FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہتک

گوتم بدھ آنکھیں بند کیے پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا۔

اس شخص نے پوچھا ’’اگر میں آپ کو اپنا رہنما، اپنا گرو تسلیم کر لوں تو کیا میں جان سکوں گا کہ سچائی کیا ہے؟ مجھے سچائی کا علم ہو جائے گا؟‘‘

گوتم بدھ کی آنکھیں کھل گئیں، کہا ’’یہ ضروری نہیں ہے، میں تمہیں اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ تم سچائی جان لو گے، البتہ صرف ایک بات کی ضمانت دے سکتا ہوں۔ ‘‘

’’کس بات کی ضمانت؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

گوتم بدھ نے کہا ’’اس بات کی ضمانت کہ میں تمہاری پیاس اور بڑھا دوں گا۔ اس کے بعد ہر بات کا انحصار تم پر ہو گا۔ میں اپنی پیاس بھی تمہیں دے دوں گا، اس طرح تم اور زیادہ پیاسے ہو جاؤ گے، تمہاری تشنگی اور بڑھ جائے گی، اگر تم تیار ہو تو بتاؤ۔ میں اپنی پیاس تمہیں دے دوں، جب میں اپنی پیاس تمہیں دوں گا تو تمہیں بہت تکلیف ہو گی اس لیے کہ تمہارے پاس اپنی پیاس بھی موجود ہے۔ میری پیاس تمہیں اور زیادہ پیاسا بنا دے گی، تشنگی بجھتے نہ بجھے گی۔ سفر تکلیف دہ ہو گا، ذات کا ارتقائ، تکلیف دہ ہو گا، اگر تم اجازت دو گے تو میں تمہارا درد بڑھا دوں گا۔ یہ درد ہی ہو گا کہ جس سے وجود مقدس بنے گا، درد ہی وجود کو روشنی دے گا! درد وجود کو روشنی دیتے رہنے کا پراسرار عمل ہے۔ جیسے جیسے روشنی ملے گی وجود میں تقدس پیدا ہوتا جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کر بدھ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

ایک بڑا تخلیقی فنکار یہی کرتا ہے ’’اپنی پیاس‘‘ اپنی تشنگی ہمیں دے دیتا ہے۔ اپنی پیاس تو موجود ہی رہتی ہے کہ فنکار کی تشنگی بھی درد لیے اس میں شامل ہو جاتی ہے، درد اور بڑھ جاتا ہے، جیسے جیسے درد بڑھتا ہے وجدان متاثر ہوتا رہتا ہے اور ’’وژن‘‘ میں چمک پیدا ہوتی رہتی ہے۔

’’ہتک‘‘ اردو فکشن کا ایک شاہکار ہے۔ سعادت حسن منٹو نے دراصل اپنی تشنگی اپنے باطنی کرب کے ساتھ ہمیں اس طرح دی ہے کہ ہم اپنی پیاس اور اپنے درد کے تئیں زیادہ بیدار اور آگاہ ہو گئے ہیں، فنکار اور اس کے موضوع اور اس کے کردار کی پیاس قاری کی پیاس سے مل گئی ہے اور درد بڑھ گیا ہے، کرب میں اضافہ ہو گیا ہے، یہ درد ہی سچائی کا عرفان ہے۔

’’ہتک‘‘ کی سوگندھی طوائف ہے کہ جس نے زندگی کا رقص دیکھا ہی نہیں، زندگی اس کے لیے کبھی جشن نہیں بنی، گاہک آتے ہیں اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پانچ برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ دس روپے اس کا عام نرخ ہے جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلالی کے کاٹ لیتا ہے، اسے ساڑھے سات روپے روز مل جاتے ہیں جنہیں سوگندھی اپنی اکیلی جان کے لیے کافی سمجھتی ہے۔ اس کا ایک نام نہاد عاشق مادھو ہے، پونے سے آ جاتا ہے اور اس پر دھاوا بول کر دس پندرہ روپے وصول کر لیتا ہے۔ سوگندھی کی کھولی میں چار تصویریں فریم میں لگی ہوئی ہیں، ان میں ایک تصویر مادھو کی بھی ہے۔

اپنی میکانکی زندگی میں وہ مادھو کو پسند بھی کرتی ہے، اس لیے کہ وہ جب بھی آتا ہے اپنی باتوں سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سوگندھی جانتی ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی اس کی باتیں اسے اچھی لگتی ہیں۔ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ روپے لینے آتا ہے، جب بھی آتا ہے اس قسم کی باتیں کرتا ہے۔ ’’میں پونے میں حوالدار ہوں، یہ دھندا چھوڑ میں تجھے خرچ دوں گا، کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟‘‘ سوگندھی چند لمحوں تک اس کی باتوں سے خوش ہوتی رہتی ہے۔ سپاٹ اور بار بار خود کو دہراتی ہوئی اس زندگی میں چند لمحوں کا یہ گریز اسے اچھا لگتا ہے۔ جانتی ہے مادھو جب بھی آئے گا یہی باتیں کرے گا۔ مادھو نے کبھی پونہ سے خرچ نہیں بھیجا ہے اور نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا ہے۔ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ نہ سوگندھی نے مادھو سے یہ کہا ہے تو یہ ٹرٹر کیا کرتا ہے۔ ایک پھوٹی کوڑی بھی کبھی دی ہے تو نے، نہ مادھو نے کبھی سوگندھی سے پوچھا ہے ’’یہ مال تیرے پاس کہاں سے آتا ہے جب کہ میں تجھے کچھ دیتا ہی نہیں ‘‘ دونوں جھوٹے ہیں، دونوں ایک ملمع کی ہوئی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن سوگندھی خوش ہے۔ ’’جس کو اصل سونا پہننے کو نہ ملے وہ ملمع کیے ہوئے گہنوں پر راضی ہو جایا کرتا ہے۔‘‘

رات کے دو بجے جب کہ وہ تھکی ماندی پڑی ہے رام لال دلال آتا ہے، وہ ایک گاہک لے کر آیا ہے جو اس کا نیچے انتظار کر رہا ہے۔ ساڑھے سات روپے کا سودا ہے۔ یہ سوچ کر کہ وہ یہ روپے اس عورت کو دے دی گی کہ جس کا خاوند موٹر کے نیچے آ کر مرگیا ہے اور جو اپنی جوان لڑکی کے ساتھ وطن جانا چاہتی ہے وہ رام لال کے ساتھ نیچے آتی ہے، جب گاہک ٹارچ جلا کر اسے دیکھتا ہے تو سوگندھی اس کے منھ سے صرف یہ سنتی ہے ’’اونہہ۔‘‘ گاہک اپنی کار پر اسی طرح بیٹھا چلا جاتا ہے۔

یہ لفظ ’’اونہہ‘‘ اس کے کانوں میں بھنبھنانے لگتا ہے۔

اس نے اسے پسند نہیں کیا ہے! وہ تلملا جاتی ہے، اس کا رد عمل کئی صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے، چوں کہ اس ’’اونہہ‘‘ سے اس کا پورا وجود، اس کی نفسیات، اس کے احساسات اور جذبات سب میں ہلچل سی آ گئی ہے اس لیے ہم کئی سطحوں پر اس کے نفسیاتی رد عمل کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ سیٹھ سے انتقام لینے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے لیکن مجبور ہے، ایک ایک کر کے چاروں تصویروں کو توڑتی ہے اور مادھو کے سامنے اس تصویر کو بھی کہ جو مادھو کی ہے۔ مادھو کو لتاڑتی ہے۔ مادھو کے جملوں کو دہرا کر اسے ذلیل کرتی ہے۔ وہ اسے نکال دیتی ہے۔ پھر ایک سناٹا سا چھا جاتا ہے۔ ایسا سناٹا اس نے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہر شئے خالی ہے۔ جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہو گئی ہے۔

یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہو گیا ہے اسے بہت تکلیف اور اذیت دے رہا ہے۔ بہت دیر تک بید کی کرسی پر بیٹھی رہتی ہے پھر اٹھ کر اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں لیے ساگوان کے چوڑے پلنگ پر آتی ہے اور اسے پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے۔

سعادت حسن منٹو نے سوگندھی کی زندگی کی پیاس ہمیں دے دی ہے، قاری کے درد کو اور بڑھا دیا جاتا ہے، ہم اپنے سماج کو جانتے پہچانتے ہیں، اذیتوں اور تکلیفوں سے واقف ہیں، درد کا ایک رشتہ بھی رکھتے ہیں، لیکن اس درد اور اس سناٹے کا عرفان کسی تخلیقی فنکار کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے تو زندگی کے کھوکھلے پن اور خالی پن (emptiness) کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ایسے کرداروں کے ذریعہ اذیت ناک زندگی تک پہنچانے والے مضمحل، نڈھال اور نیم مردہ چکروں کی پہچان بھی ہونے لگتی ہے۔

’’ہتک‘‘ کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ اس میں ماحول اور فرد کے تجربوں کی وجہ سے بڑے خوبصورت ارتعاشات (vibrations) پیدا ہو گئے ہیں، نفسیات کی مختلف سطحوں نے ان خوبصورت ارتعاشات کو اور بھی محسوس اور توجہ طلب بنا دیا ہے۔ حسی حقیقت پسندی عروج پر ہے، اردو فکشن کا یہ کردار ہمیشہ یاد رہے گا، اس لیے کہ سوگندھی زندگی کے المیہ (Tragedy) کا خود جواب بن گئی ہے! اور اس طرح المیہ اور گہرائی میں اترنے لگا ہے، اس گہرائی میں تشنگی کا اور احساس ہوتا ہے۔ درد اور بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اندر، بڑی گہرائیوں میں، المیات کی تاریکی میں سوگندھی کا وہ اضطراب ہے جو پیاس اور درد کی شدت کا نتیجہ ہے۔

اس افسانے کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ جہنم میں رہتے ہوئے بھی سوگندھی دل کی گہرائیوں میں محبت اور انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے، یہ اس کی فطرت ہے، دکھاوا نہیں ہے۔ اس کے چہرے پر کوئی ’’ماسک‘‘ نہیں ہے۔ زندگی میں خلا ہے، زندگی کھوکھلی ہے، زندگی کا رس نہیں ملا ہے، بڑی تشنگی ہے، درد بار بار بڑھتا ہے، زندگی کا سفر اذیت ناک بنتا رہتا ہے لیکن وہ زندہ ہے، جس رنگ میں رنگ گئی ہے اس رنگ کے ساتھ! یہ اس کی اپنی طاقت ہے جو اسے زندہ رکھے ہوئی ہے، زندہ ہے اس لیے جہنم کی آگ کی لپٹیں اس تک بار بار آتی ہیں۔

’’سوگندھی‘‘ کا کمرہ اس کی زندگی میں غلاظت، ناپاکی، اتھل پتھل اور انتشار اور اضطراب کا اعلامیہ ہے۔ کمرہ بہت چھوٹا ہے جیسے خود اس کا چھوٹا سا وجود ہے! چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی ہیں جیسے خود اس کے وجود کے تار بکھرے ہوئے ہیں۔ کوئی خوبصورت سر ہے اور نہ تال، تین چار سوکھے سڑے چپل پلنگ کے نیچے پڑے ہیں جن کے اوپر منھ رکھ کر ایک خارش زدہ کتا سو رہا ہے اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منھ چڑا رہا ہے۔ اس کتے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اڑے ہوئے ہیں، دور سے اگر کوئی اس کتے کو دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ پیر پونچھنے والا پرانا ٹاٹ دوہرا کر کے زمین پر رکھا ہے۔ یہ سوکھے سڑے چپل اور یہ کتا، یہ سب ماضی سے حال تک کی کہانی سنا رہے ہیں، یہ سوکھے سڑے چپل اور یہ خارش زدہ کتا اس کے ’’تجربے‘‘ ہیں، یہ تجربے ماضی میں ہیں، پلنگ کے نیچے، شعور اور لاشعور کے درمیان، ان پر بھی کبھی کبھی نظر پڑ جاتی ہے، جو گاہک آتے ہیں وہ پھر سوکھے سڑے چپل اور خارش زدہ کتے ہی کی طرح پلنگ کے نیچے ماضی میں، تحت الشعور میں چلے جاتے ہیں۔

چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگار کا سامان رکھا ہوا ہے، گالو ں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سرخ بتی، پاؤڈر، کنگھی اور لوہے کی پن جو وہ اپنے جوڑے میں لگایا کرتی ہے۔

یہ آرائش کا سامان ہے، مختصر سا سامان، چہرے کو نمائش کے لیے پیش کرنے کو سوگندھی جیسی طوائف کے لیے کہ جس کا عام نرخ صرف دس روپے ہے اور ان دس روپیوں میں سے بھی ڈھائی روپے دلال کے ہیں، اور کیا چاہیے، یوں بھی اپنے چہرے کو ہر شخص پسند کرتا ہے۔ اس کے لیے چٹکی بھر پاؤڈر اور چٹکی بھر گالوں پر لگانے کی سرخی اور ہونٹوں کی سرخ بتی کافی ہے۔

پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا ہے۔ طوطا اپنی گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سوتا رہتا ہے۔ پنجرے کے اندر کچے امرود کے ٹکڑے ہیں۔ گلے سڑے سنگترے کے چھلکے پھینک دئیے جاتے ہیں۔ ایک طرف ہزماسٹرز وائس کا ’’پورٹ ایبلی‘‘ گراموفون پڑا ہے، اس گراموفون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بری حالت ہے، زنگ آلود سوئیاں تپائی پر بکھری ہوئی ہیں۔ سوگندھی بھی ایک پورٹ ایبل گراموفون ہے، گھسی ہوئی زنگ آلود سوئیوں سے بجتا ہوا ریکارڈ ہے۔‘‘ اس کے کمرے میں بھی اسے دیکھنے سننے لوگ آتے ہیں اور وہ ’’پورٹ ایبل گراموفون‘‘ کی طرح باہر بھی جاتی ہے کہ جیسے اس شب ہوا، جب کار والا سیٹھ سے لے جانا چاہتا ہے لیکن اسے دیکھتے ہی ’’اونہہ‘‘ کہہ کر چلا گیا۔

دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں گنیش جی کی شوخ رنگ کی تصویر ہے جو تازہ اور سوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی ہے، شاید یہ تصویر کپڑے کے کسی تھان سے اتار کر فریم میں جڑائی گئی ہے۔ اس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیر پر جو کہ بے حد چکنا ہو رہا ہے تیل کی ایک پیالی دھری ہے جو دیئے کو روشن کرنے کے لے وہاں رکھی ہوئی ہے، پاس ہی دیا پڑا ہوا ہے جس کی لو ہوا بند ہونے کے باعث ماتھے کے تلک کی مانند سیدھی کھڑی ہے۔ سوگندھی جب بوہنی کرتی ہے تو دور سے گنیش جی کی اس مورتی سے روپے کو چھوا کر اور پھر اپنے ماتھے کے ساتھ لگا کر انھیں اپنی چولی میں رکھ لیا کرتی ہے۔ کمرے میں بھگوان موجود ہیں۔ تحت الشعور میں ایک نفسیاتی سہارا بھی ہیں اور برکتوں کا سرچشمہ بھی۔ جیسی بھی زندگی گزارئیے وہ عنایتوں اور رحمتوں کا سایہ ڈالے رہتے ہیں۔ بھگوان سے رشتہ قائم رہتا ہے، وہ محافظ ہیں روزی دینے والے ہیں۔ بھگوان سے دل کا رشتہ ہوتا ہے، گنیش جی ہمیشہ اچھا ہی کام کرتے ہیں، حفاظت کرتے ہیں، پیسے میں برکت دیتے ہیں، جو ان کا کام ہے۔ وہ کام کرتے رہتے ہیں اس لیے وہ ہر گھر میں ہوتے ہیں، وہ کسی کام یا پیشے کو دیکھ کر کبھی ناراض نہیں ہوتے، ناراض ہونا ان کا کام ہی نہیں ہے، ان کا کام تو بس اپنی رحمت برسانا ہے۔ سوگندھی گنیش جی کے سامنے دیا روشن کرتی ہے اور نفسیاتی سکون حاصل کرتی ہے۔ جس پیشے سے وابستہ ہے وہ ایسا پیشہ ہے جو اسے بھگوان کے بہت پاس آنے سے روکتا ہے، لاج اور شرم کی وجہ سے بوہنی کے روپے کو گنیش جی کی تصویر سے دور رکھتی ہے۔ دور ہی سے روپے کو مورتی سے چھوا کر اور پھر اپنے ماتھے سے لگا کر انھیں اپنی چولی میں رکھ لیتی ہے۔

ان باتوں سے افسانے کی تخلیقی سطح بلند ہوئی ہے!

سوگندھی ریاکار اور فریبی نہیں ہے، جان بوجھ کر فریب کھاتی ہے اور اس سے لطف بھی لیتی ہے۔ اگر فریب نہ کھائے تو زندگی کیسے بسر کرے، کیا رہ گیا ہے کھانے کو، پانچ برس سے جو زندگی گزار رہی ہے وہ آنکھ مچولی ہے، کبھی وہ کسی کو تلاش کر لیتی ہے اور کبھی کوئی اسے ڈھونڈ لیتا ہے۔ بس اسی طرح اس کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔ ہر رات اس کا کوئی پرانا یا نیا گاہک کہتا ہے ’’سوگندھی میں تجھ سے پریم کرتا ہوں ‘‘ اور سوگندھی جو جانتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے بس موم ہو جاتی ہے، اپنے آپ کو مکمل طور پر حوالے کر دیتی ہے۔ چاہتی ہے:

’’اس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے، اس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کا سارا اس کے مساموں میں رچ جائے۔ یا پھر وہ خود اس کے اندر چلی جائے۔ سمٹ سمٹ کر اس کے اندر داخل ہو جائے اور اوپر سے ڈھکن بند کر دے، کبھی کبھی جب پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ اس کے اندر بہت شدت اختیار کر لیتا تو کئی بار اس کے جی میں آتا کہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود میں لے کر تھپتھپانا شروع کر دے اور لوریاں دے کر اسے اپنی گود ہی میں سلا دے۔‘‘

لوگ آتے ہیں اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر اسے جنسی آسودگی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ عورت کا سیکس صرف گوشت پوست اور ہڈیوں میں چھپا نہیں ہوتا۔ یہ سب میکانکی عمل ہوتا ہے جنسی عمل کب ہے؟ اس کی تشنگی قائم رہتی ہے۔ اسے اپنی چھاتیاں پسند نہیں :

’’سوگندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسند تھا۔ ایک بار جمنا نے اس سے کہا تھا نیچے سے ان سیب کے گولوں کو باندھ کر رکھا کر، انگیا پہنا کرے گی تو ان کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘

یوں سوگندھی اپنے دماغ میں زیادہ رہتی ہے لیکن جوں ہی کوئی نرم و نازک بات کوئی کومل بولی اس سے کہتا ہے تو جھٹ پگھل کر اپنے جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتی تھی، وہ ایسی تھکن چاہتی ہے جو اسے جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ جسم کے اعضاء کو مار کر سلانے پر مجبور کر دے، ایسی نیند دے جو تھک کر چور چور ہونے کے بعد آئے، ایسی نیند جو مزیدار ہوتی ہے۔ وہ بے ہوشی کتنی اچھی ہے جو مار کھا کر بند بند ڈھیلے ہو جانے پر طاری ہوتی ہے، کتنا آنند دیتی ہے۔

وہ محبت کر سکتی ہے اور اسے نباہ بھی سکتی ہے۔ اب تک چار مردوں سے اپنا پریم بناتی رہی ہے، ان کی تصویریں کمرے کی دیوار پر لٹک رہی ہیں۔ تجربے تلخ ہیں، سوچتی ہے وہ تو اچھی ہے لیکن یہ اچھا پن مردوں میں کیوں نہیں ہوتا، وہ بدصورت نہیں ہے، اس میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو مرد اس عورت میں ضروری سمجھتا ہے کہ جس کے ساتھ اسے ایک دو راتیں بسر کرنا ہوتی ہیں، اس کے اعضا تناسب میں، کبھی کبھی نہاتے وقت اس کی نگاہیں اپنی رانوں پر پڑتی ہیں تو وہ خود ان کی گولائی کو پسند کرتی ہے۔ شاید ہی کوئی مرد ایسا ہو جو اس سے ناخوش ہو کر گیا ہو۔ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ اپنی جنسی نا آسودگی کو خوب سمجھتی ہے۔

جب مادھو سوگندھی کو بار بار فریب دیتا ہے تو محسوس ہوتا ہے زندگی ہے، زندگی کے اس انداز سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ مادھو مہینے میں ایک بار آتا ہے اور وہ بھی سوگندھی سے کچھ روپے لینے، وہ جانتی ہے وہ کیوں آتا ہے اور اس کی دلچسپی کیا ہے مقصد کیا ہے لیکن جب آتا ہے تو اسے اپنا ہیرو تصور کرنے لگتی ہے۔ زندگی میں اس کے علاوہ اور کوئی ہے بھی تو نہیں کہ جسے وہ چند لمحوں، چند گھنٹوں، دو چار دنوں کے لے بھی ہیرو سمجھے۔ جو آتے ہیں وہ گاہک ہوتے ہیں، آتے ہیں جسم سے کھیل کر چلے جاتے ہیں، یہ مادھو ہے، جو آتا ہے تو کچھ وقت دیتا ہے، اس کے جسم سے پیار کرتا ہے، چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے، اس کے لیے خواب سجاتا ہے، ایک ہی قسم کا خواب پھر بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ جب مادھو سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو اس نے کہا تھا:

’’تجھے لاج نہیں آتی، اپنا بھاؤ کرتے، جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کر رہی ہے؟ اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں ؟ چھی چھی چھی، دس روپے اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلال کے باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ اب ان ساڑھے سات روپوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا۔ مجھے عورت چاہیے پر تجھے کیا اس وقت اسی گھڑی مرد چاہیے مجھے تو کوئی عورت بھی بھا جائے گی، پر کیا میں تجھے جچتا ہوں ! تیرا میرا ناطہ بھی کیا ہے، کچھ بھی نہیں، بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی دلالی میں چلے جائیں گے اور باقی ادھر ادھر بکھر جائیں گے، تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے ہیں تو بھی ان کا بجنا سن رہی اور میں بھی، تیرا من کچھ اور سوچتا ہے، میرا من کچھ اور ۔ کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری، پونے میں حوالدار ہوں، مہینے میں ایک بار آیا کروں گا۔ تین چار دن کے لیے، یہ دھندا چھوڑ، میں تجھے خرچ دیا کروں گا، کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟‘‘

ان نفسیاتی شعاعوں نے بڑا گہرا اثر ڈالا، پہلا تاثر گہرا ہوا۔ تب سے مادھو ہیرو جیسا بن گیا ہے۔ سوگندھی چند لمحات کے لیے خود کو حوالدارنی سمجھنے لگتی ہے۔

سوگندھی نیک ہے، حساس ہے، پیار پانے کی آرزو لیے ہوئے ہے، دل کی گہرائیوں میں پیاس ہے، تشنگی ہے۔ اس کے گاہک روز آتے ہیں، اس کے جسم سے کھیلتے ہیں، اسے تھکا دیتے ہیں، اکثر تھک کر بستر پر لیٹ جاتی ہے سو جاتی ہے، میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی جسے وہ سیٹھ کہتی ہے اکثر اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور گھر کو واپس چلا جاتا ہے۔ مادھو سوگندھی کی زندگی اور اس کی کھولی کے ماحول سے دلچسپی لیتا ہے تو وہ خوش ہوتی ہے، لمحوں کی مسرت اسے جانے کیا کچھ دے دیتی ہے، دل کی بہت اچھی ہے، ہمدرد ہے، محبت کرنا چاہتی ہے، محبت پانا چاہتی ہے، مدد کرنا چاہتی ہے۔ مادھو اس کے کمرے کی بکھری چیزیں قرینے سے رکھتا ہے تو سوگندھی متاثر ہوتی ہے۔ مادھو سے ہر ماہ تلخ تجربہ ہوتا ہے اس کے باوجود اسے برداشت کرتی رہتی ہے اور بہت حد تک خود غریبی میں مبتلا رہنا پسند کرتی ہے۔ حساس دل ہے ممتا اور پیار سے بھرا ہوا، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہے۔ ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس آتا ہے، صبح اٹھ کر جب وہ کھونٹی سے اپنا کوٹ اتارتا ہے تو بٹوہ غائب پاتا ہے۔ سوگندھی کا نوکر یہ بٹوہ لے کر بھاگ جاتا ہے۔ وہ نوجوان لڑکا چھٹیاں گزارنے کے لیے حیدرآباد سے آیا ہے، رات سوگندھی کے ساتھ بسر کی ہے۔ اب واپسی کے ٹکٹ کا پیسہ بھی اس کے پاس نہیں ہے۔ سوگندھی اس کے دس روپے واپس کر دیتی ہے۔

اس رات جب ایک سیٹھ اپنی کار میں نیچے آتا ہے اور رام لال دلال سوگندھی کو نیچے چلنے کو کہتا ہے تو سوگندھی راضی نہیں ہوتی ہے، اس سر میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ پھر سوچتی ہے اسے روپوں کی سخت ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی ہے جس کا خاوند موٹر کے نیچے آ کر مرگیا ہے۔ اس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت اپنے وطن جانا ہے، اس کے پاس کرایہ نہیں ہے، وہ اسے یہ روپے دے دے گی۔

سوگندھی کی ذات کی اس روشن جہت سے کہانی میں خوبصورت ارتعاشات (Vibrations) پیدا ہوتے ہیں۔ کردار کا معنوی حسن اجاگر ہوتا ہے۔ باطن کا خالی پن ایسے ہی ارتعاشات سے پر ہوا ہے۔ ٹریجڈی کا جواب کبھی اس طرح ملتا ہے کہ فریب کھاتے ہوئے لذت ملتی ہے، کبھی اس طرح کہ مردوں کے اندر جذب ہو جانا چاہتی ہے، خود مردوں کو پگھلا کر اپنے اندر جذب کر لینا چاہتی ہے۔ کبھی اپنے حسن کے احساس کو بڑھا کر اور کبھی ان مردوں کی تصویریں توڑ کر، کہ جن سے وہ جذباتی طور پر وابستہ رہی ہے، کبھی تیر کھائے زخمی پرندے کی طرح تڑپ کر کبھی انتقام کے جذبہ آتش کو روشن کر کے۔ یہ سب پہلو، یہ جہتیں اس کردار کے جلوے ہیں۔ ان سے پوری کہانی میں ارتعاشات پیدا ہوتے ہیں جن سے افسانے کی تخلیقی سطح بہت بلند ہو جاتی ہے۔

ایک ’’اونہہ‘‘ سے کہانی کی ٹریجڈی کی شدت حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔ فنکار مسلسل اپنی اور اپنے کردار کی تشنگی بڑھا دیتا ہے، درد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، المیہ کردار میں انانیت سر اٹھاتی ہے اور لہرانے لگتی ہے۔ تیز جذباتی آتشیں اٹھان ہے جو حمیت پر پڑی چوٹ کے شدید رد عمل کے طور پر سامنے آتی ہے، ’’اونہہ‘‘ کا تیر کلیجے میں پیوست ہے اور یہ اسی کا رد عمل ہے لیکن یہ جذباتی آتشیں اٹھان کمزوری اور مجبوری کو چھپا بھی نہیں سکتی۔ المیہ کردار کا یہ نصیب ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی لہراتی ہوئی انانیت کے ساتھ اٹھے اور پھر ڈھیر ہو جائے۔ تخئیل میں مخالف کردار کے پیکر مختلف صورتوں میں خلق کرے، تصادم اور کشمکش کی ایک فضا بن جائے۔ تحت الشعور اور لاشعور تک بات پہنچ جائے لیکن شکست اور زوال اس کا نصیب بن جائے۔

سعادت حسن منٹو نے سوگندھی کے ذہنی کرب اور ذہنی اور جذباتی تصادم کی خوبصورت تصویریں پیش کی ہیں، المیہ کردار کی کمزوری اور مجبوری کو بھی نمایاں کیا ہے۔ لہراتی ہوئی انانیت کا نقش بھی ابھارا ہے اور زوال اور شکست اور احساس شکست کے نقوش بھی اجاگر کیے ہیں، علامتوں اور استعاروں سے بھی کام لیا ہے اور طنز کے تیکھے پن سے بھی۔

المیہ کردار کی خلش، ذہنی کرب اور ذہنی تصادم کی ایک تصویر اس طرح ابھرتی ہے:

’’سوگندھی سوچ رہی تھی اور اس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں، اس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا اور کبھی رام دلال پر جس نے رات کے دو بجے اسے بے آرام کیا لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پا کر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی، اس خیال کے آتے ہی اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کی بانہیں، اس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ مڑتا تھا کہ اس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے، اس کے اندر یہ خواہش بڑی شدت سے پیدا ہو رہی تھی کہ جو کچھ ہو چکا ہے ایک بار پھر ہو، صرف ایک بار وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ بیڑی نکالے اور اس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ سوگندھی اندھا دھند اپنے پنجوں سے اس کا منھ نوچنا شروع کر دے، وحشی بلی کی طرح جھپٹے اور اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے اس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے، بالوں سے پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑادھڑ مکے مارنا شروع کر دے اور جب تھک جائے جب تھک جائے تو رونا شروع کر دے۔‘‘

اس المیہ کردار نے وحشی بلی بن کر تخیل میں یہ سب کچھ کر لیا ہے، اس کے تخیل نے ایک بار پھر دو بجے رات کے منظر کو پیش کیا ہے لیکن اس منظر کی صورت مختلف ہے۔ کردار وہی ہیں سیٹھ اور سوگندھی، لیکن واقعہ سیٹھ کے ’’اونہہ‘‘ کہہ کر جانے کے بعد کا ہے، تخیل نے اس منظر کو المیہ کردار کے ذہنی کرب اور نفسیاتی رد عمل کے پیش نظر خلق کیا ہے۔ سوگندھی ایک وحشی بلی کی طرح حملہ آور ہوتی ہے، سیٹھ کو کار سے گھسیٹ کر باہر لاتی ہے اور مکے مارتی ہے لیکن تھک جاتی ہے، مجبور اور کمزور ہے، کردار کی شکست جو ہوتی ہے، سچائی تو کچھ اور تھی۔ یہ تو اس کے غیظ و غضب کا منظر ہے جو چھلاوا ہے۔

دوسری تصویر دیکھئے:

’’سوگندھی بڑے آرام سے اٹھی اور ان چار تصویروں کے پاس آہستہ آہستہ گئی جو دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ بائیں طرف سے تیسرے فریم میں مادھو کی تصویر تھی، بڑے بڑے پھولوں والے پردے کے آگے کرسی پر وہ دونوں رانوں پر اپنے ہاتھ رکھے بیٹھا تھا، ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا، پاس ہی تپائی پر دو موٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ ‘‘

’’سوگندھی کھلکھلا کر ہنس پڑی، اس کی ہنسی کچھ ایسی تیکھی اور نوکیلی تھی کہ مادھو کے سوئیاں سی چبھیں، پلنگ پر سے اٹھ کر وہ سوگندھی کے پاس گیا ’’کس کی تصویر دیکھ کر تو اس قدر زور سے ہنسی ہے؟‘‘

سوگندھی نے بائیں ہاتھ کی پہلی تصویر کی طرف اشارہ کیا جو میونسپل کے داروغہ صفائی کی تھی۔ اس کی، منشی پالٹی کے اس داروغہ کی ذرا دیکھ تو اس کا تھوبڑا کہتا تھا ایک رانی مجھ پر عاشق ہو گئی تھی اونہہ! یہ منھ اور مسور کی دال‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی نے فریم کو اس زور سے کھینچا کہ دیوار میں سے کیل بھی پلستر سمیت اکھڑ آئی۔‘‘

سوگندھی فریم کو کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ہے۔ دو منزلوں سے نیچے گر کر فریم ٹوٹ جاتا ہے۔ کانچ ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی ہے، سوگندھی کہتی ہے ’’رانی بھگن کچڑا اٹھانے آئے گی تو میرے اس راجہ کو بھی ساتھ لے جائے گی۔ پھر ایک بار اسی نوکیلی اور تیکھی ہنسی کی پھوار میں وہ دوسری تصویر نوچتی ہے اور اس کا بھی وہی حشر ہوتا ہے۔ کہتی ہے ’’بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا‘‘ پھر وہ تصویر نوچی جاتی ہے جو مادھو کی ہے اور وہ بھی کھڑکی سے باہر چھناکے سے ٹوٹتی ہے۔ مادھو کہتا ہے ’’اچھا کیا، مجھے بھی یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔‘‘

یہ سننے کے بعد سوگندھی مادھو کے پاس آتی ہے کہتی ہے ’’تجھے یہ فوٹو پسند نہیں تھا پر میں پوچھتی ہوں، تجھ میں ہے ایسی کون سی چیز جو کسی کو پسند آسکتی ہے، یہ تیری پکوڑے ایسی ناک، یہ تیرا بالوں بھرا ماتھا، یہ تیرے سوجے ہوئے نتھنے، یہ تیرے مڑے ہوئے کان، یہ تیرے منھ کی باس، یہ تیرے بدن کا میل؟ تجھے اپنا فوٹو پسند نہیں تھا اونہہ، پسند کیوں ہوتا، تیرے عیب جو چھپائے ہوئے تھے۔‘‘

یہ سب ’’اونہہ‘‘ کا جواب ہے!

’’اونہہ‘‘ کا نفسیاتی رد عمل ہے،

المناک تجربے کا جواب ہے۔

یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، سوگندھی طنزیہ لب و لہجے میں مادھو کی ان باتوں کو دہراتی ہے، جنہیں وہ بار بار سن چکی ہے۔ مثلاً اگر تو نے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی، اگر تو نے پھر کسی کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر تجھے باہر نکال دوں گا، اس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کر دوں گا۔ ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا!

مادھو اس کی باتیں سن کر چیخ پڑتا ہے لیکن تیور دیکھ کر سہم بھی جاتا ہے۔ کتا بھونکنے لگتا ہے، سوگندھی زور زور سے ہنسنے لگتی ہے اور پھر مادھو کو باہر نکال دیتی ہے، اس کا خارش زدہ کتا دراصل اسے باہر نکال دیتا ہے

اور پھر ہر طرف سناٹا سا ہو جاتا ہے۔

درد تھمایا بڑھا!

تشنگی بڑھی یا کم ہوئی!

سوگندھی اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں اٹھاتی ہے اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے۔

محسوس ہوتا ہے جیسے المیہ کردار سبز طوطے کی طرح پنجرے میں بند ہو گیا ہے۔ اپنی گردن بالوں میں چھپائے ہوئے!

٭٭٭

Pages: 1 2 3 4 5 6 7 8