ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
ابھی تو رات ہے
انیس جاوید
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
کردار : پرجا۔ جن۔ گن۔ من۔ آدمی۔ ایک۔ دو۔ تین۔ نوجوان۔
پہلا آدمی۔ دوسرا آدمی۔ تیسرا آدمی۔ ڈاکو
(پردہ اٹھتا ہے۔)
(اسٹیج کے وسط میں ایک کرسی ہے۔ بائیں جانب ایک جھونپڑی ہے۔ کرسی سے ذرا آگے روشنی کے دائرے میں ایک خوبصورت عورت کھڑی ہے۔ اس کے جسم پر تین رنگوں کی پھٹی ساڑی ہے اور وہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس عورت کا نام پرجا ہے۔ وہ ناظرین سے کہتی ہے۔)
پرجا : میرا نام پرجا ہے۔ آج میں ان زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوں۔ یہ زنجیریں مجھے بے بس کئے ہوئے ہیں۔ میرے جسم کے جوڑ جوڑ کو ہلائے ہوئے ہیں۔ مجھے اپنے بوجھ تلے دبائے ہوئے ہیں۔ میں ان زنجیروں سے نجات چاہتی ہوں۔ چھٹکارہ چاہتی ہوں۔ لیکن آہ! میں کتنی بے بس ہوں کہ ایسا نہیں کر پا رہی ہوں۔ کاش کہ میں ایسا کر پاتی۔ کاش کہ میں ایسا کر پاتی۔ ہے کوئی ایسا جیالا، جو مجھے ان زنجیروں سے چھٹکارہ دلا سکے؟ ہے کوئی، جو میرے بدن سے انھیں اتار سکے۔
(ہال میں سے ایک آدمی کی آواز آتی ہے۔)
آدمی : میں ہوں۔۔۔۔!!!
پرجا : تم کون ہو۔۔۔؟
آدمی : میں ۲۹مارچ ۱۸۵۷ء ہوں۔
پرجا : میں تمھیں خوش آمدید کہتی ہوں۔ آؤ اور بڑھ کر میری زنجیریں کاٹ دو۔
(وہ آدمی آگے بڑھتا ہے۔ اسی وقت کرسی کے پیچھے سے ایک ڈاکو نمودار ہوتا ہے۔)
ڈاکو : رک جاؤ۔۔۔ آگے مت بڑھو۔۔! (آدمی اس کی سنی ان سنی کر کے آگے بڑھتا ہے۔)
ڈاکو : میں کہتا ہوں رک جاؤ ورنہ گولی مار دوں گا۔ (آدمی پھر بھی ان سنی کر کے آگے بڑھتا ہے۔)
(ڈاکو اس پر گولی داغ دیتا ہے۔ آدمی زمین پر گر کر دم توڑتا ہے۔)
ڈاکو : ہاہاہا۔۔۔ بے وقوف۔۔۔ چلا تھا اس قیدی کی زنجیریں کاٹنے۔۔۔ بھول گیا کہ میرے پاس بارود کی
طاقت ہے جو زندگی کی ڈور ہی کاٹ دیتی ہے۔
پرجا : ظالم۔۔۔ نردئی۔۔۔ بے رحم۔۔۔ کر دیا نا ختم میری آزادی کے متوالے کو۔ بجھا لی نا اس کے خون سے اپنی پیاس۔۔۔ لیکن یاد رکھ۔۔۔ اس ایک کے بلیدان نے آنے والے ان دنوں کی پیشین گوئی ہے
جب میں آزاد ہوں گی۔۔۔ جب یہ زنجیریں میرے بدن سے اتر چکی ہوں گی۔
ڈاکو : کون اتارے گا یہ زنجیریں۔۔۔ وہ چوہے جیسے لوگ جنھیں میں اپنی بندوق کے نشانے پر رکھتا ہوں۔
پرجا : تیرا نشانہ کبھی تو خطا ہوگا۔۔۔ کبھی تو خالی جائے گا۔۔۔ اور یاد رکھ۔۔۔ وہ دن میری آزادی کا پہلا دن ہوگا، اور تیری حکومت کا آخری دن۔
ڈاکو : خاموش کمزور اور بے بس پرجا۔۔۔ اگر زیادہ جوش دکھایا تو تیری یہ زنجیریں اور کس دی جائیں گی۔
پرجا : یہ زنجیریں جتنی کستی جائیں گی، میری آزادی کی منزل اتنی ہی قریب آتی جائے گی۔ آج میرے لئے ایک شہید ہوا ہے، کل دو ہوں گے، پرسوں تین ہوں گے، اور پھر یہ ہندسے بڑھتے جائیں گے۔۔۔ بڑھتے جائیں گے۔۔۔ بڑھتے جائیں گے۔
ڈاکو : وہ وقت میں آنے ہی نہیں دوں گا۔ میں آج ہی یہ قانون نافذ کر تا ہوں کہ اب بھاشن، جلوس اور پرچار پر پابندی ہے۔ کسی بھی شخص کو چھان بین کے بغیر میں قید کر سکتا ہوں۔
پرجا : یہ کالا قانون ہے۔ (بیک گراؤنڈ سے آوازیں آتی ہیں۔)
آوازیں : کالا قانون۔۔۔ مردہ باد۔۔!!۔۔۔ کالا قانون۔۔۔ مردہ باد۔۔!!
پرجا : دیکھ۔۔۔ میری آواز میں ہزاروں آوازیں شامل ہو گئی ہیں۔ اب تیری کشتی ڈوبی ہی سمجھ۔
ڈاکو : (چیخ کر) یہ کون ہیں جو پرجا کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں؟ سامنے آؤ۔۔۔ مجھے جواب دو۔۔!!
آوازیں : ہم ۱۳اپریل ۱۹۱۹ہیں۔۔۔۔!!!!
ڈاکو : فائر!!!(تڑاتڑ گولیاں چلنے کی آواز، پھر لوگوں کے چیخنے کی آوازیں، اور پھر گہری خاموشی۔۔!!)
ڈاکو : دیکھا ان کا انجام۔۔۔ گولیوں سے بھون کے رکھ دیا گیا۔
پرجا : پھر بھی مجھے آزاد کرانے کی خواہش دبی نہیں۔۔۔ دیکھ وہ چلے آرہے ہیں سرپر کفن باندھے۔۔!!
(ہال میں سے تین آدمی اسٹیج پر آتے ہیں۔ ڈاکو انھیں گھور کر دیکھتا ہے۔)
تینوں : سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ڈاکو : خبردار۔۔۔ آگے مت بڑھنا، تم لوگ میری بندوق کے نشانے پر ہو۔
ایک : ہم ۲۳مارچ ۱۹۳۱بی۔۔۔ ۲۳مارچ ۱۹۳۱ایس۔۔۔ اور ۲۳مارچ ۱۹۳۱آر۔۔۔ اپنی پرجا کو آزاد کرا کے ہی دم لیں گے۔
ڈاکو : اس سے پہلے میں تم تینوں کو ہی اس زندگی سے آزاد کر دوں گا۔
دو : موت سے ڈرنا بزدلوں کا کام ہے۔
تین : ہم تو سر پر کفن باندھ کر آئے ہیں۔
ڈاکو : میرے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو صرف پھانسی کا پھندہ نصیب ہوتا ہے۔
ایک : پرجا کو آزاد کرانے کے لئے ہم ہنستے ہنستے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندہ پہن لیں گے۔
ڈاکو : تو پھر میرا فیصلہ سنو، ملزم ۲۳مارچ ۱۹۳۱بی، ملزم ۲۳ مارچ ۱۹۳۱ آر اور ملزم ۲۳مارچ ۱۹۳۱ ایس، تم تینوں پر ڈاکو راج کا تختہ الٹنے کا اور پرجا کو آزاد کرانے الزام ثابت ہوتا ہے اس لئے دفعہ صفر صفر صفر تعزیراتِ ڈاکو راج تمھیں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔ (تینوں گیت گانے لگتے ہیں۔)
تینوں : میرا رنگ دے بسنتی چولا۔۔۔ مائی رنگ دے بسنتی چولا (تینوں کو پھانسی ہو جاتی ہے۔)
ڈاکو : دیکھا ان کا بھی حشر۔ نادان اب تو اپنی ضد چھوڑ دے، اب تو اپنی آزادی کی خواہش تیاگ دے۔
پرجا : نادان تو تو ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ گولیاں داغ کر، سولیاں آباد کر تو میری آزادی کی خواہش کو مار سکتا ہے۔ نادان تو تو ہے جو یہ خیال کئے ہوئے ہے کہ میرے چاہنے والے تیری سنک کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے۔ دیکھ۔۔۔ وہ آرہے ہیں میری آزادی کے متوالے۔ دیکھ گن ان کو۔ وہ ایک نہیں ہیں، وہ دو نہیں ہیں، وہ تین نہیں ہیں، وہ سینکڑوں ہیں، وہ ہزاروں ہیں، وہ لاکھوں ہیں۔
ڈاکو : کون ہیں۔۔۔ کون ہیں یہ لوگ۔۔۔؟
پرجا : یہ سب ۸ اگست ۱۹۴۲ہیں۔ (بیک گراؤنڈ سے آوازیں آتی ہیں۔)
آوازیں : کویٹ پرجا QUIT PRAJA۔۔۔۔ پرجا کو چھوڑ دو۔
کویٹ پرجا QUIT PRAJA۔۔۔۔ پرجا کو چھوڑ دو۔
ڈاکو : فائر۔۔!!!(گولیاں چلنے کی آوازیں گونجتی ہیں مگر پھر بھی احتجاجی آوازیں تھمتی نہیں ہیں۔)
ڈاکو : یہ۔۔۔ یہ تو بڑھتے ہی چلے آرہے ہیں۔
پرجا : کیوں ڈر گیا۔۔۔ چلا گولیاں۔۔۔ بڑھا سولیاں۔۔۔ تیری گولیوں اور سولیوں کی تعداد ان کے سامنے بہت کم ہے۔ بہتر یہی ہے کہ میری زنجیریں کھول کے مجھے آزاد کر دے۔
ڈاکو : ان سے کہو کہ وہ آگے نہیں بڑھیں۔
پرجا : ان کے قدم اب موت بھی نہیں روک سکتی۔
ڈاکو : (چِلّا کر) ۱۵ اگست ۱۹۴۷والو۔۔۔ میں تمھیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اب پرجا آزاد ہے۔۔۔ اب پرجا آزاد ہے۔۔۔ آزاد ہے۔۔۔ آزاد ہے۔۔۔ آزاد ہے۔ (بیک گراؤنڈ سے گیت بجتا ہے۔)
گیت : سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
(گیت کے دوران ڈاکو پرجا کو آزاد کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ پرجا خوشی سے ناچ اٹھتی ہے۔)
پرجا : اب میں آزاد ہوں۔ یہ ہوا آزاد ہے، یہ فضا آزاد ہے، یہ در و دیوار آزاد ہیں۔ میں آزادی سے ہنس سکتی ہوں، بول سکتی ہوں۔ لکھ سکتی ہوں پڑھ سکتی ہوں۔ ہاہاہا۔۔!! (اچانک کراہ اٹھتی ہے۔)
آہ۔۔۔ یہ درد کیسا ہے؟ میرے بازوؤں میں۔۔۔ میرے پیروں میں یہ درد کیسا ہے؟ میرے بدن پر یہ ان گنت زخم کیوں ہیں؟ مجھے چکر سا کیوں آ رہا ہے؟ اف! میں گری۔۔۔ میں گری۔۔۔ آہ!
(اسٹیج کے عین وسط میں پرجا گر پڑتی ہے۔ اسی وقت تین کھدر پوش نیتا ہال میں سے ہوتے ہوئے اسٹیج پر آ تے ہیں۔ تینوں نے کھدر کی ٹوپی بھی پہن رکھی ہے۔ تینوں ایک سر میں کہہ رہے ہیں۔)
تینوں : پرجا۔۔۔ میری پرجا۔۔!! (پرجا کے پاس آ کر رک جاتے ہیں۔ ان کے نام جن گن من ہیں۔)
جن : یہ میری پرجا ہے۔
گن : یہ میری پرجا ہے۔
من : تم دونوں جھوٹے ہو۔۔۔ یہ میری پرجا ہے۔ (تینوں جھگڑنے لگتے ہیں۔)
جن : میری پرجا ہے۔
گن : میری پرجا ہے۔
من : میری پرجا ہے۔
جن : میری ہے۔
گن : میری ہے۔
من : میری ہے۔ (پرجا آہستہ آہستہ اٹھتی ہے۔)
پرجا : ارے۔۔۔ تم لوگ آپس میں لڑ کیوں رہے ہو؟
جن : یہ دونوں شریمان کہتے ہیں کہ تم ان کی پرجا ہو۔
من : ٹھیک ہی تو بول رہا ہوں۔
گن : ٹھیک صرف میں بول رہا ہوں۔ (من سے) تم غلط بول رہے ہو۔
جن : جھگڑا کیوں کرتے ہو۔۔۔ چلو پرجا سے ہی پوچھے لیتے ہیں۔
گن، من : چلو پوچھے لیتے ہیں۔
گن : (پرجا سے) پرجا۔۔۔ پیاری پرجا۔۔۔ سچ سچ کہو تم میری ہی پرجا ہو نا۔۔۔؟
من : ابے جا بڑا آیا ستیہ کا پجاری۔ (پرجا سے) میری پیاری پرجا۔۔۔ ذرا ان سے کہو تو کہ تم میری اور
صرف میری پرجا ہو۔
جن : پران سے پریہ کومل۔۔۔ اتی کومل پرجا، ان مورکھوں کو بتا دو کہ تم ان دونوں میں سے کسی کی نہیں ہو۔
پرجا : میرے چاہنے والو۔۔۔ میں تو۔۔۔
جن : ہاں ہاں کہو۔۔۔ میری ہو۔
من : (منہ بنا کر) ہاں ہاں کہو میری ہو۔۔۔ چوپ۔۔!! (جن غصہ سے من کو دیکھتا ہے۔)
گن : تم لوگ ناحق ہی لڑ رہے ہو۔۔۔ دیکھو پرجا میری طرف ہی دیکھ رہی ہے۔
پرجا : میں تو صرف اس کی ہوں جو میرے گھاؤ بھر سکے۔۔۔ میرا علاج کر سکے۔۔۔ میرے دکھ دور کر سکے۔
جن : گھاؤ۔۔۔؟
گن : علاج۔۔۔؟
من : دکھ۔۔۔؟۔۔۔
جن : کیا تم گھائل ہو۔۔۔؟ (پرجا کے پاس سے دور ہٹ جاتا ہے۔)
گن : کیا تم بیمار ہو۔۔۔؟ ( وہ بھی دور ہٹ جاتا ہے۔)
من : کیا تم دکھی ہو۔۔۔؟ (وہ بھی پیچھے ہٹ جا تا ہے۔)
پرجا : ہاں۔۔۔ زنجیروں کا بوجھ سہتے سہتے میں گھائل ہو چکی ہوں۔ اس ظالم ڈاکو کے اتیاچار سہتے سہتے میں بیمار ہو گئی ہوں۔ اس کی لوٹ کھسوٹ نے مجھے دکھی کر دیا ہے۔
جن : کیا اس لٹیرے نے تمھیں بالکل ہی لوٹ لیا ہے۔۔۔؟
گن : تمھارے پاس ایک بھی چیز باقی نہیں چھوڑی ہے۔۔۔؟
من : کیا تم دیوالیہ ہو چکی ہو۔۔۔؟
پرجا : نہیں میں دیوالیہ نہیں ہوئی ہوں۔ میرے پاس اب بھی بہت کچھ ہے۔
جن : تو پھر میں تمھارے گھاؤ بھروں گا۔ (کہتے ہوئے جلدی سے پرجا کے پاس آ جاتا ہے۔)
گن : میں تمھارا علاج کراؤں گا۔ (کہتے ہوئے وہ بھی پرجا کے پاس آ جاتا ہے۔)
من : میں تمھیں دکھوں سے نجات دلاؤں گا۔ (کہتے ہوئے وہ بھی پرجا کے پاس آ جاتا ہے۔)
پرجا : تم لوگوں کی باتوں سے تو ایسا لگتا ہے جیسے تم تینوں کو مجھ سے بڑی محبت ہے۔
تینوں : کریکٹ (CORRECT)۔۔!!!
پرجا : تو پھر میں تم تینوں کی ہی ہوں۔
من : یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟
گن : تم ہم میں سے صرف ایک ہی کی ہو سکتی ہو۔
جن : ایک ہی سمے میں ہم تینوں کی ہونا اسمبھو ہے۔
پرجا : سوچ لو، میں یا تو تم تینوں کی ہوں گی یا کسی کی نہیں۔ (تینوں آپس میں صلاح مشورہ کرتے ہیں)
جن : کیا بولتے ہو۔۔۔؟
گن : سمجھوتہ۔۔!
من : کمپرومائز COMPROMISE))۔۔!!
جن : تو آج سے یہ پرجا ہم تینوں کی۔۔۔؟
گن، من : ہنڈریڈ پرسینٹ HUNDRED PERCENT))۔ (تینوں پرجا کے پاس جاتے ہیں)
جن : پرجا جی۔۔۔ ہمیں تمھارا فیصلہ منظور ہے۔
گن : آج سے تم ہم تینوں کی پرجا ہو۔
من : (نعرہ لگاتے ہوئے) ہماری پرجا۔۔!!
جن، گن : زندہ باد۔۔۔۔!!
من : پیاری پرجا۔۔۔۔!!
جن، گن : زندہ باد۔۔۔۔!!!(تینوں پرجا کو اٹھا کر اسٹیج پر گول گول چکر لگانے لگتے ہیں۔ بیک گراؤنڈ سے ”سارے جہاں سے اچھا “ کی دھن بجنے لگتی ہے۔ اسی دھن کے ساتھ فیڈ آؤٹ ہوتا ہے۔)
(جب دوبارہ روشنی ہوتی ہے تو ہم دکھاتے ہیں کہ جن، گن، من زمین پر آپس میں سر جوڑے بیٹھے کھسر پھسر کر رہے ہیں۔ پرجا کرسی پر بیٹھی ہے۔ جیسے ہی کرسی سے اٹھنے لگتی ہے جن چلاتا ہے۔)
جن : ارے ارے۔۔۔ کرسی سے مت اٹھو۔ (پرجا اٹھتے اٹھتے دوبارہ بیٹھ جاتی ہے۔)
گن : وہیں پاؤں پسارے بیٹھی رہو۔
من : تمھاری جگہ وہ کرسی ہی ہے۔
پرجا : لیکن تم لو گ یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔؟
گن : ہمیں ڈسٹرب مت کرو۔۔۔ ہم بہت بزی (BUSY) ہیں۔
پرجا : لیکن۔۔۔؟
من : لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔۔ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔
پرجا : کام۔۔۔ کیسا کام۔۔۔؟
جن : ہم سوچ وچار کر رہے ہیں۔
پرجا : سوچ وچار۔۔۔؟
گن : ہاں۔۔۔ سوچ وچار۔۔!
جن : ہم سوچ رہے ہیں کہ تمھارے گھاؤ کیسے بھرے جائیں۔
گن : تمھارا علاج کیسے کیا جائے۔
من : تمھیں دکھوں سے چھٹکارہ کیسے دلایا جائے۔
پرجا : سوچ وچار میں اتنا سمے۔۔۔ اتنا وقت۔۔۔؟
جن : اے لو۔۔۔ ان کی سنو۔۔۔ ارے تمھارے گھاؤ کوئی معمولی ہیں کیا۔
گن : تمھارے دکھ کیا کچھ کم ہیں۔
من : سمے تو لگے گا ہی۔۔۔ اور پھر ابھی سمے ہوا ہی کتنا ہے۔
جن : صرف پانچ سال۔۔!!
گن : اونلی فائیو ائرس (ONLY FIVE YEARS)۔
پرجا : پانچ سال کا عرصہ کچھ کم تو ہوتا نہیں ہے۔
من : تمھارے علاج کے بارے میں سوچ وچار کے لئے پانچ سال تو کچھ بھی نہیں۔
جن : اچھے سے اچھا علاج کرانا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔
گن : چلو بھئی چلو۔۔۔ اپنا کام کرو۔۔۔ سمے بڑا مولیہ وان ہوتا ہے۔
(تینوں سوچ میں ڈوب جاتے ہیں۔ پرجا کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگتی ہے۔)
جن : (اچانک چلا کر) آ گیا۔۔! (پرجا ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہے۔)
پرجا : آں۔۔۔ کون آ گیا۔۔۔؟
جن : ایک نسخہ۔۔۔ سچ کہتا ہوں میرا نسخہ سارے دکھ دور کر دے گا۔۔۔ سارے گھاؤ بھر دے گا۔
من : ارے اب شیخی ہی بگھارو گے یا نسخہ بھی بتاؤ گے۔
جن : نسخہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔!!!
گن : ارے بولو بھی۔۔۔ زبردستی کا سسپنس پیدا مت کرو۔
جن : نسخہ یہ ہے کہ کوئی نسخہ نہیں۔۔!
من : (جن کی بات کو دہراتے ہوئے) نسخہ یہ ہے کہ کوئی نسخہ نہیں۔۔۔؟
گن : یہ کیا بات ہوئی۔۔۔؟
جن : ارے یہی تو نسخہ ہے کہ کوئی نسخہ نہیں۔ یعنی پہلے نسخہ تلاش کرو، جو کہ آسانی سے ہاتھ آنے والا نہیں۔ اس کے لئے کم سے کم پانچ سال لگیں گے۔
من : یو مین فائیو ائرس پلاننگ ( (YOU MEAN FIVE YEARS PLANNING
جن : ہاں۔۔۔ پنج سالہ منصوبہ۔۔۔ پانچ ورشیہ یوجنا۔ ہم ایک پنچ ورشیہ یوجنا بنائیں گے۔ پانچ سالوں میں ہمیں یہ کھوج لگانی ہے کہ پرجا کے گھاؤ اندرونی ہیں یا باہری۔۔۔ گہرے ہیں یا ہلکے۔ اور جب ہمیں اس کا پتہ لگ جائے گا تب۔۔۔۔!!
من : دوسری پانچ ورشیہ یوجنا بنائیں گے۔۔!!
گن : اور اس میں یہ سوچیں گے کہ علاج کس طرح کیا جائے۔۔۔ کیوں۔۔۔ یہی نا۔۔۔؟
جن : ہاں! (تینوں ایک دوسرے کو اس طرح مبارک باد دیتے ہیں، جیسے بہت بڑا مسئلہ حل کر لیا ہو۔)
جن پرجا سے) پرجا جی۔۔۔ ہم نے ایک پانچ ورشیہ یوجنا بنائی ہے۔
گن : اس کے انتر گت ایک آیوگ نیکت کیا جائے گا۔
من : ایک کمیشن بٹھایا جائے گا، جو تمھارے زخموں کا باریکی سے جائزہ لے گا۔
جن : اور جیسے ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ گھاؤ کس پرکار کے ہیں، تمھارا علاج شروع کر دیا جائے گا۔
پرجا : صرف گھاؤ کے پرکار معلوم کرنے کے لئے تم لوگ کمیشن کیوں بٹھاتے ہو؟ پانچ ورشیہ یوجنا کیوں بناتے ہو؟ مجھ سے پوچھ لو۔ میں بتاتی ہوں کہ میرے گھاؤکس پرکار کے ہیں۔
من : (چڑ کر) چوپ۔۔۔ تم کو کیا معلوم۔
گن : تم ڈاکٹر ہو کیا۔۔۔؟
پرجا : ارے تو اس میں تاؤ کھانے کی کیا بات ہے۔ جاؤ۔۔۔ تمھارے جو جی میں آئے کرو۔
جن : ہاں ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے جو جی میں آئے کریں۔
گن : (پرجا سے) تو پھر اس ورش کا ٹیکس نکالو۔
پرجا : کتنا۔۔۔؟
من : پچھلے سال سے دوگنا۔
پرجا : دوگنا کیوں۔۔۔؟
جن : پانچ ورشیہ یوجنا کا خرچ کیا ہم دیں گے؟
پرجا : ٹھیک ہے بابا۔۔۔ یہ لو۔ (پرجا چوڑیاں اتار کر دیتی ہے۔ تینوں کونے میں جاتے ہیں۔)
جن : (من سے) یہ لو تمھارا حِصّہ۔ (گن سے)یہ تمھارا حِصّہ۔۔۔ اور یہ میراحِصّہ۔
گن : یوجنا کے لئے بھی کچھ بچا یا نہیں؟
جن : بچا نا۔۔!
من : کتنا۔۔۔؟
جن : صفر۔۔!
گن، من : صفر۔۔۔؟
جن : ہاں۔۔۔ صفر۔۔۔ صفر۔۔۔ صفر۔۔!! (سارے جہاں کی دھن کے ساتھ ہی اندھیرا ہوتا ہے۔)
(دوبارہ جب روشنی ہوتی ہے تو پرجا بدستور کرسی پر بیٹھی ہے۔ تینوں اس کے پاس جاتے ہیں۔)
جن : پرجا جی۔۔۔ ذرا کرسی سے اٹھنے کا کشٹ تو کیجئے۔
پرجا : کیوں۔۔۔؟
گن : تمھارے رہنے کا دوسری جگہ بند و بست کر دیا گیا ہے۔
پرجا : کہاں۔۔۔؟
من : وہ۔۔۔ وہاں۔۔۔ اس جگہ۔ (جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔)
پرجا : وہاں۔۔۔ اس جھونپڑی میں۔۔۔؟
ن : آج جھونپڑی ہے تو کیا ہوا۔ کل کو یہی جھونپڑی ایک شاندار بنگلہ ہو گی۔
من : فل ڈیکوریٹیڈ۔ (FULL DECORATED)
گن : ویل فرنشڈ۔ (WELL FURNISHED)
پرجا : لیکن میں اس کرسی پر ٹھیک ہوں۔
جن : اس کرسی پر تو اب ہم بیٹھیں گے۔
پرجا : لیکن تم لوگ کرسی پر کیوں بیٹھو گے؟
من : اس لئے کہ تمھارے دکھ دور کرنے ہیں۔
گن : تمھارا علاج کرنا ہے۔
پرجا : بنا کرسی پر بیٹھے کیا تم لوگ میرا علاج نہیں کر سکتے؟ میرے دکھ دور نہیں کر سکتے؟
من : نہیں۔
پرجا : پر کیوں۔۔۔۔؟
جن : اس لئے کہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد ہی ہمیں ادھیکار پراپت ہوگا۔
من : یہ کرسی، کرسی نہیں۔۔۔ ادھیکار ہے۔
پرجا : ایسی بات ہے تو میں تمھیں ادھیکار دئے دیتی ہوں، لیکن (تینوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں۔)
پہلے تم لوگوں کو یقین دلانا ہوگا کہ تم میرے دکھ دور کرنے کی ہر کوشش کرو گے۔
جن : ہم شپتھ لیتے ہیں۔ (تینوں اپنا اپنا دایاں ہاتھ آگے کر کے شپتھ لیتے ہیں۔)
تینوں : ہم۔۔۔ جن من گن۔۔۔ شپتھ لیتے ہیں کہ جب تک ہم اس کرسی پر بیٹھے ہیں، تب تک پرجا کے دکھ
دور کرنے کی ہر کوشش کریں گے۔ (سارے جہاں کی دھن بجنے لگتی ہے۔)
(پرجا جھونپڑی کے اندر چلی جاتی ہے۔ تینوں کرسی پر بیٹھنے کے لئے لڑنے لگتے ہیں۔)
جن : میں بیٹھوں گا۔
گن : نہیں میں بیٹھوں گا۔
من : نہیں میں بیٹھوں گا۔
جن : میں۔۔!
گن : میں۔۔!
من : میں۔۔۔ (بیک گراؤنڈ سے کتّوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی ہیں۔ پرجا جھونپڑی سے نکلتی ہے۔)
پرجا : ارے تم لوگ لڑ کیوں رہے ہو؟ (تینوں خجالت سے ہنستے ہیں۔)
جن : نن۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ ہم لڑ کہاں رہے ہیں۔
من : ہم تو ایک دوسرے کو کرسی پر بٹھانے کے لئے فورس FORCE کر رہے ہیں۔
گن : آخر کو ہم میں سے کوئی ایک ہی تو کرسی پر بیٹھ سکتا ہے نا۔
پرجا : تمھاری باتیں تو میری سمجھ میں بالکل ہی نہیں آ رہی ہیں۔
جن : اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تم صرف جھونپڑی میں بیٹھی رہو۔
من : ہماری باتیں سمجھنے کے لئے سیاست کی جانکاری ہونی چاہئے۔
گن : پالیٹکس POLITICS، تم بھلا پالیٹکس جان کر کیا کرو گی۔ الٹے اپنی جان آفت میں ڈالو گی۔
جن : جاؤ۔۔۔ جا کر سو جاؤ۔ (پرجا جھونپڑی میں چلی جاتی ہے۔) سالی۔۔۔ گئی۔۔!
من : دیکھو۔۔۔ ہماری تکرار اس کے کانوں تک فوراً ہی پہنچ جاتی ہے اس لئے لڑنا بند، اور ایک ساتھ کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کرو۔ (تینوں ایک ساتھ بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھنس جاتے ہیں اور تریمورتی کی شکل بن جاتی ہے۔
گن : ایں۔۔۔ یہ کیا ہوا۔۔۔؟
جن : پھنس گئے۔
من : پھانسنے کے لئے پھنسنا بھی پڑتا ہے۔۔۔ کیا سمجھے۔۔! (تینوں ہنستے ہیں۔)
گن : چلو اب ہم اسی طرح پھنسے پھنسے کام چلاتے ہیں۔
جن : (حیرت سے) کام۔۔۔ کیسا کام۔۔۔؟
گن : پرجا کے دکھ دور کرنے کا۔
من : اس کا علاج شروع کرنے کا۔
جن : مورکھ ہو کیا تم لوگ، ارے یہ کرسی کیا ہم نے اس بے تکے اور فالتو کام کے لئے پراپت کی ہے۔
من : پھر کس لئے۔۔۔؟
جن : آرام کرنے کے لئے۔
گن : آرام تو ہم اپنے گھر میں بھی کر سکتے ہیں۔
جن : وہاں ایسی نیند کہاں ملے گی۔
دونوں : ہاں۔۔۔ یہ تو سچ ہے۔
جن : تو پھر سونے کی کوشش کرو۔ (تینوں خراٹے لینے لگتے ہیں۔ بیک گراؤنڈ سے نعرہ گونجتا ہے۔)
نوجوان : (بیک گراؤنڈ سے) انقلاب زندہ باد۔۔۔ پاگل راج مردہ باد۔۔۔۔!!!
(تینوں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ پرجا بھی اپنی جھونپڑی سے دوڑ کر ان کے پاس آ جاتی ہے۔)
پرجا : یہ شور کیسا ہے۔۔۔؟
جن : کوئی پاگل معلوم ہوتا ہے۔
گن : خطرناک۔۔!!
من : ویری ڈینجرس (VERY DANGEROUS) ۔۔!!!
پرجا : (گھبرا کر) اب کیا ہو گا۔۔۔؟
جن : تم فوراً اپنی جھونپڑی میں چھپ جاؤ۔ ہم اس سے نپٹ لیتے ہیں۔ (پرجا ڈر کر جھونپڑی میں چلی جاتی ہے۔) (اسٹیج پر شاعر، ادیب نما ایک نوجوان داخل ہوتا ہے۔ کندھے پر بستہ لٹک رہا ہے۔)
نوجوان : تم چور ہو۔۔۔ ڈاکو ہو۔۔۔ لٹیرے ہو۔۔!
جن : ز۔۔۔ ز۔۔۔ زبان سنبھال کے بات کرو۔
نوجوان : ہماری زبان پر تو تم نے پہرے بٹھا رکھے ہیں۔
من : جھوٹ۔۔۔ ہمارے یہاں بولنے کی آزادی ہے۔
نوجوان : یہ کیسی آزادی ہے کہ ایک طرف تو تم پریس سنسر شپ نافذ کرتے ہو اور دوسری طرف آزادیِ تقریر کا دعویٰ کرتے ہو۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ ایک طرف تو تم بھوک اور بیکاری ختم کرنے کے منصوبے بناتے ہو اور دوسری طرف سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں غریبوں کی قسمتوں کے فیصلے دے دیتے ہو۔
گن : شش۔۔۔ نوجوان۔۔۔ آہستہ بولو۔۔۔ پرجا سب سن لے گی۔
نوجوان : میں پرجا کو ہی سنانے آیا ہوں۔۔۔ تم لوگ تو بہرے ہو بہرے۔
جن : (گن، من سے) یہ کیا مصیبت ہے۔
من : کوئی سر پھرا ادیب نظر آتا ہے۔
گن : انقلابی شاعر لگتا ہے۔
نوجوان : ہاں۔۔۔ میں ایک ادیب ہوں۔۔۔ ایک شاعر ہوں۔۔۔ ایک صحافی ہوں۔ مجھ سے پرجا کی بے بسی نہیں دیکھی جاتی۔ مجھ سے تم لوگوں کی لوٹ کھسوٹ نہیں دیکھی جاتی۔ میں پرجا کی آنکھیں کھولنا چاہتا ہوں۔ میں تمھاری مکاریوں کا پردہ فاش کرنا چاہتا ہوں۔
جن : اس سے تمھارا کیا فائدہ ہوگا؟
نوجوان : میرا ضمیر مطمئن ہوگا۔ میری آتما کا سمادھان ہوگا۔
گن : صرف اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے تم ہم سے دشمنی مول لو گے؟
من : صرف اپنی آتما کے سمادھان کے لئے تم ہم سے ٹکر لو گے؟
نوجوان : ہاں۔۔!
جن : بکواس ہے۔۔۔ سب بکواس ہے۔۔۔ ضمیر اور آتما جیسے لفظوں کا استعمال کر کے تم صرف اپنے دل کو بہلا رہے ہو، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تم یہ سب اپنی شہرت، اپنی پرسدھی کے لئے کر رہے ہو۔
گن : ہمارے خلاف زہر اگل کر تم اپنے آپ کو پرجا کا بہت بڑا شبھ چنتک کہلانا چاہتے ہو۔
من : ہمارے خلاف آواز اٹھا کر تم اپنے آپ کو نڈر اور جیالا جتانا چاہتے ہو۔
جن : لیکن یاد رکھو۔۔۔ تمھاری یہ کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔
گن : تمھیں بغاوت کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔
نوجوان : جس قدر ظلم کر سکتے ہو۔۔۔ کر لو، لیکن میں پرجا کو جگا کر ہی دم لوں گا۔
من : ہم نے پرجا کو اجول بھوشیہ کا سپنا دکھایا ہے۔ وہ تمھاری آواز سے جاگ نہیں پائے گی۔
نوجوان : میں اس وقت تک چلاتا رہوں گا جب تک پرجا بیدار نہ ہو جائے۔ (تینوں کونے میں جاتے ہیں)
گن : یہ کمبخت تو پرجا کو جگا کر ہی دم لے گا۔
من : کسی بھی طرح اس کو اس ارادہ سے باز رکھنا ہوگا۔
جن : اس کا ایک ہی اپائے ہے۔۔۔ ایک ہی راستہ ہے۔
گن، من : وہ کیا۔۔۔؟
جن : اس سر پھرے کو اس کی تخلیقات پر ایوارڈ دے دیا جائے۔
گن : واہ۔۔۔ کیا ترکیب ہے۔
من : ویری گڈ آئیڈیا (VERY GOOD IDEA)۔۔۔۔!
نوجوان : یہ تم لوگ کھسر پھسر کیا کر رہے ہو۔ جو کہنا ہے میری طرح زور سے کہو۔
جن : (نوجوان کے پاس آ کر) نوجوان۔۔۔ ہم کھسر پھسر نہیں بلکہ فیصلہ کر رہے تھے۔
نوجوان : کیسا فیصلہ۔۔۔؟
گن : یہی کہ تم نے ادب کی بے حد خدمت کی ہے۔
من : ساہتیہ کی اپار سیوا کی ہے۔
جن : اس لئے۔۔۔ آج اسی خوشی کے موقعہ پر ہم تمھیں۔۔۔ مورکھ بھوشن کا۔۔۔ ایوارڈ دیتے ہیں۔
(گن، من زوردار تالیاں بجاتے ہیں۔ نوجوان فخر سے سینہ پھلا لیتا ہے۔ سارے جہاں کی دھن پر
تینوں مارچنگ کرتے ہوئے اس کے پاس آتے ہیں۔ جن اس کے گلے میں میڈل ڈالتا ہے۔)
نوجوان : ارے اس کی کیا ضرورت تھی۔
من : اسی کی تو ضرورت تھی۔
نوجوان : آپ لوگوں کا شکریہ جو آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ مجھ سے کوئی بھول ہو گئی ہو تو معاف کر دیجئے۔
تینوں : ہم نے معاف کیا۔۔!!۔۔۔ ہماری پرجا نے معاف کیا۔۔!! (نوجوان میڈل کو چومنے لگتا ہے۔)
جن : اب میڈل کو چاٹنا بند کرو۔۔۔ اور چلو۔۔۔ پھوٹ لو۔۔۔ فوراً پھوٹ لو۔
نوجوان : (نعرہ لگاتے ہوئے)جن گن من۔۔۔ زندہ باد۔۔!!! (نعرہ لگاتے ہوئے جاتا ہے۔)
گن : چلا گیا سالا۔
من : بڑا آیا تھا بھاشن دینے۔
جن : ارے یہ ادیبوں اور لیکھکوں کی ذات ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہمیشہ ایوارڈ کے چکّر میں رہتے ہیں۔
گن : ہمیں برا بھلا کہہ کے سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا تیر مار لیا۔
من : لیکن بیوقوف۔۔۔ ہماری چال نہیں سمجھتے۔
جن : مورکھ شری اور مورکھ بھوشن کا ایوارڈ تھما کر خاموش کرنے کی چال۔ (تینوں ہنستے ہیں۔ جھونپڑی کے اندر سے پرجا کے چیخنے کی آواز آتی ہے۔ تینوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں۔)
گن : یہ کون چیخ رہا ہے؟
من : آواز تو پرجا کی لگتی ہے۔ چلو چل کر دیکھتے ہیں۔
جن : ارے پاگل ہوئے ہو کیا۔۔۔ انگلی ڈالو۔
گن : انگلی۔۔۔ پر کہاں۔۔۔؟
جن : اپنے اپنے کانوں میں بیوقوفو (کانوں میں انگلیاں ڈالتے ہیں۔ پرجا کراہتے ہوئے آتی ہے۔)
پرجا : آہ۔۔۔ میں مری۔۔۔ اوئی۔۔۔ میں مری۔ مجھے بچاؤ، بڑا درد ہو رہا ہے۔ میرے زخم بلبلا رہے ہیں۔
بھگوان کے لئے مجھے بچا لو۔ میرے زخموں پر مرہم رکھ دو۔ ارے تم لوگ سنتے کیوں نہیں؟ اپنے اپنے کانوں میں انگلیاں کیوں ڈال رکھی ہیں؟ بھگوان کے لئے میرا علاج کرو۔ میں تمھارے ہاتھ جوڑتی ہوں، تمھارے پیر پڑتی ہوں۔ مجھے بچا لو۔ مجھے بچا لو(جن کو جھنجھوڑتے ہوئے) تم کھڑے کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟ اپنے کانوں سے انگلیاں نکالو اور میری چیخ۔۔۔ میری پکار سنو۔
جن : شش۔۔۔ چلاؤ مت۔۔۔ آہستہ بولو۔۔۔ کیا تمھیں ٹینکوں کی دھڑدھڑاہٹ اور ہوائی جہازوں کی گڑگڑاہٹ سنائی نہیں دے رہی ہے۔
پرجا : مجھے تو کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔
من : تب تو تم بہری ہو۔ ارے ہمیں صاف سنائی دے رہا ہے۔ ٹینک دھڑدھڑاتے ہوئے ہمارے علاقے کی طرف بڑھے چلے آرہے ہیں۔ جہاز گڑگڑاتے ہوئے ہمارے سروں پر پرواز کر رہے ہیں۔
گن : جنگ شروع ہونے والی ہے۔ دشمن ہمارے علاقے پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔
جن : ہمارے علاقے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور تمھیں اپنے زخموں کی پڑی ہے۔
من : بھول جاؤ کہ تم زخمی ہو۔
گن : بھول جاؤ کہ تم روگی ہو۔
جن : بھول جاؤ کہ تم دکھی ہو۔
من : جاؤ۔۔۔ چپ چاپ اپنی جھونپڑی میں دبک جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری چیخیں دشمن کے کانوں سے ٹکرا جائیں اور وہ تمھیں کمزور اور دکھی سمجھ کر حملہ کر دے۔
گن : تم پر قبضہ کر لے۔
جن : تمھیں قید کر لے۔ (پرجا سہم جاتی ہے۔)
پرجا : نہیں نہیں۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ دیکھو۔۔۔ میں درد سے کراہ نہیں رہی ہوں۔۔۔ میں درد سے بلبلا نہیں رہی ہوں۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ ہاہاہا۔۔!!! (بیہوش ہو کر گر پڑتی ہے۔ جن پرجا کے گلے سے نیکلس کھینچ لیتا ہے۔)
گن : یہ کیا۔۔۔؟
جن : یہ وار ٹیکس ہے۔۔۔ یدھ کر۔۔۔۔!!!
من : چلو کچھ دیر کے لئے تو چین سکون کا موقعہ ملا۔
گن : لیکن ہوش میں آنے کے بعد یہ پھر چلانے لگی تو؟
من : ہوش میں آئے گی تب سوچا جائے گا۔
گن : نہیں۔۔۔ اس کے ہوش میں آنے سے پہلے ہی ہمیں سوچنا ہوگا۔
جن : ٹھیک ہے۔۔۔ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ اس مصیبت کا حل کیا ہے؟
گن، من : جلدی بتاؤ۔
جن : (من سے) پہلے تم یہ بتاؤ کہ کیا تم اس کا علاج کر سکتے ہو؟
من : نہیں۔
جن : (گن سے) کیا تم اس کے دکھ دور کر سکتے ہو؟
گن : نہیں۔
جن : میں بھی نہیں کر سکتا۔
گن، من : پھر۔۔۔؟
جن : ہم اس کو بہلا تو سکتے ہیں۔
من : یہ کوئی بچہ تو ہے نہیں جو ہمارے بہلانے سے بہل جائے۔
جن : روتا بلبلاتا آدمی بچہ ہی ہوتا ہے۔ کھلونا تھما دو۔ اپنے آپ چپ ہو جائے گا۔
گن : کھلونا۔۔۔؟
من : کس قسم کا۔۔۔؟
جن : جس سے یہ بہل جائے۔
گن : یہ تو صرف اپنے علاج سے ہی بہل سکتی ہے۔
جن : اور وہ ہم کر نہیں سکتے۔ اس لئے اس کے ہاتھوں میں صرف انجیکشن کی سیرنج دے دو۔۔۔ دوا کی خالی شیشی دے دو۔۔۔ بہل جائے گی۔ یہ سوچ کر چپ ہو جائے گی کہ جب سیرنج آ گئی ہے تو علاج بھی شروع ہو جائے گا۔ خالی شیشی آ گئی ہے تو دوا بھی آ جائے گی۔
گن، من : ویری گڈ (VERY GOOD)۔۔!!
من : مسٹر جن۔۔۔ تم واقعی جینیس GENIUS ہو۔
گن: یو آر ویری انٹیلی جینٹ YOU ARE VERY INTELLIGENT
جن : دھنیہ واد۔۔۔ دھنیہ واد۔۔!! (سارے جہاں کی دھن پر فیڈ آؤٹ ہوتا ہے۔)
(جب دوبارہ روشنی ہوتی ہے تو پرجا کے علاوہ پورا اسٹیج خالی دکھائی دیتا ہے۔ پرجا دھیرے دھیرے ہوش میں آتی ہے۔ اسی وقت اسٹیج پر ایک آدمی آتا ہے۔ پرجا ایک سے پوچھتی ہے۔)
پرجا : تم۔۔۔ تم کون ہو؟
پہلا آدمی : میں تمھارے جسم کا ایک زخمی انگ ہوں۔
پرجا : تمھارا نام۔۔۔؟
پہلا آدمی : محنت کش مزدور۔
پرجا : کیا چاہتے ہو۔۔۔؟
پہلا آدمی : جیون مرہم۔ (دوسرے کونے سے دوسرا آدمی آتا ہے۔)
پرجا : تم کون ہو؟
دوسرا آدمی : میں تمھارے جسم کا ایک زخمی انگ ہوں۔
پرجا : تمھارا نام۔۔۔؟
دوسرا آدمی : بے روزگار نوجوان۔
پرجا : کیا چاہتے ہو۔۔۔؟
دوسرا آدمی : جیون مرہم۔ (تیسرا آدمی آتا ہے۔)
پرجا : تم کون ہو؟
تیسرا آدمی : ایک طالبِ علم۔
پرجا : کیا چاہتے ہو۔۔۔؟
تیسرا آدمی : جیون مرہم۔
پرجا : (چلا کر) جیون مرہم، جیون مرہم، جیون مرہم۔۔۔ آخر یہ جیون مرہم ہے کیا چیز۔۔۔؟
پہلا آدمی : تم اچھی طرح جانتی ہو کہ یہ جیون مرہم کیا چیز ہے۔
پرجا : کہیں تم بہتر زندگی کو تو جیون مرہم نہیں کہہ رہے ہو؟
دوسرا آدمی : بالکل ٹھیک سمجھیں۔
پرجا : لیکن ابھی ہم جیون مرہم کا بندوبست کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
تیسرا آدمی : کیوں۔۔۔؟
پرجا : ابھی ہمیں آزاد ہوئے بہت کم عرصہ ہوا ہے۔
پہلا آدمی : چھپن سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا ہے۔ ایک دور گذر جاتا ہے۔۔۔ ایک نسل بدل جاتی ہے۔
پرجا : کہتے تو تم ٹھیک ہومگر۔۔!
دوسرا آدمی : مگر کیا۔۔۔؟
پرجا : جن، گن، من مانیں تب نا۔
تیسرا آدمی : جن گن من کی اوقات ہی کیا ہے تمھارے سامنے، تم چاہو تو انھیں ایک سیکنڈ میں تہہ و بالا کر سکتی ہو۔
پہلا آدمی : تم چاہو تو انھیں خس و خاشاک کی طرح اڑا سکتی ہو۔
دوسرا آدمی : تم چاہو تو انھیں چیونٹی کی طرح مسل سکتی ہو۔
پرجا : میرے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔
تیسرا آدمی : جھوٹ۔۔۔ تمھارے پاس طاقت ضرور ہے۔۔۔ ہمت نہیں۔
پرجا : ایسا ہی سمجھو۔
پہلا آدمی : تب پھر تمھارے زخم صدیاں گذر جانے کے بعد بھی مرہم کو ترستے رہیں گے۔
دوسرا آدمی : ذرا ہمت سے کام لو تو تمھارے سارے زخموں کا علاج ہو جائے گا۔
تیسرا آدمی : سارے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔
پرجا : مجھ میں ہمت جٹانے کی ہمت نہیں ہے۔
پہلا آدمی : بکواس ہے۔۔۔ بالکل بکواس ہے۔ تم میں ہمت جٹانے کی ہمت ہے مگر تم اس سے پہلو بچا رہی ہو۔
دوسرا آدمی : مان لو ہماری بات۔۔۔ ورنہ سالہا سال تک تم لاچار رہو گی۔
تیسرا آدمی : مجبور رہو گی۔
پہلا آدمی : مظلوم رہو گی۔
دوسرا آدمی : ان سے ٹکرانے کی ہمت پیدا کرو۔
دونوں : ہاں ہاں۔۔۔ ہمت پیدا کرو۔
دوسرا آدمی : سوچو کہ تم ہمت والی ہو۔
تیسرا آدمی : دیکھو کہ تم ہمت والی ہو۔
پہلا آدمی : بولو کہ تم ہمت والی ہو۔
تینوں ایک ساتھ) تم ہمت والی ہو۔۔!!۔۔۔ تم ہمت والی ہو۔۔!!!۔۔۔ تم ہمت والی ہو۔۔!!!!
پرجا : ہاں ہاں، میں ہمت والی ہوں۔۔۔ میں ہمت والی ہوں۔ (سارے جہاں کی دھن پر فیڈ آؤٹ۔)
(روشنی ہونے پر دکھایا جاتا ہے کہ پرجا ایک عزمِ مصمم کے ساتھ کرسی پر بیٹھی ہے۔)
(جن، گن، من اسٹیج پر آتے ہیں۔ پرجا کو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ٹھٹھک جاتے ہیں۔)
پرجا : کیوں۔۔۔ حیران ہو گئے ناکہ میں جھونپڑی سے نکل کر کرسی پر کیوں بیٹھ گئی۔
جن : اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔
گن : یہ کرسی تمھاری ہی تو ہے۔
پرجا : چاپلوسی چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ میرے علاج کا کیا ہوا؟
من : بہت جلد شروع ہونے والا ہے۔
پرجا : تب تک شاید میرے زخم سڑ گل کر ناسور بن جائیں۔
جن : اسمبھو۔۔!
گن : ناممکن۔۔!
من : امپوسیبل IMPOSSIBLE۔۔!
جن : ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ بھلا ہم کس لئے ہیں۔
پرجا : میرا خون چوسنے کے لئے۔ ناکارو۔۔۔ نا اہلو۔۔۔ بس اب بہت ہو چکا۔ تم نے مجھے بہت بیوقوف بنا لیا۔ اب میں اور بیوقوف نہیں بن سکتی۔ میں تم لوگوں سے کرسی کا ادھیکار چھینتی ہوں۔۔!!
(تینوں دوڑ کر پرجا کو دبوچ لیتے ہیں۔)
جن : کمینی۔۔۔ حرامزادی۔۔۔ تو کیا سمجھتی ہے کہ اب ادھیکار دینا یا چھیننا تیرے ہاتھ میں رہ گیا ہے۔
گن : اگر تو ایسا سوچتی ہے تو یہ تیری بھول ہے۔
من : سارے ادھیکار اب ہمارے ہاتھ ہیں۔ تو تو بس ایک کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے۔
پرجا : چھوڑ دو۔۔۔ نااہلو۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ ورنہ میں چیخ چیخ کر ساری دنیا سر پر اٹھا لوں گی۔
جن : تیری چیخیں سن کر کوئی تیری مدد کو نہیں آئے گا۔
گن : تیری چیخیں تو روز کا معمول بن چکی ہیں۔
من : دنیا نے اس پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے۔
جن : سب تجھے پاگل سمجھنے لگے ہیں۔۔۔ دیوانہ سمجھنے لگے ہیں۔۔۔ سمجھی۔۔۔ پاگل۔۔۔ دیوانہ۔۔!!
گن، من : پاگل۔۔۔ دیوانہ۔۔!!! (تینوں زور زور سے ہنستے ہیں۔)
پرجا : ہاں ہاں۔۔۔ میں پاگل ہوں۔۔۔ میں دیوانی ہوں جو تمھاری باتوں میں آ گئی۔ لیکن اب میری آنکھیں کھل چکی ہیں۔ آج سے میں نہ چیخوں گی نہ چلاؤں گی۔ ایک خاموش احتجاج کروں گی۔
جن : نہیں۔۔۔ ہم تجھے خاموش نہیں رہنے دیں گے۔ تو چیختی ہوئی ہی اچھی لگتی ہے۔
گن : تیری چیخیں ہمیں شہنائی پر چھیڑا ہوا کوئی راگ لگتی ہیں۔
من : بانسری پر بجایا ہوا کوئی گیت لگتی ہیں۔
جن : اس لئے بہتر یہی ہے کہ تو چلاتی رہ۔
گن : تو چیختی رہ۔
من : شور مچاتی رہ۔ (پرجا خاموش کھڑی رہتی ہے۔)
جن : تیری خاموشی ہمیں اچھی نہیں لگتی۔
گن : تیری زباں بندی ہمیں اچھی نہیں لگتی۔
من : اس لئے چِلّا۔۔!!
تینوں : چِلّا۔۔۔ چِلّا۔۔۔ چِلّا۔۔۔ چِلّا (تینوں چِلّا چِلّا کر ہانپنے لگتے ہیں، لیکن پرجا ٹس سے مس نہیں ہوتی۔)
گن : کمبخت چِلّاتی ہی نہیں۔
من : مجھے اس کی خاموشی سے ڈر لگ رہا ہے۔
گن : اس کی خاموشی سے مجھے ایسا احساس ہو رہا ہے جیسے سمندر خاموش ہے۔
من : اور سمندر کی خاموشی کا مطلب ہے طوفان کی آمد۔
گن، من : (جن سے) اسے کسی بھی طرح چِلّانے پر مجبور کرو۔
جن : ٹھیک ہے۔۔۔ لاؤ کوڑا۔ (گن دوڑ کر کوڑا لاتا ہے۔)
جن : (کوڑا ہاتھ میں کے کر)نادان پرجا اب بھی ہوش میں آ جا، ورنہ تجھ پر کوڑے برسانا شروع کر دوں گا۔ (پرجا چپ کھڑی اسے دیکھتی ہے۔) میں کہتا ہوں چِلّا۔۔۔ نہیں چِلّاتی۔۔۔ تو یہ لے۔۔!!!
(کوڑا مارتا ہے اور کہتا ہے۔) مہنگائی دگنی۔۔!! (پرجا اف نہیں کرتی ہے۔ جن پھر کوڑا مارتا ہے۔) ٹیکس دگنا۔۔!! (پھر کوڑا مارتا ہے۔) ضرورت کی چیزیں آؤٹ آف اسٹاک۔۔!! (پھر کوڑا مارتا ہے۔) تنخواہوں میں اضافہ منسوخ۔۔!! (پھر کوڑا مارتا ہے۔) غنڈوں کو چھوٹ۔۔!! (پھر کوڑا مارتا ہے۔) بیوپاریوں کو چھوٹ۔۔!! (پھر کوڑا مارتا ہے۔) ہراس آدمی کو چھوٹ جو تجھے لوٹ سکے۔۔!!! (جن تھک جاتا ہے لیکن پرجا پھر بھی خاموش کھڑی رہتی ہے۔)
من : اتنے سارے کوڑے پڑنے کے بعد بھی یہ چپ ہے۔
گن : دیکھا نا میں کیا کہتا تھا کہ یہ اب سمندر کی طرح خاموش ہو چکی ہے۔ اس کے اندر ایک طوفان امڈ رہا ہے، جو ہمیں تباہ و برباد کر دے گا۔
جن : اب تو مجھے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔
من : تو چلو اسے اسی حال میں چھوڑ کر بھاگ چلیں۔
جن : چلو۔ (تینوں بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سارے راستے بند پاکر بھاگ نہیں پاتے ہیں۔)
(بیک گراؤنڈ سے ڈھیر ساری آوازیں ایک ساتھ گونجتی ہیں۔)
آوازیں: طوفان۔۔۔ طوفان۔۔۔ طوفان۔۔۔ طوفان۔۔۔ طوفان!! (تینوں تھک کر گر پڑتے ہیں۔ بیک گراؤنڈ کی آوازوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ پرجا پر ’حال ‘جیسی جنونی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اور وہ جھومنے لگتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر کا طوفان باہر نکلنے والا ہے۔ تبھی جن چِلّاتا ہے۔)
جن : ٹھہر جاؤ پرجا۔۔!!۔۔۔ ہم نے تمھارے علاج کا نیا اور انوکھا طریقہ ڈھونڈھ نکالا ہے۔
پرجا : تم سچ بول رہے ہو؟
جن : بالکل سچ۔۔۔ ہم نے جیون مرہم ایجاد کر لیا ہے۔
پرجا : جیون مرہم۔۔۔؟
جن : ہاں۔۔۔ جیون مرہم۔
پرجا : تو جاؤ۔۔۔ جلدی سے اسے لے کر آؤ۔۔۔ ورنہ۔۔۔
جن : لیکن سارے راستے تو بند ہیں۔
پرجا : تم جاؤ تو۔۔۔ سارے راستے خود بخود کھل جائیں گے۔
جن : (گن، من سے) چلو۔۔!! (تینوں جاتے ہیں اور فوراً ایک تاج لے کر آتے ہیں۔)
جن : یہ رہا جیون مرہم۔
گن : تم اسے سر پر پہن لو، سارے جسم کا علاج ہو جائے گا۔
پرجا : لاؤ۔۔۔ مجھے دو۔
من : نہیں۔۔۔ ہم خود اِسے تمھارے سر پر رکھیں گے۔
(تینوں تاج اس کے سر پر رکھتے ہیں۔ بادل گرجتے ہیں۔ بجلی کڑکتی ہے۔ تینوں ہنستے ہیں)
پرجا : یہ۔۔۔ یہ کیا چیز ہے۔۔۔ یہ تو میرے ذہن کو جکڑ رہی ہے۔ میرے دماغ کی نسوں کو کس رہی ہے۔
جن : بیوقوف پرجا۔۔۔ یہ جیون مرہم نہیں۔۔۔ زنجیروں کا تاج ہے۔
گن : اب تم چاہو گی بھی تو خاموش نہیں رہ سکتیں۔
من : یہ زنجیریں تمھیں کچوکے لگاتی رہیں گی۔۔۔ تمھیں ٹوچتی رہیں گی۔
پرجا : آہ۔۔۔ بھگوان کے لئے یہ زنجیریں میرے سر سے اتار لو۔۔۔ میں اس کے نشتر برداشت نہیں کر سکتی۔
گن : تمھیں برداشت کرتے رہنا پڑے گا۔
پرجا : یہ کیسی زنجیریں جو مجھے بے بس کئے ہوئے ہیں۔۔۔ میرے احساس کو سلب کئے ہوئے ہے۔
جن : یہ غریبی کی زنجیریں ہیں۔
گن : یہ مہنگائی کی زنجیریں ہیں۔
من : یہ بے روزگاری کی زنجیریں ہیں۔
جن : یہ بھک مری کی زنجیریں ہیں۔
گن : مذہبی تفرقہ کی زنجیریں ہیں۔
من : علاقائی تعصب کی زنجیریں ہیں۔
جن : لسانی تفرقہ کی زنجیریں ہیں۔
گن : اتنی ساری زنجیروں سے چھٹکارہ پانا تمھارے بس کی بات نہیں ہے۔
من : یہ سب تم سے کہہ رہی ہیں کہ تم مجبور ہو۔
جن، گن : ہاں ہاں۔۔۔ تم مجبور ہو۔
تینوں : تم مجبور ہو۔۔۔ تم مجبور ہو۔۔۔ تم مجبور ہو۔۔۔۔!!!
جن : بولو کہ تم اب خاموش نہیں رہو گی۔
گن : تم اب خاموش نہیں رہو گی۔
من : تم اب خاموش نہیں رہو گی۔
پرجا : ہاں ہاں میں خاموش نہیں رہوں گی۔۔۔ میں چِلّاؤں گی۔۔۔ میں چِلّاؤں گی۔۔۔ سنو میں چیخ رہی ہوں۔۔۔ چِلّا رہی ہوں۔۔۔ ہاہاہا۔۔!!
(تینوں پرجا کی طرف دھیمی رفتارSLOW MOTION)) سے بڑھتے ہیں۔ پرجا پیچھے ہٹتی ہے اور دھپ سے کرسی پر بیٹھتی ہے۔ تینوں وحشی درندوں کی طرح اس پر چھا جاتے ہیں۔ پرجا کی چیخ نکل پڑتی ہے۔)
پرجا : آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
(تینوں قہقہہ لگاتے ہوئے دھیرے دھیرے پرجا پر سے اٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ پرجا سسکتی ہوئی، روتی ہوئی اپنی شکن آلود ساڑی کو ٹھیک کرتے ہوئے جھونپڑی کی طرف جاتی ہے۔ جن، گن، من کرسی کے پاس آتے ہیں اور ایک ساتھ کرسی پراس طرح بیٹھتے ہیں کہ تریمورتی کی شکل بن جاتی ہے۔)
(پردہ گرتا ہے۔)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں