فہرست مضامین
- ارتسامِ لمس
- احمد رشید (علیگ)
- انتساب
- پروفیسر شافع قدوائی
- احمد رشید کی نثری نظمیں : خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق
- سیفی سرونجی
- احمد رشید کی نظمیہ شاعری
- آغاز
- تمہید
- دعا
- فی احسنِ تقویم
- میں
- اجالا
- مکتی
- زندگی
- انقلاب
- سرد لمحہ
- آزادی
- سائے
- منزل
- سمے
- سرمایہ
- سرخ گلاب
- سگریٹ
- وہ اپنا ہی لہو ہے
- احساسِ غم
- الوداع
- دھبے
- شریک غم
- زنجیر
- شکتی شالی
- خاموشی
- ذرا سوچو
- خونِ شہیدانِ وطن
- میچنگ کلر
- سنہرے دن، طلائی راتیں
- منزلِ گم شدہ مسافر
- روشنیِ شبِ حیات
- ٹکڑے ٹکڑے آسمان
- خوابِ زندگی
- جمالِ فن
- انتظار کی گرد
- ایک دن یوں ہو گا
- خدا ایک حقیقت ہے
- خوشبوئے ثمن
- دستک
- میرا کمرہ
- تلاش
- آشا
- نراشا
- ترشنا
- طوفان
- جمہوریت
- چنہہ
- نیل کنٹھ
- راز
- ادھورے سپنے
- جنگ
- تم کیا ہو؟
- انتظار
- سپنا
- وہ پہلی نظر
- آنسو
- خواب معتبر
- آج کی خبر
- سفر
- امرت کی تلاش
- انجام
- گنجن بن
- پرائشچت
- کامرانی
- یاترا
- وشواس
- موت
- انکشاف
- شناخت
- درندہ
- اونچا قد
- اعتراف
- تعمیر
- منظر
- دعویٰ
- چشم پوشی
- احتساب
- زہر
- التجا
- وہ لمحہ
- آرزو
- کورنٹائین
- معتکف
ارتسامِ لمس
احمد رشید (علیگ)
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
انتساب
والدین
کے نام
پروفیسر شافع قدوائی
احمد رشید کی نثری نظمیں : خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق
تخلیقی اظہار کا وفور صنفی حد بندیوں کا تابع نہیں ہوتا اور اکثر یہ اصناف کے بے لچک درجہ بندی پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ مرتعش اور پہلو دار اظہار نثر اور نظم کے باہمی ادغام سے نمو پذیر ہوتا ہے اور اس کی سب سے بہتر مثال نثری نظم ہے۔ تخلیقی دبازت کا کثیر حسی بیانیہ عرصہ قائم کرنے والے متعدد شعراء بشمول شفیق فاطمہ شعریٰ، خلیل مامون، فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید، سارہ شگفتہ، شائستہ یوسف، خورشید اکرم اور شبنم عشائی نے اس صنف کو ایک نئے شعری آہنگ کے طور پر رائج کرنے کی سعی کی اور ان سے قبل خورشید الاسلام، محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی تھی مگر اوزان اور بحور اور ردیف و قافیہ کے قتیل اردو معاشرہ میں نثری نظم کو قبول عام کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔
مغرب میں علی الخصوص امریکہ میں نثری نظم کے تجربے پر ڈیڑھ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مشہور امریکی ناول نگار شیرووڈ اینڈرسن(Sherwood Anderson 1876) نے اپنی تحریروں میں نثر اور نظم کی تفریق حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اینڈرسن کی کتاب (Winessberf ohio, 1919) شیروڈ اینڈرسن اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔ دونو بل انعام یافتہ امریکی ادیبوں ارنسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway 1889-1961) اور ولیم فوکنز (William Faulkner 1897-1962) نے اینڈرسن کے گہرے اثرات کا برملا اعتراف کیا اور ہیمنگوے نے تو کثرت سے نثری نظمیں بھی لکھیں۔ اس امر سے واقفیت عام نہیں ہے کہ فرانز کافکا (Franz Kafca 1883-1924) اور جیمس جوائس (Joyce 1824-1924) نے بھی نثری نظمیں لکھیں۔ نثری نظم تخلیقی ارتباط کے اسرار کی نئی منزلوں کا پتہ دیتی ہے لہٰذا جامد تقلید سے گریزاں فنکار اسے مسلسل ذریعہ اظہار بناتے رہتے ہیں۔ اردو میں بھی کچھ یہی صورت نظر آتی ہے۔ خیال انگیز افسانوں کا ایک مخصوص اسلوب قائم کرنے والے عہد حاضر کے معروف افسانہ نگار احمد رشید نے اب نثری نظم کو اپنی تخلیقی تگ و تاز کا محور بنایا ہے۔ احمد رشید کو متعین بحور، ردیف اور قوافی کا مربوط نظام، مخصوص صنفی ہیئت اور جذباتی مدارات کا شعوری اہتمام خوش نہیں آتا۔ اس عمومیت سے گریز پائی سے ان کی تازہ کاری کی کشاکش کا ثمرہ ان کی سو سے زائد نثری نظمیں ہیں جواب ایک مجموعہ کے طور پر شائع ہو رہی ہیں۔ اردو میں نثری جملوں کا اختتام فعل پر ہوتا ہے لہٰذا مترنم آہنگ کی تشکیل بہت دشوار ہو جاتی ہے تاہم مصرع کے مقابلے میں جملہ زیادہ خود مکتفی(Self contained) ہوتا ہے۔ لیکن احمد رشید نے اس تصور کی بھی تکذیب کی ہے۔ جملے میں الفاظ سیاق، در و بست، اور تراکیب الفاظ کے ادغام سے اپنا وجود قایم کر کے معنی کی سطح پر سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ احمد رشید نے اپنی نظموں کی اساس حیات انسانی کے متضاد اور متناقض رویوں کا بیک وقت اثبات اور استر داد کرنے والے جملوں پر رکھی ہے۔ لمحہ منور کی سحر انگیزی کو حسی واردات کے ایک متحرک سلسلہ کے طور پر پیش کرتی ہیں اور معنی کی حتمی ترسیل کو موخر کرتی ہیں اور قاری کو قرأت مکرر کی طرف راغب کرتی ہیں کہ یہی اچھی شاعری کا لازمہ ہے ۔ تشدد، جبر، بے رحمی اور انتظام سے نمو پذیر ہونے والی دنیا میں مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی ضوابط محض طاقت کے محور پر گردش کرتے ہیں۔ عفو و درگزر کی بالا دستی پر اصرار کرنے والا ہر نظام تشدد اور انتقام کو بنظر استحسان دیکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے اجتماعی حافظہ میں زیادہ تر ان افراد کے نام محفوظ ہیں جنھوں نے انسانی خون کی ارزانی کو روا رکھا۔ اصل قوت جارحانہ رد عمل کو شعوری طور پر مسلسل موخر کرتے رہنا ہے۔ سزا دینا در اصل اپنی لاچاری اور بے بسی کا اعتراف ہے کہ طاقتور انسان کو قتل تو کر سکتا ہے مگر اس کے عیوب اور نقائص سے درگزر نہیں کر سکتا۔ طاقت جلا پاتی ہے معاف کرنے سے۔ اس لیے انسان کی ساری تگ و دو انا کی آبیاری سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ انا کی تسکین معافی سے زیادہ ہوتی ہے۔
احمد رشید کی ایک مختصر نظم اسے ایک Lived Reality کے طور پر پیش کرتی ہے۔ بہت کمزور انسان تو معافی کرنے پر مجبور ہے مگر طاقت ور عفو سے گریز کر کے اپنی ضمیر کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے اور یہی اصل ناتوانی ہے۔ رواداری اور خوش خلقی سے طاقت کا حصول نا ممکن نہیں اور یہی اصل طاقت کی امتیازی صفت ہے۔
’’شناخت‘‘
ہم اس سے ناتواں ہیں
کہ ہمارے پاس
عفو نہیں
ور نہ معافی
شناخت ہے
طاقت کی
اجتماعیت انسانی حرمت کی پامالی سے برگ و بار لاتی ہے اور اسے ہدف ملامت شاذ ہی بنایا جاتا ہے۔ افزونی حیات کو دو چند کرنے والی قدریں اپنی عددی قوت پر نازاں اکثریت خاطر میں نہیں لاتی۔ اس صورت حال کو ہجومیت یا(Mobocracy) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاشرتی ضابطوں سے انحراف کی سخت سزا جانور اور فرد کو دی جاتی ہے مگر جب انحراف شدید تر ہو کر معاشرے میں بڑے پیمانے پر نفوذ کر جائے تو پھر مکر وہ عمل مباح کیوں کر ہو جاتا ہے۔ احمد رشید نے پاگل پن کے تئیں متضاد انسانی رویے Cronic posturing کو صورت میں پیش کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک طاقت کے نشے میں دھت اکثریت کا عمل پاگل پن کی ہی ایک شکل ہے۔
’’شکتی شالی‘‘
جانور پاگل ہو جائے
گولی ماردو
اگر انسان پاگل ہو جائے
پاگل خانے میں بند کر دو
بہو جن پاگل ہو جائے
کوئی پاگل نہ کہنے پائے
یہ کیسا پاگل پن ہے
احمد رشید نے حیات آفریں اقدار جو فی زمانہ طاق نسیاں کی زینت بنا دی گئی ہیں، پر اظہار تاسف نہیں کیا ہے بلکہ ان کے انسانی سیاق کو واضح کیا ہے گو کہ نظم تلقین میں منتقل ہو گئی ہے۔
’’اجالا‘‘
اگر تمہارے پاس
شمع ہے
اسے جلتے رہنے کے لیے
دوسروں کی موم بتیاں جلاؤ
ور نہ تمہاری
روشنی بھی
بجھ جائے گی
ہمارے عہد کو ما بعد صداقت دورPost truth period کہا جاتا ہے۔ یعنی اب سچ ایک اضافی شے ہے ٹھوس مرئی حقائق جذباتی رد عمل پر فوقیت نہیں رکھتے اور اب حقیقت وہی ہے جسے انسان اپنی تہذیبی، اعتقادی، اور لسانی ضروریات کی تکمیل کی خاطر وضع کرتا ہے۔ بقول میر ’’یاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘
اس صورت حال کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ احمد رشید کے مطابق اپنے ضمیر کی آواز پر، جو آلائشوں سے پاک ہوتی ہے، لبیک کہہ کر انسان سچ کا اثبات کر سکتا ہے اور اس کا حافظہ ہمیشہ سرخرو رہے گا اور یہی مکتی کی راہ ہے۔
’’مکتی‘‘
سدا ستیہ بولو
مکتی اس میں چھپی ہے
یوں
تمہیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں
کہ تم نے کیا بولا تھا
انسان انقلاب کا داعی ہوتا ہے مگر ذاتی طور پر Status quo کا مؤید اور اپنے کو بدلنے پر تیار نہیں ہوتا۔ فرد کے بدلنے سے معاشرہ تبدیل ہوتا ہے۔ شاعر اس نکتے سے واقف ہے۔
’’انقلاب‘‘
اپنے آپ کو بدلو
جو تم
اس سنسار میں
دیکھنا چاہتے ہو
پھر اس سنسار کو بدلو
جیسا
تم دیکھنا چاہتے ہو
احمد رشید نثری نظمیں خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق وا کرتی ہیں جس کی پذیرائی لازمی ہے۔
٭٭٭
سیفی سرونجی
احمد رشید کی نظمیہ شاعری
احمد رشید ایک نامور افسانہ نگار کی حیثیت سے تو جانے ہی جاتے ہیں ان کے ہندوستان، پاکستان کے تمام معیاری رسالوں میں اہتمام سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ لیکن وہ افسانوں کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً نظمیں بھی کہتے بھی رہے ہیں۔ وہ بھی خاص طور پر نثری نظمیں۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ نثری نظم کا وجود صرف اس وجہ سے ہوا کہ جو بات ہم غزل میں یا کسی دوسری صنف سخن میں نہیں کہہ سکتے وہ ہم نثری نظم میں با آسانی کہ سکتے ہیں۔ اس طرح شاعر کا وہ خیال جواب تک کسی صنف میں ادا نہ کر سکا وہ نثری نظم میں بیان کر سکے۔ احمد رشید نے اپنی نظموں میں اپنے اسی کرب کا اظہار کیا ہے۔ کہیں کہیں تو بالکل مختصر نظموں میں بہت معنی خیز باتیں کہی ہیں اور اپنے گہرے تجربات کو جس سلیقے اور مشاہدے کو اپنے پورے تخلیقی لوازمات کے ساتھ پیش کیا ہے یعنی کوزے میں سمندر سمو دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں چند نظمیں:
’’میں‘‘
میں کتنا کو مپلیکس ہوں!؟
خود بھی نہیں جانتا
تمہیں کس طرح پہچانوں!؟
’’زندگی‘‘
روح پریشاں
انفاس منتشر
سکون قلب لٹا لٹا سا
راہِ عصر میں بچھا ہوا
سنگریزوں کا بستر
اس پر سویا ہوا سانسوں کا جسم
گاڑی کی رفتار ست ہے
اسی لئے زندگی ڈھکیل رہا ہوں
ان دونوں نظموں میں احمد رشید نے جس طرح زندگی کی عکاسی کی ہے اور جس کرب کا اظہار کیا ہے وہ ان کی قوت پرواز کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اگر ہم آج کے انسان کو دیکھیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہر انسان بس زندگی ڈھکیل رہا ہے کوئی منزل نہیں، کوئی راہ نہیں، بس سفر جاری ہے۔ لیکن اس کی کوئی سمت مقرر نہیں۔ نظم میں احمد رشید نے انسانی فطرت کو اجاگر کیا ہے۔
ادب کا پورا انحصار صرف انسان رہا ہے جس میں انہی قدروں کا احاطہ کیا جاتا ہے اور وہی ادب زندہ رہتا ہے۔ جس میں انسانیت کی رمق پائی جاتی ہو۔ کوئی بھی مصنف، شاعر اب صرف خلاؤں میں سفر نہیں کرتا اس کا رشتہ جب تک زمین سے نہ جڑا ہو وہ اچھا ادیب، شاعر نہیں ہو سکتا۔ احمد رشید نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشید کی زیادہ تر نظمیں انسانی رشتوں کی پامالی پر ہی سوال نہیں اٹھاتیں بلکہ انسانی رشتوں کو مضبوط بناتی ہیں۔ زندگی جینے کا سلیقہ بتاتی ہیں۔ ’’سائے‘‘، ’’جمال فن‘‘، ’’دستک‘‘، ’’ایک دن یوں ہو گا‘‘ ہمیں سب کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
’’زنجیر‘‘
تخیل کے جسم پر
رینگتا ہوا سانس
آتش خلش کو
ہوا دیتا ہے
میرے ماضی کی
چھپتی ہوئی پھانس
مستقبل کی سینہ چیرتی ہے
شاہد حال بھی
زنجیر وقت کی
درمیانی کڑی ہے
٭٭٭
’’ذرا سوچو‘‘
کبھی بیتے ہوئے یگوں سے
باہر بھی نکلو
یہ زندگی زہر ہلاہل ہی نہیں
امرت بھی ہے
………
کبھی سوچو بھی
یہ سپنا، سپنا ہی نہیں
ایک حقیقت بھی ہے
………
اگر محسوس کرو
تو سیپ میں گرا
بارش کا وہ پہلا قطرہ
موتی بھی ہے
………
کبھی قیدِ محرومی کو توڑو
تو دیکھو
یہ یُگ تمہارا بھی ہے
شاعری ہو یا افسانہ ہو یا کوئی ادب کی دوسری صنف ہمیشہ تین باتوں کی اہمیت اور خصوصیات دیکھی جاتی ہیں کیا کہا، کیسا کہا، کس طرح کہا!! یہ تینوں خصوصیات یکجا ہوں تب ہی بات بہت گہری ہوتی ہے۔ لیکن اس کے اظہار کا سلیقہ نہیں آتا کسی کے پاس اظہار کی طاقت ہوتی ہے سلیقہ ہوتا ہے تو بات میں گہرائی پیدا نہیں ہو پاتی، سلیقہ ہوتا ہے تو بات میں گہرائی پیدا نہیں ہو پاتی۔ احمد رشید صاحب نے جہاں ایک طرف اچھے افسانے لکھے ہیں وہیں دوسری طرف انھوں اپنی نظموں میں سلیقہ برتا ہے۔ کسی نظم بہت گہری معنویت پیدا کی ہے تو کسی میں اظہار کا طریقہ ہے، سلیقہ ہے جبکہ نثری نظم میں تاثیر پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ احمد رشید نے بعض نظموں میں تو تاثیر بھی پیدا کر دی ہے۔ بات میں سے بات پیدا کرنا ان کی خاص خصوصیت ہے حالانکہ کہیں کہیں افسانوی رنگ حاوی ہو جاتا ہے اور نظم مختصر کہانی یعنی افسانچہ بن کر رہ جاتی ہے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ انہیں نظم کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور وہ اپنے اس فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کی نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمد رشید کم لفظوں میں بڑی بات کہنے کے ہنر سے واقف ہیں بلکہ لفظوں کے انتخاب میں بھی توجہ صرف کرتے ہیں۔ ’’ذرا سوچو‘‘ میں انھوں نے قاری کو ایک گہری سوچ میں مبتلا کر دیا ہے اور زندگی کا ایک قیمتی راز بھی بتایا ہے اگر سوچو تو بے شک زندگی خدا کی دی ہوئی ایک بڑی نعمت ہے۔ موتی بھی ہے، امرت بھی ہے، ایک حقیقت بھی ہے۔ سوچو تو یہ سب کچھ ہمارا ہے، ساری بہاریں ہماری ہیں۔ یہی ایک یک نہیں ہر یگ ہمارا ہے۔ احمد رشید کے اس مجموعے میں بہت سی ایسی نظمیں ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، کہ ان کی شاعری میں ماضی کا کرب بھی ہے زندگی کی تلخیاں بھی ہیں۔ آنسوؤں کا سیلاب بھی ہے، خوشی و انبساط کی جھلکیاں بھی ہیں، اجالا، سرخ گلاب، سگریٹ، الوداع، شریک غم، خاموشی، ٹکڑے ٹکڑے آسمان جیسی کئی خوبصورت اور معیاری نظمیں موجود ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو مجموعے کی اشاعت کے بعد لکھا جائے گا۔ یقیناً ان کی شاعری کا یہ مجموعہ ادبی دنیا میں انہیں استحکام بخشے گا۔ ظاہر ہے جب کوئی شاعر اپنے تخلیقی کرب کو اظہار کا وسیلہ بناتا ہے تو اس کا فن بھی بلندیوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے اس کا فیصلہ قاری اور ناقدین کریں گے۔
٭٭٭
آغاز
کوئی عضوِ جسم، حرکت سے پہلے
ہر دم ہونٹوں پہ تیرا ہی نام ہے
بھیج کوئی خضر جو منزل تک لے جائے
تو ہی اسمِ اعظم ہے، رحمن و رحیم ہے
٭٭٭
تمہید
اے رب العالمیں …
ثنا خوانی کے تمام سُر تال تجھ ہی پر ختم ہیں
اے مالک یومِ جزا
کوئی نہیں ہے تجھ سے برتر، رحیم و کریم
اے ذو الجلال
میری جبینِ نیاز تیرے ہی رو برو جھکتی ہے
اے مقدس داتا
بعد رفع دین، قیام و رکوع و سجدہ
تجھ ہی سے مانگتی ہے یہ دنیا، وہ دنیا
میرے کاسۂ تقصیر میں صراطِ مستقیم کی بھیک دے
نہ دے ضلالت کے کھوٹے سکے
اے میرے معتبر رہنما
وہ راستہ نہیں ……
جو لے جاتا ہے تیرے غیض و غضب کی کھائی میں
تو صاف و شفاف،
نرم و ملائم،
رواں دواں جاوداں ہے
میں تو تیرے کرمِ بحر ذخّار میں …
پناہ چاہتا ہوں!
مجھے ڈبو دے اتھاہ گہرائیوں میں …
ڈبو دے!
ڈوب جاؤں اور
پھر کبھی نہ ابھرنے پاؤں؟
٭٭٭
دعا
حدودِ ارض و سما سے نکل کر
جائیں تو کدھر
تیری ہی مدد اور توفیق چاہتا ہوں
ایک ایسے سجدے کے لیے جو معتبر ہو
سبب شرفِ قبولیت ہو
بھٹکے ہوئے کے ساتھ صراطِ مستقیم پر
مجھے بھی ڈال دے
منزل کے لیے مینارۂ روشنی بن جا
تھکے ماندہ مسافروں کو آبِ زمزم پلا
آبِ کوثر اور شہد و شیر کا جام دے
بھول بھلیوں کے اندھیرے کو کاٹ دے
وہ بارِد نہیں چاہیے
جو نارِ غیض برسائے
مجھے تیری امان چاہیے
بس تیرا پیار چاہیے
٭٭٭
فی احسنِ تقویم
یہ نیلی، پیلی، سبز رنگ کی
دوشِ صبا پہ ڈولتی جھومتی
اودے، کیسری، سرمئی بادلوں سے دور
نہ پا بہ زنجیر، معذور نہ مجبور
آسماں در آسماں
ہر قید و بند سے دور
………
میں بھی اگر……
نہ پابندِ بلا ہوتا، نہ اسیرِ گلہ ہوتا
ارض و سماں کی بے پایاں وسعتوں میں
بے دست و پا، بے بال و پر
کہیں کھو جاتا
اڑتا، اور اڑتا چلا جاتا
عرصۂ نگاہ میں
مگر حدودِ نظر سے دور
دور… بہت دور
دل کی سلطنت میں
نہ ہوش کی حکمرانی ہوتی
نہ بے وجہ اقدار
نہ بے سطح اخلاق
میں ہوتا…صرف میں
فی احسنِ تقویم ہوں ’’میں‘‘
٭٭٭
میں
میں!؟
کتنا کومپلکس ہوں!؟
خود بھی نہیں جانتا!
تمہیں کس طرح پہچانوں
٭٭٭
اجالا
اگر تمہارے پاس
شمع ہے!
اسے جلتا رہنے کے لیے
دوسروں کی
موم بتیاں جلاؤ
ورنہ تمہاری
روشنی بھی
بجھ جائے گی
٭٭٭
مکتی
سدا ستیہ بولو
مُکتی اس میں، چھپی ہے
یوں
تمہیں یہ یاد رکھنے کی
ضرورت نہیں …
کہ تم نے ’’کیا بولا تھا‘‘؟
٭٭٭
زندگی
روح پریشاں
انفاس منتشر
سکونِ قلب لٹا لٹا سا
راہِ عصر میں بچھا ہوا
سنگریزوں کا بستر
اس پہ سویا ہوا سانسوں کا جسم
گاڑی کی رفتار سست ہے
اسی لیے زندگی ڈھکیل رہا ہوں
٭٭٭
انقلاب
اپنے آپ کو بدلو
جوتم
اس سنسار میں،
دیکھنا چاہتے ہو؟
پھر اس سنسار کو بدلو
جیسا تم؟
دیکھنا چاہو
٭٭٭
سرد لمحہ
خیالوں کے ریگستانوں میں
وقت کی دھوپ سے
جھلسا ہوا برگِ احساس
کبھی کبھی ہوا کے جھونکوں پہ
رقص کرتا ہوا
سلگتی ہوئی آنکھوں کا
ایندھن بنتا ہے
میں بھی آتشِ سرخ گیسو پہ
تشنہ ہونٹوں کو ثبت کر کے
اپنا سرد لمحہ سینکتا ہوں
٭٭٭
آزادی
روئے زمین کی
خوش آئند
امید کے لیے
آزادی
حرفِ آخر ہے
٭٭٭
سائے
وہ لکیر!؟
جو سطح، بحرِ حیات پہ نقش تھی
ٹوٹ گئی
جذبۂ موجِ عصر کے طوفانی دائروں میں!
پھر بھی ساگر میں ہر لہر
اپنا الگ وجود لیے
مٹتی ہے
بنتی ہے
لیکن وہ شعور جسے ’’یاد‘‘ کہتے ہیں
آج بھی احساس کے مرکز پہ
ہے رقصاں
وہ شعلہ…!!
جس کی گرمی خاکستر میں دب گئی
لیکن بجھا نہیں
آج بھی
وادیِ تخیل کو
دھندلے چہروں کی بھینٹ دیتا ہے
٭٭٭
منزل
ایک کنکر
دستِ دوراں سے نکل کر
ڈوبا جب
سمندر کی گہرائیوں میں
مشتعل آب
اٹھتی ہوئی موج در موج
تخلیق ہوا
ذہن کے دریچہ سے
جھانکتا ہوا
ایک نوزائیدہ احساس
’’کہ ہر کنارۂ شے زماں رسائیِ فنا ہے‘‘
٭٭٭
سمے
اس جیون میں
مرنے کی فرصت نہیں
جیوِت رہنے کے لیے
سمے کہاں سے لاؤں
٭٭٭
سرمایہ
ایک سڑک
لمبی سی
اس پر چلتے پھرتے مسافروں کا شور
حوادث کے قافلے
دب گئے خاکِ عصر میں!!
اب وہ سڑک
لمبی سی
سُونی سُونی سی
گرد پر کچھ نقوش
تنہا تنہا سے
سڑک ان ہی کو
لگائے ہے سینہ سے
یہی اس کا ’’سرمایہ‘‘ ہے
٭٭٭
سرخ گلاب
بہت سوچا
تحریرِ نگاہ پڑھ لے
بہت سوچا
تصویرِ نگاہ دیکھ لے
بہت سوچا
کہ سوچے
ایمائے نظر، رمزِ گفتگو
تُو سمجھے
زبانِ دلِ پُر آرزو
تُو دیکھے
عکسِ خود، بے خود جوئے اشکِ نظر
اگر تو نے پڑھا
زبانِ دل در نگاہ
اگر تو نے دیکھا
نقوشِ دل پُر آرزو
اگر تو نے سمجھا
ایمائے لفظ و بیاں
………
تو پھر بتا
تصویر در نگاہ کیست
تو پھر سوچ
سرخ گلاب در دل
چہ معنی دارد؟
٭٭٭
سگریٹ
خیالِ تنہائی مٹانے کے لیے
بادل دھوئیں کے بناتا ہوں
جو پریم کی ورشا سے
میرے خشک ہونٹوں کی تشنگی دور کرتے ہیں
یہ سگریٹ……
ناخنِ دستِ چرخ کے دئے ہوئے زخموں کو
سہلاتی ہے
دنیا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ٭
خود اپنی زندگی وفا نہیں کرتی
لیکن جب تک زندگی ہوتی ہے
یہ بے جان سی شے وفا کرتی ہے
جیون کے دھند میں اجالا کرنے کو
شمعِ حیات جلا کر اندھیرا کاٹتا ہوں
تصویرِ حیات میں انگشتِ برش سے
خونِ جگر میں ڈبو کر
جو رنگ میں بھرتا ہوں
٭٭٭
وہ اپنا ہی لہو ہے
مجھے زندگی و موت کا
احساس عطا کرتی ہے
یہ مٹی کی اکائی ہے
خود خاک سے بنتی ہے
جل کر خاک میں ملتی ہے
اس کی تخلیق و فنا
مجھ سے کتنی ملتی ہے!؟
٭٭٭
احساسِ غم
شیشۂ حیات کے
شعور پر
ایک دھندلی سی تصویر
جو منعکس تھی
غبارِ کاروانِ حیات کے
پرتوں میں نہاں
لیکن وقت کے ناخون نے
پھر سے کریدا
اور وہی احساس
زندگی کا ما حصل
’’الم‘‘
ورثہ میں ملا
٭٭٭
الوداع
میرے لبوں کی
اپنے ہونٹوں پہ
مسکراہٹ بکھیری
بس اس نے جاتے سمے
یہ کیا
میری آنکھ میں آنسو
اور ہتھیلی پر
پھول رکھ دیا
٭٭٭
دھبے
زمین؟
کتنی دلفریب!
مگر خاک و خون سے آلودہ
چاند؟
کتنا خوبصورت!
مگر نشیب و فراز سے پُر
سورج؟
کتنا چمک دار!
مگر آگ کا گولا
آسمان؟
کتنا وسیع و عریض!
مگر ایک خلا کے سوا کچھ نہیں
انسان؟
کتنا اشرف!
مگر دنیا کا سب سے بڑا حیوان!!!؟
محوِ حیرت ہوں، میں!
دنیا…کت…نی…خو…ب… صورت ہے!
٭٭٭
شریک غم
احساس کی وادی میں
گونجتی ہوئی
وہ ’’صدائے الفت‘‘
غیر مانوس سی
سمع پر گراں ہے
عدیم الفرصتی کے اس دور میں
کتنی بے رنگ!
جیسے ساز کی لے پر ہو
بے ربط آواز
……
لیکن یہی بے رنگ آواز
کبھی کبھی کتنی اچھی لگتی ہے
جبکہ مادیت کے سنگریزوں پر چلنے سے
روح کے زخمی پیروں پر
جیسے کوئی دستِ نازک رکھ کر سہلائے
اور کہے کہ
’’میں تمہارا شریکِ غم ہوں‘‘
٭٭٭
زنجیر
تخیل کے جسم پہ
رینگتا ہوا احساس
آتشِ خلش کو
ہوا دیتا ہے
میرے ماضی کی……
رگِ جاں کے قُرب
چُبھتی ہوئی پھانس
مستقبل کا سینہ چیرتی ہے
شاید حال بھی
زنجیرِ وقت کی
درمیانی کڑی ہے
٭٭٭
شکتی شالی
جانور پاگل ہو جائے
گولی ماردو!
انسان پاگل ہو جائے
پاگل خانہ بند کر دو
بہو جن پاگل ہو جائے
شکتی شالی کہلائے
کوئی نہ پاگل کہنے پائے
یہ کیسا پاگل پن ہے؟
٭٭٭
خاموشی
تم سے میرا کوئی رشتہ نہیں
پھر بھی یہ لگتا ہے
میرا اور تمہارا کوئی رشتہ ضرور ہے
ایک خاموش صدا
تمہارے پتھر کے ہونٹوں کی
میری روح کے ساز پر
ایسا ایک نغمۂ الفت چھیڑتی ہے
کہ ایک تڑپ
ایک جلن
ایک ہوک سی اٹھتی ہے
میرے دل میں
میرے دل میں جیسے آگ کا سمندر ہے!!
………
تمہارے ہونٹ کیوں ساکت ہیں؟
کچھ تو زباں سے کہو
تم بھی کب تک چھپاؤ گے؟
سانس نہ گھٹ جائے گی
نظریں بتا رہی ہیں
کہ ایک چنگاری سی
سلگ رہی ہے، تمہارے سینہ میں بھی
٭٭٭
ذرا سوچو
کبھی بیتے ہوئے یُگوں سے
باہر بھی نکلو
یہ زندگی زہر ہلاہل ہی نہیں
امرت بھی ہے
…………
کبھی سوچو بھی
یہ سپنا، سپنا ہی نہیں
ایک حقیقت بھی ہے
…………
اگر محسوس کرو
تو سیپ میں گرا
بارش کا وہ پہلا قطرہ
موتی بھی ہے
…………
کبھی قید محرومی کو توڑو
تو دیکھو
یہ یُگ تمہارا بھی ہے
٭٭٭
خونِ شہیدانِ وطن
کون کہتا ہے؟
کہ شہید مرتا ہے!
ان کی آوازیں
تہ در تہ خلاؤں میں
تحلیل ہو جاتی ہیں
گولیوں کے ساز پر
تلواروں کی جھنکار پر
نغمے گنگنانے
لوٹ آتی ہیں
………
اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی تاریخ
دہرانے آتی ہیں
کون کہتا ہے؟
جانے والے لوٹ کر نہیں آتے
………
نسلِ انسانی کی تخلیق میں
زمین نے اپنے کو منقسم کیا
مٹی وہ بھی ہے
مٹی یہ بھی ہے
………
کون کہتا ہے؟
کہ یہ کذب ہے
دھرتی ماں ہے
خالق ہے یہ
مالک ہے یہ
داتا ہے یہ
رازق ہے یہ
دھرتی کے لیے انساں
آمادۂ پیکار
انساں، انساں کو کچلتا ہے!
اور کہتا ہے
کوئی پاپ نہیں!
ماں کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے
شانِ شجاعت دکھاتا ہے
جامِ شہادت پیتا ہے
جیسے دھرتی خون کی پیاسی ہو
اور بیٹے کا بلیدان چاہتی ہو
دھرتی کیا چاہتی ہے؟
کوئی نہیں جانتا!
کہ دھرتی جنم داتا ہے!
کہ ناگن ہے!
……
خاک و خون
جسم و جاں
تمام روسیائے انساں
اپنے پیٹ میں سما لیتی ہے
وہی لہو جو بہتا ہے زمین پر
نظر آتا ہے گلہائے چمن میں
رنگہائے وطن میں
رقص کرتے ہیں تاریخِ صحن میں
……
یہ شہیدانِ چمن، کب مرتے ہیں؟
یہ تو زندہ ہیں
یہ تو زندہ ہیں
٭٭٭
میچنگ کلر
سفید چادر پہ اک سیاہ دھبہ
میچنگ کلر
’’بدنما نشان‘‘
کتنا بھیانک، کتنا کرب انگیز
لمحہ لمحہ پھیلتا جا رہا ہے
کالا دائرہ وسیع سے وسیع تر……
……اور وسیع
اسی روشنائی سے
قلم کائنات نے
میری حیات کے
چند اوراق سیاہ کیے
خوفِ احساسِ لمحات
سیاہ مستقبل ہونے کے خدشات
لیکن کیوں!؟
یہ تو سفید رنگ پر میچنگ کلر ہے
یہ تو دامنِ سیاہ پہ وقت سحر ہے
ان گنت گولڈن سورڈس
ڈھال کی گولائی سے ٹکرا کر لوٹ آئیں
پہاڑوں کا سینہ چیر کر
پیڑ پودوں کے جسموں میں گھستی ہوئی
صحرائے حیات پر رقص کرنے لگیں
کٹھ پتلی کی طرح ناچتی رہیں!
اس کی زیبائش و نمود میں، میری محویت……
میں بھول گیا……
رات کے اندھیروں میں آتشِ باراں
……………
سنسار کے جسم پروہ نیلی قبا
خون میں غسل کرنے لگی
وہ شام و سحر کے اجالے مٹنے لگے
اژدھا جو مجھ میں پلتا ہے
اس کے دونوں شعلے دھکنے لگے
میرے خواب اس میں سلگنے لگے
جن کی تعبیر وہی سرد بجھے ہوئے کوئلے
رنگِ بحر کے سائبان پہ لٹکے ہوئے
ان میں اب نہ روشنی ہی رہی
اور نہ آگ ہے
انگشتِ شب کے سرد اندھیروں نے
خاک تہہ خاک پھر سے کریدا
وہ شعلہ سا لپکا بھڑک اٹھا
جسم کی رگوں میں رقص کرنے لگا
یہ تنِ انس نہ ہو، جیسے شہر شعلہ ہو!
’’آتش آفاق‘‘ چاند ستاروں کے اجالے
اس کوزے میں قید ہیں!
……………
میں تشنہ لب، کانٹوں کی سیج پر سے اٹھا
آنکھیں ملتا ہوا
اس کال کوٹھری کی طرف بڑھا……
جس میں وہ شمع جل رہی تھی!
اس کی آنکھوں سے پہ در پہ گری ہوئی
’’وہ گرم شبنم!‘‘
پہاڑی ڈھلوان پہ ٹھنڈا کر رہی تھی
جس پر برف کے پھول اُگے تھے
لبوں کے کینوس میں آبِ خنک
خیالِ تشنگی کو مٹانے کی
ناکام کوشش میں سرگرداں
میں بھی دیوانہ وار……
اپنے پروں کو کاغذ کے پھولوں کی طرح
سرِ لو پر جلانے کی سعیِ لا حاصل
ایک گداز جسم، مجھ میں سمٹنے لگا
اس کے دوش پہ پڑے ہوئے ملگجی سائے
میرے خشک لبوں کے جسم کو
پا بہ زنجیر کرنے لگے
میری سانسوں میں عطر گھولنے لگے
میری سلگتی ہوئی انگلیاں …
ان برف کے پھولوں پہ رینگنے لگیں
برف پگھل پگھل کر، کاسۂ تقصیر میں گرنے لگی
شمع لڑکھڑائی اور خاموش ہو گئی
اس سیاہ دھبہ کا کینوس پھیلنے لگا
دھوئیں کی چادر
عظمت کے سرد جسم پر چھانے لگی
وہ بپھری ہوئی ناگن کی طرح
میری طرف بڑھنے لگی
احساسِ ندامت نے مجھے بیدار کیا
ناکامی……
ندامت……
بیداری……
٭٭٭
سنہرے دن، طلائی راتیں
کچھ یادیں، سنہری یادیں
ایک دھندلا سا یہ، طلائی سایہ
چلتا ہے، میرے پیچھے، میرے آگے
میرے دوش بدوش
نرم گداز بانہوں کی گود
گرم بچھونا بہاروں کا، سرد موسم میں
وہ شبنم کی آرسی پہنے سبزہ جیسا، گرم موسم میں
وہ مخمور کائنات میں ڈولنا
صرف اپنے میں کھوئے رہنا
کچھ پانا، نہ کھونا
بس اِدھر اُدھر گھومنا
وہ سنہرے دن، طلائی راتیں
حساب سے عاری بے نیاز باتیں
کچھ یادیں، سنہری یادیں
طلائی سایہ
چلتا ہے میرے پیچھے، میرے آگے
٭٭٭
منزلِ گم شدہ مسافر
منزلِ گم شدہ مسافر، شبِ تار ہوں
تو ابرِ چرخ نمودِ برق
میری راہ نما……!
تو مینارۂ بینائی
روشن ہے نگاہِ وجود تیرے دم سے
میں آنکھ، تو روشنی……!
میں وجود، تو روح
پردۂ خاک میں زرِ حسن و جمال کا خزینہ
اے روحِ احمد ریشمینہ
میں دل، تو دھڑکن
وجودِ عالم اس لیے دلکش ہے
کہ تو دل فریب ہے
میں کہ… میرا نہیں، میرا دل
سدا سے ہے یہ عقدۂ لا ینحل
تو خوشبوئے گل، کائنات کے لیے
گوہر صدف، حیات کے لیے
تو لاجواب ہے
مگر میں سراپا سوال ہوں
منزلِ گم شدہ مسافر شبِ تار ہوں
تو ابرِ چرخ نمودِ برق
ہے آرزو… تکمیل آرزو جیسا فرق
٭٭٭
روشنیِ شبِ حیات
تو روشنیِ شبِ حیات
نکہت گل، طائر شاخِ تخیل
خوشبوئے نَفَس گہ حرکتِ دل
المختصر، حرارتِ زندگی ہے تو
……………
شبِ حیات میری، گل میرا
شاخ تخیل میری، دل میرا
نفس میرا، ہے زندگی میری
زندگی، اے زندگی میری
……………
طائر نہیں، روشنی نہیں
دھڑکن نہیں، حرارتِ زندگی نہیں
خوشبوئے نفس نہیں، نکہتِ گل نہیں
پھر میرا کیا، تیرا کیا؟
……………
بنائیں ایسی زمیں، ایسا آسماں
جہاں امتیازِ رنگ و بو نہ ہو
فرق من و تو نہ ہو
حدِ جبر و اختیار نہ ہو
احساس نہ ہو، ادراک نہ ہو
…………
کوئی فرق نہ ہو
سب تیرا ہو نہ میرا ہو
٭٭٭
ٹکڑے ٹکڑے آسمان
ایسا بھی لمحہ آ جائے گا
بال و پر کاٹ دئیے جائیں گے
سونے کا یا چاندی کا
وہ ہو گا ’’ایک پنجرہ‘‘
پھر یاد آئے گا
ہواؤں کا جھومنا، سبزے کا بچھونا
شاخوں پر پھدکنا، آسمانوں کا اوڑھنا
زندہ رہنے کے لیے، کیا یہی کافی ہو گا
……………
اسی سلسلہ کرب و بلا میں
روح کا پنچھی بھی آزاد ہو جائے گا
پھر نہ تو ہو گا، نہ میں ہوں گا
اور نہ یہ کائنات ہو گی!
جو باقی ہو گا……
وہ زہر آلود ہواؤں کی اُڑان
گرد آلود بچھونا ٹکڑے ٹکڑے آسمان
اور ایک ٹوٹی ہوئی شاخ
…………
زندہ رہنے کے لیے بچا لیے ہوں گے
ساتھ گزرے ہوئے چند لمحات
زندگی کی ایک بیش بہا سوغات
وہ خواب آور بھیگی ہوئی رات
٭٭٭
خوابِ زندگی
میں خود کھو گیا ہوں
تجھے پاؤں کہ اپنے کو
تیری آرزو سعیِ حیات
تیری جستجو حاصلِ ممات
تیرا موجود، عدم وجود
عدم کی تلاش کیا؟
بے درو دیوار ایک گھر
گھپ اندھیرا بس ایک صفر
گر تجھے پا بھی لوں
پھر تمنا کیا؟ جستجو کیا؟
میں نے مانا، تجھے پانا ہے زندگی کے لیے
جو ایک حقیقت ہے
تجھے کھونا موت ہے
یہ بھی ایک حقیقت ہے
……………پھر یہ کیوں کہیں کہ خواب ایک دھوکہ ہے؟
خواب، حقیقت ہے
خواب، مسرت ہے
خواب، محبت ہے
خواب، ممات ہے
خواب، حیات ہے
بعد از ایں
حیات ہی حیات ہے
٭٭٭
جمالِ فن
اے جانِ سخن
تو محور گفتگو ہے، تو ہی مرکزِ جستجو ہے
تو خواب ہے، تعبیر بھی
تجھ پر مرتے ہیں زندگی کے لیے
……………
تو جمال ہے، کمالِ خدا بھی
جمالِ فن ہے
کمالِ فنِ من بھی
تو کیا ہے؟خدا جانے
…………
تیرا حسن، میرے عشق کی گرمی
تیری تخلیق، میرے وجود کی اکائی
…………
میں ہی حیات، میں ہی ممات
میں ہی کائنات میں ہی باد ہوں، رعد بھی
میں آب ہوں، سراب بھی
میں ہی ارض، میں ہی خاک
…………
پھر تو بھی میں، میں ہی تو
شاہ کار میں، فنکار تو
………
بتا اے جان سخن
نہ ہوتا میں، تو پھر
تو کیا ہوتا؟
٭٭٭
انتظار کی گرد
آنکھوں سے جب انتظار کی گرد آنسوؤں سے ڈھلنے لگی
خواب دھندلے ہوئے، بے خوابی چھانے لگی
ہونٹ پتھر کے ہوئے
میں نے
سوچا، ہر سمے سوچنا اچھا نہیں
سوچ جو دکھ کی فصل ہے
سوچ جو کانٹوں کی نسل ہے
سوچ جو ہر سمے حقیقت کا جامہ نہیں پہنتی
پھر کیوں شاہراہ پہ کھڑے ہو کر
میں نے دھوپ کی چادر اوڑھی
کیوں ہر آہٹ پر
خاکِ پیراہن زیب تن کیا
کیوں ہر چاپ پر
آتے جاتے چہروں کو دیکھا
کیوں ہر لمحہ گھڑی کی ٹِک ٹِک پر کان دھرا
اور درد کی فصل کاٹی
میں اس قبائے لالہ زار کو اتار دوں گا
جو دلکش اور دل شکن بھی ہے
جو گلنار بھی ہے، سرخ نار بھی
جو خوش رنگ ہے اور خونِ رنگ بھی
اور پھر گھر لوٹ جاؤں گا
جہاں سے بہت دور نکل آیا ہوں
اور یوں جہاں کو پالوں گا
٭٭٭
ایک دن یوں ہو گا
ایک دن یوں ہو گا
ڈور ٹوٹ جائے گی، پتنگ دور کہیں گم ہو جائے گی
جسدِ خاکی پیوند خاک ہو جائے گا
لیکن اس سے پہلے
یہ سرمستی، یہ کیف و سرور
یہ محرومی، یہ صعب و غرور
یہ حسن و جمال، یہ مال، یہ کمال
قصہ پارینہ ہو جائیں گے
جل سوکھ جائیں گے
تھل، جل بن جائے گی
زمین اندر کا سب کچھ باہر اگل دے گی
اور باہر کا سب ہی زمین دوز ہو جائے گا
پہاڑ روئی بن کر جگہ چھوڑ دیں گے آسمان کا سر جھک جائے گا
صحیفے سچ ہو جائیں گے
پھر سب ہی دوڑ جائیں گے ایک ہی راستہ پر
آؤ کچھ کارِ خیر کر لیں
یوں ایک مقام پر مل جائیں گے
اپنی اپنی دنیا میں مگن
اپنی اپنی خوشیاں بٹوریں گے
نہ تم ہمیں ڈھونڈو گے
نہ ہم تم کو پائیں گے
اگر کچھ کارِ سیاہ جمع کر لئے
دونوں ایک دوسرے کو جلتا ہوا دیکھیں گے
نہ آنکھیں بند کر پائیں گے
نہ ہی پانی کو دوڑ پائیں گے
٭٭٭
خدا ایک حقیقت ہے
جب رات کی کوکھ سے دن نہیں جنمے گا
اس سمے اندھیرا ہو گا نہ اجالا
جب سورج مقر رہ رستے پر چلنا بند کر دے گا
اور چاند کی مقررہ منزلیں
گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کے مانند
جو طے کرنا روک دیں گی
سورج لپک کر چاند کو پکڑ لے گا
اور رات دن سے پہلے آ جائے گی
سب اپنے اپنے دائرے میں تیرنا بھول جائیں گے
اور سبز درخت سے پیدا ہونے والی اگنی میں
سبز درخت خود ہی جل جائیں گے
وہ ایسا سمے ہو گا
سب ہی اس میں فنا ہو جائیں گے مگر بقا جس کا نام ہے
وہ صرف خدا ہے
خدا ایک احساس کا نام نہیں
ایک حقیقت ہے
جو سامنے رہے اور دکھائی نہ دے
٭٭٭
خوشبوئے ثمن
(بیٹی ثمن آرا کی وفات پر) ۲۶؍اگست ۱۹۹۴ء
تو صبح کا تارہ تھی
بن کر سورج کی پہلی کرن
میرے آنگن میں چمکی
نصف النہار تک پہونچنے سے پہلے
رات میں ڈوب گئی
ایک کلی ہنسنے بھی نہ پائی تھی کہ مرجھا گئی
تو میری نگاہِ شب تار میں سمٹ گئی
جو ستارے میری آنکھوں سے ٹپکے
شانِ کریمی نے موتی سمجھ کر چن لئے
تو جو میری آنکھوں کا نور تھی
میرے دل کا سرور تھی
گلشنِ حیات کا ثمن تھی
تیری مہک میری سانسوں میں ہے
غنچوں کی چٹک تیری باتوں میں ہے
تیرے ہونٹوں پر شہد و شیر کی مٹھاس
میری زباں پر ہے
تیری باتوں میں پرندوں کی چہچہاہٹ
میرے گوش پر ہے
تو راتوں کی روشنی تھی
میرے دن کی رونق تھی
میری تھکن کی تازگی تھی
تیری مسکراہٹ میری زندگی تھی
میری بیلیا، میری چمیلیا
دور تک اپنی خوشبو چھوڑ گئی
تیری خوشبو میرا پیچھا کرتی ہے
تو چاند کا ٹکڑا تھی، چاندنی بھی
تو سورج کا تکمہ تھی، روشنی بھی
تو پھول کی پنکھڑی تھی، خوشبو بھی
تو شب و روز کا خواب تھی، تعبیر بھی
نور نظر تھی، دردِ جگر بن گئی
مسرتِ حیات تھی، اشکِ نظر بن گئی
میرے گھر کی جنت تجھ ہی سے تھی
اب میرے لیے راہِ جنت بن گئی
آہوئے چشم مہ معرفت بن گئی
تو شاہ کارِ فنکار تھی
میرا تخیل، میرا پیار تھی
اب تو جو گئی ہے وفا کی ڈور توڑ کر
تیری ادائیں تڑپائیں گی ہر موڑ پر
کیوں اکیلی گئی ہے؟
انتظار کر!
میرے آنے کا انتظار کر
میں آؤں گا، ضرور آؤں گا
آگے پیچھے سب ہی کو ساتھ لاؤں گا
٭٭٭
دستک
جیون کی دہلیز پہ
کس نے یہ دستک دی؟
کہ سوئی ہوئی کلپنا کو
جیسے روشنی مل گئی
میری شانت پوجا میں
یہ کیسی گنجن ہے؟
کہ خود میری پوجا بن گئی
٭٭٭
میرا کمرہ
میرا کمرہ، جیوت ہے
اس لیے کہ
اس کے جسم میں
میری کتابیں
آتما کی طرح
داخل ہیں
٭٭٭
تلاش
صدیوں سے انتظار تھا
اس پل کا
کہ تلاش کا سلسلہ اب ختم ہوا
چلتے چلتے ریگستانوں میں
تھکنے سے پہلے
مسافر کو نخلستان مل گیا
عمر کی آخری گھڑی میں
پیاسی دھرتی کو
گرمی کی سخت تپش میں
بارش کا ایک قطرہ مل گیا
تیرے دیدار کا ایک لمحہ
زندگی پر بھاری ہے
تیز برفیلی ہواؤں میں
دھوپ کا ایک ٹکڑا مل گیا
نیند اڑی، سپنے گئے پھر ساکار ہونے کا پرشن کیسا
بھلے ہاتھ میں نہ آئے
چاند کو دیکھنے کا اوسر مل گیا!
میں نے سوچا کوئی ہے!؟
مگر وہ میرے ہِردے کی گنجن تھی
ہوا تو آنکھ سے اوجھل ہے
دیکھنے کو اس کا غبار تو مل گیا!
٭٭٭
آشا
میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا
پنجرے کے پنچھی کو اڑتے دیکھا
قید تھی تو جس خول میں
اس کو میں نے ٹوٹتے دیکھا
آنکھوں میں دیکھنے کی تاب کہاں
روشنی کو سورج سے نکلتے دیکھا
چاند کہوں، اس میں بھی داغ
چاندنی کی طرح تجھے پھیلتے دیکھا
ایسا ہے تیرا حسن و جمال
بادلوں سے پری کو اترتے دیکھا
مستی میں تھی سنگیت کی گنجن
پھولوں سے مدھر خوشبو نکلتے دیکھا
ریت پہ چمکتی سورج کی کرنیں
لہروں کو موتی رولتے دیکھا
دل میں موجوں نے کروٹ لیمن کی ندی کو مچلتے دیکھا
صدیوں کی خاموشی ٹوٹ کے بکھری
پتھر کے ہونٹوں کو بولتے دیکھا
ہونٹوں کے بیچ سے ہوا نہ نکلی
گرم گرم سانسوں کو نکلتے دیکھا
آتما کھڑی تھی دور کہیں پہ
تن کو تن سے بولتے دیکھا
تن من نے جب ہوش کھودئیے
صبح کا تارہ ٹوٹتے دیکھا
سپنا ٹوٹا، مستی میں رات گزری
مخمور آنکھوں نے سورج نکلتے دیکھا
٭٭٭
نراشا
دل کی بات
دل میں رہ جائے گی
سمے بیت جائے گا
جیون گھٹ جائے گا
ستارے چمکیں گے، بجھیں گے
چاند نکلے گا، ڈوب جائے گا
دن، مہینوں، ورشوں میں
بدل جائیں گے
سمے کا چکر، کب رکتا ہے
ایک دن آیو بیت جائے گی
سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے گی
سوریہ کی اُور پرتھوی گھومتی رہے گی
کہانی بنتی رہے گی
بات یوں ہی چلتی رہے گی
برہما سے پرارمبھ ہونے والی
پریم گنجن نہ انت ہونے والی
کرشن مرلی بجے گی
رادھا بھی ناچے گی
اے زندگی
نہ رہے گی یہ زندگی
من کی بات
ہونٹوں میں رہ جائے گی
٭٭٭
ترشنا
میرے سوٗنے جیون میں
ایسے پل، دو پل
اے کاش شامل ہو جائیں
کہ دونوں ایک دوسرے سے
پریچت ہو جائیں
دھرتی پر رہیں
اور سورگ پہنچ جائیں
سورگ میں
چاندی کا ایک محل
اور اس میں سونے کا ایک بستر ہو
چاروں دِشاؤں میں
مدھر سنگیت کی گنجن ہو
اس میں موتیوں کے
برسنے کی دھن ہو
میٹھی سی تھکن ہو
اور آنکھوں میں
نیند کا آگمن ہو
٭٭٭
طوفان
لہروں سے لہروں کا ملن
ان موجوں میں دھیمی سی گنجن
درشاتی ہے سوتا سا جیون
ساگر تلے جو راز ہے چھپا
کس نے دیکھا، کس نے سنا
اس کی دیویہ شکتی کا پِرماڑ
تب ہی ملتا ہے
جب طوفان
سر چڑھ کے بولتا ہے
ورنہ اس کی مہانتا میں
کیا رکھا ہے
٭٭٭
جمہوریت
شاہین بادِ مخالف
اڑتی ہے
آسمان کی گہرائیوں کو
چھوتی ہے
تم خوش ہوتے ہو موافقت پر
مگر حزبِ مخالف سے
کیوں ڈرتے ہو؟
٭٭٭
چنہہ
تم شیام پٹ پر
چاک سے لکھی
دنانک نہیں ہو
نہ ہی پانی پہ
کھینچی گئی لکیر ہو
ایک انمٹ
سریلی سی
گنجن ہو
ہردے کی پستک میں
لکھت ایک
ایسا وینجن ہو
جو رٹا گیا
اُس ایک پل!
میرے سونے جیون کا
امر چنہہ
بن گیا
جینے کے لیے ……
٭٭٭
نیل کنٹھ
تمہارے ہونٹوں میں دبے
جھیر ساگر کی منتھن کو!
پیٖڑا بھری اس کی گنجن کو!
میں نے سن لیا ہے
تمہاری آنکھوں میں
امڑے بادل کے
چھپے طوفان کو
میں نے دیکھ لیا ہے!
اب میں نے سوچا ہے
اپنی پلکوں کی پالکی میں
تمہیں بٹھا کر
دور کہیں لے جاؤں
ایسے انجان استھان پر
جہاں درشٹی نہ جائے
جہاں سرشٹھی نہ دیکھ پائے
نہ جہاں کی چنتا ڈھونڈ پائے
اپنے سارے دکھ مجھے دے دو
میری ساری خوشیاں لے لو
اور نشچنت ہو جاؤ
میرا کی طرح
جو کھو گئی تھی مرلی کی تانوں میں
کیول ایک پریم چنتا
سارے غموں کو بھلا دیتی ہے
دیوتا نہ ہونے کا
مجھے اس لیے دکھ ہے
کہ میں تمہاری سب ہی چنتاؤں کو
ہَر لیتا
اور وِش پی کر
نیل کنٹھ ہو لیتا
٭٭٭
راز
آنکھ سے ٹپکا
آنسو دیکھا
دل کا رونا
کس نے دیکھا
ساگر پہ
لہروں کی مسکان
انترتم ایک طوفان
کس نے دیکھا
دل کی بستی سونی ہے
آتما ہے سنسان
٭٭٭
ادھورے سپنے
ایک شہر سپنوں کا بنائیں
اس میں ایک نیا گاؤں بسائیں
کھیتوں میں سندر پھول اگائیں
پھر ایک گل دستہ بنائیں
اس میں بھِنّ بھِنّ پھول سجائیں
ان پر بھنورے گنگنائیں
چاروں اور چنار لگائیں
پریاورنڑ شدھ اور سندر بنائیں
چڑیاں چھیڑیں گی راگ ایسا
پھول سے ننھے مسکائیں
پنکھ لگا کر پکچھیوں کے سنگ
ہم دور گگن میں اڑ جائیں
ہندو، مسلم نہ شیخ و برہمن ہو گا
بس سرو دھرم گنگ و جمن ہو گا
ستیہ، اہنسا، شانتی، شاسن ہو گا
چاروں دشاؤں میں پریم گنجن ہو
مرلی کی دھن پر ندیاں ناچیں
اور ہواؤں سے خوشبو مانگیں
ایسے میں بن باس کی چنتا کیسی
جب رام کی سنگنی سیتا جیسی
ایک وشال نیلا ساگر ہو
اس میں چندرما ڈوبا سا ہو
ریت پر سوریہ کی کرنیں چمکیں
لہریں مستی میں اٹھ اٹھ جھوٗمیں
مدھر گیت گاتا ایک طوفان آئے
جل کی اُجّول چادر تن جائے
دھیرے دھیرے آنکھیں مُند جائیں
سارے سنسار کو بھول جائیں
٭٭٭
جنگ
دھرتی پر
سیاہ گِدھوں کی
یلغار
کوئی اچھا
شگن نہیں ہے
نیل گگن میں
سفید اڑتے
کبوتروں کی
قطار
کتنی سندر
لگتی ہے!
٭٭٭
تم کیا ہو؟
ایسا راز ہو تم
نہ چھپتے بنے
نہ کہتے بنے
وہ ساز ہو تم
نہ سنائے بنے
نہ سنتے بنے
شانت ساگر تلے
ایسا طوفان ہو تم
نہ آتے بنے
نہ دیکھتے بنے
دھڑکن میں چھپی
ایسی گنجن ہو تم
نہ چھوٗتے بنے
نہ سنتے بنے
آتما کے بھیتر
ایسی کشمکش ہو تم
نہ روتے بنے
نہ ہنستے بنے من کے آنگن میں
ایسی بے چینی ہو تم
نہ جاگتے بنے
نہ سوتے بنے
بادلوں کی اوٹ میں
ایسی کرن ہو تم
نہ چھپتے بنے
نہ چمکتے بنے
چلمن سے لگے
ایسی سندرتا ہو تم
نہ پکڑتے بنے
نہ دِکھتے بنے
خدا کا جمال ہو
ایسا کمال ہو تم
نہ ہوتے بنے
نہ دیکھتے بنے
ستیہ پریم دیوانہ کر دے
ایسا درد ہو تم
نہ جیتے بنے
نہ مرتے بنے
ایک بے نام رشتہ ہو تم
نہ جڑتے بنے
نہ ٹوٹتے بنے
تم پاپ ہو، نہ پُن
پریم ہو نہ پوجا
صنم ہو نہ خدا
ڈنڈہو نہ پراپُشچت
بس مجھے اتنا بتا دو
کہ تم کیا ہو؟
٭٭٭
انتظار
ہر آہٹ پہ
دروازے پر جھانکنا
گماں ہے کہ کوئی ہو گا
ہوا کی سرسراہٹ پہ
اچانک چونک جانا
شاید کوئی آئے گا
تپتا سورج سر پہ
دھوپ کا سایہ سر سے
سمٹ بھی گیا
پھر بھی بے سکونی ہے
خاک پھانکنے
خاک چھاننے کا
یہ سلسلہ
اب ختم ہوا
پھر کیوں ہے؟
یہ عجیب سی بے چینی
زمین چپ ہے آسمان خاموش ہے
پھر یہ کیسی الجھن ہے؟
کہ رُک سی گئی ہے
دھڑکن دل کی
یہ کیسی اداسی ہے؟
کہ سمے تھم سا گیا
اب دروازے بند کر دو
یہاں کوئی نہیں آئے گا
سنسار کے اس شور میں
آنسوؤں کی گنجن
کون سنتا ہے؟
دل کی بستی سونی تھی
سونی ہے
پرنتو کھڑکی کے پٹ
کھول دو
٭٭٭
سپنا
بِنا پریم
تمام سپنے ادھورے ہیں
ساکار ہونا دور
دھواں بن کر اڑتے ہیں
سگریٹ کی طرح جلتے ہیں
ایش ٹرے میں
بکھرتے ہیں
٭٭٭
وہ پہلی نظر
وہ پہلی نظر
دل کے مندر میں
پوجا بن کے اتر گئی
آنکھ دیکھے اور بولنے کو ترسے
زبان بولے اور دیکھنے کو ترسے
آنکھ سے آنکھ کا ہو سفر
جیسے ہوا کے جھونکے پر خوشبو کا گزر
وہ تیرا مسکرانا جیسے پھولوں کا جھڑنا
اس پر تیرا بانکپن
وہ پہلی نظر اثر کر گئی
سگندھ بن کر
پور پور میں بس گئی
پھر تیرا اپنے میں سمٹنا
’’جیسے کہرے میں ٹھٹھری ہو کرن‘‘
چہرہ گلاب، آنکھیں شراب
نشے میں ڈوبا ہو تیرا شباب
اس پہ ہو تیرا جوبن
جیسے خوشبو کا ہو بدن
کلیوں پر بکھری شبنم
اس پہ صبح کی پہلی کرن
رنگوں کی ہو دھنک
جیسے چاندی کا ہو تن
کالی کالی کجراری آنکھیں
شبدوں کی طرح بولتی آنکھیں
پھر بھی شانت
جیسے سندر سی ہو چتون
سردی میں کانپتے گلابی ہونٹ
نی شبد گلابی ہونٹ
پھر بھی ہردے میں ہو
جیسے باریک پنکھڑی کی گنجن
خوبصورت ادائیں ایسی
اجّوَل ندی میں لہروں جیسی
پھولوں پہ تیرا چلنا
جیسے جھک جائے نیل گگن
بالوں کا بکھرنا جیسے رات کا ہونا
بادلوں کی چلمن میں چاند سا ہونا
ہردے ساگر وشال
اس پہ تیرا حسن و جمال
جیسے میٹھی میٹھی سی ہو چبھن
ساگر جیسی گہری آنکھیں
مینکا کی طرح میری پوجا میں
رنگ و روپ کا طوفان
وشوامتر تو بھگوان
مگر میں تو انسان
٭٭٭
آنسو
کوئی رات ایسی ملے
جو عمر سے کبھی نہ گھٹے
چاند رک جائے
سمے تھم جائے
روشنی بن کے
دل میں اتر جائے
چندرما بدلی کی اوٹ سے نکلے
میرے پہلو میں اجیارا پھیلے
من مگدھ، ہردے گدگد ہو جائے
اچانک چاند چھپ جائے
خوشبو چاندنی بن کر
جیون میں پھیل جائے
دن میں سپنا دیکھوں
نیند آنکھوں میں نہ آئے
وہ رات آنسو بن کر
میری پلکوں میں ٹھہر جائے
کوئی رات ایسی ملے
جو عمر سے کبھی نہ گھٹے
٭٭٭
خواب معتبر
چاند سفر
خوابِ معتبر
دیکھا ہے، عہدِ طفلی میں
دادی کی گود میں
اب ان
مصروف لمحوں سے اُکتا کر
چاندنی میں گنگنائیں
اور دھرتی کو
چاند بنائیں ٭٭٭
آج کی خبر
انسان کا سفر
مدام سفر
خدا تک پہنچنے کا سفر
لیکن اپنے پڑوسی کی
نہیں ملتی
کوئی خبر
یہ ہے جلی خبر
٭٭٭
سفر
کون کہتا ہے؟
کہ انسان مرتا ہے
بس استھان بدلتا ہے
ایک سنسار سے
دوسرے سنسار کی
یاترا کرتا ہے
کون کہتا ہے؟
آتما مرتی ہے
صرف وستر بدلتی ہے
یونی سے یونی کو
بس سفر کرتی ہے
٭٭٭
امرت کی تلاش
انسان اپنے جیون میں
خود وِش
گھولتا ہے
پرنتو اب
امرت کی تلاش
کیوں کرتا ہے؟
٭٭٭
انجام
شکتی سویم
انجام کی اور
ڈھکیلتی ہے
اگر ایسا نہ ہو
تو ایک رات بھی
چھت کے نیچے سونا
کٹھن ہو جائے
دھرتی پر
اگنی کی فصل
کے اترکت
کچھ نہ اگنے پائے
٭٭٭
گنجن بن
میں نہیں مروں گا!
شبدوں میں بکھر جاؤں گا
من سے من پریم چلے
تن سے تن آتما چلے
بس یوں ہی چلتا رہوں گا
میں نہیں مروں گا
گنجن بن
فضا میں پھیل جاؤں گا
٭٭٭
پرائشچت
جیون کی پگڈنڈی پہ
چلتے چلتے
میرے پاؤں ڈگمگائے
اس سمے مجھے
یہ احساس ہوا
کہ سر پر رکھے اس بوجھ کو
میں اتار دوں
وہ بوجھ–
میرے گلی کی ہڈی کی طرح
نہ نگلتے بنتا ہے
نہ اگلتے بنتا ہے
کیول میری آنکھوں کی کور میں
آنسو بن کر اٹک گیا ہے!
اب من کرتا ہے
مکتی پراپتی کی اَور
اس پتھ پر چلوں جو پستکوں کے اس سنسار میں لے جائے
جہاں گیان آنند ہے
یہیں سے چلا تھا
جہاں سے بہت دور نکل گیا تھا
شاید یہی میرا پرائشچت ہے!!
٭٭٭
کامرانی
کامرانی کی
کوشش سے پہلے
انسان بننے کی سعی
حاصل کر
٭٭٭
یاترا
میں چاہتا ہوں ٹوٹ کر
ایک دن بکھر جاؤں گا
خواب بن، آنکھوں میں بس جاؤں گا
یاد بن، دل میں اتر جاؤں گا
آنسو بن، پلکوں میں ٹھہر جاؤں گا
جیسے دریا کا پانی ساگر میں مل جائے
مٹی دھرتی میں مل جائے
اور پھول چمن میں کھل جائے
پھر گلے کا ہار بنے
شرنگار کے لیے اُپہار بنے
دیوتا کے چرنوں کا پیار بنے
یہ سنسار اتھوا وہ سنسار ہو
ایک لمبی یاترا پر
میں نکل جاؤں گا
٭٭٭
وشواس
سنہرا مستقبل
انتظار کرتا ہے
انسان جو
اپنے سپنوں کی
سندرتا پر
وشواس رکھتا ہے
٭٭٭
موت
یہ خوف ہے
نیند ڈرتی ہے
آنکھوں میں خواب سہم زدہ ہیں
موت کا تجربہ
ہے ’’سونا‘‘
پھر زندگی کیوں کانپتی ہے؟
آغازِ حیات
میں پوشیدہ ممات
موت کوئی موت نہیں
جسم مٹی کا بنا ہے
گر موت کوئی خلا ہے
اور جسم ہی سب کچھ ہے
تو ہم خلاؤں میں جیتے ہیں
٭٭٭
انکشاف
اس کائنات میں
مسرور اور خرم ہونے کے لیے
زندگی کو؟
بغیر پس و پیش
قبول کر لیا جائے
میں جتنے زیادہ
سوالات کرتا ہوں
اتنا ہی مجھے
یہ انکشاف ہوتا ہے
کہ زندگی!
کافی مہمل ہے
٭٭٭
شناخت
ہم اس لیے ناتواں ہیں
کہ ہمارے پاس
عفو نہیں ہے
ورنہ معافی
شناخت ہے
طاقت کی
٭٭٭
درندہ
انفرادی طور پر
سیدھا سادا
نیک انسان
اجتماعی حیثیت میں
درندہ
ایک سماجی حیوان
٭٭٭
اونچا قد
آدمیوں کے بیچ
پنجوں کے بل کھڑے ہونا
چھوٹا ہونا ہے
پَر لگانے والے
ان انسانوں کے درمیان رُکو
زمین پرپاؤں جماؤ
آسمان پر نگاہ رکھو
اونچا قد
ہونے کے لیے
یہ ضروری ہے
٭٭٭
اعتراف
فاتح ہونے کا شرف؟
غلطی ہونے کا اعتراف
کھلے دل سے کرنا ہے!
یہی حصول فتح کا
ہے مترادف!
٭٭٭
تعمیر
کسی کے گناہوں کو
الم نشرح
کرنے سے پہلے
اس لمحہ سوچو
کیا
اس پل کی تعمیر
نہیں کرتے ہو؟
جس پُل سے ہو کر
تمہیں
خود گزرنا ہے
٭٭٭
منظر
خوب رونے سے
آنکھیں صاف ہوتی ہیں
کالی دھند بادلوں کی
ہٹے گی
آسماں جب روئے گا
پچھادیا چلے گی
مطلع صاف ہو گا
منظر تب ہی
خوشنما دکھائی دے گا!
٭٭٭
دعویٰ
اپنے عیوب کو
چھپانے کے لیے
کیا کیا نہیں کرتے؟
بڑی ڈھٹائی سے
اعتراف گناہ کرتے ہیں
اپنی فوقیت کا
بڑی بے شرمی سے
اظہار کرتے ہوئے
سچ بولنے کا
ڈھونگ کرتے ہیں
لذتِ گناہ دے کر
دوسروں کو آمادۂ گناہ کرتے ہیں
کبھی یوں بھی کرتے ہیں
اپنے گناہوں پر
مون دھارن کرتے ہوئے دوسروں کی
عیب کشائی کرتے ہیں
اپنے کو
بے عیب ہونے کا
بے دلیل
دعویٰ بھی کرتے ہیں
٭٭٭
چشم پوشی
میرا دوست
میرا محبوب ہے
میری کوتاہیوں سے
چشم پوشی کرتا ہے
اور مجھ سے
محبت کرتا ہے
٭٭٭
احتساب
بہت جلد
ایسا بھی دن آئے گا
زبان پہ قفل لگ جائے گا
انسان کذب نہ بول پائے گا
ہر عضو گویا ہو گا
وہی حق کا گواہ ہو گا
حیرت و استعجاب کا مجسمہ
پریشان اور لبِ تشنہ
سوچے گا
جس کے لیے جھوٹ بولا
وہی آنکھیں دکھائے گا
اس سے پہلے کہ آنکھیں مُند جائیں
کاش وہ آنکھیں کھل جائے
جو اس حساب کو دیکھ لے
حساب ہونے سے پہلے
اپنا احتساب کر لے
٭٭٭
زہر
میں اس سمِ قاتل
کا ہوں قائل
جس میں شہد کی
شیرینی ہو داخل
لیکن اس شہد کی
مخالفت کرتا ہوں
جس میں زہر ہلاہل
کی کڑواہٹ ہو شامل
٭٭٭
التجا
انسان کی جوٗن میں
تو نے تخلیق کیا
مجھے اشرف المخلوقات
کا درجہ دیا
یارب! یہ التجا ہے
میری نظر میں
مجھے ادنیٰ کر دے
دوسرے کی نظر میں
اعلیٰ کر دے
دعا میری
مستجاب ہو جائے
میرے اشرف ہونے کا
سلسلہ دراز ہو جائے
٭٭٭
وہ لمحہ
ہر خوشی
آنے سے پہلے
اپنا پتہ دیتی ہے
پرنتو اس کے جانے کا
وہ لمحہ!
نہ پتہ چلتا ہے
اور نہ یاد رہتا ہے
مگر یہ غم!
کیوں چپ چاپ
دبے پاؤں چلا آتا ہے
اس کے جانے کا
ہر لمحہ!
یاد رہتا ہے
اور وقت بھی
معلوم ہوتا ہے
٭٭٭
آرزو
تعارف تیرا لفظوں میں؟
زندگی کم ہے بہت
خوشبو، کیسے کوئی قید کرے
تیری رفاقت کے لیے
چاند، شرمائے
کس کو فرصت ہے
وہ پیکر ہو تم
محبت کے لیے
جھیل جیسی گہری آنکھوں سے
ابھرنے کا جتن کون کرے
میں پھر بھی تیرا نام
گلاب چہرہ لے کر جیتا ہوں
آتشیں لب و رخسار
اپنی شب غم کی سحر
آغوش تخیل میں خمار آلودہ غزل ہو
تیری آنکھوں میں کھوجتا ہوں!
گہرے پانی میں رقص کرتا ہوا جیسے کنول ہو
سوچتا ہوں
کوئی غزل، سرِ شام لکھوں
اپنی خوابیدہ امنگوں کو
تیرے نام لکھوں
٭٭٭
کورنٹائین
چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا
گھر کورنٹائن ہوا
ڈٹینشن بار سے بچے
گنگا نہائے
کیوں ہاتھ دھوئیں
قلم پکڑیں گے
ہاتھ نہیں پکڑیں گے
لکھیں گے، پڑھیں گے
زندہ تو رہیں گے
مشاہدہ فطرت نہ سہی
مطالعہ کتب کے ذریعہ
پھر سے
انسان کو پڑھیں گے
انسان بنیں گے
٭٭٭
معتکف
اس دور کی یہ پہچان بنی
فاصلہ رکھنا یہ قدر بنی
اب کون سے وقت کا انتظار ہے؟
رب راضی کا یہ سنہری موقع ہے
یہ سوچ کر صبر کرنا ہے
صبر ہی تقویٰ ہے
جانا اسی کے پاس ہے
فاصلہ بنائے رکھنا ہے
دنیا میں رہ کر، دنیا سے دور رہنا ہے
معتکف ہونے کی یہی شرط ہے
دستِ دعا اٹھاؤ
انسان ہونے کے لیے
مسلمان بنائے رکھنا ہے
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں