FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

آنکھوں میں سپنا بھی نہیں

 

 

 

               طفیل چترویدی

 

 

 

 

 

 

نہیں جھونکا کوئی بھی تازگی کا

تو پھر کیا فائدہ اس شاعری کا

 

بہت دن تک نہیں بہتے ہیں آنسو

وہ دریا ہو گیا صحرا کبھی کا

 

کسی نے زندگی برباد کر دی

مگر اب نام کیا لیجے کسی کا

 

محبت میں یہ کس نے زہر گھولا

بہت میٹھا تھا پانی اس ندی کا

 

تیری تصویر پر آنسو نہیں ہیں

مگر دھبہ نہیں جاتا نمی کا

 

وہی جو مسکراتا پھر رہا ہے

اداسی ڈھونڈھتی ہے گھر اسی کا

 

وہ رشتہ توڑنے کے موڈ میں ہے

میاں پتہ چلو اب خود كشی کا

 

سمٹ آئے پھر اک دن ذات میں ہم

بہت دن دکھ سہا زندہ دلی کا

 

کسی دن ہاتھ دھو بیٹھو گے ہم سے

تمہیں چسکا بہت ہے بے رخی کا

٭٭٭

 

 

 

ہوا کو رخ بدلنا چاہئے تھا

دیا میرا بھی جلنا چاہیے تھا

 

ڈبوئی آنسوؤں میں ساری ہستی

سمندر سے نکلنا چاہیے تھا

 

پڑے ہو راستے پر خاک اوڑھے

ہوا کے ساتھ چلنا چاہئے تھا

 

پگھل اٹھّی تھی تاریکی فضا کی

ہمیں کچھ اور جلنا چاہیے تھا

 

ضروری تھا سبھی کے ساتھ رہتے

ذرا سا بچ کے چلنا چاہئے تھا

 

اندھیرا عادتاً کرتا ہے سازش

مگر سورج نکلنا چاہیے تھا

 

تمہاری بات بالکل ٹھیک تھی بس

تمہیں لہجہ بدلنا چاہئے تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پیار کیا ہے تو مر جانا تھوڑی ہے

دیوانہ اتنا دیوانہ تھوڑی ہے

 

آنکھوں سے دھوکہ مت کھا جانا، ان میں

تو بھی ہے  خالی ویرانا تھوڑی ہے

 

تنہا دل آخر دنیا سے ہار گیا

لیکن وہ دنیا کی مانا تھوڑی ہے

 

ٹوٹے رشتے پر رونا  دھونا کر بند

اس کو اب کی بار منانا تھوڑی ہے

 

شہرت  کی اونچائی پر اتراتا ہے

پربت سے وادی میں آنا تھوڑی ہے

 

ہم تم کاغذ پر صدیوں سانسیں لیں گے

لفظوں کا جادو مر جانا تھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

اشکوں سے آنکھوں کا پردہ ٹوٹ گیا

عشق کا آخر کچا دھاگا ٹوٹ گیا

 

بیٹے کی چپ چاپ اٹھا تو لی میت

اندر اندر لیکن بوڑھا ٹوٹ گیا

 

سوچا تھا سچ کی خاطر جاں دے دوں گا

میرا مجھ سے آج بھروسہ ٹوٹ گیا

 

پربت کی بانہوں میں جوش الگ ہی تھا

میدانوں میں آ کر دریا ٹوٹ گیا

 

نئی بہو سے اتنی تبدیلی آئی

بھائی کا بھائی سے رشتہ ٹوٹ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غبار دل سے پرانا نہیں نکلتا ہے

کوئی بھی صلح کا رستہ نہیں نکلتا ہے

 

اٹھائے پھرتے ہیں سر پر سیاسی لوگوں کو

اگرچہ، کام کسی کا نہیں نکلتا ہے

 

کریں گے جنگ تو لیکن، ذرا سلیقے سے

شریف لوگوں میں جوتا نہیں نکلتا ہے

 

تیرے ہی واسطے آنسو بہائے ہیں ہم نے

سبھی کا ہم پہ یہ قرضہ نہیں نکلتا ہے

 

جو چٹنی روٹی پہ جی پاؤ، تب تو آؤ تم

کہ میرے کھیت سے سونا نہیں نکلتا ہے

 

یہ سن رہا ہوں کہ تو نے بھلا دیا مجھ کو

وفا کا رنگ تو کچا نہیں نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دھوپ ہوتے ہوئے بادل نہیں مانگا کرتے

ہم سے پاگل، ترا آنچل، نہیں مانگا کرتے

 

ہم فقیروں کو یہ گٹھری، یہ چٹائی ہے بہت

ہم کبھی شابوں  سے مخمل نہیں مانگا کرتے

 

چھین لو، ورنہ نہ کچھ ہوگا ندامت کے سوا

پیاس کے راج میں، چھاگل نہیں مانگا کرتے

 

ہم بزرگوں کی روایت سے جڑے ہیں بھائی

نیكیاں کر کے کبھی پھل نہیں مانگا کرتے

 

دینا چاہے تو اگر، دے ہمیں دیدار کی بھیک

اور کچھ بھی  تیرے پاگل نہیں مانگا کرتے

 

آج کے دور سے امیدِ وفا! ہوش میں ہو؟

یار، اندھوں سے تو کاجل نہیں مانگا کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پل پل سفر کی بات کریں آج ہی تمام

منزل قریب آئی، ہوئی زندگی تمام

 

پو کیا پھٹی، کہ شب کے مسافر چلے گئے

پیپل کی چھاؤں تجھ سے ہوئی دوستی تمام

 

پچھلی صفوں کے لوگ جلائے لہو سے دیپ

میں چک گیا ہوں، میری ہوئی روشنی تمام

 

بس اس گلی میں جا کے سسکنا رہا ہے یاد

اس کی طلب میں چھوٹ گئی سر كشی تمام

 

کچھ تھا کہ جس سے زخم ہمیشہ ہرا رہا

بے چینیوں کے ساتھ کٹی زندگی تمام

 

یہ اور بات  پیاس سے دیوانہ مر گیا

لیکن کسی طرح تو ہوئی تشنگی تمام

٭٭٭

 

 

 

 

عدالتیں ہیں مقابل  تو پھر گواہی کیا

سزا ملے گی مجھے  میری بے گناہی کیا

 

میرے مزاج میں شک بس گیا میرے دشمن

اب اس کے بعد میرے گھر کی ہے تباہی کیا

 

ہر ایک بونا میرے قد کو ناپتا ہے یہاں

میں سارے شہر سے الجھوں مرے الہی کیا

 

سمے کے ایک طمانچے کی دیر ہے پیارے

میری فقیری بھی کیا  تیری بادشاہی کیا

 

تمام شہر کے خوابوں میں کیوں اندھیرا ہے

برس رہی ہے  گھٹاؤ! کہیں  سیاہی کیا

 

مرے خلاف میرے سارے کام جاتے ہیں

تو میرے ساتھ نہیں ہے، میرے الہی کیا

 

بس اپنے زخم سے کھلواڑ تھے ہمارے شیر

ہمارے جیسے قلم كار نے لکھا ہی کیا

٭٭٭

 

 

 

ورق  ورق پہ اجالا اتار آیا ہوں

غزل میں میر کا لہجہ اتار آیا ہوں

 

برہنہ ہاتھ سے تلوار روک دی میں نے

میں شاہزادے کا نشّا اتار آیا ہوں

 

سمجھ رہے تھے سبھی، موت سے ڈروں گا میں

میں سارے شہر کا چہرہ اتار آیا ہوں

 

مقابلے میں وہ ہی شخص سامنے ہے مرے

میں جس کی جان کا سودا اتار آیا ہوں

 

اتارتی تھی مجھے تو نگاہ سے دنیا

تجھے نگاہ سے دنیا اتار آیا ہوں

 

غزل میں نظم کیا آنسوؤں کو چُن چُن کر

چڑھا ہوا تھا، وہ دریا اتار آیا ہوں

 

تیرے بغیر کہاں تک یہ وزن اٹھ پاتا

میں اپنے چہرے سے ہنسنا اتار آیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

آہٹ ہماری سن کے وہ کھڑکی میں آ گئے

اب تو غزل کے شعر اسیری میں آ گئے

 

ساحل پہ دشمنوں نے لگائی تھی ایسی آگ

ہم بدحواس ڈوبتی کشتی میں آ گئے

 

اچھا جہیز دے نہ سکا میں، بس اس لئے

دنیا میں جتنے عیب تھے، بیٹی میں آ گئے

 

ہم تو سمجھ رہے تھے زمانے کو کیا خبر

کردار اپنے، دیکھ  کہانی میں آ گئے

 

تم نے کہا تھا آؤ گے  جب آئے گی بہار

دیکھو تو کتنے پھول چمبیلی میں آ گئے

 

اس کی گلی کو چھوڑ کے یہ فائدہ ہوا

غالب، فراق، جوش کی بستی میں آ گئے

 

ہم راکھ ہو چکے ہیں، تجھے بھی جتا تو دیں

بس اس خیال سے تری شادی میں آ گئے

 

ہاں اس غزل میں ان کے خیالات نظم ہیں

اس بار بادشاہ  غلامی میں آ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

اس جگہ پتھر لگے تھے، رنگ نیلا کر دیا

اب کے رت نے میرا باسی زخم تازہ کر دیا

 

آئینے میں اپنی صورت بھی نہ پہچانی گئی

آنسوؤں  نے آنکھ کا ہر عکس دھندلا کر دیا

 

اس کی خواہش میں تمہارا سر ہے، تم کو علم تھا

اپنی منظوری بھی دے دی، تم نے یہ کیا کر دیا

 

اس کے وعدے کے عوض دے ڈالی اپنی زندگی

ایک سستی شے کا اونچے دام سودا کر دیا

 

کل وہ ہنستا تھا مری حالت پہ، اب ہنستا ہوں میں

وقت نے اس شخص کا چہرہ بھی صحرا کر دیا

 

تھا تو ناممکن ترے بن میری سانسوں کا سفر

پھر بھی میں زندہ ہوں، میں نے تیرا کہنا کر دیا

 

ہم تو سمجھے تھے کہ اب اشکوں کی قسطیں چک گئیں

رات اک تصویر نے پھر سے تقاضا کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

دلوں کے زہر کو شائستگی نے کاٹ دیا

اندھیرا تھا تو گھنا  چاندنی نے کاٹ دیا

 

بڑا طویل سفر تھا حیات کا لیکن

یہ راستہ میری آوارگی نے کاٹ دیا

 

ہمیں ہمارے اصولوں سے چوٹ پہنچی ہے

ہمارا ہاتھ ہماری چھری نے کاٹ دیا

 

تم اگلے جنم میں ملنے کی بات کرتے ہو

یہ راستہ جو میری خود كشی نے کاٹ دیا

 

خموشیوں سے تعلق کی ڈور ٹوٹ گئی

پرانا رشتہ تری بےرخی نے کاٹ دیا

 

جِگر کے ٹکڑے مرے آنسوؤں میں آنے لگے

بہاؤ تیز تھا، پشتا ندی نے کاٹ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

دھیرے دھیرے اشک تو کم ہو جائیں گے

لیکن دل پر زخم رقم ہو جائیں گے

 

دیوانے کی پلکیں کھلنے مت دینا

صحرا تیرے بنجر نم ہو جائیں گے

 

میرے پیروں میں چبھ جائیں گے لیکن

اس رستے سے کانٹے کم ہو جائیں گے

 

اس کی یاد کا جھونکا آنے والا ہے

یہ جلتے لمحے شبنم ہو جائیں گے

 

ہم تھک کر بیٹھیں گے اس کی چوکھٹ پر

سارے راہی تیز قدم ہو جائیں گے

 

سوکھتی جاتی ہے تیری یادوں کی جھیل

پنچھی غزل کے آنے کم ہو جائیں گے

 

دنیاداری طاق پہ رکھنے کا جی ہے

گھر میں رہ کر ہم گوتم ہو جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا جس کا بھروسہ بھی نہیں تھا

کہ وہ ابھرا  جو تیرا بھی نہیں تھا

 

محبت امتحاں لیتی ہے ایسے

و ہی چپ تھا  جو گونگا بھی نہیں تھا

 

شہنشاہوں سے یاری تھی ہماری

بھلے ہی پاس دھیلا بھی نہیں تھا

 

برائی جس طرح میری ہوئی ہے

میاں، میں ایسا اچھا بھی نہیں تھا

 

ضرورت پیش آتی دشمنی کی

تعلق اتنا گہرا بھی نہیں تھا

 

میں صدیاں چھین لایا وقت تجھ سے

میرے قبضے میں لمحہ بھی نہیں تھا

 

تیری حالت بدل پاتی تو کیسے

کہ جب آنکھوں میں سپنا بھی نہیں تھا

٭٭٭

 

ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ

ہندی سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید