بہارِ عشق
مرزا شوق کی تینوں مثنویاں ’’فریبِ عشق‘‘ ، ’’بہار عشق‘‘ اور ’’زہر عشق‘‘ کلاسیکی آہنگ اور گہری رومانیت لیے ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان مثنویوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعر، کردار اور قاری تینوں کم و بیش ایک ہی طرح کے جمالیاتی تجربے حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں اسے اعلیٰ فنکاری کا ایک بڑا ثبوت تسلیم کیا گیا ہے اور ’’سمانو نو بھاوہ (Samano Nu Bhavoh) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایک ہی قسم کے بھاؤ یا جذبے بیدار ہوں۔ تخلیق میں تجربوں کے اتار چڑھاؤ میں کبھی خارجی پہلو زیادہ روشن ہوتا ہے اور کبھی داخلی پہلو اور کبھی دونوں پہلو ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہو جاتے ہیں کہ انہیں علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، تینوں صورتوں میں فنکار کے تجربے مرکزی کردار اور قاری کے تجربے بن جاتے ہیں، محسوس ہوتا ہے تینوں کم و بیش ایک جیسا جمالیاتی انبساط حاصل کر رہے ہیں۔ تینوں مثنویوں میں ’’بہار عشق‘‘ سمانو نو بھاوہ کی زیادہ عمدہ مثال ہے۔
’’مثنوی بہار عشق‘‘ ایک رومانی کہانی پیش کرتی ہے، جس میں مرزا شوق کا ٹھوس جمالیاتی رویہ بہت واضح اور روشن ہے، اس کی وجہ اس سے مثنوی میں جمالیاتی تجربے کی ایک ڈرامائی اٹھان پیدا ہوئی ہے، جو اس مثنوی کی ایک اہم جمالیاتی خصوصیت ہے۔
ہیروئن کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیتوں میں فنکار کے جمالیاتی رویے اور کردار کے شعور کی سطح پر ہلکے ہلکے خوبصورت تصادم کے حسن کی پہچان ہو جاتی ہے، اس مثنوی میں ’’نفسی جسمانی‘‘ (Psycho-physical) رد عمل کے جو تاثرات ملتے ہیں ان سے مثنوی کی تخلیق سطح بلند ہوتی ہے اور ڈراما وجود میں آتا ہے، اور مثنوی کی تخلیقی سطح اتنی دلکش ہو جاتی ہے کہ ہم اسے صرف پڑھتے ہی نہیں اس ڈرامے کو دیکھنے اور سننے بھی لگتے ہیں، یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے، ایک ٹھوس جمالیاتی رویے کے بغیر یہ ممکن نہ تھا:
نہ سمجھتا ہے کچھ نہ بوجھتا ہے
پھوٹی آنکھوں سے کچھ بھی سوجھتا ہے
صاف صورت سے تیری پیدا ہے
آدمی کا ہے کو ہولا ہے
کبھی آفت نہ یہ اٹھائی تھی
چھائیں پھوٹیں میں نوج آئی تھی
آپے سے ہو گیا ہے کیوں باہر
آگ لگ جائے تیری مستی پر
اشتیاق ایسا کیا زیادہ ہے
خیر ہے، کہئے کیا ارادہ ہے؟
جان ہلکان ہو گئی بخدا
چھوڑ غارت گئے مرا پیچھا
کیا دھما چوکڑی مچائی ہے
تیری بختاوری کچھ آئی ہے
کتنا بد اختلاط ہے، در گور
کیا برا ارتباط ہے، در گور
تو تو عادی ہے اور باتوں کا
بات کیا مانے دیو لاتوں کا
چمٹا جاتا ہے بے حیا یک لخت
بھوت ہے یا پلیت ہے کم بخت
کچھ نمو ہی نہ مجھ کو جانئے گا
دیکھئے پھر برا نہ مانئے گا
موت سے، جیتے اکھاڑ ڈالوں گی
مکڑی کی طرح جھاڑ ڈالوں گی
کوسا جا رہا ہے، برا بھلا کہا جا رہا ہے، اپنی خراب حالت کا بیان بھی ہو رہا ہے، عاشق کو بد ذات، نگوڑا، نٹ کھٹ، زہریلا سب کچھ کہا جا رہا ہے، دھمکیاں بھی دی جا رہی ہے اور ساتھ ہی یہ پوشیدہ خواہش بھی ہے کہ عاشق اسے اسی طرح ستاتا رہے، پریشان کرتا رہے، نوچتا رہے، جھوٹ بول بول کر مکرتا رہے، جو کچھ کر رہا ہے، بس کرتا ہی رہے، یہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں، یہ انداز ہی اور کچھ ہے:
چپکے چپکے پکارتی تھی کبھی
ڈھیلے ہاتھوں سے مارتی تھی کبھی
کبھی جھنجھلا کے سر پٹک دینا
ہاتھ لے کر کبھی جھٹک دینا
کبھی باتوں میں ہوش کھو دینا
کبھی کھسیانی ہو کے رو دینا
کبھی تیوری چڑھا کے چپ رہنا
اور کبھی مسکرا کے یہ کہنا
رحم مجھ پر نہیں کچھ آتا ہے
کوئی مہماں کو یوں ستاتا ہے!
اتنا بھی بے حیا نہیں دیکھا
ایسا چکنا گھڑا نہیں دیکھا
اس انداز میں جو ناز نخرے ہیں اور جو شوخی اور بانکپن ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نظم عاشقانہ ہے، عورت اور مرد کے رشتے کی کہانی ہے، جنسی جذبہ متحرک ہے، حواس کی تسکین کی آرزو ہے، جو پوری ہو جاتی ہے۔ تیز اور ترش لہجے کے اندر پیار کے آہنگ کی نرمی اور ملائمت پوشیدہ ہے۔ جذبے کے کئی رنگ ابھرتے چلے آتے ہیں۔ ہیروئن کے مزاج کی تشکیل میں نفسی، جسمانی کیفیتوں نے نمایاں حصہ لیا ہے، ہیروئن کے مکالمے ایسا ڈرامائی منظر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم یہ منظر دیکھنے لگتے ہیں اور مکالموں کو سن کر اسے بہت پاس بہت قریب محسوس کرنے لگتے ہیں، اس مثنوی کی جمالیاتی خصوصیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے انہیں نظرانداز نہیں کر سکتے۔ مرکزی کردار کے جو تجربے حاصل ہوتے ہیں، وہ یقیناً لذت آمیز ہیں، لیکن وہ صرف جنسی نہیں رہ جاتے، جمالیاتی بن جاتے ہیں کہ جن میں تخیل سے جذبوں تک کا سفر اہمیت رکھتا ہے۔
٭
’’بہار عشق‘‘ کی کہانی ماحول اور زندگی کی سچائیوں سے گہرا رشتہ رکھتی ہے، عاشق اور محبوب جو تجربے حاصل کرتے ہیں ان میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو موجود جو پلاٹ ہے اس میں وقت اور مقام کی بھی یہی خبر ہے۔ مرزا شوق کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے واقعے کو ڈراما بنا دیا ہے، اسے تخیل اور جذبے کی آنچ دی ہے، سچی نفسی کیفیات کے آہنگ سے آشنا کر دیا ہے اور واقعے کو کرداروں کے عمل اور رد عمل سے اس حد تک محسوس بنا دیا ہے کہ مٹی کی خوشبو نتھنوں میں سمانے لگتی ہے۔ ’نفسی رد عمل‘ اور ’نفسیاتی جسمانی تاثرات‘ غیر معمولی نوعیت کے ہیں، یہ تخلیق کے جمالیاتی ارتعاشات ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں، موتف (Motif) جنسی اور عاشقانہ ہے، ایک خوبصورت، البیلے، دلکش، سادہ، فطری، سلیس اور با محاورہ اسلوب نے اس موتف کو بلندی بخش دی ہے۔ ’سیکس‘ کے کھیل سے رومان کی آخری حد تک نمائش یا (Exhibitionism نہیں ہے بلکہ شرینگار رس (Srngara Rasa) کے جلوے ہیں۔
ہندوستانی جمالیات کی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی آیاکہ جس میں یہ کہا گیا کہ صرف ’’شرینگاررس‘‘ ہی ایک ’رس‘ ہے اس کے علاوہ کسی اور ’رس‘ کا وجود ہی نہیں ہے، اس کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا گیا کہ دوسرے تمام رسوں کا حسن اس میں سمٹ آیا۔ ’شرینگار رس‘ کے پیش نظر ’’بہار عشق‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی بعض جمالیاتی خصوصیتیں بہتر طور پر نمایاں ہوں گی۔ شرینگار رس کے مطابق اچھی تخلیق کلی سے آہستہ آہستہ پھول بنتی ہے، اسے ’وکاس (Vikasa) کہا گیا ہے۔ تجربہ ایک کلی کی مانند جب آہستہ آہستہ نکلنے لگتا ہے تو ہم شرینگار رس کے پاس پہنچنے لگتے ہیں، ’بہار عشق‘ میں عاشق لبِ بام ایک خوبصورت چہرہ دیکھ لیتا ہے اسی وقت تجربہ کلی کی مانند چٹکتا ہے:
بام روشن تھا طور کی صورت
سر سے پا تک تھی نور کی صورت
گل سے رخسار، گول گول بدن
گات جس طرح قمقمے روشن
رخ پہ وہ بکھرے بکھرے زلف کے بال
بے حسی کے وہ دانت رشکِ قمر
جانِ عاشق نثار ہو جس پر
ناک میں نیم کا فقط تنکا
شوخی، چالاکی، مقتضا سِن کا
آستینوں کی وہ پھنسی کرتی
جسم میں وہ شباب کی پھرتی
قد میں آثار سب قیامت کے
گوری گردن میں طوق منت کے
عکس رخ موتیوں کے دانوں میں
بجلیاں چھوٹی چھوٹی کانوں میں
رگِ گل سی کمر لچکتی ہوئی
چوٹی، ایڑی تلک مٹکتی ہوئی
کیا خدا داد، حسن پایا تھا
آپ اللہ نے بنایا تھا
کلی کے چٹکتے ہی رومانیت کی شعاعیں گرفت میں لے لیتی ہیں، شرینگار رس کی پہلی لذت مثنوی کے حسن کا احساس بخشتی ہے۔ خوبصورت چہرہ یا حسین وجود خود ’شرینگار رس‘ لیے ہوئے ہے۔ حسن و جمال کا پیکر فنکار، عاشق اور قاری تینوں کا تجربہ بن جاتا ہے۔ حسن کے ایک ایک اشارے کو اس خوبصورت زبان میں اس طرح پیش کیا گیا ہے، جیسے لبِ بام، ہم خود عاشق کی طرح یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔
’’شرینگار رس‘‘ کے مطابق اچھی تخلیق میں ’’وکاس‘‘ کے بعد ’’وستار‘‘ (Vistara) ہوتا ہے یعنی پھول بن جانے کے بعد تجربے کی خوشبو پھیلتی ہے، واقعات یہ خوشبو لیے ہوتے ہیں، حسن و عشق دونوں میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے، تجربوں کا شہد ٹپکنے لگتا ہے، یہاں ذہنی اور نفسی تصادم، آرزو مندی، حسی کیفیات، عشق (کام) سب کی تصویریں مختلف تاثرات کے ساتھ ابھرنے لگتی ہیں، بہار عشق میں عاشق کی حالت اور کیفیت کے ذکر سے تجربے کا پھیلاؤ (وستار) شروع ہوتا ہے:
کوئی سمجھا کہ زہر کھایا ہے
کوئی بولا کہ جِنّ کا سایا ہے
کوئی کہتا تھا، ہے کوئی آزار
کوئی بولا نظر کا ہے اسرار
ایک رمّال نے کہی یہ بات
’’ان پہ بھاری بہت ہے آج کی رات‘‘
اب دوا و دوش ہے بے ہنگام
اس کا تو ہوچکا ہے کام تمام
مشکل اس سائے کا اتارا ہے
اس کو تو اک پری نے مارا ہے!
اور اس کے بعد ڈرامے میں اٹھان آتی ہے، ہیروئن کو عاشق کا حال معلوم ہوتا ہے تو اس کا رد عمل بھی توجہ طلب بن جاتا ہے، تلخی اور ترشی ڈرامے میں تصادم پیدا کرنے کے لیے ہے، اس کے پیچھے شرینگار رس کی آہستہ آہستہ لذت سے آشنا کرتی رہتی ہے:
میری جوتی سے زہر کھایا ہے
مجھ کو کس بات پر دھرایا ہے؟
ایسے جھگڑے مری بلا جانے
میں کہاں وہ کہاں خدا جانے
جان دیتے ہیں زہر کھاتے ہیں
مر چڑا پن مجھے دکھاتے ہیں
بس چلے تو میں اور دے دوں زہر
برے کی جان پر خدا کا قہر!
اب دیکھئے شہد کس طرح ٹپکتا ہے:
خیر! اب جلد تم یہاں سے جاؤ
جس طرح ہو سکے دوا پلواؤ
پہلے اپنی طرف سے دم دینا
پھر مری جان کی قسم دینا
پھر یہ کہنا کہ او خدائی خراب
کیوں گنواتا ہے اپنا حسن و شباب
دو مہینے میں تم کو خبط ہوا
سال دو سال بھی نہ ضبط ہوا
اور پھر آہستہ سے یہ کہا جاتا ہے:
’’اک ذرا پھر بھی حال کہہ جاتا‘‘ !
اور یہ اشارہ کیا جاتا ہے:
ہم بھی درگاہ آج جائیں گے
ہو گی فرصت تو واں بھی آئیں گے!
پھیلاؤ (وِستار) اس طرح ہوتا ہے کہ دونوں کردار ایک دوسرے کے لیے آہستہ آہستہ جمالیاتی تجربے بننے لگتے ہیں، ہیروئن کے اندازِ گفتگو ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بھی عاشق کو اپنا ’’جمالیاتی تجربہ‘‘ بنانے کی خواہش مند ہے۔ شرینگار رس آہستہ آہستہ پھیلتا محسوس ہوتا ہے۔ مسرت اور انبساط جمالیاتی تجربے کا جوہر ہے، جو موجود ہے، ’’شرینگار رس پرکاش‘‘ (بھوج) کے مطابق جمالیاتی تجربے کی ایک اہم منزل مغرورانہ احساس یعنی ’اہنگار‘ (Ahakara) بھی ہے، اس منزل پر کردار کی ’انا‘ لہرانے لگتی ہے۔ سبب یہ ہوتا ہے کہ شعور کی کسی نہ کسی سطح پر اپنے حسن کا احساس بڑھ جاتا ہے، جب یہ معلوم ہو کہ کوئی فریفتہ ہو گیا ہے، تو مغرورانہ احساس یا اہنکار کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ مثنوی ’’بہار عشق‘‘ میں ’اہنکار‘ کی دلکشی توجہ طلب ہے۔ہیروئن کے مکالموں میں شرینگار رس اور ’اہنکار‘ کی اتنی خوبصورت آمیزش ہے کہ اس کی مثال نہ ملے۔ اس آمیزش سے اچھی شاعری نے بھی جنم لیای ہے اور کہانی میں ڈرامائی کیفیتیں بھی پیدا ہوئی ہیں :
نام چلنے کا سن وہ عاشق کش
بولی تیوری چڑھا کے خیر! چہ خوش؟
ہوتے سوتوں کو اپنے وہ بلوائے
خوبی گرمی کی، کیا مزے میں آئے
دل میں یہ کیا خیال آیا ہے
خانگی کسبی کچھ بنایا ہے
کوئی مرتا ہے کیوں بلا جانے
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانے
بیٹھے بیٹھے فتور اٹھایا ہے
کچھ قضا کا پیام آیا ہے
دور ہو بس کہ ہے قصور معاف
پاس کرتی ہوں جان کر اشراف
ورنہ اس کا مزہ چکھا دیتی
کیا کہوں جو تمہیں سزا دیتی
اب خبردار یاں نہ آئے گا
پھر نہ یہ بات منہ پر لائیے گا
شرینگار رس میں ’اہنکار‘ شامل ہوتا ہے اور مسرت و انبساط حاصل ہونے لگتا ہے، اس لیے کہ ’اہنکار‘ کے شامل ہوتے ہی تحرک پیدا ہو جاتا ہے۔ کہانی میں زندگی اور حرکت آ جاتی ہے۔ عشق کے پیکر جمالیاتی تجربے سے سرشار ہونے لگتے ہیں، کچھ پانے کی چاہت بڑھنے لگتی ہے۔
شرینگاررس کے مطابق اچھی تخلیقی میں وکاس اور وستار کے بعد ایک قسم کی مستی اور سرشاری آ جاتی ہے۔ اس کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو بہت تیز جھولا جھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اسے کشوبھا (Kasobha) کہا گیا ہے، جو جھولا تیز تیز جھلا رہا ہے۔ اس کے خلاف کبھی ہلکا اور کبھی تیز احتجاج بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی اسی طرح تیز تیز جھولنے کی خواہش پوری شدت کے ساتھ موجود بھی رہتی ہے۔ مثنوی بہار عشق میں یہ مستی اور سرشاری موجود ہے۔ ’’تیز تیز جھولا جھولنے‘‘ کا منظر بھی سامنے ہے، ہلکا اور تیز احتجاج بھی ہے، ہیروئن کے نمائشی احتجاج کی پہچان بھی مشکل نہیں ہے، خود سپردگی کی تمنا بھی بیدار ہے۔ پہلے تو ہیروئن حضرت عباس کی درگاہ جانے کے بہانے ڈولی پر سوار ہو کر عاشق کے گھر آتی ہے:
اتنے میں آدمی نے دی یہ خبر
’’اک سواری کھڑی ہے ڈیوڑھی پر‘‘
آئی ماما بھی ایک ہے ہمراہ
کتنی چالاک ہے خدا کی پناہ
اپنے سائے سے بھی بھڑکتی ہے
بوٹی بوٹی پڑی پھڑکتی ہے
ہنسی، ٹھٹھا، ضلع جگت میں طاق
چل رہی ہے زبان تڑاق تڑاق
منہ دوپٹّے سے ڈھانپتی اتری
خوف کے مارے کانپتی اتری
نیچی نظروں سے دیکھ بھال لیا
سر پہ آنچل الٹ کے ڈال لیا
سب حیا سے بدن چرائے ہوئے
پائچے ناز سے اٹھائے ہوئے
گھونگرو جوتی کے چھم چھماتے تھے
ہاں میں ہاں اور یہ ملاتے تھے
کچھ رُکھائی تھی کچھ لگاوٹ تھی
کچھ حقیقت تھی، کچھ بناوٹ تھی
مثنوی کا یہ حصہ فنی فضیلت (Artistic Excellence) کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ’کشوبھا‘ (Kasobha) کے رنگ اور مناظر دیکھئے! ہیروئن جھولے پر ہے اور عاشق ’’اسے تیز تیز جھلا رہا ہے‘‘ :
جان کر ڈال سب مری ہلکان
بھٹ پڑے سونا جس سے ٹوٹیں کان
کچھ عجب ڈھنگ ہیں طبیعت کے
بہت آراستہ ہو صحبت کے
تھے اسی دن کو سب اٹھا رکھے
کیا کیا ارمان ہیں خدا رکھے
بولی ’باتیں بنا نہ میرے ساتھ‘
’اب تو میں لگ گئی ہوں تیرے ہاتھ‘
مجھ پہ مرتے ہو تم؟ قرآن کسوں ؟
سچ کہو تم کو میری جان کسوں
اے تو دنیا میں قیامت رہ
چاہنے والا تو سلامت رہ
باؤلی ہو جو تیرے فقروں میں آئے
چاہ میں جان اپنی کون گنوائے
جب نہ مانی کسی طرح منّت
ہاتھا پائی کی آ گئی نوبت
ڈر سے رخسار دونوں زرد ہوئے
خوف سے ہاتھ پاؤں سرد ہوئے
کیسا بیٹھا ہے گریۂ مسکیں
جیسے کچھ گویا جانتا ہی نہیں
کیسا بے رحم موذی آفت ہے
اب تلک میری غیر حالت ہے
کیا مجھے بے قرینہ کر ڈالا
سب پسینے پسینے کر ڈالا
پچیس تیس اشعار کہ جن میں جنسی کیفیات ہیں، کشوبھا‘ کے تحت رکھے جا سکتے ہیں۔
’’شرینگار رس‘‘ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب رومان پرور فضا اور ماحول میں حسن ایک کلی کی مانند نمودار ہوتا ہے، پھر یہ کلی کھلتی ہے، پھول کے وجود میں آتے ہی جمالیاتی جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ کئی دوسرے جذبوں کو ہم آہنگ کر لیتا ہے اور اس کے بعد محبت (پریمن) اپنی ہمہ گیری، تہہ داری اور لذتیت کا احساس بخشنے لگتی ہے۔ اس مثنوی میں محبت پروان چڑھتی ہے اور آخر میں شادی ہو جاتی ہے۔ ڈرامائی کیفیت، رومانی تجربوں کی پیشکش کے منفرد انداز، فطری انداز گفتگو، جذبات نگاری، صحت زبان، محاوروں کے فطری استعمال، بیان کی شگفتگی اور مٹھاس، اسلوب بیان کے جادو اور شرینگار رس کی عمدہ خصوصیات کے پیش نظر مثنوی بہار عشق کلاسیکی اردو لٹریچر کا ایک قیمتی تحفہ ہے۔
٭٭٭