فہرست مضامین
ادبی ڈائری
مشرف عالم ذوقی
دو حرف ۔۔۔۔
’آبِ روانِ کبیر‘ جیسی ضخیم کتاب مکمل تو برقی کتاب نہیں بن سکی۔ میں نے اس کے پہلے دو ابواب کے دو حصے کر دئے ہیں۔ اور تیسرا حصہ کیونکہ متفرقات کے ذیل میں تھا، اس کی تین علیحدہ سے برقی کتب بنا دی ہیں۔ ذوقی کا لکھا ’دو لفظ اس کتاب کے تعلق سے‘ محض پہلے حصے میں شامل کیا ہے۔ برادرم ذوقی سے تو اجازت تو اس امر کی اجازت اب تک نہیں لی ہے، اور نہ لے رہا ہوں، اس امید سے کہ وہ برا نہ مانیں گے۔ لیکن یہ نوٹ لکھ رہا ہوں کہ اس مواد کو بطور حوالہ استعمال کرنے والے طلبا، رسرچ سکالر اور ادیب اصل کتاب ’آبِ روانِ کبیر‘ کا ہی حوالہ دیں۔
متفرقات کے باب کے طور پر شامل دوسری دو کتابیں ہیں’ منٹو اور میں‘ اور ’میری کہانی کی اور دوسری کہانی کار عورتیں‘ ۔
اعجاز عبید
ادبی ڈائری۔ ۱
تنہائی میرا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ تنہائی میری سب سے بڑی مضبوطی ہے۔ میں تنہا ہوتا ہوں اور اپنی دنیا کا سکندر اعظم بن جاتا ہوں۔ جو بس اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ اسے ساری دنیا کو فتح کرنا ہے— بند کمرہ— آنکھوں میں چھائی ہوئی دھند— میری میز— میری جانی پہچانی کرسی— شیلف میں سجی کتابیں۔ جب بھی گھبراتا ہوں ’پریشان ہوتا ہوں ‘ کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کمرہ بند کر لیتا ہوں — آنکھوں میں آہستہ آہستہ دھند کے اترنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دھند کی وادیاں در اصل میری سلطنت ہیں۔ دھند کی ان وادیوں میں اچانک ہزاروں قمقموں کے برابر روشنی پھیل جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں ‘ میں ہوا کے رتھ پر سوار ہوں۔ بس اڑتا جاتا ہوں۔ خوش رنگ مناظر حیرت سے اپنے آقا کی نہ ختم ہونے والی اڑان دیکھ رہے ہیں۔ خوش رنگ مناظر اور آقا—! لیکن یہ سارے گل بوٹے میرے ہیں۔ یہ منظر میرے دم سے خوش رنگ ہیں اور میرے وجود کی خوشبوسے کھلکھلا اٹھتے ہیں۔
میں ایک لمحے کو ٹھہرتا ہوں۔ آنکھوں میں جلتے ہوئے چراغ کانپ رہے ہیں۔
کیا ہوا—؟
کچھ نہیں۔
کچھ کیسے نہیں —؟
کیا بتاؤں، کسی نے میرے اب تک کے کمٹمنٹ کا مذاق اڑایا ہے۔
تو اڑانے دو۔ یہ بادشاہوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
لیکن میں دکھ جاتا ہوں۔
کیوں ؟
بس— یونہی— ساری زندگی لٹا کر بھی پوچھا جائے کہ تم نے کیا کیا ہے تو—؟ بس وہی چار کیلیں، جو مضبوطی سے ادب کے چوراہے پر ’گاڑ‘ دی گئی ہیں۔ مدتوں سے— چوراہے پر تو چار راستے ہیں۔ چار مختلف سمتوں میں …؟
ہاں … تو…؟
’دیکھنے والوں کی نظر کمزور ہے۔ ‘
’اس سے کیا ہوتا ہے۔ ‘
’دیکھنے والے کل تمہیں بھی دیکھیں گے اور دیکھتے رہ جائیں گے— گھبراؤ مت۔ موسم کا مزاج بدل رہا ہے۔ ہوا تیز ہے۔ ابھی حال میں ممبئی میں بارش نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ سونامی ہزاروں لاکھوں نشانیاں اپنے ساتھ لے گئی۔ ایک دن ایک تیز آندھی آئے گی۔ یہ چار کیلیں ‘ اکھڑ جائیں گی۔ پھر نئی کیلیں نکلیں گی۔ گھبراتے کیوں ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ میں کبھی نہیں گھبرایا۔ گھبراتا کیسے۔ یاد ہے۔ ہم چھوٹے تھے۔ تین بھائی، تین بہن۔ ابا سارے بچوں کو گھیر کر کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان کہانیوں میں داستان امیر حمزہ سے لے کر ملفوظات خواجگان چشت، رامائن، مہابھارت، ورڈس ورتھ سے غالب اور طلسم ہوش ربا سے دمیجک ماؤنٹین تک اور سراج انور کی کالی دنیا سے لے کر ہومی جہانگیر بھابھا جیسے سائنسدانوں کی کہانیاں یا آپ بیتی بھی ہوتی‘ جنہیں سنتا‘ سناتا ہوا میں کب اپنی سلطنت کا امیر بن بیٹھا‘ یاد نہیں — بچپن میں کھیل مجھے کبھی راس نہیں آئے۔ ہر کھیل میں ہار جاتا تھا۔ یاد ہے اس رات ابا خواجہ بابا (حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری) کے بارے میں بتا رہے تھے۔ جب انہیں خواجہ عثمان ہارونی کی پابوسی کی دولت نصیب ہوئی۔ وہ خواجہ کو لے کر بدخشاں میں آئے۔ ایک بزرگ سے ملے‘ جس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ تھی۔ وہ خدا کی یاد میں زندگی کے باقی ماندہ دن گزار رہا تھا لیکن اس کا ایک پاؤں نہ تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اک بار نفسانی خواہش کی خاطر اس نے جھونپڑی سے باہر قدم نکالا ہی تھا کہ آواز آئی کہ لے‘ آج تو اپنے اقرار سے پھر گیا۔ ہیبت طاری ہوئی۔ چھری پاس پڑی تھی۔ اس نے چھری اٹھائی۔ آنکھیں بند کیں۔ پاؤں کاٹ ڈالا اور باہر پھینک دیا—
ابا کہانی سنا چکے تھے۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میں کمرے میں آیا۔ دھند کے بننے اور پھیلنے کا سلسلہ شاید یہیں سے شروع ہوا۔
میں نے آنکھیں بند کیں۔ میں ہوں … میں ہوں …
میں مشرف عالم ذوقی… میں ہوں …
آواز آئی۔ لیکن تم کہاں ہو۔ تم تو کہیں بھی نہیں ہو۔ تم تو معمولی سے معمولی کھیل میں بھی ہار جاتے ہو…
جی پر لرزہ طاری تھا… میں ہوں … میں ہوں
میں اب نہیں ہاروں گا‘ میں اب صرف جیتوں گا‘ میں نے کھلونے اٹھائے۔ باہر پھینک دیئے۔ کھیل سے توبہ کر لی۔ قلم اٹھایا۔ آنکھوں سے لگایا۔ اب صرف جیتوں گا… صرف جیتوں گا۔
تنہائی سے یہ میری پہلی خود کلامی تھی جس نے مجھ میں جینے کا الکھ جگایا … مدتوں بعد پروفیسر ایس کی عجیب داستان لکھتے ہوئے یہ خود کلامی مجھ پر سوار تھی‘ جسے پروفیسر ایس کے کردار میں ڈھالتے ہوئے اور تین مونو لاگ کی شکل میں پیش کرتے ہوئے ایک عجیب سی تخلیقی سرشاری میرے وجود پر حاوی رہی…
تنہائی اور قلم— مجھے میرے جینے کا سہارا مل گیا تھا۔ میں اپنی تنہائیوں کو قصے جمع کرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ چھوٹے چھوٹے نوٹس تیار کرتا۔ پھر ان قصوں کو لکھ ڈالتا— یہاں تک کہ میری کہانیاں رسائل میں شائع ہونے لگیں۔ زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ بھی کہ غرور کسی بھی تخلیق کار کے لیے موت سے کم نہیں — مجھے یاد ہے‘ اسکول سے کالج تک میں اپنے ’ہونے‘ کے نشہ میں گم تھا۔ مجھے اپنی خوبصورتی اپنے خوبصورت چہرے اپنی بلا کی ذہین آنکھوں پر غرور تھا۔ بچپن میں اکثر یہ مکالمہ دوسروں سے سننے کو ملا کہ مشرف جیسی آنکھیں تو صدیوں میں کسی کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بس یہ نشہ بڑھتا گیا۔ اپنے آپ سے محبت کا یہ نشہ اتنا گہرا تھا کہ میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتا۔ مگر آہ اسی غرور نے مجھے انسان بنانے کا بھی کام کیا۔ مجھے اپنے الجھے الجھے گیسو پسند تھے۔ دہلی آنے کے بعد سر سے بال کم ہوتے گئے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر ناز نہیں ‘ بلکہ غرور تھا۔ خدا نے ان آنکھوں کو کمزور کر دیا اور ہمیشہ کے لیے ایک سیاہ چشمہ میری آنکھوں پر آگیا۔
میری خود کلامی کا دوسرا دور تھا—
خودپسندی کے صحرا سے باہر نکل آؤ۔
ہوں ؟
یہ تمہیں تباہ کر دے گی۔
کر دے، بلا سے—
تمہارے اندر کا تخلیق کار مر جائے گا۔
میرے اندر کا تخلیق کار— میں کانپ رہا تھا۔ یہ مر جائے گا تو میں … میں زندہ کب رہوں گا—؟ سوال نے پھر سر نکالا۔ دہلی کی بھیڑ بھری سڑکوں پر کون تم سے چھوٹا ہے؟ یہاں پرائم منسٹر رہتے ہیں۔ کوئی بھی پتھر چلا کر دیکھو‘ کسی گیان پیٹھ انعام یافتہ یا پھر کسی بڑے آدمی کے گھر گرے گا۔
’تو…؟‘
آدمی بن جاؤ۔ اب بھی وقت ہے۔ سب تمہارے جیسے ہیں۔ بڑا پیڑ’ بوڑھا ہو کر جھک جاتا ہے۔ ہر بڑے آدمی کے اندر ایک خاکساری ہوتی ہے۔ اور میاں تم تو خاکساری کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔
لیکن میں مغرور کہاں ہوں —؟
ہو کیسے نہیں — تنہائی کا سانپ ڈس رہا تھا۔ بال اڑ گئے۔ آنکھیں کمزور ہو گئیں۔ مگر غرور کا دامن نہیں چھوڑا۔ لکھنا چاہتے ہو نا‘ تو لکھو۔ اپنے ادب کو پھیلاؤ۔ اردو سے ہندی کی طرف بڑھو۔ پہلا قدم پھر اس کے بعد دوسرا قدم بڑھاؤ۔ دوسری زبانوں کی طرف۔ مگر خبردار‘ غرور اور انا کا بوجھ کچھ تو کم کر دو یار۔
میں نے اپنا جائزہ لیا— دھند بڑھ گئی تھی۔ دھند میں قمقمے روشن تھے اور تیز روشنی میں ‘ میں اپنے سہمے ہوئے ہمزاد کو پہچان سکتا تھا—
تم دوسروں سے مختلف ہو۔ مختلف ہونا برا نہیں ہے۔ بس ذرا اس خود پسندی کے نشہ سے دور نکل آؤ۔ پھر دیکھو۔ یہ ساری دنیا تمہاری ہے۔ تمہاری ہے۔
یہ سچ ہے کہ دہلی آنے کے بعد ایک نئے ذوقی کا جنم ہوا تھا۔ جو سب سے ہنستا ملتا تھا۔ مسکراتا تھا۔ جو محفلوں میں اینگری ینگ مین تو مشہور تھا لیکن جس سے ملنے والے یہ کہنے سے نہیں گھبراتے کہ یار تم سے پہلے ملتے ہوئے گھبراتا تھا۔ سوچتا تھا‘ کہیں تم ٹھیک سے بات نہ کرو تو… میں اکثر و بیشتر خود سے دریافت کرتا ہوں کہ لوگ میرے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتے تھے۔ ممکن ہے‘ یہ غرور‘ یہ انا‘ انہیں میری کہانیوں میں بھی دکھائی دے جاتی ہو۔ مگر سچ یہ ہے کہ میں نے خود کو بدلنا شروع کر دیا تھا اور میری اس تبدیلی میں سب سے بڑا ہاتھ تبسم کا تھا۔ تبسم‘ جو شاید میری زندگی میں نہ آئی ہوتی تو نہ میں یہ ادبی مہمات سر کرتا اور نہ ہی ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرتا۔ اور اب بھی اس یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ میں تبسم کے اس قول کو کس قدر پورا کر پایا ہوں — کہ پہلے تم اچھے انسان بن جاؤ۔ پھر لوگ تمہیں خود ہی پیار کرنے لگیں گے۔
دھند مجھ پر حاوی تھی۔ تنہائی آہستہ آہستہ مجھے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔ محبتیں مجھے خوش آمدید کہہ رہی تھیں اور زندگی کی الجھنیں میرا راستہ روک رہی تھیں۔ لیکن قلم ہر بار میرا ساتھی تھا۔ دوستوں سے بڑھ کر میرے دکھ اور سکھ میں شریک۔ پھر میں سب سے ملنے لگا۔ پھر میں سب سے بچھڑ گیا۔ کچھ سال پہلے انعمتہ میری جان‘ دو برس کچھ مہینے کی یادیں سونپ کر ہمیشہ کے لیے وداع کی گھاٹیوں میں کھو گئی۔ میں نے ملنا جلنا ترک کر دیا۔ پاکستان سے محمود واجد، ناصر بغدادی اور قافلے آتے رہے۔ میں فون پر گفتگو تو کر لیتا تھا مگر کسی سے بھی ملنا نہیں چاہتا تھا۔ محفلوں، سیمیناروں میں جانا چھوڑ دیا۔ پھر یوں ہوا کہ میں تنہائی کی وحشت کا اسیر ہو گیا۔ بند کمرہ مجھے پاگل کر دیتا تھا۔ لفٹ میں داخل ہونے سے گھبراتا تھا۔ پلین میں سفر نہیں کر سکتا تھا۔ ٹرین کے ایر کنڈیشنڈ ڈبے میں بند ہونے کا خوف میری جان لے لیتا تھا۔ یہ بیماری بڑھتی گئی۔ اور اس بیماری کا علاج کسی نفسیاتی معالج‘ کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں تھا۔ میرے پاس اب ایک ہی راستہ بچا تھا۔ میں نے پروفیسر ایس کی تخلیق کی‘ اور اس کے کردار میں یہ بیماری ڈال دی۔ اس پر بھی بس نہیں ہوا تو میں نے بے رحمی سے اس کردار کو ’موت‘ دے دی۔ ایک گھٹن بھری موت۔
کہتے ہیں گابرئیل گارسیا مارخیز اداسی کے سو سال ‘ لکھنے کے بعد جی بھر کر رویا تھا۔ وہ کردار اس کے اپنے کردار تھے۔ اس کے آس پاس گھومتے ہوئے لوگ اس کے ناول کے کردار بن گئے تھے۔ لیکن میں نے تو پروفیسر ایس کی عجیب داستان میں اپنا ہی قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کے بعد مجھے سکون میسر تھا۔ تخلیقی سرشاری کا احساس بھی تھا۔ ایک بوجھ میں نے اتار دیا تھا۔ اب میں آزاد تھا۔ اب تیسرے مونولاگ کا وقت تھا۔
ادب ایک مافیا بن چکا ہے؟
تو…؟
دوہرے چہرے والے— ان میں ہر شخص اردو کو کیش کرنے میں لگا ہے…
جنگ کا بگل بجانا ہو گا۔
اس کے لیے تمہیں سب سے لڑنا ہو گا۔ لڑ سکو گے؟
کیوں نہیں —
تحریر نو، ظہیر انصاری، اور شوکت حیات
اس سوال کا جواب اب میرے پاس تھا۔ میں لڑنا بھول گیا تھا۔ کس سے لڑوں اور کیوں —؟ میں کوئی پروفیسر نہیں تھا۔ کسی اکادمی یا یونیورسٹی میں نہیں بیٹھا تھا— ذوقی کے سامنے آ کر خاموش رہنے والوں کی ایک جماعت تھی اور ایک جماعت ان لوگوں کی‘ جو پیٹھ پیچھے میری برائیاں کرتے تھے۔ کون ذوقی؟ بسیار نویس؟ زود حس ذوقی؟ ایک دن میں کئی کئی کہانیاں لکھنے والا؟
ظہیر انصاری صاحب، شوکت حیات ہماری اردو زبان کا لیجنڈ ہے۔ جس کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں میں اس کی بے باک اور گستاخانہ بیانوں کا بھی حصہ رہا۔ اور یہی عمل میرا بھی رہا۔ یہ چند سطور اس لیے کہ شوکت نے میرا بھی ذکر کیا ہے… کہ میرا نام ان کے متون سے محذوف کر دیا گیا۔ صرف نام؟ ساہتیہ اکادمی سے قومی اردو کونسل اور دنیا بھر میں ہر مہینے جن لوگوں کو بلایا جاتا ہے، وہاں ذوقی کا نام نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ میں جانا بھی نہیں چاہتا۔ میں پورے کمٹمنٹ کے ساتھ اردو میں آیا تھا لیکن آہستہ آہستہ مجھے اردو کی اس سیاست سے نفرت ہونے لگی— اور میں لینڈ اسکیپ کے گھوڑے (سنہ ۲۰۰۲) اور پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی (۲۰۰۳) کے بعد اردو سے اس حد تک بیزار ہو گیا کہ مکمل طور پر ہندی میں آگیا۔ سال میں دو کہانیاں لکھنے والے کو بسیار نویس کہا گیا۔ خدا جانے ان لوگوں نے ٹیگور، دوستوفسکی، تالستائے، بالزاک وغیرہ کو کس خانے میں رکھا ہے— یا پھر شیو شنکر پلّئی جیسے ناول نگار کو جس کے ناول ہزار صفحات سے کم نہیں ہوتے۔ میں نے سنامی میں ادب مافیا پر بھی کچھ صفحے لکھے تھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس ناول کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ (عرصہ ہوا۔ ممبئی کے سکندر احمد صاحب نے خصوصی طور پر یہ ناول منگوایا تھا اور اس کی بیحد تعریف کی تھی) یہ ناول اردو ناولوں کی عام روش یا ڈگر سے مختلف تھا۔ مگر اس میں اپنے وقت کے مافیا کا ذکر تھا— اور اس ناول کو دبانے کی حتی الامکان کوشش کی گئی جو رائیگاں نہیں گئی۔
صلاح الدین پرویز— اس نام سے وابستہ ہزاروں کہانیاں ہیں۔ محسن لکھنؤ سے آئے۔ مجھے پرویز سے ملانے لے گئے اور میں پرویز کا چھوٹا بھائی بن گیا۔ ای ٹی وی اردو کے لیے پروگرام بنانے کی پیش کش میں نے ہی کی تھی— اور وہاں موجود لوگوں میں احمد صغیر (افسانہ نگار) تک سب اس بات سے واقف ہیں کہ میرے خلاف کیا کیا سازشیں رچی گئیں — لمبی کہانی ہے— اس کا ذکر آپ سنامی والی کتاب میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
اسی زمانے میں حیدر آباد میں، میں اپنے بڑے بھائی اور افسانہ نگار مظہر الزماں خاں سے ملا۔ مظہر الزماں خاں نے ایک انوکھا واقعہ بتایا کہ (سن یاد نہیں ) بیان کو ساہتیہ اکادمی دلانے کے لیے فاروقی صاحب نے پیش کش کی تھی۔ (میں نے تعجب کا اظہار کیا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ فاروقی نہ مجھے مانتے ہیں نہ بیان کو) مظہر الزماں خاں نے بتایا— فاروقی نے خود یہاں آ کر میرے سامنے اس واقعہ کا ذکر کیا تھا مگر نارنگ صاحب اس کے لیے تیار نہ تھے۔ ایک دوسرا واقعہ دو سال قبل کا ہے۔ ایک دن الہ آباد سے نظام صدیقی صاحب کا فون آیا۔ ساہتیہ اکادمی انعام کے لیے جن دس کتابوں کا انتخاب کیا گیا ہے آپ کی کتاب سرفہرست ہے۔ آپ جلدی سے نارنگ صاحب سے مل آئیے۔ میں اس سلسلے میں نارنگ صاحب سے ملنے نہیں گیا۔ آج بھی مجھے انعام و اعزاز جیسی کسی چیز پر بھروسہ نہیں۔ کس طرح انعام لیے جاتے ہیں مجھے خوب پتہ ہے۔ اور اگر انعام کے لیے میرا نام تجویز ہی کیا گیا ہے یا کسی بھی تخلیق کار کا، تو اسے ملنے ملانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بات مجھے کچھ ہضم نہیں ہوئی—
ظہیر بھائی، ایسی ہزاروں کہانیاں ہیں، کن کن کا ذکر کروں۔ سات برسوں کے بعد ہندستانی اردو زبان میں واپسی کر رہا ہوں۔ اس درمیان ہندی اور پاکستان تک سمٹ گیا تھا۔ کہاں جاؤں اور کیوں جاؤں ؟ لوگ کس طرح مرغ و ماہی کی دعوت کے ساتھ خود کو پروجیکٹ کر رہے ہیں، یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔ اس درمیان میں کئی ناولوں پر کام کرتا رہا۔
٭٭٭
ادبی ڈائری-۲
کچھ لوگ پیدا ہوتے ہی کہانیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ شاید ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ آنکھیں کھولیں، تو دور تک کہانیوں کی چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ’طلسم ہوشربا‘ کے کرداروں کی طرح گھر اور آس پاس سے جڑا ہر کردار جادو جگاتا، نظروں کے آگے آ کر اپنے کھیل دکھاتا، میرے لیے طرح طرح کی دلچسپیوں کے سامان مہیا کر رہا تھا۔ آپ کو بتاؤں، یہاں ڈکینس ہوتا تو وہ کتنے ہی دٹیل آف ٹو سیٹیز، پکوِک پیپر، ڈگریٹ ایکس پیک ٹیشن، ہائی ٹائمس لکھ ڈالتا— گیریل گار سیامارکیز ہوتا تو وہ اپنی اُداسی کے سو سال (One hundred years of solitude) کا دوسرا حصہ لکھنے بیٹھ جاتا— کہ یہ گھر جہاں میں پیدا ہوا، سو برسوں کی اداسیوں سے بھی زیادہ پرانا تھا۔ اور ان خستہ محرابوں، شکستہ درو دیوار میں جانے کتنی ہی کہانیاں دفن تھیں۔ اب یہاں حویلی جیسا کچھ بھی نہ تھا، مگر یہ گھر ’کوٹھی‘ کہلاتا تھا— بڑے محراب نما دروازے پر لٹکتا ہوا پرانا ٹاٹ کا پردہ، میری کہانیاں اسی پردے کے اندر باہر جھانکتی بڑی ہوئیں :
’’یہاں سے گل مہر کے پیڑ نہیں جھانکتے—
’سرو‘ کے پیڑوں کی قطار نظر نہیں آتی
نظر آتا ہے صرف اندھیرا / گھنے بادلوں کے درمیان کہیں چھپ گئی ہے/ روشنی/
زندگی تلاش کرنے والے چہروں میں / گم ہوتی جا رہی ہیں / میری کہانیاں، ‘
بستر پر بیٹھی بیٹھی، ہاتھوں سے مکھیاں اڑاتی، مریم مریم کا ورد کرنے والی بوڑھی دادی، امّاں۔ اپنے آپ سے زوردار آواز میں باتیں کرنے والی نانی اماں۔ جانوروں سے دوستی گانٹھنے والی، اُن سے انسانوں کے انداز میں باتیں کرنے والی فضیلن بوا، میں آہستہ آہستہ ان کرداروں میں اُتر رہا تھا۔
اس ایک گھر میں کتنے گھر آباد تھے۔ جیسے مہانگروں میں کالونیاں ہوتی ہیں۔ ان کالونیوں کے دروازے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اور ان الگ الگ دروازوں میں اجنبیت کی نظمیں ہوتی ہیں۔
’غیریت‘ کی آیتیں ہوتی ہیں۔ مگر یہاں …
کالونیوں میں، جگمگاتے ستارے نظر نہیں آتے۔
نیلگوں آسماں نظر نہیں آتا۔
کالونیوں میں ’’اُوسارے‘‘ نہیں ہوتے— آنگن نہیں ہوتا— وہ چھت بھی نہیں ہوتی، جس پر ایک پلنگڑی یا چارپائی بچھی ہوتی ہے اور چھت سے ’آنکھوں جتنے فاصلے‘ پر ٹمٹماتے تارے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ وہ مانوس سی جانی پہچانی تاریکی بھی نہیں ہوتی ہے، جس میں خواب بُنتے ہیں یا بُنے جاتے ہیں —
تب پہلی بار ایک خواب ’بُنا‘ تھا— اسی تاروں کی بارات والے قافلے کو دیکھتے ہوئے— اُسی پلنگڑی پر لیٹے لیٹے، تاریکی میں بند آنکھوں میں، ’’میدے‘‘ کی چھوٹی چھوٹی ’لوئیوں ‘ کی طرح کچھ خوابوں کو گوندھا تھا…
’میں لکھنا چاہتا ہوں۔ ‘
تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں میں
زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو
جو میری سوچ میں عید کی سویّوں کی طرح الجھ گئی ہیں …‘
لگا تھا، یہاں سے آنکھوں جتنے فاصلے پر، پھیلے آسمان تک میری آواز گونج گئی ہو…
’’سنو، میں لکھنا چاہتا ہوں …
تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں …
میں لکھنا چاہتا ہوں کہ…‘‘
ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ رات گا رہی تھی… ہوا گنگنا رہی تھی۔ آنگن میں تنہا امرود کا درخت تیز ہوا سے ڈول رہا تھا… اور وہاں … دور… فلک پر … تاروں کے قافلے سے ذرا الگ… وہ سات تارے ’بنات النعش‘… (وہ سات ستارے جو ایک ساتھ آسمان پر شمال کی سمت میں دکھائی دیتے ہیں۔ )… اور وہ… اُداس سا قطب تارا…
میری آواز جیسے کہکشاں میں تیر گئی ہو…
’سنو‘ میں لکھنا چاہتا ہوں ‘
تمہیں ! تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں میں …‘
چھوٹا سا شہر، آرا—
محلہ مہادیوا کی پتھریلی سڑک۔ سڑکوں سے گزرتی گاڑیاں، بیل گاڑیاں، ٹم ٹم، زیادہ تر پیدل چلتے مسافر‘ سائیکل سوار۔ لیکن تب، اس کی نازک سی دہلیز پر سب سے زیادہ چاہت پیدا ہوئی تھی— تو کسی ڈاکیے کے لیے۔
تب— وحشت کا گیارہواں سال تھا—
تب پہلی کہانی لکھی تھی—
تب— پہلی بار اس شہر میں سب سے زیادہ الگ ہونے کا احساس پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس احساس نے مجھے کتنی جلد، میری اوقات بتا دی تھی۔
دوپہر دو بجے کا وقت۔ گرمی، مئی جون کا مہینہ۔ تیز چلتی ہوئی لو، سڑک جیسے آگ اُگل رہی ہے۔ اس دن چھٹی تھی۔ اس دن میں اسکول نہیں گیا تھا۔ آنکھوں میں رہ رہ کر انتظار کی گرد پڑی جا رہی تھی…
ڈاکیہ آگیا ہے…
اور ڈاکیہ سچ مچ آگیا۔ ایک لفافہ میرے ہاتھ میں تھما گیا۔ میں رہ رہ کر‘ وہیں کھڑا کھڑا لفافے کو دیکھتا ہوں۔ اس میں میرا نام لکھا ہے… میرا نام… وہیں کھڑا کھڑا بار بار اپنا نام پڑھتا ہوں۔ م… مشر…رف… عالم … ذو… قی… ارے سچ مچ یہ تو
٭٭ہئنای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدعبیدبیر بھائی صبا جائسی کے تخلص سے شاعری بھی کرتے تھے، آج کل تائب تھے۔ے ساتھ ہی گیا تھامیرا نام ہے… ارے واہ یہ خط تو میرے نام کا ہے… یہ کسی رسالہ سے آیا ہوا، میرے نام کا آیا ہوا پہلا خط تھا۔ رسالہ تھا۔ پیام تعلیم۔ اس وقت اس کے مدیر تھے — حسین حسان ندوی (شاید‘ اگر میں نام نہیں بھول رہا ہوں )
ظاہر ہے، یہ خط میری پہلی لوٹائی گئی کہانی کے بارے میں تھا۔ چند نصیحتیں تھیں۔ اور … مگر یہ خط دہلی سے آیا تھا۔ میں دہلی نہیں گیا تھا۔ مگر میری کہانی دہلی تک کا سفر طے کر کے واپس آئی تھی۔ یہ میرے لیے بڑی بات تھی… دلچسپ بات تھی…
میں بار بار مڑی تڑی اپنی کہانی کو دیکھتا تھا اور کہانی کے ساتھ منسلک خط کو۔
میں ان لوگوں میں رہا ہوں، جنہوں نے کبھی نقادوں اور مدیروں کی ’پرواہ‘ نہیں کی۔ بچپن سے بس ایک ہی بات گانٹھ کی طرح بندھی رہ گئی تھی— سب سے بڑی چیز کرئیشن ہے— تخلیق ہے۔ جو تخلیق کرتا ہے، اس کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ نقاد ہوں، چاہے مبصر، تخلیق کار کے ’منصب‘ کی دہلیز کو کبھی نہیں چھو سکتے۔
کہانی ایک بار شایع ہو گئی تو پھر لکھنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا۔ اُن دنوں چھٹے یا ساتویں درجہ میں تھا۔ بچوں کے جو بھی رسائل شایع ہوتے تھے، میں کہانیاں بھیجا کرتا تھا۔ اسکول سے ’ٹفن‘ کے وقت میں گھر آ جایا کرتا— گھر کا ایک دروازہ ایک تنگ سی، بدبو دار گلی کی طرف کھلا کرتا تھا۔ یہ شارٹ کٹ تھا۔ میں اسی راستے سے ٹفن میں دوڑا دوڑا گھر آتا۔ زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتا۔ دروازہ کھولنے والی زیادہ تر میری بہنیں ہوتیں۔ دروازہ کھلتے ہی میں اُن آنکھوں میں ایک طنز یہ چمک دیکھتا۔
’مُنّا، تمہاری ایک کہانی واپس آئی ہے…‘
اس ذلت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لگتا، ’کاش‘ زمین پھٹ جاتی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی بھیّا کے چہرے کی مسکراہٹ۔ اُن کی مسکراہٹ سے میرا آدھا خون سوکھ جاتا تھا۔ بھیا طنز‘ لکھتے تھے۔ ایسا طنز جسے اردو میں ’انشائیہ‘ کہتے ہیں۔ تب گھر میں اُن کی برابری چارلس لیمب اور ’ہزلٹ‘ سے ہونے لگی تھی— دوسری جانب میں تھا۔ یعنی تیز روانی میں لکھنا اور اسی سے کہانی کا روانی واپس آنا۔
ایک دن بھیّا نے مجھے روکا: فرمایا—
’اتنی ساری کہانیاں واپس آتی ہیں۔ ’اصلاح‘ کیوں نہیں لیتے؟‘
تب، کم عمری میں یہی ایک بات دل کو لگ گئی۔ ’اصلاح‘ کیوں نہیں لیتے۔ اندر کے ’انسان‘ نے ارادہ کر لیا— نہیں چھپوں گا۔ لیکن اصلاح نہیں لوں گا۔ (آج سوچتا ہوں، شاید یہ، میرے اسی ارادہ کا نتیجہ ہے۔ میں بغیر تھکے لکھے جا رہا ہوں۔ اور بھیّا خاموشی کی دھند میں شاید اپنی ساری تحریریں بھول چکے ہیں۔ )
بات 1975 کی ہے۔ میری عمر تیرہ سال کی تھی۔ ایک دن خالہ اماں میری ننیہالی‘ گاؤں ’ برہبترا‘ سے تشریف لائیں۔ وہ حیران تھیں — ایک کہانی چھپی ہے، کہکشاں میں — نام تو تمہارا ہی ہے۔ ‘
کہکشاں بمبئی سے شایع ہونے والا ایک فلمی رسالہ تھا، جس میں ادبی کہانیاں بھی جگہ پایا کرتی تھیں۔ کسی بھی رسالے میں شایع ہونے والا یہ میرا پہلا رومانی افسانہ تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی ایک دوسرا رومانی افسانہ ’موڑ‘، ’مورچہ‘، گیا سے نکلنے والے ’ہفت روزہ‘ میں شایع ہوا۔
تب گیا سے کلام حیدری ’مورچہ‘ اخبار اور ’آہنگ‘ (ادبی رسالہ) نکالا کرتے تھے۔ 80 کے آس پاس میں آہنگ میں چھپنے لگا تھا۔ اس وقت کلام حیدری مرحوم اور ’آہنگ‘ کی حیثیت کسی دھماکے جیسی تھی۔ ہر شمارے پر ہنگامہ رہتا تھا۔ ہر شمارہ دھماکہ خیز اور بحث کا موضوع۔ گیا، آہنگ اور کلام حیدری کی گونج ادب میں چاروں طرف تھی۔ اُن دنوں کلام حیدری نوجوان لکھنے والوں پر ’آہنگ‘ میں خصوصی گوشہ‘ شایع کر رہے تھے۔ ایک خط میرے پاس بھی آیا۔ مجھے خط کے وہ جملے آج بھی یاد ہیں — اپنی کئی چیزیں اکٹھے بھیج دیجئے، تاکہ دیکھ سکوں، آپ میں شناخت کی کیا خاص بات ہے۔ ‘‘
نوجوانی کا زمانہ— ’گوشے‘ میں شامل ہونے کا رقعہ۔ میں نے کئی طرح کے افسانے/ مضمون وغیرہ ’آہنگ‘ کو بھجوا دیئے۔ اور یہ میری زندگی کا وہ برقی جھٹکا تھا، جسے اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی بھول نہیں سکا۔ ’آہنگ‘ نے میری سب چیزیں لوٹا دی تھیں۔ ساتھ میں مختصر سا، ایک خط تھا‘ جس پر صرف اتنا لکھا تھا : ’’اتنی ساری چیزیں، اُف میں تاب نہیں لا سکتا۔ ‘‘
میں حیران تھا۔ ایک لمحے کو، جیسے خط کا ہر لفظ بچھو بن گیا تھا۔ میں کسی بچھو گھاٹی میں تھا۔ لہو لہان… اور لفظ مجھے ڈسے جا رہے تھے… ’ اُف، میں تاب نہیں لا سکتا‘… کیا یہ آدمی کانوں کا کچا تھا؟ کسی نے میرے خلاف کان بھرے تھے۔ کہانیاں پسند نہیں آئی تھیں تو صاف لکھ دیتا کہ پسند نہیں آئیں، مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوتا۔ بیشک، چیزوں کو پسند نا پسند کرنے کا اختیار ہے۔
نفرت کی ایک تیز اندھی چلی تھی میرے اندر—
اور میں زندگی بھر کبھی اس شخص کو معاف نہیں کر سکا۔ مرنے کے بعد بھی نہیں —
میں جانتا ہوں میں فرشتہ نہیں — اور میری کہانیاں انسان ہونے کے احساس سے جنم لیتی ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے کتنے ورق ہوا میں پھڑپھڑا کر اڑ گئے— میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ وقت اور حادثے ہر بار میری کہانیوں کو ایک نیا چہرہ سونپ جاتے— اور ہر بار نئی تخلیق کے ساتھ ہی میں رائیڈر ہیگزرڈ کے شہرہ آفاق ناول ’شی‘ کے کردار کی طرح جیسے خود کو زیادہ جوان اور اُمنگوں بھرا محسوس کرتا— جیسے وہ ہزار برس پرانی ساحرہ دھوپ کی کرنوں سے غسل کرتی ہوئی ایک نوجوان حسین لڑکی میں تبدیل ہو جایا کرتی تھی۔
میں اپنی ہر کہانی کے ساتھ جیتا ہوں — اور جیسے کہانی لکھنے کے ’آفتابی غسل‘ کے ساتھ میں ہر بار ایک نیا ذوقی بن جاتا ہوں —
٭٭٭
ادبی ڈائری-۳
دہلی یعنی بڑا شہر— چھوٹے سے قصباتی شہر میں رہ کر اس شہر کا تصور بھی کر پانا مشکل تھا… مجھے اس شہر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے۔ اپنے گھر کا سکھ کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو در در کی ٹھوکریں تھیں اور خالی ہاتھ تھے… دہلی، دل والوں کی دہلی نہیں تھی، تنگ دل لوگوں کی دہلی بن کر رہ گئی تھی۔ بے شمار خطرات، ذہنی تکالیف، پریشانیاں … بہت ممکن ہے میں ہار گیا ہوتا۔ مگر میں نے جو کچھ پڑھا تھا اب وہی میرے کام آ رہا تھا۔ کہتے ہیں ایک زندگی وہ ہوتی ہے جسے آپ اپنے طور پر جینے کی کوشش کرتے ہیں … ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو آپ کا ’مطالعہ‘ آپ کا وژن آپ کو سونپتا ہے… الیکزینڈ پُشکن، نیکولائی گوگول، فیو در دوستو فسکی، لیوتالستائے، میخائل شولو خوف، میکسم گورکی، ترگنیف… روسی ادب کا ذخیرہ تھا اور یہ عظیم تخلیق کار میرے لیے حوصلہ اور امیدوں کے مرکز تھے—ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود تھی۔ خاص کر آرا چھوڑنے سے قبل ایک روسی مصنف کی ایک کتاب میں نے پڑھی تھی۔ بورسپولوو‘ کتاب کا نام تھا۔ اسٹوری آف اے رئیل مین… ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے جو اپنے ’ول پاور‘ سے اپنی خود اعتمادی‘ دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے… مجھے ہیمنگ وے کے ’’د اولڈ مین اینڈ دسی‘‘ سے محبت تھی… ہیمنگ وے کی کہانیوں کے کا یہ بوڑھا آدمی مجھ میں نیا جوش‘ نیا دم خم بھرنے کے لیے کافی تھا۔ مجھے ہینری ملر کے موبیڈک سے پیار تھا… وکٹر ہیوگو، کافکا، ورجینا اُلف، البیر کامو، یہ سارے میرے اپنے تھے۔
خاص کر ’’لس مسریبل‘‘ کا پادری اور دپلیگ کا ڈاکٹر ری اوکس میرا آئیڈیل تھا۔ ٹھیک اُسی طرح ’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘ کارسکلانکوو، گورکی کی ’مدر‘ کا پاویل ولا ’سوف‘ اور ترگنیف کی ’’د فادر اینڈ دسن‘‘ کے باپ بیٹے مجھے بے حد پیارے تھے… گوگل کی کتاب ’ڈیڈ سول‘ مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ وہیں گبریل کا گارسیا مار کیز کا ادب ایک نئی سمت میں لے جانے کی تیاری کر رہا تھا… عجیب بات تھی کہ مجھے الکزینڈر لزنسٹین سٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ گلارگ آرکپلاگو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پریشان کر رہے تھے۔ نیتھینل کی داسکا رلٹ لیٹر بھی مجھے پسند تھی۔ جارج آرول کی انیمل فارم اور 1984 مجھے نئی فکر سے روشناس کرا رہے تھے۔
میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا۔ ولیم گولڈنگ اور گراہم گرین کو بھی… اردو میں قرۃ العین حیدر کے یہاں مجھے جوائس کی جھلک ملتی تھی۔ منٹو چونکاتا تھا۔ لیکن فکری اعتبار سے زیادہ بلند نہیں لگتا تھا۔ عصمت مجھے راس نہیں آئی۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ہر بار زیادہ سے زیادہ قربت کا احساس دلا رہی تھی اور کرشن کی ’نثر‘ کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی— مجھے اردو کی داستانوں نے لبھایا تھا۔ اور مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ مجھے پنچتنر بھی پسند تھی اور دُمیجک ماؤنٹین‘ بھی— طلسم ہوشربا کا تو میں شیدائی تھا۔ دہلی کی پاگل بھیڑ بھری سڑکوں پر ہیمنگوے کا ’د اولڈ مین سمندری‘ بوڑھے کی طرح مجھ پر سوار تھا— دہلی کی پریشان حال زندگی اور لڑتے رہنے کا جذبہ— 85 سے 95 تک کے درمیان میری کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب رہا— میں سوچتا تھا ’نثر ‘ کو غریبی کے بدحال جسم کی طرح ہونا چاہئے۔ گلیمرلیس— اس کی زبان ’عصمت‘ کی کہانیوں کی طرح نہیں ہوسکتی۔ میں نے اپنا جائزہ لیا اور ایک نئی روش اپنائی۔ نئے ڈگر پر چلا۔
’بھوکا ایتھوپیا‘— بچھو گھاٹی، مرگ نینی نے کہا، میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ، ہجرت، مت روسالگ رام، فنی لینڈ، پربت، مہاندی، تحفظ، تحریکیں، کان بند ہے، جلا وطن، ہندستانی، دہشت کیوں ہے، کتنا وش، سؤر باڑی، تناؤ وغیرہ— میری کہانیاں تقسیم کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ آزادی کے پندرہ برس بعد میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن میرے ہوش سنبھالنے تک یہ زخم تازہ تھا۔ بوڑھے بزرگ ہونٹوں پر تقسیم کا درد زندہ تھا اور کراہتا تھا— غلامی میرے لیے ایک بھیانک تصور تھا، اور آزادی کے بعد کے فسادات میرے نزدیک انتہائی بے رحم، خوں بھری سوغات کی طرح تھے۔
میں اپنی زمین نہیں چھوڑ سکتا تھا—
میں مسائل کو نظر انداز کر کے، قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔
فساد— ہندو مسلمان، اردو اور پاکستان میں کئی چیزیں ملتی جلتی تھیں — مجھے ڈر لگتا تھا۔ جب خوف کی چنگاریاں بند کمرے میں سہما سہما میرا چہرہ دکھایا کرتی تھی۔ میں سوچتا تھا، کیوں ہوتا ہے ایسا—
گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں — کسی مسلمان نے مارا ہو تو؟
خدا ناخواستہ قاتل کوئی مسلمان ہوا تو؟
اندرا گاندھی کا قتل ہوتا ہے، مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔
راجیو گاندھی کی ہتیا ہوتی ہے، مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔
کیوں ؟ کیوں ؟
میں ترقی پسندی کے راستے اس لیے چلا کہ میں ان سوالوں سے بچ بچ کر نہیں گزر سکتا تھا— میرے اندر کا تخلیق کار ان سوالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔
ایسے بہت سارے سوالوں کو تلاش کرتے ہوئے میں ایک نئے کردار سے ٹکرایا— غلام بخش۔ اس کردار کو کہانی میں ڈھالتے ہوئے مجھے میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے۔
غلام بخش کو میں نے جان بوجھ کر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام سے منسوب کیا۔ غلام بخش محض ہندستانی مسلمانوں کے درد سے گزرنے والی کہانی نہیں تھی۔ کیونکہ اس طرح کی کہانیاں ایک دو نہیں بلکہ پچاس سے زیادہ لکھ چکا تھا۔ وہی شک کی فضا۔ وہی ہر بار اسکول سے لے کر عام زندگی میں ہونے والا سلوک۔ وہی جن سنگھ، بی جے پی اور آر ایس ایس۔ اب مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے ایک سنسنی خیز اعلان کی ضرورت تھی۔ اور میں نے غلام بخش کے کردار کے حوالے سے یہ اعلان کرتے ہوئے کوئی ہچک محسوس نہیں کی۔
’’مرا بھی کمبخت تو اپنے اُسی باپ دادا والے گھر میں۔ ‘‘
یہ اپنے ’ہندستانی‘ ہونے کا اعلان تھا۔ میں نے ادب میں کرداروں کو جیا ہے۔ کردار میرے نزدیک ہوا میں لٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ میں انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھنے کی حد تک گوارا نہیں کر سکتا— ان کی موت پر سوسو آنسو بھی بہاتا ہوں۔ سب سے پہلے علام بخش کا تذکرہ کرتا ہوں — یہ کردار میرے ذہن میں کیسے آیا۔
بہت ممکن ہے آپ اُسے بار بار بھی دیکھتے تب بھی کوئی خاص بات اس میں آپ کو نظر نہیں آتی۔ لیکن پہلی بار ہی علام بخش مجھے اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ہلکی ہلکی سردیاں پڑنی شروع ہوئی تھیں۔ 1986کا زمانہ رہا ہو گا۔ نومبر یا دسمبر کا مہینہ۔ میرے بدن پر ایک پرانا کوٹ تھا۔ پرانے کوٹ میں کتنی ہی پرانی یادیں بسی تھیں۔ تیز تیز چلتے ہوئے کوٹ کے دونوں حصے جھولنے لگے تھے۔ آصف علی روڈ پر اسٹار پاکٹ بکس کا دفتر تھا۔ میرے ہاتھوں میں ناول کا مسودہ تھا۔ دروازہ پار کرتے ہی کوٹ کا ایک حصہ دروازے کی کنڈی میں پھنس گیا۔ جلد بازی میں نکلنے کی کوشش میں، میں ایک شخص سے جا ٹکرایا— مگر یہ کیا— وہ شخص اپنی دھن میں مست تھا۔ نہ اس نے میری جانب دیکھا۔ نہ ہنسا، نہ غصہ ہوا، وہ بس کچھ بڑبڑاتا ہوا مسکرائے جا رہا تھا۔
’’پاگل ہے‘‘—
میں نے دل میں سوچا۔ دوبارہ اس کی جانب دیکھا۔ مگر اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ ویسے ہی بڑبڑائے جا رہا تھا۔ بڑبڑاتا ہوا کبھی کبھی ہنسنے بھی لگتا۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ کوئی اسے بغور دیکھ رہا ہے— بیچارا غلام بخش— لیکن یہ نام تو میری ایجاد تھی۔
مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔ وہ ایک دم سے اچانک میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا— ’مجھے لکھو۔ تمہیں مجھے لکھنا ہی ہو گا۔ ‘‘
مجھے کچھ چیزیں پاگل کر دیتی ہیں۔ کبھی کوئی البیلا سا قصہ۔ کوئی دلچسپ سی کہانی اور شاید ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے کہ کوئی کردار آلتی پالتی مار کر میرے سامنے بیٹھ جاتا ہے— ’مجھے لکھو—‘
مجھے ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو صرف نئے نئے کردار ہی نہیں گڑھتے، بلکہ اپنے کرداروں کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ جیسے یہ محض فرضی یا تصوراتی کردار نہ ہوں، بلکہ چلتے پھرتے آدمی ہوں … زندہ مخلوق ہوں … ابھی کچھ دنوں پہلے میں فزیگرینس آف گوارا‘ پڑھ رہا تھا۔ مار حیز نے اس کتاب میں اپنی کہانیوں اور کرداروں سے متعلق ایسی ایسی باتیں کی ہیں، کہ اس پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بہت چھوٹی چھوٹی سی چیزیں ‘ واقعات— مثلاً گھر کا کوئی شخص کہانی کا کردار کیسے بنا۔ وہ اس کردار میں فٹ نہیں ہو رہا تھا مگر کردار کے لیے اسی کا سراپا، اور تیور کی ضرورت تھی۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا۔ آس پاس گھومتا ہوا کوئی آدمی، رشتے دار عزیز، دوست ایکدم سے کہانی کا کردار نہیں بن جاتا۔ ہاں کبھی کبھی وہ یوں بھی کہانی میں سماجاتا ہے کہ کہانی کا ہی ایک حصہ لگنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی محض ایک کردار کو تین چار کرداروں سے بھڑانا پڑتا ہے— تب جا کر ایک دلچسپ کردار کھڑا ہو پاتا ہے۔
’ذبح‘ کا عبدل سقّہ ہو، یا ’بیان‘ کا بال مکند شرما جوش، میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ، کاونے بہاری ہو— سپنے دیکھنے والا ’مسیتا‘ ہو— یا جن سنگھی خاندان میں پیدا ہونے والی مرگ نینی— میں ہر بار اپنے کرداروں کے ساتھ رہا ہوں۔ جیا ہوں اور مرا ہوں —
میں ہر بار اپنی روح میں جاگتا ہوں۔ میرے کردار میرے سامنے آتے ہیں تو جیسے اچانک خدا یا خالق بن جاتا ہوں۔ اب جان گیا ہوں وہ سب میرے کردار ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی کسی کی بدنصیبی پر افسوس تو آتا ہے، لیکن خدایا خالق تو ’گجرات‘ کی بدنصیبی پر بھی آنکھیں بند رکھتا ہے— کرداروں کے لیے دوڑتا تو ہوں مگر ان کے لیے میرا رویہ عام طور پر اُداسی سے بھرا ہوتا ہے— کہ جیسے یہ تو ہونا ہی تھا— اس کردار کو تو مرنا ہی تھا—‘
٭٭٭
ادبی ڈائری۔۴
ادب مافیا۔۱
اقتدار مافیا اور ادبی مافیا— ادب ہو یا صحافت کا میدان، جہاں بھی دیکھیے، مافیا کا ذکر سرخیوں میں موجود ہے۔ پاکستان کے تازہ رسائل کا جائزہ لیں تو مافیا کی خبروں سے صحافتی اور ادبی تحریریں بھری پڑی ہیں۔ نئی صدی کی شروعات نے مافیا کو اقتدار اور ادب کے حوالہ سے نئے انداز سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، یعنی اب پاکستان میں بھی صاف صاف کہا جانے لگا ہے— مافیا قبول نہیں۔ خواہ وہ اقتدار مافیا ہو یا ادب مافیا—
بادبان، مدیر ناصر بغدادی شمارہ ۷ کافی تاخیر سے منظر عام پر آیا ہے۔ بادبان اپنے تلخ و تند اداریہ کے لیے مشہور ہے۔ ناصر بغدادی نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ادبی مافیا کی خبر لی تھی۔
ناصر بغدادی لکھتے ہیں :
’’ یہ بات تشکیک سے بالاتر ہے کہ ’’پچھلے ۴۵۔ ۴۰ برسوں میں پاکستان کی برسراقتدار حکومتوں نے اپنے جن پسندیدہ ادبا و شعرا کو ادبی کار گزاریوں کی بنیاد پر بے تحاشہ نوازا ہے، ان سے ایک بڑی اکثریت کو اہل قلم کہنا بھی ادب اور ادبی اقدار کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے قارئین اس عرصے میں ادبی ایوارڈ اور ادبی کتابوں کو ملنے والی انعامات کی فہرست کا بغور جائزہ لیں تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا موقف مبنی بر صداقت ہے۔ حقیقت ہے کہ سرکاری ادبی اداروں پر قابض مافیائی کرداروں نے کبھی بھول کر بھی اپنے قابل تعظیم تخلیق کاروں اور تحقیق نگاروں کی عہد ساز علمی و ادبی خدمات کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ انہیں ان کی زندگی میں یا بعد از مرگ میرٹ کی بنیاد پر ادبی اور قومی انعام کا مستحق تسلیم کیا۔ ‘‘
انعام و اکرام اور ادبی ایوارڈ کا جو رویہ کم و بیش ہمارے یہاں ہے، وہی رویہ پاکستان میں بھی ہے۔ نئی الفی کا پہلا سورج طلوع ہوتے ہی جیسے ہمارے احتجاج کو زبان مل گئی۔ پاکستان میں رسائل و جرائد کے حوالے سے جو ترقی یافتہ ادب اب تحریر ہو رہا ہے، پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ سامنے کی مثال لیں تو پاکستان کے سیاسی ادبی ماحول پر جس طرح کے دھماکے اشرف شاد نے کیے ایسے دھماکے اس سے قبل سنے نہیں گیے تھے۔ اشرف شاد کے دونوں ناول بے وطن اور وزیر اعظم پاکستان مافیائی کرداروں پر نہ صرف زبردست چوٹ ہیں، بلکہ یہ ناول اقتدار مافیا کو جس انداز سے بے نقاب کرتا ہے، اس انداز سے تو الگزنڈر سولنسٹیسن نے کینسر وارڈ اور گلاگ آرکیپلا گو بھی نہیں لکھی تھی۔
’’سچ پوچھوں تو مجھے ایمان علی کا وزیر اعظم بننا پسند نہیں ہے۔ اس کے پاؤں زمین سے اٹھ کر ایک دم آسمان پر چلے جائیں گے۔ اسے اپنے قدم کچھ دن اور زمین پر رکھنے تھے۔ ‘‘
’’اس ملک کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ آپریشن آج ہونا ہے۔ زیادہ دیر کی گئی تو مریض نہیں بچے گا۔ ‘‘
آپریشن ؟ کیسا آپریشن۔ مریض کون؟ مریض یعنی پاکستان۔ پاکستان کو زندہ رہنا ہے تو اسے فوجی حکومت اور آمریت کے چنگل سے باہر نکل کر جمہوریت پسند ہوا کے خوشگوار جھونکوں کا استقبال کرنا ہو گا۔
دیکھا جائے تو زیادہ تر پاکستانی رسائل میں اس نئی روشنی کی چمک کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سخنور ’بادبان‘ نظیر‘ آفرینش‘ روشنائی‘ ادب عالیہ‘ آئندہ— مافیا سے خوفزدہ لوگ، جنگلوں سے باہر نکل آئے ہیں۔ اب خوفزدہ علائم، کہانیوں میں راہ نہیں پا رہے ہیں — بوجھل سہمی تحریروں کا دور چلا گیا۔ مافیا ہے تو اسے تسلیم کرنا ہے۔ قبول نہیں کرنا ہے بلکہ اس کے خلاف جنگ کرنی ہے۔ اخبارات اور نیوز میگزین سے لے کر پاکستانی ادبی رسائل تک آج اس جنگ میں ایک ہو کر اپنی آواز بلند کر رہے ہیں — یعنی دکھائے تو پہلی بار اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے ادیبوں کی اتنی بڑی جماعت ایک ساتھ کھل کر سامنے آئی ہے۔
آئندہ شمارہ ۲۲۔ ۲۱ میں محمود واجداسی موجودگی کا اعلان کرتے ہوئے پوچھتے ہیں :
’’ہم تھے، سے زیادہ اہم سوال ہے ہم ہیں !‘‘
’’ہم ہوں گے کو نظر انداز کیجئے تو بھی ہمارا ہونا ہمارے احساس کی بنیادی شرط ہے۔
موسم کیسے بدلے گا۔ آنسو کیسے رکیں گے۔ ‘‘
یہی سوال روشنائی کے تازہ شمارہ (گوشہ اختر پیامی) میں بھی موجود ہے۔ حقیقتاً معاملہ اپنی موجودگی ثابت کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے— مافیا سے اکیلے کیسے لڑیں گے؟ کیا ہم میں حوصلہ کی کمی ہے یا ساتھ دینے والے مافیا کا حصہ بن گئے تو— نئی صدی میں سانس لینے والوں کا قصور ہے کہ انہیں سہنا بھی ہے اور زندہ بھی رہنا ہے۔ اہل قلم کا قصور یا مجبوری بھی یہی ہے۔ لکھنا بھی ہے اور بچوں کے آسمان کا خیال بھی رکھنا ہے— نتیجہ کچھ لوگ اقتدار مافیا یا ادبی مافیا کا ایک حصہ بن جاتے ہیں اور کچھ مافیا سے جنگ کے لیے سامنے آ جاتے ہیں۔
’’تخلیق کار اور فنکار کو معاشرے کا ضمیر کہا جاتا ہے۔ مگر ان کی ساری خوبیاں خود مرکزیت اورخودپسندی کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں۔ زندگی ہی میں سارے انعام و اکرام تمغہ ومغہ بزعم خود اپنے منصب اورسستی ناموری کے بل بوتے پر تعلقات استعمال کر کے حاصل کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ زندہ مثالوں اور عینی شواہد نے ثابت کر دیا ہے کہ مرنے کے بعد ایسے لوگوں کو چار کندھے بھی مشکل سے نصیب ہوتے ہیں۔ ‘‘ (روشنائی، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۱)
ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ لکھنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ مرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ سچ کہتے ہوئے، ہم ہر طرح کے خوف سے بری ہیں تو پھر —سیاست سے لے کر ادب کی رہگزر تک مافیا کی یہ حکومت کیوں ہے—
تسطیر، شمارہ ۶۱۔ ۵۱ میں مشہور شاعر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں :
’’یہ تاریخ کا جبر ہے کہ مغرب کی استحصالی اور نوآبادیاتی سوچ نے دیگر اقوام عالم کو ان کے اپنے ادبی و فکری سرچشموں سے نہ صرف دور کر دیا ہے بلکہ ان سرچشموں کے دہان ہی بند کر دیے ہیں۔ نتیجہ— ساری صورت حال کا سب سے افسوس ناک پہلو ہے کہ ہماری جامعات اور ادبی اکادمیاں سمت نمائی کا فریضہ انجام دینے کے بجائے علمی و ادبی فرسودگیوں اور شخصی وسیاسی مفادات کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ ‘‘
حقیقتاً تاریخ کے جبر کے ساتھ ساتھ نو آبادیاتی سوچ نے بھی ہمارے ادب کو متاثر کیا ہے۔ فاصلے بڑھے ہیں۔ فکری اعتبار سے اپنے جینے کی ضرورتوں کا دھیان دیتے ہوئے ہم آہستہ آہستہ Consumer World کا حصہ بن گئے ہیں۔ بازار، ہماری تمام تر فکر کا جزو خاص بن چکی ہے۔ سیاست کی بساط سے لے کر ادب کی سنگلاخ چٹانوں تک اسی بازار کی گونج ہے۔ نتیجہ بازار سے وابستہ ادیب آج اپنے Projection کے لیے خود سامنے آتے ہوئے مافیا کا خاموشی سے ایک حصہ بن جاتا ہے اور سب کچھ اتنا اچانک ہوتا ہے کہ اسے خود بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ مافیا کا حصہ بن چکا ہے۔
صورت حال بھیانک ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ آج کا اردو ادب (کم و بیش ہم اپنی ہی زبان کی بات کریں تو بہتر ہے) اس Explosion.point پر پہنچ چکا ہے، جہاں کسی وقت بھی اس زبان یا ادب کے چیتھڑے اڑ سکتے ہیں۔ ادب کا ایک مضبوط رشتہ سیاست سے جڑ چکا ہے۔ سیاست داں سے خود کو قریب رکھنے کے کئی فائدے ہیں۔ جامعات اور اکادمیوں میں جگہ پانا، وزیر کے حکم پر انعام و اعزاز سے نوازا جانا۔ ایوارڈ کمیٹیوں میں داخلہ پانا۔ اپنی من مانی کرنا۔ اپنے لوگوں پر احسان کرنا۔
٭ آپ کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب تو برسوں سے چل رہا ہے؟
٭ آپ کہہ سکتے ہیں۔ ایسا کس زبان میں نہیں ہو رہا ہے؟
٭ آپ کہہ سکتے ہیں۔ ان سب سے ادب متاثر نہیں ہوتا۔
غلط آدمی کو انعام و اعزاز سے نوازے جانے کا مطلب ہے:ایک گندی رسم قائم کرنا — غلطی کو ہوا دینا۔ مستقبل کے لیے نئی اور شرمناک رسم کے راستے کھولنا۔ آپ آگے آئیے— جو غلط ہے، اس کے خلاف آواز بلند کیجئے۔ یہ مت دیکھیے کہ ایسا کس زبان میں ہو رہا ہے اور کس زبان میں نہیں۔
غلط بات، برداشت نہیں کرنے کی رسم کو آگے بڑھائیے۔
اس کے علاوہ بھی کئی ایسی ضرورتیں ہیں جن کی نشاندہی کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
lجو غلط ہے، وہ غلط ہے۔ غلط کے خلاف آواز اٹھانے میں ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
lغلط کو غلط، برا کو برا اور سڑا ہوا (Rotten) کو سڑا ہوا کہنے کے لیے ہمیں کسی گواہ یا دوسرے آدمی کی ضرورت نہیں ہے۔
lاقتدار مافیا اور ادب کی یہی صورت حال ہمارے یہاں بھی ہے۔ ہمارے یہاں کے بڑے بڑے ادبی اوارڈ ز پر بھی ایسے ہی مافیاؤں کی حکومت ہے۔ کیا ان مافیاؤں کو بے نقاب کرنے کے لیے ہم سامنے نہیں آئیں گے۔
lبکا ہوا آدمی۔ بکا ہوا ادب اور بکی ہوئی تنقید۔ ہارے ہوئے آدمی کے کنفیشن سے آگے نکل کر ہم سچ کہنے کا حوصلہ کب پیدا کریں گے۔
یاد رکھیے۔ پاکستانی رسائل اور پاکستانی ادیب مافیا کا جال کترنے کی تحریک میں آگے آچکے ہیں۔
کیا آپ صرف اور صرف اتنا بتانے کی تکلیف کریں گے کہ ہمارے یہاں مافیا کون ہے؟ ا
اس ادبی گینگ کو خوراک کس نے پہنچائی—؟ طاقت کس نے دی؟
آپ پہلا کام کریں۔ خاموشی سے سب سے پہلے صرف اپنے اندر اس نام کو تلاش کریں۔ خاموشی سے اندر تلاش کیا گیا وہ نام یقیناً آپ کو ایک دن چیخنے پر مجبور کرے گا۔
ہم یقیناً اس دن کے منتظر ہیں جب آپ خود سامنے آ کر کہیں گے۔
’’ارے… ملزم، کی نشاندہی تو بہت پہلے ہو جانی تھی۔ ‘‘
ادب مافیا——(۲)
ہم ادب کو
بازار نہیں بنائیں گے
سچ بولیں گے
سچ لکھیں گے
ہم اس سے جنگ لڑیں گے
جو ہمیں کسی بھی قیمت پر بازار میں /
بیچنے کے لیے کھڑا ہے۔
٭٭
وہ مدتوں سے بازار میں کھڑا ہے
وہ مدتوں سے سودا کرتا رہا ہے
ادب اور
سیاست کا——
دراصل وہ دونوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کر کے
بیچتا رہا ہے
وہ ایوانوں میں سجانے کے کام آتا ہے
اورسیاسی بازیگر اسے——سیڑھی کے طور پر
استعمال کرتے ہیں
پھر وہ آقاؤں کے حکم پر
ادب کے ہتھیاروں کو کند کرتے ہوئے
اپنے مہرے سجاتا ہے
اور ایوانوں میں ٹکے کے بھاؤ بیچ آتا ہے۔
ہم سچ بولیں گے
کہ ضمیر فروشی اگر جرم ہے
تو مصلحت پسندی اس سے بھی بڑا جرم
ادبی عیاشی کے لیے
مصلحت کے طور پر
اپنے آپ کا سودا کرتے ہوئے
ہم اپنے لیے انتخاب نہیں کریں گے
کسی خیمے کا
٭٭
ہم ادب لکھیں گے
اور ہم سچ بولیں گے
کہ ادیب جب مصلحت پسندی کے تخم بونے کی کوشش کرتا ہے
تو ادب مر جاتا ہے۔
(۲)
’’کتاب میں دیے گئے انتساب کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک قسم کا تعلق زندگی کے معیار کو بلند کرنا بھی ہے۔ یعنی ایسے انتسابات نوکری دلاتے ہیں۔ ترقی دلاتے ہیں اور کتاب کو نصاب میں شامل کراتے ہیں۔ ‘‘
ہری شکر پارسائی
(ہندی کے مشہور مزاح نگار)
(۳)
کیا آپ ادب تخلیق کرتے ہیں ؟
کیا آپ اپنے جینوئن ہونے کی قسمیں کھا سکتے ہیں ؟
کیا آپ اپنے Projection کے لیے سامنے آنا پسند کریں گے؟
کیا آپ نے چوٹی کے ایسا مافیا نقادوں سے ملنا جلنا شروع کیا ہے جو انعامات تقسیم کرتے ہیں ؟
کیا آپ نے اس بات پر کبھی احتجاج کیا ہے کہ ایک غلط آدمی انعام و اکرام کا (اچانک) مستحق کیسے قرار دے دیا جاتا ہے۔ ؟
کیا آپ نے کبھی اپنے تھکے ہوئے ادیب کا جائزہ لیا ہے جس نے اندر ہی اندر ایک ’گھٹی‘ ہوئی سانس چھوڑ کر کہا ہو——یہ کیا بے ایمانی ہو رہی ہے۔ انعام تو اسے بھی ملنا چاہیے تھا۔
— وہ پہلا دن جب ہم اور آپ کسی تبصرے کے پل سے سے گزرتے ہوئے رومانی ہو جاتے ہیں۔
’دوست ہے‘ —ایک تبصرہ میں کیا جاتا ہے یار۔
’تعریف کر دو۔ خوش ہو جائے گا۔ ‘
ٹھہریے۔ غلطی یہیں ہوتی ہے۔ ایسا ہم سب کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے۔ پھر ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔ پھر ہم صرف بڑی بڑی باتیں کہنے کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں۔
یا پھر اپنا فرسٹریشن نکالنے کے لیے
اور حقیقت یہ ہے کہ ساتویں آسمان کے مسند پر بیٹھا ہوا نقاد بھی اسی طرح ایک ایک سیڑھیاں چڑھتا ہوا بھول جاتا ہے۔
کہ غلط کیا ہے۔
جائز نا جائز کیا ہے؟
پہلے سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور ساتویں آسمان تک پہنچنے تک وہ اپنی عصمت اور غیرت بیچ کر ایک معمولی ساہوکار بن کر رہ جاتا ہے۔
وہ کسی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں چار لوگوں کو جمع کرتا ہے اور ہنسی مذاق میں انعام و اعزاز جیسی اہم خبر ایک گھٹیا سیا چٹکلہ بن کر رہ جاتی ہے۔
لیکن ٹھہریے——
ساتویں آسمان تک کی سیر کرنے میں اس نقاد نے ستر برس گزارے ہیں اور آپ—
تبصرے کی پہلی سیڑھی پر مصلحت پسندی کی اینٹ رکھتے ہوئے آپ بھی وہی کرنے جا رہے ہیں۔
یعنی آپ جب وہاں پہنچیں گے ساتویں آسمان پر—
انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کی حسین عمارت کی کرسیوں میں بیٹھے ہوئے یقیناً آپ بھی وہی کچھ کر رہے ہوں گے جیسا اردو ادب میں مدتوں سے چلتا رہا ہے۔
ادب میں مافیا سے ایک مکالمہ
٭کیا آپ نے اس انجام کے بارے میں غور کیا ہے؟
٭آپ کے آنکھیں موند لینے کے بعد—؟
٭نئی نسل ’ادب فروشی‘ کے طور پر آپ کو یاد کرے گی اور گالیاں دے گی۔ ماضی کے ادبی مجرے سے وہ آپ کا تجزیہ ایک طوائف سے کرے گی اور پوچھے گی۔
حضور غیرت تو کبھی کبھی طوائف کے اندر بھی جاگ جاتی ہے اور آپ؟
٭کیاسچ مچ دن رات کے کسی تنہا گوشہ میں آپ کے اندر کا مرد نہیں جاگتا۔ ؟
جو آپ سے یہ پوچھنے کی ہمت رکھتا ہو——کہ ادب کے کھیت میں جرم کی فصلیں بوتے ہوئے آپ ماحول کو زہر آلودہ کر رہے ہیں۔ یا تو ادب کی سیاست سے ہونے والے نقصانات کا آپ کو اندازہ نہیں یا پھر—— آپ کا تعلق کسی ایسے سازشی گروہ سے ہے جو اردو میں ’بینکوں ‘ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کا خواہشمند ہے۔
ایک دن سب کو مرنا ہے— ہاں کچھ لوگ اپنے کارناموں کی وجہ سے اچھے ناموں سے یاد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ آپ مر جائیں گے۔ لوگ آپ کو زیادہ سے زیادہ ادب فروش کے نام سے یاد کریں گے اور تب— اس گندے آئینہ کی دھول میں آپ کے اچھے کارنامے اور کتابیں بھی فراموش کر دی جائیں گی—
ایک بار صرف ایک بار— تنہائی میں خاموشی کی صلیب پر لٹکتے ہوئے آپ اپنا تجزیہ تو کیجئے۔
محترم نقاد—
کبھی کبھی دل کی جگہ دماغ کی بھی سن لیا کیجئے۔
تنہائی، آپ اور ادب مافیا؟
تنہائی اور خاموشی کی صلیب پر صرف نقاد کو نہیں جھولنا ہے۔
محاسبہ آپ کو بھی کرنا ہے۔
چلیے، دوستوں میں، محفلوں میں، سیمیناروں میں یقیناً آپ اس بات کا اعتراف نہیں کر سکتے۔
کہ وہ ادب فروش کون ہے۔
جو جلی روٹیاں پکاتا ہے اور گندے انعام دلاتا ہے۔
چلیے، بقول ہری شنکر بارسائی، آپ ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے کہ آپ (کہیں، خدا نخواستہ) ’انعامات‘ کی دعوت میں شریک ہونے سے محروم کر دیے جائیں۔
اور آپ کے جمعہ جمعہ چار دن کے ادیب دوست اعزازیہ تمغہ پر پھول چڑھاتے ہوئے نقاد کا قصیدہ پڑھنا شروع کر دیں۔
لیکن— جان لیوا تنہائی اور خاموشی میں، تو آپ اپنے محاسبہ کے پل سراط سے گزرسکتے ہیں۔ ؟
آپ ایک بار— خود سے پوچھ کر دیکھیے۔
آپ کو کوئی اعلان نہیں کرنا ہے۔ کسی مجلس، محفل میں گفتگو نہیں کرنی ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔
آپ کو خود سے دریافت کرنا ہے، وہ بھی تنہائی میں — بس
کہ وہ ادب مافیا کون ہے؟
وہ ادب فروش کون ہے؟
— کیا آپ اکیلے پن میں دیے گئے اپنے جواب سے خود کو خوش کر سکتے ہیں ؟
برسوں پہلے پڑھی ہوئی ایک کہانی اور آپ
اڑیہ یا بنگالی زبان میں برسوں پہلے میں نے ایک کہانی پڑھی تھی۔ ’’راجیش صحافت کی دنیا میں کچھ کر گزرنے کا خواہشمند تھا۔ اس کا جنون اسے ایک مشہور روزنامہ سے منسلک کر دیتا ہے۔ پہلے فیلڈ ورک کے طور پر اسے ایک ایسے علاقہ میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سیلاب کی وجہ سے کافی تباہی مچی تھی۔ اس علاقے میں منسٹر صاحب آنے والے تھے اور منسٹر صاحب کی تقریر اخبار کی سرخی بننے والی تھی۔
جس ہوٹل میں راجیش ٹھہرتا ہے وہاں ’چوٹی‘ کے کئی دوسرے صحافی بھی ہوتے ہیں۔ منسٹر صاحب جس دن آنے والے تھے، اس دن بارش ہو جاتی ہے۔ راجیش منسٹر صاحب کی تقریر قلم بند کرنے کے لیے مقررہ جگہ جانا چاہتا ہے تو باقی صحافی اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ جانے کی کیا ضرورت ہے۔ منسٹر صاحب جو تقریر کریں گے، انہیں پہلے سے علم ہے۔
راجیش کے اندر کا ایماندار، صحافی زور مارتا ہے۔ وہ مقررہ جگہ پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے بارش کی وجہ سے منسٹر صاحب کا آنا ملتوی ہو چکا ہے۔ راجیش واپس آتا ہے، تب تک باقی صحافی منسٹر صاحب کی آمد، ان کی تقریر اوران کے استقبال کی تیاریوں کی رپورٹ بڑھا چڑھا کر بھیج چکے ہوتے ہیں۔
اور یہ کہانی کاٹرننگ پوائنٹ ہے۔
صرف راجیش کے اخبار میں چھپتا ہے کہ منسٹر صاحب بارش کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے۔
باقی اخبارات میں منسٹر صاحب کی خوبصورت تقریر سرخیوں میں ہوتی ہے جس پر منسٹر صاحب بھی نہیں پہنچنے کے باوجود خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
ایمانداری کا تمغہ راجیش کو ملتا ہے، اسے برطرف کر دیا جاتا ہے۔
آخر کار
سچ وہی ہو گا جسے نقاد کہیں گے۔ لکھیں گے۔
آپ کو ایمانداری کا تمغہ ملے گا۔ آپ فراموش کر دیے جائیں گے— باقی نقاد اسی کا ڈھول پیٹیں گے، جیسا وہ ادب مافیا اپنی تحریروں میں کہہ چکا ہو گا—
’’اس کے بعد برسوں تک وہی نام دہرائے جائیں گے، جن ناموں کی فہرست اس نقاد نے بنائی ہو گی۔
اور یقیناً اس میں آپ کا نام شامل نہیں ہو گا۔
٭٭
کیا ان سب باتوں کو ماننے کے باوجود آپ خاموش رہیں گے۔
اب خاموش رہنے کا وقت نہیں۔
ادب مافیا کے لیے احتجاج بلند کرنے کا وقت آگیا ہے۔
کیا اب بھی آپ چپی سادھے رہیں گے؟
تو یقین جانیے۔
ادب کے مجرم آپ بھی ٹھہرائے جائیں گے۔
٭٭٭
تشکر مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید