پچھلے آدھے گھنٹے سے میں اِسی کام پر معمور ہوں۔
’’میں اگّے باساں‘‘عمر نے آواز لگائی۔
فیصل بھائی نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ’’میرا تو کندھا درد کرنا شروع ہو گیا ہے۔‘‘
کسی نے پھر جملہ کسا ’’اس طرح تو ہوتا ہے اُسترے کے کاموں میں‘‘ اور عارف بھائی، استاد۔ ۔ ۔ مجھے تو لگتا ہے یہ شاگرد بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔
اِتنے میں ڈرائیور سائیڈکا دروازہ کھلتا ہے، استاد نے اپنے اُلٹے ہاتھ سے اپنی سیدھی کلائی پکڑی اور اسے اسٹیرنگ سے اُٹھا کر پہلو میں رکھا پھر اسی طرح اس نے اپنی سیدھی ٹانگ پکڑ کر اسے گاڑی سے باہر لٹکایا، پھر بمشکل تمام چھلانگ لگا کر سٹرک تک آیا، استاد کھڑا ہوا تو اس کا سارا دایاں حصہ جھولتا پایا، دائیں بازو میں تو لرزا اور بھی شدید تھا جس کے اثرات چہرے پر بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
کنڈکٹر ایک سرکٹے کین سے گلیشیئر کا یخ پانی انجن پر انڈیل کر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیپ کی اگلے بمپر کے اوپر کالی نمبر پلیٹ پرسفید رنگ سے GLT-3219 لکھا ہے۔ ہم نے بونٹ کے اندر جھانک کر دیکھا تو اندر انجن، تاروں اور ’’ جگاڑوں‘‘ کا ایک عجیب گورکھ دھندا نظر آیا، جیپ کا جگہ جگہ سے اُکھڑا رنگ آسمانی ہے، نیچے بیش تر رنگوں کی قوسِ قزح اس کی عمر کا پتا دیتی تھی، اس کے علاوہ اس جیپ کے شاک عام جیپ سے از حد اونچے ہیں، ’’ڈالے‘‘ کے منظر سے لگتا ہے جیسے اس میں چھوٹے بڑے جانور سپلائی کیے جاتے ہوں، ویسے اب بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ پانی کے ٹھنڈے دھارے گرنے سے جیپ کی غراہٹ کم ہوتی جا رہی ہے، پھر کنڈکٹر نے بونٹ گرادیا، استاد بمشکل سیٹ تک پہنچا، سب اپنی اپنی جگہ ایستادہ ہوئے اور جیپ رواں ہو گئی، راستے میں ایک بار جیپ ریورس ہوتی، پہاڑ سے نیچے جانے لگی تھی، یقیناً گیئر فیصل بھائی کی گرفت سے نکل گیا ہو گا، ذرا آگے گئے تو ایک گڑھے میں جیپ کا اگلا پہیہ گم ہو گیا، جیپ اگلے دائیں اور پچھلے بائیں پہیے پر تھی، اگلا پہیہ گڑھے میں اور پچھلا ہوا میں تھا اور جیپ دو پہیوں پر ’’سی سا‘‘ کرتی تھی، ایکسی لیٹر بڑھتا تو جیپ جھولتی ہوئی اگلے بمپر تک گڑھے میں چلی جاتی، یک دم ایکسی لیٹر پر دباؤ بڑھا دیا گیا، جیپ کی آہ و فغاں مزید بڑھ گئی استاد نے جھٹکے سے پہیہ گڑھے سے نکالنے کی کوشش کی تو جیپ الٹتے الٹتے بچی، غلطی کنڈکٹر کی تھی، وہ استادکواشارے کر کے غلط سائیڈ پر زور لگوا رہا تھا۔ ۔ ۔ بالآخرکئی گھنٹوں کی ذلالت کے بعد جھیل تک پہنچے، تب پتا چلا کہ اس جیپ کے ڈرائیور کوبھی فالج ہے۔
۔ ۔ ۔ جھیل پر کئی گھنٹے گزار کر واپسی کی راہ لی تو یہ جیپ وہیں کھڑی ملی، استاد ما تھا اسٹیرنگ پر رکھے بیٹھا تھا اور کنڈکٹر بولایا بولایا پھرتا تھا، ہم لوگ نظریں چُرا کر گزر گئے۔ ۔ ۔ جلد ہی ہمیں ایک جیپ مل گئی یہ نئے ماڈل کی تھی لیکن اس نے بھی ہمیں بہت تنگ کیا، کیوں کہ اس میں سیٹیں تھیں، سو جگہ تنگ تھی کہ واپسی بھی اکلوتی جیپ پر ہوئی۔ ۔ ۔ آج بہت دنوں بعد اُس جیپ کی یاد آئی، پتا نہیں بے چاری واپس بھی آ سکی کہ نہیں، اب کے سیف الملوک گیا تو دیکھوں گا، شاید اب بھی ہمارے انتظار میں ہو۔ ۔ ۔ ہم جیسے مسافرروز روز کہاں میسر آتے ہیں۔
٭٭٭
یہ ہے مظفر گڑھ
(لندن ایکسپریس۔ باب اوّل)
ارمان یوسف
دریائے چناب اورسندھ کے درمیان واقع شہر مظفر گڑھ نہ صرف پاکستان کے مرکز میں واقع ہے بلکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور سب سے پرانا ضلع بھی ہے۔ علی پور، جتوئی، کوٹ ادو اور مظفر گڑھ سمیت چار تحصیلیں ہیں۔ یہاں کا موسم شدید گرم اور شدید سرد ہوتا ہے۔ موسمِ گرما میں اگرچہ گاڑیوں کے شور شرابے، دھوئیں اور تپتے سورج کی موجودگی میں خود کو دریافت کرنا بھی خاصا مشکل کام ہے مگر ذرا سی جواں مردی کا مظاہرہ کر کے آپ شہر کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ٹھنڈے ٹھار شربت والی ریڑھیوں کے پہیے سے لگے گھنگروں کی مدھر آواز اور ٹیپ ریکارڈ پہ بجتے سردائیوں، شربتوں اور ’’راؤ‘‘( گنے کے رس)کے قصیدے ایسا سحر طاری کر دیتے ہیں کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ’’چاچا ایک گلاس دینا‘‘ کی صدا لگا کر ریڑھی کی ٹین کی بنی چھت کے نیچے پناہ لے لیتے ہیں۔
اور اگر آپ ذرا وکھری ٹائپ کی عیاشی کرنے کے موڈ میں ہیں اور جان کا خطرہ بھی مول لے سکتے ہیں تو ’’سواری اپنے سامان کی حفاظت خود کرے‘‘کے سنہری اصول پر عمل پیرا ہو کر دوپہر کے وقت قریبی گاؤں کے کسی آموں کے باغ میں عین اس وقت جا گھسیے جب باغ کا رکھوالا گھڑی بھر کے لیے آنکھیں موندے لیٹا ہو۔ اپنی قمیض اتار کے بازو اور گلے پہ گانٹھ لگا کے ایک دیسی تھیلا تیار کر لیجئے جسے اگلے ہی لمحے آپ دنیا کے مزیدار آموں سے بھر سکتے ہیں۔ ساتھ میں لسی کا انتظام بھی ہو جائے توکیا کہنے۔ چناب کے کنارے بیٹھ کے کھائیے بھی اور غوطے بھی لگائیے، اس سے عمدہ تفریح کا یہاں ملنا ممکن نہیں۔ مگر ٹھہریئے، رہنے ہی دیجئے آپ سے یہ سب نہیں ہو پائے گا لہٰذا گنے کے جوس پر ہی اکتفا کیجئے۔ چاچا دینے کی ریڑھی کے ساتھ ہی سڑک کے دونوں جانب بعض درختوں کے سائے میں اور بعض کپڑے کی بنی چھتری کے نیچے بیٹھے چائنہ کے موبائل اور ریڈیو بیچنے والوں کی ایک قطار سی نظر آتی ہے جن میں اکثریت پٹھانوں کی ہے۔ خریداری کرتے لوگوں کی ریل پیل، مگر خیال رہے سیاہ رنگ کے آنچل سے جھانکتی بلوری آنکھوں پہ نہ جائیے گا ورنہ عشق کا روگ بھی لگ سکتا ہے۔ یہاں ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ کہیں آس پاس آنا جانا ہو تو شاہی سواری رکشہ حاضر ہے جس کے آگے تو موٹر سائکل نصب ہوتی ہے جب کہ پیچھے گنے والی ریڑھی سے ملتی جلتی چار پہیوں اور دو لمبی سیٹوں والی ایک بگھی سی لگی ہوتی ہے جسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، یہ بھی تقسیم ہندوستان کی مانند ہے کیونکہ آدھی سواریوں کا جس طرف رخ ہوتا ہے اسی طرف بقیہ کی پیٹھ، کبھی نہ ملنے والے دریا کے دو کناروں کی طرح۔ رکشے والے اس قدر مہربان کہ آپ کے بازو سے پکڑ کر رکشے پر بٹھائیں گے اور ابھی چلے کہہ کر دوسروں کو شکار کرنے چل پڑیں گے۔ رہبری کا یہ شوق تمام رکشہ ڈرائیوروں کی فطرتِ ثانی ہے۔ بعض اوقات اسی کشمکش میں آپ خود تو کسی اور رکشے میں ٹھونس دئیے جاتے ہیں جبکہ آپ کا سامان کسی اور میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سے پورے ملک سمیت قرب و جوار کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو مختلف قسم کی بسیں اور ویگنیں بھی نکلتی ہیں۔ آپ چند قدم آگے چلیں تو نِم والے اڈے سے ڈیرہ غازی خان، چوک قریشی، بصیرہ، سناواں، رنگ پور، شاہ جمال، روہینلا والی، علی پور، جتوئی اور سیت پور کے لئے بسوں اور ویگنوں کے کنڈکٹر آوازیں لگاتے آپ کے منتظر ہوں گے۔ پندرہ کی گنجائش رکھنے والی ویگن میں ایک سوپندرہ سواریاں مونچھوں کو تاؤ دیتی، گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے سر پر رنگ دار صافہ یا رو مال رکھے ویگن کے جلد یا بدیر چلنے یا نہ چلنے سے ایسے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں گویا ویگن نہیں گھر کی چھت پر بیٹھے کبوتروں کی اڑان کا مزا لے رہے ہیں۔ ادھر ڈرائیور کی ضد کہ چند اور سواریاں مل جائیں تو چلتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عین روانگی کے وقت گاڑی کا انجن ایک لمبا سانس کھینچتے ہوئے چپ سادھ لیتا ہے۔ ایسے میں کنڈکٹر دھکا لگا کر سٹارٹ کرنے کی گزارش کر کے چھت پہ بیٹھی سواریوں کو بھی یہ کہہ کر نیچے اتار لیتا ہے کہ ’’سائیں دھِکا لائیسو تاں ٹرسی‘‘(دھکا لگائیں گے تو گاڑی چلے گی نا)
اور اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہے اور گرما گرم چائے کا لطف اٹھا نا چاہتے ہیں تو قنوان چوک سے ذرا آگے بابو کینٹین حاضر ہے۔ یہ چائے خانہ در اصل مظفر گڑھ کا پاک ٹی ہاؤس بھی ہے، جہاں ادبی محفلیں سجا کرتی ہیں۔ یہیں بیٹھ کر رضا ٹوانہ(مرحوم)اردو، سراییکی، پنجابی گیت، نظم و غزل اور ماہیے کے شاعر افضل چوہان سلطان ناصر، سلیم نتکانی، ظریف احسن، امجد بخاری، راشد ترین، فیض رسول، نوید ستاری، شاہد عباسی، اکبر نواز، زاہد حسن، وائق امیر اور شکیل احمدسے مظفر گڑھ کا ادبی پسِ منظر بیان کرتے ہوئے پائے جاتے۔ یہاں حکیم عبد المجید راہی، مضطر بخاری، مخدوم غفور ستاری اور انور عاصی کے تذکرے ہوا کرتے اور کشفی ملتانی کا یہ شعر بھی گونجتا ؎
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
اور پھر خود رضا ٹوانہ بھی اپنے اشعار سے محفل گرما دیتے کہ:
دیکھ فرعون کے لہجے میں کوئی بات نہ کر
ہم تو پاگل ہیں خداؤں سے الجھ پڑتے ہیں
مگر یہاں کے لوگ نہ تو کبھی وڈیروں، جاگیر داروں اور سیاست دانوں کی صورت میں زمین کے خداؤں سے الجھنے کا حوصلہ ہی کر پائے اور نہ فرعون کے لہجے کو موسیٰ کی ہدایت ہی میں بدل سکے۔ یوں تو انھیں سرداروں کے حضور سرائیکی خطے کی یہ ملنسار، بھلے مانس اور تابع فرمان عوام ہمیشہ ہی سرِ تسلیم خم رہتی ہے مگر بطورِ خاص اپنی زندگی بھر کی خدمات کے عوض سالانہ گندم وغیرہ حاصل کرتے ہوئے ان کی کمر کا خم اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ سیاست دان اور وڈیرے پانچ سالوں میں صرف ایک بار ووٹ مانگنے کی غرض سے ان سے مخاطب ہوتے ہیں وہ بھی اگر خوش قسمتی سے ملک میں مار شل لا نہ ہو تو۔ یہی وجہ ہے کہ زرخیز خطہ ہونے اور ملوں، فیکٹریوں، تھرمل پاوراور آئل ریفائنری کے باوجود بھی ناخواندگی، غربت اور بیروز گاری کی شرح یہاں پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور سب سے قدیمی ضلعے میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ ہاں البتہ پرائیوٹ ہسپتالوں کی طرح پرائیویٹ سکولوں کی بھی بھر مار ہے۔ یہ بھی ایک قومی المیہ ہے کہ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں سے عوام اعتماد اٹھ گیا ہے جس سے بھانت بھانت کے پرائیویٹ ادارے کھل گئے ہیں اور عوام پر اضافی بوجھ ڈال رہے ہیں۔ ہوا یوں کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے باعث لوگ پرائیویٹ خدمات حاصل کرنے لگے، اگر سرکاری اداروں کی بہتری کی طرف توجہ دی ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ بہرحال مظفر گڑھ کو اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کی نسبت سے ’’شہر علم‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ پاکستان بھر سے طلبا یہاں کے سکولوں میں پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ یہاں مسجدوں کی بھی بھر مار ہے جو عیدین اور جمعہ کے موقع پر ہی بھر پاتی ہیں۔ بعض جگہ تو مسجد میں موجود نمازیوں کی تعداد کے برابر بھکاری بھی دروازے پر موجود ہوتے ہیں۔
رضا ٹوانہ اور ہمنواؤں کے علاوہ اور بھی کئی شاعر اور ادیب اپنے وسیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کوٹ مٹھن کے صوفی بزرگ اور روحانی شخصیت خواجہ غلام فریدؒ کے کلام میں علاقے کی روایات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ خود شناسی اور اطاعتِ الٰہی کا پیغام بھی ملتا ہے۔ وسیب کے ممتاز شعرا میں سائیں احمد خان طارق، عزیز شاہد، مشتاق سبقت، جانبازجتوئی، اصغر گورمانی، شازیہ خان، اوصاف نقوی، عشرت عابدی، نسیم علی پوری اور کئی دیگر شعرا شامل ہیں۔
لو جناب !شاعروں کا ذکر ہو اور مظفر گڑھ کے سیاست دانوں کا تذکرہ نہ ہو، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ یہاں سب سے پہلے میں نام لوں گا بابائے جمہوریت کا لقب پانے والے، منجھے ہوئے سیاست دان جناب نوابزادہ نصراللہ خان کا کہ جنھوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ عالمی شہرت کے حامل کئی سیاست دانوں کا نام بھی مظفر گڑھ کی سیاسی لوح پر کنندہ ہے جن میں ملک غلام مصطفی کھر، نواب مشتاق احمد گورمانی، سردار عبدالحمید خان دستی، امجد حمید خان دستی، عبد القیوم خان جتوئی، حنا ربانی کھر، نوابزادہ منصور احمد خان، جمشید احمد خان دستی اور معظم علی جتوئی۔
٭٭٭
قسطوں قسط
واٹر پمپ مارکیٹ
پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
اور اب ذرا واٹر پمپ مارکیٹ سے ملحقہ تعلیمی اداروں کی بات ہو جائے۔ ستّر کی دہائی میں واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا اور مارکیٹ کے اطراف میں نجی اسکولوں کی تعداد برائے نام تھی، بلاک سترہ میں ایک نجی اسکول ’’خواجہ حسن نظامی‘‘ قائم تھا جسے سرکاری ریٹائرڈ اساتذہ چلایا کرتے، اُن اساتذہ کرام میں مسز منورہ ہاشم، مسز ثریا بیگم اور دیگر شامل تھے۔ سر الطاف بھی ہوا کرتے، مس نفیس بھی ہوا کرتیں تو بعد میں ایچی سن کالج کی پروفیسر انگریزی بھی ہوئیں۔ بڑے قابل اساتذہ کرام تھے۔ پھر ۸۰ء کی دہائی میں واٹر پمپ پر ایک دو اسکول ’’ محمدی پبلک اسکول‘‘ اور ’’ ایچ این پبلک اسکول‘‘(نزد:کاسموس پلازہ ویوسف پلازہ کے ساتھ )، رضوان صاحب کا ’’میٹرو پولیٹن اسکول‘‘ کاسموس پلازہ واٹرپمپ کے مقابل (انچولی برانچ ) کے نام سے قائم ہوا۔ مس منیر زہرہ وہاں کی انچارج ہوئیں جو نصیر آباد برانچ سے آئی تھیں۔ H.N Publicاسکول کی پڑھائی ایک زمانے میں اچھی تھی، اُس اسکول کی ہیڈ مسٹریس یو۔ کے اسکوائر واٹر پمپ کے K بلاک میں رہا کرتی تھیں، میرا فلیٹ بھی اسی بلاک میں تھا۔ جب ۱۹۸۲ء میں ہم نے بی ایس سی کیا تو اسکول ماسٹری کی درخواست ایچ این پبلک اسکول میں دی، اُن صاحبہ نے اور اُن کے خرانٹ شوہر نے فرمایا کہ جناب آپ تنخواہ بہت مانگ رہے ہیں ( نو سو روپے مانگے تھے )، اس لئے سستا ٹیچر چاہئیے۔ ہم نے اُٹھا کے ’’محمدی پبلک اسکول‘‘ واٹر پمپ بلاک سترہ میں درخواست دے دی، وہاں کی پرنسپل مسز ای ایس اینڈریوز تھیں، مورث والا کالج سے ریٹائر ہو کر آئی تھیں، انتقال فرما گئیں، انتہائی ضعیف لیکن کردار مضبوط، ٹھوس، گوری چٹی انگریز، اُن کے ساتھ ٹیچنگ میں انگریز اسٹاف میں سر کمفرٹ مال، سر ایڈون اور مسلم اساتذہ کرام میں مسز فریدہ لقمان (دسویں جماعت کو اُردو پڑھایا کرتیں تھیں )، سر شاداب ( گورنمنٹ دہلی اسکول میں تھے، پارٹ ٹائم ریاضی پڑھایا کرتے )، مسز عذرا لیباریٹری انچارج تھیں۔ مولانا محمد الیاس اللہ والے آدمی مالک تھے۔ دیگر سینئر اساتذہ میں مس شہلا کاظمی، مس شہلا فاطمہ، مس فریدہ، سر سُوری(انگریزی ادب کے سینئر استاد تھے، اُن کا بھی انتقال ہو گیا ہے ) و دیگر، بہت سے نام میرے حافظے میں نہیں ہیں۔ نعیم بھائی بچوں کی فیسیں جمع کیا کرتے اور بینک میں جمع کر کے لاتے۔ میں نے پورے اعتماد کے ساتھ درخواست کی اور ۱۹۸۴ئ میں چودہ سو رُپے ماہوار پر فزکس(طبیعیات) اور ریاضی (ارتھ میٹکس) کا استاد ہوا، بہت پرانی بات، چھ ماہ بعد مستقل ہوا اور اپائنمنٹ لیٹر ملا تو خوشی کو کوئی ٹھکانہ نھیں، اردو ہمیشہ محبوبہ رہی تو اسکول کا رسالہ ’’مشعل‘‘ بھی شایع کیا۔ اصل میں ’’محمدی پبلک اسکول‘‘ جامعۂ سندھ کے معروف اسکالر اور روحانی شخصیت ڈاکٹر غلام مصطفٰے خان نے قائم فرمایا تھا، حاجی محمد الیاس اُن کے عقیدت مند تھے، ایک روز وہ حاجی صاحب کے بنگلے A53 بلاک سترہ واٹر پمپ تشریف لائے تو انھوں نے فرمایا کہ ہمیں تو یہاں تعلیم کی خوشبو آتی ہے، حاجی الیاس نے ایک نرسری اسکول قائم کر لیا ’’حنیفیہ ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کے تحت، اُس اسکول نے اسّی کی دہائی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے، آہستہ آہستہ لوئر سیکنڈری، سیکنڈری ہوا اور اب سنا ہے کہ انٹر کی کلاسیں بھی ہو رہی ہیں۔ حاجی الیاس کی اولاد مالک ومختار ہے آج کل۔ بہت نفیس انسان تھے، افسوس اولادوں میں وہ بات نہ آ سکی۔ ۱۹۹۱ئ میں میری شادی ہو چکی تھی، زیادہ تنخواہ کے چکر میں، مَیں نغمہ گرلز کالج چلا گیا، گلشن اقبال میں ایک پرائیویٹ کالج تھا، اب تو بند ہو گیا وہ، وہاں ایک کوچنگ سنٹر ’’ پریکٹیکل سینٹر‘‘ کے نام سے کھل چکا ہے شاید۔ وہاں سے میں چار سال بعد پاکستان اسٹیل کیڈٹ کالج گیا، ساتھ پٹارو کیڈٹ کالج جا کر اعزازی کلاسیں لیتا رہا، پھر آغا خان کالج میں وائس پرنسپل ہوا، تعلیمی بورڈ کا چیئرمین ہوا، ۱۹۹۳ئ میں نواز شریف صاحب کی لیکچرر شپ کا اشتہار شائع ہوا تو میں نے فزکس میں ایم ایس سی کے باوجود اُردو ادب میں بھی ایم اے اول پوزیشن کے ساتھ کر رکھا تھا، میرا ایک دوست تھا، انوار الحق سومرو، وہ بھی نہایت غربت میں ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا تھا، میں نے بھی بہت ٹیوشنیں پڑھائی ہیں، بہت کمایا، گھر کا فرنیچر لاتا تھا، خوب کھاتا پیتا تھا، کتابیں خریدتا، انوار نے مجھے مشورہ دیا کہ فزکس میں جاب کرنے کی وجہ سے تمہاری سیکنڈ ڈویژن ہے جبکہ اردو میں پہلی پوزیشن ہے، اس لئے تم سندھ پبلک سروس کمیشن اُردو کے لئے دو، میں لیکچرر تو پہلے ہی تھا اس لئے ’’اسسٹنٹ پروفیسر‘‘ BS-18 کے لئے درخواست دی، حیدر آباد سندھ میں تحریری امتحان ہوا تھا، اُس امتحان کے بعد میں دہلی کالج کریم آباد میں کوآپریٹو پڑھاتا رہا، ظالمو نے میرا وہ تجربہ کاؤنٹ نہیں کیا ورنہ آج 20 ویں گریڈ کا پروفیسر ہوتا، خیر۔ ۔ ۔ تین سال بعد ہم لوگ سرکاری ملازمت میں مستقل ہو گئے، میں نے کیڈٹ کالج کی نوکری تو پہلی ہی چھوڑ دی تھی، سرکاری ملازمت پکّی ہونے پر آغا خان کی نوکری بھی چھوڑ دی، حالانکہ اُس وقت سرکاری تنخواہ کچھ بھی نہ تھی، کُل چھ ہزار ملا کرتے، اُس میں سے بھی گروپ انشورنس، فُلاں کٹوتی، ڈھماکا کٹوتی، جی پی فنڈ کٹتا رہتا، اب لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ گریڈ بیس کے لئے آپ کا نام گیا ہے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں کہ جب بینائی، جوانی، طاقت، سب دغا دے گئے تو ایسے گریڈ کو لے کر چاٹوں گا، جب جوان تھا تو پیسہ نہ تھا، میری بیوی ایک ایک چیز کو سلیقہ سے پورا کرتی، عید بقر عید پر عزیزوں کے منھ بند کیا کرتی، گھر میں سلائیاں کیا کرتی، سخت محنتی عورت، اب پیسہ ہے تو بڑھاپا ہے، بیماریاں، دوائیاں، بچّے بڑے ہو گئے، اُن کے بچّے ہو گئے ماشا اللہ، بس یہی زندگی ہے، عمرہ اور حج کا پروگرام بناتے رہتے ہیں، اللہ مدد کرے، آپ بھی دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے۔ ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ ’’محمدی پبلک اسکول‘‘ ایک علمی تحریک کا نام تھا۔ ابھی چار سال پہلے کی بات ہے کہ بچوں کے ایک رسالہ ’’ساتھی‘‘ میں اپنی کوئی تحریر دینے گیا تو وہاں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا، نماز ادا کر کے مسجد سے باہر نکلنا چاہا تو ایک تنومند جوان نے میرا راستہ روک لیا، دل میں کہا، لو میاں پروفیسر صاحب آج ٹارگٹ ہوئے، کڑک کے اُس بچّے نے سلام کیا، ذرا باہر چلئے پروفیسر صاحب، وہ دبنگ لہجے میں بولا۔ واللہ ہماری تو سٹّی گُم۔ اچانک اُس لڑکے نے اُچک کر ہماری جوتیاں اُٹھا لیں اور وہی ضد کہ گیٹ تک چلو بڑے میاں۔ میں نے سوچا کون ہے ؟ اندھیرا تھا۔ نظر صاف نہ آئے، سُجھائی نہ دئے۔ گیٹ پر پہنچ کر اُس لڑکے نے ادب سے میری جوتیاں زمین پر رکھیں اور اپنا سر میرے آگے جھکا دیا کہ پروفیسرصاحب میرے سر ہاتھ پھیریں، میں محمدی پبلک اسکول میں آپ کا شاگرد تھا، آج کل کسی منسٹری میں ہوں۔ میں بہت خوش ہوا، دعائیں دیں اُسے، اپنی سرکاری گاڑی میں آیا تھا کسی کام سے تو مغرب کی نماز مسجد بیت المکرم میں ادا کی۔ کئی شاگرد ہیں میرے محمدی پبلک اسکول کے، پروفیسر ابوبکر حلیم چغتائی ( سابق پرنسپل ڈی جے سائنس کالج ) کی تین بچیاں صہیبہ، صائمہ اور وہ مونا، کیا نام تھا اس کا منیرہ چغتائی، اقبال مالا، صائمہ اعجاز بٹ، اشتیاق، قاسم، تنویر، اللہ جانے بہت بچّے تھے، یاد نہیں سب کے نام مجھے، وہ کیا نام تھا اس کا افشاں، اُس نے مجھ پر کوئی مضمون بھی لکھا تھا ’’ہمارے سر مجیب‘‘، بڑی شریر لڑکی تھی، میتھ خاص نہ تھا، ٹیوشن بھی مجھ سے لیتی، اس کا بھائی بھی، جانے کیا نام تھا ؟ اُن کے والد کسی بینک میں اچھے عہدے پر تھے۔ محمدی پبلک اسکول ایک علمی تحریک تھی۔ بہت مشہور ہوئے وہاں کے طالب علم، وہ دور ’’میرٹ پوزیشن‘‘ کا تھا، وہاں کے بچّے پوزیشنیں لاتے، دیکھئے پروفیسر چغتائی کی دو بیٹیوں کے نام مجھے یاد نہیں آ رہے، اُنہوں نے بھی پوزیشن حاصل کی تھی میٹرک بورڈ میں۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے آس پاس کے فلیٹوں یوسف پلازہ، یوکے اسکوائر میں بھی نجی اسکول کھلتے اور بند ہوتے رہے۔ جیسے ’’گرانڈ پبلک اسکول‘‘ یوسف پلازہ، بلاک جی، میرے چھوٹے بھائی نوید ظفر انوار حمیدی نے وہاں کچھ دن پڑھا پھر محمدی اسکول سے میٹرک کیا۔ احمر اُن کا دوست تھا۔ اردو سائنس سے کالج پڑھا۔ ایم ایس سی زولوجی کیا۔
ایک تو بلاک سولہا کا ’’ بی ایڈ کالج‘‘ جہاں سے میں نے بی ایڈ کیا تھا اور میری خالہ زاد نائلہ عارف صدیقی نے بھی وہاں سے بی ایڈ کیا تھا۔ میری بیگم سیدہ ناہید نرگس نے بھی اسی کالج سے بی ایڈ کیا۔ پروفیسر غفران ہم سب کے پسندیدہ استاد تھے، سر امجد تھے، میڈم ثریا تھیں اور دوسرے۔ جب میں اور ناہید اسکول مینجمنٹ کر رہے تھے تو ہمارا ’’اسکول پریکٹس‘‘ علامہ اقبال گورنمنٹ اسکول نمبر دو، سہراب گوٹھ کہلاتا تھا، لیکن سہراب گوٹھ میں تھا نہیں وہ اسکول، یوسف پلازہ کے ساتھ ہی، کاسموس پلازہ سے آگے ٹرک کھڑے رہتے، سُپر ہائی وے پر تیل وغیرہ لے کر آتے تو ٹرک پٹھان ڈرائیوروں نے وہاں رفتہ رفتہ اپنی چھاؤنی سی قائم کر لی تھی، وہیں علامہ اقبال اسکول تھا، لڑکوں کا اسکول تھا۔ میری بیگم تو اسکول ڈیمو کے بعد معلمہ بن کر گرلز اسکول میں چلی گئیں اور پچیس برس بعد اسی کی ہیڈ مسٹریس ہو گئیں، میں نے کالج سائڈ ’’ پکڑ لی‘‘ ہاہاہا۔ ۔ ۔ اور اُردو کا ماسٹر ہو گیا۔ ہاہاہا۔ ۔ ۔
ایک بوتراب سرکاری اسکول تھا، انچولی میں دو سرکاری اسکول تھے، قُرب و جَوار میں فیڈرل پبلک سرکاری اسکول تھا، واٹر پمپ کے سامنے گلبرگ بلاک دس میں، جاوید میانداد صاحب نے بھی اسی اسکول میں پڑھا تھا کچھ سال۔ فیڈرل اسکول میں۔ ہمارے سراج الدولہ کالج کے انگریزی کے پروفیسر فرما رہے ہیں، پروفیسرڈاکٹرندیم احمد کہ حمیدی صاحب میرا بھی نام لکھ دیں، میں نے بھی فیڈرل اسکول سے پڑھا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب پڑھائی حقیقتاً پڑھائی ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد آیا واٹر پمپ مارکیٹ میں گوشت مارکیٹ سے دائیں کو ایک بغلی سڑک جا رہی ہے، وہاں ایک انگریزی کے پروفیسر صاحب سلطان صاحب رہا کرتے تھے، وہ کورنگی کے کسی سرکاری کالج میں انگریزی ادب کے استاد تھے، کالج سے آ کر شام کو ’’ڈھاکا کوچنگ سنٹر‘‘ کریم آباد میں کلاسیں لیتے۔ انہوں نے ۱۹۸۶ء میں مجھ سے کہا کہ آپ بی ایس سی کے امتحانوں میں نگرانی (انویجیلیشن) کریں گے ؟ میں نے پوچھا، کہاں سر ؟ بولے : کیپری سنیما کے سامنے ’’جیکب لائنز اسکول‘‘میں، نہال صاحب ہیڈ ماسٹر ہیں، اچھے انسان ہیں، اُنھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ چند اساتذہ کرام کی بی ایس سی کے امتحانات میں ضرورت ہے، واضح رہے کہ اُس وقت جامعۂ کراچی کی ڈگری امتحانات اسکولوں اور کالجوں میں ہوا کرتے تھے۔ میں نے ہامی بھر لی، اتفاق سے پہلا پرچہ ریاضی کا تھا ’’میتھ میکینکس‘‘ کا، نو بجے سے پرچہ تھا، میں ڈبلیو گیارہ ویگن میں سوار ہوا اور سیون ڈے ہاسپٹل پر اتر گیا، جہاں اب اسٹوڈنٹ بریانی ہے (اُس وقت نہیں تھی ) وہاں سامنے اسکول تھا، لق و دق، کلاسیں میدان عبور کر کے۔ ایک گھنٹہ بھی پرچہ شروع ہوئے نہیں ہوا ہو گا کہ اسکول کے باہر فائرنگ شروع ہو گئی، فائرنگ تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور پھر باہر سے ایک سیاسی طلبہ تنظیم کے لڑکے کچھ غنڈوں کے ساتھ اندر کُودگئے، اُنھوں نے پروفیسر قدیر صاحب کی ’’میتھ میکنکس‘‘ کی کتاب کے اوراق بڑی بے دردی سے پھاڑ پھاڑ کر لڑکوں کو دینا شروع کئے اور اُن سے پیسے لینا شروع کر دئے، تنظیم کا نام تو میں نہیں بتاؤں گا، کمر کا کپڑا اونچا کرنے سے اپنا ہی ننگا ہوتا ہے۔ یہ حال دیکھ کر میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب نہال صاحب سے رجوع کیا، بدایوں سے تعلق تھا اُن کا، مرحوم ہوئے اب تو، بولے ’’بھائی اِسی بیماری کی وجہ سے تو پرانے اُستادوں کی ڈیوٹیاں لگاتے ہیں، مگر یہ حرامی لونڈے کسی کی بھی تو عزت نہیں کرتے، دیکھنا تعلیم ختم ہو جائے گی اس قوم سے۔‘‘
اُن کا کہا پتھر پر لکیر ثابت ہوا اور واقعی ایک زرخیز قوم زیورِ تعلیم سے محروم ہو گئی، تعلیم جن کے پُرکھوں کا زیور تھی، اثاثہ تھی، اُنہی بدقماش لونڈوں نے اپنی بدکاریوں سے اپنی ہی قوم کے پڑھے لکھوں کے جنازے نکال دئے اور اُن اساتذہ کرام کی لاشوں پر سیاست کی، کہیں اظفر رضوی، کہیں پروفیسر سبط جعفر، کہیں یاسر رضوی کہیں کچھ کہیں کچھ۔ اللہ پاکستان اور اہلِ پاکستان پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائے، آمین۔
٭٭٭
ہزلیات
ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی
ٹکّر کہیں لگ جائے غضب بیچ سڑک پر
پھر کھُلتا ہے لوگوں کا نسب بیچ سڑک پر
ہو جائے کہیں حادثہ پھر ہوتا یہی ہے
دیں نوٹوں سے چوٹوں کو ضرب بیچ سڑک پر
فُٹ پاتھ پہ رکھی ہیں کُتب، شاپ پہ جوتے
ارزاں ہوا ہے کتنا ادب بیچ سڑک پر
اشعار کی رو چلتی ہے گاڑی نہیں چلتی
شاعر کہیں مل جاتے ہیں جب بیچ سڑک پر
جس دیس میں انصاف میسر نہیں ہوتا
ہوتے ہیں وہاں فیصلے سب بیچ سڑک پر
ہے میل خوشامد کا جما وہ نہ سُنیں گے
کرتے رہو تم شور و شغب بیچ سڑک پر
آ جائے نیا سال پرانے ہیں طریقے
سجتی ہے یہاں بزمِ طرب بیچ سڑک پر
معجونِ تسلی و تشفی تو ہے کافی
مظہرؔ چلو اب کھولیں مطب بیچ سڑک پر
٭٭٭
ہاتھوں سے میرے پارچۂ ران تو گیا
پر اتنا ہو گیا تمہیں پہچان تو گیا
لیڈر کی طرح جھپٹے ہیں سارے پلیٹ پر
بچے بہت ہی خوش ہیں کہ مہمان تو گیا
کاروں کا اصطبل ہے مرے گھر کے سامنے
کھلتے جہاں گلاب تھے وہ لان تو گیا
لائے تھے اک طبیب کو گرمی نکالنے
دل پر اٹیک ہو گیا یرقان تو گیا
گھر میں بس اب تو نت نیا سامان آئے گا
شوہر خلیجی ملک ہے، خلجان تو گیا
کل ہو گا پھر کوئی نیا بحران سامنے
اس ملک میں نہ کہہ کبھی، بحران تو گیا
تھانہ کچہری ہو کہ کوئی ہسپتال ہو
آیا ہے جو بھی ہو کے پریشان تو گیا
کسٹم کو دھوکا دے کے پسنجر نے یہ کہا
’’اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا‘‘
اُلّو کی نسل پھیل گئی، خیر اب نہیں
اُلّو کے پٹھوں سے یہ گلستان تو گیا
مظہرؔ نے داغ داغ کیا داغ کا کلام
پیروڈی لکھنے کا چلو ارمان تو گیا
٭٭٭
ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
تمام فین، سبھی ناقدان ریسٹ کریں
مری بساط سے ناواقفان ریسٹ کریں
تو جلد کیسے کٹائی ہو فصل کی کہ اگر
بزرگ کام کریں، نوجوان ریسٹ کریں
اک ایساگیسٹ بھی ہوتا ہے چند منٹوں کا
ٹلے، تو گھنٹوں سبھی میزبان ریسٹ کریں
کوئی تو اور بھی بولے غلط سلط اردو
سو شہر بھر کے سب اہل زبان ریسٹ کریں
ہیں تین بیویوں والے بھی کیا غضب مزدور
یہ ایسے لوگ نہیں جن کے کان ریسٹ کریں
کلاس روم اب ایسے بنا دیئے جائیں
اساتذہ بھی جہاں پر ہر آن ریسٹ کریں
کہا ہے خواب میں مجھ سے یہ فیس نے فیصل
اب اللہ اللہ کریں، بھائی جان، ریسٹ کریں
٭٭٭
جب دکھائے کسی کو تھانہ، عشق
اس کو کہتے ہیں ’’عبرتانہ‘‘ عشق
قلتِ دلبراں تو ہونی تھی
کر رہا تھا سبھی زمانہ عشق
قیس و لیلیٰ سے بھی ہے پہلے کا
پلس اور چور کا پرانا عشق
بعض رنگین ادویہ کی طرح
اپنے بچوں سے تم چھپانا عشق
ایکس رے اس کی چیسٹ کا ہوا تھا
دل سے نکلا کوئی زنانہ عشق
اہلیہ دیکھ، سن بھی سکتی ہے
آپ کا یہ سکائپانہ عشق
نوکروں کو سمجھ نہیں آیا
مالکن کا تحکمانہ عشق
مولوی کر رہا ہے کیوں فیصلؔ؟
اپنی مونچھوں سے والہانہ عشق
٭٭٭
ضیاء اللہ محسنؔ
آنسوؤں کے سائے میں بھی مسکرانا چاہئے
آزمائے کو کبھی نہ، آزمانا چاہئے
رفتہ رفتہ ایک دن وہ گلستاں بن جائے گا
زندگی میں روز کوئی گل کھلانا چاہیے
یاد رکھنے کے لئے یادیں بھی ہونی چاہییں
بھولنے کی عادتوں کو بھول جانا چاہیے
جب کوئی بھی ٹوٹ کر بکھرے تو جلدی سے اسے
ایک پیالہ گوند کا، پانی پلانا چاہئے
دوستوں سے قُرب رکھنا ہو تو اس کے واسطے
روز صبح آپ کو کھل کے نہانا چاہئے
گیس، ٹیلی فون، پانی، دودھ اور بجلی کے بل
ہر مہینے آدمی کو، بلبلانا چاہئے
ہے ترقی کا یہی اک راز میرے دوستو!
افسروں کے سامنے بس دُم ہلانا چاہئے
اک منسٹر نے یوں کی تعریف انکل سام کی
جس کا کھانا چاہئے، بس اُس کا گانا چاہئے
اپنی عادت سے کبھی باز آئے نہ محسنؔ انہیں
شعر کہنے کے لئے کوئی بہانہ چاہئے
٭٭٭
وہ اِدھر سے اُدھر کب کدھر ہو گیا
’’میرے گھٹنے میں دردِ جگر ہو گیا‘‘
میں دوا لینے پہنچا تو دیکھا وہاں
جو قصائی تھا اب ڈاکٹر ہو گیا
جس مدرسے میں وہ فیل ہوتا رہا
اُس جگہ آج وہ ماسٹر ہو گیا
وقت کا کھیل ہے دیکھ تبدیلیاں
وہ پدر سے پسر، پھر سسر ہو گیا
میرے جوڑوں میں بیٹھا رہا عمر بھر
اب وہی شخص کیوں میرے سر ہو گیا
اپنی زوجہ کا ہونا پڑا ایک دن
ہم نے چاہا نہیں تھا مگر ہو گیا
ووٹ ڈالا گیا، اُس کو پالا گیا
شیر پہلے تھا جو آج شر ہو گیا
اس وطن پہ خدا، اپنی رحمت کرے
جو بھی آیا یہاں معتبر ہو گیا
ایک ٹی وی اداکار کا چھینکنا
اِس قدر اہم تھا کہ خبر ہو گیا
٭٭٭
عرفان قادرؔ
نہ ہی بل کلنٹن میں اور نہ اُباموں میں
ہے ابھی وفا باقی پھتّووں میں گاموں میں
عشق کی الف بے تھی عین غین تک پڑھ لی
رُک گئے مگر آ کر کاف گاف لاموں میں
دس کلو خریدے تھے، ہائے شومیِ قسمت!
نو کلو سے زیادہ ہیں گٹھلیاں ہی آموں میں
توڑتے ہیں دفتر میں، کرسیاں سبھی آ کے
پھنس گئے خُدا جانے کیسے ہڈ حراموں میں
پور پور تک جن کی کاہلی میں ڈوبی ہے
گھس چکی ہے سُستی بھی سب کے سب مساموں میں
ہیر آئی سنٹارس ’’فیملی‘‘ کے جب ہمراہ
سات آٹھ چلتے تھے، چار تھے پراموں میں
کاش اتنی پھُرتی ہو، دیس کی پُلس میں بھی
جس قدر وہاں پر ہے، جیریوں میں ٹاموں میں
درس دین کا آ کر دے رہا ہے ٹی وی پر
کل جو کام کرتا تھا لُچ بھرے ڈراموں میں
لیپ ٹاپ دیتے ہیں اور ٹچ مُبائِل بھی
اس لئے ہے بھانجوں کو انٹرسٹ ’’ماموں‘‘ میں
آپ جتنے پیسوں کا لے کے آئے ہیں بکرا
اونٹ بھی ہیں مل جاتے تین اتنے داموں میں
بحر کی جو کرتا تھا میٹروں میں پیمائش
وزن اُس کا اپنا تھا کچھ ملی گراموں میں
٭٭٭
سونی ہو یا ایل جی ہو، یا ہایئر یا ہٹاچی
بِن ٹی وی کے زندہ نہیں رہ سکتی ہے چاچی
مقدُور کہاں روز مِلن ہیر سے میرا
مَیں گلشنِ معمار میں، وہ مائی کلاچی
مانا کہ نہیں کوئی بھی کل اونٹ کی سیدھی
پر یاد رہے اتنی بھی سیدھی نہیں ڈاچی!
سیلفی تو بنانے دے مجھے عید کے دن پر
’’نُوری‘‘ سے یہ کہتا ہی رہا ’’جام تماچی‘‘
ممکن نہیں کر پائے ذرا سی بھی ترقّی
وہ قوم جو لیڈر کے اشاروں پہ ہو ناچی
سرکار! کہاں آپ، کہاں بندۂ مسکین؟
چک جُھمرہ کہاں اور کہاں شہرِ کراچی؟
شاعر کو اگر ایک بھی سامع نہ ملے تو
پھرتا ہے کہ جیسے ہو کوئی گائے گواچی
٭٭٭
نویدؔ صدیقی
ہرگز وہ ادا حقِ قیادت نہیں کرتا
مال و زرِ دنیا سے جو رغبت نہیں کرتا
شوہر کے علاوہ بھلا ہو سکتا ہے وہ کون؟
’’جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا‘‘
بچے ہوئے اُس شخص کے دس سال میں بارہ
کہتا ہے جو ’’بیوی سے محبت نہیں کرتا‘‘
من مانی بھی کرتا ہوں میں دوچار مِنَٹ کو
ہر وقت تو بیوی کی اطاعت نہیں کرتا
ممبر وہ بنا پھرتا ہے گو جعلی سند پر
محسوس کسی طور خجالت نہیں کرتا
اللہ سے ڈرنے کا وہ کہتا ہے سبھی کو
خود اس پہ عمل پیرِ طریقت نہیں کرتا
اِک شور بپا رکھتا ہے یہ میڈیا دن رات
اور پیش کبھی کوئی حقیقت نہیں کرتا
شہرت ہو نہ دولت ہو نہ کرسی ملے جس میں
میں ایسے کسی کام میں شرکت نہیں کرتا
٭٭٭
جب چل سکا نہ زور تو خود کو بدل لیا
بدلا نہ کوئی اور تو خود کو بدل لیا
محسوس جب کیا کہ مری بول چال سے
ہوتا ہے وہ بھی بور تو خود کو بدل لیا
سچ بولنے سے ذہن ابلنے کے ساتھ ساتھ
ٹوٹا جو پور پور تو خود کو بدل لیا
سن کر جسے امامِ زمانہ دیا قرار
دیکھا اسے بغور تو خود کو بدل لیا
اِک عمر خواب دیکھنے، بُننے میں کاٹ دی
مشکل ہوا یہ طور تو خود کو بدل لیا
چاہا تھا کچھ نویدؔ سو ممکن نہیں ہوا
جو تھا رہا وہ دور تو خود کو بدل لیا
٭٭٭
روبینہ شاہین بیناؔ
بنا کے موڈ، دسمبر کی شاعری چاہیں
دماغ مونگ پھلی ہے کہ آپ بھی چاہیں
جو پھنس گئے ہیں یہاں تین بیگمات میں وہ
’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں‘‘
جو کاٹتے ہیں بلیڈوں سے جیب لوگوں کی
ہم اُن کے پیٹ کی خاطر درانتی چاہیں
یہ لوگ سانپ نہیں ہیں تو اور کیا ہیں بھلا
جو اوڑھنے کو بھی سانپوں کی کینچلی چاہیں
کسی کے گھر میں جو پہنچیں تو سب سے پہلے ہم
لگائیں چارج پہ سیل کو یا بیٹری چاہیں
یہ اینکر ہیں کہ جج ہیں کسی عدالت کے
ہر ایک بات پہ اپنی کمنٹری چاہیں
جو بیگمات کے انڈر ہیں ظلم سہتے ہوئے
وہ بد نصیب مصیبت میں چھپکلی چاہیں
چھپا رہے ہیں جو دولت غریب دھرتی کی
وطن سے دور وہ گمنام کمپنی چاہیں
کھلی ہے دشت میں مجنوں کی نرسری لیکن
ہم اپنے شہر میں لولی اکیڈمی چاہیں
کوئی بھی لینس لگا دو مگر یہ یاد رہے
ہم اپنی آنکھ کی رنگت بھی نرگسی چاہیں
ڈکار نے کا ہنر بھی وہ خوب جانتے ہیں
اُڑا کے مرغ مسلّم جو پیپسی چاہیں
جو اِک بلا پہ گزارہ نہ کر سکیں بیناؔ
وہ دوسری کو بھگا کر بھی تیسری چاہیں
٭٭٭
شور سا ہمسائے میں پھر ناگہاں پیدا ہوا
یوں لگا جیسے کوئی آتش فشاں پیدا ہوا
عام سا جھگڑا تھا لیکن لیڈروں کے درمیاں
گالیوں کا ایک بحرِ بیکراں پیدا ہوا
اس لیے باہم ذرا نسلی تفاوت آ گیا
’’پنڈ‘‘ یہ پیدا ہوئی اور وہ ’’گراں‘‘ پیدا ہوا
ایک درجن کم نہ تھے کاکے مرے ہمسائے میں
اِس پہ یہ طرفہ قیامت، تیرہواں پیدا ہوا
جا رہا تھا خامشی سے کوچۂ جاناں کو وہ
دیکھ کر اس کو عبث شورِ سگاں پیدا ہوا
ایک ہی گھر میں اگر پیدا ہی ہونا تھا انہیں
یہ کبوتر ہے تو پھر کیسے وہ کاں پیدا ہوا
٭٭٭
تنویر پھولؔ
کیوں آنکھ ماری اُس کو ہے ؟ کیا کر دیا
شروع کیسا رقابتوں کا ہُوا سلسلہ شروع
ہمسائی پر نثار ہُوا ، اُس پہ مر مٹا
دونوں پڑوسیوں میں ہی جھگڑا ہُوا شروع
بریانی گڑبڑی کا بنی پیٹ میں سبب
بولا حکیم، تجھ کو ہُوا کالرا شروع
پہلے تو خاندان میں مل کر سبھی رہے
پھر ساس اور بہو کا ہُوا معرکہ شروع
تھانے میں بے قصور اِک آیا تو رو پڑا
جب موٹے تھانیدار نے حملہ کیا شروع
اُس پیکرِ ریا کو کریں سات ہم سلام
پردے میں دوستی کے ہے کارِ دغا شروع
مانند گربہ آنکھیں وہ چمکا رہا تھا پھولؔ!
اِک بم وہاں پھٹا جو ہُوا قہقہہ شروع
٭٭٭
دودھ میں، ’’ تعویذ‘‘ لکھ کر گھولئے
پیر صاحب!کچھ تو منہ سے بولئے
ہم پٹے ابا سے اُس کے، رو لئے
ہاتھ محبوبہ سے اپنی دھو لئے
کچھ سکھائیں اُس کے ابا کو تمیز
یعنی اپنے کتے اُس پر کھولئے
ہم کو دامادی میں وہ کر لے قبول
ورنہ پھر مرغا بنا کر تولئے
ناک اُس کی گول جو آئی پسند
کھیت میں ہم نے بھی آلو بولئے
بولا، تیرے باپ کا کیا نام ہے ؟
ہاتھ میں ڈنڈا، تھا آیا جو لئے
جا رہا تھا کھانے دعوت ایک شخص
پیچھے پیچھے اُس کے ہم بھی ہو لئے
بال پِن اتنی لگائیں شوخ نے
گویا اُس نے سر میں کانٹے بولئے
گھر میں جاگے رات بھر، دفتر میں پھولؔ!
بیٹھ کر بیت الخلا میں سولئے
٭٭٭
سید فہیم الدین
مجنوں کو پھنسوایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
ابا سے پٹوایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
بھوک سے اب کیوں مارا مارا پھرتا ہے
فاقوں سے مروایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
کہتا تھا میں گھوڑی چڑھ کر آؤں گا
کھوتے پر بٹھوایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
ابے کی دھوتی کو اپنے لاچے کو
پھوکٹ میں دھلوایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
کہتا تھا کہ نمبردار بنوں گا میں
باورچی لگوایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
چٹھیاں ساری بیرنگ بھیج کے گاؤں سے
مجنوں کو بلوایا کس نے ؟ لیلیٰ نے !
٭٭٭
رشوتوں سے زندگی میں ذائقے بڑھتے گئے
اور یوں کرسی کے پیارے فائدے بڑھتے گئے
جب سے اِک دو شوہروں نے مار کھانا سیکھ لی
بس تبھی سے بیویوں کے حوصلے بڑھتے گئے
اُس کے بھائی سے جو میری دوستی پکی ہوئی
اُس کے گھر پر اُس کے میرے رابطے بڑھتے گئے
اُس قدر رسوا سرِ بازار تجھ کو کر دیا
جس قدر قانون تیرے ضابطے بڑھتے گئے
کس قدر دشوار ہے مل بیٹھنا یکجا فہیم
جب ترقی بڑھ گئی تو فاصلے بڑھتے گئے
٭٭٭
امجدؔ علی راجا
مجھ پر نہ ڈال شک کی نظر، پارساہوں میں
ہوں گے سبھی کرپٹ مگر، پارساہوں میں
اک میں ہی کیا، نظام ہی پورا کرپٹ ہے
مجھ کو نہیں کسی کا بھی ڈر، پارساہوں میں
اجرت کو کہہ رہا ہے تُو رشوت؟ یہاں سے بھاگ
آئے نہ تیری شکل نظر، پارساہوں میں
نسخہ ہے ڈاکٹر کا، نہیں شوقِ میکشی
یہ ہے علاجِ زخمِ جگر، پارساہوں میں
وعدہ شکن نہیں ہوں نہ پھرتا ہوں بات سے
ہے حافظے پہ منفی اثر، پارساہوں میں
نفرت مجھے ہے جھوٹ سے، کرتا نہیں فریب
پر مصلحت ہے میری ڈگر، پارساہوں میں
ناراضگی نہ ہو، نہیں کرتا میں منہ پہ بات
غیبت کہیں گے لوگ مگر، پارساہوں میں
رکھتا نہیں ہوں پیشِ نظر دوسروں کے عیب
رکھتا ہوں یوں ہی سب کی خبر، پارساہوں میں
دیدار بار بار حسینوں کا کفر ہے
میں گھورتا ہوں ایک نظر، پارساہوں میں
اک گھونٹ بھی حرام ہے، کافی ہیں چار پیک
ویسے بھی جا رہا ہوں میں گھر، پارساہوں میں
لگتی نہیں ہے آہ، نہ لگتی ہے بد دعا
ہوتا نہیں ہے مجھ پہ اثر، پارساہوں میں
٭٭٭
گوہرؔ رحمان گہر مردانوی
اپنے وعدوں سے تو وہ صاف مکر جاتی ہے
اور کہنی پہ الگ ہاتھ بھی دھَر جاتی ہے
جتنی معصوم تمنائیں ہیں بالغ ہو کر
پھول چننے کی عمر بھی تو گزر جاتی ہے
ایک تو اِتنی بہادر ہے نڈر ہے بے خوف
چھپکلی دور سے دیکھے بھی تو ڈر جاتی ہے
جب بھی تیور ہو مرے دیکھ کے بدلے بدلے
لوٹتی رہتی ہے پاؤں میں بکھر جاتی ہے
لوٹ کر گھر کبھی آتا ہوں اگر دیر سے میں
نصف بہتر مری پٹڑی سے اُتر جاتی ہے
گھر میں رہتی ہے تو ہر وقت چڑیلوں کی طرح
شادیوں پر جبھی جاتی ہے، سنور جاتی ہے
اُن کے نالے تو کبھی ختم نہ ہوں گے گوہرؔ
ہر یکم کو مری خوشنودیاں کر جاتی ہے
٭٭٭
زبیر قیصرؔ
یہی اچھا لگا مجھ کو، سو عادت چھوڑ دی میں نے
چلن دیکھا شریفوں کا، شرافت چھوڑ دی میں نے
عوام الناس کو جس نے گھسیٹا روڈ پر لا کر
وہی اب کہہ رہا ہے کہ ذلالت چھوڑ دی میں نے
وہ جس نے لوڈ شیڈنگ کی اسے بیگم نے کوسا ہے
سو اب گنجی حکومت سے شکایت چھوڑ دی میں نے
میں جس میں رہ رہا تھا اُس کی بنیادیں بھی خود کھودیں
مگر گرنے سے پہلے وہ عمارت چھوڑ دی میں
حلف اُس نے اٹھایا تو یہی فرماں کیا جاری
حکومت اب کروں گا میں، سیاست چھوڑ دی میں نے
مجھے کچھ بھی نہیں لینا، حسابوں سے، کتابوں سے
سو انگریزی پڑھوں گا میں، ریاضت چھوڑ دی میں نے
مجھے جب اس کے ابے نے وہ مارے تھانے میں لتر
بشیراں کی محبت میں، محبت چھوڑ دی میں نے
اب اس کے گھر ٹیوشن کی لگی ہے نوکری میری
جو چپکے سے میں کرتا تھا زیارت چھوڑ دی میں
٭٭٭
ابنِ منیبؔ
اُس کو دیکھ کے اچھے اچھے
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں
چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں
سَوتی قوموں کے بالآخر
سپنے رَینٹَل ہو جاتے ہیں
’’رائل‘‘ کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رائل ہو جاتے ہیں ؟
شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِی مینٹَل ہو جاتے ہیں
سردی میں سویڈن کی صاحب!
شکوے ڈَینٹَل ہو جاتے ہیں
٭٭٭
شاہین فصیح ربانی
یہ کیا کہ بات ہے کم، گالیاں زیادہ ہیں
ضرور آپ کی گھر والیاں زیادہ ہیں
لہو غریب کا پینا ہے مشغلہ اس کا
رخِ امیر پہ یوں لالیاں زیادہ ہیں
جو کہہ رہا ہے عمل اس پہ وہ نہیں کرتا
اسی کی بات پہ کیوں تالیاں زیادہ ہیں
وزیرِ سست پہ ہے تبصرہ سیانے کا
فضول چیز کی رکھوالیاں زیادہ ہیں
عجب تماشہ یہ گوروں کے شہر میں دیکھا
یہاں پہ گوریاں کم، کالیاں زیادہ ہیں
تمھارے شہر کا احوال کیا بتاؤں میں
تمھارے شہر میں بد حالیاں زیادہ ہیں
مجھے کھنک بھی تری چوڑیوں کی کھینچتی ہے
مگر پسند تری بالیاں زیادہ ہیں
میں کیا کروں، مری تنخواہ ہے بہت تھوڑی
میں کیا کروں کہ مری سالیاں زیادہ ہیں
مقام ایک سا ہے جدّت و روایت کا
یہ گیت کم ہے نہ قوالیاں زیادہ ہیں
یہاں تو آج وہی کامیاب ویٹر ہے
کہ جس کے ہاتھ میں دو تھالیاں زیادہ ہیں
فصیح شاذ ہی اب اختراع ملتی ہے
کوئی بھی شعبہ ہو، نقالیاں زیادہ ہیں
٭٭٭
اعظم نصرؔ
نہ جانے کیوں ہمیں محنت سے کچھ پرہیز ہے ساقی
اگرچہ جانتے ہیں وقت تھوڑا تیز ہے ساقی
ابھی افرادی قوت پر توجہ سب ہماری ہے
علاقہ خاص یہ دنیا میں مردم خیز ہے ساقی
نہیں مطلب زیادہ کام سے، بس زر زیادہ ہو
بڑی کرسی پہ بیٹھے ہیں بڑی سی میز ہے ساقی
کسے مطلب ہے باسٹھ سے، کسے ہے غم تریسٹھ کا
دفعہ کوئی بھی ہو سب قابلِ پرچیز ہے ساقی
بڑے جو ملک ہیں ان کی بڑی سی ہسٹری بھی ہے
ہمارا ملک دنیا میں ابھی نوخیز ہے ساقی
کمی ڈیموں کی ہے ورنہ نصرؔ معلوم ہے کب سے
’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی‘‘
٭٭٭
نیاز احمد مجازؔ انصاری
کس کو سناؤں حال دلِ بیقرار کا
بیگم کے ہاتھ لگ گیا نامہ جو یار کا
ابّو کی ڈانٹ سُن کے بھی کھُونٹا بنا رہا
کب وقت ختم ہو گا ترے انتظار کا
سب جانتے ہیں میں ہوں محلّے کا اک حکیم
گھر میں بُلا لے کر کے بہانہ بُخار کا
کیوں جھُوم جھُوم چلتے ہیں تیری گلی میں لوگ
کھُلنے لگا ہے راز ترے کاروبار کا
فیشن کا بھُوت ہو گیا بیوی کے سر سوار
مولانا! کوئی وِرد بتائیں ’’اُتار‘‘ کا
رشتے نِبھاتا کیسے کوئی نقد میں بھلا
کھاتا رہا جو مال ہمیشہ اُدھار کا
داڑھی کے ساتھ مولوی میخانے آ گئے
کچھ تو خیال کرنا تھا پروردگار کا
بھینگی نِگاہ سے تری پیتا میں روز و شب
یہ کام کاش ہوتا مرے اختیار کا
جیب و گریباں پھاڑ کے بیٹھے تو ہو مجازؔ
دو گے حساب کیسے اُسے تار تار کا
٭٭٭
عاجزؔ سجاد
بڑی حسین ہے دلبر مری حسینہ بھی
کرینہ کیا ہے اور کیا ہے وہ روینہ بھی
وہ منتوں سے بھی سالا مرا نہیں مانا
سسر بھی ساس بھی راضی تھے اور کرینہ بھی
کچھ اور دِن مرے اعصاب پر سوار نہ ہو
دکاندار بھی سر پر ہے اور مہینہ بھی
پسند ایک ہے پر بیویاں ہیں چار مری
یہ روز روز کا مرنا بھی ہے یہ جینا بھی
خدا کا شکر مری ساس ہے بھلی مانس
سسر عجیب ہے، سالا تو ہے کمینہ بھی
سکول خرچے ابھی پورے ہی نہیں ہوتے
وبالِ جان ہے اوپر سے مس نگینہ بھی
وہ سُرخ گال پہ کرتا نہیں ملال ذرا
رسید کرتی ہے تھپڑ جسے روبینہ بھی
٭٭٭
اقبالؔ شانہ
چھتری ذرا نکال، بڑی تیز دھُوپ ہے
گرمی سے ہوں نڈھال، بڑی تیز دھُوپ ہے
سورج دہک رہا ہے مرے سر پہ جانِ من
بکھرا کے زلف ڈال، بڑی تیز دھُوپ ہے
سر پک رہا ہے دھوپ کی تیزی سے یار کا
چہرہ ہے لال لال، بڑی تیز دھُوپ ہے
مجھ کو ذرا بتا ہے خطِ استوا کہاں
جغرافیہ نکال، بڑی تیز دھُوپ ہے
گرمی سے میں کباب نہ بن جاؤں جانِ جاں
پانی میں مجھ کو ڈال، بڑی تیز دھُوپ ہے
شہتوت کا ذرا مجھے شربت پلا دے تُو
ہو جاؤں میں بحال، بڑی تیز دھُوپ ہے
کشمیر کے ہیں سیب، ٹماٹر یا دلی کے
ہیں سرخ سرخ گال، بڑی تیز دھُوپ ہے
گرما میں لگ رہا ہے مجھے ایسے گلستاں
لکڑی کی جیسے ٹال، بڑی تیز دھُوپ ہے
مصرع کو بھون بھون کے شانہؔ سُنا غزل
اشعار کو اُبال، بڑی تیز دھُوپ ہے
٭٭٭
غلطیاں کر رہا ہے کمپیوٹر
آدمی بن گیا ہے کمپیوٹر
اِک پری چہرہ آپریٹر سے
دل لگی کر رہا ہے کمپیوٹر
ہے یہ واقف اُمورِ خانہ سے
بیویوں سے بھلا ہے کمپیوٹر
ذکرِ ’’کمپیوٹرن‘‘ ہوا شاید
خوش بہت ہو رہا ہے کمپیوٹر
مائکرو چِپ خراب ہے یارو
اِس لئے سور رہا ہے کمپیوٹر
جو مسلسل سُنائے ہے غزلیں
آدمی ہے وہ یا ہے کمپیوٹر
ہے یہ انجینئر کا گھر شانہؔ
ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہے کمپیوٹر
٭٭٭
احمدؔ علوی
ہم نے ظاہر و باطن جس کا ایک سا پایا
اُس بشر کو دنیا میں مستند گدھا پایا
گیان پیٹھ لے آیا، بن گیا پدم بھوشن
دوستو! سیاست میں جا کا جم گیا پایا
پائے کھا کر ہوتی ہے پائے کی غزل یارو!
پائے کا بنا شاعر، جس نے کھا لیا پایا
یار کی طبیعت نے پائے سی چپک پائی
لب لبوں سے جب چپکے کون پھر چھڑا پایا
چار ٹن کی بیگم جب چارپائی پر بیٹھی
چارپائی کا ہر اِک چُرمرا گیا پایا
صبح کو اگر کھائیں، رات کو یہ فرمائیں
شوربے میں پائے کے خلد کا مزا پایا
دِل کا درد گھٹنوں میں جب کبھی اُتر آئے
یہ حکیم کہتا ہے صبح شام کھا پایا
٭٭٭
تو بھی بیلن سے پٹا کچھ کم ہے
اس لئے پھولا پھلا کچھ کم ہے
کھا کے دس مرغِ مسلم بولے
پیٹ میں اب بھی گیا کچھ کم ہے
اُس کو دلہن ملی دو سو کے۔ جی
اب بھی شادی میں ملا کچھ کم ہے
شہر میں مچھروں کی عید ہے آج
جس پر اُس کے قبا کچھ کم ہے
تھوپ کر چار کلو میک اپ وہ
پھر بھی کہتی ہے ذرا کچھ کم ہے
بیویاں چار ہیں پھر بھی ہے گماں
مہرباں ہم پہ خدا کچھ کم ہے
کھوٹا سکہ ہے چلن میں کب سے
دوستو پھر بھی گھِسا کچھ کم ہے
٭٭٭
ڈاکٹر نشترؔ امروہوی
سسرال میں رہوں گا کمانا تو ہے نہیں
’’ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانا تو ہے نہیں‘‘
کیوں مارتے ہو سالو مجھے روز صبح شام
سسرال ہے مری کوئی تھانہ تو ہے نہیں
ہنڈیا بنا کے خود ہی بناؤں گا روٹیاں
بیگم کو میرا ہاتھ بٹانا تو ہے نہیں
کرتے ہیں یہ زبانی جمع خرچ اس لئے
ان لیڈروں کو وعدے نبھانا تو ہے نہیں
اسلام میں تویوں بھی اجازت ہے چار کی
پھر بھی فریب دوسرا کھانا تو ہے نہیں
رنڈوا ہی رہ کے اب میں گذاروں گا زندگی
پھندا گلے میں اور پھنسانا تو ہے نہیں
تم مل نہ پاؤ گی تو پٹا لوں گا دوسری
اب قیس جیسا پہلا زمانہ تو ہے نہیں
جوتے پڑے ہیں چاند پہ اظہار وصل پر
یہ بات اب کسی کو بتانا تو ہے نہیں
نالی میں گر پڑے ہو تو لیٹے رہو یہیں
اتنے نشے میں گھر میں بھی جانا تو ہے نہیں
کل رات جوتے کھا کے کیا ہے یہ فیصلہ
ان کی گلی میں اب مجھے جانا تو ہے نہیں
معصوم پھنس رہے ہیں شکاری کے جال میں
پنچھی کی چونچ میں کوئی دانا تو ہے نہیں
٭٭٭
شکم میں قتل ہوتی بیٹیاں اچھی نہیں لگتیں
’’شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں‘‘
بڑھاپے میں یہ سب اٹکھیلیاں اچھی نہیں لگتیں
مجھے اب اپنے ہی بچّوں کی ماں اچھی نہیں لگتیں
بجائے واہ وا کے تالیوں کا شور ہوتا ہے
ادب کی محفلوں میں تالیاں اچھی نہیں لگتیں
رواجوں کا گلے میں طوق ہے مفلس پریشاں ہیں
گھروں میں ہیں کنواری بیٹیاں اچھی نہیں لگتیں
مہارانی جو گھر آ کر چلائے حکم شوہر پر
وہی آفس میں دھوئے پیالیاں اچھی نہیں لگتیں
بسوں میں جسم دکھلا کر جو پاکٹ مار لیتی ہیں
کسی لونڈے کو ایسی لونڈیاں اچھی نہیں لگتیں
میں اپنے اور اُن کے درمیاں رکھتا ہوں اِک تکیہ
انہیں ہر سال آئیں الٹیاں اچھی نہیں لگتیں
ارے ساقی تو اپنے پاس ہی رکھ ایسی مٹّی کو
نمی پاتے ہی یہ زر خیزیاں اچھی نہیں لگتیں
٭٭٭
ڈاکٹر امواج السّاحل
سودا جو دیا اُس نے ملاوٹ سے بھرا تھا
میں نے تو دیا اُس کو مگر نوٹ کھرا تھا
فائل پہ میری جلد ہی سائن جو ہوئے تھے
پہلے ہی صفحے پر وہ بڑا نوٹ رکھا تھا
رکھی تھی اسی میز میں برسوں سے وہ فائل
جس میز پہ وہ صبح سے اونگھ رہا تھا
کرتا تھا وہ رکھوالی کسی بینک کی امواجؔ
جب گھر میں اُسی شخص کے ہاں ڈاکہ پڑا تھا
ززز
اسانغنی مشتاق رفیقی
جب سے اُن کے گھر کے آگے بیوٹی پارلر کھُلا
رات دن رہنے لگا ہے شیخ جی کا در کھُلا
بوڑھے بھی بن ٹھن کے اب لگنے لگے ہیں نوجواں
جب سے میرے گاؤں میں ممتاز کا دفتر کھُلا
اِن کم انگ اور آؤٹ گوئنگ کی ملی تفصیل جو
پیچھے ہر مس کال کے ہے اک پری پیکر کھُلا
اُس کی ہی جب چلتی دیکھا روم کے دربار میں
نام کس کا بھی رہے پر اصل ہے قیصر کھُلا
مفتیوں سے دور ہی رہنا خدارا دوستو!
لے کے پھرتے ہیں زباں میں وہ عجب خنجر کھُلا
اُس کی محفل میں جو بیٹھا میں سُنانے حالِ دل
قابل عزت فقط ہیں صاحبانِ زر کھُلا
جس کی دانائی کے چرچے تھے بہت اخبار میں
وہ نرا بدھو رہا یہ اُس سے ملنے پر کھُلا
ڈال کر ٹوپی جو بنتا ہے بڑا ہی مذہبی
کیوں ’’مرینا بیچ‘‘ میں وہ گھومتا ہے سر کھُلا
جب رفیقیؔ نے خطیبِ شہر سے کی التجا
ہے امیرِ شہر کے تابع یہاں منبر کھلا
٭٭٭
نوید ظفرؔ کیانی
تم جیسا سمجھتے ہو میں ویسا تو نہیں ہوں
اُترا ہوں میں بس سے کوئی کبڑا تو نہیں ہوں
دیکھو نہ یونہی رحم بھری نظروں سے مجھ کو
شوہر ہوں میں سچ مچ کوئی گوں گا تو نہیں ہوں
بیماری سے ہلتی ہے مسلسل میری گردن
میں تیری کسی بات کو سمجھا تو نہیں ہوں
آنکھیں ہیں کہیں اور تو نظریں ہیں کہیں اور
پالیسی ہے ایسی کوئی بھینگا تو نہیں ہوں
کیدو اُسے بننے کا یونہی شوق ہے ورنہ
میں ہیر کے چاچے سے اکڑتا تو نہیں ہوں
دنیا تو تماشہ ہے مگر سوچ رہا ہوں
دنیا کے لئے میں بھی تماشا تو نہیں ہوں
اِتنا بھی نہ سمجھو مجھے شرفائے زمانہ
پانامہ کی لیکوں سے میں رِستا تو نہیں ہوں
لڈو نہیں بٹتے تھے سرِ دشتِ کہ جاتا
مجنوں کی طرح اُلو کا پٹھا تو نہیں ہوں
رکھتے ہیں عبث لوگ ترنم کی توقع
شاعر ہوں ظفرؔ کوئی گویّا تو نہیں ہوں
٭٭٭
اپنی شامت خود بلانی ہو تو بتلا دیجئے
پھر خیالِ عقدِ ثانی ہو تو بتلا دیجئے
زوجۂ اوّل سے کوئی بال سر کا بچ گیا؟
پھر سے نیت شامیانی ہو تو بتلا دیجئے
جس سے ہو خمیازۂ عقد و تجّرد سے مفر
ایسی صورت درمیانی ہو تو بتلا دیجئے
کیوں نہ اُس کی ہر خبر لسّی دماغوں کی بنے
نیوز چینل کی مدھانی ہو تو بتلا دیجئے
آج ساری قوم کے چہرے پہ بارہ بج گئے
حوصلۂ شادمانی ہو تو بتلا دیجئے
ہم تو ہیں سو جان سے قربان لیکن آپ نے
اور ہی کچھ دل میں ٹھانی ہو تو بتلا دیجئے
ظرف کے سگریٹ کو سلگا لوں گا میں بھی آن کر
خواہشِ شعلہ بیانی ہو تو بتلا دیجئے
کون سی حسرت کا خمیارہ ہے شوقِ ازدواج
مشغلۂ مرغ بانی ہو تو بتلا دیجئے
اب تو خاصے دُم ہلانے والے شوہر ہیں ظفرؔ
کوئی ماضی کی کہانی ہو تو بتلا دیجئے
٭٭٭
مزاحچے
میاں لچھن اور قربانی
محمد اشفاق ایاز
ایک پاؤ کدو، آدھ پاؤ دال چنا، ایک ٹماٹر، ایک پیاز، دو ہری مرچیں، یہ تھی آج کی کل خریداری، جسے میاں لچھن اپنے کالے کپڑے کے تھیلے میں ڈالے، سوچوں میں گم، بڑے بوجھل قدموں کے ساتھ بازار سے گھر جانے والی گلی میں یوں داخل ہوئے، جیسے گندم کی دو تین بوریاں سر پر لاد رکھی ہوں۔ ابھی انہوں نے گھر کے اندر داخل ہونے کے لئے دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ’’ میاں جی اس دفعہ کس کی قربانی کر رہے ہیں‘‘۔ میاں جی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شریف نائی تھا۔ ایک تو نائی اور اوپر سے مسکرا بھی رہا تھا۔ میاں لچھن نے اپنا نیفہ ٹٹولا کہ شاید کوئی پسٹل نکل آئے۔ اپنے تھیلے کو ہلا یا کہ کوئی کلاشنکوف چھپی ہو تو نظر آ جائے۔ جس سے اس شریفے کا بھیجا اڑادیں۔ میاں جی نے گلی میں ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں اینٹ پڑی نظر آ جائے۔ جسے اٹھا کر اس ناہنجار کے سر پر دے ماریں۔ اتنے میں بیگم لچھن اپنی چھٹی حس کے ساتھ دروازے پر آ گئیں۔ اور بیرونی حالات سے بے خبر میاں جی کو اندر کھینچ کر لے گئیں۔ شریف نائی حیرت زدہ سا ہو کر آگے بڑھ گیا۔ یوں چشم فلک گلی میں، میاں لچھن کے گھر کے عین سامنے، خون کی ندیاں بہتا دیکھنے سے محروم رہ گئی۔
بات در اصل یہ تھی کہ بڑی عید کو دس روز رہ گئے تھے۔ مگر میاں لچھن کا آنگن کسی میمنے کی مے مے یا بکرے کی بے بے کی گونج سے خالی چلا آ رہا تھا۔ میاں لچھن ہر سال قربانی ضرور کرتے تھے۔ کبھی حصہ ڈال کر اور کبھی چھوٹا جانور خرید کر۔ بکرا ایک ماہ پہلے ہی خرید لیا جاتا۔ میاں صاحب کے پاس اور کوئی مصروفیت تو تھی نہیں ایک ماہ تک اسے ٹہلاتے، نہلاتے اور گلیوں میں بکھرے سبزیوں کے پتوں اور پھلوں کی باقیات کو کھلاتے گزر جاتے۔ لیکن اب کی بار ایسا لگتا تھا جیسے یہ گھر کسی کی چشم بد کی زد میں آ چکا ہو۔ گزشتہ چھ ماہ سے آمدنی میں خسارہ ہی خسارہ چلا آ رہا تھا۔ چھ ماہ قبل بیگم لچھن کی ایک دور کی رشتہ دار پندرہ دن میں واپسی کا وعدہ کر کے میاں لچھن کی دو ماہ کی تنخواہ کے برابر رقم ادھار لے گئی تھی۔ ابھی تک خود اس دور کی رشتہ دار کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ رقم کہاں سے واپس آتی۔ افواہ یہ تھی کہ وہ اپنے دو بچے سابقہ سسرالی گھر چھوڑ کر نئے جیون ساتھی کے ساتھ نئی مہم پر روانہ ہو چکی تھی۔ مزید ستم یہ ہوا کہ میاں لچھن کی تنخواہ چند ماہ سے برآمد نہیں ہو رہی تھی۔ اکاؤنٹس برانچ والے اس کا قصور وار بنک والوں کو ٹھہرا رہے تھے۔ جبکہ بنک والوں کا کہنا تھاکہ اکاؤنٹس برانچ نے ان کی تنخواہ کے بل پر بنک اکاؤنٹ نمبر درست نہیں لکھا تھا۔ اس لئے ایک ماہ کی تنخواہ کسی اور اکاؤنٹ میں چلی گئی تھی۔ اب جب تک وہ حساب برابر نہیں ہوتا۔ تنخواہ جاری نہیں ہو گی۔ دو اداروں کے درمیان چپقلش کا نتیجہ میاں لچھن کے گھر میں فاقوں کی صورت میں جلوہ گر ہو رہا تھا۔
بیگم لچھن، میاں صاحب کی حالت سے نہ صرف واقف تھی بلکہ گاہے بگاہے ان کی ڈھارس بندھاتی، انہیں ہمت اور حوصلے سے کام لینے کی تلقین بھی کرتی جاتی۔ ایک دن ایسے ہی دو رکنی اجلاس میں جب بیگم نے انہیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تلقین کی تو میاں تڑاخ سے بولے ’’ کچھن کی ماں، کئی بار اس سے بھی زیادہ تلخ حالات کے باوجود میں نے آج تک تمہارا دامن نہیں چھوڑا، صبر کا دامن کیسے چھوڑسکتا ہوں‘‘۔
اس شام، کدو دال نصف نصف روٹی کے ساتھ تناول فرمانے کے بعد جب حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے کی باری آئی تو بیگم لچھن نے لجاتے ہوئے کہا : ’’ اگر کہیں تو عید کے دنوں میں ہم فیصل آباد خالہ زری کی بیٹی رمشا کے گھر نہ چلے جائیں۔‘‘
’’پاگل ہوئی ہے کیا‘‘ میاں لچھن چیخے۔
’’کیوں ؟ کیا ہوا؟‘‘ بیگم حیرانی سے بولیں ’’چند سال پہلے بھی تو ہم وہاں گئے تھے۔ وہ بہت خوش ہوئی تھی‘‘
’’ اس وقت بات اور تھی‘‘ میاں بولے ’’ اس کے اب پورے چھ بچے ہیں۔ ایک ایک کو پانچ پانچ سو روپے عیدی دئے تو۔ ۔ ۔‘‘
’’یہ چھوٹی عید تھوڑی ہے جو انہیں عیدی دینی ہے‘‘۔
’’بس یہی تم میں عقل کی کمی ہے‘‘ میاں لچھن بڑی عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے بولے ’’ عید عید ہوتی ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی۔ نہ بابا میں تو نہ جاؤں گا۔ میر ادل تو کچھ اور ہی کرنے کو چاہ رہا ہے۔ آمدنی کی آمدنی اور ثواب کا ثواب‘‘
’’ہائیں‘‘ بیگم لچھن مسکراتے ہوئے بولیں۔ جیسے انہیں میاں لچھن کی بات پر یقین نہ ہو۔ ’’اب تک تو سوائے نوکری کے کوئی ڈھنگ کا کام تو کیا نہیں۔ آمدنی کہاں سے ہو گی‘‘۔
’’ ہے، ہے۔ میرا دوست ہے پریس والا۔ اس نے فضائل قربانی پر ایک کتابچہ شائع کرایا ہے۔ آج کل ہزاروں کی تعداد میں لوگ قربانی کے لئے ٹرین کے ذریعے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ کیوں نہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں اور کتابچے کی کچھ کاپیاں لے کر ٹرین پرسوار ہو جاؤں۔ لوگ ثواب دارین کے لئے ضرور خریدیں گے۔‘‘میاں لچھن نے اس منصوبے سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’آج کل کئی جیب کترے ہاتھوں میں نماز اور اسی طرح کے کتابچے لے کر بسوں اور ٹرینوں میں وارداتیں کرتے ہیں۔ تمہاری تو شکل بھی ۔ .۔ .۔ ۔‘‘ بیگم نے ایک پیاری سی چپت ان کے سر پر لگاتے ہوئے کہا ’’ کسی نے جیب کترا سمجھ کر پولیس کے حوالے کر دیا تو ؟ میں کہاں ضمانت کرواتی پھروں گی‘‘۔
میاں لچھن اپنے اس عظیم منصوبے کی بیگم کے ہاتھوں یوں درگت بنتے دیکھ کر اداسی اور مایوسی کی گہری لپیٹ میں آ گئے۔ پھر اچانک یوں اچھلے جیسے جوانی کے دنوں میں انہیں بیگم چٹکی بھرا کرتی تھی۔ بیگم کو وہ دن یاد آ گیا۔ فوراً بولیں ’’ میں نے تو کچھ نہیں کیا‘‘۔
’’کیوں نہ میں لاہور کے کسی باغ میں جھولے لگا لوں۔ بچے خوش ہوں گے۔ کچھ تو پیسے ہاتھ آئیں گے‘‘۔ میاں لچھن کی آنکھوں میں چمک تھی۔ لیکن یہ چمک بھی بیگم نے اسی لمحے یہ کہہ کر چھین لی ’’ اسی لئے میں کہتی ہوں ہر وقت گھر میں پڑے رہنے کی بجائے کچھ باہر جا کر دنیا کے حالات بھی معلوم کر لیا کرو۔ بڑی عید پر بڑے تو کیا بچے بھی جھولے لینے نہیں آتے۔ وہ گھروں میں سیخ کباب اور دیگر گوشت پکوانوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ یا پک نک پر چلے جاتے ہیں۔‘‘
میاں لچھن اس استعماری انکشاف پر ایک دفعہ پھر چکرا گئے۔ لیکن پھر سنبھلے اور ایک مزید وار کیا ’’ اچھا اب اعتراض نہ کرنا۔ اپنے فلسفوں کی پوٹلی بند ہی رکھنا‘‘
’’اب کیا ترکیب اس ذہن نا رسا و بے صدا میں آئی ہے‘‘، بیگم لچھن یوں سنبھل کر بیٹھ گئیں جیسے انڈیا اور پاکستان کی فوجیں اس انتظار میں مورچہ بند ہو جاتی ہیں کہ کب دشمن کی طرف سے گولی آئے اور وہ توپوں کے منہ کھول دیں۔
’’بیگم ذرا ہوش کے ناخن لو۔ ہمیں پیسوں کی بھی سخت ضرورت ہے۔ اور عید پر گوشت کی بھی۔ وہ عید قربان ہی کیا جس میں چھٹانک بھر گوشت بھی کھانے کو نہ ملے۔‘‘میاں لچھن کے ذہن میں کوئی نیا منصوبہ پکتا ہوا محسوس کیا جا سکتا تھا۔ پھر وہ خود ہی بولے ’’ میرا خیال ہے کسی بڑے شہر میں جا کر ٹنڈ کروا لوں اور ہرا چولا پہن کر گوشت اکٹھا کروں۔ جس گھر سے گوشت نہ ملے گا وہاں سے پیسے ہی سہی‘‘۔
ٹنڈ کا سنتے ہی بیگم لچھن کو جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ انہوں نے صحن میں ادھر اُدھر یوں دیکھا جیسے کوئی ڈنڈا نما چیز ڈھونڈھ رہی ہوں جس سے میاں جی کی اس جرأت پر ان کی تواضع کی جا سکے۔ ’’ دیکھیں جی میں اس گھر میں ہر زیادتی برداشت کر سکتی ہوں لیکن ٹنڈ والا بندہ برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ دن بھول گئے جب تمہارے سر میں جوؤں نے زخم کر دئے تھے اور تم ٹنڈ کروا کر گھر آئے تھے۔‘‘ بیگم لچھن کا چہرہ پہلے سرخ پھر غضب ناک ہو گیا۔
میاں بیوی کے اس رشتے میں ایک بات طے تھی۔ اول بیگم کو ٹنڈ والے مردوں سے سخت نفرت تھی۔ چاہے وہ ان کا شوہر نامدار ہی کیوں نہ ہو۔ بازار میں یا گلی میں گزرتے ہوئے اگر کوئی ٹنڈ والا نظر آ جاتا تو راہ بدل لیتی تھیں۔ اس کے پیچھے کیا راز تھا یا کس قسم کی کڑوی میٹھی یادیں وابستہ تھیں، میاں لچھن کو کبھی پوچھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی تھی۔ دوسری بات، میاں لچھن کو بیگم کی غضبناکی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ بیگم کو ذرا غصہ آنا شروع ہوا اور میاں لچھن کے اوسان خطا ہونا شروع ہو گئے۔ یہی وہ ظالم لمحہ ہوتا تھا جب بیگم کا ہاتھ بھی اٹھ جاتا تھا۔ اگرچہ بعد میں اپنے زمینی خدا سے دست بستہ معافی کی طلبگار ہوتی تھیں۔ لیکن میاں لچھن کئی دن کی مالش اور ٹکور کے بعد ہی واپس اس دنیا میں آنے کے قابل ہوتے تھے۔ بیگم کی دھمکی سے انہیں بارہ سال پہلے کا حادثہ یاد آ گیا جب وہ کسی سیانے کے کہنے پر ٹنڈ کروا بیٹھے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ ان کے سر میں جوئیں پیدا ہو گئیں جنہوں نے اس جوش و خروش سے خون پینا اور کاٹنا شروع کیا تھا کہ سر میں ہر وقت خارش رہنے لگی۔ بلکہ پیپ سی پیدا ہو گئی۔ میاں لچھن کا خیال تھا کہ بیگم گھر میں صفائی کا خیال نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے بسترمیں جوئیں پیدا ہو گئیں تھیں۔ جبکہ بیگم لچھن کا خیال بلکہ پکا یقین تھا کہ میاں جی کے سر میں جوئیں اس تکئے سے چڑھی ہیں جو انہوں نے پڑوسن کو بڑے چاؤ سے اس کے گھر میں شادی کے موقع پر مہمانوں کی خاطر داری کے لئے دیا تھا۔ میاں لچھن نے اس دردسری سے نجات کے لئے سرکاری ہسپتال سے رجوع بھی کیا۔ لیکن افاقہ کہاں ہونا تھا۔ بھلا سرکاری ہسپتال کی دواؤں سے بھی کسی کو افاقہ ہوا ہے۔ سر کے حالات بگڑتے دیکھ کر انہوں نے ایک ’’سیانے‘‘ سے اس کا حل پوچھا۔ جس نے فوری طور پر ٹنڈ کرانے کا مشورہ دیا۔ یہ طریقہ علاج سستا بھی تھا، قابل عمل بھی اور سب سے بڑھ کر مجبوری بھی۔ میاں لچھن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی بیگم ’علاج کے طور پر کرائی گئی اس ٹنڈ پر‘ اس قدر شدید رد عمل کا اظہار کرے گی۔ ٹنڈ کرانے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ضرور دیتی تھی مگر آج سب کچھ عملی طور پر ثابت ہو گی۔
اپنی پیاری ٹنڈ کے ساتھ جونہی میاں لچھن نے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ بیگم لچھن نے فوراً دروازہ بند کر لیا اور اس وقت تک گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا جب تک سر پر قابل قبول بال نہیں اُگ آتے۔ گھر کا دروازہ بند ہو گیا تو میاں لچھن جس دوست کے گھر گئے۔ اور چند دن رہنے کی استدعا کی، اس نے مختلف بہانے سے معذرت کر لی۔ سب طرف سے مایوس ہو کر میاں لچھن آخری ٹھکانے کے طور پر اپنے آبائی قبرستان گئے۔ جہاں اپنی والدہ اور والد مرحومین کی قبروں پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگے۔ سیانے کہتے ہیں رونے میں بھی سُر ہوتا ہے۔ لیکن اس بے وقت، بے طلب، بے مقصد، بے سرے رونے کی آواز سن کرقبرستان کا گورکن گھبرا کر اپنے ایک کمرے پر مشتمل گھرسے باہر نکل آیا۔ اور قریب آ کر اس گریہ و زاری کا سبب پوچھا۔ میاں لچھن بھی دل کا اس قدر سادہ نکلا کہ گورکن کو صاف صاف بتا دیا کہ بیگم نے اس کی ٹنڈ کی وجہ سے اسے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب وہ اپنی اماں اور ابا کے ساتھ یہیں سویا کرے گا۔ گورکن کا دل جو روزانہ مردوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے اور انہی کے ساتھ رہتے، سوتے اتنا نرم نہیں رہا تھا۔ پھر بھی پتہ نہیں اسے کیوں ترس آ گیا۔ اس نے میاں لچھن کو اپنے ساتھ ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ اس شرط پر کہ بوقت ضرورت میاں لچھن کو قبر تیار کرنے میں اس کا ہاتھ بٹانا پڑے گا۔ گورکن نے مزید مہربانی کرتے ہوئے ان سے وعدہ کیا کہ ہاتھ بٹانے کی صورت میں وہ ان کی مالی طور پر خدمت بھی کیا کرے گا۔ سودا مہنگا نہیں تھا۔ اس طرح گورکن کے ساتھ گزارے چند دن ان کی زندگی کے سنہرے دن ثابت ہوئے۔ شام کے وقت کسی نہ کسی گھر سے کھانا آ جاتا تھا۔ جو دو آدمیوں کی ضرورت سے بھی زیادہ ہوتا۔ باقی کھانا صبح کام آ جاتا۔ واہ ری ٹنڈ، کتنی بھاگاں والی نکلی تھی۔
میاں لچھن اور بیگم لچھن کے درمیان بڑی عید کے پروگرام پر مذاکرات جاری تھے۔ اب میاں لچھن کے سامنے ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا۔ انہوں نے ہار مانتے ہوئے کہا ’’ بیگم آخر تم ہی بتاؤ، ہم یہ دن کیسے گزاریں۔ ایک طرف پائی پائی کے محتاج ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف قربانی کرتے تھے تو محلے میں کچھ عزت تھی، اب تو وہ بھی سلامت رہتی نظر نہیں آتی۔ کچھ ایسا کرو کہ۔ ۔ ۔ ۔ بس لوگوں کی نظروں میں بھی نہ آئیں‘‘۔
’’میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے‘‘۔ بیگم لچھن بولیں۔
’’کیا ؟ کیا؟ جلدی بولو‘‘۔ میاں لچھن اچھلے۔
’’ تم ایسا کرو۔ یہ جو دس بند باقی بچے ہیں ناں، تم شیدو قصائی کی دکان پر بیٹھا کرو۔ اور اس سے جانور ذبح کرنے اور گوشت بنانے کا طریقہ سیکھو۔ پھر کسی بڑے شہر جا کر قربانی کرو‘‘
’’لیکن مجھے تو گائے اور بڑے جانور کے پاس جانے سے ہی ڈر لگتا ہے !‘‘
’’بڑے نہ سہی۔ ایک دو بکرے ہی سہی‘‘بیگم بولیں ’’بڑے شہروں میں کون کسی سے پوچھتا ہے کہ کیسے ذبح کر رہے ہو۔ گھر والے بھی ہاتھ بٹا دیتے ہیں۔‘‘
اور یہ ترکیب کامیاب رہی۔ میاں لچھن اسی وقت بات کئے بغیر اٹھے۔ اورسیدھا شیدو قصائی کی دکان پر جا پہنچے۔
٭٭٭
رن out
خادم حسین مجاہدؔ
بیسویں صدی اِس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اس میں کئی خوفناک واقعات ہوئے، مثلاً اِس ہیرو شیما کی تباہی، کوئٹہ کا زلزلہ اور ہماری شادی وغیرہ۔ یوں تو ہر نوجوان کو نکاح کا ذائقہ ایک نہ ایک دن چکھنا ہی ہوتا ہے لیکن سولہ سترہ سال قبل ہمیں یہ ذائقہ چکھنے کی خواہش شدت سے اس لئے پیدا ہوئی کہ ہمارے عزیز دوست یکایک شادی شدہ کیا ہوئے ہمیں رنگین و سنگین حالات و واقعات سنا کر شادی کے لئے مشتعل کرنے میں مصروف ہو گئے، پھر شادیوں کا جو سیزن شروع ہوا تو بس اللہ دے اور بندہ لے۔ بس یوں سمجھیں کہ اور وہ بندہ شاید ہم ہی تھے، انتہا یہ ہوئی کہ اِسی دوران ہمارے ایک ماموں تیسری شادی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کے وسیع تجربات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم اُن کے گٹوں گوڈوں میں بیٹھ گئے کہ وہ اس سلسلے میں ہمارے والدین کو خوابِ غفلت سے بیدار کریں تاکہ ازدواجی جہاد شروع کیا جا سکے۔
ماموں کی اس تحریک پر خاندان کے طول و عرض میں ہلچل مچ گئی اور مقصد کے حصول کے لئے خاندانی ’’ میرج بیورو‘‘ تشکیل دی گئی اور سن گن کے لئے چاروں طرف ہرکارے دوڑا دئیے گئے۔ رشتوں کی تو کمی نہ تھی مگر کسی بھی رشتے پر خاندان بھر کا اتفاق ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی کیونکہ ہر ایک کا اپنا معیار تھا، جس سے دوسروں کا اتفاق ہونا ممکن ہی نہ تھا اور جیسا کہ معمول ہے کہ اِس معاملے کے مرکزی کردار یعنی ہم سے کوئی رائے لینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی جیسے یہ شادی ہماری نہیں، اُن کی ہو رہی ہو۔ ویسے عموماً ہوتا یہی ہے کہ والدین اپنی شادی پسند سے نہ ہونے کا بدلہ اپنی اولاد کی شادی اُن کی مرضی کے خلاف کر کے لیتے ہیں۔ جوں جوں شادی لیٹ ہوتی ہے تو لڑکے اور لڑکی کی ڈیمانڈ محدود ہوتے ہوتے بس صرف یہ رہ جاتی ہے کہ ’’لڑکی ہونی چاہئے ‘‘یا ’’لڑکا ہونا چاہئے‘‘۔
شادی کے محاذ پر لشکر کشی کے بعد کئی ماہ کی سر توڑ کوششوں اور محاصرے کے باوجود منگنی نامی قلعہ فتح نہ ہو سکا تو میر جعفر اور میر صادق کی تلاش شروع ہوئی اور مخبری پر کھلے حملے سے قبل ایک خاندان سے ازدواجی جھڑپوں کے بعد جب اُنہیں دعوتِ مبارزت دی گئی تو اُنہوں نے جوابی حملہ کر دیا۔ اس حملے میں ان کا واسطہ ہمارے خاندانی آثار قدیمہ سے پڑ گیا کیونکہ باقی لوگ تو دسترخوان سجانے میں مصروف تھے۔ ہماری نانی صاحبہ نے پہلا رجز ہی غلط پڑھ دیا کہ ہمیں رشتوں کی تو کوئی کمی نہیں، ابھی ابھی میں نے اپنے تیسرے بیٹے کی شادی کی ہے۔
بس یہیں سے فنی خرابی پیدا ہو گئی اور ’’ معاہدۂ صلح‘‘ یعنی منگنی کھٹائی میں پڑ گیا۔ در اصل وہ لوگ ڈر گئے تھے کہ اُن کے ہاں بار بار شادیاں کر نے اور طلاقیں دینے کا رواج ہے۔ بڑی مشکلوں سے اور کئی سفارشوں کے بعد اُنہیں یہ یقین دلایا جا سکا کہ یہ ہماری ننھیالی روایت ہے، ددھیالی تاریخ ایسی نہیں، اِس لئے آپ پریشان مت ہوں، یوں خدا خدا کر کے معاہدہ صلح طے پایا۔
منگنی نامی قلعہ روند کر پیش قدمی کرتے ہوئے شادی نامی قلعے کو محاصرے میں لے لیا گیا لیکن مخالفین کی ایک لمبی لسٹ کے ساتھ قلعہ بندی کے باعث محاصرہ طول پکڑ گیا حتیٰ کہ شدید گرمی اور حبس کے باعث سیز فائر کا اعلان کر دیا گیا۔ جرنیلوں نے امن و امان کے ڈھول پیٹنے شروع کر دئیے اور ساتھ ہی بڑے حملے کے لئے مزید بھرتی کا اعلان کر دیا، جس کے لئے دور و نزدیک اطلاعات بھجوا دی گئیں۔ اِس کا رد عمل بھی جلد ظاہر ہونا شروع ہو گیا، ایک دوست نے لکھا ’’ٹھہرو میں آ رہا ہوں‘‘ (پرنس کاشمیری) دوسرے نے لکھا ’’جو بلا اب تم پر نازل ہونے والی ہے اس کے بعد تم ریموٹ کنٹرول سے چلا کرو گے اور ریموٹ کنٹرول اس بلا کے ہاتھ میں ہو گا۔‘‘(ارشاد)۔ تیسرے نے گل افشانی کی ’’ہمارا تو خیال تھا کہ تم اکیسویں صدی میں کنوار پن کو سینے سے لگائے داخل ہو گے مگر تمھارے بڑوں نے اس سے قبل ہی تمھارے کنوار پن کا جنازہ نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہم اے کندھا دینے اور آخری رسومات میں شریک ہونے ضرور آئیں گے، بس یہی خیال رہے کہ کنوار پن کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ ( بابا شونقی)۔ ایک اور دوست نے ماہرانہ رائے دی ’’شادی کے مرض سے بچا جا سکتا ہے، کبھی شوہر کے پاس بیٹھ کر اس کا رونا دھونا سننے سے اُس کے حالات سے آگاہ ہونے سے لیکن یہ مرض کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے، اگر دولہا کے پاس بیٹھا جائے اور اُس کے ولیمے کے چاول کھا لئے جائیں اور دلہن کی سہیلیوں کو میک اپ میں دیکھ لیا جائے۔ اس مرض کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جو بغیر شادی کرائے دور نہیں ہو سکتیں لیکن شادی کے بعد غلط فہمی دور ہو بھی جائے تو کیا فائدہ "(ایم مسعود تنہا)‘‘۔ ایک دوست نے از راہِ عنایت آبادی کی منصوبہ بندی کے عنوان سے شادی کارڈ تیار کر کے بھجوا دیا:
’’مکرمی و محترمی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ السّلام وعلیکم
ہمارے خود سر، نا خلف الرّشید، دو چشمی ہمراہ چشم خادم حسین مجاہد ( اللہ اس کے شر سے ہر ایک کو محفوظ رکھے )مدیر آمنہ فلاں اینڈ فلاں کی شادی خانہ آبادی غیر متوقع طور پر نجانے کیسے طے پا گئی ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ تشریف لائیں تاکہ دو چار بندے برات کے لئے جمع ہو سکیں۔ تمام اوقات کا کھانا ہمراہ لائیں تاکہ کسی سے مانگنا نہ پڑے، ورنہ شہادت اور شرمندگی نصیب ہو گی۔ بچے کو اپنی دعاؤں میں رخصت کریں۔
پروگرام ( اگر برادری مان گئی تو )
رسم حنا رات بارہ بجے زبردستی ہو گی کیونکہ دولہا ہندوانہ رسم و رواج کے خلاف ہے )۔
سہرا بندی برات والے دن نو بجے صبح دولہے کو کھینچ کر بستر سے نکالا جائے گا اور ٹھنڈے پانی سے غسل دے کر سہرا باندھ کر گیارہ بجے دھوپ میں رکھ کر اس کے نام کی سلامیاں لوٹنا شروع کی جائیں گی۔
روانگی برات اگر کسی گاڑی والے سے بھاؤ تاؤ ہو گیا تو گیارہ بجے روانہ ہو گی۔
نکاح مسنونہ قاضی کے آنے پر شروع ہو گا اور لڑکی کے مان جانے تک جاری رہے گا۔
دعوت طعام حکومتی پابندی کے باعث چائے پانی پر ٹرخایا جائے گا کیونکہ دلہن والوں کے پاس حکومتی پابندی کا معقول جواز موجود ہے۔
رخصتی جب دلہن تمام رشتہ داروں سے گلے مل کر رونا دھونا ختم کر لے گی تو میک اپ دوبارہ درست کیا جائے گا، اِس دوران کچھ فتنہ جو رشتہ داروں کی وجہ سے لڑائی کا امکان بھی ہے، لہٰذا دولہا دلہن اُن رشتہ داروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جلد فرار ہونے کی کوشش کریں گے۔ گذارش ہے کہ اس موقع پر براتی بھی کھسک لیں ورنہ سر پھٹول کا اندیشہ موجود ہے۔
منجانب شرکت پر زبردستی تیار۔ میرزا رقیب
نمونہ کا یہ کارڈ لے کر ہم ڈیزائن پوائنٹ پر پہنچے اور اپنے ڈیزائنردوست کو مواد دیتے ہوئے کہا ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا غلامی کا کارڈ تیار کرنے کی سعادت آپ حاصل کریں تاکہ مستقبل کا مؤرخ اِس تاریخ ساز واقعے کے حوالے سے ہمارے ساتھ ساتھ آپ کا نام بھی سنہرے لفظوں میں درج کرے۔‘‘
’’یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مؤرخ اِس کارنامے پر ہمارا نام سنہری لفظوں میں لکھتا ہے یا سیاہ حرفوں میں‘‘ ڈیزائینر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
شادی سے ایک دن قبل ملک بھر سے کئی نوجوان شاعر ادیب ہمارا تماشہ دیکھنے پہنچ گئے، حالاں کہ ہم تک پہنچنا اِتنا اسان نہ تھا کیونکہ ہمارا علاقہ ہی نہیں، ٹرانسپورٹ بھی نہایت خطرناک تھی۔ اِسی سے دوستوں کی مہم جویانہ فطرت کا اندازہ لگا لیں۔
مہندی والی رات مہندی کی رسم سے بھاگ کر میں دوستوں کی محفل میں جا پہنچا جہاں ضعیف رضا تمام مقامی اور غیر مقامی شعراء ادباء کو گھیر کر اپنا دیوان کھولے بیٹھے تھے اور ان بیچاروں کے پاس کوئی راہ فرار بھی نہ تھی۔ مجھے محفل میں شریک ہوتا دیکھ کر انہوں نے پینترا بدل کر کہنا شروع کر دیا ’’لوگ شادی میں کھسرے نچاتے ہیں لیکن چونکہ خادم حسین مجاہد شاعر اور ادیب۔ اِس لئے ان کی شادی کے موقع پر بھی شعراء اور ادباء کو ہی زحمت دی گئی ہے اس کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں میرا خصوصی سہرا پڑھنا شروع کیا۔
اے دوست تجھے شادی سو بار مبارک
جیون کی یہ بربادی سو بار مبارک
اک سابقہ محبوبہ کی یہ آہ جگر سوز
بیوی سے پڑے روز تجھے مار مبارک
بیگم زدہ اک دوست کا پیغام کہ الحمد
مل بیٹھ کے روئیں گے میرے یار مبارک
اب شوق سے اس حاصل ارمان کو بھگتو
ڈولی میں سجا لائے جو آزار مبارک
لے آئے ہو نوخیز سی اک نار عقد میں
لے جائے گی یہ کھینچ کے فی النار مبارک
ود کار جو آ جاتی تو کیا کار نہ کرتی
اس دور میں ہو بیویِ بیکار مبارک
سہرے میں چھپے چہرے کو سالی نے جو دیکھا
دلہن سے کہا شوہرِ دمدار مبارک
شادی شدہ ہوتے ہیں کنوارے بھی پریشاں
یہ جیت ہے یا ہار میرے یار مبارک
لکھا ہے بصد شوق رضا میں نے یہ سہرا
چہرے پہ برستی ہوئی پھٹکار مبارک
دوسرے دن تقریباً سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسا اپنے تجربات کی روشنی میں مرزا رقیب نے خدشات کی صورت نمونے کے کارڈ میں ظاہر کیا تھا۔ چونکہ تمام معاملات تقریباً پہلے ہی طے پا چکے تھے اس لئے مقررہ تاریخ کو قاضی نے نکاح نامی دروازہ کھول کر فوجوں کو داخل ہونے دیا اور شہر کے مرکز میں ہمارے کنوار پن کو تۂ تیغ کر کے رخصتی کی زنجیروں سے جکڑ دیا، یوں اِس طویل اور صبر آزما محاصرے کا اختتام ہوا اور خانگی جنگوں کے نئے سلسلے کی بنیاد رکھی گئی۔ مولوی صاحب نکاح پڑھا رہے تھے کہ ہمارے ایک شادی شدہ دوست نے سرگوشی کی ’’اب بھی وقت ہے ہم سے عبرت حاصل کر لو اور راہ فرار اختیار کر سکتے ہو تو کر لو۔‘‘
مگر اس وقت، وقت کہاں تھا اور نہ ہی فرار کاکوئی چانس تھا۔ پھر کچھ دوستوں نے جو سبز باغ شادی شدہ زندگی کے دکھائے تھے ان کی وجہ سے ہم نے بخوشی اپنے پروانۂ آزادی پر دستخط کر دئیے۔ ریفریشمنٹ کے بعد ’’آخری رسومات‘‘ کے لئے بلاوا آ گیا۔ لیڈیز سیکشن مین رنگ ونور کے سیلاب میں ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ بڑی سالی سجی ہوئی پلیٹ والے گلاس میں دودھ لائی، گلاس پر ڈھکن اور اندراسٹرا تھا کئی دوستوں کی شادیوں میں ہمیں بطور شابالا اس دودھ سے واسطہ پڑ چکا تھا، جس میں عام طور پر کوئی نہ کوئی واردات ہوتی تھی۔ یا تو سرے سے دودھ ہوتا ہی نہ تھا بلکہ پانی ہوتا یا دودھ میں پانی چینی کی جگہ ڈھیر سارا نمک مرچ ہوتا۔ اور اگر دودھ ٹھیک ہوتا تواسٹرا ایلفی سے بند ہوتا۔ جب ہم نے اسٹرا سے دودھ پینے کی کوشش کی تو حسب توقع وہ بند تھا لہٰذا ہم نے ڈھکن اتار کرا سٹرا نکال کر منہ سے لگا لیا۔ ابھی بمشکل ایک گھونٹ ہی پیا ہو گا کہ چیٹنگ کہہ کر اپس لے لیا گیا اور پھر پانچ ہزار روپے مانگ لئے گئے۔ ہم نے ہزار کے نوٹ کے اوپر پانچ کا نوٹ رکھ کر دینے کی بڑی کوشش کی کہ یہ پانچ ہزار ہی ہیں مگر بے سود۔ پورے ہی دینے پڑے، یوں ایک گھونٹ دودھ پانچ ہزار میں پڑا، مگر یہ تو صرف آغاز تھا۔ رخصتی کے بعد رات کو گھر پہنچے اور دلہن کو محلے دار عورتوں اور رشتہ داروں کے دیدار کے لئے بٹھا دیا گیا۔ ان دنوں آج کی طرح دولہے کو ساتھ نہیں بٹھایا جاتا تھا لہٰذا ہمیں رات بارہ بجے تخلیہ میسر آیا۔ ہم حسب عادت بولنا شروع ہو گئے تو پتہ ہی نہ چلا کہ دلہن کب کی سو گئی ہے جبکہ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ سن رہی ہے اور جھجک کی وجہ سے ہوں ہاں نہیں کر رہی۔ اس لئے جگا کر سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔
ولیمے کے بعد ہنی مون کے لئے مری گئے اور سلامی کی رقم ٹھکانے لگا کر واپس آ گئے تو بذریعہ ڈاک مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
گل نو خیز اختر نے لکھا ’’بھابھی مبارک۔ امید ہے مقامی تھانے میں رپورٹ درج کرا دی ہو گی۔‘‘
بابا شونقی نے شر انگیزی کی ’’مبارکباد!جب ہماری شادی ہوئی تھی محلے کی لڑکیوں اور ان کے والدین نے ’’یوم نجات‘‘ تھا تمھاری شادی پہ کس کس نے یومِ نجات منایا؟‘‘
سعید رضا نے ارشاد فرمایا
اے دوست تجھے شادی صد بار مبارک
اک جیتی ہوئی بازی کی یہ ہار مبارک
کہتے ہیں یہ روتے ہوئے کچھ دوست کنوارے
یہ مقطع آزادی صد بار مبارک
آخری درویش نے پھلجڑی چھوڑی ’’ کل نفسِ ذائقۃ الموت۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘‘
ابن عاصی نے شر انگیزی کی ’’ مبارک باد بھابھی کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی بنا بنایا خادم بطور خاوند مل گیا۔‘‘
محسن احسان نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ’’آخر تم نے بھی سپر پاور سے ٹکر لے لی سمجھو کہ اب تمھاری مجاہدانہ زندگی کا اینڈ آ گیا میری طرف سے تمھیں زندگی کی آخری حقیقی خوشی مبارک ہو۔‘‘
سعید انجم نے لکھا ’’میں آپ کو زندگی کے نئے سفر کے آغاز پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘
خالد یوسفی نے ارشاد کیا ؎
ہنستے روتے یا منتیں کرتے
بیویاں جن کی اِک سے زیادہ ہوں
آپ کہتے تھے شہزادہ ہے
ایک بیوی تو آپ لے آئے
تین کا کب تلک ارادہ ہے
ڈاکٹر شفقت علی نے یوں پرسہ دیا ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ مبارکباد دوں یا اگر پہلے پتہ چل جاتا تو میڈیکل سرٹیفکیٹ ہی دے دیتا کہ بخوشی مجاہد کنوارا ہی بھلا۔ بہتر یہ ہے کہ اب تم اپنا نام مجاہد سے اسیر رکھ لو۔‘‘
در اصل شادی انسان کی نشاۃ الثانیہ ہے۔ شادی کرنا بہت آسان ہے مگر بیگم نبھانا بہت مشکل ہے۔ شادی کے بعد ’’آؤٹ ڈور گیمز‘‘ کم ہو جاتی ہیں کیونکہ شادی بذات خود ان ڈور گیم ہے۔ بقول آخری درویش، میری بہت سی بیویاں ہیں پھر میں امیر کیسے ہو سکتا ہوں۔ در اصل ایک بیوی ہی اتنا خرچ کر دیتی ہے کہ بندہ دوسری کا سوچے ہی نہیں۔ خود ہمارا خیال بھی یہی تھا کہ بیویاں کم از کم دو ہونی چاہئیں تاکہ اوقات میں رہیں، لیکن اب یہی خیال ہے کہ ایک بھی زیادہ ہے حالانکہ شرع میں بھی گنجائش موجود ہے اور دل میں بھی۔ ۔ ۔ ویسے دنیا میں عورتوں کی آبادی مردوں سے زائد ہے کیونکہ مردوں کی شرح اموات زیادہ ہے اور اس کی وجہ بھی عام طور پر عورتیں ہی ہیں۔ اِن زائد عورتوں کے لئے صلائے عام ہے یا ان نکتہ داں کے لئے کہ کچھ مجاہد آگے بڑھ کر عقد ثانی کی قربانی دیں، ہم تو توبہ تائب ہو چکے۔
٭٭٭
مراثی کی قبر
م۔ ص۔ ایمنؔ
بعض تحریریں مدتوں یاد رہتی ہیں جوسڑکوں پر گاڑی چلاتے ہیں اور بالخصوص اپنی ذاتی گاڑی چلاتے ہیں جب ان کے رستے میں کسی میراثی کی قبر آئے گی تو انہیں ہماری یہ تحریر یقیناً یاد آئے گی۔
راستے کی رکاوٹ دور کرنا گرچہ بھلائی کا کام ہے لیکن اس کے برعکس آج کل راستہ بند کرنا اور اس نیت سے بند کرنا کہ کوئی بھی ’’یہاں سے گزر کر تو دکھائے ‘ ‘؟ جمہوری حق بن چکا ہے جس کا جہاں چاہا شامیانہ تان کر راستہ بند کر دیا۔ کسی بھی گزرگاہ پر بیریئر لگا کر عام لوگوں کا راستہ بند کر دیا۔ کسی بھی اہم شاہراہ پر دھرنا دے کر ملازمت پر، روزگار پر جانے والوں کاراستہ بند کر دیا جہاں چاہا سڑک کے بیچوں بیچ ’’اچھلو‘‘ بنا دیئے۔ اچھی خاصی چلتی ہوئی گاڑی بھی اچھل اچھل جاتی ہے اور گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگ اس’ اچھلو‘ پر اس طرح اچھل پڑتے ہیں کہ بعض اوقات ان کا سر گاڑی کی چھت سے جا ٹکراتا ہے۔ یہی حال رہا تو عنقریب ہی ٹریفک قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہو جائے گی اور ’روڈسائن ‘کے کتابچے میں شامیانہ تنا ہوا دکھایا جائے گا جس کا مطلب ہو گا ’’آگے سڑک پر شامیانہ لگا ہے متبادل راستہ اختیار کریں۔‘‘
ایک سائن میں تین تین وکٹیں گڑی دکھائی جائیں گی جس کا مطلب ہو گا ’’ گلی میں کرکٹ کھیلی جا رہی ہے۔‘‘
جنازے کی چارپائی دکھائی جائے گی کہ ’’ گلی میں میت رکھی ہے۔‘‘
خالی سڑک پر بے شمار سر ہی سر دکھائے جائیں گے کہ پریشان لوگ! لوگوں کو پریشان کرنے کے لیئے دھرنا جمائے بیٹھے ہیں۔
انسان ناہموار رستے پر دیکھ بھال کر قدم رکھتا ہے جبکہ ہموار سطح پر بلا کھٹکے چلتا چلا جاتا ہے۔ گاڑیاں بھی ناہموار رستوں پر جھولا جھلاتے سفر کرواتی ہیں اور گاڑی میں بیٹھا ہوا شخص سوچتا ہے کہ اس گاڑی کی نسبت پیدل چل کروہ اپنی منزل پر جلد پہنچ سکتا تھا۔
گاڑی پر سفر کرنے کا واضح مطلب ہوتا ہے وقت کی بچت۔ سڑک گاڑیوں کے لیے بنائی جاتی ہے تاکہ گاڑیاں بغیرکسی رکاوٹ کے رواں رہیں۔ کچھ لوگ سڑک پر ٹھیلے کھڑے کر کے یا میزیں لگا کر کاروبار کرتے ہیں۔ گاڑیوں کی رفتار کم رکھنے کے لیے سڑک پر ’اچھلو ‘ یعنی جمپ بنا دیئے جاتے ہیں۔ اس کا عام مطلب یہی ہوتا ہے کہ سڑک ! گاڑیوں کے لیئے نہیں بلکہ پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیئے ان کے کاروبار کے لیے بنائی گئی ہے۔ ان ’’اچھلو‘‘پر سائیکل موٹر سائیکل سے لے کر ٹرک، کنٹینر، ٹرالر تک کی سپیڈ ’بریک ‘ہو جاتی ہے اور ’’اچھلو‘‘ کے بعد ازسر نو چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔
اِن سپیڈ بریکر کا ایک فائدہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گاڑی میں سفر کرتا نابینا مسافر اچانک ہی ہانک لگاتا ہے ’’روکنا بھئی روکنا !میرا گھر آ گیا ہے‘‘۔ ۔ دیگر مسافر حیران رہ جاتے ہیں۔ ۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ جمپ گن رہا تھا۔
ایک گدھا گاڑی جس میں بیک وقت دو دماغ کام کرتے ہیں ایک گاڑی بان کا اور دوسرا گدھے کا اپنا ! گدھا آخر گدھا ہے لیکن اتنا بھی گدھا نہیں ہے کہ اس ’’اچھلو‘‘ کو بھول جائے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جہاں ’’ اچھلو‘‘ آیا، گاڑی بان نے گدھے کی راسیں کھینچ کر گاڑی کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس گدھے نے دوچار گام تیزی دکھائی اور اس ’’پہاڑی‘‘ کو عبور کر گیا۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے گاڑی بان کہ خواہش پر رفتار توڑ دی تو اس کے لیے اس ’اچھلو‘ کو پار کرنا مشکل ہو جائے گا۔
جمپ یا سپیڈ بریکر انگریزی نام ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انگریز کی ایجاد ہے۔ ’ ’اچھلو‘‘اس کا عوامی نام ہے۔ اسے اردو میں کیا کہتے ہیں ؟
سکندر صاحب نے خالی رکشہ کو رکنے کا شارہ کیا۔ ڈرائیور سے بولے ’’عوامی چوک تک جانا۔ ۔ اور آنا ہے۔‘‘
رکشہ والا بولا ’’ بیٹھیں صاحب! لے چلوں گا‘‘
حسب دستورچند منٹ کی بحث کے بعد ’’بھاؤ‘‘ طے ہو گیا۔ سکندر صاحب رکشہ میں سورا ہوئے۔ ۔ ۔ رکشہ چل پڑا۔
ایک جگہ سے گزرتے ہوئے اچانک سکندر صاحب ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بول اٹھے ’’ یہاں سے چلو!‘‘
رکشہ ڈرائیور بولا ’’ یہ رستہ خراب ہے۔ ۔ ۔ میں آپ کو صاف رستے سے لے چلوں گا۔‘‘
’’تم سمجھ کیوں نہیں رہے ؟۔ ۔ مجھے جلدی ہے۔ ۔ وقت کم ہے۔ ۔ یہ رستہ شارٹ کٹ ہے۔ یہاں سے چلو۔‘‘
رکشہ والے نے رکشہ کی رفتار کم نہ کی اور بولا ’’صاحب!۔ ۔ آپ فکر نہ کریں میں آپ کو جلدی ہی پہنچا دوں گا‘‘
اِس دوران رکشہ۔ ۔ ۔ اس ’’شارٹ کٹ‘‘ راستے سے دور نکل آیا تھا۔ ۔ سکندر صاحب بولے ’’مجھے جانے کی ہی نہیں۔ واپس آنے کی بھی جلدی ہے۔ میرے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں۔ اس لیئے کہہ رہا تھا کہ شارٹ کٹ اختیار کرو‘‘
وہ بولا ’’ میں آپ کو جلدی ہی واپس بھی لے آؤں گا جناب!۔ یہ راستہ دیکھنے میں طویل لیکن صاف ہے‘‘
سکندر صاحب خاموش ہو گئے۔ ۔ متعلقہ دفتر کے سامنے پہنچے اور رکشہ والے سے بولے۔ ’’ مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ ۔ یہ فائل دے کر فوراً ہی آ جاؤں گا۔‘‘
وہ بولا ’’ کوئی بات نہیں صاحب !۔ ۔ ۔ میں انتظار کر لوں گا‘‘
سکندر صاحب کی واپسی واقعی دو منٹ میں ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ رکشہ ڈرائیور نے رکشہ اسٹارٹ کیا اور’ یوٹرن ‘لیا۔
سکندر صاحب جلدی سے بولے ’’ یہاں سے لے چلو ! یہ شارٹ کٹ ہے۔ ۔ ۔ میرے گھر مہمان بیٹھے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ مجھے جلدی ہے۔‘‘
رکشہ ڈرائیور نے رکشہ روک دیا ’’صاحب!۔ ۔ یہ رستہ ٹھیک نہیں ہے۔ ۔ میں یہ رستہ استعمال نہیں کیا کرتا۔‘‘
وہ بولے ’’میں آج ہی دن میں پیدل گزرا ہوں۔ ۔ یہاں سے یہ رستہ بالکل ٹھیک ہے۔ ۔ تم یہیں سے لے چلو‘‘
رکشہ ڈرائیور مجبور ہو گیا اور رکشہ پھر اسی جانب گھما دیا جس جانب سکندر صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
سکندر صاحب بولے ’’اس دفتر میں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مجھے جب جلدی نہیں ہوتی تو میں اسی راستے سے پیدل بھی آتا جاتا رہتا ہوں۔ ۔ آج دن میں بھی پیدل ہی آیا تھا۔‘‘
چند گز چلا کر اس نے رکشہ پھر روک دیا۔ بولا ’’صاحب !سچ پوچھیں تو میرا جی بالکل بھی نہیں چاہتا اس راستے سے جانے کو۔ ۔ اس رستے پر میراثیوں کی قبریں بہت ہیں۔ ان کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو جلدی بھی ہے۔ ۔ ۔ پہلے بتا دوں۔ ۔ اس رستے سے آپ جلدی نہیں پہنچ سکیں گے‘‘۔ ۔ ۔
’’ میراثیوں کی قبریں‘‘سکندر صاحب حیرت سے بولے ’’میں نے تو کبھی نہیں دیکھیں۔ ۔ آج دن میں بھی نہیں تھیں‘‘
’’صاحب !آپ کو پتہ نہیں ہے۔ اس لیئے کہہ رہے ہیں۔ ۔ ورنہ تو جب سے یہ سڑک بنی ہے۔ ۔ ۔ سڑک کے بیچوں بیچ کئی میراثی دفنا دیئے گئے ہیں۔ ۔ اس لیے میں اس راستے سے گزرتا ہی نہیں‘‘۔
’’بڑی عجیب بات کہہ رہے ہو !۔ ۔ ۔ یہ سڑک بنتے میں نے خود دیکھی ہے۔ ۔ میں نے یہ بات کسی سے سنی بھی نہیں ہے۔‘‘ اُن کی حیرت کم نہیں ہوئی تھی۔
’’آپ اجازت دیں تو آپ کو اِسی رستے سے لے چلوں جہاں سے آئے ہیں۔ اس شارٹ کٹ کی نسبت جلدی پہنچ جائیں گے اور جاتے ہوئے میں آپ کو وجہ بھی بتا دوں گا کہ میں یہ شارٹ کٹ کیوں استعمال نہیں کیا کرتا۔ ؟‘‘
’’چلو !۔ ۔ اپنی مرضی کے رستے سے چلو۔ ۔ اور مجھے ان میراثیوں کی قبروں کے بارے میں بھی بتاؤ‘‘ وہ اپنی ’’جلدی‘‘ کو بھول گئے اور پر تجسس لہجے میں بولے۔
رکشہ ڈرائیور نے خوشی خوشی ایک بار پھر رکشہ گھمایا اوراسی طویل راستے پر ہولیا جس رستے سے گزر کر آیا تھا۔
’’صاحب !میں پہلے اس شارٹ کٹ ‘ سے ہی گزرا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا اور سکندر صاحب نے حتیٰ الوسع اپنے کان اس کے قریب کر دیئے۔ ’’شارٹ کٹ‘‘ سے ہماری ہی بچت ہوتی ہے۔ وقت کی بھی اور ایندھن کی بھی۔ ایک بار ایک ایسے صاحب میرے رکشہ میں سوار ہوئے جو مصنف تھے، اُنہیں بھی اسی جگہ آنا تھا جس دفتر میں آپ گئے تھے۔ میں اُنہیں اسی شارٹ کٹ ‘ سے لانا چاہتا تھا لیکن انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ اس راستے سے نہ گزروں۔ ۔ انہوں نے طے شدہ کرائے سے پچاس روپے زیادہ دینے کی پیش کش کر دی اور کہا کہ مجھے طویل راستے سے لے چلو میں پچاس روپے زیادہ کرایہ دوں گا۔ ۔ اور صاحب !میں نے ان سے پوچھ لیا کہ کیا وجہ ہے ؟۔ وہ اس راستے سے کیوں نہیں گزرنے دے رہے۔ ۔ جبکہ یہ شارٹ کٹ ‘ ہے۔ ۔ تو ان مصنف صاحب نے ایسی بات بتائی۔ کہ میرے دماغ سے نہیں نکل رہی۔ ۔ اب میں اکیلے میں بھی یہ راستہ استعمال نہیں کرتا۔ گو کہ میرے گھر کا راستہ بھی اسی ’’شارٹ کٹ‘‘ سے قریب ہو جاتا ہے‘‘
’’وہ کیا بات تھی؟۔ ۔ ۔ مجھے بتاؤ‘‘۔ ۔ ۔ وہ صاحب بے حد اشتیاق سے بولے۔
’’صاحب ! ان مصنف صاحب نے بتایا کہ میں کہانیاں لکھتا ہوں اور چلتے پھرتے۔ ۔ ۔ آس پاس کے ماحول کو دیکھتے۔ ۔ میرے ذہن میں کہانیاں بن جاتی ہیں۔ ۔ یوں سمجھو کہ رکشہ چلتا ہے تو میرا دماغ بھی چلتا ہے۔ ۔ ۔ رکشہ رکے۔ ۔ ۔ یا رفتار کم ہو تو میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ۔ میں بھی دائیں بائیں دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ ۔ ۔ جب رکشہ دوبارہ چلنے لگتا ہے تو میں بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا تھا۔ اس طرح میرے خیالات کا تسلسل برقرار نہیں رہتا۔‘‘
’’میں ان کی بات بالکل بھی نہ سمجھ سکا۔ ۔ میں نے کہا ’’ صاحب !میں رکوں گا ہی نہیں۔ بغیر کہیں رکے آپ کو آپ کی منزل پر پہنچا دوں گا‘‘۔ ۔ تو وہ بولے ’تم اس رستے پر چلتے ہوئے رکو گے۔ ۔ ۔ اور بار بار رکو گے۔ ۔ ۔ تم رکنے پر مجبور ہو جاؤ گے۔ ۔ ۔ میں بتاؤں کہ اس رستے سے چلتے گزرتے ہوئے میرے خیالات میں انیس بار رکاوٹ پڑے گی۔ ۔ ۔ اس لیئے بہتر ہے کہ اس لمبے راستے سے چلو۔‘‘
’’تو صاحب ! ان کے کہنے پر میں نے طویل لیکن سیدھا رستہ اختیار کیا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ رکشہ چلاتا ان کی بات سنتا رہا۔ وہ بتا رہے تھے کہ ’’میراثی ساری زندگی اپنی باتوں سے لوگوں کو ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کسی بات پر سنجیدہ نہیں ہوتے حتیٰ کہ وہ موت کی، مردے کی بھی ہنسی اڑاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک میراثی اپنے بیٹے سے بولا ’’بیٹا! میری خواہش ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میری قبر ایسی جگہ بنانا جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ میری قبر کی زیارت کر سکیں۔ مجھے روحانی خوشی حاصل ہو گی۔‘‘
بیٹا بھی میراثی کا ہی بیٹا تھا بولا ’’ابا!۔ ۔ آپ فکر ہی نہ کریں۔ ۔ ۔ میں آپ کی قبر ایسی جگہ بناؤں گا جہاں دن بھر میں ہزاروں لوگ آپ کی قبر کی زیارت کریں گے۔ آپ کی قبر کو دیکھ کر رکیں گے۔ ۔ سر کو تعظیم کے لیئے خم کریں گے اور آہستہ سے، بڑے احترام کے ساتھ آپ کی قبر پار کر جائیں گے۔‘‘
میراثی نے حیران ہو کر پوچھا ’’تم کہاں دفناؤ گے مجھے ؟‘‘
بیٹا بولا ’’میں آپ کی قبر جی ٹی روڈ پر بناؤں گا۔ ۔ قبر کی قبر ہو گی اور جمپ کا جمپ۔‘‘
’’تو میرے بھائی! اس رستے سے گزرتے ہوئے جب کسی میراثی کی قبر آتی ہے۔ ۔ ۔ تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اچھی بھلی چلتی ہوئی گاڑی اس میراثی کی قبر کے احترام میں رک گئی ہے۔ ۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے۔ ۔ اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے۔ ۔ مسافروں کی پیٹھ۔ ۔ ٹیک سے الگ ہو جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر وہ ’’ تعظیماً‘‘ میراثی کی قبر کو سلامی دیتے ہیں۔ ۔ ۔ اور گاڑی بے حد احتیاط کے ساتھ اس قبر کو پار کر جاتی ہے اور پھر حسب سابق چلنے لگتی ہے اس رستے پر تو میراثیوں کی انیس قبریں ہیں میرے بھائی!۔ ۔ ۔ میں کس کس کو سلامی دوں گا۔‘‘
سکندر صاحب سن رہے تھے اور رکشہ والا بتا رہا تھا ’’بس صاحب !وہ دن ہے اور آج کا دن۔ ۔ میں اس رستے سے گزرنے کی غلطی نہیں کرتا۔ ۔ اس کے علاوہ بھی کسی دوسرے رستے پر کوئی جمپ آ جائے تو اسے دیکھ کر دور سے ہی میں احتراماً اپنے رکشے کی رفتار کم کر دیتا ہوں اور بے حد احتیاط سے اس میراثی کی قبر کو پار کر جاتا ہوں۔ ۔ اگر ایسا نہ کروں تو یہ ’’سپیڈ بریکر‘‘۔ ۔ ’’رکشہ بریکر‘‘۔ ۔ بن جاتے ہیں۔‘‘
٭٭٭
اَگے تیرے بھاگ لچھئے
کائنات بشیر
میرا چھوٹا سا اک بنگلہ ہے
جہاں سارا زمانہ اپنا ہے
آنکھوں میں سہانے سپنے
اورسپنوں کا چمن اپنا ہے
ہاں تو۔ ۔ دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے والو، میرا نام علیشاہ ہے۔ میں جھونپڑپٹی میں رہتی ہوں۔ گھر والے مجھے لاڈ سے کئی ناموں سے پکارتے ہیں۔ جبکہ میں نے انھیں کتنی بار منع کیا ہے کہ بھئی لاڈ اپنی جگہ لیکن میرے نام کا ستیاناس تو نہ کرو لیکن ان پر رتی بھر اثر نہیں ہوتا، جب تک وہ مجھے کئی بار ایلوایلو، ایشو ایشو، نہ پکار لیں۔ شارٹ کٹ میں بلانا ہو تو لچھی لچھی کہہ کر اپنا کام نکالتے ہیں۔
میں ایک غریب سی بے چاری ہوں جس کا دھن دولت سے دور دور تک واسطہ نہیں۔ ہمارے ہاں تو ورثے میں بھی دولت نہیں ملتی۔ اگر بالفرض یہ لاٹری لگ بھی جائے تو بس ایک آدھ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی اور مل جاتی ہے۔ صبر کا سبق پڑھنے والے کہتے ہیں کہ دنیا میں سب کچھ پیسہ ہی تو نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے اس لیے میں یہ اُمنگوں بھرے گیت گانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی۔ دل اور جذبات ہمارے سینے بھی ہوتے ہیں۔ اب اگر اللہ میاں مجھے امیر کے گھر پیدا کرنا بھول گیا تو کیا ہوا، سپنوں کی دنیا تو پوری دی ہے نا۔ ۔ جہاں میں جھولا ڈال کر بیٹھی رہتی ہوں۔
چھوٹا سا گھر ہو گا بادلوں کی چھاؤں میں
ہم ہی ہم چمکیں گے تاروں کے اس گاؤں میں
شکر میرے مولا کا، اِدھر سے تو قسمت نے کوئی ڈنڈی نہیں ماری۔ گانے وانے سننے اور سنانے پہ تو کوئی پابندی نہیں۔ کیا پتہ۔ ۔ گاتے گاتے میں کسی دن گلو کارہ بن جاؤں۔ آخر اللہ میاں نے گانے والوں پر اوپر سے ٹیگ لگا کر نہیں بھیجا تھا۔ جب قصور والے لاہور پہنچ گئے اور لاہور والے بمبئی تو کیا عجب کسی دن جھونپڑی سے اُٹھ میں کسی سٹوڈیو کے ریکارڈنگ روم پہنچ جاؤں اور اپنا من پسند گیت گاؤں،
سانوں میٹرو والے ٹیشن تے بلا کے
تے کھورے ماہی کتھے رہ گیا
ساڈی اکھاں وچوں نیندراں اڈا کے
تے کھورے واپڈا کتھے رہ گیا
ہاں تو۔ ۔ ۔ اِس میں دیدے پھاڑ کر اتنا حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ جب آسمان پہ بنی جوڑی زمین پہ ڈھونڈنی پڑتی ہے تو کیا عجب کسی روز کوئی موسیقار ساز کے ساتھ آواز ڈھونڈتے میری گلی تک آن پہنچے۔ ویسے اللہ میاں جی میں جھونپڑی میں پیدا ضرور ہوئی ہوں لیکن مجھے کسی امیر کے گھر برتن دھونے مت بھیج دینا۔
خیر، ابھی آگے کی بات کیا کروں۔ ابھی تو پیچھے کی طرف چلتے ہیں، جب میں نے آنکھ کھولی تو اتنی بڑی دنیا کو چھوڑ کرخود کو ایک جھونپڑی میں پایا۔ ماں تھوڑے فاصلے پر جھلنگی سی چارپائی پہ لیٹی تھی۔ اندر دھوئیں کے پیرہن سے لپٹی کالی سیاہ جھونپڑی، اوپر سیرات کی تاریکی، گھپ اندھیرا اور سناٹا۔ ۔ لیکن مجھے اتنا فرق نہیں پڑا۔ کیونکہ اگر میں مڈل کلاس محلے کے کسی گھر میں پیدا ہوتی تو وہاں پر بھی تو اس وقت لوڈ شیڈنگ ہی ہونی تھی نا۔ قسمت اگر زیادہ زور آور ہوتی اور میری پیدائش کسی کوٹھی، بنگلے میں ہوتی تو وہاں جنریٹر سے بجلی ہوتی۔ کوٹھی ضرور جگمگا رہی ہوتی لیکن زبردستی مانگے تانگے کی بجلی سے اور۔ ۔ ۔ اور،
ایسی بجلی سے ہم باز آئے
جو دل کو جلائے، ستائے، دُکھائے
ملک کے کئی گھروں کو اندھیرے میں ڈبو کر صرف ایک گھر میں اپنی روشنی پھیلائے۔ مجھے تو وہ بجلی چاہیئے جو منگلا ڈیم کا منصوبہ مکمل ہو کر اس سے دستیاب ہو۔ ملک کا کونا کونا اس سے جگمگ جگمگ کرے۔ صنعتی انڈسٹری ترقی کرے۔ لوگوں کے کاروبار، روزگار بڑھیں۔ کرمو نائی کی دکان میں چٹی ٹوب لائٹ کی روشنی ہو اور فراٹے بھرتے پنکھے کی ہوا میں وہ عارف لوہار کا اِک پھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے۔ ۔ سن کر جھومتا ہوا کسی کے سر پر اپنا استرا چلائے۔ فیقے دودھ دہی والے کی دکان میں اوپر تلے رکھی دہی کی کنالیاں چاندی جیسی روشنی میں جَگر جَگر کر رہی ہوں۔ کڑا ہے میں ابلتا دودھ لڈیاں ڈالے اور لسّی کے بھرے بھرے گلاس بجلی کی روشنی میں لِشک لِشک کرتے ہماری روایات کو جیتا جاگتا رکھیں۔ ایسی تیسی بجلی کا کیا فائدہ، جس سے صرف ایوان چمکیں اور پارلیمنٹروں کے گھر ہی روشن ہوں اور باقی جائیں بھاڑ میں۔ امیر بیٹھیں اے سی میں اور غریب نہر میں چھلانگیں مارتے رہیں۔
سارے جہاں کا درد ہمارے دل میں ہے۔ لو میں پھر آگے بڑھ گئی۔ چلو پھر پیچھے چلتے ہیں۔
میں نے اماں کی جانب دیکھا تو اپنی زندگی کی پہلی امڈتی خواہش کی ممکن تعبیر دیکھی، ویسے جب اماں جھونپڑی سے باہر لے جا کرتا روں کی چھاؤں میں مجھے لوری سنایا کرے گی تو پارلیمنٹ کی بھاری بھرکم کرسیوں پر چوڑے ہو کر بیٹھنے والے اہلِ ایوان کے بچوں کو بھی اتنا مزہ نہیں آئے گا جتنا مجھے آئے گا، آہا۔ ۔ ہو ہو۔ :
بچپن آخر بچپن تھا جو اماں، بہنوں بھائیوں کی گودیوں میں کُود پھاند کرتے گزر گیا۔
جھونپڑی میں اماں اباکے علاوہ ڈھیروں اور لوگ رہتے تھے بھائیوں، بہنوں کی صورت۔ ۔ جانے کتنی جوڑیاں تھیں جو پہلے ہی مکمل تھیں اور میں شاید۔ ۔ چونگھے۔ ۔ میں چلی آئی تھی۔ مجھے لگا اب خوب دنگل ہوا کرے گا۔ دو پارٹیاں تو لازمی بنیں گی۔ ایک صنفِ نسواں اور دوسری معاشرے پہ حاوی مردوں کی، دونوں مجھے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے لیکن میں نے روزِ اول سے ہی ان کا حصہ نہ بننے کا ارادہ کر لیا تھا۔ میں نے نہ تو ابھی مردوں کا غصہ اور غیرت دیکھی تھی اور نہ ہی مجھے صنف نسواں کو زیادہ بڑھاوا دے کر خوامخواہ کے پنگے میں پاؤں ڈالنے کی ضرورت تھی۔ بھئی اب دلوں، نیتوں کا حال تو اللہ جانے کہ کون سیر ہے اور کون سَوا سیر۔ ۔ ! لیکن ہوا وہی، دونوں پارٹیاں سرکش لہروں کی طرح مجھ پہ امڈی چلی آئیں لیکن میں ان کا حصہ نہ بنی۔ ذرا عقل کو ہتھ مارو، اللہ کے بندو، کل کو مجھے بھی خدا کو منہ دکھانا ہے۔ میں پہلے ان ٹیموں کی خوب لڑائی دیکھتی۔ دونوں پارٹیوں کے دھواں دھار نکات سنتی۔ پھر ان کے درمیان۔ ۔ امن کی آشا۔ ۔ بن جاتی۔ اور ایمپائر کی طرح اپنا فیصلہ سنا دیتی۔
ہاں تو۔ ۔ آپ نے کیا سوچا تھا کہ میں جلتی پر تیل چھڑکوں گی۔ نہ نہ نہ۔ ۔ ایسا سوچنا بھی مت۔ غریب کے پاس پہلے ہی تعلیم، طاقت، دولت نہیں تو اب کیا ہم لڑ لڑ کر شرافت بھی ختم کر دیتے۔ مارنے کو تو پہلے ہی مہنگائی پڑی ہے۔ گھی سے تر بتر پراٹھے پہلے صرف زن، زر والے کے ہاں پکتے تھے۔ کنوارے بچارے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ جاتے تھے۔ پَر اب تو پراٹھے صرف امیر کے ہاں پکتے ہیں۔ کیونکہ پراٹھا پکانے کے لیے اسی کے گھر پوری چیزیں ملیں گی آٹا، گیس اور گھی۔ ہمارے ہاں تو صرف دال، گاجریں یا نمانے آلو ہی پکتے ہیں۔ یہی غریبوں کی سبزی اور دال دلیہ ہے۔ شکر میرے مولا کا۔ ۔ یہی ہمارا من و سلوی ہے۔ اگر پرچہ اچھے سے حل کر لیا تو ان شاء اللہ دنیا کے اُس پارسفید، میٹھے شیریں دودھ سے بھری نہر کوثر و تسنیم کے کنارے بیٹھ کر میں رَج رَج کر پیؤں گی۔ کھانوں سے سجے خوانوں سے اپنی دنیاوی بھوک مٹا لوں گی۔
پَر کیا کریں بندہ بشر ہیں۔ خطا لازم ہے۔ گوشت کا سواد پورا کرنے کے لیے اماں جس کوٹھی میں کام کرتی ہے۔ اس باجی سے کبھی کبھی۔ ۔ چکن کنور۔ ۔ کی ایک دو ٹکیہ مانگ لاتی ہے۔ جسے ہم دال میں ڈال کر دال گوشت بنا لیتے ہیں۔ آلوؤں میں ڈال کر آلو گوشت کے چٹخارے لے لیتے ہیں۔ بھئی شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں۔ آخر کل کو آخرت میں ہماری بھی پکڑ ہو سکتی ہے کہ،
صبر کیوں نہیں کیا؟
زبان کے چٹخارے کو کیوں نہیں روکا ؟
دال، آلو، گاجریں کھا کر شکر کیوں نہیں کیا ؟ (پھر گاجریں تو بنی ہی ہم غریبوں کے لیے ہیں )۔
گو غریبی کی چھت ہمارے سروں پر تھی لیکن ہم بہن بھائی خورد رو بیل بوٹوں کی طرح خود ہی بڑھتے جا رہے تھے۔ کسی کے پاس جوتے نہیں تو کسی کے پاس سویٹر نہیں۔ کسی کے پاس قمیض نہیں تو کسی کے پاس جرابیں نہیں۔ ویسے اصول سے دیکھا جائے تو یہ ذمہ داری تو اوپر والے کی تھی نا۔ کہتے ہیں کہ آنے والی روح اپنا رزق ساتھ لے کر آتی ہے۔ اب اگر ہمارے ساتھ نوٹوں کے بکسے نہیں آئے، کپڑوں، جوتوں کے بیگ، دال، چاولوں کی تھیلیاں نہیں آئیں، گستاخی معاف جب زاد راہ پورا نہیں تھا تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟
اُوپر سے اللہ نے علم حاصل کرنے کے لیے چین جانے کا بول دیا مگر مجال ہے اگر اس نے کسی مسافر کو ایک بھی کاپی، پنسل دے کر بھیجا ہو یا چین کا ویزہ دیا ہو یا چینی زبان سکھا کر بھیجا ہو یا ان کے کھانوں سے واقفیت کرائی ہو۔ اب بندہ خود ہی سوچے کہ چین جا کر پڑھائی تو بعد میں پہلے تو چینیوں سے واہ پڑے گا نا۔
ہاں تو، اب اگراللہ نے اماں ابا کے ہاتھ نوٹ گننے کی بجائے ابنائے جہاں کو جھلا جھلا کر لوری دینے کے لیے بنائے تو پھرکیا کر سکتے تھے۔ !
اب کیا اس بات کو لے کر ہم آپس میں جھگڑا کرتے۔ معاشرے میں فساد پھیلاتے۔ اپنی ٹینشن دوسروں کو دیتے۔ ٹینشن تو پہلے ہی ملک کے دانشوروں اور سائیکالوجسٹوں کے ہاتھوں سے نکل کر ہر طرف پھیل چکی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو کچھ لوگوں میں۔ ۔ لیپ ٹاپ۔ ۔ بانٹ دیتے ہیں تو باقی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور اس بندر بانٹ پر وہ خاموش نہیں بیٹھتے۔ انھیں ٹینشن ہونے لگتی ہے تو وہ اسے آگے دینے لگتے ہیں۔ ہاں تو پھر کیا ہے، جس کے پاس جو چیز ہو گی وہ وہی تو آگے دے گا نا۔ ۔ ویسے بھی منا بھائی نے کہا ہے ’’ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا ہے۔‘‘
ہم غریبوں کے پاس بجلی تھی نہ انٹرنیٹ، گوگل نہ یا ہو، فیس بک نہ ٹوئٹر اور نہ ہی لیپ ٹاپ کے چونچلے۔ ۔ اس لیے ہمیں تو اتنا فرق نہیں پڑا۔ لیکن جنہیں پڑا انھیں بہت پڑا۔ جبکہ ہمیں تو مکمل طور پر کیلشیم مل رہی تھی نہ کاربو ہائیڈریٹس، نہ پروٹین نہ وٹامن۔ لیکن اللہ کی شان۔ ۔ جھومتی ہوائیں، تاروں کی چھاؤں، چاند کی چاندنی، رم جھم برستی بارش، ساون کے جھولے، بغیر تگ و دو کے ہمیں حاصل تھے۔ صبر اور شکر ہمارے اندر خود بخود جگہ بنا رہا تھا۔ ہم ٹینشن فری تھے۔ اسی لیے جھونپڑی کے اندر ایک سے بڑھ کر ایک حسینائیں اور شاندار گھبرو تیار ہو رہے تھے۔ اب آگے ہماری زندگی کا فیصلہ اپنی اپنی شکل صورت اور قسمت کے زور پر ہونا ہے۔
سودیکھتے ہیں کہ شادی کے بعد میں کسی کوٹھی میں منتقل ہوتی ہوں یا کسی دوسری جھونپڑی میں، اَگے تیرے بھاگ لچھئیے۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
اشرف المخلوقات، گدھا اور سونامی لہر
حنیف سیّد
’’اماں سورہے ہو کیا۔ ۔ ۔ ؟‘‘ گدھے نے منّے راجا یعنی کہ اَشرف المخلوقات کو ہڑ بڑا کر آواز دی۔
’’نہیں تو ؟‘‘ اَشرف المخلوقات نے اپنی ماں کے بطن سے برجستہ جواب دیا۔
’’اپنی ماں سے کہو، کہ وہ فوراًنیندسے بیدار ہو کر، میری پیٹھ پرسوار ہو جائے !‘‘ گدھے نے اَشرف المخلوقات کو صلاح دی۔
’’اَبے گدھے۔ ۔ ۔ !کیا بکتا ہے تٗو؟‘‘
’’میں ٹھیک کہتا ہوں، اَشرف المخلوقات!‘‘
’’میری ماں، کاروں، ٹرینوں، اِسٹیمروں اور جہازوں میں سفرکرنے والی، تجھ گدھے پرسوارہو گی؟‘‘
’’میں گدھا ضرور ہوں، لیکن تمھاری بھلائی کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘ گدھے نے سر جھکا کر بڑے ادب سے عرض کیا۔
’’کیا!بھلائی کیا ہے اِس میں ؟‘‘
’’بھلائی یہ کہ ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے، سمندرمیں۔‘‘ گدھے نے آگاہ کیا۔
’’یہ توما ہرِموسمیات ہی بتاسکتے ہیں، تجھ گدھے کوکیسے علم۔ ۔ ۔ ؟‘‘اَشرف المخلوقات نے بحث کی۔
’’میری حِس بتا رہی ہے مجھ کو۔‘‘
’’تجھ کو تیری حِس بتائے اور میں اَشرف المخلوقات لاعلم رہوں !یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘
’’ہم جانوروں کو یہ سب پتا لگ جاتا ہے۔‘‘
’’بکواس بند کر۔ ۔ ۔ !اورسونے دے میری ماں کو۔‘‘
’’سونے کا وقت نہیں، اَشرف المخلوقات! اب دھماکا ہونے ہی والا ہے سمندرمیں۔‘‘
’’چُپ رہ۔ ! میری ماں کی آنکھ کھل گئی، تو پیٹ ڈالے گی تجھے‘‘ اَشرف المخلوقات نے ڈانٹا۔
’’ڈر تو مجھے بھی یہی ہے، نہیں تونیندسے بیدار کر دیتا اُن کو۔‘‘
’’ایسی بھول نہ کرنا کبھی۔ ۔ ۔ !ورنہ پچھتائے گا تٗو۔ ۔ ۔ !‘‘
’’تم خود اُٹھا دو۔ ۔ ۔ !نہیں تو مجھے اپنا فرض پورا کرنا پڑے گا۔‘‘ گدھے نے اَشرف المخلوقات کو اپنا فیصلہ سنایا۔
’’نہیں، میں نہیں اُٹھاؤں گا اپنی ماں کو۔‘‘اَشرف المخلوقات نے جواب دیا اور گدھا دُم اُٹھا کرزورزورسے ڈھینچو ڈھینچو کرنے لگا۔ ساوتری نے اُٹھ کر آٹھ دس بید جڑ دِیے اور گدھے مہاراج شانت ہو گئے۔
’’ٹھیک ہو گئے گدھوٗ؟‘‘اَشرف المخلوقات نے مذاق اُڑایا۔
’’اَشرف المخلوقات۔ ۔ ۔ !ایک بات اور بتا دوں، وہ یہ کہ کسی کو گدھا مت کہنا کبھی!اور نہ حقیر سمجھنا کسی کو کبھی !ورنہ اگلے جنم میں گدھے بنو گے، میری طرح، تم بھی۔ ۔ !‘‘ گدھے نے اَشرف المخلوقات کو سمجھایا۔
’’تو کیا پچھلے جنم میں اِنسان تھا، تٗو؟‘‘
’’ہاں، انسان ہی تھا!بہت بڑا ہی اِنسان، یعنی کہ نمرود تھا میں۔‘‘گدھے نے بتایا۔
’’او ہ۔ ۔ ۔ !، نمرود۔ ۔ ۔ !اِسی لیے تو گدھا بنا ہے تو، تھا ہی تو اِسی لائق۔‘‘ اَشرف المخلوقات نے مذاق اُڑایا۔
’’ہاں بھئی، ہاں۔ ۔ !تھا اِسی لائق میں، اِسی لائق سہی، لیکن تم ماں کوسمجھا دو، کہ وہ مجھ پرسوارہو جائے، بھلائی اِسی میں ہے تمھاری۔‘‘
’’میری بھلائی چھوڑ، اپنی بھلائی سوچ!‘‘
’’تم اگر میری بھلائی چاہتے ہو تو، اپنی ماں سے میری پیٹھ پر بیٹھنے کی ضد کرو، ورنہ میں لاکھ بار چلّاؤں گا، چاہے مار کھاتے کھاتے مر کیوں نہ جاؤں۔ تم اگر میری مار بچانا چاہتے ہو، تو میری بات مان لوا َشرف المخلوقات!‘‘گدھے نے مار کھانے کے باوجود اَشرف المخلوقات سے گزارش کی۔
’’ میں نے کہا نا کہ میری ماں تجھ گدھے پر کبھی نہ بیٹھے گی۔‘‘اَشرف المخلوقات نے اپنا فیصلہ سنایا ہی تھا کہ سمندرمیں ایک بہت ہی زوردار دھماکا ہوا، جس سے سارے لوگ لرز گئے۔
’’دیکھو میں نے کہا تھا نا۔ ۔ ۔ !اور اَب کچھ ہی دیر بعد اُونچی اُونچی سونامی آ کرسب کچھ غرق کر دے گی۔‘‘
’’سب کچھ غرق کر دے گی، تو تٗو کہاں جائے گا، اَبے گدھے ؟‘‘
’’میں جانور ہوں، نا۔ ۔ !اس لیے بچ جاؤں گا۔‘‘
’’میں اَشرف المخلوقات ہو کر غرق ہو جاؤں گا اور تٗو گدھا ہو کر بچ جائے گا۔ ۔ ؟‘‘ اَشرف المخلوقات نے گدھے کا پھر مذاق اُڑایا۔
’’ہاں، ہم سارے کھلے جانور بچ جائیں گے۔‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے ؟‘‘
’’یہ اِس لیے ممکن ہے کہ ہم جانور گناہ گار نہیں ہوتے، کیوں کہ ہم دوسروں کی سیوا کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور اپنا فرض نباہتے ہیں۔‘‘ گدھے نے کہا ہی تھا کہ ایک زوردار سونامی، اُونچی اُونچی عمارتیں غرق کرتی گزر گئی اورسارے کھُلے جانور تیر نے لگے۔ کچھ لمحوں بعد پانی کی سطح پر ہاتھ پاؤں مارتے، کہرام مچاتے، چیختے اور پکارتے لا تعداد لوگ غرقِ آب ہونے لگے۔ پھر یکے بعد دیگرے غرقِ آب ہوئی لاشیں پانی کی سطح پر آنے لگیں۔
’’گدھے اَنکل۔ ۔ ۔ !بچاؤ۔ ۔ ۔ ! بچاؤ۔ ۔ ۔ ! اَنکل جلدی آؤ۔ ۔ ۔ ! مجھے بچاؤ۔ ۔ ۔ !‘‘ایک آواز آئی۔
’’کون ہو تم۔ ۔ ؟اور کہاں سے بول رہے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘گدھے نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’میں پاس ہی ہوں انکل، یعنی کہ اپنی ماں کے پیٹ میں۔‘‘
’’اچھا، تو تم ہو اَشرف المخلوقات!‘‘گدھے نے دیکھا کہ پاس میں ساوتری کی لاش تیر رہی ہے۔
’’ہاں اَنکل۔ ۔ ۔ ! مجھے جلدی بچاؤ۔ ۔ !مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے، میں تو مرے جا رہا ہوں۔‘‘
’’لکیر کیوں پیٹ رہے ہو؟منّے راجا!سانپ تونکل چکا ہے اب، یعنی کہ تمھاری ماں مرچکی ہے، اَب تم کوکیسے بچا سکتا ہوں میں ؟‘‘گدھے نے بے قرار ہوتے ہوئے مجبوری ظاہر کی۔
’’جیسے بھی ہو، بچا لو گدھے اَنکل، پلیز۔ ۔ ۔ !‘‘
’’اب میں کچھ نہیں کر سکتا۔ تم اپنی فریاد سونامی آنٹی سے کرو اَب!‘‘ گدھے نے مشورہ دیا۔
’’سونامی آنٹی!بچاؤ ، بچاؤ۔ ۔ ۔ !جلدی بچاؤ مجھ کو۔‘‘
’’کون ہو تم، اور کہاں ہو؟‘‘
’’میں ہوں اَشرف المخلوقات، اور اپنی ماں کے پیٹ سے بول رہا ہوں۔‘‘ ساوتری کے بطن سے آواز آئی۔
’’اَشرف المخلوقات؟ہا۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ !‘‘
’’ہاں آنٹی!اَشرف المخلوقات ہوں میں۔ مجھے بچا لو جلدی سے، پلیز۔ ۔ ۔ !‘‘
’’میں ایک ناچیزسونامی، بھلا تمھارے کیا کام آ سکتی ہوں ؟ اور تم تو اَشرف المخلوقات ٹھہرے، تمھاری دسترس توچاندستاروں تک ہے۔ تم نے توسمندرکے سینے چیر کر بحرِ ظلمات میں گھوڑے تک دوڑائے ہیں، تم ہی کچھ کرو اپنے لیے !‘‘
’’لیکن میں تو اپنی ماں کے پیٹ میں ہوں، بھلا میں کیا کر سکتا ہوں ؟تم اِس وقت میری مدد کرو۔ ۔ ۔ !‘‘اَشرف المخلوقات گڑ گڑائے۔
’’بیٹا! میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔‘‘
’’آنٹی!تم واپس چلی جاؤ۔ ۔ ۔ !تم آئی ہی کیوں ہو ؟‘‘
’’جب جب اَشرف المخلوقات اپنے آپے سے آگے بڑھ جاتی ہے، یعنی کہ جب اُس کے گناہ حدسے گزر جاتے ہیں، تب تب خدا خاکی، بادی، آتشی اور آبی عتاب نازل کرتا ہے۔ مجھ کو خدا نے حکم دیا ہے، اِس لیے آبی عتاب لے کر گناہ گاروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے آئی ہوں اور اپنا کام کر کے ہی جاؤں گی۔‘‘
’’خدا کا یہ کیساعتاب ہے کہ گدھے محفوظ ہیں اور ہم اَشرف المخلوقات ہونے کے باوجود مر رہے ہیں ؟‘‘
’’مر رہے ہو لیکن حسد کی آگ اَب بھی دہک رہی ہے تمھارے سینے میں۔ یہ تمھاری سرشت کی دین ہے۔ اَشرف المخلوقات ہو نا تم۔ ۔ ۔ !انسان توانسان، شیطان تک دہل جاتے ہیں، تمھارے ظلم و ستم سے۔‘‘
’’اچھا!یہ ہم نہیں جانتے، آنٹی۔‘‘
’’ہو تو اَشرف المخلوقات تم، پر یہ نہیں جانتے، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘
’’کیوں کہ میں ابھی بچّہ ہوں نا، آنٹی!‘‘
’’بچّہ ضرور ہو، لیکن باہر آتے ہی اپنے کرتب دکھانا، فتنے کرنا شروع کر دو گے، جیسی کہ سرشت ہے تمھاری۔‘‘
’’ کیا ہے میری سرشت؟‘‘
’’جھوٹ، چوری، مکّاری، عیّاری، دغا بازی، بے حیائی، زناکاری اور نافرمانی وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ، ایسے ایسے ظلم و ستم کیے ہیں تمھارے اَجداد نے کہ شیطان بھی پناہ مانگ گیا، ایسے ایسے فتنے بپا کیے ہیں، کہ بس!‘‘
’’فتنے !کیسے فتنے ؟‘‘
’’فتنے۔ ۔ ۔ !ایک ہوں تو بتاؤں۔ جگہ جگہ پر فتنے۔ خدا کے گھر تک بدنام کر ڈالے ہیں تمھارے اَجداد نے۔ خدا کے گھروں سے کچھ لوگ نماز پڑھ کر یعنی اُس کی اطاعت کا وعدہ کر کے، ماتھے پرکالے کالے ڈھٹّے اور بڑی بڑی داڑھی والے، کلمہ پڑھتے ہوئے نکلتے ہیں، جیسے :سیدھے جنت سے چلے آ رہے ہوں، ماتھے پر بلوں کا جمگھٹ لیے، گھمنڈ میں چور، چاہتے ہیں کہ دوسرے سلام کریں، اُن کو۔ بد اخلاق کہیں کے، اور بازار میں آتے ہی جھوٹ فریب، بے ایمانی اور دغا بازی پر تُل جاتے ہیں۔ سڑے گلے پھل، پولی تھین میں بھر کرا لگ رکھ لیتے ہیں۔ پیشانی پر نور اور ماتھے پر نماز کا ڈھٹّا دیکھتے ہی انسان، اُن کو ایمان دارسمجھ کر آتا ہے اور اپنے ہاتھ سے چھانٹ چھانٹ کرپسندیدہ پھل تُلوانے کے بعدجیسے ہی پیسے نکالنے میں مصروف ہوتا ہے، جھٹ سے اُس کے پسندیدہ عمدہ پھلوں کی پولی تھین بدل کرسڑے گلے پھلوں کی پولی تھین پکڑا کرفخرمحسوس کرتے ہیں۔‘‘ ’’فرنیچر میں لکڑی، یو کلیپٹس کی۔ پالِش، شیشم وغیرہ کی۔‘‘
’’صبح صبح کباڑ خریدنے نکلتے ہیں تو اُن کے کانٹے کی ڈنڈی میں ایک طرف نٹ کی کھانچ ہوتی ہے، کباڑ، تولتے وقت کانٹے میں جڑے نٹ کو کھانچ میں فِٹ کر کے بڑے بڑے دانش وروں، ایم۔ پیز، ڈی۔ ایمز، انجینئرز اورججزوغیرہ تک کی آنکھوں میں دھول جھونک آتے ہیں۔‘‘
’’میٹ کی دُکان پر خونی ہڈّیاں، چھیچڑے اور حرام مغز وغیرہ۔ ۔ ۔ ! خدا کی قسمیں کھا کھا کر فروخت کر کے مذہب کو بدنام کرتے ہیں۔ ترازو کے پَلڑے کے نیچے چُمبک لگا ہوتا ہے، بانٹ، گھِسے ہوتے ہیں اور اُن سے رانگا لگی مہر غائب ہوتی ہے۔ کھانے کی اَشیا میں ملاوٹ سرِعام ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کو انجکشن لگا لگا کر بڑھایا جا رہا ہے، بھینسیوں کے انجکشن لگا کر دودھ اُتارا جا رہا ہے، اُن کے بچوں کو بنا دودھ کے تڑپا تڑپا کر مارا جا رہا ہے، دودھ میں پانی نہیں بل کہ پانی میں دودھ ملایا جا رہا ہے۔ مسافروں کو نشیلی اَشیا کھلا کر لوٹا جا رہا ہے۔ بدیشی مال کی اِسمگلنگ سرِعام ہے۔ جمع خوری، کالا بازاری کا بازار گرم ہے۔ سونے چاندی کا ٹنچ گرتا جا رہا ہے۔ دورِ حاضرہ میں تولنے کے ایسے کانٹے بنائے گئے ہیں، جس میں صرف ایک جانِب ہی پَلڑا کٹورے نما ہوتا ہے، جس میں اَشیا رکھتے ہیں اور اُوپر کا سیلنگ فین تیزی سے گھومتا رہتا ہے، جس سے پَلڑا ہوا کے دباؤ کے باعث خود بہ خود نیچا ہو جاتا ہے، اور اَشیا کم تُلتی ہے۔‘‘
’’گاڑیوں کے پنچر جوڑنے والوں نے کاغذوں وغیرہ میں کیلیں چبھو کر قریب کی سڑکوں پر ڈال رکھی ہیں اور ٹیوبوں میں پانچ پانچ پنچر نکال کر بھٹایا ہوا ٹیوب بتا کر ٹیوبوں کی بکِری کر رہے ہیں۔‘‘
’’دُکان داروں نے دُکانیں، سڑکوں پر بڑھا رکھی ہیں۔ سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے والوں نے، سڑکیں گھیر رکھی ہیں۔ لوگوں نے پالتو جانوروں کوسڑکوں پر کھلے عام آوارہ چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’ٹیچرز، کِلاسز میں جاتے نہیں۔ کِلرکزآفسزمیں کام کرتے نہیں۔ لوگ، غریبوں اور محتاجوں کوستاتے ہیں۔ صدقہ، فطرہ، خیرات اور زکوٰۃ، جو اُن کا حق ہے، نہیں دیتے، بل کہ جھڑک دیتے ہیں۔ جائیداد کے نام پر حق تلفی کرتے ہیں۔ اُن کی جائدادوں پر ناجائز قبضہ کر کے فروخت کر لیتے ہیں۔ آباء و اجداد کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ والدین کا دِل دکھاتے ہیں۔ اَساتذہ اور بزرگان کا اِحترام نہ کر کے بدسلوکی کرتے ہیں۔ احسان فراموشی کا بول بالا ہے۔ حرام اورسودکھانے پر تُلے ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ مُردوں پر لگے برف اوراُس کا پانی سرِعام بِک رہا ہے۔ لوگ بے زبان چرندوں اور پرندوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں۔ اُن کا شکار کرتے ہیں اور انھیں قید کر کے تڑپنے کا مزہ لیتے ہیں۔ پریشان افرادسے ہم دردی کے نام پر فارملٹی کرتے ہیں۔ دیش کا نمک کھا کر دوسرے دیش کی جیت پر گولے چھڑا کر خوشیاں مناتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے دیش کی ہار پر گولے چھڑا کر دوسروں کو بدنام کر کے فرقہ پرستی پھیلاتے ہیں۔ بیٹیوں، ماؤں اور نوں کی عزتیں، محفوظ نہیں ہیں۔‘‘
’’وقف کی جائدادسے متولّیوں کے چولھے روشن ہیں۔ لوگ گھروں سے باہر نکلتے وقت دروازے میں رکھے کلامِ الٰہی کوسینے سے لگاتے ہیں، بڑی عقیدت سے بوسے لیتے ہیں اورمساجد کی کمائی سے مرغ کی بریانی کے مزے لیتے ہیں۔ دھرم کے ٹھیکے دار اپنے ججمانوں کے بال مونڈ رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر دُکانیں سجی ہیں۔ مذہبی فرقے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھال کر اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ نقلی مکتبوں کے نام سے رسیدیں کاٹی جا رہی ہیں۔ عبادت گاہیں، محفوظ نہیں ہیں۔ حلف نامے فرضی بن رہے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کو ٹھُکرایا جا رہا ہے۔ رشوت لیتے پکڑے گئے رِشوت خور، رِشوت دے کر چھوٹ رہے ہیں۔ وکلا؛رسوخ اور رِشوت کے بل بوتے غلط فیصلے کروانے پر تلے ہیں۔ سٹّے اور لاٹریوں کا بول بالا ہے۔ بچوں میں منشیات کی لت بڑھ رہی ہے۔ عورت؛فیشن کے نام پر ٹی۔ وی کے پروگرامز میں ننگی ہو گئی ہے۔ بڑے بڑے فلمی کلا کار؛غلط اور سستی چیزوں کی مشتہری کر کے جنتا کو بہکا کر کمپنیوں سے موٹی رقم لے رہے ہیں۔ آئینے ؛انسانیت کا مُنہ چڑانے لگے ہیں۔ رشتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے، آدمی پاشانڑ یُگ کی مانند ننگا ہو گیا ہے۔ بڑے بڑے اَفسروں کی بیویاں، پڑوسیوں کے مکانوں کی ڈیکوریشن کی ہوڑ میں اپنے شوہروں کی مرضی سے اپنی عزت ہتھیلی پر رکھ کر ہوٹلوں میں بانٹتی پھر رہی ہیں۔ بیویاں بدلنے کا چلن بڑھ رہا ہے۔ طلاقوں کے بعد بنا حلالے کے رجوع کا رواج جمتا جا رہا ہے۔ عورتیں بازاروں میں بِنا پردہ گھوم رہی ہیں۔ مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب کا رنگ جمتا جا رہا ہے۔ طلبہ؛کالج کے بہانے ہوٹلوں میں عیاشی کر کے والدین کے خون کو گندا کر رہے ہیں۔ والدین ؛بیٹوں، بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر بی۔ ایف۔ دیکھ رہے ہیں۔ مرد؛ عورتیں اور عورتیں ؛ مرد ہو گئیں ہیں۔ یعنی کہ ایک دوسرے کا زِیورات اور لباس پہن رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں کا آتنک بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم جنسی رِشتوں کا چلن ہو گیا ہے۔ جہیز کی مانگ نے لڑکیوں کو خودکشی کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ رِشوت کے طور پر معصوم بچیوں کو پیش کیا جا رہا ہے۔ الٹراساونڈکی رپورٹ پر بطن میں پل رہی بچیوں کے اسقاط ہو رہے ہیں۔ نرسیں ہسپتال میں اِنعامات کے لالچ میں امیروں کی زچاؤں کی لڑکیوں کو غریبوں کی زچاؤں کے لڑکوں سے بے دھڑک بدل رہی ہیں۔ سرکاری ہسپتال کے حرام خور ڈاکٹرز؛ زچاؤں اور مریضوں کو ورغلا کر پرائیویٹ نرسنگ ہومز میں آپریشن کرانے کی تجویز دے کر کمیشن مار رہے ہیں۔ نرسنگ ہومز؛اِنسان کے ہاڑماس کو اپنی فلک بوس عمارتوں میں سریے اورِسیمنٹ کی جگہ استعمال کر رہے ہیں۔ مُردوں اور مریضوں کے عضو یعنی کہ گُردے وغیرہ تک اِسمگلنگ ہو رہے ہیں۔ نقلی دوائیں، انسانیت کا منہ چڑا رہی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی قیمتی دواؤں کو بازار میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ، ڈاکٹر ز؛مریضوں کو بازار سے قیمتی دوائیں لکھ کرفارمیسسٹ سے و مریضوں کو بیماریوں کی فضول جانچیں لکھ کر لیبوریٹریز سے کمیشن لے رہے ہیں۔ معذوروں کا کیمپ لگا کر اور اُن سے دست خط کرا کر بنا آپریٹس دِیے ٹرخایا جا رہا ہے۔ حرام کے لالچ میں ہندستان سے پولیو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کچھ لوگ فیملی پلاننگ اور پولیو ڈراپز پلوانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ٹریفک کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے لوگوں نے۔ ہرے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ پر لگے جنریٹروں کے دھوئیں کے باعث سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ معصوم بچّوں کو کام کرنے اور بھیک مانگنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ملک کے نیتا اپنی کُرسی بچانے کے لیے سرحدوں پر نورا کشتی کرا کر بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں۔ کرسی کے لالچ میں سیاسی پارٹیاں غریبوں کو موٹی رقم دے کر آتنک پھیلا کر ایک دوسرے کو بدنام کر رہی ہیں، اور بڑے بڑے گھوٹالوں میں سرکار کو کھوکلا کر کے جنتا کا خون چوس رہی ہیں، لوگ بجلی اور ٹیلی فون کے بِل ادا نہیں کر رہے ہیں، انکم کو چھپا کرٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ جنتا کی بہبودی کے لیے کرائے گئے کاموں میں کمیشن کا پرسینٹیج بڑھتا جا رہا ہے۔ پرسینٹیج بڑھ جانے کے باعث سڑکیں اگلی طرف سے بنتے ہوئے پچھلی طرف سے ٹوٹنے لگی ہیں۔ عمارتیں پوری ہونے سے پیشتر گِر جاتی ہیں۔ غنڈے گولیوں کی نوک پر چناؤ لڑ کر برسر اقتدار آ رہے ہیں۔ پولِس کو واردات ہونے سے پہلے ہی علم ہو جاتا ہے کہ واردات کہاں ہونے والی ہے۔ میڈیا سرِعام بِک رہا ہے۔‘‘
’’سرکاری رسائل کے مدیران اپنی لابی والوں کی جھوٹے ناموں سے تخلیقات شائع کر کے اُس کے معاوضے سے اپنی روٹیاں چلا کرسرکاراورزبانوں کو کھوکلا کر رہے ہیں۔ کچھ اُدبا دوسروں کی تخلیقات کا کھلے عام سرقہ کر رہے ہیں، اور کچھ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر تلے ہیں، کچھ شعرا اپنی تخلیقات دوشیزاؤں سے پڑھوا کر اُن سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ قلم کار بِک رہے ہیں۔ کچھ مدیران غیر معروف نام نہاداُدباسے موٹی رقم لے کر اُن کے نمبر اور گوشے شائع کر رہے ہیں۔ زیادہ تر مدیران غیر معروف اُدبا کی معیاری تخلیقات کو بنا پڑھے واپس کر کے حرام خوری پر تُلے ہیں۔‘‘
’’میرے آنے سے لاکھوں بے گھر ہو جانے والے مظلوموں کے لیے سرکاری غیرسرکاری سیکڑوں تنظیمیں، بھیڑیوں کے لبادوں میں مگرمچھ کے آنسوبہا کر چندے کر کے اپنے خزانے بھریں گی، نئی نئی گاڑیاں خریدیں گی اور اپنی عمارتوں کی منزلوں میں اضافہ کریں گی۔ اُن کے چولھوں کی آگ سے اُٹھی مُرغ مسلّم اور بریانی وغیرہ کی خوش بوئیں محلّوں کو مہکا کر، اُن کی شخصیت میں چار چاند لگائیں گی۔‘‘سونامی نے اَشرف المخلوقات کے کالے کارناموں کی نشان دہی کرائی۔
’’یہ سب تو میرے اَجداد نے کیا ہو گا، میں نہیں کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں، آنٹی۔‘‘ اَشرف المخلوقات نے جواب دیا۔
’’وعدے تو ہر عتابِ الٰہی کے بعد انبیائے کرام سے تمھارے اَجداد نے بھی کیے تھے، لیکن رہے کُتّے کی دُم ہی تم۔‘‘
’’میں کہاں آنٹی، میں تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا ہوں، میں یہ سب کیا جانوں !‘‘
’’دھرتی میں ڈالے گئے سبھی بیجوں کو اَنکر دینے کا حق نہیں، کچھ ناکارہ بیج، دوغلے اور روڑھے بھی ہوتے ہیں، تمھاری طرح؛جن کا جمنے سے پہلے دھرتی کی خوراک ہونا اَشد ضروری ہے۔ تم بھی وہی بیج معلوم ہوتے ہو، یعنی کہ قلمی اور دوغلے بھی۔ اسی لیے تم جمنے سے پہلے اتنے دندک اور بھبک رہے ہو۔ باہر آنے پر تو بُش سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو گے۔‘‘
’’اَے جابرسونامی! میں تو مر ہی رہا ہوں، لیکن مرنے سے پہلے صرف اِتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ سمندرکے کنارے رہنے والے یعنی کہ میرے آباء و اجدادباہرسے آنے والوں کوسیر کراتے، نظارے دکھاتے اور ہر طرح سے اُن کی سیوا کرتے آئے ہیں۔ پھر اُن پر اتنا قہر کیوں ؟‘‘
’’اے نٹ کھٹ اور بے وقوف اَشرف المخلوقات۔ ۔ ۔ !تو اِتنا بھی نہیں جانتا کہ ظالموں کے خلاف بغاوت نہ کر کے اُنھیں خوش کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘
’’چلو میں مان لیتا ہوں، لیکن میرے مرنے سے پہلے اِتنا ضرور بتا دے کہ یہ قہر، یہاں کے بجائے اُن ممالک میں کیوں نہیں آیا، جنھوں نے ساری دنیا میں آتنک مچا رکھا ہے۔ جن وحشی درندوں یعنی کہ بھیڑیوں کے فرات پر قبضے سے ساری دنیا کے معصوم میمنے پیاس سے تڑپ رہے ہیں، لرز رہے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے، دبوچ کر ہڑپ کر جاتے ہیں، اور ہم جیسی رُوحیں دنیا دیکھنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔
’’آئے گا، وہاں بھی آئے گا قہر۔ وہاں توایسا آئے گا، جِس کی مثال کہیں ڈھونڈے نہ ملے گی۔ وجودتک مٹ جائے گا دنیا کے نقشے سے ایسے ملکوں کا۔
’’مگر آئے گا کب؟‘‘
’’اَبھی ہیں کچھ وہاں، خدارسیدہ لوگ۔‘‘
’’یہ خدا ہے کون، آنٹی؟‘‘
’’خدا یعنی کہ سپریم پاور، سارے جہانوں کی، جس کے قبضے میں ذرّہ ذرّہ ہے، کائنات کا، کوئی پتّا بھی نہیں ہل سکتا اُس کی مرضی کے بغیر۔ میں اُسی کے حکم سے تو آئی ہوں یہاں، اور جاؤں گی بھی اُسی کے حکم سے۔‘‘
’’اے خدا ۔ !میرے اَجداد نے بہت گناہ کیے ہیں۔ تو معاف کر دے اُن کو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ظلم کے خلاف اپنی جان تک نچھاور کر دوں گا، لیکن میں معصوم ہوں، بھولا ہوں، ابھی تو دنیا بھی نہیں دیکھی میں نے تیری۔ اَے معبودِ حقیقی، مجھے بچا لے۔‘‘ معصوم بچّے نے گِڑ گڑا کر فریاد کی، ساتوں طبق تھرّا گئے۔
’’اَے سونامی !واپس آؤ!‘‘ بار گاہ الٰہی سے حکم ہوا، اور سونامی واپس لوٹ گئی۔
’’اِس مردہ عورت کا بطن حرکت میں ہے۔‘‘ ایک طرف سے آواز آئی۔
٭٭٭
کالم
کاتبِ تحریر
(میٹھی مرچیں)
نسیمِ سحر
کاتبِ تقدیر سے تو سب واقف ہیں، ’’ کاتبِ تحریر‘‘ سے صرف وہی واقف ہیں جو ہماری طرح لکھنے اور پھر اسے شائع کروانے کی عادتِ بد میں مبتلا ہیں۔ خیر ہم نے تو کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد جلد ہی آنے والے حالات کا اندازہ کر کے اُردو کمپوزنگ سیکھ لی تھی اور یوں ’’برقی کاتب‘‘ کی ستم ظریفیوں سے کافی حد تک محفوظ ہو گئے تھے۔ مگر اِس سے پہلے والا دَور جسے ہم اب بجا طور پر ’’پتھر کا دَور‘‘ کہہ سکتے ہیں وہ تھا جب ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر حضرتِ کاتب کے سپرد ہوتی تھی اور وہ اسے بٹّر پیپر پر (اور اس سے پہلے کے دور میں ’’مسطر‘‘ پر)اپنی خوشخطی میں تحریر فرماتے تھے۔ اب اُن میں کتابت کی غلطیوں سے جیسے جیسے لطیفے ایجاد اور المیے سرزد ہوتے تھے وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے جس کا ایک معمولی سا کردار ہم ہیں مگر جس کے بہت سے بڑے بڑے کرداروں (بلکہ نشانہ بننے والوں ) میں آج کے کئی نامور ادیب اور شاعر بھی شامل ہیں۔
لیکن خیرات ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے چنانچہ ہم اپنا ایک حالیہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ کچھ ادبی رسالوں نے تخلیقات کو اردو میں کمپوز کر کے بذریعہ ای میل بھیجنے کی سہولت اپنے لکھنے والوں کو مہیّا نہیں کی جس کے سبب چاہے آپ بہترین کمپوزر ہی کیوں نہ ہوں، آپ کو اپنی تخلیقات کمپوز کرنے کے بعد پرنٹ کر کے بھیجنی پڑتی ہیں جو ایک مرتبہ پھر ان رسالوں سے وابستہ کمپوزروں کے حوالے ’’تُو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر‘‘ کی غرض سے ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک رسالے کو ہم نے راولپنڈی کے ایک معروف شاعر بشیر صرفی مرحوم کے بارے میں لکھا ہوا مضمون پرنٹ کر کے ارسال کیا۔ ان کا نام ہمارے ایک دوست بشیر سیفی مرحوم سے ملتا تھا (جو بعد میں ڈاکٹر بھی ہوئے۔ ) چنانچہ ہم نے اِس مضمون کا آغاز کچھ یوں کیا :
’’ہم سے کچھ سینئیرادیبوں میں تب تک اپنی کسی حد تک، اور کچھ ادیبوں کی کافی حد تک، پہچان بنا لینے والوں میں محمد منشاء یاد، شبنم مناروی، بشیر سیفی اور بیشمار دیگر ادیبوں کے ساتھ ساتھ بشیر صرفی کا نام بھی شامل تھا۔ پہلی مرتبہ کسی نے ان کے غیاب میں مجھ سے ان کا ذکر کیا تو مَیں نے اپنی طرف سے فوراً اس کی ’’کتابت کی غلطی‘‘ درست کرتے ہوئے کہا : بشیر صرفی نہیں، بشیر سیفی۔ ۔ ۔ جس پر میرے مخاطب نے کہا : ارے بشیر سیفی نہیں، مَیں بشیر صرفی کا ذکر کر رہا ہوں‘‘۔
جب یہ مضمون اس ادبی رسالے میں شائع ہو کر مجھ تک پہنچا تو یقین کیجئے کہ اس کی تین سطریں دوبارہ کمپوز ہونے کے بعد یوں شائع ہوئی تھیں :
’’۔ ۔ ۔ بشیر سیفی اور بیشمار دیگر ادیبوں کے ساتھ ساتھ بشیر سیفی کا نام بھی شامل تھا۔ پہلی مرتبہ کسی نے ان کے غیاب میں مجھ سے ان کا ذکر کیا تو مَیں نے اپنی طرف سے فوراً اس کی ’’کتابت کی غلطی‘‘ درست کرتے ہوئے کہا : بشیرسیفی نہیں، بشیر سیفی۔ جس پر میرے مخاطب نے کہا : ارے بشیر سیفی نہیں، مَیں بشیر سیفی کا ذکر کر رہا ہوں‘‘۔
یوں ’’بشیر صرفی‘‘ کی جگہ، ہر جگہ ’’بشیر سیفی‘‘ کا نام لکھے جانے سے تحریر کی بے ربطی پر جس طرح آپ نے سر پیٹا ہے اس سے کچھ زیادہ ہی شِدّت کے ساتھ ہم نے بھی پیٹا اور اسی برہمی کے عالم میں مدیرِ اعلیٰ کو ایک خط بھی لکھ دیا جس کے بعد ان کی کرم نوازی کے سبب معذرت کے ساتھ اگلے شمارے میں یہ مضمون درست حالت میں شائع ہوا۔
ہمارے ایک اور دوست نے جو بہت اچھے مزاح نگار بھی ہیں اور ہر مہینے جن کی کئی تحریریں نظر سے گزرتی ہیں، ایک کمپوزر مستقل ملازم رکھا ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا کمپوزر کسی ایک مضمون کی کمپوزنگ میں یوں اٹک گیا جیسے کچھ شاعر کسی مشکل بحر میں اٹک جاتے ہیں۔ بار بار غلطیاں درست کروانے کے باوجود انہیں سخت کوفت ہوتی کہ مضمون میں کچھ نئی غلطیاں بھی ہو رہی تھیں اور پہلے والی غلطیوں کی تصحیح بھی نہ ہوتی تھی، جس پر تنگ آ کر انہوں نے کمپوزر سے یہ تاریخی جملہ کہا کہ میاں، کیا تمہاری روزی اسی ایک مضمون سے وابستہ ہو کے رہ گئی ہے ؟
لیکن ہم لکھنے والے اگر کمپوزروں سے تنگ آ جاتے ہیں تو کچھ کمپوزر بھی ہم سے تنگ آ جاتے ہیں۔ ایک ایسے ہی مصنّف کی کتاب کا مسودہ کمپوزر نے جب کمپوز کر کے مصنّف کو دیا تو انہوں نے پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ اپنی ہی تحریر میں کچھ اضافہ بھی کر دیا۔ کمپوزر نے اسے اضافہ شدہ مواد اور تصحیح کے بعد دوبارہ مصنف کو پیش کیا تو ایک مرتبہ پھر یہی ہؤا۔ ظاہر ہے کوئی بھی تکمیلیت پسند مصنف اپنی پہلے والی تحریر کو اشاعت سے پہلے جب بھی دیکھتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر کے اسے بہتر بنانا چاہتا ہے۔ لیکن کمپوزر کے نزدیک تو یہ ایک ’’بیگار‘‘ ہی تھی کہ ایک ہی مسودے کو چھ سات مرتبہ مزید اضافوں کے ساتھ درست کیا جائے۔ چنانچہ اس نے بے بسی اور برہمی کے ملے جلے تأثّرات کے ساتھ ایک جملہ ایسا کہا جسے شاید دیگر تمام کمپوزر سنہری حروف میں لکھ کر فریم کروا لیں تو کچھ عجب نہ ہو گا۔ اس نے کہا : ’’زندہ مصنّفوں سے اللہ بچائے !‘‘۔ تکمیلیت پسند مصنّفین بھی اس جملے کو اپنے لئے ’’جملۂ فکریہ‘‘ بنا لیں تو ان کی عمرِ عزیز میں شاید کچھ اضافہ ہو جائے !
ایک اور کافی وسیع اشاعت رکھنے والے ادبی جریدے کے مدیراس بات پر زور دیتے ہیں کہ انہیں کمپوزڈ یا ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریریں ای میل سے نہ بھیجی جائیں۔ ’’غیر سرکاری ذرائع‘‘ سے پتہ چلا کہ اُن کا کمپوزر اس بات پر برہم ہوتا ہے کہ انہیں کمپوزڈ تحریریں بھیجی جائیں کیونکہ یوں اُس کی ماہانہ بِل کم صفحات کمپوز کرنے کی وجہ سے متأثّر ہوتا ہے۔
ہمارے پاس کمپوزروں کی ایسی ہی ستم ظریفیوں کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں مگر ہم خود چونکہ اکثر حالتوں میں کمپوزروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اس لئے ہم ان کی ’’ہجو نگاری‘‘ سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ یہ کالم ہم اپنے نام سے شائع نہ کروائیں لیکن وہی بات ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو پھر موسلوں کا کیا ڈر، اور اپنے نام سے یہ کالم شائع نہ کروانے سے ہم شاید اس لذّت سے بھی محروم ہو جاتے جسے ’’آ بَیل مجھے مار‘‘ کہا جاتا ہے اس لئے ہر چہ بادا باد !
٭٭٭
میرؔ کیا سادہ ہیں
(آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے )
سلیم فاروقی
ابھی کل ہی کی بات ہے ہم چائے کی گرما گرم چسکیوں کے ساتھ اپنے دوست محسن ترمذی کی عوامی علم و دانش بھری گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ہمارے فرزندِ ارجمند نے دخل در نا معقولات کر دی (ہم نے یہاں "نا معقولات ” کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ عوامی علم و دانش بھری گفتگو وہ ہوتی ہے جو کوئی بھی شخص صرف اپنے بے تکلف دوستوں ہی کی محفل میں کر سکتا ہے، خصوصاً اس میں استعمال ہونے والی تشبیہات، استعارات اور اشارے و کنائے تو ہر گز کسی معقول محفل میں استعمال نہیں ہو سکتے۔ ) ہمارے فرزند نے آتے ہی شکوہ کرنا شروع کر دیا کہ یہ شاعر لوگ اچھے بھلے آسان الفاظ والے شعر میں کوئی نہ کوئی ایسا مشکل لفظ کیوں شامل کر دیتے ہیں کہ پورا شعر ہی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ ہم نے پوچھا کیوں کیا ہوا، تم کو آج کونسا مشکل لفظ مل گیا ہے ؟ کہنے لگا یہ لفظِ ’’عطار‘‘ کو ہی دیکھ لیں، آج تک میں نے یہ لفظ سنا اور نہ ہی پڑھا۔ ہاں اگر اس شعر میں لفظ ’’ عطار‘‘ کی جگہ لفظ ’’ عطاری‘‘ استعمال ہوا ہوتا تو یہ لفظ سنا ہوا بھی ہے، اور اس سے شعر کا کچھ مطلب بھی بن جاتا ہے۔ یہ سن کر ہم عجیب گومگو والی کیفیت کا شکار ہو گئے۔ ہم نے پوچھا کونسے شعر میں تم لفظ عطار کی جگہ لفظ عطاری استعمال کر کے اپنی مرضی کا مطلب نکالنا چاہتے ہو؟ لیکن یاد رکھنا یہ شاعری ہے، تعزیراتِ پاکستان کی کوئی دفعہ نہیں، کہ جب بھی کوئی وکیل جس طرح بھی چاہے اپنی مرضی کا مطلب نکال لے اور مقدمہ جیت بھی جائے۔ وہ کہنے لگا یہ شعر دیکھیں ؎
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
مزید کہنے لگا کہ اگر اس میں لفظ عطار کی جگہ لفظ عطاری استعمال ہو جاتا تو یہ شعر بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتا کہ مشہورو معروف میر صاحب(وہ والے نہیں جن کا نام اس وقت آپ کے ذہن میں آ رہا ہے بلکہ وہ والے جنہوں نے یہ شعر لکھا ہے ) بیوقوفی کی حد تک اِتنے سادہ ہیں کہ وہ اپنے دوست عبداللہ عطاری کے گھر دعوت میں زیادہ کھانے کی وجہ سے بیمار بھی ہوئے اور دوا لینے بھی اُنہی کے بیٹے (جو ڈاکٹر بھی ہے ) کے پاس چلے گئے۔
یہ سن کر ہم دونوں کو ہنسی آ گئی، محسن تو باقاعدہ قہقہہ لگانے لگے۔ ہم نے اپنے برخوردار کو سمجھایا کہ یہاں لفظ عطار بالکل صحیح استعمال ہوا ہے۔ در اصل عطار کہتے ہیں کسی بھی دوا فروش کو یا کسی حکیم کے اس معاون کو جو حکیم صاحب کے نسخے کے مطابق کسی مریض کے لیئے دوائی بناتا ہے۔ (جس کو تم آجکل کی زبان میں کمپاونڈر یا فارماسسٹ بھی کہہ سکتے ہو۔ )اب اگر کوئی شخص کسی عطار کی وجہ بیمار ہو جائے اور پھر دوائی لینے بھی اسی عطار کے لونڈے کے پاس پہنچ جائے تو اس کی بیوقوفی کی حد تک سادگی کو ظاہر کرنے کے لیئے یہ شعر پڑھا جاتا ہے۔ اور ہاں۔ ۔ ۔ یاد رکھو اس شعر میں لفظ لونڈا اُن ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے جن معنوں میں آجکل لفظ چھوٹے استعمال ہوتا ہے۔
ہمارا یہ کہنا تھا کہ اب باری محسن ترمذی کی دخل در معقولات کی تھی۔ وہ ہمارے فرزند سے مخاطب ہوئے کہ بیٹا تمہارے ابو پرانے وقتوں کے پڑھے ہوئے ہیں، ان کو جدید طریقۂ تعلیم کا بالکل بھی علم نہیں ہے، ان کو پتا ہی نہیں کہ جب کسی کو کوئی بات سمجھانی ہو تو اس کو آج کی چیزوں سے مثال دینی چاہیئے نہ کہ پرانی چیزوں سے تاکہ اس کی سمجھ میں آسانی سے بات آ جائے۔ ہم نے محسن ترمذی کو گھورتے ہوئے کہا کہ اچھا چلیں آپ ہی بتا دیں اس شعر کا مطلب۔ فرمانے لگے ہاں بالکل سمجھاؤں گا، اگر صحیح نہ سمجھا پایا یا غلط مثال دی تو تم میرے ساتھ وہی سلوک کر سکتے ہو جو آجکل کالے کوٹوں اور کالی وردی والے سفید کپڑے والوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم نے یہ شرط منظور کرتے ہی اپنے جوتوں کے بند کھولنا شروع کر دیئے …
وہ ہمارے فرزند سے بولے کہ تم اس شعر آج کی مثال سے اسطرح سمجھ لو، اپنے وقت میں اس ملک کی طاقتور ترین ہستی، ایک فوجی جرنیل اور وہ بھی کمانڈو جو بطور صدرِ مملکت اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، جب دل کرتا ایک فون کال پر کسی کو لٹِا دیا کرتا اور جب دل کرتا ایک فون کال پر خود کسی کے آگے لیٹ جایا کرتا۔ کبھی چند ٹکوں کے عوض اس ملک کی بیٹی کو غیروں کے ہاتھوں بیچ دیا کرتا، اور کبھی دل چاہتا تو اپنے گناہوں کا طوق محسنِ پاکستان کے گلے میں ڈال کر ان کو پسِ زنداں کر دیا کرتا۔ ایک بار نجانے اس کے دماغ میں کیا فتور آیا کہ اس نے اس ملک کے بنا ء وردی والے چیف سے پنگا لے لیا، اور آج یوسفِ بے کارواں بنا پھر رہا ہے، اب وہی سابقہ وردی والا چیف اُسی بغیر وردی والے چیف کے پاس دھائی لے کر جانا چاہتا ہے کہ الیکشن کمیشن مجھ پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ میں نے اپنے دور میں آپ کو Chief کی بجائے Mischief (ایک غلطی)سمجھتے ہوئے آپ کو عوام کی نظروں میں Cheap ثابت کرنے کے لیئے آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو غیر قانونی طور پر ناں صرف برطرف کیا بلکہ ببانگِ دُہل یہ اعلان بھی کیا کہ
They are no more judges, They are history now.
(یعنی آپ لوگ اب مزید منصبِ منصفی پر فائز نہیں رہے، اب آپ لوگ تاریخ کا ایک بند باب ہو چکے ہیں۔ ) اب آپ الیکشن کمیشن کو حکم دیں کہ وہ میرے ان اقدامات کو تاریخ کا ایک بند باب (بلکہ شاید تاریک باب) سمجھ کر ان کو بھول جائے اور میرے الیکشن لڑنے پر کوئی قدغن نہ لگائے۔ ہم نے کہا مثال تو محسن بھائی آپ نے بالکل صحیح دی ہے مگر ٭٭ہائے ؎
اِس سادگی پر کون مر نہ جائے اے خدا
یوں بھی اس کمانڈو جرنیل کو تاریخ سے یہ سبق ضرور لینا چاہیئے تھا کہ ایوانِ اقتدار کی یہ ریِت ہے کوئی شخص جب تک اقتدار پر موجود ہے لوگ اس کو کندھوں پر بٹھاتے اور جونہی اس کے اقتدار کا سورج گہناتا ہے لوگ اس کو کندھوں پر لاد کر نفرتوں کے شمشان گھاٹ پر چھوڑ آتے ہیں۔ اس سے استثناء صرف ان ہی لوگوں کو ملتا ہے جنہوں نے لوگوں کے جسم پر نہیں بلکہ ان کے دلوں پر حکومت کی ہوتی ہے۔
٭٭٭
حسیں ہاتھ کا کنگن
(مزاح مت)
کے ایم خالد
اُسے زمانہ طالب علمی سے ہی لوگوں کی زمینوں پر پھرنے کا بہت شوق تھا وہ اکثر میر، درد، جوش، غالب، حالی اور دوسرے قدیم شعرا کی زمینوں میں اپنی فصل کاشت کرنے کی کوشش کرتا جواب میں اکثر وہ رات کو سوتے میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا جب کسی شاعر کو اپنے سرہانے ہاتھ باندھے کھڑا ہوا پاتا اسے محسوس ہوتا کہ جیسے اکثر شاعر اس سے کہہ رہے ہیں ’’کاکا۔ ۔ ۔ ! ہم پر رحم، جو زندہ ہیں ان سے زمین چھین کر دکھا‘‘۔ وہ اسکول کے دوستوں کے ساتھ ڈرامہ کرتا اور ڈرامہ کے دوران ہی اپنی شاعری سنانے کی کوشش کرتا جنہیں چند سموسے، چاٹ کے شوقین طالب علم ایک ڈیل کے تحت دیکھتے، سنتے ہوئے کھاتے۔
سرگودھا کے ایک ادبی رسالے میں جب وہ اپنی غزل جس کا ایک مصرع ’’دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے‘‘ اشاعت کی غرض سے لے پہنچے تو ایڈیٹر کے پاس ان کے دوست کی غزل بھی پڑی ہوئی تھی جس میں بھی اسی مصرع سے استفادہ کیا گیا تھا ایڈیٹر کے استسفار پر اس کے دوست نے بتایا کہ وہ عموماً اکھٹے ہی بیٹھ کر شاعری کرتے ہیں، بس یہ مصرع میں ان کے سامنے گنگنا بیٹھا مزید کھوج نے ایک اور انکشاف کیا کہ ان دونوں نے یہ مصرع کسی اور شاعر کی غزل سے لیا ہے۔
جب وہ اپنی شاعری کے محاسن استاد دوست سے معلوم کرنے پہنچے تو انہوں نے ناک پر عینک رکھتے ہوئے ان کی شاعری پکڑ کر ایک نظر ڈالی اور کہا ’’یہ کیا ہے ؟‘‘
اُس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا ’’یہ تو آپ نے بتانا ہے میرے مطابق تو شاعری ہے۔‘‘
جب استاد محترم اس کے کلام کو علم عروض کی کسوٹی پر، پرکھ کر کلام موزوں کر رہے تووہ حیرانی سے انہیں کبھی اُنہیں اور کبھی اپنے کلام کو دیکھ رہا تھا وہ جب اپنا کلام استاد محترم سے کر گھر کی جانب روانہ ہوا تو ان کے اپنے کلام میں سوائے تخلص کے ان کا اپنا کچھ نہ بچا تھا۔
استاد صاحب کی بدولت کچھ شاعری چل تو نکلی تھی لیکن وہ اکثر یہی سوچتے اگر یہ استادمحترم کہیں دائیں، بائیں ہو گئے تو پھر اس کے آگے اُن کی سوچ اور شاعری دونوں جواب دے جاتے۔ استاد محترم بوڑھے ہوتے چلے گئے وہ اور ان کی شاعری جوان ہوتی چلی گئی، پھر ایک روز ان کی نظر کسی اور کی زمین پر پڑی اوراس زمین کی رنگینی اسے بھا گئی یہ مصرع ’’کاش میں تیرے بن گوش کا بندہ ہوتا‘‘ تو جیسے اس کو مجبور کر رہا تھا کہ آؤ یہ زمین ہی تمہاری ہے پھر اس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا‘‘ مجید امجد کی زمین میں بو دی وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو سمجھاتا رہا میں نے اس نظم سے صرف کاش کا لفظ ہی لیا ہے اور یہ سینہ زوری تو نہیں ہے اس نظم نے اس سمیت، مجید امجد کو بھی دوبارہ زندہ کر دیا لوگ اس کی بدولت مجید امجد کے نام سے آشنا ہوئے۔ اس پر ادب اور سکرین کے دروازے کھلتے چلے گئے لوگ اسے سرقہ، چربہ کا نام دیتے رہے اس کے ڈراموں کو خرید کا ڈرامے کہتے رہے لیکن اس میں ایک خوبی ضرور رہی کہ اس نے مڑ کر کسی کی تنقید کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا شاید چرچل کا مقولہ پلے سے باندھ رکھا ہے۔
جو اس کے استاد محترم تھے ’’رات گئے‘‘ وہ ان کے لئے اجنبی ٹھہرے، اپنے پروگرام میں انہوں نے استاد محترم کی غزل یہ کہہ کر پڑھنے سے انکار کر دیا کہ میں انہیں نہیں جانتا۔ ’’بابا جی‘‘ کہتے ہیں ’’تم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ایک بندے نے اگر پانچ راتیں اور چھ دن سائیکل چلائی ہے تو اس نے کتنا جان جوکھوں کا کام کیا ہے، بجائے شاباشی دینے کے یہ کہہ دینا کہ یہ کام تو اس زمین پر صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے یہ کونسا کارنامہ ہے یہ زیادتی ہے‘‘۔ ’’بونگے بغلول‘‘ کے خیال میں موصوف کو اپنی پرانی شاعری ’’دو کی بجائے چائے بنائی تھی ایک کپ۔ ۔ ۔ افسوس آج ہم بھی فراموش ہو گئے‘‘ کی جانب لوٹ جانا چاہئے کیونکہ ناقد ان کی شاعری کی قدر نہیں جان سکتے حالانکہ کس قدر جاندار مصرع ہے ’’سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں‘‘ اب ناقد اس مصرع کو بھی تنقید کے کچوکے لگا رہے ہیں کہ اس میں کونسی سی شاعری ہے جب بندہ پانی میں اترتا ہے تو آنکھیں بھیگ ہی جاتی ہیں۔
اب وہ شاعری، ڈرامہ نگاری، اینکری سے لے کر کالم نویسی تک ہر میدان میں اپنے گھوڑے دوڑا رہا ہے، اب اس کی اپنی زمینیں، اپنے جگنو، اپنی تتلیاں اور اپنی پریاں ہیں۔ اس کے پرستاروں کا ایک ہجوم اس کے تعاقب میں ہے لیکن سائیڈوں پر کھڑے ناقد پھر بھی اس کو ایک جینوئن شاعر نہیں مانتے، ’’کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا‘‘ اس کے نام کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔
٭٭٭
انشائیے
بھائی عبدالقدوس
اقبال حسن آزاد
کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر شہر گیا۔ ایک عالیشان عمارت کے سامنے اس نے بھیڑ دیکھی تو گھوڑا روک کر اُتر پڑا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک کھڑکی کے آگے قطار بنا کر کھڑے ہیں اور جس کا نمبر آتا ہے وہ اپنے ہاتھ میں ایک کاغذ لیے شاداں و فرحاں پلٹتا ہے۔ اس شخص نے ایک آدمی سے دریافت کیا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور کھڑکی سے لوگوں کو کیسا کاغذ دیا جا رہا ہے ؟جواب ملا کہ یہ یونیورسیٹی ہے اور یہاں لوگوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جا رہی ہے۔ تب اس شخص نے خوش ہو کر کہا کہ اگر ایسا ہے تو ایک ڈگری میں اپنے لیے لے لیتا ہوں اور ایک اپنے گھوڑے کے لیے۔ جواب ملا کہ یہاں صرف گدھوں کو ڈگری دی جاتی ہے، گھوڑوں کو نہیں۔
بھائی عبد القدوس کے استاد محترم پروفیسر شہاب ثاقب ہمیشہ ان پر مہربان رہے کیونکہ ان جیسا جیسا مطیع و فرماں بردار شاگرد چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ انہوں نے جب کالج میں داخلہ لیا تو پروفیسر موصوف کی تقرری اسی کالج میں تھی۔ استاد نے شاگرد کو اور شاگرد نے استاد کو جب خوب اچھی طرح پہچان لیا تو پھر بھائی کو کالج جانے کی پابندیوں سے رہائی مل گئی۔ اب وہ بجائے کالج جانے کے صبح سویرے پروفیسر صاحب کے دولت کدے پر پہنچ جاتے۔ گھر کا چھوٹا موٹا کام کرتے، سودا سلف لاتے اور ان کے بچوں کو اسکول لے جاتے۔ اس طرح ہنستے کھیلتے کالج کا عرصہ ختم ہو گیا اور انہوں نے پروفیسر صاحب کی مہربانیوں اور سفارشوں سے فرسٹ کلاس سے بی اے اُردو آنرز پاس کر لیا۔ اسی دوران پروفیسر موصوف ترقی پا کر یونیورسیٹی پہنچ گئے۔ انہوں نے بھائی عبد القدوس کو مشورہ دیا کہ وہ ایم اے میں داخلہ لے لیں اور اس طرح وہ ایم اے کے طالب علم بن گئے۔ لیکن ان کے معمولات اب بھی حسب سابق تھے۔ وہی علی الصباح پروفیسر صاحب کے درِ دولت پر حاضری دینا اور ان کے گھر کے کاموں میں پروفیسر موصوف کی اہلیہ کا ہاتھ بٹانا۔ دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے اور وہ پروفیسر صاحب کی مہربانیوں سے جس طرح انہوں نے بی اے کیا تھا اسی طرح فرسٹ کلاس ایم اے بھی کر لیا۔ اب ان کے دل میں پی ایچ ڈی کرنے اور پروفیسر بننے کی خواہشیں انگڑائیاں لینے لگیں۔ پروفیسر صاحب ان کے نگراں تو بن گئے لیکن اب سوال یہ تھا کہ تھیسس لکھے گا کون؟آخر پروفیسر صاحب نے ہی ان کی رہنمائی کی اور بتایا کہ یونیورسیٹی کے ایک جونیئر لکچرر جو مناسب حق المحنت پر دوسروں کے لیے مقالے لکھتے ہیں وہی ان کا مقالہ بھی لکھ دیں گے۔ مقالہ کیا لکھتے ہیں بس ایک ہی مقالے کو عنوان بدل بدل کر فروخت کرتے ہیں۔ بہر کیف ! مقالہ بھی تیار ہو گیا اور وائیوا کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ پروفیسر صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایکسپرٹ کو فرسٹ کلاس اے سی میں بٹھا کر لائیں۔ اُن کے لیے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بُک کرائیں۔ ان کی خوب خوب خاطر داریاں کریں۔ وائیوا کے دوران اپنے شعبے کے دیگر اساتذہ اور طلباء بھی ہوں گے۔ ان سبھوں کے لیے شاندار ناشتے کا انتظام کریں۔ وائیوا ختم ہو جانے کے بعد چند مخصوس لوگوں کے لیے چانکیہ ہوٹل میں لنچ رکھ لیں۔ چنانچہ بھائی عبدالقدوس پروفیسر صاحب کی رہنمائی میں سب کچھ کرتے گئے۔ ویسے اِتنے برسوں سے ان کے ساتھ رہتے رہتے وہ ان سارے مقامات سے واقف ہو چکے تھے جو عارف کو سالک کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد جب وائیوا شروع ہوا اور ایکسپرٹ نے سوالات کرنے شروع کیے تو یہ ہونق کی طرح اپنے استاد کا منہ دیکھنے لگے۔ انہوں نے دل ہی دل میں سوچا کہ مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ صرف کھانا پینا ہو گا، یہاں تو سوال جواب ہو رہا ہے۔ استاد محترم ان کے دل کی بات سمجھ گئے اور مشکل کشا بن کر اُنہوں نے اپنے چپراسی کو ایک مخصوص اشارہ کیا۔ چپراسی بھی ایک ہی جہاندیدہ و گرگ باراں دیدہ تھا۔ اس نے فوراً ناشتے کا پیکٹ سرو کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ لوگوں کا دھیان ناشتے کی جانب مبذول ہو گیا اور خوش گپیوں کے دوران ہلکے پھلکے سوالات کئے گئے اوراس طرح وائیوا کامیابی کے ساتھ ختم ہو گیا۔ پھر سبھوں نے مل کر بھائی عبد القدوس کو ڈاکٹر بننے کی مبارکباد دی اور انہوں نے نہایت خوشدلی کے ساتھ فرداً فرداً سبھوں کا شکریہ ادا کیا۔
بھائی عبد القدوس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تو انہوں نے اپنے گھر کے دروازے پر ایک نیم پلیٹ لگوائی ’’ڈاکٹر عبد القدوس، ایم اے (فرسٹ کلاس) پی ایچ ڈی۔‘‘ایک رائٹنگ پیڈ چھپوایا، مہر بنوائی اور ہر جگہ اپنا نام اسی سابقے کے ساتھ لکھنے لگے۔ اب انہیں کسی کالج میں لکچرر بننا تھا اور اس کے بعد اپنے استاد پروفیسر شہاب ثاقب کا شرف غلامی حاصل کرنا تھا۔ غلام تو وہ پہلے بھی تھے اور اب بھی یہ فریضہ انجام دے رہے تھے لیکن اب وہ گھر داماد بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ مگر ریاست کی سیاسی صورت حال کچھ ایسی ہو گئی تھی کہ عرصہ دراز تک کالج اور یونیورسیٹیوں میں کوئی بحالی نہ ہو سکی تھی۔ بے چارے چھوٹے موٹے کام کر کے اپنا وقت گذارتے رہے۔ ایک دو دفعہ مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی شریک ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ انہیں کہیں کلرک کی نوکری بھی نہ مل سکی۔ اور اگر سچ پوچھئے تو وہ صرف چپراسی بن سکتے تھے کیونکہ اپنے استاد کی خدمت کرتے کرتے وہ اس معاملے میں کافی تجربہ کار ہو چکے تھے مگر یہ کام ان کے شایان شان نہ تھا لہذا انہوں نے اس کے متعلق کبھی سوچا تک نہیں۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ ایک روز گھورے کے دن بھی پھِرتے ہیں چنانچہ بھائی عبد القدوس کے دن بھی پھر گئے۔ جب یونیورسیٹی اور کالج کے اساتذہ یکے بعد دیگرے سبکدوش ہونے لگے اور بہت سے دوسرے اس دار فانی کو خیر آباد کہہ گئے۔ کیمپس میں طالبعلموں کی جگہ گدھے، کتے اور گائے بیل نظر آنے لگے مگر بعضے کالجوں میں تو سانڈ بھی اپنا فطری تقاضہ پورا کرتے دکھائی دینے لگے اور اس کے تعلق سے اخبارات میں روز خبریں آنے لگیں تب جا کر ریاستی حکومت کمبھ کرنی نیند سے جاگی اور اس نے لکچررز کی بحالی کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اس کے لیے اسے بہت ساری مشقت کرنی پڑی۔ خالی اسامیوں کا لیکھا جوکھا حاصل کیا گیا۔ طالبعلموں کی تعداد معلوم کی گئی اور پھر ایک یونیورسیٹی سروس کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی اور اتفاق دیکھئے کہ پروفیسر شہاب ثاقب کو اس کا چیئر مین بنا دیا گیا۔ پروفیسر موصوف چیئر مین کیا بنے کہ بھائی عبدالقدوس کی توقسمت ہی کھل گئی۔ چہرے پر مردنی جگہ شادابی لہریں مارنے لگی۔ بدن میں سیروں خون بڑھ گیا اور ان کی رگ رگ میں بجلیاں سی کوندنے لگیں۔ ادھرپروفیسر صاحب کی صاحبزادی کی نگاہوں کے چراغ بھی جلنے لگے۔ اشتہارات نکلے تو بھائی عبد القدوس نے پروفیسر صاحب کی مدد سے درخواست فارم پُر کیا اور اسے کمیشن کے دفتر میں جمع کر دیا۔ خدا خدا کر کے انٹرویو کا دن آیا اور ہمارے بھائی صاحب سج دھج کر انٹرویو روم میں پہنچے۔ چیئر مین صاحب اپنی کرسی پر براجمان تھے۔ اغل بغل دو ایکسپرٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں چیئر مین صاحب کے لنگوٹیا یار تھے اور وہ سب آپس میں خوش گپیاں کر رہے تھے۔ بھائی قدوس اندر داخل ہوئے تو سب سے پہلے انہوں نے سبھوں کو باری باری سے مودبانہ سلام کیا۔ اور جب انہیں کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے نہایت سلیقے سے حکم کی تعمیل کی۔ پہلے تو ان کی اسناد کی جانچ کی گئی اور پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے ایکسپرٹ نے دریافت کیا۔ ’’آپ کا نام؟‘‘
’’ڈاکٹر عبد القدوس۔‘‘
’’کیا ڈاکٹر آپ کے نام کا حصہ ہے ؟‘‘
یہ سوال سن کر بھائی صاحب پہلے تو ذرا گڑبڑا گئے لیکن پھر سنبھل کر بولے ’’جی ! یہ میری ڈگری ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا، یہ بتایئے کہ آپ کو نثری اصناف سے دلچسپی ہے یا شعری اصناف سے ؟‘‘
’’جی مجھے ہر قسم کی اصناف سے دلچسپی ہے۔‘‘
’’واہ ! کیا بات ہے۔‘‘
پھر پہلے ایکسپرٹ نے دوسرے ایکسپرٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اب آپ کچھ سوالات کریں۔‘‘
دوسرے ایکسپرٹ نے کہا۔ ’’غالب کو کوئی شعر سنائیے۔‘‘
بھائی صاحب نے پہلے تو سر کھجایا، پیشانی پر زور ڈالا، دیدے گھمائے، اپنے استاد کی جانب رحم طلب نظروں سے دیکھا اور پھر بولے ’’دس برس ہو گئے ایم اے کیے ہوئے سب کچھ بھول بھال گیا ہوں۔‘‘
اب سر کھجانے کی باری ایکسپرٹ صاحب کی تھی۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور کہا ’’اچھا میرؔ کا کوئی شعر سنا دیجئے۔‘‘
’’کہا نا جناب کہ سب کچھ بھول گیا ہوں۔‘‘
’’خیر ! اقبالؔ کا تو کوئی شعر یاد ہو گا؟‘‘
’’نہیں جناب ! خدا کی قسم سب کچھ بھول چکا ہوں۔‘‘
’’اچھا منٹو کے کسی ایک افسانے کا عنوان بتایئے۔‘‘
یہ سوال سن کر قدوس بھائی کا چہرہ کھل اُٹھا اور بولے ’’کوئی شلوار تھی۔ ۔ ۔ شاید پیلی یا کالی۔‘‘
چیئر مین صاحب جو یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے، خاموش نہ رہ سکے۔ انہوں نے ایکسپرٹ صاحب سے کہا۔
’’رہنے دیجئے جناب!اس میں کنڈیڈیٹ کا کیا قصور؟ ساری غلطی اُوپر والوں کی ہے۔ اگر میرے ساتھ یہ صورت حال پیش آتی تو میں غالب میر اور اقبال کا کلام تو کیا ان کے نام تک بھول چکا ہوتا۔ اور یہ منٹو کوئی افسانہ نگار تھا کیا۔ ۔ ۔ صرف شلواروں اور ساریوں کے نیچے جھانکتا رہتا تھا۔ لا حول ولا قوۃ۔ خیر آگے بڑھئے۔ دوسرے ایکسپرٹ نے پھر سوال کیا۔
’’عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
یہ شعر کس کا ہے ؟‘‘
اتنی دیر میں بھائی عبد القدوس اپنے استاد کی حمایت سے کافی حد تک سنبھل چکے تھے اور انہوں نے نہایت اعتماد کے ساتھ جواب دیا ’’یہ غالب اور آتش کا مشترکہ شعر ہے۔‘‘
’’مشترکہ شعر؟ یہ کیا ہوتا ہے ؟؟‘‘ایکسپرٹ صاحب چونک پڑے۔
’’ارے، آپ کو نہیں معلوم؟؟ جس طرح فلموں میں موسیقاروں اور کہانی کاروں کی جوڑیاں ہوتی ہیں اسی طرح۔ جیسے شیام جی گھنشیام جی، کلیان جی آنند جی، شنکر جے کشن، لکشمی کانت پیارے لال، سونک اومی، ندیم شرون، شنکر احسان لوئی، سلیم جاوید وغیرہ وغیرہ۔‘‘
ان کا یہ عالمانہ جواب سن کر چیئر مین صاحب زور سے ہنس پڑے اور ایکسپرٹ صاحب سے کہنے لگے ’’لگتا ہے ان میں حس مزاح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بھئی واہ ! لطف آ گیا۔‘‘پھر وہ ایکسپرٹ صاحب کی جانب منہ کر کے کہنے لگے ’’آپ بھی کیا بچوں کی طرح سوالات کیے جا رہے ہیں۔ ارے یہ کون نہیں جانتا ہے کہ یہ غالبؔ کا شعر ہے۔‘‘
ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایکسپرٹ صاحب کی کمر کو ہلکے سے دبایا اور آنکھوں سے خفیف سا اشارہ کیا۔ ایکسپرٹ صاحب سنبھل کر بیٹھ رہے۔ چیئر مین صاحب عبد القدوس بھائی کہا ’’ہم آپ کے جواب سے بہت خوش ہوئے۔ آج ہمارے کالجوں کو آپ جیسے ہونہار لکچررز کی سخت ضرورت ہے۔ مبارکباد قبول فرمایئے You have been selected‘‘
اس کے بعد تینوں نے مل کر بھائی عبد القدوس، سوری ! ڈاکٹر عبد القدوس، سوری ! ڈاکٹر پروفیسر عبد القدوس کو مبارکباد پیش کی اور وہ شاداں و فرحاں انٹرویو روم سے نکلے اور بقیہ امیدواروں کو بنظر حقارت دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔
بھائی عبد القدوس لکچرر کیا بنے کہ ان کی قسمت کے سارے پٹ فٹافٹ کھلتے چلے گئے۔ رشتوں کی وہ باڑھ آئی کہ اس میں ان کا پورا خاندان بہہ گیا لیکن ان کی پیشانی پر تو لکھنے والے نے پروفیسر شہاب ثاقب کی چھوٹی دختر نیک اختر کا نام لکھ دیا تھا لہذا کسی دوسری طرف نگاہ ڈالنے کی ضرورت تھی نہ جرأت۔ ادھر انہوں نے یونیورسٹی جوائن کیا اور اُدھر ان کے سر پر سہرا باندھنے کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور جلد ہی وہ پروفیسر شہاب صاحب کے داماد بن گئے بلکہ یوں کہیے کہ گھر داماد بن گئے۔ ان کی شادی کے موقع پر بڑے بڑے لوگ آئے تھے۔ ڈاکٹر، انجینیئر، اعلیٰ افسران، یونیورسیٹی کے وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر، رجسٹرار کے علاوہ بہت سارے پروفیسر حضرات بھی شامل ہوئے تھے۔ اور اس طرح پوری یونیورسیٹی بھائی عبد القدوس سے واقف ہو گئی۔
شادی کا خمار کچھ ہلکا ہوا تو سسر صاحب نے داماد سے کہا کہ میاں ! اب تم پروفیسر ہو گئے ہو اور ہروفیسر کا کام صرف تنخواہ لینا نہیں بلکہ یونیورسیٹی جا کر کلاس بھی لینا ہے۔
یونیورسیٹی جانے میں تو انہیں کوئی اعتراض نہ تھا مگر کلاس لینے کی قباحت سے وہ بچنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ’’صحیح‘‘ کو ’’سہی‘‘ اور ’’غلط‘‘ کو غلت‘‘ لکھا تھا۔ ’’فردا‘‘ کو ’’فروا‘‘ اور ’’ملاحظہ‘‘ کو ملاخطہ‘‘ پڑھتے آئے تھے۔ لیکن سسر صاحب کا حکم تھا لہذا یونیورسیٹی تو جانا ہی تھا۔ سو انہوں نے یہ کام بھی شروع کر دیا۔ وقت پر تیار ہو کر نکل جاتے مگر بجائے کلاس لینے کے کبھی وائس چانسلر کو سلام کرنے پہنچ جاتے کبھی پرو وائس چانسلر کو اور کبھی رجسٹرار کو۔ انسان جب کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو اسے چمچوں کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ چمچے ہی ہوتے ہیں جو اسے اس کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ بھائی عبدالقدوس جیسا چمچماتا ہوا چاندی کا چمچہ بھلا کسے پسند نہ آتا؟ جلد ہی وہ یونیورسیٹی کے عہدہ داران کی طفیل وی آئی پی پروفیسران میں شمار کیے جانے لگے اور یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ انہیں جلد آرٹس فیکلٹی کا ڈین بنا دیا جائے گا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ وہ یونیورسیٹی کے لان میں موسم سرما کی نرم نرم دھوپ کا لطف اُٹھا رہے تھے کہ چند لڑکے اور لڑکیاں ان کے پاس آئے۔ پہلے تو ان لوگوں نے ادب سے انہیں سلام کیا اور پھر ان میں سے ایک کہنے لگا ’’سر !کلاس۔ ۔ ۔‘‘مگر ابھی وہ صرف تنا ہی کہہ پایا تھا کہ بھائی قدوس اُبل پڑے ’’ایں۔ ۔ ۔ کلاس؟ کیسا کلاس؟ میں نے کبھی کلاس لیا ہے ؟تم لوگوں نے مجھے کبھی کلاس لیتے دیکھا ہے ؟جو۔ ۔ ۔ ہوتے ہیں وہی کلاس لیتے ہیں۔‘‘
بے چارے اسٹوڈنٹس اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔
ایک دفعہ یونیورسیٹی میں Class-Less Societyپر سیمینار ہو رہا تھا۔ بھائی عبد القدوس اہم ترین لوگوں کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ سیمینار اختتام پذیر ہونے کے بعد جب وائس چانسلر صاحب صدارتی خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا ’’Class-Less Society کے بارے میں ہمارے پروفیسر عبد القدوس سے بہتر کوئی نہیں جانتا کیونکہ انہوں نے آج تک کوئی کلاس لیا ہی نہیں ہے۔‘‘
اُن کی بات سن کر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا اور بے چارے قدوس بھائی شرم سے پانی پانی ہو گئے۔ اس روز انہوں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سہی اب میں کلاس لیا کروں گا۔ چنانچہ دوسرے ہی روز وہ اسٹاف روم میں دکھائی دیئے۔ ان کے کولیگ نے آنکھیں مل مل کر حیرت زدہ نظروں سے انہیں دیکھا۔ کچھ زیر لب مسکرائے بھی۔ کچھ اشارے کنائے بھی ہوئے مگر وہ ان سب سے بے نیاز اپنی روٹین نوٹ کرنے میں لگے رہے۔ پھر جب ان کے کلاس کا وقت آیا تو انہوں نے نہایت شان کے ساتھ رجسٹر اٹھایا اور کلاس روم کی جانب روانہ ہوئے۔ اسٹوڈنٹس نے جب انہیں ہاتھ میں رجسٹر تھامے، گردن ٹیڑھی کیے کلاس روم کی جانب جاتے دیکھا تو ان کے پیچھے لپک پڑے۔ کلاس روم میں پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے تو حاضر طلبا و طالبات کی حاضری بنائی اور پھر انہوں نے ان سے پوچھا ’’کیا پڑھنا ہے آج؟‘‘
’’سر ! غالب کو پڑھا دیجئے۔‘‘پروفیسر موصوف کے لبوں پر پہلے تو ا شائیےیک خفیف سا تبسم نمودار ہوا، پھر کہنے لگے ’’غالب؟ ہوں غالب، بھئی غالب تو بہت آسان شاعر تھا۔ لوگوں نے خواہ مخواہ اسے مشکل قرار دے دیا ہے۔ خیر ! اگر کسی کے پاس ان کی کوئی کتاب ہے تو نکالے۔‘‘ایک لڑکے نے دیوان غالب سامنے کر دیا۔ انہوں نے کہا۔ ’’اچھا ! پڑھو۔‘‘ لڑکے نے پڑھ ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
شعر سن کر پروفیسر موصوف نے اس کی تشریح یوں کی ’’شاعر کہتا ہے کہ نقش کس کی شوخیِ تحریر کا فریادی ہے کیونکہ ہر پیکر تصویر کا پیرہن کاغذی ہے۔ کلیئر۔ چلو آگے بڑھو۔ اور اس طرح انہوں نے غالب کی پوری غزل کو ’’کلیئر‘‘ کر کے رکھ دیا۔
٭٭٭
تشکر: مدیر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید