فہرست مضامین
- ادب سلسلہ
- علی گڑھ تحریک : ایک مطالعہ
- چراغ جلتے نہیں جلائے جاتے ہیں
- سر سید اور علی گڑھ تحریک
- حکومت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی
- علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بارے میں تکرار
- مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر زعفرانی تلوار
- سر سید اور علی گڑھ تحریک۔ ایک اجمالی جائزہ
- اردو محققین کے پیش رو: سر سید احمد خاں
- سر سید: ہندوستانی مسلمانوں کے محسنِ اعظم
- سر سید احمد خاں : فکر و نظر کے چند پہلو
- سر سید کا اجتہاد: ملک و ملت کے لیے حیات نو کا پیغام
سہ ماہی
ادب سلسلہ
اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ
کتابی سلسلہ (۲)
جلد :۱ جولائی تا دسمبر۲۰۱۶ شمارہ: ۳
حصہ اول ب : گوشہ اگر سر سید نہ ہوتے ، حصہ ب
علی گڑھ تحریک : ایک مطالعہ
—ڈاکٹر سعید احمد
تحقیق و تنقید، تحریقات و رجحانات
علی گڑھ تحریک کے پس منظر کو جاننے کے لیے انیسویں صدی کے نصف اوّل کے سیاسی منظر نامے کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ 1857 سے قبل کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی حالات کو بھی بہت بہتر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں مغلیہ سلطنت برائے نام رہ گئی تھی۔ اس دور میں ہندوستان کے اکثر صوبے سرکش جاگیرداروں کے ماتحت تھے جو مغل بادشاہوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا، ان کے لیے ان حالات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست ہو گئی، اور مکمل طور سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1857 کی جنگ آزادی سے ہندوستانی مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی اس جنگ میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انگریزوں کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں، اس جنگ آزادی کے ردِّ عمل میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ خسارہ ہوا۔ اشفاق احمد اعظمی لکھتے ہیں :
"غدر 1857 نے حکومت کو ہندوستانیوں خاص کر مسلمانوں سے حد سے زیادہ برہم کر دیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی اس ملک میں دشوار ہو گئی۔ کتنے مسلمانوں کو غدر کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی کتنے کے گھروں کو اجاڑ دیا گیا۔ ان کی جائیدادیں اور ان کی املاک کو ان سے نہایت بے دردی سے چھین لیا گیا ان پر روزی روزگار کے تمام راستے بند کر دئیے گئے مسلمان زمینداروں، تعلقہ داروں اور اس قوم کے سربرآوردہ اشخاص کی عزت و آبرو سبھی کچھ برباد کر دی گئی، غریب مسلمانوں کے چھوٹے موٹے پیشے اور کاروبار کو تباہ کر دیا گیا جس سے صنعت گر، اور ہنرمند مسلمانوں کی بھی روزی ماری گئی۔ اس طرح مسلمانوں کے اندر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے بدحالی پیدا ہو گئی۔ ” 1
سر سید احمد خان نے 1857 کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نازک دور نے سر سید کو ذہنی کشمکش اور عجیب پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے برطانوی نظر سے مسلمانوں کے خلاف قائم بھرم کو دور کرنے کی پیہم کوشش کی اور مسلمانوں کی فوز و فلاح کے لیے مشکل سے مشکل کام کرنے کا عزم مصمم کر لیا اور وہ اپنے اس عظیم مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
سر سید احمد نے اَسّی برس کی طویل عمر پائی۔ 1817 میں دہلی کے معزز اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کے احوال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1817 تا 1837 ہے جو ان کے بچپن جوانی اور تعلیم کا دور ہے جس دور میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ دوسرا دور 1838 تا 1857 کا احاطہ کرتا ہے۔ اس دور میں سر سید کی بہت سی مشہور تصانیف منظر عام پر آئیں۔ اس دوران انھوں نے نوکری، دیگر ادبی خدمات انجام دیں۔ تیسرا دور 1877 تک محیط ہے۔ اس دور میں انھوں نے قوم کے مابین اتحاد و اتفاق میل جول اور بھائی چارے پر زور دیا ہے، اس دور میں انھوں نے لندن کا سفر کیا اور وہاں کی یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام سے بہت متاثر ہوئے، اور انھوں نے لندن ہی میں اپنے ذہن میں ‘ایک خاکہ بنا لیا تھا کہ ہندوستان میں ایک عظیم یونیورسٹی مسلمانوں کے لیے قائم کریں گے۔ اسی سفر کا نتیجہ ہے کہ سر سید نے ایک اہم کتاب ‘خطبات احمدیہ’ لکھی، یہ کتاب ‘لائف آف محمڈن’ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ ان کی زندگی کا آخری دور 1877 تا 1897 ہے یہ دور اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس دور میں سر سید نے مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور علمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اردو ادب میں بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں، لیکن علی گڑھ تحریک ان تمام تحریکوں میں اپنی انفرادی شان رکھتی ہے، اس تحریک کو مکمل ادبی تحریک نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ سر سید کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و ادبی، کاوشوں کی وجہ سے وجود میں آئی اس لیے اس تحریک کو سر سید تحریک کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اس تحریک نے اردو شعر و ادب پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ خلیق احمد نظامی اپنی کتاب ‘سر سید اور علی گڑھ تحریک’ کے دیباچہ میں رقمطراز ہیں :
"ہندوستان کے مسلمانوں کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی فکری، علمی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سر سید اور علی گڑھ تحریک بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں سر سید اور ان کے رفقاء کے لیے مدرسة العلوم ایک تعلیمی درس گاہ، نئے فکری رجحانات کی ایک علامت احیاء ملی کی ایک تحریک کا نام تھا۔ یہاں ‘آدم گری’ بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں وقت کے اشاروں کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔ سر سید کی بلند حوصلگی، عزم راسخ خلوص نیت اور جہد مسلسل نے اس مشکل اور متنوع کام کو ایک تحریک کی شکل دے دی تھی زمانے کے پیچ و خم کے ساتھ تحریک کے خد و خال بھی بدلتے رہے لیکن سر سید کے افکار کی معنویت ہر دور کے لیے بڑھتی ہی رہی اور ان کی یہ آواز برا بر فضاؤں میں گونجتی رہی :
سنگ تربت ہے مرا گرویدۂ تقریر دیکھ
چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ
علی گڑھ تحریک ایک اہم تحریک تھی اس سے ادبی تحریک کو تقویت حاصل ملتی رہی ہے، سائنٹفک سوسائٹی، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، تہذیب الاخلاق، اور ایم او کالج کے بہی خواہوں نے تحریر و تخلیق پر اتنا زور دیا کہ جس کی وجہ سے شعر و ادب کا ایک معیار سامنے آ گیا۔ سر سید احمد خاں نے زندگی کے آخری ایام کو ایم او کالج کے لیے وقف کر دیا تھا، علی گڑھ تحریک کو با آسانی سمجھنے کے لیے اس کی فکری بنیادوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
علی گڑھ کی پہلی فکری بنیاد مادیت اور ترقی پر تھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں ہندوستان کی شکست ہوئی، جس کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کو زیادہ اٹھانا پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی پریشانیاں قدم قدم پر آنے لگیں، ان مشکلات کا حل سر سید احمد خاں نے ڈھونڈنا شروع کر دیا، آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانی مسلمان انگریزی حکومت سے مقابلہ آرائی کے بجائے ان کا ساتھ دیں، کیونکہ قوم کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ انگریزی حکومت کا مقابلہ کرتے اور سر سید نے یہ واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ مادی خوش حالی مغربی علوم و فنون کو حاصل کیے بغیر نہیں کی جا سکتی ہے۔
سر سید احمد خاں نے علم کے قدیم تصور کو رد کیا ہے ان کا خیال تھا ایسا علم حاصل کیا جائے جس سے قوم کی ترقی ہو اور معاشی زندگی میں دشواریاں نہ پیش آئیں۔ سر سید مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کے دلوں میں جو نفرت تھی اس کو ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے ‘اسباب بغاوت ہند’ لکھی۔ وہ برابر مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے رہے کہ وہ انگریزوں کا ساتھ دیں اور علمی میدان میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، ایسا کرنے سے ہی قوم کی معاشی زندگی میں خوش حالی آئے گی:
"1857 کی بغاوت کے نتیجے میں برطانوی ظلم اور زیادتی سے ہونے والے ذاتی نقصان اور قومی سانحے کی طرف سر سید کے حساس مزاج نے شدید ردِ عمل کا ثبوت دیا سر سید کے اس کامل یقین کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کو دوام حاصل ہو چکا ہے انھیں اس بات پر مائل کیا کہ وہ انگریزوں کا ساتھ دیں بعد میں بغاوت پر قابو پا لینے کے نتیجہ میں انگریزوں کی جانب سے ہندوستانیوں پر جو ظلم اور زیادتی ہوئی اس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے سر سید نے خود کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ اس صورتِ حال نے ایک نئے سر سید کو جنم دیا۔ ”
علی گڑھ تحریک کی دوسری فکری بنیاد عقلیت پر مرکوز تھی۔ سر سید کا ماننا تھا کہ مذہبی معاملات میں عقل کا دخل ہونا چاہیے اور بغیر عقلی استدلال کے آنکھ بند کر کے مذہبی مسائل کو قبول نہیں کرنا چاہیے اس لیے انھوں نے تقلید کی پر زور مخالفت کی ہے۔ سر سید نے قرآن پاک کی تشریح عقلی دلائل کی روشنی میں کی۔ انھوں نے قرآن شریف کے اکثر واقعات اور قصے کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مذہب اسلام کو سائنس، فلسفے اور قانون کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اس لیے سر سید نے تمام معجزات اور کرامات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ انور سدید رقمطراز ہیں :
"سر سید نے مذہب کا خول توڑنے کے بجائے اسے فعال بنانے کی کوشش کی۔ اس لحاظ سے سر سید نے مذہب کی محرک قوت سے بھی کام لینے کی کوشش کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا سر سید نے عقل سلیم کے ذریعے اسلام کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسلام زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی توضیح کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ”
سر سید کے مذہبی افکار و نظریات پر اس دور کے دانشوران ادب نے بہت نکتہ چینی کی تھی اور آج بھی ان کی اس مذہبی فکر سے مسلمان اتفاق نہیں کرتے ہیں اور سر سید کے عہد میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اگر سر سید، مذہب اسلام کو عقل کے ترازو میں تولنے کی کوشش نہ کرتے تو اس دور میں ان کی اتنی مخالفت نہ ہوتی۔ ان کے اہم معاصرین حالی، شبلی، نذیر اور وقار ملک وغیرہ نے ان کے اصلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے باوجود مذہبی معاملات میں ان کی عقلیت پسندی سے اختلاف کیا۔ سر سید نے مذہبی معاملات کو عقل کے مطابق دیکھنے کی اس لیے کوشش کی تھی کیونکہ مذہب اسلام میں بہت سی نئی چیزیں داخل ہو گئیں تھیں، سر سید ان بدعتوں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ نورالحسن نقوی کا یہ اقتباس قابل غور ہے :
"نتیجہ یہ کہ قرآن حکیم اور مستند حدیثوں کی پیروی کے بجائے مسلمانوں کو مختلف تشریحوں اور تفسیروں کے مطابق عمل کرنا پڑا اس راہ سے غلط اور غیر معتبر روایتیں بھی شامل ہو گئیں سر سید کا عقیدہ تھا کہ روایتیں جزو اسلام نہیں اور المیہ مجتہدین کے قیاسی و اجتہادی مسائل کا اصل مذہب سے کوئی علاقہ نہیں۔ سر سید ان مجتہدین کی رائے کو بس اتنی وقعت دیتے تھے جتنی کسی قانون داں کی رائے کو دی جا سکتی ہے۔ ”
سر سید کی عقلیت پسندی کے ضمن میں یہ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"سر سید نے اسلام کی ترجمانی میں انیسویں صدی کی عقلیت کو محدود معنوں میں استعمال کیا۔ انھوں نے اسلام سے ان سارے عناصر کو نکال باہر کیا جو ان کے نزدیک ان کے عہد کی ضرورتوں کے مطابق نہیں تھے۔ انھوں نے مذہب کی کورانہ تقلید کو غلط ثابت کیا اور ہر عہد میں مجتہد کی ضرورت پر زور دیا۔ ”
سر سید عقلیت پسندی کے ذریعہ مذہبی اصلاح کرنا چاہتے تھے، انھوں نے اپنے عہد کے تناظر کو مد نظر رکھتے ہوئے عقلیت پسندی پر زیادہ زور دیا۔ جدید تعلیم کے تعلق سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کفر اور الحاد کی طرف لے جاتا ہے اور سر سید عوام کو اس غلط فہمی سے دور رکھنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے مذہب اسلام کو جدید علوم اور سائنس کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے قدیم روایات جو اسلام میں داخل ہو گئیں تھیں ان کو اپنی تحقیق سے ثابت کر دیا کہ اسلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی متعدد مثالیں ان کی تفسیر ‘تبیین القرآن’ میں مل جائیں گی۔
سر سید نے جبرئیل اور فرشتے کے وجود، شق صدر اور معراج کا واقعہ، پیغمبروں کا پیدا ہونا جیسے اہم موضوعات پر اظہار کر کے مسلمانوں کو حیرت میں و استعجاب میں ڈال دیا تھا اس بڑھی ہوئی عقلیت پسندی کی وجہ سے اس دور میں ان کو کافر بھی کہا گیا تھا۔
علی گڑھ تحریک کی تیسری بنیادی فکر اجتماعیت پر تھی، سر سید نے اجتماعیت پر اس لیے زور دیا ہے کہ انفرادی کوشش سے کسی مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہے اور ان کا ماننا تھا کہ یہ زمانہ انفرادی کوشش کا نہیں ہے وہ پوری قوم کو متحرک رکھنا چاہتے تھے سر سید نے اظہار رائے کی آزادی پر زور دیا ہے، اظہار رائے کی آزادی میں گورنمنٹ، مذہب، برادری اور قوم میں خوف بالکل نہیں ہونا چاہیے، اس لیے انھوں نے آزادی پر زیادہ زور دیا تاکہ اس سے قوم کی حق تلفی نہ ہو، اظہارِ رائے پر پابندی کی وجہ سے قوم و ملت کا بہت بڑا خسارہ تھا۔
سر سید کے خیال میں تصور اجتماعیت میں دو تصورات آتے ہیں، ایک تصور تعلیم جو انفرادی کے بجائے اجتماعی ہونا چاہیے، وہ کہتے تھے سماج کو ذہنی طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر ارتقا کی منازل طے کرنے میں منہمک رہنا چاہیے، سر سید تصور تعلیم کو بہت وسیع معنوں میں لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے انفرادی تعلیم کے بالمقابل ‘قومی تعلیم’ کا تصور پیش کرنے میں تامل نہیں کیا ہے انھوں نے انفرادی کوششوں کو لغو بھی قرار دیا ہے۔ سر سید نے ایک مرتبہ اپنے لکچر میں کہا تھا:
"تعلیم و تربیت کی مثال کمہار کے آوے کی سی ہے کہ جب تک تمام کچے برتن یہ بہ ترتیب ایک جگہ نہیں چنے جاتے اور ایک قاعدہ داں کمہار کے ہاتھ سے نہیں پکائے جاتے کبھی نہیں پکتے پھر اگر تم چاہو کہ ایک ہانڈی کو آوے میں رکھ کر پکا لو ہرگز درستی سے نہیں پک سکتی۔ ”
دوسری جگہ قومیت کے تصور کا بیان اس طرح کرتے ہیں :
"لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے یہی وہ معنی ہیں جس میں لفظ ‘نیشن’ کی تعبیر کرتا ہوں میرے لیے یہ امر چنداں لحاظ کے لائق نہیں ہے کہ ان کا مذہبی عقیدہ کیا ہے۔ ..۔ ہم سب کے فائدے کے مخرج ایک ہی ہیں یہی مختلف وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں ان دونوں قوموں کو جو ہندوستان میں آباد ہیں ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہوں کہ ‘ہندو’ یعنی ہندوستان میں رہنے والی قوم جس زمانہ میں میں قانونی کونسل کا ممبر تھا تو مجھ کو خاص اسی قوم کی بہبودی کی دل سے فکر تھی۔ ”
علی گڑھ تحریک کی چوتھی فکری بنیاد نیچریت پر تھی۔ سر سید کا ماننا تھا ادب اور تہذیب میں مبالغے اور جذباتیت کی گنجائش نہیں ہے، وہ حقیقت اور اصلیت پر زیاد زور دیتے ہیں، سر سید ابتدائی 30سالوں میں ہندو و مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی پر زیادہ زور دیتے تھے اور ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے یہ قوم کیسے ترقی کرے گی۔ سر سید نے شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد بریلوی اور شاہ عبدالمغنی کی عظمت کا اعتراف کرنے کے باوجود ان کے نظریہ جہاد کو باطل ٹھہرایا تھا اور ہمیشہ ہندوستان کے ہندو مسلم کے مابین ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ سر سید کی سائنٹفک سوسائٹی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی تھی، اس زمانے میں دینی معاملات میں ان کے معاصرین نے بھی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ ور نیکلر سوسائٹی(Vernacular Society) کے قیام سے اردو زبان اور ادب کے فروغ کا زیادہ امکان تھا اس لیے اس دور کے کچھ ہندوؤں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس آواز سے سر سید کا لاشعور جاگ اٹھا اور یہیں سے ان کے فکر میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی سر سید کو اس بات سے بہت زیادہ رنج ہوا جب ہندوؤں نے یہ تجویز پیش کی کہ سرکاری عدالتوں میں اردو زبان کو دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے اور اردو زبان جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس میں تبدیلی لانے کی بہت ضرورت ہے، اس واقعہ سے سر سید احمد خاں کو یہ احساس ہو گیا کہ ہندو مسلم دونوں کو ایک قوم ماننا میری غلط فہمی ہے، ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہے اس رد عمل کا اظہار انھوں نے جذباتی انداز میں کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
"انھیں دنوں جب یہ چرچا بنارس میں پھیلا ایک روز مسٹر شیکسپیئر سے جو اس وقت بنارس میں کمشنر تھے میں مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں گفتگو کر رہا تھا اور وہ متعجب ہو کر میری گفتگو سن رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ آج یہ پہلا موقعہ ہے کہ میں نے تم سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا ذکر سنا ہے اس سے پہلے تم ہمیشہ عام ہندوستانیوں کی بھلائی کا خیال ظاہر کرتے تھے میں نے کہا اب مجھے یقین ہو گیا کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہو سکیں گی۔ ”
ہندو اور مسلم اتحاد کو توڑنے کے لیے کچھ انتہا پسند ہندوؤں نے زبان کے تعلق سے اس نزاعی مسئلہ کو چھیڑا تھا ہم ایک طرح سے اس کو ایک سیاسی کھیل سے تعبیر کر سکتے ہیں سر سید کو بعد میں اس کا اندازہ ہو پایا۔ سر سید ہندو مسلمان دونوں کو ایک قوم تصور کرتے تھے اس لیے ہندو اور مسلمان کو دو آنکھوں سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:
"اے میرے دوستو میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو پیاری دلہن بھیں گی ہو جائے گی اور اگر ایک دوسرے کو برباد کر دیں گے تو وہ کانڑی بن جائے گی۔ پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو مسلمانوں اب تم کو اختیار ہے کہ چاہو اس دلہن کو بھینگا بناؤ چاہو کانڑا۔ ”
سر سید کا مطمح نظر یہ تھا کہ قوم سیاست سے دور رہے صرف تعلیم کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا جو اس دور کا تقاضہ تھا۔ سر سید کا یہ پیغام سر سید کی زندگی تک تھا اور جب وقار ملک نے قوم کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا تو یہ قوم ملکی سیاست سے دور نہ رہ سکی۔
علمی و ادبی خدمات
علی گڑھ تحریک کی ادبی معنویت سر سید اور ان کے اہم رفقاء کی علمی و ادبی خدمات پر منحصر ہے، سر سید احمد خاں نے بذات خود جن اہم موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے دوسرا ادیب اس طرح کے موضوعات پر قلم اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ سر سید کی علمی تصانیف کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، خلیق احمد نظامی نے بجا فرمایا کہ سر سید اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور ان کی حیثیت کسی ادارہ سے کم نہ تھی، سر سید نے تحقیق، تنقید، فلسفہ، مذہب، تاریخ، عمرانیات جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا اور ہر میدان میں اپنی الگ شناخت قائم کی۔ سر سید نے مذہبی معاملات میں عقلیت، وسیع الذہنی، اور بے تعصبی سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، غالباً تقابلی مطالعہ کرنے کا اولین شرف ان ہی کو حاصل ہے انھوں نے انجیل کی تفسیر "تبیین الکلام” کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ سر سید کی مذہبی کتابوں میں جلاء القلوب بذکر المحبوب (1842)، تحفة حسن (1844)، کلمة الحق (1849)، راہِ سنت در ردِّ بدعت (1850)، نمیقہ در بیان مسئلہ تصور شیخ (1852)، ترجمہ رجز و کیمیائے سعادت (1862)، تبیین الکلام فی تفسیر التوراة والانجیل علی ملت السلام، (1861)، طعام اہل الکتاب (1866)، خطبات احمدیہ، (1870)، تفسیر القرآن (1876)، النظر فی بعض مسائل الامام الغزالی رسالہ (1879)، ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف والرقیم رسالہ (1889)، ازالة الغین عن الذکر القرنین (1889)، رسالہ ابطال غلامی (1892)، الدعاء واستجابة (1892) تحریر اصول التفسیر (1892) اور تفسیر السموات وغیرہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
سر سید نے مذہبی کتابوں کے علاوہ قانون اور سائنس پر کتابیں لکھی ہیں نیز بہت سی کتابوں کا ترجمہ بھی کروایا ہے۔ سر سید احمد خاں کو تاریخ سے بھی بہت شغف تھا وہ مسلمانوں کی تاریخ کو قومی سرمایہ سمجھتے تھے اور قوم کو مسلمانوں کی حقیقی تاریخ سے آشنا کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے ہندوستانی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا اور بہت سی تاریخی کتابوں کو جمع کرنا شروع کیا، اسی کد و کاوش کا نتیجہ ہے کہ ‘آثار الصنادید‘ جیسی اہم کتاب ہمارے سامنے آئی، اس کتاب کی ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی پیمانہ پر بہت شہرت حاصل ہوئی، نیز کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوا ہے سر سید کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایرانی تواریخ کی کتابوں کو ایڈٹ (Edit)کیا ہے۔ جس میں ضیاء الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہی، ابوالفضل کی آئین اکبری قابل ذکر ہیں، مزید برآں ان کتابوں کو اپنے پرائیویٹ پریس سے شائع بھی کیا۔
سیاست پر سر سید کی دو کتابیں منفرد نوعیت کی حامل ہیں ‘ اسباب بغاوت ہند’، ‘سرکشی ضلع بجنور’ یہ کتابیں سر سید کے وسیع مطالعہ کی غماز ہیں، 1857 کے حوالے سے یہ اہم کتابیں ہیں۔
علی گڑھ تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی اس تحریک نے اصلاح معاشرہ کی خاطر مغربی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سر سید نے بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کیے تاکہ قوم کی اصلاح ہو سکے انھوں نے ادارے اور انجمنیں قائم کیں تاکہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہو۔ سائنٹفک سوسائٹی 1864، برٹش انڈیا ایسوسی ایشن، 1966، کمیٹی برائے تبلیغ و توسیع تعلیم 1870، محمڈن سول سروس فنڈ ایسوسی ایشن، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس 1886، انڈین پیریاٹک ایسوسی ایشن، محمڈن ایسوسی ایشن 1883، ایم اے او ڈیفنس ایسوسی ایشن 1893، محمڈن نیشنل والنسٹرس آف ایم اے او کالج 1888، یہ ایسی انجمنیں اور ادارے ہیں جس کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی و علمی، ادبی اور تہذیبی آبیاری کی جاتی تھی، سر سید کی اس تعلیمی تحریک کے دو رس اثرات مرتب ہوئے۔
اردو ادب میں سر سید کی اہمیت مسلم ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ علی گڑھ تحریک کی وجہ سے اردو شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ہے اس تعلق سے سر سید کی ادبی خدمات گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ اردو کے اولین مصنف ہیں جنھوں نے باضابطہ طور پر شعر اور نثر کے پیچیدہ مسائل پر اتنی سنجیدگی سے گفتگو کی ہے۔
سر سید کی تمام تحریریں مصلحانہ نوعیت کی ہیں اور یہی تحریریں قاری کے ذہن پر گہرا اثر ڈالتی ہیں :
"سر سید کی ادبی خدمات دو پہلوؤں سے قابل ذکر ہیں۔ ایک تو ان کے وہ خیالات جو انھوں نے شعر و ادب، تاریخ و لسان اور عروض و بیان کے سلسلے میں ظاہر کیے اور جن کی پیروی کی اپنے ساتھیوں اور ارادت مندوں سے مطالبہ کیا اور دوسرے وہ جو خود انھوں نے تخلیق کیا پہلے کے سلسلے میں ایک تو ان کا خط ہے۔ جو انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد کو لکھا اور دوسرے وہ مضمون جو مولانا کی نظم نگاری کی تحریک کی حمایت میں انھوں نے تہذیب الاخلاق میں شائع کیا۔ ”
سر سید احمد خاں مولانا محمد حسین آزاد کی نظم نگاری کی تحریک سے بہت خوش ہوئے اور انجمن پنجاب کی بے حد تعریف کی، انھوں نے نیچرل شاعری کی حمایت کی، محمد حسین آزاد کو داد تحسین دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسی مجلس میں مشاعرہ سے میری دلی تمنا پوری ہو گئی، سر سید اس بات پر زور دیتے تھے کہ ایسی شاعری کی جانی چاہیے جس میں سادگی، اصلیت اور حقیقت کے خیال کی پاکیزگی و ستھرائی ہو، انھوں نے اس دور کے اردو شعرا کو انگریزی شعرا سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا، سر سید نے الطاف حسین حالی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کی دل کھول کر تعریف کی تھی اور ان ہی کی فرمائش پر حالی نے ‘مسدس’ لکھ کر اپنا نام روشن کیا اور سر سید کی دلی خواہش کی تکمیل کی۔ سر سید نے ’مسدس حالی‘ کو اپنے اعمال حسنہ میں شامل کرنے میں تامل نہیں کیا۔
سر سید کی ادبی خدمات صرف نیچرل شاعری تک محدود نہیں ہے۔ انھوں نے اردو نثر کو بھی ایک نئی جہت سے روشناس کرایا اردو نثر کو سادہ اور آسان بنانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔
سر سید کا ایک اہم کارنامہ اردو صحافت ہے انھوں نے تہذیب الاخلاق کو لندن سے واپسی کے بعد 1870 میں جاری کیا اور یہ رسالہ ایک مشن کا کام کر رہا تھا۔ یہ رسالہ درمیان میں کئی بار بند بھی ہوا۔ اس دور میں بہت سے اخبار و رسائل نکلتے تھے لیکن تہذیب الاخلاق اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کو منفرد مقام حاصل تھا۔ سر سید نے اخبارات و رسائل کے ذریعہ اردو صحافت کو نئی راہ دکھائی، بالفاظ دیگر ان کی صحافت سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ سر سید کے مقالات اور نثری مضامین نے اردو نثر کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے، سر سید ادب کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں مانتے تھے۔ سر سید کا خیال تھا ایسا ادب لکھا جائے جس میں زندگی کے مسائل کی بھی عکاسی ہو، گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سر سید نے ادب کو افادی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں :
"سر سید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سر سید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور و اثر وسعت و جامعیت سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں ملک میں آج بڑے بڑے انشاپرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمران ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سر سید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو بعض بالکل ان کے دامن ترتیب میں پلے ہیں۔ ”
علی گڑھ تحریک کو ترقی دینے میں سر سید کے اہم معاصرین محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، نذیر احمد اور شبلی نعمانی کی ادبی و علمی خدمات کا بہت بڑا دخل رہا ہے، سر سید سے نذیر احمد اور شبلی نعمانی کچھ معاملات میں فکری اعتبار سے قدرے مختلف تھے، اس کے باوجود نذیر احمد، شبلی اور حالی کی اکثر نگارشات، مسلم معاشرے کی اصلاح کی ترجمان ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالی سر سید احمد سے غیر معمولی طور پر متاثر تھے، سر سید سے قربت کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے ‘حیات جاوید’ لکھ کر اردو میں سوانح نگاری کا آغاز کیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سر سید جیسے اہم دانشور ادیب نے ہندوستانی معاشرے میں عورتوں کے مسائل پر زور نہیں دیا ہے جس زمانے میں مسلم عورتوں کو گھر کی چہار دیواری میں مقید رکھا جاتا تھا لیکن اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ سر سید نے لندن کے سفرنامے میں ایک انگریز عورت سے انگریزی میں گفتگو کر کے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی اے کاش ہمارے ملک (ہندوستان) میں بھی اس طرح سے خواتین انگریزی تعلیم حاصل کرتیں، لیکن سر سید نے عملی طور پر ہندوستانی معاشرے میں مسلم عورتوں کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش نہیں کی ہے ان کے برخلاف مولانا الطاف حسین حالی اور مولوی نذیر احمد نے مسلم عورتوں کے مسائل کو اہم موضوع بنایا ہے ان دونوں ادیبوں نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ زور دیا ہے۔ حالی کی نثری نگارشات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بغیر عورتوں کی تعلیم و تربیت کے معاشرے کی تہذیب و ترقی نہیں ہو سکتی۔ حالی کی شعری اور نثری نگارشات میں یادگار غالب، حیات سعدی، حیاتِ جاوید، مقدمہ شعر و شاعری، مجالس النسائ، مسدس، چپ کی داد، مناجات بیوہ وغیرہ کو اردو ادب میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
مولانا شبلی نعمانی بھی علی گڑھ تحریک کے اولین معماروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے سر سید احمد خاں کی تعریف میں ایک عربی قصیدہ بھی لکھا تھا، شبلی سیاسی نقطۂ نظر سے سر سید کے مخالف تھے اور تا حیات کانگریس کی حمایت کرتے رہے، انھوں نے سر سید احمد خاں سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے، سر سید کی تحریک پر عمل کرتے ہوئے تاریخ اسلام کا مطالعہ نئے زاویہ سے کرنا شروع کیا اور اس میں اپنی انفرادیت قائم کر لی، شبلی کی نگارشات میں المامون، الفاروق، الغزالی، سیرة النعمان، سوانح مولانا روم، موازنہ انیس و دبیر، سفرنامہ روم و مصر و شام، مقالات شبلی، مکاتیب شبلی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ شبلی نعمانی سر سید سے بہت زیادہ قریب تھے۔ انھوں نے ذاتی طور پر سر سید سے بہت استفادہ کیا لیکن انھوں نے سر سید کے تمام نظریات کو آنکھ موند کر قبول نہیں کیا۔ شبلی ایک آزاد خیال ادیب تھے، انھوں نے حریت نسواں پر زور دیا ہے شبلی کا خیال تھا اسلام واحد مذہب ہے جہاں عورتوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں لیکن ہندوستان میں عورتوں کو وہ مساوی حقوق نہیں دیے گئے جس پر اسلام نے زور دیا ہے اس ضمن میں ایک اقتباس نقل کرتا ہوں جس سے شبلی کی آزاد خیالی کا پتہ چلتا ہے :
"شبلی کی خواہش تھی کہ مسلم عورتوں کو ان مضامین کے علاوہ جو مرد بھی اختیار کرتے ہیں فن موسیقی اور پرورش اولاد کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ ..۔ شبلی مسلم عورتوں کو گھر کی چار دیواری کے اندر مقید کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ”
سر سید احمد خان کے اہم رفیق نذیر احمد تھے، نذیر احمد نے علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہونے کے باوجود یہ محسوس کیا کہ سر سید تحریک پر مغرب پسندی حد سے زیادہ بڑھ رہی ہے اس دور اندیش ادیب نے سیاسی اور مذہبی معاملات میں سر سید کی کھل کر مخالفت نہیں کی، البتہ انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے رد عمل کا اظہار ضرور کیا ہے، ان کا یہ رد عمل ان کے ناول ‘ابن الوقت’ اور ‘رویائے صادقہ’ میں واضح ہے، نذیر احمد مغربی تہذیب سے تو متاثر نہیں ہوئے تھے لیکن انگریزی تعلیم پر بہت زور دیتے تھے، نذیر احمد، سر سید احمد خاں کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے تھے اور تا حیات سر سید کے شانہ بشانہ رہے، پروفیسر شجاع الدین زیبا رقمطراز ہیں :
"سر سید اور مولوی نذیر احمد کے سیاسی نظریات میں کامل ہم آہنگی تھی۔ سر سید کی طرح مولوی نذیر احمد کو بھی 1857 کی ناکام جنگِ آزادی کے نتائج و عواقب کا پورا پورا احساس تھا جو مسلمان قوم کو من حیث المجموع بھگتنے پڑ رہے تھے۔ بجنور اور اس کے بعد ضلع مراد آباد کے مسلمانوں کو باغیانہ سرگرمیوں کیالزام میں جو سختیاں سہنی پڑیں سر سید نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا سر سید نے بے بس اور مجبور مسلمانوں کو حکومت کے پنجہ عقوبت سے بچانے میں اور انگریز حاکمان وقت کی بے رحمانہ انتقامی کار روائیوں سے نجات دلانے میں جو عملی ہمدردی اور بے غرضانہ کوششیں کیں مولوی نذیر احمد کے علم میں تھیں انھیں یقین تھا کہ سر سید مسلمانوں کے سچے ہمدرد اور بہی خواہ ہیں، انھیں سر سید کی سیاسی بصیرت پر پختہ ایمان تھا 1881 میں جب مولوی نذیر احمد ابھی حیدرآباد میں تھے سر سید کی یادگار قائم کرنے کی تحریک علی گڑھ سے اٹھی۔ ”
یہ بات پہلے ہی گزر چکی ہے کہ نذیر احمد بعض مذہبی امور میں سر سید سے بالکل اتفاق نہیں کرتے تھے، مولوی نذیر احمد نے مذہب کے بالمقابل عقل کو مسترد کر دیا ہے، توحید پر ان کا عقیدہ اتنا پختہ تھا کہ وہ ہرگز نہیں برداشت کرتے تھے کہ مذہب اسلام کی تعبیر و تشریح عقل، سائنس اور مغربی علوم کو مد نظر رکھ کر کی جائے، ان کا ماننا تھا کہ مذہب اور سائنس کے مابین مطابقت نہیں ہو سکتی ہے۔ ان کا خیال تھا سائنس اور عقل کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہے جب کہ مذہب کی بنیاد صرف عقائد پر ہے۔
نذیر احمد نے اصلاح معاشرہ پر زور دیا ہے ان کی نگارشات مرأۃ العروس، بنات النعش، فسانہ مبتلا، رویائے صادقہ وغیرہ مسلم معاشرے کی تہذیب و ثقافت، مسلم عورتوں کے مسائل اور مسلم خواتین کی تعلیم و تربیت کی ترجمان ہیں۔ نذیر احمد کے یہاں مرد سماجی اعتبار سے عورت سے افضل ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں ہندوستانی فرسودہ خیالات کو جگہ دی ہے جو ہندوستانی معاشرے میں رائج ہیں۔ نذیر احمد کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوام بنا کر پیدا کیا ہے اسی لیے یہ عورتوں سے افضل ہیں، انھوں نے مسلم معاشرے میں مردوں کی افضلیت اور برتری کے لیے ایسی احادیث کو پیش کیا ہے جس سے ان کے فرسودہ خیالات کا پتہ چلتا ہے، شبلی نعمانی کی طرح نذیر احمد حریت نسواں کے قائل نہیں تھے۔ نذیر احمد نے کٹر مذہبی ہونے کے باوجود سر سید تحریک کے ایک مخصوص مشن کو عملی جامہ پہنایا۔ نذیر احمد کا وہ کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تقاریر سے علی گڑھ تحریک کو سماجی اور اقتصادی طور پر بہت فائدہ پہنچایا اور کالج کو مضبوط و مستحکم بنانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ نذیر احمد نے علی گڑھ تحریک کے ادبی مشن کو ارتقائی منزل پر پہچانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی تصانیف تقاریر گرانقدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں، اردو نثر نگاری میں ایک نیا اسلوب دیا، نذیر احمد نے دینی کتابوں سے اور تراجم سے علی گڑھ تحریک کو تقویت دی ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ نذیر احمد کی مذہبی کتابیں، الحقوق والفرائض، اجتہاد، ادعیہ القرآن و سورہ، امہات الامہ، مطالب القرآن، وغیرہ کی اہمیت مسلم ہے۔ اشفاق احمد اعظمی نے ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"نذیر احمد کی دینی کتب اور عربی تراجم بھی بے حد اہم ہیں۔ انھوں نے قرآن شریف کا ادبی ترجمہ کیا ور اس میں قرآن شریف کی ادبی دلکشی کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کی شعوری کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک کے کسی رکن نے قرآن کا ترجمہ نہیں کیا۔ سر سید نے خود اس کا ترجمہ کیا تھا مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوا لیکن نذیر احمد کا یہ ترجمہ اس قدر مشہور ہوا کہ ان کی زندگی ہی میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ علی گڑھ تحریک کی اس کمی کو نذیر احمد نے ہی پوری کیا۔ ”
نذیر احمد نے علی گڑھ تحریک کو اپنی تقریروں اور تحریروں سے بہت تقویت بخشی اور سر سید کو ان کی پیہم کوشش سے بہت فائدہ ہوا۔
افسوس کہ نذیر احمد کی زندگی کے آخری ایام زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ ان کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب انھوں نے 1908 میں ازدواج رسول کے حالات زندگی پر ایک کتاب ‘امہات الامہ’ لکھی۔ اس کتاب میں کچھ ایسی تحریریں تھیں جو ازواج مطہرات کی نفی کرتی تھیں اور نذیر احمد کا یہ فعل شعوری طور پر نہیں تھا ان کے حریفوں نے کچھ جملے ادھر ادھر کر کے اور محاورے سے پیچیدہ مسائل کو ابھارا جس کی وجہ سے اس دور میں نذیر احمد کی پر زور مخالفت شروع ہو گئی اور ان پر کفر کا فتویٰ دینے سے بھی تامل نہیں کیا گیا، پروفیسر شجاع احمد زیبا لکھتے ہیں :
"امہات الامہ کے ہنگامے کے بعد مولوی نذیر احمد بالکل بجھ کر رہ گئے تھے اول تو وہ ضعف و کہولت میں مبتلا اوپر سے زندگی بھر کی تصنیفی سرگرمیوں کا یہ رسوا کن انجام، ان کا دل پبلک لائف سے پہلے ہی سرد ہو چکا تھا اب وہ طرز تپاک ‘اہل دنیا’ سے بالکل ہی بے زار ہو گئے انھوں نے اپنی طویل زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ مال و دولت کی بھی اُ±ن کے پاس کمی نہ تھی۔ لیکن 3 مئی 1912 کو جب وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو اپنے ساتھ ایک مجروح روح اور ایک شکستہ دل لے کر بارگاہِ ستار الغیوب میں حاضر ہوئے۔ اپنی ‘کفریات’ کے باوجود سر سید کو اس درجہ خطرناک اور جان لیوا صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا جو مولوی نذیر احمد کو پیش آئی۔ ”
سر سید کے اہم رفقاء الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، مولوی نذیر احمد، نواب محسن الملک اور چراغ دہلوی وغیرہ نے سر سید تحریک کو ترقی کی منزل پر لا کر کھڑا کیا تھا۔ یہ اہم رفقاء بعض معاملات میں مخالفت کے باوجود سر سید کی کاوشوں کو سراہتے تھے، علی گڑھ تحریک کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ آخری وقت میں سر سید کے اہم مخالفین نے سر سید کی کاوشوں کا اعتراف کیا اور اکبر الہ آبادی جیسا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
٭٭٭
چراغ جلتے نہیں جلائے جاتے ہیں
—ڈاکٹر صالحہ رشید
انیسویں صدی کا وسط یعنی ۱۸۵۷ئ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ہے جان لے کر وارد ہوا۔ ہندوستانی عوام انگریزوں کے مظالم کے خلاف سڑکوں پر آ گئی۔ موقعہ پرستوں نے تو انگریزوں کے قدموں پر اپنی دستار رکھ دی مگر عوام کو کوئی راستہ نہ سوجھتا تھا، نہ ہی کوئی سینہ سپر راہنما ان کے سامنے تھا۔ ایسی تاریک فضا میں جس شخص نے خم ٹھونک کر قوم کی بہبود کا بیڑا اٹھایا، وہ سر سید احمد خاں تھے۔ انھوں نے قوم کو نا امیدی کے حصار سے باہر نکالنے کے لئے حوصلے کے چراغ روشن کئے۔ ایک بھرپور جمہوری تحریک تشکیل دی جسے ہم علی گڑھ تحریک کے نام سے جانتے ہیں۔ انھوں نے نہ فقط تحریک کی تشکیل کی بلکہ اس کی قیادت کو بھی اپنا نصب العین قرار دیا۔ قومی زوال کو وہ کسی صورت برداشت نہیں کر پا رہے تھے کیوں کہ ان کا نظریہ تھا
ایک حلقۂ زنجیر کوئی زنجیر نہیں
ایک نقطۂ تصویر کوئی تصویر نہیں
تقدیر تو قوموں کی ہوا کرتی ہے
ایک فرد کی تقدیر کوئی تقدیر نہیں
اپنی قوم کو اجتماعی ابتری سے نکال کر اس کی تقدیر بدلنے میں سر سید نے کلیدی رول ادا کیا۔ وہ ژرف نگاہ تھے۔ انھوں نے جب قوم کی فلاح و بہبود کا ارادہ کیا تو انھیں محسوس ہوا کہے ہاں تو سر تا پا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہب، سے است، سماج، تعلیم، رسم و رواج، زبان غرض کوئی بھی مے دان ایسا نہ تھا جو توجہ طلب نہ رہا ہو۔ سر سید نے خود تو نئے حالات کے ساتھ با عزت سمجھوتہ کرنا سیکھا تھا ساتھ ہی وہ اپنے تمام اہل وطن بالخصوص مسلمانوں کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی عظیم یونیورسٹی کے بانی تھے بلکہ قوم و ملت کے سچے ہمدرد، مصلح، مفکر، مدبر، قرآن کے مفسر، صاحب طرز ادیب اور اہل قلم بھی تھے۔ اس ہمہ جہت شخصیت نے قوم کی تنزلی کے تمام پہلوؤں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ باری باری ہر پہلو پر غور کے ا اور عزم مصمم کیا کہ ان تمام توجہ طلب امور میں نئی روح پھونکیں گے۔ وہ اہل وطن سے بے زاری، مایوسی، غلامی توہم پرستی اور اندھی تقلید کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ انھوں نے ایسا کر بھی دکھایا۔ قوم کی بہتری کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے انجمنیں قائم کیں، کتابیں لکھیں، مضامین شائع کئے، رسالے اور میگزین نکالیں۔ مذہب کی نئی تعبیر و تفسیر کی، سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی اس جانب راغب کیا۔ انگریزوں اور مسلمانوں کے درمے ان پیدا شدہ غلط فہمی دور کر انھیں نزدیک لانے کی کوشش کی۔ اس کے عوض انھیں اہل وطن کے طعنہ و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا تو کبھی دشنام کے تیر و تبر سہنے پڑے۔ سر سید تو دھن کے پکے تھے۔ لوگوں کی الزام تراشی سے بے نیاز اپنی قوم کی خاطر کوشاں رہے اور وہ کوشش اس حد تک پہونچی کہ آج بھی علی گڑھ تحریک کی معنویت برقرار ہے۔
سر سید کو کسی طور یہ بات گوارا نہیں تھی کہ ان کے برادران وطن بنا سوچے سمجھے کسی اندھی راہ پر چل پڑیں۔ توہم کی دبیز چادر کو انھوں نے اپنی کوششوں سے اتار پھینکنے کی بھر پور کوشش کی۔ فرسودہ روایتوں میں جکڑے لوگوں کو نئی زندگی کا مژدہ سنایا۔ لٹی پٹی قوم کی آنکھوں میں خود اعتمادی اور حوصلے کی چمک پیدا کی۔ انھوں نے عوام کے سامنے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کورانہ تقلید سے بچیں اور جب تک ایسا نہیں ہو گا بہتری کی راہ کشادہ نہیں ہو گی۔ انھیں بے کار کی روایت پرستی اور توہم پرستی کے خلاف مسلسل جد و جہد کرنے کی تلقین کی۔ ان کی اس فکر کے پیش نظر ادب کی ایک نئی شکل وجود میں آنے لگی جس میں اول تو مقصدیت کا دخل ہوا اور اسی کے ہمراہ عقلیت اور افادیت کا بھی تصور پنپنے لگے۔ ایک رجحان زور پکڑنے لگا کہ زندگی سے متعلق مسائل کو عقل کی روشنی میں دے کھا اور پرکھا جانا چاہئے۔ چونکہ عوام میں ہر چہار طرف توہم پرستی عام تھی۔ سر سید کے اس خیال سے فرسودہ روایت کے حامی لوگوں پر کاری ضرب پڑی۔ ان کا رد عمل اتنا شدید ہوا کہ انھوں نے سر سید پر کفر کا فتویٰ عاید کر دیا۔ لیکن وہ تو دھن کے پکے تھے۔ ان فتووں کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے رہے اور اپنے خیالات و افکار کو لوگوں کے درمیان رکھنے کی پے ہم جد و جہد کرتے رہے۔ من جدّ وجد کے مصداق ان کے خیالات نے عوام میں روشنی کی کرن پھونکی۔ معاشرے میں کم ہی سہی مگر کچھ صاحب عقل و شعور موجود تھے، جنھوں نے سر سید کے خیالات کی ہمنوائی کی۔ وہ لوگ عملی طور پر اس مشن میں شامل ہو گئے۔ معاشرے میں ایک نئی قسم کی ہلچل شروع ہو گئی۔ رفتہ رفتہ یہ ہلچل عمل و حرکت کی موج میں تبدیل ہو گئی۔ در اصل عوام کے کفر کا فتویٰ ایمان کی نئی را ہیں کھولنے لگا۔ لفظ جدید اور جدیدیت کی حس بے دار ہوئی۔ اہل مشرق جو مغرب سے دوری بنائے ہوئے تھے انھیں احساس ہوا کہ انگریزوں میں ظلم و جبر کے علاوہ بھی کچھ خصوصیات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں جاننے کے لئے اہل مغرب سے قربت ضروری ہے۔ مگر اس امر میں ہچکچاہٹ مانع تھی۔ سر سید نے اس ہچکچاہٹ کو دور کرنے کی سعی کی۔ انھوں نے اس کام کے لئے اپنی تحریر اور تقریر کا سہارا لے اجس نے مغرب اور مشرق کے درمے ان ایک پل کا رول ادا کیا۔ سر سید نے ایک نکتہ ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا اور وہ تھا اپنے تہذیبی رشتہ سے دلی لگاؤ اور اس کی حفاظت۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ اجداد کی وراثت کسی طور ضائع نہ ہو۔ انھوں نے اسے بچانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ اس مقصد کی بر آری میں ان کے ہمنواؤں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ وہ سب انسان دوست ہونے کے ساتھ ہی علم کی دولت سے مالامال تھے۔ لہٰذا ان لوگوں نے علم کو اپنا ہتھیار بنایا۔ اپنا تاریخی و تہذیبی ورثہ ان کے بھی پیش نظر تھا جس کی قدر و قیمت سے وہ لوگ خود بھی با خبر تھے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ جدید فکر کے وہ حامی نہیں تھے بلکہ وہ سب تو نئی کرن کو دیکھنے کے خواہاں تھے۔ اچھی روایات سے انھیں انکار نہ تھا۔ جو عقائد درست تھے انھیں مانتے رہنے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ ان لوگوں نے مفید اقدار کو قائم رکھنے کی ہر چند کوشش کی اور اسی اثناء فرسودہ روایات سے عوام کو آشنا کرانے کا مشن بھی جاری رہا۔ درست اقدار پر زندگی کے اصول قائم کرنے کی تلقین ان حضرات کا نصب العین تھا۔ یہ لوگ محض ایک صاف ستھرے صحت مند معاشرے کی تشکیل کا خواب دیکھ رہے تھے اور سر سید ان کے پیش رو تھے۔
سر سید کی شخصیت کثیر الجہات تھی۔ وہ خود میں ایک انجمن تھے۔ انھیں ذاتی مفاد کی پرواہ نہ تھی۔ ایک سر سبز و شاداب معاشرہ ان کے پیش نظر تھا۔ زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا وہ ضروری سمجھتے تھے۔ معاشرے کی فلاح کا ہر دم انھیں خیال رہتا تھا۔ جس کے لئے نئی روشنی، نئی سوچ اور نیا مزاج درکار تھا۔ اپنی اسی فکر کو وہ عوام کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے جس میں ان کے بے دار مغز ہمنواؤں نے ساتھ دیا۔ سر سید کی دکھائی اسی راہ پر گامزن ہو کر معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی رونما ہوئی۔ جس کا ثمرہ نئی تعلیم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ سر سید کی یہ کاوشیں ہمیں درس دیتی ہیں
نصیب بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں
چراغ جلتے نہیں جلائے جاتے ہیں
٭٭٭
سر سید اور علی گڑھ تحریک
—جاوید حبیب
سر سید نے جب علی گڑھ تحریک شروع کی تو ان کی زبردست مخالفت کی گئی۔ انہیں کافر، ملحد، نیچر یہ، گردن مروڑی مرغی کھانے والا، انگریزوں کا پٹھو اور خوشامدی کہا گیا۔ لیکن سر سید نے اپنی جد و جہد نہ چھوڑی اور انہوں نے کہا "جو شخص سچے دل سے اور نیک نیتی سے کام کو کرتا ہے اس کو برا کہنے والوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس کو خدا سے غرض ہوتی ہے۔ اور جب کہ خدا سے ہے تو لوگوں کو برُا کہنے سے اس کے دل پر کچھ نہیں ہوتا بلکہ ان لوگوں کے ساتھ اس کی محبت بڑھتی جاتی ہے اور وہ زیادہ کوشش کرنے لگتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں کو فائدہ پہچانے اور سمجھانے کے لئے زیادہ کوشش درکار ہے اور جوں جوں مخالفت بڑھتی جاری ہے، اس کی کوشش بھلائی کے واسطے ترقی کرتی جاتی ہے۔
سر سید کے جد و جہد کے نتیجے میں علی گڑھ میں مدرسہ قائم ہوا۔ یہ مدرسہ کالج بنا اور 1920میں یہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا۔ 1920سے لے کر 1988تک 68سال گزر گئے۔ سر سید نے مدرسة العلوم 1875میں قائم کیا تھا۔ اس طرح مدرسہ قائم ہوئے 113سال گزر گئے۔
مدرسہ کے قیام سے آج تک 113سال کا زمانہ گزر گیا ان 113سالوں میں زمانہ کہاں پہنچ گیا اور مسلمان کہا سے کہاں پہنچے۔ ان دو سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ آج ہندوستان میں کوئی مسلمان سر سید کو برا کہنے والا نہیں ہے بلکہ آج اب وہی سر سید کو جنہیں 113سال پہلے کافر کہا گیا انہیں ہندوستان کے تمام ممتاز علما بھی سر سید علیہ الرحمۃ کہتے ہیں، اور آج کے زمانے میں اگر کوئی شخص سر سید کو برا کہے تو ایسے شخص کو پوری ملت برا کہے گی۔ زمانے کے اس انقلاب یا رویوں کی اس تبدیلی پر کوئی تبصرہ کئے بغیر ہم انتہائی ادب کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں، مسلم قائدین اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر، اساتذہ، ملازمین اور طلبا سے یہ سوال کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ ذرا یہ بتائے کہ آج جب ہم سر سید کی عظمت کے قائل ہو چکے ہیں، جب ہم سر سید سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، جب ہم سر سید کو مسلمانوں کا عظیم رہنما سمجھتے ہیں تو پھر سر سید کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے کیوں نہیں ؟
سر سید کی شخصیت بھی عجب ہے کہ جب وہ زندہ تھے تو کافر کہے گئے اور آج جب وہ اس دنیا میں نہیں تو انہیں رحمۃ اللہ علیہ کہا جاتا ہے۔ لیکن ہماری حالت میں شاید کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
سر سید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پورے ملک میں ایک اکیلی مسلم یونیورسٹی ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں مسلمان اور ان کے بڑے بڑے قائدین، ممتاز ترین علما اور دانش ور مل کر بھی آج تک کوئی دوسری مسلم یونیورسٹی نہ بنا سکے۔
دوسری مسلم یونیورسٹی تو ہم خیر کیا بناتے سر سید کی اکیلی اکلوتی مسلم یونیورسٹی بھی ہمارے لئے آپسی اختلافات کا کھلونا بنی ہوئی ہے۔ 1965سے 1988تک کے پورے 23سال کے زمانے پر غور کیجئے تو نظر آئے گا کہ اس پورے عرصے میں مسلم یونیورسٹی کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازعہ جڑا ہوا ملے گا۔ پہلے اقلیتی کردار کی لڑائی چلی بعد میں یونیورسٹی کے اندر باہمی مفادات کا ٹکراؤ شروع ہوا۔
یونیورسٹی کے طلبا ایجی ٹیشن، احتجاجی، ہڑتال، دھرنے، جلوس کے حوالوں سے مسلم یونیورسٹی کی خدمت کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ اساتذہ کرام اور یونیورسٹی کے ملازمین اپنے اپنے مفادات کی لڑائیوں کو اقلیتی کردار اور اسلامی کردار کا نام دے کر یونیورسٹی کی خدمت کی ذمے داریاں پوری کرتے رہے۔
وائس چانسلرز آئے اور گئے جو وائس چانسلر آیا پہلے اس کا استقبال کیا گیا۔ پھر اس کے خلاف ہنگامے کئے گئے۔ کوئی وائس چانسلر نرم مزاج نکلا تو اس نے اپنی بچت کے لئے طلبا، اساتذہ، ملازمین اور اولڈ بوائز کی ہاں میں ہاں ملا کر اور سب کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اپنی جان بچائی اور یونیورسٹی کے نظام کو ڈھیلا کیا۔ کوئی وائس چانسلر سخت جان نکلا تو اس نے دھونس، دھمکی اور احتجاج کا مقابلہ کرنے اور اپنی آبرو بچانے کے لئے ضلع انتظامیہ، پولس اور تادیبی کار روائیوں سے اپنا وقت گزارا۔
جو وائس چانسلر آیا پہلے اس کی تعریف کی گئی پھر اسے ملت کا غدار، اقلیتی کردار تباہ کرنے والا، ڈکٹیٹر (Dictator)آمر اور یونیورسٹی کے مفادات کا مخالف بتایا گیا۔
اقلیتی کردار کی بحالی اور یونیورسٹی کی خودمختاری اور جمہوری کردار کو واپسی کے لئے جب 1981میں پارلیامنٹ سے نیا ترمیمی بل پاس ہو کر ایکٹ بنا تو پھر یونیورسٹی کورٹ کے انتخابات ہوئے یونیورسٹی کے ہمدردوں اور بزعم خود یو نیورسٹی کے مفادات کے محافظین نے اپنی ذاتی اور گروہی نمائندگی کے لئے جم کر لڑائیاں لڑیں اور مقدمے بازی کی گئی اور ایک دوسرے کو بے ایمان اور بدعنوان بتا کر ایک دوسرے کے انتخابات کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور آج بھی یہ افسوس ناک سلسلہ جاری ہے، اور اس ہنگامہ آرائی کو اقلیتی کردار کا نام دیا گیا۔
بے ادبی معاف! وہ عظیم بزرگ جنہوں نے درحقیقت مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑی تھی نہ کورٹ کے ممبر بنائے گئے اور نہ انہیں یونیورسٹی کے نمائشی 4-5لوگوں کو کورٹ کا ممبر بنایا گیا تو بھی مجبوراً اور بادل ناخواستہ ڈاکٹر فریدی، یوسف صدیقی، محمد مسلم، شفیق الرحمن، کلب عباس، ظفر احمد صدیقی کیسے کیسے بزرگ تھے۔ اپنی جان قربان کر گئے لیکن ان میں سے کوئی نہ کورٹ کا ممبر بنا نہ کسی نے ممبری اور انتخابات کے لئے مقدمہ بازی کی۔
مولانا ابو اللیث اصلاحی، سید افضل حسین، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، سید امین الحسن رضوی، سیتا رام دویدی جیسے لوگ بھی کورٹ اور عہدوں کی دوڑ سے دور رہے۔
البتہ چند مسلم قائدین اور علما اور ممتاز اولڈ بوائز ضرور ممبر منتخب کئے گئے تو ان بے چاروں کی بات سننے والا کوئی نہیں البتہ ان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بکواس کرنے والے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بازیابی کے لئے 15سال جد و جہد کی، یوم احتجاج و یوم سیاہ منائے، جلسے کئے، جلوس نکالے، مظاہرے کئے، گولیاں کھائیں، جانیں قربان کیں لیکن کسے فکر ہے کہ ان کروڑوں بے چہرہ، بے نام مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کی تکمیل کرے۔ "وائس چانسلر لاؤ اور وائس چانسلر بھگاؤ” کی لعنت نے گذشتہ 10، 15سالوں میں مسلم یونیورسٹی کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ اس لعنت سے نقصان اگر پہنچا تو صرف اور صرف معصوم طلبا کو یا یا ان کے ماں باپ کو اور فائدہ اگر پہنچا تو یونیورسٹی کے مفاد پرستوں کے نمائندوں کو ہم کسی کا نام لینا نہیں چاہتے لیکن گزارش ہے کہ اسلام، اقلیتی کردار یا روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نعروں کی دہائی دینے والے یونیورسٹی کے ہر معاملے کو اسلام اور کفر کی لڑائی بنانے والے، یونیورسٹی کے معصوم طلبا کو غلط راہوں پر بھڑکانے والے خواہ وہ اسلام کے علم بردار بنیں یا کمیونزم اور ترقی پسندی کے صرف اور صرف اپنے مفادات کے علم بردار بنے ہوئے ہیں۔ کسی کی ہمت نہیں کہ جو اس مفاد پرست ٹولے کو مسلم یونیورسٹی میں بے اثر بنا سکے۔
یہ مفاد پرست ٹولا جو کبھی وائس چانسلر کا حامی بن جاتا ہے کبھی مخالف، یہ کبھی طلبا کی حمایت کرتا ہے اور کبھی طلبا کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کا مددگار بن جاتا ہے۔ اس کی تنخواہیں برقرار رہتی ہیں ان کے مفادات بحال رہتے ہیں، کوئی ان سے پوچھے کہ جو یہ مسلم یونیورسٹی کی حفاظت کے دعویدار اور ٹھیکیدار بن گئے ہیں کبھی انہوں نے خود بھی سو چا کہ یہ خود مسلم یونیورسٹی اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کیا کر رہے ہیں ؟
ہندوستانی مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں۔ علی گڑھ کی حفاظت کے دعوے دار مجاہدین سے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کبھی انہوں نے اپنی پوری زندگی میں علیگڑھ کی اندرونی سیاست الگ ہٹ کر بھی ہندوستان کے کسی علاقے میں جا کر ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی؟ کیا کبھی انہوں نے اپنی تنخواہوں سے مسلم یونیورسٹی میں نادار اور غریب طلبا کو مدد دی ؟کیا کبھی انہوں نے خدمت خلق کے کسی کام میں عملی دل چسپی لی؟
اے بھائیو! اے دوستو! اے بزرگو! سر سید کے پرستار ! سر سید کے انتقال کو بھی 90سال گزر گئے۔ اب تو سر سید کی فکر، کار کردگی اور اظہار قبول کر لو۔ اب تو عقل، محنت، لیاقت، صلاحیت، ہمدردی، قومی خدمت، اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتا سیکھ لو۔ سر سید نے تو فراخ دلانہ تحمل اور برداشت اور آزادانہ تحقیق کا درس دیا تھا۔ ہم علی گڑھ والے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور اپنے ضمیر یا اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر خود غور کریں کہ سر سید کی ان دونوں باتوں پر آج ہمارا کتنا عمل ہے ؟
نہ ہماری طبیعتیں فراخ دلانہ تحمل اور برداشت کو قبل کرتی ہیں اور نہ ہم یونیورسٹی میں آج تک آزادانہ تحقیق کا ماحول بنا سکے۔ غور کرو اے چھوٹے اور بڑے علیگ بھائیو ! سر سید کے نام پر ہر سال عرس یا میلے کی طرح ڈنر کی تقریب برپا کر کے خوش ہو جانے یا سر سید ڈنر نہ ہو سکنے پر ماتم و افسوس کرنے سے نہ مسلم یونیورسٹی کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کی۔
اے علیگ بھائیو! سر سید کا انتقال ہوا تو ان کا کفن چندے سے خریدا گیا، اور آج حال یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ (کچھ کو چھوڑ کر ) کو سب سے بڑی فکر اپنا ذاتی مکان اور وہ بھی علی گڑھ ہی میں بنانے کی فکر ہے۔ رہے نام سر سید کا سر سید کا نگر جاری ہے اور اس سے فیض حاصل کرنے والے اپنی دنیا میں مست چلے جا رہے ہیں۔
علی گڑھ والوں کو علی گڑھ سے محبت ہے بالکل مناسب ہے۔ علی گڑھ والوں کو سر سید سے عقیدت ہے بالکل درست ہے۔ علی گڑھ والوں کو یونیورسٹی کا اقلیتی کردار عزیز ہے جائز بات ہے۔ علی گڑھ والوں کو مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کی اکثریت برقرار رہنے کی فکر ہے صد فی صد اس کا حق ہے۔
لیکن ان خواہشات کی تکمیل کے لئے ہم اپنے علاوہ ہر دوسرے شخص کو ذمے دار سمجھتے ہیں۔ کبھی ہمیں حکومت سے شکایت ہوتی ہے کبھی ہمیں وائس چانسلر سے شکوہ ہوتا ہے، کبھی ہم ملت کے اکابرین سے مطالبات کرتے ہیں۔ پھر الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہے۔ پھر گروپ بندیاں ہوتی ہیں، اخباری بیانات آتے ہیں، مقدمے بازی ہوتی ہے، یونیورسٹی بند ہوتی ہے، پولس آتی ہے، اخراج ہوتا ہے، گرفتاریاں ہوتی ہیں، ہندی اور انگریزی اخبارات جم کر یونیورسٹی کو بدنام کرنے والی خبریں، مضامین اور رپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کی بدنامی ہوتی ہے۔ غیر مسلموں میں یونیورسٹی کا وقار مجروح ہوتا ہے، ایک عام مسلمان ان حالات پر افسوس کرتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا اسی اقلیتی کردار کے لئے اس سے قربانیاں مانگی گئی تھیں۔ کیا اسی ہنگامہ آرائی کے لئے انہوں نے اپنی جانیں کھپائیں۔
آخر میں سیاست داں، وزیر اور حکومت مداخلت کرتی ہے۔ وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے پھر ہم سب ایک لڑائی سے تھک جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے سکون قائم ہو جاتا ہے اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
تو اے علیگ بھائیو! آؤ! ہم سب مل کرا یک بار عہد کریں آؤ ایک بار اپنے دلوں کی کدورتیں مٹا کر، اپنے ذاتی مفادات کو بھلا کر، غصے، انتقام، نفرت کے جذبوں کو ختم کر کے، ایک دوسرے کی کاٹ کرنے کی روش کی جگہ باہمی اعتماد، باہمی اشتراک و تعاون، محبت، تہذیب، عقل اور شائستگی کے ساتھ ایک عہد کریں کہ سر سید کی روایتوں کو عملاً پھر زندہ کریں گے۔ آؤ! ایک بار عزم کریں کہ ہم سر سید کی مسلم یونیورسٹی کو حقیقی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز بنائیں گے۔ علی گڑھ تحریک کو دوبارہ زندہ کریں گے۔
علی گڑھ کے وائس چانسلر صاحب، علی گڑھ کی اسٹاف ایسوایشن، علی گڑھ کی اولڈ بوائز ایسوایشن، علی گڑھ کے ملازمین کی تنظیمیں، طلبا کے نمائندے اور طلبا کی یونین اور ملت کے نمائندے ایک بار نئے سرے سے مسلم یونیورسٹی کو ہندوستانی مسلمانوں کو عملی تعلیمی، دانش وارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوشش کریں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی، تعلیمی بدحالی کو دور کرنے کا کام ہی علی گڑھ والوں کا اصل کام تھا آخر کب تک علی گڑھ والے اپنے اس کام میں غفلت کرتے رہیں گے ؟۔
اگر ہم علی گڑھ والوں نے اپنی حالت نہ بدلی تو آنے والا مورخ لکھے گا کہ سر سید، محسن الملک، وقار الملک، حالی، سید محمود کی یاد گار جسے ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز سمجھا تھا اسے علی گڑھ والوں کی ہی ایک نسل نے مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا قفس بنا دیا۔
اگر ہم دوسری مسلم یونیورسٹی نہ بنا سکے تو کم از کم اس ایک اکیلی مسلم یونیورسٹی کو تو بچا لیں۔ (گستاخی معاف)
(جناب جاوید حبیب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہونہار فرزند ہیں۔ وہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں طلبا یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اقلیتی کردار کی تحریک اور سر سید کے مشن سے وابستہ دیگر امور میں سرگرم حصہ لیا۔ زیر نظر مضمون انہوں نے اپنے ہفتہ وار ‘ہجوم’ میں کئی برس قبل شائع کیا تھا۔ اس مضمون کی معنویت اور تازگی آج بھی برقرار ہے لہٰذا ہم اسے دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔ ایڈیٹر)
٭٭٭
حکومت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی
— ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
11 جنوری 2016ئ کو حکومت ہند نے اپنے ایک حلف نامے میں سپریم کورٹ سے یہ کہا کہ حکومت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایک سیکولر ملک میں سرکاری امداد یافتہ ادارے اقلیتی حیثیت کے حامل نہیں ہو سکتے۔ حکومت کا یہ موقف سابقہ یوپی اے حکومت کے برعکس ہے۔ اس تازہ قصے کی شروعات 25فروری 2005کو مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کے ذریعے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے ہونے کی بنیاد پر 50%ریزرویشن مسلمانوں کو دیئے جانے کی اجازت دینے سے ہوئی جسیالہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اسی سال اکتوبر میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارون ٹنڈن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور 1981کا ترمیمی ایکٹ غیر قانونی ہے اور اسی بنیاد پر وزارت فروغ انسانی وسائل کا نوٹیفکیشن بھی غیر قانونی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف یونیورسٹی اور مرکزی حکومت دونوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کی بڑی بنچ میں سنوائی کی درخواست دی جسے 5جنوری 2006ء کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اے این رے اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے خارج کر دیا۔ اسی وقت مرکزی حکومت اور یونیورسٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی سماعت 11جنوری2016کو ہو رہی تھی اسی سماعت کے دوران موجودہ مرکزی سرکار نے مذکورہ حلف نامہ داخل کر کے سب کو حیران کر دیا اور ملک بھر کے مسلمانوں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑا دی۔
سر سید احمد خان کے ذہن میں مسلمانوں کے لئے ایک یونیورسٹی کا خاکہ 1857کی ناکام بغاوت کے بعد ہی آ گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں بھی مسلمان عصری تعلیم سے کوسوں دور تھے۔ ان کی ساری توجہ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے پر مرکوز تھی۔ تعلیم کے معاملے میں وہ عربی، فارسی اور دینی علوم سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہ تھے۔ جب کہ ملک کے دیگر طبقات عصری علوم میں دسترس حاصل کرنے پر مائل تھے اور جنگ آزادی میں ان کی دلچسپی بہت کم تھی۔ بغاوت کی ناکامی نے یہ بات ظاہر کر دی تھی کہ آئندہ لمبے عرصے تک ملک پر برٹش راج قائم رہے گا اور اس حکومت کو چلانے کے لئے ہندوستان کے مقامی باشندوں کی ضرورت پیش آئے گی مگر یہ مواقع انہیں لوگوں کو مل سکیں گے جو عصری علوم خصوصاً انگریزی سے واقف ہوں گے۔ سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم سے ناواقف رہا تو سات سو سال سے ہندوستان پر حکمرانی کرنے والا یہ گروہ اپنی اس حیثیت کو کھو بیٹھے گا۔ اسی اندیشے کے تحت سر سید یہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزی اور عصری علوم نے واقف ہوں اور دیگر برادران وطن کے ہم پلہ انگریزی راج میں بھی اپنی حکمرانی کو جاری رکھیں۔ اسی غرض سے 1877ء میں مسلم اورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی گئی اور اس کے ساتھ اس وقت کے بڑے نواب اور راجہ شریک ہوئے خصوصاً نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، آغا خاں، نواب محمودآباد اور سلیم اللہ خاں وغیرہ اس تحریک سے وابستہ رہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی جانب یہ پہلا قدم تھا۔ بعد ازاں اسی غرض سے 1888میں سر سید نے United Patriotic Missionکے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی۔ جس کا مقصد مسلمانوں اور ٹھاکروں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر انگریزوں کے قریب کرنا تھا۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب ایک طرف 1827ء میں قائم شدہ برہمو سماج نے ہندو احیائ پرستی اور ہندو نشاة ثانیہ کی زبردست مہم چھیڑ رکھی تھی اور اعلیٰ ذات ہندو یہ چاہتا تھا کہ سات سو سالہ مسلم حکمرانی سے کسی صورت نجات حاصل کر لے بھلے ہی اس کے لئے اسے انگریزوں کی غلامی کیوں نہ قبول کرنا پڑے اور دوسری طرف 1885میں ایک انگریز ایلان اکٹیوین ہیوم نے انڈین نیشنل کانگریس کا بنیاد ایک ایسی تنظیم کی حیثیت سے ڈالی جو انگریزوں کو پڑھے لکھے مقامی ہندو فراہم کراس کے۔ 1885سے 1890کے بیچ انگریز افسر ہیوم کی اس کانگریس میں ہندو احیاء پرستی کی تحریک کے تمام بڑے لیڈر مثلاً لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھر تلا، پنڈت مدن موہن مالویہ وغیرہ شریک ہو چکے تھے اور سر سید کی منشاء پورے طور پر ناکام ہو چکی تھی۔ اسی دوران 1898میں سر سید احمد خان کا انتقال ہو گیا اور انڈین نیشنل کانگریس 1905ء کے اجلاس میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے مسلم یونیورسٹی کے جواب میں ہندو یونیورسٹی کا اعلان بھی کر دیا اور کاشی کے راجہ نے اسے فوری طور پر 13سو ایکڑ زمین بھی دان کر دی۔ ان حالات میں مسلم یونیورسٹی تحریک کے بانیان نے 30دسمبر 1906میں ڈھاکہ کے اجلاس میں مسلم لیگ قائم کر دی جس کے جواب میں 1909میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے ہندو مہا سبھا قائم کر دی۔ یہ سب وہ پس منظر ہے جس کے تحت ملک کے سنگین ترین فرقہ وارانہ حالات میں ایک ہندو اور ایک مسلم یونیورسٹی کے قیام کو بھی تحریک دی اور ایک ہندو اور ایک مسلم سیاسی تنظیم کے قیام کی راہ بھی ہموار کی اور بعد کے حالات شاہد ہیں کہ مسلم تحریک یکے بعد دیگرے قدم بقدم معدوم ہوتی چلی گئی اور ہندو تحریک روز بروز پروان چڑھتی چلی گئی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس مسلم یونیورسٹی کے قیام کی تحریک 1877میں شروع ہوئی اسے یونیورسٹی ایکٹ کے ذریعے قائم ہوتے ہوتے 1920تک 48سال کا وقت لگا اور اس زمانے میں اس ایکٹ کی منظوری کی شرط 30لاکھ روپے نقد جمع کرنا بھی تھی جسے اس وقت کے مسلمانوں نے کسی صورت جمع کیا۔ جب کہ 1905میں کانگریسی اجلاس میں مجوزہ ہندو یونیورسٹی محض نو سال کے عرصے میں 1914ء میں بنارس کی سرزمین پر وجود میں آ گئی اور اگلے ہی سال 1915بلا کسی معاوضہ اس کا ایکٹ بھی پاس ہو گیا۔ آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پاس محض 12سو ایکڑ زمین ہے جبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے پاس ایک کیمپس میں 13سو ایکڑ زمین ہے اور دوسرے کیمپس میں بنارس سے ساٹھ کلو میٹر دور مرزا پور میں دو ہزار سات سو ایکڑ مزید زمین موجود ہے۔
اس سارے پس منظر، تاریخ اور تقابل کی وجہ محض یہ سمجھانا ہے کہ ملک میں اپنے قیام سے لے کر اب تک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہمیشہ متنازعہ رہنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سر سید کی تحریک نے مسلم لیگ کے قیام کو مہمیز دی تھی۔ ظاہر ہے کہ کانگریس سمیت تمام ہندو تحریکوں کو اس کا ازلی مخالف ہونا ہی چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں بھی کانگریس نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وجود کو سیاسی مجبوریوں کے تحت ہی گوارہ کیا۔ کانگریس جب غضب میں آئی تو اقلیتی کردار چھین لیا اور جب مجبور ہوئی تو آدھا ادھورا اقلیتی کردار واپس کر دیا۔ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اپنے شدید ترین مخالف سر سید کو ہندو احیاء پرستی کے علمبردار بھلا کیسے گوارا کرتے۔ وہی علمبردار کانگریس میں بھی ہمیشہ رہے، ہندو مہا سبھا میں بھی رہے، آر ایس ایس میں بھی رہے اور آج بی جے پی میں بھی موجود ہیں۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کی سب سے متنازعہ یونیورسٹی ہے اور مسلمانان ہند کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ تنازعہ نہ دستوری ہیں، نہ قانونی ہیں اور نہ تکنیکی۔ بالکل اس تنازعہ کی واحد وجہ سیاسی مخاصمت ہے۔ یونیورسٹی کے قیام سے لے کر آج تک اقتدار مسلم مخالفین کے ہاتھوں میں رہا ہے اور یہ مخالف ذہن ہمیشہ اپنی مخالفت کے لئے یونیورسٹی کو ڈھال بنا تا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کے وہ پڑھے لکھے اور دانشور قسم کے مسلمان جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنا کعبہ اور سر سید کو اپنا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے اکثر بیشتر ہمیشہ ہی سر سید کے ازلی دشمن کانگریس کی گود میں بیٹھے رہے ہیں اور آج بھی بیٹھے ہیں اسی کے اشارے پر یہی لوگ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے ہمیشہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ہیں اور پھر خود ہی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ مسلمانان ہند کا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے ایشوز مسلم مخالف خیموں میں تیار کئے جاتے رہے اور وقتاً فوقتاً یہ جماعتیں ان ایشوز کو مسلمانوں کے درمیان ڈالتی رہیں۔ بابری مسجد، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، اردو اور ریزرویشن وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو کانگریس اور بی جے پی جیسی جماعتوں نے خود پیدا کئے اور مسلمانوں کو انہیں مسائل میں گھیرے رکھا۔ اسی طرح مسلم قیادت بھی انہی جماعتوں کی پروردہ رہی ہے۔ گویا مسائل بھی وہی پیدا کرتے اور مسائل کے حل کرنے کے لیڈر بھی انہیں کے ہیں، اور امت ہے کہ اپنے اصل مسائل کی جانب کبھی متوجہ نہ ہو سکی اور نہ ہی اپنے درمیان سے خود اپنے لیڈر پہچان سکی۔ حالیہ واقعہ کے بعد بھی ایک تحریک ضرور اٹھے گی اور لمبے عرصے تک جاری رہے گی۔ معاملہ عدالت میں بھی زیر التوا ہے۔ اپریل کے مہینے میں اس کی دوسری سنوائی بھی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مایہ ناز وکیلوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ وہ اپنے ماہرانہ اور پیشہ وارانہ فرائض یقیناً انجام دیں گے۔ عدالتی فیصلوں کا رخ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہی سمجھ لینا چاہیئے۔ ایسے میں ایک منظم تحریک کی ضرورت بھی ہے۔ ملک کی ہر مسلم تنظیم بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ بھی لے گی۔ ملت کے تمام توجہات کا مرکز اب علی گڑھ کی تحریک ہو گی۔ لیکن اس تحریک کا فائدہ ایک بار پھر انہیں سیاسی جماعتوں کو ہو گا جنہوں نے اس مسئلے کو تازہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ 2017 میں اتر پردیش کا اسمبلی کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ اس ریاست کا 18فیصد مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کے درمیان بٹ جاتا ہے اور جس کو زیادہ مسلم ووٹ مل جاتا ہے وہ حکومت سازی کرتا۔ اتر پردیش میں کانگریس کو اب مسلم ووٹ نہیں ملتا۔ ان دنوں جبکہ اتر پردیش میں مسلمان سماج وادی پارٹی سے ناراض نظر آ رہے ہیں اور یہ توقع ہے کہ یہ ووٹ بی ایس پی کی جانب چلا جائے گا اور بی جے پی ایک بار پھر رام مندر کا مدعا اٹھانے کے باوجود ناکام ہو جائے گی۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن کا تجربہ مسلمانوں کی سیاسی ترجیح کا اظہار کر رہا ہے اور دلی سے لے کر مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات تک حکمراں بی جے پی ہر جگہ شکست کا سامنا کر رہی ہے۔ پے در پے شکست حکمراں ٹولے کو دو خیموں میں تقسیم کر چکی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کو نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔ علیگڑھ کی تحریک اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ کانگریس کے پاس بھی مسلمانوں کو اپیل کرنے والا کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تحریک کانگریس کی عروق مردہ میں لہوئے گرم رواں کر سکتی ہے۔ تحریک جتنی تیز چلے گی اتنی ہی تیزی سے مسلم ووٹ کانگریس کی جانب رخ کرے گا۔ اور سماج وادی اور بی ایس پی سے علیحدہ ہو جائے گا۔ کانگریس کے پاس دوسرا کوئی ووٹ ابھی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ چنانچہ مسلم ووٹ کو کانگریس کی جھولی میں ڈال کر بے اثر کر دینا سب سے زیادہ مفید حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ 2013دہلی اسمبلی انتخابات کا تجربہ سامنے ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس تینوں کو شکست دے کر بنا فرقہ وارانہ کارڈ کھیلے بی جے پی اقتدار میں پہنچنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ بہار کا مہا گٹھ بندھن یوپی میں بھی کانگریس کی قیادت میں سرگرم ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بہار میں جیتنے والا یہ گٹھ بندھن اتر پردیش میں بی جے پی کو جتانے والا گٹھ بندھن ثابت ہو گا۔ کانگریس نے بہار میں بھی گٹھ بندھن سے فائدہ اٹھایا اور یوپی میں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مگر اقتدار کی کنجی بی جے پی کے حوالے ضرور کر دے گی۔ علیگڑھ تحریک کا تجزیہ مختلف گروپ مختلف زاویوں سے کریں گے۔ اس تجزیہ کے وقت اگر یہ سیاسی تجزیہ بھی پیش نظر رہے تو یہ طے کرنے میں مدد مل سکتی کہ ہمارے تحریک کے خط وخال کیا ہوں۔ ذمہ داران کو علیگڑھ یونیورسٹی کے قیام کا پورا پس منظر اور یونیورسٹی کے ساتھ کانگریس کی دشمنی کو نہ صرف پیش نظر رکھنا ہو گا بلکہ عوامی طور پر اس تاریخ کی ترویج و اشاعت بھی کرنی ہو گی تاکہ اس تحریک کے ذریعہ علیگڑھ مخالفین کو سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ اور بی جے پی کی دوہری حکمت عملی کو بھی بے اثر کیا جا سکے۔ آخیر میں یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ علیگڑھ کے اقلیتی کردار کی آڑ میں خود حکومت ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جوہر یونیورسٹی جیسے اداروں کو زد میں لے لیا ہے۔ نیز بی جے پی کے ترجمان اس حوالے سے میڈیا میں جو بحث کر رہے ہیں اس سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ معاملہ صرف یونیورسٹیوں تک محدود رہنے والا نہیں ہے بلکہ ملک کے ہزاروں اقلیتی اسکول اور ادارے بھی بتدریج اس کی زد میں آنے والے ہیں۔ بحث علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے شروع ہوئی ہے جو بڑھ کر دستور کی دفعہ 29اور 30تک جائے گی اور سرکاری امداد یافتہ تمام اداروں کو سیکولر حکومت کا نام لے کر حکومت کے زیر نگیں بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ آر ایسا یس اور بی جے پی کی یہ منشا شروع سے ظاہر ہی رہی ہے مگر کانگریس بھی پس پردہ اس کی تائید میں رہی ہے محض سیاسی مجبوریوں کی بنا پر اسے قبول کرتی رہی ہے۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )
٭٭٭
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بارے میں تکرار
مقننہ کی طرف سے بنائے گئے قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنا آئینی انتظام سمیت قومی ترقی کے لیے بھی منفی ثابت ہو سکتا ہے
—کے سی تیاگی
مرکزی حکومت کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو چیلنج کرنے والے حلف نامے کے جواب میں یونیورسٹی نے اپنی رائے واضح کرتے ہوئے اس کو پارٹی پر مبنی سیاست سے متاثر ایک کوشش قرار دیا ہے، حکومت کی طرف سے آئندہ جواب کے لیے ۳ ہفتے کا اضافی وقت طلب کیے جانے کے باوجود اس مسئلہ پر ہنگامہ جاری ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامہ میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف کیے گئے تبصرے کے بعد سے یہ ایوان کے اندر اور باہر کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مختلف سیاسی و سماجی گروپوں کی مختلف رائے اس بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس سمیت دیگر کئی سیاسی جماعتوں کا رخ واضح ہے کہ اے ایم یو اقلیتوں کی طرف سے قائم ادارہ ہے اور حکومت کی جانب سے پہلے ہی اس کے اقلیتی کردار کی تصدیقی کے لیے پہلے ہی ترمیم کی جا چکی ہے۔ اس کے برعکس مرکزی حکومت اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو سرے سے مسترد کر رہی ہے۔ اس کی جانب سے مل رہے اشارے یونیورسٹی انتظامیہ اور مسلم طبقہ دونوں کے لیے تشویش کیے جانے کے تعلق سے یہ یونیورسٹی پہلے بھی تنازعات کا محور رہی ہے۔
محمڈن اینگلواورینٹل (۸جنوری ۱۸۷۷) کالج کے نام سے علی گڑھ میں قائم یہ تعلیمی ادارہ سال ۱۸۸۴ تک کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک رہا۔ دسمبر ۰۲۹۱ میں اس ادارے کو ترقی دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس مسلم یونیورسٹی کا ابتدائی خاکہ تیار کرنے کا سہرا سر سید احمد خاں کو جاتا ہے۔ مغربی اور انگریزی تعلیم سے متاثر سر سید احمد کاں کے ذریعہ یونیورسٹی کے تصور کو حقیقی شکل فراہم کرنے مین اہم تعاون رہا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بہتر تعلیم کے لیے ان کی طرف سے ۶۲ دسمبر ۱۸۷۰ میں بنارس میں ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ دیگر طبقات کے مقابلے میں سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مسلم طالب علموں کی تعداد انتہائی کم ہونا، سرکاری ملازمتوں میں اس طبقہ کے افراد کی شرکت برائے نام ہونا اور جدید تعلیم کے تئیں ان میں بیداری نہ کے برابر ہونا وغیرہ کمیٹی کی فکر کا اہم نکتہ تھا۔ انڈین لیجسلیٹو کونسل(Indian Legislative Council) کی طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بل ۰۲۹۱ منظور ہو جانے کے بعد اسے ۴۱ ستمبر ۰۲۹۱ کو گورنر جنرل کی بھی رضا مندی حاصل ہو گئی جس کے بعد سے ادارے کو حکومت ہند کی جانب سے ایک لاکھ روپے سالانہ گرانٹ ملنے لگا۔ آزادی کے بعد ۱۵۹۱ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بل میں ترمیم کی گئی۔ اسی دوران بنارس ہندو یونیورسٹی بل میں بھی ترمیم لائی گئی تھی۔ ترمیم کے بعد یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کر کے دیگر طبقات کے طلبہ کے لیے بھی اسے دستیاب کرایا گیا۔ سال ۵۶۹۱ میں اس کی خودمختاری کو چیلنج دینے والا ایک آرڈیننس جو ۱۹۴۵ میں ترمیمی بل بھی بنا۔ اس کی مسلمانوں نے جم کر مخالفت کی جس کے بعد سے یونیورسٹی کی خود مختاری اور اقلیتی درجے کا مطالبہ مزید تیز ہو گیا۔ ۸۶۹۱ میں سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ اے ایم یو مسلمانوں کی طرف سے قائم کردہ ادارہ ہے اور وہ اس کو چلا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق اے ایم یو کا قیام حکومت ہند کے ۰۲۹۱ کے ایک بل کے تحت عمل میں آیا اور اس وجہ سے یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بھی پر زور مخالفت ہوئی۔ اس موضوع پر اقلیتی برادری کی مضبوط رائے رہی ہے کہ یونیورسٹی کا قیام ان کی جانب سے کیا گیا اور اس کو چلانے کا آئینی حق ان کو حاصل ہے۔ نئے ترمیم کے ساتھ سال ۱۹۷۲ کا بل بھی اے ایم یو کی خود مختاری کی وکالت نہیں کرتا۔ کافی عرصے سے اے ایم یو کی خودمختاری کا مطالبہ کر رہے لوگوں کو اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں منظور اے ایم یو بل ۱۹۸۱سے کافی راحت ملی۔ اس طویل جد و جہد میں اتر پردیش مسلم مجلس کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کا بھی اہم تعاون رہا ہے۔۱۹۸۱ کے بل کے تحت واضح کیا گیا کہ اے ایم یو ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے قائم تعلیمی ادارہ ہے اور آئین کے آرٹیکل ۳۰ کے تحت اسے اقلیتی درجہ حاصل ہو گا۔ خصوصی حق کے تحت اقلیتوں کو ۰ ۵فیصد رزیرویشن کا بھی انتظام کیا۔ نئے بل سے ہندوستانی مسلمانوں میں تعلیم و ثقافت کو پھیلانے کا حق حاصل ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ کی طرف سے صرف اسی ادارے کو اقلیتی درجہ حاصل رہا ہے۔ سال ۶۰۰۲ میں الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک بنچ کے ذریعہ اے ایم یو کی خودمختاری کو چیلنج دینے والے حکم نے دوبارہ اس تنازعہ کو جنم دینے کا کام کیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس سال کیے گئے تبصرے اور مرکزی حکومت کی طرف سے اس مرکزی یونیورسٹی اور اقلیتی دونوں طرح کی حیثیت دیے جانے کی صورت حال پر اٹھائے گئے سوال سے اقلیتوں کے درمیان عدم اطمینان بہت زیادہ ہے۔ فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ایسے میں سوال فطری ہے کہ اندرا گاندھی حکومت کی طرف سے منظور بل کو عدالت میں چیلنج کر کے موجودہ حکومت کس ارادے کی عکاسی کر رہی ہے ؟ اس مسئلہ پر یوپی اے حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو دیئے گئے حلف نامہ کو موجودہ حکومت منسوخ کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خود مختاری ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ پارٹی پر مبنی سیاست کے ذریعہ مقننہ کی طرف سے بنائے گئے بنائے گئے قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنا آئینی انتظام سمیت قومی ترقی کے لیے بھی منفی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی کوششوں سے نہ صرف آئینی قوانین کو چیلنج ملتا ہے بلکہ پارلیمانی روایت کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔
اقلیتی اور دلتوں کی پسماندگی ہمیشہ سے سماجی تشویش کا موضوع رہا ہے۔ اس سمت میں آزادی کے بعد قائم سچر و رنگناتھ کمیٹی کی رپورٹ اقلیتوں کی تعلیمی و معاشی صورت حال کو اجاگر کرتی ہے۔ رپورٹ میں واضح ہے کہ ہر سطح پر مسلمانوں کی حالت دلتوں سے زیادہ خراب ہے۔ ایسی صورت میں اٹارنی جنرل مکل روہتگی کی جانب سے سیکولر ملک میں اقلیتی اداروں کو منظوری نہ دیے جانے کی وکالت آئین کی دفعہ ۰۳۔ ۱ جو مذہبی و لسانی اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق فراہم کرتی ہے، کی بھی خلاف ورزی کی کوشش ہے۔ ۱۹۷۷ اور ۱۹۷۹ کے عام انتخابات کے دوران جنتا پارٹی اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دلائے جانے کے معاملے کو اپنا انتخابی منشور بنا چکی ہے۔ حیرت ہے کہ اس مسئلہ پر اب بی جے پی اپنا سر بدل چکی ہے۔ پارٹی پر مبنی سیاست اور وقفہ وقفہ سے تنازعہ کی وجہ سے کسی خاص طبقے کے احساس کو ٹھیس پہچانا سیکولر ہندوستان کی سالمیت پر بھی حملہ ہے۔ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کو ہمہ جہت ترقی کا فائدہ حاصل ہو۔ چونکہ سماجی، اقتصادی اور مذہبی اقلیتوں کی بڑی تعداد پہلے سے پسماندہ اور لاچار ہے، یہ یقینی بنانا حکومت کا فرض ہے کہ وہ زیادتی کا شکار نہ ہو جائیں۔ گزشتہ سال جاری سماجی، اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری میں پسماندہ و اقلیتوں کی قابل رحم حالب سب کے سامنے آ چکی ہے۔ دیگر طبقات کے مقابلے میں مسلمانوں کی خواندگی کی شرح سب سے کم ہے۔ قومی شرح خواندگی اور اس طبقے کی خواندگی کی شرح میں پہلے سے ہی بہت وسیع خلیج ہے۔ ایسے میں ان سے منسلک تعلیمی حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ملک کے سماجی ہم آہنگی کو کمزور کر سکتا ہے۔
(مضمون نگار جنتا دل یو کے چیف جنرل سکریٹری اور قومی ترجمان ہیں )
٭٭٭
مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر زعفرانی تلوار
انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو ویسے تو کئی اہم بڑے مسائل در پیش رہے ہیں اور ہیں۔ ان میں ان کی مذہبی تشخص اور تہذیب و تمدن کا تحفظ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اپنے بل بوتے پر تعلیمی اداروں کو چلانے کے لیے کوشاں ہیں مگر حکمران زعفرانی ٹولے کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ ملک کے مسلمان، اعلی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں چلائیں۔ مسلمانوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ممتاز جہد کار سر سید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اب یہ یونیورسٹی ملک کی مشہور و معروف اور ممتاز یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ یہ علمی دانش گاہ، مسلم نوجوانوں کی تشنہ علمی کو بجھانے میں مصروف ہے۔ وہیں 20 ویں صدی میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان دو جامعات میں مسلم نوجوان کی اکثریت اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ ویسے تو مرکز میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اقلیتوں میں خوف و ہراس پھیل ہی گیا مگر اب آر ایس ایس نواز مرکزی حکومت ان دو یونیورسٹیوں کے کام کاج میں بیجا مداخلت کرتے ہوئے ان کے اقلیتی کردار کو برخواست کرنے کی راہ پر چل پڑی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خود کو دنیا میں سچا سیکولر ثابت کرنے و الی کانگریس نے 1977 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس وقت قوم کے علمائے حق اور ملی تڑپ رکھنے والے سیاسی قائدین کے پُر اثر احتجاج کے باعث اس ناپاک کوشش سے کانگریس نے ہاتھ کھینچ لئے۔ اب مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی سازش کے تانے بانے بننے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مرکزی وزارت نے سب سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیرالا، مغربی بنگال اور بہار میں کیمپس کے قیام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کیمپس کو مالیہ کی فراہمی رو کر دینے کی دھمکی دی ہے۔ مرکزی حکومت کے پس پردہ ان کوششوں کے باوجود عام دنوں میں برساتی مینڈھکوں کی طرح ٹرانے والے مسلم اور سیکولر قائدین اس اہم مسئلہ پر خاموش ہیں۔ مذہبی اور ملی تنظیمیں اپنے لبوں کو جنبش دینے سے بھی قاصر ہیں ایسا لگتا ہے کہ مسلم مسائل پر نامی گرامی ملی مذہبی تنظیموں کے قائدین اور مسلم سیاسی رہنماؤں نے اس بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا پھر آپ اپنے کو مقامی اردو اخبارات میں مذمتی بیانات شائع کرانے پر اکتفاء کر بیٹھے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی برخواستگی کے مسئلہ پر کسی بھی جماعت یا تنظیم کی جانب سے کوئی حوصلہ افزا رد عمل نہ آنے پر وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ نے خود پہل کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو حالات سے باخبر کرنے اور یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے کے لیے ان سے تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ نے ایک وفد کے ساتھ بالآخر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ دوران ملاقات انہوں نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اقلیتی کردار کے تحفظ کے لیے جاری قانونی لڑائی کو مودی حکومت کی تائید درکار ہے۔ شاہ نے یاد دلایا کہ بی جے پی نے 1977 میں لوک سبھا کے انتخابات کے وقت جنتا پارٹی پارٹی میں ضم ہو گئی تھی اور جنتا پارٹی کے انتخابی منشور پر انتخاب لڑا تھا، اس منشور میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی تائید کی گئی مگر افسوس کہ مرکزی حکومت نے حال میں ہی اپنے موقف سے انحراف کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے 11 جنوری 2016 کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس یونیورسٹی کے تعلق سے پیشرو حکومت نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ غیر قانونی اور غلط تھا۔ ضمیر شاہ نے مودی سے خواہش کی کہ وہ سابق موقف پر واپس جائے جس کے تحت اس یونیورسٹی کے موقف کی تائید کی گئی تھی۔ اساسی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے مراد اس کا اسلامی کردار ہے مگر اس یونیورسٹی کی اسلامی روح کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے نکال دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے اسلامی روح کو ذبح کرنے کا کام اس وقت کے وزیر تعلیم پروفیسر نور الحسن نے انجام دیا۔ یونیورسٹی کا تھوڑا بہت جو اقلیتی کردار بچا ہے اے نریندر مودی حکومت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے خاندان کی رکن ہونے کا دعوی کرنے والی مرکزی وزیر اقلیتی بہبود نجمہ ہبت اللہ بھی اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہیں قوم کی نہیں بلکہ اپنی وزارت عزیز ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ اس مسئلہ پر احتجاج کرتی ہیں۔ (ویسے توا مکان نہیں ہے ) تو بی جے پی انہیں کچل کر رکھ دے گی اور بے عزتی کے ساتھ باہر کا راستہ دکھا دے گی۔ بی جے پی سے اس مسئلہ پر لب کشائی نہ کرتے ہوئے عہدہ سے چمٹے رہنے میں وہ اپنی عافیت سمجھ رہی ہیں۔ وزیر اعظم سے نمائندگی کے بعد وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ نے سمرتی ایرانی سے بھی ملاقات کی اور انہیں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تحفظ پر زور دیا۔ شاہ نے ایرانی کو بتایا کہ یونیورسٹی کے اعلیٰ پالیسی ساز اداروں ایگزیکٹیو کونسل، یونیورسٹی کورٹ حکومت ہند اور صدر جمہوریہ نے یونیورسٹی کے بیرونی سنٹرس (کیمپس ) کو منظوری دی ہے اس لئے ان سنٹرس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ضمیر الدین شاہ نے یہ بھی کہا کہ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تحفظ سے اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے میں مدد ملے گی۔ مسلم یونیورسٹی کو مزید فنڈس کی اجرائی پر بھی زور دیا تا کہ اس جامعہ میں مزید نئے کورسس شروع کئے ہیں۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں مرکزی حکومت کے ارادوں سے آگاہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ابھی تک ایسا قانون نہیں بنایا گیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ اسلامیہ کو اقلیتی کردار کے حامل ادارے تسلیم کئے گئے ہیں۔ امیت شاہ نے کہا کہ حکومت کا منشا صاف ہے، حکومت ان دو یونیورسٹیوں میں ایس سی، ایس ٹی اور بی سی امیدواروں کو ریزرویشن ملے اور وہ، وہاں تعلیم حاصل کریں۔ امیت شاہ کے اس اعلان کے باوجود سیکولر بالخصوص کانگریس اور بائیں بازو جماعتوں کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ جو اس بات کا غماز ہے کہ یہ پارٹیاں صرف شور و غل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو متحدہ طور پر ان دو تعلیمی اداروں کو بچانے کے لئے کامیاب تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ وقار ہند)
سر سید اور علی گڑھ تحریک۔ ایک اجمالی جائزہ
—ڈاکٹر رضیہ حامد
انیسویں صدی عیسوی مسلمانوں کی اصلاح اور تبدیلیِ فکر کے لئے یاد کی جائے گی۔ اس صدی میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بے شتر ممالک میں مختلف مصلحین قوم نے اپنے اپنے نظریئے کے تحت اصلاحی تحریک چلائی جس سے انسانی زندگی اور معاشرے میں جو تبدیلی و تغیر آیا اس کے اثرات دیرپا ثابت ہوئے۔ ان سب نظریات میں کسی حد تک مماثلت پائی جاتی تھی۔ ہندوستان کے ان مصلحین میں راجہ رام موہن رائے اور سر سید احمد خاں کے نام قابل ذکر ہیں۔ ہندوستان میں مغل حکومت بادشاہ کے نام کے ساتھ لال قلعہ تک محدود ہو گئی تھی۔ حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے بے شتر علاقے کو زیر کر کے اپنا محکوم بنا لایا تھا۔ راجہ رام موہن رائے اور سر سید دونوں کو قوم کی زبوں حالی کا شدّت سے احساس تھا۔ انہوں نے عمیق نظر سے حالات کا جائزہ لیا۔ قوم سے زمانے کے ساتھ چلنے، نئے نظریات و افکار کو سمجھنے اور قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے علوم کے فروغ کے لئے ہر قسم کے آپسی تصادم سے گریز کیا۔ ان کی نظر ماضی کے ساتھ مستقبل پر بھی تھی۔
سر سید کی پیدائش برصغیر ہند و پاک کی تاریخ کے ایسے دور میں ہوئی تھی جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی۔ ہندوستان کے عوام کی حالت انتہائی پستی تک پہنچ چکی تھی۔ خاص طور سے مسلمانوں کی حالت دگرگوں تھی، وہ معاشرے میں اپنا مقام و عزت کھوتے جا رہے تھے۔ حکومت برطانیہ کو ہر خطا مسلمانوں کی نظر آتی تھی۔ سر سید کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ انگریزوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسلحہ کی طاقت کام آنے والی نہیں، اس کے لئے ہندوستانی قوم کو بالخصوص مسلمانوں کو اپنی حکمت عملی اور اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ سر سید نے مسلمانوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں کہا:
"جس حساب سے یہ تنزل شروع ہوا ہے اگر اسی اوسط سے اس کا اندازہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چند ہی برس اس بات کو باقی ہیں کہ مسلمان سائیسی، خانسامائی، خدمت گاری، گھس کھودے ہونے کے سوا اور کسی درجہ میں نہیں رہیں گے۔ اور کوئی ایسا گروہ جس کو دنیا میں کچھ بھی عزت حاصل ہو، مسلمان کے نام سے نہ پکارا جائے گا”۔
(تقریر بمقام مظفرنگر۔ ۷فروری ۱۸۸۴ئ)
قوم کے انتشار، کسم پرسی اور زبوں حالی نے سر سید کے ذہن و دل کو مضطرب کر دیا تھا۔ ان کا نقطۂ نظر بہت واضح تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو قوم زندہ رہنے کی خواہش مند ہو اس کو چاہئے کہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلے یہی حالات کا تقاضہ اور دانشمندی ہے۔ جو قوم سکوت اختیار کرتی ہے زمانہ اس کی طرف سے بے اعتنائی برتتا ہے اور دوسری اقوام آگے بڑھ جاتی ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں میں اجتماعی اعتماد کی کوشش کی۔ سر سید دیکھ رہے تھے کہ راجہ رام موہن رائے کی تجویز جدید علوم و فنون حاصل کرنے کی طرف پیش قدمی پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان کے ہندو معاشرتی، تمدنی اور تعلیمی سطح پر مسلمانوں سے آگے پہنچ گئے۔
سر سید مسلمانوں کو ذہنی پستی سے بچانا چاہتے تھے، وہ ان کو جدید علوم و فنون کی طرف راغب کرنے کے لئے مسلسل کوشاں رہے۔ انہوں نے رفاہ عامہ اور تصنیف و تالیف کی راہ اختیار کی جس سے ان کو دلی شغف تھا۔ سر سید احمد خاں نے ۱۸۴۱ء سے ۱ ۸۵۷ء تک ۱۷ سال کے عرصہ میں مختلف موضوعات پر ۵۱ کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے نہایت عالمانہ اور محققانہ انداز میں "اسباب بغاوتِ ہند” کتاب لکھ کر حکومت برطانیہ کے ذہن سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ نازک دور تھا جب حکومت برطانیہ اپنی برتری کے زعم میں کسی کو اپنے سامنے لائق اعتنا نہ جانتی تھی، ہر شخص ان کے حکم سے ذرا سے روگردانی کرنے پر عتاب کا شکار ہو جاتا تھا۔ ملک میں ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
سر سید کا ارادہ پختہ اور عزم محکم تھا۔ وہ اپنے ملک و قوم کو سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس پُر آشوب دور میں قوم کی فلاح و بہبود کی فکر تھی۔ سر سید نے قوم کو ٹوٹنے و بکھرنے سے بچانے کے لئے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جس سے قوم کو نئی روشنی سے متعارف کرایا جا سکے۔ سر سید کی شخصیت میں قدیم و جدید کا امتزاج تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے مغرب کی تقلید کو پسند نہیں کرتے تھے۔ سر سید اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے حکومت برطانیہ سے کسی قسم کے تصادم سے بچتے ہوئے اپنے عزائم، افکار اور نظریات سے ملک و قوم کی بھلائی کی راہ اختیار کی۔
سر سید کو بخوبی اندازہ اور احساس تھا کہ مسلمان ہند ماضی پرست ہیں۔ اس زمانہ میں مسلمان پرانے انداز کی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے۔ جس میں عربی، فارسی اور دینیات وغیرہ شامل تھے۔ جدید تعلیم اور جدید اندازِ فکر کی حکومت میں ان کے لئے اعلیٰ عہدوں پر جگہ نہیں مل پاتی تھی۔ معاشی اور معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے مسلمان قوم کسی بھی قسم کی تعلیم سے تقریباً کنارہ کش ہو گئی تھی۔ سر سید کو یقین واثق تھا کہ ہندوستانی قوم کو اپنے حالات بدلنے کے لئے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ عام طور پر مسلمانوں کے ذہنوں میں جدید علوم و فنون کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے، اس وقت کے حالات کے پیش نظر ان کا ازالہ کرنا بہت مشکل امر تھا مگر سر سید پُرع زم تھے اپنے ارادہ میں مستحکم۔ سر سید نے اپنی تقاریر میں بارہا کہا کہ قوم نے اپنے آپ کو نہیں بدلا تو پھر ان کو عزت وقار حاصل نہیں ہو سکتا۔ سر سید محب قوم اور محب وطن تھے۔ ان کو اس کا بخوبی احساس تھا کہ مغربی علوم سے مستفید ہوئے بغیر قومی ترقی کا کوئی منصوبہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال کے بقول
"سر سید دور جدید کے پہلے مسلمان ہیں جس نے آنے والے زمانہ کے ایجابی مزاج کی ایک جھلک دیکھ لی تھی”۔
(سر سید اور علی گڑھ تحریک ص: ۷۷)
سر سید نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ۱۸۴۳ء میں غازی پور میں طلباء کو تعلیم نو سے متعارف اور روشناس کرانے کے مقصد سے مدرسہ قائم کیا اور سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ سوسائٹی کے زیراہتمام دیگر زبانوں کی منتخب کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سر سید نے جہد مسلسل سے مختصر عرصہ میں مختلف علم و فنون کی ۰۴ کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ سر سید جب غازی پور سے علی گڑھ منتقل ہوئے تو سوسائٹی کو بھی وہیں منتقل کر لیا۔ انھوں نے ۱۸۶۶ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ جاری کیا۔
سر سید نے ۱۸۶۹ء میں رسالہ "تہذیب الاخلاق” جاری کیا۔ اس رسالہ کو جاری کرنے کا مقصد معاشرے میں تہذیبی اصلاح قوم کے ذہنوں اور زندگی میں تغیر اور تبدل لانا تھا۔ رسالہ نے کافی حد تک ان کے مقصد کی تکمیل کے لئے عوام الناس کے ذہنوں کو تے ار کیا۔ تہذیب الاخلاق سر سید کے اخلاق کو عوام تک پہچانے کا بہتر وسیلہ تھا۔
سر سید کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ قوم تعلیم میں کمی کے سبب پچھڑتی جا رہی ہے اور علوم جدید حاصل کئے بغیر قوم ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتی۔ سر سید نے علی گڑھ میں مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ اور اشاعت کے لئے ۱۸۸۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ اس کا پہلا جلسہ ۱۸۸۶ء میں علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس کے اجلاس میں جو نظمیں پڑھی جاتی تھیں وہ خاص طور سے سر سید کے مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی کہی گئی تھیں۔ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر ان اجلاس میں غور و خوض کیا جاتا اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
سر سید نے اپنے مقاصد تعلیم کے فروغ کی تکمیل کے لئے انگریزی میں ایک کتابچہ ہندوستان کی "موجودہ تعلیمی نظام پر اعتراضات” لکھا جو لندن سے شائع ہوا۔ ۱۸۸۹ء میں سر سید سفر لندن سے واپسی پر اپنے ذہن و دل اور آنکھوں میں کیمبرج کی طرز پر ایک دارالعلوم بنانے کا خواب سجائے ہندوستان واپس آئے تھے۔ انہوں نے اپنے خواب کو عملی شکل دے تے ہوئے ہندوستان میں تعلیمی فروغ اور قوم کی سربلندی کے لئے ایم اے او کالج علی گڑھ میں قائم کیا، ۲۴ مئی ۱۸۷۵ء کو لارڈ لٹن نے اس کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر سر سید نے اپنی تقریر میں کہا:
"ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں یہ اوّل موقع ہے کہ ایک کالج نہ کسی خاص شخص کی فیاضی یا علمی شوق سے اور نہ کسی بادشاہ کی سرپرستی سے بنا ہے بلکہ کل اقوام کی متفق خواہشوں اور مجتمع کوششوں سے قائم ہوا ہے۔ اس کالج کی بنا ان اسباب پر ہے جو سابق میں اس ملک کو پہلے کبھی دیکھنے نصیب نہیں ہوئے۔ یہ کالج بے تعصبی اور ترقی کے اصول پر مبنی ہے جس کی نظیر مشرق کی تواریخ میں نہیں پائی جاتی”۔
(ایڈریس اور اسپیچیس متعلق محمد اینگلو اورینٹل کالج ص۔ ۳۰۔ ۳۱)
مدرسة العلوم سر سید اور ان کے رفیقان کے خوابوں کی عملی تعبیر ہے۔ سر سید جدے دیت کے علمبردار تھے۔ ان کو تعلیم سے بے انتہا شغف تھا اور قوم سے دلی ہمدردی۔ اس لیے انھوں نے علم کے فروغ کے ساتھ اردو زبان و ادب کی اصلاح اور فروغ کی طرف بھی توجہ دی۔ وہ بذاتِ خود مصنف، مؤلف، انشاء پرداز، مترجم، ماہر تعلیم، مورخ، صحافی کے ساتھ ہی وسیع القلب اور بصیرت افروز مفکر تھے۔ سر سید کے ساتھ ان رفیقان کی طاقت تھی۔ جن میں تصنیف و تالیف کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ غالباً شاعر نے اسی صورتِ حال پر یہ شعر کہا ہے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا
سر سید کے رفقاء ہر مقام پران کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے سر سید اور ان کے رفقاء کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا:
"مرحوم سر سید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ میں صرف ایک کالج ہی قائم نہیں کیا تھا بلکہ وقت کی تمام علمی و ادبی سرگرمیوں کے لئے ایک ترقی پسند حلقہ پیدا کر دیا تھا۔ اس حلقہ کی مرکزی شخصیت خود ان کا وجود تھا، اور اس کے گرد ملک کے بہترین دماغ جمع ہو گئے تھے ”
(سر سید اور علی گڑھ تحریک ا ز پروفیسر خلیق احمد نظامی۔ ص: ۸۹)
سر سید کے لئے اپنے مقاصد کی تکمیل آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لئے ان کو طرح طرح کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ان کے لئے کفر کا فتویٰ بھی جاری ہو گیا۔ سر سید اپنے موقف سے ذرا بھی نہیں ہٹے نہ ان کی جبیں پر شکن آئی۔
سر سید کو اردو زبان سے دلی لگاؤ تھا۔ وہ ادب کو زندگی جانتے اور مانتے تھے۔ اردو شعر و ادب میں سادہ اور عام فہم اسلوب پر زور دے نے کے ساتھ ہی سر سید نے ایسے مضامین لکھ کر نمونے کے طور پر پیش کئے۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ جو بات مصنف یا شاعر کہے اس کا انداز ایسا ہونا چاہئے کہ دل سے نکلے اور دل پر اثر انداز ہو۔ اپنے طرز تحریر کے متعلق سر سید "تہذیب الاخلاق” میں لکھتے ہیں :
” جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کی علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی مضمون ایک میں سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگین عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیال سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں میں ہی رہتی ہے وہ دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا، اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، مضمون کے ادا میں ہو، جو اپنے دل میں ہو، وہی دوسروں کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے "۔
(مقالات شبلی جلد دوم ص: ۱۱۔ ۰۱)
سر سید اور رفقاء کی اردو زبان و ادب کو سنوارنے کی آسان و عام فہم بنانے کی کوششیں بار آور ہوئیں۔ نظم و نثر کی جملہ اصناف میں ان کے اثرات واضح نظر آنے لگے۔ شبلی نعمانی نے اپنے مضمون سر سید اور اردو لٹریچر میں سر سید کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے :
"ملک میں آج بڑے بڑے انشاء پرداز موجود ہیں جو اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمراں ہیں لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سر سید کے بارِ احساں سے گردن اُٹھا سکتا ہو”
(مقالات شبلی ج۔ ۲۔ ص:۵۸)
سر سید کی زندگی میں ہی مدرسة العلوم سے فارغ طالب علموں نے اپنے اپنے مقام پر ان کے مقاصد کی تشہیر اور ان کے مشن کو فروغ دیا چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ ان میں ایک مولوی بشیرالدین تھے جنھوں نے ایک کالج اپنے شہر اٹاوہ میں اسلامیہ کالج اٹاوہ کے نام سے قائم کیا۔ سر سید کے اصلاحی مشن کو جو مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کی فکری تحریک تھی اور جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنی مروّجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مربی علوم و فنون کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ سر سید تحریک یا علی گڑھ تحریک کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ سر سید ہمہ تن اپنی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں مصروف رہے۔ وہ کبھی تھک کر نہیں بیٹھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد بھی ان کا مشن فروغ پاتا رہے۔ ان کی یہ تحریک کبھی رو بہ زوال نہ ہو، وہ ھل من مزید کے قائل تھے۔
سر سید نے اپنے خون پسے نے سے علی گڑھ تحریک کی آبیاری کی۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایم اے او کالج کا قیام ان کی محنت کلا ثمر اور بے ریا جذبات کی بہترین مثال ہے۔ مندرجہ ذیل شعر ان کے اوپر پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔
حاصل عمر نثار رہِ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
مثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
سر سید نے محبت، خلوص، قومی ہمدردی، جہد مسلسل کی جو مثال قائم کی وہ علی گڑھ یونیورسٹی کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں روشن رہے گی۔
سر سید نے کالج میں مثبت روایات کو فروغ دیا۔ اعلیٰ اخلاق تہذیب و تمدن، خلوص محبت، آپسی بھائی چارہ کو طالب علموں کے ذہن و دل میں جاگزیں کر دیا۔ سر سید اور علی گڑھ تحریک سے محبت کرنے والی ہر نسل کو یہ روایات ورثہ میں ملتی چلی آئی ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونا ان کے قائم کئے ہوئے اداروں کی ترقی و فکر کے ساتھ علی گڑھ تحریک کو فعال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سر سید کو ان کی خدمات کے لئے بہترین خراجِ عقیدت ہو گا۔
٭٭٭
اردو محققین کے پیش رو: سر سید احمد خاں
—سلمان فیصل
اردو زبان و ادب کے ارتقا، وسعت، تنوع اور تبدیلیوں میں تحریکوں اور رجحانات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ انھیں تحریکوں اور رجحانات کے زیر سایہ اردو زبان و ادب کی پرورش و پرداخت ہوئی اور اس کے حسن میں نکھار آیا جس نے پوری دنیا کو مسحور کر دیا اور لوگ اس کے دامِ سحر میں گرفتار ہونے لگے۔ جن دو تحریکوں نے اردو زبان ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک ہے۔ علی گڑھ تحریک ہی نے اردو نثر کو مسجع و مقفی کی بیڑیوں سے آزاد کرایا اور اس میں سب سے اہم رول بانیِ علی گڑھ تحریک سر سید احمد خاں کا ہے۔ غالب کی مسجع و مقفی سے پاک آسان اور سادہ مکتوب نگاری کے بعد سر سید احمد خاں نے اسی کو سادہ سلے س، عام فہم اور آسان زبان میں مضمون نگاری کے ذریعے اردو نثر کو ایک نئی زندگی عطا کی۔
سر سید احمد خاں کی شخصیت اور ان کی خدمات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ان کے کئی روپ سامنے آتے ہیں۔ وہ ایک مصلح قوم و ملت، عظیم مفکر اور دانشور تھے۔ علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ انھوں نے قوم و ملت کی خدمت کی اور اس کے ساتھ انھوں نے اردو زبان خصوصاً اردو نثر کو عوام کے طبقے تک پہچانے میں اہم رول ادا کیا۔ سر سید ایک اچھے معلم بھی تھے اور تعلیم و تربیت پران کی خصوصی توجہ تھی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تعلیم ہی کے ذریعے انسان کامیابی کے راستے کو طے کر کے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا اور اسی کے نتیجے میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر ایک مرکزی یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔ وہ صحافی اور مصنف بھی تھے۔ تاریخی، مذہبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر کئی کتابوں کی تنصیف اور بے شمار مضامین کے ساتھ ساتھ اردو کے مایہ ناز رسالہ "تہذیب الاخلاق” کی ادارت کی اور اس کے خد و خال کو سنوارا۔ اسی رسالے کے ذریعے انھوں نے عوام خصوصاً مسلم عوام سے رابطہ پیدا کر کے انھیں ذلت کے غار سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
سر سید کی ایک اور حیثیت ہے۔ وہ اردو محققین کے پیش رو بھی ہیں۔ اردو میں تحقیق کی روایت کا آغاز انھیں سے ہوتا ہے۔ گرچہ اس سے قبل بھی اردو نثر میں تحقیق ک یعناصر پائے جاتے تھے مگر سر سید نے تحقیق کے سائنٹفک اصولوں کے تحت اردو تحقیق کی نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنے جانشین محققین کے لیے تحقیق کی بنیادیں فراہم کیں جس پر اردو کے محققین نے بلند و قامت عمارت تعمیر کی ہے۔
سر سید کو محقق بنانے اور اپنے جانشین محققین کے لیے نقوش چھوڑنے میں سب اہم کردار ان کی مایہ ناز تصنیف "آثار الصنادید” نے ادا کیا ہے۔ یوں تو یہ ایک تاریخی کتاب ہے جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے تین ابواب میں دہلی کی تاریخی عمارتوں اور قدیم کھنڈرات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ پہلے باب میں فصیل بند شہر دہلی کے باہر کی عمارتوں کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں قلعہ معلی کی عمارتوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ تے سرے باب میں شہر شاہجہان آباد جو فصیل بند شہر تھا، اس میں موجود تاریخی عمارتوں کی معلومات درج کی گئی ہیں۔ چوتھے اور آخری باب میں دہلی کے علما، صوفے ا، ادبا و شعرا، اطبا، موسے قاروں اور دیگر فن کاروں کا مختصر اور جامع تذکرہ موجود ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی اپنی کتاب "حیات جاوید” میں اس کتاب کے ابواب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “پہلے باب میں تقریباً ۱۳۰ عمارتوں کا بیان ہے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں کی عمارتیں شامل ہیں اور چند کے سوا باقی ہر عمارت کا کتبہ اور نقشہ اس کے ساتھ دیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ۳۲عمارتوں کا بیان اور اس کے نقشے اور کتبے مندرج ہیں۔ تیسرے باب میں تقریباً ۷۰ حویلیوں، مسجدوں، مندروں، بازاروں، باولیوں اور کنووں وغیرہ کا بیان ہے۔ چوتھے باب میں اول کسی قدر اُن شہروں، قلعوں، اور محلوں وغیرہ کا بیان ہے جو ۴۰۴بکرمی سے لے کر آخر تک وقتاً فوقتاً اس سرزمین میں آباد ہوئے۔ اس کے بعد یہاں کی آب و ہوا اور زبان اردو کا ذکر ہے۔ پھر مشاہیر اہل دہلی کا حال لکھا ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علما، فقرا، مجاذیب، اطبا، قرًا، شعرا، خوش نویس، مصور، موسیقی داں وغیرہ کا بیان ہے۔ ”
سر سید احمد خاں پہلے مصنف ہیں جنھوں نے اردو میں آثار قدیمہ کے موضوع پر علمی اور محققانہ انداز میں معرکة الآراء کتاب "آثار الصنادید” لکھی۔ اس کتاب کو سر سید کا ایک نادر اور عجیب و غریب کارنامہ قرار دیا جاتا ہے جو اپنی نظیر آپ ہے۔ اردو میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔ اس کے اندر سر سید نے شہر سے باہر کی عمارتوں، لال قلعہ کی عمارتوں، فصیل بند دہلی شہر کی عمارتوں مثلاً حویلیوں، مسجدوں، مندروں، بازاروں، کنووں اور باولیوں وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ نےز ان عمارتوں کے نقشے اور ان کی تصاویر بھی قارئین کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ اسی طرح دہلی کے باہر اطراف میں واقع پرانے شہروں کے قلعوں، محلوں اور حویلیوں کا تذکرہ ہے۔ آخر میں اہل دہلی کے مشاہیر پر گفتگو کی گئی ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علما، فقرا، اطبا، قرّائ، شعرا، خطاط، مصور، موسیقار وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس کتاب کے بارے میں سید احتشام حسین نے اپنی کتاب "اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں :
"ان میں سب سے زیادہ اہمیت "آثار الصنادید ” کو حاصل ہوئی کیونکہ ہندوستانی زبانوں میں پہلی تحقیقی کتاب تھی جس میں دہلی کی تاریخی عمارتوں کی تفصیل دی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ اہل دہلی کا ایک تذکرہ بھی تھا۔ اس کے لکھنے میں انھوں نے کچھ مدد امام بخش صہبائی سے بھی لی تھی۔ اس کے ترجمے یورپ کی زبانوں میں بھی ہوئے اور سر سید کی شہرت اور عزت میں اضافہ ہوا۔ ”
اس کتاب کی شہرت اور اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسی زمانے میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ پہلا ایڈیشن سر سید کے اپنے مطبع سے دالاخبار سے ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا۔ اس کے سات سال بعد سر سید نے اس کتاب پر نظر ثانی کر کے کچھ ترمیم اور حذف و اضافہ کے ساتھ دو بارہ ۱۸۵۶ ء میں شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن میں جو خامیاں راہ پا گئی تھیں، اس کی وضاحت دوسرے ایڈیشن میں کی گئی تھی۔ مگر دوسرے ایڈیشن میں چوتھے باب کو خارج کر دیا گیا تھا جس میں اہل علم حضرات کا مختصر مگر جامع تذکرہ موجود تھا۔ اس کتاب کی تیاری میں سر سید کو بہت محنت اور مشقت کرنی پڑی۔ تمام عمارتوں کا معائنہ کرنا، پھر اس کے کتبوں اور نقشوں کو پڑھنا اور اس میں سے نوٹ تیار کرنا بہت مشکل کام تھا، بعض بلند و بالا عمارتوں کے کتبے بہت اونچے ہوتے جن کو پڑھنے کے لیے سر سید کو چھینکا اور بلًیوں کا استعمال کرنا پڑا، مگر اس مشقت کے باوجود سر سید کی ہمت اور ان کا عزم نہیں ہارا۔ سر سید کی اس محنت اور لگن کا نقشہ مولانا حالی نے "حیات جاوید” میں یوں کھینچا ہے :
"باہر کی عمارتوں کی تحقیقات کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ بیسیوں عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈر ہو گئی تھیں۔ اکثر عمارتوں کے کتبے پڑھے نہ جاتے تھے۔ بہت سے کتبوں سے ضروری حالات معلوم نہ ہو سکتے تھے۔ اکثر کتبے ایسے خطوں میں تھے جن سے کوئی واقف نہ تھا۔ بعض قدیم عمارتوں کے ضروری حصے معدوم ہو چکے تھے۔ اور جو متفرق اور پراگندہ اجزا باقی رہ گئے تھے ان سے کچھ پتا نہ چلتا تھا کہ یہ عمارت کیوں بنائی گئی تھی اور اس سے کیا مقصود تھا پھر اکثر عمارتوں عرض و طول و ارتفاع کی پیمائش کرنی، ہر ایک کی عمارت صورت حال قلمبند کرنی، کتبوں کے چربے اتارنے اور ہر ایک کتبے کو بعینہ اس کے اصلی خط میں دکھانا، ہر ٹوٹی پھوٹی عمارت کا نقشہ جوں کا توں مصور سے کھنچوانا اور اس طرح کچھ اوپر سوا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔ سیر سید کہتے تھے کہ "قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جا سکتے تھے ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلًیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتا تھا جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتا تو مولانا صہبائی فرط محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا۔ ” سر سید کی آئندہ ترقیات کی گویا یہ پہلی سیڑھی تھی۔ ”
اس تحقیقی کتاب کے سبب سر سید کو اردو کا پہلا محقق کہا جا سکتا ہے کیونکہ اول تو اس میں دہلی کی عمارتوں کا محققانہ ذکر تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کتاب کے پہلے اڈیشن میں چوتھے باب میں جن اہل علم حضرات کے احوال درج کیے گئے وہ تحقیق کے اصولوں پر تیار کیے گئے تھے جو آئندہ کے محققین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ یہ کتاب اس زمانے میں اردو زبان کی بدلتی شبیہ کی مثال بھی ہے۔ کیونکہ اس کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی زبان میں بہت فرق ہے، جو اردو نثر کے ارتقا کا بین ثبوت ہے۔ بقول سید عبداللہ:
"ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۸۴۷ء میں اردو نثر پر سہ نثر ظہور اور انشائے ابو الفضل کا گہرا سایہ پڑا ہوا ہے۔ لیکن سات سال بعد یعنی ۱۸۵۴ء میں ہم اسے انگریزی نثر اور انگریزی انشا پردازی کے اثرات سے متاثر پاتے ہیں۔ اب بے ضرورت تکلف، رنگینی اور فارسیت کی بجائے نثر میں سادگی، سلاست اور بے ساختہ پن صاف دکھائی دیتا ہے۔ غرض آثار کی دونوں اشاعتوں کے درمیان نثر کے اسلوب میں یکایک جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں گو نا گوں اندرونی اور بیرونی اسباب کی وجہ سے اردو نثر ترقی کے قدم جلد جلد اٹھا رہی ہے۔ ”
آثار الصنادید کے پہلے اور دوسرے اڈیشن کی مبان اور اس کے اسلوب بے ان میں نمایاں فرق ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پہلا ایڈیشن سر سید نے امام بخش صہبائی کی مدد سے تیار کیا تھا۔ اس لیے کئی جگہ عبارت رنگین اور مسجع و مقفی ہو گئی تھی جبکہ سر سید کی نثری خصوصیت سلیس اور سادہ روانی تھی۔ لیکن دوسرے ایڈیشن کے لیے جب سر سید نے حذف و اضافہ اور ترمیم و تنسیخ کی تو اس کے زبان و بیان میں بھی نکھار آیا اور پوری کتاب سلیس اور رواں اسلوب میں تیاری ہوئی۔
اس کتاب کے علاوہ سر سید نے تاریخ کی تین کتابوں کی تحقیق و تدوین کر کے دو بارہ شائع کیا۔ پہلی کتاب "آئین اکبری” ہے جس میں مغل زیورات کی تصویریں، خیمہ گاہ بادشاہی اور تمام پھل دار اور پھول دار درختوں کی تصویریں شامل تھیں۔ یہ کتاب فارسی زبان میں ہے اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین اور تحقیق سر سید نے اپنے عہد منصفی میں دہلی میں رہ کر کی۔ اس کتاب کے بارے میں محمد الیاس الاعظمی اپنی کتاب "دار المصنفین کی تاریخی خدمات” میں لکھتے ہیں کہ "متنی تحقیق و تدوین کا اردو میں غالباً یہ ’تصحیح آئین اکبری‘ پہلا کام تھا۔ اس لحاظ سے سر سید کی ایک بڑے اور دیدہ ور محقق کی بھی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے "۔
دوسری کتاب ضیا الدین برنی کی "تاریخ فیروز شاہی” کی تدوین ہے جس میں فے روز شاہی عہد حکومت کی مستند تاریخ موجود ہے۔ اس میں آٹھ بادشاہوں کے حالات کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ان واقعات کا بھی بے ان ہے جو فے روز شاہی عہد حکومت میں واقع ہوئے۔ جن بادشاہ کا تذکرہ اس کتاب میں ہے وہ غیاث الدین بلبن، معز الدین کیقیاد، جلال الدین فیروز خلجی، علاؤ الدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ، غیاث الدین تغلق شاہ، سلطان محمد تغلق شاہ اور سلطان فے روز شاہ ہیں۔ بنگال اے شے اٹک سوسائٹی کی جانب سے سر سید کو اس کتاب کی تصحیح اور تدوین کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی نے اسے 1863میں شائع کیا۔
تیسری کتاب "تزک جہانگیری” کی ترتیب و تدوین ہے۔ "سلسلة الملوک” سر سید کی ایک اور کتاب ہے جس میں ان بادشاہوں اور راجاؤں کی مختصر، مفید اور درست فہرست پیش کی گئی ہے جو دہلی میں کم و بیش پانچ ہزار برس سے حکومت کرتے آ رہے تھے۔ اس میں راجہ یدھشٹر سے ملکہ وکٹوریہ تک کے بادشاہوں کا حال درج ہے۔ اس کو او آثارالصنادید کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کر دیا گیا تھا۔ "آثار الصنادید” کی تصنیف کے ساتھ ان تین کتابوں کی تحقیق و تدوین نے سر سید کو اردو پہلا محقق بنا دیا۔
٭٭٭
سر سید: ہندوستانی مسلمانوں کے محسنِ اعظم
—ڈاکٹر مقبول احمد مقبول
اس دنیائے آب و گل میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کے درمیان چند ایسے نفوسِ قدسیہ کا بھی ورودِ مسعود ہوتا ہے جن کے عظیم الشان اور پُر نور کارناموں سے اوراقِ تاریخ منور اور قوم مجلّا ہوتی ہے۔ سر سید احمد خاں کا شمار بھی ایسے ہی نفوسِ قدسیہ میں ہوتا ہے۔ سر سید انیسویں صدی کی ایسی عبقری شخصیت کا نام ہے جن کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت، ذہن و فکر اور ان کے علم و ادب میں زبردست انقلاب آیا۔ غدر ۱۸۵۷ء کے حالات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں تھے۔ یہ وہ سال ہے جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے تقریباً ایک ہزار سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد ہندوستان میں چند ایک چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں تھیں لیکن وہ سب انگریزوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی اور مرکزی حکومت یعنی مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا۔ مسلمانوں سے جاگیریں، عہدے اور مناصب چھین لیے گئے تھے۔ مسلمان انگریزوں کی نظر میں سب سے بڑے مجرم تھے۔ کیوں کہ انھیں کی طرف سے انھیں کے علما کے فتاوے کی روشنی میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکے تھے۔ چنانچہ اس وقت اہلِ ہند میں انگریزوں کے سب سے زیادہ معتوب و مقہور ہندوستانی مسلمان ہی تھے۔
سلطنت ختم ہو گئی، جاگیریں ضبط کر لی گئیں، عہدے اور مناصب بھی ختم کر دیے گئے۔ نتیجے کے طور پر ہندوستانی مسلمان مایوسی، پژمردگی اور نکبت و افلاس کا شکار ہو گئے۔ تعلیمی پس ماندگی تو تھی ہی اب اقتدار چھن جانے کے بعد معاشی پس ماندگی کا شکار بھی ہو گئے۔ گویا ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہر طرف مایوسی اور ناکامی کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے تھے۔ ایسے مایوس کن اور پُر آشوب حالات میں ایک مردِ خداٹھتا ہے اور سوتوں کو جگانے اور جاگتوں کو دوڑانے کی سعیِ مشکور کرتا ہے۔ اس کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی سید احمد خاں ہے۔
سر سید احمد خاں نہایت ذہین وفطین، دور اندیش، زبردست مدبر ومفکر اور سچے مصلحِ قوم تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ اب انگریزوں سے ٹکر لیناگویا دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ اب اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم وفنون اور انگریزی تعلیم حاصل کریں اوراپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام برائیوں کا خاتمہ کریں۔ اس کے لیے انھوں نے ایک منظم اور زبردست تحریک شروع کی جو تاریخ میں "علی گڑھ تحریک "کے نام سے مشہورہے۔ یہ تحریک بہ یک وقت تعلیمی بھی تھی اوراصلاحی بھی۔ اس تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کی فکر ونظر کی تبدیلی میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ تعلیم وتربیت، زبان و ادب، تہذیب و ثقافت، مذہب و صحافت اور تاریخ و تحقیق، غرض ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس پر اس تحریک نے دور رس اثرات مرتسم نہ کیے ہوں۔ سر سید نے یہ معلوم اور محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ان کے نظامِ تعلیم، زبان و ادب، تہذیب ومعاشرت اورمذہبی خیالات کی اصلاح کر کے ان میں بھی مثبت تبدیلی لانا ضروری ہے۔ چنانچہ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے ان تمام اداروں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا جن سے ان کا تھوڑا بہت بھی تعلق تھا۔
سر سید کی یوں تو تمام خدمات مفید، کار آمد، قابلِ فخر، لائقِ تحسین و ستائش اور یادگار ہیں ؛ لیکن ان میں ان کی تعلیمی اور اصلاحی خدمات سب سے زیادہ عظیم الشان ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے سر سید نے جو کوششیں کیں وہ یقیناً آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ وہ نبّاضِ وقت تھے۔ غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس میں جدید کاری کی ضرورت ہے۔ آج فلسفہ اور منطق کی نہیں بلکہ سائنسی تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ سر سید کو اس بات پر یقین واثقِ ہو گیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی مادی ترقی و کامرانی اور ان کی فلاح و بہبودی کا راز جدید علوم کے حصول میں پوشیدہ ہے اور جدید علوم کا سارا خزانہ انگریزی زبان میں ہے۔ لیکن ہندوستانی مسلمان کچھ تو انگریز وں سے نفرت اور کچھ مذہبی تنگ نظری کی وجہ سے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے بدکتے تھے۔ ان کے نزدیک انگریزی زبان کا سیکھنا کفر سے کم نہ تھا۔
سر سید نے ہندوستانی مسلمانوں کو اس تنگ نظری کے خول سے باہر نکالا۔ انھوں نے ان کے اذہان کو روشن خیالی اور مثبت اندازِ فکر کی طرف موڑا۔ انھوں نے کہا کہ تمھیں انگریزوں سے نفرت ہو سکتی ہے ان کی زبان سے نفرت کیوں ؟سر سید نے واضح، مدلل اور پُر زور انداز میں کہا کہ اب انگریزی زبان سیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس زبان کو سیکھے بغیر ہم پر ترقی کی راہیں نہیں کھلیں گی۔ انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے ناواقفیت کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان حکومت کے نظام کا حصہ بھی نہیں بن پا رہے تھے۔ اس کی وجہ سے حکومت تک ان کی کوئی بات موثر انداز میں نہیں پہنچ پا رہی تھی جس سے ان کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو رہا تھا۔ اس نقصان کی تلافی کے لیے بھی جدید علوم کا سیکھنا ضروری معلوم ہو رہا تھا۔ چنانچہ سر سید نے اس جانب اپنا سارا زورِ عمل صرف کیا۔ قوم کی مخالفتیں سہیں، گالیاں کھائیں، زندیق و کافر کی تہمتوں کو خوشی خوشی سے برداشت کیا لیکن اس مردِ خدا نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کے لیے انھوں نے جو جو قربانیاں دیں وہ ان کے قوم کے تئیں جذبہ¿ صادق کی دلیل ہیں۔ ایسی بے غرضی اور بے لوثی کی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سر سید نے اپنی ساری طاقت و توانائی اور روپیہ پیسہ ہندوستانی مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ دینے میں لگا دیا۔ اسی بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لیے وقف کر دی تھی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اعلیٰ درجے کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی غرض سے انگلستان کے تعلیمی ادراروں کا معائنہ کرنے کے لیے سر سید انگلستان گئے، اور باریک بینی سے وہاں کی تعلیمی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا۔ ہندوستان واپس آ کر "محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیادڈالی جوآج ” علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ یہی نہیں بلکہ "مسلم ایجوکیشنل کانفرنس” نامی ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا جس کا مقصد ملک بھر میں تعلیمی ادارے قائم کرنا تھا۔ تعلیمِ نسواں کیاہمیت و افادیت کو اجاگر کیا۔ نتیجے کے طور پر ہندوستانی مسلم خواتین کی تعلیم کے لیے ماحول سازگار ہوا۔ سر سید نے اپنے ناقدین کی مخالفتوں کی پروا نہ کرتے ہوے جس اولو العزمی اور ثابت قدمی سے اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا وہ ان کی زبردست خود اعتمادی اور قوتِ ارادی کی مظہر ہے۔ اکبر الہ آبادی (جو ان کے کٹر ناقدین میں سے ایک تھے ) کو آخر کار سر سید کی خدمات کا اعتراف کرنا ہی پڑا۔ چنانچہ سر سید کی موت پر انھوں نے کہا :
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کوئی کچھ بھی کہے میں تو یہی کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کے موضوع پر سر سید کے ڈھیروں مضامین اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ سر سید نے اپنے ان مضامین کے ذریعے مسلم معاشرے کی اصلاح کا زبردست کام لیا۔ ہندوستانی مسلمانوں میں پھیلے ہوئے غیر ضر وری اور غیر شرعی رسم و رواج اور بدعات کا قلع قمع کیا۔ قومی منافرت، مذہبی تنگ نظری، سستی اور کاہلی کی مذمت کی اور انھیں جہد و عمل کے نئے نئے راستے سجھائے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں بلند حوصلگی اور اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ بیدار کیا۔ ان میں صبر و ضبط اور قوتِ برداشت کا مادہ پیدا کیا۔ ان کی معاشرتی زندگی کو باوقار اور معیاری بنانے کی پُر خلوص کوشش کی۔ رسالہ” تہذیب الاخلاق” اسی مقصد کے لیے جاری کیا گیا تھا جس کے بیشتر مضامین وہ خود لکھتے تھے۔
سر سید سے پہلے اردو زبان مفرّس و معرّب رنگ کی حامل مشکل اور ادق تھی۔ سر سید نے اسے عام فہم بنائے کی پُر زور وکالت کی۔ اردو نثر مسجع و مقفّی اسلوب سے زیر بار تھی۔ سر سید نے اسے اس بوجھ سے آزاد کرایا۔ اگر چہ اس قسم کی کوششیں سر سید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کے تصنیفی اور تالیفی دور میں بھی ہوئیں، لیکن سر سید نے اپنے رفقائے کار کی مدد سے اسے ایک نئی جہت دی جس میں اخلاص کا بڑا دخل ہے۔ ادب کو با مقصد اور کار آمد بنانے کی سعیِ مشکور کی۔ شعر و ادب کو تعلیم و ترقی اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اپنانے کی تلقین کی۔ مافوق الفطرت عناصر سے معمور داستانوں اور مثنویوں کی جگہ اصلاحی ناول اور قومی اور نیچرل شاعری کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ سر سید نے اگرچہ تنقید میں کوئی باضابطہ کتاب تو نہیں چھوڑی تاہم انھوں نے اردو میں تنقید کی راہیں ضرور ہموار کیں۔ کیوں کہ وہ زبردست تنقیدی ذہن کے مالک تھے۔ سر سید کا ذہن سائنسی تھا اور فکر منطقی تھی۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سر سید اردو میں سائنٹی فک تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہیں۔ شعر و ادب سے متعلق ان کے تنقیدی خیالات ان کے مختلف اصلاحی اور صحافتی مضامین میں بکھرے ہوے ہیں۔ بہر حال اردو شعر و ادب کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی سر سید نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔
سر سید نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو انھوں نے صحافت کو بھی ایک معیار اور وقار عطا کیا۔ چنانچہ اردو صحافت بھی ان کی منت کش ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی شعور بیدار کرنے اور ان میں سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے مقصد سے ” سائنٹی فک سوسائٹی” قائم کی اور اس کے تحت ایک اخبار بنام "اخبار سائنٹی فک سوسائٹی ” جاری کیا۔ سائنٹی فک سوسائٹی کے زیرِ اہتمام سر سید نے کئی ایک سائنسی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا۔ سائنٹی فک سوسائٹی کی سائنسی خدمات اور” اخبار سائنٹی فک سوسائٹی” کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں میں کئی مثبت تبدیلیاں آئیں اور ان میں سائنسی تعلیم کے حصول کا جذبہ پیدا ہوا۔
دین و مذہب سر سید کی دلچسپی کا ایک اور اہم ترین موضوع تھا۔ اس میدان میں بھی انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ سر ولیم میور نے جب "لائف آف محمد” نامی کتاب لکھ کر حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور ان کے کردار کو داغدار کرنے کی مذموم کوشش کی اور اسلام پر بے جا اعتراضات کیے، تو وہ سر سید ہی تھے جنھوں نے اس کتاب کا مدلل و مسکت جواب ” خطباتِ احمدیہ” کے نام سے تحریر کیا اور زرِ کثیر صرف کر کے اس کو شائع بھی کیا۔ ولیم میور کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ وہ حکومتِ کا ایک با اثر فرد تھا اور جس وقت سر سید اس کی کتاب کا دندانِ شکن جواب لکھ رہے تھے وہ یو۔ پی کا گورنر تھا۔ سر سید نے سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود ولیم میور سے مرعوب ہوے بغیر اس کے اعتراضات کی تردید کرنے کی ٹھانی۔ گویا اک طرح سے اس سے ٹکر لی۔ یہ بڑے ہمت اور حوصلے کی بات تھی۔ یہ اقدام ایمانی حرارت اور عشقِ رسول کے بغیر ممکن نہیں۔ کتاب کے لیے درکار مواد کی فراہمی کے لیے انھوں نے انگلستان کا سفر کیا۔ اس تالیف کی سر سید کے نزدیک کیا اہمیت تھی اس کا اندازہ محسن الملک کے نام تحریر کردہ ایک مکتوب کے اس جملے سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ "اگر میری یہ کتاب تیار ہو گئی تو میں لندن میں آنا دس حج کے برابر اور باعث اپنی نجات کا سمجھوں گا”(بحوالہ ثریا حسین، سر سید اور ان کا عہد، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۹۳ء ص۲۱۱) ا
مسلمانوں میں عقلیت پسندی کے رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش کے طور پر قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی خیالات کی اصلاح کی غرض سے کئی مفید مضامین اور رسالے لکھے۔ دین کو افراط تفریط سے پاک کرنے کی مبارک کوشش کی۔ کورانہ تقلید کی برائیوں سے آگاہ کیا۔ ہر معاملے میں غور و فکر اور تعقل و تدبر سے کام لینے کی تلقین کی۔ اگرچہ سر سید کے بعض مذہبی نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے لیکن ان کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ پیغمبر نہیں ایک ریفارمر تھے۔ ان سے اجتہاد کی غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس اجتہاد کے پیچھے جو خلوص کا جذبہ کار فرما تھا اس کی بہر حال قدر کرنی چاہیے۔ مذہبی معاملات پر تحریر کردہ سر سید کے کئی چھوٹے بڑے رسائل اس بات کے گواہ ہیں کہ ان میں زبردست اجتہادی اور تحقیقی صلاحیتیں موجود تھیں۔ ان کے تحقیقی مقالات و مضامین سائنٹی فک نقطہ نظر کے حامل ہوتے تھے۔
سر سید نے اردو ادب، تاریخ نگاری اور سیرت نگاری میں سائنٹی فک اندازِ نظر کو پروان چڑھانے اور تحقیق کی راہیں ہموار کرانے میں اہم رول اد اکیا ہے۔ بلا شبہ وہ ایک اچھے اور سچے محقق کی حیثیت سے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی وژن، علمی بصیرت اور دانشوری کو فروغ دینے میں ان کی جو خدمات رہی ہیں انھیں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ نگاری کے میدان میں بھی سر سید نے نہ صرف اپنے نمایاں نقوش چھوڑے ہیں بلکہ اس راہ میں بھی انھوں نے رہبری کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اس سلسلے میں ” جامِ جام” ’آثار الصنادید” "سلسلة الملوک” "تصحیح آئینِ اکبری ” "تصحیح تاریخِ فیروز شاہی ” اور "تصحیح توزکِ جہانگیری”وغیرہ کتب تواریخ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
سر سید نے نہ صرف خود تصنیف و تالیف کا کام کیا بلکہ عالمانہ اور محققانہ ذہن کے حامل اہلِ قلم کی ایک پوری ٹیم تیار کی جن میں حالی، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، نواب محسن الملک، وقارالملک اور مولوی چراغ علی کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔ سر سید کے یہ رفقائے کاراپنے رشحاتِ قلم سے اردو زبان و ادب اور ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب ومعاشرت میں کئی اہم ترین اور مثبت تبدیلیاں لائیں۔ اس کا سہرا کسی نہ کسی حیثیت سے سر سید کے سر جاتا ہے۔ کیوں کہ ان تمام دانشوروں اور اہلِ قلم کی قوتِ تحریک کا سرچشمہ سر سید ہی تھے۔
بلا تامّل یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہندوستانی مسلمانوں میں تھوڑی بہت جو کچھ تعلیمی ترقی ہے، جو روشن خیالی ہے اور جو تعقل پسندی ہے وہ ساری کی ساری سر سید کی دین ہے۔ اگر سر سید نہ ہوتے یا انھوں نے وقت کی ضرورت کے پیشِ نظر اپنی تعلیمی و اصلاحی تحریک شروع نہ کی ہوتی تو آج ہندوستانی مسلمان تعلیمی پس ماندگی کے انتہائی گہرے گڑھے میں گرے ہوتے۔ اگرچہ موجودہ صورتِ حال بھی کچھ زیادہ اطمینان بخش نہیں لیکن جو بھی ہے وہ غنیمت ہے اور اس کا سارا سہرا سر سید احمد خان کے سر جاتا ہے۔ بلا شبہ سر سید ہندوستانی مسلمانوں کے محسنِ اعظم تھے۔ آج قوم کو پھر ایک بے لوث سر سید کی ضرورت ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم سر سید کی تعلیمی تحریک کو پھر سے زندہ کریں۔ ان کی ان عظیم الشان خدمات کی قدر کریں اور ان کے کردار و عمل سے روشنی حاصل کریں۔
سر سید احمد خاں کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ، نشانِ امتیاز اور باوقار تعلیمی ادارہ ہے۔ اس سے ہندوستانی مسلمانوں کی اٹوٹ روحانی اور ذہنی وابستگی ہے۔ اصل میں اس کی حیثیت مسلم اقلیتی تعلیمی ادارے کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی ایک عرصے سے کوشش کی جا رہی ہے اور وقفے وقفے سے نئی نئی سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔ بلا تفریقِ مسلک و علاقہ آج تمام ہندوستانی مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردا رکے تحفظ کی کوششوں کو بار آور بنانے میں اپنا جو بھی تعاون ہو سکتا ہے وہ دیں۔ اس سازش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور ایک زندہ اور با ضمیر قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
اٹھو! وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا
٭٭٭
سر سید احمد خاں : فکر و نظر کے چند پہلو
—ڈاکٹر مشتاق احمد
دربھنگہ
کسی عظیم شخصیت کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لئی یہ ضروری ہے کہ اس عہد پر بھی نگاہ رکھی جائے کہ جس عہد کے وہ پروردہ ہیں۔ کسی بھی شخصیت کی تعمیر اور فکری استحکام میں تغیر زمانہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ سر سید احمد خاں جیسی نابغہ روزگار شخصیت اور ان کے افکار و نظریات پر گفتگو کرنے سے قبل ان کے عہد کے سے اسی، سماجی و معاشرتی حالات کے ساتھ ساتھ ان کے تصور حیات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز سے 1857ء تک کے ہندوستان میں جو سیاسی و سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان پر سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ عہد کس قدر پامالیِ اقدار، سماجی اور طبقاتی کشمکش کا تھا۔ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ایک طرف ہندوستانیوں کے دلوں میں حب الوطنی کی چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کرتی جا رہی تھی تو دوسری طرف فاتح انگریزی حکومت نے اپنی بربریت کے شکنجے کو پہلے سے کہیں زیادہ کسنا شروع کر دیا تھا۔ نتیجتاً اب انگریزی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو دل دہلا دینے والی سزائیں دی جانے لگیں۔ آخری پنشن یافتہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور ان کے خاندان کے ساتھ کس طرح کا غیر انسانی سلوک اپنایا گیا اور ان کے خاندان کے چراغوں کو کس کس طرح بجھایا گیا اس خونی داستان سے ہماری تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں اور یہی پُر آشوب عہد سر سید احمد خاں کی عملی زندگی اور فکر و نظر میں انقلاب کا زمانہ ہے۔ واضح ہو کہ سر سید احمد خاں انگریزی حکومت میں ملازم تھے اور انگریزوں سے انہیں قدرے قربت بھی تھی لیکن 1857ء کے بعد جب انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ نازیبا اور غیر انسانی سلوک شروع کیا تو سر سید کا قوم پرست دل تڑپ اٹھا۔ لیکن سر سید ایک دانشور تھے وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے تھے کہ اس وقت انگریزوں کے خلاف سیدھی جنگ شروع نہیں کی جا سکتی کیوں کہ حالیہ جنگ میں ناکامی کے بعد ایک طرف ہندوستانیوں کا حوصلہ پست ہو چکا تھا تو دوسری طرف انگریز اپنی سے اسی چالوں سے ہندوستانیوں کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں سر سید احمد جیسے نبّاض دانشور کے سامنے بس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ انگریزوں سے اپنے رشتوں کو نہ صرف بر قرار رکھیں بلکہ اسے مزید استحکام بخشیں۔ لہذا انہوں نے اپنی سے اسی بصیرت و بصارت کے سہارے شکست خوردہ مایوس و ملول قوم کے لئے ملک میں ایک ایسی فضا تے ار کرنے کی سوچی جس سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمے ان جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں وہ بھی کم ہوں اور مسلمانوں کی گھٹن میں بھی کمی واقع ہو۔ انہیں مقاصد کے تحت انہوں نے "اسباب بغاوت ہند” اور "تاریخ سرکشی بجنور” لکھ کر انگریزوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ 1857ء کی بغاوت کے اسباب کیا تھے۔
واضح ہو کہ سر سید ہی کی طرح انگریزی حکومت کے ایک وفادار ہندوستانی مورخ غلام حسین طبا طبائی بھی 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے اسباب کی وضاحت اپنی کتاب "سیرة المتاخرین” میں کر چکے تھے۔ طبا طبائی نے لکھا تھا کہ:
"نئے حکمرانوں کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے، انہوں نے ہندوستانیوں کو تجارت سے محروم کر دیا۔ نئے حکمرانوں نے قدیم حکمرانوں کی فلاحی کاموں کے لئے دی جانے والی جاگیر کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ ہندوستانیوں کو فوج میں ملازمتوں کے حصول کے اب وہ مواقع مے سر نہیں ہیں جو ان کو پہلے حاصل تھے۔ ” (ص: ئ۸)
سر سید ایک ذہین انسان تھے۔ ان کا سے اسی، سماجی، مذہبی اور تاریخی شعور کتنا پختہ تھا اس کا بیّن ثبوت ان کی درجنوں تصانیف اور خطبات و مقالات ہیں۔ ان سب کی تفصیلات یہاں ممکن نہیں کہ خوف طوالت درپیش ہے۔ اگر چہ ان کی فکر کی جولانیاں ہمیشہ نئی راہ کی تلاش میں رہتی تھیں مگر 1857ء کے بعد انہوں نے اصلاحِ قوم کو ہی اپنا مقصدِ حے ات قرار دے کر ایسے ایسے کارنامے انجام دئے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حالی نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنےف "حے اتِ جاوے د” کے دے باچے میں ٹھےک ہی لکھا ہے کہ:
” اگر چہ ہماری قوم میں بڑے بڑے اولو العزم بادشاہ، بڑے بڑے دانشمند وزیر اور بڑے بڑے سپہ سالار گزرے ہیں مگر ان کے حالات اس کٹھن منزل میں جو ہم کو اور ہماری نسلوں کو درپیش ہے براہِ راست کچھ رہبری نہیں کر سکتے۔ ہم کو اب دنیا میں محکوم بن کر رہنا ہے اور اس لئے وہ لے اقتیں جو سلطنت اور کشور کشائی کے لئے درکار ہیں ہمارے لئے بے سود ہو گی۔ البتہ سر سید کی لائف ہمارے لئے ایک ایسی مثال ہے جس کی پے روی سے ممکن ہے کہ ہماری قوم کی یہ کٹھن منزل جو تنگنائے دنیا میں ظاہراًا س کی سب سے آخری منزل ہے آسانی کے ساتھ طئے ہو جائے”۔
بلا شبہ اگر اس پُر آشوب دور میں سر سید ہماری رہنمائی نہیں کرتے تو شاید ہندوستانی مسلمان پسماندگی کے اس دلدل سے باہر نہیں نکل پاتے جس میں اس وقت پھنسنا ان کا مقدر بن چکا تھا۔ سر سید نے نہ صرف مسلمانوں کی محرومیوں اور بد نصیبیوں کا مداوا تلاش کیا بلکہ ان کے اندر زندگی جے نے کا حوصلہ بھی بخشا۔ انہوں نے مسلمانوں کو قومیت کے ایک نئے مفہوم سے آشنا کیا اور اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ اب ہماری ترقی کی واحد کنجی تعلیم ہے اور تعلیم بھی روایتی نہیں بلکہ نئے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم ہی ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ برادرِ وطن کی زندگی اگر ہم سے قدرے بہتر ہے تو اس کی واحد وجہ تعلیم ہے۔ سند رہے کہ انہوں نے ایسا اس لئے کہا کہ وہ راجا رام موہن رائے، دیانند سرسوتی اور کے شب چند سین جیسے سماجی اور مذہبی رہنماؤں کی اصلاحی تحریکوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلے اگر ہمارے برادرِ وطن ترقی کے دور میں آگے نکل گئے ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کی تعلیمی بے داری ہے۔ اس لئے سر سید چاہتے تھے کہ مسلمان اس تعلیم سے آراستہ ہوں جو ان کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دے۔ انہوں نے مقصدِ تعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ :
"اے دوستو !مجھ کو یہ بات کچھ زیادہ خوش کرنے والی نہیں ہے کہ کس مسلمان نے بی۔ اے یا ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کر لی۔ میری خوشی قوم کو قوم بنانے کی ہے "۔
اور اسی طرح کا خیال اپنے مضمون "رائے در بابِ تعلیم” میں ظاہر کیا کہ :
"ہمیشہ تعلیم سے یہ مقصود رہا ہے کہ انسان میں ایک ملکہ اور اس کی عقل اور ذہن میں جودت پیدا ہو۔ تاکہ جو امور پیش آئے ان کے سمجھنے کی، برائی، بھلائی جاننے کی اور عجائب قدرت الٰہی پر فکر کرنے کی اس کو طاقت ہو۔ اس کے اخلاق درست ہوں، معاملات معاش کو نہایت صلاحیت سے انجام دے اور امور معاد پر غور کرے "۔ (مقالاتِ سر سید)
حیات سر سید کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ 1857ء کے بعد ان کے غور و فکر کا محور و مرکز صرف اصلاحِ قوم اور تعلیم رہا ہے۔ غازی پور میں مدارس کا قے ام، سائنٹفک سوسائٹی کا قے ام، علی گڑ ھ میں مدرسہ اور پھر اے م۔ اے او کالج کی داغ بے ل، سائنٹفک سوسائٹی گزٹ کی اشاعت، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد اور "تہذیب الاخلاق” کا اجرا وغیرہم کا واحد مقصد قوم کو بے دار کرنا اور انہیں علم و ہنر کے نئے مطالب و مفا ہیم سے آگاہ کرنا تھا۔ جیسا کہ خود سر سید نے ایم۔ اے۔ او کالج کے بنیادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا :
"یہ ادارہ مسلمانانِ ہند کی تعلیم، تہذیب و ثقافت اور دانشورانہ قیادت کا مرکز بن جائے۔ ے ہاں ایسے تربیت یافتہ ذہن تیار ہوں جو آئندہ ملک و قوم کے لئے سرمایۂ فلاح ثابت ہو”۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب سر سید نے اصلاحِ قوم کے لئے عملی اقدامات شروع کئے تو اوروں کی بات تو چھوڑئیے اپنوں نے بھی ان کی کس قدر مخالفت کی۔ ان پر نہ جانے کتنے بے ہودہ الزامات لگائے گئے۔ کسی نے ان کو انگریزوں کا پٹھّو کہا تو کسی نے دہریہ تک کہہ ڈالا۔ کسی نے ان کے نظریہ تعلیم کو اسلام مخالف قرار دیا تو کسی نے یہ افواہ پھیلائی کہ سر سید انگریزی تعلیم کے ذریعہ دینی تعلیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت بالکل بر عکس تھی کہ سر سید شروع تا آخر جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کے بھی علم بردار رہے۔ انہوں نے اپنے خطبات و مقالات میں ہمیشہ اس نکتے پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایسی تعلیم حاصل کرنی چاہئے جو دین و دنیا دونوں کے لئے مفید ہو۔ انہوں نے کہا تھا کہ :
"پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ تعصب کو چھوڑ دیں اور بعد تحقیقات و مباحث کے سلسلہ تعلیم مسلمانوں کا ایسا قائم کریں جو ان کے دین و دنیا دونوں کے لئے مفید ہو”۔ (مقالاتِ سر سید۔ مرتب شیخ اسماعیل پانی پتی، لاہور، ۸۸۲)
اور دوسری جگہ اس کی وضاحت یوں کی ہے :
"جو لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی عام تعلیم پر کوشش کرتے ہیں ان کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ عام تعلیم کا رواج کسی قوم کے زن و مرد میں بغیر شمولِ تعلیم مذہبی کے نہ ہوا ہے نہ ہو گا اور نہ دنیا میں کوئی ملک اور کوئی قوم ایسی موجود ہے جس میں عام تعلیم کا رواج بلا شمول مذہبی تعلیم کے ہوا ہو۔ "(مقالاتِ سر سید مرتب شیخ اسماعیل پانی پتی، لاہور، ۸۴۰۱)
جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ زبان کے تعلق سے بھی سر سید کی ذات کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں انگریزی زبان کا دلدادہ قرار دیا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فارسی، عربی اور اردو کے فروغ کے لئے نہ صرف خود کو وقف کر رکھا تھا بلکہ اپنے رفقا ء کے ذریعہ اتنے کارنامے انجام دلوائے کہ اس کے ذکر کے بغیر تاریخِ ادب اردو مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ ہاں !یہ حقیقت ہے کہ وہ انگریزی زبان کے مخالف نہیں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ذخیرہ جدید علوم و فنون انگریزی زبان میں دستے اب ہیں اس لئے اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ اس لئے انہوں نے سائنس و ثقافت کے تعلق سے کئی انگریزی مضامین کا اردو ترجمہ بھی کرایا۔ لیکن وہ ہمیشہ اپنے اس قول پر قائم رہے کہ بچوں کو مادری زبان میں ہی تعلیم دی جانی چاہئے۔ وہ اکثر یہ جملہ دہرایا کرتے تھے کہ :”اگر ہماری تعلیم ہماری زبان میں ہو تو ہمارے لئے اور ملک کی ترقی کے لئے زیادہ تر مفید ہے "۔ اور مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے سر سید کے یہ عبارت تو آج بھی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ :
"میری یہ رائے ہندوستان کے ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر نہایت بڑے بڑے حرفوں میں آئندہ زمانے کی یادگاری کے واسطے کھود دی جاوے کہ اگر تمام علوم ہندوستان کو اس کی زبان میں نہ دئے جائیں گے تو کبھی ہندوستان کو شائستگی و تربیت کا درجہ نصیب نہیں ہو گا”۔
غرض کہ سر سید ایک کشادہ ذہن انسان تھے اور علوم و فنون حاصل کرنے کے معاملے میں ہر اس زبان سے استفادہ کرنا چاہتے تھے جس زبان میں ان کے مطلب کا علم دستے اب تھا۔ مگر انہوں نے کبھی بھی ہندوستانی زبانوں بالخصوص اردو کو کمتر قرار نہیں دیا بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ اردو زبان ہی ان کا وسیلۂ اظہار تھی۔ مولانا شبلی نعمانی نے سر سید کی اردو خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
"سر سید کے جس قدر کارنامے ہیں اگر چہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیز خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سر سید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرے سے نکل کر ملکی، سے اسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور و اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں ہوئی۔ "(مقالاتِ شبلی)
چند محدود ذہن اور تنگ نظر لوگ سر سید احمد پر یہ الزام تراشتے ہیں کہ انہوں نے صرف مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی بدحالی کا رونا رویا ہے اور انہیں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے جد و جہد کی اور ان کے مخاطب صرف مسلمان رہے ہیں۔ جب کہ ان کی تقاریر اور مضامین اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ ان کی فکر و نظر کا محور کبھی بھی صرف مسلمان نہیں رہے۔ ان کی سانسوں میں اس وقت کا ہندوستان بستا تھا اور وہ اپنے ملک و قوم کی دردناک صورتحال کو دیکھ کر مضطرب تھے اور اس دردمندی نے ان کی تقریروں اور تحریروں میں سوز و گداز بھر دیا تھا۔ ایک مثال دیکھئے :
"پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو اور میری قوم کے بچو اپنی قوم کی بھلائی پرک وشش کرو تاکہ آخر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعاء ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی کی کوشش کرے "۔ (انتخاب مضامینِ سر سید: ص۔۸۹۔ ۸۸)
اس اقتباس میں "ہم وطنو“ اور "قوم کے بچو” صرف مسلمانوں کے لئے نہیں کہا گیا ہے۔ مگر کیا کیجئے جب ذہن کسی تعصب و تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کی سوچ کا دائرہ بھی محدود ہو جاتا ہے اور ویسے ہی محدود ذہنیت کے لوگ سر سید جیسے رہنمائے قوم کے افکار و اعمال کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں مگر وقت انصاف پسند ہوتا ہے وہ کسی نا انصافی کو کب قبول کرتا ہے۔ آج ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے بڑے سے بڑے دانشور اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر سر سید اس وقت ملک میں تعلیمی و سماجی تحرک کا آغاز نہیں کرتے تو آج ہندوستان تعلیمی شعبے میں سو سال اور پیچھے ہوتا۔
مگر افسوس صد افسوس کہ سر سید نے مسلمانوں کو تعلیم کے جن نکات سے آگاہ کیا تھا ہم اس پر عمل نہیں کر سکے اور نہ سر سید کے مشن کو آگے بڑھا سکے۔ ورنہ آج ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی تصویر اتنی بھیانک نہیں ہوتی جتنی کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں پیش کی گئی ہے۔ اس لئے تقاضائے وقت یہ ہے کہ ہمارے رہنمائے قوم اور دانشورانِ ملت صرف اپنے فکر و خیال کی دنیا ہی آباد نہ کریں بلکہ صدق دل سے فلاحِ قوم کے لئے عملی قدم بھی اٹھائیں کہ آج سر سید علیہ الرحمہ کی روح پسماندگیِ قوم پر مضطرب ہے۔
٭٭٭
سر سید کا اجتہاد: ملک و ملت کے لیے حیات نو کا پیغام
—ڈاکٹر جمال رضوی، ممبئی
سر سید کا شمار تاریخ کے ان کرداروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی کوششوں سے انسانی تاریخ کے دھارے کو ایک نئی سمت دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انھوں نے زندگی پر طاری جمود کو توڑنے کے لیے جو جد و جہد کی اس کی مثال تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملے گی۔ سر سید نے جس دور اور جس معاشرہ میں اپنے اصلاحی مشن کا آغاز کیا تھا اس میں فکر و خیال اور اعتقاد و اعمال فرسودگی کی ایسی دھند میں لپٹے ہوئے تھے کہ مستقبل کی جانب اٹھنے والی نگاہ کسی واضح تصویر کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ معاشرہ اپنی اس غیر واضح بینائی پر نہ صرف مطمئن تھا بلکہ بعض معاملات میں فخر و مباہات کا مظاہرہ بھی کرتا تھا۔ انسانی مزاج ماضی پرستی کے حصار سے آزاد ہونے کے لیے تیار نہیں تھا خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں اسلاف کی پیروی کو دستور حیات کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اس معاشرہ میں جو چند ایک روشن خیال اور ارتقا کے متمنی افراد یا گھرانے تھے ان کی اپنی محدود سی دنیا تھی جس میں ان کے جیسے ہی کچھ دیگر افراد بستے تھے۔ اس دنیا کا رابطہ اس عام دنیا سے برائے نام تھا جو اپنی روایتوں کو ترک کرنے اور زمانے کے تغیر کو قبول کر کے اس میں ترقی کی راہ تلاش کرنے کے لیے آمادہ نہ تھی۔ روایت پرستی کی عام فضا میں اگر کوئی شخص نئی راہوں پر سفر کرنے کا پیغام دیتا ہے تو اکثر اسے ہی بے راہ اور گمراہ قرار دے دیا جاتا۔ سر سید کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے جب اپنے اصلاحی مشن کا آغاز کیا تو ابتدا میں ان کی کوششوں کو اس قدر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی کہ یہ کاوشیں معاشرہ میں ایک رجحان کے طور پر قایم ہو سکتیں۔ لیکن مخالف حالات میں بھی انھوں نے اپنے عزم و ارادے میں لغزش نہ آنے دی اور جس مشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا تا دم آخر اس میں مصروف رہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر انھوں نے اپنے انقلاب آفریں خیالات سے ایسی روشنی ڈالی ہے جو حیات کی تاریکی کو مٹا کر اسے درخشندگی سے ہمکنار کرتی ہے۔ سر سید کا ذکر نمایاں طور پر تعلیم کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن انھوں نے صرف تعلیم کے حصول اور مروجہ نظام تعلیم میں تربیت اور اصلاح کی ہی کوشش نہیں کی بلکہ انسانی زندگی کو متاثر کرنے والے بیشتر شعبوں کا عمیق جائزہ لینے کے بعد اس میں ترقی کے لیے ناگزیر ان اقدامات کی جانب توجہ دلائی جو مجموعی طور پر معاشرہ میں ترقی اور خوشحالی کی سازگار فضا قایم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔
سر سید کی مساعی اور خدمات کا جائزہ لیتے وقت اس عہد کے سماج اور سیاسی نظام کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انھوں نے ایک ہی وقت میں دو محاذ پر مقابلہ کیا تھا۔ ایک جانب مسلمانوں کا رو بہ زوال معاشرہ اور دوسری جانب انگریزوں کی وہ سیاسی عیاریاں جن کا مقصد ہندوستان میں اپنے اقتدار کو مضبوط بنانا اور یہاں کی دو بڑی قوموں ہندو اور مسلمان کو ہمیشہ ایک دوسرے کا مد مقابل بنائے رکھنا تھا۔ سر سید کا اصل امتحان یہ تھا کہ وہ معاصر سیاسی نظام کی اس عیاری کو ناکام بنائیں اور ساتھ ہی ملک میں امن اور اتحاد کا ایسا ماحول بنا سکیں جو دونوں قوموں کے لیے ترقی اور خوشحالی کے اسباب مہیا کر سکے۔ انھوں نے بہ یک وقت ان دو مقاصد کے حصول کی وہ راہ اختیار کی جس میں ایک کا مفاد دوسرے کو متاثر نہ کر سکے۔ حالانکہ ان کا یہ طرز عمل خود ان کے لیے ان معنوں میں کسی حد تک نقصان دہ ثابت ہوا کہ انھیں انگریزی حکومت کا حامی سمجھ لیا گیا اور مسلمان معاشرہ ان کی ترقی پسندی کو ان کے الحاد سے عبارت کرنے لگا۔ یہی سبب ہے کہ جب انھوں نے جدید تعلیم کے حصول پر زور دیا اور مذہب و معاشرت میں روایت پرستی کو ترک کرنے کا مشورہ دیا تو ان پر کفر کے فتوے صادر کیے گیے۔ کسی ایسے شخص کو جس کی نیت میں کھوٹ نہ ہو، ملحد اور کافر قرار دیا جانا اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ سر سید کو بھی قوم کے اس رویہ سے دکھ پہنچا تھا اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے مکاتیب، خطبات اور لیکچرس میں کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی ان کاوشوں کو مسلسل جاری رکھا جن کے سبب ہندوستانی مسلمانوں کو معاشرہ میں عزت و توقیر حاصل ہو سکے۔
سر سید کے افکار میں انسانی زندگی کا ایسا مسلسل اور واضح تصور ملتا ہے جس میں زندگی کے مختلف ادوار اور ان سے وابستہ تقاضوں کی تکمیل کے لیے مفید اور کار آمد مشورے اور آرا نظر آتی ہیں۔ سر سید نے تعلیم، روزگار، معیشت، زراعت کے علاوہ ان امور پر بھی اظہار خیال کیا ہے جن کے بغیر ایک اچھے اور معیاری معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ وہ ہندوستان میں ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کا خواب دیکھتے تھے جو ترقی پذیر زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کا اہل ہو۔ اس خواب کو حقیقی شکل عطا کرنے کے لیے وہ فکر و نظر میں وسعت اور اس دور اندیشی کے خواہاں تھے جو ہر لحظہ تغیر پذیر زمانے میں معاشرہ کو استحکام اور ارتقا کے مراحل سے ہمکنار کر سکے۔ انھوں نے معاصر سماج کی روایت پرستی اور تاریخ سے عدم فہمی پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا تھا:
” جب میں اپنے ہم وطنوں کے حال پر نظر کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہ گزشتہ حالات سے اس قدر ناواقف ہیں کہ آئندہ رستہ چلنے کو ان کے پاس کچھ بھی روشنی نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کل کیا تھا اور آج کیا ہے۔ اور اس سبب سے وہ کچھ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ کل کیا ہو گا۔ وہ نہیں جانتے کہ دنیا میں جو بہت چھوٹی چھوٹی قومیں تھیں انھوں نے کیوں کر ترقی پائی ہے اور کس طرح وہ ایک بڑے شاندار اور سایہ دار درخت کی مانند ہو گئیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جو بڑی بڑی قومیں ایک بڑے میوہ دار درخت کی مانند پھل پھول رہی تھیں وہ کیوں کر مرجھا گئیں۔ ”
سر سید کا یہ طرز فکر ثابت کرتا ہے کہ وہ تاریخ عالم میں قوموں کے عروج و زوال پر گہری نظر رکھتے تھے۔ تاریخ فہمی کا ان کا یہ شعور جذباتیت کے بجائے معروضیت کے اس انداز پر مبنی ہے جس میں ماضی سے اپنے ربط کو برقرار رکھتے ہوئے مستقبل کی جانب پیش رفت کا پیغام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بارہا اپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اگر معاشرہ ترقی کا خواہشمند ہے تو اسے تقلید کے بجائے اجتہاد سے کام لینا ہو گا۔ یہ اجتہاد زندگی کے ہر شعبہ میں ضروری ہے خواہ اس کا تعلق مذہب و عقیدے، علم و حرفت، صنعت و تجارت سے ہو۔ یہ ضرور ہے کہ وہ اس اجتہاد میں ایسے اعتدال کے قائل تھے جو انسان کو دین اور دنیا کے درمیان اس توازن اور مطابقت کو برقرار رکھنے کا اہل بنا سکے جس سے دنیوی ترقی کے ساتھ ہی عقائدی امور کی ادائیگی میں کوئی دشواری نہ پیدا ہو۔ سر سید کا خطاب جس معاشرے سے تھا اس کے طرز حیات اور زندگی کے تئیں اس کی ترجیحات کے سیاق میں ان کا یہ پیغام اجتہاد بہر طور اپنی معنویت اور افادیت کو آشکارا کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے اس پیغام کو معاشرہ میں ایک عام رجحان کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں کامیابی کے لیے انھوں نے جدید تعلیم کے حصول کو ناگزیر قرار دیا۔ اس ضمن میں ان کے جس کام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ سائنٹفک سوسائٹی کا قیام ہے۔ اس سوسائٹی کے قیام نے مغرب کے جدید علوم تک ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کی رسائی کو آسان بنا دیا تھا۔ سر سید کے اس انقلابی اقدام نے مسلمانوں کو اسلاف کے فرسودہ نظام تعلیم کے حصار سے باہر نکل کر علوم و فنون کی اس دنیا سے رابطہ قایم کرنے کی تحریک و ترغیب عطا کی جس کے حیرت انگیز اور امید افزا مظاہر زندگی کے طور طریقوں میں ان تبدیلیوں کا سبب بن رہے تھے جو عصر حاضر کی انسانی تاریخ و تہذیب میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ انیسویں صدی کے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے اور انھیں جدید علوم نیز سائنس و تکنیک کی نت نئی ایجادات سے فیض حاصل کرنے کا پیغام دینے کا باضابطہ کام سر سید نے انجام دیا تھا۔ سر سید نے حصول تعلیم کے سلسلے میں اس قوم کی اسلاف پرستی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
"افسوس یہ ہے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس زمانہ میں علم کیا چیز ہے جس سے قومی ترقی ہوتی ہے۔ آج تک ہم نے جو جانا اور جو ہمارے بزرگوں نے جانا، علم کی حقیقت کو اسی قدر جانا کہ ایک شے عقلی ہے جو خیال میں اور حافظہ میں رہتی ہے اور نفس کو اس سے بہت مزا اور روح کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مگر اس زمانہ میں اسی کو علم کہتے ہیں جو دیکھنے اور برتنے اور تجربہ میں آوے اور انسان کے لیے اس کے تمام کاموں میں مفید ہو۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے اگلے زمانہ کے عالم فاقہ مرتے تھے اور خیرات کے ٹکڑوں پر اوقات بسر کرتے تھے اور اس زمانہ میں تربیت یافتہ ملکوں کے جو عالم ہیں وہ دولت و حشمت سے مالامال ہیں اور ان سے اپنی قوم کی بھلائی اور ترقی ہر دم ہوتی ہے۔ ” اس اقتباس کو حصول علم کا وہ منشور قرار دیا جا سکتا ہے جس نے قوم کو جدید علوم کی اہمیت سے متعارف کروانے کے ساتھ ہی اس کے فیوض و برکات سے واقف کرایا۔ سر سید نے اسلاف کے قیاسی علوم کو مادی تجربات کے زمانہ میں ناقص قرار دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ان علوم میں مہارت اور تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو نئے زمانے کے تقاضوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہو سکیں۔ انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعہ جدید علوم کی کتابوں کا ترجمہ کروایا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ زمانہ جس برق رفتاری کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اس میں ماضی کے علوم پر قناعت قوم کی تنگ دستی اور پریشان حالی کا سبب بن سکتا ہے۔ درج بالا اقتباس کا آخری جزو یہ واضح کرتا ہے کہ زمانہ جس قدر پیچیدگی کی راہوں سے گزر رہا ہے اس میں علم کو صرف نفس کی تسکین اور روحانی خوشی کا ذریعہ سمجھنا اس ناعاقبت اندیشی کے مترادف ہو گا جو تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی محرومی اور مایوسی کے دائرے سے باہر نہیں نکال سکتی۔ سر سید نے معاشرہ میں جدید علوم کے فروغ کے لیے جو جد و جہد کی تھی اس کے حوالے سے یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر سائنس و تکنیک اور پیشہ ورانہ علوم کے حاصل کرنے کا رجحان اسی جد و جہد کا ثمرہ ہے۔
سر سید کے اجتہادی رویہ میں دینی و دنیوی معاملات میں اعتدال کے حوالے سے یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ انھوں نے نئے دور کے لیے تعلیم کی نئی شاہراہ پر سفر کرنے کا پیغام دینے کے ساتھ ہی اپنی ان بنیادوں سے بھی رابطہ برقرار رکھنے کی تلقین کی تھی جو قوم کے تہذیبی تشخص میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ اپنے اسی معتدل طرز فکر کی بنا پر انھوں نے بارہا یہ کہا کہ مسلمانوں کو عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں برتنا چاہیے۔ ۲۹جنوری ۱۸۸۴ء کو امرتسر میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ عربی زبان کی تحصیل نہ صرف زبان دانی کے ہنر سے واقف کرائے گی بلکہ اس زبان میں موجود مذہبی سرمایہ ہمارے عقیدے کو پختگی اور روزمرہ کے معاملات میں ہمارے اعمال کی مذہبی توثیق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سر سید کے افکار میں یہ اعتدال و توازن ان کے مزاج کی اس عدل پسندی کو نمایاں کرتا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مساوی انداز و رویہ نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے ہر نوع کے اظہار میں اس توازن کو برقرار رکھا ہے خواہ اس کا تعلق سماج سے ہو، سیاست سے ہو، تعلیم و روزگار سے ہو، تہذیب و ثقافت سے ہو یا کہ صنعت و حرفت سے ہو۔ ان کے افکار کی اس نوعیت کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ زندگی کرنے کے طور طریقوں میں اس سیکولر انداز کے حامی تھے جو رواداری، اخوت اور اتحاد باہمی کے اس فلسفے پر مبنی تھا جس کے بغیر ہندوستان کے تکثیری سماج میں امن و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سر سید نے جہاں بھی ملک، قوم اور معاشرہ کی بات کی وہاں اس رواداری اور اتحاد باہمی کے موضوع کو ترجیحی طور پر پیش نظر رکھا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے قوم کا وہ تصور ملک میں رائج کرنے کی کوشش کی تھی جس میں کسی قوم کی شناخت مذہب کے بجائے ملک سے قایم ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کے ہندوستان میں جبکہ انگریز حکومت یہاں مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر قوموں کے درمیان خلیج قایم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی اور اس کوشش کا پہلا ہدف یہاں کے ہندو اور مسلمان تھے، ایسے ماحول میں سر سید کے ذریعہ قومیت کے اس تصور کو معاشرہ میں مقبول بنانے کی سعی کو وطن سے ان کی اس بے پایاں محبت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس میں وطن کی عظمت اور سالمیت کو مذہبی و نسلی امتیاز و اختلاف پر ترجیح حاصل ہے۔ سر سید کے اس نظریہ سے اختلاف بھی کیا گیا تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کے تمام باشندگان کو ایک قوم سمجھنا ان کی اس دوراندیشی کو ثابت کرتا ہے جو نہ صرف آج بلکہ ہر دور کے ہندوستان میں اتحاد باہمی کے لیے اہمیت کا حامل ہو گی۔ اس نظریہ پر مزید گفتگو سے پیشتر انسانی نفسیات کے اس پہلو کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو مذہب سے اس کی وابستگی کو دنیا کے دیگر تمام امور پر مقدم سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ انسانی کے حوالے سے اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس روئے زمین پر آباد بیشتر قومیں اپنی شناخت کا حوالہ مذہب کو ہی قرار دیتی ہیں خواہ مکانی اعتبار سے وہ دنیا کے طول و عرض پر کسی بھی حصہ میں آباد ہو۔ انسانی نفسیات اور تاریخ کی اس ناقابل فراموش حقیقت کے سیاق میں سر سید کا قوم کے متعلق نظریہ ان کے اسی اجتہادی رویہ کو ظاہر کرتا ہے جس کا واحد مقصد ہندوستانی معاشرہ میں ترقی اور خوشحالی کے ان اسباب و امکانات کو دریافت کرنا تھا جس کے فیض سے معاشرہ کا ہر فرد بہرہ مند ہو سکے۔ انھوں نے اس نظریہ قومی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا:
” لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ یہی وہ معنی ہیں جس میں میں لفظ نیشن (قوم) کی تعبیر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ امر چنداں لحاظ کے قابل نہیں ہے کہ ان کا مذہبی عقیدہ کیا ہے کیوں کہ ہم اس کی کوئی بات نہیں دیکھ سکتے، لیکن جو بات کہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سب خواہ مخواہ ہندو ہوں یا مسلمان ایک ہی سرزمین پر رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب کے فائدے کے مخرج ایک ہی ہیں۔ ۔ ۔ یہی مختلف وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں ان دونوں قوموں کو جو ہندوستان میں آباد ہیں ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہوں کہ ’ہندو‘۔ یعنی ہندوستان کی رہنے والی قوم۔ ”
سر سید کے اس اجتہادی تصور قومیت کو عصر حاضر کے ہندوستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں وہ ایسے پہلے شخص تھے جنھوں نے ملک کی فلاح اور ترقی کے لیے مذہب اور نسل کے امتیاز سے بالاتر ہو کر ملک کی مجموعی ترقی کے لیے کوشش کی تھی۔ سر سید کے افکار کہ ہمہ گیر معنویت کے ثبوت کے طور پر ان کے اس نظریہ قومی کو ان نام نہاد وطن پرستوں کے سامنے بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جو اپنے نسلی اور مذہبی تعصب پر وطن پرستی کا خول چڑھا کر عوام کے درمیان امتیاز و تفریق کے رجحان کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ یہ دور ہندوستانی تاریخ کا ایسا نازک دور ہے جو پرانے تصورات اور عقائد کو نئی تعبیر دینے کی اقتدار کی ان کوششوں سے عبارت ہے جن کا مقصد ہندوستان کو اس مخصوص آئیڈیا لوجی کا پیرو بنانا ہے جو سر سید کے اس تصور قومیت سے بالکل برعکس ہے جس میں ہر مکتب فکر کے حامی افراد کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستان کے کثیر مذہبی معاشرہ میں قومی اور نسلی عصبیت پر وطن پرستی کی ملمع کاری سے عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے والے عناصر کے لیے سر سید کا یہ نظریہ اس ضابطۂ اخلاق کی مانند ہے جو ملک کے ہر فرد کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھنے کی ہدایت دیتا ہے۔ انھوں نے قوم کا یہ ہمہ گیر تصور پیش کرنے کے ساتھ ہی ملک کی بھلائی کے لیے کوشاں افراد کو یہ پیغام بھی دیا تھا کہ اگر وہ واقعی ملک کی خوشحالی اور ترقی کے خواہاں ہیں تو مذہب اور نسل کی تفریق سے بالاتر ہو کر ہی اس خواہش کو حقیقت سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے سیکولرازم کو جزو حیات بنانے پر زور دیا تھا۔ انھوں نے واضح طور پر کہا تھا :
” جو لوگ کہ ملک کی بھلائی چاہتے ہیں ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ بلا لحاظ قوم و مذہب کے کل باشندگان ملک کی بھلائی پر کوشش کریں، کیوں کہ جس طرح ایک انسان کی اس کے تمام قویٰ اور تمام اعضا کے صحیح و سالم رہے بغیر زندگی یا پوری تندرستی محال ہے اسی طرح ملک کے تمام باشندوں کو خوش حالی اور بہبودی کے بغیر ملک کی زندگی یا پوری ترقی ناممکن ہے۔ ”
اس مختصر سے اقتباس میں ہندوستان کے سماجی نظام کی وہ حقیقت بیان کی گئی ہے جو ہر عہد میں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ سر سید کے اصلاحی مشن کا مرکز و محور ملک کے سماجی نظام میں اجتماعیت کے اس تصور کو فروغ دینے پر رہا ہے جس میں سماج کے ہر فرد کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کرنے کا پیغام نمایاں ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا نسل سے ہو۔ ہندوستان کے سماجی نظام میں سر سید کا یہ فکری رویہ وہ اجتہادی کارنامہ تھا جس کے دور رس نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے اصلاحی مشن میں تعلیم کو جو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے وہاں بھی ان کے طرز فکر میں اسی اجتماعیت کے تصور کی کارفرمائی تھی اسی لیے انھوں نے انفرادی تعلیم کے بجائے اجتماعی تعلیم پر خصوصی زور دیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر معاشرہ میں بعض افراد کو ان کے نسلی اور قومی امتیاز کی بنا پر حصول تعلیم میں فوقیت دی گئی تو معاشرہ کی مجموعی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے تعلیم کو عام بنانے اور ہر کسی کے لیے یکساں نظام تعلیم کے رائج کرنے پر زور دیا تھا۔ انھوں نے تعلیم کے حصول کے ساتھ ہی تربیت کے اس نظام کو بھی ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار د یا تھا جو طالب علموں کی ذہنی نشو و نما کے ساتھ ان کے اندر وطن پرستی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں ممد و مددگار ثابت ہو۔
اپنے ملک کی ترقی و بہبودی اور معاشرہ کی خوشحالی کے لیے سر سید کی مساعی کو معاصر نظام حیات میں عملی طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں قوم، مذہب، معاشرت، معیشت، تہذیب و ثقافت کی جو صورتحال ہے اس میں یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے کہ ان شعبوں سے وابستہ جو مظاہر بہ نام ترقی نظر آتے ہیں کیا انھیں حقیقی معنوں میں ترقی کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے ؟ اگر ان مظاہر کو ترقی کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ترقی کی ساخت میں انتشار اور تصادم کے اتنے پہلو کیوں کر مضمر ہیں کہ جن کے سبب انسان ان مذکورہ شعبہ ہائے حیات کے متعلق اتفاق و اتحاد کی راہ اختیار کرنے کی بجائے ان کے حوالے سے اس قدر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہے کہ معاشرہ میں امن و سکون کا تصور روز بہ روز دھندلا پڑتا جا رہا ہے ؟ یہ سوال اس دنیا کے ہر انسانی معاشرہ کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔ انسانی تاریخ اس وقت جس بحران کے دور سے گزر رہی ہے اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو بہ ظاہر دلکش اور خوشنما نظر آتا ہے لیکن اس کے درون کا جائزہ جس کریہہ اور ہیبت ناک حقیقت سے روبرو کراتا ہے اس کا احساس ہی دل و دماغ کو شل کر دینے والا ہے۔ عصر حاضر کی انسانی تاریخ کا سب سے افسوس ناک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ مقتدر طبقہ ماضی کے حقائق کو اس قدر مسخ کر کے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے کہ جس سے ان کے مفاد کو تحفظ تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن معاشرہ کی سالمیت کو برقرار رکھنا روز بہ روز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ طبقہ اس بات سے بالکل بے پروا ہوتا ہے کہ ان کی اس حرکت سے متاثر ہونے والا معاشرہ جن تصورات اور اعتقادات کے ساتھ مستقبل کی جانب پیش رفت کرے گا اس سے معاشرے کو حاصل کیا ہو گا؟ معاشرہ تاریخ کے ان مسخ شدہ حقائق کو قبول کرنے کے بعد شاہراہ حیات پر سفر کے دوران کیا کچھ پائے گا اور اسے کس حد تک خسارہ اٹھانا پڑے گا؟ چونکہ قوم اور مذہب کے نام پر عالمی سطح پر جاری نظریاتی تصادم میں فریقین کی پوری کوشش اپنے نظریہ کو تفوق عطا کرنے کی ہوتی ہے لہٰذا وہ اس جانب دیکھنے کی زحمت بھی نہیں گوارہ کرتے۔ ایسی صورت میں ہوتا یہ ہے کہ انسانی تہذیب اور تمدن کے ارتقا میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات اس وقت متنازعہ بن جاتی ہیں جبکہ مقتدر طبقہ مذہب و معاشرت یا زندگی کے دیگر معاملات میں ان سے نظریاتی اختلاف رکھتا ہو۔ اس وقت ہندوستانی تاریخ کی تشکیل نو میں اس افسوس ناک رویہ کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سر سید جیسی شخصیت پر بھی حرف زنی کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ اس سلسلے کو فروغ دینے میں وہ عناصر پیش پیش ہیں جنھیں ہندوستان کی تاریخ کے ان حقائق سے محض سطحی واقفیت ہے جو اس ملک میں اتحاد و یکجہتی کی تابندہ روایت کی بنا پر اقوام عالم کے درمیان مابہ الامتیاز ہیں۔ ہندوستانی تاریخ کے اس امتیاز کو برقرار رکھنے میں جن چند شخصیات نے بے لوث خدمات انجام دی ہیں ان میں سر سید کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ سر سید کے افکار کی بازیافت اس عہد کے ہندوستان کی وہ ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر ملک کی حقیقی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭
تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے اس کی مکمل فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید