FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اب بس کرو ماں

ارشد نیاز

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

آتشی مخلوق

بات کی ابتدا اُن آتشی میٹورائٹ سے ہوئی تھی جنہیں ڈاکڑ ریچرڈ بی ہوور نے انٹارکٹکا،سائبریا اور الاسکا وغیرہ سے اپنی دس سال کی جدوجہد سے پتہ لگایا تھا۔ ان کی تعداد صرف نو ہی تھی جو ان مختلف مقامات سے پائے گئے تھے اور جن میں زندگی کی علامتیں پائی گئی تھیں۔ان ہی کی بدولت ناسا کے سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ کائنات میں ہم تنہا نہیں ہیں مگر اس کائنات میں زندگی کہاں ہے؟یہ یقین سے بتانا اب بھی مشکل تھا۔یہ ثابت کرنا ماہرینِ فلکیات کے بس میں نہیں تھا۔ان ہی چند باتوں کو لے کر وہ بھی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ہندوستان کے ہمالیہ پہاڑ کے ترائی علاقوں سے اس نے اسی قسم کا ایک عجیب دسواں میٹورائٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔اپنے ریسرچ روم میں اُس زندگی کا وہ بغور مطالعہ کر رہا تھا۔اُس کی جسامت ،اُس کی ساخت سب کچھ اس کے لئے اجنبی تھا۔

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ کائنات میں کہیں آتشی مخلوق کی دنیا آباد ہے جس کی یہ نشاندہی ہے۔‘‘

اُس نے سوچا اور اپنے ریسرچ کرنے کے طریقے کو بدل ڈالا اور اسے حیرت ہوئی واقعی آتشی مخلوق کہیں آباد ہے مگر کہاں؟

وہ پھر سوچ کے ہچکولے کھانے لگا۔

میٹورائٹ میں جامد زندگی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے وہ کوششوں میں جٹ گیا۔

عام آگ میں اُسے زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے،اُس کے لئے جس توانائی کی ضرورت ہو گی وہ ایٹمی توانائی کے برابر ہونی چاہئے۔لہٰذا اُس نے اپنے لیباریٹری روم میں ہی nano atomic plantبیٹھانے کا ارادہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے ارادے میں کامیاب بھی ہو گیا۔یہ ریسرچ اُس کے لئے بہت ہی مشکل تھا۔ بلاواسطہ اُس نمونے کو atomic plant میں ڈالنے سے اُس کے جل جانے کا خطرہ تھا۔اس لئے اُس نے ایک مصنوعی Ice Fieldتیار کیااوراس نمونے پر اپنا تجربہ جاری رکھا۔پھر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُس نے دیکھا کہ وہ نمونہ ایک کثیف روشنی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔آخرش وہ ایک کثیف روشنی کا ہیولا بن گیا۔ہیولا بالکل انسانوں سے مشابہت رکھتا تھا جو آہستہ آہستہ جسمانی شکل اختیار کرتا گیا۔اُس کی رگوں میں نامعلوم سے روشنی دوڑ رہی تھی۔اُس نے احساس کیا جیسے وہ ہیولا اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش بھی کررہاہو مگر اُس کے منھ سے روشنی کی لہریں ہی خارج ہورہی تھیں۔مسئلہ اُس کے سامنے یہ تھا کہ وہ خارج ہوتی ہوئی روشنی کی لہروں کو آواز میں کیسے تبدیل کرے۔اس کے لئے اُسے ناسا کے سائنسدانوں سے اُسے رجوع کرنا پڑا اور یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔وہ اب اُس سے باتیں کرسکتا تھا۔اُس نے پوچھا۔

’’تم کون ہو؟تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘

ہیولا نے جواب دیا۔

’’میں آتشی مخلوق ہوں۔ہزاروں ہزار سال قبل ہماری بستیاں سورج کے باطنی حصے میں آبادتھیں۔مگر ایک طوفان نے ہماری بستیوں کو اُجاڑ دیا اور ہم سب اُس طوفان کا نوالہ بن گئے۔کہتے ہیں سورج پگھل کر ٹوٹ گیا تھا اور اُسی ٹکڑے کے ساتھ ہم سب بھی بہہ گئے تھے۔‘‘

’’کیا یہ سچ ہے کہ سورج کے باطنی حصے میں زندگی آباد تھی یا تم مجھے بے وقوف بنا رہے ہو؟‘‘

’’نہیں یہ بالکل ہی سچ ہے اور ہوسکتا ہے کہ آج بھی ہماری نسلیں وہاں آباد ہوں۔‘‘

’’کیا تم وہاں جانا چاہو گے؟‘‘

’’کائنات میں ہم آزاد مخلوق ہیں۔ہم کہیں بھی آزادانہ سفر کرسکتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ اس زمین پر اس وقت بھی آتشی مخلوق موجود ہوں مگر تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ہو۔‘‘

’’کیا تم مجھے اپنی دنیا کا سفر کراسکتے ہو؟‘‘

’’میں ضرور کراسکتا ہوں۔اگر میں تمہاری لیباریٹری سے آزاد ہوا تو!‘‘

مگر وہ اُسے آزاد کرانے کے موڈ میں نہیں تھا۔اُس نے ناسا میں اپنے تجربے کی تفصیل بتائی مگر ناسا والے اُس کی ایجاد کو پاگل پن قرار دے کر ٹھکرا دئے۔ اُن کے مطابق زمین پر یہ تجربہ ناممکن ہے اور آتشی مخلوق کی کہانی بالکل ہی فرضی ہے بھلا سورج جو ایک جلتا ہو آگ کا سمندر ہے اُس میں زندگی کا تصور کرنا پاگل پن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ناسا کے ذریعہ رد کئے جانے سے وہ بہت اداس ہوا مگر ہمت نہیں ہارا بلکہ اپنے اخراجات پر وہاں کے ایک سائنسداں کو اپنے یہاں بلا ہی لیا۔یہ وہی سائنسداں تھا جس نے کہا تھا کہ کائنات میں زندگی کسی دوسری شکل میں موجود ہو سکتی ہے۔ اُس کے آتے ہی وہ بہت خوش ہوا۔اُسے اپنے پروجیکٹ سے متعلق تفصیلات صرف سنایا ہی نہیں بلکہ اسے دکھایا بھی۔ناسا کے اس سائنسداں کو بہت حیرت ہوئی۔

’’آپ ہندوستانی بھی کمال کے ہیں ،اس لیباریڑری میں Nano Atomic Plantآسانی سے بیٹھا لینااوروں کے لئے بالکل ہی ناممکن ہے۔کم ازکم یہ ایجادتوپوری دنیا میں برقی انقلاب پیدا کردے گی۔اب کوئی بھی گاؤں تاریک نظر نہیں آئے گا صرف یہی نہیں اس ایندھن کو اب آسانی سے خلائی شٹل اورہوائی جہازوں، عام گاڑیوں وغیرہ میں استعمال کیا جائے گا۔‘‘

وہ اپنی تعریف سن کر بہت ہی خوش ہورہا تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ واقعی اس نے بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔جب اُس نے اُس سائنس داں کو آتشی مخلوق سے روبرو کیا تو وہ اور بھی حیرت میں ڈوب گیا۔

’’کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آپنے ناممکن کو ممکن بنادیا ہے۔آتشی مخلوق اب سوچ ہی نہیں ہے بلکہ ایک سچ ہے جسے پوری دنیا کو اب تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔میں اس سے کلام کرنا چاہوں گا۔‘‘

’’بے شک آپ بات کرسکتے ہیں اور ان سے متعلق اپنے معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔‘‘

اُس نے پوچھا۔

’’تم آتشی مخلوق ہو اس لئے کہ تم آگ ہی میں پیدا ہوتے ہو،تمہاری عمر ہزاروں ہزار سال کی ہے کیا تم بتا سکتے ہو کہ تمہاری دنیا کے ساتھ ہماری دنیا کی بھی تشکیل ہوئی تھی۔‘‘

’’ہم آج بھی آزاد امخلوق ہیں۔تمہاری دنیا ایک وقت میں ویران تھی۔ نہ یہاں زندگی تھی اور نہ ہی زندگی کی علامتیں۔‘‘

’’پھر یہاں زندگی کیسے شروع ہوئی؟‘‘

’’یہ بتانا بہت ہی مشکل ہے میں اُس وقت ابھی پختگی کے مرحلے سے گزر رہا تھا سنا ہے کہ اچانک یہاں سب کچھ ہو گیا۔‘‘

یہ سن کر وہ ہنسا اور سوچا۔

’’کیا ڈارون کا فلسفہ ارتقا ایک نظریۂ محض ہے۔یہ ممکن نہیں کہ سب کچھ اچانک ہو جائے۔شاید اسے بھی کچھ نہیں معلوم؟‘‘

اور پھر اُس نے پوچھا۔

’’کیا آج بھی تمہاری نسلیں آبادہیں؟‘‘

’’بے شک !ہماری نسلیں آباد ہوں گی۔اُن کا وجود آج بھی سورج کے کسی نہ کسی حصّے میں ضرور ہو گا۔تم مجھے آزاد کردوتو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ اس وقت اس دنیا میں اُن کی کتنی نسلیں ابھی محفوظ ہیں۔‘‘

’’ہم تمہیں کس طرح آزاد کرسکتے ہیں؟‘‘

’’بہت آسان ہے ،تم اس تجربے گاہ سے گزرتے ہوئے کرنٹ کو منقطع کردو۔میں آزاد ہو جاؤں گا۔‘‘

’’مگر ابھی نہیں!‘‘

یہ کہتے ہوئے ناسا کے اس سائنسداں نے اُسے یقین دلایا کہ وہ اس کے تجربے کو کامیابی دلانے مین ہر ممکن کوشش کرے گا اور لوگوں کو یقین دلائے گا کہ یہ سچ ہے۔‘‘

پھر وہ روانہ ہو گیا۔ جس جہازسے وہ سفر کر رہا تھا اچانک راستے ہی میں حادثے کا شکار ہو گیا اور وہ مارا گیا۔اُس کی امیدوں کے چراغ گل ہو گئے مگر خواب پلتے رہے۔

’’وہ اپنے مشن میں کامیابی حاصل ضرور کرے گا۔‘‘

اسی یقین کے سہارے وہ دیگر آتشی مخلوق سے رابطہ کرنے کی جدوجہد میں جٹ گیا۔پھر یوں ہوا اس کے لیباریڑری میں عجیب و غریب نامعلوم سی چیزوں کا آنا جانا شروع ہو گیا گویا انجانی طاقتیں اس آتشی مخلوق کی آزادی کے لئے کوشاں ہوں۔اس نے فوراً اُس سے رجوع کیا۔

’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

’’میں نے تم سے کہا تھا کہ اس دنیا میں بھی ہماری نسلوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے اور یہ طئے ہوچکا ہے کہ آج بھی سورج میں ہماری آبادیاں محفوظ ہیں۔اس لئے اب تم مجھے آزاد کردو ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔!‘‘

’’جب تک تم میرے پاس ہو کوئی مجھے ہاتھ بھی لگا نہیں سکتا ہے۔ یاد کرو کہ میں نے ہی تمہیں از سرِ نو زندگی بخشی ہے اورمیں انسان ہوں کسی چیز کو بنا بھی سکتا ہوں اور اسے ضرورت پڑنے پر تباہ بھی کرسکتا ہوں۔‘‘

’’تم مجھے دھمکی دے رہے ہو!‘‘

’’جو بھی تم سمجھ لو۔‘‘

وہ آتشی مخلوق سے بات کرکے خوش نہیں تھا۔چاہتا تھا کہ وہ اس قصّے کو ابھی ہی تمام کردے مگر اس کی خواہش تھی کہ وہ پوری دنیا کو یہ باور کراسکے کہ اس کائنات میں ایک ایسی مخلوق بھی آباد ہے جس کی پیدائش آگ سے ہوتی ہے۔جو انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرتے ہیں اور کائنات میں آزادانہ سفر بھی کرتے ہیں۔انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُن سے باتیں بھی کی جاسکتی ہیں اور اُنہیں انسانی کام میں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

اس مقصد کے لئے وہ حد سے بھی گذرنے کو تیار تھا۔

’’اب اُسے کیا کرنا چاہئے؟‘‘

ایک گو مگو کی کیفیت بھی اُس پر طاری تھی۔وہ اس انکشاف کو اُس وقت تک عام کرنا بھی نہیں چاہتا تھا جب تک کہ وہ خود مطمئن نہیں ہو جاتا۔ ورنہ یہ تجربہ سچ بن کر پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل جائے گا اور وہ سکون سے اپنا تجربہ جاری نہیں رکھ سکے گا۔اُسے یقین تھا کہ اُس کی محنت،اُس کی کاوشیں اور اُس کی دولت جو اس پروجیکٹ پر خرچ ہورہی ہیں اُسے کامیابی سے ہمکنار ضرور کریں گی۔اب اُس کے اندر سورج میں بسنے والی مخلوق کی بستیوں کو دیکھنے کا شوق جاگا۔اُس نے آتشی مخلوق سے پھر بات چیت کی۔

’’کیا تم مجھے سورج میں بسنے والی بستیوں کا دیدار کراسکتے ہو۔‘‘

یہ سن کر وہ ہنس پڑا۔

’’خاک سے بنا ہوا انسان سورج کی بستیوں کا نظارہ کرے گا۔کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تم جل کر پھر خاک بن جاؤ گے۔تمہاری دنیا میں ایسی کوئی تیکنیک ایجاد نہیں ہوئی ہے جو سورج کے اندر بہ آسانی سما سکے۔تم محض خواب دیکھ سکتے ہو،حقیقت کا سامنا نہیں کرسکتے۔‘‘

’’تمہاری دنیا میں کوئی بھی تو طریقہ ہو گا جس سے میں وہاں کا سفر کرسکوں اور اس دنیا کو بتا سکوں کہ یہ کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔‘‘

’’تمہیں معلوم ہے ہم روشنی کی رفتا رسے سفر کرتے ہیں جو تمہارے لئے ناممکن ہے۔ہاں میں تمہیں وہ سب کچھ دکھا سکتا ہوں جس کے تم متمنی ہو۔پہلے تم مجھے آزاد کرو۔میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا اور تمہاری مدد کروں گا۔‘‘

وہ کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اُس نے وہی کیا جو آتشی انسان چاہتا تھا۔

آزادی کتنی پیاری ہوتی ہے۔ وہ آزاد ہوتے ہی مسکرایا اور اُس سے کہا۔

’’تمہیں معلوم ہے۔ تمہارے خاکی جسم کے ساتھ ایک نوری جسم بھی موجود ہوتی ہے۔وہ جسم جو روشنی کی رفتار سے بھی تیزسفر کرتی ہے مگر اُس پر تم انسانوں کا کوئی بھی اختیار نہیں ہے۔میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور تم اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سورج کی بستیوں کا خواب دیکھتے رہو گے۔آتشی انسانوں کی حرکت سے لطف اندوز ہوتے رہو گے۔‘‘

اُس کی دانائی کی باتیں سن کر وہ حیرت میں ڈوب گیااور سوچا۔

’’انسان نے ترقی کی حدوں کو عبور کرنے کا دعویٰ کرلیا مگر خود کو نہیں سمجھ پایا۔کتنے راز پوشیدہ ہیں اس جسمانی کائنات میں ابھی تک آشکار نہیں ہوپایا۔کیا یہ بھی ایک انکشاف نہیں ہے۔!‘‘

پھر اُس نے پوچھا۔

’’تمہارے اطراف میں آج کل کیا ہو رہا ہے؟کیسی سرگرمی ہلچل مچائی ہوئی ہے؟‘‘

آتشی انسان نے جواب دیا۔

’’جس سرگرمی کے لئے ہلچل مچی ہوئی تھی ،وہ ختم ہو گئی کہ تم نے مجھے آزاد کردیا ورنہ ممکن تھا کہ یہ جگہ آگ میں ڈوب جاتی اور تمہاری کہانی بھی ختم ہو جاتی۔مگر یہ میں تھا جس نے ابھی تک سب کچھ سنبھال رکھا تھا اور تمہیں زندہ رکھنے کے حق میں تھا۔‘‘

یہ سُن کر وہ اور بھی حیرت میں ڈوب گیا۔

’’کیا یہاں سب کچھ اُس کے اختیا رمیں نہیں ہے۔کیا وہ آتشی مخلوق کے شکنجے میں آگیا ہے؟‘‘

عجیب عجیب سوالات اُس کے ذہن میں اُٹھنے لگے تھے۔تجربے کی آنچ میں وہ سلگنے لگا تھا۔وہ اپنی ہی دریافت شدہ دنیا سے ڈرنے لگا تھا۔اُس نے کئی جگہ فون کئے،کئی مقامات پر فیکس کیا ،لیکن ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملا کہ کیا تم جاگتے خواب دیکھ رہے ہو،دوسروں کو کیوں اپنی جادوئی دنیا سے محصور کرنا چاہتے ہو۔کیا یہ بے وقوفی نہیں ہے کہ تم سورج میں زندگی کی تلاش میں ہو؟کیا یہ پاگل پن نہیں ہے کہ ایسی ایک مخلوق تمہاری قید میں ہے؟جاؤ کسی ماہر نفسیات سے اپنے دماغ کا علاج کراؤ۔

اُداسی اور مایوسی کے بادل اُس کے سر پر چھانے لگے۔

اُس نے خود کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیااور سورج کی بستیوں کا نظارہ کرنے کے لئے تن تنہا ہی تیار ہو گیا۔

’’اب اُسے کیاکیا کرنا چاہئے؟‘‘

’’کچھ نہیں!بس ایک خطرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا نورانی جسم کا رشتہ اگر تم سے ٹوٹ گیا تو تم مرسکتے ہویا وہ جسم دوبارہ تمہاری طرف لوٹ کر واپس نہیں آسکتا ہے۔‘‘

’’کچھ بھی ہو،میں چلنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

اور پھرآتشی انسان نورانی جسم کے ساتھ محو سفر ہو گیا۔

وہ گھر میں گہری نیندسویا رہا اور خواب سے لطف اندوز ہوتا رہا۔وہ دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج کے اطراف میں ننھے منے بے شمار میٹورائٹ چکر لگا رہے تھے۔وہ اور اندر کی طرف گیا جہاں آگ جہنم کا نظارہ پیش کررہی تھی۔

’’وہ یہاں تو جل جائے گا۔‘‘

اُس نے سوچا اور آتشی انسان نے کہا۔

’’گھبراؤ نہیں تم نور ہو۔جسے کوئی بھی آگ جلا نہیں سکتی اور کسی بھی سمندر کا پانی بجھا نہیں سکتا۔ یہ مادے کی چوتھی شکل ہے جو لافانی ہے۔‘‘

وہ جہنم نما آگ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اور پھر گہرے اندھیرے میں ڈوب گیا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’ہماری دنیا کو تحفظ دیتا ہوا لائف پروٹیکٹر ہے،یہ کاربن سے بنا ہے۔‘‘

وہ اس سے بھی گذر گیا مگر اب سردی اسے چھونے لگی۔

’’اب یہ کون سا مقام ہے؟‘‘

’’یہی تو ہے جس کی وجہہ سے آتشی مخلوق کائنات میں زندہ ہیں اور جس کی وجہ سے سورج کی نکلتی ہوئی شعاعیں اندر داخل نہیں ہوپاتی ہیں اور ہم اپنی بستیوں میں آسانی سے رہتے ہیں جیسے تم انسان اپنی دنیا میں رہتے ہو۔‘‘

اب وہ سورج کے داخلی کرّہ میں اُتر رہا تھا۔

یہاں عجیب منظر تھا۔ روشنی کی دیوار ،روشنی کی چھتیں اور روشنی سے بنی جگہ بہ جگہ انوکھی چیزیں اسے حیران کررہی تھیں۔

کیا روشنی قید کرنے کی چیز ہے؟

اُس نے صرف سوچا اور اُسے جواب مل گیا۔

’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ روشنی میں طاقت ہوتی ہے اور ہر طاقت ور چیزکو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یہاں روشنی ٹھوس شکل میں پائی جاتی،یہاں روشنی رقیق شکل میں بھی موجود ہے جو کائنات میں کہیں بھی پائی نہیں جاتی ہے۔‘‘

وہ اب روشنی کے شہر میں اُتر چکا تھا۔آتشی مخلوق سے مل رہا تھا۔

یہ مخلوق بھی جنس لطیف اور جنس کرخت پر مشتمل تھی یہاں بھی سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا کہ انسانوں کی دنیا میں ہوتا رہا ہے۔وہ یہاں کی رعنائیوں میں کھو گیا۔

اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین پر ایک زوردار زلزلہ آیا۔

پورا شہر تہس نہس ہو گیا۔وہ جہاں سویا ہواتھا منوں ٹن مٹی کے نیچے دب گیا۔اُس کی روح اٹکی ہوئی تھی۔نورانی جسم تیزی سے اسکی طرف لپکا اورسورج کی بستیوں کے رازکے ساتھ ساتھ آتشی مخلوق کی کہانی بھی زلزلے کی نذر ہو گئی۔!!!

٭٭٭

جنگی قبرستان

وہ ________

اس خاموش نگری میں آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا جہاں کوئی اجنبی طاقت اسے کھینچ لائی تھی۔

وہ بڑھ رہا تھا۔

خاموشی میں ڈوبی کرب انگیز خواہشیں کروٹیں لے رہی تھیں اور اس کے جسم میں سیمابی لہریں یکے بعد دیگرے دوڑ رہی تھیں اسے محسوس ہواجیسے اس کا اپنا بیٹا اس سکوت انگیز فضا میں گم ہو گیا ہو اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آنسو کا ایک قطرہ اس مقبرے پر گر کر جذب ہو گیا جس کے کتبے پر یہ درج تھا ________

ڈبلیو۔ اے۔ انگرام

۲۵؍ نومبر ۱۹۴۶

عمر ۲۱؍برس

’’خدا کا وعدہ ہے کہ جب آنکھوں کے آنسو خشک ہو جائیں گے تو ہم لوگ پھر اکٹھے ہوں گے‘‘۔

یہ پڑھتے ہی اسے احساس ہوا جیسے یہ بندوق دھاری فوجی اپنی وردی میں قبر سے باہر نکل آیا ہو اور اپنا لہو لہان چہرہ لئے اس کی حالت پر مسکرارہاہو۔

’’بند کرو ، یہ مسکراہٹ‘‘۔

دفعتاً اس کی آواز گونج اٹھی اوریوں لگا جیسے اس جنگی قبرستان کے تمام بہادر اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل آئے ہوں۔

یہ دیکھ کراس نے اپنی آنکھوں کو مسلا ، یقین دلانا چاہا کہ اس وقت جو کچھ بھی اس کے روبرو ہے ، محض ایک دھوکا ہے مگر بیکار، حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ________

یہ دوسری عالم گیر جنگ کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف جنگ لڑ کر خود کو امر بنا لیا۔ہاں ! انہیں دیکھو ، ایک ایک چہرے کو پہچانو ، یہ کھلی کتابیں ہیں۔ انہیں پڑھو ، تب تمہیں معلوم ہو گا کہ جس زندگی کے ایک پریشان کن لمحے سے انسان گھبرا کر موت کی دعا کرتا ہے اس کی اہمیت کیا ہے۔ اب اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ لینے لگیں ________

ایئر فورس کے جوان ایک طرف سینہ تانے کھڑے تھے تو دوسری طرف بحری فوج کے کچھ جوان اپنی المناک داستان سنانے کے لئے حسرت مآب نگاہوں سے اسے ایک ٹک دیکھ رہے تھے جب کہ بری فوج کے جوانوں سے الگ ہٹ کر بندوق دھاری ڈبلیو۔ اے۔ انگرام اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔

’’تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘

اچانک اس نے پوچھا اور اس کے قدم اس کی جانب اٹھ گئے ، قریب پہنچا تو پہلے وہ مسکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

’’کیوں انگرام؟ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ! ‘‘

اس نے پوچھا ہی تھا کہ انگرام کی آنکھوں میں تیرتے آنسو جھرنے کی طرح گرنے لگے۔ اسنے اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ________

’’میں اپنی ماں سے اپنی موت سے قبل نہیں مل سکامگر اس کی یادوں کے سہارے ہم۔۔۔۔‘‘

کیا اس وجہ سے کہ وہ درختوں کے پھلوں کو کھائے، کھیتوں سے نکلے ہوئے اناجوں کو اُبال کر اپنا پیٹ بھرے یا پھر اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پہ ظلم ڈھائے اور اپنے آپ کو آقا کہلوائے یا اپنی مخالف جنس کے پہلو میں پڑا رہے۔

اگر پیدا ہونے کا مقصد صرف یہی ہے تو پھر جانوروں میں اورانسانوں میں کیا فرق ہے؟________

یہی کہ انسان کھانے کے لئے ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے اور جانور اپنے منھ کا۔

یہ یقیناً ہمارے پیدا ہونے کا مقصد نہیں ہے۔‘‘

’’پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

ارگاتم بھی یہاں آ کر اٹک سا گیا۔ اس کی سوچ کا پرندہ پھڑ پھڑانے لگا۔ زندگی اپنی معنوی حقیقت اجاگر کرنے سے قاصر ہو گئی اور خود اس کی اپنی زندگی بے مقصد نظر آنے لگی۔

اس مقام پر پہنچ کر وہ تلملا سا گیا۔

اسے خبر تو تھی کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی طاقت ہے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ زندگی کو سکون و راحت بخشنے والا نظام یعنی روح بھی موجود ہوتی ہے۔انگنت سی نامعلوم چیزیں معلوم ہونے کے لئے خود اس کی ذات میں تڑپ رہی تھیں۔

اور وہ بے چین ہو رہا تھا۔

اسی دوران اس کی زندگی میں ایک خوبصورت سی لڑکی نیرسانام کی منڈلانے لگی جو اسThinkerکو ایک نئی روشنی سے آشنا کرنا چاہتی تھی مگر خیالات میں ڈوبے ہوئے لوگOpposite Sex میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔

ارگاتم بھی اسی مرحلے سے گزرنے لگا مگر کب تک ________

حسن کے آگے زمانہ سر جھکاتا ہے ،اسے بھی جھکانا ہی پڑا۔

عشق کی لذت نے اس پر زندگی کے بہت سے راز افشا کر دیئے۔

اس کے نظریات بدلنے لگے اور تجربات میں اضافہ ہونے لگا۔

یوں زندگی اس کی کسوٹی پر پرکھی جانے لگی۔

وقت گزرنے لگا اور اس کے ہم خیالوں میں اضافہ بھی ہوتا رہا اور نیرسا اسے زندگی کا جام پلاتی رہی۔

پھر ایک دن بڑے وثوق کے ساتھ اسی چبوترے پر حاضر ہوا۔

وہاں بڑی گہما گہمی تھی۔

وہ مجمع کے سامنے مسکراتے ہوئے اپنے تجربات بیان کرنے لگا۔

’’زندگی صرف محبت کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔جس انسان نے ایک دوسرے انسان سے محبت کی دراصل اس نے زندگی گزار لی۔ جس نے نفرت و عداوت کی بھٹی کو اپنی الفت کی مینہ سے سرد کیا،اس نے زندگی کو حاصل کیا۔جس نے دوسروں کے دکھوں اور غموں میں آ کر خوشی حاصل کی،وہ زندگی کی لذت سے آشنا ہوا۔ حقیقتاً محبت ہی وہ عظیم شئے ہے جس سے ہر جنگ جیتی جاسکتی ہے۔‘‘

وہ ہنوز تقریر کر رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک طوفان اٹھا________

دھول اڑاتا ہوا، گھوڑوں کے ٹاپوں تلے زمین کو رو ندتا ہوا۔

ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔

ارگاتم اور اس کی جماعت اس افراتفری کا شکار ہو گئی۔

چیخیں بلند ہونے لگیں۔ تلوار ،نیزے اور طپنچے قہر برسانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھو ٹی سی خوبصورت ریاست قبرستان میں بدل گئی کہ فاتح کے سامنے زندگی ایک جنگ ہے جسے وہ ہر قدم پر جیت لینا جانتا ہے،خیر و شر سے بے نیاز________!!!

٭٭٭

اب بس کرو ماں

اُن دنوں کلکتے میں اتھل پتھل تھی ________

آزادی کی تحریک اپنے شباب پر تھی اور مجاہدین آزادی کی حصولیابی کے لئے آخر مرنے مارنے پر اتر آئے تھے جس کی وجہ سے انگریزی حکومت کا تختہ ہلنے لگا تھا۔

سڑکوں اور گلیوں سے نعروں کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔

’’انگریز ہندستان چھوڑو‘‘۔

انہی نعرے بلند کرنے والوں میں گڑیا ہاٹ کا رہنے والا شرون مکھرجی بھی شامل تھا۔ وہ بھی اُن لوگوں کی طرح نیتا جی کے اس فارمولے سے متفق تھا کہ انگریزوں کو بذریعہ طاقت مار بھگایا جائے مگر گاندھی جی کی اہنسا واد نے انہیں مجبور کر رکھا تھا کہ وہ صرف احتجاج کریں ، جلسے و جلوس نکالیں۔ اس نے تحریک میں ایک اہم سرگرم رکن کی حیثیت اختیار کر لی تھی کہ اسے ڈھاکہ جانا پڑا۔ اس کے پِتا جی وہاں سخت بیمار پڑ گئے تھے۔ وہاں بھی آزادی کے متوالے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اسی دوران پاکستان بنائے جانے کی بات اٹھی اور فسادات کا سلسلہ چل پڑا ________

ہندو مسلم جو کل تک ایک ساتھ انگریزوں کے خلاف متحد ہو کر لڑ رہے تھے آج ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگے۔

شرون سہما ہوا تھا۔

وہ کیا کرے ________ کہاں جائے؟

انہی حالات میں اس کے پتا جی بھی سورگ واس ہو گئے۔ وہ بہت گھبرایا مگر پتا جی کے دوست مسلمانوں نے اُسے سہارا دیا۔ وہ ان کے یہاں چھپا رہا۔

ہندستان کا بٹوارہ ہو گیا۔

ہنگامہ آرائی کے بعد آہستہ آہستہ حالات سازگار ہوئے اور اس کے پِتا کے دوستوں کی مدد سے اسے ایک کمپنی میں اچھا عہدہ مل گیا اور پھر وہیں ایک مہذب گھرانے کی لڑکی شیتل دیوی سے اس نے اپنی شادی رچا لی مگر اس پوربی پاکستان میں بھی انہیں مکمل طور پر سکون نہیں مل سکا۔ حالات دن بہ دن بگڑتے جا رہے تھے ________

آمرا بنگالی کی آواز گونجنے لگی تھی۔ بہاری اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی تھی۔

وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔

مگر کہاں جائے ؟________

کیا اپنے دیس ؟____جہاں خونی بازار ابھی تک سرد نہیں ہو پایاتھا۔ کیا پچّھمی پاکستان؟ جہاں بہاری مسلمان بنگالی مسلمانوں سے ہی نفرت کر رہے تھے ! ________

اگر وہ، وہاں جائے گا تو دن دہاڑے ہی وہ لوگ اُسے ذبح کر دیں گے۔ بہتر ہے کہ وہ یہاں سے کسی دوسرے ملک کی طرف نکل جائے ،اپنے ستم سازآقاؤں کے ملک کی طرف_______

اس سلسلے میں اس نے جدوجہد شروع کی، مختلف با اثر ذرائع کا استعمال کیا اور بالآخر شیتل دیوی کے ساتھ لندن پہنچ گیا۔ وہاں بھی ایک کمپنی میں ملازمت مل ہی گئی۔

یہاں زندگی آرام سے کٹ رہی تھی مگر ٹیلی ویژن اور اخباروں کے ذریعہ ہندوستان و پاکستان کی خبریں اُسے مسلسل مل رہی تھیں ________

کلکتے میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔

اسلام آباد بھی جل رہا ہے۔

ڈھاکہ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

ہندو مسلمان ایک دوسرے کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔

’’ہِے بھگوان، رحم کر‘‘__ اخبار پڑھتے پڑھتے وہ چیخنے لگتا ________

’’کیا ہم، اسی آزادی کے لئے لڑ رہے تھے۔ اگر ہاں تو ایسی آزادی پر لعنت ہے‘‘۔

وہ شیتل دیوی سے برجستہ کہتا۔ شیتل دیوی صرف اس کی ہاں میں ہاں ملا کر ہی رہ جاتی کیوں کہ اس نے محسوس کر لیا تھا________

یہ گورے بھی انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔

مگر وہ لوگ کیا کریں۔ زندگی کسی طرح سے گزارنی تھی۔ گزار بھی رہے تھے۔ اس طرح تقریباً دس سالوں بعد عین درگا پوجا کی نومی کے دن ان کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہی انہوں نے درگا رکھ دیا۔ درگا بالکل درگا ماں ہی کی طرح خوبصورت تھی۔ وہاں کے پڑوسیوں نے اُسے کھلونا بنا لیا تھا اور اپنی زبان کے مارے بیچارے انگریزوں نے درگا کو ڈورگا ہی بنا دیا ________

درگا بڑی ہو رہی تھی۔

اور ہندستان و پاکستان دوسری جنگ لڑ رہے تھے۔

درگا اسکول سے کالج جانے والی تھی ________ کہ مُکتی با ہنی فوج نے پوربی پاکستان کو آزاد کرا کے بنگلہ دیش بنا دیا۔

یہ خبر سن کر شرون کمار بہت خوش ہوا مگر درگا اس کی خوشی سے بیگانہ ہی رہی کیونکہ اس کے ذہن و دل میں یہاں کی زمین، یہاں کی فضا اور یہاں کے ماحول کی خوشبو اس قدر رچ بس گئی تھی کہ باقی دنیا اس کے لئے بے معنی ہو گئی تھی۔ ۔۔

شرون اُسے گھنٹوں بیٹھا کر ہندوستان کی کہانیاں سنایاکرتا تھا کہ کس طرح انگریزوں نے ہندستان میں قائم مسلم حکومتوں کے تختے الٹ دئیے اور مسلم حکمراں اپنی لاپرواہی اور عیاشی کی وجہ سے کمزور ہو کر انگریزوں کے غلام بنتے گئے۔

درگا سب کچھ خاموشی سے سنتی اور پھر کچھ سوچ کر سوال کرتی۔

’’ ہندستان تو ہندوؤں کا ملک ہے، پھر مسلمان وہاں حکمراں کیسے بن گئے ؟ ! ‘‘

بیٹی کے سوال پر باپ مسکراتا اور میز پر رکھ ہوئے دو پیپرویٹ اٹھا کر ایک کو رکھتا اور دوسرے سے اُسے دھکا دیتا اور بالکل مفکرانہ انداز میں کہتا۔

” Its the effect of force and motion"

درگا یہ سن کر مسکراتی اور ایک انگلی سے سرکھجلاتی پھر تجسس بھری نگاہوں سے باپ کو دیکھ کر پوچھتی ________

’’پاپا ، کیا واقعی مسلمان طاقتور ہوتے ہیں‘‘۔

’’ ہوتے تھے ، انہوں نے اپنی جانبازی اور ایک اللہ پر بھروسہ کر کے پوری دنیا کو دہلا دیا تھا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کم تعداد میں قیصر و کسریٰ کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا اور جب ہندوستان کا رُخ کیا تو ہمارے یہاں کے راجاؤں کو اپنے دربار کا غلام بنا لیا۔ اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے بے شمار مندروں کو لوٹا ، مسمار کیا اور کچھ کو مسجد میں تبدیل کر دیا‘‘۔

’’کیا ہندوؤں نے احتجاج نہیں کیا؟‘‘۔

’’ کیسے کرتے کہ اُن مندروں میں عیاشی ہوتی تھی ‘‘۔

باپ اتنا ہی کہہ کر خاموش ہو جاتا اور وہ اپنے آپ کوسمجھاتی رہی۔

’’مذہب کچھ نہیں ہے بلکہ ایک حربہ ہے نادان لوگوں پر حکومت کرنے کا۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے اور میں ان بیکار باتوں میں اپنا وقت ضائع بھی نہیں کرنا چاہتی۔ اس سے بہتر ہے کہ آدمی روحانیت کی طرف مائل ہو جائے ‘‘۔

بیٹی کو متفکر دیکھ کر شرون کمارمسکراتا ہوا اس کے گال تھپتھپاتا۔

’’ تمہیں ایک بار ہندستان ضرور جانا چاہئے۔ تمہیں جا کر دیکھنا چاہئے کہ تمہارے آباء و اجداد کا ملک کتنا خوبصورت ہے اور کتنے عجیب و غریب تواریخ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے‘‘۔

بیٹی باپ کے مشورے پر مسکراتی اور پھر اٹھ کر چلی جاتی۔ شرون کمار وہیں بیٹھے دیر تک کچھ سوچتا رہتا۔ اس کے سامنے کلکتے کے مناظر گھومنے لگتے۔ بنگلہ دیش کی سڑکیں ، گلیاں چکر کاٹنے لگتیں اور اسے احساس ہونے لگتا کہ لندن میں آ کر انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ اس کے بچے اپنی سنسکرتی سے دور ہو گئے۔ وہ انہیں اس ملک کا قدر کرنا نہیں سکھا سکے جو دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کا ملک رہا ہے۔ سوچتے سوچتے ندامت محسوس کرنے لگتا مگر یہ سب کچھ وقتی ہوتا، جیسے ہی وہ اپنی مصروفیت میں مشغول ہو جاتا، سب کچھ بھول جاتا اور اس درمیان الاپتا رہتا__

’’بہتر زندگی گزارنے کے لئے مسلسل محنت کی ضرورت پڑتی ہے‘‘۔

وقت یونہی آگے بڑھتا رہا۔ ۔۔

اب درگا اپنی زندگی کے سفرمیں ہم سفر تلاش کر چکی تھی۔ لڑکا نہایت ہی خوبصورت تھا اور Import Exportکا بزنس کرتا تھا۔ شرون کمار اور ان کی پتنی کو بیٹی کے انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں تھا لہٰذا دونوں کی شادی کر دی ________

شادی تو ہو گئی لیکن مسئلہ ہنی مون کا تھا کہ کہاں منایا جائے۔ ان کی ماں شیتل دیوی بضد تھی کہ وہ کلکتہ ہی جائیں کہ اس درمیان درگا پوجا بھی ہے اور وہاں گھومیں پھریں اور اپنے آبا و اجداد کی جگہوں کے مناظر سے لطف اندوز ہوں ________

ماں کی ضد ، باپ کی خواہش اور بیٹی کی ہندوستان دیکھنے کی تمنا نے آخر یہ فیصلہ کروا ہی لیا کہ وہ کلکتہ جائیں گے مگر لڑکا اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھا ________

اس کا کہنا تھا کہ جاہل ہندوستانی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ آئے دن کہیں نہ کہیں آگ لگ رہی ہے۔ ہر طرف نراجیت قائم ہو گئی ہے۔ وہاں زندگی محفوظ نہیں ہے، ایسے میں ہم نہ جائیں تو بہتر ہو گا۔ مگر اس کی ایک نہ چلی شرون کمار نے اسے مشورہ دیا کہ جاؤ دیکھو انگلینڈ کے لوگوں نے کس طرح ہندستان پر اپنا پرچم لہرایا تھا۔ کس طرح ہندوستانی مٹھی بھر لوگوں کا غلام بن گئے تھے۔ انگلینڈ کے راجاؤں کی نشانیاں بھی وہاں اس قدر تازہ ہیں جیسے ابھی ابھی ہم وہاں تھے۔

شرون کمار کی باتوں سے وہ بھی متاثر ہوا اور درگا کے ساتھ کلکتہ جانے کی تیاری کرنے لگا ________

وقت مشکلوں کو آسان بناتے ہوئے چپکے چپکے گزرتا رہا اور وہ کلکتہ کے سفر پر روانہ ہونے کے لئے کھٹے میٹھے تجربات سے گزر کر آخر ہوائی جہاز تک آ ہی گئے ________

اور جہاز ________

کچھ ہی توقف کے بعد اڑان بھرنے کے لئے رن وے پر سانپ کی طرح رینگنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں پرواز کرنے کے لئے ___ Pick up ___لیا ہی تھا کہ تمام مسافر سکتے میں آ گئے ________

جہاز Hijack ہو چکا تھا۔

اغوا کار فلسطینی تھے ________

اور وہ بار بار دھمکی دے رہے تھے کہ اگر ان کی مانگ پوری نہیں کی گئی تو وہ پورے جہاز کو اڑا دیں گے۔

مائیکل درگا کی طرف حیرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

درگا لا شعوری طور پر کہہ رہی تھی !

’’یہ ہندستان نہیں ہے۔ یہ لندن ہے لندن ‘‘۔

مائیکل درگا کے طنزیہ جملے پر صرف مسکرا رہا تھا۔

مسافروں میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی ________جہاز مسلسل پرواز کر رہا تھا

نامعلوم منزل کی طرف۔ ۔۔

کچھ کے سروں پر موت رقص کر رہی تھی۔ کچھ کے دل تیزی سے دھک دھک کا ورد کرنے لگا تھا اور کچھ اپنی موت سے پہلے ہی دھیرے دھیرے دم توڑ رہے تھے۔

درگا اناپ شناپ بکتی جا رہی تھی کہ ان کے کلکتہ دیکھنے کا خواب دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو رہا تھااور مائیکل درگا کے ماں باپ کے غلط مشورے پر برہم ہو رہا تھا ________

اگر وہ ضد نہیں کرتے تو وہ سوئٹزرلینڈ میں ہنی مون منانے کے لئے چل پڑے ہوتے۔

وہ اندر ہی اندر بُدبُدا رہا تھا۔

’’ہندستانی جس قدر بھی ترقی کر جائیں آخر بے وقوف ہی رہتے ہیں۔ ‘‘

پھر وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے یونہی چلایا۔

کہیں سے آواز آئی۔

ماسکو ماسکو

یہ سنتے ہی اُسے نہ جانے کیا سوجھی۔ اس نے درگا کو اچانک Kiss کیا اورآہستہ سے کہا۔

’’سامنے موت ہے ، بہتر ہے ہم کچھ رومانس کر لیں‘‘۔

درگا نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔

’’ یہ وقت رومانس کرنے کا نہیں بلکہ گاڈ کو یاد کرنے کا ہے‘‘۔

’’تم یاد کرو اپنے گاڈ کو ، میں دیکھتا ہوں ‘‘

مائیکل یہ کہتے ہوئے تیزی سے اٹھا اور ایک نقاب پوش کی طرف جھپٹا ہی تھا کہ دوسری طرف سے گولی چلی اور درگا کے سامنے اندھیرا چھا گیا ________

جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو ایک اسپتال میں پایا۔ اسے اس اسپتال میں زیادہ تر اُس جہاز پر سوار مسافر ہی نظر آئے۔

وہ چیخی ________

مائیکل ، مائیکل !

تبھی کسی نے اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

’’سوری میڈم!، آپ کے شوہر کو جہاز میں ہی مردہ پایا گیا ‘‘

یہ سن کر وہ بہت روئی مگر اس کے آنسو پوچھنے والا یہاں کوئی نہیں تھا۔ آخر اپنے آپ اس کی ہچکیاں بھی بند ہو گئیں۔ اب وہ ایک نوجوان ڈاکٹر سے اس انداز میں پوچھ رہی تھی جیسے اب وہ بالکل تنہا رہ گئی ہو۔ ۔۔

آخر اغوا کاروں کا کیا ہوا؟

’’ وہ سب مارے گئے ‘‘

’’ مگر انہوں نے جہاز کو اغوا ہی کیوں کیا تھا؟‘‘

’’وہ سرزمینِ فلسطین سے اسرائیل کے وجود کو مٹانا چاہتے ہیں‘‘

’’تو پھر وہ اپنی جنگ اسرائیل میں ہی کیوں نہیں لڑتے‘‘۔

’’ اس لئے کہ انہی طاقتوں کے بل پر اسرائیل کا وجود قائم ہے‘‘۔

ڈاکٹر کے جواب سے وہ مطمئن نہیں ہوئی ________

کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کھڑکی کے پاس آ کر باہر دیکھنے لگی۔ متحدہ روس(USSR) کا جھنڈا پھڑپھڑا رہا تھا۔

وہ سوچتی رہی ________

یہ اژدہا ایک دن دنیا کو نگل لے گا۔

وہ دیکھتی رہی ________

کارواں در کارواں مفلسی اور بھوک کی آگ سے نجات کا راستہ تلاش کرتا رہا اور لینن کے قد آور مجسمہ کے نیچے سے جم غفیر گزرتا رہا ________

وہ یہاں کچھ دن رہنا چاہتی تھی ________

معلوم کرنا چاہتی تھی اس دیو قامت ملک کے بارے میں جواب دوسری عالمی جنگ کے بعد Super Power بن چکا تھا کہ یہاں کے لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ کس طرح ایک دوسرے کے دکھ اور درد کو سمجھتے ہیں اور کیسے بلا تفریق ایک دوسرے کا کامریڈ بن کر رہتے ہیں ، لہٰذا اس نے اپنے سفارت خانے سے رجوع کیا اور یہیں ایک کم کفایتی ہوٹل میں شفٹ ہو گئی جب کہ باقی مسافر اپنے وطن لوٹ چکے تھے اور ساتھ میں اس کے ممی و پاپا کے لئے اس کا اپنا لکھا ہوا خط بھی لے کر گئے تھے جس میں مائیکل کے کھو جانے کے غم کا شدت سے اظہار ہوا تھا ________

درگانوکری حاصل کرنے کے لئے یہاں زیادہ پریشان نہیں ہوئی بلکہ معمولی کوشش سے ہی ایک پرائیوٹ آفس (Private Office) میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کرنے لگی۔ اسی آفس میں اسے چیخوف سے ملاقات ہوئی اور پھر ________

بات آگے بڑھی اور بغیر ماں باپ کی اجازت کے اس نے چیخوف سے شادی کر لی۔

چیخوف ایک ذہین نوجوان تھا ________

اُسے روس کی عظمت بہت پیاری تھی مگر اسے ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ کسی ہندوستانی لڑکی سے ہی شادی کرے گا۔ یہی و جہ تھی کہ وہ درگا کو شریک حیات بنا کر بہت خوش تھا۔

درگا اب چیخوف کی خوشی تھی اور چیخوف کے لئے درگا اس کی زندگی تھی۔ وہ ایک شوہر کی حیثیت سے درگا کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتا تھا مگر درگا کا زمانہ ماضی برابر اس کے تعاقب میں لگا رہا ________

وہ خوشی کی کھیتی اُگانا چاہتی تھی۔

مگر ایک خوف ________ ایک انجانا ڈر اس کی چھٹی حِس (Six Sense) سے نکل کر اس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا تھا۔

اس سرزمین سے اٹھنے والی بغاوت کی بو اس کے نتھنوں کو اپنی زد میں لے رہی تھی۔

کیونکہ ________

اُس نے یہاں لوگوں کو اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا کہ وہ کتابوں میں پڑھی تھی۔

مفلسی ، بھوک کا نہ تھمنے والا رقص شباب پر تھا۔

سڑکوں، گلیوں اور کوچوں میں بدمعاشوں کا راج بھی اور نوجوانوں میں لینن ازم کے خلاف ایک نفرت بھی۔

لوگ سہمے ہوئے تھے ________

کب کہاں گولی چلے گی۔ کون کیسے مر جائے گا۔

گھر سے نکلا ہوا مسافر واپس لوٹ کر آئے گا بھی یا نہیں ، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

اس سے اچھا میرا انگلینڈ ہی تھا۔

خوف کی سرزمین پر اپنا گھر بسانے والی درگا اندر ہی اندر بُدبُدا کر رہ جاتی۔

کسی آوارہ پرندے کی طرح یہاں سے اڑ جانا چاہتی تھی۔

مگر چیخوف کی محبت نے اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں اور وہ چیخوف کی خوشیوں کا حصہ بنتی گئی۔ جس کے عوض میں اس رشین خوبرو نوجوان کو سرکاری ملازمت حاصل ہو گئی اور وہ زینہ بہ زینہ ترقی کرنے لگا کہ اسی دوران افغانستان سے Russian Militants کی واپسی کا اعلان ہو گیا اور چیخوف سفارت کار کی حیثیت سے بغداد میں Nominateکر دیا گیا لہٰذا درگا بھی شوہر کے ساتھ ولیوں کے دیش میں آپہنچی۔۔۔

یہاں آ کر اسے عجیب و غریب تجربے حاصل ہوئے۔۔۔

اسے معلوم ہوا کہ مسلمان کتنے حیرت انگیز لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے مہمانوں کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ اپنے پڑوسیوں کا اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا کہ وہ اپنے گھر کے ممبروں کا خیال رکھتے ہیں ________

ان کی دنیا دیگر قوموں کی دنیا سے بالکل الگ تھلگ اسے نظر آئی۔

وہ مزید ان کے متعلق جاننے کا مشتاق ہوئی اور تواریخ کا سہارا لے کر انہیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہاں آ کر اس کے طور طریقے اسلامی طرز کے ہونے لگے تھے۔ کوئی انجانی سی طاقت اُسے مسلمانوں کے مذہب کی طرف مائل کرتی چلی جا رہی تھی۔

وہ یادگاروں کی طرف بڑھی ________

نجف میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی درگاہ پر گئی تو اسے احساس ہوا کہ وہ اس دور کی خاتون ہے جب اسلام عرب میں پنپ رہا تھا۔کربلا میں حسینؓ کی یادوں کا سیلاب امڈ آیا ________

اُس نے محسوس کیا ________ اس کے اندر کربلا کا میدان ظاہر ہو رہا ہے اور وہ اس میدان میں ایک اکیلی کوفیوں کے حصار میں چیخ رہی ہے ________

خدا سے ڈرو۔ اس کے قہر سے پناہ مانگو ، لوٹ جاؤ۔

مگر اُس نے اپنے بدن کو تیروں سے چھلنی ہوتے ہوئے محسوس کیا۔

اُف خدایا! یہ تیری کیسی بندگی ہے‘‘

بالآخر وہ چیخ پڑی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔

’’وہ کیوں رو رہی ہے؟ ! ‘‘

اُس نے اپنے آپ سے پوچھا مگر اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس دن وہ بہت مطمئن تھی۔ چیخوف اسے دیکھ کر بول پڑا۔

دیکھا ، یہ مسلمانوں کا وہی شہر ہے جہاں سے یہ نصف دنیا پر اپنی حکومت کے احکام جاری کیا کرتے تھے مگر اب سرحدی اختلاف نے ان میں نفاق کا بیج بو دیا ہے۔ یہ ملک تقریباً پانچ سالوں سے ایران سے مسلسل لڑ رہا ہے مگر ان دونوں میں اب تک کسی بھی مصالحت کی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔

درگا نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔

’’مجھے ان کی موجودہ ہسٹری سے کہیں زیادہ ان کی مذہبی تواریخ نے متاثر کیا ہے‘‘۔

چیخوف ہنسنے لگا ________

’’یہ آج بھی وہی ہیں جو برسوں پہلے تھے ‘‘۔

درگا اس کی باتوں پر غور کرتی اور مسلمانوں کی تواریخ کے مطالعہ میں جٹ جاتی۔ ۔۔

یوں دن ________ہفتوں میں

ہفتے ________ مہینوں میں

اور مہینے ________سالوں میں ، تبدیل ہو رہے تھے کہ اچانک روس میں بغاوت کی آگ لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے گورباچوف کی قیادت میں متحدہ روس ٹکڑوں میں بٹ گیا۔

درگا چیخوف کے ساتھ روس واپس آ گئی ________

یہاں دوبارہ آنے پر اس نے انگلینڈ ماں اور پِتا جی کے پاس ٹرنک کال کیا مگر اسے وہاں سے کوئی خبر نہیں ملی ،لہٰذا پِتا جی کے ایک قریبی دوست سے رجوع کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے جانے کے بعد ہی اس کے پِتا جی شیتل دیوی کے ساتھ کلکتہ لوٹ گئے ہیں۔

اس نے معلوم کیا ________

وہ لوگ کلکتہ کہاں گئے ہوں گے؟

اُسے با اثر ذرائع سے خبر ملی ________

اُن کے کچھ پرانے دوست گڑیا ہاٹ میں ابھی بھی موجود ہیں اور ویسے بھی اُن کی اچھی خاصی پراپرٹی ابھی بھی وہاں موجود ہے لہٰذا وہ وہیں جا بسے ہیں۔

یہ خبر ملتے ہی درگا چیخوف کو کلکتہ چلنے پر اصرار کیا مگر چیخوف آج کل اس قدر مصروف ہو چکا تھا کہ وہ کہیں جا نہیں سکتاتھا پھر بھی درگا کا دل رکھنے کے لئے اس نے کہا _______

’’درگا ، تم اکیلی کلکتہ چلی جاؤ ‘‘۔

درگا نے کچھ سوچتے ہوئے بہت دھیمے لہجے میں جواب دیا۔

’’دیکھو ، ان دنوں تمہارے ملک میں جنگ جیسی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ روپئے کی قیمت روزبروز گرتی جا رہی ہے۔ مہنگائی آسمان چھونے لگی ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ ہم دونوں ساتھ ہی چلیں‘‘۔

چیخوف نے اس کی بات پر صرف سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔

’’اچھے وقت میں وطن میرے ساتھ تھا۔ آج وطن بُرے وقت میں ہے، تو میں اسے چھوڑ دوں ، ہرگز نہیں ، اور ویسے بھی میرا تبادلہ سفارت کار کی حیثیت سے امریکہ ہونے والا ہے۔ میرا مشورہ ہے، تم میرے ساتھ امریکہ ہی چلو ‘‘۔

درگا چیخوف کی بات سے متفق ہو گئی اور وہ کچھ ہی دنوں میں واشنگٹن جا پہنچے _____

روس پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے سیاسی ، سماجی اور معاشی دباؤ کی وجہ سے چیخوف پر بھی کام کا بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا تھا۔ اسے فرصت نہیں ملتی کہ وہ درگا کو امریکہ گھمائے ، لہٰذا درگا نے بھی ایک قدم آگے بڑھایا اور بہت جلد کچھ اہم سہیلیاں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ جن میں پاکستانی سفیر کی بیگم رابعہ خاتون سے اس کی بہت زیادہ قربت ہو گئی جب کہ باقی وہائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی تھیں اور کچھ سوشل ورکرس تھیں۔ ان کا ملنا جلنا رابعہ کے گھر ہی ہونے لگا۔ ۔۔

رابعہ نہایت ہی مہمان نواز تھی۔ اپنی سہیلیوں سے کبھی بھی اکتاتی نہیں تھی۔ ان کی گفتگو کے موضوع میں گھریلو زندگی سے لے کر بین الاقوامی مسائل شامل رہتے تھے اور کبھی کبھی فلموں اور سیاست دانوں کے معشوقوں کے متعلق بھی وہ جم کر باتیں کرتیں۔آج بھی وہ کچھ اسی طرح کی باتوں میں سرگرم تھیں کہ درگا ہنستی ہوئی بول پڑی ________

’’مائی ڈیئر رابعہ ! چھوڑو ان باتوں کو ، دیکھو اپنے ملک کے پرائم منسٹر کو جب سے وہ بیٹھی ہیں بچے پر بچہ جنتی جا رہی ہیں‘‘۔

رابعہ کے ساتھ باقی سہیلیاں بھی یہ سن کر ہنس پڑیں۔

’’ارے بھائی اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ وہ جہاں پرائم منسٹر کے فرائض ادا کر رہی ہیں وہیں ایک عورت ہونے کا فرض بھی ، مگر درگا تم یہ بتاؤ ، تمہاری شادی ہوئے ایک عرصہ ہو گیا مگر تم ابھی تک ما ں کیوں نہیں بن سکی‘‘۔

درگا یہ سنتے ہی کچھ اداس سی ہو گئی مگر میڈم کوری نے اسے سنبھال لیا۔

’’رابعہ یہ جدید عورت ہے جب چاہے گی ماں بن جائے گی‘‘۔

رابعہ ہنس پڑی۔ درگا کی طرف دیکھتے ہوئے بول پڑی۔

’’ماں بن جانا ، وہ بھی اس دور میں آسان کام نہیں ہے۔ یہ درگا ہی جانتی ہو گی ‘‘۔

آخر درگا کو مجبوراً صفائی پیش کرنی پڑی۔

’’میرے دادا کی جب شادی ہوئی تھی تو میرے پِتا جی کے پیدا ہونے میں دس سال لگ گئے تھے۔ میری پیدائش ، میرے ماتا و پِتا جی کی شادی کے بارہویں سالگرہ کے موقع پر ہوئی ‘‘۔

میڈیم کوری ٹپک پڑی۔

’’اس لئے تمہیں ماں بننے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔‘‘

یہ سن کر وہ صرف مسکرا رہی تھی اور باقی سہیلیاں سن رہی تھیں، ہاں ہوں کر رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سب ان تینوں کی شخصیت سے بہت زیادہ مرعوب تھیں اور احساس کمتری میں مبتلا بھی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کھل کر ان کی گفتگو میں حصہ نہیں لے رہی تھیں _______

اسی دوران روزانہ کی روایت کے مطابق چائے آ گئی اور وہ چائے پینے میں مصروف ہو گئیں۔

’’درگا تمہیں معلوم ہے، تمہارے ملک میں کس قدر اُتھل پتھل کا ماحول ہے۔ اندراجی کی حادثاتی موت کے بعد ہی سے تمہارے ملک میں مسلسل آگ و خون کا رقص جاری ہے۔ ابھی ابھی یہ خبر بھی ملی ہے کہ راجیو گاندھی بھی مارے گئے۔ ‘‘

درگا یہ سن کر حیران نہیں ہوئی اس نے دھیرے سے کہا۔

’’ میری پیدائش اس ملک میں نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے وہ میرا ملک نہیں ہے اور رہی بات ہندوستان میں افراتفری پھیلنے کی تو اس سے کم پاکستان بھی نہیں ہے۔ ضیاء الحق مارا گیا، قبائلی جنگیں آج بھی ہو رہی ہیں۔ مسجدوں میں گولیاں چل رہی ہیں اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو جانوروں کی طرح مار رہاہے۔‘‘

میڈم کوری بیچ میں بول پڑیں۔

’’کہیں امن نہیں ہے۔ عراق نے کویت پر حملہ کیا اور نتیجتاً اب اُسے جنگ جھیلنا پڑ رہی ہے۔ تم ہندو مسلم، مسجد مندر کی آگ میں جل رہے ہو۔ سمالیہ بھوک کی دلدل سے نکل بھی نہیں پایا تھا کہ یورپ میں جنگ کا نقارہ بج اٹھا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے‘‘۔

درگا بول پڑی۔

’’ ہے میرے پاس ہے کہ سب خدا کو بھول رہے ہیں‘‘۔

درگا کا کہنا تھا کہ خاموشی چھا گئی۔ ۔۔

ایسی خاموشی جو کچھ توقف کے بعد ہی ختم ہوئی اور پھر وہ مختلف موضوعات پر گفتگو کر کے اپنی اپنی رہائش گاہ چلی گئیں۔ درگا بھی فکر کے ہچکولے کھاتی ہوئی اداس چہرے کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئی ________

چیخوف اس کی سرد چال اور فکر مند آنکھیں دیکھ کر سمجھ گیا کہ درگا کسی بات کو لے کر اپنے آپ سے جنگ کر رہی ہے۔

’’کیا ہوا میری زندگی اتنی اداس کیوں ہے؟‘‘

درگا بلا جھجک بول پڑی۔

’’ایک عورت جب تک ماں نہیں بنتی ہے، خوش نہیں رہتی ہے‘‘۔

یہ سنتے ہی چیخوف ہنس پڑا اور پھر ایک عورت کو ماں بنانے کی ہر ممکن جتن کرنے لگا_____

وقت گزرتا رہا۔

درگا کی اداسی چھٹتی رہی ________

تخلیق کے کرب سے گزرتی رہی۔

او ر پھر وہ دونوں ماں باپ بننے کی دہلیز تک پہنچ ہی گئے کہ اسی دوران درگا کا اتیت پھر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کلکتہ دیکھنے کا خواب پھر جاگ اٹھا۔ وہ چیخوف کو سمجھاتی رہی مگر وہ بھی مائیکل کی طرح بر صغیر نہیں آنا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا ________

’’ ہم ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جہاں مندر مسجد کے جھگڑوں نے انسان کو پاگل بنا کر رکھ دیا ہے۔ تم یہیں رہو اور اپنے بچے کو یہیں جنم دو تاکہ بچے کو کم از کم American Citizenshipتو مل جائے گی۔‘‘

درگا چیخوف کی بات سے متفق ہو گئی مگر اسے ایسا لگتا کہ ا س کی ماں اور اس کے پتا اس سے کہہ رہے ہیں۔

’’بیٹا ہندستان ضرور آؤ، کلکتہ ضرور دیکھو ، دیکھو ہم تمہارا یہاں انتظار کر رہے ہیں۔ یہاں کی گلیاں ، سڑکیں اور پارک سب تمہارے لئے منتظر ہیں۔ دیکھو کالی گھاٹ میں کالی ماں کب سے تمہارے استقبال کے لئے کھڑی ہیں۔ گنگا جی بھی منتظر ہیں تمہاری آتما کی پیاس بجھانے کے لئے اور درگا جی ہر سال آتی ہیں تمہارے آنے کی راہ تکتی ہیں اور پھر اداس ہو کر لوٹ جاتی ہیں ________

آؤ درگا ! ایک بار تو آؤ ‘‘۔

درگا اپنے اندر سے نکلتی ہوئی آواز کو سن کر رونے لگتی مگر کیا کرتی شوہر کی مرضی پر اسے لبیک بھی کہنا تھا لہٰذا وہ صبر و تحمل سے وقت گزار رہی تھی۔ اس طرح ان کی زندگی کا وہ اہم دن بھی آگیا جب وہ ماں اور باپ بن گئے ________

چیخوف کے گھر پر بدھائی دینے والوں کا تانتا بندھ گیا تھا۔

وہ GIFT لیتے لیتے تھک سا گئے تھے مگر دینے والوں کا سلسلہ تھکا نہیں تھا ____

چیخوف خوشیوں میں سرشار باہر نکلا اور جیسے ہی دس بارہ قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ گشتی پولِس گاڑی کے سائرن کی آواز گونج اٹھی۔ گولیاں چلنے لگیں ______

چاروں طرف دہشت پھیل گئی۔ چیخوف بھی ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔

ایک دہشت گرد تیزی سے چلتی ہوئی کار سے نیچے گن لئے کُود پڑا اور گولیوں کے تبادلے کا سلسلہ جاری ہو گیا ________

چیخوف اس کھیل کا ریفری سا بن گیا تھا۔موت اس کے سرپر منڈلا رہی تھی ____ وہ کسی طرح بھی گھر واپس لوٹ جانا چاہتا تھا ________

اپنے ننھے سے بچے کو گود میں لے کر درگا سے کہنا چاہتا تھا کہ آج اس دنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں ہے جسے ہم محفوظ کہہ سکیں چلو ہندستان چلتے ہیں۔

مگر اس کی یہ چاہت اچانک تاریکی میں ڈوب گئی۔ ایک گولی ٹھیک اس کے سینے کو چھیدتی ہوئی پار ہو گئی۔

درگا کو جیسے ہی اس حادثے کی اطلاع ملی، وہ بالکل ساکت ہو گئی۔

رونا چاہی۔۔۔ مگر آنکھوں کے آنسو خشک ہو گئے تھے۔

پاگلوں کی طرح اپنے سرکو دیواروں سے ٹکرا کر پاش پاش کر دینا چاہا مگر نوزائیدہ بچے کے رونے کی آواز نے اس کے اندر کی ممتا کو مرنے سے روک لیا۔

کرب و الم میں گھری درگا نے چیخوف کی نشانی کو اپنی چھاتی سے لپٹا لیا______

زخم بھرتا گیا اور وہ بچے پر بھرپور توجہ دینے لگی۔

بچہ جس کا نام اس نے مائی کرشنا رکھا تھا آہستہ آہستہ عہد طفولیت کو عبور کر رہا تھا اور خود وہ دھیرے دھیرے انسانی کھنڈر میں تبدیل ہو رہی تھی۔

کرشنا ماں سے ضد کرتا۔۔۔

’’کوئی کہانی سناؤ نا ، ماں ‘‘

درگا بیٹے کی طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھتی اور اپنی ماں کی سنائی ہوئی اُن دیوی دیوتاؤں کی کہانیاں سناتی جن کا تعلق بنگال سے رہا تھا۔

مگر بچہ بڑا شرارتی تھا ________

ماں کے بالوں کو نوچتا اور کہتا۔

’’یہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔ ہمیں سچی کہانی سناؤ ‘‘۔

درگا حیرت سے پوچھتی۔

’’کیسی سچی کہانی ؟‘‘

’’جیسی جونؔ کی ماں سناتی ہے۔ افریقہ کے جنگلوں کی کہانی۔ چاند پر آرم اسٹرانگ کے جانے کی داستان۔ مریخ پر Challengerبھیجنے جانے کے بعد انسان کو بھیجے جانے کی پلاننگ اور ان اجنبی لوگوں کی داستان جو دوسری دنیا سے ہماری دنیا میں آنے کے لئے مہم جوئی میں لگے ہوئے ہیں‘‘۔

درگا مائی کرشنا کی باتیں سن کر دنگ رہ جاتی !۔

’’ہم نے تو کبھی ایسے قصے نہیں سنے‘‘۔

مائی کرشنا ہنستے ہوئے کہتا

’’ماں، دنیا Advance ہو گئی ہے اور ہر فرد صداقت کے سہارے جینا سیکھ رہا ہے۔ اب جھوٹی کہانیاں محض ایسے لوگوں کے لئے ہی ہیں جن کی شخصیت ہی جھوٹی ہوتی ہے‘‘۔

درگا یہ سن کر اور بھی پریشان ہو جاتی اور سوچنے لگتی۔

مائی کرشنا، کرشن کی زمین کی پیداوار نہیں ہے۔ یہ تو اس ملک کا شہری ہے جس کے ایک اشارے پر دنیا ادھر سے ادھر ہو جاتی ہے۔ یہ حاکم ہے اسے محکومیت نہیں آتی ہے۔

وہ بیٹے کی اس ادا سے جہاں خوش تھی وہیں ایک دکھ بھی اس میں جگہ بنائے ہوئے تھا کہ اس کا بیٹا دیوی دیوتاؤں کے ملک کی طرف رخ بھی نہیں کرے گا۔ بہرحال بیٹے کی پرورش اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں درگا یوں جٹ گئی گویا شہد کی مکھی شہد بنانے میں اپنی زندگی صرف کر رہی ہو ________

وقت چلتا رہا ________

___ New World Order___ کا بھوت دنیا میں چکر لگاتا رہا اور دہشت گردوں کی تنظیم دنیا کے ہر ایک شہر میں اپنی شاخیں پھیلاتی رہی ________

امریکہ اقوام متحدہ کا رول اکیلے نبھاتا رہا۔

اور ________

درگا ہندستان آنے کا خواب دیکھتی رہی کہ مائی کرشنا ۱۲۵ منزلہ عمارت کی کسی Globalکمپنی میں Asst. Manager کی حیثیت سے کام کرنے لگا تھا۔ صرف وہ کام ہی نہیں کر رہا تھا بلکہ اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت سی شریک حیات بھی تلاش کر لی تھی۔ ۔۔

اس کی زندگی میں اب درگا کی اہمیت زیرو ہوتی جا رہی تھی۔

درگا۔ ۔۔ اب دن بہ دن اجنبی بنتی جا رہی تھی۔

’’ اسے واپس اپنے پُرکھوں کے دیس جانا ہی چاہئے ‘‘۔

اس نے سوچااور اس کی سوچ کو عملی صورت دینے کے لئے مائی کرشنا سے زیادہ اس کی Wifeنے دلچسپی دکھائی ________

درگا کا Migration سرٹیفیکٹ تیار ہو گیا۔

دس ستمبر کی رات کو اس نے اپنے بچے اور اس کی بیوی کو آخری بوسہ دیا اور دیوی و دیوتاؤں کے ملک کی طرف پرواز کر گئی ________

اسکے ساتھ کچھ نہیں تھا صرف اس کی اپنی زندگی کی وہ داستان تھی جس کے سہارے وہ جی رہی تھی۔ وہ اپنے ہمراہ کچھ لے کر نہیں آ رہی تھی بلکہ۔ ۔۔

ایک امید _____ ماں باپ سے مل جانے کی۔

ایک خواب ________ اپنے وطن میں زندگی گزارنے کا۔

جس دن وہ اپنے اتیت میں اتری، وہ بہت خوش تھی۔ گڑیا ہاٹ پہنچی تو اسے خبر ملی کہ اس کے ماتا و پِتا جی سورگ واس ہو گئے ہیں۔ کچھ دیر آرام کے بعد کالی گھاٹ جا پہنچی______

مندر کے اندر ابھی اس کے پاؤں بھی نہیں پڑے تھے کہ شور اٹھا ________

World Trade Centreکسی آسیبی محل کی طرح دھواں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہزاروں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے موت کی آغوش میں سوگئے۔

یہ سن کر وہ تلملا اٹھی ________

آگے بڑھی اور زور سے چیخی ________

’’اب بس کرو ماں ، بہت ہو گیا‘‘۔

اور پھر ________

درگا کالی کے چرنوں پر اپنا سر رکھے آرام سے سوگئی۔

اب وہ کہیں نہیں جائے گی ________

کوئی حادثہ اس کے روبرو نہیں ہو گا۔

وقت بھی اب اس کا پیچھا نہیں کرے گا ________

اب وقت اس میں سمٹ گیا ہے اور وہ خود وقت بن گئی ہے، نہ مٹنے والا۔ ۔۔ !!!

٭٭٭

ماخذ: مصنف کے کتاب چہرے پروفائل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید