فہرست مضامین
- آنند نرائن ملاؔ : علمی و ادبی کمالات، دوم
- آنند نرائن ملّا: انسانی اقدار کا نغمہ گر
- آنند نرائن ملّا: نثری نگارشات کی روشنی میں
- پنڈت آنند نرائن ملّا۔ ایک شعری جائزہ
- آنند نرائن ملّا کی غزل
- آنند نرائن ملّا کی نظموں میں ہیئتی تجربے
- آنند نرائن ملّا اور تخلیقی ترجمے کی ایک مثال
- پنڈت آنند نرائن ملّا: ایک بازیافت
- ملّا صاحب کی شاعری پر ایک نظر
- آنند نرائن ملّا کی قومی شاعری
- آنند نرائن ملّا کا نظریۂ شاعری
- غالب اور پنڈت آنند نرائن ملا
- پنڈت آنند نرائن ملّا اور ان کی شاعری
- آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری میں انسان دوستی
- پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی ترجمہ نگاری
- آنند نرائن ملا کی چند شخصی نظمیں
- ملّاؔ کی نظموں میں سماج کا درد اور رومانی تخیل
- آنند نرائن ملّا: ادبی نظریات اور شعری کردار
- آنند نرائن ملّاؔ کی نظم نگاری: فکر و نظر کے چند پہلو
آنند نرائن ملاؔ : علمی و ادبی کمالات، دوم
کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ کا تیسرا حصہ
مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی
آنند نرائن ملّا: انسانی اقدار کا نغمہ گر
……… شہپر رسول
شاعری شعور کا نور ہے، معلوم سے نا معلوم کا سفر ہے، اظہارِ ذات اور حصولِ خودی کا وظیفہ ہے، خوابوں کے ذریعے حقائق کی تنظیم نو اور توسیع ہے نیز شاعری سخن بھی ہے اور ماورائے سخن بھی۔ شاعری کے بارے میں اس طرح کی بہت سی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ واقعہ ہے کہ شاعری دو اور دو چار نہیں ہے۔ یہ حرفِ آخر نہیں لکھتی۔ اس کے رنگ مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہ الگ الگ اصناف کے دریچوں سے الگ الگ فنکاروں کے یہاں الگ الگ روپ جھمکاتی ہے۔ انسانی ذہن و ضمیر کو متاثر کرتی ہے۔ مثبت و منفی کے فرق کو گہرا کرتی ہے اور تزکیۂ باطن کا ذریعہ بنتی ہے۔ آنند نرائن ملّا ان مراحل سے ثابت قدمی کے ساتھ گزرے ہیں چنانچہ ایک رنگ ان کا بھی ہے۔ جس کو انھوں نے نبردِ زیست اور ذاتی واردات کے اختلاط سے قائم کیا ہے وہ داخلی احساسات اور خارجی منظر نامے اور انفرادیت و اجتماعیت میں ہم آہنگی کے قائل ہیں۔ ان کی شاعری میں عشقیہ جذبات اور جمالیاتی احساس کی مہذب پیشکش کے ساتھ ہی سیاسی، سماجی اور قومی جہات کا جذبے کی آمیزش کے ساتھ اظہار ہوتا ہے۔ وہ آسودگیِ فرد پر مفادِ افراد کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ محبوب کے جلووں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو رواں دواں دیکھتے ہیں اور زیست کے مثبت اور عملی پہلو پر زور دیتے ہیں لیکن نظریاتی وابستگی کے شعری اظہار اور حقائق سے فرار کو سمِّ قاتل تصور کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے اثبات اور جہدِ مسلسل کی بات کرتے ہیں اور بے باکی و حق گوئی کے ساتھ محرومی، بے انصافی، حق تلفی اور ریا کاری جیسے انسانی سماجی مسائل کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔ اردو زبان کے سلسلے میں آنند نرائن ملّا کے موقف کو یہاں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ اردو کے عاشقِ صادق بلکہ مجاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اردو زبان کے خلاف ہونے والے ہر عمل پر ہمیشہ شدید ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔
آنند نرائن ملّا کی تخلیقی سرگرمی کا زمانہ نصف صدی سے زیادہ کو محیط ہے لیکن اس کا ابتدائی منظر نامہ لکھنوی شاعری کے ایسے نقوش سے نہ صرف مزین بلکہ ڈھکا ہوا ہے جو شاعری کے چند مخصوص رنگوں اور زاویوں کے عکاس ہیں۔ ایسے میں کوئی باغی ذہن اور منفرد فکر کا حامل فنکار ہی مسلمات سے گریز کی ہمت کر سکتا ہے اور آنند نرائن ملّا نے ایسا کیا۔ یہ عمل یقیناً ان کی نئی فکر، عزمِ مصمم، سماجی شعور، انسان دوستی اور خلوصِ فن کا غماز ہے۔ وہ زندگی کے بارے میں ایک رائے رکھتے ہیں۔ انسانی فکر و خیال نیز اعمال و افعال کو پرکھنے کا درد مندی، اخلاص اور حق بینی میں گندھا ہوا ایک ایسا پُر شعور سلیقہ ان کے پاس ہے جو رفتہ رفتہ ان کی تخلیقی سرشت کے سر نامے کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور وہ اس طرح گویا ہوتے ہیں :
وادیِ نور بنے گی یہی شعلوں کی زمیں
ابھی مٹی کے فرشتے سے میں مایوس نہیں
اک جنگ پر آمادہ دنیا، یہ راز نہ کب تک سمجھے گی
طاقت کی دَہائی فانی ہے انساں کی اکائی باقی ہے
یوں غمِ دہر میں اپنا غمِ دل بھول گیا
جیسے گر کے کسی ساگر میں ندی کھو جائے
غم انساں سے جو دل شعلہ بجاں ہوتا ہے
وہی ہر دور میں معمارِ جہاں ہوتا ہے
مبارک ہو تمہیں تیغ و سناں یارو مگر ہم تو
فقط اک شاخِ گل لے کر بہ سوئے کارزار آئے
گنگناتا ہوا دل چاہیے جینے کے لیے
اس نزاعِ سحر و شام میں کیا رکھا ہے
ہر اک نزاع کا حل انتقام ہی ہے ابھی
مگر سوال تو یہ ہے کہ انتقام کے بعد
دردِ انساں مشترک تھا اہل دل خود آئے پاس
خضر لڑتے ہی رہے اور کارواں بنتا رہا
زیست بدلا ہی کی محاذِ نبرد
وہی انساں وہی حیات کا درد
کوئی جبر آج تک نہ چھین سکا
دلِ انساں سے اس کی تابِ نبرد
ان اشعار میں انسان دوستی کا وظیفہ تخلیقی نصب العین بن کر سامنے آتا ہے۔ یہاں خیال اور جذبے کی آمیزش ذات میں کائنات اور کائنات میں ذات کی جلوہ گری کرتی ہے۔ آنند نرائن ملّا ذات کے نہاں خانوں میں پناہ لینے یا حاضر سے برگشتہ ہو کر آئندہ کے خوابوں میں کھو جانے کے بجائے زندگی کے خارزار کو بہ سلامت روی عبور کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ انسانی معاشرے کے تمام تر آشوب و ابتلا کو اس طرح تخلیقی اظہار کا آئینہ بناتے ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی دردِ انسانی میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔
آنند نرائن ملّاؔ کی نظمیہ اور غزلیہ شاعری یکساں طور پر ان کی قادر الکلامی کی غمّاز ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی کلیات میں 148 نظموں اور دس قطعات کے مقابلے میں غزلیات کی تعداد 233ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کی بیشتر نظمیں نہ صرف غزل کی ہئیت میں ہیں بلکہ ان کے ڈکشن پر بھی غزل کی زبان کا گہرا سایہ ہے۔ تراکیب اور مخصوص الفاظ خاص طور پر اِس امر کی گواہی دیتے ہیں۔ پروفیسر آلِ احمد سرور نے بجا طور پر کہا ہے :
’’وہ]آنند نرائن ملّا[ نظم و غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک تازگی، تفکر اور مہذب لطافت ملتی ہے۔ جس کا نشہ بعض شعرا کے مقابلے میں مدھم معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت اس کی نرمی، دل آسائی اور قوت شفا خاصے کی چیز ہے۔ لکھنؤ کے اکثر شعرا کی غزلیں اپنے رچے ہوئے اندازِ بیان کے باوجود پُرانی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی دنیا ہماری آجکل کی دنیا سے خاصی مختلف ہے۔ ان کی زبان میں انوکھا پن نہیں ہے۔ یہ غزلیں ایک ایسا کیف و اثر پیدا کرتی ہیں جو الفاظ کا عشق سکھاتا ہے انسانوں کا عشق نہیں۔ حسرت، فانی، اصغر، جگر اور فراق کی غزلوں میں تازگی ملتی ہے۔ …ملّا بھی اس برادری میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ غزل کو بہت سے عاشق ملے مگر ملّا انسانیت کے عاشق ہیں۔ انھیں بشر اپنی ساری پستیوں اور عظمتوں کے ساتھ عزیز ہے۔ ملّا کا کمال یہ ہے کہ وہ خوابوں سے عشق کے باوجود حقائق کا احساس رکھتے ہیں اور اپنے گرد و پیش کی فضا کو نظر انداز نہیں کرتے …
…ملّا کا عشق ذرا سنبھلا ہوا اور مہذب عشق ہے مگر اس کی صداقت اور دلگدازی میں کلام نہیں۔ وہ نگاہوں کی زبان سمجھتے ہیں اور اس کے ترجمان بھی ہیں۔ ان کے یہاں نفسیاتِ انسانی کا علم بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا اثر دیر میں ہوتا ہے مگر دیر پا رہتا ہے۔ ‘‘
سرور صاحب کی گفتگو سے آنند نرائن ملّا کی شخصیت، مزاج اور بطور خاص ان کی غزل کے مزاج پر بھر پور روشنی پڑتی ہے۔ آنند نرائن ملّا اپنے ہم عصروں سے مختلف اور منفرد لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کی غزل میں جذبے کو زبان بنانے کا سلیقہ، فکری گہرائی اور اظہار کا بانکپن نظر آتا ہے۔ وہ صرف داخلی محسوسات کے گرفتار نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں حسّی اور فکری تجربات نے خارجی مشاہدات کے امتزاج سے شعر کا روپ دھارا ہے۔ ان کی غزل کسی خاص گروہ یا نظریے کی پابند نہیں۔ ان کے یہاں انسانی زندگی کی وسعتوں اور آفاقی اقدار کی نمائندگی اس طرح ہوتی ہے کہ انسان کے داخلی و خارجی محرکات نیز مسائل و مراحل کی صورت گری لفظ میں کائنات اور اشارے کے قطرے میں داستان کا دریا سمو دیتی ہے۔
میں نے آنند نرائن ملّا کو ان کی غزل کے حوالے سے انسانیت کا نغمہ گر کہا ہے۔ وہ اپنے نصب العین کی وسعت کو غزل کی رمزیت میں اس فن کاری کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ وہ انسان دوستی کا ترانہ بن جاتا ہے۔ بعض ناقدین نے اسی اعتبار سے ان کے کلام کو صحیفۂ انسانیت سے تعبیر کیا ہے۔ آنند نرائن ملّا نے اپنی غزل کے ذریعہ انسانی اقدار کی نغمہ گری کرتے ہوئے نور و ظلمت کے نظام، انسان نما حیوان اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ چنانچہ ان کے اشعار میں طنزیہ اظہار بھی بہت معنی خیز اور خوبصورت پیرایہ اختیار کرتا ہے مگر ارتقا اور انسانیت پر وہ پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ وہ شکستہ انسان کی روح کی آواز بن جانے کا گُر جانتے ہیں نیز انسانی اور حیوانی فکر و عمل کے مابین فن کا آئینہ آویزاں کرنے اور تخلیقی احساس و اظہار کی دیوار بن کر کھڑے ہو جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں :
زیست سے آنکھیں ملانے سے نہ روکیں وہ ہمیں
زندگی جن کی ہے خوابوں سے بہل جانے کا نام
شعرِ ملّا ہے اندھیرے میں اُجالوں کی تلاش
فکرِ ملّا ہے ستارے توڑ کر لانے کا نام
پتھر بھی پگھلتا ہے اپنا تو یہ ایماں ہے
ڈھونڈو گے تو پاؤ گے دشمن میں بھی انساں ہے
مے سب کو نہ ہو تقسیم اگر اپنا بھی الٹ دے پیمانہ
یہ کفر ہے کیشِ رندی میں ساقی سے اکے لیے جام نہ لے
میں نالہ بہ لب اجڑے نشیمن پہ نہیں ہوں
دیکھی نہیں جاتی ہے گلستاں کی تباہی
چمن کو برق و باراں سے خطر اتنا نہیں ملّا
قیامت ہے وہ شعلہ جو نشیمن زاد ہوتا ہے
آنند نرائن ملّا نے اپنی غزل میں پوری انسانیت کی بات کی ہے۔ انھوں نے اس کو کسی سرحد تک بند نہیں رکھا۔ محبت انسانی کا عالمگیر جذبہ ان کے آفاقی لہجے میں نا انصافی، حق تلفی اور ظلم و بربریت کو نشانہ بناتا ہے تو عالمی مسائل و مراحل کی پرت در پرت کیفیات نہایت معنی خیز اشاروں میں اپنا ادراک کراتی ہیں :
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
توانا کو بہانہ چاہیے شاید تشدد کا
پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتّہام آیا
وہ نبض کی رفتار کہ چھٹتے ہیں پسینے
لگتے نہیں دنیا ترے جینے کے قرینے
آنند نرائن ملّا نے زندگی کے مسائل اور حضرتِ انسان کی آڑی ترچھی کار گزاریوں کے ساتھ ساتھ انسانی جمالیات اور جذباتی تجربات کی عکاسی بھی نہایت خوبصورت اور بامعنی انداز میں کی ہے۔ وہ حسن کی رعنائیوں، لطافتوں اور عشق کی تشنہ کامیوں سے بھی گذرے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کے یہاں ہجر و وصال کی وہ صورتیں نظر نہیں آتیں جو مریضانہ ذہنیت کی عکاس ہوں، بلکہ وہ ایک مہذب لطافت کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ان کا لہجہ راز داری کا نہ سہی لیکن وہ اشاروں سے کام لیتے ہیں اور ایک طرح کی پُرکار سادگی کا جادو جگاتے ہیں :
کس نے دیکھا ہے جمالِ روئے دوست
سب نقابوں میں الجھ کر رہ گئے
دیکھ کر اس کو نظر کھو سی گئی یوں جیسے
خواب دیکھے کوئی اور خواب ہی دیکھے جائے
اُس نظر پہ پلکوں کے چھا رہے ہیں یوں سائے
جھنڈ میں درختوں کے جیسے دھوپ کھو جائے
آنند نرائن ملّا نے حسنِ اعتماد، تخلیقی اعتبار اور ذاتی انداز میں زیست کرنے کا ہنر دکھایا۔ معاشرے کے تضادات کا اعتراف انھوں نے ضرور کیا کہ حق بینی و حق گوئی سدا ان کا شیوہ رہا لیکن راہِ مستقیم پر چلنے اور اپنی سمتیں خود بنانے کے معاملے میں وہ کبھی لغزشِ پا کے شکار نہیں ہوئے۔ اعلیٰ انسانی اقدار سے ان کا عشق رہا اور ان کی غزل نے اس عشق کے تخلیقی اظہار کے لیے ہمیشہ راہ استوار کی۔ یوں بھی آنند نرائن ملّا نے غزل کو اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر تصور کیا ہے۔ عہد حاضر میں اردو کی موجودہ صورتِ حال اور غزل کی مقبولیت سے واقفیت رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو ان کے اس موقف کی تائید نہ کرے۔ آنند نرائن ملّا غزل میں زبردستی کی فن کاری دکھانے، دور کی کوڑی لانے اور دوسروں سے مختلف دکھائی دینے کے لیے شاعری کو چیستاں بنا دینے والے شعرا سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ وہ زمانے کی چیرہ دستیوں پر نگاہ کر رہے ہوں، حسن کی دل آویزیوں اور عشق کی پُر پیچ راہوں سے گزر رہے ہوں یا اپنے اصل وظیفۂ حیات یعنی انسانی اقدار کی نغمہ گری میں منہمک ہوں، ان کے زندہ تجربات، لازوال جذبات اور تخلیقی ریاض نے ہمیشہ شعلۂ تخلیق کو ہوا دینے کا کام کیا۔ جب کہ آج کے so calledاہم شعرا میں ایسے غزل گو کثرت سے پائے جاتے ہیں جن کے یہاں تجربہ اور جذبہ نہ صرف اظہار کی مشقت کے ہاتھوں مجروح ہوتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تخلیقی عمل نے ان کا رس نچوڑ لیا ہو۔ آنند نرائن ملّا کی غزل اس امر کی گواہ ہے کہ ان کے یہاں اپنی بات کہہ گزرنے کی ہمت اور تخلیقی اظہار کی خود سلیقگی جذبے کی آنچ کو تیز کر دیتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی غزل سچ بولتی ہے، انسان کے انسان کے فاصلے کو کم کرتی ہے اور اعلیٰ انسانی اقدار کو قائم کر تی ہے تو یہ بیان مبنی بر حقیقت ہو گا۔ آنند نرائن ملّا نے اپنے عہد کی غزل میں اپنے رنگ کا اضافہ ضرور کیا ہے۔ ہمارے معاشرے کو ایسے شعر اکی بھی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّا: نثری نگارشات کی روشنی میں
……… قمر الہدیٰ فریدی
پنڈت آنند نرائن مُلّا دنیائے ادب میں شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن ان کے مطبوعہ مضامین، ریڈیائی تقاریر، فیچر اور خطبات انھیں نثر نگار کی حیثیت سے بھی متعارف کراتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ نثر نگاری کی جانب انھوں نے نسبتاً کم توجہ صرف کی۔ خود انھیں اس کا احساس تھا لکھتے ہیں :
’’در اصل میں نے اپنی نثر نگاری کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں کی۔ شاید غیر شعوری طور پر میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا جیسے یہ صلاحیت مجھ میں نہیں۔ شاعری میں روایات کی بیساکھی مل جاتی ہے آہنگ کے سہارے کام آتے ہیں لیکن نثر لکھنے والے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے اور ساری مسافت اپنے ہی بل بوتے پر طے کرنا پڑتی ہے۔ نثر نگاری سطحی افسانہ نویسی اور انشائے لطیف کی اور بات ہے اچھی خاصی علمی واقفیت چاہتی ہے ‘‘
بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ لکھنے والے نے اپنی نثر کی طرف سے بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے لیکن ذرا غور سے پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا اقتباس میں علمی نثر کے بنیادی مزاج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی آنند نرائن مُلّا کو محض اظہارِ خیال کا ذریعہ تصور نہیں کرتے بلکہ وہ یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ علمی نثر کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جو اسے شاعری سے متمیز کرتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ خود آنند نرائن مُلّا نے نثر میں جو کچھ لکھا، خوارہ ضرورتاً لکھا ہو یا بہ طورِ فرمائش، بہر صورت نثر کے مزاج اور موضوع کے تقاضوں کا خیال رکھ کر لکھا ہے۔ ان کے نثر پارے نہ صرف یہ کہ انھیں ایک اچھے نثر نگار کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں بلکہ ان کے ذوقِ ادب، نظریۂ شعر اور تصورِ حیات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ :
’’زندگی ہو یا فن دونوں سے نپٹنے کے لیے اتنی ضرورت علم کی گہرائیوں میں ڈوبنے کی نہیں جتنی احساس اور شعور کی تربیت سے ایک اندازِ فکر پیدا کرنے کی ہے۔ کیوں کہ یہی انداز ایک منفرد اسلوب بیان عطا کرتا ہے۔ ہاں یہ شرف ضروری ہے کہ یہ انداز محض ایک پینترا بن کر نہ رہ جائے بلکہ ایک پر خلوص نظریہ ہو جو خالی فن کار کے فن ہی کی قدروں کی طرف نہیں بلکہ اس کے تصورِ حیات و کائنات کی طرف بھی اشارہ کرے ‘‘۔
ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’میرے نزدیک اگر ادب میں خلوص نہیں تو وہ انتہائی تخلیقی حسن کے باوجود تاریخِ ادب میں کوئی بلند مقام نہیں پا سکتا۔ چاہے وقتی طور پر اس کا جمالیاتی کیف دلوں کو مسحور کر دے ‘‘۔
آنند نرائن مُلّا کا خیال ہے کہ: ’’کلام میں تاثیر خلوص سے پیدا ہوتی ہے اور عظمت انسانی درد کی آواز شامل کرنے سے۔ وہی شاعر ادبِ عالیہ پیش کر سکتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود ہوں ‘‘۔
۱۹۶۳ء میں ان کا تیسرا شعری مجموعہ ’’میری حدیثِ عمر گریزاں ‘‘ شائع ہوا تو اس کے دیباچے میں انھوں نے داخلیت اور خارجیت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ:
’’داخلیت اسی وقت حسن ہے جب تک اس کے رشتے خارجیت سے اُستُوار ہیں۔ میرے نزدیک عظیم شاعری در اصل خارجیت اور داخلیت کو ایک ساتھ سمونے کا ریاض ہے اور جو یہ گُر جانتا ہے، وہی ادبِ عالیہ تخلیق کر سکتا ہے ‘‘۔
وہ فن کار کی سماجی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ فن کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ علمی سردر جعفری کے مجموعہ کلام ’’پیراہنِ شر ر‘‘ کے پیش لفظ میں انھوں نے اپنے اسی مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ مذکورہ شعری مجموعے تک پہنچتے پہنچتے سردار کے قلم کی تلوار ’’ان کے ہاتھ میں شاخِ گل بن چکی ہے ‘‘۔
آنند نرائن مُلّا قلم کے تقدس، بیان کی لطافت اور زندگی کے جلوۂ صد رنگ کو مختلف سطحوں سے دیکھنے اور دکھانے کے قائل ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’میں نہ یک رخی زندگی کا قائل ہوں نہ یک رخے فن کا۔ زندگی کے ساز میں ایک ہی تار ہر گز کافی نہیں۔ کیا جانے کس وقت کس وجہ سے یہ یکایک ٹوٹ جائے اور انسان بالکل بے آواز ہو جائے۔ ہر آن بدلتی ہوئی زندگی تقاضا کرتی ہے کہ دل و دماغ میں نئی نئی کھڑکیاں مسلسل کھلتی رہیں کیوں کہ پرانی کھڑکیاں ہمیشہ کھلی نہیں رہتیں بلکہ اکثر بند ہو جاتی ہیں۔ زندگی جب ہی تک ہے جب تک ایک بند ہونے والے دروازے کی جگہ دوسرا کھلنے والا دروازہ لے لے۔ کسی فن کار کی تخلیق چاہے وہ نظم ہو یا نثر ایک ایسا ہی دروازہ ہے جس سے اندر کی ہوا باہر جاتی ہے اور باہر کی ہوا اندر آتی ہے۔ اس دروازے سے فن کار دنیا کو دیکھتا ہے اور دنیا بھی فن کار کو دیکھتی ہے۔ یہ آمنا سامنا ہی ارتقائے انسانی کا ضامن ہے اور محافظ بھی‘‘۔
حوالے کے طور پر پیش کیے گئے مذکورہ بالا اقتباسات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح آنند نرائن مُلّا نے نثر کو اپنی فکر کے اظہار اور اپنے فن کی نقاب کشائی کا ذریعہ بنایا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ترسیلِ خیال نثر کا پہلا درجہ ہے اور فن کاری سے اپنی بات کہنا اس کی اگلی منزل ہے۔ جب خیال کے ساتھ ساتھ لفظ بھی اہمیت اختیار کر لے تو تحریر ایوانِ ادب میں داخل ہو جاتی ہے۔ آنند نرائن ملا کی نثر اس کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’تعمیری اور تخریبی قوتیں ایک ہی اندازسے اپنا کام نہیں کرتیں۔ بجلی، زلزلے، آندھی، طوفان ایک مہیب شور اور گرج لے کر آتے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ وقتی ہوتے ہیں۔ زندگی باوجود ان کی لائی ہوئی آفات کے آگے بڑھتی ہے اور یہ تعمیری قوتوں سے شکست کھا کر غائب ہو جاتے ہیں برخلاف اس کے تعمیری قوتیں اتنی خاموشی سے کام کرتی ہیں کہ لوگوں کی نظر کافی دیر تک ان کی طرف نہیں جاتی۔ رات کس طرح دن بن جاتی ہے۔ موسم کس طرح بدل جاتا ہے۔ کلی کس طرح پھول بن جاتی ہے۔ فضا کی نمی کس طرح شبنم کا قطرہ بن کر پھول کی پنکھڑی اور دیر پا ہیں لیکن کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ تجھے یقین ہے کہ آج تخریبی قوتیں ہی نہیں، بلکہ تعمیری قوتیں بھی برسرِ کار ہیں اور فتح بالآخر تعمیری قوتوں کی یقینی ہے ‘‘۔
یہاں خیال بھی ہے اور حسن خیال بھی۔ کہہ سکتے ہیں کہ آنند نرائن مُلّا کے حسن سے واقف ہیں اور اسے برتنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔
مختلف موقعوں پر لکھے گئے مضامین کے علاوہ، ان کے خطبات بہ وجوہ توجہ کے طالب ہیں۔ یہ اردو سے ان کی بے پناہ محبت کا اظہار بھی ہیں اور ان کے تجزیاتی ذہن کے آئینہ دار بھی۔
اردو کے حوالے سے ان کا یہ بیان ملاحظہ ہو:
’’بہ ظاہر مشاعرے اسی افراط سے ہوتے ہیں جیسے پہلے ہوتے ہیں۔ اردو کے رسائل اور اخبارات کی تعداد پہلے سے کچھ زائد ہی ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی ذمہ دار افراد جب لسانی معاملات پر کوئی تقریر کرتے ہیں تو اردو کے حق میں بھی زبان سے دو چار کلمۂ خیر فرما دیتے ہیں۔ جو لوگ تصویر کا خالی یہی رخ دیکھتے ہیں وہ اپنی خواہشوں کے فریب میں مبتلا ہو کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ رفتہ رفتہ معاملات خود بخود رو بہ اصلاح ہو جائیں گے اور اردو اپنا جائز مقام حاصل کر لے گی۔ وہ اس خوشنما نقاب کے حسن میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ خود ان کی اولاد اپنی مادری زبان میں تعلیم پا رہی ہے یا نہیں۔ سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں وہ اپنی مادری زبان میں عذر خواہی کر سکتے ہیں یا نہیں بغیر ایک دوسری زبان کا سہارا لیے ہوئے اپنے ہی وطن میں اسٹیشنوں میں سڑکوں کا نام بھی پڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی زبان کو مٹانے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلے اسے زبان کے درجہ سے گرا کر ایک بولی کی سطح پر لایا جائے اور پھر اسے کسی دوسری زبان میں جذب کر لیا جائے۔ اردو بولنے والے آج بھی کم نہیں ہیں لیکن اردو لکھنے پڑھنے والے روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی زبان کی بقا کے ضامن بولنے والے نہیں ہوتے بلکہ لکھنے پڑھنے والے ہوتے ہیں۔
صورت حال آج بھی کم و بیش وہی ہے جو اس خطبے میں پیش کی گئی ہے۔ ہمیں آنند نرائن ملا کے مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہیے۔
آنند نرائن ملا نے اردو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’’انسانی تجربہ بتاتا ہے کہ حق چار قسم کے ہوتے ہیں۔ اپنا حق، دوست کا حق، اجنبی کا حق اور دشمن کا حق۔ اپنی ہر ناجائز طلب بھی حق معلوم ہوتی ہے اور دشمن کی ہر جائز مانگ بھی ایک غلط مطالبہ۔ اردو کی سب سے بڑی بدقسمی یہی ہے کہ آج اردو کا مطالبہ اکثریت کے کافی بڑے گروہ کی نظر میں دشمن کا مطالبہ ہے اور اس واسطے اردو کا جائز سے جائز حق بھی نا قابلِ قبول ہو جاتا ہے۔ ‘‘
اردو کا جائز حق اسے کیسے ملے، اور اس کے لیے اہل اردو کو کیا کرنا چاہیے، اس ضمن میں آنند نرائن مُلّا نے جو مشورے دیے تھے، ان میں بعض تجویزوں کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں :
’’اردو دوستوں اور اردو ادب کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں یا جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہیں ان کی مناسب انداز میں تردید کریں۔ اردو ادب کا وہ حصہ جو ہماری معاشرت ہماری تہذیب، ہماری قوم پرستی اور ہماری قومی یکجہتی کا آئینہ دار ہے اور میں مسرت اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اتنا سرمایہ کسی اور ادب میں مشکل ہی سے ہو گا اکثریت کے بڑے سے بڑے گروہ تک پہنچائیں تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ یہ ایک قیمتی قومی دولت ہے جو خالی اردو والوں ہی کی نہیں بلکہ سارے ملک کی ہے اور اگر یہ تلف کی گئی تو ہماری قوم خود اپنے ہاتھ سے اپنا گنج گراں مایہ لٹا دے گی اور لعل و گوہر کھودے گی۔
اردو کے مطالبہ کو کسی سیاسی نظریہ سے وابستہ نہ ہونے دیں اور اسے کسی مذہب یا فرقہ کا خصوصی حق سمجھیں، یہ مطالبہ جتنا بھی زیادہ غیر مذہبی ہو گا اتنا ہی زیادہ جاندار اور توانا ہوتا جائے گا۔ آج کے خلاف سب میں بڑا الزام یہی ہے کہ یہ صرف چند مسلمانوں کی ہے۔ یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی بلکہ خطہ کی ہوتی ہے ‘‘۔
اردو کے خلاف محاذ آرائی آج بھی جاری ہے۔ کبھی اسے غیر ملکی زبان بتایا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اردو رسم الخط میں بڑی خامیاں ہیں۔ رومن یا ناگری رسم الخط اختیار کرنے سے یہ خامیاں دور ہو جائیں گی۔ کبھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر اردو ہندی اختیار کر لے تو اس کی دنیا وسیع ہو جائے گی۔ اور وہ زیادہ بڑے حلقے تک پہنچ جائے گی۔ اس سے ملتے جلتے خیالات ماضی میں بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ آنند نرائن مُلّا نے اپنے ایک خطبے میں ایسی تمام تجاویز کا جائزہ لے کر اپنی رائے کا جس طرح اظہار کیا ہے، اس کی داد نہ دینا یقیناً نا انصافی ہو گی۔ بعض اقتباسات ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں :
’’آج اردو کے خلاف سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ یہ صرف چند مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ زبان کی مذہب کی نہیں ہوتی بلکہ خطے کی ہوتی ہے ‘‘
’’ایک بحث یہ بھی کی جاتی ہے کہ ہندی اور اردو میں بہت کم فرق ہے۔ لہٰذا اردو والوں کو قومی یک جہتی کے نام پر اردو کے مٹنے کا ماتم نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جو لوگ یہ بحث اٹھاتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی تھوڑے سے فرق میں صدیوں کی تاریخ، تہذیب اور معاشرت ہے ‘‘۔
ریاستی حکومت کے ذمہ دار افراد گھڑی گھڑی یہی بات دہراتے چلے جاتے ہیں کہ اردو الگ کوئی زبان نہیں بلکہ صرف ہندی زبان کی ایک لیپی یعنی (Style)ہے لیکن یہ ماہر لسانیات خود اپنے غلط مفروضات سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ اگر برائے بحث یہ مان لیا جائے کہ یہ دعویٰ صحیح ہے تو کیا ہندی کی تعلیم مکمل قرار دی جا سکتی ہے جب تک کہ ہندی پڑھنے والے اس اسٹائل سے بھی بہ خوبی واقف نہ ہوں ؟ اگر ریاستی حکومت کا یہی نظریہ ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اردو کی تعلیم کا انتظام ایک الگ زبان کی حیثیت سے نہ سہی ہندی کے ایک اسٹائل کی حیثیت سے کرے کسی جمہوری حکومت کو یہ اختیار کس طرح حاصل ہے کہ ایک ہی زبان کے ایک اسٹائل کے لیے تو ہر آسانی مہیا کرے اور اسی زبان کے دوسری اسٹائل کے پڑھنے والوں کے راستہ میں ہر قسم کی رکاوٹ پیدا کرے۔ اگر حکومت کی نظروں میں ایک اسٹائل مرغوب ہے اور ایک معتوب تو یہ ذہنی تعصب کی غمازی کرتا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ سوال اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر حل کیا جا سکتا ہے ؟ اس کے علاوہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ اردو اور ہندی در اصل ایک ہی زبان ہیں تو یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندی کے ساتھ اردو بھی دیس کی راشٹر بھاشا قرار دی جائے کیوں کہ کسی زبان سے اس کا کوئی حصہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا لیکن یہی ماہر لسانیات جب دیس کی سرکاری زبان کا سوال اٹھتا ہے اس وقت اردو کو ہندی کا جزو ماننے کو تیار نہیں۔ اس وقت ایک الگ زبان ہو جاتی ہے۔
یہ تو صحیح ہے کہ اردو اور ہندی کی جڑیں ایک ہیں لیکن اس بنا پر یہ کہنا کہ یہ دونوں زبانیں ایک ہیں صرف اسٹائل کا فرق ہے یقیناً درست نہیں۔ … ہر زبان ایک خاص ماحول اور تہذیب کا اثر لے کر اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتی ہے اور اردو اور ہندی نے یقیناً ادبی قدروں کے اعتبار سے دو مختلف راہیں اختیار کی ہیں ‘‘۔
ریاستی سہ لسانی کنونشن، اتر پردیش کا خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے آنند نرائن مُلّا نے کہا تھا کہ:
’’اردو کا سوال میرے لیے اپنی مادری زبان کا سوال ہے۔ مجھے آئین نے کچھ بنیادی حقوق دیے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں اپنی مادری زبان پڑھوں، لکھوں اور بولوں اور اسی زبان میں اپنے جذبات اور افکار کو پیش کروں۔ اس حقیقت سے غالباً کوئی ان کار نہ کرے گا کہ انسان اپنی مادری زبان ہی میں اپنے دل و دماغ کی نقاب کشائی تخلیقی حسن کے ساتھ صحیح اور پورے طور پر کر سکتا ہے ‘‘۔ (ص ۲۶۸)
اس خطبے میں، مادری زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے درجِ ذیل بصیرت افروز کلمات بھی سپرد قلم کیے تھے :
’’مادری زبان محض ایک زبان ہی نہیں ہوتی۔ یہ صدیوں کی تاریخ تہذیب معاشرت اور اندازِ فکر کا ملا جلا نتیجہ ہے، جو گزرتی ہوئی زندگی کے ساتھ ساتھ نسلِ انسانی ارتقا کا ذریعہ بھی ہوتی ہے اس کا آئینہ بھی ہوتی ہے اور اس کا اظہار بھی مادری زبان وطن کے تصور کا بھی ایک اہم جز ہوتی ہے اور کسی کے لیے اس دیس کو اپنا وطن سمجھنا جہاں اسے اپنی مادری زبان پڑھنے اور لکھنے کی مناسب آسانیاں نہ ہوں اگر نا ممکن نہیں تو سخت مشکل ضرور ہے۔ ‘‘
حقائق اور شواہد کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے کی جو مشق انھوں نے بہ حیثیت ایڈوکیٹ اور بہ طور جج اپنے فرائضِ منصبی ادائیگی کے دوران بہم پہنچائی تھی، اس کی ایک جھلک ان کی مندرجہ بالا اقتباسات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے مضامین اور خطبات کا بھی ایک عمدہ ایڈیشن شائع کیا جائے تاکہ نئی نسل یہ جان سکے کہ۲۹ اکتوبر ۱۹۰۱ کو لکھنؤ کے محلہ راتی کٹرہ میں پنڈت جگت نرائن کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا تھا جس نے عدالتِ عالیہ میں انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے صادر کیے تھے اور ادب کی دنیا میں شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی تھی اور زبان اردو کے محافظ اور محبت کی حیثیت سے یہ حیران کن اعلان کیا تھا کہ: ’’میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں، لیکن زبان نہیں چھوڑ سکتا کیوں کہ زبان میری ذات کا آئینہ ہے۔ میری میراث ہے، میری تاریخ ہے اور میری زندگی ہے ‘‘۔
محبت رائے گاں نہیں جاتی کے پھول بن کر کھلتی ہے، خوشبو بن کر سانسوں میں گھلتی ہے، خون بن کر جسم میں دوڑتی ہے اور روایت بن کر ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی ہے۔ پنڈت آنند نرائن مُلّا کے خطبات اردو سے ان کی محبت کی یہی کہانی سناتے ہیں۔ اسے محفوظ رکھنا اور محبان اردو تک پہچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
٭٭٭
پنڈت آنند نرائن ملّا۔ ایک شعری جائزہ
……… شکیل احمد عاصم بریلوی
آج دنیا ایک حسرت زدہ عاشق کی طرح انتشار کے عالم میں سانسیں لے رہی ہے۔ زندگی کے جس شعبے پر نظر ڈالیئے کوئی نہ کوئی مسئلہ اژدہے کہ طرح منھ پھاڑے ملتا ہے۔ اگر اقتصادی میدان کا جائزہ لیا جائے تو لوگوں کی کثیر تعداد بھوک اور افلاس کی آہتی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ملتی ہے۔ اگر اخلاقیات کا مطالعہ کیا جائے تو اخلاق مفلوج اور کردار مدقوق نظر آتا ہے۔ اگر امن و امان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھئے تو جنگ و جدل کے بھیانک سائے انسانیت کو تباہ کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ نظمِ عالم درہم و برہم ہے۔ انسانی سکون کا شیرازہ منتشر ہے۔ خوش حال سے خوش حال انسان بھی ذہنی اور قلبی سکون کے لئے ترس رہا ہے۔ بقول شخصے ’’آج ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جو ایک ایسے ہنڈولے کی طرح ہے جو جو سونے کا بنا ہوا ہو، مگر جس مین کانٹوں کا بستر بچھا دیا گیا ہو۔ آج دن کے اجالے میں بھی رات کی سیاہی نظر آتی ہے۔ ‘‘
آج دنیا اور خصوصاً ہندوستان کی آنکھیں اپنے شعراء اور ادباء کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ وقت کی یہ پکار ہے کہ ادباء و موجودہ سیاسی اور سماجی مسائل کو گہری نگاہوں سے دیکھیں۔ اور ان کے مناسب حل تلاش کریں۔ ہر دور کا ادب ہی دعوت فکر و عمل اور پیام زندگی دے کر قوم و ملت کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ اس ضمن میں مجھے نثار اٹاوی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
جو اپنے ہی غم میں مرتا ہے انسان کے غمخواروں میں نہیں
اس دور میں ایسا اہل قلم کچھ اور ہے فن کاروں میں نہیں
آج جبکہ ایسے ادیبوں کی وقت کو سخت ضرورت ہے جو نئی اقدار اور بدلتے ہوئے تقاضوں کو اپنی شاعری میں سمونے کی پر خلوص کوشش کریں۔ بیشتر شعراء یا تو اسیر کا کل جاناں ہیں یا کسی ازم کے شکار ہیں۔ ایسے شعراء اپنے عصری فرائض کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ وہ ادب کے اس عظیم فرض کو بھولے ہوئے ہیں۔ شاعری کے ذریعہ لوگوں میں اخلاقی بلندی پیدا کرنا ایک عام مقصد رہا ہے۔ اور دنیا کے بڑے بڑے شعراء اس مقصد کے حامل رہے ہیں۔ جن سے اگر ہم یہ مقصدیت جدا کر دیں تو ان کی شاعری بے معنی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ شاعری میں ’’جمالیاتی ادب‘‘ کا کوئی مقام نہیں ہے بلکہ مجھے یہ کہنا ہے کہ آج کے مشینی دور میں ہمیں اپنی شاعری میں جمالیات کے ساتھ ساتھ تعمیری خیال کو بھی سمونے کی ضرورت ہے۔ ادب وہی ہے جس میں افادیت اور انبساط دونوں پہلو بہ پہلو ہوں۔ میں انگریزی کے مشہور شاعر گوئٹے کے اس خیال کا حامی ہوں کہ ادب زندگی کی قوتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ ہمارے جذبات و احساسات کو پاکیزہ بناتا ہے۔ انسان کی قوت ارادی کو تقویت عطا کرتا ہے اور آدمی کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔ بقول شفیقؔ جونپوری ؎
شاعری وہ ہے جو دیتی ہو پیام زندگی
جس کے آگے ماند ہو خورشید کی رخشندگی
شاعری وہ ہے جو ہو مجموعہ فکر و عمل
جس سے کھیل اُٹھتا ہو قلبِ آدمیت کا کنول
ملاؔ صاحب اس نقطۂ نگاہ سے بے حد قابل قدر ہیں کہ انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع محبوب کے لب و رخسار کو نہیں بنایا، بلکہ اس میں نئی قدروں اور وقتی تقاضوں کو سمونے کی قابل ستائش کوشش کی ہے۔ ان کی پیدائش ہندوستان کے ادب نواز شہر لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے والد پنڈت جگت نرائن ملا کا شمار لکھنؤ کی ممتاز شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ ملا نے لکھنو ہی میں تعلیم حاصل کی اور ایم اے ایل ایل بی کرنے کے بعد لکھنؤ ہی میں وکالت شروع کر دی۔ اور ترقی کرتے کرتے ہائی کورٹ تک پہنچے۔ پارلیمنٹ کے ممبر چنے گئے۔ وہ اردو کے نہایت پر جوش اور بے باک خدمت گزار ہیں۔ ان کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ یہاں دینے کا موقع نہیں ہے۔ جہاں تک شعر و شاعری کا تعلق ہے یہ انہیں ورثہ میں ملی ہے اس لئے کہ ملا صاحب چکبست خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ابتدائی دور میں انگریزی میں شعر گوئی کی مگر چند احباب کے اصرار پر ۱۹۲۶ء سے اردو میں بھی شعر کہنا شروع کیا۔
’’ملاؔ صاحب کے کلام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کی آمیزش ملتی ہے، وہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات و مشاہدات کو نہایت فلسفیانہ نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر اس کو بڑے غور و فکر کے بعد شعر کے روپ دیتے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی تجربات و مشاہدات کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں۔ ان کے اشعار پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے جیسے یہ اسی کے دل کی پکار ہے۔ وہ ابہام سے زیادہ ’’ابلاغِ فکر‘‘ میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ محض لفظوں کے سجانے تک ہی شعر کو محدود نہیں رکھتے بلکہ ان سے نہایت گہرے مفاہیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سید عبد الباری کی یہ رائے (مطبوعہ ’’دوام‘‘) قابل توجہ ہے۔
’’ملاؔ ادب اور ادیب کے منصب کو انتہائی بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ وہ ادب کو فقط ادیب کی زخمی روح کی چیخیں، یا اس کی دبی کچلی روح کی فریا یا اس کے بے چین جذبات کا سیلان نہیں سمجھتے۔ اسے وہ ذہن کی تطہیر اور ذوق کی تربیت کا ایک آلہ کار قرار دیتے ہیں۔ ان کے ان بلند خیالات کا نتھرا ہوا عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے جو پڑھنے والے کے اندر بلند اور شریفانہ جذبات ابھارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ‘‘۔
ملاؔ صاحب کے یہ ۲دو شعر ملاحظہ کیجئے ؎
اس مَے کو نہ پی قطرہ قطرہ، گن گن کے نہ لے سانسیں اپنی
جینا ہے تو جی جینے کی طرح، جینے کا فقط الزام نہ لے
یہ کہہ کے آخرِ شب شمع ہو گئی رخصت
کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی
ملاؔ صاحب اپنے اشعار میں پیام زندگی اور دعوت فکر و عمل بڑے پر جوش اور موثر انداز میں دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف کج اخلاقی پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہیں اور دوسری طرف اس کے اصلاحی طریقوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت کلام ان کے تعمیری اور تخلیقی جذبے کی غماز ہے۔ ان کے کلام کو اگر ’’مجموعۂ فکر و عمل‘‘ یا ’’خزانۂ اقدارِ نو‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ وطنیت اور قومیت، انسان دوستی اور محبت کا جذبہ شدت کے ساتھ ان کی شاعری سے نمایاں ہے۔ سید عبد الباری نے ٹھیک ہی کہا ہے ؛
’’ملاؔ ادب کی پائیداری اور محکم بنیادوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لئے فقط جذبات و احساسات کو کافی نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ پختہ سماجی شعور اور اخلاقی بصیرت کو بھی لازمی گردانتے ہیں۔ اظہار حسن، اظہار ذات اور اظہار نفس سے زیادہ اظہار مقصد کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ ادب برائے ادب کے فرسودہ نظریہ اور اس کی آڑ میں لذت پرستی اور وقتی جذبات کی تسکین کو ادب کے لئے انتہائی مہلک قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
ملاحظہ فرمائیے اظہار مقصد ؎
سینے کی حرارت سے خالی، گرمیِ چراغِ شام نہ لے
یہ دل ہے امانت دنیا کی، اپنا ہی بس اس سے کام نہ لے
مَے سب کو نہ ہو تقسیم اگر، اپنا بھی الٹ دے پیمانہ
یہ کفر ہے کیشِ رندی میں، ساقی سے اکے لیے جام نہ لے
یہ خزاں بدوش سموم تو ہے گلوں کے ظرف کا امتحاں
وہی گل ہے گل، جو فسردہ ہو، تو فسردگی بھ بہار دے
ملاؔ صاحب کے کلام کی بنیاد فکر بلیغ ہے۔ ان کے تخیل کی پرواز اتنی بلند ہے کہ فلسفی نہ ہوتے ہوئے بھی وہ کبھی کبھی فلسفی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ در اصل یہ ان کے زندہ محسوسات کی بات ہے۔ لیکن وہ جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے عصر سے دور نہیں لے جاتے۔ علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے۔ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس مفہوم کا ملاؔ بڑی خوبصورتی سے اپنے مخصوص انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں ؎
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
وہ حیات و کائنات کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اور حقائق کی عقدہ کشائی اس کامیاب انداز میں کرتے ہیں کہ قاری اسے اپنے ہی دل کی آواز سمجھنے لگتا ہے۔ ان کے بعض اشعار اسرار حیات اور رموز کائنات کی تفسیر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک شعر میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں ؎
شعر ملاؔ ہیں اندھیروں میں اجالے کی تلاش
فکر ملاؔ ہے ستارے توڑ کر لانے کا نام
حیات و کائنات کی قدح کشائی ملاحظہ ہو ؎
بشر جو نشعک ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
ترا لطف آتشِ شوق کو حد زندگی سے بڑھا نہ دے
کہیں بجھ نہ جائے چراغ، اسے دیکھ اتنی ہوا نہ دے
سمجھ کر جس کو غم کی اک امانت رکھ لیا دل میں
وہی خاموش نالہ حاصل، فریاد ہوتا ہے
وہ گناہ و ثواب کے فلسفے پر ایک نئے انداز سے نظر ڈالتے ہیں۔ انہیں تعجب ہے کہ اس حیات چند روزہ میں لوگ توبہ کے لئے فرصت کیسے نکال لیتے ہیں جبکہ گناہ کے لئے بھی مہلت کم ملتی ہے۔ ان کا ذیل کا شعر احساس گناہ اور توبہ نہ کر سکنے کی ایک طرح کی ندامت کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے ؎
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت؟
یہاں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
وہ غمِ جاناں اور غم زمانہ سے گھبراتے نہیں ہیں۔ بلکہ غمِ جاناں کو غمِ ہستی کے بھلانے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ غمہائے زمانہ سے گھبرا کر فراریت بھی اختیار نہیں کرتے۔ بلکہ ایسے حالات میں عزائم کو بلند اور ہمت کو جوان رکھتے ہیں۔ وہ غم کو تربیت دل کا گردانتے ہیں۔ع … ’’غم سے ہوتی ہے تربیت دل کی‘‘
ملاؔ ایسے کلام کے قائل ہیں جو انسان میں بلندی و جرأت کے جذبات پیدا کرے۔ اس لئے وہ ایک بڑے شاعر کے لئے صالح ذہن کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں ذہنِ صالح وہ ذہن ہے جو انسانیت کو ایک اکائی بن کر سوچتا ہے۔ اور جو اس بات میں راسخ عقیدہ رکھتا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے نفسِ امارہ پر قابو سکتی ہے۔ وہ انسانی مستقبل سے مایوس نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایسا سوچنے والے کے ذہن کو بیمار تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیمار ذہن صالح اور صحت مند ادب پیش نہیں کر سکتا۔ یہ حقیقت نگاری کے بارے میں بھی بڑی متوازن رائے رکھتے ہیں اپنے اس خیال کا اظہار انہوں نے اپنے مجموعۂ کلام ’’میری حدیث عمرِ گریزاں ‘‘ کے پیش لفظ میں اس طرح کیا ہے ؛
’’ ادب میں حقیقت نگاری زندگی کا عکس پیش کرنا نہیں، بلکہ زندگی کے راز کو بے نقاب کرنا ہے۔ اس میں منظر سے زیادہ پس منظر اہم ہے … فنکار محض منظر نہیں دکھاتا بلکہ منظر کو بنا کر اپنا پیغام سناتا ہے … پچھلی دو عالمی جنگوں اور انسان کو تباہ و برباد کرنے کی واقفیت و طاقت نے اس کے عقائد کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں اور وہ تہذیب کے اس ضبط سے جو اس نے صدیوں میں اپنی جبلت پر کسی حد تک قابو پا کر حاصل کیا تھا، آج پھر باز گشت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور ہر نظام اخلاق کو ٹھکرا کر اپنی انفرادی تشنگی کی سیرابی کا جویا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، مجھے نام نہاد حقیقت ہر نظام اخلاق کو ٹھکرا کر اپنی انفرادی تشنگی کی سیرابی کا جویا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، مجھے نام نہاد حقیقت نگاروں سے یہی شکایت ہے کہ یہ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں۔ انسان کے دل میں فرشتہ بھی ہے شیطان بھی۔ لیکن یہ کس قسم کی حقیقت نگاری ہے جو جب دل میں جھانکتی ہے تو شیطان ہی نظر آتا ہے اور فرشتہ ہمیشہ کسی تاریک گوشہ میں چھپا رہ جاتا ہے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ حقیقت نگاری دانستہ یا نا دانستہ طور پر بادلیر کے اس قول پر کہ حسن کی بہترین تصویر شیطان کی ذات ہے، ایمان رکھتے ہیں۔ اسی قسم کا ادب ایک مریض ذہن کی علامت ہے۔ ‘‘
ان کے ان خیالات کی روشنی میں ان کے ذیل کے اشعار اپنے اندر خاصا سامانِ فکر و انبساط رکھتے ہیں ؎
جہاں کے غل میں دبنے دے نہ آواز ضمیر اپنی
؎جہاں تک ہو سکتے کانوں میں یہ آواز رہنے دے
تھے گرفتار قفس اب ہیں اسیر آشیاں
شاید آزادی ہے بس زنداں بدل جانے کا نام
کارواں ہے خود اپنی گرد میں گم
پیر کی خاک منہ کو آتی ہے
بدی کے سامنے نیکی ابھی تک
سپر اناز ہوتی جا رہی ہے
اس سے ان کار نہیں کیا جا سکتا کہ ملاؔ صاحب دور نو کے ایک صحیح الفکر شاعر ہیں۔ ان کا تخیل تعمیری اور فکر صحت مند ہے، زبان میں فصاحت، سلاست اور سادگی کا عنصر کارفرما ہے۔ وہ صرف ایک بلند پایہ شاعر ہی نہیں ہیں، بلکہ ایک ممتاز سیاست داں بھی ہیں۔ حق گوئی و بے باکی ان کی فطرت ہے، ان کا شمار اردو زبان کے محسنین میں ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باکمال شاعر ہیں۔ ان کا شمار اساتذہ اردو میں ہوتا ہے اور جہاں تک میں نے نظر دوڑائی ہے ان کی عمر کا کوئی دوسرا شاعر ان کی فکر نہج تک نہیں پہنچتا۔ فراقؔ کو ان کا ہم عمر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن فراقؔ بالکل دوسرے رنگ کے شاعر ہیں۔ ناقدین فراقؔ کا یہ کہنا کہ۔ فراقؔ کے یہاں ان کی اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں متقدمین بولتے ہیں، کچھ غلط نہیں ہے۔ آنند نرائن ملاؔ اپنے دور کے جیتے جاگتے شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا عصر ان کی شاعری میں بولتا ہے۔ ان کے یہاں طنز کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ تہذیب و تمدن، سماج اور سیاست، وقت اور حالات، انسان اور انسانیت پر وہ بڑے حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ لکھنوی شاعری کی چھاپ ان کے رنگ سخن پر نہ ہونے کے برابر ہے مگر جہاں ان کی غزل میں انتہائی بلند اشعار ملتے ہیں وہیں بہت معمولی اشعار اور ٹوٹے پھوٹے مصرعے بھی مل جاتے ہیں۔ انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ فکر کی بلندی سے یکایک پستی کی طرف آ گئے۔ انہیں پڑھنے اور سننے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّا کی غزل
……… سید سراج اجملی
اردو زبان کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک بہت اہم خصوصیت اس زبان کا اپنی اصل کے لحاظ سے غیر مذہبی ہونا ہے۔ اس صفت نے اس زبان اور نتیجے کے طور پر اس میں تخلیق ہونے والے ادب کی اہم ترین خصوصیت اس کے غیرمذہبی کردار کو بنا دیا۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے اس زبان اور اس کے ادب کی بنیادی صفات میں محبت، رواداری، ہم آہنگی اور بے تعصبی کو شامل کر دیا۔ ان بنیادی صفات نے ہی اسے ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں نہایت پسندیدہ زبان ہی نہیں ایک ایسی تہذیب کی حیثیت سے قائم کر دیا جس کے دروازے ہر مذہب، ہر فرقے اور ہر معاشرے کے لیے ہمہ وقت کھلے رہیں ۔ اس زبان اور تہذیب کو اپنانے والے کے ذہن میں کسی قسم کی اجنبیت اور غیریت کا شائبہ بھی نہیں پیدا ہوا۔
اپنے دامن میں مذہبی سرمایہ کا بہت بڑا حصہ رکھنے کے باوجود اس زبان کی مذکورہ بالا صفت متاثر نہیں ہوئی اور اپنے آغاز سے ہی اس میں سوچنے والوں اور لکھنے والوں کا ایک بہت بڑا طبقہ مختلف مذہبی پس منظر رکھنے کے باوجود خود کو اس زبان بالفاظ دگر اس تہذیب سے وابستہ رکھنے اور اس تہذیب کا نمائندہ ہونے پر فخر کرتا رہا۔
آنند نرائن ملّا اسی تہذیب کے ایک اہم نمائندے اور اسی سلسلۂ عشاق زبان و ادب کے اہم فرد کی حیثیت سے اردو معاشرے میں اپنا ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ملّا کا تعلق برہمن زادگان کشمیر سے ہے جن کا سب سے اہم نمائندہ ہمارا عظیم شاعر اقبال ہے۔ اقبال سے پہلے اور بعد میں بھی اس قبیل کے شیدائیانِ اردو نے اپنے افکار اور اپنے تخلیقی اظہار سے اردو کے دامن کو مالامال کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان کی خدمات اور زبان و ادب کو ان کی دین سے الگ کر کے دیکھا جائے تو ہماری زبان اور اس کا ادب تمول کی اس صورت کے مقابلے بہت تہی دامن نظر آئے گا جو برہمن زادگان کشمیر کی عطایات کے ساتھ ہے۔
اس حوالے سے ایک اور نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ان اہلِ کشمیر کے یہاں مظاہر فطرت سے غیر معمولی وابستگی اور ان کا تخلیقی اظہار لطف و انبساط کی بالکل الگ سطح رکھتا ہے۔ ’نیرنگ نسیم باغ کشمیر‘ گلزار نسیم سے لے کر چکبست، اقبال اور ملّا تک اردو شاعری میں بیان فطرت کا جو انداز نظر آتا ہے اس کا کوئی شریک یا مقابل دوسرے زبانوں اور علاقوں کے شعرا میں عموماً نظر نہیں آتا۔
آنند نرائن ملّا اور اردو زبان کے مابین جو صفت قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ وہی ہے جس کا شروع میں ذکر کیا گیا یعنی غیر مذہبی انداز، اس انداز نے ہی شخص آنند نرائن ملّا کو گنگا جمنی تہذیب اور ہماری مشترکہ ثقافت کی اہم اور نمایاں شخصیت بنا دیا۔ ملّا کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ انھوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسی زبان کے ادب کا سب سے پہلے مطالعہ کیا۔ اس زبان کی اپنی خصوصیات اور خوبیاں اور بطور خاص اس زبان میں مظاہر فطرت سے متعلق تخلیقی اظہار کی شان دار روایت نے بہرحال ملّاؔ کو متاثر کیا۔ فارسی اور اردو کے جن فن پاروں کو اوّلاً ملّانے توجہ سے پڑھا اور انھیں انگریزی میں منتقل کرنے کا ارادہ کیا ان میں رباعیاتِ انیس اور اقبال کی مشہور آفاق نظم لالۂ طور شامل ہے۔
فروغ اردو فروری ۱۹۷۴ء کے شمارے میں پروفیسر سید احتشام حسین کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں ملّانے اپنے مطالعے اور انگریزی شاعری سے اپنی رغبت نیز اردو شاعری کو انگریزی پیراہن عطا کرنے کی اپنی اوّلین کوششوں کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’مجھ پر اپنی طالب علمی کے زمانے میں انگریزی ادب کا بہت گہرا اثر تھا۔ میں بائرن شیلی اور کیٹس سے بہت زیادہ متاثر تھا… شاید یہی وجہ ہو کہ میں نے انگریزی میں شاعری شروع کی۔ کوئی سات سال میں نے انگریزی میں شاعری کی۔ اس دور میں میں نے اقبال، انیس اور غالب کے کچھ ترجمے بھی انگریزی میں نظم کیے جن میں سے کچھ میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں۔ میری اس زمانے کی انگریزی نظموں میں سے ایک The Land میرے پہلے مجموعے ’جوئے شیر‘ میں جو ’زمین وطن‘ کے عنوان سے ہے وہ در اصل اس انگریزی نظم سے ماخوذ ہے …!‘‘
انگریزی شاعری سے اردو شاعری کی جانب ملّاؔ کو منتقل کرنے والی شخصیت چکبست، دتاتریہ کیفی اور سرتیج بہادر سپرو کے محترم معاصر پنڈت منوہر لال زتشی تھے۔ پنڈت زتشی لکھنؤ کے گورنمنٹ جبلی کالج کے پرنسپل تھے انھوں نے ملّا کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ کر کے ایک خاص طریقے سے انھیں انگریزی کے بجائے اردو میں شاعری کی ترغیب دلائی۔ خاص طریقہ یوں کہا کہ اس سے قبل ملّا کو اردو شاعری کی جانب راغب کرنے کی ایک اور کوشش اور بقول ملّا ناپسندیدہ کوشش ہو چکی تھی۔ ملّا کے اوّلین اساتذہ میں سے ایک مولانا رضا فرنگی محلی نے ملّا کو اردو اشعار کہہ کر دیے اور انھیں ایک عدد تخلص بھی عنایت کر دیا لیکن ملّا کی نفاست طبع نے نہ استاد کے عنایت کردہ اشعار کو قبول کیا اور نہ ہی تخلص کو۔ اس کے برخلاف پنڈت زتشی کی ترغیب سے نہ صرف ملّا اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوئے بلکہ انگریزی شاعری ترک کر کے ہمیشہ کے لیے اردو کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے۔ ملّا کا پہلا مجموعہ جوئے شیر ۱۹۴۹ء میں اور آخری مجموعہ ’جادہ ملّا‘ ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا۔ اس درمیان ’کچھ ذرّے کچھ تارے ‘ ۱۹۵۹ء، ’میری حدیث عمر گریزاں ‘ ۱۹۶۲ء اور ’کرب آگہی‘ ۱۹۷۷ء کی اشاعت ہوئی۔ ملّاؔ کا کلیات قومی کونسل سے ڈاکٹر خلیق انجم نے ۲۰۱۰ء میں شائع کیا۔
ملّا نے اپنے اظہار کے لیے شاعری کے دونوں معروف تنگنائے یعنی غزل اور نظم یکساں طور پر اپنائے۔ ۱۹۴۰ء سے نصف صدی تک وہ مستقل اپنی تخلیقی جولانی کے نشانات امتیاز ادب میں قائم کرتے رہے۔ اردو شاعری کی ان دونوں معروف اصناف میں ملّا نے اپنی انفرادیت کے جو آثار چھوڑے ہیں ان میں سے غزل کے بارے میں بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملّا کی غزل ہماری روایتی غزل سے ان معنوں میں الگ ہے کہ انھوں نے لفظیات کی سطح پر تو روایت کو اپنایا لیکن مضامین اور استعارات کی سطح پر ان کا پیرایۂ اظہار اتنا الگ اتنا منفرد اور ایسا ہے کہ جو انھیں ان کے معاصرین اور متقدمین سے الگ ایک پہچان عطا کرتا ہے۔ ملّاسے پہلے اقبال کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کے یہاں غزل اور نظم کی سرحدیں ٹوٹتی سی محسوس ہوتی ہیں۔ ملّا نے عملی طور پر یہ کر کے دکھایا ہے اور اس کا احساس انھیں اتنا شدید ہے کہ اپنے مجموعے ’کرب آگہی‘ کی پہلی نظم ’غزل سے ‘ میں اس خیال کو ظاہر کیا ہے :
دلہن تھی تجھے میں نے ساتھی بنایا
شبستاں نے میدان میں کھینچ لایا
ترے نرم لہجے کو للکار دے دی
ترے دست نازک میں تلوار دے دی
دیا درد انساں کا احساس تجھ کو
کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو
یعنی شعوری طور پر غزل میں انسان کے سوز و ساز اور درد و داغ کو ایک خاص اہتمام اور سلیقے کے ساتھ برت کر غزل کے عمومی مضامین اور معروف بلکہ رُسوا لغوی تعریف کے علی الرغم عشقیہ مضامین کے علاوہ دنیا بھر کے موضوعات کو برت کر ایک مثال قائم کر دی۔
روایتی غزل اس طرح کے مضامین کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی جو ملّا نے بڑی بے باکی کے ساتھ اپنائے، اب اسے ملّا کی تازگیِ اظہار سے رغبت کہیں یا ترقی پسند تحریک کے اثر سے تعبیر کریں جو اس عہد کی ادبی فضا میں سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ ہمارا خیال اوّل الذکر سبب کی طرف زیادہ جاتا ہے کیوں کہ ترقی پسند تحریک سے شعوری اور عملی وابستگی سے ملّا برابر ان کار کرتے رہے ہیں جس کی مثالیں ان کے مختلف بیانات کے اقتباسات سے پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اس تازگیِ اظہار سے رغبت نے ان کا لہجہ اس کے عہد کے معروف ترقی پسند لہجے سے زیادہ قریب کر دیا۔ اس سے بھی کوئی ان کار نہیں کر سکتا ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں :
خون شہید سے بھی ہے قیمت میں کچھ سوا
فن کار کے لہو کی سیاہی کی ایک بوند
ملّا یہ اپنامسلک فن ہے کہ رنگ فکر
کچھ دیں فضائے دہر کو کچھ لیں فضاسے ہم
وادی نور بنے گی یہی شعلوں کی زمیں
ابھی مٹی کے فرشتے سے میں مایوس نہیں
خستگی و تشنگی و رہزن و ریگ و سراب
کتنی صدیاں ہو گئیں انسان چلتا جائے ہے
ہر انقلاب کی سرخی انھیں کے افسانے
حیات دہر کا حاصل ہیں چند دیوانے
یہ تمام اشعار اپنے لہجے اور مضمون ہر دو اعتبار سے ترقی پسند محاورے سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں، ساتھ ہی ملّا کی انفرادیت اور ان کے لہجے کی صلابت کے مظہر بھی ہیں۔ انسان کے شرف و امتیاز پر ملّا کا ایمان اور ہر طرح کی دشواریوں اور زحمتوں کے باوجود اس کا غیر مختتم سفر ملّا کو سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جس کے اظہار کی مثالیں مندرجہ بالا اشعار میں ایک دو ہی پیش کی جا سکیں۔ کلیاتِ ملّا ان مضامین سے بھرا پڑا ہے۔
ایسا نہیں کہ ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی دھن میں ملّا نے غزل کی روح کو فراموش کر دیا ہو۔ ان کے یہاں عشقیہ شاعری کے نمونے بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی تعداد دوسرے موضوعات کے مقابلے کم ہے۔ ایک دوسری بات یہ کہ عشقیہ موضوعات کو غزل میں برتتے وقت ملّا شعوری طور پر روایتی غزل سے مختلف اظہار کے جویا نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو مثال:
بڑھ گیا دو دلوں میں شاید ربط
گفتگو ہوتی جاتی ہے کم کم!!
بے حرف و بے صوت پیغام الفت
سینہ بہ سینہ دیدہ بہ دیدہ
عام طور پر تعلق کی شدت کے مضمون کو غزل میں ادا کرنے کے لیے ظاہری قربت اور اختلاط وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔ جیسے جیسے قربت میں اضافے ہوتا ہے بے تکلفی اور بے تکلف گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے مثلاً غزل کا یہ شعر:
بے تکلف گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی
اس کے برخلاف ملّا دلوں میں ربط کے بڑھنے کا اندازہ گفتگو کے کم ہونے سے اور پیغام الفت کے بے حرف و صوت ہونے سے کرتے ہیں۔ اس طرح معاملات محبت کو بطریقِ دیگر ادا کرتے ہیں اور اس میں حقیقی پہلو کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔
غزل میں لفظیات کے استعمال میں بھی ملّانے اپنی انفرادیت کے نشانات ثبت کیے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات عرض کرنی ہے کہ لفظ کے تخلیقی استعمال سے اس کی قوت دوچند اور سہ چند ہو جاتی ہے۔ اس میں معنی کے پہلو نکلتے چلے جاتے ہیں اور اس کی اثریت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک بہت سامنے کا لفظ ہے ’’مگر‘‘ سب واقف ہیں کہ یہ لفظ عموماً ’لیکن‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ایک معنی ’شاید‘ کے بھی ہیں جو ہمارے شعرائے متقدمین کے یہاں کثرت سے ادا ہوئے ہیں :
کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
اس لفظ کی ادائیگی اور غزل کے شعر میں اسے اس طرح باندھنا کہ دونوں معنی بہ یک وقت قائم ہو جائیں، غزل میں لفظ کے تخلیقی استعمال کی زیادہ خوب صورت شکل ہے۔ میرے محدود مطالعہ کے مطابق متقدمین کے یہاں مجھے اس لفظ کا ایسا استعمال نہیں ملا جس میں لفظ ’’مگر‘‘ کے دونوں معنی بہ یک وقت قائم ہوئے ہوں۔ آنند نرائن ملّا کے کلیات کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ شعر اور یہ مضمون نظر آیا جو آپ کی ضیافت طبع کے لیے حاضر ہے :
وہ دیکھنے تو لگے ہیں مجھے چرا کے نظر
حجاب ٹوٹ رہے ہیں مگر حجاب کے ساتھ
شعر کے تہذیبی حوالوں سے قطع نظر اس شعر میں لفظ مگر کا دونوں معنوں میں استعمال میرے دعوے کی دلیل کے بطور ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور آنند نرائن ملّا کی لفظ کے تخلیقی استعمال کی غیر معمولی صلاحیت کے بطور بھی۔
زوال دانش تخلیقی اظہار اور بطور خاص شاعری میں بہت پسندیدہ موضوع کے بطور ملّاؔ کے یہاں نظر آتا ہے۔ نظموں میں تو یہ موضوع وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، غزلوں میں بھی اپنی تمام تر رمزیت اور ایمائیت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ زوال دانش ہی کے سبب انسان حیوانیت کی سرحدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ ملّا کے یہاں اس مضمون کی مثالیں آسانی سے دستیاب ہیں :
اتنا مہیب لہجۂ انساں ہے ان دنوں
سہمے سے جا رہے ہیں خود اپنی صداسے ہم
رہروی ہے نہ رہنمائی ہے
آج دور شکستہ پائی ہے
ہو گئی گم کہاں سحر اپنی
رات جا کر بھی رات آئی ہے
دانش کی تباہی سے ممکن ہے کہ بچ نکلے
پہلو میں ترے دنیا جب تک دل ناداں ہے
غیرمختتم تاریکی زوال دانش کا بہت طاقت ور استعارہ ہے جسے ملّا نے بہت فن کاری کے ساتھ غزل کے شعر کے ذریعے قائم کیا ہے۔ وہ انسان کی بنیادی معصومیت پر اس حد تک ایمان رکھتے ہیں کہ عذاب دانش سے اس کی حفاظت کو اس کے دل معصوم کی سلامتی سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ انسان کے دلِ معصوم کو انھوں نے دلِ ناداں کہہ کر ایک اور لطیف پہلو پیدا کیا ہے۔
آنند نرائن ملّا اردو کے نرے شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک عملی آدمی بھی تھے۔ اپنی اس روش سے انھوں نے اردو تحریک کو بھی طاقت دی اور تاحین حیات اردو تحریک کے سرگرم مجاہد کی حیثیت سے عملی خدمات انجام دیتے رہے۔ فروغ اردو کے لیے بنائی جانے والی انجمنوں اور کمیٹیوں میں ان کی شمولیت اس بات پر دال ہے نیز شاعری میں اور حد یہ کہ غزلوں میں بھی ملّا نے اردو تحریک سے اپنی وابستگی اور اس زبان کی مظلومیت پر ردِ عمل کیا ہے۔ مثال میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
ملّا بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
…
بزم ادب ہند کے ہر گل میں ہے خوشبو
ملّا گلِ اردو کی مہک اور ہی کچھ ہے
…
لب مادر نے ملا لوریاں جس میں سنائی تھیں
وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زبان سمجھو
ان اشعار سے ملّا کی اردو دوستی ہی نہیں اردو سے عشق مترشح ہوتا ہے اور اس زبان پر پڑنے والے پیغمبری وقت پر شاعر کا ردِ عمل بھی نظر آتا ہے۔ دوسری زبانوں کے ادب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بہت لطیف پیرایے میں ملّا نے اردو زبان کے حسن اور اثر کے امتیاز کو بیان کیا ہے۔
آنند نرائن ملّا نے ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ ۱۹۶۳ء کے آغاز میں اپنے قارئین سے نثر میں بھی کچھ باتیں کی ہیں۔ ان میں شاعر کی ذاتی زندگی، معاملات عشق، نشیب و فراز حیات، تخلیق کار کے عہد اور مابعد اس کی تخلیق کی قدر و قیمت اور معاصر ادبی و تنقیدی فضا وغیرہ شامل ہیں۔ دوچار اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’کسی فن کار کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے اس کی نجی زندگی کی واقفیت بھی بہت اہم چیز ہے لیکن زندگی کی یہ چھپی ہوئی تصویریں ایک نگاہِ آشنا کے سامنے پیش کی جا سکتی ہیں، نگاہِ تماشہ بیں کے سامنے نہیں۔ ‘‘ (کلیات۔ ص:۴۸۴)
’’میرے نزدیک کوئی شاعر یا افسانہ نگار نوعِ انسان سے بے پناہ محبت کے بغیر عظیم نہیں ہو سکتا اور نہ ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے۔ ‘‘ (ص:۴۸۵)
’’ایک شاعر کی دو مائیں ہوتی ہیں ایک اس کا اپنا دور، دوسری آنے والی نسلیں۔ دیوکی کا بچہ کرشن اوتار اسی وقت بنتا ہے جب اس کی دوسری ماں جشودا اسے اپنی آغوش میں اُٹھا لیتی ہے۔ شاعر کی اصل ماں اس کو دوسری ماں ہوتی ہے کیوں کہ یہی اس کو زندۂ جاوید بناتی ہے۔ ‘‘ (ص:۴۸۷)
’’میں ممکن ہے کہ اچھا شاعر نہ ہوں لیکن اس میں غالباً شک نہ کیا جائے گا کہ میری فکر میری ہے، میرا انداز بیان میرا ہے، میری زبان میری ہے اور میرا لہجہ میرا ہے۔ وہ میرے اشعار ہوں یا میرے فیصلے، میری تقریر ہو یا تحریر میں نے ان سب پر اپنی انفرادیت کی مہر لگا دی ہے۔ ‘‘ (ص:۴۸۸)
ان اقتباسات میں جن خیالات کا اظہار آنند نرائن ملّا نے کیا ہے ان سے اختلاف کرنے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی۔ آخرالذکر دونوں اقتباسات پڑھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملّا صاحب آج کے جلسے کا بہ چشمِ خود نظارہ کر رہے ہیں اور اطمینان و آسودگی کا اظہار کر رہے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ:
غم امروز میں بھی راحت فردا پہ نظریں ہیں
انھیں اشکوں کے قطروں میں چراغاں دیکھ لیتا ہوں
٭٭٭
آنند نرائن ملّا کی نظموں میں ہیئتی تجربے
……… صفدر امام قادری
ما بعد عہدِ اقبال کی ادبی روش کے مختلف سلسلوں میں ایک رنگ پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کا بھی ہے۔ فراق، جوش اور جمیل مظہری کی شناخت ترقی پسنداورحلقۂ اربابِ ذوق دونوں سے الگ طور پر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی طرح آنند نرائن مُلّا شاعروں کے ایسے حلقے سے متعلق ہیں جنھیں اس وقت کے بنے بنائے چوکھٹے میں رکھ کر ٹھیک طریقے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کی شاعری پر ترقی پسندوں کے اثرات تو ہیں لیکن انھیں کھلے بندوں ترقی پسندوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ رومانی نظم نگاری تو انھوں نے دل لگا کرکی ہے لیکن انھیں اختر شیرانی کے قبیلے کا رکن تسلیم کرنے میں سب کو تامل ہو گا۔ وطنیت کے عناصر کے سبب ان پر چکبست کے اثرات بھی باضابطہ طور پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں لیکن انھیں چکبست کا خوشہ چیں نہیں کہا جا سکتا۔ وہ گاندھی واد کے ادبی اصولوں کے پیروکار رہے اوراس اعتبارسے ان کی شاعری میں ان قدروں کی شمولیت صاف صاف نظر آتی ہے۔ ان کا تعلق کانگریس پارٹی سے رہا اور آزادی سے قبل سے ہی وہ مزاجاً کانگریسی سمجھے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری کا ایک حصہ لازمی طور پر ایسا ہے جس کے بارے میں یہ کہنانامناسب نہیں کہ افکار و نظریات کی سطح پر وہ کانگریسی رجحان کا اظہاریہ ہے۔
ان افراد کو جنھیں کسی اہلِ قلم کو ایک سکّہ بند فکری یا ادبی زاویے سے پرکھنے میں لطف حاصل ہوتا ہے، انھیں آنند نارائن ملّاؔ کے ادبی کمالات کو سمجھنے میں دشواری ہو گی۔ ایسے نقاد انھیں مختلف ادبی اور فکری رویوں کی آوازِ بازگشت قرار دیں گے اور ان کے شاعرانہ اور ادبی اختصاص سے انھیں بہت حد تک انھیں ان کار ہو گا۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایک فکری حلقے میں شامل ہو کر عمومی ادبی پہچان حاصل کرنے سے زیادہ اپنے عہد کے ادبی اور فکری امکانات کو سمجھنے کا خوگر رہے۔ اُس عہد کے نسبتاً معتبر شعرا کے ادبی سرمایے کے مقابلے ملّا کے یہاں موجود موضوعاتی اوراسلوبیاتی تنّوع سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ اسی لیے ممکن ہوا کہ انھوں نے کسی ایک ادبی چوکھٹے میں رکھ کر قناعت کر لینے کی فیشن زدگی سے خود کو بچائے رکھا۔ تقریباً چھ دہائی کی میعاد میں رُک رُک کر شعر کہنے والے اس شاعر کا ادبی سرمایہ معتبر ادبی تحریکوں اور رویوں سے خود کو الگ رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کے لیے تیار کر دیتا ہے کہ اس شاعر کی موضوعاتی اوراسلوبیاتی رنگا رنگی اور تجربوں سے بھری ہوئی اس کی دنیاکوذراسنجیدگی سے ملاحظہ کیا جائے۔
آنند نرائن ملّاؔ کی نظم نگاری پر غور کرتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موضوعات اوراسلوب کے اعتبار سے وہ اپنے عہد کے دوسرے شعرا یا ان سے زیادہ معتبر لکھنے والوں کی دنیاسے کچھ زیادہ الگ نہ تھے۔ ان کی بعض نظموں کا خطیبانہ لہجہ پکار کر کہتا ہے کہ انھوں نے جوش سے خوشہ چینی کی ہے۔ اس عہد کے دوسرے بڑے شعرا کے بھی اثرات اُن پر رہے۔ اس اعتبارسے انھیں عجلت میں کوئی شخص اپنے عہد کے مشہور شعرا کی آوازِ بازگشت سمجھ بیٹھے تواسے آنند نرائن ملّا کے ساتھ بے انصافی نہیں کہی جانی چاہیے۔ اس بات کے اقرار میں بھی زیادہ تردّد نہیں کہ ملّا، جوش، فراق، فیض جیسے شعرا کے ہم پلّہ بھی نہیں تھے۔ ایسے میں ان کے شاعرانہ اختصاص کو پہچاننے کے لیے ان کے ہئیتی اور عروضی تجربوں کی طرف ہماری نگاہ جاتی ہے۔ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے انھوں نے اپنی شاعری کا ایک نیاسلسلہ قائم کیا۔ ہئیت اوراسلوب کے تجربے مُلّا کے یہاں جوش، فراق اور فیض سے زیادہ ہیں۔ موضوعات کی رنگارنگی میں بھی وہ کئی ترقی پسند شعرا سے کم تر نہیں۔ موضوعاتی اعتبار سے وہ اسی طرح کے مستحکم انسانی رویے کے شاعر ہیں جیسے فیض اور جوش ہو سکتے ہیں۔ بڑے شعرا کی تخیلاتی کیفیت اور تخلیقی اپج کی کمی کو ملّا نے اپنی تجربہ پسندی اور گہرے انسانی شعورسے پر کرنے کی کوشش کی اسی لیے وہ اپنے سے برتر شعرا کے عہد میں ہوتے ہوئے بھی نہ صرف یہ کہ اپنی پہچان قائم کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ شاعر اور مصنف کی حیثیت سے انھیں ایک خاص اعتبار بھی حاصل ہوا۔
ٍ آنند نرائن مُلَّا نے پابند نظموں کی معروف ہیئت مخمس، مسدّس اور ترکیبِ بند کے ساتھ تصرّفات کیے ہیں۔ ان کی قدر و قیمت کا ابھی تعین نہیں ہوا۔ ان نظموں میں لہجے اور لفظیات کی سطح پر بے شک نظیرؔ ، انیسؔ ، اور جوشؔ کے انداز کو پہچانا جا سکتا ہے لیکن ملّانے ہیئتی تجربوں سے اپنی نظموں کا ایک نیا آہنگ پیدا کر دیا ہے۔ ترکیبِ بند ملاحظہ کیجے تو ایسامحسوس ہو گا کہ اقبال کی کوئی پرچھائی بھی نہیں پڑی ہے۔ یہی حال ان کی اُن نظموں کا ہے جو مخمس اورمسدس کی ہئیتوں میں قلم بند ہوئیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ اکثر و بیش تر آنند نرائن مُلآکونیشنلسٹ خیالات کا ترجمان سمجھا جاتا ہے لیکن اردو شاعری کے مروّجہ آہنگ میں اپنے حصّے کی نئی صورت گری کے لیے انھیں پہچانا ہی نہیں جاتا۔ یہ کام میراجی اور عظمت اللہ خاں کے بعد جن لوگوں نے بھی کیا، انھیں عروض و ہئیت کے نئے راستوں کا امام نہ سمجھا گیا۔ رفعت سروش بھی اسی مقتل میں شہید ہوئے اورایسامحسوس ہوتا ہے کہ آنند نرائن ملّاؔ کے سلسلے سے بھی ہماری اسی انداز کی غفلت شعاری قائم رہی۔ ان کی کلاسیکیت اپنی جگہ، دوسرے شعرا کے لفظ و بیان سے اثر قبول کرنا بھی ہمیں قبول لیکن اگر انھوں نے اردو نظم کی آزمائی ہوئی ہئیتوں میں کچھ تصرّف یا کوئی رنگ آمیزی کی جس سے ان کی شاعری کا الگ لہجہ متعین ہوا تو یہ خصوصیت بھی ہمارے لیے گفتگو کا موضوع ہونا چاہیے۔ یہ تجربے اتنے کم اور معمولی معیار کے نہیں کہ ان پر گفتگو غیر اہم ہو۔
آنند نرائن مُلّا کی نظمیں ’تم مجھے بھول جاؤ گے ‘، ’اور ایک دن انساں جیتے گا ‘، ’دو پھول‘، ’مریم ثانی‘، ’شعر کا جنم‘، ’اندھیر نگر میں دیپ جلیں ‘ وغیرہ ہیئتی تجربوں کی مثال کے طور پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ مُلّا نے روایت کے انداز و اسالیب کو قائم رکھتے ہوئے اپنے تصرفات پیش کیے ہیں۔ گیت، پابند نظم، نظمِ معرّا، آزاد نظم اور مستزاد کی آزمائی ہوئی دنیا کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے میں دونوں کے آہنگ کو مدغم کر کے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی کوشش قابلِ توجّہ ہے۔ ’’تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘ نظم میں ٹیپ کے مصرعے گیت کے آہنگ میں قلم بند ہوئے ہیں جب کہ ہر بند کے چار مصرعے پابند نظم کی مروّجہ شکل میں موجود ہیں۔ ٹیپ کے مصرعوں کے ارکان بھی کم کر کے شاعر نے نظم کے آہنگ کو پورے طور پر مختلف بنا دیا ہے۔ دو بند ملاحظہ ہوں :
تم مجھے بھول جاؤ گے
رہ نہ سکے گا عمر بھر آج کا جوشِ اضطراب
آرزوؤں میں آئے گا کوئی ضرور انقلاب
پھر کوئی دوست ڈھونڈ ہی لے گی نگاہِ انتخاب
زیست ہے زیست، دل ہے دل، اور شباب پھر شباب
عہدِ وفا ہے ایک خواب
تم مجھے بھول جاؤ گے
نفسِ مضمون کے اعتبار سے یہاں واسوخت کا انداز ابھرنا چاہیے تھا لیکن مُلّا نے گیت کو بنیاد بنا کر اس نظم میں جو اسلوبیاتی تجربے کیے ہیں، اس سے ایک مختلف شعری کیفیت پیدا ہو گئی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنند نرائن مُلَّا نے یہاں اردو کی قدیم ہیئت مستزاد کا فائدہ اٹھایا اور مکمّل طور پر ایک نیا آہنگ وضع کرنے میں وہ کامیاب ہوئے۔
’’دو پھول‘‘ نظم کی ساخت پر بھی گیت کا آہنگ سایہ فگن ہے۔ یہاں بھی آخری بند کے اختتامی مصرعے میں ارکان کم کر کے ایک علاحدہ شعری کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملّاؔ کی نظم ’’اور اک دن انساں جیتے گا ‘‘کے مطالعے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو شاعری کی متعدد روایتیں اس میں ایک ساتھ ڈوبتی اُبھرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ نظم کی ابتدا ایک طویل مصرعے سے ہوتی ہے لیکن آگے بڑھتے ہوئے شکستِ ناروا کو آزماتے ہوئے شاعر نے ہر مصرعے کو آزادانہ طور پر دو مصرعوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ آٹھ مصرعوں کے بعد پھر مختصر مصرعے، پھر مختصر ہم قافیہ مصرعے پیش کیے گئے ہیں۔ چار مصرعے کے بعد دو ایسے اشعار پیش ہوئے ہیں جن میں ردیف بھی موجود ہے۔ اس کے بعد پھر ایک طویل مصرعہ سامنے آتا ہے۔ پھر مختصر اور طویل مصرعے ارکان کی کمی بیشی سے قائم ہوتے ہوئے بند کی تکمیل کی جاتی ہے۔ کہنا چاہیے کہ گیت اور ترکیبِ بند کو مِلا کر آنند نرائن مُلَّا نے ایک عجیب و غریب شعری کیفیت اُبھارنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ نظم کا پہلا بند ملاحظہ ہو :
کالی اندھیاری راتوں میں، اک دیپ جلا اور جل کے بجھا
کچھ دیر کو قصرِ ظلمت پر
اک نوٗر کا پرچم لہرایا
کچھ دیر کو چیر کے بادل کی
ہر تہہ اک تارا مُسکایا
کچھ دیر کو اندھی راہوں میں
ننّھا جگنو مشعل لایا
روشن پرچم آخر تک اُڑا
تارا بجھتے دم تک چمکا
ننّھا جگنو گِر گِر کے اُٹھا
نیکی کا سپاہی خوب لڑا
لیکن اس دکھ کی بستی میں
اس اندھیاروں کی نگری میں
آخر وہ نوبت آ ہی گئی
آخر وہ ساعت آ ہی گئی
تاریخِ جہاں نے جب اپنا افسانۂ پیشیں دہرایا
پرچم پہ اندھیرے ٹوٹ پڑے
تارے پہ گِرے بادل کے پرے
ننّھا جگنو کالی راتوں کی مٹّھی میں پھر بند ہوا
نیکی کا سپاہی لڑ کے گِرا اور مٹّی میں پیوند ہوا
پھر معرکۂ خیر و شر میں نیکی ہاری اور شر جیتا
یہ جنگ مگر جاری ہے اَبھی
مُلّا کی طویل نظم ’’مریمِ ثانی‘‘ کا ذیلی عنوان ’’ایک خط کا جواب‘‘ ہے۔ یہ نظم معرّا اور آزاد نظم کی ملی جلی صورت سے سامنے آتی ہے۔ ابتدائی حصّے میں مکمّل طور پر نظم معرّا کی صورت قائم رہتی ہے لیکن رفتہ رفتہ یہ نظم آزاد نظم کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ شاعر کی خوبی یہ ہے کہ الگ الگ حصّے کی شعری کیفیت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں معلوم ہوتی۔ آہنگ یکساں رہتا ہے اور شعری توازن میں رَتّی برابر بھی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ نظم میں آہنگ کی تبدیلی تخلیق کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور اس سے شاعر نے اثر آفرینی میں اضافے کا نشانہ طے کیا ہوا ہے۔ مُلّا کی ایک نظم ’’شعر کا جنم ‘‘ہیئتی اعتبار سے ایک نگار خانہ ہے۔ پورے طور پر یہ ایک آزاد نظم ہے لیکن یہاں ٹیپ کے مختصر مصرعے کی ایک کیفیت شامل کر کے شاعر نے ہیئتی تصرّف کیا ہے۔ ہمیں یہ یاد نہیں کہ کسی آزاد نظم میں مصرعے دہرانے یا مثلث اور مخمس کی طرح بند کی تکمیل کے لیے ایک علاحدہ مصرعے کے اضافے کی کوئی سامنے آ ئی ہو۔ اس اعتبار سے آنند نرائن مُلّا کی نظم ’’شعر کا جنم‘‘ تجربہ پسندی کے لیے ایک معقول مثال سمجھی جائے گی۔ اسی سلسلے سے ان کی آزاد نظم ’’اندھیر نگر میں دیپ جلیں ‘‘کو بہ طورِ مثال ملاحظہ کرنا چاہیے جس میں رہ رہ کر طویل اور نہایت طویل مصرعوں کے ساتھ مختصر مصرعے کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں کہ اردو نظم کی مانوس فضا میں نئی کیفیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ لال بہادر شاستری کی وفات پر لکھی گئی نظم ’’شہیدِ اَمن‘‘ کو بھی اسی طور سے دیکھنا چاہیے جہاں آزاد نظم میں ارکان کی کمی بیشی کا تناسب اردو کی آزمائی ہوئی آزاد نظموں سے مختلف نظر آتا ہے۔ مختصر اور نہایت طویل مصرعوں کی یکجائی سے شعرکا آہنگ نہ صرف یہ کہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات بڑھ جاتے ہیں۔
ہیئت و اسلوب کے تجربوں کی تفصیل میں ہمارے لیے یہ کام اب بھی باقی ہے کہ مُلّا کی چند دیگر صفات کی طرف بھی اشارہ کر دیا جائے۔ گہری انسانی درد مندی تو ان کی شاعری کا خاصّہ ہے ہی لیکن اسی کے ساتھ ان کی نظموں میں قصّہ گوئی کی صفت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ وہ تخیل کی سطح پر بھی کئی نایاب تجربے پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی رومانی نظم ’’آخری سلام‘‘کو توجہ سے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس موضوع پر کسی کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ ترقّی پسندوں کے روایتی مضامین کو اپناتے ہوئے بھی انھوں نے جو نظمیں کہیں، اُن میں کچھ علاحدہ انداز سامنے آتا ہے۔ ’’چڑیوں کا گیت‘‘ نظم تو ان کی تخیّلاتی صفات کا مکمّل طور پر اظہار ہے۔ ان نظموں کو اردو شاعری کے طالب علموں کو بہ نظرِ توجّہ ملاحظہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی مُلّا کے شعری محاسن پر ہماری توجہ مبذول ہو سکتی ہے۔
آنند نرائن ملّاؔ کی ادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات سے ہمیں ان کار نہیں ہونا چاہیے کہ بہ یک وقت غزل گو، نظم نگار، نثر نگار، ادبی تحریک کار اور ماہرِ قانون؛ تمام حیثیات میں انھوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ سیاسی رہ نما کے طور پر بھی اعتبار قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شاید انھی اسباب سے اپنے ادبی سرماے پر وہ مکمّل انہماک کے ساتھ توجہ نہ کر سکے۔ وہ عدالتِ عالیہ کے جج بھی تھے۔ ایک جج اپنے فیصلے کو قانون کے نقطۂ نظر سے پورے طور پر ناپ تول کر فیصلے دیتا ہے۔ آنند نرائن مُلّا کے بعض فیصلے عدالتی حلقے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ کسی جج کو اپنے فیصلوں میں زبان اور اسلوب کے اعتبار سے زیادہ توجہ شاید ہی کرنی ہوتی ہو۔ اسے صرف قانونی چوکھٹے میں رکھ کر معاملات کو سمجھنے کی عادت ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری میں قانون و قواعد کے احوال تو درست ہیں لیکن ان کے ادب کی یہ واضح حدود ہیں کہ ان کی شاعری میں بار بار نثری آہنگ کا دباؤ بڑھ جاتا ہے جس کے سبب بہت سارے شاعرانہ عناصر اور اسلوبیاتی حسن کاری سے ذرا دور کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّا اور تخلیقی ترجمے کی ایک مثال
……… سہیل احمد فاروقی
پنڈت آنند نرائن مُلّا (۱۹۰۱ تا ۱۹۹۷) کا پہلا مجموعۂ کلام ’’جوئے شیر‘‘ ۱۹۴۹ میں شائع۔ بیجا نہ ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ یہی ان کے سرکاری کیریر کے عروج کا زمانہ تھا جب ہم کسی سرکاری افسر اور ایوانِ حکومت میں مقبول کسی شخص سے مصلحت کوشی کی توقع رکھتے ہیں لیکن اس کے برعکس ملا صاحب نے مجموعے کے دوسرے صفحے پر شامل ایک قطع میں اہلِ اردو کو سیاست زدگی کے اس سائے سے آگاہ کر دیا جو اس زبان پر پڑنے لگا تھا اور ملک کے اربابِ حل و عقد اردو کو ایک خاص فرقے کا حلقۂ بگوش بنانے کے درپے ہونے لگے تھے۔ قطعہ یوں ہے :
اک موت کا جشن منا لیں تو چلیں
پھر پونچھ کے اشک مسکرالیں تو چلیں
آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو
اک آخری گیت اور گالیں تو چلیں
اس سے بڑھ کر یہ کہ مذکورہ بالا مجموعے کی اشاعت کا سال اردو پر ادبار کا سال بھی ثابت ہوا جس کی تصدیق قطعہ بعنوان ’’آئندہ تاریخ کا ایک صفحہ ‘‘ سے ہوتی ہے کہ:
یہ سانحہ سالِ چہل و نو میں ہوا
ہندی کی چھری تھی اور اردو کا گلا
اردو کے رفیقوں میں جو مقتول ہوئے
مُلّا نام سنا ہے شاعر بھی تھا
آج سے پینسٹھ سال پہلے شاعر کے دل سے نکلی ہوئی آواز اس کی شاہد ہے کہ آنند نرائن مُلّا نے رواداری، بے تعصبی اور اخوت کو محض وردِ زبان نہیں بنایا تھا بلکہ انھیں اپنی روح میں جذب بھی کیا تھا۔ ان کی غزلیں اور نظمیں لطیف وشائستہ طرز اظہار کے ساتھ میں یہ احساس بھی دلائی ہیں کہ قومی شہزادے، کتور، انسان پرستی کا معیار، مختلف طبقوں، فرقوں اور زبانوں کے تئیں احترام مساوات کے جذبے کی اور بے لوث رویے کی جو مثال مُلّا صاحب نے قائم کی وہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ خود اپنی شاعری کے بارے میں جس بے نیازی اور جس مزاح کا مظاہرہ انہوں نے کیا وہ ان کی صداقت کا غماز ہے۔ جوئے شیر کے دیباچے کے بعد بقلم خود کے تحت وہ لطف لیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جوئے شیر شائع کرتے ہوئے میرے دل کا وہی عالم ہے جو کسی مسافر کا اجلے کپڑے پہنے ہوئے ہوی کی صبح کسی اجنبی شہر کے بازار میں پہنچ کر ہوتا ہے جہاں رنگ کھیلنے والوں کے غول کے غول پچکاریوں سے مسلح موجود ہوں اور نئے شکار کے منتظر ہوں۔
’’جوئے شیر‘‘ (۱۹۴۹)، ’’کرب آگہی‘‘ (۱۹۷۷) اور ’’جادۂ ملا‘‘ (۱۹۸۸) جو بڑی حد تک اول الذکر دو مجموعوں کا آمیزہ ہے ان کی غزلوں، نظموں اور آزاد نظموں کو محیطِ شمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تخلیقی افق خاصا وسیع تھا۔ مُلّا صاحب کے فن کے دیگر جہات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں ان کی تخلیقی چابکدستی کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
’’جوئے شیر‘‘ میں ایک نظم ملتی ہے جو سروجنی نائڈو (۱۸۷۹ تا ۱۹۵۰) کی انگریزی نظم cradle song(کریڈل سانگ) کا ترجمہ ہے۔ اپنے بچوں کو لوری سناتی دنیا کی تمام ماؤں میں قدر مشترک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوری یا پالنے کے گیت کے موضوع پر لکھی گئی نظموں کے نمونے میں ہندوستانی لوک ادب میں تو ملتے ہی ہیں مغربی ادب میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً وہم بلیک (۱۷۵۷ تا ۱۸۲۷)
A CRADLE SONG
sweet dreams from a shade
over my lovely infants head.
sweet dreams of pleasant streams
by happy silent mooney beams
sweet sleep with soft down
weave thy brows an infant crown.
sweet sleep Angel mild
Hover O’ver my happy child
اور ایک مثال الفریڈ لار ٹوٹینی سن (۱۸۰۹ تا ۱۸۹۲)کے یہاں سے
What does little birdie say
in her rest at peep of day
let me fly, says little birdie
یہ روایت جب رابندر ناتھ ٹیگور (۱۸۶۱ تا ۱۹۴۱) تک پہنچتی ہے تو وہ اسے ہندی واتسلیہ اس کا وہ یہ سے ملا دیتے ہیں۔ ان کی ایک انگریزی نظم sleep stealerمیں جس کا اردو متبادل سپنا چور ہو سکتا ہے مختلف حوالوں سے بچے کی نیند اُچاٹ ہو جانے کے تئیں ماں کی فکر مندی کی عکاسی کی گئی ہے :
Who stole sleep from baby’s eyes? I must know clasping her pitcher to her waist mother went to fetch water from village nearby.
It was moon. The children’s play time was over;
the ducks in the pond were silent.
ماں کو اندیشہ ہے کہ کوئی کوئل اس کے بچے کی نیند چرا لے گئی ہے اور نظم کے آخری حصے میں اسے یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اگر میں اس چور کو پکڑ لوں تو ضرور مزہ چکھاؤں گی اور اس کے گھونسلے کو تباہ کر دوں گی۔ اس کے دونوں پروں کو باندھ کر ندی کنارے چھوڑ دوں اور دیکھوں گی کہ یہ کیسے مچھلیاں پکڑتی ہے۔
معروف شاعرہ سروجنی نائڈو (۱۸۷۹ تا ۱۹۵۰) جنھیں قومی تحریک کی نمایاں شخصیات مثلاً گوکھلے، گاندھی نہرو wwرٹ ک شبنم کا قطرہ بن کر پھرگہاور مولانا آزاد کی ہم نشینی حاصل رہی (۴) ٹیگور شاعرانہ عظمت کی معترف تھیں۔ انھوں نے جب اس موضوع پر اپنے انداز میں اور اپنے ماحول کی رعایت سے طبع آزمائی کی تو مندرجہ ذیل بند وجود میں آئے :
یہاں ایک ماں اپنے بچے سے کہتی ہے کہ وہ اس کے لیے کتنے جتن سے نیند کا تحفہ لائی ہے۔ وہ اسے بعض خدشات سے بھی آگاہ کرتی ہے۔
From groves of spice
o’er fields of rice
a thwart the lotus – stream
I bring for you
A glint with due
A little lovely dream
sweet shut your eyes
The wild fire – flies
Dance through the fairy moon
From the poppy hole
For you I stole
A little lovely dream
آنند نرائن مُلّا، ٹیگور اور سروجنی نائڈو دونوں سے متاثر تھے دونوں کو منظوم خراج عقیدت انھوں نے پیش کیا تھا
نذر ٹیگور
(نومبر ۱۹۴۱)
خوشا وہ یاد جولائی زبان پہ نام ترا
وطن کے شاعر اعظم مجھے سلام مرا
تجھے چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
یہ اودی اودی گھٹائیں سلام کہتی ہیں
کہ ذرے ذرے پہ برسا ہے ابر جام ترا
خوشا وہ یاد جولائی زباں پہ نام ترا
ہے گونج نے میں تری مدی ربابوں کی
ترے نفس میں مہک جنتی گلابوں کی
تری نظر میں ہے دنیا بشر کے خوابوں کی
ہر اک طلوعِ سحر میں ہے عکس شام ترا
خوشا وہ یاد جولائی زباں پہ نام ترا
اور یہی لے نظم سروجنی نائڈو میں بھی برقرار رہتی ہے
سروجنی نائڈو
(اپریل ۱۹۴۹)
چمن کا موجِ شمیم چمن سلام تجھے
گلوں کا روحِ گل ویا سمن سلام تجھے
(۱)
ترے سخن کے سنوارے ہوئے دماغوں کا
تری نظر کے جلائے ہوئے چراغوں کا
ترے ہی داغ سے روشن جگر کے داغوں کا
فروغِ گمشدہ انجمن سلام تجھے
(۲)
اُڑا کے لے گئے تارے بڑے حسیں نغمے
ترے گداز جگر کے وہ آتشیں نغمے
سنے گی ایسے کہاں اب یہ سر زمیں نغمے
سرورِ رفتۂ سازِ وطن سلام تجھے
آنند نرائن مُلّا زبان و بیان اور شعری اظہا ر پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ وسیع مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بدولت موضوع اور ماحول کی مناسبت سے لفظیات کے انتخاب کا گہرا شعور بھی انھیں تھاجس کا اندازہ ان کی بعض آزاد نظموں سے ہوتا ہے جو خاصی رواں پر زور اور پر آہنگ ہیں اور یہی وہ عناصر ہیں جن کے بوتے پر آزاد نظم خود کو پڑھواتی ہے۔ مُلّا صاحب نے سروجنی نائڈو کے چو سطری اسٹائنزا کو مُلّا شوق کی شکل دیدی ہے۔ اس طرح سروجنی نائڈو کے اسٹائنزاکے پہلے تین سطری ٹکڑے
From groves of spice
other fields of rise
A thwart the lotus stream
کی قرأت یوں ہو گئی
نیلے آکاش سے۔ اونچے کیلاش سے
لائی تیرے لیے میں شباب
I bring for you
A glimp with due
A little lovely dream
کے خیال کو
’’ہلکا ہلکا سا اک۔ پیارا پیارا سا اک
ننھی آنکھوں کا منا سا خواب‘‘
سے کیا گیا ہے
دھان کے کھیت سے۔ کھیت کی ریت سے
چن کی لائی ہوں میں بے حساب
مسکراتے ہوئے۔ جگمگاتے ہوئے
دھانی دھانی سنہرے سے خواب
اپنی روانی اور آہنگ کے اعتبار سے یہ باز تخلیق بجا طور پر ہمیں نا ور کا کو روی (۱۸۵۷ تا ۱۹۱۲) کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے طامس مور (۱۷۷۹ تا ۱۸۵۲) کی مشہور نظم کا ترجمہ کیا تھا۔
oft, in the stilly night,
eve slumbers chain has found me
Fond memory brings the light
Of other days around me.
The smiles, the tears,
of boyhood’s years
اکثر شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گذری ہوئی دلچسپیاں
پہنے ہوئے دن رشک کے
بنتے ہیں شمعِ زندگی
ملا صاحب کو اگر کچھ اور فرصت ملتی اور ان کے تخلیقی ترجمے کے کچھ اور نمونے سامنے آئے ہوتے تو ہمارے پاس ان کا اور وقیع شعری سرمایہ ہوتا۔
٭٭٭
حوالے
۱۔ جوئے شیر از آنند نرائن مُلّا ص۱
۲۔ جوئے شیر از آنند نرائن مُلّا ص۲
۳۔ جوئے شیر از آنند نرائن مُلّا ص۳
۴۔ سروجنی نائڈو ابن انٹروڈکشن اینڈ ہر لائف ورک اینڈ پوئٹری۔ ازوشو ناتھ طاؤس
٭٭٭
پنڈت آنند نرائن ملّا: ایک بازیافت
……… ابوبکر عباد
پنڈت آنند نرائن ملا اپنے عہد میں جتنے معروف تھے اُتنے ہی منفرد اور ممتاز بھی۔ ان کی شخصیت کی متعدد مماثل جہتیں تھیں اور سرگرمیوں کے متضاد میدان عمل۔ سو کہنے کی اجازت دیجیے کہ ان کے یہ رویے انتشار مزاج کی علامت نہیں، اُن کی مستحکم سوچ، بالیدہ فکر اور مثبت تصور حیات کا شناخت نامہ تھے، اور یہ کہ پامال روایات اور پابند نظریات کی اسیری کا تردید نامہ بھی۔ ملا صاحب عملی طور پرکانگریس پارٹی سے منسلک تھے لیکن زندگی بھر انھیں ذہنی قربت ترقی پسندتحریک سے رہی۔ وہ گاندھی جی کی فکر سے متاثر تھے اورمارکسی نظریات کے مداح۔ سرکاری وکیل تھے لیکن سرکار کے خلاف ہی اردو کی جیسی لڑائی انھوں نے لڑی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ جج کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے پولس اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہ تاریخی رائے لکھی کہ : ’’میں نے بہت سے ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد کو دیکھا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ ہندوستانی پولس سے بڑھ کر کوئی ڈاکو اور جرائم پیشہ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ (بحوالہ، آنند نرائن ملا:شاعر اور دانشور، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، 1995،ص 11، ) وہ انجمن ترقی اردو ہند کے بھی صدر رہے اور جیل ریفارم کمیٹی کے بھی، جامعہ اردو علی گڑھ کے نائب شیخ الجامعہ تھے اور ترقی اردو بورڈ(موجودNCPUL)کے وائس چیر مین بھی رہے۔ گجرال کمیٹی کی کئی ایک سفارشات کی بنیاد اُن کی تجاویز پر ہے۔ وہ اردو شعر و ادب کے عاشق حقیقی تھے، اور فروغ زبان کے سچے مجاہد بھی۔ آل انڈیا اردو کانفرنس جے پور کے خطبۂ صدارت کو بھلا کون بھلا پائے گاجس میں انھوں نے ببانگ دہل کہا تھا کہ: ’’اردو میری مادری زبان ہے۔ میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘ (بحوالہ، آنند نرائن ملا: شاعر اور دانشور، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، 1995، ص3 1، )
اگر کبھی اردو والوں کو توفیق ہوئی اور کسی شخصیت کو اردو کی مشترکہ تہذیب کا جیتا جاگتا مثالی نمونہ قرار دینے کا مرحلہ در پیش ہو اتو میری تجویز اور تائید اُس آنند نرائن کے حق میں ہو گی جس کے نام کا پہلا حصہ ’پنڈت‘ اور ’آخری حصہ ’ ملا‘ ہے۔ یعنی پنڈت آنند نرائن ملا؛ جس نے زبان اردو کی دامے، درمے، قدمے، سخنے اس وقت مدد کی جب اپنے ہی ملک میں اس زبان پر پیغمبری وقت آ پڑا تھا۔
سماجی اور معاشرتی زندگی کی طرح ملا صاحب کی خاندانی، علمی اور ادبی زندگی بھی کافی متنوع اور منفرد رہی ہے۔ ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والے آنند نرائن کی تعلیم کی بسم اللہ کسی پنڈت نے سنسکرت کے اشلوک سے نہیں، بلکہ مولانا برکت اللہ فرنگی محلی نے اردو کے حروف تہجی سے کرائی تھی۔ خود ملا صاحب نے ایم۔ اے انگریزی لٹریچر سے کیا تھا لیکن فکر و جذبات ا ظہار کے لیے اردو زبان اختیار کی۔ شاعری کا آغاز انھوں نے علامہ اقبال کی نظم لالۂ طور کے ترجمے سے کیا تھا، نثر کی ابتدا علامہ نیاز فتح پوری کی ضد اور ترغیب پر’ غالب کے کلام میں تصوف‘ کے عنوان سے مضمون لکھ کر کی۔ نظمیں اور غزلیں کہنے کے علاوہ ملا صاحب نے تنقیدی مضامین اور ریڈیو ٹاکس لکھے، دیباچے، تقریظیں اور خطبات تحریر کیے، اور چند ایک تراجم بھی۔ جن میں جواہر لال نہرو کے مضامین کے ترجمے بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
ملا صاحب نے شاعری میں متعدد موضوعات پر طبع آزمائی کرنے کے علاوہ نثر میں مختلف اصطلاحات، اصناف اور نظریات کی تشریح و توضیح کی، تنقیدی خیالات کا اظہار کیا اور اپنے بعض تصورات بھی وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارے بیشتر ناقدین نے ان کی شاعری کے موضوعات کو لے دے کر حب وطن اور انسان دوستی تک محدود دیکھا اور تنقیدی تصورات کو اظہار رائے اور ادبی خیالات سے تعبیر کیا، یا حد سے حد تاثراتی تنقید ماننے پر آمادہ ہوئے۔ پروفیسر آل احمد سرور کی اس بات کی تائید تو بہت سے لوگوں نے کی کہ ملّا صاحب نے لکھنؤ کی روایتی غزل کو ایک نئی سمت دی، اور نئی لکھنوی روایت کی بنیاد ڈالی۔ لیکن گفتگو اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ انھوں نے غزل کو نیا معنوی رنگ و آہنگ بخشنے کے علاوہ اس کے کرداروں کے جدید ذہنی اُفق کو دریافت کرنے کی کوششیں کیں، داخلی سطح پر گہری رمزیت اور ابہام سے پرہیز کیا، شاعری میں نفسیات کے بیان کو ترجیح دی، غزل کی ریزہ خیالی کو نظم کا سا ذہنی ارتقا دینے کا بیڑہ اٹھایا اور محض کسی خیال یا فکر کو نظم میں ڈھالنے کے بجائے، نظم میں افسانوی پلاٹ اور فکشنل بیانیے کو داخل کیا۔ اس حوالے سے ان کی بعض اہم نظموں کے نام لیے جا سکتے ہیں مثلاً ’’مریم ثانی‘‘، ٹھنڈی کافی‘‘ اور ’’ سماج کا شکار‘‘ وغیرہ۔ ملا صاحب کی اس جدت اور اُن کی ایسی افسانوی نظموں کے لیے ایک نئی اصطلاح ’ نظمانے ‘ (نظم پلس افسانے )اختیار کی جا سکتی ہے جس میں نظم کی چاشنی اور ترنگ بھی ہے، اور افسانے کا تجسس اور تاثر بھی۔ ذکر یہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ ملا صاحب نے کسی حد تک اسلامیات اور کافی حد تک سنسکرت ادبیات سے اخذ و استفادہ کر کے اردو شاعری کے سرمایے میں انتہائی دل کش، دلچسپ، نئی اور اثر انگیز نظموں کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے بعض علامتی نظمیں بھی لکھی ہیں مثلاً ’’بوڑھا مانجھی‘‘ جس میں جواہر لال نہرو کی شبیہ ابھرتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے انگریزی ادب کے مطالعے سے اردو شاعری کو پُر ثروت بنانے میں جو اہم رول ادا کیا ہے اسے بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
جس دور میں ملا صاحب نے شاعری کا آغاز کیا وہ یوں اہم اور چیلنج بھرا تھا کہ نظمیہ شاعری کی سلطنت میں چکبست، جوش اور مجاز کا سکہ چلتا تھا اور غزل کے ایوان میں صفی، اثر اور یگانہ کے چراغ روشن تھے۔ ایسے میں کسی کا خود کو منوا نا اور ایک نئی راہ کی دریافت کا سہرا اپنے سر بندھوا لینا آسان نہ تھا۔ ہمارے ناقدوں کا یہ کہنا کافی حد تک درست ہے کہ ملا صاحب نے لکھنؤ کی روایتی شاعری کو ایک نئی اور توانا سمت دی۔ لیکن تسلیم یہ بھی کرنا چاہیے کہ معنوی وسعت، صوتی آہنگ اور لطافت زبان کے ساتھ رفعت خیال اور ند رت فکر کو شاعری کا لازمی جز بنانے کی بنیاد در اصل چکبست، صفی اور ان سب سے بھی پہلے ’امراؤ جان ادا‘ والے مرزا محمد ہادی رسوا نے تب رکھی تھی جب لکھنوی شاعری سے ابتذال و رکاکت تو ختم ہو چکی تھی لیکن حسن و عشق، سراپائے محبوب اور رندانہ خیالات کے ساتھ غالب کا تتبع عام ہو چلا تھا۔ سو، رسوا نے جیسی سخت تنقید اپنے عہد کے متبعین ناول نگاروں پر کی تھی ویسی ہی اس قسم کے شاعروں پر بھی کی:
کہیں ہم اب کچھ ایسے شعر مرزا جن میں جدت ہو
کہاں تک حاشیے لکھا کریں غالب کے دیواں کا
اور رسوا کے جونیئر معاصر چکبست کا یہ شعر کہ:
نیا مسلک نیا رنگ سخن ایجاد کرتے ہیں
عروس شعر کو ہم قید سے آزاد کرتے ہیں
ملا صاحب کا شعر ہے :
لب و رخسار کے قصے، نگاہ و دل کے افسانے
ترے ہونٹوں پہ لیکن آیتِ پیغمبری کب تھی
البتہ اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ ملا صاحب نے رفعت خیال اور ندرت فکر کی شاعری کو پروان چڑھایا، غزل کی شعریات کی تبدیلی کے تسلسل کو قائم رکھا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے صنفِ غزل کی نوعیت، ادبیت، جمالیت اور افادیت پر باضابطہ غور و فکر کرنے کے بعد اپنا ایک نظریہ قائم کیا اور اس حوالے سے بعض تجربے بھی کیے۔ مثلاً ان کے نزدیک غزل میں داخلیت اور خارجیت دونوں کا امتزاج ضروری ہے، غزل میں انفرادی رد عمل کے بیان پر اجتماعی نفسیات کو ترجیح دی جانی چاہیے، اس میں ذاتی عشق کے بجائے انسانی درد کا بیان ہونا چاہیے، حسن و عشق کے اظہار کے مقابلے غزل میں زندگی کی تنقید و تشریح کو فوقیت دی جانی چاہیے اور یہ کہ غزل کو بیانِ ماضی کے بجائے اسے اپنے عہد کا ترجمان ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اور لوگوں کے مقابلے میں ملا صاحب کے یہاں اس نوع کے اشعار کثرت سے ملتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
نعرۂ گرم انقلاب میں نے بھی یاں سنا تو ہے
جام وسبو کے آس پاس دار و رسن سے دور دور
پھر ان گردوں نشینوں کو زمیں کی بات کہنے دے
انھیں پہلے ذرا زیر فلک کچھ روز رہنے دے
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے
ادھر بھی ہوش کے دشمن ادھر بھی دیوانے
قطرہ قطرہ زندگی کے زہر کا پینا ہے غم
اور خوشی ہے دو گھڑی پی کر بہک جانے کا نام
تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم
جب آئے نئے بت پیش نظر اصنام پرانے توڑ دیے
پستی نہ بلندی نہ اطاعت نہ حکومت
دنیائے محبت میں گدائی ہے نہ شاہی
ملا صاحب کی غزلیں متعدد موضوعات کو محیط ہیں جن میں ادراک حسن، عشق کی عظمت و رفعت، انسانی نفسیات، حب وطن، بشر دوستی، اپنے عہد کے احوال اور قومی اور بین الاقوامی مسائل سے لے کر تصوف کے نکات تک سبھی کچھ اس تنگنائے میں شامل ہیں۔ جن کی توقع ایک دانشورانہ شخصیت، جہاندیدہ انسان اور کثیر المطالعہ کامیاب شاعر سے کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے چند اشعار دیکھیے :
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے
معبد انساں بنے کیسے یہ ضد ہر دل میں ہے
اس کی پیشانی پہ ہو میرے ہی بت خانے کا نام
نظام مے کدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے
ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا
باغباں کے حکم سے اب کوئی ویرانہ نہیں
اب تو شالیمار ہے ہر ایک ویرانے کا نام
اس فضا میں تجھ کو جینا ہے تو اے طائر ذرا
تیز رکھ منقار و ناخن بال و پر کافی نہیں
پیتے تو ہم نے شیخ کو دیکھا نہیں مگر
نکلا جو مے کدے سے تو چہرے پہ نور تھا
ملا صاحب کے چند ایسے اشعار بھی دیکھ لیجیے جو قاری کے عشقیہ اور رومانی جذبات کو بر انگیخت کرتے اور نقاد کو اپنے اندر تغزل ڈھونڈنے پر اکساتے ہیں :
ساتھ تیرے زندگی کا وہ تصور میں سفر
جیسے پھولوں پر قدم رکھتا چلا جاتا ہوں میں
مری زیر لب حقیقت کی اسے خبر نہ ہوتی
وہ تو یہ کہو کہ دنیا نے بنا دیا فسانہ
کبھی ملا سے روٹھ کر سوچا
اس کے دل میں بھی ہیں گلے کیا کیا
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمھیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی، یاد تمھیں نہ آ سکے
تیور چڑھا کے پہلے تو کہنے دیا نہ کچھ
پھر مسکرا کے دل سے شکایت بھی چھین لی
مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر
انھیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے
اک سلام اک مسکراہٹ، اک سوال اک شکریہ
وہ بھی یوں ہی راہ میں آتے ہوئے جاتے ہوئے
کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملا صاحب کی غزلوں میں نہ تو بے کیف مبالغہ آرائی ہے، نہ محبوب کا مضحکہ خیز سراپا، نہ ہوس پرستانہ جذبات کا بیان ہے اور نہ ہی انھوں نے پامال تشبیہ و استعارے سے کام لیا ہے۔ اس کے بر عکس ان کے یہاں عشق کی پاکیزگی ہے، ایک نوع کی تہذیب و شائستگی ہے اور عام انسانی مسائل پر اظہار خیال بھی ہے۔ چاہیں تو ان کی غزلیہ شاعری کو کلاسیکیت اور جدے دیت کا حسین سنگم کہہ لیں یا پھر دونوں سے الگ۔ بقول ملا صاحب:
ملّا ادب میں ڈھونڈ لی جادہ سے ہٹ کے راہ
رنگ جدید سے الگ طرز کہن سے دور دور
ان کے اس شعر کا تو کئی لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ یہ رسول پاک کی حدیث پر مبنی ہے :
خون شہید سے بھی قیمت میں ہے سوا
فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند
گو کہ بعض ناقدوں کا کہنا تھا کہ جوش کے اس شعر کے ہوتے ملا صاحب کے شعر کی چنداں ضرورت نہ تھی:
بخدا عظیم تر ہے شہدا کے بھی لہو سے
مرے سینۂ قلم میں جو بھری ہے روشنائی
یہاں ملا صاحب کی ایک بڑی ہی خوبصورت نظم ’چڑیوں کا گیت‘ کا ذکر یوں ضروری ہے کہ اس کا مرکزی تھیم قرآن شریف کی سورۂ فیل میں مذکور وہ واقعہ ہے جس میں ابرہہ ہاتھیوں کی زبردست فوج لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرنے آیا تھا، لیکن اُس حملہ آور فوج پر مکے کی ننھی منی ابا بیلوں کے جھنڈ نے چھوٹے چھوٹے کنکریوں کی بارش کر کے اسے تہس نہس کر دیا تھا۔ نظم کا پہلا بند ہے :
’’صد شکر کہ میں اک چڑیا ہوں
اک ننھی منی سی چڑیا
عقاب نہیں
شاہیں بھی نہیں
یہ چونچ مری تلوار نہیں
میرے پنجوں میں خون نہیں
میں اڑتی ہوں اور گاتی ہوں
یہ وایو منڈل میرا ہے
چھوٹی چھوٹی چڑیو، آؤ
ہم اپنا پورا دل لے کر
اک بادل بن کر چھا جائیں
اور اپنی کروڑوں چونچوں میں
ننھے ننھے کنکر لے کر
ان عقابوں پر برسائیں
شاہینوں پر پتھراؤ کریں
ان کے بازو پنجے توڑیں
اور اپنے وایو منڈل میں
یہ خون و غارت بند کریں ‘‘
اور نظم کا اختتامی بند یہ ہے :
’’اب قصۂ شاہیں ختم ہوا
چڑیوں کا فسانہ آیا ہے
دیووں کا زمانہ بیت گیا
انساں کا زمانہ آیا ہے
آکاش کے تارے بجھنے دو
دنیا سے کہو ماتم نہ کرے
ذروں سے کرنیں پھوٹیں گی
مٹی کی خدائی باقی ہے
صد شکر کہ میں اک چڑیا ہوں
صد شکر کہ میں چھوٹے قد کا
معمولی سا اک انساں ہوں
صد شکر کہ میں اک دیو نہیں۔ (چڑیوں کا گیت)
غالباً یہاں اس وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ ملا صاحب کی یہ نظم امن کے استحکام اور سیلف ڈیفنس کا انتہائی خوبصورت استعارہ ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ نظم علامہ اقبال کے قوت کے استعارے ’شاہین‘ کا جواب بھی ہے۔ یہاں موقع ملا کے جنون اور مصلحت، اور علامہ کے عقل اور عشق کی کشمکش کے ذکر کا نہیں ہے۔ یوں تو ہمارے ناقدوں نے عادتاً ملا صاحب پر بھی اقبال کے اثرات ڈھونڈ نکالے ہیں، لیکن کیا کیجیے گا کہ یہ نہ ہو تو روایتی اور تقلیدی تنقید کی سانسیں باقی کیسے رہیں گی۔
عام طور سے یہ بات فراق صاحب کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ہندی کے اُن الفاظ کا خوبصورت استعمال کیا ہے جو اردو میں مستعمل نہیں تھے۔ لیکن اس سے پہلے کی حقیقت یہ ہے کہ ملا صاحب نے بھی اپنی شاعری میں ہندی کے الفاظ کا ایسا بر محل اور برجستہ استعمال کیا ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ ہندی کے ہی الفاظ ہیں۔
ملا صاحب کو ہمارے متعدد ناقدوں نے وطن، وطن کے حادثاتی حالات اور اہم شخصیات پر لکھی ان کی نظموں کی بنا پرچکبست سے متاثر یا انھی کے رنگ کا شاعر بتایا ہے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ پنڈت برج نرائن چکبست آتش و انیس کے اسکول کے شاعر تھے، ملا نے اپنی الگ راہ بنائی تھی۔ چکبست نئی قدروں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے، ملا نئی قدروں کے علمبردار تھے۔ چکبست کو ملک و قوم کا سودا تھا، ملا کو بنی نوع انسانیت کا درد۔ چکبست ملک اور ملک کے حالات کو عار عاشقِ درد مند کی طرح بیان کرتے ہیں، ملا ان کا تنقیدی محاکمہ بھی کرتے ہیں۔ چکبست وطن سے اپنی بے پناہ محبت، وفاداری اور جذباتی لگاؤ کے اعتبار سے قومی اور وطنی شاعر ہیں، ملا اپنی فکر کے لحاظ سے آفاقی۔ یوں دونوں میں جزوی مطابقت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا۔
’ارتقا‘، ’اور اک دن انساں جاگے گا‘، ’مزدور عاشق‘، ’کلکتہ کے قحط زدہ لوگ‘، ’ بیسوا‘، ’مہاجن کی لڑکی‘’سماج کا شکار‘، ’کمسن دوشیزہ‘ اور ’دنیا ہے یہ کتنی بڑی، چھوٹا ہے کتنا یہ جہاں ‘ ان کی وہ خوبصورت نظمیں ہیں جن میں فکر کا کینوس یوں وسیع ہے کہ یہ انسانی تہذیب و تمدن، قوموں کا عروج و زوال، نظریات کی شکست و ریخت اور بہتر زندگی کی جد و جہد کا بیانیہ ہونے کے علاوہ شاعر کی گہری سماجی بصیرت اور تاریخی شعور کی بھی غماز ہیں۔
ہند و پاک دوستی کے حوالے سے سردار جعفری کی مشہور اور خوبصورت نظم آپ میں سے بیشتر لوگوں کو یاد ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار جعفری سے کا فی پہلے اسی موضوع اورایسے ہی موقع پر ملا صاحب نے بھی ’سوغات ‘ کے عنوان سے ایک نظم تب کہی تھی جب وہ انڈو پاک ٹریبونل کے صدر کی حیثیت سے لاہور گئے تھے۔ نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
پھر اک تجدید الفت کا ترانہ لے کے آیا ہوں
میں کیا آیا ہوں اک گزرا زمانہ لے کے آیا ہوں
بہ نام خطۂ اقبالِ خاک میر و غالب سے
سلام شوق و نذرِ دوستانہ لے کے آیا ہوں
مجھے ٹھکرا نہ پاؤ گے، تمھیں اپنا بنا لوں گا
محبت کی شکست فاتحانہ لے کے آیا ہوں
یہ محض شاعر کی نظم نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے کروڑوں عوام کے دلوں کی بات ہے، آرزو ہے چاہت ہے۔
ملا صاحب کی نظموں میں نفسیات کو خاصا دخل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان اپنی عمر اور فکر و فن کے اعتبار سے کتنا ہی بڑا اور اپنے رویوں کی وجہ سے کیسا ہی کیوں نہ ہو جائے، اس کے اندراس کا ایک اور ہمزاد، یا ایک ننھا منا معصوم سا’اپنا آپ ‘بہر طور موجود ہوتا ہے جواسے معصیت و مصیبت سے بچانے اور معصومیت و محبت کی طرف لوٹانے کی اپنی سی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ فی الوقت ان کی صرف دو نظموں کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے گا کہ اس دوران کس طرح اختر الایمان کی نظم کا’ لڑکا‘ آپ کے خیالوں میں آ دھمکتا ہے :
’’ہر انساں کے سینے میں چھپا
اک چھوٹا بالک رہتا ہے
جو اس کا جیون ساتھی ہے
اور سپنے دیکھتا رہتا ہے
انساں مٹی، بالک جوالا
انساں چھایا، بالک تارا
اور انگلی پکڑ اس بالک کی
یوون کے اندھیرے رستوں پر
ہر انساں چلتا رہتا ہے۔ ‘‘(سپنے )
’’شاید مجھ سے دور کہیں
مجھ میں جو رہتا ہے میں
چھپ کے الگ تنہا تنہا
پھر کرب تخلیق میں ہے
جب وہ پلٹ کر آئے گا
نئے سندیسے لائے گا
نئی شعاعیں پھوٹیں گی
اور گہن سے چھوٹ کے پھر
میں خود کو پا جاؤں گا۔ ‘‘ (شعر کا جنم)
سیاسی، وطنی، تاریخی، شخصیاتی، وفاتی، افسانوی اور نفسیاتی نظموں کے ساتھ ساتھ ملا صاحب نے مختلف عنوانوں کے تحت متعدد چھوٹی چھوٹی طنزیہ نظمیں بھی لکھی ہیں۔ اِن کے علاوہ اُن کی شاعرانہ فکر اور مزاج کی عمدہ عکاسی سنسکرت ادب سے ماخوذ ان کی ان نظموں سے بھی ہوتی ہے جو اخذ و قبول اور تخلیق و ترجمے کا حسین گلدستہ ہیں۔ اس حوالے سے پہلے ان کی نظم ’’عیارہ‘‘ ملاحظہ کیجیے جس میں عورت کی عیاری کا ہنر مندانہ بیان ہے :
رات تاریک تھی اندھیرے میں
اپنی ہم ذوق اک سہیلی سے
کر رہی تھی وہ راز کی باتیں
کس طرح اس سے اس کا شیدائی
چھپ کے کر جا تا ہے ملاقاتیں
پیار کی سب لگاوٹیں گھاتیں
کہ یکا یک اسے یہ شک سا ہوا
اس کا خاوند بھی ہے پاس کہیں
اس نے اک قہقہہ لگا کے وہیں
ایک ٹکڑا یہ اور جوڑ دیا
’’اور پھر آنکھ کھل گئی میری۔ ‘‘
سنسکرت سے ہی ماخوذ ان کی ایک اور چھوٹی سی نظم ملاحظہ کیجیے۔ عنوان ہے ؛ ’’عورت، پُستک اور اُدھار‘‘۔
’’عورت پستک اور ادھار
جب یہ گئے تو جانے دو
ان کا جانا ہی اچھا
ان کے پلٹ کر آنے کا
اکثر ہے انداز یہی
دھبے۔ دھبے
پرزے۔ پرزے
ٹکڑے۔ ٹکڑے۔ ‘‘
اردو کی شعری روایت میں ہر ایک رباعی کواس کے واضح، قطعی اور اکہرے موضوع کی بنا پر عنوان دیا جا سکتا ہے، لیکن بالعموم اساتذہ نے نظم یا قطعے کی ماننداس پر عنوان لگانے سے احتراز کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ اس صنف میں طنزو مزاح کو باریابی کے زیادہ مواقع فراہم نہیں کیے ہیں۔ تاہم ملا صاحب نے ان دونوں روایتوں سے انحراف کرتے ہوئے مختلف عنوانات کے تحت طنزو مزاح سے پُر متعدد رباعیاں لکھی ہیں۔ آپ چاہیں تو انھیں تمثیلی رباعی بھی کہہ سکتے ہیں ؛یوں کہ ان میں اشعار کی مجرد قسموں اور ان کی کیفیتوں کو مجسم کر کے پیش کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ طریقۂ کار خاص ملا صاحب کی اختراع ہے۔ نمونتاً دو رباعیاں ملاحظہ کیجیے، پہلی کا عنوان ہے ’حضرت صوفی‘، دوسری کا ’حضرت عریاں ‘:
تو مجھ میں، مَیں تجھ میں، خم میں مے، مے میں خم
میں راز حیات کے معمے میں ہوں گم
ہر شعر مرا ہے جیسے اک دو منھا سانپ
دُم اس کی منھ ہے اور منھ اس کا دم
(حضرت صوفی)
سرکے ہوئے آنچلوں سے پھٹی ہوئی پَو
بھیگی ہوئی ساریوں سے اٹھی ہوئی لَو
جلتی ہوئی سانسوں کی مہکتی ہوئی پھوار
ہر شعر مرا طلا کا اک نسحۂ نو
(حضرت عریاں )
ملا صاحب کی نثری تحریریں زیادہ نہیں ہیں۔ انھوں نے بھرپور اور باضابطہ علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی مقالے اور مضامین تو نہیں لکھے، لیکن چند خطبات، دیباچے، تقریظیں، فیچر اور تقریباً تین سو ریڈیو ٹاکس ان کے ہم عصر شاعروں کے مقابلے میں ان کے نثری اعمال نامے کو بہر طور مدھم نہیں پڑنے دیتے ہیں۔
ہمارے یہاں نقادوں کے دوش بدوش فکشن نگاروں نے بھی تنقیدیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں، لیکن چند ایک سے قطع نظر شعرا حضرات نے نہ صرف یہ کہ اس رقیب رو سیاہ صنف سے مخاصمانہ تعلق استوار رکھا بلکہ تنقیص و تعریض کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جوش ملیح آبادی کی طرح ملا صاحب نے بھی اپنی دو نظموں ’نقاد سے ‘ اور ’نقاد‘ میں ناقدوں کے تئیں سخت بیزاری اور برہمی کا ظہار کیا ہے، انھیں اونٹ سے مشابہت دی ہے اور غیر مستند اور ہرزہ گو تک کہا ہے۔ لیکن نثر کی بات اور ہے۔ ان کے مضامین ’غالب کے کلام میں تصوف‘، ’میرزا اور میں ‘، ’چکبست‘، ’سرشار‘، ’خواجہ حیدر علی آتش‘، ’اثر و سراج‘، بعض دوسرے مقالات و خطبات، سردار جعفری کے شعری مجموعے ’پیراہن شر ر‘ کے پیش لفظ اور اپنے مجموعۂ کلام ’میری حدیث عمر گریزاں ‘ کے دیباچے میں انھوں نے کافی حد تک نقاد کے فرائض انجام دیے ہیں۔ اور ملا صاحب کی اس نوع کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت نہ ہونی چاہیے کہ ان کا تنقیدی شعور انتہائی بالیدہ ہے، فکر واضح، ناقدانہ تصورات قطعی اور خیالات غیر مبہم اور مدلل ہیں۔ گو کہ یہ بات بھی اتنی ہی صحیح ہے کہ وہ تنقید کے اصول و نظریات، اس کے فن اور مختلف دبستانوں سے کما حقہ واقف نہ تھے۔ اس کے باوجود آنند نرائن ملا کے ذہن میں شعری، ادبی اور تنقیدی اصطلاحیں جتنی روشن تھیں اور جس کلیریٹی کے ساتھ انھوں نے اِن کی تعریف و وضاحت کی ہے ایسی شفافیت اور قطعیت کم ناقدوں کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاً ادب عالیہ سے متعلق لکھتے ہیں : ’’میری رائے میں وہی ادب، ادب عالیہ کہلائے جانے کا مستحق ہے جو پایندہ انسانی قدروں کا حامل ہو، ۔ ۔ ۔ جو نسلاً بعد نسلِِ طفل انسان کے لیے سرمایہ نشاط و تسکین بنا رہے اور اسے ذہنی اور جذباتی آسودگی بخشتا رہے۔ ظاہر ہے ایسا ادب نوع انسان کے لیے ہوتا ہے، صرف اس کے ایک چھوٹے یا بڑے گروہ کے لیے نہیں۔ ‘‘ وہ ایسے ادب اور فن پاروں کو خود مکتفی مانتے ہیں اور ان کی پرکھ کے لیے تنقیدی فارمولوں یا دبستانوں کے قائل نہیں ہیں۔ دلیل کے طور پر وہ پہلے ڈاکٹر یوسف حسین کی کتاب ’فرانسیسی ادب‘ سے یہ اقتباس نقل کرتے ہیں : ’’جب تم کوئی کتاب پڑھو اور اس سے تمھاری روح میں بلندی، جرأت اور شرافت کے جذبات پیدا ہوں تو پھر اس کی خوبی کو جانچنے کے لیے کسی اور معیار کی حاجت نہیں۔ ‘‘ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : ’’میرے نزدیک اس معیار کو آج تین سو سال بعد بھی بغیر کسی پس و پیش کے قبول کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ملا صاحب کا خیال ہے کہ ادب عالیہ اور معیاری فن پارے آفاقی قدروں کے حامل ہوتے ہیں۔ جب کہ نظریاتی ادب محدود اور تنگ دائرے میں محیط ہو تے ہیں : ’’فن کار جہاں نظریوں میں گھر جاتا ہے اس کے دل کے سوتے محدود ہو کر خشک ہونے لگتے ہیں اور اس کی قوت تخلیق اپنی معصومیت، حسن اور وسعت کھونے لگتی ہے۔ اس کے رشتے نوع انسانی سے باقی نہیں رہتے بلکہ خالی ایک گروہ سے رہ جاتے ہیں۔ ‘‘اس حوالے سے وہ سیاسی اور تنقیدی نظریے کو ایک ہی سطح پر رکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک کوئی سیاسی نظریہ انسانیت کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتا، اور انسانیت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صرف اشتراکیت ہی ایک راستہ نہیں۔ میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نظام جس کی تبلیغ شدت اور نفرت سے کی جائے وہ انسانیت کی راہ میں رہزن ہے، رہبر نہیں۔ ‘‘
شاعری سے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ:
’’میں شاعری میں ’دانائے راز ‘ پہلے ڈھونڈتا ہوں فنکار اور گیت کار بعد میں۔ کیونکہ میری نظر میں شعر محض احساس کے دھندلکے میں لا شعور کی آواز نہیں۔ میں شاعری کو شعور کا فن سمجھتا ہوں اور جو ادب بجائے شعور کی طرف بڑھنے کے لا شعور کی طرف مراجعت کرے وہ انسان کو گمراہ کر سکتا ہے۔ ‘‘
آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ یہ اقتباس جدیدیت کی ابہام پرستی کے خلاف رد عمل ہے اور اس سے پہلے والا اقتباس سخت گیر اشتراکیت پسند شاعر و ادیب پر گہرا طنز۔ ملا صاحب بھی دوسرے لوگوں کی طرح شاعری کو تمام فنون لطیفہ میں سب سے بلند درجے پر رکھتے ہیں لیکن وہ اوروں کی طرح برتری کی یہ وجہ نہیں پیش کرتے کہ چونکہ اس میں لطیف مواد یا کم میٹیریل کا استعمال ہوا ہے اس لیے شاعری کو تمام فنون لطیفہ پر فوقیت حاصل ہے، بلکہ وہ شاعری کو بلند مرتبے پر فائز ہونے کا جوازاوراس میں شعور کی کار فرمائی اور دانائی کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں شاعری کا جنم انسان کے انتہائی ترقی یافتہ شعور سے ہوا ہے۔ جب کہ دوسرے فنون لطیفہ رقص، موسیقی، مصوری اور سنگ تراشی تب پروان چڑھے تھے جب انسانی شعور اپنی ارتقائی منزلوں میں تھا اور کافی حد تک غیر واضح، خوابیدہ یا نیم بیدار تھا۔
وہ شاعری میں عشق کے بیان کے تو قائل ہیں مگر بس ایک حد تک۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’عشق انسان کی زندگی کا صرف ایک تابناک رخ ہے اور اس کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہے اجتماعی زندگی سے نہیں۔ اسی طرح وہ عشق کو انسانی زندگی کے سفر کا محض ایک مقام مانتے ہیں منزل تسلیم نہیں کرتے۔ عشق کے تصور سے متعلق انھی کا شعر ہے :
بس اتنی فرصتِ الفت ہے جہدِ زیست میں جیسے
کسی ساحل پہ دم لینے کو موجِ بے قرار آئے
انفرادی عشق کے بجائے وہ اجتماعی انسانی درد کو شاعری کا جزو اعظم مانتے ہیں۔ لیکن درد کی بھی وہ دو قسم کرتے ہیں ایک ’’درد یکساں ‘‘اور دوسرا ’’درد مشترک‘‘۔ درد یکساں اُن کے نزدیک وہ ہے کہ جس میں ایک جیسے دو لوگ، یا کچھ لوگ، یا کو ئی گروہ ایک جیسے حالات سے گزرے ہوں، ظاہر ہے اس میں عشق کا درد بھی شامل ہے۔ ’درد مشرک‘ وہ اُس درد کو بتاتے ہیں جو نا انصافی، نا برابری، بے امنی اور محرومی کا پیدا کردہ ہوتا ہے، جسے بنی نوع انسان کا بڑا طبقہ بھوگتا ہے۔ چنانچہ جو شاعری انسانیت کے اس وسیع درد کو اپنا کر، نا انصافیوں اور نا ہمواریوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے اور امن و سکون اور عافیت کی منزلوں کی طرف انسانی کارواں کو قدم بڑھانے کی جرأت دلاتی ہے اسے وہ درد مشترک کی شاعری کہتے اور آفاقی بتاتے ہیں۔
اس ضمن میں وہ’ صالح ذہن‘ اور’ بیمار ذہن‘ کی بھی عمدہ بحث کرتے ہیں۔ صالح ذہن کی تعریف ان کے نزدیک یہ ہے کہ: ’’جو اِس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے نفس امارہ پر قابو پا سکتی ہے، جو انسان کے مستقبل سے مایوس نہیں اور جس کا مقصد ایک ایسا نظام رائج کرنا ہو جس میں انسان آزادی، شادمانی اور امن کے ساتھ اپنی پسند کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بسر کر سکے۔ ‘‘ اس کے مقابلے میں جو لوگ صرف اپنی ذات میں ہی محصور رہتے ہیں اور جو وقتی لذت اور جنسی آسودگی کو زندگی کی سب سے اہم قدر سمجھتے ہیں وہ لوگ ملا صاحب کے نزدیک بیمار ذہنیت کے ہیں۔ اور شاید کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسی صالح ذہنیت سے شعر و ادب میں حقیقت نگاری کا جنم ہوتا ہے اور بیمار ذہنیت ابتذال اور فحاشی پیدا کرتی ہے۔
فکشن کے متعلق انھوں نے کم لکھا ہے، کہ یہ ان کا میدان نہ تھا اور تب اس کا رواج بھی عام نہ تھا لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس حوالے سے جتنا بھی لکھا ہے اس میں ان کی تنقیدی رائے انتہائی غیر جانبدارانہ، درست اور کافی پختہ ہے۔ فسانۂ آزاد کے بارے میں ان کی تنقیدی رائے ملاحظہ کیجیے : ’’فنی اعتبار سے فسانۂ آزاد میں بے شمار خامیاں ہیں۔ افسانے کا نہ تو قصہ ہی کوئی خاص دل کش ہے اور نہ اس میں وہ سلسلہ اور ربط ہے جو ایک افسانے کے لیے لازمی ہے۔ بہت سے باب ایسے ہیں جن میں محض فضول اور غیر متعلق باتوں کا ذکر ہے۔ کردار نگاری میں بھی نفسیات psychology کے اعتبار سے سنگین خامیاں ہیں۔ سرشار نہ تو مفکر تھے اور نہ ماہر نفسیات۔ انھوں نے انسان کے دل و دماغ کا گہرا مطالعہ نہیں کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی شوخی اور ظرافت سے روتوں کو تو ہنسا لیتے تھے لیکن نرم دل سے نرم دل کو بھی رلا نہ سکتے تھے۔ ان کے افسانوں میں دردpathos بالکل معدوم ہے۔ (کچھ نثر میں بھی، مکتبہ جامعہ، دہلی، 1975، ص، 133-34)
اس اقتباس میں گنوائی گئی بیشتر خامیوں کا ذکر ہمارے بعض ناقدوں نے کیا ہے۔ لیکن یہ بات شاید کسی نقاد نے نہیں لکھی کہ ’فسانۂ آزاد‘ کے بیانیے Narration))میں سرشار قاری کو رلانے کی صلاحیت نہیں پیدا کر سکے ہیں۔ ذرا یہ اقتباس دیکھیے اورکسی حد تک تعجب بھی کیجیے کہ فسانۂ آزاد اور پنڈت رتن ناتھ سرشار پر اس طرح کاطنز اور سوال اہم ترقی پسندناقدوں نے بھی کم ہی کیا ہے : ’’سرشار نے اتنے افسانے لکھے لیکن اپنے زمانے کے کسی اہم سوال کا ان افسانوں میں کوئی جواب دینے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ در اصل وہ اس قابل ہی نہ تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک دنیا بگڑ رہی تھی اور دوسری دنیا بن رہی تھی، لیکن ان کی ظریف طبیعت اس کو فقط ایک تماشا ہی سمجھا کی۔ وہ خود ہنسا کیے اور دوسروں کو ہنسایا کیے۔ (ص، 134)
پنڈت آنند نرائن ملا ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے، نقاد اور دانشور تھے، برگزیدہ شخصیت کے مالک اور جہاندیدہ انسان تھے، اردو کے مرد مجاہد اور گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے علمبردار تھے۔ ان کے عہد کے اردو کے بیشتر اعزازات و اکرام اور انعامات و ایوارڈ سے انھیں نوازا گیا۔ ہم عصر شاعرو ادیب اور نقادوں نے بھی ان کی پذیرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ اردو کے ادارے اور اردو قارئین نے ان سے محبت و عقیدت کے جو ثبوت دیے وہ جگ ظاہر ہے۔ یہ ملا صاحب کا حق بھی تھا اور اردو تہذیب و ثقافت کی دیرینہ روایت بھی۔ اور کہنے کی اجازت دیجیے کہ آج بھی اردو زبان و ادب اور اردو تہذیب و ثقافت کے حامی اپنے محسنوں کی خدمات کا اعتراف اور ان کے تئیں کشادہ ذہنی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کہیں زیادہ جوش و جذبے سے کرتی ہے ؛ کہ یہی اردو اور عاشقان اردو کی روایت رہی ہے، دستور رہا ہے۔
٭٭٭
ملّا صاحب کی شاعری پر ایک نظر
……… جبار علی رضوان انصاری
جس دور میں عزیزؔ ، صفیؔ اور ثاقبؔ لکھنوی کی شاعری کا لکھنؤ میں سکہ رائج تھا، اسی عہد میں آنند نرائن ملّانے شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کے لیے قدم رکھا۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری سے پانچویں دہائی لکھنو میں شعر و سخن کا دورِ عروج رہا ہے۔ ہر گلی و کوچے میں شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ ہر اہلِ علم کا کا شانہ شعر و سخن کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ طرحی و غیر طرحی مشاعرے تقریباً ہر روز کسی نہ کسی محلہ میں کسی انجمن کے زیر اہتمام منعقد ہوتے رہتے۔ بزم سخن کی انجمنیں گیسوئے اردو کو سنوارنے میں مصروف تھیں۔ ہر شعر و ادب کی محفل میں عزیزؔ لکھنوی کی غزل کا یہ شعر ذکر و فکر کا موضوع بنا ہوا تھا ؎
اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
ان ہی شعری فضاؤں میں ملّا صاحب نے اپنی خداداد صلاحیت سے شعر و سخن کو جلا دی اور شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس عہد میں لکھنوی شاعری دو زاویہ ہائے ادب پر چل رہی تھی۔ پہلی لکھنوی فضا سے متاثر، جس میں غزل گوئی کا اثر غالب تھا۔ دوسری سیاسی اور حب وطن پر مبنی نظم گوئی۔ ملّا صاحب نے ان دونوں زاویہ ہائے نظر کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ نظم گوئی پر انھوں نے خصوصیت سے توجہ دی۔ لیکن غزلیں بھی کہیں اور خوب کہیں ہاں یہ غزلیں بہ قامت کہتر و بہ قیمت بہتر کی بہترین مثال ہیں۔
اردو شاعری میں ملّا صاحب کی شخصیت ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ ان کی شاعری کی عمر خاصی طویل ہے۔ انھوں نے اس طویل عرصہ میں بہت اچھی نظمیں اور غزلیں کہی ہیں۔ چناں چہ آج ان کا شمار اردو شعرا کے صفِ اول میں کیا جاتا ہے۔ ملّا صاحب نے نظم، غزل، رباعی، قطعہ، مرثیہ اور جدید نظم وغیرہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر نظموں اور غزلوں میں ان کے جوہر کھلے ہیں۔ ان کی بعض نظمیں چکبستؔ اور اقبالؔ کی ہم پا یہ قرار دی جا سکتی ہیں۔
جس زمانے میں ملّا صاحب نے طبع آزمائی شروع کی، اس وقت چکبست کی قومی نظمیں فضا میں گونج رہی تھیں اور لکھنوی شاعری کو ایک نیا زاویۂ فکر عطا کر رہی تھیں، جس سے ملّا صاحب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی شاعری کے ابتدائی حصے میں چکبست کے ساتھ ساتھ سرور ؔ جہاں آبادی کی شاعری کا اثر بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے اور یہ کہنا بجا ہو گا کہ ملّا صاحب کی وطنی و سیاسی شاعری میں انھیں دونوں شاعروں کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان دونوں شعرا کے علاوہ ملّا صاحب نے غالبؔ اور اقبالؔ کے فلسفے اور علوئے تخیل سے بھی استفادہ کیا ہے اور ان دونوں عظیم شعرا کے افکار کی جھلکیاں ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔
ملّا صاحب کی شاعری کا وطن پرستی اور حب وطنی کے بعد جو سب سے زیادہ اہم موضوع ہے وہ انسان دوستی ہے۔ ان کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے انسان کی شاعری ہے جو اپنے سینے میں ایک درد آشنا دل رکھتا ہے اور وہ بقول امیرؔ مینائی: ع
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کا مجسم پیکر بن گئی تھی۔ اردو شعر و سخن کے تقریباً ہر شاعر نے انسان دوستی کی باتیں کی ہیں مگر جس انداز سے ملّا صاحب کے کلام میں یہ عنصر ملتا ہے۔ وہ غالب کے علاوہ کسی دوسرے شاعر کے کلام میں خال خال نظر آئے گا۔
ملّا صاحب کا انگریزی ادب کا مطالعہ بہت گہرا ہے اور اس مطالعہ نے ملّا صاحب کو غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری پر متوجہ ہونے کے لیے مجبور کر دیا جس کے نتیجہ میں انھوں نے اشعارِ غالب کو انگریزی پیکر پہنانے کی کوشش کی۔ ملّا صاحب کا مسلک غالبؔ کے مسلک کے عین مطابق ہے۔ غالبؔ نے انسان دوستی کا نظریہ پیش کرنے کی طرف توجہ کی اور یہ نظریہ غالبؔ کے یہاں فکر اور عقیدے کی بنیاد بن کر آیا۔ غالبؔ نے ببانگِ دہل اعلان کر دیا کہ ع
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
اور اس قوم پر اپنے فعل کو ہمیشہ صادق کر دکھایا۔ ملا صاحب کی شاعری بھی انسان دوستی پر مبنی ہے۔ انھوں نے بھی دنیاوی عیش و عشرت کی خاطر اپنے ذہن و فکر اور قول و فعل کا سودا نہیں کیا۔ فرقہ پرستی کی باد تند میں بھی انھوں نے شمعِ انسانیت روشن رکھی۔ چنانچہ اپنے دل کی باتوں کو شعر کا جامہ پہناتے ہوئے کہا: ؎
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے
بشر کے ذوقِ پرستش نے خود کیے تخلیق
خدا و کعبہ کہیں اور کہیں صنم خانے
بنی نوعِ انسان کے درد و تکلیف کے احساس کا موثر انداز اظہار ملّا صاحب کی آواز کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔ اس رنگ میں ان کے بہت کم حریف ملیں گے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر احتشام حسین صاحب رقم طراز ہیں :
’’ان کے (ملا صاحب) صاف شفاف اور ذکی الحس ذہن اور انسانی دکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل، دونوں نے مل کر ایک مخصوص شاعرانہ انداز سے زندگی کو فن کی گرفت میں لیا ہے ‘‘۔ (مختصر تاریخ ادب اردو)
ملّا صاحب کی بنی نوعِ آدم اور انسان دوستی پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر سید اعجاز حسین کی رائے ملاحظہ ہو:
’’ملّا کی شاعری میں حب وطن، انسان دوستی اور نئی دنیا کے محور ملتے ہیں۔ ان کی شاعری ہمارے ادب کے تمام صالح میلانات کی آئینہ دار ہے اور ان کی شخصیت ہماری تہذیب کی وسیع المشربی اور ہمہ گیری کی ایک زندہ اور تابندہ تصویر‘‘ (تاریخ ادب اردو ص ۲۱۵۔ ۲۱۴)
ملّا صاحب کے انسان دوستی پر مبنی چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
بشر مشعلِ ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
ابھی روئے حقیقت پر پڑا ہے پردۂ ایماں
ابھی انساں فقط ہندو مسلماں ہے جہاں میں
کیوں کسی ایماں سے مانگوں شمعِ راہ زندگی
کیا بشر کے واسطے حبِّ بشر کافی نہیں
معبدِ انساں بنے، کیسے یہ ضد ہر دل میں ہے
اس کی پیشانی پہ ہو، میرے ہی بت خانے کا نام
اب آگے تری قسمت ہے اے قافلۂ گمراہ بشر
میں نے تو اندھیری راہوں میں کچھ دیپ جلا کر چھوڑ دیے
ملّا صاحب کو غزل کے اسرار و رموز سے مکمل آگاہی ہے۔ زندگی کا بیشتر حصہ لکھنو کی گلی و کوچوں میں گزارا اور لکھنوی دبستان شاعری بالخصوص غزل گو شعرا کے ماحول میں رہے۔ مگر یہ دل چسپ حقیقت ہے کہ لکھنؤ میں رہتے ہوئے بھی کسی لکھنوی غزل گو شاعر سے متاثر نہیں ہوئے۔ غزل گوئی میں غالب کا اثر ضرور قبول کیا ہے۔ ملّا صاحب کی غزلیہ شاعری پر پروفیسر اعجاز حسین صاحب کی ناقدانہ رائے ملاحظہ ہو:
’’ملّا کی غزلوں میں بڑی متانت اور سنجیدگی ہے۔ ایک خاص رکھ رکھاؤ کے ساتھ وہ اظہار عشق کرتے ہیں اور امتیازی پہلوان کی غزلوں کا یہ ہے کہ معنویت سے لہجہ کا ابھار اتنا ہم آہنگ ہو جاتا ہے کہ دل و دماغ یکساں متاثر ہوتے ہیں۔ اسی اندازِ بیان کا اثر یہ ہے کہ سپردگی و ربودگی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ بجائے عشق میں کھو جانے کے وہ عشق کے وقار و آداب کو غزلوں میں پیش کرتے ہیں لیکن بایں ہمہ ان کی غزلوں میں تازگی اور تڑپ ضرور ہے ‘‘۔
(مختصر تاریخ ادب اردو،ص ۲۱۵)
ان کی غزلیہ شاعری پر عظیم الحق جنیدی ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ان کی غزلوں میں متانت اور سنجیدگی ہے۔ ان کے اظہار عشق میں بھی ایک خاص قسم کا وقار ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں کی معنویت اور طرزِ ادا کی متانت دل و دماغ دونوں کو متاثر کرتی ہے ‘‘۔ (اردو ادب کی تاریخ،ص ۱۵۶)
ملّا صاحب کی غزلوں میں غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں بھی ہے۔ وہ عشق کی رندی و سرمستی اور حسن کی رعنائی کے قائل ہیں۔ ان کی غزلوں کا ایک بہت بڑا حصہ ان ہی جذبات و کیفیات کا ترجمان ہے۔ لیکن ان کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ان جذبات و کیفیات میں صرف رومانیت کا رنگ پیدا نہیں کیا بلکہ ان کو حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ ان کی غزلوں میں عشقیہ کیفیات و جذبات ایک مخصوص سماجی پس منظر میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی غزل گوئی پر ڈاکٹر عبادت بریلوی رقم طراز ہیں :
’’غزل ملّاؔ کے ہاتھ میں رنگا رنگی اور بو قلمونی کا ایک گلدستہ ہے۔ انھوں نے غزل کو وسعت دی ہے … ان کی غزلوں کا موضوع صرف حسن و عشق نہیں بلکہ انھوں نے غزل کے دامن میں زندگی کے دوسرے موضوعات کو بھی سمویا ہے۔ حالی کے وقت سے لے کر غزل کو وسعت دینے کی جو روایت قائم ہوئی تھی اور جس کو چکبستؔ اور اقبالؔ نے ایک مستقل رجحان بنا دیا تھا، اس کو ملّا صاحب نے شعوری طور پر اپنایا ہے۔ غزلوں میں انھوں نے اقبال ؔ اور چکبستؔ کی طرح زندگی کے ٹھوس اور اہم موضوعات پر روشنی ڈالی ہے ‘‘۔ (جدید شاعری ص ۳۱۸)
ملّا صاحب کی غزلوں میں مواد اور ہیئت کی ہم آہنگی کا شعور بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی غزلوں میں حسرتؔ کی غزل کی رنگینی و رعنائی، چکبستؔ کا فلسفیانہ تفکر، اقبال کی معنویت و گہرائی سبھی مل جاتے ہیں۔ ان جملہ اثرات کو ملّانے اپنی انفرادیت کے سانچے میں ڈھال لیا ہے، جو انھیں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان کا عشق سہانے خوابوں کی خیالی دنیا سے ماورا ہے۔ صرف وقتی کیفیت کے زیرِ سایہ پیدا ہونے والی سستی جذباتیت ہی کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ ایک بڑا سنجیدہ عشق ہے، ایک با شعور اور دانش مند انسان کا عشق ہے۔ ایک ایسے فرد کا عشق ہے، جو صرف موجوں کے دھاروں پر بہتا ہی نہیں سوچتا بھی ہے۔ ان کی غزلوں میں جگر مرادآبادی کے تغزل کی سی سرمستی و رندی نہیں ملے گی۔ بلکہ سماجی شعور رکھنے والے دوسرے جدید شعرا کی طرح حقیقت اور رومان کا حسین سنگم ملے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملّا صاحب کے یہاں تغزل کی اچھی مثالیں نہیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
ساتھ تیرے زندگی کا وہ تصور میں سفر
جیسے پھولوں پر قدم رکھتا چلا جاتا ہوں میں
آج اک غرورِ حسن بھی شامل ہے حسن میں
شاید کسی نگاہ کا کچھ بھید پا گئے
وہ عجب گھڑی تھی نظر مری جب تجھ سے ملی تھی
مگر اک دم کو جیسے کہ ٹھہر گیا زمانہ
مری زیرِ لب حقیقت کی اسے خبر نہ ہوتی
وہ تو یہ کہو کہ دنیا نے بنا دیا فسانہ
مرے دل کی خود یہ مجال تھی کہ وہ شام غم کو سحر کرے
تری یاد آ کے گھڑی گھڑی اگر آنسوؤں کو ہنسا نہ دے
شبِ غم میں بھی اے تصور دوست
زندگی کا مزہ دیا تو نے
آنکھوں میں اک نمی سی ہے ماضی کی یادگار
گزرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی
کبھی ملّاسے روٹھ کر سوچا
اس کے دل میں بھی ہیں گلے کیا کیا
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی، یاد تمہیں نہ آ سکے
نہیں میں پیار کے قابل، تو مجھ کو پیار نہ کر
مگر نگاہِ ترحم سے شرمسار نہ کر
آئے ہو کیا تمہی، مجھے آواز دو ذرا
آنکھوں کا نور چھین لیا انتظار نے
تیور چڑھا کے پہلے تو کہنے دیا نہ کچھ
پھر مسکراکے دل سے شکایت بھی چھین لی
مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر
انھیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے
یہ کہہ کے آخر شب شمع ہوئی خاموش
کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی
اک سلام، اک مسکراہٹ، اک سوال، اک شکریہ
وہ بھی یوں ہی راہ میں آتے ہوئے جاتے ہوئے
مدعائے دل سمجھ لیں گے اگر چاہیں گے وہ
میرے ہونٹوں تک سوالِ نا تمام آیا تو کیا
چھیڑتے ہو کیوں مجھے، کیوں پوچھتے ہو حالِ دل
کیا مرے رنگِ تبسم سے نمایاں کچھ نہیں
بس ایک پھول نمایاں ہے دل کے داغوں میں
یہاں رُکی تھی تری چشمِ التفات کبھی
ملّا صاحب کی ان غزلوں میں تغزل کی مکمل خوبیاں موجود ہیں۔ ان اشعار میں ایک مہذب عشق ہے۔ یہ تغزل ایک ایسے انسان کا ہے، جس کی جوانی دیوانی نہیں ہے۔ رندی و سرمستی نہیں۔ ہاں شائستگی ضرور ہے۔
ملّا صاحب پر مذہب نے کوئی اثر مرتب نہیں کیا، بلکہ کہیں کہیں انھوں نے مذہب سے اعلانیہ بغاوت کی ہے۔ در حقیقت ملّا صاحب نے اپنے مذہب کا نام ’’انسانیت‘‘ دیا ہے۔ وہ انسان کو ترقی کی شاہراہوں پر گامژن دیکھنے کے متلاشی ہیں۔ ان کا ایمان ارتقا کے نظریہ پر ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں انھیں موضوعات کو جگہ دی ہے چنانچہ اس موضوع پر چند اشعار مزید پیش ہیں : ؎
ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظام چمن
فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی
محبت آج بھی حاصل حیاتِ بشر
حقیقت ابدی انقلاب کیا جانے
بشر کو ابھی تاب الفت نہیں ہے
بشر میں ابھی آدمیت نہیں ہے
حیات اک ساز بے صدا تھی سرور عمر رواں سے پہلے
بشر کی تقدیر سو رہی تھی خطائے باغِ جناں سے پہلے
یہ وہ اشعار ہیں جو ضرب المثل بن چکے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ جیسا کہ آغازِ مقالہ میں ملّا صاحب کی نظم گوئی پر اظہار خیال کیا گیا ہے، اجمالاً اس موضوع پر بھی روشنی ڈالنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
ملا صاحب نے اپنی نظموں میں معاشرتی اور سماجی مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کی نظموں میں عشقیہ واردات و کیفیات کی ترجمانی بھی نظر آتی ہے۔ اور حسن پرستی کا احساس بھی موجود ہے۔ عوامی زندگی کا شعور بھی ہے۔ غرض کہ بہ لحاظ موضوعات ان کی شاعری کا میدان بہت وسیع ہے۔ ان موضوعات پر ان کی متعدد نظمیں ’’جادہ ملا‘‘ اور ’’جوئے شیر‘‘ میں ملتی ہیں۔ ان نظموں میں ایک جدت ہے اور سادگی و پر کاری بھی ہے، موسیقی و غنائیت بھی موجود ہے۔ واقعیت اور حقیقت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ان کی تمام نظمیں شعریت کے جملہ لوازم سے بھرپور ہیں۔ ان کی ایک شاہکار نظم ’’جوئے شیر‘‘ میں ’’ٹھنڈی کافی‘‘ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے یہ نظم اردو شاعری میں اہم مقام حاصل کر چکی ہے۔ اس نظم کے بارے میں عصر حاضر کے عظیم ناقد پروفیسر آل احمد سرور صاحب کے نظریات رقم طراز ہیں :
’’اس نظم میں محبت کی فضا ملتی ہے، جو اس دنیا کے ہوتے ہوئے بھی آسمانوں کے ہمراز ہیں۔ اس کا فطری بہاؤ اور ارتقا اس کی موزوں اور متناسب تصویریں، اس کے نفسیاتی لمحے اور شوخ اشارے اسے کامیاب محبت کا ایک دل کش ڈراما بنا دیتے ہیں۔ اس نظم کی فضا میں دو کردار ابھرتے ہیں اور دونوں جادو کے کرشمے نہیں، اسی دنیا کے انسان ہیں، جو مل بیٹھتے ہیں تو دنیا کچھ اور حسین اور گوارا ہو جاتی ہے، جو ذہنی پرچھائیاں نہیں گوشت پوست کے انسان ہیں۔ یہ نظم جدید بھی ہے اور لذیذ بھی۔ ‘‘
مقالہ کی طوالت کے خوف سے بلا تنقید و تبصرہ ملّاؔ کی دو شاہکار نظموں ’’ٹھنڈی کافی‘‘ اور ’’گمراہ مسافر‘‘ سے چند اشعار قارئین کے نذر کئے جا رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں ؎
بند بازار تھے سڑکوں پہ تھی بجلی کی قطار
تھک کے سوئی تھی دلہن شہر کے پہنے ہوئے ہار
دھندلے دھندلے سے مکانات کہ سینے کی ابھار
ہلکی ہلکی سی ہوا سانس کی جیسے للکار
عصمت شہر پہ جادو سی پڑی رات کی تھی
وقت کی بات تھی یا سوزِ جگر کی تاثیر
وہ بھی کرنے لگی کھولی ہوئی سی تقریر
کھنچ گئی جیسے یکایک کوئی سینوں پہ لکیر
گو ابھی لب پہ نہ تھی جذبۂ دل کی تعبیر
ایک دنیا مگر آنکھوں میں اشارات کی تھی
نگہ گرم تمنا کی وہ شعلہ اثری
اک سلگتا ہوا پارہ تھا کہ خون جگری
اک لرزتے ہوئے آنچل کی وہ زیر و زبری
شرم کی آخری مفلوج سی سینہ سپری
مشتعل آگ سی بھڑکے ہوئے جذبات کی تھی
اپنے معراج ترنم پہ تھا ساز فطرت
ایک نغمہ تھا تکلم تو خموشی اک گت
چشم و لب کو ثر و تسنیم تو بازو جنت
سادہ سی سادہ ہر اک بات میں بھی اس ساعت
ایک رنگینی پر کیف محاکات کی تھی
……(ٹھنڈی کافی)
دنیا کے اندھیرے زنداں سے انساں نے بہت چاہا نہ ملا
اس غم کی بھول بھلیاں سے باہر کا کوئی رستا نہ ملا
اہلِ طاقت اٹھتے ہی رہے بھاری بھاری تیشے لے کر
دیوار پس دیوار ملی، دیوار میں دروازہ نہ ملا
ایماں کا فسوں گر بھی آیا جادو کا عصا ہاتھوں میں لیے
اک لکڑی تو اندھے کو ملی، آنکھوں کو مگر جلوا نہ ملا
جراح خرد آتا بھی رہا صد مرہم اکسیری لے کر
جو زیست کے زخموں کو بھر دے ایسا کوئی پھاہا نہ ملا
ساقی سیاست محفل کے جام و مینا بدلا ہی کیے
جس میں اک تلخی کی نہ ہو کوئی شیریں جرعا نہ ملا
دولت کا مغنی بھی آیا مضراب فراموشی لے کر
ہر ساز سے اک نغمہ پھوٹا لیکند ل کا پردا نہ ملا
رقاصۂ عشرت نے آ کر پھر دل سے نکالی کچھ پھانسیں
لیکن اس کی چٹکی کو بھی جو روح میں کانٹا تھا نہ ملا
تقسیم مساوی کے حامی پھر لے کے بڑھے میزاں اپنا
جو سب کو میزاں تول کے دے میزاں میں وہ پلّا نہ ملا
بے چاری الفت کی مشعل کو نے میں پڑی جل جل کے بجھی
لیکن اسے ہاتھوں میں لے کر کوئی بڑھنے والا نہ ملا
اِرِ پھر کے وہیں پر آتا ہے انساں ہے رہِ باطل پہ ابھی
صدیاں گزریں چلتے چلتے لیکن ہے اسی منزل پہ ابھی
……(گمراہ مسافر)
ملّا صاحب کے کلام میں یہ نظم منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ ’’ٹھنڈی کافی‘‘ میں پیش کردہ تصویریں زندگی سے مکمل طور سے بھرپور ہیں۔ رعنائی، رنگا رنگی، آہنگ و ترنم، بانکپن وغیرہ کے حسین امتزاج نے نظم کو حسن و موسیقی کا ایک لاثانی پیکر بنا دیا ہے۔
اردو اصناف شعر میں ملّا صاحب کی آواز ایک منفرد آواز ہے۔ بقول ڈاکٹر خلیق انجم ’’ان کی آواز ماضی کی صدائے باز گشت، حال کی رزمیہ اور مستقبل کی نقیب ہے ‘‘۔ ملّا صاحب کو انسانی زندگی بہت عزیز ہے ان کو زندگی کا بڑا گہرا شعور بھی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری میں زندگی اپنی پوری رنگا رنگی اور تنوع کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ملّا صاحب کو غزل اور نظم دونوں پر قدرت تامّہ حاصل ہے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنی شاعری سے بہت کچھ دیا ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ وغیرہ اصناف شعر کا اپنا اثاثہ پیش کر کے دامنِ اردو کو مالا مال کیا ہے۔ اگر ملّا صاحب شاعری نہ کرتے تو ان کا یہ قول کہ ’’اردو میری مادری زبان ہے۔ میں مذہب بدل سکتا ہوں، مادری زبان نہیں ‘‘۔ حیات دوام کے لیے کافی ہے۔
(اقتباس خطبہ صدارت انجمن ترقی اردو، نئی دہلی)
اردو کی زبوں حالی پر ملّا صاحب بہت کبیدہ خاطر رہتے ہیں۔ اس کو جائز حق نہ ملنے پر اپنے دلی جذبات کا اظہار یوں فرماتے ہیں : ؎
اک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں
پھر پونچھ کے اشک مسکرالیں تو چلیں
آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو
اک آخری گیت اور گالیں تو چلیں
آج اردو کو ایسے ہی عظیم فن کار، یقیں محکم، عمل پیہم مجاہد کی ضرورت ہے جو زبان و قلم دونوں سے بیک وقت خدمت میں مصروف ہو۔ اردو ملّا صاحب کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّا کی قومی شاعری
……… ڈاکٹر عمیر منظر
پنڈت آنند نرائن ملا کا شمار اردو کے بے لوث خادموں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے جہاں تخلیقی سطح پر اردو کے شعری سرمائے کو ثروت مند کیا وہیں اپنی ادبی سرگرمیوں اور بعض بیانات سے اردو اور اردو والوں میں ایک توانا روح پھونکی۔ تخلیقی سطح پر غزلوں کے علاوہ نظموں میں بھی انھوں نے اپنے کمالات کا مظاہرہ کیا۔ فرقت کاکوری نے لکھا ہے کہ ملا کی معریٰ نظموں میں بھی طبیعت کا زور اور اور اسلوب کی دلکشی پورے شباب پر نظر آتی ہے۔ ملا کی نظموں کو رومانی اور قومی و وطنی موضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی رومان پرور نظموں میں ’’مریم ثانی ‘‘اور ’’کافی ہاوس‘‘کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ موضوع کے ساتھ ساتھ اس میں فنی گرفت قابل رشک ہے۔ البتہ یہاں صرف قومی اور وطنی نظموں کو موضوع گفتگو بنا یا گیا ہے۔
وطن سے محبت اور اس سے تعلق خاطر ایک فطری جذبہ ہے۔ قومیت اور وطنیت کا مثبت جذبہ انسان کو انسانیت سے ہم آہنگ کرتا ہے، کیونکہ وہ وطن کی ہر چیز کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔ کیا شجر و حجر اور کیا پیڑ پودے۔ چرند و پرند اور دیگر بے زبان جانوروں سے اپنائیت اور یگانگت اسی سبب تو ہے کہ ان سب کا تعلق اس کے اپنے وطن سے ہے۔ انسانوں سے یک گونہ بڑھی ہوئی ہمدردی اور اخوت و محبت کا جذبہ ہی وطنی ہمدردی اور قومیت کے جذبے کو مہمیز کرتا ہے۔ ان جذبات کا تعلق کسی خاص زمین، خطے یا علاقے سے نہیں بلکہ یہ انسان کا فطری جذبہ ہے جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ یہی جذبہ جب کسی تخلیق کار کے یہاں ودیعت کر جاتا ہے تو وہ اپنے نغموں کے توسط سے عام انسان کے اندر اس جذبے کو بیدار کرتا ہے۔ اردو شاعری کا یہ بہت بڑا کردار رہا ہے کہ اس نے انسانیت کے فطری جذبے کو ابھارا یہ الگ بات ہے کہ برطانوی استعمار کو استعمارپروری کے زعم میں ان نغموں کے اندر باغیانہ روش دکھائی دی اور بے شمار نظمیں باغیانہ قرار دی گئیں اور انھیں ضبط بھی کیا گیا۔
آنند نرائن ملا نے استعماریت کا یہ زمانہ خود دیکھا اور اسی لیے انھوں نے تخلیقی سطح پر اس کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ایک ایسا زمانہ ملا جب فضا میں ہر طرف قوم پرورانہ نغمے گونج رہے تھے۔ جد و جہد آزادی کی تحریک شباب پر تھی۔ ابھی ترقی پسند تحریک کا قیام نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۳۵میں انھوں نے ’’محبان وطن کا نعرہ ‘‘کے عنوان سے ایک نظم کہی۔ نظم کے ایک ایک مصرعے سے وطن کے تئیں فدا ہونے اور اس سے والہانہ لگاؤ کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔
فدائے ملک ہونا حاصل قسمت سمجھتے ہیں
وطن پر جان دینے کو ہی ہم جنت سمجھتے ہیں
وطن کا ذرہ ذرہ ہم کو اپنی جاں سے پیارا ہے
نہ ہم مذہب سمجھتے ہیں نہ ہم ملت سمجھتے ہیں
غلامی اور آزادی بس اتنا جانتے ہیں ہم
نہ ہم دوزخ سمجھتے ہیں نہ ہم جنت سمجھتے ہیں
نظم کے یہ مصرعے سرشار جذبے کی نشاندہی کرتے ہیں اور وطن ہی کواپنا سب کچھ سمجھنے والے ایک سچے محب وطن کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ جد و جہد آزادی کی اس مخصوص فضا میں ان اشعار نے دھوم بھی مچائی اور آج بھی تقریباً اسی سال بعد جب ہم ان اشعار کو پڑھتے ہیں تو بہر نوع مجاہد آزادی کی ان قربانیوں کو یاد کرتے ہیں جن کی بدولت ہمیں آزادی کی دولت حاصل ہوئی ہے۔ تحریک آزادی کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ سب لوگوں نے مل جل کر کوشش کی تھی۔ اتحاد و یگانگت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ پیش کیا تھا۔ برطانوی استعمار کی’ لڑاؤ اور حکومت کرو ‘کی پالیسی کو اتحاد اور بھائی چارہ سے ناکام بنا دیا تھا۔ پنڈت آنند نرائن ملا کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اجتماعیت کے بغیر کامیابی کا راستہ نہیں طے کیا جا سکتا۔ ’’ہم لوگ‘‘ نامی نظم در اصل اسی اجتماعیت یعنی پوری قوم کو شامل کرنے اور ان کو اس جد و جہد میں شامل کرنے کی ایک آواز ہے۔
سرخی انقلاب ہیں ہم لوگ
عنفوان شباب ہیں ہم لوگ
سونے والوں کو کر دیا بیدار
اک پریشاں سا خواب ہیں ہم لوگ
کون آنکھیں ملائے گا ہم سے
جلوۂ بے نقاب ہیں ہم لوگ
قوم کا دل ہلا دیا ہم نے
نالۂ مستجاب ہیں ہم لوگ
کون دے گا صدا پہ اپنی صدا
نعرۂ انقلاب ہیں ہم لوگ
اس نظم کا نام نعرۂ انقلاب بھی رکھا جا سکتا تھا مگر یہ ملا صاحب کا کمال ہے کہ انھوں نے اجتماعی احساس اور ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ ہم کیا ہیں۔ نظم کا آغاز سرخی انقلاب سے ہوتا ہے اور پھر بات نعرہ انقلاب تک جا پہنچتی ہے۔ چونکہ یہ جد و جہد آزادی کا دور شباب تھا اور آزادی کے دن قریب نظر آ رہے تھے اسی لیے جہاں مجاہدین آزادی میں جوش و خروش تھا وہیں تخلیق کاروں اور فنکاروں نے بھی اپنی نظموں کے توسط سے اس جوش اور جذبے کو مزید مہمیز کر رکھا تھا۔
ان کی ایک طویل نظم ’’زمین وطن ‘‘ہے۔ ملا نے تفصیل کے ساتھ یہاں کی مٹی، دریا، پہاڑ اور یہاں کی برگزیدہ شخصیات کے توسط سے ہندستان کی تصویر کھینچی ہے اور بتایا ہے کہ عظمت انسان اور انسانیت کے کیسے کیسے باب یہاں رقم ہوئے۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت نے دوسرے ممالک کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ بہت کچھ انھیں یہاں سے سیکھنے پر مجبور کیا۔ خیالات کا تسلسل اسے آگے بڑھاتا ہے اور پھر وہ مرحلہ بھی آن پہنچتا ہے جب وہ آزادی اور جد و جہد آزادی کا ذکر کرتے ہیں اور یہیں پر وہ انسانی اخوت اور مساوات کا درس دیتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب اسی جذبے کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے اور غلامی کا جو تصور ہے وہ یہیں سے آیا۔ نظم کے دو بند ملاحظہ فرما لیں !
نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے
ازل میں جہاں سب سے پہلے حیات
لیے اپنے آغوش میں کائنات
جلاتی ہوئی شمع ذات و صفات
حجاب عدم سے ہوئی جلوہ زن
زمینِ وطن اے زمینِ وطن
لیے غیر ملکوں نے تجھ سے سبق
تری داستاں کے اڑا کے ورق
ترچہ خوشہ چیں ازشفق تا شفق
عرب، مصر، یونان چین وختین
زمینِ وطن اے زمینِ وطن
آخری دو بند ملاحظہ فرمائیں
پھر آنے کو ہیں سوئے گلشن اسیر
برسنے کو ہے پھر گھٹاؤں سے نیر
چٹانوں میں ہے مضطرب جوئے شیر
کہاں ہے کہاں تیشۂ کوہکن
زمینِ وطن ایک زمینِ وطن
اخوت کا پھر ہاتھ میں جام لے
مساوات انساں کا پھر نام لے
روایات ماضی سے پھر کام لے
وطن کو بنا در حقیقت وطن
زمینِ وطن ایک زمینِ وطن
ملا کی ایک اور طویل نظم ’’لال قلعہ ‘‘ہے، جو ان کے قومی افکار و خیالات کی غمازی کرتی ہے۔ یہ نظم در اصل تحریک آزادی کی تاریخ بیان کرتی ہے اور ان جذبات کو پیش کرتی ہے جو اس وقت عام ہندستانیوں کے ذہن میں پائے جاتے تھے۔ لال قلعہ ہندستان اور ہندستانیوں کی علامت بن چکا تھا جس کو نظم میں سربلندی اور عظمت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ذرہ ذرہ خود اپنی جگہ جن کا ہیرا اور پنا تھا
ان دیواروں کی قسمت میں زندان فرنگی ہونا تھا
معراج وطن بھی دیکھ چکے تاراج وطن بھی دیکھ لیا
اپنے دل پر پتھر رکھ کر سن ستاون بھی دیکھ لیا
اختتامی شعر ہے
پھر آزادی کا پرچم ان دیواروں پر لہرائے گا
وہ دن آئے گا جلد آئے گا اور یقیناً آئے گا
قومی اور وطنی نظموں کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ملا نے صرف حسن و عشق کی داستان نہیں لکھی ہے، بلکہ اپنے عہد اور زمانے کے کرب کو بھی بھوگا ہے اور اس کو شعری پیکر میں ڈھالنے کے لیے اسی فنکاری اور فنی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا جس سے ان کی غزلیں عبارت ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد کی بہت سی روایتوں کو قبول نہیں کیا اور اس لکھنوی ماحول میں روایت کے بجائے بغاوت کے پرچم کو بلند کیا اور غالباًاسی سبب سے انھیں ترقی پسند بھی سمجھاجانے لگا تھا، ان کی نظموں کے مطالعہ سے اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے شعری افکار اور خیالات سے یقیناً ترقی پسند تھے۔ آنند نرائن ملا کو وطن عزیز سے جو لگاؤ تھا، ان کی نظمیں بطور خاص وطن کے حوالے سے انھوں نے جو نظمیں کہیں ہیں وہ اسی لگاؤ کا نتیجہ ہیں۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّا کا نظریۂ شاعری
……… محمد اختر
بیسویں صدی کا ہندوستان عجیب و غریب کشمکش کا شکار تھا۔ سیاسی، سماجی اور معاشی انتشار اور مٹتی ہوئی تہذیب و ثقافت اس عہد کا شناخت نامہ ہے۔ ایک طرف برطانوی حکومت ہندوستان میں اپنے بقا کی جنگ لڑ رہی تھی تو دوسری طرف آزادی کا خواب سجائے کچھ دیوانے فرزانے تھے، جو اپنے ملک کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ ہندوستان انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کا مرکز کہلانے والا شہر لکھنؤ زوال آمادہ ضرور تھا، لیکن اس تبدیلی سے بے خبر نہ تھا۔ لکھنؤ کے ادبی ماحول، بنتے بگڑتے سیاسی، سماجی حالات سے ملّا نے بھی بہت کچھ سیکھا تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک اونچی سوسائٹی کے فرد تھے، جہاں ہر طرف شعر و ادب کا خوب چرچا تھا۔ یہاں کے لوگ نہ صرف اردو بلکہ فارسی میں بھی اپنی شاعری کا کمال دکھا رہے تھے۔ آنند نرائن ملّا کی پرورش و پرداخت لکھنؤ کے اسی ماحول میں ہوئی۔ وہ لکھنؤ کے ایک اعلا تعلیم یافتہ گھرانے میں ۱۹۰۱ ء میں پیدا ہوئے۔ ابتداً انہوں نے انگریزی میں طبع آزمائی کی، لیکن پنڈت منوہر لال زتشی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے، وہ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ لکھنؤ کے ادبی ماحول اور مشرق و مغرب کی ادبی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے، انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ ان کی شاعری میں انسان کے دکھ درد کا سچا احساس موجود ہے۔
آنند نرائن ملا نے ۱۹۲۶ء میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ اس وقت تک آسمان ادب (نظم کے حوالے سے ) پر حالیؔ ، اقبالؔ ، چکبستؔ اور جوشؔ ملیح آبادی کی حکومت تھی تو دوسری طرف ( غزلوں کے حوالے سے ) شادؔ عظیم آبادی، حسرتؔ موہانی، فانیؔ بدایونی، اصغرؔ گونڈوی اور جگرؔ مراد آبادی کا طوطی بول رہا تھا۔ صفیؔ ، عزیزؔ ، ثاقبؔ اور یگانہؔ وغیرہ لکھنؤکی قدیم روایات کے امین تھے۔ آنند نرائن ملا نے بہت جلد محسوس کر لیا کہ کسی خاص رجحان یا شعری رویے تک اپنے آپ کو محدود کر لینا مناسب نہیں۔ لکھنو ٔ کے ادبی ماحول کے اثرات کو قبول کرنے کے باوجود، ان کے یہاں مشرقی و مغربی ادب کے اعلا عناصر موجود ہیں۔ اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سید محمودالحسن لکھتے ہیں ـ:
’’البتہ ان (ملا ) کی انفرادیت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں قدیم مشرقی روایات کے ساتھ مغربی ادب کے اعلا عناصر بھی شامل تھے۔ یہ امتزاج ادبی قدروں کے علاوہ شخصیت میں بھی موجود تھا۔ البتہ لکھنوی تہذیب و شرافت، کردار کی بلندی، دانشوری کے ساتھ انکساری، علم کا وقار، ادیب کی خود داری، حق و انصاف اور اعلا تہذیبی تقاضوں کی اشاعت و تبلیغ کا جذبہ۔ ان میں یہ تمام عناصر بھی موجود تھے، جس سے احساس ہوتا تھا کہ وہ جتنے بڑے فن کار ہیں۔ اتنے ہی بڑے انسان ‘‘۔
آنند نرائن ملا کی شخصیت میں وضع داری اور خاکساری کا عنصر غالباً سب سے نمایاں ہے۔ وہ ہماری تہذیبی روایات کے امین اور مبلغ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زہر ہلاہل کو کبھی قند نہ کہہ سکے۔ نئی اقدار اور تہذیب و ثقافت سے اخذ و استفادہ کے باوجود، وہ اس بات کے ہمیشہ شاکی رہے کہ بہت ہی منظم طریقے سے مشرقی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی بھی فن کار کا قد اس کے انسانی قد سے بلند نہیں ہو سکتا ہے۔ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے آنند نرائن ملا لکھتے ہیں :
’’میری رائے میں کسی فن کار کا قد اس کے انسانی قد سے زیادہ اونچا نہیں ہو سکتا۔ یہ صحیح ہے کہ بہت سے نقاد اور فن کار میری اس رائے سے متفق نہ ہوں گے، لیکن مجھے تو اپنا نظریہ پیش کرنا ہے۔ مجھے اوروں کے سوچنے کے طریقوں سے کیا مطلب۔ ‘‘
آنند نرائن ملا کی شاعری اور ان کے بیانات پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ وہ جذبات کے بجائے محسوسات کے شاعر ہیں۔ حیات و کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت گہرا ہے۔ تجربے اور احساس کو شعری قالب میں ڈھالنے کا ہنر بھی ان کا اپنا ہے۔ مانگے کا اجالا نہیں۔ ان کی شاعری میں جس طرح کے موضوعات ومسائل حاوی ہیں،ا س بنیاد پر ان کی شاعری کو قندیل رہبانی کہا جا سکتا ہے، جسے اندھیرے میں اجالے کی تلاش سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ ایک جگہ انہوں نے خود فرمایا ہے :
شعر ملا ہیں اندھیروں میں اجالے کی تلاش
فکر ملا ہے ستارے توڑ کر لانے کا نام
آنند نرائن ملا کا خیال ہے کہ ہر صالح ذہن قاری ادب سے غالباً یہی چاہتا ہے کہ جب وہ کوئی شعری مجموعہ، ناول، افسانے یا ڈرامے کی کتاب پڑھے تو اسے روحانی اور جذباتی آسودگی حاصل ہو اورساتھ ہی اخلاقی بلندی، جرأت اور شرافت کے جذبات پیدا ہوں۔ موجودہ ادبی منظر نامے میں اسی شے کا فقدان ہے۔ ناقد، شاعر اور تخلیق کار کسی خاص نظریے کے اسیر یا غلام بن چکے ہیں اور ادب کے نام پر معمے تخلیق ہو رہے ہیں یا پھر تبلیغ کی لے اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ پروپیگنڈہ معلوم ہونے لگتا ہے۔
آنند نرائن ملّا کا خیال ہے کہ حقیقت اور ادبی حقیقت، واقعات نگاری، تاریخ نگاری، فوٹو گرافی اور مصوری میں بہت باریک مگر واضح فرق ہے۔ فن کار صرف منظر اور پس منظر نہیں دکھلاتا بلکہ اس کی آڑ میں اپنے نقطۂ نظر / پیغام کو پیش کرتا ہے۔ منظر اور پس منظر میں جتنا زیادہ ہم آہنگی ہو گی، فن کار اتنا ہی بڑا اور کامیاب ہو گا۔ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے آنند نرائن ملا لکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک عظیم شاعری در اصل خارجیت اور داخلیت کو ایک ساتھ سمونے کا ریاض ہے اور جو یہ گر جانتا ہے۔ وہی اعلا درجہ کا ادب تخلیق کر سکتا ہے۔ ایک بڑا فن کار دنیا کے واقعات اور حادثات سے تاثر قبول کرتا ہے، لیکن وہ اس تاثر کو فوراً ہی پیش نہیں کرتا۔ وہ اسے اپنے ذہن و دل میں پرورش دیتا ہے۔ اس سے کبھی لڑتا اور کبھی اس کو اپناتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے دل کی آواز بن جاتا ہے اور پھر اسے اپنے جذبات و احساسات کی تھر تھراہٹ اور اپنے شعور کی رفعت اور عظمت دے کر زباں پر لاتا ہے۔ برخلاف اس کے ایک داخلیت زدہ ذہن دنیا سے بھاگ کر اپنے دل میں پناہ لیتا ہے اور شعور کے بجائے اپنے وجدان ہی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں ادب میں یہ دونوں راہیں مقبول ہوں، لیکن آج کی دنیا میں اس قسم کی شدید داخلیت کو ذہنی ناہمواری ہی قرار دیا جائے گا۔ ‘‘۔
آنند نرائن ملا کے نزدیک عظیم فن پارہ /شاعری داخلیت اور خارجیت کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے، جو شاعر / تخلیق کار اس ہنر سے واقف ہے۔ وہی عظیم فن پارہ/ شہ پارہ تخلیق کر سکتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ادھر ایک واقعہ رونما ہوا اور ادھر ایک نظم تخلیق ہو گئی۔ بڑا شاعر / تخلیق کار واقعات اور حادثات سے متأثر ہوتا ہے۔ فوری رد عمل سے اجتناب کرتا ہے۔ وہ پہلے اسے اپنے ذہن و دماغ کا حصہ بناتا ہے اور پھر اپنے شعور کی رفعت عطا کر کے زباں پر لاتا ہے۔ نیز احساس کی تھر تھراہٹ کو اس میں شامل کر کے اسے ایک فن پارے کا روپ دیتا ہے۔ وہ شدید داخلیت اور خارجیت کو بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسے بے وقت کی راگنی سے تعبیر کرتے تھے۔
آنند نرائن ملا کے نزدیک شاعری صرف لذت کوشی / ذہنی عیاشی کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کا منصب بہت بلند ہے۔ وہ شاعر کو صرف ایک فن کار نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ’’دانائے راز‘‘ اور ’’پیمبر‘‘ کا درجہ دیتے تھے۔ ان کے نزدیک فن کار ایک ذمہ دار انسان شہری پہلے ہے۔ فن کار شاعر بعد میں۔
ایک قادر الکلام شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاقی جرأت مندی کے ساتھ اعلا اقدار کا بھی مالک ہو۔ اعلا شاعری انسان کو انسانیت کا درس دیتی ہے، اخلاق و کردار میں بلندی پیدا کرتی ہے۔ وہ یہ فرمانے میں حق بجانب تھے :
شاعری وہ ہے جو دیتی ہو پیام زندگی
جس کے آگے ماند ہو خورشید کی رخشندگی
شاعری وہ ہے جو ہو مجموعۂ فکر وعمل
جس سے کھل اٹھتا ہو قلب آدمیت کا کنول
آنند نرائن ملا شاعری کو جزو پیغمبری سمجھتے تھے۔ شاعری بہتر اور عمدہ وہی ہو سکتی ہے، جس میں پیام زندگی ہو، اسے پڑھ کر انسان فکر و عمل پر آمادہ ہو اور قلب آدمیت کا کنول کھل اٹھے۔ ملا ادب کو جذبات کی تطہیر اور ذوق کی تربیت کا ایک آلۂ کار سمجھتے تھے۔ وہ ادب اور ادیب کے منصب کو بہت بلند مقام عطا کرتے تھے۔ بقول سید عبدالباری :
’’ملا ادب اور ادیب کے منصب کو انتہائی بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ وہ ادب کو فقط ادیب کی زخمی روح کی چیخیں یا اس کی دبی کچلی روح کی فریاد یا اس کے بے چین جذبات کا سیلان نہیں سمجھتے۔ اسے وہ ذہن کی تطہیر اور ذوق کی تربیت کا ایک آلۂ قرار دیتے ہیں۔ ان کے ان بلند خیالات کا نکھرا ہوا عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے، جو پڑھنے والے کے اندر بلند اور شریفانہ، جذبات ابھارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ‘‘۔
آنند نرائن ملّا کی شاعری در اصل پیام زندگی اور پیام انسانیت ہے۔ وہ سونے والے کو شعر کے اعجاز سے جگانا اور اس کے اندر فکر و عمل کی قوت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا وہ اسی شعر و ادب کو عظیم سمجھتے تھے جو قاری کے اندر بلند اور شریفانہ جذبات کو ابھارے، اخلاقی جرأت مندی اور صالح اقدار پیدا کرے۔
لکھنو ٔ کے ادبی ماحول سے زیادہ آنند نرائن ملا یہاں کے سیاسی ماحول سے متاثر ہوئے۔ ترک موالات، تحریک خلافت اور تحریک آزادی نے انہیں آزادی اور عالمی امن و آشتی کا سبق پڑھایا تھا۔ ملا ہمارے ان شاعروں میں سے ہیں، جو زندگی کے میکانکی راستے پر چل کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اپنے تجربات، احساسات اور مشاہدات کی روشنی میں زندگی کی منزل طے کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات میں خلوص کی گرمی اور احساس کی سچائی رقصاں ہے۔ ساتھ ہی فن کے مطالبات پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔
ملا ّکی شاعری میں انسانی اقدار کی بحالی پر کافی زور ملتا ہے۔ وہ شاعری کو انسان دوستی بشر نوازی کا بہترین ذریعہ سمجھتے تھے۔ زبان پرستی، جو لکھنو ٔ کی شاعری کا خاص مزاج تھا۔ اس پر وہ زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے عہد کے روایتی نظریات سے بے نیاز ہو کر سوچا تھا۔ اپنے عہد کے مسلمات سے انحراف کیا، شعری کردار اوراس کے منصب اور سماجی سروکار سے متعلق بہت سے سوالات اٹھائے اور شاعری میں بھی اپنا الگ راستہ بنایا، حقائق کو وہ اپنی نظر سے دیکھتے تھے۔ کسی اور کے نظر یہ یا نظر سے ادب کو دیکھنے کے قائل وہ ہر گز نہ تھے۔ وہ زندگی کے ہر مسئلہ کو اپنے ذہن و دماغ سے حل کرتے تھے۔ وہ خود سوچتے اور فیصلے لیتے تھے۔ ان کے اشعار ہوں یا فیصلے، انداز بیان ہویا انداز فکر۔ ہر شے پر ان کی انفرادیت کی مہر ثبت ہے۔
آنند نرائن ملا مشترکہ تہذیب و ثقافت کے نمائندہ شاعر تھے۔ ان کا تصور شعر کسی خاص فلسفہ نظریے کا اسیر نہ تھا۔ انہوں نے زندگی کے مختلف سرچشموں سے فیض حاصل کیا تھا۔ وہ انسان اور انسانیت کے بارے میں سوچتے تھے۔ ان کا تصور انسان غالبؔ کے تصور انسان سے بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسے صالح نظام کے خواہاں تھے، جہاں انسان کو مکمل آزادی حاصل ہو۔ وہاں کسی طرح کا کوئی ظلم و جبر نہ ہو۔ وہ انسان کے آنکھوں میں مروت دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے انسان کی سب سے بڑی پہچان مروت بتائی ہے۔ بقول آنند نرائن ملّا:
آواز میں رس، ہونٹوں میں عنب، باتوں میں شکر، یہ سب دھوکے
انسان کی اک پہچان یہ ہے، آنکھوں میں مروت ہوتی ہے
میں کیا، تم کیا اور دنیا کیا، انسان کی کچھ فطرت ہے یہی
اپنے لیے عذر ہزاروں ہیں اور وں کو نصیحت ہوتی ہے
آنند نرائن ملا ایک اچھے وکیل کے ساتھ ایک سچے اور با خبر انسان تھے۔ ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال پر ان کی گہری نظر تھی۔ انسانی ہمدردی سے ان کا دل لبریز تھا۔ وہ انسانیت کے علم بردار اور امن و آشتی کے پیامبر تھے۔ اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے لیے انہوں نے شاعری کاسہارا لیا تھا۔ اپنے شعری رویے اور طریقۂ کار پر گفتگو کرتے ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کبھی شعر کہنے کی نیت سے بیٹھ کر آج تک شعر نہیں کہا، جو کچھ کہا ہے۔ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی لکھ کر کچھ نہیں کہا۔ بڑی سے بڑی نظمیں اولین مصرعہ سے لے کر دماغ ہی میں نظم ہوئیں۔ پہلے خاکہ سے لے کر آخری خاکہ تک یہیں ان کی اصلاح اور ترقی ہوتی رہی اور مکمل ہو جانے کے بعد بھی دماغ ہی میں محفوظ رہیں پیشہ کی مصروفیت کی وجہ سے کوئی وقت فکر سخن کے لیے نہیں ملتا‘‘۔
بے پناہ مصروف زندگی، وقت کی تنگ دامانی کے باوجود ملا کی شاعری کافی اثر انگیز ہے۔ ان کا نظر یۂ زندگی اور فن شفاف آئینہ کے مانند ہے۔ ان کے سماجی شعور اور سروکار کو دیکھتے ہوئے بعض معتبر نقادوں نے انہیں ترقی پسند نظریے کا حامل شاعر سمجھا تھا، لیکن ملا سرخ جھنڈے کی تباہی اور بربادی سے بھی باخبر تھے۔ اسی لیے کبھی اپنے آپ کو اس نظریے سے ہم آہنگ نہ کر سکے۔ وہ نہ تو مزدور کو فرشتۂ رحمت سمجھتے تھے اور نہ مزدور راج قائم کرنے کے لیے کشت و خون کے حق میں تھے۔
انسان دوستی ملّا کی شاعری کا بنیادی محورو مرکز ہے، لیکن ترقی پسند شعرا کی طرح وہ چیخ پکار اور پروپیگنڈے کے قائل نہیں، نہ ہی دولت کی مساوی تقسیم ان کا مطمح نظر ہے۔ وہ ادبی حسن کو بھی شعر و ادب کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا شعری طریقۂ کار متوازن اور بڑی حد تک جمالیاتی ہے۔
آنند نرائن ملّا سرخ آندھیوں کے بر عکس گاندھی جی کے نظریۂ امن و آشتی کے مرید تھے۔ اسی لیے وہ شعرا /ادبا سے ایسے ادب کا تقاضہ کر رہے تھے، جو انسانی درد سے مملو ہو، انسانی اقدار کی بات کرتا ہو۔ تشدد اور نفرت سے انسانوں کو دور رکھنے کی قوت اس کے اندر موجود ہو۔ امن و سلامتی کی حفاظت اور احترام آدمیت بھی اس کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، آنند نرائن ملّا لکھتے ہیں :
’’ میری رائے میں وہ ادب ادب عالیہ کہلانے کا مستحق ہے۔ جو پایندہ انسانی قدروں کا حامل ہو، جو انسان کے سفر میں اس کے ساتھ چلے اور اس طرح نسلاً بعد نسلٍ طفل انسان کے لیے سرمایہ نشاط وتسکین بنا رہے اور اسے ذہنی اور جذباتی آسودگی بخشتا رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ادب نوع انسانی کے لیے ہوتا ہے۔ صرف اس کے ایک چھوٹے یا بڑے گروہ کے لیے نہیں ہوتا۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ فن کار جہاں نظریوں میں گھر جاتا ہے۔ اس کے دل کے سوتے محدود ہو کر خشک ہونے لگتے ہیں اور اس کی قوت تخلیق اپنی معصومیت، حسن اور وسعت کھونے لگتی ہے۔ اس کے رشتے نوع انسانی سے باقی نہیں رہتے، بلکہ خالی ایک گروہ سے رہ جاتے ہیں۔ ‘‘
آنند نرائن ملا نے مذکورہ بالا اقتباس میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ وہ بڑی حد تک درست ہیں۔ وہ ادب کے لیے ضروری سمجھتے تھے کہ وہ انسانی اقدار کا حامل ہو اور سر مایۂ تسکین و نشاط بھی ہو۔ بدلتی اقدار، تہذیب و ثقافت کی ٹوٹتی ہوئی حد بندیاں انہیں ایک حد تک قبول تھیں۔ ایسی تمام ادبی روایات کو وہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جس سے احترام آدمیت اور اس کے درد کا مداوا ممکن نہ ہو سکے۔ اسی طرح وہ اس ادب کو بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، جو کسی خاص نظریے یا ازم کی تبلیغ کرتا ہو، کیوں کہ فن کار جب کسی خاص جماعت یا نظریات کی جکڑ بندیوں میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کے دل و دماغ کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں اور اس کی قوت تخلیق بھی اپنا حسن، وسعت کھو دیتی ہے۔ ملا کا خیال ہے کہ ادیب شاعر کو زندگی اور اس کے مسائل کو اپنی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اسے کسی دوسرے کے نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی کی اندھی تقلید مناسب ہے۔ انسان اور انسانیت کا دکھ درد اس کا بنیادی وظیفہ ہونا چاہیے۔
آنند نرائن ملا ّہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کے نمائندہ شاعر تھے۔ ان کا تصور انسان انسانیت کسی خاص مذہب، ذات پات یاکسی خاص فلسفے کا اسیر نہ تھا۔ انہوں نے زندگی کے تمام صالح سر چشموں سے فیض حاصل کیا تھا، لیکن کسی کے اسیر قتیل نہ ہوئے۔ وہ ایک ایسے صالح نظام حیات کے خواہاں تھے جس میں ہر انسان کو آزادی، شادمانی اور امن و سلامتی حاصل ہو۔ ہر شخص اپنی پسند کی اجتماعی
انفرادی زندگی بسر کر سکے۔ تشدد اور نفرت سے وہ انسانوں کو دور رکھنا چاہتے تھے، تاکہ ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کو گہن نہ لگے۔
آنند نرائن ملا ّانسان دوستی پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کے لیے وہ اشتراکی نظریے کا پابند ہونا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے جب ان کی نظم ’’گمراہ مسافر ‘‘ کا تجزیہ و تنقید کرتے ہوئے عبادت بریلوی نے ان کے یہاں سماجی اور تاریخی شعور کی نشاندہی کی تھی، لیکن ساتھ ہی کچھ مشورے بھی دیئے تھے۔ تو آنند نرائن ملا نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا :
’’ڈاکٹر صاحب کے نزدیک انسان دوستی کا واضح نقطۂ نظر ہونا یا نہ ہونا، اس بات پر منحصر ہے کہ کوئی اشتراکیت پر ایمان لاتا ہے یا نہیں۔ مجھ میں اور چاہے جو بھی خامیاں ہوں، لیکن میرے ذہن میں نہ تو کوئی الجھاؤ ہے اور نہ کہیں جالے لگے ہیں انہوں عبادت بریلوی نے مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ ان کو کوئی تضاد نظر نہ آتا۔ وہ خود چونکہ نظریے کے شکار ہیں، لہٰذا کسی اور نظریے کی تاب نہیں لا سکتے۔ میرے نزدیک کوئی سیاسی نظریہ انسانیت کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتا اور انسانیت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صرف اشتراکیت ہی ایک راستہ نہیں۔ میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نظام جس کی تبلیغ تشدد اور نفرت سے کی جائے، وہ انسانیت کی راہ میں رہزن ہے، رہبر نہیں۔ ‘‘
آنند نرائن ملا کے مذکورہ بالا خیال سے اختلاف ممکن ہے۔ ان کے نزدیک اشتراکیت ہی صرف واحد راستہ نہیں ہے، جس پر چل کر انسانیت کی مکمل نمائندگی ہو سکتی ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی راستے ہیں، جس میں سرخ آندھیوں کے خطرات بھی نہیں ہیں۔
نام نہاد حقیقت نگاروں سے ملا کو ایک شکایت یہ بھی تھی کہ وہ تصویر کا صرف ایک ہی رخ کیوں دیکھتے ہیں، جبکہ انسان مجموعۂ اضداد ہے۔ اس کے اندر فرشتے اور شیطان دونوں کی صفات موجود ہیں، لیکن دنیا کے بیشتر فن کار بادلیر کے اس قول پر ایمان لا چکے ہیں کہ ’’حسن کی بہترین تصویر شیطان کی ذات ہے ‘‘ ملا کا رویہ اس سلسلے میں بھی مختلف ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب جنت اور جہنم کے دروازے ایک ہی کنجی سے کھلتے ہیں، تو پھر ہمارے فن کار جہنم کا ہی رخ کیوں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فن کار بدی کے مناظر پیش کر کے انسان کی سوئی ہوئی اخلاقی قوتوں کو بیدار کرنا چاہتا ہو، لیکن اگر اس طرح کا ادب قاری کے ذہن کو بیدار کرنے کے بجائے ہیجان پیدا کرنے لگے، تو پھر یہ حقیقت نگاری کس کام کی۔ اس قسم کے ادب کو ملا بیمار ذہن کی علامت قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ اس قسم کا ادب میرے نزدیک ایک مریض ذہن کی علامت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فن کار رفتہ رفتہ اپنے ذاتی رد عمل ہی کو زندگی کی سب سے اہم قدر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنے دل ہی میں ناخن چبھو چبھو کر خون نکالتا ہے اور اپنی ہر تخلیق میں یہی رنگ بھرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا اپنا غم ہی اس کی کائنات بن جاتا ہے‘‘۔
ترقی پسندی ہو یا جدے دیت، مُلا ان جکڑ بندیوں کے حصار کو توڑ کر زندگی کے بحر بے کنار میں داخل ہو چکے تھے۔ جدید ادبی رویے نے ایک خاص فارمولہ سازی کو رواج دینے کی کاوش کی تھی، جس سے ایک طرح کی وحشت اور دہشت کا احساس ہونے لگا تھا۔ شاعر اپنی ذات اور شکست ذات، تنہائی اور فریب خوردگی کا مرثیہ لکھ رہا تھا۔ شاعری زندگی سے فرار کا دوسرا نام تھا۔ نظمیں معمہ اور چیستاں ہو گئی تھیں۔ اس پوری صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے آنند نرائن ملا لکھتے ہیں : ’’ میری رائے میں نظم کو معمہ بنا دینا کمال فن کار نہیں، عجز فن کار ہے۔ سب سے نمایاں خامی اس انداز بیان کی یہ ہے کہ ہر شاعر کا کلام اس کی اپنی آواز اور علامتیں بن کے رہ جاتا ہے اور ادب میں رفتہ رفتہ ایک ایسا مینار بابل تعمیر ہوتا ہے، جہاں مختلف زبانوں کے بولنے والے نہیں، بلکہ ایک ہی زبان کے بولنے والے ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے ‘‘۔
جبکہ ملارمے جو رمزیہ اسکول کا موجد تھا۔ اس کا خیال ہے کہ نظم کو ایک معمہ ہونا چاہیے اور قاری کو اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ملارمے کے اس نظریہ سے ملا متفق نہ تھے نیز وہ اسے فن کار کے کمال کے بجائے اس کا عجز تصور کرتے تھے۔ وہ فن کار کو اس طرح کی خامیوں سے بچنے کا مشورہ دیتے تھے۔ تاکہ شاعر پراگندگی خیال اور تذبذب کا شکار نہ ہو۔ بڑا فن کار تو ’’ دیدۂ بینا ‘‘ اور ’’قلب بیدار‘‘ کا مالک ہوتا ہے۔ وہ انسان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ بقول آنند نرائن ملا :
’’ میں شاعری کو شعور کا فن سمجھتا ہوں اور جو ادب بجائے شعور کی طرف بڑھنے کے لاشعور کی طرف مراجعت کرے۔ وہ انسان کو گمراہ کر سکتا ہے، اسے راستہ نہیں دکھا سکتا۔ ‘‘
آنند نرائن ملا کی شاعری میں ایک بیدار ذہن ملتا ہے، جو حسن کا شیدائی، وفا کا پرستار، انسان دوست اور وطن کا عاشق ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جو اجتماعی ذمہ داریاں اور جذبات رکھتے تھے۔ نفرت کی ماری دنیا میں وہ ایک پیار کا سندیسہ لے کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے انہیں انسانی اقدار کا ترجمان کہا جا سکتا ہے۔
آنند نرائن ملا کی شاعری میں صرف ہندوستان اور اس کی سیاسی و سماجی صورت حال کی ترجمانی نہیں پائی جاتی ہے، بلکہ ان کی نظر پورے عالم پر تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے ایک ملک کے سیاسی و سماجی صورت حال دوسرے ملک سے مختلف ہوں، لیکن ذرا غور سے دیکھیں توسب کے دکھ درد مشترک نظر آئیں گے۔ یہ مشترکہ درد ہی ہمیں ایک انسانی لڑی میں پروتا ہے۔ ظلم دنیا کے کسی حصے میں ہو اس کا شکار انسان ہوتا ہے۔ مظلوم کوئی بھی ہو اس کا اثر ایک درد مند دل پر ہوتا ہے۔ آج جب دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سائنس اور جدید علوم نے ترقی کو انسان کا غلام بنا دیا ہے، لیکن پردے کے پیچھے کی صورت حال ناگفتہ بہہ ہے۔ آنند نرائن ملا نے اس صورت حال کی طرف واضح اشارہ اپنے اشعار میں کیا ہے۔ چند اشعار بطور مثال درج ہیں :
اتنا مہیب لہجہ انساں ہے ان دنوں
سہمے سے جا رہے ہیں خود اپنی صدا سے ہم
وہ نبض کی رفتار کہ چھٹتے ہیں پسینے
لگتے نہیں دنیا ترے جینے کے قرینے
توانا کو بہانہ چاہیے شاید تشدد کا
پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتہام آیا
ستم اکثر بعنوان کرم ایجاد ہوتا ہے
چمن میں باغباں کے بھیس میں صیاد ہوتا ہے
کمزور کے لیے کوئی جائے اماں نہیں
گلشن میں ناتواں کے لیے آشیاں نہیں
قرنوں، صدیوں میں انسان نے جینے کے سلیقے سیکھے
جینے کے سلیقے جب آئے، جینے کے ارادے چھوڑ دئیے
ان اشعار کو پڑھیں اور عالمی صورت حال کا جائزہ لیں، تو آپ کو محسوس ہو گا کہ پورا عالم مضطرب اور بے چین ہے۔ فلسطین کراہ رہا ہے، افغانستان و عراق جل رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس میں شامل طاقتور لوگ امن کے خواہاں اور امداد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، لیکن ان سب کے بیچ مظلوم کی فریاد پر کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔ ظالم کے حلیف سبھی بنے ہوئے ہیں۔ مظلوم و کمزور کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
آنند نرائن ملا در حقیقت اسی صورت حال پر ماتم کناں ہیں۔ طاقتور ممالک کمزوروں پر ظلم و ستم کے طرح طرح کے بہانے تلاش رہے ہیں۔ اسرائیل ہر طرح کی ریشہ دوانیوں کے باوجود بھی پاک صاف ہے۔ تشدد کے ہر واقعہ میں اس کی شراکت ہوتی ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا خون بھی اس کے لیے جائز ہے۔ امریکہ جسے سپر پاور کا درجہ حاصل ہے۔ ان سب کا خاموش تماشائی ہے۔ ہندو پاک میں جس طرح کے پر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کیا وہ انسانیت کے لیے سود مند ہو سکتے ہیں۔
آنند نرائن ملا کو مشترکہ ’’ انسانی مفاد ‘‘ عزیز تھا۔ ان کی شاعری میں حق و باطل، خیر و شر کے درمیان جو تصاد مکش مکش دیکھنے کو ملتا ہے۔ زندگی جن مسائل و مشکلات سے دست و گریباں ہے۔ اس صورت حال سے وہ کافی پریشان تھے۔ عالمی اداروں خود ساختہ انسانیت کے علمبرداروں سے انہیں ہمیشہ شکایت تھی، کیونکہ وہ ستم کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں اور پھر امداد کے نام پر تشدد کا بازار گرم ہوتا ہے۔ معمار جہاں کہلانے کا حق دار کون ہے۔ اس سلسلے میں ملا کی رائے ملاحظہ ہو :
غم انساں سے جو دل شعلہ بہ جاں ہوتا ہے
وہی ہر دور میں معمار جہاں ہوتا ہے
ہمیں دیوانہ کہہ لے اے جہاں لیکن نہیں ممکن
تری اس کھوکھلی تہذیب کے مدفن میں آ جائیں
آنند نرائن ملّا کا ایمان اس بات پر تھا :
پتھر بھی پگھلتا ہے اپنا تو یہ ایماں ہے
ڈھونڈو گے تو پاؤ گے دشمن میں بھی انساں ہے
یہ نیک بھی ہے، بد بھی، شیطان بھی، فرشتہ بھی
انساں کو کیا کہیے، ہر سطح پہ انساں ہے
آنند نرائن ملا ّکو فن شاعری میں کمال حاصل تھا۔ ان کی نظموں اور غزلوں کو فکر وفن کا عمدہ نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات اور جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے دونوں صنف کا انتخاب کیا تھا۔ غزلیہ شاعری کے حوالے سے وہ بہت حد تک جذباتی تھے۔ نظم و غزل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آنند نرائن ملا لکھتے ہیں :
’’ اگر کار زار ہستی میں آپ حصہ لینا چاہتے ہیں تو آپ نظم کی تلوار اٹھائیے، لیکن اگر آپ انسانی دل کی عمیق گہرائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ کو شعر منفرد کے نشتر سے کام لینا پڑے گا۔ میرے نزدیک دونوں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں۔ ان میں کوئی دوسرے کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘
بلا شبہ غزل ایک تہذیب، ایک مشرب اور صلح کل کا نام ہے۔ یہ ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی ایک پوری تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں وہ قوت اور صلاحیت موجود ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دے سکتی ہے۔ یہ صدیوں سے دھڑکتے ہوئے دلوں کی ہم زباں اور ہم راز رہی ہے۔ غزل رمز و ایمان کا فن ہے۔ یہ شاعری کا حسن ہے، عیب نہیں۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو کسی اور صنف کو نصیب نہیں۔ غزل مخالفین کا جواب دیتے ہوئے آنند نرائن ملا لکھتے ہیں :
’’………وہ لوگ جو اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ خالی اردو زبان کی تاریخ ہی نہیں، بلکہ اپنے ملک کی تہذیب و معاشرت بھی بھول جاتے ہیں۔ غزل اردو ادب کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر۔ اگر اردو نظم مٹا دی جائے تو یقیناً اردو ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور وہ اپنا مقام کھو دے گا، لیکن اگر غزل مٹا دی جائے تو اردو زبان ہی نہ بچ سکے گی۔ میرے نزدیک غزل ایک مشرب ہے، ایک تہذیب ہے ‘‘۔
غزل کے حوالے سے ملا کے یہ خیالات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ کوتاہ بین نقادوں نے غزل کے حوالے سے جس طرح کی گفتگو کی ہے۔ اس کا بڑی حد تک جواب مذکورہ بالا اقتباس میں موجود ہے۔ اس دور میں جن شعرا نے غزل کو نئے تیور عطا کیے۔ ان میں ملا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے غزل کو نئی تازگی عطا کی ہے۔ غزل کے حوالے سے ملا کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
دلہن تھی تجھے میں نے ساتھی بنایا
شبستاں سے میداں میں کھینچ لایا
ترے نرم لہجے کو للکار دے دی
ترے دست نازک میں تلوار دے دی
دیا درد انساں کا احساس تجھ کو
کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو
یا پھر ان کے یہ اشعار:
غزل محفل میں تیری پینے والوں کی کمی کب تھی
مگر ان پینے والوں میں مری شائستگی کب تھی
لب ورخسار کے قصے، نگاہ و دل کے افسانے
ترے ہونٹوں پہ لیکن آیت پیغمبری کب تھی
غزل اک نام تھا ناکامیوں پر سینہ کوبی کا
مرے پہلے یہ بانگ کاروان زندگی کب تھی
آنند نرائن ملا ّکا ذہن و شعور روایتی اور رسمی طریقۂ کار سے بے نیاز تھا۔ وہ اپنا ذہن و نظر دوسروں کے حوالے کرنے کے قائل نہ تھے۔ وہ شاعری اور زندگی کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتے تھے، جس پر ان کے انفرادیت کی مہر ثبت تھی۔ زندگی اور سچائی کے کئی رخ ہو سکتے ہیں۔ا س مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ملا نے لکھا ہے :
ــ ’’ میری نظر میں زندگی ایک دریا ہے، جس کے نہ آغاز کا پتہ ہے نہ انجام کا۔ نوع انسان اس دریا کے دونوں کناروں پر نسلاًبعد نسلٍ بیٹھی چلی آ رہی ہے اور یہ دریا آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دریا اور دریا کے کناروں کی تصویر ہر آنکھ میں مختلف طور پر ابھرتی ہے۔ کیونکہ دیکھنے والے کو تو صرف وہی نظر آتا ہے جو اپنے مقام سے وہ دیکھ سکتا ہے۔ صرف کچھ نظریں اتنی بینا ہوتی ہیں جو بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں، لیکن وہ بھی دریا کی مکمل تصویر نہیں دیکھ پاتیں۔ نظریاتی اختلافات کی بنیاد یہی وجہ ہے۔ ہر شخص سمجھتا ہے کہ حقیقت سے صرف وہی آشنا ہے، لیکن ہر ایک کی حقیقت الگ الگ ہے اور وہ بھی پوری حقیقت کا ایک بہت چھوٹا سا جز و، زندگی ہم سب سے ہر لمحہ ٹکرا رہی ہے، لیکن ہمارے خیالات اور نظریات کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس ذہنی سطح پر یہ ٹکر لیتے ہیں ‘‘۔
آنند نرائن ملا کے بیانات کی روشنی میں ان کے نظریۂ شاعری کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ شعر و ادب کا مقصد کسی خاص فلسفے یا نظریۂ اخلاق کی تشہیر و تبلیغ نہیں ہوتا ہے۔ شاعر اپنی مخصوص بصیرت، انفرادی شعور، تہذیبی بنیاد اور سیاسی و سماجی اثرات کی بنا پر شاعری میں اپنے احساسات و جذبات کو پیش کرتا ہے اور یہ دنیا اس کے تخیل کے پرواز، تجربات اور مشاہدات سے وجود میں آتی ہے۔ بقول آل احمد سرور:
شاہراہوں سے گذرتے ہیں شب و روز ہجوم
نئی راہیں ہیں فقط چند جیالوں کے لیے
٭٭٭
غالب اور پنڈت آنند نرائن ملا
……… ڈاکٹر مشیر احمد
جب ہم بیسویں صدی کے اردو شعرا کی فہرست پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ان میں مختلف نامور شعرا کے نام جلی حروف میں نظر آتے ہیں۔ جنھوں نے اپنی قوت تخلیق سے مختلف موضوعات پر عمدہ اشعار پیش کیے ہیں۔ کسی نے حُسن پرستی سے لبریز شاعری کی تو کسی نے اپنی شاعری میں غمِ دوراں اور غمِ حیات کو موضوع بنایا۔ اسی صدی میں پیدا ہونے والا ایک ایسا شاعر بھی ہے جس نے انسان دوستی و انسانیت نوازی کو اپنی شاعری میں مقدم رکھا، انھیں اردو دنیا پنڈت آنند نرائن مُلّا کے نام سے یاد کرتی ہے۔
۲۹ اکتوبر ۱۹۰۱ ء کو لکھنؤ میں پیدا ہونے والے شاعر آنند نرائن مُلّا کا تعلق کشمیری خاندان سے تھا جو ہجرت کر کے لکھنؤ آ گیا۔ لکھنؤ چونکہ اردو زبان و ادب کا مرکز تھا اور ان کے گھرانے میں اردو مادری زبان کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے ان کی زبان بھی اردو ٹھہری۔ انھوں نے بچپن ہی میں اردو، فارسی اور انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انھیں اردو زبان سے بے پناہ محبت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے انجمن ترقی اردو میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
’’آج کل اردو پر بہت برا وقت آیا ہوا ہے، کچھ لوگ اردو کو ختم کرنے کے درپے ہیں، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اردو کا مجاہد ہوں اور اردو کی بقا کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے میں کروں گا۔ میں آخر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اردو میری مادری زبان ہے۔ میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں مادری زبان نہیں۔ ‘‘
اردو سے ان کی محبت ان کے اس شعر سے جھلکتی ہے ؎
اک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں
پھر پونچھ کے اشک مسکرالیں تو چلیں
آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو
اک آخری گیت اور گالیں تو چلیں
چونکہ مُلّا کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں تہذیب وشائستگی تھی اور شرافت و نجات نیز اخلاقی قدروں و انسان دوستی کی فضا پورے ماحول پر چھائی ہوئی تھی اس لیے ان کی شخصیت میں بھی یہ چیزیں شامل ہو گئیں اور پھر یہ تمام چیزیں ان کی تحریر و تقریر کے ذریعہ معاشرے پر اپنا اثر قائم کرنے لگیں۔ جب ہم ان کی کلیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی شاعری میں متعدد مقامات پر ایسے مضامین نظر آتے ہیں جن میں انسانیت کے تحفظ اور اس کی بقا کی باتیں کی گئی ہیں۔
پنڈت آنند نرائن مُلّا کے یہاں دنیا کی ہر چیز پر حتیٰ کہ مذہب پر بھی انسانیت کو فوقیت حاصل ہے۔ انھوں نے ایک شعر میں خدا کو مخاطب کر کے یوں اپنی انسانیت نوازی اور انسان دوستی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو ؎
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے
یہ مُلّا کا ذاتی خیال ہے سارے مذہب کو یہ کہہ دینا کہ وہ انسانیت کا دشمن ہے سراسر غلط ہے۔
انسانیت ہی کے موضوع پر مُلّا کا یہ شعر بھی قابل داد ہے جس میں انھوں نے انسان دوستی کی ڈگر سے فرار اختیار کرنے کی صورت میں اپنی تباہی و بربادی کی دعا کر ڈالی ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
مجھے اے خالقِ کون و مکاں خاموش کر دینا
مرے لب پر نہ جس دن دردِ انساں کی پکار آئے
پنڈت آنند نرائن ملا کی انسان دوستی کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور اس کے نتیجے میں انھیں ترقی پسند شعرا کے زمرے میں شامل کر لیا، لیکن ان کی یہ انسان دوستی کا جذبہ ترقی پسندوں کی طرح ایک مخصوص گروہ تک محدود نہ تھا بلکہ وہ اپنے اندر پوری انسانیت کا درد رکھتے تھے اسی لیے انھوں نے خودا نظریہ کی سختی سے تردید کی۔ وہ لکھتے ہیں :
’’مجھے یہ پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ احتشام نے اشارۃً اور سرور نے صریحاً میرا شمار ترقی پسند شعرا میں کیا ہے۔ آخر میں ترقی پسند کس طرف سے ہو گیا؟ نہ تو میں مزدور کو فرشتۂ رحمت سمجھتا ہوں اور نہ مزدور راج قائم کرنے کے لیے کشت و خون کی ترغیب دینے ہی کو شاعری کا اصل مقصد قرار دیتا ہوں۔ ‘‘
ترقی پسند شعرا میں شامل کیے جانے کے بعد آنند نرائن ملا کو جو نقصان ہوا انھیں کی زبان میں ملاحظہ فرمائیں :
’’رہ گئی انسان دوستی تو اب یہ بھی اس مخصوص حلقۂ ادب میں جس پر ممبئی کی مہر لگی ہے مشکوک نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہے۔ مستند ترقی پسند نظریہ اب اسے بھی ایک فریب سمجھتا ہے۔ جیسے کسی بچے کو چاند دکھا کر اس کے سامنے سے مٹھائی کی طشتری غائب کر دینا۔ ‘‘
ادیب و فن کار کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ فن کار کو فن کار بننے سے پہلے ایک شریف ذمہ دار انسان اور شہری بننا ضروری ہے۔ کسی فن کار کا قد اس کے انسانی قد سے زیادہ اونچا نہیں ہو سکتا، اور کوئی شاعر یا افسانہ نگار انسان سے بے پناہ محبت کیے بغیر عظیم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کے بغیر وہ ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے۔ اسی طرح ادب کی غرض و غایت کے ضمن میں مُلّا کا نظریہ ہے کہ اگر ادب میں خلوص نہیں تو وہ انتہائی تخلیقی حسن کے باوجود بھی تاریخ ادب میں کوئی بلند مقام نہیں پا سکتا چاہے اس کا جمالیاتی کیف وقتی طور پر دلوں کو مسحور ر ہی کیوں نہ کر لے۔
پنڈت آنند نرائن ملا کی شاعری میں بلند اخلاق، وطن پرستی کا جذبہ، حسن و جمال اور انسان دوستی کے عناصر بکثرت نظر آتے ہیں۔ اگر ہم ان کی شاعری میں پائی جانے والی انسان دوستی پر مبنی مضامین کی تہ میں جائیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ان کے اندر موجود انسان دوستی کا دھارا کس چشمہ سے نکلتا ہے تو ہمیں وہ چشمہ غالب کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس وجہ سے کہ مُلّا سے پہلے غالب نے انسان دوستی کو ایک مسلک کے طور پر اپنایا تھا۔ خلیق انجم رقم طراز ہیں :
’’غالب قومی یکجہتی کے نہیں بلکہ انسانی یکجہتی کے نقیب تھے اور انسانیت کو قوموں یا گروہوں یا دوسرے لفظوں میں جغرافیائی اور مذہبی حدود میں تقسیم نہیں کرتے تھے۔ غالب کا یہ شعر ان کے مسلک کی مکمل ترجمان کرتا ہے۔
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
غالب کا یہ شعر مُلّا کے لیے محض شاعرانہ خیال نہیں بلکہ عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ انھوں نے غالب کو اپنا معنوی رہنما تسلیم کر لیا تھا۔ آنند نرائن مُلّا کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کم عمری سے ہی غالب سے حد درجہ عقیدت اور محبت تھی چنانچہ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں متعدد بار دیوان غالب کا مطالعہ کیا تھا، صرف مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ پورا دیوان حفظ کر ڈالا تھا۔ اسی وجہ سے مُلّا خود تحریر کرتے ہیں :
’’مجھے حافظ غالب کا لقب آسانی سے دیا جا سکتا تھا۔ ‘‘
’’غالب سے مُلّا کی عقیدت و محبت اور لگاؤ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنوری ۲۳ء میں مُلّا نے انڈین سول سروسز کا امتحان دیا تو ایک پرچہ اردو ادب کا بھی تھا جس میں ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ ’’تم میرؔ اور غالبؔ میں کس کو بڑا شاعر مانتے ہو اور کیوں ؟ اس موقع پر مُلّا نے جو جواب تحریر کیا وہ قابل غور ہے۔ مُلّا نے اپنے جواب میں صرف غالب کو ترجیح ہی نہیں دی بلکہ حد سے تجاوز کر گئے اور لکھا:
’’غالبؔ کی شاعری میرؔ کی شاعری سے اتنی ہی زیادہ وسعت رکھتی ہے جتنی کہ ایک کھلے میدان میں چاروں طرف دیکھنے والی نظر اس نظر سے جو دیواروں سے گھری ہوئی ایک کمرے میں قید ہے۔ ‘‘
مُلّا کا مبالغہ آمیز الفاظ میں جواب دینا نقصان دہ ثابت ہوا اور نتیجتاً وہ فیل ہو گئے لیکن اس جواب سے غالب کے لیے ان کے دل میں جو عظمت تھی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مُلّا نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی غالب کے بعض کلام کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ بقول خلیق انجم ’’یہ وہ عہد تھا جب انگریزی ادب کا مطالعہ کرنے والوں کو اردو میں صرف غالب ہی متاثر کر سکتا تھا۔ ‘‘
پنڈت آنند نرائن مُلّا کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو پر بھی مختلف موضوعات پر تقریریں کرتے تھے۔ ان کی تقاریر کا موضوع کبھی سیاسی، کبھی قانونی اور کبھی دیگر مسائل ہوا کرتا تھا۔ مُلّا کی پہلی تقریر جو ۱۶ فروری ۳۸ء کو نشر ہوئی وہ ’’غالب ڈے ‘‘ کے موقع پر تھی اور موضوع تھا ’’غالب کے کلام میں تصوف‘‘۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تصوف سے متعلق غالب کے کلام پر مُلّا کے خیالات پیش کر دیے جائیں تاکہ اس موضوع پر غالب اور مُلّا کے یہاں جو ذہنی اتحاد اور فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس کی وضاحت ہو جائے اور غالب و مُلّا کی شخصیت میں جو نقطۂ اتصال ہے اسے واضح کیا جا سکے۔
پنڈت آنند نرائن مُلّا نے اپنی بعض تحریروں میں غالب کے صوفیانہ کلام کا تذکرہ کیا ہے اس ضمن میں انھوں نے تصوف سے متعلق اپنی رائے بھی ظاہر کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
’’تصوف کی تعریف زبان عام میں عشق حقیقی کہی جا سکتی ہے گو کہ یہ تعریف مکمل نہیں ہے۔ اہل صوفیا کے نزدیک حسن مبداء عالم ہے وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے اور اس کے دل میں ایک ذوق خود بینی ہے وہ ہر چیز میں اپنا عکس دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نے چاہا کہ خود اپنا جمال دیکھے اس لیے یہ ضرورت پیش آئی کہ وہ ایک آئینہ خانہ تیار کرے۔ چونکہ حسن کے علاوہ اور کوئی اس کا جمال دیکھنے والا موجود نہیں تھا لہٰذا حسن کو اپنے ہی کچھ اجزا منتشر کر دینا پڑے جنھوں نے مختلف صورتیں اختیار کیں چنانچہ انسان اور دیگر مخلوقات حسن کے وہ منتشر شدہ اجزا ہیں جو کہ مرکزی حسن سے جدا ہو گئے ہیں۔ یہ بچھڑے ہوئے اجزا جس وقت کہ ان میں جذب کامل پیدا ہو جاتا ہے پھر مرکزی حسن میں آ کر مل جاتے ہیں اور یہی ان کی معراج ہے۔ ‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں مُلّا نے غالب کے کلام سے بعض اشعار پیش کیے ہیں جو یہاں نقل کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی وضاحت بھی پیش کی جاتی ہے :
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
یہ شعر غالب کا مشہور قصیدہ ’’در منقبت حضرت علی کا ہے ‘‘۔ غالب نے اس قصیدے کی تشبیب کی بنیاد فلسفۂ وحدت الوجود پر رکھی ہے۔ وحدت الوجود کا مضمون عام طور پر غزلوں میں ہوتا تھا لیکن غالب نے یہ موضوع قصیدے میں پیش کیا ہے۔ فلسفۂ وحدت الوجود تصوف کی ایک اصطلاح ہے۔ صوفی وحدت الوجود کا قائل ہے۔ سورج طلوع ہو جانے کے بعد آسمان پر ستاروں کا وجود نہیں ہوتا یہ غلط ہے بلکہ اس کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ ایسے ہی صوفی کہتا ہے کہ ہر چیز فانی ہے۔ حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے۔ صوفی کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں دکھائی دیتا۔ اللہ کی ذات طلوع ہو جانے کے بعد دنیا میں کسی جلوہ کا وجود نظر نہیں آتا ہے۔ صوفی جب ساری دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے تو وہ اللہ کی ذات میں ڈوب جاتا ہے۔
مذکورہ بالا شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زمانہ یعنی کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ معشوق حقیقی کی یکتائی کے جلوے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے یعنی کائنات کی ہر چیز در حقیقت معشوق حقیقی کے مختلف جلوے ہیں۔ شاعر دوسرے مصرعے میں کہتا ہے کہ حسن حقیقی یعنی اللہ کا حسن اللہ نے چاہا کہ وہ اپنے جلوؤں کو دیکھے اس لیے ہم کو یعنی انسانوں کو اور کائنات کی دوسری مخلوقات کو وجود بخشا تاکہ اس آئینہ میں وہ اپنے جلوؤں کا مشاہدہ کرے۔
اس شعر کے تعلق سے پنڈت آنند نرائن ملا نے بھی یہی باتیں تحریر کی ہیں ان کا قول ملاحظہ فرمائیں :
’’یہ دنیا ایک آئینہ خانہ ہے جہاں حسن مختلف صورتوں میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ ‘‘
مُلّا نے اس ضمن میں غالب کے بعض دوسرے اشعار بھی پیش کیے ہیں جس سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔ صوفیانہ کلام سے ان کی دلچسپی اور غالب کے ذہنی رجحان سے ان کی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پر تو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرہ بے پر توِ خورشید نہیں
یعنی ایک آفتاب ہے جس کا نور ہر ذرہ میں چمک رہا ہے
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
مذکورہ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اور محبوب حقیقی میں وہی مناسبت ہے جو کہ قطرے اور سمندر میں ہے۔ وہی جذب و کشش ہے جو کہ ذرے اور آفتاب میں ہے۔
یہ بات اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ مُلّا کو غالب سے بڑی عقیدت تھی اور جس انسان دوستی کی بات مُلّا کی شاعری میں کی جاتی ہے وہ بھی غالب کے زیر اثر ہی ان کے یہاں نظر آتا ہے اور یہ انسان دوستی کا نظریہ ان کے یہاں تصوف کے راستے سے ہی وارد ہوا ہے۔
ہم یہاں ملا کے مضمون غالب کے کلام میں تصوف کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں کہ مُلّا کے نزدیک تصوف کی کیا اہمیت ہے اور ان کے خیال میں کلام غالب میں کس قدر صوفیانہ کلام نظر آتے ہیں۔ مُلّا نے عشق حقیقی کو تصوف کا سنگ بنیاد کہا ہے۔ وہ تصوف اور فلسفے کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’فلسفے کا ادراک عقل کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور تصوف کا عرفان جذب یا عشق کے ذریعہ ہوتا ہے ‘‘۔
ماحصل یہ کہ عقل جو چیز نہیں دیکھ سکتی اس کا یقین نہیں کرتی اور عشق جو چیز محسوس کرتا ہے اس کا اثر قبول کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ عقل مسلسل دھوکہ میں رہتی ہے اور اس کو حقیقت تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کے برخلاف عارف اپنے عشق کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس پس منظر میں مُلّا نے غالب کا یہ شعر پیش کیا ہے ؎
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
مطلب یہ کہ دریا کی موجوں میں اتنے ہی خطرات ہیں جتنے سینکڑوں مگرمچھ کے منہ میں ہوتے ہیں اس لیے قطرے کو موتی بننے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ انتہائی شکل اور پیچیدہ ہے۔ اگر اس روشنی میں ہم انسان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنا مقصد حاصل کرنے اور منزل مقصود تک پہنچتے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا حقیقت تک پہنچنے کے لیے بقول مُلّا:
’’کتنے اوہام سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، کتنے نقش باطل مٹانا پڑتے ہیں ‘‘۔
یہ واضح ہے۔
غالب کے صوفیانہ کلام میں ملا اس قدر منہمک ہوئے اور اس کا اتنا اثر لیا کہ ہمیں مُلّا کی تحریروں میں اور ان کی ذات میں انسان دوستی اور انسانیت نوازی کی شکل نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنند نرائن مُلّا تصوف کی حقیقت واضح کرنے میں مصروف ہیں اور وہ غالب ہی کے کلام سے تصوف کی مختلف منزلیں اور ہر مقام کی کچھ شہادتیں پیش کرتے ہیں جس سے غالب اور مُلّا کے فکر و فلسفہ میں فطری اتحاد نظر آتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا، کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
اور پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں ؎
وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
اس طرح مُلّا کلام غالب کے ذریعہ تصوف کے تمام مراحل پار کر جاتے ہیں اور تصوف کی مختلف منازل کی وضاحت غالب کے کلام سے پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس حالت کی تصویر کشی کرتے ہوئے جس میں انسان قدرت خداوندی کا مظاہرہ دیکھ کر اس میں بالکل جذب ہو جاتا ہے تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے ؟ اور اس کے دل میں کیسے جذبات ابھرتے ہیں اس کا نقشہ اس طرح پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا
ہر مرگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
یا
بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گزر نہ کر
ہر ذرے کے نقاب میں دل بے قرار ہے
مُلّا نے غالب کے کلام سے اس مرحلہ کی بھی وضاحت کی ہے جس میں سالک کو ابھی عرفان نہیں حاصل ہوا ہے بلکہ ابھی دھوکہ کی دنیا میں ہے۔ شعر ہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز روکے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
سالک کا قدم دھیرے دھیرے تمنا کی منزل پار کرتا ہے لیکن ابھی حقیقت سے دور ہے ؎
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے
لیکن ساتھ ہی حقیقت تک پہنچنے کا ارمان بھی ہے ؎
جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے
اے نا تمامیِ نفسِ شعلہ بار حیف
اور جب پردہ اٹھ جاتا ہے اور حقیقت نظر آنے لگتی ہے تو اسے یوں بیان کرتے ہیں ؎
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے سے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اور جب حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ آشنا ہونے کے بعد فنا لازم ہے تو خود کو یوں مخاطب کرتے ہیں ؎
اے دلِ نا عاقبت اندیش ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
ہم دیکھتے ہیں کہ مُلّا نے مرحلہ وار تمام مقامِ تصوف کی نشاندہی غالب کے اشعار سے کی ہے۔
تصوف ایک ایسا راستہ ہے جس میں سالک کو جگہ جگہ صدمے اٹھانے پڑتے ہیں اور ہر مقام پر خواہشات نفسانی کو کچلا جاتا ہے لیکن یہی چیز سالک کے لیے خوشی کا پیغام ہوتی ہے اور سالک اس سفر میں جتنی ٹھوکریں کھاتا ہے اتنا ہی اسے فرحت و انبساط میسر ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں ؎
عشرت پارۂ دل زخمِ تمنا کھانا
لذتِ ریشِ جگر غرقِ نمک داں ہونا
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنا مت پوچھ
عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
جب ہم غالب اور مُلّا کے یہاں موجود فکر و فلسفہ کا موازنہ کرتے ہیں اور ان کے اندر انسان دوستی کو ان کے کلام میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے یہاں بڑی یکسانیت نظر آتی ہے۔ جس طرح غالب سب مذہب کو ایک ہی ایمان کا جز سمجھتے ہیں اور اپنا فسلفہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مذاہب کا مٹانا ہی اصل ایمان ہے کیوں کہ یہ تفریق محض نمائشی ہے ؎
ہم مؤحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
ایمان کے مقابلے میں وفاداری کو قدر اول قرار دینا یا ملتوں کے مٹ جانے کو اصل ایمان سمجھنا وہ انسانی نظریہ ہے جو غالب اور مُلّا کو ایک لڑی میں پروتا ہے اس حوالے سے مُلّا کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎
میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں
میرے دل کے درد میں تفریق ایماں کچھ نہیں
پنڈت آنند نرائن مُلّا نے غالب کو ایسا شاعر مانا ہے کہ جنھوں نے اس دنیا میں رہ کر اپنی چھوٹی سی دنیا الگ نہیں بنائی اور محض ایک روایتی نقاب پہن کر ہمارے سامنے نہیں آئے بلکہ انھوں نے غم دل کے ساتھ غم روزگار کو بھی شامل کیا، جس نے شعوری طور پر فرد اور سماج میں ان قدروں کو بھی پیش کیا جو محض جذباتی یا اخلاقی یا روحانی نہیں بلکہ انسانی یا سیکولر کہی جا سکتی ہیں۔ انھیں چیزوں کا اثر مُلّا نے کلام غالب کے مطالعہ سے اخذ کیا اور ان کے اندر انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھا۔ غالب کے بہت سے اشعار آج بھی ہمارے دلوں میں ایک صدائے بازگشت پیدا کرتے ہیں اور یہی امتیاز انھیں حیات جاوید بخشتا ہے۔
٭٭٭
پنڈت آنند نرائن ملّا اور ان کی شاعری
……… محمد اکرم خاں
آنند نرائن ملّا بطور شاعر ہی نہیں جانے جاتے البتہ انسان دوست، مرد مجاہد، وطن پرست اور قومی رہنما کے ساتھ ساتھ سیاسی قائد اور قابل فہم وکیل تھے جنھیں علمی اور ادبی شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد پنڈت جگت نرائن ملّا ماہر قانون تھے۔ انھوں نے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھّا، اور لکھنؤ سے ہی اعلیٰ تعلیم سے سرفرازی حاصل کی۔ جس عہد میں آنند نرائن مُلّا نے ہوش سنبھالا اور عمرِ بلیغ کو پہنچے تو چاروں طرف شعرو شاعری کا چرچا عام تھا۔ وہ غالبؔ ، اقبالؔ ، حالیؔ ، انیسؔ اور چکبستؔ سے خاصے متاثر تھے، مگر اپنی شاعری کو کسی کا پیروکار نہیں بننے دیا بلکہ اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ جس کا خود اعراف یوں کیا ہے ؎
اپنی فصیل باغ کو کوہ کی دے بلندیاں
آندھیاں سرخ ہوں کہ زرد خاک چمن سے دُور دُور
ملّا ادب میں ڈھونڈھ لی جادے سے ہٹ کے اپنی راہ
رنگِ جد ید سے الگ طرزِ کہن سے دُور دُور
مُلّا ایک فعال کا رکن تھے جس نے اپنی زندگی کو مصروف ہی رکھا اور اپنی محنت، لگن اور علمی بصیرت سے ۱۹۵۴ئ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقر ر ہوئے۔ سیاست میں حصہ لیا اور کامیاب ہو کر ۱۹۶۷ئ سے ۱۹۷۰ئ تک لوگ سبھا کے رکن رہے اور ۱۹۷۲ئ میں راج سبھا کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ اپنی اُردو نوازی کی بنیاد پر ۱۰ برس تک انجمن ترقی اُردو (ہند) کے صدر رہتے ہوئے اتر پردیش اُردو اکادمی کے چیئرمین تک رسائی حاصل کی۔ پنڈت آنند نرائن مُلّا اردو نواز اور عالم تھے، جنھوں نے کہا تھا کہ : ’’میں اپنے مذہب کو چھوڑ سکتا ہوں، اپنی مادری زبان کو نہیں ‘‘
حالاں کہ آنند نرائن مُلّا انگریزی ادب کے ماہر اور قابل فہم ادیب تھے جنھوں نے غالبؔ ، اقبالؔ اور انیسؔ جیسے شاعروں کے کلام کا ترجمہ بھی انگریزی منظومات میں کیا۔ چند دنوں بعد ان کی ملاقات مشہور ادیب اور ماہر تعلیمات پنڈت منوہرلال سے ہوتی ہے، ان کے مشورے سے ہی وہ اردو زبان میں شعر کہنے لگے۔ اردو کے کلا سیکی ادب اور مغرب کے جدید ادب پر ان کی گرفت مضبوط تھی، شعرگوئی سے والہانہ لگاؤ کے سبب اپنی تمام مصروفیات کے باوجود شاعری کے لیے فرصت نکال لیا کرتے تھے۔ ان کا کلام عصری زندگی کی پیچیدگیوں اور تقاضوں کا بہترین عکاس اور ترجمان ہے۔ ان میں انسان دوستی کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ مثلاً : ؎
مجھے اے خالقِ کون ومکاں خاموش کر دینا
مرے لب پر نہ جس دن دردِ انساں کی پکار آئے
اقبالؔ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مُلّا کو استعارات، علامات اور کنایات پر کس قدر قدرت حاصل ہے۔ ؎
برق ناحق چمن میں ہے بدنام
آگ پھولوں نے خود لگائی ہے
طائر کے لئے دشوار نہیں صیاد و قفس سے دور رہے
لیکن جو شکل نشیمن ہے اس دام سے بچنا مشکل ہے
میں نالہ بہ لب اُجڑے نشیمن پہ نہیں ہوں
دیکھی نہیں جاتی ہے گلستاں کی تباہی
چوں کی مُلّا کی بالغ نظر جب اپنے شباب پر تھی تو یہی زمانہ جد و جہد آزادی کا بھی تھا، جس میں ملک کے شاعروں نے بڑھ چڑھ کر حصہّ لیا اور اپنے کلام سے جد و جہد آزادی کو تقویت پہنچائی۔ انھیں فضاؤں سے متاثر ہو کر اپنے انفرادی لبوں لہجے میں آنند نرائن مُلّا نے بھی تمام صحتمندانہ رجحانات لیے ہوئے شاعری کی اور تمام ہندوستانیوں کو بیدا رکیا۔ ؎
ملک کی آزادی کے جذبے نے مُلّا کو ایک ادبی رومانیت کا بھی شاعر بنا دیا ہے، جنھوں نے غزل سے نظم کا کام لینا سکھایا، حالاں کہ کلام کے انتخاب میں صرف جذبہ سے ہی کام نہیں چلتا۔ البتہ شاعر کے عقل و شعور کی بھی کارفرمائی ضروری ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر سید احتشام حسین نے اپنا خیال یوں ظاہر کیا ہے کہ :
’’ہر بات سمجھی اور سوچی ہوئی ہوتی ہے، ہر خیال فکر کی کسوٹی پر کساہوا ہوتا ہے، ہر تصویر میں خلوص کی گرمی اور احساس کی سچائی شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فن کے مطالبات پر بھی ان کی نگاہ ہوتی ہے، دونوں باتیں مل کر مُلّا کی شاعری کو رنگین اور ٹھوس بناتی ہے۔ ‘‘ (آجکل : یکم مارچ ۱۹۴۷ء ص : ۸ )
مُلّا نے اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ غزلوں کو سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی مسائل کے حل کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ نفسیاتی محرکات اور وارداتِ قلب کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے جس سے انسانی جذبات اور وارداتِ قلب کی گہرائیوں تک رسائی حاصل ہو سکے، جس کی وضاحت میں چند اشعار پیش خدمت ہیں ؎
کھنچے آتی ہیں اس ساحل پہ خود دو اجنبی موجیں
محبت ایک جذبِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی
آگ جب تن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے
قدم رکھ شوق سے تپتی ہوئی راہِ حقیقت پر
مگر اک کہکشاں بھی سامنے نظروں کے رہنے دے
آنند نرائن مُلّا نے غزلوں کی طرف زیادہ توجہ مبذول فرمائی ہے۔ البتہ نظموں کے بھی اچھے مجموعے پیش کیے ہیں۔ جن میں جوئے شیر، کچھ ذرّے کچھ تارے، میری حدیثِ عمرِ گریزاں، سیاہی کی ایک بوند وغیرہ قابل قدر ہیں۔ ان کی نظموں میں شاعری کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں، جن میں وطن دوستی کے ترانے، سماجی زندگی کی کشمکش اور رومان پرور فضا جلوہ گر ہیں۔ ایک نظم ’’جہاں میں ہوں ‘‘ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں ؎
کبھی شاید یہ محفل بھی ستاروں سے چمک اُٹھے
ابھی تو اشک بیکس سے چراغاں ہے جہاں میں ہوں
خدا وہ دن تو لائے سوز بھی اک ساز بن جائے
ابھی ہر ساز میں اک سوز پنہاں ہے جہاں میں ہوں
ملّاؔ کی دوسری نظم ’’میری دنیا‘‘ کے چند بند پیش خدمت ہیں جن میں انسان کے مختلف نظریات اور لغویات کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ ؎
مظلوم کا کلیجہ تیر و ستم نہ ڈھونڈے
ایوانِ شادمانی بنیاد غم نہ ڈھونڈے
انسان غاصبانہ راہوں سے ہٹ چکا ہے
پیشانیِ بشر کا تیور پلٹ چکا ہے
ان کی شاعری میں تسلسل، روانی اور نغمگی خصوصیت کے ساتھ پائی جاتی ہے جس کی عکاسی اُس نظم سے ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، جب مُلّا صاحب کو پاکستان جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو اِس موقع پر انھوں نے بطور تحفہ یہ نظم تحریر کی تھی:
پھر اک تجدید الفت کا ترانہ لے کے آیا ہوں
میں کیا آیا ہوں اک گزر ازمانہ لے کے آیا ہوں
بہ نام خطۂِ اقبالؔ ، خاکِ میرؔ و غالبؔ سے
سلامِ شوق و نذرِ دوستانہ لے کے آیا ہوں
یہ سچ ہے کہ مُلّا صاحب کی شاعری آپ بیتی کے ساتھ ساتھ جگ بیتی بن گئی ہے، جس کی تائید شکیل احمد عاصم بریلوی کے ان جملوں سے ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے :
’’پنڈت صاحب کے کلام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کی آمیزش ملتی ہے، وہ زندگی میں رُو نما ہونے والے واقعات و مشاہدات کو نہایت فلسفیانہ نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر اس کو بڑے غور و فکر کے بعد شعر کا رُوپ دیتے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں۔ ان کے اشعار پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے جیسے یہ اس کے دل کی پکار ہے۔ ‘‘
چونکہ بیسویں صدی میں ادب اپنے عروج پر تھا، شاعروں اور ادیبوں نے اپنے اپنے اسلوب و بیاں سے اردو ادب کا دامن وسیع کیا اور فن کے مظاہرے بھی کیے، جن کی فکری اور فنی قوت سے ہمارا اعتماد وابستہ ہے، اور جن کا کلام ہمیں فرحت اور مسرت بخشتا ہے۔ انہیں شخصیتوں میں مُلّا کا نام آتا ہے، جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے حقیقت نگاری کا رواج عام کیا:
غیر کے درد پہ بھی اشکِ بداماں ہونا
یہی معراجِ بشر ہے یہی انساں ہونا
تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم
جب آئے نئے بُت پیشِ نظر اصنام پرانے توڑ دیئے
اِس طرح مذکورہ تمام اشعار سے واضع ہوتا ہے کہ شاعر اپنے عہد کی موجودہ حالات سے غیر آسودہ ہے، وہ ایک ایسے سماجی نظام کا خواہاں ہے، جس میں انسان انسان کے حقوق کی نگہبانی کرے، ہر ایک کا دل ایک دوسرے سے معمور ہو، تاکہ ایک اچھا معاشرہ وجود میں آ سکے۔
ایک بار دورِ گردوں ایسا نظام بھی ہو
جس میں ہر ایک میکش صہبا بہ جام بھی ہو
انسانیت کا پودا ٹھٹھرے نہ جس ہوا ہیں
دل کا بھی سانس لینا ممکن ہو جس فضا میں
وہ محض لفظوں کے سجانے تک اپنے کلام کو محدود نہیں کرتے بلکہ اپنے مشاہدے اور لیاقت کی بنیاد پر گہرے مفاہیم پیدا کرنے کی جا بجا سعی کرتے ہیں۔
موصوف کی تخیل پرواز اتنی بلند اور بالاتر ہے جہاں تک عام قاری سوچ بھی نہیں سکتا، وہ کہیں نہ کہیں فلسفیانہ رویّہ بھی اختیار کر جاتے ہیں : ؎
نہ جانیں کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
کبھی کبھی مُلّا طنزیہ اشعار سے بھی اپنی بات کو عوام تک پہچانے میں کامیاب ہوئے ہیں : ؎
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
یہاں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
حالانکہ وہ اپنے آپ کو طنزیہ شاعر تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پنڈت آنند نرائن ایسے کلام کے قائل ہیں جو انسان میں بلند خیالی اور بلندیِ جرأت پیدا کرے۔ اسی لیے وہ مقبول شاعر کے لئے ذہن کا کھلا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس کی طرف ایک مضمون نگار نے اپنے مضمون میں اس کا اعتراف میں اس طرح کیا ہے کہ:
’’ اس سے ان کار نہیں کیا جا سکتا کہ مُلّا صاحب اس دور کے ایک صحیح الفکر شاعر ہیں۔ ان کا تخیّل تعمیری اور فکر صحت مند ہے، زبان میں فصاحت، سلاست اور سادگی کا عنصر کار فرما ہے۔ وہ صرف ایک بلند پایہ شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک ممتاز سیاست داں بھی ہیں۔ حق گوئی و بے باکی اُن کی فطرت ہے۔ ‘‘ (بحوالہ : شاعر بمبئی، جون۱۹۷۰ء ص ۴۳)
بلا شبہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پنڈت آنند نرائن مُلّا ایک ایسے شاعر ہیں جن کا شمار نا قابلِ فراموش شعراء کی صف میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے اردو شاعری کو حقیقی اور انفرادیت کا رنگ دینے، زمانے کے حسبِ حال عکاسی کرنے اور مقصدی شاعری کو پیش کرنے کی راہ دکھائی، جس سے اردو صنف شاعری کے لیے ایک نئی سمت ہموار ہوئی۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری میں انسان دوستی
……… عبید الرحمن
پنڈت آنند نرائن ملّا کی شاعری تکلف اور رسمی خیالات کے علی الرغم اجتماعی ذمہ داریوں کی آئینہ دار کہی جا سکتی ہے۔ وہ انفرادیت کے کم اجتماعیت کے زیادہ قائل ہیں اور یہ اجتماعیت، انسان دوستی کے جذبے کی شکل میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری میں انسان دوستی کا میلان ۱۹۳۵ ء کے بعد آیا۔ ملّا کی شاعری میں انسانی درد و کرب کی متعدد جہتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کے یہاں انفرادیت پر کم اجتماعیت پر زور زیادہ ملتا ہے۔ وہ اجتماعیت پر یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ جس اجتماعیت کا خواب وہ دیکھ رہے تھے، انفرادیت اس کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں داخلی اور خارجی دونوں کیفیات کا امتزاج بہت خوبصورت انداز میں پایا جاتا ہے۔ گویا کہ ملا کی شاعری اجتماعی روح کی بے چین پکار ہے۔
وطن پر بہت سے شاعروں نے نظمیں لکھیں۔ ان میں چکبستؔ کی نظم ’’خاکِ ہند‘‘ کا ایک ایک لفظ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ لیکن چکبستؔ کے بعد ملا کی نظم ’’زمینِ وطن‘‘ کو خاص اہمیت کی حامل قرار دیا گیا۔ ملا کے یہاں وطن پرستی کے جذبے کے ساتھ ایک نصب العین ہے، جو ان کوچکبستؔ سے آگے لے جاتا ہے۔ آزادیِ وطن کی جد و جہد میں آزادی کے متوالوں نے جو خواب دیکھا تھا اور آزادی کے بعد جس امن و اطمینان کے خواب انہوں نے اپنی آنکھوں میں بسائے تھے، تقسیم ملک کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے ان کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جہاں بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا، جہاں معصوموں، عورتوں اور بوڑھوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ جہاں ماؤں سے ان کے معصوم بچوں کو چھین کر ان کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ پنڈت آنند نرائن ملّا کا درد مند دل اس سے متاثر ہوا۔ جس کا اظہار انہوں نے ان اشعار میں کیا ؎
غارت و قتل کی ہے گرمیِ بازار وہی
ابھی انسان کی ہے فطرتِ خونخوار وہی
سب سے قانون بڑا آج بھی ہے قانونِ قصاص
سب سے مضبوط دلیل آج بھی تلوار وہی
ایک سے ایک سوا، کون کہے کس کو کہے
اہلِ تسبیح وہی، صاحبِ زناّر وہی
کس کو مظلوم کہیں، کس کو ستمگار کہیں
آج مظلوم وہی، کل ہے ستم گار وہی
وطن اے میرے وطن! یوں مجھے مایوس نہ کر
شبھ گھڑی آئی ہے تیری اِسے منحوس نہ کر
آنند نرائن ملّانے فرقہ پرستی کے اس دور میں بھی اپنی انسان دوستی کے نظریے میں کسی طرح کی کمی نہیں آنے دیا۔ اور نہ کسی فائدے کے لئے اپنے آپ کواس مقصد سے ہٹایا، بلکہ انسانیت کے چراغ کو جلائے رکھا۔ خلیق انجم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’فرقہ پرستی کے تیز طوفانوں میں بھی ملا صاحب نے انسانیت کی شمع کو روشن رکھا۔ اور بڑے سے بڑے منافع کے لئے بھی انہوں نے اپنے رنگ و بو کے خوابوں کا سودا نہیں کیا۔ انسان دوستی ملا صاحب کے لئے کوئی ایک ایسی نقاب نہیں جسے وہ اپنے چہرے پر لگا کر ادب یا سماج میں جھوٹا مقام حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
(جادۂ ملا۔ ’پیش لفظ‘خلیق انجم۔ کتاب منزل، ۱۹۷۲۔ ص۱۲)
تقسیم ملک کے بعد جب نفرت و تعصب کا دل مطمئن نہ ہوا تو اس عہد کے سب سے بڑے انسان دوست اور آزادی کے رہبر کا بھی خون بہانے میں پس و پیش نہ کیا گیا۔ گاندھی جی کے قتل نے سبھی کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جس شخص نے قوم و ملک کے لئے سب کچھ لٹا دیا، اس شخص کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے ! گاندھی جی کے قتل پر کئی شاعروں نے نظمیں لکھیں۔ لیکن ان میں شمیم کرہانی، وامق جونپوریؔ اور ملّاؔ کی نظمیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ وامقؔ کی نظم میں عوامی اپیل زیادہ ہے۔ مگر آنند نرائن ملّاؔ کی نظم ایک ادب پارہ ہے۔ ملّا گاندھی جی کی اخلاق تعلیم اور انسان دوستی کے شیدائی ہیں
سینے میں جو دے کانٹوں کو بھی جا اس گُل کی لطافت کیا کہئے
جو زہر پئے امرت کر کے اُس لب کی حلاوت کیا کہئے
جس سانس سے دنیا جاں پائے اُس سانس کی نکہت کیا کہئے
جس موت پہ ہستی ناز کرے اُس موت کی عظمت کیا کہئے
یہ موت نہ تھی قدرت نے ترے سر پر رکھا اک تاج حیات
تھی زیست تری معراجِ وفا اور موت تری معراج حیات
پستیِ سیاست کو تو نے اپنے قامت سے رفعت دی
ایماں کی تنگ خیالی کو انساں کے غم کی وسعت دی
ہر سانس سے درسِ امن دیا، ہر جبر پہ دادِ الفت دی
قاتل کے بھی گو لب ہل نہ سکے آنکھوں سے دعائے رحمت دی
’’ہنسا‘‘ کو ’’اہنسا‘‘ کا اپنی پیغام سنانے آیا تھا
نفرت کی ماری دنیا میں اِک پریم سندیسہ لایا تھا
آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری کسی نظریے کی پابند نہیں۔ بلکہ وہ اس جکڑ بندی سے آزاد ہے۔ وہ کچھ سوچتے ہیں تو نظریوں سے آزاد ہو کر سوچتے ہیں، وہ اگر کچھ سوچتے ہیں تو سب کے اتحاد و اتفاق کے لئے سوچتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ انسان کی کامیابی کے لئے بہت ضروری ہے۔ وہ اپنی اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ملّا خود لکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک انسانیت کے درد کا مداوا دل کی تہذیب و تربیت میں مضمر ہے نہ کہ ذہن کی بڑھتی ہوئی واقفیت میں، اور دل کی تہذیب و تربیت محبت ہی سے ہو سکتی ہے تشدد اور نفرت سے نہیں۔ ‘‘
( میری حدیثِ عمرِ گریزاں۔ آنند نرائن ملا۔ انڈین پریس، الہ آباد۔ ص:ت)
ملّا کے یہاں انسان دوستی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کے دردوغم میں ایسا شریک رہے اور اس کو غم سے نکالنے میں ایسا سرگرداں رہے کہ اس کو اپنی زندگی کی فکرہی نہ ہو۔ وہ دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھے۔
بتائے کیا وہ غم اپنا وہ کیا سمجھے خوشی اپنی
کہ جس نے زندگی اپنی نہ جانی زندگی اپنی
انسان کی فطرت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے دردوغم کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ اسے دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر مسرت حاصل ہوتی ہے لیکن ملّا کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں اپنی ہنسی پی جانا اس پر ضبط کرنا چاہیے تاکہ مصیبت زدہ شخص یہ محسوس کرے کہ آپ اس کے غم میں شریک ہیں، آپ کو اس سے ہمدردی ہے۔ اگر آپ نے اپنی ہنسی پر ضبط نہ کیا تو اس غم زدہ کو مزید تکلیف ہو گی۔ یہ بھی انسان دوستی کا ایک حصہ ہے کہ انسان دوسروں کے دردوغم میں اس کا ساتھ دے
میرا غم دیکھ کہ میں اور کچھ تم سے نہیں کہتا
اگر یہ ہو سکے تم سے تو پی جانا ہنسی اپنی
ملا کی اس نوع کی شاعری کے بارے میں پروفیسر احتشام حسین نے لکھا ہے :
’’ان کے صاف شفاف اور ذکی الحسن ذہن اور انسانی دکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل، دونوں نے مل کر ایک مخصوص شاعرانہ انداز نے زندگی کو فن کی گرفت میں لے لیا ہے۔ ‘‘ (جادۂ ملا ص۱۷)
میں نالہ بلب اجڑے نشیمن پہ نہیں ہوں
دیکھی نہیں جاتی ہے گلشن کی تباہی
یوں دل میں چھپائی ہے تیرے غم کی امانت
دامن پہ نشاں کوئی نہ تاروں کی گواہی
ممکن ہے کہ ہونٹوں کو تو میں سی بھی لوں لیکن
لے جاؤں کہاں آنکھوں کی افسانہ نگاہی
ملّا کے نزدیک انسان کے لئے انسان ہونا پہلی شرط ہے۔ ان کے نزدیک کسی فنکار کا فن بغیر اس کے پروان نہیں چڑھا سکتا۔ ملّا دو نظریہ کے مخالف ہیں۔ یعنی جو اس کے فن میں ہو اس کی اصلی زندگی کی پرچھائیاں ہوں۔ دونوں چیزیں الگ الگ نہ ہوں کہ جب وہ بحیثیت فنکار سامنے آئے تو کچھ اور ہو اور جب فن سے ہٹ کر دیکھا جائے تو کچھ اور ہو۔ ملا کے نزدیک بڑا فنکار جب ہی ہو سکتا ہے جب بنی نوعِ انساں سے بے پناہ محبت بھی کرتا ہو۔
جن پاک نفس انسانوں میں کردار کی عظمت ہوتی ہے
ایسوں سے نہ مل پائیں اگر، نادیدہ عقیدت ہوتی ہے
آواز میں رس، ہونٹوں پہ عنب، باتوں میں شکریہ سب دھوکے ہیں
انسان کی اک پہچان یہ ہے آنکھوں میں مروت ہوتی ہے
ملّا کی شاعری صرف احساس اور جذبات کی شاعری نہیں بلکہ ان کے یہاں ایک دانشورانہ لب و لہجہ ملتا ہے وہ ایسے سماجی نظام کی جستجو میں رہتے ہیں جہاں انسان کو کسی طرح کا خوف و خطر نہ ہو، جہاں وہ مطمئن ہو کر زندگی گزار سکے۔ ملا صاحب نے اپنی نظم ’’گمراہ مسافر‘‘ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
دنیا کے اندھیرے زنداں سے انساں نے بہت چاہا نہ ملا
اس غم کی بھول بھلیّاں سے باہر کا کوئی رستہ نہ ملا
اہلِ طاقت اٹھتے ہی رہے بھاری بھاری تیشے لے کر
دیوار پسِ دیوار ملی، دیوار میں دروازہ نہ ملا
بے چاری الفت کی مشعل کونے میں پڑی جل جل کے بجھی
لیکن اُسے ہاتھوں میں لے کر کوئی بڑھنے والا نہ ملا
تقسیمِ مساوی کے حامی پھر لے کے بڑھے میزان اپنا
جو سب کو یکساں تول کے دے، میزان میں وہ پلّا نہ ملا
ملّا صاحب انسان کو چاہتے ہیں کہ وہ انسان ہو کر رہے۔ وہ مذہب کے خانوں میں تقسیم کے قائل نہیں۔ وہ اس کے بھی قائل نہیں کہ انسان مذہبی منافقت کو ہوا دے۔ وہ کہتے ہیں :
ابھی روئے حقیقت پر پڑا ہے پردۂ ایماں
ابھی انسان فقط ہندو مسلماں ہے جہاں میں ہوں
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
تیرے ہاتھوں بہت توہینِ آدم ہوتی جاتی ہے
ہر دیر و حرم سے کترا کر ملّا آیا میخانے میں
ملّا کے سے دنیا میں سلجھے ہوئے انسان کتنے ہیں
معبدِ انساں بنے کیسے یہ ضد ہر دل میں ہے
اُس کی پیشانی پہ ہو، میرے ہی میخانے کا نام
ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملّا کے نزدیک انسان کی مذہبی پہچان کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ وہ اسے حقیقت کا ایک پردہ تصور کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مجدو شرف کے سارے مراحل بحیثیت انسان طے کئے جائیں اور اسی پر فخر کیا جائے اور اسی سے وہ امیدو یقین کی منزلیں بھی طے کرتے ہیں موجوں میں گھری کشتیِ حیات کو سہارا بھی انہیں موج سے ابھرنے والے کنارے ہی دیتے ہیں۔ یعنی شر سے خیر کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ اشعار دیکھیں
یاس کی آندھیوں میں بھی دل سے کبھی مٹی نہ آس
گم ہوئی لو ہزار بار شمع کبھی بجھی نہیں
جب بھی گھری ہے موجوں میں کشتی حیات کی
اُبھرے ہیں موج ہی سے کنارے نئے نئے
تیرگی بڑھ بڑھ کے تاروں کو بجھاتی ہی رہی
تیرگی کو چیر کرتا رے نکلتے ہی رہے
ہماری دنیا کے کچھ مسائل تو فطری ہیں اور کچھ انسانوں نے خود بنائے ہیں۔ در اصل اقتدار اور طاقت کی طلب انسان کو نہ صرف اندھا بنا دیتی ہے بلکہ وہ انسانیت کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ عالمی سطح پر آج انسان جس پناہ کی تلاش میں ہے اور جس بے گھری اور پریشان حالی سے دوچار ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ اس کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ اسی تناظر میں ملا کے یہ اشعار دیکھیں :
توانا کو بہانہ چاہئے شاید تشدد کا
پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتہام آیا
ستم اکثر بعنوانِ کرم ایجاد ہوتا ہے
چمن میں باغباں کے بھیس میں صیاد ہوتا ہے
روشنی کا لے کر نام لڑ رہے ہیں آپس میں
اس طرف بھی کچھ سائے اس طرف بھی کچھ سائے
وہ نبض کی رفتار کہ چھٹتے ہیں پسینے
لگتے نہیں دنیا ترے جینے کے قرینے
ملا کو یہ بھی احساس تھا کہ انسان فرشتہ صفت بھی ہوتا ہے اور شیطانی اثرات سے بھی پُر ہوتا ہے۔ وہ انسان کی ان دونوں صفات کا برملا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؎
یہ نیک بھی ہے بد بھی، شیطاں بھی فرشتہ بھی
انساں کو کیا کہئے ہر سطح پہ انساں ہے
نیکی و بدی کے خانوں کی ہر روز لکیریں مٹتی ہیں
زندہ دنیا کی نظروں کے میزان بدلتے جاتے ہیں
پیش نظر ہے اک گروۂ شکستہ پا
پوچھیں گے راہ اب نہ کسی رہ نما سے ہم
انسانیت اور انسان دوستی کے اوصاف کے بغیر کوئی انسان مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ در اصل نیک و بد کی تمیز اور اخوت و ہمدردی کا جذبہ ہی ایک انسان کو انسان دوست بناتا ہے۔ اور وہ انسانیت کے بلند مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
ہمیں آنند نرائن ملّا کی شاعری میں انسانیت کے لئے ایسا درد نظر آ رہا ہے، جس نے انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کیا اور جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ یہی ملا کی شاعری کی کامیابی کے لئے کافی ہے، جو آئندہ نسلوں کو سیراب کرتی رہے گی۔
٭٭٭
پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی ترجمہ نگاری
……… شاہ نواز فیاض
زبان ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی طرف لوگوں نے شروع ہی سے توجہ دی۔ اس کی اہمیت سے ان کار اس وقت بھی نہیں کیا گیا جب انسان اپنے ابتدائی دور میں بغیر کسی الجھاؤ کے جی رہا تھا۔ دنیا جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، اس کے مسائل بھی اسی طرح سے پنکھ بازو پھیلانے لگے۔ زبان انسانی ضرورت کی پہلی سیڑھی ہے۔ یہاں زبان سے مراد گوشت کے ایک ٹکڑے سے نہیں ہے، بلکہ وہ چیز ہے جس سے انسان اپنا اظہار کرتا ہے۔ وہ اشارہ بھی ہو سکتا ہے اور آواز کی صورت میں بھی۔ لیکن آخرالذکر اول الذکر سے زیادہ معنی خیز ہے اور اسی کے پیش نظر انسان اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی خوب سے خوب تر انداز میں ادا کرتا ہے۔ یہ تو ہوئی ہم زبان کی بات، لیکن وہ کون سا ذریعہ ہے، جس سے ہم ان لوگوں کی زبان سمجھ لیتے ہیں، جس سے ہم نابلد ہوتے ہیں۔ یقیناً وہ ترجمہ ہے۔ اب اس کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بات چیت کی حد تک، کسی اقتباس کو سمجھنے کی حد تک اور کسی کے تخیلات کو اس کے تمام تر بنیادی ضرورتوں کے ساتھ۔ ظاہر ہے کہ آخری حصے سے وہی لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں، جو دونوں زبانوں کی باریکیوں اور محاوروں پر پوری طرح قدرت رکھتے ہوں۔ ترجمہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے، چاہے اس کا تعلق ادب سے ہو، مذہب سے ہو، یا کسی دوسرے علوم و فنون سے۔ ہم نے اپنے مذہب کو جتنا بھی جانا وہ ترجمہ ہی کے ذریعہ جانا۔ اسی طرح سے ہم کبھی کسی ایسے شخص سے محو گفتگو ہوتے ہیں، جن کی زبان سے ہمیں بھرپور واقفیت نہیں ہوتی، وہ ترجمہ ہی ہے جو پہلے ہمارے دماغ میں ہوتا ہے، اس ترجمے کے ذریعہ ہم سامنے والے کی باتوں کا جواب دیتے ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا جائے گا، ہر میدان کی طرح ترجمے میں بھی وسعت اور بڑھے گی۔
اردو میں ادبی ترجمے کی روایت شروع سےر ہی ہے۔ یہ ترجمے جزوی نوعیت ہیں، یعنی کسی بھی مصنف کی پوری تصنیف کا ترجمہ نہیں ہوا۔ لیکن یہ روایت جب آگے بڑھی تو بڑے بڑے کارنامے وجود میں آئے۔ گولکنڈہ میں محمد قلی قطب شاہ کے زمانے میں حافظ کی کچھ غزلوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ لیکن بعد کے زمانے میں ترجمہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترجمے کے لیے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج اور حیدرآباد میں عثمانیہ یونیورسٹی کا وجود عمل میں آیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ کے ترجمے نہ جانے دنیا کی کتنی زبانوں میں ہو چکے ہیں، ایک زبان میں کئی کئی لوگوں نے اپنی اپنی فہم وفراست کے اعتبار سے ترجمہ اور تشریح کی ہے۔
اردو میں بہت سے ادیبوں کے فن پارے کا ترجمہ ہوا۔ انگریزی، بنگالی، ہندی، فارسی، عربی اسی طرح سے اور بھی بہت سی زبانوں کے ادب پارے کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ٹیگور کے فن پارے کا ایک بڑا حصہ اردو میں ترجمہ ہوا، ایسا نہیں ہے کہ صرف دوسری زبانوں کے ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے، بلکہ اردو کے ادیب وشاعر کے فن پاروں کا بھی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور اس ضمن میں اگر پنڈت آنند نرائن ملا کو دیکھا جائے تو ان کی ادبی زندگی کا آغاز ترجمے ہی کے ذریعہ ہوا۔ انھوں نے ابتدا میں غالب اور اقبال کے اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا، لیکن جب انھوں نے نہرو کے مضامین کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تو وہ ترجمہ نہ ہو کر اصل کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اور بحیثیت ترجمہ نگار ان کی جو بھی شہرت ہے وہ اسی کتاب ’’مضامین نہرو‘‘ کی وجہ سے ہے۔
آنند نرائن ملا کو اردو زبان و ادب کے ساتھ انگریزی زبان و ادب پربھی دسترس حاصل تھی۔ ترجمے کے لیے جن تین بنیادی چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، اگر آنند نرائن ملا کا یہ ترجمہ پڑھا جائے تو انداز ہوتا ہے کہ وہ ان شرطوں سے بخوبی واقف تھے۔ وہ تینوں شرط یہ ہیں : پہلی شرط جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے، اس زبان کی لغت، اصطلاحات، محاورات، لسانی تاریخ اور ادبیات پر عبور حاصل ہو۔ دوسرے یہ کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے، اس پر قدرت حاصل ہو، تاکہ اصل کو دوسری زبان میں بخوبی ترجمہ کیا جا سکے۔ تیسرے :خیال اور مفہوم کی پوری ادائیگی کے ساتھ ساتھ اصل موضوع سے مناسب حد تک بہرہ ور ہو۔ اب اگر اس ضمن میں دیکھا جائے تو آنند نرائن ملا اردو زبان و ادب، الفاظ و محاورے اور اس کے قواعد و ضوابط پر مکمل دسترس رکھتے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ انگریزی زبان میں بھی انھیں ملکہ حاصل تھا۔ ان کی شخصیت اور فکر و خیال کی عکاسی ان کے اس ترجمے سے بھی ہوتی ہے۔
آنند نرائن ملا کی عام شہرت و مقبولیت ایک ’’شاعر کی ہے۔ لیکن انھوں نے نثر میں بھی اپنی یادیں چھوڑی ہیں۔ کچھ نثر میں بھی، یہ ان کے خطبات، ریڈیائی ٹاکس اور کچھ دوسرے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مضامین چکبست کو انھوں مرتب کیا اور ’’مضامین نہرو‘‘ کے نام سے نہرو کے چند مضامین کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ ان کے پانچ شعری مجموعے ہیں۔ وہ الہ آباد ہائی کورٹ میں جج تھے۔ یوپی اردو اکادمی انھیں کی مرہون منت ہے۔ انجمن ترقی اردو سے وابستہ ہو کر انھوں نے بہت سے کام کیے۔ جے پور کے اجلاس میں انھوں نے جو بے باکانہ تقریر کی تھی، وہ ایک سچے محب اردو ہی سے ممکن ہے، ایک جج ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو زبان و ادب کی وکالت میں گزاری۔ وہ اردو کے کتنے بڑے شیدائی تھے کہ یہاں تک کہہ دیا کہ ’’میں مذہب چھوڑسکتا ہوں، لیکن اردو نہیں ‘‘ اس طرح کے جملے ان ہی سے ممکن ہیں، جنھیں دلی لگاؤ ہوتا ہے۔ اردو کے تئیں ان کی عقیدت و محبت کا اندازہ ان کے اس جملے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
آنند نرائن ملا ’’نہرو کے مضامین‘‘ کو ترجمہ کرتے وقت نہ صرف ان کے ذہن کو سامنے رکھا، بلکہ وہ پورا عہد اور سماج ان کے پیش نظر رہا ہو گا۔ کیوں کہ ملا مکمل طور پر نہرو کے ہم خیال، ہم جذبہ اور ہم قلم تھے۔ ہر زبان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، اس زبان کے مزاج کو پا لینا ترجمے کے سلسلے میں ایک اہم جز ہے۔ اسی لیے ملا کے ترجمہ شدہ مضامین بسا اوقات پڑھنے سے ان کا اپنا خیال معلوم ہوتا ہے۔ جس سلاست اور سادگی کے ساتھ انھوں نے ان چند مضامین کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، وہ کئی اعتبار سے کافی اہم ہے۔ اس کتاب میں کل 13مضامین شامل ہیں۔ جن میں سے پانچ مضامین (۱)ٹرین میں (2)اپنے دوستوں اور نکتہ چینوں سے (3) تامل ناڈو کو خیرباد کہتے ہوئے (4)کانگریس اور اشتراکیت (5)پیامات، انتخاب کے موقع پر، کو احتشام حسین نے ترجمہ کیا ہے اور ایک مضمون ’’زبان کا مسئلہ‘‘ صلاح الدین احمد نے کیا ہے۔ باقی سات مضامین کو انھوں نے خود کیا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت کن دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا، آنند نرائن ملا کی زبانی ملاحظہ ہو:
’’میرا خیال تھا کہ جو دشواریاں مجھے شروع شروع میں پیش آئی تھیں وہ آگے چل کر جب مجھے ترجمہ کرنے کی عادت ہو جائے گی، باقی نہ رہیں گی۔ لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا اور آخر وقت تک مجھے ان مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ اردو زبان پر مجھے کافی عبور نہیں۔ مجھے تو ہر جملے پر کافی اٹکنا پڑتا تھا اور جس طرح کوئی امتحان کا پرچہ کرتا ہے، اس طرح میں نے یہ ترجمہ کیا ہے۔ قدم قدم پر مجھے اردو کی ’کوتا ہی ٔداماں ‘ کا احساس ہوتا تھا اور کچھ دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس خیال کا اظہار اردو میں ناممکن ہے لیکن کسی نہ کسی طرح ترجمہ ہو ہی جاتا تھا اور میں آگے بڑھتا تھا۔ ‘‘
(مضامین نہرو، مترجم، آنند نرائن ملا، دہلی اردو اکادمی، 1992، صفحہ:17)
ان چند مضامین کے ترجمہ کا خیال ملا کے ذہن میں 1936-37 میں آیا اور یہ کتاب پہلی بار 1940 میں الہ آباد سے غلام ہندوستان میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت اردو اکاڈمیز کا وجود بھی نہیں تھا۔ لیکن دوسری بار آزاد بھارت میں تقریباً پچاس سال بعد یہ کتاب اردو اکادمی دہلی سے شائع ہوئی۔ آنند نرائن ملا ترجمہ کرتے وقت جن دشواریوں سے دوچار ہوئے، اس کا ذکر انھوں نے بہت صاف لفظوں میں واضح کر دیا ہے۔ اب ایک سوال ذہن میں یہ بھی اٹھتا ہے کہ نہرو نے تو بہت سے مضامین لکھے، لیکن آنند نرائن ملا نے انھیں چند کا کیوں انتخاب کیا؟ ان مضامین کو انتخاب کرتے وقت ان کے پیش نظر کیا تھا۔ اس تعلق سے انھوں نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’…انتخاب کرتے وقت میں نے دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھا ہے، اول تو میں نے وہ مضامین انتخاب کیے ہیں جو میری رائے میں ان کے شاہکار کہے جا سکتے ہیں، جن میں انھوں نے ہماری سیاسی یا اقتصادی زندگی کے اہم سوالات کا حل پیش کیا ہے اور پس پردہ کام کرنے والی حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہم ان کی رائے مانیں یا نہ مانیں۔ انھیں نتیجوں پر خود پہنچے یا نہ پہنچے۔ لیکن یہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو حل وہ پیش کرتے ہیں وہ ایک مخصوص نظریہ کی بہترین ترجمانی پیش کرتا ہے اور ہمارے لیے ان کی دلیلوں کا جواب دینا آسان نہیں۔ دوسرے وہ مضامین میں جن میں انھوں نے کسی قدر اپنی ذات کو نمایاں کیا ہے اور ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم ایک حد تک ان کے قریب پہنچ سکیں۔ ‘‘ (ایضاً، صفحہ:19)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخاب کرتے وقت آنند نرائن ملا کے پیش نظر نہرو کے حالات اور اس وقت کا پورا معاشرہ بشمول دیگر چیزوں کے رہا ہے، اس کتاب میں شامل پہلا مضمون ’’ہندوستان کدھر ہے ‘‘ اور آخری مضمون ’’حقیقت اور حکایت‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں دو مسجدیں، ایک جج کی ذہنیت، کانگریس اور مسلمان، کانگریس اور اشتراکیت، زبان کا مسئلہ، قید خانے کی دنیا، اپنے دوستوں اور نکتہ چینوں سے، سرمحمد اقبال کے سوالوں کا جواب، تامل ناڈو کو خیرباد کہتے ہوئے اور پیامات؛ انتخاب کے موقع پر، جیسے اہم مضامین شامل ہیں۔ مضامین کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب میں نہرو اور اس وقت کا پورا ہندوستان اپنے تمام تر بنیادی خصوصیات یا سوالوں کے ساتھ پوری طرح موجود ہے۔ یہاں ایک چیز کا ذکر ضروری ہے کہ آنند نرائن ملا نے لفظوں کے ساتھ خیالات و تصورات کو بھی ترجمے میں بروئے کار لایا ہے۔ زبان کی سادگی اور سلاست نے اس ترجمے کو اصل سے قریب تر کر دیا ہے۔ آنند نرائن ملا جواہر لال نہرو سے عمر میں دس سال سے زیادہ چھوٹے تھے۔ لیکن اس وقت کے حالات دونوں کی نظروں میں تھے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ملا نہرو سے سیاسی و سماجی اعتبار سے بھی قریب تھے۔ دونوں کی ملاقاتیں ہوتی تھیں اور دونوں بے تکلفی سے بات چیت بھی کرتے تھے۔ اس بے تکلفی کے سبب دونوں نے ایک دوسرے کے ذہن و خیالات کو پوری طرح سمجھ لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ملا نے ترجمہ شروع کیا تو خیالات دوہرے ہو گئے، اس لیے ان مضامین میں اور بھی گہرائی و گیرائی پیدا ہو گئی۔ ’ہندوستان کدھر ہے ‘میں مشرق اور مغرب کا فرق نمایاں کیا ہے، ملا نے ترجمہ کرتے وقت جن لفظیات کا استعمال کیا ہے، اس سے انھوں نے ترجمے کو تخلیق سے بہت قریب کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ہم کو اکثر بتایا جاتا ہے کہ مشرق اور مغرب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مغرب کو مادہ پرست کہا جاتا ہے اور مشرق کو روحانیت اور مذہب کا گہوارہ قرار دیا جاتا ہے۔ لفظ مشرق سے در اصل کیا مراد ہے، اس کا پتہ بڑی مشکل سے چلتا ہے کیوں کہ اس لفظ میں عربی ریگستانوں کے بدو، ہندوستان کے ہندو، سائبریا کے جنوبی میدانوں کے خانہ بدوش، منگولیا کی گل بان قومیں، چین کے اسلاف پرست کافر اور جاپان کے پشتینی امراء سب شامل ہیں۔ ان مختلف ایشیائی ممالک میں بھی یورپ کے ملکوں کی طرح بڑے زبردست قومی اور معاشرتی اختلافات موجود ہیں۔ لیکن مشرق اور مغرب دو بالکل مختلف چیزوں کی حیثیت سے محض ان لوگوں کے دماغ میں ہیں جو یا تو سامراجی حکومت کے لیے بہانے تلاش کرتے ہیں یا جن کو یہ خیال بطور قصہ یا روایت کے اپنے پریشان خیال بزرگوں سے ترکہ میں ملا ہے۔ اختلافات تو یقیناً ہیں لیکن یہ زیادہ تر اقتصادی ترقی کی مختلف منزلوں پر ہونے کی وجہ سے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً صفحہ:27-28)
یہ ترجمہ نہرو کے الفاظ کے اور خیالات سے کتنا قریب ہے، اس کا اندازہ اصل متن سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ نہرو کے الفاظ درج ذیل ہیں :
We are often told that there is a world of difference between the East and the West. The West is said to be materialistic, the East spiritual, religious, etc. What exactly the East signifies is seldom indicated, for the East includes the Bedouins of the Arabian deserts, the Hindus of India, the nomads of the Siberian Steppes, the pastoral tribes of Mongolia, the typically irreligious Confucians of China, and the Samurai of Japan. There are tremendous national and cultural differences between the different countries of Asia as well as of Europe; but there is no such thing as East and West except in the minds of those who wish to make.
(Recent Essays and writings. by Jawahar lal Nehru, Kitabistan Allahabad 1934, Pg.9)
درج بالا اصل متن کے ساتھ اگر ترجمہ پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنند نرائن ملا کو دونوں زبانوں پر یکساں دسترس حاصل تھی۔ کیونکہ جتنی خوبصورتی اور سادگی سے نہرو نے اپنی بات کہی ہے، اسی ذہنیت اور سادگی کے ساتھ خیالات نہرو کو اردو داں طبقے کے لیے ترجمہ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ لفظی ترجمہ کے علاوہ ملا نے مفہوم کی ادائیگی پر خاص دھیان دیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان انگریزی میں (Whither India?) ہے اور اس کا ترجمہ ملا نے ’’ہندوستان کدھر ہے ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ Whither کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ بطور خاص کدھر کے ساتھ کہاں بھی، لیکن ملا کی نظریں اس باریک فرق سے پوری طرح واقف تھیں کہ دونوں کے بیچ میں کیا نمایاں فرق ہے۔ ترجمہ کے جن بنیادی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے، آنند نرائن ملا اس سے واقف تھے۔ جس زمانے میں نہرو نے یہ مضمون لکھا تھا، اس وقت مشرق و مغرب میں بہت نمایاں فرق تھا۔ مشرقی تہذیب اور پاکیزگی کی مثال دی جاتی تھی۔ لیکن مغرب میں کچھ غروب نہیں ہوا، وہ اپنی اسی حالت میں مزید اضافے کے ساتھ برقرار ہیں، البتہ وہاں کا رہن سہن اور دیگر چیزیں مشرق میں بھی طلوع ہو گئی ہیں۔ کم یا زیادہ، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ البتہ گاؤں دیہات کے لوگوں نے اپنی مشرقی تہذیب کو مغربی تہذیب سے اب بھی بہت حد تک دور رکھا ہے۔ ہم اپنی بہت سی تہذیبی وراثت فیشن کے نام پر ختم کرنے کے درپے ہیں، لیکن ہم جسے ختم کرنا چاہتے ہیں، در اصل وہ ہماری شناخت ہے اور انسان کو کبھی بھی اپنی شناخت نہیں ختم کرنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ نہرو کے پیش نظر مشرقی اور مغربی تہذیب کا نمایاں فرق تھا۔ اسی لیے انھوں نے اس حوالے سے گفتگو نہ کر کے سیاسی نقطۂ نگاہ سے بات کی ہے۔ قومی و معاشرتی اختلافات ہر جگہ اور ہمیشہ سے رہے ہیں، لیکن اس اختلاف کے باوجود اپنی شناخت ختم کرنے کا تصور کبھی بھی نہیں رہا ہو گا۔ اب ہم جسے ترقی کا نام دے رہے ہیں، اس میں بہت سی چیزیں وقتی ہیں اور سماجی و طرح سے پنکھ وترقئوہ عمعاشرتی طور پر اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑ رہ ہے، بات جو بھی ہو ملا نے نہرو کے خیالات کو انھیں کے پیرائے میں اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ وہ دونوں زبانوں کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔
پنڈت نہرو اپنے ایک مضمون ’’سرمحمد اقبال کے سوالوں کا جواب‘‘ میں کہتے ہیں کہ میں مذہب کے نام پر ہندوستان کو تقسیم ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ البتہ موجودہ صوبوں کی ساخت اور شکل تبدیل کر دی جائے تاکہ خاص گروہوں کو اپنی تہذیب کو ترقی دینے کا پورا موقع ملے۔ یہاں خاص گروہوں سے کیا مراد ہے ؟ اور کونسے تہذیبی اقدار ساتھ رہ کر پامال ہو رہے تھے، جس کو ترقی دینے کی بات کر رہے ہیں۔ صوبوں کی ساخت اور شکل تبدیل کرنے سے کیا مراد ہے ؟ جس کے قائل وہ بالواسطہ نہیں بلاواسطہ دکھ رہے ہیں۔ نہرو کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
Nor do I believe in the religious distribution of India. Such divisions are most undesirable and cannot take place in the modern world. But I am not against redistribution or reshaping of different provinces which will give different cultural groups the fullest opportunity for self-development. (Ibid-P.No.60)
اس مضمون کو پنڈت نہرو نے 1937 کے آخر میں لکھا تھا۔ اب آنند نرائن ملا نے اس کا جو ترجمہ کیا ہے، وہ ملاحظہ ہو تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان کا ترجمہ نہرو کے اصل متن سے کتنا قریب ہے۔
’’میں ہندوستان کو مذہبی طور پر تقسیم کرنے کا بھی قائل نہیں ہوں۔ ایسے فرق پیدا کرنا نہایت نامناسب ہیں اور موجودہ دنیا میں ان کی کوئی گنجائش نہیں لیکن میں اس کے مخالف نہیں ہوں کہ موجودہ صوبوں کی ساخت اور شکل تبدیل کر دی جائے تاکہ خاص گروہوں کو اپنی تہذیب کو ترقی دینے کا پورا موقع ملے۔ ‘‘ (مضامین نہرو، صفحہ:53)
اصل متن اور ترجمے کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پنڈت نہرو نے لفظی ترجمہ نہ کر کے اس پورے خیال کو اردو کے قابل میں ڈھالا ہے۔ ورنہ سیدھے سیدھے کہتے کہ ’’میں ہندوستان کو مذہبی طور پر تقسیم کرنے کا قائل نہیں ہوں ‘‘۔ بھی لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر ’’بھی‘‘ کے ساتھ ہی ترجمہ کرنا تھا تو پھر ’میں اس کے مخالف نہیں ہوں ‘‘کے بجائے ’’ اس کا مخالف بھی نہیں ہوں ‘‘کرنا چاہیے تھا۔ تاکہ مفہوم اور واضح ہو سکے۔ اسی طرح سے پنڈت نہرو نے ’’Modern world‘‘ لکھا ہے اور ملا نے اس کا ترجمہ ’’موجودہ دنیا‘‘ کیا ہے، جب کہ اس کو ’’ترقی یافتہ دور‘‘ بھی لکھ سکتے تھے، اسی طرح کی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ البتہ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ کسی کے تخیل کو اس کے پورے رموز و اوقاف کے ساتھ ترجمہ کیا جائے۔ پنڈت آنند نرائن ملا نے ترجمے میں بہت حد تک اصل کی پیروی کی ہے۔ معنی و مفہوم کی ترسیل کے ساتھ زبان و بیان کی شگفتگی کو بھی پوری طرح قائم رکھا ہے۔
بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں ترجمے کی جو روایت ہے، آنند نرائن ملا نے اس روایت کو اور بھی استحکام بخشا۔ ویسے انھوں نے اس میدان میں بہت زیادہ کچھ نہیں کیا۔ لیکن جو بھی ہے وہ مختصر اور جامع کی مثال ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے لیکن انھوں نے ترجمے میں کمال کا فنی مظاہرہ کیا۔ ملانے انگریزی الفاظ کے اردو مترادف موقع محل اور مناسبت کے لحاظ سے استعمال کیا ہے۔ ملا نے اپنے ترجمے میں انگریزی کے طویل جملوں کو مختصر اور مسلسل جملوں میں اس طرح سے تبدیل کیا ہے کہ معنی زیادہ برجستہ اور قوت کے ساتھ واضح ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پنڈت آنند نرائن ملا نے ترجمے میں خلاقانہ شان کا ثبوت دیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملا کے ترجمہ شدہ حصے کو تلاش کر کے شائع کیا جائے، جو اب تک پردۂ خفا میں ہیں، تاکہ بحیثیت ترجمہ نگار ان کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔
٭٭٭
آنند نرائن ملا کی چند شخصی نظمیں
……… سلمان فیصل
ّٓ اس جہان آب و گِل میں انسان کی آمدورفت کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ انھیں میں کچھ ہستیاں اپنی انفرادیت قائم کر کے باقی ماندہ لوگوں کے دلوں میں اپنی انسان دوستی اور کارنامے کی چھاپ چھوڑ جاتی ہیں۔ جب ایسے لوگ وفات پاتے ہیں تو ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے خیالات کا منظوم اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگ نثر میں اپنے جذبات کو بیان کرتے ہیں۔ اسی منظوم خراج عقیدت پیش کرنے والوں کی فہرست میں ایک نام آنند نرائن ملا کا بھی ہے۔ جنھوں نے مختلف شخصیات کی وفات پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ملا کی یہ نظمیں ایسی ہیں جنھیں مرثیے کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ملا نے جس طرح سے ان نظموں میں اپنے رنج و غم کا اظہار کیا ہے، وہ یقیناً ایک سچے عقیدتمند ہی سے ممکن ہے۔
آنند نرائن ملا نے ۹ شخصیات پر نظمیں لکھی ہیں۔ یہ شخصیتیں ہندوستان کی سیاست میں اہم مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔ ان میں سے سات نظمیں مرثیے کے درجے میں رکھی جا سکتی ہیں کیونکہ یہ ساتوں نظمیں مختلف لوگوں کی وفات پر لکھی گئی ہیں۔ تاریخی ترتیب سے ان سات نظموں کا مطالعہ کیا جائے، تو پہلی نظم موتی لال نہرو کی وفات پر لکھی گئی ہے۔ موتی لال نہرو کی وفات فروری ۱۹۳۱ میں ہوئی۔ آنند نرائن ملا نے یہ شخصی مرثیہ کب لکھا اس کا تعین نہیں ہو پایا۔ کیونکہ ملا صاحب کا جو کلیات خلیق انجم نے مرتب کیا ہے اس میں ۱۹۲۷ سے ۱۹۳۵ تک کی نظموں اور غزلوں کو یکجا رکھا گیا ہے جس سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ نظم کس سنہ میں لکھی گئی ہے، لیکن بقیہ نظموں کے تاریخی تعین سے غالب گمان یہی ہے کہ یہ نظم بھی موتی لال نہرو کی وفات کے چند دنوں بعد ہی لکھی گئی ہو گی۔ یہ نظم ہیئت کے اعتبار سے مسدس میں ہے۔ پوری نظم گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ملا نے موتی لال نہرو کی شخصیت کے مختلف روپ کی عکاسی کی ہے۔ ان کی خدمات کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس عہد کا بھی احاطہ کیا ہے۔ اس نظم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ملا کو موتی لال نہرو سے گہرا لگاؤ تھا۔ وہ موتی لال نہرو سے حد درجہ متاثر تھے اور ان کی وفات سے ملا کوسخت صدمہ پہنچا، انھوں نے اپنے آئڈیل کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ چونکہ جس وقت موتی لال نہرو کی وفات ہوئی اس وقت جد و جہد آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی اور یہ تحریک اپنے مقصد میں کامیابی کی کرن بھی دیکھنے لگی تھی، اسی لیے پہلے ہی بند میں ملا نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب قوم کو اس کی منزل نظر آنے لگی تو وہ دنیا سے ہی اٹھ گیا۔
موجزن ہونے لگا تھا جب ذرا دریائے قوم
کچھ اثر جب کر چلا تھا نشہ صہبائے قوم
جب نظر آنے لگی تھی منزل فردائے قوم
اٹھ گیا دنیا سے اپنا رہنما اے وائے قوم
پھول جب کھلنے کو تھے صحن چمن ویراں ہوا
مہر اپنا جب سحر ہونے کی تھی پنہاں ہوا
دوسرے بند میں ملا نے کہا کہ جب موتی لال نہرو بستر مرگ پر تھے تو لوگوں نے خوب دعائیں کیں اور رحمت باری کے حضور سجدے بھی کیے مگر کارسازِ دو جہاں کی نیت ہی کچھ اور تھی اور وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ صرف جدا ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنے خون سے سرخیِ عنوانِ قوم بھی رقم کر گئے اور دفتر عصیانِ قوم کو بھی دھو دیا۔ ایسی ہمت رکھنے اور قوم پر جان نچھاور کرنے والے پر صد آفریں ہے۔ نظم کے اگلے بندوں میں ملا صاحب نے موتی لال نہرو کے کمالات اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی ہندوستان کی تاریخ رقم کی جائے گی تمھارا ذکر لازمی طور پر مائیں اپنے بچوں کو اس با وقار مدبر و مفکر کا قصہ بیان کریں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ
مثل تیرے اب رموز سلطنت سمجھے گا کون
ہاتھ نبض قوم پر تیری طرح رکھے گا کون
نقدِ جوشِ دل عیارِ قوم پر پرکھے گا کون
طاقتِ پر خواہشِ پرواز میں تو لے گا کون
تو ہی اک محرم تھا سب کے پردہ ہائے ساز کا
نغمہ سارا تھا تری گونجی ہوئی آواز کا
ملا نے اس نظم میں موتی لال نہرو کی شخصیت کے مختلف رنگ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کھدر کا لباس پہننا، بات چیت کے دوران طبیعت میں ابال آنا اور بحث و تکرار میں غیض و جلال سے بھر جانا لیکن پھر بھی دل میں کدورت نہ رکھنا ان کے اخلاق حسنہ کی ایک علامت تھی۔ نیز صرف قوم کے مستقبل کی فکر میں ڈوبے رہنا ان کی عادت تھی ایسے شخص کی موت پر ملا صاحب کا یہ خراج عقیدت کہ!
کون کہتا ہے ہمیں اس سانحہ کا غم نہیں
موت تیری اک بلائے ناگہاں سے کم نہیں
جہد آزادی میں لیکن فرصتِ یک دم نہیں
ہاں صفِ میداں کے شایاں محفل ماتم نہیں
یہ پوری نظم جذبات ملّاسے پر اور حسنات نہرو سے مملو ہے بیانیہ سادہ اور عام فہم ہے۔
ملا کی دوسری نظم ’’نذر ٹیگور‘‘ ہے۔ یہ نظم نومبر ۱۹۴۱ میں لکھی گئی ہے۔ ٹیگور کا انتقال اگست ۱۹۴۱ میں ہوا تھا۔ ٹیگور پہلے ہندوستانی ادیب ہیں جنھیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ان کی وفات پر کثیر تعداد میں لوگوں نے اپنے جذبات کا اظہار مختلف پیرایوں میں کیا۔ اُس وقت اردو میں کئی نظمیں ٹیگور پر لکھی گئی تھیں۔ آنند نرائن ملا نے بھی ’’ نذر ٹیگور‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہہ کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس نظم میں کل دس بند ہیں۔ اس نظم میں ملا نے ٹیگور کو شاعر اعظم کہہ کر خطاب کیا ہے۔ نظم کا پہلا بند ملاحظہ ہو!
خوشا وہ یاد جو لائی زباں پہ نام ترا
وطن کے شاعر اعظم تجھے سلام مرا
تجھے چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
سحر کی مست ہوائیں سلام کہتی ہیں
یہ اودی اودی گھٹائیں سلام کہتی ہیں
کہ ذرہ ذرہ پہ برسا ہے ابر جام ترا
خوشا وہ یاد جو لائی زباں پہ نام ترا
اس پوری نظم میں ٹیگور کی تعریف کے پل باندھے گئے ہیں اور انھیں ملا نے اوج ثریا پر بٹھا یا ہے۔ بہر حال ٹیگور کی ادبی خدمات کے اعتراف میں جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہی ہیں لیکن پھر بھی ملا نے اس میں غلو سے کام لیا ہے یہ بند ملاحظہ ہو۔
بلند طائرِ سدرہ سے آشیاں تیرا
نظامِ شمس و قمر پیش آستاں تیرا
ستارے روندتا چلتا ہے کارواں تیرا
کہ روح قدس کے پہلو میں ہے مقام ترا
خوشا وہ یاد جو لائی زباں پہ نام ترا
اسی طرح دیگر بند میں بھی ٹیگور کی خدمات کے اعتراف میں ملا نے اپنے کلام کا جو ہر دکھاتے ہوئے ایک بند میں ٹیگور کو جہاں کے دشت میں تخیلِ جوئے آب، دلوں کے آفتاب اور جو ابھی تشنۂ تعبیر ہے وہ خواب بتایا ہے۔ ایک دوسرے بند کے مطابق ٹیگور کے ترانوں میں سردوِ عشق جواں ہے اور اس کے افسانوں میں حیات رقصِ کناں ہے اور اس کا کلام ترنم کی ایک بہشت ہے۔ ملا نے ٹیگور کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ!
کدورتوں پہ سدا خاک ڈالنے والا
خصومتوں کو محبت میں ڈھالنے والا
دلوں سے درد کا کانٹا نکالنے والا
سکون و امن کا حامل ہے ہر پیام ترا
خوشا وہ یاد جو لائی زباں پہ نام ترا
نظم کے آخری بند میں ملا نے ٹیگور کی زندگی کو رشک بھری زندگی کہا ہے اور موت بھی آئی تو
ملی وہ موت کہ جس پہ حیات رشک کرے
نظم کا جو ابتدائیہ تھا وہ ہی آخری بند کے بعد اختتامیہ بھی ہے گویا کہ ملا نے نظم جہاں سے شروع کی تھی وہیں ختم بھی کی ہے۔ یہ پوری نظم ٹیگور کی تعریف و توصیف سے بھری ہوئی ہے ان کی کیا کیا خدمات تھیں اور کس کس میدان میں انھوں نے اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے، اس کا بیان کم ہی ہے، ملا نے صرف تعریف و توصیف میں ہی اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے۔
ملا کی ایک اور نظم ’’سروجنی نائڈو‘‘ ہے۔ یہ نظم اپریل ۱۹۴۹ میں بلبل ہند سروجنی نائڈو کی وفات پر لکھی گئی ہے۔ یہ نظم مربع کی ہیئت میں ہے۔ اس میں کل دس بند ہیں۔ نظم کی ابتدا میں ایک شعر ہے اس کے بعد چار چار بیتوں پر ایک ایک بند مشتمل ہے۔ جس میں پہلے تین مصرعے ہم قافیہ ہیں اور چوتھا مصرع نظم کے ابتدائی شعر کے ہم قافیہ و ہم ردیف ہے۔ آنند نرائن ملا نے اس نظم میں نائڈو کی وفات پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خوبیاں اور صفات حسنہ بیان کی ہیں۔ اور ان کے بارے میں تعریفی و توصیفی کلمات کہے ہیں۔ نظم کی ابتدا اس شعر سے ہوئی ہے !
چمن کا موج تبسم چمن کا سلام تجھے
گلوں کا روح گل ویاسمن سلام تجھے
نائڈو پر سلام بھیجنے کے ساتھ نظم کا جو آغاز ہوا تو یہ سلام ہر بند کے آخری مصرع میں ہے۔ نظم کے پہلے بند میں آنند نرائن ملا نے کہا ہے کہ نائڈو کے سخن کے ذریعے سنوارے گئے دماغوں، ان کی نظر کے جلائے چراغوں اور ان کی یاد سے روشن جگر کے داغوں کا انجمن کی گمشدہ شمع کو سلام ہے، اسی طرح دوسرے بند میں یہ ذکر کہ نائڈو کے حسین نغموں کو تارے اڑا لے گئے جو کہ گداز جگر کے آتشیں نغمے تھے، جنھیں اب یہ سرزمیں سُن نہ سکے گی۔ وطن کے سازمیں ایساسرور پیدا کرنے والے کو سلام۔ اسی طرح نظم کے اگلے دیگر بندوں میں ان کی خوبیوں کا برملا اظہار ہے۔ مثلاً یہ بند ملاحظہ ہوں !
نگاہ و دل تھے محبت سے سربسر معمور
طہارت نفس آلائشوں سے کو سوں دور
جو نام کو بھی نہیں شعلہ خو وہ خالص نور
طلوع صبح کی سیمیں کرن سلام تجھے
ملا کے بقول سروجنی نائڈو شمع کا جمال، پروانے کا گداز، ادائے ناز، ادب کی جان اور داب نواز تھیں۔ ایسے سخن طراز اور عروس سخن کو سلام ہے، انھیں پر کعبہ و صنم خانے کے حد کا خاتمہ ہے۔ یہ تو مترنم دلوں کی سلطانہ تھی جو شیخ کی زبان اور برہمن کا لب دونوں تھی ایسی شخصیت کو ملانے سلام پیش کیا۔ ملا نے ایک اور بند میں بلبل ہند کی شیرینی زبان اور ترنم کا ذکر ایک الگ انداز میں کیا ہے۔ بند ملاحظہ ہو!
خیال و فکر کی دنیا تری اسیر کمند
صف حیات میں انسانیت کا قد بلند
نبات لب میں سموئے سی شرق و غرب کے قند
شکر فروشِ جدید و کہن سلام تجھے
یہ وہی سروجنی نائڈو ہیں جنھوں نے غرورِ قومیت و دین کے کو ہساروں، نفاق نسل و تمدن کے ریگزاروں اور حیات جہاں کے الگ الگ دھاروں میں ترانۂ دلِ گنگ و جمن گایا ہے۔ ایسی ملکۂ آواز کو سلام۔ الغرض پوری نظم میں آنند نرائن ملا نے عقیدت سے ان کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ اور ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا تے ہوئے غلوسے کام لیا ہے۔ نظم کے آخری بند کے بعد نظم کا اختتام اسی شعر پر ہوتا ہے، جس سے نظم کا آغاز ہوا تھا۔ اس پوری نظم میں یوں تو کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن یہ نظم دلی جذبات کے اظہار میں برجستہ لکھی گئی ہے۔
’’سردار پٹیل‘‘ کے عنوان سے ملا کا ایک اور شخصی مرثیہ ہے۔ مسدس کی ہیئت میں چار بند پر مشتمل ایک مختصر سی نظم ہے، جس میں آنند نرائن ملا نے گاندھی جی، بلبل ہند اورسردار پٹیل کی وفات پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اچھے لوگوں سے دنیا خالی ہو رہی ہے اور اب سردار کی باری بھی آ گئی ہے۔ پہلے ہی بند میں ملا نے کہا ہے، ساحل پر ایک اور کشتی غرق ہوئی، ایک اور گوہر خاک میں مل گیا، اک اور مہر درخشاں رات کی نذر ہوا۔ جس کی وجہ سے مقتل زیست میں ایک کاری چوٹ لگی ہے اور سردار کی باری پر قوم ماتم کناں ہے۔ دوسرے بند میں ملا نے سردار کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے ان کی زندگی کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بند ملاحظہ ہو!
کون سرداروہی راہ نمائے کامل
رزم میں شیر صفت، بزم میں ساز محفل
پیکر سنگ میں پگھلے ہوئے فولاد کا دل
جس کے ناخن سے لرزتی تھی کوئی ہو مشکل
مادر ہند مجھے تجھ پہ ترس آتا ہے
آج یہ لعل بھی ہاتھوں سے ترے جاتا ہے
اس بند میں سردار کو راہ نمائے کامل، رزم میں شیر صفت، بزم میں ساز محفل اور پیکر سنگ میں پگھلے ہوئے فولاد کا دل کہا گیا ہے اور ایسے شخص پر مادر ہند کو ترس آتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے ایک اور لعل چلا جاتا ہے، نظم کا بیانیہ بہت سادہ ہے۔ اسی طرح تیسرے بند میں مادر ہند کو مخاطب کر کے ملا کہتے ہیں تری تقدیر تری عظمت تری طاقت تری توقیر تو گاندھی جی کے ساتھ گئی، بلبل ہند گئی تو شوخی تقریر بھی لے گئی اور اب جو سردار گیا تو شمشیر بھی گئی گویا کہ بزم خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ملا کے مطابق اب ’’نہرو‘‘ کے اجالے کے سوا کچھ بھی نہیں اور آخری بند میں اس بات پر نظم کا اختتام ہوتا ہے کہ فرد فانی ہے انجمن زندہ رہتی ہیں۔ شخص چلے جاتے ہیں مگر ان کے کارنامے زندہ اور پائندہ رہتے ہیں۔ اسی طرح سردار کا نام بھی سینوں سے مٹ نہ سکے گا اور موت تو سردار کی آئی ہے مگر اس کے افسانے زندہ ہیں ان کا انجام نہیں ہے۔ ملا کی یہ خاصیت ہے کہ جس پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے ان کو اوج ثریا پر چڑھایا ہے۔ اسی قسم کی یہ نظم ’’ سردار پٹیل‘‘ بھی ہے۔
صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کی وفات پر آنند نرائن ملا نے جو نظم لکھی اس کا عنوان ’’بوئے گم شدہ ‘‘ رکھا۔ یہ نظم غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ ملا نے اب تک جو شخصی مرثیے لکھے تھے وہ مسدس، مخمس اور مربع میں تھے۔ لیکن یہاں انھوں نے غزل کی ہیئت کا انتخاب کیا ہے۔ غزل کے فارم میں نظم کا مطلع ملاحظہ ہو!
اٹھ گیا وہ جو تھا اک عارف کامل ساقی
مرد درویش کا پہلو میں لیے دل ساقی
ملا نے ڈاکٹر صاحب کو عارف کامل بتایا۔ جس کے پہلو میں مرد درویش کا دل ہے۔ وہ شخص پاک دل پاک نفس ہے اور اس کے دیدہ بینا میں تمیز حق و باطل کا میزان ہے۔ شاعر ڈاکٹر صاحب کی وفات پر اپنے رنج و غم کو دور کرنے کے لیے مے خانے میں ہے اور ساقی سے محو گفتگو ہے اور گفتگو میں صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب کی خوبیاں ہیں وہ ان خوبیوں کو یاد کر کر کے اپنے دل کو سکون عطا کرنا چاہ رہا ہے۔ ملا نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اگلے اشعار میں کہا ہے کہ!
سادگی، جو نہ تھی کم مایگی رنگ کا نام
بلکہ وہ جس میں ہر اک رنگ تھا شامل ساقی
عجز وہ جو نہ تھا اک جھوٹی رعونت کی نقاب
بلکہ دانش کی تھی جو آخری منزل ساقی
وہ توازن کہ جو کوتاہی احساس نہ تھا
بلکہ تہذیب دل و ذہن کا حاصل ساقی
کوئے دشنام میں آیا لیے ہونٹوں پہ سرود
سنگ و آہن کی دکانوں میں لیے دل ساقی
آنند نرائن ملا نے ڈاکٹر صاحب کی کئی خوبیوں کا ذکر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ!
صف اول سے اٹھا ایک ہی مے خوار فقط
کتنی سنساں ہے لیکن تری محفل ساقی
ایک ہی شمع بجھی موت کے ہاتھوں لیکن
کتنی تاریک ہوئی قوم کی منزل ساقی
اور پھر نظم کے آخر میں یہ کہا کہ
اک کلی آئی تھی خوشبو لیے کچھ دم کے لیے
وہ گئی پھر وہی کانٹوں کی ہے محفل ساقی
دفن ہو جائے نہ خوشبو بھی کہیں پھول کے ساتھ
یہی خوشبو تو ہے اس بزم کا حاصل ساقی
پوری نظم پڑھ جائیے غزل کا فارم ہونے کے ناطے ہر شعر کی ایک الگ دنیا ہے۔ لیکن تمام اشعار میں ایک معنوی ربط اور تسلسل برقرار ہے، جو نظم کو آخر تک پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، اور آخر میں ایک احساس دل میں جاں گزیں ہوتا ہے کہ وہ تو چلا گیا لیکن اپنی خوشبو چھوڑ گیا لیکن اس خوشبو پر تلوار لٹکی ہے کہ کہیں یہ بھی دفن نہ ہو جائے۔ جو کہ اس بزم کا حاصل ہے۔ پوری نظم میں ذاکر صاحب کا نام لیے بغیر ایک استعارے کے طور پر انھیں پیش کیا گیا ہے۔
آنند نرائن ملا نے جو آخری شخصی مرثیہ لکھا، وہ لال بہادر شاستری کی وفات پر تھا۔ یہ نظم ’’شہید امن‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ملا کی جو لانیِ طبع دیکھیے کہ انھوں نے پہلا شخصی مرثیہ مسدس کی ہیئت میں کہا۔ انھوں نے مخمس اور مربع والی ہیئت کا بھی استعمال کیا، ساتھ ہی ایک مرثیہ غزل کی ہیئت میں لکھا اور لال بہادر شاستری پر جو مرثیہ لکھا وہ آزاد نظم کی ہیئت میں لکھا۔ گویا کہ ملا ہیئت کے تجربے سے بھی گذرے ہیں۔ انھوں نے اپنی دیگر نظموں میں بھی ہیئت کے تجربے کیے ہیں۔ اس نظم میں کل پانچ بند ہیں۔ چونکہ لال بہادر شاستری کا انتقال اس وقت کے سوویت یونین اور موجودہ ازبکستان کے تاشقند میں ہوا تھا اسے لیے ملا نے ہر بند کے ابتدا میں تاشقند کو مخاطب کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پہلے بند میں ملا نے تاشقند کو مخاطب کر کے کہا کہ اے تاشقند تیری مٹی میں مشرق کے باغ کی ایک ادھ کھلی نازک کلی آ کر سما گئی ہے۔ وہ ایسی کلی ہے جو پھول بھی نہ بن پائی۔ اس میں صرف مہک اور برگ ہی برگ ہیں، کانٹوں کا نام و نشان نہیں، اس کی سفیدی میں کسی رنگ کی شوخی بھی نہ چڑھ پائی، صرف اور صرف اس میں بھینی بھینی مہک تھی جو تاشقند کی وادی میں پہنچی اور وہاں کی سرزمین کو معطر کر گئی۔ یہ کلی استعارہ ہے لال بہادر شاستری کا۔ اسی طرح دوسرے بند میں ایک کرن کا ذکر ہے، جو مشرق سے آ کر تاشقند میں سوگئی ہے۔ وہ کرن اپنی چاندی میں سونا چھپائے صرف نور سے پر نور ہے۔ کرن میں ٹھنڈک ہے شعلہ نہیں۔ گویا کہ لال بہادر شاستری کی عجز و انکساری اور سادگی کی طرف استعاراتی طور پر اشارہ کیا گیا ہے۔
تیسرے بند میں لال بہادر شاستری کو ایک اچھوتے گیت سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں صرف شیرینی تھی۔ لفظوں کی کثافت کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ اور یہ گیت تاشقند کو انسان کے خوابوں کے ترانوں کی زمین بنا گیا۔ چوتھے بند میں شاستری کو اہنسا کے پیمبر کے دیس کا ایک مرد جواں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے کبھی جنگ نہیں چا ہی، بلکہ خونی جنگ کے پنجوں کو مروڑ کر صلح و آشتی کا اور امن و شانتی کا پیغام دیا ہے۔ نظم کا آخری بند ایک طرح سے خراج عقیدت ہے کہ آج سے تاشقند تم امن کی ایک زیارت گاہ ہو۔ محبت کا مسکن ہو اور یہ شرف نئے بھارت کے ایک انمول رتن نے تمھیں بخشا ہے۔ آخری بند ملاحظہ ہو!
آج سے تو ہمیشہ کے لیے
اک زیارت گہ امن
اک محبت کا دیار
نئے بھارت نے جہاں اپنا اک انمول رتن
روس کی خاک کو نذرانہ دیا
امن عالم کے لیے
معبد انساں کے لیے
الغرض اس نظم کا تاثر یہ ہے کہ تاشقند کو لال بہادر شاستری نے ایک نیا اعزاز بخشا ہے۔ ان کی موت کا اس سرزمین پر واقع ہونا اس خطے کے لیے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔
مجموعی طور پر ملا ان نظموں پر ایک نظر غائر ڈالی جائے تو دو تین باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان نظموں میں ان شخصیات کے تئیں ملا کے جذبات کا غیر معمولی اظہار ہے۔ بلکہ عقیدت کی حد تک یہ معاملہ ہے۔ ملا نے جن شخصیت کا مرثیہ کہا ہے وہ سب کی سب سیاسی شخصیتیں تھیں۔ جب کہ ملا خود ایک جج تھے۔ رہبران وطن سے ان کا سابقہ رہا ہے بچپن سے انھیں دیکھا ہے اس لیے انھوں نے ان شخصیات کی وفات پر اپنے دلی رنج و غم کا اظہار نظم کی شکل میں کیا ہے۔ ملا نے جس سادگی سے اپنے خیالات کو شعری پیکر عطا کیا ہے، اس سے ان شخصیتوں کی زندگی کے مختلف حصے نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ بڑا فن کار وہی ہوتا ہے، جو خیالات کو فن کے ذریعہ زندہ و جاوید بنا دے۔ ملانے جس طرح سے مختلف اشخاص کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے وہ ان کے بڑے فنکار ہونے کی دلیل ہے۔ اردو کے بہت سے شعراء نے ملک کے سیاسی لوگوں کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے، لیکن بعض اعتبار سے ملا ان لوگوں میں ممتاز ہیں۔ ملا کے کلام میں اور بھی بہت سے ایسے موضوعات ہیں، جو لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملا کے کلام کو مطالعہ میں لایا جائے، تاکہ ایک فنکار کی حیثیت سے ان کے مقام کا تعین ہو سکے۔
٭٭٭
ملّاؔ کی نظموں میں سماج کا درد اور رومانی تخیل
……… اشفاق احمد عمر
تاریخ کی ابتدا سے ہی لکھنؤ اپنے دامن میں تمام لال و گوہر سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کی بنا پر ادبی دنیا میں اس کی ایک نمایاں حیثیت ہے۔ لکھنؤ نے جہاں ایک طرح لوگوں کو تہذیب و ثقافت، سنجیدگی، متانت، انکساری، اٹھنے، بیٹھنے اور کھانے پینے کا طور طریقہ اور سلیقہ سکھایا، وہیں دوسری جانب ادبی زندگی جینے، اور آپسی بھائی چارگی کے گر بھی سکھائے۔ دبستان لکھنؤ کی دریا دلی کا عالم یہ ہے کہ اس نے ادیبوں، شاعروں کو دہلی اجڑنے کے بعد اپنے ہاں پناہ بھی دی اور اردو ادب کو نیا حسن فراہم کیا، جس کی زرخیزی کے باعث آج اردو کا باغ ہرا بھرا اور لہلہاتا نظر آ رہا ہے۔ لکھنؤ وہ شہر ہے جس نے اردو ادب کے لیے تقریباً ۲۰۰ سال سے اوپر کا عرصہ وقف کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔ جس کے اثرات آج بھی یہاں کی آب و ہوا اور مقامی لوگوں میں تہذیب و ثقافت، لطافت و شائستگی کی شکل میں نظر آتی ہے۔
جب ہمارے ذہن میں لکھنؤ کا نام آتا ہے تو بے ساختہ زبان پر جسٹس پنڈت آنند نرائن ملاؔ کا نام آ ہی جاتا ہے۔ اگر ہم یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ۲۰ویں صدی کا آغاز ملا کی ولادت سے ہوتا ہے۔ جب ایک کشمیری پنڈت کے ہاں ایک ملا کی پیدائش ہوتی ہے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ پنڈت آگے چل کرانسانوں کے حق کے لیے جسٹس بنے گا اور اردو کی وکالت کرے گا ساتھ ہی اردو زبان و ادب کے دامن کو وسیع بنانے کے لیے تا عمر اردو کی خدمت کرے گا اور یہاں تک کہہ دیگا کہ ’’میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں اپنی مادری زبان نہیں ‘‘۔
سرور صاحب نے سچ کہا کہ ’’تہذیب، شائستگی، انسانیت، شرافت، خلوص، مروت، مشرقیت کے ساتھ ایک آفاقیت اگر یکجا دیکھنا ہے تو جسٹس پنڈت آنند نرائن ملاؔ کو دیکھ لیجیے ‘‘۔
ملا کی پیدائش رانی کٹٹرہ میں ۲۹ اکتوبر ۱۹۰۱ء کو ماہر قانون جگت نارائن ملا کے وہاں ہوئی تھی۔ ملا کے والد کا لکھنؤ میں طوطی بولتا تھا۔ ایک طویل عرصے تک وہ لکھنؤ بار کونسل کے چیئر مین بھی رہے۔ ملا کی ابتدائی تعلیم کے لیے فرنگی محل تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا گیا جو اس زمانے میں بہت مشہور و مقبول ہوا کرتا تھا۔ یہاں ان کے استاذ برکت اللہ رضا فرنگی محل رہے اور یہاں سے فارغ ہونے کے بعد موصوف جوبلی ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور۱۹۱۷ء میں ہائی اسکول کا امتحان اعزازی نمبرات سے پاس کیا۔ اس کے بعد کنگ کالج کا انتخاب عمل میں آیا جہاں سے ملا صاحب نے انٹرمیڈیٹ، بی اے اور انگریزی سے ایم اے کیا، پھر وکالت کا امتحان پاس کر لکھنؤ میں وکالت شروع کر دی۔ جس میں ان کے والد نے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کی۔ ملّا ایک بار ICSکے امتحان میں بھی شامل ہوئے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔
ملا کی شاعری کا آغاز سراج لکھنوی کی شاعری کو پڑھ کر ہوا، موصوف ان کے کلام سے بے حد متاثر تھے اور اسی دھن میں ۱۹۱۷ء میں شاعری شروع کر دی۔ لیکن ملا کی شاعری کا باضابطہ آغاز ۱۹۲۸ ء میں انگریزی زبان کی شاعری سے ہوا۔ اردو میں گنتی کے شاید کچھ ایسے شاعر ہوں گے جنھوں نے اپنے شاعری کا آغاز نظم سے کیا ہو۔ لیکن ملا نے شاعری کا آغاز نظم سے کیا، پر غزلیں سب سے زیادہ لکھیں۔ ملا کا کئی زبان پر گرفت ہونا ان کے لیے ہمیشہ سود مند رہا انھوں نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اقبالؔ اور انیسؔ کے کلام کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا۔ ملا غالبؔ ، انیس ؔ اور اقبالؔ ، چکبستؔ سے بھی متاثر ہوئے جس کے اثرات ملا کے کلام میں جا بجا نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
ملا نے اپنی زندگی میں کبھی اردو زبان کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا ا ور نہ ہی کسی کے سامنے اعلیٰ عہدے کے لیے گریہ و زاری کی۔ جیسے آج اور اس سے پہلے کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملا کے کلام کی اس طرح پذیرائی نہیں ہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کا قلق انھیں تا عمر رہا۔ جو ان کے شعروں میں بھی نظر آ ہی جاتا ہے۔ ملاحظہ کریں اردو سے ان کی محبت اور اپنے کلام کے لیے ان کی توقعات ؎
میرے سر میں ملا ؔ یہ خلل باقی ہے
آج گمنام ہوں لیکن ابھی کل باقی ہے
نقش پا سے مرے روشن نہ سہی راہِ ادب
میری تابانیِ کردار و عمل باقی ہے
اب آگے تیری قسمت ہے ائے قافلہ گمراہ بشر
میں نے تو اندھیری راہوں میں کچھ دیپ جلا کر چھوڑ دئے
لب مادر نے لوریاں جس میں سنائی تھیں
وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو
ملا انسان دوستی کے ہمیشہ قائل رہے جس کے اثرات ان کے کلام کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق و کردار میں بھی نظر آتے ہیں۔ ملا کی شاعری ان کی ذہنی پرورش ہے اور ان کے جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات کی عکاس بھی۔ ملا کے کلام میں تجربات و مشاہدات کی جو بو آتی ہے وہ بیرون ممالک کا سفر کرنے اور لوگوں کی چاپلوسی کرنے کا نتیجہ نہیں، بلکہ کورٹ کچہری اور جج کے عہدے پر فائز رہ کر ہر قسم کے لوگوں سے ملنے جلنے سے آئے ہیں اور اسی سے انھوں نے اپنے شاعری کو نئی زندگی اور ایک نیا ذہن فراہم کیا ہے۔ جو کسی کی محتاج نہیں بلکہ اپنا راستہ آپ نکال لینے کی طاقت رکھتی ہے۔ ان کے کلام میں محبت بھی ہے اور بغاوت بھی، اردو کے قتل ہونے کا درد بھی ہے اور لوگوں کے سوئے ہوئے ذہن کا افسوس بھی، ملا کے کلام لوگوں کے سوئے ہوئے ذہن کو بیدار بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے انقلابی بارود بھی بھرتے ہیں۔ ملا کے کلام میں جہاں ایک طرف امید کی لے نظر آتی ہے وہیں دوسری جانب سماج سے بہت ساری توقعات بھی۔ ملا کے ہاں ذات پات کی شاعری نہیں بلکہ وہ اپنے کلام کے ذریعہ ذات پات، اور دھرم نام کی چیزوں سے بہت دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے اشعار اردو پر ہونے والی گندی سیاست کا نوحہ بھی کرتے ہیں اور اردو زبان و ادب کے بہتر کل کی امید دل میں پالے ہوئے بھی ہیں ؎
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے
ستم اکثر بہ عنوان کرم ایجاد ہوتا ہے
چمن میں باغباں کے بھیس میں سیاد ہوتا ہے
دیا درد انساں کا احساس تجھ کو
کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو
ابھی روئے حقیقت پر پڑا ہے پردہ ایماں
ابھی انساں فقط ہندو مسلمان ہے جہاں میں
یہ کہہ کے آخر شب شمع ہو گئی خاموش
کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی
تیرگی بڑھ بڑھ کے تاروں کو بجھاتی ہی رہی
تیرگی کو چیر کرتا رے نکلتے ہی رہے
اظہار درد دل کا تھا اک نام شاعری
یاران بے خبر نے اسے فن بنا دیا
نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو
قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی
اک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں
پھر پونچھ کے اشک مسکرا لیں تو چلیں
آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو
اک آخری گیت اور گا لیں تو چلیں
ہاں سمجھتا ہوں بلندی میں نہاں ہے جو نشیب
پھر بھی کھاتا ہوں میں آج اپنی تمنا کا فریب
ایک سجدے کو شناسائے جبیں اور کروں
دل کا اصرار ہے اک بار یقیں اور کروں
ملا اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ ان کی شاعری جس طرح لوگوں کے دل کو موہ لیتی ہے ٹھیک اسی طرح ملا کے فیصلے ’’ جو انھوں نے جج رہ کر کئے ‘‘ بھی لوگوں کو اپنا مرید بنا لیتے ہیں۔ ان کے ہاں شوخی، متانت، سنجیدگی، فکر، گہرائی و گیرائی، انکساری، خاکساری اور قلندرانہ مزاج صرف شاعری میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ ان کی شخصیت کا ایک خاص حصہ بھی ہے۔ ملا وسیع النظر اور وسیع القلب کے ساتھ انسان دوستی کے بھی دل دادہ تھے ان کی دریا دلی کا یہ عالم تھا بقول خلیق انجم:
ــــ ’’ایک دفعہ ہمارے اسٹاف میں ایک چپراسی کی بیٹی کی شادی تھی۔ اس نے مجھے قرض کے لیے درخواست دی لیکن انجمن کے حالات اس طرح نہیں تھے کہ میں قرض دے سکتا۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تم ملا صاحب کے پاس چلے جاؤ وہ شاید کوئی راستہ نکال دیں۔ اس نے میرا کہنا مانا اور ملا صاحب کے پاس چلا گیا اور کچھ دیر بعد خوش خوش واپس آیا۔ کہنے لگا میں نے صرف چار ہزار روپے قرض مانگے تھے۔ ملا صاحب نے پانچ ہزار روپئے میری بیٹی کی شادی کے لیے دے دئیے ‘‘
یہ واقعہ بتا کے میں ملا صاحب کی طرف داری نہیں کر رہا بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کی دریا دلی ایسی بھی تھی۔ وہ صرف فتوح کے قائل نہ تھے بلکہ ان میں، اور ان کے کلام میں بھی تقویٰ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ملا اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز سے دو چار ہوئے لیکن اپنے اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ملا نے اپنی زندگی میں کئی کتابیں بھی تحریر کیں جن میں چھ شعری مجموعہ، ایک نثری تصانیف اور ایک ترجمہ بھی شامل ہے۔ ان کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں :
جوئے شیر ۱۹۴۹ء، کچھ ذرے کچھ تارے ۱۹۵۹ء، میری حدیث عمر گریزاں ۱۹۶۳ء، سیاہی کی ایک بوند ۱۹۷۲ء، کرب آگہی ۱۹۷۳ء، جادۂ ملا ۱۹۸۸ء، کچھ نثر میں بھی ۱۹۷۴ء، مضامین نہرو۱۹۳۹ء وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ملا کو کئی انعام و اکرام اور اعزازات سے بھی نوازا گیا، ملا کئی ادبی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاست کے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ عمر کے آخری ایام میں ملا دہلی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے لگے اور ۱۳
جون ۱۹۹۷ء کا وہ دن اردو ادب اور ملا کے چاہنے والوں کے لیے بری خبر لے کر آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۳۔ بلونت رائے مہتہ روڈ(فروز شاہ روڈ) پر ایک جم غفیر لگ جاتا ہے۔ اخباروں اور نیوز چینلوں میں ملا کے انتقال کی خبر سے اردو ادب پر ایک ماتم سا طاری ہو گیا۔
پنڈت آنند نرائن ملا کا ذکر کیے بغیر ۲۰ ویں صدی ادھوری نہیں بلکہ نا مکمل ہو گی۔ یوں تو ملا پیشے سے ایک وکیل تھے اور ایک طویل مدت تک جج بھی رہے لیکن پوری عمر موصوف نے اردو زبان کی بقا و تحفظ کے لیے لڑائی لڑی۔ ملا نے غزلیں بھی کہیں، ترجمے بھی کئے، قطعات بھی لکھے اور نظمیں بھی لکھیں۔ ملا کی نظموں میں کچھ ایسی نظمیں بھی ہیں جو رومان کے ساتھ ساتھ سماج کی روڑی وادی کو بہ حسن خوبی ظاہر کرتی ہیں۔ پر ہم نے ملا کی کچھ منتخب نظموں کو اپنی نظروں سے اور ادیب و ناقد کی تحریروں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ پرستار حسن، بیسوا، بہار کی رات، تم مجھے بھول جاؤ گے، سماج کا شکار، کافی ہاؤس، ٹھنڈی کافی، مریم ثانی وغیرہ قابل ذکر نظمیں ہیں۔
نظم ’’ پرستار حسن ‘‘ملا نے ۱۹۲۶ ء میں تخلیق کی یہ نظم ۱۱ بندوں پر مشتمل ہے۔ جو عشق و محبت کی داستان پر مبنی ہے۔ ہر بند معنویت سے لبریز ہے۔ کبھی عاشق اپنی محبوبہ سے شکایت کرتا ہے، تو کبھی محبوب کے حسن کو کئی ناموں سے مخاطب کر کے اسے خوش کرنا اور اس کی محبت پانا چاہتا ہے۔ بقول عبد الرشید ظہیری ’’انسان کی فطرت میں تلاش و ودیعت ہے اور اس کا منشا حسن مطلق پر رسائی ہے۔ انسان ناکام رہتا ہے کیوں کی عقل و دانش کی رہبری میں اس کی منزل دشوار تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن جہاں عقل کی تگ و دو ختم ہوئی اور وجدان سے کام لینا شروع کیا تو‘‘ ملاحظہ کریں نظم کے بند ؎
اپنے سوز غم کی شرحِ داستاں کیوں کر کروں
دل کی جو باتیں ہیں وہ نذر زباں کیوں کر کروں
بات جو مجھ سے بھی پنہا ہے بیاں کیوں کر کروں
اپنی ہستی کو زمانے پر عیاں کیوں کر کروں
درد دل کو غم کہوں، الفت کہوں، سودا کہوں
میں یہی حیران ہوں کس سے کہوں اور کیا کہوں
ائے شعاعِ برق زائے خاورِ پنہائے حسن
ائے شرابے دلگدازِ ساغرِ مینائے حسن
ائے شرار عقل سوزِ شعلۂ سینائے حسن
ائے نگاہِ فتنہ خیز دیدۂ بینائے حسن
تو نے سینہ میں یہ کیسا درد پیدا کر دیا
میری ہستی کو میرے دل سے شناسا کر دیا
آرزوئیں دل کی ساری بے خبر تھیں مستِ خواب
جانتا تھا کون کہتے ہیں کسے جوشِ شباب
یک بہ یک تو نے رُخِ پر نور سے الٹی نقاب
اک نظر میں ہاتھ سے جاتی رہی تسکین و تاب
غنچہ دل اک اشارے سے تیرے کھلنے لگا
مجھ کو رازِ آفرینش کا پتہ ملنے لگا
سامنے تھا جلوہ گر حسن ازل مستانہ وار
دل فریب و دل گداز و دل رُبا و دل شکار
آفتِ صبر و تحمل، دشمنِ صبر و قرار
اور کیا کرتا اگر کرتا نہ دل اپنا نثار
دل تھا یوسف اور اُدھر تھی دولتِ بیدارِ حُسن
کھینچ ہی لائی اسے آخر سرِ بازارِ حُسن
’’پرستار حسن‘‘ محبوب کے حسن اور اس کے ناز و نکھروں کی ساری پرتوں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ شاعر محبوب کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیتا ہے۔ کبھی اپنے محبوب سے شکایت کرتا ہے اور کبھی اس کے نالہ نہ ہو جانے کے لیے اس کی تعریف میں چاند، سورج، تارے اور زلیخا کے حسن کو بھی سامنے لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ ملا کے اس نظم میں اقبالؔ کی نظم ’’خضر راہ ‘‘کے پورے اثرات نظر آتے ہیں۔ وہی آب و تاب، وہی حسن، وہی انداز بیان، وہی فکر، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے پھر سے کوئی تازہ نظم لکھ دی۔ خلیق انجم کے ہاں ’’پرستارِ حسن‘‘ کا ایک الگ ہی منظر نظر آتا ہے :
’’ان کی پہلی نظم پرستار حسن ہے جس میں معنویت بھی ہے اور فکری عنصر بھی، اس نظم میں اظہار کی جو پختگی، لہجے کی متانت اور بیان کی جو تازہ کاری ہے وہ بے شمار شاعروں کو مدتوں مشقِ سخن کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی‘‘۔
’’پرستارِ حسن‘‘ ملا کی پہلی نظم ہے۔ گزشتہ اوراق پر اس بات کا ذکر آیا ہے کہ ملا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے نظم کہہ کر اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ عموماً اردو ادب میں شعر و شاعری کا آغاز غزلوں سے ہی کرتے ہیں، لیکن اس نظم کے مطالعہ سے یہ بات کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہوتی کہ ملا کی یہ پہلی تخلیق ہے۔ خیالات کا تنوع، فکر کی وسعت، معنویت، سماج کا درد و غم، انسانیت سے بے پناہ محبت، محبوب کے سامنے بے باقی سے سب کچھ کہہ دینے کا جذبہ، بے باکی اور جرأت عموماً ایک ساتھ ایک جگہ بہت کم لوگوں کے ہاں نظر آتی ہے۔
ملا کے ہاں حسن و عاشقی کے علاوہ سماج میں پھیلی ہوئی گندی روایات پر بھی گہری نظر ہے۔ ملا کی نظر میں عورت کا کردار ایک پاک صاف، بہ عزت اور بہ حیا ہے جو ہر کچھ تو برداشت کر سکتی ہے پر اپنے تن اور من کا سودا نہیں کر سکتی۔ پر کیا کریں یہ پیٹ کی بھوک اور بچوں کے چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں اور ہونٹوں پر پڑی ہوئی پپڑیاں کچھ بھی کرنے کو مجبور کر دیتی ہیں۔
ویسے تو اس موضوع پر لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے ہر کسی نے اپنے قلم کا زور ر دکھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تبھی تو ڈپٹی نذیر نے اپنے ناول ’’فسانۂ مبتلا‘‘ میں طوائف کے کردار کو بہ احسن ادا کیا، اور پھر سرفراز حسین نے ’’شاہد رعنا‘‘ اور مرزا رسوا نے ’’امراؤ جان‘‘ لکھ کر اردو ادب میں ایک آگ سی لگا دی پھر منشی پریم چند نے ’’بازار حسن ‘‘ اور قاضی عبد الغفار نے ’’لیلیٰ کے خطوط ‘‘لکھ کر کہرام مچا دیا۔
نظم ’’ بیسوا‘‘ تیرہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ملا کے پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے جسے ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۵ ء کے دوران لکھا گیا۔ یہ نظم ایک طوائف کی زبانی اس کی حقیقی کہانی ہے جو سماج کے White Collarلوگوں کی پول کھولنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو رات کے اندھیروں میں اور بند کمروں کے اندر کالی کرتوت کو کر لیتے ہیں اور دن کے اجالے میں سفید لباس زیب تن کر کے خود کو پاک صاف ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں اور انھیں ہی برا بھلا کہتے ہیں جن سے جسمانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔ نظم کے مطالعہ سے ایک عورت کس طرح طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے اور اس کے سامنے کیا کیا مصیبتیں اور کس کس طرح کی نگاہیں اٹھتی ہیں اس کا بخوبی اندازہ اس نظم سے ہو گا۔ ایک طوائف کو سماج کن نگاہوں سے دیکھتا ہے اور کتنا برا سمجھتا ہے کہ بات تو کرنا دور اس طرف سے نگاہ چرا کر نکل جاتا ہے جہاں وہ رہتی ہے۔ کبھی اس کے اندر کچوکے لگا رہے اس درد و غم میں ڈوب کر کچھ جاننے کا خواہاں نہیں ہوتا اور اس بات کا قلق اس بیسوا کو ہے جو اپنا جسم پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے لیے بیچا کرتی ہے۔ جب کی یہ بیسوا ان تمام لوگوں کی سیاح کاریوں کی راز دار بھی ہے پر اپنے درد و غم کا اظہار وہ کسی سے نہیں کر پاتی۔ بقول فراق گورکھپوری:یہ نظم عشق و حسن کی ایک سماجی ٹریجڈی پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظم کی فکری وسعت اور اس کی معنویت سے ملا کے بیدار ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملاحظہ کریں نظم کے کچھ بند
خوار ہوں بدنام ہوں، رسوا ہوں سرِ بازار
خاطرِ نازک پہ اہل بزم کی اک بار ہوں
کوئی مونس ہی نہیں جس کا میں وہ بیمار ہوں
میں وہ گل ہوں جو زمانہ کی نظر میں خار ہوں
اہل دنیا مجھ سے تم اتنے خفا رہتے ہو کیوں ؟
میں تو خود مظلوم ہوں مجھ کو برا کہتے ہو کیوں ؟
مجھ کو دیکھو میں تمھارے عیب کا پردہ رہی
آبرو والے رہو تم اس لیے رسوا رہی
زندگی بھر اک دلِ ہمدرد کی جو پا رہی
جائے عبرت ہے کہ میں محفل میں بھی تنہا رہی
جز ہو سنا کی جہاں میں اور کچھ دیکھا نہیں
سینکڑوں عشاق اور کوئی چاہنے والا نہیں
جب مرادوں پر ذرا میرا شباب آنے لگا
اک ذرا نظروں میں میری جب حجاب آنے لگا
کچھ سمجھ میں جب تمنا کا حساب آنے لگا
جاگتی آنکھوں میں اک الفت کا خواب آنے لگا
مجمعِ عشاق میں سرگوشیاں ہونے لگیں
کھل گیا نیلام میرا بولیاں ہونے لگیں
مثل تیرے میں اسیرِ حلقۂ زنجیر ہوں
عورتوں کی بے کسی کی میں بھی اک تصویر ہوں
رحم کے قابل ہوں میں شرمندۂ تقصیر ہوں
مجھ سے یوں نفرت نہ کر میں بھی تیری ہمشیر ہوں
گوہر نسوانیت کے کچھ نشاں مجھ میں بھی ہیں
عیب ہیں مجھ میں جہاں کچھ خوبیاں مجھ میں بھی ہیں
اپنے ہاتھوں اپنی ہستی کو مٹانا مجھ سے سیکھ
ہنستے ہنستے آگ دامن میں لگانا مجھ سے سیکھ
سوزِ خاطر کو زمانے سے چھپانا مجھ سے سیکھ
سینکڑوں غم لے کے دل میں مسکرانہ مجھ سے سیکھ
زندگی اپنی مجھے گو اک نظر بھاتی نہیں
میری پیشانی پہ بھولے سے شکن آتی نہیں
اس نظم کے مطالعہ کے بعد ہمیں سعادت حسن منٹو کی بے ساختہ یاد آتی ہے جس نے اپنے ذہن کی آبیاری اور اپنے قلم کے زور سے سماج کے منھ پر ایک زور طمانچا مارا تھا جس کی آواز اور درد سے آج بھی اردو ادب اور یہ سماج غافل نہیں۔ ملا کے کلام اور فکر میں ہمیں منٹو کی وہ فکر، بے چینی و پریشانی جیتی جاگتی اور سانس لیتی نظر آتی ہے۔ منٹو ہمیشہ اسی بات کو کہتا تھا کہ سماج میں پھیلی ہوئی اس گندگی کو منظر عام پر لایا جائے۔ جہاں بڑی ذات، نوابوں، راجاؤں اور جاگیر داروں اور ہر طبقے کا انسان جا کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ پر اسے گھن کی اور حقارت کی نگاہ سے کیوں دیکھتا ہے۔ اور اگر سچ میں وہ گندگی ہے تو اسے ڈھاپنا اور لیپا پوتی نہیں کرنی ہے بلکہ اسے منظر عام پر لانا ہے۔ یہ ہر فرد بشر کہ ذمہ داری ہے کہ اس گندگی کو مل جل کر ختم کریں۔ نظم میں اس بیسوا کا حسن بھی ہے جو رومانیت کا غماز ہے جس کے اندر ایک ساتھ ہزاروں کے کالے کرتوتوں کے راز پنہاں ہیں مگر ان سب کے راز و نیاز کو اپنے سینے میں اس طرح دفن کیے ہوئے ہے جیسے اسے کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ ملا اور منٹو کا عہد ایک ہی تھا اور دونوں انھیں چیزوں کو دیکھ رہے تھے جو مرض سماج کے لیے لاعلاج تھا اور اس سے دور کرنے کا کام جہاں ایک طرف ملا کی نظم کر رہی تھی وہیں دوسری جانب منٹو کے افسانے White collar لوگوں کی نیند کو حرام کیے ہوئے تھے۔
ملا کی اس نظم کو پڑھ کر مجھے ڈاکٹر آصفہ زمانی کے ایک مضمون کی یاد آتی ہے جنھوں نے ’’بیسوا‘‘کے تجزیہ کی شکل میں اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر ہیگو کی نظر میں عورت کی قدر و قیمت اور خدا تعلی نے اسے کس طرح بنایا پر بہت خوبصورت نثر میں شاعری کی ہے ملاحظہ کریں :عورت قدرت کا ایک حسین شاہکار۔ ۔ ۔ ۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ پھر خدا نے عورت کو بنانا چاہا۔ اس نے سوچا کی گندھی ہوئی مٹی تو ختم ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے عورت کو سب سے اہم کیوں نہ بنا دوں۔ یہ خیال آتے ہی خدا نے چاند سے اس کی چمک لی، سمندر سے اس کی گہرائی لی، موجوں سے گرمی، شبنم سے اس کی مسرور کن تراوت، سیماب سے بے قراری، چھوئی موئی سے نزاکت، گلاب سے رنگت اور دلکشی، شراب سے خمار، شہد سے حلاوت، سونے سے اس کی بھڑک، ہیرے سے اس کی سختی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیل گائے سے آنکھوں کا جادو، خرگوش سے شرم، قمری سے نغمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے ایک مجسمہ تیار کر کے اس کا نام ’’عورت ‘‘رکھا۔ فرشتوں نے پوچھا ائے خالق ارض و سما !تو نے اپنے پاس سے اس وجود میں کیا چیز شامل کی۔ خدا نے جواب دیا ’’محبت‘‘۔ اس پر فرشتے سر بہ سجو ہو گئے۔ پھر وہ عورت کو مرد کی دل بستگی کے لیے اس کے حوالے کر دیا‘‘
ملا کی ایک نظم ’’ بہار کی رات‘‘ ہے جس میں ملا کا رومانی تخیل اپنے شباب پر ہے۔ یہ نظم۴ بندوں پر مشتمل ہے جو پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۵ء کے دوران لکھی گئی۔ اس نظم کے کچھ اشعار رومان میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ پڑھنے والا دوسرے جہان کی سیر کرنے لگتا ہے اور اپنے محبوب مزاجی سے جا ملتا ہے۔ ملاحظہ کریں نظم کا پہلا بند
آ میری جان جلد آ، بس یہی رت ہے پیار کی
دل میں کھلی ہے چاندنی رات بھی ہے بہار کی
ملا کی شاعری میں ہمیں کئی طرح کے رنگ و آہنگ نظر آئیں گے کیوں کہ ملا کسی بھی موضوع کو نظر انداز کرنا نہیں جانتے تھے وہ اپنے کلام میں روح پھونکنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے۔ ملا کی ایک نظم ’’ تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘ کے عنوان سے ہے جس کا عنوان ہی محبوب اور عاشق کے درمیان میں چلی آ رہی برسوں پرانی روایت کی گواہی ہے۔ پہلے محبت، اور پھر بھول جانے کا ہنر کس قدر لوگوں میں گھر کر گیا ہے اس پر گہری ضرب کی گئی ہے۔ عبد الرشید ظہیری بقول:یہ نظم سوز و گداز سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا شعری بہاؤ ایک خاص نسائی کرب لیے ہوئے اپنی بے تابیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے ‘‘۔ اس نظم کے پڑھنے پر یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح شادی سے پہلے ہر عاشق اپنی محبوبہ کو بڑے بڑے خواب دکھاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم چاند، سورج، زلیخا سب ہو اور تم سا کوئی نہیں، لیکن بعد میں یہی محبوب، جو اب تک نعمت تھی زحمت لگنے لگتی ہے۔ ملا صاحب کی اس نظم کو پڑھنے کے بعد دور حاضر کی بہترین شاعرہ جو نسوانی ادب اور عورتوں کی بہترین نمائندگی کر رہی ہیں ان کا ایک شعر اس موقع پر چار چاند لگا دیگا۔ ملاحظہ کریں :
وہ جنوں کیا ہوا؟وہ وفا کیا ہوئی؟
اب تو چوڑی بھی لانے کی فرست نہیں
کس محبت سے کل تک یہ کہتے تھے تم
چاند تارے بھی لا دوں اگر تم کہو
موصوف نعیم صدیقی کی مرتبہ کتاب میں اس نظم( تم مجھے بھول جاؤ گے ) سے متعلق کچھ باتیں یو رقم طراز ہیں جس سے نظم کے مفہوم کی بہترین عکاسی ہوتی ہے :
ایک مشرقی عورت جو مرکز نگاہ سے رشتہ وفا باندھنے کی ریت پر چل رہی ہے۔ ٹوٹتی محبتوں اور بدلتی نظروں اور رخ بدلتے دلوں کے روز مرہ کے تلخ تجربات کے ہجوم سے گزرے ہوئے اعتماد کو کھو بیٹھتی ہے۔ مستقبل کے گہر میں اسے نامعلوم اندیشی اور خرخشے حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ٹھٹھک جاتی ہے، اور اپنے رفیق حیات کا ہاتھ پکڑ کر بڑی لجاجت سے یہ نغمہ الاپتی ہے ’’ تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘۔ ملاحظہ کریں نظم کے کچھ بند:
تم مجھے بھول جاؤ گے
رہ نہ سکے گا عمر بھر آج کا جوشِ اضطراب
آرزوؤں میں آئے گا کوئی ضرور انقلاب
پھر کوئی دوست ڈھونڈھ ہی لے گی نگاہِ انتخاب
زیست ہے زیست، دل ہے دل، اور شباب پھر شباب
عہد وفا ہے ایک خواب
تم مجھے بھول جاؤ گے
پھر سے نگار خانۂ شوق کو تم سجاؤ گے
پھر کسی بت کے واسطے فرشِ نظر بچھاؤ گے
آج کی بات کو کبھی خواب میں بھی نہ لاؤ گے
نام میرا اگر کوئی لے گا تو مسکراؤ گے
تم مجھے بھول جاؤ گے
تم مجھے بھول جاؤ گے
پورے نظم میں مردوں کی ذات اور کردار پر بھرپور کیچڑ اچھالا گیا ہے۔ کبھی انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے اور تھوڑے وقت گزر جانے کے بعد اسے بھی چھوڑ کر کسی اور کا ساتھ تھام لیتا ہے۔ مرد کی یہی حرکت کئی عورتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
ملا کی بہترین نظموں میں ایک نظم ’’سماج کا شکار ‘‘بھی ہے۔ اس نظم کا موضوع ہی سب کچھ بیان کرتا ہے۔ نظم ۶
بندوں پر مشتمل ہے جو پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم مارچ ۱۹۴۱ء میں منظر عام پر آئی اور سماج میں پھیلے ہوئے فسردہ نظام کے ڈھانچے کو ہلا ڈھالا۔ا تنا وقت گزر جانے کے بعد بھی اور Advance technology کے زمانے میں زندگی گزر بسر کرنے کے باوجود عشق و عاشقی کے معاملے میں لوگوں کی ذہنیت وہی ہے جو آج سے ۵۰۰ سال پہلے تھی۔ اسی گندے اور کم ظرف سماج کے باعث اس لڑکے کی جان جاتی ہے جو ایک سیدھی سادی لڑکی سے محبت کرتا ہے۔ نظم اپنے عنوان کی طرح بالکل صاف اور سادہ زبان میں ہے۔ کوئی بات ایسی نہیں جو سمجھائی، بجھائی جائے کہیں بھی الجھاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نظم کی کہانی کچھ یوں ہے ’’ایک مزدور کا بیٹا گاؤں کی ایک لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے جو ایک زمیندار کی بیٹی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں پر سماج کے ڈر سے کبھی کچھ نہ بول پاتے ہیں اور نہ ہی آزادی سے مل پاتے ہیں۔ لڑکا اپنی محبوبہ کے گھر کے سامنے پیپل کے پیڑ کے نیچے ہر دن بیٹھتا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی موسم ہو یا آنے جانے والے اور دیکھنے والے لوگ اسے کچھ بھی کہیں لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ گم سم اداس پورا پورا دن وہیں گزار دیتا۔ اچانک اسے ایک روز یہ خبر ہوتی ہے کی اس لڑکی کی آج سال گرہ ہے، لڑکا خوشی میں ایک پھولوں کی مالا لے کر اس کا انتظار کرتا ہے اور ملاقات ہونے پر اسے اپنا محبت بھرا نظرانہ پیش کرتا ہے لیکن لڑکی سماج کے خوف سے اسے قبول نہیں کرتی اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ بات لڑکی کے والد کو معلوم ہو جاتی ہے اور وہ لڑکے کو بلا کر بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ لڑکا ایک چپ ہزار چپ رہتا ہے اور سلام کر کے چلا جاتا ہے۔ جب کچھ دن ہو گئے تو لڑکی کو بے چینی ہوئی کہ آخر کیا بات ہے جو وہ نظر نہیں آ رہا۔ وہ اپنی سخی سے معلوم کرواتی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔ اس کے بعد لڑکی کی بے چینی اور بے قراری کا اندازہ آپ کو نظم سے بخوبی ہو گا۔
یہ سارے واقعات ہمارے تنگ نظری اور چھوٹے ذہن کی پیداوار ہیں۔ بنانے والے نے ہم میں کوئی فرق نہیں کیا پر دنیا میں بیٹھے ہوئے بھگوانوں نے انسانوں کے درمیان میں ایک ایسی دیوار بنا دی ہے جس کے باعث ہر روز ہزاروں لڑکے لڑکیاں جان دیتے ہیں۔ کچھ تو محبت میں ناکامی کے باعث اور کچھ جھوٹھے ذات پات کے ڈھکوسلے کی وجہ سے۔ آج ہم چاہے کسی بھی چیز میں مغربی دیسوں کا مقابلہ کر لیں لیکن ہماری ذہنیت پر وہی تالے لٹکے ہوئے ہیں جو قدیم زمانے کے دین ہیں یا انگریزوں نے لگائے ہیں۔ نظم کے بند سے آپ کو بہت سی باتیں اور بھی معلوم ہوں گی۔ لیجیے نظم پڑھیں
جا پوچھ سکھی شور یہ کیسا ہے گلی میں
اک سال سے ہر روز وہ مزدور کا بیٹا
آتا تھا ادھر شام ہو دن ہو کہ سویرا
دو روز سے لیکن اسے میں نے نہیں دیکھا
معلوم نہیں اسے یکا یک یہ ہوا کیا
اب تک اسے آنے سے کبھی روک نہ پائے
تپتی ہوئی گرمی میں بھی وہ لو کے تھپیڑے
سردی کی ہواؤں کے وہ اُڑتے ہوئے نیزے
برسات کی جھڑیاں ہی نہ بجلی ہی نہ اولے
جا پوچھ سکھی شور یہ کیسا ہے گلی میں
کیا دے گئی دھوکا اُسے سچ مُچ یہ رُکھائی
نادان تھا کیسا کہ نہ سمجھا مرے جی کی
یہ شرم بھی جھوٹی ہے یہ تہذیب بھی جھوٹی
ائے کاش کی ہوئی نہ مہاجن کی میں بیٹی
چنگل میں دبائے ہے یہ خونخوار سماج آہ!
قیدی ہے بشر اور ہے دیوار سماج آہ!
قربانی کی ہم بھیڑیں ہیں تلوار سماج آہ!
جینے نہیں دیتی ہے مردار سماج آہ!
جا پوچھ سکھی شور یہ کیسا ہے گلی میں
شام ہوتے ہی ادیبوں، ناقدوں، شاعروں اور سیاست دانوں کی بھیڑ جس جگہ لگتی تھی۔ وہاں ملا کی بھی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔ ملا اکثر شام کے اوقات یا یوں کہ لیں کہ فرصت کے اوقات میں انڈیا کافی ہاوئس میں جاتے تھے، جہاں پروفیسر آل احمدسرور، علی جواد زیدی، ڈاکٹر عبد العلیم، سید احتشام حسین، مجاز لکھنؤی، سلام مچھلی شہری، شوکت صدیقی، محمد حسن، کمال احمد صدیدی، وغیرہ کی بھی آمد ہوتی تھی۔ ملا نے ’’ ٹھنڈی کافی ‘‘ عنوان سے بھی ایک کامیاب نظم لکھی ہے۔ بقول عبد الرشید ظہیری:
’’ملا صاحب کی ’’ نظم ٹھنڈی کافی‘‘ ان کی تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اور ادبی اہمیت کی حامل ہے۔ جب بھی اردو شاعری کا انتخاب ہو گا بغیر اس کی شمولیت کے وہ انتخاب نامکمل سمجھا جائے گا۔ یہ نظم فن کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکمل اور نکھری ہوئی ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے ‘‘۔
ملا کی نظم رومانیت سے لبریز ہے۔ کبھی رات کی تاریکیوں سے گزر کر سحر کی جانب جاتی ہے، تو کبھی شہر کی بناوٹ سے محبوب کے حسن کی خوبصورتی کا موازنہ کرتی ہے۔ کبھی محبوب سے رات کی تاریکیوں میں سرگوشیاں کرتی ہے تو کبھی کھلّم کھلا سب کچھ بیان کر دیتی ہے۔ کبھی محبوب سے بچھڑنے کا ڈر ہوتا ہے، تو کبھی سماج کے ڈر سے محبوب سے دور ہو جانے کا ڈر۔ پوری نظم خود میں ایک ڈرامائی کیفیت لیے ہوئے ہے اور ہر پل ایک نیا رنگ و آہنگ لے کر چلتی ہے۔ ملا کے تجربات و مشاہدات نے ایک ایسی نظم تخلیق کی ہے جس میں ڈرامائی عناصر بھی ہیں، اور افسانوی اندار بیان بھی، غزل کے جیسا حسن بھی ہے اور نظموں کی سی تراوٹ بھی ساتھ ہی قصیدہ کی مٹھاس اور مرثیہ جیسا درد و غم بھی شامل ہے۔ جو قاری کو شروع سے آخر تک ٹک ٹکی باندھ کر سننے کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔ نظم ۳۷ بندوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۳ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ نظم ملا کے پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر ‘‘میں شامل ہے۔ اس نظم کو نیا حسن علی جواد زیدی کی تحریروں سے ملتا ہے۔ ملاحظہ کریں علی جواد زیدی بقول :
’’ادبی مباحث میں کبھی فلسفیانہ اور منطقانہ اصرار اور کبھی مہذب سپرانداختی، کبھی صدق دل سے غلط کو غلط کہنے کا مخصوص انداز اور کبھی آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کے ڈر سے کہنے والی بات کو بھی نہ کہنے کی ادا، ملا کو سارے ماحول میں دوسروں سے الگ کر دیتی تھی۔ وہ دوسرے نقطۂ نگاہ رکھنے والوں سے دبتے اور جھجھکتے نہیں تھے۔ مگر ان کے احساسات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں آ کر ملا کی خاموشی کا راز کھلا۔ معلوم ہوا کہ اگر چہ وہ ’’لے و نغمہ کو اندوہ ربا ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن ’’اگلے وقتوں کے لوگ ‘‘ نہیں ہیں اس دعویٰ کا سب سے بڑا ثبوت مُلا کی نظم ’’ٹھنڈی کافی‘‘ ہے۔
نظم اپنے مضمون کا پورا احاطہ کرتی ہے۔ نظم کا مفہوم یہ ہے کہ عاشق اپنی محبوبہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ پر ایک طویل عرصے سے دونوں کی ملاقات سماج کے ڈر اور رسوا و بدنام ہونے کے خوف سے نہیں ہو پاتی۔ جس کے باعث عاشق کے دل و دماغ میں ایک بات گھر کر جاتی ہے کہ کہیں اس کا محبوب اسے گرا ہوا، اور حقیر تو نہیں سمجھتا۔ گاہے بہ گاہے اگر کبھی ملاقات ہو بھی جاتی تو صرف رسمی سلام و تبسم و دعا ہو جاتا۔ جس کی وجہ سے ان میں بہت دوری ہونے لگی تھی۔ اچانک ایک روز محبوب ریلوے اسٹیشن کے باہر مل جاتی ہے اور اس دن ان دونوں میں ڈھیر ساری باتیں ہوتی ہیں۔ پہلے تو معشوقہ حیران ہو گئی کہ یہ کہاں سے نازل ہو گیا۔ لیکن دل ہی دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ معشوقہ نے شہر کے ایک ہوٹل میں کمرہ لے رکھا تھا جہاں وہ قیام پذیر تھی۔ عاشق ان کے ساتھ وہاں سے چلا اور ہوٹل پہنچ کر دونوں نے کمرے میں بیٹھ کر بہت دیر تک راز و نیاز کی باتیں کیں اور دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر ایک دوسرے کی آغوش میں چلے گئے اورسماج میں کھڑی اونچی اونچی دیواروں کو ڈھا دیا۔ ساتھ ہی ان بندھے ٹکے اصولوں کو بھی توڑ دیا جن سے آئے دن ہزاروں عاشق و محبوب برباد ہوتے ہے اور موت کو اپنی حیات سمجھ کر اسے گلے سے لگا لیتے ہیں۔
ملا کی نظموں میں جو خاص عنصر یا یوں کہیں کہ نمایاں چیز نظر آتی ہے وہ محبت، اخوت، بھائی چارگی، مساوات اور عدم تشدد اور انسانیت ہے جو کسی ذات، پات فرقے سے گھر کر نہیں رہتی بلکہ آزاد ہے اور اپنا راستہ آپ تلاش کر لیتی ہے۔ اسے کسی کی محتاجگی نہیں اور نہ ہی کسی کا خوف ہے۔ اس نظم کے ذریعہ ملا نے سماج میں پھیلی ہوئی کم ظرفی اور چھوٹی سوچ رکھنے والوں پر ایک قاری ضرب کی ہے اور صدائے احتجاج بلند کر کے محبت کے دشمن اور انسانیت کے دشمن کو Challengeکیا ہے۔ ملا نے اپنی باتوں میں اس بات کا با بانگ دہل اعتراف کیا ہے کہ میں ترقی پسند نہیں ہوں پر ملا کے ذہن و دماغ کی جو اپج ہے اس میں کہیں نہ کہیں ترقی پسندیت کی بو آتی ہے جو ان کے نظموں کا نمایاں عنصر ہے۔ اور نظم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کی ان کی نظمیں ترقی پسندیت سے لبریز ہیں۔ ان کی ہر نظم انسانیت کے ساتھ سماج کو ایک درس بھی دیتی اور سبق آموز بھی ہیں۔ جو قاری کو کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتی ہیں۔ ہر بند خود میں ایک دنیا سموئے ہوئے ہے اور جوش و خروش کا امنڈتا طوفان بھی لیے ہوئے ہے۔ نظموں کی معنویت کا یہ عالم ہے کہ ہر بند پر کئی کئی صفحات سیاہ کئے جا سکتے ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کا نظریہ ملا کی نظم کے لیے کیا ہے یہ بھی دیکھیں :
’’ملا کی شاعری کا کوئی تذکرہ اس وقت تک مکمل نہ ہو گا جب تک ان کی طویل نظم ’’ٹھنڈی کافی ‘‘ کا نام نہ لیا جائے۔ اس نظم میں ہمیں محبت کی وہ فضا ملتی ہے جو اس دنیا کے ہوتے ہوئے بھی آسمانوں کی ہمراز ہے اس کا فطری بہاؤ اور ارتقاء، اس کی موزوں و متناسب تصویریں اس کے نفسیاتی لمحے اور شوخ اشارے اسے کامیاب محبت کا ایک دلکش ڈرامہ بنا دیتے ہیں۔ اس نظم کی فضا میں دو کردار ابھرتے ہیں اور دونوں جادو کے کرشمے نہیں اس دنیا کے انسان ہیں جو مل بیٹھتے ہیں تو دنیا کچھ اور حسین اور خوش گوار ہو جاتی ہے۔ جو ذہنی پرچھائیاں نہیں گوشت پوست کے انسان ہیں۔ یہ نظم جدید بھی ہے اور لذیذ بھی‘‘۔
ملا جھوٹی شہرت اور سستے نام و نمود کے لیے کبھی کسی کے آگے پیچھے نہیں دوڑتے تھے۔ ان کی نظموں سے ان کے ذہن کی وسعت اور وسیع النظری کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مزید نظم کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر عبادت بریلوی بقول:
’’اس نظم میں وہ جدید انداز بیان اور جدید طرزِ ادا، نئی ایمائیت اور نئے فنکارانہ شعور سے بھی متاثر ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔
باتیں تو بہت ہوئی اب نظم کے کچھ بند ملاحظہ کریں اور ملا کے قلم کا جادو دیکھیں
دیکھ کر مجھ کو وہ اک بار ہوئی حیراں سی
رُخ پہ پھر ایک تبسم کی کرن دوڑ گئی
اک کرن جو نہیں معلوم کہاں سے پھوٹی
آج تک جس کی حقیقت کبھی مجھ پر نہ کھلی
اس کی آنکھوں کی کہ ہونٹوں کے مفاضات کی تھی
…
بند بازار تھے سڑکوں پہ تھی بجلی کی قطار
تھک کے سوئی ہوئی دلہن شہر کے پہنے ہوئی بار
دھندلے دھندلے سے مکانات کہ سینے کا ابھار
ہلکی ہلکی سی ہوا سانس کی جیسے رفتار
عصمتِ شہر پہ چادر پڑی رات کی تھی
…
میں نے یہ کہہ کے کہ نہ وقت ہے رخصت مانگی
بولی ٹھہرو ابھی جاتے ہو کہاں بیٹھو بھی
میرے تھرماس میں تھوڑی سی ہے ٹھنڈی کافی
آؤ پی لو میری خاطر ہی سہی اک پیالی
ہر ادا صبر شکن اس کی مدارات کی تھی
ہو گئی دونوں پہ پھر اک خاموشی طاری
اب وہ باتوں میں روانی تھی نہ شوخی نہ ہنسی
جیسے لوہے کی سلاخوں میں گھرے دو قیدی
دور ہی دور سے آنکھوں میں کہہ لیں وہ گھڑی
پا بہ زنجیر اسیروں کی ملاقات کی تھی
ٹوٹے بوسیدہ تمدن کے کگارے آخر
رہ گئے طاق پہ دنیا کے اجارے آخر
قد آدم اٹھے سینوں کے شرارے آخر
ایک آواز میں دو جسم پکارے آخر
گفتگو حسن و محبت میں مساوات کی تھی
پاسبانِ چمنِ دہر سے شاید ہوئی بھول
غم کی کیاری میں اگا ایک مُسرت کا بھی پھول
عشق نے جھونک دی پھر چشم روایات میں دھول
کُرہِ خاک پہ کچھ دیر تھا جنت کا نزول
رات جیسے کسی دنیائے طلسمات کی تھی
اپنے معراج ترنم پہ تھا سازِ فطرت
ایک نغمہ تھا تکلم تو خموشی اک گت
چشم و لب کوثر و تسنیم تو بازو جنت
سادہ سی سادہ ہر اک بات میں بھی اُس ساعت
ایک رنگینیِ پُر کیف محاکات کی تھی
بقول جبار علی رضوان انصاری:
’’ملا صاحب کے کلام میں یہ نظم (ٹھنڈی کافی)منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ ’’ٹھنڈی کافی‘‘ میں پیش کردہ تصویریں زندگی سے مکمل طور سے بھرپور ہیں۔ رعنائی، رنگا رنگی، آہنگ و ترنم، بانکپن وغیرہ کے حسین امتزاج نے نظم کو حسن و موسیقی کا ایک لاثانی پیکر بنا دیا ہے ‘‘۔
ملا کی نظموں کی اہمیت، معنویت، معنی آفرینی، تخیل کی لے، منظر کشی، امیج کاری، اور ساتھ ہی نیچر ان کا خاص انداز بیان لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ نظم شروع سے آخر تک قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے اور کچھ کچھ دیر میں نئے نئے تجربات و احساسات اور رنگ روپ سے آشنا بھی کراتی ہے۔ کبھی دنیا کی سیر کراتی ہے، تو کبھی جنت کی، کبھی بچھڑ نے کے ڈر سے ڈراتی ہے تو کبھی دلاسا دیتی ہے، کبھی انقلابی صورت اختیار کرتی ہے تو کبھی نرم نازک باہیں پھیلا کر اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ نظم کا رومان، ڈرامائی عنصر اور افسانوی طریقۂ کار ہی اصل میں اس کی جان ہے۔
ملا کی نظموں میں ایک نظم ’’مریم ثانی‘‘ بھی ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ نظم ایک خط کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ یہ طویل نظم ملا کے رومانی ذہن کی گواہی بھی دیتی ہے اور سماج میں پھیلی ہوئی برائی کی طرف خاص طور سے اشارہ بھی کرتی ہے۔ معاشرے میں پل بڑھ رہے درد و غم کو نظم کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا ہے جس سے عام انسان کو یا قاری کو اپنے درد و کرب نظر آنے لگتے ہیں۔ ملا کی نظمیں آپ بیتی کی شکل میں ہیں جو ملا کے کمال سے جگ بیتی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کی نظموں میں ہم وہی دیکھتے ہیں جو معاشرے میں جیتا جاگتا ہے پر اچھوتے اور الگ ڈھنگ کے ساتھ جو سوئے ہوئے ذہن کو بیدار کرتا ہے۔ ملا نے اپنی نظموں کے باعث ان چیزوں کو منظر عام پر لایا ہے جنہیں عموماً عام لوگوں کی نگاہ نہ دیکھ پاتی ہے اور ان کا ذہن و دماغ محسوس کر پاتا ہے۔ ملا کی نظموں نے انسانوں کو بیدار بھی کیا ہے، ان میں جوش بھی بھرا ہے اور انھیں ان کی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا ہے۔ علی جواد زیدی بقول:
’’مریم ثانی جیسی خوبصورت، متحرک، نرم اور گل گوں نظم میں بھی ان کا ذاتی اور انفرادی غم، معاشرے کی غم انگیز فضا کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے۔ ایسی نظموں میں وہ فقیہ، واعظ اور ناصح بھی نہیں، مشکک بھی نہیں ہیں، کورے فلسفی بھی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک حساس مفکر اور ایک جری فنکار ہیں۔ انھوں نے جو طریقہ فکر اور طرز اظہار اپنایا ہے وہ تلوار کی دھار پر رقص کرنے کے مرادِف ہے۔ ذرا سی لغزش خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے اور یہ بات فنی بلوغ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ فکر کی بلاغت، نظر کی توانائی اور لہجے کی خوش آہنگی ان کے فن کو بقول آل احمد سرور ’’لطیف و منفرد‘‘ بنا دیتی ہے۔ اسی انفرادیت کا اعتراف احتشام حسین نے ان لفظوں میں کیا ہے ’’ان کے صاف و شفاف اور ذکی الحس ذہن اور انسانی دکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل، دونوں سے مل کر مخصوص شاعرانہ انداز سے زندگی کو فن کی گرفت میں لیا ہے۔ ان کا ایسا انفرادی رنگ ہے جسے انھوں نے شاعرانہ، مترنم اور دل کش زبان میں پیش کیا ہے۔ اس رنگ میں ان کے حریف مشکل ہی سے نکلیں گے ‘‘
موصوف کی تحریروں سے بہت سے ایسے پہلو اجاگر ہوتے ہیں جو عام قاری کی نگاہوں سے عموماً اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ نظم عاشق و محبوب کی ناکامیاب محبت کی داستان پر مبنی ہے جو ماضی کے دھندلکوں میں اپنی دنیا تلاشنے نکلے ہیں اور ہاتھ میں وہی تاریکی آتی ہے جو دنیائے محبت کا اصول و ضوابط میں شامل کر دیا گیا ہے یعنی بے وفائی، رسوائی، عاشق کے حصہ میں یہی چیزیں آتی ہیں اور وہ ایک ہی سوال بار بار پوچھتا ہے۔ ’’مجھ سے ناراض ہو کیوں کچھ مجھے معلوم تو ہو؟‘‘ ’’دل تمھیں دے بھی چکا تم اُسے ٹھکرا بھی چکیں ‘‘عاشق صرف ناراضگی کی وجہ جاننا چاہتا ہے۔ لیکن محبوب کے ناز و نکھروں کے سامنے سر خم کر دیتا ہے۔ نظم عشق محبت کی کہانی پر مبنی ہے۔ تخیل کی بلند پروازی نے نظم میں جان ڈال دی ہے۔ تشبیہ، استعاروں اور تلمیحات و اشارات کے استعمال نے نظم کی معنویت میں چار چاند لگا دئے ہیں۔ ملاحظہ کریں کچھ بند ؎
مجھ سے ناراض ہو کیوں کچھ مجھے معلوم تو ہو؟
دل تمھیں دے بھی چکا تم اُسے ٹھکرا بھی چکیں
اب تمھیں میری خموشی سے شکایت کیا ہے ؟
جس کے ہر تار کو خود چھیڑ کے تم توڑ چکیں
بے صدائی پہ اب اُس ساز کی حیرت کیا ہے ؟
یہ خموشی نہیں جسے میرے لب تک آ کر
جم گئی ہے میرے ترسے ہوئے لب کی آواز
مجھ کو تسلیم مگر میری خموشی ہے عطا
مجھ میں یہ ظرف نہ تھا چوٹ سہوں اور ہنسوں
ہاتھ مگر پھر بھی تمھارے لیے زیبا تو نہ تھا
تم کرو میری خموشی کا گلا
تم نے سوچا بھی کبھی وجہ خموشی کیا ہے
جس کی نظروں سے جل اٹھتے تھے شبستاں میں چراغ
جس کے نغموں سے ہر ایک ساز میں جاں آتی تھی
وہی خود شمع فسردہ کی طرح چپ کیوں ہے !
اور میری ماضیِ رنگیں کی درخشاں تصویر
یک بیک جھاڑ کے گزرے ہوئے ایام کی گرد
آ گئی پیش نظر
جیسے کہرے کی سیاہی کی تہوں سے ابھرے
کانپتی اور ٹھٹھرتی ہوئی دھُندلی دھُندلی
پوس کی چاندنی رات
آ گئے سامنے ایامِ گزشتہ میرے
وہ میرا دورِ تبسم وہ میرا عہدِ سخن
وہ امیدوں کا زمانہ وہ تمناؤں کے دن
جب تمھیں اپنی ہر ایک سانس میں شامل پا کر
میں نے محسوس کیا تم سے محبت ہے مجھے
مجھ کو معلوم نہیں عشق کسے کہتے ہیں
یہ اگر قیس کے آزار کا ہے دوسرا نام
مجھ کو منظور مرے عشق کا دعویٰ باطل
مگر اک زیست کے ہر خواب تمنا کی اگر
کسی اک آنکھ سے تعبیر کا خواہاں ہونا
اپنے ہر شوق کے افسانۂ رنگیں کی اگر
کسی اک نام سے زیبائشِ عنواں ہونا
اور اک جسم کے بے چین تقاضوں کے لیے
کسی آغوش کی نرمی میں تسلی کی تلاش
موجِ بے تاب کی اک امن کی ساحل کی تلاش
دل ہم درد سے آسودگیِ دل کی تلاش
اور اس زیست کے پر خار بیابانوں میں
ہاتھ اک ہاتھ میں لے کر کسی منزل کی تلاش
یہ محبت ہے تو کی میں نے محبت تم سے
اور اگر تم اس جذبہ کو ہوس کہتی ہو
ہاں مجھے ناز ہے اس پر کہ ہوس مند ہوں میں
تم نہ مانو کہ ہے حوا کا لہو تم میں رواں
مجھ کو تسلیم کہ آدم کا جگر بند ہوں میں
محبوب کے ظلم و جبر کے بعد بھی عاشق صادق کو ایک امید کی لے نظر آتی ہے کہ شاید اب ہمیں محبت بھرے کچھ بول محبوب کی جانب سے مل جائیں گے اور اسی امید کے ساتھ وہ ہر دن کسی طرح گزارتا ہے۔ وہ محبوب کو ماضی کی دھندلکوں میں لے جاتا ہے اور اپنی باتوں سے اور ان یادوں سے اس کے من کو موہ لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن سب ناکام ہے۔ ہر بار ٹوٹتا ہے اور پھر کھڑا ہو کر اپنی امیدوں کے چراغ میں تیل ڈالتا ہے۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ تم جسے ہوس کہتی ہو وہ میری پاک محبت ہے۔ جب عاشق ہر طرح کی گریہ و زاری کر کے تھک ہار جاتا ہے تو پھر الزام لگاتا ہے کہ تمھیں محبت و الفت کی تلاش نہیں تھی بلکہ پرستش کرنے والے کی تلاش تھی۔
اس نظم میں بھی ملا نے سماج کو اور دھرم کے نام پر بنے ہوئی استھلوں اور کتابوں کے غلط مفہوم کو واضح کر کے کمانے اور لوٹ کھسوٹ مچانے والوں کو گھیرے میں لیا ہے۔
ملا کے قلم کی آب و تاب میں سیاسی پہلو کم ہیں وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ ان کے قلم کو نہ ہی کوئی خرید سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی نظریات کو چند روپیوں کی خاطر کسی کو بیچ سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملا کے کلام آج بھی ہمارے ذہن و دماغ کے سوئے ہوئے دریچوں کو وا کرتے ہیں ساتھ ہی ہمیں محظوظ بھی کرتے ہیں۔ اداس لمحوں میں ہمیں ہنساتے بھی ہیں اور غم میں مسکرانے کا حوصلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ملا کے کلام کا جادو ہی ہے جو آج سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ملا کی شخصیت کی صحیح ترجمانی جناب شمیم طارق کے ان جملوں سے ہو گی:
’’جو لوگ سمجھتے ہیں کہ معاوضہ دے کر اپنی تعریف میں مضمون لکھوا لیں گے یا کرایہ کے لوگوں سے زندہ باد کے نعرے لگوا لیں گے تو تاریخ میں زندہ رہ جائیں گے وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بادشاہوں اور امیر زادوں نے اپنی شان میں پوری پوری تصانیف شائع کرا دی تھیں مگر وقت سے پہلے ہی مر گئے تھے۔ دولت، اقتدار اور نمود و نمائش پر جینے والوں کا آئندہ بھی یہی حشر ہوتا رہے گا مگر ملا ؔ (حارث)مرحوم کا اخلاص اور ان کا طرز عمل اختیار کرنے والے زندہ رہیں گے ‘‘۔ ۲ اکتوبر ۲۰۱۵ انقلاب صفحہ نمبر۶
مختصر یہ کہ ملا کی شاعری اس لیے بھی زیادہ خاص، اہم اور اثر انداز ہے کیوں کہ یہ اپنی الگ راہ بنانے کے ہمیشہ قائل رہے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کا انداز لوگوں سے بالکل جدا ہے جو ان کے کلام کو معنوی فکر اور مستحکم جذبہ عطا کرتا ہے۔ ملا کے اشعار میں ایک عجیب و غریب سماجی، سیاسی، اقتصادی، ادبی، زبانی فکر نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار میں کبھی کبھار کھنکھناہٹ اور جھنکار بھی سنائی دیتی ہے لیکن ایک خوش گوار معتدل اور فکر انگیز کھنک ہمیشہ سنی بھی جا سکتی اور محسوس بھی کی جا سکتی ہے۔ جو اردو سے ان کی بے پناہ عشق اور وکالت کی دلیل ہے۔ شاید اسی لیے مسعود حسین نے کہا تھا۔ ’’کوئی مائی کا لال ایسا ہے جس نے اتنی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ کہا ہو ’’کہ میں مذہب چوڑ سکتا ہوں لیکن زبان نہیں چوڑ سکتا ہوں ‘‘یہ بات ہر ادیب یا شاعر کہنے کی جرأت نہیں کر سکتایہ اردو سے ان کے قلبی لگاؤ کی دلیل ہے ‘‘۔
یہ تھے جسٹس پنڈت آنند نرائن ملا اور ان اردو دوستی جو مذہب سے پہلے زبان کو ترجیح دینے کے قائل تھے۔ ملا کا ایک وصف یہ رہا کہ جو دل میں تھا وہی زبان پے لاتے تھے۔ ملا کے اشعار میں دور حاضر میں ہونے والے تمام تر واقعات و حادثات جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے جو ان کے کلام کو آج بھی زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّا: ادبی نظریات اور شعری کردار
……… حسین عیاض
آنند نراین ملا کی پیدائش ۱۹۰۱ میں ہوئی۔ انھوں نے ۱۹۲۵ کے آس پاس شاعری شروع کی۔ ان کا آخری مجموعہ کلام ۱۹۸۸میں شائع ہوا۔ تقریباً نصف صدی سے زائد کا یہ عرصہ ان کی بھرپور توانا اور پر قوت ادبی و شعری کار گزاریوں کا ثبوت ہے۔ ملا نے اپنے پیشے کی اور دیگر سماجی اور سیاسی مصروفیتوں کے باوجود جتنا وقت شعر و ادب کو دیا ہے وہ خود اپنے آپ میں حیران کن ہے۔ ان کی شاعری کا کلیات ہی سات سو صفحات سے اوپر پہنچتا ہے۔ سیدھے طور پر ان سب باتوں کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ملا کے نزدیک شعر و ادب سے وابستگی کسی وقتی تفنن اور تفریح طبع کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ اپنی انفرادی اور اجتماعی فکر و احساس کے اظہار کا ذریعہ تھی۔ اور زندگی جینے کا ایک طریقہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملا بہت آسانی سے اس پورے ادبی ماحول سے خود کو بچا لائے جو اس وقت لکھنو میں تھا۔ اور ان کے عہد کے بیشتر تخلیق کار صرف ایک ادبی روایت کو نبھانے میں لگے ہوئے تھے۔ ابتدائی دور کی کچھ غزلوں کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملا اس جدید ذہن کے ساتھ ادبی بساط پر وارد ہوئے تھے جس کی تربیت ان کے عہد کی سماجی اور سیاسی حسیت کے تحت ہوئی تھی۔ ملا نے بڑی حد تک شعوری سطح پر اپنے ادبی اور تخلیقی سروکار متعین کئے اور زندگی کے عام معاملات کی طرح ادبی معاملات و مسائل پر بھی اپنے ذہن سے سوچا اور بہت سے مسلمات سے اختلاف کیا۔ وہ شعری و ادبی موضوعات اور ان کے تخلیقی اظہار کے طور طریقوں کے بارے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے تھے اور اس نظریے کو انھوں نے بہت صفائی کے ساتھ پیش کیا۔ ملا کے پورے شعری کردار کو ان کے نظریات کے سیاق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ملا نے خود ایک جگہ لکھا ہے۔
’’میرا یہ دعوی ہر گز نہیں کہ بہ حیثیت شاعر کے میں اس مقام پر ہوں جو میں نے اپنے نظریے میں ایک عظیم فنکار کو دیا ہے۔ لیکن میرا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ صحیح راستے پر قدم آگے بڑھانا غلط منزل پر پہنچ جانے سے بہتر ہے۔ اگر آپ میرے نظریوں سے اتفاق کریں گے تو ممکن ہے کہ آپ یہ قبول کر لیں کہ اس گمراہی کے دور میں بھی غلط راستے پر گامزن نہیں ہوں ‘‘
ملا سے اتفاق و اختلاف کرنا ایک دوسرا معاملہ ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ان کے نظریات کے حوالے سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ملا کے یہاں عظیم فنکار کا تصور اس کے فنی و تخلیقی معاملات سے زیادہ اس کے سماجی اور تہذیبی سروکار سے متعلق ہے۔ ملا کے یہاں وہ ادب اپنے تمامتر حسن کے باوجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا جو ان کے مزعومہ ’’خیر ‘‘کے سانچے سے باہر جاتا ہو۔ وہ ادب کی تحسین اسی سطح پر کرتے ہیں جہاں وہ بلندی جرأت اور شرافت کے جذبات پیدا کرے اور پایندہ انسانی قدروں کا حامل ہو۔ ملا لکھتے ہیں۔
’’ میرا اپنا عقیدہ تو یہی ہے کہ جس ادب میں انسانی درد کی آواز نہیں وہ زیادہ سے زیادہ ذہنی عیاشی کے لیے سامان فراہم کر سکتا ہے ‘‘
لیکن ان کے یہاں انسانی درد کی آواز کا دائرہ بہت محدود ہے۔ خود ملا کی شاعری درد کی صرف انہیں صورتوں کو متعارف کراتی ہے جو زندگی کی سطح پر تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ملا کے ادب کی تفہیم تحسین اور تعین قدر کے پیمانے کی ایک نظیر اور دیکھئے وہ فرانسیسی نقاد لابروئے کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔
’’جب تم کوئی کتاب پڑھو اور اس سے تمہاری روح میں بلندی جرات اور شرافت کے جذبات پیدا ہوں تو پھر اس کی خوبی کو جانچنے کے لئے کسی اور معیار کی حاجت نہیں ‘‘
اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
’’ میرے نزدیک اس معیار کو آج تین سو سال بعد بھی بغیر کسی پس و پیش کے قبول کیا جا سکتا ہے۔
ایک ذہنِ صالح ادب سے یہی تقاضا کرتا ہے ‘‘ ملا کے ادبی تصورات اپنی آخری حد تک اخلاقی اصلاحی اور تبلیغی ہیں۔ شاعری کو بطور شاعری کے دیکھنے سے زیادہ سماجی اصلاح کے ایک ٹول کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تخلیقی اظہار کی صورتوں کے حوالے سے بھی ملا کے نظریات اسی سیاق میں طے پاتے ہیں۔ وہ غزل کو نظم کے قریب لانے کے خواہاں ہیں۔ اوراس کے ہم دوش کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک شعر بھی ہے۔
دیا ہے درد انساں کا احساس تجھ کو
کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو
اس شعرسے صاف طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق کار ایک بڑی فنی و تخلیقی یافت پر فخر کر رہا ہے۔ یہ بات ملا کہتے ہیں اس لحاظ سے تو ضرور اہم ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ان کا تخلیقی ہدف اسی طریقہ کار کو اختیار کر کے پورا ہوتا ہے۔ اور ملا جس قسم کی اپ ٹوڈیٹ شاعری کر رہے تھے اور جس طرح زندگی کی سطح پر نمودار ہونے والے ہنگامی و غیر ہنگامی واقعات و معاملات ان کے شعری متن کا حصہ بن رہے تھے اس کے لئے ضروری تھا کہ ملا نظم اور غزل کو موضوعاتی اور ابلاغیاتی دونوں حوالوں سے ایک ہی نظرسے دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملا کے یہاں شعروں کی معنیاتی سطح اکہری، سادہ اور عام فہم ہے۔ اسی سیاق میں ملا نے رمزیہ انداز بیان کی بھی مذمت کی ہے۔ رمزیہ انداز بیان کا سیدھا مطلب ترسیل کی دشواری سے ہے۔ بعض اسے ناکامی بھی کہیں گے لیکن یہ ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو شعر کو کھلے ہوئے سماجی اورسیاسی بیانیے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ملانے لکھا ہے ’’ رمزیہ انداز بیان میرے نزدیک غیر صالح اور گمراہ کن ہے ‘‘ حالانکہ ملا نے استثنا ئی صورتیں بھی بیان کی ہیں لیکن یہ صورتیں فطری اور آزاد تخلیقی عمل کو اصولوں اور ضابطوں کا پابند بنا دینے کے مترادف ہیں۔ بہرحال یہ سب باتیں ملا کو شاعری میں اپنے مقصد اصلی تک پہنچنے کے لئے کرنی ضروری تھیں۔ ملا کا شعری متن ان کے اس ذہن کو نبھاتا ہے۔ اور اپنے نظریاتی تناظر میں یہی ان کی حصولیابی ہے۔ البتہ صنفوں کا اختلاط و عدم اختلاط کامسئلہ اتنی آسانی سے نظرانداز کر دینے والا نہیں ہے اس قسم کی باتیں وہی تخلیق کار کر سکتا ہے جسے ادب میں ادب سے زیادہ کسی اور چیز کی فکر ہو۔ ادبی اصناف اور ان کی خارجی و داخلی صورتوں کا اختلاف در اصل تخلیقی عمل اوراس کے انسلاکات کا اختلاف ہے اس سے اتنی جلد بازی اور جذباتی انداز میں نہیں گزرا جا سکتا۔ ملا کے شعری متن کی تشکیل کی یہ وہ بنیادیں ہیں جن سے اس کی تحسین و تردید دونوں کا جواز نکلتا ہے۔
اس پورے تناظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملا نے صرف اپنے ذہن سے سوچا اور اس کا اظہار بھی وہ بہت فخر کے ساتھ کرتے رہے۔ اور یہ بڑی بات ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن سے اور اپنی بنیادوں پر سوچتا ہے۔ لیکن صرف اپنے ہی ذہن کی روشنی پر حد سے بڑھا ہوا اعتماد سوچنے والے کو اپنے نظریات کے تئیں متشدد بھی بنا دیتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملا کی مصروفیات بہت پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے سروکار ادبی سے زیادہ سیاسی سماجی اور تہذیبی تھے اس لئے وہ ادب کو بھی اسی سطح پر رکھ کر دیکھنا سمجھنا اور لکھنا چاہتے تھے۔ ملا کی شخصیت عام ادبی و شاعرانہ شخصیتوں سے بہت مختلف تھی۔ در اصل ان کی زندگی سماجی سطح پر ایک فعال اور سرگرم انقلابی کی زندگی سے مماثل تھی۔ زندگی کی بد صورتیاں، ناہمواریاں، مذہب کے نام پر قتل و خون اور اقدار کا زوال، یہ سب اجتماعی مسائل ان کی زندگی کے داخلی اور انفرادی مسائل تھے۔ اور یہ ساری جنگ ان کے وجود کے اندر جاری تھی۔ اور ملا زندگی بھر عملی سطح پر اس جنگ کا حصہ رہے۔ لہذا ایسے شخص کے لئے شعر و ادب کی یہ منطق ہی اصل منطق ہوتی ہے۔ وہ اظہار کے ان طریقوں کو بھی سماجی تبدیلی کی اس جد و جہد میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اور بیشتر اوقات شاعری اس کے کرب کا اظہارّیہ بن جاتی ہے۔ ملا کی نظموں کے عنوانات ہی ان کی اس جہت کو سامنے لے آتے ہیں۔
ابتدائی دور کی شاعری میں ملا کے یہاں یہ شعوری طور پر اختیار کئے گئے نظریات اپنا اثر کم رکھتے ہیں۔ ملا اپنے پہلے مجموعے میں غزل کی اس روایت کے بہت قریب نظر آتے ہیں جسے ان کے معاصرین برت رہے تھے۔ اس دور کی نظمیں بھی ایسے موضوعات کو محیط ہیں جو ملا کی نظریاتی حدود سے ذرا باہر تک جاتے ہیں۔ اس دور میں ملا کا ذہن شاعری میں اس طور پر سماجی اصلاحی اور تبلیغی نہیں ہوا تھا، جس طرح ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘اور بعد کی شاعری میں نظر آ تا ہے۔ نیاز فتحپوری نے غزل کے ایک انتخاب میں ملا کی کچھ غزلوں کو شامل کیا تھا۔ یہ غزلیں ملا کے ابتدائی دور یعنی اس عہد کی ہیں جب ملا نے اپنے تخلیقی عمل میں شعوری حد بندیوں کو غیر ضروری حد تک شامل نہیں کیا تھا۔ اور شعر میں شعر والی بات موجود تھی۔ا س کا مطلب یہ نہیں کہ سماجی حسیت کی وہ منطق جو ملا سے وابستہ ہے بالکل نظر نہیں آتی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ملا کی شاعری بڑی حد تک اپنے شعر ہونے پر بھی دلالت کرتی تھی۔ اس سب کے باوجود شعوری طور پر شعری کار گزاریوں کو نظریے کے تابع کرنے کے نتائج بہت مثبت نہیں ہوتے۔ ملا نے 1963 میں اپنے قارئین کے نام ایک طویل خط لکھا تھا جو ان کے مجموعے ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘کی ابتدا میں شامل ہے۔ ملا کی مذکورہ تمام نظریاتی گفتگو اسی سے ماخوذ ہے۔ ظاہر ہے اس سے پہلے کا بھی کسی نہ کسی طرح اور خاص طور سے اس کے بعد کا سارا کلام ان کی نظریاتی تکمیل کی طرف ایک قدم ہی سمجھا جائے گا۔ ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘کی پہلی غزل کے کچھ شعر دیکھئے۔
جن پاک نفس انسانوں میں کردار کی عظمت ہوتی ہے
ایسوں سے نہ مل پائیں بھی اگر، نادیدہ عقیدت ہوتی ہے
منزل سے جو واقف ہے اسے کب رہبر کی ضرورت ہوتی ہے
وہ آپ پیمبر ہے اپنا جس دل میں محبت ہوتی ہے
آواز میں رس، ہونٹوں پہ عنب، باتوں میں شکر، یہ سب دھوکے
انسان کی اک پہچان یہ ہے آنکھوں میں مروت ہوتی ہے
اک جرم خیانت تو نے کیا طاقت کو جہاں اپنا سمجھا
مسند پہ پہنچ کر بھول نہ جا، طاقت تو امانت ہوتی ہے
غزل کا یہ رنگ ’’جوئے شیر ‘‘1949 کی غزلوں سے بہت مختلف ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ملا نے جس قسم کی زندگی گزاری وہ بہت قابل رشک زندگی تھی۔ اور اس زندگی کا قولی اور نظریاتی سے زیادہ عملی سطح پر پوری انسانی برادری کے تئیں جو کمٹ مینٹ تھا وہ ایک تخلیقی شخصیت کے سیاق میں بہت مختلف نوعیت کا تھا۔ ملا کا شعری کردار بھی اس ہدف کو پانے یا اس کے آس پاس پہنچ جانے کے سفر میں ایک معاون ذریعے کے طور پر ساتھ رہا۔ ملا کی شخصیت اس کی نظریاتی اور تخلیقی صورتیں آج ہمارے لئے اسی وجہ سے اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ زندگی گزارنے کے ایک کامیاب دلچسپ اور بامعنی طریقے سے عبارت ہیں۔
٭٭٭
آنند نرائن ملّاؔ کی نظم نگاری: فکر و نظر کے چند پہلو
……… عائشہ پروین
1857سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک انگریزوں نے ہندوستانیوں پر جو مظالم ڈھائے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ لیکن ہندوستانیوں نے بھی جس اتحاد کا ثبوت دیا وہ ایک مثال ہے۔ زبان کے اعتبار سے اس اتحاد میں اردو زبان نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ سیاسی طور پر ہندوستان نشیب و فراز سے دو چار تھا اور ایسے ہی ماحول میں آنند نرائن ملا نے شعور کی آنکھیں کھولیں۔ جس زمانے میں اردو کے اہم ادیب و شعرا اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، ملک کی آزادی کے لیے سیاسی نمائندوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی پورے طور پر کوشاں تھی۔ جس کا نتیجہ آزادی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ لیکن آزادی اور تقسیم کے بعد اردو ہی کی آزادی سلب کر لی گئی۔ اور ملک کے ساتھ ساتھ زبان کی تقسیم بھی عمل میں آئی۔ ایسے میں اردو ہندوستان میں کمزور پڑنے لگی۔ انجمن ترقی اردو کا قیام بہت پہلے عمل میں آ چکا تھا لیکن آزاد بھارت میں اردو کی ترقی اور بقا کے لیے صوبہ میں اردو اکادمی کھولنے کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ صوبہ اتر پردیش میں اردو اکادمی کا قیام آنند نرائن ملا کی رہین منت ہے۔ آنند نرائن ملا اردو کے مرد مجاہد ہیں، جبھی تو انھوں نے انجمن ترقی اردو کی ایک کانفرنس میں یہ تک کہہ دیا کہ ’’اردو میری مادری زبان ہے۔ میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں مادری زبان نہیں ‘‘۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے، باوجود اس کے وہ اردو میں علمی و ادبی اور تعمیری کاموں میں سر گرم رہے۔ ملانے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے، جن میں غزل، نظم، قطعہ اور رباعی اہم ہیں۔ ملا بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، لیکن ان کی نظموں کی تعداد بھی کا فی ہے، جو متنوع موضوعات پر مبنی ہیں۔ یہ ان کے وسیع تجربات کی عکاس ہیں۔ ملانے ایک ہمدرد انسان کی حیثیت سے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔ انھوں نے شاعری میں کسی کی تتبع نہیں کی بلکہ اپنا راستہ خود نکالا، لیکن اس بات سے ان کار نہیں کہ انھوں نے دوسرے شعرا سے اثر نہیں لیا۔ انھوں نے کبھی کسی کا طرز اختیار نہیں کیا۔ جذباتیت پر زور دینے اور زبان و اظہار کو اہمیت دینے اور غزل کہنے کی بجائے موصوف نے نظم نگاری سے اردو شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی نظم ’’پرستار حسن‘‘ ہے۔ جو معنویت اور فکری عناصر سے مملو ہے۔ نظم نگاری کا یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں انسان دوستی اور وطن دوستی کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے یہاں کافی تعداد میں شخصی نظمیں بھی پائی جاتی ہیں۔ مہاتما گاندھی کا خیر مقدم، موتی لال نہرو، مسز حامد علی، نذر ٹیگور، سروجنی نائیڈو اور سردار پٹیل وغیرہ ان کی شخصی نظمیں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے اہم اور متنوع موضوعات پر ان کی دیگر نظمیں ہیں۔ جن میں ’’ہپی‘‘، ’’گرو نانک‘‘، ’’فطرت ‘‘ ’’اک دن انساں جی تے گا‘‘، ’’علم ناداں ‘‘، ’’معاہدۂ شملہ‘‘، ’’انساں کو ملاؤ انساں سے ‘‘، ’’شہید امن‘‘، ’’رشوت، ’’سوغات‘‘، ’’مجبوری‘‘، ’’ضبط‘‘، ’’مریم ثانی‘‘، ’’جادۂ امن‘‘، ’’نذر بجنور‘‘، ’’صبح آزادی‘‘، ’’زمین وطن‘‘، ’’شب ہجراں ‘‘، ’’ہم لوگ‘‘، ’’مسلم لیگ‘‘، ’ ٹھنڈی کافی ‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ وغیرہ ہیں۔ ان کی نظموں کے موضوعات انسانی زندگی اور اس کے نشیب و فراز سے ماخوذ ہیں۔ کہیں انسان کی فطرت آزادی کو نظم کی لڑی میں خوبصورتی سے پرو یا ہے تو کہیں انسانی اخلاق و اقدار کواس کا موضوع بنایا ہے۔ لیکن ان تمام موضوعات پر حاوی انسانی درد و کرب کو وسیع پیمانے پر آنند نرائن ملا نے اپنی شاعری میں برتا ہے۔ انسانی دکھ درد انھیں سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ان کے نزدیک انسانی مذہب تمام مذاہب سے اعلیٰ ہے۔ جس کا اندازہ ان کے کلام کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں :
اب ہندو اور مسلماں کی دنیا کو کون ضرورت ہے
مذہب آئندہ نسلوں کا نوع انساں کی خدمت ہے
انسان دوستی ان کے نزدیک تمام مذاہب سے بالا تر ہے۔ اسی لیے تو وہ انسان کو تمام مخلوق سے بہتر تصور کرتے ہیں۔ اور اس پر نازاں بھی ہیں۔ جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فر مایا ہے ’’لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ یعنی ا للہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بہترین سانچے میں ڈھالا ہے۔ ملا اس سے بخوبی واقف تھے، اسی لئے وہ انسانی وجود کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
مسکن ہے خاک میرا خود خاک سر بسر ہوں
پالا ہوا ہوں لیکن تاروں بھرے فلک کا
اس تیرہ خاکداں میں اک جلوۂ سحر ہوں
ہوں مشت خاک لیکن فردوس در نظر ہوں
آنند نرائن ملا جہاں انسانی عظمت و برتری تسلیم کرتے ہیں، وہیں ان کے زخموں اور دکھ درد کا مداوا بھی تلاش کرتے ہیں۔ اخلاق انسانی ان کے کلام میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ فرماتے ہیں :
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے
مجھے اے خالق کون و مکاں خاموش کر دینا
مرے لب پر نہ جس دن درد انساں کی پکار آئے
ہر دیر و حرم سے کترا کر ملا آیا مے خانے میں
ملا کے سے لیکن دنیا میں سلجھے ہوئے انساں کتنے ہیں
آنند نرائن ملا نے دھرتی پر بسنے والے انسان کے دکھ سکھ کے حالات، ساتھ ہی ساتھ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی منزل کو بڑی خوبصورتی سے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ جیسے کہ ’’بڈھا ‘‘نظم میں ایک بڈھے کی لاچاری کمزوری اور بے کسی کی تصویر پیش کی ہے، کہ بڑھاپے میں بھی اسے جینے کے لیے کس قدر سخت مشقتوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ انھوں نے انسانی جذبات و خیالات کے مختلف رنگوں کو نظم کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ملا کے پیش نظر آزادی سے قبل اور بعد کا زمانہ رہا ہے۔ انھوں نے آزادی کے ساتھ ساتھ غلامی میں بھی اپنی زندگی کی طویل مدت گزاری ہے۔ غلامی کسی مخلوق کو عزیز نہیں ہوتی، پھر ملا تو شاعر تھے، سماج میں ایک شاعر کو عام انسان سے زیادہ حساس تسلیم کیا جاتا ہے۔ ملا آزادی سے قبل کے حالات سے جس طرح متاثر نظر آتے ہیں، اس کی ترجمانی ان کی نظموں میں بہتر طور پر نظر آتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی آزادی کے خواب تھے جنھیں وہ اپنی زندگی میں سچ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ انھیں جذبات کی ترجمانی وہ اپنی نظموں ’’آ ہی گیا‘‘، ’’صبح آزادی ‘‘، ’’اگست 1947‘‘، ’’سجدۂ عقیدت‘‘، ’’لال قلعہ‘‘ اور ’’زمین وطن‘‘ وغیرہ میں کرتے ہیں۔ نظم ’لال قلعہ ‘ سے دو مصرعے ملاحظہ ہوں :
روکے گا تجھے اب کون وطن کھوئی ہوئی عظمت پانے سے
پھر لال قلعہ کی دیواریں دہراتی ہیں افسانے سے
صبحِ آزادی کے انتظار میں ملا نے کئی ایک اہم نظمیں لکھی ہیں۔ جن میں بے چینی اور بے اطمینانی جھلکتی ہے۔ ’’صبح کا ہنگام ہے ہنگام کی باتیں کریں ‘‘ ان کی اسی قبیل کی ایک نظم ہے جس میں اپنے احساس و جذبات کو خوبصورت رنگوں میں پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ کہیں انسانوں کے دکھ درد کی داستان ہے تو کہیں ان پر ڈھائے جا رہے مظالم کی تصویر۔ ملا نے اپنی نظموں میں انسانی زندگی اور اس میں حائل دشواریوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں فنکارانہ ڈھنگ سے بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ جن میں مرکزی حیثیت انسان کو حاصل ہے۔ وہ قوم، ملک و ملت اور آزادی کے نغمے گنگناتے ہیں، اور سماجی حقیقت نگاری پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ’’اندھی لڑائی‘‘ اور ’’انسانی درندے ‘‘ وغیرہ انسانی المیے پر مبنی ایسی نظمیں ہیں جن میں انسانی زوال اور پستی کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ انسان ایک دوسرے سے لڑ رہا ہے لیکن وجہ نہیں جانتا۔ ایک بند ملاحظہ ہو :
کٹے جا رہے ہیں مرے جا رہے ہیں
یہ نادان انساں لڑے جار ہے ہیں
کوئی ان سے پونچھے لڑائی یہ کیوں ہے
مذاق نبرد آزمائی یہ کیوں ہے
بشر کی بشر پر چڑھائی یہ کیوں ہے
نہیں جانتے پر لڑے جا رہے ہیں
ملا نہ صرف ایک درد مند دل رکھتے تھے، بلکہ وہ انسانیت پرست انسان تھے۔ ان کے نزدیک انسانیت اعلیٰ پائے پر ہے۔ مذاہب تو آپسی رنجش پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ انسانی ملت کے قائل تھے۔ ملا کی نظمیں سادگی اور سلاست کا اعلی نمونہ ہیں۔ انداز بیان نہایت سادہ اور عام فہم ہے۔ اس سادگی سے وہ اپنی باتیں کہتے ہیں کہ عام انسان کو بھی سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ وہ انسان دوست ہیں، وطن پرست ہیں، ساتھ ہی ہندوستان کی تہذیب سے گہری وابستگی بھی رکھتے ہیں۔ وہ سماج کے زبردست نباض ہیں، وہ سماج کے چمکدار پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں تو سیاہ پہلو سے پردہ بھی ہٹاتے ہیں، اس پر طنز کے تیر بھی چلاتے ہیں۔ وہ سماج میں عورت کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ عورت اس سماج میں ہمیشہ مظلوم رہی ہے، اس پر ہر دور میں ظلم و جبر کیے جاتے رہے ہیں، سماج مظلوم عورت کے ساتھ انصاف کرنے کی بجائے اسی کو لعنت و ملامت کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ اس کی آزادی کو سماج کی بے جا عقائد کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ ایک ایسی قید میں مبتلا ہو جاتی ہے، جسے یہ معاشرہ عزت و شرافت کا نام دیتا ہے۔ ملا نے ایک بیسوا کی زبان سے اس کے اور ایک عام عورت کے حالات پر گہری نظر ڈالی ہے۔ نظم ’ ’ بیسوا ‘‘ سے بند ملاحظہ ہوں :
خوار ہوں بدنام ہوں، رسوا سر بازار ہوں
خاطر نازک پہ اہل بزم کی اک بار ہوں
کوئی مونس ہی نہیں جس کا میں وہ بیمار ہوں
میں وہ گل ہوں جو زمانے کی نظر میں خار ہوں
اہل دنیا مجھ سے تم اتنے خفا رہتے ہو کیوں
میں تو خود مظلوم ہوں مجھ کو برا کہتے ہو کیوں
مجھ سے اے پر دہ نشیں حالت تری بہتر نہیں
گھر میں رہ کر بھی ترا مردوں کے دل میں گھر نہیں
آشنا پرواز کی لذت سے تیرے پر نہیں
مے سے پر ہو کر بھی گردش میں ترا ساغر نہیں
آبرو میں نے تو کھوئی آب و دانے کے لیے
تو نے آزادی بھی کھودی آشیانے کے لیے
ایک وہ زمانہ تھا جب طوائف خانوں پر شرفا کی اولادیں ا س لیے جاتی تھیں کہ انھیں جینے کا طریقہ آ جائے، یہی عورتیں انھیں آداب سکھاتی تھیں، جن سے زمانہ ہمیشہ سے متنفر رہا ہے۔ نظم ’’بیسوا‘‘ میں ایک بیسوا اپنے حالات سے ایک عام عورت کے حالات کا موازنہ کرتی ہے اور خود کو بہتر پاتی ہے۔ چونکہ ایک عام عورت اسے خود سے زیادہ مظلوم معلوم ہوتی ہے۔ وہ عورت ہی توہے جو تمام دکھ درد خاموشی سے سہہ لیتی ہے۔ یہ نظم سماج کی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے، جس میں قانوناً مرد عورت کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں عورت اب تک انھیں مسائل سے دو چار ہے جن سے پہلے تھی۔ ایک عورت زمانے کے لیے خوار ہوتی ہے اور وہی لعنت و ملامت کا سبب بھی ٹھہرتی ہے۔ یہ نظم شرافت کا لبادہ اوڑھے اس سماج پر ایک سخت طنز ہے۔ ملا چونکہ ایک وکیل اور جج تھے۔ سماج کے وہ مسائل جو عام طور پر سماج میں حل نہیں ہو پاتے، یا پھر سیاسی مسائل۔ ملا سماجی ومسائل سے بھر پور واقفیت رکھتے تھے۔ ایک طویل مدت انھوں نے اسی پیشہ (profession )میں گذاری ہے۔ چنانچہ ان کی نظریں ان تمام سماجی مسائل پر تھیں جو براہ راست انسانوں سے متعلق ہیں۔ ’’آخری سلام ‘‘ ان کی ایک ایسی نظم ہے جس میں انھوں نے سماج کے اس تاریک پہلو کو پیش کیا ہے جس میں عورت کی مظلومیت ایک دوسرے پہلو سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس میں عورت کوئی بیسوا نہیں بلکہ کسی شریف گھرانے کی عزت ہے، کسی کی محبوبہ ہے۔ جس کے حسن و ادا پر ہمارے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ یہ معاشرہ معشوق کی ادائے دلبری اور حسن و ادا کی داستانیں تو خوب مزے سے سن سکتا ہے۔ لیکن حقیقی زندگی میں وہ عزت و شرافت کے نام پر اپنے آس پاس اس طرح سے ایک جھوٹے قلعے کی تعمیر کر لیتا ہے جسے سر کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ یہی حال اس نظم کے کردار کا ہے۔ ایک محبت کرنے والا شخص اس سماج اور اس کے رسوم و عقائد سے مردانہ وار مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے آنکھیں چرا لیتا ہے اور خود کو ان فرسودہ روایات کی نذر کر دیتا ہے، سماج میں جس کا مرتبہ انسان سے کہیں زیادہ معلوم پڑتا ہے۔ بہر کیف نتیجہ میں اس کی محبوبہ ’’آخری سلام‘‘ کے نام سے ایک خط لکھتی ہے۔ اور اپنا احوال بیان کرتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ ہو:
مرد کو سو مشغلے ہیں دل لگانے کے لیے
رزم و بزم زندگی جوہر دکھانے کے لیے
دفتر و بازار قسمت آزمانے کے لیے
لیکن اک عورت کرے کیا غم بھلانے کے لیے
پھر بسا کر دل کو اپنے خانہ ویران دیکھنا
جاگنا اور پھر وہی خواب پریشاں دیکھنا
عورت کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک کا درد ملا بخوبی سمجھتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ مساویانہ سلوک کے خواہاں بھی ہیں۔ ’’ہپی‘‘ ایک ایسی نظم ہے جس میں عورت کی جرأت مندی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کا لہجہ باغیانہ ہے، وہ سماج کی فرسودہ اور منفی روایات سے آگاہ ہے۔ اسی نظم سے ایک بند ملاحظہ ہو:
میرے ساتھ آؤ بن کے دیوانہ
ذہن انساں سے جھاڑ دیں کچھ گرد
کھوکھلی ہو چکی ہیں سب قدریں
راہ اخلاق صرف گرد ہی گرد
ان عقیدوں میں کوئی تاب نہیں
جن پہ صدیوں کی جم چکی ہے گرد
انسانی تہذیب و تمدن کی رنگا رنگی، قوموں کا عروج و زوال، نظریات کی شکست و ریخت، اور بہتر زندگی کے لیے انسان کی جد و جہد وغیرہ جیسے موضوعات کو ملا اپنی نظموں میں خوب سے خوب تر برتتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’ارتقا‘‘ ہے، جس میں ان کے فکری کینوس کی وسعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو ہر زمانہ پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ ارتقا ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر وقت تیز رفتاری سے دوسری منزل کی طرف رواں ہوتی ہے۔ جیسا کہ اقبال کے یہاں حرکت و عمل کا پہلو ایک خاص نوعیت میں جلوہ گر ہے، ملا کی فکر اقبال کی فکری تحریک سے مشابہ نظر آتی ہے۔ اسی نظم سے ایک شعر ملاحظہ ہو:
ارتقا کی راہ میں رکنا ہی ہے انساں کی موت
ہیں وہی زندہ جو اس رستے پہ چلتے ہی رہے
ملا قوموں، ملکوں اور مذاہب کی بنا پر تقسیم انسان کی توہین سمجھتے ہیں۔ بے جا رسوم و عقائد سماج کو کھوکھلا کر رہے ہیں، جس کی بہتر عکاسی ان کی نظموں سے ہوتی ہے۔ وطن پرست ملا وطن کی راہ میں جان قربان کرنے والے شہیدوں کی شان میں نغمہ سرا ہیں۔ ان کی قربانی کو سلام کرتے ہیں اور انھیں عقیدت سے یاد کر تے ہیں۔ ان کی شخصی نظمیں بھی قابل مطالعہ ہیں۔ جن میں انھوں نے تحریک آزادی میں پیش پیش رہنے والے نمائندوں کو بطور خاص یاد کیا ہے۔ اسی ضمن میں ان کی نظم ’’ مہاتما گاندھی کا قتل‘‘ ایک دلدوز نظم ہے۔ ایک بند ملاحظہ ہو:
ہاتھوں سے بجھایا خود اپنے وہ شعلۂ روح پاک وطن
داغ اس سے سیہ تر کوئی نہیں دامن پہ ترے اے خاک وطن
پیغام اجل لائی اپنے اس سب سے بڑے محسن کے لیے
اے لے طلوع آزادی!آزاد ہوئے اس دن کے لیے
اس نظم میں ملا نے گاندھی جی کے قتل پر ایک پر درد تصویر پیش کی ہے۔ اور یہ دکھایا ہے کہ جس نے ہمارے وطن کی آزادی کے لیے طرح طرح کے مظالم برداشت کیے۔ ان کی ’اہنسا‘ کی سیکھ کو لوگوں نے کتنا سمجھا، یہ تو دنیا نے انھیں پر ثابت کر دیا۔ بہر کیف یہ واقعہ ہندوستان کے لیے بہت افسوس ناک ہے۔ اس لیے جب تک دلوں سے کدورت نہیں مٹے گی یہ وطن یونہی اہنسا کی نذر ہوتا رہے گا۔ ملا نے اپنے کلام میں سنسکرت ادب سے بھی نظمیں پیش کی ہیں۔ جن میں ’’پاپی بدرا‘‘، ’’چار پائے ‘‘، ’’ساہو کار کی دعوت‘‘، ــــ ’’بیلوں کی جوڑی‘‘، ’’حسین مالن‘‘، ’’عیارہ‘‘، ’’دوشیزہ‘‘، ’’پتی ورتا‘‘، ’’بادل اور بجلی‘‘، ’’عورت ’’پستک ‘‘ اور ادھار‘‘، ’’ککڑوں کوں ‘‘اور ’’بوڑھا مانجھی‘‘ وغیرہ ہیں۔ ہمیں ہندوستان کی حقیقی سر زمین انہی نظموں میں نظر آتی ہے۔ جس سے ہندوستانی تہذیب کی رویت وابستہ ہے۔ ملا نے فطرت نگاری پر بھی کئی نظمیں کہی ہیں۔ جن میں ’’شملہ کے دیودار‘‘، ’’گھنا برگد‘‘ اور ’’ گنگا کے چراغ ‘‘وغیرہ اہم ہیں۔ متذکرہ آخری نظم سے ایک شعر ملاحظہ ہو:
آب گنگا کیا ہی مستانہ ترا انداز ہے
جھوم کر چلنے پہ تیرے کیا کیا مجھ کو ناز ہے
آنند نرائن ملا نے اپنے کلام میں زمینی حقیقت کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ سیاست، انسانیت، حق ومساوات، جذبۂ آزادی، لطیف انسانی جذبات، مسائل انسانی، تہذیب و تمدن، حق و باطل، فطرت کے مناظر، وطن کے رکھوالے اور سماجی حقیقت نگاری غرض یہ کہ مختلف موضوعات کو وسیع کینوس پر اتارا ہے۔ جن میں لطف کی غرض سے محض رنگ آمیزی نہیں بلکہ حقیقی رنگ و آہنگ کی ترجمانی ملتی ہے۔ اقبال کی طرح ملا کے کلام میں کہیں کہیں انسان کی خودی و بے باکی بھی نظر آتی ہے۔ خدا کے سامنے انسانی جرأت مندی کی ایک مثال ان کی نظم ’’ترانۂ گنہگار ‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ ہو:
محفل روزگار کا حسن نظام مجھ سے ہے
لطف صراحی و مے شیشہ و جام مجھ سے ہے
مجھ کو نہیں خطا کی شرم سامنے تیرے اے خدا
میں ہوں تری شبیہ ایک اس کو بگاڑ یا بنا
’’جوئے شیر ‘‘، ’’کچھ ذرے کچھ تارے ‘‘، ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘، ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘، ’’کرب آگہی‘‘ اور ’’جادۂ ملا‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ جن میں ان کی نظمیں، غزلیں، قطعات اور رباعیات شامل ہیں۔ ان مجموعوں کے مطالعہ سے ملا کے ذہنی ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملا نے اپنی شاعری میں فکر و خیال کا ایک جہاں آباد کر دیا ہے۔ اردو شاعری کے باب میں ملا کی یہ خدمات ایک نئے باب کا اضافہ ہیں۔ جو انسانی زندگی، اس کے خیالات و تجربات اور مشاہدات کا پرتو ہیں۔ جس سے نہ صرف ان کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے بلکہ ان کے افکار کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے خیالات اب بھی تازہ ترین محسوس ہوتے ہیں، اور عصری حالات کی ترجمانی میں بڑے کارفرما نظر آتے ہیں۔ نظم نگاری کی فہرست میں بحیثیت نظم نگار ان کو بلند مقام حاصل ہے۔
٭٭٭
٭٭٭
تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید