فہرست مضامین
- ادب سلسلہ
- ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد
- میں ایوارڈ کیوں واپس کر رہی ہوں — ارون دھتی رائے
- انعام واپسی: فرقہ پرستی کے خلاف مہم—نیلوفر سہر وردی
- دانشوروں کی بغاوت— نریندر سونی
- ملک شاطر سیاستدانوں کا ہی نہیں …—ادئے پرکاش
- احتجاج کے طریقے پر سوالیہ نشان—اصغر وجاہت
- تاریخ ادب کے کٹہرے میں —میمونہ احمد
- احتجاج ضروری ہے —عبدالصمد
- اعزاز واپسی کی علامتی تحریک نے جمہوریت کے قاتلوں کو خوفزدہ کر دیا— مشرف عالم ذوقی
- درمیاں ہو گا ہمارے فاصلہ، سوچا نہ تھا!—ڈاکٹر مشتاق احمد
- ملک کا بدلتا منظرنامہ اور احتجاج کی بڑھتی بازگشت —ڈاکٹر سید احمد قادری
- عورت اور احتجاج—صالحہ صدیقی
- مظفر نگر اور فرقہ وارانہ فساد
- ایک پتھر نے جلا دیا شہر، فسادات پر ایک نظر
- فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا کردار
- پولیس کی ایک طرفہ کار روائی
- فسادات میں خاکی اور کھادی کا اتحاد
- فسادات میں ملوث پولیس افسران پر کار روائی
- پولیس کو بہتر بنانے اور اقلیتوں کی نمائندگی کی ضرورت
- قانون میں تبدیلی
- آزادی سے پہلے اور بعد کے فرقہ وارانہ فسادات
- بہار میں فساد کی شروعات
- رانچی کے فساد میں متاثرین کی بازآبادکاری میں آپ کارول
- میرٹھ کافساد
- میرٹھ فساد پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق
- بہار شریف کافساد
- جمشید پور کافساد
- مرادآبادکافساد
- گجرات میں فرقہ وارانہ فساد
- اجتماعی دہشت گردی کی کوئی سزا نہیں !—شکیل اختر
- 1857 کا غدر اور آخری بادشاہ—جاوید چوہدری
- بابری مسجد، رام جنم بھومی، فیصلہ یا سمجھوتہ—عامر صابری
- 1857 کا غدر— راشد الاسلام
ادب سلسلہ
اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ
کتابی سلسلہ (۲)
جلد :۱ جنوری تا مارچ۲۰۱۶ شمارہ: ۲
حصہ سوم
مدیر
محمد سلیم (علیگ)
مدیر اعزازی
تبسم فاطمہ
مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم، ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم
E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266
سلسلۂ ادب کی خصوصی پیشکش
ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد
میں ایوارڈ کیوں واپس کر رہی ہوں — ارون دھتی رائے
میں اگرچہ اعزازات کو جو کام ہم کرتے ہیں ان کو ماپنے کا آلہ خیال نہیں کرتی لیکن پھر بھی میں پہلے سے واپس کردہ اعزازات کے ذخیرے میں اپنے آپ کو ملے نیشنل بیسٹ سکرین پلے رائٹر ایوارڑ کو واپس کر کے اضافہ کرنا چاہتی ہوں یہ اعزاز میں نے 1989ئ مین حاصل کیا تھا۔ میں یہ بھی واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یہ اعزاز میں اس لئے واپس نہیں کر رہی کہ جسے حکومت کی جانب سے ’’ بڑھاوا دئے جانے والی عدم برداشت ’’ کہا جا رہا ہے ، میں اس کو دیکھ کر ’’ سکتے ’’ میں ہوں – میں سکتے میں ایک تو اس وجہ سے نہیں ہوں کہ یہ ’’ عدم برداشت ’’ جو لفظ ہے نا یہ انسانوں کو زندہ جلائے جانے ، گولی مارنے ، جلانے اور قتل عام کرنے کی تشریح کے لئے غلط استعمال کیا جا رہا ہے – دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ پیشگی ہمارے نوٹس میں ہے – تو جو کچھ اس حکومت کے بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر تشکیل کے بعد سے ہوا، اسے دیکھ کر صدمے یا سکتے کا شکار نہیں ہوں اور تیسری وجہ مرے شاک میں نہ ہونے کی یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ جو خوفناک، ڈراؤنے قتل ہیں یہ ایک گہرے بغض کی محض علامت ہیں۔ زندگی جینے والوں کے لئے جیون ایک جہنم سے کم نہیں ہے – ساری آبادی جن میں لاکھوں دلت، مسیحی، مسلمان شامل ہیں دہشت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کب اور کہاں سے ان پر حملہ ہو جائے گا۔ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ٹھگ اور نیو آڈر کے کارندے جب ’’ غیر قانونی سلاٹر ’’ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک جیتا جاگتا انسان نہیں ہوتا جسے ذبح کر دیا گیا ہو بلکہ وہ ایک تصوراتی گائے مراد لیتے ہیں جسے مار ڈالا گیا ہو –جب وہ فارنزک شواہد کے معائنے کی بات کرتے ہ?ں تو اس سے ان کی مراد فریچ میں پڑے کھانے کا معائنہ ہوتا ہے نہ اس انسان کا جسے جلا کر مار دیا گیا ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ‘‘ترقی ’’ کر لی ہے لیکن جب دلت ذبح کیا جاتا ہے اور اس کے بچے زندہ جلا دئے جاتے ہیں تو کون سا ادیب ہے آج آزادی سے وہ کہے جو بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ
ہندؤ ازم اچھوتوں کے لئے ایک متغیر دہشت کا چیمبر ہے
اور اس طرح کہنے سے اس ادیب کو نہ تو ذبح ہونا پڑے ، نہ اس کو گولی لگے اور نہ وہ جیل جائے۔ کون سا ادیب ہے جو سعادت حسن منٹو کی طرح وہ لکھ سکے جو اس نے ’’ انکل سام کے نام خطوط ’’ میں لکھا تھا ( اور اس پر حملہ نہ ہو )یہاں جو کہا جا رہا ہے اس سے اتفاق کرن? یا نہ کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اگر ہمیں آزادی سے بات کرنے کا حق نہیں ہے تو ہم ایسے معاشرے میں بدل جائیں گے جو ’’ دانشوروں کے قحط ’’ ( انٹلیکچوئل میل نیوٹریشن ) کا شکار ہو گا اور احمقوں کی قوم پر مشتمل ہو گا – پورے برصغیر میں سماج کو ایسے ہی معاشرے میں بدلنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہندوستان بھی پورے جوش کے ساتھ اس میں شریک ہو چکا ہے – یہاں ’’ سنسر شپ ’’ بلوائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ میں اس بات پر خوش ہوں کہ مرے پاس ایک قومی ایوارڈ تھا جسے میں واپس کر سکتی ہوں کیونکہ یہ مجھے لکھاریوں ، فلم سازوں اور اساتذہ کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک کا حصّہ بناسکتا ہے جو کہ ہماری اجتماعی دانش نظریاتی سفاکیت کے ساتھ ہونے والے حملے کے خلاف شروع کی گئی ہے – یہ حملہ ہمیں ٹکڑوں مین بانٹ اور پاتال میں دفن کر دے گا اگر ہم اس کے خلاف اب اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو۔ مرا یقین ہے کہ آرٹسٹ اور لکھاری اب جو کر رہے ہیں وہ پہلے نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا تار?ح میں کوئی مماثل ہے ، یہ دوسرے ذریعے سے سیاست ہے اور مجھے اس کا حصّہ ہونے پر فخر ہے جبکہ اس ملک میں جو ہو رہا ہے اس پر شرمندگی ہے۔ پس نوشت :ریکارڈ کے لئے میں بتاتی چلوں کہ میں نے ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ دو ہزار پانچ میں اس وقت واپس کر دیا تھا جب کانگریس حکومت میں تھی تو براہ مہربانی مجھے ’’ کانگریس بمقابلہ بے جے پی ’’ جیسی فرسودہ بحث کا حصہ نہ بنایا جائے ، بات اس سے کہیں آگے چلی گئی ہے —
٭٭٭
انعام واپسی: فرقہ پرستی کے خلاف مہم—نیلوفر سہر وردی
انعام چھوٹا ہو یہ بڑا، اسے واپس کرنا کسی کے لئے بھی آسان کام نہیں ہے۔ آخر یوں ہی نہیں کسی کو کوئی انعام ملتا ہے۔ اپنی صلاحیت اور قابلیت کو ثابت کر کے ہی ایک خاص سطح تک کچھ لوگ پہنچ پاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہاں تک پہنچنے میں ان کی زندگی کا کافی حصہ اس میں لگ جاتا ہے۔ ذرا سوچئے ، اگر کسی کی پوری زندگی کوئی انعام حاصل کرنے کے قابل بننے میں لگ گئی ہے ، کسی کی زندگی کے سب سے قیمتی سال اس راہ میں گزر گئے ہیں۔یعنی ہر انعام پانے والے کے لئے انعام کوئی معمولی چیز نہیں ہے ، جس کو کسی بھی معمولی کام کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ انعام پانے کے لمحوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جب لگتا ہے جیسے ہر کیمرہ ان پر لگا ہوا ہے ، تالیوں اور واہ واہی کی گونج انہی کے لئے ہے۔ ایسے میں ان کے مسکراتے ہوئے اور چمکتے چہرے بھیگی آنکھیں ، انعام لینے کے ان لمحوں کی اپنی خاصیت ہے ، جن کو صرف محوس کیا جا سکتا ہے۔ انہیں بیان کرنے کے لئے لفظ کبھی کافی نہیں ہو سکتے۔ ان سب باتوں پر غور کر کے یہی کہا جا سکتا ہے کہ حال میں اگر کسی خاص وجہ سے کچھ لوگوں نے اپنے اہم انعامات کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا، کسی بھی نظریہ سے ان کے لئے یہ آسان قدم نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے اور دھیرے دھیرے اور لوگ بھی اسی راستے پر چلنے لگے ہیں۔ ان کے اس فیصلے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟یقیناً ہر ہندوستانی کو اپنی آواز اٹھانے کا پورا حق ہے ، ان موضوع پر جو ان کے نظریہ میں ، قانوناً اور آئین کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔ اپنے انعام واپس کر کے کچھ مشہور لوگوں نے یہی تو ظاہر کیا ہے۔ کچھ نے بیان دینے کا راستہ بھی اپنایا ہے۔ انہوں نے اپنا افسوس ظاہر کیا ہے ، کس طرح سے اقلیتوں کے ساتھ سنگھ پریوار کے لوگوں نے غیر قانونی رویہ اپنایا ہے۔ اس میں دادری واقعہ بھی شامل ہے۔یہاں رہنے والے ایک مسلم خاندان کے گھر پر انہوں نے حملہ کیا، جس میں ان کے ہاتھ قتل بھی ہوا، صرف اس شک پر کہ اس گھر میں گائے کا گوشت ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں تھا، لیکن سنگھ پریوار سے جڑے لوگوں کے ہاتھوں سے کئی غلط کام تو ہو گئے۔
افسوس کی بات ہے کہ آج بھی ہندوستان میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں ، جن کی سوچ مسلمانوں کی طرف بہت ہی متعصب ہے۔ مسلمانوں کے آئینی حق کو تو یہ کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اور آج کل مسلمانوں کے آئینی حقوق کے ساتھ اپنے فرائض کو یہ کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہے ہیں۔ ان کے لئے ، لگتا ہے جیسے وہی صحیح ہے ، جسے یہ صحیح سمجھیں۔ اور فرقہ پرستی کی شکل میں یہ بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے ، جسے روکا نہیں گیا تو یہ ہندوستانی سیکولرزم کی طاقت کو کھاتی جائے گی۔ آج کل ان کا متعصب رویہ بڑھ رہا ہے ، جیسے ان خیال میں مسلمان اسی طرح سے جی سکتے ہیں جیسے یہ چاہتے ہیں۔ کچھ حد تک بی جے پی کے مرکزی حکومت میں ا۔ ے کے بعد یہ اپنے اس متعصب رویہ کا مظاہرہ زیادہ کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے مرکزی حکومت کا ان کے اس رویہ کے خلاف خاموش رہ کر کوئی خاص قدم نا اٹھا کر، ان کی سمجھ میں ان کے لئے اشارہ ہے کہ یہ اس طرح کے کام کر سکتے ہیں۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان حالات کے مد نظر اگر کچھ لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اپنے انعام واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، تو اس میں غلط کیا ہے؟ اس طرح یہ لوگ ظاہر کر رہے ہیں کہ انہیں ہندوستانی آئین کی کتنی فکر ہے۔ انہیں فکر ہے اس ملک کے سیکولرزم اور یہاں کی جمہوریت کی۔ آواز اٹھانے کے لئے ، انعام واپس کر کے ، بیان دے کر، یہ صرف اپنی ذمہ داری ہندوستانی شہری ہونے کی پوری طرح سے نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے؟ انسانیت کے مد نظر بھی ان کے لئے ان کا آواز اٹھانا ضروری ہے ، ان متعصب حرکتوں کے خلاف جس کا نشانہ اقلیت کے لوگوں کو جان بوجھ کر بنایا جا رہا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی اپنی آواز اٹھانے کے لئے انعام واپس کیا ہے یا کوئی بیان دیا ہے ، انہوں نے یہ قدم اپنی مرضی سے اٹھایا ہے۔ ان کے اوپر کسی ادارے یا گروپ کا کوئی زور یا دباؤ نہیں تھا۔ اور نہ ہی کسی وجہ سے انہیں مجبور کیا گیا ہے۔ اور ایساکوئی ریکارڈ فی الحال موجود نہیں ہے۔یقیناً کچھ دوسرے مشہور لوگوں نے ان کے انعام واپس کرنے پر سوال کئے ہیں۔ کچھ نے متعصب حرکتوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے ، لیکن انعام واپس کرنے پر کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ظاہر ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنا جمہوری حق ہے ، انعام واپس کریں یا نہیں ،یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔یہ اپنی آئینی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ، جس طرح سے انہیں بہتر لگ رہا ہے۔ لیکن، انعام واپس کرنے کی صرف تنقید کرنا کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے۔ اسے بچکانہ حرکت کہہ کر، کچھ لوگوں نے اس کے خلاف مظاہرہ بھی کیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اگر انعام واپس کرنے کو یہ لوگ بچکانہ حرکت سمجھتے ہیں ، تو اسے اتنی توجہ ہی کیوں دے رہے ہیں؟ کیا یہ خود بچکانہ حرکت نہیں کر رہے ہیں؟ مرکزی حکومت سے جڑے کچھ لوگوں نے بھی انعام واپس کرنے کے سلسلہ کی تنقید کی ہے ، لیکن اس کے آگے انہوں نے کچھ نہیں کہا ہے۔
جی، انعام واپس کرنے کی تنقید کرنے والے اس بات پر خاموش ہیں ، جس وجہ سے کچھ لوگوں نے اتنا بڑا فیصلہ،یعنی انعام واپس کرنے کا کام کیا ہے۔ انہوں نے خاموشی قائم رکھی ہے ، ان متعصب حرکتوں کے متعلق، جن کی وجہ سے لوگوں نے انعام واپس کئے ہیں۔ اگر ان کے مطابق انعام واپس کرنا صحیح نہیں ہے ، تو ان کو اپنی رائے ظاہر کرنی چاہئے کہ کیسے متعصب حرکتوں پر روک لگائی جا سکتی ہے؟ مسلمان اور دوسرے اقلیت ہندوستانی کس طرح اپنے آئینی حقوق کے مطابق یہاں جی سکتے ہیں؟ کیا روک لگائی جانی چاہئے سنگھ پریوار سے جڑے ممبران کی حرکتوں پر؟ کسی کو انعام واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر ان موضوع پر یہاں کی مرکزی حکومت نے کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا ہوتا۔ انعام واپس کر کے کم سے کم کچھ حد تک تو ہندوستان اور دنیا میں اس بات پر توجہ دی جا رہی ہے کہ ان کے یہ قدم اٹھانے کی وجہ کیا ہے ، یعنی دادری جیسے معاملوں پر۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک مرکزی حکومت اور وزیر ا عظم نریندر مودی کی دادری جیسے واقعات کے متعلق خاموشی نہیں ٹوٹی ہے۔ خیر ان کی خاموشی کا کیا مطلب ہے ، اس میں زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس بات پر مرکزی حکومت کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ہے کہ ان کی خاموشی ہندوستانی سیکولرزم سے جڑے امن کے لئے کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے۔
خیر، اپنی طرح سے ہندوستانی آئین کے حق میں انعام واپس کر کے اور بیان دے کر ان لوگوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک کے سیکولرزم کو اتنی جلدی کمزور نہیں بنایا جا سکتا۔ اسے یوں ہی کچھ حرکتوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جان کر اور سمجھ کر کہ انعام واپس کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور آواز اٹھانا متعصب حرکتوں کے خلاف سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے مد نظر، جن لوگوں نے یہ قدم اٹھایا ان کو صرف سلامی دی جا سکتی ہے۔یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے قدم ایک اہم انقلاب کا ثبوت ہیں۔ سیکولرزم کے حق میں ہندوستان میں انقلاب کو کبھی ختم مانا ہی نہیں جا سکتا۔ انعام واپس کرنے کو انقلاب تو نہیں ، لیکن اس کا حصہ مانا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ قدم اٹھا کر ان لوگوں نے فرقہ پرستی کے خلاف ایک زوردار مہم شروع کر دی ہے۔
٭٭٭
دانشوروں کی بغاوت— نریندر سونی
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے
مشہور ادیب کرشنا سوبتی فیض احمد فیض کی نظم سے اتفاق رکھتے ہوئے کہتی ہیں ، ’’یہ ایک جمہوری ملک ہے ، اور پچھلے 65 سال میں ہمارے شہری سماج نے کئی چیزیں اپنے اندر داخل بھی کی ہیں۔ ادیب کسی بھی چیز کو گہرائی سے دیکھتا ہے۔یہ ادیب کا فرض بھی ہے۔ جب اسے کوئی چیز پریشان کرتی ہے تو مخالفت کا اس سے اچھا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خود کو ملے ایوارڈ کو لوٹا دے۔ ‘‘
سوبتی ساہتیہ اکادمی کی اپنی فیلوشپ کو لوٹانے کا اعلان کر کے ان ادیبوں کی جماعت میں شریک ہو چکی ہیں جو فاشزم اور پروفیسر ایم ایم کلبرگی کے قتل پر ساہتیہ اکادمی کی خاموشی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ مختلف زبانوں کے لگ بھگ دو درجن سے زیادہ ادیب اپنے ساہتیہاکادمی ایوارڈ کو لوٹانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ حالانکہ ساہتیہ اکادمی کے صدر وشوناتھ پرساد تیواری کو یہ غلط نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ، ’’اکادمی ایوارڈ لوٹانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔یہ ایوارڈ ادیبوں کو ادیبوں کی ہی کمیٹی فراہم کرتی ہے۔ اس میں سرکار کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ’’مرکز میں سرکار بی جے پی اسے سازش کی طرح دیکھتی ہے۔ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنے بلاگ میں لکھا، ’’ادیبوں کی مخالفت کا زور اس جانب لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودہ مرکزی حکومت کے تحت فاشزم کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ کیا یہ منصوبہ بند فاشزم نہیں ہے؟ ان میں زیادہ تر ادیبوں کو کانگریس اور دوسرے لوگوں کی حمایت مل رہی ہے۔ کیا یہ شکست خوردہ لوگوں کی دوسرے طریقے سے سیاست کرنے کی مثال نہیں ہے؟‘‘ لیکن یہ واقعات بتاتے ہیں کہ سماج میں بڑھتے فاشزم کو ادیب خاموشی سے جذب کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ایک قدم جو بن گیا مہم
ایوارڈ واپس کرنے کی شروعات 4ستمبر کو ہندی ادیب ادے پرکاش کے فیس بک پوسٹ سے ہوئی۔ انہوں نے لکھا: ’’پچھلے کچھ دنوں سے ہمارے ملک میں ادیبوں ، فنکاروں ، مفکروں اور دانشوروں کا جس طرح کا جارحانہ اس کا سلوک مسلسل ہو رہا ہے ، اس کی تازہ مثال ادیب اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ کنڑ ادیب جناب کلبرگی کی ہندتوا وادی ظالموں کے ذریعہ کیا گیا دہشت ناک قتل ہے ، اس نے میرے جیسے تنہا ادیب کو اندر سے ہلا دیا ہے۔ اب یہ خاموش رہنے کا اور منہ چھپا کر چھپ جانے کا وقت نہیں ہے۔ ورنہ یہ خطرے بڑھتے جائیں گے۔ میں ادیب کلبرگی کے قتل کی مخالفت میں موہن داس پر 2010-11 میں دئیے گئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کو واپس کرتا ہوں۔
کلبرگی کو 2006 میں ان کے ان کے مضامین کے مجموعے مارگ۔ 4 کے لئے کنڑ کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔ 30 اگست کو کرناٹک کے دھارواڑ میں ان کے گھر پر گولی مار کر ان کا قتل کر دیا گیا۔ اسے ہندو کٹر وادی تنظیموں کی کرتوت بتائی گئی۔ اس وقت میڈیا کا فوکس شینا بورا قتل معاملہ جیسے سنسنی خیز معاملے پر تھا اس لئے کلبرگی کے قتل کو سرخیوں میں اہمیت نہیں دی گئی۔ مگر دانشور سماج اس قتل سے غصے میں تھا، وہیں سنگھ پریوار سے جڑی کچھ کٹر وادی تنظیموں نے ادیبوں کو دھمکایا۔ دانشور سماج اس سے بھی پریشان ہوا۔
اس سے پہلے مہاراشٹر میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر اور شیواجی پر مشہور کتاب شیواجی کون ہوتا؟ جیسی21 کتابیں لکھنے والے گووند پنسارے کو ان کی بیباک رائے کی وجہ سے 20 فروری کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا۔ پنسارے سے پہلے مہاراشٹر اندھ شردھا نرمولن تنظیم کے بانی صدر نریندر دابھولکر20 اگست، 2013 کو کٹر وادیوں کی ہنسا کے شکار ہوئے تھے۔ پنسارے اور دابھولکر، دونوں عدم تحمل کے خلاف تھے اور فاشزم پر چوٹ کرتے تھے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے شرد پوار نے اسے دہشت گردوں کی کرتوت بتایا۔ کانگریس لیڈر منی جاؤ نے دابھولکر اور پنسارے کے قتل کو اظہار رائے کی آزادی کے لئے برا اشارہ قرار دیا۔
ادیبوں کا سماج ایسے قتل کو اظہار رائے کی آزادی پر حملہ مان رہا ہے۔ کلبرگی کے قتل کے ایک مہینے بعد بھی کسی کی گرفتاری نہیں ہونے پر 50 سے زیادہ ادیبوں نے کنڑ ساہتیہ پریشد کو اپنا ایوارڈ لوٹا دیا۔
اس طرح دانشور سماج میں ساہتیہ اکادمی کی خاموشی کی وجہ سے غصہ اور صبر کی چنگاری سلگ رہی تھی۔ اس اشتعال نے اس وقت سماجی شکل اختیار کر لیا جب 28 ستمبر کو راجدھانی دہلی کے قریب دادری میں محمد اخلاق نام کے ایک شخص کا صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت ہونے کی افواہ اڑائی گئی۔ سماج نے اسے بڑھتی فاشزم کا نتیجہ مانا۔ سبھی سیاسی جماعتوں نے اخلاق کے قتل کو ظلم قرار دیا، لیکن ہندتووا تنظیم قاتلوں کی حمایت کرتے نظر آئے اور دنیا کے لگ بھگ ہر معاملے پر ٹویٹ کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت ان میں سے کسی بھی معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اس حادثہ سے تھک کر 1986 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ پانے والی 88 سالہ نین تارا سہگل اور ہندی کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ اشوک واجپئی نے اپنا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کر دیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بھانجی نے اپنے کھلے خط میں کہا، ’’یہ ہندوستان کو توڑنا ہے۔ غصے کا حق ہمارے قانون کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ‘‘
سہگل کے بعد ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ لوٹانے کی اعلانات کی جھڑی سی لگ گئی۔ ملیالم ادیب سارا جوسف، ہندی ادیبہ کرشنا سوبتی، انگریزی کے ادیب گنیش دیوی، ارون دہتی رائے ، کشمیری ادیب غلام نبی خیال، کنڑ ناول نگار کنبر ویر بھندرپا، ہیمین بورگوہائن اور سرجیت پاتر سمیت پنجابی کے نو ادیبوں اور شاعروں نے اپنے ساہتیہ اکادمی ایواڈر لوٹانے کا اعلان کر دیا۔
اکادمی کے صدر اور ہندی کے ادیب وشو ناتھ پرساد تیواری کے بیان نے انہیں خاموش کرنے کے بجائے اور بھڑکا دیا۔ انہوں نے کہا ’’حالاں کہ حال میں جو حادثات ہوئے ہیں اس سے خطرناک حادثات بھی ماضی میں ہو چکے ہیں ، لیکن ایساکبھی نہیں کیا گیا۔ ان کا اشارہ ایمرجنسی، 1984 کے دنگوں کی طرف ہے۔ جب اس طرح کے سوال اٹھے تو سہگل نے کہا ’’ایمرجنسی (جس میں ادیبوں اور سیاسی مخالفین کو جیل میں ٹھونس دیا گیا تھا) کے بعد لوگوں نے اندرا گاندھی کو اکھاڑ پھینکا اور ہندوستان جمہوری اور سیکولر ملک کے طور پر بنا رہا۔ نریندر مودی کے موجودہ حکومت میں ناراضگی کی آوازوں کو پوری طرح سے روندا جا رہا ہے … آج کوئی بھی اس وقت تک محفوظ محسوس نہیں کر سکتا جب تک وہ ہندتو کی لائن پر نہ چلے۔ ‘‘
سرکار کی جانب سے بھی اس پر فوراً بیان آیا لیکن بہت ہی بچکانا۔ وزیر مہیش شرما نے کہا، ’’اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ لکھ نہیں سکتے ، تو انہیں پہلے لکھنا چھوڑ دینا چاہئے۔ پھر ہم دیکھیں گے۔ ‘‘ اعتراض کرنے پر وہ بیان سے پلٹ گئے۔ آر ایس ایس نے مکھ پتر پانچ جنیہ کے اداریہ میں لکھا ’’کچھ ادیب سیکولرزم سے متعلق افواہوں سے متاثر ہیں۔ ’’جو لوگ ملک کی حمایت میں ادب سے جڑے ایوارڈ لوٹانے کی بات کر رہے ہیں ، انہیں ساہتیہ میں ملک اور کرداروں کے فروغ کی کتنی بات ہے ، اس کی چھان بین ضروری ہے۔ ‘‘
شیو سینا ممبئی میں کٹرتا کی نئی لہر پیدا کر رہی تھی۔ اس نے غزل گائک غلام علی کے پروگرام اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ قصوری کی کتاب کے اجراء کی مخالفت کر کے سنگھ پریوار اور بی جے پی کی مشکلیں بڑھا دیں۔ مہاراشٹر سرکار کے یقین دہانی کے باوجود غلام علی کا پروگرام رد ہو گیا اور کتاب کے اجراء کا پروگرام کرنے والے لال کرشن اڈوانی کے سابق حامی سدھیندر کلکرنی کے منہ پر شیو سینا کے حامیوں نے کالک پوت دی۔ اس سے کٹرتا کے خلاف ادیبوں کی مہم کو اور دھار مل گئی۔
سوالوں کے گھیرے میں ساہتیہ اکادمی
حالانکہ ایوارڈ لوانے والے ادیبوں کا یہی رونا ہے کہ سماج میں اتنا کچھ ہو رہا ہے ، اسے لے کر ساہتیہ اکادمی خاموش ہے۔ کچھ ادیب اس خاموشی کو خطرناک مانتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں کہ اس سے اکادمی کا مستقبل تاریکی میں بھی جا سکتا ہے۔ وشو ناتھ ترپاٹھی مانتے ہیں کہ ساہتیہ اکادمی کے صدر نے آزادانہ اظہار رائے اور ادیبوں پر ہو رہے حملوں کی مذمت کر دی ہوتی تو یہ نوبت نہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں ، ’’اب بھی حالات بگڑے نہیں ہیں۔ ‘‘ ترپاٹھی یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ لگ بھگ 15 دن پہلے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ساہتیہ اکادمی کے صدر تیواری سے ملنے گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ، ’’ہم نے ان سے کہا تھا کہ آپ قاتلوں کی مذمت نہیں کر سکتے تو کوئی بات نہیں۔ ہمیں ایک جلسہ کرنے کی جگہ دیجئے۔لیکن یقین دہانی کے باوجود انہوں نے اس بات کو پورا نہیں کیا۔ ‘‘
سینئر کہانی کار گری راج کشور (ڈھائی گھر، ناول، 1992 میں ساہتیہ اکادمی سے ایوارڈیافتہ ’’ہمیں ادارہ برباد نہیں کرنا چاہئے۔ سرکار کو اس سے اچھا موقع مل جائے اور وہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) اور نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) کی طرح یہاں بھی اپنے لوگ لا کر بیٹھا دے گی۔ ‘‘
فی الحال ایوارڈ لوٹانے والے ادیبوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ 2012 کا ساہتیہ اکادمی نوجوان ایوارڈ پانے والے امن سیٹھی نے اپنے خط میں لکھا ہے ، ’’جتنی ضرورت ہمیں ساہیتہ اکادمی کی ہے اس سے زیادہ ضرورت اس طرح کے اداروں کو ادیب اور دانشوروں کی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری پہلی وفاداری اپنے پڑھنے والوں کے تئیں ہے۔ ہم قارئین کے تئیں جوابدہ ہیں ، نہ کہ سرکاری ادارہ کے تئیں۔ ‘‘
ویسے ، ایواڈ لوٹانا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا اور یہ پنجابی کہانی کار 80 سالہ دلیپ کور ٹوان کے معاملے سے ثابت بھی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے پدم شری ایواڈ لوٹانے کا اعلان کیا ہے جسے وہ اپنے دل کے کافی قریب مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ، ’’میں نہ صرف مذہبی تشدد کے خلاف ہوں بلکہ موجودہ حکومت کی اس سوچ کا بھی مخالفت کرتی ہوں کہ وہ اس لئے سب کچھ کر سکتی ہے کیوں کہ حکومت میں ہے۔ رنگ منچ فنکار مایا کرشنا جاؤ نے دادری کانڈ کی مخالفت میں سنیگت ناٹک اکادمی ایوارڈ کو لوٹا دیا ہے۔
انگریزی کے ادیب سلمان رشدی نے بھی بھارت میں چل رہے ادیبوں کی اس تحریک کے حمایت میں اپنا سُر ملا دیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، ’’میں ساہتیہ اکادمی کو لے کر مخالفت کر رہے نین تارا سہگل اور دوسرے کئی ادیبوں کا حمایت کرتا ہوں۔ ہندوستان میں آزادی اظہار رائے کے لئیے کافی ڈراونا وقت ہے۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے مودی حامیوں کو مخاطب کر کے ٹویٹ کیا، ’’میں کسی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتا اور اظہار رائے کی آزادی پر سبھی طرح کے حملوں کی مذمت کرتا ہوں۔ آزادی ہی میری پارٹی ہے۔ ‘‘
احتجاج کے طریقے پر اختلاف
ساہتیہ ایوارڈ واپسی کو لے کر دو حصے میں تقسیم بھی نظر آ رہے ہیں۔ سینئر نقاد نامور سنگھ نے کہا ہے کہ کچھ ادیب ایوارڈ لوٹا کر سرخیاں بٹورنا چاہتے ہیں۔ 1971 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل کرنے والے نامور نے کہا ہے کہ احتجاج کے دوسرے طریقوں کو اپنانا چاہئے۔ اسی طرح اصغر وضاحت مانتے ہیں کہ احتجاج کرنا غلط نہیں ہے لیکن یہ طریقہ سہی نہیں ہے۔ مشہور بنگلہ شاعر نریندر ناتھ چکرورتی کا ماننا ہے کہ یہ ’بے حد مذمتی معاملے کا احتجاج کا‘ بہت کمزور طریقہ ہے۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ پانے والے شاعر شنکھو گھوش کا کہنا ہے کہ ایوارڈ لوٹانے کی بجائے دوسرے طریقے سے اپنا احتجاج درج کرنا چاہئے۔
٭٭٭
ملک شاطر سیاستدانوں کا ہی نہیں …—ادئے پرکاش
تخلیق کار کسی سیاسی پارٹی یا مذہبی فرقہ واریت کے ساتھ نہیں بلکہ کسی بھی جمہوری سماج کے عام شہری اور حکومت کی توجہ سے محروم عام انسان یا آخری انسان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ گاندھی جی نے ملک کے حاکموں کو یہی کہا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا، میرے اس فیصلے کے پانچ دن پہلے ، 30 اگست کو کرناٹک کے دھارواڑ میں کنڑ ادیب مصنف اور وچن ساہتیہ کے ودوان 76 سالہ ایم ایم کلبرگی کا قتل ان کے گھر میں کر دیا گیا۔ اس سے پہلے نریندر دابھولکر اور گووند پانسرے جیسے ذہین اور سماج سدھارکوں کا بھی قتل ہو چکا تھا۔ یہ اہم مصنفین، دانشور، غیر محفوظ تھے ، ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم سبھی تمام طرح کے مظالم، وارداتوں کے سامنے غیر محفوظ اور نہتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی قتل کے مجرم کو پکڑا نہیں گیا۔ یہ سچ ہے کہ ایسا صرف ادیبوں ، مفکروں کے ساتھ ہی نہیں ، عام شہریوں کے معاملے میں بھی ہو رہا ہے ، جیسا ابھی حال میں دادری میں اخلاق کے ساتھ ہوا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سبھی واقعات کو چھوٹے موٹے ظلم کی طرح لیا گیایا پھر ان سبھی کو سیاسی چشمے سے دیکھا گیا۔
ان واقعات کی روک تھام کی بجائے ان پر سیاسی یا مذہبی نظریہ اپنایا جا رہا ہے تو صاف ہے کہ ملک کا قانون اور انتظامیہ بکھر چکی ہے۔ اب اس حالت کے تحت کوئی بھی جرم کے سامنے محفوظ نہیں ہے۔ کلبرگی کے قتل نے ، جو محض چار پانچ دن پہلے ہوا، اس پر کم سے کم اس تنظیم کو اپنی فکر یا سروکار ظاہر کرنا چاہئے تھا— جس ادارہ نے انہیں ان کے بے باک صحافتی کارنامے کے لئے سب سے بڑے ساہتیہ ایوارڈ سے نوازا تھا۔ یہ تکلیف کی بات تھی کہ اس ادارہ یعنی ساہتیہ اکادمی کی جانب سے نہ کوئی تعزیتی پیغام کلبرگی کے اہل خانہ کو بھیجا گیا، نہ راجدھانی میں کوئی تعزیتی نشست ہوئی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم جس سیاسی نظام میں رہ رہے ہیں اور جسے ہم نے ہی اپنایا ہے ، اسے اور اس کے اداروں کو ہماری کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ کسی اور مقصد کے لئے کام کر رہی ہیں۔ میں خود بھی اسی طرح کے ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ 2010-11 میں اپنی تخلیق موہن داس کے لئے ایوارڈ یافتہ ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ ایسے ایوارڈ کا کوئی مطلب نہیں جو حوصلہ افزائی اور موج مستی کے لئے دیئے جاتے ہیں۔
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ سماج میں کسی بھی طرح کی کی اظہار رائے کے خلاف فرقہ واریت بڑھ رہی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پر حملوں اور دھمکیوں سے بھرے فون یا پیغامات آنے لگتے ہیں۔ جسمانی زیادتی ہو رہی ہے۔ ان کے ایک نہیں ، درجنوں مثال ہیں۔ اس کی ایک مثال آپ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر بھی جب چاہیں ، دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کچھ وقت پہلے اس ملک کے عظیم ساہتیہ کار یو آر اننت مورتی کے معاملے کو ہی دیکھئے۔ ان کی شخصیت پر کیسے نازیبا اور غیر تہذیبی مخالفت کی گئی یا دھمکی دی گئی کہ جو ہم سے ناراض ہیں ، وہ ملک چھوڑ دیں اور پاکستان چلے جائیں۔ جو بھی مٹھی بھر فسادیوں کے خیالوں سے خوش نہیں ہیں ، وہ ملک کے غدار ہیں۔ ایسے ماحول کے بیچ کلبرگی کا قتل ہوا اور میں نے وہ فیصلہ لیا۔
اب کئی لیڈر یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے 1975کے ایمرجنسی، 1984 کے سکھ مخالف قتل عام، 1992 کے ممبئی یا 2013 کے مظفر نگر کے فساد وغیرہ کے دوران یہ ایوارڈ کیوں نہیں لوٹایا؟یہ فرقہ وارانہ فساد تھے۔ سچ یہ ہے کہ کسی بھی ادیب یا ساہتیہ کار کے لئے یہ حکم نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مخالفت کب درج کرے۔ 1975 میں میری عمر محض 23 سال تھی۔ اس وقت بھی اپنی تخلیقات کے ذریعہ سے میں نے ہی نہیں ، کئی اہم ادیبوں نے مخالفت درج کرائی تھی۔ بابا ناگ ارجن، بھوانی پرساد مشرا، مہادیوی ورما، فنیشورناتھ اور رینو وغیرہ کئی نام تو فوری طور پر یاد آتے ہیں۔مجھے اور میرے جیسے بہتوں کو تو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ابھی کچھ ہی سال پہلے ملا، اس وقت لوٹاتے بھی کیسے؟ لیکن ہم سب ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں کی تخلیق اور مضامین اس کے شاہد ہیں۔ مخالفت اور اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے صرف ایوارڈ واپسی ہی نہیں ، کئی اور طریقے اور ذرائع ہو سکتے ہیں۔ ان سب کو وقت وقت پر اپنایا گیا۔ جہاں تک دو الگ الگ فرقوں ، ذات، گروپوں میں دنگوں کی بات ہے تو یہ سچ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ فساد ہوتے نہیں ، کروائے جاتے ہیں۔ غور کریں ، کہ کلبرگی، پانسرے اور دابھولکر کی موت فرقہ وارانہ فساد میں نہیں ہوئی ہیں ،یہ منظم سازش کے ساتھ کئے گئے قتل ہیں۔ پھر فساد ہوں یا کوئی بھی فرقہ واریت، عام لوگوں کے حق میں ٹھیک نہیں ہے۔ فاشزم کی تازہ ترین مثال غلام علی کو ممبئی اور پونے میں گانے سے روکنے کے واقعہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے بے شمار سروے بھی ہوئے ہیں۔ جن سے یہ حقیقت ثابت ہوئی ہے کہ جن علاقوں میں لوگ کھیلتے رہتے ہیں ، ادب اور ثقافت میں دلچسپی لیتے ہیں ، وہاں فساد یا پر فرقہ واریت کے واقعات کم ہوتے ہیں۔
ہمارا سماج مختلف مذاہب پر مشتمل سماج ہے۔ اس میں ایک نہیں ، کئی تہذیبیں ، مذہب، ذاتیں ، جماعتیں ہیں۔ ان سب کے وجود سے ہی آج تک جمہوریت باقی ہے۔ مہان ساہتیہ کار رویندر ناتھ ٹیگور نے اس ملک کو انسانیت کا مہا سمندر کہا تھا۔ ایک دوسرے مہان شاعر محمد اقبال نے بھی کہا تھا:
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
یہ ملک فرقہ پرستوں ، مذہب پرستوں اور سیاست کے شاطر کھلاڑیوں کا ہی نہیں ، ادیبوں ، سائنسدانوں ، مفکروں ، اور سیدھے سادھے محنت کش لوگوں کا بھی ملک ہے۔ کیا آج وہ سب خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں؟
٭٭٭
احتجاج کے طریقے پر سوالیہ نشان—اصغر وجاہت
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ جن مدعوں کو سامنے لانے کے لئے واپس کئے گئے ہیں ، ان مدعوں سے اتفاق ہونے کے بعد بھی یہ لگتا ہے کہ سرکار پر دباؤ بنانے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا گیا ہے اس سے کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی کے بارے میں ساہتیہ کاروں کی رائے کبھی بھی بہت اچھی نہیں رہی ہے۔ پچھلی سرکار نے تو ایک سنسدیہ کمیٹی کا گٹھن بھی کر دیا تھا جس کے صدر سیتارامیچوری تھے۔ اس کمیٹی کا کام اکادمیوں کے کاموں کی جانچ کر کے سنسد کو ایک رپورٹ دینا تھا۔ مجھے بھی اس کمیٹی کے سامنے اپنی بات رکھنے کا موقع ملا تھا۔ سبھی ساہتیہکلا کرمیوں کی رائے تھی کہ اکادمیاں اپنے مقصد کو پورا نہیں کر رہی ہیں نوکر شاہی کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ان کے فیصلے ہمیشہ مخالفوں کے گھیرے میں رہتے ہیں۔ اکادمی ایوارڈوں کی بھی وہ اہمیت نہیں بچی ہے جو شروع میں تھی۔ ان اکادمیوں کے یہ امید کرنا کہ وہ ادیبوں ، فنکاروں کے حق میں آواز اٹھائیں گی، بے معنی سوال ہے۔ اکادمی نے ایسا کبھی نہیں کیا ہے۔ لوگ پنڈت جواہر لال نہرو کا روسی مضمون پاسترناک کے مقدمہ میں مداخلت ’کوٹ‘ کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ نہرو پہلے وزیر اعظم تھے اور بعد میں ساہتیہ اکادمی کے صدر تھے۔
پچھلے پچاس سال میں کانگریسیا غیر کانگریس سرکاروں کے دور میں ہندوستانی سماج میں خطرناک حادثات ہوئے مگر اکادمی خاموش ہی رہی۔ حد تو یہ ہے کہ ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ لوٹانے والے جب اکادمی کے عہدیدار تھے تب بھی ایسابیان نہیں دیا گیا۔ ادیب ساہتیہ اکادمی کے وجود سے اداس ہو گئے تھے۔ مگر ایوارڈ یافتہ ادیبوں کے لئے اکادمی کے پاس غیر ملکی اسفار سے لے کر کئی زبانوں میں کتابیں شائع کرنے کے مفاد تھے۔ اور ایوارڈ یافتہ ادیب ان کا فائدہ اٹھاتے تھے۔
فرقہ وارانہ فساد اور دنگے کانگریس کے حکومت میں بھی بہت ہوتے رہے ہیں۔ در اصل، راجیو گاندھی کے طور طریقوں سے ہی ملک میں فرقہ واریت کا ماحول اتنا گہر ہوا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کے وقت میں گراہم اسٹین اور اس کے دو بچوں کا قتل کر دیا گیا۔ اس وقت بھی ادیب، اکادمی اور دوسرے بڑے عہدوں پر موجود ادیبوں نے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا تھا۔ ساہتیہ اکادمی کہنے کے لئے ہی سہی، ایک آزاد ادارہ ہے جہاں ادیبوں کا ایک پینل ہی ادیب کو ایوارڈ دیتا ہے۔ کیا ایوارڈ اس پینل کو لوٹ رہا ہے؟ کیا ادیب، ادیب کو ہی ایوارڈ لوٹا رہے ہیں؟ ایوارڈ دینے میں پوری طرح سے سرکار کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اگر سرکار کا کردار مانا بھی جائے تو ادیبوں کو یہ ایوارڈ کانگریس سرکار نے دیئے ہیں اور اگر انہیں لوٹایا جا رہا ہے تو اسی سرکار کو لوٹانا چاہے۔ مودی سرکار کی مخالفت نہ کر کے ایوارڈ لوٹانا کہاں تک مناسب ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ادیب احتجاج درج کرنے کے لئے ایوارڈ لوٹا رہے ہیں۔ کیا سرکار کے متعلق احتجاج درج ہو رہا ہے؟ کیا احتجاج درج کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہے؟ کیا اس احتجاج سے کوئی فرق پڑے گا؟ سچ مچ احتجاج کا کوئی کردار بنتے دکھائی پڑ رہ ہے؟ آج حالت یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی کا کوئی طریقہ نہیں دکھتا۔ ایسا کیسے ہو گیا؟ ادیب اور دانشور یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کانگریس اور علاقائی پارٹیوں نے سیاست کو نچلی سطحوں پر پہنچا دیا ہے کہ جمہوریت پر خطرا بڑھ رہا ہے۔ وام پنتھی اور کانگریس پارٹی سے نزدیکی رکھنے والے ادیبوں نے کیا ان پارٹیوں کے بارے میں اپنی ذمہ داری کا حق ادا کیا تھا؟
جن ادیبوں کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا ہے ، وہ ایوارڈ واپس کرنے کے بعد شہیدوں میں نہیں شامل ہو سکتے — کیا یہ بات ایواڈر واپس کرنے والوں کو پتہ نہیں ہو گی؟ کیا انہوں نے ایوارڈ واپس کرتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ وہ بغیر ایوارڈ واپس کئے موجودہ بی جے پی مودی سرکار کی مخالفت کر رہے ہیں — ایوارڈ واپس کرنے کے بعد ایسا بیان دینا کہ ہم نے یہ کر دیا، کوئی دوسرا کر کے دکھائے ، کیا بتلاتا ہے — بڑے پیمانے پر ہندی ادیب بی جے پی اور فرقہ واریت کی سیاست کے مخالف رہے ہیں۔
ایوارڈ واپس کرنے والوں کے جذبات کا میں احترام کرتا ہوں مگر کہنا چاہتا ہوں ایوارڈ واپسی نمائش یا تشہیر نہیں ہے — اس سے بہتر کسی طریقہ کو اپنانا چاہئے —
٭٭٭
تاریخ ادب کے کٹہرے میں —میمونہ احمد
ادب تاریخ سے سوال کرتا ہے :
خوش لوگوں کی کہانیاں ہی نہیں ہوتی ہیں ! جیسے خوش لوگوں کی تاریخ نہیں ہوتی ! ایسا کیوں ہوا؟ کیوں کیا خوشی کا کو ئی رنگ نہیں ہوتا، یا خوشیوں میں کو ئی اثر نہیں ہوتا، یا پھر تاریخ دانوں کے پاس لفظوں کی کمی واقع ہو گئی تھی کے وہ خوشی کے واقعات کو تحریر کرتے ! ساری تاریخ میں اداسی ہے ، قہر ہے ، عذاب ہے ، اداسی ہے ، موت ہے ، قتل ہے ، طویل درد ہے جسے آگے منسلک کر دیا گیا تھا وقت کے ساتھ ساتھ !انسان کی بنیادوں میں خوشی کا خمیر ہی نہیں ہے ایسا لگتا ہے اس کے خمیر میں آنسو کی بنیاد رکھی گئی ہے جسے وہ خود مالی بن کر پانی دیتا رہتا ہے ، ہرا رکھتا ہے درد کو، انسان کو شاید درد میں مزا آنے لگا ہے ، کمی میں اسے اپنے مکمل ہونے کا احساس ہونے لگا ہے ! یہ کیسا کھیل ہے ، یہ کیا گورکھ دھندہ ہے جو سمجھ نہیں آتا !تاریخ خوشی کے واقعات کے بارے میں ایسے چپ سادھ لیتی ہے جیسے موت نے آ لیا ہو اسے۔ لیکن تاریخ اس اداسی کی وجہ سامنے لا رکھتی ہے ، تاریخ والے کہتے ہیں طاقت !
ادب کے کان کھڑے ہوتے ہیں؟ ارے طاقت کا کیا کام بھلا اس میں (ادب والے محبت والے بھی ہوا کرتے ہیں )تاریخ کے پاس اس کا جواب موجود ہے ، ادب والے طاقت کا پرچار نہیں کرتے لیکن نظریات کے تخلیق کار یہی لوگ ہوتے ہیں ، جب ان کے نظریات عام لوگوں میں پہنچتے ہیں تو لوگوں میں کھلبلی مچتی ہے ، یاد نہیں تاریخ
میں (اپیشیا)(Hypatia)کو کیسے مارا گیا تھا، قصور کیا تھا صرف یہ کہ اس نے طاقت استعمال کرنے پر سوال اُٹھایا تھا؟سقراط کا حال بھی پتہ ہی ہے تمھیں ، ابن رشد کی کتابوں کو بھی سرعام جلایا گیا ! تاریخ میں درج ہے طاقت والے مذہب والے لوگ تھے !
ادب : خدا کی امان ! مذہب کیسے مذہب تو خود میں ایک بڑا تخلیقی سانام ہے ، وہ کیسے طاقت والے لوگ ہو سکتے ہیں؟ وہ لوگ سادہ دل معصوم ہوتے ہیں انھیں کیا پڑی طاقت کی، دیکھ لو سارے مذاہب اُٹھا کے ، ہرا یک محبت امن کادرس دیتا ہے۔
تاریخ :زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے ! ادب تم اتنے بھولے ہو نہیں جتنے نظر آنے کی کوشش کر رہے ہو ! تمھارے ادب میں ہی تو لکھا ہے ـ۔لوگوں نے امن قائم کرنے کے لیے جنگیں کیں ! جنگوں کا مطلب تواب پتہ ہے نا قتل و غارت مچائی، زندگی کا فیصلہ کرنے والے بن گئے تھے۔ اب تم کافی پختگی رکھتے ہو بڑی عمر ہو گئی ہے تمھاری تم نے بھی تو صدیاں دیکھ لی ہے ، بتا و ان کا یہ جواز عقل سے میل کھاتا ہے کہیں؟نہیں نا ! میری بات پہ یقین نہیں آتا تو مذہب سے پوچھ لو؟
ادب : کچھ تو خوف کرو یار کس کو بلا رہے ہو، مجھ ناچیز کی کیا حیثیت کہ میں سوال اُٹھاؤں مذاہب پر؟ ساری دنیا کے اپنے اپنے مذاہب سے جذبات جڑے ہیں؟ ادب یار : تیرے بس کا کام نہیں لگتا یہ دیکھ میں نے بتا یا تھا نا طاقت، ان لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب سے کوئی لینا دینا نہیں انھیں بس طاقت چاہیے ،یہ لوگ مذہب کو طاقت بناتے ہیں اور تمھارے ادب والے لوگ کہتے ہیں طاقت والوں کو جب مذہب ملا تو انھوں نے اپنے نظریات منوانے کے لیے بڑے جبر کیے ، ظلم کی شدت سے کانپ اُٹھتی تھی فضا۔ ۔ بس کر جا یار تاریخ تیرے پاس بتانے کے لیے یہی سب کچھ ہے۔ تمھارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جو خوشی دیتا ہو جس سے محبت کے احساس میں اضافہ ہو، انسانوں جیسا کچھ ہو؟
ہاں یاد آیا تاریخ میں ایک ایسا سرپھر افلسفی سامنے آیا تھا جس نے یونان کے فلسفہ اور اس کے فلسفیوں سے انحراف کیا تھا، ایک مرتبہ جب بہت سارے فلسفی اکھٹے تھے سب کے سب یونان کے فلسفے کے حامی تھے ، ان سب کے درمیان اس نے کہا تھا انسان کو حیوانوں سے مت ملایا کرو! کبھی جانوروں سے تشبیہ دیتے ہو، کبھی حیوانوں سے ، کبھی پرندوں سے انسان کے پاس اپنا ذاتی کچھ بھی نہیں کیا؟
پھر؟ ادب نے سوال کیا ! پھر کیا تاریخ میں نام ہی درج نہیں اس کا !!!
بسیار تیرے پاس یہی کچھ ہے بتانے کو ! رہنے دے ، ادب نے تاریخ کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ؛ بس اتنا ہی دم ہیں تم میں سننے کا۔ اسی لیے تم ادب والے نئے نئے جہتیں نکالتے رہتے ہو تم لوگ جس کھیتی کے ہو وہ کھیتی بہت کم ہوتی ہے ، تمھارا ایک فرد اگر کسی قبیلے میں پیدا ہوتا ہے تو دوسرا کہیں دور پیدا ہوتا ہے ، تمھاری جماعت چند افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور صدیوں بعد اس جماعت کو ماننے والے ملتے ہیں۔ ۔ ۔ آہ
دیکھ یار تاریخ اگر تم ادب پر طنز کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو تمھیں احتیاط کرنی چاہیے ، ہم نے دنیا کو بہت خوبصورت احساسات سے نوازا ہے ، ادب نے نفرت نہیں بوئی، ظلم نہیں بویا، کبھی مذاہب پر حملہ نہیں کیا۔؟
پھر ادب خاموش کیوں رہا؟ تاریخ نے برجستہ سوال پٹخ دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہاں تھا ادب جب لوگ طاقت طاقت کھیل رہے تھے ، کہاں تھی وہ سوچ جس کو تم آج بیان کر رہے ہو۔ ۔ ۔ !!!سب کچھ ختم ہو جا تا ہے پھر تمھارا ادب راکھ کریدتا پھرتا ہے۔ اس راکھ میں تم لوگ چنگاری ڈھونڈ لیتے ہو۔ پھر تم لو گوں کی کہانی جنم لیتی ہے ! ادب نے لمبی آہ بھر ی۔ ۔ ۔ ۔ !!!
ادب نے چند لفظ ادا کیے جواب میں۔ ۔ معاشرہ، مذہب، حد، سوال، طاقت، گھٹن، بھوک، ۔ ۔ ۔ ۔ !!!
تمھیں معلوم ہے یار تاریخ، ادب کے سامنے یہ سب پہاڑوں کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں ، کبھی معاشرہ اپنی عجیب و غریب روایات کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ، ادب والوں کو تو خزاں کے موسم میں گرنے والے پتوں کی آواز بڑی بھایا کرتی تھی، لیکن کبھی معاشرہ سمجھتا کے یہ ادب والے رکاوٹ ہیں ، کبھی مذہب والے ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ جاتے ، کبھی ادب کے سوالوں سے پریشان ہو جاتی ہے طاقت، کبھی ادب کو گھٹن کا سامنا کرنا پڑ جاتا، کبھی گیہوں کے کھیتوں میں بھوک سے مرنے والے کا نوحہ کرتا ادب۔ ۔ ۔
ادب مرہم ہے۔ ۔ ۔ ادب مرہم ہے ،
تاریخ حیرت سے تکے جا رہی تھی ادب کو۔ ۔ ۔ یہ کیسا مرہم ہے جوتم لگاتے ہو۔؟
ادب: محبت !
٭٭٭
احتجاج ضروری ہے —عبدالصمد
ہندوستان کے تمام شہروں کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا ہے کہ ہمارے امن پسند ملک کی سماجی فضا بے حد تشویش ناک ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ماحول میں ایک زہر سا گھلتا جا رہا ہے۔ مذہبی و سماجی نا روا داری، عدم تحمل، جیو اور جینے دو کے اصول کا فقدان اور قوت برداشت کی کمی ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ انہیں بروقت روکنا بہت ضروری ہے۔
ہندوستان کے امن پسند شہریوں اور رائے دہندگان نے ملک کی بقا، اس کی حفاظت ترقی اور پرسکون سماج کے قیام کے مقاصد کے پیش نظر حکومت کی تشکیل کرتے ہیں۔ اُن کا حکومت وقت سے جائز توقع رکھنا اور مقاصد سے نہیں بھٹکنے کا مطالبہ بالکل صحیح ہے۔ اپنے ملک کے امن پسند شہریوں کے جذبات اور احساسات کی ہم قدر کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہیں۔
اطمینان اور خوشی کی بات ہے کہ ملک کا دانشور طبقہ بھی ان مقاصد کو لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ دانشور طبقہ ملک کا ضمیر ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں یہ طبقہ اٹھ کھڑا ہوا ہے ، نا انصافی اور ظلم کی کوئی طاقت اُسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ وقت آرام کرنے کا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے اور اٹھ کھڑا ہونے کا ہے۔ دانشور طبقہ پوری طرح سرگرم ہے۔ احتجاج ظاہر کرنے کے اپنے طریقے اور پنی سوچ ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر مقاصد سے ہرگز نہیں۔ ہم ان تمام جذبوں اور ان مقاصد کے لئے اٹھنے والی آوازوں کی قدر اور احترام کرتے ہیں۔ اور حکومت وقت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی تکمیل کو مقدم سمجھے۔ ملک میں امن و امان، ہم آہنگی، قوت برداشت اور سماجی و مذہبی رواداری کے ماحول کو فروغ دینے میں فوراً پہل ہونی چاہئے۔
٭٭٭
اعزاز واپسی کی علامتی تحریک نے جمہوریت کے قاتلوں کو خوفزدہ کر دیا— مشرف عالم ذوقی
’اعزاز واپسی کا یہ سلسلہ مینوفیلچرڈ ہے ‘، یہ بیان دینے والے ارون جیٹلی کے چہرے پر بھی انعام واسپی کے خوف کو پڑھا جا سکتا ہے — عدم تحمل کی ناقابل برداشت فضا میں انعام و اعزاز واپسی نے جو کردار ادا کیا، وہ شاید دنیا کی کسی بھی تاریخ کے لئے ایک مثال ہے — وزیر داخلہ نے ادیبوں سے ملنے کی پیش کش کی ہے تو اس دباؤ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ، جس سے اندنوں سرکش لہروں پر سوار حکومت دو چار ہے — یوپی کے پنچایت انتخاب نے مودی نوازوں کو خاموشی سے یہ پیغام دے دیا کہ اشتعال انگیز بیانات، منافرت، قتل عام، فرقہ وارانہ فسادات، تانا شاہی رویہ اور ملسل ظلم و ستم کی آندھیوں سے گھبرائے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے — اور اسی لئے ہندوستان میں اقتدار پر قبضے کے بعد جب خونی ترکش کے تیر سنبھالے نہ گئے تو چھ مہینے بعد ہی دلی نے ہندو راشٹریہ کی طرف بڑھتے مودی اور آر ایس ایس کے عزائم کو ایسی مات دی کہ کسی کو بھی یقین نہ آیا کہ عوام، تاج پوشی کے بعد کسی کو یوں نفرت و حقارت سے زمین بوس بھی کر سکتے ہیں۔ ایک قاتل تانا شاہ جو اپنے خوفناک اور ناپاک ارادوں سے ملک کے وقار، جمہوریت، سالمیت کو تہہ تیغ کرنے کے لئے نکلا تھا، اچانک احساس ہوا، کہ اس کی حیثیت ان مٹھی فرنگی بھر گھوڑوں سے زیادہ نہیں ہے ، جس کے سہارے کسی ہٹلر، کسی ہلاکو کی طرح اس نے ہندوستانی سرزمین کو مسلمانوں اور اقلیتوں کے لہو سے داغدار کرنے کی کوشش کی ہے — کچھ لوگوں کو سیاسی مجبوریاں اس قبیلے میں لے کر آئی ہیں — اور کچھ ایسے جن کیسیاسی شاخوں سے آر ایس ایس، بجرنگ دل، ہندو مہا سبھا، سناتن دھرم کے کیڑے مکوڑے کھل کر ہندوستان کی سرزمین کو گندہ کرنا چاہتے ہیں — ایسے کیڑے مکوڑوں کو سو برسوں سے مسلسل شکست ملتی رہی ہے۔ اور اس لئے ملتی رہی کہ ہندوستان کی سرزمین نے سیاسی شاخوں سے برامد نفرت کے ناسوروں کو تخم سے پودا بننے کے عمل سے قبل ہی کاٹ ڈالا۔ زہریلے پودے پھیلتے رہے۔ کٹتے رہے — باجپائی کے وقت جب این ڈی اے کی حکومت بنی تو ان زہریلی شاخوں پر پھل آ گئے — باجپائی کا زمانہ بھی کوئی کم نہ تھا— ٹی وی چینلس اس وقت بھی زہریلے الفاظ کی بارش کر رہے تھے — مجھے منوج رگھو ونشی کا پروگرام یاد ہے ، جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا— آج کی تاریخ میں جب گووند اچاریہ، سدھیر کلکرنی، اڈوانی سے لے کر ارون شوری تک سیکولر کردار اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب ان کے زہریلے بیانات مسلمانوں کے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھے — عدم تحمل کا معاملہ کوئی آج کا نہیں ہے ، لیکن مودی کے اقتدار میں آتے ہی جیسے آر ایس ایس برانڈ کے لئے ہندو راشٹریہ کا راستہ صاف ہو گیا— اور مودی حکومت کے پہلے دن سے جس ایجنڈے پر کام کیا گیا، وہ ہندوتو کا خوفناک ایجنڈا تھا۔ باجپائیاس معاملے میں اپنی امیج کو بچا کر چلے اور انہوں نے آر ایس ایس سے فاصلہ بنانے کی کوشش کی۔ مودی کھلے کھلاڑی کے طور پر سامنے تھے — اس لئے آر ایس ایس کو ریڈیو سے ٹی وی کے لائیو پروگرام تک لے آئے اور منشا ظاہر کر دیا کہ ان کے پیچھے در اصل آر ایس ایس ہے — اور یہ حکومت آر ایس ایس کی حکومت ہے —
گجرات قتل عام کے چودہ برسوں میں ملک کے دانشور، ادیب، فنکار مودی کے اس چہرے کی شناخت کر چکے تھے — لیکن انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ پریم چند کا پنچ پرمیشور اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی منہ میں لگے خون کے ذائقہ اور انتقام کی سرحدوں سے خود کو باہر نہیں نکال سکے گا۔ اس لئے حکومت سنبھالنے کے پہلے دن سے ہی مودی حکومت نے تشدد کے سہارے ہندوستانیوں کے تحمل کا امتحان لینا شروع کر دیا— زہریلے اشتعال انگیز بیانات، مسلمانوں کو قبرستان اور پاکستان بھیجنے کی باتیں ، اقلیتوں پر ظلم، ہندو، سکھوں ، گوجر، دلت، عیسائی کو ایکدوسرے سے لڑانے کے ناپاک ارادے ایک ایک کر کے سامنے آتے گئے — قانون اور انصاف کو ہاتھ میں لے کر ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں — فسادات کے مجرم ایک ایک کر کے رہا ہوتے گئے — خون کے دھبوں کو دھونے کی مہم شروع ہوئی— بھگوا آتنک واد کو آئی ٹی اس نے خارج کیا اور اسلامی دہشت گردی کو ہوا دی گئی—یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ دانشور، ادیب بوکھلا گئے — اور جب دادری کا حادثہ سامنے آیا تو آنکھیں کھل گئیں کہ یہ لوگ اب ہمارے گھروں میں جھانکنے لگے ہیں — ہمیں کیا پہننا ہے ، کیسے رہنا ہے ، اب اس کا فیصلہ آر ایس ایس کرے گی— اور عدم تحمل کے انہی حالات نے ملک کے دانشوروں کو بے چین کر دیا— اور ایک کے بعد ایک سرکاری انعام و اعزاز کی واپسی شروع ہو گئی—
موجودہ لہو لہو فضا میں ہم سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے — اکیسویں صدی کی طرف چھلانگ لگاتی دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے ، جہاں مذہب کے نام پر اقلیتوں کا خون بہہ رہا ہے — قتل عام، نا انصافی کی اس فضا میں سمبت پاترا، سدھا نشوتر ویدی، راکیش سنہا جیسوں کے چہرے بھی ہمیں خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اور بھیانک موت جب معصومیت سے سوال کرتی ہے کہ واقعی اتنا حبس، اتنی گھٹن ہے؟ تو اندر سنسنی پیدا ہو جاتی ہے کہ کیا اس سے بھی برے دن آنے باقی ہیں؟ اگر یہ اشتعال انگیز بیانات، قتل و غارت کا روز کا سلسلہ کم نہیں تو مودی اور مودی نواز آخر ہمیں کہاں لے جانے والے ہیں؟ خوشی اس بات کی ہے کہ ادیبوں کے ساتھ ساتھ اب مودی حکومت کی مخالفت اور احتجاج میں تاریخ داں ، سیاستداں سے لے کر شاہ رخ خان اور استاد امجد علی جیسے بڑے نام بھی شامل ہو رہے ہیں —
ہم سیاست نہیں جانتے — ہم ادیب کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں — موت کا خونی تماشہ اور نفرت انگیز بیانات سننے کو بھی ہم تیار نہیں — اور اس لئے ہمارے پاس گجرات قتل عام میں ملوث سرکار کے لئے بس احتجاج ہی ایک راستہ رہ جاتا ہے — اور یہ احتجاج ہم اُس وقت تک کرتے رہیں گے ، جب تک اس حکومت کے پاؤں سے زمین غائب نہیں ہو جاتی—
٭٭٭
درمیاں ہو گا ہمارے فاصلہ، سوچا نہ تھا!—ڈاکٹر مشتاق احمد
یہ اندیشہ تو اسی وقت لاحق ہو گیا تھا کہ جب نریندر مودی وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوں گے تو سنگھ پریوار کے تمام تر خفیہ ایجنڈوں کو عملی صورت دی جائے گی۔ اس لئے جس دن مرکز میں بھاجپا کی حکومت قائم ہوئی اسی دن سے ذرائع ابلاغ میں یہ اشاریہ ظاہر ہونے لگا کہ حکومت کی باگ ڈور بھاجپا کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ سنگھ سنچالک کے ہاتھوں میں ہے اور اس کا ثبوت بھی ملا کہ حال ہی میں نریندر مودی کابینہ کے ایک درجن وزراء اور خود وزیر اعظم نریندر مودی نے سنگھ سنچالک موہن بھاگوت کے دربار میں حاضری دی اور ان سے یہ توصیف نامہ حاصل کیا کہ ان کی حکومت ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ ہمارا ملک ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں کوئی بھی حکومت صرف اور صرف آئین کی پاسدار ہوتی ہے۔ وہ کسی فرد واحد یا کسی تنظیم کی جوابدہ نہیں ہوتی۔ لیکن نریندر مودی حکومت نے اپنی ڈیڑھ سالہ کارکردگی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک کے آئین یا پھر جمہوری تقاضوں کی پاسدار نہیں ہے۔ اگر وہ ایک جمہوری حکومت کی طرح کام کرتی تو حالیہ برسوں میں جس طرح ملک کی فضا مسموم ہوئی ہے ، وہ نہیں ہو سکتی تھی۔ آج ملک میں جس طرح عدم رواداری اور نا انصافی کا ماحول بن گیا ہے وہ نہ صرف ہندستانی عوام کے لئے باعث فکر ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر یہ تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ ہندستان میں حقوق انسان کی پامالی ہو رہی ہے۔ ایک خاص طبقے کو جس طرح ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے ، اس کی اجازت نہ ہمارا آئین دیتا ہے اور نہ ایک مہذب سماج۔ لیکن جب کسیسازش کے تحت اور حکومت کی سرپرستی میں اس طرح کے کارنامے انجام پاتے ہیں تو پھر کسی بھی ملک یا خطے میں اسی طرح کا غیریقینی اور خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ایک جمہوری نظام حکومت میں صدر جمہوریہ کی فکر مندی بھی اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ ملک کی فضا کس قدر مکدر بن گئی ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی طبقہ ہو، ہر طبقے میں ایک گھٹن سی ہے۔ دادری میں جو کچھ ہوا، وہ اچانک نہیں ہوا تھا، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس طرح کا غیر انسانی رویہ اپنایا گیا اور گمرہی پھیلا کر ایک معصوم کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔ محمد اخلاق کے قتل کے بعد جس طرح ایک ممبر پارلیامنٹ مہیش شرما اور ایک ممبر اسمبلی سنگیت سوم کے ذریعہ اعلانیہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا، اس کی اجازت ہمارا آئین نہیں دیتا۔ مگر اس طرح کے غیر آئینی عمل پر ہمارے وزیر اعظم خاموش رہے اور جب آئینی سربراہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے فکر مندی ظاہر کی تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مجبوراً اپنی ساکھ بچانے کے لئے صدر جمہوریہ کے بیان کا خیر مقدم کیا۔ مگر سچائی یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے تو کبھی بھی دادری کا واقعہ پیش نہیں آتا۔ کیونکہ بھاجپا کے نصف درجن وزراء اور ممبر پارلیامنٹ گذشتہ ایک سال سے جس طرح کی زہر افشانی کر رہے تھے ، اگر اس کی بروقت سرزنش کی جاتی تو شاید نہ دادری واقعہ ہوتا اور نہ ہماچل پردیش اور پھر جموں کے ادھم پور میں جو کچھ ہوا، وہ ہوتا۔ اتنا ہی نہیں ممبئی میں سدھیر کلکرنی کو سیاہی پوتنے اور پھر بنارس میں وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کے ذریعہ اعلانیہ طور پر اس طرح کی واردات حمایت کیا جانا، ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ پیدا کرتا ہے۔ مگر اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی وزیر اعظم نریندر مودی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے ایک خاص پروگرام میں سیتا رام یچوری نے یہ بھی خلاصہ کیا ہے کہ جس وقت بھاجپا کے ممبران پارلیامنٹ اور کچھ وزراء ایک خاص طبقے کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے اس وقت انہوں نے پارلیامنٹ میں بھی وزیر اعظم سے اس مسئلے پر توجہ دینے کی گذارش کی تھی اور تحریری عرضداشت بھی دی تھی۔ بہ قول یچوری وزیر اعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی تھیکہ کسی کو بھی غیر آئینی اقدام اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن انہوں نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ بلا شبہ اگر بر وقت وزیر اعظم کی جانب سے ان بڑبولے ممبر پارلیامنٹ اور وزراء کی سرزنش کی جاتی تو ملک میں یہ پیغام جاتا کہ وزیر اعظم آئین کے پاسدار ہیں۔ واضح ہو کہ گذشتہ ایک سال سے مودی کابینہ کے وزیر سادھوی نرنجنا، گری راج سنگھ اور یو گی ادتیہ ناتھ جیسے ممبر پارلیامنٹ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں۔ کبھی لَو جہاد، تو کبھی کثرت آبادی اور کبھی گائے کشی جیسے حساس موضوعات کو ہوا دیتے رہے ہیں اور وزیر اعظم ان سب کے تماشائی بنے رہے۔ اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے اور ملک کی تکثیریت پر سوال کھڑا ہو گیا ہے تو ملک میں چہار طرف بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ اب تک ہزاروں دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ سو سے زائد ادباء اور شعراء نے اپنے انعامات واپس کئے ہیں تو درجنوں فلم سازوں نے بھی اپنے ایوارڈ واپس کر ملک کی سالمیت کے تئیں اپنی فکر مندی ظاہر کی ہے۔ تاجر گھرانوں نے بھی ملک میں بڑھ رہی عدم رواداری اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ حال ہی میں ملک کی راجدھانی دہلی میں مبینہ ہندو سینا کی شہہ پر دہلی پولیس نے جس طرح کیرالہ بھون پر چھاپہ ماری کی۔ اس چھاپہ ماری سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اب پولس عملہ بھی کس کے اشارے پر کام کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ملک میں گائے کشی پر پابندی ہے لیکن بیل، بھینس اور بچھڑے کا گوشت نہ صرف مسلمان کھاتے ہیں بلکہ دیگر مذاہب کے افراد بھی اپنی پسند کی غذا کے طور پر لیتے ہیں۔ ملک کے بیشتر حصوں میں بیف ڈش مقبول ہے۔ مگر سنگھ پریوار صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اب انفوسس جیسے مقبول صنعتی ادارہ کے بانی نارائن مورتی اور آر بی آئی کے گورنر رگھورام راجن نے بھی ملک میں فرقہ پرستی اور عدم رواداری کی چنگاری کے شعلہ کا روپ اختیار کرنے پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے اور حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ملک میں اس طرح کی فضا قائم رہتی ہے تو نہ صرف ملک کی ترقی کی رفتار کم ہو گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہماری ساکھ گرے گی۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر سابق وزیر و معمر صحافی ارون شوری نے بھی حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ نریندر مودی حکومت بے سمت ہو گئی ہے اور وہ ہندستان کے سب سے کمزور پی ایم ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ بھی آر ایس ایس کی طرف ہے جو اپنے رموٹ سے حکومت چلا رہی ہے۔ چند دنوں قبل بھاجپا کے بزرگ لیڈر لال کرشن اڈوانی بھی یہ تشویش ظاہر کر چکے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اب ہمارے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے بھی ایک بار پھر گذشتہ کل دہلی ہائی کورٹ کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فکر مندی ظاہر کی ہے کہ ملک میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور اس کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے اور ہمارے آئین میں ہر شہری کو بنیادی حقوق دئے گئے ہیں جس میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کی گئی ہے۔ مگر فرد واحد کی آزادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی فرائض و ذمہ داری کا احساس بھی دلایا گیا ہے کہ کسی کے انفرادی عمل سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر تحفظ آئین کی ذمہ داری ہے وہ خود ہی آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ نتیجتاً آج ملک میں اس طرح کی غیریقینی اور خوف و ہراس کی فضا قائم ہو گئی ہے ، جس کا سد باب ہونا ملک کی سالمیت کے لئے لازمی ہے۔ ملک کے حالیہ تناظر میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
؎ درمیاں ہو گا ہمارے فاصلہ، سوچا نہ تھا!
ٹوٹ جائے گا نفس کا سلسلہ، سوچا نہ تھا
٭٭٭
ملک کا بدلتا منظرنامہ اور احتجاج کی بڑھتی بازگشت —ڈاکٹر سید احمد قادری
مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار ہوتے ہی پورے ملک میں جس طرح سے مذہبی منافرت، فرقہ واریت، عدم رواداری اور جمہوریت کی پامالی دیکھی گئی۔ نازیبا الفاظ کے ساتھ ساتھ زہریلے بیانات سے ملک کے پرامن اور خوشگوار ماحول کو جس طرح آلودہ کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ معصوم لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ایسی تمام کوششوں پر آرایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارتی اور ان کی حکومت کی خاموشی کو رضا مندی اور سر پرستی تصور کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے حوصلے بڑھتے چلے گئے۔ اس کے بعد تو پورے ملک میں ایسے ایسے ناخوشگوار اور غیر آئینی و غیر انسانی سانحات، واقعات اور حادثات رونما ہونے لگے کہ جنھیں دیکھ کر مساوات اور رواداری پر یقین رکھنے والے لوگ انگشت بدنداں ہیں۔ ہزاروں سال سے قائم ملک کی گنگا جمنی تہذیب، آپسی اتحاد واتفاق، اخوت، یکجہتی کی شاندار اور بے مثال وراثت کو ختم کرنے کی منصوبہ بند اور منظم سازشیں طشت از بام ہونے لگیں۔ کبھی پونا میں راہ چلتے بے گناہ مسلم نوجوان کو گھیر کر ڈھیر کر دیا گیا۔ کبھی پروفیسر کلبرگی کو ان کے سیکولر نظریات کی سزا دی گئی، کبھی فرقہ پرستی کی مخالفت پر نریندر دابھولکر اور گووند پنسارے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور کبھی اخلاق کو اس کی بے گناہی کی سزا یہ دی گئی کہ اس کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی بچوں کے سامنے ہیدوڑا دوڑا کر حیوانیت کو بھی شرمندہ کر دینے والے عمل سے ہلاک کر دیا گیا اور کبھی ہریانہ کے نیند میں ڈوبے دو دلت بچوں کو جلا کر مار ڈالا گیا۔ کبھی کسی کے چہرے پر کالک پوت دی گئی اور کبھی کسی کو سر عام گالیوں سے نوازہ گیا۔ کھانے پر پہرے بٹھائے جانے لگے ، اظہار آزادی سلب کرنے کی کوششیں ہونے لگیں ، مذہبی آزادی پر قفل ڈالا جانے لگا، عشق و محبت پر بھی پابندی عائد کی جانے لگی۔ دن بدن بڑھتے ایسے ناگفتہ بہہ حالات سے ملک کے اس طبقہ کا فکر مند ہونا لازمی تھا، جو ادب، آرٹ، تاریخ اور سائنس کے حوالے سے قوم و ملک اور سماج کی فلاح و بہبود کی مثبت سوچ اور فکر رکھتا ہے۔ ملک کی ایسی بگڑتی سنگین صورت حال، جب ایسے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی، تب ان لوگوں نے حکومت وقت کو بہت دکھی من سے متنبہ کرنے کے لئے احتجاج کا راستہ اپنایا۔ لیکن مصنفین کے احتجاج پر سنجیدگی سے فکر و عمل کرنے کی بجائے ان کے ماضی اور حال پر ہی حکومت کے لوگوں نے سوالیہ نشان لگانا شروع کر دیا، تب ان مصنفین کو ذلیل و خوار کئے جانے اور جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ہو رہے احتجاج میں ہر مکتبۂ فکر کے فنکار، قلمکار، فلم ساز، تاریخ داں ، سائنس داں ، سبھی شامل ہوتے چلے گئے۔ ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملانے لگے اور ان کی بازگشت گونجنے لگی کہ بد امنی، فرقہ پرستی اور حیوانیت کے ننگا ناچ پر ملک کے لوگ خاموش نہیں رہیں گے۔
لیکن ایسے بلند پایۂ فنکاروں ، قد آور قلمکاروں کے احتجاج کا حکومت وقت پر کوئی اثر نہیں ہو ا۔ ملک میں تیزی سے پھیل رہے انتشار اور بد امنی پر صدر مملکت ہند کئی بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ حزب اختلاف کے لوگ تو مسلسل تنقید کر ہی رہے ہیں۔ لیکن وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے مدلل جواب دینے کی بجائے بڑی تعداد میں اعزازات واپس کئے جانے والوں سے ہی یہ سوال کر رہے ہیں کہ ملک میں کسی بھی حادثہ کے لئے وزیر اعظم کو ہی نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔؟ اب انھیں کون بتائے کہ وزیر اعظم پورے ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کا ایک اشارہ پورے ملک کے لئے اہمیت رکھتا ہے ، اور پھر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی تو ملک کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں۔ پھر وہ ملک کے اتنے بڑے بڑے مصنفین، فنکاروں ، قلمکاروں ، تاریخ دانوں اور سائنس دانوں کے ذریعہ ملک میں تیزی سے پاؤں پسار رہی فسطائیت پر اپنی بے چینی، بے قراری اور نا قابل برداشت حالت میں اٹھائے گئے احتجاج میں ، ایوارڈ واپسی کے سخت قدم پر خاموش کیوں ہیں۔ اپنی چپّی توڑتے کیوں نہیں ہیں؟ پچھلی حکومت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کی بعض ناپسندیدہ واقعات پر خاموشی پر خود موجودہ وزیر اعظم نے ’’مونی بابا‘‘ (خاموش بابا) کا نام دیا تھا۔ پھر وہ بذات خود ملک کے ایسے نازک حالت میں ’’مونی بابا ‘‘ کیوں بن گئے ہیں؟یہ ہمیشہ ملک کے سوا سؤ کروڑ عوام کی نمائندگی کی باتیں کرتے ہیں۔ ’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘ کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہیں۔ پھر وہ نینا سہگل سے لے کر خلیل مامون، منور رانا وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان ہی کے پارلیامانی حلقہ بنارس کے مشہور ہندی ناول نگار پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ کی احتجاج میں واپس کئے جانے نیز راجستھانی شاعر نند بھاردواج، انگریزی ادب کے شاعر کیکی این دارووالا، اشوک واجپئی، ادئے پرکاش، سارا جوزف وغیرہ جیسی سرکردہ ہستیوں سمیت پچاسوں مختلف زبانوں کے مصنفین اور دانشوروں ، فلموں سے تعلق رکھنے والے کار دیواکر بنرجی، پریش کامدار، لیپیکا سنگھ، نسٹھا جین، آنند پٹوردھن، کرتی نکھوا، ہرش کلکرنی اور ہری نائر جیسے درجنوں معروف فلم کاروں ، پروفیسر رومیلا تھاپڑ، عرفان حبیب، ڈی این جھا، مردلا بھٹا چاریہ سمیت پچاس سے زائد ملک کے جانے مانے تاریخ دانوں ، مشہور سائنس داں پدم شری پشپ متر بھارگو کے ذریعہ احتجا جاً اپنا پدم بھوشن ایوارڈ لوٹائے جانے کے اعلان، اشوک سین اور پدم شری ڈی بالا سبرامنیم سمیت ایک سؤ سات سائنسدانوں کے ذریعہ صدر مملکت ہند کو خط لکھ کر ملک کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کئے جانے کے باوجود خاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔؟اب تو احتجاج میں فوجی افسر بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ میجر جنرل ستبیرسنگھ نے بھی اپنا فوجی تمغہ واپس کر اپنا احتجاج درج کرا دیا ہے۔ شبانہ اعظمی، شرمیلا ٹیگور اور شاہ رخ جیسے فلم اسٹار بھی ایوارڈ واپس کرنے والوں کی حمایت میں سامنے کھل کر آ گئے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ سرود نواز امجد علی خاں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ایوارڈ واپس کرنے ادیب و فنکار پاگل نہیں ہیں ، وہ بہت دکھی ہیں اور اپنے اعزاز لوٹا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایوارڈ واپسی کے سلسلے میں اردو کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتگان مثلاً گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، سلام بن رزاق، جاوید اختر، ندا فاضلی، ش ک نظام، جابرحسین، عبدالصمد وغیرہ کی خاموشی سے بڑے سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ ویسے اس احتجاجی مہم کو رحمان عباس، ابرار مجیب، مشرف عالم ذوقی اور تبسم فاطمہ وغیرہ جیسے اردو کے فنکاروں نے آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ قلمکاروں کی بین الاقوامی تنظیمPEN نے کناڈا میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں نہ صرف بھارت کی موجودہ صورت حال کی سنگینی سے متاثر ہو کر احتجاج میں قلم کاروں اور فنکاروں کے ایوارڈ واپس کئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ باضابطہ ایک تجویز بھی پاس کر، حکومت ہند سے اس سلسلے میں مناسبا قدام پر زور دیا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری بھی اس ضمن میں بھارتی حکومت کو توجہ دینے کی درخواست کی ہے۔ بھارت کی مختلف زبانوں کے مصنفین نے شاید پہلی بار دہلی میں ایک میٹنگ کر حکومت کے رویۂ پر اپنی ناراضگی اور احتجاج درج کرایا ہے۔ احتجاج کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ سو نیا گاندھی نے بھی کافی بڑی تعداد میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ راشٹر پتی بھون جا کر صدر مملکت کو ملک میں بڑھتی عدم رواداری اور فرقہ پرستی کے خلاف ایک عرض داشت دے کر چکی ہیں۔ ملک کے لوگوں کا غم و غصہ اور احتجاج نہ صرف ملک بلکہ ملک سے باہر بھی بینالاقوامی سطح کے اخبارات اور دیگر میڈیا میں خاص موضوع بنا ہوا ہے۔ اس لئے کہ بھارت میں اتنے بڑے پیمانے پر اس طرح کا شدید احتجاج آزادی کے بعد پہلی بار سامنے آیا ہے۔یہ احتجاج اس وقت کی یاد دلا رہا ہے جب جرمنی میں ہٹلر کی سرپرستی میں فسطائی طاقت کا بول بالا تھا، یورپ میں کئی طرح کا بحران جنم لے چکا تھا۔ ادیبوں اور دانشوروں کی ناقدری بڑھ گئی تھی، اظہار آزادی پر پابندی لگائی جا رہی تھی، ایسے حالات میں پیرس میں ماہ جولائی 1935 ء میں ٹامس مان، رومن رولان، اور آند مالرو وغیرہ نے پوری دنیا کے مصنفین، شعرأ، اور دانشوروں کی ایک ہنگامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس میں ہمارے ملک کی نمائندگی اردو کے مشہور ترقی پسند ادیب، ناول نگار سجاد ظہیر اور انگریزی ادب کے معروف ناول نگار ملک راج آنند نے کی تھی۔ اس کانفرنس میں فسطائت کے خلاف کئی اہم فیصلے لئے گئے تھے۔ جن کے دیر پا اثرات مرتب ہوئے تھے۔
ایسی تمام صورت حال سے بے نیاز ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’ احتجاج کرنے والے لوگ در اصل وزیر اعظم اور بھاجپا کے خلاف منصوبہ بند سازش رچ رہے ہیں ‘‘۔ وزیر خارجہ کی اس طرح حقائق سے چشم پوشی قابل دید ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ پانچ سال تک اٹل بہاری واجپئی کے زیر قیادت بھاجپا حکومت کے دوران جب کبھی ایساکوئی سنگین معاملہ سامنے آیا، اس وقت بھی احتجاج کیا گیا تھا۔ اسی دور میں جب وزیر تعلیم کی حیثیت سے مرلی منوہر جوشی نے نصاب تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی تھی، تو اس وقت سخت مخالفت ہوئی تھی، احتجاج میں لوگ سڑکوں پر بھی اترے تھے۔ اسی زمانے میں جب اسکولوں میں ’ وندے ماترم ‘ کو ضروری قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی، اس وقت بھی سخت احتجاج ہوا تھا اور جب گجرات میں ہزاروں معصوم اور بے گناہوں کو بڑی بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا، اس وقت بھی شدید احتجاج ہوا تھا۔ ان تمام غیر جمہوری عمل اور غیر انسانی سانحہ پر وزیر اعظم وقت اٹل بہاری واجپئی نے سخت نوٹس لی تھی، بلکہ گجرات فساد کے بعد انھوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے ’ راج دھرم‘ نبھانے کی بات کی تھی۔ لیکن انھوں نے نہ صرف پارٹی کے سینئیر رہنما ٔ اور ملک کے سربراہ تک کی اس گزارش کو ٹھکرا دیا تھا۔
حکومت کے کچھ لوگ اس بات پر بھی معترض ہیں کہ ملک میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی، اس وقت مصنفین نے کیوں نہیں احتجاج کیا تھا اور اپنے ایوارڈ واپس کئے تھے۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لئے میں یہ بتا دوں کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف 1975 میں بہار سے تعلق رکھنے والے ہندی کے مشہور ناول نگار پھنیشور ناتھ رینو نے احتجاج میں پدم شری ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ 1984کے سکھ دنگے کے خلاف احتجاجاً معروف ادیب اور صحافی خشونت سنگھ نے اپنا پدم بھوشن ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ 1992 اور2005 میں سرکردہ تاریخ داں رومیلا تھاپر بھی پدم بھوشن احتجاج میں لینے سے انکار کر چکی ہیں۔ 2002 میں کتھک ڈانسر ستارا دیوی نے بھی پدم بھوشن نہیں لیا تھا۔ مشہور گلو کارہ لتا منگیشکر نے بھی 1958 میں اپنے وقت کا با وقار فلم فیئر ایوارڈ نہیں لیا تھا۔ مشہور فلم اداکار سلمان خاں کے والد سلیم خاں بھی پدم شری کا ایوارڈ لوٹانے والوں میں ہیں۔ ماضی کے اوراق پلٹے جائیں تو ایسی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔ رابند ناتھ ٹیگور بھی جلیان والا باغ میں ہوئے خونیں سانحہ کے بعد انگریزوں کی جانب سے عطا کردہ ” knight hood”کا اعزاز 1919 ء میں احتجاجاً لو ٹا چکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی ایسا کیا ہو گیا کہ سینکڑوں سائنسدانوں ، ادیبوں اور تاریخ دانوں اور سابق فوجی افسران سمیت اتنی بڑی تعداد سرکردہ اور جانے مانے لوگوں کی، احتجاج میں کیوں کھڑی ہو گئی۔ در اصل ملک کے اندر جس طرح کی فرقہ پرستی، انسانی حقوق کی پامالی، جمہوریت کی بے وقعتی، لا قانونیت، مذہبی منافرت اور کھانے ، پینے ، بولنے کی آزادی کو سلب کرنے کی جس طرح بزور طاقت کوششیں ہو رہی ہیں ، اس سے ایسے حب وطن لوگوں کی دور اندیش نگاہیں ، ملک کی سالمیت پر منڈلانے والے خطرہ کو دیکھ رہی ہیں۔ بقول معروف سائنسداں بھارگو ،مودی حکومت میں مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند عناصر کی کوششوں کو سرپرستی دینے کی میں مخالفت کر رہا ہوں ‘‘۔ ایسے با وقار اور ملک کے بے حد قیمتی لوگوں کے احساسات و جذبات کو بہت سنجیدگی سے سمجھنے اور ان کے تدارک کرنے کی ضرورت ہے ، نہ کہ ان پر تنقید اور جارحانہ حملہ کرنے کی۔ ویسے احتجاج میں ایوارڈ واپس کرنے کی پہل کرنے والی معروف مصنفہ نینا سہگل کی بات میں بڑا دم نظر آتا ہے کہ جیٹلی اور راج ناتھ سنگھ وغیرہ کے بے تکے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ عوام کے غم و غصہ اور احتجاج سے مرکزی حکومت گھبرا گئی ہے۔ ادھر گلوبل ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے بھی اپنی ایک رپورٹ بہ عنوان ’بھارت پر ایک نگاہ:امکان کی تلاش میں ‘ کے تحت یہ تنبیہ کی ہے کہ ’ بھارت میں جس طرح اقلیتوں کے معاملے میں تناؤ چل رہا ہے ، اس سے شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر مودی نے اپنی پارٹی کے لوگوں پر لگام نہیں لگایا تو نہ صرف ڈیموکریٹک بلکہ گلوبل اعتبار بھی وہ کھو دیں گے ‘۔ بہر حال توقع کی جا سکتی ہے ان سب حالات کے مد نظر مرکزی حکومت وقت رہتے اپنے اقدام پر نظر ثانی کرتے ہوئے ملک میں آپسی بھائی چارہ اور اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرتے ہوئے ملک کے آئین کو مزید شرمسار نہیں کرے گی۔
٭٭٭
عورت اور احتجاج—صالحہ صدیقی
عورت ‘‘لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسی تصویر آنکھوں کے سامنے آتی ہے ، جو خدا کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے۔ اس کی اہمیت اور مرتبہ کا زورو اثر اس بات سے صاف طور پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ خدا نے اس کے قدموں میں جنّت ڈال دی ہے۔ عورت جو نہ صرف حسین و جمیل، آرائش و زیبائش،ناز و انداز، نزاکت و نفاست سے لبریز ہے ، بلکہ صبر و قربانی،یاس و غم میں مبتلا، ظلم و زیادتی، جبر و استحصال کا شکار— ایک بے بس و لاچار عورت، اپنے حقوق کے لیے جدّو جہد کرنے والی وہ عورت جو اپنے اوپر ہونے والے ان تمام مظالم کے باوجود بھی لاڈ و شفقت، ممتا، اور بے پناہ محبت کا وہ دریا ہے جو کبھی بیٹی بن کر اپنے والدین کی خدمت گزار، تو کبھی بہن بن کر بھائی کی سچّی غمگسار جو صداقت و پاکیزگی کی نمائندہ ہے ، تو بیوی بن کر اپنے شوہر کی زندگی میں اس کی سچّی رفیق، ہم نوا اور شریک حیات بن کر ہر قدم پر اس کا ساتھ دیتی ہے ، ماں بن کر اپنی اولادوں پر ممتا لٹاتی ہے ، اور اس طرح کے نہ جانے کتنے رشتوں (نند، بھابھی، ساس، دیورانی، خالہ، وغیرہ وغیرہ)کو ایک اکیلی عورت پوری ذمّے داری اور احترام کے ساتھ نبھاتی ہے اور اپنی زندگی کے ان تمام مراحل کو طے کرتی ہے۔ عورت وہ مجسّمہ ہے کہ جس کی محبّت و اوصاف، پر اس دنیا کے بے شمار دانشور و مفکّروں ، عالم و فاضل، ادیبوں و شاعروں ، عظیم الشان قلمکاروں نے نہ صرف قلم اُٹھائی ہے بلکہ اس کی عظمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود بھی اسی ’’عورت‘‘ پر سب سے زیادہ ظلم ڈھائے گئے ، اور ہر قدم پر اس کا امتحان لیا گیا، تاریخ گواہ ہے کہ جب سے یہ دنیا خلق ہوئی ہے اور عورت کا تصّور وجود میں آیا وہ مصائب کا ہی سامنا کرتی آ رہی ہے اور ابتدا سے ہی اس کی زندگی ظلم و ستم، جبرو استحصال، زیادتیوں ، اور غم و یاس میں ڈوبی رہی ہے۔ کبھی اس کو زمین میں زندہ دفن کیا گیا، تو کبھی اس کو اگنی پریکشا دینی پڑی، تو کبھی پتی کے ساتھ چیتا میں جل کر ستی ہونا پڑا، تو کبھی اس کو ماں کی کوکھ میں ہی مار ڈالا گیا، اور جب اس سے بھی تسکین حاصل نہ ہوئی تو اسے پیدا ہوتے ہی کوڑے کرکٹ کے نذر کر اسے کتوّں اور بلیّوں کی غذا بنا دیا گیا، کبھی اس کی مرضی کے خلاف اس کی جبراً شادی کر دی گئی، حتیٰ کہ نابالغ اور کم عمر کی بچیوں کو بھی اس دلدل میں بے رحمی سے ڈھکیل دیا گیا۔ غرض کہ اس پر ہونے والے ظلموں کا سلسلہ یہی نہیں رُکا ’’عورت ‘‘ کو ابتدا سے ہی اپنے وجود کے لیے بھی جنسی و نفسیاتی استحصال کا شکار ہونا پڑا ہے۔ کبھی اس کو بچّہ پیدا کرنے کی مشین سمجھا گیا، تو کبھی دروپدی کے روپ میں اسے خاوند کا خدمت گزار ٹھہرایا گیا، تو کبھی مرد کی جنسی تسکین کے لیے اسے دیوداسی بننا پڑا، یہی نہیں مردوں نے اپنے ذہنی سکون اور وقت گزاری اور رنگین مزاجی کے لیے اس کا استحصال کرنا شروع کیا تو عورت کا ایک نیا روپ ’’ نرتکی ‘‘ بن کر سامنے آیا اور وہ مردوں کی عیاشی کا سامان بن گئی اور وہ طوائف، اور محفلوں کی شان بننے لگی۔ عورت کو ہمیشہ اس کے حقائق سے محروم رکھا گیا۔ غرض کہ اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہے ، اس کے اپنے کوئی ارمان، آرزوئیں یا خواہشیں نہیں ہیں۔ وہ محض مردوں کی جاگیر بن کر رہ گئی ہے۔ جس کے ساتھ وہ جیسا چاہے سلوک کر سکتے ہیں۔ عورت کی ان کے نظر میں کوئی اہمیت نہیں وہ ان کی نظر میں ایک ذلیل و خوار، حقیر، اور بے کار کی شئے ہے۔ عورت کے ساتھ مردوں کے وحشیانہ رویّے اور ظلم و ستم کی داستان بہت قدیم اور طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے ، جب جب انقلاب رونما ہوا مثلاً سائنسی انقلاب، صنعتی انقلاب، فرانس کا انقلاب، اور نئی ارتقائے مثلاً ڈارون کا فلسفۂ ارتقائ، علم نفسیات کا ارتقاء، کے علاوہ جب بھی مفکّروں اور دانشوروں مثلاً مارکسؔ، رُوسو، ؔ فرائڈؔ، اور ڈرکائمؔ، کے علاوہ جان اسٹارؔٹ، وغیرہ نے مل کر سائنسی، عقلی، اور دلائل کے ساتھ جھوٹی اور فرسودہ روایتوں کی حقیقت منظر عام کیں تو نہ صرف زبر دست تبدیلیاں رونما ہوئیں ، بلکہ انقلاب کی ایک نئی لہر بھی چل پڑی، ان تمام محرکات کے تحت آزادی، انصاف، مساوات، کے ساتھ ساتھ عورتوں کی پہچان، اور ان کے حقوق پر بھی غور کیا گیا۔ مرد حاوی سماج جس کے لیے بالکل تیّار نہیں تھا، کہ عورتوں کو ان کی آزادی اور وہ تمام حقائق حاصل ہو جن کے لیے وہ پیدائشی طور پرمستحق ہیں۔ اس بیداری کا سب سے اچھا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر فرد اپنے حقوق سے بخوبی واقف ہو گیا، جس کے حصول کے لیے وہ جد و جہد کرنے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کوشش نے ایک اجتماعی تحریک کی شکل اختیار کر لی،یہی بیداری عورتوں میں بھی رونما ہوئیں ، جس کی پہلی کوشش امریکہ اور برطانیہ میں منظر عام ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ یہ تحریک پورے مغربی اور مشرقی ممالک میں ’’تانیثی تحریک ‘‘کے ما تحت اپنی جڑیں پھیلانے لگی اور اپنے مطالبات کے لیے آوازیں بلند کرنے لگی۔
ان تمام مشکلات کے باوجود عورتوں نے کبھی ہار نہیں مانی بلکہ اپنی قابلیت کا لوہا منوانے میں بھی کامیاب رہی ہیں اور اپنے کارناموں سے حیرت زدہ کرتی آئی ہیں اور آج مردوں کے مدّمقابل کھڑی ہو کر ہر میدان میں مردوں سے نہ صرف سبقت حاصل کر رہی ہیں ، بلکہ اپنی کوشش اور محنت کے بل پر یہ بھی ثابت کیا کہ وہ بھی ترقی کی راہ میں گامزن ہو سکتی ہیں۔ اور اس میں جنس کا کوئی عمل دخل نہیں ، آج عورت صرف گھر کی چہار دیواری تک محدود نہیں اس نے سیاسی، سماجی، نظامی، معاشی، معاشرتی، وغیرہ ہر ایک مقام پر اپنی قابلیت کا ثبوت دیا ہے۔ آج کی عورت ہر رنگ میں نظر آتی ہے پھر چاہے وہ سیاہ کوٹ ہویا خاکی وردی، ڈاکٹر ہو یا نرس، بزنس ہو یا انجینیئر نگ، فلاسفر، ٹیچر، اعلیٰ آفیسر کے ساتھ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ سے لے کر آسمانوں تک عورتوں نے اپنی کامیابی کا پرچم بلند کیا ہے۔ ادب، صنعت، تجارت، ملازمت، تحقیق، غرض کہ ہر مقام پر اپنی قابلیت کو رونما کیا ہے اور اپنا لوہا منوایا ہے۔
مگر ان سب کے باوجود بھی عورتوں کی حالت میں بہت بڑی تبدیلی نہیں ہوئی اب گھر کے ساتھ ساتھ باہر بھی عورتوں کو ظلم و جبر کا شکار ہونا پڑ رہ ہے ، غرض کہ اس طرح ہر عہد میں عورتوں پر مظالم ہوئے ہیں مگر اس کی شکلیں ہر دور میں بدلتی رہی ہیں ، مگر مردوں کے نشانے پر عورتیں ہمیشہ رہی ہیں ، عورت چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے ، آج بھلے ہی یہ کہا جا رہا ہو کہ عورتوں کو ان کے تمام حقوق دیے گئے ہیں ، اور وہ ترقی کے مراحل کو طے کر رہی ہے لیکن ان سب کے باوجود بھی ان کے مسائل وہیں کے وہیں پڑے ہیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور ممالک کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے مثلاً آج بھی امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ۳۳فیصد عورتیں اپنے شوہر اور دوستوں کے ہاتھوں قتل کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً۸۰لاکھ لڑکیاں اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے ہی اغوا اور زنا بالجبر کا شکار ہو جا تی ہے ، اس کے علاوہ دیگر ملکوں مثلاً ینیا کی حالت یہ ہے کہ۶۶فیصد عورتیں اور اونچے طبقے کی۳۳ فی صد طوائفیں ایڈس کے مہلک مرض میں مبتلا ہیں۔ جب کہ دوسری طرف بنگلہ دیش میں زیادہ تر خواتین کی شادی۲۰برس کی عمر سے پہلے کی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شادی کے بعد انہیں جسم فروشی کے لیے باہر اسمگل کیا جاتا ہے۔ ہر سال تقریباً پانچ ہزار عورتوں کو محض اس وجہ سے طلاق دی جاتی ہے کہ ان کے شوہر دوسری شادی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کے صورت حال کا جائزہ لے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے حالات بھی بہت خوفناک اور بدتر ہیں۔یہاں کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق محض ایک سال میں ڈیڑھ لاکھ جرائم کا تعلق صرف عورتوں کے ظلم و جبر، اور تشدد سے وابستہ ہیں۔یہاں صرف ہر۳۲ منٹ میں عصمت دری کا ایک واقعہ سامنے آتا ہے ، ہر۵منٹ میں وہ سسرال، خاوند، یا خاوند کے رشتہ داروں کے ذریعے استحصال کی واردات کا شکار ہوتی ہے ، یہی نہیں ہر ۸۰منٹ میں جہیز کی وجہ سے ایک دلہن آگ کے حوالے کر دی جاتی ہے ، اور ہر ۳۵منٹ میں عورت یا لڑکی کے ساتھ چھیڑخانی کا معاملہ پیش آتا ہے۔ اس رپورٹ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی عورت محفوظ نہیں ہے۔ اس کی حالت بھی دیگر ممالک کی طرح انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔
لہٰذا اگر ہم غور کریں کہ ان تمام حالات کی وجوہات کیا ہیں؟اس میں غلطی کس کی ہے؟لوگوں کی نفسیات میں اس قدر تبدیلیاں کیوں رونما ہو رہی ہیں؟رشتوں کے معنی اب کیوں بدل گئے ہیں؟ ان کے جذبات و احساسات اور نظریات کیوں بدلتے جا رہے ہیں؟ تو شاید اس میں بہت بڑا رول تیزی سے بدلتے دور اور بدلتے وقت کے تقاضے کا بھی ہے۔ آج کا انسان جھوٹی شان و شوکت اور جلد کامیاب ہونے کی ہوڑ میں صحیح اور غلط کی تفریق کرنا بھول گیا ہے۔ اس کی بڑھتی خواہشوں اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں اس نے اپنی روحانی خوشیوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ رشتوں کی اہمیت و افادیت کو وہ بھولنے لگا ہے ، بڑھتی مصروفیات اور بڑھتے کام میں اس نے اپنی بنیادی ذمّے داریوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہیں ، آج بڑے شہروں کے حالات یہ ہیں کہ والدین کے پاس اپنی ہی اولادوں کے لیے وقت نہیں ہے اور بچّے اپنے والدین کے پیار اور دلار سے محروم ہیں۔
آج اکیسویں صدی میں شفقت و محبت، شرم و حیا، قربانی، خود غرضی، مجبوری، رشتوں وغیرہ کے معنی بدلتے جا رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب عورتوں کو جبراً طوائفوں یا محفلوں کی شان بنا دیا جاتا تھا۔ اور ان کو مردوں کی ہوس پرستی کا شکار ہونا پڑتا تھا اور چاہتے ہوئے بھی وہ عزّت کی زندگی گزار نہیں سکتی تھی۔ مگر آج کا دور کچھ اور ہے آج کے اس صارفی زمانے میں عورتیں بخوشی اپنے جنس کا سودا کر رہی ہیں ، جس کی بہت سی مثالیں عالمی منظر نامے پر دکھائی دے رہی ہیں ، جو لرزا دینے والی ہیں۔ مغربی ملکوں میں والدین اور رشتہ داروں سے دور آزادانہ طور پر زندگی گزار رہے نوجوانوں کے حالات تو اور زیادہ بدتر ہے ، کئی نوجوان لڑکیاں اپنی کالج فیس کی ادائیگی تک کے لیے بھی خود کی بولی لگا رہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی بہت سی عورتیں عصمت فروشی کا کام بخوشی کر رہی ہیں۔ اور ان پیسوں سے کچھ تو اپنی گھر کی پریشانیوں کو دور کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں استعمال کرتی ہیں تو کچھ لڑکیاں اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ بعض گھروں کے حالات تو یہ ہو چکے ہیں کہ اس کام کے لیے نہ تو ان کے شوہر اور نہ ہی اولادوں کو کوئی بھی اعتراض ہے ، بعض عورتوں کو یہ کام اپنے شوہروں کی طرف سے معاشی مدد نہ ملنے اور گھر چلانے کے لیے اس دلدل میں اُترنا پڑتا ہے۔ آج بھی عورتیں اپنے شوہروں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں ، آج بھی عورتیں خودکشی کرنے کے لیے مجبور ہیں اور غریبی، بھوک مری، لاچاری اور بے بسی کی زندگی سے تنگ آ کر اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے کے لئے مجبور ہیں۔
عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جبکہ عورتوں کو نہ صرف قانوناً بلکہ مذہب میں بھی حقوق حاصل ہیں مثلاًاسلام میں عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے ، نکاح کے لیے رضامندی، شوہر کی موت کے بعد دوسرا نکاح کرنے اور مال و جائداد میں بھی حقوق دیئے گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی عورت ان سے محروم رکھی جاتی ہے ، ایک عورت بیٹے کو جنم دیتی ہے اور وہی بیٹا جب بڑا ہو کر کسی کا بھائی، شوہر، اور باپ بنتا ہے تو وہ ظلم کرتا ہے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ جس پر وہ یہ ستم کر رہا ہے وہ بھی اسی کے وجود کا حصہ ہے اگر عورت نہ ہوتی تو وہ بھی نہ ہوتا۔ بڑھاپے میں ان کا سہارہ بننے کے بجائے اس کو بوجھ سمجھتا ہے۔ اس مرد حاوی سماج نے عورت کو لاچار و بے بس، کمزور، محتاج اور لاعلم بنا دیا ہے۔
لہٰذا عورتوں کے انھیں تمام مسائل مثلاً سماجی، سیاسی، نفسیاتی، جنسی، معاشی، معاشرتی، ذہنی، وغیرہ پر تحریکیں رونما ہو رہی ہیں۔ جس میں ایک تحریک ’’تانیثیت‘‘ کے نام سے بھی منظر عام ہو رہی ہے۔ لہٰذا ’’تانیثیت‘‘ انھیں تمام مظالم کے خلاف ایک احتجاجِ بلند ہے۔ ’’تانیثیت ‘‘ایک ایسی تحریک ہے ، جو خصوصاً عورتوں سے متعلق ہے۔یہ تحریک صدیوں سے چلی آ رہی عورتوں کی زبوں حالی کے خلاف احتجاج بلند ہے۔ لفظ ’’تانیثیت ‘‘ (Feminism)ایک جدید اصطلاح ہے۔ جو لاطینی زبان کے لفظ "Femina”سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ’’نسوانی اوصاف رکھنا‘‘ ہے۔ "Feminism”لفظ کا استعمال کب اور کیسے ہوا؟یہ ایک اختلاف کن مسئلہ ہے ، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس لفظ کا سب سے پہلا استعمال فرنچ میڈیکل ٹکسٹ میں ۱۸۷۱ میں کیا گیا۔ اس لفظ کا استعمال ابتدا ٔ میں ایسے لوگوں کے لیے کیا جاتا تھا جن میں کسی وجہ سے نسوانی اوصاف پیدا ہو جاتے تھے۔ بقول فریڈ مین کہ:
"The term "Feminist” seems to have first been used in 1871 in a French Medical text to describe a cessation in development of the sexual organs and characteristics in male patients who where perceived as thus suffering from "Feminisation” of their bodies.
ٖٖ(Feminism.2002,pg-2)
کچھ عرصے کے بعد فرانس کی ایک تخلیق کار Alexander Dumas Filsنے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے لفظ "Feminist”کا استعمال ایسی عورتوں کے لیے کیا جو بیباک اور بہادر مزاج رکھتی تھی۔ ابتدأ میں "Feminist”کا استعمال نسوانی اوصاف کے بیان کے لیے کیا گیا، لیکن کچھ عرصے کے بعد اس کے معنی میں بدلاؤ آیا اور یہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو ’’حقوق نسواں ‘‘ کے لیے جد و جہد کر رہے تھے۔ اور آہستہ آہستہ یہ ایک رجحان سے تحریک تک کا سفر طے کرنے لگی۔ پھر یہ اصطلاح ’’تانیثیت یا تانیثی تحریک ‘‘ کے نام سے فروغ پانے لگی۔ انگریزی دانشور خاتون سارہ ایم گر مکی ّ Sarah M.Grimke نے تانیثیت کی وضاحت کچھ اس انداز میں کی ہے :
"All History attests that man has subjected women to his will, used her as a means to promote his selfish gratification, to minister to his sensual pleasure, to be instrumental in promoting to his comfort, but never has he desired to fill. He has done all he Could do debase and enslave her mind and now he looks triumphantly on the ruin he has wrought, and says, the being he has thus deeply injured is his inferior.”
(Feminism: the essential historical writing Edited by Miriam Schneir "(Vintage 1 Books New York 1972) P. 38”)
’’تانیثیت ‘‘ کی کوئی مستقل تعریف نہیں ملتی، بلکہ مختلف اہل قلم نے اس کو مختلف زاویے سے پیش کرنے اور اس کی تشریح و توضیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کا بنیادی نظریہ عورت کو بہ حیثیت انسان تسلیم کروانا رہا ہے۔ عورت کو کسی ایک دائرے تک محدود نہ رکھ کر اس کو مختلف شعبوں میں عزت و احترام کے ساتھ اس کو وہ تمام حقایق دیے جائیں جس کی وہ مستحق ہے۔ اس طرح ’’ تانیثیت ‘‘کی تعریف انسائیکلوپیڈیا آف سوشیالوجی میں کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے :
"Feminism: a movement that attempts to institute social, economic,and political equality between men and women in society and end distortion in the relationship between men and women ” Gender and Religion, ”
(Encyclopedia of Sociology, VI, P- 5561)
اس تعریف سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تانیثیت ایک ایسی تحریک ہے جو مرد اور عورت کے درمیان موجود امتیازات کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
تانیثیت کی حتمی تعریف آسان نہیں کیونکہ جدید تانیثیت کے بہت سے دھارے ہیں۔ مثلاً فرانسیسی تانیثیت، امریکی تانیثیت، برطانوی تانیثیت، اور سیاہ فام تانیثیت وغیرہ۔ تانیثیت جس کا مقصد عورتوں کو ان کے حقوق دلانے اور ان کو ظلم و ستم سے نجات دلا کر ایک خوشگوار زندگیمہیا کرنے کی کوشش ہے۔ اس کامقصد مردوں کی برابری کرنا یا ان کا مقام چھیننا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک طویل تاریخ ہے۔ عورتوں پرظلم و تشدد کی۔ عورتوں کے لیے لکھنا پڑھنا، غور و فکر کرنا، یا اپنے فیصلے خود کرنا ایک نا پسندیدہ فعل سمجھاجا تا رہا ہے۔ سماج نے عورت کو بیوی کا درجہ تو دیا، لیکن اسی سماج نے ایسے حالات بھی پیدا کر دیے کہ عورت کو ’’زنِ بازاری ‘‘کا کردار بھی ادا کرنا پڑا، اور داشتہ بن کر زندگی گزارنی پڑی۔ قدیم زمانے سے ہی عورت جیسے شادی کے بعد شوہر کی جاگیر ہو جاتی ہے ، جس کی حیثیت ایک غلام کی ہوتی ہے۔ جس کا کام ہر حال میں شوہر کو خوش رکھنا اس کی فرمانبرداری اور خدمت کرنا، اور ساری زندگی اس کے بنائے اصولوں کو ماننا ہوتا ہے۔ اپنے گھر سے وداع ہو کر لڑکی اپنے ماں باپ کے لیے اتنی پرائی ہو جاتی ہے کہ اس کے ساتھ چاہے جیسا بھی سلوک سسرال والے کریں اب ان کوبولنے کا کوئی حق نہیں ، کیونکہ انہوں نے اپنی امانت سسرال والوں کوسونپ دی ہے۔ اور اب سسرال ہی اس کا سب کچھ ہے ، مائکے سے تو وہ ڈولی میں گئی مگر ارتھی اس کے سسرال میں ہی اُٹھے گی۔ اسی میں ماں باپ کی عزت مانی جاتی ہے ، اور جس لڑکی کے ساتھ ایسانہیں ہوتا وہ ماں باپ کے لیے باعث شرم ہو جاتیہے ، بھلے ہی اس لڑکی کی سسرال والے یا اس کا شوہر اس پر کتناہی ظلم و جبر کیوں نہ کرے۔ بھلے ہی اس کا شوہربد مزاج، بد اخلاق، بد شعور، کیوں نہ ہو، مگر بیوی کو اس کی تعظیم کرنا لازمی ہے۔ قدیم زمانے میں حد تو یہ تھی کہ پتی کے مر جانے پر بھی پتنی کو گنہگار مانا جاتا تھا، اور اس کی زندگی بدتر بنا دی جاتی تھی اس کوبھی شوہر کے ساتھ چتا میں جلنا پڑتا تھا، اور اگر کسی وجہ سے وہ آگ کی نزر ہونے سے بچ بھی جاتی، تو اس کی زندگی سے سارے رنگ چھین لیے جاتے ، خوبصورت لباس پہننا، سنگار کرنا، سجنا سنورنا، بال رکھنا، گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کو ہر پل یہ محسوس کرایا جا تاکہ وہ اس زمین پر بوجھ ہے جس کا اس دنیا میں اب کوئی کام نہیں۔ وہ منحوس عورت ہے جس کی وجہ سے پتی کی موت ہو گئی۔ قدیم زمانے کی ان فرسودہ روایتوں اور اس زمانے میں عورتوں کی بدتر حالت کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں :
’’شوہر مرجاتا تو عورت گویا جیتے جی مر جاتی۔ اور زندہ در گور ہو جاتی۔ وہ کبھی دوسری شادی نہ کر سکتی اس کی قسمت میں طعن و تشنیع اور ذلت و تحقیرکے سوا کچھ نہ ہوتا۔ بیوہ ہونے کے بعد اپنے متوفی شوہر کے گھر کی لونڈی اور دیوروں کی خادمہ بن کر رہنا پڑتا اکثر بیوائیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی ہو جاتیں ‘‘
لہٰذا اس اقتباس سے اس زمانے کی عورتوں کی زندگی کا بھر پور اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس زمانے میں ان کے حالات کس قدر سنجیدہ اور افسوسناک تھی۔ بیواؤں کی زندگی بھی بدتر تھی۔ ان کو دوسری شادی کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ یہ حالات تو آج بھی کہیں نہ کہیں باقی ہیں۔ شوہر کی وفات کے بعد عورت کی زندگی تھم سی جاتی ہے۔ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ تک چھین لی جاتی ہے۔
اگر ہم مغرب کے حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تانیثیت کے ابتدائی نمونے عہد قدیم کے یونانی آرٹ و ادب میں موجود ہیں۔ مثلاًShappo کی شاعری میں Aristophanesکے ڈرامے "Lysistrata”میں جہاں Acropolisکے مقدس معبد کے صدیوں سے چلے آ رہے مالی اختیارات کو عورتوں نے مردوں سے چھینلئے تھے۔ اس کے علاوہ چاسر(Chaucer)کے زمانے کے انگلستان میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں جیسے کہ خود اس کی نظم "The CanterburyTales”کی معروف کردار "Wife of Bath”کی جو اپنے پانچوں شوہروں میں سے ہر ایک پر جسمانی، ذہنی و اعصابی طور پر بھاری دکھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نشاۃ الثانیہ کے دوران بھی فرانس اور انگلینڈ میں "Catherine des Roches” جیسی کئی خواتین شعراء کے نام ادبی منظر نامے پر ابھرے جو اس دور کے مرد شعراء کے حریف بنے۔ انیسویں صدی کے انگلینڈ اور امریکہ نے اور بھی کئیخاتون ادیبوں کا عروج دیکھا جنہوں نے اس دور میں نسائی اظہار کی نمائندگی کی۔ جیسے کہ Bronte)سسٹرس(Charlotlesاس کے علاوہ Elizabeth,Barrete,Browning,George,Emil وغیرہ بیسویں صدی کی ایسی معروف خواتین میں Katherine, Gertrude,Stein,Hilda,اور Virginia Woolfوغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔
ان تمام ادوار میں عورتوں کو عموماًحاشیے پر رکھا گیا۔ جن کے اثرات تعلیم اور معاشی آزادی سے محرومی کے ساتھ ساتھ مردوں کی خاموش اطاعت گزاری، اور غلامی کرنا تھی جن کے خلاف لب کشائی کی جرأت نا قابل معانی تصور کی جا تی تھی۔ لہٰذا دور جدید میں مغرب میں خواتین کے حقوق کی سیاسی اور سماجی تحریک کے زور پکڑنے کے بعد ہی تانیثی ادب یا تانیثی تنقید وغیرہ کو صحیح معنوں میں فروغ حاصل ہوا۔ اور مغرب میں تانیثی جد و جہد کا صحیح معنوں میں آغاز اس وقت ہوا جب حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے بعض عورتوں نے انفرادی طور پرآواز بلند کی اس ضمن میں بر طانیہ کی میری وول اسٹون کریفٹ (Mary Wollstonescraft) کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے جس نے اٹھارہویں صدی کے نصف دوم میں سماجی سطح پر عورتوں اور مردوں کے درمیان نا برابری کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور حقوق نسواں کی جد و جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کا موقف تھا کہ عورتیں مردوں سے کم نہیں ہیں لیکن وہ کمتر اس لیے سمجھی جاتی ہیں کہ وہ تعلیم سے محروم ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مردوں اور عورتوں کو Rational Beingsکے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ نا برابری کو ختم کرنے کے لیے وہ ایک ایسی سماجی نظم و ضبطSocial Orderکی ضرورت کے خواہش مند تھے جو Reasonپر مبنی ہو حقوق نسواں سے متعلق اس کی مشہور کتاب”A vindication of the Rights of woman”(1792) تانیثیت پسندوں کو آج بھی فکر کی دعوت دیتی ہے۔ میری وول اسٹون کریفٹ کے بعد ہی حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے منظم طور پر جد و جہدکا آغاز ہوا، جس نے مغرب میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی، اس تحریک میں ابتدا میں عورتیں ہی پیش پیش رہیں ، لیکن بعد میں مرد بھی اس تحریک کا حصہ بنے۔ حالانکہ ’’تانیثیت‘‘کی تحریک کوئی عالمی تحریک نہیں ، جس کے اثرات ہر جگہ یکساں طور پر پائے جاتے ہوں ، بلکہ یہ الگ الگ ملکوں میں اپنے مختلف اثرات و ضرورت کے اعتبار سے فروغ پاتی رہی۔
اگر ہم اسلام اوراس سے قبل عورتوں کے حالات کا جائزہ لیں توہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، اس کی زندگی جانوروں کے مانند تھی۔ اسلام نے انہیں ان زنجیروں سے آزاد کر ایک کھلا ماحول دیا جہاں کی فضامیں انسان چین و سکون کی سانس لے سکے۔ اسلام سے قبل عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کے حالات بھی بدتر تھے۔ اسلام سے قبل عورت کی حیثیت ایک خادمہ سے زیادہ کچھ نہ تھی اسے نہ تو بولنے کی اجازت تھی، اور نہ ہی گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلنے کی، عورتیں گناہ کی سر چشمہ تصور کی جاتی تھیں۔ اس سلسلے میں یونان میں پانڈورا "Pondora”نام کی ایک خیالی عورت کا تصور تھا، اس افسانوی عورت کی وجہ سے عام عورتوں کا بھی استحصال ہوتا تھا۔ اس زمانے میں عرب ممالک کے بعض قبائل تو عورتوں کو اتنا کمتر اور گرا ہوا سمجھتے تھے کہ انھیں پیداہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کرتے تھے ، ساتویں صدی عیسوی سے قبل کے ایسے سینکڑوں واقعات ہماری نظروں میں ہیں۔ جن کا تصور کرنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اسلام نے ان تمام برائیوں کو دور کر جینے کا سلیقہ سکھایا۔ اسلام میں بیٹی کی پیدائش کو موجب خیر و برکت قرار دیا ہے۔ اس کا موقف واضح اور سخت ہے جس موضوع پر آج میڈیا میں گفتگو کی جاتی ہے اسلام نے اسے ڈیڑھ ہزار سال قبل اپنے انجام کو پہنچا دیا تھا:
’’جب سورج لپیٹ لیا جائے گا، جب ستارے بے نور ہو جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب بیانے والی اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں گے۔ اور جب دریا آگ ہو جائیں گے اور جب روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو، پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر مار دی گئی؟اور جب عملوں کے دفتر کھولے جائیں گے اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی اور جب دوزخ کی آگ بھڑکائی جائے گی اور جب بہشت قریب لائی جائے گی تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘( سورۂ تکویر،۱۔ ۱۴)
اس کے علاوہ اسلام نے عورت کو ہر قسم کی پستی اور تاریکی کے دور سے باہر نکال کر معاشرے کے اندر ایک بلند اور اعلیٰ مقام عطا کیا ساتھ ہی ساتھ اسلام نے مرد و عورت دونوں کیذمہ داریوں کا بھی تعین کر دیا۔ مثلاًعورت کا تعلق گھریلوامور سے اور مردوں کا خارجی امور میں بانٹ دیا۔ اسلام نے عورت کے ہر روپ کو عزت کا مقام دیا ہے ، کبھی اس نے عورت کو بیوی کے روپ میں تو، کبھی بہن کے روپ میں ، کبھی ماں تو کبھی بیٹی کے روپ میں الگ الگ مقامات اور فرائض سے نوازا۔ مگر ان سب میں عورت کو سب سے اعلیٰ مقام ایک ’’ماں ‘‘ کی صورت میں بخشا۔ ماں ایک ایسی مقدس ہستی ہے جس کے بارے میں حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ‘‘عورت کے لیے اس سے بہترین درجہ اور کوئی نہیں۔ مشہور قول ہے کہ’’ماں کی گود بچوں کا ابتدائی مکتب ہوتا ہے ‘‘اس قول میں با معنی باتیں پوشیدہ ہیں کہ جب تک عورت تعلیم یافتہ نہیں ہو گی تب تک وہ بچوں کی صحیح پرورش اور تربیت نہیں کر سکتی تعلیم کے متعلق حدیث شریف میں بھی کہا گیا ہے کہ ’’مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں کو تعلیم حاصل کرنا فرض ہے۔‘‘جس طرح ایمان لانے کے بعد اسلام نے نماز، روزہ، حج، و زکوٰۃ کو ادا کرنا فرض بتا یا اسی طرح اس نے تعلیم جیسی عظیم الشان نعمت کو حاصل کرنا بھی فرض قرار دیا۔
اسلام نے عورتوں کو ان کے حقایق بھی فراہم کیے ہیں۔ مثلاً اسلام نے نکاح کے سلسلے میں عورتوں کو یہاں تک حق دیا ہے کہ بلا اس کی اجازت کے کسی کو اس کا نکاح کرنے کا اختیار نہیں ، اسی کے ساتھ اسلام نے جس طرح مردوں کو نا خوشگوار حالات میں طلاق دینے کا حکم دیا ہے تو اسی طرح عورتوں کو بھی خلع لینے کی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بعض دیگر حقوق اسلام نے عورتوں کو دیے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔ لہٰذا تانیثیت اب صرف ایک مغربی اصطلاح نہیں رہی بلکہ یہ تصور اب عام ہو چکا ہے۔ ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کا کثیر اجتماع پایا جاتا ہے ’’اسلامی تانیثیت‘(Islamic Feminism)کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے۔یہاں کی پڑھی لکھی مسلم خواتین اب نہایت سنجیدگی سے اس بات کو سوچنے لگی ہے کہ انھیں سماج میں مردوں کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ عذرا بانوں نے ، جو لکھنؤکے ناری شکشا نکیتن میں اقتصادیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔ اس موضوع پر نہایت جرأت مندی سے قلم اُٹھایا ہے وہ لکھتی ہیں :
’’جنسی مساوات ایک طرح کی جنگ نہیں مردوں سے بلکہ ایک ایسی روایت کو توڑنا ہے ، جو ہمارے سماج میں برسوں سے بو دی گئی ہے۔ سماج کو چاہیے کہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور قبول کریں کہ عورت اور مرد زندگی کے ہم سفر ہیں ، اور سماج کو پہچان اور ترقی صرف مردوں سے نہیں ، بلکہ عورتوں سے بھی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ آج کی عورت نے برابری کی آواز اٹھانے کے حق کو طلب کیا ہے۔یہ برابری تعلیم، نوکری، سیاست اور جائداد وغیرہ کے لیے ہے۔یہ نعرے عورتوں کو آگے لانے کے لیے ہیں ، جو ان کی شخصیت اور خیالات میں تبدیلی لانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ‘‘
لیکن بعض قدامت پسند آج بھی تانیثیت کو ایک ’’غیر اسلامی تصور‘‘قرار دیتے ہیں۔ اور اس پر گفتگو کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ لہٰذا ’’تانیثیت ‘‘کی تحریک عورتوں کو انصاف اور حقوق دلانے اور ان کے مسائل وشخصیت کی بحالی کے لیے شروع کی گئی، جو ہر ملک میں اپنے سماجی، معاشرتی، و تہذیبی حالات کے زیر اثر مختلف جہتوں میں ہوتی رہی، اور الگ الگ صورتوں میں اس کو فروغ ملتا رہا۔ کبھی یہ قلم کے ذریعے ادب میں عیاں ہوئی، تو کبھی عملی شکل اختیار کرتی رہی، اور دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ یہ تمام کوششیں اور رجحانات مجموعی طور پر ایک تحریککی شکل اختیار کرتی گئی۔ اور یہی تحریک آج ’’تانیثیت‘‘ کے نام سے مقبول ہو رہی ہے۔ اس تحریک کے مفکروں اور علمبرداروں نے عورتوں سے متعلق مختلف جہتوں مثلاًخواتین کی تاریخی، سماجی، تہذیبی، مذہبی، سیاسی، اور معاشی، و معاشرتی، جنسی، وغیرہ پہلوؤں پر خاص توجہ کی اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اس کا تصور کثیرالمعنی ہے۔ اور جس میں متعدد رویے پوشیدہ ہیں۔ لہٰذا ’’تانیثیت ‘‘ایک نیا تصور ہے جو بیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں اپنی ایک الگ تاریخ مرتب کرتا ہے۔ کسی معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور تکمیلمیں مرد اور عورت دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے ان دونوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ ’’تانیثیت‘‘ایک عورت سے متعلق سیاسی، سماجی، تہذیبی، معاشی، وغیرہ کے ساتھ ساتھ عورت کے جسمانی اور نفسیاتی پہلوؤں کے ایک مکمل مطالعے کی بھی پیشکش ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد عورتوں کو مردوں کے مساوی سیاسی، سماجی، معاشی، اور قانونی حقوق دلانا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی کے میدان میں انھیں برابر کے مواقع فراہم کرانا ہے۔ ان میں جسمانی یا جنسی تفریق کیے بنابرابری کا سلوک کیا جائے۔ تانیثیت عام مفہوم میں صرف عورتوں ہی کے اشوز کی ذمہ دار ہے۔ اور جینڈر کے اعتبار سے نا برابری کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔
آج عورت صرف گھر کی چہار دیواری تک محدود نہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ اور رہن سہن میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی الگ پہچان اور مقام بنایا ہے۔ گھر سے لے کر باہر تک اس نے اپنیقابلیت کا لو ہا منوایا ہے۔ اس نے بہت سی قدیم اور فرسودہ روایتوں کے بندھن سے بھی خود کو باہر نکال لیا ہے۔ کافی حد تک اس کو اس کے حقوق بھی حاصل ہو گئے ہیں۔ لیکن ان سب باوجود بھی وہ آزاد نہیں۔ بلکہ اس کے استحصال کی صورت بدل گئی ہے۔ اب گھر کے ساتھ باہر بھی اس کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اس کی عصمت و عزت اب اور خطرے میں پڑ گئی، ان کا گھر تباہ و برباد ہونے لگا، بچے اپنے والدین کی محبت سے محروم ہونے لگے۔ عورتیں بازاروں کی زینت بننے لگی۔ جسٹس مولانامحمد تقی عثمانی عورت کی اس آزادی سے متفق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک عورت آزادی نہیں بلکہ ایک جدید غلامی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ فرماتے ہیں :
’’عورتوں کو جس بے دردی کے ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں گھسیٹ کر لایا گیا ہے وہ ’’آزادی نسواں ‘‘کے فراڈ کا المناک ترین پہلوہے۔ آج یورپ اور امریکہ میں جا کر دیکھئے تو دُنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد ہیں۔ ریستورانوں میں کوئی مرد ویٹر شاذو نادر ہی کہیں نظر آئے گا، ورنہ یہ خدمات تمام تر عورتیں انجام دے رہی ہیں ، ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے صاف کرنے ، ان کے بستر کی چادریں بدلنے اور ’’روم اٹنڈنٹ‘‘ کی خدمت تمام عورتوں کے سپرد ہیں۔ دوکانوں پر مال بیچنے کے لیے مرد خال خال نظر آئیں گے یہ کام بھی عورتوں ہی سے لیا جا رہا ہے۔ دفاتر کے استقبالیوں پر عام طور پر عورتیں ہی تعینات ہیں اور بیرے سے لے کر کلرک تک تمام ’’مناصب ‘‘زیادہ تر اسی صنف نازک کے حصے میں آئے ہیں جسے ’’گھر کی قید سے آزادی‘‘عطا کی گئی ہے۔ ‘‘
(آزادی نسواں کا فریب ’’فرید بک ڈپو پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی۱۹۹۹ء‘‘ص۱۶)
اردو ادب کی تاریخ اردو زبان کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے ، اور اردو نے ’’بولی‘‘ سے ’’ زبان‘‘اور ’’ زبان ‘‘سے ’’ادب‘‘ تک کا سفر طے کیا ہے۔ اس زبان کے فروغ میں سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، مذہبی،یا تہذیبی جو بھی وجوہات رہے ہو، لیکن ان تمام محرکات سے فائدہ اردو زبان کو ہی ہوا۔ یوں تو عورتوں پر بہت کچھ قدیم زمانے سے ہیلکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن عورتوں کے ان تمام مسائل و پریشانیوں اور آس پاس ہو رہے عورتوں پر ظلم اور فرسودہ و دم گھوٹنے والی روایات میں جکڑی عورت، جو نہ تو چین سے سانس لے سکتی ہے ، اور نہ اپنی خواہشوں کیتکمیل کر سکتی ہے ، ہر روز اخبارات و ٹیلی ویثرن پر ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کی نئی کہانیاں اور داستانوں نے مجھے اس موضوع پرلکھنے کا حوصلہ بخشا۔
٭٭٭
مظفر نگر اور فرقہ وارانہ فساد
جس کا ڈر تھا وہی ہوا 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے مظفر نگر جل گیا۔ سینکڑوں قیمتی جانیں خونی سیاست کی بلی چڑھ گئی۔ اس بار بھی کہانی وہی ہے صرف کہانی کے کردار تبدیل ہوئے ہیں۔ وہی انتظامیہ اور پولیس کا جانبدارا نہ کردار ایک بار پھر دیکھنے کو ملا اور پھر مسلم صدیوں پیچھے ہو گئے ، اس کے حصے کی روٹی چھن گئی اور اس کے ہاتھوں کی کتابیں جل گئیں۔ یہ فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ کیسے ہوتے ہیں؟ ان سارے سوالوں کے جواب ہمیشہ کی طرح ایک ہی ہیں۔
آزادی کے بعد سے ہی فساد ہندوستان میں بدستور جاری رہی چاہے حکومت کسی کی بھی رہی ہو۔ ان تمام فسادوں کا پیٹرن بالکل ایک جیسا رہا ہر فساد میں سرکاری مشینری کا زبردست استعمال ہوا۔ جہاں کئی فرقے کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں وہاں فرقہ وارانہ فسادات کا ہونا کوئینئی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر انتظامیہ اور پولیس چاہے تو فساد پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ہر فساد کی روک تھام کے لئے انتظامیہ اور پولیس پرانحصارہوتا ہے۔ لیکن فرقہ وارانہ فسادات کا سب سے افسوس ناک اور باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس اور انتظامیہ مکمل طور پر جانبدار ہو جاتی ہے اور کار روائی کے نام پر ایک خاص فرقے کے لوگوں پر سختی کرتی ہے۔ اس بات کیتصدیق نیشنل پولیس کمیشن کی چھٹی رپورٹ، مارچ 1981 میں بھی کی گئی جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ بہت سے فرقہ وارانہ کشیدگیکے موقعوں پر پولیس کئی بار ایک خاص فرقے کا ہی ساتھ دیتی ہے اور دوسرے فرقے کے لوگوں پر ظلم ڈھاتی ہے۔ ایسے ہی انکشافات کئی اور کمیشنوں نے بھی کیا لیکن افسوس کبھی بھی پولیس والوں کا یہ رویہ قومی فکر اورسلامتی کا موضوع نہیں بنا نہ ہی بحث کا۔ پولیس کا سب سے بد ترین چہرہ 2002 کے گجرات فساد میں دیکھنے کو ملا۔ جس میں پولیس والوں نے کھل کرفسادیوں کا ساتھ دیا۔ پولیس کے ظلم کی دل دہلانے والی داستان منظر عام پر آئی۔ گجرات کے نرودا پاٹیا میں فساد کا شکار ہونے والی ایک عورت اپنے تین ماہ کے دودھ پیتے بچے کو لے کر جب در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی اسی دوران اس نے ایک پولیس کانسٹیبل سے فرار کے لئے محفوظ راستہ پوچھا تو کانسٹیبل نہ وہی راستہ بتایا جہاں پہلے سے فسادی گھات لگا کر بیٹھے تھے بلکہ فسادیوں نے اس کے تین ماہ کے بچے کے ساتھ اسے زندہ جلا دیا۔ ( ٹائمز آف انڈیا، 20 مارچ , 2002)
کئی تفتیشی اور کمیشن کی رپورٹوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ فرقہ وارانہ فساد انتظامیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ فسادات میں انتظامیہ کی طرف سے سختی صرف ایک خاص فرقے کے خلاف ہی کیا جاتا ہے۔ اعداد و شمار گواہ ہیں کہ آدھے سے زیادہ فسادات میں مرنے والے 90 فیصد اقلیتی ہی ہوتے ہیں اس کے برعکس وہ گرفتاری، تلاشی، اور پولیس فائرنگ کے شکار بھی اقلیتی ہی ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ہوئے اب تک کے سارے بدترین فرقہ وارانہ فساد بولتی تصاویر ہیں چاہے وہ دہلی کا فساد ہو، بھاگلپور کا فساد، بمبئی کا فساد، یا پھر گجرات کا فساد۔ گجرات میں جہاں انسانیت کی ساری حدیں پار ہو گئی 2800 سے بھی زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا مگر پولیس کی گولیوں سے بھی چھلنی مسلمان ہی ہوا۔ 28 فروری، 2002 کو نرودا پاٹیا میں پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے 40 لوگ تمام مسلم تھے ( انڈین ایکسپریس، 9 اپریل ) اسی طرح پولیس کا ظلم فسادات کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ زیادہ تر گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں لال بہادر شاستری نیشنل ایڈمنسٹریٹو اکیڈمی \’ مسوری کا ایک مطالعہ بڑا دلچسپ ہے کہ میرٹھ،1982 میں ہوئے فسادات کے ایف آئی آر کو پولیس نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک میں مسلم پر حملے ہوئے اور دوسرے میںہندوؤں پر حملے ہوئے جن ایف آئی آر میںہندوؤں پر حملے ہوئے ان میں 255 لوگوں کی گرفتاری ہوئی اور جن میں مسلمانوں پر حملے ہوئے ان میں ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ایف آئی آر میں درج مرنے والے میں 7 مسلم تھے اور 2 ہندو لیکن اس کے باوجود پولیس کی کار روائی ٹھیک اس کے برعکس تھی جو پولیس کے فرقہ وارانہ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک پتھر نے جلا دیا شہر، فسادات پر ایک نظر
رانچی سے مظفرنگر تک ہر شہر صرف ایک پتھر سے جلا ہے۔ مظفرنگر میں ناگلادوڑ کی مہا پنچایت سے واپس آ رہے لوگوں پر پتھراؤہوتا ہے اور پورا شہر جل جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سن1967 میں ہندپڑھی میں اردو کے خلاف ایک جلوس پر پتھراؤ ہوتا ہے اور رانچی میں بدترین فساد برپا ہو جاتا ہے جس میں 184 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جس میں 164 مسلمان ہوتے ہیں۔ اسی طرح جمشیدپور میں رام نومی کے ایک جلوس پر مسلم اکثریت والے علاقے سے پتھراؤ ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں آگ اور خون کی ہولی شروع ہو جاتی ہے جو بدترین فساد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گودھرا میں ٹرین میں پتھراؤ ہوتا ہے اور آگ زنی ہوتی ہے جس میں 56 لوگ مارے جاتے ہیں دوسرے دن مکمل گجرات جل جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی سڑک سے پہلے ذہن میں شروع ہوتا ہے۔ فسادات کے لئے ذہن سازی اور تیاری بہت پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔ ہر فساد سے پہلے ایک پتھر درکار ہوتا ہے۔ جس سے فسادات کا آغاز کیا جا سکے ، پتھر تو ایک ڈرے ہوئے لوگوں کا رد عمل ہوتا ہے جو فسادیوں کو وجہ دیتا ہے فساد کو شروع کرنے کا تاکہ فساد کو صحیح قرار دیا جا سکے ، ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک طاقتور آدمی کمزور کو مارنے سے پہلے چاہے گا کہ کمزور پہلے اسے ایک ہاتھ مار دے تاکہ اس کی پٹائی کو درست قرار دیا جا سکے۔ ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک پتھر سے پورا شہر جل جائے چاہے وہ مظفرنگر ہو، جمشید پور، رانچی یا بھیونڈی۔ فسادات کی حقیقت آرایس ایس کے مفکر ایم ایس گوولر کی طرف سے لکھی گئی کتاب we or our nation hood define 1939 \’\’ میں ملتی ہے۔ جس میں گوولر نے صرف ہندوؤں کو ہی ہندوستانی سمجھا ہے باقی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو نہیں لیکن انھیں بھی رہنے دیا جائے مگر ان شرائط پر جیسےیہاں کے ہندو چاہیں گے۔ اس لئے فسادات کو ہتھیار بنا کر مسلمانوں کو مین اسٹریم سے الگ کیا جاتا ہے تاکہ وہ ملک کی کسی بھی پالیسی سازی کا حصہ نہ بن سکیں اس لئے گجرات فساد میں خاص کر ان مسلمانوں کو فسادات میں نشانہ بنایا گیا جو مین اسٹریم کا حصہ تھے جن میں جج سے لے کر ایم پی شامل ہیں۔ احسان جعفری اسی سازش کی بلی چڑھ گئے۔
فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا کردار
فرقہ وارانہ فساد پولیس کے لئے کسی اگنی پریکثھا سے کم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ پولیس لڑنے والی دونوں فرقے میں سے کسی ایک سے تعلق ضرور رکھتی ہے ایسے حالات میں پولیس کا اپنا فرض بغیر کسی تفریق اور تعصب کے نبھانا کسی اگنی پریکثھا سے کم نہیں ہے۔ کشیدگی کے دوران امن قائم کرنا مکمل طور پر پولیس پر ہی انحصار ہوتا ہے۔ مشہور آئی۔ پی۔ ایس افسر ویبھوتی نارائن رائے کے مطابق اگر پولیس چاہے تو کوئی بھی فساد 24 گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ فسادات کا نہ رکنا پولیس کے جانبدار ہونے کی دلیل ہے۔ پولیس اسی سماج کا حصہ ہے جس معاشرے کو فرقہ واریت کا وائرس چاٹ چکا ہے۔ خاکی پہن کر بھی وہ پولیس والے نہ ہو کر صرف ایک مخصوص فرقہ کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے دردناک مثال ہاشم پور کا فساد ہے جس میں پی۔ اے۔ سی کے جوانوں نے 40 بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کو قتل کر دیا اور ان لاشوں کو غازی آباد کے قریب نہر میں بہا دیا۔ ویبھوتی نارائن اس وقت غازی آباد کے ایس پی تھے انہوں نے جب اس پورے معاملے کی تفتیش کی اور اس غیر انسانی کام کے پیچھے کی ذہنیت کو جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ خاکی پہن کر بھی وہ پولیس اہلکار نہ تھے بلکہ ایک کمیونٹی خاص کے ہو کر رہ گئے ، مسلمانوں کو دشمن سمجھنا ان کے ذہن میں پیوست تھا جب انہوں نے مسلمانوں کیہندوؤں پر کی جا رہی زیادتی کی جھوٹی افواہ سنی تو اسے فوری طور پر درست مان لیا اور 40 معصوم مسلمانوں کے قتل اسی ذہنیت کا رد عمل تھا۔ یہی کہانی بھاگلپور کے لویا گاؤں میں دہرائی گئی جب پولیس اور فسادیوں کی ملی بھگت سے 100 لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہی کہانی بمبئی میں ، گجرات میں اور اب مظفر نگر میں دہرائی گئی جہاں فساد سے متاثر بھی ایک خاص مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ہوا اور پولیس سے سزابھی انہی کو ملی۔ اس کی سب سے بدتریناور دل دہلا دینے والی مثال گجرات، 2002 کا فساد ہے جہاں پولیس نے فسادیوں کو مارنے اور لوٹنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ گجرات میں 2800 سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پولیس کے ظلم کا بھی شکار بھی یہی بیچارے ہوئے۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پولیس فائرنگ میں ہلاک 184 لوگوں میں 104 مسلم تھے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ جن مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے پولیس کی گولیاں بھی انہیں کے مقدر کا حصہ بنی چاہے وہ بمبئی ہو یا گجرات۔
پولیس کی ایک طرفہ کار روائی
پولیس کا فسادات میں کار روائی مکمل طور پر جانبدار رہا ہے۔ فسادات کے دوران سختی ہمیشہ ایک طرفہ رہی ہے جس کی داستان خود اعداد و شمار بیان کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تلاشی، گرفتاری، فائرنگ، ہمیشہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ آدھے سے زیادہ فسادات میں 90 فیصد مرنے والے مسلمان ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس پولیس گرفتار بھی انہیں ہی کرتی ہیں۔ بھیونڈی میں پولیس فائرنگ میں 9 مسلمان مارے گئے ، فیروزآباد میں 6 ہلاک ہو گئے ، علی گڑھ میں 7، میرٹھ میں 6 اور نرودا پاٹیا میں 40 ہلاک ہوئے ان تمام فسادات میں مسلمانوں کا ہی قتل عام ہوا لیکن پولیس کا یہ ظالمانہ چہرہ تو دیکھو کہ ان کی فائرنگ میں صرف مسلمان ہی مرے ایک بھی ہندو نہیں۔ اسی طرح پولیس گرفتاریوں میں بھی تعصب کرتی ہیں بھیونڈی اور میرٹھ کے فسادات میں جہاں مسلمانوں کا ہی قتل عام ہوا وہاں گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوئی کل گرفتار لوگوں میں 164 ہندو اور 1290 مسلمان تھے اسی طرح کی زیادتی بمبئی میں اور گجرات میں دیکھنے کو ملی۔
فسادات میں خاکی اور کھادی کا اتحاد
تمام فسادات کے مطالعہ سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ ہر فساد خاکی اور کھادی کے اتحاد کا ہی نتیجہ ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک جتنے بھی فسادات ہوئے ان میں سیاسی مفاد موجود رہے چاہے وہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے فسادات یا گجرات کے فسادات اور ہر بار پولیس والوں کے ساتھ سیاست داں بھی مجرم پائے گئے۔ بمبئی کے فساد میں بال ٹھاکرے کی شیوسینا کو اور پولیس افسر آر ڈی تیاگی کو مجرم پایا گیا۔ وہیں گجرات کے فساد میں حکمراں جماعت کے بڑے لیڈر ان ملوث پائے گئے۔ گجرات میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام مسلم آئی۔ پی۔ ایس افسر کو متحرکعہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ آئی۔ پی۔ ایسافسر سنجیو بھٹ کی طرف سے عدالت میں دیئے گئے حلف نامے میں مودی نے گودھرا سانحہ کے بعد ریاست کے اعلی پولیس افسر کے ساتھ میٹنگ میں تمام پولیس افسران کو فسادات کے دوران کوئی کار روائی نہ کرنے کا اور ہندوؤں کو اپنے غصے کے اظہار کی کھلی چھوٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ جن افسروں نے فسادات کو روکنے کی ذرا سی بھی کوشش کی انہیں سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔
فسادات میں ملوث پولیس افسران پر کار روائی
یہ بات مکمل طور پر صاف ہو گئی ہے کہ ہر فساد پولیس کے تعصب اور غیر ذ مے داری کا ہی نتیجہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس وہ پولیس افسر جو فسادات میں ملوث پائے جاتے ہیں ان پر کبھی کوئی کار روائی نہیں ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں خونی فساد بدستور جاری ہے۔ اب تک جس سب سے بڑے پولیس افسر کو سزا دی گئی ہے۔ وہ ایک سب اسنپیکٹر ہے جسے بھاگلپور فساد میں مبینہ کردار کے لئے سزا دی گئی۔ لیکن ہر فساد میں سیاستدانوں کے ساتھ پولیس بھی مظلوموں کے خون میں برابر کی شریک رہی۔ 1992 کے بمبئی فساد میں آر ڈی تیاگی نے 9 بے گناہ مسلمانوں کا قتل کر دیا۔ جس کی نشاندہی شری کرشن کمیشن نے بھی کی لیکن اس کے باوجود وہ عہدے پر عہدے پاتا گیا اور جوائنٹ کمیشنر کے عہدے تک پہنچ گیا الٹا اسے شیوسینا نے پارلیمانی انتخابات کا ٹکٹ بھی دے دیا۔ اسی طرح میرٹھ میں ہاشم پور میں پی۔ اے۔ سی کے جوانوں نے 40 بے گناہ مسلمانوں کا قتل کر کے ان لاشوں کو نہر میں پھینک دیا مگر آج تک اس پورے معاملے میں عینی شاہد ہونے کے باوجود بھی کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی۔ سب سے افسوسناک سچ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث پولیس افسران پر کار روائی کرنے میں سیکولر پارٹیوں میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یو پی، بہار، مہاراشٹر میں بھی کسی سیکولر پارٹیوں نے ملزم پولیس افسروں پر کبھی کوئی کار روائی نہیں کی معصوموں کو انصاف دلانے اور مجرموں کو سزا دینے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ انہوں نے کبھی بھی کسی بھی کمیشن کی سفارشات پر عمل نہیں کیا بلکہ اسے ٹھنڈے بستے میں ڈالا اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا۔
پولیس کو بہتر بنانے اور اقلیتوں کی نمائندگی کی ضرورت
فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کی طرف سے کی گئی کار روائی ان کے جانبدار ہونے کی دلیل ہے جس کی شہادت خود ان کی طرف سے دیئے گے اعداد شمار ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی یہ کار روائی سیاست سے بھی متاثر رہتی ہے۔ لہذا پولیس کو بہتر بنانے کیضرورت ہے جس کی وکالت کئی کمیشنوں اور بڑے پولیس افسران نے بھی کی ہے۔ لیکن ہندوستان میں ابھی تک اس سمت میں کوئی مثبت پہل نہیں کیا گیا ہے۔ کئی ممالک کی پولیس نے اس حالات سے نمٹنے کے لئے مناسب قدم اٹھائیں ہیں جن میں برطانیہ اور امریکہ قابل ذکر ہیں جہاں پولیس فورس میں اقلیتوں کی نمائندگی کو بڑھایا گیا۔ وہیں پولیس کی ٹریننگ میں بھی تبدیلی کی گئی۔ جس سے بہت حد تک پولیس والوں میں تعصب کو کم کیا گیا۔ لیکن ہندوستاں میں نہ تو پولیس کی ٹریننگ میں تبدیلی کے با رے میں سوچا جاتا ہے نا ہی اقلیتوں کی نمائندگی کے بارے میں۔ پولیس میں اقلیتوں کی نمائندگی محض چار فیصد کے آس پاس ہے۔ لیکن ہندوستان میں سب سے پہلے تو کوئی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہے کہ پولیس فورس میں تعصب ہے جب لوگ مرض کو ماننے کے لئے ہی تیار نہیں ہیں تو اس کا علاج کیسے ممکن ہو گا۔
قانون میں تبدیلی
فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے کے لئے خصوصی قانون کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو پولیس اور انتظامیہ کام کے لئے ذمہ داری نہیں لے رہے ہیں ہر فساد انہیں کی غیرذمہ داری کا نتیجہ ہے۔ کوئی بھی افسر جس کی لاپرواہی یا خواہش سے فساد ہوتا ہے۔ اسے سب سے بڑی سزا کے طور پر اس کا ٹرانسفر اس سے زیادہ بڑے عہدے پر کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے ایک قانون درکار ہے جو احتساب بھی طے کرے اور انہیں سزا بھی دے اس کے علاوہ فسادات سے جڑے معاملے کی سنوائی کے لئے خصوصی قانون کی ضرورت ہے جو ان معاملات کی سماعت جلد سے جلد کرے تاکہ مجرم کو ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔
آزادی سے پہلے اور بعد کے فرقہ وارانہ فسادات
ہندوستان کی تاریخ میں اب تک پچاس ہزار سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ، فساد کی شروعات آزادی سے قبل۱۹۴۶ء میں ہندوستان کی تقسیم کولے کر ہوئی۔ ملک کے بٹوارے کی خبر سب سے پہلے مرشدآباد(بنگال)اور بہار کے متصل علاقوں میں آگ کی طرح تیزی سے پھیلی۔ اس فرقہ وارانہ فساد میں۱۰ہزار سے زیادہ آدمی مارے گئے۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے اور کئی بستیاں ویران ہوئیں۔
مگر ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی وفات کے بعد فرقہ پرست شرپسند عناصر کو پنپنے اور فروغ پانے کاموقع ملا۔ آرایس ایس کے سربراہ گرو گول والکرنے یوم آزادی کی تقریب میں جب شرکت کرنی چاہئے تو پنڈت جواہر لعل نہرو انہیں کسی بھی قیمتپر آزادی کی تقریب میں شرکت کی اجازت دینےکو تیار نہ ہوئے اور انہیں پیغام بھیجا:
’’آپ(گروجی)آزادی کی تقریب میں شریک ہو کر کیا کریں گے ، اس لئے کہ آپ کانگریس میںآ نہیں سکتے اور میں کانگریسکو چھوڑ نہیں سکتا‘‘۔
یہیں سے آرایس ایس اور کانگریس کے درمیان دوری بڑھتی گئی۔ حالانکہ جواہر لعل نہرو کی وفات کے بعد لال بہادر شاستری جو اس وقت وزیر اعظم تھے ، انہوں نے گروگول والکر کو یوم آزادی کی تقریب میں باقاعدہ مدعو کیا، اور وہ لال بہادر شاستری کے ساتھ اس تقریب میں شریک ہوئے۔ اس طرح نہرو جی نے فرقہ پرست عناصر سے جو دوری اختیار کی تھی وہ لال بہادر شاستری کے وزیر اعظم بنتے ہی قربت میں تبدیل ہو گئی، اس طرح ملک کے لوگوں کو وزیر اعظم کی طرف سے یہ پیغام گیا کہ کانگریس پارٹی کے لوگوں کو آرایس ایس کے تئیں نرم گوشہ رکھنا چاہئے۔ اس پالیسی کانتیجہ یہ ہوا کہ آرایس ایس کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ بڑھتی گئیں ،یہ شاستری جی کی اسی پالیسی کانتیجہ ہے جوہم ہزاروں فسادات کی صورت میں آج دیکھتے آ رہے ہیں۔
بہار میں فساد کی شروعات
۱۹۴۶ء میںبہار اور بنگال کے درمیان فرقہ وارانہ فساد کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں۔ بھاگلپور، رانچی، سیتامڑھی، جمشید پور، چائباسہ، راورکیلا، بہار شریف وغیرہ میں ایسے خوف ناک اور دل دہلا دینے والے فسادات ہوئے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان فسادات میں بہار کے مسلمانوں کو معاشیاور اقتصادی اعتبار سے مفلوج اور ان کی نسل کشی کیگھناؤنی سازشیں رچی گئیں ، انہیں مفلوج اور بے دست وپا کرنے کے مقصد سے بھرپور کوششیں ہوتی رہیں۔ ان کے سامنے خوف و ہراساں کے حالات پیدا کر دئے گئے ، تاکہ وہ علمی، سیاسی، اقتصادی، کسی بھی میدان میں آگے نہ بڑھ سکیں اور ہندوستان میں ان کا مستقبل غیر محفوظ رہے۔ جن میں فرقہ پرست عناصر کے ساتھ ساتھ خود حکومت کی ایڈمنیسٹریشن کے لوگ شانہ بہ شانہ رہیں ، ریاست بہار کے علاوہ بیرون ریاست میں بھی ایسے ایسے شہروں میں فسادات کرائے گئے جہاں مسلمان صنعت و حرفت اور دستکاری کے میدان میں آگے تھے ، ان میں گجرات، علی گڑھ، بجنور، مرادآباد، حیدرآباد، میرٹھ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
’’۱۹۶۴ء میں عرب اور اسرائیل کی جنگ، بھیونڈی، جل گاؤں (مہاراشٹر) کے فسادات، جمشیدپور، رانچی، راورکیلا، بیتا، پورنیہ کا فساد، نیلی (آسام) کا فساد، ۱۹۸۷ء میں شمالی بہار کا سیلاب اور ۱۹۸۸ء میں زلزلہ، ۱۹۸۹ء میں بھاگل پور، سورسنڈ (سیتامڑھی)، سہسرام اور مونگیرکا ہولناک فساد، ۱۹۹۰ء میں پٹنہ سیٹی، رانچی اور مالدہ (بنگال) کا فساد، ۱۹۹۰ء میں اڑیسہ میں آئے تباہ کن سیلاب،۱۹۹۱ء میں کٹک (اڑیسہ) کا فساد، ۱۹۹۹ء میں سوپر سائیکلون اڑیسہ (جس موقع پر ایک کروڑ روپیہ خرچ کیا گیا)، ۲۰۰۱ء میں گجرات کا بھیانک زلزلہ، ۲۰۰۲ء میں گجراتکا فرقہ وارانہ فساد، ۲۰۰۳ء میں مغربی بنگال کے نعمت گاؤں میں فرقہ وارانہ فساد، ۲۰۰۴ء میں شمالی بہار کا بھیانک سیلاب،۲۰۰۴ء سونامی کا ہولناک طوفان، ۲۰۰۵ء میں مؤ کا فساد، ۲۰۰۷ء میں شمالی بہار کے ۱۵سے زائد اضلاع جو بھیانک سیلاب کی زد میں آئے ، ۲۰۰۸ میں کوسی کاپشتہ ٹوٹا جس کی تباہی نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا، بنگال کا آئیلہ طوفان اور دھولیہ کا فساد بھی تباہی کے اعتبار سے کوئی معمولی نہیں تھا۔ ابھی حالیہ۲۰۱۳ میں مظفرنگر(یوپی)کافساد۔
رانچی کے فساد میں متاثرین کی بازآبادکاری میں آپ کارول
۲۲؍اگست۱۹۶۷ء کو رانچی میں اردو کی مخالفت میں نکالے گئے طلبا کے جلوس میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، چھرے بازی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ، فرقہ وارانہ کا ننگا ناچ شہر میں ہفتوں ناچتا رہا، ہٹیا میں پانچ سو افراد کو قتل کر کے شہید کیا گیا، چاروں طرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا، سات ہزار سے زائد لوگ اس فساد سے متاثر ہوئے ، تین ہزار کے قریب لوگ بے گھر ہوئے ، سوسے زیادہ مکان و دکان برباد ہوئے۔
(۱)رانچی میں ایک ماہ پہلے سے اردو مخالف کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اکثریت کے لوگوں کو بھڑکایا جا رہا تھا۔ فساد سے ایک ہفتہ قبل اردو کے خلاف جومیٹنگ یا جلسہ ہوا، اس میں مسلمانوں کے خلاف خوب خوب زہر پھیلایا گیا۔ ۱۷؍اگست کو ایک نہایت اشتعال انگیز پمفلٹ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے اندر تقسیم کیا گیا۔ جس میں بہار کے ۴۰۔ ۴۵لاکھ مسلمانوں کوپاکستانی قرار دے کراور ان کوآستین کاسانپ کہہ کرسر کچلنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ انکار روائیوں سے شہر کی فضا خراب ہو رہی تھی، مگر مقامی حکام اور پولس نے اس کاکوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ کوئی احتیاطی کاروائی یا تدبیر ہی عمل میں لائی اور نہ سیاسی لیڈروں نے اس کی پرواہ کی۔
(۲)اردومخالف جلوس والے جب پتھراؤکرتے ہوئے واپس ہوئے تو انھوں نے اپر بازار اورہندو محلوں میںیہ پروپیگنڈا کیا کہ مسلمان ہندپٹیرھی اور دوسرے محلوں میں ہندوؤں کو مار رہے ہیں اور مکانوں میں آگ لگارہے ہیں۔ پھر یہ افواہ منظم طریقہ پر رانچی شہر اوردھروامیں پھیلائی گئی کہ مسلمانوں نے سینکڑوںہندوؤں کو مار ڈالا ہے۔ ان کے پاس پاکستانی ہتھیار ہے۔ یہ افواہ جن سنگھ کے ورکر اور غنڈوں کی سرپرستی کرنے والے سرمایہدار زوروں پرپھیلا رہے تھے اور اس طرح وہ مسلمانوں کی خون ریزیکا جواز پیدا کر رہے تھے۔ پولس اور حکام جو امن کے ذمہ دار ہیں ، انھوں نے ان افواہوں کی تردید کرنے کے بجائے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور مار پیٹکر جیل بھیجا۔ دھروا میں جب مسلم ملازمین نے کارخانہ کے چیئرمین ٹی، آر گپتا سے جا کر کہا کہ مائک پراس افواہ کی تردید کی جائے اور حفاظت کا انتظام کیا جائے۔ مگر چیئر مین صاحب نے اس پرکوئی توجہ نہیں دی اور جان بوجھ کر لاپرواہی سے کام لیا۔
(۳)ہوم گارڈ اور بہار ملیٹری فورس نے کرفیو کے اوقات میں مسلمانوں پر جوظلم ڈھائے ہیں ان کی داستان بھی لمبی ہے۔ غنڈے جہاں نہیں پہنچ سکے وہاں ان ظالموں نے ستایا اور پریشان کیا۔
(۴)اتنا بڑا خون ریزی، لوٹ اور آتشزدگی کاواقعہ گزرگیا اور سب کرفیو کے اوقات میں ہوا۔ مگر پولس والوں نے ایک بھی گولی نہیں چلائی۔ چلائی بھی تو نواسرائے گاؤں میں ،یہاں۲۶؍اگست کورات میں۵راؤنڈ سے زیادہ فائر ہوئے جس میں ایک مسلمان جواپنے مکئی کے کھیت سے نکل کربستی کی طرف جا رہا تھا ہلاک ہو گیا۔
میرٹھ کافساد
یوں تو شہر میرٹھ میں کئی بار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ، مگر۱۹؍مئی۱۹۸۷ ء میںجو فسادہوا وہ انتظامیہ اور پولس کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا کہ پورا شہر میرٹھ میں قہر برپا ہو گیا۔ جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
بابریمسجد مسئلہ اور رتھ یاترا کی وجہ سے میرٹھ فساد سے ایک سال قبل یعنی۱۹۸۶ء سے ہی دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی تھی، بابری مسجد کا تالا کھولنے کے خلاف احتجاج کے لئے میرٹھ کے مسلمانوں نے ۱۴؍فروری۱۹۸۶ء کو ’’ورودھ دیوس‘‘ منایا تھا، اپنے گھروں اور دوکانوں پر سیاہ پرچم لہرائے تھے ، اس کے جواب میں ہندوؤں نے بھی اپنے دوکانوں پر زعفرانی جھنڈے لہرائے۔ وشو ہندوپریشد نے بابری مسجدکو رام جنم بھومی کا نام دے کر اس کوآزاد کرانے کے لئے مہم شروع کی، ملک کے مخصوص حصوں میں رتھ یاترائیں نکلے جس سے ہندوؤں میں نئی جاگرتا آئی، آہستہ آہستہ دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قیام کے نتیجہ میں بھی ہندوؤں نے ریاست کے تمام بڑے شہروں میں بجرنگ دل اور بلیدان جتھے قائم کئے۔ یہی یعنی رام جنم بھومی اور بابری مسجد معاملہ دونوں فرقوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کا سبب بن گیا۔
میرٹھ فساد پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق
’’یہ ایک ایسا انتہائی منصوبہ بند اور منظم بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ فساد تھا، کیونکہ رام جنم بھومی، بابری مسجد تنازعہ کے سلسلے میں دونوں فرقوں کی جانب سے تقریروں کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی تھی، اور لوگوں کو فساد ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے انھوں نے پتھر وغیرہ جمع کر کے اس کی پوری تیاری بھی کر لی تھیں۔ اٹلی جنس اور دوسری رپورٹوں اور گواہوں کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مئی کے فساد سے قبل کافی سرگرمیاں چل رہی تھیں۔ یہ تیاریاں فسادی فوری طور پراور یکایک نہیں کر سکتے تھے ‘‘۔
(بحوالہ:ہفتہ وار ’’نقیب‘‘۷دسمبر۱۹۸۷ء)
چنانچہ ایک سال سے جاری سرگرمیاں۱۹؍مئی۱۹۸۷ ء کو بڑے پیمانے پر فساد کی شکل میں اختیارکر گیا۔ جس میں ایک سوسے زائد افراد کا قتل کیا گیا، شہر کے تقریباً ساٹھ محلے فساد سے متاثر ہوئے ، مساجد، مکانات اور دکانوں کونذرِآتش کیاگیا۔ کروڑوں روپے کی املاک کی تباہی ہوئی،۱۵۹؍افراد شدید زخمی ہوئے ، ۶۳۳مکانوں ، ۳۴۴ دکانوں اور ۱۴فیکٹریوں کو تباہ و برباد کیا گیا، کل ملا کر دس کروڑ روپے سے زیادہ مالی نقصان کا اندازہ ہوا۔
اس فساد میں خاص طور سے اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا، پولس کی موجودگی میں جارح عناصر نے مظالم کے پہاڑ توڑے ، پھر بعد میں لوگوں کوگھروں سے نکال کرپولس چوکیوں اور یہاں تک کہ جیلوں میں بھی درندگی اور بربریت کانشانہ مسلمانوں کوبنایا گیا۔ سابق کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا مسٹرگیانا پرکاش کی زیر قیادت والی کمیٹی نے بھی پولس کے رویہ پر سخت تنقید کیا اور ۳۰؍اگست۱۹۸۷ء کورپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ :
’’میرٹھ کافساد منصوبہ بند اور منظم تھا، صورت حال سے نمٹنے میں پولس نے کوتاہی برتی، ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس نے زیادہ تر ہوا میں فائرنگ کی اور اس میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا اور فساد روکنے کے بجائے اور بھی زیادہ پھیلتا چلا گیا۔ میرٹھ میں جو صورت حال تھی اس میں قوت کا استعمال اور سخت اقدام ضروری تھا‘‘
بہار شریف کافساد
۱۹۷۹ء میں فرقہ پرست اور فسطائی ذہنیت رکھنے والے افراد کی منصوبہ بند اور منظم سازشوں کے نتیجے میں بہار شریف میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا۔ اس فساد میں مسلمانوں کی جان، ان کی عزت و آبرو، املاک، اور دوکانوں کو خاص طور پرنشانہ بنایا گیا، مہینوں مسلمان اس فساد کی آگ میں جلتے رہے۔ اس فساد سے شہر کے قرب وجوار کے کے تقریباً۳۲؍گاؤں متاثر ہوئے ،جس میں آٹھ گاؤں میں بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا، سینکڑوں مکانات اور دکانیں نذر آتش کی گئیں۔
جمشید پور کافساد
جمشید پور میں صنعت و حرفت کو تباہ کرنے کے لیے فرقہ پرست عناصر نے ۱۱؍اپریل۱۹۷۹ء کو زبردست فرقہ وارانہ فساد کرایا۔ جس میں سینکڑوں زندگی ختم ہوئی، بے شمار مسجدیں تباہ کی گئیں ، دو ہزار سے زیادہ مکانات نذر آتش اور ہزاروں د کانیں خاکستر کی گئیں۔ تقریباً۵۰؍ہزار افراد اس فساد سے متاثر ہوئے۔
مرادآبادکافساد
مرادآباد (یوپی)میں۱۳؍اگست۱۹۸۰ء کوجو فساد رونما ہوا، پولس والوں نے جس درندگی، بربریت کامظاہرہ کیا اس سے انگریزی حکومت میں ہوئے ’’جلیا نوالاباغ ‘‘کی تاریخ دہرائی گئی، حالانکہ جلیانوالا باغ میں انگریزی فوجیوں کی گولی کانشانہ معصوم بچے اور بوڑھے نہیں بنے تھے ، (لیکن اس فساد میں بچوں ، جوانوں اور معصوموں کوگولی کانشانہ بنایاگیا، یہ فرق ہے دونوں میں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں فساد کے موقع پر ہندو اور فوج دونوں کا کردار انگریزوں سے بدتر ہوتا ہے )یہ سوچے سمجھے ہوئے منصوبے کے تحت پولس کا بے گناہ اور نہتے مسلمانوں پر انتہائی وحشیانہ حملہ تھا۔
مرادآباد میں آئینی انتخاب کے بعد ہی سے فضاگرم ہو گئی تھی، جس کی خبر اعلیٰ حکاموں کو تھی، عید کے دو ہفتہ قبل، اکثریتی فرقہ کے کچھ افراد(چمار)ڈھول تاشہ کے ساتھ نماز کے وقت آ کر دھمکی دی کہ اس کا بدلہ عید کے دن لیا جائے گا، چونکہ عیدگاہ سے قریب ہی اس طبقہ کی آبادی تھی، اور وہ لوگ سور( خنزیر) پالتے تھے ، مسلمانوں پرقیامت صغریٰ ڈھانے کے لئے منصوبہ کوعملی جامہ پہنانے کے لئے سور کوبطور حیلہ (بہانہ)استعمال کیا گیا، ٹھیک عید کے نماز کے وقت سور( خنزیر) عیدگاہ میں گھس آئے جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوئی، انہوں نے پولس سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے دریافت کیا کہ خنزیر کس طرح سے عیدگاہ میں آ گئیں ، اس پولس کے لوگوں نے بغیر کسی معذرت کے تلخ کلامی شروع کر دی، دونوں طرف سے تیز کلامی ہوئی اور پھر اس کے بعد پھر وہ منظر سامنے آ گیا جس کی دوسرے فرقہ کے لوگوں نے تیاری کر رکھی تھی،۵۰؍۶۰ہزار نمازی جن میں مرد، بچے ، بچیاں ، خوش و خرم عید کینماز ادا کرنے آئے تھے اور بارگاہ رسالت میں سجدہ میں تھے ، عین اسی حالت میں نہتے مسلمانوں پر گولیاں چلائی گئی، کچھ لوگ گولیوں سے مارے گئے ، جان بچانے کی بھگڈر میں سینکڑوں بچے اور بوڑھے کچل کرمرگئے ، پولس کی دیوانگی اور جوش وانتقام کاعالم یہ تھا کہ جولوگ جان بچانے کے لئے مسجدمیں گھس گئے ، انہیں بھی پولس والوں نے مسجد کے اندر گھس کرمارا، مسجد کی خون سے لت پت صفیں پولس کی درندگی کی گواہ ہیں۔ فساد میں سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا، مکانات اور دکانوں کولوٹ لیا گیا، کروڑوں سے زائد کی املاک کی تباہی ہوئی، سرکاری اعدادوشمارکے مطابق عیدگاہ میں مارے گئے لوگوں کی تعداد ۵۲تھی، جن میں۲۳ بچے (سولہ لڑکے ، سات لڑکیاں )شامل تھے۔ جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے کہیں زیادہ تھیں۔
اس حادثہ کے بعد حکمراں سیاسی جماعت، اور بعض سیاسی جماعت کے لیڈروں نے الزام تراشی، پولس کی ناکامی اور واقعات کو توڑمروڑ کرپیش کرتے رہے ، اور یہ کہا گیا کہ پولس پر پہلی گولی مسلمانوں نے ہی چلائی اور اس ایک نکتہ کوبنیاد بنا کرساری ذمہ داری مسلمانوں پرڈال دی گئی۔ پہلی بات کہ کوئی بھی مسلمان ہتھیار بند ہو کر عید گاہ نہیں جاتے اورجہاں اتنابڑا مجمع ہو جس میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے اور بوڑھے بزرگ ہوں ، تو کوئی بھی مسلمان گولی چلا کر سبھوں کوخطرہ میں ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتا، یہ افسران اور سیاسی چال بازوں کی مکمل فریب دہی اور انسانوں کے قتل کوجائز ٹھہرانے کی شیطانی دلیل تھی۔
گجرات میں فرقہ وارانہ فساد
ریاست گجرات ہندوانتہا پسند تنظیموں کامرکزرہا ہے ، یہاں ہندو انتہا پسند اورسیاسی پارٹی بی جے پی کی حکومت اقتدار میں ہے۔ جس کے وزیر اعلیٰ مسلم مخالف کے علامت نریندر مودی ہیں۔ جس نے اپنے دور حکومت میں ہندومسلم منافرت اور عیسائی ہندو نفرت کو بڑھاوا دیا، اسی بنیاد پر یہاں مسلم اور عیسائی اقلیتوں کی آبادی، کاروبار، مدارس، مساجد، اسکول، کاروبار، فیکٹریاں اور گرجاگھروں کی الگ الگ فہرست تیار کی گئی۔ مگر اقلیتوں کے ایک آواز نے کورٹ کے ذریعہ اس مہم پر روک لگائی تھی۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت میںیہیں کے لوگ زیادہ تر شریک تھے۔ دس سال کے بعدبابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کے لئے یہاں کی ہندوانتہاپسند تنظیم وشوہندو پریشد نے حکمراں جماعت بی جے پی کے تعاون سے ۱۵مارچ کوشیلاپوجن اور مندر تعمیر کامنصوبہ بنایا، گجرات سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اجودھیاجاناشروع کر دیا۔ ۲۴فروری۲۰۰۲ء کو سابر متی اکسپریس کے ذریعہ لگ بھگ ڈھائی ہزار کار سیوکوںکو گجرات سے لے کراجودھیا پہونچ گئی۔ انکارسیوکوں نے مظفرپور( بہار) جانے کے لئے ٹرین میں بیٹھے داڑھی والے مسافر کوفیض آباد ریلوے اسٹیشن پر بدتمیزی کرنے لگا، ان کی داڑھی نوچیں ، پردہ نشیں خواتین کے نقاب پھاڑے ، اورڈبے سے باہر کر دیا اور پاکستان مخالف اور جے شری رام کے نعرے لگائے ، جب مذکورہ معاملوں کی شکایت جی آر پی تھانہ میں کرائی گئی تو پولس تماشائی بنی رہی، گجرات سے شائع ہونے والاہندی روزنامہ ’’جن مورچہ‘‘اخبار ۲۵فروری کے شمارے میں لکھتا ہے :
’’بڑاگاؤں اور ردولی اسٹیشنوں کے درمیان اقلیتی طبقہ کے دونوجوانوں کوٹرین سے پھینک دیا گیا، ردولی کے مدرسہ الجامعۃالاسلامیہ کے ۲۰سالہ طالب علم توحید کوسابرمتی اکسپریس ٹرین سے گوریا مؤاسٹیشن پرپھینک دیا گیا اور کچھ دوسرے نوجوانوں کاکیا ہوا اب تک پتہ نہیں چلا ہے ، ٹرینوں میں اقلیتوں پر مظالم اور دہشت گردی کولے کرایک ٹکراؤ کاماحول پیدا ہو گیا‘‘۔
(بحوالہ:گجرات فساد، رپورٹ۲۰۰۲ء)
کار سیوکوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے اجودھیا اور فیض آباد کے مسلمان سہم گئے ، شرپسندکارسیوکوں کی نازیبا حرکتوں کی وجہ سے مسلم اقلیتی فرقہ تنگ آ چکا تھا، جگہ جگہ اشتعال انگیز نعرے ، فیض آباد سے گجرات اور راجستھان آنے والی ٹرینوں پرسوار مسافروں کے ساتھ چھیڑ خانیکرنا، گویا ایک مشغلہ بن گیا تھا، اور یہ سلسلہ تقریباً۲۰دنوں تک چلتارہا۔ دوسرے دن جب ۲۷فروری کوگودھرا اسٹیشن پر سابر متی ایکسپریس صبح ۸بجے پہونچی تو ایک مسلم لڑکی شاہدہ بیگم جوبڑودہ جانے کے لئے ٹرین پر سوار ہو رہی تھی اسے کارسیوکوں نے دھکے دے کرباہر کر دیا، اور اسٹیشن پر جم کرتباہی مچائی، جب ٹرین سنگل پھلیا نامی جگہ پرپہونچی تو چین کھینچ کراسے روک دیا جہاں پر دوسرے لوگوں کی بھیڑ جمع تھی، پھر پتھراؤشروع ہو گیا۔
وشو ہندوپریشد کی اپیل پر گجرات میںیگیہ پر جانے والے کارسیوکوں نے جوطوفان کھڑا کر رکھا تھا وہ در اصل ایک منصوبہ بند پروگرام کا ایک حصہ تھا، مسلمانوں کے خلاف ان کی اشتعال انگیزی اپنا رنگ دیکھا رہی تھی، وشوہندو پریشد کے لیڈروں کی طرف سے جارحانہ بیانات جاری کئے جا رہے تھے۔ پھر گودھرا میں ٹرین حادثہ نے انہیں ایک اور موقع دے دیا مسلم اقلیت کے خاتمہ کا۔ یہ پوراجال اس طرح بچھایا گیا جس کو گجرات کے مسلم اقلیت سمجھ نہیں پائی، نتیجہ میں وشوہندو پریشد نے بی جے پی اور بجرنگ دل ودیگر دوسری پارٹی کی حمایت سے دوسرے دن ملک گیر بند کا اعلان کر دیا۔ پھر ریاستی ومرکزی حکومت نے اس واقعہ کے رخ کو پوری طرح مسلمانوں کی طرف موڑ دیا، دوسرے دن مقامی گجراتی اخبارات نے مذکورہ معاملوں کواس طرح بڑھا چڑھا کرپیش کیا کہ پورے گجرات میں افواہوں کا بازار گرم ہو گیا، پھر ہندوؤں نے انتقام لینے کی آواز لگا کر پورے گجرات کی ان مسلم آبادیوں کو آگ لگا دیا جو ان کی آبادی سے قریب تھا، فسادی آزادی کے ساتھ لوٹ وآتشزدگی اور قتل وغارتگری کابازار گرم رہا، جس میں پولس، بی جے پی کے سیاسی افراد اور سماجی لوگ وعام ہندوؤں نے کھل کر ساتھ دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گجرات کافساد مسلمانوں کی منظم نسل کشی تھا، جس کی بڑی چالاکی وعیاری سے تیاری کی گئی تھی۔ ۲۲دنوں تک گجرات کے دس اضلاع کے سینکڑوں شہروقصبات میں حیوانیت رقص کرتی رہی، انسانیت ننگی کی جاتی رہی، معصوم اور کمسن بچے خواتین اور بوڑھے شہید کئے جاتے رہے اور جلائے جاتے رہے ، جس میں ہزاروں سے زیادہ کی تعداد میں بے قصور مسلمانوں کا ناحق خون بہایا گیا، اس فساد میں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل والوں نے جس بہیمت و سفاکی کے ساتھ انسانی خون بہائے اور نہایت ہی کم سن بچوں اور عورتوں کے خون سے ہولی کھیلی، اور جلتے ہوئے بچوں کی چیخیں سن کر درندہ صفت انسانوں کے دلوں میں رحم وانسانیت کے جذبات ابھرنے کے بجائے ان کی حیوانیت ودرندگی میں اضافہ ہوتا رہا اور ان کی آہ پکار پرمسکراتے رہے۔ اس فساد میں ان درندوں نے ایک نیا اور انوکھا طریقہ اپنایا کہ شہیدوں کے لئے دوگز زمین بھی فراہم نہ ہو سکے اور ان کی درندگی کاثبوت بھی نہ مل سکے ، آزاد ہندوستان میںیہ پہلا فساد ہے جس نے بڑی تعداد میں بھاگتے ہوئے انسانوں پرپیٹرول چھڑک کراور مکانات میں بند کر کے آگ لگادی، مرنے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی(۱)۔
اس فسادمیں سروے رپورٹ کے مطابق ۱۰ہزار سے زائد مکانات، ۶۰۰سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں تباہ کر دی گئیں ، سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کی دوکانیں لوٹ لئے گئے ، بے شمار مساجد، مکاتیب کومنہدم کر دیا گیا، کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کے سروے کے مطابق:
’’گجرات فساد میں ریاست کو یومیہ۴۰۰؍سو کروڑ روپئے کا خسارہ ہوا، صرف فساد کے ابتدائی چار دنوں میں۱۶؍کروڑ روپئے مالیت کی املاک کوتباہ کر دیا گیا، جب کہ فساد کے سترہ دنوں کے بعد بھی لوٹ مار اور مسلمانوں کی املاک کوتباہ کرنے کاسلسلہ جاری رہا‘‘
فساد میں جن دوکانوں اور املاک کو جلایا اور لوٹا گیا اس کاتخمینہ لگاتے ہوئے سروے رپورٹ کہتا ہے :
’’فساد شروع ہونے کے بعد سے یومیہ۵۰؍کروڑ روپئے مالیت کانقصان ہوا، دکان کوچھوڑ کرچھوٹے تجارتی ادارے، ٹرنسپورٹ، بینکنک اور صنعتی اداروں کو یومیہ۳۵۰؍کروڑ روپئے مالیت کانقصان ہوا، کنفیڈریشن کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر سنیل پاریکھ نے کہا کہ صرف صنعتی اداروں کاہی یومیہ۳۰۰کروڑ روپئے کی مالیت کانقصان ہوا‘‘۔
٭٭٭
اجتماعی دہشت گردی کی کوئی سزا نہیں !—شکیل اختر
سنہ 1984 میں ہونے والے سکھ مخالف فسادات میں بڑے پیمانے پر ہندوؤں نے سکھوں کا قتل عام کیا تھا30برس قبل 1984 میں ان ہی دنوں پوری دہلی اپنی تاریخ کے ایک خوفناک باب سے گزر رہی تھی۔ دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی ہلاکت سے پورے شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ ہر طرف حملہ آوروں کا ہجوم سکھ شہریوں کو تلاش کر رہا تھا۔ یکم نومبر کی دوپہر تک منظم فسادیوں نے شہر کے اتنے علاقوں میں آگ لگا دی تھی کہ آسمان میں ہر طرف صرف دھواں دکھائی دے رہا تھا۔ ہزاروں سکھوں نے جان بچانے کے لیے گردواروں میں پناہ لے رکھی تھی۔ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی آ چکی تھی اور ہواؤں کے ساتھ دور دراز سے عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سڑکوں پر قاتلوں کے ہجوم پولیس اور سیاسی پشت پناہی کے ساتھ سکھوں اور ان کی املاک پر حملے کر رہے تھے۔ صدیوں کے رشتے ایک لمحے میں منتشر ہو گئے تھے۔ جو پڑوسی تھے وہ اجنبی بن گئے۔ حالات انتہائی خراب تھے۔ تیس سال قبل 31 اکتوبر کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھ مخالف فسادات بھڑک اٹھے تھی تین دن کے اندر ہندوؤں کے ہجوم نے دہلی میں تین ہزار سے زیادہ سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ پانچ ہزار سے زیادہ سکھ شدید زخمی ہوئے تھے۔ سکھوں کے ہزاروں مکانوں اور دکانوں کو لوٹنے کے بعد انھیںنذر آتش کر دیا گیا تھا۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں کانگریس کے بہت سے مقامی سیاست دانوں نے کردار ادا کیا تھا۔ سکھوں کے قتل عام پر نئے وزیر اعظمراجیو اندھی نے اس وقت کہا تھا ’جب بڑا پیڑ گرتا ہے تو زمین ہلتی ہی ہے۔ ‘30 برس تک متاثرین فسادیوں کی نشاندہی اور انھیں سزا دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ہزاروں معصوم انسانوں کے قاتل قانون کی گرفت میں نہ آ سکے۔ سکھ تنظیموں ، حزب اختلاف کی جماعتوں ، حقوق انسانی کی تنظیموں اور بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں بمشکل تین ہزار انسانوں کے قتل کے لیے 49 ملزمان کو عمر قید کی سزا ہو سکی۔ آزاد ہندوستان کا یہ سب سے بڑا فساد تھا۔ اس کے بعد بھاگل پور میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ پھر لال کرشن اڈوانی کی رام جنم بھومی تحریک اور باری مسجد کے انہدام کے بعد ملک گیر فسادات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ سکھ مخالف فسادات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر املاک کو لوٹا گیا اور مکان و دکان کو نذر آتش کیاگیا صرف ممبئی میں دسمبر 1992 اور جنوری 93 کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔ آخری بڑا فساد 2002 میں گودھرا میں ایک ٹرین میں 67 کار سیوکوں عینی ہندو رضا کاروں کو زندہ جلائے جانے کے بعدگجرات کے مختلف مقامات پر پھوٹا۔ ان میں بھی ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔ ماہرین ابتدا سے یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر حکومت نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے مجرموں کو اسی وقت سزا دی ہوتی تو اس بہیمانہ واقعے کے بعد شاید مستقبل میں بڑے پیمانے پر فسادات نہ ہوتے۔ لیکن بھارت میں مذہبی فسادات میں سیاسی جماعتوں اور اکثر حکمراں جماعت کا ہاتھ ہوتا ہے اور مجرموں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ گذشتہ 30 برس میں غالباً بھاگلپور کا ہی ایک ایسا واقعہ ہے جس میں 20 برس سے زیادہ گزرنے کے بعد بہار کی سابقہ بی جے پی اور جے ڈی یو حکومت نے نہ صرف یہکہ متاثرین کو معاوضہ ادا کیا بلکہ درجنوں فسادیوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔ آج بھی سکھ اس دکھ کو نہیں بھولے ہیں اور قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں کچھ حد تک یہی صورتحال گجرات کے فسادات کی بھی ہے۔ مودی حکومت نے فسادات کی اس طرح تفتیش کی تھی اور انھیں عدالتوں میں اس طرح پیش کیا تھا کہ بیشتر معاملات میں فسادی قانون سے بچ گئے تھے۔ لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں کی زبردست جد و جہد کے بعد سپریم کورٹ کی نگرانی میں جب اہم معاملات کی دوبارہ تفتیش ہوئی اور انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو سینکڑوں مرتکبین کو سزائیں ملیں۔ مذہبی فسادات پر قابو پانے کا ایک بل پارلمینٹ میں زیر غور ہے۔ لیکن اس بل سے پہلے ملک کی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جمہوری نظام میں قانون کیبالا دستی مسلم ہے۔ آج دنیا بہت سمٹ چکی ہے۔ آج ہر مقام پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھتی ہے۔ 1984 کے قاتل بھلے ہی سیاسی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر قانون کی گرفت سے نکل گئے ہوں لیکن مستقبل میں شاید ان کا بچ نکلنا اتنا آسان نہ ہو اور وہ بھی قانون کی زد میں آئیں گے جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔
٭٭٭
1857 کا غدر اور آخری بادشاہ—جاوید چوہدری
اور پھر ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا، یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا، شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں ، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا، وہ بندر گاہ پہنچا، اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا، رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا، نیلسن پریشان تھا، بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا، وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا، نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا، نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند، ظل سبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا، بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ئ کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا، بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں ،
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
اور
کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے ،
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
اسی گیراج میں لکھی تھی، یہ آج7 نومبر کا خنک دن تھا اور سن تھا 1862ء۔
بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی، اندر سے اردلی نے برمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی، خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی برمی میں جواب دیا، ظل سبحانی کا سانس اکھڑ رہا ہے ، اردلی نے جواب دیا، صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں ، میں انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا، خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا، اردلی اسے چپ کرانے لگا مگر آواز نیلسن تک پہنچ گئی، وہ غصے میں باہر نکلا، خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں میں گر گئی، وہ مرتے ہوئے بادشاہ کے لیے گیراج کی کھڑکی کھلوانا چاہتی تھی، بادشاہ موت سے پہلے آزاد اور کھلی ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتا تھا، نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا، گیراج میں داخل ہو گیا۔
بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا، اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا، نیلسن آگے بڑھا، بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر، اس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی، آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر ابل رہے تھے ، گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ، نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی، اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی، وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا، وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی اور یہ اپیل پرانے کنوئیں کی دیوار سے لپٹی کائی کی طرح ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی، کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا، زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی، ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا، نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا، لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی، وہ دونوں آئے۔
انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا، کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نماز جنازہ پڑھی، قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیےدو گز زمین دستیاب نہیں تھی، نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا، قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہو رہا تھا ، گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایا گیا، ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر، تاج شاہی سر پر رکھ کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دلی تحسین تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا، نقارچی نقارے بجانے لگے ، گویے ہواؤں میں تانیں اڑانے لگے ، فوجی سالار تلواریں بجانے لگے اور رقاصائیں رقص کرنے لگیں ، استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کو یاد تھا بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دن جاری رہا اور ان سات دنوں میں دلی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا مگر سات نومبر 1862ئ کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا۔
استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، اس نے جوتے اتارے ، بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سور? توبہ کی تلاوت شروع کر دی، حافظ ابراہیم دہلوی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے ، یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریب الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیےغروب ہو گیا، آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شپ کی کچی گلیوں کیبدبو دار جھگیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے ، یہ آخری مغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے ، یہ کچی زمین پر سوتی ہے ، ننگے پاؤں پھرتی ہے ، مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے مگر یہ لوگ اس کسمپرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں ، یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ، یہ شہزادے اور شہزادیاں کون ہیں؟یہ ہندوستان کے آخری بادشاہ کی سیاسی غلطیاں ہیں ، بادشاہ نے اپنے گرد نا اہل، خوشامدی اور کرپٹ لوگوں کا لشکر جمع کر لیا تھا، یہ لوگ بادشاہ کی آنکھیں بھی تھے ، اس کے کان بھی اور اس کا ضمیر بھی، بادشاہ کے دو بیٹوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھی، ایک شہزادہ داخلی امور کا مالک تھا اور دوسرا خارجی امور کا مختار، دونوں کے درمیان لڑائی بھی چلتی رہتی تھی اور بادشاہ ان دونوں کی ہر غلطی، ہر کوتاہی معاف کر دیتا تھا، عوام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی، خوراک منڈیوں سے کٹائی کے موسموں میں غائب ہو جاتی تھی، سوداگر منہ مانگی قیمت پر لوگوں کو گندم، گڑ اور ترکاری بیچتے تھے ، ٹیکسوں میں روز اضافہ ہوتا تھا، شہزادوں نے دلی شہر میں کبوتروں کے دانے تک پر ٹیکس لگا دیا تھا، طوائفوں کی کمائی تک کا ایک حصہ شہزادوں کی جیب میں چلا جاتا تھا۔
شاہی خاندان کے لوگ قتل بھی کر دیتے تھے تو کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا تھا، ریاست شاہی دربار کے ہاتھ سے نکل چکی تھی، نواب، صوبیدار، امیر اور سلطان آزاد ہو چکے تھے اور یہ مغل سلطنت کو ماننے تک سے انکاری تھے ، فوج تلوار کی نوک پر بادشاہ سے جو چاہتی تھی منوا لیتی تھی، عوام بادشاہ اور اس کے خاندان سے بیزار ہو چکے تھے ، یہ گلیوں اور بازاروں میں بادشاہ کو ننگی گالیاں دیتے تھے اور کوتوال چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتے تھے جب کہ انگریز مضبوط ہوتے جا رہے تھے ، یہ روز معاہدہ توڑتے تھے اور شاہی خاندان وسیع تر قومی مفاد میں انگریزوں کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیتا تھا۔
انگریز بادشاہ کے وفاداروں کو قتل کر دیتے تھے اور شاہی خاندان جب احتجاج کرتا تھا تو انگریز بادشاہ کو یہ بتا کر حیران کر دیتا تھا ’’ظل الٰہی وہ شخص آپ کا وفادار نہیں تھا، وہ ننگ انسانیت آپ کے خلاف سازش کر رہا تھا’‘ اور بادشاہ اس پر یقین کر لیتا تھا، بادشاہ نے طویل عرصے تک اپنی فوج بھی ٹیسٹ نہیں کی تھی چنانچہ جب لڑنے کا وقت آیا تو فوجیوں سے تلواریں تک نہ اٹھائی گئیں ، ان حالات میں جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی اور بادشاہ گرتا پڑتا شاہی ہاتھی پر چڑھا تو عوام نے لاتعلق رہنے کا اعلان کر دیا، لوگ کہتے تھے ہمارے لیے بہادر شاہ ظفر یا الیگزینڈرا وکٹوریا دونوں برابر ہیں ، مجاہدین جذبے سے لبریز تھے لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی۔
بادشاہ ڈبل مائینڈڈ تھا، یہ انگریز سے لڑنا بھی چاہتا تھا اور اپنی مدت شاہی بھی پوری کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس جنگ کا وہی نتیجہ نکلا جو ڈبل مائینڈ ہو کر لڑی جانے والی جنگوں کا نکلتا ہے ، شاہی خاندان کو دلی میں ذبح کر دیا گیا جب کہ بادشاہ جلاوطن ہو گیا، بادشاہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہا، گھر کے احاطہ میں دفن ہوا اور اس کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ٹوکرا سر پر اٹھا کر رنگون کی گلیوں میں پھر رہی ہے ، یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے ، جو بادشاہ اپنی سلطنت، اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے ، جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں ، ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں ، یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی، یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں۔
٭٭٭
بابری مسجد، رام جنم بھومی، فیصلہ یا سمجھوتہ—عامر صابری
بابری مسجد مقدمہ کافیصلہ بظاہر 30 ستمبرکوالہ آبادہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے سناتودیا لیکن چھوڑ گیا ایسے کئی سوال جس کا جواب نہ توکسی بڑے لیڈر کے پاس ہے اورنہ ہی کسی ماہر قانون کے پاس۔ صاف صاف اور سیدھے سیدھے اس فیصلے پر کوئی بھی شخص اپنی رائے ظاہر کرنے سے بچ رہا ہے۔ جہاں تک سوال ہے عدالت کے فیصلہ کاتواس سے پہلے بھی ایک فیصلہ عدالت کا1986میں آیا تھا جوضلع جج نے کیا تھا کہ تالا کھلوادیا جائے اورتالا کھل گیا اورتالا کھلتے ہی شروع ہو گئے فرقہ وارانہ فسادات۔ جس کاخمیازہ بھی مسلمانوں کوبھگتنا پڑا اور نقصان بھی ہرطرح سے مسلمانوں کا ہی ہوا اور اب پھر عدالت کا سب سے بڑا اور تاریخی فیصلہ30ستمبر 2010 کو آیا کہ جہاں مورتیاں رکھیں ہیں وہی رام جنم استھان ہے۔ اب یہ فیصلہ کوئی چھوٹی موٹی عدالت کانہیں بلکہ ہائی کورٹ بنچ کا ہے بہرحال فیصلہ توآناہی تھا اور یہ بھی پہلے سے طے تھاکہ فیصلہ کیا آئے گا؟حیرت فیصلہ پر نہیں ہوئی حیرت اس بات پر ہوئی ہے کہ فاضل جج صاحب نے اپنے فیصلہ میں جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اپنے پیچھے ایسے سیکڑوں سوال چھوڑ گئے ہیں جس کا جواب آنے والے وقتوں میں نہ تو عدلیہ کو دیتے بنے گا اورنہ ہی ایگزیکیٹیو ہی دے پائے گی کیونکہ فاضل جج نے لکھا ہے کہ وہ دیواستھلی ہے اور وہی رام جنم استھان ہے۔ ایسا ہندوؤں کا ماننا ہے۔ یہ (بھاشا) زبان جوفاضل جج نے استعمال کی ہے وہ ایک جج کی کم ایک وشوہندو پریشد، آرایس ایس کے کارکن کی زیادہ معلوم ہوتی ہے جبکہ جسٹس ایس یو خاں اور جسٹس سدھیر اگروال نے صاف طور پر تاریخ کے حوالے سے کوڈ کیا ہے کہ ایسی کوئی بھی نظیر نہیں ملتی ہے جس سے پتہ چلے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی، ہاں اس کے برعکس پوری دنیا نے آنکھوں سے دیکھا کہ جہاں مسجد تھی اور مسجد میں مورتیاں رکھیں گئیں اوراس کے بعد قانونی داؤ پیچ کے ذریعہاس کا تالا کھلوایا گیا اورپھرغنڈہ گردی کے دم پر آستھا اورمانیتا کی جے کار کرتے ہوئے دہشت گردی کاماحول پیدا کر کے مسلمانوں کو خوف وہراس میں دھکیل کروہ تاریخی مسجد جو بابری مسجد کے نام سے جانی جاتی تھی 6دسمبر 1992 کو شہید کر دی گئی اورپھر دنیا کے ہرمذہب و ملت کے لوگوں نے دیکھا کس طرح وہاں مسجد شہید کرنے کے بعد 48 گھنٹہ تک مندر کا کام چلتا رہا۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا ملک میں کس طرح مسلمانوں کو دہشت گردی کانشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں بے قصور لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ یہی ماحول اس بار بھی فیصلہ سے پہلے وشوہندوپریشد، آرایس ایس کے علاوہ دیگر ہندوفرقہ پرست تنظیموں نے بنانا شروع کر دیا تھاکہ یہ فیصلہ عدالت نہیں کر سکتی ہے۔ یہ آستھا کاسوال ہے اور یہ بات چیت کے ذریعہ ہی طے ہوناچاہئے اس طرح کے بیانات فیصلہ کے ٹھیک ایک دن پہلے تک آتے رہے اور مسلمان ایک دم سہما سہما سارہا اور پھر 30ستمبر کوٹھیک 4:40 منٹ پرفیصلہ آیا اورفیصلہ آتے ہی ملک کامسلمان ہکابکا سارہ گیا اوروہ سارے لوگ جوایک دن پہلے تک ہرسطح پر عدلیہ کے فیصلہ کی مخالفت کر رہے تھے اچانک سب کی زبانیں بدل گئیں اورایک آواز میں سب نے اس فیصلہ کا استقبال کیا اور مسلمانوں کو مشورہ دینا شروع کر دیا کہ ’’ اب ایک نئے بھارت کا نرمان (تعمیر) کریں ایک نئے بھارت کا اُدَے کریں اورامن وشانتی بنائیں رکھیں۔ ‘‘ملک کا ہرذی شعور آدمی کہیں نہ کہیں اس فیصلہ کے تئیں دبے ہی لفظوں میں سہی تنقید کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ جان رہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ ہو کر ایک سمجھوتہ ہوا ہے اوراس سمجھوتے کے پیچھے کہیں نہ کہیں سیاسی کھیل ضرور ہوا ہے اوراس کیس پر ہر ہوش مند آدمی کانگریس کومنھ بھر بھر کر کوس رہا ہے کیونکہ اب تک تاریخی اعتبار سے بابری مسجد کے متعلق جتنے بھی حادثات یا مسلمانوں کے خونریزی کے جتنے بھی واقعات پیش آئے وہ سب کے سب کانگریس کے ہی دورِ حکومت میں پیش آئے وہ بھی جب، جب مسلمانوں نے کانگریس کی حکومت بنوانے میں پوری محنت کی جیسا کہ اس مرتبہ بھیہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش میں مسلمانوں کی ہی بدولت آج کانگریس اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، بہرحال فیصلہ تین رکنی بنچ کا تھا اورانہیں میں سے دوججوں نے کھل کر اپنی اپنی بات کہی یا فیصلہ میں لکھیں اگرڈی وی شرما نے کھل کر وشوہندوپریشد اورآر ایس ایس کی بولی بولی تووہیں جسٹس ایس یو خاں نے شرافت اورقانون کے دائرے اوراسلامی نقطہ کے مد نظر وہ ساری باتیں بھی کہہ ڈالیں جوایک منصف کوکہنا چاہئے۔ مسٹرخان نے صلح حدیبیہ کاذکر کرتے ہوئے مسلمانوں سے بہت ہی مختصر لفظوں میں نصیحت کرتے ہوئے علامہ اقبال کے شعرکو کوٹ کیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ فیصلہ آخری نہیں اورتمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلو بظاہر صلح حدیبیہ کی صلح بہت دب کر ہوئی تھی لیکن اس کے اثرات ایسے ہوئے کہ یہ بغیر لڑے ہی مکہ فتح ہو گیا۔ جسٹس خان اورجسٹس اگروال نے ایک بات توبہت صاف لکھ دی جوبرحق ہے کہ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی۔ دنیا کی ہر عدالت گواہوں اورثبوتوں کے بناپرہیفیصلہ کرتی ہے اوراس کیس میں اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ملاکہ بابر یا اس کے وزیر میر باقی نے کسی مندر کوتوڑ کر مسجد تعمیر کرائی ہو جبکہ اس بات کی پوری دنیا گواہ ہے کہ 6دسمبر1992 کو کورٹ کے اسٹے کے باوجود مسجدشہید کر کے 48گھنٹے تک مندر بنایا گیا۔ اس کے برعکس ثبوتوں اورگواہوں کو درکنار کر کے مندر کے حق میں فیصلہ سنایا گیا جو نہایت ہی شرمناک اورقانون کاگلاگھوٹنے والا ہے جوکھلے طور پر آئین کی خلاف ورزی توہے ہی ساتھ ہی ایک فرقہ کے ساتھ کھلا سوتیلا سلوک بھی ہے۔
٭٭٭
1857 کا غدر— راشد الاسلام
ہندوستان 15اگست 1947کو انگریزوں سے آزاد ہوا اور 26جنوری 1950کو ہندوستان ایک جمہوری ملک بنا۔ کتنی خوشی سے ہم اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک کا حصہ ہیں۔ ہماری جمہوریت کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک میں تمام مذاہب وافکاروعقائد کے ماننے والوں کو پورا حق ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزاریں ، سب کواختیار ہے کہ وہ دستور میں دئے گئے حقوق سے اپنادامن بھریں۔ تاریخ بھی شاہد عادل ہے کہ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں ہندواورمسلم ساتھ ساتھ رہے اور یہاں گنگاجمنی تہذیب کی نیو ڈالی۔ 15 اگست کا یوم آزادی منانے میںلال قلعہ کو کلیدی اہمیت حاصل ہو تی ہے۔ لال قلعہ دہلی کا ایک اہم قلعہ ہے۔ دریائے جمنا کے نزدیک واقع لال قلعہ مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یادگار ہے۔ اسے سترویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی قلعے کے دیوان خاص میں تخت طاس واقع ہے جہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 1857 کی جنگ آزادی تک جاری رہا جب غدر کے دوران انگریز فوج نے دلی (دہلی)پر اپنے قبضے کے بعد اس وقت کے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قلعے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور انہیں شہر کے جنوب میں واقع قطب مینار کے احاطے میں منتقل کر دیا تھا۔ سن اٹھارہ سو ستاون سے لے کر سن انیس سو سینتالیس تک لال قلعہ برطانوی فوج کے قبضے میں رہا اور اس میں انہوں نے اکثر ہندوستانی قیدیوں کو قید رکھا۔ آزادی کے بعد لال قلعہ کے بیشتر حصے ہندوستانی فوج کے قبضے میں آ گئے اور یہاں سنگین نوعیت کے مجرموں کو رکھنے کے سیل بھی بنائے گئے۔ قلعے کے دو دروازے ہیں جن میں سے ایک دلی دروازہ جبکہ دوسرا لاہوری دروازہ کہلاتا ہے۔ جب یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس وقت دریائے جمنا اس کی عقب کی دیواروں کو چھوکر گزرتا تھا لیکن اب وہ کچھ فاصلے پر بہتا ہے۔ ہر سال یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم اسی قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہیں۔
شاہجہان برصغیر پاک و ہند کے مغلیہ خاندان کا ایکممتاز بادشاہ تھا۔ وہ مغل شہنشاہ جہانگیر کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اورنگزیب بادشاہ بنا۔ شاہ جہاں اپنے دور کا ایک مشہور معمار تھا۔ اس نے کئی تعمیرات کروائیں۔ لال قلعہ، تاج محل، موتی مسجد، تخت طاس وغیرہ۔ ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ۔ انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولا یہ کہ ایسٹانڈیا کمپنی کے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیںیکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں ، جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دئے جاتے تھے ، وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انہیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انہیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔ 9 نو مئی اٹھارہ سو ستاون کو میرٹھ کی چھاونی میں تیسری لائٹ کیولری کے تقریباً پینتیس سپاہیوں کیبرسر عام وردیاں اتار دی گئیں۔ ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور انہیں دس سال کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایسے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن میں مبینہ طور پر گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی تھی۔ اس واقعہ پر مشتعل ہو کر ان کے دوسرے ساتھیوں نے اگلے روز دس مئی کو سنٹ جانس چرچ میں گھس کر متعدد انگریز افسروں اور ان کے کنبہ کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جلد ہی اس بغاوت نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رات ختم ہوتے ہوتے متعدد فرنگی موت کی نیند سو چکے تھے۔ ان باغیوں نے یہاں سے دلی کا رخ کیا جو یہاں سے چالیس میل دور تھی اور اگلے روز دلی پہنچ گئے۔ انہوں نے دریائے جمنا پر بنے کشتیوں کے پل کو پار کیا اور کلکتہ دروازہ سے فصیل بند شہر میں داخل ہوئے۔ دو پہر ہوتے ہوتے متعدد انگریز اور دیگر یورپی ان کی بندوقوں اور تلواروں کا نشانہ بن چکے تھے۔ بارہ اور سولہ مئی کے درمیان ان باغیوں نے عملاً لال قلعہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ لال قلعہ مغل تہذیب اور ثقافت کی علامت تو تھا ہی مگر اب اس کی وہ سیاسی حیثیت ختم ہو چکی تھی جو اسے حاصل تھی۔ یہاں بہادر شاہ ظفر کہنے کو تو تخت نشین تھے مگر ان کی سلطنت محض قلعہ کی فصیلوں تک محدود تھی۔ وہ بیاسی سال کے ہو چکے تھے۔ الغرض جنگ آزادی ہند کا آغاز 1857 میں بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کر کے فوجی ملازمت سے برخاست کر دیا۔ لکھنو میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔ 9 مئی 1857 کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کر کے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔ میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں اور دہلی کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی
جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کئے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے۔ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدھم پڑھ گئی۔ مارچ 1858 میں لکھنو پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ دہلی، لکھنو، کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات پر بھی انگریزوں کے تصرف میںآ گئے۔ جنگ آزادی کا نعرہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جنھوں نے انگریز سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے نا آشنا تھے۔ بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کر دیا تھا۔ نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ مزید برآں باغیوں نے دہلی میں لوٹ مار اور غارت گری مچا کر عام لوگوں کیہمدردیاں کھو دی تھیں۔ چنانچہ 1857 کی یہ جنگ آزادی ناکام ری۔ علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کے ساتھی مفتی صدر الدین خان آزردہ، سید کفایت علی کافی اور دیگر بہت سے مسلمان علماء نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔
دہلی کی فتح کے بعد انگریز فوجوں نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔ لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ ان میں باغی بھی تھے اور بے گناہ بھی۔ مسلمان بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے اور ہندو بھی لیکن جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے قتل و غارت میں فرقہ ورانہ رنگ بھر دیا۔ مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے ، بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو گئیں اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔ ان ہولناک مظالم کا اعادہ ان مقامات پر بھی کیا گیا جہاں اولاً جنگ کی آگ بھڑکی تھی۔ اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کر کے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔ اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر عتاب آئے جب کہ ہندوؤں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت اور صلح کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند ہو گئے اور خود مسلمان بھی نئی دنیا کیدوڑ میں پیچھے ہوتے چلے گئے۔ ایسے میںسر سید جیسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس جنگ آزادی کی وجوہات پر ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ نامی کتاب میں روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومی کو دور کر کے ہیانگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔ سر سید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے علی گڑھ سے تعلیمی تحریک کی بنا پر ڈالی دی اور کالج اور یونیورسٹی قائم کی۔ اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ فرقہ پرستوں کے منفی رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی۔
اس دوران انگریزوں نے دلی پر از سر نو قبضہ کرنے کی کوشش کی اور پہلا جوابی حملہ کیا۔ میجر جنرل ہنری برنارڈ کی قیادت میں انگریز فوج نے بادلی کے سرائے میں باغیوں کو شکست دی اور پہاڑیوں میں پڑا ڈالا۔ دلی پر دس جون سے گولہ باری شروع ہوئی۔ اب برسات کا موسم شروع ہو رہا تھا۔ اس دوران ہیضہ پھیلنے سے متعدد فوجیوں اور میجر برنارڈ کی موت ہو گئی۔ باغیوں کی ایک بڑی فوج بخت خان کی قیادت میں دو جولائی کو دلی میں داخل ہوئی۔ بخت خان کو مرزا مغل کی جگہ پر باغیوں کی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا گیا، جس نے نو جولائی کو برطانوی فوجوں پر ایک کامیاب حملہ کیا مگر درباری سازشوں کے نتیجے میں بخت خان جیسے مستعد اور تجربہ کار جنرل کو برطرف کر دیا گیا اور ایک بار پھر برطانوی فوجوں کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ انگریزی فوجوں نے چودہ ستمبر کو دلی پر ایک منصوبہ بند اور منظم حملہ کیا اور اینگلو عربک کالج اور دوسری طرف سینٹ جیمس چرچ کی جانب سے چاندی چوک کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ ان ایام میں بعض امیروں کی سازشوں کی وجہ سے بہادر شاہ نے آخری لڑائیوں میں باغی فوج کے ساتھ رہنے کی بجائے سترہ ستمبر کو قلعہ خالی کر دیا اور ہمایوں کے مقبرے میں چلے گئے۔ بیس ستمبر تک دلی باغیوں سے خالی ہو گئی اور انگریز لال قلعہ میں داخل ہو گئے۔ ہزاروں لوگ جان کے خوف سے شہر چھوڑ کر ادھر ادھر چلے گئے اور متعدد قتل ہو گئے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں مزاحمت کار ایک منظم انگریز فوج کے خلاف بڑی بہادری سے لڑے تھے۔ دوسرے دن کیپٹن ولیم ہڈسن نے کسی مزاحمت کے بغیر بہادر شاہ کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا۔ ہڈسن نے ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو خونی دروازے کے قریب گولی مار دی۔ بہادر شاہ کو پہلے قلعہ میں رکھا گیا اور بعد میں چاندی چوک کے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیا۔ ان پر جنوری اٹھارہ سو انسٹھ میںلال قلعہ ہی کے دیوان خاص میں ایک فوجی عدالت میں دو مہینہ تک مقدمہ چلتا رہا اور انتیس مارچ کو انہیں قصور وار قرار دے دیا گیا اور جلاوطن کر کے رنگون بھیجنے کی سزا سنائی گئی۔ اکتوبر میں اپنی بیگم زینت محل اور ایک بیٹے جواں بخت کے ہمراہ رنگون روانہ ہوئے جہاں سات نومبر اٹھارہ سو باسٹھ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ دلی پر فتح کے باوجود بغاوت کے دیگر مرکزوں مثلاً لکھنو، کانپور، اور بریلی میںانگریزوں کو اپنا اقتدار قائم کرنے میں باغیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص بریلی، کانپور اور جھانسی میں باغیوں نے بہت مزاحمت کی۔ اٹھارہ سو ستاون کی اس بغاوت کا جسے پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے ، ناکام ہونا یقینی تھا، کیوں کہ اس کے پس پردہ کوئی مثبت فکری اور سیاسی نظام کار فرما نہیں تھا۔ یہ تحریک کوئی منظم اور منصوبہ بند تحریک نہیں تھی۔ باغیوں کو صرف ایک مقصد یعنی غیر ملکی اقتدار کے خاتمے نے متحد کر رکھا تھا۔ ان کی حب الوطنی مسلمہ تھی مگر سوچ بے جہت تھی اور وہ ایک ایسے نظام کو از سر نو زندہ کرنا چاہتے تھے جو اپنی اہمیت اور ضرورت کھو چکا تھا۔ البتہ انہوں نے اپنے وقت کے اقتصادی اور سماجی حالات میں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا ایک خواب ضرور دیکھا تھا۔ اور اس کے لیے جان کی بازی لگا دی تھی۔
٭٭٭
تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے اس کی مکمل فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید