فہرست مضامین
- سہ ماہی ادبی محاذ
- کٹک
- مدیر: سعیدؔ رحمانی
- سمیع الحق شاکرؔ مو بائل 9861148800
- قانونی مشیر:شمس الحق شمس(ایڈوکیٹ)
- سعید رحمانی، اخبار اڑیسہ پبلی کیشنز، دیوان بازار، کٹک۔ 753001 (اڑیسہ)
- موبائل:9861115243(صرف SMSکے لئے)
- 09437067585(گفتگو کے لئے)
- email: adbi.mahaz@gmail.com
- email: sayeedrahmani@gmail.com
- Website: www.adbimahaz.yolasite.com
- http://sayeedrahmani.blogspot.in
- یادوں کی دہلیز سے
- غزل
- پیش نامہ
- آپ کے شکیل صاحب
- شکیل الرحمٰن
- ڈاکٹر شکیل الرحمٰن
- ہند اسلامی جمالیات۔ تبصرہ
- اردو کلاسیکی مثنویوں میں فینتاسی کا جمال!
- تبصرہ: ہندوستان کا نظامِ جمال
- آشرم۔ شکیل الرحمٰن کی خود نوشت:ایک جمالیاتی تجزیہ
- ’’وقت‘‘ کا رومانی اور جمالیاتی تصور مولانا رومی کے حوالے سے
- معیارِ دانش
- ’’ہندوستانی جمالیات‘‘
- ’’بارہ ماسے کی جمالیات‘‘ فکر و نظر کا ایک انوکھا تجربہ
- فنِ خطاطی کی جمالیات
- محمد دارا شکوہ۔۔۔۔ اتحاد اور یکجہتی کی علامت
- ’’منٹو شناسی‘‘ —ایک تقابلی مطالعہ
- روایات اور غالب
- منٹو کی تفہیمِ نو
- ’مثنوی چراغِ دیر‘ : تحیر کی جمالیات کی ایک مثال
- پریم چند کے افسانوں کا نیا وژن
- ’’دیوارِ چین سے بت خانۂ چین تک‘‘ ۔ جمالیات کے تناظر میں
- ادب اور جمالیات: شکیل الرحمٰن کا ریشمی تنقیدی اسلوب
- آرکی ٹائیپل تنقید اور شکیل الرحمٰن
- ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوف کا جمال
- حرفِ آخر
- پیرِ جمالیات شکیل الرحمٰن ایک نظر میں
بیادِپروفیسر سید منظر حسن دسنوی مرحوم
شعر و ادب کی صالح قدروں اور عصری رجحانات کا ترجمان
سہ ماہی ادبی محاذ
کٹک
VOL-9, ISSUE-1, JAN-MAR-2013
جلد:۔ ۹؍ شما رہ۔ ۱ جنوری۔ مارچ ۲۰۱۳ ء
سر پرست: سید شکیل دسنوی
مدیر: سعیدؔ رحمانی
منیجنگ ایڈیٹر
سمیع الحق شاکرؔ مو بائل 9861148800
مجلسِ مشاورت
ظہیر غازی پوری، نذیر احمد یوسفی، گلشن کھنہ(لندن)، ڈاکٹر اسلم حنیف، رئیس الدین رئیسؔ ، پروفیسراحتشام اخترؔ ، ظفر اقبال ظفرؔ ،ِ مظفر ایرجؔ ، رفیق شاہین، شارق عدیل، حفیظ انجم کریم نگری، ا حسن امام احسن، غلام ربانی فداؔ ، اشفاق نجمی
قانونی مشیر:شمس الحق شمس(ایڈوکیٹ)
خط و کتابت اور ترسیل زر کا پتہ
سعید رحمانی، اخبار اڑیسہ پبلی کیشنز، دیوان بازار، کٹک۔ 753001 (اڑیسہ)
موبائل:9861115243(صرف SMSکے لئے)
09437067585(گفتگو کے لئے)
email: adbi.mahaz@gmail.com
email: sayeedrahmani@gmail.com
Website: www.adbimahaz.yolasite.com
http://sayeedrahmani.blogspot.in
یادوں کی دہلیز سے
پروفیسر سید منظر حسن دسنوی مرحوم
غزل
فکرِ جہاں مجھے نہ غمِ لامکاں مجھے
ملتی کہاں ہے دیکھئے جائے اماں مجھے
کچھ وہ بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
آئے نظر وہ آج بہت مہرباں مجھے
گلشن میں گل کے چاک گریباں کو دیکھ کر
کیوں عہدِ گل میں آ گئی یادِ خزاں مجھے
صحنِ چمن میں بجلیاں کوندیں کچھ اس طرح
یاد آ گیا قفس میں پھر اب آشیاں مجھے
یہ رقصِ جام و نغمہ و شعر و سخن کی بزم
تیرے بغیر گزری بہت ہی گراں مجھے
شاید چمن کی خاک خرابِ خزاں نہیں
پیہم اشارے کرتی ہیں کیوں بجلیاں مجھے
بشکریہ
سیدہ ارمان فاطمہ حیدر آباد
ایک شمارہ
شکیل الرحمٰن
کے نام
ترتیب و تدوین
سید شکیل دسنوی
تہذیب و تزئین
سعید رحمانیٖ
محاذِِ اول
پیش نامہ
کس کی مجال کہ سیلِ فنا کے سامنے ٹک جائے مگر کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو زمانہ ساز ہوتی ہیں اور وقت کی دھڑکنوں میں سما کر زندۂ جاوید ہو جاتی ہیں۔ پیرِ جمالیات شکیل الرحمٰن نے جمالیات پر جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر کوئی مشرقی دانشور شاید ہی کچھ اضافہ کرسکے۔ ایک عظیم فنکار اپنے عہد میں قید ہونا نہیں چاہتا۔ وہ مستقبل کی دھڑکنوں میں زندہ رہنا چاہتا ہے، ابدیت کی باہیں تھامنا چاہتا ہے۔ ان کی تصنیف کسی موضوع پر ہو، کسی دور سے تعلق رکھتی ہو، اپنا مخصوص اسلوب رکھتی ہے اور شعور و ادراک کی دانشورانہ میراث بن جاتی ہے جس میں تہذیب و تمدن کا دل دھڑکتا ہے۔ فنکار کی ذات ایک گنجینۂ مخفی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے پہچانا جائے، اس کی خدا داد صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے اور یہی جذبہ اسے تخلیقی عمل کی جانب مائل کرتا ہے، اس کی کاوشوں کا محرک ہوتا ہے۔ اس عمل میں اسے شعور و ادراک کی وجدانی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ تخلیقی عمل در اصل تین سطحوں ہو کر گزرتا ہے، فنکار کی ذات کا اظہار، اس کے عصری شعور کا ادراک اور اس کے عہد کے آفاقی اقدار کی باز گشت۔
شکیل الرحمٰن کی تحریروں میں وہ قلندرانہ بے نیازی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا دشوار ہو جاتا ہے کہ حیات و کائنات کے رموزواسرار کو وہ کس زاوئیے سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی تخلیقی ذہانت ایک ایسا اسلوب تراشتی ہے جس میں الفاظ تہدار معنوی علامت اختیار کر لیتے ہیں اور فکری جمالیات کے خوش رنگ مرقعوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ زندگی بکھرنے کا عمل ہے اور جمالیات اسے سمیٹ کر مرکزیت عطا کرنے کا وسیلہ۔ ان کی تحریریں براہ راست انسانی بصیرت کو منطقی آہنگ اور جمالیاتی شعور سے ہم آمیز کر کے پیش کرتی ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جمالیاتی(AESTHETIC SENSE)نے شعور اور لاشعور کے درمیان مرکزیت حاصل کر لی۔ یورپ میں واٹر پیٹراور آسکرو وائلڈ نے اسے ایک ادبی تحریک کی شکل دے دی۔ جمالیات کو ادبی روح سے تعبیر کیا گیا۔ ساختیات کی تنقیدی لغت میں اسے شعریت سے موسوم کیا گیا۔ اسی دور میں جمالیات کے کسی مادی یاسماجی پہلو کو رد کرتے ہوئے خالص جمالیات کے تصور کو ابھارا گیا۔ دعوے کے استحکام کے لئے یہ منطقی دلیل پیش کی گئی کہ ایک مصور جھرنے کی تصویر بناتے وقت تشنگی محسوس نہیں کرتا ا ور نہ کسی حسینہ کی تصویر کے حساس خد و خال کینوس پر ابھارتے وقت جنسی جذبات سے مغلوب ہوتا ہے۔ بعد ازاں کانٹ، نطشے اور جارج سنتیانا نے جمالیات کے مخفی گوشوں کا مختلف زاویۂ نگاہ سے جائزہ لیا۔ تجربہ و تجزیہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آفاقی حسن دراصل صفاتِ ایزدی کا نام ہے، حُسن تو دیکھنے والے کی نظر میں پنہاں ہے جو جمالیات کا مخزن ہے۔ جمالیات عملی طور پر ایک حسا س روح کا نازک ترین ارتعاش ہے جس کے زیر اثر صوفی سنت سوچ کینوس پر اسرار و رموز حیات کو متحرک دیکھتے ہیں، مستِ جام الست نعرۂ مستانہ بلند کرتا ہے اور فنکار کی نظر حُسنِ مطلق تک رسائی کے وسیلے تلاش کرتی ہے جس نے اپنا جلوہ جب دکھانا چاہا تو اپنے وجود کو بے شمار رنگوں کے سانچے میں ڈھال لیا مگر اپنی کلیت کا نظارہ صرف ایک صاحبِ نظر تک محدود رکھا۔ مشرقی یا ہند مغل جمالیات کےSHADESمغربی جمالیات کےSHADESسے ذرا مختلف ہیں۔ مشرقی جمالیات میں احساس کی پرت در پرت دبیز تہ ذہنی انجذاب کا سبب بنتی ہے جس کیINTENSITYکا مغربی جمالیات میں بڑی حد تک فقدان ہے۔
کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے سوانحی اشاروں میں فنکار کی شخصیت کے خد و خال، تصور حیات اور افکار و نظریات کی ایک وسیع دنیا سمٹ آتی ہے۔ ذاتی تجربہ ہی کائناتی تجربے میں ڈھلتا ہے، پھر آفاقیت بھی مقامیت، ارضیت اور انفرادیت کی زائیدہ ہوتی ہے۔ ذات سے کائنات تک کے سفر میں فنکار وجدانی کیفیت سے گزرتا ہے اور اپنے تجربات ومحسوسات فن کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ کلاسیکی فن اور مشرقی جمالیات میں ڈوبا ہوا ذہن ایک منفرد اور مخصوص وژن رکھتا ہے، صرف حرف و صوت سے اسلوب اور آہنگ کی تشکیل نہیں ہوتی، فکر اور وجدانی کیفیت کے ہم آمیز ہونے کے بعد ہی جمالیاتی حِس بروئے کار آتی ہے۔ جمالیات کے مختلف داخلی اور خارجی SHADESنقطۂ اتصال پر پہنچ کر نقطۂ عروج میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور اپنی تہدار کیفیتوں سے قاری کو خود میں جذب کر لیتے ہیں۔ ایسی تخلیقی لپک کی گرفت میں بعض اوقات حیات و کائنات کے ایسے رموز واسرار بھی آ جاتے ہیں جو فہم و ادراک کے دائرے سے ہنوز باہر تھے۔ تسخیر کائنات کی خواہش اور خود کو بقائے دوام عطا کرنے کی کوشش انسان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے اور اس کے عزم و انا کے لئے تازیانہ بھی۔ اگر یہ عمل انسان کی دسترس میں آ جاتا تو وہ کائنات کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیتا۔
ایک اعلیٰ درجے کے نثر نگار کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ کو علامتوں کا روپ دینے پر قادر ہوا اور الفاظ کے مناسب اور متناسب استعمال سے فقروں میں ایسی جان ڈال دے کہ فقرے بولنے لگیں اور فنکار کے ما فی الضمیر کو شفاف اور موثر طریقے سے قاری کے ذہن میں اتار دیں۔ اساطیری جمالیات انسانی شعور اور لا شعور کی سہ رخی (THREE DIMENSIONAL) گہرائی، وسعت اور تہداری میں احساس جمال کی ایک وسیع کائنات سمیٹے کسی صاحبِ نظر کی بصیرت کی منتظر رہتی ہے۔ شکیل الرحمٰن کی تحریروں میں رومانی اور روحانی SHADESکے علاوہ اساطیری اور ما بعد الطبیعیا تی اثرات کی موجودگی آثار کہنہ کا وہ زمانہ خوردہ نقش و نگار بھی پیش کرتی ہے جسے عرف عام میں ANTIC BEAUTYکہا جاتا ہے۔ تہ میں جائیے تو معنی و مفہوم کی پرتیں خود بخود کھلنے لگتی ہیں جس میں فکر واحساس کا ایک جہان آباد نظر آتا ہے۔ جمالیاتی شعور حُسنِ حقیقی تک رسائی کا ذریعہ ہے اور حسن حقیقی نیمِ درو ں نیم بروں کی کیفیت سے اگر ایک پل کے لئے بھی نقاب ہٹا لے تو کلیم طور تو کیا مسیح و خضر کی جان بھی جاتی رہے۔
ان دنوں ایسی تصنیفات کم ہی نظر آتی ہیں جن سے ذہن کے سارے دریچے روشن ہو جائیں اور منظر سے پس منظر ابھر کر پوری وضاحت کے ساتھ پیش نگاہ آ جائے۔ اگر ان کی گراں قدر تصنیفات کی بنیاد پر شکیل الرحمٰن کو اس دور کا ابو الفضل کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ ان کی علمیت، ذکاوت اور جمالیاتی شعور کی نظیر دور تک نہیں ملتی۔ اچھا اور سچا ادب وہ ہے جس میں ماضی کی پرچھائیاں بھی ہوں اور مستقبل کا عکس بھی جھلکتا ہو، دوسری صورت میں ادب حال کے سراب میں گم ہو کر رہ جائے گا۔ شکیل الرحمٰن ایک عہد ساز شخصیت ہیں۔ ان کی ہمہ جہت ادبی خدمات خصوصاً جمالیات کے حوالے سے، ان کا وسیع مطالعہ اور اسے مختلف زاویوں سے ضابطۂ تحریر میں لانا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس عہد کو ان کے نام سے موسوم کیا جائے۔ ان کے نقوش قدم پتھر پر بنے ہیں محض ریتوں کی زیب و زینت نہیں کہ تیز و تند بگولوں کے ایک رقص جنوں کے منتظر ہوں۔ انہوں نے الفاظ کو لمسِ سامری عطا کر کے ایسے متحرک نقوش ابھارے ہیں جو قاری کو اپنی سحر انگیز گرفت میں لے لیتا ہے اور دیر تک کربِ نشاط انگیز کی حدود سے نکلنے نہیں دیتا۔
شکیل الرحمٰن جیسے عہد ساز ادیب کا ہمزاد اب تک پردہ خفا میں ہے اور مستقبل میں اس کے نمودار ہونے کے امکانات کافی محدود ہیں۔ ان کا شمار ان اکابرین ادب میں کیا جا سکتا ہے جو آنے والے عہد کی دھڑکنوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آج بھی ان کی شخصیت چلتی پھرتی زندہ دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
جمالیات کا ایک اہم پہلو قاری کے ذہن میں احساس تکمیلیت کو بیدار کرنا ہے۔ خیالات کی تشکیل، پیش کش کی منصوبہ بندی، مسودہ کی تیاری، اس پر نظر ثانی اور رد و قبول یعنی اڈیٹنگ وہ اہم مراحل ہیں جن سے کسی خصوصی نمبر کی ترتیب و تدوین کے دوران گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں وسعتِ مطالعہ طلسم کشا کی اہمیت رکھتا ہے۔ پیش نظر نمبر میں کئی معلومات افزا اور بصیرت افروز مقالے شامل ہیں جو تنقید و تحقیق اور شعر وادب کے فن پر حرف آخر کا حکم رکھتے ہیں۔ شکیل الرحمٰن کے جمالیاتی شعور کو کوئی اگر منظر درپسِ منظر دیکھنے کا خواہش مند ہو تو زیر نظر شکیل الرحمٰن نمبر اس کے لئے جام جم سے کم نہیں ہے۔ کوئی تخلیق قاری تک تنہا نہیں پہنچتی، اپنے فن میں مستور تخلیق کار خود بھی روبرو ہوتا ہے۔
٭٭٭
عصمت شکیل
آپ کے شکیل صاحب
شکیل کا نام پہلی بار ۱۹۵۳ میں سنا تھا۔ میرا گھر ایسا نہ تھا کہ اردو والوں کا ذکر ہوتا، ہم نے بس غالب اور غالب سے زیادہ اقبال کا نام سن رکھا تھا۔ بنگالی فیملی، بھلا اردو والوں کے ذکر کی گنجائش کہاں تھی۔ مادری زبان بنگالی، رہن سہن بنگالیوں جیسا، ابا مرحوم کی الماریوں میں سرت بابو، ٹیگور اور نذر الاسلام، بنگالی رسالے، انگریزی کتابیں۔۔ میں تو ان میں گم رہتی، گھر کے کام کاج سے جب بھی فرصت ملتی، بنگالی ادیبوں کی کتابیں پڑھتی، مجھے سرت بابو اور ٹیگور دونوں پسند تھے اس لئے ان کے ناول اور کہانیاں بار بار پڑھتی، گیتانجلی مجھے سب سے زیادہ پسند تھی۔
۱۹۵۲ء میں شکیل کا ذکر سنا، اسی سال نومبر یا دسمبر میں وہ رانچی آئے تو میرے گھر کھانے پر آئے، معلوم ہوا پٹنہ یونیور سٹی میں اردو میں ایم اے کر رہے ہیں، اقبال ہوسٹل میں رہتے ہیں، کچھ لکھتے ہیں، ایک کتاب بھی چھپی ہے، موتی ہاری، ضلع چمپارن کے رہنے والے ہیں۔ خان بہادر مولوی محمد جان مرحوم کے سب سے چھوٹے لڑکے ہیں، اپریل میں امتحان دیں گے ایم اے اردو کا۔ جب کھانے پر آنے والے تھے تب ہی معلوم ہوا کہ ان سے میری شادی کی بات ہو رہی ہے۔ انھیں دیکھا، بھولے بھالے، معصوم سا چہرا، سوچتی ہوئی آنکھیں، بہت کم باتیں کرنے والے، اچھے لگے۔ ۵اپریل ۱۹۵۳ کو شادی ہو گئی، اس کے بعد پٹنہ جانے کو تیار ہی نہ ہوئے، چپک کر رہ گئے رانچی سے، امتحان سر پر تھا اور میں پریشان تھی اگر کوئی پرچہ خراب ہو گیا خدانخواستہ، تو جانے میری کتنی رسوائی ہو گی۔ منت سماجت کر کے، بس اسٹیند بھیجتی لیکن دیکھتی سامان لئے واپس چلے آ رہے ہیں، آنکھوں میں بڑی معصومیت اور ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ، کٹ کر رہ جاتی، بڑی مشکلوں سے کچھ نہ پوچھئے اپنی جان کی قسم دے کر پٹنہ بھیجا۔ اللہ اللہ کرتی رہی جب تک کہ وہاں امتحان دیتے رہے، واپس لوٹے تو اس طرح جیسے زندگی کا سارا مسئلہ حل ہو گیاہو اور انہیں دنیا میں اب کسی بات کی فکر نہ ہو !
۱۵؍اپریل ۱۹۵۳ء کو شادی ہوئی لیکن ایسا لگا جیسے کب کے ساتھی ہیں !شادی کی تاریخ تو یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کتنے جنم کے ساتھ ہیں اور تاریخیں کب بتاتی ہیں ایسے سفر کی باتیں۔ ان کی پرسنالٹی کا جادو ان کی پر اسرار خاموشی، کھوئے ہوئے رہنے کے انداز، ہلکی مسکراہٹ اور گفتگو کے انداز میں ہے۔ محبت کرنا جانتے ہیں اور پیار کے بھوکے پیاسے ہیں، محبت کا جواب محبت سے مل جائے تو کچھ نہ پوچھئے، جیسے انہیں سب کچھ مل جاتا ہے !شادی کے فوراً بعد ہم یکھتے ہی دیکھتے زندگی کے جانے کتنے تجربوں سے گزر گئے۔ شکیل ایم اے اردو میں پٹنہ یونیور سٹی میں اول آئے لیکن اپنی ریاست میں ملازمت نہیں ملی۔ ان کی ترقی پسندی اور کمیونزم سے ان کی وابستگی سے نقصان پہنچا، کئی کالجوں میں اردو لکچرر کی جگہیں تھیں لیکن رجعت پسندی کا گہرا سایہ جن کی طرح حادی تھا۔ شکیل کہتے یہ کتنی اہم بات ہے کہ بعض حکمراں میرے خیالات کی سچائیوں سے خوفزدہ ہیں۔ ہر دور میں نئی نسل کی آنکھیں کھولنے والوں سے حکومت کرنے والا ایسا طبقہ خوفزدہ رہتا ہے۔ تعلیمی نظام پر جن رجعت پسندوں کی حکومت ہے وہ مجھے ملازمت کیسے دیں گے۔ ہم دیکھ رہے تھے اس طبقہ نے رشتہ داروں اور معمولی فہم کے چہیتے شاگردوں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں اور یہ سلسلہ جاری تھا۔ کیا نہیں ہوا ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۴ء تک بیکاری، پریشانی، محرومی، ناکامی، دوڑ دھوپ، دہلی، رانچی، موتی ہاری، پٹنہ، صاحب گنج، دہلی میں ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتے رہے، بڑے باپ کے بیٹے تھے لیکن کمیونزم سے وابستگی انہیں جد و جہد اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی تعلیم دے رہی تھی۔ عجب وقت گزرا ہے!اداس ہو جاتی کبھی کبھی تو کہتے مجھے صرف تمہارے سہارے کی ضرورت ہے، اس طرح مسکراتے کہ سجدہ کرنے کو جی چاہتا۔
جب ۱۹۵۴ء میں اڑیسہ آئے تو زندگی میں توازن پیدا ہوا۔ اڑیسہ میں انہیں بڑی عزت ملی، بڑی محبت ملی، طلبہ ان سے بے حد متاثر تھے، کالج اور کالج سے باہر سب ان سے محبت کرنے لگے، وہ طلبہ جو ان سے تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے، امتحان دینے جاتے تو دیکھتی وہ بھی پہلے شکیل کے پاؤں چھوتے اور ان سے آشیرواد لیتے۔ شکیل اس زمانے میں ایک دیوانے،سرخے، تھے، اسٹالن کے عاشق، ماؤ کے پرستار، بھدرک کالج میں سنسکرت کے ایک استاد تھے شری بنرجی، شکیل ان سے بہت قریب ہو گئے، بنرجی بابو سنسکرت زبان کے عالم تھے اور’تانتر شاستر‘ سے ان کی بڑی گہری دلچسپی تھی، شکیل نے ان سے سنسکرت زبان و ادب کے متعلق بہت کچھ سمجھا۔ ’تانتر شاستر ‘ پر جب بھی وقت ملتا گھنٹوں ان سے گفتگو کرتے اور اس کے بعد رات گئے تک مجھ سے ’یوگ شاستر، تانتر شاستر،تانتر لوک، بھگوت، ایشور سدھی، منو اسمرتی، اور شیوازم، وغیرہ پر باتیں کرتے۔ میری سمجھ میں بہت کم آتا لیکن ان کی باتوں کا اثر مجھ پر بہت ہوتا۔ !زیادہ دنوں کی بات نہ تھی کہ جب مجھے گیتانجلی پڑھتے دیکھتے تو کہتے ٹیگور تو زندگی سے فرار کی تعلیم دیتا ہے، اس کی شاعری مجھے متاثر نہیں کرتی، میں مسکرا دیتی اس لئے کہ انہوں نے ٹیگور کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کیا تھا ا ور بہت معمولی ترجمے پڑھے تھے، ٹیگور کے گیتوں کی خبر نہیں تھی۔ سوچتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ شکیل اس زمانے میں ’کمیونسٹ‘ تھے، جد و جہد اور ایک خوبصورت مستقبل پر ان کا اعتماد تھا، عوامی زندگی سے ان کا ایک تعلق تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ذاتی زندگی کی محرومیاں انھیں کمزور کر دیتیں، حد رجہ حساس ہیں، وہ تو ٹوٹ کر رہ جاتے اور زندگی میں کچھ نہیں کرپاتے، یہ تو بڑا اچھا تھا کہ جدوجہد پر اعتماد کرتے تھے اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے، ہارے نہیں، اداس نہیں ہوئے، اسٹبلشمنٹ کے گرد چکر لگانے والے ادیبوں، شاعروں اور پروفیسروں کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، بورژوا طبقہ، پسماندہ طبقہ، دونوں انہیں زندگی کو سمجھانے میں مدد کرتا رہا، انہیں کمیونزم سے بڑا سہارا ملا، ۱۹۵۴ء کے بعد زندگی میں توازن آیا تو ان کی خواہش کے مطابق انہیں گیتانجلی پڑھ کر سنانا شروع کیا ا ور لگا جیسے وہ آہستہ آہستہ ٹیگور کے لفظوں کی مٹھاس اور شاعر کے آہنگ میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ کہنے لگے کے یہ تو واقعی بہت بڑا شاعر ہے، تم نے پہلے کیوں نہیں سنایا ان گیتوں کو، اسی زمانے میں وہ مجھ سے بنگلہ پڑھنے لگے۔ ریڈیو پر بنگلہ گیتوں کو سننے کے لئے وقت نکالنے لگے۔
ڈگری کالج بھدرک (اڑیسہ)کے کتب خانے سے ان کا گہرا تعلق قائم ہو گیا اور دیکھتی وہ میٹا فزکس، نفسیات، تصوف، کی کتابیں خوب پڑھ رہے ہیں، رگوید، اتھر وید، اپنشد، یوگ، بدھ ازم، نروان وغیرہ سے ان کی گہری دلچسپی کا زمانہ یہی تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے صبح کی چار رکعت نماز شروع کی لیکن یہ نماز نو دس بجے دن کو پڑھتے، سوچتی بھی تھی اور کہتی بھی تھی کہ بھلا یہ کیسی نماز ہے، صبح کی نماز کا وقت تو نہیں ہے۔ کہتے، جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ خداوند کریم اس وقت میری عبادت چاہتے ہیں۔ مجھے بڑا نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ میں اندر سے بیدار ہو جاتا ہوں چوبیس گھنٹے کے لئے، اپنے خالق سے بہت قریب محسوس کرتا ہوں۔ یہ نماز اب تک قائم ہے، صبح نہا دھو کر وہ روز ہی نماز پڑھتے ہیں، سردی ہو یا گرمی یا برسات، صبح کا نہانا ضروری ہے، منفی5 – 6ڈگری سنٹی گریڈ ٹمپریچر کیوں نہ ہو وہ نہاتے ضرور ہیں اور اس کے بعد وہ اپنی عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی دن میں دو یا تین بار بھی نماز پڑھ لیتے ہیں لیکن یہ دوسری نماز وقت پر پڑھتے ہیں۔ کبھی کبھی قرآن کریم کھول کر گھنٹوں اس میں کھوئے رہتے ہیں۔ ۱۹۵۴ء سے ہی ’روحانیات‘ سے دلچسپی ہے، اڑیسہ میں انہیں کلچر، تہذیب، ہندوستانی تہذیب، میٹا فزکس، فلسفہ، مسٹیزم پر چھوٹی بڑی کتابیں پڑھتے دیکھتی، ان کی ڈائریوں اور نوٹ بکس کے بعض اوراق سے محسوس کرتی ہوں کہ وہ ابتدا سے ’صوفی ازم‘ کی طرف مائل تھے۔ اب تو وہ روحانی زندگی کے مسافر بن گئے، کہتے اس کی وجہ سے لوگوں سے بڑی قربت حاصل ہو گئی، بزرگوں سے اس سفر میں بھیک مانگ کر جو کچھ حاصل کرتا ہوں اس سے انسان اور انسان کے رشتے کو سمجھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر دوسری اور کوئی بات نہیں ہے اس بھری دنیا میں۔ ہندو اساطیر، یونانی اساطیر اور چینی اور جاپانی کہانیوں اور گیتوں سے گہری دلچسپی کا زمانہ بھی یہی ہے۔ سگمنڈ فرائیڈکو پہلے بھی پڑھ چکے تھے لیکن اس زمانے میں فرائیڈ کے ساتھ یونگ بھی ساتھی بن گیا۔
۱۹۵۶ء میں کشمیر آ گئے اور اب تک ہم کشمیر میں ہیں۔ کہتے ہیں کشمیر میری زندگی کا سب سے خوب صورت ’تجربہ‘ ہے!جہاں پوری جوانی گزر گئی ہو ظاہر ہے وہ مقام سب سے بہتر تجربہ ہو گا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ شکیل کی کہانی کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ اور اس کی ضرورت بھی کیا ہے، ان اوراق میں تو آپ نے سب کچھ پڑھ لیا ہے۔ ان کی زندگی کا خاکہ ان تحریروں سے مرتب ہو سکتا ہے۔ ’ڈائری‘ اور ’نوٹ بک‘ لکھنے کا یہ شوق جانے کب سے ہے، روز صبح ڈائری اور نوٹ بک پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کی یہ تحریر نہیں پڑھی تھی، جب ایک بار اپنی ڈائریاں جلانے لگے تو مجھے اچھا نہیں لگا، غالباً دو ایسے حادثوں کے بعد انہیں روک دیا اور کہا ؛اگر راز کی باتیں زیادہ نہ ہو ں تو اجازت دیجئے کہ انہیں پڑھوں، اردو پڑھنا سیکھ لیا تھا، اردو کے جانے کتنے ناول اور افسانوں کے مجموعے پڑھ چکی تھی، ان کے خط (یہ باتیں ہماریاں )کی وجہ سے اردو سے مجھے محبت ہو گئی تھی۔ مسکرائے اور اجازت دے دی، بہت سے اوراق پڑھے اور جب بھی فرصت ملی خاموشی سے چپکے چپکے نقل کرتی رہی، بہت سے اوراق محفوظ کر لئے، ہزاروں صفحات ہیں، تین سو سے زیادہ صفحات ایسے ہیں جن کی اشاعت مناسب نہیں ہے اور شکیل کو جاننے کے لئے ان کا پڑھنا بھی زیادہ ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اپنی شناخت سے زیادہ اپنے ملک کی سیاست اور شخصیتوں کی شناخت ہے۔ ادیبوں اور ان کی کتابوں کی شناخت ہے۔ بعض دوستوں اور اذیت دینے والوں کی شناخت ہے، جب بھی کوئی کتاب پڑھتے ہیں اپنی ڈائری اور نوٹ بک پر کچھ نہ کچھ اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ شکیل انہیں محض تاثرات کہتے ہیں اور زیادہ اہمیت نہیں دیتے، شکیل بھی نہیں چاہتے کہ یہ صفحات شائع ہوں، وہ انہیں ضائع کر دیں گے۔ بعض شخصیتوں کی نقاب کشائی دیکھ کر حیران ہوتی ہوں کہ افراد کی فطرت کو پہچاننے کی ان میں کتنی صلاحیت ہے۔ شکیل کا سائیکو پروفائل (Psycho Profile)لکھنا چاہتی تھی، ممکن نہ ہوا۔
شکیل کو مصوری، مجسمہ سازی اور کلاسیکی موسیقی سے گہری دلچسپی ہے۔ ایک بار یاد آتا ہے انھوں نے کہا تھا اگر مناسب تربیت ہوئی ہوتی تو میں ایک مصور ہوتا یا کلاسیکی موسیقی کا استاد!میں نے جواب دیا تھا کہ مصوری تک کی بات تو ٹھیک ہے لیکن آپ کلاسیکی موسیقی کے استاد ہوتے تو میرا جینا دوبھر ہو جاتا۔ اب بھی وہ میرے اس ’جواب‘ کا ذکر کبھی کبھی کرتے ہیں اور چٹکیاں لیتے ہیں، خوب ہنستے ہیں، کہتے ہیں پھر تو تم نے مجھ سے شادی نہیں کی ہوتی، شادی ہو جاتی تو ہر صبح الاپ کے ساتھ جھگڑا شروع ہو جاتا۔ ذہن میں مصوری کے نئے نئے خاکے ہوتے ہیں اور اکثر ان خاکوں کو سمجھاتے ہیں، بیٹی انجم میں مصوری کا شوق ان ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یوں مجھے بھی تصویریں بنانے کا شوق تھا لیکن یہ شوق پورا نہیں ہوا، شادی کے بعد جب بھی کوئی تصویر بنائی، شکیل بہت خوش ہوئے اور اسے حفاظت سے اپنی فائل میں رکھ لیا۔
بچوں اور دنیا بھر کے بچوں سے ان کی محبت کا ذکر کہاں سے شروع کروں۔ بچوں کے دیوانے ہیں۔ بچوں کو دیکھے بغیر، ان کے ساتھ کھیلے بغیر، ان سے پیاری پیاری باتیں سنے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جب بچے نہیں ملتے تو اداس رہتے ہیں، محلے کے بچوں کو جمع کئے رہتے ہیں، ان کے کھیلوں کو دلچسپی سے دیکھتے رہتے ہیں اور اکثر ان کے کھیل میں شریک ہو جاتے ہیں۔ جس دن اداس رہتے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ کہیں سے کوئی بچہ ان کی گود میں ڈال دوں، کئی شہروں میں بعض بچے ان کے دوست ہیں۔ روس گئے تو وہاں بھی کچھ بچوں سے دوستی کی، پاکستان کی ایک بچی جو ملتان میں رہتی ہے اور جس کا نام ’’لالہ رخ‘‘ ہے ان سے بہت قریب ہے، اس ننھی بچی کے پیارے پیارے خط ان کے پاس آتے ہیں اور وہ بھی اسے خط لکھتے رہتے ہیں۔ بہت چاہتے ہیں ’لالہ رخ‘ کوکبھی دیکھا بھی نہیں ہے دہلی کی’مونا‘ کو بھی بہت چاہتے ہیں، کسی کے ماموں جان، کسی کے تایا جان، کسی کے انکل۔۔۔ بچوں کی ایک خوبصورت دنیا دیکھنے کے خواہش مند ہیں، سڑکوں پر بھٹکتے بھیک مانگتے جوا کھیلتے اور ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر بہت کڑھتے ہیں جیسے وہ خود اس بربادی کے ذمہ دار ہوں، ان کا بس چلے تو بچوں کے لئے تحریک چلائیں اور ان کے حقوق کے لئے لڑتے رہیں۔
طلبا اور خصوصاً ان کے طلبا۔۔۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ ان کے بارے میں جتنا سوچتے رہے ہیں شاید ہم لوگوں کے بارے میں بھی اتنا سوچا ہو گا۔ نئی نسل انہیں بہت عزیز ہے، اس کے اضطراب اور اندر کے انتشار کو سمجھتے ہیں اور اور اس سے ہمیشہ با معانی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ نئی نسل کو جو آزادی نصیب ہے وہ ہمیں کبھی نصیب نہیں ہوئی، سوالات کرنے کی جو آزادی نئی نسل کو ہے وہ اب تک کسی نسل کو نہیں ملی تھی۔ اس آزادی کے معیار اور اس آزادی کے تحفظ کی ضرورت ہے، اس بات کا احساس دیتے رہنا طرح طرح سے بہت ضروری ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بہتر جذباتی اور ذہنی رشتے کے بغیر سچی تعلیم ممکن نہیں ہے، استاد کی اپنی دیوانگی کم ہوتی جا رہی ہے، معلمی شیشہ گری کا پیشہ ہے، بہت ہی نازک، اس کے لئے معلم کو سچی دیوانگی کی ضرورت ہے۔ جانے کتنے برسوں کے معلم ہیں، ان برسوں میں ہزاروں طلبا سے رشتہ قائم کیا، صرف دو یا تین طلبا مجھ سے خفا ہوئے اور ایسے خفا ہوئے کہ بس روٹھ گئے۔ میرے مزاج سے ان کا تعلق قائم نہ ہو سکا، میں ناکام ہو گیا، وہ اب بھی ان طلبا کو محبت سے یاد کرتے ہیں اور بعض اوقات بہت دکھی ہو جاتے ہیں، مجھے معلوم نہیں یہ کون تھے، لیکن ان کے دکھ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں کے باوجود انہیں چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں مجھ میں بھی ہیں، ممکن ہے اپنی غلطی کی وجہ سے ایسے چند طلبا سے میرا بہتر رشتہ قائم نہ ہو سکا۔ میں انہیں وہ سب کچھ دے نہ سکا جو وہ چاہتے تھے۔ شاید میرے لئے ممکن نہ تھا۔ رشتے کے درمیان کئی باتیں ہو جاتی ہیں۔ طلبا واقعی ان کی کمزوری ہیں، ان کے درمیان ہی وہ زیادہ خوش رہتے ہیں، ان کے مسائل ہی سے ان کی زیادہ دلچسپی ہے۔
اپنے استادوں میں وہ اب تک اپنے مکتب کے مولوی منظور کو فراموش نہیں کرسکے ہیں جن سے انہوں نے اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھا، اکثر ان کا ذکر کرتے ہیں، بچپن کے واقعات سناتے ہیں، ان کی محبت اور شفقت کا ذکر کرتے ہیں، ان کی سادہ نفیس زندگی، ان کے فقر اور ان کے صوفیانہ مزاج سے ان کی ٹوٹی ہوئی بائیسکل تک کی باتیں اکثر سنی ہیں۔ وطن جب بھی گئے ان سے کسی نہ کسی طرح سے ملے، چند سال ہوئے ان کا انتقال ہو گیا اورشکیل پر ان کی جدائی کا بڑا اثر ہوا۔ کہتے ہیں بچپن میں پیار ومحبت سے پڑھانے والوں کی بڑی کمی تھی۔ جبکہ ہر مولوی چھڑی سے مارتا تھا، طمانچے لگاتا تھا، طرح طرح کی سزائیں دیتا تھا، میرے مولوی صاحب پیار اور محبت سے پڑھاتے تھے۔ قرآن اور حدیث کی تعلیم بھی انہوں نے دی، تختی پر سب سے پہلے ان کے پاس بیٹھ کر اردو کے حروف لکھے۔ اس سلسلے میں اکثر اپنے شہر کے ایک معروف استاد اور چمپارن کے مشہور شاعر مولانا عترت مرحوم کی مثال دیتے ہیں جنھوں نے ان کے بھائیوں اوران کی بہنوں کو بچپن میں پڑھا یا تھا۔ بہت اچھے استاد تھے، لیکن پیٹے بغیر وہ کسی کو جانے نہیں دیتے تھے۔ اچھی پٹائی کر کے انہیں سکون ملتا تھا، بچوں کو پیٹنے کے بعد ان کی حالت غیر ہو جاتی تھی، عجیب کیفیت میں مبتلا ہو جاتے، سینے کے درد سے تڑپنے لگتے اور اپنے چھوٹے سے چاقو سے خود کو لہو لہان کر لیتے تھے۔ گھر کے لوگ دوڑتے اور انہیں کسی طرح ان کے گھر پہنچایا جاتا، چند دن شکیل بھی ان کے پاس بیٹھے لیکن جس دن ان کی چھڑی سے پٹے وہ آخری دن تھا، پھران کے قریب نہیں گئے۔
اپنے استادوں میں وہ ڈاکٹر سید احمد حسین، ڈاکٹر سید اختراورینوی اور علامہ جمیل مظہری کا ذکر ہمیشہ بڑے احترام کے ساتھ کرتے ہیں، کہتے ہیں یہ نہ ہوتے تو میں کہاں ہوتا!علامہ نیاز فتح پوری، فراق گورکھ پوری اور سید حسن عسکری کو اپنا معنوی استاد کہتے ہیں۔۔۔ اور غالب؟وہ تو ان کے سب سے بڑے استاد ہیں جو غالباً ہر وقت ان کے پاس رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سمجھاتے رہتے ہیں، غالبؔ کی تصویر تو ان کے سر کے اوپر لٹکتی رہتی ہے۔ دفتر میں ہوں یا گھر میں !کہتے ہیں شخصیت کے گرد جو طلسمی ہالہ ہوتا ہے نا، وہ اب بھی غالبؔ کی ان تصویروں کے گرد موجود رہتا ہے جنہیں میں پسند کرتا ہوں اور میری ذات کا طلسمی ہالہ اس سے مس ہو کر ہمیشہ حرارت اور تازگی پاتا رہتا ہے۔
اپنی ذمہ داریوں کا انہیں ہمیشہ احساس رہتا ہے، دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے ہیں، جب ناکام ہوتے ہیں تو بہت دکھی ہو جاتے ہیں، مالی حالت ہمیشہ نازک رہی لیکن جو کچھ ملا خدا کا شکر ادا کیا، لالچ، خوشامد، خود غرضی اور دربار داری۔۔۔ اس زمانے کی ان ’عظیم قدروں، سے ہمیشہ دور رہے۔ دربار داری تو کر ہی نہیں سکتے، کئی بار اپنانقصان کیا، بچوں کا بھی نقصان کیا۔۔۔ اس بھری دنیا میں مجھے اپنا سب سے بڑا ہمدم اور دوست سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں وہ سب کچھ سنوں جو ان کے دل میں ہے اور میں سنتی بھی ہوں، یہاں تک کہ اپنے رومان اور اپنی محبت کی داستان بھی نمک مرچ لگا کر مزے مزے میں سناتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ میں بیوی ہوں اور اگر ان کے مزاج کا اندازہ نہ ہوتو ایسی باتوں کا مجھ پر اثر بھی ہو سکتا ہے۔
بڑے حسن پسند ہیں، حسن تو بس ان کے دل میں کھپ جاتا ہے۔ اپنی زندگی میں جب بھی کوئی خلا سا محسوس کرتے ہیں اسے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی گلاب کے پھولوں کی کیاریوں سے، کبھی اچھی کتابوں سے، کبھی مجھے اپنی پسند کے کپڑے پہنا کے، کبھی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ ہنس کھیل کے، کبھی محلے کے بچوں کی دعوتیں کر کے، کبھی کسی کے ’چہرے، کو آئیڈیل بنا کے۔۔۔ چہرا چغتائی کی تصویر کا ہو یا ڈالی کی’نیوڈ‘ (Nude)کا۔۔ یا کوئی زندہ متحرک چہرا!مجھے ’یہ شکیل‘ بھی عزیز ہیں ان تمام چیزوں کے ساتھ !کہتے ہیں عورتوں کی آنکھوں اور ہونٹوں پر آسام اور بنگال کا ملا جلا تیز جادو ہوتا ہے، خوشبو بہت پسند ہے، خوشبو کے بغیر نہیں رہ سکتے، گلاب اور کیوڑے کے عرق سے بڑی رغبت ہے، جسم کی خوشبوؤں کا ذکر بھی کبھی کبھی مزے لے لے کر کرتے ہیں، خوشبو کو انسان اور انسان کے رشتے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں انسان کا ’شعور‘ اس حس سے بہت دور ہو گیا ہے لیکن اس کے لا شعور میں یہ حس بہت متحرک ہے۔
ذہن بہت پُر اسرار ہے اور یہ پُر اسراریت صرف ان کے لئے ہے، اس سے کسی کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ ان کی اپنی دنیا ہے۔ اس میں ان کی ’دیو مالا‘ ہے، ان کے اپنے تراشے ہوئے بت، چہرے، پتھر، درخت۔ یہ ذہن انہیں پُرانے کھنڈروں کی طرف لے جاتا ہے۔ پرانے کھنڈروں میں جانے انہیں کس قسم کی رومانیت ملتی ہے۔ نالندہ ساتھ گئی، ایک ایک پتھر پر بیٹھ رہے تھے۔ ایک ایک پتھر کو دیکھ رہے تھے، ہر دیوار پر ہاتھ پھیر رہے تھے جیسے سب ان کے جانے پہچانے ہوں، جیسے وہ یہاں صدیوں پہلے رہتے ہوں، یہی کیفیت ’بودھ گیا‘ میں دیکھی، پُرانے مندروں، بزرگوں اور صوفیوں کے پرانے حجروں میں بھی ان کی یہی حالت ہو جاتی ہے۔ کشمیر میں حضرت زین شاہ کے حجرے کو دیکھنے کے لئے مجھے لے جا کر کتنی بلندیوں پر چڑھ گئے اور وہاں پہنچ کر گم سم ہو گئے۔ اسی طرح پرانے بڑے اور پھیلے ہوئے درختوں میں کشش محسوس کرتے ہیں، بعض درختوں کے پاس دیکھا ہے اس طرح کھڑے ہو گئے ہیں جس طرح وہ خود درخت ہوں، جانے اس وقت ان کے ذہن میں کیا ہوتا ہے۔ مجھے کالی داس کی’مالا ویکا گنی مترم‘ (Malavikgnimitram)کی یاد آتی ہے، جس میں درخت کسی خوبصورت شے کو چھو لینے کی آرزو کا اشارہ ہے۔ جب تک وہ اسے نہیں چھوئے گا پھل پھول نہیں دے گا۔ درخت ممکن ہے شکیل کے لئے ’عورت‘ پیکر ہو، وہ اکثر بعض درختوں کو دیکھ کر رقص کی اداؤں کا ذکر کرتے ہیں۔ درختوں کی ’جمی ہوئی حرکتوں‘ میں ا نہیں عورت کے حرکت کرتے ہوئے جسم نظر آتے ہیں۔
ان کی کوئی چیز گم ہو جائے تو مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی، حد درجہ الجھ جاتے ہیں، اکثر چند چھوٹے چھوٹے کاغذ گم ہو جاتے ہیں، ایک چھوٹا سا کاغذ گم ہو گیا، اورسارا کمرہ باہر آ جاتا ہے۔ کاغذات کبھی سلیقے سے نہیں رکھتے حالانکہ رکھنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں ڈھنگ کا کوئی کمرہ نہیں ہے جسے اپنا کتب خانہ بناؤں۔ صبح جب وہ کام کرتے ہیں اور مجھے آواز دیتے ہیں تو سمجھ جاتی ہوں کہ جناب کی کوئی چیز گم ہو گئی ہے یا کسی کتاب کو کباڑ خانے سے نکالنا ہے۔ جب میں آ جاتی ہوں تو اطمینان ہو جاتا ہے انہیں جیسے کھوئی ہوئی چیز اب مل جائے گی۔ جس طرح ان کے ذہن میں بچوں کے لئے ’شکیل نیکیتن‘ بنانے کا ایک پیارا سا خواب کب سے کسمسا رہا ہے، اسی طرح اپنے لئے ایک ذاتی کتب خانے کو اپنے گھر میں دیکھنے کا خواب کسمسا رہا ہے۔ اپنے کتب خانے کا خوبصورت سے خوبصورت خاکہ میرے سامنے رکھتے ہیں، خدا ان کی خواہش جلد پوری کریں لیکن میں ان کے سامنے یہی کہتی ہوں کہ وہ بھی کباڑ خانہ بن جائے گا ا ور وہاں سے بھی آپ کاغذ کے چند پرزوں کے لئے مجھے آواز دیتے رہیں گے۔
اچھے کھانے پسند ہیں، سادہ اور اچھے کھانے!مرچ برداشت نہیں کرتے لیکن کھانا ضرور چاہتے ہیں، کھانے اور کھلانے کا شوق پرانا ہے، ان کی مہمان نوازی نے کبھی کبھی ہمیں قرض میں ڈال دیا ہے اور مجھے بڑی پریشانی ہوئی ہے۔ سوپ، مرغ، سادہ چاول، شامی کباب، سیخ، گوشت کی کشمیری یخنی، شیرینی۔ ان کے عاشق ہیں، مچھلی شوق سے کھاتے ہیں، لیکن گھر کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ آم ان کی غالباًسب سے بڑی کمزوری ہے، کشمیر میں آم کے لئے انہیں بعض اوقات تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہاتھ میں آم دے دیجئے ضد کرتا ہوا مچلتا ہوا بچہ خاموش ہو جائے گا ا ور اس کی ساری توجہ آم پر مرکوز ہو جائے گی۔ عجیب بات ہے، محفلوں میں، سب کے سامنے آم کھانے سے کتراتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہر لذیذ شے کا لطف تنہائی میں ہے۔ چاہتے ہیں، جو وہ خود پسند کرتے ہیں، دوسرے بھی پسند کریں، دعوت دیں گے اور بتائیں گے چار مہمان آ رہے ہیں دن بھر میں چار پانچ مہمانوں کو اور دعوت دے دیں گے اور مجھے اس وقت صحیح تعداد کی خبر ملے گی جب کھانا تیار ہو چکا ہو گا۔ دو تین بار ایسا ہوا کہ مہمانوں کو تاریخ کچھ اور بتائی گئی اور مجھے کچھ اور۔۔ مہمان نہیں آئے اور کھانا تیار رہا، خود بیٹھ کر کھا رہے ہیں اور کبھی ایسا ہوا کہ مہمان آئے اور کھانا غائب۔۔ میری پریشانی بڑھ گئی۔
’شیو، کرتے ہوئے عموماً داڑھی کے خلاف، بلیڈ کے خلاف، ریزر اور صابن کے خلاف، تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کے خلاف تقریر کرتے ہیں لیکن روز ’شیو‘ بنانا ضروری بھی سمجھتے ہیں، صبح تڑکے اٹھ جانے اور لکھنے پڑھنے کی عادت پرانی ہے، چار بجے اٹھ گئے چائے فوراً چاہئے، جو کام کر لیتے ہیں بس صبح میں، رات میں ہلکی پھلکی چیزیں پڑھتے ہیں، کئی برسوں سے رات میں لکھنا پڑھنا بند کر رکھا ہے، آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں، زیادہ زور ڈالنا پسند نہیں کرتے۔
سفر سے بہت گھبراتے ہیں، باہر کہیں جانا ہو تو چاہتے ہیں پورا گھر ساتھ چلے، بہت مجبوری کی حالت میں تنہا سفر کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر اپنی مکمل بدحواسی کا ثبوت دیتے ہیں اور کوئی دوسرا انہیں سہارا نہ دے تو جانے وہ کس گاڑی میں کہاں پہنچ جائیں۔ ان کے سفر کے اتنے قصے ہیں کہ یاد کر کے ہنستی ہوں۔
مجھ سے کسی بات پر اختلاف کرتے ہیں تو اکثر زور زور سے باتیں کرنے لگتے ہیں، جب میری آواز تیز ہوتی ہے تو کہتے ہیں آہستہ بولو، جب میں سمجھاتی ہوں بابا آہستہ بولئے تو کہتے ہیں ’لڑائی ہو تو ٹھیک سے ہو، کوئی سنتا ہے تو سنے، کسی غیر کی بیوی سے جھگڑا تو نہیں کر رہا ہوں۔ عموماً انہیں غصہ اس وقت آتا ہے جب میرے سر میں درد ہوتا ہے اور مجھے لیٹے ہوئے دیکھ لیتے ہیں، میں کہتی ہوں میری تکلیف کا آپ کو ذرہ برابر خیال نہیں آتا تو اکثر فرمایا جاتا ہے یہ تکلیف اس لئے ہوئی ہے کہ کل تم سرد ہوا میں باہر نکل گئی تھیں، تم نے سوئیٹر نہیں پہنا تھا، تم آرام نہیں کرتیں، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی غصہ در اصل ان باتوں پر آتا ہے، میرے سو جانے یا لیٹنے پر نہیں، اس غصے کا اظہار جانے ایسے وقت کیوں ہوتا ہے جب مجھے آرام کی ضرورت ہو تی ہے، اگر رات کے کھانے کے بعد ان کے آرام فرمانے سے قبل سو گئی تو خفا ہو جاتے ہیں، صبح اٹھ کر اپنی ’بے پناہ تنہائی‘ کا ذکر فرمانے لگتے ہیں، مجھ سے شکایت یہ ہوتی ہے کہ قریب ہوتے ہوئے انہیں تنہا کر دیا۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ میں ان کی وجہ سے جاگ رہی ہوں اور میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہیں تو مسکراتے ہیں اور بڑے پیار سے کہتے ہیں ’سو جاؤ، خدا کی قسم صبح اپنی تنہائی کا کوئی ذکر نہیں کروں گا۔ گھر میں جب تک کام کرتے رہتے ہیں چاہتے ہیں کہ میں کہیں قریب بیٹھی رہوں، مجھے اتنی فرصت کہاں ہے، میرے سر میں درد ہو اور میں سونا چاہوں تو ان کی خواہش ہو گی کہ ان سے باتیں کرتی رہوں، خدانخواستہ کسی بچے کی طبیعت خراب ہوئی، بخار ہوا، اسے آرام کی ضرورت ہو ئی تو چاہیں گے وہ باتیں کرے، ان کے ساتھ کھیلے، وہ کسی کو خاموش پڑا دیکھنا نہیں چاہتے، لاکھ کہتی ہوں سونے دیجئے بخار ہے، آرام کی ضرورت ہے، وہ بچے کو اٹھا دیں گے، باتیں کریں گے، لطیفے سنائیں گے، ہنسانے کی کوشش کریں گے، اداکاری کریں گے، صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم سست پڑے نہ رہیں، تکلیف میں بھی ہنستے رہیں، ان سے باتیں کرتے رہیں، خدا نہ کرے کبھی انہیں بخار آئے، ہلکی سی حرارت ہوئی اور انہیں اس بات کا علم ہو گیا تو کچھ نہ پوچھئے، آہ، آہ کی آواز ہر طرف گونجنے لگے گی، پرانی باتیں سنائی جائیں گی، عجیب و غریب کہانیاں، عجیب و غریب واقعات، ادھر کی بات ادھر، ادھر کی بات ادھر۔ پہلے تو یہ عالم تھا کہ شکیل کو بخار آیا اور بچے قریب بیٹھ گئے اب پا پا کی مزیدار باتیں سننے کو ملیں گی۔
اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی تعداد ان کے حاسدوں اور دشمنوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جب اپنے حاسدوں اور بد خواہوں کے نام انگلیوں میں گنتے ہیں تو تین یا چار سے زیادہ نام نہیں لیتے اور پھر ان کے بارے میں کہتے ہیں یہ بڑے معصوم لوگ ہیں، ان سے محبت کرنے کے مواقع مل جائیں تو یہ بھی دوست بن جائیں گے۔ کئی برسوں سے بالکل الگ تھلگ گھر میں رہنے لگے ہیں، لوگوں سے ملنا جلنا کم ہو گیا ہے، ادبی جلسوں اور محفلوں میں بھی نہیں جاتے جب تک کہ کوئی مجبوری نہ ہو، کہتے ہیں گھر جنت ہے، باہر جہنم کی آگ ہے۔
کم و بیش آٹھ وائس چانسلروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے، ان میں صرف دو شخصیتوں سے متاثر ہیں، شکیل نے ان’نام نہادوائس چانسلروں‘ کو کبھی پسند نہیں کیا جنھوں نے ایک’اسٹبلشمنٹ‘ بنا کر کام کیا ہے۔ پہلی ملاقات کے بعد جس وائس چانسلر کے بارے میں جو کہ دیا وہ واقعی ایک نہ مٹنے والی لکیر بن گئی ہے(خود تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہے)
ایسے شاعروں اور ادیبوں سے بھاگتے ہیں جو اپنی چیزیں خو اہ مخواہ سناتے ہیں۔ اچھے شاعر یا ادیب کی پہچان ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ فرمائش کی جائے پھر وہ اپنی کوئی تخلیق سنائے اور شکیل فرمائش بہت کم کرتے ہیں، جب فرمائش کرتے ہیں تو واقعی فرمائش رسمی نہیں ہوتی بڑا خلوص ہوتا ہے اس میں۔ کہتے ہیں دو واقعات بھول نہیں سکتا، ایک بار دہلی میں بس کے ’کیو‘ میں انہیں اپنے پیچھے پا کر ایک بزرگ ناول نگار نے اپنی جھولی سے ناول کا مسودہ نکال کر سنانا شروع کر دیا تھا ا ور اس کے بعد مسودہ اور قلم بس کے اندر بھیڑ میں تھما دیا تھا کہ اگر کچھ جملے بہتر نہیں ہیں تو کاٹ دیجئے اور دوسرے جملے لکھ دیجئے، دوسرا واقعہ یہ کہ ایک افسانہ نگار نے شکیل سے وقت لیا، گھر پر آئے، افسانہ کاہے کو تھا، ایک مختصر سا ناول تھا، شکیل کے پسینے چھوٹ گئے، ابھی انہوں نے چند صفحات پڑھے تھے کہ بجلی چلی گئی اور شکیل نے خدا کا شکر ادا کیا، سردی کی رات تھی، سردیوں میں بجلی چلی جاتی تو دیر سے آتی تھی، شکیل خوش تھے۔ افسانہ نگار نے جب یہ کہا کہ یہ ’افسانہ‘ ا ا سے یاد ہے اور اس نے اندھیرے میں سنانا شروع کیا تو شکیل کی گردن کرسی پر لڑھک گئی، کہتے ہیں اتنی بڑی سزا مجھے اب تک نہیں ملی تھی!ایک واقعہ یہ بھی سن لیجئے، اس میں تو میری ذات پھنس گئی تھی، ایک شاعر شکیل کو کئی دنوں سے پریشان کر رہے تھے، صبح شام آتے اور طویل نظمیں سناتے، شکیل نے سب برداشت کیا، اتوار کا دن تھا، شکیل ڈرائنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ دروازے پر شاعر صاحب آ گئے، شکیل نے مجھ سے کہا خدا کے لئے آج بچا لو، اتوار کے دن کو خراب کرنا نہیں چاہتا، میری سمجھ میں نہیں آیا، کیا کروں، دروازے پر گئی، شاعر صاحب اندر آئے، سلام کیا اور تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئے، میں کچھ نہ کہ سکی، جب ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا شاعر صاحب اطمینان سے صوفے پر بیٹھے گنگنا رہے ہیں اور شکیل صاحب غائب ہیں، کہاں چلے گئے؟ابھی تو یہاں بیٹھے تھے؟دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ؟یہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟فوراً محسوس ہوا مجھے کہ اسی کمرے کے بڑے ٹیبل کے نیچے چھپے بیٹھے ہیں، چونکہ ٹیبل کلاتھ کافی بڑا تھا اس لئے وہ نظر نہیں آ رہے تھے، مجھے ہنسی بھی آئی لیکن کرتی کیا، انہیں کیا سوجھی کے ٹیبل کے نیچے چھپ گئے۔ اگر اس شخص نے دیکھ لیا تو؟ میرا تو بُرا حال تھا، بڑی مشکلوں سے کہ سکی ’بھائی صاحب شکیل تو ابھی ابھی باہر گئے ہیں دیر سے آئیں گے۔‘ اس کے باوجود وہ نہ اٹھے، کچھ دیر مجھ سے باتیں کرتے رہے، بچوں کی خیریت پوچھتے رہے، بہار کی خیریت پوچھتے رہے، میرا دھیان تھا کہ ٹیبل کی طرف لگا ہوا تھا، پسینے پسینے ہو رہی تھی، اگر شکیل کو گرد کی وجہ سے چھینک آ گئی تو کیا ہو گا۔۔ جب تک شاعر صاحب بیٹھے رہے کانپتی رہی، جب وہ چلے گئے تو شکیل اطمینان سے باہر نکلے اور اخبار لے کر پڑھنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، اچانک مجھے ہنسی آ گئی اور میں وہیں فرش پر لوٹ پوٹ ہو گئی، جب تک ہنستی رہی شکیل بڑے سنجیدہ رہے، جب میں نے خود پر قابو پا لیا تو انہوں نے ہنسنا شرو ع کیا اور اتنا ہنسے اتنا ہنسے کہ فرش پر لوٹنے لگے۔
ہم دونوں کو گلاب پسند ہے، اپنے چھوٹے سے باغ میں ہم نے مختلف رنگوں کے گلاب لگا رکھے ہیں، بہار کے موسم میں جب یہ گلاب کھلتے ہیں تو بہت بھلے لگتے ہیں۔ برسوں سے شکیل کی عادت یہ ہے کہ وہ موسم بہار کا پہلا سُرخ گلاب میرے جوڑے میں لگا دیتے ہیں، اس ’زیور‘ کو پا کر لگتا ہے جیسے مجھے جانے کتنے زیورات مل گئے ہیں۔ شکیل کو سونے چاندی کے زیورات بنانے کی بڑی خواہش رہی لیکن اس خواہش کا اظہار انہوں نے کبھی کھل کر نہیں کیا ہے، کہتے ہیں مجھے زیورات پسند نہیں ہیں، جانتی ہوں وہ کیوں کہتے ہیں، یوں مجھے بھی زیورات بنوانے اور پہننے کا شوق نہیں ہے، مجھے ہر سال بہار کے موسم میں گلاب کا ایک سُرخ پھول ان کے ہاتھوں سے مل جاتا ہے اور سمجھتی ہوں کہ سونے چاندی سے لد گئی ہوں، وہ بھی ایک سُرخ گلا ب میرے جوڑے میں لگا کر خوش ہو جاتے ہیں جیسے ان کی کوئی بہت بڑی آرزو پوری ہو گئی ہو۔ گلاب ہم دونوں کے رشتے کی ایک مضبوط کڑی ہے۔۔ ایسی کتنی کڑیاں ہوتی ہیں جن کا احساس ہمیں نہیں ہوتا یا ہم ان کی قدر نہیں کرتے!۔
٭٭٭
شکیل الرحمٰن
شکیل الرحمٰن کے نام
بابا سائیں (بچوں کا دیا ہوا۔ دنیا بھر کے بچے اسی نام سے یاد کرتے ہیں )
بابائے جمالیات (حیدر آباد سے عطا کیا ہوا نام)
پیرِ جمالیات (آپ لوگوں کا دیا ہوا نام)
اتہاس رچیتا (طلبہ متھیلا یونورسٹی)
سیکولر رحمٰن (متھیلا کے دانشوروں کا دیا ہوا نام)
شکیل الرحمٰن
نام۔ محمد شکیل الرحمٰن عرفیت۔ بابا سائیں
پیدائش۔ ۱۸؍فروری ۱۹۳۱ ء بمقام موتی ہاری۔ مشرقی چمپارن(بہار)
والدین۔ خان بہادر مولوی محمد جا ن مرحوم
بیگم۔ امتہ الفاطمہ مرحومہ
تعلیم۔ بی۔ اے(آنرس)فرسٹ کلاس، ایم۔ اے اردو(فرسٹ کلاس فرسٹ) مع طلائی تمغہ۔ پٹنہ یونیورسٹی
ڈی۔ لٹ(پٹنہ یونیورسٹی)
ملازمت اور ذمہ داریاں :لکچرر ڈگری کالج، بھدرک(اڑیسہ)
لکچرر شری پرتاپ کالج۔ سرینگر، کشمیر
لکچرر شعبۂ اردو جموں و کشمیر یونیورسٹی۔ سرینگر
ریڈر، پروفیسر، صدر شعبۂ اردو، کشمیر یونیورسٹی۔ سرینگر
ڈین فیکلٹی آف آرٹس۔ کشمیر یونیورسٹی، سرینگر
ڈین فیکلٹی آف اورینٹل اسٹڈیز۔ کشمیر یونورسٹی، سرینگر
قائم مقام ڈائریکٹر، سینٹر آ ف سینٹرل ایشین اسٹڈیزکشمیر یونیورسٹی
وائس چانسلر، بہار یونیورسٹی، مظفر پور(بہار)
وائس چانسلر، کشمیر یونیورسٹی۔ سرینگر
وائس چانسلر، متھلا یونیورسٹی۔ دربھنگا (بہار)
ممبر آف لوک سبھا
مرکزی وزیر برائے صحت عامہ و خاندانی بہبود حکومتِ ہند
ممبر Privileges Committeeپارلیمنٹ آف انڈیا۔
ممبر سنٹرل حج کمیٹی۔
ایک طویل عرصہ تک شاعر (ممبئی)کے معاون مدیر رہے۔ (۱۹۵۰ ء تا ۱۹۶۰ ء)اسرار و رموز کالم لکھتے رہے۔
سفر نامے
قصہ میرے سفر کا(سوویت یونین کا سفر نامہ)
لندن کی آخری رات
دیوارِ چین سے بت خانۂ چین تک
وسط ایشیا کا سفر(غیر مطبوعہ)
ایوارڈس ا احمد ندیم قاسمی ایوارڈ (لاہور، پاکستان)
غالب ایوارڈ
ادبی ایوارڈ
حالی ایوارڈ
گھر جنت: بیگم عصمت شکیل(نصف بہتر)
اولادیں۔ معصوم شکیل(مرحوم)، پروفیسر نصر شکیل ڈاکٹر انجم شکیل، ڈاکٹر شاہینہ شکیل
رابطہ۔ Madhuban,A-267, South City-1
Gurgaon-122001(Haryana)
فون۔ 2380926اور2382010
ویب سائیٹ:۔ www.shakeelurrehman.com
ای۔ میل۔ hotmail.com@shakeelurrehman2001
شکیل الرحمٰن کی مندرجہ ذیل کتابیں ان کے ویب سائیٹ پر بھی پڑھی جا سکتی ہیں :
مولانا رومی کی جمالیات منٹو۔ ٹریجڈی کی جمالیات
محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات اختر الایمان۔ جمالیاتی لیجینڈ
کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات فراق کی جمالیات
منٹو شناسی اور شکیل الرحمٰن پریم چند اور شکیل الرحمٰن
اساطیر کی جمالیات دربھنگے کا جو ذکر کیا
آشرم(خود نوشت سوانحِ حیات) تصوف کی جمالیات
میر تقی میرؔ کی جمالیات ادب اور جمالیات
دیوارِ چین سے بت خانۂ چین تک(سفر نامہ)
Website
www.shakeelurrehman.com
شکیل الرحمٰن کی کتابیں
کلاسیکی ادب:۔
اساطیر کی جمالیات مولانا رومی کی جمالیات
جمالیاتِ حافظ شیرازی امیر خسرو کی جمالیات
کبیر نظیر اکبر آبادی کی جمالیات
میر تقی میرؔ کی جمالیات تصوف کی جمالیات
کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات قلی قطب شاہ کی جمالیات
ادب اور جمالیات بارہ ماسے کی جمالیات
فکشن:۔ داستانِ امیر حمزہ اور طلسمِ ہوشربا
فکشن کے فنکار پریم چند
منٹو شناسی
احمد ندیم قاسمی۔ ایک لیجنڈ
غالبیات:۔ مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات
رقصِ بتانِ آزری
غالب کا داستانی مزاج (مطبوعہ پاکستان)
غالب اور مغل مصوری (مطبوعہ پاکستان)
غالب کی جمالیات
خود نوشت سوانح حیات آشرم
ایک علامت کا سفر
جمالیات۔ ہندوستا ن کا نظامِ جمال
بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک
(جلد اول)
ہندوستان کا نظامِ جمال
بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک
(جلد دوم)
ہندوستانی جمالیات(جلد اول ودوم)
ہندوستانی جمالیات(ہند اسلامی جمالیات)
(جلد سوم)
قرآنِ حکیم۔ جمالیات کا سرچشمہ(مقدمہ)
چند دوسرے موضوعات:۔
راگ راگنیوں کی تصویریں
ابوالکلام آزاد
جپ جی صاحب(مع مقدمہ و مفاہیم)
دربھنگے کا جو ذکر کیا
محمد دارا شکوہ
شکیل الرحمٰن پر کتابیں
شکیل الرحمٰن۔ ایک لیجنڈ:مرتب و تہذیب۔ شعیب شمس
شکیل الرحمٰن۔ تخلیقی تنقید کا منفرد دبستان: اقبال انصاری
شکیل الرحمٰن۔ تنقید کا اٰیک نیا وژن: مرتبہ محمد صدیق نقوی
شکیل الرحمٰن اور مولانا رومی کی جمالیات:مرتبہ محمد صدیق نقوی
شکیل الرحمٰن کی غالب شناسی:ڈاکٹر ارشد مسعود اعظمی
منٹو شناسی اور شکیل الرحمٰن مرتبہ ڈاکٹر کوثر مظہری
فکشن کے فنکار اور پریم چند: مرتبہ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
شکیل الرحمٰن کا جمالیاتی وجدان:حقانی القاسمی
گوشے اور نمبر
۱۔ شاعر ممبئی(گوشہ)
۲۔ روشنائی، پاکستان(گوشہ)
۳۔ انشاء کلکتہ(شکیل الرحمٰن نمبر)
۴۔ ادبی محاذ، کٹک(شکیل الرحمٰن نمبر)
٭٭٭
قیصر شمیم
کراچی، پاکستان
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن
شکیل الرحمٰن ۱۸؍ فروری ۱۹۳۱ ء کو موتیہاری میں پیدا ہوئے۔ بی۔ اے آنرز کیا، پھر ایم۔ اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ڈی۔ لٹ کی سند لی۔ پہلے اڑیسہ میں لکچرر ہوئے پھر وادیِ کشمیر میں پروفیسری کی۔ شعبۂ اردو کے سربراہ رہے۔ دو دو فیکلٹیوں کے ڈین بنائے گئے اور کشمیر یونیورسیٹی کے وائس چانسلر ہوئے۔
انہوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا تنقید سے کی لیکن شروع میں انہیں شہرت اور مقبولیت افسانوں کی بدولت حاصل ہوئی۔ سالندی کے کنارے، کون گلی گئیو شام اور لینڈ سلائڈافسانے بے حد مقبول ہوئے۔ انہوں نے تین ناول بھی لکھے مگر بعد میں وہ صرف تحقیق و تنقید کے ہو کر رہ گئے۔
ان کی آپ بیتی ’’آشرم‘‘ میں ان کے احباب اور اساتذہ کی تصویریں بھی ہیں اور یہ ایک عہد کا البم بھی ہے۔ قاری اسے ایک دلچسپ قصے یا ناول کی طرح پڑھتا ہے۔ ’’آشرم‘‘ میں مصنف نے ساری باتیں سچائی سے لکھی ہیں۔
’’آشرم‘‘ میں بہت سے لوگ آباد ہیں۔ گاندھی جی، ڈاکٹر سید محمود، راجندر پرشاد، فراق گورکھپوری، احتشام حسین، اختر اورینوی، جمیل مظہری، ساحر لدھیانوی، مظہر امام، کے ایل سہگل، خاندان کے افراد، شکور دھوبی اور پُرانا ملازم سکھاڑی۔
دراصل ’’آشرم‘‘ ایک فرد کی بھی کہانی ہے اور ایک خاندان کی بھی اور ایک عہد کی ادبی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی زندگی کی مصوری بھی اس میں ملتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں مصنف نے کہیں بھی جانب داری سے کام نہیں لیا ہے۔
مصنف کی طالب علمی کے زمانے کے اُن کے مضامین میں پہلی کتاب ’’ادب اور نفسیات‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر لکھا۔ غالب، پریم چند، منٹو، اختر الایمان۔ جمالیات کا ذکر آتے ہی ہونٹوں پر ان کا نام آ جاتا ہے۔ مذہب سے بھی انہیں شروع سے لگاؤ رہا۔ ’’قرآن حکیم جمالیات کا سرچشمہ‘‘ لکھنے کی سعادت بھی خدا نے انہیں بخشی۔
سیاست میں آئے تو چندر شیکھر کی کابینہ میں وزیر برائے صحت ہوئے۔ وہ طبعاً سیاست داں نہیں ہیں۔ معلم، مصنف اور دانشور ہیں۔ وزارت سے پہلے وہ متعدد کتابیں تصنیف کر چکے تھے۔ وزارت کے بعد اسی شد و مد سے تصنیفی کاموں میں مستغرق ہو گئے۔ شاید ہی کوئی سابق وزیر سیاست کو بھول کر علم و ادب کی خدمت کر رہا ہو۔ ۱۹۶۱ء میں پریم چند کی افسانہ نگاری کے تحت لکھے گئے ان کے تحقیقی مقالے پر انہیں ڈی۔ لٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔
شکیل الرحمٰن نے اقبال کا مطالعہ ’’روشنی کی جمالیات‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ان کے خیال میں اقبال کی شاعری کا کلیدی تعارف ’’روشنی‘‘ سے ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے اسے ایک علامت بنا کر ذہن اقبال کے نہاں خانوں میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔
عطا الرحمٰن قاسمی نے انہیں ’’عارف نقاد‘‘ کہا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’بے لاگ گفتگو کرتے ہیں، غیر جانب دار ہیں، راست گو ہیں۔ وہ صرف ادب کے عارف نقاد نہیں ہیں بلکہ فنونِ لطیفہ کے بھی ’’عارف نقاد ‘‘ ہیں اور اس طرح ان کا درجہ کافی بلند ہو جاتا ہے۔ فنونِ لطیفہ کی جمالیات پر ان کا کام غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘ ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ جلد اول و جلد دوم کے علاوہ تین جلدوں میں ان کا بڑا کارنامہ ’’ہندوستان کا جمالیاتی نظام ہے۔ بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک‘‘ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی ایک بڑی پہچان ان کا وسیع اور گہرا مطالعہ ہے۔ تاریخ، تہذیب، فنونِ لطیفہ، جمالیات، مذاہب، نفسیات اور علم بشریات وغیرہ سے ان کی مسلسل دلچسپی رہی ہے۔ بلاشبہ فنونِ لطیفہ کے وہ پہلے ناقد ہیں جنھوں نے یہ بتایا کہ صرف ادبیات کا مطالعہ کافی نہیں ہوتا۔ ادبیات کے ساتھ دوسرے فنون کا مطالعہ بھی ضروری ہے اس لئے کہ ادب فنونِ لطیفہ کی ایک شاخ ہے۔ تعمیر، موسیقی، رقص وغیرہ ادبیات کی روح سے بہت قریب ہیں۔
’’ابو الکلام آزاد‘‘ غالباً ان کی پہلی کتاب ہے جو ان کی قرآن فہمی پر روشنی ڈالتی ہے۔ ’’ترجمان القرآن کا اسلوب‘‘ ، ’’ترجمان القرآن کا دیباچہ‘‘ کی اہمیت اور خصوصیات کا ذکر اور ترجمان القرآن کے چند مباحث، مقالات و تشریحات اس کتاب کے فکر انگیز مضامین ہیں۔ بہتر قرآن فہمی کے بغیر مولانا کے افکار و خیالات پر اس طرح اظہار خیال کرنا آسان نہیں ہو سکتا۔ تمام مباحث مصنف کی قرآن فہمی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ شکیل الرحمٰن نے ہر اعتبار سے ایک کامیاب خوش حال زندگی گزاری ہے اور گزار رہے ہیں۔ لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی، وائس چانسلر کے درجے تک پہنچے۔ سیاست کے میدان میں اترے تو مرکزی حکومت میں وزارت حاصل ہوئی۔
گھریلو زندگی خوشگوار اور پُرسکون ہے۔ تعلیم یافتہ، سمجھ دار، حسین، خوش اطوار شریک حیات، فرماں بردار برسرِروزگاراعلیٰ عہدوں پر فائض بیٹے بیٹیاں اور داماد۔ محبت کرنے والے اور دل بہلانے والے نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں۔ غرض یہ کہ دولت، عزت، صحت اور سکون، آج شکیل الرحمٰن کی جھولی میں سب کچھ ہے۔ ۲۷؍ کتابوں کے مصنف، فنونِ لطیفہ، رقص، موسیقی، شاعری، تنقید، ناول، روحانیت، کون سا موضوع ہے جس پر شکیل الرحمٰن نے قلم نہیں اٹھایا۔ جس موضوع پر لکھا اس کا گہرا مطالعہ کیا۔ ہر ممکن معلومات حاصل کی۔ علمیت کو اپنی فکر کا حصہ بنایا۔ شعور میں رچا بسا لیا تب جا کر لکھا۔ رواں دواں لکھتے چلے جاتے ہیں اور پڑھنے والا ان کے ساتھ قدم بقدم ساتھ چلتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن اردو ادب میں فنونِ لطیفہ کے پہلے واحد معتبر نقاد ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’قصہ میرے سفر کا‘‘ (سفر نامۂ روس)۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ جب انہوں نے دنیا کی عظیم میوزیم Hermitageکو دیکھا تو اپنے تاثرات کا کھل کر اظہار کیا۔ ان تاثرات میں مصوری اور مجسمہ سازی کے خیالات فنونِ لطیفہ سے ان کی گہری دلچسپی کا پتہ دیتے ہیں۔ آرٹ گیلری میں دنیا کے مشہور آرٹسٹ Leonardo Davinciکی تصویریں بھی ہیں۔ لیونارڈو کی معروف تصویرمیڈونا لیتا (Medwna Lita)کے بارے میں ڈاکٹر شکیل الرحمٰن رقم طراز ہیں :
’’۱۴۹۰ء کی تخلیق ہے۔ ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پس منظر میں دو دریچے ہیں، آسمان، بادل اور پہاڑ کے تاثرت آسمانی سفید بھورے اورآسمانی رنگوں کے امتزاج سے پیدا کئے گئے ہیں۔ ماں کی چادر کا رنگ گہرا آسمانی ہے اور آسمان اور پہاڑ کے رنگوں سے ایک رشتہ پیدا کرتا ہے۔ ماں کی ایک گول خوبصورت چھاتی ننگے خوبصورت اورتندرست بچے کے ایک ہاتھ میں ہے جس کی آنکھیں کسی قدر میری طرف کھلی ہوئی ہیں۔ ماں کے گہرے آسمانی یا نیلے اور سُرخ لباس سے جیسے تاریک کمرے میں روشنی آ گئی ہے۔ ماں کی آنکھیں مامتا سے بھرپور ہیں اور اپنے بچے کے چہرے پر مرکوز ہیں۔ پورا وجود ممتا کا پیکر ہے۔ بال سر کے اوپر بندھے ہوئے ہیں۔ چہرے پر غضب کی پاکیزگی ہے۔ جھکی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے متاثر کر رہے ہیں۔ گردن کے ہلکے سے خم سے ناک کی خوبصورتی بڑھ گئی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے ’’حرکت‘‘ کی فنکارانہ ترتیب تسخیر اور فتح کے احساس اور تخلیق کے معصومانہ غرور کے تاثرات، کمرے کے پس منظر اور پیش منظر میں فطری روشنی کے انجماد کا تاثر۔ ان پر غور کرتا رہا۔ ہونٹوں کو دیکھ کر اسی فنکار کی عظیم تر تخلیق مونا لیزا کی یاد آ گئی۔ اگر اس کی پر اسرار مسکراہٹ کا راز یہ ہے کہ وہ پہلی بار ماں بننے والی ہے اور تخلیق کے احساس سے یہ پُر اسرارمسکراہٹ پیدا ہوئی ہے تو یہاں تخلیق کے بعد کی ہلکی سی مسکراہٹ ہے۔ یہ مسکراہٹ آنکھوں سے بھی نمایاں ہے۔ اگر مونالیزا کی مسکراہٹ ایک سوال ہے تو کون جانے یہی مسکراہٹ اس کا جواب ہو۔ ‘‘
پروفیسر سلیمان اختر جاوید نے ’’قرآنِ حکیم۔ جمالیات کا سر چشمہ‘‘ پر مضمون تحریر کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’پروفیسر شکیل الرحمٰن نے قرآنِ حکیم کا غائر مطالعہ کرتے ہوئے اس کے جمالیاتی رُخوں اور اس میں پنہاں جمالیاتی کیفیتوں کو اجاگر کیا ہے کہ وہ اصحاب بھی جوان سے کم واقف تھے بخوبی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ اس مقدمے کا ایک اقتباس:
قرآنِ حکیم جمالیات کا بھی ایک عظیم تر سرچشمہ ہے !اللہ نورِ کائنات ہے۔ جلال و جمال کی اس کائنات کا خالق۔ قرآن اللہ کو نورِ کائنات بتا یا ہے۔ ‘‘ اور یہ نورِ کائنات کیا ہے ؟اللہ کیا ہے؟رحمت ہے۔ صرف رحمت۔ پروفیسر شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں :
’’اللہ بڑا شفیق ہے۔ صاحب رحمت ہے۔ اس کی رحمت کے بغیر جمالیات کے اس بڑے ہمہ گیر کہرے اور انتہائی معنی خیز سرچشمے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘
پروفیسر شکیل الرحمٰن اس سمت اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات اور اس کا جلال و جمال رحمتِ الٰہی ہے۔ زندگی، حسن، خوشبو، نغمہ، آہنگ، یہ سب رحمتِ الٰہی کے باعث ہیں اور تو اور خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمان اور زمین میں، اس میں جو کچھ بھی ہے وہ میری رحمت کے دائرے میں ہے۔ اور یہ رحمت، اس رحمت کا فیضان کسی ایک گروہ، کسی ایک قبیلہ، کسی ایک قوم، کسی ایک نسل، کسی ایک ملک اور کسی ایک علاقے تک محدود نہیں۔ ذاتِ الٰہی رب العالمین ہے اور یہ فیضان کل کائنات کے لئے ہے۔ رحمتِ خداوندی جو سرچشمۂ جمالیات ہے جس سے ساری کائنات مہکتی، منور اور سرشار ہے۔ قرآن کریم سے استفادہ کرتے ہوئے پروفیسر شکیل الرحمٰن نے لکھا ہے :
قرآن کریم نے جس سر چشمے کے تئیں بیدار کیا ہے اس میں اللہ کی رحمت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ رحمتِ خداوندی سے ہی پوری کائنات سرشار ہے۔
لیکن یہ کائنات اور کائنات کا حسن ہے کس کے لئے؟یہ رنگ، یہ روشنی، یہ خوشبو، یہ صبحِ صادق کا منظر، یہ شفق، یہ شام، یہ ستارے اوڑھی ہوئی رات، یہ چاند، یہ شبنم، یہ قوسِ قزح، یہ آبشار، یہ سمندر، یہ ٹھاٹھیں مارتا دریا، رواں دواں مست و مسروربادل، یہ خو ش رنگ اور خوش آواز پرندے، جھمکتے جھومتے نازک نازک پھول، یہ کومل کومل غنچے، شگوفے، یہ خشک موسم، لذیذ میوے، یہ لہلہاتی کھیتیاں، یہ رعنائیاں برنائیاں یہ۔۔۔۔۔۔۔ آخر ان سب کی تخلیق کیوں اور کس لئے؟ظاہر ہے کہ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ انسان کے لئے۔ پروفیسر شکیل الرحمٰن کے الفاظ ہیں :
’’انسان میں زبردست تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ اللہ نے اس کی تخلیق کی ہے تو ایک بڑے مقصد کے تحت اور وہ بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ نورِ الٰہی کو پہچانتے ہوئے قدرت کے تخلیقی عمل پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا مسلسل اظہار کرتا رہا ہے۔ ایک جانب قدرت تخلیقی عمل میں مصروف ہے تو دوسری جانب انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے تخلیقِ حسن کا ایک سلسلہ قائم رکھے، نظامِ کائنات کو اور خوبصورت اور با مقصد بناتا ر ہے۔ علوم و فنون میں ہر وقت چمک دمک پیدا کرتا رہے۔ انسان اور انسان، انسان اور کائنات کے رشتوں کو سمجھے اوراس کا ہر عمل ایسا ہو کہ جس سے کسی نہ کسی سطح پر جمالِ کائنات میں اضافہ ہو۔ ‘‘ ٭٭٭
ہند اسلامی جمالیات۔ تبصرہ
نامِ کتاب۔ ہند اسلامی جمالیات(تاریخ وتحقیق)
مصنف۔ شکیل الرحمٰن
صفحات۔ ۴۵۰؍ قیمت۔ ۳۰۰؍روپے
مبصر۔ سلیم شہزاد
جمالیات کی ذیل میں اسلام کے تصورِ جمال پر یقیناً ایک با معنی مخاطبہ ممکن ہے۔ زیر تبصرہ تصنیف ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی بابر اور اس کے بعد ہمایوں، اکبر اور جہانگیر تک کے عہد کے جمالیاتی آثار و قرائن کا معروضی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ ترکیب ’ہند اسلامی‘ سے عموماً ہندوستان میں مسلم اقتدار کا ہزار سالہ عمل دخل مراد لیا جاتا ہے۔ مغل حکومت سولہویں صدی نصف سے انیسویں صدی نصف تک اپنے وجود کا اعلان کرتی رہی تھی۔ اس کتاب کی مکتوبات مذکورہ تین سو سالہ طول زمانی میں سے ابتدائی پہلی صدی کو اپنا موضوع بناتی ہے۔ شاید فاضل مصنف اگلی دو صدیوں کی جمالیات کو اپنے آئندہ مضامین کا موضوع بنائیں گے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کا نام نامی اردو میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت، اخلاق و تصوف اور زبان و ادب کے جمالیاتی مطالعات کے لئے اپنا اختصاص رکھتا ہے۔ جمالیات کے موضوع پر موصوف کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ کر جمالیات پسند قارئین سے داد حاصل کر چکی ہیں، زیرِ نظر تصنیف کا سالِ اشاعت ۲۰۰۲ء ہے۔ ممکن ہے کہ آج ۲۰۰۷ء تک ہند اسلامی جمالیات پر جہانگیر کے بعد آنے والے حکمرانوں کا مخلف فنون پر مطالعہ انھوں نے مکمل بھی کر لیا ہو۔ واضح رہے کہ اس تبصرے کی پہلی سطر میں مذکور’ اسلام کا تصورِ جمال، شکیل الرحمٰن کا موضوع قطعی نہیں ہے۔ البتہ تعمیرات، مصوری، موسیقی، شاعری، چمن بندی اور دیگر فنون میں مسلم حکمرانوں اور فنکاروں کے اکتسابات سے انھوں نے بحث کی اور جو نتائج اخذ کئے، ان کی بنیاد پر ہند مسلم تہذیب کے تعلق سے بعض واضح علمی نظریات قائم کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً مخصوص سماجی جغرافیائی حالات میں فرد کی جمالیاتی بصیرت کی نمود وغیرہ۔ اس ذیل میں بابر اور خاص طور پر ہمایوں کی خانہ بدوشی در بدری، نقلِ مکانی کے تناظر میں ایک شخص، خاندانی فرد، حاکم اور ایک جمال پسند دانشور وغیرہ شخصیت کے مختلف مطالعات قابلِ ذکر ہیں۔ کتاب کے عنوانات میں صرف بابر اور ہمایوں کے نام شامل ہیں۔
ان کے علاوہ فنِ تعمیر اور فنِ مصوری کے عنوانات قائم کئے گئے ہیں اور ایک عنوان بطور ضمیمہ شامل کیا گیا ہے۔ تعمیر اور مصوری کی ذیل میں اکبر اور جہانگیر کے جمالیاتی اکتسابات پر کی گئی بحث موسیقی اور خطاطی کے فنون کو بھی محیط ہے۔ موضوعات کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے:بر صغیر ہند میں مغل ہند جمالیات کے تخلیقی رشتے کا نقطۂ آغاز، مشترکہ ہندوستانی تمدن کی ابتدائی تشکیل، ہند اسلامی فنِ تعمیر کے چند امتیازی اسالیب، ہندوستان میں مسلم مصوروں کی روایات کا پس منظر، دکنی مصوری، مصوری کا اکبری دبستان، مغل مصوری کے اسالیب(اس ضمن میں جہانگیر کے جمالیاتی رجحان کا مطالعہ پیش کیا ہے)چمن بندی اور خطاطی کے موضوعات ضمیمے میں شامل کئے گئے ہیں۔
’’کتابیات‘‘ میں دی گئی ماخذات کی فہرست مصنف کے مباحث کے نتائج میں تال میل کرنے والی ضرور ہے لیکن مصنف جس اعتماد اور اعتبار سے محسوس و مجرد فنون کی مثالوں، کتابوں، کتبوں، اور حوالوں سے اپنی بات کہتے ہیں، اس سے جمالیات کے رس اور جس سے نہ صرف ان کی مکمل آگہی کا پتہ چلتا ہے بلکہ اپنے بیانیہ سے وہ قاری کو بھی رس اور جس کی لطافتوں سے محظوظ کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے جمالیات کے فلسفیانہ افکار و تصورات سے کم سے کم اصطلاحات اخذ کی ہیں اور جو کچھ مخاطبہ انھوں نے تیار کیا ہے وہ تاریخ و تہذیب اور فنون کی افہام و تفہیم کو نہایت موثر لفظیات میں قاری تک ترسیل کرتا ہے۔ عموماً جمالیات کے فنی فلسفے پر لکھتے ہوئے تمام مصنف/قلمکار مخاطب موشگافیاں کرنے پر تلے نظر آتے ہیں مگر ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کا عمل اس سے مختلف اور نہایت سریع ابلاغ معلوم ہوتا ہے مضامین کے آخر میں ۷۱۲ء سے ۱۷۶۱ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور حصولِ اقتدار کے اہم واقعات کی فہرست دی گئی ہے۔ پھر مختلف مسلم حکمرانوں کا خاندان وار(غزنوی سے مغل حکومت تک مع جونپور، مالوہ، گجرات اور دکن )تعارف نامہ شاملِ کتاب ہے۔ جیسا کہ کہا گیا یہ کتاب مغلیہ عہد کے ایک مخصوص ومحدود طول زمانی کا احاطہ کرتی ہے اس کے پہلے اور اس کے بعد بھی، امید ہے، ڈاکٹر شکیل الرحمٰن ہند اسلامی جمالیات کے نظاروں کو تاریخ و تہذیب کے پس منظر میں قلمبند کریں گے۔ ٭٭٭
شکیل الر حمٰن
اردو کلاسیکی مثنویوں میں فینتاسی کا جمال!
فینتاسی، (Fantasy)کے تعلق سے ذہن جس قدر گہرائی میں اترتا ہے فینتاسی، اتنی ہی پُراسرار معّمہ سا بنتی جاتی ہے۔ یہ تخیل(Imagination)کی دین ہے۔ یونانیوں اور رومیوں نے فینتاسی کے تعلق سے کئی فلسفیانہ خیالات ا ور نکات پیش کئے لیکن اس کا تصور واضح نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ تخلیقی فکر و نظر یا تخلیقی سوچ کی ایک صورت ہے اور اس کا رشتہ انسان کی نفسیات سے گہرا ہے۔ ہیجانات(Impulses)ان کی تخلیق میں نمایاں حصہ لیتے ہیں۔ فینتاسی، انسان کی نفسیات کی داخلی سطح میں تحّرک پیدا کرتی ہے۔ صرف ادبیات ہی میں نہیں بلکہ مصوّری اور موسیقی اور فزکس اور علم ریاضی میں بھی اس کی اہمیت ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان کی ترقی اور اس کے فکری ارتقاء میں ’فینتاسی‘ نے ایک بڑا معنی خیز کردار ادا کیا ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے، تخیل صرف ادبیات کی ضرورت نہیں ہے بلکہ علم ریاضی کی بھی ضرورت ہے، اس کے بغیر احصاء تفرقی(Differential Calculus)کو دریافت کرنا ممکن نہ تھا۔
’فینتاسی‘ ذہن کا وہ نفسیاتی عمل ہے کہ جس سے نئی دروں بینی پیدا ہوتی ہے اور وژن، نئی صورتوں کو پانے لگتا ہے۔، اردو ادب میں غالب ؔ ’فینتاسی‘ کے سب سے بڑے تخلیقی فنکار ہیں۔ ایسی تخلیقی شخصیت ایسے ہمہ گیر ’’وژن‘‘ کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی ادب کو نصیب ہوئی ہو۔ رومانی اور جمالیاتی فینو منین(Phenomenon)خلق کرنے والے اس فنکار کا ذہن حد درجہ زر خیز ہے۔ زر خیز ذہنی عمل ہی فینو منین خلق کر سکتا ہے۔ ’فینتاسی‘ کی دنیا میں غالبؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی سائیکیPsyche) ) نے ’امیجری‘ کو صرف خلق ہی نہیں کیا بلکہ اسے توانائی بھی بخشی اور اسے تحرّک بھی عطا کیا۔ جن فینو مینا کا وجود ہی نہ تھا دیوانِ غالب اور کلیات غالبؔ میں ان کا ظہور ہوا۔ ’’فینتاسی ‘‘ کے امیجیز، اور استعاروں نے ’نفسنی فینومینا، (Psychic Phenomena)کی ایسی تخلیق کی ہے کہ وہ اپنی مثال آپ بن گئی ہے۔
اردو کے کلاسیکی مثنوی نگاروں کی شخصیتیں ایسی تخلیقی نہ تھیں کہ ’وژن‘ سے ’فینو مینن‘ خلق ہو جاتے پھر بھی تخلیقی ہیجانات اور تخیل نے آئینِ حقیقت کی صورت دینے کی کوشش کی ہے کہ جن کا وجود نہیں ہے، تخیل کے عمل سے ایسے کردار اور مناظر سامنے آ جاتے ہیں جن کا مشاہدہ جمالیاتی آسودگی بخشتا ہے۔
اردو کی قدیم منثور اور منظوم کہانیوں کا تعلق ملک کے عوامی قصوں اور دیومالا سے بھی رہا ہے اور فارسی کہانیوں سے بھی لوک کہانیوں اور مقامی قصوں کے اثرات بھی موجود ہیں، سنی ہوئی اور پڑھی پڑھائی کہا نیوں کی نئی صورتیں بھی نظر آتی ہیں، ’ دیو، جادوگر اور پریوں کے کردار نئی دنیا کے مناظر کے لئے آئے ہیں۔ قصوں میں تصادم اور کشمکش کی پیشکش کے لئے مثنوی نگاروں کے تخیل نے ’’فینتاسی‘ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
’کدم راؤ پدم راؤ، (فخر الدین نظامی۳۵۔ ۱۴۳۰)میں راجا کدم راؤ کو ایک جوگی طوطا بنا کر اڑا دیتا ہے راجا طوطا بن کر جنگل جنگل اڑتا پھرتا ہے۔ ایک دن چھت پر بیٹھے اداس وزیر پدم راؤ کو اپنا قصہ سناتا ہے۔ پدم راؤ ناگ ہے جو جوگی کو ڈس لیتا ہے اور راجا کدم راؤ طوطے سے انسان بن جاتا ہے۔ راجا کدم راؤ سر پر ہاتھ پھیرتا ہے تو پدم راؤ کے سر پر پدم نمودار ہو جاتا ہے، وہ ناگ تو تھا لیکن اب تک اس کے سر پر پدم نہیں تھا۔ ہاتھ پھیرتے ہی پدم راؤ ایک لمبا ناگ بن جاتا ہے اور اس قدر اونچا اٹھتا ہے کہ اس کا سر چھت تک پہنچ جاتا ہے۔ ’فینتاسی‘ کے اس منظر کے ساتھ ’فینتاسی‘ کا نقطۂ عروج اس طرح سامنے آتا ہے:۔
پدم راؤ بھاہوا چھات لگ۔ بتائی گئی تن پہر رات لگ!
ممکن ہے ’’ کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ کی کہانی کا تعلق کسی پُرانے ہندوستانی لوک قصے سے ہو، مزاج اسی نوعیت کا ہے۔ فخر الدین نظامی نے جادو منتر، طلسمی ماحول، روح کی تبدیلی، چمتکار معجزے اور خصوصاً آخری منظر سے’فینتاسی‘ کی جو تخلیق کی ہے اس کی تاریخی اور ادبی اہمیت ہے، اردو مثنویوں میں اس کی حیثیت’فینتاسی‘ کے ایک خوبصورت ابتدائیہ کی ہے۔ کہانی کا حسن ’فینتاسی‘ میں سمٹ آیا ہے۔
’قطب مشتر ی، (وجہی۱۶۰۷ء)کی عشقیہ کہانی ایک خواب کے دھندلکے سے نکلی ہے۔ قطب مشتری کی’فینتاسی‘ سب سے پہلے ایک خوبصورت ’امیج‘ (مشتری)کی تخلیق کرتی ہے۔ شہزادہ قطب خواب میں ایک خوبصورت دوشیزہ کے ’امیج‘ Image))پر عاشق ہو جاتا ہے۔ مصوّر عطارو بنگالے کی دوشیزہ کے حسن و جمال کی جو تعریف کرتا ہے، اس سے یہ ’امیج‘ روشن ہو جاتا ہے اور اس سے فینتاسی کا حسن نمایاں ہو نے لگتا ہے۔ عطارو، آبِ حیات، چاند، سورج، مور، سمر بنگال، جنتر منتر، جسم، لباس، آنچل وغیرہ کی اس طرح سے تعریف کی گئی ہے کہ’فینتاسی‘ کی اس سحر انگیزی سے مرکزی کردار کی نفسیات کی داخلی سطح پر بھی ایک تحّرک پیدا ہوتا ہے، اس کے خواب اور ’امیج‘ دونوں کے دائرے وسیع ہوتے ہیں اور وہ خواب کے دھندلکوں یا فینتاسی کے جلال و جمال میں گم ہو جانا چاہتا ہے۔ خواب کے منظر(صفت مجلس طرب)اور مشتری کے محل کی تزئین و آرائش(آراستن محل مشتری)میں ’فینتاسی‘ کے جلوے موجود ہیں۔ کہانی آگے بڑھتی ہے تو ’قلعۂ گلستان، ملتا ہے جہاں مہتاب پری شہزادے پر عاشق ہو جاتی ہے۔ ’قطب مشتری، میں تلاش کے پورے عمل میں فینتاسی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ شہزادہ اور عطارو طوفان میں گھر جاتے ہیں، پہاڑ جیسے اژدہوں سے مقابلہ ہوتا ہے، راکھشس ملتا ہے، بڑے بڑے دانت والا اور ہر صبح نو ہاتھیوں کا ناشتہ کرنے والا راکھشس فنکار کی تخیل نگاری نے فینتاسی کے ایک اچھے معیار کو پیش کیا ہے۔
سیف الملوک اور بدیع الجمال(غواصی۔ ۱۶۲۵ء)میں ’الف لیلہ ‘کی فینتاسی موجود ہے۔ اس مثنوی کی ’فینتاسی‘ بھی خواب کے دھندلکوں سے پیدا ہوتی ہے۔ شہزادہ سیف الملوک خواب میں بدیع الجمال کو دیکھتا ہے اور اس ’امییج‘ پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس کی تلاش میں نکلتا ہے لیکن اسی وقت بادشاہ کے اندھے ہو جانے کی خبر ملتی ہے۔ شاہی حکیم کہتے ہیں کے سراندیپ کے جنگل سے بکاؤلی پھول لایا جائے تو بادشاہ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ سیف الملوک سراندیپ پہنچ جاتا ہے۔ کہانی میں ’فینتاسی‘ کا عمل تیز ہو جاتا ہے جنوں اور پریزادوں سے زبردست ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اسے فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ گل بکاؤلی لے کر واپس آ جاتا ہے اور بادشاہ کی بینائی واپس آ جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا دوسرا سفر شروع ہوتا ہے، مقصد خواب کے امیج بدیع الجمال کی تلاش ہے۔ ایک مقام پر وہ ایک ڈائن کو قتل کرتا ہے۔ یہ ڈائن لوگوں کو کھاتی جا رہی تھی۔ اب وہ جنوں کے بادشاہ ارزق کے ملک میں پہنچتا ہے۔ ارزق نے شہزادی دولت خاتون کو قید کر کھا ہے۔ سیف الملوک اسے آزادی دلانا چاہتا ہے۔ جنوں کے بادشاہ ملک ارزق کے ملک میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں ’فینتاسی‘ کی ایک دنیا خلق ہو گئی ہے۔ ہم ’فینتاسی‘ کے جلال و جمال سے متاثر ہوتے ہیں۔ دولت خاتون کے حسن و جمال اور لال آندھی اور بادلوں کی گرج، جن کی صورت وغیرہ سے ’’فینتاسی‘ کی تصویریں نمایاں ہوتی ہیں۔ جن جب سوتا ہے تب ہی اس کے جسم میں جان آتی ہے۔ لہذا اسے صرف سوتے ہوئے ہی قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس مہم کو سر کرنے سے پہلے ایک خوفناک اژدہے سے مقابلہ ہوتا ہے، اژدہے کی شکست ہوتی ہے۔ ایک شیر ملتا ہے جس پر سیف الملوک اسم اعظم پڑھ کر پھونک دیتا ہے۔ شیر پتھر کا بُت بن جاتا ہے۔ جن کے پاس آ کر شہزادہ پھر اسم اعظم پڑھتا ہے اور جن کی شہ رگ بے حس ہو جاتی ہے۔ تلوار سے شہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ اس کی گردن دھڑ سے الگ کر دیتا ہے، جن کے مرتے ہی قلعے میں زلزلہ آ جاتا ہے، طوفان اٹھتا ہے، اندھیرا چھا جا تا ہے۔ جب یہ سب تھم جاتا ہے تو اندھیرا ختم ہو جاتا ہے، شہزادہ کیا دیکھتا ہے قلعہ ہے نہ اور جن کا جسم دولت خاتون سامنے بیہوش پڑی ہے۔ دولت خاتون کو اس کے ملک پہنچا کر وہ پھر شہزادی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ پوری فضا الف لیلوی ہے، الف لیلہ کی’ فینتاسی‘ سے غواصی نے خوب فائدا اٹھا یا ہے۔
شہزادہ ایک پر اسرار پیر بزرگ کی دعائیں بھی حاصل کرتا ہے، جب شہزادی بدیع الجمال کے محل کے پاس جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ ایک خونخوار پرندہ ہے جو ہر روز کسی نہ کسی انسان کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور اسے اپنی غذا بناتا ہے۔ اس پرندے کی شکل و صورت اور ماحول پر اس کے خوف کے اثرات کی تصویر کشی میں اچھی فینتاسی پیدا ہوتی ہے۔ پرندے کی آنکھیں سُرخ ہیں، منھ بڑا ہے، چونچ آرے کی مانند ہے، شہزادہ پرندے کی گردن کاٹ دیتا ہے۔ پرندے کے ختم ہوتے ہی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ سیف الملوک بدیع الجمال کو حاصل کر لیتا ہے۔ غواصی نے ’الف لیلہ‘ کے بعض واقعات کو اپنایا تو ہے مگر انہیں نئی صورتیں دے دی ہیں۔ اپنے تخیل سے انہیں تازہ اور شاداب کر دیا ہے۔ ایک اچھے فنکار کی طرح غواصی نے’ فینتاسی‘ کی ایک بڑی خصوصیت ’انتشار میں تنظیم‘ (Order of chaos) کی تصویر خوب ابھاری ہے۔
چندر بدن و بہیار(مقیمی ۱۶۲۸ ء) کا قصہ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کی طرح عوامی زندگی میں موجود تھا۔ مقیمی نے اس خاکے کو اپنایا اور ڈرامائی کیفیتوں اور ’فینتاسی‘ سے اسے نکھار دیا۔ یہ ایک عشقیہ مثنوی ہے کہ جس کا اختتام ایک خوبصورت ’، فینتاسی، کی صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ ’فینتاسی‘ کی سب سے بڑی خصوصیت ’تحیر، ہے جو آخری حصے میں پیدا ہوا ہے۔ موت کے بعد عاشق اور محبوب کفن میں ایک دوسرے میں جذب نظر آتے ہیں۔
ہوا جیوں عمل سب قبر کا تمام۔ آئیا دفن کرنے کو شہ نیک نام
شہا دیکھ کر قدرت بے نیاز۔ کہ عاشق جنازے کا کیا نماز
منگیاں جو قبر میں اتاروں اسے۔ دفن کر دینا سوں بساروں اسے
جو دیکھا جنازے میں مہیار کوں۔ تو ہے جفت مل کر سو اس نارسوں
کفن بیچ آ کر ار چندرن بدن۔ گلے لگ کے سوتی ہے جوں ایک تن
گلے اس کے لگے پرت پیار سوں۔ پرت در شب کی بسیار سوں
جدا ان کی ہر چند کر نے لنگے۔ کہ دونوں کو دو ٹھار دھرنے لنگے
نیکتے ایسی جدا ائما پذیر۔ کہ تھا عاشقان میں بدر وبے نظیر
تو یوں لگ آپس میں دو سوتے اٹھے۔ جدا دو کسی نے نہ ہوتے اٹھے!
یہ ڈرامائیت’فینتاسی‘ کی دین ہے، تخیل کے عمل سے واقعہ مشاہدے (Observation)کا منظر بن جاتا ہے۔ قاری کے ہیجان کو نفسیاتی سکون ملتی ہے اور جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔
’’پھولبن‘‘ (ابن نشاطی۔ ۱۶۵۵ء)’فینتاسی‘ کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ ابن نشاطی ایک بڑا تخیل نگار شاعر تھا کہ جس نے اس مثنوی میں ’فینومنین‘ خلق کرنے کی بڑی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے مقالے ’’مثنوی پھولبن کا جمالیاتی معیار‘‘ (مطبوعہ ایونِ اردو دہلی فروری ۲۰۰۰ء) میں لکھا تھا کہ ابن نشاطی نے محمد حسن دبیر کی ایک فارسی داستان ’’بساتین الانس‘‘ کا اثر قبول تو کیا تھا لیکن تخیل نگاری اور دلکش طرز نگارش کی وجہ سے ’’پھولبن‘‘ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
ایک عمدہ جمالیاتی معیار قائم کرنے میں شاعر کی رومانیت نے بڑا حصہ لیا ہے۔ اس رومانیت کی پہچان تخلیق، جذبوں کے رنگ فینتاسی قصہ آفرینی اور کرداروں کے تحّرک سے ہوتا ہے۔ فینتاسی کی دریافت کا تقاضا ہے کہ زندگی کو پُر اسرار بنا کر پیش کیا جائے تاکہ فینتاسی کے جلال و جمال کا اثر زیادہ سے زیادہ ہو۔ ابن نشاطی نے اس مثنوی میں زندگی کو پُر اسرار بنانے کی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ کنچن نین کی خوبصورتی کے بیان میں ’فینتاسی‘ ابھر کر سامنے آئی ہے۔
کنچن کے تیس اوپر تویاں زنبورے۔ کنچن برجان یو کنچن کے کنگورے
کنچن کے تھے کنگر، کنچن کی تھی گچ۔ کنچن کوں گال باندھے تھے کنچن برج
کنچن کے تھے محل، کنچن کی دیوار۔ کنچن پر پھر کنچن لئے تھے ہر ٹھار
اس طرح شہر کی زمین میں ’فینتاسی‘ کی رومانیت خوب واضح ہوئی ہے۔ پر اسرار شہر اور پر اسرار محل کی تصویروں سے ابتداہی سے ’فینتاسی‘ متاثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ’پھولبن، کی پُراسرار بُت اور اس کی فینتاسی (Fantasy)سے رومانی جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ سمن بر اور ہمایوں فال کی کہانی میں فنکار نے فینتاسی کے معیار کو بلند کیا ہے۔ شاہِ ہند کے خزانے میں ایک مچھلی ہے کہ جس پر طلسم تحریر ہے۔ اگر اسے پانی میں ڈال دیں تو وہ دریا کی گہرائیوں میں اتر جائے گی اور گہرائیوں کی سچائیاں لکھ کر لے آئے گی۔ اسی مچھلی سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادے کو ایک مچھلی نگل گئی تھی۔ اسے ہضم نہ کر سکی لہٰذا سمن کے جزیرے پر اگل آئی جو پریوں کی قید میں ہے۔ اس کے بعد ہی تلاش کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور فینتاسی کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔
خزینے میں مرے ہے ایک مچھلی۔ نہ مچھلی اسکے سم کوی ماؤے سچلی
کیسے ہیں اس کوں حکمت سوں حکیماں۔ گھڑے ہیں بھوت صفت سوں حکیماں
طلسم اس پر لکھے ہیں خوب اول کی۔ سئے پانی میں تو آ پیچ چلی
حقیقت قصر کا جناں کے سوں۔ لکھ لاتی ہے پانی نے سوں
خبر بارے اول شہزادے کا لیو۔ تمہیں منگتے ہیں جیوں ازسزا دیو
منکا بیگی سوں اس مچھلی کوں در حال۔ کہے تیوں لے کے پانی میں اسے ڈ ا ل
وہ مچھلی اس حقیقت کا خبر لے۔ نکل کر آئی دو دن کوں تیر لے
اس طرح سورگ بن کے بیان میں ’فینتاسی‘ پیدا ہو ئی ہے۔ ابن نشاطی کی جمالیاتی فکر ونظر سے ایک اور دنیا سامنے آتی ہے۔ یہ کنچن نین جیسی دنیا نہیں ہے۔ یہاں فینتاسی کے تحیر کا ایک دوسرا ہی پہلو ہے۔ ’امیجری‘ (Imagery)’فینتاسی‘ کی روح ہے۔ ابن نشاطی نے امیجری سے خوب کام لیا ہے۔ شاعر نے اپنے طور پر فینتاسی میں ’امیجیز‘ کا ایک معیار قائم کر دیا ہے۔ جا نے کس نے کہا تھا کے فینتاسی میں ’’nonexistent phenomenon manifests itself as something new.‘‘ ’مثنوی پھولبن میں یہ سچائی موجود ہے۔
’’گلشن عشق‘‘ (نصرتی ۱۶۵۷ء)میں فینتاسی(Fantasy) کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ فنکار کے تخیلی اور تخلیقی عمل سے مشاہدے کے جانے کتنے مناظر سامنے آتے ہیں۔ نصرتی کا ذہن حد درجہ زر خیز ہے۔ یہاں فینتاسی کے تعلق سے صرف تصویریں یا مناظر نہیں ہیں بلکہ ہیجانات (Impulses)کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ہے۔ نصرتی کی کوشش یہ ہے کہ نئے حالات اور واقعات پیش کئے جائیں کچھ اس طرح کہ جو کچھ موجود نہیں موجود نظر آئے۔ کئی مقامات پر نفسی فینو میناسے عمدہ فینتاسی پیدا ہو گئی ہے۔
٭ راجا فقیر کی تلاش میں جنگل جنگل گھومتا ہے۔ اس کے پورے سفر میں فینتاسی کی ایک بہت ہی خوبصورت دلکش اور تحّیر آمیز دنیا ابھرتی ہے۔
٭ ایک تالاب کے پاس پہنچتا ہے تو ہر جانب خوبصورت درخت اور پھل پھول دکھائی دیتے ہیں۔ خوشبو آوارہ پھر رہی ہے، چار پریاں تالاب میں نہاتی نظر آتی ہیں جو راجا کا درد جانتی ہیں۔ پریاں راجا کو فقیر کا پتہ بتاتی ہیں۔ سر کا بال دیتی ہیں کہتی ہیں یہ مصیبت میں کام آئیں گے، پھر راجا کو اپنے تخت پر بٹھا کر فقیر کے غار تک لے جاتی ہیں۔
٭ راجا فقیر کو پریوں کے بال دکھاتا ہے تو فقیر اسے پاس بلا لیتا ہے، فقیر کی ہدایت پر راجا شریفے کے ایک درخت سے ایک پھل توڑ کر رانی کو کھلا دیتا ہے اور وہ حاملہ ہو جاتی ہے۔
٭ ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوتا ہے نام منوہر رکھا جاتا ہے، شاہی نجومی زائچے سے بتاتا ہے کہ چودہ برس کی عمر میں راجکمار منوہر ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو گا۔
٭ راجا اپنے بیٹے کو چھت کے نیچے ہی رکھتا ہے لیکن ایک رات وہ چھت پر سوجاتا ہے اور پریاں اس کے حسن و جمال سے متاثر ہوتی ہیں۔ اتنے خوبصورت راجکمار کے لئے اتنی ہی خوبصورت لڑکی چاہئے۔ کل نو پریاں ہیں جو مختلف سمتوں میں اُڑ جاتی ہیں۔
٭ نویں پری یہ خبر لاتی ہے کہ سات دریاؤں کے پار ایک ملک ہے جس کا نام ’مہارس نگر، ہے اس کے راجا دھر راج کی ایک لڑکی ہے ’’مدماتی‘‘ وہی راجکمار کی شریک زندگی ہو سکتی ہے۔ پریاں راجکمار کا پلنگ اٹھا لیتی ہیں اور مدماتی کے پلنگ کے ساتھ رکھ دیتی ہیں۔ جب منوہر اور مدماتی کی آنکھیں کھلتی ہیں تو دونوں ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں۔ پھر انگوٹھیاں بدلی جاتی ہیں۔
٭ پریاں راجکمار کی مدد کرتی رہتی ہیں، منوہر کی آنکھوں میں سلائی ڈال دینے سے منوہر کسی کو نظر نہیں آتا لہٰذا وہ اطمینان سے اپنی محبوبہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
٭ راجا کو حقیقت معلوم ہوتی ہے منوہر کو سات سمندر پار جا کر مدماتی سے ملنے کی اجازت دیتا ہے۔ منوہر ایک جہاز پر سوار ہو کر ’مہارس، نگر کے لئے روانہ ہوتا ہے کہ طوفان آ جاتا ہے۔ سمندر میں ایک بہت بڑا اژدہا نمودار ہوتا ہے کہ جس کے منھ سے انگارے نکل رہے ہوتے ہیں، جہاز اژدہے سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا ہے، منوہر کسی طرح ایک تختے کے سہارے بہتے بہتے ایک جزیرے پر آ جاتا ہے، اس سنسان علاقے میں ایک چڑیل اس کی گردن پر سوار ہو جاتی ہے۔ سیاہ فام، دانت باہر نکلے ہوئے اور ہاتھ پیر الٹے، چڑیل منوہر کو غار میں بند کر دیتی ہے۔ وہ اسے کھا جانا چاہتی ہے، اسے کھڑاؤ سے مارتی جاتی ہے۔
٭ منوہر پری کو یاد کرتا ہے پری آ کر کہتی ہے کہ اب وہ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی، البتہ اس کی آنکھوں میں سرمے کی سلائی ڈال سکتی ہے۔ جس سے وہ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ پری سرمے کی سلائی منوہر کی آنکھوں میں ڈال دیتی ہے اور وہ غائب ہو جاتا ہے۔
٭ منوہر بھاگ کر ایک پہاڑ کے قریب آتا ہے تو وہ چڑیل اس کی بوسونگھتے سونگھتے پاس آ جاتی ہے۔ اس کی چیخ سن کر غار سے ایک اژدھا نکل پڑتا ہے۔
٭ اژدھا چڑیل پر حملہ کر دیتا ہے اور اسے چبا جاتا ہے۔
٭ راجکمار کسی طرح وہاں سے فرار ہو کر سمندر کے کنارے آ جاتا ہے، شب میں وہ ایک خالی جھونپڑی میں داخل ہوتا ہے تو اک چٹائی پر انسان کا خون نظر آتا ہے، اچانک باہر ایک خوف ناک آواز آتی ہے۔ یہ شیر کی آواز ہے جو ایک انسان کی لاش چبا رہا ہے۔ راجکمار کی آنکھوں میں تو سرمے کی سلائی ڈالی گئی ہے۔ لہٰذا شیر بھی اسے دیکھ نہیں پاتا۔
٭ منوہر بھاگتا بھاگتا ایک ایسی جگہ پر آتا ہے کہ جہاں آدم خور آباد ہیں، کیا دیکھتا ہے کہ ایک انسان درمیان میں ہے اور وہ آدم خور اس کے گرد رقص کر رہے ہیں، منوہر اس شخص کو پہچان لیتا ہے۔ وہ بھی جہاز میں منوہر کے ساتھ تھا۔ ممکن ہے بچ کر یہاں آ گیا ہو۔ منوہر ایک آدم خور کے ہاتھ سے چھری لے لیتا ہے۔ اسے آدم خور دیکھ ہی نہ سکے۔ سب حیرت زدہ یہ کیا ہوا، کون چھری لے گیا؟
٭ منوہر اس شخص کو آزاد کر کے ساتھ لے لیتا ہے۔ آدم خور اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ دونوں ایک مینار میں چھپ جاتے ہیں جہاں آدم خور پہنچ جاتے ہیں۔ ایک آدم خور اندر جانے لگتا ہے تو راجکمار اسے ختم کر دیتا ہے۔ مرے ہوئے آدم خور کا نیزہ راجکمار کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور وہ آدم خوروں پر حملے کرنے لگتا ہے۔ آدم خور پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، اس لئے کہ انھیں راجکمار نظر نہیں آتا، باقی آدم خور بھاگ جاتے ہیں۔
٭ منوہر کی آنکھوں میں پڑے سرمے کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور وہ نظر آنے لگتا ہے۔ پری کی مدد مانگتا ہے۔ پری مدد نہیں کرتی۔ منوہر اپنے ساتھی کے ساتھ آدم خوروں کی کشتی چرا لیتا ہے۔ لیکن بد نصیبی سے منوہر کا ساتھی پہرے دار آدم خور کے تیر سے مرجاتا ہے۔ ایک بار پھر آدم خور آ جاتے ہیں اور شہزادے کو گرفتار کر لیتے ہیں۔
٭ آدم خور منوہر کو کھانے کی تیاری کرتے ہیں۔ منوہر مالک سے دعا کرتا ہے۔ اس وقت ایک بزرگ ظاہر ہوتے ہیں اور منوہر کی مدد کرتے ہیں۔ چلتے ہوئے ایک تحفہ دیتے ہیں، توانائی اور طاقت کی صورت میں۔
راجکمار اس بزرگ کی دی ہوئی طاقت سے تمام آدم خوروں کو شکست دے دیتا ہے۔ پھر ایک کشتی پر سوار ہو کر نکل جاتا ہے، مقصد صرف یہ کہ مدماتی حاصل ہو جائے۔
٭ راجکمار ایک باغ میں پہنچتا ہے جہاں پرندے تو ہیں انسان نہیں ہیں، محل تو ہے، انسان موجود نہیں ہیں، محل میں داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک خوبصورت عورت تخت پر لیٹی ہوئی ہے، منوہر کو دیکھ کر وہ ہنستی بھی ہے اور روتی بھی ہے۔ راجکمار سبب دریافت کرتا ہے تو کہتی ہے ہنسی اس لئے کہ ایسا خوبصورت نوجوان کبھی دیکھا نہیں اور روئی اس لئے کہ ابھی دیو آئے گا اور اسے کھا جائے گا۔ بتاتی ہے ایک دیو نے اسے قید کر رکھا ہے۔ اس عورت کا نام چمپا وتی ہے۔
٭ چمپا وتی سے پیار کرتے ہوئے دیو راز کی بات بتا دیتا ہے۔ کہتا ہے میری جان ایسی جگہ پر ہے جہاں کوئی پہنچ نہیں سکتا۔ تین دریا پار ایک صحرا ہے، اس کے بعد ایک جنگل ے، اس جنگل میں ایک اندھا کنواں ہے جس پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا ہے۔ اس کنوئیں میں ایک طاقچہ ہے جس کے اندر ایک گلستان ہے۔ اس کے اندر ایک شاندار محل ہے، محل کے ایک تہ خانے میں ایک پنجرہ ہے۔ پنجرے میں ایک طوطا ہے، اس طوطے میں میری جان ہے۔ راجکمار دیو کی ساری باتیں سن لیتا ہے۔ چمپا وتی کے ساتھ رات بسر کر کے دیو کی جان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔
٭ منوہر دریا پار کرتا ہے، صحرا سے گزرتا ہے، طوفان کا مقابلہ کرتا ہے، جنگل میں پہنچ جاتا ہے، گھنے جنگل کی وجہ سے اندھیرا ہے، لہٰذا وہ گھوڑے سے اتر کر آرام کرتا ہے۔ نصف رات میں اچانک بیدار ہو جاتا ہے، چند عورتوں کی آوازیں سنتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے پاس ہی درختوں پر چار عورتوں کے سر ٹنگے ہوئے ہیں ان کے لمبے لمبے بال زمین تک آ رہے ہیں، ایک عجیب منظر ہے، عورتیں کہ رہی ہیں جانے کب ہم اپنے دھڑوں سے جا ملیں گے۔ راجکمار کے سوال کے جواب میں وہ بتاتی ہیں کہ وہ پریاں ہیں۔ ہم چاروں بہنیں ہیں۔ ایک جن نے ہماری گردنیں کاٹ کر یہاں لٹکا دی ہیں۔ ہمارے دھڑ نزدیک ہی ایک جھونپڑی میں پڑے ہیں۔ اگر جن قتل کر دیا جائے تو ہمارے دھڑ اپنے آپ جھونپڑی سے نکل کر یہاں آ جائیں گے۔
٭ راجکمار اس جھونپڑی میں پہنچ جاتا ہے، وہاں جن پر حملہ کرتا ہے، مرد بزرگ کی عطا کی ہوئی توانائی سے اسے شکست دیتا ہے، ادھر جن کی گردن کٹتی ہے اُدھر جنگل میں طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں۔ اب پریوں کے دھڑ باہر نکل کر چلنے لگتے ہیں۔ پریوں کے سر دھڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد راجکمار پہلے جن کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ بڑی مصیبتیں اٹھا کر طوطے کے پنجرے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اسی وقت دیو آ جاتا ہے لیکن اس وقت تک راجکمار طوطے کو رہا کر دیتا ہے۔ دیو کا جسم ٹوٹ کر ملبے کی صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آخر میں راجکمار کو مدماتی حاصل ہوتی ہے۔
٭ منوہر اور مدماتی کی شادی ہو جاتی ہے!
’گلشن عشق، میں فینتاسی کی ایک انتہائی خوبصورت، دلچسپ اور پُراسرار دنیا آباد ہے۔ اردو کی کسی مثنوی میں فینتاسی اور اس کے حسن و جمال کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ کہانی کا تعلق پرانے قصوں اور لوک کہانیوں سے یقیناً ہے لیکن نصرتی کی تخیلی اور تخلیقی فکر نے اسے ایک نئی تخلیق کی صورت دے دی ہے اورفینتاسی کا ایک انتہائی پر کشش معیار قائم کر دیا ہے۔ تلاش محبوب بنیادی موضوع ہے، فنکار کا تخلیقی ذہن اتنا زر خیز ہے کہ مشاہدے کے جانے کتنے عمدہ رومانی اور جمالیاتی مناظر خلق ہو گئے ہیں۔ ڈرامائیت اور ڈرامائی آہنگ کے بغیر فینتاسی کا تصور ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ’گلشن عشق، کے ڈرامائی مناظر اپنی مثال آپ ہیں۔ نصرتی کا ذہن تخیل نگاری میں بہت آگے ہے، جو موجود نہیں ہے (non.existent) کو حقیقت کی صورت دینے کی فنکارانہ کوشش غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ ایسے قصوں کو اب تک صرف یہ کہ کر نظر انداز کیا گیا ہے کہ یہ حقیقت اور سچائی کے دور میں خوابوں کی دنیا پیش کرتے ہیں۔ ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں۔ فوق الفطری عناصر اور کرداروں کے گرد گھومتے ہیں۔ ایسے قصوں میں فینتاسی کی قدر وقیمت کا اندازہ نہیں کیا گیا۔ گلشنِ شوق نے رومانیت کے دائرے میں بڑی وسعت پیدا کی ہے۔ مرکزی کردار کے پورے سفر میں رومانیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ نصرتی سے قبل اور نصرتی کے بعدکسی بھی مثنوی نگار نے ’’فینومینن‘‘ (Phenomenon)خلق کرنے کی ایسی مسلسل کوشش نہیں کی۔ مشاہدے(Observation)کے اتنے سارے ڈرامائی مناظر پیش نہیں کئے، کرداروں کو امیجیز بنانے میں پیش پیش نہیں رہے۔ فوق الفطری کرداروں کو ہیجانات (Impulses)عطا نہیں کئے اور واقعات کا رشتہ انسان کے سماج اور اس کی نفسیات سے اتنا گہرا نہیں کیا۔ مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ کی خوبصورت فینتاسی میں جن واقعات اور مناظر نے روح پھونک دی ہے ان میں چند یہ ہیں۔
٭ پریاں اپنے سر کے بال راجا کو دیتی ہیں اور درویش راجا پر مہربان ہو جاتا ہے۔
٭ پریوں کا مہارس نگر میں منوہر کے لئے مدماتی کا انتخاب کرنا۔
٭ منوہر کی آنکھوں میں پری کا سرمہ ڈالنا، منوہر سب کو دیکھ سکے گا مگر اسے کوئی دیکھ نہ پائے۔
٭ اژدہے سے جہاز کا پاش پاش ہو جانا۔
٭ راجکمار پر چڑیل کا سوار ہونا۔ اژدہے کا چڑیل پر حملہ
٭ آدم خوروں کا علاقہ۔ وہاں کے مناظر
٭ درویش کا ظہور۔ منوہر کو توانائی کا چکّر عطا کرنا
٭ دیو سے منوہر کی جنگ۔ دیو کی جان کی تلاش۔ دیو کے ٹوٹ ٹوٹ کر مرنے کا منظر۔
٭ مدماتی کا طوطا بننا ا ور پھر مدماتی کی صورت میں نمودار ہونا۔
فینتاسی تحیّر کے جمال کا تقاضا کرتی ہے، تحیّر کے جلال و جمال ہی سے تجسّس پیدا ہوتا ہے۔ مثنوی ’گلشن عشق، میں تحیّر کا جلال و جمال متاثر کرتا ہے۔ جو ڈرامائی مناظر ہیں ان میں فینتاسی کا جلال و جمال موجود ہے۔ آدم خوروں کے علاقوں میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں دیو یا جن کی تلاش میں منوہر جن حالات سے دوچار ہوتا ہے، چار پریوں کی گردنیں جس طرح درخت سے لٹکتی رہتی ہیں، جن کے ساتھ جو تصادم ہوتا ہے (تصادم کا منظر انتہائی پر کشش ہے)طوطے کے ساتھ دیوجس طرح تڑپ تڑپ کر مرتا ہے۔ اور دیو کے مرتے ہی جو تیز آندھی آتی ہے، ساری چیزیں جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب تحیّر کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں، جلال کے مناظر بھی دلکش ہیں اور جمال کے مناظر بھی پُر کشش ہیں۔ ایسی فینتاسی اس لئے پر کشش بن جاتی ہے کہ ہمارے لا شعور میں ان کا حسن اور ان کے تحیّر کا حسن موجود ہے۔ مسرتوں اور اداسیوں کی جانے کتنی داستانیں ہم اپنے لا شعور میں لئے پھرتے ہیں۔ فینتاسی‘‘ کے کرداروں کے نفسیات یا ان کے ہیجانات ہم سے علیحدہ نہیں ہیں۔ نصرتی کی شاعری کی نغمگی نے انہیں اور بھی متحرک بنا دیا ہے۔ اس شاعر کی تخلیقی صلاحیت ایسی ہے کہ جلال و جمال کے مناظر سے فوراً ہی جمالیاتی انبساط حاصل ہو نے لگتا ہے اور یہ بڑی بات ہے، ’گلشن عشق، کا ’کینوس، بہت بڑا ہے، نصرتی نے بنیادی کہانی پر گہری نظر رکھتے ہوئے بہت سی چھوٹی بڑی تصویریں پورے کینوس پر ابھاری ہیں۔ موسموں کی رومانیت ہو یا جنگلوں، صحراؤں اور باغوں کا جمال و جلال، جن کی خباثتوں کی دنیا ہو یا فراق یا وصل کے مناظر سب فینتاسی کا حسن لئے اس ’کینوس، کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔
مثنوی سحر البیان (میر حسن ۸۵۔ ۱۷۸۴ء )کے کئی مناظرفینتاسی کے عمدہ نمونے ہیں۔ مندرجہ ذیل مناظر میں فینتاسی کی پہچان ہوتی ہے۔
٭ داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اڑا کر لے جانے کی۔
٭ ’’داستان پرستان میں لے جانے کی‘‘
٭ ’’خواب میں دیکھنے میں بدر منیر کے بے نظیر کو کنویں میں ‘‘
٭ ’’داستان نجم النساء کے جوگن ہونے میں ‘‘
٭ ’’داستان فیروز شاہ، جنوں کے بادشاہ کے بیٹے کی عاشق ہونے میں جوگن پر‘‘
حیرت انگیز مناظر میں شدت بہت کم ہے۔ اس کے باوجود ان سے فینتاسی کے عمدہ مناظر پیدا ہوتے ہیں۔ سرور وانبساط حاصل ہوتی ہے۔
قضا را ہوا اک پری کا گزر۔ پڑی شاہ زادے پہ اس کی نظر
بھبھوکا سا دیکھا جو اس کا بدن۔ جلا آتشِ عشق سے اس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار۔ وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اتار
جو دیکھا تو عالم عجب ہے یہاں۔ منور ہے سارا زمیں آسماں
محبت کی آئی جو دل پر ہوا۔ وہاں سے اسے لے اڑی دل ربا
’طوطی نامہ، (جعفر علی حسرت ۸۷۔ ۱۷۸۵)میں کم و بیش ڈھائی ہزار اشعار ہیں۔ فینتاسی اس مثنوی کی روح ہے۔ عشقیہ داستان ہے، طوطی اور شکر پارہ کے عشق کی داستان، طوطی شکر پارہ کی تصویر دیکھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے۔ شکر پارہ بھی طوطی کے عشق کی باتیں سن کر اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ کہانی میں انوپ اور امرت وغیرہ کے کردار شامل ہوتے ہیں۔ طوطی ہلاک ہو جاتا ہے، شکر پارہ اس کی لاش کو ایک صندوق میں بند کر دیتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ممکن ہے طوطی کسی اور جسم میں داخل ہو گیا ہو۔ ایک طوطا آتا ہے جسے شکر پارہ اپنے شوہر طوطی کی لاش دکھاتی ہے۔ طوطے کی روح طوطی کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ طوطی کو دوسری زندگی مل جاتی ہے۔ ایک شہزادہ شکر پارہ کو لے جاتا ہے، یہ مقامِ طلسم کی دنیا ہے۔ اس کے بعد طوطی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جوگی بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں ایک ہرن اور ہرنی آ کر باتیں کرتے ہیں۔ ہرن جوگی بن جاتا ہے اور ہرنی پری بن جاتی ہے۔ کہانی میں آہستہ آہستہ فینتاسی کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ انگوٹھی اپنا کرشمہ دکھاتی ہے۔ شہزادہ طلسمی انگوٹھی کے ذریعہ کامیابی حاصل کرتا ہے۔ ایک جگہ شہزادے کی ہدایت پر انگوٹھی طلسم سرخ رنگ کے ایک طلسمی پیڑ کو اکھاڑ دیتا ہے اور اسی وقت ایک دیو سامنے آ جاتا ہے۔ طوطی پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ طوطی اپنی طلسمی انگوٹھی اس کے منہ میں ڈال دیتا ہے اور دیو کا وجود مٹ جاتا ہے۔ لال پری جو دیو کی بہن ہے طوطی سے بدلہ لیتی ہے۔ فینتاسی پیدا ہوتی رہی ہے۔ باطل السمر، پڑھ کر طوطی کو زندہ کیا جاتا ہے، آخر میں طلسم پر فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ طلسمی دنیا کی تمام مورتیاں انسان بن جاتی ہیں۔ تمام انتشار ختم ہو جاتے ہیں اور زندگی میں ایک ترتیب پیدا ہو جاتی ہے۔ ’طوطی نامہ، کی فینتاسی زیادہ دلچسپ ہے اور غالباًاس کی ایک وجہ قصوں کی پیچیدگی ہے۔ حسرت فینتاسی پیدا کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ رنگا رنگ تجربوں اور ڈرامائی کیفیتوں سے فینتاسی کے عمدہ نمونے پیش کرتے ہیں۔
مثنوی ’گلزارِ نسیم‘ (پنڈت دیا شنکر نسیم، ۳۹۔ ۱۸۳۸ ء)میں ’گلِ بکاولی‘ کی تلاش ایک بڑی خوبصورت فینتاسی ہے۔ رومانی تخیل نے فینتاسی کے بعض بڑے خوبصورت نمونے پیش کئے ہیں۔ نسیم کی رومانیت اور فینتاسی نے محاوروں کی مدد سے عمدہ فضا آفرینی کی ہے۔ مثنوی گلزارِ نسیم ایک پرانی داستان کی نئی تخلیق ہے۔ شاعر کی تخلیقی فکر نے اسے طرح طرح سے سنوارا ہے۔ واقعات وحادثات کو مناظر کی صورت دے دی ہے جو فینتاسی کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں
بلی کا سر چراغ داں تھا۔ چوہا پاسے کا پاسباں تھا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں۔ قسمت نے پھنسائے یہ جادوں
٭
ایک ٹیکرے پر گیا، بلایا۔ وہ مثلِ صدائے کوہ آیا
٭
خیمے سے وہ بے قرار نکلی۔ اس چھالے سے مثلِ خار نکلی
دیکھا تو اندھیری رات سنسان۔ اک عالمِ ہو ہے اور بیابان
اک دیو وہاں پہ گشت میں تھا۔ جویائے شکار دشت میں تھا
٭
دیکھا تو وہ بت تھی مٹھ کے اندر۔ جسم آدھا پری تھا، آدھا پتھر
بلا شبہ اردو کی کلاسیکی مثنویوں نے اردو ادب میں فینتاسی فینتاسی ی ایک بڑی پیاری دنیا خلق کر دی ے۔
٭٭٭
تبصرہ: ہندوستان کا نظامِ جمال
نامِ کتاب۔ ہندوستان کا نظامِ جمال(تین جلدیں )
مصنف۔ شکیل الرحمٰن
صفحات۔ ۹۱۶؍ قیمت (مکمل سیٹ)۔ ۱۳۱۱؍روپے
مبصر۔ ڈاکٹر عبد المجید بیدار
اردو جمالیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس لئے اس موضوع پر بہت کم مواد دستیاب ہے اور اس دستیاب مواد سے جمالیات کے معنی اور مفہوم کی ادائیگی اور اس طرز کی واضح تصویر نمایاں نہیں ہوتی۔ عام طور پر اردو والوں نے جمالیات کی توضیح و تشریح کو اس لئے نظر انداز کیا کہ جمالیات کا انتہائی محدود تصور ان کے ذہنوں میں رہا۔ جمالیات کے ساتھ یہ غلط تاثر قائم کر لیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے عریانیت اور بے حیائی کا اظہار ہوتا ہے۔ جسم کے ڈھکے چھپے اعضا کی نمائش کے سلسلے استوار ہوتے ہیں۔ عام طور پر جمالیات کے موثر اظہار کے لئے مصوری، سنگ تراشی اور فنِ تعمیر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مصوری ایک بہت بڑا فن ہے جو رنگوں کی حسین آمیزش اور لکیروں کی لطیف آویزش سے عبارت ہے۔ اس دور میں بھی جب کاغذ، قلم اور رنگوں کے استعمال سے انسان پوری طرح واقف نہ تھا، مختلف صناعوں نے دیواروں، پتھروں اور پہاڑی غاروں میں حسین تصورات کو رنگوں کے ذریعے نمایاں کرنے کی طرف توجہ کی۔ جمالیاتی تاریخ کے یہ نمونے ہندوستان میں ’’بدھ مت‘‘ کے دور سے فروغ پاتے نظر آتے ہیں۔ مہاتما گوتم بدھ اور ان کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے واقعات کو پیکروں اور رنگوں کی آمیزش سے پیش کر کے بدھ دور کے فنکاروں نے اس دور کی ہنرمندی کو نمایاں کیاجس کا بہترین اظہار ’’اجنتا کی مصوری‘‘ میں ہوا ہے۔ ہندوستان میں جمالیات کا سلسلہ بدھ دور سے مغلیہ دور تک دراز ہوتا چلا گیا ہے۔ ہندوستان کی اس جمالیاتی تاریخ کو تحریری شکل میں منضبط کرنا ایک مشکل کام تھا، پروفیسر شکیل الرحمٰن نے اس مشکل کام کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا اور اپنی کوششوں سے اسے آسان کر دکھایا۔ ’’ہندوستان کا نظامِ جمال‘‘ بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک تین جلدوں میں مدون ایک ایسی ضخیم اور جامع کتاب ہے جس کے ذریعے جمالیات کے معنی و مفہوم سے آگاہی اور اس کے ارتقا کی تاریخ سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی نے ان تینوں جلدوں کو با تصویر شائع کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی حیثیت خوبصورت مرقع کی ہو گئی ہے۔ ان جلدوں کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے ہندوستا ن کی قدیم اور جدید عظیم تہذیبوں کے آپسی امتزاج اور انسلاک کا پتہ چلتا ہے جن میں بدھ، ہندو اور اسلامی تہذیب اور ثقافت کے ورثے شامل ہیں۔
پروفیسر شکیل الرحمٰن نے کتاب کا انتساب حضرت امیر خسرو کے نامِ نامی سے کیا ہے، کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ، ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کا تحریر کردہ ہے۔ تمہید کے طور پر شکیل الرحمٰن نے ہندوستان کے تمدنی آثار اور قبائلی فن کے نوادرات سے بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ہندوستان کی جمالیات بھی اس ملک کی تاریخ کی طرح کئی صدیوں پر محیط ہے۔ قدیم قبائلی آرٹ پتھروں پر آڑی ترچھی لکیروں سے نمایاں ہونا شروع ہوا، پتھر پر نقش کاری کا ایک نمونہ بھی ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو قیاساً5500سال قبل مسیح کی نشان دہی کرتا ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون ’’فنِ تعمیر اور فنِ مجسمہ سازی‘‘ کے پس منظر میں ہے۔ پتھروں اور چٹانوں پر بنائی جانے والی تصویریں ہندوستان کی ابتدائی جمالیات کے بنیادی عناصر ہیں۔ مصنف نے دکن کو دنیا کی قدیم ترین آبادی کے علاقوں میں سے ایک اہم علاقہ قرار دیتے ہوئے دریائے نرمدا اور کرشنا کے کنارے مصوری کی قدیم روایت کے آغاز اور اس کے صدیوں کے سفر کا ذکر کر کے یہ بات ثابت کی ہے کہ دکن میں جمالیات کی ابتدائی شکل کی حیثیت سے بیانیہ مصوری نمایاں ہوئی۔ اس کے بعد مہنجو داڑو اور ہڑپا کے ترقی یافتہ تمدنی مراکز کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 3500قبل مسیح کی دریافت شدہ اینٹوں کی دیواریں، دروازے اور میناروں کے آثار اس حقیقت کا پتہ دیتے ہیں کہ ہندوستانی جمالیات کے جلوے فنِ تعمیر کے ذریعے ارتقا پاتے رہے۔ دوسری صدی قبل مسیح کے برتنوں، آرائشی چیزوں اور کھلونوں کی تصویریں پیش کر کے ہندوستانی جمالیات کے بیش قیمت ابتدائی نمونے دکھائے گئے ہیں۔
وادیِ سندھ کی تہذیب کے ساتھ ساتھ بدھ جمالیات کی نشان دہی کرتے ہوئے بدھ دور کے استوپ، لاٹ اور غاروں میں تراشے جانے والے آثار کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ بدھ فنکاروں کا جمالیاتی رجحان ’’تخلیقی نوعیت‘‘ کا تھا۔ اجنتا کے غاروں میں علامت پسندی کے رجحان کے سایھ اقلیدسی نقوش کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے شکیل الرحمٰن نے بتایا ہے کہ بدھ کے پیکروں میں متانت، سکون اور وقار کو خاص تخلیقی انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اسی لئے ان کے نزدیک اجنتا کے مصورانہ شہکار ’’نوری پیکر‘‘ انسان دوستی کا جذبہ ابھارنے والے پیکر قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 150قبل مسیح سے لے کر 650عیسوی تک اجنتا کے غاروں میں جمالیات کے عمدہ مرقعے پیش کرنے والے تصویری پیکروں میں یونانی، رومی، عجمی اور چینی اثرات کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ اس خیال کی تصدیق کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے جو کتاب میں ناپید ہے۔ بدھ جمالیات کے عہدِ زریں کے بارے میں یونانی سیاح ’’میگاستھنیز‘‘ کے حوالے سے پاٹلی پتر کے 64؍دروازوں، 570؍میناروں اور منقش محلات کے ذکر سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ چندر گپت موریا کا محل ایران کے ’’سوسہ محل‘‘ سے کسی طرح کم نہ تھا۔ اشوک کے عہد میں چمپارن(بہار) میں 50؍ٹن وزنی لاٹ اور اس پر منقش بیل بوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فاضل مصنف نے کہا ہے کہ زمانۂ قبل مسیح میں پاٹلی پتر کو جمالیات کے ایک اہم مرکز کا درجہ حاصل تھا۔ تیسری صدی سے دوسری صدی قبل مسیح تک بدھ فنکاروں اور معماروں نے بارہ سو چھوٹی بڑی خانقاہیں تعمیر کر لی تھیں جو پتھروں میں نقاشی کا بہترین نمونہ تھیں۔ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے نادر و نایاب تصاویر کو ہی یکجا نہیں کیا بلکہ پوری ثقافتی تاریخ کو جمالیات کے پس منظر میں نمایاں کر دیا ہے۔ کتاب کی پہلی جلد 181؍صفحات پر مشتمل ہے۔ آرٹ پیپر پر عمدہ تصاویر کے مرقعے یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ کتاب کی ترتیب جس محنت اور لگن سے کی گئی ہے اس کی پیش کش میں بھی وہی سلیقہ برتا گیا ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے 12؍موضوعات کا احاطہ کرنے کے بعد آخر میں کتابیات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس پہلی جلد کے مواد کو یکجا کرنے کے لئے بائیس انگریزی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ بدھ مجسموں کے تعارف کے بعد شکیل الرحمٰن نے ’’نٹراج کی جمالیات‘‘ اور ’’تری مورتی ‘‘ کی جمالیاتی خصوصیات کے علاوہ شیو اور شیو لنگ اور عورتوں کے مجسموں کو زیرِ بحث لاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عورت کے حسن کو نمایاں کرنے میں مصوری نے اہم رول ادا کیا ہے۔ اس موضوع پر بہترین تصویری مرقعے کتاب میں شامل کئے گئے ہیں۔ عورت کے جسم کی نزاکت ونفاست کو مصوروں نے جس کمال کے ساتھ تصویروں میں نمایاں کیا ہے، اس پر سیر حاصل تبصرے کے بعد ’’میتھن‘‘ کا جمال، گنیش کے مجسمے اور گنگا کا جلوہ کے زیرِ عنوان عمدہ تصاویر پیش کی گئی ہیں۔ جلد اول کا آخری باب ’’چند دوسرے جمالیاتی پیکر‘‘ کے زیرِ عنوان ہے۔ اس باب میں ستونوں اور پہاڑوں کو تراش کر تخلیق کی جانے والی مصوری کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف نے ان مجسموں اور پیکروں کی تخلیقی رونمائی کی وجہ سے ہندوستان کو مصوری کا ایک بڑا نگار خانہ قرار دیا ہے۔ عمدہ کاغذ اور کمپیوٹرائزڈ کتابت سے مالا مال پہلی جلد کی قیمت 280؍روپے ہے۔
دوسری جلد میں مصنف نے تاریخی پس منظر میں جمالیات کے آغاز و ارتقا کی توضیح و تشریح کے ساتھ خاکوں اور رنگوں کی جمالیات سے لے کر رقص وموسیقی کی جمالیات کو تصویری مرقعوں کی شکل میں پیش کیا ہے اور مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات میں کردار اور عمل کے طور پر نمایاں جمالیاتی پیکروں سے بحث اور ان کی تصاویر پیش کی ہے۔ یہ بحث ثابت کرتی ہے کہ مصنف کو جمالیات ہی سے نہیں بلکہ جمالیاتی تاریخ اور اس کے اسباب و علل سے بھی گہرا لگاؤ ہے۔ اس جلد کی ترتیب کے دوران 75؍انگریزی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ 32؍موضوعات زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔ خاکوں اور رنگوں کی جمالیات کے زیرِ عنوان ایسے تصویری مرقعے جمع کئے گئے ہیں جو یادگار کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس موضوع کو تین مختلف انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ ’’پھول اور پتوں کا جمال‘‘ کے زیرِ عنوان کتاب میں پیش کئے گئے تصویری مرقعوں کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ ’’رقص کی جمالیات‘‘ کو دو موضوعات سے آراستہ کیا گیا ہے اور موسیقی کی جمالیات کے زیرِ عنوان تان سین کی تصویر اور پرواز کرتے ہوئے موسیقاروں کے مرقعوں کے بعد وضاحت کے دوران اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ رگ وید کے نغموں اور منتروں کے آہنگ سے ویدوں کے نغماتی آہنگ کا پتہ چلتا ہے جو موسیقی کے ذریعے ایک ذہنی ماحول پیدا کرنے کے بہترین وسیلے ہیں۔ موسیقی کی جمالیات کے بعد زبانوں اور ادبیات سے وابستہ جمالیات پر گفتگو کرتے ہوئے ان سے متعلق تصویری مرقعوں کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ بدھ ادب، جین ادب اور ویدک ادب کے علاوہ سنسکرت ادب، تانتر اور آرٹ، نیز اپنشد کے ذریعے پیدا ہونے والی جمالیات اور نغمہ ریزی کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ جہاں تک ان تمام ادبیات سے مربوط تصویری مرقعوں کو جمع کر کے پیش کرنے کا معاملہ ہے، یہ مشکل کام تمام ادبیات کی کھوج کئے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح کے کام کے لئے بحرِ ذخار کی غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے۔ مصنف نے جہاں لوک کتھاؤں اوررس کہانیوں کے سرچشمے دریافت کئے ہیں وہیں لوک کہانیوں، جاتک کہانیوں، اسطوراور دیو مالاؤں کے علاوہ پُرانوں کے ذریعے پیش کئے جانے والے جمالیاتی پیکروں کی تعریف و توضیح بھی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دیو مالاؤں نے علامتوں، پیکروں اور اشاروں کی ایک بڑی دنیا کو لفظوں کے ذریعہ نمایاں کیا ہے۔ اسی طرح پُرانوں کے تجزیاتی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقت پیش کی گئی ہے کہ یہ کہانیاں ایک انتہائی معنی خیز روحانی سرچشمہ ہیں۔ ’’مہا بھارت‘‘ اور ’’رامائن‘‘ سے حاصل ہونے والے پیکروں اور جمالیاتی جذبوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ دوسری جلد کے موضوعات یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ مصنف نے نہ صرف تصاویر کو یکجا کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جمالیات اور اس کے متعلقات کو بھی موضوعِ گفتگو بنایا ہے اور حاصل شدہ مواد کے مکمل خاکے پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔
’’ہندوستان کا نظامِ جمال‘‘ کی دوسری جلد 347؍صفحات پر مشتمل ہے۔ آرٹ پیپر پر موزوں وضاحتوں اور دلآویز رنگین تصاویر اور بہترین جلد سازی سے مزین اس جلد کی قیمت 445؍روپے ہے۔
’’ہندوستان کا نظامِ جمال‘‘ کی تیسری اور آخری جلد ’’ہند اسلامی جمالیات‘‘ سے متعلق ہے اور یہ بھی پہلی دو جلدوں کی طرح رنگین اور سادہ تصاویر سے آراستہ ہے۔ رنگین تصاویر بہت خوبصورت چھپی ہیں لیکن سادہ میں سے بعض غیر واضح اور مبہم ہیں۔ یہ جلد 388؍صفحات کو محیط ہیں۔ آخر میں سن واری اساس پر ہندوستان کے خاص واقعات کو یکجا کیا گیا ہے۔ غزنوی، غوری، ایبک، تغلق، سید، لودھی، افغان اور مغل بادشاہوں کے نام اور ان کے دورِ حکومت کی تواریخ بھی درج کی گئی ہیں۔ شمالی ہند کے حکمرانوں کے ساتھ جونپور، مالوہ، گجرات اوردکن کے مختصر حالات بھی درج کئے گئے ہیں جس سے بیک نظر ہندوستان میں مسلم سلاطین کے دور سے واقفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ آخر میں 30؍انگریزی کتابوں اور 18؍اردو کتابوں کے حوالے درج ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تیسری جلد کی تیاری میں بھی دوسری جلدوں کی طرح جگر کاوی سے کام لیا گیا ہے۔ ابتدا میں وسط ایشیا، دمشق، اصفہان، قاہرہ اور سمرقند کی عمارتوں کی رنگین تصاویر پیش کی گئی ہیں جن کے جائزے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہندوستان میں اسلامی جمالیات کے آغاز سے قبل اس فن کی آبیاری دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں کس انداز سے جاری تھی۔
شکیل الرحمٰن نے اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار کی ورق گردانی کی ہے اور یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ اپنے اندازِ بیان سے انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسے یکجا کرنا آسان کام نہیں تھا۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کے فنِ تعمیر کے جائزے کے بعد ’’ہند اسلامی فنِ تعمیر‘‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے امتیازی جمالیاتی اسالیب کی نمائندگی کرنے والی ہندوستانی عمارتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ قطب مینار، اجمیری مسجد، فتح پور سیکری، ہمایوں کا مقبرہ، تاج محل، باغ شالیمار کے علاوہ اعتماد الدولہ کا مقبرہ جیسی یادگار عمارتوں کا ذکر ہے جس میں گنبد، محراب اور طاق کے علاوہ جھروکوں میں پیش کی جانے والی حسن کاری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سلسلے کی بہت سی خوبصورت عمارتوں کی رنگین تصاویر کتاب میں شامل ہیں جو نگاہوں کو راحت بخشنے کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ اسلامی فنِ تعمیر کے بعد اسلامی فنِ مصوری سے بحث کی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دربار، شکار، جانور، چرند پرند اور قدرتی مناظر کو جمالیاتی احساس کے ساتھ پیش کرنے میں اسلامی مصوری اپنی مثال آپ ہے۔ فاضل مصنف نے ترک مصوری، چغتائی مصوری اور ایرانی مصوری کے منگول دبستان کے علاوہ دبستاں تیموریہ اور بہزاد کی مصوری کے ساتھ ساتھ صفوی دبستانِ بخاراکی امتیازی خصوصیات بیان کرتے ہوئے، اس دور کے ہمہ رنگی مرقعے کتاب میں شامل کئے ہیں۔ بیشتر مرقعے خمسد نظامی، گلستانِ سعدی، شاہنامہ فردوسی‘‘ کلیلہ و دمنہ سے لئے گئے ہیں جو مصوری کے تمام محاسن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی آمد سے بر صغیر میں مصوری اور فنِ تعمیر کو ایک نئی جہت ملی اور مسلمانوں کی دکن کی طرف مراجعت سے ’’دکنی مصوری‘‘ کی بنیاد پڑی۔ دکنی مصوری کے محاسن بیان کرنے کے لئے ایک الگ باب شامل کیا گیا ہے۔ لیکن دکن کے اہم مراکز جہاں مصوری اور فنِ تعمیر نے فروغ پایا ان کا ذکر مزید تفصیل کا طالب تھا۔ اورنگ آباد، بیجا پور، گولکندہ اور دوسرے علاقوں کا ذکر اور ان سے متعلق تصاویر کتاب میں شامل ہیں لیکن دکن کی جمالیات کو فروغ دینے والے دیگر مراکز جیسے برہانپور، ایلچپور، بیدر، گلبرگہ اور دولت آباد نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ ’’ہندوستان کا نظامِ جمال‘‘ کی تیسری جلد ہند اسلامی جمالیات کی نمائندگی کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے لیکن دکنی جمالیات کی نمائندگی کے سلسلے میں پیش کردہ مواد تشنہ ہے۔
’’بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک‘‘ میں شکیل الرحمٰن نے ہند اسلامی فنِ تعمیر اور مصوری کا جائزہ لیتے ہوئے ’’راگ راگنیوں کی تصویریں ‘‘ کے زیرِ عنوان بہترین مواد فراہم کیا ہے۔ اس خصوص میں جو تصاویر پیش کی گئی ہیں ان کا تعلق مارواڑ، دکن، گجرت، مالوہ اور میواڑ سے ہے۔ مختلف راگوں کو تصویروں کے ذریعے نمایاں کرنے میں ہند اسلامی مصوری اپنی امتیازی شناخت رکھتی ہے۔ اس موضوع کے بعد شکیل الرحمٰن نے ’’مصوری کا دبستانِ اکبری‘‘ اور ’’ہند مغل مصوری کے تین ابتدائی اسالیب‘‘ کے علاوہ ’’تیمور نامہ کی تصویریں ‘‘ جیسے عنوانات کے ذریعے دکھایا ہے کہ مصوری کے اکبری دبستان سے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی ایک تابناک علامت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہند مغل آرٹ کی خصوصیات اور رنگوں کی آمیزش کو تصویروں کی زبانی نمایاں کرتے ہوئے فاضل مصنف نے یہ بات واضح کی ہے کہ اس عہد میں اسالیب کی آمیزش اور علاقائی مصوری کی تکنیک کی شمولیت سے نئے اسالیب کا جنم ہوا۔ ’’ہند مغل مصوری‘‘ کے جمالیاتی رجحان کو جہانگیر کے دور سے وابستہ کرتے ہوئے کئی رنگین اور سادہ تصاویر پیش کی گئی ہیں۔ جہانگیر کے جمالیاتی رجحان کے ذکر کے بعد ’’پادشاہ نامہ‘‘ کی تصویروں کو کتاب میں شامل کر کے اس عہد کی مصوری اور جمالیاتی حسیت کو واضح کیا گیا ہے۔ راگ مالا کے علاوہ صوفیوں کے نغموں کی تصاویر بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ آخر میں ’’فنِ خطاطی کی جمالیات‘‘ اور ’’ہند اسلامی فنِ خطاطی‘‘ کے زیرِ عنوان فنِ تحریر کے حسن کی نمائندگی مختلف خطوط کے وسیلے سے کی گئی ہے۔ اس حقیقت کو بھی تاریخی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے کہ خطاطی کا فن مسلمانوں کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں میں پہنچا۔ کتاب کے آخر میں حضرت امیر خسرو، کبیر داس، بابا گرو نانک اور غالب کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے اس آخری جلد کے ذریعے مختلف شہادتوں کے پس منظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہندوستانی جمالیات در حقیقت اس مشترکہ کلچر کی ترجمان ہے جس آغاز صدیوں پہلے اس سرزمین پر ہوا تھا جو مغل دور کے آتے آتے اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا۔
کتاب کی تیسری جلد کی قیمت 586؍روپے ہے۔ اس طرح ’’ہندوستان کا نظامِ جمال‘‘ کی تین جلدیں تیرہ سو گیارہ روپے خرچ کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں اور اس رقم کے بدلے میں آرٹ پیپر پر شائع شدہ ہزاروں خوبصورت ہمہ رنگی تصاویر کے علاوہ نوسوسولہ صفحات پر محیط جامع مواد کی حصول یابی کا موقع دستیاب ہوتا ہے۔
٭٭٭
خالد جاوید
جامعہ ملیہ اسلامیہ
آشرم۔ شکیل الرحمٰن کی خود نوشت:ایک جمالیاتی تجزیہ
’آشرم‘‘ اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور جمالیاتی مفکر شکیل الرحمٰن کی خودنوشت ہے۔ خود نوشت لکھنے والے کا محور خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ یہ سوانح حیات اس معنی میں مختلف ہوتی ہے کہ لکھنے والا اس میں اپنی موت کا بیان نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ ڈی باؤن کے خیال میں وہ سوانح بہت مایوس کرتی ہے جس میں موت کا منظر نہ شامل ہو۔ مگر خود نوشت نگار پر یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنی ذات کے آئینے کی ایک تشکیل قلم کے ذریعے کرتا ہے اور اس آئینے میں اپنی ذات کو بھی دیکھنا چاہتا ہے اور دکھانا بھی۔ دوسرے لوگ اور اشیا یہاں صرف پرچھائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیمس بوسو یل نے سوانح حیات کا اعلیٰ معیار صاحب سوانح کی تحریریں یا اس کی گفتگو وغیرہ کو ہی مانا ہے۔
خود نوشت در اصل اپنی ذات سے تصادم کے نتیجے میں معرض وجود میں آتی ہے اور بلیزنگ نے Art of lifeمیں بالکل صحیح لکھا ہے کہ خود نوشت لکھنے والے کو اپنی کہانی اس وقت شروع کرنی چاہئے جہاں پر اس کی زندگی کے اب مزید آگے بڑھنے کا امکان نہ ہو اور گویا خودنوشت کے ذریعے وہ خود کو دوبارہ زندہ کرے۔
ظاہر ہے کہ اس روشنی میں خود نوشت میں اس کے مصنف کے تجربات، مشاہدات اور جذبات کی عکاسی تو ہوتی ہے ساتھ ہی اس کی نفسیاتی کیفیات کی جھلکیاں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ خود نوشت اپنے مزاج کے اعتبار سے تخلیقی ہو سکتی ہے اور خاص طور پر فکشن کے قریب کیونکہ منظوم خودنوشت میں تصنّع، آرائش اور شعری لوازمات کی کثرت اس تحریر کو خودنوشت بننے سے روک دیتی ہے۔ اس لئے خودنوشت کو نثری پیرایۂ اظہار ہی بھاتا ہے۔
خودنوشت میں رومانیت کی ایک گہری چھاپ ہونا لازمی ہے۔ کوئی بھی لکھنے والا اس رومانویت سے نہیں بچ سکتا۔ کیونکہ ماضی ہی وہ فریم ہوتا ہے جس میں خودنوشت نگار اپنے آپ کا جائزہ لیتا ہے۔ اور اپنی ذات کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ماضی سے کوئی بھی تعلق چاہے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو، بغیر رومانویت کے قائم نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر سینٹ اگسٹائن اپنے Confessions مذہبی جذبے کے تحت لکھنے کے باوجود رومانویت سے دامن نہیں بچا سکا۔ مکتوباتی قسم کی خودنوشت مثلاً خطوط غالب میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی اور سماجی خودنوشتیں بھی اپنی زیریں سطح پر اس صورتِ حال کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔
شکیل الرحمٰن کی ’آشرم‘ کو بجا طور پر ادبی خودنوشت کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں سیاسی مذہبی اور سماجی عناصر تو ضرور پائے جاتے ہیں مگر ادبی مسائل اور افکار نیز ایک خاص تخلیقی اسلوب اسے ادبی خودنوشتوں میں ایک اعلیٰ اور منفرد مقام دینے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ اپنی ذات، اس کے نفسیاتی اور جذباتی تقاضے، تاریخ اور وقت کے مختلف دھاروں میں اپنی روح کی افسردہ تصویر اور اس افسردہ تصویر کا تعاقب شکیل الرحمٰن نے اپنی اس تصنیف کے ایک ایک ورق پر درج کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی بہت عجیب چیز ہے۔ وقت کے تینوں صیغوں میں ماضی ہی سب سے زیادہ مضبوط اور مشترکہ تہصورورطویل ترین ثابت ہوتا ہے مگر بے حد سیال، دیدہ مگر نادیدہ، جئیے جانے والا مگر گزر گیا ہو، بے حد قریب، برتا ہوا مگر اتنا دور، اتنا ناقابل رسا کہ شاید اسی لئے ہیرا کللٹس نے کہا تھا کہ:
’’تم ایک ہی ندی میں دوبارہ نہیں نہا سکتے‘‘
یہی سبب ہے کہ ماضی کو دریافت کرنے کی کوشش اسے کھو دینا ہے۔ پانے اور پھر کھو دینے کا یہ احساس ہی شکیل الرحمٰن کو افسردہ سی رومانویت کی دھندلی بارش میں بھگوتا رہتا ہے۔ اس بارش کی ایک ایک بوند کی گواہ ان کی ایک ایک سطر ہے۔ شکیل الرحمٰن ایک شاعر، فکشن نگار اور مفکر ہیں۔ مصوری اور موسیقی سے بھی بہت شغف ہے۔ جمالیاتی نظام فکر اور فلسفے کی ان پر گہری چھاپ ہے۔ جمالیات کو اپنے مطالعے کا مرکز و محور بنا کر انہوں نے اردو کے کلاسیکی ادب کی جمالیاتی تشریح کرنے کاجو کام انجام دیا ہے وہ بے حد گراں مایہ اور نا قابل فراموش ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستانی جمالیات پر بے حد اہم کتابیں لکھی ہیں۔ اردو میں اس نوعیت کا اتنا وقیع اور بھاری بھرکم کام شکیل الرحمٰن کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہ ان سے پہلے ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس قسم کا یا اس پائے کا کوئی کام ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔ وہ اس میدان کے تنہا شہسوار ہیں۔ اس لئے ان کی خود نوشت ’آشرم‘ کا اسلوب بھی دوسروں سے یکسر مختلف اور یگانہ ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اسلوب شخصیت کے اظہار کا نام ہے یا یہ کہ اسلوب شخصیت کا ہی دوسرا نام کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ شکیل الرحمٰن ایک فنکار، ادیب اور جمالیاتی فکر کے نمائندے ہیں اس لئے ان کی زبان پر جمالیات کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے۔ ویسے تو تقریباً ہر خود نوشت میں ایک ہلکا سا تخیل اور جذباتی عنصر شامل ہوتا ہے مگر آشرم میں یہ تمام عناصر اس شدتِ خلوص اور سادگی کے ساتھ در آئے ہیں کہ اس میں افسانوی رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ اس طرح بلیزنگ کے معیار پر اردو میں پوری طرح اترنے والی شاید یہ واحد خود نوشت ہے۔ بلیزنگ نے خود نوشت کو Fictionalisation of lifeکہا تھا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا گزری ہوئی زندگی کو یاد کرتے ہی اس میں خود بخود رومانویت پیدا ہو جاتی ہے۔ رومانویت کو جمالیات سے الگ کر کے دیکھنا بہت مشکل ہے۔ پھر یہ رومانی، جمالیاتی اور تخلیقی و جذباتی آہنگ ’کہانی، Fiction) ( کو آپ ہی آپ جنم دیتے ہیں۔ جب ایک عام لکھنے والا بھی بھونڈے پن کے ساتھ ہی سہی ماضی کو افسانوی رنگ دے ہی سکتا ہے تو جہاں شکیل الرحمٰن جیسا بڑا ادیب، خودنوشت لکھ رہا ہو تو وہاں تو ان کا سارا شعور ہی ماضی کو Fictionaliseکرنے میں قطعی فطری حق بجانب ہو گا۔
فلسفے میں حسن کی ماہیت اور ماخذ کے سلسلے میں غور و فکر کرنے کے نتیجے میں ہی فلسفۂ جمالیاتAesthetic Philosophyکا آغاز ہوا ہے۔ کیونکہ فنونِ لطیفہ وہ بنیاد یا شئے ہے جس میں حسن کا قیام ہوتا ہے۔ اس لئے جب حسن اور فنونِ لطیفہ دونوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اسے جمالیات کا نام دیا جاتا ہے۔ ہندوستانی کاویہ شاستر پر لکھی اپنی مشہور کتاب کا نام کمار سوامی نے Dance of Shivaاسی لئے رکھا ہے کہ شیو کے برہمانڈ رقص نے ہی آرٹ اور حسن کا ایک لافانی اور ناگزیر رشتہ قائم کیا ہے۔
شکیل الرحمٰن کی خودنوشت ایک تخلیقی فن پارہ ہے جو جمالیاتی اعتبار سے کم از کم اس ادبی صنف میں اپنی نوعیت میں بالکل انوکھی ہے۔ مشہور جمالیاتی مفکر آبسورن نے لکھا تھا کہ:
’’عملی تنقید کا کوئی فیصلہ بغیر اصول جمالیات کے ہو نہیں سکتا۔ تنقید کے پاس اگر کوئی مضبوط جمالیاتی بنیاد نہیں ہے تو اس میں ناقص جمالیات کا عمل ضرور ہو گا۔ ‘‘
اصول جمالیات پر اتنا زیادہ زور اور وہ بھی عملی تنقید کے سلسلے میں بہت لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ (راقم الحروف بھی ان میں سے ایک ہے)مگر ’آشرم، کے بارے میں کوئی بات کرنا، کوئی فیصلہ سنانا یا کوئی نظریہ قائم کرنا یقیناًاس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس کتاب کے اسلوب اور اس کے تار و پود میں سمائی ہوئی جمالیاتی چمک پر توجہ نہ مرکوز کی جائے۔
شکیل الرحمٰن نے اپنی گزاری ہوئی زندگی کے ایک ایک لمحے کو جمالیاتی تجربے کی حیثیت بخشی ہے۔ ان کا یہ تجربہ ہر شے کو ہیئت اور مواد کی وحدت کے طور پر جذب بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی اس وحدت سے مکمل طور پر وابستہ بھی ہوتا ہے۔
اس خودنوشت کا ہر باب ایک افسانہ ہے یا پھر اسے ایک مکمل سوانحی ناول بھی کہا جا سکتا ہے۔ ’آشرم، میں جگہ جگہ اپنی نظموں اور ڈائریوں کے اقتباسات چسپاں کر کے شکیل الرحمٰن نے اس خودنوشت کو ایک تخلیقی کولاژ کی شکل بھی بخشی ہے جو ان کے تخیل اور تصوارات کے بکھرے ہوئے حسن کی ایک توانا علامت ہے اور حسن کا یہ کولاژ اتنی شدت کے ساتھ نمایاں نہیں ہوا ہے جتنا کہ شکیل الرحمٰن کے یہاں۔ پہلے باب کا پہلا جملہ ہی بے حد معنی خیز ہے:۔
’’اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے اندر رہے اپنے وجود کے آشرم میں۔ ‘‘
یہ پوری کتاب اس ایک کلیدی جملے کو سمجھ لینے کے بعد اپنے سارے بند در ہم پر وا کر دیتی ہے۔ یہ ایک وجودی جملہ ہے اور یہ پوری خودنوشت اردو کی پہلی ایسی خودنوشت ہے جو وجودیت کے گہرے احساس اور ادراک کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ یوں توہر خودنوشت میں مصنف کی ذات کے مرقع ہوتے ہی ہیں اور زیادہ تر یہ صنف اپنی انا(Ego)کے حصار میں رہتی ہے مگر شکیل الرحمٰن نے یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ وہ ابتداسے ہی نرگسی رہے ہیں نرگسیت کے قید و بند کو توڑ دیا ہے اور اس کے ماورا ہو کر اپنے وجود کے نہاں خانوں تک پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ وجود کی ہڈیوں کے بجنے کی صدا تک سن سکتے ہیں :
’’وہ اپنے وجود کی ہڈیوں کے بجنے کی صدا اور جسم کی سچی عبادت کے لمحوں میں جن کیفیتوں میں ہوتا ہے بھلا ان کیفیتوں سے کس طرح آشنا کر سکتا ہے۔ ‘‘
خود نوشت کا عنوان ’’آشرم‘‘ بھی وجود ی طرزِ فکر کی نمائندگی کرتا۔ اس وجودی طرزِ فکر کے ڈانڈے ایک عظیم اخلاقی اور جمالیاتی سر چشمے سے جا کر ملتے ہیں۔ قدیم ہندوستانی فلسفے میں ستیم، شوم، سندرم کے نظریے تک یعنی جو صداقت ہے وہی تو سعد یا صحیح راستہ ہے اور وہی تو خوبصورت ہے، یعنی ’’سچ‘‘ ہی ’’حسن‘‘ ہے اور وہی ’’شبھ‘‘ بھی ہے۔ انسان کو اپنے عمل کے ذریعے ’’شوم‘‘ کو اپنانا ہے تاکہ اس کی رسائی صداقتِ مطلق تک ہو سکے اور یہ صداقتِ مطلق جمال از کی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ شکیل الرحمٰن کا ’’آشرم‘‘ ہی ’’شِو‘‘ یعنی ’’شبھ‘‘ کو عملی سطح پر اپنائے، ممکن نہیں ہے۔ اپنشدوں کا روحانی اور اسراری تجربہ ہو یا صوفیوں کا جمالیاتی حقیقی تجربہ دونوں تقریباً ایک ہیں اور اپنے وجود کے آشرم میں پناہ گزیں ہوئے بغیر اس تجربے تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
شکیل الرحمٰن کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ انہوں نے ایک ادبی خودنوشت میں اس اسرار سے بھرے ہوئے روحانی نیز جمالیاتی تجربے کی جھلکیاں پیش کی ہیں۔ یہاں شکیل الرحمٰن کا موقف مشہور وجودی جرمن فلسفی ہائیڈ یگرسے ملتا جلتا ہے۔ جس نے کلاسیکی جمالیات کو رد کیا تھا اور اس ضمن مین اس کا یہ ماننا تھا کہ آرٹ یا حسن کا جوہر اشیا کی تصویر کشی یا ان کی نمائندگی میں نہیں بلکہ اشیا کے اوپر پڑی ہوئی نقابوں کو اٹھانے میں پنہاں ہے۔ آرٹ کا کام(Beings)وجود کے اسرار کو کھلتا ہے۔ فن پارے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں کوئی شے بن کر نہ رہ جائے بلکہ وہ ایک نئی کائنات کی شروعات کر نے کا اہل ہو۔ اس طرح فن پارے کا کام ’’ایک کھلے ہوئے علاقے کو کھولنا‘‘ (Opening the open region) ہے۔ یہ بظاہر ایک قول محال نظر آتا ہے مگر اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ جمالیاتی تجربے کے بعد جو انکشاف ہو رہا ہے وہ بھی اپنے آپ میں امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ یعنی جو نثر وجود فی العالم (Deaesin)کے لئے ہے، وہی فن پارے یا آرٹ کی شرط بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ یعنی ہائیڈیگر نے آرٹ کو بھی ایک وجودی جہت بخشنے کی سعی کی ہے۔
شکیل الرحمٰن کی یہ ادبی خود نوشت ’’آشرم‘‘ یقیناً ایک وجودی جہت کی بھی حامل ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ شکیل الرحمٰن نے اپنی خود نوشت میں واحد متکلم کی جگہ راوی غائب یعنی ’’وہ‘‘ کا صیغہ استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف وجودی تجربہ معتبر بنتا ہے بلکہ اس جھوٹی انا اور نمائشی ذات(False ego)سے بھی یہ خود نوشت یکسر پاک وصاف ہے جو عام طور اپنے سوا نح لکھنے والوں کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتی ہے۔ ’’راوی غائب‘‘ کے صیغے کا استعمال اگر احساس کی سطح پر ایمانداری کے ساتھ کیا جائے تو وجود کی افسردگی بھی زبان کے سانچوں سے آہستہ آہستہ چھلکنے لگتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شکیل الرحمٰن نے اپنی تخلیقی زبان کی تمام جہتوں کو اس طرح بروئے کار لایا ہے کہ افسردگی کی ایک نیم رومانی چھوٹ ان کی لکھی ایک ایک سطر پر پڑتی نظر آتی ہے۔
شکیل الرحمٰن نے اپنا شجرہ بھی بیان کیا ہے۔ پھر بچپن کی رومانی یادیں ہیں۔ ایک پر اسرار فضا ہے۔ دونوں جنگ عظیم میں اور ان ہنگامی اور نا مساعد حالات میں گھری ہوئی ان کی حساس شخصیت ہے۔ اس کے بعد ملک کا بٹوارہ ہے۔ فسادات ہیں جن میں شکیل الرحمٰن کے سیکولر کردار کو پنپنے اور تشکیل ہوتے رہنے کا اخلاقی حوصلہ ملتا ہے، مذہبی رواداری، بالغ سیاسی شعور اور اعلیٰ سماجی کے اقدار کے ملے جلے عناصر سے ان کی شخصیت کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا۔
اس کے علاوہ پُر محبت کی چند مبہم سی مگر اداس یادیں ہیں جو سوائے دل میں کسک اور خلش پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں کرتیں۔ وقت گزر جاتا ہے، اور آخری صفحات میں ہماری ملاقات اس ’’ضعیف شخص‘‘ سے ہوتی ہے:
’’وہ ضعیف شخص جو زندگی کے ایک بڑے پھیلے ہوئے گہرے سمندر کو عبور کرنے کے بعد سامنے سوچ میں ڈوبا بیٹھا ہے۔ اس کا نام محمد شکیل الرحمٰن ہے۔ ‘‘
راقم الحروف کے لئے بہت آسان تھا کہ ان کی کتاب سے Pragraphingکر کے رسمی اور مکتبی انداز میں کتاب کا خلاصہ بیان کر دیا جاتا۔ مگر یہ شکیل الرحمٰن کے تئیں نا انصافی کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ کیونکہ راقم الحروف بھی ہائیڈیگر کےOpening the open regionکے اصول پر کار بند رہنا چاہتا ہے۔ اور یہ کتاب اسی بات کا تقاضہ ہم سے کرتی ہے۔ اس لئے خود نوشت میں ان کے جو بھی حالات زندگی ہیں وہ کم از کم میرے لئے اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہیں جن کی Summaryبیان کی جائے بلکہ یہ اہم ہے کہ ان حالاتِ زندگی کو کس طرح صفحۂ قرطاس پر اتارا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ’’آشرم‘‘ کے ہر باب میں ایک ’’واقعہ‘‘ ہے۔ جس کی وجہ سے اسے ایک سوانحی ناول بھی کہا جا سکتا ہے۔ یوں تو قرۃ العین حیدر نے بھی ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ کے نام سے ایک سوانحی ناول لکھا ہے مگر بنیادی طور پر وہ ایک فیملی ساگا ہے اور اس میں مصنف کی ذات کا کائنات سے اور خود سے تصادم کا کوئی موقع نہیں پیش آیا ہے اور اس لئے وہ سماجی دستاویز زیادہ بنا ہے اور ناول کم۔ ’’آشرم ‘‘ میں کیونکہ مصنف کی ذات ہی سب سے اہم ہے اپنی تمام تر پیچید گیوں کے ساتھ حیات و کائنات سے متصادم ہے سو اسے باآسانی سوانحی ناول کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ بقول شمس الرحمٰن فاروقی فکشن کا مقصد کسی بات کو رد کرنا یا ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ کسی بات کو ظاہر کرنا ہے۔ اس خود نوشت میں شکیل الرحمٰن اپنی ذات کا اظہار ہی کرتے ہیں۔ کسی بات کو رد یا ثابت نہیں کرتے۔ جس طرح افسانہ بجائے خود ایک وجودی شے (Ontological)ہے۔ بقول فاروقی معلوماتی (Epistimological)نہیں۔ بالکل اسی طرح شکیل الرحمٰن نے اپنے حالاتِ زندگی قلم بند تو کئے ہیں مگر جس انداز اور جذبے کی شدت کے ساتھ کئے ہیں وہ انھیں محض ’’معلومات‘‘ تک محدود نہیں رکھتے بلکہ ان سے ماورا ہو کر وجودی شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
فرض کیجئے کہ یہ ایک ناول ہے تو اس میں کردار، پلاٹ، واقعہ اور بیانیہ وغیرہ کیا اسی قسم کے ہیں جو ناول کے فن سے متعلق ہیں یا محض ’’خودنوشت‘‘ کی طرح سپاٹ اور اکہرے؟ ’’آشرم‘‘ کا بغور مطالعہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں با قاعدہ کردار اور واقعات کے آپسی رشتے کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کردار(خود راوی کا)واقعے پر اثر انداز ہوتا ہے اور واقعہ بھی کردار پر۔ بابِ اول سے بابِ بتیس تک ہر ایک میں کردار اور واقعے کی باہمی اثر پذیری واضح نظر آتی ہے۔ جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو وہ بھی علت و معلول کے سخت گیر اصول کے تابع نظر نہیں آتا ہے۔ کیونکہ اپنی ذات کے اندر کاسفر اس Law of causationکا پابند کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ جدید ناول کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اب جہاں تک ’’واقعہ‘‘ کا سوال ہے تو شکیل الرحمٰن کا کمال یہ ہے کہ اپنے ذاتی روحانی اور جمالیاتی تجربے کی پراسراریت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی انھوں نے کہیں پر ’’محض تجرید‘‘ نہیں بننے دیا ہے اور اسے ایک مخصوص انسانی صورتِ حال کے پس منظر میں ہی بیان کیا ہے۔ اس لئے ان کی خود نوشت میں شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی بالکل اسی طرح قائم رہتی ہے جیسے ایک اچھے افسانے یا ناول میں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں، خاص طور پر جب حوالہ خودنوشت جیسی نیم تخلیقی یا نیم صحافیانہ صنف ہو۔
بیان و زبان کے تعلق سے ’’آشرم‘‘ بجائے خود ایک جمالیاتی تجربہ ہے۔ تخلیقی زبان کی کرشمہ سازیاں یہی ہوا کرتی ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت آج کے فکشن نگار بھی نہیں سمجھتے۔ انھیں شکیل الرحمٰن کی اس ’’خودنوشت‘‘ میں خلق کردہ زبان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ اس زبان کے ذریعے ہی یہ فن پارہ ایک نامیاتی وحدت میں ڈھل پانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ یہ کتاب بجائے خود ایک جمالیاتی تجربہ اس لئے ہے کہ حسن کی وحدت کا اظہار اس کی ایک ایک سطر سے ہوتا ہے۔ یہاں کوئی عمومی اور انفرادی تضاد کا مسئلہ نہیں پیدا ہوسکتا ہے۔ شلر نے کہا تھا کہ:۔
’’فطرت کی ہر شے ایک انفرادی تشخص رکھتی ہے لیکن انسان اسے اپنے عقلی سانچوں میں ڈھالے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ یہ صرف جمالیاتی حس ہے کہ ان دونوں کے درمیان وحدت کا رشتہ قائم کرتی ہے اور حسن کو اپنی کلّیت کے آزادانہ رویہ کا حامل ٹھہراتی ہے۔ ‘‘
دوسری طرف ہمیں یہ بھی بہر حال یاد رکھنا چاہئے کہ ’’آشرم‘‘ فکشن کے لاکھ قریب سہی مگر خود مصنف نے اسے ناول نہیں کہا ہے۔ ہمیں مصنف سے اس معاملے میں متفق ہونا پڑتا ہے کہ وہ اپنی تحریر کو کس صنف کا درجہ دے رہا ہے۔ اسے قبول کر لینا چاہئے۔ کیونکہ یہ خود نوشت ہے اس لئے ناگزیر طور پر اس میں معروضیت کے عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ حسن اپنے آپ میں کوئی معروضی شے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مدار عقلی دلائل پر ہے۔ بقول سنتیانا ’’حسن دراصل ہماری مسرت کی معروضی شکل ہے‘‘ ۔ آشرم میں وجودی تجربے کو معروضی بنانے کی بھی ایک سعی کی گئی ہے۔ کیونکہ مصنف اپنے ذاتی اور سچے تجربے میں دوسروں کو اس طرح شامل کرنا چاہتا ہے جس طرح وہ ناول اور افسانے میں نہیں ہو پاتے۔ کیونکہ فکشن کی صنف قاری سے قربت کے ساتھ ساتھ ایک قسم کی دوری بھی پیدا کرتی ہے۔ وہاں ہم ہر بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے مگر اس خودنوشت کا جمالیاتی تجربہ معروضی، موضوعی، مستحکم، با عمل اور ساتھ ہی عمومی نوعیت کا بھی ہے۔ اس لئے وہ کسی عارضی ضرورت کی تسکین نہیں فراہم کرتا ہے بلکہ ایک ابدی مسرت کا باعث ہے اور اس لئے دوسرے بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں کیونکہ حسین شے کی حیثیت ایک مظہر کی ہوتی ہے۔
شکیل الرحمٰن کی خودنوشت ’’آشرم‘‘ ان کی تہ دار شخصیت کا جمالیاتی اظہار ہے۔ ہر آرٹ کا تعلق روحانی عمل کے ساتھ ہوتا ہے۔ کروچے نے کہا تھا کہ آرٹ افادیت یا لذت یا غم کسی شے سے بھی متعلق نہیں ہے۔ آرٹ حقیقت اور عدم حقیقت دونوں سے ہی بے نیاز ہے۔ کروچے کے فلسفے میں باطن یا روح کی بہت اہمیت ہے۔ جمالیاتی عمل کے ذریعے خوبصورت اور بد صورتی میں امتیاز کیاجاتا ہے۔ کروچے کا نظریہ، جمالیات میں نظریۂ اظہاریت Expressionism کہا جاتا ہے۔ آشرم میں نظریۂ اظہاریت کی شمولیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ شکیل الرحمٰن کی اس تصنیف میں افسردہ فضا پائی جانے کے باوجود قنوطی نہیں ہیں اور شوپنہار کے جمالیاتی نظریے کے ہمنوا نظر نہیں آتے ہیں۔ جس کے بقول ’’حسن‘‘ ایک افادی حیثیت کا حامل ہے کیونکہ کسی فن پارے میں حسن ہوتا ہے اس لئے فن کے ذریعہ ہم دکھ سے نجات پاسکتے ہیں۔ برخلاف اس کے شکیل الرحمٰن پر نطشے کے اس خیال کی چھوٹ ہے کہ انسان کو اپنے آپ سے طمانیت حاصل ہونا چاہئے، چاہے وہ کسی بھی طرح سے ہو، شاعری کے ذریعہ ہویا آرٹ کے ذریعے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے کردار کو ایک اسٹائل دیا جائے۔ اپنے کردار کو اسٹائل دینا ہی ایک نایاب حسن ہے۔ مگر اس پر صرف وہ لوگ عمل کرسکتے ہیں جو اپنی کمزوریوں اور ہنر مندیوں یا توانائیوں کو ایک فنکارانہ منصوبے میں پیوست کرسکتے ہوں۔ شکیل الرحمٰن کی خودنوشت ایک ایسا ہی فنکارانہ منصوبہ ہے ورنہ حسن کے ذریعے وجود کی ما بعد الطبیعاتی بہت سوں کو مجذوب بھی بنا دیتی ہے۔
’’آشرم‘‘ کی ماحولیاتی جمالیات کے نکتۂ نظر سے بھی قرات ممکن ہے۔ ماحولیاتی جمالیات کی بنیاد ہیپ برن Hepbernکے مضمون Contemporary Aesthetics and the neglect of natural beautyسے پڑی ہے جو 1966میں شائع ہوا تھا۔ یہ مکتبۂ فکر دنیا کو ایک آزادانہ اور کھلے ہوئے فن پارے سے تشبیہ دیتا ہے۔ فطری کائنات میں عقل، تاریخ اور فن وغیرہ کا گزر نہیں ہے۔ یہ ان اشیا سے بندھی ہوئی یا آلودہ نہیں ہے۔ یہ ایک فعال تخلیقی جہت کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے اور اس طرح ماحول سے ایک گہرا جمالیاتی رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں فطری اور قدرتی مناظر کا بیان اتنی سادگی اور غیر آلودگی کے ساتھ ہوا ہے کہ وہ کاغذ پر لکھے لفظ نہ ہو کر Visualیعنی بصری مناظر کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ ان تحریر کردہ مناظر سے قاری کا ذہنی رخ ماحولیاتی جمالیات کی طرف توجہ دینے کے لئے موڑا جا سکتا ہے۔
آخر میں، کیونکہ راقم الحروف کئی بار یہ اعتراف کر چکا ہے کہ جمالیاتی نشاط حاصل کرنے کے لئے کچھ نہیں پڑھتا ہے۔ وہ کسی ادب پارے کو اس امید میں پڑھتا ہے کہ وہ اس کے ضمیر کو جگائے رکھے گا، اسے بے چین کرتا رہے گا؟ اس لئے راقم الحروف اس ’’جمالیاتی تجربے‘‘ (آشرم) سے کوئی حظ نہیں اٹھا سکا بلکہ اس نے اسے اس لئے سراہا کہ ’’آشرم‘‘ نے اسے بے چین کر دیا۔ ’’آشرم‘‘ میں ’’حسن‘‘ کے ساتھ ساتھ ارفع(Sublime)کا عنصر بھی شامل ہے۔ بقول کانٹ حسن تو ہمارے اندر سکون، طمانیت اور ہم آہنگی کی ایک کیفیت پیدا کرتا ہے جبکہ ارفع ہمارے اندر بے چینی اور ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔ وہ عقل اور شعور میں کشمکش پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ اگرچہ ’’ارفع‘‘ بغیر کسی ’’حسن‘‘ کے وجود میں نہیں آسکتا مگر میں اس کتاب سے ذاتی طور پر ’’ارفع‘‘ کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں چاند تاروں سے بھری رات پر طوفان سے بپھرے ہوئے سمندر کو ترجیح دیتا ہوں۔
یہ کتاب مجھے اس لئے بھی پسند آئی کہ اپنی ذات کے نامکمل ہونے کا افسردہ احساس اس کی زیریں سطح پر موجود ہے۔ یہ احساس نامیاتی وحدت میں بھی ممکن ہے۔ یہ افسردگی میرے وجود کو پریشان کرتی ہے۔ مجھے بھی نا مکمل ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ہمیں ایسے بہت سے خواب، بہت سی باتیں یاد دلاتی ہے جنھیں ہم فراموش کر چکے ہیں، یا بھولنا چاہتے ہیں۔ اس لئے کم از کم میں تو تخلیقی اعتبار سے پریشان ہی ہوا، سرشار نہیں ہوا۔ اگر یہ کتاب مجھے Disturbنہیں کرتی، میرے ضمیر پر دستک نہیں دیتی تو میں مایوس ہو جاتا۔
شکیل الرحمٰن نے اپنی خودنوشت ’’آشرم‘‘ میں اپنے لئے ایک متبادل دنیا تخلیق کی ہے۔ اس متبادل دنیا کو انھوں نے ہمیں بھی دکھایا ہے۔ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ تشدد اور دہشت سے بھری ہوئی اورTechnology کی ایک نئی اور فحش جمالیات کے ذریعے تشکیل ہوئی اس وحشت ناک دنیا سے دو آنکھیں چار کرسکتے ہیں اور اس نئی، فحش اور دہشت زدہ کرتی ہوئی جمالیات کو للکارتے ہوئے وہ اپنی بنائی ہوئی اس متبادل دنیا میں فخر و طمانیت کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے بابِ اول میں لکھا ہے جسے میں پھر دہرا رہا ہوں :۔
’’اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے اندر رہے، اپنے وجود کے ’’آشرم‘‘ میں۔ ‘‘
٭٭٭
شکیل الرحمٰن
’’وقت‘‘ کا رومانی اور جمالیاتی تصور مولانا رومی کے حوالے سے
تصوف نے تحیرات کے جمال اور اس کی گہری رومانیت میں جنم لیا ہے۔ تحیرات کے حسن اور رومانیت کے’رسوں‘ (Rasas) سے جمالیاتی انبساط حاصل کرتا رہا ہے اس لئے کہ وہ ان ہی میں پلا بڑھا ہے۔ تحریات کے جمال ہی میں اس کی ابتدا ہوئی ہے اور تحیر کے جلال و جمال ہی میں اس کی تکمیل ہوئی ہے۔ تکمیل کی منزل تک تحیر زیادہ ہی بڑھتا رہا ے۔۔ اس میں زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے۔ لہٰذا اس کی جمالیات میں زیادہ کشادگی اور تہداری آئی ہے اور اس کی رومانیت میں اور بھی زیادہ اٹھان پیدا ہوئی ہے۔ فلسفہ اور تصوف میں یہی فرق ہے۔ ممکن ہے فلسفہ کی ابتدا بھی تحیرات اور ان کے حسن کے اندر ہی ہوئی ہو لیکن فلسفہ، تحیر اور اس کی جمالیات سے دور ہوتا گیا ہے۔ تصوف نے رموز واسرار(Mysteries)میں جھانکنے سے اپنی ابتدا کی اور اس کے اس عمل کے ساتھ ہی رموز واسرار اور گہرے ہوتے گئے، تحیر بڑھتا گیا جس قدر جاننا چاہا اسی قدر کم جانا اور پھر تحیرات کے حسن و جمال اور کی رومانیت کے دھندلکوں نے گرفت میں لے لیا، لگا وہ کچھ بھی نہ جان سکا، اگر اسے کوئی چیز نصیب ہوئی تو وہ معصومیت(Innocence)کی سطح تھی۔ پھر پیاری اور دلکش معصومیت تصوف کی سب سے بڑی دین ہے۔ یہ وہی معصومیت کی مسطح ہے جہاں شاعری اور آرٹ کی جمالیت اور رومانیت کی تکمیل ہوتی ہے اس طرح کہ آرٹ مذہب بن جاتا ہے۔
جب تک تلاش وجستجواور نئے حسّی تجربوں کو پانے کی آرزو رہتی ہے باطن میں نغمہ پیدا ہوتا رہتا ہے، شاعری پیدا ہوتی رہتی ہے، اس کاآہنگ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ جیسے ہی حسّی سطح پر نیا تجربہ پا لیا جاتا ہے اور اس تجربے کو جان لیتے ہیں وہ نغمہ سنائی نہیں دیتا۔ وہ شاعری جنم نہیں لیتی اور اس کا وہ آہنگ سنائی نہیں دیتا جو تلاش وجستجو کے پورے عمل میں موجود ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی باطن کی ہر خوبصورت شے گم ہوتی نظر آتی ہے۔ تصوف میں تلاش وجستجو کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ حسّی تجربوں کو پانے یا نئے تجربوں کو حاصل کرنے یا دھندلکوں میں ڈھونڈنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ باطن میں نغمہ موجود رہتا ہے، تغزل یا شعریت کا رس موجود ہوتا ہے۔ آہنگ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ اس کی جمالیات اور اس کی رومانیت اپنی تمام تر
شدّت کے ساتھ ہر دم اور ہر لمحہ موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے سرمستی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تصوف نغمہ بن جاتا ہے، شاعری بن جاتا ہے، پورے وجود کو نئے نئے سروں اور نئے نئے آہنگ سے آشنا کراتا رہتا ہے۔ باطنی سطح یا ’معصومیت، (Innocence)کی سطح پر صوفی عشق کی کیفیت کو خوب جاننے بوجھنے لگتا ہے۔ اس لئے کہ یہ اس کے اپنے عشق کی کیفیت ہوتی ہے۔ عشق کی کیفیت سے سرشار ہوتے ہی وہ معصومیت کی اس خوبصورت دلکش اور نازک سطح پر جشن منانے لگتا ہے۔ اللہ اور اس کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی، خود کلامی یا ’مونولاگ‘ اپنے بہترین سروں کو لئے ہوتا ہے۔ تصوف وجود اور زندگی کے حسن میں پگھل جانے کا نام ہے۔ چونکہ صوفی اپنے دل کے مرکز پر جشن مناتا ہے اور اس میں شریک رہتا ہے اس لئے وہ خالقِ کائنات سے عشق کے رشتے کو جانتا پہچانتا ہے۔ یہ اس کا اپنا جمالیاتی تجربہ اور اس کا َََََََََاپنا رومانی رویہ ہوتا ہے۔ ہم چاہیں کہ اس کے جشن میں ہم گھس جائیں تو یہ ممکن نہیں۔ ہم باہر رہ کر جشن دیکھ بھی نہیں سکتے۔ یہ صوفیانہ شاعری یا شاعروں کے صوفیانہ تجربوں کا فیض ہے کہ ہم اس جشن کے بارے میں کچھ جانتے بوجھتے ہیں۔ اگر کوئی صوفی گلاب کا خوبصورت پھول نظر آ رہا ہے تو ہم اسے دیکھ کر خود گلاب نہیں بن سکتے۔ اس کو سمجھنے کے لئے صوفیوں کی گفتگو، ان کی شاعری اور ان کے عمل کے مختلف پہلو ہی مدد کرتے ہیں۔ تصوف خاموشی سے بہت قریب ہے۔ اس لئے کہ وہ کچھ کہتا ہے پھر بھی کچھ نہیں کہتا۔ بڑے صوفیوں کی وہ باتیں جو ہم تک آ گئی ہیں ان کا کلام جو ہم تک پہنچا ہے لفظوں سے پُر ہے لیکن وہ الفاظ اس طرح استعمال ہوتے ہیں کہ خاموشی نہ ٹوٹے، خاموشی میں کوئی خلل نہ پڑے۔
تصوف کا پیغام یہ ہے تحیّر اور اس کے جمال کو اپنا مذہب بنا لو۔ اسے نجات کی راہ تصور نہ کرو۔ تصوف تو مذہب کا نغمہ ہے۔ مذہب کی مدھُر آواز ہے۔ مذہب کا آہنگ ہے۔ مذہب نے تو خود ہی تحیّرات اور اس کے حُسن میں جنم لیا ہے۔ اللہ کے حسن و جمال ہی سے ہر شے کی تخلیق ہوئی ہے۔ اللہ تحیرات اور اس کے جمال کا مرکز اور سرچشمہ ہے۔ تم صرف تحیر اور اس کے حسن کو اپنی جہت(Dimension)بنا لو، مذہب اور تصوف کی روح اور ان کے جلووں کو دیکھنے اور معصومیت کی سطح پر انہیں محسوس کرنے کے لئے ایک بار پھر بچوں کی طرح حیرت سے ٹکر ٹکر دیکھتی اور اِدھر اُدھر نظر گھمانے والی آنکھوں کی ضرورت۔ تصوف وہ نگہ چاہتا ہے جو قطرے میں سمندر کو دیکھ لے اور وہ ’وژن‘ (vision)جو ہر ذرّے میں سورج کو پالے۔
تا بینم قلزمے در قطرہ آفتابے درج اندر ذرّہ (مولانا رومی)
تصوف نے اس نگہ(جو آنکھ کے اندر رہتی ہے)اور اسی ’وژن‘ (جو دل کے مرکز پر عشق کے تحرک کی دین ہے)کے ساتھ وقت، (Time)کے حسّی جمالیاتی رومانی تصور کو پیش کیا ہے۔ حسّی جمالیاتی رومانی موج غیر معمولی موج ہے۔ اس سے تو عقل کے بڑے بڑے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں۔ مولانا رومی کہتے ہیں :
دربلندی کوہِ فکرت کم نگر کہ یکے موجش کند زیر وزبر (مولانا رومی)
اپنی عقل کے پہاڑ کو زیادہ بلند نہ سمجھو، اس کو ایک موج تہ و بالا کر دے گی !
اگر آپ آئین سٹائنAlbert Einstein))سے دریافت کریں ‘‘ وقت (Time)کیا ہے تو ان کا جواب ہو گا وقت ’مکاں، (Space)کی چوتھی جہت ہے، اس جواب سے وقت کا اسرار کھلتا نہیں۔ وقت کا اسرار اسی طرح موجود رہتا ہے کہ جس طرح آئین سٹائن سے پہلے تھا۔ واقعی وقت بہت پُر اسرار ہے، ہم سب وقت میں رہتے ہیں۔ وقت پر گزرتے ہیں وقت ہم پر گزرتا ہے، ہم اسے ہر وقت محسوس کرتے ہیں، اسے سب جانتے پہچانتے ہیں لیکن اس کی وضاحت اور اس کی تشریح ممکن نہیں ہوتی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کا ذہن ’’نفسیاتی وقت‘‘ ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ باطن میں ’’کلاک ٹائم‘‘ (Clock Time)کا تصور پگھل جاتا ہے۔ اِنسان مراقبے میں جیسے جیسے ڈوبتا جاتا ہے وقت گم ہوتا جاتا ہے۔ جب مراقبہ پھول کی طرح کھل جاتا ہے تو وقت کا وجود ہی نہیں ہوتا، پھول ہوتا ہے اس کی دلفریب خوشبو ہوتی ہے۔ دماغ کے گم ہوتے ہی وقت گم ہو جاتا ہے، چونکہ دماغ نفسیاتی وقت بھی ہے اس لئے یہ بھی گم ہو جاتا ہے۔ صوفیوں نے کہا ہے کہ دماغ اور وقت دونوں ایک ہی تقدیر کے دو پہلو ہیں۔ دماغ میں خواہشوں کی ایک دنیا ہوتی ہے، مختلف قسم کی خواہشیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انسان ان ہی خواہشوں کی وجہ سے مستقبل کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ خواہش کے مطابق مستقبل کا خواب دیکھتا رہتا ہے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ مستقبل کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ماضی کا بھی کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ذہن، دماغ ماضی کی جانب رہتا ہے۔ وہ گزر چکا ہے اس کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہ ماضی اور مستقبل دونوں دماغ سے چمٹے رہتے ہیں، ان دونوں کو انسان کا دماغ زندہ رکھے ہوتا ہے اور انہی کی وجہ سے ’وقت‘ کا احساس ہوتا رہتا ہے جو کبھی کبھی بہت تیز ہوتا ہے۔ ہم نے ’وقت‘ کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ماضی، حال اور مستقبل۔ صوفی حال کو اہمیت دیتے ہیں، وہ ’حال، کہ جس میں نہ دماغ کا عمل دخل ہوا اور نہ وقت کا!
گوتم بدھ نے کہا تھا ’’لمحوں میں زندہ رہو ‘‘ لمحوں میں ہر شخص اپنے طور سچائی کو پا سکے گا۔ اگر کسی نے موجود لمحوں کا خیال نہ رکھا تو اسے سچائی حاصل نہ ہو سکے گی۔ کوئی کسی کو اپنا لمحہ اور وہ ’’ لمحہ کہ جس لمحے میں اس نے سچائی پائی ہو‘‘ نہیں دے سکتا۔ ’حال، ہی وہ لمحہ عطا کر سکے گا کہ جس میں کوئی شخص اپنے طور سچائی کو پا سکے گا۔
گوتم بدھ کو جب یہ محسوس ہوا کہ وہ اب اس دنیا سے گزرنے والے ہیں تو انہوں نے اپنے شاگردوں کو بلا کر یہ کہا ’’تم اپنے اندر خود ایک چراغ کی مانند روشن ہو جاؤ‘‘ ۔
اُن کا معروف شاگرد آنند جو اُن کے ساتھ پچاس برسوں تک رہا تھا روتے ہوئے بولا ! ’’میں آپ کے ساتھ آس کی پرچھائیں بن کر پچاس برس رہا، اس کے باوجود اپنے اندر خود ایک چراغ بن کر روشن نہ ہو ا، اب آپ جا رہے ہیں میرا کیا ہو گا‘‘ ۔
گوتم بدھ مسکرائے، کہا ’’ممکن ہے میں رکاوٹ بنا رہا تم اپنے اندر خود ایک چراغ بن کر روشن نہ ہوسکے، اب میرے جانے کے بعد کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اور تم لمحوں میں خود ایک چراغ بن کر روشن ہو جاؤ گے، میں تم سے ہمیشہ کہتا رہا کہ میں تمہیں ’’سچائی‘‘ نہیں دے سکتا کوئی کسی کو ’’سچائی‘‘ نہیں دے سکتا، سچائی کو خود پانا ہوتا ہے، لیکن خوا مخواہ امید لگائے بیٹھے رہے، میں تو صرف تمہاری پیاس بڑھا سکتا تھا جو بڑھاتا رہا ہوں، اب تم بہت پیاسے ہو، میرے جانے کے بعد یقین ہے تمھارے اندر ایک چراغ روشن ہو گا ا ور وہ چراغ تم ہو گے۔ ‘‘
اور وہی ہوا، گوتم بدھ کے انتقال کے بعد ہی وہ لمحہ آ گیا جس میں آنند نے اپنے وجود میں ایک ایسی آواز سنی، ایک دھماکہ ہوا، زبردست دھماکہ اور وجود کے اندر چراغ روشن ہو گیا، اس کا اپنا چراغ۔ آنند خود چراغ تھا !
اسے حال کے لمحے کے روشن لمحوں کا اچانک احساس ہوا۔
اور دھماکہ ہو گیا!!
گوتم بدھ نے کہا تھا کہ تم ایک ہی ندی میں دوسری بار قدم نہیں رکھ سکتے اس لئے کہ تم بدلتے رہتے ہو۔ ہر دوسرے لمحے انسان خود ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔
بدھ ازم میں یہ بات اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ روح بھی یکساں نہیں رہتی، اس میں بھی ہمیشگی نہیں ہے یہ بھی مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
جین ازم کے مطابق چراغ کی لو، ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہے، یکساں نہیں رہتی، روشنی کا تسلسل تو قائم رہتا ہے لیکن لو میں تبدیلی بھی مسلسل ہوتی رہتی ہے، ہر لمحہ لو کی صورت بدل جاتی ہے، پہلی صورت گم ہو جاتی ہے اور نئی صورت پیدا ہو جاتی ہے، شام کے روشن چراغ کو صبح تک بجھاتے ہو ئے لاکھ تبدیلیاں ہو چکی ہوتی ہیں۔
مولانا رومیؔ کے اشعار سنئے:
ََہر نفس نومی شود دنیا وما بے خبر از نو شدن ماند بقا
یعنی ہرنفس، ہر لمحہ دنیا نئی ہو جاتی ہے اور ہم زندگی میں اس کے نئے ہونے سے بے خبر ہیں۔
عمر ہمچوں جوئے نو نو میر سد مستمرے می نماید درجسد َََََََِِ مستمرے می نماید درجد
نہر کی طرح عمر نئی نئی آتی رہتی ہے جو جسم میں مسلسل دکھائی دیتی ہے۔
آں زتیزی مستمر شکل مآمدست چوں شرر کش تیز جنباتی بدست
تیزی کے باعث وہ مسلسل شکل بنی ہے۔ اس انگارے کی مانند جس کو ہاتھ سے تیز گھمائے۔
شاخ آتش از بجنبانی بساز ََََََََََََََََََََََََََََََََََدر نظر آتش نماید بس دراز
اگر تو جلتی لکڑی کو کوشش سے گھمائے تو وہ بہت لمبی آگ نظر آئے گی.۔
ایں درازی مدت از تیزی صنع نماید سرعت انگیزی صنع
ایجاد کی تیزی سے یہ بقاء کا طول اللہ کی ایجاد کی تیزی کو ظاہر کرتا ہے۔
’وقت‘ کے تعلق سے مولانا رومی ؔ کا جمالیاتی رومانی تصور بنیادی طور پر وہی ہے جو گوتم بدھ کا ہے۔
’’روحانیت‘‘ کوئی ہیجان انگیز تجربہ نہیں ہے۔ یہ خواہشات کے ختم ہونے کا خوبصورت دلکش نتیجہ ہے۔ انسان تنہا ہو جاتا ہے۔ شعور اس کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ آئینہ ہی روحانیت ہے۔ روحانیت جمالیات کا سرچشمہ اور روحانی وژن کا مرکز ہے۔ دنیا کے حسن و جمال اور اس حسن سے بہت سارے جلال و جمال کے بنیادی مرکز تک پہنچنے کے لئے روحانیت ہی ایک نظر عطا کرتی ہے اور یہ نظر یا وژن اپنی بے پناہ توانائی کی وجہ سے انتہائی رومان پرور فضاؤں میں پہنچ جاتا ہے، عشق کا اضطراب غیر معمولی ہوتا ہے یہی رومانی توانائی کی پہچان ہے، انسان اپنے دل کی گہرائیوں میں اُتر کر اللہ کو پا لیتا ہے جو خالص ’انرجی‘ یا خالص توانائی ہے اس توانائی یا انرجی سے جمالیاتی وژن میں شدّت پیدا ہوتی ہے اور رومانی پرواز میں تیزی آتی ہے۔ اللہ کوئی فلسفیانہ نظریہ یا ’تھیوری، نہیں ہے۔ یہ زبردست حسّی کیفیت اور زبردست باطنی پیمان کا انتہائی خوبصورت اور لطیف تجربہ ہے، خالص توانائی ہے، کائنات اسی توانائی کا کرشمہ ہے۔
صوفیوں کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مذہب کی داخلیت اور داخلی فضا کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا ہے، دل کو روحانی آرزوؤں کا مرکز بنایا ہے۔ تصوف نے ’وقت‘ یا ’ٹائم‘ کی پُرسراریت کو بھی بہت اہم تصور کیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ ’ماضی، حقیقت نہیں ہے اور مستقبل بھی نہیں ہے، ’حال، ہی حقیقت ہے۔ ماضی گزر چکا ہے مستقبل آیا نہیں ہے لہٰذ ا ’حال‘ ہی اہم ہے، یہی ’وقت‘ ہے ’حال‘ ہی کے لمحے ’وقت‘ ہیں۔ ہم ماضی کو واپس نہیں لاسکتے۔ ماضی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ مستقبل کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں۔
مسلمان مفکروں اور صوفیوں نے ’وقت‘ یا ’ٹائم‘ کے تعلق سے کئی نظریے پیش کئے ہیں۔ عرب مفکروں نے ’’دہر‘‘ (وقت)کا تصور پیش کیا، دن اور رات، قدر اور تقدیر کے تصورات ’دہر‘ سے وابستہ رہے۔ ’دہر‘ کی تبدیلی کو فلسفیانہ گفتگو کا موضوع بنایا۔
قبائلی عرب ذہن اور پرانی عربی شاعری میں ’دہر‘ اور ’تقدیر‘ کا مفہوم کم و بیش ایک ہی تھا۔ اسلامی مفکروں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ موجودہ زندگی (حال)ہی اہم ہے، ہم جیتے اور مرتے ہیں تو وقت (دہر) کی وجہ سے، قبائلی عرب ذہن نے اُس ’وقت‘ کا تصور نہیں کیا تھا جو موت کے بعد کا وقت ہے۔ قرآن حکیم نے ا یآم ُاللہ کی بات کی۔ حضرت موسیٰؑ سے کہا گیا اپنی قوم کو ’’پرچھائیوں ‘‘ سے باہر نکال کر روشنی میں لے آؤ اور انہیں اللہ کے ’’وقت‘‘ کی یاد دلاؤ۔ دنیا کے خاتمے پر وہ ’دن، بھی آئے گا جب اللہ انصاف کرے گا۔ پلک جھپکتے(لمحہ البصر)ہی اللہ کا حکم جاری ہو گا۔ حدیث قدسی ہے کہ وقت کو برا نہ کہو کہ وقت خدا ہے۔ اللہ ہی وقت ہے،۔ !حضرت ابن العربی ؒ نے اللہ کو ’وقت‘ (دہر)کہا ہے، ’دہر، زماں، زردان، یہ سب الفاظ وقت کو سمجھنے کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ’وقت‘ کا داخلی تصور صوفیوں کو عزیز رہتا ہے۔ ’دن، ’رات، ’لمحہ، ’وقفہ، سب باطن میں ہیں، تاریکی اور روشنی کے تصورات صوفیوں کے بنیادی تصورات ہیں۔ فارسی صوفی شعراء کے کلام میں ’روشنی، اور ’تاریکی‘ اور ’کرامات’، ’نغمہ’، ’رقص‘ اور ’موسیقی‘ اور ’وَجد‘ کی کیفیت وغیرہ کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو ’وقت‘ کا ایک انتہائی خوبصورت جمالیاتی رومانی تصور سامنے آئے گا۔ صوفیوں کے رقص نے فارسی تصوف کو ’وقت‘ کی وہ زبان بخشی ہے کہ جسے ’’جسم کی بھاشا ‘‘ (Body Language)کہ سکتے ہیں۔ ’وجد، اور’سماع، میں ’وقت‘ کے ’کلاک ٹائم، کا تصور ہی پگھل جاتا ہے۔ تصوف میں ’الوہی وقت‘ (Divine Time) اور ’الوہی مکان‘(Divine Space)کے تصورات جمالیاتی رومانی رس سے لبریز ہیں۔
ابن خلدونؔ نے وقت، زندگی اور تاریخ کا ایک عمدہ تصور پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ وقت کے اندر ایک مسلسل اجتماعی تحریک ہے۔ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، تاریخ وقت پر اثر انداز ہوتی ہے اور تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ ایک تخلیقی اجتماعی تحریک ہے۔ یہ ایسی تحریک نہیں کہ جس کے عمل کے مختلف اوقات پہلے سے مقرر ہوں۔ ابن خلدو ن ما بعد الطبعیاتی تصورِ وقت کو پسند نہیں کرتے تھے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں :
ہرزماں نو صورتے و نو جمال تاز نو دیدن فرد سیر وملال
من ہمی بینم جہاں را پُر نعیم آبہا از چشمہا جوشاں مقیم
بانگِ آبش می رسد در گوش من مست می گرددضمیر وہوش من
شاخہارقصاں شدہ چوں تائباں بَرگہا کف زن مثالِ مطرباں
برق آئینہ اِست لامعِ از غد گرنماید آئینہ تاچوں بُوَد
(مثنو ی مولانا روم دفتر چہارم)
یعنی ہر وقت نئی صورت اور نیا حسن ہے، نئے مشاہدے سے غم زائل ہو جاتا ہے۔ دنیا کو نعمتوں سے بھرا دیکھتا ہوں، چشموں سے پانی ہمیشہ جوش مارتا ہے۔ میرے کان میں پانی کی آواز پہنچتی ہے، میرا دل اور میرے حواس مست ہو جاتے ہیں۔ شاخیں صوفیوں کی طرح رقص کر رہی ہیں پتّے گویوں کی طرح تالیاں بجا رہے ہیں۔ آئینہ کی چمک نمدے میں ہے اگر آئینہ نظر آ جائے تو کیا ہو گا۔ !
مولانا رومیؔ کے جمالیاتی وژن میں وقت، کا جمال یہ ہے کہ، وہ متحرک ہے۔ اس کے ہر تحرک سے نئی صورتیں جنم لے رہی ہیں اور اس طرح نئے حسن کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ایک لمحہ نئی جمالیاتی صورت کی تخلیق ہو رہی ہے، ان خوبصورت صورتوں کو دیکھتے رہئے غم زائل ہو جائے گا۔ یہ وقت ہی کا تجربہ ہے کہ دنیا طرح طرح کی نعمتوں سے بھرتی جا رہی ہے اور چشموں کے پانی میں ہلچل رہتی ہے۔ اس جوش اور ہلچل کا آہنگ کانوں تک پہنچتا ہے تو بڑی جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا پورا وجود مست اور دیوانہ ہو جاتا ہے۔ شاخوں پر نظر پڑتی ہے تو وہ صوفیوں کی طرح رقص کرتی نظر آتی ہیں، پتوں پر نگاہ جاتی ہے تو لگتا ہے جیسے وہ گانے والوں کی طرح تالیاں بجا رہے ہیں۔ یہ سب اس وقت کا کرشمہ ہے جو اللہ کی دین ہے۔، ’وقت‘ کا تعلق اللہ سے ہے یعنی بنیادی توانائی یا انرجی سے ہے۔ جب اس طرح ہر لمحہ دنیا میں نیا حسن جنم لے رہا ہے، نئی حسین صورتیں جنم لے رہی ہیں تو جانے اس وقت یا اس لمحے کیا ہو گا جب جلوۂ الٰہی سامنے ہو گا، مولانا رومی کی جمالیات میں وقت کے متحرک جمالیاتی تصور کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
مولانا رومی اچھی طرح محسوس کرتے ہیں کہ و قت ہر لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، باطن کا حال کوئی کسی کو بتا تو نہیں سکتاہاں یہ کہ سکتا ہوں کہ بہت سے تلخ لمحے باطن میں شیریں ہو جاتے ہیں، عالم کے لاکھوں احوال غیب کی جانب چلے جاتے ہیں، ہر روز کا حال کل کی مانند نہیں ہوتا، ایک حال کے بعد دوسرا حال آ جاتا ہے، جس طرح نہر کا پانی گزرتا رہتا ہے اور اس کی جگہ نیا پانی لے لیتا ہے اسی طرح ایک ’حال، کی جگہ دوسرا حال نمودار ہو جاتا ہے۔ ہر روز، ہر لمحے کی خوشی دوسری قسم کی ہوتی ہے۔ ہر دن کی فکر مختلف ہوتی ہے۔
صد ہزار احولِ عالم ایں چنیں باز سُوی غیب رفتند اے امیں
حالِ ہر روزے بہ دی مانند نے ہمچو جو اندر روشِ کش بندنے
شادیٔ ہر روز از نوعِ دگر فکرتِ ہر روز را دیگر اثر
( مثنوی مولانا روم دفتر پنجم )
باطن میں خوبصورت وقت اور لمحوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا رومیؔ نے فرمایا ہے یہ جسم مہمان خانہ ہے۔ ہر صبح ایک نیا مہمان آ جاتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ آتا ہے۔ خوشی اور غم کا نیا مہمان، پھر میزبان بنا رہنا چاہئے، دروازہ کھلا رکھنا چاہئے، نئے لمحوں کے انتظار میں رہنا چاہئے، یہ وقت، یہ لمحے غیب سے آتے ہیں اور تیرے دل میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں خوش رکھنا چاہئے۔ مولانا رومیؔ باطن میں خوبصورت لمحوں کے بہاؤ اور نئے لمحوں کی آمد پر یقین رکھتے ہیں۔ وقت اور لمحے کو مہمان کہا ہے یعنی خوشی مسرت کی آمد۔ ہر لمحے کی قدر کرو، ہر لمحے کا استقبال کرو اس لئے کہ وہ غیب سے آتے ہیں اللہ کی جانب سے آتے ہیں وہ عظیم تر توانائی کا بہاؤ ہیں، وہ عظیم تر توانائی ہیں اللہ کی رحمتیں ہیں۔ ہر لمحے میں عظیم تر توانائی موجود ہے اللہ موجود ہے۔
ہست مہماں خانہ ایں تن ایجواں ہر صباحے ضیف نو آید دواں
نے غلط گفتم کہ آید دمبدم ضیف تازہ فکرتِ شادی وغم
میزبانِ تازہ رَوسُو اے خلیل در مبند ومنتظر شودر سَبیل
ہر چہ آید از جہانِ غیب وئی در ددلت ضیف اَورا دار خوشی
حضرت رابعہ بصری کے دور میں ایک بہت بزرگ صوفی تھے حضرت حسنؒ۔ وہ ہر نماز کے بعد بے اختیار روتے، آنکھیں بند رہتیں، دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے رہتے، روتے جاتے چیخ چیخ کر روتے، زور زور سے اللہ کو پکارتے، کہتے ’’ اے اللہ دروازہ کھول دے اور مجھے اندر آنے دے‘‘ ۔
حضرت رابعہ برداشت نہ کر سکیں۔ حضرت حسنؒکے دروازے کے پاس کھڑی ہو کر بولیں ’’اے حسن تم یہ سب کب تک کرتے رہو گے، جانے میں کب سے دیکھ سن رہی ہوں، تم ایک احمق کی طرح چیختے رہتے ہو، ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، اِدھرسے گزرتے ہوئے میں کتنی بار تمھاری چیخ اور تمھاری پکار سن چکی ہوں۔ اب برداشت نہیں ہوتا، میں یہ کہنے کھڑی ہو گئی حسن دروازہ کھلا ہوا ہے صرف اپنی آنکھیں کھول دو بس‘‘ !
وہ نگہ، جو آنکھ کے اندر ہوتی ہے وہی اہم ہے، وہی سچائی دیکھتی اور پاتی ہے، صوفیوں نے اس نگہ کو بہت اہمیت دی ہے۔ مولانا رومی نے کہا ہے اے اللہ میں نے تجھے کہاں کہاں تلاش کیا، مسجد، گرجا گھر، مندر ہر جگہ تمھاری تلاش کی تو کہیں نہیں ملا، ملا تو میرے دل میں !اللہ کو اپنے دل میں پا لینے کے بعد وقت کا میکانیکی تصور کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ الوہی لمحوں اور الوہی وقت کا تحرک اوراس کا حسن و جمال ہی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ مولانا رومی کہنے لگتے ہیں ؎دمبدم می بیں بقا اندر فنا، لمحہ لمحہ فنا میں بقا دیکھ!دل ہی مرکزِ نور ہے، اللہ ہی نور ہے۔ سلسلہ روز و شب اسی کا کرشمہ ہے، عشق الٰہی ہی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ وقت ہے، وقت تخلیقی توانائی ہے، اس کا سلسلہ تخلیقی توانائی کے خوبصورت مظاہر کا سلسلہ ہے۔ انسان کہ جس کے دل میں اللہ ہے۔ وہ وقت کے ساتھ مل کر تخلیق کے پورے عمل میں صرف حصہ ہی نہیں لیتا بلکہ موزونیت یا ’ہارمونی‘ (Harmony)پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے ’منطق الطیر، میں حضرت فرید الدین عطارؒ نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ دل عشق و محبت کی خوبصورت وادی ہے کہ جس میں اللہ ہے اور انسان ہے، انسان کی پیاس بجھتی ہی نہیں۔ اسی پیاس سے ا س کی تخلیقی قوت بیدار ہوتی ہے، سچائی اس کے سامنے چراغ کی مانند روشن ہو جاتی ہے۔ یہ چراغ ہی ان کا باطنی تجربہ ہوتا ہے۔ اللہ پیاس بجھاتا بھی ہے اورپیاس بڑھاتا بھی ہے۔ پیاس کے بڑھنے کی وجہ سے انسان الوہی لمحات اور وقت کے مظاہرسے آشنا ہوتا رہتا ہے۔ مولانا رومیؔ نے اس سلسلے میں بڑی خوبصورت بات کہی ہے، کہتے ہیں ’’تم اُن جہتوں کی دکان بند کرو کہ جن جہتوں سے تم آئے ہو پھر نئی دکان کھولو‘‘ عشق ہی کی وجہ سے انسان کی باطنی حِس بیدار ہوتی ہے جو جسمانی حِس سے مختلف ہوتی ہے، جسمانی حِس تانبا ہے اور باطنی حِس سونا!باطنی حِس ہی تخلیقی وقت میں جذب ہو کر اسی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ ’وقت‘ اور ’لمحوں‘ کے تعلق سے مولانا رُومی دوسرے کئی صوفیوں کے اس تصور کو نہیں مانتے کہ ماضی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ماضی گزر چکا ہے لہٰذا ا س سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مولانا رومیؔ کا جمالیاتی رومانی ذہن انسان کے ماضی کو ٹٹولنے کے لئے ماضی کے اندھیرے میں اس طرح اُترتا ہے:
ابتداء میں انسان جماد تھا جماد سے نبات بنا :
آمدہ اوّل بہ اقلیمِ جماد وزجمادی در نباتی دفنا
سالہاسال نبات رہا ا سے نباتی زندگی یاد نہیں ہے
سالہا اندر نباتی عمر کرد وزنباتی یاد ناؤ رد از نبرد
نبات سے جب حیوان بنا نباتی حال اسے معلوم نہیں ہے :۔
وزنباتی چوں بہ حیوانی فتاد نادرش حالِ نباتی ہیچ یاد
ہاں سوائے اس رجحان کے جو نباتات کی جانب ہے خصوصاً موسمِ بہار میں ضمیران کے نکلنے کے وقت:
جُز ہماں میلے کے دارد سوئے ماں خاصہ در وقتِ بہار ضمیراں
جس طرح بچوں کا ماؤں کی طرف میلان ہوتا ہے، شیر خوارگی کے زمانے میں اپنے میلان کا راز نہیں جانتا۔
ہمچومیل کردگاں بامادراں سِرّمیلِ خود نہ داند درمیاں
پھر حیوان سے انسان کی جانب خدا لے جاتا ہے کہ جو اسے جانتا ہے
باز از حیواں سو اِسانیش میکشد اک ذائقے کہ دانیش
اس طرح وہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف چلتا رہا یہاں تک کہ وہ عاقل و دانا ہو گیا:
ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت تاشد اکنوں عاقل ودانا وزفت
ان کے اشعار کے ساتھ یہ دو اشعار بھی ذہن میں رکھئے:
اوّل ہر آدمی خود صورت است بعد ازاں جاں کو جمال سیرت ست
اوّل ہر میوہ جزصورت کے ست بعد ازاں لذّت کہ معنی ویست
یعنی انسان کی ابتداء خود صورت ہے اس کے بعد جان ہے جو باطن کا جمال ہے۔ ہر میوے کی ابتداء سوائے صورت کے کیا ہے اسی کے بعد لذت ہے جو معنیٰ ہیں۔
ان خیالات کا اظہار دوسرے انداز سے اِس طرح کیا ہے، یہاں انسان کے تعلق سے ماضی کا شعور وہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ صدیوں صدیوں سے سفر کرتا ہوا انسان وقت کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور پھر تمام اشیاء و عناصر کی طرح فنا ہو جاتا ہے۔
از جمادی مردُم ونامی شدم وزنما مردُم بحیواں سرزدم
مردُم از حیوانی وآدم شدم پس چہ ترسم کے زمَردن کم شدم
حملۂ دیگر بمیرم از بشر تا بر ارم از ملائک بال وپر
وز مَلک ہم بایدم جستن زجو کُل شئیِِ ھَالِکَ ا ا لّدوَجھَہ،
بارِ دیگر از مَلک قرباں شوم آنچہ اندر وہم ناید آں شوَم
پس عدم گردم چوں ارغنون گویدم کہ اِنّا َ الَیہ راجعون
مرگ واں اک کا تّفاق امت ست کابِ حیوانی نہاں در ظلمت ست
آبِ کوزہ چوں در آبِ جوشود محو گردد دردمے وچوں اُ وشود
وصفِ او فانی شود ذاتش بقا زیں سپس نے کم سود نے بد لقا
(مثنوی مولانا روم دفتر سوم )
میں ’ جمادیت‘ سے مرا اور نباتی بن گیا ’نباتیت‘ سے مرا حیوان بن گیا۔ حیوانیت سے مرا تو آدمی بن گیا۔ تو میں کیا ڈروں میں مرنے سے کب گھٹا ہے ؟دوسری مرتبہ میں بشریت سے فنا ہو جاؤں گا تاکہ فرشتوں میں ہو کر بال و پر نکالوں۔ فرشتے سے بھی مجھے نہر کو کودنا چاہئے، کیوں کہ بجز اس کی ذات کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے، دوسری مرتبہ ملکیت سے میں قربان ہو جاؤں گا۔ وہ جو عقل میں نہیں آسکتاوہ ہو جاؤں گا۔ پھر عدم بن جاؤں گا، عدم ارغنون کی طرح مجھ سے کہتا ہے کہ ہم سب اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ موت کو سمجھ لے کیونکہ تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ آبِ حیات تاریکی میں پوشیدہ ہے۔
پیالے کا پانی جب نہر کے پانی میں مل جاتا ہے اس میں فنا ہو جاتا ہے اور اس جیسا ہو جاتا ہے اُس کا وصف فا نی اور اس کا ذات باقی بن جاتی ہے اس کے بعد وہ نہ گھٹتا ہے نہ بدصورت بنتا ہے۔
’وقت‘ کے تعلق سے یہاں تین باتیں اہم ہیں :
(۱)ارتقاء کی بنیاد مادّیت ہے۔ پہلے آگ، پانی ہوا اور بادل پھر نئے وجود کا ظہور پودوں کی زندگی۔ پھر وقت کے لمبے سفر کے بعد جانوروں کی زندگی، اور پھر وقت کے ایک طویل سفر کے بعد انسان کا ظہور۔
(۲)ماضی سے حال تک آئے ہیں پھر مستقبل میں فنا ہو جائیں گے۔
(۳)مولانا رُومی کے وقت کا جمالیا تی رُومانی تصور یہ ہے کہ تخلیقی ارتقاء رکے گا نہیں، انسان کے وجود کے بعد بھی منزلیں آئیں گی، انسان کے ارتقاء کے اور انگنت امکانات پر یہ جمالیاتی رُومانی ذہن یقین رکھتا ہے۔
مولانا کا رُومانی ذہن ماضی کے حسن کو بھی دیکھتا ہے ’حال‘ کے جمال پر بھی نظر رکھتا ہے اور مستقبل کے ایک نہیں انگنت امکانات کو محسوس کرتا ہے، مستقبل میں تحیرات کی جانے کتنی زندگیاں ہوں گی۔
مولانا رومی کا تخلیقی ذہن خوبصورت تخلیقی زندگی کے ایک ایسے طویل سِلسلے کی جانب اشارہ کرتا ہے جو تحیرات کے دھندلکوں کے اندر تک چلا گیا ہے جانے کہاں۔ اس طویل سلسلے کو مستقبل میں صرف ایک بیدار رومانی ذہن ہی محسوس کرسکتا ہے۔ مولاناکے جما لیاتی رُومانی مزاج کی پہچان وہاں بھی ہوتی ہے جہاں وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان موسمِ بہار کی جانب اس لئے بھی لپکتا ہے کہ وہ’آدمی‘ ہونے سے پہلے نباتاتی منزل سے گزر چکا ہے، اس کے اجتماعی لا شعور میں یہ بات کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح بچوں کا ماؤں کی جانب میلان ہوتا ہے اسی طرح انسان کا نباتات کی جانب رجحان ہے، اپنے میلان کا یہ راز وہ نہیں جانتا!مولانا رُومی کے جمالیاتی رُومانی تصور کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح وہ زندگی کے سلسلے کو بھی اپنی رُومانیت سے دلکشی عطا کر دیتے ہیں، موت کا بھی اسی طر ح ایک طویل سلسلہ ہے کہ جس طرح زندگی کا سلسلہ ہے۔
شاہِ جاں مر جسمِ را ویراں کند بعد ویرانیش آباداں کند
یہ تصور زبردست جمالیاتی رُومانی ذہن کی دین ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ زندگی اور موت کا یہ ڈراما جو ’وقت‘ کے اسٹیج پر ہوتا ہے وہ صرف پیغمبروں اور بڑے صوفیوں سنت سادھوؤں کے لئے نہیں بلکہ ہر شخص کے لئے ہے۔ مولانا رُومی ڈارون کی طرح ارتقاء کو میکانیکی تصور نہیں کرتے بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ارتقاء کا انحصار انسان کی خواہش اور تمنا پر ہے، انسان یہ چاہے کہ وہ زندگی کی بلند سطح پر پہنچ جائے تو اسے یقیناً کامیابی ہو گی، ظاہر ہے ’ڈارون ازم، یا سائنسی فکر و نظر میں خواہش اور تمنّا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسی خواہش یا ایسی تمنّا کے لئے انسان خود میں صلاحیت بھی پیدا کرے۔ اس میں اعلیٰ صفات بھی ہوں۔ یہ سچائی واضح ہو جاتی ہے کہ سائنس یا ڈارون ازم کے مطالعے کا دائرہ صرف ’’ظاہری‘‘ صورت کے اندر ہے، یہاں باطنی اور روحانی دائرہ ہے جو لا محدود ہے۔ ڈارون ’انسان‘ تک رُک جاتا ہے۔ مولانا رُومی کا جمالیاتی رُومانی تصور انہیں اور بھی آگے لے جاتا ہے۔، اِس ’وقت‘ یا ’ٹائم، نے اور آگے بہت آگے زندگی کے انگنت امکانات کی طرف، تحیرات کے گہرے دھندلکوں کے اندر، مولانا رُومی کے نزدیک تخلیق کا جو سلسلہ جاری ہے اس سے پھلاؤ پیدا ہوتا رہے گا۔ وسعت پیدا ہوتی رہے گی اور وجود میں تنظیم پیدا ہوتی رہے گی، ’وجود، کے منظم ہونے کا ا یک سلسلہ قائم رہے گا۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل اور اس کے انگنت امکانات پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا رُومی کا جمالیاتی رُومانی ذہن بڑی شدت سے متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے عشق کو اہمیت دی ہے اور یہ کہا ہے کہ وقت کا یہ خوبصورت سفر عشق ہی سے طے ہو گا۔ عش جتنا گہرا ہو گا ا تنا ہی وقت پر اثر انداز ہو گا۔ یہ کہتے ہوئے کہ موت انسان کو آبِ حیات تک لے جاتی ہے جو تاریکی میں پوشیدہ ہے۔
مرگ داں آں کا تفاقِ اُمت ست کاب حیوانی نہاں در ظلمت ست
اور پیالے کا پانی جب نہر کے پانی میں مل جاتا ہے تو فنا ہو جاتا ہے اُس جیسا ہو جاتا ہے:
آبِ کوَزہ چوں در آبِ جوُ شود محوگردد درد مے وچوں اُو شود
وہ کہتے ہیں کہ وقت عشق کی گرفت میں ہے۔ عشق کا سفر جاری رہتا ہے تو وقت کا سفر بھی جاری رہتا ہے، عشق ہی وقت کو مستقبل کے انگنت امکانات سے قریب تر کرتا رہتا ہے۔ پستی سے بلندی پر جانے کا سلسلہ قائم رہتا ہے :
برفرازِعرش پر آں گشت شاد
خوش ہو کر آسمان کی بلندی پر اڑ گیا!
کز جہانِ زندہ اوّل آمدیم باز از پستی سُوئے با لا شدیم
ہم پہلے زندہ جہاں سے آئے پھر پستی سے بلندی کی جانب گئے۔
مولانا رُومی نے قرآن پاک کا گہرا مطالعہ کیا تھا، ’مثنوی مولانا روم، میں قرآن پاک کی کئی آیتوں کی تشریح ملتی ہے نیز قرآن کے حوالے سے باتیں ملتی ہیں۔ ’وقت‘ کے پیش نظر قرآن پاک کے اس ارشاد پر مولانا کی نظر گہری ہے:
’’اس نے آسمان اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے، اُس نے رات اور دن کے اختلاف اور ظہور کا ایسا انتظام کر دیا کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کر رکھا ہے سب (اپنی اپنی جگہ)اپنے مقررہ وقت تک کے لئے گردش کر رہے ہیں ‘‘ (۳۹:۵)
’وقت‘ کے تعلق سے قرآن حکیم میں یہ ارشاد بھی انتہائی اہم ہے:
’’وہ(کارفرمائے قدرت)جس نے سورج کو درخشندہ اور چاند کو روشن بنایا اور پھر چاند کی گردش کے لئے منزلیں ٹھہرا دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور اوقات کا حساب معلوم کر لو، بلاشبہ اللہ نے یہ سب کو پیدا نہیں کیا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ۔ وہ ان لوگوں کے لئے جو جاننے والے ہیں (علم و معرفت کی)نشانیاں الگ الگ کر کے واضح کر دیتا ہے ‘‘ (۱۰:۵)
’وقت‘ کے پیش نظر فارسی شاعری میں اور خصوصاً مولانا رُو می کے کلام میں ’رات، اور’دن‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ ’رات، اور ’دن‘ (رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا چلا آتا ہے )نے ماضی اور حال دونوں کی اہمیت کا احساس دلایا ہے، ’فنا، اور موت کے تقررات نے مستقبل میں وقت کے سفر کا بہت خوبصورت رومانی جمالیاتی احساس بخشا ہے۔ ظاہر ہے کوئی ماضی کو تبدیل نہیں کرسکتالیکن مولانا رُومی کے مطابق وقت کے سفر میں ماضی علاحدہ نہیں ہو سکتا، ماضی وقت کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور حال میں عمل بھی کرتا رہتا ہے۔
علم کی تلاش بنیادی طور پر عبادت کی ایک صورت ہے، مولانا رُومی نے علم کی تلاش کے لئے ماضی کا جو سفر کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ اللہ’فرد، کائنات کائنات، زندگی، موت، اس سے آگے کی زندگی، اقدارِ حیات، نفسیاتِ انسانی، جسم اور روح، وقت زمانہ، وغیرہ کو سمجھانے کے لئے انہوں نے ماضی کے واقعات اور ماضی کے قصوں کہانیوں کا سہارا لیا ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث کے علاوہ پیغمبروں کے قصوں، بزرگوں کی زندگی کے واقعات اور جانے کتنی تمثیلوں کی مدد لی ہے۔ ماضی کے واقعات اور اسطوروقصص کی سچائیوں کو سمجھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ تاریخ اور قیاسی، دونوں میں تاریکی اور روشنی کی علامتوں کو اہم تصور کیا ہے۔ ماضی کے قدیم حسّی پیکرکلامِ رُومی میں بڑے متحرک اور روشن آرچ ٹائپس(Archetypes) بن گئے۔ ’وقت‘ کے موجود لمحوں میں ماضی جذب ہو گیا ہے۔ انہوں نے بہت سے ملکوں اور علاقوں کی کہانیوں اور حکایتوں اور لوک قصوں کی مدد لی ہے۔ انہیں اپنی تخلیقی فکر و نظر سے ایک بار پھر با معنی بنا دیا ہے، بنیادی مقصد علم کی تلاش ہے تاکہ وہ علم دوسروں کو دے سکیں۔ وہ ’’مولوی‘‘ ہیں یعنی معلم ہیں۔ معلم کے لئے علم کی ہر تلاش ایک عبادت ہوتی ہے۔ ’حکایت بِقال و طوطی، داستاںِ آں بادشاہِ جہور، ’سوال کردنِ خلیفہ بغداد از لیلیٰ، ’حکایتِ بادشاہ جمہور دیگر، ’قصّہ مکرِ خرگوش باشیر، ’قصہّ ہد ہد سلیمانؑ، ’قصّہ آدم علیہ السلام، ’تفسیر قول شیخ فرید الدین ؒ، ’تعظیم ساحراں مرموسیٰ را، ’شنیدنِ طوطی حرکاتِ طوطیاں، ’حکایتِ ماجرائے نجومی، ’تمہید کردنِ نوح ؑ، ’آمدن آشنائے از سفر بدیدن حضرت یوسف علیہ السلام، ’افتادن رکابدار در پائے امیر المومنینؓ ، ’قصّہ اہل سبا، ’دعویٰ کردنِ فرعون الوہیت را، ’قصّہ ہلال، ’’معجزہ ہود پیغمبر‘‘ ’’قصّہ ابراہیم ادہمؒ‘‘ ’’دعوتِ سلیمان ؑ بلقیس را‘‘ اور جانے ایسے کتنے موضوعات ہیں جو ماضی سے آئے ہیں ’حال، کے ساتھ جذب ہوئے ہیں ان کے معنی خیزی سے ’حال‘ بھی روشن ہوا ہے۔ یہ معنی کا سمندر ہے کہ جس کا احساس خود مولانا رُومی کو ہے۔
گر شُدی عطشانِ بحر معنوی فرجہ کُن در جزیرہ مثنوی
اگر تو معنوی سمندر کا پیاسا ہے تومثنوی کے جزیرے کی سیر کر!
کلامِ رُومی میں ’دل، ’اللہ‘ ’عشق‘ اور ’وقت‘ کی جمالیاتی وحدت(Aesthetic unity)غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ ’وقت‘ کا سفر اُس عشق کا سفر ہے جو فرد اور اللہ کے درمیان ہے۔ وقت تحیرات کی ُ پراسراریت کا احساس ہر دم دلاتا رہتا ہے۔ اس عشق کی اہمیت کا احساس اس طرح بھی دلاتے ہیں :
عشق زندہ در رواں ودربصر ہر دمے باشد زغُنچہ تازہ تر
عشقِ آں زندہ گزیں کُو باقی است وز شرابِ جانفزایت ساقی است
اللہ کا عشق روح اور آنکھ میں ہر لمحہ غنچے سے بھی زیادہ تر وتازہ رہتا ہے۔ ظاہر اور باطن دونوں میں اس کی خوشبو پھیلی ہوتی ہے۔ اسی کا عشق اختیار کرنا چاہئے جو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جانفزا شراب سے ہمیں تمہیں سیراب کرنے والا ہے۔ اللہ نے جو گوہر دریاؤں اور آسمانوں کو نہ دیا ہے وہ قطرۂ دل کو عطا کر دیا۔
قطرۂ دل را یکے گوہر فتار کاں بدر یا ئے وگردوں ہا ندار
آسمانوں کو ظاہری بلندی حاصل ہے۔ عشق کی وجہ سے انسان کو معنوی بلندی حاصل ہو جاتی ہے۔
صورتِ رفعت بود افلاک را معنی رفعت روانِ پاک را
جسم کی بلندی ظاہری ہے معنی کے سامنے جسم محض ایک نام ہے۔
صورتِ رفعت برائے جسمہاست جسمہا در پیش معنی اسمہاست
عشق الہٰی میں انسان زندگی اور موت سے کہیں آگے چلا جاتا ہے، اسے نغمہ سنائی دیتا ہے۔ یہ اللہ کا نغمہ نہیں ہے خود اللہ ہے، نغمہ سنتے سنتے انسان خود نغمہ بن جاتا ہے۔ اللہ نغمہ ہے انسان نغمہ ہے دونوں مل کر ایک نغمہ بن جاتے ہیں۔ اس نغمے کی دُھن پر کوئی بھی گانے والا نہیں ہوتا۔ اِس نغمے کو سننے والا بھی کوئی بھی نہیں ہوتا۔ !
٭٭٭
علقمہ شبلی
89/5رپن اسٹریٹ۔ کولکاتا۔ ۷۰۰۰۱۶
معیارِ دانش
شعر و حکمت کے ہیں پندار شکیل الرحمٰن
علم ودانش کے ہیں معیار شکیل الرحمٰن
نقشِ پا ان کے ہیں قندیلِ رہِ فکر و فن
اہلِ دانش کے ہیں سالار شکیل الرحمٰن
محفلِ اہلِ نظر کی ہیں چراغِ روشن
نور پاش ایسے ہیں فنکار شکیل الرحمٰن
نت نئے پھول قلم ان کا کھلاتا ہے سدا
کہتے ہیں رونقِ گل زار شکیل الرحمٰن
شاعری ہو کہ ہو فکشن کہ ہو تنقید کا فن
ہر جگہ صاحبِ دستار شکیل الرحمٰن
حسنِ فن جن کی نگاہوں میں سدا رہتا ہے
ایسے ہیں عالمِ بیدار شکیل الرحمٰن
وہ ہیں خورشید، چمکتے ہیں سپہر فن پر
راہِ تیرہ میں ضیا بار شکیل الرحمٰن
ہر گھڑی سامنے رہتا ہے جمالی پہلو
حسنِ فن کے ہیں نگہدار شکیل الرحمٰن
کرتے رہتے ہیں چمن زارِ ادب کو شاداب
بادۂ شوق سے سرشار شکیل الرحمٰن
حرفِ حق وردِ زباں جن کے رہا کرتا ہے
ہیں وہی صاحبِ کردار شکیل الرحمٰن
پھول کھلتے ہیں بہ ہر گام قلم سے جن کے
دیکھئے ہیں وہ قلم کار شکیل الرحمٰن
خاموشی وصف ہے ان کا مگر آئے جب وقت
ہیں تو پھر غازی گفتار، شکیل الرحمٰن
گیسوئے علم، تری شانہ کشی کی خاطر
ہر گھڑی رہتے ہیں تیار شکیل الرحمٰن
ظلمتِ شب سے نہیں ہے کوئی ان کا رشتہ
صبحِ نو کے ہیں پرستار شکیل الرحمٰن
٭٭٭
’’ہندوستانی جمالیات‘‘
وشو ناتھ طاؤس
C-38,SecTor-39,Noida-201303
۱۶؍اکتوبر ۱۰۱۲ ء
ایک خط شکیل الرحمٰن کے نام
عزت مآب عالی جناب شکیل الرحمٰن صاحب!آداب
آپ کی نئی تصنیف ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ نظر نواز ہوئی۔ کرم فرمائی اور قدر افزائی کا شکریہ۔ ہنوز میں نے اس ضخیم کتاب پر سرسری نظر ڈالی ہے، ’’رنگولی‘‘ اور ’’ناگ راج‘‘ پر اس کے دو مکمل باب پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے، پوری کتاب کا مطالعہ کرنے، اس کی گہرائی تک پہنچنے اور پھر اس کا تجزیہ کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ اپنے علم کی کم مائیگی کے سبب میں کچھ لکھنے کا اہل نہیں پھر بھی حوصلہ کر کے اپنی حقیر رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔
پہلی نظر میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ کوئی الہامی یا آسمانی کتاب ہے جس کا ابھی ابھی نزول ہوا ہے یا پھر کسی رشی منی یا مہاتما نے ہمالیہ پربت کی کسی دور افتادہ گپھا میں برسوں ریاضت کرنے کے بعد اسے سپردِ قلم کیا ہے۔ ایک عمیق و دقیق موضوع پر اس قدر جامعیت کے ساتھ خامہ فرسائی کرنا علم و عرفان کی انتہا ہے اور یہ ایک انسان کے بس کی بات نہیں، حق تعالیٰ نے آپ کو غیبی قوت سے نوازا ہے کہ یہ عظیم کارنامہ منظرِ عام پر آیا ہے۔
میں نے طالب علمی کے زمانے میں اس موضوع پر کچھ مضامین پڑھے تھے لیکن وہ جمالیات وجنسیات کا ملغوبہ تھا۔ آپ نے اصل موضوع کی پاکیزگی اور طہارت کو عالمانہ انداز سے بحسن و خوبی برقرار رکھا ہے اور اسے جنسیات سے ملوث ہونے نہیں دیا۔ کنبے کے سبھی افراد بلا جھجک اس کے مطالعے سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سنسکرت کے توسط سے ہی قدیم بھارت کی رعنائیوں کو دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے مگر آپ نے ثابت کر دیا کہ اردو کے ذریعہ بھی اسے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ یقین ہوا کہ دنیا کے تمام علوم کو اردو میں بدرجہ احسن منتقل کیا جانا ممکن ہے۔ آپ نے جانے کہاں کہاں سے اصطلاحات ڈھونڈ کے لائے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں انگریزی و دیگر زبانوں کے متبادل اردو الفاظ تلاش کرنا اور پھر ان کا بر محل استعمال بڑا مشکل کام ہے لیکن آپ نے کوہِ بے ستون پر تیشۂ فرہاد چلا کر جوئے شیر نکالنے کا معجزہ کر دکھایا ہے۔ لاریب عروسِ باغِ حجر کے محل پر آپ کا حق ہے۔
آپ فرزندِ توحید ہیں، بت پرست ہو نہیں سکتے۔ سیفِ محمودی آپ کے ہاتھ میں نہیں کہ بت شکنی کریں، آپ صاحبِ قلم ہیں اس لئے بت شناس ہیں، میرا ایمان بتوں کی خدائی پر ہے اس لئے میں آپ کے شناخت کردہ بتوں کو متحرک دیکھ رہا ہوں۔ آپ کے قلمِ زریں کا یہ شاہکاراس قابل ہے کہ اسے برِ صغیر کی سبھی اردو یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر پڑھایا جائے۔ نئی عمر کی نئی فصل کے لئے یہ کتاب تلاشِ حق اور تلاشِ علم کا منبع ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے ذریعے وطنِ عزیز کے قدیم آرٹ اور پارینہ تہذیب کی پہچان عین ممکن ہے۔
آپ کے علم کاکینوس وسیع ہے کیونکہ آپ نے کئی موضوعات پر بہت کچھ تحریر فرما یا ہے۔ ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ کی تابندگی و درخشندگی کو دیکھ کر علم و ادب کی دنیا کے کئی اسفند یار، افراسیاب اور بدر چمہر چندھیا جائیں گے۔ آپ نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے جس کا اجر رب العزّت ضرور دے گا۔
اِن چند سطوں کو ایک فقیر کا نذرانہ سمجھ کر شرفِ قبولیت بخشیں۔
خاکسار
وشوا ناتھ طاؤس
محترمی پروفیسر شکیل الرحمٰن صاحب !تسلیمات
آپ کی گراں مایہ تخلیق ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ (حصہ اول و دوم)پڑھ کر محظوظ ہوا۔ آپ نے موضوع کو اپنے اندر رچا بسا کر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ زبان و بیان کے حسن نے جمالیات کی ایک الگ دنیا خلق کی ہے، طرزِ نگارش نے موضوع کے وقار کو بلند کیا ہے۔
میرا خیال تھا ہندوستانی جمالیات کے بارے میں میں بہت کچھ جانتا ہوں لیکن آپ کی اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوا کہ مجھے ابھی بہت کچھ جاننا ہے۔ جمالیات کے بنیادی نکات پر آپ نے فصیح و بلیغ اشارے کئے ہیں جو انتہائی معتبر ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے میں نے اس آہنگ کو محسوس کیا ہے جسے ہندوستانیت کہتے ہیں اور جو ہمارا سب سے بڑا ورثہ ہے اسے ہزاروں سالوں کی انسانی سوچ نے ایک مسلسل ادبی، تہذیب اور تمدنی ارتقا سے حاصل کیا ہے۔ وید، اپ نشد، رامائن، مہابھارت، یوگ وششٹ، جین، بدھ اس کے مختلف مراحل ہیں، ایک بڑے سمندر کی لہروں میں جو موسیقانہ تنوع ہے وہ انسانی تاریخ و تمدن کا زیریں تسلسل ہے جس کی وجہ سے یہ برِ صغیر ایک سلسلے میں بندھا ہوا ہے۔
ایک اور بات جو آپ کی اس تخلیق سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی جمالیات کے ارتقا میں کشمیری مفکرین، ادیبوں اور شاعروں کی حصے داری انتہائی اہم ہے۔ آنند وردھن، ابھینو گپت، کلہن، بھالہا، وامن، اُدبھٹ اور دوسرے کئی کشمیری عالموں نے ہندوستانی جمالیات کو ایسی گہرائی دی ہے جو آج بھی بے حد بر محل (Relevant)ہے۔ مغربی مفکرین بھی اس سے متاثر ہیں۔ میں آپ کو اس لا جواب تخلیق کے لئے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آپ کا خیر اندیش
وید راہی
اظہار خضر
پٹنہ
’’بارہ ماسے کی جمالیات‘‘ فکر و نظر کا ایک انوکھا تجربہ
شکیل الڑحمٰن اردو میں جمالیات کی تنقید کے نمائندہ ناقد ہیں۔ اس کام کے لئے وہ جمالیات کی نئی نئی شقیں دریافت کرتے رہتے ہیں اور موضوعات کے انتخاب میں اپنی جدت طرازی اور عمقِ مطالعہ کا لوہا بھی منواتے رہتے ہیں۔
اب کے انھوں نے بارہ ماسے کی جمالیات پر گفتگو کی ہے۔ ۶۰؍صفحات پر مشتمل یہ چھوٹی سی کتاب تخلیقی تنقید کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ دراصل شکیل الرحمٰن کی تحریریں تخلیقیت کے عناصر سے مملو نظر آتی ہیں۔ یہ تنقیدی طریقۂ کار ان کے تخلیقی ذہن کا مرہون ہے۔ متن کے بنیادی تخلیقی رجحانات کی بازیافت میں ان کا ذہن حد درجہ متحرک و فعال نظر آتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کی نثر کی تخلیقیت سنجیدہ اور ذہین قاری کے فکر و شعور کو برانگیخت کرتی رہتی ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب کی معنویت ان کے مطالعے کے Selective approachاور فکر انگیز تخلیقی نثر کی مرہون ہے۔
جناب جمیل جالبی ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ جلد اول میں بارہ ماسے کی فنی روایات اور اس کے آغاز و ارتقا پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’بارہ ماسہ خالص ہندوی چیز ہے۔ سنسکرت میں اس کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہ خیال کہ بارہ ماسہ ’’رت درشن‘‘ کی ایک رو بہ زوال ہیئت ہے، اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ’’رت درشن‘‘ میں چار رتوں کا بیان ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ’’بارہ ماسہ‘‘ میں ہر مہینے کا۔ پنجابی، ہریانی، برج، اودھی اور اردو میں اس کی روایت ملتی ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں بھی بارہ ماسہ ملتے ہیں۔ ’’بارہ ماسہ‘‘ کی ایک قدیم طرز خواجہ مسعود سعد سلمان کے دیوانِ فارسی میں ملتی ہے جو مروجۂ حال بارہ ماسہ کی اصل مانی جا سکتی ہے اور جسے وہ ’’غزلیاتِ شہوریہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بارہ فارسی مہینوں کے نام پر بارہ غزلیں لکھی گئی ہیں ‘‘ ۔
یہ اقتباس صرف اس مقصد سے پیش کیا گیا ہے کہ اردو اور ہندوستان کی دیگر زبانوں میں موجود و محفوظ اس قدیم اور Obsoleteصنفِ سخن کی روایت اور اس کی ادبی قدر و قیمت آپ کے پیش نظر رہے۔
بر صغیر کا قدیم کلاسیکی اور کسی حد تک زندہ ادبی روایت کا حامل تخلیقی ادب کا سرمایہ اگر آج بھی قابلِ توجہ اور دامن کشِ دل ہے تو صرف اس لئے کہ اس میں فرد، زندگی اور سماج کے حوالے سے فنکاروں کی تخلیقی وابستگی اور اپروچ کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ورنہ گل و بلبل کی داستان سرائی سے تو ہزاروں صفحات بھرے پڑے ہیں جو محض تفننِ طبع کے آئینہ دار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم وادب کے ان بزرگانِ سلف کے تخلیقی کارنامے آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ راہ ثابت ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ شکیل الرحمٰن کے پیشِ نظر بھی زیرِ تبصرہ کتاب کا تصنیفی مطمحِ نظر یہی رہا ہو گا۔ ورنہ آج کی اس ادبی صارفیت کے زمانے میں بارہ ماسے کے متن سے گزرنے کی فرصت اور دلچسپی کس کو ہے؟شکیل الرحمٰن بحیثیت مصنف ایک جوابدہ قلمکار ہیں جو قدیم ادب کے مطالعے اور اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کر کے اردو کی موجودہ ادبی نسل کو زبان و ادب کی کلاسیکیت سے باخبر کرتے رہتے ہیں !
اردو میں بارہ ماسے کے تخلیقی سرمائے میں افضل پانی پتی کی ’’بکٹ کہانی‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بکٹ کہانی میں فراق و ہجر کی جو داستان سرائی کی گئی ہے، شکیل الرحمٰن نے اس کو نشان زد کرتے ہوئے اس کے جمالیاتی کیف وکم کی نشان دہی بھی بڑی ہی چابکدستی کے ساتھ کی ہے۔ بارہ ماسے میں شعر گوئی کی فنکارانہ مصوری ہر مہینے کے محاکاتی منظر نامے کے پیشِ نظر کی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں فراق و ہجر کی داستان سرائی میں اندرونی دلدوزی کی فنکارانہ مصوری بھی اس طرح کی جاتی ہے کہ پیا ملن کی تڑپ ایک رومانی تڑپ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ خیال رہے کہ اس قسم کی فنی صورت گری میں سماجی وابستگیوں کے حوالے سے اخلاقی قدروں کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے!چنانچہ ہر مہینے کے جو فطری اور محاکاتی تقاضے ہوتے ہیں ان کے پیش نظر بارہ ماسے کی زیریں لہروں میں موجزن جمالیاتی قدروں کی نشان دہی کرتے ہوئے شکیل الرحمٰن نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اُس پُرسکون زمانے کے رومان پرور ماحول میں بھی عاشق و معشوق کے جذبہ واحساس میں کتنی پاکیزگی اور پاکدامنی تھی!ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنس ونفس کے تخلیقی اظہار میں فنکاروں نے صحت مند اور صالح سماجی اور تہذیبی قدروں کو ہی پیشِ نظر رکھا۔ ظاہر ہے کہ جیسی تہذیب اور سماجی زندگی ہو گی ویسی ہی اس کی عکاسی ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ شکیل الرحمٰن کے نزدیک بارہ ماسے کے مطالعے کی اہمیت و افادیت کے لئے یہ بنیادی نکتہ پیشِ نظر رہا ہو گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ دورانِ مطالعہ فکر و فن کی تعبیر و تفہیم کے لئے انھوں نے جمالیات کو بنیاد بنایا۔ کیونکہ فنونِ لطیفہ کا نظام بہر صورت جمالیاتی قدروں سے ہی مملو ہے۔
ذیل کے اس شعر کو ملاحظہ فرمایئے اور غور فرمایئے کہ ’’بارہ ماسہ مقصود‘‘ کے عنوان کے تحت شکیل الرحمٰن کی نگاہِ نقد ونظر نے اپنے اختیار کردہ موقف کی ترسیل فکر و معنی کے لئے کتنا حسین و دلکش شعر کا انتخاب کیا:۔
برہ کی آگ سے بیتاب ہے دل
برنگِ قطرۂ سیماب ہے دل
اس شعر کی اشاراتی اور کنایاتی تخلیقی گفتگو کے پیشِ نظر پیا ملن کی تڑپ کو محسوس کیجئے اور محبوب کی اندرونی دلدوزی(Pathos)کو بھی محسوس کیجئے۔
میرا خیال ہے کہ یہی وہ اندرونی دلدوزی ہے جو شعر میں برنگِ المیہ جمالیات کی تخلیقی فضا بندی کرتی نظر آتی ہے۔ یہ بھی غور فرمایئے کہ سولہویں اور سترہویں صدی کے درمیان کہا گیا یہ شعر اپنے تمام تر فطری خد خال اور حسن کے ساتھ ایک واضح ادبی زبان کی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ اردو میں لسانی اور تخلیقی نقطۂ نظر سے فارسی آمیز تراکیب پر مشتمل شعر کہنا زبان کی شیرینی اور خوش آوازی کا ضامن ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ بارہ ماسہ جیسی صنف پر اس کی طبع آزمائی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
افضل کے بارہ ماسہ کے علاوہ شکیل الرحمٰن نے عبد الغفور صنوبر بھوپالی کے بارہ ماسہ پر بھی گفتگو کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہجر و فراق اور وصل دونوں ہی صورتوں میں پیتھوس اور المیہ ہی بارہ ماسہ کا بنیادی تخلیقی آہنگ ہے۔
گرو نانک دیوؔ جی کے گرو گرنتھ صاحب میں درج بارہ ماسہ خاصا دلچسپ ہے۔ شکیل الرحمٰن نے ان بارہ ماسوں میں تصوف کی تخلیقی فضا بندی کی نشاندہی کی ہے جو فکر و مطالعہ کی جہت سے خاصا دلچسپ پہلو ہے!لکھتے ہیں کہ اکثر بارہ ماسہ میں خالقِ کائنات میں جذب ہو جانے کے لمحوں کا ذکر ہے۔ آگے چل کر گرو گرنتھ صاحب کے بارہ ماسہ میں تصوف کی جمالیات کی نشاندہی کرتے ہوئے بڑی ہی دلچسپ گفتگو کی ہے۔ چنانچہ گزشتہ سطور میں بارہ ماسہ کے تخلیقی تار و پود میں پاکیزگی اور پاکدامنی کی جو بات کہی گئی ہے اس کا اطلاق فکر و نظر کے اسی نہج پر ہوتا نظر آتا ہے!
’’عورت کہتی ہے اے مالک!میں اس مایا جال میں بری طرح پھنسی ہوئی ہوں، جو ہر جانب پھیلا ہوا ہے۔ میری حالت کا اندازہ تو کرو، میری زندگی تمہارے بغیر بھلا کیا اہمیت رکھتی ہے۔ میری یادوں میں تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ تمہارے بغیر بڑی اذیت میں گرفتار ہوں۔ بھلا یہ کون سی زندگی ہے کہ میں ہر دم مایا جال میں پھنسی ہوئی ہوں۔ آقا میری التجا سن لے‘‘ ۔
شکیل الرحمٰن نے مایا جال کو پیا ملن کی مادّی توجیہ پسندی سے تعبیر کیا ہے۔ ہر موسم میں برہ کی آگ میں جلتے اور تپتے تپتے ایک گھڑی ایسی آ جاتی ہے جب عورت روح کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے میں اس کا محبوب خالقِ کائنات کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔ عورت کے وجود میں ایک گہری ماورائیت کی فضا بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اس فکر وفلسفہ کے پیشِ نظر شکیل الرحمٰن کا یہ اخذ کردہ نتیجہ بڑا ہی دلچسپ ہے!
’’ذکر چیت یا بیساکھ کا ہو یا جیٹھ یا اساڑھ کا، یا ساون بھادوں کایا ماگھ پھاگن کا، پوری نظم میں جمالیاتی اظہار کی آزادی اور ماورائیت کے کے گہرے احساس(Transcendental Feeling)کی پہچان ہوتی رہتی ہے‘‘ ۔
اندازہ ہوتا ہے کہ گرو نانک دیو جی کے بارہ ماسہ میں تصوف کی جمالیات اور اس کے اقدار وفلسفہ کی جمالیاتی بازیافت اردو ادب میں شکیل الرحمٰن کا ایک Uniqueفکری اور علمی کارنامہ ہے۔ فکر و نظر کی سطح پر ایک انوکھا تجربہ ہے۔ چلتے چلتے بارہ ماسہ میں فنکاروں کی متصوفانہ فکر و نظر کی تخلیقی خامہ فرسائی پر شکیل الرحمٰن کی مزید گفتگو سن لیجئے:۔
’’بھگتی شعرا نے بھی اس صنف کی جانب توجہ دی ہے۔ بھگتی دور میں کئی عمدہ بارہ ماسے ملتے ہیں۔ ان میں فرد کی روح عورت ہے اور اللہ محبوب ہے۔ اللہ سے جو محبت ہے اس کا اظہار ہے۔ روح کا نغمہ ہے۔ اصل(اللہ) میں جذب ہو جانے کی تمنا ہے، تڑپ ہے‘‘ ۔
بارہ ماسے میں پریم بھگتی کے حوالے سے شکیل الرحمٰن نے جو بحث کی ہے اس کا اختتام اس خوبصورت اور دلکش شعر پر ہوتا ہے:۔
کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو پیا ملن کی آس
اس شعر میں بھگتی رس کی لذت کا شدید احساس ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں شکیل الرحمٰن نے پیا ملن کو ایک جمالیاتی جلوہ سے تعبیر کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ جمالیاتی مظاہر باطن کی ہیجان انگیزیوں اور روحانی تڑپ کا نتیجہ ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان ماورائی محسوسہ کیفیتوں کا ادراک و عرفان شعور کی انتہائی منزل پر ہی ممکن ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے حوالے سے شکیل الرحمٰن کی فکر انگیز تخلیقی نثر کے چند نمونے حاضرِ خدمت ہیں :۔
(۱) ’’ ہندوستانی آرٹ میں بیانیہ کا سانچہ اہمیت رکھتا ہے۔ ’’بارہ ماسہ‘‘ بھی ایک بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ ایک کرداری ڈرامہ بھی ہے جس میں مصوری اور موسیقی کی ادائیں بھی موجود ہیں۔ بنیادی طور پر بارہ ماسہ روحانی تجربہ ہے، ایک سادھنا ہے۔ ‘‘
(۲) ’’بارہ ماسہ میں زلیخائی شیریں دیوانگی ہے۔ مسئلہ جدائی کا ہے، فراق کا ہے۔ پوری فضا کی میلوڈی ایسی ہے لگتا ہے پیتھوس(Pathos)ہی نے اس چبھنے والی لیکن بہت شیریں میلوڈی کو خلق کیا ہے۔ ‘‘
(۳) ’’یہ کہنا درست ہو گا کہ بارہ ماسوں کے تجربوں پر ڈرامائی شعاعیں لطف دے جاتی ہیں۔ Theater of the imaginationکی خوبیاں بھی متاثر کرتی ہیں۔ آرٹ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تجربوں پر ڈرامائی شعاعیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘
کتاب کا انتساب ڈاکٹر تنویر علوی کے نام ہے۔ ’’اردو میں بارہ ماسے کی روایت، مطالعہ ومتن‘‘ ان کی معرکتہ لآرا کتاب ہے۔ زیرِ تبصرہ کو لکھنے کی تحریک ڈاکٹر صاحب کی متذکرہ کتاب کے مطالعہ سے ہی پیدا ہوئی۔ انتساب والی تحریر میں شکیل الرحمٰن نے اس بات کا اعتراف و اقرار کیا ہے۔
اردو کے معاصر تنقیدی سرمائے میں اس کتاب کا میں استقبال کرتا ہوں اور امید ہے کہ ادبی حلقہ میں اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہو گی!
٭٭٭
شکیل الرحمٰن
فنِ خطاطی کی جمالیات
عربی ایک بڑی تہذیب کی زبان رہی ہے، اس کے رسمِ خط کے حسن نے مذہب اور تہذیب دونوں کے جلوؤں کا شعور عطا کیا ہے۔ عرب، مراقش، مصر، ترکی، الجزائر، الجزائرطرابلس، عراق، شام، ایران، حبش، سوڈان، اندلس، پامیر، قازان، لبنا ن ہند، جاوا، سماترا، ملایا اور جانے کہاں کہاں اس زبان کے ذریعے مذہب اور تہذیب کی سچائیاں پہنچی ہیں اور اس کی لچک اور آہنگ اور اس کے حروف کی جمالیاتی صورتوں صورتوں نے احساسِ جمال کو متاثر کیا ہے۔
کوفی کے بعد خط نسخ نے دنیا کے حروف میں اپنی نمایاں جگہ حاصل کر لی، اس میں مسلمان فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑا دخل تھا۔ حروف کو خوبصورت بنانے اور تحریر کو منقش کرنے میں ہر دور کے فنکاروں نے بڑا حصہ لیا ہے۔ خطاطی کے اعلیٰ ترین نمونوں میں مصوروں کا تخلیقی ذہن ملتا ہے، عربی حروف کے حسن میں مصوروں کو مجرد پیکر کسمساتے ہوئے محسوس ہوئے ہیں، انہوں نے اس تحریر کو تزئین و آرائش سے با ضابطہ ایک فن بنا دیا۔ مختلف اسلامی ملکوں کے مصوروں نے اس فن سے گہری دلچسپی لی اور چینی اور مانوی انداز تحریر سے بھی متاثر ہو کر خطاطی کے فن کو اعلٰی ترین مقام پر لے گئے۔ غیر مسلم فنکار بھی اس سے متاثر ہوئے اور کلام کے معنی کی طرف توجہ دئیے بغیر عربی کی منقش تحریروں پر قرآن حکیم کی آیتیں لکھیں، اس تحریر کا حسن ہی تھا کہ جس نے غیر مسلم فن کاروں کو اس طرح متاثر کیا تھا۔
فن مصوری اور فن خطاطی کا رشتہ بہت ہی گہرا ہے۔ مصوری کی پیکر تراشی اور خصوصاً انسانوں اور جانوروں کی تصویروں کو پسند کیا گیاتو مسلمان فن کاروں نے مصوری کی بہتر خصوصیات کو فن خطاطی میں اجاگر کیا۔ مصوری میں بھی خطاطی کے فن کو شامل کیا گیا۔ اکثر تصویروں کے گرد اور ان کے حاشیوں پر عمدہ خطاطی کے نمونے ملتے ہیں۔ مخطوطات اور مسودات کو مصور کرتے ہوئے، فن کاروں نے اکثر خطاطی کے آرٹ کی خوبصورت نمائش کی ہے۔ مسجدوں کے دروازوں، ستونوں، منبروں اور محرابوں کو اس فن سے اس قدر پُر کشش بنایا ہے کہ یہ آرٹ کے یاد گار نمونے بن گئے ہیں۔ خطِ کوفی کے ’’قلم الجلیل‘‘ ، قلم الدیباح‘‘ ، ’’خط بیاض‘‘ ، ’’قلم طومار‘‘ (طومار کامل الکبیر اور محضر الطّو مار) ’’قلم الجلات‘‘ ، ’’قلم الحرم‘‘ ، ’’قلم رخشن‘‘ ، ’’قلم القص‘‘ ، ’’خط ریا‘‘ شاور ’’قلم لثلثین‘‘ وغیرہ نے حسن کا ایک معیار قائم کر دیا تھا۔ ان کی روایات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔
قلم کاروں اور خطاطوں نے ہلکے اور سبک، باریک اور موٹے اور چھوٹے اور بڑے واضح اور منقش حروف میں اپنی اعلیٰ فن کاری کا اظہار کیا۔ مسجدوں کے کتبوں، قدیم دستاویزوں اور معاہدوں، پرانی کتابوں کے سرورق اور ابتدائی مصحفوں اور بادشاہوں اور خواتین حرم کے خطوں اور قدیم قصوں کہانیوں اور مصوری کے نمونوں میں اس فن کی جمالیات کے عمدہ نقوش ملتے ہیں۔
خط ثلث، خط نسخ، خط توقیع، خط رقاع، خط محقق، خط ریحان، نامۂ دبیریہ، رازِ سحریہ، شاہ دبیریہ، وغیرہ نے اس فن کی جمالیات کو وسیع تر سے وسیع تر کر نے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ قرآن حکیم کے انگنت نسخوں میں اس فن کے حسن کی جانے کتنی جہتیں پیدا ہوئی ہیں۔
قرآن حکیم کی نقل کا ایک طویل سلسلہ رہا ہے، اس کی اپنی ایک بڑی تاریخ ہے جو خط کوفی کی ابتدائی صورتوں سے شروع ہوتی ہے۔ پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ ابتدائی دور میں شامل ہے جب کہ قرآن پاک کے نسخوں کی تیاری میں خط کوفی کا استعمال کیا گیا ہے۔ قاہرہ کے کتب خانے میں آٹھویں صدی عیسوی کا ایک نسخہ جو غالباً۷۸۴ء میں تیار ہوا تھا، موجود ہے۔ اس سے فن خطاطی کی ابتدائی صورتوں کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ نویں صدی عیسوی میں دور عباسیہ میں جانے کتنے نسخے تیار ہوئے جو اس فن کے عمدہ نمونے کہے جا سکتے ہیں۔ ان کی مندرجہ ذیل خصو صیتیں اہمیت رکھتی ہیں :
٭ قرآن پاک کی اکثر نقلیں جھلیّوں پر ہیں۔
٭ نیلے، بنفشی یا سرخ رنگوں کی زین پر سیاہ یا سنہری روشنائی کا استعمال ہوا ہے۔
٭ کوفی حروف زیادہ موٹے اور واضح ہیں، جلی حروف کا اپنا ایک معیار ہے۔
٭ اکثر حروف دائرہ نما ہیں، حروف کو گول اور حلقوں کی صورتوں میں پیش کرنے کا رجحان ہے۔
٭ حروف ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں، اس لئے تحریر بہت حد تک گنجان ہے۔
٭ چھوٹے حروف عمودگی میں ہیں۔
٭ افقی انداز میں کسی حد تک مبالغے سے کام لیا گیا ہے، چپٹے حروف بھی توجہ طلب ہیں۔
نویں صدی میں خط کوفی، عراق، شام اور مصر میں مقبول رہا، دسویں صدی کی ابتدا میں بھی اس خط کے عمدہ نمونے ملتے ہیں، دور عباسیہ کی کئی نقلیں آج بھی موجود ہیں لیکن ان میں کوئی بھی قرآن حکیم کا مکمل نسخہ نہیں ہے۔
نویں صدی عیسوی کے نمونوں میں قرآن پاک کے وہ چار منقش صفحات اس وقت بھی اعلیٰ فنکاری کا احساس دلاتے ہیں جو محفوظ ہیں اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ پھول پر آب زر سے ابھرے ہوئے حروف سبز، نیلے اور بھورے رنگوں کو بھی لئے ہوئے ہیں، حاشیوں پر بھورے رنگ کا عمل ہے۔ مستطیل حروف کو درختوں کی صورت دے دی گئی ہے یا ان سے درختوں کا تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ ساسانی عہد کے آرٹ میں جس طرح پتوں یا پتیوں کو پروں کے ساتھ پیش کیاجاتا تھا کم وبیش وہی انداز یہاں بھی ہے۔
گیارہویں صدی عیسوی سے قرآن حکیم کے لئے خط نسخ کو زیادہ پسند کیا جانے لگا ا ور خط کوفی کا رواج کم ہو نے لگا۔ بارہویں صدی کی ابتداء میں خط نسخ نے عروج حاصل کر لیا ا ور اس کی جمالیاتی جہتیں بڑی شدت سے ابھرنے لگیں۔ قرآن پاک کے بڑے نسخے ’’خط طومار‘‘ میں تیار ہونے لگے جو خط نسخ کی ایک انتہائی واضح صورت ہے۔ تیرہویں صدی کے خوبصورت نسخوں میں آب زر کا استعمال زیادہ ملتا ہے اور ساتھ ہی سُرخ اور نیلے نشانات ملتے ہیں، نقطوں کو عموماً ان دو رنگوں میں پیش کیا گیا ہے۔ چودہویں صدی کی ابتداء میں یہ رجحان انتہائی پختہ ہو گیا ہے، ساتھ ہی تزئین و آرائش کی طرف زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ ایسے بھی نسخے ملتے ہیں جن میں عنوانات خط کوفی میں ہیں اور نقل خط نسخ میں ہے۔
شمالی افریقہ اور اسپین میں خط مغربی میں قرآن پاک کے متعدد نسخے ملتے ہیں، ان میں عربی حروف حلقوں کی مانند ہیں، گول حرفوں کی آرائش کی طرف زیادہ جہ دی گئی ہے نیز انہیں آب زر اور نیلے رنگ سے منور کرنے کی بھی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ چودہویں اور پندرہویں صدی کے بعض ایسے نسخوں میں کئی رنگ ملتے ہیں، یہ نسخے کئی رنگوں میں تیار کئے گئے ہیں۔
عجمی فنکاروں نے یہ آرٹ عربوں سے حاصل کیا تھا لیکن انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس میں کئی اور عمدہ جمالیاتی جہتیں پیدا کر دیں، مزاج اور رجحان کے فرق کی وجہ سے بھی یہ فن ایران میں بھی انفرادی خصوصیتوں کے ساتھ جلوہ گرہوا۔ اس ملک میں تزئین وآرائش اور تصویروں کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور دلکش و دل نشیں بنانے کی روایت پہلے سے موجود تھی۔ لہٰذا فن خطاطی میں ایرانی مصوری کی کئی خصوصیتیں شامل ہو گئیں۔ ایرانی فنکار بلاشبہ عرب فنکاروں کے منقش اور منور نسخوں سے بے حد متاثر ہوئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے مزاج اور رجحان کے پیش نظر نئے تجربے بھی کئے اور اپنی انفرادی صلاحیتوں سے کام لے کر اس فن کی اعلیٰ روایات کو نئے انداز سے آگے بڑھا یا۔ نسخوں اور مسودوں کو منقش کرنے اور انہیں اپنے احساس جمال سے مزین کرنے میں ایرانی فنکار ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
عجمیوں نے دور عباسیہ کے خط کوفی میں جدتیں پیدا کیں اور رفتہ رفتہ خط کوفی کی ایک ایرانی صورت پیدا ہو گئی۔ تیرہویں صدی میں خطِ نستعلیق میں اس فن کے عمدہ نمونے پیش کئے گئے۔ حروف اوپر سے نیچے اترتے ہوئے محسوس ہوئے۔ مقبروں اور مسجدوں پر خطِ نستعلیق کے ساتھ خطِ نسخ کو بھی شامل رکھا گیا۔ منگولوں کے عہد میں یہ فن عروج پر پہنچ گیا۔ قرآن پاک کے جانے کتنے خوبصورت نسخے تیار کئے گئے، عراق میں بھی اسی طرح منقش نسخے تیار ہوئے۔
فنِ خطاطی کے معروف فنکاروں میں قطبہ، خالد، خلیل بن احمد نحوی، علی بن حمرہ کسائی، اسحٰق بن حماد شامی، ابراہیم الشمدی، یوسف، ریحانی، ابن مقلہ بیضاوی، ابو الحسن علی، (ابن ابواب)مستعصم، حسن بن حسین علی، خواجہ میر علی تبریزی، مرتضیٰ قلی خان، میر علی ہروی، محمد حسین تبریزی، میر عماد الحسینی قزوینی، عبد الرشیدویلمی، قطبتہ الحمد، خالق بن الہیاج، یاقوت مستعصمی، عبد اللہ ابن محمد، سلطان علی مشہدی، جعفر تبریزی، عبد الکریم، ابراہیم سلطان ابن شاہ رخ، زین الدین محمد، میر علی ہیراتی، سلطان محمد نور، میر امداد، علی رضا عباس، اور مولانا حسن بغدادی وغیرہ کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ اس فن میں ان قلمکاروں اور فنکاروں نے بڑے کارنامے انجام دئے ہیں، عمدہ اور نفیس روایتوں کی بنیاد رکھی ہے اور تزئین و آرائش کی جمالیات کو وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔ ان کے فن کی چند امتیازی خصوصیات کو اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے:
٭ حروف کی پیمائش پر بڑی گہری نظر ہے۔
٭ طلاکاری فن سے نزاکت سے غیر معمولی واقفیت غیر معمولی نوعیت کی ہے۔
٭ طلائی کتبوں میں آرائش کا رجحان متوازن ہے، طلائی کاری اور رنگوں کی آمیزش میں توازن ہے۔
٭ جلی حروف جلال و جمال کے مظاہر ہیں۔
٭ طومار اور ثلثین کی آمیزش سے ’’قلم الزینور‘‘ کی تخلیق میں تخلیقی ذہن کی کار فرمائی ملتی ہے۔
٭ ہلکے اور سبک قلم کی نزاکتیں احساس جمال کو متاثر کرتی ہیں۔
٭ خطِ ریحان میں حروف کی لوچ، جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہے۔
٭ اکثراحساس ہوتا ہے جیسے قرآن کریم کی آیتوں اور لفظوں کے آہنگ سے فن کاروں کے اعصابی نظام کا پُراسرار رشتہ قائم ہو گیا ہے اور ان کے خوبصورت حروف میں وہ آہنگ جذب ہو گیا ہے۔
٭ حروف کی تشکیل میں تخلیقی ذہن کا مسلسل عمل ملتا ہے۔
٭ بعض حروف پیکروں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور اپنی تصویریت سے متاثر کرتے ہیں۔
٭ سرخ، سبز، بنفسی، نیلے، سیاہ اور بھورے رنگوں کا استعمال فنکارانہ طور پر ہوتا ہے۔
٭ گنجان تحریر کا بھی اپنا ایک حسن ہے، ذرا دور سے دیکھئے تو اس کا حسن اور متاثر کرے گا۔
٭ افقی اور عمودی حروف حسن کا ایک معیار پیش کرتے ہیں۔
٭ حروف کو دائروں میں پیش کرنے کا رجحان ملتا ہے، حلقوں اور دائروں کے اکثر سلسلے ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے ہیں۔
٭ حاشیوں کو مزین اور آراستہ کرنے کا رجحان شدت سے ابھرا ہے، آبِ زر اور رنگوں کے پس منظر میں جیسے حروف ابھرتے ہوئے سامنے آ رہے ہوں، اس قسم کی تاثر پیدا کرنا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔
٭ درختوں، پودوں اور پھولوں کا تاثر حروف، خصوصاً مستطیل حروف سے پیدا کیا گیا ہے۔
٭ قرآن حکیم کے بعض نسخے ایسے ہیں جن کے ایک صفحے پر صرف دو آیتیں تحریر ہیں، دونوں آیتوں کے درمیان نقاشی اور تزئین کے لئے کافی جگہ رکھی گئی ہے زمین کو حلقوں اور لکیروں کے حسن سے سجا دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آیتیں ان حلقوں اور لکیروں کے درمیان سے ابھرتی ہوئی چلی آ رہی ہیں، تیرہویں اور چودہویں صدی کے بعض نسخوں میں اس فن کی یہ خصوصیت ملتی ہے۔
٭ سلجوقی آرٹ کی اکثر خصوصیتوں کو اس فن میں جذب کیا گیا ہے۔ آرائش اور زیبائش اور تزئین کاری میں فن کاروں نے سلجوقی آرٹ کی خوبصورت روایتوں سے ذہنی رشتہ قائم کیا ہے۔
٭ فن تعمیر کی بعض اکثر اہم خصوصیتیں اس فن میں شامل ہو گئی ہیں، اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی مقدس عمارت اٹھائی جارہی ہے۔ بارہویں صدی عیسوی کے بعض نسخوں میں، خصوصاً مراقش کے نسخوں میں فن تعمیر کے جلوے ملتے ہیں، نقطوں اور اعراب کی وجہ سے یہ جلوے اور بھی پر کشش ہو گئے ہیں۔
٭ فنکاروں نے سیاہ نقطوں، ’لام الف، (لا، لا)ہمزہ، تشدید اور مختلف رنگوں سے حروف کی آرائش میں بڑی مدد لی ہے اور جا بجا پھولوں کا تاثر پیدا کیا ہے۔
٭ ۱۰۵۰ء کے ایک عجمی نسخے میں (سلجوقی دور )’سی مٹری، (Symmetry)کا غیر معمولی شعور ملتا ہے۔ تین سطروں کے بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘ کو انتہائی فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ تزئین کاری غضب کی ہے۔ اس کے بعد نو سطریں جلی حروف میں ہیں اور تین سطریں باریک قلم کا نتیجہ ہیں۔ محمد رسول اللہ کو اس طرح نقش کیا گیا ہے کہ ایک ساتھ مسجدوں کی گنبدوں، روشن درختوں اور پھولوں، منقش ڈالیوں اور پرچم کے تاثرات ابھر آئے ہیں۔ سلجوقی آرٹ کی آرائش اور تزئین کاری کا یہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔
٭ ایرانی فنکاروں نے بعض نسخوں کو اس طرح سجایا ہے کہ محسوس ہوتا ہے گلستاں کے اندر حروف کا کوئی کارواں چل رہا ہے۔ ہر سطر میں ایک کارواں ہے، ’الف اور لام‘ کی اٹھان سے عجب حسن پیدا ہو گیا ہے۔
٭ منظومات کے مجموعوں اور قدیم کتابوں، مسودوں اور مخطوطوں میں بھی اس فن کا حسن اپنے عروج پر ہے، یہاں فنکاروں کو زیادہ سے زیادہ آزادی ملی ہے، اس لئے چینی اور وسط ایشیائی خصوصیتوں کی روشنی ملتی ہے۔
٭ پندرہویں صدی کے بعض مخطوطات پر حوروں، پریوں اور جانوروں کی تصویریں واضح ہیں اور حاشیوں پر نقاشی کے عمدہ نمونے ہیں، مخطوطات کے نام خط نقش میں فنکارانہ انداز میں لکھے گئے ہیں، عربی تحریروں کے اندر بھی خطاطوں نے اپنی باریک بینی کا ثبوت دیا ہے۔ نقش نگاری میں جو باریکی ہے اس کی اپنی لطافت ہے۔
٭ چمکتے ہوئے روشن حاشیوں کا دائر ہ کبھی دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے اور درمیان میں اس فن کے ذریعے عمدہ ترین خطاطی کے نمونے ملتے ہیں۔
٭ روشن زمین پر بڑے سائز میں ۹، ۱۰اشعار لکھ کر جب بھی آرائش و زیبائش کے لئے چاروں طرف حاشیوں کو بڑھایا گیا ہے درمیان کی خوبصورت تحریر بنیادی جلوہ بنی ہے۔ خوبصورت ترین رحل قرآن حکیم کے انتہائی منقش نسخے کے کھلنے کا تاثر واوین اور منظومات کی خطاطی سے ملتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قیمتی سرمایہ محفوظ کر لیا گیا ہو۔
٭ کتابوں، مسودوں اور مخطوطوں کے سینکڑوں ایسے سرورق ہیں جو عراق، ایران، شام، چین اور وسط ایشیا کے مختلف خطوں کے حسن کی آمیزش کا عمدہ نمونہ ہیں اور ان پر خطِ نقش کے نشیب و فراز اور حروف کے آہنگ اور توازن کا عجیب و غریب جادو نقش ہے۔
٭ خطاطی کے فن نے ہزاروں طغرے عطا کئے ہیں، طغروں میں آرائش اور تزئین کاری اپنی جگہ پر ہے لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی حروف کی تجریدیت ہے۔ اکثر طغرے تجریدی پیکر بن گئے ہیں۔ آب زر کا استعمال طغروں میں بھی ہے، سنہرے طغروں میں نیلے اور سیاہ رنگوں کے توازن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ دوسرے اور کئی رنگوں کا ستعمال بھی ملتا ہے۔ روشنی اور سائے کے تئیں فنکاروں کی بیداری بھی توجہ طلب ہے، ترک فنکاروں نے اس سلسلے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ سلطان سلیمان کا طغرہ اپنی نظیر آپ ہے، عربی حروف کی لچک کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے جب خطاطوں کے تیار کئے ہوئے طغروں کی تصویریں سامنے ہوتی ہیں۔ درخت پھول اور ڈالیاں مینار، دیوار، منبر، ستون، محراب اور گنبد، چراغ اور اس کی روشنی، مور، اونٹ اور پرندے اور جانے کتنی اشیا ء و عناصر کی مجرد صورتوں کا تاثر ملتا ہے۔ فن تعمیر کی اولین خصوصیتوں کاشعور بھی موجود ہے۔ اقلیدسی صورتوں کو جلوہ بنایا گیا ہے۔ افقی اور عمودی صورتوں کا تاثر گہرا ہو گیا ہے۔ اسی طرح حروف دائروں اور مربعوں کی صورتیں اختیار کر کے گہرا تاثر دیتے ہیں۔ مکعب صورتوں سے بھی خطاطوں نے گہری دلچسپی لی ہے۔ اور طغروں میں ان حروف کو ان صورتوں میں اجاگر کیا ہے، حروف کی لچک سے ایک خاص قسم کے آہنگ کا احساس ملتا ہے۔
٭ خط نسخ میں کلی سے پھول بننے کی تمام تر صلاحیت موجود ہے۔ یہ خط کلی کی پنکھڑ یوں کی مانند کھلتا ہے۔ پھول کی طرح روشن اور جاذب نظر بن جاتا ہے، اس میں ساکت ہو جانے، رُکنے، رُک کر چلنے، تیزی سے آگے بڑھنے اور پھسل جانے کی بڑی قوت ہے۔ خطاط ان عربی حروف کی ان خصوصیات سے واقف تھے لہٰذا ان کی مدد سے انہوں نے دوسرے فنون سے بھی رشتہ قائم کیا اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ خطاطی کے فن میں مصوری، موسیقی، فن تعمیر اور شاعری کی ان گنت خصوصیتیں ملتی ہیں۔
٭ لفظوں کو الگ الگ حسن کا نمونہ بنانے کی کاوش بھی غور طلب ہے۔ ساتھ ہی حروف کی کڑیاں پھولوں کے ہار کی طرح اپنے حسن سے متاثر کرتی ہیں۔
٭ نستعلیق کے اصول متعین کر کے اس فن کی جمالیات میں نئی جہتیں پیدا کی گئیں تو حرفوں، لفظوں اور جملوں کو جذب کرنے کا فن نقطۂ عروج پر پہنچایا گیا۔ اس جمالیاتی اصول کو ترکیب کہتے ہیں۔ اسی طرح سطح، صعود، نزول، ضعف وغیرہ جیسے اصولوں کو مرتب کیا گیا۔
٭ ہندوستان میں مغلوں کے دور میں خط کی کئی جمالیاتی صورتیں پیدا ہوئیں جن میں خط بابری، خط ہلال(بدر کامل)خط ہای، خط طغرا، خط غبار، اور خط گلزار وغیرہ کے نمونے یادگار بن گئے، فنکاروں نے اس فن میں مصوری کا حسن جذب کر دیا۔
فن خطاطی اپنی جمالیات کے ساتھ مسلمانوں کی بہت بڑی دین ہے!
٭٭٭
پروفیسر مجید بیدار
صدر شعبۂ اردو۔ جامعہ عثمانیہ۔ حیدر آباد
محمد دارا شکوہ۔۔۔۔ اتحاد اور یکجہتی کی علامت
بابائے جمالیات کی حیثیت سے عالمی سطح پر شہرت کے حامل محقق، نقاد اور خود نوشت سوانح نگار شکیل الرحمٰن کے قلم کی یہ کرشمہ سازی ہے کہ وہ ہمیشہ کوئی اہم پہلو اور نئی بات کو جدت طرازی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنے کا مخلصانہ جذبہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ایجادی صلاحیتوں کے توسط سے ایسی ایسی کتابیں بھی منظرِ عام پر آتی ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ذہن کو تازگی اور فکر کو روحانی مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ گو کہ مختلف شاعروں اور ادیبوں کی جمالیات پر شکیل الرحمٰن نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں اور ان کے کارنامے اس حد تک اہمیت کے حامل ہیں کہ مستقبل کا محقق اور نقاد ان کارناموں کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ فکشن اور نان فکشن کی جمالیات سے لے کر شاعروں اور ادیبوں کی جمالیات پر تحقیقی اور تنقیدی کام انجام دینے والے شکیل الرحمٰن نے اب ایک نئی فکر کی روشنی میں اپنے خیالات کی شمع روشن کی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان وادب اور تاریخ و ثقافت ہی نہیں بلکہ مذہب و تصوف اورفلسفہ بھی ان کی فکر کے ایسے موضوعات ہیں جن کے توسط سے شکیل الرحمٰن نے اپنے علم کی روشنی کو منور کر رکھا ہے۔ وہ ہندو فلسفہ اور صوفیانہ فلسفہ ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے فلسفوں پر بھی کامل عبور رکھتے ہیں اور اسی فکری جذبہ کے تحت اردو داں طبقہ کو ایک عالم و فاضل ہی نہیں بلکہ مغل شہزادے کے سوانحی حالات اور اس کے افکار کی گہرائی و گیرائی کو سمجھانے کے لئے قلم کی امانت کا حق ادا کیا ہے۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’محمد دارا شکوہ ایک تعارف‘‘ منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ نرالی دنیا پبلی کیشن سے ہندوستانی سطح پر تقسیم کا انجام دینے والی یہ کتاب اپنے انداز سے منفرد کتاب کا درجہ رکھتی ہے جس میں شکیل الرحمٰن نے تاریخی حقائق کو دیانت دارانہ انداز سے بیان کرتے ہوئے دارا شکوہ کی فکر اور اس کے عقائد کی بھر پور نمائندگی کی ہے۔ اس کتاب کو اپنی نوعیت کی منفرد کتاب اس لئے بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلی بار دارا شکوہ سے متعلق تمام اشخاص کی مختصر سونح اور ان کی تصاویر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ شاہجہاں اور دارا شکوہ کی تصاویر کے علاوہ حضرت ملا شاہ، حضرت میاں میر اور ان کے مزار کی تصویر، بابر اور اکبر کی تصاویر کے علاوہ جہانگیر اور شاہجہاں کی تصاویر سے مزین یہ کتاب اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے توسط سے ہندوستان کے اس اسلام کی نمائندگی ہوتی ہے جس نے قومی یکجہتی کا ماحول پیدا کیا تھا۔ دارا شکوہ نے سنسکرت اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور کئی ہندو عالموں سے استفادہ کے ساتھ ساتھ صوفیا ئے کرام اور ان کے مزارات کی زیارت بھی کی۔ اس کے علاوہ دارا شکوہ کی خوبی یہ تھی کہ وہ خود عربی فارسی ہی نہیں بلکہ سنسکرت کا بڑا عالم تھا اور صوفیائے کرام کی صحبتوں سے علم کے روحانی چشموں سے فیضیاب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے علمی تبحر کو کوئی دوسرا عالم نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اگرچہ صوفیا ئے کرام نے طبقاتی زندگی کے ہندوستانی رویے کی مخالفت کی تھی جو ہندو مت کا وسیلہ تھا، اس کے باوجود مسلم صوفیا نے خیر کے راستے کو اختیار کرتے ہوئے محبت اور ہمدردی کے علاوہ قوتِ برداشت کی ایسی تعلیم دی کہ جس کے نتیجے میں سارے ہندوستان کی زمین پر صوفیا ئے کرام کی تعلیمات کا شہرہ ہوا اور یہاں کے مقامی مذہب کے غیر اخلاقی اصولوں کی عکاسی بھی ہوئی۔ اس کے باوجود کسی بھی زمانے میں تصادم، کشا کش اور کشمکش کی فضا پیدا نہ ہوسکی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ ہندوستان کے دیگر مذاہب کی اچھائیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام نےToleranceیا قوتِ برداشت کے جذبے کو روا رکھا تھا۔ اخوت اور بھائی چارگی کا مکمل نمونہ محمد دارا شکوہ تھا، جسے شاہجہاں کی اولاد ہونے اور مغلیہ شہزادے کی حیثیت سے بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس نے فارسی ادب کو کئی اہم کتابوں سے مالا مال کیا۔ اسے فلسفہ اور علمِ خطاطی سے بڑی دلچسپی تھی اور وہ ممتاز محل کے بطن سے 30؍ مارچ 1615 کو عالمِ وجود میں آیا جسے خواجہ اجمیری کی دعاؤں کا طفیل کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل شاہجہاں کو دو بیٹیاں حور النساء بیگم اور جہاں آراء بیگم پیدا ہو چکی تھیں اور بادشاہِ وقت کی خواہش تھی کہ اسے کوئی اولادِ نرینہ پیدا ہو۔ غرض ۳۰؍ مارچ ۱۶۱۵ء کو پیدا ہونے والے شاہجہاں کے چہیتے بیٹے محمد دارا شکوہ کو ۳۰؍اگست ۱۶۵۹ء میں قتل کر دیا گیا اور اس کا سر ضعیف باپ شاہجہاں کے روبرو پیش کیا گیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دارا شکوہ کے دھڑ کو مقبرہ ہمایوں میں دفن کر دیا گیا۔ صوفیائے کرام کی تاریخ ’’سفینہ الاولیا‘‘ لکھنے والا فارسی کا زبردست عالم جس نے ’’سکینتہ الاولیا‘‘ بھی لکھی۔ اس کے علاوہ ’’حسنات العارفین‘‘ اور ’’مجمع البحرین‘‘ کے علاوہ ’’ سرّ اکبر ‘‘ جیسی کتابیں لکھ کر تاریخ، ادب اور فلسفہ کے علاوہ تصوف اور ہندو رشیوں کے کارناموں کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ سفینتہالاولیا کی اشاعت ۱۶۳۹ء میں عمل میں آئی جو ۲۰۰؍ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں حضور اکرمﷺ، ازواجِ مطہرات، خلفائے راشدین، ائمہ اور صوفیا کا ذکر مکمل حقائق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ نفسیات کے علما کا یہ کہنا ہے کہ یہ کتاب ذہن کے تخلیقی اثرات اور عجیب و غریب کیفیتیں پیدا کرنے کا وسیلہ ہے۔ سکینتہ الاولیا کی تحریر کے دوران دارا شکوہ کی عمر ۲۸؍سال تھی۔ اس کتاب میں دارا شکوہ نے حضرت میاں میر اور حضرت میر محمد معین الاسلام کے علاوہ ہندو فلسفیوں اور بھگتوں کے استفادے سے حاصل ہونے والے علم کی نشان دہی کی ہے، جس کے ساتھ ہی گرو ارجن سنگھ کے کمالات کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے دارا شکوہ کی عقیدت اور۔۔۔۔ کا پتہ چلتا ہے۔ ۱۶۴۰ء میں دارا شکوہ نے کشمیر کا سفر کیا اور وہاں ایک مذہبی کتب خانہ قائم کر کے وحدانیت کے تصور کی گہرائی سے چھان بین کی۔ اس نے تصوف اور ہندو فلسفہ کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد اور صوفیانہ افکار کی ترویج کی طرف توجہ دی۔ دارا شکوہ نے کئی چھوٹے چھوٹے رسالے بھی لکھے جن میں روحانی ارتقا ا ور روحانی منزلوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر عمل کرنے سے سچے عابد بننے اور روحانی درجے بلند کرنے میں سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے رسائل میں سلوک اور مقامات کی نمائندگی موجود ہے۔ رسالہ ’’حق نما‘‘ کے ذریعہ ناسوت کے چار حصے بیان کر کے اس کے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’حسنات العارفین‘‘ اسی کا لکھا ہوا مشہور رسالہ ہے۔ کشمیر میں دارا شکوہ نے اپنی بیوی کی مدد سے کئی باغات اور محل تعمیر کئے اور مشہور بزرگوں سے حاصل ہونے والے مکاشفہ کو انھوں نے ’’مکالماتِ داراشکوہ‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ غرض علم اور علم کی برتری کو مذہب اور عقائد کی روشنی میں سمجھانے کی انفرادی کوشش محمد دارا شکوہ کی پہلی خوصوصیت رہی جس میں جنوبی ایشیا کے صوفیوں اور ہندوستان کے سادھو سنتوں کی تعلیمات کو سمجھتے ہوئے کثرت میں وحدت کے فلسفہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کئی اہم بزرگوں کے آستانوں سے کسبِ فیض کرتے ہوئے جو علم حاصل ہوا اسے تحریری شکل میں پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ درحقیقت تصوف کے نمایاں اثرات بھگتی تحریک پر مرتب ہوئے۔ ہندوستان کے طبقاتی نظام اور یہاں کے مذاہب میں وحدت کو شامل کرنے کے لئے یہی ایک جد و جہد ہو گی جس کی مشترکہ طور پر کوشش کی جائے۔ شکیل الرحمٰن نے چونکہ جمالیات کے توسط سے اسلام اور ہندو مت کے مذہبی فلسفے کا بھی مطالعہ کیا ہے اور وہ تصوف کی گہرائی و گیرائی کے ساتھ بھگتوں اور رشیوں کے رویوں سے بھی واقف ہیں جو بلاشبہ آمم برہمم کے فلسفہ کے نمائندہ تھے۔ صوفیا کی تعلیمات اور بھگتی تحریک کے اثرات کو ایک دوسرے سے قریب کر کے عالم گیر سطح پر ہندو مذہب کے ماننے والوں کو وحدانیت کا سبق سکھانے والا پہلا فرد دارا شکوہ تھا۔ اس لئے اس کی زندگی اور حالات کے علاوہ کارناموں پر ایک چھوٹی سی کتاب لکھ کر شکیل الرحمٰن نے ملت کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے، جس کی دورِ حاضر میں شدید ضرورت ہے۔ چونکہ صوفیائے کرام نے ’’ہرقوم راست راہے، دینے و قبلہ گاہے‘‘ کے فلسفے کی نمائندگی کی تھی، جس کو دارا شکوہ نے قبول کیا تھا اس لئے مستقبل کے ہندوستان کو ایسی ہی رہنمایانہ شخصیات کی ضرورت ہے، جن کی تحریروں سے سالمیت اور یکجہتی کا ماحول پیدا ہوسکے۔ چنانچہ شکیل الرحمٰن نے وقت کی ایک اہم ضرورت کی تکمیل کرتے ہوئے بیسویں صدی کے بارہویں سال میں اس کتاب کی اشاعت عمل میں لائی تاکہ اس ملک میں مذہبی ذہنیت کو آئینہ دکھایا جا سکے۔ ان کا یہ کارنامہ اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ اکثریت سے قربت کے بغیر اقلیت کے افکار کی ترویج ممکن نہیں۔ چنانچہ شکیل الرحمٰن کی کتاب محمد دارا شکوہ ایک ایسا ہی کارنامہ قرار دیا جائے گا اور جسے ملک کی اکثریت و اقلیت کو قریب کرنے کی جستجو سے تعبیر کیا جائے گا۔ عمدہ سرورق، بہترین طباعت اور گلیزڈ کاغذ پر شائع ۱۱۲؍ صفحات پر مشتمل مجلد کتاب کی قیمت ۲۰۰؍روپے اگرچہ زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن مواد اور متن کے علاوہ ذہنی گرہوں کو کھولنے کی وجہ سے یہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس کا مطالعہ اور اس پر عمل کر کے ہندوستان کی اقلیت اس زریں دور کو واپس لا سکتی ہے جب کہ مسلم قوم نے اقلیت میں ہونے کا باوجود اپنے عمل کے توسط سے اکثریتی طبقے کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ مسلمانوں کے علم و تبحر اور عملی زندگی کی سچائی نے اکثریت کو گرویدہ بنا لیا تھا۔ بلا شہ یہ کتاب اہم مقصد کی نمائندگی کرتی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ آپسی میل جول بڑھانے کے لئے مسلم طبقہ اس کتاب کا کثرت سے مطالعہ کرے اور اپنے احباب میں ایسی کتابیں بطور تحفہ پیش کرے تاکہ مسلم اقلیت کو اپنی عظمتِ رفتہ پر ناز کرنے کی بجائے نئی عظمتوں کو حاصل کرنے کا موقع مل جائے اور یہ موقع اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جبکہ اقلیت اور اکثریت کے درمیان بڑھنے والی خلیج کو دور کیا جائے۔ اس خلیج کو پاٹنے کا صرف ایک ہی وسیلہ ہوسکتا ہے، جسے محمد دارا شکوہ نے اپنی زندگی میں اختیار کیا تھا جو صوفیانہ زندگی پر عمل آوری کا مرحلہ تھا۔ چنانچہ شکیل الرحمٰن نے بھی اس کتاب کے ذریعہ مسلمانوں کو صوفیانہ حق گوئی، مجاہدے اور مکاشفہ کے علاوہ بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہو کر اپنی سرخروئی کی دعا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں تاکہ کتاب دارا شکوہ کے مطالعہ سے ان کے ذہن کی گرہیں کھل جائیں اور وہ مذہب کے سچے پیرو ہو کر ہر مذہب کے انسانوں اور پیروؤں کی عزت کرنے کے علاوہ انھیں احترام کی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہو جائیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس کے توسط سے ہندوستان میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ جب تک نئی نسل کو ایسی تعلیمات سے وابستہ نہیں کیا جائے گا، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں اسلام کو برتری حاصل ہو۔ غرض یہ کتاب اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اس کو انگریزی اور دوسری اہم زبانوں میں ترجمہ کر کے برادرانِ وطن کی خدمت میں پیش کیا جا نا چاہئے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور ہندوستان میں بسنے والی دو قومیں ایک دوسرے سے قریب ہو کر نہ صرف اپنی بقا کی کوشش کریں بلکہ سچائی کو اختیار کرنے کی بھی عادی ہو جائیں۔ شکیل الرحمٰن کی کتاب اور اس کے مقصد سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کے کتنے بڑے مداح ہیں اور اسلام کے فروغ کے سلسلے میں کیسی تڑپ رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جذبہ کی قدر کی جائے اور اس پر عمل کرتے ہوئے دن بہ دن پھیلنے والے تفرقہ کے تدارک کے لئے میل جول کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس راستے کی نشاندہی خانقاہی نظام اور صوفیانہ تعلیمات سے ہوتی ہے جسے دارا شکوہ نے اپنی زندگی میں اختیار کر کے کامیابی و کامرانی حاصل کی تھی۔ یہ کتاب دوسو روپے اد ا کر کے نورانی دنیا پبلی کیشنز، دریا گنج یا پھر عرفی پبلی کیشنز مدھو بن267Aساؤتھ سٹی۔ ۱۔ گڑگاؤں۔ ہریانہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭
اے۔ خیام
کراچی۔ پاکستان
’’منٹو شناسی‘‘ —ایک تقابلی مطالعہ
’’منٹو کے افسانوں میں کوئی ابہام نہیں، نہ تو کوئی پوشیدہ رمز و اشارے ہیں، نہ کوئی پیچیدہ گتھیاں ہیں کہ ان کے سلجھانے میں دقت محسوس ہو، وقت کے ساتھ ساتھ نئی تشریحیں اور تفسیریں ہوں، تہ در تہ معانی نکالے جائیں۔۔۔۔ یہ صاف کھلی، سیدھی اور براہِ راست نوعیت کی تحریریں ہیں، جن کا پیغام واضح ہے۔ ‘‘
پتہ نہیں ممتاز شیریں نے کس موڈ میں ایسا حکم لگا دیا ورنہ منٹو کے اکثر افسانیوں میں ابہام تو شاید نہ ہو لیکن پوشیدہ رمز و اشارے یقیناً ہیں۔ کچھ پیچیدہ گتھیاں بھی ہیں اور ان کو سلجھانے کی کوشش بھی کرنی پڑتی ہے، ان کی نئی تشریحیں اور تفسیریں بھی ہوتی ہیں اور تہ در تہ معانی بھی نکالے جاتے ہیں۔ منٹو کی تمام تحریریں صاف، کھلی، سیدھی اور براہِ راست نوعیت کی بھی نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو منٹو کو سمجھنے کے لئے خود ممتاز شیریں کو ایک پوری کتاب لکھنے کی ضرورت در پیش نہ ہوتی۔ پھر بھی اگر اوپر دئے گئے حوالے کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال ذہن میں سر ابھارتا ہے پھر آخر وہ کون سی چیزیں ہیں جو منٹو کو بڑا افسانہ نگار بناتی ہیں۔
فارم یا ہیت کے اعتبار سے؟
کردار نگاری کے حوالے سے؟
موضوعات کے انتخاب کے سبب؟
یا اسلوب کی وجہ سے؟
آخر وہ کیا چیزیں ہیں جو اس کے افسانوں کو دوسرے افسانوں سے ممیز اور بڑا بناتی ہیں ؟
پھر یہ بھی کہ
اس ’’بڑائی‘‘ کی تشکیل میں کون سے عوامل کارفرما ہیں، کیا اس کی شخصیت کی تعمیر مختلف انداز سے ہوئی تھی؟
یا کوئی ایسی کجی تھی جس نے اسے مسلسل جھنجھلاہٹ کا شکار بنا رکھا تھا؟
کیا اس کے ذہن کی نفسیاتی گرہیں کھولنے سے اس کی شخصیت کے پہلو اجاگر ہوسکتے ہیں ؟
اس کی جھجھلاہٹ، اس کی جھلاہٹ، غصہ، محبت، نفرت، آخر کس سمت اشارہ کرتی ہے۔ ؟
اسے کتنی محبتیں ملیں اور کتنی نفرتوں سے سابقہ پڑا۔ ؟
تعلیم اور مطالعہ کس طرح کا رہا؟
اس کی ذہنی تربیت کیسی رہی؟
ماحول کیسا رہا اور حالات کیسے رہے؟
اگر ان تمام چیزوں کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو کہ سکتے ہیں کہ منٹو کو ایک بڑا فنکار بننا ہی تھا۔
منٹو کے تجزیاتی مطالعے میں مختلف زاویۂ نظر اور فہم و ادراک کے مختلف اندازِ فکر کے اعتبار سے مندر ذیل کتابیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں :
۱۔ سعادت حسن منٹو اپنی تخلیقات کی روشنی میں (ایک نفسیاتی تجزیہ)
سید محمد محسن(اشاعت ۱۹۸۲ء)
۲۔ منٹو نوری نہ ناری ممتاز شیریں (اشاعت ۱۹۸۵ء)
۳۔ منٹو نامہ جگدیش چندر ودھاون (اشاعت ۱۹۸۵ء)
۴۔منٹو شناسی شکیل الرحمٰن (اشاعت ۱۹۹۷ء)
ان کے علاوہ درسی ضرورتوں کے تحت بہت کچھ لکھا گیا۔ اس مطالعے میں ان کی گنجائش نہیں نکلتی۔ مفرد مضامین بھی خاصی تعداد میں لکھے گئے۔ کسی ایک پہلو کو لے کر بھی مضامین کی خاصی تعداد ہے۔ مختلف اذکار میں بھی منٹو حوالہ بنتا ہے۔ کئی رسالوں کے گوشے اور خصوصی نمبر بھی منٹو کے مطالعے میں ممد و معاون ہوتے ہیں لیکن متذکرہ بالا کتابیں کئی اعتبار سے منفرد ہیں جن میں مختلف زاویوں سے منٹو کی شخصیت اور فن کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور اکثر پہلوؤں کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور تجزیاتی مطالعہ بھی سامنے آتا ہے۔
سید محمد محسن کی تصنیف اپنی نوعیت کی ایک منفرد تصنیف ہے جس میں منٹو کی شخصیت کا ان کے کرداروں کی روشنی میں نفسیاتی جائزہ لیا گیا ہے لیکن اس سے پہلے منٹو کے خاندانی حالات، ابتدائی زندگی، فلمی دنیا سے وابستگی، اس کی زندگی کا آخری دور، ازدواجی زندگی، عادات و خصائل، اس کا مزاج اور افتادِ طبع، اس کی ذہنی کشمکش اور داخلی انتشار اور جنسی رجحانات کا بڑی گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا گیا ہے اور تب ہی محمد محسن، منٹو کے افسانوں کے کرداروں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا اکثر معروف کرداروں کے حوالے سے منٹو کی تحلیلِ نفسی کی گئی ہے اور اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے آخر منٹو نے ان کرداروں کا انتخاب کیوں کیا یا اس شکل میں انھیں کیوں پیش کیا یا منٹو کا زاویۂ نظر ایسا کیوں تھا۔
’’وہ(منٹو)عدیم المثال تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اس بنا پر اگر اسے جینیس کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جینیس کی شخصیت محض غیر معمولی نہیں ہوتی بلکہ عام شخصیتوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے ابنارمل(غیر عمومی)بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے جینیس کو بذاتِ خود ایک نوع باور کیا جاتا ہے۔ منجملہ اس کے دوسرے اور اوصاف کے جینیس کی شخصیت بہت متنوع ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت کے گونا گوں پہلو ہوتے ہیں۔ اکثر ان کے اندر ربط و ضبط اور توازن کا نشان نہیں ملتا۔ منٹو کی شخصیت پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کے اندر ہمیں حیرت انگیز تضاد، الجھاؤ اور بے ربطی کا مشاہدہ ہوتا ہے اور بادی النظر میں اس کی شخصیت ہمیں ایک معمہ نظر آتی ہے۔ ‘‘
ممتاز شیریں خود ایک تخلیق کار تھیں اور فکشن پر بڑی گہرا نگاہ رکھتی تھیں۔ اپنی رائے کا دو ٹوک اور بیباکانہ اظہار بھی کرسکتی تھیں۔ انھوں نے جس توجہ اور محویت کے ساتھ منٹو کا مطالعہ کیا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
جگدیش چندر ودھاون باقاعدہ معروف نقادوں میں شمار نہیں کئے جاتے لیکن ’’ منٹو نامہ‘‘ تخلیقی نقطۂ نظر سے ایک اہم کتاب ہے۔ زندگی کے ابتدائی سالوں سے لے کر وفات تک منٹو کی حیات کا ہر گوشہ زیرِ تحریر و بحث لایا گیا ہے۔ ان کے نزدیک بھی منٹو کی شخصیت کی تعمیر میں جن عوامل نے حصہ لیا ان کے اثرات سے منٹو کا فن مزین ہے۔
’’جس دور میں منٹو نے لکھنا شروع کیا، نئے ادب کی تحریک کا دور تھا۔ قنوطیت، یاسیت اور تلخی اس دور کے ادب کا خاصہ بن چکی تھی۔ موجودہ ماحول سے بے زاری اور مایوسی، پرانی مروجہ قدروں سے کھلی بغاوت، اس وقت ادب میں یہ عناصر نمایاں تھے۔۔۔۔ ۱۹۳۶ء کی تحریک کے بعد ہمارے نئے ادب میں ایک قوت، تیزی اور گرمی ضرور آ گئی تھی لیکن اس میں زندگی اور انسان سے محبت نہیں تھی بلکہ زندگی اور انسان پر ایک وحشیانہ حملہ تھا۔ یہ حملہ دراصل براہِ راست انسان پر نہ تھا بلکہ اس سماج اور نظامِ زندگی جو انسان اور انسانی زندگی کی ابتری کا ذمہ دار تھا۔۔۔ منٹو کے سے حساس ادیب نے، جس کی طبیعت میں اضطراب، بے چینی، بے اطمینانی اور قلم میں آگ کی تیزی اور تپش ہے، ان اثرات کو سب سے زیادہ قبول کیا تھا۔ منٹو کی تحریروں میں بھی ایک تلخی، یاسیت اور قنوطیت تھی۔ ‘‘
جگدیش چندرودھاون نے بڑی محنت سے منٹو کی زندگی کی ایک تخلیقی Chronologyتیار کی ہے اور ان کے اثرات تک رہنمائی کی ہے۔ انھوں نے منٹو کے اکیس افسانوں کا تخلیقی اسلوب میں تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے منٹو کو سمجھنے کے لئے ان کے افسانوں کے علاوہ ان کی مرقع نگاری، مکتوبات اور طنز و مزاح کو بھی موضوع بنایا ہے۔
اس ضمن میں شکیل الرحمٰن کی منٹو شناسی ایک الگ جہت رکھتی ہے۔ تخلیق کا تخلیقی اسلوب میں تجزیہ۔ یہ ایک الگ نوعیت کا کام ہے اور منٹو کو تلاش کرنے کا انوکھا، دلچسپ اور فکر انگیز طریقہ ہے۔ منٹو کے کرداروں کی جمالیات کا تطابق اساطیری کرداروں سے بھی کیا گیا ہے اور مختلف مذاہب کے افکار اور مختلف زبانوں کی کلاسیکیت سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سعادت حسن منٹو، شکیل الرحمٰن کے لئے بھی ایک پر کشش فنکار رہا ہے۔
’’اردو فکشن میں سعادت حسن منٹو ایک حیرت انگیز، انوکھا اور خوشگوار حادثہ ہیں۔ ادبیات کی تاریخ میں ایسے حادثے بہت کم ہوتے ہیں اور جب ہوتے ہیں تو ’’وژن‘‘ تبدیل ہو جاتا ہے، اس لئے کہ زندگی کی کوکھ سے گہرے رشتے کی وجہ سے فن کا اسلوب بدل جاتا ہے۔۔۔ بڑے تخلیقی فنکار اپنے عہد کی شناخت بن جاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو اپنے عہد کی شناخت ہی تو ہیں کہ جنھوں نے جمالیاتی اور فنی تناظر میں اپنے تخلیقی رویئے سے ایک ایسے منظر نامے کی تخلیق کی کہ جس سے ایک جانب زندگی کے تضادات کی معنی خیز تصویریں خلق ہوئیں اور دوسری جانب داخلی تصادم اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا سچا احساس ملا، ایک جانب خارجی اور ذہنی عوامل کے حیرت انگیز انتشار کے مرقعے نقش ہوئے اور دوسری جانب احساس اور جذبے کی گہرائیوں اور ذہن کی کشادگی کے ساتھ متضاد زندگی کا عرفان حاصل ہوا۔۔۔۔ ‘‘
شکیل الرحمٰن کی ’’منٹو شناسی‘‘ دلکشی ہی نہیں رکھتی بلکہ احساسات کی رو میں کچھ اس طرح بہاتی چلی جاتی ہے جس سے منٹو پرت پرت کھلتا چلا جاتا ہے اور اس کی ایک حسین شبیہ ابھرتی ہے، ایک بڑے فنکار منٹو کی شبیہ۔ ’’منٹو شناسی‘‘ میں منٹو کے پندرہ افسانوں کا بھرپور فنکارانہ تجزیہ انتہائی گہرائی میں اتر کر کیا گیا ہے اور ایک انوکھے انداز میں جو فکر کو بھی انگیخت کرتا ہے اور جمالیاتی توضیح کی بھی تشکیل کرتا ہے۔
متذکرہ بالا کتابوں میں منٹو کے کئی افسانوں کو اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ یہاں ایک افسانہ ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ممتاز شیریں کی نظر میں ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ منٹو کی زندگی میں ایک اہم موڑ تھاجس سے منٹو کی افسانہ نگاری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ ’’اس میں منٹو نے خلافِ معمول بڑا بھر پور، پیچیدہ اور مکمل کردار پیش کیا تھا اور اس کردار کو پیش کرتے ہوئے منٹو کا رویہ بھی ایک سچے فنکار کا تھا۔ ایک مکمل کردار کے ساتھ اس افسانے میں ایک مکمل اور بھرپور تجزیہ بھی تھا۔ ‘‘
جگدیش چندر ودھاون نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ منٹو نے ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ کے بہت پیچیدہ کردار کو بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ ’’منٹو یہ بنیادی کلیہ مان لیتے ہیں کہ انسان ظلمتوں اور روشنیوں اور رفعتوں اور پستیوں کی اچھائیوں اور برائیوں کا پیکر ہے۔ گویا انسان کی پیچ در پیچ اور تہ در تہ شخصیات متضاد عناصر کے امتزاج سے بنتی ہے۔ بابو گوپی ناتھ کی شخصیت کے ظاہر اور باطن میں یہ تضاد بہت نمایاں طور پر موجود ہے۔ ‘‘
اس کہانی کے بارے میں شکیل الرحمٰن نے ’’منٹو شناسی‘‘ میں اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے:
’’حقیقت کو اس کی اکہری صورت میں پیش کر دینا ا یک بات ہے اور حقیقت کو زندگی کے آہنگ، آواز، روشنی، تاریکی اور خوشبوؤں کے ساتھ پیش کرنا اور بات ہے۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے لمحوں کی فضاؤں، لمحوں کی خوشبوؤں اور لمحوں کے آہنگ کو لئے ہوتے ہیں۔ ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ لمحوں کی فضا اور لمحوں کی خوشبو اور لمحوں کے آہنگ کی ایک بڑی خوب صورت کہانی ہے۔ ان کا اثر احساس پر ہوتا ہے، ان سے جذبہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک عمدہ جمالیاتی تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘
اس افسانے کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ ممتاز شیریں کے نزدیک ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ ایک بڑا اہم موڑ تھاجس سے منٹو کی افسانہ نگاری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ منٹو کے آخری دور کی دو تحریریں ’’سڑک کے کنارے اور ’’اس منجدھار میں ‘‘ ممتاز شیریں کے نزدیک منٹو کی ادبی تکمیل کی مظہر ہیں جن میں ’’ایک تکمیل‘ ایک وسعت، ایک کائناتی گہرائی کا احساس ہے، زندگی اور وجود کا ایک فلسفہ ہے۔ ‘‘
منٹو کے کئی دوسرے افسانوں پر بھی مختلف ناقدین کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جا سکتا ہے لیکن غیر ضروری طور پر مضمون کی طوالت کا اندیشہ ہے۔ یوں بھی ہر ناقد کا اپنا زاویۂ نظر ہوتا ہے لیکن اس کے بڑے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ کوئی گوشہ ’دریافت، ہونے سے رہ جاتا ہے اور بعد میں کسی دوسرے ناقد کی نظر وہاں تک جا پہنچتی ہے اور اس کی جو ’دریافت، ہوتی ہے وہ کچھ مختلف انداز میں سامنے آتی ہے اور اس کے باوجود پھر کچھ دریافت ہونے سے رہ جاتا ہے۔ یہی چیز کسی فن پارے کو بڑا بناتی ہے جس کے لئے مختلف ناقدین کی مختلف تاویلات ہوتی ہیں۔ منٹو کے کئی ایسے افسانے ہیں جن میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو کسی افسانے کو بڑا بناتے ہیں۔ لیکن ان تمام افسانوں کا تقابلی مطالعہ یہاں طوالت کا سبب بنے گا۔ پھر بھی منٹو کی شخصیت اور اس کے فن کے کچھ گوشے ایسے بھی ہیں جن کے جدید مطالعے سے ہمیں منٹو کو نئے انداز میں دیکھنے کا موقع میسر آتا ہے۔
’’ـــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔ (منٹو کے)اکثر و بیشتر افسانوں کی بنیاد ان کے مشاہدات پر ہے۔ دوستوں کی نفسیات، انڈین کرسچین لڑکیوں، عورتوں اور رنڈیوں کے نفسیات، فلم کمپنیوں کے شب و روز کے متعلق اور اپنے تجربوں اور خواہشات کی بنیاد پر انہوں نے بہ کثرت افسانے لکھے ہیں۔۔۔۔۔۔ ’جنس کا طلسم جن میں ان کا شعور اور لاشعور چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے، حد درجہ مریضانہ ہے۔ ‘‘
منٹو کے لئے اس طرح کی رائے رکھنے کے باوجود عزیز احمد اپنے افسانوں میں اور ’’گریز‘‘ اور ’’ہوس‘‘ جیسے ناولوں میں واضح طور پر جنسی تلذذ پیدا کرنے کے دانستہ مرتب ہوئے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
اس ضمن میں مظفر علی سید کی یہ رائے بھی دیکھ لیں :
’’جنس زدہ لکھنے والوں کے ساتھ منٹو کو محشور کرنے کی ایسی کوشش منظم طریقے سے عزیز احمد، علی سردار جعفری اور سجاد ظہیر کی کتابوں میں اور ان کے زیر اثر وقار عظیم اور ممتاز احمد تک کے یہاں ملتی ہے، اگرچہ اتنے مدلل انداز میں نہیں۔ ان بزرگوں کے رویئے پر سلیم احمد کا یہ کہنا غلط نہیں کہ انہوں نے مولانا ماہر القادری اور عبد الماجد دریا آبادی کی زبان بولنا شروع کر دیا ہے۔۔۔۔۔ ‘‘ منٹو کے ’’جنس‘‘ کے نظریئے کے متعلق ممتاز شیریں لکھتی ہیں :
’’منٹو کا نظریہ جنس کے متعلق ہمیشہ صحت مند رہا ہے اور وہ اسے ایک ازلی، فطری، صحت مند جذبہ سمجھتا رہا ہے۔۔۔۔ ‘‘
منٹو کی تحریریں ’فحاشی کے تحت نہیں آتیں۔ ہمارے یہاں جنس نگار ادیبوں میں منٹو کی تحریریں سب سے زیادہ صاف ستھری ہیں ــ۔۔۔۔ ‘‘
ان خیالات کے حامی سید محمد محسن بھی ہیں۔ جس طرح کے ماحول میں منٹو نے زندگی گزاری اس میں اخلاقی طور پر وہ بے حد مضبوط ثابت ہوا۔ سید محمد محسن کی رائے میں منٹو کے افسانے فحش نگاری کے ذیل میں نہیں آتے۔
در اصل جنس کے موضوع کا ہمارے ادب میں گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا گیا۔ یا تو واتسوئن کا ’کوک شاستر‘ ایک مثال بنا، یا جنسی تلذذ کے حصول کے لئے لکھی جانے والی تحریریں۔ دیگر سنجیدہ موضوعات کی طرح ’جنس، بھی ایک علم ہے جس کا مطالعہ اسی سنجیدگی کا متقاضی ہے جیسے دوسرے علوم۔ ممتاز شیریں کے نزدیک:
’’جنس کے موضوع کی صدیوں سے ادب میں خاص اہمیت رہی ہے۔ عورت اور مرد کا رشتہ ایک ازلی اور ابدی رشتہ ہے۔ آدم و حوا کے بنیادی گناہ اور بہشتِ گم گشتہ سے لے کر آج تک بھی ہر معاشرے میں جنس کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ الہامی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے جن میں جنس کے رشتہ کو شرمناک نہیں بلکہ مقدس بتایا گیا ہے کہ اس سے حیات کی تجدید ہوتی ہے۔۔۔۔ ‘‘
شکیل الرحمٰن نے ’’منٹو شناسی‘‘ میں ’سیکس‘ کے لئے ایک خصوصی باب کا اہتمام کیا ہے اور منٹو کے ’’جنسی رجحان‘‘ کا غائر مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک:
’’سعادت حسن منٹو اردو فکشن میں ایک فینومینن(Phenomenon)ہے۔۔۔۔۔ وہ تجربوں کے ’رسوں، کے فن کار ہیں جو ’آنند‘ اور جمالیاتی سرورو انبساط عطا کرتے ہوئے ایک ’وژن‘ بخش دیتے ہیں۔ جنس اور جنس کے مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے بھی اپنی تیز گہری نظر اور ’’وژن‘‘ کا گہرا احساس عطا کرتے ہیں۔۔۔۔ سیکس الوہی تخلیقی توانائی ہے۔ اس سے انسان کی صفات نے جنم لیا ہے۔ عورت اور مرد دونوں اس کے پیکر ہیں۔ سیکس زندگی کے داخلی اسرار کا نام ہے۔۔۔۔۔ سیکس مذاہب عالم کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ لیکن فنونِ لطیفہ نے اسے جمالیاتی انبساط اور جمالیاتی آسودگی کا سب سے بڑا ذریعہ تصور کیا۔ فنونِ لطیفہ جبلتوں کا احترام کرتا ہے لہٰذا دنیا کے فنون اور اس کی جبلت کی اہمیت بڑھی، کچھ اس طرح کہ یہ موضوع اور اسلوب دونوں کی تخلیق کا سرچشمہ بن گیا۔۔۔۔۔ اس ہمہ گیر اور وسیع تناظر میں مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعادت حسن منٹو نے سیکس کو صرف چھو لیا ہے اور بس!!وہ جنسی ترغیب اور جنسی لذتوں کے فن کار نہیں ہیں۔۔۔۔ فنونِ لطیفہ میں سیکس بہت بڑی روایت ہے، قدیم علمائے جمالیات اور بڑے فنکاروں نے اس خیال کا اظہار مختلف انداز سے کیا ہے کہ سیکس میں بھی جسم اور روح کا سارا جمال اور ذہن کی رفعت اور بلندی کا سارا حسن موجود ہے، جنسی عمل کو تو ایک انتہائی دلفریب اور پُراسرار عبادت بھی کہا گیا ہے۔۔۔۔۔ ‘‘
ایسا لگتا ہے کہ منٹو ان رموز سے پوری طرح واقف تھا۔ اگر اس نے اس علم کا باقاعدہ مطالعہ نہیں بھی کیا تھا تو بھی وہ اپنے طور پر ایک تصور ضرور رکھتا تھا۔ اس روشنی میں اگر ہم ’’کالی شلوار‘‘ ، ’’بو‘‘ ، ’’موذیل‘‘ ، ’’ہتک‘‘ ، ’’کھول دو‘‘ ، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ، سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ ، وغیرہ کا مطالعہ کریں تو کسی جنسی تلذذ کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ’اخلاقیات‘ کا کوئی گوشہ کھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
منٹو کے مطالعہ میں شکیل الرحمٰن کا ’’منٹو شناسی‘‘ ایک اہم تصنیف ہے جو ایک انوکھے انداز میں منٹو کے افسانوں کے رموز سے واقف کراتا ہے اور منٹو کے افسانوں کی طرح ہی ایک سحر میں گرفتار کرتا ہے۔
یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ شکیل الرحمٰن یا ان کی کتاب ’’منٹو شناسی‘‘ کو کسی دوسرے نقاد یا کسی دوسری کتاب پر ترجیح یا فوقیت دینے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ ہر نقاد کا اپنا زاویۂ نظر ہوتا ہے، وہ اپنے طور پر فن کے مخفی گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے یا تجزیہ کرتا ہے۔ یہاں جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یہ کہنے میں، میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ شکیل الرحمٰن کی کتاب ’’منٹو شناسی‘‘ اپنے ڈھب کی ایک الگ کتاب ہے جو مروجہ تنقیدی اصولوں سے رو گردانی کرتے ہوئے تخلیقی سطح پر ہی تخلیقات کا جائزہ لیتی ہے۔
٭٭٭
شکیل الرحمٰن
روایات اور غالب
٭ غالب کے جمالیاتی شعور اور ان کے ’وژن‘ اور ان کے ذہنی اور جذباتی پس منظر میں مندرجہ ذیل روایات اور ان کے پراسرار آہنگ کے سفر کو زیادہ اہمیت دینا چاہتا ہوں۔
٭ وسط ایشیا اور اسلامی ملکوں کی تہذیبی قدروں کی آمیزش کے جمالیاتی تجربوں کا تاریخی سفر اور ’تہذیبی مرکزوں‘ کے جمالیاتی تجربے!
٭ ہندوستانی تہذیب اور اسلامی تہذیب کی آمیزش اور اس کے تہذیبی جلوے!
٭ ’ہند مغل جمالیات، کے داستانی طلسمات اور قدیم قصوں، حکایتوں، فسانوں اور داستانوں کے ذخائر اور ان کی سحر انگیزیاں !
٭ ’ہند مغل جمالیات، مصوری، نقاشی، صورت گری، موسیقی، رقص اور فنِ تعمیر کی جمالیاتی جہتیں !
٭ مابعد الطبیعاتی اور روحانی تصورات کی آمیزشوں کے جلوے اور مختلف علاقائی زبانوں کے صوفی شعرا اور عوامی جذبوں کی مابعد الطبیعاتی سطح تک لے جانے والے عوامی نغمہ نگاروں اور فنکاروں کے تجربے!
٭ اور مغل شعری اسالیب کی جمالیات، عہدِ بابر سے بہادر شاہ ظفر کے عہد تک!
سبک ہندی کی سحر انگیزی جس سے ایران اور خراسان کے شعرا بھی متاثر ہوئے نظیری، عرفی، ظہوری، خسرو اور بیدل کے نگار خانے، صائب اور حزیں وغیرہ کے اسالیب کی جہتیں !
غالب کی شخصیت، ان کے وجدان اور ان کی جمالیات کا مطالعہ، ان روایات کی شعاعوں اور ان کے افضل ترین ارتعاشات کو جانے اور محسوس کئے بغیر ممکن نہیں ہے، میں غالب کا ایک ادنیٰ معمولی قاری ہوں، اسے کیا کہئے کہ ان کی شخصیت اور ان کے کلام کے مطالعہ سے میرے تاثرات مجھے ان روایات کے قریب لے آئے ہیں
اور اس طرح ایک بڑی ہمہ گیر اور تہ دار شخصیت اور ایک انتہائی خوب صورت تہ دار ’وژن‘ کا احساس ملا ہے، ایک بے پناہ پھیلے ہوئے لاشعور نے مجھے اپنی طرف کھینچا ہے اور اس سچائی پر یقین آ گیا ہے کہ غالب کی بہتر(۷۲)سال اور چار مہینے کی عمر نے ماضی کی جمالیات کو بہت حد تک جذب کر لیا تھا ا ور حال میں بھی ان کی جڑیں اپنی مٹی میں پیوست تھیں !
غالب ایک تہذیب کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایک بڑی تہذیب کی علامت کے طور پر زندہ ہیں۔ وہ صدیوں کے جمالیاتی اقدار کے سفر کی داستان پیش کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ ایک تہذیب کا جمالیاتی شعور حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسی علامت ہیں جس کی مدد سے ایک بڑی تہذیب اور ہندوستان کی مٹی پر دو بڑی تہذیبوں کی خوبصورت ترین آمیزشوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ غالب ایک بڑی سچائی کا نام ہے۔ ایک ہمہ گیر تہذیب میں وہ ایک بڑی علامتی سچائی بھی ہیں۔ ان کے ساتھ تو وہ تہذیب ہی رخصت ہو گئی کہ جس نے ایک ہمہ گیر نظامِ جمال کی تشکیل کی تھی، ہندوستانی جمالیات کے تسلسل کو جاری رکھا تھا اور جمالیاتی تجربوں کی خوب صورت آمیزش سے تہذیب کی اعلیٰ اور افضل ترین اقدار کو دیکھنے کے لئے ایک نگاہ بخش دی تھی۔
غالب کے فعال لا شعور اور ان کی جمالیاتی فکر نے ’’ہند مغل جمالیات‘‘ کی اقدار اور خصوصیات کو اس شدت سے جذب کیا ہے کہ ان کی جمالیاتی قدریں پگھل کر ان کے تجربوں میں جذب ہو گئی ہیں، وہ خود اس جمالیات کے ایک عظیم فنکار بن گئے ہیں !ایسی روایات کے خالق جو مغل آرٹ اور ہندوستانی جمالیات کی آمیزش کی متحرک صورتیں ہیں۔
ہند مغل جمالیات میں داستانی فضا، داستانی روحانیت اور داستانی سحر آفریں واقعات و کردار کی جو اہمیت ہے ہمیں معلوم ہے سنسکرت اور پراکرتوں کی کہانیاں اور عربی اور فارسی اور داستانیں اپنی بے پناہ رومانیت کے ساتھ اس جمالیات کے پس منظر میں موجود ہیں۔ ہند مغل جمالیات نے شاعری، مصوری، صورت گری، مجسمہ سازی، فنِ تعمیر اور عوامی گیتوں اور نغموں میں ’’داستانیت‘‘ کو شدت سے جذب کیا ہے، شعری روایات میں داستانی کردار اور ان سے وابستہ حکایات و واقعات ملتے ہیں۔ ہند مغل مصوری نے اکبر کے عہد میں ہندی اور عجمی داستانوں کے واقعات نقش کئے اور داستانیت ہند مغل مصوری کی روح میں جذب ہو گئی۔
غالب جو ان روایتوں کی روشن علامت تھے شعوری طور پر بھی ان سے بے خبر نہ تھے۔ انھوں نے جہاں محفلوں کی آرائش و زیبائش دیکھی تھی وہاں قلعوں کی اندرونی دیواروں کی تصویریں بھی دیکھی تھیں، جہاں صورت گری اور مجسمہ سازی کے نمونے دیکھے تھے وہاں مثنویوں اور رزمیہ نظموں میں مصوروں کی تصویر کاری کے شاہکار بھی دیکھے تھے۔ جہاں تخیلی قصوں اور داستانوں کو پڑھا تھا وہاں مذہبی اور اخلاقی حکایتوں اور’ میدانِ کربلا‘کے واقعات اور قصص الانبیا، قصص القرآن اور دوسرے مذاہب کی تمثیلوں اور حکایتوں سے بھی واقف تھے۔ ان عظیم روایت سے ان کا رشتہ تخلیقی نوعیت کا ہے۔ اس تخلیقی رشتے کی بہترین پہچان ان کی تہذیبی شخصیت کی پہچان ہو گی!
٭ہندوستان بھی قصوں، کہانیوں اور داستانوں کا ایک قدیم ملک ہے۔ ہندوستانی ذہن نے اساطیری ماحول میں نت نئی کہانیاں اور حکایتیں خلق کی ہیں، جانے کتنے اساطیری کرداروں کو تراشا ہے۔
کہانیوں اور حکایتوں کی تاریخ ماضی کے دھندلکوں میں ہے۔ ان کی تاریخ عوام کے احساسات اور جذبات کی تاریخ ہے۔ اس کی ابتدائی منزلوں کی نشان دہی ممکن نہیں ہے۔ یہاں کے لوگوں نے اپنے خوابوں، خیالوں اور تجربوں اور فینتاسی کو کہانیوں، قصوں اور حکایتوں کی صورتیں دی ہیں۔ دیویوں اور دیوتاؤں کے کردار اور ان سے وابستہ کہانیاں اور قصے جہاں خوف، حیرت اور مسرت کے جذبوں کو نمایاں کرتے ہیں وہاں کائنات کی وحدت اور اشیا و عناصر کی جمالیاتی وحدت کا بھی احساس عطا کرتے ہیں۔ کشمکش اور تصادم کی جانے کتنی تصویریں ملتی ہیں اور فوق الفطری عناصر اور قدرت کے جلال سے ٹکرانے اور جمالِ کائنات سے پراسرار رشتہ قائم کرنے کی خواہش کی وجہ سے جادو، منتر اور طلسماتی ارتعاشات اور ’یوگ‘ کے جانے کتنے تجربے ملتے ہیں۔
ہندوستانی حکایتوں اور قصوں میں جہاں انسان کی بنیادی جبلتوں کا اظہار ہے وہاں زندگی میں تنظیم پیدا کرنے اور زندگی کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور مختل ذہنی سطحوں پر جمالیاتی آسودگی حاصل کرنے کی آرزو بھی ہے۔ جذبات کی عجیب و غریب دنیا ملتی ہے جہاں رموز واسرار، تحیر، دہشت، محبت اور جنس اور ما بعد الطبیعاتی اور دینی تجربوں کی ان گنت جہتیں ہیں۔
رگ وید کے دیوتا اپنی اپنی شخصیتوں اور اپنے لازوال قصوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں، قدیم بولیوں اور پراکرتوں میں اور بہت سی کہانیوں اور حکایتوں کے ساتھ ان دیوتاؤں کی کہانیوں کی کئی جہتیں پیدا ہوئیں۔ مقامی عقائد اور جذبات نے ان میں کئی نئے پہلو پیدا کئے۔ پیکروں کی تشکیل میں ہندوستانی ذہن اور’وژن‘ نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کی مثال آسانی سے نہیں ملتی۔ اشیاء و عناصر ہوا، آگ، غار، طوفان، ندی، پہاڑ، سب پیکر بن کر اپنی پر اسرار شخصیتوں اور جانے کتنی کہانیوں کے ساتھ آئے۔ جنگل کی تہذیب سے رگ وید کی تخلیق تک اور رگ وید اور اپنشدوں کی تخلیق سے رامائن، مہابھارت اور جاتکوں تک قصوں، کہانیوں اور حکایتوں کی ایک طویل داستان پھیلی ہوئی ہے۔ پنچ تنتر، برہت کتھا ور سرت ساگر وغیرہ مختلف سنگ میل ہیں، پرا کرتوں اور سنسکرت کی مقبول اور اساطیری اور رومانی کہانیاں سینہ بہ سینہ چلتی رہی ہیں۔ ان میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ دس کمار چرتر اور واسودتاکی رومانیت اور پرسراریت نے بہت سی کہانیوں کی تخلیق کے لئے اُکسایا، اسی طرح کادمبری اور ہرش چرتر نے فوق الفطری فضاؤں میں کرداروں کے عمل کی تصویریں پیش کیں، ہندوستان کی ان گنت کہانیاں دوسرے ملکوں اور علاقوں میں گئیں اور وہاں کے قصے اور داستان لکھنے والے اور حکایت نویس ان سے متاثر ہوئے۔ عرب اور ایران میں ہندوستانی قصوں اور کہانیوں کے ترجمے اور آزاد ترجمے ہوئے اور بیشتر قصے ان ملکوں کی روایات، مزاج اور ماحول سے وابستہ ہو گئے اور اکثر اس طرح جذب ہوئے کہ جب یہ واپس ہندوستان آئے تو ان کی صورتیں تبدیل ہو چکی تھیں۔
٭ہندوستانی قصوں اور حکایتوں کی مندرجہ ذیل خصوصیات جہاں دوسرے ملکوں کی کہانیوں کے موضوعات اور تکنیک میں جذب ہوئیں وہاں اردو قصوں اور داستانوں میں عربی اور فارسی داستانوں کی وجہ سے بھی شامل ہوئیں۔
فوق الفطری ماحول اور فضا !قصے سے قصے پیدا کرنا، بنیادی کہانی سے گتھے ہوئے کئی اور قصے، ضمنی کہانیاں، جادو اور سحر آفریں فضاؤں کی تشکیل، انسان کا جانور بن جانا، جانوروں کی طرح عمل کرنا اورانسان کی طرح بولنا، جانور کا اسرار سے آگاہ ہو نا اور انسان کا مددگار بننا، بد دعاؤں کے اثرات، جدا ہو کر اذیت ناک اور پراسرار تجربوں کو حاصل کرنا اور پھر مل جانا، خوابوں میں حسین صورتوں کو دیکھ کر عاشق ہو جانا، عشق محبت کی واضح تصویریں، قصے کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھنے کی کوشش، کرداروں کے عمل اور رد عمل پر واقعات کا انحصار، بزرگوں اور رشیوں وغیرہ کی دعائیں، ان کا اچانک ظہور یا کسی پرانے درخت یا جنگل میں عبادت کرتے یا تپسیا کرتے پا لینا، مرکزی کرداروں کی غیر معمولی طاقت اور ان کا اظہار، جذبات نگاری اور مبالغہ آرائی، تفریح کا خاص خیال، مذہبی اور دینی عقائد اور تجربات کا واضح اظہار، بہت سے واقعات میں یکسانیت، جنس یا سیکس کی غیر معمولی اہمیت، نیکی اور بدی کی کشمکش اور نیکی کی فتح، راکشسوں کی پیدا کی ہوئی مشکلات، رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے دیوتاؤں یا گزرے ہوئے بزرگوں کا انسانی پیکروں میں آنا، انمول رتن یا کسی انمول شے کو حاصل کرنے کی طویل جد وجہد، پہاڑوں کا تحرک، ان کا ہلنا اور چلنا، پاتال کی پراسرار فضائیں، انمول رتن یا انمول شے کی حفاظت کر نے والا خوفناک سانپ یا ناگ، زہر کا ستعمال، اپسرائیں اور ان کا حسن اور عمل، جادو کے زور سے کسی گلستان کا نظر آنا، اور پھر کبھی سراب کا تجربہ، رنگین اور روشن درخت اور پھول، خوبصورت دوشیزائیں جو عموماً سمندر یا ندیوں سے نکلتی ہیں، روپ بدلنے کا پر اسرار عمل، رقابت کا شدید جذبہ، بالشتیوں کی دنیا، مصیبتوں میں اپنے گرو کو یاد کرنا، بادشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں اور کنیزوں کے کردار، گھوڑوں کی تیز رفتاری، عقلمند وزیروں کی چال، وزیروں میں روحانی عظمت، مصوروں اور مجسمہ نگاروں کی اعلیٰ فنکاری، چوسر کا کھیل، شوہر پرستی، دوسرے مردوں سے شادی شدہ عورتوں کے تعلقات، کھوئی ہوئی روشنی کا آنکھوں میں آ جانا، مردہ جسموں میں زندگی کا پیدا ہو جانا، ڈھول اور بانسری کی آوازوں کی معنویت، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے گرہوں کا عمل، خوشحالی اور قحط کے مناظر، چشمے کی تلاش، تلاش کا مسلسل عمل، پرندوں سے دوستی اور ان کے احسانات، غیبی آوازیں، راجہ کی لڑکی پر فقیر کا عاشق ہو جانا، فحش نگاری، جانوروں کی کہانیوں میں اخلاقی نکات ابھارنا، جنس کی تبدیلی، نصیحتوں کو واضح طور پر پیش کرنے کا رجحان، قربانی کا جذبہ، بے خوابی اور شب کی بے چینی اور بے قراری کی تصویریں، احمق شوہروں کی حماقتیں، پراسرار درخت اور ان کے کرشمے، سونے جواہرات کا اچانک راکھ میں تبدیل ہو جانا، دوستوں کی وفا داری اور ان کی بے وفائی، لالچی راہب اور برہمن بھی دنیاوی خواہشات کے شکار، گناہ اور احساس گناہ، دیوتاؤں کا تخلیقی عمل، مصور دیوتا، اداکار دیوتا، اسرار معرفت کے رموز ونکات وغیرہ۔
رامائن، مہابھارت، بھگوت، وشنو پران اور دوسری پرانوں، پنچ تنتر، سک ستپتی اور جاتکوں وغیرہ کی کہانیاں اور حکایتیں ہر دور میں مقبول اور ہر دلعزیز رہی ہیں۔ ان کی تصویریں بھی بنی ہیں اور ان کے قصوں کو دیواروں پر بھی نقش کیا گیا ہے، کرداروں کے مجسمے تراشے گئے ہیں جن میں کہانیوں کا رس جذب ہوا ہے، بڑے بڑے دبیز کپڑوں پر کہانیاں پیش کی گئیں ہیں۔ یہ کپڑے لداخ، چین، سری لنکا، تبت اور وسط ایشیاکے مختلف علاقوں میں بھی پہنچے ہیں۔ کہانیوں کی بیشتر تصویریں برہمنوں اور بھکشوؤں کے ذریعے عراق، ایران اور خلیج فارس کے دوردراز علاقوں تک گئی ہیں، ہندوؤں اور بدھوں کی جانے کتنی علامتیں اس طرح دور دور تک پہنچی ہیں۔ ہندو، بدھ اور جین عقائد کو عوام کے احسا س اور جذبے سے ہم آہنگ کرنے کے لئے قصوں اور حکایتوں کا سہارا لیا گیا۔ دینی خیالات کی اشاعت کے لئے تخیلی کہانیوں نے بڑی مدد کی ہے۔ برہما، شیو، کالی، درگا، لکشمی، تارا، بدھ، بودھی، ستوا اور مہابیر کی انگنت کہانیاں، سچائیوں کو سمجھنے اور سمجھانے کا بہتر ذریعہ بنیں، سانکیہ عقیدے، وحدت الوجودی نظریئے، یوگ کی روحانی منزلوں کے احساسات اورہینانی اور مہا یانی عقیدے، سب عمدہ حکایتوں میں جلوہ گر ہوئے۔
اسلام کے قبل عربوں نے ہندوستا ن کی مٹی سے رشتہ قائم کیا تھا۔ ان کے قافلے ہندوستانی بندر گاہوں سے گزرتے تھے۔ اسلام کے آنے کے بعد عربوں کی بعض تحریروں میں سفر کی جو تفصیلات ملتی ہیں اور سمندروں اور بندر گاہوں کے جو تجربے ملتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تجربوں کی یہ تاریخ کتنی قدیم ہے۔ اسلامی ملکوں میں ہندو اچاریوں اور بودھ بھکشوؤں کی جو بستیاں آباد تھیں اور انھیں جو عزت حاصل تھی ہمیں اس کی خبر ہے۔ لین دین اور تہذیبی آمیزش کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا ہے۔
عرب اور ایران بھی قصے کہانیوں کے بڑے ممالک رہے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی قصوں اور کہانیوں کی روایات ماضی کے اندھیروں میں پوشیدہ ہیں۔ عربی ذہن اور عجمی شعور دونوں قصوں اور کہانیوں کے معاملے میں ہمیشہ شاداب رہے ہیں۔ عرب اور ایران میں کہانیوں اور داستانوں کی زندہ روایتوں کا ایک طویل سلسلہ رہا ہے۔ عربوں اور ایرانیوں نے ہندوستانی قصوں، کہانیوں اور حکایتوں کو بھی اپنے ذہن و شعور اور اپنی روایات سے اس طرح جذب کیا ہے کہ ان کی صورتیں بدل گئی ہیں۔ عرب میں داستان گوئی ایک فن تھا۔ داستان گو ریت پر بیٹھ جاتے، بازاروں اور قہوہ خانوں میں آ جاتے اور داستان شروع ہو جاتی۔ داستانوں کا سننا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ شجاعت اور بہادری کے قصے سنائے جاتے، جن اور پریوں کی کہانیوں کو انتہائی پراسرارانداز میں پیش کیا جاتا، اپنے عہد اور زمانے کے واقعات کو داستانی رنگ دے دیا جاتا اور انھیں اس طرح پیش کیا جاتا جیسے واقعات بہت پرانے ہوں۔
داستان گو بڑے خلاق ذہن کے مالک تھے جو کہانی سے کہانی پیدا کرتے اور اپنے اندازِ بیان کے سحر سے متاثر کرتے۔ داستانی اسالیب کے پہلے خالق وہی ہیں۔
ہندوستانی قصوں کی طرح یونانی قصوں نے بھی عربوں اور ایرانیوں کو شدت سے متاثر کیا ہے لیکن اس کے باوجود عربی داستانوں کی اپنی انفرادی خصوصیات ہیں اور ان خصوصیات نے دوسرے ملکوں اور خصوصاً ہندوستانی ذہن کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے۔ الف لیلہ، السند باد اور ماتہ لیلہ ولیلہ معروف عربی داستانیں ہیں۔
ایرانیوں کا فوق الفطری اوررومانی ذہن بڑا شاداب تھا۔ ۵۵۰ء کے لگ بھگ پنچ تنتر کے ترجمے ایران میں بے حد مقبول ہوئے اور انوار سہیلی اور عیار دانش نے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ شاہنامہ فردوسی کے کرداروں اور بعض افسانوی فضاؤں نے بے حد متاثر کیا۔ اخلاق محسنی، گلستاں، بوستاں، چار درویش، سیر حاتم، گلِ بکاولی، گل صنوبر اور داستانِ امیر حمزہ نے داستان نگاری کا ایک بڑا دبستان قائم کر دیا۔
عربی اور فارسی کی مشہور داستانوں، قصوں اور حکایتوں کے ترجمے اردو زبان میں ہوئے اور انہیں پورے ملک میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ الف لیلہ نے داستانی خصوصیات کو لوگوں کے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ کر دیا اور داستانِ امیر حمزہ نے داستان کی ایک عمدہ روایت قائم کر دی۔
عربی اور فارسی داستانوں میں وہ مصری قصے بھی جذب ہوئے جن میں یہودیوں کی فکر و نظر کام کر رہی تھی۔ فوق الفطری پیکروں کی تشکیل اور ان کے عمل میں مصری قصوں نے بڑا حصہ لیا ہے۔ الف لیلہ کے جو قلمی نسخے دریافت ہوئے ہیں ان سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے عقائد اور تصورات اور ان کے اسالیب کے اختلاف اور فرق کی پہچان ہو جاتی ہے۔ بعض محققین کا یہ خیال ہے کہ ۱۴۰۰ء کے لگ بھگ مصر میں الف لیلہ کی کہانیاں مکمل ہو گئی تھیں۔ کئی کہانیاں بعد میں شامل ہوئی ہیں۔ ان میں اکثر کہانیاں ہندوستانی بھی لگتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ الف لیلہ کی بنیادی کہانی ہندوستان سے باہر گئی تھی اور برہمن اور بدھ بھکشوؤں نے اسے عربوں میں مقبول کیا تھا۔ قدیم چینی کہانیوں میں بھی اس کے نقوش ملتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اسے بدھ بھکشو ہی لے گئے تھے۔
عربی اور فارسی داستانیں اور قصے کہانیاں اور حکایتیں تہذیبی آمیزش کے دور میں بے حد مقبول رہی ہیں اور دو بڑی تہذیبوں کی خوبصورت آمیزش میں پراسرار طور پر شریک بھی رہی ہیں۔ ہندوستانی ذہن نے انہیں فوراً قبول کر لیا ا ور انہیں بازاروں اور گھروں میں مقبول بنایا۔ ہمیں اس حقیقت کا علم ہے کہ عربی اور فارسی داستانیں گھروں اور بازاروں میں کس حد تک پسند کی جاتی تھیں۔ اردو نے اس بڑی اور ہمہ گیر تہذیبی آمیزش میں اس طور پر بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ ان کے ترجمے ہوئے اور اردو کے ذریعہ یہ قصے زیادہ مقبول ہوئے۔ اردو داستان نگاروں اور کہانی نویسوں نے انہیں پیش کرتے ہوئے اپنے فن کا بھی شدت سے مظاہرہ کیا۔ بعض قصوں کو تہذیبی مزاج کے مطابق ڈھالا، ان میں اضافے کئے، کرداروں سے دوسرے کئی واقعات اور حادثات وابستہ کر دئے۔ ترمیم وتنسیخ اور اور اضافوں کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔ سیدھی کہانیاں بھی پیش ہوئیں اور پیچیدہ قصے بھی لکھے گئے۔ عربی، ایرانی، مصری اور ہندوستانی، چینی اور وسط ایشیا ئی رنگوں کی ایک دنیا آباد ہو گئی۔ جانوروں کی کہانیوں کو پیش کرتے ہوئے ہندوستانی رنگ بہت واضح رہا۔ پاتال اور امر لوک کی تصویر کشی کرتے ہوئے ہندوستانی اساطیری فضاؤں کو ابھارا۔ اسی طرح پریوں اور جنوں کی کہانیوں اور ان کے کرداروں کو پیش کرتے ہوئے مصری، ایرانی اور عربی واقعات اور حادثات کے نقوش واضح کئے۔ جادو، جادوگر اور جادو گرنیاں اور ان سے وابستہ کرداروں اور واقعات کے لئے انھوں نے چینی، ایرانی اور وسط ایشیائی خطوں کے مزاج کو نمایاں کیا۔ عیاروں کے معاملے میں وہ ایرانی قصوں سے زیادہ قریب رہے اور سفر کی دشواریوں اور حیرت انگیز تجربوں کے معاملے میں عربوں کے ذہن کو پیش کیا۔ عربوں اور ایرانیوں کی تہذیبی آمیزش کی بھی ہمیں خبر ہے۔ جس طرح پہلوی نسخوں کے ترجمے عربی میں ہوئے اسی طرح عربی نسخوں کے ترجمے فارسی میں ہوئے۔ مسلمان اپنی تہذیبی آمیزشوں کی ایک بڑی دولت لے کر ہندوستان آئے اور یہاں کے مزاج سے ان کا ایک جمالیاتی رشتہ قائم ہوا۔ داستانوں، قصوں اور کہانیوں نے اس سلسلے میں بڑا نمایاں حصہ لیا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہندوستان کے اس تہذیبی شعور کا مطالعہ ان کے بغیر مکمل اور ممکن نہ ہو گا۔
عربی، فارسی اور اردو کی مختصر اور طویل داستانوں کے عاشقوں کی ایک دنیا آباد تھی۔ منظوم اور منثور کہانیاں بے حد مقبول رہی ہیں۔ مذہبی عقائد اور افکار سے دلچسپی رکھنے والوں کی تشنگی کو دور کرنے کا سامان موجود تھا تو تفریح اور تخیل کی خوبصورت دنیاؤں سے دلچسپی رکھنے والوں کی پیاس بھی بجھتی تھی۔ ہر عمر کے لوگوں نے قصوں، کہانیوں اور داستانوں سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ گھروں میں داستانوں اور قصوں کے پڑھنے کا رواج شروع ہو گیا۔ ایک شخص داستان پڑھتا اور گھر کے افراد دلچسپی سے سنتے۔ ایک سے زیادہ افراد بھی باری باری سے داستان پڑھتے تھے۔ داستانوں کے پڑھنے کے انداز کو ایک فن تصور کیا گیا ہے۔ دہلی، لکھنؤ، رام پور اور حیدر آباد وغیرہ میں داستان گویوں کو عزت حاصل رہی ہے۔ یہ لوگ امیروں اور نوابوں کے درباروں سے وابستہ بھی رہے ہیں۔ خاص و عام کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ الف لیلہ، ہفت سیر حاتم، داستان امیر حمزہ وغیرہ کی کہانیاں ہردلعزیز ہوتی گئیں۔ مدرسوں میں گلستان کی حکایتوں کے رموز سمجھائے گئے۔ ’ہند مغل‘ مصوروں نے ابتدا میں بعض داستانوں کو نقش کیا تھا۔ اکبر کے عہد میں منظوم اور منثور داستانوں اور رزمیہ نظموں کو مصور کرنے کی ایک بڑی روایت قائم ہوئی۔ ہمایوں اور اکبر دونوں نے تصویروں کی ’داستانیت، سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
عربی اور فارسی داستانوں کی اپنی امتیازی خصوصیات رہی ہیں۔ اردو میں ہندوستانی مزاج کی وجہ سے بہت سی تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں۔ عربی، فارسی اور ہندوستانی قصوں کی آمیزشیں اسلامی ملکوں میں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں بھی۔ ہندوستا ن جو خود داستانی عناصر اور داستانی خصوصیات کی وجہ سے ممتاز تھا، عربی اور فارسی قصوں اور داستانوں کی وجہ سے اور بھی دوسری خصوصیات کو جذب کرنے لگا۔ داستانوں کے کردار و واقعات اور ان کی پیش کش میں جو مماثلتیں تھیں، ان کی وجہ سے بھی عربی اور فارسی داستانوں میں بڑی کشش پیدا ہوئی۔ فضا آفرینی، کردار نگاری اور فوق الفطری عناصر اور کیفیات کی پیش کش میں بڑی یکسانیت تھی، مشرقی مزاج کو ایک وسیع تر دائرہ ملا۔
عربی اور فارسی داستانوں میں کرداروں کے دشوار گزر راستوں کے سفر، تحیرات اور انوکھے تجربوں کی بڑی اہمیت ہے۔ قصہ سے قصہ پیدا کرنے اور ضمنی کہانیوں کو شدت سے شامل کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ اچانک رونما ہونے والے واقعات ذہن کو فوراً اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ اسرار و رموز کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ بنانے کا ہنر ملتا ہے۔ تاریخی اور نیم تاریخی کرداروں کو داستانی رنگوں میں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے یہ سچے کردار ہوں اور ان کے واقعات واقعی ان کے تجربوں سے رشتہ رکھتے ہوں۔ تاریخی اور نیم تاریخی کرداروں کو ایک پراسرارفضا میں لے جا نے اور ان کے تعلق سے نئی کہانیوں کے پیش کرنے کا رجحان بھی نمایاں ہوا ہے، مبالغہ آرائی، تخیل نگاری، نئے نئے مناظر کی تشکیل، فکر کی ندرت، تخیل کی رنگینی، واقعات کی کشادگی اور حادثوں کا انوکھا پن، رزم بزم کے وہ مرقعے جن سے زندگی عام طور پر محروم رہتی ہے، نئے نئے طلسمات کی سیر، بیخودی، فوق الفطری، کرداروں کے ساتھ محسوس کئے ہوئے اور بہت حد تک کسی نہ کسی سطح پر جانے پہچانے کرداروں کا عمل، مختلف مذاہب کے قصوں کے جلوے، حسن اور عشق کا شدید احساس، اسم اعظم، اسم تسخیر، لوح نقش، تعویذ، خضر کی رہنمائی وغیرہ سے حیرت واستعجاب اور انوکھے پن کا احساس عطا کرنے کا عمل، ان سے داستانیت کا دائر۰ پھیلا ہے، وسیع اور گہرا ہوا ہے۔ عربی، فارسی اور اردو داستانوں کے اسالیب کا حسن قصوں اور داستانوں کا سب سے بڑا حسن ہے۔ ہندوستان میں داستانی اسلوب نے جہاں ایک بڑی تہذیبی سطح کا احساس دیا ہے وہاں بلاشبہ اس تہذیبی سطح کو رفعت اور بلندی بخشی ہے، فصاحت اور بلاغت کے بہتر نمونوں کو بڑی آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے، مذہبی رجحانات میں بھی ان قصوں، کہانیوں اور داستانوں میں بڑی کشش پیدا کی ہے، اسلام اور کفر کی جنگ نے احساس اور جذبے میں بڑی ہلچل پیدا کی ہے، نیکی کی فتح نے سیرت اور باطن کی پاکیزگی کا احساس عطا کیا ہے، اعلیٰ قدروں اور خصوصاً اخلاقی قدروں کے احساس کو بالیدہ بنانے کی شعوری کوشش بھی ملتی ہے، مشکلوں اور مصیبتوں سے ٹکرانے اور کامیاب ہونے کے تجربے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، کبھی مذہب بنیادی جذبہ بنا ہے اور کبھی عشق اور کبھی دونوں ایک ساتھ بنیادی جذبوں کی صورت میں نظر آئے ہیں۔
ایرانی فنکاروں نے رومانیت کو شدت سے فروغ دیا ا ور ایران اور ہندوستان میں جو فارسی قصے اور داستانیں لکھی گئیں، ان میں رومانیت کا دائرہ اور وسیع ہوا، اردو نے اسے قبول کیا اوراسے وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کی۔ عربی داستانوں میں بھی عشق ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی الف لیلہ کے عربی ایڈیشن شائع ہو ئے، اس میں ایسی کہانیاں بھی شامل ہوئیں جن کا ’عرب ذہن سے کوئی رشتہ نہ تھا، علی بابا، الہ دین اور زین الاصنام کی کہانیاں عربوں کے ذہن کی تخلیق ہیں جو اردو کے ذریعہ ہندوستان میں بے حد مقبول ہوئیں۔
اردو زبان نے اس سلسلے میں بلاشبہ ایک بڑی تہذیبی خدمت انجام دی ہے، تہذیبی شعور کی تشکیل اور آبیاری میں اس نے نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ زبان نہ ہوتی تو داستان کا اتنا بڑا سرمایہ ہندوستان میں حاصل نہ ہوتا اور تہذیبی آمیزش کا ایک بڑا پہلو تشنہ رہ جاتا۔ الف لیلہ اپنی اصلی صورت میں اور دوسری مختلف صورتوں میں اردو کے ذریعہ عوام تک پہنچی ہے۔ حکایت الجلیلہ، ہزار داستان اور شبستانِ حیرت وغیرہ نے اس داستان کی فضاؤں کو احساس اور جذبے سے قریب کرنے میں نمایاں حصہ لیا، چونکہ بعض کہانیوں اور واقعات کا ایک پراسرار رشتہ ہندوستانی ذہن سے قائم ہو چکا تھا اس لئے اس عوامی زبان کے حسن سے الف لیلہ کے قصے زیادہ مقبول ہوئے اور ان کے گہرے اثرات ہوئے، داستانِ امیر حمزہ کے ترجموں نے ’داستانی ذہن‘ کی آبیاری میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اردو نے ان کہانیوں کو جانے کتنی جہتیں عطا کیں، انہیں پھیلایا، واقعات بڑھائے، کرداروں کی نئی تخلیق کی، دوسرے انگنت کردار شامل کئے، داستانوں کا طویل سلسلہ ہوش ربا، نوشیرواں نامہ، تورج نامہ، ایرج نامہ، کوچک باختر، طلسم ہفت پیکر، گلستان باختر، طلسم توخیز جمشیدی، ہرمز نامہ اور طلسم خیال سکندری وغیرہ کے ذریعہ قائم رکھا اور داستانی فضاؤں کو جلوۂ صد رنگ عطا کئے۔ سند باد، سیف الملوک، الہ دین، حاتم طائی اور گلِ بکاؤلی کے کرداروں کو ذہن سے قریب تر کرنے میں اردو زبان کے کارنامے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
’ہندوستانی ذہن، جو ’ایپک‘ سے جذباتی رشتہ رکھتا تھا ا ن داستانوں کی ’ایپک‘ کی خصوصیات سے قریب تر ہوا، فارسی رزمیہ نظموں کے تراجم اور ان کے اشعار اور واقعات پر بنی ہوئی تصویروں کی مقبولیت سے اس سچائی کا بہت حد تک اندازہ ہو جاتا ہے، فارسی زبان خواص و عوام سے قریب تھی لہٰذا رزمیہ نظمیں ذہن اور احساس سے قریب تر ہوئیں، ان کے مصور نسخے تیار ہوئے، بادشاہوں، نوابوں اور امراء نے ایسی تصویر کاری کی سرپرستی کی، داستانوں میں عمدہ ’ایپک‘ کی وحدت تو نہ تھی لیکن ان میں عمل کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ نڈر ہو کر پوری زندگی سے ٹکرانے کا عمل ایک وسیع تر دائرے میں ملا تھا، ’ایپک‘ کی طرح داستانوں کا ’کینوس، پھیلا ہوا تھا اور ایک دائرے سے دوسرے دائرے کے ابھرنے کا سلسلہ بھی موجود تھا۔ اکثر تحرکات پیچیدہ ہوتے تھے، واقعات اور کردار سب متحرک تھے، اقدار اور کردار کی عظمت کا احساس ملتا تھا، زماں و مکاں کی زنجیریں چھناکے سے ٹوٹتی تھیں، آسمان، زمین اور پاتال کی تصویریں پر کشش تھیں، داستان نگار صرف تخیل کے سہارے پرواز نہیں کرتے، بلکہ زندگی کی بعض سطحوں کو بھی اپنے انداز سے چھوتے تھے، شعوری اور لا شعوری طور پر سماج اور معاشرے کی تصویریں بھی ابھر آتی تھیں، جہاں صرف تخیل کی بلند پروازی ہوتی وہاں بھی سکون ملتا، شکست و ریخت اور الجھنوں کی دنیا سے نکل کر سکون اور آسودگی کی زندگی کے دلکش مرقعے بھی ملتے تھے۔ قومی اور قبائیلی اور نسلی شعور بھی کام کرتا تھا ا ور اس طرح جانے کتنی قدروں کا احساس ملتا تھا، جنگ و جدل میں ’ایپک‘ کی خصوصیتیں بھی شامل تھیں اور پراسرار عمل در عمل سے دلچسپیاں بھی بڑھی تھیں۔ ’سمندر، کے تجربے اسی طرح متاثر کرتے تھے، حیرت اور تحیرات کی دنیا میں بھی یکسانیت تھی، امیدوں اور آرزوؤں اور خوف اور شکست و فتح کے تجربے، داستان سننے والوں اور پڑھنے والوں کی عظمت کا احساس کسی نہ کسی سطح پر عطا کرتے تھے، ان کا اعتراف بھی کرتے تھے، قوموں کی انفرادیت کے بے باکانہ اظہار کی جد و جہد بھی نفسیاتی نقطہ نظر سے توجہ طلب تھی، داستانوں نے مختلف قوموں، نسلوں اور قبیلوں کی تہذیب اور ان کی ثقافتی اقدار کو بھی پیش کیا ہے، مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ داستان نگاروں نے اپنی انتہائی حیرت انگیز حسی قوتوں کا اظہار کیا ہے اور اپنے موضوعات اور اسالیب سے، ’داستانی جمالیات، کا ایک نظام قائم کر دیا ہے، دوسروں کو سحر انگیز فضاؤں میں لے جاتے ہوئے اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود نوم توجہ یا نظر کی نیند(Self Hypnotism)میں گرفتار ہیں۔
’داستانی طلسمات‘ اور قصوں، فسانوں اور داستانوں کی سحر انگیزیوں ’ہند مغل جمالیات‘ کا ایک مستقل موضوع ہیں۔ ہندوستان میں ان کی طویل داستان ہے اور مختلف ملکوں کی تہذیبی آمیزش سے ان میں انگنت جمالیاتی جہتیں پیدا ہوئی ہیں۔ ہند مغل فنکاروں کے ذہنی اور جذباتی پس منظراور ان کے تہذیبی ماحول میں اس روایت کا تجزیہ ایک بڑی جمالیا تی روایت اور جلال و جمال کے بہتر تجربوں کا تجزیہ ہو گا،۔ ’داستانیت، نے اس ملک کے تخلیقی فنکاروں کے شعور اور لا شعور کو ہمیشہ کسی نہ کسی سطح پر اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ علامتوں، استعاروں، تشبیہوں، اشاروں اور تمثیلوں کی تخلیق میں پراسرار حصہ لیا ہے، عوامی شعراء کے مزاج کو متاثر کیا ہے، ما بعد الطبیعاتی اور رومانی تصورات میں تازگی پیدا کی ہے۔
غالب کے عہد تک داستانوں کا ایک بڑا طویل سلسلہ رہا ہے۔ ان کی روایات نے تہذیبی آمیزش کے ساتھ پراسرار سفر کیا ہے۔ اعلیٰ فنون میں روایت نہیں ’روایات‘ کام کرتی ہیں۔ ظاہری روایت اور روایات، کی جتنی بھی پہچان ہو جائے ’روایات، کے باطن میں انتہائی گہرائیوں میں گزرتی ہوئی روایتوں کی روشنیوں کی پہچان آسان نہیں ہو تی۔ اندر ہی اندر ان کا رشتہ جانے کتنی خوبصورت اور دلآویز لہروں اور کیفیتوں سے قائم ہو جاتا ہے۔ غالب ایک بڑے شاعر تھے، ایک بڑے خلاق ذہن کے مالک تھے، شعوری اور لا شعوری طور پر انہوں نے بر صغیر کی جانے کتنی روایتوں اور ان کے باطن میں گزرنے والی روشن لہروں سے رشتہ قائم کر رکھا تھا۔ قصوں اور فسانوں اور داستانوں کی عظیم تر روایتوں سے ان کا رشتہ تخلیقی نوعیت کا ہے اور ’مطالعہ غالب، میں اس تخلیقی رشتے کو نظر انداز کر کے غالب کے خلاق ذہن اور ان کے ہمہ گیر ’وژن‘ کی دریافت نہیں ہو سکتی۔
غالب کے عہد میں داستانیں بے حد مقبول رہی ہیں۔ عربی اور فارسی داستانیں گھروں میں پڑھی جاتی تھیں۔ اردو کی بعض مختصر داستانیں اور داستان امیر حمزہ، الف لیلہ اور بوستان خیال وغیرہ خواص و عوام میں مقبول تھیں۔ منثور اور منظوم قصوں اور مثنویوں کو پسند کیا جاتا تھا۔ قدیم شعراء کی مثنویاں اور نثر نگاروں کی کئی تمثیلیں اور داستانیں لوگ شوق سے پڑھتے۔ شاہنامہ فردوسی، الف لیلہ، داستانِ امیر حمزہ وغیرہ کے نسخوں کی بڑی دھوم تھی اور ساتھ ہی ان تصویروں کے چربے بھی اتارے جاتے تھے۔ ان تصویروں نے داستانی رجحان کی تشکیل میں اپنے طور پر بھی نمایاں حصہ لیا ہے۔ غدر سے پہلے اور غدر کے بعد دہلی، لکھنو، رام پور، حیدر آباد اور بنارس وغیرہ میں داستان سنانے والے چھوٹے بڑے درباروں سے وابستہ تھے، اور بعض داستان گویوں کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ شہروں میں داستان گوئی کی مجلسیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ داستان گوئی ایک رنگین اور لطیف فن بن گئی تھی۔ رامائن اور مہا بھارت کے قصے، طوطا کہانی، شکنتلا، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، آرایش محفل، گلِ بکاؤلی، گل صنوبر، کلیلہ اور دمنہ کی بعض کہانیاں، نوطرز مرصع، باغ وبہار، الف لیلہ، بوستان خیال، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، جام جمشید، فسانہ عجائب، گلزارسرور، شگوفۂ محبت، حاتم طائی کے ساتھ سفر کی کہانیاں، الہ دین کا چراغ، سند باد جہازی، خلیفہ ہارون رشید، سیف الملوک و بدیع الجمال، سند باد نامے، کل کا گھوڑا، راجہ اندر اور پریاں، پری بانو، بغداد کا سوداگر اور جانے کتنی کہانیاں اور داستانیں مقبول تھیں۔ باورچی خانے کی دیوار کا پھٹنا ا ور نکلنا ایک عورت کا، شہرِ بغداد کے مزدور کی کہانی، یک چشم قلندر، شہزادی کا عقاب بن جانا، پہاڑ پر پیتل کا گنبد، سند باد جہازی کا سفر، مردم خور سردار، کبڑا دلہا، ابوالحسن بکا اور شمس النہار کا قصہ، چین کی شہزادی، جنات کی کہانی، سوتے جاگے کا قصہ، علی باباب اور مرجینا، عمرو عیار اور ان کی زنبیل، ملکہ مہر نگار، امیر حمزہ کو لے جانا کوہ قاف میں اور وہاں پراسرار تجربوں سے دوچار ہونا وغیرہ ایسے داستانی واقعات تھے جن سے لوگ واقف تھے۔ عام گفتگو میں بھی ان کے حوالوں اور اشاروں سے کام لیتے تھے۔ بار بار سنی ہوئی کہانیوں کو بھی دوسروں سے بخوشی اور لگن سے سنتے اور مسرور ہوتے۔ عام بول چال میں داستانی محاوروں اور ترکیبوں کا ستعمال ہوتا۔
داستانیت اس دور کے تہذیبی مزاج کا ایک تابناک پہلو بنی ہوئی تھی۔ اس عہد کے تہذیبی مزاج اور شعور کا مطالعہ کرتے ہوئے اس تابناک پہلو کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
٭ ٭٭
حقانی القاسی
دہلی
منٹو کی تفہیمِ نو
منٹو(۱۱؍مئی ۱۹۱۲ء سے جنوری ۱۹۵۵ء ) کوسمجھنا شاید آسان ہے مگر جاننا بہت مشکل ہے۔
ظاہری سطح پر منٹو کی شناخت کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہوسکتی ہے مگر باطن کی جستجو کرنے والے معدودے چند ہیں۔ منٹو اپنی تحریروں میں جتنے سیدھے اور سرل نظر آتے ہیں، حقیقت میں ان کی تحریریں اتنی آسان نہیں ہیں۔ ان میں اتنے ارتعاشات، لہریں، تموجات ہیں کہ اگر ایک لہر کا سرا ہاتھ بھی آ جائے تو دوسری لہریں غائب ہو جاتی ہیں۔ منٹو کی ذہنی لہروں کو اجتماعی طور پر اپنی گرفت میں لینا کارِ دارد ہے۔ یہ لہریں اتنی منتشر ہیں کہ ان کو مربوط کرنا بھی گویا ایک انتشاری عمل ہے۔
منٹو کے بارے میں لکھی تنقیدی تحریروں سے ان کا جو پرسونا(Persona)سامنے آتا ہے وہ کچھ یوں ہے:۔
}منٹو فحش نگار ہے
} منٹوerotic interactionکا افسانہ نگار ہے
}منٹو بے باک ہے
}جنسی لذت(Sexual Pleasure)کا علمبردار ہے
}منٹو کی کہانیاں Eroticiseکرتی ہیں
}منٹو کے افسانےseductive aphrodisiacsہیں
یا کچھ اسی قسم کے کلیشے زدہ جملے ہیں جو منٹو کا تخلیقی شناخت نامہ بن گئے ہیں۔ مگر کیا منٹو کا تخلیقی مفہوم یہی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ منٹو محدودیت سے ماورا ہیں۔ کسی بھی فریم میں ان کے پرسونا کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ فریم سے باہر کے آدمی ہیں۔ ذات اور تخلیقی سماجی فکر کے حوالے سے انہیں نقد کے’ زنگ آلود صندوق، میں بند نہیں کیا جا سکتا کہ منٹو بند رہنے والا نہیں بلکہ کھلا ہوا غیر محبوس ومحصور ہے۔ منٹو کاCell Evolutionاسے کبھی بند رہنے نہیں دے سکتا۔ وہ گھٹن زدہ ماحول میں سانس لے ہی نہیں سکتا۔ منٹو کو ہمہ وقت تازہ ہوائیں درکار ہیں۔ بلکہ منٹو ہمیشہ اپنے آسمان اور اپنی زمین کی جستجو میں رہتا ہے۔ منٹو ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی صرف انتیس ہزار فٹ ہے جبکہ انسانی تخیل کی پرواز بہت بلند ہے۔
منٹو کی تخلیقی، ذہنی راہ میں رکاوٹیں نہیں آتیں کہ وہ رکاوٹوں کو راہ نہیں دیتا، منٹو وہاں بھی اپنے لئے نیا راستہ نکال لیتا ہے جہاں جلی حرفوں میں یہ مرقوم ہے ’’آگے راستہ بند ہے‘‘ ۔ ایسا اس لئے کہ منٹو کو راستے کی نہیں، راستوں کو منٹو کی ضرورت ہے۔
منٹو کبھی بڑا فنکار نہیں بن سکتا تھا، اگر انہیں راہوں میں الجھ کر رہ جاتا جن میں بہت سے تخلیقی ذہن محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ منٹو نے اپنی عظمت کی راہوں کا نقش خود ہی تیار کیا۔ اس لئے منٹو کی عظمتیں ادبی تاریخ میں ہمیشہ ثبت رہیں گی۔ مگر منٹو ہمیشہ ایک ’معمہ‘ بھی بنا رہے گا۔
منٹو شناسی ایک دشوار عمل ہے۔ ناقدین نے جیسا سمجھا ہے منٹو شاید ان سے کچھ الگ تحقیقی وجود کا حامل ہے۔ منٹو کے تخلیقی وجود کی معرفت کے لئے وہی ڈھب، وہی رویہ، وہی روش، وہی زاویہ، وہی نظر درکار ہے جو منٹو سے مخصوص ہے۔ منٹو کے وجود میں جذب ہوئے بغیر اور ان کے ’لا شعور‘ کی پہنائیوں میں اترے بغیر منٹو کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ شکیل الرحمٰن نے منٹو کی تفہیم کی بجائے ان کوexperience کرنے پر اپنی توانائی صرف کی ہے۔ اسی لئے منٹو اپنی تمام تر خارجی و باطنی ہیئت و کلیت کے ساتھ ان پر منکشف ہوا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے نئے تناظر میں منٹو کو تلاش کیا ہے۔ ان کی تلاش وجستجو کے مطابق:
}منٹو گڈریا ہیں۔
}منٹو کوکوشی فنکار ہیں۔
}منٹو کے افسانوی کردار عموماً عمودی ہیں۔
}سعادت حسن منٹو اپنی عمدہ کہانیوں میں جذب ہیں۔
}سعادت حسن منٹو حقیقت یا سچائی اپنے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ کر لیتے ہیں۔
}سعادت حسن منٹو ایک بڑے انسان دوست فنکار ہیں۔ ایسے فنکار جو humanismزندگی کی روح اور اس روح کی خوشبو سمجھتے ہیں۔
}اردو فکشن میں سعادت حسن منٹو ایک حیرت انگیز، انوکھا اور خوشگوار حادثہ ہیں۔
}سعادت حسن منٹو اردو فکشن میں ایک فینومینا ہیں۔
}سعادت حسن منٹو اپنے عہد کی شناخت ہی تو ہیں کہ جنہوں نے جمالیاتی اور فنی تناظر میں اپنے تخلیقی رویئے سے ایک منظر نامے کی تخلیق کی جس سے ایک جانب زندگی کے تضادات کی معنی خیز تصویریں خلق ہوئیں اور دوسری جانب داخلی تصادم اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا سچا احساس ملا۔ ایک جانب خارجی اور ذہنی عوامل کے حیرت انگیز انتشار کے مرقعے نقش ہوئے اور دوسری جاب احساس اور جذبے کی گہرائیوں اور ذہن کی کشادگی کے ساتھ متضاد اور متصادم زندگی کا عرفان حاصل ہوا۔
}وہ تجربوں کے رسوں کے فنکار ہیں جو آنند اور جمالیاتی سرور وانبساط عطا کرتے ہوئے ایک وژن بخش دیتے ہیں۔ جنس اور جنسی مسائل سے بھی دلچسپی لیتے ہوئے بھی اپنی تیز گہری نظر اور وژن کا گہرا احساس عطا کرتے ہیں۔
}بلاشبہ سعادت حسن منٹو اردو فکشن کی آبرو ہیں۔
}وہ اردو فکشن کے سب سے ممتاز کردار نگار ہیں۔ وہ حقیقت کو اپنے شعور اور وژن اور اپنے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہر ممکن گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان اقتباسات سے منٹو کا تخلیقی پرسونا سامنے اتا ہے۔ یہ اس ’مفروضہ منٹو، سے الگ ہے جو ہمیں اکثر تنقیدی تحریروں میں صرف اور جنس کا جویا یا عریانیت کا متلاشی نظر آتا ہے۔ یہ منٹو کی نئی جستجو ہے یا منٹو کا re-creationہے۔ منٹو کی اس نئی دریافت کا عمل اس لئے بھی ممکن ہوا کہ زیادہ تر نقادoysterمیں الجھے رہتے ہیں۔ گہری جستجو نہیں کر پاتے مگر شکیل الرحمٰن ایسے عارف ہیں جنہیں کستورا کی نہیں، گوہر کی جستجو رہتی ہے۔ منٹو کے باب میں یہ اکتشافی عمل اس اعتبار سے بھی مختلف ہے کہ اردو کے ناقدین کی بیشتر تحریروں یا تنقیدوں میں ان کے lower selfکا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ جب شکیل الرحمٰن کےhigher selfکا عمل زیادہ روشن ہے۔ جس طرحbrain biologyکو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اور ان کے نیوراتی نفسNeurotic Psycheکو بھی سمجھا ہے۔ یہ تنقید کے میکانیکی عمل سے بالکل مختلف نوعیت کا تجربہ ہے جس کے نتیجے میں منٹو کے تخلیقی فکری، فنی امتیازات روشن ہوتے ہیں۔
منٹو کی نئی بازیافت نہیں کی جاتی تو شاید منٹو کے تخلیقی امتیازات و ارتعاشات، دور جدید کی گنجلک، بے معنی تنقیدی تحریروں کے اندھیروں میں گم ہو کر رہ جاتے مگر شکیل الرحمٰن کے ذہن کی روشنی نے منٹو کے جمالیاتی ادراکات کو تلاش کر ہی لیا اور ہمیں ایک نئے منٹو کے روبرو کیا۔ وہ منٹو جو ’’کو کو شی کو جگائے رکھنا چاہتا ہے، کہ سارے ہوش جاگتے رہیں، یہ محسوس کرتے رہیں کہ وہ ہیں، ان کا وجود ہے، ان کی زندگی ہے۔ وہ دیکھتے رہیں کہ روشنی ہے، تاریکی ہے، کیچڑ ہے، غلاظت ہے، عورت ہے، مرد ہے، محبت ہے، نفرت ہے، سیکس ہے، انسان کے جسم پر متی سی خوشبو ہے۔ وہ سب جو انسان میں توجہ کا مرکز ہیں، جاتے ہوئے انہیں دیکھو، انہیں صرف خوابوں میں اور رومان پرور فضاؤں میں نہ ٹٹولو، اُنہیں صرف چھوٹے بڑے گھروندوں کے اندر لحاف، رضائی میں تلاش نہ کرو، صرف عقائد، اسطور کے سہارے اُن کے پاس نہ آؤ، بڑی چھوٹی سچائیاں انکشاف چاہتی ہیں، نیند میں انکشافات ممکن نہیں ہیں۔ تحت الشعور میں جو انکشافات ہوں گے وہ نابینوں کی نذر ہو جائیں گے اور کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ ہوش کا اچھی طرح جاگے رہنا بہت ضروری ہے۔ جو فنکار کو کوشی ہوتا ہے وہ اپنی آواز سے غنودگی طاری نہیں کرتا۔
منٹو نے بھی غنودگی طاری نہیں کی بلکہ جگائے رکھا۔ فرد اور معاشرے کے ذہن اور ضمیر کو تہذیب، تاریخ، معاشرے، سیاست اور اجتماعی حافظے پر مسلسل دستکیں دیتا رہا اور صرف دستک ہی نہیں دی بلکہ منٹو نے شاک بھی دئیے۔ منٹو برملا کہتے ہیں :
’’میں تہذیب وتمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی، میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا ہوں۔ اس لئے کہ یہ کام میرا نہیں، درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختۂ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختۂ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ ‘‘
منٹو نے وہ کام نہیں کیا جو درزیوں سے منسوب و مخصوص ہے یا آج کل کے درزی نما نقادوں یا تخلیق کاروں سے، منٹو تو ایسا فنکار ہے جس نے سماج کی تمام سچائیوں اور مکروہ صورتوں کو اپنے افسانوں میں منعکس کر دیا ہے۔ یہی تو منٹو کا کمال ہے کہ منٹو نے تاریکی سے روشنی پیدا کی ہے۔ منٹو کی ہر کہانی تاریکی سے روشنی کی طرف سفر کرتی ہے۔ منٹو کی شہوت انگیزنسوانی کردار سوگندھی، نیلم اور کلونت کور اس کی مثالیں ہیں۔ شکیل الرحمٰن نے بھی منٹو کی اس فنکارانہ تقلیبی جہت کو آشکارا کیا ہے اور یہ عمل شکیل الرحمٰن سے ہی ممکن تھا کہ وہ تاریکی اور روشنی کے رمز سے بھی آگاہ ہیں اور دونوں کے تلازماتی رشتوں سے بھی۔ وہ لکھتے ہیں :
’’منٹو کے اکثر متحرک کردار گہرائی اور اس کی تاریکی سے نکلے ہیں، کیچڑ کے اندر سے نکل کر سامنے کھڑے ہو گئے ہیں، کبھی سوالیہ نشان بن کر، کبھی خاموش چپ سادھے پیکروں کی مانند، کبھی سرگوشیاں کرتے ہوئے، منٹو کی کہانیوں میں کیچڑ کے اندر سے جب کوئی پودا نکلتا ہے تو فنکار کا قد بھی اس پودے کے ساتھ بڑھتا ہے اور پودے اور درخت کی کہانی خلق ہونے لگتی ہے۔ ‘‘
شکیل الرحمٰن نے منٹو کی کہانیوں میں جو جمالیاتی جہتیں تلاش کی ہیں، وہ صرف ان کے حُسنِ نظر کا کرشمہ نہیں بلکہ وہ ایک ایسی بنیادی ابدی اور ازلی حقیقت کی جستجو ہے جس کے ادراک سے بہت اذہان محروم ہیں۔ یہ جستجو کی الگ روش ہے، مروجہ جستجو سے بالکل مختلف۔
اس طرح کی جستجو سے تحیرات کی دنیائیں منکشف ہوتی ہیں اور نظر کے نئے زاویئے خلق ہوتے ہیں۔ بصری ادراکات(Visual Perceptions)سے ماورا زاویوں کی جستجو ہر کسی کا مقدور نہیں۔ تخلیق کی روح تک کی رسائی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک ذہن و کردار میں مکمل توانائی اور ہم آہنگی موجود نہ ہو۔ شکیل الرحمٰن مکمل توانائی ذہن کے ساتھ تخلیق کے باطنی مد و جزر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ پھر یہی مشاہداتی اور جذبی کیفیت ان کی تخلیقی تنقید میں بدل جاتی ہے۔ تخلیق بنیادی طور پر عورت کے جسم کی طرح پراسرار ہوتی ہے۔ اس کی لذت منتہی کی جستجو ہر ایک کا مقدور نہیں۔ جس طرح بہت سی عورتوں کو بھی Vaginal orgasmsکا ادراک نہیں ہو پاتا، اسی طرح تخلیق کے اسرار کا اکتشاف بھی ہر ایک کے بس میں نہیں۔ جس طرح عورت کے جسم کے (Grafenberg .Spot)تک رسائی ہر مرد کے لئے مشکل ہے، اسی طرح تخلیق کے G.sportکی دریافت بھی دشوار ہے اور اس’دشوار دریائے شور‘ کو شکیل الرحمٰن نے پار کیا ہے۔
منٹو کے متن کے مضمرات کی تفہیم اور متن میں موجزن مفاہیم کا ادراک آسان نہیں ہے۔ جس طرح سائنسی انکشافات سے آنکھیں حیرتی ہو جاتی ہیں اسی طرح منٹو کے سماجی اکتشافات، حیرتوں کے در کھولتے نظر آتے ہیں۔ منٹو کا تخیلی ذہن سائنس دانوں کے منطقی اور معروضی ذہن سے دو قدم آگے تھا۔ منٹو نے انسانی ذہن کی پراسراریت کو سمجھا۔ منٹو نفسیات انسانی کے نباض تھے، اس لئے ان کی کہانیوں میں نفسیاتی تہداریاں بھی ہیں جن کی تفہیم کے لئے نفسیات پر نظر کے سوا دیگر احوال علوم و جہاں سے آشنائی بھی ضروری ہے۔
منٹو کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں transmutationکا عمل روشن ہے۔
منفی کو مثبت میں تبدیل کرنے کا یہ ہنر ہر ایک کو نہیں آتا۔ منٹو کا کمال یہ ہے کہ ا نہوں نے ’عریانیت، میں بھی ’روحانیت‘ تلاش کی ہے اور یہ عمل معکوس بہتوں کے لئے حیرت زدہ کرنے والا ہے۔
دیکھا جائے تو منٹو کے ہاں عریانیت کا وہ مفہوم نہیں ہے جو اکثر اذہان پر مسلط ہے۔ جیسا کہ ہیولاک ایلس نے لکھا ہے کہ :
’’اب زندگی اور فن کی دنیا میں بہت کم چیزیں ایسی ہیں جو بعض حضرات کے جذبات اور کچھ لوگوں کی سوچ کے مطابق شہوت انگیز، نفرت انگیز، اور عیاشانہ نہ ہوں اور عریانی کی قانونی اصطلاح کے تسلیم شدہ مترادفات بھی یہی الفاظ ہیں حقائق کو تسلیم کرنے والوں اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنے والوں پر یہ بات بہت پہلے کھل چکی تھی۔
حساس قسم کے مرد اور عورتوں میں یہ بات عام طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ مستقل طور پر پیش آتے رہنے والے معمولی نوعیت کے قدرتی مناظر اور واقعات سے ان کا جنسی جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے۔ گویا یہ واقعات ان کے لئے شہوت انگیز، نفرت انگیز اور عیاشانہ ہیں۔ جنسی اشیا پرستی کے مارے ہوئے سب لوگوں کے لئے نہ سہی، ان کی اکثریت کے لئے ایسی تمام اشیا بلکہ وہ اشیا بھی جن کا بظاہر جنس کا دور سے بھی تعلق نہیں، جنسی تحریک کا باعث بن بیٹھتی ہیں ‘‘ ۔
علاوہ ازیں حالیہ سالوں میں لا شعور کی کھوج لگانے کے بعد تحلیل نفسی کے ماہرین کے مطابق اس امر کو تسلیم کرنے کی وجوہ موجود ہیں کہ جنسی تلازمات کا کوئی شمار نہیں۔ اگر ہم تمام امکانی عریانی کا خاتمہ کرنا چاہیں تو ہمیں ساری دنیا کو ہی مٹانا ہو گا۔ :
(ہیولاک ایلس’عریانی کے مفہوم کا از سر نو تعین‘‘ ترجمہ علی اقبال مشمولہ مکالمہ کراچی، ۳۱)
٭اگر شہوانیت ہی عریانیت ہے یا اشتعال انگیزی فحش ہے تو پھر عورت کے نزدیک سب سے عریاں اور اشتعال انگیز چیز مرد ہے اور مرد کی نظر میں سب سے زیادہ شہوت خیز اور اشتعال انگیز عورت ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور عریانیت کے خاتمے کی بات کی جائے تو اس طور پر یکلخت پوری دنیا کو ختم کر دینا چاہئے اور یوں بھی فحش اور عریانیت کے مروجہ تصور کے دائرے میں انجیلِ مقدس جیسی کتاب بھی آ جائے گی جس کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا کہ:
’’اس مقدس کتاب کی زبان انتہائی فحش ہے اور اس لائق نہیں کہ اسے کسی مہذب مجمع میں دہرایا جا سکے‘‘ ۔
منٹو نے ذہنی جھنجھلاہٹ کے عالم میں شاید یہ سچ ہی لکھا تھا کہ:
’’میرے نزدیک قصائیوں کی دکانیں فحش ہیں کیونکہ ان میں ننگے گوشت کی بد نما اور کھلے طور پر نمائش کی جاتی ہے‘‘ ۔
منٹو نے فحاشی کی وضاحت کرتے ہوئے بہت پتے کی بات کہی تھی:
’’زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں۔ طریقِ استعمال ہی ایک ایسی چیز ہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو فحش بنا دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی چیز فحش نہیں ہے، لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہوسکتی ہے، اگر ان کو فحش طریقے سے پیش کیا جائے۔ چیزیں فحش بنائی جاتی ہیں کسی خاص غرض کے تحت۔ عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں ہے۔ ان کا ذکر بھی فحش نہیں ہے، لیکن جب اس رشتے کو چوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلئے میں اس رشتے کو غلط زاوئیے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھنونا، مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا‘‘ ۔
آخر یہ بدیہی حقیقت دیدہ وروں کے ’دیدۂ بینا‘ میں روشن کیوں نہیں ہوتی کہ جنس بنیادی انسانی جبلت ہے۔ اس سے انحراف ممکن نہیں کہ تخلیقِ کائنات اور نسلِ انسانی کی نشو و نما کا انحصار اس پر ہے۔ اگر اس بنیادی محور یا مرکز سے گریز کیا جائے تو کیا کائنات کی بقا ممکن ہے؟
Impotent cultureکی بات الگ ہے کہ ان کے پاس دیگر ذرائع اور وسائل ہوسکتے ہیں۔ منٹوں نے اپنے افسانے میں بقائے کائنات کے رمز کو سمجھا ہے اور اس بنیادی جبلت کو جو تخلیق کا باعث ہے، اسی لئے ان کے یہاں عریانیت کا وہ تصور نہیں ہے جو عام لوگوں کے اعصاب پر طاری ہے۔ سیکس بنیادی جبلت ہے اور منٹو کی کہانیاں اسی جبلت کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ منٹو بنیادی حقیقتوں کے متلاشی رہے ہیں اس لئے اس حقیقت کو فراموش کرنا اور جبلت سے منحرف ہونا ان کے لئے نا ممکن تھا۔
شکیل الرحمٰن نے منٹو کو مکمل طور پر سمجھا ہے اور ان کی نفسیاتی گرہوں کو سلجھانے کی اچھی کوشش بھی کی ہے۔ منٹو کی جمالیاتی جہتوں کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ منٹو کائنات کے اسرار ورموز کا عارف ہے اورbiology of beautyپر ان کی نگاہ اتنی گہری ہے کہ جمالیات کی روح تک رسائی حاصل کر لی ہے اور کائنات کی سب سے خوبصورت شئے کا ا کتشاف کیا ہے۔ عورت کے جسم میں جو Symmetryہے اور جسمانی کشش کا جو معیار ہے منٹواس سے آگاہ تھے۔ حسن اور زر خیزی کی علامت کا اکتشاف ایک بہت بڑی دریافت ہے۔ ان کی نظر میں کائنات کی حقیقت کا ادراک یا انکشاف گناہ نہیں۔ منٹو نے عورت کے جسم میں اس ’تخلیقیت‘ کے منبع کو تلاش کیا ہے جس پر کائنات اور نسل انسانی کا دار و مدار ہے۔ چھاتیاں، حسن اور زر خیزی کی ہی علامت نہیں بلکہ تخلیقیت کا سرچشمہ ہیں۔ شکیل الرحمٰن نے منٹو کی جمالیت شناس نگاہوں کی نکتہ رسی کو بیان کیا ہے ا ور چھاتیوں کی natural gravityاورvitality کو اجاگر کیا ہے۔ یہی چھاتیاں یعنیBreast curvesزرخیزی (Fertility)کا اشاریہ ہیں اور انبساط اور آنند کا سرچشمہ بھی۔ شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں :
’’جب عورت کا وجود ایک کائنات کی طرح محسوس ہونے لگتا ہے تو پستان، چھاتیاں بڑی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔ مرد کے بعد عورت کی تخلیق ہوئی اور پھر پستان خلق ہوئے۔ پستان قدرت کی آخری تخلیق ہیں !آخری خوب صورت تخلیق۔ ان کے بعد کوئی تخلیق نہیں ہوئی، قدرت کی تخلیق کا کام جیسے ختم ہو گیا، عورت کے پستانوں کے حسن نے تو حسن کی صورتوں کی تشکیل کے امکانات ہی ختم کر دیے۔ ان کے بعد بھلا کون سی شئے وجود میں آئی ہے؟
٭
’’سعادت حسن منٹو چھاتیوں کی اہمیت جانتے ہیں۔ خصوصاً ان کے جمال سے واقف ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی افسانوں میں چھاتیوں کے حسن اور اس کے جلوے کو حد درجہ محسوس بنا دیا ہے، مثلاً:
اس کا سینہ جیسے گہری نیند سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ‘‘ (شانتی)
میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں جیسی تقدیس کیوں آ رہی ہے؟‘‘ (سڑک کے کنارے)
میرے سینے کی گولائیاں پیالی پیالی بن رہی ہیں۔ ‘‘ (سڑک کے کنارے)
اس کی جیتی جاگتی چھاتیاں آبنوسی گولوں کی صورت میں ان کے سفید نینوں کے دو پٹوں کے پیچھے بڑا دل کش تضاد پیدا کر رہی تھیں۔ ‘‘ (کتاب کا خلاصہ)
بڑی نرمل قسم کی چھاتیاں دھڑک رہی تھیں۔ ‘‘ (کتاب کا خلاصہ)
اس کا سینہ سانس کے اتار چڑھاؤ سے ہل رہا تھا۔ ‘‘ (سو کنڈل پاور بلب)
اس کے ابھرے سینے کو مسلنے لگا۔ ‘‘
’’ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا‘‘
’’چوس چوس کر اس کا سینہ تھوکوں اسے لتھیڑ دیا۔ ‘‘ (ٹھنڈا گوشت)
وہ خوبصورت نہیں تھی لیکن اس میں وہ تمام خطوط موجود تھے جو ایک جوان لڑکی میں موجود ہوتے ہیں۔ ‘‘ (وہ لڑکی)
طاس کی چھاتیاں کافی ابھری ہوئی تھیں ‘‘ (ہتک)
سوگندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسند تھا۔ ‘‘ (ہتک)
گیلے سینے پر پانی کے قطرے پھسل رہے تھے۔ ‘‘ (دو قومیں )
چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ ‘‘ (موذیل)
اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدراہٹ، وہی جاذبیت، وہی طراوٹ، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمہار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ تازہ برتنوں میں ہوتی ہے۔
اس کے سینے پر چھاتیوں کے یہ ابھار دئے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی کے جلتے ہوں۔ (بو)
یہ جمالیاتی انکشافات ہیں۔ چھاتیوں سے ہی جسم کا آہنگ سنائی دیتا ہے اور خوشبو بھی ملتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ منٹو کے تخلیقی ذہن پر کیسی کیسی حقیقتیں اور حیرتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔
شاید کچھ لوگ یہ محسوس کر تے ہوں کہ منٹو پر drugs psychedelic کا اثر ہے۔ اور ان کی تمام کہانیاں اسی drugs کا ثمرہ ہیں۔ ایک اسرائیلی اسکالر نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور کا جلوہ اس لئے نظر آیا تھا کہ ان پرpsychedelic کا اثر تھا ا ور ایسی کیفیت میں انسان پر کچھ ایسی حیرتیں منکشف ہوتی ہیں جو ماورائے ادراک ہوتی ہیں۔ منٹو کی شراب نوشی بھی شاید اسے کچھ ایسی حقیقتیں منکشف کرانے میں کامیاب ہو گئی جو ہمیشہ پردۂ خفا میں رہتی ہیں۔
٭منٹو کے اندر بے پناہ creativityتھی اور انہیں نفسیاتی رویوں اور سوشل سائیکولوجی کا پورا گیان تھا اور psychometricsپر پورا عبور بھی۔ ان کے یہاں تخلیقیت کے نقوش یوں بھی نمایاں ہیں کہ وہ نئی فکر اور نئے امکانات کے متلاشی رہے ہیں۔ ان کے cortexکا frontal lobeمتحرک رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقیت اور ان کی فکر مکمل طور پر divergentتھی۔ اور ان کی زندگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھschizotypalبھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر تخلیقیت کا بے پناہ وفور تھا۔ انہوں نے وہ کردار خلق کئے ہیں جو عام تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد نہیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی ساعت کی تخلیق ہیں جب تخلیقیت انتہائی عروج پر ہوتی ہے۔ انہیں سیکس کے بنیادی لوازمات اور اس کے متعلقات کا مکمل گیان تھا اور اسے اس نظریے سے نہیں دیکھتے تھے جس نظریے سے عام لوگوں نے دیکھا ہے۔ قدیم تہذیب، سنسکرتی اور تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ اور وہ زندگی کے داخلی اسرار سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ ان کے یہاں جو سیکس ہے وہ مکمل طور پر ہندوستانی ثقافت کی روح کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔ ایک ثقافتی عنصر کی طرح سیکس بھی ان کے افسانوں میں متحرک ہے۔ سیکس کے حوالے سے شکیل الرحمٰن نے منٹو کی جو تفہیم کی ہے وہ بھی اپنی نوعیت کی منفرد تنقید ہے۔ جس میں انہوں نے سیکس کو تقدس اور ارتفاع عطا کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو کے ذہن میں سیکس کا جو تصور تھا وہی تصور، شکیل الرحمٰن کے ذہن میں بھی اتر آیا ہے۔
اگر منٹو کے افسانے، للت راگنی یا مدھیا مدی راگنی کی تصویروں میں بدلتے نظر آتے ہیں تو یہ صاف اشارہ ہے کہ ان کی نظر اسطوری روایت پر تھی جہاں سیکس ممنوع نہیں بلکہ محترم اور مقدس ہے اور اس مصورانہ مطابقت کی جستجو کر کے شکیل الرحمٰن نے منٹو کی کہانیوں اور قدیم مصوری کے مابین ایک ایسا اتصال دریافت کیا ہے جس کی طرف شاید ہی کسی کی نگاہ جا پاتی۔ یہ تخلیق سے مکمل موا صلت کا ثمرہ ہے اور یہی مواصلت شکیل الرحمٰن کا نقطۂ امتیاز ہے۔ منٹو کے نزدیک جنس اور عورت کا جسم ممنوعہ علاقے نہیں ہیں۔ اس لئے منٹو کی کہانیوں کی عورتیں اپنی اپنی خوشبوؤں، Sensitivityاورemotional perceptionکے ساتھ نظر آتی ہیں۔
شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں :
’’حساس فنکاروں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہر عورت کی اپنی خوشبو ہو تی ہے، خوشبو کا رشتہ قائم ہو جائے تو سچی جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نیز سچا انبساط ملتا ہے۔ جو عورتیں جسم پر خوشبوؤں کا استعمال نہیں کرتیں ان کے بدن سے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو عورت کے ہر عضو پر ہونٹوں کو رکھ دینے پر مجبور کر دیتی ہے، یہ خوشبو جادو ہے، جہاں ہونٹ رکھئے وہی خوشبو ملے کہ جس سے احساس و شعور کی بے قراری بڑھ جائے اور پھر محسوس ہو جیسے اس خوشبو نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ عورت جس نے حضرت سلیمان کو چوم کر یہ کہا تھا میرا بستر دار چینی کی خوشبو سے معطر ہے اور میرے بدن کی فطری خوشبو کستوری جیسی ہے، آپ آ جایئے۔ ہم دونوں رات ایک دوسرے میں جذب رہیں، وہ عورت ایسے گہرے جنگل کی ہو گی جہاں پھولوں کے رنگ انتہائی تیز اور شوخ ہوں گے۔ جہاں کے پھل رسوں سے بھرے ہوں گے، جہاں کی مرچیں حد درجہ تیز ہوں گی اور جہاں جسم آزاد ہو گا!ایسی عورت کا تجربہ زندگی کے حسن و جمال، نرمی اور گرمی اور پوری زندگی کی جنسی آسودگی کے تجربوں کے رس کا استعارہ ہے۔
عورت کے جسم کی خوشبو اگر اس طرح ملے کہ لوبان کی خوشبو وجود میں جذب ہونے لگے۔
دارچینی کی مہک احساس کو گرفت میں لینے لگے تو ٹپکتا ہوا تجربوں کا رس کتنا شیریں ہو گا۔ کون جانے بعض مجسمہ سازوں اور سنگ تراشوں نے عورتوں کے جو بعض انتہائی خوبصورت پیکر بنائے ہیں ایسی ہی خوشبوؤں سے آشنا ہوں !
ہندوستانی جمالیات کا ایک بنیادی رجحان یہ رہا ہے، مسرت اور غم ان ہی سے جب زندگی عبارت ہے تو دھرم کو خوشگوار، پر کشش لذت بھرا کیوں نہ بنائیں۔ تانتر نے اس طرح مدد کی کہ پراکرتی اور پرش دونوں کو خالق کے وجود کا حصہ بتایا اور کہا کہ ان کے ذریعہ جنسی زندگی کے دلفریب اسرار کو اپنانے کی کوشش کرو۔
جن لوگوں نے کالی داس کی مشہور تصنیف ’’میگھ دوت‘‘ کا مطالعہ کیا ہو گا ا نھوں نے بڑی شدت سے محسوس کیا ہو گا کہ کالی داس نے ’’سیکس‘‘ کے تئیں کتنی گہری دلچسپی لی ہے۔ میگھ یا کشا کا دوت (سفیر)بن کر جاتا ہے، عشق کا پیغام لئے، رام گری پہاڑی سے شمال میں یاکشاؤں کی آبادی تک اور راستے بھر مختلف علاقوں کی مختلف عورتوں کی جنسی زندگی کو دیکھتا جاتا ہے۔ جانے کتنے مناظر سامنے آئے ہیں۔ جنسی عمل میں ہر علاقے کی عورت اپنا مختلف انداز رکھتی ہے۔
معروف سنسکرت شاعر بلہن سے منسوب جو پچاس اشعار ہیں (Chaura panchasika) ان میں عورت مرد کی جسمانی محبت کی تفصیل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر لمحہ کی حرکت کا لذت آمیز ذکر ہے۔ موضوع یہ ہے کہ شاعر کو پھانسی پر چڑھا دینے کا حکم ہوا ہے اور وہ اپنی محبوبہ کو یاد کر رہا ہے۔ مباشرت سے پہلے اور مباشرت کے تمام لمحوں کو اس شدت سے محسوس کر رہا ہے کہ پھانسی کی سزا اور پھانسی پر چڑھنے کا تصور گم ہو جاتا ہے!
بوسہ اور ہونٹوں، گالوں اور پستانوں پر دانتوں کے نشانات سنسکرت فنکاروں کے لئے پرکشش رہے ہیں۔ کالی داس نے ’’کمارسمبھو‘‘ میں اوما کے سرخ ہونٹوں پر شیو کے دانتوں کا دباؤکا ذکر لطف لے کر کیا ہے۔ کہا ہے شیو نے اوما کے سرخ ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹ لیا اور اس سے اوما کو لذت آمیز چبھن کا احساس ہوا۔ شیو کے سر پر جو چاند تھا اس کی کرنیں ان ہونٹوں پر پڑیں تو تکلیف کی لذت اور بڑھ گئی۔ ’’ریتو سمہار‘‘ میں نوجوان لڑکیاں جاڑے کی صبح اٹھ کر اپنے جسم اور خصوصاً اپنے پستانوں پر تیز ناخنوں اور دانتوں کے نشانات دیکھتی ہیں اور مسکراتی ہیں۔ وہ تصویریں دیکھئے:
’’دنتی نے پوچھا، صبح مجھے لباس کس نے پہنایا، رات تو میں ننگی ہی سو گئی تھی، ازار بند کس نے کسا؟میرے جسم پر تو کچھ بھی نہ تھا ا ور سہیلیاں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ ‘‘ (اوما رو کے ایک سنسکرت ڈرامے سے)
’’اوما نے شیو کا وہ ہاتھ تھام لیا جو ناف کے نیچے بڑھ رہا تھا‘‘ (کمار سمبھو۔ کالی داس)
’’شیو کے بستر پر پاروتی کے پاؤں کے نشان تھے، کم کم ان کی آنکھوں میں کھپ کر رہ گیا!‘‘ (کمار سمبھو)
’’میاں نے اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت کی تو ختم ہی نہ ہوئی، جانے کتنے یگ بیت گئے‘‘ (میگھ دوت۔ کمار سمبھو)
٭یہ ہوتی ہے جذب کی اصل کیفیت، یہی استغراق و انہماک مطلوب ہے ہر تخلیق اور تنقید سے۔ منٹو کی کہانیوں کو سمجھنے کے لئے کچھ ایسی ہی کیفیت سے گزرنا پڑے گا، جس کا بیان میگھ دوت میں ہے۔
شکیل الرحمٰن نے عورت مرد کے رشتے اور جسمانی تفاعل کے حوالے سے اس اسرار کا اکتشاف کیا ہے جس کی وجہ سے کائنات کا تسلسل برقرار ہے۔ یہ سیکس کا نشہ اندوز یا تلذذ آمیز بیان نہیں بلکہ نظامِ تخلیق کی نوعیت، ماہیت کی تفہیم کی کوشش ہے۔
منٹو کی کہانیاں بھی ایسی ہیں کہ جن کے ساتھ اگر مواصلت کی جائے تو یگوں کے بیت جانے کا احساس ہی ختم ہو جائے۔ یہ جسم اورجنس کی جادو گری ہے اور منٹو اس سے آگاہ ہیں۔ اس لئے ان کی کہانیوں میں موج خیز بدن کی لہریں اور اضطراب ہیں اور ان لہروں کی تشنگی بھی۔ ان کی کہانیوں میں بھی کنواری جیسی کساوٹ اور ویسی ہی پر کیف کپکپاہٹیں ہیں۔ دراصل تنقید اور تخلیق کا رشتہ بھی ایک مباشرتی رشتہ ہے۔ اس رشتے کو صحیح طور پر سمجھا جائے تبھی تخلیق کے سارے رموز نشیب و فراز، مد و جزر اور کیفیتیں سامنے آتی ہیں۔ منٹو کی کہانیاں دراصل انسانی جسم میں مضمر کائنات اور اس کے حسن کی تلاش اور اس وحدت کی جستجو ہے جو پرش اور پرا کرتی کے وصال سے وجود میں آتی ہے۔ شکیل الرحمٰن نے منٹو کے افسانوں کے حوالے سے اس بنیادی حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
’’انسان کا جسم کائنات ہے اور اس کی تمام خصوصیات اور اس کے تمام حسن اور جلووں کو لئے ہوئے ہے۔ شیو اور شکتی دو ابدی حقیقتیں ہیں جو انسان کے جسم کے اندر ہیں، ہر مرد کے اندر عورت ہے اور ہر عورت کے اندر مرد ہے، یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے سے اس وقت ملتی ہیں جب یوگ سے انہیں بیدار کیا جاتا ہے۔ شیو انسان کے دماغ میں رہتے ہیں۔ انہیں دماغ کا کنول کہا جاتا ہے(ساہس ہار)یہ خالص شعور ہیں۔ شکتی سانپ کے مانند کنڈلی مارے نیچے کل دھارا چکر میں رہتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کل دھارا چکر کی بنیاد ہے۔ سوئی ہوئی شکتی ’’ہتھیوگ‘‘ کے عمل سے جاگ جاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے اندر سے سفر کرتے ہوئے دماغ میں شیو کے پاس پہنچ جاتی ہے، شیو کو وہی بیدار کرتی ہیں اور پھر دونوں ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک وحدت بن جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ’پرش، یعنی روح، خالق کائنات اور فطرت یعنی انسان کی جذباتی وحدت کا ذکر ملتا ہے۔ پرش اور پراکرتی کی اہمیت زیادہ ہے، اسی طرح کرشن اور رادھا کی وحدت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ کرشن کا رنگ نیلا ہے۔ وہ آسمان کی علامت ہیں !رادھا کا رنگ گندمی ہے، یہ زمین کا رنگ ہے۔ دونوں کی وحدت پوری کائنات، کائنات کا حسن اسی وحدت میں سمٹ آتا ہے!‘‘
سعادت حسن منٹوseductive techniquesسے بھی واقف تھے اور ان کی کہانیاں اسی طرح seduceکرتی ہیں جیسے ہیلن آف ٹرائی قلوپطرہ، مارلن منرو، یاMae West۔ ان خواتین کے seductionمیں عارضی پن ہے جب کہ منٹو کا seductionابدیت کا حامل ہے۔ یہ ایک طرح سے mental witchcraftہے اور منٹو اس میں ماہر تھے۔ منٹو نے اپنی کہانیوں کے ذریعے unguiculationکا عمل انجام دیا ہے اور یہ ان کے افسانوں کی بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں اسی طرح کے شاک سے گزارتے رہتے ہیں۔
اس عمل میں ایک قوتِ تسخیر ہوتی ہے اور یہ تسخیری قوت منٹو کے افسانوں میں ویسے ہی موجود ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ جودھا بائی، اکبر پر unguiculationکا حربہ آزماتی تھیں اور اسی وجہ سے اکبر تا عمر ان کی ’زلف گرہ گیر‘ کے اسیر رہے اور ان کے ہی جنون میں کھوئے رہے۔ کچھ ایسا ہی unguiculation کا حربہ منٹو نے اپنے افسانوں میں اختیار کیا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ ان کے افسانے جسم کو نہیں بلکہ ضمیر اور ذہن کو خواب گراں خیز سے بیدار کرتے ہیں۔
شکیل الرحمٰن نے منٹو شناسی کے ذریعے منٹو کے ذہن، ضمیر اور روح کو کریدا ہے جب کہ دیگر ناقدین نے یہ سوچ کر منٹو کی باطنی تہوں میں اترنے سے گریز کیا کہ جلا ہے’ جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا،۔ شکیل الرحمٰن نے اس جلے ہوئے جسم میں اس دھڑکتے ہوئے دل کی جستجو کی ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ و تابندہ ہے۔ یہ منٹو کے دل کا اضطراب و التہاب ہی تو ہے جو افسانوں میں ڈھل گیا تھا اور ان التہابی عناصر کی دریافت شکیل الرحمٰن نے اپنے تنقیدی تجزیے میں کی ہے۔ منٹو کی تخلیقی لہروں (creative waves)جنہیں کچھ لوگwaves of pleasureسمجھتے ہیں، کی صحیح طور پر شناخت اور تشکیل شکیل الرحمٰن نے ہی کی ہے۔
’منٹو شناسی، کے ذریعہ شکیل الرحمٰن نے اردو فکشن کے دیو زاد کو تلاش کر لیا ہے اور ان کی کہانیوں کی طلسمی کیفیت سے قارئین کو بھی روشناس کیا ہے۔ منٹو شناسی میں سعادت حسن منٹو کے 15؍ افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے اور یہ گفتگو نہایت دانشورانہ عالمانہ اور عارفانہ ہے۔ ان کی کہانیوں کی باطن میں مستغرق ہو کر انہوں نے منٹو کے افسانوں کی کستوری جیسی خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کیا ہے اور منٹو کی کہانیوں میں مضمر’منی پدم ہم، کا اکتشاف جس طور پر کیا ہے، وہ انہیں کا حصہ ہے۔ دیکھا جائے تو منٹو کے افسانوں کا اسم اعظم ’اوم منی پدم‘ ہے۔ مختصر لفظوں میں منٹو کی کہانیوں کی اس سے بہتر تعبیر اور تفہیم نہیں ہوسکتی۔
٭٭٭
پروفیسر شکیل الرحمٰن
’مثنوی چراغِ دیر‘ : تحیر کی جمالیات کی ایک مثال
ہندوستانی جمالیات میں تحّیر کی جمالیات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اسے اد بُھت رَس کہا گیا ہے، اسے چمتکار سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ ابھینو گپت، بھرت منی، ممّٹ سب کے یہاں اس کا ذکر ملتا ہے۔ نٹ شاستر میں بھرت نے تحّیر کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اکیسویں باب میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی تجربے کی عظمت کا انحصار تحّیر پر ہوتا ہے، تجربہ اس طرح پیش ہو کہ تحّیر پیدا ہو۔ ابھینو گپت کے ابھینو بھارتی کے مطابق حالات اور ماحول تحیّر پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان کے اس معروف معلّمِ جمالیات نے کئی ایسے حالات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب تحیّر پیدا ہو سکتا ہے۔ آچاریہ نارائن بھی ایک معروف معلّمِ جمالیات گزرے ہیں۔ انہوں نے جمالیات کے موضوع پر جو کام کیا تھا موجود نہیں ہے۔ اس کا ذکر ملتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ آچاریہ نارائن نے تحیّر اور تحیّر کی جمالیات کو اہم جانا تھا، ادبُھت سے زیادہ تحیّر کے ’’چمتکار‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے، ان کے پوتے وشواناتھ کی دلچسپی بھی جمالیات سے بہت گہری تھی، ان کی تحریروں میں آچاریہ نارائن کے خیالات ملتے ہیں، یہ علم ہوتا ہے کہ آچاریہ نارائن نے ادبھت رس اور تحیّر کے اپنے تصور کی آمیزش کے بعد ’’چمتکار‘‘ کی اصطلاح سامنے رکھی تھی۔ فنون اور خصوصاً ڈرامہ اور شاعری میں ’’چمتکار ‘‘ کی قدر و قیمت کا احساس دلایا تھا۔ ’رس گندھار‘ کے مصنف جگن ناتھ پنڈت نے تحیّر اور انبساط پر اچھی گفتگو کی تھی۔ انہوں نے ادبُھت اور ’چمتکار‘ کی جگہ ’لوکوٹ تارا‘ (Lokottara)کی اصطلاح استعمال کی تھی، اس کا مفہوم ہے ایسی تیز چمک کہ جس سے تحیّر پیدا ہو۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں تحیّر اور تحیّر کی جمالیات کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ فنونِ لطیفہ اور خصوصاً شاعری اور ڈراما کے تعلق سے اس رَس اور کیفیت کی قدرو قیمت کا ہمیشہ احساس رہا ہے۔ فوق الفطری واقعات سے ان تجربوں تک کہ جو عام زندگی کے تجربوں سے علیحدہ ہو، جن کے اچانک پن اور جن کی تازگی اور اجنبیت سے تحیّر پیدا ہو، ہندوستانی جمالیات میں موضوع بنے رہے ہیں۔ سنسکرت ادب فوق الفطری واقعات اور کردار سے بھرا پڑا ہے، انہونی باتیں طرح طرح سے تحیّر پیدا کر کے چونکا دیتی ہیں۔ بھاسا کالیداسؔ اور بھو انبھوتی کے اہم رزمیوں میں فوق الفطری حالات اور کردار موجود ہیں، ان سے تحیّر پیدا کیا گیا ہے۔ کالیداس کی عظمت کی ایک بڑی پہچان یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ پرانی ایپک سے فوق الفطری کیفیتوں کو حاصل کرتے ہیں اور قاری کو متحیّر کرتے رہتے ہیں، ’شکنتلا، کے چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں ایکٹ میں پرانی ایپک سے متحیّر کرنے والے واقعات ملتے ہیں۔ ارویشی کا کردار بھی حیرت انگیز ہے۔ اس طرح نارائن جب مہابلی کے آشرواد سے بونے سے دیو ہیکل پیکر بن جاتے ہیں تو ادبُھت رَس کی پہچان ہوتی ہے۔
غالبؔ تحیّرکی جمالیات کے ایک بڑے شاعر ہیں، وہ ادبُھت تجربوں کے لئے کسی رزمیہ یا ایپک کے پاس نہیں جاتے بلکہ اپنی سائیکی کی مدد سے چمتکار کرتے رہتے ہیں۔ اردو اور فارسی کی غزلوں میں تحیّر پیدا کرتے رہنے کا ایسا سلسلہ ہے کہ چمتکار اور اس کے جلووں کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ حیرت اور تحیّر اور طلسمی کیفیتوں نے کلامِ غالب کو بڑی عظمت بخش دی ہے۔ کثرت انشائے مضمونِ تحیر سے ’’جہاں اردو اور فارسی بوطیقا کو ایک انوکھا طرزاحساس ملا ہے، وہاں گنجینۂ معنی کے طلسم کی ایک دنیا بھی حاصل ہوئی ہے۔ محبوب کے عکس سے آئینے میں آگ لگ جاتی ہے۔ آبلوں میں آنکھیں پیدا ہو جاتی ہیں، محبوب کی خوبصورت کلائیوں کو دیکھ کر شاخِ گل جلنے لگتی ہے، حلقۂ زنجیر میں نگاہیں پیدا ہو جاتی ہیں، شیریں کی سیاہ زلف کو سانپ کہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جادوگری یہ ہے کہ اس کا مارا دفن ہو جاتا ہے تو پورا پہاڑ سبزے کی شدت سے سبزہ ہو جاتا ہے اور زمرد کا مزار بن جاتا ہے، لہو کے قطرے دامن پر گرتے ہیں تو پھول بن جاتے ہیں، چاند آفتاب کے ہاتھ میں کاسۂ گدائی نظر آتا ہے۔ مہندی سے رنگے ہاتھ دیکھ کر گل، پروانے کی طرح رقص کرنے لگتے ہیں۔ محبوب کے ذکر سے اس کے خوبصورت لب شراب کے پیالے پر اُبھر آتے ہیں۔
تحیّر کے حسن و جمال کی یہ خوبصورت مثالیں ہیں۔
’مثنوی چراغ دیر‘ جمالیات کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ ایک بڑے حسن پسند فنکار کی تخلیق ہے جو ادب کی دنیا میں گریٹ ونڈرgreat wonder)کا ایک بڑا فنکار ہے۔ ’مثنوی چراغ دیر، اپنی تازگی اور اجنبیت کے ساتھ تخلیق فن کا ایک شاہکار بن گئی ہے۔ تازگی اور اجنبیت ہی بڑے تخلیقی آرٹ کا جوہر ہے۔ تحیّر کی جمالیات کی یہ دونوں بنیادی خصوصیتیں اس مثنوی میں توجہ طلب بن جاتی ہیں۔ ’رسوں‘ اور خصوصاً ’شرنگار رس‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس بڑی شدت سے ہوا کہ تحیر رسوں کا نقطۂ عروج ہے، تحیر کی جمالیات کے بغیر کسی بھی اعلا فن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیقی آرٹ میں تحیّر کی جمالیات قاری کے ذہن میں کشادگی پیدا کر کے اسے ایک افضل سطح پر لے جاتی ہے۔ یہ وہ سطح ہوتی ہے جو زندگی کے جلال و جمال کو صرف حد درجہ مقوی ہی نہیں بناتی بلکہ زندگی کے حسن کو دیکھنے کے لئے ایک وژن بھی عطا کر دیتی ہے۔ تحیّر کی جمالیات کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حسن کا سحر قاری کو فنکار کے تخیلی اور وجدانی تجربوں کی گہرائیوں میں اس قدر اتار دیتا ہے کہ خود قاری کی فکر و نظر میں تبدیلی پیدا ہو نے لگتی ہے۔ اس حد تک کہ اسے خود اپنی شخصیت تبدیل ہوتی محسوس ہونے لگتی ہے، وہ فنکار کے تحیّر آمیز تجربوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ ’مثنوی چراغ دیر، تحیّر کی جمالیات کا ایسا نمونہ ہے کہ جس کا حسن قاری کے تجربوں کے اظہار کے عمدہ ذرائع رہے ہیں، ان تینوں کی تخلیقی صورت مجرّد ہو جاتی ہے تو جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے، اس مثنوی کی تکنیک کا حسن بھی یہی ہے۔
غالبؔ کی دوسری مثنویوں کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’چراغ دیر، کا تخلیقی سانچہ مختلف ہے، زمانے کے دستور کے مطابق یہ مثنوی مناجات، اور حمد یا شکر خدا سے شروع نہیں ہوتی، تجربوں کے مزاج کے مطابق غالبؔ نے ابتدائیہ کی صورت ہی بدل دی ہے، وہ چاہتے تو حمد، یا مناجات میں ایک نیا انداز پیدا کر سکتے تھے جس طرح انہوں نے ’’مثنوی ابر گوہر بار‘‘ میں کیا ہے، مثنوی ابر گہر بار کے گیارہ سو اشعار میں حمد، مناجات، نعت(جس میں معراج کا خصوصی ذکر بھی شامل ہے )منقبت وغیرہ سب ہیں، مثنوی رنگ و بو کی طرح چراغ دیر میں کوئی تمثیل پیش نہیں ہوئی ہے، مثنوی ’درد و داغ‘ کی طرح اس میں کوئی کہانی نہیں ملتی، مثنوی سرمہ بینش کی طرح اس میں کسی بادشاہ کی مدح نہیں ہے اور حسن و عشق کے بیان کو تصوّف کا رنگ نہیں دیا ہے۔ مثنوی ’باد مخالف‘ کا انداز بھی نہیں ہے۔ غالبیات میں ’’چراغ دیر‘‘ کا تخلیقی سانچہ مختلف نوعیت کا ہے، غالب کی کسی مثنوی کا کینوس ایسا نہیں ہے کہ جس پر تین مختلف رنگوں سے ایسی تصویریں بنی ہوں اور ان کا باطنی طلسمی رشتہ بھی ہو۔ بلا شبہ اس مثنوی میں ایک اجنبیت اور اجنبیت کی تازگی ہے جو تحیّر کی جمالیات کی سطح بلند کر دیتی ہے ’۔ مثنوی چراغ دیر، مرزا غالب ؔ کی ایک نمائندہ تخلیق ہے جو جلال اور جمال کا ا یک عمدہ معیار قائم کرتی ہے۔ جلال کا پہلو اس طرح اُبھرتا ہے:
رگ سنگم شرارے می نویسم۔ کفِ خاکم غبارے می نویسم
تو جمال کا پہلو اس طرح ہے:
۔۔۔ جلوہ ہا غارت گر ہوش۔ بہار بستر و نو روز آغوش
’مثنوی چراغ دیر، کی تکنیک بھی تحیّر کے حسن سے آشنا کرتی ہے، غور فرمائیے!اس نظم کے کینوس میں تین واضح رنگ ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں لیکن مجموعی طور پر جو جمالیاتی وحدت پیدا کرتے ہیں اس سے حیرت انگیز مسرت حاصل ہوتی ہے۔ آئیے ہم تینوں رنگوں کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ نفسیاتی نقطۂ نظر سے پہلا رنگ سرخ ہے یعنی جبلت کا رنگ، دوسرا آسمانی یا نیلا ہے جو آسمان کا رنگ بھی ہے اور روح اور باطن کا رنگ بھی اور تیسرا اس سرخ اور نیلے امتزاج سے بنا ہوا بنفشیvoilet) (جسے نفسیات کے بعض علماء نے صوفیانہ تخیل اور صوفیانہ فکر کا رنگ کہا ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے یہ تینوں رنگ اس نظم میں اہمیت رکھتے ہیں۔
درد و غم، باطنی اضطراب، تپش اور بے چینی اور جبلتوں کے اظہار میں پہلا رنگ یعنی سرخ مثنوی کے پہلے حصے میں موجود ہے، محسوس ہوتا ہے جیسے ’کینوس، پر پہلے جبلت اور احساس اور جذبے کی گرمی اور شدت کا سرخ رنگ اچانک پھیلتا ہے۔
نفس با صُوردمسازست امروز۔ خموشی محشرِ رازست امروز
رگِ سنگم شرارے می نویسم۔ کفِ خاکم غبارے می نویسم
جذبات میں حد درجہ گرمی ہے، رگِ سنگ سے لہو ٹپکنے والا ہے، بے چینی ہے، اضطراب ہے، غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، شوق اور خواہش کا دم گھٹنے لگا ہے، اپنے وجود میں ’’خونِ صد برق‘‘ کا شدید احساس ہے، داستانِ غم سنانے کے لئے ہونٹ کانپ رہے ہیں، فغاں ایسی ہے کہ باہر نکلے تو جگر کے ٹکڑے ہو جائیں، تنہائی کا احساس کاٹے جا رہا ہے۔ یہ احساس شدید ہے کہ سمندر کی لہروں نے باہر پھینک دیا ہے، رگِ سنگ بن کر چنگاریوں سے لکھنے کی خواہش ہے تاکہ سانس، جو صورِ محشر کی ہمنوا ہے اور خاموشی جو اسرار محشر ہے اپنی تپش، گرمی اور آواز کے ساتھ سامنے آ جائے، قیامت بپا ہو جائے!
ذات کا آتشیں چکر ہے، جلیل و جلیل تر تجربوں کی شدت ہے، جمالیاتی تناؤ توجہ طلب ہے یہ پہلا رنگ یعنی سرخ۔ حد درجہ باطنی ہے، اس رنگ کے ساتھ جو تصویریں ابھرتی ہیں وہ باطن کے درد و غم، اضطراب اور بے چینی اور بہت حد تک فنکار کی چیخ کو پیش کرتی ہیں، ان کے پس منظر میں زندگی کی شکست و ریخت اور انفرادی محرومی کا شدید تر احساس موجود ہے۔
صحرا نوردی کے تجربوں سے لا شعور اچانک بیدار ہو جاتا ہے اور یہ احساس عطا کرتا ہے کہ تم اپنے دل میں پھولوں کی ایک ایسی زمین رکھتے ہو جس کا آئین بہار ہے اور جس کا ماحول دلنشیں ہے؛
بخاطر دام اینک گل زمینی۔ بہار آئین سواد دل نشینی
اور آہستہ آہستہ یہ احساس باطن کے نگار خانے میں آتا رہتا ہے، گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ اچانک دوسری رنگین موج تیزی سے آ جاتی ہے دوسرا رنگ یعنی ’نیلا، اس شدت سے ’کینوس، پر پھیل جاتا ہے، بظاہر اس حصے کے تجربے حد درجہ خارجی نظر آتے ہیں لیکن اتنے ہی باطنی بھی ہیں، سرخ رنگ پر آسمانی یا نیلا رنگ چھا جاتا ہے، اچانک آہنگ تبدیل ہو جاتا ہے، بحر وہی ہے لیکن شخصیت کا آہنگ چونکہ مختلف ہو جاتا ہے اس لئے تجربوں کا آہنگ بھی بدل جاتا ہے۔ خوبصورت اور کومل اور نازک الفاظ سامنے آتے ہیں، عمدہ کنایے اور تشبیہیں اور بصیرت افروز تراکیب، غم کی لہروں کو حسرت اور تحیّر کی لہریں جذب کر لیتی ہیں، عام قاری کے دل کو بنارس کے جلوے شعری تجربوں میں چھوتے ہیں لیکن سچائی یہ بھی ہے سرخ پر آسمانی یا نیلے رنگ کی لہریں فنکار کی روح کی گہرائیوں کے جلووں کو پیش کرنے لگتا ہے!
بنارس را کسے گفتا کہ چین است۔ ہنوز از گنگ چینش بر جبین است
تناسخ مشرباں چوں لب کشا یند۔ بہ کیشِ خویش کاشی را ستایند
کہ ہر کس کا ندراں گلشن بمیرد۔ وگر پیوند جسمانی نگیرد
چمن سرمایۂ امید گردد۔ بہ مردن زندۂ جاوید گردد
زہے آسودگی بخش روا نہا۔ کہ داغِ چشم می شوید زجانہا
شگفتے نیست از آب و ہوایش۔ کہ تنہا جاں شود اندر فضایش
بیا اے غافل از کیفیتِ ناز۔ نگاہے بر پری زادانش انداز
ہمہ جانہائے بے تن کن تماشا۔ ندارد آب و خاک ایں جلوہ حاشا
نہاد شاں چو بوے گل گراں نیست۔ ہمہ جانند جسمے درمیاں نیست
دریں دیرینہ دیر ستان نیرنگ۔ بہارش ایمن ست از گردشِ رنگ!
شہر بنارس، بہشت و فردوس کی صورت سامنے ہے۔ اس دیر کے سامنے عقیدت سے سر جھک جاتا ہے۔ حسن بنارس سرمستی اور وجدانی کیفیت کا باعث بنتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ اس کے جلوے باطن کے جلوے بن جاتے ہیں، اپنے وجود کے حسن، اپنے باطن کے جمال اور اپنی روح کی روشنی کا احساس غیر شعوری طور پر بڑھتا ہے۔ شہر کا جلوہ باطن کا جلوہ ہے اور باطن کا جلوہ شہر کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے، جمیل تر احساسات شعری تجربے بن جاتے ہیں۔ ’پروجکشن‘ کا یہ عمل اپنی پر سراریت اور طلسمی کیفیتوں سے متاثر کراتا ہے۔ مثنوی کے اس حصے میں تحیر کی جمالیات کے جانے کتنے نقش ابھرتے ہیں، پراسراریت، طلسمی کیفیت، تجربے کی اجنبیت اوراس کی تازگی خود شاعر کو اس کا علم نہیں رہتا کہ کس لمحے وہ ’’خارج‘‘ میں ہے اور کس لمحے باطن میں ! شہرِ آرزو کی تصویر بھی سامنے آتی ہے، باطن کے جلوے بھی نمایاں ہوتے ہیں اور بنارس کا حسن بھی ظاہر ہوتا ہے، شاعر اس شہر کو اپنے وجود کی بہشت کا آئینہ بنا لیتا ہے، جلوۂ تمثالِ ذات میں گم ہو جاتا ہے اور اس کی آواز گہرائیوں سے سنائی دیتی ہے۔
بنارس کی تعریف میں وہ اجنبیت(Strangeness)ہے جو تحیر کے حسن کا بنیادی جوہر ہے۔ بنارس کی تعریف محبوب کی تعریف ہے۔ حسن کے شدید احساس سے ایسے تجربے سامنے آئے ہیں جن میں ’’شہر‘‘ محبوب بن گیا ہے اور ایک محبوب کا جلوہ جانے کتنے محبوبوں میں نظر آنے لگا ہے۔ سرمستی پیدا ہوتی ہے تو بنارس کی آب و ہوا میں صرف روح ہی روح نظر آتی ہے:
شگفتے نیست از آب و ہوایش۔ کہ تنہا جاں شود اندرفضائش
غالب کے سومناتِ خیال میں خوبصورتوں اور پیاری پیاری پری زادوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ ان پیاری خوبصورت پری زادوں اور صورتوں کو اپنے نگار خانے میں سجاتے ہیں، اسی طرح کہ جس طرح آزر اپنے بتوں کو سجاتا تھا، ان دلکش حسین پیکروں کے تحرک اور رقص سے اسی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں کہ جس طرح آزر اپنے بتوں کے تحرک سے لطف اندوز ہوتا تھا:۔
بیا اے غافل از کیفیت ناز۔ نگاہے بر پری زادانش انداز
کلام میں تحیّر کا حسن ان لمحوں میں زیادہ متاثر کرتا ہے جب ہم جسم سے بے نیاز روحوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ آب وخاک سے بنے ہوئے ایسے پیکروں کا حسن کبھی ایسا نہیں ہوتا، لگتا ہے یہ وہ چہرے اور وہ وجود ہیں کہ جن کا آب وخاک سے کوئی تعلق نہیں ہے:
ہمہ جانہا ے بے تن کن تماشا۔ ندارد آب و خاک ایں جلوہ حاشا
تحیّر کا جمال اپنی تازگی لئے اس طرح سامنے آیا ہے کہ ان کی فطرت ایسی ہلکی پھلکی ہے جس طرح پھول کی خوشبو ہوتی ہے۔ شعلۂ طور جلوہ تھا، ان بتوں کا بدن جلوۂ طور سے خلق ہوا ہے، جس پیکر کو دیکھئے سر سے پاؤں تلک خدا کا نور ہے۔ جلوے میں ایسی دمک ہے کہ شعلہ سا اٹھنے لگتا ہے۔ ان کے وجود کی تابناکی کی تابش سے آرزو میں تڑپ پیدا ہو جاتی ہے۔ آتشِ شوق بھڑک اٹھتی ہے، یہ خوب رو بت، بت پرست برہمنوں کو بھی جلا ڈالتے ہیں۔ غالبؔ کی حسن پسندی نے حیرت انگیز پیکر سجائے ہیں، مثلاً کہتے ہیں ان کے چہرے گلستاں کے مانند شگفتہ ہیں اور چہروں کی روشنی سے گنگا کے کنارے چراغاں کی سی کیفیت ہے:
بسامانِ دو عالم گلستاں رنگ۔ زتابِ رخ چراغاں لب گنگ
تحیّر کی جمالیات کی پہچان وہاں بھی ہوتی ہے جب حسینوں کی مستی دیکھ کر موجوں کی مستی خاموش ہو جاتی ہے، پانی مجسم ہو جاتا ہے، پانی کو جسم مل جاتا ہے اور گنگا اپنی تمنا کے اظہار کے لئے بے تاب اور مضطرب نظر آتی ہے۔ موج کی صورت آغوشیں کھولے ہوئی ہے۔ سیپ کے اندر موتی بے قراری محسوس ہوتا ہے، پانی پانی ہو جاتا ہے۔ بتانِ آزر کی مانند متحرک، سحر انگیز بت سجے ہوئے ہیں، تحیّر کے حسن کو اس طرح پیش کرنے کے عمل کوہندوستانی جمالیات میں ’’چمتکار‘‘ بھی کہا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تجربے معجزہ اور فوق الفطری فضا سے قریب ہونے کے با وجود تحیّر کا اپنا حسن رکھتے ہوں۔ بنارس کے اسٹیج پر حسینوں کے جلوؤں کا اک ڈراما اسٹیج ہوتا ہے جو ’چمتکار، کے جادو کو لئے متحرک پیکروں کی حیرت انگیز کیفیتوں کو ذہن پر نقش کر دیتا ہے۔
اس مثنوی کی تیسری اور آخری تصویر یہ ہے کہ شاعر جلوۂ تمثالِ ذات کے شدید تر احساس کے ساتھ ’’جنوں ‘‘ کو حاصلِ سفر سمجھتا ہے اور اسی لمحہ اسی جنوں میں سرمستی اور اس سرمستی میں توازن پیدا کرنے کے لئے اپنی ’’سائیکی ‘‘ کو متحرک کرتا ہے اور اجتماعی لا شعور سے ’’بزرگ دانش مند‘‘ کا حسّی پیکر ابھارتا ہے جو خود اس کی اپنی پرچھائیں اور اس کے اپنے وجود کا روشن حصہ ہے۔ یہ ’’پیکر روشن بیاں ‘‘ اور آسمان کی گردش کے رازداں کی صورت جلوہ گر ہوتا ہے ’روشن بیاں، بنارس کی جانب جو اشارہ معنی خیز ہے اور فنکار کی باطنی کیفیتوں کی غمازی کر رہا ہے :
سوے کاشی باندازِاشارت۔ تبسم کرد وگفتاں ایں عمارت
کہ حقانیست صانع را گورا۔ کہ ازہم ریز د ایں رنگیں بنا را
بلند افتادہ تمکین بنارس۔ بود بر اوج او اندیشہ نارس!
پہلے حصے میں غم و درد کی تیز لہروں کے ساتھ ٹوٹ کر گر جاتا ہے، زمانے کی شکست و ریخت سے وجود کے بکھر جانے کا جو لا شعوری خوف ہے اسے اپنی ذات کی عظمت کا احساس سہارا دیتا ہے:
بخاطر دارم اینک گل زمینے۔ بہار آئیں سوادِ دل نشینے
اور اس کے بعد ’’روشن بیاں ‘‘ باطن کی اس روشنی کی تصدیق کر دیتا ہے جو بنارس کے خوبصورت پیکروں کے احساس سے باطن میں نظر آتی ہے اور اس لا شعوری خوف کو اس طرح دور کرتا ہے کہ خدا نہیں چاہتا کہ یہ عمارت ٹوٹ جائے، یہ عمارت رنگین ہے، بلند ہے، پُر وقار ہے۔ آخر میں یہ آواز گونجتی ہے، ہوس کو فنا کر دے اور اپنے نفس کو دل کی آگ سے بے قرار رکھ، عقل و دانش سے کام نہیں نکلتا تو جنوں سے کام لے، جب تک سانس کی ڈور نہیں ٹوٹتی راستہ طے کرنا نہ چھوڑ، شرارے کے مانند فنا ہونے کے لئے اُٹھ اور دامن جھٹک کر آزاد ہو جا، ’لا، کو تسلیم کر کے الا کا نعرہ بلند کر، اللہ کا ورد کر اور ماسوا اللہ کو پھونک ڈال۔
اس مثنوی کا حسن بنیادی طور پر وہی ہے جو کسی بھی اچھی مغل تصویر کا ہے۔ تصویریں بظاہر بکھری ہوئی ہیں لیکن ان میں ایک معنوی ربط ہوتا ہے۔ یہاں بھی تین تصویریں ہیں، تین حصے ہیں، تینوں اپنا رَس اور اپنا جلوہ رکھتے ہیں۔ بظاہر تینوں تصویریں اپنی علیحدہ حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان میں معنوی ربط موجود ہے۔ جلال و جمال کے تحیّر کو جس طرح ابھارا گیا ہے وہ ایک بڑے تخلیقی فنکار کا ہی کارنامہ ہو سکتا ہے۔ یہ تین پہلو یا یہ تین تصویریں زندگی کو سمیٹ لیتی ہیں، ’فرد، ذات یا اس کا وجود، اس کی باطنی کیفیات، درد و کرب، اضطراب، ایک تصویر اس طرح ابھرتی ہے، دوسری تصویر جلالِ فرد کے بر عکس جمالِ زندگی ہے، بنارس کے حسن کا تحیّر جمالِ زندگی کی علامت ہے، جلالِ فرد کے تحیّر سے جمالِ زندگی کے تحیّر تک غالبؔ نے تحیّر کے جمالیات کی تازگی اور اجنبیت کو انتہائی فنکارانہ طور پر احساس سے قریب تر کر دیا ہے، آخر میں یعنی تیسری تصویر میں تحیّر کا حسن اس طرح نمایاں ہوتا ہے کہ ایک بزرگ دانش مند، روشن بیاں کا پیکر ابھرتا ہے، وجود کے جلال اور زندگی کے جمال سے آشنا، انتہائی تجربہ کار، یہ تصویر بھی سحر انگیز ہے، یہ روشن بیاں جو وجود ہی کے باطن کا پیکر ہے، جنوں کی تعلیم دیتا ہے، کہتا ہے شرارے کے مانند فنا ہونے کے لئے ہاتھ اور دامن جھٹک کر آزاد ہو جا، اس آخری حصے میں زندگی کے جمال اور اس کے تحیّر کی ایک اور ہی انوکھی تصویر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہ، ’مثنوی چراغ دیر، مرزا غالب کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔
٭٭٭
شہناز پروین
کراچی۔ پاکستان
پریم چند کے افسانوں کا نیا وژن
’’فکشن کے فنکار، پریم چند‘‘ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی آج سے اڑتالیس سال پہلے کی ’’تخلیقی تنقید‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ’’یہ کتاب ۱۹۶۰ء میں لکھی گئی تھی۔ مسودہ کاغذات میں کہیں گم رہا‘‘ (۱)آج پریم چند پر مضامین کا ایک ذخیرہ موجود ہے اس کے باوجود ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی اس کتاب کا مطالعہ ایک خوشگوار حیرت کا سبب بنتا ہے۔
’’اچھی تنقید کسی طرح بھی اچھی تخلیق سے کم نہیں، تنقید قدریں متعین کرتی ہے، ادب اور زندگی کو ایک نمونہ دیتی ہے۔ ‘‘ (۲)
ڈاکٹر صاحب کی یہ تنقید بھی تخلیق کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے شخصیت اور فن کے حوالے سے جن بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے قدروں کے تعین کے ساتھ ادب اور زندگی کے رشتے کو سمجھنے کا شعور بھی ملتا ہے۔
افسانوں اور ناولوں پر عمومی تبصرے کرنا نہایت آسان ہے لیکن فن اور فنکار پر گہری اور مکمل نظر رکھتے ہوئے حروف اور معانی کے بحر بیکراں میں اُتر کر تخلیق کے کرب کو بعینہ محسوس کرنا اور اسے اپنے قارئین تک منتقل کرنا ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کا کمالِ فن ہے۔
نقاد ذوقِ سلیم کی روشنی میں قابل قدر، معنی خیز اور بصیرت افروز تجربات کا پتہ چلاتا ہے، ان پر غور کرتا ہے اور دوسروں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ‘‘ (۳)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے بھی اپنے ذوق سلیم کی روشنی میں پریم چند کی تخلیقات کا نہایت بصیرت افروز تجربہ کیا ہے، ان کے فن کی باریکیوں پر نظر رکھتے ہوئے شخصیت کے حوالے سے سوزِدروں کی بازیافت کی ہے۔ جذبے کی آنچ کو خود بھی محسوس کیا ہے اور پریم چند کے قارئین اور ناقدین کو بھی اس نہج پر غور وفکر کی دعوت دی ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے متن کے باطن میں اتر کر تخلیق کار کے سوزِ دروں اور اس کے پیش کردہ کرداروں کی جذباتی اور نفسیاتی کشمکش کو خارج میں لا کر فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی
تنقید حقائق کی ترجمانی اور گرہ کشائی کرتے ہوئے کہیں بھی ذاتی خیالات، جذبات اوراحساست کو درمیان میں نہیں لاتی بلکہ کرداروں کے فطری ارتقا کے مطابق ان کی تمام (خوبیوں، خامیوں، ذاتی، سماجی، معاشرتی اور انسانی کمزوریوں )کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے دیکھتی ہے۔ ’’شعور اور لا شعوری ہلچل‘‘ نئی اور پرانی قدروں کے تصادم اور اس کے نتیجے میں رومانیت کا اظہار، داخلی اور خارجی تصادم کے تناظر میں کرداروں کی کشمکش اور شکست وریخت کو وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ خود ان کی تخلیق نظر آتی ہے، اندازِ بیان کی دلکشی سونے پر سہاگے کی مانند ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے ماحول، ان کی شخصیت، ان کے عہد کے مسائل اور ان مسائل کے نتیجے میں ادب کی زندگی میں رونما ہو نے والے نشیب و فراز اور ان سب کے تناظر میں ان کے پیش کردہ کرداروں کی بنت کو نہایت سچائی ایمانداری اور خلوص سے پیش کیا ہے۔ ان کی تنقید ادب پارے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے بلکہ افسانوں اور ناولوں کے موضوعات اور زندگی کے گہرے حقائق کی روشنی میں آگے بڑھتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے بعض کرداروں کو ان کی شخصیت کا آئینہ قرار دیتے ہوئے ان میں ان کی ذاتی محرومیوں، ناتمام خواہشوں، حسرتِ تعمیر اور زندگی کے تلخ تجربات کے حوالے سے بھی ان کی تخلیقات کا جائزہ لیا ہے۔
ان کی نظر میں کسی فنکار کو سمجھنے کے لئے صرف ’’عام عقلی استد لال، منطقی استدلال، اصلاحی اور معاشرتی نقطۂ نظر ‘‘ (ص۱۸۷)کافی نہیں ہے:نیز
’’صرف اخلاقی اصولوں، مقصدیت کے عام تصور اور اصول پرستی کے عام معیار سے کسی بڑے فنکار کی شخصیت اور فن کا تجزیہ ممکن نہیں، شخصیت کی داخلی ضربِ کلیم کی پہچان تو نا ممکن ہے۔۔۔۔ ‘‘ (ص۱۸۷)۔ مزید یہ کہ
’’پریم چند کی زندگی کو محض ایک صحیفہ ا خلاق تصور کرتے ہوئے ان کی بصیرت اور وژن کو حقیقت پسندی کے محدود ائرے میں رکھ دینا انصاف نہیں ہے۔ ‘‘ ۔۔۔۔ (ص۱۸۷)
’’سچ تو یہ ہے کہ پریم چند کے فن کی طرح ان کی شخصیت اب بھی ایک چیلنج کی صورت سامنے ہے، ان کے مزاج اور رجحانات کا تجزیہ نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔ ‘‘ (ص۱۸۷)
تخلیق پر تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی صائب رائے ان کی بصیرت اور ان کے تنقیدی شعور کا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تنقید کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ جب وہ کسی فنکار پر قلم اٹھاتے ہیں، اس کی تمام تصانیف کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں، پھر جہاں انہیں کوئی چنگاری یا راکھ نظر آتی ہے، فنکار کے قالب میں اتر کر ایک عمر اس کے ساتھ بسر کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار اس وقت کرتے ہیں جب وہ جذبات واحساسات ان کے تصور میں رچ بس جاتے ہیں۔ اسی کتاب میں فرماتے ہیں :
’’بڑے فنکاروں کی طرح پریم چند بھی ایک ’’موبی ڈک‘‘ تھے جو ویل کے کانٹوں کو اپنی ر وح میں چبھتا ہوا محسوس کرتا ہے جیسے وہ بڑی خطرناک مچھلی سمندر میں نہ ہو، اس کی شخصیت میں کروٹ لے رہی ہو۔۔۔۔۔۔ ‘‘ (ص۱۸۷)
ان چند جملوں میں پریم چند کے درد اور کرب کو ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے جس امیجری اور تمثیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ براہ راست ’’دل سے نکلتا اور دل میں اتر جاتا ہے‘‘ اسی طرح انہوں نے پریم چند کی زندگی کے سب سے اہم اور اذیت رساں المیے یعنی ممتا سے محرومی کے دکھ کو جس درد مندی، کرب و بلا اور سوز دروں کے ساتھ پیش کیا ہے اس میں کہیں نہ کہیں ان کی اپنی ذات بھی شامل نظر آتی ہے، یہ درد جس طرح لمحہ لمحہ قطرہ قطرہ پریم چند کے وجود میں اُترتا رہا ہے، ڈاکٹر صاحب کے وجود میں بھی ’’اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی‘‘ کا پتہ دیتا ہے۔ یہ وہ آنسو ہیں جو خونِ دل بن کر قلم کی نوک سے ٹپکتے ہیں جن میں اتنی تندی، تیزی اور کاٹ ہے جو ’’سل کو دل‘‘ بنا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’میدان عمل‘‘ کو ایک کمزور ناول قرار دینے کے باوجود پریم چند کے ایک کردار ’’امر کانت‘‘ کی بنت میں پریم چند کی روح کی تشنگی کو ڈھونڈ نکالا ہے، اس ضمن میں وہ پہلے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں مثلاً ’’میدانِ عمل ‘‘ میں ہیرو کہتا ہے:
’’زندگی کی وہ عمر جب انسان کو محبت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے بچپن ہے، اس وقت پودے کو تری مل جائے تو اس کی جڑیں ہمیشہ کے لئے مضبوط ہو جاتی ہیں، ی میرماں کا اس زمانہ میں انتقال ہوا اور تب سے میری روح کو اس کی غذا میسر نہ آئی، وہی میری بھوک میری زندگی ہے۔۔۔۔ دنیا کا سب سے بدنصیب وہ ہے جس کی ماں بچپن میں مر گئی ہو۔ ‘‘ (ص۱۹۵، ۱۹۶)
’’امر کانت‘‘ نے اپنی زندگی میں ماں کی ممتا کے مزے نہ اٹھائے تھے، قدرت نے اسے اس نعمت عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ ‘‘ (ص۱۹۵)
ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے اس دکھ کو کردار کے حوالے سے پیش کرنے کے بعد تحریر فرمایا:
’’یہ ان کی زندگی کا غیر معمولی واقعہ ہے موت نے ماں کو چھین کر پہلی بار غمِ زیست کا احساس دیا، پریم چند آخری عمر تک یہ واقعہ فراموش نہ کر سکے، کہانیوں میں ’’ماں ‘‘ علامتوں کی صورت ملتی ہیں، تنہائی کا ایک منفرد احساس جاگا، بہت ہی عزیز شے کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، یتیمی کبھی جذبے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے اور کبھی پراسرار انداز میں جذبے کے جادو جگاتی ہے، کبھی انفرادیت اچانک چونک اٹھتی ہے اور بے قرار ہو کر حملے کرتی ہے۔ تباہی کے مناظر دیکھنے کی آرزو ہی طوفان میں شریک ہو جاتی ہے، لیکن کبھی غمِ زیست کی لذت سے آشنا کرتے ہوئے شعور و فکر کو متحرک کرتی ہے، یتیمی قلندری کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے اور ممکنات کی دنیا میں جو ہر خودی کی نمود پر غور کرنے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ (ص۱۹۵، ۱۹۶)
محرومی پر اس عمومی تبصرے کے بعد ’’امر کانت‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’روح کتنی پیاسی اور کس قدر بے تاب ہے، امر کانت کے پیکر میں اپنا تجربہ جذب کر دیا گیا ہے، امر کانت ایک آئینہ ہے کہ جس کے سامنے کھڑے ہو کر کہ رہے ہیں تو بد نصیب ہے، تیری حیات کی نمی خشک ہو گئی ہے، تو بھوکا ہے، تیری روح پیاسی ہے، اس پیاس کو تو نے زندگی بنا لیا ہے، شخصیت کا سوز اس پیکر کے ذریعے ظاہر ہو رہا ہے۔ ‘‘ (ص۱۹۶)
اس قدر طویل اقتباسات پیش کرنے پر راقم الحروف معذرت خواہ ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ممتا سے محرومی اور دکھ کی اس شدت کو وہی محسوس کر سکتا ہے جو ان درد آگہی لمحوں سے گزرا ہو، شخصیت کے اس رُخ کو جس صناعی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے تجسیم کا روپ عطا کیا ہے اسے پڑھنے کے بعد راقم الحروف کے ذہن کی بھی ایک کھڑکی کھلی اور تازہ ہوا کے جھونکے نے کہا، ڈاکٹر صاحب جس انداز سے شخصیت کے آئینے میں فن کو پرکھنے کا آرٹ سے آگاہ کیا ہے، دنیائے ادب و فن کے تمام فن پاروں کو اس زاویۂ نگاہ سے نئے سرے سے دیکھنا چاہیے۔ میر تقی میر کے یہاں بھی یہ سانحہ ان کی کمزوری نہیں بلکہ فن پارے میں طاقت بن کر ابھرا ہے، اسی محرومی نے انہیں تمام عمر ناکامیوں سے کام لینے کا ہنر عطا کیا۔ یہ ادب کے علاوہ نفسیات کے حوالے سے بھی ایک اہم اور قابل قدر کام ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تنقید کے ذریعے شعوری طور پر بھی ان کی تخلیقی تنقید ’’ادب اور زندگی کو ایک نمونہ دیتی ہے۔ (۴)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کے نزدیک پریم چند کے ناقدین نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے بقول ان کے:
’’کے فن میں اکہری حقیقت پسندی کی تعریف کی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک صرف خارجی حقائق ہی ابھرتے رہے ہیں، شخصیت سیدھی لکیر نہیں ہوتی، یہ لکیر ٹیڑھی ہوتی ہے اور لکیر کے اندر کئی سطحیں اٹھتی محسوس ہوتی ہیں، تجربوں کی دنیا بہت وسیع، گہری اور تہ دار ہوتی ہے، ویژن اور تجربوں کا ایکس رے(X-Ray)آسان بھی نہیں ہوتا، تمدن یا کلچر کے علامتی عمل اور تسلسل میں قدروں کی کشمکش معمولی نہیں ہوتی۔ ‘‘ (ص۱۸۷، ۱۸۸)
یہ چند نہایت معنی خیز جملے پریم چند نے فن کے ساتھ ساتھ خود ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کے ویژن اور ان کی حقیقت پسندانہ اور جمالیاتی روح کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کی ذات تنہائی، ان کی ہیرو پسندی، خارجی حالات کی وجہ سے جدید عہد کے کئی سطحوں پر رشتوں کو قائم کرنے، ان کے عہد کی روایات، احساست، جذبات، پیچیدگیوں، کشمکش اور تصادم کے ذریعے ان کے فن میں شخصیت اور طبقاتی کشمکش کو سمجھنے کی نظر عطا کی ہے۔ پریم چند کی شخصیت کے حوالے سے جتنے بھی مضامین لکھے گئے ہیں ان میں ڈاکٹر صاحب کا ’’اندازِ بیاں اور ہے‘‘ ۔ حتیٰ کہ خود شریمتی شورانی دیوی کی کتاب ’’پریم چند گھر میں ‘‘ (جس کی روشنی میں پریم چند کی زندگی اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دی ہے، جس سے پریم چند کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ )پریم چند کی بہترین سوانح عمری ہے لیکن ڈاکٹر شکیل الر حمٰن جس طرح ان المیوں کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے، کہیں ڈوب کر ابھرے اور کہیں ابھر کر ڈوبتے ہیں بلکہ ان کے کرداروں کے حوالے سے شخصیت کی بازیافت کرتے ہیں اس کی مثال سوانح عمریوں اور افسانوں میں تو مل سکتی ہے، تنقیدی کتابوں میں ایسی نظیر کم از کم راقم الحروف کی نظر سے کم گزری ہے۔ اس کتاب میں پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے متن کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے رومانیت، جمالیات، حقیقت، نفسیات، عورت کی نرگیسیت، انانیت، بچوں کے ذہن پر ابتدائی نقوش اور ان کے نتیجے میں (شخصیت سازی)رویوں اور برتاؤ میں کمزوری یا توانائی، انسانی کمزوریوں، خامیوں ‘‘ خوبیوں، نامساعد حالات میں زندگی اور روشنی کی تڑپ، جینے مرنے کے احساس اور بہت سے نازک، لطیف اور حساس پہلوؤں کو اس فنکاری سے پیش کیا ہے کہ پریم چند کے قارئین پر کرداروں اور موضوعات کے حوالے سے ان کی ذات اور فن کے مختلف رنگوں کے ’’شیڈز‘‘ (Shades) سامنے آتے ہیں۔
ہندی اور اردو ادب کے ناقدین نے انھیں عام طور پر حقیقت نگار، دیہاتی زندگی کے نباض، ہاریوں، کسانوں اور محنت کش طبقے کے ترجمان اور سماجی سیوک کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں اصلاح اور افادیت کے پہلوؤں کی تلاش کی گئی ہے، زندگی اور شخصیت کے حوالے سے بھی ان کی سادگی، خلوص، دیانتداری اور انسانی درد مندی کے نقوش اجاگر کئے گئے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی:۔
’’ان کی ذات میں یہ باتیں یقیناً بڑی ہیں ‘‘ (ص۱۸۷)
لیکن ان کی تحریروں میں انسانی قدروں، خارجی ماحول سے باطن کے ٹکراؤ اور اس کے نتیجے میں ذہنی اور قلبی دباؤ اور شکست و ریخت سے صرفِ نظر کر کے ان کی افادی اور اصلاحی کاوشوں کا ڈنکا اس طرح پیٹا گیا ہے کہ اصل گوشت پوست کے بنے ہوئے پریم چند کی شخصیت اور فن پسِ پردہ رہ گئے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن ان کے تخلیقی ادب کو صرف ’’تصویرِ انجمن‘‘ اور ’’جلوۂ انجمن‘‘
نہیں دیکھنا چاہتے، ’’کاغذی پیرہن‘‘ میں ’’نقشِ فریادی‘‘ کو بھی دیکھنے اور دکھانے کی سعی کرتے ہیں اور یہی وہ نیا وژن ہے جو اس کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر پریم چند کی تخلیقات کو پھر سے پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ افسانوں میں پریم چند کی پیکر تراشی اور کرداروں کے داخلی جذبات واحساسات کو حسنِ بیان سے اتنا دلکش بنا دیتے ہیں کہ یہ قارئین کے ادبی ذوق کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ پریم چند کی ناول نگاری پر ہے جس میں انھوں نے نہایت اختصار کے ساتھ محض بیس صفحات میں ان کے دس ناولوں کا نہایت جامع جائزہ لیا ہے۔ پہلے باب کا آغاز وہ اس کلئے سے کرتے ہیں :۔
’’منشی پریم چند بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار ہیں ‘‘ (ص۱۱)
اس جملے کے فوراً بعد وہ پریم چند کو بنیادی طور پر افسانے کا فنکار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ’’پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت اور اس ملک کا گاؤں ملتا ہے‘‘ (ص۱۱)ان میں گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز سے لیکر زندگی کے بہت سے دوسرے خارجی مسائل کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ لیکن بقول ان کے:
’’یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک انھیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے، اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔۔۔ بلا شبہ پریم چند کے افسانوں میں ناولوں سے زیادہ جذباتی اور تخیلاتی فضا ہے اور افسانوں میں خارجی قدریں فنی قدریں بن گئی ہیں، ناولوں کے کردار پورے طور پر اپنی نفسیات کے ساتھ نہیں ابھرتے، کرداروں کی تشکیل میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘ (ص۱۲)
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں ایسے تجزیئے خارجی حقیقتوں کی اہمیت بڑھا دیتے ہیں اور اکثر ناولوں کی جذباتیت، خارجی سچائیوں کا سپاٹ بیان اور کرداروں کا میکانکی عمل، مکالموں کی تقریریں اور قدروں کا شعور سب نظر انداز ہو جاتا ہے۔ اکثر خامیوں کو خوبیوں اور خوبیوں کو خامیاں تصور کر کے نقادوں کی تقریریں شروع ہو جاتی ہیں۔۔۔ (ص۱۲)
اسی تناظر میں انھوں نے پریم چند کے ناولوں ’’ہم فرماں وہم نواب، جلوۂ ایثار، بیوہ، نرملا، بازارِ حسن، پردۂ مجاز، گوشۂ عافیت، غبن، میدانِ عمل، چوگانِ ہستی اور گئو دان کا نہایت فنکارانہ مہارت کے ساتھ جائزہ لیا ہے، مصائب کی نشان دہی بھی کی ہے اور ان داخلی خوبیوں کو بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو دراصل ناولوں کا جوہر ہے۔ مثلاً ’’جلوہ ٔایثار‘‘ میں وہ ناول کی خوبی بیوہ کے المیے میں پوشیدہ دیکھتے ہیں، کرداروں کی جذبات کشمکش کو اہمیت دی ہے۔ ان کی نظر میں ’’پریم چند کے اردو ہندی نقادوں ‘‘ کو اصلاحی نقطۂ نظر کے تجزیئے سے زیادہ بیوہ کے المیہ اور کرداروں کا تجزیہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس المیہ اور ان ہی جذبوں میں ہندوستان کا معاشرہ ہے۔ (ص۱۳)
’’گئو دان‘‘ کے سوا تمام ناولوں میں پریم چند کی رومانیت اصلاحی مقصدیت سے دب جاتی ہے اور اسی طرح نئی قدریں مجروح ہوتی ہیں گویا:
’’پریم چند جب بھی ماہرِ اخلاقیات بنے ہیں فکشن میں ان کا المیہ سامنے آیا ہے۔ ‘‘ (ص۱۶)
ان تمام ناولوں میں رومانی فضا، جذبوں کا تصادم اور المیہ کا حسن مشترک ہے۔ ’’مذہب، رسم و رواج، ظلم اور جبر اور معاشرہ سب پس منظر میں ہیں اور پس منظر ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ادبی تنقید کا کام نہیں ہے۔ ‘‘ (ص۱۴)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے ان ناولوں کے پلاٹ، کردار، موضوعات اور ذہنی اور جذباتی کشمکش اور مسائل کے بہت سے رنگوں اور پہلوؤں کو اپنی مخصوص تخلیقی تنقید کے آئینے میں دیکھا ہے اور ناولوں کے فنی اور تعمیری نقائص کو بھی وضاحت سے بیان کیا ہے۔
’’گئو دان‘‘ کو انھوں نے پریم چند اچھا ناول قرار دیا ہے کیونکہ اس میں کرداروں کا فطری ارتقا بھی ہے اور ’’بدلتی ہوئی قدروں ‘‘ اور ’’افراد کی نفسیات پر ان کی گہری نظر‘‘ بھی۔
بلا شبہ ’’ہوری‘‘ گئو دان کی روح ہے، اس کے علاوہ جو کردار ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں اور واقعات سے رشتہ رکھتے ہیں۔ ’’ہوری‘‘ نے سماجی زندگی کا المیہ ڈرامہ اسٹیج کیا ہے۔ خارجی اور داخلی تصادم ہی ناول کا بنیادی حسن ہے، یہ رومانیت، تصادم کو تخیل اور جذبے کی آنچ دیتی ہے۔۔۔ بڑی بات یہ بھی ہے کہ ’’گئو دان‘‘ کے کردار کا فطری ارتقا ہوتا ہے۔ بدلتی ہوئی قدروں اور افراد کی نفسیات پر فنکار کی گہری نظر ہے۔ گئو دان کے ذریعہ اردو فکشن میں جو کتھارسیس ہوئی ہے اس کی حیثیت مسلم ہے!‘‘ (ص۳۰)
یہ اقتباس ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی تخلیقی حیثیت اور تنقیدی شعور کو سمجھنے میں معاونت کرتا ہے۔ محض اٹھارہ صفحات میں گیارہ ناولوں کے پلاٹ، کردار اور کہانی کی بنت کو سمیٹ کر ایک منطقی نقطۂ نظر پیش کرنا ڈاکٹر صاحب کا کمال ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کا ایک ایک لفظ نپا تُلا اور متوازی، کسی ناول کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے اس پر گہری نظر نہیں ڈالی ہے۔
ناول نگاری کے بعد ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے پریم چند کے افسانوں پر کئی جہتوں سے روشنی ڈالی ہے۔ افسانہ، افسانے کو متحرک کرنے والا کردار، موضوعات کا تنوع، خصوصاً عورت اور بچوں کی نفسیات، ذہنی اور جذباتی گرہیں، تکنیک، اسلوب، زبان و بیان، روز مرے اور محاورے، تشبیہات، استعارے اور علامتیں، پریم چند کی شخصیت، غرض کہ پریم چند کے افسانوں کی بوقلمونی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
افسانہ نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ افسانوں میں ’’تیسرے آدمی‘‘ کی شمولیت اور اس کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کو پہلے عمومی طور پر اور بعد میں پریم چند کے افسانون کے حوالے سے ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ تیسرا آدمی ہی تمام افسانوں، کہانیوں اور ڈراموں کی جان ہے، رومیو جولیٹ، جولیس سیزر، برادر مروموزوف، مادام بوواری، بن ہر، دی یور ٹریٹ آف اے لیڈی، گئو دان، شکست، تلاشِ بہاراں اور خدا کی بستی، ٹیڑھی لکیر اور دوسرے ناولوں میں اسی تیسری شخصیت سے رنگینی پیدا ہوتی ہے، انداز، بیان کی دلکشی ملاحظہ ہو:
’’تیسرا آدمی‘‘ خواجہ اہلِ فراق بھی ہے اور ’’خضرِ راہ‘‘ بھی رقیب بھی ہے اور دوست بھی، اس کی دوستی اور رقابت دونوں سے قصۂ آدم رنگین بنتا ہے، کشمکش اور تصادم کے بغیر زندگی اور فن کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوتا اور اسی کے لہو کی گرمی سے کشمکش بڑھتی ہے، ہم کو اسے ہیترو سمجھنا نہیں چاہئے، اس لئے بھی کہ ہیرو کے روایتی تصور کو ابھی تک عزیز رکھے ہوئے ہیں، یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو یہی ہوتا ہے‘‘ ۔ (ص۳۴)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نفسیاتی تصادم اور جذباتی تکمیل کے مختلف حوالے سے پریم چند کے افسانوں کے مختلف کرداروں میں اس تیسرے آدمی کی شخصیت کو سامنے لاتے ہیں۔ ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ، ’’دو سکھیاں ‘‘ میں بھون داس گپتا اور ’’حقیقت‘‘ میں امرت اور پورغا کے درمیان ایک مغرور، بد مزاج اور ادھیڑ عمر شخص یعنی پورغا کا شوہر، تیسرے آدمی کے طور پر ابھرتے ہیں۔ ان تین مختلف افسانوں میں مختلف انداز میں ’’تیسرے آدمی‘‘ کا وجود ایک ذہنی اور جذباتی ہلچل کا سبب بنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسی وجود کے ذریعے پریم چند کے افسانوں میں انسان کی جبلتوں اور نفسیات کی گہرائیوں کو ایک درد مند انسان اور ماہرِ، نفسیات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ پریم چند کے دیگر افسانوں نئی بیوی، پرچھائیں، مالکن، سسی، فریب، الزام، ترشول، وفا کی دیوی، سہاگ کا جنازہ اور بہت سے دوسرے افسانوں کے حوالے سے اس ’’تیسرے آدمی‘‘ کو کہانیوں کا محرک اور فکری ارتقا کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پریم چند کے افسانوں میں کرداروں سے قطع نظر ’’تیسری طاقت‘‘ کو بھی نمایاں کیا ہے۔ ان کی نظر میں :۔
’’سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے، اپنے مفادات کے لئے مذہب اور سماجی تقاضوں کا سہارا لے کر یہ جماعتیں افراد کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ ‘‘ (ص۵۵)
اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے محض نام نہیں گنوائے بلکہ افسانوں کے اقتباسات کے ذریعے کرداروں کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش اور اس کے نتیجے میں کہانی میں پیش آنے والے مختلف واقعات کا بھر پور تجزیہ کیا ہیجسے اگر تحلیلِ نفسی کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ ’’خیال مادے کے بغیر پیدا نہیں ہوتا‘‘ (۱)یعنی یہ تمام تاثرات پریم چند کے افسانوں میں موجود ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے فنکار کے تخلیقی عمل کے ساتھ سفر ہی نہیں کیا بلکہ اس کی روح میں اتر کر فن کو اپنے طور پر بھی تلاش کیا ہے، اس طرح کرداروں کی جذباتی کشمکش کو داخل سے خارج میں لا کر تنقید کا حق ادا کیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں عورت کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے پریم چند کے افسانوں سے عورت کے متنوع رنگ تلاش کئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے عورت بذاتِ خود ایک دنیا ہے، ہبوطِ آدم کے حصے سے لے کر آج تک ’’تصویرِ کائنات‘‘ میں اسی کی ذات سے رنگ ہے، وہ ایک تمدن کی بنیاد گر بھی ہے اور بنیاد شکن بھی، اپنی ذات سے آگاہ بھی ہے اور کبھی دانستہ یا نادانستہ بے خبر بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے عورت کے حوالے سے دو باب تحریر کئے ہیں۔ انھوں نے پریم چند کے افسانوں میں عورت کے مختلف پیکر کی نشان دہی کی ہے، عورت کی نفسیات کی باریکیوں پر نظر ڈالی ہے، نرگیسیت، انانیت اور خود پسندی کے عناصر کے حوالے سے اس کا جائزہ لیا ہے۔ دوسری طرف پریم چند کی اصلاح پسندی کے تناظر میں ان کے بنیادی نظریات کے حوالے سے آدرش عورت کو بھی پیش کیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں میں عورت کے جذبات واحساست کو ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے نفسیات کی روشنی میں جانچا اور پرکھا ہے، افسانوں میں عورت کے حوالے سے شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو جو ڈاکٹر صاحب سے بچا ہو۔ وہ ایک ماہر ریڈیو لوجسٹ کی طرح کردار کے باطن میں اتر کر وہ تصویریں سامنے لے آتے ہیں جو عام قاری کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ فرماتے ہیں :۔
’’پریم چند نے عورتوں کی کردار نگاری میں ذہن کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ شعور اور لا شعور کی کشمکش، مختلف خواہشات کا انوکھا اظہار اور قوتِ نفسی، نرگیسیت، جبری اعصابی خلل، ہیجانات کا ابال اور اور ان کے لئے خارجی علامتوں کی تلاش، ہیرو پسندی، دوسری عورتوں کی زندگی کو نمونہ بنانے کی تمنا، نفسیاتی دباؤ، محبت، نفرت اور حسد کا اظہار، ذات کو توجہ کا مرکز بنا نے کی خواہش، نرگسی چھیڑ، فکری اور عقلی الجھاؤ، احساس کمتری، واہمے اور خواب، جنسی جبلت کی دلفریبی، نفسیاتی تعصب، فریب نظر Hallucination، تحفظِ ذات، اشاعتِ ذات Self Propagation، احساس شکست اور شکست کے بعدپہلی حالت میں لوٹنے کی آرزو، مراجعتRegression، محبوب علامتوں سے نفرت کے بعد اسے بگاڑ کر پیش کرنے کا عمل،۔۔۔۔۔ عورتوں کے کرداروں میں یہ سب ہیں۔ (ص۸۵)
اتنے متنوع رنگوں کے بعد یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے عورت کی نفسیات کے حوالے سے جو موشگافیاں کی ہیں وہ اردو تنقید میں اس طرح پیش نہیں کی گئی، نیز پریم چند کے بھولے بسرے افسانوں سے نسائی رنگ کو جس طرح نمایاں کیا ہے اس کے بعد یہ کہنا غلط ہو گا کہ عورت ہی عورت کے جذبات و احساسات کو سمجھ سکتی ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن اس کتاب میں بچوں کے ادب کے حوا لے سے بھی مجموعی اور پھر پریم چند کی بچوں کی کہانیوں پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کہانیوں میں مختلف عمر کے بچوں کو مختلف ماحول، حالات اور جذباتی زندگی کے تناظر میں دیکھا ہے۔ ان کے افسانوں میں بچوں کے نفسیاتی عمل اور رد عمل کے بعض دلکش مرقعوں کی نشاندہی کی ہے، ’’ہنس‘‘ ، ’’قزاقی،،، ’’سوتیلی ماں ‘‘ ، ’’بوڑھی کاکی‘‘ حج اکبر‘‘ (مہا تیرتھ) ’’عید گاہ‘‘ ، ’’دودھ کی قیمت‘‘ ، ’’بڑے بھائی صاحب‘‘ ، ’’ماں کا دل‘‘ ، ’’گلی ڈنڈا‘‘ ، ’’دو بیل‘‘ ، ’’مندر‘‘ ، ’’چوری‘‘ ، ’’الزام‘‘ ‘ ’’ہمدردی‘‘ ، ’’اناتھ لڑکی‘‘ ، ماں ‘‘ ، اور دوسرے بہت سے افسانوں کے حوالوں سے بچوں کے ذہن کا بچوں کی نفسیات کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی خوبی یہ ہے کہ وہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں یا کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کرتے جاتے ہیں مثلاً وہ پریم چند کے ایک افسانے قرابتی کا تجزیہ اس طرح کرتے ہیں کہ:
’’اس کہانی میں بچے کی نفسیات، ذہنی الجھن، دوستی، محبت، عقیدت، صدمہ اور آرزو مندی، اس کی اداسی، اس کے احساسِ المیہ، معصومانہ احتجاج اور ذہنی آسودگی اور انبساط ومسرت کو پریم چند نے انتہائی فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ ‘‘ (ص۱۱۱)
وہاں چند افسانوں کے حوالے سے جن میں ’’قزاقی‘‘ بھی شامل ہے فرماتے ہیں :
’’۔۔۔۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ بچوں کی جذباتی زندگی کے ارتقا کی بہت اچھی کہانیاں پریم چند نہیں سناتے۔ ‘‘ (۱۰۳)
یہ کتاب پریم چند کے فن اور ان کی ذات کے اتنے بہت سارے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے کہ ان کا مختصر ترین جائزہ بھی پریم چند کے ساتھ خود ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی تکنیک اور اسلوب پر ایک کتاب کی صورت اختیار کر لے گا۔ تکنیک پر بظاہر ڈاکٹر صاحب نے مختصر لکھا ہے لیکن بھرپور اور جامع، اسلوب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، حسنِ نظر نے چار چاند لگا دئے ہیں، مثلاً پریم چند کے ایک افسانے ’’بڑے بابو‘‘ کے اسلوب کو یوں پیش کرتے ہیں :
’’بڑے بابو‘‘ میں ایک جگہ ایک تصویر کے تیرہ ٹکڑے ہیں کہ جوڑ دیا جائے تو ایک مکمل جذباتی تصویر بن جاتی ہے۔ موضوع کے تقاضے سے یہ تکنیک وجود میں آتی ہے اور اسلوب کے حسن نے اسے نقش کر دیا ہے۔ ‘‘ (۱۵۶)
پھر اس جذباتی تصویر کے تیرہ ٹکڑوں کو پیش کر کے ڈاکٹر صاحب اس کا تجزیہ یوں کرتے ہیں :
’’۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کی محرومی کو ’’مستِ خاک‘‘ ’’تنِ نیم جاں ‘‘ اور ’’خانۂ تاریک‘‘ سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، زندگی کی کیفیت اور اذیت کو ان سے واضح کیا گیا ہے۔ ’’خانۂ تاریک‘‘ کے ذکر کے بعد ’’مصری اہرام کی تعمیر‘‘ کا ا شارہ ملتا ہے۔ یہ رومانی اور تخیلی ٹکڑے ہیں جن سے تاثر کی وحدت پیدا ہوئی ہے۔ بڑے بابو کو دیکھ کر جو مسرت ہوتی ہے اس سے اپنے خانۂ تاریک کو بھی روشن کرنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ مہرِ نیم روز کی تابش، تجلی، حرارت اور تبسمِ پر جلال کو دیکھ کر سوئے ہوئے ذہن میں تمناؤں کا دیوتا جیسے جاگ پڑا ہو، یہ تکنیک اور اسلوب کے حسن کا ایک اہم پہلو ہے۔ ‘‘ (۱۵۶)
ایک افسانے ’’حسرت‘‘ سے اقتباس پیش کرنے کے بعدڈاکٹر صاحب رقمطراز ہوتے ہیں :
’’ٹریجڈی کا یہ منفرد تیور انبساط کے انوکھے تجربے کو پیش کرتا ہے اسلوب جو تجزیے کے بطن سے ہوتا ہے اس المیے اور اس کے جوہرکو سنبھالے ہوا ہے۔ پریم چند کا اپنا وژن ٹریجڈی میں ایک نئی جہت پیدا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ (ص۱۶۳)
غرض ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن سے نقاد شکیل الرحمٰن کے منفرد وژن پر روشنی پڑتی ہے۔ کتاب کا انتساب بھی انھوں نے ستیہ جیت رائے کے نام کیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ انہوں نے ’’پریم چند کے افسانے کی قدرو قیمت کا بخوبی اندازہ کرتے ہوئے ’’شطرنج کی بازی‘‘ کو اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ پردۂ سمیں پر پیش کیا۔ ‘‘ (۱)یہ انتساب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن ناقدین پریم چند سے اس بات کے متمنی ہیں اس ضمن میں تنقید کے دائرہ کار کو وسیع کر لیں، اب تک جو لکھا گیا وہ غلط نہیں ہے لیکن اب نازک اور حساس دل سے معمور فنکار کی ’’حکایاتِ خونچکاں ‘‘ کو بھی تنقید میں پیش کرنا چاہیے۔ بلاشبہ یہ کتاب پریم چند کے قارئین اور ناقدین کے لئے مطالعہ اور تنقید کے نئے باب وا کرتی ہے۔
٭٭٭
۱؎ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن، فکشن کے فنکار، پریم چند، ترتیب سے پہلے، س ن، درج نہیں
۲؎آلِ احمد سرور، تنقید کیا ہے؟دہلی۱۹۵۴ئس، ن، ص۲۰
۳؎ آل احمد سرور، نئے اور پُرانے چراغ، سال اشاعت درج نہیں، س ن، ص۱۴
۴؎ آلِ احمد سرور، تنقید کیا ہے؟ص۲۰
٭٭٭
پروفیسروہاب قیصر
’’دیوارِ چین سے بت خانۂ چین تک‘‘ ۔ جمالیات کے تناظر میں
پروفیسر شکیل الرحمٰن کے نام کے ساتھ جمالیات اس قدر جڑ گئی ہے کہ کسی بھی مضمون، مقالے یا کتاب کے مطالعے کے دوران جب بھی کہیں یہ اصطلاح نظر سے گزرتی ہے تو ذہن میں یکایک ان کا نام آ جاتا ہے۔ یہ بات مبالغے کے طور پر نہیں کہی جا رہی ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمالیات کے موضوع پر بیس سے زیادہ کتا بیں لکھی ہیں۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جمالیات گویا ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے، شکیل الرحمٰن نے رومیؔ ، حافظؔ ، علی قطبؔ شاہ کی جمالیات سے لے کر امیر خسروؔ ، میر غالبؔ ، اقبالؔ ، نظیرؔ ، فراقؔ ، اور فیض کی جمالیات تک پر لکھا ہے۔ تصوف اور اساطیر کی جمالیات کے علاوہ بارہ ماسے’ادب‘ فکشن اور مثنوی کی جمالیات تک کو اپنی تحریروں کے لئے موضوع بنایا ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے ساتھ منٹو، اختر الایمان اور مجتبیٰ حسین کی جمالیات پر بھی انہوں نے اظہار خیال کیا ہے۔
شکیل الرحمٰن نے حکومت ہند کی جانب سے بھیجے گئے ایک وفد کے رکن کی حیثیت سے ۱۹۹۰ء میں چین کا سفر کیا تھا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے جن جن مقامات کی سیر کی، مقامی لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کی اور مشاہدے کے ذریعہ وہاں کی تاریخ و ثقافت، تہذیب و تمدن، مذاہب، فنونِ لطیفہ اور ماضی کی شہنشاہیت سے لے کر حال کی جمہوریت تک سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کی معلومات کا بھرپور احاطہ کرنے کی غرض سے انہوں نے مختلف کتابوں سے استفادہ بھی کیا۔ ان تمام تفصیلات کو اپنی جنبشِ قلم سے رقم کر کے ’’دیوار چین سے بت خانۂ چین تک‘‘ کے زیر عنوان ایک سفر نامہ لکھاجس کو میزان پبلشر سری نگر، کشمیر نے شائع کیا۔ اس مقالے میں ’’دیوار چین سے بتخانۂ چین تک‘‘ میں شکیل الرحمٰن کی تحریروں میں جمالیات کے محاسبے کی کوشش کی گئی ہے۔
جمالیاتی حسن کی حِس تو ہر ذی شعور انسان میں پائی جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے وہ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن جمالیات سے متعلق عام قاری کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر یہ ہے کیا؟اس تقاضے کے پیش نظر یہاں جمالیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جمالیات فنی اعتبار سے فلسفہ ہے جو کسی بھی قلم کار کے ادب یا شاعری میں اور ان کے فن میں چھپے ہوئے حسن کو اخذ کر کے اس کے لئے اصول و ضوابط تعین کرتی ہے۔ یہ حسن کا محاسبہ کرتی ہے جس حسن کی فطرت اور اس کے تاثر کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے جمالیات سے متعلق(تاریخِ جمالیات، صفحہ 12)لکھا ہے کہ یہ حسن اور فنکاری کا فلسفہ ہے۔ جمالیات ارباب فلسفہ کا وہ نظریہ ہے جس میں حسن اور اس کے کوائف اور مظاہر بشمول فنون لطیفہ کی تحقیق و تشریح پیش کی جاتی ہے۔ یوسف حسین خاں کا تجزیہ، جمالیات کو ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ جمالیات میں تفکر اور تعقل کا عمل دخل کس حد تک پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :
’’جمالیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جس میں حسن و جمال کی فنی تخلیق پر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ جذبہ تخیل کی مسرت ہے نہ کہ تعقل کی۔ اگر تعقلی فکر بھی چوری چھپے اس سے مسرت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ اس کا فعل ہے جس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے۔ ہاں، اس کے لئے ایسا کرنا ممنوع نہیں۔ بعض اوقات وہ تخلیقی حسن کو دور ہی سے دیکھ کر بدحواس ہو جاتی ہے اس لئے کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں کہ اس کے اندرونی کیف میں اپنے بل بوتے پر شریک ہو۔ کبھی کبھی وہ جذبہ و تخیل کی رہنمائی میں اور تخلیقِ حسن میں ساجھی اور حصہ دار بھی بن جاتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے کہ وہ جذبہ اور تخیل کی شرائط کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ نہ کہ اپنی شرائط اس طرح وہ اپنی قلبِ ماہئیت کر لیتی ہے تاکہ جذبے کا قرب حاصل کرے۔ یہی تخیلی فکر ہے جو فنون لطیفہ میں اپنے آپ کو جذبے میں ضم کر لیتی ہے۔ اب اس کا وجود جذ بے کے وجود سے وابستہ ہو جاتا ہے اور اس کی علاحدگی باقی نہیں رہتی۔ بعض اوقات تعقل اپنے اوپر اخلاقی یا اجتماعی مقاصد کے پیش نظر حکم امتناع جاری کر دیتا اور حسن سے لذت اندازی کو اپنے لئے اور دوسروں کے لئے حرام کر لیتا ہے۔ ‘‘
(غالبؔ اور اقبالؔ کی متحرک جمالیات، صفحہ70تا71)
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ دنیا کی بے شمار پُر شکوہ عمارتیں، مسجد، مندر، گرودوارے اور گرجا گھروں کے فن تعمیر کے شاہکار، بلند وبالا قطب مینار سے لے کر ایفل ٹاور تک، مجسمے اور آرکیٹکچرل اسٹر کچرس اور نہ جانے کتنے بنی نوع انسان کے ہاتھوں بنائے گئے لا تعداد فن تعمیر کے بے مثال پیکر اپنے جاہ و جلال کے ساتھ ارض پر کھڑے کھڑے اپنے خالقوں کے کمال حسن و نظر پر داد تحسین دینے کے لئے لوگوں کو مجبور کرتے ہیں۔ لیکن کوئی دیوار، سوائے دیوار چین کے اس کرۂ ارض پر ایسی نظر نہیں آتی جو اپنے جمالیاتی حسن کا مثالی درجہ رکھتی ہو۔ دیوار چین برسہا برس سے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ حسین وادیوں میں ڈوبتی ابھرتی، بل کھاتی لوگوں کو میلوں کی مسافت طے کراتی چلی جا رہی ہے۔ وہ اپنے حسین وجود کا ثبوت نہ صرف چین میں سانس لینے والوں کو دے رہی ہے بلکہ خلاؤں میں سفر کرنے والوں کو بھی احساس دلا رہی ہے کہ وہ واحد دیوار ہے جس کے حسن و جمال کا نوٹس لئے بغیر کوئی بھی اپنی پلکیں جھپکا نہیں سکتا۔
شکیل الرحمٰن اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ دیوار چین دو ہزار سال سے زیادہ قدیم اور چھ ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ اس کی تعمیر کے لئے چھتیس سال کا عرصہ درکار ہوا تھا۔ خلائی مسافروں نے اس کا مشاہد ہ چاند پر سے تک کیا تھا۔ دیوار پر چڑھنے اور اس پر چہل قدمی کے اپنے تجربات کو انھوں نے یوں قلم بند کیا ہے:
’’دیوار چین پر چڑھنے کے کئی راستے ہیں۔ زینے بنے ہیں۔ میں نے ایک راستے کو منتخب کیا اور آہستہ آہیستہ چڑھنے لگا۔ بڑے اور چوڑے زینے ہیں۔ کچھ دور اوپر چڑھ کر دم لینے کے لئے جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ دس بیس زینے طے کر کے تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے رکتا رہا۔ زینوں پر مقامی لوگوں نے مختلف چیزوں کی چلتی پھرتی دوکانیں کھول رکھی ہیں۔ اوپر چڑھتے ہوئے بڑا لطف آیا۔ کئی جگہوں پر آرٹسٹ اور مصور دکان سجائے بیٹھے تھے جو آٹھ دس منٹ میں اسکیچ بنا دیتے تھے۔ ایک جگہ رکا تو ایک چینی مصور نے دس منٹ میں میرا چہرا بنا دیا، تیزی اور صفائی دیکھ کر حیرت انگیز مسرت ہوئی۔ دیوار چین کی یہ یادگار میرے پاس محفوظ ہے۔ بلندی پر پہنچ کر جب ہر جانب دیکھا تو لگا جیسے فطرت نے مجھے آغوش میں لے لیا ہے۔ بڑیآٔسودگی مل رہی تھی۔ ہوا بہت تیز تھی۔ آخری مقام پر کچھ دیر تک رک کر پھر آہستہ آہستہ نیچے اتر نے لگا۔ ایک بڑی آرزو پوری ہوئی تھی۔ دیوار چین پر چڑھنے کا ایک عدد سرٹیفیکٹ ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت سرٹیفیکٹ۔ میں دیوار چین کا ایک ماڈل لیے قیام گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ ‘‘ (57تا58)
شکیل الرحمٰن نے چینی دوستوں کی دعوت پر اسٹیل کے بہت بڑے کارخانے ’’باؤ اسٹیل‘‘ کا دورہ بھی کیا۔ انہیں اس بات پر بڑی حیرانی ہوئی کہ اتنا بڑا کارخانہ ہونے کے باوجود وہاں کی فضا دھوئیں کی آلودگی سے پاک تھی۔ اس کارخانے میں ہر سال 318ملین ٹن اسٹیل پیدا ہوتی ہے اور امید تھی کہ اس سے منسلک دوسرے پراجکٹ کی تکمیل پر اس کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ بہتری آئے گی۔ چین میں بدھ مصوری کا بھی انہوں نے مطالعہ کیا۔ اس سے متعلق لکھتے ہیں :
’’بدھ مصوری کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف ملکوں اور علاقوں کے تاجر مالی مدد کرتے رہے۔ ایک راہب نے خواب میں بادلوں کے اوپر تیرتے ہوئے ہزاروں بدھ دیکھے تھے۔ فنکار اس بات کی مسلسل کوشش کرتے رہے کہ یہ سارے بدھ نقش ہو جائیں۔ پتھروں کو تراش کر بھی بدھ کے پیکر بنائے گئے۔ بدھ بھکشوؤں کے ہزاروں پیکر مجسموں اور تصویروں میں ابھار ے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک راہب جو ہندوستان سے چین پہنچا تھا اور جس کا نام یوزن تھا، اسی نے 366ء میں یہاں غار کے اندر پیکر تراشی کی حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چینی مصوری کے فن میں ماہر ہیں لہذا انہوں نے بدھ اور بدھیسٹوں کے پیکروں کو اپنا آہنگ بھی دیا ہے۔ لکیروں اور رنگوں میں اس آہنگ کو محسوس کیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان غاروں کے چند نقوش کی تصویریں بیجنگ میں دیکھنے کو ملیں، بس جی خوش ہو گیا۔ ‘‘ (صفحہ27 تا28)
شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ چینی ذہن کی بیداری اور وہاں کے فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب وہ شنگھائی پہنچے۔ اس کے علاوہ انہیں چین کے لوگوں کے ثقافتی اور تمدنی سطح پر عمدہ برتاؤ کے معیار کا پتہ بھی چلا۔ چینی لوگ بڑے محنتی اور جفا کش ہوتے ہیں۔ وہ مایوس اور نا امید ہونا نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ سیلاب اور طوفان سے فصلوں کے متاثر ہونے پر بھی وہاں کے کسان مایوس نہیں ہوتے۔ تباہی کے باوجود اپنی ہمت جٹاتے ہیں اور محنت اور مشقت کے لئے دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں وہاں ایک مخصوص چائے کے متعلق جانکاری بھی ملی۔ جس کے متعلق لکھتے ہیں :
مجھے پہلی بار اس بات کی خبر ملی کہ چین میں ایک خاص قسم کی چائے ہوتی ہے جس کا نام ’’اولونگ‘‘ ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے صحت ٹھیک رہتی ہے، یہ چائے وزن بڑھنے نہیں دیتی۔ عورتیں اپنے وزن کو متوازن رکھنے کے لئے اس کا استعمال کرتی ہیں۔ جاپانی عورتوں کو چونکہ اپنے جسم کا خاص خیال رہتا ہے اس لئے اس چائے کی کھیتی جاپان میں زیادہ ہوتی ہے۔ جاپان میں اس کا نام ہی ’’جسم کو متوازن کرنے والی چائے‘‘ (Slimming Tea)ہے۔ ‘‘
شکیل الرحمٰن دوران سفر بیجنگ میں شہر ممنوعہ(Forbidden City)میں داخل ہوئے تو انہیں چین کے قدیم معماروں اور محنت کشوں کے احساس جمال اور احسا س جلال سے نہ صرف واقفیت حاصل ہوئی بلکہ ان کے فن تعمیر سے وہ متاثر بھی ہوئے۔ شہر ممنوعہ در اصل شاہی قلعہ ہے جس کے بارے میں انہیں پتہ چلا کہ یہ ساری دنیا کا سب سے قیمتی اور بڑا قلعہ ہے۔ اس میں آٹھ سو عمارتیں اور نو ہزار کمرے ہیں۔ اس قلعے سے چین کے شہنشاہ پانچ سو سال تک حکومت کرتے رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ شہر ممنوعہ کا قلعہ چودہ برس کے عرصے میں 1420ء میں تکمیل کو پہنچا۔ اس کی تعمیر میں لاکھوں معمار، فنکار اور مزدوروں نے حصہ لیاتھا۔ اس میں لکڑی پر رنگوں کی آمیزش کو جو فروغ دیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں خوبصورت رنگوں اور ان کی آمیزشوں کا بہت ہی عمدہ مظاہرہ کیا گیا ہے جس کا جمالیاتی حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس قلعہ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ دنیا میں لکڑی کے اس قدر بڑے کام کے ساتھ ایسا قلعہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ آگے وہ مزید لکھتے ہیں :
’’شہر ممنوعہ‘‘ عمارت سازی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دروازوں اور دریچوں کو پر کشش بنانے کے لئے خوبصورت رنگ استعمال کئے جاتے ہیں اور پیکر ابھارے جاتے ہیں۔ شہر ممنوعہ جو دس ہزار مربع فیٹ کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے چینی عمارت سازی کے تمام حسن کو جلوہ گر کر دیتا ہے۔ دروازے، ہال، کمرے، چھتیں سب چینی احساس جمال کے نمونے ہوتے ہیں‘ ‘ (صفحہ71)
شکیل الرحمٰن نے چین کے اپنے سفر میں یہ محسوس کیا کہ فنون لطیفہ میں وہاں کے لوگوں کی ہمیشہ ہی دلچسپی رہی ہے۔ یہاں تک کہ چینی مصوری نے وسط ایشیا اور ایران کی مصوری کو بھی بڑا متاثر کیا ہے۔ جن میں جاپان، کوریا، انڈو نیشیا اور جنوبی ایشیا کے کئی ممالک شامل ہیں جن کی مصوری پر چینی مصوری نے اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ چینی فن بڑا نازک بھی ہے اور باریک بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فن مصوری میں جیسے فنکار کی روح اتر آئی ہو۔ چینی مصوری میں شاعری اور فن خطاطی کی جمالیات کی آمیزش رہتی ہے اور خود فن خطاطی میں مصوری اور شاعری شامل رہتی ہے۔ الغرض چین کے تمام فنون میں چاہے وہ مصوری ہو کہ شاعری، خطاطی ہو کہ فن تعمیر سب میں تخیل کے آہنگ کی پہچان ہوتی ہے جو ان کے خیال میں سب سے بڑی صفت ہے۔ یہاں تک کہ برتنوں کی تزئین و آرائش میں بھی مصوری کے فن کو بڑا فروغ حاصل ہوا ہے۔
کتاب کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ بیجنگ میں جب انہوں نے Mini Chinaیعنی ’’چھوٹے چین ‘‘ کے نام سے سجے سجائے خوبصورت باغ کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے۔ وہاں ایک وسیع علاقے میں چین کی تاریخ کی تمام علامتیں پھیلادی گئی ہیں۔ تصویر میں چین جیسا نظر آتا ہے ہو بہو اس کی نقل وہاں موجود ہے۔ اس میں مشہور مجسموں کی جگہ مجسمے ہی رکھے گئے ہیں۔ چینیوں کے گھروں اور ان کی روزمرہ کی زندگی کو اجاگر کرتے ہوئے نقوش ایسے ملیں گے کہ نظروں کے سامنے تاریخ کے اوراق خود بخود الٹتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ غاروں کے ماحول میں ویسے ہی بدھ موجود ہیں جیسے کہ وہ غاروں میں ملے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چین کی تاریخ، جغرافیہ، معاشرتی اور سماجی زندگی اور ان کے فنون لطیفہ کا ارتقا، ملک کی جغرافیائی خصوصیات یہاں تک کہ چین کی سواریوں کا تاریخی پس منظر جن میں ریل، بس، بائسیکل وغیرہ شامل ہیں وہ تک اس میں نظر آ جائیں گے۔ اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’چھوٹے چین‘‘ میں سفر کرتے ہوئے دیوار چین سے بت خانۂ چین تک کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
سید شکیل دسنوی
ادب اور جمالیات: شکیل الرحمٰن کا ریشمی تنقیدی اسلوب
یہ کائنات ’’حسنِ مطلق‘‘ کے وجود کا مظہر ہے، اس لئے کائنات میں کوئی شے ایسی نہیں جس میں حسن موجود نہ ہو۔ حسنِ ابدی نے جب اپنا جلوہ دکھانا چاہا تو اپنے وجود کو بے شمار رنگوں کے سانچے میں ڈھال لیا، لیکن اس کی کلیت کا نظارہ کرنے کے لئے صاحبِ نظر ہونا شرط ہے۔ اردو کے صوفی صفت شاعر اصغر حسن مجیبی کی مشہور و مقبول نظم ’’حسن‘‘ میں اسی جمالیاتی حقیقت کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک بند ملاحظہ ہو:۔
دنیا میں کیا نہیں حسیں
بے حسن کوئی شے نہیں
حسن ہے لالہ زار میں۔ کیفیتِ بہار میں
سنینۂ داغدار میں۔ نرگسِ سوگوار میں
سبزۂ جوئبار میں۔ موسمِ خوشگوار میں
وادی وکوہسار میں۔ جلوۂ حسن ہے نہاں
جلوۂ حسن ہے نہاں
شورشِ آبشار میں
جمالیات شناسی مظاہرِ قدرت میں اسی وصف کی تلاش وجستجو کا نام ہے۔ سورج کی کرن میں سات رنگ مستور ہیں مگر اس کی بے پناہ رفتار کے سبب نظر انھیں دیکھنے سے قاصر ہے۔ پریزم(Prism)سے گزار کر جب اس کی رفتار گھٹا دی جاتی ہے، تب بصارت کے آگے ساتوں رنگ خود کو منکشف کرتے ہیں اور قوسِ قزح کی دلکشی ہر شخص کو مبہوت کر دیتی ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر ایک شے میں مستور حسن تک عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، اس کے لئے صاحبِِ نظر ہونا ضروری ہے۔ جمالیاتی بصیرت فرد کے باطن کو منور کر کے اسے فطرت کو ہمہ جہت تناسب میں دیکھنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے۔
اجتماعی شعور میں کچھ چیزیں حسین ہوتی ہیں اور کچھ بد نما۔ عموماً سیاہی لوگوں کو بد نما لگتی ہے، مگر ایک جمالیات شناس کی نظر میں رات دن سے زیادہ حسین ہوتی ہے، رات ابدی حسن کے اسرار و رموز سے سرگوشی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، اس کی تہ داریوں کے آگے دن کی یک رنگی پھیکی پھیکی سی نظر آتی ہے۔ اگر فطرت نے تضاد کو مرکزیت عطا نہ کی ہوتی تو ہر شے ایک سی نظر آتی، یہ جہانِ رنگ و بو بے کیف سا نظر آتا۔ رات ابدی جمالیات کی علامت ہے جبکہ دن اپنے عارضی وجود میں حصار بند۔ وہ قیس ہی کیا جس نے لیلیٰٔ سیاہ فام کے حسن و جمال کو نہ پہچانا، اس پر مر مٹنے کے جذبے سے محروم رہا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لیلیٰ را بچشمِ مجنوں باید دید اور یہی جذبہ مظاہرِ قدرت کی جمالیات شناسی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
جمالیات کی نصابی تعریف ممکن نہیں ہے، ہاں جمالیات کے تعلق سے تشریحیں، تعبیریں اور تفسیریں قطب نمائی کرسکتی ہیں۔ یہ عناصر اس لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں کہ جمالیات شناسی اپنی ایک عظیم تاریخ رکھتی ہے۔ جمالیاتی شعور اردو شعر و ادب کے خمیر میں رنگین پرچھائیوں کی طرح ہمیشہ رقص کناں رہا ہے، مگر انھیں کسی لچکدار سانچے میں ڈھالنے اور خد و خال عطا کرنے کی با ضابطہ کوشش کسی ناقد نے نہیں کی۔ شکیل الرحمٰن اس فن کے بنیاد گزار ہیں اور انھوں نے جمالیات کے اسرار و رموز کو اس ہنر مندی اور اتنی تفصیل سے اشاریہ بند(Codify)کیا ہے کہ مستقبل میں اس مقام تک کسی اور کی رسائی کے امکان نظر نہیں آتے۔ بہرِ کیف اس تنقیدی دبستانِ فکر کے بانی کی حیثیت سے شکیل الرحمٰن جمالیات کے ہمہ جہت پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعداس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ اصطلاح ایک ایسا نقطہ یا بندو ہے جس میں تمام مظاہرِ قدرت سمٹ آتے ہیں اور سارے مظاہرِ قدرت کے رنگ و روپ کو سمیٹ کر جب سکڑتا ہے تو حسنِ مطلق کی علامت بن جاتا ہے، ایک تہ دار اور بے حد معنی خیز اصطلاح۔
جمالیات شناسی کی مدد کے بغیر فنونِ لطیفہ کا مطالعہ ممکن نہیں کیونکہ جمالیات تو تمام فنون کی روح ہے۔ جمالیات شناسی کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ فنکار کے جمالیاتی شعور نے حیات و کائنات کے جلال و جمال سے کس نوعیت کا رشتہ قائم کیا ہے اور اس عمل میں جو تخلیق سامنے آئی ہے، اس کا حسن کیا ہے اور کیسا ہے۔ یہ تجزیہ و تزکیہ ہی جمالیات شناسی کی منزل ہے۔
’’ادب اور جمالیات‘‘ جمالیات شناسی کے موضوع پر شکیل الرحمٰن کے فکر انگیز مقالوں کا مجموعہ ہے اور اسے اگر اس فن کا بائبل کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہو گا۔ کتاب ۳۴۵؍ صفحات پر محیط ہے جس میں ۱۷؍ بیش قیمت ادب پارے شامل ہیں۔ ترتیب و پیش کش شیخ عقیل احمد کی ہے جنھوں نے ابتدائیہ میں دیباچہ نگاری کا حق ادا کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ فلیپ پر کلیدی تاثرات کتاب کے متن پر کھل جا سم سم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حقانی القاسمی نے پوری اتھاریٹی کے ساتھ اس خوبصورت حقیقت کی توثیق کی ہے۔ تنگیِ داماں کی شکایت کے باوجود چند مقالے ایسے ہیں جو بار بار توجہ اپنی جانب کھینچتے ہیں، ان سے دامن بچا کر نکل جانا کسی اہلِ نظر کے لئے ممکن نہیں کیونکہ فلک بھر جمالیات اگر دیکھنی ہے تو غالب کے اندر جھانکئے، خسرو کی لے پر جھومئے اور فراق کے ساتھ شب بیداری کیجئے۔
پہلا مقالہ ’’جمالیات‘‘ ہے جس میں اس فن کے تعلق سے پر مغز گفتگو کی گئی ہے اور اس اصطلاح کی ماہیت تک پہنچنے کی دانشورانہ کوشش عالمی ادب پر شکیل الرحمٰن کی گہری نگاہ اور مضبوط گرفت کا احساس دلاتی ہے۔ آہنگ یاRhythmپوری کائنات کو متحرک رکھتی ہے اور زندگی کی علامت ہے جبکہ جمود موت کا دوسرا نام ہے۔ جمالیات کی جامع تعریف ایک کارِ دشوار ہے۔ کسی مبتدی کے لئے یہ ایک الجھا ہوا ریشمی Phenomena ہے، ایک منہ بند کلی ہے جس کی خوشبو مست و بیخود کرسکتی ہے، جس کا حسن مسحور کرسکتا ہے مگر اپنی ماہیت تک رسائی کی اجازت دینا اس کی سرشت میں شامل نہیں۔
قلی قطب شاہ کی جمالیات اردو ادب میں کسی حد تک شجرِ ممنوعہ کی علامت سجھی جاتی ہے، مگر شکیل الرحمٰن نے آدم کے خمیر سے جذبۂ انحراف کچھ زیادہ کشید کیا ہے، چنانچہ جمالیات بھری چنچل نار ان کی انگلی تھامے قطب شاہ کے حرم میں لے جاتی ہے، جہاں سے وہ قطب شاہ کی زندگی اور شاعری سے شرینگار رس کے تمام ذائقے نچوڑ کر لے آتے ہیں۔ قطب قلی شاہ پہلا شاعر ہے جس نے نسائی اسرار و رموز کے جہانِ طلسم کو کھل جا سم سم کا صدا آشنا کیا، شاعری میں عورت کو مرکزیت عطا کی اور اس سات سروں کے سنگم کو مضرابِ جذبات سے نغمہ زن کرنے کا ہنر پیش کیا۔ قلی قطب شاہ کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ و آہنگ اور وجدانی فراوانی، اس کے حسن پسند، حسن پرست اور حیرت انگیز رومانی مزاج کے مخصوص جذباتی کیفیت کی ترجمان ہے۔ جیسا کہ ما قبل عرض کیا جا چکا ہے، جمالیات کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسانی تاریخ۔ میتھلی میں ودیا پتی، برج بھاشا میں سورداس اور سنسکرت میں جے دیو شرینگا رس کے اوتار مانے جاتے ہیں۔ ان کی نظر میں عورت ہی وہ مرکزی نقطہ ہے جہاں سے جشنِ زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور سرور وانبساط، لمس و ارتباط کے طلسمی جہان تک رسائی ہوتی ہے۔
انسان کی جمالیاتی حس ہر دور میں اپنا تخلیقی پیکر تراشتی رہی ہے، کبھی ایلورا اور اجنتا کے حسن میں، کبھی کھجوراہو کی مدراؤں میں اور کبھی محبوب کی عشوہ طرازیوں میں۔ ’’فراق کی جمالیات‘‘ اسی انسانی جبلت کی تشریح ہے۔ روپ رس کا شاعر ہجر و وصال اردو شاعری میں ایک منفرد جمالیاتی رنگ و آہنگ رکھتا ہے۔ اس مقالے میں شکیل الرحمٰن نے فراق کے جمالیاتی اسلوب کا Micro Chipبڑی فنکاری اور دانشورانہ ہنر مندی سے وضع کیا ہے جو فراق شناسی میں اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔
ہندوستانی جمالیات بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ سنسکرت زبان کے مہارشیوں ابھنیو گپت، بھرت منی اور ممّٹ نے اسے ادھ بھد رس کہا ہے اور چمتکار سے تعبیر کیا ہے۔ ’’اساطیر کی جمالیات‘‘ اور ’’مثنوی چراغِ دیر‘‘ میں جمالیات کے اسی پہلو کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
تحیر اسلامی تصوف میں ایک پراسرار پردہ پوش حقیقت ہے اور تحیر کی جمالیات کا سب سے پیچیدہ مسئلہ بھی، جو خضرِ جمالیات شکیل الرحمٰن کی توجہ کا منتظر ہے۔ راہِ تصوف وسلوک میں تحیر کو عرفان کا ایک اعلیٰ مقام قرار دیا گیا ہے۔ حیرت علم اور تفکر سے بھی افضل ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ علم را بفروش وحیرانی بخرید۔ ایک عارف مشاہدۂ حق میں ڈوب کر عالمِ تحیر کی معراج تک پہنچ جاتا ہے۔ عالمِ تحیر میں وہ حقیقتِ ابدی کے روبرو ہوتا ہے اور وجودِ زماں و مکاں سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ سراج اورنگ آبادی نے اسی کیفیت کی توضیح یوں کی ہے:۔
خبرِ تحیرِ عشق نہ سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔ نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بیخبری رہی
’’مرزا غالب کا داستانی مزاج‘‘ مکتبی طرزِ فکر سے ہٹ کر غالب فہمی کی ایک نادر کوشش ہے۔ ان کے فن اور شخصیت پر اس کثرت سے لکھا جاچکا ہے کہ کوئی گوشہ کنوارا بچا ہی نہیں، مگر شکیل الرحمٰن کی اجتہاد پسند فطرت نے اس متھ(Myth) کو توڑتے ہوئے غالب شناسی اور جمالیات شناسی کو کچھ اس طرح ہم آمیز کیا ہے کہ نقد و نظر کے ایک نو دریافت زاویئے سے غالب کو نظر بھر دیکھنے کا وسیلہ ہاتھ آ گیا ہے۔ غالب نے خود شناسی، خدا شناسی اور کائنات فہمی کے حوالے سے اتنے سوالات اور شکوک و شبہات ابھارے ہیں کہ فکر و آگہی خود کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے، اس مقام پر یہ فراموش نہیں کیا جا سکتاکہ ابہام و تشکیک ہی یقین و آگہی کی پہلی منزل ہے۔
سنسکرت اور پراکرتوں کی کہانیاں، عربی وفارسی حکایتیں اور داستانیں اپنی بے پناہ رومانیت اور جمالیات کے ساتھ مرزا غالب کے شعور اور لا شعور میں پوری طرح متحرک نظر آتی ہیں۔ دراصل بعید از قیاس اور مافوق الفطرت کار ناموں پر یقین کرنے کی خو انسانی سرشت میں داخل ہے، دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انسان اس خود ساختہ فریب کے جال سے باہر نکلنے کا خواہاں بھی نہیں ہوتا۔ مرزا غالب کے فن اور ان کی شخصیت میں ہند مغل تہذیب اپنی تمام تر وسعت اور عظمتوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اور یہی سبب ہے کہ وقت کی رفتار تا ا یں دم انھیں پیچھے چھوڑ نہیں پائی ہے اور نہ مستقبل میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔ وہ ایک تہذیبی علامت کی طرح آج بھی زندہ ہیں اور کل کے سینے میں بھی دھڑکتے رہیں گے۔ غالب کی اشعار میں اردو شاعری نے آبِ حیات کا ذائقہ چکھا ہے۔
تخلیقی عمل دراصل تین سطحوں سے ہو کر گزرتا ہے:۔ فنکار کی ذات کا اظہار، اس کے عصری شعور کا ادراک اور مختلف ادوار کے آفاقی اقدار کی بازگشت۔ کسی فنکار کی تخلیق میں پوشیدہ یہی عوامل جمالیات شناسی کے دوران قاری کے ذہن میں احساسِ تکمیلیت کو بیدار کرتے ہیں۔ شکیل الرحمٰن کا دانشورانہ مگر سبک اسلوبِ نگارش اس احساسِ تکمیلیت کے طلسمی جہان کی سیر کراتا ہے۔ اردو ادب نے جمالیات شناسی کے فن پر شکیل الرحمٰن جیسا جامع کمالات نہ تو اب تک پیدا کیا ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔
٭٭٭
محمدصدیقی نقوی
کرناٹک
آرکی ٹائیپل تنقید اور شکیل الرحمٰن
اپنے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اردو ادب میں ’’آرکی ٹائیپل تنقید‘‘ (archetypal criticism)کی بنیاد رکھنے اور اس کی قدر وقیمت تسمجھانے میں پروفیسرشکیل الرحمٰن پیش پیش رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ آرکی ٹائیپل تنقید نے حسّی پیکروں اور لا شعوری امیجز(images)کی معنویت میں زبردست اضافہ کیا ہے ‘‘ ۔ یورپی تنقید خصوصاً انگریزی اور امریکی تنقید نے اسے پروان چڑھایا ا ور دنیا کے مختلف ملکوں کے ادب کو متاثر کیا۔ سگمنڈ فرائیڈ کے خیالات و magmائ (57تا58 تنونتصوّرات نے نفسیاتی تنقید کو جنم دیا ا ور یونگ(C.G.Jung)کے نظریات نے ’’آرکی ٹائیپل تنقید‘‘ کو فنونِ لطیفہ خاص طور پر ادب کی تنقید کا بہت ہی اہم پہلو بنا دیا۔
پروفیسر شکیل الرحمٰن نے ’’غالب کی جمالیات‘‘ سے ’’اقبال۔۔ روشنی کی جمالیات‘‘ ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ ’’لاوے کا سمندر‘‘ ’’اختر الایمان۔۔ ایک جمالیاتی لیجینڈ ‘‘ ’’ادبی قدریں اور نفسیات‘‘ اور مولانا رومیؔ کی جمالیات‘‘ تک آرکی ٹائیپل تنقید میں بڑی اٹھان پیدا کی ہے اور اس سے ادب کی جمالیات اور رومانیت کو سمجھا نے کی ایک نئی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ان تحریروں میں ’’آرکی ٹائپ‘‘ کی جگہ ’’آرچ ٹائپ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ہر جگہ ’’آرکی ٹائپ‘‘ (Archetype)ہی لکھا ہے۔ انگریزی زبان میں جو الفاظ اور اصطلاحیں اردو نقادوں کو ملی ہیں، ان میں آرکی ٹائپ بھی ایک معنی خیز اصطلاح ہے جسے اردو نقادوں نے ’’آرکی ٹائپ ‘‘ لکھا ہے ’’آرچ ٹائپ‘‘ نہیں لکھا ہے۔ سوچا براہ راست شکیل الرحمٰن صاحب سے فون پر رابطہ قائم کر کے سبب دریافت کروں۔ وہ ’’آرچ ٹائپ‘‘ کیوں لکھتے ہیں جب کہ اردو کے بیشتر نقاد جن کا تعلق نفسیات سے کہیں کہیں قائم ہے یا جو اپنے مضامین میں ان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ’’آرکی ٹائپ ‘‘ ہی لکھتے ہیں۔ ان کا جواب یہ تھا کہ عرصہ ہوا میری کتاب ’’غالبؔ کی جمالیات‘‘ شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب بلاشبہ آرکی ٹائپ کے مطالعے کی پہلی کتاب تھی، اس میں غالبؔ کے ’’آرچ ٹائپس‘‘ مثلاً آتش، نور، پرچھائی، لہو، محبوب، صحرا، بلندی، ا ٓفتاب، رقص وغیرہ کو بنیادی موضوع بنایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ Archetypeیونانی لفظ ہے جس کی آواز میں ’س، اور ’چ‘ دونوں اس طرح ہم آہنگ ہیں کہ ’س‘ کی آہنگ پر ’چ‘ کی آواز یا ’چ ’ٹائپ، ہی سنتے ہوئے بھلا لگتا ہے۔ اردو میں صرف ممتاز شیریں اور میں نے ’’آرچ ٹائپ‘‘ لکھا ہے۔ غالبؔ کی جمالیات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وہاب اشرفی نے ’’آرچ ٹائپ ‘‘ پر اعتراض کیا تھا جس کا جواب ڈاکٹر وحید اختر نے دے دیا تھا۔ آپ کو اس بات کی خبر ہو گی کہ پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں ہی شکیل الرحمٰن کی ’’آرکی ٹائیپل‘‘ تنقید پر پی۔ ایچ۔ ڈی کے لئے تحقیقی مقالہ لکھا گیا تھا، جس پر رانچی یونیورسٹی نے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری دی تھی۔ ’’غالبؔ کی جمالیات‘‘ ہی کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ میری تحریروں سے ’’آرکی ٹائپ‘‘ کی ایک نئی صورت ’’آرچ ٹائپ‘‘ پیدا ہو گئی جو سننے اور دیکھنے میں بھلی لگتی ہے، اسے بھی رہنے دیجئے۔ ‘‘
اپنی دوسری گفتگو میں شکیل الرحمٰن صاحب نے بتایا : ’’یہ واقعی بڑی گہری اور معنی خیز اصطلاح ہے کہ جسے یونگ نے پہلی بار استعمال کر کے لا شعور اور نسلی لا شعور کی گہری جمالیات اور رومانیت تک ذہن کو پہنچا دیا ہے، فنون اور خصوصاً لٹریچر کی جمالیات میں بڑی کشادگی اور گہرائی ہوتی ہے۔ ‘‘
عرصہ ہوا ’شاعر، بمبئی میں پروفیسر شکیل الرحمٰن کا ایک مختصر مضمون شائع ہوا تھا ’’ایک نفسیاتی اصطلاح آرکی ٹائپ/آرچ ٹائپ‘‘ ۔ اس مضمون میں خاص باتیں یہ تھیں۔
٭٭آرکی ٹائپ(آرچ ٹائپ(Archetypeایک نفسیاتی اصطلاح ہے کہ جس کی بنیاد یونانی لفظ ’’arch‘‘ ہے۔ آرچ کے معنی ہیں خالص،، ’’بنیادی‘‘ ’’قدیم ترین‘‘ ’’قدیمی‘‘ ۔ ’’ٹائپ‘‘ ’’ٹائیپوس‘‘ ’’Typos‘‘ یعنی صورت فارم، اصطلاحی معنی ہیں۔ بنیادی صورت، اولین قدیم ترین یا خالص فارم!‘‘
٭٭علم نفسیات کے معروف عالم سی۔ جی ینگYungنے آرکی ٹائپ/ آرچ ٹائپ کی اصطلاح نسلی اور اجتماعی لا شعورeffective unconsciousnessکے مواد، مضمون کے لئے استعمال کیا۔ اس کے بعد یہ اصطلاح ادبی فنی تنقید میں استعمال ہونے لگی، رفتہ رفتہ جمالیاتی اصطلاح بن گئی جو تخلیقی فنکار کے اجتماعی یا نسلی لا شعور کے اولین قدیمی اور بنیادی جمالیاتی علامتوں اور استعاروں اور نسلی تجربوں کو سمجھانے لگی۔ ‘‘
٭٭ ’’آرکی ٹائپ/آرچ ٹائپ او لین بنیادی قدیمی یا خالص تصوّرات کا سرچشمہ ہے۔ تخلیقی فنکاروں کی حسی اور نفسی کیفیتوں کی شدت سے آرکی ٹائپس میں تحرک پیدا ہوتا ہے اور بنیادی قدیمی علامات اپنی تہداری اور معنی خیز جہتوں کے ساتھ نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ خود فنکاروں کے مستقل عمل اور اظہار کو پہچان نہیں سکتایا پہچان نہیں پاتا۔ نسلی یا اجتماعی شعور سے بعض ایسی بنیادی صورتیں اور تصویریں سامنے آ جاتی ہیں جو اپنی معنویت کو لئے ہوئے فنکار کے تجربوں کی معنویت میں وسعت، گہرائی اور کشادگی پیدا کر دیتی ہیں۔ تخلیقی فنکار کے اپنے تجربے اور پیکر ’’آرکی ٹائپس‘‘ کے سرچشمے سے باطنی رشتہ قائم کر کے انہیں متحرک کرتا ہے۔ بنیادی معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر فنکار کے تخلیقی عمل کا ہے۔ پہلی جہت کی شاعری یا دوسری جہت کی تخلیق کا تحرک آرکی ٹائپس کو متحرک نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف بڑے فنکاروں کی تخلیقات میں آرکی ٹائپ کا مطالعہ ادبی تنقید میں اہمیت رکھتا ہے اس لئے کہ بڑی تخلیق ایک انتہائی پر اسرار تخلیقی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ نیز دوسری جہت سے اور آگے بڑھ کر تیسری اور چوتھی جہت تک پہنچ جاتی ہے۔ پہلی اور دوسری جہت تک پہنچنے والے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات میں بعض لفظوں یا بعض علامتوں اور استعاروں کے بار بار استعمال سے اکثر یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ ’’آرکی ٹائپس‘‘ ہیں یا آرکی ٹائپس کے تحرک کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘
٭٭ ’’ادبی تنقید میں تخلیقی فنکار کی شخصیت اور اس کے ذہن کی حیثیت غیر معمولی ہے۔ شخصیت اور ذہن کا مطالعہ کیا جائے تو ’سائیکی‘ کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی۔ آرکی ٹائپس، سائیکی ہی میں موجود ہوتی ہیں۔ نفسیات کے علماء نے اسے اہمیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ سائیکی، (مدر لکویڈ(Mother Liquidہے۔
پچھلی نسلوں، قوموں اور قبیلوں کے بنیادی تجربوں کا سفر جاری رہتا ہے اور انسان کے نسلی شعور میں یہ تجربے موجود ہیں۔ تخلیقی فنکار کی سائیکی میں، جب شدت پیدا ہوتی ہے تو ان تجربوں سے ایک پراسرار معنوی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ آرکی ٹائپس کا اظہار عموماً استعاروں اور علامتوں میں ہوتا ہے، دیومالا اور قدیم ترین کہانیوں کے کردار اور حسی تصورات نئے تجربوں کی معنویت میں ابھرتے ہیں، صرف ایک امیج یا پیکر جانے کتنی سچائیوں کا مظہر اور علامیہ بن جاتا ہے۔ انسان کی پچھلی نسلوں، قوموں اور قبیلوں میں آگ، روشنی، سانپ، عورت، مرد، رات، پانی، جادو، آفتاب، لہو وغیرہ جو اہمیت رکھتے ہیں ہمیں اس کا علم ہے۔ یہ سب اور ان کے علاوہ جانے اور کتنے اشارے اور استعارے اپنی معنی خیزی کے ساتھ ’سائیکی، میں موجود رہے ہیں۔ نئے تجربوں کا رشتہ ان سے قائم ہوتا ہے اور ان کی معنی خیزی نئے تجربوں میں جہتیں پیدا کرتے ہوئے جانے کتنے جلوؤں کو کھینچ لیتی ہے۔ ان کے تعلق سے جانے کتنے جلوے سامنے آ جاتے ہیں۔ جمالیاتی آرکی ٹائپس کی پہچان اسی منزل پر ہوئی ہے کہ جہاں کوئی بڑا تخلیقی فنکار سائیکی سے گہرا معنی خیز باطنی رشتہ قائم کر کے(جو عموماً لا شعوری ہوتا ہے) اپنے انفرادی اسطور تخلیق کر دیتا ہے۔ اردو کی بوطیقا میں مرزا غالبؔ اس کی واحد مثال ہیں کہ جنھوں نے آتش، نور، خدا، محبوب، لہو، پرچھائیں وغہیوغہرہ سے ایک انفرادی اسطور کی جمالیات سامنے رکھ دی ہے۔
اس مضمون میں پروفیسر شکیل الرحمٰن نے ان بنیادی نکات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ’’متھ‘‘ (Myth)کے رشتے کی بات کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ بڑے فنکار کے فن میں تجربہ اور متھ کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ متھ کے گہرے رشتے کی وجہ سے فن میں تابناکی اور معنی خیزی پیدا ہوئی ہے۔ ’’کبھی کبھی اس حد تک کہ خود فنکارکی تخلیق ایک اعلیٰ متھ کا جمالیاتی نمونہ بن کر Legendبن گئی ہے‘‘ ۔ شکیل الرحمٰن صاحب نے اس سلسلے میں شکیسپیئر، غالب، گوئٹے، ٖحافظ، رومی اور اقبال کی مثالیں پیش کی ہیں۔
پروفیسر شکیل الرحمٰن نے اپنی عملی تنقید سے ان تمام باتوں کو ہر ممکن طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ ’’غالب کی جمالیات‘‘ جو دسمبر ۱۹۶۱ء میں چھپی تھی ’’آرکی ٹائیپل تنقید ‘‘ کی پہلی مثال ہے۔ آتش، روشنی، لہو، پرچھائیں، محبوب، آفتاب وغیرہ کے آرکی ٹائپس سے غالبؔ کی عظمت کا ایک بہت ہی روشن پہلو سامنے آتا ہے۔ ’’غالبؔ کی جمالیات‘‘ پڑھتے ہوئے دو باتیں واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے مطالعہ سے تنقید کا دائرہ پھیلتا اور گہرا ہوتا نظر آتا ہے اور بقول پروفیسر شکیل الرحمٰن زیادہ سے زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو تنقید میں پہلی بار روایتی تنقید نگاری سے ہٹ کر ایک نقاد کسی ایسی راہ پر چلتا نظر آتا ہے جس راہ کی خبر ’’نہیں ‘‘ کے برابر تھی۔ فرائی(Northrop Frye)کی اس تعریف اور وضاحت کے پیشِ نظر ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کے کارنامے کی قدر و قیمت کا بہتر اندازہ ہوتا ہے:
Archetypes provide the deep structure for human motivation and meaning when archetypes are encountered in Art, Literature, Sacred texts…they evoke emotional resonance and become the unconscious frame works that determine how and why people think and react?
انسان کے نسلی شعور میں ’’متھ‘‘ کا ایک عظیم خزانہ پوشیدہ ہے۔ شکیل الرحمٰن نے اسطور کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسطوری کردار فنون میں بڑی گہرائیوں سے باہر نکلتے ہیں۔ وہ’شیو‘ ’وشنو‘ ’ماں‘ وغیرہ کے حسیاتی پیکروں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بہت ہی قدیم اسطوری کردار ہیں جو نسلی لا شعور میں موجود ہیں۔ انہوں نے غالبؔ ؔ کا مطالعہ کرتے ہوئے آتش کوبڑی اہمیت دی ہے’آتش، ایک قدیم حسی پیکر یا آرکی ٹائپ ہے۔ پوری کتاب (غالب کی جمالیات)اس آرکی ٹائپ کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتی ہے۔ وہ ’ذات‘ ہو یا ’محبوب‘ رقیب (پرچھائیں )ہو یا استاد عبد الصمد کا پیکر سب کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمٰن نے تحریر کیا ہے کہ غالب کا ہمہ گیر ذہن ان پیکروں کو شدت سے ابھارتا ہے اور فن کو بلند مقامات دیتا ہے۔ رومانیت اور جمالیات میں وسعت اور گہرائی پیدا کرتا ہے۔ کم وبیش ۲۶۲؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب غالبیات کے متحرک آرکی ٹائپس کو موضوع بناتی ہے۔ چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
’’غالبؔ کے یہاں ’رقیب، کی بدصورتی کا احساس یونگؔ کے سیاہ فام بھائی (Dark Brother)کے خیال سے بہت قریب ہے۔ ‘‘
نقش ناز نت طناز بآغوش رقیب
پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے
(ص۔ ۲۱۳)
غالب نے اپنی شخصیت اور اپنے وجود کو تین حصوں میں واضح طور پر تقسیم کیا ہے۔
۱۔ ذات۔۔۔۔۔۔ (آتش اور نور)
۲۔ محبوب۔۔۔۔۔۔ (آتش اور نور)
۳۔ پرچھائیں۔۔۔ (آتش اور نور)
شخصیت کے یہ ٹکڑے وہ آئینے ہیں جن میں انہوں نے نئے خارج اور باطن کے جلووں کو دیکھا ہے۔ (ص۔ ۲۲۶)
’’عورت کا ’امیج‘ نسلی اور اجتماعی لا شعور کا آرچ ٹائپ ہے ‘‘ جو مرد کے لا شعور میں جذب ہے۔ یونگؔ کا خیال ہے کہ یہ پیکر انسان کی روح ہے۔ وہ اسے گہری معنویت کا آرچ ٹائپ سمجھتا ہے، کہتا ہے مجموعی طور پر یہ زندگی کا بنیادی آرچ ٹائپ ہے‘‘ ۔ (محبوب:ص۔ ۱۶۷)
’’ہرمزدؔ ۔۔ عبد الصمد کے پیکر کی تشکیل ’’علم کی نئی روشنی ‘‘ کی نئی دریافت تھی۔ آئینِ معنی آفرینی سیکھنے کے لئے غالبؔ نے اپنی سائیکی کے آئینہ آتش سے گفتگو کی تھی۔ ‘‘ (ایک حسیاتی آتشیں پیکر:ہرمزو:ص۔ ۱۵۰)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے اختر الایمان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے آرکی ٹائپل تنقید کو بڑا جاذب نظر بنایا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’اختر الایمان کی نظموں میں لا شعور کی عکس ریزی کا مطالعہ کیجئے تو رومانی جمالیاتی خصوصیات کا احساس اور زیادہ ہو گا۔ لا شعور میں فرد کے ذاتی تجربوں کے ساتھ پوری نسل انسانی کے تجربے بھی ہوتے ہیں۔ وقت، ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم نہیں ہوتا۔ جذبات اور حسیات میں وقت کی کوئی حد قائم نہیں ہوتی۔ اجتماعی لا شعور، وراثتی سرمائے کا نام ہے۔ یہاں تجربات، توہمات اور تحیرات کی وہ کائنات ہے کہ جس میں پوری نسل انسانی سانس لے رہی ہے۔ ‘‘
(اختر الا یمان:لیجینڈ:ص۔ ۸۵)
’’آرچ ٹائپ (Archetype)کا کردار بہت جذباتی اور حسیاتی ہوتا ہے۔ اس کردار کی تشکیل میں جانے کتنی نفسی کیفیتوں کو دخل ہوتا ہے۔ نفسی کیفیت کی پہچان مشکل اور بہت حد تک نا ممکن ہے۔ ایک ’’آرچ ٹائپ‘‘ سے بہت سے حسی اور نفسیاتی تصورات اور پیکر وابستہ ہوتے ہیں، اس کا کردار متحرک ہوتا ہے، انسان کی تاریخ اور انسانی شعور کی ارتقائی منزلوں اور کیفیتوں میں اس کی پہچان ہوتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً)
اختر الایمان کے تجربوں میں انفرادی اور اجتماعی لا شعور کے نقوش ہیں، مختلف حسی پیکروں اور امیجز اور آرچ ٹائپس کا اظہار مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ تاریکی اور گہری تاریکی، پُراسرار آوازیں اور آہٹیں، کھنڈرات، یادوں کے سلسلے جن میں وقت کا عام تصور پگھل جاتا ہے۔ اختر الایمان کی نظموں میں یہ سب باتیں موجود ہیں۔ کہاجاتا ہے اجتماعی اور نسلی شعور اپنے اظہار کے لئے بے چین رہتا ہے۔ تخلیق آرٹ کا یہ ایک بہت بڑا سرچشمہ ہے۔ اختر الایمان اس طرح ایک بنیادی اساطیر ی اور رومانی رجحان کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔
کوئی دروازہ پہ دستک ہے نہ قدموں کے نشاں
چند پرہول سے اسرار تہ سایۂ دار (تحیر اور وہم)
گہرے، اندھے دیپک ناچ رہے ہیں جاگ رہے ہیں
ان پپوٹوں میں یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں
جن میں فردا کا کوئی خواب اجاگر نہیں
(کسی دیوتا کا پیکر بنیادی اساطیری رجحان)
ناچتا رہتا ہے دروازوں کے باہر یہ ہجوم
اپنے ہاتھوں میں لئے مشعلِ بے شعلہ و دود
(وحشی اور نیم وحشی زندگی۔ ہجوم کا ہاتھوں میں مشعل لے کر رقص کرنا۔ مشعلِ بے شعلہ دود نے حسی پیکر کو نئی صورت دے دی ہے۔ )
جیسے صدیوں کی چٹانوں پہ تراشے ہوئے بت
ایک دیوانے مصور کی طبیعت کا ابال
ناچتے ناچتے غاروں سے نکل آئے ہوں
اور واپس انہیں غاروں میں ہو جانے کا خیال
(غار کا تصور، لا شعور کا اندھیرا۔ چٹانوں پر تراشے ہوئے بت۔ غاروں سے رقص کرتے ہوئے نکلنے کا تصور۔ اور پھر اند ھیرے میں جانے کا خیال)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے اپنی کتاب میں ایسی اور بھی بہت سی مثالیں دی ہیں۔ اس مطالعے سے شکیل الرحمٰن کی آرکی ٹائیپل تنقید ایک تاریخ بن جاتی ہے۔
’’مولانا رومی کی جمالیات‘‘ (۲۰۰۲ئ)ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی ایک نادر تخلیقی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے مولانا رومی کے فن میں ’’حضرت موسیٰ‘‘ اور ’’حضرت یوسف‘‘ کے آرکی ٹائپس کو بھی موضوع بنایا ہے۔ یہ دونو ابواب اس کتاب کے بہت ہی ہم ابواب ہیں۔ حضرت موسیٰ کے بارے میں ڈاکٹر شکیل الرحمٰن تحریر کرتے ہیں :
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک معنی خیز تہدار آرچ ٹائپ(Archetype)بن گئے ہیں۔ مولانا رومیؔ نے انہیں معنی خیز حسی پیکر بنا دیا ہے۔ ‘‘
حضرت یوسف( علیہ السلام) کے آرکی ٹائپ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جمالیات رومی میں حضرت یوسف ؑ ایک بہت اہم حسی پیکر اور آرچ ٹائپ ہیں۔ وہ حسن و جمال اور محبت کی ایک معنی خیز علامت ہیں اور ایک بلیغ استعارہ بھی۔ ‘‘ (ایضاً:ص۔ ۱۰۳)
’’مولانا رومی کا اجتماعی شعور (Collective Consciousness)بہت زر خیز ہے۔ متھ، مذہب، اسطور، قدیم کہانیوں قصوں سے گہرا رشتہ قائم ہے۔ ‘‘ (ایضاً:ص۔ ۱۱۴)
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن نے بلاشبہ اردو میں آرکی ٹائیپل تنقید کی بنیاد رکھی ہے اور اس لٹریچر کو سمجھنے اور اس سے جمالیاتی کیف پانے کا بہت ہی عمدہ ذریعہ بنا یا ہے۔
٭٭٭
شکیل الرحمٰن
ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوف کا جمال
برِ صغیر میں جب تصوف اور اس کی جمالیات اور رومانیت کی ایک بڑی تاریخ رہی ہے، صوفیوں کی ایک مستحکم اور مضبوط روایت کے ساتھ قلندری کی روایت بھی قائم رہی ہے، جمالِ تصوف میں جمالِ قلندری بھی شامل ہے۔ ہندوستان اور اسلامی روایت کی آمیزشوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ خیالات اور تجربات کی ایسی آمیزشیں ہوئیں کہ دونوں کی روایات کے بہت سے ارفع اور افضل خیالات، اقدار اور تجربات ایک دوسرے میں جذب ہو گئے، تحلیل ہو گئے، تصوف اور اس کا جمال بو ان میں ایک ہے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی زبانوں کے اثرات قبول کرتے ہوئے مقامی بولیوں اور زبانوں کو داخل اور روحانی تجربوں سے آشنا کیا، مختلف علاقوں کے تخلیقی فنکاروں نے تصوف کی روشنی حاصل کر کے اور اس کے حسن اوراس کی رومانیت سے متاثر ہو کر بعض ایسی تخلیقات پیش کیں جو آج دنیا کی بہترین شاہکار تصور کی جاتی ہیں۔
وسط ایشیا اور خصوصاً ایران سے جانے کتنے صوفیا تشریف لائے، فارسی زبان میں جانے کتنی تخلیقات آئیں، سنائیؔ ، تولسائیؔ ، عطارؔ ، رومی وغیرہ کی شاعری نے گہرے صوفیانہ شعری تجربوں سے متاثر کیا۔ صدیوں یہ سلسلہ قائم رہا۔ جو صوفی بزرگ روحانی تجربوں کی ایک دنیا لئے آ ئے و ہ اس ملک کی ما بعد البیانی تجربوں سے بھی متاثر ہوئے، کبیرؔ ، سورداسؔ ، اور گرونانک بنیادی طور ان ہی تجربوں کے فنکار تھے جو صوفیوں کا سرمایہ تھے۔ وسط ایشیا اور خصوصاً ایران سے آئے ہوئے صوفی ان سے متاثر ہوئے اس حد تک سورداس کا کلام سماع کی محفلوں میں پڑھنے لگے۔ رادھا اور کرشن کی محبت کو الوہی عشق تصور کیا۔ رس خاں ؔ (سید ابراہیم۱۶۱۸ء)نے اپنی غزلوں میں رادھا اور کرشن کے کردار کو روحانی زندگی کے سب سے قیمتی رس کی طرح پیش کیا۔ پنجاب اور سندھ میں مقامی صوفی شاوروں نے اپنی قدیم روایتوں کے معنی خیز استعارے استعمال کئے، ہندو صنمیات سے ملائیں اور استعارے حاصل کئے۔
وسط ایشیا اور ایران سے آئے ہوئے صوفی ملک کے مختلف علاقوں میں گئے، خانقاہیں قائم کیں، روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ سندھ، پنجاب جونپور، بنگال اور دوسرے کئی علاقوں میں خانقاہیں علم و دانش کا مرکز بن گئیں۔ صوفی جمع ہوئے، روحانیت پر گفتگو کرتے، سماع کی محفلیں ہوتیں۔ پورے ملک پر اثرات ہوئے، دہلی سے دکن تک صوفیوں کے قافلے آتے جاتے رہے، دکن میں بھی خانقاہیں قائم ہوئیں اور مقامی صوفیوں نے اپنے خیالات سے متاثر کرانا شروع کیا۔ تصنیف و تالیف کا ایک طویل سلسلہ قائم ہو گیا۔ غزلوں اور مثنویوں میں صوفیانہ تجربوں کی روشنی ملتی ہے۔ صوفیوں کی طرح قلندروں نے بھی ملک کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ قلندر خود کو صوفیوں اور ملایتوں سے علیحدہ تصور کرتے، ان کی درویشی ہی مختلف تھی، عبادت سے بظاہر دور رہتے۔ کہتے جب ہم اللہ کے قریب ہیں تو ہمیں عبادت کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ ملنگ، فقیر، درویش۔۔ ان کے کئی نام تھے۔ ان پر اللہ کی محبت کا نشہ طاری رہتا۔ مذہب کے کٹرپن کے سخت مخالف تھے۔ قلندری عراق دمشق کی روایت ہے۔ وسط ایشیا میں بھی قلندروں کی جماعت رہی ہے، ایران میں بھی ایک بڑی روایت موجود ہے۔ یہ ایسے صوفی تھے جو بے غرض تھے، محبت کرتے تھے، اللہ میں جذب ہو جانے کو زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔ کہتے ہیں قلندر پہلے دمشق میں نظر آئے ۱۴۔ ۱۲۱۳ء میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مصر کے ایک اسپینی عرب تھے جو یوسف کے نام سے مشہور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہی قلندریت کے بانی ہیں۔ قلندریت کی تاریک میں دو اور بہت اہم نام ملتے ہیں، ایک نام ہے شیخ جمال الدین کا، بہت خوبصورت تھے ابن بطوطہ نے تحریر کیا ہے کہ عورتیں ان پر فدا تھیں، دوسرا نام حسن کا ہے کہ جنھوں نے (۹۶۔ ۱۲۹۴ئ) مصر میں قلندروں کے خالق ہیں۔ مصر ی قلندروں نے خانقاہوں کو پسند نہیں کیا وہ ایک جگہ رہنا نہیں چاہتے تھے، مصر ی ترکی اور ایران کے بعدہندوستان آئے تو انہوں نے خانقاہوں کو قطعی پسند نہیں حالانکہ اس دور میں صوفی خانقاہوں کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ہندوستان میں قلندروں اور ناتھ یوگیوں کا رابطہ قائم ہوا ا ور قلندر ان سے متاثر ہو نے لگے۔ ان کی طرح کانوں میں بُندے پہننے لگے۔ پھر ایسا ہوا وقت کی تبدیلی ان پراثر انداز ہونے لگی اور وہ چشتیہ قلندر بن گئے اور خانقاہوں سے وابستہ ہو نے لگے۔ پانی پت میں قلندر شیخ شرف الدین تھے، جنہیں بو علی شاہ قلندر کہتے ہیں۔ جمالِ قلندری پر انتہائی خوبصورت گفتگو کرتے تھے، اللہ اور انسان دونوں کے جلال و جمال پر گفتگو کرتے ہوئے، لوگوں کو متاثر کرتے تھے۔ کرنال کے قریب شیخ ابو علی تھے جو چشتیہ قلندر تھے۔ لال شہباز قلندرسندھ کے باشندے تھے۔ سرخ لباس پسند کرتے تھے، فلاتی کہلانا پسند کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قلندر ہندوستان آئے تو وہ بابا فرید سے بھی ملے تھے اور ان سے دعائیں لی تھیں، اسی طرح وہ حضرت شیخ قطب الدین کاکیؒ کے پاس بھی آئے تھے، بعض قلندر ان کے مرید ہو گئے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب بابر سلطان سکندر لودی سے ملنے گیا تو اپنے ساتھ چند قلندروں کو بھی لے گیا تھا۔ اس لئے بھی کہ سکندر لودی قلندروں کا بڑا مدّاح تھا۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے قلندروں کے قافلے بنگال پہنچے۔ چٹ گاؤں میں بسیرا کیا پھر برما تک پہنچ گئے۔
قلندروں نے ادب کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں لیا لیکن ادیبوں نے قلندریت، اور جمال قلندری، کو پسند کیا، کہانیوں اور مثنویوں میں کرداروں کے عشق کو قلندری شان بخشی اور جمال قلندری کے تئیں بیدار کیا۔
بابافریدؒ اور شیخ حمید الدین ناگوریؒ نے صوفیانہ تجربوں کے جمال کو طرح طرح سے پیش کیا۔ اللہ اور انسان کے عشق اور انسان دوستی کے جذبہ کو موضوع بنایا۔ بابافریدؒ کے تعلق سے بہت سے خیالات بابا گرو نانک کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں۔ سولہویں صدی کے بعد کبیرؔ ، سورداسؔ ، اور گرو نانک نے صوفیوں اور خصوصاً صوفی ادب کی جمالیات کو شدّت سے متاثر کیا۔ ہندوستان کے جن صوفیوں نے غزلیں اور مثنویاں لکھی ہیں انہوں نے انتہائی عمدہ دوہے بھی تحریر کئے ہیں۔ رس خانؔ (سید ابراہیم)شاہ منجھن شطآریؔ ، وارث شاہؔ ، شاہ عبد العلیقؔ ، حاجی محمد شاہؔ ، شیخ باہوؔ ، شیخ حسن، ؔ بابابلے شاہؔ ، للہ عارفہؔ ، شیخ نور الدینؔ نورانیؒ اور سوجھ کرال ؔ ، رحیم صاحب ؔ ، نیامہ صاحبؔ ، شاہ قلندر، ؔ رحمان دارؔ ، شمس فقیرؔ ، وہاب کھارؔ ، اسدمنیرؔ ، وازہ محمودؔ ، صمدمیرؔ اورحضرت بندہ نوازگیسو درازؒؔ ، حضرت شاہ میراں جی، شمس العشاق ؔ بیجاپوری، شاہ برہان الدین جانمؔ ، شاہ امین الدین اعلیؔ ، سید میراں میاں خاں ہاشمی، ابراہیم عادل شاہؔ ، عبدلؔ ، نعیمیؔ ، عاجزؔ ، ملک خوشنورؔ ، احسن شرقیؔ ، نصرتیؔ ، مرزا محمد مقیمؔ ، علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ ، فیروزؔ ، محمد علی قطب شاہؔ ، ولیؔ ، سراجؔ وغیرہ تصوف کی جمالیات اور رومانیت کے اہم شعراء قرار دئے جا سکتے ہیں۔
شاہ منجھن شطاری کی تخلیق ’’مدھوماتی‘‘ نے ہندی شاعری کو بھی متاثر کیا ا ور صوفیوں پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ شاہ منجھن شطاری (پیدائش۱۶۔ ۱۵۱۵ئ)نے ممکن ہے یہ کہانی لوک قصوں سے حاصل کی ہو۔ انہوں نے عشقیہ فسانے کو تصوف کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ انہوں نے کہانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہی شخص لا فانی ہو جاتا ہے جو عشق کی راہ میں قربان ہوتا ہے۔ ایک اچھے فنکار کی طرح انہوں نے کہانی کے نقش فنکارانہ انداز سے اُبھار ے ہیں، صوفیانہ اور بھگتی تجربوں کی آمیزش کی پہچان ہوتی ہے۔ شہزادہ منوہر اور مدھوماتی کی اس کہانی کو نصرتی(۱۶۵۷ء) نے اپنی یادگار مثنوی ’’گلشنِ عشق‘‘ میں پیش کیا ہے اور’فنتاسی، کی ایک انتہائی دلچسپ فضا خلق کر دی ہے۔ بلا شبہ یہ ہندوستانی لوک کہا نی ہے۔ شہزادہ منوہر جب چودہ برس گیارہ مہینے کا ہوتا ہے تواس خوبصورت شہزادے کو پریاں اٹھا کر لے جاتی ہیں اور مدھوماتی کے بستر کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ نصف شب میں منوہر کی آنکھیں کھلتی ہیں تو کیا دیکھتا ہے وہ ایک نہایت ہی خوبصورت دوشیزہ کے بستر کے پاس لیٹا ہوا ہے، مدھوماتی بھی بیدار ہو جاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ دونوں عمر بھر ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہیں، دونو ں سوجاتے ہیں صبح پریاں آتی ہیں اور منوہر کو اس کے محل میں پہنچا دیتی ہیں، صبح منوہر فیصلہ کرتا ہے کہ مدھوماتی کی تلاش میں نکلے گا۔ والدین کی نصیحتوں کو نظر انداز کر کے وہ تلاشِ محبوب میں نکل جاتا ہے۔ سنسان جنگلوں سے گزرتا ہے، چار ماہ تک تلاشِ محبوب میں مارا مارا پھرتا ہے، پھر بہت سے دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں، ایک اور خوبصورت دوشیزہ ملتی ہے جسے دیو نے گرفتار کر رکھا ہے وہ منوہر کو بتاتی ہے کہ مدھوماتی اس کی سہیلی ہے۔ اگر وہ دیو کے پنجہ سے چھٹکارا پالے تو منوہر کو مدھوماتی سے قریب کر دے گی، منوہر دیو کو شکست دیتا ہے، پھر اژدہے سے لڑتا ہے، چڑیلوں سے نجات حاصل کرتا ہے۔ آدم خوروں سے خود کو بچاتا ہے۔ اور بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، درویش ملتے ہیں، مدھوماتی طوطی بنتی ہے پھر مدھوماتی بن جاتی ہے۔ آخر یہ دونو کی شادی ہو جاتی ہے۔ فنکار کا مقصد یہ بتانا ہے کہ عشق سچا ہو تو خالق تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا، راہ میں بہت سی مشکلیں آتی ہیں ان سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ دیو، چڑیلیں، آدم خور یہ سب راہ کی مشکلات کے نشانات ہیں۔ عشق سچا ہو، اس کی آگ پورے وجود میں روشن ہو، ارادہ پختہ ہو، نیت صاف ہو، معبودِ حقیقی تک پہنچنا مشکل نہیں ہے۔
مدھوماتی اردو اور ہندی قصو ں کی ایک اہم روایت کی حیثیت سے زندہ ہے، تصوف اور بھگتی دونوں کی بہتر شکلیں ہر جگہ موجود ہیں۔ وحدت الوجود کا نظریہ موجود ہے۔ پنجابی اور ہندی شعراء پر تصوف کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ ’کافی، کے فارم کو اپنایا اور اپنے حسّی جمالیاتی تجربے پیش کئے، ان کی رومانیت تخیل کی پرواز سے پہچانی جاتی ہے۔ پنجابی اور سندھی شعراء نے مثنویاں بھی لکھیں۔ وحدت الوجود کا نظریہ ابتداء سے بنیادی نظریہ رہا۔ بابا فرید اور شیخ مدھو کے کلام میں خالق کی تلاش زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ شیخ مردھو کی کافیوں میں مہیوال کی تلاش اللہ کی تلاش ہے۔ وارث شاہ ؔ نے’ ہیر رانجھا، کی تخلیق کی۔ یہ دنیا کی بہترین تخلیقات میں سے ایک تخلیق ہے۔ تصوف اور بھگتی کی آمیزش کا ایک خوبصورت نتیجہ ’ہیر رانجھا‘ کی صورت میں سامنے ہے۔
بابافرید(شیخ فرید الدین گنج شکر۔ ۷۴۔ ۱۱۷۳ء۔ ۱۲۶۵ء)کا خاندان وسط ایشیا سے آیا تھا۔ ان کے دادا حضور قاضی شعیب کابل سے اپنے تین بیٹوں کے ساتھ لاہور پہنچے جہاں شہر کے قاضی نے استقبال کیا، ان کے علم و دانش کا قاضی پر اتنا اثر ہوا کہ لاہور کے آخری غزنوی سلطان خسرو ملک کو ان کی آمد کی خبر دی۔ قاضی شعیب کوئی ملازمت منصب میں چاہتے تھے، ایک صوفی منش تھے، سلطان کے اصرار پر انہوں نے کھاٹیوال کا قاضی بننا منظور کر لیا ا ور وہیں بسیرا کر لیا۔ کھاٹیوال آج چاولی مشائخ کے نام سے مشہور ہے۔ ملتان میں اس شہر کو بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس لئے کہ یہ بزرگوں کا قدیم مسکن رہا تھا۔ قاضی شعیب کے تین بیٹے تھے۔ ان میں جمال الدین سلیمان کی شادی کھاٹیوال ہی میں ہوئی، شیخ فرید الدین مسعود، شیخ جمال الدین سلیمان کے دوسرے لڑکے تھے جو بابا فرید کے نام سے معروف ہیں۔ ان کی والدہ نے ان کی پرورش کی اور بہت پیار دیا۔ بابا فرید بچپن سے اللہ والے بن گئے، زیادہ وقت عبادت میں گزارتے۔ چند ہی برسوں میں ان کی بزرگی اور پاکیزگی کی خبر ہر جانب پھیل گئی، کہا جاتا ہے حضرت شیخ جلال الدین تبریزی کے شاگردشیخ ابو سعید تبریزی دہلی جاتے ہوئے کھٹیوال سے گزرے تو بابا کی شہرت سن کر ان سے ملنے گئے اور ان سے بہت متاثر ہوئے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں بابافرید ملتان کے ایک مدرسے میں داخل ہوئے جس کے سربراہ مولانا منہاج الدین تبریزی تھے، یہاں وہ بہت جلد حافظ قرآن ہو گئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی خانقاہ اور حضرت کی صحبت میں بابا فرید نے تزکیہ نفس اور روحانی کیفیتوں کی اہمیت سمجھی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ان پر بہت مہربان تھے اور انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے بھی انہیں اپنی دعاؤں سے نوازا۔ حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کے انتقال کے بعد بابا فرید وہاں سے دہلی آ گئے اور سجادہ نشین ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد پھر وہاں سے و اپس لوٹ گئے، اس لئے کہ انہیں روحانی سکون کی ضرورت تھی۔ عبادت کرنے کے لئے سکون چاہتے تھے لہٰذا وہاں کی خانقاہ اپنے کسی مرید کے حوالے کر کے اجودھن چلے گئے۔ آج وہ مقام پاک پٹن کے نام سے مشہور ہے، پاکستان میں اب اس کا نیا نام ساہی وال ہے۔
بابا فرید پنجابی زبان کے ایک ممتاز شاعر تھے۔ اردو ملتانی پنجابی الفاظ کی آمیزش سے ان کی شاعری انتہائی پر کشش بن گئی تھی۔ انہوں نے صوفیانہ تجربوں کو صاف ستھری اور عام فہم زبان میں پیش کیا کہ جن سے عوام بے حد متاثر ہوئے۔ ان کا کلام لوگ سنتے، سماع کی محفلوں میں ان کے کلام کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، بابا فرید کے علم کا ذکر دور دراز علاقوں میں ہوا ا ور لوگ جانے کہاں کہاں سے آ کر ان کا نیاز حاصل کرتے۔ انہوں نے اسلامی تصوف کو ہندوستانی عوامی رنگ دے دیا۔ بھگتی اور تصوف کے جمال کو ایک دوسرے میں جذب کرنے والوں میں بابا فرید کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ انسان اور خالق کے رشتے، عشق خدا اور عام انسانوں سے محبت کو اپنے کلام کا بنیادی موضوع بنایا۔ افسوس اس کا ہے کہ ان کا کلام ضائع ہو چکا ہے اور بہت کم اشعار ہی حاصل ہوئے ہیں۔ بعض پنجابی اشعار لوگوں نے یاد کر رکھے تھے۔ بابا گرو نانک نے انہیں محفوظ کر لیا۔ ۱۶۰۴ ء میں گرو ارجن دیو نے ’’آدی گرنتھ‘‘ کو مرتب کیا تو بابا فرید کے وہ اشعار اس میں شامل کر دئیے۔ یہی سرمایہ ہمیں حاصل ہوا ہے۔ پنجابی افکار و خیالات میں بابا فرید کے اشعار بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سے منسوب صوفیانہ اشعار میں چند یہ ہیں۔ :؎
فرید میرا سوکھا جسم ہڈی کا ڈھانچہ بن گیا ہے
کوّے میری ہتھیلی اور تلوؤں پر چونچ مارتے ہیں
ابھی تک اللہ تعالیٰ میری مدد کو نہ آئے
اللہ کے اس بندے کی بدنصیبی تو دیکھو!
اے کوؤں اس ہڈی کے ڈھانچے کو تلاش کر لیا جو میرا جسم ہے
اور میر اسب گوشت کھا لیا
لیکن ان دو آنکھوں کو ہرگز نہ چھونا کہ مجھے ابھی
محبوب کی دیدار کی امید ہے۔
چار یا پانچ اشلوکوں ہی سے بابا فرید کے صوفیانہ شعری تجربوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔
گرو گرنتھ صاحب میں بابا کے چار گیت اور ایک سو بارہ اشلوک ہیں۔ ان میں ملتانی پنجابی الفاظ ہیں۔ وحدت الوجود کا ا نتہائی گہرا رومانی تصور موجود ہے جو شدت سے متاثر کرتا ہے۔ بنیادی خیال یہ ہے کہ اللہ دل میں رہتا ہے۔ اس کی تلاش میں جنگل جنگل بھٹکتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان کے اشعار میں وجد آفریں کیفیت ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں اللہ پکی ہوئی کھجوروں کی طرح ہے، شہد کی ندی کی طرح، اگر وہ مل جائے تو ساری دنیا اپنی ہو جائے۔ ان کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں :۔ مٹھائی بہت میٹھی ہے اور شکر اور شہد اور بھینس کا دودھ بھی میٹھا ہے لیکن سب سے زیادہ میٹھی اللہ کی ہستی ہے۔ زندگی اور موت کو اس طرح سمجھانے میں کئی عرصے تک ایک پیڑ دریا کے کنارے کھڑا ر ہ سکتا ہے ، آخر کب تک پانی ایسے برتن میں رہ سکتا ہے جو کچا ہے!دوسری جگہ فرماتے ہیں :۔ دنیا کے باغِ حسن و جمال میں ایک پرندہ محض ایک مہمان ہے۔ جب صبح کی نوبت بجے تو اڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ شاعر کے رومانی جمالیاتی ذہن نے دنیا کے حسن و جمال کے کئی پہلوؤں کو دکھایا ہے۔ مختلف قسم کے جذبات اور ان کے رنگوں کو محسوس بنایا ہے۔ استعاروں میں اپنے نقطۂ نظر کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے، مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ؎
٭اگر مجھے علم ہوتا کہ میرے بیج اتنے کم ہیں
تو میں ان مٹھی بھر بیجوں کی دیکھ ریکھ کرتی
اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میرا دلہا اتنا کم عمر ہے
تو میں کچھ کم گھمنڈی ہوتی!
٭فرید، ان آنکھوں کو دیکھا ہے
جو ساری دنیا کو مسحور رکھتی ہے
کبھی وہ کاجل کی لکیر کا بوجھ بھی برداشت نہ کر سکی تھیں
لیکن اب ان میں چڑیوں نے
انڈے دے کر بچے نکالے ہیں !
کلام میں جو گہرائی اور جو پختگی اور نفاست اور چمک دمک ہے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وارث شاہ نے ایک قدیم رومانی کہانی ’’ہیر رانجھا‘‘ کو ایک انتہائی خوبصورت تخلیق کی صورت بخشی۔ ہندوستان کی کلاسیکی کہانیوں میں ہیر رانجھا کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے، وارث شاہ کے اسی کارنامے کو دنیا کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔
’’ہیر رانجھا‘‘ کی کہانی مختلف انداز سے سنائی گئی ہے اور ایک ہی کہانی کی کئی کئی صورتیں سینہ بہ سینہ چلتی رہی ہیں جن میں فقر اور روحانی عشق اور شوق کے محاکات کو اہمیت دی گئی ہے، ہیر اور رانجھا دونوں جمال الٰہی کے مظہر بنے رہے ہیں۔
وارث شاہ کی تخلیق ’’ہیر رانجھا‘‘ کے مطابق یہ تخلیق دوستوں کی فرمائش پر۱۸۲۳ء میں وجود میں آئی۔ یہ منظوم داستان ساہیوال میں لکھی گئی جو ملتان کے علاقہ میں ہے، وار ث شاہ نے اس دور کے حالات پر اشاروں میں اظہار خیال کیا ہے لیکن اپنے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا ہے۔ شاعر کے تعلق سے بھی کوئی خبر نہیں ملی۔ ہیر وارث شاہ کی ابتداء حمد، نعت، چار یار کی تعریف(حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ)پیرانِ پیر کی مدح اور با با فرید شکر گنج کی مدح سے ہوتی ہے۔ وارث شاہ کہتے ہیں میرے اشعار کی خوشنما ا ور مستحکم ترتیب سے ہیر کا قصہ ایک منفرد گلاب کی مانند کھلا ہے۔ جس طر ح فرہاد نے پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالی تھی اسی طرح میں نے گہری فکر کے بعد قصے کے جوہر کو نکالا ہے۔ ہیر کا یہ حصہ گلاب سے تیار کیا ہوا عطر ہے کہ جس کی خوشبو ہر جانب پھیلے گی۔ وارث شاہ نے ایک پرانی لوک کہا نی اور روایت میں سفر کرتے ہوئے عوامی قصے میں اپنی فکر و نظر اور اپنے احساس میں جمال سے نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔
ہیر وارث شاہ کی ڈرامائی خصوصیات انتہائی پر کشش ہیں۔ فنکار نے اس قصے کو ایک ڈراما بنا دیا ہے۔ اس کی بے پناہ مقبولیت کا ایک بڑا سبب اس کی شاعری کا آہنگ اور مصرعوں میں پوشیدہ غم وانبساط کی کیفیتیں ہیں جو پڑھنے والوں اور سننے والوں کو ایک انتہائی رومانی فضا سے آشنا کرتی ہیں اور دوسرا سبب اس کی ڈرامائی کیفیت اور خصوصیات ہیں۔ وارث شاہ لفظوں کے جادوگر ہیں علامتوں اور استعاروں کو جگمگاتے جگنوؤں کی طرح اچھال دیتے ہیں۔ کبھی کبھی آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ڈرامائی کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا کرتے جاتے ہیں۔ کرداروں اور ان کے مکالموں میں باطنی کیفیتوں اور شخصیتوں کے تصادم کو نمایاں کرتے ہیں۔ پیکر تراشی اور صورت گری، میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ وارث شاہ جب ہیر کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہیں تو ایک جانب ان کے احساسِ جمال کی پختگی کی پہچان ہوتی ہے اور دوسری جانب اس منظوم داستان کی جمالیاتی سطح کی رفعت اور عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں ہیر کی دلفریب صورت کے خد و خال اتنے دلکش ہیں کہ لگتا ہے جیسے ہم قرآن پاک کے جملے اور روشن حروف دیکھ رہے ہیں۔ پیشانی ماہتاب ہے، زلفیں جو دل کو لہو لہان کرتی ہیں، چہرے کے ہر دو جانب سے حلقہ ڈالے ہوئی ہیں جیسے چاند نے گہری رات میں گھیرا ڈالا ہو۔
وارث شاہ نے تصوف کے جمال کا دائرہ وسیع بھی کیا ہے اور گہرا بھی۔ مختلف آلوں کے ذکر سے ایک عجیب وجدانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کیدار، مارد، پوربی، للت، بھیروں،، سورٹو، دیپک، گجرال،، ٹوڈی،، ملہار، گونڈ، دھناسری، کمبان، مالکوس، بھیروں، بھیم پلاس، نٹ راگ، بسنت، ہنڈولا سب کا آہنگ عشقِ حقیقی کے درد کی شدّت کا احساس دلاتا ہے۔
ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوف کی جمالیات جب بھی ذکر کیا جائے گا وارث شاہ کی تخلیق ’’ہیر رانجھا‘‘ کے جمال اور اس کی شدید تر رومانیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
شاہ لطیف(شاہ عبد اللطیف)سندھ کے صوفی شعراء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان کی شاعری اور خصوصاًسسی پنوں نے دنیا کے بہترین ادبیات کی تاریخ میں اپنی جگہ حاصل کر لی ہے۔ ۹۰۔ ۱۶۸۹ء(۱۱۰۲ھ)میں جنم ہوا۔ ابھی کم عمر ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے قرآن پاک، حدیث نبوی، مثنوی مولانا روم کا خصوصی مطالعہ کیا تھا۔ ان کے علاوہ تصوف اور ویدانت پر بھی ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ سندھی زبان کے عالم تو تھے ہی بلوچی، ہندی، پنجابی زبانیں بھی خوب جانتے تھے۔ اپنے عہد کے بڑے عالموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ صوفیانہ ذہن حد درجہ روشن اور تخلیقی تھا۔ اللہ اور مخلوق کے رشتے اور خالق کی خصلت و جمال پر ان کے اشعار شدّت سے متاثر کرتے ہیں۔ پروفیسر جیٹھ مل پرسرام نے اپنی کتاب’Life of shah Bhatai‘ میں لکھا ہے کہ شاہ لطیف عربی اور فارسی لفظوں کی ایک دنیا رکھتے ہیں، ان کی شاعری میں جہاں سندھی، پنجابی، ہندی اور بلوچی الفاظ ملتے ہیں وہاں عربی اور فارسی الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان کے دوستوں کا حلقہ وسیع تھا۔ ان میں یوگی دوستوں کی تعداد کم نہ تھی۔ ان ہی کے ذریعہ انہوں نے ہندوستان کی جانے کتنی روایتی اور لوک کہانیاں سنیں۔ ان ہی کہانیوں میں ’ سسی پنوں، کی کہانی بھی تھی کہ جس سے وہ امر ہو گئے۔ صوفیانہ تجربوں کی گہری روشنی لئے جب’سسّی پنوں، کا روایتی قصہ ایک نئی صورت لئے اجاگر ہوا تولوگ اس پر عاشق ہو گئے۔ شاہ عبداللطیف کا جمالیاتی مزاج حد درجہ پختہ اور اس کی رومانیت حد درجہ متحرک تھی۔ مظاہرِ فطرت سے وہ کس قدر متاثر ہوئے تھے اور ان کے جمالیاتی مزاج اور ان کی رومانیت میں تحرک پیدا ہوا تھا ا س کا اندازہ ’سسی پنوں، کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں :۔
نیچے آبِ رواں ہے، سطح پر پھول کھلے ہوئے ہیں، ہر جانب دلکش مرغزار ہیں،
تماشائی کی عطر بیزی سے فضا مہک رہی ہے
صبح کی ہوا چلتی ہے تو کنجھر پالنا بن جاتی ہے!
یہ سنئے:
کوہستانی مملکت کا شہزادہ(پتوں )وہاں نہیں ہے جہاں تم خیال کرتے ہو
چٹانوں سے مت سے ٹکراؤ وہ تمھارے باطن میں ہی پوشیدہ ہے،
غیر سے نجات کرتے محبوب کوا پنے باطن ہی میں تلاش کرو۔
شاہ عبداللطیف نے قرآن پاک کی آیات اور احادیث کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی معنویت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تفسیروں میں ان کے شاعرانہ اندازِ بیان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے علامتی اشارے اتنے عام فہم ہیں کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ یہ سنئے:
’’میرا دل محبوب کے فراق میں اتنا غمزدہ ہے جیسے کٹ کرگھاس کی پتی مرجھا جا تی ہے ‘‘
’’محبوب کی جدائی میں میرا دل غم سے لبریز ہے جیسے برسات میں میدانوں میں جھاڑیاں اُگ آتی ہیں ‘‘
’’میرے دل اور محبت کا وہی عالم ہے جو نمک اور پانی کا ہوتا ہے‘‘
شاہ عبد اللطیف کے استعاروں اور علامتوں میں پرندوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے مثلاً توتا، مور، بلبل، کوئل، کوّا، چیل، گدھ، کبوتر، شکرہ، لق لق، پن ڈبی وغیرہ۔ ان روحانی تجربوں کو سمجھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ ’ہنس‘ ہندوستان کا ایک قدیم معنی خیز استعارہ ہے۔ شاہ صاحب نے بھی اسے استعمال کیا ہے۔ عموماً صوفی اور عارف کی جانب اشارہ کرنے کے لئے۔ ہنس ایک پاکیزہ پرندہ ہے۔ پرسکون پانی کی تلاش میں رہتا ہے۔ عارفوں، صوفیوں اور درویشوں کی علامت کے طور پر شاعر نے اسے خوب استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں ہنس پانی کے اندر سے قیمتی پتھر چن لاتا ہے، یہ کام کوئی کوّا یا بگلا نہیں کر سکتا۔ ’ہنس‘ کی تمثیل سے کیا خوب کام لیا ہے :۔
سارسوں سے الگ ہو کر ہنس تو بلندیوں پر چلا گیا ا ور
اس مقام تک پہنچ گیا جہاں اس کے محبوب کا مسکن ہے
اس کی نگاہیں عمیق گہرائیوں پر جمی ہوئی ہیں
وہ ان موتیوں کا خواہش مند ہے جو تہ میں پڑے ہوئے ہیں’ہنس‘ بلندیوں کا بھی عاشق ہے اور پانی کی گہرائیوں پر بھی فریفتہ ہے
شاہ عبدللطیف کے کلام میں بھی عشق بنیادی جوہر ہے۔ کہتے ہیں عشق کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ عشق کی تشنگی ایسی ہے کہ سمندر پی جائے پھر بھی پیاس بجھتی نہیں۔ ان کی جمالیات اور رومانیت میں حسنِ الٰہی اور حسنِ انسان اور حسن کائنات تینوں کو اہمیت حاصل ہے۔ ساتھ ہی انہیں اس بات کا احساس ہے کہ حسنِ انسان اور حسنِ کائنات حسنِ الٰہی کے پرتو میں میرا محبوب سامنے آ جائے تو آفتاب کی کرنیں ماند پڑ جائیں، چاند کی تابناکی جاتی رہے اور ستارے سجدے میں گر جائیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں زمین پر چلتی پھرتی خوبصورت صورتوں کو چھوڑ کر اپنی آنکھیں بند کر لو اور حقیقی محبوب کو تلاش کرو۔
شاہ عبداللطیف کی صوفیانہ شاعری احساسِ ذات اور مادّی حسن کو دور رکھ کر استغراق میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں محبوب کے بغیر تو میری سانس ہی نہیں چلتی، اللہ اور صرف اللہ میرے دل پر حکومت کرتا ہے۔
’’سسّی پنوں ‘‘ شاہ عبد اللطیف کا شاہکار کارنامہ ہے۔ اس کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو ایک جانب روح اور جسم کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو گا اور دوسری جانب شاعر کی جمالیات کی حیثیتوں کی پہچان ہو گی۔ مناظرِ فطرت کے جمال سے پرندوں کے حسن تک اور مختلف قسم کے خوشبوؤں سے قیمتی پتھروں تک ان کی جمالیات پھیلی ہوئی ہے۔ ان کا رومانی ذہن ’’سسّی پنوں ‘‘ کی حد درجہ رومانی کہانی کو بڑی شدّت سے متحرک کرتا ہے۔ منظوم کہانی کے کچھ قصے ایسے ہیں جہاں مشک و عنبر کی خوشبو پھوٹتی ہے۔ زلفیں عطر چمیلی میں بسی ملتی ہیں۔ محبوب ایسا مہک بن جاتا ہے کہ آنکھیں اسے بس حیرت سے تکتی رہتی ہیں۔ شاعر جب حجرے میں عود کی خوشبو اور پلنگ پر مشک کی خوشبو اور زلفوں پر صندل کے لیپ کا ذکر کرتا ہے تو اس کے احساسِ جمال میں بڑی کشش محسوس ہوتی ہے۔ قصے میں کہیں موسمِ بہار کا ذکر ہے، کہیں پھولوں اور لونگ الائچی، عود و عنبر اور عطر چمیلی کی خوشبوؤں کا ذکر، سسّی پنوں کی کہانی جانے کتنی خوشبوؤں سے بھر گئی ہے۔ صوفیانہ تجربوں سے لبریز قصوں میں سسّی پنوں کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں سسّی عاشق ہے اور سسّی کی روح کی بے قراری شاعر کے روح کی بے قراری ہے۔ پنوں غائب ہو جاتا ہے تو سسّی تلاش میں نکلتی ہے۔ جانے کتنے دشوار گزر راستوں سے گزرتی ہے۔ راہ میں ریگستان آتے ہیں، پہاڑی درّے آتے ہیں، پنوں جو خالق کائنات کی علامت ہے اس کی تلاش غیر معمولی تصویر پیش کرتی ہے۔
سندھی شاعری میں شاہ عبد اللطیف تصوف جمالیات اور اس کی رومانیت کی ایک بڑی مستحکم روایت ہیں۔
سلطان باہو(سلطان محمد)سلطان بازید(سلطان بایزید)کے لڑکے تھے جو شاہجہاں کے دربار میں ایک اعلیٰ منصب پر فائض تھے۔ شہنشاہ نے انہیں جھنگ کا ایک گاؤں شیرکوٹ عطا کیا تھا جہاں انہوں نے سکونت اختیار کی۔ سلطان باہو وہیں ۳۰۔ ۱۶۲۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی پھر دہلی آئے۔ حضرت پیر عبد الرحمٰن قادری کے شاگرد بن گئے۔ حضرت قادری بھی شاہ جہاں کے دربارسے وابستہ تھے۔ ان کی ذہنی تربیت میں ان کی والدہ نے نمایاں حصہ لیا اور وہ تصوف اور شاعری کی جانب راغب ہوئے۔ فارسی زبان و ادب سے گہری دلچسپی لی۔ لیکن پنجابی زبان ہی سے ان کی دلچسپی زیادہ رہی۔ پنجابی میں شاعری کی اور ا ن کے صوفیانہ کلام نے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی شہرت حاصل کر لی۔ شعر کہتے ہوئے ان پر رقت طاری ہو جاتی اور وہ اُوہّو اُوہّو، کا نعرہ بلند کرنے لگتے۔ ان کے ہر کلام کے آخر میں اُوہّو کی آواز عام، طور پرسنائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شیخ’ باہو، مشہور ہو گئے۔ ان کے کلام میں جو نغمگی ہے کہا جاتا ہے کہ کوشش کے باوجود اس کی کوئی پیروی نہ کرسکا۔ وحدت الوجود کے تصور میں اتنے گم ہو گئے کہ آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا زبردست عرفان حاصل ہوا۔ کلام کی داخلی نغمگی میں جو درد ہے غالباً اسی عرفان کا نتیجہ ہے۔ ان کا کلام محبتوں کے رس سے بھرا ہوا ہے۔ شاعری میں روح کی تابناکی کی پہچان اس وقت شدّت سے ہوئی ہے جب انسان دوستی کا ہمہ گیر جذبہ بڑی تیزی سے ابھرتا ہے۔ انسان اور انسان کی محبت کے درمیان ہی اللہ اور بندے کی محبت کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت غوث الاعظمؒ سے بڑی عقیدت تھی انہیں تصوف کی دنیا کا سب سے بڑا رہنما تصور کرتے تھے۔ ان کے کلام میں حضرت کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے۔ پنجابی شاعری میں جن صوفی بزرگوں نے لازوال نغمے خلق کئے ہیں ان میں شیخ باہو کا نام بھی ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ مارچ ۱۶۹۱ء میں لاہور میں انتقال ہوا۔ شیر کوٹ کے قریب ہی آپ کا مزار ہے۔
بابا بلے شاہ پنجابی کے سب سے بڑے شاعر تصور کئے جاتے ہیں۔ اپنے عہد کے بڑے درویش تھے۔ ان کی کافیاں عوام میں مقبول ہوئیں۔ لاہور اور قصور کے درمیان پنڈولی(لولاتی؟)گاؤں میں ۱۶۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۸۵ء میں لاہور میں انتقال ہوا۔ انتقال کے وقت عمر۷۸؍ سال تھی۔
ابتداء ہی سے صوفیوں اور درویشوں سنتوں کی صحبت ملی۔ ویدنانت اور تصوف دونوں کی روشنی حاصل کی۔ پنجابی زبان کے بہت بڑے انسان دوست شاعر ہیں جن کی ہیومنزم، ادبی روایات میں جذب ہو گئی۔ شاہ عنایت ان کے روحانی مرشد تھے۔ انہوں نے شاہ عنایت کا ذکر اپنے کافیوں میں کیا ہے۔ مثلاً ؎
بلہات شاہ دی ذات نہ کاٹی
میں شاہ عنایت پایا ہے
یعنی بلہاؔ محبوب کی کوئی ذات نہیں ہوتی۔ مجھے میرا محبوب عنایت مل گیا ہے۔
بلہے شاہ دی سنو حکایت ہادی پکڑیاں ہو گ ہدایت
میرا مرشد عنایت شاہ عنایت او لنگھائے پار!
بلّے شاہ کی حکایت سنو، میں نے مرشد کا دامن تھام لیا ہے۔ شاہ عنایت میرے مرشد ہیں وہی میرا بیڑا پار لگائیں گے۔
بابا بلّے شاہ ایک بڑے روشن خیال صوفی فنکار تھے۔ ایک بار کسی نے ان سے دریافت کیا ’’آپ کس ذات سے تعلق رکھتے ہو ؟بولے ’’آدم کی ذات سے ‘‘ پھر ایک کافی میں لکھا :؎
بلّہا ! کیہ جانا ں میں کون؟
نہ من مومن وچ مستیاں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ نہ فرعون، بلّہا کیہ جاناں میں کون ؟
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش، نہ میں پون بلّہا کیہ جاناں میں کون؟
میں مومن ہوں اور نہ کافر، سچی راہ پر ہوں اور نہ گناہوں میں ڈوبا ہوں، میں موسیٰ ہوں اور نہ فرعون بلّہا میں کیا جانو ں میں کون ہوں ؟پرہیزگار پاکیزہ درویش بھی ہوں، مسرتوں کے درمیان نہیں رہتا، غم و غصے کا اظہار نہیں کرتا، آبی ہوں نہ خاکی، آتش ہوں نہ باد، بلّہا میں کیا جانوں میں کون ہوں ؟اس کافی کو پڑھتے ہوئے مولانا رومی کے یہ اشعار یاد آنے لگے:
چہ تدبیر اے مسلماناں کہ من خود را نمیدانم۔ نہ ترسانے یہودم من نہ گبرم نے مسلمانم
نہ شرقیم نہ غربیم نہ بریم نہ بحریم۔ نہ ازکان طبیعم نہ از افلاک گردانیم
نہ از ہندم نہ از چینم نہ ازبلغار وسقینم۔ نہ از ملک عراقیم نہ از خاک خراسانم
مکانم لامکاں باشد نشانم بے نشاں باشد۔ نہ تن باشد نہ جاں باشد کہ من از دہن جانانم
دوئی از خود بدر کردم یکی دیدم دو عالم را۔ یکی چویم یکی دانم یکی بینم یکی خوانم
بابا بلّہے شاہ کے اس کافی میں دو بند اور ہیں :
نہ میں بھیت مذہب وا پایا
نہ میں آدم حوّا جایا
نہ کچھ اپنا نام دھرایا
نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھوں
بلّہا کیہ جانے میں کون؟
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجاہوریچھاناں
میتھوں دودھ نہ کوئی میاناں
بلّہا!ادہ کھڑا ہے کون؟
بلّہا کیہ جانے میں کون؟
بابا بلّہے شاہ نے اپنے تصوف کے جمال سے عوامی جذبوں سے ایک گہرا رشتہ قائم کر لیا۔ کہتے ہیں (مولانا رومی کی طرح)بلّہا وہ شخص ہے جو اللہ کو پیار کرتا ہے بھلا کس طرح ترک یا ہندو رہ سکتا ہے !
ان کافیوں میں معبودِ حقیقی کا حسن مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کا احساسِ جمال بالیدہ ہو تو وہ اس حسن سے ایک پرُاسرار رشتہ قائم کرتا ہے۔ ان میں جذب ہو جاتا ہے۔ بلّہے شاہ نے جہاں اسلام اور اس عظیم مذہب کے بنیادی تصورات و خیالات سے رشتہ قائم کیا وہاں ویدانت کی روشنی بھی حاصل کی۔
ان کے مندرجہ ذیل خیالات پنجابی ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں :
ہن کس تھے آپ چھپائی دا۔ منصور بھی تیتھے آیا ہے
تیں سولی پکڑ چڑھایا ہے۔ تیں خوف نہ کیتو سائیں دا
کہوں شیخ مشائخ ہونا تیں۔ کہوں ادیانی بیٹھا روناتیں
تیرا انگ نا کہوں پائیں دا۔ بلّہے نلوں چھّلہا چنگا
جس نے نام پکائی دا۔ رل فقیراں مصلت کیتی
بھورا بھورا پائیں دا
یعنی تم خود کو کس سے چھپا رہے ہو منصور بھی تم تک آیا تھا ا ور تم نے اس کو سولی پر چڑھا دیا۔ تم کو خدا کا خوف کیوں نہ آیا۔ کبھی تم شیخ کے روپ میں ظاہر ہوتے ہو کبھی تنہائی میں روتے ہو۔ کوئی بھی تمہیں پہچان نہ سکا۔ بلّہے سے تو اس کا چولہا بہتر ہے جس پر روٹی پکائی جاتی ہے۔ سب فقیر مل بیٹھ کر ایک فیصلے پر پہنچے اور آپس کے بھورے ٹکڑے تقسیم کر لئے۔
بابا بلّہے شاہ اللہ کو نور کی صورت پاتے اورمحسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں وہ جوت، (نور)کی طرح اپنے حسن و جمال کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔ ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی۔ وہ ایسا محبوب ہے جو انسان کی منتوں کو قبول کرتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے عاشقوں سے آنکھ مچولی کھیلتا رہتا ہے۔
بلّہے شاہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہیر اور رانجھے کو اللہ اور بندے کے استعاروں میں استعمال کیا ہے۔ رانجھا معشوق ہے اور ہیر عاشق، ایک جگہ فرماتے ہیں ؛؎
ہیر رانجھا دے ہو گئے میلے بھلّی ہیر ڈھوڈ یڈی بیلے
رانجھا یار بغل وچ کھیلے مینوں سدھ بدھ رہی نہ سار
یعنی ہیر رانجھے کی تلاش میں بہت دور نکل گئی اور رانجھا اس کے پاس ہی نکلا، دونوں کا ملن ہو گیا۔ میری تو سدھ بدھ جاتی رہی۔ میں کب ہوش میں تھا۔ بابا بلّہے شاہ کی مشہور کافی ہے ’’رانجھا جو گیڑا بن آیانی(رانجھا یوگی بن کر آ گیا ہے )بہت ہی خوبصورت دلفریب نغمہ ہے۔ شاعر نے ہیرا اور رانجھے کے استعمال کو اعلا اور افضل سطح عطا کی ہے۔ رانجھا میں معبودِ حقیقی کے جلوے کو دیکھا ہے اور اپنی ذات اپنے وجود کو ہیر تصور کیا ہے۔ بابا کی ایمائی نکتہ آفرینی غضب کی ہے۔ خالق اور مخلوق کے گہرے وجدانی رشتے کا تاثر ملتا رہتا ہے۔ ان کی شاعری کی غنائیت بڑی شدت سے متاثر کرتی رہی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان کی بنیاد راگ راگنیوں پر بھی ہے۔ ان کے کلام کی ایک اور بڑی خصوصیت کہ جس نے ایک نسل کو متاثر کیا ہے یہ ہے کہ شاعر نے بہت ہی سادہ اسلوب اختیار کیا ہے جو نغمہ ریز ہے اور اس میں عام جانی پہچانی چیزیں استعاروں اور علامتوں کے طور پر استعمال ہوئی ہیں مثلاً صراحی، پیالہ، پیکا کا گھر(والدین کا گھر) ساہو کا گھر(سسرال کا گھر)چرخہ، مسافر، کرشن، رادھا، مکے(مکہ شریف)حاجی، سنت، ماتھا، تلک،
روپ، سارنگی، جوگی، محتاج، مہاراج، مکھ، نین، نیناں وغیرہ۔
ایک جگہ فرماتے ہیں :۔ احد احمد وچ فرق نہ بُلہا اک رتّا بھیت مروڑی را
یعنی اے بُلہا! احد اور احمد میں کوئی فرق نہیں ہے، صرف ’م‘ میں اس دھاگے کا راز موجود ہے۔ بابا بلہے شاہ کی شاعری بھی دنیا کی بہترین شاعری میں شمار کی جاتی ہے۔
دکن تصوف کا ایک قدیم گہوارہ ہے، چودھویں صدی کے وسط میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے سے قبل دکن میں صوفی موجود تھے جو زندگی کی عمدہ اور نفیس اقدار کی تعلیم دیتے تھے۔ دور وسطیٰ کی ابتداء میں شمالی ہند کی طرح دکن میں بھی تصوف کی تعلیم وتربیت کا زور بڑھا اور اس حد تک کہ سماجی زندگی کی بہتری تنظیم میں صوفی پیش پیش رہے۔ محمد تغلق نے جب دولت آباد کو دار الحکومت بنایا (۱۳۲۷ء ) تو مسلمانوں کی ایک کثیر آبادی شمال سے جنوب کی طرف بڑھی اور یہاں مختلف علاقوں میں آباد ہونے لگی۔ علاء الدین حسن بہمن شاہ جو دکن میں سلطان اول تھاخود تصوف سے گہری دلچسپی رکھتا تھا ا ور اس کے عہد کے معروف صوفی شیخ سراج الدین جنیدی کا مرید تھا۔ جب تک کہ ۱۳۸۰ء میں حضرت شیخ کا انتقال ہوا دکن کے سلطان ان کے قریب رہے۔ کم وبیش سولہ برس بعد حضرت سید محمد گیسودرازؒدکن تشریف لائے اوراحسن آباد (گلبرگہ)میں قیام کیا۔ سلطان فیروز شاہ بہمنی ان کا بڑا قدر داں تھا۔ حضرت بندہ نواز گیسو درازؒ صرف ایک بڑے صوفی ہی نہیں بلکہ ایک بڑے قلم کار بھی تھے۔ کہا جاتا ہے انہوں نے ۱۰۵؍ سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ ان سے ان کے فکر و نظر کی وسعت اور گہرے علم کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کی اکثر تخلیقات تصوف اور اس کے مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہندوستانی فکر و شعور کے سفر کی داستان میں مشائخ چشت کے تصوف کی جو اہمیت ہے مجھے اس کا علم ہے۔ اس ملک کی زندگی کے کئی اہم پہلوؤں پر اسی سلسلے کے اکابر کے افکار و خیالات کی گہری روشنی پڑتی ہے۔
حضرت سید محمد بن یوسف الحسینی خواجہ بندہ نواز گیسودرازؒ ۳؍ ستمبر ۱۳۲۱ئ(۴؍رجب ۷۲۱ھ)میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت دہلی میں ہوئی۔ حضرت بندہ نواز گیسو درازؒ حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلیؒ کے خلیفہ تھے (اگرچہ اس کا اعلان نہیں کیا گیا)حضرت چراغ دہلیؒ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے خلیفہ تھے، حضرت نظام الدین اولیاءؒ حضرت شیخ فرید الدین شکرگنجؒ کے خلیفہ تھے، حضرت شیخؒ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے خلیفہ اور حضرت بختیار کاکیؒ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خلیفہ تھے۔ حضرت بندہ نواز گیسو درازؒ چشت سلسلے کے ایک مضبوط کڑی ہیں۔
اسمِ گرامی سید محمد، ابو الفتح کنیت، صدرالدین ولی الاکبرالصادق القاب لیکن بندہ نواز گیسو درازؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس نام سے نگاہوں کے سامنے ایک وسیع تہدار، مرکّب اور معنیٰ خیز نظامِ فکر کی تصویر کا ایک روشن پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔ گیسودراز مشہور کیوں نہ ہوتے جب آپ کے پیر و مرشد حضرت نصیر الدین محمودچراغ دہلیؒ نے یہ نام عطا کیا تھا۔ بزم صوفیہ کے مصنف نے جو واقعہ درج کیا ہے اسے بھی سنئے۔ ایک صبح حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلیؒ پالکی میں جا رہے تھے، کئی مریدوں نے پالکی اٹھا رکھی تھی۔ ان میں حضرت بھی تھے، آپ کے لمبے بال پالکی کے نچلے حصے میں الجھ گئے، تکلیف ہونے لگی لیکن مرشد کی محبت اور عقیدت کی وجہ سے سخت تکلیف کو ہر لمحہ برداشت کرتے ہوئے منزل پر آئے، حضرت محمود چراغؒ کوا س کا علم ہوا، اپنے محبوب مرید کے ایثار سے متاثر ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے چراغ سے وہ چراغ روشن ہوچکا ہے کہ جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا۔ اسی وقت برجستہ فرمایا۔ ؎
ہر کہ مرید سید گیسودراز شد واللہ خلاف نیست کہ او عشق باز شد!
اور اس کے بعد آپ اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ ان کا ایک مشہور مصرعہ ہے:
ؔ ؔ ؎اے ابو الفتح محمد صدر الدین گیسودراز!
محمد عبد الحکیم صدیقی اپنے ایک مضمون ’’سیدنا بندہ نواز کا روحانی فیضان ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت گیسودرازؒ کے ننانوے ا سمائے گرامی تھے ان میں ’’سلطان العاشقین اور ابو المشائخ ‘‘ بھی ہیں۔
حضرت بندہ نواز گیسودرازؒ کے بزرگوں کا وطن ہرات تھا۔ تذکرہ گیسودراز کے مصنف اقبال الدین احمد نے تحریر کیا ہے کہ آپ کے آبا ء و اجداد علاء الدین مسعود شاہ کے عہد میں عرب سے ہندوستان آئے تھے اور دہلی میں قیام کیا تھا۔ حضرت بندہ نوازؒکے والد سید یوسف حسینی اس وقت دیو گری آئے جب آٹھویں صدی ہجری کے آغاز میں سلطان محمد تغلق نے اسے اپنا دار السلطنت بنایا۔ بندہ نوازؒ کی ابتدائی تعلیم دولت آباد میں ہوئی یہاں کئی صوفیوں کی صحبت حاصل رہی۔ جب دہلی آئے تو شیخ نصیر الدین چراغ دہلیؒ کے قریب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بندہ نواز گیسودرازؒحضرت شیخ نصیر الدین چراغؒ خلیفہ نہیں بنے لیکن لوگ انہیں اسی طرح جاننے پہچاننے لگے۔
حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلیؒ کے انتقال کے بعد حضرت گیسودرازؒ دکن چلے آئے، دکن آنے سے پہلے کئی برسوں تک گوالیار میں قیام کیا۔ فرشتہؔ کے مطابق اس وقت بہمنی سلطان تاج الدین فیروز کی حکومت تھی۔ سلطان کو جب خبر ملی کہ حضرت کا قیام احسن آباد گلبرگہ میں ہے تو وہ ان کا نیاز حاصل کرنے آیا۔ سلطان کے بھائی احمد کو حضرت سے بڑی عقیدت تھی۔ احمد نے ان کے لئے ایک خا نقاہ تعمیر کی، یہاں حضرت کے خطبے ہوتے اور سماع کی محفلیں منعقد ہوتیں۔ حضرت بندہ نوازؒ ایک مستند ادیب تھے۔ عربی زبان میں قرآن پاک کی تفسیریں لکھیں نیز مشرق الانوار کے نام سے بہت سی حدیثیں جمع کیں، فقہ کو خاص موضوع بنایا۔
وحدت الوجود کے نظریئے کی مخالفت کرنے والوں میں ایک بہت اہم نام ایران کے ایک معروف صوفی شیخ علاء الدین سمنانی کا ہے۔ ان کے عقیدت مند وں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بہت سے مرید اور عقیدت مند مختلف ملکوں میں گئے۔ ہندوستان بھی آئے۔ حضرت گیسودرازؒ بھی حضرت سمنانیؒ کے خیالات سے بے حد متاثر ہوئے۔ حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانیؒابن العربی کے نظریۂ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔ خانقاہ سمنانی سے تربیت حاصل کر کے بہت سے علماء اور صوفی ایران کے مختلف علاقوں میں گئے۔ ان میں کچھ ہندوستان بھی آئے۔ حضرت سمنانیؒکی شدید مخالفت کے باوجود ابن العربی کے نظریے پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ ایرانی تصوف نے یہ نظریہ اس طرح جذب کیا کہ اسے علیحدہ کرنا ممکن نہ ہو گا۔ حضرت بندہ نوازؒفارسی زبان میں ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کی مخالفت پر کئی رسالے تحریر کئے، وہ فرید الدین عطارؒ اور مولانا جلال الدین رومیؒ کے خیالات کے بھی مخالف تھے، ہندوستانی صوفیوں پر ان کے خیالات کا ا ثر نہیں ہوا البتہ عشق حقیقی اور عشق روحانی پر ان کے خیالات کی بڑی قدر کی گئی۔
حضرت بندہ نواز گیسودراز سے منسوب کئی کتابیں اور کئی رسائل ہیں مثلاًمعراج العاشقین، رسالہ شرح کلمہ طیبہ، شکار نامہ، رسالہ سہ پارہ، تلاوت الوجود، ہفت اسرار، خلاصۂ توحید، ہدایت نامہ، تمثیل نامہ وغیرہ۔ جو نثری رسالے حضرت سے منسوب ہیں انہیں مستند نہیں کہا جا سکتا۔ محققین نے اس کی تحقیق سے شبہ کی گنجائش پیدا کر دی ہے۔ اکبر الدین صدیقی نے ’’بجھتے چراغ‘‘ میں تحریر کیا ہے :
’’جب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودرازؒدکن تشریف لائے تو آپ نے نہ صرف دکن کی عام زبان دکنی میں وعظ فرمایا ا ور رسائل املا کرائے بلکہ ’’سہلا‘‘ یعنی خوشی کے گیت لکھے جو محفل سماع میں گائے جاتے تھے۔ یہ گیت اور ان کے بعد کے بزرگوں کے گیت جو دکنی زبان میں لکھے گئے ہیں آج بھی روضۂ حضرت بندہ نوازؒ کے ’’بند سماع‘‘ پر گائے جاتے ہیں۔ (بجھتے چراغ ص۱۱)
اکبر الدین صدیقی صاحب نے چند مثالیں بھی پیش کی ہیں، مثلاً؎
خواجہ نصیر الدین میرے چھندا
سید محمد مرید تیرا ہوں بندہ
مری بندگی قبولے تو کروں میں انندا
ایک گیت میں شطرنج کی اصطلاحوں سے صوفیانہ خیالات کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت سے منسوب کئی گیت ہیں مثلاًخواجہ نصیر الدین جس نے سائبان پیو بنائی، اے محمد ہجلو جم جم جلوہ تیرا، لولاک لما خلقت الافلاک خالق پالائے، وغیرہ۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ حضرت ایک سو پانچ برس جئے اور ایک سو پانچ تخلیق عطا کیں۔ ڈاکٹر محمد نور الدین سعیداپنے تحقیقی مقالے ’’خواجہ بندہ نواز سے منسوب دکنی رسائل ‘‘ میں ممکن ہے بہتر روشنی ڈالی ہو یہ مقالہ میری نظر سے نہیں گزرا صرف اس کی خبر ملی تھی۔ اس سلسلے میں اکبر الدین صدیقی صاحب کا یہ بیان خاص توجہ چاہتا ہے۔
’’حضرت خواجہ بندہ نواز اور ان کے بعد کی بھی کوئی تصنیف مصنف کے شک وشبہ سے خالی نہیں ہے۔ کلمتہ الحقائق ایک ایسا رسالہ ہے کہ اس کے مصنف کے بارے میں کوئی شبہ نہیں۔ ‘‘ (رسالہ کلمتہ الحقائق۔ برہان الدین جانم ؔ ۔ مقدمہ)
’’معراج العاشقین‘‘ پر جناب ڈاکٹر حفیظ قتیل کے خیالات زیادہ توجہ طلب ہیں۔ انہوں نے اس کتاب پر مفصل گفتگو کی ہے۔ شکار نامہ کے متعلق ڈاکٹر محی الدین قادری زور مرحوم نے تحریر کیا، معلوم ہوتا ہے کہ رسالہ شکارنامہ خواجہ بندہ نواز نے اردو میں نہیں لکھا بلکہ ان کے کئی مرید یا معتقد نے قلم بند کیا ہے۔
(تذکرہ مخطوطاتِ اردو جلد پنچم ص۱۸۶)
حضرت بندہ نواز گیسودرازؒ جو بولتے لوگ لکھ لیا کرتے، آپ کے مختصر رسالوں میں غالباً اسی وجہ سے کوئی اختلاف نہیں ملتا، حضرت سے منسوب تمام رسالوں کے موضوعات سلوک و معرفت اور تصوف ہیں۔ معراج العاشقین، ہدایت نامہ، تمثیل نامہ، وجود نامہ، کتھی، ارشاد نامہ، شکار نامہ، چکی نامہ آپ سے منسوب مشہور رسالے میں، تحقیق یہ ہے کہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ گلبرگہ سے فارسی کا دیوان شائع ہو چکا ہے۔ چکی نامہ دکنی اردو میں ان کی یادگار تخلیق ہے۔ اردو میں شہبازؔ تخلص کرتے تھے، چکی نامہ میں کہتے ہیں :
؎ا ونچا مندر ہر عشق کا کوئی کیونکر یارے
چاروں سیریاں چڈھ کر تو بے کار تا اوے
’شکار نامہ‘ میں تمثیل اور استعاروں سے زندگی کی سچائیوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ شکار سے مراد حقیقت کا شکار ہے۔ حضرت نے ہرن، فرزند، کمان، رسی، کمند، گھر، محراب خربوزہ، درخت اور دوسرے لفظوں سے زندگی کو سمجھایا ہے۔ انہوں نے تمثیلوں سے خود نمائی، خود بینی، تجلیات الٰہی، حقیقت، ملکوت، جبروت، لاہوت، روح، جسم، عبادتِ ظاہر، عبادتِ باطن، شعور ذات قلبی، اور نفسیاتیخواہشات، حرص، نفس، عشق ذات، عشق خدا، حرکتِ کائنات وغیرہ کو سمجھا یا ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ خود بینی کی قوت پیدا ہو اور تجلیات الٰہی تک رسائی ہو۔ ان کا ہر لفظ سرگوشی کرتا ہے۔ یہ پیغام ساری انسانیت کے لئے ہے۔ اسے ان کے تمام خیالات کا نچوڑ بولا جا سکتا ہے۔
کل شے محیط ہے اسے کون پہچانے
جو کوئی عاشق اس پیو کے اسی جیو میں جانے!
حضرت بندہ نواز گیسودرازؒ کے خیالات کے بڑے گہرے اثرات ہوئے۔
دکن میں صوفیوں کی اپنی تحریریں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ملفوظات کی صورت میں صوفیوں کے اقوال اور تقریریں وغیرہ محفوظ ہیں۔ صوفیا جو کہتے ان کے شاگرد نوٹ کر لیتے۔ یہ بہت قیمتی ڈکومنٹس ہیں۔ دوسو سال کے اقوال اس تقریریں وغیرہ جمع ہوئیں۔ شاہ میراں جی شمس العشاق(وفات۱۴۹۹ء)اور ان کے لڑکے برہان الدین جانم(وفات۱۵۹۷ء)اور امین الدین اعلیٰ(وفات ۱۶۷۵ء)شاہ کلیم اللہ حسینی(وفات سولہویں صدی عیسوی) شاہ ابو الحسن قادری(وفات۱۶۳۵ء)وغیرہ کے خیالات اقوال اور تقریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ دکنی اردو پر فارسی شاعری کے بھی گہرے اثرات ہوئے لہٰذا صوفیانہ کلام بھی متاثر ہوا۔ تشبہیوں اور استعاروں سے فارسی ادب ایک اچھا سرچشمہ ثابت ہوا۔
دکن کے صوفی شعراء نے بھی اللہ کو حسن کا مرکز جانا، انسان کے وجود میں اللہ کے حسن کو پایا اور عشق کے جذبے کو سب سے قیمتی تصور کیا۔ برہان الدین جانم نے عشق کو اس طرح سمجھا:
کوئی کہیں سب عشق تمام عشق کے اشکیں کیا ہے فہام
عشق لیا ہے سب بھر باس عشق تھے سگلا بھوگ بلاس
اللہ بندے سے بہت قریب ہے۔ وہ بھی بے پناہ محبت کرتا ہے۔ جانم نے اس طرح سمجھایا ہے:
تجھ میں داخل اچھے یوں وہ تجھ بن خارج دستا کیوں
نور کرن روح کرد تیانا نوں روح ہوتن میں پکڑتا ٹھانوں
تجھ میں رکھیا یوں مل جائے جوں پانی میں پاؤ سمائے
شاہ امین الدین اعلیٰ وحدت الوجود کے جمال اور تصوف کی رومانیت کا گہرا احساس رکتے تھے، کہا ہے:
نفس کا دوڑنا ہی اس ٹھا تُو تو کاہے نفس بچا
نفس کو لیا و تو دم کی جاگا لائیں ذکر میں تو جاوے بھاگا
دکن کے صوفی فنکاروں نے نثر اور نظم دونوں میں ایک سرمایہ چھوڑا ہے، غزل اور مثنوی میں ان کے کارنامے بہت اہم ہیں۔ چندر بدن ومہیار(مقیمی)لیلیٰ مجنوں، یوسف زلیخا(عاجز)جنت سنگار(ملک خوشنود)فتح نامہ ملک شاہ(حسن شوخی) گلشنِ عشق(نُصرتی)وغیرہ قابل قدر کارنامے ہیں۔ قلی قطب شاہ کی دلچسپی بھی تصوف سے کم نہ تھی۔ عشق مزاجی کو موضوع بنایا۔ سلطان عبد اللہ قطب شاہ، قاضی محمود بحری، یوسف شاہ، ولی، سراج، وغیرہ بھی تصوف سے دلچسپی رکھتے تھے۔
ان صوفی شعراء نے اس علاقے کے صوفیوں کی طرح ثقافتی زندگی میں نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ سب اپنے خالق کا بہتر شعور رکھتے تھے۔ ان کا زاویہ نگاہ وسیع تھا، زندگی کے تمام حسن کی وحدت پر یقین تھا۔ انسان کے دل کو قیمتی جانتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انسان کے دل کو خوش رکھنا حج اکبر سے کم نہیں ہے۔ انسان اور انسان کی محبت اور اسی محبت کے روشن مظاہر کو قیمتی جانتے تھے۔ تصوف کشمیر کی مٹی کی خوشبو ہے۔ کشمیر کے صوفیوں اور خصوصاً صوفی شعراء نے تصوف کی جمالیت اور اس کی رومانیت میں وسعت اور گہرائی پیدا کی ہے۔ حضرت شیخ نور الدین نورانی ؒ اور للہ عارفہ دونوں نے خالقِ کائنات، اس کے حسن و جمال، انسان اور خالق کے خوبصورت باطنی رشتے اور انسان دوستی کو اہمیت دی ہے۔ کشمیر کی ان بزرگ ہستیوں نے تصوف میں وسیع النظری اور قلب کی وسعت کی قدر و قیمت کا احساس بالیدہ کیا۔ قوتِ تصوف کو برداشت کو ایک بڑی توانائی جانا۔
کشمیر کی سرزمین پر ہندوستانی(برہمنیت، بدھ مت، شیوازم وغیرہ)اور اسلامی تمدن کی بڑی خوبصورت آمیزش ہوئی ہے۔ کشمیر کے صوفی رشی کہے گئے ’‘ریشیت‘‘ کشمیر کی ایک بڑی تابناک روایت ہے کہ جس کی پہچان تمدن کے ہر پہلو میں ہوتی ہے۔ ’ریشیت‘ در اصل وہ خوبصورت باطنی اور ذہنی تجربہ ہے جو دو بڑے نظامِ زندگی کی آمیزشوں سے حاصل ہوا ہے۔ وسط ایشیا اور ایران سے جانے کتنے صوفی آئے کشمیر کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں بدھ مت، برہمنیت اور شیوازم کی روایت پہلے سے موجود تھیں۔ صدیوں دو نظامِ فکر کی آمیزش ہوتی رہی۔ للہ عارفہ اور شیخ نور الدین ان ہی خوبصورت آمیزشوں کی تابندہ علامتیں ہیں۔ للہ عارفہ کے اقوال اور نغموں نے مقامی صوفیوں کو متاثر کیا۔ للہ شیو بھگت تھیں۔ وہ شیو ہی میں اللہ اور کائنات کے جلووں کو دیکھتی تھیں۔ ان میں قلندری کا جمال تھا۔ یہ جمال سب سے زیادہ وہاں نمایاں ہوا ہے کہ جہاں وہ استعاروں اور کنایوں میں باتیں کرتی ہیں۔ کھوئی کھوئی سی گم سم سی، وجدان کی دنیا میں جیسے کوئی پُر اسرار سفر جاری ہے۔ للہ احساس جمال کی بہت بڑی شاعرہ ہیں۔ اس نظر سے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں گیا ہے۔ نیز ان کی شدید رومانیت وہاں ظاہر ہوتی ہے جہاں وہ پرواز کرتی ہوئی ملتی ہیں یا گہرائیوں ں میں بے اختیار اترتی نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری دنیا کی بڑی شاعری میں شمار ہونی چاہئے۔ ان کے کلام پر لفظوں کے سفر سے زیادہ آہنگ اور نغمے کا سفر اہمیت رکھتا ہے۔
عبادت اور مراقبے میں رہنے والے نند رشی(حضرت شیخ نور الدین نورانی ؒ )نے رشی کے لفظ میں ایک نئی حسیت پیدا کر دی ہے۔ یہ لفظ ماضی کے جمالیاتی، ما بعد الطبیعاتی تجربوں کو حال کے جمالیاتی صوفیانہ تجربوں سے جوڑتا ہے۔ کشمیری صوفیوں نے جمالِ خالق اور جمالِ انسان دونوں کو بڑی اہمیت دی ہے۔ روح کی روشنی اور تابندگی کا احساس گہرا کیا ہے۔ عقائد کی دیواریں توڑی ہیں اور انسان اور انسان کو ایک دوسرے سے قریب کیا ہے۔ ان کو یہی خیال رہتا ہے کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ سب ایک ہی خاندان سے ہیں۔ اللہ سب کو عزیز رکھتا ہے۔ یہ صوفی اور رشی کٹرپن سے بہت دور ہیں۔ انسانی جذبات کے قدر داں ہیں۔ وحدت جمال کا تصور ہی یہی ہے کہ اللہ کی تخلیقات میں وحدت قائم ہے۔ یہ وحدت اسی وقت قائم رہے گی جب انسان اپنی روح کی آواز سنے گا۔ حضرت شیخ معین الدین چشتیؒ نے فرمایا:
اول سخاوتے چوں سخاوت دریا
دوم شفقتے چوں شفقت کتاب
سیوم تواضع چوں تواضع زمین ‘‘
بہتے دریا کی مانند سخاوت، پھر سورج کی طرح شفقت اور محبت، اور پھر زمین کی طرح مہمان نوازی!کشمیر کے رشیوں اور صوفیوں اور کشمیر کے شعراء نے اس سچائی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے۔ حضرت شیخ نور الدین کے بعدسوچھ کرال، رحیم صاحب، نیامہ صاحب، شاہ قلندر، رحمان ڈار، شمس فقیر، وہاب کھار، اسد میر، احمد پٹہ داری، وازہ محمود اور صمد میر وغیرہ کشمیر کی ریشیت کے جواہر اور صوفی ازم کے جمال کی سچی نمائندگی کرتے ہیں۔
ہندوستان کے علاقا ئی ادب میں تصوف کے جمال کا مطالعہ زندگی کی انگنت خوبصورت سچائیوں کا مطالعہ ہے !
٭٭٭
حرفِ آخر
ادبی محاذ کے اس شمارے کو شکیل الرحمٰن نمبر کی صورت میں پیش کرتے ہوئے دلی مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ عصر حاضر کی ادبی شخصیتوں میں انہیں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ خصوصاً جمالیات کی تفہیم میں موصوف نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت ادب کے کئی خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ شعر و ادب، تنقید و تحقیق اور فکشن کے باب میں ان کی ظفر یابیوں کا ا یک طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ان کا اصل نام تو شکیل الرحمٰن ہے لیکن فن اور شخصیت کے اعتبار سے وہ دیگر متعدد ناموں سے بھی یاد کئے جاتے ہیں۔ بچوں کے لئے بابا سائیں، اہل حیدر آباد کے لئے بابائے جمالیات، ہم اور آپ جیسے قارئین کے لئے پیر جمالیات، متھلا یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے اتہاس رچیتا اور متھلا کے دانشوروں کے لئے سیکولر رحمٰن کہلانے والی یہ شخصیت بہت سارے اوصاف سے متصف ہے۔ نام سے متعلق یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ جس کے زیادہ نام ہوتے ہیں اس کا مرتبہ بھی اتنا ہی بلند ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے ۹۹؍ نام ہیں۔ اسی طرح ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے بھی ۹۹؍ نام ہیں اور مدینہ منورہ جو کہ ہماری نظروں میں مقدس ترین شہر ہے اس کے بھی ۹۵؍ نام ہیں۔ شکیل الرحمٰن صاحب کو جو نام دئے گئے ہیں ظاہر ہے کہ یہ نام ان کی بیش قیمت ادبی خدمت کے اعتراف میں ہیں۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ آپ بطور شخص اور فنکار ادب کے اعلیٰ ترین مقام پر متمکن ہیں اور اردو ادب میں ایک لیجینڈ کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا کیونکہ ’’حرف آخر‘‘ تک آتے آتے آپ موصوف کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہوں گے۔ آپ کی گراں قدر آرا کا انتظار شکیل الرحمٰن صاحب کو بھی رہے گا اور ہمیں بھی۔
اس خاص نمبر کے ساتھ ادبی محاذ کا ضمیمہ بھی الگ سے شائع کیا جا رہا ہے تاکہ ہمارے قارئین کو دیگر قلمکاروں کی تخلیقات کی کمی کا احساس نہ ہو۔ یہ ضمیمہ ہمارے مستقل خریداروں کو مفت پیش کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دوں کہ ادبی محاذ نے آٹھ سال مکمل کر لئے ہیں اور اس شمارے کے ساتھ نویں سال میں قدم رکھ رہا ہے۔ رسالے کے اس ارتقائی سفر کے پسِ پشت ہمارے قارئین اور محبانِ اردو کا تعاون شامل ہے جو ابتدا سے ہر ممکنہ طور پر حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ دامے درمے اور سخنے نوازتے آ رہے ہیں۔ چنانچہ اس کامیابی کا سہرا ان ہی بہی خواہوں کے سر جاتا ہے۔ میں ان سبھی حضرات کا شکر گزار ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ کا تعاون مجھے ملتا رہے گا۔
پرانا سال اپنی قہر سامانیاں دکھا کر جا چکا ہے۔ خدا کرے یہ نیا سال ہم سبھوں کے لئے امن و امان اور خوش حالی کا ضامن ہو۔ ادبی محاذ کے جملہ قارئین اور خیر خواہوں کی خدمت میں نئے سال کی مبارکباد پیش ہے۔ ادبی محاذ کے اگلے شمارے میں جنوب کے ایک معتبر شاعر و ادیب نثار احمد کلیم پر خصوصی گوشے کا انتظار کریں۔
سعید رحمانی
٭٭٭
پیرِ جمالیات شکیل الرحمٰن ایک نظر میں
محمد شکیل الرحمٰن عرف بابا سائیں کی پیدائش ۱۸؍فروری ۱۹۳۱ ء کو صوبۂ بہار کے ایک شہر موتی ہاری میں ہوئی اور پٹنہ یونیورسٹی سے انہوں نے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل۔ سب سے پہلے ڈگری کالج بھدرک (اڑیسہ)میں لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ بعد ازاں ان کا تقرر سری پرتاپ کالج سری نگر میں ہو گیا۔ بہت جلد وہ شعبۂ اردو جموں و کشمیر یونیور سٹی، سری نگر آ گئے جہاں سے ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ یہاں وہ لکچرر، ریڈر اور پروفیسر کے علاوہ صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعد میں وہ اسی یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف اورینٹل اسٹڈیز کے یکے بعد دیگرے ڈین بنائے گئے۔ یہی نہیں اس یونیورسٹی کے سنٹر آف سنٹرل ایشین اسٹڈیز کے قائم مقام ڈائر یکٹر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ پروفیسر شکیل الرحمٰن کی قابلیت اور صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہندوستان کی تین یونیورسٹیوں (بہار یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی اور میتھلا یونیورسٹی)کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ تعلیمی میدان کے علاوہ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے۔ اس ضمن میں وہ ممبر آف لوک سبھا، مرکزی وزیر برائے صحت عامہ وخاندانی بہبود (حکومت ہند)اور دیگر اہم سیاسی عہدوں پر فائز رہے۔
ٍ مذکورہ بالا تمام مصروفیتوں کے باوجود پروفیسر شکیل الرحمٰن نے اردو ادب کی جو گراں قدر خدمات انجام دیں، وہ ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے اردو کو چالیس سے زائد ا ہم کتابیں عطا کیں، متعدد کتابوں کو ترتیب دیا ا ور سو سے زائد اہم مضامین تحریر کئے۔ پروفیسر شکیل الرحمٰن کو تخلیقی نثر سے بھی کافی دلچسپی رہی ہے۔ انہوں نے متعدد ڈرامے، ناول، سفرنامے اور دیگر تخلیقات پیش کی ہیں۔ اسی طرح دیگر بہت سی تحریریں ہیں جن میں پروفیسر شکیل الرحمٰن کی صلاحیت اور قابلیت اپنا جلوہ بکھیرتی نظر آتی ہے۔ خاص طور سے جمالیات کے موضوع پر انہوں نے جس دیدہ ریزی کے ساتھ قلم اٹھایا اور جس دلجمعی کے ساتھ جمالیاتی سرچشموں کو انہوں نے کھنگالا، وہ قابل ستائش ہے۔
جمالیات انگریزی کے Aestheticsکا اردو ترجمہ ہے یونانی لفظ Aisthetikosسے مشتق ہے۔ جمالیات کو اٹھارویں صدی عیسوی میں جرمن مفکر بام گارٹن نے تجزیۂ جمال کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ جمالیات ان تاثرات، محسوسات، جذبات، کیفیات اور کسی نمونۂ فن سے متعلق خیالات کے اظہار کا، جن کے اندر اور جن کے ذریعے آرٹ حقیقت کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتا ہے، کے اتحاد کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جمالیات کا تعلق تمام صورتوں میں حسن کے مطالعے، فطرت فن کی وضاحت وتشریح اور اس کے نشوونما کے اصولوں سے ہے جس کا تصور بڑا ہمہ گیر اور جو تمام فنون لطیفہ یعنی شعر و ادب، موسیقی ورقص، مصوری، سنگتراشی اور فن تعمیر پر حادی ہوتا ہے۔ در اصل حواس خمسہ کے ذریعے حاصل شدہ شعور جمال یا جمالیاتی تاثر میں مضمر اندرونی مسرت کا مطالعہ کرنا، جمالیات ہے۔ مثلاً اجنتا کی تصویروں، ایلورا کے بتوں اور تاج محل کا محض مشاہدہ اور مطالعہ جمالیات نہیں ہے بلکہ اجنتا، ایلورا اور تاج محل کو دیکھنے سے جو مسرت حاصل ہوتی ہے، اس کا مطالعہ جمالیات کے زمرے میں آتا ہے۔ اردو میں شکیل الرحمٰن پہلے نقاد ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ شعرو ادب بلکہ موسیقی، مصوری، فن مجسمہ سازی، فن تعمیر اور رقص کی روح میں جو حسن اور جلوہ موجزن ہوتا ہے، اس تک پہنچنے کی کوشش اور اس حوالے سے انہوں نے متعدد تصنیفات پیش کی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شکیل الرحمٰن اپنے ابتدائی ادبی زمانے میں مارکسی تنقیدسے متاثر تھے، فرائڈ ازم، تحلیل نفسی اور ژونگ کے نسلی اجتماعی شعور کی روشنی انہوں نے حاصل کی اور تنقید میں پہلی بار سچی نفسیاتی تنقید کی بنیاد قائم کی لیکن بہت جلد انہوں نے جمالیات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا اور اس حوالے سے انہوں نے نت نئے گوشوں کو اجاگر کیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’فنون، وہ موسیقی ہو یا مصوری، مجسمہ سازی ہو یا فن تعمیر، رقص ہو یا ادب، ان کی روح میں جو حسن و جلوہ ہے ان کے لئے بڑی گہرائیوں میں اترنے کی ضرورت ہے۔ وہ سائنس یا نفسیات ہو یا مارکسزم یا کوئی بھی علم، سبھوں سے روشنی ملتی ہے۔ ایک ناقد کو تمام علوم سے فائدہ اٹھانا اور دوسرے علوم کو نظر انداز کر دینا مناسب نہیں ہے۔ ادب خوبصورت اور خوبصورت ترین تجربوں کی دین ہے، اسے صرف ایک علم کی روشنی میں دیکھنا غلط ہو گا ا س لئے کہ جمالیاتی تجربوں کے تقاضے اور بھی بہت کچھ ہوتے ہیں، ادب اور سماج کا رشتہ پختہ اور مستحکم ہے لیکن صرف سماجی و سیاسی خیالات اور نظریات کی روشنی میں ادب کو پرکھنے سے اس کی عظمت کی پہچان نہیں ہو سکتی۔ ]ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ایک گفتگو، مشمولہ انشا۔ شکیل الرحمٰن نمبر(کولکاتا)جلد:۲۵؍شمارہ ۸۔ ۷ (جولائی اگست 2010)[یہی وجہ ہے کہ شکیل الرحمٰن نے نہ صرف یہ کہ کلاسیکی بلکہ معاصر ادب کے قلمکاروں کی تحریروں سے بھی جمالیاتی حسیت کو نمایاں کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے بیک وقت شعر و شاعری اور نثر نگاری دونوں میں موجود جمالیاتی حسیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ فارسی کے شعرا مولانا رومی، امیر خسرواور حافظ شیرازی کی شاعری ہی میں جمالیات کا احاطہ نہیں کیا بلکہ تصوف کی جمالیات اور اردو کے شاعروں میں میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ اقبال، فیض، فراق، اختر الایمان اور دوسرے شاعروں کی شعری حسیت میں محفوظ جمالیاتی سرچشموں کی نشاندہی کی۔ علاوہ ازیں اردو کے نثرنگاروں میں پریم چند، سعادت حسن منٹو، ابو الکلام آزاد، احمد ندیم قاسمی اور مجتبیٰ حسین کے ساتھ ساتھ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا کی جمالیاتی دنیا کی نشاندہی کی۔ اس ضمن میں ان کی درج ذیل کتابیں بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں :
۱۔ ہندوستانی جمالیات(تین جلدیں )
۲۔ ہندوستان کا نظام جمال:بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک(تین جلدیں )
۳۔ امیر خسرو کی جمالیات
۴۔ تصوف کی جمالیات
۵۔ اساطیر کی جمالیات
۶۔ مولانا رومی کی جمالیات
۷۔ جمالیات حافظ شیرازی
۸۔ نظیر اکبر آبادی کی جمالیات
۹۔ کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات
۱۰۔ کبیر کی جمالیات
۱۱۔ محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات
۱۲۔ میر شناسی
۱۳۔ غالب کی جمالیات
۱۴۔ مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات
۱۵۔ رقص بتان آذری
۱۶۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا کی جمالیات
۱۷۔ پریم چند کے افسانوں کی جمالیات
۱۸۔ سعادت حسن منٹو:المیہ کی جمالیات
۱۹۔ ابو الکلام آزاد
۲۰۔ احمد ندیم قاسمی:ایک لی جینڈ
۲۱۔ محمد اقبال کی جمالیات
۲۲۔ فراق کی جمالیات
۲۳ فیض کی جمالیات
۲۴۔ اختر الایمان:جمالیاتی لی جینڈ
۲۵۔ مجتبیٰ حسین کا فن:جمالیاتی مظاہرہ
جمالیات اور جمالیاتی نقطۂ نظر سے اردو فارسی شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات کے جائزے پر مشتمل پروفیسر شکیل الرحمٰن کی مذکورہ بالا کتابوں نے حقیقت یہ ہے کہ اردو ناقدین کو جمالیاتی نقطۂ نظر سے شعری اور نثری تخلیقات کے جائزے کے لئے ایک نئی روشنی عطا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو دنیا انہیں ’بابائے جمالیات‘ کے نام سے جانتی ہے۔
جمالیات کے حوالے سے شکیل الرحمٰن کے مذکورہ بالا کارناموں کے پیش نظر اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ کیوں نہ ان کے جمالیاتی کارناموں کو نئی نسل تک پہنچائی جائے۔ اسی کے پیش نظر کلیات شکیل الرحمٰن (جمالیاتی تنقید) پر کام کرنے کے لئے 2010میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی سے درخواست کی گئی جسے اصولی طور پر قبول کر لیا گیا۔ اب یہ کلیات اپنے آخری مرحلے میں ہے اور عنقریب قومی کونسل اس کی حسب ذیل پانچوں جلدوں کو شائع کرے گی۔
جلد اول
جمالیات اور ہندوستانی جمالیات
٭ہندوستانی جمالیات(جلد اول)
٭ہندوستانی جمالیات(جلد دوم)
٭ہندوستانی جمالیات (جلد سوم)
٭فن مصوری کی جمالیات
جلد دوم
جمالیات غالب
٭غالب کی جمالیات
٭مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات
٭رقص بتان آذری
جلد سوم
کلاسیکی ادب اور جمالیات
٭اساطیر کی جمالیات
٭مولانا رومی کی جمالیات
٭جمالیات حافظ شیرازی
٭امیر خسرو کی جمالیات
٭کبیر کی جمالیات
٭محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات
٭نظیر اکبر آبادی کی جمالیات
٭میر کی جمالیات
٭تصوف کی جمالیات
٭کلاسیکی مثنوی کی جمالیات
٭موسیقی کی جمالیات
٭فن خطاطی کی جمالیات
جلد چہارم
فکشن کی جمالیات
٭داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا کی جمالیات
٭پریم چند کے افسانوں کی جمالیات
٭سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی جمالیات
٭احمد ندیم قاسمی کے افسانون کی جمالیات
جلد پنجم
جدید ادب کی جمالیات
٭اقبال کی جمالیات
٭فراق کی جمالیات
٭فیض احمد فیض کی جمالیات
٭اختر الایمان۔ جمالیاتی لی جینڈ
٭مجتبیٰ حسین کا فن۔ جمالیاتی مظاہرہ
امید ہے کہ قارئین کلیات شکیل الرحمٰن (جمالیاتی تنقید) کی مذکورہ بالا تمام جلدوں سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
٭٭٭
تشکر: ڈاکٹر شکیل الرحمٰن جن کے توسط سے ان پیج فائل کا حصول ہوا
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید