فہرست مضامین
- اردو ادب
- توقیتِ اختر الایمان ۔۔۔ بیدار بخت
- اختر الایمان ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی
- اختر الایمان کی متروکہ نظمیں ۔۔۔ محمد فیروز دہلوی
- اختر الایمان کی نظم میں جلاوطنی کا اظہار۔۔۔ ناصر عباس نیّر
- اختر الایمان کی نظموں کے ساتھ گزران ۔۔ ۔ ارجمند آرا
- اختر الایمان کی شاعری پر ایک مونتاج ۔۔۔ خالد علوی
- اختر الایمان اور مجید امجد ۔۔۔ سرورالہدیٰ
- اختر الایمان کے دیباچے ۔۔۔ عبدالسمیع
- ’نارس‘ کا پیش لفظ ۔۔۔ میراجی
- اختر الایمان کی پانچ نظمیں ۔۔۔ باقر مہدی
- شاعری یا کلامِ موزوں ۔۔۔ مشفق خواجہ
- اختر الایمان کی شاعری ۔۔۔ شمیم حنفی
- اختر الایمان کی نظم ’موت‘ ۔۔۔ خالد جاوید
- اختر الایمان سے بات چیت۔۔۔ اطہر فاروقی
اردو ادب
شمارہ اکتوبر 2015 تا مارچ 2016
(اختر الایمان نمبر)
مدیر اعلیٰ: صدیق الرحمٰن قدوائی
مدیر: اطہر فاروقی
معاون مدیر: سرورالہدی ٰ
اختر الایمان کے تعلق سے بہرحال اتنی بات مسلم ہے کہ کوئی باضابطہ کام ابھی تک اردو ادب میں نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں اپنی زندگی میں بھی اس کی شکایت رہی کہ انہیں لوگوں /نقادوں کی جانب سے ویسی سنجیدگی سے نہیں پڑھا گیا، جس کے وہ حقدار تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود سنجیدہ حلقوں میں بھی اختر الایمان کوئی آیا گیا موضوع نہیں رہے بلکہ ان پر متواتر گفتگو ہوتی رہی۔ خصوصی طور پر جدید نظم کے بنیاد گزاروں کے طور پر ان کا نام ضرور لیا جاتا رہا۔ جہاں تک بات پڑھ کر سمجھنے یا سمجھ کر پڑھنے کی ہے تو بیشتر ایسے شعرا ہیں، جن کے ساتھ ہم نے اس سے دس گنا بدتر سلوک کیا ہے، جیسا اختر الایمان کے ساتھ ہوا۔ ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے کہ اطہر فاروقی کی ادارت میں شائع ہونے والے اردو ادب نامی اس رسالے نے، جس کے معیار کی اپنی ایک الگ شناخت رہی ہے اور اس کا معیار ہی اس کی روایت بھی بن گیا ہے، ایک اہم شمارہ ترتیب دیا ہے۔ اس شمارے میں اختر الایمان بہت سے اہم نئے، پرانے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں۔ اطہر فاروقی کا انٹرویو، جو کہ ان کی کتاب میں بھی شامل ہے، ہماری نظروں سے گزر چکا ہے۔ اس کے باوجود یہ انٹرویو ابھی بہت سے قارئین کی دسترس سے باہر ہو گا، میں اسے ایک غیر روایتی انٹرویو اس لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ اطہر فاروقی نے رسمی سوالات نہیں پوچھے ہیں، بلکہ اختر الایمان کے تعلق سے جتنی باتیں ادبی و علمی حلقوں میں موجود ہیں، اپنے شبہات و نظریات کی آمیزش کے ساتھ انہیں اختر صاحب کے سامنے بلا جھجھک پیش کیا ہے۔ جوابات بھی دلچسپ ہیں، حالانکہ ان سے اتفاق و اختلاف ایک دوسری بات ہے۔ اس شمارے میں بہت سے اہم مضامین موجود ہیں، مثلاً میراجی کا لکھا ہوا نارس کا پیش لفظ، شمیم حنفی اور باقر مہدی جیسے موقر ادیبوں کی اختر الایمان کے تعلق سے تحریریں۔ محمد فیروز دہلوی کا مضمون ‘اختر الایمان کی متروکہ نظمیں ‘علمی سے زیادہ معلوماتی نوعیت کا ہے لیکن دلچسپ ہے، جس سے اختر صاحب کہ مال متروکہ اور ان کی شعر گوئی کے ساتھ انتخاب شعری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ میکالے کی تقریر نامی نظم کو ہٹا دینے کا فیصلہ بے حد اہم ہے، ایسی ایک نظم فاروق بانسپاری نامی شاعر کی بھی ہے، جس کا عنوان بھی غالباً ابلیس کی مجلس شوریٰ ہے، جو کہ اقبال کی ہی پیروی میں لکھی گئی ہے۔ ایسی نظموں میں شعریت کم اور بڑ بول پن زیادہ نظر آتا ہے، قیاس کی حدیں پھلانگتے ہوئے شاعر اپنی سیاسی بصیرت کا پوسٹر لے کر منہ کے بل گرتا ہے۔ ارجمند آرا کا مضمون بہت دلچسپ ہے، اختر الایمان کی نظموں کے ساتھ، ان کو پڑھنے اور سمجھنے کی ایک مختصر داستان اس مضمون میں موجود ہے۔ بیشتر مضامین بہت اہم ہیں۔ مجھے کیا پسند آیا اور کیا نہیں، اس پر بھی گفتگو ہو گی، میں اپنے اتفاق و اختلاف کو پہلے ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ آپ اس شمارے کے مشمولات پڑھ کر اپنی جانب سے فیصلہ کیجیے، اختر الایمان کے حوالے سے بس اتنی سی بات کروں گا کہ وہ مجھے کبھی زیادہ متاثر نہ کر سکے، اس وقت بھی نہیں، جب میں نے انہیں پہلی دفعہ پڑھا تھا، لیکن یہ ایک بے حد ذاتی تجربہ ہے، جس کا دوسرے کے مطالعے سے دور کا واسطہ نہیں۔ اختر الایمان نے مجید امجد کو اپنا نقال کہا، راشد کے گاڑھے پن کو برا سمجھا، میراجی کی بھی دال نہ گلنے دی اور سردار و کیفی کو تو شاعر تک ماننے سے انکار کر دیا، ویسے سردار جعفری اور کیفی اعظمی کے تعلق سے میں بہت حد تک ان کی رائے سے اتفاق کر سکتا ہوں، لیکن مجید امجد، راشد اور میراجی، اختر الایمان کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم شاعر ہیں۔ یہ شمارہ بہر طور اردو کے ایک جدید نظم نگار کے تجزیے، محاسبے، مطالعے اور مشاہدے پر ہمیں مجبور کرتا ہے۔ میں انجمن ترقی ارد ہند کو اتنا اہم شمارہ شائع کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں اور ادبی دنیا پر اس کے مشمولات کو جگہ دینے کی اجازت دینے کے لیے اس کے جنرل سکریٹری اطہر فاروقی کا شکر گزار ہوں۔ امید ہے کہ آپ اس شمارے پر اپنی رائے سے نوازیں گے، آپ اپنے کمنٹس براہ راست اطہر فاروقی صاحب تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔ جس کے لیے بس ان کی ٹائم لائن تک جا کر آپ کو انہیں میسج کرنا ہو گا۔ شکریہ(تصنیف حیدر)
توقیتِ اختر الایمان ۔۔۔ بیدار بخت
1915
محمد اختر الایمان کی ولادت نجیب آباد، اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں گھسیٹ پور میں 12 نومبر کو ہوئی۔ سرکاری کاغذوں میں لکھی ہوئی تاریخ 27 دسمبر 1918 غلط ہے۔ والد مولوی فتح محمد مسجدوں میں امامت کرتے تھے۔ والدہ کا نام سلیمن تھا۔
1919
والد کے ساتھ رکڑی گاؤں چلے گئے، جہاں فتح محمد گاؤں کی مسجد کے پیش امام ہو گئے۔ مسجد کے مدرسے میں محمد اختر الایمان اردو اور قرآن پڑھنے لگے۔
1920
والد کے ساتھ کمباسی گاؤں چلے گئے۔ شوہر سے لڑ کر والدہ میکے چلی گئیں۔
1926
والد کے ساتھ عبداللہ پور کے سگھ گاؤں میں چلے گئے، جہاں سگھ مدرسہ تھا جو دراصل یتیم خانہ تھا۔ والد نے امامت چھوڑ کر مدرسے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ یہاں محمد اختر الایمان نے پھر قرآن حفظ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ والدہ واپس آ گئیں۔
1928
والدہ پھر میکے چلی گئیں اور والد محمد اختر الایمان کو ساتھ لے کر جگادھری چلے گئے اور ایک اسکول میں قرآن پڑھنے کے لیے داخل کر دیا۔ کچھ دن بعد والدہ جگادھری آ گئیں۔
1929
گھر سے بھاگ کر نجیب آباد میں اپنی ننھیال چلے گئے، جہاں سرور والی مسجد کے مدرسے میں ان کا داخلہ کرا دیا گیا۔
1930
والد کے مشورے پر انھیں چچا محمد یامین کے پاس دہلی بھیج دیا گیا۔ چچا نے کچھ دن اپنے گھر میں رکھ کر ان کا داخلہ مویّد الاسلام میں چوتھی جماعت میں کرا دیا جو ایک یتیم خانہ بھی تھا اور اصلاحی مدرسہ بھی، جس میں ’آوارہ‘ اور گھر سے بھاگنے والے لڑکے داخل کیے جاتے تھے۔ اس مدرسے میں اختر الایمان نے انگریزی سیکھی، چھوٹی موٹی شاعری بھی شروع کی اور ایک ناول بھی لکھا جو خرد برد ہو گیا۔
1934
مویّد الاسلام سے آٹھویں پاس کرنے کے بعد فتح پوری مسلم ہائی اسکول، دہلی میں داخلہ لیا۔ گلی چابک سواراں میں کرایے کا ایک کمرہ لیا۔ اپنی کفالت کے لیے کئی ٹیوشنیں کیں۔ فٹ بال اور والی بال کھیلنا شروع کیا، تقریری مقابلوں میں حصہ لیا، اسکول میگزین کے اڈیٹر ہوئے۔ اشتراکی اسٹوڈنٹس یونین سے منسلک ہو گئے۔
1937
فتح پوری مسلم ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ بارہ دری شیر افگن میں کرایے کا ایک کمرہ لیا۔ پڑوسیوں مدھوسودن اور شام کشن نگم سے دوستی ہوئی۔ ٹیوشن پڑھنے کے لیے طالبِ علم خود ان کے گھر آنے لگے۔ ایک شادی شدہ لڑکی ’قیصر‘ سے دوستی ہوئی۔ افسانے بھی لکھنے شروع کر دیے۔ والد دہلی آ گئے۔
1938
والدہ اور والدہ کے اصرار پر ایک دیہاتی لڑکی سلیمن سے شادی کر دی گئی۔ چوں کہ والدہ کا نام بھی سلیمن تھا، اس لیے، اختر الایمان اپنی بیوی کو سلمیٰ کہنے لگے۔ شادی کے دنوں میں سلمیٰ کی رشتے کی بہن فرحت (علیمہ) سے دوستی ہوئی۔
1939
سلمیٰ اختر الایمان کی والدہ کے ساتھ راؤ کھیڑی چلی گئیں۔ دہلی سے راؤ کھیڑی کے چکر لگنے لگے۔ ایف۔ اے۔ کے دوسرے سال میں فیل ہو گئے۔ کالج میں جو مراعات ملی تھیں ختم ہو گئیں۔ فرحت (علیمہ) کی شادی ہو گئی۔
1940
بیوی سے ایک سال تک نہیں ملے۔ ایف۔ اے۔ پاس کر لیا۔
1941
اینگلو عربک کالج میں بی۔ اے میں داخلہ لیا۔ پٹودی ہاؤس، دریا گنج میں کرایے کا ایک کمرہ لے لیا۔ کالج کی یونین کے سکریٹری ہو گئے، کالج میگزین کے اڈیٹر ہو گئے۔ کالج کی طرف سے تقریری مقابلوں میں حصہ لینے لگے۔ باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔ شراب پینی شروع کر دی۔ احباب کا حلقہ بڑھ گیا۔ دوستوں میں مظفر شکوہ اور جمیل الدین عالی بھی تھے۔ حمیدہ عارف سے دوستی ہوئی۔ ان کے نام ایک نظم لکھ کر کالج کے میگزین میں چھپوا بھی دی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں دوستوں کے ساتھ دہرہ دون سے مسوری اور مسوری سے شملے کا سفر پیدل کیا۔ افسانہ ’الاؤ کے گرد‘ اسی سفر کی یاد معلوم ہوتی ہے۔
1942
شاہد احمد دہلوی کے رسالے ’ساقی‘ میں نظمیں اور افسانے چھپنے لگے، مگر اپنی شاعری سے مطمئن نہیں تھے۔ ایک نظم ’مجرم‘ (1912-49) میراجی کو ’ادبی دنیا‘ کے لیے بھیجی جسے انھوں نے ’نظرِ ثانی‘ کے لیے واپس بھیج دیا۔ نظم ’نقشِ پا‘ لکھ کر مطمئن ہو گئے کہ اپنا لہجہ دریافت کر لیا۔ میراجی نے تعریفی جملوں کے ساتھ اس نظم کو ’ادبی دنیا‘ میں چھاپ دیا۔ میڈیکل کالج کی ایک لڑکی شفقت خان سے دوستی ہوئی جسے پیار میں شفقی کہتے تھے۔
1943
بی۔ اے۔ پاس کر لیا۔ کچھ دن سپلائی ڈپارٹمنٹ میں کام کیا پھر ساغرؔ نظامی (1905-83) کے رسالے ’ایشیا‘ کے لیے میرٹھ جا کر ادارت کا کام کیا۔ میرٹھ کالج میں فارسی ایم۔ اے۔ میں داخلہ لیا، کچھ دن بعد ’ایشیا‘ کا کام چھوڑ کر واپس دہلی آ گئے۔ سلطانہ منصوری سے ان کے بھائی محمد علی منصوری کی معرفت ان کے گھر پر ملاقات ہوئی، جن کی مشہور قومی رہ نما آصف علی (1888-1953) سے قریب کی رشتے داری تھی۔ آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ ن۔ م. راشد (1910-75) اس شعبے کے صدر تھے۔ فیض احمد فیضؔ (1911-84) اُن دنوں فوج میں تھے اور دہلی میں میر درد روڈ پر حمیدہ عارف کے پڑوس میں رہتے تھے۔ میراجی سے پہلی ملاقات ن۔ م. راشد کے گھر ہوئی۔ ساقی بک ڈپو دہلی نے اختر الایمان کا پہلا مجموعہ ’گرداب‘ چھاپا، جس میں صرف 24 نظمیں تھیں۔ راشد اور فیض کے مشورے سے کوئی سو سواسو نظمیں خارج کر دیں۔ مجموعے پر مقدمہ میراجی اور مختار صدیقی (1917-72) کا مشترکہ لکھا ہوا تھا۔ شفقی سے اَن بن ہو گئی، اس نے ملنا چاہا مگر انھوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اختلاف کے وقت میراجی بھی موجود تھے۔ راشد کی ایما پر اختر الایمان کو ترجمے کی ایک معمولی غلطی پر ریڈیو کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو میں ایم۔ اے۔ اور قانون کی ڈگری کے لیے داخلہ لے لیا۔ قانون کی کلاسوں کو چھوڑنا پڑا۔
1944
ایم۔ اے۔ کے پہلے سال میں اوّل آئے، مگر مکتبی زندگی سے بہت خوش نہ تھے۔ آل انڈیا اردو کانفرنس میں شرکت کرنے حیدرآباد گئے۔ حیدرآباد سے ممبئی پہنچے جہاں ان کے دہلی کے دوست مدھوسودن رہتے تھے۔ پھر پونے چلے گئے جہاں شالیمار پکچرز کے مالک ڈبلیو۔ زیڈ۔ احمد نے انھیں ڈیڑھ سو روپے ماہوار کی نوکری دے دی۔ فلم ’غلامی‘ کے مکالمے بھی لکھے اور گانے بھی لکھے مگر صرف دو۔ ایک گانا ’جاگیں رگ رگ میں جاگیں امنگیں ‘ ایک شیڈو پلے اوپیرا کی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ ترقی پسندوں اور ان کے مخالفوں کا دہلی میں ایک پبلک مناظرہ ہوا، جس میں ترقی پسندی کے حق میں سجاد ظہیر (1904-73)، فیضؔ اور اختر الایمان نے تقریریں کیں اور خلاف میں خواجہ محمد شفیع، مولانا احمد سعید اور سررضا علی (1882-1949) نے۔
1946
سلمیٰ کو اس کی بد چلنی کی وجہ سے 5جون کو طلاق دے دی۔ بعد میں سلمیٰ کی شادی اختر الایمان کے تایازاد بھائی ظہور سے ہو گئی۔ میراجی پونے میں اختر الایمان کے ساتھ آ کر رہنے لگے۔
1947
جنوری میں پروتماداس گپتا نے فلم ’جھرنا‘ میں کام کرنے کے لیے ممبئی بلایا۔ اختر الایمان پونے اور ممبئی کے درمیان سفر کرنے لگے۔ میراجی پونے میں ان کے گھر میں رہتے رہے۔ 3مئی کو سلطانہ منصوری سے دہلی میں نکاح ہوا۔ ستمبراکتوبر کے دوران شالیمار پکچرز بند ہو گئی۔ پونے کا گھر چھوڑ کر فلموں میں آزاد پیشہ کام ڈھونڈنے ممبئی آ گئے اور مدھوسودن کے ہاں رہنے لگے۔ سلطانہ ایمان کا دہلی کا گھر فسادیوں نے لوٹ لیا، وہ بھی دہلی سے آ گئیں۔ 22ٹرنر روڈ کا مکان کرایے پر مل گیا اور میاں بیوی وہاں منتقل ہو گئے۔ سلطانہ ایمان کی بڑی بہن امجدی بیگم اور ان کے شوہر آنند بھوشن بھی اسی مکان میں آ گئے۔ میراجی بھی ممبئی آ گئے اور مدھوسودن کے ساتھ کالے گھوڑے پر ایک کمرے میں رہنے لگے۔ کثرتِ شراب نوشی سے میراجی کی آنتوں میں زخم پڑ گئے۔ حمیدہ عارف سے اپنی اور بیوی کی ملاقات کے بعد ایک نظم ’آخری ملاقات‘ کے عنوان سے لکھی جس کا پہلا مصرع ہے : ’’آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم‘‘۔
1948
آنند بھوشن کے ایک جھوٹے الزام کی وجہ سے گرفتار کر لیے گئے مگر ثبوت کی عدمِ موجودگی کے باعث کوئی مہینے بھر بعد رہا کر دیے گئے۔ گرفتاری کی وجہ سے فلموں کے سارے کام ہاتھ سے نکل گئے۔ امجدی بیگم اور آنندی بھوشن کو گھر سے نکل جانے کا نوٹس دے دیا۔ 22 ٹرنر روڈ کے مکان پر کسٹوڈین کا قبضہ ہو گیا۔ گھر خالی کرنے کا نوٹس مل گیا۔ کچھ دن عسرت میں کٹے، پھر کام ملنے لگا۔ ’سب رنگ‘ کے نام سے ایک تمثیل اوورسیز بک سینٹر ممبئی نے کتابی شکل میں شائع کی، انتساب ’سانپوں، کتّوں اور خچروں کے نام‘ ہے۔ دہلی کی دوست ’شفقی‘ کے نام ایک نظم اسی عنوان سے لکھی۔ مجموعہ ’نورس‘ کے چھپنے کا اعلان ہوا مگر کتاب کبھی نہ چھپی۔ میراجی نے اس مجموعے کا دیباچہ لکھنے کا وعدہ کیا مگر لکھا نہیں۔
1948
میراجی اور مدھوسودن کے ادبی تعاون اور شام کشن نگم کے مالی اشتراک سے ایک ادبی رسالہ ’خیال‘ نکالا، جس کا پہلا شمارہ دسمبر 1948 میں شائع ہوا۔ بہ قولِ اختر الایمان: مشاورتی کمیٹی میں ظ۔ انصاری بھی تھے مگر رسالے میں مدیران کی فہرست میں ان کا نام نہیں ہے۔ ترقی پسندوں نے، جن میں سردار جعفری پیش پیش تھے، ’خیال‘ کے خلاف ایک جلسہ منعقد کیا۔ رسالے پر الزام تھا کہ اس کی پالیسی رجعت پسندانہ تھی۔ اختر الایمان نے ان الزامات کو رد کر دیا۔
1949
میراجی کو نیل کمل کلا مندر کی فلم ’راز‘ میں گانے اور مکالمے لکھنے کا کام ملا، مگر ان کی صحت اتنی گر گئی کہ وہ کام نہ کر سکے۔ اختر الایمان انھیں اپنے گھر لے آئے۔ نئی دلہن سلطانہ کے فرائض میں میراجی کی تیمار داری بھی شامل ہو گئی۔ ’خیال‘ کا آخری شمارہ جون 1949 کو نکلا۔ 18 اگست کو پہلی بیٹی شہلا پیدا ہوئی۔ میراجی کو ای۔ ایم۔ اسپتال میں داخل کرا دیا، جہاں ان کی وفات 3 نومبر کو ہوئی۔ جنازے میں صرف پانچ آدمی تھے : اختر الایمان، مدھو سودن، آنند بھوشن، مہندر ناتھ اور نجم نقوی (سردار جعفری کے بیان کے مطابق، اس دن ممبئی کے سب ترقی پسند ادیب کسی کانفرنس میں شرکت کرنے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے )۔ گریٹ انڈیا پکچرز کی فلم ’بکھرے موتی‘ کی کہانی، مکالمے اور گانے لکھے۔ نیا ادارہ لاہور نے شعری مجموعہ ’تاریک سیّارہ‘ کے نام سے چھاپا، انتساب ’زلفیہ‘ (سلطانہ ایمان) کے نام ہے۔
1950
مس پاؤری کے مکان میں ایک کمرہ کرایے پر لیا۔ 23دسمبر کو دوسری بیٹی اسما پیدا ہوئی۔
1951
ایک پروڈیوسر سے 1500 روپے لے کر ری بیلوروڈ پر زیویر وِلا میں ایک فلیٹ کرایے پر لے لیا۔ فلمستان میں ایس۔ مکرجی کے ساتھ کام کرنے لگے۔ اب کام آسانی سے ملنے لگا۔
1956
بیٹا رامش پیدا ہوا۔
1958
بی۔ آر۔ چوپڑا کی مشہور فلم ’قانون‘ کا منظرنامہ لکھا اور مکالمے بھی۔ اس کے بعد کئی کامیاب فلموں کے مکالمے لکھے، اور اختر الایمان کا شمار بہت کامیاب مکالمہ نویسوں میں ہونے لگا۔
1959
بیٹی رخشندہ پیدا ہوئی۔ ’نیا ادارہ‘ لاہور نے شعری مجموعہ ’آب جو‘ کے نام سے چھاپا۔ کتاب کا پیش لفظ خود لکھا۔
1960
اپنے اشاعتی ادارے ’رخشندہ کتاب گھر‘ سے شعری مجموعہ ’یادیں ‘ کے نام سے چھاپا۔ اس کتاب کا پیش لفظ بھی خود لکھا۔
1962
’یادیں ‘ پر ساہتیہ اکادمی نے اپنے معتبر انعام سے نوازا۔ فلم ’دھرم پتر‘ کے مکالموں پر فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
1963
ہل ویو نام کی عمارت میں ایک فلیٹ خرید لیا اور زیویروِلا کے فلیٹ کو پڑھنے لکھنے کی جگہ بنا لیا۔
1964
’یادیں ‘ کا دوسرا اڈیشن اسٹار پبلی کیشنز، دہلی نے چھاپا۔
1965
فلم ’وقت‘ کے مکالموں پر فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
1967
لبنان، شام، مصر، روس اور یورپ کا دورہ کیا۔ بینڈ اسٹینڈ بلڈنگ، باندرا میں دو فلیٹ خریدے جنھیں ملا کر ایک کشادہ فلیٹ بنا کر اس میں منتقل ہو گئے۔
1968
فلم بنانے کے سلسلے میں افریقہ اور یورپ کے کچھ ممالک کا دورہ کیا۔
1969
اپنے اشاعتی ادارے ’رخشندہ کتاب گھر‘ سے شعری مجموعہ ’بنتِ لمحات‘ کے نام سے چھاپا۔ کتاب کا پیش لفظ پھر خود لکھا۔
1970
’بنتِ لمحات‘ پر اتر پردیش اردو اکادمی اور میر اکادمی نے انعامات سے نوازا۔
1972
بیٹی شہلا کی شادی امجد خاں سے ہوئی جو بعد میں مشہور فلمی ایکٹر ہوئے۔
1977
پہلی فلم ’لہو پکارے گا‘ کی ہدایت کاری کی، مگر فلم کامیاب نہ ہوئی۔ اپنے اشاعتی ادارے ’رخشندہ کتاب گھر‘ سے شعری مجموعہ ’نیا آہنگ‘ کے نام سے چھاپا۔ کتاب کا پیش لفظ حسبِ معمول خود لکھا۔ انتساب اس طرح ہے : ’’میری زندگی کے حادثوں میں سب سے بڑا حادثہ امجد، شہلا، شاداب اور احلم (جو تین مہینے بعد ہونے والی تھی) کا موٹر کا حادثہ ہے۔ ان کے بچ جانے کو میں ان کی زندگی کا نیا آہنگ سمجھتا ہوں۔ یہ کتاب ’نیا آہنگ‘ میں ان کی نئی زندگی کے نام معنون کرتا ہوں ‘‘ (حادثہ 15اکتوبر 1977کو ہوا تھا) نظم ’ایک جامد تصویر‘ لکھی جس میں شفقی سے 1943 میں ملنے سے انکار کے پچھتاوے کا اظہار ہے۔
1978
’بنتِ لمحات‘ پر مہاراشٹر اردو اکادمی نے اپنے انعام سے نوازا۔ بیٹی اسما کی شادی حسین احتشام سے ہوئی۔
1979
ایک نظم ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ لکھی جس میں 1937 کی دہلی کی دوست قیصر کا ذکر آتا ہے۔
1980
امریکہ اور کنیڈا کا دورہ کیا۔
1982
بیٹی رخشندہ کی شادی فہیم خاں عرف جاوید سے ہو گئی۔
1983
اپنے اشاعتی ادارے ’رخشندہ کتاب گھر‘ سے اب تک کا شعری کلیات ’سروساماں ‘ کے نام سے چھاپا۔ کتاب کا پیش لفظ خود لکھا۔ انتساب سلطانہ کے نام ہے ’’جو زندگی کے تمام کرب، صعوبتوں اور مشکلوں میں میری برابر کی شریک ہے ‘‘۔
1985
سلطانہ ایمان کے ساتھ کنیڈا کا دورہ کیا، رائٹرز فورم آف پاکستانی کنیڈینز نے ان کا ستّرواں سال منایا۔ دہلی اردو اکادمی کا کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ملا۔
1987
فلموں کا کام نہ ملنے کی وجہ سے آمدنی کم ہو گئی تو بینڈ اسٹینڈ کا کشادہ فلیٹ بیچ کر روی درشن نام کی عمارت میں ایک مختصر سے فلیٹ میں منتقل ہو گئے۔ اس عمارت میں باقر مہدی (1927-2006) پہلے سے رہتے تھے۔
1988
’سروساماں ‘ پر مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے اقبال سمّان سے نوازا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی نے غالب انعام دیا۔ ہیوسٹن، امریکہ میں مل ٹی پل بائی پاس آپریشن ہوا۔
1990
اپنے اشاعتی ادارے ’رخشندہ کتاب گھر‘ سے شعری مجموعہ ’زمین زمین‘ کے نام سے چھاپا۔ کتاب کا پیش لفظ خود لکھا۔
1991
منتخب نظموں کے انگریزی ترجمے بیدار بخت (ولادت: 1940)، لیزلی لاوین (ولادت: 1945) اور کیتھلین گرانٹ ییگر کے کیے ہوئے کتابی شکل میں ”Taking Stock” کے عنوان سے سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے چھاپے۔ شہریار (1936-2012)، وارث علوی (ولادت: 1928) اور محمود ایاز (1930-1997) کے اصرار پر اپنی سوانح حیات لکھنا شروع کی، جس کی پہلی قسط محمود ایاز کے رسالے ’سوغات‘ میں ستمبر 1991 میں چھپی (دسویں اور آخری قسط مارچ 1996 کے شمارے میں چھپی)۔
1992
سعید مرزا* نے ساہتیہ اکادمی کے لیے اختر الایمان پر ایک ڈوکیومینٹری بنائی۔ میراجی کا شعری مجموعہ ’سہ آتشہ‘ کے عنوان سے اپنے ادارے رخشندہ کتاب گھر سے چھاپا (میراجی کی وفات کے 43 برس بعد چھاپنے کا جواز: ’’ایک میری مالی حالت، دوسرے میرے ذہن میں ان سے متعلق بہت سی تلخیاں بھی تھیں ‘‘)۔ شہلا کے شوہر امجد خاں کی وفات ہوئی۔ ’سروساماں ‘ کا دوسرا اڈیشن المسلم پبلشرز، کراچی نے بغیر اجازت چھاپا۔ کنیڈین اکیڈمی آف اردو لٹریچر نے ایوارڈ دیا۔
1993
شمشاد جہاں نے ’اختر الایمان: حیات و شاعری‘ کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا، جس پر انھیں پٹنہ یونی ورسٹی نے پی ایچ۔ ڈی کی سند دی۔
1995
گُردوں نے کام کرنا بند کر دیا، جس کی وجہ سے مثانے میں پیشاب جانا بند ہو گیا۔ ہفتے میں کم از کم دو بار ڈائی لیسس ہونے لگی۔ بیٹے رامش کی شادی گلڈاپریرا سے ہوئی۔
1996
منتخب نظموں کے بیدار بخت، لیزلی لاوین اور کیتھلین گرانٹ ییگر کے کیے ہوئے انگریزی ترجمے کتابی شکل میں Query of the Road کے عنوان سے روپا، نئی دہلی نے چھاپے۔ ’سروساماں ‘ کا اطہر فاروقی کا ترتیب دیا ہوا ہندی اڈیشن سارانش، دہلی نے چھاپا۔ 9 مارچ کو وفات ہوئی۔
وفات کے بعد
1996
10 مارچ کو باندرہ قبرستان میں دفن کیے گئے۔ کتبے پر نظم ’اتمامِ سفر سے پہلے کا پڑاؤ‘ کے یہ دو مصرعے کندہ ہیں :
اس مسافت میں رہ رہ کے لپٹی تھی جو
میں نے وہ خاک بھی پاؤں سے جھاڑ دی
اردو اکادمی دہلی نے خود نوشت سوانح حیات ’اس آباد خرابے میں ‘ کے نام سے چھاپی۔
1997
سلطانہ ایمان اور بیدار بخت کا ترتیب دیا ہوا پسِ مرگ مجموعۂ کلام ’زمستاں سرد مہری کا‘ اردو اکادمی دہلی نے چھاپا۔ محمد فیروز کی مرتّب کردہ کتاب ’اختر الایمان: مقام اور کلام‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے چھاپا۔ شکیل الرحمن کی کتاب ’اختر الایمان: جمالیاتی لیجنڈ‘ پٹنے سے چھپی۔ ’اس آباد خرابے میں ‘ کا پاکستانی اڈیشن فکشن ہاؤس، لاہور نے چھاپا۔
2000
سلطانہ ایمان اور بیدار بخت کا ترتیب دیا ہوا کلیات ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے چھاپا۔ کلیات کا دوسرا اڈیشن سٹی پریس کراچی نے چھاپا۔ غلام گردش رضوی کی انگریزی میں لکھی ہوئی مختصر سوانح حیات ساہتیہ اکادمی دہلی نے چھاپی۔ بیدار بخت کا مرتّب کردہ انتخاب ’درد کی حد سے پرے ‘ کے عنوان سے ساہتیہ اکادمی نے چھاپا۔ شاہد ماہلی کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’اختر الایمان:عکس اور جہتیں ‘ معیار پبلی کیشنز، دہلی نے چھاپی۔
2001
محمد فیروز کی مرتّب کردہ کتاب ’اختر الایمان: مقام اور کلام‘ کا دوسرا اڈیشن ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے چھاپا۔
2003
خواجہ نسیم اختر کی کتاب ’اختر الایمان: تفہیم و تشخیص‘ رعنا پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، کولکاتا نے شائع کی۔
2006
شمشاد جہاں کی کتاب ’اختر الایمان کی نظم نگاری‘ کتابی دنیا دہلی نے شائع کی۔ شفیع ایوب کی تصنیف کردہ کتاب ’گرداب: ایک مطالعہ‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے چھاپی۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے ’کلیاتِ اختر الایمان‘ کا دوسرا اڈیشن چھاپا۔
2010
محمد آصف زہری نے اختر الایمان کی دس نظموں کا تجزیہ کتابی شکل میں چھاپا۔
2011
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے ’کلیاتِ اختر الایمان‘ کا تیسرا اڈیشن چھاپا۔
٭٭٭
اختر الایمان ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی
اختر الایمان کی زندگی کا بڑا حصہ اگر ناقدری میں نہیں تو نقادوں کی توجہ کے فُقدان میں گذرا۔ سنہ 1940 اور اس کے آس پاس کے تمام نوجوانوں کی طرح اختر الایمان بھی شروع میں ترقی پسند، یا یوں کہیں کہ ترقی پسندوں کے ساتھ تھے۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی اختر الایمان کے یہاں ’سماجی شعور‘، ’طبقاتی کشمکش‘ یا ’انقلاب‘ وغیرہ کا بہت ذکر نہیں ملتا لیکن جلد ہی انھوں نے محسوس کر لیا کہ ان کا مزاج، یا شاعری ہی کا مزاج، اس طرح کے پروگرام زدہ اندازِ سخن کو نہیں قبول کرتا۔ فیض کو وہ بہت پسند کرتے تھے، لیکن راشد کا اثر ان کے یہاں زیادہ تھا (اگرچہ انھیں راشد کے یہاں ایک طرح کی ’بلند آہنگی‘ انھیں پسند نہ تھی، کیوں کہ خود ان کے کلام میں تقریباً شروع سے گفتگو اور خود کلامی کا رنگ نمایاں تھا۔ )پھر، فیض کے مقابلے میں راشد اور میرا جی کے وہ زیادہ قائل تھے۔
بیدار بخت نے ’باقیاتِ اختر الایمان‘ کے نام سے اختر الایمان کی نثرو نظم کے بہت سارے بھولے بسرے نمونے شائع کر دئیے ہیں۔ ان میں ڈائری کے کئی ورق بھی ہیں۔ یہ ڈائری انھوں نے بہت کم لکھی اور اکثر اندراجات کے درمیان کئی کئی برس کا وقفہ ہے۔ زیادہ تر ذاتی اور فلم اسٹاروں کی باتیں ہیں، لیکن کہیں اختر الایمان شاعر بھی جھلک اٹھتا ہے۔ فیض کے بارے میں اوکتاویو پاز (Octavio Paz)کے حوالے سے ایک بات اختر الایمان نے اپنی ڈائری کے اندراج مورخہ ۱۱ نومبر 1968 میں لکھی ہے اور فیض کی شاعری پر خود بھی بڑے نکتے کی باتیں لکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
’’[شام لال کے گھر ایک ملاقات کے دوران]آکٹیویو پاز۔ ..نے کہا کہ فیض کی شاعری اٹھارویں صدی[ کی] شاعری معلوم ہوتی ہے، جو کہ ہے بھی۔ فیض کے لوازماتِ شاعری تمام غزل کے ہیں اور لب و لہجہ حافظ کا ہے۔ چونکہ غزل کی شاعری بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہے، ایک تو اس وجہ سے، دوسرے انداز ہے بھی شگفتہ اور رومانی‘‘۔
اختر الایمان بہت جلد ہی ترقی پسند تصوراتِ ادب سے دور ہو گئے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا کہ وہ اپنے زمانے کی تمام مروج شاعری سے نالاں ہو گئے۔ 6 مارچ 1946 کے اندراج میں یہ عبارت بھی ہے :
’’گھر آن کر کچھ دیر ’ساقی ‘ پڑھتا رہا۔ پرچے میں جو نظمیں نظر سے گذریں، سب کی سب لچر تھیں۔ یہ ہماری شاعری کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ دماغی اعتبار سے سب کھوکھلے معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔
اختر الایمان کو اس بات کا احساس تھا کہ ادب سے جو تقاضا وہ کرتے ہیں وہ دوسروں کی توقعات اور ادب سے دوسروں کے تقاضے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہمارے یہاں کے ترقی پسند نظریہ ساز ہر چند کہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ’ ادبیت‘ کو ’مقصدیت‘ پر قربان نہ کیا جائے، لیکن ’ادبیت‘ اور ’مقصدیت‘ میں وہ خوشگوار توازن کیوں کر پیدا ہو کہ بہترین نتائج پیدا ہوں، اس باب میں ان کا کوئی مشورہ، کوئی نسخہ نہ تھا۔ ادھر اختر الایمان کو شروع سے تلاش تھی کہ شاعر کو اپنی بات کہنے کے لیے پورا اور کھلا ہوا میدان ملنا چاہیے۔ وہ غزل کے مخالف تھے اور تمام عمر غزل کے مخالف رہے اور اس کے وجوہ بھی انھوں نے اکثر بیان کیے۔ لیکن ان کے تمام دلائل کی تہ میں بات یہی تھی کہ غزل کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی بنا پر غزل کے شاعر کو اپنی بات پوری طرح، اور اپنے داخلی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ نہیں بیان کر سکتا۔ اوپر ہم ان کا یہ بیان بھی دیکھ چکے ہیں کہ غزل کی شاعری بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔
غزل کے بارے میں اختر الایمان کی رائے سے مجھے اتفاق نہیں، شاید کسی کو بھی نہ ہو ہو گا لیکن ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو اختر الایمان کے نظریۂ شعر کی روشنی میں رکھ کر دیکھیں۔ پھر ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ غزل سے ان کا اختلاف زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ غزل کے مضامین سب مانوس اور جانے پہچانے ہیں، اس لیے جلد سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ شاعر کو اپنی بات کہنے کا موقع کم ملتا ہے۔ غزل کی دوسری کمزوری در اصل اسی سے پیدا ہوتی ہے، کہ اگر بات کو شاعر کے عندیے کے مطابق پوری وسعت دے کر کہا جائے تو وہاں نظم کا سہارا لیے بغیر بات نہیں بن سکتی۔
اختر الایمان اگر ایک نظم کو مکمل کرنے میں مدتِ مدید لگا سکتے اور اسے پھر بھی مسترد کر سکتے تھے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے خیال میں وہ نظم ان تمام باتوں کواس وسعت کے ساتھ نہیں ادا کر سکی تھی جو ان کا منشا تھا۔ انھیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ وہ جلد از جلد ایسا کلام دنیا کے سامنے پیش کر سکیں جسے قبولِ عام کی سند مل جائے۔ ان کے مزاج میں کچھ بے نیازی تھی تو اس سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ انھیں اس بات کی فکر نہ تھی کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ بیدار بخت سے ان کی ایک گفتگو جو ان کے انتقال کے بعد ’شب خون‘ میں شائع ہوئی، اس لحاظ سے بہت توجہ انگیز ہے کہ اس میں انھوں نے اپنے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں جنھیں وہ عام طور پر ظاہر کرنا، یا بیان کر نا پسند نہ کرتے تھے۔ (شاید اسی وجہ سے انھوں نے بیدار بخت سے اس کی اشاعت کی مناہی کر دی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد میرے اصرار اور بیگم سلطانہ ایمان کی اجازت سے ’شب خون‘ میں وہ گفتگو شائع ہوئی اور اب ’باقیاتِ اختر الایمان‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ )ایک جگہ اختر الایمان نے کہا:
’’چالیس پچاس برس تک ادب میں کسی نے میرا نام بھی نہیں لیا۔ میں نے تو کسی کو گالی نہیں دی۔ ..ارے بھئی اگر گالی دینی ہوتی تو اس وقت دیتا جب جوان تھا، جب خون زیادہ گرم تھا۔ گالی دینا تو میرے مزاج میں ہے ہی نہیں ‘‘۔
یہ محض سلیم الطبعی نہیں، چھچھورے پن سے اجتناب بھی ہے اور اس کی بڑی وجہ خود پر اعتماد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور میں وہ کام اپنی بساط بھر خوبی سے کر رہا ہوں۔ لوگ جو بھی کہنا چاہیں کہیں۔ یا نہ کہنا چاہیں، نہ کہیں۔ بیدل:
گفتم سخنے لیک پس از کسبِ کمال
خواہی فہمید چوں نہ خواہی فہمید
سنہ 1994 میں ماہنامہ ’آجکل‘ (مدیر محبوب الرحمن فاروقی)کے اختر الایمان نمبر کے لیے ان کا انتخاب تیار کرتے وقت میں نے چند باتیں کہی تھیں۔ انھیں یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اختر الایمان کی مدتِ شعر گوئی کو دیکھتے ہوئے ان کا کلام بہت زیادہ نہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اختر الایمان جتنا کہتے ہیں اس سے بہت کم دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ انھوں نے بیدار بخت سے بیان کیا کہ پہلے مجموعے ’گرداب‘ میں صرف تیئیس نظمیں شامل ہیں، حالاں کہ اس وقت ان کے پاس ڈیڑھ سو نظمیں تھیں۔ انھوں نے بیدار بخت سے یہ بھی کہا کہ ’’ایک لڑکا‘‘ کو مکمل کرنے میں انھوں نے اٹھارہ سال لگائے لیکن پھر بھی، ان کا موجودہ کلام اتنا کم بھی نہیں کہ دو تین دن میں اسے بغور پڑھ کراس کا انتخاب تیار کرنا ممکن ہو۔ یہ بات بھی ہے کہ اختر الا یمان کے کلام میں تفکر اور تامل کا عنصر غالب ہونے کے باعث ان کی اکثر نظمیں بار بار پڑھی جانے کا تقاضا کرتی ہیں بلکہ اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اختر الا یمان کے بہ ظاہر سرسری، غیر تکلفاتی لہجے سے دھوکا کھا کر ہم ان کی بعض اہم نظموں کو بھی سرسری گذر جانے کے لائق سمجھ لیتے ہیں اور اصل صورتِ حال یہ ہو تی ہے کہ نظم کو رک رک کر، سوچ سوچ کر پڑھیں تو اس میں گہرائیاں دریافت ہوں۔ اختر الایمان کو اکثر یہ شکایت بھی رہی کہ لوگ ان کا کلام توجہ سے نہیں پڑھتے۔ میرا خیال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اختر الایمان ’’روایتی‘‘، ’’شگفتہ‘‘ اور ’’نفیس‘‘ زبان سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ احتراز ان کے عام قاری کو فوری طور پر ان سے برگشتہ کر دیتا ہے۔
ان سب باتوں کی بنا پراختر الایمان کا انتخاب بنانا مجھے بہت مشکل معلوم ہوا۔ موجودہ انتخاب کے سلسلے میں جگہ کا مسئلہ بھی تھا کہ طویل نظموں کی گنجائش نہ تھی۔ اختر الایمان اگر چہ مختصر نظم میں کمال رکھتے ہیں، لیکن وہ ہمارے زمانے کے ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جو نسبتاً طویل نظم میں بھی اپنی قوت برقرار رکھتے ہیں۔ (کیوں نہ ہو، جب وہ ایک ہی طویل نظم پر اٹھارہ برس صرف کر سکتے ہیں۔ ) جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر میں نے متوسط طوالت کی صرف دو نظمیں انتخاب میں رکھی ہیں، لہٰذا یہ انتخاب طویل نظموں کی حد تک نامکمل ہے۔ بعض لوگوں کو ’’ایک لڑکا‘‘ کی عدمِ موجودگی شاق گذرے گی لیکن اس نظم کی غیر معمولی شہرت کے پیشِ نظر مجھے یہ بہتر معلوم ہوا کہ اس کی جگہ دو چار مختصر نظمیں شامل کر لی جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اکثر لوگوں کو ’’ایک لڑکا‘‘ اگر پوری نہ سہی تو کہیں کہیں سے ضرور یاد ہو گی، جب کہ اس انتخاب میں شامل بعض مختصر نظمیں ان کے حافظے یا نظر میں شاید نہ ہوں۔
اختر الایمان نے ’’سر و سامان‘‘کے بعد 1990 کے آغاز تک جو کہا ہے وہ ’’زمین زمین‘‘ نامی مجموعے میں شامل ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ابھی بہت کم لوگوں کی نظر سے گذرا ہو گا لیکن جگہ کی تنگی نے مجھے اس کی صرف تین نظموں پر اکتفا کرنے پر مجبور کیا۔ ’’زمین زمین‘‘ کے بعد بھی اختر الایمان کا کچھ کلام ادھر ادھر شائع ہوا۔ میں نے متفرق جگہوں پر مطبوعہ کلام کو انتخاب میں نہیں رکھا ہے، ورنہ ’’عزم‘‘جیسی نظم شاید ضرور شامل ہوتی۔ اگر مزید نظمیں شامل کرنا ممکن ہوتا تو میں ایک متوسط طویل نظم ’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ اس انتخاب میں ضرور رکھتا۔ اس نظم پر 1989 کی تاریخ پڑی ہے، اور لہجے کے حاکمانہ رنگ، آواز کی صلابت، مصرعوں کے در وبست، ان کے توازن، لفظیات میں تکلف یا ’’شاعرانہ زبان‘‘ کے التزام کے بجائے تقریباً شاہانہ بے پروائی، اور معاصر دنیا کی سطحیت، خامی اور خام کاری اور مادہ پرستی پر احتجاج اور برہمی، یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ پچھتر برس کی عمر میں اختر الایمان کی شاعری نہ صرف یہ کہ زوال آمادہ نہیں ہے، بلکہ اس میں نئی قوت کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔ ’’نئی قوت‘‘ سے میری مراد اختر الایمان کے رنگِ کلام میں طنز کے ساتھ، جو پہلے سے موجود رہا ہے، تحقیر کا عنصر شامل ہو رہا ہے۔ ایک طرح کا پیغمبرانہ لہجہ ہے جس میں زمانہ اور ابنائے زمانہ کے کھوکھلے پن سے ہمدردی یا اس پر رنج کے بجائے عدمِ دل چسپی کا دھوکا ہوتا ہے کہ جو ہو رہا ہے، وہ ان لوگوں کی حماقتوں اور خود غرضیوں کا کڑوا پھل ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں وہ پھل کھانے پر مجبور نہیں ہوں۔
اس طرح کی عدمِ تعلقی صرف رشیوں، منیوں اور تارک الدنیا فقیروں کو نصیب ہوتی ہے۔ ’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ کا آغاز ملاحظہ ہو:
کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں
گوشت سے، ساگ سے، دال سے ناپتے ہیں
خد و خال سے، گیسوؤں کی مہک، چال سے ناپتے ہیں
صعوبت سے، جنجال سے ناپتے ہیں
یا اپنے اعمال سے ناپتے ہیں
مگر ہم اسے عزمِ پامال سے ناپتے ہیں
ایک لمحے کے لیے گمان ہوتا ہے کہ نظم کا بنیادی وزن بحرِ متقارب کے سالم رکن فعولن سے عبارت ہے۔ لیکن کچھ ہی دور چلنے پر پتہ چلتا ہے کہ بنیادی وزن بحر متدارک کا سالم رکن فاعلن ہے۔ بحر کوئی بھی مقرر کی جائے، جگہ جگہ شروع یا آخر میں ایک دو حرف کم یا زیادہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن یہ اختر الایمان کے تسامحات نہیں ہیں، اور نہ عجزِ نظم کا ثبوت ہیں۔ یہ اسی لاپروائی، اسی تحقیر، اسی عدم دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں میں نے جس کا اوپر ذکر کیا۔ دنیا اور دنیا والے اب متکلم کی سطح سے اس قدر نیچے ہیں کہ وہ ان کے چھوٹے موٹے ضوابط کی پروا نہیں کرتا۔ آج کوئی نہیں جو اختر الایمان کی طرح کثیر الصوت لہجے میں نظم شروع کر سکے۔ مندرجۂ بالا اقتباس کا ہر مصرع مختلف انداز رکھتا ہے۔ ہر مصرعے میں طنز اور ہمدردی مختلف تناسب سے ملائے گئے ہیں۔ آخری مصرعے میں طنز کے اوپر تلخی اور تلخی کے اوپر المیہ وقار حاوی آ گئے ہیں۔ مجموعی تاثر بیان کنندہ یا متکلم کے دل میں موجزن تحقیر کی لہر کا ہے۔ دوسرے مصرعے کا غیر تکلفاتی انداز، استعارے اور پیکر کا غیر متوقع گہرا رنگ، طنز پر تحقیر کی بالا دستی، ان سب چیزوں نے ان مصرعوں کے بہ ظاہر سپاٹ بیان کو اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ اور اس نوع کی دوسری نظمیں اختر الایمان کی غیر معمولی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ ان نظموں کی پہلی قوت اس بات میں ہے کہ ان سے وہ نتیجے نہیں نکل سکتے جو متوقع، رسم بند اور سیدھی لکیر والے طریقِ کار کو کام میں لانے والی نظموں سے نکالے جا سکتے ہیں، یا نکل سکتے ہیں۔ فیض صاحب کی اکثر نظمیں اس طریق کارکی مثال ہیں۔ اختر الایمان ہمیں چونکانے کی خاطر نظم نہیں کہتے، اور نہ وہ روز مرہ قسم کی ’’تحیّر خیزی‘‘ کو کام میں لاتے ہیں۔ ہر نظم میں ان کی فکر مختلف پیچ و خم سے گذرتی ہے اور قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ہر موڑ پر ٹھہر کر سوچے کہ اسے اس نظم کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔ مثلاً ’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ جو نظم کے شروع میں زندگی کو عزمِ پامال سے ناپنے کی بات کر رہا تھا، تھوڑی دیر میں کچھ اور کہتا ہوا سنائی دیتا ہے :
میں اس زندگی کی بہت سی بہاریں غذا کی طرح کھا چکا ہوں
پہن اوڑھ کر پیرہن کی طرح پھاڑ دی ہیں
اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر یہ بیان صحیح ہے تو شروع والے بیان کو کیا قیمت دی جائے ؟یا ایسا تو نہیں کہ دو الگ الگ لوگ ہیں اور الگ الگ بات کہہ رہے ہیں ؟نظم کے مختلف حصوں میں الگ الگ لہجے سنائی دیتے ہیں، لیکن بولنے والا شاید ایک ہی ہے۔ یا ایسا ہے کہ بولنے والا شاعر خود ہے اور وہ اپنے مختلف تجربات اور کیفیات کو اپنے اوپر منطبق کر کے ڈرامائی کردار کی طرح ہم سے (یا اپنے آپ سے ؟) گفتگو کر رہا ہے۔ نظم ختم ہوتے ہوتے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ہی اس کی متکلم ہے، نظم کا لہجہ جس تحقیر، عدمِ تعلق، اور دوری سے عبارت ہے، اس کا ہدف ہم سب ہیں۔ ہم سب اپاہج گاڑی کے آدمی ہیں۔ لیکن ایک فرق بھی ہے، اب شاعر/متکلم ہمیں یہ بھی جتاتا ہے کہ یہ دوری اور بے تعلقی در اصل نظامِ حیات کے چلانے والوں، یعنی کائنات کے کارکنانِ قضا و قدر میں اور متکلم/شاعر میں مشترک ہے۔ پھر اچانک یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مشینی طور پر، یا نباتات کی سطح پر زندہ رہنے کا یہ احساس کسی المیہ کیفیت کا آئینہ دار ہے، محض احتجاج کا نہیں۔ نظم کے آخری مصرعے ہیں :
ہم بھی کیوں نہ خدا کی طرح یوں ہی چپ سادھ لیں
پیڑ پودوں کی مانند جیتے رہیں
ذبح ہوتے رہیں !
وہ دعائیں جو بارود کی بو میں بس کر
بھٹکتی ہوئی زیرِ عرش بریں پھر رہی ہیں
انھیں بھول جائیں
زندگی کو خدا کی عطا جان کر ذہن ماؤف کر لیں
یاوہ گوئی میں یا ذہنی ہذیان میں خود کو مصروف کر لیں
ان میں مل جائیں جو زندگی کو
گوشت سے، ساگ سے، دال سے ناپتے ہیں
مہ و سال سے ناپتے ہیں
اپنا ہی خون پینے لگے ہیں
چاک دامانیاں غم سے سینے لگے ہیں
لہجے کی ان پیچیدگیوں اور نظم کے ان غیر متوقع الجھاووں میں نظم سازی کی طرز گذاریاں یعنی Strategiesبھی شامل ہیں۔ یعنی یہ سب یوں ہی نہیں ہو گیا بلکہ شاعر کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ نظم کو جتنی سطحوں پر تکلم میں لایا جا سکے، اتنا ہی اچھا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ نظم چکنی اور براہِ راست نہ ہو، بلکہ کھردری، بالواسطہ اور تہ دار ہو۔
یہ تو کوئی کہنے کی بات نہیں ہے کہ اختر الایمان کی شاعری غور اور فکر کی طلب گار ہے لیکن یہ بات ضرور کہنے کی ہے کہ بعض نقادانِ سخن نے بھی ان سے شکوہ کیا کہ آپ کی نظمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ بات انھوں نے اس انٹرویو میں بھی کہی ہے جو ’شب خون‘ میں 1998 میں شائع ہوا لیکن کیا یہ بات ہمارے تنقیدی شعور اور ہمارے طرزِ قرأت کے لیے افسوس کی بات نہیں کہ ہم شاعر سے شکایت کریں کہ آپ کی نظم سمجھ میں نہیں آتی، لیکن ہم خود اس کی نظموں پر غور سے گریز کریں ؟بعض حالات میں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اختر الایمان کا کلام راشد اور میرا جی سے بھی زیادہ غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔
’سوغات‘ کے جدید نظم نمبر میں اختر الایمان کی کچھ نظموں پر تجزیہ شائع کیا گیا تھا۔ اس نمبر میں شامل تمام نظموں کی طرح ان نظموں کے شاعر کا نام تجزیہ نگار سے مخفی رکھا گیا تھا۔ ایک سیدھی سادی نظم ’نیا شہر‘ کے بارے میں تجزیہ نگار نے تین باتیں کہیں۔ اول تو یہ کہ نظم کا ’خیال تو عمدہ ہے ‘ لیکن شاعر نے ’نظم کے اسلوب (Diction)کی طرف پوری توجہ نہیں دی ہے ‘، اور ’بعض اشعار تو صحافتی انداز کے حامل ہیں۔ ‘ تجزیہ نگار کے خیال میں ’نظم کا مرکزی نکتہ یہ ہے فرد اپنے گھراورسماج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہے۔ .. [وہ]آزاد منش آدم ہے جو۔ ..ہر قسم کے بندھنوں اور رشتوں کو پرے پھینک دینا چاہتا ہے۔ ‘ تجزیہ نگار نے نظم کا بنیادی خیال ہی نہیں سمجھا، اور نہ اس بات پر غور کیا کہ شاعر کا ’اسلوب‘ پہلے ہی مصرعے سے کھردرا، بیانیہ اور ڈرامائی ہے۔ اس نے ’شعریت‘ سے بالقصد اجتناب کیا ہے، اس حد تک، کہ پہلی قرأت میں یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ نظم پابند ہے اور مقفّیٰ ہے۔
اس نظم کے تجزیہ نگار کی شہرت شاعر کی حیثیت سے بھی بہت تھی، لیکن معلوم ہوتا ہے یہاں انھوں نے اپنی تنقیدی نظر کو دھندلا ہی رکھنا چاہا۔ یہ تو عام طور پر شاعر کے ساتھ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی نظم کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہے تو وہ زیرِ بحث نظم میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر وہ نظم اس نے کہی ہوتی تو وہ اس کے نفسِ موضوع (یا مرکزی خیال)کو کس طرح، یعنی کس نقطۂ نظر سے دیکھتا۔ ایسا ہی کچھ شاید یہاں بھی ہوا ہے۔ اب ضروری ہے کہ ہم بھی اختر الایمان کی زیرِ بحث نظم دیکھ لیں :
نیا شہر از اختر الایمان
جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے در و بام
لوگ وارفتہ سراسیمہ، دکانیں بازار
بت نئے راہنماؤں کے پرانے معبد
حزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار
تار گھر ریل کے پل بجلی کے کھمبے، تھیٹر
راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار
اشتہار ایسی دواؤں کے ہر اک جا چسپاں
اچھے ہو جاتے ہیں ہر طرح کے جن سے بیمار
اس نئے شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے مجھے
یہ نیا شہر نظر آتا ہے خوابوں کا دیار
شاید اس واسطے ایسا ہے کہ اس بستی میں
کوئی ایسا نہیں جس پر ہو مری زیست کا بار
کوئی ایسا نہیں جو جانتا ہو میرے عیوب
آشنا، ساتھی، کوئی دشمن جاں دوست شعار
تجزیہ نگار نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ نظم کا مرکزی خیال نہ صرف جدید شاعری، بلکہ تمام ہند۔ فارسی شاعری (یعنی سبک ہندی کی شاعری) میں رواں دواں ہے۔ انھوں نے اگر عرفی کا یہ شعر سنا ہوتا تو اختر الایمان کی یہ نظم انھیں بالکل واضح اور شفاف لگتی:
بد نامی ما شہرۂ عالم شدہ شادیم
کیں ملک غریب است کس از مردم مانیست
اختر الایمان کی نظم میں شہر تو ویسا ہی ہے جیسے کہ شہر ہوتے ہیں : بد صورت، ہر طرح کی برائی اور جھوٹ سے لدا ہوا۔ لیکن متکلم اس شہر میں اجنبی ہے۔ یہاں کوئی ایسا نہیں جس کی ذمہ داری اس کے اوپر ہو، کوئی اس کی اچھائی برائی سے واقف نہیں، نہ کوئی دوست نہ دشمن۔ یہی وجہ ہے کہ نیا شہر اسے اپنے ’خوابوں کا دیار ‘نظر آتا ہے۔
ایک مدت ہوئی اختر الایمان نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ میری نظم میں علامت کی کارفرمائی ہوتی ہے، اگر اسے غور سے نہ پڑھا جائے تو اس کے معنی واضح نہ ہو ں گے۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنی نظم ’’قلوبطرہ‘‘ کی مثال دی تھی۔ یہ نظم ان کے پہلے مجموعے ’’گرداب‘‘ (1943) میں شامل تھی، اب اس کی تخلیق کوستر برس سے اوپر ہو رہے ہیں۔ اسے یہاں نقل کرنا اور اس پر تھوڑی سی گفتگو کر لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا:
قلوبطرہ
شام کے دامن میں پیچاں نیم افرنگی حسیں
نقرئی پاروں میں اک سونے کی لاگ
رہگذر میں یا خراماں سرد آگ
یا کسی مطرب کی لے، اک تشنۂ تکمیل راگ
ایک بحر بے کراں کی جھلملاتی سطح پر
ضو فگن افسانہ ہائے رنگ و نور
نیلے نیلے دو کنول موجوں سے چور
بہتے بہتے جو نکل جائیں کہیں ساحل سے دور
چاند سی پیشانیوں پر زر فشاں لہروں کا جال
احمریں اڑتا ہوا رنگ شراب
جم گئی ہیں اشعلۂ صد آفتاب
گردنوں کے پیچ و خم میں گھل گیا ہے ماہتاب
عشرت پرویز میں کیا نالہ ہائے تیز تیز
اڑ گیا دن کی جوانی کا خمار
شام کے چہرے پہ لوٹ آیا نکھار
ہو چکے ہیں ہو رہے ہیں اور دامن داغدار
اس کا زریں تخت سیمیں جسم ہے آنکھوں سے دور
جامِ زہر آلود سے اٹھتے ہیں جھاگ
چونک کر انگڑائیاں لیتے ہیں ناگ
جاگ انطونی محبت سو رہی ہے جاگ جاگ
یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظیات کے لحاظ سے یہ نظم کچھ کچھ راشد اور کچھ اقبال کی یاد دلاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہیئت کی سطح پر اختر الایمان نے یہاں بھی وہی کام کیا ہے جو 1989 کی نظم ( ’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ )میں کیا تھا۔ پہلے تو یہ توقع ہوتی ہے کہ ہر بند کا پہلا مصرع چار رکنی اور بقیہ مصرعے سہ رکنی ہوں گے، جیسا کہ پہلے بند کے تین مصرعوں میں ہے۔ لیکن فوراً ہی ہم دیکھتے ہیں کہ بند کا چوتھا مصرع بھی چار رکنی ہے، اور آئندہ بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے۔ یعنی اس نظم کے ہر بند کا پہلا اور چوتھا مصرع چہار رکنی اور بقیہ مصرعے سہ رکنی ہیں۔ اب ہیئت یوں بنی ہے :
ایک چار رکنی مصرع؛دو سہ رکنی مصرعے ؛دو چار رکنی مصرعے ؛دو سہ رکنی مصرعے ؛دو چار رکنی مصرعے ؛دو سہ رکنی مصرعے ؛دو چار رکنی مصرعے ؛دو سہ رکنی مصرعے ؛دو چار رکنی مصرعے ؛ دو سہ رکنی مصرعے ؛ایک چار رکنی مصرع۔
صاف ظاہر ہے کہ نظم کی دائروی ہیئت میں کچھ معنی پنہاں ہیں۔ اختر الایمان کے قول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس ہیئت کو زمانی، یا وقت کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ جو ہو چکا ہے، وہی پھر ہو گا۔ قلوپطرہ پھر خودکشی کرے گی، انٹونی پھر دیر سے پہنچے گا۔ یہی علامتی معنی نظم کے ہر بند میں کسی نہ کسی نہج سے بر آمد ہوتے ہیں۔ محبت اور موت دونوں ایک ہیں، اور یہ وحدت بار بار ہمارے سامنے آتی ہے۔
اس وقت سے لے کر اب تک اختر الایمان کے یہاں کئی اہم تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں۔ مثلاً، اب وہ شعوری طور علامتی یا استعارہ اختیار کرنے کے بجائے پوری نظم میں استعاراتی، یا اسطوری فضا تیار کرتے ہیں۔ یعنی اب ان کی نظم کسی مرکزی علامت کے گرد قائم ہونے کے بجائے خودایسا نظام بن جاتی ہے جو زندگی کی حقیقت کو سمجھنے یا سمجھانے کا کام کرتا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ان کی مشہور نظم ’’باز آمد‘‘ در اصل وقت کے گذرنے اور چیزوں کے بدلنے کا مرثیہ ہے۔ نظم یوں شروع ہوتی ہے :
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اک بات ہے جو
کان میں کہنی ہے خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات
دھوپ میں تیزی نہیں
ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے
دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا
[ اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے
جیسے میں نیند میں ہوں
منظر میں لطیف خنکی اور طرب آمیز تحرک ہے۔ ’’بڑی عمر کی محبوبہ‘‘ میں شاید تھوڑاسا طنز، یا عمر کے اتار کا احساس ہے، لیکن ہر چیز اپنی جگہ پر اچھی ہے۔ اس وقت ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ تتلیاں اور پھول، دونوں ہی چند روزہ ہیں بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔ اور تتلی تو بہر حال اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کی تلاش میں بہت جلد کہیں اور نکل جائے گی۔ اس وقت تو نظم ہمیں ایک طرح کا فریب دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ براؤننگ(Robert Browning) کے بد نام گیت Pippa Passesکے الفاظ میں :
The year’s at the spring,
And day’s on the morn;
Morning’s at seven;
The hill-side is dew pearled;
The lark’s on the wing;
The snail’s on the thorn;
God’s in his heaven–
All’s right with the world!
سب کچھ خوب، بہت ہی خوب ہے لیکن کھیل کود، چہل اور ہنسی کا یہ ماحول نظم کے نصف اول تک ہی بر قرار رہتا ہے۔ متکلم کو اپنے بچپن کی محبت اور محبوبہ (جس کا نام ’’حبیبہ‘‘ بھی کچھ معنی رکھتا ہے ) کی تلاش ہے۔ جب وہ کہیں نظر نہیں آتی تو:
میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں
ایک ہی کم ہے، وہی چہرہ نہیں
آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر
کیوں حبیبہ نہیں آئی اب تک؟
لڑکیاں ہنسنے لگتی ہیں کہ یہ شخص کس قدر بے خبر ہے۔ وہ اسے بتاتی ہیں کہ اس کا تو بیاہ بھی ہو گیا، بڑی دھوم دھام سے بارات آئی تھی۔ متکلم کچھ محجوب، کچھ اداس، آگے کو بڑھ جاتا ہے، اپنی یادوں میں گم۔ اچانک:
بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو
ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آ کے مجھے
میں نے جا پکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی
کس کا ہے ؟ میں نے کسی سے پوچھا۔
یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا
وہ ننھی سی لڑکی جو متکلم کی ہمجولی اور غیر شعوری (یا شاید شعوری)سطح پر اس کی محبوبہ (حبیبہ؟)تھی، اب امتدادِ زمانہ کے ساتھ خود ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔ اس خبر کا بیان کرنے والا رمضانی قصائی وقت کی علامت ہے جو ہمیں اس المناک امتداد کی خبر دیتا ہے۔ لیکن لفظ ’’قصائی‘‘ کی معنی خیزی کو ہمیں اس بات سے غافل نہ کرنا چاہیے کہ حبیبہ کے بچے میں حبیبہ کی جھلک ہے۔ متکلم نے اس بچے کو کبھی دیکھا نہ تھا، لیکن اس کی صورت ’’دیکھی ہوئی صورت‘‘ تھی۔ متکلم یہ نہیں کہتا کہ اس کی صورت حبیبہ سے مشابہ تھی، وہ کہتا ہے کہ صورت ’’دیکھی ہوئی‘‘ تھی۔ ماضی کسی نہ کسی لمحے میں حال بھی بن سکتا ہے۔ لیکن وقت ایک سفاک اور بے خیال فاعل ہے۔ وقت کو اس بات کا احساس نہیں کہ اس کے ہاتھوں کن کن چیزوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔ رمضانی قصائی کو خیال بھی نہیں کہ اس کے اس مختصر جملے ’’یہ حبیبہ کا ہے ‘‘میں کتنی باتوں اور کتنی چیزوں کا خون پنہاں ہے۔
جیسا کہ میں اوپر کہا، اب اختر الایمان کے یہاں علامت سے زیادہ اسطور کا رنگ نظر آنے لگا ہے۔ اب ان کی نظمیں نئے زمانے کا اسطورہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا کھردرا، بہ ظاہر بے کیف رنگ رائے لکنسٹائن(Roy Lichtenstein)کی مصوری کی یاد دلا تا ہے۔ یعنی جس طرح لکٹنسٹائن اخباری کامک (comic)کے سادہ رنگ اور کامک جیسے سادہ، اکہری ڈرائنگ کے طریقے استعمال کر کے اپنی تصویر کو جدید حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا تھا اور یہ کہتا ہوا نظر آتا تھا کہ جدید زمانے میں حقیقت ہی اتنی ہے کہا سے کامک کے سپاٹ، دو سمتی، چپٹے اشخاص اور اشیا کے ذریعے ظاہر کر سکتے ہیں، اسی طرح اختر الایمان بھی ہمارے زمانے کی سطحی، نقلی متانت اور سچائی سے عاری زندگی کو بیان کرنے کے لیے ایسی زبان اور ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیں جو آج کی زندگی کو ہمارے سامنے مجسم کر دیتا ہے۔ اور یہ کام انفرادی تشبیہوں، استعاروں اور پیکروں سے زیادہ پوری نظم کے لہجے کے توسط سے عمل میں آتا ہے۔
مثال کے طور پر، اختر الایمان کی نظم ’’خمیر‘‘ میں کوئی ایسی ترکیب نہیں استعمال کی گئی جس سے ظاہر ہو سکے کہ شاعر/متکلم کو اس بات کی پریشانی یا فکر ہے کہ معاصر دنیا کے جھوٹ، نا ہمواری، معاصر لوگوں کی نا معتبری، معاصر نظامِ حیات کے تضادات وغیرہ کے اظہار کے لیے پیکر، یا استعارہ یا علامت وضع ہو تو کیسے ہو اور کس طرح کی علامت یا استعارہ ہو؟شاعر/متکلم بالکل غیر متفکر، بدن کو ڈھیلا چھوڑے ہوئے، آرام کرسی پر متمکن شخص معلوم ہوتا ہے۔ یا پھر خارجی طور پر وہ روزمرہ زندگی جینے میں مشغول ہے لیکن داخلی طور پر دنیا، اور دنیا والوں کے تضادات اور اعمال و نتائج کے بارے میں ذہن کے خود کار عمل کے ذریعے محاسبے میں مشغول بھی ہے۔ وہ کسی کو ملزم نہیں ٹھہراتا، کیوں کہ وہ خود بھی اس نظامِ حیات سے الگ نہیں ہے جو اس کی تنقیدی نظر کے نشانے پر ہے۔ اس صورتِ حال، یا نظامِ حیات و کائنات کے اس رنگ ڈھنگ کے لیے وہ کسی کو بالخصوص ذمے دار کہ ا ہو گا، یے گہد کوُڈی ہو ہو ٹھہرانے، اور خود کو الگ کرنے کا ریا کارانہ عمل نہیں کرتا۔ وہ دوسروں پر شک کرتا ہے تو خود کو بھی معرض سوال میں لاتا ہے۔ یہ پوری نظم نقل ہونے کا تقاضا کرتی ہے :
خمیر
گلاب کیکر پہ کب اگے گا
کہ خار دونوں میں مشترک ہے
میں کس طرح سوچنے لگا ہوں
مجھے رفیقوں پہ کتنا شک ہے
یہ آدمیت عجیب شے ہے
سرشت میں کون سا نمک ہے
کہ آگ، پانی، ہوا، یہ مٹی
تو ہر بشر کا ہے تانا بانا
کہاں غلط ہو گیا مرکب
نہ ہم ہی سمجھے، نہ تم نے جانا
غریب کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں
ہوا تولد تو شاہزادہ
بلند مسند کے گھر پیادہ
ولی کے گھر میں حرام زادہ
متکلم کا مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے خمیر کے اجزا تو تمام انسانوں میں مشترک ہیں تو پھر تمام انسان ایک جیسے کیوں نہیں ؟اور پھر ایسا کیوں ہے کہ اچھے سے برا پیدا ہو تا ہے ؟یہ مسئلہ فلسفے میں بھی ہے اور تصوف میں بھی۔ مولانا روم نے مثنوی میں اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ ہمارے یہاں ’’اولیا کے گھر شیطان‘‘ مشہور کہاوت ہے جو انسانی زندگی اور سرشت کے تضاد اور تقدیرِ انسانی کے تضاد کو روشنی میں لاتی ہے۔ مولانائے روم معاملے کو سلجھانے اور اس کی عقلی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری کہاوت ایک نہ سمجھ میں آنے والے معاملے کو روز مرہ کی سطح پر لا کر قابلِ فہم نہیں تو قابلِ قبول بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اختر الایمان کی نظم نہ تو سمجھانے کی کوشش کر تی ہے اور نہ ہی اس تضاد کو قبول کرنے کی سفارش کرتی ہے :
کہاں غلط ہو گیا مرکب
نہ ہم ہی سمجھے نہ تم نے جانا
تخلیقی سطح پر اختر الایمان کا کمال یہ ہے کہ وہ تضاد کو اور وسیع کر دیتے ہیں۔ اولیا کے گھر پیدا ہونے والے شیطان کے لیے مصیبت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا تشخص اس تقدس کے ماحول میں کس طرح بر قرار رکھے۔ لیکن اگر غریب کے گھر میں رئیس صفت، یا رئیس کے گھر میں مزدور صفت بچہ پیدا ہو تو دونوں کے لیے یکساں اذیت و صعوبت ہے۔ بنیادی مسئلہ صرف جینیاتی حادثے کا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ جب دنیا میں اتنی بہت سی چیزیں اصلاً، اور آغاز ہی سے ایک دوسرے کی مخالف ہیں، اور یہ تخالف یا تباین انسانی صورتِ حال کا حصہ ہے، تو پھر انسان کے لیے راہ فلاح (یا فرار)کہاں ہے ؟
گلاب کیکر پہ کب اگے گا
کہ خار دونوں میں مشترک ہے
اب مسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ ’’آدمیت‘‘ کی کیا تعریف ہو؟اور انسان کس چیز پر فخر و مباہات کرے جب وہ فضلِ ربانی یا Graceسے بھی محروم ہو چکا ہے ؟اگر ایسا نہ ہوتا تو ولی کے گھر میں حرام زادہ تولد نہ ہوتا۔ نظم لفظ ’’حرام زادہ‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ یہ لفظ بعض طبائع پر گراں گذر سکتا ہے۔ لیکن ذرا سا بھی غور کریں تو نظم کی روح اسی لفظ میں ہے۔ اس لفظ میں اصل کی کم اصلی، مزاج کا جہل اور کجی، اور خود اس اولاد کے ولد الحرام ہونے کا تصور، یہ سب باتیں یکجا ہیں۔
کھردرے پن کے ذریعے اختر الایمان صرف یہ فائدہ نہیں حاصل کرتے کہ وہ پڑھنے یا سننے والے کو متوجہ کر لیتے ہیں اور وہ چونک کر نظم پر از سرِ نو غور کرنے لگتا ہے۔ ان کا کھردرا پن (یا ’’نفیس‘‘ تحریر لکھنے سے ان کا انکار) در اصل دو اور باتوں کا اعلان کرتا ہے۔ اول تو یہ کہ نظم کو ’’سجانے ‘‘، اس میں نام نہاد لطافت، ’’شاعرانہ پن‘‘ وغیرہ پیدا کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نظم اس صورتِ حال کا احاطہ کر سکے جس نے شاعر کو بر انگیخت کیا ہے۔ نظم کے ذریعہ فوٹو گرافی ہر گز مطلوب نہیں، لیکن یہ ضرور مطلوب ہے کہ جس اخلاقی یا جذباتی صورتِ حال کا نظم میں بیان ہے، اس پر لفاظی کے پردے نہ ڈالے جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اختر الایمان ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ ’’شاعرانہ/غیر شاعرانہ‘‘ وغیرہ اصطلاحیں بے معنی ہیں۔ اگر بعض اسلوب اس لیے ’’شاعرانہ‘‘ ٹھہرتے ہیں کہ وہ تجربے اور مشاہدے کے نوکیلے پن کو برداشت نہیں کر سکتے، یا اس کا تحمل نہیں کر سکتے، توایسے اسالیب کو، بلکہ ایسی شاعری کو ترک ہی کر دینا بہتر ہے۔ ہمارے یہاں شاعرانہ/غیر شاعرانہ اسلوب اور طریقِ کار وغیرہ کی بحث اب زیادہ نہیں اٹھتی لیکن اختر الایمان کی نظمیں پھر بھی بعض اوقات اس قدر غیر متوقع طور پر گفتگو اور مکالمے کے قریب آ جاتی ہیں کہ پروفیسر قسم کے لوگ جو شاعری نہیں پڑھتے، صرف تنقید پڑھتے ہیں، چکر میں پڑ سکتے ہیں کہ شاعری اور نثر کو کس طرح الگ الگ کیا جائے۔ یہ چند مثالیں دیکھیے :
کمبخت گھڑی نے جان لے لی
ٹک ٹک سے عذاب میں ہے جینا
جب دیکھو نظر کے سامنے ہے
احساس زیاں نے چین چھینا ( ’’گھڑی‘‘)
زمیں جو سب کا مامن ہے
یہ گویا ارضِ ناکس ہے
اسے قحبہ سمجھ کر لوگ استعمال کرتے ہیں
کوئی والی نہیں وارث نہیں اس کا
کوئی مجنوں نہیں عاشق نہیں اس کا ( ’’ارضِ ناکس‘‘)
سیاسی رہنما منبر پہ چڑھ کر
زبوں حالی کی مانگیں گے معافی
گلا پھاڑیں گے ہمدردی میں ان کی
کہیں گے ووٹ دو اللہ شافی ( ’’توازن‘‘)
اختر الایمان کہتے ہیں کہ ہمارے تصورِ شعر کو غزل نے خراب کیا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری ’’شاعری کے ساتھ بڑی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ وہ اب تک غزل کی فضا سے نہیں نکلی۔ ‘‘وہ تقاضا کرتے ہیں کہ ’’کوئی صنفِ سخن ہو، اس میں وسعت کی گنجائش ہونی چاہیے اور زبان کا استعمال ایسا ہونا چاہیے کہ پہلے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اضافہ بھی ہو اور زبان اپنے وسیع تر معنوں میں استعمال ہو سکے۔ ‘‘اختر الایمان کی دوسری بات بالکل صحیح ہے لیکن اگر ہمارے یہاں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو متحفظ، محتاط اور ’’شریفانہ‘‘ زبان اور لہجے کو شاعری پر حاوی کرنا، یا حاوی رکھنا چاہتے ہیں، تو اس کا الزام غزل پر نہیں، بلکہ ’’تغزل‘‘ کے اس جھوٹے تصور پرجاتا ہے جو ہمارے یہاں مغربی (یا جدید کارانہ) تصورات کے زیرِ اثر بیسویں صدی کے شروع میں رائج ہوا تھا۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ چہل، ٹھٹھول، ہنسی تو دور رہی، خود کلامی اور ڈرامائی انداز کو بھی ’’تغزل‘‘ کے باہر قرار دیا جانے لگا تھا۔ ایک طرف تو یہ تھا کہ:
شعر در اصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
اور دوسری طرف یہ تھا کہ داغ کے حسبِ ذیل شعر کے ظریفانہ انداز کو ’’سفیہانہ‘‘کہہ کر غزل کے باہر بتایا جا رہا تھا :
میت پہ میری آ کے دل ان کا دہل گیا
تعظیم کو جو لاش مری اٹھ کھڑی ہوئی
’’تغزل‘‘ کی اصطلاح ہم لوگوں نے انگریزی کی دیکھا دیکھی وضع کی۔ وہاں اگر کبھی Lyricاور Lyricismکی قدر دریافت ہوئی تھی تو ہم لوگوں نے جواب کے طور پر اپنے یہاں ’’غزل‘‘ کو Lyric کا مرادف قرار دے لیا اور Lyricism کے لیے ’’تغزل‘‘ کی اصطلاح گھڑ لی اور چوں کہ ہمارا خیال تھا کہ Lyric میں ہر چیز بڑی میٹھی، شائستہ اور ’’دلی جذبات‘‘ کے اظہار پر مبنی ہوتی ہے، لہٰذا Lyricism یا ’’تغزل‘‘ میں بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔
کم لوگوں کواس بات کا احساس ہے کہ ’’تغزل‘‘ کی اصطلاح ہمارے کلاسیکی تذکروں میں موجود نہیں۔ کیا اردو، کیا فارسی، غزل کی تمام روایت ’’تغزل‘‘ سے بے خبر ہے۔ اور آج مغرب میں بھی یہ حال ہے کہ Lyricکا لفظ صرف فلمی گانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اب کوئی مغربی نقاد کسی شاعر کے یہاں Lyricismنہیں ڈھونڈتا۔ لیکن ہمارے نظریہ ساز صاحبان اب بھی Lyricism اور ’’تغزل‘‘ کا اکتارا بجائے جا رہے ہیں۔ شاعری کی زبان (یا خود زبان)کی اس غلط تفریق کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختر الایمان اور راشد جیسے سنجیدہ شعرا کو غزل سے شکایت پید اہوئی۔ اور وہ چیزیں بھی جو پرانی شاعری میں عام ہیں، ہمارے لئے ممنوعہ، بلکہ معتوب ٹھہرا دی گئیں۔ اور جو چیزیں بالکل سامنے کی تھیں، انھیں ترک کر دیا گیا۔ اس طرح شاعری کسی زندہ اور توانا حقیقت کے بجائے محض ممنوعات کی فہرست بن گئی۔ وہ لفظیات جسے اختر الایمان نے ’کنوار پن کی خوشبو‘ کا حامل ٹھہرایا ہے اور جسے جے۔ ایم۔ سنگ (J.M.Synge) نے بہت پہلے ’’عام بول چال کی خوشبو اور اس کا آہنگ‘‘ بتایا تھا، ہماری شاعری سے غائب ہونے لگی۔ فیض کی شاعری کی مقبولیت نے ہمارے یہاں شاعری کو صرف سجے سجائے، چمکتے ہوئے شیشۂ آلات اور فرش فروش سے آراستہ دیوان خانے کی چیز بنا ڈالا۔ ہر وہ فقرہ، ہر وہ پیکر، ہر وہ استعارہ، جو ’’طبائعِ نازک‘‘ پر گراں گذرے، فیض کے یہاں مفقود ہے۔
ایسے ’’محفوظ‘‘ لہجے پر پالے پوسے ہوئے ادبی معاشرے کو میرا جی کی شدید درون بینی، پیکر وں سے متمول ان کی زبان، حواسِ خمسہ کی دولت سے مالا مال شاعری، اور راشد کی بین الاقوامی فضا، ان کی فارسی آمیز زبان، ان کے بے دھڑک موضوعات، بھلا کہاں اچھے لگ سکتے تھے ؟ اختر الایمان کا تو معاملہ اور بھی مختلف ہے، کہ وہ بہ ظاہر ’’فن کارانہ توانگری‘‘ سے عاری ہیں۔ ان کے یہاں جگمگاتے ہوئے الفاظ، فارسی ترکیبیں، چونکا دینے والے استعارے نہیں۔ لیکن ان کی بہ ظاہر بے رنگی ہی ان کی رنگا رنگی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، اختر الایمان کو اس بات کا دکھ رہا ہے کہ ان کو سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ اور اسی دکھ نے انھیں غزل کی روایت اور لفظیات کا شاکی بنا دیا ہے۔ لیکن قصور غزل کی روایت اور لفظیات کا نہیں، ہماری ادبی تہذیب کا ہے جس نے غلط بنیادوں پر شاعری کی زبان کا ڈھانچا تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ مجید امجد اور اختر الایمان ان توقعات کو پورے نہیں کرتے جنھیں ’’تغزل‘‘ کی توقعات کہا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی کو تو خیر جنسی الجھنوں کا مریض کہہ کر ٹال دیا گیا، لیکن مجید امجد اور اختر الایمان جیسے شعرا نظر انداز کیے گئے اور انھیں اپنے قاری کے لیے جدید نسل کا انتظار کرنا پڑا۔ راشد تو پھر بھی اچھے رہے کہ مجتبیٰ حسین کے اس الزام کے باوجود کہ ان کے یہاں ’’ناسخیت‘‘ ہے (گویا ناسخیت کوئی خراب بات ہے )، راشد کو فارسیت سے شغف اور ان کی نظم کے بالکل نمایاں مفکرانہ رنگ نے بالکل مسترد ہو جانے سے بچائے رکھا۔
انجمن ترقی اردو نے 1943 میں ’’انتخابِ جدید‘‘ کے نام سے جدید شاعری کا ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ آل احمد سرور اور عزیز احمد اس کے مرتب تھے۔ اس کے دیباچے میں عزیز احمد نے لکھا:
’’اس مجموعے کا معیار میں نے یہی قرار دیا کہ صرف ایسی نظمیں شامل کی جائیں جو کسی طرح بیسویں صدی کے خیالات کا مظہر ہوں (یا ان کا رد عمل پیش کریں )اور نظموں کا معیار یہ ہو کہ اگر کسی غیر زبان میں ترجمہ کی جائیں تب بھی زبان سے قطع نظر ایک خاص چیز ہوں ‘‘۔
مندرجۂ بالا دعووں میں پہلا تو غیر ادبی ہے، اور دوسرے کے پیچھے یہ خواہش (بلکہ تمنا) کار فرما ہے کہ جدید اردو ادب اور سب کچھ تو ہو لیکن اردو ادب نہ رہے۔ ان باتوں پر بحث اور کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ اس وقت یہ کہنا مقصود ہے کہ اس مجموعے میں ساغر نظامی، اثر صہبائی اور اصغر گونڈوی تو ہیں، میرا جی، اختر الایمان اور مجید امجد نہیں ہیں۔ آج کا قاری اس بات کو ہرگز قبول نہ کرے گا کہ ساغر نظامی، اصغر گونڈوی اور اثر صہبائی کے یہاں تو بیسویں صدی کے خیالات (یا ان کا رد عمل) موجود ہے اور اختر الایمان، میرا جی اور مجید امجد اس صفت (اگر یہ کوئی صفت ہے ) سے محروم ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آل احمد سرور اور عزیز احمد جیسے قاری شعر فہم نہیں تھے۔ اس کے باوجود اگر انھوں نے اختر الایمان، میرا جی اور مجید امجد کو نظر انداز کیا تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ان کی شاعری اپنے وقت سے آگے کی چیز تھی۔
ایسا نہیں کہ اختر الایمان کا ڈرامائی اور بے تکلف گفتگو کے آہنگ پر مبنی لہجہ شروع کی نظموں میں بھی اتنا ہی واضح تھا جتنا آج ہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے شعرا پر حالی اور آزاد کی بنائی ہوئی شعریات کا کچھ اثر (زبان کی حد تک)تو تھا ہی، اور یہی وجہ ہے کہ میرا جی حلقۂ ارباب ذوق سے ایک حد تک الگ دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اس زبان کو مکمل طور پر مسترد کرتے تھے جس کی بنیاد حالی اور آزاد وغیرہ کی ’’نیچرل شاعری‘‘ نے ڈالی تھی۔ لیکن اختر الایمان کے یہاں شروع شروع میں کچھ متانت، احتیاط، یا ’’شائستگی‘‘ کے انداز تھے۔ فرق صرف یہ ضرور ہے کہ جہاں حلقے کے شعرا (یا کم از کم میراجی)نظم کے متکلم اور شاعر کو ایک قرار دیتے تھے اور ہر نظم کو لا محالہ شاعر کے ذاتی تجربات کا اظہار سمجھ کر پڑھتے تھے (اس کی تفصیل میراجی کی بے مثال کتاب ’’اس نظم میں ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے )، اختر الایمان کے کلام میں شروع ہی سے اپنے موضوع سے تھوڑی بہت دوری، یا ڈرامائی فاصلہ نظر آتا ہے۔ مثلاً ’گرداب‘ (1943) کی ایک نظم ’’محرومی‘‘ اور ’’تاریک سیارہ‘‘ (1952) کی ایک نظم ’’محبت‘‘ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :
تو بھی تقدیر نہیں درد بھی پائندہ نہیں
تجھ سے وابستہ وہ اک عہد وہ پیمانِ وفا
رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا
خواب انگیز نگاہیں وہ لب درد فریب
ایک افسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا
( ’’محرومی‘‘)
صرف تبدیل ہوتی ہوئی روشنی کی جھلک زندہ ہے
صرف حسنِ ازل اور حسنِ ابد کی مہک زندہ ہے
صرف اس طائرِ خوش نوا کی لہک زندہ ہے
ایک دن آئے گا تو بھی مر جائے گی میں بھی مر جاؤں گا
( ’’محبت‘‘)
دوسری نظم میں موضوع سے شاعر کا ڈرامائی فاصلہ زیادہ نمایاں ہے۔ یہاں نہ تو متکلم اور شاعر کو متحد قرار دینا ضروری ہے اور نہ مخاطب کو شاعر /متکلم کی محبوبہ سمجھنا ضروری ہے۔ ’’محرومی‘‘ میں پہلا مصرع نظم کو ذاتی واردات سے الگ نکال لے جاتا ہے۔ دونوں نظموں میں لا شخصیت (یعنی اپنی شخصیت سے الگ کھڑے ہو کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش)نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود، ان نظموں پر حلقۂ اربابِ ذوق کا اثر صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ابھی ان نظموں کے اسلوب میں وہ ٹھن ٹھناہٹ نہیں ہے جو جلی، تپائی ہوئی، سیاہی مائل سخت اینٹ میں ہوتی ہے۔ ان نظموں میں وہی گلابی سرخی ہے جو نیم پختہ اینٹ میں ہوتی ہے۔ یہ نظمیں اس طرح کی چوٹ یا shockنہیں پہنچاتیں جو مثلاً بعد کی نظموں ’خمیر‘؛ ’کارنامہ‘؛ ’مفاہمت‘ ؛ ’لوگو، اے لوگو‘ وغیرہ کا خاصہ ہے۔ تقابل کے لیے یوسف ظفر کی مشہور نظم ’’وادیِ نیل‘‘ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
کہ میں ہوں وہ موت کا مسافر
ترے شبستاں کے چور دروازے سے گذر کر
جو اپنی منزل پہ آ گیا ہے
وہ لوگ جو رو رہے ہیں مجھ کو
کہ میں نے خود موت کو پکارا ہے تیری خاطر
وہ لوگ کیا جانیں زندگی کو
انھیں خبر کیا کہ موت ہر لحظہ ان کی ہستی کو کھا رہی ہے
انھیں خبر کیا کہ زندگی کیا ہے۔ ..میں سمجھتا ہوں زندگی کو
کہ آج کی شب یہ زندگی میری زندگی ہے
یہ زندگی ہے مری جسے میں نے آج کی شب
ترے مسرت کدے میں لا کر
ابد سے ہم دوش کر دیا ہے
اجل کو خاموش کر دیا ہے
اس بات سے فی الحال قطع نظر کرتے ہیں کہ یوسف ظفر کے یہاں غیر ضروری الفاظ کی کثرت ہے، اور الفاظ کی غیر ضروری تکرار بھی ہے لیکن نظم کا متکلم بہت سے بہت کوئی روایتی قسم کا ’’رومانی‘‘ ہیرو معلوم ہوتا ہے۔ وہ تجربہ کار اور تفکر انگیز نہیں، بلکہ سیدھا سادہ بھولا بھالا نوجوان ہے جو فریب خوردہ ہے اور اسی فریب کو وہ معرفت سمجھتا ہے۔ یہ نظم فوری طور پر اختر الایمان کی نظم ’’محبت‘‘سے موازنے کا تقاضا کرتی ہے۔ ’’محبت‘‘ اختر الایمان کی اچھی نظموں میں ہے، لیکن بہترین نظموں میں نہیں۔ اس کے باوجود ہم فوراً دیکھ سکتے ہیں کہ ’’محبت‘‘ کا انداز زیادہ پر اعتماد ہے اور روایتی ’’رومانیت‘‘سے دور ہے۔ اس کا متکلم زیادہ با تمکین، زیادہ تجربہ کار ہے۔ انسان کی تقدیر یہی ہے کہ اسے اور تمام انسانی اشیا کو موت کے گھاٹ اترنا ہے۔ اس انجام پر ’’محبت‘‘ کے متکلم کو خوف و ہراس کچھ نہیں۔ یوسف ظفر کی نظم کا متکلم بلند بانگ دعووں اور ظاہری جوش و خروش کے باوجود کوئی نا بالغ (یعنی ذہنی طور پر نابالغ)شخص ہے۔ اختر الایمان کی نظم کا متکلم موت کو انگیز کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ یوسف ظفر کی نظم کا متکلم جس شے کے لافانی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے (زندگی جو ابد سے ہم دوش ہے اور جس نے اجل کو خاموش کر دیا ہے )وہ اس قدر غیر قطعی اور موہوم ہے کہ ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ وہ محض خیالی، اور فرضی تسکین کا دھوکا ہے۔ اختر الایمان کے متکلم کی آواز میں وزن اور وقار ہے، وہ کسی رومانی فریب کا شکار نہیں ہے۔ ان کا متکلم ’’ حسنِ ازل اور اور حسنِ ابد‘‘ یعنی شاعر کی نظم، یا مغنی کے نغمے وغیرہ کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے، لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے، کیوں کہ خود متکلم اور اس کی معشوقہ دونوں ہی موت کی آغوش میں جانے ہی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پھر ان کی شاعری اور نغمہ کس کام کا؟ رہا ’’ حسنِ ازل اور اور حسنِ ابد‘‘، تو اس کی مہک کا ذکر عجز نظم نہیں ہے تو وہ محض لفاظی ہے، اس سے کسی کو یوں بھی کچھ ملنا نہیں، کہ خوشبو نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ٹھہرتی ہے۔ اور ’’حسنِ ازل اور حسنِ ابد‘‘ تو یوں ہی تجریدی اور موہوم چیز ہیں۔ ان سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔
اختر الایمان جس لہجے کے لیے بجا طور پر مشہور ہیں، وہ کسی پختہ کار اور غیر جذباتی متکلم کا لہجہ ہے جس میں تشکیک کی کارفرمائی اکثر ہے، لیکن جو ’’اعلیٰ اردو‘‘ کی فارسی آمیز چمک دمک سے عاری ہے۔ ڈرامائی، طنزیہ، لیکن خود ترحمی اور چھچھورے پن سے بالکل خالی یہ لہجہ صرف اس معنی میں ڈرامائی نہیں ہے کہ اختر الایمان کی اکثر نظمیں ڈرامے کے مکالمے کی طرح بولی جا سکتی ہیں۔ یہ بات تو ہے ہی، لیکن اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ اختر الایمان کا متکلم کوئی ایک شخص نہیں معلوم ہوتا، اور وہ متکلم خود شاعر اختر الایمان بھی نہیں۔ شاعر اختر الا یمان تو شاید ہی کسی نظم میں، حتیٰ کہ ان کی بظاہر اپنی سوانح سے متاثر نظم ’’ایک لڑکا‘‘ میں بھی ہمارے سامنے نہیں آتا۔ اس معاملے میں وہ راشد سے مختلف ہیں، کیونکہ راشد اپنی اکثر نظموں میں پر جوش، معاملے (یا موضوع)سے پوری طرح دست و گریباں، اور ذاتی احساس کی گرمی سے دمکتے ہوئے، اور کسی شعلے کی طرح بر افروختہ، یا کسی شمشیر برہنہ کی طرح سب کو چکا چوند کرتے نظر آتے ہیں۔ راشد صاحب نے بار بار اس خیال کی تردید کی ہے کہ ان کی نظمیں ان کی ’’سوانح حیات‘‘ نہیں ہیں۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، لیکن یہ بات پھر بھی ہے کہ وہ اپنی نظم کے موضوع، یا اپنے تجربے اور خیال سے پوری طرح گتھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر انگریزی لفظ لکھا جائے تو راشد صاحب کے روئیے کو اپنی نظم کے ساتھ Fully engagedکہا جائے گا۔
اختر الایمان کا لہجہ کہیں کہیں راشد سے ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے (خاص کر شروع کی نظموں میں، جیسا کہ ’’قلوبطرہ‘‘ سے ظاہر ہے )۔ اور ان کی موجودہ نظموں میں راشد کے رویّے کی جھلک کہیں کہیں نظر آ جاتی ہے :وہی معاصر دنیا کا شدید احساس، اور اس احساس کو بیان کرنے کی سعی میں ہلکے یا گہرے طنز آمیزش، کلام میں وہی زور اور عدمِ انفعالیت، جو راشد کا بھی خاصہ ہیں لیکن اختر الایمان کا لہجہ سپاٹ، بہ ظاہر کسی جذبے سے عاری، اور ’’غیر نفیس‘‘ ہے۔ ان کے یہاں راشد کی طرح کی تزئینی کیفیت نہیں ہے۔ راشد کے خال خال استثنا کے علاوہ ان کے اسلوب کی مثال نہیں لائی جا سکتی۔ وہ کسی مکتب، یا کسی شاعر کے پیرو نہیں ہیں اور وہ خود کسی مکتب کے بانی بھی نہیں ہیں۔ ان کا اسلوب ایسا ہے جس کی نقل نہیں ہو سکتی۔ (ممکن ہے اس میں ان کے لہجے کی ڈرامائیت کو بھی قابلِ لحاظ دخل ہو۔ )ویسے، عام شعرا تو ان کی تکلف اور فارسیت سے عاری لفظیات ہی سے بدک جائیں گے اور جو ذرا زیادہ با ہمت ہیں، وہ بھی ان کے خشک اور کھردرے لہجے سے گھبرا اٹھیں گے۔
آج(یعنی 1994 میں، جب اس مضمون کے کئی حصے لکھے گئے تھے ) اختر الایمان ہمارے سب سے بڑے، سب سے زیادہ با مرتبہ شاعر ہیں۔ اور یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ ان کے معاصر دو بڑے شعرا میں فیض اور سردار جعفری میں رومانیت پوری طرح جاری و ساری تھی۔ رومانیت سے میری مراد محض عشقیہ مضامین سے دلچسپی نہیں، بلکہ کسی آدرش پر اعتقاد ہے، اورایسا اعتقاد جو شاعر کو کسی اور نقطۂ نظر، کسی اور امکان، کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مجید امجد اور میرا جی بھی رومانی نہیں ہیں، کیونکہ وہ کسی آدرش کی (اندھے یا اندھا دھند)پابندی نہیں کرتے۔ شروع کی چند نظموں کے سوا راشد کے یہاں بھی عشقیہ (یا جنسی) نظمیں خال ہی خال ہیں۔ اختر الایمان نے شروع شروع میں کچھ عشقیہ نظمیں کہیں لیکن وہ بہت جلد اس انداز سے اکتا گئے۔ ہمارے زمانے کے بڑے شعرا نے عشقیہ نظمیں بہت کم کہی ہیں لیکن کسی نے بھی وہ تکلف سے عاری اور گفتگو کے لہجے کے قریب انداز نہیں اختیار کیا جو اختر الایمان کا خاص نشان ٹھہرا ہے۔ کسی کے بس میں زبان اس طرح اور اس حد تک ہے ہی نہیں کہ وہ اختر الایمان کا حریف ہو سکے۔
اختر الایمان کے یہاں شگفتگی، یا زندگی سے لطف اندوزی کے احساس کا فقدان ہے۔ اس کے بجائے ان کے یہاں فریب شکستگی، معاصر انسان سے مایوسی، خود غرضی اور جارحیت اور تشدد سے معاصر انسان کے لگاؤ کے خلاف رنج اور برہمی نمایاں ہیں۔ یہ برہمی کبھی کبھی شدت اختیار کر کے نفرت کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ نفرت کسی حکیم اخلاقیات، کسی واعظ، یا کسی ناصح کی نہیں۔ اکثر تو خود شاعر (اور نظم کا متکلم تو یقیناً)ہی اس کا ہدف معلوم ہوتا ہے۔ یہ متکلم ایسا شخص ہے جس نے کبھی دنیا میں امن، عافیت، محبت اور یگانگت کی امید کی تھی۔ یہ امید پہلے آرزو میں بدلی اور پھرشکست آرزو کی تلخی میں بدل گئی۔ اختر الایمان نے وقت کو سب سے بڑے مجرم کی شکل میں دیکھنا چاہا، کہ شاید اس طرح معاصر انسان اس فرد جرم سے بچ سکے جو تاریخ بے شک اس پر عائد کرے گی۔ لیکن یہ آخری امید بھی جاتی رہی اور اختر الایمان کی حالیہ شاعری میں خودانسان کے مجرم ہونے کا احساس بہت شدید ہو گیا ہے۔ گذشتہ تیس برس میں اختر الایمان کی شاعری( اور شاید شخصیت بھی)خیالی آدرشوں کی امید افزائیوں سے بہت جلد گذر کر انسانی وجود کی بے رنگی اور زندگی میں کم کوش احتیاط پر رنج کے اظہار کی راہوں سے ہوتی ہوئی کرب ناک تلخی اور مستقبل سے مایوسی کی منزل تک پہنچی ہے (اگر اسے منزل کہا جا سکے۔ ) ان کی شاعری کا یہ سفر ہمارے زمانے کی تاریخ پر ایک درد ناک حاشیہ ہے۔ اب انھیں عارضی مسرت بخشنے والی چیزیں بھی اپنے گرد و پیش میں بہت کم نظر آتی ہیں۔
اقبالؔ نے اس صدی کے شروع میں شاعری شروع کی تھی۔ ان کے کم و بیش ساتھ ساتھ منظرِ عام پر آنے والے شعرا میں کم ہی ایسے ہیں جن کا نام لوگوں کو خالص ادبی وجوہ کی بنا پر یاد رہا ہے۔ حسرت موہانی، یگانہ، عزیز لکھنوی، سرور جہان آبادی، فانی، چکبست، سیماب اکبر آبادی یہ فہرست اس سے آگے بمشکل ہی بڑھ سکے گی۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اقبال ان سب سے میلوں بلند تر ہیں، بلکہ اقبال کے ساتھ ان کا کوئی با معنی موازنہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اقبال اس معنی میں خوش نصیب تھے کہ ان کے معاصروں میں دور دور تک بھی کوئی ان کے مقابل آنے کی اہلیت نہ رکھتا تھا۔ ان کے برخلاف، اختر الایمان کی نسل کو اقبال کے بعد آنے والی تمام نسلوں میں سب سے زیادہ توانا، با صلاحیت اور کامیاب نسل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ فیض، میرا جی، راشد، سردار جعفری، مجید امجد، اختر الایمان، یہ سب 1910 سے لے کر 1915 کے درمیان پیدا ہوئے۔ ان کا آپسی تعلق اور تقابل اور تناسب ایسا تھا کہ یہ سب ہی صلاحیت اور لیاقت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ جہاں اقبال کے سامنے کوئی مدِ مقابل نہ تھا، وہاں 1910 سے 1915 کے درمیان صرف پانچ برسوں کی مدت میں متولد یہ شعرا ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے مقابل آ سکتے تھے۔ اختر الایمان کی نسل کو اپنی شناخت بنانے اور اپنی حیثیت کو قائم کرنے سے اقبال سے بہت زیادہ مشکل پیش آئی۔ اس پر طرہ یہ کہ اختر الایمان کا سفر (شاید مجید امجد کو چھوڑ کر)بقیہ معاصروں میں سب سے زیادہ تنہا تھا اور با اثر، فیشن ایبل حلقوں سے دور تھا۔ اختر الایمان نے بدلتے ہوئے فیشنوں کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔ ترقی پسندوں نے غزل سے اصولی اختلاف کیا تھا، لیکن پھر کسی اصولی مفاہمت یا نظری دلیل کے بغیر انھوں نے غزل کو اختیار بھی کر لیا۔ اختر الایمان نے جو نظم کو اپنا شعار بنایا تو آخر تک وہ اسی پر قائم رہے۔
جس زمانے میں ترقی پسندی کا ہجوم اور ’’عوامی شاعری‘‘ کا غلغلہ خراب شاعری کو کاندھوں پر اٹھائے اٹھائے گھوم رہا تھا، اختر الایمان نے کنجِ خمول سے قدم باہر نہ نکالا۔ جب جدیدیت کا دور دورہ ہوا اور جدید شعرا نے اختر الایمان کو اپنا بزرگ، پیش رو اور اہم استاد کہا اور ان کے بارے میں تحریر و تقریر کا سلسلہ شروع ہوا، تو بھی اختر الایمان نے قبولیتِ عام کے شوق میں آ کر اپنا رنگ نہ بدلا اور نہ ہی محفلوں اور سیمیناروں میں اپنا رنگ چوکھا کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی انھوں نے اپنی نظم گوئی کی رفتار کچھ تیز کی۔ شہرت کی خاطر ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کے اس دور میں کسی شاعر کا صرف شاعری کے بوتے پر پچاس پچپن برس تک گرم رہنا اور آخر کار خود کو منوا لینا اس کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔
اختر الایمان نے ایک غیر مطبوعہ نظم چار مسودوں کی شکل میں چھوڑی ممکن ہے وہ ابھی اس پر مزید محنت کرتے۔ یہ چاروں مسودے ’’کلیات اختر الایمان‘‘ مرتبہ سلطانہ ایمان اور بیدار بخت (دہلی، 2000)شامل کیے گئے ہیں۔ میں انھیں وہاں سے نقل کرتا ہوں، کچھ تو یہ دکھانے کے لیے کہ اختر الایمان اپنی نظموں پر کس قدر محنت کرتے تھے، اور کچھ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ اس نظم کے آخری مسودے کو اختر الایمان کا آخری بیان قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
ایک نظم
( پہلا مسودہ )
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر
کتابوں پر جو وقفے وقفے سے آتی رہیں ان پر
ایک نظم
( دوسرا مسودہ )
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر
کتابوں پر، ہدایت کے لیے بھیجی ہیں جو تو نے
جزائے خیر و شر پر، حشر پر، جس دن اٹھوں گا میں
ردائے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے
یہ زیرِ ناف گھونسہ مارنے کی کیا ضرورت تھی
یہ شیطاں کیوں کھڑا ہے راہِ روکے، تخلیق کے دن سے
بلا عنوان
( تیسرا مسودہ )
میں تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر
رسولوں پر ہدایت کے لیے بھیجے ہیں جو تو نے
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
تری اقلیم کے سارے اصولوں پر
کتابوں پر ہدایت کے لیے بھیجی ہیں جو تو نے
جزائے خیر و شر پر، حشر پر، جس دن میں اٹھوں گا
ردائے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے
حمد
(چوتھا مسودہ)
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر
تری اقلیم کے سارے اصولوں پر
ہوا میں گیت گاتے خوش نما رنگیں پرندوں پر
بھنور کی بات سن کر کھلکھلاتے ہنستے پھولوں پر
نگارِ صبح کی رعنائی، بادِ مشکبو کی انجمن سازی
زمیں کی وسعتوں میں رقص کرتے ان بگولوں کی
دلاتے یاد ویرانوں میں ان سرکش جوانوں کی
جو جہد للبقا کے ہر سمند باد پا کی باگ موڑیں گے
جزائے خیر و حشر پر، حشر پر، جس دن میں اٹھوں گا
ردائے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے
یہ زیرِ ناف گھونسہ مارنے کی کیا ضرورت تھی
کھڑا ہے راستہ روکے ہوئے شیطان کیوں تخلیق کے دن سے
30 مارچ 1994
نوٹ: اوقاف بعینہٖ وہی ہیں جو ’’کلیات‘‘ میں ہیں، اور اغلب ہے کہ وہ اختر الا یمان ہی کے اختیار کردہ ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ نظم ابھی مکمل نہیں ہے۔ اس کی آخری شکل کے بارے میں قیاس لگانا غیر ضروری ہے اور اسی وجہ سے اس نظم کا تجزیہ بھی غیر ضروری ہے۔ یہ بات، کہ اختر الایمان اپنی شاعری پر کس قدر محنت کرتے تھے، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔ اور یہ بات بھی میں نے پہلے ہی آپ کے گوش گذار کر دی ہے کہ اس نظم کو اختر الایمان کا آخری بیان کہا جا سکتا ہے، لیکن بیان بہر حال نامکمل ہے۔ میر سے لے کر اقبال اور اختر الایمان اور راشد تک سب کو خدا سے شکوہ رہا ہے لیکن ہر ایک کا شکوہ ا پنے طرز کا تھا، کسی کو کسی سے مطابقت نہیں۔ مجھے تو میر کا شکوہ سب سے بھر پور، سب سے زیادہ معنی خیز، اور شعری اعتبار سے سب سے زیادہ مکمل لگتا ہے، شاید اس وجہ سے دو مصرعوں میں بہت لمبی بات کہہ دینے کا ہنر میر سے بہتر ہم میں سے کسی کو نہ آیا۔ علامہ شبلی نے فارسی کے ہندوستانی تازہ گو شعرا کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی خصوصیت تھی کہ وہ بہت لمبی چوڑی بات کو لپیٹ کرد و مصرعوں میں بیان کر دیتے تھے۔ میر بھی سبک ہندی کے شاعر ہیں، لیکن ان کی صفت یہ بھی ہے کہ فارسی کے تازہ گو شعرا (اور اردو میں غالب) جب بات کہتے تھے تو ذہن فوراً متوجہ ہو جاتا تھا کہ بھلا کیا حیرت انگیز، یا خیال انگیز بات کہی! میر کا انداز بہت فریب کارانہ ہے۔ وہ بہ ظاہر سرسری کہہ کر نکل جاتے ہیں اور سننے والے یا پڑھنے کو خیال بھی نہیں آتا کہ کیسی گہری بات کہہ دی گئی ہے۔ میرؔ کا شعر ہے، دیوان اول :
کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزمِ عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
اختر الایمان شاید خدا کو نہیں، شیطان کو برہم کن محفلِ حیات بتانا چاہتے ہیں، لیکن شیطان بہر حال بندۂ خدا ہے، اور تمام بندہ ہائے خداساری برائی اور ساری خباثت کا منبع ہیں۔ اختر الایمان کے لہجے میں کوئی شکایت، کوئی برہمی نہیں، لیکن کوئی فلسفیانہ موشگافی بھی نہیں۔ حیات اور کائنات کا معما کسی کی عقل سے حل نہیں ہو سکا ع:
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
لیکن جو اقبال نے کہا تھا، وہ بھی اختر الایمان کو منظور نہ تھا :
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی
آخری زمانے کی ایک نظم میں اختر الایمان زندگی، اور نہ صرف زندگی بلکہ اس سارے ہنگامۂ ہائے و ہو سے بیزار، یا آزردہ نظر آتے ہیں۔ ملک قمی کا شعر ہے :
با کم از آشوب محشر نیست می ترسم کہ باز
ہم چو شمع کشتہ باید زندگی از سر گذشت
اس کو میر، اور شیخ مبارک آبرو نے بھی کہا ہے :
زندگانی تو ہر طرح کاٹی
مر کے پھر جیونا قیامت ہے
میر نے اس سے بڑھ کر کہا ہے (دیوان اول):
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
ان تینوں شعرا کے یہاں زندگی از سرِ نو کرنے سے انکار اس وجہ سے ہے کہ ایک زندگی ہی کون بڑی کامیاب اور پر تعیش تھی کہ دوسری کو قبول کیا جائے ؟ میر نے البتہ زندگی ہی کی حقیقت کو ناقابل قبول ٹھہرایا ہے۔ اب اختر الایمان کی نظم ملاحظہ ہو:
ماضی استمراری
ہم جہانگیر، جہاندار تھے کب
خسرو عصر، بڑے اہل سبب
آسماں اوڑھا، زمیں کا بستر
پھیلا رہنے دیا اوروں کے لیے
سانس تو لیتے رہے، یاد نہیں کیسے جیے
دیکھنا اب جو مری خاک پلٹ کر آئے
اور کسی طرح مرے جینے کا سامان بنے
جس طرح پہلے کیا، ویسے ہی کرنا لوگو
اپنے دروازے کبھی کھولنا مت میرے لیے
نظم کا ابہام ہمیں کچھ تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ متکلم شروع میں تو یہ کہتا ہے کہ میں نے زندگی میں کچھ حاصل نہ کیا۔ وہ خسرو عصر اور اہل سبب میں نہ تھا، لیکن وہ جی تو گیا۔ زمین کے ذخائر اور وسائل اس نے اوروں کے لیے چھوڑے، لیکن وہ آسمان تو اوڑھتا رہا (یعنی کسی عارفانہ نہج سے زندگی گذارتا رہا)۔ پانچویں مصرعے میں کوئی اور بات نظر آتی ہے۔ شاید یہاں سے دوسرا متکلم نظم میں داخل ہوتا ہے۔ اور یہ متکلم پہلے والے سے کچھ مختلف زندگی گذارتا رہا ہے۔ اسے یاد بھی نہیں کہ زندگی کیسے اور کیسی گذری۔ اور یہی متکلم وہ ہے جسے واپسی کا خدشہ بھی ہے۔ پہلی بار وہ کسی نہ کسی طرح جی گیا تھا، حالاں کہ دنیا کے دروازے اس پر کھولے نہیں گئے تھے (جیسے کہ فرانز فانن Franz Fanonکے وہ لوگ جنھیں وہ : The wretched of the earthکہتا ہے۔ ) مگر پھر بھی اسے واپسی کا خوف ہے اور اچانک ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ متکلم تو کسی اور ہی زبان میں بات کر رہا ہے : وہ تو اس حدیث کی بات کو دہرا رہا ہے جس کی رو سے اللہ دنیا والوں سے کہے گا کہ میں تمھارے دروازے پر گیا لیکن تم نے مجھے لوٹا دیا۔ (اور یہی ہر بار ہو گا۔ عنوان ’’ماضی استمراری‘‘ میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔ )نظم عجب پر اسرار اور پر ہیبت سا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ اختر الایمان کی ذاتی آواز کچھ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے اور دو کے علاوہ کوئی تیسرا متکلم بھی در آتا ہے اور وہ کچھ اور کہتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ انسانی زندگی کا المیہ شاید یہی ہے کہ آوازوں کے ہجوم میں آواز ٹھیک سے نہیں سنائی دیتی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر متکلم صرف ایک ہے، تو پھر یہ نظم شاعر کا المیہ، اور اس طرح تمام دنیا کے فنکاروں کا المیہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا انھیں کبھی قبول نہیں کر سکتی۔ قبول کرنا تو در کنار، وہ انھیں جاننا بھی پسند نہیں کرتی۔ صائب کا کیا عمدہ شعر ہے :
ز تیرہ روزی اہلِ سخن بود روشن
کہ نیست آبِ حیاتے بغیر آب سخن
آبِ حیات کچھ نہیں ہے، صرف آب سخن ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ سخن کا زمانہ ہمیشہ تاریک رہتا ہے۔ آب حیات کے چشمے کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ جہاں ہے وہاں انتہائی تاریکی ہے۔ اختر الایمان کی نظم کو بھی ایک طرح شکوے کی نظم کہہ سکتے ہیں، لیکن اس شکوے میں برہمی کا تموج اور طنز کی تلخی بھی ہے، کہ اصولِ زیست یہی ہے کہ جو شخص بھی مادی افادہ پرستی کی بات نہ کرے وہ دنیا کے لیے بے مصرف ٹھہرایا جائے گا۔ میر صاحب اپنے پیچ دار شعر پر فخر کرتے ہوں گے لیکن جس شعر سے پیچ یا پیچ کش کا کام نہ لیا جا سکے وہ فضول محض ہے۔
اختر الایمان کا ایک شعر مجھے لڑکپن کے زمانے سے یاد ہے :
اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
یہ شعر اختر الایمان کے کسی مجموعے میں نہیں ہے۔ میں نے کسی رسالے میں پڑھا ہو گا یا کسی نے مجھے سنایا ہو گا(یہ امکان زیادہ قوی ہے )۔ اب ’باقیاتِ اختر الایمان‘ سے معلوم ہوا کہ جس نظم میں یہ شعر ہے اس کا نام ’تنہائی‘ ہے۔ یہاں فیض کی نظم ’تنہائی‘ کا خیال آنا فطری ہے، کچھ اس وجہ سے بھی کہ اختر الایمان کے شعر میں بھی ایک محزونی ہے، ایک طرح کی خاموشی ہے لیکن فیض کی نظم بہت مختصر اور استعاروں سے بھری ہوئی اور مبہم ہے۔ فیض کی کمزوریاں اس میں بھی نمایاں ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے نظم انتہائی خوبصورت ہے اور حافظے میں پیوند ہو جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اختر الایمان کی نظم خود بہت اچھی نہیں ہے اور ذہنی اور جذباتی اعتبار سے کچھ خام لگتی ہے۔ لیکن جگہ جگہ ایسے زبردست پیکر چمک اٹھتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے :
دن کے بستر پہ ہیں دھبے سے ریا کاری کے
اور مغرب کی فنا گاہ میں پھیلا ہوا خون
دبتا جاتا ہے سیاہی کی تہوں کے نیچے
اختر الایمان کا یہ سنگ دل، کھردرا لہجہ زندگی بھر ان کی شاعری کو توانائی پہنچاتا رہا۔ عمر کے ساتھ رومانی حزن گھٹتا رہا اور صلابت و قوت بڑھتی گئی۔ اختر الایمان نے اس نظم کو غالباً اسی لیے کسی مجموعے میں نہ رکھا کہ ایک تقریباً ضرب المثل شعر کے باوجود نظم میں وہ قوت نہ تھی جو اوپر نقل کردہ مصرعوں کو سہار سکے۔ میر کی طرح ’ناسازی‘ اور ’خشونت‘ رومانی پلپلے پن سے دور بھاگتی ہے۔ ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ صرف ایک سطح پر رومانی نظم ہے، ورنہ در حقیقت یہ انسانی تنہائی کے کائناتی المیے کی تصویر ہے۔ ایسی تصویر بنانے کے لیے فیض نہیں، راشد بھی نہیں، اختر الایمان جیسا بے باک اور کھری بات کہنے والا شاعر درکار تھا۔
نوٹ: اس مضمون کے کچھ حصے 1994 میں، کچھ 2012 میں، کچھ 2015 میں اور کچھ 2016 میں لکھے گئے تھے۔ اب اسے یہاں نظرِ ثانی کے بعد پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ صورت میں یہ مضمون غیر مطبوعہ ہے ۔
شمس الرحمن فاروقی
٭٭٭
اختر الایمان کی متروکہ نظمیں ۔۔۔ محمد فیروز دہلوی
مولانا محمد حسین آزادؔ نے غالبؔ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’سن رسیدہ اور معتبر لوگوں سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں اُن کا دیوان بہت بڑا تھا۔ یہ منتخب ہے مولوی فضلِ حق صاحب کا کہ فاضل بے عدیل تھے، ایک زمانہ میں دہلی کی عدالت ضلع میں سررشتہ دار تھے۔ اُسی عہد میں مرزا خاں عرف مرزا خانی صاحب کوتوال شہر تھے۔ وہ مرزا قتیل صاحب کے شاگرد تھے۔ نظم نثر فارسی اچھی لکھتے تھے۔ غرض کہ یہ دونوں باکمال مرزا صاحب کے دلی دوست تھے۔ ہمیشہ باہم دوستانہ جلسے اور شعر و سخن کے چرچے رہتے تھے۔ اُنھوں نے اکثر غزلوں کو سنا اور دیوان کو دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ اشعار عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے۔ مرزا نے کہا اتنا کچھ کہہ چکا، اب تدارک کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خیر ہوا سو ہوا۔ انتخاب کرو اور مشکل شعر نکال ڈالو۔ مرزا صاحب نے دیوان حوالے کر دیا۔ دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا۔ وہ یہی دیوان ہے جو کہ آج ہم عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں۔ ..‘‘
کچھ ایسا ہی ’انتخابی عمل‘ اختر الایمان کی نظموں کے ساتھ ہوا۔ نظموں کے پہلے مجموعے ’گرداب‘ (1943) کی اشاعت سے پہلے تقریباً 150 نظمیں ن۔ م. راشد کو دیں کہ وہ انتخاب کریں کہ کون کون سی نظمیں شائع ہونی چاہئیں۔ انھوں نے کچھ نظمیں نکال دیں، اس کے بعد راشدؔ کی منتخب کی ہوئی نظموں میں سے میراجیؔ نے بھی چند نظمیں علاحدہ کر دیں۔ کتاب ’گرداب‘ جب شائع ہوئی تو اس میں صرف 24 نظمیں تھیں یعنی تقریباً سوا سو نظمیں انتخاب سے خارج۔ ان متروکہ نظموں کے تعلق سے اختر الایمان کا بیان ہے کہ وہ ایک دوست نے اُن سے لیں اور پھر وہی نظمیں کوئی صاحب زادی ان صاحب سے لے گئیں جن کے بارے میں سنا کہ تقسیمِ ملک کے بعد گھر پر حملہ کرنے والے فسادیوں سے لڑتی ہوئی ماری گئیں۔ .. اور اس طرح اختر الایمان کے ابتدائی دور کی نظمیں (متروکہ) ضائع ہو گئیں۔
اختر الایمان کی یہ سبھی نظمیں دورانِ طالبِ علمی کی یادگار تھیں بالخصوص جب وہ اینگلو عربک کالج (موجودہ ذاکر حسین دہلی کالج، نئی دہلی) میں بی۔ اے کے طالبِ علم تھے۔ اختر الایمان کی خود نوشت ’اس آباد خرابے میں ‘ کے مطابق انھوں نے شاعری اُس وقت شروع کی جب وہ 1930 سے 1934 تک دلّی کے یتیم خانے مویّدالاسلام (بچّوں کا گھر، دریا گنج، نئی دہلی) میں رہتے اور پڑھتے تھے۔ ابتدا میں چند غزلیں کہیں، طبیعت اس طرف مائل نہیں ہوئی، غزل گوئی ترک کر کے نظمیں کہنے لگے۔ 1935 میں مڈل کا امتحان پاس کر کے فتح پوری مسلم ہائی اسکول دہلی میں نویں جماعت میں داخلہ لیا۔ 1937 میں میٹرک کیا اور پھر ایف۔ اے کے لیے اینگلو عربک کالج پہنچے، اسی کالج سے 1943 میں بی۔ اے کیا۔ فتح پوری اسکول کے ایک استاد نے اسکول میگزین جاری کیا تو اختر الایمان کا شعری ذوق دیکھ کر انھیں اس کا مدیر مقرر کر دیا حالاں کہ اختر الایمان نے 1933-34 کے آس پاس شاعری شروع کر دی تھی لیکن ان کی شاعری کالج کے زمانے میں پروان چڑھی، خود اختر الایمان کا کہنا ہے کہ ’’کالج کے اس دور میں میری تخلیقی صلاحیتوں کو بھی مہمیز ملی۔ ..‘‘ اور یہاں رہ کر انھوں نے نظموں کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھے جو اُس وقت کے موقر جرائد میں شائع ہوئے۔
اختر الایمان نے دورانِ طالبِ علمی جو نظمیں کہی تھیں اور جو ان کے مجموعے ’گرداب‘ میں شامل نہ ہو سکیں وہ سبھی ضائع نہیں ہوئیں بلکہ ان میں سے چند نظمیں اینگلو عربک کالج میگزین (اردو) کی فائلوں میں موجود ہیں۔ راقم الحروف نے 2000 اور 2001 میں ذاکر حسین کالج کے اردو میگزین ’فکرِ نو‘ کے دو شماروں میں کالج کے نامور فرزندان کی ایسی تخلیقات شائع کی تھیں جو انھوں نے دورانِ تعلیم تحریر کیں اور اُس وقت کے کالج میگزین میں شائع ہوئیں۔ مذکورہ دو شماروں میں اختر الایمان کی نظمیں، افسانے اور نثری مضامین بھی یکجا شائع ہوئے۔
اختر الایمان کے پہلے مجموعے ’گرداب‘ میں جو نظمیں شامل ہیں ان میں سے نظم ’موت‘ اور ’فیصلہ‘ پہلے کالج میگزین ہی میں شائع ہوئی تھیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ متذکرہ میگزین کی مطبوعہ نظمیں ان متروکہ نظموں میں سے ہیں جنھیں میراجیؔ اور ن۔ م. راشدؔ نے منتخب نہیں کیا تھا۔ ان متروکہ نظموں کے مطالعے سے پہلے ’گرداب‘ کی نظموں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں، ان کے بالترتیب عنوانات ہیں : (1) نیند سے پہلے (2) نقشِ پا (3) سوگ (4) محلکے (5) اظہار (6) مآل (7) لغزش (8) موت (9) محرومی (10) مسجد (11) نئی صبح (12) وداع (13) فیصلہ (14) پرانی فصیل (15) قلو بطرہ (16) ادھوری بات (17) زندگی کے دروازے پر (18) واپسی (19) آمادگی (20) تنہائی میں (21) جواری (22) تارِ عنکبوت (23) تصور (24) پگڈنڈی ۔ اختر الایمان نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’سروساماں ‘ شائع کیا تو نظم نمبر 16 ’ادھوری بات‘ کا عنوان بدل کر ’جمود‘ رکھ دیا۔ نظم نمبر 18 ’واپسی‘ اور نظم نمبر 22 ’تارِ عنکبوت‘ اب کسی مجموعے میں نظر نہیں آتیں گویا یہ نظمیں بھی اب متروکہ نظموں کی صف میں شامل ہو گئیں۔ ’تاریک سیّارہ‘ میں جو نظم ’واپسی‘ کے عنوان سے شامل ہے وہ ’گرداب‘ کی نظم سے مختلف ہے۔ وہ متروکہ نظمیں جو کالج میگزین میں شائع ہوئیں ان کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں : (1) چند آنسو (2) سرمایہ دار اور مزدور (3) بغاوت (4) بھکارن (5) میکالے کی تقریر فرنگی افسران کے روبرو (6) پہلی کرن (7) باغی روحوں کے نام (8) ترے بغیر ہم نشیں (9) گزری ہوئی شام (10) انتظار (11) حمیدہ کے نام (12) کالج کے راستے میں (13) آس (14) دام اور متفرق اشعار ۔ ان نظموں میں چند مختصر ہیں اور کچھ طویل، راقم الحروف نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ رسالۂ ’آجکل‘ نئی دہلی، شمارہ نومبر 2015 میں ’اختر الایمان کی ابتدائی نظمیں ‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا اس میں ’سرمایہ دار اور مزدور‘، ’بغاوت، ’دام‘ اور ’آس‘ کو شامل کر دیا، اس لیے، اس مضمون میں ان نظموں کو شامل کرنے سے گریز کیا ہے۔ خیال رہے کہ اُس وقت اختر الایمان اپنا پورا نام محمد اختر الایمان انجم لکھتے تھے چناں چہ یہی نام ان کی نظموں پر نظر آتا ہے۔ شاید انجم ان کا تخلص تھا جو بعد ازاں ترک کر دیا۔
نظم ’چند آنسو‘ کمال اتاترک کی وفات پر:
کچھ درد سوا آج ہے اے دیدۂ خونبار
میں دیکھ جلا جاتا ہوں اے آہِ شرر بار
مائل بہ خرابی مری تعمیرِ سکوں ہے
لے تھام مجھے آج کہ پھر حال زبوں ہے
کیا دیکھ رہی ہے مجھے اے شامِ جوانی؟
لے ختم ہوئی جاتی ہے اب میری کہانی
جب نقشِ وفا مٹ ہی گیا روے زمیں سے
بے سود درِ کعبہ کو ٹکرائیں جبیں سے
اب طاقتِ پرواز نہیں میرے بدن میں
کچھ لطف نہیں جینے کا بے لطف چمن میں
کچھ کام نہیں دیتی مری قوتِ ادراک
رہ رہ کے میں کیا دیکھتا ہوں جانبِ افلاک
ملاح نے دم توڑ دیا چھوڑ کے بیڑے
بے چین کیے دیتے ہیں موجوں کے تھپیڑے
اب اپنے کمالوں کو زوال آ گیا توبہ!
کافر کو مسلماں کا خیال آ گیا توبہ!
ہر چیز نگاہوں کو چراتی ہوئی دیکھی
تیزی سے تباہی ادھر آتے ہوئے دیکھی
دن ڈھلنے لگا اپنی حیاتِ ابدی کا
وہ دَورِ جہانگیر گیا دور کہیں کا
سب جام و سبو چور ہیں میخانہ ہے خالی
ساقی کی نظر پھر گئی پیمانہ ہے خالی
وہ قصۂ رنگیں کی بنا ڈالنے والا
اغیار کی دنیا کو ہلا ڈالنے والا
وہ خارِ وطن، باغِ جناں جاننے والا
وہ خاکِ وطن، شام و سحر جاننے والا
وہ عہدِ براہیم کی نایاب نشانی
وہ دورِ فرو رفتہ کی انمول کہانی
وہ مرد مسلماں، وہ مجاہد وہ سپاہی
میں کیسے کہوں وائے مری تنگ نگاہی
ہر دیدۂ خونبار کا دل توڑ گیا ہے
دنیا کے لیے درسِ عمل چھوڑ گیا ہے
(اینگلو عربک کالج دہلی، میگزین، دسمبر 1938)
یہ نظم کمال اتاترک کا مرثیہ بھی ہے اور ان سے عقیدت کا اظہار بھی:
(2) بھکارن
مری ہستی سکوں ناآشنا ہے
مگر دل فکر میں ڈوبا ہوا ہے
نہ میں قانونِ انسانی کا قائل
نہ میں جذباتِ نفسانی کا قائل
جہانِ رنگ و بو کو دیکھتا ہوں
فضائے نیلگوں کو دیکھتا ہوں
سکونِ زندگی تک کھو گیا ہے
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے
مجھے وہ رات یاد آتی ہے اکثر
جو پہروں ہائے تڑپاتی ہے اکثر
سڑک سنسان، دنیا سو رہی تھی
فضا خاموش، شبنم رو رہی تھی
مری نظریں تھیں گھبرائی ہوئی سی
یوں ہی کچھ روح تھرائی ہوئی سی
زمیں پر ایک میں نے چاند دیکھا
فلک کا چاند جس سے ماند دیکھا
ستارے کہہ رہے تھے آسماں سے
زمیں پر حسن یہ آیا کہاں سے
جہانِ حسن شرمایا ہوا تھا
تصور خود ہی گھبرایا ہوا تھا
تھی اک تصویرِ رعنائی سراسر
ذرا بچ کر کنارے سے سڑک پر
خیالاتِ من و تو سے بہت دور
وہ بیٹھی تھی مگر لاچار و مجبور
نہ توشک تھی، نہ تکیہ تھا، نہ بستر
مگر میلی سی اک چادر تھی سر پر
نہ جسم ناز زیور آشنا تھا
نہ رخساروں پہ غازہ ہی ملا تھا
نہ سرمہ تھا، نہ مسی تھی، نہ لالی
کسی کے حسن کی اف پائمالی
مجسم حسن تھا اس پیرہن میں
فقط میلا سا کرتا تھا بدن میں
شرافت دامنِ عفت کو تھامے
گزرتی جا رہی تھی منزلوں سے
اگر دنیا میں کم بینی نہ ہوتی
نگاہِ عشق اس منظر پہ روتی
مرے جذبات میں اک جوش آیا
کسی گم کردہ رہ کو ہوش آیا
مرے دل نے خدا سے التجا کی
کسی کی شوخیوں نے انتہا کی
یہ کیا تنظیم ہے تیرے جہاں کی
یہ رسمِ چیرہ دستی ہے کہاں کی
مجھے یہ رسمِ چنگیزی نہ بھائی
تو خود شاہد ہے خونریزی نہ بھائی
کوئی عیش و طرب میں دن گزارے
کوئی مجبور سڑکوں کے کنارے
کوئی دولت سے کھیلے شاد ہو کر
کوئی تڑپا کرے ناشاد ہو کر
کوئی سمجھے محض جنت ہے دنیا
کوئی سمجھے کہ اک دوزخ ہے دنیا
کوئی ناچے کوئی گائے خوشی سے
کوئی دیکھا کرے منہ بے کسی سے
کوئی دنیا کی کل دولت سمیٹے
پھٹے کمبل میں کوئی منہ لپیٹے
ادھر اک موتیوں سے کھیلتا ہے
ادھر مزدور پاپڑ بیلتا ہے
ادھر اک زینتِ آغوش ناگن
ادھر مجبور بیٹھی ہے بھکارن
سنبھال اس اپنی دنیا کو خدا را
مجھے یہ بدعتیں کب ہیں گوارا
(کالج میگزین، مارچ 1939)
یہ نظم اختر الایمان نے 1939 میں کہی تھی۔ 76 سال ہو چکے پھر بھی چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے مناظر عام طور پر نظر آتے ہیں۔ ہندستان آزاد ہوا، اپنوں کی حکومت ہوئی، ملک و قوم نے ترقی کے مدارج طے کیے لیکن امیروں اور غریبوں کے درمیان جو فاصلہ تھا اس میں کمی نہیں آئی، یہ فاصلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اختر الایمان کی یہ نظم اس فاصلے کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔
میکالے کی تقریر فرنگی افسران کے روبرو
اے اہلِ ہنر، اہلِ بصر، اہلِ سیاست
اے اہلِ جگر، اہلِ سپر، اہلِ ارادت
اے خیمۂ افرنگ کی مضبوط طنابو
اے زود فہم، شعلہ نظر، تیز عقابو
تم مایۂ افرنگ ہو، دمساز ہو میرے
ہم کیش ہو، ہم قوم ہو، ہم راز ہو میرے
تم ہمدم جانباز ہو ہر کام میں میرے
رکھتے ہو نظر گھات پہ، ہر کام پہ میرے
اک بات کہوں اس پہ ذرا سوچ بچارو
چلاؤ نہ بے وجہ نہ اس طرح پکارو
یہ ہند کے باسی ہیں انھیں یوں نہ دباؤ
تلوار سے، بندوق سے ہرگز نہ ڈراؤ
یہ حبِ وطن مر کے جنم لیتے ہیں اکثر
یہ موت کی آغوش میں دم لیتے ہیں اکثر
تم ان کا بھرم یوں نہ کبھی توڑ سکو گے
طوفان کا رخ یوں نہ کبھی موڑ سکو گے
تدبیر سے لو کام انھیں خوب لبھاؤ
رنگین چمکتی ہوئی تصویر دکھاؤ
جو حبِّ وطن ان کے دلوں سے ہی اڑا دے
تعلیم وہ دو ان کے جوانوں کو مٹا دے
کچھ پھانس لے اس طرح انھیں جا نہ سکیں وہ
پھر بھول کے منزل کی طرف آ نہ سکیں وہ
احساس کو، جذبات کو، اجسام کو ان کے
رفتار کو، گفتار کو، ہر کام کو ان کے
کچھ گھیرے اس طرح نکل ہی نہ سکیں پھر
وہ ضرب لگاؤ کہ سنبھل ہی نہ سکیں پھر
جس طرح بنے ان کے تمدن کو مٹا دو
جس طرح بنے ان کی روایات بھلا دو
اس ہند کی تہذیب کا معیار بدل دو
ایسا نہ کبھی ہو کہ انھیں درسِ عمل دو
اس طرح انھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دو
تخریب کو تعلیم کے پردوں میں چھپا دو
(کالج میگزین، مارچ 1940)
تھامس بینگٹن میکالے (1800-1859) معروف مورخ اور انگریزی ادیب و شاعر 1834 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سپریم کونسل کے ممبر کی حیثیت سے ہندستان آیا، یہاں 1838 تک اس کا قیام رہا اس دوران اُس نے ہندستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں اور انگریزی کو بطورِ ذریعۂ تعلیم رواج دیا۔ ہندستان کے بیشتر اہلِ نظر کا خیال ہے کہ اس نے جو تعلیمی نظام مرتّب کیا تھا اس کا پہلا مقصد سامراجی حکومت کے لیے کلرک تیار کرنا تھا، اختر الایمان کی اس نظم میں اسی جانب اشارہ ہے۔
پہلی کرن
ابھی تک مہر عالم تاب اک شعلہ فروزاں تھا
مجسم آگے تھا، طوفان تھا، دوزخ بداماں تھا
رہینِ منتِ فطرت ابھی تک بزمِ امکاں تھی
نوائے زندگی مفقود تھی، بے ساز و ساماں تھی
نہ بزم آب و گل تھی، برق و باراں کا تسلسل تھا
فضا میں گڑ گڑاہٹ، سنسناہٹ، شور تھا غل تھا
شعاع مہر کیا، کم مائے گی تھی اور لاچاری
مصیبت، آفتیں، درماندگی تھی اور زبوں کاری
گھٹائیں چھا گئی تھیں بادلوں کی فوج کو لے کر
یوں ہی پہلو بہ پہلو تیرگی کی موج کو لے کر
ہزاروں سال تک یوں ہی دگرگوں بزمِ عالم تھی
تغیر پر تغیر تھا، مصیبت دن بدن کم تھی
بالآخر کاوشوں نے یہ بھی قصہ پاک کر ڈالا
حجابِ غم الٹ کر ظلمتوں کو چاک کر ڈالا
ہوئی درماندگی کافور ظلمت کی کمر ٹوٹی
ارادے باندھ کر سورج اٹھا پہلی کرن پھوٹی
(کالج میگزین، مارچ 1940)
اختر الایمان کی اس علامتی نظم میں پیہم عمل اور جستجو کا اشارہ ہے جسے تشبیہات اور استعارات کے وسیلے سے بیان کیا گیا ہے۔ پہلی کرن کا پھوٹنا حرکت و عمل کا استعارہ ہے۔ نظم پڑھتے ہوئے اقبالؔ اور جوشؔ یاد آتے ہیں شاید اسی تاثر کی بنا پر یہ نظم شامل نہیں کی گئی۔
انتظار
بھورے بادل، سطحِ دریا، چاند کا وقتِ غروب
راحتِ امشب کا ہے مٹتا ہوا جھوٹا گماں
رات کے پچھلے پہر ہے مرکزِ امید ابھی
دور ساحل کے کنارے ایک اونچا سا مکاں
گنگناتا ہے کوئی بیٹھا ہوا الفت کا گیت
اس کے پہلو میں سمٹ کر آ گیا ہے اک جہاں
کس کے وعدے پر فریبِ آرزو کھاتا ہے یہ
کس کے اندازِ تبسم کا ہے یہ افسانہ خواں
کون سمجھائے اسے یہ انتظار اچھا نہیں
رات کی خاموشیوں میں کون آئے گا یہاں ؟
کتنے دل ٹوٹے پڑے ہیں اس زمیں پر کیا خبر
کتنی امیدیں کچل کر ہو گئی ہیں بے نشاں
کون دیکھے گا بھلا آ کر تِرا انجامِ اشک
ڈوب جائیں گی فضا کی خامشی میں سسکیاں
ماند پڑ جاتی ہے آخر انجمِ شب کی چمک
ڈوب جاتی ہے سحر کے بانکپن میں کہکشاں
ہو سکے تو عالمِ وہم و گماں کو چھوڑ دے
دیدۂ غم کی قسم دونوں جہاں کو چھوڑ دے
(کالج میگزین، جون 1940)
مندرجہ نظموں کے علاوہ چند طویل نظمیں ہیں جنھیں مضمون کی طوالت کے خوف سے یہاں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ان نظموں کے عنوانات سے ان کے موضوع کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نظم ’باغی روحوں کے نام‘ (کالج میگزین، جون 1940)، نظم ’ترے بغیر ہم نشیں ‘ (کالج میگزین، دسمبر 1940)، ’گزری ہوئی شام‘ (دسمبر 1940)، ’حمیدہ کے نام‘ (کالج میگزین، مارچ 1941)، ’کالج کے راستے میں ‘ (مارچ 1941)۔ پہلے اس نظم کا عنوان ’کالج کی لاری‘ تھا بعد میں اس کا عنوان بدل دیا گیا۔ ’اس آباد خرابے میں ‘۔ اختر الایمان لکھتے ہیں : ’’یہ نظم سن کر لڑکے لڑکیاں بڑا مزہ لیتے تھے۔ ..‘‘۔
اختر الایمان کی اس نظم سے پیش تر رسالہ ’ساقی‘ دہلی (خاص نمبر جولائی 1938) میں جاں نثار اختر کی ایک طویل نظم ’گرلز کالج کی لاری‘ شائع ہو چکی تھی، اس لیے موضوع اور عنوان کی مطابقت کے باعث اختر الایمان نے اس نظم کا عنوان تبدیل کر دیا۔ ان نظموں کے علاوہ کالج میگزین کے مختلف شماروں میں اختر الایمان کے متفرق اشعار بھی شائع ہوئے ہیں جو نذرِ قارئین ہیں :
متفرق اشعار
تھک گیا کاوش و سعی مسلسل سے دماغ
زندگی کا آج تک بھی ہاتھ نہ آیا سراغ
اپنی ناکامی پہ یوں پلکوں پہ لرزاں ہیں سرشک
ساحلِ دریا پہ جیسے ٹمٹماتے ہوں چراغ
٭٭٭
اے کاش نہ آغازِ جوانی ہوتا
کاش میرا خون ہی پانی ہوتا
کیا کہیے کہ انجامِ محبت غم ہے
اے کاش یہ انجام کہانی ہوتا
٭٭٭
مجھے یہ نظم گل و لالہ ہی نہ راس آیا
تِرے چمن میں گیا لوٹ کر اداس آیا
اس انجمن سے مجھے کیا ملا یہ بات نہ پوچھ
مثال درد اٹھا تھا مثال یاس آیا
٭٭٭
میری جانب بڑھ رہی ہے کھول کر باہوں کو یاس
ہر حسیں منظر نظر آتا ہے کیوں جانے اُداس
دیکھتا ہوں اس طرح تیری نگاہوں کی طرف
جس طرح پیاسا پرندہ آگرے پانی کے پاس
(کالج میگزین، دسمبر 1941)
دورانِ طالبِ علمی ہی اختر الایمان کی نظمیں رسالہ ’ساقی‘ (دہلی) اور دیگر جرائد میں بھی شائع ہو رہی تھیں، ان میں کچھ نظمیں ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں۔ یہ نظمیں ’گرداب‘ کی اشاعت سے پہلے شائع ہوئی تھیں، جنھیں اپنے پہلے مجموعے میں شامل نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں بھی متروکہ کلام قرار دیا گیا۔ ’ساقی‘ میں شائع ہونے والے یہ متروکہ نظمیں ہیں : ’رقاصہ‘ (مارچ 1941)، ’مجرم‘ (فروری 1942)، نظم ’ارادہ‘ (اگست 1942)، ’واپسی‘ (اپریل 1942)۔
اختر الایمان کے مجموعۂ کلام ’تاریک سیّارہ‘ اور ’کلیاتِ اختر الایمان‘ میں ’واپسی‘ کے عنوان سے جو نظم شائع ہوئی ہے وہ ’ساقی‘ والی نظم سے مختلف ہے۔
نظم ’مجرم‘ کے تعلق سے اپنی خود نوشت ’اس آباد خرابے میں ‘ میں اختر الایمان نے لکھا ہے کہ:
’’دلی سے ’ساقی‘ میں تو میری نظمیں چھپتی رہتی تھیں، لاہور سے ’ادبی دنیا‘ نکلتا تھا۔ مولانا صلاح الدین نثر کا حصہ ترتیب دیتے تھے اور میراجی نظم کا حصہ۔ میں نظم ’ادبی دنیا‘ کو بھیج چکا تھا جو انھوں نے یہ لکھ کر واپس کر دی تھی: ’اس نظم پر نظرِ ثانی کیجیے ‘۔ بلند بانگ سی نظم تھی ’فرار‘ عنوان تھا۔ نظم میں ایک مصرعہ بارزبار دُہرایا جاتا تھا جو یوں تھا:
سچ بتا کیا زندگی سے بھاگ کر آیا ہے تو
اس نظم نے میری کالج کی زندگی میں بہت ہنگامہ کیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے : یونین کے سالانہ جلسے میں تقریری مقابلے ہوتے تھے۔ ہندستان کے ہر کالج سے لڑکے آتے تھے۔ انہی دنوں یونین کا سالانہ جلسہ ہوا۔ پروفیسر قریشی (کیمسٹری کے استاد اشتیاق قریشی) جلسے کے صدر تھے۔ حسبِ دستور تقسیمِ انعامات کے بعد مجھ سے نظم کی فرمائش کی گئی اور میں نے ’فرار‘ پڑھی جس کا ایک مصرعہ ٹیپ کے طور پر دُہرایا جاتا ہے :
’سچ بتا کیا زندگی سے بھاگ کر آیا ہے تو‘
اس نظم کا ایک مصرع یہ تھا:
’جس طرح اک فاحشہ عورت کو شوہر کا خیال‘
قریشی صاحب نے مجھے روک دیا: ’یہ نظم فحش ہے، بند کرو‘۔
میں نے وضاحت کرنا چاہی مگر وہ نہ مانے، میں ہال سے باہر چلا گیا۔ ہال میں بہت کالج کے لڑکے لڑکیاں تھیں سب نے کہا نظم فحش نہیں وہ سننا چاہتے ہیں، مگر قریشی صاحب اڑ گئے اور جلسہ میں بہت بدمزگی ہوئی۔ ..‘‘ (صفحہ 86)۔
اس بیان سے معلوم ہوا کہ جو نظم کالج میں ’فرار‘ کے عنوان سے پڑھی گئی تھی وہی نظم بعد میں ’مجرم‘ کے عنوان سے رسالہ ’ساقی‘ میں شائع ہوئی۔
’گرداب‘ کی اشاعت سے پہلے اختر الایمان کی تخلیقات (نظم و نثر) اینگلو عربک کالج اردو میگزین کے علاوہ رسالہ ’ساقی‘ (دہلی)، ’ادبی دنیا‘ (لاہور)، ’وطن اخبار‘ (دہلی)، رسالہ ’ایشیا‘ اور دیگر جرائد میں 1938 تا 1943 شائع ہوتی رہیں اور ان میں سے بیش تر تخلیقات کی نقل یا مطبوعہ کاپی اختر الایمان کے پاس موجود نہیں تھی۔ اپنی خود نوشت سوانح میں اختر الایمان نے اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔
غالبؔ کا دیوان غیر متداول (نسخۂ حمیدیہ) پڑھتے ہوئے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ اس میں اَن گنت ایسے اشعار ہیں جنھیں دیوان متداول میں ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح اختر الایمان کا متروکہ کلام پڑھتے ہوئے بھی خیال آتا ہے کہ ان میں سے بیش تر نظموں کو پہلے مجموعے ’گرداب‘ میں شامل کیا جا سکتا تھا لیکن بات انتخاب کرنے والوں کی ہے۔ نظر اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا۔
اختر الایمان نے اپنے ابتدائی دور کی شاعری کے تعلق سے کہا تھا کہ: ’’وہ شاعری سطحی، جذباتی اور رومانی سی تھی۔ ..‘‘ لیکن متروکہ نظمیں بہ غور پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ساری شاعری سطحی یا جذباتی نہیں، اس میں سیاسی، سماجی شعور بھی کارفرما ہے۔ ان نظموں کا خالق ایسا با شعور شخص ہے جس نے زندگی کے کسی تجربے یا تجزیے کو نظم کا جامہ پہنایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیش تر نظموں میں اختر الایمان کی ابتدائی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور ناکامیاں بھی صاف نظر آتی ہیں اور انھیں بیان کرنے میں اختر الایمان ہچکچائے نہیں۔ ایسی نظمیں پڑھ کر ہی فراقؔ گورکھپوری نے کہا تھا کہ ’’شاعر ناگ پھنی نگل گیا ہے ‘‘۔
راقم الحروف نے اختر الایمان کے انتقال (1996) کے بعد 1997 میں ایک کتاب ’اختر الایمان مقام اور کلام‘‘ مرتّب کی تھی، اس کتاب میں 12 تنقیدی مضامین اور اختر الایمان سے لیے گئے چار انٹرویوز کے علاوہ 106 نظموں کا انتخاب بھی شامل تھا، یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کی تھی۔ کتاب کی مقبولیت کے باعث یہ منصوبہ بنایا کہ اختر الایمان کا تمام متروکہ کلام اور ان کی نثری تخلیقات بھی مرتّب کروں، اس کی اشاعت کی اجازت بھی سلطانہ ایمان صاحبہ سے لے لی اور انھوں نے کلیات کے پیش لفظ میں اس کا اعلان بھی کیا کہ ’’ان کا (اختر الایمان کا) وہ کلام اور افسانے جو رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں مگر ان کی کتابوں میں نہیں ہیں ’باقیاتِ اختر الایمان‘ کے عنوان سے ایک کتاب میں شامل کیے جا رہے ہیں جو محمد فیروز دہلوی مرتّب کر رہے ہیں۔ اس کتاب کو بھی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس چھاپے گا‘‘۔ (کلیات اختر الایمان، 2000، صفحہ 17)
احقر نے کالج میگزین میں شائع ہوئی تمام مطبوعہ تخلیقاتِ نظم و نثر یکجا کیں اور رسالہ ’ساقی‘ میں شائع ہونے والی تخلیقات کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بھی حاصل کیں۔ اس سلسلے میں اختر الایمان کے دوست اور میرے کرم فرما بیدار بخت صاحب نے بھی تعاون کیا اور میں نے انھیں کالج میگزین کی کاپیاں فراہم کیں۔ اس دوران مسلسل علالت اور بعض ناگزیر وجوہ کے باعث یہ کتاب مرتّب نہ کر سکا اور بیدار بخت صاحب نے ’باقیاتِ اختر الایمان‘ کے عنوان سے کتاب مرتّب کی اور 2014 میں یہ کتاب شائع ہو گئی۔
اختر الایمان کی چند تخلیقاتِ نظم و نثر ایسی بھی ہیں جو متذکرہ کتاب میں شامل نہیں اور راقم کے پاس محفوظ ہیں۔ اب میں 1938 سے 1943 تک دستیاب اردو جرائد دیکھ رہا ہوں۔ رسالہ ’ساقی‘ (دہلی)، ’ادبی دنیا‘، ’ہمایوں ‘، ’نیرنگِ خیال‘ (لاہور)، رسالہ ’ایشیا‘، ’اخبار وطن‘ (دہلی) اور رسالہ ’خیال‘ (ممبئی) کے مکمل فائل کہیں نہیں ہیں۔ قارئینِ رسالۂ ’اردو ادب‘ سے التماس ہے کہ اگر ان کے پاس مذکورہ جرائد ہوں اور ان میں اختر الایمان کی تخلیقات موجود ہوں تو مطلع فرمائیں۔ خیال رہے اختر الایمان کی ایسی منظوم تخلیقات درکار ہیں جو کلیات اور ’باقیاتِ اختر الایمان‘ مرتّبہ بیدار بخت میں موجود نہیں ایسی تخلیقات کی نشان دہی اور فراہمی کے لیے شکر گزار ہوں گا۔ امید کی جاتی ہے کہ سہ ماہی رسالہ ’اردو ادب‘ کے با ذوق قارئین خصوصی توجہ فرمائیں گے۔
٭٭٭
اختر الایمان کی نظم میں جلاوطنی کا اظہار۔۔۔ ناصر عباس نیّر
اردو میں جدید نظم کے متعلق مقبول ہونے والے کچھ مفروضوں کو ساقط کیے بغیر ہم اختر الایمان (1915-1996)کی نظم سے نہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، نہ اس کے معانی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں !یاد رہے شاعری سے حاصل ہونے مسرت، اس کے معانی کی دنیا میں اترنے کا زینہ بن جایا کرتی ہے۔
یہیں بعض بنیادی مسائل کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔ اوّل یہ کہ ہم ادب کو نہ صرف بعض توقعات(جنھیں اصطلاحاً مفروضے کہا جا سکتا ہے ) کی روشنی میں پڑھتے ہیں، بلکہ یہ توقعات ادب سے اخذمسرت و معنی کے عمل پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ دوم یہ کہ اردو کی جدید نظم تقاضا کرتی ہے کہ اس کی تفہیم سے پہلے، اس کی شعریات کی تفہیم، اوراس سے ایک عام درجے کا اتفاق کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں نظم کا ایک اہم حصہ نظم سے ’باہر‘ موجود ہوتا ہے، اور نظم کے قاری کو پہلے اس حصے سے متعارف ہونا چاہیے۔ (اگر کوئی قاری ایسا نہیں کر پاتا، یا نہیں کرنا چاہتا تو اسے نظم کی دنیا سے ’باہر‘ رہنے پر تیار رہنا چاہیے )۔
اس سے یہ شائبہ ہوتا ہے کہ نظم خود اپنے وجود کا جواز باور نہیں کراسکتی، اور اسے اپنے ہی ایک طفیلی وجود یعنی تنقید پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ شائبہ اس لیے ہوتا ہے کہ قبل جدید شاعری سے متعلق ہمارا خیال ہے کہ اسے اپنے وجود کے جواز کا سوال درپیش نہیں ہوتا؛ ہم تنقیدی تصورات کا پاسپورٹ رکھے بغیراس شاعری کی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مگر کیا واقعی؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم دو باتیں بھول جاتے ہیں۔ جدید اور قبل جدید یا کلاسیکی عہد کا فرق، اور جدید عہد میں کلاسیکی شاعری کے مطالعے کا طریقہ۔ قبل جدید عہد کی شاعری بھی تنقیدی تصورات رکھتی تھی، اور انھی کے ذریعے اپنے وجود کا جواز پیش کرتی تھی، مگر وہ تصورات عام ادبی شعور اور ثقافت کا حصہ بنے ہوئے تھے، اور اس لیے حصہ بنے ہوئے تھے کہ وہ انقطاع، عدم تسلسل وجود میں نہیں آیا تھا، جس کا تجربہ سیاسی و تہذیبی طور پر ہم نے نو آبادیاتی عہد میں کیا، اور فکری سطح پر جدیدیت کے فلسفے کے تحت۔ تاہم کلاسیکی عہد میں بھی جب کبھی کوئی شاعر عام ادبی شعور سے ہٹ کر کچھ لکھتا تھا، عام ادبی شعور سے خود کو منقطع کرنے کی جسارت کرتا تھا تو اسے وہی صورتِ حال درپیش ہوتی تھی، جس کا سامنا بیسویں صدی میں جدید شعرا کو ہوا۔ غالب کو یوں ہی نہیں کہنا پڑا: ’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا: گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی‘۔ علاوہ ازیں نو آبادیاتی سیاسی، تعلیمی اثرات نے جب کلاسیکی شاعری سے ہمارا ذوقی رشتہ کمزور کر دیا، اور جدیدیت کے فلسفے نے کلاسیکی تصورِ کائنات پر سوالیہ نشان لگا دیا تو کلاسیکی شاعری ہمارے لیے بڑی حد تک’ اجنبی‘ ہو گئی۔ بیسویں صدی کے اوائل سے احساس ہونے لگا کہ جب تک آپ کلاسیکی شعریات کا لحاظ نہیں رکھتے، کلاسیکی شاعری کے معانی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ یعنی کلاسیکی شاعری کا ایک اہم حصہ بھی، جدید شاعری کی طرح اس سے ’باہر‘ موجود ہے ؛جب تک آپ اس حصے کا فہم حاصل نہیں کرتے، بلکہ اسے جذب نہیں کرتے، کلاسیکی شاعری کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
جدید نظم جس جدیدیت کا تخلیقی مظہر ہے، وہ عام ادبی شعور ہی کو نہیں چیلنج نہیں کرتی، عام انسانی شعور سے بھی مبارزت طلب ہوتی ہے، اور خود شعور کے عقب میں موجوداس دنیا میں بے دھڑک داخل ہوتی ہے، جو شعور کو تلپٹ کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ (مابعد جدیدیت اس سے ایک قدم آگے جا کر خود شعور، ذوق، معنی، متن وغیرہ کے قائم ہونے کے عمل پر سوال اٹھاتی ہے )۔ یعنی جدید نظم لکھی ہی اس منطقے میں جاتی ہے، جہاں وحدانی (Monolithic)، مقبولِ عام تصورات، اجتماعی بیانیوں، ادبی سماجی کینن کو چیلنج کرنے کی عام اجازت ہی نہیں، اسے لازمی تخلیقی ضرورت کا درجہ بھی حاصل ہے۔ چو ں کہ یہ منطقہ خود کار انداز میں وجود میں نہیں آتا، یا آسمان سے انعام کے طور پر نہیں اترتا، بلکہ اس بشر مرکزی فکر میں وجود رکھتا ہے، جو تمام انسانی ذہنی اعمال کی اصل ’تاریخ وسماج ‘اور ان سے رونما ہونے والی ’دنیویت‘ میں دیکھتی ہے، اس لیے اسے برابر واضح کیا جانا ضروری ہے۔ یعنی ایک ایسی انسانی فکر کی مسلسل ضرورت ہے، جو ہر شے پر سوال، خالص انسانی دنیوی تناظر میں سوال قائم کر سکے، اور نتیجتاًانسانی دنیا کے معاملات کی باگ انسانی ہاتھوں میں رہے۔ جدید نظم کی تنقید کا ایک حصہ اسی منطقے کے جواز، کارگزاری اور نظم سے اس کے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے۔ اردو کے سماج میں جہاں جدیدیت، اور اس کی اگلی منزل مابعد جدیدیت کے خلاف’مقدس نظریاتی مزاحمت‘ موجود ہے، جدید نظم کی مذکورہ تنقید کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
علاوہ بریں جدید نظم جس دنیا(اور اس دنیا میں سماج، تاریخ، سیاست، علوم، جمالیات وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں ) کو لکھتی ہے، اس میں سب کچھ مسلسل بدل رہا ہے، فنا ہو رہا ہے، اندر باہر کوئی شے مستقل نہیں، ایک خطرہ، ایک بحران ہے، جس کی زد پر ہر جدید لکھنے والا خود کو محسوس کرتا ہے ؛ کوئی ہیئت، کوئی تیکنیک، کوئی اسلوب، لفظیات کا کوئی مجموعہ، موضوعات کی کوئی فہرست ایسی نہیں، جسے ہر شاعر قبول کر سکے، یا جسے اپنے تجربے کے اظہار کے لیے موزوں سمجھ سکے ؛ایک لنگر، ایک محفوظ ٹھکانے، ایک وطن کی جستجو سب کو ہے۔ جدید نظم اسی جستجو کا جمالیاتی مظہر ہے !
مختصر یہ کہ جدید نظم ماضی سے ایک دم کٹ جانے، اور ایک غیر متوقع حال اور غیر یقینی مستقبل کے روبرو ہونے کے تجربے کو لکھتی ہے۔ یہ کم و بیش ایک ایسی صورتِ حال ہے کہ آپ ’اپنوں ‘ سے بچھڑ کر ایک نئی، اجنبی دنیا میں آ گئے ہیں، جلاوطن ہو گئے ہیں، بے گھر ہو گئے ہیں، محفوظ پناہ گاہوں سے بے دخل کر دیے گئے ہیں، اور اکیلے ہو گئے ہیں، اور آپ کا سامنا غیر متوقع حالات سے ہے، یعنی ’آج اور اس لمحے ‘ سے ہے، جس کے ایک طرف ماضی منھ پھاڑے کھڑا ہے، اور دوسری طرف آنے والا، غارت گر لمحہ ہے۔ جدید شاعری جلاوطن، بے گھر افراد کی شاعری ہے، جن کا اگر کوئی گھر ہے تو یہی شاعری ہے، جسے ’آج، اس لمحے ‘کے ’اندر‘ لکھا گیا ہے۔ حقیقی جدید شاعر مکاں سے زیادہ زماں میں سانس لیتا ہے۔ اکثر لوگ ’بے گھری ‘ کو تجربہ بنانے سے گریز کرتے ہیں، کیوں کہ وہ نئے جذبات اور ایک نئی قسم کی آزادی کو سہارنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے وہ ’گھر‘، ماضی و روایت کے وحدانی تصور کی ’محفوظ پناہ گاہ‘ کی طرف مراجعت کر جاتے ہیں۔ یعنی کچھ نظم گو اپنی شاعری کو اپنا گھر نہیں بنا پاتے، اور قارئین جدید نظم کی بجائے روایتی، مانوس شاعری سے دل لگا لیتے ہیں۔
اخترا لایمان کی شاعری ایک ’جلاوطن‘، ’بے گھر ‘ شخص کی شاعری ہے۔ انھوں نے ہجرت نہیں کی، وہ جلاوطن بھی نہیں ہوئے، مگر انھوں نے مہاجرت اور بے دخلی کے تجربے کی شاعری لکھی۔ کیسے ؟ اس کا جواب آئندہ صفحات میں تلاش کیا گیا ہے۔
’جدید نظم، زبان کے علامتی استعمال سے عبارت ہے، اور علامت نظم کی زبان کو اجنبی، پیچیدہ، مبہم بناتی ہے ‘۔ یہ مقبول ترین مفروضہ ہے، جسے جدید نظم کے ہر شاعر کے مطالعے میں اندھا دھند استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس مفروضے کی روشنی میں اختر کی نظمیں پڑھیں تو عین ممکن ہے آپ کو سخت بے زاری محسوس ہو؛اختر کی بڑی حد تک سادہ، کھردری، روزمرہ کی زبان، آپ کو جدید نظم کے لیے اجنبی محسوس ہو۔ تاہم اگر ہم مذکورہ مفروضے کے ٹھیک ٹھیک معنی اور کچھ مضمرات پر غور کر لیں تو ہمیں اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ اختر الایمان کی نظموں کے لیے اسے ساقط کرنا کیوں ضروری ہے۔ اس مفروضے کا ٹھیک ٹھیک معنی یہ ہے کہ جدید نظم حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی، حقیقت خلق کرتی ہے، اور اس ضمن میں زبان کا خاص طرح کا استعمال کرتی ہے۔ یہ خاص طرح کا استعمال، زبان کے اپنے معنی خیزی کے نظام کو متحرک کرنے سے عبارت ہے۔ یعنی زبان کا ایک طرح کا استعمال حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جب کہ دوسری طرح کا استعمال حقیقت خلق کرتا ہے۔ زبان کا یہ دوسری طرح کا استعمال اس تجربے یا حقیقت کو بے دخل کر دیتا ہے، جو سماجی یا نفسی دنیا میں بالفعل موجود ہوتی ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ بے دخل ہونے کے باوجود حقیقت کے کچھ ریزے اپنی لو دیتے رہتے ہیں )۔ اس کے نتیجے میں ’جدید نظم ‘ایک خود مختار حیثیت اختیار کرنے کا تاثر دیتی ہے۔ تاثر اس لیے کہ حقیقت کے ریزے، نظم کی لسانی خود مختاری پر دھاوا بولنے کا قوی امکان رکھتے ہیں۔ بہ ہر کیف مذکورہ مفروضے کی روشنی میں نظم کے اندر جھانکنے کے لیے کسی مانوس، جانی پہچانی حقیقت کی روشنی نہیں چاہیے، بلکہ خود نظم کی ’بند، تاریک دنیا‘ اپنے اندر اپنی طرز کی روشنی رکھتی ہے، اور اس تک رسائی، نظم کی علامتوں کی گرہوں کو کھولنے سے ہو سکتی ہے، اور علامتوں کی گرہیں کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ خود علامت ہی کو حوالہ بنایا جائے۔ ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ جدید نظم کے بعض ممتاز شعرا کے لیے یہ مفروضہ کلید کا درجہ رکھتا ہے، مگر اختر الایمان کے لیے نہیں، جو بلاشبہ جدید نظم ہی کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔
راشد اور میراجی کی طرح، اختر الایمان کو بھی اپنی نظموں کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ چناں چہ اپنی نظموں کی کتابوں کے دیباچوں میں انھوں نے اپنی کئی نظموں کی ’علامتوں ‘ کی تشریح کی ہے ۱۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنی نظموں کی تشریح کے دوران میں خود اسی مفروضے کے اسیر ہوئے، جس کو معطل رکھنے کے نتیجے میں ان کی نظم نمو پاتی ہے۔ (یہ ایک عمومی رویہ ہے کہ اکثر شاعر اپنے تخلیقی عمل کے دوران میں ادعائی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر نظموں کی ’اپالوجی‘ تیار کرنے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں )۔ ان کی نظم کی زبان ایک ایسی خود مختار حیثیت اختیار نہیں کرتی، جہاں وہ موجود و معلوم سے بے نیاز ہو کر خود اپنے موجود و معلوم، خود اپنے ڈھنگ سے خلق کرنے لگتی ہے ؛ روزمرہ کی حقیقت پر ’لسانی، علامتی، نشانیاتی، خطابتی حقیقت‘ غالب آ جاتی ہے (اس طرح کی نظم کو ہم مابعد جدید کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا)۔ اختر الایمان کی نظم روزمرہ کی حقیقت میں بنیاد رکھتی ہے، لیکن یہ روزمرہ ہر اعتبار سے ’جدید‘ ہے ؛اس کا زمانی تعلق جدید دنیا سے ہے، جس نے اختر کے حینِ حیات خود کو پہلے نو آبادیاتی، پھر تقسیم وفسادات اور بعد میں صنعتی، سرمایہ درانہ دنیا کے طور پر پیش کیا، اور اس کا علمیاتی تعلق جدیدیت کے فلسفے سے ہے، جس میں ’اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو‘ پر شدید اصرار تھا، اور جس کا شعریاتی تعلق جدید شاعری کی اس تحریک سے ہے، جس میں کینن سازی کے خلاف مزاحمت موجود تھی۔ جب جدید شاعری کینن سازی کے خلاف مزاحمت کرتی ہے تو اس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ ایک جدید شاعر، دوسرے جدید شاعر کے لیے کینن نہیں بن سکتا، اور ایک خطے کی جدیدیت، کسی دوسرے خطے کی جدیدیت کے لیے کینن نہیں بن سکتی۔ کینن شکنی کے اسی عمل کے نتیجے میں جدیدیت کا کوئی ایک مستند ورژن قائم نہیں ہو پاتا۔ جدیدیت کی ایک سے زیادہ اور مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں۔ واضح لفظوں میں، جسے ہم جدید نظم کہتے ہیں، وہ کسی ایک انسانی آواز کی نمائندگی نہیں کرتی، بلکہ وہ ایک ایساتخیلی میدان ثابت ہوتی ہے، جہاں ہر انسانی آواز، اپنے اظہار کو مستند بنانے کایکساں موقع حاصل کرتی ہے۔ یوں اصولی طور پر ہر جدید نظم ایک نئی انسانی آواز کو مستند بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک معلوم، روزمرہ کی حقیقت کو پیش کرتے ہوئے بھی جدید نظم یہ کوشش جاری رکھتی ہے۔
اختر الایمان کی شاعری میں جس انسانی آواز کو مستند بنانے کی کوشش ملتی ہے، وہ ایک جلاوطن کی آواز ہے۔ اختر کی اکثر نظمیں روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں، کیفیتوں، تجربوں کو پیش کرتی ہیں (اور یہاں وہ مجید امجد کے کافی قریب آتے محسوس ہوتے ہیں )، جس سے یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس اور اردگرد کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں، یعنی ’گھر ‘اور ’وطن ‘ میں ہیں، لیکن اس دنیا سے ان کا تعلق تطابق اور سمجھوتے کا نہیں، جیسا کہ محمد حسن نے کہا ہے ۲، بلکہ ان سے ’باہر‘ ہونے کا ہے، جو جلا وطنی کی حالت ہے۔
جلاوطنی کی کئی صورتیں ہیں۔ ان سے جدید عہد میں کتنے ہی محب وطن سیاست دانوں سے لے کر دانش وروں اور تخلیق کاروں کا واسطہ پڑا۔ ان صورتوں میں جبری اور اختیاری تو سامنے کی ہیں۔ ان دونوں میں جلاوطن شخص اپنے وطن سے دور کسی اور خطے میں رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جلاوطنی کی یہ قسمیں ناظم حکمت اور محمود درویش کی نظموں میں خاص طور پر ملتی ہیں۔ ایک تیسری صورت ’گھر میں بے گھری ‘ کی ہے۔ آدمی اپنے وطن میں رہتے ہوئے، اپنے وطن کے کلچر، زبان سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ جلاوطنی کی چوتھی صورت وہ ہے جسے ایڈورڈ سعید جلاوطنی کی استعاراتی صورت کہتے ہیں ۳۔ خود کو مسلسل بے خانماں محسوس کرنا، اور اس کے نتیجے میں ایک کبھی ختم نہ ہونے والے اضطراب کی زد پر رہنا، جلاوطنی کی استعاراتی حالت ہے۔ اس حالت کا محرک حقیقی بے دخلی بھی ہو سکتی ہے، اور فکر و اظہار پر بندشیں بھی ہو سکتی ہیں، اور اپنے ادبی و علمی نظریات سے سماج کی عدم موافقت بھی۔ اخترا لایمان کو بچپن میں ایک محدود قسم کی حقیقی جلاوطنی کا تجربہ ہوا۔ ۱۹۳۔ ء سے ۱۹۳۴ء تک کے چار سال انھوں نے موئید الاسلام، دہلی میں گزارے۔ وہ دہلی میں چچا کے پاس آئے، جنھوں نے انھیں گھر میں رکھنے کے بجائے موئید الاسلام پہنچادیا۔ بہ قول اختر الایمان ’’موئید الاسلام ریفارمیٹری بھی تھا، مریض خانہ بھی، یتیم خانہ بھی، اور ایک باقاعدہ سکول بھی‘‘۴۔ یہاں اختر الایمان کو کسمپرسی اور زندگی کرنے کے جبری طور طریقے اسی طرح اختیار کرنے پڑے، جس طرح ایک جلاوطن شخص انھیں اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اخترا لایمان نے خاصی کمزور آپ بیتی لکھی ہے۔ انھوں نے واقعات تو بیان کر دیے، مگر ان واقعات کے اثرات، اور اپنی نفسی و ذہنی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ نہیں کیا۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ والد ین کے جیتے جی یتیم خانے میں نوعمری کے چار برسوں کا حقیقی، نفسیاتی اثر ’جلاوطنی ‘ کا تھا۔ آگے ان کی نظموں میں جلا وطنی کی جو استعاراتی صورت پیدا ہوئی، اس کا ایک ممکنہ محرک یہ واقعہ ہو سکتا ہے۔
اختر الایمان کے یہاں جلاوطنی استعارہ بنتی ہے۔ یعنی یہ حقیقی جلاوطنی سے ’بڑھ کر ‘ہے۔ حقیقی جلاوطنی میں آدمی کسی دوسری سرزمین پر مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اور خود کو سزایافتہ تصور کرتا ہے، لیکن استعاراتی جلاوطنی میں آدمی اپنے وطن ہی میں مہاجرت و گھر بدری کے عذاب ہی نہیں سہتا، بلکہ جبریت و بے دخلی کی ایک کربناک حالت اور اس کے خلاف ایک مسلسل مزاحمت اور ایک لامتناہی اضطراب کی زد پر رہتا ہے۔ حقیقی جلاوطن شخص اپنے وطن کی یاد سے اپنی سزا میں کچھ کمی محسوس کرنے کے مواقع پید اکر لیتا ہے، جس طرح ناظم حکمت یا درویش اپنے وطن کو یاد کر کے آسودگی حاصل کر لیتے ہیں۔ اصلاً وہ جلاوطنی کی اجنبی دنیا سے نکل کر کچھ دیر کے لیے مانوس، حسی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ناظم حکمت کی نظم ’استنبول کا حراست گھر ‘ کا یہ ٹکڑا دیکھیے :
مجھے اپنے ملک سے عشق ہے
میں اس کے چناروں پر جھولا جھول چکا ہوں
میں نے اس کے قید خانوں میں راتیں بسر کی ہیں
اس کے گیتوں اور تمباکو سے بڑھ کر
میری روح کو اور کوئی شے نہیں گرماتی ۵
مگر استعاراتی جلاوطنی میں بے خانماں، ’گھر باہر‘ شخص، ایک مسلسل عدم موافقت کی حالت کا سامنا کرتا ہے۔ اس کے پاس ماضی کا کوئی مثالی، رومانوی تصور نہیں ہوتا، جس میں وہ پناہ لے سکے۔ اس لیے اسس کی سزا میں حقیقتاً کمی نہیں ہوتی۔
اخترا لایمان کی نظموں میں ماضی و تاریخ و روایت سے جلاوطنی کا موضوع ملتا ہے۔ ایک محرک نو آبادیاتی سیاست ہے، اور دوسرا محرک جدیدیت ہے، اور تیسرا محرک صنعتی سرمایہ داریت ہے۔ پہلے اور تیسرے کا تعلق حقیقی، سیاسی، سماجی، معاشی تاریخی صورتِ حال سے ہے، اور دوسرے کا تعلق نفسی، نجی، انفرادی دنیا میں واقع ہونے والے انقطاع سے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اختر الایمان کو ترقی پسندوں اور جدیدیت پسندوں، دونوں نے اپنے اپنے دبستان کا شاعرسمجھا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ تو معروف معنوں میں ترقی پسند شاعر ہیں، اور نہ جدیدیت کے اس وحدانی(Monolithic) تصور پر پورا اترتے ہیں، جس کی نمائندگی میراجی اور راشد بہ طورِ خاص کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اختر الایمان جدید شاعر ہیں، مگر خود اپنا کینن آپ ہیں۔
نو آبادیاتی سیاست نے کس طرح ہندوستانیوں کو اپنے ہی گھر میں غلام اور اجنبی بنا کر رکھ دیا، کس طرح ان کی ثقافت کو حاشیے پر دھکیل دیا، کس طرح ان کی انسانی شناختوں کو مسخ کیا، کس طرح تاریخی عمل میں ان کے کردار کو محدود کر دیا، اور کس طرح ان کا معاشی استحصال کیا، اسے اختر نے متعدد نظموں میں موضوع بنایا ہے۔ ان میں طنزیہ ڈرامائی نظم’ سب رنگ‘ خاص طور پر اہم ہے، جس میں نو آبادیاتی سیاست کے سب رنگوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نظم میں تمام کردار تمثیلی ہیں۔ آدم، بدیسی یعنی انگریز کی تمثیل ہے، گدھا، پٹے ہوئے شہزادے کی، سانپ، سیاسی رہنما کی، خچر، والیِ ریاست کی، کتا، خطاب یافتہ شخص کی، بیل، محنت کش کی، گدھ، سرمایہ دار کی تمثیل ہے، اور قوتِ حیات و نمو خود ایک کردار ہے۔ چار رنگوں یعنی چار حصوں پر مشتمل یہ نظم ۱۹۴۔ ء کی دہائی کی نو آبادیاتی، سیاسی صورتِ حال پر گہرا طنز کرتی محسوس ہوتی ہے۔ نظم کا بنیادی ارتکاز اس نکتے پر ہے کہ آدم یعنی انگریز نے ہندوستانیوں کو غلام بنانے اور تاریخ و ثقافت سے جلاوطن کرنے کا عمل گدھوں، خچروں اور سانپوں جیسے مقامی عناصر کی مدد سے کیا۔ نو آبادیات کا یہ ایک ایسا تضاد تھا جسے بہت کم اہل نظر نے سمجھا۔ یورپی نو آبادیات خود کو جدیدیت اور صنعتی سرمایہ داریت کی علمبردار بنا کر پیش کرتی تھی، اور اپنے اس امیج کے ذریعے ہندوستان سمیت دیگر نو آبادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ انھیں غلام بنانے نہیں آئی، انھیں فکری سطح پر جدیدیت اور معاشی سطح پر صنعتی سرمایہ داریت کی برکتوں سے فیض یاب کرنے آئی ہے، لیکن اختر الایمان کے لفظوں میں یورپی نو آبادیات گدھوں، خچروں، کتوں اور سانپوں جیسے قدامت پسند طبقوں کی حمایت کر کے، اور بیلوں کی بجائے انھیں با اختیار بنا کر خود اپنے دعوے کی نفی کرتی تھی۔ لہٰذا انگریز راج کی اگر کوئی برکتیں تھیں تو ان سے قدامت پسند بالائی طبقات مستفید ہوئے۔ ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ نئے قدامت پسند طبقے اب نئی نو آبادیاتی قوتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ جلاوطنی کا تجربہ تمام ہندوستانیوں نے نہیں کہا، بلکہ محنت کش ہندوستانیوں نے کیا، اور استعاراتی سطح پر جلاوطنی کا دکھ تخلیق کاروں اور دانش وروں کے ایک طبقے نے بھوگا۔ نظم کا ایک ٹکڑا دیکھیے، جس میں بیل یعنی محنت کش، کتے یعنی انگریزوں کے خطاب یافتہ شخص، خچر یعنی والی ریاست، اور گدھے یعنی پٹے ہوئے شہزادے سے مخاطب ہے۔ بیل کہتا ہے کہ آدم کے رخسارکی سرخی، اس کے لہو کی مرہون ہے :
اس گھنے جنگل میں اگ آئیں اگر
تم سے احمق چند اور
زندگی بن جائے پھر
اک عذاب مستقل
یہ ردائے آب و آتش باد و گل
پھینک دینے کے سوا چارہ نہ ہو!
جانتا ہوں اس تمھارے رحم دل آدم کو میں
اس کے رخساروں میں جو
سرخیاں ہیں جلوہ گر
تم سے میں پوچھوں وہ ہے کس کا لہو
اس کی آنکھوں کی چمک، اس کے چہرے کی دمک
اس کی تابانی کا راز
میری بربادی میں ہے !
ان مصرعوں کا واضح اسلوب، جدید نظم کے خوش ذوق قارئین پر گراں نہیں گزرنا چاہیے، اس لیے کہ یہ ڈرامائی نظم ہے۔ بیل، عام لوگو ں کی جس بربادی کا ذکر کرتا ہے، وہ محض معاشی نہیں، نفسیاتی، ثقافتی اور تاریخی بھی ہے۔ یعنی مکمل بربادی، مکمل بے دخلی۔ چوں کہ مکمل بربادی اور بے دخلی کا تجربہ نچلے طبقات کو ہوا، اس لیے ان کے نمائندہ کردار کی زبانی اس کا اظہار ہوا ہے۔ درج ذیل حصے میں قوتِ حیات و نمو بیل یعنی ہندوستانی محنت کش سے مخاطب ہوتے ہوئے یہی بات کہتی ہے۔
قوت: تمھارا آقا ہے ایک آدم
تم آپ آپس میں کچھ نہیں ہو؟
تمھاری ہستی ہے اور سوغم
زمیں تمھاری نہ آسماں ہے ؟
تمھیں نہیں حق کہ سانس بھی لو
بغیر مرضی کے دوسروں کی؟
نظم ’سب رنگ ‘ کا مقام ایشیا کا ایک جنگل ہے۔ جنگل بھی تمثیلی مفہوم رکھتا ہے۔ جنگل، تہذیب اور تاریخ سے عاری سماج کی تمثیل ہے، جہاں کے رہنے والے سب جنگلی یعنی وحشی اور غیر مہذب ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سوائے بیل کے باقی سب اپنے حال میں مست ہیں، اس لیے کہ انھیں اپنے نئے کردار کا معاوضہ خطاب یا اختیار کی صورت میں مل رہا ہے۔ اس جنگل میں واحد مہذب مخلوق آدم یعنی بدیسی یورپی ہے۔ ایک آدم کے مقابلے میں تمام ایشیائیوں کا جنگلی بن جانا ایک طرف ان کے سلب انسانیت(Dehumanization)اور دوسری طرف ان کی ثقافتی بے دخلی و مہاجرت (Cultural Displacement) کا بلیغ استعارہ ہے۔ ویسے ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ نظم ’ایک کہانی‘ جو پہلی نظم ہی کی طرح ڈرامائی نظم ہے، اس کا مقام تاریک سیارے کا ایک ملک ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بر اعظم ایشیا ہی تاریک سیارہ ہے، اور اس کا ملک ہندوستان ہے۔ سیارہ ہے، مگر تاریک ہے۔ مدار میں رہنے کے باوجود روشنی کے منبع سے کٹ گیا ہے۔ یہ وہی تضاد ہے جس کا تجربہ وہ آدمی کرتا ہے جو وطن میں جلاوطن ہو۔ ’نظم ایک کہانی ‘ کے کردار محبوبہ، باغی اور مستقبل ہیں۔ ماضی بھی ایک کردار ہے، جو حزنیہ کورس گاتا ہے :
کچھ دن بیتے اس دھرتی پر دیس تھا اک پھولوں سے پیارا
یہ حزنیہ کورس ناستلجیا ہے، جو ہر گھر بدر شخص کی تقدیر ہے۔ آدمی اپنے اس دیس کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے :
ہری بھری کھیتی کا دشمن
اک پاپی باہر سے آیا
آگ کی مدھم آنچ بڑھا کر
گھر پھونکے، ہنستوں کو رلایا
یہی بات اس نظم کی کردار محبوبہ بھی کہتی ہے :
موت کا تحفہ لے کر آئے
باہر سے پاپی بیوپاری
ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان نظموں میں وضاحت کچھ زیادہ ہی ہے۔ ان میں وہ گریز پا کیفیت کم کم ہے جو قاری کو روک لیتی ہے اور پکڑ لیتی ہے ؛قاری کواس بات سے روکتی ہے کہ جلدی جلدی لفظوں کو ہڑپ نہ کیا جائے، بلکہ لفظوں کی ان کہی کو دھیرے دھیرے گرفت میں لیا جائے، اور اس ان کہی سے پھوٹنے والی نرم، مدھم روشنی سے اپنے وجود کے ان حصوں تک رسائی حاصل کی جائے، جنھیں ہم زندگی کی بھاگم بھاگ میں بھول بیٹھتے ہیں۔ یہ کیفیت اخترا لایمان کے بعض دوسری نظموں میں بلاشبہ موجود ہے۔
اخترا لایمان نے ۱۹۵۲ء میں اپنے نیا مجموعہ تاریک سیارے کے نام سے شایع کیا۔ گرداب (۱۹۴۳ء) میں انھوں نے نو آبادیاتی سیاست کے ہاتھوں ہندوستانیوں کی بے دخلی و مہاجرت کو موضوع بنایا، اور تاریک سیارے کی آخری نظموں میں، اور اگلے مجموعوں میں صنعتی سرمایہ داریت کی لائی ہوئی جنگیں، ایٹمی اسلحے کی تجارت، ٹیکنالوجی کے ہاتھوں قدرتی وسائل کی تباہی کے موضوعات ملتے ہیں۔ اس نئے مجموعے میں دیس، انسان اوراستعمار کار تینوں کے تصورات وسیع ہو گئے ہیں۔ اب سیارہ زمین ہی دیس بن گیا ہے، اور اسی کی مناسبت سے ہندوستانی باشندے کی جگہ زمین کے باسی انسان نے لے لی ہے، اور صنعتی سرمایہ داریت نے نئے استعمار کار کا روپ دھار لیا ہے۔ پہلے جلاوطنی اپنے دیس سے تھی، اور اب سیارۂ زمین سے انسان کے جلاوطن ہونے کا اندیشہ شاعر کو پریشان کرتا ہے۔ نظم ’جنگ‘ کے یہ مصرعے دیکھیے :
’’میں زمیں ہوں، مجھے ہر رنگ میں تم پیارے ہو!
میں یہ تفریق نہ کرپاؤں گی کس مٹی نے
تم کو پالا، تمھیں پروان چڑھایا تھا کبھی
زمین کی ممتا، اور اس کی بربادی کا خدشہ آخر تک ان کی نظموں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی ان کے باقی مجموعوں بنت لمحات(۱۹۶۹ء)، نیا آہنگ (۱۹۷۷ء)، سروساماں (۱۹۸۳ء)، زمین زمین(۱۹۹۔ ء )اور آخری، بعد از مرگ شایع ہونے والے مجموعے زمستاں سردمہری کا (۱۹۹۷ء) میں رخ رخ بدل بدل کر ظاہر ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے شعری تخیل میں ایک ایسا ’غیر ‘پہلو بدل بدل کر ظاہر ہوتا ہے، جو سیارہ زمین پر بسنے والے انسان کو گھر بدر کرنے پر تلا ہوا ہے، اور اس کے نتیجے میں انسان بے دخلی و مہاجرت کے اذیت ناک تجربے سے گزرنے پر مجبور ہے۔ ’غیر ‘ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی ہستی کے عمیق ترین حصوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ اسے یہ خصوصیت اس لیے حاصل ہے کہ اس کا پروٹو ٹائپ ’زبان‘ میں موجود ہوتا ہے ؛ہم زبان سیکھتے ہی ’غیر‘ سے آشنا ہوتے ہیں، یعنی ایک ایسے تخیلی، غیر وجود سے ہمارا تعارف ہوتا ہے، جس کے ذریعے ہم خود کو پہچانتے ہیں۔ اس طرح ہماری پہچان میں عدم پہچان، یا ذات کی شناخت میں، شناخت کو مسخ کرنے والا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ ہم ’غیر ‘ کے ذریعے خود کو پہچانتے بھی ہیں، اور وہی ’غیر‘ ہماری پہچان کو مسخ بھی کر رہا ہوتا ہے۔ بعد ازاں سماجی ٹیبو سے لے کر ’ریاستی غیر اور نو آبادیاتی غیر اور صنعتی و صارفی معاشرت کے غیر‘ زبان میں وضع کیے گئے اپنے ڈسکورس کے ذریعے ہمارے وجود کی گہرائیوں میں راہ پا لیتے ہیں، اور ہم قدم قدم پر، اپنی تنہائی و لاشعوری زندگی میں ایک تخیلی مگر حقیقی وجودسے کہیں طاقت ور اور غارت گر وجود کا سامناکرتے ہیں۔ مثلاً نو آبادیاتی عہد میں یورپ اور صنعتی سرمایہ دارانہ عہد میں ٹیکنالوجی ہمارا ’غیر ‘ بنتے ہیں۔ ہم ان کے ذریعے اور ان کے مقابلے میں خود کو پہچانتے ہیں، ان کے سبب خود کو روشن خیال اور ترقی یافتہ تصور کرتے ہیں اور انھی کو اپنے لیے غارت گر بھی پاتے ہیں۔ ’بنتِ لمحات‘ میں شامل نظم ’سبزۂ بیگانہ‘ اس حقیقت کو عمدگی سے پیش کرتی ہے۔ کلاسیکی شاعری میں سبزۂ بیگانہ ’مابعد الطبیعیاتی وجودی‘ مفہوم رکھتا تھا۔ مثلاً غالب کہتے ہیں :
چمنِ دہر میں ہوں سبزۂ بیگانہ اسد
وائے اے بے خودی و تہمت آرامیدن
مگر اختر الایمان کی نظم میں سبزۂ بیگانہ ایک طرف سیاسی، ثقافتی بے دخلی کا مفہوم رکھتا ہے اور دوسری طرف’ لاشعوری دربدری ‘کا۔ اس نظم کا تناظر عالمی، سرد جنگ ہے۔ یہ ایک کرداری نظم ہے۔ نظم کا پیراڈاکس یہ ہے کہ نظم ایک کردار کے گرد گھومتی ہے، مگر وہ کبیری کردار ہونے کے باوجود کسی بھی طرح کی شناخت نہیں رکھتا۔ وہ مکمل جلاوطن کردار ہے۔ نظم کا آغاز ہی اس کردار کے تاریخ، حسب نسب اور وطن سے جلاوطن ہونے کے ذکر سے ہوتا ہے :
حسب نسب ہے نہ تاریخ و جائے پیدائش
کہاں سے آیا تھا، مذہب نہ ولدیت معلوم
وہ ایک مریض ہے جسے ایک مقامی چھوٹے سے خیراتی ہسپتال میں لایا گیا تھا۔ ہسپتال کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ راتوں کو چلایا کرتا تھا کہ اس کے اندر ایک زخمی پرندہ مقید ہے، جس کی رہائی کی وہ دہائی دیتا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ زخمی پرندہ کس کی قید میں ہے۔ خود مریض کے اندر ایک تخیلی غیر ہی نے اس پرندے کو زخمی کیا ہے، اور قید کر رکھا ہے۔ روایتی طور پر پرندہ روح کی علامت ہے، لیکن یہاں زخمی پرندہ انسانی آزادی۔ اختیار اور تخلیقی قوت کی علامت ہے، جسے سرد جنگ، چھوٹے ملکوں پر مسلط کردہ جنگوں، صنعتی آلودگی، سرمایہ داریت کی چھوٹے ملکوں کے وسائل پر قبضے کی ہوس جیسے غیر نے محال بنا دیا ہے۔ غیر کے یہ سب بھیانک روپ کس طرح انسانی لاشعور یعنی ہستی کی عمیق سطحوں پر استعماری اجارہ داری حاصل کر لیتے ہیں، اور اسے خود اپنی ہستی کے مرکز سے بے دخل کر دیتے ہیں، یعنی اسے سبزۂ بیگانہ بنا دیتے ہیں، اسے شاعر نے فنی مہارت کے ساتھ نظم میں پیش کیا ہے :
مریض چیختا ہے، درد سے کراہتا ہے
یہ ویت نام، کبھی ڈومنیکن، کبھی کشمیر
زر کثیر، سیہ قومیں، خام معدنیات
کثیف تیل کے چشمے، عوام، استحصال
زمیں کی موت، بہائم، فضائی جنگ، ستم
اجارہ داری، سبک گام، دل ربا، اطفال
سرودونغمہ، ادب، شعر، امن، بربادی
جنازہ عشق کا، دف کی صدائیں، مردہ خیال
ترقی، علم کے گہوارے، روح کا مدفن
خدا کا قتل، عیاں زیر ناف زہرہ جمال
تمام رات یہ بے ربط باتیں کرتا ہے
یہ بے ربط باتیں، مرکزی کردار کی حقیقی داخلی صورتِ حال سے گہرا ربط رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کر پاتے تو اسے ماہرینِ نفسیات کے پاس بھیجتے ہیں، جو اسے ذہنی مریض قرار دیتے ہیں۔ ان کی توجیہات کا ذکر نظم میں کیا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے کبھی پرندہ پالا ہو گا، جو عدم توجہی سے مرگیا تو اس کا احساسِ جرم اس کے تحت شعور میں اتر گیا ہے، اور وہ خود کو قاتل و مجرم سمجھتا ہے۔ ایک کی یہ رائے تھی کہ یہ پس ماندہ، سیاہ قوم کا فرد ہے اور یہ احساس ٹیبو کی صورت اس کے لاشعور میں اتر گیا ہے۔ کوئی یہ کہتا تھا کہ اس کے مرض کا باعث حبّ وطن ہے، اور وہ چاہتا تھا اس کی قوم خود کفیل ہو۔ کسی کی توجیہ یہ تھی کہ مریض شاعر ہے، اور وہ شہرت، شہوت اور دولت کا جویا تھا۔ ان میں ناکامی نے اسے مریض بنا دیا۔ بالآخر مریض مرگیا، لیکن شفا خانے کے در و دیوار سے اسیر زخمی پرندے کو بچانے کی فریاد آج بھی گونجتی ہے۔ ان توجیہات کا ذکر کر کے شاعر اس مضحکہ خیزی کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں، جس کا مظاہرہ سماج کے با اثر، ماہرین کرتے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ وہ انسانی ہستی کی عمیق سطحوں سے لاتعلق ہوتے ہیں، اور اس بنا پر ’غیر‘ کی غارت گری سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ مریض اپنے ہی سماج میں بے دخل، جلاوطن اور اجنبی رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’غیر‘ کی عدم پہچان کا عمل ’غیر‘ کے کردار کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ بہ ہر کیف ماہرین کی مضحکہ خیزی کو پہچاننے کے بعد نظم کا قاری، مریض کی بے ربط باتوں کی تعبیر پر مائل ہوتا ہے۔ ان بے ربط باتوں سے ایک مکمل، مربوط کہانی مرتب ہوتی ہے۔ ویت نام، ڈومنیکن اور کشمیر میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ کہیں اس خدشے سے کہ اشتراکی حکومتیں نہ قائم ہو جائیں، اور کہیں اس خوف سے کہ لوگ اپنا حق خود اختیاری نہ استعمال کریں۔ ایشیائی و افریقی سیاہ قوموں پر سرمایہ دار ملکوں کا تسلط وہاں کی خام معدنیات اور خام تیل کے چشموں پر قبضے کی خاطر ہے۔ ترقی کے نام پر اندھا دھند صنعتیں قائم کرنا زمین کی موت کے مترادف ہے۔ صنعتی سرمایہ داریت و صارفیت نے انسانوں کو خدا کے قتل پر مائل کیا ہے۔ یہاں ’خدا کے قتل‘ کا مفہوم فلسفیانہ نہیں، جسے جدیدیت نے پیش کیا۔ خدا کے قتل سے مراد اس مرکزی طاقت کو اپنی ہستی سے بے دخل کرنا ہے، جو عشق و رفعت و تخلیق سے آدمی کو وابستہ کرتی ہے۔ جدیدیت نے انسانی ہستی میں دیوتائی عنصر کا اقرار کیا تھا، یعنی باہر کے دیوتاؤں اور خداؤں کا انکار کیا تھا، مگر آدمی کے اندر دیوتائی تخلیقی صلاحیت کا یقین دلایا تھا۔ صنعتی سرمایہ داریت نے انسان کو ایک صارفی شے میں بدل دیا ہے۔ اس کے اندر سے سرود و نغمہ، ادب، شعر، امن کو جلا وطن کر دیا ہے۔ یہی خدا کا قتل ہے، انسانی وجود کی اساسی تخلیقی جہت کی بے دخلی ہے، اور اس کے نتیجے میں آدمی زہرہ جمالوں کے زیرِ ناف سے آگے کی دنیا، عشق و تخلیق کی دنیا کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتا۔ نظم ’میری آواز‘ جو لگتا ہے نظم ’سبزۂ بیگانہ ‘ کے مریض کی آواز ہی کی بازگشت ہے، میں ایک بار پھر اسی طرف اشارہ ہے :
تمام مسئلے بے جان ہیں سوا اس کے
جو چائے خانوں سے چھوٹیں تو بھوکی آنکھوں سے
زنانِ شہر کے پستان ناپیں یا اپنے
اکیلے بیٹھے ہوئے زیرِ ناف بال گنیں
نظم ’سبزۂ بیگانہ‘ کا مریض جس اسیر زخمی پرندے کی آزادی کے لیے چیختا ہے، وہ ایک طرف انسانی آزادی کی علامت ہے، اور دوسری طرف عشق و تخلیق کے بشری، مگر دیوتائی خصوصیات کے حامل عنصر کی علامت ہے۔ یہی عنصر زخمی ہے، اسیری کی حالت میں ہے، یعنی جلاوطن ہے۔ نظم ’میری آواز‘ میں ایک بار پھر ’سبزۂ بیگانہ‘ کے مریض کی آواز سنائی دیتی ہے :
ملائکہ مری آواز سن رہے ہو تم
خدا نے چھین لیں بیساکھیاں بھی انساں سے
پیمبر اب نہیں آتے، زمین بانجھ ہوئی
تمام سلسلے تہذیب و ضبط کے جو تھے
وہ سارے ٹوٹ گئے، زندگی تڑپتی ہے
اک ایسے درد سے جو دردِ زہ نہیں شاید!
نظم کا متکلم فرشتوں سے مخاطب ہے، تاکہ اس کی آواز خدا تک پہنچ سکے۔ پہلے وہ پیمبروں کے ذریعے خدا تک رسائی حاصل کر لیتا تھا، مگر اب پیمبر زمین پر نہیں آتے۔ انسان کے پاس یہ ایک بڑی بیساکھی تھی، جسے اس نے چھین لیا ہے۔ (بیساکھی میں جو پیراڈاکس ہے، وہ توجہ طلب ہے )پیمبر کیوں نہیں آتے ؟ اس کا جواب نظم میں غیر واضح ہے۔ ’پیمبر اب نہیں آتے، زمین بانجھ ہوئی‘اس مصرعے میں ایک طرف اس مفہوم کا قرینہ ہے : چوں کہ پیمبر نہیں آتے، اس لیے زمین بانجھ ہو چکی ہے، دوسری طرف اس مفہوم کی طرف بھی اشارہ ہے کہ چوں کہ زمین بانجھ ہے، اس لیے پیمبر نہیں آتے۔ گویا پیمبر زمین کی زرخیزی و تخلیقیت کا ثمر اور علامت ہیں، اور زمین ان سے خالی ہے۔ زمین اب اور طاقتوں کی دسترس میں ہے، جنھوں نے اسے رہنے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ زمین پر زندگی درد سے تڑپ رہی ہے، لیکن افسوس کہ یہ دردِ زہ نہیں ؛دردِ زہ تخلیق کی بشارت بن کر وارد ہوتا ہے، مگر اب صرف و محض درد ہے ؛اپنے خالی پن کا، زوال کا، جلاوطنی کا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جدیدیت ماضی و حال کے بیچ، روایت و انفرادیت، تاریخ و لمحۂ حاضر اورسماج و فرد کے درمیان ایک رخنے کو نمودار ہوتا ہوا دیکھتی ہے۔ جدید شاعری اس رخنے کا سامنا کرنے، اور اس کے علامتی امکانات کی دریافت سے عبارت کہی جا سکتی ہے۔ کوئی جدیدشاعرایسا نہیں، جسے سماجی سطح پر اجنبیت و تنہائی، سیاسی سطح پر جلاوطنی، وجودی سطح پر بیگانگیت، جذباتی سطح پر گھاؤ، لاشعوری سطح پر لخت لخت ہونے اور کائناتی سطح پر لاتعلقی کا تجربہ نہ ہوا ہو۔ اس تجربے کی شدت یا اس کی تہوں میں فرق ہو سکتا ہے، مگر جدید شاعر اپنا دامن اس سے بچا نہیں سکتا۔ بہت سے جدید شاعر اس لیے ناکام ہوئے کہ انھوں نے اس تجربے کی آنچ محسوس کرتے ہی مفاہمت و مطابقت اختیار کر لی؛انھوں نے ایک تنہا وجود کے طور پر اپنی تقدیر کا سامنا کرنے۔ ..۔ اور اپنی بشریت کی حدوں میں کسی کے سہارے کے بغیر سفر پیما ہونے سے معذوری ظاہر کر دی۔ ان کی ناکامی اس میں ہے کہ وہ ’غیر منقطع ماضی‘ کی اس دنیا میں پلٹ گئے جو حقیقتاً خواب و خیال ہے ؛انھوں نے روایت کے وحدانی تصور سے شدت پسندانہ وابستگی میں پناہ ڈھونڈ لی۔ ثقافتی سطح پر ان کا یہ عمل احیا پسندانہ تھا، سیاسی معنوں میں قدامت پسندانہ تھا، جب کہ جمالیاتی ولسانی سطحوں پر ان کا یہ عمل کلیشے کو قبول کرنے سے عبارت تھا۔ جدیدیت نے ماضی و حال، یا روایت و انفرادیت میں جس خلا کا احساس دلایا، وہ ماضی و روایت کی نئی تعبیروں کی راہ تو بلاشبہ کھولتا ہے، مگر ان کی اوّلین غیر منقطع صورت کا واپس نہیں لا سکتا۔ آدمی کھوئی ہوئی جنت کی طرف واپس نہیں جا سکتا، البتہ جنت بدری کی حالت میں ایک نئی جنت ضرور خلق کر سکتا ہے ؛ہو سکتا ہے، یہ جنت پرانی جنت کے مقابلے میں کم حسین ہو، یا سرے سے حسین ہی نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک جہنم ہو، مگر یہ بہ ہر حال آدمی کا اپنا بنایا ہوا ہے ؛جدید آدمی اس کی ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ جدید آدمی اپنی اس تقدیر سے نہیں بھاگ سکتا کہ اسے ایک جلاوطن، لخت لخت زندگی بسر کرنی ہے۔
اخترا لایمان کے یہاں جدیدیت کی جلاوطنی کی کچھ صورتیں ظاہر ہوئی ہیں۔ بہ طور نظم نگار ان کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے یہاں جدیدیت اور استعماریت کی مسلط کردہ جلاوطنی میں حد فاصل بالعموم موجود نہیں۔ ان کی نظموں میں فلسفۂ جدیدیت اور استعماری تاریخی تجربہ، جلاوطنی کی صورت ایک مشترک نکتہ دریافت کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے اختر الایمان کی نظموں کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ وہ فرد و سماج، یا لاشعور و تاریخ کی اس ثنویت کو تحلیل کرتی محسوس ہوتی ہیں، جسے ترقی پسندوں اور جدیدیت پسندوں نے اپنی اپنی شعریات میں مرکزی حیثیت دے کر شدت سے ابھارا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں نہ خالص وجودی تنہائی موجود ہے، نہ مطلق سماجی بیگانگیت۔ وہ جلاوطنی میں خود اپنی نظم کو وطن بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان کی بعض نظموں میں ایک طرح کی اجنبیت و مہاجرت، دوسری طرح کی بے دخلی و بیگانگیت پر حاوی ہو گئی ہے۔
اس سلسلے میں ان کی پہلی اہم ترین مثال نظم ’مسجد‘ ہے۔ محمد حسن (جنھوں نے بلاشبہ اختر الایمان پر اب تک سب سے اچھی تنقید لکھی ہے )نے اس نظم کا تقابل اقبال کی نظم ’مسجد قرطبہ ‘ سے کیا ہے، اور ایک اہم نکتہ یہ دریافت کیا ہے کہ دونوں میں ویرانی مشترک ہے، تاہم اقبال کی نظم کے پیچھے قرطبہ کی تاریخ، مسلمانوں کے عظیم ماضی کی وراثت، اور مربوط فلسفۂ حیات ہے، جب کہ اختر کی نظم کے پیچھے درد مندی ہے ۶۔ محمد حسن نے شاید اس نظم کے تعلق سے دردمندی کا ذکراس لیے کیا ہے کہ متکلم کا لہجہ اس طرح شوخ اور بلند آہنگ باغیانہ نہیں، جس طرح راشد کے متکلم کا ہے۔ راشد کے یہاں ’خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے ‘ جیسا چیختا ہوا، شوخ مصرع ملتا ہے، لیکن اختر دھیمے، دردمندانہ اور قدرے افسردہ لہجے میں اسی کو موضوع بناتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلے ٰ ہے نہ منبر، نہ مؤذن نہ امام‘‘۔
درد مندی کے علاوہ، نظم کے ضمن میں اہم ترین بات ’جلاوطنی ‘ ہے۔ یہ مسجد انسانی آبادی سے دور ایک ندی کے کنارے واقع دکھائی گئی ہے۔ اس کی ویرانی اور تنہائی سے یہ تاثر شدت سے ابھرتا ہے، جیسے یہ مسجد انسانی دنیا سے جلاوطن ہو گئی ہے۔ اسی طرح نظم کا متکلم بھی اس دنیا سے خود کو جلا وطن محسوس ہوتا ہے، جو مسجد کی دنیا ہے، یاجس کی نمائندگی مسجد کرتی ہے۔
اخترا لایمان نے اس نظم کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’مسجد مذہب کا علامیہ ہے، اور اس کی ویرانی عام آدمی کی مذہب سے دوری کا مظاہرہ ہے ‘‘۷۔ شاعر اپنی شاعری کی وضاحت اور دفاع کرتے ہوئے کس قدر بھٹک سکتا ہے، اس کی مثال یہ رائے بھی ہے۔ ’عام آدمی کی مذہب سے دوری ’ اس نظم کا موضوع ہی نہیں۔ ’عام آدمی کی مذہب سے دوری ‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذہب موجود ہے، مگر کسی وجہ سے عام آدمی اس سے دور ہو گیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ نظم، وقت کے ہاتھوں مسجد کے تباہ ہونے، اور علامتی طور پر مذہب کے انحطاط پذیر ہونے اور نتیجتاً مذہب کی دنیا سے جدید آدمی کے جلاوطن ہونے کو موضوع بناتی ہے۔ مذہب سے دوری اور مذہب کی دنیا سے جلاوطنی میں جو فرق ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ شاعر نے نظم میں مذہب کے انحطاط کے اظہار کے لیے کشف یعنی Epiphanyکو ایک تیکنیک کے طور پر استعمال کیا ہے، جو مذہب سے مخصوص ہے۔ مثلاً یہ بند:
فرض جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک
اب مصلے ٰ ہے نہ منبر نہ مؤذن نہ امام
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے بنیاد
کھو گئی دشت فراموشی میں آوازِ خلیل
تسبیح کے دانوں کے نظام کا کالعدم ہونا، ایک ایسا کشف ہے جو ماضی و حال کے درمیان ایک رخنے کے پیدا ہونے کی خبر دیتا ہے ؛جیسے ایک رواں خط اچانک ٹوٹ جائے، اور خالی جگہ منھ پھاڑے نظر آنے لگے۔ ماضی و حال کے بیچ رخنے کا ذکر نظم ’واپسی‘ میں بھی ملتا ہے۔ نظم کے متکلم کو ماضی خاموش اور گنگ محسوس ہوتا ہے۔ یہ مصرعے دیکھیے :
دروازوں پہ دے رہا ہوں آواز
خاموش ہے گنگ ہے سیہ پوش
ماضی کے محل کی کہنہ دیوار
پھیلائے ہوئے زمیں ہے آغوش
نظم ’مسجد‘ میں بھی ظاہر ہونے والی انسانی آواز ایک ایسے شخص کی آواز ہے، جس نے نہ صرف یہ رخنہ دیکھ لیا ہے، اور ٹوٹی ہوئی لکیر سے پیدا ہونے والی خالی جگہ مشاہدہ کر لی ہے، بلکہ اسے اپنے اندر دور تک وار کرتے ہوئے بھی دیکھ لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی، مانوس پرانی دنیا سے ’باہر‘ اور ’بے خانماں ‘ ہو گیا ہے، یعنی جلاوطن ہو گیا ہے ؛وہ مسجد اور اس کی دنیا سے بے دخل ہو گیا ہے۔ نظم کا مؤقف یہ ہے کہ یہ بے دخلی اور جلاوطنی وقت کی مسلط کردہ ہے۔ وقت بھی ایک استعمار ہے۔ نظم میں ندی وقت کی علامت ہے، جو مسجد کو ہڑپ کرنے پر تلی ہے۔ (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں وقت کی تباہ کن طاقت، در اصل اس جدید بشر مرکزانسانی علم کی طاقت ہے، جو عقائد کی بنیادوں پر وار کرتی ہے )۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ’مسجد قرطبہ‘ میں بھی آب روان کبیر کا ذکر ہے، اور اختر کی نظم کی مسجد بھی دریا کنارے ہے، مگر اقبال قرطبہ کی مسجد کے ساتھ بہنے والے دریا کے کنارے ایک نئے زمانے کا خواب دیکھتے ہیں، جب کہ اختر کی نظم کا متکلم ندی یعنی وقت کے ایک تباہ کن قوت ہونے کی شہادت دیتا ہے۔ وقت مسجد کے گنبد و مینار کو بھی فنا کر نے چلا ہے۔ ’مسجد قرطبہ ‘ کے آغاز میں بھی وقت کو نقش گر حادثات اور اصلِ حیات و ممات کہا گیا ہے، مگر قرطبہ کی مسجد کو ایک عظیم فن پارے کی حیثیت میں وقت کی دست برد سے محفوظ دکھایا گیا ہے۔ جب کہ اختر کی نظم کی مسجد نہ تو تاریخی حیثیت رکھتی ہے، نہ آرٹ کا نمونہ دکھائی گئی ہے۔ لہٰذا اس کا مقدر معلوم!
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے، فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
جدیدیت کا ایک اہم تصور یہ تھا کہ وقت ابدی ہے، تباہ کن طاقت کا حامل ہے، اور اس کے مقابلے میں انسانی دنیا کی ہر شے فنا پذیر ہے۔ مسجد بھی انسانی تعمیر ہونے کے ناتے وقت کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ بایں ہمہ مسجدو گنبد و مینار کو فانی قرار دینے کی جدید شاعر کی یہ جسارت، کلاسیکی شاعر کی اس جرأت سے کافی مختلف ہے، جس کا مظاہرہ وہ زاہد، و شیخ و ملا جیسے چند مذہبی کرداروں کو ملامت کا نشانہ بنانے کی صورت کرتا تھا۔ کلاسیکی شاعر، ظاہر پسندوں کے مذہب پر طنز کرتا تھا، مگر جدید شاعر خود مذہب کے خاتمے کا بیانیہ منظوم کرتا ہے۔ اس بیانیے کا تعلق ایک طرف بیسویں صدی کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے مذہب کو خیرباد کہنے سے ہے تو دوسری طرف خود جدید نظم سے ہے۔ جدید نظم، تخلیق کے خدائی سرچشمے کے سوکھ جانے کے یقین کے نتیجے میں لکھی جاتی ہے۔ جدید شاعر، آسمانی روایتوں کی دنیا سے بے دخل وجود ہے۔ وہ ایک نیا آدم ہے، جس کے ہاتھ میں مذہب و روایت سے جنت بدری کا حکمنامہ ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل سے اردو نظم میں عمارتیں قومی مذہبی علامت کے طور پر ظاہر ہونے لگی تھیں۔ شبلی کی مسجد کان پور اس کی غالباً پہلی مثال ہے۔ اس کے بعد اقبال کے یہاں مسجد قرطبہ، ساحر کے یہاں تاج محل اور مجید امجد کے یہاں مقبرہ جہانگیر قابلِ ذکر ہیں۔ یہاں اختر کی نظم کا اس سلسلے کی دیگر نظموں سے تقابل مقصود نہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ وہ مسجد کو مذہبی علامت کے طور پر ہی پیش نہیں کرتے، بلکہ اسے ’آج، اس لمحے ‘ کی حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگر اختر الایمان بس یہیں تک محدود رہتے تو وہ صفِ دوم کے شاعر ہوتے۔ مسجد، مندر، گرجا سامنے کی مذہبی علامتیں ہیں۔ اگر کوئی انھیں صرف اسی مفہوم میں اپنی نظم میں پیش کرتا ہے تو وہ محض شاعر ہے، اور اگر کوئی انھیں اپنے زمانے کے علمی، تہذیبی بیانیے سے جوڑ کر پیش کرتا ہے تو وہ جدید شاعر ہے۔ جو چیز اختر الایمان کو صف اوّل کا جدید شاعر بناتی ہے، وہ مسجد کی وساطت سے حقیقت کا آرکی ٹیکچرل تصور وضع کرنا ہے، مگر اس پر گفتگو آگے ہو گی۔
اخترا لایمان سمیت تمام جدید شعرا کے لیے ماضی ایک بے حد پیچیدہ اور معمائی حقیقت ہوتا ہے۔ چوں کہ وہ ماضی و حال میں رخنہ دیکھتے ہیں، اس لیے وقت کی رو میں بے خبر جیے چلے جانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی حالت اس مسافر کی سی ہوتی ہے جو قافلے سے بچھڑ گیا ہے۔ وہ اس رخنے کے کنارے یعنی حال کے لمحے پر ایستادہ ہو کر ماضی پر نگاہ کرتے ہیں، یا کارواں کے نقوش دیکھتے ہیں ؛ماضی کو کھنگالتے ہیں، اس سے اپنے ٹوٹے ہوئے جذباتی، تعقلی اور ثقافتی رشتے کو نئے سرے سے جوڑنے کی سعی کرتے رہتے ہیں، یعنی خود کو مسلسل شناخت کے بحران، یا بے دخلی کی حالت میں مبتلا محسوس کرتے ہیں، اور اس سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ شناخت کا بحران، یا جلاوطنی کا احساس آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی شخصی یادداشت (گھر )کے راستے سے اپنی اجتماعی، تاریخی، ثقافتی یادداشت (وطن، قوم )تک پہنچے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک طرف یادداشت اور آرزو میں رشتہ قائم ہوتا ہے، اور دوسری طرف شخصی ماضی و ثقافتی ماضی کی سرحدیں پگھلنے لگتی ہیں۔ شناخت کے بحران سے نکلنے کی آرزو ہی یادداشت کی طرف، جو بہ ہر حال ماضی کی دنیا میں وجود رکھتی ہے، لے جاتی ہے۔
اخترا لایمان اور ان تمام جدید شعرا کے یہاں شخصی یادداشت اور ثقافتی یادداشت سے تعلق قائم کرنے کی کوشش ملتی ہے، جو شناخت کے بحران کو محسوس کرتے ہیں۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یادداشت گزرے واقعات کی ہو بہو نقل ہے۔ اس سے زیادہ گمراہ کن بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ یادداشت، گزرے واقعات کو مسلسل نئے سرے سے ترتیب دیتی رہتی ہے۔ چناں چہ ہم گزرے واقعات کو یاد کرتے ہوئے، انھیں ٹھیک اسی طرح نہیں دہراتے، جس طرح واقع ہوئے تھے، بلکہ انھیں لمحۂ حاضر کی مخصوص جذباتی حالت کے زیر اثر ایک نئی ترتیب میں پیش کرتے ہیں۔ بڑی حد تک یہ عمل ماضی کی ایک نئی تعمیر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے کہ جدید شاعر کا ماضی کے سلسلے میں ایک طرف تنقیدی رویہ ہوتا ہے، تو دوسری طرف وہ اپنی پرانی شناخت کا احیا نہیں کرتا، ایک نئی شناخت کی تلاش میں ہوتا ہے۔
اخترا لایمان بار بار شخصی اور اجتماعی یادداشت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ شخصی یادداشت کی طرف رجوع کے سبب ان کی نظم میں ناستلجیا، باقاعدہ ایک رجحان کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ اس سلسلے کی نظموں میں ’یادیں ‘، ’ایک لڑکا‘، ’دلی کی گلیاں ‘اور ’ڈاسنہ سٹیشن کا مسافر ‘قابلِ ذکر ہیں۔ بعض لوگ شخصی یادداشتوں کے تحت لکھی گئی نظموں کو معمولی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر سے ایک یہ بات اوجھل رہتی ہے کہ یادداشت، شخصی ہو یا اجتماعی، وہ ماضی کو نئے سرے سے تعمیر کرتی ہے، دوسری یہ بات کہ نظم بننے کے بعد کوئی یادداشت شخصی نہیں رہ جاتی؛ وہ ’اصل‘ کی طرف پلٹنے کا استعاراتی عمل ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے، کوئی شاعر ’اصل ‘ تک رسائی حاصل نہ کر سکے، اور اس عمل کو استعاراتی نہ بنا سکے، مگر یہ ناکامی شاعر کی ہے، شخصی یادداشت کی نہیں۔ اصل تک رسائی کو استعاراتی بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا کی تخیلی تعمیر کی جائے، جس میں گھر اور وطن جیسی Stabilityکی کیفیت ہو، اور جس میں بچپن کی حیرت، آرٹ کی حیرت میں بدل جائے۔ اختر کی نظم ’ڈاسنہ سٹیشن کامسافر‘ اس کی مثال ہے۔ نظم جوانی کے سفر کی یادداشت پر مبنی ہے۔ سرسری پڑھیں تو نظم ڈاسنہ سٹیشن کے تعلق سے قیصر( محبوبہ) کی یادوں کو تحریک دیتی محسوس ہوتی ہے، جن سے بٹوارے کی یاد بھی ابھرتی ہے، لیکن غور کریں تو ریل گاڑی، ڈاسنہ، سفر، قیصر، بٹوارہ اور مسافر سب استعاراتی مفہوم اختیار کر لیتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر خود نظم گھر یعنی اصل کا استعارہ بنتی محسوس ہوتی ہے۔ ریل گاڑی وقت کا، ڈاسنہ زندگی کے ایک پڑاؤ کا، قیصر جنت کا، بٹوارہ، جنت سے نکلنے کا، اور مسافر آدم کا استعارہ ہے۔ اس رائے کی روشنی میں ذرا ان مصرعوں کو پڑھیے :
ڈاسنہ تو تھا ہی وہ
میرے ساتھ قیصر تھی
میں نے چونک کر پوچھا
آسماں محل تھا اک
سیدوں کی بستی میں
’’آسمان ہی نہیں صاحب
اب محل کہاں ہو گا؟‘‘
ملک کا یہ بٹوارا
کہاں کے گیا اس کو
دیوڑھی کا سناٹا
اور ہماری سرگوشی
’’مجھ سے کتنے چھوٹے ہو‘‘
بھورے بادلوں کا دل
دور اڑتا جاتا ہے
پیڑ پر کہیں بیٹھا
اک پرند گاتا ہے
’’چل چل‘‘ اک گلہری کی
کان میں کھٹکتی ہے
ریل چلنے لگتی ہے
راہ کے درختوں کی
چھاؤں ڈھلنے لگتی ہے
’’مجھے سے کتنے چھوٹے ہو‘‘
اور میری گراں گوشی
دیوڑھی کا سناٹا
اور ہماری سرگوشی
ہے رقم کہاں وہ سب؟
شخصی یادداشت واقعات کی صورت ہوتی ہے تو اجتماعی یادداشت، علامتوں اور نشانات میں مضمر ہوتی ہے، اور اس میں مذہبی و دنیوی یا سیکولر دونوں طرح کی علامتیں شامل ہیں۔ مسجدمسلم ثقافت کی مذہبی علامت ہے، اور پرانی فصیلیں اور آثار قدیمہ اجتماعی یادداشت کا سیکولر عنصر ہیں۔ وقت مذہبی علامتوں کا لحاظ کرتا ہے، نہ سیکولر علامتوں کا۔ تباہ ہونا، یادداشت کا حصہ بننا سب کا مقدر ہے۔ شاعر اجتماعی ثقافتی یادداشت کے سیکولر عناصر کو یاد کرتا ہے۔ نظم ’مسجد ‘ کی طرح ان سیکولر علامتوں کے سلسلے میں بھی شاعر کا رویہ تنقیدی ہے۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ شخصی یادداشتوں کی طرف شاعر کا رویہ شاید ہی تنقیدی ہوتا ہو!اسی بنا پر جسے ہم ناستلجیا کہتے ہیں، وہ شخصی یادداشتوں کو جنسی لذت جیسی کیفیت کے ساتھ دہرانے کا نام ہے۔ بہ ہر کیف، اخترا لایمان کا شعری تخیل مذہبی و دنیوی دونوں علامتوں سے ’اجنبی و باہر‘ محسوس کرتا ہے۔ دونوں طرح کی ثقافتی علامتیں معانی کی جس دنیا کی نمائندگی کرتی ہیں، شاعر اس سے اندھی مطابقت اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ کہیں ان معانی کی مرگ کا اعلان کرتا ہے، اور کہیں انھیں از سر نو خلق کرتا ہے۔ نظم ’کرمِ کتابی ‘ کے یہ مصرعے دیکھیے، جن میں قدیم ثقافتی علامتوں سے شاعر ’فاصلہ ‘ محسوس کرتا ہے :
اوسائرس، نہ زیس، آج کوئی زندہ نہیں
وہ روزنامچہ مردوں کا، وہ عمل نامہ
جسے خداؤں نے لکھا تھا کھو گیا ہے کہیں
منو سمرتی، نہ توریت، سب وہ ہنگامہ
بگولہ بن کے اٹھا تھا جو سو گیا ہے کہیں
میں ڈھونڈتا ہوں کہیں ٹکسلا نہ پاٹلی پتر
موہن جو دارو، کہیں قرطبہ، نہ غرناطہ
نہ نینوا ہے، نہ بابل، نہ آج اندر پرستھ
یہ سب ہیں میرے لیے گویا خواب کی باتیں
گویا یہ علامتیں اور متون اجتماعی یادداشت میں موجو دہیں، مگر ’اجنبی ‘ کی صورت؛ ان کے معانی خواب و خیال ہیں، وہ ’آج، اس لمحے ‘ کی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ دوسرے لفظوں میں جدید عہد کا آدمی اس پرانی دنیا سے ’جلا وطن ‘ہو چکا ہے ؛جلا وطن آدمی کی طرح وہ اس قدیم دنیا کو یاد کر سکتا ہے، مگر اس کی طرف پلٹ نہیں سکتا۔ کتابی کیڑے یعنی قدیم متون پر تحقیق کرنے والے لوگ قدیم دنیا کا مثالی تصور قائم کرتے ہیں، اور اس کے سلسلے میں آرزو مندانہ جذبات رکھتے ہیں۔ نظم ’کرمِ کتابی ‘ میں چوں کہ شاعر کتابی کیڑے کو سمجھانے کی مشقت کر رہا ہے کہ اصل حقیقت زندہ لوگ ہیں، ماضی بعید کے کردار، متون اور آثار نہیں، اس بنا پر نظم مناظرانہ اور خطابیہ رنگ اختیار کر گئی ہے۔ جدید شاعر آرکائیو کی تنقید اور اس کی آرزو بہ یک وقت کرتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اخترا لایمان کی بعض نظموں میں ماضی کی تنقید پر ترقی پسندانہ تناظر اس قدر حاوی ہو گیا ہے کہ نظمیں خطابیہ ہو گئی ہیں۔ تاہم نظم ’آثارِ قدیمہ‘ استثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انھوں نے ایک طرف ثقافتی ورثے اور نئے زمانے میں اسی فاصلے، اجنبیت اور بیگانگیت کو موضوع بنایا ہے، جن کا تجربہ آدمی جلاوطنی کی حالت میں کرتا ہے، اور دوسری طرف نئے زمانے سے بھی خود کو اجنبی اور جلاوطن محسوس کیا ہے۔ اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ترقی پسندانہ تناظر اور جدیدحسیت یک جا ہیں۔ شاعر آثار قدیمہ پر تنقید کرتا ہے، اور معاصر دنیا پر طنز کرتا ہے۔ نظم کا ابتدائی حصہ دیکھیے :
برتن، سکے، مہریں
بے نام خداؤں کے بت ٹوٹے پھوٹے
مٹی کے ڈھیروں میں پوشیدہ چکی چولھے
کند اوزار زمینیں جن سے کھودی جاتی ہوں گی
کچھ ہتھیار جنھیں استعمال کیا کرتے ہوں گے مہلک حیوانوں پر
کیا بس اتنا ہی ورثہ ہے میرا
انسان یہاں سے جب آگے بڑھتا ہے کیا مر جاتا ہے ؟
یوں نظم ثقافتی و تاریخی ورثے کے حوالے سے یہ سوال اٹھاتی ہے کہ ان کی ’انسانی معنویت ‘ کیا ہے ؟حیوانوں کو ہلاک کرنے والے ہتھیار ہوں، یا کند اوزار ہوں، یا ٹوٹے پھوٹے بت، یہ سب’ آج‘ کے انسان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ اس سوال کی تہ میں ایک طرف ماضی و حال میں وجود میں آنے والا وہی رخنہ موجود ہے، جس کا تجربہ جدیدانسان قدم قدم پر کرتا ہے، اورجس کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر آئے ہیں، اور دوسری طرف معروف ترقی پسندانہ تناظر ہے۔ ترقی پسند تناظر بتوں اور ہتھیاروں کو قدیم عہد کے مقتدر طبقوں کی یادگار سمجھتا ہے۔ چوں کہ نظم میں ترقی پسند اور جدید تناظر یک جا ہوئے ہیں، اس لیے نظم کا متکلم یہ سوال قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ ’کیا بس اتنا ہی ورثہ ہے میرا‘۔ اس سوال کی تہ میں کچھ اور سوال بھی مضمر ہیں جو نظم کو اہم بناتے ہیں : کیا مجھ تک یہی ورثہ پہنچا ہے، یا ورثے میں اور بھی بہت کچھ تھا، مگر مجھ تک بس یہی پہنچایا گیا ہے ؟کیا یہ بت، ہتھیار، اوزار ورثہ کہے جانے کے لائق ہیں ؟کیا میں اس دنیا کو اپنا ورثہ کَہ سکتا ہوں، جس سے میں بے دخل ہو چکا ہوں، یا جس کی کوئی معنویت میرے لیے نہیں ؟ان سوالوں کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ماضی کو مسلسل الٹتے پلٹتے رہتے ہیں، اور اس کے کسی ایک تصور کی اجارہ داری کی راہ مسدود کرتے ہیں۔
ترقی پسند تناظر نظم کے اگلے حصے میں بھی نظر آتا ہے، جس میں معاصر دنیا کے جنگی تاجروں کا ذکر ہے۔ نظم کے درمیان میں دو ہمسائیوں کی دشمنی پر زبردست چوٹ ہے :
برق صفت طیاروں کی ایجاد بھی کام نہیں آئی کچھ
دلی سے لاہور کے بازاروں کا فاصلہ پہلے سے کچھ اور بڑھا ہے
یہ فاصلہ اس لیے بڑھا ہے کہ جابر بادشاہوں کے تابوت خاک ہو گئے، مگر ان کی روحیں دوسرے جسموں میں آ گئی ہیں۔ صاف لفظوں میں نو آبادیاتی عہد ختم ہوا، مگر نیا نو آبادیاتی عہد شروع ہو گیا؛نو آبادیاتی عہد میں ہند ومسلم، ہندی اردو کی تفریق تھی، جو نئے نو آبادیاتی عہد میں مسلمان ملک اور ہندو ملک کی دشمنی میں بدل گئی۔ نیزاسلحہ ساز کارخانے جب تک موجود ہیں، دلی اور لاہور میں فاصلہ، اجنبیت اور دشمنی بڑھے گی، گھٹے گی نہیں۔ نظم کے آخر میں متکلم نے خالص جدید شاعر کی حسیت کا مظاہرہ کیا ہے، اوراس معاصر صنعتی دنیا پر زور دار طنز کیا ہے، جو انسان کو محض ایک صارفی شے میں بدل دیتی ہے، یعنی اس سے بنیادی انسانی صفت چھین لیتے ہیں :
خوش قامت، بانکے، چھیلا، سب ایک مجسم شہوت بنتے جاتے ہیں
اور حسینوں کے اندام بھی فضلے کے ڈبوں کی صورت کھلے ہوئے ہیں
نظم کی ان لائنوں کو طنزیہ گروٹیسک کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے !نظم کی آخری لائنوں میں اس دنیا ہی سے نہیں، انسانی دنیا بھی سے شاعر کی جلاوطنی کا واضح اظہار کیا گیا ہے :
ہم کو زندہ رہنا ہے، جب تک موت نہیں آتی اک زہر پیے جانا ہے
آؤ کتوں کا دربار سجائیں، کووّں کی بارات نکالیں
یہ دونوں مصرعے جلاوطنی کے بدترین کرب کا طنزیہ اظہار ہیں۔ جس دنیا میں شہوت اور فضلہ ہو، اس سے نکل کر حیوانی دنیا میں پہنچنا ہی بہتر ہے۔ شاعر نے کتوں اور کووں کا ذکر کر کے انسانی دنیا پر معکوس طنز کیا ہے۔
ماضی و حال دونوں دنیاؤں سے آدمی کی جلاوطنی کا موضوع جس طرح اختر الایمان کے یہاں ظاہر ہوا ہے، شاید ہی کسی دوسرے جدید شاعر کے یہاں ظاہر ہوا ہو۔ رفتہ رفتہ جلاوطنی ایک لاشعوری احساس اور ان کے شعری تخیل کا مستقل حصہ بنی ہے۔ انھوں نے ۱۹۷۷ ء میں شایع ہونے والے اپنے مجموعے نیا آہنگ(جسے ان کا سب سے اچھا مجموعہ کہا جا سکتا ہے ) میں ایک نظم ’جلاوطن‘ کے عنوان سے شامل کی ہے۔ اس نظم میں جلاوطنی کا وہ تجربہ سمٹ کر آ گیا ہے جو کہیں لخت لخت حالت میں اور کہیں بالواسطہ ظاہر ہو رہا تھا۔ پہلے نظم دیکھیے :
یہ ہم اپنے کاندھوں پہ خود اپنی لاشیں اٹھائے کہاں جا رہے ہیں
کوئی شہرِ نو، کوئی موعودہ جنت بنائی گئی ہے کہیں پر کہ ہم کو
نکالا ملا ہے، یونہی صرف معمول ہیں، ہم پہ تاریخ نشتر چلاتی ہے اپنا
نہاں خانہ دوش و امروز میں قید کر کے، گلا گھونٹ کر مار دے گی
نہ فریاد جس کی، نہ داد وستائش، کوئی محتسب ہے، نہ منصف ہے کوئی
مکافات، کفارہ، سودوزیاں، بانجھ الفاظ ہیں سب سراسر
ہر اک بیتا لمحہ ہماری نئی قبر ہے جس میں ہم سوگئے اپنا ماضی گلے سے لگائے
مجاور ہیں ہم، اپنے ہی نوحہ خواں ہیں، خود اپنی قبروں پہ بیٹھے ہیں مشعل جلائے
گدائی کا کاسہ لیے ہاتھ میں اپنے ہی اشک چنتے ہیں اور اس میں بھرتے ہیں ایسے
کہ جیسے یہی اپنا مقسوم تھا، زندگی کا یہی کہنہ دستور ہے اور رہے گا!
آپ نے ملاحظہ کیا، شاعر نے جلاوطنی کو تاریخ اور وقت کا لکھا ہوا حکمنامہ خیال کیا ہے ؛ اس کی فریاد کہیں نہیں کی جا سکتی۔ چوں کہ ان کی جلا وطنی استعاراتی ہے، اس لیے کوئی جنتِ موعود نہیں۔ حقیقی جلاوطنی میں چھوڑا ہوا وطن، جنت نشان بن کر تخیل میں ظاہر ہوتا رہتا ہے، اور جلاوطنی کے ختم ہونے کی نوید دیتا رہتا ہے۔ نیز حقیقی جلاوطنی میں ایک ایسا ’غیر ‘ باہر حقیقت میں موجود ہوتا ہے، جس کے خلاف آدمی غصہ و رنج ظاہر کر سکتا ہے، لیکن استعاراتی طور پر جلا وطن ایک ایسا شخص ہے، جس کا’ غیر‘ تخیلی ہے، اس کے اندر کہیں مضمر ہے، جو اسے ایک زندہ لاش میں بدل دیتا ہے ؛آدمی خود ہی اپنا نوحہ خواں ہوتا ہے۔ یہ اپنے اندر جنگ کی حالت ہے، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جدید انسان کی جلاوطنی کی یہ کربناک کیفیت اختر کی نظم کو انفرادیت بخشتی ہے۔
جدید شاعر ثابت وسالم حقیقت کا تصور نہیں رکھتا۔ اس کا سامنا جس حقیقت سے ہے، وہ شکستہ، ویران، کٹی پھٹی، جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں جدید شاعروں کے دو گروہ بنے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی نظموں میں بھی اسی شکستگی کو پیش کرتے ہیں، جسے وہ حقیقت میں دیکھتے ہیں، اور دوسرے وہ جو نظم کوشکستہ و پارہ پارہ حقیقت کو جوڑنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ وہ اس خسارے کی تلافی نظم میں کرتے ہیں جسے وہ حقیقت میں دیکھتے ہیں۔ ( تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ رویہ اپنی اصل میں کلاسیکی ہے، کیوں کہ خسارے کے ساتھ جینا لمحۂ حال میں جینا ہے، جب کہ خسارے کی تلافی کرنا، خسارے سے قبل کی اسی مستحکم حالت کی طرف لوٹنا ہے، جو کلاسیکیت کی پہچان ہے )۔ وہ اپنی متخیلہ کو حقیقت کے جبر کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اپنی تخیلی تعمیری قوت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ حقیقت کے متوازی، ایک نئی، تخیلی حقیقت خلق کرتے ہیں۔ اخترا لایمان کا تعلق اسی دوسرے گروہ سے ہے۔ لہٰذا شمس الرحمٰن فاروقی کی یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی کہ اختر الایمان کی نظم رائے لکسٹنسٹائن کی مصوری کی طرح ہے۔ دونوں اپنے فن کو جدید حقیقت، جو کھردری ہے، سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۸۔ خود اخترا لایمان نظم کو ایک عمارت کی طرح سمجھتے تھے، یعنی اسے حقیقت کی نقل کی بجائے، حقیقت کی تعمیر تصور کرتے تھے۔ جدید نظم پر ایک مباحثے میں انھوں نے رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’نظم کی بنیادی صفت اس کا تعمیری پہلو ہے۔ ہر نظم اپنی جگہ پر ایک عمارت ہوتی ہے۔ جس طرح کسی عمارت میں ایک اینٹ اپنی جگہ پر کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اسی طرح نظم کا ایک مصرع یا ایک شعر اپنی جگہ پر علاحدہ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘‘۔ ۹
نظم کو عمارت سمجھنا، صرف تیکینک کا معاملہ نہیں، بلکہ تیکنیک اور تصورِ حقیقت کا بہ یک وقت معاملہ ہے۔ اختر الایمان کے یہاں عمارت ایک ایسی علامت ہے، جس کی خصوصیات قطبینی بھی ہیں، اور ایک دوسرے کا تکملہ کرنے والی بھی۔ کہیں تو وہ ماضی کا تصور ایک عمارت کے طور پر کرتے ہیں، جس کی مثال نظم ’مسجد ‘ کے علاوہ ’پرانی فصیل‘، ’آمادگی‘ اور ’واپسی‘ جیسی نظمیں ہیں، اور کہیں وہ نظم ہی کو ’عمارت ‘ سمجھتے ہیں۔ دونوں جگہ عمارت کا مفہوم الگ الگ لیتے ہیں۔ جب وہ ماضی کو عمارت تصور کرتے ہیں تو اس کی کہنگی اور وقت کے آگے اس کی بے ثباتی و بے محلیت پر زور دیتے ہیں، اور جب نظم کو عمارت قرار دیتے ہیں تو اس کی تعمیری خصوصیت کو پیش کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پہلے مفہوم میں عمارت حقیقت کی شکستگی کی علامت ہے، اور دوسرے مفہوم میں عمارت حقیقت کے متوازی ایک نئی حقیقت کی تعمیر کی علامت ہے ؛وہ نظم کی صورت ایک نئی عمارت تعمیر کر کے، اس حقیقت کا متبادل پیش کرتے ہیں، جو شکستہ ہے، اور ڈھے جانے والی ہے۔
چوں کہ وہ نظم کو عمارت تصور کرتے ہیں، اس لیے وہ نظم میں ان رخنوں کو پیدا نہیں ہونے دیتے، جسے انھوں نے حقیقت میں مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی نظم میں نہ صرف ہر لائن اگلی لائن سے اینٹ کی طرح جڑی ہے، بلکہ رن آن لائن کا اہتمام بھی جگہ جگہ کرتے ہیں۔ انھوں نے اگر زیادہ تر پابند نظمیں لکھی ہیں تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ ان رخنوں، شکستگیوں، فاصلوں کو نظم میں پیدا نہیں ہونے دیتے، جسے وہ حقیقت میں دیکھتے ہیں (اپنی اصل میں یہ کلاسیکی شعریات کی خصوصیت ہے )۔ آزاد نظم کی ہیئت میں جا بجا خالی جگہیں بے وجہ نہیں پیدا ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آزاد نظم کو عمارت کی طرح تعمیر کرنا بے حد مشکل ہے۔ یہ مشکل کام اخترلایمان نے ایک نظم میں کیا ہے، یعنی ’کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام ‘ میں۔ اس نظم میں انھوں نے چھوٹی بڑی کہانیوں کو لکھا ہے، اور ایک کثیر منزلہ عمارت تعمیر کی ہے۔ پابند نظموں کو وہ ایک منزلہ عمارت کی مانند تعمیر کرتے ہیں، یعنی اس میں ایک مرکزی موضوع ہے، جو نسبتاً تفصیل اور تسلسل سے ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یوں بھی نظم کے مصرعوں کو اینٹ کی طرح تصور کرنے سے نظم میں وہی تفصیل اور تسلسل پیدا ہوتا ہے، جو بیانیہ کی صفات ہیں۔ ان کی اکثر نظمیں طویل، اور بیانیہ ہیں تواس کی بڑی وجہ نظم کو عمارت کی طرح تعمیر کرنا ہے۔ واضح رہے کہ عمارت کا عمومی تصور ان کے پیش نظر رہتا ہے۔
نظم کو عمارت سمجھنا، اسے گھر تصور کرنا بھی ہے۔ ماضی، تاریخ، ثقافت سے جلاوطن شاعر خود نظم کو ’گھر اور وطن ‘ بناتا ہے۔ نظم کو گھر بنانے کا ایک مطلب ہے، بے دخلی و مہاجرت و جلا وطنی کی کہانی نظم میں لکھنا، اور اس طرح شکستہ حقیقت کی متبادل حقیقت خلق کرنا، اور دوسرا مطلب ہے، نظم میں حسی تمثالوں کو زیادہ سے زیادہ اور گہری انسیت کے ساتھ پیش کرنا۔ گھر:چیزوں اور زمین سے گہری انسیت کے سوا کیا ہے ؟اختر الایمان نے نظموں میں نہ تو نامانوس زبان برتی ہے، نہ اجنبی علامتیں استعمال کی ہیں، اور نہ تمثالوں، مصرعوں، بندوں میں وقفے اور خلا رکھے ہیں۔ ان کی نظموں میں غیر معروف تاریخی و اساطیری عناصر کی طرف اشارے بھی کم سے کم ہیں۔ ’آج، اس لمحے ‘ میں جو درپیش ہے، اسے زیادہ سے زیادہ روزمرہ کی زبان میں ظاہر کیا ہے۔ ابتدا میں ان کی نظموں پر کتابی زبان، یعنی فارسی کی تراکیب، غزل کی مانوس لفظیات کا غلبہ تھا، مگر رفتہ رفتہ وہ نظم کوبول چال کی ’زندہ ‘ زبان میں نظم لکھنے لگے ؛اس سے ان کی نظم، نثر کے قریب محسوس ہوتی ہے، مگر اس میں نثریت کہیں نہیں۔ نامانوس زبان اگرچہ نئے خیال، نئے احساس کی ترسیل کی ضرورت ہے، مگر اسے ایک شاعرانہ چال کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے ؛خالی نامانوسیت، اس حیرت کا شائبہ پیدا کرتی ہے جو آرٹ سے مخصوص ہے۔ چناں چہ بعض نام نہاد جدید شاعر نامانوس زبان کو شاعرانہ چال کے طور پر استعمال کرتے ہیں ؛ان کی زبان کا گہرا رابطہ ان کے پیچیدہ لاشعوری احساسات سے نہیں ہوتا۔ دوسری طرف روزمرہ، بول چال کی زبان میں اچھی شاعری تخلیق کرنا بے حد مشکل ہے۔ بول چال کی زبان زیادہ سے زیادہ شفاف بننے کی کوشش کرتی ہے، اور کسی بات کی ترسیل کرنے کے بعد صَرف ہو جانے کا میلان رکھتی ہے۔ یہ خصوصیت، شاعری اور شعری زبان کی خصوصیت کے برعکس ہے ؛شاعری زبان کی صارفی قدر کے خلاف باقاعدہ احتجاج کا درجہ رکھتی ہے، اور شعری زبان شفاف نہیں ہوتی۔ لہٰذا بول چال کی زبان میں شاعری، دشمن کو رام کرنے کے مترادف ہے، یا ایک جلاوطن کے اس جگہ کو گھر بنانے کے مساوی ہے، جو ’غیر‘ کی جگہ ہے۔ اخترا لایمان نے اپنی مختصر نظموں میں عام طور پر دشمن کا رام کرنے کا یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ صرف ایک نظم ’خلا‘ دیکھیے :
خلا کیوں پر نہیں ہوتا
پرندوں کے ہزاروں رنگ
آموں سے بھری ڈالی
لسوڑوں کے ہر خوشے
لٹکتی جامنیں کالی
میں بھولا تو نہیں پھر کیوں
مسلسل کرب رہتا ہے
خلا کیوں پر نہیں ہوتا
آٹھ مصرعوں کی یہ نظم عام بول چال کی زبان میں، کم سے کم الفاظ میں لکھی گئی ہے۔ پرندوں، آموں، لسوڑوں کی تمثالیں بھی مانوس ہیں۔ اس غیر شاعرانہ مواد و اسلوب کے باوجود، مگر انھی کی مدد سے شاعر نے ایک اہم نظم لکھی ہے۔ نظم کی جان یہ مصرع ہے :’خلا کیوں پر نہیں ہوتا‘، اس استفہامیہ مصرعے میں وہ کرب سمٹ آیا ہے، جس کاسامنا ’وطن میں جلاوطن شخص ‘ کو ہوتا ہے۔ شاعر نے دوسرے تا پانچویں مصرعے میں وہ سب چیزیں گنوائی ہیں، جو ’خلا ‘ کو بھرنے والی ہیں۔ پرندوں کے ہزاروں رنگ، خالی، بے رنگ دنیا کو آباد کرتے ہیں۔ آموں سے ڈالی بھری ہوئی ہے۔ لسوڑے سے خوشے ہرے ہیں۔ کالی جامنیں لٹک رہی ہیں، یعنی لذتِ کام و دہن کا سامان موجود ہے۔ اور سب سے بڑھ کر متکلم کا حافظہ ان سب نعمتوں کی یاد سے خالی نہیں۔ ’باہر ‘ کے جمال کی یاد ’اندر‘ موجود ہے۔ اس کے باوجود(اندر کا) خلا نہیں بھرتا۔ کیوں ؟یعنی آدمی وطن میں رہتے ہوئے آخر کیوں جلاوطنی کا دکھ سہتا ہے، یا گھر میں بے گھری کا عذاب کس لیے جھیلتا ہے ؟ہماری رائے میں اس سوال کا جواب جس دن مل جائے گا، آدمی شاید پرسکون ہو جائے، مگر شاعری سےا س کی روح رخصت ہو جائے گی؛آدمی شاعری کو اپنا گھر بنانا ترک کر دے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
حوالہ جات
۱ اختر الایمان، کلیات، آج، کراچی، ۱۹۹۹ء،ص ۲۲
۲ محمدحسن، ’’اختر الایمان ‘‘ مشمولہ معیار، اخترا لایمان نمبر، (ترتیب شاہد ماہلی)، دہلی، ۲۰۰۰ ء، ص۱۳۔
۳ ایڈورڈ سعید، Representations of the Intellectuals، ونٹاژ بکس، نیویارک، ۱۹۹۴ءص ۵۲
۴ اخترا لایمان، اس آباد خرابے میں، اردو اکادمی، دہلی، ۱۹۹۹ءص ۳۹
۵ ناظم حکمت، محبت، جلاوطنی اور حراست کی نظمیں (ترجمہ و تعارف فاروق حسن)، قوسین، لاہور، ۲۰۰۹ء،ص ۲۹۔ ۳۰
۶ محمدحسن، ’’اختر الایمان ‘‘ مشمولہ معیار، اخترا لایمان نمبر، محولا بالا،ص ۱۳۔
۷ اختر الایمان، کلیات، محولا بالا،ص ۲۲
۸ شمس الرحمان فاروقی، ’’اخترا لایمان۔ ..ایک مختصر محاکمہ‘‘، مشمولہ معیار، محولہ بالا،ص ۱۵۸
۹ اختر الایمان، ’’جدید نظم :ہیئت و تشکیل، ایک مباحثہ، مشمولہ سہ ماہی ذہن جدید، جدید نظم نمبر ۲، دہلی، مارچ مئی ۱۹۹۶ء،ص ۵۸
[نوٹ: اس مضمون میں اختر الایمان کی نظموں کے تمام اقتباسات ان کے کلیات، مطبوعہ آج، کراچی سے لیے گئے ہیں۔ ]
٭٭٭
اختر الایمان کی نظموں کے ساتھ گزران ۔۔ ۔ ارجمند آرا
غالباً 1989 کا سال تھا جب میں نے اختر الایمان کو پڑھنا شروع کیا۔ ابھی میں جے این یو نہیں آئی تھی اور کمیونسٹ /مارکسسٹ نظریات کے وسیلے سے طبقاتی تفریق اور نا انصافیوں سے واقف ہونے اور ان کی منطق سمجھنے میں ابھی کئی برس باقی تھے۔ ایک عام سی گھریلو لڑکی جس کی حقیقی عملی دنیا کی پیچیدگیوں سے کوئی آشنائی نہ تھی، اور انگریزی میں رٹّا مار قسم کا ایم۔ اے۔ کر نے میں مصروف تھی۔ اردو ادب کا اس کا کوئی گہرا مطالعہ نہیں تھا، چند اہم بنیادی کتابیں ( باغ و بہار، فسانۂ عجائب، الف لیلہ اور حاتم طائی کی داستانیں اور قصے، پریم چند کے چند ناول اور چند نصابی شعراء اور اقبال کی کچھ شاعری) اور مغربی ناولوں میں منشی تیرتھ رام فیروز پوری وغیرہ کے بعض تراجم پڑھ رکھے تھے۔ ترقی پسندی سے معمولی سی واقفیت تھی، سجاد ظہیر کی روشنائی کے وسیلے سے۔ تو اُن دنوں اختر الایمان کے کلیات ’سروسامان‘ کو پڑھنا شروع کیا۔ ان نظموں کا ڈھب ہی الگ تھا۔ اب تک تو اقبال اور حالی ٹائپ کی خطابیہ نظموں سے ہی واقف تھی۔ اختر الایمان کو پڑھنا شروع کیا تو طبیعت صاف ہو گئی۔ ان میں نہ تو نغمگی اور رچاؤ تھا اور نہ جوش و خطابت۔ لیکن کوئی بات تھی جو نظم کا اختتام آتے آتے جھنجھوڑ دیتی تھی۔ یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ ہر نظم کو اس کے مضمرات کے ساتھ سمجھ سکتی تھی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مشکل نظمیں بھی ایک تاثر چھوڑ جاتی تھیں، بلکہ مرعوب کر دیتی تھیں۔ پھر تو یہ عالم ہوا کہ ہر روز اختر الایمان کو پڑھنے کا ویسا ہی چسکا لگ گیا جیسے اسکول کے زمانے میں ابنِ صفی کے جاسوسی ناول پڑھنے کا لگا تھا۔ کچھ لوگوں کو مثال بے ڈھب محسوس ہو گی لیکن بات بھان متی کے کنبہ جوڑنے کی نہیں بلکہ کسی تحریر کی اس کشش کی ہے جو مسخر کر لیتی ہے۔ پھر تو یہ طور ہو گیا کہ سوتے جاگتے اختر الایمان کو پڑھنا بچپن میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے وِرد کے مانند ہو گیا۔ کبھی بالاستیعاب مطالعہ ہو رہا ہے تو کبھی ایک ہی نظم کی تسبیح پڑھی جا رہی ہے۔ کبھی یہ ہوتا کہ بیٹھک میں منڈلی جما کر اختر الایمان کو پڑھا جاتا۔ بڑے بھائی جان (امان اللہ خالد) اور ان کے بعض دوست جمع ہو جاتے اور چائے کے ساتھ محفل جم جاتی۔ اس محفل میں ابا جان بھی شریک تو ہوتے لیکن ان کو نئی شاعری میں زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ وہ اختر الایمان کو پسندتو کرتے تھے لیکن اس پر گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ان کی گفتار کے جوہر اقبال، رومی اور حافظ پر بات کرتے ہوئے کھلتے تھے، کہ ان کی تربیت اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری کے رچاؤ ہی میں تھی۔ میری حیثیت ایک خاموش سامع کے سوا کچھ نہ تھی کہ ان نظموں کو سننا گفتگو سے زیادہ مزہ دیتا تھا۔ اس زمانے میں جن نظموں کو بار بار پڑھا اور سنا ان میں نقشِ پا، موت، محرومی، مسجد، پرانی فصیل، جواری پگڈنڈی، غلام روحوں کا کارواں، یادیں، ایک لڑکا، میر ناصر حسین، بنتِ لمحات، باز آمد، آثارِ قدیمہ، نیا آہنگ اور کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام جیسی نظمیں شامل تھیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی تھیں جن کو بار بار پڑھنا اچھا لگتا تھا۔ ’سب رنگ: ایک تمثیل‘ کو بھی بار بار پڑھا۔ جارج اورویل کا تمثیلی ناول Animal Farm کافی بعد میں پڑھا تو احساس ہوا کہ اختر الایمان کی نظم بھی اسی روایت کا حصہ ہے جس کا قدیم روپ پنچ تنتر کی کہانیاں ہیں اور جدید روپ اینمل فارم۔
1992 میں جب جے این یو میں ایم اے میں داخلہ مل گیا تو اردو کا نصاب تو کم لیکن روسی ادب میں ٹالسٹائے، دوستوئیفسکی، میسکم گورکی، انتون چیخوف اور شولوخوف وغیرہ کو زیادہ پڑھنا شروع کر دیا جن کی کتابیں کمیونسٹ پارٹی کی بک شاپ ’پیپلز پبلشنگ ہاؤس‘ سے بڑے سستے داموں مل جاتی تھیں۔ اسکول آف لیکنگویجز سے لوٹتے ہوئے اکثر وہاں کچھ وقت گزارتی اور کوئی نہ کوئی ناول یا افسانوں کا کلکشن تھیلے میں ڈالے ہوئے ہوسٹل لوٹتی۔ ان دنوں اختر الایمان کو پڑھنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ ایم فل کے لیے سوچا تھا کہ ’زمین زمین ‘ کا تنقیدی مطالعہ کروں گی لیکن پھر کوئی دوسرا موضوع طے ہو گیا۔ اس کے بعد تنقیدی نقطۂ نظر سے اختر الایمان کو پڑھنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ ویسے بھی اپنے پسندیدہ شاعروں پر کچھ لکھنا شاید مشکل ترین امتحان ہوتا ہے۔ اب دیکھیے کہ گزشتہ ایک مہینے سے منصوبہ باندھ رہی ہوں، استاذیِ محترم ڈاکٹر اسلم پرویز کے کہنے سے، لیکن کمپیوٹر کے کی بورڈ کو اختر الایمان سے بیر ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں قلم کی نوک رک جاتی تھی۔ اب کہا جا سکتا ہے انگلیاں چلتی ہی نہیں کی بورڈ پر۔ ہوا یہ کہ پہلے یہ سوچا کہ کچھ تنقیدی تحریریں پڑھ لوں تاکہ یہ طے کر سکوں کہ کس پہلو پر لکھا جائے۔ پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ اس طرح تو میں کوئی موضوع طے ہی نہیں کر سکوں گی۔ وہی انتشار محسوس کرنے لگی جو کوئی ایسا شخص جو خود کو اپنی مادری زبان کا نکتہ رس اور ماہر سمجھتا ہے، اس وقت محسوس کرتا ہے جب اس کا پالا سچ مچ کسی ایسے اسکالر سے پڑ جائے جو اپنی اکتسابی زبان کے ادب پر واقعی ماہرانہ دسترس رکھتا ہے۔ بہت سا وقت ضائع کر کے خیال آیا کہ بس وہی تاثرات قلم بند کرنے کی کوشش کروں جو ابتدائی دور میں اختر الایمان کو پڑھ کر ملے تھے، انھی نظموں کو پھر سے پڑھوں اور سمجھنے کی کوشش کروں کہ یہ نظمیں مجھے آج بھی اتنی ہی عزیز کیوں ہیں۔ یوں اس تحریر کو ناقدانہ اصول و ضوابط سے کچھ ربط نہیں، بس ’اک بات ہے جو کان میں کہنی ہے خاموشی سے ‘ ( ’باز آمد ‘کی تتلیوں کی طرح )۔
پہلا تاثر جو یاد ہے، وہ یہ اکثر نظمیں پڑھتے ہوئے نظروں کے سامنے تصویریں ابھر آتی تھیں، بہت واضح پیکرجیسے کوئی فلم چل رہی ہو، جیسے کوئی منظر نظروں کے سامنے ہو(جو غزلیہ شاعری اب تک پڑھی تھی اس میں اس طرح کے واضح پیکر کبھی نظر نہیں آئے تھے ):
تیز ندی کی ہر موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
(مسجد)
ٹھاٹھیں مارتی، امڈتی ہوئی ندی کا منظر لگتا تھاسیلاب نہیں قیامت ہے۔ سیلاب کا وہی منظر جس کا تصور روزِ قیامت کے حوالے سے بچپن سے تصور کرتے آئے تھے۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے صرف ایک پوری تہذیب، ایک روایت کے فنا ہونے کی تقدیر کا احساس نہ صرف اداس کر جاتا تھا بلکہ خود کاو کاوِ سخت جانی ہائے انسانی کے ضیاع کو دیکھ کر ایک طرح کے بے نیازی کہیے یا قنوطیت کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ لیکن حیرت ہے کہ اس نظم نے بے نیازی کی طرف تو مائل کیا لیکن اس کے چلتے پھرتے منظروں نے (مثلاً ابابیل کے سرد ممالک کی داستان سنانا، مسجد کی شکستہ دیوار کے سائے میں بوڑھے گدھے کا اونگھنا، ویران مسجد میں کبھی کبھار کسی مسافر کا آ جانا، رعشہ زدہ ہاتھوں کا دیا جلانا، مسجد کا فرش جسے جاروب کشی کی حاجت ہے، منبرو محراب، طاق و چراغ کا ذکر) اونگھتی ہوئی قدیم بستی کی سست رو اور پرسکون زندگی کا ایسا نظارہ پیش کیا جو زندگی سے وابستہ کرتا ہے، ایسی پرسکون زندگی سے جس کی طرف شہروں کی دیوانہ وار بھاگتی دوڑتی زندگی سے اکتائے ہوئے لوگ رشک بھری نظر سے دیکھیں۔ اس منظر کی طرف ویسی ہی کشش محسوس ہوتی تھی جیسے قدیم کھنڈروں میں محسوس ہوتی ہے۔
اور بھی مناظر تھے جو بے حد دل کش لگتے تھے۔ ’ایک لڑکا‘ کے پہلے بند میں بھی ایسی ہی بستیوں اور جنگلوں کے دیکھے بھالے منظر ہیں، بچوں کی وہی بے تصنع کھلنڈری زندگی ہے جس کا سراغ ہمارے بچپن میں بھی کچھ نہ کچھ باقی تھا اور ان منظروں کے ساتھ ایک یگانگت کا احساس ہوتا تھا۔ بعد میں یہی یگانگت انتظار حسین کے کئی ایسے افسانوں میں ملی جن میں بستی کے باہر ویرانوں اور دگڑوں میں بچوں کے کھیلنے کودنے اور ڈرنے سہمنے کا ذکر ہے۔
دوسری خوبی جو دل پر بے اختیارانہ اثر رکھتی تھی، ان نظموں کا ڈرامائی اختتام تھا۔ نظم کو کسی افسانے یا ناول کی طرح پڑھتے جائیے، اس میں چاہیں تو کسی افسانے کو گندھا ہوا دیکھیے یا کسی جذبے کیفیت کے اتار چڑھاؤ، ایک تنظیم و ترتیب جو ایک چست پلاٹ میں ہوتی ہے، اس میں بھی نظر آتی تھی۔ یعنی ڈرامے کے جو اجزا ارسطو کے معروفِ زمانہ نظریات میں پڑھ رکھے تھے کہ اس کا ’ایک آغاز، وسط اور انجام ہوتا ہے ‘، اور جو کلاسیکی تعریف ناول کی ساخت کے بارے میں پڑھی تھی کہ ناول میں واقعات کے ترتیب منطقی اور گٹھی ہوئی ہوتی ہے جس میں کہانی بالآخرکلائمکس پر پہنچتی ہے اور آخرش اینٹی کلائیمکس مسئلے یا پیچیدہ صورتِ حال کی تحلیل (Denouement) پر منتج ہوتا ہے، تو ان سب کا براہِ راست عملی مظاہرہ ان نظموں میں نظر آیا۔ ناول کو پڑھنے میں تو اکثر کئی دن لگ جاتے ہیں، جن میں زندگی کے ہنگامے ناول کی زائیدہ ذہنی دنیا سے ٹکراتے اور ہمیں اس مخصوص ماحول سے بار بار باہر کھینچتے رہتے ہیں، اورجس کی وجہ سے وہ گہرا تاثر اور انبساط جو کسی فن پارے کو ایک نشست میں پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے، منتشر ہو جاتا ہے۔ اختر الایمان کی نظموں میں تاثر کے مجروح یا شکست ہونے کا سوال نہیں تھا۔ اس میں مختصر افسانے والی بات تھی: یعنی نظم ایک نشست میں پڑھ لی اور تاثر کی وہ وحدت برقرار رہی جو واضح اور شدید ہوتا تھا اور تسکین سے بھرپور بھی۔ ’ایک لڑکا‘ نے خصوصی طور پر بہت متاثر کیا اپنی ساخت کی وجہ سے۔ اس میں جدت یہ نظر آئی کہ اس میں تین بار کلائمکس ہوتا ہے، ہر بند پر لگتا ہے نظم ختم ہو گئی، لیکن وہ پھر اٹھاتے ہیں، نئے کلائیمکس پر پہنچاتے ہیں۔ تیسری بار کے اینٹی کلائمکس پر نظم ڈینیوما تک پہنچتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ زندگی اوراس کی قدروں کو، اپنے اندر کے انسان اور شخصیت کو پامال کر دینے والے منفی حالات میں بھی وہ لڑکا اپنے جیوٹ پن سے، جہدِ مسلسل سے کس طرح اپنی معصومیت کو، اپنی انسانیت کو اور مثبت قدروں کو بچا لے گیا اور زندہ رہا۔
نظم کا پیغام اپنی جگہ، جیسا کہ ہر شاعر اپنی نظم کے آخر میں رکھتا ہے، لیکن اختر الایمان کا اسلوب یہ ہے کہ وہ اسے بڑے ڈرامائی اور طنزیہ انداز میں اچانک پیش کرتے ہیں، یہ انجام اکثر نظم کی اٹھان، ارتقا اوراس کی مجموعی فضا سے مختلف ہوتا ہے، اور اس غیر متوقع انجام کی وجہ سے نظم کا تاثر اچانک یا تو بدل جاتا ہے یا پیدا شدہ جذبے کی بہ یکدم تطہیر ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ اسی بات کو کہنے کے لیے نظم کہی گئی ہے۔ یہ طریقہ ان کی کم و بیش سبھی نظموں میں دیکھا، بلکہ اندازہ ہوا کہ یہی ان کا سب سے موثر حربہ ہے۔ یہ چیخوفی تاثر پیدا کرنے کے لیے اختر الایمان پیرا ڈوکس کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔کبھی تو زمانی و مکانی بُعد سے، کبھی اجتماعِ ضدین سے، کبھی قولِ محال سے اور کبھی انسانی جبلت اور شعور کے ایسے نہاں گوشوں کو اجاگر کر کے جو نظم میں مذکور شخص کی فطرت سے میل نہیں کھاتے۔ پیراڈوکس یوں تو روایتی غزل کا بھی حسن ہے اور فوری اور شدید تاثر کے لیے شاعروں نے ہمیشہ تضاد و طباق سے حسن کاری کا کام لیا ہے لیکن شعر تو مبنی ہی ہوتا ہے ایجاز و ایما پر جس میں قطرے میں دجلہ سمیٹنے کی خاطر استعارے، تشبیہہ اور مجاز کے ساتھ ساتھ صنعت گری لازم ہے۔ اختر الایمان کے یہاں یہ تکنیک بیانیہ شاعری میں دیکھی، وہ بھی ایسی بیانیہ شاعری میں جس میں ڈرامے اور فکشن کے اوصاف ہیں۔ اس وقت تو نہیں لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ ان کا یہ ڈیوائس منٹو کے افسانوں کے مماثل ہے جو اسی طرح پیرا ڈوکس کی مدد سے انسانی فطرت کے نہاں گوشوں اور سماج کے تضادات کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک دو مثالوں سے وضاحت کرنا شاید بیجا نہ ہو۔ یاد آ رہی ہے اختر الایمان کی مختصر سی نظم ’بنتِ لمحات‘ جو نہایت رومانی فضا قائم کرتی ہے، محبوبہ کے لہجے کی شیرینی، اس کی مسیحائی تاثیر اور اس کے محسوس وجود کی گرمی کے ذکر کے بعد نظم میں گریز آتا ہے اور شاعر زمینی حقائق کی سفاکی طرف پلٹتا ہے :
حیات نام ہے یادوں کا تلخ اور شیریں
بھلا کسی نے کبھی رنگ و بو کو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا، صبا کو بند کیا
ہر ایک لمحہ گریزاں ہے، جیسے دشمن ہے
نہ تم ملو گی نہ میں، ہم بھی دونوں لمحے ہیں
وہ لمحے جا کے جو واپس کبھی نہیں آتے !
یا ایک اور چھوٹی سی نظم ’کفارہ‘ جس کے آخری مصرعہ نظم کی فضا کو یکسر بدل دیتا ہے اور اس سچویشنل پیراڈوکس پر ہم ایک شدید صدمہ محسوس کرتے ہیں :
اس جہاں میں بارہا آیا ہوں میں
طے نہیں پایا ابھی تک کیا ہوں میں
رینگتے پھرنا زمیں پر، اور کبھی پرواز میں
جلوہ گر ہوتا رہا ہوں مختلف انداز میں
خار و خس میں سبزہ و گل میں کبھی
برگِ نے میں، سرو و سنبل میں کبھی
خاک سے اڑ کر بگولوں میں اڑا پھرتا رہا
مینہ بن کر بادلوں سے خاک پر برسا کیا
وسعتِ صحرا میں سورج کی تپش سہتا رہا
پانیوں میں تیز رو دریاؤں کے بہتا رہا
ہر طرح کے رنگ میں رمتا رہا، آیا گیا
ہر نئی صورت میں میری ذات جاں افزا ہوئی
آدمی کی شکل میں آیا، زمیں رسوا ہوئی
ایسے ہی تاثر سے دوچار کرنے والی نظموں میں ’رویائے صادقہ‘، ’بازگشت‘، ’کارنامہ‘، ’کربلا‘، ’عہد وفا‘، ’اعتماد‘، ’شکوہ‘، ’پہلی کرن‘ وغیرہ یاد آ رہی ہیں۔ نظموں کو ان صفحات میں نہ تو پیش کرنا ممکن ہے، نہ ان کا تجزیہ مقصود ہے۔ ڈرامائی انجام کو نہایت خوش اسلوبی سے پیش کرنے والی چھوٹی سی نظم ’اعتماد‘ کو نقل کر کے اس پہلو پر اپنی بات ختم کروں گی کہ یہ اختر الایمان کے خاص انداز کی نمائندہ نظموں میں شامل کی جا سکتی ہے :
بولی خود سر ہوا ایک ذرّہ ہے تو
یوں اڑا دوں گی میں، موجِ دریا بڑھی
بولی میرے لیے ایک تنکا ہے تو،
یوں بہا دوں گی میں، آتشِ تند کی
اک لپٹ نے کہا، میں جلا ڈالوں گی
اور زمیں نے کہا، میں نگل جاؤ گی
میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی نقاب
اور ہنس کر کہا، میں سلیمان ہوں
ابنِ آدم ہوں میں، یعنی انسان ہوں
اختر الایمان کی شاعری کی زبان بھی ایک شاک کی سی کیفیت سے دوچار کر تی تھی، اور کرتی ہے۔ اسے شاعری کی نہیں بلکہ اینٹی شاعری کی زبان کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ہر موضوع کی اپنی مخصوص زبان اور لفظیات ہوتی ہے۔ اختر الایمان کی شاعری کے موضوعات عموماً تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے تضاد اور شکست سے، انسان کی فطری طمع اور مفاد پرستی سے، اور رشتوں کے تضادات سے کشید ہیں ان کے بیان کے لیے تلخ اور کھردرے الفاظ لازم تھے جو شاعری کی اس فضا کو مخدوش کرتے ہیں جس سے ہمارے ذہن مانوس ہیں۔ حالات کے آگے انسان کی بے بسی اور بے چارگی کو بیان کرنے میں، اس کی جبلت اور ذہن کے تاریک گوشوں کو اجاگر کرنے میں، زندگی کی تلخ کامیوں اور ناکامیوں کے بیان میں ترشی پیدا نہیں ہو گی، طنز یہ اسلوب نہیں برتا جائے گا تو وہ اثر پیدا نہیں ہو گا جس کا تقاضا یہ موضوعات کرتے ہیں۔ اختر الایمان نے جو کٹھن زندگی گزاری، بچپن سے ہی جن مشکلات اور محرومیوں کو دیکھا اور جد و جہد کرنا سیکھا، اور اس سے ان کے مزاج کی تشکیل جس طرح ہوئی اسی نے ان سے ان کے شعری موضوعات طے کرائے اور اپنی زندگی کے بہت ابتدائی دور میں ہی انھوں نے شعوری طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ غزل نہیں کہہ سکتے، انھیں جو کچھ کہنا ہے وہ روایتی نظم میں بھی نہیں کہا جا سکتا، چنانچہ خیال اور زبان دونوں کی سطح پر انھوں نے اظہار کا جو طریقہ اختیار کیا اسے نظمیہ شاعری میں منفرد کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنا کھردرا اسلوب شعوری طور پر گڑھا۔ جو اُن کی نظموں میں خیال سے لے کر ہیئت تک، انتخابِ الفاظ سے لے کر انتخابِ علامات تک ہر بات میں نمایاں ہے۔ اور اظہار کے اس منفرد انداز نے فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہماری روایتی غزل کی فضا جو اجنبی پن اور تخیلاتی پیکروں سے تعمیر ہوئی ہے، یہاں بالکل غائب ہے۔ یہ نظمیں ہمیں ہماری آشنا حقیقتوں کے دور نہیں ہونے دیتیں، زمینی حقیقتوں کا ادراک کراتی رہتی ہیں ۔ ان زمینی حقیقتوں کا جو انسانی نفسیات اور اس کی زائیدہ سفاکیوں، مفاد پرستی اور استحصال سے معمور ہیں۔ ان کی نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ انسانی برتاؤ کا گہرا مشاہدہ تو بہت سے شاعروں نے کیا ہو گا لیکن نظم میں اس کے گوناگوں پہلوؤں کو نمایاں کرنے میں اختر الایمان کو امتیاز حاصل ہے۔ اب ان نظموں کو پڑھتی ہوں تو منٹو کا یہ بیان ذہن میں ابھر تا ہے کہ ’’ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختۂ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختۂ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ ‘‘ اختر الایمان کے قلم کو بھی منٹو کے اسی سفید چاک سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
یوں تو اختر الایمان کی نظموں پر بات کرتے ہوئے ان کے تصورِ کائنات، تصورِ وقت، تصورِ خدا، تصورِ مذہب، تصورِ عشق، تصورِ سماج اور انسانی رشتوں کی ان کی فہم پر بھی بات کی جا سکتی ہے، لیکن موضوع بہت پھیل جائے گا۔ اس پر بات کرنے کے لیے کئی مضامین درکار ہیں، اور فی الحال یہاں میرا مقصد اختر الایمان کی بازیافت کرنا نہیں بلکہ ان تاثرات کا اظہار ہے جنھوں نے فوری طور پر متوجہ کیا تھا۔ اس پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن نظموں کو نقل کیے بغیر بات کرنا لاحاصل ہو گا۔ اور ایسا کرنے سے مضمون غیر ضروری طوالت کا شکار ہو جائے گا۔ اس لیے بس ایک اور بحث طلب لیکن ضمنی نکتے کی طرف آتی ہوں، جو شاعری کو آزادانہ طور پر پڑھنے اور متن کے معنی متعین کرنے سے متعلق ہے۔ مقصد یہ بتانا ہے کہ اختر الایمان کی شاعری کی تفہیم کے لیے میرے سامنے آج رہنما اصول کیا ہے۔
پوسٹ ماڈرنسٹ کہتے ہیں کہ متن اپنے خالق سے آزاد ہوتا ہے۔ یعنی تخلیق کار ایسا وسیلہ ہے جس سے متن خود کو لکھواتا ہے اوراس کے وجود میں آنے کے بعد خالق کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور متن کی حد تک خالق کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اب آزاد وجود رکھنے والے اس متن سے رشتہ قاری کا بنتا ہے، اور ہر قاری اس کو آزادانہ طور پر پڑھتا اور حسبِ استعداد معنی اخذ کرتا ہے۔ بڑی معقول دلیل لگتی ہے کیونکہ کلاسیکی غزل کے پروردہ ہمارے بوسیدہ ذہنوں میں فوراً میرؔ، مصحفیؔ یا غالبؔ کے کوئی ایسا شعر کوند جاتا ہے جس کی رمزیت اور ایمائیت نے بڑے بڑے شراحوں کو طویل بحثوں میں الجھایا ہے، اور ہم اس بات کے فوراً قائل ہو جاتے ہیں کہ (۱)متن کے ایک سے زیادہ معنی ہوتے ہیں، (۲)ان معنی تک ہماری رسائی حسبِ استعداد ہوتی ہے، یعنی ہمارے درک، مطالعے اور تہذیب کے تصور وغیرہ پر منحصر ہوتی ہے۔ (۳) اور اسی لیے ہم اپنی اپنی استعدادکے مطابق اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
لیکن مصنف سے متن کی برأت کا یہ اعلان کیا ہم ہر طرح کی شاعری کے لیے کر سکتے ہیں ؟ سوانحی ادب کو کس زمرے میں رکھا جائے ؟ اختر الایمان کی ذہنی ساخت کو سمجھے بغیر، جو اُن کے سوانح کی عطا ہے اور ان کی شاعری میں اغلب طور پر منعکس ہوتی ہے، ان کی نظموں کو آزادانہ طور پر کس طرح سمجھا جائے ؟ ان کے ذہن کو سمجھے بغیر اس علاماتی نظام کی تفہیم کس طرح ہو جو وہ ان نظموں میں قائم کرتے ہیں ؟
دراصل اصولی طور پر متن سے برأت کی بات ہم تبھی کر سکتے ہیں جب کسی کی شاعری پابندیِ روایت میں کہی گئی گل و بلبل اور چمن وقفس کی روداد ہو۔ ایسے تصورات جو جدید حسیت، دانشوری، علم اور شعور کی عطا ہیں ان کو ان کے خالق سے علاحدہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اقبال ہوں، فیض ہوں یا پھر اختر الایمان ۔ ان کے تصورات اور ان کے اظہارات کوہم ایک نامیاتی وحدت کے روپ میں نمو پذیر اور ایک مادی وجود کی طرح سانس لیتے ہوئے محسوس کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ان شعرا کو روحِ عصرسے اور خود ان کے تشخص علاحدہ کر سکتے ہیں ؟ خود اقبال کی شخصیت، ان کے ذہن، تربیت، ماحول، ان کے عہد کے سیاسی و معاشرتی حالات کے جس ملغوبے سے ہم ان کافلسفۂ کائنات، فلسفۂ زندگی، فلسفۂ اسلام، فلسفۂ خودی، فلسفۂ مردِ کامل اور فلسفۂ سیاست کشید کرتے اور ان کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو کیا اپنی ان کوششوں میں ہم کبھی متن سے مصنف کا رشتہ منقطع کرتے ہیں ؟ آخر اقبال، ان کا ذہن، ان کی فکر اور شعری کائنات ہمارے لیے ایک نامیاتی وحدت کیوں بن جاتی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول کا پروردہ ہے اور اس کے ساتھ اس کا اٹوٹ رشتہ ہے، جس کو سائنسی اور منطقی طرز پر محسوس کیا جا سکتا اور قائل ہوا جا سکتا ہے۔ کسی ایک متن کو ہم بے شک ایک آزاد اکائی کی طرح پڑھیں اور اس سے ایسے معنی اخذ کریں جو کسی اور کے معنی سے مختلف ہوں لیکن یہ متن کو دیکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ متن سے آگے بھی دنیا ہے، اور اس کو خلق کرنے والے کے ذہن کو پڑھنے اور اس کی دنیا میں داخل ہونے اور اس کے نظامِ فکر کو سمجھنے کے وسیلے بھی ہیں۔ ان کا انکار کر کے مصنف کی موت کا اعلان چاہے کتنا ہی معروضی کیوں نہ لگے، یہ ایک تنگ نظری اور کوتاہیِ فکر کا غماز ہو گا۔
چناں چہ کسی تخلیق کار کو سمجھنے کی مجموعی کوشش اس کی تمام نگارشات کی مدد سے کی جا سکتی ہے ۔ ان کے موضوعات اور ان کے برتاؤ اور ان کے پیغام سے مصنف کے ذہن کو پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کام کچھ لوگوں کوہو سکتا ہے لایعنی کسرت لگے لیکن تہذیب و تاریخ کے ارتقا میں فرد کے انفرادی اور اجتماعی رول میں یقین رکھنے والے ہم جیسے لوگوں کے نزدیک ان حقائق تک پہنچنا خود تخلیق کو پڑھنے سے کم مسرت خیز نہیں ہوتا۔ چناں چہ اختر الایمان کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے میں اسی بات کو میں بنیادی نکتہ سمجھتی ہوں، اور، اسی لیے، ان کی خودنوشت ’اس آباد خرابے میں ‘ اور مختلف مجموعوں میں شامل دیباچوں کو وہ رہنما حوالہ سمجھتی ہوں جن کی وجہ سے اختر الایمان کی شعری کائنات کی تفہیم قدرے آسان ہو گئی۔
٭٭٭
اختر الایمان کی شاعری پر ایک مونتاج ۔۔۔ خالد علوی
ہمارے غزل بنیاد سماج میں نظم کو عموماً وہ اہمیت حاصل نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی۔ نظم کو اپنی تخلیقی حیثیت تسلیم کرانے میں بھی دشواریوں سے گزرنا پڑا۔ اقبال کی نظم نے ہماری نظم کی صنفی اہمیت و حیثیت تو مسلّم کر دی لیکن ساتھ ہی ایک غیر اعلان شدہ پابندی بھی نظم کی صنف پر نافذ کر دی کہ مذہبی یا اصلاحی مضامین کے لیے نظم کی صنف میں خاص گنجائش ہے۔ اسمٰعیل میرٹھی، ظفر علی خاں، شاکر میرٹھی کی بعض نظمیں نظم طبا طبائی، ضامن کنثوری، نذیر انبالوی اور طالب بنارسی وغیرہم کی ترجمہ شدہ نظموں نے اس نظریے کو اور استحکام بخشا کہ اگر باطنی کشمکش اور شدید احساس کا اظہار کرنا ہے تو غزل میں ہی ممکن ہے ہلکے پھلکے خیالات، مذہبی یا اصلاحی نظریات اور صبح و شام بادل بارش کے بارے میں کچھ کہنا ہے تو نظم ہی ٹھیک ہے۔
ایک اہم مسئلہ غزل کی خوبی اختصار اور نظم کی طوالت کا بھی ہے۔ اگرچہ نظم کے لیے بھی طوالت کی شرط نہیں رہی۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مضمون ’’غزل اور نظم کا امتیاز ‘‘میں صرف ایک لفظ کی بعض انگریزی نظموں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جن خیالات کو بعض شعرا نے غزل کے صرف دو مصرعوں میں بیان کر دیا ہے جب ان کا اظہار نظم میں کیا تو طویل راستہ اختیار کیا۔ میں نے اپنے ایک گذشتہ مضمون میں مخمور سعیدی، ندا فاضلی اور بعض دوسرے شعرا کے حوالے مثالوں کے ساتھ پیش کیے تھے۔ اس لیے، عام طور سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ نظم طویل ہوتی ہے یا ہونی چاہیے۔ اگر نظم طویل ہو گی تو رطب و یابس اور حشو و زوائد بھی ضرور ہوں گے۔ اقبال کی بعض نظموں سے بھی اگر کچھ حصے حذف کر دیے جائیں تو تاثر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اختر الایمان کے ذکر سے قبل ان اعتراضات کا حوالہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اختر الایمان کی شاعری کسی نہ کسی شکل میں ان تمام اعتراضات کا جواب ہے۔ ان کی نظموں میں نہ صرف دنیا بھر کے موضوعات شامل ہیں بلکہ تکنیک اور اسلوب کی سطح پر وہ بوقلمونی اور ہمہ رنگی ہے جو اب تک نظم کے شعرا کے یہاں بھی مفقود تھی۔ اختر الایمان کا اہم امتیاز ان کے موضوعات، اسلوب، تکنیک، لب و لہجہ اور آہنگ کی کثرت ہے۔ ان کے کسی بھی مجموعۂ کلام میں تکرار و تواتر کا احساس نہیں ہوتا۔ نظموں کا طول گراں نہیں گزرتا۔
ن۔ م۔ راشد اور اختر الایمان کے شاعرانہ مرتبے کا تعین اور ان کے تخلیقی امتیازات کا ادراک صرف ان کی نظموں کے بوتے پرکیا گیا ہے۔ یہ اہمیت اردو میں کسی اور شاعر کو حاصل نہیں رہی۔ اقبال اور نظیر کی غزل بھی ان کی نظموں سے کسی طور کم عیار نہیں ہے۔ ن۔ م۔ راشد کے مجموعہ کلام ’’لا=انسان‘‘ کی اولین اشاعت میں کچھ غزلیں بھی شامل تھیں جو بعد میں شائع ہونے والی اشاعتوں میں شامل نہیں کی گئیں ایک مطلع حافظے میں موجود ہے :
ترے بغیر خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا
مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزہ نہ ملا
نم راشد کی فارسی زدہ شاعری، ہیئت کے اعتبار سے مختلف، اسلوب کے اعتبار سے جدید اور منفرد ہوتے ہوئے بھی قاری کے لیے اتنی اجنبی اور نامانوس نہیں تھی۔ لیکن اختر الایمان کی شاعری اس لیے ایک غیر مانوس انداز رکھتی ہے کہ لہجہ کے اعتبار سے کھردری اور مضمون کے لحاظ سے فلسفیانہ جستجو ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ ان کی ابتدائی نظموں میں بھی سفید و سیاہ کی کشمکش خیر و شر کی رزم آرائی، خواب و حقیقت کا بُعد کافی واضح ہے۔ وقت کی ستم کاری اور موت کی ناگزیری ایسے موضوعات ہیں جو ان کی شاعری میں از اول تا آخر بہت واضح اور حاوی ہیں۔ ایک اور موضوع جس کو اختر الایمان نے بطور خاص اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے وہ قدیم اور صحت مند اقدار کی معدومیت ہے۔ یہ مثبت قدریں مذہبی بھی ہو سکتی ہیں اور اخلاقی بھی۔ شاعر نہ صرف ان قدروں کی پامالی پر گریہ کناں ہے بلکہ ان قدروں کی علامتوں کے زوال پر بھی مرثیہ خواں ہے۔ اختر الایمان کی نظموں میں علامتی نظمیں ان کو اکثر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کی طنزیہ نظمیں اس معیار تک نہیں پہنچ پائیں جو اختر الایمان نے ہی اپنی نظموں کے ذریعے قائم کیا ہے۔ یہ امر بھی قابل قدر ہے کہ اقبال کے بعد اختر الایمان واحد شاعر ہیں جن کی شاعری میں ڈرامائی کیفیت اور مکالمہ سازی نظر آتی ہے ایسی نظمیں جن میں مکالمہ سازی کی گئی ہے یا ڈرامائی کیفیت خلق کی گئی ہے عموماً کامیاب ہیں۔
اختر الایمان کی بہت سی نظموں میں وہی موضوعات ملتے ہیں جو ترقی پسندوں کے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں۔ بنیادی فرق یہ ضرور ہے کہ وہ نعرے بازی اور وقتی ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے بڑے سلیقہ سے ان موضوعات کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ’اندوختہ‘، ’جنگ‘، ’سوالیہ نشان‘، ’خیمہ نگار سے ‘، ’آزادی کے بعد‘، ’غلام روحوں کا کارواں ‘، ’پیمبر گل‘، ’عہد وفا‘، ’تبدیلی‘، ’نئی صبح‘، ’خاک و خون‘، ’تاریک سیارہ‘، ’ایک کہانی‘، ’سب رنگ‘، ’پندرہ اگست‘ میں سیاسی اور سماجی حقیقتوں کی صورت گری تو ضرور کی گئی ہے لیکن وہ اکہری اور وقتی نظموں سے کہیں زیادہ بلند ہیں۔ ’’پندرہ اگست‘‘ یا آزادی وطن کے موضوع پر فیض، جذبی، سردار جعفری، جاں نثار اختر اور مخدوم کی بھی نظمیں بہت مشہور ہیں۔ جگر کی کچھ غزلوں کا ذکر بھی بہت بار کیا جا چکا ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’’پندرہ اگست‘‘ بھی اسی طرح شروع ہوتی ہے :
وہی کسمپرسی، وہی بے حسی آج بھی ہر طرف کیوں ہے طاری
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ میری محنت کا حاصل نہیں ہے
ابھی تو وہی رنگ محفل، وہی جبر ہے، ہر طرف زخم خوردہ ہے انساں
وہی مانوس انداز، جس میں غلامانہ زندگی کے لیل و نہار کی تکرار کا اعادہ کیا گیا لیکن نظم کا اختتام مایوسی پر نہیں ہوتا:
شہیدوں کا خوں اس حسینہ کے چہرے کا غازہ نہیں ہے
جسے تم اٹھائے لیے جا رہے ہو وہ شب کا جنازہ نہیں ہے
’’ایک لڑکا‘‘ میں بھی بعض مقامات ترقی پسندوں کی بوطیقا پر کھرے اترتے ہیں :
معیشت دوسروں کے ہاتھ میں ہے میرے قبضے میں
جزاک ذہن رسا، کچھ بھی نہیں، پھر بھی مگر مجھ کو
خروش عمر کے اتمام تک اک بار اٹھانا ہے
یا یہ مصرعے :
ظفر مندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطر
کبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہہ کر مسکرانا ہے (ایک لڑکا)
یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ محض موضوع کی بدولت کسی نظم کی قدر و قیمت متعیّن نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ اس کی تخلیقی حسیت، فکری ابعاد اور مشاہدات نظم کا مقام طے کرتے ہیں۔
ادھر سے نہ جاؤ
ادھر شاہ نادر نہیں آج کوئی بھی لیکن
وہی قتل عام آج بھی ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ (فرار)
درج بالا تمام نظمیں کامیاب اور بڑی تخلیقات ہیں۔ ظاہر ہے کہ محض موضوعات کسی نظم کا قدر و منزلت طے نہیں کر سکتے بلکہ اس کی تخلیقی حسیت، فکری ابعاد اور مشاہدات نظم کا مقام طے کرتے ہیں۔ اختر الایمان کی شاعری میراجی کی طرح جنس زدہ تو کسی طرح نہیں ہے لیکن یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ جنسیات سے متعلق اختر الایمان کا رویہ کسی حد تک غیر روایتی ہے۔ کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنس کے متعلق وہ جو کچھ سوچتے ہیں اس کا بے محابہ اظہار نہیں کرتے بلکہ محض اشاروں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ بھی تمام جنسی تعلقات کو حجابانہ بیان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اگر کسی فطری جذبے کو شعوری طور پر دبانے کی کوشش کی جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہو گا:
ہمارے شکم گر ہمارے سروں پہ ہوتے
اور چہروں پہ اعضائے جنسی
تو ہم اچھے انسان بنتے (میرا دوست۔ ابوالہول)
کبھی کوئی نشہ نہیں تم نے چکھا
یہ اغلام و امردپرستی سے رشتہ رہا ہے
کوئی تجربہ بھی نہیں زندگی کا (راہ فرار)
خوش قامت بانکے چھیلا، سب ایک مجسّم شہوت بنتے جاتے ہیں
اور حسینوں کے اندام بھی فضلے کے ڈبوں کی صورت کھلے ہوئے ہیں
اختر الایمان نے جوش کی طرح غزل کی ہجو تو نہیں لکھی لیکن اپنے دیباچوں اور کئی مصاحبوں میں غزل کو طنز کا نشانہ بنایا۔ جوش نے حالاں کہ کچھ غزلیں بھی کہی ہیں ان کی اکثر مقبول نظمیں نہ صرف غزل کی ہیئت میں ہیں بلکہ ردیف قافیہ کے التزام کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مسلسل غزل قرار دیا جا سکتا ہے۔ دراصل غزل کی تہذیب ہماری شاعری پر اس طرح حاوی ہے کہ اس سے صرف نظر کرنا غیر ممکن سا ہو جاتا ہے۔ ندا فاضلی نے اپنی خود نوشت ’’دیواروں کے باہر‘‘ میں لکھا ہے کہ اختر الایمان اردو کی ساڑھے سات سوسالہ تاریخ میں صرف غالب سے عقیدت رکھتے ہیں عقیدت میں بھی ان کا رویّہ مُریدانہ نہیں ناقدانہ ہے۔ غالب کی عظمت میں جو تھوڑی بہت کمی انہیں محسوس ہوتی ہے اس کی قصوروار بھی غزل ہے۔
اختر الایمان کی زیادہ نظمیں غزل کی ہیئت میں تو نہیں ہیں لیکن یہ بات پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ غزل کے آسیب سے تا عمر چھٹکارا نہ حاصل کر سکے۔ پاکستان سے وقار رضوی نے تاریخ جدید غزل شائع کی تو اختر الایمان کا تذکرہ بطور غزل کے شاعر کیا اور صرف ایک شعر حوالے میں دیا:
اب تو سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوجیں گے
تاکہ گھبرائیں تو ٹکرا بھی سکیں مر بھی سکیں
سلیمان اطہر جاوید نے بھی اختر الایمان کی نظموں میں تغزل کی بازیافت کی کوشش کی تھی حالاں کہ تغزل کی اصطلاح خود متنازعہ فیہ ہے لیکن اختر الایمان کی نظموں میں غزل کی تہذیب تو بآسانی تلاش کی جا سکتی ہے۔ بلکہ اختر الایمان کی اکثر کامیاب نظمیں وہی ہیں جن میں ہماری روایتی شاعری کی فضا قائم کی گئی ہے۔ اختر الایمان کا خیال تھا کہ غالبؔ کے بعد غزل میں بڑی شاعری کے امکانات ختم ہو گئے ہیں لیکن غزل کی روایت اور ہماری قدیم شاعری کی رمزیہ سحر کاری کی قوت سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی جادو اختر الایمان کی بعض نظموں کی قوت بن گیا ہے۔
اختر الایمان کا خیال تھا کہ کھردری، شبہات سے پر، انتشار آمیز شاعری اس خلوص اور جذبۂ محبت کے تحت میں وجود آئی تھی جو انہیں انسان سے تھی۔ اختر الایمان کا خیال تھا کہ ان کی شاعری مشین میں ڈھلی ہوئی نہیں ہے۔ جو شاعری مشین میں ڈھلی نہ ہو تو کیا کرختگی اور بے لطفی و بے کیفی اس کا جزو لاینفک ہوتے ہیں ؟ غزل پر اختر الایمان کے بیانات سر آنکھوں پر لیکن ان کا ہی قول ہے کہ نظم کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ فن کار نظم پر جو رنگ بھی ڈھنگ سے استعمال کرے گا اچھا لگے گا۔ اگر یہ حقیقت ہے تو کیا کوئی نظمیہ موضوع ایسا بھی ہے جو گراں بار زبان میں ہی موثر طریقے سے نظم ہو سکے ؟ میرا خیال ہے اب ایسا نہیں ہے۔ اختر الایمان کی ہی دوسری نظمیں اس کا جواب ہیں جن میں انہوں نے تقریباً ہر اخلاقی، سیاسی، سماجی، معاشی، نفسیاتی اور روحانی مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
اختر الایمان شعوری طور پر کرخت اور کھردری زبان کے ساتھ معنوی تہہ داری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اختر الایمان نے ’آب جو‘، ’بنتِ لمحات‘ اور ’سروساماں ‘ کے دیباچوں میں اردو قاری کو غزل کی زلفوں کا اسیر بتایا۔ اس کے منہ میں غزل کی چسنی لگی ہوئی ہے خدا جانے کب وہ نظم کے کھردرے نامانوس اور علامتی لہجے پر مرمٹے گا۔ ابھی تو اسے غزل کے آسیب سے چھٹکارا دلانا ہے۔ یہ باور کرانا ہے کہ ساری بڑی اور معنی خیز شاعری نظم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ غزل اپنے اندر بڑپّن کے تمام امکانات دریا میں ڈال چکی ہے۔
نہ جانے کیوں اختر الایمان کو یہ غلط فہمی تھی کہ ان کی شاعری کی تفہیم نہیں ہوئی۔ اردو کا قاری دماغ پر زور نہیں ڈالنا چاہتا اور کھردری زبان کی شاعری سے حظ نہیں اٹھاتا۔ یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ اردو کا قاری زبان اور شاعری کے سلسلے میں بعض تحفظات کا شکار ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ خشک اور کھردرے لہجے میں بڑی شاعری کا نمونہ ہمارے روبرو آیا بھی نہیں ہے۔ نم راشد اور میراجی کی شاعری نا مانوس ہوتے ہوئے بھی مانوس ہے۔ راشد کی شاعری فارسی زدگی کی وجہ سے میراجی کے موضوعات کی وجہ سے نئی ضرور ہے۔ مجید امجد، جن کی غزل کھردرے اور نامانوس لہجوں کا مرقع ہے جب نظم کے میدان میں قدم رکھا تو کھردری زبان کا کوئی بڑا تجربہ پیش نہ کر سکے۔
اختر الایمان کی قابل ذکر نظمیں وہی ہیں جو مانوس شعری زبان میں ہیں۔ ان کے یہاں حشرات الارض، گرگ، اصطبل، خرپالنگ، بدرقہ، تذویر، دشمن سحر خفّاش، فعل قبیح، بجلی کا کھمبا، ملّام، چرس ڈھور، پیشاب، پیک جیسے الفاظ ضرور مل جاتے ہیں لیکن ان کی نظموں کا آہنگ غزلیہ ہی رہتا ہے۔
اختر الایمان نے لکھا ہے کہ غزل کسی موضوع پر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتی صرف اس کی طرف اشارے کر سکتی ہے اس چیز کو ذہن میں رکھ کر میں نے اکثر یہ کوشش کی ہے کہ نظموں میں رسمی رومانیت نہ آئے بلکہ بعض جگہوں پر نظموں میں روکھا پن اور کھرّا پن آ گیا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ شعوری کوشش کے باوجود ان کی نظم غزل کی دسترس سے آزاد نہ ہو سکی۔ اس سلسلے میں ان کی بڑی نظموں۔ ایک لڑکا، بنت لمحات، اور یادیں وغیرہ کا نام لیے جا سکتے ہیں :
تمھارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ
غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی!
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سوٗ
خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی
یہ اک کہرہ سا یہ دھند سی جو چھائی ہے
اس التہاب میں اس سرمگیں اجالے میں
سوا تمھارے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
صرف متذکرہ نظموں پر ہی موقوف نہیں بہت سی کھردری لہجے والی نظموں میں ایسا لہجہ اور زبان نظر آتی ہے جسے میں تغزل تو نہیں کہہ سکتا لیکن وہ لہجہ غزل کے بہت قریب ’’پیمبر گل‘‘ ریت کے محل مناجات، عروس البلاد کے بہت مفرد اشعار غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں :
آشفتہ خاطری مری مٹی میں ہے ملی
تم یوں ہی مجھ کو دیکھ کے آزردہ ہو گئے
(مناجات)
مزہ نہ دیں گے ابھی ان کو احتیاط سے چھیڑ
خزاں نصیب ابھی تک ہیں کچھ بہار کے گیت
(پیمبر گل)
اشعار کے عنوان سے درج چار شعر تو خالص غزل کے شعر ہیں :
ابھی گلال ہوں عارض، عرق عرق ہو جبیں
ذرا جو کہہ دوں نہیں بڑھ کے تم سے کوئی حسیں
بُتان خلد تصوّر کا ذکر کرتا ہوں
تمھارے قامت و رُخسار و لب کی بات نہیں
ان اشعار کے علاوہ سلیمان اطہر جاوید نے بہت سے مصرعوں کا انتخاب کیا ہے
تمام شعلہ و گل برق و جلوہ، رامش و رنگ
(کربلا)
منظر راہ گزر، حسن شفق، نقشِ بہار
(خاک و خوں )
بہ شگوفے، بہ گل و لالہ بہ نسرین جمن
یہ مثالیں اختر الایمان کی شاعری کی خامی نہیں ہیں بلکہ غزل اور تہذیب غزل کی بالادستی کا ثبوت ہیں لیکن جب اختر الایمان شعوری طور پر روایتی شعری تہذیب کو تجتے ہیں تو بڑی مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہوتی ہے :
تقویت ذہن نے دی، خون نہیں خون نہیں
پان کی پیک ہے یہ امّاں نے تھوکی ہو گی
(کل کی بات)
وفا کا نام ستم ہوتا غم کا راحت جاں
تمھاری ناک ذرا چھوٹی یا بڑی ہوتی
(ایک بات)
میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچا کرتا ہوں
کتّوں کی دم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے
برگد کے نیچے بیٹھو یا سولی چڑھ جاؤ
کتّے لڑنے سے باز نہیں آئیں گے
(کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام)
ہم کو زندہ رہنا ہے
جب تک موت نہیں آتی، زہر پیے جانا ہے
آؤ چلو، کتوں کا دربار سجائیں
کووں کی بارات نکالیں (آثار قدیمہ)
سمجھ میں آیا نہیں کوئی راستہ بھی جب
تو جھنجھلا کے سمندر میں کر دیا پیشاب
(کارنامہ)
کچھ قلم لے کے گھاس کھودتے ہیں
اور کچھ گھاس کو قلم کے لیے
شکل دیتے ہیں ایسے سادھن کی (صریر خامہ)
کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ سال سے ناپتے ہیں
گوشت سے ساگ سے دال سے ناپتے ہیں
(اپاہج گاڑی کا آدمی)
بلند مسند کے گھر پیادہ
ولی کے گھر میں حرامزادہ
(خمیر)
مجھے علم ہے کہ اس طرح کھردری نظموں کی پسند و تائید کرنے والے بہت لوگ ہیں ان کی ارضیت اور کھرّے پن کو ہی ان کی شناخت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ اختر الایمان کی شناخت ان نظموں سے نہیں ہے جن میں انہوں نے شعوری طور پر ہماری شعری لفظیات سے اجتناب برتا ہے بلکہ وہی نظمیں اختر الایمان کو حیات جاوید بخشیں گی جو ہماری شعری مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔
اسلوب کے اعتبار سے بھی اختر الایمان کے تمام شعری سرمائے میں کئی اسلوب کارفرما نظر آتے ہیں۔ ان کی ذاتی یا سوانحی نظموں اور طنزیہ نظموں کے اسلوب پر بہت گفتگو کی گئی ہے۔ طنزیہ نظمیں اکثر اکہری اور براہ راست ہیں اس لیے کسی گہرے تاثر سے عاری ہیں۔ جہاں ان کی علامتی نظمیں اردو کی کامیاب ترین نظموں میں شامل کی جاتی ہیں وہیں طنز کی راست کاری نے نظموں کو بلندی تک نہیں پہنچنے دیا۔ بلکہ بعض نظمیں تو لطیفہ محض ہو کر رہ گئی ہیں۔ ’تادیب‘، ’قبر‘، ’تسکین‘ اور ’گرم ہوا‘ اسی طرح کی اکہری نظموں کی مثالیں ہیں۔ مختلف اسالیب سے کلام میں رنگارنگی کی کیفیت تو ضرور پیدا ہوئی لیکن اگر منصفی سے کہا جائے تو تمام اسلوب یکساں طور پر کامیاب نہیں ہیں۔ طنزیہ اسلوب کی نظموں میں ’’تسکین‘‘، ’’کل کی بات‘‘، ’’گریز‘‘، ’’ متاعِ رائے گاں ‘‘، ’’قبر‘‘ ’’بچوں کو کھیلنے دو‘‘، ’’ عروس البلاد‘‘، ’’شیشے کا آدمی‘‘، ’’ گوں گی عورت‘‘، ’’میرا دوست ابوالہول‘‘ کافی نمایاں ہیں۔ ان نظموں کو مکمل طنزیہ نظموں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ صرف چند مصرعے یا چند بند ہی طنزیہ اسلوب کے مظہر ہیں :
کسی کو پکڑو، سرِ راہ مار دو چاہے
کسی عفیفہ کی عزّت اتار دو چاہے
وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے
عظیم شہر بڑے کاموں کے لیے ہیں میاں
(عروس البلاد)
پر وہ استاد شعلہ بیاں مر گیا
جس نے دیوار مکتب پہ لکھوایا تھا
عام انسان بھیڑوں کا گلہ ہے
اور وہ طفل مکتب ابھی زندہ ہے
جو ٹھٹھرتے ہوئے کتے کے پلّے کو
پیرہن میں چھپا لایا تھا راہ سے
(بچوں کو کھیلنے دو)
ہماری زبان دل کی ساتھی نہیں ہے
ہمارے لیے صرف روٹی کی جد و جہد
عورتوں کے برہنہ بدن سے آگے
کہیں کچھ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ (میرادوست ابوالہول)
ہم کو زندہ رہنا ہے جب تک موت نہیں آتی اک زہر پیے جانا ہے
آؤ چلو کتوں کا دربار سجائیں اور کووں کی بارات نکالیں
پروفیسر شمیم حنفی نے اختر الایمان کی ایک اور خوبی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اختر الایمان نے تخلیقی اور شخصی زندگی کا فاصلہ مٹا دیا ہے۔ اختر الایمان کی خودنوشت ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ جتنے کردار اور واقعات نظر آتے ہیں ان میں سے اکثر سے ہمارا سامنا ان کی شاعری میں پہلے ہی ہو چکا ہے۔ مسجدیں، مدرسے، معاشقے، مشاعرے، دوست، دشمن، گاؤں اور شہر ہو بہو ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ ’’ ڈاسنہ اسٹیشن کے مسافر ‘‘میں قیصر نظر آتی ہے۔ خود نوشت میں اس کا ذکرِ خیر اور اس کے ٹرین کا سفر موجود ہے۔
’’مگر قیصر آتی رہی۔ آہستہ آہستہ پسندیدگی قربت میں بدل گئی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اگلے روز شام کی گاڑی سے میں قیصر کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ایک رات کا سفر تھا۔ ۔ قیصر کا مکان کوٹھی نما تھا۔ سسرال کے لوگ متمول معلوم ہوتے تھے ‘‘ (اس آباد خرابے میں صفحہ ۵۹)
خودنوشت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اختر الایمان، قیصر کو لے کر ڈاسنہ گئے تھے۔ یہ اطلاع ان کی نظم سے ملتی ہے اور کوٹھی نما سسرال کا نام ’’آسمان محل‘‘ بھی معلوم ہوتا ہے۔ اختر الایمان کی کئی نظموں میں بڑی عمر کی محبوبہ کا دست شفقت نظر آتا ہے۔ خود نوشت سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ قیصر اور حبیبہ ان سے عمر میں بڑی تھیں۔ پڑوس کی سانولی لڑکی، شفقی، عارف، ایک لڑکا۔ خودنوشت کی طرح نظموں میں موجود ہیں۔ ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ میں اختر الایمان نے لکھا ہے کہ ان کے بچپن میں ایک سانپ ان کی والدہ کے سینے پر چڑھ گیا تھا اور ان کے ذہن میں سانپ کا خوف بیٹھ گیا۔ اس خوف کو دور کرنے کی غرض سے وہ ایک بار کافی اونچی گھاس میں ننگے پیر کود پڑے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری طرح اس خوف سے چھٹکارا نہیں پا سکے تھے، کئی نظموں میں بھی سانپ کا ہیبت آمیز تذکرہ ہے۔ جو ننگے پیر گھنی گھاس میں اترنے جیسی ہی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ خودنوشت میں کلچر اور ثقافت کی دیوار کے مسمار ہونے پر کئی جگہ افسوس ظاہر کیا گیا ہے جو اختر الایمان کی شاعری کا بھی اہم موضوع ہے۔ دلّی کی مرتی ہوئی تہذیب اور جھوٹ کا تذکرہ خودنوشت میں ہے شاعری میں بھی عروس البلاد کے نام سے موجود ہے۔ موت اور وقت اختر الایمان کے اہم موضوعات ہیں ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ وقت کی ناگزیری کے ساتھ سو سے زیادہ متعلق اور غیر متعلق لوگوں کی موت کی اطلاع ملتی ہے۔
اختر الایمان کی ذاتی اور تخلیقی زندگی کا فلم بھی ایک اہم پہلو ہے۔ کسی بے مثال شاعر پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی فلمی زندگی کا حوالہ بد ذوقی ہی سمجھی جائے گی لیکن اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو فلم نے اختر الایمان کی نظمیہ شاعری پر بے پناہ اثر ڈالا ہے۔ اختر الایمان نے جب فلمی نگری میں قدم رکھا تو جوش ملیح آبادی، آرزو لکھنوی، ساغر نظامی، کرشن چندر فلموں سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اختر الایمان نے ابتدا میں فلمستان کی فلم ’’ ایکٹرس‘‘ لکھی اس کے بعد ’’ انار کلی‘‘ اور ’’ناستک‘‘ لکھیں۔ ایس مکھر جی نے فلمستان سے قطع تعلق کر کے فلمالیہ کی داغ بیل ڈالی تو اس کے لیے ’’ایک مسافر ایک حسینہ‘‘ جزوی طور پر لکھی۔ راج کھوسلہ کی فلم ’’میرا سایہ‘‘ سے اختر الایمان کو بے پناہ شہرت ملی۔ کمال امروہوی کی فلم ’’پاکیزہ‘‘ بھی اختر الایمان نے مدھو سدن کے اشتراک سے لکھی تھی۔ بی آر چوپڑہ کی فلم ’’قانون‘‘ کی کہانی اور مکالمے لکھے۔ ’’قانون‘‘ کی کہانی کا مرکزی خیال بی آر چوپڑہ کا تھا لیکن منظر نگاری اور مکالمے اختر الایمان نے لکھے۔ اس فلم میں کوئی نغمہ نہیں تھا۔ ’’قانون‘‘ کے بعد بی آر چوپڑہ، ہی کی فلم ’’وقت‘‘ کے مکالمے اختر الایمان نے لکھے جو آج بھی ہر دوسری تیسری فلم میں سنائی دے جاتے ہیں۔ ’’جن کے گھر شیشے کے ہوں وہ دوسروں کے گھروں پر پتھر نہیں مارتے ‘‘۔ ’’یہ چاقو ہے بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں لگ جائے تو خون نکل آتا ہے ‘‘ وغیرہ۔ ’’وقت‘‘ کے بعد تو اختر الایمان کی شہرت کو پر لگ گئے اور انھوں نے فیروز خاں کی ’’اپرادھ‘‘ سنجے خاں کی ’’چاندی سونا‘‘۔ مدراس کے پروڈیوسر بھیم جی کے لیے دلیپ کمار اور وحیدہ رحمٰن کی ’’آدمی‘‘ پریم جی کی ’’میرا سایہ‘‘ او پی رلہن کے لیے ’’پھول اور پتھر‘‘ اور ’’مجرم‘‘، غفار بھائی کے لیے ’’پتھر کے صنم‘‘ کے مکالمے اور اسکرپٹ لکھے۔ بی آر چوپڑہ کے لیے ’’گمراہ‘‘، ’’اتّفاق‘‘، ’’آدمی اور انسان‘‘ ضمیر اور ہمراز بھی اختر الایمان نے ہی لکھیں جو بے پناہ کامیاب رہیں۔ ’’وقت‘‘ اور ’’دھرم پتر‘‘ پر ان کو فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔
’’شالیمارپکچرس‘‘ کی فلم ’’غلامی‘‘ کے دو نغمے بھی اختر الایمان نے لکھے تھے۔ اس فلم میں ’’انگارے ‘‘ والی رشید جہاں کی بڑی بہن خورشید نے رینوکا دیوی کے نام سے ہیروئن کا کردار کیا تھا۔ اختر الایمان نے اس فلم میں ایک یونین لیڈر کا کردار نبھایا تھا ’’غلامی‘‘ کے علاوہ چوپڑہ کی فلم ’’وقت‘‘ میں بھی اختر الایمان نے ایک ٹیچر کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کردار کے تحت انہوں نے ششی کپور اور شرمیلا ٹیگور کی کلاس کو اپنی ایک نظم ’’بنتِ لمحات‘‘ پڑھائی تھی۔
جو شاعر اس چکا چوند کرنے والی زندگی میں اس درجہ شامل ہوا اس کی تخلیقات پراس دنیا کی تصنّع، کھوکھلے پن اور تکنیک کا اثر انداز ہونا لازمی امر ہے۔ کچھ نظموں میں تو براہ راست فلیش بیک، کلوز اپ، مونتاج، کولاز، جیسی تکنیکیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘، ’مونتاج‘، ’سب رنگ‘، اور ’ایک لڑکا‘، ’صبح جب آنکھ کھلی تو۔ ..‘ فلمی تکنیکوں کے تحت لکھی گئی نظمیں ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو ’ایک لڑکا‘ تو اس ضمن میں تسلیم کرنے میں مشکل ہے لیکن یہ بالکل وہی انداز ہے جیسے اختر الایمان نے فلم ’آدمی‘ میں دلیپ کمار کے لیے لکھا تھا۔ اس فلم کا مرکزی کردار اپنے گناہ کے بوجھ سے بوجھل ہے اسی وقت اس کی شخصیت سے ایک دوسری شخصیت بر آمد ہوتی ہے جو ہو بہو اس کی ہم شکل ہے لیکن بہت شگفتہ اور بغیر کسی احساسِ گناہ کے۔
سب رنگ اور ’’ایک کہانی‘‘ تو باقاعدہ فلمی انداز کے منظر نامے معلوم ہوتے ہیں جن کو اوپیرا منظوم ڈرامے کی شکل دی گئی ہے۔ یعنی کہانی کردار، مکالمے، ماحول سازی پر مبنی مکمل فلم کی طرح۔ ’’ایک کہانی‘‘ کا محل وقوع تاریک سیارے کا ایک خیالی ملک ہے اس نظم میں مستقبل بھی انسانوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یہی موڑ ہے جہاں یہ نظم فلم سے بلند ہو کر ایک ادبی شہ پارہ بن جاتی ہے۔ ’’سب رنگ‘‘ اگرچہ ایک تمثیل ہے لیکن اس میں ایک معدوم جنگل کی کہانی ہے جس کے جانوروں کو ایک تند خو آدم کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے اور آدم کی بدبختی یہ ہے کہ جب اس نے اپنی خو ترک کی تو وہ جانور سے بھی بد تر ہو گیا ہے۔ Dystopla ایک فلمی تکنیک ہے جس میں کسی خالی، غیر انسانی مقام کو بطور جائے عمل صورت گری کی جاتی ہے۔ ’’ایک کہانی‘‘ اور سب رنگ‘‘ کا جائے عمل اسی Dystopia تکنیک میں خلق کیا گیا ہے۔ ان دونوں نظموں کے کردار اپنے حصار کو نظر انداز کر کے سامع یا عوام کو مخاطب کرتے ہیں یہ بھی فلمی تکنیک ہے اسے Asideکہا جاتا ہے۔ ’’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘‘ میں یکے بعد دیگرے مختلف منظر سامنے آتے ہیں اس تکنیک کو Jump-cut کہا جاتا ہے۔ اسی نظم میں اختر الایمان نے فلیش بیک کی تکنیک کا بھی استعمال کیا۔ ہے۔ ’’مونتاج‘‘ ایک فرانسیسی لفظ ہے فلمی تکنیک میں اس کا استعمال بہت عام ہے۔ بہت سی تصویروں کو مربوط کر کے ایک نئی تصویروں کو مربوط کر کے ایک نیا منظر خلق کر کے مفہوم واضح کرنا اس تکنیک کا مقصد ہے کسی قصیدے کی نشیب کی طرح بہاریہ ہے۔ پھول شگفتہ ہیں تتلیاں رقص کناں ہیں۔ دوسری تصویر میں گھریلو خواتین کام دھندوں میں مصروف ہیں منظر کسی حد تک دیہی ہے۔ گفتگو بھی نسائی جملے بازی سے آگے نہیں بڑھتی۔ تیسرا منظر پھر موسم سے متعلق ہے جامنیں پک چکی ہیں آموں پہ بہار آئی ہے۔ کمسن لڑکیاں ساونیں گا رہی ہیں۔ پھر حبیبہ کی شادی کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔ اور فلیش بیک میں بارات، بینڈ باجا، بکھیر کی تفصیل بیان کر دی جاتی ہے۔ پھر ایک اور تصویر میں شاعر ماضی کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جب وہ ندی کے کنارے برگد کے گھنے پیڑ کے سائے میں حبیبہ سے ملتا تھا اگر حبیبہ نہیں آتی تھی تو ندی میں اپنی آنکھیں دھوکر برگد کے سائے میں سوجاتا تھا۔ اگلی تصویر میں بچے ایک گلی میں گیند سے کھیل رہے ہیں جس میں شاعر کی سابق محبوبہ کابچہ بھی ہے۔ آخری تصویر میں پھر وہی اولین تصویر کا عکس ہے۔ اس نظم میں رمضانی قصائی کو اختر الایمان نے وقت کی علامت بتایا ہے جو اپنی سفا کی کے باوجود وقت کا علامیہ نہیں بن پاتا۔ اس مکمل نظم کو علامتی نظم بھی قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن تکنیکی اعتبار سے یہ اختر الایمان کی کامیاب ترین نظم ہے۔ نہ جانے کیوں زاہدہ زیدی نے اس نظم کو گہری بصیرت سے عاری قرار دیا ہے۔ یہ نظم اپنے بطون میں کوئی بہت گہری معنویت نہیں رکھتی لیکن اس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
’’بنتِ لمحات‘‘ کی اکثر نظموں میں فلمی تکنیک بروئے کار لائی گئی ہے۔ کہیں یہ تکنیک بہت واضح اور موثر ہے کہیں مبہم اور برائے نام۔ مثلاً ’’کل کی بات‘‘ کا کلائمکس Catharsis سے قریب تر ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح ادبی تنقید میں بھی مروّج ہے لیکن فلم میں یہ تکنیک جذباتی تناؤ کی تطہیر کے لیے مستعمل ہے جو عموماً فلم کے اختتام میں استعمال کی جاتی ہے ’’کل کی بات‘‘ میں یہ کیتھارسس بہت موثر ہے۔ اختر الایمان کی اسی عہد کی نظموں میں ایک کمیاب تکنیک Arrel بھی استعمال کی گئی جس میں کلائمکس ہمیشہ غیر متوقع ہوتا ہے۔ فلموں کی خصوصاً غیر ملکی فلموں کی ایک تکنیک گوتھک (Gothic) پانچویں اور چھٹی دہائی میں بہت مقبول رہی ہے۔ اس تکنیک میں عموماً انجیل مقدس کے حوالوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’’احتساب‘‘ کو اس ضمن میں رکھا جا سکتا ہے۔ ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر میں Jump Cut تکنیک بخوبی استعمال کی گئی ہے۔ اختر الایمان نے جس طرح اپنی بہت سی نظموں میں ایک مخصوص لوکیشن کا التزام رکھا ہے اسے Mise-en-scene کہا جاتا ہے۔ یہ تکنیک ’’سب رنگ ‘‘باز آمد۔ ایک منتاج‘‘ ایک کہانی ’’عزم‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’سفید کالے پرندوں والا ایک پرندہ۔ اور میری ایک شام‘‘ میں کئی ایسی فلمی تکنیکوں کا استعمال ہوا ہے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ ’’میری آواز‘‘ میں بھی Dystopia تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ اختر الایمان اردو کے واحد شاعر ہیں جن کی تخلیقات میں متعدد فلمی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ Vignette کی تکنیک تو متعدد نظموں میں ملتی ہے جہاں آغاز میں ہی ایک تصویر رکھ دی گئی ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں تمام نظموں کی تکنیک پر تفصیلی گفتگو تو نہیں کی جا سکتی محض چند اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اختر الایمان کے اپنے بہت سے دیباچوں میں اپنی شاعری پر اظہار خیال کیا گیا ہے لیکن انھوں نے کبھی فلمی تکنیکوں کا ذکر نہیں کیا شاید اسی لیے ہمارے نقادوں کی نظر بھی ادھر نہیں گئی۔
اختر الایمان کا خیال تھا کہ ان کی شاعری کے اجزا میں زندگی کی جمالیاتی قدریں شامل ہیں۔ سیاسی، سماجی اور اخلاقی قدروں کی اتھل پتھل بھی۔ اسی لیے ان کی شاعری اردو کی غزلیہ شاعری کی طرح مشین میں ڈھلی ہوئی نہیں ہے بلکہ جس بے حس معاشرے کے وہ فرد ہیں اس معاشرے کی اخلاقی قدروں کی پامالی، زندگی کے تضادات اور سمجھوتوں اور ضمیر کے تعطل کی سرگذشت ہے۔ اور آج کا شاعر ایک شکستہ شخصیت کا مالک ہے اور ان کی شاعری اسی شکستگی کی داستان ہے۔ ایک ظالم معاشرے کے پامال انسان کی روح کا کرب ہے۔ چوں کہ شاعر کا کام زندگی میں توازن پیدا کرنا ہے اور انسان کے بطون میں جو حیوان موجود ہے اس کی نفی کرنا بھی ہے۔ اور ان کی شاعری ان تمام فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہوئی ہے۔
اختر الایمان کے ان تمام دعووں کو من و عن تسلیم بھی کیا گیا۔ ایسے خوش بخت شعرا بھی ہماری ادبی تاریخ میں بہت کم ہوئے ہیں جن کے اپنے بیانات کو نہ صرف نقادانِ فن نے تسلیم کیا بلکہ آواز میں آواز بھی ملائی۔ اختر الایمان کا خیال تھا کہ ترقی پسندوں نے مارکسزم کا جدلیاتی پہلو تلاش نہیں کیا، مارکسزم پر کوئی نظم اردو میں موجود نہیں ہے۔ ہندستان کے سکّہ بند اشتراکی اہلِ قلم کو ادب اور اشتراکی فلسفے کی صحیح فہم نہ تھی اس لیے ان کی شاعری کمزور ہے، دوسری طرف ان کا دعویٰ تھا کہ میں نے اپنی شاعری کو اپنا ایمان اور مذہب سمجھنے میں کوتاہی نہیں کی اور زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا جو شاعری کو مجروح کرے۔
ممکن ہے اختر الایمان کے دعوے صداقت پر مبنی ہوں لیکن اختر الایمان کی قابلِ ذکر نظمیں وہ نہیں ہیں جن میں سیاسی اور سماجی اتھل پتھل کا اظہار ہے بلکہ ان کی شاعری کا جو حصہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے جو انسان کے باطن کی کشمکش اور ذہنی کرب کا بیان ہے ان کی شعری کائنات میں ہر طرح کے تجربے موجود ہیں انہوں نے نئی شعری بوطیقا مرتب کرنے کے ساتھ فکر و خیال کے اظہار کے لیے نئے پیمانے بھی وضع کیے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لسانی سطح پر وہ کھردری اور کرخت زبان سے زیادہ مانوس اور آشنا تھے۔ اگرچہ زندگی کے زیادہ طویل عرصے میں دہلی، پونہ اور بمبئی میں قیام پذیر رہے لیکن فکری طور پر وہ کبھی بھی قلعہ نجیب آباد کے دیہی علاقے سے باہر نہیں آئے۔ اور ہمیشہ آرزو کرتے رہے کہ اس بھرے شہر میں کوئی آواز دے او بے او سر پھرے۔ دراصل ان کا میدان عمل بہت وسیع ہوتے ہوئے بھی ان کے کردار مرد، عورتیں بچے دیہی علاقوں کے پاس ہیں۔ وہ عروس البلاد کے حوالے سے مکروہات دنیوی کا تو ادراک کرتے ہیں لیکن ان کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ بڑے شہروں نے ان کے معیار زندگی کو کیا معراج بخش دی ہے۔ کیا بڑے شہر محض شور و غل، معاشرت اور استحصال کے مراکز ہیں ؟ کیا بڑے شہروں کی زندگی میں کوئی مثبت پہلو نہیں ہے ؟ اختر الایمان جس زوال پر ماتم کناں ہیں اس کو محسوس کرنے والے وہ تنہا شاعر نہیں ہیں۔ معراج کومل اور شاد عارفی کی بعض نظمیں بھی اس کی گواہ ہیں۔ مجید امجد کچھ نظموں، مثلاً ’’قیصر جہاں و حم‘‘، ’’نژاد نو‘‘، ’’کہانی ملک کی‘‘ انہی احساسات کی ماتمی ہیں (زبان کی کرختگی کے لحاظ سے شاد عارفی کی بعض اختر الایمان کی نظموں سے قریب ہیں ) ذاتی رشتوں کی پامالی، ثقافتی قدروں کا انہدام دراصل کوئی انفرادی المیہ نہیں ہے۔ اجتماعی بلکہ بین الاقوامی واقعہ ہے اگر کوئی کسی اجتماعی واقعے کو انفرادی سطح پر محسوس کرے گا تو قنوطیت اور کلبیت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ اختر الایمان کی ایسی نظمیں معروضی اور منطقی ہونے کے باوجود کسی خوش آئند مستقبل کی بشارت دینے سے معذور ہیں۔
اختر الایمان کی بعض نظموں کے مختلف مسودے دریافت ہونے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی نظموں کی یافت پر کس طرح جاں سوزی سے محنت کرتے تھے کچھ نظموں کی تکمیل کا وقفہ بیس سال پر محیط ہے۔ اختر الایمان نے نہایت انہماک سے اپنی جمالیاتی بصیرت کے زور پر کوشش کی ہے کہ جو کچھ کہنا ہے وہ محض منظوم بیان بن کر نہ رہ جائے۔ لیکن اس استغراق نے ان کو یہ مہلت نہ دی کہ ان تجربات و واقعات کو نظم سے منہا کر دیں جن کا اظہار ان کے شعری تجربے کا جزو لاینفک نہ بن سکے اور نظم کو بلندی تک پہنچنے میں مانع ہو گا۔ یہ وہ کم مائے گی ہے جس کا شکار نظم کے اکثر شعرا ہوئے ہیں اختر الایمان کے یہاں یہ محرومی کم تر ہے لیکن بہر حال ہے تو سہی اور یہ ان کی حد سے فزوں خود اعتمادی کا شاخسانہ ہے جس نے ان کو مکمل طور پر یقین دلا دیا تھا کہ وہ معاشرے کے سب سے حساس فرد، اور شعری کائنات کے یکّہ و تنہا تخلیق کار ہیں۔ ان کے عصری دنوں کی ایک نظم ’اتمامِ سفر سے پہلے کا پڑاؤ‘ دیکھیے :
ارضِ سبزو سیہ، ابیض و سرخ سے
بس گزرتا ہوا جاؤں گا، کوئی ہے ؟
کوئی ہے ہم سفر میرا، کوئی نہیں
اس مسافت میں رہ رہ کے لپٹی تھی جو
میں نے وہ خاک بھی پاؤں سے جھاڑ دی
جو تمھارا تھا میں نے تمھیں دے دیا
اور جو جس کا ہو مجھ سے لے لے ابھی
کل نہ کہنا مری بات میں کھوٹ تھا
کل نہ کہنا مری ذات آلودہ تھی
(اتمام سفر)
یہ بحث نہیں کہ یہ نظم کب کہی گئی تھی لیکن یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اختر الایمان نے موت کی سرگوشی، اتمام سفر کی آہٹیں صاف سن لیں تھی۔ یہ مختصر سی نظم تاثر کے اعتبار سے بھرپور ہے لیکن دو غیر ضروری مصرعوں نے نامکمل نظم کو نشاط بخش جمالیاتی ذائقے سے محروم کر دیا ہے :
جو تمھارا تھا میں نے تمھیں دے دیا
اور جو جس کا ہو مجھ سے لے لے ابھی
خواہ یہ دادو ستد نفسیاتی اور روحانی ہی کیوں نہ ہو نظم کے معیار کو پست کر دیتی ہے اور ایسی کئی مثالیں ’’کلیات اختر الایمان‘‘ میں محض برائے تلخ کلامی نظر آ جاتی ہیں۔
دراصل اختر الایمان کی شاعری کا اندوختہ ان کو کسی ایک زمرے یا نظریات کی پابندی کی تائید نہیں کرتا بلکہ اپنے کلام کی غالب فضا کی بنیاد پر ان کو اس طائر آشیاں گم کردہ سے تشبیہہ دی جا سکتی جو گم شدہ آشیاں کی یادوں سے مساکیت کی حد تک لطف اندوز ہوتا ہے شکروں، بازوں اور درندوں کی تصویر کشی کرتا ہے۔ وقت کے تلازم کو ماضی، حال اور مستقبل سے اندیشے سے برتر ہو کر دیکھتا ہے۔ اس کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ گم شدہ دیہی رشتے اور آشیانے عروس البلاد میں تلاش کرتا ہے۔ اختر الایمان کی شاعری کے تمام سرمایے کو گمشدہ ماضی، پامال تہذیب، غزلیہ آہنگ، مفسد سماج، غیر اصولی سیاست اور ہلکے پھلکے طنز کا مونتاج قرار دیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
اختر الایمان اور مجید امجد ۔۔۔ سرورالہدیٰ
اختر الایمان اور مجید امجد کا خیال اگر ایک ساتھ آتا ہے تو اس کی کچھ بنیادیں ہیں۔ میراجی اور ن۔ م۔ راشد کا نام بھی ایک ساتھ لیا جاتا ہے اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے یہاں فکر و زبان کی سطح پر بڑا فرق ہے۔ جدید نظم کی تثلیث میراجی، ن۔ م۔ راشد اور فیض سے قائم کی جاتی ہے۔ جدید نظم کی یہ تثلیث کسی خاص تاریخ یا کسی خاص محفل میں قائم نہیں کی گئی اور نہ اس پر مخصوص ناقدین کے نام ہیں، یہ ضرور ہے کہ میراجی، ن۔ م۔ راشد اور فیض کی نظم نگاری کو مختلف ناقدین نے جس طرح موضوع گفتگو بنایا وہ اور کسی شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔ یہ تنقید ہی کا کرشمہ ہے جو میراجی اور مختار صدیقی سے اختر الایمان کے ’گرداب‘ کے لیے پیش لفظ لکھواتی ہے اور پھر ’گرداب‘ کی شاعری کو میرا جی کے تخلیقی مزاج سے منحرف بتاتی ہے۔ کرشن چندر جیسے ترقی پسند ادیب ن۔ م۔ راشد کے مجموعے ’ماورا‘ کے لیے پیش لفظ لکھتے ہیں اور ترقی پسند تنقید ن۔ م۔ راشد کی شاعری کو ترقی پسندشاعری کے طور پر قبول نہیں کرتی۔ فیض کے شعری مجموعے ’نقش فریادی‘ کے لیے ن۔ م۔ راشد پیش لفظ لکھتے ہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک صحت مند تخلیقی معاشرے میں لوگ اسی طرح ایک دوسرے کی تخلیقات کے بارے میں سوچتے ہیں، ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے اختلافات کو جس طرح بعد میں پیش کیا گیا وہ دراصل ہم عصر تنقید کی ضرورت تھی۔ لیکن میراجی، ن۔ م۔ راشد اور فیض کی تثلیث کے داخلی محرکات کے ساتھ کچھ خارجی اسباب بھی تھے۔ اس چکا چوند میں اختر الایمان اور مجید امجد کی طرف ادبی معاشرے کا متوجہ ہوناآسان نہیں تھا۔ ناصر عباس نیر نے اپنی فکر انگیز کتاب ’مجید امجد، حیات، شعریات اور جمالیات‘ میں اس مسئلے سے بحث کی ہے۔ اس کا تعلق اگرچہ مجید امجد سے ہے مگر اس کتاب کے کئی حصوں کو پڑھتے ہوئے مجھے اختر الایمان کی یاد آئی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میراجی کی دروں بینی ن۔ م۔ راشد کی ما بعد الطبیعیات اور بلند آہنگی اور فیض کی نغمگیت نے مل کر اور کبھی الگ الگ ایک مقتدرہ کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ حیثیت اسے خود اس کے شعری متن نے دلائی تھی مگر اس کے کچھ خارجی اسباب بھی تھے۔ ان خارجی اسباب نے اختر الایمان اور مجید امجد کی شاعری کے لیے کچھ عرصے تک مسائل ضرور پیدا کیے۔ اس سیاق میں شمیم حنفی کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’اختر الایمان کی شاعری اپنے تمام مشہور معاصر نظم گویوں کی شاعری سے الگ اپنا ایک خاص رنگ رکھتی تھی۔ اس سلسلے میں عام طور پر جو فہرست بنائی جاتی ہے اس میں یہ نام آتے ہیں۔ تقریباً اسی ترتیب کے ساتھ۔ میرا جی، ن۔ م۔ راشد، فیض، مجید امجد اور اختر الایمان۔ ان میں فیض کبھی اختر الایمان کی جگہ پر رکھ دیے جاتے ہیں اور کبھی اختر الایمان فیض کی جگہ پر۔ میراجی اور راشد اپنی جگہ سے نہیں کھسکتے۔ ‘‘ ۱
شمیم حنفی کا یہ اقتباس گذشتہ تین چار دہائیوں کی نظم کی سنجیدہ تنقید کا خلاصہ ہے۔ بنیادی سوال یا مسئلہ یہی ہے کہ میراجی اور راشد اپنی جگہ سے کیوں نہیں کھسکتے۔ اس سوال پر براہِ راست غور کرنے کے بجائے ناقدین نے ان شعرا کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا ہے۔ اس سلسلے میں میراجی کی دروں بینی اور ن۔ م۔ راشد مابعد الطبیعیات پر بطور خاص توجہ صرف کی گئی۔ مجید امجد اختر الایمان کے یہاں یہ دونوں باتیں نمایاں طور پر موجود نہیں تھیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں آسانی سے اختر الایمان اور مجید امجد کے متون کو بہت آسانی کے ساتھ لا مرکز کہا جا سکا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جدید نظم نگاروں میں داخلی نظم پر جتنا گہرا رشتہ اختر الایمان کا مجید امجد سے وہ کسی اور سے نہیں۔
اختر الایمان 1915 میں پیدا ہوئے اور 1996 میں انتقال ہوا۔ مجید امجد 1914 میں پیدا ہوئے۔ 1974 میں انتقال ہوا۔ مجید امجد کے مقابلے میں اختر الایمان کو زیادہ زندگی ملی، لیکن مجید امجد کے مقابلے میں اختر الایمان کا کلام زیادہ ہے، ان کی کلیات کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں ان کی شعر گوئی کی رفتار بہت تیز تھی روزانہ وہ ایک نظم کہتے تھے۔ اختر الایمان کی زندگی میں جمیل جالبی، وزیر آغا وغیرہ نے مضامین لکھے پاکستان کے سفر میں ان کے کئی انٹرویوز شائع ہوئے۔ پاکستان سے اختر الایمان کے شعری مجموعے شائع ہوئے۔ اختر الایمان کو گذشتہ چند برسوں میں اسی طرح فراموش کیا گیا جس طرح کئی دہائیوں سے ہندوستان میں مجید امجد کو فراموش کیا جاتا رہا ہے۔ مجید امجد پرہندوستان میں سب سے پہلا مضمون شاید محمد حسن نے لکھا۔ ایک دو تحقیقی مقالے بھی یونیورسٹی میں لکھے گئے۔ شاید مجید امجد نے ہندوستان کا کوئی سفر بھی نہیں کیا۔ اختر الایمان جب 1989 میں پاکستان گئے تو ایک انٹرویو میں مجید امجد کو اپنی شاعری کا نقال کہہ دیا۔
مشفق خواجہ نے اپنی کتاب ’خامہ بگوش کے قلم سے ‘ میں شامل اختر الایمان سے متعلق ایک کالم شاعری یا کلام موزوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے :
’’مجید امجد کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وہ تو ہماری کاپی کرتے رہے ہیں۔ ان پر ہماری چھاپ رہی ہے۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ وہ بہتر مستقبل رکھتے تھے۔ ‘‘ اس قول برحق سے یہ معنی بھی نکالے جا سکتے ہیں کہ مجید امجد کی زندگی نے وفا اس لیے نہ کی کہ وہ اس اختر الایمان کے نقال تھے لیکن ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ اختر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اگر مجید امجد کی زندگی وفا کرتی تو وہ ان کے نقال کی حیثیت سے بہتر مستقبل رکھتے تھے۔ ‘‘ ۲
اس بات میں چاہے صداقت ہو یا نہ ہو مگر اختر الایمان نے کسی اور معاسر شاعر کے تعلق سے اس خیال کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ ایسا بھی نہیں کہ مجید امجد کی شاعری سے انھیں کوئی خطرہ ہو۔ ممکن ہے بعض لوگ اختر الایمان کی اس بات کو غلط بتائیں مگر دونوں کی شاعری کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو اسالیب کے فرق کے باوجود یہ محسوس ہو گا دو تخلیقی ذہن ہے جو زندگی اور خصوصاً نئی زندگی کے سیاق میں ایک ہی طرح سے سوچتا ہے۔ محمدحسن کی کتاب ’شناسا چہرے ‘ میں اختر الایمان، مجید امجد اور ن۔ م۔ راشد پر مضامین موجود ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محمد حسن نے ترقی پسند تنقید کی عام روش سے ہٹ کر اپنا ایک زاویہ اختیار کر کے ان تین شعرا کا تنقیدی محاکمہ کیا ہے۔ مجید امجد کی نظم نگاری کے ذیل میں انھیں اختر الایمان کا خیال آتا ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں :
’’اس اعتبار سے اختر الایمان کا اثر مجید امجد پر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ براہِ راست تخاطب کے بجائے مجید امجد کا بھی تاثر کو افسانوی انداز سے ادا کرتے ہیں۔ ‘‘ ۳
’’زبان و بیان کے اعتبار سے بھی مجید امجد نے لفظیات کا ایک چھوٹا سا مگر نیا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے وہ نظم کی لفظیات اختیار کرتے ہیں اور اس خصوصیت میں بھی اختر الایمان کے قریب ہیں۔ ‘‘ ۴
یہ دونوں خوبیاں بہت چونکانے والی معلوم تو نہیں ہوتیں لیکن انھیں شاعری میں برتنا بہت دشوار ہے۔ اختر الایمان کی نظموں میں افسانویت تو بعد کے لوگوں نے غالب رجحان کے طور پر تلاش کر لیا۔ البتہ مجید امجد کے حوالے سے شاید کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ مجید امجد اور اختر الایمان نے جو نظمیہ متن تیار کیا۔ اس کی بوباس مقامی تھی۔ اس میں عام زندگی یا زندگی کی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کا اظہار تھا۔ ان سچائیوں نے لسانی اظہار کے بعد اگر کچھ ماورائی صورت اختیار کر لی ہے تو اسے زبان کا خودکار نظام کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ لیکن بنیادی طور پر مجید امجد اور اختر الایمان نے زندگی کے معمولی پن کو اہمیت دی۔ مجید امجد کی نظموں کے عنوانات سے زندگی کے اس معمولی پن کا زیادہ اظہار ہوتا ہے۔ اختر الایمان نے عنوانات کی سطح پر تھوڑا احتیاط برتا ہے مگر ان کی بعض نظمیں اسی معمولی پن کا پتہ دیتی ہیں۔ محمد حسن نے درج ذیل باتیں مجید امجد کے تعلق سے لکھی ہیں مگر ان کا اطلاق اختر الایمان کی شاعری پر بھی ہوتا ہے :
’’مجید امجد کی شاعری زندگی کی حقیقتوں سے قریب ہے۔ اس کے چھوٹے موٹے دکھ سکھ، اس کی نرم و نازک اور بظاہرہر سطحی اور معمولی حقیقتوں اور واقعات کی شاعری ہے۔ ‘‘ ۵
شمس الرحمن فاروقی نے اختر الایمان اور مجید امجد کے تعلق سے لکھا ہے :
’’مجید امجد اور اختر الایمان دونوں کو اپنا مقام و مرتبہ بنوانے میں دیر اسی لیے لگی کہ ان کی شاعری ان توقعات کو پورا نہیں کرتی جو 1940 میں سکۂ رائج الوقت شاعری سے بخوبی پوری ہوتی تھیں۔ میراجی کو تو خیر جنسی الجھنوں کا مریض وغیرہ کہہ کر ٹال دیا گیا۔ لیکن اختر الایمان اور مجید امجد جیسے شعرا کو اپنے قاری کے لیے بیس پچیس سال انتظارکرنا پڑا۔ ‘‘ ۶
اس اقتباس سے تو ایک قاری یہ تو سمجھ سکتا ہے کہ مجید امجد اور اختر الایمان کی شاعری سکۂ رائج الوقت شاعری سے مختلف ہے اور سکۂ رائج الوقت شاعری 1940 میں ترقی پسند شاعری تھی۔ مجید امجد اور اختر الایمان کو بیس پچیس سال بعد قاری ملے یعنی 1960-65 میں۔ یہ زمانہ اردو میں ترقی پسندی کے زوال اور جدیدیت کے عروج کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مجید امجد اور اختر الایمان کا شعری محاورہ پوری طرح ترقی پسندی کے خانے میں فٹ نہیں ہوتا مگر وہ جدیدیت کی ہیئت پرستی سے بھی کہاں علاقہ رکھتا ہے۔ مجید امجد کی ابتدائی شاعری پر ترقی پسند فکر کا گہرا اثر ہے۔ مجید امجد کے یہاں بھی بہت آسانی کے ساتھ ترقی پسند فکر کو اسی اسلوب میں تلاش کیا جا سکتا ہے جس کا نام ترقی پسندی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ میراجی اور راشد کی شاعری کو 1940 کے بعد یا آزادی کے بعد کیوں کر قاری مل گئے۔ میراجی کو جنسی الجھنوں کا مریض تو ترقی پسندوں نے کہا جدیدیوں کے لیے وہ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنے اسی طرح راشد کی شاعری بھی جدیدیت کے لیے ابتدا ہی سے رول ماڈل تھی۔ آخر مجید امجد اور اختر الایمان کے یہاں ایسا کیا نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ میراجی اور راشد کی طرح جدیدیت کے لیے بہت گوارہ نہیں تھے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جس قاری کی بات کی ہے وہ کسی بھی نظریے کا حامل ہو سکتا ہے۔
مجید امجد اور اختر الایمان کی نظموں کو اگر ایک ساتھ پڑھیں تو مماثلت اور اختلاف کے مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ نئے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مجید امجد اور اختر الایمان کے یہاں اختلافات کے اتنے پہلو ہیں کہ کوئی بھی سنجیدہ قاری مماثلت کی منطق کو رد کر سکتا ہے۔ اوّل تو یہ کہ ہیئت کی سطح پر جتنے تجربے مجید امجد نے کیے وہ اختر الایمان کے یہاں نہیں ملتے۔ مجید امجد ان معنوں میں بھی اختر الایمان سے مختلف ہیں کہ ان کی شاعری خاموشیوں کو زیادہ راہ دیتی ہے۔ مجید امجد نے بعض اہم شخصیات مثلاً حالی، اقبال، منٹو، مصطفی زیدی وحسین وغیرہ پر نظمیں لکھیں۔ بعض تہوار پر بھی ان کے یہاں نظمیں مل جاتی ہیں۔ اختر الایمان نے کسی ایسی شخصیت کو موضوع نہیں بنایا جس کا حقیقی وجود ثابت کیا جا سکے۔ ان کی ایک نظم ’میرناصر حسین‘ ہے۔ مجید امجد کی ایک نظم ’مقبرۂ جہاں گیر‘ ہے۔ اختر الایمان نے ’پرانی فصیل‘ لکھی۔ مجید امجد کی ایک نظم ’ہڑپے کا ایک کتبہ‘ ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’کتبہ‘ ہے۔ مجید امجد نے نظم کے عنوان سے دو نظمیں ’ایک نظم‘ اور ’نظم‘ لکھی۔ اختر الایمان نے ’نظم کی تلاش میں ‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ مجید امجد کی ایک نظم ’زندگی اے زندگی‘ ہے۔ اختر الایمان کی نظم ہے ’زندگی کے دروازے پر‘۔ مجید امجد کی نظم ’یاد‘ ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’یادیں ‘ ہے۔ مجید امجد نے یوں تو ریل کے سفر کا ذکر دو تین نظموں میں کیا ہے مگر ان کی ایک نظم کا عنوان ہی ’ریلوے سٹیشن پر‘ ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’ڈاسنہ سٹیشن کا مسافر‘ ہے۔ ان نظموں کے عنوانات سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ اختر الایمان اور مجید امجد کی شاعری میں فکری اعتبار سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن دو جدید شاعروں کے یہاں موضوعات کی سطح پر اتنی مماثلت بھی نہیں ملتی۔
اختر الایمان اور مجید امجد کا تخلیقی ذہن اگر راشد میراجی اور فیض کے مقابلے میں زیادہ ایک دوسرے سے قریب ہے تو اس سے مطالعے کا ایک زاویہ ضرور سامنے آتا ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ مجید امجد اور اختر الایمان دونوں کو شہر کی زندگی متاثر کرتی ہے مگر وہ شہر کی زندگی میں نہ خود کو گزر کرتے ہیں اور نہ ہی گاؤں کو شہر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وارث علوی نے گرچہ یہ لکھا ہے کہ اختر الایمان اپنے ساتھ ایک گاؤں لیے پھرتے ہیں جو نہ راشد کے یہاں نہ فیض کے یہاں۔ مگر یہ گاؤں شہر کی زندگی کی جگہ لینا نہیں چاہتا۔ اختر الایمان اور مجید امجد دونوں نے گاؤں اور شہر کو قریب سے دیکھا۔ اختر الایمان کی کئی نظموں میں شہر کی زندگی کا تخلیقی اظہار ملتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں بھی شہر کئی حوالوں سے نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔ اگر ان نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں تخلیقی ذہن شہر کو بڑے فرق کے ساتھ نہیں دیکھتا ہے۔ اس کے تجربات اور محسوسات کی دنیا تھوڑے فرق کے ساتھ ایک جیسی ہے۔ فرق اگر ہے تو اس کے اظہار میں ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’نیا شہر‘ اور مجید کی نظم ’توسیع شہر‘ میں بنیادی فرق تجربے کا ہے۔ مجید امجد کی نظم کا بنیادی دکھ اشجار کا خاتمہ ہے۔ نظم چار بندوں پر مشتمل ہے۔ آخری بند یوں ہے :
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ، لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل
اختر الایمان کی نظم ’نیا شہر‘ کا تجربہ احساس بیگانگی اور اجنبیت کا ہے۔ جس کے آخری دو مصرعے ہیں :
کوئی ایسا نہیں، جو جانتا ہو میرے عیوب
آشنا ساتھی، کوئی دشمنِ جاں دوست شعار
مجید امجد کی نظم توسیع شہر کا تجربہ اختر الایمان کی کئی نظموں میں متفرق طور پر مل جاتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت سمجھی جا سکتی ہے کہ گاؤں کی زندگی اور گاؤں کی تہذیب اختر الایمان کی نظموں میں مرکزی فکر کے بجائے نظم کا ذیلی حصہ بن کر آتی ہے لیکن وہ آتی ضرور ہے۔ مجید امجد کی دونوں نظمیں ’نظم‘ اور ’ایک نظم‘ متاثر کرتی ہیں۔ زندگی اور موت کے تعلق سے ایسے مصرعے نکالنا کتنا مشکل ہے :
ہاں اسی گم سم اندھیرے میں ابھی
بیٹھ کر وہ راکھ چنتی ہے ہمیں
راکھ ان دنیاؤں کی جو جل بھیجیں
راکھ جس میں لاکھ خونیں شبنمیں
زیست کی پلکوں سے ٹپ ٹپ پھوٹتی
جانے کب سے جب ہوتی آئی نہیں
کتنی روحیں، ان زمانوں کا خمیر
اپنے اشکوں میں سموتی آئی ہیں ایک نظم
یہ ’ایک نظم‘ ہے ’نظم کی تلاش‘ نہیں ہے۔ مجید امجد نے دونوں نظموں میں زندگی کا رتھ جو فرد واحد کا دکھ ہی نہیں کائنات کا دکھ بھی ہے، نئے لب و لہجہ کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’نظم کی تلاش‘ بالآخر تلاش پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔
’’اور اس ناآفریدہ نظم کی بے سمت سی اک جستجو میں چل نکلتا ہوں۔ ‘‘
اختر الایمان کی نظم میں نئی زندگی جس احساس زیاں سے دوچار کرتی ہے اور اس ضمن میں نظم کا متکلم جن کیفیات سے گزرتا ہے وہ کیفیات ہمیں مجید امجد کے یہاں نظر نہیں آئیں۔ ایک وجودی احساس تو موجود ہے مگر اس کا رشتہ تمدنی کلچر سے قائم کرنا دشوار ہے۔ مجید امجد کی نظم ’ایک نظم‘ 1944 کی ہے۔ اور ’نظم‘ 1960 کی۔ ’نظم‘ کا آخری بند دیکھیے :
سایوں کی اک اک کروٹ پر
زنجیروں میں ڈوب گیا ہوں
دل میں چند شرارے لے کر
اپنی راکھ سے کھیل رہا ہوں
اختر الایمان کو جس نظم کی تلاش ہے اسے ان مصرعوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے :
متاعِ رائے گاں ہے خرقۂ پوشاک نورانی
بہت بے چین کرتی ہے مجھے میری تن آسانی
تفکر جو بھٹکتی مشک بو کا ایک جھونکا تھا
تخیل جو کوئی آوارہ بادل تھا اڑا جاتا تھا بے پروا
اس سفر میں متکلم جن مقامات سے گزرتا ہے اور جن لوگوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور وہ جس نتیجے تک پہنچتا ہے یہ تمام تفصیلات قاری کو افسردہ کر دیتی ہیں۔ نظم کی ابتدا میں انسان کی ہوس پرستی اور تن آسانی کا بھی ذکر آیا ہے۔
بسوں کے تیل سے مسموم ہر گنجان آبادی میں جاتا ہوں
مسلسل چیونٹیوں کی فوج سی جو برقی ریلوں کے سٹیشن پر
نظر آتی ہے اس میں کود جاتا ہوں
مجید امجد کی نظم ’مقبرۂ جہاں گیر‘ گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ اگر اس کا عنوان بدل دیا جائے تو قاری نظم کو کسی مقبرۂ جہاں گیر کی طرح کسی اور مقبرہ کے طور پربھی پڑھ سکتا ہے۔ جو چیز اس نظم کو اہم بناتی ہے وہ مادی وسائل ہیں جن سے مقبرہ اور اس کی عمارست کا حسن قائم ہے۔ لیکن شاعر اس عمارت میں جس کیفیت اور احساس سے دوچار ہوتا ہے وہ ملاحظہ کیجئے :
تم نے دیکھا کہ نہیں آج بھی ان محلوں میں
قہقہے جشن مناتے ہوئے نادانوں کے
جب کسی ٹوٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں
مرقدِ شاہ کے مینار لرز جاتے ہیں
اختر الایمان نے وقت کے جبر کو کئی صورتوں میں پیش کیا ہے۔ مجید امجد کے یہاں جبر کی یہ صورتیں زیادہ پرپیچ ہیں۔ اختر الایمان پیش کش میں نامانوسیت کو ایک حد ہی راہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسجد، پرانی فصیل اور آثارِ قدیمہ کا بطورِ خاص مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ پرانی فصیل یا پرانی عمارت کو دیکھنے اور محسوس کرنے میں مکمل مماثلت تو تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ’پرانی فصیل‘ یا ’مقبرے ‘ کی چھتوں، دیواروں کو دیکھ کر پرانی اقدار کو یاد کرنا، یا انہیں دیکھ کر عظمت رفتہ کا سراغ لگانا، ان تمام باتوں کا تعلق تخلیق کار کی آگہی اور بصیرت سے ہے۔ اختر الایمان اور مجید امجد کے یہاں تھوڑے فرق کے ساتھ اسی آگہی کا اظہار ہوا ہے۔ مقبرے اور پرانی عمارتیں تو سیرگاہ بن جاتی ہیں۔ ’مقبرہ جہاں گیر‘ کا ایک بند اور پرانی فصیل کا ایک بند ملاحظہ کیجیے :
مری نظروں نے قتل و خوں ہوس رانی بھی دیکھی ہے
یہاں جذبات بھی عریاں کیے ہیں کج کلاہوں نے
یہاں ٹوٹی ہوئی پونجی بہ ماتم بھی کیا آ کر
یہاں تھک کر سہارا بھی لیا ہے بادشاہوں نے
(پرانی فصیل)
موج حد نقش میں لپٹے ہوئے میناروں کے
دودھیا برج، درختوں کے گھنے جھنڈ میں گم
جن کے چھجوں سے نظر آتے ہیں مدفون غبار
رینگتی روحوں سے آباد گناہوں کے دیار
(مقبرۂ جہاں گیر)
مقبرۂ جہاں گیر کا متکلم کوئی اور ہے۔ پرانی فصیل کا متکلم خود ’پرانی فصیل‘ ہے۔ میں نے اختر الایمان اور مجید امجد کی تخلیقی حسیت کے تعلق سے جس رشتے کا ذکر کیا ہے وہ نظموں کی ساخت میں پوشیدہ ہے۔ کبھی کسی لفظ، کسی مصرعے، کسی بند سے یہ رشتہ ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی ظاہر نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا شعر اگر اختر الایمان کی نظم میں شامل کر دیا جائے توفرق کرنا دشوار ہو گا۔ لفظ ’چھجوں ‘ نہ راشد استعمال کر سکتے ہیں اور نہ میراجی۔ مجید امجد اور اختر الایمان دونوں کا امتیاز یہ ہے کہ مضمون جہاں سے اٹھاتے ہیں لفظ بھی وہیں سے آتے ہیں۔ مقبرۂ جہاں گیر کا ایک شعر تو قیامت کا ہے۔ جدید نظم کی تاریخ میں ایسا استعارہ شاید ہی ملے جس میں بصری اور سمعی پیکر نے مل کر ایسے پیکر کی تخلیق کی ہو:
کھانستی صدیوں کا تھوکا ہوا اک قصہ ہیں
اسی گرتی ہوئی دیوار کا اک حصہ ہیں
اختر الایمان نے اس گرتی ہوئی دیوار اور عظمت رفتہ کی روپوش ہوتی ہوئی نشانیوں کو ایسی شدت کے ساتھ کسی ایک شعر میں نہیں ابھارا۔ پہلے مصرعے میں جیسی حقارت، طنز اور نہ دکھائی دینے والی دردمندی ہے اختر الایمان کی پوری شاعری میں موجود ہے۔ نظم ’کل کی بات‘ کا آخری مصرع یاد آتا ہے :
’’پان کی پیک ہے یہ اماں نے تھوکی ہو گی‘‘
لیکن اس کا سیاق کچھ اور ہے۔ ’تھوکا‘ کا ’اور ’تھوکی‘ کو برتنے والا شاعر زندگی کی ہزیمت اور اس کی بے چارگی کے اظہار کے لیے الفاظ کے انتخاب میں زندگی کی جس سطح تک آ جاتا ہے وہ اختر الایمان اور مجید امجد کو ایک دوسرے سے قریب کر دیتی ہے۔
اختر الایمان کی ایک نظم ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ ہے۔ مجید امجد نے ’ریل کا سفر‘ ریلوے سٹیشن پر کے عنوان سے دو نظمیں لکھیں۔ ان کی ایک نظم ’عقدہ ہستی‘ ہے جس کے نیچے یہ عبارت درج ہے (ریل کے ایک مسافر کے زبانی تاثرات)۔ مجید امجد کی پہلی نظم ’ریل کا سفر‘ کی بنیادی خصوصیت ریل سے باہر کی دنیا کی منظر کشی ہے۔ نظم اس شعر پر ختم ہو جاتی ہے :
مرا خطہ نور و رنگ آ گیا ہے
مرا سکھ بھرا دیس جھنگ آ گیا ہے
مجید امجد کی دوسری نظم ’ریلوے سٹیشن پر‘ کی فضا بدلی ہوتی ہے :
آج بھی اس دہکتی پٹری پر
گھومتے کھنکھناتے پہیوں پر
سیٹیوں کی دھواں اگلتی صدا
جب پیام رحیل دیتی ہے
پہلی نظم میں فطرت کے مناظر مسافر کی نگاہ میں خوبصورت و شاداب ہیں۔ اب وہ انہیں کسی اور نظر سے دیکھتا ہے :
قد آدم، عقیق کے پودے
تھام کر سرخ دھاریوں والے
زرد پھولوں کے موہنے گجرے
بھری دنیا کے جمگھٹوں میں کھڑے
گوشت اور پوست کے وہ پیکر ہیں
اک زمانے سے جن کی زندگیاں
لوٹ کر پھر نہ آنے والوں کی
منتظر منتظر چراغ بکف
وقت کے جھکڑوں سے کھیلتی ہیں
اسی برگ دریدہ جاں کی طرح
عقیق کے پودے کو شاعر نے کس طرح آنے جانے والے مسافروں کے ساتھ وابستہ کر کے برگ دریدہ جاں کہہ کر بلندی عطا کر دی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ جس شے کی وجہ سے نظم بڑی ہوتی ہے وہ ٹرین سے گزرنے والے مسافر کے لیے اجنبی نہیں۔ لیکن یہ خیال بندی مانوس حقیقت سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ اختر الایمان کی نظم مکالماتی ہے مسافر جس شخص سے ہم کلام ہے ظاہر ہے کہ وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ قیصر کا کردار سامنے آتا ہے۔ قیصر کی بڑی آنکھوں میں کھو جانے پھر اسے ڈاسنہ پہنچانے کا ذکر کرتا ہے۔ دو مسافروں کے درمیان جو سوال و جواب کی شکل میں جو گفتگو ہوتی ہے اس سے موجودہ بمبئی کی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ اس میں ملک کی تقسیم اور کچھ دیگر مسائل در آتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا اظہار بڑی بے ربطی اور بے تعلقی کے ساتھ ہوا ہے۔ شہریار کی ایک نظم ’زوال کی حد‘ یاد آتی ہے۔ اس میں بیک وقت سماجی، سیاسی، معاشی کئی مسائل بے نیازی کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔ کچھ یہی صورت اس نظم میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مجید امجد کی ٹرین سے باہر کی فضا میں جو اسرار ہے وہ اختر الایمان کے یہاں نہیں ہے، اختر الایمان کے یہاں بے ربطی میں خیال کی خالی جگہیں چھوٹی جاتی ہیں اور قاری انھیں پر کرتا ہے۔ اختر الایمان نے شعری طریقہ کار کے طور پر اس نظم میں بے پروائی کا مظاہرہ کیا ہے، اور غیرمتوقع طور پر غالب کے مصرعے پر نظم ختم ہوتی ہے لیکن پرندے کی آواز سے مسافر (متکلم) کو اپنے لہولہان اور کھوئے ہوئے دل کا سراغ ملتا ہے۔ غالب کے ایک مصرعے نے نظم کو تخلیقی سطح پر جو قوت پہنچائی ہے وہ تو اپنی جگہ مگر اس کا خیال اختر الایمان کو آیا ہو گا کہ یہ مصرع اسی غزل کا ہے جس سے تمام عمر انھوں نے شعوری اور غیر شعوری طور پر خود کو الگ رکھنے کی کوشش کی لیکن مصرع کے ساتھ انہوں نے حاکمانہ برتاؤ کیا اور نظم کی ضرورت کے تحت اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا:
ریل چلنے لگتی ہے
راہ کے درختوں کی
چھاؤں ڈھلنے لگتی ہے
’’مجھ سے کتنے چھوٹے ہو‘‘
اور مری گراں گوشی
ڈیوڑھی کا سناٹا
اور ہماری سرگوشی
ہے رقم کہاں وہ سب
دور اس پرندے نے
اپنا گیت دہرایا
آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا
گم ہوا پایا
حواشی
۱ اختر الایمان کی شاعری، شمیم حنفی، ’اختر الایمان:عکس و جہتیں، مرتبہ شاہد ماہلی، ص497-98
۲ خامہ بگوش کے قلم سے :مرتبہ مظفر علی سید، مکتبہ جامعہ، 2001، ص241
۳ شناسا چہرے، محمد حسن، غضنفر اکیڈمی (کراچی)، اشاعتِ اوّل: 1987، ص169
۴ ایضاً، ص113
۵ ایضاً، ص114
۶ ایضاً، ص162
٭٭٭
اختر الایمان کے دیباچے ۔۔۔ عبدالسمیع
اختر الایمان نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’گرداب‘‘ کے لیے تو دیباچہ یا پیش لفظ نہیں لکھا لیکن ’گرداب‘ کے بعد کی اپنی تمام شعری تصنیفات میں انھوں نے دیباچے کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ اپنی شاعری اور اس کے پس منظر کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دیباچوں کا مطالعہ نظم کی شعریات اور شاعر کی تخلیقی شخصیت کی تشکیل کے مختلف مراحل سے روبرو کرنا ہے جن میں شاعری کے مسائل کے ساتھ ساتھ متن کی قرأت کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا ہے۔ ان مسائل کو انھوں نے اپنی شاعری تک محدود نہیں رکھا ہے۔ ہماری شعری روایت میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ عشق کا تعلق خواہ کسی سے ہو مگر عشق کا بیان عام طور پر رومانوی اسلوب میں ہی ہوا ہے۔ اردو شاعروں کے قاری کی تربیت بھی اسی رومانوی شعری روایت میں ہوئی ہے جس میں کچھ خاص طرح کی ترکیبوں اور تشبیہ و کنایے سے بات کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی عیب بھی نہیں مگر ایسے قاری کے سامنے جب نئی شاعری قدرے کھردرے انداز میں سامنے آئی اور اسے قبول کرنے میں انھیں فطری طور پر تامل ہوا۔ اختر الایمان کی شاعری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اردو شعر و ادب کا روایتی قاری شعر میں گہری معنویت اور عصری مسائل کو قدیم علامتوں کی شکل میں دیکھنے یا علامتوں کے انسلاکات قائم کرنے سے قاصر تھا۔ شعر کے ساتھ وقت گزارنا اور شعر میں وقت صرف کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ اختر الایمان اس روایت کو توڑنا چاہتے ہیں جس میں شعرو شاعری محض تفریح کی شے تصور کی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی برہمی کا اظہار قدرے سخت لفظوں میں کیا ہے۔ اپنے پہلے شعری مجموعہ ’گرداب‘ کی اشاعت اوراس پر قارئین کے رد عمل کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’کتاب شائع ہونے کے بعد احباب کے ایک حلقے میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی کہ ’گرداب‘ کی شاعری قنوطی، یاس انگیز اور گھٹن لیے ہوئے ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شاعری کی طرف ہمارے اکثر پڑھنے والوں کا رویہ سنجیدہ نہیں۔ وہ شاعری کو تفنن طبع اور ایک ایسے مشغلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کا مقصد صرف وقت گزارنا ہوتا ہے۔ احباب کا حلقہ بجائے اپنے دماغوں پر زور ڈالنے کے ‘ لکھنے والوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ایسا ادب تخلیق کریں جو ان کے ذہن کی سطح سے بلند نہ ہو اور سنتے ہی سمجھ میں آ جائے۔ کسی بھی ادب کی طرف یہ رویہ منفی رویہ ہے۔ اس لیے کہ یہ احباب غیر ارادی اور نادانستہ طور پر یہ بات کہتے ہیں کہ ادب میں نئے موضوعات کا اضافہ نہ کیا جائے، کسی نئی بات پر قلم نہ اٹھایا جائے، کسی قسم کے فکری عناصر کو رواج نہ دیا جائے اور ہیئت اور تکنیک کا کوئی تجربہ نہ کیا جائے۔ ‘‘ 1
اقتباس میں شعری اور ادبی روایت کے کئی مسائل کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاعر کے کچھ اپنے مسائل ہیں اور قاری کی کچھ اپنی ترجیحات۔ اسی طرح شعری روایت کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ ہر بڑے شاعر کویہ احساس پریشان کرتا رہا کہ قاری یا ناقد اس کی سطح تک نہیں پہنچ سکا، اس میں شک نہیں کہ قاری بعض اوقات اپنی ذہانت کا استعمال نہیں کرتا اور اچھی تخلیقات سے سرسری گزر جاتا ہے۔ اختر الایمان کو یہ شکایت ہے کہ قارئین ان کی نظموں سے سرسری گزر گئے۔ اس سلسلے میں انھوں نے صرف فراق کی تعریف کی ہے کہ انھوں نے نظموں میں پوشیدہ علامتوں کو کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ادب کا قاری نئے موضوعات یا ہیئتوں کے تجربوں سے گھبراتا ہے۔ ادب میں تجربے کی اپنی اہمیت ہے لیکن تجربے کا عرق پلا کر ہر تحریر کو قبول کر لینا بھی سہل پسندی کو رواج دیتا ہے۔ اختر الایمان نے ساری ذمے داری قاری پر عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔
اختر الایمان اپنی نظموں کی تشریح و تعبیر کرتے ہوئے بار بار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ان میں علامیہ خلق کیا گیا ہے اور انھیں پڑھنے کے لیے وہی روش اور جگرسوزی درکار ہے جس سے تخلیق کار گزرا ہے۔ اختر الا ایمان کا خیال ہے کہ ان کی شاعری سماعتوں میں رس نہیں گھولتی بلکہ دل سوزی اور جگر خراشی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے :
’’اس حصہ کی نظمیں ’گرداب‘ کے اٹھارہ سال بعد کی نظمیں ہیں۔ اس لیے انھیں سمجھنے کے لیے زیادہ کاوش کی ضرورت ہے۔ کاوش سے میری مراد یہ نہیں کہ یہ نظمیں آپ کے ذہن کی رسائی سے باہر ہیں یا آپ کے فکری معیار سے بلند ہیں۔ مراد یہ ہے کہ وہ احباب جو اس شاعری کو بھی رواروی میں پڑھنا چاہتے ہیں اور اس سے وہ لطف لینا چاہتے ہیں جو قوالی یا سوزخوانی سے میسر آتا ہے تو مجھے بڑی شرمندگی ہے کہ یہ شاعری ان کی خواہش کو پھر پورا نہ کر سکے گی۔ میرے اس بیان سے آپ یہ نتیجہ نہ نکالیے کہ میں اپنی شاعری کو وحی یا عجائب روزگار کا درجہ دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ میرا خون جگر ہے، اس پر کوئی ایسا حکم نہ لگے جو آپ کی غیر ذمہ داری پر دلالت کرتا ہو۔ ‘‘ 2
وہ قاری سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس شاعری کے تعلق سے کوئی بھی غیر ذمے دارانہ جملہ قابلِ گرفت قرار پائے گا۔ اس لیے احتیاط لازم ہے۔ پھر وہ اس کی قرأت کا طریقہ بھی بتاتے ہیں :
’’اس کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے اسے ایک، دو، تین بار پڑھیے، اپنے ذہن کو غزل کی فضا سے نکال کر پڑھیے۔ یہ سوچ کر پڑھیے کہ یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی، ایک ایسے انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات مٹتی ہوئی سیاسی، معاشی اور اخلاقی قدروں سے دوچار ہوتا ہے، جو اس معاشرہ اور سماج میں زندہ ہے، آئیڈیل نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں عملی زندگی اور اخلاقی قدروں میں ٹکراؤ ہے، تضاد ہے، جہاں انسان کا ضمیر اس لیے قدم قدم پر ساتھ نہیں دے سکتا کہ زندگی ایک سمجھوتہ کا نام ہے اور سماج کی بنیادی اعلیٰ اخلاقی قدریں نہیں، مصلحت ہے اور ضمیر کو اس لیے نہیں چھوڑا جا سکتا ہے کہ اگر انسان محض حیوان ہو کر رہ گیا تو اعلیٰ قدر کی نفی ہو جائے گی۔ ‘‘3
اختر الایمان کی شاعری جس عہد کی تخلیقی دستاویز ہے، اس میں معاشرہ کئی طرح کے تضاد سے دوچار تھا۔ اخلاقی زوال، قدروں کی پامالی اور بے ضمیری عام تھی۔ شناخت عدم شناخت اور تعمیر و تخریب کی سرحدیں مٹ چکی تھیں۔ زندگی میں تشکیل اور رد تشکیل کا ایک عجیب عالم تھا۔ اختر الایمان نے جب اپنے معاشرہ کو دیکھا اور اپنے کردار کا جائزہ لیا تو انھیں محسوس ہوا کہ ہماری شعری روایت پر رومانویت کا غلبہ ہے، جس کے لیے یہ فضا سازگار نہیں۔ ان کی شاعری ایک طرف معاصر سیاسی، معاشی اور اخلاقی قدروں سے خود کو ہم آمیز کرتی ہے تو دوسری طرف روایتی شعری رویوں سے اجتناب بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پڑھنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اختر الایمان کو احساس تھا کہ زمانہ بدل چل چکا ہے، لیکن اردو کے قاری اپنی روایت سے چمٹے ہوئے ہیں اور وہ اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں چاہتے۔ اختر الایمان کی شاعری نئی جہت اور نئے زمانے کی آواز ہے، اس کی تفہیم وتعبیر کے لیے پرانے طریقۂ کار اب کارآمد نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے دیباچے میں اپنی شاعری کا پس منظر اور انھیں سمجھنے کا طریقہ بتایا ہے۔ قاری کو اختیار ہے کہ وہ اختر الایمان کی بتائی ہوئی راہ پر چلے یا اپنا راستہ خود اختیار کرے، لیکن تخلیق کار اتنی توقع ضرور رکھتا ہے کہ وہ خود جس جگر کاوی سے گزرا ہے، قاری اسے محسوس کرے۔ انھوں نے ’’یادیں ‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے :
’’شاعری میرے نزدیک کیا ہے اگر میں اس بات کو ایک لفظ میں واضح کرنا چاہوں تو ’مذہب‘ کا لفظ استعمال کروں گا۔ کوئی بھی کام جسے انسان دیانتداری سے کرنا چاہے، اس میں جب تک وہ لگن اور تقدس نہ ہو جو صرف مذہب سے وابستہ ہے، اس کام کے اچھا ہونے میں ہمیشہ شبہ کی گنجائش رہے گی۔ یہ شاعری جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس میں وہ لگن اور تقدس ہے یا نہیں جس کا اوپر ذکر کیا ہے، مجھے نہیں معلوم البتہ یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی شاعری کو اپنا ایمان اور مذہب سمجھنے میں کوتاہی نہیں کی۔ میں نے آج تک زندگی اور اس کے نشیب و فراز کے ساتھ ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جو میری شاعری کو مجروح کرتا ہو۔ ‘‘ 4
اختر الایمان کی شاعری اور زندگی کا مطالعہ قاری کے تجسس میں اضافہ کرتا ہے کہ آخر ان کے یہاں ایسی کون سی شے تھی جس کی بنیاد پر انھوں نے نہ تو اپنی روش سے انحراف کیا اور نہ روایتی شعری مزاج سے مصالحت کی۔ اس سوال کا جواب اس اقتباس میں موجود ہے۔ انھوں نے جو زندگی بسر کی اس میں مصالحت اور مفاہمت کے مواقع زیادہ تھے۔ اختر الایمان نے فلموں کے منفی اثرات کو اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ فلم کی تکنیک سے اپنی شاعری کو ثروت مند بنایا اور ڈرامے بھی لکھے لیکن شاعری کی حفاظت انھوں نے اپنے عقیدے اور ایمان کی طرح کی۔ بے شک کوئی بڑا کام جس سچے جذبے کا متقاضی ہوتا ہے وہ مذہب ہی کی مانند ہے۔ اختر الایمان نے یہاں قاری کے لیے اتنی گنجائش رکھی ہے کہ وہ چاہے تو اس لگن اور تقدس کو دریافت کرے یا رد کر دے لیکن وہ ایسی بات نہیں کہتے جو ان کے خلاف جاتی ہو۔ شعر کب کہنا چاہیے یا اور شاعری کے لیے مناسب موقع کون سا ہوتا ہے، اس تعلق سے انھوں نے لکھا ہے :
’’اپنی شاعری سے متعلق ایک اور اہم بات یہ کہوں گا جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ اس وقت نہیں لکھا، جب ان تجربات اور محسوسات کی منزل سے گزر رہا تھا جو میری نظموں کا موضوع ہیں، انھیں اس وقت قلمبند کیا ہے، جب وہ تجربات اور محسوسات یادیں بن گئے ہیں۔ جب ہر نشتر کے لگائے ہوئے زخم مندمل ہو گئے تھے، ہر طوفان گزر کر سطح ہموار ہو گئی تھی اور ہر رفتہ اور گزشتہ تجربہ کی صدائے بازگشت مجھے یوں محسوس ہو رہی تھی، جیسے میں ان سے وابستہ بھی ہوں اور نہیں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ میری بیشتر شاعری میں ایک یاد کا سارنگ ہے اور یہ شاعری بیک وقت داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔ ‘‘ 5
یہ باتیں تمام بڑی اور اہم شاعری کے لیے لازمے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ فوری تاثر سے بعض اوقات اچھی شاعری بھی سامنے آ جاتی ہے مگر عام طور پر ایسی شاعری میں جذباتی ابال زیادہ ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ اختر الایمان کی شاعری پر یادوں کا گمان کیوں ہوتا ہے، اسی کی طرف انھوں نے اشارہ بھی کیا ہے۔ یادیں دراصل تہذیب اور لاشعور میں بسی ہوئی ایک ایسی دنیا ہے، جس سے نکلنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ یادوں کے سہارے زندگی گزارنے کا رویہ‘ ممکن ہے زندگی کے تعلق سے منفی رویہ ہو مگر یادوں کو اظہار کے نئے سانچے میں ڈھالنا اور ان میں مستقبل کی دنیا کو آباد کر دینا شاعری کا اہم کارنامہ ہے۔ اس سیاق و سباق میں اختر الایمان کی شاعری اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔ ان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ہم کسی ایسی دنیا میں نہیں جاتے جسے دیکھا نہ ہو۔ شاعری کا داخلی یا خارجی ہونا دراصل اسے زمان و مکان سے وابستہ کرتا ہے۔ شاعر دنیا سے تجربات حاصل کرتا ہے۔ واقعات و حادثات خاص مدت تک داخل کی دنیا میں آباد رہنے کے بعد جب معرضِ اظہار میں آتے ہیں تو اس کی خارجی اور واقعاتی سطح تبدیل ہو جاتی ہے۔ اختر الایمان کی نظمیں واقعات و حادثات کی تصویر کشی تو کرتی ہیں لیکن وہ محض تصویریں یا واقعات نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں ان کا لہو شامل ہے اور جب قاری قرأت کے عمل سے گزرتا ہے تو اپنے خون کے دھبے بھی وہاں محسوس کرتا ہے۔ قاری اپنے اندر کچھ تبدیلی محسوس کرتا ہے، پہلی قرأت اسے دوسری قرأت پر مجبور کرتی ہے اور جب قاری دوبارہ اس دنیا میں جاتا ہے تو نہ صرف حیران ہوتا ہے بلکہ اس کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور خود کو ایک نئے انسان کے روپ میں پاتا ہے۔ اختر الایمان دانستہ طور پر اردو کے روایتی شعری مزاج سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’جب سے شاعری پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا ہے، مجھے یہ احساس ہوا کہ ہماری شاعری چند چیزوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ان میں سے ایک رومانیت ہے، دوسری غزل یا غالباً رومانیت پوری شاعری پر حاوی ہی اس لیے ہے کہ ہم غزل سے نکل کر نہیں جا سکے۔ غزل کا میدان بہت محدود ہے۔ کسی بھی موضوع کو واضح طور پر بیان کرنے کے لیے دو مصرعے کافی نہیں ہوتے۔ اس حدبندی سے نقصان یہ ہوا کہ نئے نئے موضوعات اور ہیئت کے تجربے نہیں کیے جا سکے اور شاعری میں وہ پھیلاؤ نہیں آ سکا جو زندگی میں ہے۔ غزل کسی موضوع پر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتی۔ صرف اشارے کر سکتی ہے اور کسی موضوع کی طرف اشارہ کافی نہیں ہوتا۔ اس چیز کو ذہن میں رکھ کر میں نے اکثر یہ کوشش کی ہے کہ نظموں میں وہ رسمی رومانیت نہ آئے بلکہ بعض جگہ جان بوجھ کر نظموں میں روکھاپن اور کھردرا پن رکھا ہے یا ایسے مضامین کو نظم کا موضوع چنا ہے جس میں بالکل کسی قسم کی رومانیت نہیں ہے۔ ‘‘ 6
غزلیہ شاعری کا اہم موضوع عشق و رومان ہے۔ اس میں عشق حقیقی اور مجازی کی تفریق بھی دراصل اسی رسمی رومان سے شاعری کو الگ کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن ان دونوں کے سرے کچھ اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ انھیں الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اختر الایمان کا یہ خیال کہ اردو شاعری غزل کی رومانیت سے آگے نکلنے میں ناکام رہی ہے، اس سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ صحیح ہے کہ نئی نظم کو مقبولیت اسی لیے دیر سے ملی کہ وہ غزل کے روایتی اسلوب اور لفظیات سے میل نہیں کھاتی تھی۔ نظمِ معرا کو غزل کی روایت میں ہی قبول کرنے کی کوشش کی گئی لیکن آزاد نظم کو رد کر دیا گیا۔ مسعود حسن رضوی ادیب نے لکھا ہے :
’’مطلع کو چھوڑ کر غزل کا ہر شعر علیحدہ علیحدہ ایک غیر مقفی نظم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ نہیں ہوتے اور ان غیر مقفیٰ نظموں سے ہم کو وحشت نہیں ہوتی۔ ‘‘ 7
اختر الایمان نے شعوری طور پر غزل کی راسخیت کو توڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے پہلے تو اس کے موضوعاتی پہلو پر اعتراض کیا، پھر اس کے فن کو محدود قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں نئی حسیت کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ زمانہ تفصیلات کا تھا جس میں محض اشاروں سے اپنی بات مکمل نہیں کی جا سکتی تھی۔ اختر الایمان کے اس رویے پر بہت سے غزل گو شعرا نے اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے خود ستائی کی ایک شکل بھی قرار دیا۔ اختر الایمان کا یہ خیال بھی بجا ہے کہ غزل کی حد بندی کے سبب ہی اردو میں ہیئت کے تجربے بہت کم ہوئے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے تعلق سے لکھا ہے :
’’میری نظموں کا بیشتر حصہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے۔ علامیہ کیا ہے اور شعر میں اس کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ علامیہ کی شاعری سیدھی سیدھی شاعری سے مختلف ہوتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ علامیہ کا استعمال کرتے وقت شاعر کا رویہ بالکل آمرانہ ہوتا ہے۔ وہ ایک ہی علامیہ کو کبھی ایک ہی نظم میں ایک سے زیادہ معانی میں استعمال کر جاتا ہے، دوسرے الفاظ کے بہ ظاہر جو معنی ہوتے ہیں، وہ علامیہ کی شاعری میں بدل جاتے ہیں۔ ..علامیہ شاعری پڑھتے وقت بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ان لوگوں کے مزاج کو بالکل راس نہیں آتی جن کے لیے شاعری کوئی سنجیدہ چیز نہیں ہے اور جو اسے رواروی میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘8
اس میں شک نہیں کہ علامیہ شاعری سیدھی سادی شاعری سے مختلف ہوتی ہے اور دونوں کی قرأت کے تقاضے مختلف ہیں۔ سیدھی سادی شاعری سے مراد وہ شاعری ہے جس میں معنوی تہہ داری نہ ہو۔ علامتی شاعری دھیرے دھیرے قاری کی گرفت میں آتی ہے۔ پہلی قرأت، دوسری قرأت کو رد کرتی ہوئی کسی نئے معنی تک پہنچ جاتی ہے۔ علامتی شاعری عام الفاظ کو کچھ ایسے سیاق وسباق میں استعمال کرتی ہے کہ وہ اپنے لغوی معنی سے بلند ہو کر نئے جہانِ معنی آباد کر لیتے ہیں۔ شاعر کے اس رویے کو اختر الایمان نے آمریت سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی شاعر لفظ سے جس طرح کے معنی چاہتا ہے، برآمد کر لیتا ہے یا اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ مطلوبہ معنی ادا کر سکے۔ اختر الایمان بار بار اپنی شاعری کو توجہ سے پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اصل میں وہ زندگی کو بحیثیت مجموعی دیکھتے ہیں۔ ان کے تجربے میں ذات سے زیادہ کائنات کا دکھ شامل ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ تخلیقی سطح پر وہ جس کرب سے گزرے ہوں، قاری بھی اسے محسوس کرے۔ ’بنت لمحات‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
’’یہ کھردری، شبہات سے پر، انتشار آمیز شاعری اس خلوص اور جذبۂ محبت کے تحت وجود میں آئی ہے جو مجھے انسان سے ہے۔ میں اس کے کرب، اس کی شدت درد کو انتہا پر پہنچ کر محسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس کی بے چارگی، کم مائے گی، بے بسی اور نارسی کے ساتھ ہمدردی ہے اور میں اس کی کوتاہیوں اور خامیوں کو ایک حد تک قابل معافی سمجھتا ہوں۔ ‘‘9
اختر الایمان نے اپنی شاعری کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان میں دوسرے شاعروں کی ترجیحات بھی شامل ہیں۔ اپنی شاعری کو کھردری، تشبیہات سے پر اور انتشار آمیز قرار دینے کا رویہ دراصل اپنے شعری اسالیب اور موضوعات کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ ابتدا میں وہ نظمیہ لہجہ کو’ غزل سے انحراف کا رویہ‘ کہہ رہے تھے، بعد میں انھوں نے اس لہجے کے لیے ایک اصطلاح ’کھردری شاعری‘ وضع کر لیا اور یہ ’کھردری شاعری ‘ غزل اور کلاسیکی شعریات کے پروردہ قاری کے ذوق کی تسکین نہیں کر سکتی۔ ’’زمین زمین‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں :
’’جب میں شاعری میں کھردرے پن کا ذکر کرتا ہوں، اس کا مطلب اخباری زبان نہیں ہوتا، کلام موزوں بھی نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہوتا ہے بندھے ٹکے مروجہ اشارے اور تشبیہات، بیان کا پیش افتادہ انداز اور مضامین سے گریز۔ ٹکسالی محاوروں اور روزمرہ سے پرہیز۔ ایسی زبان جو ابھی شاعری کی خراد پر نہیں چڑھی۔ ان لفظیات سے مراد ہوتی ہے، جن میں ابھی کنوار پن کی خوشبو ہے، اس لیے کہ وہ توانا ہوتے ہیں اور نئے موضوعات میں خیال کے اظہار کا بھرپور ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ‘‘ 10
اختر الایمان کا یہ رویہ ہماری تنقید کو بھی ایک راہ دکھانے کی کوشش ہے۔ وہ روایت کویکسر مسترد کرنے کے قائل نہیں بلکہ الگ راہ نکالنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پامال راستوں پر اپنی انفرادیت قائم کرنا سہل نہیں۔ اختر الایمان کو اس بات کا احساس ہے کہ مروجہ مسائل کو روایتی شعری مذاق میں بیان کر دینا اخبار میں شائع ہونے والی خبروں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ ایسا بھی نہیں کہ اختر الایمان کی شاعری محض زبان کی شاعری ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو دو بڑے خانے میں تقسیم کر کے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اردو کی پوری شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ’حصار‘ کے باہر [اور] ’حصار‘ کے اندر۔ .. حصار کے اندر والی شاعری وہ ہے جو ہم اکثر مشاعروں میں سنتے ہیں۔ سواے تھوڑی سی زبان کی تبدیلی کے، اس شاعری اور ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں کوئی فرق نہیں۔ یہ اتنی صدیاں جو بیچ میں گزر گئیں ان کی کوئی چھاپ، کوئی نشان قدم، نہیں دکھائی دیتا۔ یہ شاعری نہ ادبی رسائل اور جریدوں میں چھپتی ہے نہ کتابوں میں ملتی ہے، یہ نہ ادب کا کوئی تجربہ ہے، نہ زبان میں کوئی اضافہ، نہ نئے تصورات اور میلانات کی کوئی ترویج ہے۔ اس کا مقصد صرف محفل گرمانا ہے اور یہ شاعرانہ محفلیں، مجروں اور سماع و رقص کی محفلوں کا بدل بن گئی ہیں۔ ‘‘11
اختر الایمان کے یہاں شعر گوئی کے ساتھ شعر خوانی بھی ایک سنجیدہ ادبی اور انسانی مسئلہ ہے۔ وہ محض شعر سن لینے اور داد دینے یا داد وصول کرنے کے قائل نہیں۔ وہ عموماً مشاعروں بلکہ شعری نشستوں میں بھی نظم سنانا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کا شعری رویہ ایک طرح کی داخلی خارجیت یا خارجی داخلیت کو پیش کرتا ہے۔ جس میں اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے بیگانہ نہیں ہے۔ معاشرے کے ساتھ فرد بھی شکستوں سے دوچار ہے۔ وہ شاعری کو زمانے سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ گویا مشاعروں کی شاعری عصری حسیت سے نابلد ہوتی ہے اسی لیے انھوں نے اسے حصار کی شاعری قرار دیا ہے۔ بغور دیکھیے تو عصری حسیت بھی حصار کا حصہ ہے۔ مشاعروں کی شاعری کا بڑا تعلق ایک معنی میں زمانے سے بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں وہ بصیرت اور گہرائی نہیں ہوتی جو اچھی شاعری کے لیے ضروری ہے۔ حصار اگر قید کی مانند ہے تو بھی ایک اچھا شاعر حصار سے بلند شاعری کر سکتا ہے۔ مشاعرے کو خراب شاعری کا ذمہ دار قرار دینا مناسب نہیں۔ اختر الایمان کے عہد کے اہم شعرا مشاعروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ حصار کے باہر کی شاعری انھیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ وہ شاعری سے جس قسم کا تقاضا کرتے ہیں اسے پورا کرنے والی شاعری کو انھوں نے ’’حصار کے باہر‘‘ کی شاعری قرار دیا ہے :
’’حصار کے باہر والی شاعری وہ ہے جس میں نئے تجربات، نئے میلانات اور نئے شعور کی ترجمانی اور نمائندگی ہوتی ہے۔ میں اس سلسلے کا آغاز غالب اور حالی سے کرتا ہوں، شاعری میں فکر کا عنصر یہیں سے شامل ہوتا ہے۔ اور بعد میں جس میں کچھ تجربے آزاد، عظمت اللہ خاں اور ڈاکٹر بجنوری نے بھی کیے تھے۔ اور میں اپنی شاعری کا شمار اسی ’حصار‘سے باہر والی شاعری میں کرتا ہوں۔ اگر چہ میری شاعری خالصتاً میری ذات کا اظہار ہے، پھر بھی اسے سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر کے محرکات اور ان وجوہ کا جاننا ضروری ہے جن کا یہ شاعری رد عمل ہے۔ ‘‘12
ایسا نہیں ہے کہ غالب سے پہلے اردو شاعری میں فکر کا عنصر نہیں تھا، عہدِ غالب کو نظریات و افکار کی صدی بھی کہا گیا۔ 19ویں صدی کے نصف آخر تک مغرب کے بیش تر فلسفے اردو اور دوسری ہندستانی زبانوں میں منتقل ہو چکے تھے، جن سے یہاں کے شعرا و ادبا حسبِ توفیق استفادہ کر رہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری غزل کے سحر سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکی، اس کے باوجود نظم پڑھنے اور لکھنے والوں کا ایک سنجیدہ حلقہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
اختر الایمان نے شاعری کو عصری حسیت سے جس طرح مربوط کرنے کی کوشش کی ہے اسے عام طور پر مارکسی اور ترقی پسندانہ رویے کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ اختر الایمان نظریاتی طور پر مارکسی نہیں تھے اور نہ انھوں نے کسی خاص نظریہ کو شاعری یا زندگی کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ زندگی اور شاعری کو انھوں نے آزادانہ طور پر دیکھا اور اپنے تجربے کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھیں احساس تھا کہ نظریہ کی ابتدا ادعائیت اور انتہا کلبیت پر ہوتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے نظریہ کی عینک سے دیکھنے کے بجائے براہ راست زندگی اور اس کی شکست و ریخت کو دیکھنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں وہ کبھی مارکسزم سے قریب ہو جاتے ہیں تو کبھی وجودیاتی فلسفیوں سے۔
اختر الایمان کے دیباچوں میں ان کے سوانحی عناصر بھی ملتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنی ذات کا اظہار بھی کہا ہے جس کی تفہیم کے لیے ان کی زندگی کے واقعات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ دیباچے صرف اختر الایمان کی شاعری اور زندگی سے عبارت نہیں بلکہ ان کا مطالعہ ایک عہد کی شعری، ادبی اور سماجی رویوں سے رو برو ہونا ہے۔
حوالے
1 پیش لفظ، آب جو، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:348
2 پیش لفظ، آب جو، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:351
3 پیش لفظ، آب جو، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ: 351-352
4 پیش لفظ، یادیں، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ: 353
5 پیش لفظ، یادیں، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ: 359
6 پیش لفظ، یادیں، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:352
7 ادیب، مسعودحسن رضوی۔ ہماری شاعری، علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس 2008، صفحہ:39
8 پیش لفظ، یادیں، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:358-359
9 پیش لفظ، بنت لمحات، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:363
10 پیش لفظ، زمین زمین، بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:395
11 پیش لفظ، بنت لمحات؛ بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:364
12 پیش لفظ، بنت لمحات؛ بحوالہ ؛ اختر الایمان:عکس اور جہتیں، (مرتبہ؛شاہد ماہلی) نئی دہلی: معیار پبلی کیشنز، 2000، صفحہ:364
٭٭٭
دستاویزات
’نارس‘ کا پیش لفظ ۔۔۔ میراجی
1946 میں جب ’تاریک سیّارہ‘ لاہور سے چھپ کر آئی، اُس وقت تک میرے پاس نئی نظموں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ہو گیا تھا۔ ’نارس‘ کے نام سے نیا مجموعہ ترتیب دیا، مگر کون چھاپے یہ مسئلہ پھر زیرِ بحث آ گیا۔ میں اُن دنوں پونے میں تھا، شالیمار پکچرس سے متعلق۔ میراجی بھی کام کی تلاش میں آئے تھے اور میرے پاس ہی رہتے تھے۔ وہ اپنی نظموں کا ایک مجموعہ ’سہ آتشہ‘ چھاپنا چاہتے تھے۔ میں اور میراجی ناشر کی تلاش میں حیدرآباد دکن گئے۔ ایلورا اور اجنتا تو دیکھ لیا، ناشر کہیں دور دور دکھائی نہیں دیا۔ مختصر یہ کہ ’نارس‘ نہیں چھپ سکی۔
میں نے یہ لفظ ’نارس‘ ناممکن الحصول کے معنی میں استعمال کیا تھا۔ میراجی کو بہت پسند آیا اور انھوں نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا۔ وہ نظمیں جن کا ذکر میراجی نے اس مضمون میں کیا ہے، میں نے یہاں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مضمون اس لیے شامل کر رہا ہوں کہ ہر تھوڑی تھوڑی مدت بعد میری زندگی میں اتھل پُتھل ہو جاتی ہے اور کاغذی سرمایہ بکھر جاتا ہے، پچھلی تمام نظمیں جن کا ذکر اس مضمون میں ہے وہ سب ’سروساماں ‘ میں شامل ہیں۔
میں اس مضمون کو تخلیقی تنقید کا ایک مثبت اور بہترین نمونہ تصور کرتا ہوں۔ وہ دور رسی، تلاش اور شعری تخلیق کی فہم جو اس مضمون سے ظاہر ہے، میں سمجھتا ہوں میراجی کے ساتھ ہی چلی گئی۔ اختر الایمان
اختر الایمان کے اس مجموعۂ کلام کے بارے میں جو دو ایک باتیں میں کہنا چاہتا ہوں وہ ایک ایسے اعتراف سے شروع ہوتی ہیں جسے معذرت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اعتراف اس بات کا کہ نظموں سے زیادہ دلکشی مجھے مجموعے کے نام میں محسوس ہوتی ہے۔ یوں تو مفہوم کے لحاظ سے نام کی رعایت نظموں میں بھی جگہ جگہ ظاہر ہوتی رہتی ہے لیکن نام میرے دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور نظمیں دماغ کو دعوت دیتی ہیں۔ کُرید کے اس احساس کو خاک و خون کی نظمیں بھی جگاتی ہیں کیونکہ وہ جنگ سے متعلق ہیں اور جنگ ایک مسئلۂ حیات ہے۔ لیکن میٹھے بول اور دوسرے حصوں کی بہت سی چیزیں ایک داخلی مسئلے کو پیش نظر کر دیتی ہیں۔ شاید دو ایک مثالوں سے میری یہ بات زیادہ واضح ہو سکے، لیکن دو ایک مثالوں سے پہلے اس حقیقت پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے جس کی بنیاد پر میں نے اپنے خیال کی عمارت کھڑی کی ہے۔
اختر الایمان کے کلام کو دیکھتے ہوئے اس کے پہلے مجموعے ’گرداب‘ کی نظموں کے زمانے ہی سے مجھے اس بات کی ٹوہ رہی ہے کہ آخر وہ کیا شے ہے جس کی شاعر کو تلاش رہتی ہے۔ بنفسہٖ نظموں کے بھرپور ہونے کے باوجود ایک کمی تو نہیں ؟ ایک پیاس کا احساس مجھے ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ اختر کی پہلی نظم جو میں نے دیکھی وہ ’نقشِ پا‘ تھی۔ اس سے شاعر کا تصور کچھ اس طرح کا بندھا تھا جیسے کوئی شخص کھڑے کھڑے زمین کی طرف دیکھ رہا ہو یا اگر چل رہا ہو تو آنکھیں جھکائے آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہو اور یہ تصور مرکوز اور جامد تھا۔ میٹھے بول کے حصے میں جو نظمیں ہیں وہ اختر کے کہنے کے مطابق زیادہ تر صرف ایک نسائی تجربہ ہیں جن میں وہ اپنی رائے میں بھی کامیاب نہیں ہوا۔ اس کا یہ کہنا اس لحاظ سے میری نظر میں درست ہے کہ ابھی اسے شعوری طور پر اس بات کا احساس ہی نہیں کہ غیر شعوری طور پر اپنی پہلی فارسی آمیز زبان سے ہٹتے ہوئے ہندی آمیز زبان کے لوچ کی طرف اس کا دھیان کیوں گیا۔ گھلاوٹ اور لوچ سپردگی کا دیباچہ ہیں۔ شاید اسے اپنی فارسی آمیز لغت کے ترشے ترشائے پن میں اپنے آسودہ احساسات کے اظہار کے لیے مناسب ذریعہ نہیں ملا۔ شاید وہ حسنِ محض اور اطمینانِ قلب کی جستجو میں جس ترجمانی کا خواہاں ہے اس کے لیے اسے اپنی پہلی لغت میں ایک روک محسوس ہوئی اور اس نے نیا ذریعۂ الفاظ تو تلاش کر لیا مگر اس کی جستجو میں مگن خودی نے اس تجربے کو کامیاب کہنا گوارہ نہ کیا۔ نفسی یا غیر شعوری روک پھر بھی قائم رہی۔ اس سلسلے میں اس کی اپنی کیفیت کو سمجھنے میں اس کی نظم ’ترغیب‘ اور ’اس کے بعد‘ بھی ہماری کافی مدد کرتی ہے۔ ’ترغیب‘ کے انجام تک تو شاعر کا تیقّن اور خود اعتمادی سربسر قائم رہتی ہے وہ پوری دل جمعی سے اپنے مخاطب کو کہتا ہے کہ:
’’نرم ہوا کے جھونکوں ہی سے کھلتی ہے پھولوں کی آنکھ
ورنہ برسوں ساتھ رہے ہیں ٹھیرا پانی بند کنول‘‘
لیکن ترغیب کے بعد والے حصے میں جب اس کی زبان سے ہمیں یہ سنائی دیتا ہے کہ ’’میں اپنے رستے جاتا ہوں اور تو اپنی ڈگر پر چل‘‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ’’حسن اور عشق کی اس دنیا میں کس نے کس کا ساتھ دیا‘‘ بلکہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جس کی جستجو اس کے اندرونی دل کو ہے (دماغ کو) وہ اب تک اس سے دوچار نہیں ہو پایا اور اس لیے اب بھی اس سے آگے ہی بڑھتا ہے تاکہ حصول کا فیض گرفت میں آئے کہ نہ آئے جستجو تو جاری ہے، کیونکہ جستجو ہی زندگی ہے اور یہاں سے خیال گزرتا ہے کہ کہیں شاعر کی نظر میں جستجو ہی تو حسن محض اور اطمینانِ قلب کا درجہ حاصل نہیں کر چکی۔ اگر یہ بات ہے تو منزل کی بہ نسبت تلاشِ منزل شاعر کا مطمحِ نظر بن جائے گا اور پھر چاہے ہم لاکھ مخالف ہوں ہمیں کہنا پڑے گا کہ فراری نہیں بلکہ عمل اور وہ بھی پیہم عمل کا شاعر ہے۔ مجھے کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اختر الایمان اپنی اس جستجو میں ہر منزل پر اپنے آپ کو غالبؔ کے لفظوں میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ محسوس کرتا ہے اور ہر منزل پر کبھی نظریں جھکا لیتا ہے، کبھی آگے دیکھتا ہے جب اسے ترغیب سے سامنا ہوتا ہے تو وہ ترغیب کے بعد پر غور کرتا ہے۔ دل میں یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے میرا بھید نہ پوچھو میں کیا جانوں میں ہوں کون‘‘ اور اس وقت حقیقت یہ کہتی ہے کہ میں کیا جانوں تم ہو کون اسی لیے وہ اسی ایک سانس میں اس نفسی کیفیت کو بھی شعوری طور پر پہچان لیتا ہے کہ ’’دن کے اُجالے سانجھ کی لالی رات کے اندھیارے سے کوئی مجھ کو آوازیں دیتا ہے آؤ آؤ آؤ آؤ‘‘ اور پھر وہ باپ سے روٹھے ہوئے بالکوں کی طرح ’’جستجو کی دھول میں بیٹھ کر کھیلنے لگتا ہے۔ ذرا اس کی نظموں کے عنوانات پر ہی غور کیجیے : اجنبی، نارس، انجان۔ لگاتار تین بار ایک ہی صورتِ حال سے اسے سامنا ہے، لیکن ہر بار چاہے پوری طرح ظاہر ہو یا نہ ہو وہ ہر منزل کو ’سررہ گزارے ‘ کا درجہ دیتا ہوا کم سے کم اپنے خیال میں پیمبر گل کی تلاش میں چل نکلتا ہو:
جا رہا ہوں حسن سے آنکھیں ملانے کے لیے
زندگی کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے
(جوشؔ )
عمر فانی کو میں نذر حسن فانی کر دوں گا
(جوشؔ )
نام کا میرے ہے وہ دُکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا
(غالبؔ )
فرانسیسی شاعر ’سٹیفانے میلارمے ‘ کے منفی تصور کے بارے میں ایک مغربی نقاد کی تصنیف پڑھ کر غالبؔ کے منفی تصور کا خیال مجھے آیا تھا جس کا ذکر میں نے میلارمے ہی کے متعلق ایک مضمون میں کیا ہے۔ میری رائے میں اختر الایمان حسن محض کو مثبت صورت میں دیکھ کر منفی صورت میں اس کی گرفت کرتا ہے اور پھر جب اپنے اس نتیجے کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو وہ پھر مثبت صورت میں ہوتا ہے۔ فنی لحاظ سے اس کی نظموں میں یہ ایک ایسا پیچ ہے جو قاری کو صحیح راہ سے بھٹکا دیتا ہے اور شاعر قاری کی گمراہی سے غیر شعوری طور پر محظوظ ہوتا ہے کیونکہ پھر اسے غزل سے اپنی دوری کا احساس نہیں ہوتا یا عارضی طور پر مٹ جاتا ہے لیکن شاعر کی بنیادی خصوصیت جستجو ہے اسے پھر اپنے خیالی رنگ محل سے نکال کر تلاش کے ابدی ویرانے کی طرف روانہ کر دیتی ہے۔ جستجو:
کیا حسن محض کی ہے یا اطمینان قلب کی ہے
کیا اس جستجو کا محرک صنفِ لطیف ہے
اگر عورت ہے تو اس سے شاعر کے ذہن کو اضطراری اور ہنگامی تعلق کا احساس کیوں ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ جستجو اطمینانِ قلب اور حسنِ محض کی ہے جسے دوام ہے پھر یہ کشمکش کیوں ؟
شاید اب تک شاعر کو ہر چیز ہنگامی دکھائی دی ہے شاید جب بھی حسنِ محض سے وہ قریب ہونے کو تھا تو اس کا یہ قُرب سراب ثابت ہوا اور صرف لات کا ایک احساس ہی گہرا ہو کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لات ہی کو عارضی طور پر ہی سہی حسنِ محض یا اطمینانِ قلب کے حصول کی کمی کی صورت میں حاصل حیات سمجھتا ہے۔ حسنِ محض اور اطمینانِ قلب کو انسان مثالی عورت کے روپ میں تلاش کرتا ہے۔ ’مثالی عورت‘ جس کے تصور سے داستان ماضی کا ہر باب اجاگر ہو اٹھتا ہے جس کی ہستی کا احساس ایک طلسم کامل ہے۔
جیسے ایک دیوی ہے اک ستارہ ہے
یا گھٹاؤں میں کھویا آوارہ مہ پارہ ہے
عمر خیام کے ہاں جو ایک گہری Desolation کا احساس ہوتا ہے جیسے اسے کسی بہت ہی بڑی Disillusion کا سامنا ہوا ہے اور وہ ناکامی کے اس احساس کو شراب کی وقتی بے خودی میں بھول جانا چاہتا ہے۔ اختر کے ہاں بھی ’ویرانی‘ اور ’نایافتگی‘ کی شہادت موجود ہے لیکن وہ شراب یا کسی اور عارضی درماں کی طرف رجوع نہیں کرتا ہر چیز کی اضطراری اور ہنگامی نوعیت کا اظہار کرتے ہوئے بھی مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ غیر شعوری طور پر اس کی یہ جستجو جاری ہی رہتی ہے۔ وہ حسنِ محض شاعر کی نظر میں حسنِ بے اعتماد ثابت ہوتا ہے مگر صرف گرفت کے لحاظ سے حصول کے لحاظ سے اور اپنی اس دائم گریزاں کیفیت سے اور بھی حصول پر اُکساتا ہے۔
اختر کے ہاں آدرشی عورت کا وجود جس انداز میں نمایاں ہوتا ہے اسے دیکھ کر شک گزرتا ہے کہ کہیں وہ آدرشی عورت صرف پرستیدہ خیال ہو تو کہیں ایسا تو نہیں حقیقت میں اس کی ہستی کا وجود ہی نہ تھا۔ میری نظر میں یہ شک باطل ہے۔ ایک تو اس سے کہ اگر وہ صرف خیالی عورت ہوتی تو خیالی حد تک تکمیلِ حسن کے بعد جستجو ختم ہو جاتی، دوسرے خصوصیت سے آخری زمانے کی نظموں میں جسمانی لذت کے جن پہلوؤں پر شاعر کی توجّہ زیادہ جاتی ہے اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدرشی عورت گوشت پوست سے بنی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زندگی میں کبھی کسی جگہ اور کبھی کسی جگہ اس کی کمتر یا زیادہ تر جھلک دکھائی دیتی رہتی ہے اور دھُن کے پکا ہونے کی وجہ سے شاعر آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اس تصور میں حرکت اس وقت پیدا ہوئی جب میں نے ’پگڈنڈی‘ کو پہلی بار پڑھا اور اس کے آس پاس ہی دو اور لائقِ توجہ نظمیں مجھے ’موت‘ اور ’جواری‘ معلوم ہوئیں اور پھر اب ’نارس‘ کی نظمیں میرے سامنے ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد ایک چلتی پھرتی بلکہ بعض اوقات بولتی ہوئی حیاتِ ذہنی کا نقشہ اُبھر آتا ہے۔
٭٭٭
اختر الایمان کی پانچ نظمیں ۔۔۔ باقر مہدی
کبھی جب شاعر چُپ چاپ متجسس نظروں سے تیز رفتار زندگی کو دیکھتا رہتا ہے تو اُسے ایک ساتھ دو باتوں کا خیال آتا ہے : ایک تو وہ ان سب سے الگ ہے، دوسرے وہ بھی ان میں جذب ہو جانا چاہتا ہے اور اس طرح ’’تنہائی کا احساس‘‘ ختم ہو سکتا ہے مگر اس خیال میں شاعر کی اپنی ’’بے بضاعتی‘‘ کا اعتراف اور ’’کچھ بننے ‘‘ کی آرزو چھپی رہتی ہے۔ آخر زندگی کا یہ بحرِ بیکراں کہاں سے کہاں تک پھیلا ہے ؟ کیا اس میں کھو جانا ہی زندگی ہے ! اس میں ڈوبے ہوئے رہنا اور پھر بھی الگ! کیا انسانی زندگی مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہے ؟
یہ اور ایسے کتنے ہی سوالات برسوں سے شاعروں کی توجّہ کا مرکز رہے ہیں۔ اگر شاعر ’فلسفی‘ بن جاتا ہے تو اکثر شاعری اس کا ساتھ نہیں دے پاتی جیسے اقبالؔ کی شاعری اور گھوم پھر کر اُسے شاعر ہی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی مگر صحیح ہے کہ خیالات، جذبات اور ان کے ملے جلے تانے بانے سے پیدا تاثرات کے بغیر اچھی شاعری کا تار و پود نہیں بنایا جا سکتا، اس لیے، شاعر کے لیے جذبات سے زیادہ خیالات سوہانِ روح بن جاتے ہیں، وہ کسے اپنائے کسے رد کرے ؟ اور پھر ان سب کے لیے کون سا نظریہ، کون معیار مقرر کرے ؟ اس منزل پر پہنچ کر اکثر شعرا مقبولِ عام معیار اور نظریے کو اپنا لیتے ہیں اور اس طرح ’ادبی کاروبار‘ کو فروغ دیتے ہیں۔ اختر الایمان نے ان سب سے بہت الگ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی راہ کچھ الگ ہی بنائی تھی مگر وہی سوال کوئی کہاں تک سب سے الگ، تنہا اپنی راہ پر جانے کی ہمت رکھتا ہے ؟ ظاہر ہے یہ کسی حد تک ناممکن ہے۔ اسی لیے ہمیں اختر الایمان کے یہاں زندگی اور شاعری کے بارے میں ایک جانا بوجھا نظریۂ حیات ملتا ہے وہ ہے اشتراکی نقطۂ نظر۔ یہ اگر اکتسابی ہوتا تو ان کی شاعری بھی نعرے بازی سے بچ نہ گئی ہوتی اور آج اس نظریے پر خود اس کے ’محافظین‘ نے جو ’وار‘ کیے ہیں کچھ اس کا ’احساسِ زیاں ‘ ہوتا، مگر نہیں، اختر الایمان نہ تو اکتسابی اشتراکی ہیں اور نہ ہی اس تحریک کے سرگرم رکن البتہ وہ ترقی پسند تحریک کے سایے میں ضرور پروان چڑھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں اس تحریک کے عروج و زوال کے اسباب کا احساس نہ ہوتے ہوئے بھی یہ خیال ضرور رہتا ہے کہ عوامی زندگی سے وابستگی ہی اصل زندگی ہے۔ یہ خیال ان کے یہاں ’عقیدے ‘ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے، کتنے ہی طوفان آئیں، نظریات پاش پاش ہوں، سب سے بڑا اشتراکی سب سے ظالم ثابت ہو جائے مگر ان کے ’خیالات‘ پر آنچ نہیں آتی اس لیے کہ یہ انھوں نے کسی سے حاصل نہیں کیے تھے بلکہ یہ ’عقیدہ‘ تو انھیں ‘زندگی کے چکر‘ میں برسوں گھومنے سے ملا تھا، اسی لیے ان کے یہاں باغی اور فن کار انکار کی جرأتِ اظہار، آزادیِ تقریر اور دوسرے اس مسئلے سے وابستہ سوالات کی جھلک تک نہیں ملتی کیوں کہ انھوں نے ان کو لائقِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ وہ تو اپنے احساسات اور روزانہ کی ذہنی اور مادی زندگی کی آویزش، یادیں اور اس کے سرچشمہ ہی کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں۔
یہ نئی پانچ نظمیں ان کی دوسری نظموں سے بہت مختلف نہیں ہیں کم از کم میری ناچیز راے یہی ہے۔ البتہ ان میں وہ اپنے آس پاس کے ہنگاموں (اور وہ اکثر ان سے باخبر رہے ہیں جیسے جنگ، امن کے موضوع پر قافلہ) پر ذرا زیادہ گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں مگر وہ کسی چیز کی ’انتہا کے بعد‘ اسے دیکھنا فضول سمجھتے ہیں۔ انھیں تھوڑے ہی سے ’سفر‘ میں کافی مل جاتا ہے اس لیے بہت آگے وہ کیوں جائیں !
’لوگو اے لوگو‘ اسی سفر کی پہلی منزل کا احساس ہے۔ انھوں نے یہ مان لیا ہے کہ ’عام لوگوں کی محبت اور رفاقت‘ ہی حاصلِ زندگی ہے اور اس محبت میں چھپی نفرت اور رفاقت میں پنہاں دشمنی پر وہ نظر بھی نہیں ڈالنا چاہتے جیسے کہ عام انسان ’مجسّم خیر‘ ہے۔ اوّل و آخر ایک ہی جذبے سے معمور ہے۔ اس نظم کا سیدھا سا دا لب و لہجہ، رواں دواں بحر ان کے اس جذبے کے اظہار میں بڑی معاون ثابت ہوئی ہے اور طنز کی نشتریت بھی ایک مصرعے سے (بجائے کوئی سربرآوردہ پتھر صفت شخصیت چاہنے کے ) اُبھر آئی ہے۔ وہ کچھ نہیں چاہتے صرف زندگی کے سیل میں ڈوب جانا چاہتے ہیں، کیوں ؟ یہ سوال اختر الایمان کی شاعری میں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ کیا یہ اقبالؔ کا وہ خیال (جو خود اقبالؔ کا نہیں بلکہ برگساں کے قوتِ نمو سے لیا گیا تھا) نہیں ہے کہ ’زندگی ہر دم جواں پیہم رواں ہے ‘۔ ظاہر ہے یہ نیا خیال نہیں ہے مگر اختر الایمان پُرسکون لمحے تک کے متلاشی نہیں ہیں کیوں کہ انھیں اپنے تجربے سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ پھر ایسا کوئی لمحہ نہیں آتا اسی لیے جب نظم کا آخری مصرع آتا ہے تو ایک ’ندرت‘ کی لہر نظم کی فضا پر چھانے لگتی ہے ۔ نہیں صرف امواج کی شورشِ رائے گاں چاہیے۔ یہ اگر رائے گاں ہے۔ اور اس مصرعے کے آخری ٹکڑے نے اس میں ’زندگی کی لہر‘ دوڑا دی ہے اور اس مصرعے نے اس کو معمولی نظم کے درجے سے بلند کر دیا ہے ورنہ یہ ’خطابت‘ کی نذر ہو چکی تھی۔
ان نظموں کا مرکزی خیال ’ایک معنی میں ‘ ایک ہے یعنی ’وقت‘ اس کی رفتار اس کی تباہ کاری، اس کے فیصلے، اس کی خوب صورتی، اس کو ہی کبھی زندگی کا سیل کہا ہے اور کبھی موسموں کی تبدیلی اور کبھی لمحات کی آمیزش اور جب کبھی ’ماضی کے پردے ‘ ہٹائے ہیں تو بھی وہی وقت مختلف روپ میں نظر آیا ہے غرض کہ ’وقت‘ اختر الایمان کی ان نظموں پر ’پوری طرح‘ سے عکس ریز ہے اور اس کے سایے میں کتنی ہی باتیں، واقعات اور لوگ اس لیے یاد آتے ہیں کیوں کہ یاد بھی تو وقت کے ایک احساس کا نام ہے۔ وقت جو گہرے سے گہرے گھاؤ کو بھر دیتا ہے اور مستحکم رشتوں کو کچے دھاگوں کی طرح توڑ دیتا ہے مگر یہ کون سی قوت ہے : کیا صرف قوتِ نمو ہے ؟ انسان اس کے ہاتھوں میں مجبور ہے ؟ کہیں یہ مارکس کا تاریخی مادّیت کا نظریہ تو نہیں ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا ہے وہ سارے ’بندھ‘ توڑتا ہوا بہتا رہتا ہے لیکن نہیں۔ یہ ہے بھی اور نہیں بھی ۔ اختر الایمان اس کو مارکسی جدلیاتی نقطۂ نگاہ سے نہیں دیکھتے ورنہ کتنے ہی اور مسئلے اُٹھ کھڑے ہوتے : مثلاً تاریخ میں فرد کا رول اور پھر وہی Determinism۔ جبریت کا مسئلہ، نور جاں لیوس تک نے اس میں ترمیم کی کوشش کی ہے اور تاریخی شعور کے معیار، صحت اور مطابقت کے مسائل ۔ مگر جیساکہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے کہ اختر الایمان کو تھوڑے ہی سے ’سفر‘ میں کافی مل جاتا ہے وہ ان سوالات میں الجھ کر ’اپنی آواز‘ کھو دینا نہیں چاہتے، اس لیے، کہ وہ اوّل و آخر شاعر ہیں اور ان کے یہاں افکار کی ’جھلکیاں ‘ ملتی ہیں اس کی پیچیدگیاں اور گہرائی نہیں۔
’بے تعلقی‘ میں وہی احساس ابھرا ہے جس کا ابتدائی سطروں میں ذکر کیا گیا تھا یہ میرؔ کے مصرعے سے نکل کر ’زندگی میں اجنبیت‘ کے احساس کی ترجمانی کرتی ہے۔ مختصر نظمیں اختر الایمان کی گرفت میں رہتی ہیں (اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طویل نظمیں نہیں رہتیں ) میرا خیال ہے کہ ان کی اکثر مختصر نظمیں شدتِ تاثر اور اندازِ بیان کی ندرت کو ایک طویل عرصے تک زندہ رکھتی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے وقت کے ساتھ چلتے رہنا ضروری تھا مگر جس لمحے رک کر ان گزرے ہوئے ’لمحوں ‘ پر نظر ڈالی، اسی وقت یہ احساس ہوا کہ جیسے اس ’کارواں ‘ سے کبھی وابستہ ہی نہ تھے۔ اس ’بے تعلقی‘ کا احساس کچھ اور معنی خیز سوالات اٹھا سکتا تھا مگر اس بات کے خوب صورت اظہار ہی پر اختر الایمان نے ’قناعت‘ کر لی۔ میں نے یہ نظم کتنی ہی بار پڑھی ہے اس کا درد کتنے ہی ہوش مندوں کی ’سعیِ رائے گاں ‘ کی یاد دلاتا ہے جب وقت کے ساتھ ہر لمحہ رہے تو پھر یہ بیگانگی کیسی؟ مگر شاید کوئی شاعر صرف ’وقت‘ کا ہو کر نہیں رہ سکتا اور وہ اس سے وابستہ دوسرے خیالات اور جذبات میں بھی غلطاں رہتا ہے جب ہی تو وہ ایک منزل پر پہنچ کر دیکھتا ہے تو یہ خیال آتا ہے :
آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے
جیسے میں کشمکشِ زیست میں شامل ہی نہیں !
’بنتِ لمحات‘ ایک خوب صورت نظم ہے اس کی ابتدا اور انتہا ہی نہیں بلکہ اکثر مصرعے ترشے ہوئے ہیں۔ بہت نئے نہ سہی مگر دوسرا مصرع: ’’اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ‘‘ واقعی بڑا خوب صورت ہے۔ یہ تین مصرعے :
ع : یہ ایک کہرہ سا، یہ دھند سی جو چھائی ہے
ع : اس التہاب میں اس سرگمیں اجالے ہیں
ع : سوا تمھارے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
عشق کی اس کیفیت کا نچوڑ پیش کرتے ہیں جب دم بخود ہو کر کسی کے وجود کا احساس رہتا ہے مگر یہاں تو یہ ’جذبہ‘ لمحاتی ہے جس کی شدت میں ہی اس کی تیز اثر آفرینی کے ساتھ یہ احساس بھی شامل ہے کہ یہ صرف لمحہ ہے ۔ اور ایسے لمحے جو کبھی دوبارہ نہیں ملتے۔ اس نظم میں تاثر اس جدائی کی وجہ ہی سے آیا ہے۔ یہ اچھی خاصی نظم ہے اور ایسی اختر الایمان کے یہاں کتنی ہی اور نظمیں ہیں۔
البتہ ’بازآمد‘ اختر الایمان کی دوسری نظموں سے کسی حد تک مختلف ہے۔ اس میں ’یادیں ‘ کی طرح مختلف تصویریں ہیں مگر اس نظم میں ’محبت کی کہانی‘ کو کچھ ایسے ترتیب دیا گیا ہے کہ ماہیت اور معنویت دونوں اعتبار سے ایک بہت اچھی نظم بن گئی ہے اس کی تکنیک فلمی ’مونتاج‘ (چھوٹی چھوٹی تصویروں سے ایک تاثر بنانا ) سے لی گئی ہے، اس میں اندازِ بیان نہایت سیدھا اور دل نشیں ہے، اس کی تشبیہوں میں نیا پن اور پرانی بات میں بھی تازگی ہے، جیسے :
دھوپ میں تیزی نہیں
ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے
دستِ شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اک شے کی اساس
اور جب نظم کے چوتھے حصّے میں حبیبہ کی شادی کے بعد یہ ٹکڑا آتا ہے :
کچھ نہ کچھ کہتی رہیں سب ہی مگر میں نے صرف
اتنا پوچھا وہ ندی بہتی ہے اب بھی کہ نہیں ؟
جس سے وابستہ ہیں ہم اور یہ بستی ساری
کیوں نہیں بہتی چنبیلی نے کہا
اور وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے اس کے
وہ بھی قائم ہے ابھی تک یونہی
وعدہ کر کے جو حبیبہ نہیں آتی تھی کبھی
آنکھیں دھوتا تھا ندی میں جا کر
اور برگد کی گھنی چھاؤں میں سوجاتا تھا
تو میرے اس خیال کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ اختر الایمان مکالماتی انداز کے ذریعے جو تصویر کھینچتے ہیں وہ بظاہر عام سی ہوتے ہوئے بھی بڑی پُر اثر ہوتی ہے اور اپنی جگہ نئی بھی ورنہ ندی کنارے برگد کے پیڑ تو کتنے ہی ہوتے ہیں مگر یہاں یہ وقت کا بہتا ہوا دھارا ہے اور برگد یادوں کا گھنیرا پیڑ ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا۔ معمولی سی بات میں جاذبیت اور شعریت پیدا کر دینا ہی فنکارانہ مہارت کا نمونہ بن جاتا ہے اور اختر الایمان کے یہاں اس کی بھی منفرد مثالیں ملتی ہیں۔
پانچویں حصّے کے یہ مصرعے :
ماہ و سال آتے چلے جاتے ہیں
فصل پک جاتی ہے کٹ جاتی ہے
کوئی روتا نہیں اس موقعے پر
کتنے سیدھے سادے اور کتنے موثّر ہیں خاص کر تیسرا مصرع تو درد کی موجوں میں ڈوبا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ بھی بڑا خوب صورت ہے :
بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو
وہ بھی ہنسنے لگا ہم دونوں یونہی ہنستے رہے
دیر تک ہنستے رہے
یہ نظم تکنیک، اندازِ بیان، تشبیہات اور شعری کہانی کے امتزاج کی وجہ سے صرف پُر اثر ہی نہیں بلکہ ایک مکمل نظم ہے۔ درد کی بات میں شگفتگی قائم رکھنا بڑا مشکل امر ہے اور اس کی فضا میں غم کے جگنو ہی کی روشنی ہے مگر زیاں کا احساس نہیں اسی لیے تلخی کی جگہ شیرینی ہے۔ یہ الگ بات ہے اس میں ہلکی سی تلخی بھی شامل ہو گئی ہے۔
اس سلسلے کی آخری نظم ’کوزہ گر‘ میں وقت کا ’سورج‘ کافی نیچے آ گیا ہے اور ایسا خیال آتا ہے کہ اختر الایمان اب اس کے بارے میں ’فیصلہ کُن‘ باتیں کہہ دیں گے مگر وقت پر فیصلہ کرے کون؟ اور پھر یہ فیصلہ کب تک صحیح رہے گا اور پھر۔؟
’کوزہ گر‘ ایک طرف انسانی تہذیب کی مختصر کہانی ہے تو دوسری طرف قوتِ نمو کی ’بازی گری‘ پر طنز بھی ہے اس کی ابتدا اپنے موضوع کے مطابق کافی سنجیدہ ہے اس میں تیزی کی جگہ آہستگی نے ایک قسم کے تفکر کا حسن پیدا کر دیا ہے۔ اور براہِ راست تخاطب سے لب و لہجے میں خاصی حرارت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ حصہ خاص طور سے قابلِ غور ہے :
میں اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو بانیِ شر ہے
جو رشیوں، رسولوں کی محنت کو برباد کرتا رہا ہے
میں اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو ہر دور میں بے محابا
نئے بھیس میں سامری بن کے آتا اور موہتا ہے دلوں کو
مگر اس کو ’پا لینے ‘ کے بعد شاعر کو پتا چلتا ہے کہ یہ تو ’حیات و نمو کی قوت‘ ہے جو خیر و شر میں ڈھلتی رہتی ہے، کیسے اور کیوں ؟ یہی نہیں حسین اعلا قدریں کون کون سی ہیں۔ اس کا بھی کوئی اظہار نہیں کیا گیا ہے ؟ اس کے علاوہ اگر خیر و شر کا سرچشمہ ایک ہے اور ’ہم پر مختاری کی تہمت‘ لگائی (میرؔ ) گئی ہے تو اس زندگی کی بے بسی پر سوچنے سے حاصل، جب کہ آدمی انجام کار کچھ نہیں کر سکتے ؟ مگر اختر الایمان نے اس ’دائرہ‘ (یعنی قوتِ نمو) میں رہ کر اس کے بارے میں اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ نظم کافی (Fatalist) ’جبریہ‘ ہے اور انسان اپنی ساری جرأت کے باوجود ’حیاتِ نمو کی قوت‘ کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ اس کا آخری حصہ بھی خاصا اچھا ہے :
یہ وہ کوزہ گر ہے اسی ایک مٹی کو ہر بار متھ کر
بنا کر نئے ظرف رکھتا ہے کچھ دیر شیشوں کے پیچھے سجاکر
انھیں خود ہی پھر توڑ دیتا ہے سب ظرف، کوزے، قوانین اخلاق سارے
جہاں اتنی شکلیں بنائی بگاڑی ہیں اس قومیت، حریت، مذہبیت کو اک دن
فراموش گاری کے اس ڈھیر میں پھینک دے گا جہاں کتنی چیزیں پڑی ہیں
کہ یہ چاک تو چل رہا ہے یونہی آفرینش سے گردش میں ہے اور رہے گا
یہ نظم کتنے ہی سوالات اس لیے ادھورے چھوڑ دیتی ہے کہ وقت کی ستم کاری یا ستم ظریفی کے اسباب و علل کا بیان یہاں مقصود نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا شاعر نے کیا ردِّ عمل قبول کیا ہے صرف اس کا اظہار مقصود ہے۔ اس میں کسی جگہ خطابت کا انداز بھی ملتا ہے اور کہیں کہیں ’کھردرے پن کی جھلک‘ بھی نظر آتی ہے مگر اصل بات تو یہ ہے کہ وقت کے بارے میں اختر الایمان کی فکر زیادہ دور نہیں جاتی۔ وہ اپنے تجربے اور مشاہدے کے آگے کسی فلسفی یا سائنس داں کی مدد سے کبھی گئے ہیں نہ جائیں گے اس لیے کہ وہ شاعر ہیں انھیں اپنے پر پورا بھروسہ ہے اور وہ اس ’کامرانی‘ سے مطمئن ہیں اس کے بعد بحث کی گنجائش نہیں رہتی۔
مجموعی طور سے یہ نظمیں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اختر الایمان زندگی کے مسائل پر زیادہ غور و فکر سے سوچنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ شعریت کو پوری طرح سے برتنا بھی ان کے ایک بہت اچھے شاعر ہونے کا بیّن ثبوت ہے اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ آج اردو کے جدید نظم گو شعرا میں ان کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے مگر جیساکہ میں نے ایک گفتگو میں ان سے عرض کیا تھا کہ پچھلے دو تین مہینے میں اختر الایمان نے قریب پچیس نظمیں کہی ہیں ایک واقعی عظیم نظم کا پیش خیمہ ہیں اور جس کی انھیں بھی فکر ہے۔ وہ ’شاہ کار‘ اس ’پس منظر‘ میں اور بھی تابناک نظر آئے گا۔ آج شاعر کا بے حد الجھے اور خطرناک حد تک مشکل مسائل سے سابقہ ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس ’تصادم‘ میں کون جیتا ہے، مسائل یا شاعر!
٭٭٭
شاعری یا کلامِ موزوں ۔۔۔ مشفق خواجہ
اس کے باوجود کہ ہمارا عہد بڑی شاعری کا عہد نہیں ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اختر الایمان ہمارے عہد کے ایک بڑے شاعر ہیں۔ راشد اور فیضؔ کے انتقال کے بعد تو بڑوں میں صرف وہی رہ گئے ہیں۔ حضرت وامقؔ جونپوری بھی بفضلِ خدا موجود ہیں اور 82 برس کی عمر میں ویسے ہی شعر کہہ رہے ہیں جیسے پچاس برس قبل کہتے تھے لیکن ان کی بڑائی عمر کی وجہ سے ہے۔ عمر میں بڑا ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ شاعر کو مشاعروں میں سب سے آخر میں پڑھوایا جاتا ہے۔ حالاں کہ غور سے دیکھا جائے تو یہ فائدہ نہیں سراسر نقصان ہے۔ آٹھ دس گھنٹوں تک دوسروں کا کلام سننے کے بعد بزرگ شاعر کی باری اس وقت آتی ہے جب وہ اپنا کلام سنانے کے تو کیا اُٹھ کر گھر جانے کے بھی قابل نہیں رہتا۔
اختر الایمان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے جدید نظم کو فکر و فن کی نئی جہتوں سے آشنا کرایا ہے اور بقول خود اپنے عہد کے آدمی کے روحانی کرب کو لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔ ان کا اسلوب عام شاعروں سے یکسر مختلف ہے، بظاہر کھردرا، بباطن ملائم۔ وہ خوابیدہ لفظوں کو جگا کر اس جہانِ معنی کا سراغ دیتے ہیں جو عام نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ مظفّر علی سید کا یہ خیال درست ہے کہ جب ہم جدید شاعری پر گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں عموماً صرف دو آوازیں سنائی دیتی ہیں جو راشد اور فیض کی ہیں جب کہ ایک تیسری آواز بھی موجود ہے جو پہلی دو آوازوں سے کسی طرح کم تر نہیں اور یہ اختر الایمان کی آواز ہے۔
پچھلے دنوں اختر صاحب کراچی تشریف لائے تو انھیں بقولِ میر ’مانند جامِ مے ‘ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ان کے اعزاز میں اتنی تقریبیں ہوئیں کہ سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ کسی خاص گروپ کے منظورِ نظر نہیں تھے۔ ترقی پسند ہوں یا تنزل پسند، جدیدیے ہوں یا روایتی ادب پرست، سب نے انھیں نظر انداز نہیں کیا۔ جس روز وہ انجمن ترقی اردو کے جلسے میں اپنا کلام سنانے اور اپنے بارے میں مظفر علی سید کا مقالہ سننے کے لیے جا رہے تھے تو راستے میں ڈاکوؤں نے اسلحے کے زور پر ان کی کار چھین لی جس کی خبر جلی سرخیوں کے ساتھ کراچی کے اخباروں میں شائع ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکو اختر صاحب کی بیاض چھیننے آئے تھے لیکن جب معلوم ہوا کہ موصوف بیاض رکھتے ہی نہیں، تمام کلام ان کے ذہن میں محفوظ رہتا ہے تو ڈاکو غصے میں کار چھین کر لے گئے۔ گندم اگر بہم نہ رسد بھُس غنیمت است۔
بیاض چھیننے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سلسلے میں بعض ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اختر صاحب کراچی کی ہر تقریب میں کم از کم پچاس نظمیں ضرور سناتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں تھی۔ اس پر کچھ لوگوں نے سوچا ان کی بیاض ان سے لے لی جائے۔ مگر ان سادہ لوحوں کو معلوم نہ تھا کہ اختر صاحب بیاض بردار شاعر نہیں ہیں۔ ان کا حافظہ بے مثال ہے۔ انھیں اپنا سارا کلام اسی طرح یاد رہتا ہے جس طرح بعض شاعروں کو اپنے معاصرین کے عیوب از بر ہوتے ہیں۔
خیر یہ تو مذاق کی باتیں تھیں۔ اصل بات جس کی خاطر ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں یہ ہے کہ اختر صاحب خوش گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گفتار آدمی بھی ہیں۔ گفتگو وہ بہت اچھی کرتے ہیں۔ اتنی اچھی کہ بعض اوقات سوچنا پڑتا ہے کہ ان کی شاعری زیادہ فکر انگیز ہے یا ان کی گفتگو۔ کراچی کی کئی محفلوں میں انھوں نے گفتگو کا جادو جگایا۔ بہت سے اخباروں رسالوں میں ان کے انٹرویو شائع ہوئے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ان ساری گفتگوؤں کو کتابی صورت میں مرتب کر دیا جائے۔ اختر صاحب کی شاعری کی کلیات ’’سروساماں ‘‘ کے نام سے چھپی ہے۔ ان کی گفتگوؤں کا مجموعہ ’’بے سروسامان‘‘ کے نام سے چھاپا جا سکتا ہے۔ یہ نام اس لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اختر صاحب نے اپنے انٹرویو میں اپنے معاصرین کو شاعری کے اعتبار سے بے سروسامان ثابت کیا ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے اختر صاحب کی وہ طویل گفتگو ہے جو رسالہ ’’طلوعِ افکار‘‘ کراچی کے دسمبر 1989کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اختر صاحب نے اپنے معاصرین کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجودہ دور کے صرف بڑے شاعر ہی نہیں، اکیلے شاعر بھی ہیں۔ یعنی ان کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر شاعر موجود نہیں ہے۔ ترقی پسند شاعروں کو انھوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ ’’ اکثر ترقی پسند احباب کی شاعری Versification یعنی کلامِ موزوں سے آگے نہیں جاتی۔ ‘‘ مخدومؔ اور فراقؔ کو تو وہ کسی حد تک شاعر مان لیتے ہیں لیکن باقی سب کی شاعری انھیں ’’ تخلیقی شاعری سے باہر کی چیز نظر آتی ہے۔ ‘‘
انھوں نے دو نمائندہ ترقی پسند شاعروں علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی کے نام لے کر ایسی باتیں کہی ہیں جن کی توقع کسی بھی با مروت شخص سے نہیں کی جا سکتی۔ سردار جعفری کو شاعر نہیں ’’موزوں طبع‘‘ قرار دیا ہے اور کیفی اعظمی کے بارے میں فرمایا ہے : ’’ایک اور شاعر ہیں کیفی اعظمی، بڑا نام ہے ان کا، آئے دن ان کے جشن ہوتے رہتے ہیں۔ ترقی پسندوں کے مقبول شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ہماری بھی دوستی ہے لیکن شاعری کے معاملے میں انھیں Genuine شاعر نہیں سمجھتا۔ ان کے ہاں Versification کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اب آپ اپنی کوشش اور اپنے گروپ کی کوشش سے تو شاعر نہیں بن سکتے۔ یہ تو خداداد معاملہ ہے۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو پروپیگنڈے کے زور پر راتوں رات شہرت حاصل کر لیتے ہیں لیکن ایسی شہرت کس کام کی اور وہ کتنے دن چل سکے گی۔ ‘‘
ترقی پسندوں سے ہمیں بھی بہت سی شکایات ہیں مثلاً ایک شکایت یہ ہے کہ جب شعرو شاعری کے بغیر بھی آدمی ترقی پسند بن سکتا ہے تو پھر شعر کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن اختر صاحب کی ناراضی کچھ ذاتی قسم کی معلوم ہوتی ہے۔ کیفی اعظمی کو وہ ایک طرف اپنا دوست بھی کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے شاعر ہونے سے انکار بھی کر رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں دوستوں کے عیبوں کو خوبیوں میں شمار کیا جاتا تھا، افسوس کہ اب خوبیاں بھی عیب بن جاتی ہیں۔ اس گفتگو کے دوران اختر صاحب نے یہ بھی کہا: ’’ابھی تک تو میری شاعری پر لوگوں کی توجہ خاطر خواہ نہیں ہو رہی ہے، ترقی پسندوں نے تو خیر دیدہ و دانستہ نظر انداز کیا ہے حالاں کہ میری شاعری ان کی شاعری سے کہیں زیادہ ترقی پسندانہ مزاج رکھتی ہے۔ ‘‘ ترقی پسندوں نے اختر صاحب کو نظر انداز کیا تھا، انھوں نے سارے ترقی پسندوں کو خارج از آہنگ قرار دے کر معاملہ کو برابر کر دیا۔ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔
اختر صاحب کا یہ شکوہ بے جا ہے کہ لوگوں نے ان کی شاعری پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ظاہر ہے ’’لوگوں ‘‘ سے مراد نقاد ہیں۔ اختر صاحب کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کی شاعری نقادوں کے غلط تخمینوں سے محفوظ رہی۔ ان کو آج جو مقام حاصل ہے وہ ان کی شاعری کی وجہ سے ہے، ورنہ نقاد یہ دعویٰ کرتے کہ یہ سب کچھ ان کے زورِ بازو کا نتیجہ ہے۔
اختر صاحب صرف ترقی پسندوں ہی سے ناخوش نہیں، دوسرے شاعروں کے بارے میں بھی ان کی رائیں خاصی دل چسپ ہیں۔ فیض سے انھیں یہ شکایت ہے کہ ان کی شاعری میں سجاوٹ کا عنصر زیادہ ہے۔ وہ سجاوٹ ہی میں اُلجھ کر رہ گئے، اصل معنویت تک نہیں پہنچ پائے۔ ن۔ م. راشد کے بارے میں وہ فرماتے ہیں : ’’ایک طرح کا بڑ بولا پن ان میں بہت ہے۔ غیر ضروری بلند آہنگی پیدا کرنے کی شعوری کوشش نے ان کی شاعری کو مجروح کیا ہے۔ ‘‘میرا جی کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک کیا ہے لیکن انھیں راشد کے مقابلے پر Genuine شاعر مانا ہے۔ اس سے مقصود میرا جی کی تعریف نہیں، راشد کی مزید تنقیص ہے۔
مجید امجد کے بارے میں کہا ہے : ’’ وہ تو ہماری کاپی کرتے رہے ہیں۔ ان پر ہماری چھاپ رہی ہے۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ وہ بہتر مستقبل رکھتے تھے۔ ‘‘ اس قولِ برحق سے یہ معنی بھی نکالے جا سکتے ہیں کہ مجید امجد نے وفا اس لیے نہ کی کہ اختر الایمان کے نقال تھے۔ لیکن ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ اختر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اگر مجید امجد کی زندگی وفا کرتی تو وہ ان کے نقال کی حیثیت سے بہتر مستقبل رکھتے تھے۔
اختر صاحب نے از راہِ سخن پروری ناصر کاظمی کو اچھا شاعر مان لیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وہ غزل ہی میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ مطلب یہ کہ اگر غزل کے حصار سے باہر نکل کر نظمیں بھی لکھتے تو زیادہ اچھے شاعر ہوتے۔ ممکن ہے اس بات پر کوئی صاحب یہ اعتراض کریں کہ غالبؔ بھی تو غزل میں محصور ہو کر رہ گیا تھا، پھر وہ اتنا اچھا شاعر کس طرح بن گیا؟ مفروضہ معترض کی خدمت میں عرض ہے کہ اختر صاحب نے غالبؔ کو بھی نہیں بخشا۔ حالاں کہ غالبؔ کے ساتھ کسی ’’معاصرانہ چشمک‘‘ کا امکان نہیں ہے۔ غالبؔ کا مشہور شعر ہے :
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
اختر صاحب اس شعر کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’اب اس بات کا نہ کوئی سیاق ہے نہ سباق۔ لیکن اگر اسی پہلو کو نظم کا پیکر ملتا تو وہ کتنی بڑی نظم ہوتی اور انسان کی تمنّا اور زندگی کی نارسائیوں سے کیا خوب صورت ڈراما وجود میں آتا۔ ‘‘
افسوس کہ اختر صاحب غالبؔ کے زمانے میں نہ ہوئے، ورنہ ان کے مشورے پر وہ سیاق و سباق کے بغیر باتیں نہ کرتا اور اپنی ساری توجہ ’’بڑی بڑی‘‘ نظمیں لکھنے پر صرف کر دیتا۔
ساقی فاروقی بھی موضوعِ گفتگو بنے اور ان کے بارے میں مندرجہ ذیل باتیں ہوئیں :
سوال: ساقی فاروقی جدید حسّیت کے شاعر ہیں۔ علامتی طرزِ اظہار بھی رکھتے ہیں۔ آپ ان میں کیا امکانات دیکھتے ہیں ؟
جواب: ابھی تو وہ خیر لکھ رہے ہیں۔ ابھی انھوں نے اپنی شناخت نہیں بنائی۔ راشد کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش ان کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ انھیں چاہیے کہ اپنے اندر کے پاور فل شاعر کو باہر آنے دیں۔
سوال: لیکن وہ مصرع کہنے میں بہت محنت کرتے ہیں۔
جواب: صرف محنت سے کیا ہوتا ہے بھائی!
ہمارے نزدیک اس گفتگو کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں کہ ساقی فاروقی کی کردار کُشی کی جائے۔ اوّل تو یہ پوچھنا درست نہیں کہ اختر صاحب کو ساقی میں کیا امکانات دِکھائی دیتے ہیں۔ جہاں کسی اور کو کوئی چیز نظر نہیں آتی وہاں بے چارے اختر صاحب کو کیا دِکھائی دے گا۔ اس سوال کا جو جواب دیا گیا وہ بھی بڑی حد تک نامناسب ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ساقی نے ابھی تک اپنی شناخت نہیں بنائی۔ اب تک ساقی نے سوائے شناخت کے اور بنایا ہی کیا ہے۔ شاعری تو ضمنی چیز ہے جو شناخت بنانے کے دوران خود بخود بنتی چلی گئی۔
اختر صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ راشد کی انگلی پکڑ کر ساقی چل رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ اعتراض کی نہیں تعریف کی بات ہے۔ ساقی دوسرے شاعروں کی طرح چھلانگیں نہیں لگاتے بلکہ درجہ بدرجہ بلندی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آج وہ راشد کی انگلی پکڑ کر چل رہے ہیں کل پہنچا پکڑیں گے اور پرسوں راشد کے کاندھوں پر سوار ہو جائیں گے۔ جس طرح آج یہ کہا جاتا ہے کہ احمد فراز کے رنگ میں فیضؔ شعر کہتے تھے، اسی طرح یہ کہا جائے گا کہ ن۔ م. راشد ساقی فاروقی کے مقلّد تھے۔
اختر صاحب کا یہ مشورہ بھی صائب نہیں ہے کہ ساقی اپنے اندر کے پاور فل شاعر کو باہر آنے دیں۔ اوّل تو یہی یقینی نہیں ہے کہ ساقی کے اندر کوئی پاور فل شاعر موجود ہے۔ اگر ہو بھی تو اُس کا باہر آنا مناسب نہیں۔ ساقی کسی کو اپنے سے زیادہ پاور فل ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ خواہ مخواہ جھگڑا شروع ہو جائے گا۔ لوگ طعنے دیں گے کہ ساقی کو کیا ہو گیا ہے، پہلے افتخار عارف سے لڑتا تھا اب اپنے اندر کے پاور فل شاعر کو باہر نکال کر اس سے لڑ رہا ہے۔
سوال کرنے والے نے یہ کہہ کر کہ ساقی مصرع کہنے میں بڑی محنت کرتے ہیں، اپنی دانست میں ساقی کی تعریف کی ہے۔ حالاں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ساقی مکمل نظم یا مکمل غزل پر محنت نہیں کرتے صرف مصرعے پر محنت کرتے ہیں۔ مصرعے پر محنت کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ استاد لاغر مراد آبادی صبح و شام یہی کام کرتے ہیں۔ ان کا ہر مصرع ان کی محنتِ شاقہ کا آئینہ دار ہوتا ہے لیکن جب غزل میں یہی مصرعے آمنے سامنے آ جاتے ہیں تو استاد کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔
اختر صاحب نے محنت والی بات پر جو تبصرہ کیا ہے وہ بھی نہلے پر دہلے کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ صرف محنت سے کیا ہوتا ہے، عجیب سی بات ہے۔ حالاں کہ اختر صاحب کو آج شاعری میں جو بلند مقام حاصل ہے وہ ان کی محنت ہی کا نتیجہ ہے۔ اسی گفتگو کے دوران انھوں نے خود اپنی محنت کی روداد ان لفظوں میں بیان کی ہے : ’’یہ نظم اب جو ہم کہہ رہے ہیں تو اس تک آتے آتے بڑا زمانہ لگا ہے۔ بیچ میں ایک پیریڈ ایسا بھی آیا جب میں نے افسانہ نگاری بھی ترک کر دی تھی اور شاعری سے بھی جی اُچاٹ رہنے لگا تھا۔ لیکن طبیعت کچھ نہ کچھ کرنے پر اُکساتی تھی۔ چناں چہ ہم نے کسرت شروع کر دی، پہلوانی کرنے لگے، ڈنڈ بیٹھکیں لگانے لگا، میلوں دوڑتا پھرتا، سرمنڈوا دیا۔ غرض عجب واہی تباہی صورتِ حال درپیش تھی۔ ‘‘
افسوس کہ ساقی فاروقی نے غلط سمت میں محنت کی۔ خود تو سر نہ منڈوایا، دوسروں ہی کے سر مونڈتے رہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج اختر صاحب کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ ساقی جس قسم کی محنت کرتے ہیں اس کے نتیجے میں اچھی شاعری وجود میں نہیں آتی۔
(خامہ بگوش کے قلم سے، مرتّبہ مظفر علی سیّد، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 2011)
٭٭٭
اختر الایمان کی شاعری ۔۔۔ شمیم حنفی
محمود ایاز کی یاد میں
محمود ایاز اختر الایمان کے ابتدائی دور سے لے آخری دور تک ان کے شاید سب سے ہوش مند قاری اور نقاد کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اختر الایمان کی متوقع وفات پر انھوں نے جس الم آمیز طریقے سے ہمارے زمانے کے اس سب سے مختلف اور مقتدر شاعر کو یاد کیا اس سے اختر الایمان کے ایازات کے علاوہ خود محمود ایاز کے شعری ادراک اور ان کی بصیرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ محمود امتیاز نے اس واقعے پر اپنے صدمے اور تاسف کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا۔ جدید شاعری کے قبیلے کا آخری سردار اُٹھ گیا۔
تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ اختر الایمان کی حیثیت صرف جدید شاعری کے آخری سب سے بڑے شاعر کی تھی۔ یہ تو اختر الایمان کے شعری کمال کا ایک اور دائرہ تھا۔ ان کے طرزِ سخن کی پہچان کا ایک اور بہانہ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اختر الایمان کی شاعری اپنے تمام مشہور معاصر نظم گویوں کی شاعری سے الگ ایک خاص رنگ رکھتی تھی۔ اس سلسلے میں عام طور پر جو فہرست بنائی جاتی ہے اس میں یہ نام آتے ہیں تقریباً اسی ترتیب کے ساتھ۔ میراؔ جی، ن۔ م۔ راشدؔ، فیضؔ، مجید امجدؔ اور اختر الایمان۔ ان میں فیضؔ کبھی اختر الایمان کی جگہ پر رکھ دیے جاتے ہیں اور کبھی اختر الایمان فیضؔ کی جگہ پر۔ میرا جی اور راشد اپنی جگہ سے نہیں کھسکتے۔ ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو غالب سے آگے بڑھتا ہے تو سیدھا مجید امجد پر پہنچ کر دم لیتا ہے۔ باقی اقبالؔ اور جوشؔ اور فیضؔ یہاں تک کہ جدید شاعری کے اولین معمار میرا جی اور راشد بھی حاشیے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ترقی پسندوں کے ہاتھ میں جب تک جدید شاعری کا پرچم رہا۔ اختر الایمان بالعموم نظر سے اوجھل رہے۔ انھیں میرا جی اور راشد کی طرح رجعت پسند تو نہیں کہا گیا۔ پھر بھی ان کی ترقی پسندی اگر مشکوک نہیں تو کچھ ناقابلِ اعتنا ضرور سمجھی جاتی رہی۔ ترقی پسند نقادوں نے ان کی بڑائی کا اعتراف کیا بھی تو کچھ بے دلی کے ساتھ۔ اختر الایمان کی بابت پُر جوش رویّہ ترقی پسندوں میں صرف محمد حسن کے یہاں دِکھائی دیتا ہے۔ دوسرے ترقی پسندوں کے یہاں بھی، نہیں بھی کی روش اپنائی۔ کم و بیش ویسی ہی جیسی منٹو اور بیدی کے سلسلے میں روا رکھی گئی تھی۔ اس سے کچھ اور نہیں تو کم سے کم ایک بات یہ نکلتی ہے کہ اختر الایمان کی مقام بندی آسان نہیں ہے۔
ان کے بارے میں چلتے چلاتے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ انھیں آسانی سے کسی زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ان کی شاعری کا مزاج اس طرح متعین نہیں ہے جس طرح ترقی پسند نظم کے مشاہیر یعنی فیضؔ، سردار جعفریؔ، مخدومؔ، مجازؔ اور ساحرؔ کا۔ علاوہ ازیں اختر الایمان کی شاعری کا رنگ وہ بھی نہیں جو حلقۂ اربابِ ذوق کے مشاہیر میرا جی، ن۔ م۔ راشد کی پہچان اور ترقی پسندی کے ایک متوازی میلان کی دریافت اور قیام کا وسیلہ بنا۔ یعنی یہ کہ اختر الایمان کی شاعری نہ تو اشتراکی حقیقت نگاری کی بوطیقا کے دائرے میں سمٹتی ہے، نہ نفسیاتی حقیقت نگاری کے دائرے میں۔ اس کے اپنے آداب ہیں اور اپنی کچھ مخصوص شرطیں۔
2
اختر الایمان ایک مربوط اور تنقیدی شعور بھی رکھتے تھے۔ میرا جی اور راشد کی طرح اختر الایمان نے بھی بالواسطہ طور پر آپس کے رویے سے قطع نظر براہ راست طریقے سے نثر میں جا بہ جا اپنی شاعری اور جدید شاعری کے بارے میں وضاحتی قسم کی بہت سی باتیں کہی ہیں۔ گویا کہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اختر الایمان شاعری کے اچھے پارکھ بھی تھے۔ شاعر کے بدلتے ہوئے رول اور شاعری کے بدلتے ہوئے مزاج کو سمجھتے تھے۔ ان خرابیوں کا احساس بھی رکھتے تھے جنھوں نے ترقی پسند شاعری، جدید شاعری اور روایتی شاعری کے خاصے بڑے حصے کو پابندِ رسوم بنا دیا تھا اور اس سے تخلیقیت کی انفرادی منہ زوری اور آزادانہ طاقت چھین لی تھی۔ مثال کے طور پر ان کے کچھ بیانات حسبِ ذیل ہیں :
’’شاعر کا کام زندگی میں ایک توازن پیدا کرنا بھی ہے اور اس کے اندر جو حیوان ہے اس کی نفی کرنا بھی۔ ‘‘ (پیش لفظ ’سروسامان‘)
’’شاعری کی طرف ہمارے اکثر پڑھنے والوں کا رویہ سنجیدہ نہیں۔ وہ شاعری کو تفنّنِ طبع اور ایک ایسے مشغلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کا مقصد صرف وقت گزارنی ہے۔ ‘‘ (پیش لفظ ’آبِ جو‘)
’’میری شاعری کو یہ سوچ کر پڑھیے کہ یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی۔ یہ ایک ایسے انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات بدلتی ہوئی سیاسی، معاشی اور اخلاقی قدروں سے دوچار ہوتا ہے جو اس معاشرے اور سماج میں زندہ ہے جسے آئیڈیل نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں عملی زندگی اور اخلاقی قدروں میں ٹکراؤ ہے، تضاد ہے۔ جہاں انسان کا ضمیر اس لیے قدم قدم پر ساتھ نہیں دے سکتا کہ زندگی ایک سمجھوتے کا نام ہے اور سماج کی بنیاد اعلا اخلاقی قدریں نہیں مصلحت ہے اور ضمیر کو چھوڑا اس لیے نہیں جا سکتا ہے کہ اگر انسان محض حیوان ہو کر رہ گیا تو ہر اعلا قدر کی نفی ہو جائے گی۔ ‘‘ (پیش لفظ ’آبِ جو‘)
’’شاعری میرے نزدیک کیا ہے ؟ اگر میں اس بات کو ایک لفظ میں واضح کرنا چاہوں تو ’مذہب ‘ کا لفظ استعمال کروں گا۔ میں نے اپنی شاعری کو اپنا ایمان اور مذہب سمجھنے میں کوتاہی نہیں کی۔ میں نے آج تک زندگی اور اس کے نشیب و فراز کے ساتھ ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جو میری شاعری کو مجروح کرتا ہو۔ ‘‘ (پیش لفظ ’یادیں ‘ )
’’میری شاعری کا بیشتر حصّہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے۔ ‘‘
(حوالہ ’یادیں ‘)
’’میری شاعری کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اسے ایک دو تین بار پڑھیے۔ اپنے ذہن کو غزل کی فضا سے نکال کر پڑھیے۔ ‘‘ (حوالہ ’یادیں ‘)
’’یہ کھردری، شبہات سے پُر انتشار آمیز شاعری اس خلوص اور جذبۂ محبت کے تحت وجود میں آئی ہے جو مجھے انسان لگے ہے۔ ‘‘
(پیش لفظ ’بنتِ لمحات‘)
’’ارد و کی پوری شاعری کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، حصار کے باہر حصار کے اندر۔ حصار کے باہر والی شاعری وہ ہے جس میں نئے تجربات، نئے میلانات اور نئے شعور کی ترجمانی اور نمائندگی ہوتی ہے۔ ‘‘ (حوالہ ’بنتِ لمحات‘)
’’شاعری میرے نزدیک ذات ہے اس اظہار کا نام ہے جو تلمیحات، استعاروں، تشبیہوں، علامیوں اور لفظی تصویروں یا امیجری کی مدد سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی زبان روزمرہ کی زبان نہیں ہوتی۔ ‘‘ (حوالہ ’بنتِ لمحات‘)
’’آدمی کی طرح شاعری بھی جدید قدیم، نئی پُرانی نہیں اچھی ہوتی ہے۔ بہت اچھی ہوتی ہے۔ فنونِ لطیفہ میں اس کا مقام بہت بلند ہے۔ مگر زندگی میں اس کا استعمال فنِ تعمیر کی طرح نہیں ہوتا۔ اس کی کچھ حدود ہیں۔ ‘‘ (حوالہ ’بنتِ لمحات‘)
’’میں آج کے شاعر کو ٹوٹا ہوا آدمی سمجھتا ہوں اور میری شاعری اسی ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری ہے۔ ‘‘ (پیش لفظ ’نیا آہنگ‘)
’’یہ پوری شاعری واحد حاضر متکلم کی شاعری ہے۔ شاعر کی وہ ذات جو زندگی کی ہر تجربہ گاہ میں دِکھائی دیتی ہے گزر گاہوں، میلوں، اسپتالوں، قحبہ خانوں، استٹشنوں اور بسوں کے اڈوں پر۔ یہ ذات، یہ شخصیت گوں گی ہے۔ شاید لکشمن کا کارٹون جو صرف دیکھتا ہے۔ سنتا ہے کہتا کچھ نہیں۔ ‘‘ (حوالہ ’نیا آہنگ‘)
3
ان اقتباسات سے پہلا تاثر یہ اُبھرتا ہے کہ ہر شاعر، نقاد کی طرح اختر الایمان نے بھی اپنی شاعری کا جواز ڈھونڈا ہے اور ان بیانات کی مدد سے اپنے شعری سروکار کا دفاع کیا ہے۔ کیا اختر الایمان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا؟ جی ہاں شاید ضروری تھا کیوں کہ اختر الایمان کے سلسلے میں ہماری روایتی، ترقی پسند، تنقید کا رویہ یا تو غفلت شعاری کا رہا یا پھر زیادتی کا۔ اختر الایمان ایک تھے Committed individual فرد آگاہ۔ اپنی انفرادیت کا رمز سمجھنے والے اجتماع کو بے چہرہ انسانوں کی بھیڑ کے طور پر دیکھنے کے بجائے افراد کے مجمع کے طور پر دیکھنے والے۔ ان کی ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ تادیب (نیا آہنگ)
دوسروں کو سدھارنے مت جاؤ
اپنی اصلاح پر نظر رکھو
لوگ کیا کر رہے ہیں چھوڑو انھیں
اپنے افعال کی خبر رکھو
سرزنش اپنی خوب کرتے رہو
ایک شہدا جہاں میں کم ہو گا
اسے ایک ذاتی منشور بھی کہا جا سکتا ہے، فکری اور معاشرتی سطح پر۔ اس طرح گزشتہ اقتباسات میں اختر الایمان نے اپنی شاعری کی پہچان اور پرکھ کے جن ضابطوں کی نشاندہی کی ہے انھیں ہم فنی اور تخلیقی سطح پر شخصی قسم کی وضاحتوں کا نام دے سکتے ہیں۔ ان وضاحتوں کے بغیر بھی ادب کے قاری کا کام چل سکتا ہے کیوں کہ قاری بالعموم غیبی نہیں ہوتا۔ لیکن اب اسے کیا کیا جائے کہ تنقید نے عرصے سے ہمارے یہاں ایک Polemical رول اختیار کر رکھا ہے۔ کبھی تھیوری کے نام پر کبھی نظریاتی گروہ کے نام پر کبھی اپنے حلقے کے تھکے ماندے۔ بہ قول محمود ایاز گھوڑوں یا چھُٹے ہوئے پٹاخوں، ادیبوں کو انعام و اعزاز سے نوازا جانے اور ایک ایک بے حس و بے خبر نیم خواندہ ادبی معاشرے میں با عزت مقام دلانے کی غرض سے۔ چناں چہ اختر الایمان کے محولہ بیانات میں نقادوں کی جانب سے اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی عام نا انصافی پر افسردگی کے علاوہ ایک دبا دبا سا غصّہ بھی ہے۔ ’بنتِ لمحات‘ کی ایک نظم ہے ’مفاہمت‘ کہتے ہیں :
جب اس کا بوسہ لیتا تھا سگریٹ کی بو نتھنوں میں گھس جاتی تھی
میں تمباکو نوشی کو اک عیب سمجھتا آیا ہوں
لیکن اب میں عادی ہوں یہ میری ذات کا حصّہ ہے
وہ بھی میرے دانتوں کی بد رنگی سے مانوس ہے ان کی عادی ہے
جب ہم دونوں ملتے ہیں لفظوں سے بے گانہ سے ہو جاتے ہیں
کمرے میں کچھ سانسیں اور پسینے کی بو، تنہائی رہ جاتی ہے
ہم دونوں شاید مردہ ہیں احساس کا چشمہ سوکھا ہے
یا پھر شاید ایسا ہے یہ افسانہ بوسیدہ ہے
یہ نظم ختم اس طرح ہوتی ہے :
میں بادہ نوشی پر مائل ہوں وہ سگریٹ پیتی رہتی ہے
اک سناٹے کی چادر میں ہم دونوں لیٹے جاتے ہیں
ہم دونوں ٹوٹتے رہتے ہیں جیسے ہم کچّی شاخیں ہیں
یہاں ذاتی منشور کے سلسلے میں اس نظم کا تذکرہ یوں آ گیا کہ اختر الایمان کی شاعری میں آپ بیتی کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ مسجد، پگڈنڈی، تاریک سیارے سے پہلے، ایک لڑکا، یادیں، میرا نام، تاریک سیارہ کے بعد، ایک خط، بنتِ لمحات، جیونی، ایک طویل نظم۔ ذیلی عنوانات ورود، مہایدھ، تلاش کی پہلی اُڑان، پھیلاؤ، بچوں کو کھیلنے دو، سچ کا جنگل، کوہِ ندا کا بلاوا، مکاں لا مکاں، اہتمامِ سفر سے پہلے کا پڑاؤ، نیا آہنگ کے بعد، زمستاں سرد مہری کا، سترہویں سال گرہ، ذکرِ مغفور، تشخیص، یہ نظمیں اختر الایمان کے اپنے سوانح کے طور پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ ان کا صیغۂ اظہار ہمیں فوراً اپنے اعتماد میں لے لیتا ہے۔ ہمارا تعلق اختر الایمان کی ہستی، شخصیت سے قائم ہونے میں دیر نہیں لگتی اور ہم جتنا کچھ ان کی نجی حالات سے واقف ہیں اس کے حساب سے ان نظموں کو اپنے نام آئے ہوئے اختر الایمان کے خط کی طرح پڑھتے جاتے ہیں۔ اختر الایمان اپنے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ دنیا کے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ اس زمین پر اس زمانے میں اور مظاہر سے معمور کائنات میں اپنی حیثیت کا تعین کس طرح کرتے تھے۔ یہ سارے سوال ان نظموں کو پڑھتے وقت ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے یہ نظمیں ہیں ہمارے زمانے کے شاید سب سے زیادہ کھرے، تصنع اور تماشا گری کے شوق سے آزاد شاعر کی۔ یہ شاعر کو خود اتنا اہم نہیں سمجھتا کہ وقت وقت ہمیں اپنی ذاتی کہانی سنانے بیٹھ جائے۔ اختر الایمان نے شاعری سے متعلق اپنی وضاحتوں اور بیانات کی طرح اپنی نظموں کو بھی اپنے عہد کی جمالیات، آدرشوں اور تجربوں، عام انسانی صورتِ حال اور اس صورتِ حال سے منسلک اندیشوں، دہشتوں، ہزیمتوں اور امیدوں کے اظہار، انکشاف اور احتساب کا ذریعہ بنایا ہے۔ انسانی ہستی کے مقاصد اور شاعری کے مقاصد کا وہ گہرا شعور رکھتے ہیں اور چوں کہ ان کا براہ راست تعلق ہم سے اور ہماری دنیا سے ہے۔ اس لیے ان مقاصد میں وہ ہماری شراکت کے طالب ہیں۔ یہ جو بار بار انھوں نے یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی شاعر کا کام زندگی میں توازن پیدا کرنا ہے۔ یا یہ کہ شاعری کی طرف زیادہ تر پڑھنے والوں کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔ یا یہ کہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی اور یہ ایک واحد حاضر متکلم کی شاعری ہے۔ ایک ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری ہے۔ انسانوں سے محبت کرنے والے اور زمانے کے چال چلن سے بیزار، شکی اور سہمے ہوئے فرد کی شاعری ہے۔ تو ان تمام باتوں کا مقصد یہ تھا کہ اوّلاً شاعری کو سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی حوالوں سے منقطع نہ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ اس شاعری کو رسمی اور روایتی فنی قدروں کے حساب سے نہ پڑھا جائے۔
زمین زمین کے پیش لفظ میں اختر الایمان نے لکھا تھا:
’’ اس مجموعے کی بیشتر نظموں پر زمین کا درد حاوی ہے۔ دراصل زمین کا درد مترادف ہے اس کرب کے جو بحیثیت ایک فرد کے میرے اندر پیدا ہوتا رہتا ہے اور بحیثیت ایک شہری کے میرے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ‘‘۔
پیش لفظ کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا ہے کہ:
’’۔ ..بے دین آدمی اچھی شاعری کر ہی نہیں سکتا۔ یہ اس کا کام ہے جو ایمان رکھتا ہو خدا کی بنائی ہوئی حسین چیزوں پر، انسان اور ان کی انسانیت پر۔ اس کی مجبوریوں اور لا چاریوں کو سمجھتا ہو اور مروّجہ اچھی قدروں کو پہچانتا ہو اور ان میں اضافہ بھی چاہتا ہو۔ جو خدا کی بنائی ہوئی زمین سے محبت کرتا ہو اور اس بات پر کڑھتا بھی ہو کہ انسان اسے خوب صورت بنانے کے بجائے بد صورت بنا رہا ہے ‘‘۔
یعنی یہ کہ ایک تو اختر الایمان کے شاعرانہ تجربے کی ارضی بنیادیں بہت واضح ہیں۔ دوسرے یہ کہ اختر الایمان کے لیے شاعری کا مسئلہ اقدار کا مسئلہ بھی ہے۔ چناں چہ ان کی شاعری ایک نمایاں اخلاقی جہت بھی رکھتی ہے۔ یہاں میں ایک ایسا معروضہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس پر ادب کے جغادری نقاد چیں بہ چیں ہوں گے۔ نئی شاعری بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہماری نئی ادبی روایت اصول سازی کے پھیر میں بہت خراب ہوئی ہے۔ ہندستان کی کسی دوسری زبان میں اس طرح کی فقہی بحثیں، لٹریری تھیوری کی بحثیں زیادہ عرصے تک نہیں چل سکیں جس طرح کہ اردو میں۔ اس کی خاص وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے ایک تو ہندستانی ادبیات میں رولاں بارتھ، سوسیر، لاکاں اور دریدا کے حوالے سے اپنی بات کہنے کا میلان مقبول نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ شعر و ادب کی تاریخی اساس کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعی جغرافیائی اساس پر توجہ بہت عام ہے اور چوں کہ اختر الایمان کے شعور میں شاعری کے مادی پس منظر کے لیے ایک خاص جگہ تھی اور تصوّرات کے شانہ بشانہ وہ چیزوں اور لوگوں سے، فطرت کے مظاہرسے، مخلوقات سے، زندگی کے ٹھوس مناسبات سے غیر معمولی اور والہانہ شغف رکھتے تھے، اس لیے ان کی شاعری ہندستان کے مجموعی ادبی مزاج سے ایک خاص قرابت کا پتا دیتی ہے۔ میرا جی نے ’نارس‘ کا جو تعارف لکھا تھا اورجسے اختر الایمان نے ’زمین زمین‘ کے اختتامیے کی حیثیت دی ہے۔ اس کے چند جملے یوں ہیں کہ گھلاوٹ اور لوچ سپردگی کا دیباچہ ہیں۔ شاید اسے اختر الایمان کو اپنے فارسی آمیز لغت کے ترشے ترشائے پن میں اپنے آسودہ احساسات کے اظہار کے لیے مناسب ذریعہ نہیں ملا۔ شاید وہ حسن محض اور اطمینان قلب کی جستجو میں جنسی ترجمانی کا خواہاں ہے اس کے لیے اسے اپنی پہلی لغت میں ایک روک محسوس ہوئی۔
4
اختر الایمان غزل کے سائے سے مکمل نجات کے طالب تھے۔ وہ بھی شاید اسی لیے کہ ان کی شعری لغت میں ایک سی محسوس ہوتی تھی اور شاعری میں ان کا مقصود اردو کی عام روایت کے بہت مختلف تھا۔ ان کا مزاج یکسر غیر رومانی تھا۔ فنائیت کا ایک عام عنصر جو اردو نثر و نظم کے ساتھ پرچھائیں کی طرح لگا ہوا ہے اختر الایمان شعوری طور پر اس سے گریزاں تھے۔ اپنی شعری لغت، لہجے اور محاورے کے اعتبار سے انھیں اپنے پیش روؤں اور معاصرین میں اگرکچھ مناسبت تھی تو عظمت اللہ خاں سے اور میرا جی سے۔ راشد کی شاعری میں بہت سی خوبیوں کے باوجود ایک طرح کا تحکمانہ انداز اور فکری دراز دستی عام انسانی تجربے کی سطح سے انھیں کبھی کبھی قدرے دور ہٹا دیتی ہے۔ جیسے کوئی منبر سے خطاب کر رہا ہو یا اونچی آواز میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہو۔ فیض کے لہجے کی مٹھاس اور گنگناہٹ کبھی کبھی ایک اپنی مقصود بن جاتی ہے۔ چناں چہ رویوں اور طبیعتوں کے نمایاں فرق کے باوجود اختر الایمان کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر عظمت اللہ خاں کی طرف۔ عظمت اللہ خاں غزل کی قبولیتِ عام اور اردو شاعری کی سیاق میں اس صنف کی مربیانہ حیثیت سے خاصے دل برداشتہ تھے اور میرا جی تو تھے ہی عجمی روایت کے برعکس ایک آریائی رنگ کے شیدائی اور اپنے میلانات اور افتادِ طبع کی ماورائیت اور تربیت کے باوجود اپنے تجربوں کے مادے اور ارضی دائرے میں گھرے ہوئے۔ اختر الایمان نے خلیل الرحمن اعظمی کے لفظوں میں میراجی کی تقلید نہیں کی۔ البتہ میرا جی کے ناتمام اور نا تراشیدہ تجربوں کو ایک نئے معنویت کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔ میرا جی کی طرح گیتوں اور بھجنوں کے آہنگ سے اپنی کئی نظموں میں مدد کی ہے۔ مثلاً جواری، انجان، اجنبی، بلاوا، یادیں، ترغیب اور اس کے بعد ہندستان کی عوامی، لوک ادبی روایت میں بڑی سے بڑی گہری پیچیدہ اور دوررس فکر کو عام انسانی تجربے میں روپوش کرنے کی جو روش عام ہے۔ اس سے بھی اختر الایمان نے اثر لیا ہے۔ انھیں جتنی کشش مجرد افکار میں محسوس ہوتی تھی اور جتنا قلبی تعلق انسانی ہستی کے اسرار اور باطن کی لہروں سے تھا اس سے کم دل چسپی اشخاص اور اشیا سے نہیں تھی۔ ان کی شاعری میں ٹھوس پیکروں کا ہجوم اُمڈ تا ہے۔ ندی نالے، چٹانیں، پہاڑ، کھیت، میدان، فصلیں، پرندے، پھول پھل، کیڑے مکوڑے، جانور، بستیاں اور بازار، دوکانیں اور لوگ۔ طرح طرح کے کردار جن میں سیاست داں اور لچے لفنگے، چور اُچکّے بھی ہر طبقے اور ہر درجے کے انسان اختر الایمان کے حواس کی دنیا ان سب سے آباد ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی طرح اختر الایمان کا زاویۂ نظر بھی ’سو ہے وہ بھی آدمی‘ قسم کا ہے جس میں اخلاقی رواداری، حسّی مادیت اور وسعتِ فکر کے عناصر دور سے چمکتے نظر آتے ہیں۔ دوسری واضح مماثلت جو اختر الایمان کے طرزِ احساس کو ایک حلقی، فطری اور عنصری قسم کے مقامیت کا ترجمان بناتی ہے وہ کبیر داس سے ہے۔ کبیر ہماری اجتماعی روایت کا سب سے بڑا حقیقت پسند، سب سے برہم سا بے باک باغی اور احتجاج کرنے والا سماجی مواد کو شاعری کی بنیاد بنانے والا شاعر ہے۔ کبیر سنت تھے مگر ان کی الوہیت، تیاگ اور تپسیا کو پیشہ بنانے والوں سے کوسوں دور ہے۔ کبیر کی شاعری عبرت کا ایک تازیانہ ہے۔ ایک سیلی استاد جس کا اولین مقصد راہ سے بھٹکے ہوئے نامراد شاگردوں کو راہ راست پر لانا ہے کبیر نین جھروکے بیٹھ کر جگ کا مجرا دیکھ کے ترغیب دیتے ہیں۔ گویا کہ اس سفلہ اور ریا کار دنیا کے تماشوں سے دور بھی ہیں اور ایک رچے ہوئے شعور، ایک روحانی لاتعلقی کے ساتھ اس تماشے کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ اختر الایمان کے یہاں بھی جیتی جاگتی اور پر شور حقیقتوں کے ہجوم میں شمولیت کے باوجود اس ہجوم سے دل برداشتگی اور دوری، دنیا میں رہنے کی مقسوم مجبوری اور اپنی تنہائی کا احساس صاف جھلکتا ہے اپنی بے بسی اور ملال کی کیفیتوں پر اختر الایمان نے کبیر ہی کی طرح ایک مہین چادر ڈال دی ہے۔
لیکن ارضیت، مقامیت، مظاہر شناسی اور موجودات سے خود کار قسم کا سیدھا سادا بے لوث ربط رکھنے کے باوجود اختر الایمان صرف ملکی معاملات و مسائل کے شاعر نہیں ہیں جس طرح ان کی برہمی روایتی ترقی پسندوں کی اجتماعی agitational روش سے الگ ہے۔ اسی طرح زمانے سے اور زندگی سے اپنی سوچی سمجھی وابستگی commitment کے باوجود اختر الایمان نے وزیر آغا کے لفظوں میں نظریے کے سستے پرچم کا سہارا کبھی نہیں لیا۔ تمثیلی پیرائے میں یہ بات اس طرح کہی جا سکتی ہے کہ اختر الایمان کی حیثیت ایک نہتے سپاہی کی تھی جس کی ڈھال بس اس کاضمیر ہوتا ہے اور جو فرار کا راستہ اس عزم اور اس امید پر اختیار نہیں کرتا کہ جو بھی ہو لڑائی تو جاری رہے گی۔ بڑے آدرش، اخلاق، موقف اور اقدار پر مبنی جد و جہد ناکامی کی حالت میں بھی آپ اپنا صلہ بن جاتی ہے۔ یہاں میں ایک بار پھر سے ’زمین زمین‘ کے پیش لفظ میں اختر الایمان کے ان جملوں کی طرف آپ کا دھیان لے جانا چاہتا ہوں جن میں انھوں نے اپنے بنیادی تخلیقی مزاج کی وضاحت یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ اس مجموعے کی بیشتر نظموں پر زمین کا درد حاوی ہے اور یہ کہ جو مسائل روز پیش آتے ہیں ان میں سے اکثر کا حل فرد کے ہاتھ میں نہیں مگر درد اپنی جگہ رہتا ہے۔ پھر انسان کے پاس دماغ ہے، شانوں کے اوپر سر ہے جو سوچتا بھی ہے۔ اس اقتباس سے کچھ خاص باتیں نکلتی ہیں۔
یہ کہ:
1۔ اختر الایمان کی شاعری کسی ایک علاقے اور فرقے کو اپنا حوالہ نہیں بناتی۔
2۔ اختر الایمان کی شاعری اجتماعی مسئلوں سے نبرد آزما ایک فرد کی ذہنی اور روحانی جد و جہد سے پردہ اُٹھاتی ہے۔
3۔ اختر الایمان کی شاعری عالمی سطح پر پھیلے ہوئے اُداسی، بے بسی دہشت اور درد کے ماحول کی ترجمان ہے۔ ایک عالم آشوب کا تخلیقی ریکارڈ ہے۔
اور آخری بات یہ کہ :
4۔ اختر الایمان کی شاعری کا بنیادی تعلق اس انسان سے ہے جس کے پاس دماغ ہے۔ شانوں کے اوپر سر جو سوچتا بھی ہے۔
اس طرح یہ شاعری ہر طرح کے تعصبات، توہمّات، مابعد الطبیعات سے آزاد ایک نئی حقیقت پسندی کے تصوّر پر استوارہوئی ہے۔ اس کا تعلق نہ تو صرف مشرق سے ہے، نہ صرف مغرب سے۔ یہ شاعری نہ تو کسی منظم نظریے اور سیاسی فکر کا دفاع کرتی ہے۔ نہ کسی قسم کی تبلیغ کرتی ہے۔ مجید امجد کے شعری تجربوں کی دنیا تو خیر نئی نظم کے مشاہیر میں مقابلتاً محدود ہے۔ لیکن میرا جی، راشد، فیض کو بھی سامنے رکھا جائے تو اختر الایمان ان سب سے بالکل الگ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو میرا جی کی جیسی خود سپردگی ہے۔ نہ راشد کے جیسا دانشورانہ آہنگ۔ نہ فیض کی جیسی نظریاتی وابستگی۔ تجربے کے ایک سرے پر اختر الایمان کی اپنی حسیت اور بصیرت ہے۔ دوسرے سرے پر وہ انسانی صورت حال جس نے من و تو کا فرق مٹا دیا ہے اور ایک عالم گیر شکل اختیار کر لی ہے۔ اختر الایمان کا امتیاز اور سرماے ۂ افتخار ان کے تخلیقی رویے کی بے تحاشا سادگی اس کے ارضی اور انسانی انسلاکات ہیں۔ میرا جی کے احساس کی گمشدگی اور ماورائیت اس کا بھکتوں جیسا استغراق راشد کی فکری صلابت، تیزی اور درّاکی اور فیض کے شعور کی اجتماعیت، لہجے کی نرم آثاری، نغمگی اور زمین پر دھیرے دھیرے اُترتی ہوئی چاندنی جیسی کیفیت اپنے اندر کشش کا بہت سامان رکھتی ہے اور اس کی حیثیت نئی شعری روایت کے بیش بہا ورثے کی ہے۔ نئی شاعری کے مجموعی مزاج کو بنانے اور کاڑھنے میں ان سب کا رول بہت متحرک اور موثر ہے۔ اختر الایمان کا اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا، اس سے الگ رُخ اپنانا، شاعری کی رسوم و روایات کے سائے سے بچ بچ کر چلتے رہنا، زبان یا آہنگ اور اسلوب کے چناؤ میں صرف اپنی تخلیقی ضرورتوں کا لحاظ رکھنا اور کسی مقبول و مانوس رنگ کو خاطر میں نہ لانا ان کے حیران کن فنی انہماک اور خود اعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔ اختر الایمان کی شاعری ہر سچی شاعری کی طرح جس کی مثالیں اقبالؔ سے لے کر میرا جیؔ، راشدؔ، فیضؔ، مجید امجدؔ سب کے یہاں بکھری ہوئی ہیں۔ تعصبات اور چھوٹی چھوٹی خانہ بندیوں کو ختم کرتی ہی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ عام قسم کی جذباتی، فکری اورلسانی توضیحات سے بھی دامن بچاتی ہے۔ اختر الایمان تو اپنے زمانے سے مخصوص مسئلوں اور سوالوں میں بھی اپنی بصیرت کو محصور نہیں ہونے دیتے اور اس یقین کے ساتھ سامنے آتے ہیں کہ ’گزران‘ کا لفظ پوری زندگی کی اساس ہے :
’’آدمی جہاں بھی ہے خواہی نہ خواہی، گفتنی نا گفتنی، ہر طرح کے قیود و بند میں رہ کر گزران کرتا ہے۔ یہ گزران کوئی سوچا سمجھا ہوا فعل نہیں ایک افتاد ہے۔ جیسی پڑتی ہے جھیلتا ہے۔ اس وقت اس کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ عینیت ہے یا وجودیت۔ زندگی جبرِ محض ہے یا وہ مختارِ کل۔ اگر دیکھا جائے تو گزران کو معنی پہنانے کی کوشش ہے، فلسفہ ہے ادب اور شعر ہے۔ ‘‘
یہ اقتباس ’سروساماں ‘ کے پیش لفظ سے ہے، اشاعت 1983۔ اس سے پہلے ’بنتِ لمحات‘ کے پیش لفظ 23 اپریل 1969 میں اختر الایمان نے ایک اور بات کہی تھی۔ آدمی کی طرح شاعری بھی جدید قدیم، نئی پُرانی نہیں۔ اگرچہ شاعری بھی اپنی ذات کا اظہار ہے اور فنونِ لطیفہ میں اس کا مقام بہت بلند ہے مگر زندگی میں اس کا استعمال فنِ تعمیر کی طرح نہیں ہوتا۔ اس کی کچھ حدود ہیں۔ جب ان حدود سے تجاوز کر جائیں گے، وہ عمارت جو شاعری کے نام سے لکھی گئی ہے صرف کسی بات کا ایک منظوم بیان ہو گی جس میں تمام لوازماتِ شعر ملیں گے سوا اس روح اور شاعرانہ بصیرت کے جو اچھی شاعری کا لازمہ ہے۔
5
مطلب یہ کہ شعر کی بوطیقا سے مطابق شاعری کا زماں گرفتہ یا Dated ہونا نہ تو شاعر کی پہچان ہے نہ شاعری کی، ترقی پسند سرماے ۂ شعر کی طرح۔ جدیدیت کے میلان سے متصل شاعری کے زیادہ تر حصّے کی خرابی بھی اس کی زماں گرفتگی ہے۔ ہمارے بیشتر شاعر روحِ عصر کی علم برداری کے بے محابا شوق میں نظموں کے واسطے سے اُلٹے سیدھے صنعتی تہذیب کا قہر، نئی ٹکنالوجی سے منسلک اندیشے، نئے معاشرے کے تنہا آدمی کا آشوب، اقدار کی شکست و ریخت وغیرہ وغیرہ اپنے عصر کی ترجمانی کے آسان نسخے بن گئے۔ جسے دیکھو ایک سی بیماری میں مبتلا ہے۔ بے سمتی، بے چارگی، ہزیمت، اخراج بشریت Dehumanization اور بکھراؤFragmentation پھر جسے دیکھو شاعری کو ایک سی دوا پلائے جاتا ہے۔ سورج، ریت، پیاس، دشت و صحرا، شجر، ٹوٹتے ہوئے پتوں کا شور، آندھیاں اور جھکڑ۔ غرض کہ ہوا کے احساس پر انہی سنسناہٹوں کی حکمرانی۔ نئی لسانی تشکیل اور لسانی تخریب کی حدیں بعضوں نے مٹا کر رکھ دیں۔ دھڑکتے ہوئے زندہ اور گرم لفظ جن سے بھاپ اٹھنی چاہیے سرد بے جان کلیشے بن گئے۔ مگر ادبی آواں گارد جس کے اُجالے میں ہمارے عصر کا تخلیقی مزاج مرتب ہوا اور جس کی تکمیل مستقبلیت اور انسانی روح کی سرکشی کے عناصر کرتے ہیں ہمارے ادبی معاشرے میں ان کا شعور پھیل نہیں سکا۔ باقر مہدی کی تنقیدی کشمکش میں ان عناصر کی اہمیت اور معنویت پر اصرار کے باوجود یہ شعور نقار خانے کے شور میں گم سا ہو گیا۔ بے شک اختر الایمان بھی آج کے شاعر کو ٹوٹا ہوا آدمی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میری شاعری اسی ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری ہے لیکن یہ ٹوٹا ہوا آدمی ضدّی، خود سر اور خیر اندیش بھی ہے اور اختر الایمان ہی کے لفظوں میں یہ محسوس کرتا ہے کہ:
’’۔ .. پیغمبر اب نہیں آتے۔ مگر چھوٹے پیمانے پر یہ کام اب شاعر کر رہا ہے۔ شاعر کا کام زندگی میں ایک توازن پیدا کرنا بھی ہے اور اس کے اندر جو حیوان ہے اس کی نفی کرنا بھی۔ جہد تو جاری رہے گی۔ ‘‘
(پیش لفظ ’سرو ساماں ‘)
اردو کی نئی شاعری کے سیاق میں اختر الایمان کے فکری سرمائے پر نظر ڈالی جائے تو وہ ہمارے سب سے نمایاں آواں گارد شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کا رویہ رسمی اور مقبول وجودی میلانات کے ان ترجمانوں سے مختلف ہے جن کی بھیڑ بھاڑ ہماری علاقائی زبانوں کے معاصر ادب میں دِکھائی دیتی ہے۔ یہ میلانات اس آزمودہ اور پیش پا افتادہ تجربے پر مبنی بھیڑ چال کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے ہاتھوں انفرادی طرزِ احساس کا بیڑا خوب غرق ہوا ہے۔ خاص طور پر اردو میں قحطِ بنگال، آزادی اور فسادات کے پس منظر میں ایک سی ریں ریں کرنے والی نظموں کا مجموعہ ’غمِ دوراں ‘ مرتبہ غلام ربانی تاباں دیکھ کر جوش صاحب نے کہا تھا:
آفریں ہو غلام ربانی
کیا نکالا ہے مینڈکو ں کا جلوس
ہمارے جدید تر شاعروں کے یہاں تجربے اور اظہار کی یکسانیت کا عیب ہمارے ترقی پسند پیش روؤں کے مقابلے میں کچھ کم نہیں۔ یہ لوگ ایک طرح سوچتے ہیں یا سوچتے ہی نہیں بلکہ گنے چنے بوسیدہ لفظوں، مستحجر علامتوں اور فرسودہ تجربوں کی قیادت میں اپنی تخلیقی راہ طے کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی پہنچ بھی کسی نو دریافت مقام تک نہیں ہوتی۔ ہم ترقی پسندوں کو طے شدہ تخلیقی مقاصد اور معلوم و متوقع سر گرمی کا قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے نئے شاعروں کی اکثریت کے پاس ان کا اپنا کچھ بھی نہیں۔ مستعار اسلوب، مستعار لفظ، مستعار تجربے چناں چہ جیسی بے روح یکسانیت ہمیں اپنے زمانے کے شاعروں میں دِکھائی دیتی ہے وہ ہماری شعری روایت کے کسی بھی دور کے شاعروں کی بہ نسبت کم تر نہیں کہی جا سکتی۔
6
اختر الایمان کے یہاں اجتماعی زندگی کے مسائل کو ایک شخصی بلکہ نجی سچائی کے طور پر قبول کرنے کے باوجود تخلیقی تجربے کی انفرادیت پر اصرار دِکھائی دیتا ہے۔ اس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں دو تین باتوں کا اعادہ یہاں ضروری ہے :
1۔ اختر الایمان آج کی شاعری کا پس منظر قومی نہیں بین الاقوامی سمجھتے ہیں۔
2۔ شاعری ان کے نزدیک چھوٹے پیمانے پر پیغمبری کا کام ہے۔
3۔ شاعری مذہب ہے۔ گویا کہ مذہبی تجربے کی شدّت، جنون اور لگن کے بغیر شاعری کا تصوّر ممکن نہیں۔
ان باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ مستقبلیت کے عنصر سے آج کی شاعری کسی بھی حال میں خالی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح اقدار اور ایک سوچے سمجھے اخلاقی موقف کا مسئلہ ہے اور یہ سب مسئلے ایک طرح کی ذاتی تہذیب کے عمل سے مربوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اختر الایمان کی شاعری اپنے پڑھنے والوں میں جو پہلا اور نمایاں تاثر پیدا کرتی ہے وہ ایک سنجیدہ اور مضبوط سماجی ذمے داری کا ہے۔ اختر الایمان پل بھر کے لیے بھی اس تاثر سے بے گانہ نہیں ہوتے۔ چناں چہ اپنے پڑھنے والے سے بھی ایک گہری سنجیدگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جدید، نئی شاعری کے عمومی ذائقے کا عادی مذاق شعر اس شاعری کے مضمرات تک رسائی اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب وہ اختر الایمان کے افکار و احساس کے ساتھ ساتھ اس اسلوب کو سمجھنے پر بھی قادر ہو جو بڑی حد تک شخصی ہے۔ رہے آج کی زندگی کے عام تجربے اور قصّے تو ان کا بیان حسبِ استطاعت آج کا ہر چھوٹا بڑا شاعر کر سکتا ہے۔ اختر الایمان تقریباً یکساں آوازوں کی بھیڑ میں جو الگ نظر آتے ہیں اور ان کا لہجہ صاف پہچانا جاتا ہے تو اسی لیے کہ انھوں نے اپنی انفرادیت کو بچانے کے بڑے جتن کیے ہیں۔ اپنے حال کے چنگل سے نکلنے کی بھی انھوں نے خاص جد و جہد کی ہے۔ وجودیت اور وجودی تجربوں کی عام آہٹ جو ہمارے زمانے کے سبھی قابلِ ذکر شاعروں کے یہاں سنائی دیتی ہے۔ اس کا آہنگ اختر الایمان کے یہاں بہت بدلا ہوا ہے۔ سارتر کی انسان دوستانہ وجودیت جو اس بات کی گنجائش بھی رکھتی ہے کہ ادیب اپنے سماجی اور تخلیقی ذمے داری کا بوجھ ایک ساتھ اُٹھاسکے۔ اختر الایمان کے مزاج سے فطری مناسبت رکھتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اختر الایمان سیاسی یا سماجی کارکنوں کے پمفلٹ بازی اور سرگرم احتجاج سے الگ خاموشی سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ اختر الایمان پر اپنے مضمون میں کہا تھا کہ اختر الایمان کی شاعری کے موضوعات وہی ہیں جو ترقی پسندوں کے ہیں۔ لیکن ان کے بیان مقبول اور مشہور ترقی پسند شاعروں سے الگ ہے۔ اسی لیے اختر الایمان قبولِ عام کے حصار سے باہر رہے۔ میرا خیال ہے کہ اختر الایمان اور ترقی پسندوں کے معروف رنگ میں فرق صرف بیان کا نظمیہ شاعری کے اسالیب کا ہی نہیں مزاجوں کا فرق بھی ہے۔ ایک فیض کو چھوڑ کر دوسرے تمام ممتاز ترقی پسند شاعروں کے یہاں سماجی مسئلوں اور تجربوں کی طرف جو رویہ ملتا ہے اس میں فکری ابتذال کے آثار نمایاں ہیں۔ غصّے، احتجاج، برہمی کا ایک سا انداز، ضبط اور ٹھہراؤ کے سا تھ باتیں کرنا گویا وہ شاعر اور شاعری کے منصب میں تبدیلی یا تخفیف کے نقصان کا شعور بھی رکھتے ہیں، اسی لیے ترقی پسندوں کی آواز میں آواز نہیں ملاتے۔ اپنے سماجی سرو کار اور وابستگی کو بچائے رکھتے ہیں مگر اس طریقے سے کہ شاعری بھی بچی رہے۔
7
تصوّر اور زاویۂ نظر کا ایک اور پہلو جو اختر الایمان کی شاعری کے سیاق میں خاص توجہ کا مستحق ہے وہ ان کی شاعری کے مقامی رشتوں اور ارضی رابطوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک معروف اصطلاح کا سہارا لیا جائے تو اسے اختر الایمان کی شاعری میں دیسی پن یا Nativism کا عنصر بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہ ظاہر بات چیت عجیب سی ہے کیوں کہ اختر الایمان جدید شاعری، نئی شاعری کے بین الاقوامی مزاج کے سرگرم وکیل ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ وہ تو نسلوں کے فرق کو بھی نہیں مانتے۔ گویا کے زماں کے تغیرات کی اہمیت اختر الایمان کے شعور میں کچھ خاص نہیں ہے اور اس سے یہ فکری جہت بھی نکلتی ہے کہ اختر الایمان انسان کے بنیادی تجربوں کی دائمیت کے قائل ہیں۔ ایسی صورت میں اختر الایمان کے فکری اور حسیاتی نظام کا رشتہ دیسی پن کے تصور سے جوڑنا بہ ظاہر ان کی شاعری میں بین الاقوامی عناصر کا راستہ ان کی قومیت، مقامیت سے نکلتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی اور عظمت اللہ خاں کی طرح اختر الایمان کے یہاں بھی شعری تجربے کے مقامی حوالوں کی کثرت ہے۔ خلیل الرحمن کا یہ خیال کہ مختار صدیقی اور مجید امجد کے علاوہ اختر الایمان نے بھی میرا جی کے ناتمام اور نا تراشیدہ تجربوں کو ایک نئی معنویت کے ساتھ اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، اسی واقعے پر مبنی ہے۔ بے شک اختر الایمان کے یہاں گیتوں اور دوہوں کی زبان سے استفادے کا میلان موجود ہے اور اختر الایمان کی لفظیات، شعری قواعد، لہجے میں ہندی روایت کی گونج صاف سُنائی دیتی ہے لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہیے کہ اختر الایمان مقامی رنگوں کے شاعر ہیں۔ ان کا طرزِ احساس اساسی طور پر دیہی یا قصباتی نہیں ہے بلکہ شہری اور سائنسی ہے۔ اختر الایمان کے یہاں اس دانشِ حاضر کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں جو اپنے کمال میں اپنے زوال کو بھی پہچان لیتی ہے جو عصرِ رواں کی ترقی معکوس کے خطروں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ چناں چہ خود احتسابی کے انداز اختر الایمان کی نظموں میں طرح طرح سے ظاہر ہوتے ہیں۔ کہیں ملال ہے، کہیں برہمی، کہیں طنز اور تضحیک۔ ایک طرف کچھ روایتوں کے مٹنے کی کسک ہے۔ دوسری طرف ان کی بوسیدگی کا اعتراف بھی ہے۔
ہندستان کی دوسری علاقائی زبانوں اور سب سے زیادہ ہندی والوں میں افکار و احساسات کی سطح پر جو قربت اختر الایمان سے دِکھائی دیتی ہے اردو کے کسی اور شاعری بہ شمول فیض سے نہیں۔ اس کا سبب بھی وہی ہے جس کی طرف ذرا دیر پہلے اشارہ کیا گیا تھا یعنی کہ اختر الایمان کے شعور اور اظہار میں مقامیت کے نشانات۔ وارث علوی نے اپنے مضمون ’اختر الایمان کی شاعری کے چند پہلو‘ میں یہ بات اس طرح دُہرائی ہے۔ یہاں میں پورا اقتباس نقل کیے دیتا ہوں :
’’اختر الایمان جدید صنعتی شہر کے ہمہموں میں رہنے کے باوجود اپنے ذہن میں ایک ہرا بھرا گاؤں لیے پھرتے ہیں۔ راشد اور فیض کے ذہنوں میں ایسا کوئی گاؤں نہیں، اس لیے ان کے یہاں وہ لڑکا اور اس کا بچپن بھی نہیں جو گاؤں کی منڈیروں پر کھیلتا اور تتلیوں کے تعاقب میں دوڑتا ہے۔ اختر الایمان کی شاعری کی پوری شاداب امیجری اسی گاؤں کی مرہون منت ہے اور شہروں کی فضاؤں کو وہ شاعرانہ امیجری اور مرقعوں میں بدل نہیں پاتے گو ان کے یہاں کولتار کی سڑکوں، کارخانوں، ٹرینوں اور انسانی بھیڑ کا ذکر دوسرے شعرا کی نسبت سے زیادہ ہوا ہے۔ ..‘‘
یہ بات ظاہری طور پر سیدھی سادی اور درست ہوتے ہوئے بھی تشریح طلب اور مبہم ہے۔ نئے شہر کا نئے شعر سے رشتہ بہت پیچیدہ رہا ہے۔ عمیق حنفی کے معرکۃ الآرا مضمون ’شعلے کی شناخت‘ سے قطع نظر مشرق و مغرب کی جدید شاعری میں اس پیچیدہ تجربے کے نقوش اور آثار جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کا جدید فکشن بھی اس مسئلے کے متعلقات اور مظاہرے سے بھرا پڑا ہے۔ اختر الایمان کی کئی نظموں ’ایک لڑکا‘، ’یادیں ‘، ’بلاوا‘، کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سینے میں چھپے ہوئے کسی خواب کی طرح وہ اپنے ذہن میں ایک ہرا بھرا گاؤں لیے پھرتے ہیں۔ مگر اس گاؤں کی حیثیت اصل میں ایک علامت، ایک تمثیل اور تخلیقی تجربے کے ایک محرک کی ہے۔ اختر الایمان اسی حوالے کی مدد سے اپنے اخلاقی موقف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گاؤں ان کے یہاں واپسی کے سفر یا فکری مراجعت کا مقصود نہیں ہے بلکہ جدید زندگی کے آشوب کو ایک پس منظر ایک عقبی پردہ مہیا کرنے والی ٹھوس سچائی ہے جسے علامتی تبدّل کے ذریعے اختر الایمان نے ایک تجرید بنا دیا ہے۔ اقدار کی کشمکش اور قدیم و جدید کی آویزش کا جو تجربہ اختر الایمان کی نظموں میں بار بار سر اُٹھاتا ہے اس کا بیان اختر الایمان نے گاؤں کے موثر اور مشہود استعارے کی وساطت سے کیا ہے۔ ہمیں اختر الایمان کے ذہن میں جس گاؤں میں موجودگی کا احساس ہوتا ہے ان کی شاعری اور مجموعی فکری رویے کی سیاق میں اس کی حیثیت صرف ایک تخلیقی منطقے کی ہے۔ شہری زندگی کے آشوب اور انحطاط کی تصویریں بودلیر سے لے کر گنس برگ تک کی نظموں میں عام ہیں۔ اختر الایمان کی نظموں میں شہری زندگی اور اس کے متعلقات حقیقت پسندانہ تمثالوں کے ایک پورے سلسلے تک رسائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چناں چہ اختر الایمان کی اصل اُلجھن یہ نہیں کہ شہر سے پھر گاؤں کی طرف کس طرح واپس جایا جائے بلکہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کی اندھا دھند بربادی اور تخریب کے چنگل سے اپنے آپ کو نکالے کیسے ؟ مستقبل کو بچائے کس طرح؟ اپنی بے معنی تگ و دو اور بے حصولی کے سفر کا رُخ کیوں کر موڑے یہی الجھن اختر الایمان کے شعور کو متحرک اور احساسات کو مستقلاً مضطرب رکھتی ہے۔ چناں چہ ان کی شاعری انفرادی تجربے کی وساطت سے اس عہد کی ایک اجتماعی اور تہذیبی دستاویز بھی مرتب کرتی ہے جس کے ہاتھ پیر اس زمانے کے زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ سے بندھے ہوئے ہیں۔ اختر الایمان نے جس طرح مقامیت کے عناصر کی مدد سے ایک آفاقی لہجے کی تشکیل کی ہے اس کی مثالیں آج کی شاعری میں بہت کم یاب ہے۔ یہاں یہی خوبی اختر الایمان کو ہمارے زیادہ تر تھکے ماندے مرجھائے ہوئے اپنے آپ کو مسلسل دُہراتے ہوئے نئے شاعروں پر سبقت دیتی ہے۔
8
اختر الایمان نے راشد اور فیض کی طرح اس دور کے دوسرے تمام جدید شاعروں سے لمبی تخلیقی عمر پائی۔ رومانیت سے حقیقت پسندی تک کا ان کا سفر طویل بھی ہے اور رنگا رنگ بھی۔ ان کے یہاں لوک روایتوں کی سادگی اور سلجھاؤ بھی ہے اور نئی زندگی کے رموز اور پیچیدگیوں کا ادراک بھی۔ ایک منجھے ہوئے کتھا واچک کی طرح وہ اپنے قبیلے کی تمام معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ اس قبیلے کے مسئلوں پر مبنی قصّے سناتے ہیں۔ تماشے دِکھاتے ہیں۔ کہانی اور ڈرامے کے روایتی اجزا اور عناصر سے اپنی نظموں کی تشکیل میں اختر الایمان نے جس طرح کام لیا ہے، ان کے معاصرین کے یہاں یہ صلاحیت تقریباً مفقود ہے۔ ان کی نظمیں رسمی اسالیب شعر اور روایتی جھالروں سے حیرت انگیز طور پر آزاد ہیں۔ بادی النظر میں ان کی نظموں پر نثریت کی جو پرت چڑھی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ اختر الایمان کے یہاں آرائش سے شعوری گریز ملتا ہے۔ غنائی اور مترنم لہجے پر وہ فطری اور بے ساختہ لہجے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر اس رویے نے اختر الایمان کی نظموں میں ایک مختلف الجہات قسم کی موسیقیت کو راہ دی ہے۔ جیسے ڈھولک کی تھاپ پر کوئی کھر درا گیت گایا جا رہا ہو یا بنگال کے باؤلا نے اکتارے کی دھن پر گانے کے علاوہ دیوانہ وار رقص بھی کرتے جاتے ہوں۔ اپنے ادراک کے ساتھ ساتھ اختر الایمان نے اپنے اظہار کی رینج(Range) کو بھی وسعت دینے کی ایک منظم جستجو کی ہے۔
اختر الایمان کا ایک امتیاز اپنے ہم عصروں میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے شعری تجربے اور بصیرت کے اظہار پر کسی طرح کی لسانی نظریاتی اور فکری روک نہیں لگائی۔ یہ کسی معینہ دائرے میں گردش کرتی ہوئی شاعری کے برعکس چھوٹے بڑے مختلف دائروں سے رہائی کی شاعری ہے۔ میں نے اس مضمون کی شروعات محمود ایاز کے حوالے سے کی تھی۔ اختتام کے لیے بھی ان کا ایک اقتباس حسبِ ذیل ہے :
’’اختر الایمان سیدھے سادے آدمی تھے۔ عملی زندگی کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ مطالعے کی وسعت اور علم کی گہرائی و گیرائی کے لیے ان کے پاس وقت نہ تھا اور نہ ان باتوں کا وہ مزاج رکھتے تھے۔ لیکن وہ جو اقبالؔ نے خونِ جگر سے لکھے جانے والے فلسفے کی بات کہی ہے۔ اس کی بصیرت ان کو حاصل تھی۔ انھیں زندگی اور اس کے مظاہر کو نظریات و افکار کے ذریعہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ ان سب سے جینے کے عمل کے ذریعے بہت اچھی طرح متعارف اور روشناس تھے۔ ان کی شاعری کا جوہر اور طاقت بھی اسی میں تھی۔ ‘‘
٭٭٭
اختر الایمان کی نظم ’موت‘ ۔۔۔ خالد جاوید
موت ادب و شاعری کا محبوب موضوع رہی ہے۔ ساری دنیا کا ادب اس بات کا گواہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود اور روح کی زبان ہمیشہ اپنی قواعد اور اپنی صرف و نحو کو موت میں ہی پیوست رکھتی ہے۔ اپنا عرفان حاصل کر لینا دراصل اپنے جیسا ہی ہو جانا ہے اور یہی موت ہے۔ یہ بے سبب نہیں ہے کہ ہندستان کی تمام قدیم منظوم یا غیر منظوم کتھائیں اِسی موت کو بار بار دُہراتی ہیں۔ رگ وید اور اُس سے زیادہ اپنشدوں یا بودھ کی جاتک کتھاؤں میں ہم بار بار موت کی مبادیات اور اُس کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ موت اپنے چاروں طرف نظم بُنتی ہے اور اسی نظم کا نام زندگی ہے، مگر زندگی کبھی مکمل اور مطلق نہیں ہوتی کیوں کہ اُس کے پاس لفظ ہیں اور لفظ ہمیشہ آدھے ادھورے ہی رہتے ہیں اور اسی طرح یہی وہ نامکمل پن ہے جو نظم کو گڑھتا ہے اور کسی مکمل یا مشینی قسم کے معنی کے سارے امکانات کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے اور موت؟ موت مکمل ہے کیوں کہ اُس کے پاس الفاظ نہیں، وہ اُس مارگ کا نام ہے جسے ہم مرن کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ خاموشی ہے۔
مگر شاعر ابھی زندہ ہے اس لیے اُس کے پاس الفاظ ہیں۔ وہ ایک نظم بُنتا ہے جو موت کو بلاوا دیتی ہے۔ ہر وجودی تجربہ ناگزیر طور پر موت کے عرفان کا عنصر اپنے اندر سمائے رکھتا ہے۔ جرمن شاعر رلکے کے یہاں سارا وجودی تجربہ موت اور محبت کے آس پاس گھومتا ہے۔ اُس کی تمام شاعری جو جدید مغربی روپ میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے، مکمل طور پر وجودی ہے اور اُس کا بنیادی تھیم موت یا محبت ہے اور یوں دیکھیں تو خود محبت بھی موت کے وجودی تجربے سے آگہی اور شناسی کا نام ہے۔ موت کا شعور انسان کے وجود کا بنیادی عنصر ہے ۔ اس عنصر کی بنا پر انسان کا وجود حیوان سے الگ ہو کر اپنی ایک شناخت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
اختر الایمان کی نظم ’موت‘ اسی معتبر وجودی تجربے کی ایک روشن مثال ہے۔ اس نظم کو اردو کی شاہ کار نظموں میں جگہ ملنی چاہیے تھی مگر پتا نہیں کیوں اس کا ذکر زیادہ نہیں ہوتا اور اسے اختر الایمان کی نمایاں نظموں میں شمار بھی نہیں کیا جاتا، جب کہ اپنی ماہیت اور ڈکشن کے اعتبار سے یہ نہ صرف ایک انوکھی نظم ہے بلکہ ایک سچے وجودی تجربے سے بھی مالا مال ہے۔ ہائیڈیگر نے اپنی کتاب Being and Time میں ’وقت‘ کو مخصوص انداز میں دیکھا اور سمجھا ہے۔ وقت انسانی وجود کی ایک جہت ہے۔ انسان کے لیے گزرا وقت بیت جانے کے بعد بھی موجود رہتا ہے۔ مستقبل اور ماضی ہمیشہ انسانی وجود سے منسلک رہتے ہیں۔ موت کا تجربہ اس مقام پر بہت اہم ہو جاتا ہے۔ انسانی وجود کے بارے میں اگر کوئی بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ’’اسے موت تو آئے گی ہی‘‘ ہر موت انفرادی ہوتی ہے کوئی آفاقی موت نہیں ہوا کرتی۔ موت وجود کا خاتمہ نہیں بلکہ شاید وہ اُس کا عروج یا پھر اُس کی تکمیل ہو۔ ’’عدم وجود‘‘ یہاں پھر سے بامعنی ہو جاتا ہے۔ عام سی اور غیر معتبر زندگی میں لوگ موت کے خیال سے ہمیشہ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو حیات بعد الموت کی ایک تمثیلی دنیا بھی بنا لیتے ہیں، یہ ایک غیر معتبر وجود ہے جس میں انسان کا انسان رہنا ممکن نہیں ہے۔
مگر موت کا یہ وجودی تجربہ، اپنے ساتھ ایک بھیانک مایوسی اور خوف ناک تنہائی کو بھی جنم دیتا ہے کیوں کہ اس مقام پر خدا بھی خاموش ہے۔ انسان کی تنہائی، خدا کی خاموشی سے وجود میں آتی ہے۔ اختر الایمان کی یہ نظم ان سب جہات کی نمائندہ مثال ہے، اس نظم میں موت کا شعور تخلیقی معنویت سے بھرپور ہے۔ موت کے شعور نے ’رلکے‘ کے مانند اختر الایمان کے تخلیقی افق کو اتنی وسعت بخشی ہے کہ ان کے یہاں محبت اور موت ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ محبت کے بغیر موت اور موت کے بغیر محبت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
موت کے بارے میں اخلاقی اور فلسفیانہ موشگافیاں کرنا اور ہے اور خود کو مرتے ہوئے دیکھنا اور ۔ اُس کے لیے شاعر کو مرنا پڑتا ہے اور اُس سے پہلے اُن ہواؤں کی آہٹ کو محسوس کرنا پڑتا ہے جو موت کے آگے آگے چلتی ہیں۔
کون، آوارہ ہواؤں کا سبکسار ہجوم؟
یہ نہیں پتا چلتا کہ شاعر نے ان ہواؤں کو محسوس کر کے اپنے دل میں سرگوشی کی ہے یا قدرے بلند آواز میں کہا ہے، مگر اس مصرعے کے آگے سوالیہ نشان لگا ہے جس سے یہ سراغ ضرور ملتا ہے کہ شاعر ایک ایسی کیفیت میں چونک اٹھا ہے جب اُس کے حواس و اعصاب ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ آگے جو اشعار رقم کیے گئے ہیں وہ اسی کیفیت کی ترجمانی کر رہے ہیں جب انسان کے حواسِ خمسہ اپنے موضوعات کو آہستہ آہستہ ترک کرتے ہوئے خود میں سمٹتے جاتے ہیں۔ موت کے آنے سے پہلے انسان کے جسم کو یہ آداب سیکھنا ہی ہوتے ہیں :
آہ احساس کی زنجیرِ گراں ٹوٹ گئی
اور سرمایۂ انفاس پریشاں نہ رہا
میرے سینے میں الجھنے لگی فریاد مِری
زنگ آلود محبت کو تجھے سونپ دیا
اب شاعر اپنی بوسیدہ اور ناکام محبت کو یاد کرتا ہے۔ یہ یاد جو ایک فریاد سے مشابہ ہے۔ وہ اسی زنگ آلود محبت کو موت کے سپرد کر دیتا ہے۔ اب موت کی غیر مرئی شکل اور محبت کا پُرانا دھندلکا شاید اُس کے لیے ایک ہی قالب میں ڈھل گیا ہے۔ اس طرح محبت، موت بن کر چلی آئی ہے یا موت نے مجبوراً محبت کی طرح اپنی چال چلی ہے :
کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو
ٹمٹماتا ہے مِرے ساتھ نگاہوں کا چراغ
شاعر اب موت کی دستکیں سُنتا ہے جو آوارہ ہواؤں کے دوش پر جاری ہیں۔ بدن کا چراغ گُل ہونے کو ہے اور شاعر کی آنکھوں کے چراغ بس ٹمٹمارہے ہیں۔ موت سب سے پہلے آنکھوں کی رنگت بدلتی ہے۔ دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ وہ سب نظر آنے لگتا ہے جو کسی دوسرے کو نظر نہیں آتا:
’’اس قدر ہوش سے بیگانہ ہوئے جاتے ہو‘‘
کون کہتا ہے ؟ شاعر سے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اُس کے پاس اُس کی بھیانک تنہائی کے سوا دوسرا کوئی نہیں موجود ہے مگر یہ سطر کچھ اس طرح لکھی گئی ہے کہ دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش کوئی ہوتا جو اُس سے یہ خلوص اور اپنائیت سے بھرا پُرتاسّف جملہ کہہ سکتا۔ چاہے محبت کے لباس میں موت ہی شاعر سے یہ کہہ دیتی کہ وہ ہوش سے اس قدر بیگانہ کیوں ہوا جاتا ہے، مگر افسوس کہ یہ مرتے ہوئے انسان کی اپنی خود کلامی ہے۔ موت کو سامنے دیکھ کر خود کو ایک جھوٹی ڈھارس بندھانے کی ایک کمزور اور ناکام کوشش:
تم چلی جاؤ یہ دیوار پہ کیا ہے رقصاں
میرے اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں تو نہیں ؟
پھر نگاہوں پہ اُمڈ آیا ہے تاریک دھواں
ٹمٹماتا ہے مِرے ساتھ یہ مایوس چراغ
شاعر کو اچانک اپنے پاس اپنی محبت یا وہ جس سے محبت کی گئی تھی یا موت کے ہونے کا التباس ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ دیوار پر کچھ چلتے ہوئے دیکھتا ہے اور ایک برسوں پرانا احتجاج، ایک کمزور غصہ اُس میں ابھرنے لگتا ہے جس کے سبب وہ ’’تم چلی جاؤ‘‘ کو شاید قدرے بلند آواز میں ادا کرتا ہے اور ہراساں ہوتے ہوئے دیوار پر رقصاں پرچھائیوں کو دیکھتا ہے اور اُس کی روح کی تاریک گہرائیوں میں کوئی آواز اُس سے کہتی ہے کہ یہ اُس کے اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں ہیں یا ممکن ہے کہ اُس نے خود سے یہ کہا ہو یا سوچا ہو، آہستہ آہستہ پھر آنکھیں دھواں دھواں ہوتی ہیں اور نگاہوں کا مایوس چراغ ٹمٹمانے لگتا ہے۔
شاعر کے کمالِ فن کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے اور اس پر جتنی بھی حیرت کی جائے وہ بھی کم ہے کیوں کہ یہ نظم اتنی ہی پُراسرار ہے کہ جتنی ’موت‘ پُراسرار ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ شاعر جس مقام پر اپنی آخری سانس لے رہا ہے وہاں واقعتاً کوئی چراغ ٹمٹما رہا ہے جس کی روشنی میں وہ دیوار پر لرزتی ہوئی پرچھائیاں دیکھ رہا ہو، اور مرنے سے پہلے اکثر آدمی اپنے مردہ اجداد کو دیکھتا ہے جو شاید آنے والی موت کے پُرانے رفیق اور شناسا ہیں۔ اسی لیے دوبارہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسی نظم لکھنے سے پہلے نظم گو کو مرنا پڑتا ہے۔ جگہ جگہ تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسٹیج پر ایک ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کوئی علامتی یا تجریدی نوعیت کی نظم نہیں جس کا تجزیہ بے حد آسانی سے کیا جا سکتا ہے، مگر ایک واقعاتی اور ڈرامائی نوعیت کی نظم میں اتنی تہیں، اتنی پرتیں شامل ہیں کہ انھیں ایک ایک کر کے ہٹانا مشکل ہے۔ اسی رمز کے تحت نظم میں اتنے معنی پیدا ہوئے ہیں کہ قاری کے اپنے حواس و اعصاب بھی ایک مرتے ہوئے آدمی کی طرح منتشر ہونے لگتے ہیں :
آج ملتا نہیں افسوس پتنگوں کا نشاں
میرے سینے میں الجھنے لگی فریاد مِری
ٹوٹنے والی ہے انفاس کی زنجیرِ گراں
توڑ ڈالے گا یہ کم بخت مکاں کی دیوار
اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جاؤں گا
مگر شاعر کو اسی ٹمٹماتے ہوئے چراغ پر آج ایک بھی پتنگا نہیں ملتا۔ یہ محبت کی ایک مطلق غیر حاضری ہے جو ماضی کا المیہ ہے مگر موت کی شکل میں اس مقام تک چلا آیا ہے۔ سانسوں کا سلسلہ تو ٹوٹنے والا ہے اور بدن کی دیوار گر کر وہ ملبہ بننے والی ہے جس کے اندر دب کر شاعر کی جان نکل جائے گی۔ وقت قریب ہے، وقت جو بجائے خود اجل کا دوسرا نام ہے، مگر پھر بھی صاف طور پر ہمیں یہی نہیں پتا چلتا کہ مکاں کی دیوار کون توڑ ڈالے گا؟ سانسوں کی ٹوٹی ہوئی زنجیر کا بوجھ؟ یا موت کا فرشتہ؟ یا کوئی دھماکہ، کوئی آواز؟ کیوں کہ شاعر کو وہم و ادراک ہو رہے ہیں مگر کس قدر بامعنی وہمِ ادراک! کیا شاعر اپنی ٹمٹماتی ہوئی آنکھوں پر کسی محبت بھرے ہاتھ کے لمس کی گم شدگی کا نوحہ تو نہیں کر رہا۔ پتنگے اور محبت بھرے ہاتھ دونوں ایک دوسرے کی جگہ بہ آسانی لے سکتے ہیں کیوں کہ دونوں کی حرکت کا مدار محبت پر ہے اور محبت، موت کی طرح بے رحم اور بے حس ہے :
جی اُلجھتا ہے، مِری جان پہ بن جائے گی
تھک گیا آج شکاری کی کماں ٹوٹ گئی
لوٹ آیا ہوں بہت دور سے خالی ہاتھوں
آج امید کا دن بیت گیا، شام ہوئی
موت کے قدموں کی چاپ سننے کے بعد بھی شاعر تمام اندیشوں کے باوجود اپنے آپ سے ہم کلامی کرتا ہے۔ اس کی روح کی سرگوشیاں جاری رہتی ہیں مگر جسم ان سرگوشیوں کا ساتھ نہیں دیتا، وہ تھک گیا ہے اور زندگی کی مسرتوں یا لذتوں کا شکار نہیں کر سکتا۔ ایکا تھاہ مایوسی کے لمحات میں، اُسے اپنا ماضی یاد آتا ہے اور وہ ماضی بھی مایوس تھا اور اب مستقبل کی کسی امید کا خیال بھی رائے گاں ہے۔
’’زندگی! آہ یہ موہوم تمنا کا مزار‘‘
’’میں نے چاہا بھی مگر تم سے محبت نہ ہوئی‘‘
’’کہہ چکے اب تو خدا کے لیے خاموش رہو‘‘
’’ایک موہوم سی خواہش تھی فلک چھونے کی‘‘
’’زنگ آلود محبت کو تجھے سونپ دیا‘‘
’’سرد ہاتھوں سے مِری جان مِرے ہونٹ نہ سی‘‘
’’گر کبھی لوٹ کر آ جائے وہی سانولی رات‘‘
’’خشک آنکھوں میں جھلک آئے نہ بے سود نمی‘‘
اب نظم کی سطریں بادی النظر میں بے ربط سی ہونے لگتی ہیں مگر یہی بے ربطی نظم کو کمالِ عروج تک پہنچانے کا وسیلہ بھی ہیں۔ شاعر زندگی کو مخاطب کرتا ہے اور اس احساس تک پہنچتا ہے کہ وہ زندگی سے چاہ کر بھی محبت نہیں کر سکا۔ اُسے اپنی ناکام زندگی کا شدید احساس ہوتا ہے اور موت کا بھی۔ وہ خود کو خاموش کرنے کے لیے اپنی روح کی زبان کو رُکنے کا مشورہ دیتا ہے مگر کچھ اس طرح جیسے کوئی مہربان آواز اُس سے یہ کہہ رہی ہے ۔ وہ مہربان آواز جو وہ اپنی تمام زندگی نہ سُن سکا اور جسے سننے کی آرزو نے خود شاعر کے اندر خود کلامی کے روپ میں اپنا بھیس بدل لیا ہے۔ اُسے پھر اپنی محبت یاد آتی ہے جس پر وقت نے زنگ لگا دیا ہے، وہ ایک بار پھر اس زنگ آلود محبت کو موت کے سپرد کر دینا چاہتا ہے۔ موت جو بار بار رنگ بدل رہی ہے، کبھی اس کی محبوبہ کی صورت میں اور کبھی آواز اور ہوا کی صورت میں۔ شاعر موت کے سرد ہاتھ اپنے ہونٹوں پر محسوس کرتا ہے، یہ سرد ہاتھ اُس کی محبوبہ کے بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے ماضی کی ایک سانولی رات کو یاد کرتا ہے مگر اس احساس کے ساتھ کہ آج اگر وہ سانولی رات دوبارہ آ جائے تو آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُس سانولی رات میں اُس کی محبوبہ نے کبھی اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا تھا۔ موت اور محبت یہاں جس طرح ایک دوسرے میں مدغم ہوئی ہیں کہ اُن کی شناخت کرنا ممکن نہیں رہا اور یہی اس نظم کا سب سے گہرا رمز ہے۔
زلزلہ، اُف یہ دھماکہ، یہ مسلسل دستک
بے اماں رات کبھی ختم بھی ہو گی کہ نہیں ؟
اف یہ مغموم فضاؤں کا المناک سکوت
میرے سینے میں دبی جاتی ہے آواز مِری
تیرگی، اُف یہ دھندلکا، مِرے نزدیک نہ آ
یہ مِرے ہاتھ پہ جلتی ہوئی کیا چیز گری
آج اس اشکِ ندامت کا کوئی مول نہیں
آہ احساس کی زنجیرِ گراں ٹوٹ گئی
اور یہ میری محبت بھی تجھے جو ہے عزیز
کل یہ ماضی کے گھنے بوجھ میں دب جائے گی
موت کے قدم اور بھی قریب آ گئے۔ شاعر کو اپنا سارا وجود ہلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اُسے دھماکہ سنائی دیتا ہے ایک خاموش دھماکہ اور جسم کے بند دروازے پر موت کی دستکیں مسلسل اُس کے کانوں میں آ رہی ہیں۔ اُس کی روح اس بھیانک رات کے خاتمے کی خواہش کرتی ہے۔ سارا ماحول ایک خاموش ماتم میں گم ہے۔ شاعر کی آواز اُس کے سینے میں کچل کر رہ جاتی ہے اور وہ اس سارے کرب کو محسوس کرتا ہے۔ موت کے سامنے اُس کا وجود بے یار و مددگار نظر آتا ہے مگر شاعر کے حوصلے اور ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ اس کیفیت کے پل پل بدلتے ہوئے ہر دہشت ناک لمحے کو ریکارڈ کر سکتا ہے۔ تاریکی اور دھُند کے اس منظر میں شاعر موت کو اپنے قریب آنے سے بلند آواز میں روکتا ہے، اگرچہ یہ بلند آواز بھی سینے میں دبی ہوئی ایک سرگوشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ شاید وہ موت کو نہیں بلکہ اپنی محبت کی یاد کو اپنے قریب آنے سے روک رہا ہے کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ موت کے اس ہولناک منظر نامے میں وہ اپنی ناکام محبت کا وجود چلتا پھرتا دیکھے۔ غم کی شدت سے اُس کی آنکھ میں آنسو آ جاتے ہیں اور اُس کے ہاتھ پر جا کر گرتے ہیں۔ شاعر اِن جلتے ہوئے آنسوؤں کی گرمی سے چونک اُٹھتا ہے اور تب اُسے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اب ندامت کے اِن آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں۔ اسی لمحے وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اُس کی محبوبہ جسے شاعر کی ناکام محبت اپنی اَنا کی خاطر عزیز ہے، وہ محبت کل کو ماضی کا ایک قصّۂ پارینہ بن کر رہ جائے گی۔ گویا موت وہ عدالت ہے جس کے سامنے شاعر اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہے۔ اُس کا پورا وجود، احساسِ جرم، ندامت، ملال، مایوسی اور دہشت کے ساتھ، اپنے جسم کے کٹہرے میں کانپ رہا ہے۔ یہ اس نظم کا نقطۂ عروج ہے۔ نٹشے نے کہا تھا ’’آخر میں آدمی صرف اپنے آپ کو جانتا ہے اور اپنے آپ کی پہچان اپنے سامنے، اپنے وجود کو حقیقی رنگ میں دیکھنا بہت جان لیوا اور مشکل کام ہے ‘‘۔
موت دراصل وہ آئینہ ہے جس میں شاعر اپنے وجود کو پہلی بار حقیقی روپ میں دیکھتا ہے۔ ایک دہشت سے بھرا ہوا لمحہ:
کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو
کیا خبر وقت دبے پاؤں چلا آیا ہو
زلزلہ، اُف یہ دھماکہ، یہ مسلسل دستک
کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو
اُف یہ مغموم فضاؤں کا المناک سکوت
کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو
توڑ ڈالے گا یہ کم بخت مکاں کی دیوار
اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جاؤں گا
شاعر اپنے آپ کو ایک بے معنی سی تسلّی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ دیکھ تو لو دروازے پر کون ہے ؟ شاید گزرا ہوا وقت چلا آیا ہو، یعنی ممکن ہے کہ اُس کے ماضی کی ناکام محبت دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو۔ دوسری طرف یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقت بجائے خود موت کی علامت ہونے کے سبب شاعر کو موت کی آمد کا اندیشہ ہو۔ آہستہ آہستہ اس قسم کے وہمِ ادراک اور التباسات کے ذریعے اُسے تقریباً اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ موت اُس کے جسم کی دیوار کو توڑنے والی ہے اور وہ اِس گری ہوئی دیوار کے ملبے کے نیچے کچل کر مر جانے والا ہے۔
نظم یوں تو اس مقام پر آ کر ختم ہو جاتی ہے مگر کیا واقعتاً ایسا ہی ہے ؟ نظم اِن سطور کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ ہمارے اپنے اندر، ہماری روح اس وجودی تجربے کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ شاعر کا یہ داخلی تجربہ ایک شاہ کار نظم میں ڈھل کر ایک صداقت بن جاتی ہے۔ کیر کے گارڈ نے لکھا ہے : ’’صداقت دراصل داخلیت کا دوسرا نام ہے۔ میں ’سچ‘ کو اُس وقت تک نہیں جان سکتا جب تک کہ ’سچ‘ میرے اندر زندہ نہ ہو اُٹھے ‘‘ اس نظم میں داخلی اور وجودی تجربے کی شدت ہمارے اندر ’موت‘ کو زندہ کر اُٹھتی ہے ‘‘۔
اختر الایمان کی یہ نظم موت اور زندگی کی سرحد پر ایک خود کلامی سے بھی عبارت کی جا سکتی ہے اور بہ قول اونامونو: ’’زندگی کے المیہ احساس سے دوچار کرتی ہے ‘‘۔ اونامونو کا خیال ہے کہ زندگی کا یہ المیہ احساس ہی وجودی فکر کی اساس بن جاتا ہے۔ انسانی ذہن مرنے کے بعد دوسری زندگی کے تصور کو قبول نہیں کر پاتا مگر اُس کی روح میں یہ شدید آرزو رہتی ہے کہ کاش زندگی ابدی ہوتی۔
زیرِ مطالعہ فن پارہ یعنی یہ نظم بہ عنوان ’موت‘ ایک دوامی قدر و قیمت رکھنے والا فن پارہ ہے۔ پوری نظم میں خود آگہی کی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہے جس میں انسانی روح کی ازلی اُداسی بھی شامل ہے کہ خود آگہی ہمیشہ افسردہ اور پُر ملال ہوتی ہے۔ نظم میں بعض مصرعوں کی تکرار اور باز آفرینی اس وجودی تجربے کی پُراسرار کیفیت کا محرک (Motive) ہیں۔ مکالموں یا خود کلامی کا بے حد تخلیقی استعمال، ذہنی اور جذباتی کیفیت کا انکشاف، یادوں کی کارفرمائی، خوابوں کا ہذیانی دھندلکا، حال کا بار بار ماضی سے وابستہ ہونا اور پھر جدا ہو جانا اور سب سے بڑھ کر ایک ماورائی مگر وجودی خوف و دہشت، نظم کو ایک اچھوتی تخلیق کا درجہ بخشنے میں کارگر ہیں۔ کہیں کہیں نظم پر سوانح عمری کا سا دھوکہ بھی ہوتا جس کا ایک کردار تشنہ کام محبت ہے اور ایک موت، مگر شاعر کا کردار بڑے وقار اور حوصلے کے ساتھ اِن دونوں کرداروں سے الجھتا ہے، آخری لمحے تک۔
ڈبلیو، بی۔ ایٹس نے کہا تھا: ’’شاعری اپنی ذات سے الجھنے کا نام ہے ‘‘۔
یہاں شاعر نہ صرف اپنی ذات بلکہ اپنی تشنہ کام محبت کی پرچھائیوں اور موت کی تنہائی کے آسیبوں سے بھی الجھا ہے اور اس طرح یہ نظم موت کے معتبر وجودی تجربے کی ایک بے حد روشن مثال بن گئی ہے۔ ممکن ہے کہ دوسروں کی قرأت مجھ سے مختلف ہو اور وہ اُسے ایک حبس زدہ اور موت جیسے فرسودہ موضوع پر لکھی ایک اوسط درجے کی نظم سمجھتے ہوں مگر میں نے اِس کا مطالعہ جس طرح کیا اور میرے حواس پر یہ جس طرح وارد ہوئی ہے، میں نے اُسی طرح بیان کرنے کی کوشش کی ہے یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ مرنا نہیں چاہتے کیوں کہ اُنھیں جینا نہیں آتا۔
٭٭٭
اختر الایمان سے بات چیت۔۔۔ اطہر فاروقی
س : ہندستان اور پاکستان کی موجودہ شاعری کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟
ج : اچھی شاعری کے لیے پہلی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ روایتوں کی حدود سے انحراف تو کرتی ہو مگر شاعر روایتوں سے کما حقہ، واقف بھی ہو۔ اچھی شاعری کی دوسری شرط شاعری کا نیا پن ہے۔ کوئی شاعر اس وقت تک نئی شاعری نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے ذہن میں نئی شاعری کا مفہوم واضح نہ ہو اور اس نے دنیا کے عظیم شعری سرمایے کا مطالعہ نہ کیا ہو۔ اردو میں لیک سے ہٹی ہوئی شاعری کرنے کے لیے شاعر کا سخت جان ہونا بھی بے حد ضروری ہے کیوں کہ اردو غزل کی سیکڑوں سالہ مستحکم اور مفروضات کے حصاروں میں مقیّد روایت کے مقابلے میں نئی شاعری کو آسانی سے استناد حاصل نہیں ہو سکتا۔ شاعری یوں بھی تو پیغمبرانہ کام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں اور جو ستائش و صلے کی تمنّا سے بے نیاز ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے مگر شاعری اور کلامِ موزوں دو مختلف چیزیں ہیں۔
آج ہندستان اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس خطے میں جہاں جہاں اردو داں عوام آباد ہیں وہاں وہاں غزل کے اثرات اور باز گوئی کی اجارہ داری ہے۔ ان دونوں ممالک میں تو خصوصاً رسمی شاعری کا غلبہ ہے۔ پاکستان کی نئی نسل پر فیض کی گہری چھاپ ہے اور فیض غزل کے اسیرِ محض ہیں۔ غزل کی روایت کو فیض سے منہا کرنے کے بعد فیض معدوم ہو جاتے ہیں۔ فیض کی تقلید نے پاکستان کی نئی شاعری کے بڑے حصّے کی باڑھ مار دی ہے۔ اس کے برعکس ہندستان کے بعض شاعر innovation کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ عظمت اللہ اور عبدالرحمن بجنوری کے بعد اردو شاعری میں جو نیا رجحان پیدا ہوا تھا، ن۔ م۔ راشد، میر اجی اور خود میں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور ہندستانی شعرا کی نئی نسل ہم سب سے اکتساب کر رہی ہے۔
س : اردو شاعری کے سیاق و سباق میں آپ کی بوطیقا پہلی نظر میں بہت نرالی معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں اردو شاعروں کی نئی نسل آپ کا احترام تو کرتی ہے مگر آپ کے دفاع کی کوئی عملی کوشش ہمیں جدید اردو شاعروں کے درمیان نظر نہیں آتی۔ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو کیا آپ کی شاعری کا حلقۂ قارئین روز بہ روز محدو دنہیں ہوتا جائے گا؟
ج : مستقبل میں کیا ہو گا، یہ سوچنا میرا کام نہیں۔ میں جو صحیح سمجھتا ہوں وہی کرتا ہوں۔ میرے شعری نظریے میں کوئی نرالا پن نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اردو شاعری کا قاری اور تخلیق کار دونوں ہی سہل پسند واقع ہوئے ہیں۔ انھیں زندگی کی پیچیدگیوں کا عرفان ہے ہی نہیں، جب کہ میرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی کی پیچیدگیوں سے ان کی تمام تر وسعتوں کے ساتھ لطف اندوز نہ ہونا، انھیں ممیز نہ کر پانا اور مواد کو پُرانے ڈھنگ سے پیش کرنا کلامِ موزوں تو ہو سکتا ہے، اسے شاعری کسی طرح نہیں کہا جا سکتا۔
میں شاعری کو مذہب کی طرح مقدّس اور مکمل انہماک سے کرنے کی شے سمجھتا ہوں۔ ہماری نسل کے لوگوں سے پہلے شاعری خارجی اور داخلی خانوں میں تقسیم تھی۔ داخلی شاعری میں تو غزل آ جاتی ہے اور خارجی شاعری میں نیچر وغیرہ کا بیان شامل ہوتا تھا لیکن جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے وہ خارجی اور داخلی دونوں دائروں سے باہر ہے۔
I do want and try to discover the man inside
And outside with all the complexities.
اور یہیں سے میرا شعری رویہ تمام پیش رو اور ہم عصر شعرا سے مختلف ہو جاتا ہے۔ میرے ہم عصر شعرا میں راشد اور میرا جی شاعری کے قدیم ڈھرے سے بالکل ہٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ہمارے بعد جو لوگ آئیں گے انھیں ہم سے آگے جانا ہو گا۔ جب لوگ سامنے آئیں گے تو وہ چلیں گے بھی کیوں کہ آخری آدمی تو کوئی نہیں ہوتا۔
س : ہندستان اور پاکستان کی شاعری کے درمیان آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
ج : میں سمجھتا ہوں کہ ہندستان میں بہتر کہنے والے لوگ ہیں اور یہاں اچھی شاعری کی پذیرائی کا بہتر اسکوپ موجود ہے۔ پاکستان کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہاں لکھنے اور پڑھنے والے سب آسودگی کے اسیر ہیں۔ آج ہندستانی معاشرہ مکمل طور پر کمپیوٹر ایج میں داخل ہو چکا ہے جب کہ پاکستانی سماجی ڈھانچہ پوری طرح جاگیر دارانہ نظام اور اس کی اقدار کے تابع ہے۔ عام ہندستانی شہری کی زندگی پاکستانی شہری سے بہت مختلف اور پیچیدہ ہے اور زندگی کی پیچیدگیوں کا بیان ہندستان کی ہر زبان کی شاعری میں موجود ہے۔
س : پاکستان اور ہندستان کے درمیان نفرت کی جو سیاسی کھیتی پھل پھول رہی ہے، اس کا اثر ادب پر بھی پڑا ہے۔ ہمارے کئی بلند پایہ شعرا کے تئیں پاکستانی ناقدین جانب دارانہ رویہ رکھتے ہیں۔ فیض کو واحد عہد ساز شاعر ثابت کرنے کی بیماری تو اب مضحکہ خیز حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اس کے سدِّ باب کی کوئی راہ ہے؟
ج : پاکستانی معاشرے کے مزاج میں عدمِ تحمّل اور عدمِ رواداری کا دخل بہت گہرا ہے، جب کہ ہندستان میں معاشرتی صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ ویسے بھی پنجاب کے لوگوں کا خاصّہ ہے کہ وہ اپنے آدمی کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ خوش حال صوبہ ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں اور پاکستانی سیاست پر پنجاب کی اجارہ داری رہی ہے اور فیض کے حوالے سے وہی اجارہ داری پنجابی پاکستان کے تمام اردو داں عوام پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پنجابیوں کی یہ پرانی عادت ہے۔ سر عبد القادر ایسے تعلیم یافتہ شخص کے یہاں اقربا پروری یعنی سخن فہمی سے زیادہ طرف داری کا رجحان نظر آتا ہے۔ تاثیرؔ، فیضؔ، حفیظ ؔ جالندھری وغیرہ تمام لوگ ان کے فدویِ محض تھے۔ ہندستان کا موجودہ معاشرہ بہ حیثیتِ مجموعی اپنے ماضی سے بالکل مختلف ہے۔ معاشرے میں ہر سطح پر شکست و ریخت کا عمل جاری ہے جو بالکل فطری ہے، اسی لیے، ہندستانی ادب میں آپ کو کہیں بھی باسی پن نظر نہیں آئے گا۔
س : آپ کا مجموعہ ’’زمین زمین‘‘ آپ کے شعری سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ اس کے پیش لفظ میں آپ نے لکھا ہے کہ پہلے ہم یہ طے کریں کہ کلاسیکی ادب کی تعریف کیا ہے۔ ایک عہد گزر نے کے بعد آپ اپنے عہد کے کن لوگوں کو روایت Legendمیں شمار کرتے ہیں ؟
ج : یہ بڑا مشکل سوال ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ذہن میں بھی نہیں آتے، آخر میں ان ہی کے نام محفوظ رہ جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کی مکمل تخلیقات یا ان کے نام کا کوئی ایک حصّہ باقی رہ جاتا ہے۔ فیض ہمارے عہد کے ایک قابلِ ذکر شاعر ہیں لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ وہ کسی بھی عنوان سے اور کسی بھی موضوع پر شاعری کریں، غزل کے حصاروں سے نکل ہی نہیں پاتے۔ ان کے یہاں Superficiality ہے اور Deep penetrationنہیں کے برابر ہے۔
س : آپ کا نظریۂ شعر کیا ہے ؟ بڑی شاعری کیسے وجود میں آتی ہے یا آ سکتی ہے ؟
ج : شاعری میں شاعر کی نفسیات کار فرما ہوتی ہے اور اس شخصیت کی تشکیل و ترتیب میں شاعر کے اپنے ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے جو محرک کے طور پر جاری وساری رہتا ہے۔ شاعر اپنے ماحول سے جو اثرات قبول کرتا ہے ان کے مرکّب میں اس کے تعصبات و توہمّات بھی شامل ہوتے ہیں اور مثبت اقدار بھی مگر اچھی شاعری کا ایسا کوئی پیمانہ مقرر کرنا ممکن نہیں جس کی تشہیر اردو ناقدین کرتے رہتے ہیں۔ اگر شاعر کا مزاج سطحی ہے تو شاعری بھی سطحی ہو گی اور اس میں زندگی کے مسائل کا بیان بھی سطحی ہی ہو گا۔ اردو غزل کی زلف کے اسیر تمام اساتذہ کے یہاں زندگی کے مسائل کے بیان میں تہ داری نام کی شے سرے سے مفقود ہے اور اردو تنقید کا لہجہ بھی جاگیر داری دور کی غزل کا لہجہ ہے۔
س : آپ کے بعض ہم عصر جو ابتدا میں نئی شاعری کے نقیب تصوّر کیے جاتے تھے اور ایک زمانے میں ان کا بڑا نام تھا مگر آہستہ آہستہ ان کا اثر معدوم ہو رہا ہے۔ مثلاً علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی وغیرہ، اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج : نئی شاعری اور نعرے بازی میں بڑا فرق ہے۔ خطابت بھی نئی شاعری میں شمار نہیں ہو سکتی۔ موٹی موٹی ادق کتابوں اور تنقیدی اصطلاحات کو حفظ کرنے اور انھیں شاعری میں کھپا دینے کا نام بھی شاعری نہیں ہے۔ شاعری نام ہے پورے فہم و ادراک کے ساتھ زندگی کے مسائل کے بیان کا اور اس کے لیے بڑی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل یہ لوگ انقلابی کبھی تھے بھی نہیں۔ یہ مارکسسٹ بھی نہیں تھے، بلکہ صرف سوویت یونین کے مدح خواں تھے۔ اشتراکیت کو مذہب سے متصادم کرانے میں ایسے نام نہاد انقلابیوں اور سوویت یونین کے مدح خوانوں کا بڑا اہم رول رہا ہے۔
س : ترقی پسند تحریک کے عروج کے بعد اس کا ردِّ عمل ’’جدیدیت‘‘ کے نام سے ادب میں ظہور پذیر ہوا۔ اس تحریک کو رجحان کا نام دیا گیا۔ البتّہ اس سے وابستہ اہلِ قلم کے یہاں کافی توانائی تھی جو آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی اور ایسے تمام لوگ جن سے بڑی توقعات وابستہ تھیں، آہستہ آہستہ پس منظر میں چلے گئے۔ جدیدیت کی عمر اور سرمایہ ترقی پسندوں کے مقابلے کہیں نہیں ٹھہرتا۔ آپ ان دونوں تحریکوں کا موازنہ کس طرح کرتے ہیں ؟
ج : جدیدیت اور ترقی پسند تحریک دو مختلف سیاسی و نظریاتی ممالک کے تابع تھیں۔ دونوں ہی اپنے آقاؤں کے سامنے اپنی افادیت دیر تک قائم نہ رکھ سکیں۔ میرے خیال میں نئے ادب اور نئی شاعری کا مستقبل اس نسل اور لکھنے والوں کے اس گروہ سے وابستہ ہے جو کسی تحریک سے وابستہ نہیں۔ یہ نئی نسل تبدیلی چاہتی ہے لیکن اس کے سامنے تبدیلی کا واضح تصوّر موجود نہیں ہے۔ نئی شاعری کی راہِ پُر خار پر چلنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں اور اس کا حوصلہ مجھے موجودہ زمانے میں کسی کے یہاں نظر نہیں آتا۔ لیکن نئی نسل چھان پھٹک کے معاملے میں پُرانی نسل سے کافی مختلف ہے۔ یہ نئی نسل شاعری کر بھلے ہی نہ سکے مگر اس سے محظوظ ضرور ہو سکتی ہے۔ پُرانی نسل میں تو یہ وصف تھا ہی نہیں۔
جہاں تک مارکسی نظریۂ ادب کا سوال ہے تو اردو ادب پر اس کی گرفت کبھی مضبوط نہیں ہو سکی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کا سبب یہ قطعاً نہیں کہ مارکسی نظریہ کوئی کمزور ادبی نظریہ ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے سکّہ بند اشتراکی اہلِ قلم کو نہ تو ادب کی صحیح فہم تھی، نہ ہی اشتراکی فلسفے کی۔ پھر آخر نعرے کے سہارے گاڑی کتنے دن چل سکتی تھی؟آج سوویت یونین چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ ہندستان میں کچھ مفاد پرست ابھی بھی ترقی پسندی کے نام پر اشتراکیت کا کفن فروخت کرنے پر پوری تن دہی سے کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ ان بے وقوفوں کو ادب کی فہم تو کبھی بھی نہیں رہی۔ میں سوویت ادب کی عظمت اور اس کی تاثر انگیزی کا تہِ دل سے معترف ہوں مگر یہ ادب انقلابِ روس سے پہلے کا ادب ہے۔
جہاں تک عالمی سطح پر ادب کے نئے منظر نامے کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مشرقِ وسطیٰ کی نئی ریاستوں میں ادبی احیا ضرور ہو گا جو عالمی ادب کو نئی سمت عطا کرے گا۔ لیکن میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ادب کا مجموعی مزاج کچھ ایسا ہے جس پر نہ تو ماضی میں سوویت ادب گہرے اثرات مرتب کر پایا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے امکانات ہیں ؟
س : کیا آپ اپنے علاوہ بھی کسی ہم عصر شاعر کو اس پایے کا تخلیق کار تصوّر کرتے ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے اردو ادب میں کوئی اضافہ کیا ہے ؟
ج : میرے خیال میں ادب میں اضافے کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ اضافہ ہوتا ہے، خیالات کا، رجحانات کا، زبان کے دروبست کا، اس میں وسعت اور اس کے استعمال کا ۔ میں بار بار زبان کو وسعت دینے کی بات اس لیے کرتا ہوں تاکہ جتنے موضوعات و مضامین زندگی کا حصہ ہے، ان سب کو نظم کیا جا سکے۔ ہمارے سماج میں ریل گاڑی بھی ہے، موٹر بھی ہے، جہاز بھی ہے اور یہ سب کسی نہ کسی طرح ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں۔ میں نے اپنی شاعری میں ایسے تمام لفظوں کو علامت کے طور پر وسیع تر مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کا اظہار غزل کے ذریعے بہت سطحی انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ میں غالبؔ کو غزل کا نقطۂ عروج مانتا ہوں اور غالب کے بعد کی منزل کو صرف اور صرف باز گوئی سے تعبیر کرتا ہوں۔
س : اقبال کی غزلیہ شاعری کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟
ج : غزل اقبال کے مضامین کی متحمّل ہو ہی نہیں سکتی۔ اقبال نے صرف غزل کی ہیئت کو استعمال کیا ہے، ان کے مضامین تو نظم کے مضامین ہیں۔ خودی کا سرِ نہاں، لا الہ الا اللہ ان کی غزل ہے۔ غزل ایسی کہاں ہوتی ہے ؟ اقبال سے پہلے یا ان کے بعد کسی نے ایسی غزل کہی ہے، ذرا اس نوعیت کے اشعار تو دیکھیے :
میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی
اسلوب و لفظیات سے لے کر موضوعات تک اقبال کی شاعری کا ڈھرا روایتی اردو شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ انھوں نے کہیں کہیں نظم کو غزل کے سانچے میں ڈھال کر بات کرنے کی کوشش کی ضرور ہے مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے کیوں کہ ان کی شاعری کا مزاج اردو غزل کے مزاج سے بالکل مختلف ہے۔
س : بہت زمانے تک آپ کو نظر انداز کیا گیا اور آپ ستائش و صلے کی ہر تمنّا سے بے نیاز ہو کر پورے انہماک سے اپنا کام کرتے رہے۔ اسی زمانے میں آپ نے جو کچھ لکھا، آج دنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہو رہی ہے لیکن اِدھر کچھ برسوں میں اچانک یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ آپ کو بہت سے انعامات ملنا شروع ہو گئے ہیں جب کہ ساہتیہ اکادمی اوارڈ ملنے کے بعد تقریباً 25سال تک آپ کو کوئی بھی قابلِ ذکر انعام نہیں ملا۔ آپ کو انعام دینے والے ادارے وہ ہیں جن کے یہاں انعام کی بنیادmerit پر نہیں بلکہ پیروی اور گروہ بندی پر ہوتی ہے۔ تماشہ تو یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں اردو کے یہ ادارے آپ کو بھی انعام دیتے ہیں اور ساتھ ہی کسی نہایت گھٹیا شاعر کو بھی۔ آپ ہنسی خوشی ایسے تمام انعامات قبول کر رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے اچانک بلا تخصیص انعامات قبول کرنا شروع کر دیے ؟
ج : آپ کا سوال کافی پیچیدہ اور الجھن میں ڈالنے والا ہے۔ آپ کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ انعامات کا فیصلہ meritکے مطابق نہیں بلکہ پیروی اور گروہ بندی کے سہارے ہوتا ہے۔ میرا مزاج ہمیشہ سے یہ ہے کہ میں چیزوں کو وقت پر چھوڑ دیتا ہوں اور اپنے لیے کسی سے لڑتا نہیں۔ لڑنے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام کرتا رہتا ہوں۔ گیان پیٹھ کے لیے اب سے پہلے تین بار میرے نام پر غور کیا جا چکا ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ یہ انعام مجھے کبھی نہیں ملے گا کیوں کہ گیان پیٹھ دینے والوں کا معیار ہے ہندوتو (Hindutva) ہے یعنی تخلیقات میں ہندو تہذیبی احیا culturalکہیں نہ کہیں نظر آنا چاہیے جب کہ میں احیاپرستی کے نظریے ہی کے خلاف ہوں۔ میں تو یہ مانتا ہوں کہ وقت آگے کی طرف جا رہا ہے اور ہمیں وقت کی رفتار کے مطابق اپنی رفتار کو تیز کرتے رہنا چاہیے۔ آج جب کہ تمام دنیا ایک خاندان بن چکی ہے، کوئی ذی شعور لکھنے والا ہندو احیا پرستی کے فروغ کی مجرمانہ کوشش نہیں کرے گا۔ مراٹھی، گجراتی اور اڑیا وغیرہ زبانوں کے ادیبوں کو یہ انعام اس لیے ملتا ہے کیوں کہ ان کی ساری علامتیں مہا بھارت سے آتی ہیں، گیتا سے آتی ہیں یا پھر رامائن سے آتی ہیں۔ قرۃ العین کو انعام ملنے کا سبب بھی یہی تھا۔ مجھے اگر یہ انعام ملا بھی تو اسی وقت ملے گا جب انعام دینے والی کمیٹی کے اراکین کے سامنے کوئی دوسرا نام نہ ہو گا۔ اگر ایسا بھی ہوا تو میں انعام قبول کر لوں گا کیوں کہ میں نے انعام کے حصول کے لیے نہ تو نظریاتی مفاہمت کی اور نہ ہی کمیٹی کے اراکین کی خوشامد۔ پھر بھی اگر مجھے انعام ملتا ہے تو میرے خیال میں مجھے اسے قبول کر لینا چاہیے کیوں کہ یہ میرا حق ہے۔ مجھے اکثر انعام اسی طرح جھک مار کر دیے گئے ہیں۔ میرا رویہ یہ ہے کہ اگر آپ انعام نہیں دیتے تو اپنے گھر جائیے اور اگر انعام دیتے ہیں تو مجھ پر کوئی احسان نہیں کرتے۔ اسی لیے میں انعام قبول کرنے کے بعد بھی اکثر اسے لینے نہیں جاتا۔ دلی اردو اکادمی نے مجھے کئی برس پہلے بہادر شاہ ظفر انعام دیا تھا۔ مجھ سے پہلے دہلی اردو اکادمی ان تمام لوگوں کو یہ انعام دے چکی تھی جو مجھ سے کمتر ہیں۔ جب یہ انعام لینے والا کوئی نہیں رہ گیا تو پھر مجھے یہ انعام دیا گیا۔ اگر کوئی انعام مجھے دیا جاتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرا حق تھا اور اگر آپ نے نہیں دیا تو پھر یہ آپ کی بد دیانتی اور زیادتی ہے۔
س : فلم جیسے طاقت ور میڈیا سے ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے آپ کی طویل وابستگی رہی ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں آپ کا ہندستان میں اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا تجزیہ ہے ؟
ج : میرا اپنا ماحول کم و بیش اردو کا ہے۔ میں مہاراشٹر میں رہتا ہوں جہاں کچھ برس تک یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ اردو کمزور ہو رہی ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے۔ گزشتہ چھے سات برسوں میں میں نے اپنی فلمی مصروفیات کو کافی کم کیا ہے اور اس زمانے میں ہندستان کے اردو عوام سے میرا کافی رابطہ رہا۔ اپنے گذشتہ چھے سات برسوں کے تجربات کی روشنی میں مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلّف نہیں کہ ہندستان میں اب اردو صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ آج نہ تعلیم یافتہ مسلمان اپنے بچوں کو اردو پڑھا رہا ہے اور نہ مسلم لیڈر شپ کو اردو کے مسائل سے کوئی دل چسپی ہے۔ تقسیمِ ہندستان کے نتیجے میں ہندستانی تہذیب کی پوری عمارت ہی زمین بوس ہو گئی تھی۔ اگر اردو کے خلاف حکومت کی منظم سازشوں کا تسلسل برقرار رہا تو ہندستان کا سیکولر کردار بھی ختم ہو جائے گا اور اگر سیکولر کردار ختم ہو گیا تو پھر ہندستان کی سالمیت بھی کہاں باقی رہے گی؟
س : ایک طویل عرصے سے خود اردو داں حضرات کا ایک طبقہ اس امر پر زور دیتا رہا ہے کہ اگر اردو کا رسمِ خط تبدیل کر دیا جائے تو اس کا تحفّظ ممکن ہو سکتا ہے کیوں کہ نئی نسل اسے فارسی رسمِ خط میں نہیں پڑھ سکے گی۔ ان کا ایک استدلال یہ بھی ہوتا ہے کہ دیوناگری لپی کے ذریعے غیر مسلم حضرات بھی اردو کا مطالعہ کر سکیں گے اور اس سے اردو کی ترویج و توسیع کے امکانات روشن ہوں گے۔ آپ کے خیال میں اردو رسمِ خط کو تبدیل کرنے کی تجویز کے دلائل کس حد تک قابلِ قبول اور منطقی اعتبار سے درست ہیں ؟
ج : اردو کا موجودہ رسمِ خط تبدیل کرنے کی کوئی معقول وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ جو زبان کے مخصوص لسانی رویوں اور سماجی تناظر میں صدیوں کے بعد تشکیل پاتا ہے۔ ہندستان میں اردو کو زبردستی جب مسلمانوں سے وابستہ کر ہی دیا گیا ہے تو پھر اس کے رسمِ خط کی تبدیلی صرف مسلمانوں کے سیاسی اورسماجی حالات کے تناظر میں ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ آج اردو کا معاشی پہلو معدوم ہو چکا ہے اور اگر مسلمان پھر بھی اسے پڑھتا ہے توکسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ اس کا رسمِ خط تبدیل کر دیا جائے۔ اگر آپ اردو کا رسمِ خط بدل دیں گے تو اس کا مخصوص مزاج ہی ختم ہو جائے گا۔ اب رہا سوال ہندو اکثریت کے خوف کا جس کا ذکر بالعموم دبی زبان میں یا اشاروں کنایوں میں کیا جاتا ہے تو اگر ہر بات کا فیصلہ ہندو اکثریت کی خواہشات کے مطابق ہی ہونا ہے تو پھر اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے۔ ہندو اس ملک میں اکثریت میں ہیں اور اگر اکثریت کے زعم میں وہ اقلیتوں کی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی مالک ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ اردو والوں کو اب تبدیلیِ رسمِ خط کے سوال پر سوچنا ہی نہیں چاہیے۔
تبدیلیِ رسمِ خط کا مطالبہ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد فرقہ پرست ہندوؤں کی طرف سے پوری شدّ و مد کے ساتھ کیا جانے لگا تھا۔ اس مطالبے اور اردو کی تباہی کے پسِ پشت نہرو خاندان کے سیاسی عزائم کار فرما تھے جنھیں ہندو سرمایہ داروں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اردو کو تباہ کرنے کی سازش کا مقصد ہندستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی تہذیب کو نیست و نابود کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اردو کا رسمِ خط اردو تہذیب کی بنیاد ہے جسے تبدیل کر دینے کے بعد اردو تہذیب سے ہندی اور ہندو تہذیب کو کوئی خطرہ باقی نہیں رہ جائے گا۔ اگر اردو تہذیب اور اردو زبان ہندستان میں زندہ رہتی ہیں تو پھر کسی دوسری تہذیب اور ہندی زبان کا چراغ جلنا نا ممکن ہے۔ اگر آج بھی اردو تعلیم کی سہولتیں مہیا کر دی جائیں تو دس سال کے بعد ہندوؤں کی نئی نسل تک ہندی کو خیر باد کہہ کر اردو کو اختیار کر لے گی کیوں کہ ہندی تو کوئی زبان ہی نہیں ہے۔ فسطائی ہندوؤں کی سازش صرف اردو رسمِ خط تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی طرح ہندستان میں مسلم تہذیب کے تمام عناصر کو ختم کر کے ہندو راشٹر کے نام پر نراج کا خواب دیکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی۔ اس تحریک کے حامیوں میں پنڈت نہرو اور ان کے کچھ مسلمان دوست مثلاً پروفیسر عبد العلیم وغیرہ پیش پیش تھے۔ اپنی اس تجویز کی حمایت کے لیے ان اردو دشمنوں کو کرایے کے کچھ اور مسلمان بھی مل گئے تھے مگر اردو عوام نے پوری قوت سے اس تحریک کو مسترد کر دیا۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں رہنا ہے اور اردو زبان نیز اپنی ثقافت و تہذیب کا تحفّظ کرنا ہے تو اس کے لیے انھیں ایسا لائحۂ عمل مرتب کرنا ہو گا جس میں حکومت کا تعاون کہیں شامل نہ ہو، کیوں کہ حکومت کے تعاون کے ساتھ سازشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ حکومت اردو کو جتنی مراعات دیتی جا رہی ہے، اردو اتنی ہی تیزی سے رو بہ زوال ہو رہی ہے۔
اردو رسمِ خط کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے سنسکرت کو تھوپنے کی غرض سے ایک احمقانہ جواز یہاں کی پرمپرا یا روایت کا حوالہ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جواز بھی انتہائی جاہلانہ ہے۔ اوّل تو سنسکرت خود غیر ملکی زبان ہے جو آریوں کے ساتھ یہاں آئی تھی اور عوامی زبان بننے کی صلاحیت سے بالکل محروم تھی۔ ہندستان کی پرمپرائیں مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں۔ آریوں کے آنے سے پہلے ہندستان کی پرمپرا کچھ اور تھی۔ آریوں کے آنے کے بعد بھی یہاں اکثریت کی زبان سنسکرت نہیں تھی بلکہ ایک بہت چھوٹا طبقہ سنسکرت بولتا تھا۔ ہندستانی تاریخ کے کسی بھی دور میں سنسکرت یہاں کی زبان نہیں رہی۔ یہاں آنے والے ہر حکمراں نے یہاں بولی جانے والی زبانوں کو اختیار کر لیا۔ پھر ہندستان کی پرمپرا سنسکرت کی پرمپرا کہاں ہوئی؟ جو لوگ اردو رسمِ خط کو غیر ملکی قرار دے کر تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں انھیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ آریہ بھی غیر ملکی تھے اور سنسکرت انھیں کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ اس طرح ہندی کا رسمِ خط بھی غیر ملکی ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے سے صرف اور صرف ملک کے لیے خطرات بڑھیں گے جو مبارک بات نہیں۔
(یہ انٹرویو میری کتاب ’گفتگو اُن کی‘ انجمن ترقی اردو (ہند)، 2005 میں شامل ہے ۔ ا۔ ف.)
٭٭٭
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com/2016/04/urdu-adab-akhtar-ul-iman-number.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید