فہرست مضامین
اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگار
ایک تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر ہاجرہ بانو
نگراں
ڈاکٹر بیگ اختر مرزا
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مرہٹواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد، ۴۳۱۰۰۱
ریاست مہاراشٹر
۲۰۱۱ء
حصہ اول
(حصہ دوم کےلئے یہاں کلک کریں)
پیش لفظ
نام سے اللہ کے کرتی ہوں آغازِ بیان
جو بڑا ہی رحم والا ہے نہایت مہربان
ویسے تو اردو ادب اپنے کہکشاں میں اصناف کے کئی ستارے سمیٹے ہوئے ہے، انہیں میں سے ایک صنف ہے انشائیہ نگاری۔
لفظ ’’انشاء ‘‘ کے لغوی معنی تو عبارت کے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم اس لفظ کی گہرائی و گیرائی میں اترتے جاتے ہیں تو یہ صرف عبارت کا مفہوم نہیں دیتا بلکہ ان حسین ترین اور امنگ بھرے جذبات کو جنم دیتا ہے جو ذہن و دل کے نہاں خانوں میں سلگتے ہوئے دنیوی مسائل سے الجھ کر سرد خانوں میں محفوظ ہو چکے ہیں۔ ویسے تو انشائیہ کی تعریف مختلف ادباء کے پاس علیحدہ علیحدہ رنگ رکھتی ہے۔ مغربی مصنف و انشائیہ نگار بیکن انشائیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
’’نثری اصناف میں انشائیہ ایک ایسی مختصر تحریر کا نام ہے جس میں بغیر کسی تجسس اور کھوج کے حقیقت کا اظہار ہو۔ ‘‘
یہ بات سو فیصدی دل کو چھو جاتی ہے جب ہم انشائیہ کو ادب لطیف کے سانچے میں ڈھلا دیکھتے ہیں تو ذہن پر دباؤ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ فرانسیسی مصنف و انشائیہ نگار مونتین جو کہ مغربی انشائیہ کا بانی ہے۔ اس صنف کو انسانی شخصیت کے اظہار کا لازمی جز قرار دیتا ہے۔ جب ہم دوسرے مصنفوں کی تحریریں پڑھتے ہیں تو ان مصنفوں کو ایک قد آور رہنما کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ لیکن جب ہم کوئی انشائیہ پڑھتے ہیں تو ہم اس انشائیہ نگار کو اپنا جگری دوست تصور کرتے ہیں اور ہر انسان کی جبلت ایک دوستی کا حصار چاہتی ہے۔ اس لیے میں مونتین کی اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہوں کہ یہ صنف شخصیت کے اظہار کا لازمی جز ہے۔ بالکل اسی سے قریب جانسن انشائیہ کو ’’ذہن کی ترنگ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مختلف مصنفوں کے نزدیک انشائیہ سماجی زندگی کے کسی موضوع پر مصنف کی ایک ایسی گپ بازی ہے جس میں آپ بیتی اور جگ بیتی کی دھوپ چھاؤں ہوتی ہے۔
بقول مغربی مصنف رابرٹ ’’انشائیہ نگار سے ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی طرز تحریر سے ہمیں خوش کرے اور جس موضوع پر وہ لکھ رہا ہے اس پر اختصار کے ساتھ کسی قدر نئی روشنی ڈال دے اور بس۔ ‘‘
اس قول سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ قاری انشائیہ نگار پر اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کے قلم سے وہی لکھوانا چاہتا ہے جو اسے خوش بھی کرے اور نئی روشنی بھی دے یعنی حقیقت کو عیاں بھی کرے جو کڑوی بھی ہوسکتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس کا مطلب وہی ہوا کہ قاری انشائیہ نگار کو نہایت ہی قریبی دوست کا درجہ دیتا ہے تب ہی تو اس کی تحریر سے اسطرح کی امید کرتا ہے جبکہ وہ دوسری اصناف میں اس طرح کی امیدیں نہیں رکھ سکتا اور یہی جذبہ انشائیہ نگاری کی صنف کو دوسری اصناف سے بلند کرتا ہے۔ عبدالماجد دریابادی جو کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو ایک بہترین انشائیہ نگار کا درجہ دیتے ہیں انشائیہ کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں :
’’انشائیہ وہ ہے جس میں بجائے مغز و مضمون کے اصل توجہ حسن عبارت پر ہو۔ ‘‘
یعنی انشائیہ نگار اپنے مقصد و موضوع کے ساتھ ساتھ حسن عبارت کا بھی خیال رکھتا ہے اور یہی انشائیہ کی تعریف ہے۔ انشائیہ کا مادہ ’’نشاء‘‘ (نَشَ ءَ) ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے۔ اس کی تعریف یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی حسین عبارت کے ذریعہ خیال کی تازگی، تنومندی اور شگفتگی کے ساتھ نئی بات پیدا کرنا۔ لیکن اس نئی بات میں اس کی منفرد خصوصیت اس صنف کی غیر سالمیت ہے۔ جو اس صنف کے موضوع میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
لیکن ان متنوع آراء کے باوجود یہ انتہائی خوبصورت صنف ہے اور مختصر تعریف میں کائنات کے بسیط افلاک سمیٹے ہوئے ہے۔
بچپن سے ہی تخلیق کے جراثیم مجھ میں تھے۔ اس لیے اخبارات میں اور کسی خاص موقع جات کے لیے میں کچھ نہ کچھ تحریر کرتی رہتی تھی۔ لیکن اس پر کسی نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ شاید اس لیے بھی کہ میری تحریر میری عمر سے میل نہیں کھاتی تھی۔ مجھ میں بھی اپنی تحریروں کو کسی مخصوص صنف کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ تعلیمی زینے کی آخری سیڑھی پر اللہ رب العزت کی عنایت کی بدولت میں نے قدم رکھا۔ گائیڈنس کے معشوقانہ ناز نخروں کی داستانیں سن سن کر دل کانپ جاتا تھا۔ اسی دوران محترم مرزا اختر بیگ صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان کی علمی قابلیت اور مخلصانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے فوراً پی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے اپنا رجسٹریشن کروا لیا۔ انہوں نے بھی حوصلہ بڑھایا اور میرے موضوع سے اتفاق کیا۔ وہ موضوع تھا ’’اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار‘‘ محترم بیگ صاحب نے فرمایا کہ انشائیہ کی صنف اور کئی انشائیہ نگاروں کو ابھی تک مکمل طرح سے منظر عام پر نہیں لایا گیا اور اس موضوع پر کام کرنے کی کافی گنجائش ہے۔ دوسری طرف میں نے سوچا کہ نجانے کیوں یہ عنوان میرے مزاج سے کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے۔ نتیجتاً میرے مزاج اور خدا کے بھروسے سے میرے تحقیقی کام کا بابرکت آغاز ہو گیا۔ دوران تحقیق مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ بچپن میں لکھی گئی میری ٹوٹی پھوٹی تحریریں خود انشائیہ تھیں یعنی میں خود ایک نا پختہ انشائیہ نگار ہوں۔ میرا شوق و تجسس بڑھتا گیا اور میرے تحقیقی کام کے منازل طئے ہوتے گئے جن پر میرے گائیڈ کی بڑی باریک بینی سے نظر تھی۔
میں نے اس صنف کی وسیع و بسیط کائنات میں سے چند ستارے اپنے لیے بٹور لیے اور اس طرح چھ ابواب کی تشکیل دے دی۔
باب اول: انشائیہ کے خد و خال
اس باب میں میں نے انشائیہ کے خد و خال کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی مغربی ادب کے بنیادی انشائیہ نگاروں کی بابت بھی مختصراً تحریر کرنے کی کوشش کی۔ مشرقی ادیبوں میں محمد حسین آزاد، سرسید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی وغیرہ کی تحریروں میں بھی انشائیے کی شگفتگی جھلکتی ہے یہ بات بھی مختصراً بتانے کی کوشش کی۔
اس باب میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ انشائیہ عہد بہ عہد کس طرح منظر عام پر آتا چلا گیا۔ انشائیے کی بدلتی ہوئی ہیئت اور ساتھ ہی ان ادوار کے انشائیہ نگاروں کی تخلیقات کے نقوش کوضبط تحریر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
انشائیہ:
الف) سب رس میں انشائیہ کے عناصر
ب) نیرنگ خیال کے حوالے سے
اس باب کے دو ضمنی ابواب بنائے ہیں۔ ’’الف: سب رس میں انشائیہ کے عناصر‘‘ میں ملا وجہی کے حالات اور ان کی مایہ ناز تصنیف پر سیر حاصل مواد لکھا گیا۔ ’’ب: نیرنگ خیال کے حوالے سے‘‘ میں محمد حسین آزاد کی کلاسیکی تحریر میں انشائیہ کے بہترین نقوش کی عکاسی اور انہیں بہترین انشائیہ نگار کا بخشا گیا شرف، دونوں کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔
باب دوم: انشائیہ ایک منفرد اسلوب نگارش
اس باب میں انشائیہ نگاری کو اردو ادب کی دوسری اصناف جیسے مضمون، مقالہ اور طنز و مزاح سے مختلف بتایا گیا۔ انشائیہ نگاری کی آزاد روی کے باوجود متعین کیے گئے اصول و ضوابط کی بھی عکاسی کی گئی۔
باب سوم: انشائیہ کی اہمیت و افادیت
جیسا کہ ہر صنف اپنا مقام رکھتی ہے اور اپنی ضرورت اور اہمیت منوا کر رہتی ہے۔ اسی طرح انشائیہ کی بھی اہمیت و انفرادیت سے انکار نہیں۔ جب جب ادب بوجھل ہوتا جائے گا اور حالات کی چکی میں انسان پستا جائے گا اور اس کا جینا دوبھر ہو گا وہ کسی ناصح کی نہیں ہمدرد دوست کی ضرورت محسوس کرے گا۔ تب تب صنف انشائیہ کی ضرورت ہو گی۔ اس بات کی اس باب میں حتی الامکان بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
باب چہارم:انشائیہ بیسویں صدی میں۔
اس باب کو میں نے اہم انشائیہ نگاروں کی تخلیقات سے مزین کیا ہے۔ میں نے اپنی بساط بھر انشائیہ نگاروں کی تخلیقات معہ تعارف اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آج بھی اس صنف کی مقبولیت اور شہرت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے اس ضمن میں کئی انشائیہ نگاروں پر میری نظر نہیں پڑی ہو۔ یا پھر ان کی تخلیقات تک میری رسائی نہ ہوسکی ہو۔ اس میں میری کوشش کی کمی ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں معافی کی خواستگار ہوں۔
باب پنجم: انشائیہ پاکستان میں
اس باب میں پڑوسی ملک پاکستان کا احاطہ کرنا میں نے اس لیے بھی ضروری گردانا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے اس صنف کو زیادہ جلا بخشی ہے اور اس میں دن رات اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید وہاں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات رہے ہوں یا کوئی اور بات لیکن مجھے انشائیہ نگاری کے لیے پاکستان کی زمین زرخیز ہی محسوس ہوئی۔ اس لیے اس باب میں وہاں کے انشائیہ نگاروں کی تخلیقات کو میں نے اپنے تحقیقی کام میں شامل کرنا ضروری سمجھا۔
باب ششم: انشائیہ نگاری مغرب میں۔
انشائیہ نے جس خمیر سے اپنا وجود بنایا اسی سرزمین کے چند انشائیہ نگاروں کے کوائف میں نے مختصراً تحریر کیے۔
اس تحقیقی کام کو پورا کرنے کے لیے میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ جہاں تک میری رسائی ہوسکتی تھی میں نے اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ لیکن علم کا سمندر بہت گہرا ہے۔ ہوسکتا ہے اس میں بہت ساری خامیاں رہ گئی ہوں یا ایسے نکار ہوں جن پر میری نظر نہ پڑسکی ہو۔ پھر بھی اللہ رب العزت کی مہربانی سے میں نے اتنی کوشش کی اور اپنی تحریر و تحقیق پر میں مطمئن ہوں۔
میں شکر گزار ہوں اللہ تعالیٰ کی جس نے میرے لیے تحقیق کی راہوں کو آسان بنایا اور دشوار حالات میں بھی اپنی رحمت کا سایہ مجھ یتیم پر بنائے رکھا۔ ان حالات، اوقات اور اسباب کا بھی شکریہ ادا کرتی چلوں جنہوں نے میرے عزم کو دیکھتے ہوئے اپنے بند دروازے کھول دئیے۔ میں ممنون و مشکور ہوں ان افراد کی جو اردو ادب کی خدمت میں دامے درمے اور سخنے پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کی گفتگو نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ وہ مجھے اکثر کہتے رہتے۔
نہ ہو حالات سے مایوس دنیا خود بسا اپنی
دلوں میں حوصلہ اور حوصلوں میں جان پیدا کر
٭٭٭
اردو میں انشائیہ نگاروں کا منی انسائکلوپیڈیا
حقانی القاسمی
جامعات میں انہی موضوعات پر تحقیقی اور تنقیدی مقالات لکھے جاتے ہیں جن پر پہلے سے ہی کتابوں کی کثرت ہوتی ہے۔ ان موضوعات کو مس نہیں کیا جاتا جن میں محنت اور ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے تحقیق میں تن آسانی اور سہل پسندی کی روش اس قدر عام ہو گئی ہے کہ اب ہر تحقیقی مقالے کو اہل ہنر شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ زوال تحقیق پر جامعات کے دانشوروں نے بھی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ایسے میں اگر کوئی ایسا تحقیقی مقالہ نظر کے سامنے آئے جو دیگر جامعاتی مقالوں سے مختلف ہو تو یقیناً خوشی ہوتی ہے کہ اب بھی محدود سطح پر ہی سہی تحقیق کا معیار قائم ہے۔
ڈاکٹر ہاجرہ بانو کی تحقیق ’’اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگار‘‘ کا شمار بھی اسی استثنائی زمرے میں کیا جا سکتا ہے کہ یہ مقالہ معیاری بھی ہے اور مختلف بھی۔ یہ ایک ایسے موضوع پر ہے جس کے تعلق سے تحقیق اور تنقید کی رفتار ذرا مدھم رہی ہے اورویسے بھی انشائیہ کے تعلق سے ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں تصورات واضح نہیں ہیں۔ انشائیہ کی بابت بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہنوں میں ہیں ان کے لیے یہ طے کر پانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ انشائیہ کی تعریف کیا ہے اور اس کے حدود اربعہ کیا ہیں۔ اس کتاب میں پہلی بار انشائیہ کے صنفی خد و خال کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے اجزائے افاعیل و ترکیبی عناصر کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ مضمون، مزاح اور مقالے سے انشائیہ کو ممیز کیا گیا ہے۔ عموماً بیشتر افراد انشائیہ مضمون اور مزاح میں فرق نہیں کر پاتے لیکن ہاجرہ نے انشائیہ کی مکمل تعریف کرتے ہوئے فرق کو واضح کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مضمون میں مواد کی پیشکش میں ایک منطقی ربط ہوتا ہے برخلاف اس کے انشائیے میں موضوع سے ربط و تعلق تو ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا بلکہ کئی ضمنی باتوں کے سہارے انشائیہ نگار اپنا ما فی الضمیر ادا کرتا چلا جاتا ہے۔ مضمون میں اپنا سارا زور بات کو عالمانہ انداز سے کہنے پر ہوتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ انشائیہ میں معلومات سے زیادہ تاثرات کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ تاثرات انشائیہ نگار کی ذہنی ترنگ کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ انشائیہ نگار واقعات سے زیادہ واقعات کے رد عمل پر توجہ دیتا ہے اور اشاروں اشاروں میں اپنا مدعا بیان کر دیتا ہے۔ مضمون میں انداز بیان بالکل سیدھا سادھا ہوتا ہے۔ جبکہ انشائیہ میں سارا زور انداز بیان پر ہوتا ہے اس کا اسلوب شگفتہ اور شاعرانہ ہوتا ہے۔ ‘‘ انشائیہ سے ملتے جلتے اور بھی اصناف کے امتیازات کو انہوں نے منطقی اور معروضی انداز میں واضح کیا ہے۔ ان کے واضح کردہ امتیازات کی روشنی میں بہت سارے وہ نام جو انشائیہ کی فہرست میں شامل تھے وہ اب خارج ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر ہاجرہ بانو کی یہ کتاب 6ابواب پر مشتمل ہے اور یہ تمام ابواب اس بات کا ثبوت ہیں کہ مصنفہ نے ابواب کی تقسیم بہت ہی منطقی انداز سے کی ہے۔ ممتاز شاعر بشر نواز نے اس سمت اشا رہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اچھے مقالے میں ابواب کی تقسیم بنیادی اور اہم مرحلہ ہوتا ہے اور اسی سے مقالہ نگار کے ذہنی آفاق کی نشانیاں روشن ہوتی ہیں۔ ہاجرہ بانو کے ابواب کی ترتیب کچھ یوں ہے: (1) انشائیہ کے خد و خال (2) انشائیہ ایک منفرد اسلوب نگارش (3) انشائیہ کی اہمیت و افادیت (4) انشائیہ بیسویں صدی میں (5) انشائیہ پاکستان میں اور (6) انشائیہ نگاری مغرب میں۔ ‘‘ کتاب کے 3ابواب انشائیے کی سمتوں کو واضح اور اس کی معنویت اور افادیت کو روشن کرتے ہیں تو باقی 3ابواب ایسے ہیں جو بیسویں صدی میں انشائیہ کی صورت حال اور انشائیہ نگاروں کے داخلی احساسات سے روشناس کراتے ہیں۔ چوتھا باب جو بیسویں صدی میں انشائیہ پر محیط ہے اس میں مصنفہ نے ہندوستان کے 105انشائیہ نگاروں کے حوالے سے مربوط مبسوط تنقیدی گفتگو کی ہے اور ان کی تحریروں کے نمونوں سے اپنے بیان کو مدلل بھی کیا ہے۔ شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، کرشن چندر، فرقت کاکوروی، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، ابن انشاء، دلیپ سنگھ، معین اعجاز، احمد جمال پاشا، وجاہت علی سندیلوی، تمنا مظفرپوری، فیاض احمد فیضی یہ نام تو معروف ہیں ہی ان کے علاوہ کچھ ایسی شخصیات کی انشائیہ نگاری کے نمونے دیے گئے ہیں جن کو ایک بڑا طبقہ انشائیہ نگار کی حیثیت سے نہیں جانتا ہے۔ اس کتاب میں خواتین انشائیہ نگاروں کی بھی شمولیت ہے جن میں پروفیسر خورشید جہاں، ثریا صولت حسین، اختر بانو ناز، انیس سلطانہ، فاطمہ تاج، حلیمہ فردوس، نسیمہ تراب الحسن، شاہدہ صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان خواتین کے علاوہ عابد معز، انوار انصاری، ایلاف خیری، پرویز ید اللہ مہدی، سید طالب حسین زیدی، یوسف امتیاز، شکیل شاہجہاں، علیم خان فلکی، رشید الدین، محمد باقر، انیس صدیقی، مقبول فاروقی، واجد ندیم، رؤف خوشتر، سلیم مقصود، سید نصرت، نعیم جاوید وغیرہ بھی بحیثیت انشائیہ نگار شامل ہیں۔
پانچواں باب پاکستان کے انشائیہ نگاروں پر محیط ہے۔ اس میں انہوں نے جن انشائیہ نگاروں کے حوالے سے گفتگو کی ہے ان میں وزیر آغا، مشفق خواجہ، ایس ایم معین قریشی، مشتاق احمد، جمیل آذر، انور سدید، اکبر حمیدی، منیزہ جمال، سلیم آغا قزلباش، انجم نیازی، ناصر عباس نیر، جاوید حیدر جوئیہ، رعنا تقی، پروین طارق، شاہد شیدائی، شفیع ہمدم، حنیف بابا وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ہند و پاک کے ان تمام انشائیہ نگاروں کے تعلق سے مصنفہ نے اپنا تاثر بھی لکھا ہے اور یہ شاید اردو میں پہلی کتاب ہے جس میں دونوں ملکوں کے اتنے انشائیہ نگاروں سے ایک ساتھ ملاقات ہو جاتی ہے۔ برصغیر کے نمائندہ افسانہ نگاروں سے تعارف کی پہلی صورت اسی کتاب سے سامنے آئی ہے ورنہ انشائیہ پر لکھی گئی بیشتر کتابیں صرف چند ناموں تک محدود ہوتی ہیں۔ یہ اس کتاب کا امتیاز ہے کہ اس میں دونوں ملکوں کے ایسے فنکاروں سے مکمل طور پر متعارف کرایا گیا ہے جنہوں نے انشائیہ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کتاب کا چھٹا باب مغرب میں انشائیہ نگاری پر محیط ہے جس میں ڈاکٹر ہاجرہ بانو نے یہ واضح کیا ہے کہ انشائیہ کی جنم بھومی فرانس ہے۔ ڈاکٹر آدم شیخ کی کتاب کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ ’انشائیہ نگاری کا آغاز فرانس میں مونتین Montaigne سے ہوا۔ جسے عام طور پر اس صنف کا موجد اور باوا آدم کہا جاتا ہے۔ انگلستان میں یہ سلسلہ سرفرانسس بیکن سے شروع ہوتا ہے۔ مونتین کے ساتھ ساتھ انشائیہ نگاری کے میدان میں بیکن کی حیثیت آج بھی ایک اہم متوازی رویہ کی ہے۔ چارلز اسمتھ نے مونتین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بڑے سے بڑا انشائیہ نگار بھی مونتین کے اثرات سے نہیں بچ سکتا۔ یہی بات بیکن کے بارے میں بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے۔ مغرب کا کوئی بھی ایسا انشائیہ نگار نہیں ہے جو بیکن کے اثرات سے یکسر آزاد ہو۔ خواہ وہ خود چارلز لیمب ہی کیوں نہ ہو۔ ‘ ڈاکٹر ہاجرہ بانو نے مونتین، فرانسس بیکن، وان برگ، گارڈنر، ای وی لوکس، ہیلری بیلک، رابرٹ لینڈ، چسٹرٹن، ولیم سامرسٹ، مان تھامس، میکس بیرلوم، جارج آرویل پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس طرح انگریزی اور اردو کے انشائیہ نگاروں کے فکری اور اسلوبی رجحانات اور امتیازات سے واقف کرایا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ انشائیہ کا مستقبل بہت روشن ہے۔ مجھے ڈاکٹر ہاجرہ بانو کی اس بات سے مکمل تو نہیں مگر جزوی اتفاق ہے کہ ’’آج داستان، ناول، مضامین میں وہ کشش باقی نہیں ہے آج کا انسان کم وقت میں زیادہ پڑھنا اور جاننا چاہتا ہے اور اس کے لیے انشائیہ سے بہتر کوئی دوسری صنف ہوہی نہیں سکتی۔ ‘‘
ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا یہ مقالہ یقیناً دانش گاہوں میں اور عام قاری کی نظروں میں اعتبار کا درجہ حاصل کرے گا کہ یہ پہلی ایسی کتاب ہے جس میں انشائیہ کے صنفی خد و خال اس کے تلازمات، متعلقات اور فنی فکری سیاسی سماجی سروکار پر مکمل گفتگو کی گئی ہے۔ انشائیہ کے ضمن میں اس کتاب کی حیثیت حوالہ جاتی ہو گی کیونکہ مصنفہ نے ایک ایک سطر بڑی محنت اور ریاضت سے تحریر کی ہے۔ انشائیہ سے مصنفہ کے مراسم بھی بہت مضبوط ہیں اس لیے وہ انشائیہ کے مکمل چہرے رنگ روپ سے آگاہ ہیں اور اس کے رموز واسرار سے بھی واقف۔ یہ کتاب ان کے مطالعہ اور تخلیقی تجربہ سے اور بھی نکھر گئی ہے۔ بشر نواز کی یہ بشارت بہت معنی خیز ہے کہ ’’یہ مقالہ نہ صرف عام جامعاتی مقالوں سے مختلف اور منفرد ہے بلکہ اردو میں انشائیہ نگاروں کے بارے میں بھی ایک سنگ نشان ثابت ہوتا ہے۔ ‘‘ ایک بزرگ شاعر جو گہری تنقیدی بصیرت رکھتا ہے اگر ایسی بات کہے تو اسے مسترد کرنے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ یقیناً ہاجرہ بانو کی یہ کتاب تحقیقی مقالات کی بھیڑ میں اپنے امتیازات کی وجہ سے منفرد قرار پائے گی۔ مصنفہ کی محنت کو مبارک باد کہ وہ اسی طرح اپنی تحقیق کی جولانیاں دکھاتی رہیں اور ان کی تحریر کی طغیانی سے دنیا کسب نور کرتی رہے۔
ہاجرہ بانو کے انشائیے
بشر نواز
اورنگ آباد
انشائیہ یوں تو اردو کی قدیم ترین صنف ہے لیکن آج ہم جن تحریروں کو انشائیہ کے زمرے میں شامل کرتے ہیں وہ قدرے مختلف ہیں۔ یہ کہنا تو غلط ہو گا انشائیہ مغرب سے درآمد کی ہوئی صنف ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا موجودہ انشائیہ ’’لائٹ ایسے‘‘ سے متاثر ہے۔ وجہی کی سب رس سے مولانا ابو الکلام آزاد کے غبار خاطر تک کئی ایسے ہلکے پھلکے اور دلچسپ مضامین لکھے جاتے رہے جن میں انشائیہ کے کچھ عناصر تو موجود ہیں لیکن وہ صحیح معنی میں انشائیے نہیں ہیں۔ خیر یہ ایک بہت لمبی بحث ہے جس میں اختلاف کی کافی گنجائشیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
آزادی کے بعد فنی طور پر انشائیہ نگاری کے کچھ حدود مقرر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں پاکستان میں نسبتاً زیادہ کام ہوا ہے۔ وزیر آغا اور ان کے ساتھیوں نے خود بھی انشائیے لکھے اور مختلف رسائل خصوصاً ’’اوراق‘‘ کے لئے انشائیے لکھنے پر نئے قلمکاروں کو ترغیب بھی دی۔ اور رفتہ رفتہ ایک خاص اسلوب میں مختلف موضوعات لکھی جانے والی تحریریں انشائیہ کہلائیں۔
ہاجرہ بانو کو اورنگ آباد کی نئی انشائیہ نگار خاتون کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تقریباً تمام تحریریں انشائیے کی تعریف پر پوری اترتی ہیں۔ وہ موضوعات بھی ایسے تلاش کرتی ہیں جن آج کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر لینے کی گنجائش ہو۔ اور اسلوب بھی ایسا تلاش کرتی ہیں جس میں تبسم زیر لب، ہلکے سے طنز، بیشتر حقیقت اور حسب ضرورت شعریت سے بھی کام لیتی ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے مضامین نہ صرف انشائیے بلکہ اچھے اور منفرد انداز کے انشائیے کہلانے کے مستحق ہیں۔
کنگ فشر۔ آب حیات۔ دائرہ دھنک۔ جشن چراغاں۔ کھیل کھیل میں۔ فائر فوکس۔ بسیار خوری میرے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اور بہتر سے بہتر تحریری پیش کرتی رہیں گی۔
باب اول : انشائیہ کے خد و خال
ادب کی تاریخ میں صنف انشائیہ کے خد و خال واضح طور پر نہیں ملتے۔ لیکن جس وقت مغرب میں مونٹین اور بیکن فرانس میں باقاعدگی کے ساتھ انگریزی انشائیے لکھ رہے تھے اسی وقت ملا اسد اللہ وجہی نے عہد قطب شاہیہ میں ’’سب رس‘‘ جیسا شاہکار پیش کیا۔ وہ دور صوفیانہ تحریریں، اقوال، ملفوظات، داستانیں اور مثنوی کا دور تھا۔ ہم سب رس کو انشائیہ کے طور پر اس لیے تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں انشائیہ کی زیادہ تر خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یا دوسرے معنوں میں اسطرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ سب رس کے اُسلوب کی جدت، شگفتگی اور سادگی، ذات و کائنات کا انکشاف، لفظوں کی غنائیت اور موسیقیت سب اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ انشائیہ ہے۔ اور ایسا انشائیہ جس کی بنیاد سولہویں صدی میں رکھی گئی اور آنے والے ادباء اور انشائیہ نگاروں کو ایک سمت عطا کی گئی۔ ہم بخوبی اس بات کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ انشائیہ کی صنف سولہویں صدی میں اپنے خوش رنگ پیرہن کے ساتھ موجود تھی۔ لیکن یہ بات الگ ہے کہ اسے باقاعدہ طور پر ’’انشائیہ‘‘ کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ ملا وجہی نے بھی ’’سب رس‘‘ کے بعد ایسی کوئی تصنیف اردو ادب کو نہیں دی۔
سترہویں صدی میں اردو زبان پر ایک طرح سے گہن لگ گیا تھا۔ اگر اردو نظر بھی آئی تو بازاروں اور عوامی جگہوں پر اپنا دم توڑتی نظر آئی۔ اس کی وجہ اس وقت کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات تھے۔ اس بات میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ ہر زبان کے فروغ اور پستی میں سیاسی، سماجی اور معاشی حالات بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے جب زبان ہی مر رہی تھی تو انشائیہ کہاں سے پرورش پاتا۔ ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سید صفی مرتضی رقمطراز ہیں :
’’اول تو یہ (اردو) بازاروں میں پھرتی رہی اور صرف عوام سے سابقہ رہا۔ پھر بزم شعراء میں دخیل ہوئی۔ نغمہ و موسیقی کی تانیں اسے لے اڑیں۔ ایک طرف خانقاہوں کی مقدس فضا میں سجی و سجادہ سے دست بوس تھی تو دوسری طرف درباروں میں راش و رنگ کی ندیم۔ شاعری پر قابو پا لینے کے بعد نثر کے میدان میں قدم رکھا تو داستانوں، فقہ و تصوف کے رسالوں میں نظر آنے لگی۔ جیسا ماحول پایا اسی سے ساز کرنے لگی جیسا اس وقت کا مزاج تھا اور جو اس کی دلچسپیاں تھیں ان ہی میں یہ بھی شریک تھی۔ اس وقت نہ علمی ماحول تھا اور نہ اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کے آثار کسی طرف سے ظاہر ہو رہے تھے۔ پھر اردو زبان ہی کیا کرتی اور مضمون نگاری اس میں کہاں سے شروع ہوتی۔ ‘‘
اٹھارویں صدی کے اوائل سے ہی دلی کی رونق ختم ہو چکی تھی۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہر طرف حالات قابو سے باہر ہو گئے تھے۔ ہر طرف خانہ جنگی کا طوفان امنڈ رہا تھا۔ تہذیب و تمدن کے پردے تار تار ہو رہے تھے۔ ہندوستانی اپنا کلچر اور ثقافت اپنے ہی قدموں تلے روند رہے تھے۔ ان تمام حالات میں ادبی حلقہ اپنا سر کہاں سے اٹھا پاتا تھا۔ نظم و نثر کی خوبصورت ترنگیں خون خرابہ میں معدوم ہو چکی تھیں۔ اورنگ زیب کے بعد کے حکمران اپنی حکومت اور اقتدار بچانے کی کوشش میں لگے رہے۔ آئے دن ان کا مقابلہ راجپوت، جاٹ، سکھ اور روہیلوں سے ہونے لگا۔ یہ لوگ بھی چاہتے تھے کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے اورنگ زیب کے بعد ان کے جانشینوں کو بھی ختم کر دیا جائے اور مغل حکومت کو پوری طرح نیست و نابود کر دیا جائے۔ اس لیے مغل حکمرانوں نے اپنی تمام تر توجہ ان بغاوتوں اور لڑائیوں کا سامنا کرنے میں صرف کر دی اور ادب کی طرف سے مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کی۔
دلی کی بدقسمتی کہیے کہ وہ خانہ جنگیوں کی مار سہہ کر سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ نادر شاہ نے حملہ کر دیا اور رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ دلی کا برباد ہونا گویا پورے ہندوستان کا برباد ہونا تھا۔ کیونکہ ہندوستان کا دل دلی ہی کو سمجھا جاتا تھا اور آج بھی سمجھا جاتا ہے۔ نادر شاہی حملے میں مرہٹہ طاقتیں زوال پذیر ہونے لگیں۔ اسی دوران جنگ بکسر شروع ہو گئی جس نے دلی کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی کمر توڑ دی۔ اس طرح انگریزی سامراجیت اپنے قدم جمانا شروع کر چکی تھی اور ہندوستان کے ان ابتر حالات کو انہوں نے اپنے لیے خوش آئند تصور کیا۔ اس پوری خانہ جنگی اور بگڑے حالات کا انگریزوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
ان حالات میں لکھنؤ کے والیان عیش پرستی میں مشغول رہے۔ ان کی اس عیاشی اور لاپرواہی میں اردو ادب بھی نظر انداز رہا یا یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس عہد میں صنف شاعری نے تو ادب میں چار چاند لگائے اور عیاش پرست نوابوں کو جنسی اور ذہنی آسودگی فراہم کی۔ اس عہد میں واسوخت اور ریختی جیسی اصناف پورے عروج پر تھیں۔ ساتھ میں نثر پر بھی توجہ دی گئی اور فن بلاغت، عروض و قواعد کو اہمیت بخشی گئی۔ اردو زبان کی لسانی کیفیات اور اصلاحات پر بھی کام ہوا۔
ایسے منتشر حالات میں رجب علی بیگ نے ’’فسانۂ عجائب‘‘ جیسی داستان رقم کی۔ یہ ایک شاہکار ضرور تھی۔ لیکن اس میں ملا وجہی کے انشائیوں کی خصوصیات حسن، سادگی اور بے ساختگی موجود نہ تھی۔ اس کے برعکس وہ تصنع اور ملمع کاری سے پر تھی۔ رجب علی بیگ نے اپنا سارا زور صنائع و بدائع پر صرف کیا۔ اس دور میں انشائیہ نظر نہیں آتا۔ دوسرے معنوں میں حالات نے ادیبوں کی فکر و نظر کو انشائیہ لکھنے پر متحرک نہیں کیا۔ ذہنی و معاشی انتشار کا شکار ہوئے لوگ انشائیہ کی شگفتہ تحریر لکھنے سے قاصر تھے۔ اس دور میں میرؔ کے ’’نوحہ دلی‘‘ اور داغؔ کے ’’شہر آشوب‘‘ ہی مل سکتے تھے۔ گو ادباء کے ذہنوں میں تخیل کی حسین پریاں تو گشت کر رہی تھیں لیکن ان کے پر کٹے ہوئے تھے۔ الفاظ تو تھے لیکن ان میں موسیقی کی ترنگ نہیں تھی۔
ایسے پژمردہ ماحول میں تمام لوگ مذہب اور تصوف کی آغوش میں پناہ لینا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ مرزا غالب نے بھی اپنے غموں کو بھلانے کے لیے ’’خود پر‘‘ بھی طنز کی تلوار چلائی اور اپنے فرسودہ و شکستہ دل کو ہنسانے کی کوشش کی۔ ان کے کئی خطوط میں انشائیہ کی جھلک ضرور دیکھنے کو ملتی ہے۔
بہر کیف ملا وجہی کے بعد انشائیہ نے اپنا تشخص تو کروا لیا تھا مگر انفرادی طور پر اپنا وجود پیش نہ کرسکا۔
عطا حسین خان تحسین کی کتاب ’’نو طرز مرصع‘‘ کی عبارت کو ہم انشائیہ کا درجہ نہیں قرار دے سکتے اگرچہ کہ اس میں خود نوشت کے بہترین نمونے ہیں مگر انداز بیان بناوٹ اور تصنع سے پر ہے جو انشائیہ کے اسلوب کے منافی ہے۔
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ انیسویں صدی میں انگریزوں کے اثرات سے اردو ادب میں کس طرح تبدیلیاں واقع ہوئیں اور اردو ادب نے مغربی اثرات کو اپنے اندر سمولینے کے بعد اپنی نئی شکل و صورت میں کس طرح عوام و خواص کو متاثر کیا۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنی جڑوں کو مضبوط کرنا شروع کیا اور بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت کا روپ اختیار کر لیا تو اس نے نہ صرف ہندوستان کی معاشی حالت کو کھوکھلا کیا بلکہ اس سونے کی چڑیا کے بال و پر نوچ نوچ کر ختم کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کو کچلنے کی کوشش بھی کی۔ اپنی آسانی اور یہاں پر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کے لیے انہوں نے انگریزی زبان و تعلیم کو عام کرنا شروع کیا۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ سکے کے دو رخ ہوتے ہیں ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح انگریزی ادب کے عام ہونے سے جہاں اردو اور دیگر زبانوں کو نقصان پہنچا وہیں دوسری طرف اردو ادب میں کئی نئی اصناف کا اضافہ ہوا۔ مثلاً سانیٹ، ناول، افسانہ، آزاد نظم، نظم معریٰ وغیرہ وغیرہ مضمون نگاری کی نہج کو سنجیدگی سے لیا گیا اور اس میں کچھ ترمیم کر کے ’’انشائیہ‘‘ کو منظر عام پر لایا گیا اور یہیں سے اس نے اپنے وجود کو شناخت دلانے میں کامیابی حاصل کی۔
اس تعلق سے سید صفی مرتضیٰ کہتے ہیں کہ:
’’غدر کے بعد ہندوستان میں دو ایسی قوموں کا اتصال ہوا جو اپنے رنگ کی طرح اپنے کلچر، اپنی زبان، اپنی روایات اور اپنے عقائد میں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ ایک طرف ہندوستانی تھے جن کی قوت عمل کو عیش و عشرت نے چوس لیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عقل و خرد کے سوتے خشک ہو رہے تھے اور حکمت و تدبر کی جولانی نے فرار کی شکل اختیار کر لی تھی۔ دوسری طرف ایک نئی قوم تھی جو فاتحانہ انداز سے داخل ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ میدان عقل و دانش سے جیتا تھا۔ وہ سیاست کی ماہر، علم و فنون میں آگے اور سائنس میں منفرد تھی۔ ایسی دو قومیں ہندوستان میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔ بڑھتے ہوئے حوصلے شکستہ ہمتوں کے متقابل تھے۔ ہندوستانیوں کے احساس کمتری کا یہ منظر بڑا بھیانک اور تاریک تھا۔ پریس کو قدرے آزادی مل گئی تھی اور اخبارات نکل رہے تھے۔ ایسے عالم میں سرسید نے انگلستان سے واپس آ کررسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا جس کا پہلا نمبر ۲۴ دسمبر ۱۸۷۰ء میں نکلا۔ اس رسالے نے اردو زبان کی ترقی میں اہم خدمت انجام دی اور مضمون نگاری کی بنیاد ڈالی۔ ‘‘
اسی لیے کئی نے سرسید کو ہی انشائیہ کا بانی قرار دیا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ سرسید کے مزاج اور طریقہ تحریر میں انشائیہ کی پری ہرگز قید نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ بات اور ہے کہ ان کے مضامین پر کبھی کبھی اس نے اپنی حسین جھلک ضرور دکھائی ہے۔ سرسید احمد خاں نے اپنی ادبی تخلیقوں کے ذریعہ سماجی اصلاح کی کوشش کی جس میں مذہبی رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے دل میں قوم کی ترقی کا درد موجود تھا۔ وہ ہر حال میں اپنی قوم کو انگریزوں کے برابر ترقی کرتے دیکھنا چاہ رہے تھے۔ وقت کے بدلتے تیور کو وہ اچھی طرح سے بھانپ چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے انگریزی طریقہ تعلیم کو ضروری سمجھا۔ لیکن اس وقت کے مذہبی خیالات رکھنے والوں نے انہیں ’’کافر‘‘ قرار دیا۔ جس کا سرسید کو بہت افسوس ہوا۔ انہیں ایسے لوگوں کو مذہبی انداز فکر اپنا کر ہی جواب دینا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے سماجی مصلح کی تحریروں میں ہم انشائیہ کی تازگی، شگفتگی، حسن اور ظرافت کی چٹکیاں کہاں تلاش کرسکتے ہیں ؟
ہندوستان کو اس وقت انگریزی بہاؤ کے دھارے میں بہنا ضروری تھا۔ اس لیے ادبی حلقہ نے انگریزی ادب کی کئی اصناف کو مستعار لے کر اردو ادب میں انہیں داخل کیا اور انگریزوں کے مدِّ مقابل کھڑے رہنے کی کوشش کی خوش نصیبی سے یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی۔
سر سید نے خواجہ الطاف حسین حالی سے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ لکھوا کر اردو شاعری کا رجحان بدلا۔ وہ خود بھی یہ کرسکتے تھے لیکن شاعری میں انہیں وہ کمال اور مرتبہ حاصل نہیں تھا جو حالی کو تھا۔ لہٰذا انہوں نے نثر کے میدان میں اپنی کوشش جاری رکھی اور مغربی طرز پر مضمون نگاری میں بہترین طبع آزمائی کی۔
محمد حسین آزاد نے لیپل گریفن (Lapple Garaffen) اور کرنل ہالرائڈ (Cernal Halriyed) کی قدردانی میں بہت ساری کتابیں تصنیف کی۔ ان کی کتابیں شہرت بھی حاصل کر چکی تھی۔ اسی دوران انہوں نے ’’نیرنگ خیال‘‘ لکھی جس میں چھ مضمون جانسن، تین ایڈیسن اور بقیہ دوسرے انگریزی ادیبوں کے ہیں۔ ان تمام انگریزی مضامین کا اردو میں ترجمہ کیا گیا اور آزاد نے یہ کام اتنی عمدگی سے انجام دیا کہ رہتی دنیا تک وہ قائم رہے گا۔ ان ترجموں میں آزاد نے اپنی ذہانت اور سحر بیانی سے اتنی تبدیلیاں کی ہیں کہ ان کا درجہ ترجمے سے بڑھ کر تخلیق کا ہو گیا ہے۔ جانسن اور ایڈیسن کے عمدہ اور اونچے خیالات اس پر آزاد کی ترجمانی اور الفاظ کا جادو دونوں مل کر سونے پر سہاگہ ہو گئے۔ اردو ادب میں کلاسیکل درجہ حاصل کر گئے۔ ان تحریروں میں افسانے اور انشائیے کے اولین نقوش ملتے ہیں۔
۱۸۷۷ کے بعد مضمون یا انشائیوں میں طنز و ظرافت کا تڑکا لگنے لگا۔ بعض تو اس میں اتنے آگے نکل گئے کہ انشائیہ کی رنگینی سے نکل گئے ان لوگوں کے مضامین خالص طنز و مزاح کے زمرہ میں آ گئے۔ جیسے منشی سجاد حسین، احمد علی شوق، جوالا پرشاد برق، مرزا مچھو بیگ، منشی احمد علی کمنڈوی وغیرہ۔ ان کے بعد عبدالحلیم شرر کی چند تحریروں میں انشائیہ کا طرز نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ میں مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جیسے ’’خلوص‘‘، ’’لالہ خوردو‘‘، ’’بدمستی‘‘، ’’باغ آرزو‘‘، اچھوتا پن‘‘، ’’پاس‘‘۔ ان تمام موضوعات میں انشائیہ نگاری کے عنصر پائے جاتے ہیں۔ شررؔ اپنے ناولوں سے زیادہ اسطرح کی تحریروں میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر وہ ناول کے میدان کے بجائے اس طرح غور کرتے تو شاید ہمیں شررؔ کی صورت میں ایک بہترین انشائیہ نگار مل سکتا تھا۔
اسی دور میں انشائیہ کی طرز تحریر میں کئی رنگ شامل ہونے شروع ہوئے اور وہ عصر حاضر سے ہم آہنگ ہوتا نظر آنے لگا۔ اس میں شوخی نظر آنے لگی۔ اس کے نقوش تیکھے ہونے شروع ہوئے اور وہ وقت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔
اسی طرح بیسویں صدی عیسوی کے دریچے وا کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ جہاں ہم دیکھیں گے کہ اردو ادب کی دنیا میں انشائیہ نے اپنے ترقی کے مدارج کس طرح طے کیے۔
زمانہ اپنی گردش کے پہیہ کی رفتار کو بڑھاتا گیا اور آہستہ آہستہ انگریزی تعلیم عام ہونے لگی اور سرسید کی محنت رنگ لانے لگی۔ لوگوں کے خیالات بدلنے شروع ہوئے۔ انگریزی کے راست اثرات اردو ادب پر پڑنے شروع ہوئے۔ ناول، افسانہ، ڈرامہ اور انشائیہ نکھرنے لگے۔ یہی وہ وقت تھا جب انشائیہ کا صحیح جنم ہوا۔ اس کی ہیئت صاف اور واضح ہونے لگی۔ اردو کے ادباء اس کے بال و پر سمجھنے لگے۔ اس کی اہمیت نظر آنے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب انشائیہ مضمون سے آگے نکل گیا۔ دوسری طرف ہندوستان پوری طرح سے ملکہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ انگریزی سامراجیت کے خلاف مختلف تحریکیں سر اٹھانے لگیں۔ یہاں صحافت کو فروغ ملا۔ اردو صحافت نے بھی جدوجہد آزادی میں ایک نمایاں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اردو ادباء بھی اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ ہندوستان کے خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرنے میں لگ گئے۔ حالانکہ وہ کوئی سیاست دان نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے قلم کو اپنی تلوار بنا کر آزادی کی دیوی کی زنجیریں کاٹنا شروع کر دی۔ کیونکہ وہ اپنے تخیل کی پرواز کی طرح اپنے ملک اپنی سرزمین کو بھی آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ ’’الہلال‘‘ ’’زمیندار‘‘ جیسے اخبارات سامنے آئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان نے اپنی تقریروں اور اپنے پر جوش خیالات کو اخبارات کے صفحات پر بکھیرنا شروع کیا اور ایک نیا صحافتی انقلاب برپا کر دیا۔ ظفر علی خاں نے معمولی مسائل کو نہایت ہی مؤثر طریقے سے انشاء پردازی کے روپ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ ابوالکلام آزاد نے اپنے خطوط ’’غبار خاطر‘‘ میں انشائیہ کا رنگ شامل کر لیا۔ غالب کی طرح ان کے خطوط بھی بہت رنگ جما گئے اور انشائیہ کی قوس قزح میں مزید رنگوں کا اضافہ ہوتا چلا گیا۔
آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی۔ ادھر انشائیہ نگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ میر ناصر علی نے ’’صلائے عام‘‘ میں بہترین انشائیہ کے نمونے پیش کیے۔ اور انہیں ’’خیالات پریشاں ‘‘ کا نام دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عنوان کی طرح اس میں انشائیہ کی خصوصیت بھی پنہاں ہے یعنی انشائیہ بے ربطی اور منتشر خیالی بھی چاہتا ہے۔ مہدی افادی، خواجہ حسن نظامی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، نیاز فتح پوری، سجاد انصاری کی بہترین تحریریں دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ انشائیہ کا مسکن فرانس یا برطانیہ نہ ہو کر صرف اور صرف ہندوستان ہی ہے۔
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی انشائیہ کی شبیہ ہمارے سامنے مکمل طور پر سامنے نہیں آئی تھی۔ آزادی کے بعد وزیر آغا نے اسے واضح کیا۔ ملک کو اس کے صحیح نام اور تعارف کے ساتھ اس کی خصوصیات کو پیش کیا۔ وزیر آغا سے پہلے اس صنف کا باقاعدہ نام نہیں تھا۔ اپنی کتاب ’’انشائیہ کے خد و خال‘‘ میں وزیر آغا کہتے ہیں :
’’میں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک کے عرصہ میں ادب لطیف میں متعدد پرسنل ایسے تحریر کیے تھے جنہیں لائٹ ایسے، انشائے لطیف، لطیف پا رہ، مضمون لطیف وغیرہ ناموں کے تحت شائع کیا گیا۔ مگر چونکہ ایسے کے لفظ نے خود مغرب میں بہت ساری غلط فہمیوں کو جنم دیا تھا جنہیں ہمارے انگریزی پڑھانے والوں نے وراثت میں حاصل کیا تھا۔ لہٰذا میں چاہتا تھا کہ پرسنل یا لائٹ ایسے کے لیے کوئی نیا اور منفرد اردو نام تجویز کیا جائے۔ ان ہی دنوں میں نے بھارت کے کسی رسالے میں ’’انشائیہ‘‘ کا لفظ پڑھا اور مجھے اچھا لگا کہ میں نے مرزا ادیب صاحب سے جو ان دنوں ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر تھے۔ اس نام کو پرسنل ایسے کے لیے مختص کرنے کی تجویز پیش کر دی جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ڈاکٹر سید حسنین ’’انشائیہ‘‘ کا لفظ لائٹ ایسے کے معنوں میں استعمال کر چکے تھے۔ مگر جن لائٹ ایسوں کے لیے انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا تھا وہ سرے سے لائٹ ایسے تھے ہی نہیں۔ ‘‘
اس طرح وزیر آغا نے اس صنف کے نام کے ساتھ ساتھ اس کی فنی خصوصیات بھی پیش کیں۔ وزیر آغا نے جب یہ نام پیش کیا تو سید حسنین کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ لیکن اگر ہم پھر سے ماضی کے اوراق الٹیں تو آزاد کے ’’نیرنگ خیال‘‘ میں کئی جگہ لفظ ’’انشاء پردازی‘‘ نظر آتا ہے۔ تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انشاء پردازی کا مخفف ’’انشائیہ‘‘ کرنے کا کام وزیر آغا نے کیا۔ ہاں اس میں کوئی دو رائیں نہیں ہیں کہ اس صنف کی خصوصیات اور اصول و ضوابط انہوں نے ہی پیش کیے ہیں اور اس کے فروغ کا تمام سہرا ان ہی کے سر جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر آغا انشائیہ کے موجد نہ ہوتے ہوئے اس کے بنیاد گزار ضرور ہیں۔
وزیر آغا کے بعد بیسویں صدی کی چھٹی ساتویں اور آٹھویں نویں دہائی میں کئی قابل ذکر انشائیہ نگار منظر عام پر آئے۔ پاکستان میں انور سدید، غلام جیلانی اصغر، داؤد رہبر، جمیل آذر، مشتاق قمر، سلیم آغا قزلباش، انجم انصار وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان میں یوسف ناظم، ڈاکٹر وجاہت علی سندیلوی، پروفیسر شفیقہ فرحت، رام لعل نابھوی، فکر تونسوی، مرزا عظیم بیگ چغتائی، پطرس، کنھیا لال کپور، شوکت تھانوی، بھارت چند کھنہ اور مسیح انجم وغیرہ ہیں۔
جس طرح ایک کوزہ گر کچی مٹی کو اپنے پہیے پر رکھ کر گھماتا ہے اور اس کی فنکارانہ انگلیاں اس مٹی کے بے ہیئت گولے کو خوبصورت صراحی میں تبدیل کر دیتی ہیں بالکل اسی طرح انشائیہ کے خد و خال گردش دوراں کے پہیے میں خود کو حوالے کرتے گئے اور مختلف انشائیہ نگاروں کے قلم اس کے نوک پلک درست کرتے گئے اور انشائیہ نکھرتا گیا۔ اب ہم اپنے اگلے باب میں انشائیہ میں ہونے والی تبدیلیوں کو بتدریج دیکھیں گے۔
انشائیہ کی ابتدا کرنے والے مغرب کے مشہور ادیب تھے۔ جن میں مونٹین کا نام سرفہرست ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ڈرائیڈن، رسکن اور برکن ہیڈ بھی اس سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت انشائیہ کی الگ و منفرد شناخت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ دوسری اصناف کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا۔ شروعات میں اسے انگریزی ایسے کی شکل ہی سمجھا جاتا رہا۔ کسی نے نثری ٹکڑا کہا۔ کسی نے گفتگو کہا۔ آہستہ آہستہ یہ اپنی ہیئت تبدیل کرتا گیا۔ لیکن اسے اس کام کے لیے کئی سال لگے۔ اس وقت بیکن کے مقابلے میں دکن میں ایک ایسا انسان تھا جس کی روشن فکر و نظر پورے مغرب کی ذہانت کا مقابلہ کرسکتی تھی۔ یہ ہمارے لیے بڑی خوش قسمتی تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہو گا کہ سیاسی حالات کے تحت ہی سہی ایک بہترین انشائیہ کا مجموعہ دنیا کے سامنے آیا اور رفتہ رفتہ اس کی شکل میں خوبصورت تبدیلیاں کر کے آج ہر پہلو سے تراشیدہ یہ حسین و چمکدار نگینہ ہمارے پاس ہے۔ جتنی ترقی انشائیہ نے مغرب میں کی اتنی ہی ترقی برصغیر میں کی ہے۔
’’دکن کا بیکن‘‘۔ جی ہاں۔ میں نے ملا وجہی کے لیے یہی نام تجویز کیا ہے۔ جس نے ’’سب رس‘‘ کی صورت میں ہمیں انشائیہ جیسی تصنیف سے روشناس کرایا۔
سب رس کا قصہ ہو بہو ’’حسن و دل‘‘ کی نقل ہے۔ قصہ حسن و دل ’’دستور عشاق‘‘ کی تلخیص ہے۔ دستور عشاق اور سب رس میں واقعات کے ضمن میں بہت سارے اختلافات پائے جاتے ہیں جو ہمیں واقعہ کو بیان کرنے میں نظر آتے ہیں۔ واقعات کے مجموعی قالب پر اس کا کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا۔ فتاحیؔ کا اندازِ بیان حکیمانہ ہے جبکہ ملا وجہیؔ نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملا وجہیؔ اختصار کی صورت میں ایک نئی صنف ایجاد کر گئے جو انشائیہ کہلائی۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ ملا وجہی نے کون کون سی جگہ اپنے قصہ کو مختصر کیا ہے۔ کن نئی فکروں کو اس میں واضح کیا ہے۔
۱) حسن و دل کی شادی کا ذکر اور شادی کے مناظر کا تفصیلی بیان سب رس میں نہیں ہے۔
۲) شادی کی تقریب میں امراء کی جانب سے ہونے والی دعوتیں سب رس میں نظر نہیں آتیں۔
۳) گلشن رخسار میں خضرؑ سے ملاقات کو وجہی نے چند سطروں میں ختم کر دیا۔
۴) سب رس میں قصہ کا خاتمہ مبہم انداز میں ہے۔ تمثیل کا تشنہ پن باقی رہتا ہے۔
۵) سب رس میں صنائع و بدائع نظر نہیں آتے۔ قصہ فوراً آگے بڑھتا ہے۔ عجائب و غرائب سے کنا رہ کیا ہے۔
۶) سب رس نے عقل کا ملک سیستان بتایا ہے جبکہ فتاحی نے یونان بتایا ہے۔
۷) نظر اور حسن کے مکالمے سب رس میں نہیں ہیں۔
۸) ہمت کو دیکھتے ہی عشق کا اسے گلے لگا لینا یہ ایک فطری بات دیکھنے میں آتی ہے۔
۹) سب رس کا طریقہ کار غیر حکیمانہ ہے۔
۱۰) وجہی نے حمد و نعت کے بعد حضرت علی کی خصوصی منقبت کی ہے۔ مناجات نہیں ہیں کتاب کی عظمت اور اپنی صلاحیتوں کی تعریف میں انوکھا پن ہے۔
مندرجہ بالا تمام نکات کو بغور دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ وجہی تصنیف میں ایک جدت طرازی لانا چاہتے تھے۔ چاہے اس کا پلاٹ کہیں سے بھی ماخوذ کیا گیا ہو۔ انشائیہ کی تحریر ان کی جدت طرازی سے میل رکھتی ہے۔ ملا وجہی نے جدت طرازی کی جستجو میں ایک نئی تصنیف اور نئی صنف کی بنیاد ڈال دی اور ’’انشائیہ‘‘ کا نام اسے بعد میں ملا۔ طویل واقعات کو بھی یوں چٹکی بجاتے ہی ختم کر دیا گیا کہ ماہر ناقدین بھی حیرت میں پڑ گئے۔ حسب ذیل اقتباس دیکھئے:
’’نظر کوں نظر سوں دیکھا۔ غمزہ نیں پہچانیا۔ کوئی بیگانہ کر جانیا۔ ہڑبڑا اٹھیا۔ اپنا لہو آپی گھٹیا ہو۔ اس پر اچایا کہ تو کون ہے۔ کیوں اس باغ میں آیا۔ غمزہ ست غصہ تو ہمدست نظر کوں مارنے خاطر نظر کی انکھیاں باندیا۔ تن کپڑے کے اتاریا منگتا تھا کہ مارے ولے نین ماریا۔ کچھ دل میں بچاریا۔ نہن پن میں نظر ہور غمزہ کی ماں نے کچھ فکر کی تھی۔ دونوں کو دو لعل دی تھی۔ بازو کون باندنے۔ مہر محبت سوں ناندنے۔ دنیا کو کیا پتیانا ہے کہ ایک وقت ہے زمانہ ہے۔ کچھ ہوئے تو ایکس کون ایک پچھانے۔ ایک کون ایک جانے۔ غمزے نے نظر کے بازو کا دو لعل پچھانیا۔ جانیا کہ یو تو اپنا بھائی ہے اپس میں ہو راس میں کیا جدائی ہے۔ بہوت رویا۔ گلے لایا۔ بہت عذر خواہی کیا۔
منظر اعظمی بھی ملا وجہی کے اختصار کی صلاحیت کو مانتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ:
’’انگشتری کے واقعہ میں وجہی اس عجلت سے قصے کو آگے بڑھاتا ہے کہ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ اس نے دستور عشاق دیکھی ہو گی۔ ‘‘
گاگر میں ساگر کو ڈبونے کی صلاحیت اور تفصیل سے احتراز کرنے کو منظر اعظمی بھی مانتے ہیں یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملا وجہی نے دستور عشاق کی نقل نہیں کی ہے۔
’’ہر قدم پر حسب حال اختصار و اطناب سے کام لیا گیا ہے۔ اس سے اس شبہ کو واقعی تقویت پہنچتی ہے کہ وجہی نے دستور عشاق نہیں دیکھی تھی ورنہ پند و نصائح کے غیر ضروری انبار کے بجائے واقعات کی ضروری تفصیل سے سب رس کو زیادہ مربوط، زیادہ فطری اور زیادہ دلکش بناتا۔ ‘‘
اپنے اختصار نویسی کو تسلیم کرتے ہوئے خود ملا وجہی قطب مشتری میں کہتے ہیں
جو بے ربط بولے تو بتیاں پچیس
بھلا ہے جو اک بیت بولے سلیس
دستور عشاق اور سب رس کے چند اور مناظر پر نظر ڈالتے ہیں۔ حسن نے دل کے فراق میں غزل گائی، ملاوجہی نے عشق و عاشقی پر جب تقریر کی اس تقریر میں خود شناسی، روح و جسم، معراج نبوی، نماز خشوع قلب، توحید و رسالت، موتوا قبل ان تموتوا، ورد لا الہ، ضرب الا اللہ، قل الروح من امر ربی، نفس و ہوا، سلوک و طریقت، انا الحق و انا العشق، بشریت اور الہیت مادر ذات و صفات، پند و نصائح، غرض کائنات کے تمام امور کو اس میں سمیٹ ڈالا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ملا وجہی گفتگو کے انداز میں اس قصہ کو بیان کرنا چاہتے تھے اور نئی نہج اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے عشق میں کھو جانا ہی مناسب نہیں سمجھا اور بادشاہوں کو بھی اس کی تلقین کی اور عشق کی عظمت بھی دکھائی۔ اس سے ملا وجہی کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ رنگین مزاج نہیں تھے۔ رنگین مزاج شخص ایک رنگین مزاج تحریر نہیں لکھ سکتا۔ سب رس میں انہوں نے دل کو ہیرو بنا دیا ہے۔ دل بہ اصطلاح صوفیاء قلب عشق کے بل پر حسن حقیقی کی آماجگاہ ہے۔ دل نور خداوندی کی جلوہ گاہ بھی ہے اور عشق کا منبع بھی۔
بقول درد:
ارض و سماء کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
غالباً اس عشق کی عظمت کے بیان میں ناقدین نے انہیں رنگین مزاج اور کئی عورتوں سے تعلق رکھنے والا سمجھا ہو گا۔ جہاں عورتوں کا خصوصاً بیوی، سوتن کا ذکر ہے وہاں ملا وجہی کی نفسیات کا قائل ہونا پڑے گا۔ انہوں نے عورت کی عظمت کا ہر جگہ اعتراف کیا ہے۔ اسے کائنات کی حسین ترین احساس میں شمار کیا ہے ایسا شخص صرف حسن پرست نہیں ہوسکتا۔ ملا وجہی نے عورت کو ذی عقل بتایا ہے جو اسے مغربی مصنفین کی اور ارسطو و بقراط کی صنف میں کھڑا کرسکتا ہے۔ اس کے حسن کے ساتھ نفسیات کا بھی خیال رکھا ہے۔
منظر اعظمی بھی یہی سمجھتے ہیں اور انہوں نے بالکل صحیح کہا ہے:
’’وجہی کثرت ازدواج کو معاشرے کی خرابی سمجھتا ہے۔ وہ سوکن کے جلاپے کی دلچسپ تصویر کھینچتا ہے۔ عورت کو وہ پاک دامن اور اپنے مرد کی محبت کی امین سمجھتا ہے۔ جو اس کے خلاف کرے اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ ‘‘
ان خیالات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ملا وجہی اس دور میں ایک عظیم اور مقدس خیالات رکھنے والے درباری تھے۔ جس کے نزدیک عشق اتنا بلند درجہ رکھتا ہو وہ انسان خود کتنا قابل، عالم اور عظیم ہوسکتا ہے۔ ان کے نزدیک ’’عشق عاجز۔ عشق توانا۔ عشق دانا۔ عشق دیوانا۔ عشق اپنے رنگ میں آپس گھلنا۔ عشق ابس پر آپ بھلنا۔ عشق کے چالے کون نبھائے۔ عشق چند۔ عشق بھان۔ عشق دین۔ عشق ایمان۔ عشق حاکم۔ عشق سلطان ہے۔ ‘‘
انشائیہ نگاری کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ کچھ باتیں اختصار سے سمجھائے اور چند باتیں اشارے دے کر سمجھائے اور کچھ باتیں تو بنا کہے کے سمجھائے مثلاً نظر سے، آنکھوں ہی آنکھوں میں۔ یہ بہت دشوار کن مرحلہ ہے۔ تصور کیجیے کہ ملا وجہی نے اس زمانے میں اس قسم کی تحریر کس طرح کی ہے جس کا لوہا بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مانا ہے۔ کہتے ہیں :
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آخر میں جب گلشن رخسارمیں خضرؑ سے ملاقات ہوئی تو وجہیؔ نے صرف چند سطروں میں یہ ملاقات ختم کر دی ہے۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ساری باتیں ہو جاتی ہیں اور زبان سے کسی کلمہ کے ادا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ‘‘
وجہی کا یہی انداز گفتگو سب رس کی شان ہے۔ انشائیہ نگاری کی خصوصیات سے بھری یہ تصنیف ادبی شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ کئی فرق، چند خامیاں بتاتے ہوئے ناقدین بھی مانتے ہیں۔ سب رس واقعی شاہکار ہے۔ جن خامیوں کا ذکر ناقدین نے کیا تو اس لیے کہ وہ خامیاں نہیں، ملا وجہی کا نیا طرز تحریر تھا۔ جسے وہ پہلی بار دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے۔ چاہے وجہ کچھ بھی رہی ہو۔ اس نئی طرز تحریر کو وہ نام تو پیش نہ کرسکے۔ جسے بعد میں ’’انشائیہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن اس حسین تحریر کو ملا وجہی شعوری طور پر سامنے لائے۔
وہ ان کی تحریر کی نئی طاقت ہی تھی جس کی وجہ سے سب رس کے کرداروں میں جان پائی جاتی ہے۔ وہ وصف کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہیں ہیں۔ وہ اپنا ایک الگ وجود اور شخصیت رکھتے ہیں۔ وہ خود بنا وصف کے سہارے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں اور مختلف کشمکش، رزم و بزم میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا نام بھی ان کی شخصیت کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ وہ مکمل شخصیت رکھتے ہیں۔ ان کا سراپا بھرپور ہے۔ ان میں جاذبیت اور کشش ہے۔
منظر اعظمی سب رس کو ایک کامیاب تمثیل سمجھتے ہیں اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ:
’’تمثیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کی دو سطحیں ہوں۔ اس کے ظاہری کردار اور دوسرے ہم عکس باطنی کو نمائندگی کرتے ہوں۔ یعنی ظاہری کردار بھی باطنی کرداروں کی صفات کے اعتبار سے گفتگو، حرکت اور عمل کرتے ہوں۔ قصہ ایک مناسبت معنوی سے آگے بڑھتا ہو اور ان سب میں ظاہری ربط و تعلق کے علاوہ باطنی رشتہ و قرابت بھی پائی جاتی ہو۔ ’’سب رس‘‘ اس لحاظ سے اردو کی ایک خوبصورت تمثیل ہے۔ اسلوب و انداز نگارش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ اس کا اپنا ہے یہی نہیں بلکہ یہ نقش اول بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
سب رس کی اس تعریف کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس میں انہوں نے کہا تھا:
’’نثری قصوں میں وجہیؔ سے پہلے لکھے ہوئے نثری قصے اب نایاب ہیں لیکن وجہی کا نمو پایا ہوا آرٹ اور اس کی زبان شہادت دیتی ہے کہ یہ نقش اول نہیں ہوسکتا۔ ‘‘
دوسری طرف گیان چند سمجھتے ہیں کہ ملا وجہی کا اسلوب بہت محنت طلب ہے۔ ان کی جدت طرازی سے بھی انہیں انکار نہیں لیکن انہیں اس جدت اور انشاء پردازی ملا وجہی سے بھی پہلے رہنے کی امید نظر آتی ہے۔
’’وجہی نے بھی اسلوب کی طرف بیش از بیش توجہ کی ہے اور وہ جن بلندیوں پر پہونچے ہیں ان میں نقش اول کی نہیں نقش آخر کی نشانی ہے جس کی وجہ سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سب رس سے پہلے اردو میں انشاء پردازی کی اور بھی کوششیں کی گئی ہوں گی۔ ‘‘
گیان چند کا یہ اعتراض کہ اس کو (سب رس) پہلا انشائیہ نہ مانا جائے غلط لگتا ہے۔ کیونکہ وہ سب رس کو داستان میں بھی شمار نہیں کرتے تو جب سب رس داستان نہیں ہے، مثنوی نہیں ہے، ڈرامہ نہیں ہے، ناول نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ اس نئی صنف کا نام تو ہمیں دینا ہی ہو گا اور وہ یقیناً وہ نیا نام انشائیہ ہے۔ گیان چند کی اس رائے میں دیکھئے کہ اعتراض میں ہی اعتراف چھپا ہے۔
’’سب رس کے حسن اور لطافت کو حسن انسانی اور عشق مجازی کی کیفیتوں کے بیان ہی میں پوشیدہ سمجھا گیا ہے۔ اسے عرفان کے مقدس حلقے میں محصور کر دینا حسن کے حضور بد مذاقی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اگر سب رس کا عرفانی پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو وہ تمثیل کے بجائے داستان بن جائے گی۔ اور یہ سب رس کے لیے خسا رہ ہو گا۔ کیونکہ داستان اتنی مختصر نہیں ہوسکتی۔ ‘‘
مشہور انشائیہ نگار جاوید وششٹ بھی کچھ اسی طرح سمجھتے ہیں :
’’وجہی کے مختلف میلانات کو مجسم شکل میں پیش کرنے کی بجائے غیر مجسم ہی رہنے دیا ہے یعنی کہ سب رس کے کردار غیر مجسم کیفیات انسانی ہیں لیکن میرے خیال میں جو وجہی کا عیب ہے وہی اس کا ہنر بھی ہے۔ ‘‘
اس طرح کے خیالات حامد چھپروی کے ہیں یا یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جاوید وششٹ حامد چھپروی سے اتفاق رکھتے ہیں۔
منظر اعظمی سب رس کے مختلف النوع ہونے کی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’پند و موعظت اور درس و نصیحت کے علاوہ اس میں مختلف النوع موضوعات پر وجہی کے خیالات کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ ان موضوعات میں مذہبی، غیر مذہبی، سماجی، علمی، تہذیبی اور ادبی سب ہی قسم کے موضوعات شامل ہیں۔ عشق و عاشقی سے لے کر شراب و شاہد، سلوک و معرفت، معجزات و کرامات، دین و شریعت، عورت و مرد کے تعلقات اور بادشاہ اور رعیت کے روابط سب موضوعات پر اس کی ارشادات موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر سیدہ جعفر نے ماسٹر رام چندر کو اردو کا پہلا انشائیہ نگار قرار دیا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ نثری داستانوں میں اگر قصہ در قصہ کی طرح انشائیہ در قصہ کی بھی کوئی تکنیک تسلیم کر لی جائے تو سب رس اپنے دامن میں متعدد انشائیے لیے ہوئے ہے۔ جو خالص والہانہ انداز میں سپرد قلم کیے گئے۔
نور السعید اختر کا ایک مضمون ’’شاعر‘‘ بمبئی میں چھپا تھا جس کا عنوان تھا ’’اردو کا پہلا انشائیہ نگار‘‘ جس میں انہوں نے انشائیہ کی خصوصیت پر بحث کرتے ہوئے چند رعایتوں کے ساتھ وجہی کو اردو کا سب سے پہلا انشائیہ نگار ثابت کیا ہے۔
’’مولوی عبد الحق نے انہیں محض بیان سمجھا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ سب رس کے بیانیہ میں ان سے (وجہی سے) ایسے کنج پیدا ہو گئے ہیں جو بجائے خود حسین اور تسکین دہ ہیں۔ وہ ایک وسیع گلستان کی منفرد روشیں ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی نزہت اور رنگ برنگی کی وجہ سے نظر کش ہیں۔ ان ہی میں ہمیں اردو انشائیہ نگاری کے اولین نقوش بھی ملتے ہیں۔ ‘‘
سب رس کے خوبصورت اسلوب اور انداز تحریر سے سب ہی واقف ہیں۔ رنگینی نثر میں تو اس کا جواب نہیں۔
مولوی عبدالحق اس ضمن میں کہتے ہیں۔
’’اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ قصہ کا یہ نیا ڈھنگ اس کا نکالا ہوا ہے تو یہ صریح غلط ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ تحریر کا یہ اسلوب اردو زبان میں اس کی ایجاد ہے تو بے شک صحیح ہے۔ ‘‘
آگے اسلوب کے بارے میں مولوی عبدالحق کہتے ہیں :
’’سب رس اردو نثر کی پہلی کتاب ہے جو ادبی اعتبار سے بہت بڑا درجہ رکھتی ہے اور اس فضیلت و تقدم کو ماننا پڑتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر گیان چند تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نئی طرز تحریر اور رنگینیِ عبارت کا مقصد ہی انشائیہ تحریر کرنا تھا۔
’’اس کا مقصود اپنی انشاء پردازانہ مہارت کی نمود ہے۔ ‘‘
اس بیان سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ سب رس والہانہ غیر شعوری طریقے سے نہیں لکھی گئی بلکہ شعوری طور پر ایک نیا کارنامہ انجام دینے کے مقصد سے لکھی گئی جو بعد میں بدلتے بدلتے انشائیہ بن گئی۔
گیان چند جین سب رس کے مندرجہ ذیل پیرایہ بیان کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
’’وہ ایک پھول کو سورنگ سے باندھتا ہے۔ وہ دریا کو کوزے میں بند نہیں کرتا کوزے کے لیے دریا ہی بہا دیتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی نثر اپنی دلکشی نہیں کھوتی۔ اس کا اسلوب مانا کہ مرصع اور مسجع ہے لیکن فسانۂ عجائب کی طرح دقیق، بوجھل اور ثقیل الفاظ سے زیر بار نہیں۔ بلکہ اس نے قافیوں، تشبیہوں اور استعاروں کے سہارے ایک آئینہ خانہ سجارکھا ہے۔ اس کا تخیل واضح اور برہین ہے۔ وہ معنی بندی اور معنی آفرینی کا قائل نہیں۔ لیکن وہ متواتر فقروں اور قافیوں کے بچھے ہوئے رنگین جال سے کسی خیال یا تصور کو لڑنے نہیں دیتا۔ مسجع اور مقفیٰ نثر خیال کے آزادانہ بہاؤ میں بلاشبہ معاونت کے بجائے رکاوٹ ہی ڈالتی ہے۔ لیکن وجہی نے جس قصہ حسن و دل کو سامنے رکھا وہ مسجع و مقفیٰ ہی تھا۔ ‘‘
سب رس کے چند خوبصورت اقتباس دیکھئے:
’’کرامت کنے سو عقل نام۔ جکچھ دنیا میں ہوا سب عقل کا کام۔ عقل نے ہوا سب حلال ہوا اور حرام۔ عقل تی پکڑیا فرق خاص ہور عام عقل تی دکھے۔ ہر ایک کا نا۔ نتیں تو کان تھا صبح ہور شام۔ شتیتہ ہورجام۔ پستہ و بادام۔ میساد و دام۔ صاحب غلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ناموس بادشاہ انوکوں دیکھج حال ملک سب چھوڑپا۔ کچھ نہ لوڑیا۔ قلندر ہوا۔ سمندر ہوا۔ فقیر ہوا۔ بے تدبیر ہوا۔ اسیر ہوا۔ غمزہ کے ہات میں سنپڑیا۔ ناموس نے عشق میں ناموس گنوایا۔ لکھیا تھا سوا پڑیا۔ ‘‘
انتہائی برمحل الفاظ کا استعمال اس نثر کو باغ و بہار بنادیتا ہے جگہ جگہ زبان کے جواہر پارے، قرآن و حدیث کی آیات، کہاوتوں اور ضرب الامثال اس کتاب کی دلکشی کا سبب بنتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند اس ضمن میں کہتے ہیں کہ:
’’یہ نثر ہی کیا کم باغ و بہار ہے کہ اس پر جابجا وجہی نے اردو اور شعر اور بعض جگہ برج بھاشا کے دوہے بھی مستزاد کیے ہیں۔ نثر میں بھی جابجا فارسی و عربی اور اردو قول اور ضرب الامثال سے کام لیا ہے۔ غرضیکہ اسلوب ہو کہ موضوع وجہی کسی مقام پر بند نہیں ہے وہ اردو کے کسی انشاء پرداز سے پیچھے نہیں رہتے۔ اردو نثر کی ابتدائی صدیوں کے تاریکی میں ’’سب رس‘‘ روشنی کے مینار کی طرح دور تک ضو پاش اور جلوہ بار ہے۔ ‘‘
غرضیکہ تمام ناقدین نے بھی مانا ہے کہ وجہی ایک عظیم انسان کے ساتھ عظیم منصف بھی تھے۔ اردو ادب کے افق پر تابناک ستا رہ تھے۔ اردو انشائیہ کے موجد تھے۔ کسی صورت میں وہ مونتین اور بیکن سے کم نہیں ہیں۔ جو ہمارے لیے باعث مسرت ہے اور مشرقی ادب کے لیے باعث وقار ہے۔
سب رس میں انشائیہ کے عناصر
جس طرح مغرب میں آج سے ۳۶۵ برس پہلے مونتین اپنے قلم سے انشائیہ نگاری کے گل بکھیر رہے تھے۔ اسی زمانے میں ہمارے دکن کا ایک عظیم ادیب بھی اسی روش پر اپنے قلم کو جنبش دے رہا تھا اور سب رس کو دنیا سے متعارف کروا رہا تھا۔ رس، لغوی معنی عرق۔ رقص میں جذباتی حرکاتی شکل رقص میں نورس ہوتے ہیں۔ ۱) شانتی ۲) شرنگارا ۳) رودرا ۴) ویرا ۵)اوبھاشا ۶) ہنیا ۷) ردھ بھوتا ۸) کرونا ۹) بھیانکا ان ہی تمام نورس کو لے کر سب رس لکھی گئی۔ کہتے ہیں کہ جب ہوا چلتی ہے تو ہر جگہ یکساں اپنے لمس کے نقوش چھوڑتی ہے۔ انشائیہ نگاری بھی ہوا کی ترنگ کی طرح ہی تھی۔ یہ جب مغرب سے شروع ہوئی تو مشرق میں بھی اپنی جولانی کو منتشر کرتی چلی۔ داستان گوئی کے دور میں ایک داستان گو حاضرین کو اپنے قصے بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہوا اردو ادب میں دبے پاؤں داخل ہو گیا۔ لیکن اس کی داستان سابقہ داستانوں کی طرح نہیں تھی اس کے برعکس اس کا قصہ بار بار ٹوئسٹ لیتا تھا۔ اس کے منظر بار بار بدلتے تھے۔ پڑھنے والوں اور سننے والوں کو اپنے ذہن کی ڈور میں کئی جھٹکے دے کر تخیل کی اڑان بھرتی نظر آتی تھی۔ الفاظ ایسے جیسے جنگل میں چھپے خرگوش کا شکار کر رہے ہوں۔ الفاظ کی کمند ایسی کہ جب خرگوش مل جائے تو اسے بھون کر کھانے کی بجائے اس کے ساتھ کھیلا جا رہا ہو۔ بسا اوقات اسلوب کی شگفتگی اور حسن نکھارنے کی کوشش میں اپنی ذلت کے عریاں ہونے کا بھی ڈر لگا ہو۔ تخیل کے سمندر میں زوردار سر اٹھاتی موجوں پر الفاظ کی کشتی اپنی زندگی کو بکھیرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ محبت اور خلوص ایسا کہ پڑھنے والے کو لگے کہ ارے یہ تو میرا اپنا بھائی ہے جس سے کئی سال پہلے میں بچھڑ گیا تھا۔ اب ملاقات ہونے پر اپنے تجربات بیان کر رہا ہے اور مجھے زندگی کے نشیب و فراز سمجھا رہا ہے۔ نصائح و پند کی ایسی ہلکی چٹکیاں جو گراں بھی نہ گزرے اور ایسا لگے کہ کہنے والا وجد کے عالم میں ہمیں اپنی انگلی تھامے دشوار گزار راستوں سے سنبھال کر ہموار زمین پر لا کر چھوڑ رہا ہو۔ اس کی داستان میں کہیں کہیں لگتا ہے کہ وہ خود کلامی کر رہا ہو۔ اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا وہ ذہن میں بکھرے قوس قزح کے رنگ کو شگفتہ تحریر کا جامہ پہنا کر پیش کر رہا ہو۔ ‘‘
اس سلسلے میں جاوید وششٹ کہتے ہیں کہ:
’’ہمارے نقادوں کی آتش دل اتنی بلند نہ تھی ورنہ انہیں سب رس کے قصے میں پوشیدہ اردو انشائیہ کا شعلہ ضرور نظر آتا جو برق خرمن صد کوہ طور سے کم نہ تھا۔ ‘‘
یعنی پہلے بیان کی گئی خصوصیات کی روشنی میں جاوید وششٹ کا یہ کہنا کہ سب رس کے قصے میں پوشیدہ اردو انشائیہ کا شعلہ بالکل صحیح ہے بالکل کئی جگہ تو ملا وجہی آج کے انشائیہ نگاروں کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ذہنی لذت اور جذبا ت کی ترجمانی اتنی خوبی سے سب رس میں دکھائی دیتی ہے کہ ہم خود کو ایک نئی دنیا میں محسوس کرتے ہیں۔
اس ضمن میں پروفیسر وی ستیاراجا نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں (لذت) رس کی جو تشریح کی ہے اس کا حوالہ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنی کتاب اردو نثر کا آغاز و ارتقاء میں دیا ہے اور اس کا اردو ترجمہ یوں پیش کیا ہے:
’’(ذوق) رس وہ جوہر ہے جس سے ہم صناعت کے کسی نمونے کو جانچتے پرکھتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ لذت ذہنی ہوتی ہے اور پڑھنے والے کو جذبات اور تناسب کی اس دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ اپنے گرد و پیش کے مادی تناظر سے بے خبر ہو کر روحانی تلذذ حاصل کرتا ہے۔ جو موکش (نفس مطمئنہ) سے مشابہ ہے۔ تعینات سے گزر کر اس کی ہستی فرد کی حیثیت سے ختم ہو جاتی ہے۔ وہ محسوسات کے مطالعہ میں ایسا کھو جاتا ہے کہ ان کا دائرہ وسیع سے وسیع ہوتے ہوتے ان آفاقی حقائق کا احاطہ کر لیتا ہے جو خود اس کی ہستی کے بنیادی عناصر ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے وہ خود بھی جملہ حیات اور تمام کائنات کا ایک جز بن جاتا ہے۔ ‘‘
اس تشریح اور وضاحت کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وجہی اپنی نثری خصوصیات اور صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنی اس تخلیق کو ’’سب رس‘‘ کا نام دیا۔ خاص طور پر نثر میں نظم کو سمونا اور ایسی لچک پیدا کرنا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم لگیں۔ اور ادب کے فلک پر ماہ و خورشید کی طرح محسوس ہوں کہ دونوں کی خوبصورتی اور حسن بھی کائنات کی زینت بنے اور دونوں کی ضرورت بھی کائنات کو محسوس ہو۔ یہ صرف ملا وجہی کا ہی خاصہ تھا۔
یہ مثالیں ملاحظہ ہوں۔
غرض بھوت نادر نادر باتاں بولیاں ہوں
دریا ہو کر موتیاں رولیا ہوں
اس دریا میں غوطہ لگائیں گے تو جاگا جاگا کہ غواصاں موتیاں پائیں گے
’’فرہاد ہو کر دونوں جہاں نے آزاد ہو کر دانش کے تیئے سوں پہاڑاں الٹایا تو یو شیریں پایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جتنے کنگار کرتے ہیں گن، اسی باغ تے لیں گے پھول چن چن۔ جس کے دماغ میں پھول کی باس جاوے گی تازی ارواح تن میں آئے گی۔ ‘‘
وجہی کے پاس پلاٹ اور کردار بھی جاندار ہیں۔ شیریں فرہاد کے کردار رہتی دنیا تک جاندار رہیں گے اور پلاٹ تو عشق پر مبنی ہے۔ عشق کا پلاٹ کبھی بے جان ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر اسے بے جان سمجھا جائے تو ایسا ہو گا جیسے زمین کا محور اپنی جگہ سے کھسک گیا ہو۔ یہ کائنات آدم کے عشق میں ہی تخلیق ہوئی ہے۔ ہر دور میں یہ زندہ رہے گا اور ہر دور میں اسے عزت و احترام کے ساتھ ہی تخلیق کار دیکھیں گے۔ ہر وقت ہر دور میں یہ پرانی شراب نئی بوتل پائے گی اور اپنا نشہ دوگنا کرتی جائے گی۔ اس بات کو وجہی نے بھی بخوبی سمجھا تھا۔ اس لیے وہ پرانے اور قدیم پلاٹ اور کرداروں کی بھی الفاظ کے خوبصورت موتی میں پرو کر سامنے لائے تھے اور اسی وجہ سے پھر پرانی شراب نے نشہ دوگنا کر دیا اور اردو ادب کے افق پر ’’سب رس‘‘ ایک درخشندہ ستا رہ بن کر آنکھوں کو خیرہ کرنے لگا۔
وجہی کی طبیعت میں خیالات کا انوکھا پن اور جدت تھی۔ مجذوب کی بڑ نہیں تھی۔ اسی جدت کو وہ قائم رکھتے ہوئے انوکھے انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس دھن میں ان کا مقابلہ غواصی سے ہوتا رہا۔ کبھی وجہی نے غواصی پر طنز کیا تو کبھی غواصی نے وجہی کو اپنا نشانہ بنایا۔
وجہ یہ تھی کہ دونوں بھی محمد قلی قطب شاہ کے قریب اور منظور نظر ہونا چاہتے تھے۔ یہاں پہلے وجہی بازی مار گئے۔ محمد قلی قطب شاہ کے عہد میں وجہی ملک الشعراء بن گئے۔ بعد میں عبداللہ قطب شاہ نے غواصی کو بھی اعلیٰ مرتبہ دیا۔ غواصی ملک الشعراء کے ساتھ ساتھ شاہی سفارتخانوں کے بھی اہم رکن بن گئے۔ شاعری میں مقابلہ دونوں کا برابر کا تھا۔ وجہی نے ’’قطب مشتری‘‘ جیسی شاندار مثنوی لکھی تو غواصی نے ’’سیف الملوک‘‘ و ’’بدیع الجمال‘‘ جیسی شاندار مثنوی تخلیق کر کے اردو ادب کے خزانے میں اضافہ کیا۔ لیکن جب وجہی کی جدت پسند طبیعت نے اور منتشر خیالات کو اپنی شگفتہ تحریر میں ڈھال کر ’’سب رس‘‘ کی صورت میں پیش کیا تو غواصی اس کا مقابلہ نہ کرسکے کیونکہ وہ نثر کے میدان میں مہارت نہیں رکھتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا انتقام انہوں نے وجہی سے سیاسی میدان میں لیا۔
عبداللہ قطب شاہ کے توسط اور قربت کی وجہ سے وجہی کو گمنامی کے اندھیرے میں ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کے مؤرخ ملا نظام الدین احمد نے اپنی تحریروں میں غواصی کی اہمیت کو ضروری سمجھا۔ اس میں خود اس کی اپنی بھی مفاد پرستی شامل تھی یا ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کے اقرباء کی باتوں اور مرضی کے مطابق ہی اپنے قلم کو جنبش دینا چاہتے تھے۔ ان سیاسی حالات کو وجہی کیسے نہ بھانپ لیتے۔ بدلتے وقت اور انسانی نفسیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا ہی انشائیہ کی تحریر کرسکتا ہے۔ انہوں نے ان سیاسی حالات اور رقیبوں کی بساط کو بہت جلدی سمجھ لیا اور ’’سب رس‘‘ لکھ کر اپنے قلم اور ذہن سے ایسا جواب دیا کہ رہتی دنیا تک اپنا نام ’’پہلے انشائیہ نگار‘‘ کی صورت میں محفوظ کر لیا۔ آج غواصی کو لوگ اتنا نہیں جانتے جتنا ملا وجہی کی تحریروں سے انہیں جانتے ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو۔
’’شاید کدھیں کوئی عاشق پھرے ٹک تلجلے، ٹک چر پھرے، ٹک مستی چھرے، ٹک تر پھرے ہور سمجھے کہ ان کا عاشق کامل نے کیا بولیا ہے۔ کس کس جاگا پر کیسے کیسے بھید ان کھولیا ہے۔ ہم گلاب میں آبلوج گھولیا ہے۔ ہم مانک موتی پرو لیا ہے۔ ‘‘
اس مثال سے صاف ظاہر ہے کہ وجہی نے حالات کو سمجھ کر ہی مانک موتی پرونے کی بات کہی ہے۔ مفاد پرست اور لالچی لوگوں کے درمیان رہ کر و اپنی تخلیقی قوت کو گھٹتے دیکھ کر افسردہ رہتے تھے۔ انہیں اس زمانے میں اپنی خودی اور حیثیت کو منوانے کے لیے بہت مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے عہد سے بہت پہلے پیدا ہو گئے ہیں اس لیے اپنے اطراف جاہلوں کی موجودگی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ان کی فنکارانہ نا آسودگی انہیں بے چین رکھتی تھی۔ یہ المیہ ہر دور میں ذہین فنکاروں کے ساتھ ہوتا رہا۔ وقت اور حالات، اطراف و اکناف میں بسے لوگوں کے ذہنوں کے ساتھ نا مطابقت ایسے لوگوں کو ہر وقت اور ہر عہد میں پریشان کیے رہتی ہے یہ واقعی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کئی سال پہلے یا صدی پہلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظر وہ دیکھتی ہے جو دوسرے نہیں دیکھ پاتے۔ ان کا ذہن براق کی مانند پرواز کرتا ہے جبکہ ان کی ہمعصروں کا ذہن زمین پر کچھوے کی مانند چلتا ہے۔ نتیجتاً وہ افسردہ، پژ مردہ، شکستہ حال ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہی افسردگی، یہی پژمردگی، یہی شکستہ حالی فنکارانہ شاہکاروں کی تخلیق کا سبب بنتی ہے۔
ایک جگہ وجہی نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اگر تو ہے فہم دار، اپنی ریج نکومار
یوں بات دل میں رکھو مرداں کی یادگار
دانا ہمارا ہے ہمارا حکم اس پر چلیگا۔ دانا ہمنا رہنما
کر جانے گا ہادی ہے کر پچھانے گا
وجہی کی باتوں میں، تحریروں میں وہ اسلوب حسن اور وہ شگفتگی نظر آتی ہے کہ جس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو سب رس انشائیہ نہ ہو کر ایک دردناک داستان بن کر رہ جاتی۔ لیکن وجہی کی تحریروں میں پند و نصیحت کے ساتھ ساتھ اسلوب کا حسن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ انشائیہ ہی ہے جس میں قوس قزح کے کئی رنگ بھرے پڑے ہیں۔ انشائیہ نگار کی امتیامی خصوصیت یہی ہے کہ وہ قاری کو اپنا گہرا دوست سمجھتا ہے۔ اسے اس بات کی آزادی ہے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنے غم کا مداوا کرے۔ اس کے گوش گزار اپنے تجربات کرے۔ کیا ہم اپنے دوستوں سے گفتگو کرنے کے دوران ایک ہی قسم کی باتیں کرتے ہیں ؟ یا دو دوستوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں ہے نا؟ یہ گفتگو دیوان خانے سے نکل کر محلے میں جاتی ہے وہاں سے نکل کر سماج یا معاشرہ پر چوٹ کرتے کرتے ملک کے طبعی اور سیاسی حالات پر پھبتیاں کستے کستے آخرت اور عاقبت کے اندیشوں میں گھر کر پند و نصائح کرتی ہوئی واپس ڈرائنگ روم آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح وجہی نے بھی قاری کو اپنا دوست بنا کر آپ بیتی اس کے ساتھ بانٹی ہے۔
وجہی نے اپنے انشائیے یا تحریر کو خوش رنگ اور تازہ پھولوں سے تشبیہ دی ہے اور خود کو اس کا موجد بھی بتایا ہے۔ یہ ان کے جدید خیال اور شگفتہ تحریر کی عکاسی ہے۔ اسی بناپر جاوید وششٹ نے کہا کہ:
’’اردو انشائیہ انگریزی سے نہیں آیا۔ ہمارا انشائیہ کلیتاً ہمارا انشائیہ ہے۔ ‘‘
جاوید وششٹ کی بات سے مشرقی ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ جانی چاہیے کہ ہمارے پاس بھی ایک ایسا نثر نگار تھا جو بین الاقوامی ذہن کے ساتھ چل سکتا تھا۔ واقعی ملا وجہی ہی انشائیے کے بانی ہیں۔ ان سے پہلے کسی نے اس قسم کی تحریر نہیں لکھی ہے۔ یہاں پر چند اعتراضات سامنے آتے ہیں۔ نور السعید اختر انہیں پہلے انشائیہ نگار تسلیم نہیں کرتے۔ ماہنامہ ادیب میں ڈاکٹر سیدہ جعفر لکھتی ہیں کہ ملا وجہی کی تحریریں انشائیہ نہیں بلکہ ’’انشائیہ نما‘‘ ہیں۔
’’سب رس چونکہ ایک تمثیل تھی اس لیے وجہی کو رمزیہ اشاروں کی ذریعہ حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے اور اپنی انشاء پردازی کے جوہر دکھانے کا اچھا موقع تھا۔ چنانچہ سب رس میں تصوف، ریا، حسن اور عقل کی تعریف میں جو عبارتیں ملتی ہیں انہیں انشائیہ نما تحریریں کہہ سکتے ہیں۔ ‘ ‘
یہاں اگر ڈاکٹر سیدہ جعفر کی بات کو اگر تھوڑی دیر تک سچ مانا جائے تو ادب میں جتنی بھی اصناف ہیں تمام کو ’’نما‘‘ کہنا ہو گا۔ مثلاً پہلے ڈرامہ کو ’’ڈرامہ نما‘‘ پہلے ناول کو ’’ناول نما‘‘ پہلے افسانہ کو ’’افسانہ نما‘‘ پہلی داستان کو ’’داستان نما‘‘ پہلی نظم کو ’’نظم نما‘‘ پہلی غزل کو ’’غزل نما‘‘ پہلی رباعی کو ’’رباعی نما‘‘ پہلی تثلیث کو ’’تثلیث نما‘‘ پہلی قطعہ کو ’’قطعہ نما‘‘ وغیرہ وغیرہ کیونکہ کوئی بھی صنف چاہے وہ کسی بھی زبان و ادب سے تعلق رکھتی ہو وہ پوری طرح واضح ہونے میں کئی سالوں، دہائیوں کا عرصہ لگاتی ہے۔ تب کہیں جا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ صنف ہے جس کے نقوش ہمیں فلاں کے پاس ملتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی تناور درخت کی معمولی سی جڑ کو ہی اصلی جڑ سمجھا جائے چاہے وہ کتنی ہی مڑی تڑی، پیچیدہ حالات میں ہی کیوں نہ ہو۔
سب رس میں موجودہ انشائیہ کے عناصر کے رنگوں میں چند مندرجہ ذیل خصوصی رنگ نظر آتے ہیں۔
کئی ماہرین رائے کے مطابق ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ انشائیہ کی تحریر سچائی اور صداقت کا تقاضا کرتی ہے اور جہاں سچ کی بات ہوتی ہے وہاں کسی بناوٹ یا تصنع کا گمان نہیں کیا جا سکتا۔ لاگ لپیٹ کے بغیر ہونے والی گفتگو یا تحریر میں خود بخود اپنا حسن نکھر کر سامنے آتا ہے۔ جو دیر پا بھی ثابت ہوتا ہے۔ وجہی کے انشائیوں میں باتیں یا تحریریں ایسی محسوس ہوتی ہیں جیسے وہ سامنے بیٹھے ہوئے ہم سے گفتگو کر رہے ہوں۔ گفتگو بھی ایسی جیسے وہ ہمارے بے تکلف دوست ہیں اور اپنی زندگی کے نشیب و فراز ہمیں بتا رہے ہوں۔ مندرجہ ذیل مثالوں کو دیکھئے جن میں بلا کی سادگی، حسن پایا جاتا ہے۔
’’اگر منگتا ہے غم کوں مارتے تو شراب پی۔ اگر منگتا ہے جفا تیرے انگے ہارے غافل خدا دیا سو مال اپنا آپے کھانا ہور اپنا ناؤں آپے جگانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اے چیز سبحان! انسان کو ہنستا نکو جان۔ اگر خدا کو پچھاننے منگتا ہے تو انسان کو پچھاننا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
انشائیہ کی دوسری خوبی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی تحریر میں کم الفاظ میں زیادہ مطلب ہو۔ ملا وجہی کے پاس یہ بات بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ ان کی تحریریں اپنے اندر بہت گہرا اور وسیع مفہوم رکھتی ہیں۔ عقل پر مبنی ان کی یہ تحریریں دیکھئے۔
’’عقل نور ہے۔ عقل کی دوڑ بہوت دور ہے۔ عقل ہے تو آدمی کہواتے۔ عقل ہے تو خدا کوں پاتے۔ عقل اچھے تو تمیز کرے برا اور بھلا جانے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
جہاں وجہی نے طویل مفہوم بیان کیا ہے وہاں بھی وہ اپنے مقصد کے مرکز پر ہی کھڑے دکھائی دئیے۔ ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ مضمون کی طوالت غیر ضروری ہے بلکہ وہ تحریریں ضروری اور جامعیت سے بھری لگتی ہیں۔ عشق کے بارے میں وجہی کے خیالات اور مضمون کے دائرے میں الفاظ کی گردش کو محسوس کیجیے۔
’’عشق میانے میان آیا۔ پچھیس کاں کا اقرار۔ عشق لگے بغیر دل لگتا نہیں۔ عشق کا لذت ایسا ہے جو ہرگز دل بہلتا نہیں۔ عشق میں دکھ۔ عاشق کون اتنا سکھ۔ جاں دو جیو ہوتے ہیں راضی واں دل کی کھلتی ہے بازی۔ ‘‘
ایک اچھے انشائیہ نگار کی پہچان ہے اس کا گہرا مشاہدہ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اس کی نفسیاتی شناخت اعلیٰ پائے کی ہو۔ ایک ماہر نفسیات کی طرح وہ ہر فرد کی نفسیاتی جانچ اور مشاہدہ کے بعد ہی اپنی بات کہے۔ تب ہی وہ کامل انشائیہ نگار کہلا سکتا ہے۔ ملا وجہی کے پاس ہم ہر فرد کی نفسیات کی جھلک بخوبی پاتے ہیں۔ عاشق اور معشوق کی نفسیات۔، شوہر اور بیوی کی نفسیات، عورت کی نفسیات، سوتن کی نفسیات، مطلبی اور مفاد پرست لوگوں کی نفسیات، مشرک یا بے نمازی کی نفسیات وغیرہ وغیرہ۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ملا وجہی اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو بھی منکشف کرتے نظر آتے ہیں۔ جب وہ اپنے تجربات کا اظہار کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے پر تول رہے ہیں اور ہمیں بھی اس کا نظارہ دکھا کر عیش لوٹ رہے ہیں۔ عورت پر ان کا خوبصورت نفسیاتی تجزیہ دیکھئے۔ ساتھ ہی اس میں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان تجربات سے ملا وجہی گزرے ہوں۔ جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ملا وجہی رنگین مزاج، حسن پرست اور شاعرانہ فطرت کے مالک تھے۔ شاہی دربار سے منسلک تھے اور کئی بیویوں کے شوہر تھے۔
’’عورت عجب ہے شکر۔ ولے اس شکر میں تمام بھرے ہیں مکر۔ بولے ہیں کہ شر شیطان نے، مکر زنان تے۔ ۔ ۔ ۔ انو کون سمجھانے کسی عاقل کو نیں مل۔ ناداں ذات انو کوں تلوے میں بل سمج کرنیں کرتیاں کام۔ کھول بولے جی نیں ہوتا فام۔ ‘‘
ایک انشائیہ نگار بڑا گہرا وقت شناس ہوتا ہے۔ حالات پر اس کی گہری نظر بنی رہتی ہے۔ اسی لیے وہ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ ملا وجہی میں یہ خاصیت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ وہ وقت کے تقاضوں پر کھرے اترنے والے تھے۔ ان کے خود کے تجربات نے بھی انہیں وقت کے دھارے کی نبض شناس بنا دیا تھا۔ یہ ضروری بھی تھا۔ کیونکہ شاہی دربار سے تعلق رکھنے والا فرد اگر حالات پر نظر نہ رکھے تو وہ نہایت آسانی سے دشمنوں کا شکار ہوسکتا تھا۔ اس کے علاوہ ملا وجہی دربار سے منسلک ہونے کی وجہ سے دور قطب شاہی کے تمام اتار چڑھاؤ کو بھی انہوں نے اپنے انشائیوں میں جگہ دی۔ بادشاہ اور رعایا کے تعلقات، رعایا اور زمانے کے تعلقات، سماج اور مذہبی عقائد و رسومات غرض ہر چیز پر ملا وجہی نے وقت کو سمجھا اور آنے والے وقت کے تغیرات کے طور طریقوں کی طرف بھی اشارہ کیا۔
جہاں انشائیہ نگار ایک دوست کی طرح ہم سے گفتگو کرتا ہے وہیں دوسری طرف وہ اپنی باتیں کرتے کرتے اپنی ہی دنیا میں کھو بھی جاتا ہے۔ اس کا یہ انداز خود کلامی دیوانے یا مجذوب کی بڑ نہیں لگتا۔ بلکہ قاری اسے پڑھنے یا سننے میں پہلے سے زیادہ منہمک ہو جاتا ہے۔ ملا وجہی بھی اپنے ذاتی تجربات، قصے اور واقعات سناتے سناتے ہیں نصیحت کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ارے یہ تو اپنا ہی کوئی بزرگ و خیر خواہ ہے۔ جب وہ تصوف پر گفتگو کرتے ہیں تو کسی صوفی سے کم محسوس نہیں ہوتے۔ عرفان الٰہی پر ان کا انشائیہ دیکھئے:
’’اگر خدا کوں پچھاننے لگتا ہے تو انسان کو پچھان جند کا جسم سو بند ہے۔ بند میں جند ہے۔ جنے اپنے باپ کے بن کوں دیکھیا۔ اونے اپنے چند کون دیکھیا۔ آپس میں جائیگا تو آپس کوں دیکھے گا۔ اپنی ماہیت معلوم ہوئے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
وجہی کے انشائیے میں موضوع میں نئے رنگ اور جمالیاتی حسن کے خزانے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف عشق حقیقی ہے تو اس تک پہنچنے کے لیے عشق مجازی کا خوبصورت اور حسین راستہ ہے۔ عشق کے عرفان تک پہنچنا مقصود ہو تو رند کا سہارا بھی ضروری سمجھا گیا ہے۔ عشق و محبت میں وصال اور فراق کی بھی اہمیت بتائی گئی۔ جہاں ہجر کی بات ہوئی وہاں صبر اور استقامت کے سوتے پھوٹتے دکھائی دئیے۔ صبر کے پیچھے ہی طلب اور سخاوت اپنی ہمت کے ساتھ انسانی فطرت کو بے نقاب کرتے نظر آئے۔ بادشاہ کی نوکری، چاپلوسی، سخن شناسی، مکاری، مفاد پرستی، مذہبی خیالات، خود داری، غرض یہ کہ انسان میں پنہاں تمام فطری راز خود کو بے پردہ کرتے ہیں۔ یہی خاصیت ملا وجہی کو انشائیہ نگار سمجھنے پر مجبور کرتی ہے۔
مندرجہ ذیل مثال اس بات کی مزید وضاحت کرے گی جب ملا وجہی ہم سے کہتے ہیں کہ:
’’اگر کسی میں سخن شناسی ہور اسرار دانی ہے تو یو کتاب گنج العرش بحر المعانی ہے۔ جیتا کوئی طبیعت کے کواڑ کھولے گا۔ اس کتاب میں نین سو بات کیا بولے گا۔ جو کچھ آسمان ہو زمین میں ہے سو اس کتاب میں ہے۔ جو کچھ دینا ہو، زمین میں ہے سو اس کتاب میں ہے۔ ‘‘
بہترین انشائیہ نگار اپنے قلم کی آزادی پسند کرتا ہے۔ اس کی تحریر سے کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام گفتگو صداقت کے دائرے میں رہ کر کرتا ہے۔ جہاں حق ہوتا ہے وہاں نڈر پن اور بے باکی ضرور ہوتی ہے۔ اس لیے انشائیہ کی تحریر میں قلم کی بے باکی لازم تصور کی جاتی ہے۔ حق کا حسن اس کی تحریر سے عیاں ہونا ضروری ہے۔ اس لیے اپنی سچ بات کہنے سے انشائیہ نگار ڈرتا نہیں ہے۔ ملا وجہی کا قلم بہت آزاد اور بے باک ہے۔ کیونکہ وہ صد فیصد حق پر قائم ہے۔ ہر موضوع اور آنے والے کسی خطرہ کی پرواہ کیے بغیر وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور اس کے قلم کے تیر راست قاری کے سینے میں پیوست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ ان تیروں سے قاری کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ یہ تیر اس کے سینے میں موجود فرسودہ مادہ یعنی خیالات کو نکال کر اس کا ناسور ختم کر کے بھلا چنگا محسوس کراتے ہیں۔
یہاں اپنے دل کی بات کتنی بے باکی سے ملا وجہی کہہ رہے ہیں دیکھئے:
’’عشق کے شہر میں، پرت کے نگر میں معشوق و ہیچ جو عاشق کوں پیار کرے عاشق پر اپکار کرے۔ عاشق کے دل کو گلزار کرے نہ کہ بیزار کرے۔ خوا ر کرے عشق ناپاکاں کنے شراب جاتا تو پاک ہوتا۔ پاکاں گنے آتا تو پاک ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شراب حسن کا زینا ہے۔ مئے خانہ عشق کا مدینہ ہے۔ عاشق کی عبادت حسن دیکھنا، راگ سننا، شراب پینا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوں شراب کا اثر بتوں بادشاہوں کا پیار۔ ایسے پیار کوں کیا اعتبار۔ تل میں اترے تل میں چڑھے۔ ‘‘
جب سب رس کی تحریر پوری ہوئی تو ملا وجہی کی عمر تقریباً ۸۷ برس تھی۔ اس لیے ان کے تمام تجربات کا نچوڑ ہمیں ان کے وسیع نظریہ فکر بھی نظر آتا ہے۔ خیالات کی جدت موضوع کا تنوع اور وسیع نظریۂ فکر ہو تو انشائیہ کی تحریر سونے پر سہاگہ نظر آتی ہے۔ وہی انشائیہ کی تخیلی اڑان ہے۔ جہاں قاری کو لگتا ہے کہ وہ بھی انشائیہ نگار کے ساتھ آسمانوں کی سیر کسی طلسمی قالین پر بیٹھ کر اس کی شیریں گفتگو سن رہا ہو۔ کبھی وہ اس دنیا میں ہوتا ہے تو کبھی سمندر پر پرواز کرتا ہے تو کبھی سنگلاخ پہاڑیوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے اندر تخیل کی ندرت، خیالات کی بلند پروازی، زندگی کے مسائل و تجربات پر خوش اسلوبی کے ساتھ سیر حاصل بحث کر کے اس کی فکر و گہرائی کو بھی سمجھتا ہے۔ یہی تمام باتیں ملا وجہی کے پاس موجود ہیں۔ ان کی تحریر میں فکر کی گہرائی غضب کی نظر آتی ہے۔ اور اپنا ذہن نہ صرف چودہ طبق بلکہ ہزاروں طبق کو روشن کرتا نظر آتا ہے۔ ذہن و دل کے دریچے کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہر دریچہ ایک نیا ہی منظر دکھاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ ملا وجہی اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوئے۔ انہوں نے اس دور میں مستقبل کی باتیں کہہ کر اپنا وسیع نظریہ فکر پیش کیا۔
ان کے فکر کا انداز اور تخیل کی پرواز اس تحریر میں محسوس کیجیے:
’’عجیب تماشے دستے ہیں۔ تماشے تماشے کا خیال ہوتا ہے۔ انسان کوں کہ عقل ہور نظر ہے اس عالم کی جز ہے۔ اس عالم نے اس عالم میں جانا۔ اس عالم نے اس عالم میں آنا۔ یو سب اپس پنچ ہے تو اپس میں دستا، بھارنیں۔ توں جانتا اچھے گا دسری ٹھارنیں۔ بھار اچھنا تو تجے کیوں دستا۔ ‘‘
ملا وجہی نے بہترین انشائیہ نگار کی طرح ہر چیز کو نئے نظریہ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ نہایت عمدگی سے وہ اپنا جدید نظریہ پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس میں بہت ہی سلیقہ اور نکھار محسوس ہوتا ہے۔ اپنے سلیقہ پر ملا وجہی کو خود فخر ہے جو ان کی اس تحریر سے محسوس ہوتا ہے۔
’’اتانوی باٹ پاڑیا۔ گاڑیا سو گنج کارڈیا کچ نیں تھا سولیا پا۔ باٹ دکھایا۔ ‘‘
یہ بات اور ہے کہ خود پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں پر ملا وجہی کا فخر نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں ان نئے موضوعات پر اس طرح کی تحریریں کہیں اور نہیں ملتیں۔ یہ صرف ملا وجہی جیسے قابل اور دانا آدمی کے ہی بس کی بات تھی۔ داستانوں، حکایتوں کے تمثیلی دور میں اس طرح کی نئی انوکھی تحریر ملا وجہی کے ہی بس کی بات تھی۔ کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ صرف وہی کرسکتے تھے۔ قاری کے لیے دو ٹوک حق بات کہنا یہ کسی ہمت والے اور جیالے کے ہی بس کی بات تھی۔ خیالات کا انوکھا پن یہ صرف وہ ہی کرسکتے تھے۔ کیونکہ وہ اس دور میں آنے والے دور کی نشانیوں کو بخوبی سمجھ سکتے تھے۔ اپنی جدت کو پیش کرنا بھی اس دور میں ہمت کا کام تھا۔ بادشاہوں کے دور میں حق کہنا بھی گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ لیکن جس عمدگی اور سلیقے سے، اپنی خودداری اور انا کا پاس بھی رکھتے ہوئے ملا وجہی نے صداقت اور حق کی بات کہی ہے تو ایسا بالکل نہیں لگتا کہ یہ جمہوریت اور سیکولرازم کی باتیں اسی جمہوری دور میں کی جا رہی ہوں۔
کردار نگاری میں وجہی نے نہایت جدت سے کام لیا ہے۔ داستان میں جس طرح جاندار اور ظہور پذیر اجسام ہی کردار کا چغہ پہنتے تھے اس کے برعکس ملا وجہی نے عشق، دل، نظر، شراب وغیرہ کو کردار بنا کر ان سے گفتگو کی ہے۔ یہ نئی سوچ و فکر انہیں مونٹین کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔
قاری کو ذہنی سکون بھی دینا ایک انشائیہ نگار کا فرض ہے۔ ملا وجہی کے انشائیے قاری کے ذہن کو تھکے ہوئے بوجھل لمحات سے دور مسرت آفرین اور انبساطی سرور بخشتے ہوئے حسین دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں کسی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ ہر تحریر میں مسرت و انبساط کا ٹھاٹیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ جس کی موجوں پر قاری خود کو تیرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ تحریروں کے درمیان اصل موضوع سے وجہی کبھی نہیں ہٹتے۔ اگر ایسا بھی ہو تو جہاں اس کی ضرورت ہو تب ہی ہمیں اس نئی چیز کا احساس کراتے ہیں۔ الفاظ پر قدرت اتنی کہ وہ نئی چیز اصل موضوع سے جڑی ہوتی ہے۔ ہر تحریر پڑھنے والے کو نئی تازگی اور قوت بخشتی ہے۔
ملا وجہی نے خود کی ذات کو بھی منکشف کیا ہے۔ اور نفسیات کے ماہر کی طرح دوسروں کے جذبات اور احساسات کی بھی بخوبی ترجمانی کی ہے۔ ملا وجہی یہ اس لیے کرسکے کہ وہ عمدہ و اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی تھے۔ اس لیے ان کے انشائیوں میں داخلیت و غنائیت نظر آتی ہے۔ جو ان کے انشائیوں میں چار چاند لگاتی ہے۔ ان کی مسجع و مقفیٰ تحریر میں ایک نئی ترنگ پیدا کرتی ہے۔ سب رس کی سب سے بڑی خوبی مجھے یہی محسوس ہوتی ہیکہ ایک ادیب، شاعر، موسیقار یا آرٹسٹ کے تمام فن ہمیں سب رس میں ہی نظر آتے ہیں۔ اگر وجہی کے انشائیے ایک بہترین گلوکار سے گوائے جائیں تو بہترین لے و طرز کے ساتھ نئے نغمے وجود میں آئیں گے۔ موسیقی اور سروں کی دنیا کے سات سر کا احساس بھی ملا وجہی نے اپنی تحریر کے ذریعے کروایا ہے۔ اس مثال کو دیکھنے کے بعد ہر کوئی میری اس بات سے اتفاق کرے گا۔
’’عشق عاجز۔ عشق توانا۔ عشق دانا۔ عشق و دانا۔ عشق اپنے رنگ میں آپی کھلتا۔
عشق اپس پر اپی بھلتا
عشق کے چالے کون سنبھالے
دوسری مثال دیکھئے۔
خدا کی عجب ہے شوکت ہو رشاق بچارا
انسان یاں حیران واں بی حیران
کہاوتوں، مقولوں اور حدیثوں و آیتوں کے استعمال میں بھی ملا وجہی نے قافیے اور ردیف کا التزام ملحوظ خاطر رکھا۔
’’بے حد اس کی صفت کوں کا ہے حد۔ اللہ صمد لم یلد ولم یولد۔ ‘‘
’’جس کے نور نے عالم نے پایا روشنی لولاک سما خلقت الافلاک کا دھنی۔ ‘‘
’’بات یوں بی آئی کہ جانتے کا کر انجانتے کا بھائی۔ ‘‘
’’فارسی میں یوں بولتے ہیں کہ کوڑپر داسٹے ہیں فراموشی جواب ابلہاں خاموشی۔ ‘‘
ان کی شاعرانہ خوبیوں کی وجہ سے نثر میں بھی نظم کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
انشائیے کی ان تحریروں کو دیکھئے یہ بالکل اشعار معلوم ہوتے ہیں۔
۱۔ پیرت پتلی کیوں کھڑتی۔ نانوں تی مستی کیوں چڑتی
۲۔ یو مستغنی دو محتاج۔ یو سب شوخی و دسب ناز
۳۔ باس تے پھول نے شرف پایا۔ باس تے پھول پھول کہوایا
۴۔ فتوا ٹوٹیا، حرکت بھاگی۔ دوشمنی سوتی، دوستی جاگی
ملاوجہی کے انشائیے اپنی بیان کی گفتگو میں سب سے آگے بازی مار گئے۔ دل و دماغ کو تازگی بخشنے والی ان کی تحریر، تھکے ہوئے ذہنوں کو طاقت و توانائی بخشنے والی ان کی یہ تحریر تا دم قیامت اپنی شگفتہ بیانی کے لیے جانی اور پہچانی جائے گی۔ ہر لفظ قاری کو ایک نیا اور لطیف احساس دیتا ہے۔ یہی ایک بہترین انشائیہ نگار کی پہچان ہے۔ جو اپنے قاری کو اپنی زبان اور الفاظ کے بندھن میں ایسا جکڑلے کے اسے گراں بھی نہ لگے۔ سب رس میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اتنے سالوں بعد آج بھی ان تحریروں میں جان ہے۔ ایسے پھولوں کی مانند جو کبھی مرجھاتے نہیں اور کبھی اپنی خوشبو کھوتے نہیں۔ خود ملا وجہی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ تب ہی تو کہتے ہیں۔
’’یورنگ رنگ کے پھول سرنگ مقبول۔ سب کسے بھاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
بات سے نئی بات پیدا کرنا، کڑی سے کڑی جوڑ کر موضوع کی زنجیر بنانا یہ ایک اچھے انشائیہ نگار کی علامت ہے۔ سب رس میں یہ موجود ہے۔ ہر جگہ ملا وجہی نے ربط قائم رکھتے ہوئے بات سے نئی بات پیدا کی ہے۔ قاری کو وہ اپنی باتوں میں لگا کر دور تک کا سفر کرا لاتے ہیں اور بخیر و خوبی اسے واپس اس کے گھر بھی پہنچا آتے ہیں۔
ملا وجہی خود ایک ماہر نفسیات، مؤرخ، عالم، فلسفی اور مذہب کی بہترین و گہری معلومات رکھنے والے تھے۔ وہ جتنا شاعری کرسکتے تھے اتنا ہی اس پر لکھ بھی سکتے تھے۔ جتنے مذہبی افکار اور خیالات رکھتے تھے اتنا ہی تصوف پر بھی لکھ سکتے تھے۔ جنسیات کو جتنا ضروری خیال کرتے تھے۔ بے باکانہ انداز میں اسے تحریر بھی کرسکتے تھے۔ قرآن و حدیث پر گہرا مطالعہ رکھنے کے ساتھ ہی اقوال بزرگان دین اور حکایات بھی انہیں ازبر تھیں۔ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ کئی زبانوں کے دانشوروں کی مشہور نگارشات کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ان کی اس قابلیت کی وجہ سے انہیں ’’ملا‘‘ کا لقب عطا کیا گیا تھا اور وہ واقعی اس کے حقدار تھے۔ ان کی تحریروں میں مختلف حوالے ان کی علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انشائیہ نگار کی خاصیت اس کی روانی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اسے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہو۔ ملا وجہی کو زبان پر کافی عبور حاصل تھا اس سے ظاہر ہے کہ وہ لسانیات پر بھی قادر تھے۔ ان کی روانی، صاف و شفاف ندی کی طرح بل کھاتی بہتی جاتی ہے۔ ملا وجہی کی زبان جہاں صاف ستھری اور چست تھی وہیں اس میں کہاوتوں کی جھلک ایسی محسوس ہوتی ہے جیسی اندھیری رات کی خوبصورتی میں فلک پر چمکتے ستارے۔ بہت ساری سطروں میں تو انہوں نے اتنی صفائی سے الفاظ کی گرہ باندھی ہے کہ وہ خود ضرب المثل محسوس ہونے لگے ہیں۔ بقول حمیرہ جلیلی:
’’زندگی کے وسیع تجربے کی روشنی میں ملا وجہی نے ایسے نکات بیان کیے ہیں اورایسی چست زبان استعمال کی ہے کہ جگہ جگہ ’’سب رس‘‘ کے جملے ضرب الامثال معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ‘‘
ان سطور کو پڑھنے کے بعد تو ہوسکتا ہے کہ اس دور میں یہ کئی کی زبانوں پر چڑھ بھی گئے ہوں۔
’’ست ہستی بادشاہ ہو رباگ۔ یو تینوں ایک جنس کی آگ۔ ‘‘
’’پانی میں سو چشمے پر گئے تو کیا پیاس جاتی ہے۔ ‘‘
’’عاقل آنگے تیج جانتا۔ نادان پچھیس تی پچھانتا۔ ‘‘
’’مشہور ہے کہ جدھر ہنڈی ڈوئی۔ ادھر سب کوئی۔ ‘‘
سب رس جیسی طویل کتاب کے مختلف موضوعات کو یکجا کر کے انشائیہ بنا لیے گئے ہیں جو تقریباً ۴۱ ہیں۔ ہر موضوع پر ملا وجہی نے لکھا ہے۔ کسی پہلو کو انہوں نے تشنہ نہیں رکھا۔ یہاں پر تقریباً ۲۰ مختلف موضوعات دئیے جا رہے ہیں جو بہترین انشائیے کہلانے کے حقدار ہیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں ملا وجہی کو ’’دکن کا بیکن‘‘ کہا ہے۔ سب رس کی تمام خوبیاں دیکھنے کے بعد سب اس نام سے ضرور اتفاق کریں گے۔ محمود شیروانی اپنے مضمون میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عربی اور فارسی کی کتابوں کے ساتھ مونٹین کی فرانسیسی کتاب ’’ایسینر‘‘ کو بھی شامل کر لیا جائے تو وجہی کی انشائیہ نگاری اردو کی نمائندگی ہی نہیں کرتی بلکہ عالمی سطح پر بھی مسلم ہو جاتی ہے۔ ‘‘
بہرکیف ملا وجہی کی سب رس ایسے گلستان کی مانند ہے جس میں ہر رنگ و بو کے خوبصورت پھول کھلے ہوں۔ ایسا جنگل جس میں سر سبز وادی صاف و شفاف ندی اور آبشاروں کی ترنگیں ہوں۔ شاہین کے پروں پر پرواز کرتے ہوئے انسانی وجود ہوں۔ مٹی کے وہ مجسمے ہوں جن کی بناوٹ پر دل فریفتہ ہو جائے۔ چھونے سے وہ بول پڑیں۔ نغمے ایسے کہ زبان سے اترنے کا نام نہ لیں۔ جذبات کو سروں کا ساتھ ملے تو وہ حسین پری کی شکل و صورت اختیار کر لیں۔ عشق ایسا کہ ساری حدیں پار کر جائے۔ ایمان و عرفان ایسا کہ خدا کی تلاش میں سر پٹکتا ہوا انسان نظر آئے۔ جسم و روح کے رشتے ایسے کہ دونوں ریل کی پٹری کی طرح دکھائی دیں۔ ساتھ ساتھ تو چلیں مگر کبھی ملیں نہیں۔ رشتوں کے بندھن ایسے کہ مضبوط گر ہیں بھی کھل جائیں اور عقل و تصور کی تخیلاتی اڑان ایسی کہ سات سمندر پار چلی جائے۔
الغرض سب رس کی نثری سادگی اور بے تکلفانہ انداز گفتگو اور اس کی رنگینی کو دیکھتے ہوئے تمام ناقدین اپنی اپنی رائے ظاہر کر کے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کرتے نہیں تھکتے اور اسے ایک حسین تحریر اور شاہکار کا درجہ دیتے ہیں۔ اسے اسلوب کی ترقی کی اہم منزل مانتے ہیں۔ اس کی ادبی چاشنی کا اعتراف کرتے ہیں۔ نظم و نثر کا نیا ملا جلا سنگم بھی سمجھتے ہیں۔ کئی بار انہوں نے ملا وجہی کی علمیت اور قابلیت کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اردو ادب میں تمثیل کا موجد بلاشبہ ملا وجہی ہی کو سمجھا گیا ہے۔ تمام نے اس بات کو قبول کیا کہ ملا وجہی نے شگفتگی اور سلاست کا دامن نہیں چھوڑا۔ تمام موضوعات اپنے اندر ایک دلنشین دنیا پوشیدہ کیے ہوئے ہیں۔ اس وسیع گلستان کی کئی مختلف راہیں اپنی رنگ برنگی کی وجہ سے مسافر کی دلچسپی کو برقرار رکھتی ہیں اور مسافر اس دنیا میں کھو جانا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا ہے کہ وہ منزل مقصود تک پہنچے۔ اس طرح کی یہ تحریر کسی اور صنف میں نہیں مل سکتی۔ یہ صرف انشائیہ ہی کا میدان ہے جہاں سے قاری نکلنا نہیں چاہتا بلکہ اس کے ہموار اور ناہموار راستے پر خود کو سفر کے لیے پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
انشائیہ: نیرنگ خیال کے حوالے سے
ناقدین محمد حسین آزاد کی تصنیف نیرنگ خیال کو انشائیہ کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت سے گردانتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ رمزیہ اور تمثیلی رنگ کے مالک محمد حسین آزاد اردو ادب کے بڑے انشاء پردازوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے مضامین پر مغرب اور انگریزی ادب کے دبیز رنگ کی چادر چڑھی رہتی ہے۔ ایڈیسن اور جانسن کی عکاسی کرنے والے ان کے مضامین نہایت جاندار ہیں۔ نیرنگ خیال میں ان کے مضامین کا ترجمہ اصل سے بڑھ کر محسوس ہوتا ہے۔ جس کے تعارف میں مالک رام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ سیدہ جعفر نے ایک نئے زاوئیے سے ان کے مضامین پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتی ہیں :
’’نیرنگ خیال کے تمام انشائیے انگریزی مضامین کا چربہ معلوم ہوتے ہیں۔ آغاز آفریشن میں دنیا کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا۔ جانسن کے مضمون دی الگارک ہسٹری آف ریسٹ اینڈ لیبر (The Allegoric Hostory of Rest and Labour) کا اور سچ جھوٹ کا رزم نامہ (Truth Falsehead and ………………) گلشن امید کی بہار کا پرتو ہیں۔ اسی طرح نیرنگ خیال کے دوسرے مضامین ایڈیسن سے خوشہ چینی کے غماز ہیں مثلاً ’’تیسری زندگی‘‘ (Voyage of Life) ’’عظمت اور ذکاوت کے مقابلے‘‘ (An Allegory of Wit and Learning) ’’آدمی کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘-
ان کے علاوہ اس وقت مغرب میں ایڈیسن، اسٹیل، گولڈ اسمتھ اور جانسن اپنا جادو بکھیرنے کے بعد ہندوستان میں بھی اپنا سکہ جمانے میں کامیاب رہے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ آزاد بھی اپنی جادو بیانی کے لیے مشہور تھے وہ کیسے پیچھے رہتے۔ اپنی برجستگی، بے تکلفی اور تمثیلی انداز بیان سے انہوں نے پوری روانی کے ساتھ اپنے انشائیے پیش کیے تو ہندوستان کے ایڈیسن بن گئے۔ اس بات پر ’’گلشن امید کی بہار‘‘ میں ان کا یہ انداز ملاحظہ کیجیے:
’’یکایک آنکھ لگ گئی دیکھتا ہوں کہ میں ایک باغ نو بہار میں ہوں۔ جس کی وسعت کی انتہا نہیں۔ امید کے پھیلاؤ کا کیا ٹھکانہ ہے۔ آس پاس سے لے کر جہاں تک نظر کام آتی ہے تمام عالم رنگین و شاداب ہے۔ ہر چمن رنگ و روپ کی دھوپ سے چمکتا، خوشبو مہکتا ہوا اسے لہکتا نظر آتا ہے۔ زمین فصل بہار کی طرح گلہائے گوناگوں سے بر قلموں ہو رہی ہے اور رنگارنگ کے جانور درختوں پر چہچہے بھر رہے ہیں۔ ‘‘
اسی طرح آزاد کا انداز مغرب و مشرق کا حسین افق نظر آتا ہے۔ جہاں انشاء پردازی کی زمین اور تحریر کے اسلوب کے فلک کی کوئی انتہا نہیں۔ مشرق کی تشبیہات و استعارات کی دلکشی، الفاظ میں ساز کا تصور اور خیال کی سادگی میں مغربیت کی جھلک اسلوب کی جدیدیت و انفرادیت والی آزاد کی انشا پردازی ادب کا بہترین سرمایہ ہے۔ دراصل خالص انشا پردازی کی بنیاد آزاد ہی نے ڈالی ہے۔ آزاد سے پہلے بھی انشاء پردازی کا وجود ملتا ہے مگر اس انشاء پردازی کی صرف تاریخی اہمیت ہوسکتی ہے۔ اس کی ادبی اہمیت مشکوک ہے۔ اولین انشاء پرداز ہونے کا سہرا آزاد کے سر ہونے کی وجہ سے ان کی نثر میں جو رعنائی اور دلربائی ہے وہ کسی اور میں نہیں۔ آزاد عربی کے ثقیل فقروں کو استعمال کرتے ہیں اور نہ انگریزی کے بلا ضرورت لفظوں کو اپنی نثر میں جگہ دیتے ہیں بلکہ وہ فارسی کی شراب اور ہندی کا رس شامل کر کے پڑھنے والے کو ہم کیف و سرور کی موجوں میں غوطے کھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایک خاص قسم کی خیالی اور اجتماعی فضا پائی جاتی ہے۔ آزاد کی یہ دنیا ان کی اپنی دنیا ہے۔ وہ اسی دنیا میں سانس لیتے ہیں اور اسی دنیا میں چلتے پھرتے ہیں دراصل آزاد ملک خیالستان کے باشندے ہیں۔ بعض مقامات پر آزاد نے اپنے تخلص کو ضمیر متکلم کی جگہ پر استعمال کیا ہے۔ یہ طرز ادا بھی آزاد کے خیالستان کی ایک جھلک ہے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے مینا کار اور مرصع نگار ہیں۔ اس وصف میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں۔ زبان کی نزاکت، بیان کی لطافت، تشبیہ اور استعارے کی رنگینی اور تراکیب کی شگفتگی جس قدر آزاد کے یہاں قدم قدم پر ملتی ہے دوسرے نثر نگاروں کے یہاں ملنا مشکل ہے وہ اس انداز سے چھوٹے چھوٹے چبھتے ہوئے فقرے تراشتے ہیں کہ ان کو ’’آذر سخن‘‘ کا لقب زیب دیتا ہے۔ ’’آب حیات‘‘ میں ان کی حسین انشاء پردازی نظر آتی ہے۔ ایک بنجر زمین میں پھول کھلانا آزاد کا ہی کام ہے۔ برج بھاشا پر عربی اور فارسی زبان نے کیا اثر ڈالے؟ اس خشک موضوع پر انہوں نے ایران کی محفل سجا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ شب و شبستان مئے اور میخانہ اور گل و گلزار کے سیکڑوں جلوے ہماری نظروں کے سامنے کوند جاتے ہیں اور اس سے زیادہ لطف وہاں آ جاتا ہے جہاں بھاشا کا انشاء پرداز برسات میں اپنے باغ لگاتا ہے اور جہاں کالی گھٹائیں جھوم جھوم کر اٹھتی ہیں اور جہاں سیاہی میں سارس اور بگلوں کی سفید قطاریں بہار دکھاتی ہیں۔ آزاد کی انشاء پردازی کے یہی جوہر شعراء کے مختلف ادوار کی ادبی خصوصیت کو بیان کرتے وقت بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یوں تو ہر شخص کے منہ میں زبان ہے اور ہر شخص بات کرتا ہے مگر بات سے بات پیدا کرنا صرف آزاد ہی کا کام ہے۔ یہی باتیں دوسرے انشاء پرداز سادہ انداز میں کہہ جاتے ہیں۔
’’آب حیات‘‘ پر مختلف لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں اور آزاد کی سوجھ بوجھ اور قوت تحقیق سے انکار کیا ہے جیسے حبیب الرحمان خان شیروانی نے ’’مقدمہ نکات الشعراء‘‘ میں، مولوی عبدالحق نے ’’مقدمہ ذکر میر‘‘ میں، مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’’انشاء‘‘ میں، حامد حسن قادری نے ’’داستان تاریخ اردو‘‘ میں اور مولانا عبد الحئی نے ’’گل رعنا‘‘ میں کیے ہیں۔ اگر یہ اعتراضات کسی بھی حد تک صحیح ہوں تو بھی آزاد مکمل انشاء پرداز ضرور ہیں ہمیں ان کی انشاء پردازی کو تسلیم کرنا ہی ہو گا۔
آزاد کی انشاء پردازی کا رنگ ’’آب حیات‘‘ سے زیادہ ’’نیرنگ خیال‘‘ میں جھلکتا ہے۔ دراصل یہاں ان کی شعور اور ان کا فن معراج پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نیرنگ خیال میں ان کو اپنے عالم خیال کی جھلک دکھانے کا زیادہ موقع ملا ہے۔ اس کتاب کے حصہ اول میں آٹھ تمثیلی مضامین ہیں جو جانسن اور ایڈیسن کے انگریزی مضامین سے ماخوذ ہیں۔ چونکہ مضمون نگاری میں تنقیدی، تحقیقی اور تاریخی شعور کی زیادہ ضرورت نہیں پیش آتی ہے اس لیے آزاد کو اس وادی میں جولانی دکھانے کا پور موقع ملا ہے۔
آزاد کی انشاء پردازی کا رنگ ’’دربار اکبری‘‘ میں بھی جھلکتا ہے۔ اس کتاب میں آزاد نے اکبر کے ذاتی حالات اور اس کے درباری امراء اور وزراء کی زندگی کے واقعات کو ایک دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ اگرچہ آزاد کا یہ دلچسپ انداز ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور ان کو ایک حقیقی مؤرخ بننے سے روکتا ہے کیونکہ تاریخ نگاری کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے واقعات کو صداقت اور حقیقت کے ساتھ بیان کیا جائے اور تشبیہ و استعا رہ سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔ مگر چونکہ آزاد کی طبیعت پر ہمیشہ انشاء پردازی کا رنگ غالب رہتا ہے اس لیے وہ تاریخ میں بھی افسانہ کا رنگ بھر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دربار اکبری میں ایک مؤرخ سے زیادہ ایک انشاء پرداز نظر آتے ہیں۔ یہی حال ’’سخن داں فارس‘‘ کا ہے۔
اس کتاب میں بھی تحقیق کی بہ نسبت انشاء پردازی سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ آزاد کی رنگینی اور شگفتہ بیانی تحقیق کے میدان میں بھی ان کے ساتھ چلتی ہے۔ مگر ہم انہیں ایک کامل انشاء پرداز ضرور کہہ سکتے ہیں اور یہی انشاء پردازی ان کے لیے حیات ادبی کی ضامن ہے۔
آج کے زمانے میں آزاد کی تحریریں سرسید اور حالی و شبلی کی زبان کی طرح ہمارا ساتھ چاہے نہ دے سکیں لیکن ادب سے لطف حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان کی تحریر کا مطالعہ ضرور کرنا پڑے گا۔ ان کی انفرادیت اسی میں ہے کہ انہوں نے ذہنی بیداری میں زبان کے ذریعہ اہم خدمات انجام دیں۔ دیگر معاصرین کے مقابلے میں آزاد کی تخلیقات زیادہ پائیدار ہیں کیونکہ وہ ہمارے تخیل اور ذوق کے لیے باعث کشش ہیں۔ انہوں نے ماضی کے افسانوں اور واقعات کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ ہم انہیں واقعی اپنی آنکھوں کے سامنے رواں دواں پاتے ہیں۔ اس لیے جو باتیں آزاد کو آج جاذب توجہ بناتی ہیں کل بھی ان کو جاذب توجہ بنائے رکھیں گی۔ وہ باتیں چاہے الفاظ کے طوطا مینا بنانے کی ہی کیوں نہ ہوں وہ محض اپنی انشاء پردازی کے بل بوتے پر بھی اتنے اہم ہیں کہ اتنا اس عہد کا دوسرا کوئی اور مصنف اہم نہیں ہے۔ ادب کے فروغ میں ان کا یہ تعاون گراں مایہ ہے۔ محمد صادق نے اپنی کتاب ’’احوال و آثار‘‘ میں آزاد کی علمی قابلیت کا کئی جگہ اعتراف کیا ہے اور مستقبل میں ہمیشہ ان کے اس بیش بہا سرمایہ سے استفادہ حاصل کرنے کی بات کہی ہے۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ایک بڑی غلط فہمی یہی تھی کہ انشائیہ ایک مضمون کی طرح ہی ہوتا ہے۔ بعض نے تو ’’طرح‘‘ کی بجائے سے صاف الفاظ میں مضمون کا ہی نام دیا۔ لیکن دیکھا جائے تو دونوں اصناف ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ اب ہم اپنے اگلے باب میں اسی فرق کو واضح کریں گے۔
٭٭٭
باب دوم: انشائیہ ایک منفرد اسلوب نگارش
بیسویں صدی میں دوسری اصناف ادب کی طرح نثر میں بھی نئی سمتوں اور نئے رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔ صدی کی ابتداء سے حال تک نثر میں مختلف تجربے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ تنقید و تاریخ، سیرت و خود نوشت کے علاوہ فن انشائیہ نگاری میں بھی ایسے نمونے ملتے ہیں جو انگریزی نثر میں بھی نئے اضافے ہیں۔ جمہوریت کے فروغ اور نئی نسل کے تقاضوں نے ادب میں خاص اور نثر میں بالخصوص سادگی کی طرف جو میلان عام کر دیا ہے وہ کسی اور دور میں اس حد تک ممکن نہیں تھا۔ انگریزی ادب کی موجودہ صورت حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ انگریزی نثر میں ہمیں بیکن کی بلیغ اور لیمب کی قدیم نثر کم ملتی ہے۔ آج انگریزی نثر بول چال کی زبان سے جس قدر قریب ہے ویسا پہلے نہیں تھا۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں براؤن، ملٹن اور جانسن جیسے ادیب عام بول چال کی زبان سے مادر اللغات استعمال کرتے اور بے کیف عبارت صحافیوں کے حصے میں رہتی لیکن آج صحافی رنگین اور با محاورہ عبارت سے زیادہ مانوس ہیں اور ادیب و انشاء پرداز سادہ مگر دلنشین عبارت لکھتے ہیں۔ یہ امر بھی کچھ کم دلچسپ نہیں کہ بیشتر انگریز ادیب صحافت کے راستے سے ادب میں داخل ہوئے اور اسی بناء پر ان کی ادبیت میں بھی صحافت کو بیشتر دخل رہا ہے۔
بقول پروفیسر سید محمد حسنین کہ انشائیہ نگار اسیر موضوع نہیں۔ یہ اس کی منفرد شان ہے کیونکہ:
He can catch hold of anything and can make something out of nothing.
چلتی پھرتی زندگی کی ہر بات، ہر ادا اور ہر کیفیت اس کی زد میں آسکتی ہے۔ اپنی افتاد طبع اور شگفتہ کاری سے وہ بے بات کی بات میں ’’کچھ بات‘‘ پیدا کرسکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کی تصویر ادب ہے اور ادیب زندگی کے سارے حقائق کی ترجمانی کا کام کرتا ہے۔ انشائیہ نگار بھی اپنی زندگی کے حقائق اور کیفیات کو بھٹکتی ہوئی زندگی میں پورا عکس دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنا ما فی الضمیر وہ کوئی دوسری صنف میں اتنے بہتر طور پر بیان نہیں کرسکتا جتنا انشائیہ نگاری میں۔ کیونکہ انشائیہ نگاری میں شخصی تجربات، تاثرات اور ذاتی رجحانات اور ان کی رد عمل کی مؤثر اور دلکش مرقع کشی کی جاتی ہے۔ انشائیہ میں ادیب اپنی پوری آزادی اور بے تکلفی کے ساتھ اپنے تاثرات، تجربات اور احساسات بیان کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ انشائیہ ادبی اصول و قوانین سے بڑی حد تک بے نیاز صنف ہے۔ بقول مشتاق قمر
’’انشائیہ نگاری داخلی ابال کا خارجی اظہار ہے اور بیجا مقصدیت کے بوجھ سے آزاد ہے۔ ‘‘
مشتاق قمر
انشائیہ کی تحریر ہر شعبے اور زندگی کے ہر موڑ سے تعلق رکھتی ہے اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہ مکمل طور پر آزاد ہے۔
تمام اصناف ادب میں انشائیہ کا ایک منفرد مقام ہے جس طرح ہم حیوان کی ایک قسم ہیں لیکن بالکل مخصوص اور منفرد قسم۔ قدرت کی اس عظیم کائنات میں ہمارا مرتبہ اور مقام انسان یعنی اشرف المخلوقات کا ہے یعنی دوسرے معنوں میں دوسرے تمام حیوانات سے برتر بالکل اسی طرح انشائیہ بھی دوسری تمام اصناف میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے اس کی انفرادیت کی جڑیں ادب لطیف سے ملتی ہیں۔ اس لیے ہی اس کے دامن میں لطافت کے ساتھ ساری کڑواہٹ کو قاری کے سامنے پیش کرنے کی گنجائش ہے۔ جو دوسری اصناف سخن میں مشکل سے ہی ملتی ہے۔ ادب لطیف کو تحریر کی ایک خاص صورت یا ادب کی ایک خاص صنف خیال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص انشائیہ کی صنف اپنے اندر کئی رنگ سمیٹے رکھتی ہے۔ ایک سمندر معلوم ہوتا ہے جسکی لہریں چڑھتی اترتی رہتی ہیں۔ اور قاری اس پر Surfingکر رہا ہوتا ہے۔ یہ لہریں اس کے دل کو ہی نہیں دماغ کو بھی ڈبکیاں کھلاتی ہیں۔ کبھی یہ لہریں لذت اضطراب بن جاتی ہیں اور کبھی تو شدید ہیجان خیز ہو جاتی ہیں۔ اس کائنات کا ہر فرد ایک مرکز سے بندھا ہے کیوں نہ ہو یہ زمین خود اپنے مرکز یعنی محور پر گردش کر رہی ہے۔ بالکل اسی طرح ادب کی دوسری تمام اصناف بھی اپنے مرکز کے گرد ہی گردش کرتی ہیں۔ لیکن انشائیہ کی تحریر مرکز سے خود کو منقطع کر کے اپنے لیے اور قاری کے لیے ایک نیا مرکز پیدا کرتی ہے اور ایک نیا ماحول اپنے اطراف جنم لینے لگتا ہے۔ یہی خاصیت نے انشائیہ کو ممتاز کر رکھا ہے۔
اکبر حمیدی نے ڈاکٹر وزیر آغا کی تعریف برائے انشائیہ اپنے ایک مضمون میں لکھی کہ:
’’انشائیہ ایک ایسی صنف نثر ہے جس میں انشائیہ نگار فکر جست کے ذریعہ بار بار ایک مدار سے دوسرے مدار کو چھوتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘
ہمیں بھی یہ تعریف بہت حد تک صحیح لگتی ہے۔ کیونکہ انشائیہ کی تحریر کے نئے نئے مدار(Orbit) قاری کو شروع سے آخر تک باندھے رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور یہ خاصہ صرف انشائیہ ہی کا رہا ہے۔ یہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اس بات سے شاید کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے مطابق انشائیہ کے اسلوب میں بلا کی لطافت اور شگفتگی ہوتی ہے اور قاری کے دلوں کو فرحت بخشتی ہے۔ میں اس رائے میں تھوڑا سا اضافہ اور کرنا چاہتی ہوں کہ انشائیہ کی تحریر لطافت کو شگفتگی کے ساتھ انسانی تجربات کو بھی بیان کرتی ہے اور وقت ضرورت ناصحانہ رویہ اختیار کر کے قاری کو بھی اپنی زندگی میں درپیش مسائل کو سلجھانے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
انشائیہ نے سیاسی، سماجی، نظریاتی، فلسفیاتی، کیفیاتی، جغرافیائی، تاریخی اور ادبیاتی غرض ہر میدان کے ہر گوشے کو اپنے آئینے کے پہلوؤں پر جگہ دی ہے۔ اس کی تحریر کے زاوئیے اپنے عنوان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فوراً بدلتے جاتے ہیں تاکہ قاری کو زیادہ سے زیادہ مواد کم سے کم الفاظ میں پڑھنے کو ملے۔ مجھے انشائیہ نگاری کی یہ منفرد اسلوب نگارش سب سے زیادہ پسند ہے۔ حالانکہ اکبر حمیدی اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ
’’جس ماحول کا انشائیہ لکھا جائے اس کے ماحول کو تبدیل نہ کیا جائے مثال کے طور پر تاریخی انشائیہ لکھا جائے تو تاریخی مدار سے باہر نہ کیا جائے بلکہ اس کے گوشوں کی سیاحت کروائی جائے اور تاریخی ذائقے کو اول تا آخر بحال رکھا جائے۔ اسی طرح سیاسی، فلسفیانہ انشائیہ کو اس کے مخصوص ذائقے سمیت مکمل کیا جائے اور اس میں کوئی اور ذائقہ شامل نہ کیا جائے۔ ‘‘
میرے نظریہ سے اگر ہم اکبر حمیدی کی اس بات کو تسلیم کر لیں تو انشائیہ کی تحریر کی شگفتگی، لطافت اور حسن اسلوب کو کھو دیں گے اسی بات کو پروفیسر سید محمد حسنین اپنی کتاب ’’انشائیہ اور انشائیے‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
’’انشائیہ میں محاضرات کا اہم مقام ہے یہ اسی قدر اہم ہے جتنی پر تکلف دسترخوان پر انواع و اقسام کی چٹنیاں۔ اس سے انشائیہ کی رنگا رنگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘
الغرض انشائیہ نگار کو اپنی تحریر میں ہر طرح کی آزادی ملنی چاہیے۔ ہر جگہ جا سکتا ہے اور سب کچھ کہہ سکتا ہے۔ یہی آزادی اسے مغرب میں ملی۔ جس کی وجہ سے اس نے وہاں بہت جلد ترقی کے منازل طے کیے۔ وہاں انشائیہ میں ایک طرح کی گفتگو ہے۔ جس میں لطف اور کشش کئی خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ زندگی کے مسائل اور مراحل پر انشائیہ نگار کے مشاہدات اور تجربات کا دلنشین اظہار ہے۔
محمد حسنین اپنی کتاب ’’انشائیہ اور انشائیے‘‘ میں انشائیہ نگاری کی انفرادیت میں بہت خوبصورت اقتباس لکھتے ہیں :
’’انشائیہ میں خیالات کی بے ترتیبی شرط ہے یہ بے ترتیبی مگر کسی میلا ٹھیلا کی کثرت و اژدہام نہیں۔ یہ بے ترتیبی نرسری اسکول کے ان خوش پوش بچوں کی بھاگ دوڑ پکڑ دھکڑ اور ہاہو کی وہ جولانی کیفیت اور ہیجان ہے جو گھنٹی بجتے ہی کلاس کے باہر برآمدہ یا صحن میں از خود قائم ہو جاتی ہے یا پھر رنگین و معطر ملبوسات میں ہنستے بولتے مرد و زن کا وہ شاداں و فرحاں مجمع ہے جو کسی مبارک تقریب میں نظر آتا ہے۔ ‘‘
بالکل اسی طرح کی مسرت اور انکشاف کا حامل ہے وزیر آغا کا انشائیہ ’’موڑ‘‘۔ اس کا ایک خوبصورت اقتباس ملاحظہ کریں :
’’میرے بائیں طرف وہ تمام منظر تھا جس سے میں ابھی ابھی گزر کر آیا تھا اور دائیں طرف نجانے کہاں سے ایک نیا اور پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت نظر ابھر آیا تھا اور ایک نگینے کی طرح شفاف چمکیلا اور دھلا دھلایا دکھائی دے رہا تھا۔ اور میں خود اس سنگم پر بیٹھا جسے اصطلاح عام میں ’’موڑ‘‘ کہتے ہیں ان دونوں مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس وقت پہلی بار مجھے موڑ کی اہمیت کا احساس ہوا اور میں مسرت اور انکشاف کی لازوال کیفیات سے چشم زدن میں گزرتا چلا گیا۔ ‘‘
وزیر آغا نے کتنی روانی اور بے باکی سے اپنے جذبات کے ہیجان کو قاری کے سامنے بیان کر دیا۔ وہ اپنے تجربات کو خوبصورت الفاظ دے کر انشائیہ نگاری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ شاید ان کی اسی خوبی کی وجہ سے انہیں انشائیہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر سلیم اختر اس بات کو نہیں مانتے۔ ان کی تصنیف ’’انشائیہ کی بنیاد‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’آج کل وزیر آغا زبردستی ہی صنف انشائیہ کے موجد بنے بیٹھے ہیں اور ان کے قصیدہ نگار بھی ان کی خوشنودی کی خاطر تاریخ ادب کے حقائق کو مسخ کرنے کی خاطر اپنے قلم سے گرد اڑا رہے ہیں۔ ‘‘
اس طرح اور کئی جگہوں پر انہوں نے وزیر آغا کو بہترین اور اول انشائیہ نگار تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ پروفیسر سید محمد حسنین بھی شاید ان سے اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’انشائیہ اور انشائیے‘‘ میں ڈاکٹر سلیم اختر کی تصنیف ’’انشائیہ کی بنیاد‘‘ کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور اپنی کتاب میں جہاں انشائیہ نگاری کے ادوار کو الف ب ج میں منقسم کیا ہے وہاں دور جیم میں وزیر آغا کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا ہے۔ اس بات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر سلیم اختر سے متفق ہیں لیکن اس بات کا کھل کر انہوں نے کبھی اظہار نہیں کیا۔ صرف کتاب کے آغاز میں ’’عرضِ حسنین‘‘ میں سرسری طور پر انہوں نے وزیر آغا کی خدمات کو ناقابل فراموش بتایا۔
اسی طرح ڈاکٹر سیدہ جعفر ایک جگہ کہتی ہیں کہ:
’’انشائیہ وہ مخصوص قسم کی تحریر ہے جس میں شخصی تجربات، تاثرات اور ذاتی رجحانات اور ان کے رد عمل کی مؤثر اور دلکش انداز میں مرقع کشی کی جاتی ہے۔ ‘‘
یہاں پر میں مشتاق یوسفی کے ایک انشائیہ کی تحریر کو یاد کرتی ہوں جس میں انہوں نے نہایت سادگی سے بہتر گہری بات کو پیش کیا تھا کہ:
’’آج مجھے شیعہ نہ ہونے کا افسوس ہے۔ ‘‘
یعنی شیعہ فرقہ ماتم کرتے کرتے اتنا ماہر ہو گیا ہے کہ جب چاہے اپنی آنکھوں میں آنسو لا سکتا ہے۔ لیکن ایک مسلک کے عقیدے اور اس کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی بات صرف انشائیہ نگاری کے دامن میں رہ کر ہی کہی جا سکتی ہے۔ دوسری اصناف سخن میں اگر ایسا کہا جائے تو سب کے گریبان چاک نظر آئیں گے۔ اس طرح کی تحریر صرف اور صرف انشائیہ نگاری کا ہی حصہ ہے۔
جمیل آذر کی تحریر کی خوبی ان کے انشائیہ ’’شاخ زیتون‘‘ میں دیکھئے:
’’میں علی الصبح دھندلکے کی چادر اوڑھ کر زیتون کے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوتا ہوں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے کیف اور اکتا دینے والے ماحول سے نکل کر طور سینا کی بے کیف وادی میں سبک خرامی کرتا ہوں۔ ‘‘
اس طرح کے الفاظ انشائیہ نگاری موتی پرونے کا کام کرتے ہیں۔ اور اپنے اختصار کے باوجود ساری کائنات کو قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بقول جے۔ بی۔ فورٹن:
’’انشائیہ نثر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے جس میں مصنف دنیا کے کسی موضوع کے باب میں اپنی ذات کا انکشاف کرتا ہے۔ ‘‘
کچھ اسی طرح کا خیال محمد حسنین آزاد کے دیباچہ میں ملتا ہے جو انہوں نے ’’نیرنگ خیال‘‘ میں لکھا تھا۔
’’زبان انگریزی بھی مضامین عاشقانہ قصہ و افسانہ اور مضامین خیالی سے مالامال ہے مگر کچھ اور ڈھنگ سے۔ اس کا اصل اصول یہ ہے کہ جو سرگزشت بیان کرے اس طرح ادا کرے کہ سامنے تصویر کھینچ دے اور نشتر اس کا دل پر کھٹکے۔ اسی واسطے خیالی پھول پتے اتنے ہی لگاتے ہیں جتنے اصل ٹہنیوں پر سجتے ہوں نہ کہ شاخ و شجر سب غائب ہو جائیں۔ فقط پتوں کا ڈھیر ہی رہ جائے۔ بیشک فن انشاء اور لطف زبان تفریح طبع کا سامان ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے انگریزی انشاء پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی میں بڑے انشاء پرداز وہی کہلاتے ہیں جن کی چشم سخن ہر بات کے قصوں پر اشارے کرتی جائے۔ ‘‘
انشائیہ اختصار کا دوسرا نام بھی ہے اور اردو ادب میں ایک شاعری ایک ایسی صنف ہے جس میں بھی دریا کو کوزہ میں سمویا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر کا ہر شعر، ہر مصرعہ اور اس کی ہر سوچ کے کئی پہلو اس کے مصرعوں میں نظر آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح انشائیہ کے چھوٹے نظر آنے والے جملے اپنے اندر سمندروں کی گہرائی، میدانوں اور ریگستانوں کی وسعت رکھتے ہیں۔ جگنو کی طرح نظر آنے والا لفظ اپنی بسیط تابناکی سے قاری کو روشنی کے بحر میں ڈبو کر چلا جاتا ہے۔
’’انشائیہ اور انفرادی سوچ‘‘ میں جمیل آزر لکھتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر صنف ادب کے کچھ مبادیات و مقتضیات ہوتے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے دوسری اصناف سے ممیز کرتے ہیں۔ مثلاً شاعری میں وزن اور آہنگ، داستان میں کہانی، ناول میں پلاٹ و کردار و کردار اور ڈرامہ اور سٹیج وغیرہ کے مقتضیات کا ہونا ضروری ہے۔ علیٰ ہذہ القیاس انشائیہ کے بھی کچھ بنیادی عناصر ہیں۔ جس طرح دیگر اصناف ادب میں سے کسی ایک کی بھی جامع و مانع تعریف نہیں ہوسکتی اسی طرح انشائیہ کی بھی قطعی تعریف مشکل ہے۔ تاہم جس طرح ہم دیگر اصناف کو دیکھتے ہی پہچان جاتے ہیں اسی طرح انشائیہ کو شناخت کرنے میں بھی بھی ہمیں کسی دقت کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن پیشتر اس کے کہ انشائیہ کی تعریف کی جائے، یہ ضروری ہے کہ اس صنف ادب کے آغاز اور ارتقاء پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے۔
سولھویں صدی کے ربع آخر میں مونتین (Montaigne) پہلا مفکر ادیب ہے جس نے اس صنف ادب کا آغاز بڑے ڈرامائی انداز سے کیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح اور ادبی تحریکات کا شرف فرانس کو حاصل ہوا اس ادبی تحریک کا شرف بھی اسی کے حصہ میں آیا۔ مونتین دنیاوی کاروبار سے سبکدوش ہو کر زندگی کے آخری ایام گوشۂ عافیت میں گزار رہا تھا۔ اسے غور و فکر کے لیے وافر وقت حاصل تھا۔ یہی غور و فکر اس کی معرکہ آراء کتاب کی اشاعت کا باعث ہوا جسے وہ ایسیز (Essais) کے نام سے معنون کرتا ہے۔ وہ اپنے قارئین کو انتباہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اس کتاب میں میرے پیش نظر شخصی اور ذاتی زندگی کے سوا کچھ نہیں۔ میں نے ایسیز (Essais) دوستوں اور عزیزوں کی تسکین اور خوشنودی طبع کے لیے لکھے ہیں تاکہ میرے مرنے کے بعد وہ مجھے یاد رکھیں۔ ‘‘ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ مونتین کے ایسیز محض شخصی اور ذاتی نہیں رہتے بلکہ وہ عام لوگوں کی دلچسپی اور مسرت کا سبب بھی بنتے ہیں گویا وہ ذاتی ہونے کے با وصف غیر ذاتی ہیں۔ ان میں فلسفیانہ فکر و ضبط کی لہریں رواں دواں ہیں وہ مختلف عنوانات سے ایسے لکھتا ہے۔ مثلاً ’’جھوٹوں پر‘‘، ’’پڑھائی پر‘‘ اور ’’سست گفتاری پر‘‘ وغیرہ پر۔ مونتین اپنی بات کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہے اور پھر دوسروں کی ذات تک پہنچ کر پوری کائنات کا احاطہ کر لیتا ہے تاہم وہ آخر میں اپنی ہی ذات میں مدغم ہو جاتا ہے وہ مشاہدے اور تجربے سے بات شروع کرتا ہے پھر اس میں افکار کا رنگ بھرتا ہے لیکن کچھ یوں کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ یہ پیرہن فکر تو اس کا اپنا ہے۔ یہی مونتین کے ایسیز کی کشش کا راز ہے۔ وہ اپنے ایک ایسے ’’گفتگو کے فن پر‘‘ میں کس بے تکلفی سے کہتا ہے کہ ’’میں ان دوستوں کی صحبت پسند کرتا ہوں وہ مجھے رگیدتے ہیں نہ کہ ان کی جو مجھ سے سہمے سہمے رہتے ہیں۔ ‘‘ یوں وہ اپنی ذات سے باہر ایک زقند سی لگاتا ہے پھر حقائق کا جائزہ لینے لگتا ہے۔ مثلاً اسی ایسے میں آگے چل کر کہتا ہے ’’پس افلاطون اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’جمہوریت‘‘ میں بیوقوفوں اور غیر مہذب لوگوں سے بحث کرنے کو منع کرتا ہے۔ ‘‘ پہلی بات سے جو اس کی ذاتی اور نجی زندگی کے بارے میں تھی آپ اتفاق کریں نہ کریں لیکن یہ ناممکن ہے کہ آپ کو دوسری بات سے اتفاق نہ ہو۔ مونتین کے ہاں ایسے ہی خیالات کے تانے بانے بنتے چلے جاتے ہیں اور قاری فلسفیانہ باتیں پسند نہ کرتے ہوئے بھی انہیں پسند کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں فلسفیانہ باریکیوں اور موشگافیاں چھوٹے چھوٹے جزیروں، مرغزاروں، وادیوں اور نخلستانوں میں ڈھل جاتی ہے جن کی صحت مند فضا میں وہ اس طرح اطمینان اور مسرت کا سانس لیتا ہے جس طرح کوئی بچہ اپنا کھویا ہوا کھلونا پا کر۔
سولہویں صدی میں ہی مونتین کے ہمعصر بیکن (Bacon) نے انگلستان میں اس صنف سخن کو اپنایا۔ بیکن نے مونتین کے ایسیز کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا اور ان سے پوری طرح مستفید بھی ہوا تھا لیکن مونتین کے برعکس وہ اپنے ایسیز کو نہ تو نجی کہتا ہے اور نہ ذاتی اور شخصی۔ بلکہ وہ انہیں افکار پریشاں (Dispersed Meditations) کا نام دیتا ہے اور یہی ایک چیز ہے جو بیکن کو مونتین سے ایک حد تک قریب لے آئی ہے وگرنہ دوسری باتوں میں وہ مونتین سے قطعاً الگ نظر آتا ہے۔ بیکن کے ہاں صرف Meditations ہیں جو شخصی اور معروضی بن جاتے ہیں۔ اس کے ہاں مونتین کی سی ذاتی اور شخصی گرم جوشی نہیں ہے۔ وہ دنیاوی ترقی و کامرانی کا راز بڑے شگفتہ انداز میں بتاتا ہے۔ اس کے برعکس مونتین دنیاوی منفعت سے بالاتر ہو کر حقیقت کا معصومانہ اظہار کرتا ہے۔ تاہم بیکن نے مونتین سے دو باتیں ضرور سیکھی ہیں۔ ایک اندازِ بیان، دوسرے غور و فکر کا گر جسے ہم فلفسیانہ انداز بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں وہ مونتین کو بہت پیچھے چھوڑ جاتا ہے کیونکہ بیکن کا انداز بیان بڑا نوکیلا، ٹھوس اور جامع ہے اور فلسفیانہ چھاپ بہت گہری ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ چیز جو مونتین کا دھوپ چھاؤں کا سا غور و فکر اور وسیع فضا کا باعث بنی تھی، بیکن کی مقبولیت کا باعث نہ بن سکی۔ بیکن قاری سے وہ رشتہ استوار نہ کرسکا جو مونتین کا ہے۔ بیکن ایک بلند پلیٹ فارم پر کھڑا محسوس ہوتا ہے اور قاری نیچے زمین پر۔ وہ ایک معلم اخلاق یا مدرس کا روپ دھار لیتا ہے اور قاری محض ایک طالب علم بن کر رہ جاتا ہے۔ مونتین کے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہے وہ ایک ایسا یار غار نظر آتا ہے جو ہاتھ پر ہاتھ مار کر گفتگو کرتا ہے۔ ’’اماں ‘‘، ’’سنو یار‘‘، ’’بھئی‘‘ اور ’’آپ‘‘ سے مخاطب ہوتا ہے۔ لیکن ان خوش گپیوں میں افلاطون اور ارسطو کو بھی موضوع سخن بنائے جاتا ہے پھر بھی بیکن نے ایسے کو کسی حد تک ایسے کے مقام پر ہی رکھا ہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے یوروپ میں نہ تو مونتین کے انداز میں ایسے لکھے گئے اور نہ بیکن کے انداز میں۔ سترہویں صدی تو بالکل بانجھ دکھائی دیتی ہے۔ البتہ ریسٹوریشن (Restoration) کے بعد ادبی، تنقیدی، فلسفیانہ، مذہبی ایسیز ضرور وجود میں آئے لیکن ان ایسیز (Essias) کو مونتین کے ایسیز سے دور کی بھی نسبت نہیں ہے پھر اٹھارویں صدی میں ایڈیسن اور اسٹیل نظر آتے ہیں جنہوں نے پیریوڈیکل ایسیز (Periodical Essays) لکھے۔ اور اس طرح انگریزی نثر میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا لطف کی بات یہ ہے کہ انہی پیریوڈیکل ایسیز کا اثر سرسید احمد خاں نے قبول کیا اور اردو میں اس قسم کے ایسیز تحریر کیے جنہیں آج ہم مضامین کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے ادب میں اس قسم کے مضامین بہت مقبول ہوئے اور اب تک سرکردہ روزناموں اور ہفتہ وار رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ انیسویں صدی میں پرسنل ایسیز (Personal Essays) کا آغاز چارلس لیمب، ہیزلیٹ، ہنٹ اور ڈیکوینسی نے کیا۔ یہی وہ صدی ہے جس میں سولہویں صدی کے ایسیز کا کسی حد تک احیا ہوا۔ چارلس لیمب نے بڑی خوبصورت پرسنل ایسیز لکھے لیکن یہ اتنے شخصی اور ذاتی ہیں کہ آپ بیتی سی بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں اس غور و فکر کی بھی کمی ہے جو مونتین کے ایسیز کا امتیازی وصف ہے۔ البتہ ہیزلٹ اور ہنٹ نے ایسیز کو اسی فارم میں پیش کیا جو مونتین نے قائم کیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی میں ایسیز کو جو عروج اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور دور میں نہیں ہوئی۔ میکس بیر بھوم چسٹرٹن، رابرٹ لینڈ، جان جے، جیروم کے جیروم اور ورجینیا وغیرہ۔ یہ سب ایسیز کے اسی فارم کو اپنائے ہوئے ہیں جو مونتین اور بیکن نے اپنایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان سب کی تکنیک ایک سی ہے جس طرح نئی نئی تکنیک سے ناول یا افسانے لکھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح ان ادیبوں نے بھی نئی نئی تکنیک سے ایسیز سپرد قلم کیے اور اس صنف ادب کو اوج ثریا تک پہنچا دیا۔
ہمارے ادب میں بظاہر ایسیز کا آغاز سرسید سے ہوتا ہے جیسا کہ اوپر اشارہ ہو چکا ہے۔ سرسید نے ایڈیسن اور اسٹیل سے متاثر ہو کر مضامین لکھنے کا آغاز کیا تھا اور ان کے پیش نظر صرف اخلاقی، مذہبی، اور سیاسی اصلاح تھی۔ چنانچہ ان کے زیر اثر دیگر اخبارات میں بھی مضامین کا سلسلہ چل نکلا حتیٰ کہ بات فکاہیات تک جا پہنچی۔ طنز و مزاح کی جو چھاپ سرسید کے ہاں ابھری تھی دوسرے مضمون نگاروں کے ہاں بڑی گہری ہوتی چلی گئی۔ بعض حضرات مضامین کے آغاز کو سرسید کے بجائے مرزا غالب کے مکاتیب سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مرزا غالب کے خطوط میں نہ صرف غیر رسمی انداز بیان ہے بلکہ طنز و مزاح، لطیفوں اور چٹکلوں کی پھلجڑیاں بھی موجود ہیں لیکن اس بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ خطوط ہیں مضامین نہیں اور ان کی فارم بھی خطوط ہی کی ہے۔
سرسید کے بعد بڑے عمدہ مضمون نگار پیدا ہوئے جن کے ہاں طنز و مزاح کی چھاپ بدرجہ اتم موجود ہے۔ مثلاً سجاد حیدر یلدرم، مرزا فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، کنہیا لال کپور، رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی وغیرہ نے بہت عمدہ مضامین لکھے جن میں طنز و مزاح کی پھلجڑی ہے۔ ان سب کا مقصد ہنسنا اور ہنسانا ہے۔ البتہ سرسید کے مضامین پڑھیں تو صاف معلوم ہو گا کہ وہ بڑی گہری منصوبہ بندی کے تحت پوری قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ ایک خطیب ہے جو بڑی روانی اور مشاقی سے اخلاقی درس دیتا ہے۔ یوں کہ کبھی ہنساتا اور کبھی چٹکیاں بھر بھر تنگ کرتا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ بزرگوں کی تصویریں اس طرح پیش کرتا ہے کہ انہیں دیکھ دیکھ کر ہم ہنستے اور قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ پطرس بخاری کبھی پیروڈی (Parody) سے اور کبھی خاکہ کشی (Caricature) سے ہماری مسرت کی حساس رگ کو بیدار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے فکر کے کسی گوشے کو بیدار نہیں کرتے۔ سائیکل کی خاکہ کشی ہو یا جغرافیہ کی مضحکہ نگاری، ان سب کے پیش نظر اصل مقصد ہنسانا ہے اور اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ پطرس بخاری اس فن میں بہت کامیاب ہیں۔ شوکت تھانوی واقعہ نگاری، خاکہ طرازی سے اور لطیفے بازی سے اپنے قاری کو ہنساتے ہیں۔ وہ بھی ہماری سوچ کو مہمیز نہیں لگاتے۔ ’’میں ایک میاں ہوں ‘‘ ایک عمدہ پیروڈی (Parody) ہے اور ’’سودیشی ریل‘‘ ایک کامیاب کیری کیچور (Caricature)۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے مضامین میں حیرت انگیز جوہر دکھائے اور ہمارے ادب میں بہت اچھے طنزیہ و مزاحیہ مضامین تخلیق کیے۔
سرسید نے ایسے کے فن کو ایڈیسن اور اسٹیل سے مستعار لیا تھا لہٰذا اس کا آغاز بھی پریوڈیکل ایسیز (Periodical Essays) سے ہوا۔ افسوس کہ سرسید اور ان کے مابعد ادیبوں میں سے کسی نے مونتین اور بیکن سے استفادہ نہیں کیا۔ اگر ان میں سے ایک بھی ان یوروپی ادیبوں کے ایسیز کی روح کو سمجھ جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آج سے کہیں پہلے اردو ایسے منصۂ شہود پر نہ آ جاتا۔ ایک جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ جن ایسیز کا آغاز مونتین سے ہوا اور جو بیسویں صدی میں ایک نیا پیکر لے کر ظہور میں آئے، وہ اخلاقی، مذہبی، سیاسی، ادبی و تنقیدی ایسیز سے بالکل مختلف ہیں۔ چنانچہ حیرت کی بات ہے کہ انگریزی زبان اپنی گیرائی اور گہرائی کے با وصف ایسے کے لیے کوئی ایسا متبادل لفظ پیش نہیں کرسکی جو مونتین، بیکن، میکس بیر بھوم اور رابرٹ لینڈ کے ایسیز کی روح کو پیش کرسکے۔ لہٰذا مختلف نوعیت کے ایسیز کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کے لیے توصیفی کلمات (Adjective) مستعمل ہو گئے۔ مثلاًPersonal Essay, Impersonal Essay, Religious Essay, Critical Essay وغیرہ۔ لیکن مونتین کے ایسیز کو نہ تو Impersonal کہیں گے اور نہ Personal، یہ تو صرف ایسے ہیں۔ اور یہ لفظ (Essais) جس کا معنی ہے کوشش (Attempt) خود اس کے موجد نے وضع کیا ہے۔ لیکن ہماری زبان اپنی کم عمری کے باوجود ایسے کا نہایت مناسب ترجمہ کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اسے ’’انشائیہ‘‘ کا نام دے دیا جو نہ صرف ایسے کا صحیح متبادل ہے بلکہ ہر اعتبار سے اس مفہوم کو واضح کرتا ہے جو مونتین کے ایسیز (Essais) کا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انشائیہ کا آغاز ہمارے ادب میں کب ہوا اور اس کی تعریف کیا ہے؟ اس ضمن میں پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہمارے ہاں ہر صنف ادب پہلے سے موجود ہو۔ اردو ادب کا ہر طالب علم اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ ہماری زبان اپنی عمر کے اعتبار سے ابھی کمسن ہے۔ لہٰذا یہ کوئی سبکی کی بات نہیں کہ ہمارے ہاں انشائیہ کی صنف جلد وجود میں نہ آسکی۔ افسانہ ہی کو لیجیے۔ یہ بیسویں صدی میں ہمارے ادب میں نمودار ہوا اور کسی قدر اوج کمال کو جاپہنچا۔ تو پھر انشائیہ اگر جلد منصۂ شہود پر نہ آیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ انشائیہ کو خواہ مخواہ غالب کے خطوط یا سرسید کے مضامین میں تلاش کرنا میرے خیال میں ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ انشائیہ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، یوروپ میں بھی بیسویں صدی میں ہی حیات نو لے کر وارد ہوا لیکن مونتین کے بعد یعنی سولہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک اس میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمارے ہمعصروں میں سے کوئی کسی صنف کا آغاز کرتا ہے تو ہمیں اس امر کو تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ تجربہ شاہد ہے کہ ہم اکثر و بیشتر ادیب کی موت کے بعد ہی اسے وہ مقام بخشتے ہیں جس کا وہ صحیح معنوں میں حقدار ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں ہم اسے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اب سوال یہ ہے کہ اردو ادب میں انشائیہ کو سب سے پہلے کس نے رائج کیا؟ یہ کام زود یا بدیر کسی نقاد کو بہرحال ضرور انجام دینا ہے بعینہ جیسے نقادان ادب نے مضمون نگاری کی ابتداء کو سرسید سے، ناول نگاری کی ابتدا کو نذیر احمد سے اور ڈرامے کی ابتدا کو امانت سے منسوب کر کے ایک تحقیقی کام انجام دیا ہے۔
اب کچھ انشائیہ کے امتیازی محاسن کے ضمن میں۔ انشائیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جیسے ہی شروع ہو قاری کو محسوس ہونے لگے کہ کسی نے ستار کے تاروں پر مضراب رکھ دی ہے۔ ستار بجتا ہے اور سامع اس کی لہروں میں گم ہو جاتا ہے۔ پر کشش لہریں کانوں کے رستے دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں اور سامع ارضی پستیوں سے اٹھ کر سماوی بلندیوں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔ ادھر ساز ختم ہوا، ادھر سامع واپس اپنے پیکر خاکی میں آ گیا۔ لیکن وہ پرواز جو اس نے اس عالم وجد (Ecstasy) میں کی تھی اسے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ وہ جب تنہائی کے لمحات میں اس کے بارے میں دوبا رہ سوچتا ہے تو بازیابی کا عمل قند مکرر کا سا لطف دیتا ہے۔ چونکہ یہ انبساط انگیز فکر کی دین ہے اس لیے اس کا اثر بھی بے پایاں ہے۔ ہم انشائیہ کی وسیع تعریف اس طرح کرسکتے ہیں کہ یہ ایک نثر پا رہ ہے جو اپنی طوالت کے اعتبار سے آدھ صفحہ سے لے کر بیس یا زیادہ سے زیادہ پچیس صفحات پر پھیلا ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ طوالت اس لطیف صنف پر اسی طرح گراں گزرتی ہے جس طرح غزل میں ضرورت سے زیادہ اشعار۔ زندگی کے کسی بھی گوشے کو بطور موضوع پیش کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ انشائیہ نگار نے اسے اپنی ذات کی گہرائیوں میں ڈوب کر محسوس کیا ہو۔ انشائیہ میں موضوعیت (Subjective) ایسے ہی ضروری ہے جیسے شعر میں وزن اور آہنگ۔ یہیں سے انشائیہ میں مصنف کی اپنی ذات شامل ہوتی ہے اور وہ ایک ایسی زقند بھرتا ہے جس کی نوعیت معروضی ہوتی ہے۔ یہ معروضی کیفیت اس کی سوچ بچار کی مرہون منت ہوتی ہے جسے بیکن ’’دھیان‘‘ (Meditation) کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ وہ جس شے کو چھوتا ہے اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے اور قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ وہ اپنی معروضی اغان (Objective Flight) کے بعد پھر اپنی ذات میں اسی طرح واپس آتا ہے جس طرح پرندہ پرواز کے بعد اپنے آشیانہ میں۔ گویا انشائیہ میں شخصی اور غیر شخصی پہلوؤں کی آویزش (Criss – Cross) ہی نہیں بلکہ انضمام (Blending) بھی ہوتا ہے۔ تاہم اس میں فلسفیانہ غور و فکر کا بوجھل پن نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً وزیر آغا کے انشائیہ ’’چوری سے یاری تک‘‘ میں ہندی اور غیر ہندی تہذیب کے اختلاط پر تفکر کی باریک اور تیز لہر رواں دواں ہے مگر ’’کاگا‘‘ کی آمد غیر ضروری متانت اور سنجیدگی کو ختم کر دیتی ہے۔ انشائیہ میں طنز و مزاح کی چاشنی تو مستحسن ہے مگر چھاپ غلط ہے۔ انشائیہ میں طنز و مزاح کے عناصر رچ بس جانے چاہییں یا بہ الفاظ دیگر یہ کیفیت داخلی ہو خارجی نہ ہو۔ کیونکہ غالباً اسی ایک خصوصیت سے بعض حضرات دھوکا کھا جاتے ہیں۔ بس ہلکا ہلکا زیر لب تبسم یا قلب و ذہن میں انبساط کی لہر اور کشادگی کا اس کا احساس جس طرح کسی ساز کو سن کر ہوتا ہے۔ کیونکہ مزاح یہاں صرف پس منظر (Backgroung) میں دھیمے دھیمے تال سر کا کام کرتا ہے۔ نہ کہ مقصود بالذات کوئی چیز بن کر۔ انشائیہ میں انداز بیان غیر رسمی ہونے کے با وصف جاذب اور دلفریب ہوتا ہے۔ اس صنف ادب میں نکھرا ہوا سا اسلوب، جچے تلے اور ترشے ترشائے جملے، چبھتے ہوئے برمحل اور خیال افروز الفاظ اس طرح استعمال ہوتے ہیں کہ ہر لفظ اور جملہ مصنف کی ذات کے گوشوں کو مدھم مدھم سی روشنی عطا کرتا چلاجاتا ہے۔ غیر رسمی انداز بیان کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ زبان سپاٹ ہو یا عامیانہ الفاظ کا استعمال ہو۔ اگر گھٹیا اور گھسے پٹے الفاظ استعمال کیے گئے تو بازاری پن اور پھکڑ پن کے سوا اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا جو انشائیہ کی روح کے سراسر منافی ہے۔ انشائیہ میں نہ تو مقالے کی ثقالت ہونی چاہیے اور نہ طنز و مزاح کی وہ کیفیت جس میں چٹکلے، لطیفے اور لفظوں کا الٹ پھیر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظوں کا الٹ پھیر جسے انگریزی میں Pun کہتے ہیں انشائیہ کے مزاج سے ہرگز لگا نہیں کھاتا۔ اس کے آبگینے اتنے نازک اور لطیف ہوتے ہیں کہ تھوڑی سی ناموافق شے بھی اس پر گراں گزرتی ہے۔ انداز بیان کی اہمیت کے بارے میں ورجینیا وولف رقمطراز ہے:
” He must know, that is the first essential, how to write.”
اپنے اس مخصوص مزاج کی بنا پر انشائیہ ایک لطیف صنف ادب ہے کیونکہ اس میں غزل کا سا ایجاز، افسانے کا سا تاثر، ناول کا سا فلسفہ حیات اور ڈرامے کے سے انتظاریہ لمحات اور ان کے پس منظر میں شگفتگی کی دھیمی دھیمی سمفنی (Symphony) ہوتی ہے اور ان سب پر مستزاد انکشاف ذات کا عمل جو خاص انشائیہ کے لیے مختص ہے۔ یہی وہ مقتضیات ہیں جن کا انشائیہ میں ہونا ضروری ہے۔
اب سوچئے کہ بیسویں صدی میں انشائیہ کو فروغ کیوں حاصل ہوا۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ناگزیر ہے۔ بیسویں صدی گوناگوں مسائل اور حالات سے دوچار ہے۔ یہ دور اتنا پیچیدہ اور مرکب ہے کہ اس میں فرد سوسائٹی سے تو کٹ گیا ہے مگر زندگی سے بدستور چمٹا ہوا ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ فرد کی یہی تنہائی اسے کنج ذات میں لے جانے کا باعث بنی ہے۔ لیکن یہ پیچیدہ اور الجھا ہوا دور اسے زیادہ دیر تک گوشۂ خلوت میں نہیں رہنے دیتا۔ چنانچہ یہیں سے ذات اور غیر ذات کا تصادم شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ دور اپنے ماسابقہ ادوار کی بہ نسبت زیادہ مہذب اور شائستہ ہے۔ چونکہ شعر انسان کے جذبے کی پیداوار ہے اور جذبہ مہذب نہیں ہوتا۔ اور نثر انسان کے اس دور کی پیداوار ہے جب اس کے جذبات کی تہذیب ہونے لگی تھی، اس لیے بیسویں صدی کے مہذب دور میں کسی ایسی صنف ادب کا پیدا ہونا جو ہماری دونوں وجدانی حالتوں کی تسکین کرتی ہو فطری اور لا ابدی امر تھا۔ انشائیہ ہماری انہی وجدانی حالتوں کی تسکین کرتا ہے کیونکہ یہ بیک وقت نثر بھی ہے اور نظم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ میں رمز و ایمائیت اور امیجری اسی طرح استعمال ہوتی ہے جس طرح جدید نظم میں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس طرح ہم جدید نظم کو بار بار پڑھ پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں بعینہ انشائیہ کی پرتیں بھی بار بار پڑھنے سے ہی کھلتی ہیں اور اس سے ہم مختلف سطحوں پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ دونوں اصناف ایک ہیں۔ ان دونوں اصناف میں فارم اور مواد بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور دونوں کی پیشکش بھی مختلف ہے۔ رمز و ایمائیت اور امیجری تو صرف حربے ہیں۔ شاید ہی کوئی فنکار زندگی سے اس قدر قریب اور زندگی سے اس قدر وابستہ ہو جتنا انشائیہ نگار۔ انشائیہ نگار زندگی کے ساتھ یوں چمٹا ہوتا ہے جیسے بیل کسی درخت کے گرد لپٹی ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے کو پیار کرتا ہے جس طرح باپ اپنے سب بچوں سے خواہ کوئی بچہ خوبصورت ہو یا بدصورت، شریف ہو یا بدمعاش۔ مثلاً وہ صرف سچائی ہی سے دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ جھوٹ کے وجود کو بھی محبت سے برداشت کرتا ہے۔ عالی حوصلگی اور بلند ہمتی کو ہی سنگھاسن پر نہیں بٹھاتا بلکہ کم ہمتی اور پست حوصلگی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ خوش بختی کو ہی اونچا نہیں سمجھتا بلکہ بد بختی کو بھی سراہتا ہے۔ دیکھئے جان جے کس خوبصورتی سے ان دونوں کی تعریف کرتا ہے:
’’خوش بختی ایک نٹ کھٹ دوشیزہ ہے جس کے لیے کسی ایک جگہ رکنا ممکن ہی نہیں۔ وہ کرسی کی پشت سے تمہارے بالوں کو انگلیوں سے چھیڑتی ہے۔ تمہارے ہونٹوں پر ایک اڑتا ہوا بوسہ ثبت کرتی ہے اور پھر شرما کر کھلکھلاتی ہوئی بھاگ جاتی ہے لیکن بد بختی بڑے وقار کے ساتھ تمہاری جانب آتی ہے۔ تمہارے بستر پر اطمینان سے بیٹھ جاتی ہے اور پھر اون کی سلائیوں سے تمہارے لیے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سوئٹر بننے لگتی ہے۔ ‘‘
انشائیہ نگار کے نزدیک زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلو جاذب نظر ہیں اور وہ ان دونوں کو ایک نئے زاوئیے سے پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پرکھ میں اس کی ذات کا جو انکشاف ہوتا ہے وہی دراصل انشائیہ کا سب سے قیمتی عنصر ہے۔ ‘‘
انشائیہ ہر شخص کی اپنی ذاتی سوچ پر مبنی ہوتا ہے۔ جمیل آذر اپنی کتاب ’’انشائیہ اور انفرادی سوچ‘‘ میں کہتے ہیں :
’’ادب کی ہر صنف زمانے کے تابع ہے اور زمانہ ساکت و جامد نہیں۔ یہ ہر دم رواں پیہم دواں ہے۔ نیرنگیِ وست کے ساتھ کوئی صنف ادب دم توڑ دیتی ہے اور کوئی عالم وجود میں آ کر اپنا سکہ بٹھا لیتی ہے۔ جب دور شہنشاہیت تھا تو شعرائے کرام دربار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پر شکوہ قصیدے لکھا کرتے تھے اور اپنے فن کا مظاہرہ کر کے نہ صرف داد سخن پاتے بلکہ اپنا منہ موتیوں سے بھی بھر لاتے۔ لیکن وقت نے کروٹ لی اور شہنشاہیت نے اپنی بساط لپیٹی اور اس کے ساتھ ہی فن قصیدہ گوئی دنیائے ادب سے رخصت ہوا۔ اب کوئی شاعر حاکم وقت کی مدح سرائی میں قصیدہ لکھتا ہے تو اسے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ قصیدے کی طرح داستان گوئی کا رواج بھی اب نہیں۔ ایک وقت تھا زندگی ٹھہری ہوئی تھی لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی تھی۔ رات گئے تک لوگ داستانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اب وہ وقت ہے اور نہ داستان گوئی۔ یہ سب ٹھہرے ہوئے معاشرے کی اصناف ادب تھیں جو اب تاریخ کا قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہیں۔
عالمی جنگ اول اور جنگ دوم کے بعد سانئس اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز انقلاب آیا اور اس کے ساتھ ہی کاروان حیات کلی طور پر جدید دور میں داخل ہو گیا۔ زندگی کی رفتار بیل گاڑی اور گھوڑا گاڑی سے نکل کر ریل گاڑی اور ہوائی جہاز کے ساتھ قدم ملانے لگی۔ اس تیز رفتاری کے ساتھ وقت کی قلت اور عدیم الفرصتی کا احساس ہونے لگا، داستان کی جگہ ناول نگاری نے لی اور پھر اس کے ساتھ ہی افسانہ نگاری نے جنم لیا۔ افسانہ نگاری کے ارتقاء میں جہاں اور بہت سے عوامل ہیں وہاں وقت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ بیان کرنے کے رجحان نے افسانہ نگاری کو خاصا عروج بخشا۔ یہی خوبی غزل کی ہے جو تا حال وقت کے ساتھ چل رہی ہے۔ اس صنف سخن کی مخالفت کے باوجود اس کی پذیرائی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ اپنے مخصوص اختصار، ایجاز، مزاج اور تاثر کے اعتبار سے اس برق رفتار دور کا ساتھ بطریق احسن دے رہی ہے۔ مجھے یہاں ہر صنف ادب کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وقت اور صنف ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی صنف اظہار نہ تو بے وقت جنم لیتی ہے اور نہ زندہ رہتی ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو انشائیہ اپنے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر معرض وجود میں آیا ہے۔ دور شہنشاہیت یا غیر جمہوری دور میں انشائیہ کے وجود میں آنے اور فروغ پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا قطع نظر کسی انفرادی مثال کے۔ انشائیہ صرف جمہوری ماحول ہی میں پرورش پا سکتا ہے، چونکہ جمہوری ماحول میں انفرادی سوچ، انفرادی رویہ اور انفرادی مشاہدہ مطالعہ پنپتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ (Light Essais) نے جتنا فرانس، انگلینڈ اور امریکہ میں فروغ پایا اتنا کسی اور ملک میں پھل پھول نہ سکا۔ انشائیے نے پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد اس سرزمین پر اپنا وجود تسلیم کروایا۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر جمہوریت کی پیداوار ہے اور یہاں کے افراد بنیادی طور پر جمہوری اقدار کے حامل ہیں۔
ہم کسی صنف کو اس کی قوم کے مزاج سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔ چونکہ آزادی فکر ہمارے مزاج میں ہے اس لیے انشائیہ کا پاکستان میں نشو نما پانا بالکل فطری امر تھا۔ لہٰذا گزشتہ بیس سالوں میں اس صنف ادب نے حیرت انگیز ترقی کا مظاہرہ کیا۔ انشائیہ اپنے مزاج، اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے انفرادی سوچ کا محرک ہی نہیں بلکہ مظہر بھی ہے۔ ہمارے ہاں سوچ کا اجتماعی اسلوب ہمیشہ سے فعال رہا ہے چنانچہ محاورے اور ضرب الامثال جو ایک طرح کی (Wisdom Capsules) ہمارے ہاں زیادہ مقبول رہی ہیں۔ اس طرح ہم نے باہر سے بنے بنائے نظریات اور امثال فکر (Thought Patterns) قبول کر لیے ہیں اور ہماری سوچ کھائیوں میں چل رہی ہے۔ اس سے تقلیدی روش عام ہوئی ہے اور تخلیقی اپج کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ انشائیہ کی اہمیت اور وصف خاص اس بات میں ہے کہ اس نے بنے بنائے فکری سانچہ سے ہٹ کر شخصی سطح پر سوچ کی انفرادیت کا مظاہرہ کیا۔ یوں ایک طرف تو اس نے تسلیم شدہ حب دانش (Wisdom Capsule) کو تشکک کی نظروں سے دیکھا ہے تو دوسری طرف بظاہر معمولی اور سامنے کی اشیاء اور باتوں کو نئی معنویت عطا کی ہے۔ انشائیہ ہماری فکری رویہ کو اس قدر متاثر کر رہا ہے کہ بالآخر یہ ہماری دوسری اصناف میں خون کی کمی کے عارضے کو ختم کرنے کا موجب ثابت ہو گا۔
انشائیہ نگار بنیادی طور پر منفرد رویہ، منفرد مزاج اور منفرد سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کبھی تو اشیاء اور مظاہر کو صوفی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کبھی فلاسفر کے سبھاؤ میں ان پر گہری نظر ڈالتا ہے۔ کبھی وہ جمالیاتی فکر میں ڈوب کر زندگی کے مختلف گوشوں میں حسن و رعنائی تلاش کرتا ہے۔ کبھی اپنے مثبت رویہ اور عارفانہ بصیرت سے زندگی کی تلخیوں، پریشانیوں اور دشوار راہوں کو آسان اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔ انشائیہ اپنے مزاج میں سب کچھ ہوسکتا ہے مگر قنوطی ہرگز نہیں۔ قنوطی ذہن کا حامل فرد نہ تو انشائیہ کو سمجھ سکتا ہے اور نہ انشائیہ تخلیق کرسکتا ہے۔ انشائیہ کے لیے غیر متعصب ذہن ہی درکار نہیں بلکہ آزاد منش (Liberal Minded) ہونا بھی ضروری ہے۔ انشائیہ زندگی کے بندھے ٹکے نمونوں، اصولوں اور مقرر راستوں سے ہٹ کر نئے پیکروں اور تمثیلوں کو تخلیق کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انشائیہ نگار اپنا انشائیہ تخلیق کرتا ہے تو وہ زندگی کو از سر نو تخلیق کرتا ہے۔ تخلیق کا یہ عمل دلکش بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ انشائیہ میں خاص نکتہ یہ ہے کہ یہ اجتماعی بنی بنائی سوچ کے سانچے کے برعکس شخصی سطح کی سوچ کو بروئے کار لا کر مظاہر حیات کے نئے گوشے، نئے پہلو اور نئے معانی پیش کرتا ہے۔ مثلاً اگر کلیہ یہ ہے کہ عالم کی فراست (Wisdom of the Learned) انسان کا قیمتی سرمایہ ہے تو انشائیہ نگار اپنی فکری بصیرت سے عالم کی جہالت (Ignorence of the Learned) کو موضوع بنا کر تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا ہے۔ یاد رہے کہ وہ ہر بار مخالف رخ ہی پیش نہیں کرتا۔ بعض اوقات مروج سوچ کے سانچے کو نئے زاوئیے سے پیش کر کے اس کی دلکش توسیع کا بھی اس طور سے اہتمام کرتا ہے کہ اس میں تازگی اور نکھار ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ زیادہ نمایاں اور ممتاز ہو جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ شاہراہ پر سفر کرتے کرتے اچانک شاہراہ کو چھوڑ کر ایک ضمنی راستہ (By Pass) اختیار کر لیں اور قوس میں سفر کر کے دوبارہ شاہراہ پر آ جائیں اس طور کہ دیکھنے والوں کو محسوس یہ ہو کہ ضمنی راستہ کے شامل ہو جانے سے شاہراہ مزید کشادہ ہو گئی ہے۔ انشائیہ نگار ہمیں وسعت آشنا کرتا ہے۔ وہ ایک مدار سے نکال کر ہمیں نئے مدار میں لاتا ہے۔ یہاں بے ساختہ وزیر آغا کا خوبصورت انشائیہ ’’چرواہا‘‘ یاد آ گیا جو شعور کو نئے مدار میں پہنچانے کی عمدہ مثال ہے۔ اس انشائیہ سے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’چرواہے کی چھڑی دراصل ہوا کا ایک جھونکا ہے اور ہوا کے جھونکے کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اسے دیکھنا بھی ممکن نہیں۔ البتہ جب وہ آپ کے بدن کو مس کرتے ہوئے گزرتا ہے تو آپ اس کے وجود سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وجود سے ہی نہیں آپ اس کی صفات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہر جھونکا ایک پیغامبر ہے۔ وہ ایک جگہ کی خوشبو دوسرے جگہ پہنچاتا ہے۔ یہی کام چرواہے کا بھی ہے۔ تمام لوک گیت چرواہوں کی زبان پر لرزتے، ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘
اسی انشائیے کا ایک دوسرا اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں :
’’میں تو صرف ان چرواہوں کا ذکر چاہتا ہوں جو مویشیوں کے ریوڑ چرتے چراتے ایک روز انسانوں کے ریوڑ چلانے لگتے ہیں۔ تب ان کی چھڑی عصا میں بدل جاتی ہے۔ ہم پر اسم اعظم تھرکنے لگتا ہے۔ وہ انسانی ریوڑوں کو پہاڑوں کی چوٹی پر لا کر یا صحرا کے سینے میں اتار کر یا دریا کے کنارے پر بکھیر کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ریوڑ اپنے کہنگی اور یبوست کو گندی اون کی طرح اپنے جسموں سے اتار پھینکیں۔ ‘‘
اس انشائیے کی کئی پرتیں اور تہیں ہیں۔ ہر پرت ہمیں ایک مدار سے نکال کر دوسرے مدار میں لے جاتی ہے۔ وہ چرواہے سے بات کا آغاز کرتے ہیں پھر اچانک ایک زقند کے ساتھ وہ ہمیں ان چرواہوں تک لے جاتے ہیں جو ہماری لوک ثقافت کے امین ہیں پھر وہ ہمیں ایک اور ذہنی اڑان عطا کرتے ہیں اور ان چرواہوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ہماری روحانی اور تہذیبی اقدار کے امین ہیں اور جو خود ’’تسبیح کے دانوں کی طرح پوری کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔ ‘‘
یہ انشائیہ مروجہ سوچ کے مدار سے نکل کر دوسرے مدار میں پہنچنے کی خوبصورت تصویر پیش کرتا ہے۔ اس انشائیہ میں وہ موضوع کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ پھر گریز اور واپسی کے عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسا خوبصورت انشائیہ وہی شخص لکھ سکتا ہے جس کا مشاہدہ تیز، مطالعہ گہرا اور ذہن طباع ہو۔
انشائیہ نگار کے فن کا مظاہرہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب وہ اجتماعی مروجہ سوچ سے ہٹ کر اپنی انفرادی سوچ سے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر زندگی میں عام رویہ گالی دینے کے خلاف ہے۔ ہم اس فعل کو اپنی سماجی زندگی میں نہایت معیوب اور اخلاق سوز تصور کرتے ہیں اور ایسا تصور کرنا بھی چاہیے کیونکہ یہ ہماری تہذیبی، معاشرتی اور تمدنی زندگی کے خلاف ہے۔ لیکن جب گالی دینے کا عمل انشائیہ نگار کی انفرادی فکر کی زد میں آتا ہے تو اس کی قلب ماہئیت ہو جاتی ہے۔ وہ اسے نفسیاتی کیفیت قرار دے کر یوں پیش کرتا ہے۔
’’گالی کے قومی فوائد کا ابھی میں نے ذکر نہیں کیا۔ جس طرح پردے کے کچھ قومی فوائد ہیں، مثلاً آدمی بد صورت عورتیں دیکھنے سے بچ جاتا ہے۔ اگر گالیاں عام ہو جائیں تو پاگل خانہ کی بنیاد میں خلل پیدا ہو جائے۔ مزید برآں گالی دینے سے جمہوریت کو فروغ ملتا ہے۔ آمریت صرف اسی دور میں پنپ سکتی ہے جب گالیوں کا قد غن لگا دی جائے۔ اس لیے ایک اچھے جمہوری نظام میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ اسمبلی کی کاروائی میں نکتہ اعتراض کا آغاز اور انجام گالی پر ہوتا ہے۔ اقتصادی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے گالی کا وجود ناگزیر ہے۔ جب مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جائے تو آدمی اسی تناسب سے گالیوں میں اضافہ کرتا جائے۔ ‘‘
آپ نے غور فرمایا کہ گالی جیسی مکروہ چیز کو انشائیہ نگار نے اپنے منفرد زاویۂ فکر سے Psychia (دماغی امراض کے علاج) کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ منفرد سوچ اور رویہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انشائیہ نگار نے زندگی کے مروجہ سانچے سے ہٹ کر ایک نیا سانچا ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ غلام جیلانی اصغر کا یہ انشائیہ اپنی ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے نہ صرف منفرد ہے بلکہ تازگی و توانائی سے بھرپور ہے۔
انشائیہ نگار کبھی اشیا، مظاہر فطرت اور افراد کو عارفانہ نظر (Mystic Vision) سے دیکھتا ہے۔ یہ رویہ بھی اس کی سوچ کے انفرادی سطح کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خوبصورت مثال ہمیں وزیر آغا کے انشائیہ ’’بارہویں کھلاڑی‘‘ میں ملتی ہے۔ کرکٹ کی ٹیم میں بارہواں کھلاڑی کسی آڑے وقت کے لیے وقف ہوتا ہے۔ لیکن انشائیہ نگار جب اسے عارفانہ بصیرت سے دیکھتا ہے تو اس کھلاڑی کی قلب ماہئیت کچھ اس طرح ہو جاتی ہے:
’’بارہواں کھلاڑی ایسا ہی سچا صوفی ہے۔ وہ بیک وقت اپنی ٹیم سے منسلک بھی ہے اور جدا بھی۔ وہ میدان میں پہلی کے چاند کی طرح آتا ہے جو دوسرے ہی لمحے رخصت بھی ہو جاتا ہے۔ وہ کرکٹ کے کھیل کا نباض، مفسر، کارکن اور جاسوس ہونے کے باوجود اپنے دامن کو تر ہونے نہیں دیتا۔ ہونٹوں پر ایک عارفانہ مسکراہٹ سجائے وہ قلب مطمئنہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ‘‘
آپ نے دیکھا انشائیہ نگار کی نظر کرکٹ کی ٹیم کے اس کھلاڑی پر مرکوز ہو جاتی ہے جسے عام تماشائی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے لیکن انشائیہ نگار کی انفرادی نظر نے اسے ہی فوکس میں لیا۔ اس انشائیہ میں بارہواں کھلاڑی ایک کلچر ہیرو کے روپ میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہی انشائیہ نویس کا کمال ہے کہ وہ ہمیں انبوہ کثیر میں سے چند ایسے چبھتے ہوئے مناظر دکھاتا ہے کہ ایک طرف ہماری بصیرت وسعت آشنا ہو جاتی ہے تو دوسری طرف ہمیں حیرت و مسرت سے ہمکنار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔
انفرادی سطح کی سوچ کی ایک عمدہ مثال ہمیں ڈاکٹر انور سدید کے دلکش انشائیہ ’’دسمبر‘‘ میں ملتی ہے۔ عام طور پر دسمبر کا مہینہ سردی کے آغاز کا مہینہ سمجھا جاتا ہے اور یہی اجتماعی خیال یا رائے بھی ہے۔ لیکن انشائیہ نگار اجتماعی روش سے ہٹ کر اپنی انفرادی فکر کو بروئے کار لا کر اسے مشخص (Personal) کر کے مردانہ پن کی علامت قرار دیتا ہے اور اسے نہایت تزک و احتشام سے اپنے ڈرائنگ روم میں وارد ہوتے ہوئے دکھاتا ہے۔
’’دسمبر آتا ہے تو کسی مہمان کی طرح کال بیل (Call Bell) بجا کر اپنی آمد کا اعلان نہیں کرتا بلکہ ایک شریر بچے کی طرح پائیں باغ کی دیوار پھاند کر پہلے گھر کے صحن میں آتا ہے۔ پھر برآمدے میں پلاسٹک سے بنی ہوئی کرسی پر اکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری بیوی اس کے مخصوص قدموں کی چاپ سے پہچانتی ہے۔ وہ جلدی سے آتش دان میں آگ جلا کر کرسیوں کو اس کے گرد نصف دائرے میں ڈال دیتی ہے۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی میز رکھ دیتی ہے۔ اس میز پر بھاپ اگلتی نو بیاہتا لیڈی لپٹن، ٹی کوزی کا گھونگھٹ اوڑھے ہمہ تن اشتیاق بن منتظر ہوتی ہے۔ سامنے چاندی کی چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں پستہ، بادام اور کشمش آ جاتے ہیں۔ ہم سب افراد خانہ جو گزشتہ گرمیوں میں جزواً جزواً اکائیوں میں بٹ گئے تھے اب ایک دوسرے کے اتنے قریب آ جاتے ہیں جیسے کٹی ہوئی پھانکیں دوبارہ تربوز میں سما گئی ہوں۔ ‘‘
ملاحظہ کیجیے کہ دسمبر کس طرح بے تکلف دوست کی طرح انشائیہ نگار کے برآمدے میں براجمان ہوتا ہے اور پستہ بادام، کشمش اور چائے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ انشائیہ ہمیں کیٹس (Keats) کی شہرۂ آفاق نظم خزاں (Ode to Autumn) کی یاد دلاتا ہے۔ جس طرح کیٹس موسم خزاں کو کھیتوں میں، کھلیانوں میں، انگوروں کے رس نکلنے کے عمل میں اور شیریں پکے پھلوں میں مشخص صورت میں دکھاتا ہے اسی طرح انور موسم سرما کو دسمبر کا نام دے کر مشخص صورت میں پستہ و بادام میں چائے کے گرم گرم گھونٹ میں دہکتے کوئلوں کی تمازت و حرارت میں دکھاتا ہے۔ دسمبر کو انشائیہ نگار نے واضح طور پر اپنے ذہن میں تشکیل کیا اور اپنی رگ رگ میں محسوس کر کے اس کے حسن و رعنائی سے لطف اندوز ہی نہیں ہوا بلکہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا۔ یہی انشائیہ نویس کی سوچ کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ بیجا نہ ہو گا اگر اردو انشائیہ نگاروں کے انشائیوں میں سے کچھ نمونے یہاں پیش کر دوں جس سے ایک طرف تو ان کی انفرادی سوچ کی غمازی ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح انشائیہ نگار موضوع کا نیا رخ پیش کرتا ہے اور وہ کس طرح مروجہ اجتماعی فکری سانچے سے ہٹ کر انفرادی فکری سانچا پیش کرتا ہے۔
’’فٹ نوٹ پر حقارت کی نظر نہ ڈالیے نہ جانے کب کاگ اڑے، کب اس بوتل میں بند جن باہر آئے۔ متن کے زیر سایہ بظاہر بے ضرر سا، پاؤں سمیٹے فٹ نوٹ چھلاوے کے تمام اوصاف حسنہ رکھتا ہے۔ اس میں بلا کی قوت نمود و بالیدگی ہوتی ہے۔ بڑھتے بڑھتے وہ متن پر امر بیل کی طرح چھاجاتا ہے۔ ‘‘
’’بے ترتیبی زندگی میں ترتیب کا شعور عطا کرتی ہے۔ میں کتنے لوگوں کو روزانہ حواس باختہ دیکھتا ہوں۔ ان کی کوئی چول بھی سیدھی نظر نہیں آتی لیکن جب ان کے گھر جائیے تو حیرت میں پڑ جائیے
’’پوسٹ کارڈ بہت مسکین طبیعت کا مالک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اسے شرارت سوجھ جاتی ہے۔ پھر وہ سفر کرنے کی سوچتا ہے اور میز پر سے کھسک کر دوسرے تھیلے میں چلا جاتا ہے۔ ‘‘
’’دھوتی غالباً واحد لباس ہے جس کا نہیں الٹا سیدھا۔ آپ آنکھیں موند کر خود اعتمادی سے اس کے حلقہ بگوش ہو جائیں آپ پر نہ ہی کسی کی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کسی کا نشانہ تضحیک ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ کسی دوسرے لباس کو الٹا پہن کر ہونا پڑتا ہے۔ ‘‘
’’اگر آپ کو کبھی کمبل اوڑھنے کا تجربہ ہوا ہے (اور مشرق میں یہ تجربہ ناگزیر ہے) تو آپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ پہلی نظر میں بالکل غیر ارادی طور پر کمبل میں لپٹے ہوئے شخص پر ایک ایسے قلعہ بند جنرل کا گمان ہوتا ہے جس کے سپاہی عین معرکہ میں تنخواہیں وصول کرنے چلے گئے ہوں اور جو تن تنہا فصیل کا دفاع کرنے میں مشغول ہو۔ ‘‘
’’ہر دکاندار ’مکڑی‘ کی طرح اشیاء کا جال پھیلا کر اس کے عین درمیان مجسم آنکھ بنا آنے والے کا انتظار کرتا ہے اور جب آنے والا ایک بار قریب آ جاتا ہے تو پھر اس کی چکنی چپڑی باتوں کے جال سے باہر نہیں جا سکتا۔ ‘‘
’’دور اندیشی دراصل ہوا سے لڑنے کا نام ہے۔ اس ہوا سے جس کا رخ ابھی متعین نہیں ہوا۔ ‘‘
’’بد صورتی آپ کو دعوت فکر دیتی ہے اور آپ کی سوچ کے لیے نئی نئی راہیں کھول دیتی ہے جبکہ خوبصورت آپ کو اپنی خوشبو کے حصار میں قید کر لیتی ہے۔ ‘‘
’’میں عنقریب عمر کے اس اتصال پر پہنچنے والا ہوں جہاں دونوں وقت گلے ملتے ہیں۔ گویا آئندہ چند سالوں میں میں اس عالم برزخ میں پہنچ جاؤں گا جس کے ایک جانب جوانی کی جنت اور دوسری جانب بڑھاپے کا دوزخ ہو گا۔ جہاں نوجوان مجھے بزرگ سمجھ کر مجھ سے شرمائیں گے اور بزرگ مجھے نوجوان جان کر مجھ سے کترائیں گے اور میں ایک کٹی پتنگ کی طرح اس عالم رنگ و بو میں ڈولتا پھروں گا۔ ‘‘
’’میری نگاہ سے دیکھا جائے تو ارض و سما کی ہر جاندار اور بے جان شے ایش ٹرے کا روپ دھارے ہوئے ہے یا کم از کم اس سے تعلق خاص رکھنے کی بناء پر زندہ جاوید ہو کر رہ گئی ہے۔ انسان ہی لیجیے ایک اچھی بھلی ایش ٹرے ہے جس کے ظرف میں عمر کا ہاتھ ماہ و سال کی راکھ سانس کی صورت میں گراتا رہتا ہے گویا انسان ایک چلتی پھرتی متحرک ایش ٹرے ہے جو راکھ کے دم قدم سے زندہ ہے۔ ‘‘
انگریزی ادب تو انشائیوں سے مالامال ہے۔ وہاں تو انفرادی رویہ ہی انشائیوں کی روح ہے۔ لی ہنٹ (Leigh Hunt) اپنے معرکہ آراء انشائیہ دریچہ (Window) میں ایسی خوبصورت فکری لہریں پیش کرتا ہے کہ قاری ارضی پستیوں سے بلند ہو کر آسمانوں رفعتوں کو چھونے لگتا ہے۔ اپنے انفرادی رویہ کے تحت وہ قطرے میں کائنات کبریٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اور دریچے کو اپنے کے لیے ایک تصویر کے فریم سے مشابہت دے کر اس میں چلتی پھرتی تصویروں کا نظا رہ کرتا ہے۔ دریچہ اس کے لیے ایک ایسا تصویری فریم ہے جس میں وہ کبھی اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتا ہے، کبھی بادلوں کے بجروں کو آسمانوں پر تیرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مصنف کی انفرادی سوچ نے دریچہ کو اس کے لیے جہان معنی کا استعا رہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح اے۔ پی۔ ہربرٹ (A.P. Herbert) اپنے ایک لطیف انشائیہ باتھ روم کے بارے میں (About Bathroom) میں ایسے غسل خانہ کا تصور پیش کرتا ہے کہ جس میں وہ نہ صرف نہا سکے بلکہ ورزش بھی کرسکے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایسی تصویریں بھی اس میں آویزاں کرنا چاہتا ہے جن میں فوجی دستوں کو خندقوں کی طرف بھاگتا ہوا، بارش میں بھیگتے قطار میں کھڑے بس کا انتظار کرتے ہوئے لوگ اور ہوائیں چلتی ہوئی برف باری کے مناظر ہوں کیونکہ اس کے نزدیک ایسے ہی غسل خانے میں غسل کرنے کا مزا آتا ہے۔
انشائیہ نگار ایک ذی فہم تماشائی اور حساس دل کا مالک ہوتا ہے۔ وہ زندگی کا تماشا کھلے ذہن اور روشن آنکھ سے کرتا ہے۔ وہ روزمرہ کے معمولات میں غیر معمولی بات اور پیش پا افتادہ اشیا میں چھپا ہوا انوکھا پہلو پالیتا ہے۔ انشائیہ نگار عام لوگوں سے اس لیے مختلف ہوتا ہے کہ عام لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی آنکھ کے لینز (Lens) کو کیمرہ مین کی طرح استعمال نہیں کرتے جبکہ انشائیہ نگار اپنی آنکھ کے لینز کو کیمرہ مین کی طرح استعمال کرتا ہے اور یوں وہ زندگی کا مشاہدہ، مطالعہ، تجزیہ، ترجمانی اور عکاسی اپنی شخصی سطح کی سوچ کے مطابق کرتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح وہ چرواہے میں پیغمبرانہ صفات کا دیدار کرتا ہے، گالی میں دافع امراض عناصر تلاش کرتا ہے۔ دسمبر کے مہینہ میں بے تکلف دوست کو جلوہ نما دیکھتا ہے۔ یوں وہ اپنی انوکھی سوچ اور حیرت و تجسس سے مملو روشن آنکھ سے زندگی کی بوقلمونی کا نظا رہ کرتا ہے۔ انشائیہ نگار روزانہ ملنے والے دوستوں میں، معمول میں آئی ہوئی اشیا میں، روزمرہ کی عادات میں، ماضی کے گزرے ہوئے حادثات و واقعات میں، حال کے خلفشار میں اور مستقبل کے سنہری خواب میں اپنی فکری بصیرت کو بروئے کار لا کر نئے دلآویز پہلو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اس طرح وہ ہمیں ذہنی آسودگی (Intellence Relief) عطا کرتا ہے۔ شاعری کا مزاجی قرب جذبے اور خلوص کی صداقت سے حاصل ہوتا ہے اس لیے شاعری ہمیں جذباتی آسودگی (Emotional Relief) عطا کرتی ہے۔ اور ہم اس شاعری سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو ہمارے جذبہ و احساس کی تسکین کرتی ہے۔ شاعری کے علی الرغم انشائیہ کی واردات زیادہ تر ذہنی ہوتی ہے۔ وہ ہمیں ذہنی آسودگی بخشتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جذبات سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ یہاں جذبہ زیریں سطح میں چلا جاتا ہے اور بالائی سطح پر فکر کی ضو فشانی ہوتی ہے۔ یوں ہمیں انشائیہ جمالیاتی حظ پر بہم پہنچاتا ہے اور ذہنی آسودگی بھی۔ انشائیے کی اس خصوصیت کے پیش نظر ڈاکٹر جانسن نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ A Loose Sally of Mind یعنی ذہن کی آوا رہ خرامی ہے۔ ہماری فکر کو جتنی آزادی اس صنف ادب میں ملتی ہے شاید ہی کسی اور صنف اظہار میں ملتی ہو۔ ‘‘
بہت حد تک تو یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انشائیہ شروع ہی سے اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اب ہم اس فرق کو مزید جاننے کی کوشش کریں گے۔
انشائیہ اور مضمون میں فرق
اردو میں مضمون نگاری کا آغاز کرنے والوں میں سرسید احمد خان کو اردو داں طبقہ میں نہایت اہیمت حاصل ہے۔ لیکن ان کی مضمون نگاری پر مغربی اثرات کی نمایاں چھاپ تھی۔ اس دور میں مغربی ادبیات میں مضمون نگاری تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اول تو علمی، سائنسی اور اصلاحی، دوم طنزیہ اور مزاحیہ اور سوم لائٹ ایسے (Light Essays) ان تمام میں سے سرسید نے علمی، سائنسی اور تنقیدی نظریات پیش کرنے میں کمال حاصل کیا۔
’’مضمون یا انشائیہ مقالے کے مقابلے میں ایسی ہلکی پھلکی صنف ہے جس کے طریق اظہار میں زیادہ گہرائی کی بجائے خیالات کا سرسری بہاؤ ہوتا ہے۔ ‘‘
دوسری طرف جب ہم مضمون کا احاطہ کرتے ہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بات یا خیال جو نثر میں پیش کیا جائے تو وہ مضمون کہلاتا ہے۔ لیکن اس میں بات یا خیال کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ بہت ساری تحریروں کے سماجانے کی گنجائش نکلتی ہے۔ جیسے خطوط، ایڈیٹوریل، رپورٹ، شخصیت کی قلمی تصویر، شخصیت کا تعارف، واقعاتی بیان، ادبی و ثقافتی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال، شخصیت کے حالات زندگی اور مخصوص عنوان پر خیالات کا اظہار وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہ ساری تحریریں نثر سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن یہ مختلف النوع تحریریں اپنی نوعیت کے حساب سے اپنا دائرہ الگ اور نمایاں رکھتی ہیں۔ ہر مخصوص عنوان کے ساتھ ہی اس کی تحریر کا لب و لہجہ جداگانہ ہوتا ہے اور ان سب کا مرتبہ و مقام اردو ادب میں اپنی الگ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ہمیں عربی لغت میں مضمون کے معنی جو نظر آتے ہیں یعنی ’’ما فی اصلاب الفحول‘‘ وہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ مادہ جو تخلیق کی نیرنگیوں کا مظہر ہے۔
یہ تو ہوئی مضمون کی بات۔ انشائیہ، مضمون کی ایک قسم ہے، یہ کہنا سراسر غلط ہے۔ انشائیہ کی تحریر اپنی ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ اس کی تحریر میں لطافت کے ساتھ گہرائی پائی جاتی ہے جو کہ مضمون میں نظر نہیں آتی۔ انشائیہ میں غیر سنجیدگی، رنگا رنگی، کیف انگیزی، گپ بازی، ذرا سی آوا رہ خیالی، شگفتہ بیانی، خوش طبعی، شوخی، سادگی، برجستگی، بے ربطی اور بے ترتیبی بھی ہوسکتی ہے۔ ایسا تخلیقی خیال جو اپنے مرکز سے ہٹ کر ساری کائنات کا چکر لگا کر پھر سے اپنے مرکز میں سمٹ جاتا ہے۔ دراصل وہی انشائیہ ہے۔ اور مضمون میں خیال صرف اور صرف اپنے مرکز کے اطراف ہی گھومتا رہتا ہے۔ اس لیے شروعات میں اسے مضمون ہی کی دوسری شکل کہا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ انشائیہ سرے سے ہی ایک الگ ادبی صنف ہے۔ پروفیسر غلام جیلانی اور ڈاکٹر وزیر آغا بھی دونوں کو مختلف اصناف سمجھتے ہیں۔ بحوالہ تنقید اور مجلسی تنقید میں لکھتے ہیں کہ:
’’جس طرح مونتین کی ایک خاص وضع کی تحریروں کو دیا گیا ایسے کا نام ہر قسم کی کاروباری تحریر کے لیے استعمال ہونے لگا تھا۔ بالکل اسی طرح اردو میں انشائیے کے لفظ کو ہر قسم کے مضامین کے لیے عام طور سے استعمال کیا جانے لگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ مضمون سے ایک بالکل الگ شے ہے اور ساری حقیقت ان دونوں کے فرق کو گرفت میں لے سکنے کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ ‘‘
انیسویں صدی کی جو تحریریں تھیں وہ انشائیہ سے قریب ضرور تھیں لیکن پوری طرح سے انشائیہ نہیں کہلائی جا سکتی تھیں۔ بقول وزیر آغا:
’’بیشتر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انشائیہ ادب کی مشکل ترین اور لطیف ترین صنف ہے اور یہ صرف اس وقت نمودار ہوتی ہے جب زبان ارتقاء کے بہت سے مراحل طے کر چکی ہوتی ہے۔ ‘‘
جناب وزیر آغا نے اپنی کتاب ’’انشائیہ کے خد و خال‘‘ میں انشائیہ اور مضمون نگاری کی روایات کو منفرد دکھانے کے لیے ایک مختصر سا شجرہ مرتب کیا ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ انشائیہ اور مضمون دونوں اصناف کس حد تک مختلف ہیں۔
ادب
نثر شاعری
داستان ناول افسانہ ڈرامہ سوانح عمری سفرنامہ انشائیہ مضمون
طنزیہ مضمون مزاحیہ مضمون تنقیدی مضمون علمی مضمون تحقیقی مضمون
اس شجرے کو دیکھنے کے بعد انشائیہ مضمون سے مختلف نظر آتا ہے۔ اس فرق کو اگر ایک تحریر سے مزید واضح کیا جائے تو میری نظر میں بہت بہتر ہو گا۔
یہ دیکھئے:
’’شیخ سعدی سے لے کر شیخ چلی تک تمام مفکرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ خواب زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں۔ ‘‘
یہاں اس تحریر میں شیخ سعدی کا نام پڑھتے ہی قاری کے ذہن میں احترام کا جذبہ پیدا ہو گیا لیکن جیسے ہی شیخ چلی کی مضحکہ خیز مماثلت سامنے آئی سارا احترام ختم ہو گیا۔ یہ صرف کسی طنزیہ مضمون میں ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ میں اس طرح کی اگر لطیف و پرکیف مثالیں آبھی جائیں تو قاری کو اپنے جذبات کو یک لخت ختم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ وہ لطیف جذبات تحریر کے ساتھ ابھرتے اور بلند ہی ہوتے رہتے ہیں۔ تحریر کی اگر مثال دینا ہی ہے تو ہیزلٹ کی تحریر یہاں پر بہت ضروری ہو جاتی ہے تاکہ اس بات کو مزید واضح کرسکیں۔
One of the pleasantest things in the world is going a journey but I like to go by my self. I can enjoy Society in a room but off door nature is company enough for me.
یہاں انشائیہ نگار نے سفر کا ذکر کیا ہے اور اسے دنیا کا سب سے زیادہ فرحت بخش عمل قرار دے کر قاری کے دل میں سیاحت کے جذبے کو متحرک کر دیا ہے۔ لیکن جب وہ دوسرے ہی لمحے سفر کے لیے ’’اکیلا‘‘ جانے کی شرط لگاتا ہے تو قاری کے جذبات اچانک تھم نہیں جاتے بلکہ ایک نئے جہان کے طلوع ہونے پر بڑی نفاست سے افق پر بکھرنے لگتے ہیں اور وہ خود کو بھی اس نئی کیفیت کے لطف میں خود کو سمو کر ایک عجیب سا لطف محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسی لطف کو وزیر آغا ’’تخلیقی تازگی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض جگہ اسی تازگی کو مزاحیہ مضمون سے خلط ملط کر دیا گیا۔ لیکن یہ بالکل الگ چیز ہے کیونکہ مزاحیہ مضمون میں تازگی صرف وقتی ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ تازگی فکر کی تحریک کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ اس لیے انشائیہ مزاج اور مزاحیہ مضمون دونوں بالکل الگ الگ شے ہیں۔
انشائیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ خود نامکمل رہ کر مکمل لگتا ہے جبکہ مضمون میں سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد ہی محسوس ہوتا ہے کہ مضمون پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ دوسری خصوصی یہ ہے کہ انشائیہ میں عنوان یا موضوع کی مرکزیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے لیکن کئی ہزار باتیں اس طرح سے لکھی جاتی ہیں جس کا موضوع سے تو کوئی تعلق نہیں لگتا لیکن ہزار کوشش کے باوجود ہم ان باتوں کو بے تعلق بھی نہیں کہہ سکتے۔ یعنی انشائیہ نگاری میں بے انتہا لچک ہوتی ہے۔ اب یہ مصنف کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اس لچک کے پیش نظر قاری کو کہاں تک لے جا سکتا ہے۔ اس سعی میں بہت سارے پہلو تشنہ بھی رہ جاتے ہیں لیکن قاری کے لیے غور و فکر کے تمام راستے ہموار ہو جاتے ہیں۔
مضمون میں کسی لچک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس میں تحریر ایک منظم طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ اور قاری خود کو شروع سے ہی ایک دائرہ میں مقید محسوس کرتا ہے۔ وہ تمام کیفیات مہیا کرے گا جو انشائیہ سے مخصوص ہیں۔ اس لیے وزیر آغا بہت صحیح کہتے ہیں کہ انشائیہ ’’مضمون کی شیلی‘‘ ہے ہی نہیں بلکہ بالکل الگ صنف ادب یہی حال پروفیسر جیلانی اصغر کا ہے۔ البتہ سلیم اختر، عرش صدیقی، احتشام حسین اور آدم شیخ نے بھی انشائیہ کو مضمون کے مترادف سمجھا ہے۔
مغرب میں ایسے کے میدان میں فروغ پانے والے کئی مضمون نگاروں کو نثر والوں نے بھی اپنا آئیڈیل بنایا۔ جس میں سر فہرست سر سید احمد خاں ہے۔ جنہوں نے اس دور کے مونتین، لیمب اور ہیزلٹ کے ایسیز کو چھوڑ کر مضمون نگاری کے اس بہاؤ کے دھارے کو اپنایا جس میں اصلاحی، علمی اور فلسفی رنگ شامل تھا۔ بقول وزیر آغا:
’’کبھی تو سرسید نثر میں شعری مواد کو سمونے کی کوشش میں مضحکہ خیز نظر آنے لگے۔ لیکن پھر بھی پوری طرح خالص ایسے کی طرف مائل نہ ہوسکے۔ لیکن اس سے بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرسید کی تحریر کی گہرائی کا حصہ کوئی اور نہیں بن سکتا۔ ان کی تحریروں میں ہمیں انشائیہ کا کئی جگہ پر خوبصورت ٹچ ملتا ہے باوجود اس کے پھر بھی انہوں نے اپنے نثر پارے کو انشائیہ نہ کہتے ہوئے مضمون کہا اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے مضمون میں راست قاری سے مخاطب ہونا چاہتے تھے اور شاید دوسری وجہ یہ تھی کہ اس دور میں مغرب میں ’’مضمون‘‘ یعنی ایسے اپنا سکہ جما رہا تھا۔ تہذیب الاخلاق میں شائع ہوئے اپنے ایک مضمون میں انہوں نے مغرب کے کئی ادیبوں اور انشاء پردازوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ سرسید احمد خاں بھی مضمون اور انشائیہ کو دو الگ الگ اصناف تسلیم کرتے تھے اور انہوں نے اس دور کے مضمون نگاری کے بہاؤ میں بہنا پسند کیا۔ لیکن فضاؤں میں ابھرتی انشائیہ کی ترنگوں سے بھی خود کو دور رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے ان کی کئی تحریروں میں انشائیہ کا اتنا حسین امتزاج پایا جاتا ہے جو ہمیں دوسروں کے پاس نہیں ملتا۔ سرسید اپنے مذہب کا فعال اور حیات بخش تصور رکھتے تھے ان کے نزدیک مذہب ان اخلاقی اور روحانی قدروں سے پہچانا جاتا ہے جو انسانیت کو آگے بڑھاتی ہیں اور خدمت خلق، محبت اور انصاف کو عام کرتی ہیں۔ وہ تمام مذہبی امور میں ایک وسیع، ہمہ گیر، روادارانہ اور روشن خیال نظریہ کے حامی تھے یا شاید انہیں اس دور میں اس طرح کے خیالات رکھنا ضروری تھا اور حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ‘‘
کیونکہ ایک جگہ سرسید خود لکھتے ہیں کہ:
’’اس زمانہ میں مثل زمانہ گزشتہ کے ایک جدید علم کلام کی حاجت ہے جس سے یا تو ہم علوم جدیدہ کے مسائل کو باطل کر دیں یا ان کو مشتبہ کر دیں یا اسلامی مسائل کو ان سے مطابق کر دکھائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
یہ اس وقت کی تحریر ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے پھیلے جال میں ہندوستان کی معیشت اور مذہبیت دونوں دم توڑ رہی تھیں۔ اس لیے سرسید کی تحریروں میں ناصحانہ اور فکری عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔
وزیر آغا کہتے ہیں :
’’سرسید کے اندر چھپے ہوئے انشائیہ نگار نے سطح پر آنے کی سر توڑ کوشش بھی کی۔ لیکن یہ اردو انشائیہ کی بد قسمتی ہے کہ اس انشائیہ نگار کو سرسید کے اندر چھپے ہوئے ’’مصلح‘‘ نے گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ ‘‘
مرزا غالب کی نثر بھی انشائیہ کا رنگ لیے ہوئے تھی اور سرسید غالب کی تحریر سے تھوڑا بہت میل ضرور رکھتے تھے۔ اس لیے سرسید کی تحریریں کبھی کبھی قاری کو وہ لطیف احساس کرانے پر مجبور کر دیتی ہیں جو ایک بہترین انشائیہ نگار کرسکتا ہے۔
اسی طرح کے خیالات ’’مقالات شبلی‘‘ میں بھی نظر آتے ہیں۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہنا بیجا نہیں کہ اردو انشاء پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے۔ اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔ سرسید کو مرزا سے جو تعلق تھا وہ ظاہر ہے اس لیے کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ سرسید ضرور مرزا کی طرز سے مستفید ہوئے۔ سرسید کی انشاء پردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے اور جس مضمون کو لکھا ہے اس درجہ پر پہنچا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ناممکن ہے فارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعراء اور نثار گزرے ہیں لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو تمام مضامین کا حق ادا کرسکتا۔ ‘‘
انشائیہ اور مضمون میں فرق کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کئی لوگوں نے محمد حسین آزاد، مولوی نذیر احمد دہلوی، حالی، مولوی ذکاء اللہ دہلوی، رتن ناتھ سرشار، وحید الدین سلیم، عبدالحلیم شرر، اور ان کے بعد نیاز فتحپوری، سجاد حیدر یلدرم، خواجہ حسن نظامی، ابوالکلام آزاد کو بھی انشائیہ نگار کہا ہے یا دوسرے معنوں میں کئی نے انہیں اس صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے لیکن وزیر آغا کہتے ہیں کہ:
’’ناصر علی دہلوی، سجاد انصاری، خواجہ حسن نظامی اور ابوالکلام آزاد ہی وہ ادیب تھے جن کے ہاں انشائیہ کے مخصوص مزاج اور اسلوب کی طرف پیش قدمی کے شواہد ملتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جو انشائیہ نگار بنتے بنتے رہ گئے۔ ‘‘
منشی پریم چند نے ’’زمانہ‘‘ دسمبر ۱۹۰۹ء کے شما رہ میں ’’گالیاں ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں گالیوں کی کئی اقسام اور مواقع پیش کر کے انہوں نے سماج کے اس برے لفظ کی مذمت کی تھی۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’اس سے بڑھ کر ہمارے کمینہ پن اور نامردی کا ثبوت نہیں مل سکتا کہ جن گالیوں کو سن کر ہمارے خون میں جوش آ جانا چاہیے ان گالیوں کو ہم دودھ کی طرح پی جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی قومی زبان کی ایک برکت ہے۔ قومی پستی دلوں کی عزت اور خود داری کا احساس مٹا کر آدمیوں کو بے غیرت اور بے شرم بنا دیتی ہے۔ غصہ میں گالی بکیں دل لگی میں گالی بکیں گالیاں بک کر زور لیاقت ہم دکھائیں گیت میں گالی ہم گائیں زندگی کا کوئی کام اس سے خالی نہیں حد تو یہ کہ ابھی تک ہمارے رہنماؤں نے اس وبا کی بیخ کنی کرنے کے لیے ’سرگرم‘ کوشش نہیں کی۔ اس امر کے اعادہ کی ضرورت نہیں کہ گالیوں کا اثر ہمارے اخلاق پر بہت خراب پڑتا ہے۔ گالیاں ہمارے نفس کو مشتعل کرتی ہیں اور خود داری اور پاس عزت کا احساس دلوں سے کم کرتی ہیں جو ہمیں دوسروں قوموں کی نگاہوں میں وقیع بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ ‘‘
پریم چند نے انتہائی سنجیدگی سے منطقی انداز فکر اپنا کر سماج کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ان میں بہت ساری باتیں قاری قبل از تحریر جانتا ہے۔ ایسی تحریر انشائیہ میں کوئی جگہ نہیں پا سکتی۔ اس مضمون کے تقریباً ستر سال بعد اس موضوع پر غلام جیلانی اصغر نے ایک انشائیہ لکھا۔ اس کا اقتباس بھی دیکھتے چلیں تاکہ مضمون اور انشائیہ کا فرق محسوس کرسکیں۔
’’گالی دینے کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی گالی دے کر فارغ ہو جاتا ہے اور ذہنی طور پر ایک خوشگوار آسودگی محسوس کرتا ہے۔ اعصاب کا کھنچاؤ دور ہو جاتا ہے اور دل کی گہرائیوں میں سرور کا عالم ہوتا ہے۔ پنجاب میں جو آپ کو ہشاش بشاش مونچھیں، پر وقار پیٹ اور بڑکیں مارتے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں تو دراصل اس کی وجہ منہ نہار کی وہ گالی ہے جس پر تمام ملا اور حکیم زور دیتے ہیں۔ گالی جتنی سقیم اور کمزور ہو گی گالی دینے والے کی شخصیت اتنی ہی گھٹی گھٹی ہو گی۔ گالی جتنی پر وقار اور پر زور ہو گی شخصیت میں اتنا ہی وقار اور کشادگی ہو گی۔ چھوٹا آدمی ڈرتے ڈرتے چھوٹی سی گالی دیتا ہے اور پھر فوراً اپنی ذات کے ڈربے میں چھپ جاتا ہے لیکن بڑا آدمی موٹی سی گالی کی کمند پھینک کر اسے اس ڈربے سے باہر کھینچ لاتا ہے۔ گالی دینے سے جمہوریت کو فروغ ملتا ہے۔ آمریت صرف اس دور میں پنپ سکتی ہے جب گالیوں پر قدغن لگا دی جائے۔ اس لیے ایک اچھے نظام میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر ہائیڈ پارک کی گنجائش رکھتا ہے۔ ‘‘
اس طرح سے ایک ہی موضوع جب کسی سنجیدہ مضمون نگار کے پاس سے انشائیہ نگار کے پاس آیا تو اظہار کے ساتھ ساتھ خیال بھی بدل گیا اور نہایت لطیف پیرائے میں ہم قابل مذمت باتوں کو بھی ہنسی ہنسی میں نوٹس کر لیا۔
نفس مضمون اور مطلب ان دونوں تحریروں میں غور سے دیکھئے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ تازگی اور شگفتہ بیانی صرف انشائیہ کی تحریر میں ہی ملتی ہے۔
مضمون اور انشائیہ کے امتیازات
انشائیہ مضمون کی ہی ایک قسم ہے۔ اسی لیے ان دونوں میں زیادہ قربت پائی جاتی ہے۔ بظاہر ان دونوں میں مشابہت معلوم ہوتی ہے باوجود اس کے غور کریں تو کئی بار ایسے امتیازات ظاہر ہوتے ہیں جو مضمون اور انشائیہ میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ مضمون کی ایک ہیئت ہوتی ہے۔ مضمون میں موضوع سے متعلق ممکنہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ جب کہ انشائیہ میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی بلکہ انشائیہ نگار کو یہ آزادی حاصل رہتی ہے کہ موضوع سے جڑی دوسری باتوں کو بھی وہ درمیان میں قلمبند کرتا چلا جاتا ہے اور اس میں اپنے ذاتی تاثرات بھی شامل کر دیتا ہے۔ جس طرح مضمون میں ابتدائی حصہ، درمیانی حصہ اور اختتامیہ ہوتا ہے۔ اس طرح انشائیہ کو ان مختلف حصوں میں درجہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ کی کوئی خاص ہیئت نہیں ہوتی اور اس کی فضا غیر رسمی ہوتی ہے۔
مضمون میں مواد کی پیش کشی میں ایک منطقی ربط ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے انشائیہ میں موضوع سے ربط و تعلق تو ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا بلکہ کئی ضمنی باتوں کے سہارے انشائیہ نگار اپنا ما فی الضمیر ادا کرتا چلا جاتا ہے۔
مضمون میں اپنا سارا زور بات کو عالمانہ انداز سے کہنے پر ہوتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ انشائیہ میں معلومات سے زیادہ تاثرات کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ تاثرات انشائیہ نگار کی ذہنی ترنگ کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ انشائیہ نگار واقعات سے زیادہ واقعات کے رد عمل پر توجہ دیتا ہے اور اشاروں اشاروں میں اپنا مدعا بیان کر دیتا ہے۔ جبکہ موضوع مضمون سے متعلق باتیں سنجیدگی سے زیر بحث آتی ہیں اور ان کی وضاحت دلائل کے ساتھ ہوتی ہے اور انداز بیان بالکل سیدھا سادھا ہوتا ہے۔ جبکہ انشائیہ میں سارا زور انداز بیان پر ہوتا ہے۔ اس کا اسلوب شگفتہ اور شاعرانہ ہوتا ہے۔ اسی خاص اسلوب کی بنا پر انشائیہ کے موضوعات اور طرز اظہار میں نمایاں فرق ہے اور ان کے مقصد بھی جدا جدا ہیں۔
مضمون جدید نثر کی ایک مقبول صنف ہے۔ خیالات کے اظہار اور ان کی ترسیل کے لیے یہ ایک مفید صنف ادب ہے۔ جس میں زندگی سے جڑے تمام موضوعات پر اظہار خیال جا سکتا ہے۔ خواہ وہ سائنسی معلومات ہوں کہ مذہبی یا پھر ادبی ہوں کہ معلوماتی ہر قسم کی معلومات اس صنف ادب کا حصہ بن سکتی ہیں۔
موجودہ زمانے میں اس صنف کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ہے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے رسالوں اور اخبارات کی اشاعت کی راہ ہموار کی۔ جس کی بنا ء پر اخبار اور رسالوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مضمون نویسی عام ہوئی اور اس مقصد کے لیے ہر موضوع پر مضامین لکھے جانے لگے۔ عصر حاضر میں انٹرنیٹ پر ہر موضوع پر سیکڑوں مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ آج کی جدید ترین معلومات کا ذریعہ یہ مضامین ہی ہیں۔
مضمون ایک مختصر صنف ادب ہونے کے باوجود اس میں موضوع کا احاطہ بڑی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور موضوع کے متعلق اہم باتیں ایک تسلسل اور تنظیم کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔ مضمون کی زبان سادہ اور سلیس ہوتی ہے اور انداز بیان میں علمی سنجیدگی ہوتی ہے۔ جیسے علمی مضامین، تحقیقی و تنقیدی مضامین، سائنسی و مذہبی مضامین وغیرہ۔
مضمون ہی کی ایک قسم انشائیہ ہے۔ انشائیہ میں کسی موضوع پر شخصی تاثرات مشاہدات اور تجربات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسے ’’ذاتی بیشتر‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ انشائیے میں عبارت آرائی کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ انشائیہ نگار اپنے موضوع کو بیان کرتے ہوئے خاص اسلوب اپناتا ہے جس سے کہ پڑھنے والے کو پڑھنے والے کو تحریر میں لطف ملتا ہے وہ بات سے بات پیدا کر کے خشک موضوع کو بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔
مضمون میں ابتدا سے لے کر اختتام تک موضوع کے متعلق ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن انشائیہ کے عموماً پیراگراف میں ایک نیا خیال ملتا ہے۔ یعنی انشائیہ نگار موضوع سے تعلق رکھنے والی دوسری ضمنی باتوں پر اپنے ذاتی تاثرات اور خیالات پیش کرتا ہے۔ باوجود اس منتشر خیالی کے انشائیہ میں ایک ربط ضرور معلوم ہوتا ہے انشائیہ مضمون کی ہی ایک قسم ہے لیکن دونوں میں موضوع، زبان، ترتیب، ربط اور انداز بیان میں فرق ہے۔ بنیادی طور پر انشائیہ نگار کا مقصد سوچ بچار کے لیے راستے ہموار کرنا ہوتا ہے۔ تمام ریزہ خیالی کے باوجود انشائیہ میں ابتداء سے لیکر اختتام تک ربط قائم رہتا ہے۔ انشائیہ نگار کے ذہن میں موضوع سے متعلق یا موضوع سے جڑے دوسرے ضمنی خیالات جس طرح سے آتے ہیں وہ انہیں ضبط تحریر میں لے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیے کے مختلف پیراگراف میں عام طور پر ایک نیا خیال ملتا ہے۔ اور تقریباً ہر پیراگراف اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے انشائیے کو ’’غزل کا فن‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ جس طرح غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل خیال کی ترجمانی کرتا ہے اسی طرح انشائیے میں بھی یہی خصوصیت نظر آتی ہے۔
’’انشائیہ‘‘ ایک ہلکی پھلکی صنف ادب ہے تاہم اس میں زندگی کے متعلق بڑی گہری باتیں بتائی جاتی ہیں اور زندگی کی ناہمواریوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انشائیہ نگار ایک خاص اسلوب اپناتا ہے جس میں کسی قدر طنز کی آمیزش کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہوتا ہے۔ طنز کا پہلو بالکل کم ہوتا ہے اس لیے کہ انشائیہ کا ایک بنیادی مقصد مسرت بہم پہنچانا بھی ہے اور مزاح کی زیادتی سے انشائیے میں سطحیت در آتی ہے۔ انشائیہ نگار کسی موضوع پر ہلکے پھلکے انداز میں فکر و فلسفے کے دقیق نکات بیان کر جاتا ہے اور اشاروں اشاروں میں معنویت کی تہہ داریاں کھولتا ہے۔
انشائیہ نگار ہو چاہے مضمون نگار۔ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے اور بہترین نثر نگار ہوں۔ ساتھ ساتھ ان کا مطالعہ و مشاہدہ بھی کافی وسیع ہو اور معمولی بات کو بھی وہ اپنے زور قلم سے غیر معمولی بنانے پر عبور رکھتے ہوں۔
مندرجہ ذیل تقابلی تحریر سے اس بات کا اندازہ ہو جائے گا۔
برائے مضمون اور مضمون نگار
’’انسان کو تعلیم دینا درحقیقت کسی چیز کا باہر سے اس میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ اس کے دل کی سوتوں کی کھولنا اور اندر کے سرجی چشمے کے پانی کو باہر نکالنا ہے جو صرف اندرونی قویٰ کو حرکت میں لانے اور شگفتہ و شاداب کرنے سے نکلتا ہے اور انسان کو تربیت کرنا، اس کے لیے سامان کا مہیا کرنا اور اس سے کام لینا ہے جیسے جہاز تیار ہو جانے کے بعد اس پر بوجھ لادنا اور حوض بنانے کے بعد اس میں پانی بھرنا۔ بس تربیت پانے سے تعلیم کا بھی پانا ضروری ہے۔ تربیت جتنی چاہو کرو اور اس کے دل کو تربیت کرتے کرتے منہ بھر دو مگر اس کے دل کی سرجی سوتیں نہیں کھلتیں بلکہ بالکل بند ہو جاتی ہیں۔ اندرونی قویٰ کو حرکت دئیے بغیر تربیت تو ہو جاتی ہے مگر تعلیم کبھی نہیں ہوتی۔ اس لیے ممکن ہے کہ ایک شخص کی تربیت تو بہت اچھی ہو اگر تعلیم بہت بری۔ ‘‘
جنہوں نے انشائیہ اور مضمون کو ایک سمجھا دوسری طرف ایک گروہ ایسا بھی تھا جنہوں نے اس سے ذرا ہٹ کر سوچا اور کہا کہ یہ تو مزاح ہی ہے۔ یعنی انہوں نے انشائیہ کی شگفتگی اور مزاح کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا۔ ہم اپنے اگلے باب میں شگفتگی اور مزاح کو انشائیہ کے زاویۂ نگاہ سے دیکھیں گے۔
انشائیہ اور مزاح میں فرق
ظرافت یا مزاح نگاری کو ادب کی ایک صنف سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ صنف نہیں بلکہ تحریر کی توصیف ہے۔ ہنسنا یا ہنسانا کسے پسند نہیں ہے اور جب اس کے ذریعہ اصلاحی پہلو سامنے آتا ہے تو کیا کہنا۔ اس لیے وہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔
وزیر آغا کے نزدیک طنز و مزاح کی تحریک دینا نہایت آسان ہے۔ لیکن انشائیہ کی کیفیت کو ابھارنا بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’جو لوگ ہمہ وقت نشیب و فراز سے ماحول کو دیکھتے ہیں وہ طنزیہ یا مزاحیہ مضمون تو لکھ سکتے ہیں انشائیہ تخلیق نہیں کر پاتے۔ ‘‘
اکثر ادیبوں نے یہ سمجھا تھا کہ طنزیہ یا مزاحیہ تحریریں ہی انشائیہ نگاری کی بہترین بنیاد ہوسکتی ہیں لیکن جب ڈاکٹر سلیم اختر کی سنہری اور روپہلی تنقیدی تحریر سامنے آئی تو یہ شک بھی دور ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’انشائیہ کے اسلوب میں لطافت اور شگفتگی ہونے چاہیے۔ لطافت ایسی کہ انشائیہ متبذل نہ ہونے پائے اور شگفتگی ایسی کہ مزاح نہ ہونے کے باوجود تحریر فرحت بخش ہو۔ ‘‘
اس طرح سے جس کسی نے بھی شگفتگی بمعنی مزاحیہ تحریر کا اخذ کیا تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ خود وزیر آغا نے بھی ’’شگفتگی‘‘ کی بجائے ’’اسلوب‘‘ اور ’’خیال کی تازگی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے شروع کر دئیے تھے۔ اسی لیے جنہوں نے بھی پطرس بخاری، شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور کو انشائیہ نگار سمجھا تھا ان کی خام خیالی پر گرد و غبار بیٹھتا چلا گیا۔ ڈاکٹر انور سدید نے بھی مزاحیہ اسلوب اور شگفتگی کو مختلف گردانا ہے۔
وہ لکھتے ہیں :
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نقصان یہ ہوا کہ اسلوب کی شگفتگی کو طنز و مزاح کا مترادف تصور کر لیا گیا۔ چنانچہ انشائیہ اور طنز و مزاح کی حدود کو آپس میں گڈ مڈ ہونے کا موقع مل گیا۔ ‘‘
وزیر آغا رقمطراز ہیں۔
’’ہم لوگوں نے طنزیہ مضامین لکھنے والے حضرات کو بار بار یقین دلایا کہ طنزیہ مزاحیہ مضامین کا اپنا ایک مرتبہ اور توقیت و اہمیت ہے وہ کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ان کے مضامین پر ضرور ہی انشائیہ کا لیبل لگایا جائے۔ ‘‘
اس طرح سے وزیر آغا اور ان کے ساتھیوں نے کئی ادیبوں کی مزاحیہ تحریروں کو انشائیہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ کنہیا لال کپور، پطرس، رشید احمد صدیقی اور شوکت تھانوی کو بھی کہہ دیا کہ آپ تمام کو کسی بھی صورت میں انشائیہ نگار تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اس اعلان کے ساتھ ہی انہوں نے مزاحیہ نگارشات کے روح رواں میں کھلبلی مچا دی۔ اگر اس وقت انور سدید ’’انشائیہ اردو ادب میں ‘‘ میں انشائیہ کی تاریخ کو پیش نہیں کرتے تو یہ سرد جنگ مزیر جاری رہ سکتی تھی۔ ان انشائیہ اور مزاحیہ دونوں کے فرق کو واضح طور پر پیش کیا گیا تو عطاء الحق قاسمی نے انشائیہ کے خلاف ایک اخباری مہم چھیڑ دی۔ بقول وزیر آغا انہوں نے ایک فقرہ کسا کہ:
’’انشائیہ پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
اور
’’انشائیہ ایک تیسری جنس ہے۔ ‘‘۱
ان سب سے برتر بقول مشتاق قمر:
’’انشائیہ ایک ایسی حسرت کا نام ہے جو دل کے اندر موم بتی کی طرح سلگتی اور تادیر سلگتی رہتی ہے جبکہ طنز و مزاح سے پیدا ہونے والا قہقہہ فاضل اسٹیم کے اخراج کا اہتمام کرتا ہے اور قہقہہ لگانے کے بعد انسان کی حالت اس کارتوس کی سی ہو جاتی ہے جس میں سے چھرے نکل چکے ہوں۔ ‘‘
انشائیہ کا مقصد ہنسی کو تحریک دینا نہیں بلکہ اس کا مقصد ذہن کو تازہ دم کرنا ہے۔ وہ بقدر ضرورت تبسم زیر لب کا اہتمام کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تبسم کسی لطیفے کو سن کر برانگیختہ نہیں ہوتا بلکہ تحریر کے معنی کے پرتو کے اترنے پر نمودار ہوتا ہے۔
وزیر آغا کہتے ہیں :
’’انشائیہ معنی خیز مسکراہٹ سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ یہ مسکراہٹ اصلاً ایک عارفانہ مسکراہٹ ہے جو سدھارتھ کے ہونٹوں پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب اس پر اچانک کائنات کا راز فاش ہو جاتا ہے اور مونا لیزا کے ہونٹوں پر اس وقت جب اسے اپنی تخلیقی حیثیت کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ انشائیہ نگار کو معنی خیز تبسم عطا کرنے کے اہم کام سے روک کر محض فقرہ بازوں اور لطیفہ گویوں کی صف میں لا کھڑا کرنا کفران نعمت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
پروفیسر حسنین اپنی کتاب ’’انشائیہ اور انشائیے‘‘ میں نہایت ہی خوبصورت انداز میں انشائیہ اور ظرافت کے حسین امتزاج کو پیش کرتے ہیں۔
’’صنف انشائیہ میں ظرافت جوہر ہی نہیں جوہر اعظم ہوتا ہے۔ یہ انشائیہ نگار کی خوش گفتاری کا خمیر ہے اور اس کے فن کا جلوۂ صد رنگ دوسروں پر ہنسنا عام ہے اور آسان بھی مگر اپنے پر دوسروں کوہنسانا کھیل نہیں اس کے لیے ہمت، ضبط اور ایثار کی ضرورت پڑتی ہے۔ انشائیہ میں دوسروں کی حماقت اور اپنی خفت دونوں ظاہر ہوتی ہے۔ بیک نگاہ آنکھوں کے تنکے کے ساتھ یہاں شہتیر بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ ‘‘
پروفیسر حسنین نے بالکل صحیح کہا ہے کہ انشائیہ میں ظرافت جوہر اعظم ہے۔ انشائیہ میں ظرافت کی وجہ سے رنگینی ہوا ہوتی ہے اور اس کی رونق میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قاری ایک سے دو بار اسی انشائیہ کو پڑھنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی قابل لحاظ رکھا جائے کہ طنز و مزاح اعلی اور معیاری ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ گھٹیا طنز و مزاحیہ جملے اعلیٰ انشائیہ کی تحریر کو لے ڈوبیں۔ اسی بات کو پروفیسر حسنین کہتے ہیں۔
’’میں نے کہا کہ مزاح انشائیہ کا جوہر اعظم ہے۔ پر یہ نہ بھولئے کہ اعلیٰ اور معیاری مزاح نامطابق خیالات کی آویزش سے ابھرتا ہے۔ یہ نا مطابق واقعات کے اجتماع سے پیدا نہیں کیا جاتا۔ انشائیہ لمحے بھر کے لیے ہمیں حیوان بنا دیتا ہے یہ صحیح ہے لیکن سینگ لگا کر لاتیں چلانا قابل ستائش نہیں بلکہ سینگوں کے بغیر بیل بن جانا یا بنا دینا قابل تعریف ہے۔ ‘‘
اگر انشائیہ میں مزاح کو شامل بھی کیا جائے تو ہم پوری مزاح کو تحریر میں نہیں بدل سکتے۔ ظرافت اور ہجو ہی ہم انشائیہ میں شامل کرسکے ہیں لیکن اس کے لیے ذہن کی پختگی اور نفاست و شائستگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ اوصاف نہ دکھائی دیں تو انشائیہ میں ایسی طنز و مزاح بناوٹی معلوم ہوتی ہے۔ ظرافت اور ہجو کے رنگ بہت گہرے ہونے چاہییں۔ ایک اچھے انشائیہ نگار کے پاس قاری پر چلانے کے لیے خود کو تیر کمان سنبھالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ صرف فضا میں تیر اچھالتا ہے اور وہ تیر ہی مختلف کمانیں حاصل کر کے قاری کی آنکھوں کے ذریعہ دل و دماغ میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ تحریر کا یہ طریقہ بالراست ہوتا ہے۔ اس ہتھیار کو وہ اپنے چٹکلوں کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔ کبھی شخصیت کے کسی پہلو کو تنقیدی اشعار یا ناصحانہ اقوال کے ذریعہ اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ خوبی یا خرابی خود بخود سامنے آ جاتی ہے۔ یا پھر کبھی کھلم کھلا خود سامنے آ کر قاری کو پس پردہ کر دیتا ہے۔ ان مقاصد کو پورا کرتے کرتے وہ نصیحتیں بھی کرتا جاتا ہے اور ہجو و طنز کے تیر بھی چلاتا جاتا ہے ایسی تحریروں سے ظرافت اور ناصحانہ رنگ ٹپکنے لگتا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ایسے تیر چلانے کے باوجود ہم انشائیہ نگار پر کوئی قانونی مقدمہ نہیں چلا سکتے۔ کیونکہ یہی وہ صنف ادب ہے جہاں قلمکار کو پوری آزادی دی گئی ہے۔
بقول پروفیسر سید حسنین:
’’یہ گفتار کا وہ غازی ہے جسے سات نہیں سیکڑوں خون معاف ہیں۔ یہ بزم نشاط کا وہ ساقی ہے جسے شراب میں ’’کچھ ملانے‘‘ کی اجازت ہے۔ اس کی عذر مستی باتوں کی سمیت یا سنگینی کو کافور کر دیتی ہے۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی تحریریں قاری کو ناراض نہیں کرتیں اور غصہ نہیں دلاتیں نہ ہی سماجی میں کسی طرح کی خرابی یا بگاڑ کی ذمہ داری ہوتی ہیں بلکہ یہی تحریریں منتہائے کمال انشائیہ ہیں۔ اگر ان تحریروں پر سے انشائی رنگ دھو لیا جائے تو احمد جمال پاشا کے الفاظ میں ’’خون خرابہ‘‘ کی نوبت آسکتی ہے۔ جو انہوں نے ’’دو لفظ‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ایک انشائیہ نگار کی ظرافت سماج کے لیے مثبت نظریہ رکھتی ہے کیونکہ یہ اس کے تجربات اور زندگی کے نشیب و فراز کا نچوڑ ہیں۔ اس کی نظر جھوٹ اور سچ کی تمیز بہت جلد کر کے دکھاتی ہے۔ مٹی کے ذرات میں سے طلائی ذرات کو علیحدہ کر کے دکھاتی ہے۔ کانچ کے ٹکڑوں میں شامل ہیرے کی شناخت کرتی ہے اور یہ سب نہایت آسانی سے اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ انشائیہ نگار کے پاس اس کسوٹی کو پرکھنے کے لیے ظرافت اور مزاح کا پیمانہ ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ وہ ہنستے ہنساتے آسانی سے اپنا کام کر جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طنز و مزاح کی وجہ سے انشائیہ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی موضوع کو ہلکے پھلکے انداز میں گہری بات کہتے ہوئے آسانی کے ساتھ نکل جانا یا سماج کے بعض سلگتے ہوئے مسائل پر شبنم کی بوندیں برساتے نکل جانا یہ انشائیہ نگار کے بس میں اسی وقت ممکن ہے جب اس کے پاس طنز و مزاح کا وصف خاص ہو۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انشائیہ مکمل طرح سے طنز و مزاح سے بھرا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انشائیہ وہ مضمون ہے جس میں لطافت کے ساتھ فلسفیانہ گہرائی پوشیدہ ہے۔
کسی موضوع کو زبان و بیان کے تمام اوصاف کے ساتھ دلگداز طریقے سے بیان کرنا اور سماج کے بعض اہم مسائل پر چوٹ کرنا انشائیے کا وصف خاص ہے۔ یہ مزاحیہ مضمون نہیں ہوتا اور نہ ہی فلسفیانہ اور سنجیدہ مضمون ہوتا ہے بلکہ یہ دونوں کے درمیان خوش سخنی اور خوش مزاجی کا نمونہ ہوتا ہے۔ اس میں زبان سے لطف اندوزی کا موقع تو دیا جا سکتا ہے لیکن کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ یہی احتیاط انشائیہ کے حسن و خوبصورتی کو قائم رکھتی ہے۔
جس طرح یہ بتایا گیا کہ سماج میں سلگتے ہوئے مسائل اور اس کے بگاڑ کے اسباب دیکھتے دیکھتے ان کے سدھار کے لیے اپنا قلم ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک مکمل طنز نگار سماج کے ناہموار مسائل کو ہموار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں کہیں کہیں وہ تکلیف بھری باتیں بھی کہہ گزرتا ہے لیکن اس کے مد نظر سماج سدھار کا عظیم مقصد ہوتا ہے اس لیے وہ اسے قابل جرم نہیں گردانتا۔ دوسرا ہوتا ہے مکمل مزاح نگار۔ جو خود ایک ناہموار مسئلہ بن کر قاری کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اسے اس پرہنسنے کی ترغیب دیتا ہے اور ہنسی ہنسی میں اور خود کا مذاق اڑاتے اڑاتے وہ ان سماجی مسائل کی اصلاح کروا لیتا ہے۔
لیکن انشائیہ نگار ان دونوں سے الگ ہوتا ہے، انشائیہ نگار اپنے اسلوب کو اہمیت دیکر تازگی کے ساتھ خود کے ذاتی تجربات بیان کرتے کرتے آپ کو اپنی ایک نئی دنیا میں لے جا کر وہاں کی سیر کرواتا ہے اور مسائل کا حل نکال کر بتاتا بھی ہے اور فیصلہ آپ پر چھوڑ دیتا ہے۔
بقول وزیر آغا:
’’انشائیہ مزاحیہ اور طنزیہ مضامین سے مختلف چیز ہے۔ اس کا مقصد نہ تو اصلاح و احوال ہے اور نہ وہ قہقہہ اگلوا کر اور یوں اندر کی فاضل اسٹیم کو خارج کر کے آپ کو آسودگی مہیا کرنے کا متمنی ہے۔ ‘‘
اتنی باتیں جان لینے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طنز و مزاح نگاروں نے صنف انشائیہ کا انتخاب ہی کیوں کیا۔ وہ دوسری کئی اصناف کے ذریعہ بھی اپنے مقاصد کو بروئے کار لا سکتے تھے۔ اس کا جواب ہمیں ڈاکٹر سیدہ جعفر کے اس اقتباس سے مل سکتا ہے۔
’’انشائیہ چونکہ ایک آزاد اور صنفی پابندیوں سے ماورا ادبی پیکر ہے اس لیے اس میں مزاح کو پھلنے پھولنے اور بروئے کار آنے کے اچھے مواقع ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ادب پا رہ ہے جس میں بیک وقت فکر انگیزی، خیال کی رعنائی، تاثرات کی دلفریب ترجمانی، اسلوب کا نکھار اور تصور کی لطافت سب ہی عناصر سموئے ہوئے ملتے ہیں۔ ‘‘
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یعنی ترقی پسند تحریک کے آغاز میں انشائیہ کی صنف کی شمع کی لو دھیمی پڑ گئی۔ کیونکہ اس وقت کا تقاضا سامراجی طاقتوں سے مقابلہ کرنے اور جدوجہد آزادی کو بڑھانا تھا۔ جس کی وجہ سے انشائیہ نگاری کی رفتار کم ہو گئی۔ لوگ حقیقت کے سانے اتنے بے بس ہو گئے تھے کہ وہ اپنے ذہن اور دل کو انشائیے کی لطافت اور تازگی کے لیے ہم آہنگ نہ کر پائے اور یہی وقت تھا کہ جب انشائیہ پر طنز و مزاح غالب آ گیا۔
انشائیہ کے خوبصورت پہلوؤں میں ایک پہلو پند و نصائح کا بھی ہے۔ جو سماج اور معاشرے کی خرابیوں اور خامیوں کی اصلاح کے لیے مؤثر تریاق کا کام کرتا ہے۔ تو ایسا لگنے لگا کہ ایسی ہی ایک صنف مقالہ نگاری ہمارے پاس تو پہلے سے ہی موجود ہے۔ تو یہ ایک طرح سے ہلکا پھلکا مقالہ ہی ہوا۔ لیکن یہ دلیل بھی انشائیہ کی کسوٹی پر کھری نہ اترسکی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح مقالہ اور انشائیہ الگ الگ طریقے سے اپنا رتبہ بنائے ہوئے ہیں۔
انشائیہ اور مقالہ میں فرق
بقول سید محمد حسنین:
’’مقالہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں سنجیدگی، علمیت، متانت اور دیانت ہوتی ہے۔ مقالہ میں کسی سنجیدہ بات یا خیال پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ حکمت و فلسفہ یا علم و دانش کے کسی پہلو یا رخ پر سیر حاصل بحث کرتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر سیدہ جعفر مقالے کی تعریف کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں :
’’مقالہ عام طور پر اس طویل اور بسیط مضمون کو کہتے ہیں جس میں کسی موضوع پر عالمانہ انداز میں مفصل روشنی ڈالی جائے۔ مقالہ اپنی استدلالی صلاحیت اور گہرائی کی وجہ سے ہلکے پھلکے مضامین سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ ‘‘
مقالہ سنجیدہ، عالمانہ، استوار اور متوازن فکر انگیز سنجیدگی والی تحریر کا نام ہے۔ اس میں نہایت ہی بردبارانہ طریقہ سے مقالہ نگار موضوع پر روشنی ڈالنے کا کام کرتا ہے۔ جس سے نفس تحریر کا ہر گوشہ منور ہو جاتا ہے اور قاری کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ کی تحریر میں تازگی اور غیر سنجیدگی ہوتی ہے۔ اس کی تحریر کی روشنی ہمیں ایک سمت نہیں لے جاتی بلکہ کئی اور نئی سمتوں کا اشا رہ دیتی ہے۔ ہر بات اور ہر خیال سے علمیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ایک مقالہ نگار دراصل ادب کا وہ معلم ہوتا ہے جو صرف درس و تدریس میں حکیمانہ اور عالمانہ طریقہ اپناتا ہے۔ دانشورانہ اور مدبرانہ انداز اختیار کیے ہوئے رہتا ہے وہ قاری کو گمراہ نہیں کرتا اور کبھی راہ راست سے نہیں ہٹاتا وہ قاری کی روحانی تربیت کرتا ہے۔ کبھی کبھی اس کی اس گہری سنجیدگی سے تکان کا احساس ہوتا ہے۔ ہر طرف اعصابی تناؤ اور ذہنی انجماد کی دبیز چادر پھیلی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ نگار کی تحریر میں لطافت، تازی، گپ شپ، خوش گفتاری موجود ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات غیر سنجیدہ طریقے سے کہہ کر بھی پڑھنے والے کے دل و دماغ پر چھا جاتا ہے۔ جتنا زیادہ جانتا ہے اس سے کہیں زیادہ بتاتا ہے۔ اس کی گفتگو اس مخلص دوست کی طرح ہوتی ہے جو آپ کے ساتھ آپ کی چائے پی کر آپ پر ہی نرم چوٹیں لگاتا ہے اور آپ ان چوٹوں کو سہہ کر خود کو اور زیادہ چست و چالاک محسوس کرنے لگتے ہیں۔
مقالات کے گہرے نقوش ہمیں حالی اور شبلی اور سلیم پانی پتی کے پاس ملتے ہیں۔ ان تحریروں میں صرف ہمیں سو فیصد مقالہ نظر آتا ہے۔ ان کی بلند آہنگی، علمیت، وسعت اور مضمون کے تئیں انتہائی سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ لیکن نہایت آن بان اور شان کے ساتھ یہ تحقیقی تحریریں مقالات میں اپنی جگہ جمائے ہوئے ہیں کیونکہ حالی، شبلی اور سلیم پانی پتی کے مقالات واقعی مقالات ہیں۔ اس لیے ہم ان کی تحریروں کو اسی شان کے ساتھ دیکھتے ہیں۔
شبلی کی بابت عام خیال ہے کہ شبلی کا پسندیدہ موضوع تاریخ رہا ہے۔ لیکن ان کے مقالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے چاہے وہ صحافت ہو یا شعبہ درس و تدریس تنقید، حد تو یہ ہے کہ انہوں نے فلسفیانہ موضوعات کو بھی محیط کیا ہے۔ ان کے مقالے اس بات کا مبین ثبوت ہیں۔ ان کی تحریروں کو تجزیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر تاریخی ذہن کے مالک شبلی نعمانی نثری ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انہیں بحیثیت مورخ جو شہرت حاصل ہوئی وہ صرف اور صرف انہیں کا حصہ تھا لیکن ان کی شخصیت میں ایک مورخ کے علاوہ بھی کئی صلاحیتیں درپردہ پنہاں تھیں۔ ان کی تاریخی تصانیف کے علاوہ ادبی، تنقیدی، تعلیمی اور مذہبی موضوعات پر کئی بہترین تحریریں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ انہوں نے وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے اپنے مضامین کے ذریعہ سیاسی، سماجی اور ادبی فکر کے دائرے کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ تاریخ میں ان کی دلچسپی نے انہیں آفاقی رجحان عطا کیا جو انہیں سرسید سے ایک قدم آگے لے گیا۔ ان کی مضامین کی خاصیت ان کی تحریر کا توازن اور موضوع کی کھری پرکھ ہے۔ ان کا معروضی انداز تحریر مضمون کی جان ہوتا ہے۔
اس ضمن میں رشید حسن خان لکھتے ہیں۔
’’انہوں نے قدیم و جدید کے قصے کو اپنے ذہن پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ قدیم کی عظمت کے قائل تھے لیکن اس کی کمزوریوں سے بھی باخبر تھے اور معترف بھی۔ وہ جدید کی اہمیت کو پوری طرح مانتے تھے لیکن اس سے مرعوب نہیں تھے۔ آج اس بات کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا لیکن شبلی کے زمانے میں اس توازن کی بڑی ضرورت تھی۔ شبلی نے مذہبی مسائل اور سیاسی امور دونوں میں وہ انداز اختیار کیا جس میں توازن کا پہلو نمایاں تھا۔ ‘‘
ایسی صورت میں دوسری اصناف کی طرف اپنا جھکاؤ کرنا شاید شبلی کے لیے ممکن نہ تھا۔ اس کی تحریر کی صداقت پسندی، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا اپنی رائے کا برملا اظہار کے لیے انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ ادب کی کسی دوسری اصناف میں اپنے قدم جمائے۔ اس لیے گہ مضمون نگاری ہی ان کے لیے بہتر تھی۔
ڈاکٹر سلام سندیلوی نے انشائیہ اور مقالہ کے فرق کو بڑی مضبوط دلیلوں سے بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں :
’’انشائیہ اور مقالہ میں کافی فرق ہے۔ انشائیہ مختصر ہوتا ہے اور مقالہ کافی طویل ہوتا ہے۔ مقالہ کی تکمیل کے لیے کافی چھان بین اور تحقیق و تدقیق کی ضرورت پڑتی ہے اور اس میں کسی موضوع کے مختلف پہلوؤں سے بالتفصیل بحث کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انداز بیان بھی کافی سنجیدہ ہوتا ہے۔ عربی میں ’’مقالہ‘‘ سے ملتی جلتی چیز ’’مقامہ‘‘ ہے یہ بھی تحقیقی کاوش کا نتیجہ ہے۔ مثال کے لیے ’’مقامات حریری‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح سے فارسی میں نظامی عروض سمرقندی کا ’’چہار مقالہ‘‘ بہت مشہور ہے۔ اس میں چار مقالات ہیں جن میں کافی کاوش، اور عرق ریزی پائی جاتی ہے۔ ان مقالات کو بھی ہم انشائیہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اردو میں ’’مقالات شبلی‘‘، ’’مقالات حالی‘‘، مقالات آزاد‘‘ موجود ہیں۔ ان کو مقالات ہی کہنا چاہیے۔ انشائیہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انشائیہ اور مقالہ میں اسلوب کا بھی فرق ہوتا ہے۔ انشائیہ کا اسلوب بہت سلیس، شگفتہ اور نرم و نازک ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف مقالہ میں ٹھوس اور بھاری بھرکم اندازِ بیان اختیار کیا جاتا ہے کیونکہ انشائیہ کا مقصد صرف انبساطی ہوتا ہے مگر مقالہ کا مقصد افادی ہوتا ہے۔
اب ہم مقالہ نگاری کے آغاز اور ابتدائی حالات پر ایک نظر ڈالیں گے۔ ساتھ ہی یہ دیکھیں گے کہ مقالہ نگاری نے کتنے ادوار اور کس طرح طے کیے۔
ہندوستان میں زبان اردو میں مقالہ نگاری کا آغاز ۱۸۴۵ء کے آس پاس ہو چکا تھا۔ مگر اس کی مقبولیت کا عہد ۱۸۵۷ء کے بعد سے شروع ہوا۔ دلی کالج کے نصاب میں مختلف مضامین شامل تھے امتحان کے پرچوں میں ایک پرچہ مقالہ نگاری سے متعلق بھی ہوا کرتا تھا اس دور کی مقالہ نگاری کا اندازہ مقالوں کے عنوانات سے ہو جاتا ہے دو چار عنوان ملاحظہ فرمائیے۔
’’بالائی (شمالی) ہندوستان پر ریلوں کے جاری ہونے سے کیا اخلاقی اثر پڑے گا؟‘‘
امتحان کے پرچوں میں مضمون نویسی کے علاوہ سالانہ مضمون نویسی کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ۵۰۔ ۱۸۴۹ء کے مقابلہ کے لیے یہ موضوع تجویز کیا گیا تھا۔
’’اسلامی اور انگریزی حکومتوں کے تحت آزادی رعایا کے بارے میں کیا فرق تھا؟‘‘
اسی طرح ایک موضوع ملاحظہ فرمائیے:
’’مختلف آزاد پیشے اور مفید کاروبار جو ہندوستانی دیسی ریاستوں میں پائے جاتے ہیں اور ہر ایک کی کامیابی کے بہترین طریقے خواہ ابتدائی تربیت کے لحاظ یا ما بعد کی مساعی کے۔ ‘‘
۱۸۵۴ء کے سالانہ مقابلے کا بھی عنوان دیکھ لیجیے۔
’’شاہی اور مخلوط قسم کی حکومت میں کون سی بہتر ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ کیا ہے؟‘‘
ان انگریزی اور اردو انعامی مقابلوں میں طلائی اور نقرئی تمغے دئیے جاتے۔ مفتی صدر الدین آزردہ نے بھی اردو میں بہترین مقالے کے لیے ایک طلائی تمغہ عطا کیا تھا۔ ان مقابلوں میں انعام پانے والے طلبا میں ماسٹر رام چند، موتی لال، نذیر احمد، مولوی احمد ذکاء اللہ، بھگوان داس، خواجہ ضیاء الدین خصوصیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے بیشتر فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی کالج میں معلمی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ ان ہی لوگوں کی مساعی جمیلہ سے مقالہ نگاری نے فروغ پایا۔ ماسٹر رام چندر نے ’’فوائد الناظرین‘‘ اور ’’محب ہند‘‘ ایسے دو رسالے بھی نکالے تھے۔ ان میں علمی و ادبی بحثیں اور مقالے بھی چھپتے تھے۔ مذکورہ رسالے کئی سال ادبی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۸۵۴ میں بند ہو گئے۔ اس دور کی ادبی انجمنوں نے بھی مقالہ نگاری کو رواج دینے میں ہاتھ بٹایا ہے۔ ایسی ایک انجمن دہلی سوسائٹی کے نام سے ۱۸۵۶ء میں خدمت انجام دے رہی تھی۔ اس کے روح رواں ماسٹر لال پیارے تھے۔ انجمن میں تقریروں کے علاوہ اصلاحی مقالے بھی پڑھے جاتے تھے خود ماسٹر پیارے لال سب سے اچھے مقالہ نگار تھے۔ پنجاب کے رسالہ ’’اتالیق‘‘ میں ان کے مقالے اکثر چھپتے رہے ہیں۔ اس دور کے مقالوں کے عنوانات دیکھنے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ذہنوں کو بدلنے کے تصنیف و تالیف سے زیادہ مقالہ نگاری ہی مفید و مطلوب ثابت ہوئی۔ اس دور کی ایسے نگاری بھی شاید انگریزی ادب کے زیر اثر لکھی جاتی ہوں گی۔
۱۸۵۷ء میں سیاسی انقلاب آیا۔ اس کے اسباب و علل کی تاریخ دفتر پار ہو چکی ہے یہ انقلاب باعث زحمت تو تھا مگر نوید رحمت بھی لایا۔ بنائے کہنے ڈھینے پر تعمیر نو کی فکر لاحق ہوئی۔ اسے زنجیر غلامی سے تعبیر کرنا بجا سہی، لیکن جنبش زنجیر بھی کہنا بیجا نہیں جب طلسم ٹوٹا اور تنزل حقیقت بن کر بھیانک صورت میں سامنے آیا تو ایک طرف مایوس لوگ مایوس تر ہو گئے اور تقدیر کو رو پیٹ کر بیٹھ رہے مگر دوسری طرف بیدار مغز بیدار تر بھی ہو گئے اور انسانیت کے پیکروں نے کمر ہمت کس لی۔ اور علم قلم لے کر میدان عمل میں جمع ہو گئے۔ ان بزرگوں کے لیے کام بہت بکھرا پڑا تھا مگر آفرین ہے ان کے حوصلوں کو کہ ہر شعبہ زندگی میں یہ لوگ رواں دوا ں تھے۔ انہوں نے اپنی نیک نیتی اور جذبہ خدمت الناس کے سبب ایک طرف عوام کے دلوں کی گہرائیوں میں پہنچ کر علم و عمل کا چراغ روشن کیا اور دوسری طرف خواص کے عقل و خرد کی بلندیوں کو بھی جالیا۔ ان کا بڑا کام سوتوں کو جگانا اور جاگتوں کو راہ بتانا تھا اس کام کے لیے ان بزرگوں نے مقالہ نگاری کو آلۂ کار بنایا۔ مقالہ نگاری سامنے کی چیز تھی دلی کالج نے پہلے ہی اس کی داغ بیل ڈال دی تھی اور واضح کر دیا تھا کہ ذہنی انقلاب برپا کرنے کے لیے مقالہ نگاری مفید مطلب ثابت ہو گی۔
جہاں تک ایسے نگاری کا تعلق ہے اس دور میں ہر بزرگ نے ایک آدھ ایسے ضرور لکھا ہے۔ ان میں سرسید، مولانا آزاد، ذکاء اللہ خصوصیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایسیز انگریزی فارمل (رسمی) ایسیز کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ لیکن اس قسم کے ایسیز سے اردو ایسیز انداز بیان اور اسپرٹ میں بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ ان بزرگوں کے ایسیز نہایت مربوط، مرتب اور غور و تامل کا نتیجہ ہیں۔ حالات نے انہیں ضرورت سے زیادہ سنجیدہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا پند و نصیحت ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ اسی لیے ان کے ایسیز میں بھی خشک ناصحانہ انداز پایا جاتا ہے تاہم انداز بیان کے بے ساختہ پن، لطائف، طنز و مزاح وغیرہ سے اپنے مقالوں کو ایسے کا موڈ دے دیا ہے ان کے مقالوں اور ایسیز کی یہ امتیازی خصوصیت ہے۔
سرسید نے مقالوں کے علاوہ ایسیز بھی کافی تعداد میں یادگار چھوڑے ہیں۔ ان میں سے تعصب، آزادی، رائے، غلامی خصوصیت رکھتے ہیں۔ ان میں ایسے کی روح ضرور پائی جاتی ہے مگر یہ مسرت سے زیادہ معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ مدلل اور سنجیدہ ہونے کی وجہ سے سرسید کے ایسیز فلسفیانہ کے بجائے عالمانہ زیادہ ہیں۔ سرسید کا ایسے ’’بحث و تکرار‘‘ نہایت شگفتہ اور معیاری ہے اس کا آغاز ہی ہمارے ذہن و فکر کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ ’’امید کی خوشی‘‘ سرسید کا بہترین ایسے ہے۔
مولوی ذکاء اللہ اس دور کے بہترین ایسے نگار ہیں۔ ذکاء اللہ کا ایک ایسے ’’کتب کا مطالعہ‘‘ بیکن کے ایسے کا ترجمہ ہے جس کے لیے کچھ کہنا تحصیل حاصل ہے۔ لیکن ان کا ایسے ’’آگ‘‘ ان کی جدت طبع کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس ایسے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذکاء اللہ نے انگریزی کے ’’ایسے نگاری‘‘ کے تتبع کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اگرچہ ایسے میں معلومات کا دفتر بھر دیا ہے لیکن اسلوب بیان کی شگفتگی نے عالمانہ سنجیدگی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس کے بعض جملے تو بہت ہی شگفتہ ہیں۔ مثلاً ’’آگ نا مبارک اولاد ہے‘‘ یا ’’آگ ہماری دشمن جاں سوز بھی ہے اور دست دل افروز بھی‘‘ وغیرہ۔ مولانا حالی سرسید کے بہت وفادار اور دانشمند لفٹنٹ تھے۔ حالی نے کثرت سے مقالے یادگار چھوڑے ہیں ان میں دو ایک ایسیز بھی پائے جاتے ہیں۔ ’’زبان گویا‘‘ اور ’’جب زمانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ’’زبان گویا‘‘ میں ایسے کی روح مکمل طور پر موجود ہے اس ’’موج بزم خیر‘‘ میں تشرعیح یا استدلال کے بجائے تاثرات ہیں۔ اسی طرح محسن ملک الملک کا ایسے ’’موجودہ تعلیم و تربیت کی تشبیہ‘‘ اگر چہ تمثیلی رنگ میں ہے لیکن ایسے نگاری کی حدود میں آ جاتا ہے۔
اردو ایسے نگاری میں محمد حسین آزاد بالکل الگ مقام رکھتے ہیں۔ انہیں انگریزی ایسے نگاری سے شغف تھا۔ ایسے نگاری کے بارے میں آزاد نے نیرنگ خیال کے دیباچے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے۔
’’زبان انگریزی میں نظم کا طور کچھ اور ہی ہے مگر نثر میں بھی خیالی داستانیں یا اکثر مضامین خاص خاص مقاصد پر لکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی وسعت خیال اور پرواز فکر اور تازگی ٔ مضامین اور طرز بیان قابل دیکھنے کے ہے۔ میں نے انگریزی انشاء پردازی کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔ بڑی بڑی کتابیں ان مطالب پر مشتمل ہیں جنہیں (ایسے) جواب مضمون کہتے ہیں۔ ان میں انواع و اقسام کی غرضیں مخلوط ہیں۔ مگر بہت سے مضامین وہ ہیں جن کی روشنی ابھی ہمارے دل و دماغ تک نہیں پہنچی بعض مضامین میں انسان کے قوائے عقلی یا حواس یا اخلاق کو لیا ہے۔ انہیں انسان یا فرشتہ یا دیو یا پری تصور کر لیا ہے۔ اور ان کے معاملات اور ترقی منزلت کو سرگزشت کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان میں شگفتگی طبع کے علاوہ یہ غرض رکھی ہے کہ پڑھنے کو کسی صفت پسندیدہ پر رغبت اور کسی خلق بد سے تنفر ہو یا کسی حصول مطلب کے رستے میں جو نشیب و فراز ہوتے ہیں ان سے واقف ہو۔ ‘‘
آزاد نے مشرقی مزاج کے پیش نظر ایسے نگاری میں تمثیلی رنگ اختیار کیا ہے۔ انگریزی ایسے نگاری میں تمثیلی رنگ خصوصیت اور اہمیت نہیں رکھتا۔
آزاد نے اپنے ان خیالی مضامین میں انشاء پردازی کا کمال دکھایا ہے۔ ان کے اسلوب بیان کی وجہ سے ایسیز میں لطافت و دلکشی پائی جاتی ہے۔ تمثیلوں کے ذریعہ سے تاریخ، فلسفہ اخلاق وغیرہ کے اہم پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔
مولانا شبلی اس دور کے زبردست مقالہ نگار ہیں ان کے مقالے آٹھ جلدوں پر مشتمل ہیں۔ شاید ہی کوئی اہم شعبہ زندگی اور علم و ادب کی کوئی شاخ ایسی ہو گی جس پر شبلی نے مقالہ نہ لکھا ہو۔ شبلی نے اپنے شگفتہ اسلوب بیان اور متنوع موضوعات سے مقالہ نگاری کو اس دور میں زمین سے آسمان پر پہنچادیا۔ زبان کی لطافت و رنگینی اور نزاکت خیالی نے اردو نثر کا معیار بلند کر دیا۔ شبلی نے تقریباً ایک سو مقالے یادگار چھوڑے ہیں۔ مگر ان میں ایک بھی ایسے نہیں پایا جاتا۔ شبلی عالم ِتبحر تھے قلب و نظر بھی رکھتے تھے۔ ادبی ذوق و وجدان کے بھی مالک تھے۔ اگر ایسے نگاری کی طرف متوجہ ہوتے تو ان کے ایسیز اردو ادب میں ’’خاصے‘‘ کی چیز ہوتے۔ اسی دور کے ایسے نگاروں میں مہدی حسن خصوصیت رکھتے ہیں۔ مہدی حسن کے ایسیز میں انگریزی ایسے نگاری کے تمام انداز پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ مہدی حسن نے فارمل ایسیز (مقالے) لکھے ہیں لیکن ان ادبی مقالوں کو اپنی شوخی بیان سے ایسے کا موڈ دے دیا ہے۔ یہ اتنے شگفتہ ہیں کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا تھا۔ میر ناصر علی اسی دور کے آخری چراغ ہیں ان کے مقالے ’’عرس و سالگرہ‘‘ ’’خیال بہ مقابلہ زبان‘‘ ’’زندگی بھی ایک معرکہ ہے‘‘ ’’نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا‘‘ ’’چرخ شعبدہ باز‘‘ ہر حیثیت سے ایسیز کہلانے کے مستحق ہیں۔ زبان و انداز بیان کی شگفتگی اور بے ساختہ پن ان کے ایسیز کی نمایاں خصوصیت ہے۔
دوسرا دور سرسید کا دور۔ یوں تو پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے اوائل ہی میں تیسرے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ سرسید اور ان کے رفقائے کار نے آئندہ کے لیے زمین ہموار کر دی تھی۔ مگر چونکہ اسی وقت خواب غفلت کی گرانی سے قوم کی عقل و خرد ماؤف تھی اور دل کی دنیا میں عمل نے حرارت پیدا نہیں کی تھی اسی لیے آنکھ کھلنے پر جو آواز کانوں میں پڑی اسی پر چل پڑے۔ سرسید کی تلقین اتباع مغرب اور حالی کا مشورہ تو با زمانہ بساز رنگ لایا تھا۔ جہاں تک مسلم قوم کا تعلق ہے علی گڑھ کالج کا روشن خیال جوان کی اس بیداری کا Pattern تھا۔ اس کو دیکھ کر زمانے کے نبض شناسوں کو مایوسی ہوئی کہ قوم غفلت سے بیدار تو ہوئی مگر مغرب کے طلسم خانے میں پھنس کر رہ گئی۔ پیران طریقت کی وفا کشی نے قوم کو سیاست کے جھمیلوں سے بالکل آزاد کر دیا تھا۔ لیکن سرسید اور علمائے دین کے اختلافات نے نئی پود کو مذہب سے بھی دور کر دیا اور مذہب سے دور ہوئے تو ان کی اخلاقی اقدار بھی مضحکہ خیز ٹھہری۔ ان اختلافات اور مختلف نظریوں کے تصادم نے قوم میں بے راہ روی پیدا کر دی۔ ان حالات میں بیدار مغزوں کی نئی جماعت نے بکھرے ہوئے شیرازے کو منسلک کرنے اور صحیح روح پیدا کرنے کی جدوجہد شروع کی۔
شبلی نے اسلام، اسلامی تاریخ، معاشرت، ادب وغیرہ کو صحیح طریقے پر پیش کر کے مغرب زدہ لوگوں کو مشرق کے آفتاب عالم تاب کی طرف متوجہ کیا۔ ۱۹۰۶ء میں مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال کے ذریعہ سیاست و مذہب کی عظمتوں کو اجاگر کر کے اسلامی حریت کا تصور پیش کیا۔ اس طرح چکبست، اکبر اور پنڈت برج موہن کیفی نے اپنی شاعری سے وطنیت و قومیت، مشرقی پاس و ضع، اتحاد و اتفاق اور مذاہب کی اقدار کو پیش کیا۔ غرض اسی دور کے بزرگوں کی کوشش سے آزادی کا تصور جڑ پکڑنے لگا اور ملک کی ایکائی کے خیال کو تقویت ملی۔ ان کاوشوں کا نتیجہ جنگ کے بعد ظاہر ہوا اور بقول سجاد انصاری:
’’سرسید کی تلقین وفا، وقار الملک کی تعلیم خود داری سے بدل گئی۔ ‘‘ اور ’’پیر وفا کی خانقاہ سے مجاہدین اسلام کا لشکر نکلا۔ ‘‘
مذکورہ بالا ذہنی انقلاب ادب ہی کا مرہون منت ہے اور ادب میں شاعری کے بعد مقالہ نگاری ہی کو اس خدمت کا سب سے بڑا اعزاز حاصل ہے۔ اس ذہنی انقلاب سے زندگی اور ادب کے مختلف شعبے متاثر ہوئے اس طرح مقالہ نگاری کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ سیکڑوں مقالہ نگار میدان میں آ گئے۔ ان مقالہ نگاروں میں یہاں صرف چند صاحب نظر مقالہ نگاروں کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس دور کے لکھنے والوں کو دو گروہ میں اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے گروہ میں شرر، سجاد انصاری، حسن نظامی، پنڈت برج موہن کیفی، قاضی عبدالغفار، قاضی اختر جوناگڑھی، سید سلیمان ندوی، سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، اسلم جیراج پوری، وحید الدین سلیم، سر عبدالقادر، حبیب الرحمان شیروانی، حافظ محمود شیرانی، چکبست، مرزا فرحت اللہ بیگ، عظمت اللہ، مرزا عظیم بیگ، ملا رموزی، دیا نرائن نگم، احسن ما رہروی، ڈاکٹر عبدالحق، ابوالکلام آزاد، عبدالمجید سالک وغیرہ شامل ہیں۔ یہ علمی و ادبی خدمات انجام دے کر اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
دوسرے گروہ سے ہاشمی فرید آبادی، نیاز فتح پوری، عبدالمالک آروی، عبدالسلام ندوی، رشید احمد صدیقی وغیرہ تعلق رکھتے ہیں۔
اس گروہ کے بزرگ اردو ادب کے میدان میں آنے والوں کی رہبری کی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس دور میں تقریباً ہر شعبہ ادب و زندگی سے متعلق مقالے لکھے گئے ہیں۔ جن میں تحقیقی، علمی اور ادبی تنقیدی مقالوں کی کثرت ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق، محمود شیرانی، وحید الدین سلیم، سید سلیمان ندوی، پنڈت کیفی نے ادبی مقالوں کے علاوہ تحقیقی مقالے لکھ کر مقالہ نگاری میں وسعت پیدا کر دی۔ مسعود حسین رضوی، عبدالماجد، حبیب الرحمان شیروانی، چکبست، عبدالمجید سالک، عبدالملک آروی، سر عبدالقادر، عبدالسلام ندوی نے اپنی سوانحی مقالوں سے بھی بڑا اضافہ کیا ہے ان میں سے بعض نے (ادب) تاریخی مقالے بھی لکھے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی اور مذہبی مقالے اردو میں سرمایہ ناز ہیں۔ نیاز فتح پوری کے سیاسی، مذہبی، تاریخی، ادبی تنقیدی مقالے ناقابل فراموش اضافہ ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ، ملا نوری، پطرس، رشید احمد صدیقی وغیرہ نے مزاحیہ مقالوں کی شاخ کو صرف تر و تازہ ہی نہیں رکھا بلکہ پہلے کی بہ نسبت اس کا معیار بھی بلند کر دیا۔ پطرس اور رشید احمد صدیقی ان میں بہت اونچا درجہ رکھتے ہیں۔
اگر چہ مذکورہ بالا مقالہ نگاروں میں سے ہر ایک صاحب طرز ہے اور ان کے اسالیب بیان میں بھی الگ الگ رنگ پایا جاتا ہے۔ مگر زبان کے اعتبار سے استثنائے چند سلاست اور سادگی مقالوں کی مشترک خصوصیت ہے۔ لیکن ہر ایک کا طرز شگفتہ اور دل آویز ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مقالوں میں دقیق و رنگین زبان پائی جاتی ہے اسی طرح نیاز صاحب کے مقالوں کی زبان سلیس رنگین ہے۔ دونوں مقالہ نگاروں کی طبیعتیں، عربی کی طرف زیادہ مائل پائی جاتی ہیں۔ مگر کسی جگہ الفاظ کا بے جوڑ استعمال نہیں کیا ہے۔ اس لیے دونوں حضرات زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں اور ادبی ذوق کے مالک ہیں۔
اس دور کے ایسے نگاروں کے متعلق عرض کرنے سے پہلے نثر میں ایک نئی صنف ادب لطیف کے متعلق اظہار خیال بیجا نہ ہو گا تاکہ ایسے نگاری اور ادب لطیف خلط ملط نہ ہو جائیں۔ اگرچہ ادب لطیف ایسے نگاری سے بہت مماثل ہے تاہم ادب لطیف کو کسی حالات میں ایسے نگاری نہیں کہہ سکتے۔ اس کی وضاحت کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ عام طور پر ایسے نگاری کو پہلے پہل ادب لطیف کہا جاتا تھا۔ آل احمد سرور محشر ’’خیال‘‘ کے دیباچے میں ادب لطیف پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’’انگلستان میں پیٹرPeter نے تلاش حسن کو اپنا نصب العین قرار دیا اس کا جمالیاتی احساس کے طرز میں موجود ہے۔ اس کے نصب العین کو اہمیت نہیں رہی مگر اس کا طرز اپنی رنگینی و رعنائی کی وجہ سے یادگار ہے۔ یہ حسن پرستی ہمارے شعراء کے پاس بہت عام تھی۔ چنانچہ ’’پیام یار‘‘ اور ’’فتنہ‘‘ نے اسے قیامت بنا دیا تھا۔ ادب لطیف دراصل اسی ذہنیت کی پیداوار ہے۔ یہ رنگ ٹیگور کے ترجموں سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ شرر کے عاشقانہ و شاعرانہ مضامین اور سجاد حیدر کے ’’خیالستان‘‘ وغیرہ میں اسی کا عکس ملتا ہے۔ ‘‘
اسی بیان کے بعد سرور صاحب نے اصغر گونڈوی کا قول اس بارے میں نقل کیا ہے:
’’ادب لطیف کا اصل مفہوم اس طرز انشاء سے ہے جو وسعت علم احساس شعریت اور حکیمانہ نزاکت خیال کے باہمی امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘
ادب لطیف کے متعلق سجاد حیدر کی رائے ملاحظہ فرمائیے:
’’لائٹ لٹریچر کی چاشنی کے ذریعے سے آپ عمدہ اور اعلیٰ خیالات عوام میں رائج کرسکتے ہیں۔ ورنہ محض نصیحت اور خشک فلسفہ کا قدر دانانِ علم کے سوا اور کوئی شنوا نہ ہو گا۔ ‘‘
مولانا خلیقی دہلوی کے مجموعہ مضامین ’’ادبستان‘‘ کے مقدمے میں اختر شیرانی مرحوم نے ادب لطیف کے متعلق اس طرح اظہار خیال کیا ہے۔
’’اردو کے ادب لطیف کی بنیاد مرحوم مولانا شرر لکھنوی کے شاعرانہ مضامین سے ہوتی ہے۔ ‘‘
اسی مقدمے میں ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ اردو ادب لطیف کے دور جدید کی بنیاد ایک ایسی دور افتادہ اور اجنبی زبان کی ادبی نقوش و آثار پر رکھی جاتی ہے۔ جس سے ملک کو دور کا بھی تعلق نہیں، درحال یہ کہ ہر لحاظ سے یہ فخر بنیادی طور پر انگریزی کے حصے میں آنا چاہیے تھا۔ ‘‘
مذکورہ بالا بیانات سے پہلی بات یہ واضح ہوتی ہے کہ سرور صاحب اور مرحوم اختر ادب لطیف کو ایک جدید صنف خیال کرتے ہیں جو ایسے نگاری سے مختلف ہے۔ مولانا اصغر نے ادب لطیف کی جو تعریف بیان کی ہے وہ دراصل ایسے نگاری کی جامع تعریف ہے۔ سجاد حیدر نے بھی ایسے کا مفہوم بیان کیا ہے اور اس کو ادب لطیف کہا ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ادب لطیف کو سب سے پہلے اردو میں روشناس کرانے کا سہرہ شرر کے سر ہے۔ اور شرر کے ایسیز کو ادب لطیف کا نام دیا گیا ہے۔
ا س مقالے کے ابتدائی حصے میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ایسے نگاری انگریزی ادب سے اردو میں منتقل ہو کر آتی ہے اور شرر اس کے موجد نہیں ہیں بلکہ اس کی ایک درمیانی کڑی ہیں۔ جنہوں نے اپنے زمانے میں اس صنف کو فروغ بخشا۔ شرر، سجاد حیدر، سلطان حیدر جوش وغیرہ کے ایسیز کو ادب لطیف کا نام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر جس قسم کا ادب لطیف ان ماہرین فن نے ادب کو دیا اگر ایسا ادب لطیف پیدا ہوتا رہتا تو ایک بات تھی لیکن اسی دور میں ٹیگور کے ترجموں کی وجہ سے اردو میں ٹیگوریت داخل ہو گئی۔ یہ خصوصاً نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا اور ہر کس و ناکس نے اس پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ چند ماہرین فن تو اس طرز کو خوب نباہ گئے مگر عموماً ادب لطیف مصنوعی زبان و بیان کی وجہ سے اپنے محاسن کھو بیٹھا اور اس طرح ایسے نگاری سے الگ ایک صنف بن گیا۔ اسی ادب لطیف میں عبارت آرائی اور لفظوں کی ٹھونس ٹھانس کے علاوہ عورت بھی اس کا جزو لاینفک بن گئی۔ ادب کی اس بگڑی ہوئی شکل کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
’’اس پر عورت سوار ہے۔ ‘‘
ادب لطیف کے تصنع نے لکھنے اور پڑھنے والے دونوں فریقوں کو تھکا دیا اور اسی طرح اس قسم کے ادب کا رواج کم ہو گیا۔
ادب لطیف کی تاریخ میں شرر کو اس کا امام ااور سجاد حیدر، نیاز فتح پوری اور خلیقی دہلوی وغیرہ کو اس قصر ادب کے ستون تصور کیا جاتا ہے۔ مگر ان چاروں حضرات کے کارنامے ادب لطیف (بحیثیت صنف) سے زیادہ ایسے نگاری سے قریب ہیں۔ ان لوگوں نے عموماً انگریزی کے طرز پر ماہرین فن کی طرح ایسیز لکھے ہیں۔ ان کے علاوہ حجاب اسماعیل، چودھری افضل حق، گوردھن داس، ملک محمد باقر، نسیم رضوانی وغیرہ نے بھی اس صنف کو نوازا ہے۔ ان کے کارناموں میں زیادہ ادب لطیف ہے۔ مگر خال خال ایسے کے طرز کے مضامین بھی ملتے ہیں۔
اسی دور کے ایسے نگاروں میں شرر کا نام سرفہرست ہے۔ شرر کو انگریزی ادب سے استفادے کا موقع ملا تھا۔ اگلے وقتوں ے بزرگوں کے کارنامے بھی ان کے سامنے تھے۔ شرر نے علمی ادبی مقالے بھی لکھے ہیں مگر ان کے ایسیز اور مقالوں کے طرز ادا میں فرق پایا جاتا ہے۔
اگرچہ ان کا عالمانہ و ناصحانہ انداز ایسیز میں بھی ملتا ہے مگر اسلوب بیان کے بے ساختہ پن اور شگفتگی نے ایسے کی روح قائم کر رکھی ہے۔ شرر کے ایسیز کے مطالعے سے اہم بات یہ واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کی روشنی میں اپنے تاثرات کو علم برداشتہ لکھا ہے۔ شرر نے درس عبرت دینے کے لیے عموماً مناظر قدرت کا سہارا لیا ہے۔ شرر کے ایسیز ’’آدھی رات‘‘ ’’لالہ خوردو‘‘ ’’پھول، باغ، نسیم سحر، ایک چھوٹے ذرے کی سرگزشت، بزم قدرت‘‘ اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔ آرزو، غریب کا جھونپڑا، ہم تم اور وہ بھی ان کے قابل ذکر ایسیز ہیں۔ ’’نسیم سحر‘‘ میں خداپرستوں پر لطیف طنز کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جس خدائے کارساز کی عبادت کے لیے بے تاب رہتے ہیں اس کے کرشموں کو دیکھنے کی بھی تکلیف گوارا نہیں کرتے۔ اس ایسے کا آغاز بہت پیارا ہے۔ ’’لالہ خورد‘‘ میں فطرت کی کرشمہ سازیاں بیان کرنے کے علاوہ فلسفیانہ انداز میں درس اخلاق اور مقصد حیات بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح آرزو، یاس، غریب کا جھونپڑا وغیرہ میں حیات انسانی پر لطیف تنقید ہے۔ ’’ایک ذرے کی سرگزشت‘‘ میں انوکھے انداز میں عمل کی تلقین کی گئی ہے۔ اس ایسے میں تاریخ کے دفتر سمودئیے گئے ہیں۔ مگر شرر نے اپنے شاعرانہ انداز سے اس میں بھاری پن پیدا نہیں ہونے دیا۔ ’’ہم تم اور وہ‘‘ میں صوفیوں کے ’’ھو حق‘‘ کے نعروں کی تشریح کی گئی ہے، انانیت اور دوئی کو بھی خوش اسلوبی سے سمجھایا گیا ہے۔ غرض شرر کے ایسیز اپنی خصوصیات کی وجہ سے بہت بلند درجہ رکھتے ہیں۔
حسن نظامی اردو کے صاحب طرز ادیب ہیں۔ کئی تصانیف اور مضامین ان سے یادگار ہیں۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’’سی پا رہ دل‘‘ میں ان کے بہترین ایسیز شامل ہیں۔ ان کے ایسیز کی فہرست طویل ہے۔ ان میں سے مکھی، الو، دیا سلائی، لیمپ، زلف کا ماجرا، لالٹین، اوس وغیرہ نہایت شگفتہ اور بلند درجہ ایسیز ہیں۔ حسن نظامی نے حقیر موضوعات پر اعلیٰ درجے کے ایسیز لکھ کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ایسے نگار کے لیے کائنات کی شے موضوع کا کام دے سکتی ہے اور موضوع اچھا یا برا نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ موضوع کا برتنے والا اسے اچھا اور برا بنا دیتا ہے۔ حسن نظامی نے علم اشیاء کے مقابلے میں مشاہدۂ اشیاء سے زیادہ کام لیا ہے۔ ان کے ایسیز میں ہلکا فلسفیانہ رنگ اور زبان و انداز بیان کی شگفتگی مزہ دے جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے ایسیز بہت مختصر ہیں مگر ایسے نگاری کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔
سلطان حیدر جوش بھی اس دور کے بہترین ایسے نگاروں میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ جوش کے لیے بے شمار مضامین یادگار ہیں جن میں سے گیا رہ ایسیز کا ایک مجموعہ ’’جوش فکر‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مجموعہ میں طلسم ازدواج، مسٹر ابلیس، جنون ترقی، خانہ جنگی، لیڈر انگریزی ایسیز سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ طلسم ازدواج میں نہایت اہم اور عالمگیر مسئلہ حیات پیش کیا گیا ہے۔ ’’مسٹر ابلیس‘‘ میں انسانی شیطنت کا پردہ شگفتہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’جنون ترقی‘‘ میں موجودہ سائنس کے خطروں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ طنز جوش کے ایسیز کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ایسے ’’لیڈر‘‘ ان کے طنز کی بہترین مثال ہے۔ اس میں نام نہاد لیڈر کی ریاکاری کی طرف اشارہ ہے۔ جوش کو زبان پر قدرت حاصل تھی۔ ان کے بعض جملے تو بہت ہی شگفتہ اور چبھتے ہوئے ہوتے ہیں۔ مثلاً لیڈر میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’علم الاعداد کی عینک سے صاف نظر آتا ہے کہ گزشتہ دس سال کی قلیل مدت نے لیڈر کی افزائش تعداد کے ساتھ وہی کام کیا ہے جو موسم برسات حشرات الارض کے ساتھ کرتا ہے یا امداد جنگ نے خطابات کے ساتھ کیا۔ ‘‘
جوش نے اپنے ایسے ’’خانہ جنگی‘‘ میں اتحاد کی تلقین کی ہے جو اس زمانہ کا اہم مسئلہ تھا۔ ’’خواب و خیال‘‘ اور ’’عالم ارواح‘‘ بھی جوش کے اچھے ایسیز ہیں۔ جوش کے ایسیز بھی ان کے تجربے اور مشاہدہ کا نچوڑ ہیں۔ انداز بیان کا بے ساختہ پن ایسیز کی نمایاں خصوصیت ہے۔ غرض جوش نے حیات انسانی کے مسائل پر بہترین ایسیز اردو ادب کو دئیے ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم نے جس طرح ترکی ادب سے استفادہ کر کے اردو ادب کو مالا مال کیا، اسی طرح انگریزی ایسے نگاری کی صحیح اسپرٹ کو اردو ایسیز میں رائج کیا۔ ان کا مجموعہ مضامین ’’خیالستان‘‘ ہے اس میں حضرت دل کی سوانح عمری، بھولی بسری یادیں، چاند کی کیفیت، سیل زمانہ، تاریخ، چڑیا چڑے کی کہانی، نہایت شگفتہ ایسیز ہیں۔ ادب لطیف کے متعلق ان کا خیال گزشتہ صفحوں میں آپ دیکھ چکے ہیں۔ اسی کے مطابق سجاد گہرے فلسفیانہ خیالات کو ایسے کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔ ایسے نگاری کی اہم خصوصیت ان کے ایسیز کی جان ہے۔ سجاد اپنی کہتے کہتے اجتماعی مسائل کو بھی سمیٹ لیتے ہیں اس طرح اپنی شخصیت کے آئینے میں زمانے کے سرد و گرم کو بھی پیش کرتے جاتے ہیں۔ طرز ادا کی شگفتگی ان کے ایسیز کی مشترک خصوصیت ہے۔ نیاز صاحب بھی اس دور کے ایسے نگاروں کے عناصر خمسہ میں سے ہیں۔ نیاز صاحب کے کے مجموعہ ’’نگارستان‘‘ میں ایک رقاصہ عورت ’’برسات‘‘ اپنے چاند وغیرہ بلند درجہ کے ابر ہیں۔ نیاز صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں فلسفیانہ رنگ کی آمیزش کے ساتھ حیات و کائنات پر تنقید کی ہے یہ اسلوب بیان کے بادشاہ ہیں۔ ان کے ایسیز میں شعر کے کیف، شراب کے لشکر اور شباب کی مستی کے ساتھ فلسفی کی نظر بھی ہے۔
مولانا خلیقی دہلوی بھی اس دور کے مخصوص ایسے نگاروں میں ہیں۔ ان کی ادبی کاوشیں ادبستان کے نام سے شائع ہوتی ہے۔ ’’ادبستان‘‘ اختر شیرانی کا مرتبہ ہے اس پر شیرانی نے بسیط مقدمہ بھی لکھا ہے ’’ادبستان‘‘ میں بہت مختصر ادب پارے ہیں جن میں چند ایسے کہلانے کے بھی مستحق ہیں۔ خلیقی مرحوم کے خیالات عمق ہیں۔ زبان و بیان صناعی کا نمونہ ہے۔ کیف، نظر، میرا سفر، حریص رقص، درۂ موت، معیاری ایسیز میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔
ایسے نگاری کی تاریخ میں سجاد انصاری کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سجاد نے اگرچہ بہت کم تعداد میں ایسیز یادگار چھوڑے ہیں۔ لیکن یہ حقیقی معنوں میں ایسیز ہیں اور اسے بلا تامل خاصے کی چیز کہا جا سکتا ہے۔ ان کے ایسیز عورت، عفت نسوانی، مسلمانان ہند اور تحریک اصلاح مذہب و اخلاق وغیرہ بہت اونچا درجہ رکھتے ہیں۔ سجاد کے ہاں بھی لطیف طنز ایسیز کی جان ہے۔ ان کا طرز تحریر نہایت شگفتہ ہے۔ مولانا اصغر کی تعریف کے مطابق سجاد کے ایسیز وسعت علم، احساس شعریت حکیمانہ نزاکت خیال کا باہمی امتزاج ہے۔ سجاد کے ایسیز مہدی حسن افادی کی یاد دلاتے ہیں۔ دونوں کے طرز فکر اور طرز ادا میں بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔
مقالہ نگاری کا موجودہ دور پچھلے پچیس تیس سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں ادب سے جدید طریقوں سے تنقید حیات کا کام لیا گیا ہے۔ اب ادب نہ صوفیہ کے تصورات اور حیات بعد الموت کی تشریح کے لیے مخصوص رہا۔ جس کا مفہوم ہمیشہ غلط سمجھا اور سمجھایا گیا۔ اور اس طرح کاہلوں نے زندگی کے خطروں سے راہ فرار اختیار کی تو اس میں پناہ لی اور یہ محلوں اور حویلیوں کی تکلفی طرز معاشرت کا ترجمان جس سے عوام الناس کو کوئی خاص فائدہ نہ پہنچ سکا۔ موجودہ دور میں ادب اس افراط و تفریط سے نکل کر اپنے اصلی مقام پر آیا اور صحیح خدمات انجام دینے لگا۔ اب ادب بلا تفریق مذہب و ملت اور بلا امتیاز بلند و پست حیات انسانی کی ترجمانی اور تنقید کے لیے مخصوص ہے۔ اس دور میں ادب مختلف روپ بھرتا نظر آتا ہے کہیں اس کی شان معلم کی ہے تو کسی جگہ اس کا درجہ مبلغ کا ہے۔ کہیں یہ رہبر ہے تو کسی جگہ رہزن اور چراغ رہزن، کہیں ساقی گری کرتا ہے تو کہیں محتسب کے فرائض انجام دیتا ہے۔
ادب کے مذکورہ بالا روپ مختلف اصناف میں پائے جاتے ہیں مگر سب سے زیادہ مقالہ نگاری میں نظر سے گزرتے ہیں۔ اس دور انشاء اور رواداری میں جب کہ وقت قلیل اور کار جہاں دراز ہے اور زندگی معاشی نظام کی تابع ہے۔ جس کی وجہ سے ناول کی جگہ مختصر افسانے، ڈرامے کی جگہ مختصر فیچر نے لے لی ہے۔ اسی طرح مستقل تصانیف کی مقابلے میں مقالہ نگاری زندگی اور زمانے کے تقاضے پورے کر رہی ہے۔ چونکہ آج ادب حیات انسانی کی ترجمانی کر رہا ہے اس لیے ادب کی کسی بھی شاخ کا تجزیہ اور تشریح کرنے سے پہلے رفتار زمانہ کا مفصل جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ مگر ہم یہاں موجودہ دور کی چند منزلوں کی نشاندہی پر اکتفا کریں گے۔
یہ دور سیاسی سماجی تحریکوں کا دور ہے۔ اگلے دور میں بڑی حد تک ذہنی و فکری تربیت نے جذبہ آزادی کی حرارت سے دلوں کو گرما دیا تھا۔ اور دور تذبذب کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا۔ لہٰذا پہلی جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہی وطن کے جانباز صف آراء ہو گئے۔ ہندوستانیوں کے عزم راسخ کا پہلا عملی ثبوت کانگریس اور خلافت کی تحریک تھا۔ حکومت اس وقت تحریک کو تو دبا سکی لیکن یہ جذبہ حریت کسی طرح دبا نہ سکی۔ مہاتما جی کی قیادت میں مستقل اور سنجیدہ طریقے پر جنگ آزادی کا سلسلہ اس کے بعد پچیس سال تک جاری رہا جس کے ۲۲ء ار ۴۲ء اہم سنگ میل ہیں۔ اس دوران میں جذبہ آزادی صرف سیاست تک ہی محدود نہیں رہا۔ آزادی کے تصور نے جو حب الوطنی اور قومیت کا جذبہ پیدا کر دیا تھا اس نے زندگی اور ادب کے ہر شعبے کو متاثر کیا اور اس کی سب سے بڑی مہم یہ تھی کہ ہر جگہ سے غیر ملکی عنصر کو کسی نہ کسی طرح نکالا جائے۔ جاگیر داری اور سرمایہ داری موجودہ دور کے اہم مسائل تھے اور ہیں۔ یہی ہماری مفلسی کے ذمہ دار تھے اور ہیں اور بڑی حد تک مفلسی ہی ہماری محرومیوں کی ذمہ دار ہے۔ ان مسائل نے کسان اور مزدور کو موضوع سخن بنا دیا۔ کسان اور مزدور کے ساتھ کے کئی مسائل بھی سامنے آئے۔ ۳۵ء میں نئے آئین کے تحت ملک میں کانگریس وزارتیں برسراقتدار آئیں۔ ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند مصنفین ایک دستور العمل لے کر میدان میں آئے اور ہر شعبہ زندگی میں نوائے وقت کا نعرہ بلند کیا۔ اس مکتب خیال کے لوگوں نے اہل ہند کی تمام کلفتوں کا واحد علاج اشتراکیت کو قرار دیا۔ ۳۹ء دوسری جنگ عظیم نے مفلسی اور غلامی و بے بسی کے وہ رنگ دکھلائے کہ آزادی ملک کا جذبہ پکا پھوڑا بن گیا۔ آخر ۱۹۴۷ء کا سال مژدہ آزادی تو لایا مگر تقسیم کی وجہ سے ہنگامے بھی رونما ہوئے، ہنگاموں نے سیاسی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی مسائل پیش کر دئیے جو نہایت غور طلب تھے۔ بلکہ آج تک سلجھائے نہیں سلجھتے۔ ملک کے ان حالات نے جو چند در چند مسائل پیدا کر دئیے انہیں بڑے بڑے خانوں میں اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جاگیر داری اور کسان، سرمایہ داری اور مزدور، شہر و شہری، دیہات و دیہاتی، مذہب و سائنس، تخلیص اور مساوات، انسانیت اور بربریت، اشتراکیت اور جمہوریت، رجعت پسندی اور انتہا پسندی، زر اور اقتصادیات و معاشیات وغیرہ۔ غرض جس طرح ہجر و فراق کے پہلو سے سیکڑوں مضمون اور اسلوب نکل آئے ہیں اسی طرح جذبہ حریت اور انسانیت دوستی سے لیکر سیکڑوں مسائل نکل آئے ہیں۔ یہی تمام مسائل ہمارے ادب کے اہم موضوع بن گئے ہیں۔ ان سیکڑوں موضوعات نے ادب میں تو تنوع پیدا کر دیا ہے لیکن متضاد نظریوں سے مسائل کا مینارۂ بابل بن گیا ہے۔ جہاں ہزار منہ ہزار باتیں ہیں مختلف قسم کے نقوش ہمارے دل و دماغ پر اس طرح مرتسم ہوتے چلے جاتے ہیں کہ کوئی ایک صاف ستھرا نقش اوپر نہیں آتا۔ سیاست، معاشرت، وغیرہ میں اسی وجہ سے ہم ایک ہونے کی کوشش کرتے ہیں اتنے ہی نیک ہوتے جاتے ہیں۔ مختلف خانوں میں بٹتے جاتے ہیں۔ یہی حال ادب کا ہے۔ مقالہ نگاری میں یہی تنوع موضوعات کا بڑا سبب ہے۔ ان مقالات سے خاطر خواہ فائدہ پہنچا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن آئندہ کے لیے کیا منصوبے تیار کرنے ہیں۔ ان کے اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک علمی و ادبی مسائل کا تعلق ہے اس شعبہ کو مقالہ نگاری سے یقینی طور پر فائدہ پہنچا ہے۔
اسی دور میں مقالہ نگاری کے اعداد و شمار پیش کرنا دشوار ہے۔ ابھی اگلے وقتوں کے چند بزرگ موجود ہیں۔ ان بزرگوں نے اپنی کاوشوں کو علم و داب اور تحقیق و تنقید تک محدود رکھا ہے۔ چونکہ تحقیق و تنقید ان بزرگوں کا میدان ہے لہٰذا زبان و انداز بیان کی سلاست و سادگی اور بالغ نظری اور گہرائی ان کے مقالوں کی امتیازی شان ہے۔ قاضی عبدالوہاب اس دور میں اپنے تحقیقی و تنقیدی مقالوں کی وجہ سے خصوصیت رکھتے ہیں تحقیق و تنقید ان کی بہت اہم خدمت ہے، اس میدان میں موصوف بہت بلند درجہ رکھتے ہیں۔ تحقیق و تنقید میں قاضی صاحب قیاس آرائی اور رعایت کو گناہ سمجھتے ہیں۔ بابائے اردو کی طرح الفاظ نہایت سلیس و سادہ استعمال کرتے ہیں اور انداز بیان کے ایچ پیچ میں اپنے موضوع کو الجھنے نہیں دیتے۔
موجود ہ دور کے دوسرے گروہ کے مقالہ نگاروں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ جاتی ہے اور علم و ادب اور حیات و کائنات کے ہر شعبے سے متعلق ہزاروں مقالے ملتے ہیں چونکہ دور حاضر تنقید کا دور ہے اس لیے انسانی فکر و نظر کا شعبہ اس سے متاثر ہے۔ لہٰذا ہر نوع کی مقالہ نگاری میں واقعیت و حقیقت سے قریب تر رہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تحقیق اور تنقید کے لیے اصولوں اور نظریوں کو برسرعام لانے اور اس کی ماہیت و اہمیت کو واضح کرنے میں مقالہ نگاری اس وقت بہت اہم خدمت انجام دے رہی ہے۔ سوانحی و سماجی مقالے بھی نئے اصولوں اور نفسیاتی تجزیے کی پیش نظر لکھے جاتے ہیں۔ فن و ادب پر بھی بصیرت افروز مقالے نظر آتے ہیں۔ اشتراکیت، مارکسزم ادب برائے زندگی کے نظریوں اور ان کی اقدار پر اہم مقالے اس دور کی مقالہ نگاری میں خصوصیت رکھتے ہیں۔ علمی، تاریخی، مذہبی مقالے بھی کسی طرح کم نہیں پائے جاتے۔ ان کے لیے بعض رسائل مثلاً معارف، الفرقان، ترجمان القرآن وغیرہ مخصوص ہیں اس طرح اقتصادیات و معاشیات سے متعلق بھی مقالوں کی قلت نہیں ہے۔ ان کے لیے بھی رسائل مخصوص ہیں۔ رسالہ جامعہ نے بھی اس سلسلے میں اہم خدمت انجام دی ہے ۳۸ء سے ۴۶ء تک رسالہ جامعہ کی جلدوں میں جو مقالے چھپے ہیں وہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے چند عنوانات ملاحظہ فرمائیے۔ کھاد، ہندوستان اور مزدور، ہندوستان اور کسان، انگلستان، بنک قومیت کی تعمیر میں سائنس کی اہمیت، ہماری آبادی، ہمارا معاشرہ اور اس کا اثر معاش پر، دیہی مسئلہ، دیہات کا مشترک نظام وغیرہ۔ غرض موجودہ دور تنوع موضوعات اور مقالات کی بہتات کے لحاظ سے گزشتہ ادوار پر فوقیت رکھتا ہے۔ ارباب قلم کی کثرت کی وجہ سے اسالیب بیان میں بھی کثرت پائی جاتی ہے۔ ان میں بعض نے سلیس و سادہ، بعض نے سلیس و رنگین اور بعضوں نے دقیق اسلوب اختیار کر رکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر اپنے پیش روؤں کے کسی نہ کسی اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجموعی حیثیت سے سلاست و سادگی کی طرف طبیعتیں زیادہ مائل نظر آتی ہیں اس جگہ مختلف اسلوب پر مفصل اظہار ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک ایسے نگاری کا تعلق ہے موجودہ دور میں اس کا فقدان ہے۔ اگر چہ فنی و جمالیاتی ذوق اور مشاہدہ کے شوق کے پیش نظر اس دور کو ایسے نگاری کے ارتقاء کی اہم منزل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن معدودے چند ارباب قلم ملتے ہیں جنہوں نے اس قسم کے ایسیز لکھے ہیں۔ ان ایسے نگاروں میں سے فکر تونسوی، کنہیا لال کپور اور مشتاق احمد یوسفی قابل ذکر ہیں۔ فکر کا ایسے ’’مسخرا‘‘ یا ’’سر کا درد‘‘ ہر حیثیت سے معیاری ہے۔ اسی طرح لال کنہیا کپور کا ایسے ’’گھر یا آیا‘‘ بہترین ایسے ہے۔ طنز و مزاح اس کی جان ہے۔ ہمایوں کی ۵۵ اور ۵۶ کی جلدوں میں بھی چند شگفتہ ایسیز پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مشکور حسین کا ’’گزارا کیسے ہو؟‘‘ اور اقبال سلہری کا ’’سیر مریخ‘‘ اچھے ایسیز ہیں۔ مرزا ادیب نے بھی ایسیز لکھے ہیں۔ لیکن ان میں جدت یہ کی ہے کہ انہیں افسانوی رنگ دے دیا ہے۔
اردو ادب کی تمام اصناف اپنے مبادیات کی بدولت ایک دوسرے سے مختلف رنگ و آہنگ رکھتی ہے۔ ان کے اپنے اپنے بنیادی عنصر ان کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے میں کارگر ہوتے ہیں۔ اسی طرح انشائیہ کئی ایک اصناف کو چھوکر گزرتا ہے لیکن اپنی ہیئت، رنگت اور انفرادیت میں کوئی فرق نہیں آنے دیتا۔ اسی خیال کو ہم مختلف ادباء کی نظر سے دیکھیں گے۔ جس میں کئی ایک ادیب مشہور انشاء پرداز کے نام سے مشہور ہوئے۔ یعنی انشائیہ اور انشاء پردازی میں فرق معقول دلائل کے ساتھ مانا گیا۔ انشاء پردازی کی صنف بالکلیہ الگ تو نہیں کہی جا سکتی لیکن اپنی جڑیں اور شاخیں انشائیہ کے برگ و بار سے ایک طویل راستے سے گزرنے کے بعد متصل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اب ہم دونوں اصناف کے متفرقات کو محسوس کرتے ہوئے چند انشاء پردازوں کے سنہری نمونے بھی ملاحظہ کریں گے۔
٭٭٭
باب سوم: انشائیہ کی اہمیت و افادیت
انشائیہ وہ طرز تحریر ہے جس میں مغز و مضمون پر کم اور حسن عبارت پر زیادہ توجہ ہوتی ہے تو بات مکمل نہ ہو گی۔ دراصل انشائیہ کوئی منطقی تحریر نہیں ہوتی بلکہ فنکار کے سماج اور اپنی زندگی کے تعلق سے ذاتی تجزیوں کا ایک اظہار ہے۔ یہ اظہار کہیں صاف سیدھا سادہ اور کہیں بصیرت و دانائی لیے ہوئے ہوتا ہے۔ نیز انشائیہ نگار اپنے تخیل کے اظہار کے لیے ایک ایسا مخصوص انداز اپناتا ہے جس سے اس کا تخلیقی حسن مزید نمایاں ہو جاتا ہے۔ اچھا انشائیہ روح و انبساط اور نفس کو کیف بہم پہنچاتا ہے۔ یہی انشائیے کی امتیازی خصوصیت ہے۔ انشائیہ کسی بلیغ بات کو کم الفاظ میں اپنے مخصوص انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے شادابی اور شگفتگی کے ساتھ ہم تک پہنچاتا ہے۔ جسے پڑھ کر مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ گو اردو میں انشائیہ ابھی نقطۂ ارتقاء پر نہیں پہنچ سکا لیکن اس سلسلے میں جو کچھ ہوسکا ہے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انشائیہ اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی شعور کا آئینہ دار ہے۔ اپنی آزاد روی میں انشائیہ نے ادب کے مختلف گوشوں یعنی تاریخی، سیاسی، سماجی، جغرافیائی اور اخلاقی وغیرہ کا بھی بخوبی احاطہ کیا ہے۔ شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی اور سرسید احمد خاں کے کئی مضامین جو انشائیہ نگاری سے ہمکنار محسوس ہوتے ہیں، تاریخی اور سماجی حالات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
نصیر احمد خاں کے مطابق اگر ہم انشائیہ کے دور پر نظر ڈالیں تو اردو ادب کے ٹیگوریت کے دور میں انشائیہ ادب لطیف یا انشائیہ لطیف کا درجہ رکھتا تھا۔ اس دور کی نثری کاوشوں میں اسلوب کی تازگی، تدبیر کاری کی نزاکت اور قلبی تاثرات کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار، سجاد حیدر یلدرم، عبدالقادر، حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ، ملا واحدی، اختر تلہری، سلامت اللہ، قمر رئیس، محمد حسن، خلیقی دہلوی، نیاز فتح پوری، مہدی افادی، سجاد انصاری، عبدالماجد دریاآبادی اور احمد جمال پاشا وغیرہ ایسے نام ہیں جنہوں نے تقریباً انشائیے لکھے ہیں۔ لیکن واضح طور پر اپنی تحریروں کو کبھی انشائیے کا نام نہیں دیا۔ مولوی ذکاء اللہ نے اخلاقیات کو موضوع بنا کر انشائیہ نما کئی مضامین لکھے۔ نیاز فتح پوری نے انہیں اردو انشائیے کا موجد تک کہہ دیا اور عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ میں ’’نہیں ‘‘، ’’نسیم سحر‘‘، ’’عمر رفتہ‘‘، ’’ہم تم اور وہ‘‘ اور ’’ مغرور جوتا‘‘ وغیرہ انشائیہ لکھ کر اسلوب کی رنگینی کے ساتھ سماج کے کئی مسائل کو ابھارا۔ فرحت اللہ بیگ نے اردو کے نثری اسلوب میں خوش طبعی کو فروغ دیا۔ بقول وزیر آغا ’’انشائیہ کا مسلک آزاد روی ہے۔ وہ شاہراہ پر سفر کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔ لہٰذا بار بار شاہراہ کو ترک کر کے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر سفر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے خود ہی ایک نئی پگڈنڈی تراشتا ہے۔ انشائیہ میں کسی بھی معمولی شے کو ایک نئے زاوئیے کے ساتھ غیر معمولی بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہاں پر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہم انسانوں نے اپنے تحفظ کے لیے ہر طرف قاعدوں، اصولوں اور نظریوں کی دیواریں اٹھا رکھی ہیں۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر انشائیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ ان دیواروں میں روزن نہیں بنائیں گے تو تازہ ہوا کی کمی کے باعث آپ کی سانس رکنے لگے گی۔ دیکھا جائے تو انشائیہ خود ایک روزن ہے جس سے لگ کر آپ نہ صرف تازہ ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ جس کے ذریعہ آپ باہر کی وسیع و بے کنار دنیا سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔ انشائیہ نگار خود آزاد ہوتا ہے۔ بلکہ دوسروں کو بھی آزادی حاصل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اگر کوئی صنف ادب قید و بند سے رہائی کا ایسا اچھا انتظام کرسکے تو اس سے زیادہ جاندار صنف اور کون ہوسکتی ہے۔ وہ صرف کائنات اکبر کی سیاحت کرنے میں کامیاب ہے بلکہ کائنات اصغر کی غواصی پر بھی قادر ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے شے، شخصیت اور شاہراہ کی قید سے رہائی حاصل ہے۔ ‘‘
انشائیہ جس کا زیور حسن کاری، بے تکلف انداز، غیر رسمی طریقہ کار اور تہہ داری سے مزین ہے، خواجہ حسن نظامی کے نوکِ قلم سے نکھرتا سنورتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی نے انسان کی باریک بینی، مشاہدات کی گہرائی اور تجربات کی وسعت کو اپنے انشائیوں میں پیش کیا ہے۔ مثلاً ’’جھینگر کا جنازہ‘‘، ’’آنسو کی سرگزشت‘‘، ’’دیا سلائی‘‘، ’’الف خالی‘‘، ’’تمباکو نامہ‘‘ میں سماج کے کئی پہلوؤں کو قاری کے سامنے وقت واحد میں لا کھڑا کیا ہے۔ خلیقی دہلوی نے انسا ن کی اظہاریت کی لَے کو بہترین انداز میں اپنے انشائیوں ’’باسی ہار‘‘ اور ’’میرا ہمسفر‘‘ میں پیش کیا ہے۔
مہدی افادی کی جذبات نگاری کا جواب نہیں۔ ہر قسم کے جذبات کی تدبیر کاری کا رنگ مہدی افادی کی تحریروں میں جھلکتا ہے۔ ان کے لہجہ کا بانکپن، تراکیب کی ندرت، اور استعاروں کی جلوہ گری ادب لطیف کا بہترین نمونہ ہیں۔ وہ قاری کو دعوت فکر کے گہرے سمندر میں مدعو کرتے ہیں۔ تو دوسری طرف حقیقت کا اظہار اور انسانی رد عمل کی برجستہ تصور بھی پیش کرتے ہیں۔ سجاد انصاری کے ’’محشر خیال‘‘، ’’تکون‘‘ اردو ادب میں جامع سے اختصار، بندش سے آزاد روی رسمی طریقوں سے غیر رسمی طریقوں اور فرسودہ فکر سے تازگی ٔ فکر کی طرف قلانچیں بھرتے نظر آتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی، مہدی افادی کی طرح جاوید وششٹ، اشرف صبوحی، محمود بیگ، مہیشور دیال، ضمیر حسن دہلوی نے بھی اس صنف نثر کو سماجی حقائق کی پردہ کشی و سماج سے جڑے سلگتے موضوعات کی عکاسی اور خود کے اظہار کے لیے وسیلہ بنایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی گہری سوچ، الفاظ کی بندش اور قاری کے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ پیدا کرنے والی تحریریں اپنی مثال آپ ہیں۔
پطرس بخاری کا نیا انداز تحریر اور جدید و نئے وسائل سے واقفیت کرانا، اردو ادب میں ایک نئے باب کو وا کرتا ہے۔ بائیسکل جو کہ کلی طور پر مغرب کی دین ہے مشرق کے لوگ اس سے واقف نہیں تھے۔ دھات سے بنی ایک ایسی چیز جو کہ ہوا کے دوش پر اپنے مالک کو قلیل محنت و وقت کے بدلے میں کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد لوگ اس طلسماتی دنیا سے باہر آنے لگے جس میں جادوئی قالین پر بیٹھ کر کہیں بھی پہنچا جا سکتا تھا۔ اس حیرت کے مقام کو اور بائیسکل کے فوائد و نقصانات کو بھی بیان کرتے ہوئے جس طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پطرس بخاری نے اپنی تحریر پیش کی ہے اس کا نعم البدل آج تک نہیں مل سکا۔
سید عابد حسین، کرشن، چندر، فرتق کاکوروی، سید آوا رہ، اندر جیت لال، محمد حسن، جوگندرپال، مجتبیٰ حسین اور معین اعجاز نے بھی اپنے انشائیوں کے ذریعہ سماج کے کئی اچھوتے پہلوؤوں کو منظر عام پر لانے کی سعی کی ہے۔ جس میں وہ حتی الامکان کامیاب رہے ہیں۔
غیر دہلی والوں میں رشید احمد صدیقی کا ذکر نہایت ضروری ہے۔ ایک انشائیہ نگارجس طرح اپنی تمام تر لطافت اور ظرافت، ویژن، دوررس نظر اور اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں ایک بہترین سماجی تاریخ مرتب کرتا چلا جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح اسی پس منظر میں اگر رشید احمد صدیقی کے انشائیوں کو دیکھا جائے تو زیادہ تر انشائیے علی گڑھ، علی گڑھ یونیورسٹی، علی گڑھ کی زندگی کا روزمرہ رقم کرتے ہوئے علی گڑھ کی سماجی تاریخ مرتب چلے جاتے ہیں۔
سید محمد حسنین جنہوں نے انشائیوں میں گہرے مشاہدے اور لطیف انداز بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ مشاہدہ اور لطیف انداز بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے وہ موضوع کو ہی نہیں بلکہ اپنے کردار کے مختلف پہلوؤں اور انوکھے زاویوں سے قاری کے سامنے لاتے ہیں۔ ’’نشاۂ خاطر اس کی بہترین مثال ہے۔ ان کے علاوہ وحید الدین، دوستوں کی ایذا رسانی، محمد اسماعیل، وقت سرمایہ۔ سجاد حسین ’’ہولی‘‘ عبدالقادر ’’گھر سے نکل کے دیکھو‘‘ اور سلطان حیدر جوش ’’لیڈر‘‘ معاشروں کے کئی ایسے کرداروں کو سامنے لاتے ہیں جو صدیوں سے انسان کے اندر ہی چھپے بیٹھے تھے لیکن انسانوں کو اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ خود کے اندر انہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔
مرزا محمود بیگ مرحوم اردو کے صاحب طرز انشاء پرداز تھے لیکن انہیں وہ شہرت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہی رہی کہ ان کی توجہ کا اصل مرکز دلی کالج اور اس کے طالب علم رہے۔ لکھنے پڑھنے کا وقت انہیں بہت کم ملتا تھا۔ پھر بھی انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے اصرار آمیز تقاضوں پر بہت سے مضامین اور انشائیے لکھے۔ ان کے انشائیوں کے دو مجموعے ’’بڑی حویلی‘‘ اور ’’دلی ۱۸۵۷ء کی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کے ان مجموعوں میں گفتگو کی زبان کا لطف بڑا گہرا نظر آتا ہے۔
انشائیہ کا سیاپا اگر دیکھیں تو جدید تنقید میں غالباً انشائیہ وہ واحد صنف ادب ہے جس کے بارے میں بڑے نزاعی نظریات اور جذباتی مقالات لکھے جاتے ہیں۔ اس کی تعریف اور آغاز دونوں پر کافی بحث ہوتی رہی ہے۔
بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی:
’’سرسید اردو ادب کے سب سے پہلے انشائیہ نگار ہیں۔ انہوں نے تہذیب الاخلاق نکالا اور تہذیب الاخلاق اردو کی انشائیہ نگاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘
ساتھ ہی انہوں نے سرسید احمد خان کے رفقاء کو بھی بہترین انشائیہ نگار تسلیم کیا ہے۔ مثلاً محسن ملک، وقار ملک اور حالیؔ۔ محمد حسین آزاد کی تحریر کو بھی انہوں نے انشائیہ کی تحریر مانا ہے۔ ایسی تحریر کی اردو ادب میں کئی دن سے تلاش تھی۔ اس بارے میں وہ رقمطراز ہیں :
’’نیرنگ خیال میں آزاد کے جو مضامین شامل ہیں۔ ان میں انشائیہ کا ایک ایسا انداز نظر آتا ہے۔ جس سے اردو زبان اب تک نا آشنا تھی۔ ‘‘
پروفیسر سلیم اختر کے مطابق ڈاکٹر وزیر آغا انشائیہ کے باوا آدم نہیں ہیں۔ بلکہ ان سے پہلے بھی کئی لوگوں نے بہترین انشائیے تحریر کیے ہیں۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں نہایت واضح الفاظ میں انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کو پہلا انشائیہ نگار یا بہترین انشائیہ نگار ماننے سے انکار کر دیا۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے جملہ ذرائع ابلاغ استعمال کرتے ہوئے انشائیہ کی بحث کو یوں الجھا دیا اور مختلف انشائیہ نگاروں (جیسے مشکور حسین یاد) کی یوں کردار کشی کی کہ انشائیہ کی اصطلاح کو ایجاد کرنے کا تاج اپنے سر پر سجانے کا موقع مل جائے۔ حالانکہ تحقیق سے لفظ انشائیہ اور انشائیہ نگاری کی قدامت واضح ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں مشرف احمد کی فراہم کردہ معلومات کی رو سے ’’انتخاب مخزن‘‘ میں مندرجہ ذیل ادباء کے انشائیہ شائع ہوئے ہیں۔ ’’رموز حیات‘‘ اور ’’چھونا منع ہے‘‘ (قاری سرفراز حسین عزمی دہلوی) ’’ٹوپی‘‘ اور ’’دستار‘‘ (شیخ محمد اکرم) ’’سوچنا‘‘ (خواجہ محمد اسحاق۔ ہمایوں فروری ۱۹۴۴) ’’اگر موت نہ ہوتی‘‘ (محمد عبدالقادر فاروقی۔ ہمایوں مارچ ۱۹۴۴ئ) ۱شرف احمد اس ضمن میں مزید لکھتے ہیں۔
’’عبد الحلیم شرر کے رسالے ’’دلگداز‘‘ میں ان کے بہت سے انشائیے ہیں۔ شرر کے بعض انشائیوں کے نام یہ ہیں۔ ’’شادی و غم‘‘، ’’سوگواری‘‘، ’’سادگی‘‘ (مضامین شرر جلد ۷) عبدالحلیم شرر کے مضامین شرر جو شاعرانہ و عاشقانہ کہہ کر پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں بیشتر انشائیے ہیں اس جلد میں ایک انشائیہ ’’خود نمائی‘‘ ہے جس کے بارے میں حاشیہ میں یہ بات درج ہے۔
’’یہ مضمون انگریزی کے جادو بیان ایڈیسن کے ایک مضمون سے ماخوذ ہے۔ ‘‘ ص ۷۹۸
اس کے علاوہ ایک اور انشائیہ ’’ہماری خود پرستیاں و خود نمائیاں ‘‘ بھی ہے۔ جس کے بارے میں یہ عبارت درج ہے کہ ’’یہ مضمون اگرچہ اپنا بنالیا گیا ہے مگر گولڈ اسمتھ سے ماخوذ ہے۔ ‘‘ ص ۷۷۵
ڈاکٹر سلیم اختر واضح طور پر لکھتے ہیں کہ
’’جس زمانے میں ۱۹۵۷ء میں ڈاکٹر وزیر آغا کی تحریریں ’’ادب لطیف‘‘ میں نثر لطیف، لطیف پا رہ یا خیالیے کے عنوان تلے چھپتی تھیں اور وہ ہنوز لفظ انشائیہ سے ناآشنا تھے تو اس سے کہیں پہلے ۱۹۴۴ء میں سید علی اکبر قاصد کے انشائیوں کا مجموعہ ’’ترنگ‘‘ پٹنہ سے شائع ہو چکا تھا۔ اس کا تعارف کلیم الدین احمد اور دیباچہ اختر اورینوی نے لکھا تھا۔ ۱۰۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب انشائیوں پر مشتمل ہے۔
اختر اورینوی نے اپنے دیباچے کا آغاز ان سطور سے کیا ہے۔
’’اردو ادب میں انشائیوں (Essays) اور خاکوں کی بڑی کمی ہے۔ کبھی کبھار کوئی اچھا سا انشائیہ پرچوں میں نکل آتا ہے تو دو گھڑی کے لیے جی بہل جاتا ہے۔ ‘‘
(یہ دیباچہ ’’انشائیہ نگاری‘‘ کے عنوان سے ’’مہر نیم روز‘‘ کراچی کے اختر اورینوی نمبر ۱۹۷۷ میں طبع ہو چکا ہے اور مشرف احمد نے اس کی نشاندہی ڈاکٹر سلیم اختر کو کی تھی)
زندگی ہر لمحہ تغیر و تبدل سے ہمکنار ہوتی رہتی ہے۔ زندگی میں ہونے والی رد و قبول کی کشمکش سے تحریریں بھی دو چار ہوتی ہیں۔ ادب زندگی کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے اسی لیے بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ اپنے تقاضوں میں بھی بدلاؤ لاتا رہتا ہے اور تخلیق کار اپنے عہد کے درپیش مسائل سے آنکھیں چرا کر حقیقت نگاری نہیں کرسکتا اس لیے ہر دور میں پیش کیے گئے انشائیے اپنی شناخت کو قائم رکھنے کی تگ و دو میں لگے رہے اور اپنے اپنے دور کو اپنے آئینے میں منعکس کر کے قاری کے ذہن و جذبات سے جڑے رہے۔ اب ہم صدی بہ صدی بتدریج انشائیہ اور انشائیہ نگاری کی بدلتی ہوئی سوچ اور تغیر کو دیکھیں گے۔ ساتھ ہی صنف انشائیہ کی سنورتی ہوئی ہیئت پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔
انشائیہ نے مختلف صدیوں اور دہائیوں میں کس طرح اپنے بال و پر سنوارے اور انشائیہ نگاروں کی رائے بتدریج کس طرح بدلتی گئی اس بات کا جائزہ اگست ۱۹۸۹ء میں نصیر احمد خاں نے اپنی کتاب ’’اردو انشائیہ‘‘ میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
بیکن ’’انشائیہ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نثری اصناف میں انشائیہ ایک ایسی مختصر تحریر کا نام ہے جس میں بغیر کسی تجسس اور کھوج کے حقیقت کا اظہار ہو۔ مونتین شخصیت کے اظہار کو انشائیہ کا اہم جزو قرار دیتا ہے۔ جانسن کے خیال میں انشائیہ ذہن کی ایک ترنگ ہے۔ انشائیہ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ انشائیہ ہماری سماجی زندگی کے کسی موضوع پر قلمکار کی ایک گپ ہے جس میں آپ بیتی اور جگ بیتی کی دھوپ چھاؤں ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انشائیہ میں ایک مرکزی بات سے کچھ ضمنی باتیں پھوٹ کر اپنا تانا بانا تیار کرتی ہیں۔ اس میں رمزیت ہوتی ہے۔ اختصار اور تہہ داری ہوتی ہے اور زبان و بیان میں کاٹ و بانکپن ہوتا ہے۔ وزیر آغا انشائیہ کے بارے میں ذرا تفصیل سے لکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں انشائیہ میں غیر رسمی طریق کار اور شخصی رد عمل لازمی ہے۔ مسرت بہم پہنچانا انشائیے کا بنیادی کام ہے۔ عدم تکمیل اس کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ موضوع کی مرکزیت کے علاوہ اس میں ضمنی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ مضمون یا مقالہ کے مقابلے میں اس کا ڈھانچہ کہیں زیادہ لچکیلا ہوتا ہے۔ اس میں مرکزی خیال کے با وصف دلائل کا کوئی منضبط سلسلہ قائم نہیں کیا جاتا۔ وہ دعوت فکر دیتا ہے۔ اختصار اس کا ایک بنیادی وصف ہے۔ انشائیہ کا موضوع اور نقطۂ نظر انوکھا ہوتا ہے۔ جو قاری کی زندگی کی یکسانیت اور ٹھہراؤ سے اوپر اٹھا کر ماحول کا از سرنو جائزہ لینے پر مائل کرتا ہے۔ انشائیہ نگار کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی مشورہ دیتا ہے بلکہ وہ مخصوص انداز سے کسی موضوع پر سوچنے کی ترغیب دیتا ہے اور بس۔
ان تعریفوں سے ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ انشائیہ نثری اظہار کی ایک ایسی صنف ہے جس میں حقیقت کا اظہار شخصی رد عمل، عدم تکمیل، رمزیت و اشاریت، غیر منطقی ربط، اختصار، دعوت فکر، مسرت بہم پہنچانے کی صلاحیت، زبان و بیان میں بانکپن اور مرکزی بات سے کچھ ضمنی باتوں کا ذکر جیسی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔
گو کہ اردو کی اصناف نثر میں انشائیہ مضمون کے زیادہ قریب ہے۔ یہ قربت ان کی الگ الگ شناخت کو مشکل بنا دیتی ہے۔ لیکن ان دونوں کی تعریفوں کو مد نظر رکھ کر اگر ہم غور کریں تو یہ الجھن دور ہوسکتی ہے۔ مضمون کی فضا رسمی ہوتی ہے جہاں ہر بات، ہر جملہ اور ہر پیراگراف مرکزی خیال کی منطقی وضاحت کرتا ہے۔ جبکہ انشائیہ غیر رسمی ماحول میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں محض تاثرات ہوتے ہیں جو ذہنی ترنگ کے تابع ہوتے ہیں۔ مضمون میں موضوع پر سنجیدگی سے بحث ہوتی ہے۔ اس میں صراحت اور وضاحت کی بنیاد دلائل پر ہوتی ہے۔ جبکہ انشائیہ میں داخلیت کی کارفرمائی ملتی ہے۔ ایجاز و اختصار اور رمز و اشاریت انشائیہ کا حسن اور حقائق کا اظہار، موضوع کی طرف شخصی رد عمل اور عدم تکمیل انشائیہ کے فنی اجزاء ہیں۔ مضمون اور مقالے میں بات کو عالمانہ انداز سے کہنے اور معلومات فراہم کرنے پر خاصا زور ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ تر علم و حکمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ انشائیہ میں خاص زور انداز بیان پر ہوتا ہے۔ اس میں واقعات سے زیادہ واقعات کے رد عمل سے سروکار ہوتا ہے۔ مضمون کے موضوعات محدود ہوتے ہیں جبکہ انشائیہ میں کسی بھی موضوع پر قلم اٹھایا جا سکتا ہے۔ انشائیہ نگار اپنی تحریر میں ذات کا انکشاف کرتا ہے۔ اس کی تحریر میں داخلی کیفیات کا بیان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مضمون میں خارجی باتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ انشائیہ میں مصنف اپنے تجربات اور مشاہدات پیش کرتا ہے جن کا مقصد اصلاح یا اپنے مشن کی تبلیغ کرنا نہیں ہوتا۔ رابرٹ کے قول کے مطابق:
’’انشائیہ نگار سے ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ اپنی طرز تحریر سے ہمیں خوش کر دے اور جس موضوع پر وہ لکھ رہا ہے اس پر اختصار کے ساتھ کسی قدر نئی روشنی ڈال دے اور بس۔ ‘‘
یوں تو اردو میں انشائیے کی عمر سوا سو سال سے بھی زیادہ ہے لیکن بحیثیت ایک منفرد نثری صنف اردو انشائیے اپنے تمام فنی محاسن کے ساتھ بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ا س دور میں شعوری اور غیر شعوری طور پر ان گنت انشائیے لکھے گئے جو کبھی مضمون، پرسنل ایسے یا لائٹ ایسے کی حیثیت سے گردانے گئے تو کبھی انشائیہ لطیف کے اہم ادبی شہ پاروں کے طور پر انہیں پہچانا گیا۔
’’دلی کا یادگار مشاعرہ‘‘، ’’نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ اور ’’پھول والوں کی سیر‘‘ ان میں معیاری انشائیے کے عناصر غالب ہیں۔ سجاد یلدرم کی ’’خیالستان‘‘ میں جو انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘ ’’حضرت دل کی سوانح عمری‘‘ وغیرہ اپنے عہد کے معیار کے مطابق اردو کے بہترین انشائیے ہیں۔ جذباتی نثر کے علاوہ ان کی نثر کے بنیادی اوصاف میں حسن کاری، بے تکلف انداز، غیر رسمی طریق کار اور تہہ داری اہم ہیں۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے سے انشائیہ کی صنف کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ یہ تحریک ادب میں ایک انقلابی حیثیت رکھتی تھی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے موجودہ اقتصادی نظام، معاشرتی اقدار، تہذیبی روئیے اور سیاسی جبر و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ایک با مقصد اور روشن زندگی کا خواب دیکھا۔ انہوں نے اپنے تخلیقی افکار و اعمال کا رخ سماجی زندگی کو بہتر بنانے، سامراجی طاقتوں کو کچلنے اور جدوجہد آزادی جیسے اغراض کی طرف کر لیا۔ نتیجتاً رومانیت، ٹیگوریت یا انشائیے لطیف کی لویں مدھم پڑنے لگیں جس سے انشائیہ بھی متاثر ہوا۔ دراصل ہمارے ادبی مقاصد انشائیہ کے فنی مقاصد کے برعکس تھے۔ ہم اپنی محبوس زندگی پر رد عمل ظاہر کرنے لگے تھے۔ مختلف سیاسی، سماجی اور ادبی تحریکوں کے زیر اثر ذہنی ترنگ کے بجائے حقائق کو حقیقت ہی کی کسوٹی پر پرکھنے پر زور دیا جانے لگا۔ اس لیے اس دور میں انشائیہ کی صنف کی اہمیت اور مقبولیت کم ہو گئی اور اس کے اسلوب پر طنز و مزاح کا غلبہ بڑھ گیا۔ اس سلسلے میں رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری اور کرشن چندر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جن کے انشائیوں میں طنز و مزاح کا اسلوب غالب ہے۔
رشید احمد صدیقی کی انفرادیت ان کی آشفتہ بیانی میں ہے۔ ان کا اسلوب طنز و مزاح کی شائستگی و شگفتگی سے عبارت ہے۔ معاشرے کی سچی اور بے لاگ تنقید کے عناصر ان کی تحریروں میں اتنے حاوی ہیں کہ ان کے یہاں انشائیہ کا فن مجروح ہو گیا ہے۔ انہیں بڑی سی بڑی بات کو انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ کہنے پر قدرت حاصل ہے۔ ان کی رمز شناسی اور بالغ النظری سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ان کے مشہور انشائیوں میں ’’چارپائی اور کلچر‘‘، ’’الیکشن‘‘ اور ’’سفر‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ پطرس بخاری کی خوش طبعی ان کو مزاح نگار بنا دیتی ہے۔ ان کی ظرافت کا فن لفظی الٹ پھیر کے بجائے واقعات میں ہے۔ وہ موضوع کو شخصی زاوئیے سے ضرور دیکھتے ہیں لیکن ان کے یہاں انشائیت کی کمی ہے۔ ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ ’’کتے‘‘ اور ’’بچے‘‘ وغیرہ ایسی تحریریں ہیں جن میں پطرس بظاہر ایک مزاح نگار نظر آتے ہیں تاہم ان میں ایک انشائیہ نگار بھی چھپا ہوا ہے جو ذات کو منکشف کر کے تحریر میں ایک خاص تاثر قائم کرتا ہے۔ کرشن چندر بنیادی طور پر فکشن کے آدمی ہیں اس لیے ان کی تحریریں پلاٹ و کردار اور ماحول کے گرد گھومتی ہیں۔ ’’ہوائی قلعے‘‘ کے اکثر مضامین میں ان خصوصیات کے فطری امتزاج کو فنی کمال سے برتا گیا ہے۔ انہیں معمولی سے معمولی موضوع پر بڑی چابکدستی سے اظہار خیال کرنے کا فن آتا ہے۔ طنز و مزاح میں ڈوبی ہوئی یہ تحریریں ان کے اسلوب کو ایک نیا لہجہ اور نیا آہنگ بخشتی ہیں۔ ’’ہوائی قلعے‘‘، ’’فلسفیات‘‘، ’’باون ہاتھی‘‘ اور ’’مانگے کی کتاب‘‘ وغیرہ مضامین میں انشائیے کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی احمد جامہ پاشا بھی ہیں۔ ا ن کی تحریروں میں طنز و مزاح کی وجہ سے شگفتگی لطافت اور شوخی آ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے انشائیوں کے موضوعات کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور اپنی ذات کا لمس عطا کیا ہے۔ وہ موضوع کے مرکزی نقطے کو پکڑ کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ وہاں سے اپنے اطراف میں آزاد روی سے دیکھتے ہیں اور منفی حقائق کا پتہ لگاتے ہیں۔ ’’ہجرت‘‘، ’’ناپسندیدہ لوگ‘‘ اور ’’بلیوں کے سلسلے میں ‘‘ ان کے اہم انشائیے ہیں۔
اس دور میں ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جنہوں نے اردو انشائیے کی روایت کو قائم رکھا۔ مثلاً سید محمد حسنین جن کے انشائیوں میں گہرے مشاہدے اور لطیف انداز بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ وہ موضوع کو ہی نہیں بلکہ اپنے کردار کے مختلف پہلوؤں کو انوکھے زاویوں سے قاری کے سامنے لاتے ہیں۔ انہیں انشائیے کے مزاج کو سمجھنے اور اسے تخلیقی پیکر میں ڈھالنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اس اعتبار سے ’’نشاط فاطر‘‘ کے انشائیے بہت خوب ہیں۔ اس کے علاوہ وحید الدین سلیم (دوستوں کی ایذا رسانی) محمد اسماعیل (وقت سرمایہ ہے) سجاد حسین (ہولی) عبدالقادر (گھر سے نکل کر دیکھو) اور سلطان حیدر جوش (لیڈر) وغیرہ کے انشائیے ہمارے اس جائزے میں قابل قبول بھی ہیں اور قابل ستائش بھی۔
اگر کسی صنف ادب کے عقب میں کوئی مضبوط روایت متحرک حالت میں موجود نہ ہو اور وہ جدید دور کی حسیت سے غافل ہو جائے اور نسل نو اسے ذریعہ اظہار بنانے پر مائل دکھائی نہ دے تو ایسی صنف ادب نہ تو زندہ رہ سکتی ہے اور نہ ہی پھل پھول سکتی ہے۔ صنف انشائیہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے بالخصوص اور ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر بشیر سیفی نے بالعموم اس کی شعریات پر قابل قدر تنقیدی کام کیا اور مختلف حلقوں کی جانب سے اڑائی جانے والی گرد کو صاف کر کے اس کے خد و خال واضح کیے۔ علاوہ ازیں وزیر آغا، مشتاق قمر، جمیل آزر، غلام جیلانی اصغر، انور سدید، اکبر حمیدی اور سلیم آغا قزلباش نے اول درجے کے انشائیے پیش کر کے اس صنف ادب کو استحکام بخشا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
سال ۲۰۰۱ء میں ان بزرگ انشائیہ نگاروں کے انشائیے بھی سامنے آئے جو انشائیے کو اردو میں متعارف کرانے، اسے ایک تحریک بنا کر ادبی حلقوں میں متعارف کرانے اور اس مقبول عام بنانے تک کے مراحل میں ہمہ دم کوشاں رہے اور نسل نو کے نمائندہ لکھاریوں کے انشائیے بھی پڑھنے کو ملے جنہوں نے نہ صرف صنف انشائیہ کی روح کو سمجھا ہے بلکہ اسے معاصر فکری، علمی اور ادبی دھارے سے ہم آہنگ کر کے اس کی نئی جہت بھی روشن کی ہیں۔
دسمبر ۲۰۰۲ء انشائیے کے ضمن میں ہونے والا سب سے اہم کام ’’گلبن‘‘ احمد آباد کا انشائیہ نمبر ہے۔ اس انشائیہ نمبر سے قبل علی گڑھ سے ایک انشائیہ نمبر شائع ہو چکا ہے۔ ۱۹۸۵ء میں ’’اردو زبان‘‘ سرگودھا نے بھی انشائیہ نمبر چھاپا جب کہ اس سے پہلے مارچ، اپریل، مئی، ۱۹۸۵ء میں ’’اوراق‘‘ کے ایک ضخیم انشائیہ نمبر کی اشاعت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جو انشائیے کی ترویج میں اس مجلے کے کلیدی کردار کی دلیل ہے۔ ’’گلبن‘‘ کا انشائیہ نمبر کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس میں الگ الگ پاکستانی اور ہندوستانی انشائیوں کے حصے شامل کیے گئے ہیں۔ پاکستانی حصے کو نوجوان انشائیہ منور عثمانی نے جب کہ ہندوستانی حصے کو رؤف خیر نے مرتب کیا ہے۔ اس انشائیہ نمبر میں صنف انشائیہ سے متعلق تنقیدی مضامین اور منتخب مطبوعہ اور غیر مطبوعہ انشائیے شامل کیے گئے ہیں۔
مذکورہ انشائیہ نمبر ان دنوں شائع ہوا جب پورا احمد آباد شدید زلزلے کی لپیٹ میں آنے کے بعد مشکلات کا شکار تھا۔ یہ نامساعد حالات ’’گلبن‘‘ کی اشاعت میں تاخیر کا سبب بھی بنے اور شاید اسی وجہ سے انشائیہ نمبر کی ضخامت میں بھی کمی کر دی گئی۔ اس کے باوجود انشائیہ نمبر کئی پہلوؤں سے اہم دستاویز ہے۔
اس نمبر میں ظفر ہاشمی کے ادارے کے بعد رؤف خیر کا ’’حرف خیرؔ‘‘ شائع ہوا۔ ’’حرفِ خیرؔ‘‘ میں گو رؤف خیر نے انشائیے کے خد و خال کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کی تحریر میں انشائیہ ایک باقاعدہ صنف ادب کے طور پر زیر بحث نہیں آیا۔ ایک روئیے کے طور پر ابھرا ہے۔ انہوں نے بہت سے مزاح نگاروں اور دیگر مضمون نگاروں کی تحریروں کو بھی انشائیہ قرار دیا ہے جو درست نہیں۔ یہی حال ہندوستانی انشائیوں کا بھی ہے جو مزاح سے مغلوب ہیں۔ تنقیدی مضامین میں وزیر آغا کا مضمون ’’انشائیہ نگاری‘‘ منور عثمانی کا ’’اسیر و سفر اور انشائیہ‘‘ اور ڈاکٹر سیدہ جعفر کا ’’انشائیہ نگاری‘‘ شامل ہیں۔
’’انشائیہ اور انشائیہ نگاری‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے صنف انشائیہ کا مکمل تعارف پیش کیا۔ ایک الگ صنف ادب کے طور پر اس کا مقام متعین کیا اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور دیگر ادبی و غیر ادبی مضامین سے اس کی الگ شناخت واضح کی۔ وہ انشائیے کی تاریخ کو بھی زیر بحث لائے ہیں اور انہوں نے اس کی موجودہ صورتحال اور نمائندہ انشائیہ نگاروں کا ذکر بھی تفصیلاً کیا ہے۔ منور عثمانی کا مضمون ’’سیر و سفر اور انشائیہ‘‘ جو پاکستان سے شائع ہونے والے ان کے مرتب کردہ انتخاب انشائیہ ’’سفر راستہ بتاتا ہے‘‘ میں بطور پیش لفظ بھی شائع ہو چکا ہے اور جس کا ذکر گزشتہ برس کے جائزے میں آچکا ہے۔ ایک اہم مضمون ہے۔ سیدہ جعفر نے اپنے مضمون میں مزاح نگاروں ملا رموزی، فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی اور احمد جمال پاشا کو انشائیہ نگار قرار دیا ہے۔ جس سے احساس ہوتا ہے کہ مضمون نگار، مزاح اور انشائیہ کے نازک فرق کو گرفت میں نہیں لے سکیں۔
دوسرے حصے میں ہندوستان کے تعلق رکھنے والے انشائیہ نگاروں کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریریں شامل کی گئی ہیں جن میں مزاح کا عنصر نمایاں ہے اور جو انشائیے کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ مذکورہ تحریروں میں مزاح کی فراوانی کا ذکر خود مدیر منتظم نے اپنے اداریئے میں بھی کیا ہے۔ ہندوستانی گوشے میں یوسف ناظم، ناوک حمزہ پوری، محمد حمید عادل، محمد بدیع الزماں، خورشید جہاں، شرون کمار ورما، فضل حسنین، مناظر حسین عاشق ہرگانوی، ڈکار رحمت یوسف زئی، محسن انصاری، ثریا صولت حسین، انور انصاری، اختر بانو ناز، غلام محمد انصاری اور ایلاف خیری کی تخلیقات شامل ہیں۔
تیسرا اور چوتھا حصہ دونوں پاکستانی گوشے ہیں۔ تیسرے حصے میں پاکستانی انشائیہ نگاروں کے مطبوعہ انشائیوں سے انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ ان انشائیوں میں وزیر آغا کا ’’چالیسویں سالگرہ‘‘ مشتاق احمد کا ’’حسرت دید‘‘ جمیل آذر کا ’’شاخ زیتون‘‘ انور سدید کا ’’مچھر کی مدافعت میں ‘‘ اکبر حمیدی کا ’’تتلی کے تعاقب میں ‘‘ سلیم آغا قزلباش کا ’’گلی‘‘ حامد برگی کا ’’نیکوکار خطاکار‘‘ حیدر قریشی کا ’’نقاب‘‘ جان کاشمیری کا ’’لاگ شیٹ‘‘ انجم نیازی کا ’’صفر‘‘ ناصر عباس نیر کا ’’معنی‘‘ جاوید حیدر جوئیہ کا ’’جبر و اختیار‘‘ مختار پارس کا ’’دروازہ‘‘ عطیہ خان کا ’’عمر دراز‘‘ انجم انصار کا ’’بھول‘‘ رعنا تقی کا ’’ماسک‘‘ پروین طارق کا ’’لاؤنج‘‘ اور ’’آنگن‘‘ اور منور عثمانی کا ’’قائل کرنا‘‘ شامل ہیں۔ جبکہ غیر مطبوعہ انشائیوں کے گوشے میں شاید شیدائی، قاضی اعجاز محور، بصیر رضا، شفیع ہمدم، اور حنیف باوا کے علاوہ بیشتر انہیں قلمکاروں کے انشائیے شامل ہیں جن کی تخلیقات مطبوعہ انشائیوں کے انتخاب میں شامل ہیں۔
سال ۲۰۰۱ء میں ’’اوراق‘‘ تعطل کا شکار رہا اور انشائیے کے قارئین نے اس کی کمی کو بطور خاص محسوس کیا اور با رہا یہ سوال اٹھایا گیا اب کون سا ابی پرچہ انشائیے کو اس کے درست تنقیدی شعور کے ساتھ شائع کرے گا۔ اس برس بعض ادبی رسائل نے انشائیے کی ترویج اور اشاعت میں گہری دلچسپی لی۔ بہت سے رسائل تو انشائیے اور دیگر ہلکے پھلکے مضامین میں فرق روا نہیں رکھ سکے تاہم بعض تجربہ کار انشائیہ نگاروں کی تخلیقات ’’کاغذی پیرہن‘‘، ’’صریر‘‘، ’’ادبیات‘‘، ’’تسطیر‘‘، ’’سخنور‘‘ اور ’’ماہِ نو‘‘ میں شائع ہوئیں۔
وزیر آغا کا انشائیہ ’’آنکھیں ‘‘ ایک تہہ دار انشائیہ ہے اس میں انشائیہ نگار نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ مطلق اندھیرا ایک بے معنی بات ہے۔ کیونکہ بصارت کا چراغ گل ہوتے ہی بصیرت کی قندیل روشن ہو جاتی ہے۔ یہ بصیرت دراصل اندھیرے کی روشنی ہے۔ اندھیرے کی روشنی ایک نور ہے اور اس نیم روشن فضا کو جنم دیتی ہے جو تخلیقی عمل سے عبارت ہے اور صوفیانہ تجربے کے لیے بھی اسی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیر نظر انشائیہ محبت کے تجربے میں آنکھوں کے کردار کو روشن کرتا ہے اور اس پوری کائنات کو آنکھ قرار دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آنکھ خود ناظر بھی ہے اور ہر ایک منظر کے اندر بھی اسی آنکھ کا نور موجزن ہے۔
انور سدید نے صنف انشائیہ کے آغاز سے اب تک اس کے خد و خال واضح کرنے کے لیے متعدد تنقیدی مضامین تحریر کیے اور عمدہ انشائیے تخلیق کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی اور تنقیدی سطح پر انشائیے کو پروان چڑھانے میں ان کی مساعی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ زیر نظر انشائیے ’’درمیان کی دیوار‘‘میں معانی پرت در پرت موجود ہیں اور درمیان کی دیوار مرئی اور غیر مرئی روپ میں سامنے آتی ہے۔ دیوار کا مرئی روپ وہ ہے جب دیوار گھروں کے درمیان حائل ہوتی ہے اور غیر مرئی روپ وہ ہے جب اس دکھائی نہ دینے دیوار نے دلوں کو تقسیم کیا ہے۔ اس انشائیے میں انشائیہ نگار نے لوگوں کے عدم برداشت کے روئیے کو بھی نشان زد کیا ہے اور ساتھ ہی زندگی کی اس بے اطمینانی تیز رفتاری اور انتشار کا احساس بھی دلایا ہے جس کے باعث انسان کا رشتہ نہ صرف اردگرد سے بلکہ خود اپنے آپ سے بھی منقطع ہو گیا ہے اور انسان بالکل تنہا رہ گیا ہے۔ انور سدید نے اپنے اس انشائیہ میں شہری اور دیہی زندگی کا فرق بھی نمایاں کیا ہے ان کے خیال میں شہر جب اپنی حدود سے تجاوز کر کے بے پناہ وسعت اختیار کر جاتے ہیں ان کے اندر اجنبیت کا زہر پھیل جاتا ہے۔ جو آہستہ آہستہ انسان کی زندگی کو چاٹ لیتا ہے جبکہ گاؤں میں نہ صرف لوگ بلکہ نباتات و جمادات بھی انسان کی حیات کا جزو بن جاتے ہیں۔ گویا شہروں کی بھیڑ انسان کو تنہائی سے دوچار کرتی ہے اور گاؤں کی خاموشی اسے اپنی آغوش میں سمیٹتی اور اس کے زخموں کا مرہم بنتی ہے۔ گاؤں سے انشائیہ نگار کی محبت دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک گاؤں کی طرف مراجعت کا عمل خود اپنے ’’اصل‘‘ کی طرف لوٹنے کے عمل کے مترادف ہے۔
انشائیہ جمیل آذر کا ’’تانگہ کلچر‘‘ انشائیہ کی تخلیق اور اسے قبول عام کی سند دلانے میں ان کی مساعی قابل ذکر ہی نہیں قابل قدر بھی ہے۔ ان کا انشائیہ ’’تانگہ کلچر‘‘ جو بھارت میں ’’گلبن‘‘ کے انشائیہ نمبر اور پاکستان میں سالنامہ ’’صریر‘‘ جون ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا، عمدہ تخلیق ہے۔ اس میں مصنف کی روایت سے محبت عیاں ہے اور ’’تانگہ کلچر‘‘ ہماری تہذیب و ثقافت کی شناخت بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ انشائیہ ہمیں نہ صرف روایت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے بلکہ روایت کو زندہ رکھنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ مصنف کے خیال میں تانگہ کلچر ہماری حرمت کی نشانی ہے اور یہ ہمیں عزت نفس کی خوشبو عطا کرتا ہے جبکہ دور جدید ہماری ثقافت کی علمبردار ہر شے کو اپنے اندر گم کر لینے کے درپے ہے اور ہمیں خودی اور خود داری دونوں سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے دور جدید اور اس کے تقاضوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر رد کرنے سے گریز کیا ہے۔ جس سے انشائیہ میں توازن پیدا ہو گیا ہے۔ جمیل آذر نے کوچوان کے کردار کے ذریعہ یہ احساس دلایا ہے کہ روایت کے پاسبان قانون کے احترام سے عاری اور حکمت و دانائی سے خالی ہیں اور روایت کے زوال کا اصل سبب بھی روایت کے ان نام لیواؤں کے غیر ذمہ دارانہ روئیے ہیں۔
اہم انشائیہ نگاروں میں ایک نام اکبر حمیدی کا بھی ہے۔ اکبر حمیدی کئی برسوں سے اول درجے کے انشائیے تخلیق کر رہے ہیں اور انہوں نے اسلوب اور موضوعات کی سطحوں پر انشائی ادب کو بہت وسعت عطا ہے۔ ان کا انشائیہ ’’نام بنام‘‘ ادبیات شما رہ ۵۴ میں، ’’پہاڑ مجھے بلاتا ہے‘‘ ماہِ نو جون میں، ’’وال کلاک کے پیچھے‘‘ گلبن کے انشائیہ نمبر میں اور ’’زیرو پوائنٹ‘‘ کاغذی پیرہن شما رہ ۳ میں شائع ہوا۔ یہ سب انشائیے اپنی اپنی جگہ بھرپور ہیں تاہم ’’زیرو پوائنٹ‘‘ بطور خاص قابل ذکر انشائیہ ہے کہ اس کی زیریں لہروں میں موجودہ گہری معنویت نہ صرف قاری کو چونکاتی ہے بلکہ اسے فکری ترفع بھی عطا کرتی ہے۔ زیر نظر انشائیے میں زیرو پوائنٹ انسان کی ’’تخلیقی ذات‘‘ کا استعا رہ بن کر ابھرا ہے۔ ’’تخلیقی ذات‘‘ جو انسان کو زندگی کے دکھوں کے مقابل کھڑا ہونے کی جرأت عطا کرتی اور دکھوں کو جمالیاتی تجربہ بنا کر ان کی تر زہر ناکی کا خاتمہ کر ڈالتی ہے۔ نیز اس تخلیقی ذات کی دریافت اور اس کے ساتھ گہرا تعلق انسان کو اردگرد سے مناسب فاصلے پر رکھتا اور اپنے اندر کے دیار کی سیاحت کی ترغیب دیتا ہے۔ یوں یہ انشائیہ دریافت کے جذبے، ایک جائے اماں کی خواہش اور زندگی سے تخلیقی سطح پر رشتہ قائم کرنے کی کوشش سے نمو پذیر ہوا ہے۔ اس انشائیے میں ’’زیرو پوائنٹ‘‘ ایک سنگم کی شکل میں بھی نمودار ہوا ہے جس سے بیک وقت بے شمار راستے پھوٹتے ہیں اور سنگم پر کھڑا انسان کسی بھی بہتر راستے کا انتخاب کرسکتا ہے۔ گویا اس سنگم پر موجودگی انسان کو اختیار اور شعور عطا کرتی ہے۔
سلیم آغا قزلباش کا تازہ انشائیہ ’’تھکن‘‘ بھی پرکشش انشائیہ ہے جو ’’کاغذی پیرہن‘‘ شما رہ ۴ میں شائع ہوا۔ اس پرکشش انشائیے نے قارئین کے لیے مکمل تسکین کا سامان فراہم کیا ہے۔ زیر نظر انشائیے میں مصنف نے تھکن کو ایسی تمثیلی کیفیت قرار دیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان دنیاوی آلائشوں کی قید با مشقت سے رہائی پالیتا ہے اور سلوک کی کسی افضل منزل پر پہنچا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے۔ نیز تھکن کی آغوشِ راحت میں سمٹنے کے بعد انسان بظاہر نیم جاں دکھائی دینے کے باوجود اندر سے توانا اور پوری طرح زندہ ہوتا ہے۔ انشائیہ نگار نے تھکن کے ذریعہ مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے مزاجوں کا فرق بھی واضح کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں مغربی تہذیب تھکن کو اپنی تیز رفتاری میں خلل اندازی کا مرتکب گردانتی ہے۔ یہ مختلف حیلے بہانے کر کے تھکن سے دور بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔ نتیجتاً تھکن کے حصول کی فطری خواہش کو دبانے سے یہ کفران نعمت کی مرتکب ہوتی ہے اور سزا کے طور پر منشیات کے ذریعے مصنوعی تھکن طاری کرنے کی کوشش میں روحانی بانجھ پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس مشرقی تہذیب تھکن کو کیف آفریں خیال کرتے ہوئے اس کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ یہ تھکن کو اس کی حقیقی شکل میں قبول کرتی ہے جس کے باعث تھکن اسے اپنے اندر کی تمام برکات سے نواز کر روحانی سطح پر ارفع ترین مقام سے نواز دیتی ہے۔
ناصر عباس نیر بھی ۲۰۰۱ء کے نہایت اہم انشائیہ نگار ہیں۔ ان کے انشائیوں میں ایک گہری بصیرت موجزن دکھائی دیتی ہے جو زندگی کے بنیادی سولاات پر مسلسل غور و فکر کے ذریعے میں جنم لیتی ہے۔ ناصر عباس نیر بلند پایہ نقاد بھی ہیں اور اپنی تنقیدی بصیرت کو تخلیقی سطح پر برتنے کے ہنر سے بہرہ مند بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض انشائیوں میں تنقیدی تھیوری بھی خالص تخلیقی رنگ میں اپنی جھلک دکھاتی ہے۔
انشائیے کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مذکورہ بالا تحریر صرف اس قدر اضافے کی متقاضی ہے کہ انشائیہ وہ صنف نثر ہے جو ترقی کے مدارج تیزی سے طے کر رہی ہے نیز اپنے اندر وسعت اور جامعیت اختیار کرتے ہوئے تنقیدی اشارات کی تفہیم پر بھی قادر ہوتی جا رہی ہے۔
المختصر انشائیہ ہی اردو ادب میں ایسی صنف کہلانے کی حقدار ہے جس نے ادب کے مختلف گوشوں یعنی تاریخی، سیاسی، سماجی، جغرافیائی، سائنسی اور اخلاقی وغیرہ کا بخوبی احاطہ کیا ہے۔ مندرجہ بالا مختلف گوشوں کے گلستان میں سیکڑوں انشائیہ نگاروں نے اپنے گلوں کے رنگ بکھیرے ہیں۔ ملا وجہی، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی، سرسید احمد خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، ماسٹر رام چندر، عبدالماجد دریا بادی، میر ناصر علی، عبدالحلیم شرر، سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتحپوری، مہدی افادی، خواجہ حسن نظامی، وزیر آغا، مشتاق احمد یوسفی، داؤد رہبر، جاوید صدیقی، رشید احمد صدیقی، احمد جمال پاشا، ظفر صدیقی، مشکور حسین یاد، محمود اختر، اقبال انجم، جمیل آذر، انور سدید، آدم شیخ، فرحت اللہ بیگ، شرف صبوحی، یوسف بخاری، خواجہ محمد شفیع، آصف علی، مرزا محمود بیگ، مہیشور دیال، جاوید وششٹ، ضمیر حسن دہلوی، سجاد انصاری، پطرس بخاری، فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، سید عابد حسین، کرشن چندر، فرقت کاکوروی، محمد حسنین، سید آوا رہ، اندر جیت لال، محمد حسن، جوگندر پال، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم، معین اعجاز، وحید الدین سلیم، محمد اسماعیل، سجاد حسین، عبدالقادر، سلطان حیدر جوش، خلیقی دہلوی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انشائیہ کا گل و گلزار کتنا مہکدار ہے۔ ان سب نے زندگی کے کسی پہلو کو پیش کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔
یوں تو اردو میں انشائیے کی عمر سوا سو سال سے بھی زیادہ ہے لیکن بحیثیت ایک منفرد نثری صنف اردو انشائیہ اپنے تمام فنی محاسن کے ساتھ بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اسی دور میں شعوری اور غیر شعوری طور پر ان گنت انشائیے لکھے گئے جو کبھی مضمون، پرسنل ایسے یا لائٹ ایسے کی حیثیت سے گردانے گئے تو کبھی انشائیے لطیف کے اہم ادبی شہ پاروں کے طور پر بھی انہیں پہچانا گیا۔
انشائیہ نگاروں نے قاری کے ذہن و دل میں اتر کر اسے مختلف پہلوؤں پر منفرد زاویہ نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ اور ان کی تحریریں پڑھ کر واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی زندگی کی ہزاروں رہ گزر ایسی ہیں جن پر تو ہم نے قدم رکھا بھی نہیں اور یہی راستے ہماری منزل مقصود کا نشان ہوسکتے ہیں۔ یہاں انشائیہ نگار قاری کا بہترین رہنما ثابت ہوتا ہے اور یہی مرکزیت تمام اصناف ادب میں وہ بلند و بالا مقام عطا کرتی ہے جو دوسرے نثر نگاروں کو نصیب نہیں ہے۔ یہیں سے انشائیہ نگاری کی سطروں کی اہمیت و افادیت خود کو ایک مسلم حیثیت سے ہمکنار کراتی ہے۔ انشائیہ نگاروں کی ہر دور کی کھیپ سماج کی بہترین دوست ثابت ہوئی ہے۔ اس لیے انشائیہ ازل سے سب کی پسندیدہ اور مقبول صنف رہی ہے۔ زندگی کے بوجھل لمحات کے سمندر کی لہروں میں ہر کوئی ڈبکیاں لگاتا ہے۔ کوئی یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا ہے مہد سے لحد تک خوشیوں نے صرف اسی کے نہاں خانوں میں ڈیرہ جمائے رکھا۔ مسائل سے گزرنا اور دشواریوں کے ساتھ خوشیاں تلاشنے کا کام آدم سے لے کر چلا آ رہا ہے۔ اسی کو صنف انشائیہ بھر پور معنی دے کر الفاظ کے پیکر میں ڈھال کر قارئین کو باصرہ نواز بناتا ہے یہی وہ بنیادی جواز ہے جس کی بناء پر انشائیہ نگاری کی اہمیت و افادیت انسانی زندگی کے ذہن و دل کے کینوس پر قوس قزح بکھیرتی ہے اور چنندہ حریفوں کے دل کو بھی راز دارانہ طریقے سے فتح کر کے آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
انشائیہ کی اہمیت اس لیے بھی روشن ہے کہ یہی وہ نثری اظہار کی ایک ایسی صنف ہے جس میں حقیقت کا اظہار شخصی رد عمل، عدم تکمیل، رمزیت و اشاریت، غیر منطقی ربط، اختصار، دعوت، فکر، مسرت بہم پہنچانے کی صلاحیت، زبان و بیان میں بانکپن اور مرکزی بات سے کچھ ضمنی باتوں کا ذکر کر کے مسائل کا حل، زندگی کی یکسانیت اور ٹھہراؤ سے اوپر اٹھ کر ماحول کا از سرنو جائزہ لینے کی صلاحیت، غمگین دلوں کی شگفتگی کا سامان اور خشک خیالات کے گہرے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جگنوؤں کی سی سبز روشنی کا مستحکم عصا، سطحیت پر سے دعوت فکر کے عمیق ساگر کے غوطے، یہ ساری بنیادیں انشائیہ نگار اور قاری کے درمیان رابطے کے پل کا کام کرتی ہیں اور یہی پل اسے دوسری اصناف کی اہمیت میں سرفہرست رکھتا ہے۔ سماجی حقائق کی پردہ کشی اور پوشی جتنے بہترین انداز میں انشائیہ نگاری نے کی ہے اتنی کسی اور نثر نگار نے نہیں کی۔ طنز و مزاح کے تیر صرف انشائیے کے میدان میں قارئین ہنستے مسکراتے جھیل جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ زہر ہلاہل میں بجھے نہیں ہوتے۔ بلکہ پھولوں کی پنکھڑی سے بنے اور خوشبو سے معطر ہوتے ہیں۔ بنا کسی درد اور تکلیف کے قارئین کے ذہن و دل کی جراحی کا عمل صرف انشائیہ نگار ہی کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ دیگر نثر نگاروں سے بالاتر ہے کیونکہ انہوں نے انشائیہ کی روح کو سمجھ کر اسں میں اتر کر اسے معاصر فکری، علمی اور ادبی دھارے سے ہم آہنگ کر کے ہزاروں نئی جہت بھی روشن کی ہیں۔
ہر قدیم نسل کا دکھ یہ ہوتا ہے کہ دور جدید ہماری تہذیب اور ثقافت کی علمبردار ہر شئے کو اپنے اندر گم کر لینے کے درپے ہے اور ہمیں خودی اور خود داری دونوں سے محروم کرنا چاہتا ہے لیکن انشائیہ نے دور جدید سے ہم آہنگ ہو کر قدیم روایات کو مکمل طور پر رد کرنے سے گریز کیا ہے جس سے جہاں انشائیہ میں ایک حسین توازن پیدا ہو گیا وہیں بیک وقت دونوں نسلوں کے لبوں پر مسکراہٹ بھی نظر آنے لگی۔ یہ ایک نہایت عظیم معرکہ ہے جسے دوسری اصناف سر کرنے سے قاصر رہیں اور اسی سے انشائیہ نگاری کی اہمیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔
انشائیہ جتنا عام فہم نظر آتا ہے اتنا ہوتا نہیں ہے۔ ہر انشائیہ کی تحریر کے الفاظ اپنے اندر گہری بصیرت موجزن رکھتے ہیں اور یہی بصیرت و غور و فکر زندگی کے بنیادی سوالات کا حل طشت از بام کرتی ہے۔
کئی انشائیہ نگاروں کے نزدیک اپنی تنقیدی بصیرت کو تخلیقی سطح پر برتنے کا خوبصورت انداز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے انشائیہ نگاروں کی تحریروں میں تنقیدی تھیوری بھی خالص تخلیقی رنگ میں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ انشائیے کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر وہ تمام مہارتیں و نکات قابل تحسین ہیں جو دامے، درمے اور سخنے استعمال کی جاتی ہیں اور جس کی بنا پر صنف انشائیہ ترقی کے مدارج تیزی سے طے کر رہا ہے نیز اپنے اندر وسعت اور جامعیت اختیار کرتے ہوئے تنقیدی اشارات کی تفہیم پر بھی قادر ہوتا جا رہا ہے۔
آج انسانی شعور پختگی اختیار کر گیا ہے۔ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہو گیا ہے۔ فہم و فراست نے بھی چند زینے مزید طے کر لیے ہیں۔ اسی لیے انشائیے کے درپردہ اشارے و کنایے ہر خاص و عام کے قابل فہم ہو گئے ہیں۔ وہ ان سے لطف اندوز ہونے لگے ہیں اور خود کو دانشوروں کی صف میں شمار کرنے لگے ہیں۔ کم وقت اور کم صفحات میں انشائیہ کا فہم و ادراک انہیں کم خرچ بالا نشین محسوس ہوتا ہے اس لیے انشائیہ روز بروز مقبول ہوتا جا رہا ہے اور اس کی اہمیت و ضرورت زیادہ سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ سیکڑوں نئے چہرے اپنی تحریروں کے ذریعے نئے زاویہ انداز پیش کرنے لگے ہیں۔ دو یا تین انشائیے ہر ماہ رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ روزنامے انشائیوں کے ذریعے سماج کے سلگتے ہوئے مسائل پیش کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ حیدر آباد کے ماہنامے شگوفہ نے تو ہر ماہ ایک گوشہ انشائیے کے لیے مختص کر دیا ہے۔ انشائیے کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔
انشائیے نے زمین نثر کو زرخیز کر دیا
جو نخل بو دیا اسے گلریز کر دیا
٭٭٭
باب چہارم: انشائیہ بیسویں صدی میں
بیسویں صدی آتے آتے انشائیہ نے ترقی کے کئی زینے طئے کر لیے تھے۔ اس دور میں انشائیہ نگاری کے موضوعات کو اخلاقی، سماجی، سیاسی اور خصوصاً دہلی کی تہذیب کے گرد گھومتے دیکھا گیا۔ مختلف انشائیہ نگاروں نے صوفیانہ انداز فکر اپنایا تو کسی نے فلسفیانہ نقطۂ نظر سے اس کے بال و پر سنوارے۔ بعض نے جمالیاتی حس کی کارکردگی سے اپنے انشائیوں کے برگ و بار کو تراش کر خوبصورت بنایا۔ چند ایسے بھی ملے جنہوں نے ایک مصلح کا انداز اپناتے ہوئے حالات حاضرہ کا جائزہ اپنی تیسری آنکھ سے لیا اور تنقید و تبصرہ گوئی بھی جاری رہی۔ اکثر انشائیوں میں انداز بیان خوش طبعی کا تابع ہوتا نظر آیا۔ جس سے عبارت میں شگفتگی اور لطافت میں کئی گنا اضافہ ہوتا گیا۔ کئی انشائیوں میں طنز کے نشتر اتنے شدید ہیں کہ مارے تکلیف کے منہ سے آہ نکل گئی لیکن درد کا احساس کم ہونے پر وہی ’آہ‘ ’واہ‘ میں تبدیل ہو گئی۔ بہتوں کا طرز بیان استعاراتی ہے جس سے معنی و مطالب کے نت نئے پیرائے سامنے آتے ہیں۔ غرض یہ کہ بیسویں صدی کے تمام انشائیوں کے اسلوب کو اطلاعی، صراحتی اور تخلیقی کہا جا سکتا ہے۔
اس باب میں ہم نے چنندہ انشائیہ نگاروں کو شامل تحریر کیا ہے اور ان کے منتخب شدہ انشائیوں کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے تعارف و تحریر کی روشنی میں انشائیے کے خد و خال مزید واضح ہو جائیں۔ انشائیے کے یہ نمونے کہیں ذہنی آزاد ترنگ و بے ربطی کے آئینہ دار ہیں تو کہیں اپنی ذات و صفات کا اظہار بھی۔ ان انشائیوں میں حکمت و دانائی کے گوہر جہاں پوشیدہ ہیں تودوسری طرف طنز مزاح کے وہ نشتر بھی جو راست دانائی و بینائی کے در وا کرتے ہیں۔ مختصراً ہمارے انشائیہ نگاروں کی یہ بیش قیمت تحریریں اس صنف کی اہمیت، افادیت سے روشناس کرتی ہیں اور انشائیہ کے خد و خال کو مزید واضح کرتی ہیں۔
٭٭٭
نمبر شمار |
بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار |
مقام پیدائش |
تاریخ پیدائش |
تاریخ وفات |
۱ |
شوکت تھانوی |
ببندرابن |
۲ فروری ۱۹۰۴ء |
۴ مئی ۱۹۶۳ء |
۲ |
کنہیا لال کپور |
لائل پور |
۲۷ جون ۱۹۱۰ء |
۱۹۸۵ء |
۳ |
کرشن چندر |
لاہور، پاکستان |
۲۳ نومبر ۱۹۱۴ |
۱۹۷۷ء |
۴ |
فکر تونسوی |
تونسہ، پنجاب |
۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء |
۱۲ ستمبر ۱۹۸۶ء |
۵ |
جاوید وششٹ |
ہریانہ |
۱۹۲۰ء |
۱۹۹۴ء |
۶ |
مہیشور دیال |
|||
۷ |
سید ضمیر حسن دہلوی |
نوئیڈا، دہلی |
۴ مارچ ۱۹۳۶ء |
۔ |
۸ |
یوسف ناظم |
جالنہ |
۱۹۲۱ء |
۲۰۰۹ء |
۹ |
مشتاق احمد یوسفی |
ٹونک، راجستھان |
۴ اگست ۱۹۲۳ |
۔ |
۱۰ |
فرقت کاکوری |
کاکوروی، لکھنؤ |
۱۹۱۴ء |
۱۹۷۳ء |
۱۱ |
سید آوا رہ |
ما رہلہ ایٹا، یوپی |
۱۸۹۲ء |
۱۹۸۷ء |
۱۲ |
محمد حسن |
مراد آباد، یوپی |
یکم جولائی ۱۹۲۶ء |
۲۰۰۹ء |
۱۳ |
اندر جیت لال |
پنجاب |
۱۹۲۶ء |
۱۹۹۰ء |
۱۴ |
آدم شیخ |
۱۹۰۹ء |
۔ |
|
۱۵ |
جوگندر پال |
سیالکوٹ، پنجاب |
۱۹۲۵ |
۔ |
۱۶ |
حسنین محمد اسلم عظیم آبادی |
بہار |
۲ اکتوبر ۱۹۲۰۔ ۱۹۲۵ |
۱۰ اکتوبر ۱۹۹۹ |
۱۷ |
ابن انشاء |
جالندھر |
۱۹۲۶ء/۱۹۲۷ء |
۱۹۷۸ |
۱۸ |
مجتبیٰ حسین |
پنچولی، گلبرگہ، کرناٹک |
۱۹۳۶ء |
– |
۱۹ |
سید عابد حسین |
بھوٹان |
۲۵ جولائی ۱۸۹۶ء |
۱۹۷۸ء |
۲۰ |
پروفیسر خورشید جہاں |
جھارکھنڈ |
۲۰۰۵ء |
|
۲۱ |
ثریا صولت حسین |
ناگپور |
۲۶ اکتوبر |
۔ |
۲۲ |
دلیپ سنگھ |
گوجرانوالہ، پاکستان |
۱۹۳۲ء |
۸ اگست ۱۹۹۴ء |
۲۳ |
معین اعجاز |
غازی پور |
۵ جون ۱۹۴۴ء |
۔ |
۲۴ |
عابد معز |
حیدر آباد |
۔ |
|
۲۵ |
احمد جمال پاشا |
|||
۲۶ |
رضا نقوی ماہی |
۔ |
||
۲۷ |
عبدالرحیم نشتر |
۔ |
||
۲۸ |
عظیم اقبال |
۔ |
||
۲۹ |
اقبال مجید اللہ |
۔ |
||
۳۰ |
ڈاکٹر طارق |
۔ |
||
۳۱ |
ناوک حمزہ پوری |
اورنگ آباد، بہار |
۲۱ اپریل ۱۹۳۳ء |
۔ |
۳۲ |
حمید عادل |
۔ |
||
۳۳ |
محمد بدیع الزماں |
۔ |
||
۳۴ |
شرون کمار ورما |
۔ |
||
۳۵ |
فضل حسنین |
۔ |
||
۳۶ |
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی |
بھاگلپور بہار |
یکم جولائی ۱۹۴۸ء |
۔ |
۳۷ |
محسن انصاری |
۔ |
||
۳۸ |
انوار انصاری |
رانچی، بہار |
۔ |
|
۳۹ |
اختر بانو ناز |
بیڑ |
۔ |
|
۴۰ |
غلام محمد انصاری |
۔ |
||
۴۱ |
ایلاف خیری |
۔ |
||
۴۲ |
مانک ٹالہ |
ممبئی |
۲۱ ستمبر ۱۹۲۴ء |
۔ |
۴۳ |
وجاہت علی سندیلوی |
۔ |
||
۴۴ |
پرویز ید اللہ مہدی |
حیدرآباد۔ حالِ مقیم۔ شکاگو۔ امریکہ |
۔ |
|
۴۵ |
سید طالب حسین زیدی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۴۶ |
بابو آر کے |
اچل پور |
۔ |
|
۴۷ |
ڈاکٹر اعجاز علی ارشد |
پٹنہ، بہار |
یکم جنوری ۱۹۵۴ء |
۔ |
۴۸ |
ڈاکٹر محمد کوثر اعظم |
پٹنہ، بہار |
۔ |
|
۴۹ |
مرزا کھونچ |
ببیتا، بہار |
۔ |
|
۵۰ |
دلشاد رضوی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۵۱ |
مختار احمد منو |
گل بڑودہ |
۔ |
|
۵۲ |
ڈاکٹر حبیب ضیاء |
۔ |
||
۵۳ |
سید رحیم الدین توفیق |
۔ |
||
۵۴ |
ڈاکٹر سید عباس متقی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۵۵ |
یوسف امتیاز |
ٹورنٹو کینیڈا |
۔ |
|
۵۶ |
انیس سلطانہ |
مدھیہ پردیش |
۔ |
|
۵۷ |
شیخ سلیم |
حیدر آباد |
۔ |
|
۵۸ |
فیاض احمد فیضی |
۔ |
||
۵۹ |
شاہد رشید |
امراوتی |
۔ |
|
۶۰ |
نعیم زبیری |
حیدرآباد |
۔ |
|
۶۱ |
سید مکرم نیاز |
۔ |
||
۶۲ |
ضامن علی حسرت |
نظام آباد |
۔ |
|
۶۳ |
شکیل شاہجہاں |
کامٹی |
۔ |
|
۶۴ |
فاطمہ تاج |
حیدرآباد |
۔ |
|
۶۵ |
علیم خاں فلکی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۶۶ |
فیض احمد انصاری |
اکولہ |
۔ |
|
۶۷ |
تمنا مظفر پوری |
مظفر پور |
۔ |
|
۶۸ |
ڈاکٹر حلیمہ فردوس |
بنگلور |
۔ |
|
۶۹ |
فیروز حیدر |
حیدرآباد |
۔ |
|
۷۰ |
جہاں قدر چغتائی |
بھوپال |
۔ |
|
۷۱ |
عاتق شاہ |
۱۹۳۳ء |
۱۹۹۹ء |
|
۷۲ |
ممتاز مہدی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۷۳ |
رزاق اثر شاہ آبادی |
شاہ آباد |
۔ |
|
۷۴ |
منظور الامین |
حیدرآباد |
۔ |
|
۷۵ |
حامد لطیف حامد |
۔ |
||
۷۶ |
محمد اظہر حیات |
ناگپور |
۔ |
|
۷۷ |
سید محمود حسینی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۷۸ |
جمیل صدیقی بدایونی |
بدایون |
۔ |
|
۷۹ |
محمد برہان حسین |
۔ |
||
۸۰ |
ڈاکٹر راہی قریشی |
گلبرگہ |
۔ |
|
۸۱ |
مسیح انجم |
۔ |
||
۸۲ |
رشید الدین |
حیدرآباد |
۔ |
|
۸۳ |
محمد باقر |
ریاض، سعودی عرب |
۔ |
|
۸۴ |
وحید اشرف |
۔ |
||
۸۵ |
سنجر ہلال بھارتی |
۔ |
||
۸۶ |
انیس صدیقی |
حیدرآباد |
۔ |
|
۸۷ |
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم |
جگتیال اے پی |
۔ |
|
۸۸ |
محمد عظیم الدین |
گلبرگہ |
۔ |
|
۸۹ |
منظور عثمانی |
دہلی |
۔ |
|
۹۰ |
محمد عمران اعظمی |
۔ |
||
۹۱ |
اسد رضا |
دہلی |
۲ جنوری ۱۹۵۲ء |
۔ |
۹۲ |
نسیمہ تراب الحسن |
حیدرآباد |
۔ |
|
۹۳ |
سکندر حمید عرفان |
کھنڈوہ، مدھیہ پردیش |
۔ |
|
۹۴ |
ڈاکٹر شاہدہ صدیقی |
سونے بھادرا، اتر پردیش |
۔ |
|
۹۵ |
طالب زیدی |
میرٹھ، اتر پردیش |
۔ |
|
۹۶ |
انجم عثمانی |
دہلی |
۱۹۵۲ء |
۔ |
۹۷ |
پروفیسر مقبول فاروقی |
حیدر آباد |
۔ |
|
۹۸ |
واجد ندیم |
حیدرآباد۔ حالِ مقیم۔ شگاگو، امریکہ |
۔ |
|
۹۹ |
رؤف خوشتر |
۔ |
||
۱۰۰ |
سلیم مقصود |
حیدرآباد۔ حالِ مقیم: جدہ |
۔ |
|
۱۰۱ |
سید نصرت |
حیدرآباد۔ حالِ مقیم۔ ابو ظبی |
۔ |
|
۱۰۲ |
شاہین نظر |
گیا، بہار |
۔ |
|
۱۰۳ |
نعیم جاوید |
حیدرآباد |
۔ |
|
۱۰۴ |
ڈاکٹر مرزا کلیم اللہ بیگ |
۔ |
||
۱۰۵ |
ہاجرہ بانو |
اورنگ آباد، مہاراشٹرا |
۲۰ جون |
۔ |
٭٭٭
۱۔ شوکت تھانوی
شوکت تھانوی ۲/ فروری ۱۹۰۴ء کو بند ابن ضلع متھرا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بحیثیت طنز و مزاح اپنی ادبی خدمات کا آغاز کیا۔ ان کے انشائیوں نے بہت مقبولیت پائی۔ شوکت تھانوی نے تقریباً ۶۰ سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ سودیشی ریل، موج تبسم، امید بتبسم، شیشی محل، قاضی جی وغیرہ ان کے بہترین مضامین اور انشائیے ہیں۔ ان کا انتقال ۴/ مئی ۱۹۶۷ء کو لاہور پاکستان میں ہوا۔
شوکت تھانوی کو انشائیہ نگار کے طور پر کم اور مزاح نگار کے طور پر زیادہ جانا پہچانا جاتا ہے۔ ان کے قلم میں بلا کی روانی تھی۔ روزمرہ کی باتوں اور آئے دن کے پیش آنے والے واقعات کو اس طرح بیان کرتے تھے کہ پڑھنے والا لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔ اپنے واقعات میں ایسے دلچسپ نکتے پیدا کرتے تھے کہ بے اختیار لبوں پر ہنسی آ جاتی۔ ظرافت کے ساتھ شوخی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے۔ ان کی تحریروں کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ اتنی مزاح و ظرافت کے باوجود کبھی کوئی ایسی بات یا فقرہ نہیں کہتے تھے کہ جس سے تہذیبی بد اخلاقی نظر آئے۔ شوکت تھانوی کا شمار ان لکھنے والوں میں ہوتا ہے جن کو فطری طور پر مزاح نگاری کی حس ملی ہو۔ ان کے پلاٹ پیچیدہ نہیں ہوتے تھے۔ روزمرہ کی زندگی کی معمولی باتوں پر تنقید کرتے تھے۔ موجودہ حالات اور رسم و رواج پر تبصرہ کرتے تھے۔ ان کے انداز بیان کی دلکشی کی مدار ان کی بے ساختگی اور سادہ لوحی ہے۔ وہ ایسی تصویریں پیش کرتے ہیں کہ سنجیدگی سے پڑھنے والوں کے لب پر بھی تبسم آ جاتا ہے۔
مندرجہ ذیل اقتباس میں ان کی شگفتگیِ تحریر کا نمونہ دیکھئے جو ان کے انشائیہ ’’بابو‘‘ سے لیا گیا ہے۔
’’بابو ہندوستان کی اس مخلوق کو کہتے ہیں جو دفاتر میں فائلوں کی چہار دیواری کے درمیان ناک کی پھنگی پر عینک لگائے ہوئے کاغذ سیاہ کرتی نظر آئے اور اس کے متعلق دیکھنے والے کو نہایت آسانی کے ساتھ اندازہ ہوسکے کہ سائنس داں نے اپنے کمال سے ٹائپ کی طرح خط شکست لکھنے کی یہ انسانی صورت والی مشین ایجاد کی ہے جو پان بھی کھاتی ہے اور عینک بھی لگاتی ہے۔ کبھی کبھی بات بھی کرتی ہے اور اکثر گھورتی بھی ہے۔
عام انسانوں کی طرح بابو کی زندگی میں مختلف قسم کے مد و جزر بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کی دنیا کے صرف دو کرے ہوتے ہیں۔ گھر اور دفتر، دفتر اور گھر، اور یہ دونوں کرے ایک دوسرے کے لازم اور ملزوم بھی بن کر رہ جاتے ہیں یعنی بابو کا گھر دفتر کے سہارے قائم رہتا ہے اور دفتر گھر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر بابو کو گھر کی فکر نہ ہوتی تو دفتر کی ہرگز پروا نہ کرے اور اگر دفتر نہ ہو تو گھر کا خدا ہی حافظ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دفتر سے واپسی پر بابو جی کا حلیہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بغل میں اور چھتری سر پر کسی بے ڈھنگے زاویہ سے رکھی ہوئی ٹوپی، ہاتھ میں رومال، باچھوں سے بہتا ہوا پان اور چہرہ پر دن بھر کی خستگی کے تمام نقوش نمایاں۔ مگر دماغ پر زور دے دے کر یہی سوچتے جاتے ہیں کہ ببوائن نے دو پیسہ کے چقندروں اور ایک پیسہ کے پانوں کے علاوہ اور کیا کہا تھا کہ لیتے آنا۔ اس لیے کہ خیال یہ بھی ہے کہ اگر وہ چیز یاد نہ آئی تو گھر پہنچ کر پھر بازار آنا پڑے گا۔ مختصر یہ کہ شام کے قریب بابو جی لدے پھندے گھر پہنچتے اور گھر پہنچ کر پھر گھریلو افکار میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اب کی ہرگز مکان دار کو کرایہ اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک کہ چھت نہ بنوا دے۔ تمام چھت ٹپکتی ہے اور اگر اس نے واقعی چھت بنوا دی تو کیا کرایہ دینا ہی پڑے گا؟ حالانکہ اگر اس مہینہ کرایہ نہ لیتا تو اچھا تھا اس لیے کہ جوتا بالکل پھٹ گیا ہے اور ببوائن اپنے بھائی کے لڑکے کے مونڈن میں بھی جانا چاہتی ہے، اس کا خرچ الگ ہے لہٰذا ان تمام باتوں پر ایک ناریل پی کر غور کرنا چاہیے اور اگر کچھ سمجھ میں نہ آئے تو روٹی کھا کر سورہنا چاہیے۔
۲۔ کنہیا لال کپور
کنہیا لال کپور ۲۷ جون ۱۹۱۰ء بمقام چک ضلع لائل پور پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی۔ ۱۹۳۴ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم۔ اے کے دوران انہیں سید احمد شاہ بخاری پطرس کے شاگرد ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا اور لکچرر کے عہدے سے ملازمت شروع کی۔ موگا گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے وظیفے سے سبکدوش ہوئے۔ کنہیا لال کپور نے ۱۹۳۶ء سے لکھنا شروع کیا یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اردو میں ترقی پسند تحریک اور اس کے متوازی حلقۂ ارباب ذوق کی سرگرمیاں عام ہوتی جا رہی تھیں۔ اپنے حلقۂ احباب میں ترقی پسندوں اور اربابِ ذوق کے ارکان کے باوجود کپور نہ تو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور نہ حلقۂ ارباب ذوق سے۔ وہ ترقی پسندوں کے ساتھ بھی رہے اور انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں اپنے مضامین بھی پڑھے اور پھر ہر دو کے ادبی کارناموں اور موقف کو اپنے طنز کا نشانہ بھی بنایا۔ کنہیا لال کپور کی دوربین نگاہیں زندگی کے ہر مخصوص شعبے پڑتی ہیں۔ سیاسی، معاشرتی، علمی، ادبی خرابیوں کو نہایت حسین اور مزاحیہ انداز میں منظر عام پر لاتے ہیں۔ ان کی تحریر کے تخیل میں فلسفیانہ گہرائی نہیں پائی جاتی۔ وہ کسی جماعت کے نظریہ سے متاثر ہو کر نہیں لکھتے بلکہ ہر بات اور ہر مسئلہ کو اپنے طور پر سمجھتے ہیں اور سماج یا فرد کی خرابیوں کو بے لوث ہو کر پیش کر دیتے ہیں۔ سماج کے کئی کرداروں کی حماقتوں کو بڑی سنجیدگی سے متعارف کراتے ہیں۔ باوجود متانت کے واقعات اور حالات کچھ ایسے سلیقہ سے سامنے لاتے ہیں کہ پڑھنے والا زیر لب مسکراہٹ پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی تحریر میں خود ہنستے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ دوسروں کی کمزوریوں کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اسلوب بیان کی شوخی اور بے باکی فضا میں ایسی لہر دوڑاتی ہے جو قاری کو بار بار گدگداتی اور چھیڑتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ ان کی وسیع النظری نے ان کی تحریروں میں تنوع پیدا کر دیا ہے۔ معمولی باتوں میں بھی وہ نکات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں وہ گہرائی لانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ مگر دل آویزی سے یہ مقامات خالی نہیں ہیں۔ روزمرہ کی باتوں کو پیش کر کے اصلاحی نقطہ نظر پیدا کرتے ہیں۔
کنہیا لال کپور کی زبان ٹکسالی اردو کا نمونہ ہے۔ ادبیت ان کی تحریر کی اول خاصیت ہے۔ جملوں میں جامعیت اور روانی جہاں کہیں ہم آہنگ ہو گئی ہے مقام ادب کا بہترین حصہ بن گیا ہے۔ ان کی تحریروں میں ذہنی کشمکش نہیں ہے۔ اس لیے صاف تحریریں نظر آتی ہیں اور مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی وہ اپنا مقصد واضح کرنے کے لیے تشبیہ اور استعارے کا سہارا نہیں تلاش کرتے بلکہ جو کچھ بھی کہنا ہوتا ہے صاف اور برجستہ کہہ جاتے ہیں۔ روزمرہ کی باتوں کو نمایاں کر کے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں جنہیں ہم معمولی سمجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں۔ ’’سنگ وحشت‘‘، ’’چنگ و رباب‘‘، ’’نوکر نشتر‘‘ اور ’’شیشہ و تیشہ‘‘ ان کے چار مجموعے ہیں۔
کنہیا لال کپور کی تحریروں کے خد و خال صنف انشائیہ سے بہت قریب معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مزاح زیادہ اور طنز کم ملتا ہے۔ بقول وزیر آغا:
’’کنہیا لال کپور طنز کے ایک بہترین سرجن اور عمل جراحی کے ماہر ہیں۔ ‘‘
یہ قول سو فیصدی صحیح لگتا ہے کیونکہ کپور جو زندگی کی ناہمواریوں اور سماج کے غیر ضروری جوش کو محسوس کرتے ہیں یا دیکھتے ہیں ان پر اپنے نشتر اتنے آہستہ چلاتے ہیں کہ زخم کا فاسد مادہ نکل کر قاری اور معاشرہ کو صحتمند کر دیتا ہے۔ ان کے پاس اس عمل کے لیے ایک فطری نفاست موجود ہے۔ ان کی ان جاندار تحریروں میں وہ ایڈیسن کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان کی تحریروں سے طنز و مزاح کو نکال دیا جائے تو ان کے مضامین بہترین انشائیہ کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کی لطیف گفتگو میں علمی اور فکری مسئلوں کا بوجھل پہاڑ موجود نہیں ہے۔ روزمرہ کی انسانی زندگی کے موضوعات پر وہ بے ساختگی اور شگفتگی کے ساتھ بہترین انداز میں بڑے بڑے راز کا پردہ فاش کرتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے مثلاً ’’چائے بنانا‘‘ اور ’’فلسفۂ قناعت‘‘ ان کے ان دونوں مضامین میں اس بات کی جھلک بخوبی نظر آتی ہے۔ بعض نقادوں نے ان کے مضامین میں پختگی کا فقدان بتایا ہے۔
کپور کی علمی خدمات کا اعتراف ابن اسماعیل نے بھی کیا ہے۔
’’کپور کے فن کا بھرپور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کپور بنیادی طور پر ایک تحریف نگار تھے۔ انہوں نے نظم و نثر دونوں میں ’’تحریف‘‘ کو اپنے صحیح اور مکمل ڈھانچے کے ساتھ برتا اور اردو ادب میں تحریف نگاری کو روشن اور صحتمند سمت بخشی۔ ‘‘
عورت کی عظمت کا اقرار ہر کوئی کرتا ہے لیکن د ل سے اس کی عظمت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہر عورت کو عزت دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہزار بار اگر وہ عورت کی آزادی پر تقریریں جھاڑ لے لیکن گھر آ کر اپنی بیوی، بیٹی اور بہو کی روشن خیالی کو چھوٹے دیدوں سے ہی دیکھتا ہے۔ عورت کی اس کی مجبوری میں اٹھائے گئے کسی بھی اقدامات کو صرف ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اپنی دوسری آنکھ کھولنے کی زحمت نہیں کرتا۔ ان سب باتوں سے پرے کنہیا لال کپور عورت کی عظمت اور بزرگی کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی وسیع النظری کی ایک مثال ان کے انشائیے ’’اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے‘‘ میں ملاحظہ کیجیے:
’’اپنے وطن میں ہر اکیلی نوجوان لڑکی شک کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اگر وہ اکیلی سیر کو جا رہی ہے تو شکار پھانسنے کے لیے جا رہی ہے۔ اگر وہ اکیلی سفر کر رہی ہے تو ضرور حسن فروش ہے۔ اگر وہ تن تنہا سکونت پذیر ہے تو ہم اس پر گھناؤنے سے گھناؤنا الزام لگانے میں حق بجانب ہیں۔ اگر وہ کسی ایسے آدمی سے بات چیت کر رہی ہے جو اس کا باپ یا بھائی نہیں تو ضرور اس سے اظہار محبت کر رہی ہے۔ اگر وہ شادی نہیں کرنا چاہتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رنگین مزاج ہے۔ اگر وہ اندھیرے میں کہیں جا رہی ہے تو ضرور اپنے عاشق کے گھر جا رہی ہے اور اگر وہ تاریکی میں کہیں سے آ رہی ہے تو اپنے آشنا کے گھر سے آ رہی ہے۔ چونکہ اپنے وطن میں سوائے طوائف کے ہر ایک عورت غلام ہے اس لیے ہر آزاد خیال عورت پر ہمیں طوائف کا شبہ ہوتا ہے۔ ‘‘
سکے کے دو رخ دکھاتے ہوئے کھوکھلے مذہبی نیتاؤں پر کپور صاحب کی اس کراری چوٹ کو ملاحظہ فرمائیے:
’’ہمارے مذہبی جنون اور جہالت کی یہ حالت ہے کہ ہم جاہل سے جاہل مولویوں اور پنڈتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے کو تیار ہیں وہ جس طرح ہمیں نچاتے ہیں ہم ناچتے ہیں۔ نہ صرف ناچتے ہیں بلکہ ان کے اشاروں پر ناچنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ مسجد کے سامنے ہندوؤں نے باجا بجایا ہے اس لیے وہ برے ہیں حالانکہ ابھی ابھی انگریزی پلٹن کا بینڈ قیامت برپا کرتا ہوا مسجد کے سامنے سے گزرا تھا ابھی جس وقت مولوی صاحب نہایت انہماک کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے۔ کیونکہ اس مسلمان نے گائے ذبح کی ہے اس لیے اس کی گردن اڑا دو حالانکہ ہر روز انگریزی چھاؤنیوں میں فوجیوں کے لیے ہزاروں گائیں ذبح کی جاتی ہیں۔ اپنے وطن میں مذہبی پیشوا ہمیشہ مزے میں اور مذہب ہمیشہ خطرے میں ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
۳۔ کرشن چندر
کرشن چندر ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ کو لاہور پاکستان میں پیدا ہوئے۔ پونچھ (جموں کشمیر) میں وقت گزرا۔ ان کے والد مہاراجہ پونچھ کے فیملی ڈاکٹر تھے۔ ۱۹۳۰ء میں فورمین کرسچن کالج (Forman Christian College) میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہیں سے لکھنے کی شروعات کی جس میں ’’تقسیم کا درد‘‘ شامل تھا۔ صنف افسانہ نگاری میں انہوں نے اپنا نام روشن کیا۔ انگلش اور ہندی زبان میں بھی اپنی تحریر کے جوہر دکھائے۔ کرشن چندر نے بیس سے زائد ناول لکھے، تیس مختصر افسانے اور کئی ریڈیائی ڈرامے لکھے۔ کئی مشہور فلموں کی اسکرپٹ میں اپنے جوہر دکھانے کے بعد ان فلموں کو ہٹ کرانے کے سہرا بھی ان کی تحریر کے سر جاتا ہے۔ ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ تو اتنی مشہور ہوئی کہ اٹھا رہ ہندوستانی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا اور کئی بین الاقوامی زبانوں میں بھی یہ کتاب منظر عام پر رہی۔ ان داتا، دھرتی کے لال، ان کی کہانیوں پر مبنی فلمیں تھیں جنہیں چیتن آنند نے ۱۹۴۸ء میں ڈائرکٹ کیا تھا۔ ۱۹۷۰ء کی ہٹ فلم ’’شرافت‘‘ بھی انہیں کی تھی۔ اپنی تحریر کی دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ دن رات اسی میں غرق رہتے تھے۔ دوران تحریر ہی ان کا انتقال میز پر ہو گیا۔ اس وقت وہ ’’ادب برائے بطخ‘‘ لکھ رہے تھے جس کی پہلی سطر کچھ اس طرح سے تھی کہ ’’نورانی کو بچپن ہی سے پالتو جانوروں کا شوق تھا۔ کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ لیکن اس سطر کے ختم ہونے سے پہلے ہی قلبی دورے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ منحوس تاریخ ۸ مارچ ۱۹۷۷ء کی تھی۔ اور مقام ممبئی تھا۔ ان کی تحریر کا نمونہ اس انشائیے میں ملاحظہ کیجیے۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رونا کیوں اس قدر ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہر شریف انسان اسے برا سمجھتا ہے اور بزدلی کی نشانی۔ درآنحالیکہ رونا ایک فطری عمل ہے بلکہ انسان کا سب سے پہلا فطری فعل اور اکثر حالتوں میں سب سے آخری بھی۔ گانا بیشک ایک اچھی چیز ہے لیکن رونا اس سے ہزار درجہ بہتر۔ بچپن میں ہم گاتے کم تھے اور روتے بہت۔ بچپن میں جب ہم روتے تھے تو اکثر بار بار پچکارنے پر بھی چپ نہ ہوتے تھے بلکہ کئی لوگ پچکارتے بھی نہ تھے۔ وہ کہتے تھے اچھا ہے خوب روؤ۔ رونا بچوں کے لیے مفید ہے لیکن اب عجیب حالت ہے۔ اگر کوئی شخص جذبات سے مغلوب ہو کر آب دیدہ ہو جائے تو لوگ اسے بزدل، زنانہ مزاج، پست ہمت کہہ دیتے ہیں۔ اگر کسی بیچارے کی آنکھوں سے دو چار آنسو ٹپک پڑیں یا ایک آدھ ہلکی سی چیخ بھی منہ سے نکل پڑے تو اسے ہیجڑا کہہ دینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا! آخر بات کیا ہے۔ ایک چیز جو بچوں کے لیے مفید ہے، ان آدمیوں کے لیے جو اب بچے نہیں ہیں کیسے مضر ثابت ہوسکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
۴۔ فکر تونسوی
فکر تونسوی۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو تونسہ مغربی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کی شخصیت تحریر سے بہت مناسبت رکھتی تھی۔ معمولی سے معمولی بات اور بڑے سے بڑے مسئلہ کو چٹکیوں میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے تھے۔ ان کے اندر کا فنکار بہت بڑی کائنات کا مالک تھا۔ وہ ایک ادیب، شاعر، سوانح نگار، مزاح نگار، انشائیہ نگار اور بہترین خاکہ نگار تھے۔ انہوں نے کئی ناول، ڈائری اور کئی سفرنامے بھی لکھے۔ ان کی تحریر میں شگفتگی اور گہرائی غضب کی تھی۔ قاری ان کی تحریروں میں ڈوب کر ان کی شخصیت میں ایک ہمدرد دوست تلاش کرتا تھا۔ ایک اچھے صحافی اور انشائیہ نگار کی یہی شناخت ہوتی ہے۔
فکر تونسوی کی تصانیف میں ہیولے (نظمیں )، چھٹا دریا (ڈائری)، ساتواں شاستر (طنزیہ)، خد و خال (ادیبوں کے خاکے)، ماوسی تنگ (سوانح)، بیس ہزار چراغ (سفر نامہ)، پنجاب کو سلام (ناول) تیر نیم کش (طنزیہ) پیاز کے چھلکے (انشائیہ اور طنزیہ) قابل ذکر ہیں۔
مندرجہ ذیل انشائیہ ’’ایک جیب کترے کی شکایت‘‘ سے ان کی طنزیہ شگفتگی تحریر عیاں ہوتی ہے۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب میں تمہاری جیب کاٹ کر خون کے آنسو رو رہا ہوں تو ستیش چندر کو بھی تمہاری وساطت سے نوکری کیوں ملے۔ کیونکہ تم دھوکے باز ہو اپنے بٹوے کی طرح تم سے کسی کو فیض نہیں پہنچ سکتا۔ نہ مجھے پہنچا نہ ستیش چندر کو پہنچے گا۔ اب ستیش چندر سے کہنا ’’بے وقوف! اس سوشلزم کے چکر سے نکلو۔ دفتر روزگار سے امیدیں مت باندھو۔ بلکہ جیب کترے بن جاؤ۔ لیکن احتیاط کرنا کہ جیب کاٹتے وقت یہ ضرور پوچھ لینا کہ تمہارا نام فکر تونسوی تو نہیں ہے۔
جب تم لڑکی کا اور میں تمہارا پیچھا کر رہا تھا تو میرا خیال تھا کہ تم خوش پوش ہو۔ ٹیرا لین کی پتلون اور قمیص پہنے ہو۔ چپل پر کریم پالش بھی کیے ہوئے ہو تو تمہارے بٹوے میں ضرور کوئی مال ہو گا۔ اور پھر آج کل جیب میں کرنسی نوٹ نہ ہوں تو کوئی لڑکی کا پیچھا نہیں کرتا کیونکہ میں گریجویٹ ہوں۔ جانتا ہوں کہ آج کل عشق بھی منڈی کی ایک جنس بن گئی ہے۔ کریلے خرید لو۔ عشق خرید لو۔ آج کل کا عشق دل سے نہیں کیا جاتا۔ کرنسی نوٹ سے کیا جاتا ہے۔
لیکن آہ۔ میری تھیوری غلط نکلی۔ تم تو عاشق نہیں صرف رائٹر نکلے۔ نجانے کیا بات ہے کہ آج کل ساری تھیوریاں غلط ہو رہی ہیں۔ خوش لباس انسانوں نے اندر سے پھوکٹ پرزے نکل رہے ہیں۔ عاشقوں کے اندر سے غزل کا ایک آدھ بے وزن شعر نکل آتا ہے۔ تمہاری ڈائری بھی تو اسی طرح ایک وزن شعر ہی تھی۔ میں کہتا ہوں۔ اندر سے بھکاری ہو تو باہر لباس سے بھی بھکاری کیوں نہیں بن جاتے۔ تاہم ہم جیب کترے دھوکا نہ کھائیں۔ اگر ہم شرفاء کی جیبیں نہ کاٹیں تو پھر کہاں سے کھائیں۔ آج کل کا رواج تو یہی ہے کہ شرفاء کماتے ہیں۔ جیب کترے کھاتے ہیں۔ اس لیے اگر تم اپنے آپ کو شرفاء میں شمار کرنا چاہتے ہو تو جیب میں ضرور کچھ نہ کچھ رکھا کرو۔ ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم بھی شرفاء کے بھیس میں جیب کترے ہو۔
میں نے جب تمہارا بٹوا ٹٹولا۔ ہائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کن کن تمناؤں سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ تمہارا بٹوا کھولا تھا۔ لیکن جب اس میں سے کرنسی نوٹوں کی بجائے کھوٹے سکے یعنی ٹیلی فون نمبر نکلے تو مجھے جتنی فحش گالیاں یاد تھیں تمہاری خدمت میں عرض کر دیں۔ گالیاں ختم ہو گئیں مگر غصہ ختم نہیں ہوا تو میں نے تمہاری ہی ڈائری میں سے لے کر ایک ممبر پارلیمنٹ کو فون کیا اور کہا:
’’یو شٹ اپ۔ مسٹر ایم پی!‘‘
وہ بولا۔ ’’اس ذرہ نوازی کی وجہ؟‘‘
میں نے کہا ’’کیوں کہ تم فکر تونسوی کے دوست ہو۔ کیا تم اسے اتنی بھی شرم نہیں دلا سکتے کہ جیب میں کرنسی نوٹ ضرور رکھا کرے۔ دیکھتے نہیں مہنگائی اتنی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
۵۔ جاوید وششٹ
جاوید وششٹ ۱۹۲۰ء ایک مشہور انشائیہ نگار ہیں۔ وہ ہار میں موتی پرونے کے مترادف اپنے انشائیہ میں الفاظ کو منتخب کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگوں نے خانقاہ کے روزن در سے جھانک کر دیکھا کہ صوفی ایک ’’فتنہ خانقاہ‘‘ کے ساتھ جسے دیکھ کر ’’اک شیخ کے تو ہاتھ سے تسبیح گر گئی‘ خلوت میں محو اختلاط ہے تو صوفی رسوا ہو گیا اور خانقاہ بدنام۔
جب محبت پر پہرے لگ جاتے ہیں تو روزن در کا استعمال کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔
روزن در سے رقیب نے جھانکا تو دیا بجھا کر روزن در کو اندھا کر دیا گیا مگر دیوار کے کان تو بہرے نہیں تھے۔ آخر رقیب نے پازیب کے گھنگھرو کی جھنکار سن ہی لی۔ اب تو اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور لگا انگاروں پر لوٹنے اور آخر وہ جل بھن کر کباب ہو گیا۔
جل گیا رشک کے مارے پس دیوار رقیب
وصل میں جب ترے پازیب کا گھنگھرو چھنکا
محتسب نے ایک زمانے میں روزن در سے جھانک جھانک کر رندوں کو بڑا پریشان کیا تھا۔ رند بے چارے رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے تو کچھ دے دلا کر محتسب کا منہ جھلس دیتے تھے لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا محتسب ان کے شیشہ دل کو توڑ کر چور چور کر دیتا تھا تو وہ بھی بگڑ بیٹھتے تھے اور اکڑ کر کہتے تھے کہ:
ہم نے اللہ کے کہنے سے تو چھوڑی نہ شراب
محتسب ہوش کی لے، تیری حقیقت کیا ہے
۶۔ مہیشور دیال
مہیشور دیال کا نام اردو ادب کے افق پر زیادہ تو نہیں چمکا۔ لیکن جتنا بھی ہے وہ آسمان میں آفتاب کا درجہ رکھتا ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کی بہترین اردو تحریر کا نمونہ ہے۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنم اشٹمی کرشن کنہیا کے جنم دن کا تہوار ہے اور اس وقت بھی بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ اس روز ہندوؤں کے بازار اور دکانیں کھلی رہتی تھیں مگر حلوائیوں کی دکانیں کھلی رہتی تھیں۔ برلا مندر تو نئی دلی کے ساتھ بہت بعد میں بنا ہے مگر پرانی دلی کے سب ہی چھوٹے بڑے مندر اس موقع پر خوب ہی سجائے جاتے تھے اور عمدہ عمدہ جھانکیاں بنائی جاتی تھیں جن میں کرشن جی کے بچپن کے مختلف منظر پیش کیے جاتے تھے۔ چاندنی چوک میں گوری شنکر کا مندر بہت سجتا تھا۔ دلی میں ان دنوں ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا مندر ہوتا تھا اور یہ مندر ایک سے ایک بڑھ کر سجائے جاتے تھے۔ جاس سجاوٹ میں بستی اور محلے کے سب لڑکے بالے اور بڑے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور سجاوٹ کی یہ تیاریاں ہفتوں پہلے شروع ہو جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ جنم اشٹمی کے موقع پر لوگ اپنے اپنے گھروں میں بھی ایک چھوٹا سا مندر بنا لیتے اور لڑکے اپنی الگ سجاوٹ کر کے گھر کے اندر یا باہر اپنا مندر بنا لیتے۔ لڑکوں کو بھی یہ لالچ ہوتا کہ جب گلی محلے کے لوگ دیکھنے آئیں گے تو ان کے مندر میں بھی ایک ایک دو دو پیسے چڑھائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہفت تماشا کے مصنف کے مطابق بعضے مسلمان بھی جنم اشٹمی کے دن کنس کا مجسمہ بنا کر اس کے پیٹ کو چاک کرتے تھے۔ اس میں شہد پہلے سے بھر دیتے تھے اور اسے اس کا خون سمجھ کر پیتے تھے۔ بہت سے مسلمان چلتی پھرتی جھانکیوں کو بھی بازاروں اور سڑکوں پر دیکھتے تھے اور کرشن جی اور رادھا کا بڑے احترام سے ذکر کرتے تھے۔
۷۔ سید ضمیر حسن دہلوی
سید ضمیر حسن دہلوی کی زبان سادہ اور خوبصورت ہے۔ اسی لیے وہ اپنی بات نہایت آسانی سے کہہ جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ اسکی خوبصورت مثال ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدا ہوتے ہی ہمیں جو شہد چٹایا گیا وہ خالص چینی او ر سکرین کا مرکب تھا۔ بس اسی وقت سے ہماری غذا میں ملاوٹ کا رواج ہو گیا آج ہماری عمر بائیس سال کی ہے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے تو منوں دودھ پیا ہو گا، منوں گھی کھایا ہو گا۔ البتہ جس اصلی گھی اور دودھ کی باتیں بزرگ لوگ چٹخارے لے لے کر سناتے ہیں اس سے نہ ہم آشنا نہ ہماری زبان ہمیشہ گریس کا بنا سو فی صدی خالص گھی کھایا اور مشین سے بنا تازہ دودھ پیا۔ اس پر بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ جب بھوک لگتی ہے ہم روٹی کھاتے ہیں۔ یہ روٹی کہاں سے آئی، امریکہ نے بھجوائی۔ یقین کیجیے جس وقت یہ خیال آتا ہے حلق میں نوالہ پھنسنے لگتا ہے۔ ہماری غیرت و حمیت خود داری سب کچھ سفید گیہوں کی خشک روٹی میں الجھ کر رہ جاتی ہے جسے ہم پانی کے ایک گلاس سے بہ مشکل نگل پاتے ہیں۔ ہماری سیر تفریح کیا ہے ایک قسم کا فریب ہے جو ہم کھاتے آئے ہیں اور مسلسل کھاتے رہیں گے۔ نہ کوئی میلا ٹھیلا نہ رنگین اور پر لطف محفلیں، نہ چاندنی رات میں شغل ناؤ نوش۔ ایک لے دے کر سینما ہے جہاں دو گھڑی بیٹھ کر ہم اپنے مردہ قلب پر زندگی کے چھینٹے دے لیتے ہیں، سالہا سال کی دہرائی ہوائی کہانیاں پھر دہراتے ہیں اور کسی حسین تصور کے ساتھ تیرہ و تاریک ہال سے نکل کر زندگی کی ظلمت اور تیرگی میں تیرنے لگتے ہیں۔ ہمارا حلیہ دیکھئے۔ آپ خود کہہ دیں گے کہ ہم پر ضرور کچھ بپتا پڑی ہے۔ ‘‘۱
۔۔۔۔۔۔۔
۱ ۔ بیچارے نوجوان۔ سید ضمیر حسن دہلوی۔ اردو انشائیہ۔ نصیر احمد خان۔
۸ ۔ یوسف ناظم
یوسف ناظم ایک سچے مزاح نگار ہیں۔ ایک الگ ہی شان و بان کی حامل ان کی مزاحیہ تحریریں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں الگ ہی طرح کی لطافت اور پاکیزگی نظر آتی ہے۔ یوسف ناظم کی انفرادیت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ خیالی اور واقعہ سے ہی نہیں بلکہ جملوں کی تراش خراش، اور جملوں کے باہمی تضاد سے مزاح پیدا کرنے میں بے نظیر ہیں۔ ان کا اسلوب اردو ادب میں قطعی نیا اور منفرد محسوس ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں مزاح کا اچھوتا پن ان کے ہر مضمون کی ہر سطر کے ہر لفظ میں رگوں میں دوڑے خون کی طرح گردش کرتا نظر آتا ہے۔ ان کے الفاظ کی برجستگی، بے ساختگی اور رکھ رکھاؤ ان کے فن کی شناخت ہے۔ یہ اقتباس اس بات کی تصدیق کرے گا۔
’’وجد صاحب ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے۔ یہ واقعہ اتنا سخت تھا کہ دوسال کے اندر ہی جنگ چھڑ گئی۔ ‘‘۱
الفاظ کی برجستگی کا ایک نمونہ اور ملاحظہ کیجیے:
’’اچھا ادیب وہ ہوتا ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ دودھ وہ خود پی لے اور پانی پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کر دے۔ ‘‘۲
ان کا مندرجہ ذیل انشائیہ ’’جنون لطیفہ‘‘ نہایت خوبصورت ہے۔ عام باتوں اور معمولی چیزوں سے مزاح پیدا کرنا اور بے اصولیوں پر طنز کرنا ان کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ لطیفہ سنا کر ہنسانا اتنا مشکل نہیں جتنا خود لطیفہ گوئی پر مضمون لکھ کر ہنسانا۔ لیکن یوسف ناظم نے یہاں اس موضوع کو بہترین انشائیے میں تبدیل کر کے شگفتگی پیدا کر دی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اچھی خاصی جمی جمائی محفل کو اگر برخاست کروانا ہو یا کسی جلسے میں بھگدڑ مچانی ہو تو گھسے پٹے لطیفے سنانے کا نسخہ آزمانا چاہیے۔ گھسے پٹے لطیفے جن کو سن کر ہنسی نہیں رونا آتا ہے۔ اشک آور گیس کا کام کرتے ہیں۔ جیسے ہر شخص کو خطرہ ہو کہ اگر وہ سر پر پاؤں رکھ کر نہ بھاگا تو لطیفوں سے مفت میں مارا جائے گا! لطیفہ گوئی کا یہ پہلو بڑا خوفناک ہے!
لطیفے کانچ کے سامان کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ لحاف یا رضائی نہیں کہ سردیاں آئیں اور پرانے لحاف اور رضائیاں باہر نکل آئیں۔ یہ تو کراکری ہے جو ہمیشہ بدلنی پڑتی ہے۔ لطیفہ پرانا ہو کر تو نوحہ بن جاتا ہے۔ یوں ملا نصیر الدین کے لطیفوں کی بات الگ ہے۔ وہ لطیفے خود ان کی کاشت کیے ہوئے ہیں ورنہ لطیفے ہی ایسی چیز ہیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ یہ پالی اور ہوا کی طرح ہوتے ہیں اور ان پر سب کا قبضہ ہوتا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ لطیفہ میرا ہے اور اسے کوئی نہ برتے یا جب بھی برتے پہلے اور آخر میں میرا نام لے جیسا کہ ریڈیو اسٹیشن سے گیت لکھنے والے کا نام نشر ہوتا ہے۔ لطیفے ان پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ لطیفہ کہے اور دوسروں کو سنا کر سننے والے سے زیادہ خوش ہو۔ جملہ دو لطیفے یاد رکھے اور ہر محفل میں وہی لطیفے سنا کر خود قہقہہ لگائے اور اس بات کی قطعی پروا نہ کرے کہ آثار قدیمہ کی طرح کا لطیفہ سن کر دوسروں کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔
لطیفے نسوار کی طرح ہر شخص کو بانٹے بھی نہیں جا سکتے۔ کیونکہ یہ سونگھنے کی نہیں سمجھنے کی چیز ہوا کرتے ہیں۔ باس سونگھ کر تو ہر شخص چھینک سکتا ہے لیکن لطیفہ سن کر ہنسنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ ‘‘۳
۔۔۔۔
۱۔کہنے جاتے تو ہیں پر یہ دیکھئے کیا کہتے ہیں۔ یوسف ناظم
۲۔آئینے میں۔ یوسف ناظم
۳۔جنون لطیفہ۔ یوسف ناظم
۹۔ مشتاق احمد یوسفی
مشتاق احمد یوسفی ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریاست ٹونک کے پولیٹیکل سیکرٹری، جے پور میونسپلٹی کے چیئر مین، اسٹیٹ مسلم لیگ کے صدر اور اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر رہ چکے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے تیسری جماعت تک ٹونک میں تعلیم پائی۔ بعد ازاں جے پور، آگرہ اور علی گڑھ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۵/ جون ۱۹۴۶ء کو ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم۔ اے۔ کیا۔ ان کے والد نے اسمبلی میں پاکستان کی حمایت میں تقریر کی۔ جس کی وجہ سے انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ ۳۱/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو کراچی پہنچے۔ جنوری ۱۹۵۰ء میں دی مسلم کمرشیل بینک (The Muslim Commercial Bank)میں ملازم ہوئے۔ ۲۶ جون ۱۹۵۰ء کو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ۱۹۵۳ء میں وہ ترقی کر کے بینک کے چیف اکاؤنٹینٹ بنے۔ جنوری ۱۹۷۹ء میں وہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں BCCI میں ملازم ہو کر لندن گئے اور گیا رہ سال بعد وطن واپس ہوئے۔ جب وہ اسکول میں تھے تو انہوں نے تب سے ہی مضامین لکھنا شروع کر دئیے تھے۔ مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ چراغ تلے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ دوسرے مجموعے حاکم بہ دہن کی اشاعت ۱۹۶۹ء میں ہوئی۔ ۱۹۷۶ء میں ان کی تصنیف ’’زرگزشت ‘‘منظر عام پر آئی جو ایک طرح سے ان کی سوانح عمری ہے۔ اس کے چودہ برس بعد ان کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’آب گم‘‘ شائع ہوئی۔ جس میں ناول کی تکنیک کو کام میں لایا گیا ہے۔
ان کی تخلیقات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع اور بہت گہرا ہے اور وہ وسیع النظر، وسیع القلب، بلند حوصلہ، باریک بین، شائستہ، ہمدرد، زندہ دل، خوش گفتار، شگفتہ بیان اور سبک مزاج واقع ہوئے ہیں۔ باتوں باتوں میں بڑے پتے کی بات یوں کہہ جاتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو بعض وقت یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس میں ایسی اور کتنے پتے کی باتیں کہی گئی ہیں۔ یوسفی کو انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ ہے۔ وہ انسانی نفسیات کو اس طرح واضح کرتے ہیں کہ انبساط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہی انبساط اور مسکراہٹ قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ حقائق کا پردہ فاش کرنے میں ان کے جملے کلیدی حصہ ادا کرتے ہیں۔ ان کی تحریر کا ہر جملہ بے مثل اور بے ساختہ ہوتا ہے وہ جملے بازی اور زبان و بیان کے بازی گر ہیں۔ ان کے جملوں میں جو معنویت ملتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موقع و محل کی مناسبت سے موزوں بات کہہ جاتے ہیں۔ یوسفی کی تصانیف کے مطالعہ سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ان کی معلومات عامہ اور ادبیات کا مطالعہ وسیع ہے۔ فارسی، اردو اور انگریزی کا بڑی وسعت اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اس کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی تاریخ اور سیاست پر بھی ان کی گہری نظر ہے ان کے مطالعہ کی یہ وسعت ان کی تحریر کا طرہ امتیاز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قاری کا مطالعہ بھی گہرا اور وسیع نہ ہو یوسفی کی تحریر سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہوسکتا چونکہ وہ اپنی بات کی وضاحت کے لیے یا اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے کسی نہ کسی شاعر، ادیب اور مفکر کا حوالہ یا قول اس برجستگی اور روانی سے دیتے ہیں کہ جب تک قاری بھی ان کا ہم رکاب نہ ہو وہ اس جملے کی معنویت کو بھی پا سکتا۔ ان کے صرف ایک جملے میں اتنی گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے کہ وہ غزل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی نے جدید عہد کے اہم ظرافت نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ طنز و مزاح، شگفتگی و ظرافت ان کے اسلوب کی خصوصیت ہے۔ مقبول عام مصرعوں میں رد و بدل لفظی تحریف سے لطف پیدا کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ ایک فنکار ہے جس میں لفظوں کا فنکارانہ استعمال کرنے کی قدرت ہو، کرداروں کی نفسیات پر مضبوط گرفت ہو اور ژرف نگاہی اور حساسیت ہو تو وہ کوئی اور نہیں صرف اور صرف مشتاق احمد یوسفی ہی ہوں گے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں جن ادیبوں نے اردو ادب کے افق پر خود کو تابندہ کیا وہیں مشتاق احمد یوسفی کا نام بھی سرفہرست ہے۔ انہوں نے طنز و مزاح کو نئے لب و لہجے اور معنویت سے روشناس کرایا۔ اپنی منفرد انداز تحریر سے اپنے فن میں امتیازی شان اور انفرادیت کے نقوش چھوڑ دئیے ہیں۔ ان کے طنز میں بلا کی تیزی اور گہری کاٹ ہے۔ ساتھ ہی مزاج کی شگفتگی اس پر مرہم کا کام بھی کرتی ہے۔ ان کی ایسی تحریریں ان کی فنکارانہ پختگی کا ثبوت دیتی ہیں۔ ان کی ایسی زندہ دل قاری کو تفریح طبع بناتی ہے لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ تعمیر و اصلاح کا جذبہ بھی ابھارتی ہے۔ اسی لیے جہاں وہ مسکراہٹ بکھیرتے ہیں وہیں دوسری طرف ذہنوں کو لمحہ فکریہ بھی عطا کرتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی کا مغربی ماحول، ادب اور معاشرے کا مطالعہ و مشاہدہ کافی گہرا ہے۔ جس کے واضح اثرات ہمیں ان کی تحریروں میں جا بجا ملتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی وہ انفرادیت کا پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اپنے ان نئے تجربوں کی وجہ سے انہوں نے طنز کے میدان کو وسعت بخشی۔ ۔ یوسفی نے کبھی خود کو عالم و فاضل نہیں سمجھا۔ لیکن اپنے معیار کو بھی کبھی گھٹنے نہ دیا۔ کیونکہ ان کے پاس شعور و آگہی اور دوراندیشی کی بے پناہ دولت موجود ہے اور اسی دولت کو انہوں نے سب میں برابر برابر تقسیم کیا ہے۔ ان کی نظر انسانی مسائل کے باریک سے باریک پہلو تک پہنچتی ہے وہ انسان کے پوشیدہ زخم کو محسوس کر کے کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ ہنسی کے ساتھ ساتھ آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ ان کی یہی صفت انہیں عربی افسانہ نگار خلیل جبران کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔ ان کی تحریر میں دلکشی، بے ساختگی، روانی، الفاظ کا انتخاب، تراکیب کی ساخت اور تشبیہات و استعارات کا استعمال اور نرم و سبک الفاظ کا استعمال غنائیت و موسیقیت پیدا کرتا ہے۔ ان کا قلم جس کسی بھی چیز کو چھو جاتا ہے اس میں نئی تازگی پیدا کر دیتا ہے۔ ایک ادیب نے ان کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ:
’’ادنیٰ سے ادنیٰ بات کے کسی نئے پہلو یا زاویہ پر ہلکی سی روشنی ڈال کر اس کی طرف ہم کو متوجہ کر کے چونکا دینا اور خود معصومانہ انداز میں آگے بڑھ جانا یوسفی کے فن کی وہ نزاکت ہے جو انہیں کے حصے میں آتی ہے۔ ان کے تاثرات و منتخبات، ان کی زبان، ان کا اسلوب سبھی خود رستہ اور خود بالیدہ ہوتے ہیں اور ان کا قلم جس کسی چیز کو بھی چھو جاتا ہے اس میں نئی روئیدگی اور فنی بالیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ ‘‘
مشتاق احمد یوسفی موجودہ دور کے ان انشائیہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کے انشائیے وسعت فکر، معلومات اور طنز و مزاح سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کا انداز بیان اتنا دلکش ہوتا ہے کہ پڑھنے والا ایک بار شروع کر کے پوری تحریر پڑھ کر ہی دم لیتا ہے اپنی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ کے مقدمے میں وہ خود رقمطراز ہیں :
’’مجھے احساس ہے کہ اس ننھے سے چراغ سے نہ کوئی الاؤ بھڑک سکا نہ کوئی چتا دہکی۔ میں تو اتنا ہی جانتا ہوں کہ اپنی چاک دامنی پر جب اور جہاں ہنسنے کو جی چاہا ہنس دیا اور اب اگر آپ کو بھی اس ہنسی میں شامل کر لیا تو اس کو میں اپنی خوش قسمتی تصور کروں گا۔ ‘‘
یوسفی کے انشائیوں میں قہقہوں کی پھلجڑیاں لگاتار چھوٹتی رہتی ہیں اور قاری بڑی بے تکلفی اور یگانگت کے ساتھ ان کے لگائے قہقہوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور ایک الگ منفرد سرور و انبساط سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ لیکن یہی قہقہے لگاتے ہوئے جب یوسفی کی نظر سماج کے انتشار اور کھوکھلی قدروں پر پڑتی ہے تو وہ طنز کا تیر اپنے ہاتھ میں لے کر کمان کھینچ لیتے ہیں اور یہی بات انہیں انشائیہ نگار سے طنز نگار بنا دیتی ہے۔ اس معاملہ میں خود یوسفی کہتے ہیں :
’’طنز نگار راستے پر اترا اترا کر کرتب نہیں دکھاتے بلکہ تلواروں پر رقص کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
ان کے انشائیوں میں انفرادیت اور انانیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے انداز اور گفتگو کا لہجہ انہیں منفرد بناتا ہے۔ وہ روزمرہ کی عام باتیں، روزمرہ کے طریقے یعنی عامیانہ طریقے سے ہی کرتے ہیں۔ یہ انہیں دوسرے فنکاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوسفی ایک سلجھے ہوئے اور شگفتہ مزاج والے تھے ان کے مزاج کی جھلک ان کی تحریروں میں بدرجہ اتم ملتی ہے۔ ان کے لہجے کے اتار چڑھاؤ کے حسن کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ وہ صحیح معنوں میں لہجے کے الفاظ کی نہج اور مزاج کو جانتے پہچانتے ہیں۔ اس بات کی زندہ مثالیں ان کے انشائیے ’’پڑئیے گر بیمار‘‘، ’’صنف لاغر‘‘ اور ’’جنون لطیفہ‘‘ ہیں۔
یوسفی کا سادہ اور دل کو لبھا دینے والا انداز ان کے انشائیہ ’’سنہ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے:
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنہ عیسوی سے کہیں زیادہ مشکل ان تاریخوں کا یاد رکھنا ہے جن کے بعد میں قبل مسیح آتا ہے۔ اس لیے کہ یہاں مؤرخین گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑاتے ہیں۔ ان کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ذہنی (شرشاسن) شیش آسن کرنا پڑتا ہے۔ جو اتنا ہی دشوار ہے جتنا الٹے پہاڑے سنانا۔ اس کو طالب علموں کی خوش قسمتی کہیے کہ تاریخ قبل میلاد مسیح نسبتاً مختصر اور ادھوری ہے۔ اگرچہ مؤرخین کوشاں ہیں کہ جدید تحقیق سے بے زبان بچوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیں۔ بھولے بھالے بچوں کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ روم کی داغ بیل ۷۵۲ قبل مسیح میں پڑی تو وہ ننھے منے ہاتھ اٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے میں ابھی ۷۵۲ سال باقی ہیں۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقتباس میں کتنے معصوم لگے یوسفی۔ اب آگے اسی انشائیے میں ان کی فلسفیانہ جست ملاحظہ کیجیے:
’’حافظہ خراب ہو تو آدمی زیادہ عرصہ تک جوان رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وقت کا احساس بذات خود ایک آزار ہے جس کو اصطلاحاً بڑھاپا کہتے ہیں۔ ‘‘
۱۰۔ فرقت کاکوروی
فرقت کاکوروی کی سادہ تحریر میں انشائیہ کی شگفتگی کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ بڑے موضوع کو بھی سادہ لوح بن کر ادا کرتے ہیں۔ اور قاری پر اپنا گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی تحریر کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:
’’آپ چاہیں مانیں یا مانیں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر موجودہ دور جمہوریت کا یہ ایک اٹل اور متفقہ فیصلہ ہے کہ علم و ادب کے تمام مدارج طے کر لینے کے بعد بھی سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو گریجویٹ نہیں اگر اپنی جملہ جہالتو ں کے باوجود سب سے بڑا عالم وقت وہ ہے جس نے کسی یونیورسٹی سے بی۔ اے۔ کی سند حاصل کی ہے۔ بات یہ ہے کہ اب سے چالیس برس قبل بی۔ اے۔ کی ڈگری ایک ایسا کار آمد تعویذ اور ایک ایسی جادو کی پڑیا ثابت ہو چکی ہے کہ آپ نے ادھر اس کو استعمال کیا ادھر کھل جا او سمسم کی آواز کے ساتھ ملازمت کے دروازے کھل گئے اور آپ کی مٹھیاں بھر بھر کر اپنے دامن افلاس کو رشوتوں اور مقررہ تنخواہوں سے پر کرنا شروع کر دیا۔ بی۔ اے۔ کی ڈگری معیار علم، معیار قابلیت اور معیار ذہانت تصور کی جاتی تھی۔ یہی ڈگری گھر والوں اور بزرگوں سے ہر معاملہ میں مشورہ طلب کرواتی تھی اور اسی پر سوسائٹی میں عزت و ذلت کا دارومدار تھا۔ والدین نے صاحبزادے کے ہاتھ میں بی۔ اے۔ کی ڈگری دیکھی اور سمجھ گئے کہ صاحبزادے اپنی جملہ جہالتوں کے باوجود قابل ہو گئے۔ اس کے بعد اگر خاندان میں کوئی کٹھن سے کٹھن مرحلہ درپیش ہو تو سب نے آنکھ بند کر کے مشورہ دیا کہ شفاء الملک حکیم بی۔ اے۔ صاحب سے رجوع کیجیے۔ اس معاملے میں صحیح مشورہ وہی دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ بی۔ اے۔ پاس ہیں۔ چنانچہ ان کو بلا کر سب سے پہلے ان کی بی۔ اے۔ پاس رائے دریافت کی جاتی تھی۔ وہ باوجود گھریلو اور شادی بیاہ کے معاملے نا تجربہ کار اور ناواقف ہونے کے معاملے کو آنکھیں بند کر کے اس طرح سنتے گویا سمجھ بھی رہے ہیں۔ پھر دو ایک مرتبہ مفکرانہ انداز میں سر کھجاتے اور شادی کے معاملے کو بجائے عقل سے بتانے کے علم ریاضی سے حل کر کے اگر لڑکی فلاں فلاں خاندان اور فلاں فلاں امتحان پاس ہے اور ان ان صلاحیتوں کی حامل ہے تو اس کو فلاں فلاں لڑکے کے گلے منڈھا جائے۔ تو اس سے اس کی آئندہ زندگی خو حالی اور فارغ بالی سے بسر ہو گی اور اس سے ایک ایسا مرکب بن جائے گا جو ہر کاٹے کا منتر ہو گا۔ چنانچہ ان کی اس رائے کو ایک فلسفی، ایک مفکر اور ایک نجومی کی رائے سمجھ کر قبول کر لیا جاتا اور ہر شخص واہ واہ اور سبحان اللہ کی آوازیں بلند کرتا۔ رفتار زمانہ نے اس چیز کو ایک رسم کی شکل دے دی۔ اور اب اس دور جہالت میں بھی وہ جوں کی توں سینہ بسینہ چلی آ رہی ہے۔ اور آج کل بھی بی۔ اے۔ پاس صاحبزادے کی دستار بندی اس پرانی وضع پر ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ بی۔ اے۔ پاس لڑکیاں اور لڑکے اپنے آپ کو افلاطون وقت اور سقراطِ دورا ں سمجھتے ہیں اور بی۔ اے۔ پاس کرنے کے بعد ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱
۔۔۔۔
اور جب ہم بی۔ اے۔ پاس ہوئے۔ فرقت کاکوروی۔ آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ نصیر احمد خان
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید_
بہترین کتاب ہے