فہرست مضامین
آنائی کے شیر آدمی
نان شچلنگ
اردو ترجمہ: منصور محمد قیصرانی
باب 1: ہاتھیوں کا قبرستان
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے ہاتھیوں کے قبرستان کے بارے پہلی بار سنا۔ اس وقت میں جوان تھا اور میرا فوج میں کمیشن سماٹرا کے ضلع جامبی میں سروے کی خاطر ہوا تھا۔ رہنما کی خاطر میں نے اپنے ایک پرانے جاننے والے افسر سے اس کے ملازم ہاشم کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہ افسر اب فارغ خطی یعنی ریٹائرمنٹ کو پہنچ چکا تھا۔ ایک شام میں ہاشم کے ساتھ اپنے برآمدے میں بیٹھا تھا اور خوب زور سے بارش ہو رہی تھی۔ دن بہت گرم تھا اور اب ہم بارش کی خنکی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شام کے کھانے کے بعد میں باہر اکیلا بیٹھا تھا مگر طوفان کی شدت سے اسے گپ شپ کی خاطر بلا لیا۔
ماضی میں کسی جرم کی وجہ سے ہاشم کو فوج میں چند برس قلی کے طور پر جبری کام کرنا پڑا۔ جو افراد ہاشم کو جانتے ہیں، انہیں علم ہے کہ ہاشم اپنی حسن پرستی اور اپنے دیہات کے بارے کافی گپیں چھوڑتا ہے۔ تاہم اب ہاشم بوڑھا ہو گیا ہے اور اس کے چہرے پر جھریاں آ گئی ہیں۔ اس کے منہ میں محض تین دانت باقی ہیں اور ان کا واحد مقصد بیڑے کو اپنی جگہ رکھنا رہ گیا ہے۔ آج تک مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کیسے ان جنگلات میں گزاری ہو گی۔ اس سے عمر میں کافی چھوٹا ہونے کے باوجود ہاشم مجھ سے کہیں زیادہ جفا کش اور محنتی تھا۔ جنگلات میں اتنے برس گزارنے کے بعد اب ہاشم کے دل میں اپنے گاؤں لوٹنے کی کوئی خواہش نہیں رہی تھی۔ جیسا کہ مقامی افراد کہتے ہیں، اس نے دلدلوں کا پانی پی لیا تھا اور اب اسے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ اس لیے جاوا واپس جانے کی بجائے وہ سماٹرا میں ہی مستقل بس گیا تھا۔ اس نے بے شمار آقاؤں کی خدمت کی تھی اور اس دوران جنگلی حیات کے بارے حیرت انگیز حد تک معلومات جمع کر لی تھیں۔ میری ملازمت میں آتے آتے اسے جنگل کے بارے ہر قسم کی مہارت حاصل ہو چکی تھی اور اس کی وفاداری اور خدمت گزاری مثالی تھی۔
اس طرح ہم شام کو برآمدے میں بیٹھے طوفان کو دیکھ رہے تھے کہ ہاشم نے پوچھا:
‘آقا کو علم ہے کہ آسمان پر چمکنے والی بجلی کیا چیز ہے ؟’
میرے پرانے استاد نے بتایا تھا کہ کبھی بھی مقامی افراد کی کسی بات پر مت ہنسنا اور ہاشم کی کسی بات پر ہنسنے کا تصور بھی نہیں کرنا۔ مسکرائے بغیر مقامی افراد کی بات توجہ سے سن لی جائے تو زیادہ تر مقامی افراد بہترین مخبر بن جاتے ہیں اور ان سے جنگل کے بارے اور مختلف باتوں میں بہترین رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس لیے میں نے پورے خلوص سے نفی میں سر ہلایا اور اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
ہاشم نے جواب دیا، ‘یہ روشنی تب پیدا ہوتی ہے جب ہاتھی اپنے بیرونی دانت کسی پتھر پر مارتے ہیں۔ اس طرح ہماری گفتگو کا رخ جنگل کے باسیوں کے جادو ٹونے اور ہاتھیوں سے منسلک دیومالائی داستانوں کو مڑ گیا۔ ہاشم نے مجھے بہت ساری باتیں بتائیں جن میں حقیقت اور داستانوی عناصر اس طرح گڈمڈ ہو گئے تھے کہ ان پر اعتبار کرنا ممکن نہیں تھا۔
اس طرح نصف داستان اور نصف حقیقت پر مبنی پہلی کہانی مجھے اس روز ہاشم نے سنائی۔ یہ کہانی ہاتھیوں کے قبرستان کے بارے تھی۔ مقامی لوگوں کی روایات کے مطابق جب ہاتھی مرنے کے قریب پہنچتا ہے تو وہ کسی تنہا جگہ کو تلاش کر کے اپنے بقیہ دن وہیں گزارتا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق یہ جگہ آتجہ اور لمپونگ ضلعوں کے درمیان ہے اور اس جگہ بہت گہری دلدل ہے اور یہ علاقہ انسانی دستبرد سے محفوظ ہے کہ یہاں آمد و رفت آسان نہیں۔ سینکڑوں میل دوری سے ہاتھیوں کی فطرت ان کی رہنمائی کر کے اس جگہ تک لے آتی ہے اور وہ گھنے جنگلات، پہاڑوں، کھائیوں اور نالوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچتے ہیں۔
یہ روایات ہاتھیوں سے متعلق ہیں اور صرف انڈونیشیا تک محدود نہیں بلکہ استوائی افریقہ، کولمبو، ہندوستان اور دیگر مشرقی ممالک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مغربی دنیا نے بھی اس پر سنجیدگی سے توجہ دی ہے کہ نہ صرف یہ بات دل کو لگتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اگر ایسا مقام مل گیا تو یہاں موجود ہاتھی دانت کا خزانہ انمول ہو گا۔
تاہم مقامی روایات میں تنبیہ کی جاتی ہے کہ ایسا کوئی بھی انسان جو اس جگہ کو تلاش کر کے اس کے پاس پہنچے گا تو اس پر بہت بڑی مصیبت نازل ہو گی۔ شاید یہ محض روایات ہی ہوں، مگر مجھے بخوبی یاد ہے کہ ہاشم نے مجھے بتایا کہ کنٹرولر ہیر بی بی وان ڈی بوش کے ساتھ جو ہوا۔ ان داستانوں سے متاثر ہو کر بوش نے 1850 میں ایسے ہی قبرستان کو تلاش کرنے کا سوچا۔ اس جگہ کے بارے کہا جاتا تھا کہ دریائے ومسی اور دریائے بباتن کے درمیان واقع ایک وسیع و عریض دلدلی قطعہ تھا۔ کئی ہفتوں کی محنت کے بعد یہ لوگ اس مقام پر پہنچے۔ لیکن اس جگہ پہنچ کر قلیوں نے آگے بڑھنے سے ان کار کر دیا۔ خوفزدہ قلیوں نے ‘ہنتو’ یعنی آسیب زدہ اور ‘انگکر’ یعنی مقدس کے الفاظ ادا کرنا شروع کر دیے۔ بوش نے اس پر توجہ نہیں دی اور اکیلا ہی روانہ ہو گیا۔ روانگی کے اگلے دن قلیوں نے دور سے گولیوں کی آواز سنی جو ایک طرح سے مدد کا اشارہ تھا۔ ایک قلی نے ہمت کر کے اپنے آقا کی تلاش کی۔ کچھ دن بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ اس کا آقا بھی تھا جو پوری طرح اندھا ہو چکا تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ بوش کو کچھ عرصے سے آشوب چشم کا مرض لاحق تھا، مگر اس طرح مقامی افراد کو اپنی روایات کے سچے ہونے پر پورا یقین ہو گیا۔
اس کے علاوہ ایک مقامی زمیندار ہیمن کی کہانی بھی ہے جسے ہاتھی کا ڈھانچہ ایک فارم کے قریب سے ملا۔ وہ اس جگہ کو کاشتکاری کے لیے تیار کر رہا تھا۔ ہاتھی دانت جب باہر نکلے تو صاف لگ رہا تھا کہ کئی برسوں سے دفن تھے۔
اس روایت کو زندہ رکھنے کا ایک اور اہم عنصر یہ بھی ہے کہ قدرتی موت مرے ہوئے ہاتھی کی لاش یا ڈھانچہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ تاہم سارے جانور جب موت کی آمد کو محسوس کرتے ہیں تو جنگل میں تنہائی والی جگہ تلاش کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیز میں ہاتھیوں کے ڈھانچے ملنے کے کئی واقعات موجود ہیں۔ 1921 میں ضلع ہلدوانی سے ہاتھی کی ایک لاش ایک دلدلی علاقے سے ملی تھی۔ اس جانور پر کسی قسم کے زخم کا نشان نہیں تھا اور اس کی ٹانگیں نرم مٹی میں نصف گز دھنسی ہوئی تھیں۔ شاید ہاتھیوں کی تھکا دینے والی ہجرت کے دوران اسے موت نے اچانک آن لیا۔ پہلے پہل اس کی موت کی وجہ آرسینک کو گردانا گیا جو اس علاقے میں برطانوی حکام روہینی کے درختوں کو مارنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تاہم یہ بات پتہ چل گئی کہ ہاتھی قدرتی طور پر اس درخت کو نہیں کھاتے۔ بڑھاپے کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آ سکی۔
عجیب بات دیکھیے کہ دو مزید ہاتھیوں کے ساتھ یہی ہوا۔ پہلا واقعہ 1921 اور دوسرا 1925 میں ہوا۔ دونوں ہاتھیوں کا رخ اسی پہلے ہاتھی والے دلدلی علاقے کی جانب تھا۔ اس علاقے کے چاروں طرف گھنا جنگل تھا۔ مشہور ماہرین جیسا کہ ایچ جی چیمپین اور ای اے سمائتھیز نے ان واقعات کی تصدیق کی ہے۔
سب سے زیادہ سنسنی تب پیدا ہوئی جب زمینداری جنگلات میں خانہ بدوشوں نے ایک بوڑھی ہتھنی کی لاش دریافت کی۔ ہتھنی کے راستے پر پتوں اور گھاس کی غیر ہضم شدہ گیندیں سی پڑی ہوئی تھیں۔ بیچاری کے منہ میں کوئی بھی دانت نہیں تھا اس لیے خوراک کو چبا کے قابل نہیں رہی تھی۔ اس ہتھنی کے بارے بھی یہی طے ہوا کہ بڑھاپے کی وجہ سے مری ہے۔
ایک بار یہ خانہ بدوش ضلعی کمشنر مسٹر چیمپین کے پاس پہنچے جو اس طرح کی اطلاعات پر انعام دیتے تھے۔ ایک ہفتے بعد چیمپین ان لوگوں کو ساتھ لے کر مطلوبہ مقام پر پہنچے اور دیکھا کہ ہتھنی کی لاش سابقہ مقام سے بیس گز دور اس سمت ہٹ چکی تھی جہاں دلدل واقع تھی۔ اس کے آس پاس دو اور ہاتھیوں کے پیروں کے نشانات بھی دکھائی دیے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان ہاتھیوں نے اس ہتھنی کی لاش کو دلدل کی سمت دھکیلا تھا۔
اس کے علاوہ اور بھی واقعات ایسے ہوئے کہ ہاتھیوں کے قبرستان کے بارے افواہیں زور پکڑتی اعتراضات اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ جنگل کے سبھی جانور جب اپنی موت نزدیک دیکھتے ہیں تو تنہائی والی جگہ تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ مرتے ہوئے جانور کو بہت پیاس لگتی ہے، اس لیے ان کا منتخب مقام عموماً پانی یا دلدل کے پاس ہوتا ہے۔
موت سے کچھ قبل جنگلی سور، لگڑبگڑ، اگوانا اور دیگر شکاری پرندے جمع ہو جاتے ہیں اور جانور کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کے بعد چیونٹیاں اور کیڑے آتے ہیں اور پھر چند ماہ میں مون سون اور گھاس پھونس وغیرہ یا تو لاش کی باقیات کو بہا کر دلدل میں لے جاتے ہیں یا پھر سبزے میں چھپ جاتے ہیں۔
اس طرح مرنے والے ہاتھیوں کے ہاتھی دانت کیوں نہیں ملتے ؟ شاید بوڑھے ہاتھیوں کے دانت پہلے ہی گھِِس چکے ہوتے ہیں اور ان کی موت کے کچھ ہی عرصے میں بچے کھچے ہاتھی دانت صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہوں گے۔ ان دانتوں کی جڑ میں عصبی رگیں موجود ہیں جو مسوڑھے سے شروع ہوتے ہیں۔ جب مرنے کے بعد یہاں گیسیں پیدا ہوتی ہیں تو وہ ان دانتوں کو باہر نکال دیتی ہیں۔
مردہ ہتھنی کو زندہ ہاتھیوں کی جانب سے دلدل کی جانب بیس گز دھکے لیے جانے کی بھی عقلی دلیل موجود ہے۔ چونکہ ہاتھیوں کی عمر بہت طویل ہوتی ہے، اس لیے انہیں موت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس لیے جب انہیں کسی جگہ مردہ ہاتھی دکھائی دیتا ہے تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ہاتھی بیمار ہے اور وہ اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہاتھی نہیں اٹھتا تو پھر وہ اسے دھکیل کر پانی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب گلنے سڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی گیسیں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ مردہ جانور کا پیٹ پھٹ جاتا ہے تو اس کے مددگار حیران و پریشان ہو کر بھاگ جاتے ہیں۔
تاہم، جو بھی ہو، یہ نظریہ مقامی لوگوں کے ذہنوں میں بہت گہرائیوں تک پایا جاتا ہے اور وہ واقعات کی بنا پر پورا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ایک بار میں اس سے کافی متاثر تھا اور اس بارے ہر قسم کی معلومات جمع کرنے لگ گیا تھا۔ ایک بار میں ہاتھیوں کے قبرستان کے بہت قریب بھی پہنچ گیا تھا۔ اس کہانی کا تعلق ‘سی جاہت’ سے ہے، جسے ‘عذاب’ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بہت بڑا نر ہاتھی تھا جس نے کئی دہائیوں تک بہت بڑے علاقے پر اپنی دہشت قائم رکھی اور اسی وجہ سے مارا گیا۔
ہماری یہ عادت تھی کہ جب ہم کسی جانور کا پیچھا کرتے تو اس کی کسی خاصیت کی وجہ سے اسے ایک نام دے دیتے تاکہ اس نسل کے دوسرے جانوروں سے اسے ممیز کر سکیں۔ اس طرح اس کے بارے بات کرنا آسان ہو جاتا تھا۔ مجھے اس ہاتھی جاہت کے بارے پہلی بار جب پتہ چلا تو میں اندراگیری کے علاقے میں اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ قیام پذیر تھا جو یہاں بہت بڑی تیل والی کمپنی کے لیے تیل کی تلاش کے لیے کنویں کھودنے کا کام کر رہا تھا۔ جب مقامی لوگوں نے مجھے داستانیں سنائیں تو پتہ چلا کہ یہ ہاتھی جناتی قد کاٹھ کا ہے۔ اس دور میں جاہت ہاتھی کے بارے کہانیاں دریا کے دونوں کنارے پر کئی برسوں سے پھیلی ہوئی تھیں۔
عام طور پر ہاتھی موسم کے ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔ برسات میں یہ اونچے علاقے اور پہاڑی ڈھلوانوں پر رہتے ہیں۔ خشک مون سون میں ان کے پینے اور نہانے کے تالاب خشک ہو جاتے ہیں اور دریا کا بہاؤ تنگ ہو جاتا ہے اور ہاتھیوں کا رخ دلدلوں کی جانب ہو جاتا ہے جہاں وہ ہر سال جاتے ہیں۔ پھر جب پہلی بارش ہوتی ہے تو نشیبی علاقوں میں سیلاب آ جاتا ہے اور ہاتھیوں کے جھنڈ واپس اونچے پہاڑی جنگلات کو لوٹ جاتے ہیں۔
ان ہاتھیوں کے راستے عموماً مقامی کمپونگ اور امبولان (عارضی قیام گاہیں ) کے باغات اور کھیتوں سے ہو کر جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کو پڈی یعنی کھڑے چاول، پیسانگ یعنی کے لیے اور ڈڈاپ یعنی گھنے سایہ دار درخت بہت پسند ہوتے ہیں اور ہر بار جب ہاتھی یہاں سے گزرتے ہیں تو کھیت مکمل طور پر برباد ہو جاتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ جنگلی ہاتھیوں کو اگر انسانی موجودگی کا شبہ بھی ہو جائے تو وہ کنی کترا جاتے ہیں۔ جنگل کے باشندے رات کو کھیتوں کی چوکیداری اور شور کر کے ان ہاتھیوں کو بھگا سکتے ہیں۔ تاہم ہاتھی کبھی کبھار ہی نمودار ہوتے ہیں اور کھیتوں پر نگرانی کا کام بھی اسی حساب سے بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کھیتوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو مقامی افراد کا خاصا ہے۔ جنگلی سور اور ہرنوں سے بچانے کے لیے کھیتوں کے گرد باڑ لگائی جاتی ہے لیکن ایسی باڑیں ہاتھیوں کو نہیں روک سکتیں جو انہیں روند کر نکل جاتے ہیں۔ مقامی آبادی کی یہ لاپرواہی ناقابلِ فہم ہے کیونکہ ہاتھیوں کے غول کی آمد کا کئی دن قبل پتہ چل جاتا ہے کہ ہجرت کے دوران ہاتھی بہت شور کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، انسانی موجودگی کا علم ہوتے ہی ہاتھی راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض کھیت ہاتھیوں کی دستبرد سے بچ جاتے ہیں تو بعض کھیت برباد ہو جاتے ہیں۔ ایک بار میں وہاں تھا تو میں نے تفتیش کی اور پتہ چلا کہ جن کھیتوں پر چوکیداروں کے جھونپڑے بنے ہوئے تھے، وہ تباہی سے بچ گئے تھے۔ مغربی مون سون میں جب ہوا مغرب یا جنوب مغرب سے چل رہی ہو تو جنگل کے مشرقی کنارے سے نکلنے والے ہاتھیوں نے ہمیشہ ان کھیتوں کو چھوڑ دیا جن کے مغربی جانب چوکیدار جھونپڑے بنے ہوتے تھے۔ انسانی بو سے انہیں اتنی الجھن ہوتی ہے کہ انہوں نے فوراً ان باغوں کا رخ کیا جہاں انہیں انسانی بو نہیں آ رہی تھی۔
سی جاہت کا غول کئی برسوں سے بدنام تھا کہ انہوں نے کھیتوں میں بہت تباہی مچائی تھی۔ یہاں کے ایک بوڑھے مقامی نڈر شکاری نے اپنی قدیم مزل لوڈر سے ایک بار اپنی جوانی میں اس دیو کا سامنا کیا تھا۔ یہ ان چند شکاریوں میں سے ایک تھا جو رات کے وقت ہاتھیوں کا شکار کرتے تھے اور اکثر کامیاب لوٹتے تھے۔ اُس موقع پر یہ شکاری ایک بداک یعنی گینڈے کا شکار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے انتہائی دور کے ایک پہاڑی جنگل کی دلدل کا رخ کیا اور وہاں رات ایک بڑے درخت پر گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ درخت جنگل میں گھاس کے ایک قطعے کے پاس اگا ہوا تھا۔ چند دن قبل اس نے دور سے ہاتھیوں کی ہجرت کا شور سنا تھا اور اس رات یہ غول عین اسی قطعے کے پاس پہنچ گیا۔ پورا چاند نکلا ہوا تھا اور اس کی چاندنی سے پورے جنگل پر مسحور کن کیفیت طاری تھی اور اس کے چاروں طرف گھنا اور تاریک جنگل تھا۔
یہ شکاری آج بھی اس رات کے بارے بات کرتے ہوئے خوف اور پچھتاوے کی کیفیت اور بھرائی ہوئی آواز میں بات کرتا ہے۔ اس کے مطابق یہ غول اس قطعے پر جمع ہوا جیسے ایک دوسرے کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ ہاتھی اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر سونڈ بلند کر کے چنگھاڑتے رہے اور ان کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ منظر انتہائی خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھا۔ اس شکاری پر دہشت طاری ہوئی کہ جیسے پراسرار قوتیں یہاں موجود ہوں۔ اس نے اپنی بقیہ رات اللہ سے اپنے بچاؤ کی دعا مانگتے گزاری۔ اس غول کا سردار بہت بڑا سی جاہت تھا جو اس وقت اپنے جوبن پر تھا۔
یہ کہانی ناقابل یقین تھی، مگر ہم پھر بھی اس پر نہیں ہنسے کیونکہ جنگلوں کے بارے کون کہہ سکتا ہے کہ وہاں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں۔
جاہت کو اپنا غول لے کر باغات اور کھیتوں سے گزرنے اور وہاں تباہی مچانے کا خاص شوق تھا۔ مقامی افراد اس سے دہشت زدہ رہتے تھے اور اس کی شہرت یورپیوں تک پہنچ گئی جو اندراگیری کے علاقے میں آئے۔ ربڑ کی کاشت کرنے والے ایک بندے کی کہانی بہت مشہور ہے جو اس علاقے میں سروے کی نیت سے آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس علاقے میں آباد چند یورپیوں تک رابطے کو ممکن بنانے کی خاطر ٹیلیفون کے کھمبے وادیوں، کھائیوں اور جنگلوں سے گزارے جا رہے تھے۔ ان کھمبوں کو تباہ کرنا جنگلی جانوروں کے لیے بہت آسان تھا۔ ایک بار ایک لائن سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ موقعے پر فورمین کو بھیجا گیا تاکہ وہ خرابی کے مقام کو تلاش کرے۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ ہاتھیوں کے غول نے کئی کھمبے گرا دیے ہیں۔ نر ہاتھی کے پیروں کے جناتی حجم سے صاف پتہ چلتا تھا کہ سی جاہت نے ہی یہ گڑبڑ کی ہے۔
فورمین نے وقت ضائع کیے بنا نئے کھمبے تیار کیے اور فون کی لائن بحال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اس نے چند آدمی پیچھے بھیجے تاکہ خاردار تار لائی جا سکے۔ اس کا ارادہ تھا کہ کھمبوں کو بچانے کے لیے ان کے گرد اوپر سے نیچے تک خاردار تار لپیٹ دی جائے۔ تاہم فورمین کی مایوسی دیکھیے کہ جلد ہی کھمبے پھر گرا دیے گئے۔ شاید خاردار تار کی وجہ سے ہاتھیوں کو اپنے جسم کو کھمبوں سے رگڑنے میں مزہ آتا ہو گا۔ فورمین نے جا کر دیکھا تو موقع پر نئے کھمبے پھر ٹوٹے پڑے تھے۔
جاہت کی بد معاشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور اس کی بزدلی کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت بھی بے پناہ تھی۔ تاہم جب میں نے پہلی بار اس کے بارے سنا تو اس کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ اب اس کی بزرگی کا شہرہ تھا اور غول کے نوجوان اور طاقتور نر نے اسے مار کر غول سے نکال دیا تھا۔ شاید اس نے کچھ عرصہ غول کے ساتھ چھپ چھپا کر گزارا ہو گا کہ شاید کوئی مادہ اس کا ساتھ دینے کو غول سے الگ ہو جائے۔ مگر اس میں ناکامی کے بعد اس کا غصہ اپنی انتہا کو چھونے لگا اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ کھیت کھلیان اس کے غصے کا شکار ہونے لگے۔ اس نے مقامی لوگوں کے جھونپڑوں کو بھی نہیں بخشا۔ جونہی اس کی آمد کا علم ہوتا یا تاریک راتوں میں اس کی آواز دور سے آتی سنائی دیتی تو لوگ انتہائی عجلت میں فرار کے لیے تیار ہو جاتے مبادا کہ ہاتھی انہی کی طرف آ رہا ہو۔
طویل عرصے تک جاری رہنے والی خشک مون سون کے بعد سی جاہت کو ایک ہتھنی اور بچے کے ساتھ پہاڑی علاقے میں دیکھا گیا جو اس نے کسی طرح غول سے نکال لیے تھے۔ اس بار وہ پہلے سے کہیں زیادہ محتاط تھا اور ماضی میں اگر اس کی آمد کی اطلاع زوردار چنگھاڑ سے ہوتی تھی تو اس بار وہ انتہائی خاموشی سے حرکت کرتا اور اس کی آمد و رفت کا اندازہ اس کے نشانِ قدم سے ہوتا۔ ان نشانات کو دیکھنے والا فوراً ہی نزدیکی آبادی کا رخ کرتا۔
تیل کمپنی والے میرے دوست کو اس کی کمپنی کی طرف سے اس ہاتھی کے بارے خاص احتیاط کا کہا گیا تھا مگر اس نے زیادہ توجہ نہیں دی کہ جنگلی ہاتھیوں کے بارے اس کی معلومات انتہائی محدود تھیں۔ اس نے اس چھوٹے غول کا یہی اندازہ لگایا کہ وہ بڑے غول سے بچھڑ گیا ہو گا۔ تاہم اسے جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ چھوٹا جھنڈ زیادہ دور نہیں۔ اس طرح کی صورتحال کا اندازہ عام جنگلی جانوروں کا معمول کی چراگاہوں سے اچانک غائب ہو جانے سے لگایا جا سکتا ہے۔
ہرن ہاتھیوں کی جانب مائل ہوتے ہیں کہ ہاتھی اونچی شاخوں اور درختوں کو گراتے ہیں جن سے ہرنوں کو کافی خوراک مل جاتی ہے۔ ہاتھیوں کو ہرنوں کی موجودگی اس لیے پسند ہے کہ یہ جانور بہت محتاط رہتے ہیں اور کسی بھی خطرے کا پیشگی اندازہ ہو جاتا ہے۔
تاہم سور کی مانند ہرن بھی موسم کے ساتھ ہجرت نہیں کرتے اور ان کی چراگاہیں مخصوص ہوتی ہیں۔ ہرن ان جگہوں کو محض انتہائی شدید خشک سالی کے موسم میں چھوڑتے ہیں یا پھر جب شیر ان کے درپے ہو جائے۔ سو، اگر ہرنوں کو ہاتھیوں کا ساتھ مل جائے تو وہ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں اور جب تک ہاتھی وہ علاقہ نہ چھوڑ دیں، ان کا ساتھ جاری رہتا ہے۔ جب ہاتھی بہت دور نکل جائیں تو پھر یہ ہرن ان ہاتھیوں کے بنائے ہوئے سرنگ نما راستوں پر واپس لوٹ آتے ہیں جو گھنی گھاس میں بنے ہوتے ہیں۔
شیروں کو بھی ان سرنگوں کا علم ہوتا ہے اور وہ یہاں گھات لگاتے ہیں۔ بہت مرتبہ میں نے ایسی سرنگوں کے پاس ہڈیوں کے ڈھیر دیکھے ہیں۔ جنگل سے جہاں بہت کچھ ملتا ہے، وہاں جنگل بہت کچھ واپس بھی لیتا ہے۔ جہاں جنگل سے تحفظ بھی ملتا ہے تو وہاں کئی جگہ اس سے مہلک خطرہ بھی ہوتا ہے۔
جب ہرن والا ایسا ہی ایک قطعہ میرے دوست کو خالی ملا تو اسے اندازہ ہو گیا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ پھر اسے جاہت کے بڑے بڑے قدموں کے نشانات سے چھوٹے غول کی آمد کا اندازہ ہوا۔ اب اس کی بے فکری کی جگہ تجسس نے لے لی۔ جاہت کے بارے کہانیوں کی وجہ سے ہم سب پر شکار کا بھوت سوار ہو گیا۔ میرے دوست نے چند دن کی چھٹی لے لی اور دو مقامی شکاریوں کے ساتھ ہاتھیوں کے پیچھے نکل کھڑا ہوا۔ دو دن بعد وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں سے یہ ہاتھی گزرے تھے۔ نیم دلدلی علاقے میں ہاتھیوں کے بڑے پیروں سے سوراخ بنے ہوئے تھے۔ ان کے حجم سے اسے پورا یقین ہو گیا کہ ان کے آگے سی جاہت ہاتھی ہی ہے۔
دوپہر کو اسے ہاتھی دکھائی دیے۔ جاہت اور اس کی مادہ بلوکر نامی درختوں کے پاس کھڑے تھے جو ایک کھلیان کے کنارے تھا۔ دونوں اپنی سونڈیں نیم دائرے کی صورت میں ہلاتے ہوئے اپنا پیٹ بھر رہے تھے۔ چھوٹا ہاتھی اپنی لمبی ٹانگوں پر بھاگتے ہوئے کبھی اپنی ماں کی دم پکڑتا اور کبھی شور مچاتا۔
ہوا میرے دوست کے حق میں چل رہی تھی اور اس نے تقریباً 50 گز سے گولی چلائی۔ یہ گولی جاہت کے کان کے پاس لگی اور ہاتھی فوراً ایسے لپکا جیسے کوئی تودہ حرکت کر رہا ہو۔ اس کا رخ سیدھا میرے دوست کی جانب تھا۔ میرے دوست نے فوراً فرار کا راستہ اختیار کیا جب کہ مقامی شکاری کبھی کے چمپت ہو گئے تھے۔ تاہم جاہت نے جیسے اچانک حملہ شروع کیا تھا، ویسے ہی اچانک واپس مڑا اور مادہ اور بچے کے ساتھ اچانک گم ہو گیا۔ انہیں جنگل میں ہاتھیوں کے گزرنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔
میرے دوست نے اپنی رائفل بھری اور جھاڑ جھنکار سے گزر کر ہاتھیوں کے پیچھے روانہ ہوا۔ جب وہ ہاتھیوں کی گزرگاہ تک پہنچا تو پھر چلنا آسان ہو گیا۔ راستہ سیدھا جنگل کو جا رہا تھا۔ ادھر ادھر جھاڑیوں پر خون کے نشانات بھی تھے۔ میرا دوست انتہائی احتیاط سے آگے بڑھتا رہا مبادا کہ زخمی ہاتھی شاید راستے میں کہیں گر گیا ہو۔ مگر ہاتھیوں کے فرار کے نشانات چالیس یا پچاس گز پر جنگل میں غائب ہو رہے تھے۔ تاہم میرے دوست کو ان کی کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ شاید وہ بغیر کوئی آواز نکالے غائب ہو گئے تھے۔
میرے دوست نے زخمی ہاتھی کا پیچھا کئی گھنٹوں تک جاری رکھا۔ امید تھی کہ زخم کی وجہ سے شاید ہاتھی بے بس ہو کر کہیں گر جائے۔ تعاقب کے دوران جنگل مزید گھنا ہوتا گیا۔ آخر میں اسے تعاقب چھوڑ کر واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے ساتھیوں نے جنگل کے کنارے اس کا انتظار کیا تھا۔ چونکہ اندھیرا چھا رہا تھا، اس لیے انہوں نے وہیں سونے کا فیصلہ کر لیا۔
اگلی صبح پو پھٹنے سے قبل وہ بیدار ہوئے اور زخمی ہاتھی کے نشانات تلاش کرنے لگے اور سارا دن ان کی تلاش جاری رہی مگر ناکام رہے۔ اس سے اگلے دن میرے دوست نے تعاقب ختم کر دیا۔ اس نے پانچ دن کی چھٹی کی تھی اور اب گھر واپسی پر دو دن مزید لگتے۔ اس نے فوراً گھر کا رخ کیا۔
واپسی پر اس نے مجھے خط لکھا اور اپنے بہترین ہرکارے کے ذریعے بھیجا۔ شکار کا یہ سب سے اہم اصول ہے کہ زخمی جانور کو کبھی بھی تکلیف کی حالت میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مگر میرے دوست نے اس اصول کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس نے زخمی جانور کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اب میرا دوست چاہتا تھا کہ میں اس ہاتھی کو تلاش کر کے اس کو تکلیف سے نجات دلاؤں۔ وہ اپنے کام سے مزید چھٹی نہیں کر سکتا تھا۔
ہر ممکن عجلت سے میں اپنے دوست کے پاس جا پہنچا اور رات اس کے پاس گزاری اور معلومات جمع کیں۔ اس نے مجھے اس علاقے کے بارے ہر ممکن معلومات دیں۔ اگلی صبح میں ہاشم اور دو مقامی مزدوروں کے ساتھ جاہت کے علاقے کو روانہ ہوا۔ اپنے دوست کی معلومات کی روشنی میں مجھے اندازہ تھا کہ ہاتھی کس سمت گئے ہوں گے اور کہاں ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ اڑھائی دن تک ہم اس علاقے میں گھومتے رہے جو کافی دشوار گزار تھا اور ہمیں آرام کرنے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ پہاڑی علاقہ سو میل سے زیادہ علاقے پر پھیلا ہوا تھا اور آخرکار برسین کے سلسلے میں جا ملتا تھا۔ سارا علاقہ گھنے جنگلات اور دلدلوں سے بھرا ہوا تھا اور کہیں کہیں گھاس کے قطعے بھی آ جاتے تھے۔ انسانی آبادی بہت کم اور دور دراز تھی۔ ہمارے چاروں طرف کئی کئی روز کے سفر پر سارا جنگل ہی انسانی دستبرد سے محفوظ تھا۔
بار بار ہمیں تیز پرانگ سے راستہ بنانا پڑتا۔ رات کو ہم پانی کے کنارے کہیں بھی رک جاتے اور بعجلت چاول پکا کر کھاتے اور رات بھڑکتے الاؤ کے سامنے سو کر گزارتے۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ ایک تو ہمیں حرارت ملتی رہتی، دوسرا شیر اور مچھر ہم سے دور رہتے۔ رات ہونے سے قبل ہی ہم خشک لکڑیوں کا ڈھیر جمع کر لیتے تھے اور رات کو باری باری جاگ کر پہرے داری کرتے تاکہ آگ جلتی رہے۔
رات کو آگ کی روشنی میں صاف شفاف پہاڑی ندی پر نہا کر یا ہاتھ منہ دھو کر خوشبودار اور نرم ٹہنیوں کے بستر پر جب انسان لیٹے تو بہت فرحت محسوس ہوتی تھی اور الاؤ سے اٹھتی چنگاریاں خوبصورت دکھائی دیتی تھیں۔ آس پاس کے جنگل سے جانوروں کی آوازیں لطف دوبالا کر دیتیں۔
تیسرے دن دوپہر کے وقت ہمیں پہلی بار سی جاہت کے پیروں کے نشان ملے۔ یہ نشان ایک گھاس کے قطعے میں دکھائی دیے جو دلدلی جنگل میں واقع تھا اور اس جگہ ہاتھیوں کے جسم کی بو واضح تھی۔ اس کے علاوہ تقریباً چار روز پرانا فضلہ بھی دکھائی دیا۔ ہاشم نے لپک کر اسے اپنے چاقو سے کاٹا اور پھر میری طرف دیکھ کر بولا، ‘یہی ہے، تھوان!’
ہاشم نے یہ نتیجہ اس بات سے اخذ کیا کہ چونکہ ہاتھی کے گوبر میں نیم ہضم شدہ گھاس اور پتے موجود تھے، اس کا مطلب یہ تھا کہ جاہت اتنا بیمار ہے کہ چبا نہیں سکتا۔ میں نے سینے والی جیب سے اپنے دوست کی دی ہوئی تفصیلات نکال کر دیکھیں۔ جاہت اپنے اصل راستے سے کچھ ہٹ گیا تھا اور اس کا رخ چار روز کے فاصلے پر واقع دلدل کی طرف تھا جس کے دونوں جانب بلند پہاڑ تھے۔
میں نے ہاشم اور دونوں مقامیوں کو یہ نقشہ دکھایا۔ چونکہ جنگل بہت گھنا اور بنا پگڈنڈیوں کے ہوتا ہے، اس لیے یورپیوں کی نسبت مقامی افراد اپنا راستہ کہیں زیادہ آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اس دلدل کی جانب سیدھا رخ اختیار کرتے تو ہم ہاتھیوں سے پہلے وہاں پہنچ سکتے تھے کیونکہ بیمار یا زخمی ہاتھی اپنی تکلیف کے سبب آسان ترین راستہ چنتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس کے راستے میں کھائی آ جائے تو وہ کنارے کنارے چلتا جائے گا جب تک کہ کوئی ایسا مقام نہ آ جائے کہ آسانی سے کھائی عبور کر لی جائے۔
اس کامیابی سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی اور ہم نے اسی جانب کا رخ کیا۔ اس رات رکنے کے بعد اور الاؤ روشن کرنے سے قبل ایک مقامی بندہ اونچے درخت پر چڑھا تاکہ ہاتھیوں کی آواز سن سکے یا انہیں دیکھ سکے۔ جب اسے کامیابی نہ ہوئی تو پھر ہم نے آگ جلائی اور کھانا تیار کیا۔ چونکہ میں کافی پر جوش تھا، اس لیے لیٹنے کی بجائے کچھ دیر کے لیے میں آگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اچانک ہی پھر مجھے ہاتھیوں کے قبرستان والی داستانیں یاد آ گئیں۔ میں ایک ایسے ہاتھی کا پیچھا کر رہا تھا جو شدید زخمی اور قریب المرگ تھا۔ اگر ان داستانوں میں ذرا بھر بھی سچ ہو اور جاہت کا راستہ بھی ایسی ہی دلدل کو جا رہا تھا کہ جوش کے مارے مجھ پر کپکی طاری ہو گئی۔ کیا پتہ میں اس کا پیچھا کرتے ہوئے ایسی ہی جگہ پہنچ جاؤں ؟
توقع سے بھی جلد ہمیں اس کا جواب مل گیا۔ اگلے دن دوپہر سے قبل ہم سی جاہت کے نشانات سے دوسری مرتبہ گزرے۔ ہم ایک بہت تنگ اور گہری کھائی میں اترے اور ہمیں وہاں تین ہاتھیوں کے نشانات دکھائی دیے۔ جگہ جگہ ہمیں نشانات دکھائی دیتے رہے کہ زخمی ہاتھی بار بار اپنے گھٹنوں کے بل گرتا اور آرام کرتا رہا تھا۔ یہ نشانات تازہ تھے اور ہاتھیوں کے جسم کی بو صاف محسوس ہو رہی تھی۔
اچانک ہاشم نے مجھے ایک عجیب سی چیز دکھائی۔ مزید 900 گز آگے جا کر کھائی اور بھی تنگ ہو جاتی تھی۔ اس کے درمیان ہمیں چھوٹے ہاتھی کے اور کناروں پر بڑے ہاتھیوں کے نشانات دکھائی دیے۔ ہاشم نے عجیب تیقن سے مجھے بتایا: ‘وفادار مادہ اپنے نر کو سہارا دے رہی تھی۔ ‘ ہتھنی اپنی بائیں جانب جھک کر جاہت کے دائیں پہلو کو سہارا دیے جا رہی تھی۔ کھائی کے کناروں پر چلتے ہوئے دونوں ایک دوسرے سے مل کر چل رہے تھے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سن کر میرے ذہن میں کیا خیالات آئے ہوں گے۔ تاہم جلد ہی مجھے ہاتھیوں کے قبرستان کا خیال یاد نہ رہا اور بس یہی دھن سوار تھی کہ جلد از جلد اس ہاتھی کو اس کی تکلیف سے نجات دلائی جائے۔ اس کی بیوی اس کی مدد کر رہی تھی۔
اگلی صبح ہم تازہ گوبر سے گزرے اور جریانِ خون کے نشانات دکھائی دیے جو چند گھنٹے پرانے تھے۔ میں نے فوراً کسی قسم کے اونچے مقام کی تلاش کی اور ایک بہت پرانا انجیر کا درخت دکھائی دیا۔ میں نے اپنے مقامی ساتھیوں کو وہیں رک کر ہماری واپسی کا انتظار کرنے کو کہا۔ پھر ہر ممکن فالتو سامان ان کے پاس رکھا اور ہاشم کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ہم ہر ممکن عجلت سے آگے بڑھتے رہے اور محتاط بھی رہے کہ کہیں بھی ہاتھیوں کا سامنا ہو سکتا تھا۔ چونکہ جاہت قریب المرگ تھا، اس لیے ممکن تھا کہ ہماری بو پاتے ہی ہم پر چڑھ دوڑتا۔ جنگل میں زخمی جانور سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جنگل بہت گھنا تھا اور اگر جاہت حملہ کرتا تو اس سے بچاؤ بہت مشکل ہو جاتا۔
ہمیں پیچھا کرتے ہوئے تین گھنٹے گزرے تھے کہ اچانک گھنے درختوں میں سے سورج چمکا۔ ہاشم اور میرے ذہن میں بیک وقت یہی خیال آیا کہ آگے کھلے قطعے میں ہم ہاتھی کو پا لیں گے۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ہاشم نے سر ہلا کر کہا: ‘تھوان، ہم کامیاب ہو گئے !’
ہم آہستگی سے جنگل کے کنارے کو گئے اور ایک جگہ کھڑے ہو کر ہم نے اس قطعے کا جائزہ لیا۔ ہاشم کا ہاتھ میرے بازو پر آیا۔ سامنے کچھ فاصلے پر تینوں ہاتھی کھڑے تھے۔ انہوں نے اس اُتھلے پانی کے تالاب کو تقریباً عبور کر لیا تھا۔ چونکہ جگہ جگہ اگی ہوئی نباتات کی وجہ ہمیں ہاتھی اچھی طرح دکھائی نہیں دے رہے تھے، ہاشم ایک درخت پر چڑھا تاکہ ایسا راستہ تلاش کر سکے جو ہمیں جلد از جلد ہاتھیوں کے آگے پہنچا دیتا۔ تاہم یہ کام بہت مشکل تھا کہ تالاب بہت زیادہ چوڑا تو نہیں تھا، مگر لمبائی خاصی تھی۔ اگر ہم جنگل کے کنارے سے ہو کر آگے بڑھتے تو ہاتھی تالاب عبور کر کے ہم سے پہلے آگے بڑھ جاتے۔ ہم نے فوراً ہوا کا رخ دیکھا جو سیدھا ہاتھیوں سے ہماری جانب آ رہی تھی۔ سو ہم نے گفتگو میں وقت ضائع کیے بنا تالاب کو عبور کرنا شروع کر دیا۔
گدلا اور بدبو دار پانی ہماری پنڈلیوں سے ہوتا ہوا ہماری کمر تک آتا گیا۔ جان بوجھ کر ہم نے ہاتھیوں کی گزرگاہ سے تھوڑا دور عبور کیا کہ ہاتھیوں کے پیروں سے بننے والے گڑھے بہت مشکل پیدا کرتے اور ہم گردن تک پانی میں گم ہو جاتے اور تھکن الگ ہوتی۔ دلدلی تہہ میں ہمارے پیر ٹخنوں تک دھنس رہے تھے۔ ہم پانی سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، سو ہم نے اور بھی تیزی اور محنت سے پیش قدمی جاری رکھی۔ سورج سوا نیزے پر تھا اور گرمی شدید تر۔ جسم کا ہر مسام پسینہ اگل رہا تھا۔ پانی میں اگے جنگلی پودوں کے تیز پتوں سے ہمارے بازوؤں اور ہاشم کی ننگی ٹانگوں پر خراشیں بن رہی تھیں۔ جلد ہی ہمارا سانس پھول گیا اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے مٹی کے ہزاروں ہاتھ ہوں جو ہمیں روکنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بار بار تھک کر ہم رک جاتے یا پھر اگر کوئی آبی پرندہ چیختا ہوا اڑتا تو اس کا شور ہمارے بڑھتے قدم روک دیتا۔
تالاب میں ہمارا سفر انتہائی طویل ہو گیا اور ہم محض اس بات سے حوصلہ پکڑتے رہے کہ جاہت کو حرکت میں بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ہمیں وہ ایک بار بھی حرکت کرتے دکھائی نہیں دیے۔
ہاشم پوری محنت سے میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور کیچڑ میں لتھڑا ہوا عجیب مخلوق دکھائی دیتا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوتی تھی کہ ہاشم جیسا دھان پان سا آدمی کیسے اتنی مشقت برداشت کر رہا ہے۔ خیر، اُس وقت تو مجھے ہاشم کے بارے سوچنے کا وقت نہیں ملا کہ میری اپنی حالت خراب ہو رہی تھی۔
جب ہم ہاتھیوں سے 200 گز دور رہ گئے اور دوسرا کنارہ ان سے مزید 100 گز آگے تھا تو ہاشم رک گیا۔ کھانستے ہوئے اس نے مجھے بتایا کہ ہمیں ایک جانب کا رخ کر کے ہاتھیوں کے آگے پہنچنا چاہیے۔ اس کی بات بالکل درست تھی کہ اس مقام سے گولی چلانا ممکن نہیں تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ ہتھنی ہمیں دیکھ لیتی۔ جاہت سے تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کی موت بہت قریب پہنچ چکی تھی۔ مگر ہتھنی اور اس کا بچہ ہمارے لیے کافی خطرہ ہو سکتے تھے کہ ہتھنی اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اب اگر ہتھنی کو ہماری موجودگی کا احساس ہو جاتا تو اس دلدلی کیچڑ میں ہمارا کیا بنتا؟
سو ہم نے ایک جانب کا رخ کیا اور ہر ممکن آڑ کا سہارا لیتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی۔ تالاب اب دلدل بن چکا تھا اور ہم ٹھوکریں کھاتے اور تھکن سے نڈھال آگے بڑھتے رہے۔ پسینہ بہہ کر میری آنکھوں کو جلا رہا تھا اور پورا جسم سورج سے جھلسا ہوا اور کانپ رہا تھا۔ جسم کا ہر پٹھا تھکن سے بے حال اور سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔
شدید جد و جہد کرتے ہوئے ہم بار بار مڑ کر ہاتھیوں کو بھی دیکھتے رہے کہ کہیں وہ آگے نہ نکل گئے ہوں۔ مجھے یہ سفر ابدیت پر محیط لگا مگر حقیقت میں شاید ایک گھنٹہ لگا ہو کہ ہم ٹھوس زمین پر جا چڑھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور آسمان لال ہو رہا تھا۔
جب ہم خشکی پر چڑھے تو تھکن سے نڈھال تھے اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ زمین پر لیٹ کر ہم نے اپنی سانس بحال کی اور بدن پر شدید کھجلی ہو رہی تھی۔ پورے جسم میں شدید درد تھا۔
ہاشم پہلے اٹھا۔ اس نے ہاتھیوں کو دیکھا اور فوراً مجھے اٹھایا۔ ہم گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چل کر ہم اس مقام تک پہنچے جہاں ایک نیا اور مشکل تجربہ ہمارا منتظر تھا۔
شکار کے پیچھا کرنے میں ہاشم کی اصل اہمیت تھی۔ اس نے ہر خشک لکڑی اور شاخ ہٹائی اور سبز شاخیں توڑتا گیا۔ میرا کام محض اس کے پیچھے پیچھے حرکت کرنا تھا۔
آخرکار ہاشم نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت احتیاط سے انچ انچ کر کے اٹھا اور اپنے گھٹنوں تک کھڑا ہوا۔ پھر ہاتھ کے ہلکے سے اشارے سے اس نے مجھے اٹھنے کو کہا۔ تب جا کر مجھے اس چیز کا احساس ہوا جو میرے کنپٹیوں پر دھمکتے خون اور بے آواز حرکت کے خیال سے میں نے نہیں محسوس کی تھی۔ ہمارے سامنے پانی سے شپ شپ اور ہاتھیوں کے سانس لینے کی آواز آ رہی تھی۔
انتہائی آہستگی سے میں اٹھا اور گولی چلانے کو تیار ہوا۔ میں نے سامنے کچھ ہری ٹہنیاں موڑیں اور پچاس گز دور مجھے بہت آہستگی سے ہاتھی آتے ہوئے دکھائی دیے۔ بچہ اپنی سونڈ سے ماں کو پکڑے ہوئے تھا اور ہتھنی سی جاہت کو سہارا دیے آ رہی تھی۔
مجھے جاہت کا زخم نہیں دکھائی دیا جو شاید سر کے دوسری جانب ہو گا۔ وہ شدید تکلیف میں ہو گا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ہر سانس کے ساتھ اس کی سونڈ سے خون بہتا۔ اس کے سینے سے درد کی وجہ سے چنگھاڑیں نکل رہی تھیں۔
کسی قدیم بلا کی مانند اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس کے بیرونی دانتوں کا بالائی حصہ انسانی ران جتنا موٹا اور بہترین حالت میں تھا۔ اس کی کھال موٹی بوری کی مانند لٹک رہی تھی۔
میں آہستہ آہستہ ایک گھٹنے کے بل کھڑا ہوا اور محسوس کیا کہ ہاشم میرے سامنے سے ہٹ گیا ہے تاکہ مجھے گولی چلانے میں سہولت ہو۔ میں نے آہستگی سے دو نالی رائفل اٹھائی اور بہت نرمی سے سیفٹی کیچ ہٹایا تاکہ شور نہ ہو۔ میں نے دید بان سے اس پرانے بدمعاش کو دیکھا جس کی نجانے کتنی کہانیاں مشہور تھیں۔
اس کے جسیم کان عین اسی لمحے ہلے جب میں نے رائفل کا کندہ اپنے شانے سے لگایا۔ شاید اسی لمحے اس کی موت نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ میں نے گہرا سانس لیا اور آہستہ آہستہ باہر نکالا۔ پھر میں نے اپنے بازوؤں کے پٹھوں سے کام لیا۔ ساری تھکن اور تکلیف کافور ہو چکی تھی۔ میرا نشانہ اس کی کنپٹی کا نچلے کنارے سے ہوتا ہوا اس کی آنکھ پر آیا۔ پھر میں نے لبلبی آہستہ سے دبا دی۔
بھاری گولی جب اسے لگی تو مجھے صاف آواز سنائی دی اور میں نے دیکھا کہ عظیم الجثہ ہاتھی اس صدمے سے ہلا، پھر اس کا بدن کپکپایا اور پھر آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل جھکا اور پھر واپس پانی میں جھپاکے کے ساتھ گرا۔
ہتھنی اور اس کے بچے نے شور مچایا اور جھاڑیوں سے کسی بلڈوزر کی مانند گزرتے ہوئے دور غائب ہو گئے۔ ہاشم اور میں جذبات کی شدت سے کانپ رہے تھے اور ہمارے سامنے پانی میں وہ عظیم ہاتھی پڑا تھا جو سی جاہت، بدمعاش کہلاتا تھا۔ پھر اچانک میرے جسم نے میرا وزن سہارنے سے ان کار کر دیا۔ کئی دن کی پریشانی کا اثر اب ظاہر ہو رہا تھا اور اب مجھے آرام کرنا تھا۔ تالاب پر شام چھا گئی۔ ہزاروں مینڈکوں نے بیک وقت ٹرانا شروع کر دیا اور جنگل سے جھینگروں کی جھائیں جھائیں آنے لگی۔ آبی پرندے چلائے اور دو شکاری پرندے اوپر سے اڑتے ہوئے گزرے۔ ان کے پروں سے ہوا شُوک رہی تھی۔ عجیب، خواب سا لگ رہا تھا۔ اس طرح سی جاہت کی داستان تمام ہوئی اور مجھے لگا کہ شاید میں ہاتھیوں کے قبرستان والی بات کی تہہ تک پہنچ سکتا تھا۔
٭٭٭
باب دوم: جنگل کی جنگلی حیات
جب مجھے پہلی بار جنگلی جانور کے شکار کا موقع ملا تو اس وقت کی کیفیت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ لڑکپن میں چھوٹی بندوق سے میں فاختائیں مارا کرتا تھا اور اپنے والد کے ساتھ ایک کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھتا تھا کہ ایک دن انہوں نے مجھے اصلی دو نالی بندوق مجھے تھمائی۔ پہلی بار میں درخت پر بیٹھ کر مجھے بگونڈ یعنی جنگلی سور کا شکار کرنا تھا۔ میرا دل آج تک اتنا تیز نہیں دھڑکا تھا جتنا اس وقت دھڑکا جب میں نے شکاری کتوں کی آواز سنی۔ جوش سے میرے دانت کٹکٹا رہے تھے۔ پھر بھی میں نے جمبگر (نوجوان جانور) ہلاک کیا۔ ہفتوں تک مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا رہا۔
اس وقت سے میں نے بے شمار جنگلی جانور شکار کیے ہیں اور ان کی اکثریت جنگلی سور سے زیادہ بڑی اور زیادہ خطرناک تھی۔ تاہم جنگل چاہے جتنا گھنا ہو اور جانور جتنا خطرناک، میں نے شکار کو کبھی بیزار کن نہیں پایا۔ ہر بار شکار سے مجھے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملا کہ اس پر محنت اور مشقت لگتی تھی۔ اکثر تو یہ ساری مشقت رائے گاں جاتی۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے میرے جوش کو مہمیز ملتی۔ ہر شکار پر ملنے والا تجسس اور شکار کا تعاقب کرنے کی خوشی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اگرچہ یہ بات کچھ عجیب سی لگے، مگر میں نے ہمیشہ جنگلی جانوروں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ سچا شکاری ہمیشہ مخصوص قوانین کی پابندی کرتا ہے جس سے جنگلی جانوروں اور شکار کے درمیان ایک طرح کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ مزید براں گھنے جنگلات میں اکثر ایک شکاری کو پورے دن چل کر دوسرے مقام تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہر انسان مطمئن اور آرام سے رہتا ہے اور روز مرہ کاموں سے دل اچاٹ نہیں ہوتا۔ میں ایک پادری کو جانتا ہوں جو ہر کچھ عرصے بعد جنگلی سوروں کے شکار کو نکل کھڑا ہوتا ہے حالانکہ یہ سور اس کے کھیتوں کو کوئی نقصان نہیں دے رہے ہوتے۔
شکار کی بہت ساری اقسام ہوتی ہیں۔ ہر قسم کے لیے مخصوص عادات و اطوار کی ضرورت ہوتی ہے جسے ہر طرح سے تبدیل کیا جا سکے۔ ہر طریقے کا انحصار شکار کے مقام اور جانوروں کے خصائل پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جاوا میں آبادیوں یا قصبوں کے آس پاس جہاں شیر ختم کر دیے گئے ہیں، جنگلی سورؤں کا رویہ ان سورؤں سے یکسر مختلف ہوتا ہے جو گھنے اور ناقابلِ عبور جنگلات میں رہتے ہیں اور وہاں انہیں درندوں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ایسے علاقے میں رہنے والے سور دن کے وقت پیٹ بھرتے ہیں اور دوپہر کے وقت گھنی جھاڑیوں یا بانس کے جھنڈ میں چھپ کر آرام کرتے ہیں۔ کسی بھی درندے کی آمد کا انہیں پتوں اور ٹہنیوں کی سرسراہٹ سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ جہاں درندے نہ پائے جاتے ہوں، وہاں سور رات کے وقت نکلتے ہیں اور دن سارا کسی محفوظ جگہ گزارتے ہیں۔
یہی اصول ہرنوں پر بھی لاگو ہوتا ہے اگرچہ ہر ہرن مختلف صورتحال میں مختلف طریقے سے ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔ جن علاقوں میں درندے نہیں پائے جاتے، مثلاً بورنیو کے بلانگ (گھاس کے پہاڑی میدان)، یہاں دن کے وقت ہرنوں کے بڑے ریوڑ دکھائی دیتے ہیں۔ آباد علاقوں کے آس پاس یہ ہرن شبینہ ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان ان کا شکار کرتے ہیں۔
اس طرح شکار محض بندوق اٹھانے اور باہر نکل جانے کا نام نہیں ہے۔ ہر نئی جگہ پر پہنچ کر پہلے تو اس جگہ سے واقفیت پیدا کرنی چاہیے اور مقامی حالات کے علاوہ جانوروں کا بھی مشاہدہ کرنا چاہیے۔ بصورتِ دیگر کئی کئی گھنٹے تک شکار کی کوشش بیکار رہے گی۔
سب سے زیادہ ہانکے، مچان، پیچھا کرنا، اور بیلورن (اندھیرے میں مصنوعی روشنی سے شکار کرنا) استعمال ہوتے ہیں۔ ہانکے کے لیے شکاری کسی اچھے مقام پر چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور کتوں اور ہانکے والوں کی مدد سے شکار کو شکاری کی سمت لایا جاتا ہے۔ عام طور پر جب جانور شکاری کی مچان کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ گولی چلاتا ہے۔ اس طرح کامیاب شکار کے لیے کافی توجہ دینی پڑتی ہے اور تجربہ اتنی آسانی سے نہیں آتا۔
انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں ہانکے کے سخت اصول وضع کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سیلیبس اور کئی چھوٹے جزائر میں ہرنوں اور جنگلی سوروں کے ہانکے میں مقامی شکاری گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار شامل ہوتے ہیں اور ان کے پاس پھندے، نیزے اور چاقو ہوتے ہیں۔ جنگل کے کنارے پر پانچ سو گز جتنا جھاڑ جھنکار صاف کر دیا جاتا ہے اور شکاری یہاں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا کام جانور کو گولی مارنا نہیں ہوتا بلکہ جونہی جانور جنگل سے بھاگ کر نکلے تو اسے کچھ دیر بھاگنے کا موقع دینا ہے۔ یہ منظر بہت ہیجان انگیز ہوتا ہے کہ شور مچاتے گھڑ سوار اپنے گھوڑوں کی گردن پر جھکے ہوئے شکار کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی جانور اس صاف خطے سے نکل کر دوسری جانب پہنچ جاتا تو اسے امان دے دی جاتی اور گھڑ سوار اپنے نیزے لہرا کر اور شور مچا کر اسے داد دیتے۔ تاہم اگر جانور بہت زیادہ خوفزدہ ہونے کی وجہ سے بھاگنے کی بجائے واپس لوٹ آتا ہے تو پھر شکاریوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ جیسے چاہیں شکار کر لیں۔ میں نے ایسے کئی ہانکوں میں حصہ لیا ہے اور ان کی خوشگوار یادیں میرے ساتھ ہیں۔
رات کے وقت شکار کے لیے عموماً پورے چاند کی رات کو پانی کے تالابوں پر انتظار کیا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر اس سے بہت خوبصورت تجربات ملتے ہیں تو کئی جگہ پوری رات ایک بھی گولی نہیں چلائی جاتی۔ بعض اوقات میں نے تالاب کے کنارے پوری رات بیٹھ کر ہر قسم کے جنگلی جانوروں کی آمد و رفت کو دیکھا ہے۔ آبی پرندے شور مچاتے پانی پر جمع ہوتے تھے۔ ایک بار کنارے پر موجود جھاڑ جھنکار سے ایک مادہ اودبلاؤ اپنے تین بچوں کے ساتھ تالاب پر آئی۔ ادھر ادھر توجہ سے دیکھنے کے بعد اس نے پانی میں چھلانگ لگائی اور چھوٹے چھوٹے دائروں میں گھومنے لگی تاکہ اس کے بچے بھی پانی میں اتریں۔ بچے جھجھکتے رہے اور کنارے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ اچھلتے اور شور مچاتے رہے۔ یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
پھر مادہ اودبلاؤ ڈھلوان کنارے پر تھوڑا سا چڑھی اور بچوں کو اپنی پیٹھ پر سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ بہت کوشش کے بعد بچے سوار ہوئے اور مادہ نے پھر پانی کا رخ کیا۔ کنارے سے بمشکل ایک گز دور جاتے ہی اس نے ڈبکی لگائی اور تینوں بچے خوفزدہ حالت میں فوراً شور مچاتے کنارے کی طرف تیرنے لگے۔ ان کے فوراً پیچھے ماں نے اپنا گول سر نکال کر تسلی کی کہ سارے بچے کنارے کے پاس ہی ہیں۔ جونہی کسی بچے کا سر پانی کے نیچے جاتا، مادہ فوراً اس کے نیچے جا کر اسے اوپر اٹھا لیتی۔ یہ کھیل دوبارہ شروع ہوا اور معصوم بچوں نے پھر ماں کی پشت پر سواری کی اور پھر یہی سارا عمل دہرایا گیا۔
اچانک کچھ عجیب سا ہوا۔ مادہ کو خطرہ محسوس ہوا اور اس نے فوراً ہلکی چیخ ماری اور ایک لمحے میں پورا خاندان نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مادہ نے قریب آتے ہوئے جنگلی سورؤں کی آمد بھانپ لی تھی جو انتہائی بے فکری سے شور مچاتے، لمبی گھاس میں سے گزر کر آ رہے تھے۔ عجیب بات ہے کہ سورنی ہمیشہ اپنے بچوں کو سب سے آگے بھیجتی ہے جبکہ دنیا میں باقی ہر جانور کی مادہ بچوں سے پہلے خود جا کر خطرے کا جائزہ لیتی ہے۔ سور کے بچے ہمیشہ پانی پر پہنچ کر پیاس بجھانے اور کیچڑ میں لوٹنیاں لگانے کی بجائے بہت دھینگا مشتی کرتے اور بہت شور مچاتے ہیں۔ ان کے شور سے گھبرا کر مرغابیوں کا ایک جھنڈ اڑ گیا۔ سور کے بچوں نے اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیا جب تک تالاب میں موجود ہر آبی پرندہ اڑ نہ گیا اور پانی پینے والے تمام دیگر جانور پریشان نہ ہو گئے۔
تاہم جب ان کی مائیں پہنچیں تو ان کا شور تھم گیا۔ انہوں نے آتے ہی بچوں کو ڈانٹا اور بچے گھبرا کر کنارے پر چڑھ گئے۔
مجھے اس سارے منظر سے اتنا لطف ملا کہ میں نے اپنی دو نالی بندوق اٹھانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
پیچھا کرنے کے دوران آپ زمین پر رہتے ہوئے جانور کے پیچھے حرکت کرتے ہوئے اپنی بندوق تیار رکھتے ہیں۔ جونہی جانور بھاگتے یا مار میں آتے ہیں، انہیں گرا لیا جاتا ہے۔ جب رات کے وقت بیلور (شکاری لالٹین) کے ساتھ شکار کیا جاتا ہے تو اسے انڈونیشیا میں بیلورین کہتے ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے دونوں طریقوں کی نسبت بیلورین کوئی زیادہ آسان نہیں۔ ان طریقوں میں نہ صرف طویل تجربہ درکار ہوتا ہے بلکہ اپنے حواس پر پوری طرح قابو بھی ہونا چاہیے۔ برسوں کا تجربہ بھی مدد کرتا ہے۔ اندھیرے میں لالٹین کی مدد سے بھی شکار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ سائے ہر چیز کو دشوار تر بنا دیتے ہیں اور فاصلوں کا اندازہ درست نہیں رہتا اور تناسب بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اس لیے جب تک طویل تجربہ اور مشق نہ ہو، ہر گولی اندازے سے ہی چلانی پڑتی ہے۔ میں نے بہت مرتبہ ایسے نشانہ بازوں کو رات کا نشانہ مسلسل خطا کرتے دیکھا ہے جو دن کے وقت بھاگتے ہوئے کسی بھی جانور کے کسی بھی حصے پر گولی چلانے کے قابل ہوتے ہیں۔
ان طریقوں کے علاوہ ان کو ملا کر نئے طریقے بھی بنائے جا سکتے ہیں، مگر اس کا انحصار مطلوبہ جانور اور اس کے اطوار پر ہوتا ہے۔
تاہم بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اصل شکار سے بہت کچھ سیکھا جاتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ گھنے اور ان چھوئے جنگلات میں بے شمار جانور رہتے ہیں۔ اگر نہ بھی بتایا جائے تو بھی آپ جانوروں کی گزر گاہوں، چھوٹے درختوں پر لگی خراشوں اور پیروں کے نشانات کے علاوہ رات کے وقت جنگل سے آنے والی آوازوں سے بھی جانوروں کے بارے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر گھنے اور وسیع جنگل میں کسی جانور کو دیکھنے کی خاطر باغیچوں اور دلدلوں کے علاوہ کچھ اور بھی درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ بے پرواہی سے جائیں اور ہوا کے رخ کا خیال نہ رکھیں اور چلتے وقت آوازیں نکالتے رہیں تو ہر جانور آپ کی آمد سے آگاہ ہو کر دور بھاگ جائے گا۔ آپ کو ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات سے رستا ہوا پانی، ان کے جسم کی بو اور دیگر علامات تو بہت دکھائی دیں گی مگر یہ تمام جانور آپ کے برعکس انتہائی خاموشی سے بھاگ جائیں گے۔
تاہم اگر آپ جنگلی جانوروں کی عادات اور ان کے رہنے کے مقامات اور ان کی آوازوں سے واقف ہوں تو آپ کو جنگلی جانوروں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں بیکار انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نے مقامی باشندوں سے ہرنوں کے شکار کا طریقہ سیکھا ہے جس میں انہیں اپنی طرف بلایا جا سکتا ہے۔ بانس کا چھوٹا سا ٹکڑا درمیان سے کاٹ کر منہ میں رکھیں اور دونوں ہاتھوں سے اس کے گرد ہالہ بنا لیں۔ جب آپ اس بانس کے ٹکڑے کو مناسب طریقے سے بجائیں گے تو اس سے مادہ ہرن کی تکلیف بھری آواز نکلتی ہے جو کافی دور تک جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ کو جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھنا ہے اور دیگر مادائیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ کوشش کریں کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بندہ بھی ہو جو آپ کی پشت سے پشت ملا کر بیٹھے کیونکہ اس آواز سے نہ صرف ہرن بلکہ شیر بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ شیر اکثر یہی آواز نکال کر ہرنوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ میں نے کئی بار شیروں کو دیگر انواع کے جانوروں کی آواز نکالتے سنا ہے جن میں دم توڑتے ہرن کی آواز سے لے کر بھینسے کی ‘مووو’ کی آواز تک شامل ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک کاشتکار اپنی ایک نالی بندوق لے کر اپنی زمینوں کے پاس ہی ہرن کے شکار کو گیا۔ اس نے یہ آواز نکالی اور اچانک اس کا سامنا شیر سے ہو گیا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ جب شیر نے مادہ ہرن کی بجائے ایک کاشتکار کو چھوٹی اور بے ضر ر بندوق کے ساتھ پایا تو کسے زیادہ دھچکا لگا ہو گا۔ خوش قسمتی سے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
میرے ہمراہی ہاشم نے، جو کہ بہترین کھوجی ہے، مجھے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ اگر جنگل میں اچانک شیر سے سامنا ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے مجھے تو یہ نسخہ آزمانے کا کبھی موقع نہیں ملا مگر یہ نسخہ قابلِ عمل لگتا ہے، سو آپ کو بتا رہا ہوں۔ ہاشم کی ہدایت تھی کہ شیر کو دیکھتے ہی کبھی اس سے بھاگنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسی جگہ بے حس و حرکت رک کر درندے پر نظریں مرکوز رکھنی چاہیں۔ اگر شیر آدم خور نہیں تو یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ شیر آپ کو نقصان پہنچائے بغیر چل دے گا۔
یہ بھی ممکن ہے اور میرے علم میں بھی ہے کہ شیر کو انسان کی بو سب سے زیادہ بری لگتی ہے۔ ہاشم نے ایک اور وضاحت پیش کی تھی کہ چونکہ شیر نے ہمیشہ چار ٹانگوں والے جانور دیکھے ہیں، سو جب وہ انسان کو اپنی جانب آتے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ انسان بہت بڑا چوپایہ ہے جس کی محض سامنے کی دو ٹانگیں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لیے شیر حملہ کرنے کی بجائے فرار کو ترجیح دے گا۔ اس نظریے میں جان ہے کیونکہ آدم خور کا پہلا اور عموماً زیادہ تر دوسرے شکار بھی عورتیں اور بچے ہوتے ہیں جو کھیت میں کام کرتے ہوئے یا لکڑیاں کاٹتے ہوئے جھکے ہوتے ہیں۔ جب انسان جھکا ہوا ہو تو ظاہر ہے کہ اس کی جسامت مختصر دکھائی دیتی ہے اور شیر ان پر جست لگانے سے نہیں کتراتا۔
لگے ہاتھوں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کر دوں کہ آدم خور شیر نہ تو بوڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی کمزور، جو اپنی کمزوری اور گھسے ہوئے دانتوں کی وجہ سے کمزور اور سست شکار کو تلاش کرتا ہے۔ اگر شیر نے انسانی شکار کر لیا ہے تو پھر اسے ہمیشہ کے لیے انسان کی کمزوری کا احساس ہو جاتا ہے کہ انسان کتنا ناتواں ہے۔ اگلی بار جب وہ انسان کو شکار کرنے لگتا ہے تو انسان پر اپنی برتری کا پورا احساس ہوتا ہے۔ آخرکار وہ تیز رفتار ہرنوں اور طاقتور جنگلی سور کا پیچھا چھوڑ کر صرف انسان کا شکار شروع کر دیتا ہے۔
جائے گا۔ بہت مرتبہ ایسا ہو گا کہ آپ سارے دن دلدلی جنگلات میں تیز بارش کے دوران پھرنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال ہو کر اپنے کیمپ واپس آئیں گے تو آپ کا انگ انگ درد کر رہا ہو گا۔ آپ خود کو کوستے ہوئے کہیں گے کہ بس، اب اور شکار نہیں کرنا۔ مگر چند دن بعد جب آپ کی طبعیت بحال ہو چکی ہو گی اور آپ برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھے ہوں گے کہ جنگلی ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آواز سنائی دے گی اور آپ اپنی تمام تر مشکلات کو یکسر بھلا کر پھر سے شکار کے لیے تیار ہونے لگ جائیں گے۔
جب آپ پہلی بار جنگل میں جائیں گے تو سب سے حیران کن چیز جنگل کا یکساں اور ایک ہی شکل کا سبزہ ہو گا۔ ہر درخت دوسرے سے عین مشابہ ہو گا۔ ہر درخت کے اردگرد اسی جیسے لاکھوں درخت موجود ہوں گے۔ زیادہ تر درخت بہت بڑے اور تناور ہوں گے اور ان کے پتے چھتری کی شکل میں بہت اونچے ہوں گے۔ سورج کی روشنی کہیں کہیں سے پتوں میں راستہ بناتی نیچے تک پہنچتی ہے۔ جنگل کا فرش نرم اور لچکدار ہوتا ہے اور اس سے نمی اور وہ بو اٹھتی ہے جس سے احساس ہوتا ہے کہ یہاں نباتات گل سڑ رہی ہیں۔ جہاں سورج کی روشنی پڑ رہی ہو، وہاں خشک ٹہنیاں اور سوکھے پتے آپ کے قدموں تلے چرمرائیں گے۔
اونچے اونچے درختوں سے گھنی بیلیں لپٹی ہوتی ہیں۔ درختوں کے نیچے اگا ہوا جھاڑ جھنکار آپ کی پیش قدمی کو مشکل تر بنا دیتا ہے اور راستے میں جگہ جگہ گرے درخت آپ کو روکتے ہیں۔ ہر چیز سبز ہوتی ہے، سبزے کے ہزاروں رنگ دکھائی دیتے ہیں اور کوئی اور رنگ نہیں ملتا۔
یہ پہلا تاثر ہوتا ہے۔ پھر آپ جوں جوں جنگل سے واقف ہوتے جاتے ہیں، دیگر رنگ بھی دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے ایک درخت جو گر کر کائی تلے چھپا ہوا ہے، اونچی بیل پر جھولتے پھول ہوں یا پھر کسی پرندے کا گھونسلہ۔
جب پہلی بار اتنے زیادہ سبزے سے پیدا شدہ الجھن ختم ہوتی ہے اور آپ ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں تو ان جنگلوں میں گھسنا مسرت کا سبب بنتا ہے اور جنگلی حیات کے مطالعے کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ شروع شروع میں آپ کی آنکھیں اور کان اس خزانے سے واقف ہونے میں وقت لگاتے ہیں۔
اس جنگل میں کسی کو پیاس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جلد ہی آپ اپنے انگوٹھے جتنی موٹی گہری سبز بیل کو پہچاننا سیکھ لیں گے۔ اس بیل کو جب پرانگ کے وار سے ترچھا کاٹا جائے تو اس سے صاف شفاف اور سرد پانی نکلتا ہے۔
اس جنگل میں آپ کو کبھی کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور نہیں ہونا پڑتا۔ شاخوں سے بنے ڈھانچے پر آپ عظیم الجثہ ڈا ان سنگ نامی درخت کے چوڑے پتے ڈال کر آپ نہ صرف بارش بلکہ دھوپ سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ان پتوں کے درمیان موٹی رگیں ہوتی ہیں۔ تجربہ کار بندے کے لیے اس جنگل میں کھانے کے قابل پتے اور گوشت بہ آسانی مل جاتا ہے اور ہنگامی صورتحال کے لیے درختوں کے سفید کیڑے اور ان کے بچے ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔
تاہم جنگل میں ہر چیز مفید اور اچھی نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہاشم نے مجھے ایک درخت سے زبردستی کھینچ کر دور کیا۔ اس گھنے درخت کے پتے انسانی انگلی جتنے موٹے تھے اور اس کے تنے پر سفید دھبے پڑے تھے، جیسے چتکبرا گھوڑا ہو۔ پہلی نظر میں یہ درخت بے ضر ر دکھائی دے رہا تھا۔ ہاشم نے انتہائی نفرت بھرے انداز میں اس درخت کا نام لیرونگ بتایا۔ اس کے مطابق اس درخت کا رس انسانی جلد پر بہت برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کا ایک قطرہ انسانی کھال کو جلاتا ہوا گوشت تک پہنچ جاتا ہے اور درد کی شدت سے انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔
کئی درختوں کے پتوں پر چھوٹے چھوٹے نوکیلے بال ہوتے ہیں اور چھونے پر خارش شروع ہو جاتی ہے۔ اگر اس درخت کا ایک خشک پتہ ہوا سے اڑ کر کسی ساکن تالاب میں جا گرے تو اس میں موجود تمام جاندار مر جاتے ہیں۔ جنگلی جانور کسی بھی ایسے درخت کے قریب بنے نئی تالاب پر اس وقت تک پانی نہیں پیتے جب تک وہ پوری تہہ کو دیکھ کر تسلی نہ کر لیں کہ اس درخت کا کوئی پتہ موجود نہیں۔
پرانے جنگلات حیران کن چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں جو ہمیشہ مثبت نہیں ہوتیں۔ جنگل کی بدترین چیزوں میں سے ایک جونکیں ہوتی ہیں جو خطرناک نہیں ہوتیں۔ بعض مرطوب جگہوں پر تو یہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ جیسے ان کی بارش ہو رہی ہو۔ جونکیں عموماً گھنی جھاڑیوں سے لٹک رہی ہوتی ہیں اور اپنے حسی اعضا سے نیچے گزرنے والے گرم خون والے جانوروں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ عموماً ان کی کمین گاہ جانوروں کی گزر گاہوں پر ہوتی ہے۔ جب کوئی جانور گزرتا ہے تو یہ اس پر گرتی ہیں اور اپنے دانتوں سے کسی جگہ چپکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے منہ میں دانت نما تین چیزیں ہوتی ہیں جو اُسترے کی مانند تیز ہوتی ہیں جن کی مدد سے یہ کھال کا کچھ حصہ اتار لیتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کے منہ سے ایسا لعاب نکلتا ہے جو خون کو جمنے سے روکتا ہے۔ پھر یہ اتنی دیر خون چوستی رہتی ہیں جب تک انسان کی انگلی کے برابر لمبی اور موٹی نہ ہو جائیں۔ پھر یہ گر جاتی ہیں تاکہ آرام سے اپنی خوراک کو ہضم کر سکیں۔ ان کا دیے ہوئے زخم سے خون کچھ دیر تک بہتا رہتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ جونکیں کتنی دور اور خفیہ جگہوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جب یہ بازو یا گردن پر ہوں تو احتیاط سے تمباکو کا پانی لگا کر انہیں آسانی سے اتارا جا سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ انہیں نوچ کر الگ نہ کیا جائے ورنہ بڑا زخم بن جائے گا جو بگڑ بھی سکتا ہے۔ مندرجہ بالا طریقے سے انہیں ہٹانا بہتر ہے اور پھر سگریٹ والے کاغذ سے زخم کو ڈھک دینا کافی رہتا ہے۔
ریتلے گھونگھے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جب ہمیں کسی جھیل کا سفید کنارہ دکھائی دیتا ہے جو صاف ستھرا ہو یا پھر دریا کا ریتلا کنارہ، جہاں مگرمچھ کا خطرہ نہ ہو تو انسان فوراً نہانے کا سوچتا ہے۔ نہانے کے بعد وہیں گرم اور نرم ریت پر لیٹ کر بدن خشک کرتا ہے۔ اس کی قیمت شام کو ادا کرنا پڑتی ہے جب ناقابلِ برداشت کھجلی شروع ہو جاتی ہے جو ناقابلِ رسائی مقامات پر ہوتی ہے، مثلاً ناخنوں کے نیچے۔ چوبیس گھنٹے بعد ناخنوں کے نیچے موجود سرخ دھبوں سے اس تکلیف کی وجہ کا علم ہوتا ہے جو ریتلے گھونگھے کے انڈے ہوتے ہیں اور انہیں انڈے دینے کو یہی جگہ پسند اتی ہے۔ جونہی انڈے سے بچے نکلیں گے، انہیں تازہ انسانی خون اور گوشت اور گرمی ملے گی۔
اس کے بعد بدترین تکلیف شروع ہوتی ہے۔ آپ اپنے سب سے وفادار ملازم کو بلاتے ہیں جو آپ کی لعن طعن اور گالیوں کو برداشت کر سکے۔ پھر آپ اسے کام شروع کرنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ اس دوران آپ کا ملازم پہلے ہی بانس کی انتہائی باریک مگر مضبوط پھانس اتار کر اسے آگ دکھا چکا ہوتا ہے۔ انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں آپ کو دیکھتے ہوئے ملازم کام شروع کرتا ہے۔ آپ کی ٹانگ کو انتہائی مضبوطی سے پکڑ کر ناخنوں کے نیچے موجود سرخ نشان میں پیوست کر دیتا ہے۔ یہ کام کافی احتیاط طلب ہے کہ انڈوں تک پہنچنے سے پہلے انگارہ نہیں بجھنا چاہیے، ورنہ بیکار ہو جائے گا۔ اس طرح ایک ایک کر کے تمام انڈے جلا دیے جاتے ہیں۔ چند گھنٹوں تک یہ انتہائی تکلیف دہ کام جاری رہتا ہے اور آپ ہمیشہ کے لیے محتاط ہو جاتے ہیں۔
فطرت میں کوئی چیز رحم دل نہیں ہوتی۔ ہر زندہ چیز کو زندہ رہنے کے لیے مسلسل جہد کرنی پڑتی ہے اور اپنی ہر حس اور ہر عصب سے پورا کام لینا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی مسلسل خطرے اور موت کا سامنا کرتی رہتی ہے۔
فطرت میں خوبصورت پرندوں میں ارگوس مرغِ زریں سے زیادہ کوئی خوبصورت نہیں۔ اس کے پر اور رنگ مور سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی مون سون کے درمیان ڈیڑھ ماہ کے وقفے میں آپ کو جنگل میں اگر کہیں بالکل صاف ستھرا اور جھاڑ جھنکار سے پاک قطعہ دکھائی دے تو ارگوس مرغِ زریں کا گھونسلہ ہو گا۔ یہ جگہ تقریباً دو مربع میٹر اور گول شکل میں ہوتی ہے اور یہاں سے پتے، گھاس، ٹہنیاں وغیرہ، ہر چیز صاف کر دی جاتی ہے۔ یہ سب محنت نر کی ہوتی ہے جو اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے اس جگہ کو صاف کرتا ہے۔ گھاس وغیرہ کو صاف کرنے کے لیے یہ اپنی گردن کو اس کے تنے پر گھما کر چونچ کی مدد سے زور لگا کر اکھاڑتا ہے۔ اسے یہ سب جگہ صاف کرنے پر پورا دن لگ جاتا ہے۔ پھر نچلی شاخوں پر کھڑے ہو کر نر شور مچاتا ہے۔
اب اس کا سارا وقت مادہ کی تلاش میں گزرتا ہے۔ جب اسے ایک یا دو یا تین مادائیں مل جائیں تو وہ انہیں اپنے گھونسلے تک لے کر آتا ہے۔ مادائیں اس نر کے ساتھ لاپرواہی سے چلتی آتی ہیں کہ جیسے انہیں کوئی پرواہ نہیں اور راستے میں کہیں چر چگ لیا تو کہیں کچھ اور کھا لیا۔
مطلوبہ مقام پر پہنچ کر مادائیں اپنی مرضی کی جگہیں تلاش کر کے بیٹھ جاتی ہیں اور نر ایک بار پھر اس جگہ کا معائنہ کرتا ہے۔ اگر ہوا کے ساتھ کوئی پتہ اڑ کر آیا ہے یا پھر گھاس کی کونپل اگنے لگی ہے تو اسے صاف کر دیتا ہے۔ پھر وہ ملاپ کے لیے اپنا انوکھا رقص شروع کرتا ہے۔ نر اپنے پر پھیلا کر کبھی انہیں گھماتا ہے تو کبھی اپنے سر کو پروں کے درمیان چھپاتا ہے اور گھومتے ہوئے دھوپ میں اپنے رنگوں کی نمائش کرتا ہے۔
تاہم اس شاندار نمائش میں نر کے لیے بڑا خطرہ چھپا ہوتا ہے۔ جنگل کے رہنے والے اس کے بارے جانتے ہیں اور اس کا آسانی سے شکار کر لیتے ہیں۔ جب انہیں جنگل میں کہیں ایسی صاف جگہ دکھائی دے تو وہ اس جگہ بانس کی انتہائی باریک پٹی گاڑ دیتے ہیں جس کے کنارے چاقو کی طرح تیز ہوتے ہیں۔ جب نر واپس آتا ہے تو بانس کو گھاس سمجھ کر چونچ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ یہ انتہائی سختی سے گڑی ہوتی ہے، اس لیے نر کی چونچ پھسلتی ہے اور یہ پٹی اس کی گردن پر پھر جاتی ہے اور نر وہیں ہلاک ہو جاتا ہے۔
فطرت میں نمائش سے موت بھی آ سکتی ہے۔ مگر یہ مت سوچیے کہ ایسا ظلم محض انسان کرتے ہیں۔ انسان میں دوسرے جانوروں کے برعکس اپنے دفاع کے لیے پنجے یا دانت نہیں ہوتے۔ اس لیے انسان کو اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ تیار رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح جانور ایک دوسرے کو ہلاک کرتے ہیں، وہ عموماً انسان سے کہیں زیادہ درندگی والے ہوتے ہیں۔
ایک بار میں ہاشم کے ساتھ سنائپ کے شکار پر گیا جو دریائے سردانگ کے نچلے سرے پر واقع اس دلدلی علاقے میں بکثرت پائے جاتے تھے۔ ایک بار ہم لوگ گیارہ بجے واپس اس جگہ لوٹے۔ سورج بلند ہو چکا تھا اور گرمی شدید ہو رہی تھی۔ پانی پر سورج کا عکس گرمی کی شدت میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ جنگل کے کنارے تیز زرد رنگ کے کانو کانو کی چوڑے پتوں والی جھاڑیاں تھیں۔ ان جھاڑیوں میں کہیں کہیں مردہ درخت ایسے نکلے ہوئے تھے جیسے ڈھانچے ہوں۔ جگہ جگہ ایلیفنٹ گراس بھی تھی۔
اچانک میں نے دیکھا کہ ہاشم جو میرے سامنے بیٹھا تھا، اچانک کھڑا ہوا اور اس چیز کو گھورنے لگا جو ہمارے سامنے دریا میں بہتی آ رہی تھی۔ اس کی شکل و صورت مگرمچھ جیسی تھی جو مٹیالے زرد رنگ کی تھی اور اس پر کہیں کہیں سخت ابھار بھی تھے۔
ہاشم نے مڑ کر میری جانب دیکھا اور سمجھ گیا کہ میں اس چیز میں دلچسپی لے رہا ہوں۔ اس نے کشتی کا رخ اس چیز کی جانب موڑ دیا۔
یہ چیز مگرمچھ ہی تھی، مردہ ‘بواجا’۔ دس فٹ لمبا اور کنارے پر الٹا ہوا پڑا تھا۔ اس سے اٹھنے والی بو اگرچہ متعفن تو نہیں تھی مگر آسانی سے متلی پیدا کر سکتی تھی۔
‘تھوان، میں آپ کو کچھ دکھاتا ہوں۔ ‘ ہاشم نے کہا۔ پھر اس نے ملاح کو اشارہ کیا کہ کشتی کنارے پر لے جائے۔ کنارے پر پہنچ کر ہم اترے۔ ہم نے بواجا کو پانی سے باہر نکالا۔ مجھے اس کی آنکھوں کی جگہ خالی حلقے دکھائی دیے جن میں دریا کا زرد پانی حرکت کر رہا تھا۔
مگرمچھ کو پشت کے بل لٹا کر ہاشم نے اپنی پرانگ نکالی اور مجھے محتاط رہنے کا کہا۔ جونہی پرانگ مگرمچھ کے جسم میں داخل ہوئی، اس سے انتہائی بدبودار مواد کا فوارہ نکلا اور اسی جگہ سے سبزی مائل زرد رنگ کے کیکڑوں کی بہت بڑی تعداد نکل کر کناروں میں سوراخ کر کے چھپنے لگی۔
میرا جی متلانے لگا اور میں نے منہ موڑ لیا۔ پتہ نہیں ہم کشتی تک کیسے واپس آئے۔ دریا میں کشتی ڈولنے لگی اور گھر واپس پہنچ کر برانڈی کی دو خوراکیں لینے کے بعد جا کر مجھے آرام آیا۔ اس کے بعد ہاشم بات کرنے آیا۔ ایسے وقت مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ زندگی اور ہاشم میرے لیے کتنے اہم ہیں۔ میں تھکا ماندہ برآمدے میں آرم کرسی پر نیم دراز رہا اور بیڑی میرے منہ میں تھی اور گلاس ساتھ رکھا تھا۔ ہمارے اردگرد چاروں طرف فطرت پھیلی ہوئی تھی۔ ہاشم ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گیا۔ اس کا بوڑھا اور بدصورت چہرہ بذاتِ خود ذہانت کا شاہکار لگ رہا تھا۔ آرام کی یہ گھڑیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ اس نے مجھے مگرمچھ کے دردناک انجام کے بارے بتایا جس سے مجھے فطرت کے ایک اور بے رحم چہرے کا علم ہوا جہاں ہر وقت بقا کی جد و جہد جاری رہتی ہے۔
ہاشم نے بتایا کہ بواجہ کے دشمن بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کی بے پناہ طاقت اور پانی میں ڈبونے کی صلاحیت کی وجہ سے شاید ہی کوئی جانور اس پر حملہ کرتا ہو۔
بعض اوقات جب بواجہ ہاتھی کے بچے کو پکڑ لے تو ہاتھی اس پر حملہ کرتے ہیں۔ ہاتھی ان کی کمر کے گرد سونڈ لپیٹ کر شور مچاتے ہوئے اسے پانی سے نکال کر زمین پر پھینک دیتے ہیں۔ دیگر جانور اس وقت مگرمچھ سے لڑتے ہیں جب ان پر حملہ کیا جائے (چاہے وہ پانی کے اندر ہو یا پانی کے کنارے )۔ جان بچانے کے لیے کوئی بھی جانور مگرمچھ سے لڑ سکتا ہے۔ بعض جانور بہتر لڑ سکتے ہیں تو بعض کو قدرتی طور پر فائدہ ملا ہوتا ہے۔ ہرن، جنگلی سور اور دیگر کھر دار جانور نہیں بچ سکتے۔ جب بھی ان جانوروں کو گھسیٹ کر پانی میں لے جایا جاتا ہے تو یہ جی جان سے لڑتے ہیں۔ مگر بواجہ کی طاقت کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی۔
شیر اور تیندوے اپنے آپ کو بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگرمچھ اپنے شکار کو دبوچتے ہی پانی کے نیچے لے جاتا ہے مگر پھر اوپر آتا ہے۔ اکثر اس کی پانی کی سطح پر آمد فوراً ہی ہوتی ہے مگر چونکہ موت کے ڈر سے شکار ہونے والا جانور اپنے سانس کا خیال نہیں رکھ پاتا، اس لیے وہ قبل از وقت مر جاتا ہے۔ بچاؤ کا اصل وقت وہی ہوتا ہے جب مگرمچھ پہلی بار اسے اوپر لاتا ہے۔ اس وقت اگر شیر یا تیندوا اپنے پنجوں کو مگرمچھ کی آنکھوں پر آزمائیں تو تکلیف کی شدت سے مگرمچھ انہیں چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنی جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں۔
اگرچہ بندر کی طاقت شیر یا تیندوے سے کہیں کم ہوتی ہے، مگر ان کے پاس بچنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ جب مگرمچھ انہیں دبوچے، وہ زندہ رہ جائیں۔ قدرتی طور پر جونہی مگرمچھ انہیں پکڑتا ہے، وہ ٹٹول کر اس کی آنکھوں کو نوچتے ہیں۔ جنگل کے باسی بھی یہی تربیت دیتے ہیں کہ ‘جونہی مگرمچھ آپ کو دبوچ کر پانی کے اندر لے جانے لگے، گہرا سانس لے کر آہستہ آہستہ سانس نکالا جائے اور گھبراہٹ نہ طاری ہو۔ پھر اپنے آزاد ہاتھ سے بواجہ کی آنکھوں کو دبایا جائے۔ جونہی آپ کو مگرمچھ کا منہ کھلتا محسوس ہو، فوراً اپنا سانس روکے ہوئے نیچے کی طرف ترچھے تیرتے ہوئے مگرمچھ سے دور ہوتے جائیں کیونکہ درد کی شدت سے مگرمچھ پانی کی سطح پر پہنچ کر اپنی دم بہت زور سے پٹخے گا’۔
اگرچہ میں نے ذاتی طور پر اسے نہیں آزمایا مگر اس طریقے میں اتنی مشکل صورتحال میں اپنے اعصاب کو قابو رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ چند افراد ہی اس قابل ہوں گے کہ اس طریقے کو کامیابی سے آزما سکیں۔ بندر بھی یہی کام لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔
جب مگرمچھ کی آنکھیں اس طرح نوچ لی جائیں تو اس کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔ آنکھوں سے بہنے والا خون نیچے بہتا ہوا چھوٹے کیکڑوں تک پہنچتا ہے جو شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ مگرمچھ اگر ان زخموں کے مندمل ہونے تک کنارے پر رہ سکے تو اس کی جان بچ جاتی ہے۔ مگرمچھ کافی عرصہ بھوکا رہ سکتا ہے۔ اس کی زبان نہیں ہوتی، اس لیے اسے ذائقے کا علم نہیں ہوتا۔ میں نے انسانی مٹھی کے برابر حجم کے پتھر مردہ مگرمچھوں سے نکالے ہیں۔ بھوکا مگرمچھ بھوک کی حالت میں جب کچھ نہ ملے تو پتھر بھی نگل لیتا ہے تاکہ پیٹ خالی نہ رہے۔ بہرحال ہاشم کا یہی خیال تھا اور مجھے اس سے بہتر اور کوئی نظریہ نہیں مل سکا۔
اگرچہ مگرمچھ خوراک کے بغیر طویل عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں، مگر بچاؤ یا خوراک کی تلاش میں اسے پانی میں جانا ہی پڑتا ہے جہاں کیکڑے اپنی بے حد طاقتور قوتِ شامہ سے اسے تلاش کر لیتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کیکڑے ان زخموں میں گھسنا شروع کر دیتے ہیں۔ سطحی زخم سے کیکڑے اپنا پیٹ بھرتے ہوئے اس کے جسم میں گھس جاتے ہیں اور آخرکار بواجہ مر جاتا ہے۔ بواجہ کی تکلیف کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں جو پانی میں رہتا ہے اور کیکڑے اس کے جسم کو کھاتے رہتے ہیں اور جب اعضائے رئیسہ ختم ہوتے ہیں تو مگرمچھ کی تکلیف ختم ہوتی ہے۔
بے شک جنگل میں آپ کو بہت زیادہ خوشیاں بھی ملتی ہیں مگر یاد رہے کہ بہت زیادہ ظلم اور تکلیف بھی، اور آپ زندگی کے بارے سوچتے رہ جاتے ہیں۔
٭٭٭
باب سوئم: قاتل
جنگل میں ایک بدنامِ زمانہ لفظ ہے، آدم خور۔ عموماً آدم خور سے مراد انسانی گوشت سے پیٹ بھرنے والے شیر ہوتے ہیں۔ یہ فرض کر لینا حماقت ہے کہ تمام شیر ہی آدم خور ہوتے ہوں گے۔ قدرتی طور پر شیر محض جنگلی جانوروں کا شکار کرتا ہے اور انسان سے ہر ممکن طور پر دور بھاگتا ہے۔ تاہم غصے کی حالت میں یا جب انسان اچانک بہت قریب پہنچ جائے یا پھر جب مادہ کے ساتھ اس کے بچے بھی ہوں تو شیر کی طرف سے حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کا رویہ موسم کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ افزائشِ نسل کے دور میں شیر زیادہ جارحانہ مزاج ہو جاتے ہیں۔
عموماً شیر جب بہت بوڑھا ہو یا کسی وجہ سے بہت کمزور ہو جائے اور اپنے قدرتی شکار یعنی چوپایوں کو ہلاک کرنے کے قابل نہ رہ جائے تو آدم خور بنتا ہے۔ پہلے وہ آسان شکار کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ایسا شیر انسانی آبادی کے قریب منتقل ہو جاتا ہے اور پالتو مویشیوں پر حملہ شروع کرتا ہے جن میں گائے، بکریاں اور کتے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اکثر فصل یا لکڑی کاٹتے ہوئے جھکے انسان پر شیر حملہ کرتا ہے۔ جب ایک بار شیر انسان کا شکار کر لیتا ہے تو پھر کسی اور شکار کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ پورا علاقہ دہشت کی زد میں آ جاتا ہے۔
اور بھی کئی جانور ہیں جو آدم خور بن جاتے ہیں۔ مگرمچھ اس کی ایک مثال ہے۔ ذیل میں ایک ایسے ہی مگرمچھ کے بارے بتاتا ہوں۔
یہ مگرمچھ دریائے موسی میں سکون سے رہتا تھا۔ ایک بار اس کی دوسرے بواجہ سے شاید مادہ پر لڑائی ہو گئی۔
ہاشم نے مجھے بتایا کہ اس جگہ چند نر مگرمچھ ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مگرمچھ اپنی جنس کے دیگر مگرمچھوں کو ایک جگہ برداشت نہیں کر سکتے۔ جب کوئی مگرمچھ کسی دریا کے ایک حصے کو اپنی قیام گاہ اور شکارگاہ کے طور پر چن لے تو پھر شاذ ہی کسی دوسرے نر مگرمچھ کو اس جگہ آنے کی اجازت دیتا ہے۔ مادائیں ایک دوسرے پر معترض نہیں ہوتیں۔ تاہم اگر نر آ جائے تو پھر ماداؤں میں لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ ان دو مگرمچھوں میں ہونے والی لڑائی کو چشمِ تصور سے دیکھا جا سکتا ہے۔
جس مگرمچھ کا ذکر کرنے لگا ہوں، اسے شاید کسی طاقتور نر نے اس کے علاقے سے نکال باہر کیا تھا۔ یہ مگرمچھ کوئی کمزور جانور نہیں تھا۔ اس کی لمبائی سولہ فٹ تھی اور جسم پر پرانے زخموں کے نشانات تھے۔ جب یہ جانور پانی میں اترتا تو عجیب سی آواز پیدا ہوتی۔ اس کی شکل سے ہی بے رحمی اور قاتل ہونا واضح تھا۔ اس جنگ سے تو کوئی زخم نہیں بنے لیکن اس کی کمینگی اپنی مثال آپ تھی۔
اس مگرمچھ کے بارے مجھے پہلے پہل ایک تانی (کسان) نے بتایا جو کھیتوں سے واپسی پر اپنی گائیں دریائے موسی کی ایک شاخ پر پانی پلانے کو لے گیا تھا۔ اس ندی میں کوئی مگرمچھ نہیں تھے کہ یہاں مچھلیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مگرمچھ نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسان سست ہو رہا تھا اور گایوں کو پانی پر لانے سے قبل اس نے پانی پر لاٹھیاں مار کر شور نہیں کیا۔ جب تھکا ہارا کسان اور اس کی گائیں کام سے فارغ ہو کر ندی پر پہنچے تو سب سے اگلی گائے کو ندی سے ایک بہت بڑے مگرمچھ نے تھوتھنی نکال کر پکڑا اور پانی میں گھسیٹ کر لے گیا۔ عظیم الجثہ بواجہ، انتہائی ڈراؤنا خواب۔ تانی نے بتایا کہ اس نے بھاگ کر گائے کی دم پکڑی اور مدد کے لیے چلانے لگا۔ بدقسمت گائے نے تکلیف اور خوف کی شدت سے زور تو لگایا مگر خود کو چھڑا نہ سکی۔ اگلے روز اس کی بیوی نے دریا کے کنارے پر اگے ہوئے ایک درخت کے نیچے گائے کی باقیات دیکھیں۔ اس دن کے بعد سے جب بھی مویشی پانی پر لائے جاتے تو کسان خوب شور و غل مچا کر یا پانی پر لاٹھیاں مار کر مگرمچھ کو بھگا دیتے۔
پھر بواجہ نے اپنا طریقہ واردات تبدیل کیا۔ جتنی دیر شور مچا، مگرمچھ دم سادھے پانی کی تہہ میں لیٹا رہا۔ پھر مویشی پانی پینے آئے تو مگرمچھ انتہائی خاموشی سے تیرتا ہوا گایوں کی جانب بڑھا۔ اس کا سارا جسم پانی میں پوشیدہ اور محض نتھنے اور آنکھیں پانی سے اوپر تھیں۔ تاہم ریوڑ کے جانور محتاط تھے۔ جونہی انہیں چار ابھار اپنی جانب آہستگی سے بڑھتے دکھائی دیے تو تمام جانور پانی سے باہر کو بھاگے اور شور مچانے لگے اور بھگدڑ مچ گئی۔ آخرکار بواجہ کو یہ علاقہ چھوڑ کر کسی اور جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس دوران اس کسان نے تیل تلاش کرنے والے میرے دوست کو اپنے نقصان کے بارے بتایا۔
پھر جو کچھ ہوا، وہ غیر معمولی تھا۔ عام طور پر مگرمچھ ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں اور ہر مگرمچھ کو اپنا پیٹ بھرنے کو مل جاتا ہے۔ مقامی آبادی چونکہ تناسخ پر یقین رکھتی ہے، اس لیے وہ مگرمچھوں کو نقصان پہچانے سے ڈرتی ہے کہ مبادا ان میں کسی بزرگ کی روح نہ حلول کر گئی ہو۔ سو مقامی لوگ انہیں دادا کہتے ہیں اور ان سے دور رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مغربی افراد ایسی باتیں سن کر افسوس سے سر ہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اندراگیری دریا کے مگرمچھوں، مالے کے سلطان اور اندراگیری کے شہزادے کے درمیان کوئی معاہدہ ہے۔ مجھے اس معاہدے کی تفصیل کا تو علم نہیں، اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سلطنت کے پاس مگرمچھوں سے کبھی مسئلہ نہیں ہوا کہ وہاں مچھلیوں کی کثرت ہے۔ یہ جگہ ضلع امیر ملک کہلاتی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس جگہ مگرمچھوں سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی، اگرچہ اس سے اوپر اور نیچے، ہر جگہ بواجہ کا مسئلہ شدید ہے۔
اس مبینہ معاہدے کے باوجود انسان اور بواجہ کا تعلق محض امن اور آشتی کا نہیں۔ اگر کوئی مگرمچھ انسانی شکار پر کمربستہ ہو جائے تو پھر آباء و اجداد والے نظریے کو ایک طرف رکھ کر اس مگرمچھ کو ٹھکانے لگانے کا فوری انتظام کیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں یہ عام تصور پایا جاتا ہے کہ بعض حاجیوں کو خصوصی طاقت ملی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ بواجہ کو پکڑ سکتے ہیں۔ مجھے میرے کئی واقفانِ کار نے ایسے واقعات کا بتایا ہے کہ وہ آدم خور مگرمچھ کے پیچھے مہینوں خجل ہوتے رہے تھے۔ مگرمچھ ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہا اور انسانی عقل مگرمچھ کی فطرت کا سامنا نہ کر سکی۔ پھر حاجیوں کو مدد کے لیے بلایا گیا۔ ایک مقر رہ مدت تک وظیفہ پڑھنے کے بعد حاجیوں نے آدم خور کے لیے قربانی دی جس میں بانس کی پٹیوں سے بُنی ہوئی چھوٹی سی تھالی میں پیسانگ کا پتہ رکھ کر اس پر جلتی ہوئی اگر بتیاں رکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرغی کے انڈے، ایک سفید مرغا اور بہت کچھ اور بھی رکھا جاتا ہے۔ پھر یہ قربانی دعا کے ساتھ دریا میں بہا دی جاتی ہے۔ شاید یہ دعا اس خاص مگرمچھ کے بارے مانگی جاتی ہے کہ حاجی اس کی جان کے درپے ہے۔ چند دن بعد پھر ایک بڑا مجمع دریا کنارے جمع ہوتا ہے اور ان کے درمیان مذہبی رہنما بیٹھا ہوتا ہے جو دریا سے درخواست کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا مگرمچھ ابھر کر کنارے پر ایسے پہنچتا ہے جیسے اس پر کسی نے جادو کر دیا ہو اور پھر کنارے پر منتظر افراد اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے ہیں۔
یہ واقعات لازمی طور پر بہت مرتبہ ہوئے ہوں گے کہ بہت سارے لوگ ان کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم اس کی وجہ کے بارے شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
ہمارے تانی کا معاملہ کچھ الگ تھا کہ اس نے یورپی شکاری سے مدد مانگی تھی تاکہ اس کی قیمتی گائے کا شکار کرنے والا مگرمچھ اپنے انجام کو پہنچے۔ اس شکاری نے ایک بہت بڑا فولادی آنکڑہ اپنی زمینوں پر بنایا اور اس پر ایک مردہ بندر باندھ دیا۔ پھر اس چارے کو پانی کے اوپر اور سطح کے قریب لٹکا دیا گیا تاکہ مگرمچھ کو متوجہ کیا جا سکے۔ جہاں جنگل دریا تک آتا ہے، وہاں ایک انچ جتنی جگہ بھی خالی نہیں ہوتی۔ بندر بیلوں سے لٹک کر پانی پیتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر مگرمچھ بندروں کو شکار کرتے ہیں۔
تاہم بندر کی لاش والا نسخہ کامیاب نہ رہا۔ ہر دوسرے دن نیا بندر لگانا پڑتا تھا مگر وہ بھی بیکار جاتا۔ شاید مگرمچھ اتنے بھی بھوکے نہیں تھے کہ پھندے میں آن پھنستے۔ ایک بار ایک مچھیرے کو اس پھندے کے عین نیچے ایک مگرمچھ آرام سے لیٹا دکھائی دیا مگر اس نے بے حس و حرکت بندر کی لاش کو کھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آخرکار اس شکاری کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ مگرمچھ زندہ اور متحرک بندر کا شکار کرتے ہیں، سو لاش سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ عوامی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شکاری نے بہت ہچکچاہٹ سے ایک زندہ بندر اس پھندے سے باندھ دیا۔ وہ بندہ کنارے پر چھپ کر مگرمچھ کا منتظر رہا۔ اسی دوپہر کو ایک مگرمچھ اس بندر کے گرد لمبے چکر کاٹتا رہا۔ شاید مگرمچھ کو شبہ ہو گیا ہو گا، اس لیے اس نے فوراً حملہ نہیں کیا۔ رات کے وقت اس نے حملہ کیا اور بیچارے بندر کی چیخیں اچانک تھم گئیں۔
شکاری کو فوری اطلاع دی گئی اور وہ بیچارہ لالٹین اور بندوق کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ پھندے والا درخت مگرمچھ کے وزن سے جھکا ہوا ہو گا۔ مگر اس کی مایوسی دیکھیے کہ اس آنکڑے پر تازہ گوشت لگا ہوا تھا اور بواجہ غائب تھا۔ آخرکار بھوک کی وجہ سے بواجہ نے بندر پر حملہ تو کیا تھا مگر جونہی اس کے جبڑے آنکڑے سے ٹکرائے، اس نے چھوڑ دیا ہو گا۔
اب اس مگرمچھ کو محض کشتی پر بیٹھ کر ہلاک کرنا ہی رہ گیا تھا۔ دن کے وقت وہ کسی جزیرے یا ریتلے کنارے پر ہی ملتا، آبادی کے پاس بھی نہ پھٹکتا تھا۔ مغرب کے وقت یہ دیہاتوں کا رخ کرتا جب لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلانے لاتے۔
تیز دھوپ میں دو دن کی تلاش کے بعد میرے دوست نے ہمت ہار دی۔ اس نے دو مگرمچھ ہلاک کر لیے ہوتے مگر وہ مطلوبہ مگرمچھ سے بہت چھوٹے تھے۔ ایک بار اسے ایک بہت بڑا بواجہ دکھائی دیا مگر قبل اس کے کہ ملاح کشتی کو اتنا قریب لے جاتے کہ وہ گولی چلا پاتا، مگرمچھ پانی میں کود کر فرار ہو گیا۔
پھر اچانک چبر انگن (ہوا سے پھیلنے والی خبر) آئی۔ مجھے ایسے یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ کہا گیا کہ فلاں کمپونگ میں ایک عورت دھندلکے کے وقت جنگل سے آ رہی تھی اور دریا کے کنارے رک کر اس نے اپنے مٹی سے بھرے پیر دھونے چاہے اور بواجہ اسے اٹھا لے گیا۔
جب عورت واپس نہ لوٹی تو ہر طرف ہیجان برپا ہو گیا۔ اس کا شوہر مشعل اور کلہاڑی لے کر جنگل میں دریا کے کنارے کو لپکا۔ کنارے پر اسے بیوی کی ٹوکری دکھائی دی جس میں متوفیہ نے جڑی بوٹیاں اکٹھی کی تھیں۔ ساری صورتحال کا اندازہ کر کے اس کے شوہر نے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور پھر بیوی کا جواب سننے کی ناکام کوشش کی مگر ہر طرف رات کی خاموشی چھائی رہی۔
تین دن بعد اسی کمپونگ کے ایک اور آدمی کو اس عورت کی پھٹی ہوئی ساڑھی اور کچھ ہڈیاں دریا کے کنارے دکھائی دیں۔ بواجہ اب آدم خور بن چکا تھا۔
پھر کمپونگ کے ہر آدمی نے بواجہ کے شکار میں حصہ لیا۔ کلہاڑیوں اور بھاری نیزوں سے مسلح ہو کر لوگ اپنی اپنی کشتیوں میں بدلہ لینے کو سوار ہو گئے۔ پانی میں مضبوط جال لگا دیے گئے جن میں سے کئی جالوں کو کسی بہت طاقتور جانور نے چیر ڈالا۔
لوہے کے آنکڑوں پر گوشت کے ٹکڑے لگا کر پانی میں ڈالے گئے۔ میرے دوست نے کئی دن تک کوشش کی۔ مگر سب ناکام رہے۔
دو ہفتے بعد دریا کے مزید اوپر کی جانب سے ایک کمپونگ سے خبر آئی کہ دو بھینسیں ماری گئی ہیں۔ کچھ دن بعد ایک اور کمپونگ کے نمبردار کا بہترین کتا مارا گیا۔
بدقسمتی سے جب لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ اپنی عام زندگی کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ لاپروا اور غیر محتاط ہو جاتے ہیں اور بواجہ کو پھر نیا موقع مل جاتا ہے۔ دریا کے کنارے آباد کمپونگ کے بچے چھوٹی کشتیوں میں دریا میں گھومتے رہتے ہیں۔ جونہی وہ چلنے کے قابل ہوتے ہیں، پانی سے ان کا تعلق شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح کا ایک بچے کی چھوٹی کشتی کو الٹا کر بواجہ اسے اٹھا لے گیا۔طط اس بچے کی الٹی کشتی دریا سے ملی۔ اس بچے کی الٹی کشتی دریا سے ملی۔
کمپونگ کے لوگ پھر ڈر گئے اور کچھ عرصہ خبردار اور محتاط رہے۔ دریا سے پانی لانے کے لیے خواتین ہمیشہ مسلح مردوں کے ہمراہ جاتی تھیں اور بچوں کو ان کی کشتیوں پر جانے سے روک دیا گیا اور مچھیروں نے لمبے دستے والی کلہاڑیاں ساتھ لے جانا شروع کر دیا۔
اب یہ کہنا تو ممکن نہیں تھا کہ آیا یہ سب وارداتیں ایک ہی مگرمچھ نے کی ہیں یا ایک سے زیادہ نے۔ تاہم تمام لوگوں کا شک ایک ہی مگرمچھ پر تھا جو انسانی اور حیوانی جانوں کے ضیاع کا سبب تھا۔ میرا دوست اسی کا پیچھا کرتا رہا تھا۔ میرے دوست نے لوگوں سے درخواست کی اگر یہ مگرمچھ اس جگہ دوبارہ دیکھا جائے تو اسے اطلاع دی جائے۔ مقامی لوگ اسے ‘قاتل’ کے نام سے پکارتے تھے۔
مشرقی اور مغربی مون سون کے درمیانی وقفے میں ‘قاتل’ کے بارے کوئی اطلاع نہیں آئی۔ معلوم نہیں کہ یہ کہاں گیا۔ ہاشم نے مجھے ہر ممکن طور پر اس کے شکار کو تیار کرنے کی کوشش کی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مگرمچھ مادہ کی تلاش میں کہیں نکل گیا ہو گا۔ مادہ کا ملنا اس مگرمچھ پر کوئی اچھا اثر ڈالتا یا نہ ڈالتا، مگر عارضی طور پر لوگوں کی جان چھوٹ گئی تھی۔
پھر مشرقی مون سون کے دوران ایک مچھیرے نے بتایا کہ اس نے ایک بہت بڑے بواجہ کو دریا کے ریتلے کنارے پر دیکھا۔ بواجہ اس کی آمد سے خبردار ہو کر پانی میں کود گیا۔ مچھیرے نے ڈر کے مارے اپنی کشتی کو بھگایا۔ مچھیرے نے کہا کہ اگر تھوان دیکھنا چاہیں تو وہ ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ مگر تھوان اپنی سب سے بڑی بندوق ساتھ لے جائیں کہ بواجہ بہت بڑا تھا۔
ہاشم نے یہ سب سنا تو جوش میں آ گیا۔ میں نے جانے کا فیصلہ کیا اور متعلقہ ساز و سامان اکٹھا کر لیا۔ پھر میں نے ایک بڑا سمپان یا کشتی منگوائی اور دو ملاح بھی بلا لیے اور ہاشم کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ہر ممکن تیزی سے ہم دریا کے اوپر کی جانب روانہ ہوئے اور چند گھنٹے کی مشقت کے بعد ہم لوگ ایک کمپونگ جا پہنچے جہاں میرا مندرجہ بالا دوست بانسوں سے بنی بیرک میں رہتا تھا۔ دو ماہ بعد اس سے ملاقات ہوئی اور وہ بہت خوش دکھائی دیا۔
شام میں ہم لوگوں نے منصوبہ بنایا۔ مچھیرے کی اطلاع کے مطابق ہم نے متعلقہ جگہ کی نشاندہی کر لی۔ ہم نے اس جگہ تک زمینی راستے سے جانے کا سوچا۔ اگلے روز دو بجے دوپہر کے بعد ہم مطلوبہ جگہ پہنچ سکتے تھے۔
اور ہم پہنچ گئے۔ دلدلی علاقے، گھنی جھاڑیوں اور سخت مشقت کے بعد ہم ڈیڑھ بجے اس جگہ پہنچ گئے۔ ہم نے دریائے موسی سے نکلنے والے ایک ندی کے کنارے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس جگہ کچھ زمین ہر قسم کے جھاڑ جھنکار سے پاک تھی اور اطراف میں مموسا جیسی جھاڑیاں تھیں۔ اس جگہ خیمے گاڑنے کا فیصلہ ہوا۔ جتنی دیر ہمارے قلی خیمے گاڑتے، ہم نے دریائے موسی کے کنارے اس ریتلی بار کی تلاش شروع کر دی جہاں بواجہ دیکھا گیا تھا۔ پندرہ منٹ بعد وہ جگہ نظر آ گئی۔ یہ جگہ بیس فٹ چوڑی اور تیس فٹ لمبی تھی اور اس جگہ خشک ٹہنیاں اور چھوٹے مردہ درختوں کے تنوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ اس کے پیچھے سرکنڈوں کی چوڑی پٹی تھی اور پھر سبز اور خشک جھاڑیاں بھی۔ اس جگہ ریت پر بہت بڑے مگرمچھ کے پیروں کے نشان واضح تھے۔ ہمیں مگرمچھ تو نہیں ملا مگر ہاشم نے ایک دلچسپ چیز دریافت کر لی۔ اس نے ہم سے الگ ہو کر سرکنڈوں کا رخ کیا تھا اور وہاں اسے مگرمچھ کا گھونسلہ اور انڈے دکھائی دیے۔ اس نے دوڑ کر ہمیں اطلاع دی۔
مادہ مگرمچھ اپنے انڈے سڑتے ہوئے پتوں سے بنے گھونسلے میں دیتی ہے۔ سورج اور سڑتے ہوئے پتوں کی نمی اور حدت سے یہ انڈے سینچے جاتے ہیں۔ جب بچے انڈوں سے نکلتے ہیں (ان کی لمبائی 16 انچ ہوتی ہے اور بہت تیز طرار ہوتے ہیں )، مادہ مگرمچھ انہیں گھونسلے میں مردہ مچھلیاں لا کر دیتی ہے۔ سڑتی مچھلیوں اور پتوں انتہائی شدید تعفن نکلتا ہے۔
تاہم اس روز گھونسلے میں مچھلیاں نہیں تھیں، کہ بچے ابھی انڈوں سے نہیں نکلے تھے۔ ہم اپنے کیمپ کو واپس لوٹے اور ندی میں نہا کرتا زہ دم ہو گئے۔ پھر ہم نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور آرام کرنے اور اگلے روز کے بارے سوچنے لگے۔
سورج ابھی نکلا ہی تھا کہ ہم لوگ روانہ ہو گئے۔ جب ہم دریا کو پہنچے تو دیکھا کہ پانی میں ہلچل مچی ہوئی تھی اور مگرمچھ کے نشانات ابھی بھی نم تھے۔
ہم نے کچھ دیر رک کر انتظار کیا اور پھر میرا دوست جھاڑیوں سے باہر نکلا۔ ابھی وہ چند گز ہی گیا ہو گا کہ ہاشم چلایا ‘اواس، تھوان!’ (دیکھیں جناب)۔
ریتلے کنارے کے بائیں جانب جھاڑیاں ہلیں اور ایک بڑے مگرمچھ کا سر نکلا۔ اس نے اپنے بھاری اور بھدے جسم کو پھیلے ہوئے پنجوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنا بڑا جانور زمین پر کیسے اتنی تیزی سے حرکت کر سکتا ہے۔
میرا دوست دہشت کی وجہ سے اسی جگہ رک سا گیا مگر فوراً اس کا شکاری تجربہ مدد کو آیا۔ اس نے فوراً اپنی ماؤزر رائفل کندھے پر لگائی اور اسی لمحے اس کی گولی پانی کے اوپر سے گزر گئی۔
سنائپ اور دیگر آبی پرندے شور مچاتے اڑ گئے اور درختوں پر بندروں کا شور سنائی دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ بواجہ اپنے پچھلے پیروں پر اٹھا اور مجھے اس کا سنہرا پیٹ دکھائی دیا۔ اس نے شور کیا۔ میں نے اپنی رائفل کے دید بان سے اس کے پیٹ کو دیکھا اور اس کے گلے کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔
مجھے گولی لگنے کا دھکا سنائی دیا اور عین اسی لمحے میرے دوست نے ایک طرف جست لگائی تاکہ مگرمچھ اس پر نہ گرے۔ مجھے بازو پر ہاشم کا دباؤ محسوس ہوا جو مجھے پیچھے ہٹنے سے روک رہا تھا۔ مگرمچھ مڑ کر گرا اور اس کی طاقتور دم پتوں اور شاخوں کو اڑانے لگی۔ ریت بھی ہوا میں اڑ رہی تھی۔ کیچڑ بھی اڑ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد مگرمچھ کی حرکات تھم گئیں۔ اس کی سرد اور کمینی نگاہیں ہمیں گھور رہی تھیں۔
ہم نے اپنے چہروں سے کیچڑ ہٹایا اور ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھا۔
میرے دوست کی چلائی ہوئی گولی مگرمچھ کی کنپٹی کے پاس لگی اور اچٹ کر دریا کے اوپر سے زوں زوں کرتی گزری۔ جب اس دھکے سے پریشان ہو کر مگرمچھ اچھلا تو مجھے اس نے بہترین موقع دیا اور میں نے کامیاب نشانہ لیا۔ میری چلائی ہوئی بھاری گولی اس کے گلے سے ترچھی گزری اور ریڑھ کی ہڈی کے ایک مہرے کو توڑ گئی۔
ہاشم نے انڈوں کے گرد لکڑی کے کھونٹے گاڑ دیے تاکہ مگرمچھ کے بچے انڈوں سے نکل کر فرار نہ ہو جائیں۔ چینی خریدار ان بچوں کا معقول معاوضہ دیتے ہیں۔ وہ ان بچوں کو ایک گز لمبائی تک پالتے ہیں اور پھر ہلاک کر کے ان کی کھال کو مہنگے داموں یورپ بیچ دیتے ہیں۔
میں اور میرا دوست اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور فیصلہ کیا کہ جونہی آدم خور کی اطلاع ملی، واپس لوٹ آئیں گے۔
ہاشم دو روز بعد لوٹا۔ اس نے مقامی مچھیرے کو پیسے دے کر ان انڈوں کی نگرانی کا کام سونپ دیا۔
اس سے اگلے دن ہمیں پتہ چلا کہ میرے دوست کی رہائش گاہ کے نزدیک ایک کمپونگ سے آدم خور نے ایک بکری ہڑپ کر لی تھی۔ اسی شام میں اور ہاشم وہاں جا پہنچے۔ توقع سے پہلے ہی مغرب کے وقت ہم دوست کی رہائش گاہ پر پہنچ چکے تھے۔ فوراً ہی ہمیں تیز کافی پیش کی گئی جس سے ہماری تھکن دور ہو گئی۔
مگرمچھ اپنے شکار کو پانی کے نیچے لے جاتا اور پھر سطح پر لا کر پھر نیچے لے جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک شکار مر نہ جائے۔ بندر یا چھوٹے جانور کو تو مگرمچھ سالم ہی نگل لیتا ہے۔ بچھڑا یا سانبھر وغیرہ ہوں تو اسے دریا کے کنارے کسی درخت کی جڑوں میں کھوکھلی جگہ پر لا کر زیرِ آب رکھ دیتا ہے۔ جب لاش گلنے سڑنے لگتی ہے تو اسے کنارے پر لا کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا جاتا ہے۔ ہاشم نے بتایا کہ اگر جانور کی ہڈیاں یا کھال بہت سخت ہو تو مگرمچھ اسے درخت سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیتا ہے اور پھر کھاتا ہے۔ تاہم میں اس کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں۔
آدم خور نے دو روز قبل بکری اٹھائی تھی، سو کنارے پر اس کی تلاش کا کام بہتر رہتا۔ تاہم ہمیں کوئی نشان نہ ملا حالانکہ ہم نے دریا کے بہاؤ اور مخالف سمت، کافی دور دور تک دیکھا۔ ہم نے ایک نوعمر مگرمچھ مارا جبکہ سورج کی گرمی سے ہمارا اپنا برا حال تھا۔
ہم شام کو کمپونگ کی جانب روانہ ہوئے۔ ابھی ہم نے اس جگہ سے گزرنا تھا جہاں دریا تنگ ہو کر 25 فٹ رہ جاتا تھا۔ اسی جگہ ایک کنارے کے پیچھے کمپونگ آباد تھا۔ دوسرے کنارے پر ہم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ پورے کمپونگ کے کمزور مویشی جمع ہو کھڑے دہشت سے کانپ رہے تھے۔ دریا کا پانی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا اور دوسرے کنارے پر کتے دور کھڑے بھونک رہے تھے۔ ظاہر تھا کہ یہ کتے اسی کمپونگ کے تھے اور دریا پار کرنا چاہ رہے تھے۔
ہاشم نے ملاحوں سے رکنے کا کہا اور ہنستے ہوئے ہمیں کہنے لگا: ‘آئیے ایک تماشا دیکھتے ہیں۔ ‘ مجھے اس کی کمینگی پر شدید غصہ آیا کہ وہ ہمیں دکھانا چاہتا ہے کہ کتے کیسے مگرمچھ کا نوالہ بنتے ہیں (بطور مسلمان، اس کے لیے کتے ناپاک جانور تھے )۔ مگر مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔
ہم نے رائفلیں تیار رکھیں اور بالکل خاموشی سے دیکھتے رہے۔ دس منٹ جب سورج کی آخری کرنیں جنگل پر پڑ رہی تھیں اور کتے بھی بھونک رہے تھے کہ ہم نے گھنی جھاڑیوں سے نکلتے مگرمچھوں کی آواز سنی جو دریا میں کود رہے تھے۔ ہاشم نے ہمیں مگرمچھ دکھائے جو کالے رنگ کے موٹے موٹے تنے لگ رہے تھے۔ ایک، دو، تین اور چار۔ چار مگرمچھ تھے۔ مگرمچھوں کے گزرنے سے پانی کی تاریک سطح پر انگریزی کے حرف V کی شکل کی لہریں بنتی جا رہی تھیں۔
پھر وہ پانی سے باہر نکلے۔ انتہائی خاموشی سے پہلا نکلا، جس سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ ریت پر چڑھا، اس کے پیچھے دوسرا اور پھر تیسرا اور چند لمحے بعد چوتھا بھی نکل آیا۔ اپنے بھدے پنجوں پر چلتے ہوئے وہ بڑے کتے کی جانب جا رہے تھے جو دہشت سے بھونکتا ہوا پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔
ہم سانس روکے یہ منظر دیکھتے رہے۔ اچانک مجھے آنکھ کے کنارے سے اپنے دوست کی ماؤزر رائفل کی نیلے فولاد کی نالی اٹھتی دکھائی دی اور فوراً ہی ہاشم کا ہاتھ اٹھا اور نرمی سے رائفل کو جھکا دیا۔ میرے دوست نے پریشان ہو کر ہاشم کو دیکھا مگر ہاشم نے کنارے کی جانب پھر اشارہ کیا۔ وہاں پانچ گلڈاکر (کمپونگ کے کتے ) دکھائی دیے جو انتہائی خاموشی سے بے آواز تیرتے ہوئے آ رہے تھے اور فوراً ہی دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔
پھر اچانک ہمیں بڑا کتا دکھائی جو مگرمچھوں سے بچنے کے لیے پیچھے کو ہٹ رہا تھا۔ وہ دوسرے کنارے کی جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلا اور پانی میں کود کر فوراً اسے عبور کر گیا۔ میرے دوست نے خوشی سے نعرہ لگایا اور پھر اس کی رائفل سے ایک، دو اور پھر تیسرا شعلہ نکلا۔ ظاہر ہے کہ اس کا نشانہ مگرمچھ تھے جو اب کھسیائے ہوئے اور ریت پر تیزی سے دوڑ رہے تھے۔ منظر دیکھنے کے قابل تھا۔
کتوں کو بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچتا دیکھ کر مجھے تسلی ہوئی اور میں نے بھی اس چھوٹے بواجہ پر گولی چلا دی جو پانی کو دوڑ رہا تھا۔ اس کے پہلو پر گولی لگی اور وہ پانی میں گم ہوا، پھر ابھرا اور شور مچاتا ہوا دور ہونے لگا۔ جنگل کے کنارے گولیوں کی گرج سے گونجی اور بندر شور مچانے لگے اور گاؤں سے بھی لوگوں کا شور سنائی دیا۔ کچھ دیر بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ دو مگرمچھ شدید زخمی پڑے تھے اور ایک پانی میں کود چلا تھا۔
ملگجے اندھیرے میں چلائی گئی گولیاں میرے دوست کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ اس نے نسبتاً چھوٹے اور متحرک جانوروں پر گولیاں چلائی تھیں۔ ایک مگرمچھ کی دائیں آنکھ میں بڑا سا سوراخ تھا کہ میرے دوست کی ڈم ڈم (ٹکرا کر پھیل جانے والی) گولی لگی تھی۔ دوسرے مگرمچھ کو عین اس جگہ گولی لگی جہاں اگلی بائیں ٹانگ جسم سے جڑتی ہے۔ تیسری گولی کنپٹی کے پیچھے نرم جگہ پر لگی۔
اس وقت دریا عبور کرنے والے کتوں کی مدد سے ہم نے کئی بار آدم خور کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔
چند ہفتے بعد ہمیں پھر نئی اطلاع ملی۔ ایک مچھیرے نے اپنی کشتی کو دریا کے کنارے درخت سے باندھی ہی تھی کہ مگرمچھ نے اسے کشتی سے دبوچ لیا۔ تاہم اس مچھیرے نے جد و جہد جاری رکھی۔ جب مگرمچھ اسے پانی کے نیچے لے گیا تو اس نے سانس روکے ہوئے اپنا پرانگ نیام سے نکالا اور جونہی مگرمچھ سطح آب پر ابھرا، اس نے پرانگ سے مگرمچھ کے سر پر وار کیا۔ تکلیف کی شدت سے مگرمچھ نے اسے چھوڑ کر غوطہ لگایا اور خون کی دھار بہتی گئی۔ نیم بیہوش اور جریانِ خون سے کمزور بندہ بمشکل تیر کر کنارے تک پہنچا۔ اس کی تکلیف کا اندازہ لگائیے کہ اس کا بائیں بازو ٹوٹ چکا تھا۔ کنارے پر پہنچ کر وہ گر کر بیہوش ہو گیا۔
اگلی صبح بیچارہ رینگ کر اپنے کمپونگ پہنچا تو اس کے زخموں پر اس کی کیچڑ اور خون سے لتھڑی پٹیاں تھیں جو اس نے اپنے کپڑے پھاڑ کر بنائی تھیں۔ اس کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی نے جب اسے دیکھا تو ڈر سے اپنے ہوش کھو بیٹھی کہ وہ سمجھی کہ مگرمچھ اسے کھا گیا ہو گا۔
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست بھیجی تاکہ اس قاتل کو ختم کر سکوں۔ میں نے جواب کا انتظار کیے بنا ہاشم کو ساتھ لیا اور نکل پڑا۔ مجھے اس شرط پر مگرمچھ کے شکار کی اجازت ملی کہ میرا کام متاثر نہ ہو اور یہ خط مجھے نو دن بعد ملا جب تک مگرمچھ کا کام تمام ہو چکا تھا۔
ظاہر ہے کہ اس کام میں کوئی بہادری یا ناموری نہیں۔ ہمیشہ کسی بھی زخمی جانور کا پیچھے کر کے اسے تکلیف سے نکالا جاتا ہے۔ ہم نے تمام دریائی کنارے چھان مارے اور جہاں بھی خون کے نشانات ملتے، ہم خوش ہوتے۔ ہمارا کام دو دن میں پورا ہو گیا۔
پہلے دن دوپہر کے وقت ہم ایک درخت تلے آرام کر رہے تھے کہ ہمیں اپنی جانب بھاگتا ہوا ایک مچھیرا دکھائی دیا جو انتہائی ہیجان میں مبتلا اور اشارے کرتا آ رہا تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا، اس نے ‘قاتل’ کو دیکھا ہو گا۔
جونہی اس کا سانس کچھ بحال ہوا، اس نے بتایا دو سو گز پیچھے اس نے ایک مگرمچھ دیکھا ہے جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ اس وقت مگرمچھ دریا کے عین وسط میں ریت کے ٹیلے پر لیٹا تھا۔
ہاشم اور میں نے اطمینان سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ اچھی علامت تھی۔ مگر ہماری مشکلات اب شروع ہو رہی تھیں۔ جونہی اس نے مچھیرے کی کشتی دیکھی، وہ بے چین دکھائی دیا تھا۔ اب ہو سکتا ہے کہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اس جگہ کو چھوڑ چکا ہو۔ دوسرا جھکولے کھاتی کشتی سے میں کیسے سو فیصد یقین سے گولی چلا سکتا تھا۔
ایک اور مشکل بھی تھی کہ ریت کا ٹیلہ بہاؤ کی سمت تھا اور مگرمچھ اس ٹیلے پر پوری طرح نہیں چڑھا تھا۔ جب بھی مگرمچھ کو شک ہو تو وہ ایسے ہی خبردار رہتے ہیں۔ عموماً مگرمچھ عام حالات میں ٹیلے پر چڑھ کر لیٹ جاتے ہیں اور ان کا رخ ہمیشہ پانی کی سمت ہوتا ہے تاکہ فرار میں آسانی ہو۔ پھر ان کے جبڑے کھلے ہوتے ہیں تاکہ پرندے ان کے دانتوں میں پھنسے گوشت کے ریشے نکال سکیں۔ یہ پرندے دانتوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ چوکیداری کا کام بھی کرتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی بھی مشکوک چیز دکھائی دے تو فوراً شور مچاتے اڑ جاتے ہیں۔
قاتل کے موجودہ مقام کے بارے میرا تجربہ کام آیا۔ برسوں سے مگرمچھوں کا شکار کرنے کی وجہ سے مجھے علم تھا کہ جب مگرمچھ آدھا پانی میں لیٹا ہو تو بہاؤ کے ساتھ آنے والی کشتی ابھی بہت دور ہوتی ہے کہ مگرمچھ کو کسی نامعلوم ذریعے سے پتہ چل جاتا ہے اور وہ خبردار ہو کر پانی میں گھس جاتا ہے۔ تاہم جب پانی کے بہاؤ کے مخالف سمت جا رہے ہوں تو دس میں سے نو مرتبہ کامیابی ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
بہت دماغ لڑانے کے بعد مجھے اس کا جواب مل گیا تھا۔ ایک بار میں نے ایک مگرمچھ شکار کیا اور اسے وہیں چھوڑ دیا کہ رات ہو رہی تھی۔ ارادہ تھا کہ اگلی صبح آ کر کھال اتاروں گا۔ اگلی صبح لوٹا تو دیکھا کہ دم کے بعض چھلکے دار حصوں پر بلبلے سے بنے ہوئے تھے اور یہ حصے ساری رات پانی میں رہے تھے۔ تعجب سے میں نے انہیں صاف کیا تو نیچے ننھے سوراخ دکھائی دیے جو شاید اعصاب کے سرے ہوں گے۔ چونکہ دم ساری رات پانی میں رہی، اس لیے سڑنے لگ گئی ہو گی اور گیس سے بلبلے بنے ہوں گے۔
اس طرح یہ معاملہ واضح ہو گیا۔ سخت کھال کے باوجود یہ اعصاب ہی مگرمچھ کو پانی میں ہونے والی کسی بھی غیر معمولی حرکت کے بارے آگاہ کرتے ہوں گے۔ یہ اتنے حساس ہوں گے کہ بہت دور چلنے والے چپو سے مگرمچھ کو کشتی کی آمد کا علم ہو جاتا ہو گا۔
چونکہ کشتی کی مدد سے ‘قاتل’ کے قریب پہنچنا مشکل تھا، زمین پر سے گولی چلانا بھی مشکل کام تھا کیونکہ کناروں پر بہت گھنی جھاڑیاں اگی ہوتی ہیں اور نشانہ لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہمیں جلدی کوئی حل نکالنا تھا۔ ہاشم نے کہا کہ اگر ہم کشتی کے ایک جانب سرکنڈے باندھ لیں اور چپو چلائے بغیر کشتی کو پانی پر بہنے دیں تو ہم مگرمچھ تک بغیر کسی شور کے پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ پانی میں بہتی کشتی کی رفتار اتنی آہستہ تھی کہ مجھے اکتاہٹ سے نیند آنے لگی۔
بغیر حرکت کیے کشتی پر بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ سورج ہماری پشت جلا رہا تھا اور دریا جیسے رک سا گیا ہو۔
ایک موڑ مڑنے کے بعد ہمیں وہ ٹیلہ دکھائی دیا اور واقعی، وہاں جیسے درخت کا بہت بڑا تنا پڑا ہو، مگر مچھ دکھائی دیا۔ کشتی آہستہ آہستہ بہتی گئی۔ کشتی کو بہاؤ کے ساتھ رکھنا ہاشم کے لیے مشکل ہو رہا تھا اور بار بار ایسا لگتا تھا کہ کشتی بہاؤ میں غلط سمت جا کر ہمارے منصوبے پر پانی پھیر دے گی۔
میرا پسینہ ہر لمحہ بڑھتا جا رہا تھا اور ہمارا ساتھی رہنما میرے سامنے پسینے میں شرابور لیٹا تھا۔ بہت طویل انتظار کے بعد ہم اتنا قریب پہنچے کہ ہمیں مگرمچھ کے مختلف اعضا دکھائی دینے لگے۔ اس کے سر کا زخم بہت بڑا تھا اور ابھی مندمل نہیں ہو پایا تھا۔ ساری کھوپڑی پر مٹی اور پیپ دکھائی دے رہی تھی۔ صرف ایک آنکھ درست کام کر رہی تھی۔ اس کا بھاری جسم آدھا پانی میں اور آدھا پانی سے باہر تھا۔ اتنی بڑی جسامت کا مگرمچھ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہا تھا۔
ہم پانی کے ساتھ بہتے رہے اور کشتی بالکل بھی نہیں جھولی۔ ایک منٹ کو ایسا لگا جیسے فطرت نے اپنی سانس روک لی ہو۔ ایسا نشانہ شاید ہی میں نے کبھی لیا ہو۔
دو بھاری گولیاں کھانے کے بعد ‘قاتل’ نے حرکت بھی نہیں کی۔ شاید گولیوں سے وہ فوری طور پر ہلاک ہو گیا ہو۔
٭٭٭
باب چہارم: شیر آدمی
ان چھوئے جنگل میں انسان فطرت کے قریب ہوتا ہے اور اس پر پوری طرح انحصار کرتا ہے اور ہر اس قابلِ مشاہدہ چیز پر غور کرتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے تو جنگل کے باسیوں کی اگلی نسلیں مختلف واقعات کے گرد اپنے تخیل سے تفصیلات بنتی جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ یہ کہانیاں بھیانک تصورات بن جاتی ہیں۔
جتنا جنگل کے باسی نگیلمو۔ گڈونگن یعنی شیر آدمیوں پر یقین رکھتے ہیں،ا س سے زیادہ یقین شاید ہی کسی چیز پر رکھتے ہوں۔ جہاں بھی شیر پائے جاتے ہیں، وہاں یہ کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ تاہم بالی اس سے مستثنیٰ ہے کہ وہاں بدھ مت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہاں اچھی روح یا بد روح کے بعد آنے والا کوئی تصور باقی نہیں بچا۔
روایات کے مطابق پلمبنگ کے ضلع میں ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو بالکل عام انسان دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے بالائی ہونٹ کے اوپر درمیان میں نشیب نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ شیر بن سکتے ہیں۔ ہاشم توہم پرست ہونے کی وجہ سے ان تمام توہمات پر یقین رکھتا تھا اور اس کا ماننا تھا کہ پہاڑی علاقے میں ڈیمپو پہاڑیوں میں کسی جگہ ایک پورا گاؤں ہے جس کی تمام تر آبادی شیر آدمیوں اور شیر عورتوں اور ان کے بچوں پر مشتمل ہے۔
ان لوگوں کے پاس کوئی جادوئی نسخہ ہوتا ہے کہ جس کی مدد سے یہ انسان سے شیر اور شیر سے انسان بن سکتے ہیں۔ عام طور پر انہیں عام انسانوں کی طرح کھیتی باڑی کرتے، بازار آتے جاتے، خرید و فروخت کرنے کے علاوہ بعض اوقات ہمسایہ دیہاتوں کی عام عورتوں سے شادی بھی کر لیتے ہیں۔
سائنسی دنیا کو ان شیر آدمیوں میں دلچسپی رہی ہے۔ Leendertsz نے اپنی کتاب De Dierenwereld van Insulinde میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی کتاب میں Van Balen کے حوالے سے سورآدمیوں کا بھی اقتباس دیا گیا ہے جو کمپونگ بنیجی بلینگکاو میں رہتے ہیں۔ یہ آبادی دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک حصے میں سورآدمی رہتے تھے جو سور بن سکتے تھے اور دوسرے حصے میں شیر آدمی رہتے تھے جو شیر بن جاتے تھے۔ اُس علاقے میں شیر آدمیوں کو تجنڈا کو کہا جاتا تھا۔
سال کے خاص ایام میں شیر آدمی آبادی سے نکل کر اپنی مخصوص شکار گاہوں کو چلے جاتے تھے۔ اگر راستے میں کوئی بڑا دریا آ جاتا تو یہ شیر آدمی انسانی شکل میں آ کر سمپان یعنی کشتی کی مدد سے دریا عبور کر لیتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان کے سر پر پوٹلی بھی ہوتی تھی تاکہ ملاح انہیں عام راہگیر سمجھیں۔ راستے میں کسی بستی سے گزر ہوتا تو انسانی شکل میں جا کر وہ رات گزارنے کے لیے اجازت مانگتے۔ اگر دیہاتی اتنے غافل ہوتے کہ ان کے بالائی ہونٹ سے بھی ان کو نہ پہچان سکتے تو انہیں اپنی غفلت کی سزا ملتی۔ صبح ہمسائیوں کو میزبان کی ہڈیاں ملتیں اور شیر آدمیوں کا کوئی اتہ پتہ نہ ہوتا۔
شیر آدمیوں کے بارے یہ تصور صرف سماٹرا تک محدود نہیں۔ میں نے مشرقی جاوا کے ضلع پروبولنگو میں ایسے لوگوں سے بات کی ہے جو یہ روایات سن چکے تھے لیکن انہیں جادوئی منتر کے بارے کچھ علم نہیں تھا۔ ان کے خیال میں یہ تبدیلی لاشعوری طور پر ہوتی ہے۔ میں نے van Balen کی کتاب میں ایسی مخلوق کا تذکرہ پڑھا ہے اور اس کتاب میں اس مخلوق کے بارے بتایا گیا ہے کہ وہ شاید لمونگن میں رہتی ہے۔
ان لوگوں کے بارے بے شمار داستانیں لوگوں میں مشہور ہیں۔ جب میں پلمبنگ ضلع میں متعین ہوا تو پہلی بار میرا واسطہ اس سے پڑا تاہم میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ان دنوں میری تعیناتی رانالینگاؤ نامی دور افتادہ جگہ پر تھی۔ یہاں شکار کی کثرت تھی اور شکاری کے لیے جنت کے برابر۔ میرا گھر چھوٹی پہاڑی پر بانس سے بنا ہوا جھونپڑا نما تھا۔ اس کے سامنے خوبصورت باغ تھا اور گھر اور باغ کے اردگرد ریتلا دائرہ سا بنا ہوا تھا۔ یہاں سے نیچے کی وادی کا بہت خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ میں نوجوان تھا اور ابھی میری شادی نہیں ہوئی تھی، اس لیے مجھے زیادہ تکلفات کی ضرورت بھی نہیں تھی اور مجھے کھلی ہوا میں رہنا پسند تھا۔
آس پاس کے علاقے میں مقامی لوگ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں یا جنگل میں جگہ صاف کر کے اکا دکا جھونپڑوں میں رہتے تھے۔ یا تو ان کا گزارہ کھیتی باڑی سے ہوتا تھا یا پھر چھوٹی موٹی دکانیں ہوتی تھیں۔ بھاری کام جیسا کہ جنگل میں راستہ بنانا یا دریا یا کھائیوں پر پل بنانے کے لیے درختوں کی کٹائی کے لیے میرے پاس اپنے آدمی تھے جو سخت جان جاوانیز اور ساحل سے تعلق رکھتے تھے۔
مجھے کام کی وجہ سے اکثر رات بھر باہر رہنا پڑتا تھا۔ اس لیے مجھے اپنے گھر کا سامان ملازم کے بھروسے پر چھوڑنا پڑتا تھا جو مالی بھی تھا۔ اس کے ساتھ دو اور خواتین بھی ملازم رکھی تھیں جو کھانا پکانے اور پانی لانے کا کام کرتی تھیں۔ ہاشم بھی ساتھ رہتا تھا لیکن وہ میرے ساتھ گھر آتا اور میرے ساتھ کام پر جاتا تھا۔ ویسے بھی اسے گھر کا کام کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔
مجھے ان ملازمین پر پورا بھروسہ تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ سب گھر سے باہر سوتے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں گھر پر چوروں کا راج ہو جاتا تھا۔ اس جھونپڑی نما عمارت میں چوروں کو گھسنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی تھی اور بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ جب میں کئی روز کے بعد گھر پہنچا تو دیکھا کہ میرے ملازمین میرے گھریلو اشیا کے مزید کم ہو جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہوتے تھے۔ ایک بار چور میرے گھر سے میز پوش اور چار نیپکن لے اڑے۔ اکے لیے رہتے ہوئے اس طرح کی چھوٹی چیزوں کی اہمیت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ کو شاید ایسا نہ لگے۔ میرے گھر سے پچاس میل کے دائرے میں تین یورپی رہتے تھے جن میں سے دو کے باغات تھے اور ایک بی پی ایم تیل کمپنی کے لیے تیل کی تلاش کا کام کرتا تھا۔ سو جب یہ لوگ میرے گھر کھانے پر آتے تو یہی میز پوش اور یہی نیپکن ان کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ان لوازمات کی وجہ سے انہیں یقین رہتا ہو گا کہ میں جنگل کی زندگی میں رہ کر جنگلی نہیں بنا۔ جونہی ان میں سے کوئی میرا مہمان بنتا تو میں فوراً صندوق سے میز پوش اور نیپکن نکالتا جس میں کافور کی بو شاید کئی کئی میل تک پھیل جاتی ہو، اور ان کے لیے کھانے کی میز سج جاتی۔
اب چونکہ ‘خزانہ’ چوری ہو چکا تھا، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے مقامی ملازمین کو حکم دیا کہ میری عدم موجودگی میں وہ گھر کے اندر سویا کریں گے تاکہ چوروں کو موقع نہ مل سکے۔
ایک بار ہاشم دو دن کے لئے غائب ہوا۔ در اصل وہ جنگلی ریچھ کا پیچھا کرتا گیا جو شاید لمبے سفر پر نکلا تھا۔ واپسی پر اس نے عجیب کہانی سنائی۔ جب وہ ایک بہت دور کے دیہات پہنچا تو وہاں ایک چھوٹا سا بچہ اژدہے کی گرفت میں تھا اور ہاشم نے اس بچے کو چھڑایا اور اس کے والدین کے پاس لے گیا۔ وہاں جا کر جب اس بچے کے والدین سے ملا تو ششدر رہ گیا۔ دونوں کے بالائی ہونٹ پر نشیب نہیں تھا۔
ہاشم بہت برسوں سے میرا ملازم چلا آ رہا تھا اور اسے پورا اطمینان تھا کہ ایسی مافوق الفطرت بات سن کر میں اس کا مذاق نہیں اڑاؤں گا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میں نے اس کی کہانی سنجیدگی سے سن تو لی مگر اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ شاید اس نے یہ کہانی اپنی طرف سے گھڑ لی ہو۔ جب کوئی جنگل شکار کے قابل جانوروں سے بھرا ہوا ہو تو ظاہر ہے کہ شیروں کی موجودگی عام سی بات ہے اور شیر آدمیوں سے ملاقات بھی اس کے لیے متوقع رہی ہو گی۔ تاہم یہاں کی مقامی آبادی نے کبھی بھی شیر آدمیوں کا ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی شیروں کی وجہ سے ہمیں کوئی تکلیف ہوئی۔ سو ہاشم اور اس کی کہانی کو بھلا کر میں نے تمام تر توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی۔
ایک شام مجھے کام پر کافی دیر ہو گئی اور میں سورج غروب ہونے کے بعد گھر کو لوٹا۔ بہت تھکن ہو رہی تھی اور غسل کا سوچ رہا تھا۔ میرے سامنے فورمین ایک مشعل اٹھائے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے میں بالکل نہتا چل رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک پرانگ تھی۔ مشعل کی ڈولتی روشنی میں سائے اپنے اصل قد سے بہت بڑے اور لرزاں تھے۔ ہم جب گھر پہنچے تو ریتلا احاطہ چمک رہا تھا۔ اچانک ہی میرا ہمراہی پیچھے کو مڑا اور جھک کر اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا ‘تھوان۔ ہاریماؤ۔ ‘
اچانک ہی میں پوری طرح ہوشیار ہو گیا اور بے چینی سی ہونے لگی۔ ہمراہی کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کوئی خواب دیکھا ہو گا۔ میں نے تاریکی میں پوری توجہ سے جھانکا۔ مشعل کی ہلکی سی روشنی لرز رہی تھی۔ ہمراہی کے دانت بج رہے تھے، جس سے مجھے حیرت نہ ہوئی۔ پھر میں نے حوصلہ شکن صورتحال دیکھی، میرے صحن میں چار شیر موجود تھے۔
دائیں جانب بانسوں کے سائے میں ایک بڑے شیر کی آنکھیں دمک رہی تھیں۔ دروازے کے پاس ہی دو بچے کھیل رہے تھے اور ان کے ساتھ شیرنی لیٹی ہوئی تھی۔ کسی چڑیا گھر میں یہ بہترین منظر ہوتا کہ یہ سب شیر لوہے کی مضبوط سلاخوں کے پیچھے ہوتے، مگر یہاں انہیں پا کر محض دہشت ہو رہی تھی۔
ہم اسی جگہ بے حس و حرکت کھڑے رہے مبادا کہ شیر ہماری موجودگی سے آگاہ ہو جائیں۔ پام اور بانس کے جھنڈ عجیب سی آوازیں پیدا کرتے رہے۔ وادی سے جنگل کی عجیب آوازیں ہمیں سنائی دیتی رہیں۔ شیروں کی آنکھیں ایسے دمک رہی تھیں جیسے کوئی بڑے جگنو جل رہے ہوں۔ بچوں کے کھیلنے کی آواز ہمیں صاف سنائی دے رہی تھی۔
پھر اندھیرے حصے میں بیٹھا شیر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے روانہ ہو گیا۔ اس کے خاندان نے اس کی پیروی کی۔ جلد ہی اندھیرے میں سب گم ہو گئے اور کچھ دیر تک ہمیں ان کے چلنے کی آواز آ تی رہی کہ ان کے پنجوں تلے ٹہنیاں وغیرہ ٹوٹتی رہیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنی خوشی سے جا رہے ہیں۔
چند لمحے تک سن گن لینے کے بعد ہم تیزی اور خاموشی سے گھر کے اندر چلے گئے۔ شیروں کی موجودگی کی وجہ سے مجھے اپنا گھر مزید کمزور لگا۔ فوراً میں نے اپنی رائفل بیڈ روم سے نکالی تو کچھ سکون ملا۔
میرا ہمراہی فورمین مزدوروں کی رہائش گاہوں کے پاس ہی رہتا تھا، نے مجھ سے رات یہیں گزارنے کی درخواست کی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔ پھر رائفل اور شکاری لیمپ لے کر میں نے غسل خانے کا رخ کیا اور غسل سے فارغ ہو کر فوراً واپس لوٹ آیا۔ واپس پر مقامی ملازمین کو کہتا آیا کہ کھانا پیش کریں۔ جتنی دیر میں اور فورمین کھانا کھاتے، میں نے ملازم سے پوچھا کہ اسے کوئی عجیب بات محسوس ہوئی۔ اس کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے فورمین کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اس بارے کوئی بات نہیں ہو گی۔ ہاشم پہلے ہی سو چکا تھا، ورنہ اس سے بھی پوچھتا۔
جب ملازمین باہر نکلے تو میں نے دروازے کی اوٹ سے انہیں جاتے دیکھا۔ پھر میں نے دروازہ مقفل کر دیا اور اپنے مہمان کے سونے کی جگہ تیار کرنے لگا۔ ہم نے اس کی خاطر چارپائی بچھائی اور اس پر مچھر دانی لگا کر ہم نے سگریٹ پیا اور پھر لیٹ گئے۔
ابھی میں سونے ہی والا تھا کہ باہر شور سنائی دیا۔ پہلے ایک عورت کی چیخ سنائی دی اور پھر دروازہ زور سے بند ہوا۔ پھر اندر سے زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میرے مقامی ملازمین مجھے پکار رہے تھے، ‘تھوان، تھوان!’
میں فوراً بستر سے اترا اور اپنی رائفل سنبھال کر لیمپ جلایا اور کھانے کے کمرے پہنچا جہاں میرا مہمان دروازہ کھول رہا تھا۔ جب دروازہ کھلا تو میں نے باہر جھانکا۔
ملازمین ابھی تک شور مچا رہے تھے اور عورتوں کی آواز کافی اونچی تھی۔ جب باہر کی تاریکی سے میری آنکھیں آشنا ہوئیں تو لیمپ کی مدھم روشنی میں عجیب منظر دکھائی دیا۔ شیر پھر وہیں موجود تھے۔ سب سے بڑا شیر احاطے کے کنارے پر لیٹا ہوا تھا اور بچے اچھل کود رہے تھے۔ شاید کوئی ملازم باہر نکلا تو فوراً ہی اسے شیر دکھائی دیے۔
شیرنی اپنا سر اٹھائے اور دم سیدھا کیے کھڑی رہی اور اس کی آنکھیں ملازمین پر جمی ہوئی تھیں۔ جب میں نے رائفل شانے کو اٹھائی تو میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں گولی چلانے کو تیار تھا مگر کسی انجانی سوچ نے میرا ہاتھ تھامے رکھا۔ شیر کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے تھے۔ محض دو گھنٹے قبل انہوں نے میری خاطر راستہ چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ روک لیا اور شیر کے بچوں کے بے فکری والی کھیل کود کو دیکھنے لگا۔ شیر جو نیم دراز تھا، نے اپنے پہلو کو چاٹنا شروع کر دیا اور ٹانگ پھیلا دی۔ صرف شیرنی چوکیداری کر رہی تھی۔
تاہم یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چل سکتی تھی۔ میں نے اسی طرح رائفل اٹھائے ہوئے مقامی زبان میں چلا کر کہا، ‘چپ ہو جاؤ!’
فوراً ہی ایک چیخ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ تاہم بڑا شیر جست لگا کر اٹھا اور شیرنی نے ہلکی سی غراہٹ سے سر موڑا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں شیر کھڑے ہو کر مجھے بے فکری سے دیکھ رہے تھے اور میں انہیں رائفل کے دید بان سے دیکھ رہا تھا۔ تاہم میں نے گولی نہیں چلائی۔ خوف اور جوش کی جگہ سکون اور خوشی چھا گئی۔ میں نے رائفل جھکا کر دروازہ بند کر دیا۔ فورمین نے مجھے دیکھا مگر کچھ بولا نہیں۔
پھر میں نے اس بارے زیادہ نہیں سوچا اور اپنی مچھر دانی میں جا کر سو گیا۔ تاہم صبح ہاشم نے مجھے معمول سے پہلے جگا دیا۔ اس نے مجھے اپنی دانا آنکھوں سے دیکھا اور مجھے برآمدے میں لے گیا۔ بغیر بولے اس نے ناریل کے چھلکے سے بنی چٹائیوں کی طرف اشارہ کیا جہاں شیروں کے بال پڑے تھے اور احاطے میں ہر طرف شیروں کے پگ تھے۔ اس نے آنکھوں آنکھوں میں پوچھا، ‘آپ نے دیکھا؟’ ظاہر ہے کہ میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن یہ سب معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا اور میں نے کچھ کہے بغیر اسے قبول کر لیا۔
صورتحال کافی مضحکہ خیز تھی۔ شیر ساری رات میرے برآمدے میں آرام کرتے رہے اور میں آرام سے اپنے بستر میں سوتا رہا۔ ہمارے درمیان محض بانس کی ایک دیوار تھی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد جب میں نے تھوڑا آرام کیا تو ہاشم پھر میرے پاس آیا اور تسلی کی کہ ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں۔ پھر میرے پاس بیٹھ کر اس نے پھر شیر آدمیوں کا موضوع چھیڑ دیا۔ اس نے یاد دلایا کہ کیسے اس نے بچے کو اژدہے سے بچایا اور کیسے اس کے والدین کے بالائی ہونٹ پر نشان نہیں تھا۔ ان امن پسند شیروں کا ہمارے احاطے کی طرف آنا فطری امر تھا۔
‘تم اچھے آدمی ہو’۔ میں نے شرمندگی چھپاتے ہوئے اس کے کندھے پر تھپکی دے کر کہا۔ مجھے ہرگز پسند نہیں تھا کہ عوام الناس میرے احاطے سے ایسی داستان جوڑنا شروع کر دیں جو میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہوں۔ میں نے ہاشم کو سگریٹ دیا اور اس کی پیٹھ تھپک کر کام پر چلا گیا۔
اس طرح واقعات ہوتے رہے۔ اگلے روز مجھے یہی خیال رہا کہ شاید شیر آج بھی وہیں موجود ہوں۔ اس لیے غروبِ آفتاب سے قبل میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ گھر پہنچ جاؤں۔ میری رائفل میرے ہمراہ تھی۔ تاہم شیروں نے ہمیں کبھی تنگ نہیں کیا۔ جونہی وہ ہمیں آتے دیکھتے، آرام سے اٹھ کر جھاڑیوں میں چلے جاتے اور جب میں شب گزاری کے لیے گھر کے اندر پہنچ جاتا تو وہ پھر لوٹ آتے۔
چاندنی راتوں میں میں نے انہیں احاطے میں کھیلتے دیکھا جو معصومیت اور محبت سے بھرا کھیل ہوتا تھا۔ جیسے بڑی بلیاں کھیل رہی ہوں۔ ان شیروں سے مجھے معمولی سا بھی نقصان تو کیا پہنچتا، الٹا فائدہ ہوا کہ جب بھی میں رات کو گھر سے باہر ہوتا، چوروں کی ہمت نہ ہوتی کہ میرے گھر کے پاس پھٹکیں۔
بعد میں ہاشم نے مقامی آبادی کے رویے میں تبدیلی کی جانب میری توجہ مبذول کرائی۔ میں نے اس بارے کبھی کسی سے بات نہیں کی تھی مگر لوگوں کے رویے میں واقعی بدلاؤ آ چکا تھا۔ اگر میں کسی انتہائی تھکے ہوئے قلی کی جانب دیکھتا تو وہ فوراً کام میں جٹ جاتا۔ کمپونگ کے میلوں میں لوگ مجھے غذائی اجناس تحفتاً بھیجتے۔ لوگ مجھے ہر قسم کی چیزیں بھیجتے جن میں پھل، انڈے اور دریائی مچھلیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ لوگ مجھے جھک کر سلام کرتے حالانکہ میں کیچڑ سے لتھڑے جوتوں اور پیوند لگی خاکی وردی میں ہوتا۔
شیر ہر روز شام کو باقاعدگی سے آتے رہے۔ بچے بہت تیزی سے بڑے ہو رہے تھے۔ اب وہ میرے کتوں سپلٹ، شیری اور پلیٹ کو بھی تنگ نہیں کرتے تھے اگرچہ کتوں کو شیروں کا قرب پسند نہیں تھا۔
اگر مقامی لوگ ہر ماہ بازار جا کر اس بارے بات نہ کرتے تو اس جگہ میرا کام سہولت سے ہوتا رہتا۔ بازار میں ہونے والی سرگوشیاں فوراً ہی افواہوں میں بدلتی گئیں۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ مقامی کہانیاں جمع کرنے والے ایک شخص کو پتہ چلا کہ ایک ‘تھوان’ کے گھر روزانہ شیرانسان آتے ہیں۔ جلد ہی وہ بندہ میرے پاس آیا اور اس کے پاس میرے کنٹرولر کا ذاتی خط بھی موجود تھا۔ اس خط میں کنٹرولر نے مجھ سے اس بندے کی ہر ممکن مدد کرنے کو کہا تاکہ وہ ان روایتی کہانیوں کی سائنسی اہمیت پر کام کر سکے۔
میں نے اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے سود۔ عجیب کیفیات کے ساتھ میں نے اسے خوش آمدید کہا۔ میرا سکون تو اس کی آمد کا مقصد جان کر غارت ہو چکا تھا۔ میں ایسے عجیب اور مافوق الفطرت واقعات کے بارے کبھی کسی اجنبی سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی جنگل میں برسوں قیام کے دوران ہونے والے عجیب واقعات کے بارے۔ ہمیشہ میں نے ان باتوں کو اپنے اور اپنے اردگرد موجود مقامی لوگوں تک ہی رکھا ہے۔ اب ایسا بندہ میرے پیچھے پڑ گیا تھا جو کاغذ پنسل تھامے جنگل میں گھس کر ہر بات کی وجہ جاننے کے چکر میں پڑا تھا۔
اس کی آمد والی شام ہم نے کہانی سننے اور سنانے میں گزاری۔ اسے بیزار کرنے کے لیے میں شروع میں ہی بتا دیا کہ اس طرح کی ساری کہانیاں انتہائی توڑ موڑ کر پیش کی جاتی ہیں۔ یہ بات سچ بھی تھی۔ سارا وقت اس نے ایسے احمقانہ اور عجیب سوالات جاری رکھے کہ شاید ہی کوئی بات بچی ہو۔
میں نے اسے چند عام سے واقعات بتائے اور ساتھ ساتھ شیروں کی آمد کی آہٹ سننے پر توجہ مرکوز رکھی۔ میں اسے ان شیر آدمیوں کے بارے بات کرنے سے ہر ممکن طور پر روکنا چاہتا تھا۔ شکر ہے کہ اس شام شیر بالکل خاموش رہے۔ اس کے علاوہ یہ بندہ بھی مسلسل بولتا رہا۔ اس کی بیان کی ہوئی ہر بات سے صاف ظاہر تھا کہ اسے کتنی غلط معلومات ملی ہیں اور میں خوشی خوشی اس کی اصلاح کرتا رہا۔
اسے بہت مایوسی ہوئی ہو گی۔ اسے تو یہ بتایا گیا تھا کہ میں ہی وہ انسان ہوں جو اس کے تمام سوالات کے جواب رکھتا ہوں اوراس کی ہر بات کی تصدیق کروں گا۔ یہاں معاملہ الٹا نکلا۔ خیر، بیزار ہو کر وہ سونے چلا گیا۔
اگلی صبح مسائل کا آغاز ہوا۔ میرے مہمان نے صبح سویرے ہی شیروں کے پگ دیکھے اور فوراً ہاشم کو بلایا جو پاس ہی کوئی کام کر رہا تھا۔ ہاشم نے فوراً کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ اسے تو کچھ بھی علم نہیں اور وہ ابھی جا کر آقا کو بتاتا ہے۔
بدقسمتی سے اس نے دن کو پھرتے ہوئے شیروں کے پرانے پگ بھی دیکھے۔ پھر اس نے ایک قلی کو بلایا اور اسے سگریٹوں کا آدھا ڈبہ اور نصف روپیہ دے کر اس سے ساری بات اگلوا لی۔
جب میں دوپہر کو کھانے کے لیے لوٹا تو میرا مہمان بہت چپ چپ تھا۔ کھانے کے دوران بھی محض ہوں ہاں سے بات ہوتی رہی۔ اگر میں کچھ زیادہ تجربہ کار ہوتا تو شاید برداشت کر جاتا مگر جس عمر سے میں گزر رہا تھا، اس میں انسان نتائج و عواقب سے بالکل بے پروا ہو کر کچھ بھی کر لیتا ہے۔ اگر میرا مہمان سرکاری دورے پر، شکار کی خاطر یا محض دوست کی حیثیت سے بھی آیا ہوتا تو اس کے ساتھ گزرا وقت خوشی کا سبب بنتا۔ تاہم مجھے اس کا تجسس ناپسند تھا اور اس لیے بھی کہ وہ جان بوجھ کر ان چیزوں کو چھیڑ رہا تھا جن پر مجھے بات کرنا پسند نہیں تھا۔
تاہم میں نے گفتگو کو رخ اس طرح موڑا کہ میں اس کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ اس نے فوراً اس تعاون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ سے میری رائفل ادھار مانگ لی تاکہ اسی شام وہ ان میں سے ایک شیر کو شکار کرے۔
اس میں میرا بھی قصور تھا کہ میں نے بار بار اصرار کر کے شیر آدمیوں کی بات کو غلط ثابت کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ عام شیر ہیں جو میرے کتوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ آخرکار جب اس نے میری بات مان لی تو پھر اس کی بات کا رخ بدل گیا۔ اب وہ ہالینڈ جاتے ہوئے شیر کی کھال ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ میں اسے اس بات سے نہ روک پایا، تاہم میری خواہش تھی کہ کوئی ان دیکھا واقعہ اسے روک دے۔
شام کا اندھیرا پھیلنے لگا اور ایسا کوئی ان دیکھا واقعہ نہ ہوا۔ میرا مہمان بہت پر جوش ہو رہا تھا۔ اس نے ساری تیاریاں مکمل کر لی تھیں اور ایک قلی کی مدد سے اس نے احاطے کے ایک جانب ایک درخت پر ایک چبوترہ بنا لیا تھا۔ کسی نامعلوم سبب سے ہاشم غائب تھا۔ اب میرا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ شکار کے لیے کارتوس بناؤں۔ میں نے گولی کو نکال کر اسے اس طرح چھیلا کہ وہ نشانے سے دور جائے۔ پھر زیادہ بارود ڈالا تاکہ گولی چلتے ہی نالی اوپر کو اٹھ جائے اور گولی کے نشانے پر لگنے کا کوئی امکان نہ ہو۔
جب مہمان درخت پر چڑھ کر میری تین نالہ رائفل کے ساتھ بیٹھا تو میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ صرف بھری ہوئی نالی کو ہی چلائے کہ باقی دو خالی ہیں۔ اگرچہ اس ہدایت کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن میں نے یہ کہنا مناسب سمجھا۔ اس کے علاوہ میں نے اسے اپنی شکاری لالٹین بھی دی کہ رات کافی تاریک تھی۔ میں نے لالٹین کا رخ درختوں کی جانب کر دیا کہ میں شیر کبھی بھی اس جانب سے نہیں آئے تھے اور وہاں کوئی پگ بھی نہیں تھے۔
کہہ نہیں سکتا کہ وہ شام مجھ پر کتنی بھاری گزری۔ ٹمٹماتے لالٹین کی روشنی میں بیٹھا تجسس اور پریشانی سے اپنے ناخن چبا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے آج تک ان شیروں سے نقصان کی بجائے فائدہ ہی ہوا ہے جس کا بدلہ اتارنے کے لیے میں نے ایک اجنبی بندے کو اپنی رائفل تھما کر ان کے شکار پر بٹھا دیا۔ جتنا سوچتا گیا، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا گیا کہ اس بندے کا نشانہ خطا نہیں جائے گا۔ آخرکار میں نے مان لیا کہ یہ بندہ شیر مار کر ہی لوٹے گا۔
اس سوچ کے ساتھ میرے لیے سکون سے بیٹھنا ممکن نہ رہا۔ میں اس نیت سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ جا کر اس بندے کو یہ بتا کر کہ میں نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے، اسے اتار کر واپس لے آؤں کہ اچانک عجیب سی بات ہوئی۔ پہلے شیر کے بچے کی گھبرائی ہوئی غراہٹ اور پھر بڑے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ عین اسی وقت وہ بندہ مدد کے لیے چلایا، گولی چلی اور اس کی گونج ابھی باقی تھی کہ شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں آئی اور پھر دھپ کے ساتھ پریشان کن خاموشی چھا گئی۔ کچھ بندر اور پرندے دور چلا رہے تھے اور اپنے ملازمین کے کمرے سے مجھے سرگوشیوں کی آواز سنائی دی۔
میں نے لپک کر بیرونی دروازہ کھولا اور لالٹین کی روشنی میں احاطے اور اس درخت کی جانب دیکھا جہاں وہ بندہ بیٹھا تھا۔ اچانک ہاشم نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لمبا پرانگ تھا اور برآمدے کی سیڑھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
وہ بندہ اپنے بنائے چبوترے کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ اس کا سر اس کے گھٹنوں کے درمیان تھا اور آنکھیں اور منہ دہشت کے مارے کھلے رہ گئے تھے۔ پہلے پہل تو اس کی حالتِ زار دیکھ کر مجھے بڑا ترس آیا۔ جب میں نے یہ تسلی کر لی کہ کوئی شیر آس پاس نہیں تو میں نے ہاشم کی مدد سے اسے اٹھایا اور گھر لے آیا۔
برآمدے کی کرسی پر وہ جیسے گر پڑا۔ کچھ دیر بعد اس کی حالت بحال ہوئی۔ اس کے دانت بج رہے تھے۔ بولنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ یا حیرت، یہی سب کچھ تو میں چاہ رہا تھا، مگر پتہ نہیں کیوں میں مطمئن نہیں تھا۔ میں نے ہاشم کو اشارہ کیا کہ شراب لے آئے۔ حیرت انگیز پھرتی سے ہاشم میری خفیہ الماری سے شراب نکال کر آیا۔ مجھے فوراً اس پر شک ہوا اور اس نے جس طرح نظریں چرائیں، مجھے اپنا شک یقین میں بدلتا محسوس ہوا۔ جب کچھ برانڈی ہمارے مہمان کے حلق سے اتری تو اس کے حواس کچھ بحال ہوئے۔ پھر اس نے کہانی بیان کی جس نے میرے خدشات کی تصدیق کی۔ جب وہ غنودگی کے عالم میں تھا کہ چھوٹے شیر نے درخت پر کسی عجیب چیز کی موجودگی محسوس کر کے اوپر دیکھا اور غرایا۔ شیروں کو دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے کہ وہ کوئی تجربہ کار شکاری نہیں تھا۔ پھر اسے زمین پر گرنے کے بعد ہوش آیا۔
اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے وہ بار بار اپنے دائیں کندھے کو تھام کر کراہتا رہا۔ دھکے سے شاید جوڑ ہل گیا تھا اور شانے پر بڑا نیل دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم جب اس نے کہانی بیان کی تو زندہ دلی سے ہنس رہا تھا۔ شاید میرے لیے بھی یہی حل بہترین تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کی ہر ممکن مدد کی اور تمام معلومات جمع کرنے میں مدد دی۔ جب وہ واپس گیا تو ہم دوست بن چکے تھے۔
ان شیروں کو ہم نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ وہ ہمارے علاقے سے ہی غائب ہو گئے تھے اور مجھے شرمندگی سی ہونے لگی۔
٭٭٭
باب پنجم: گائے کا قاتل
ملیریا کے شدید حملے کے بعد میں کچھ عرصہ کے لیے بیکار ہو کر رہ گیا تھا۔ اس لیے میں نے دو ہفتے ایک دوست کے پاس خلیج سیمانگکا میں گزارے۔ میرا دوست یہاں سروے کر رہا تھا۔ اس نے مجھے کئی بار خط لکھے کہ وہ کیسے شارکوں کا شکار کرتا ہے اور میرے اندر بھی اس شکار کا شوق پیدا کر دیا۔ سو میں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے چلا گیا۔
تاہم شارک کا شکار میری توقعات سے کہیں مختلف نکلا۔ خلیج میں ایک پیراک پیپے پر بہت مضبوط قسم کی ڈوری باندھ دی جاتی تھی۔ اس کے دوسرے سرے پر ایک انسانی انگوٹھے جتنی موٹی تار پر تین بڑے فولادی آنکڑے لگا دیے جاتے تھے۔ پھر آنکڑے پر گوشت کے ٹکڑے پھنسا کر اسے سمندر میں پھینک دیتے تھے۔ چونکہ اس جگہ شارکیں بہت تھیں، اس لیے اکثر کامیابی ہوتی تھی۔ اگر شارک کانٹا نگل لیتی تو پیراک پیپے کے مسلسل ابھرنے اور ڈوبنے سے پتہ چل جاتا تھا۔ پھر جا کر اسے نکالا جاتا تھا۔ نکالنے کے لیے ایک پرانا انجن استعمال ہوتا تھا جو ایک فولادی ڈھانچے سے بندھا ہوا تھا۔ پہلے پہل اتنا انتظار کیا جاتا تھا کہ شارک اس پیراک پیپے سے لڑ کر تھک جائے اور پھر ڈوری انجن سے منسلک کر دی جاتی تھی۔ اگر شارک لڑائی کے قابل ہو اور ڈوری کو کھینچنا شروع کر دے تو انجن سمیت ہر کوئی اس کے پیچھے کھینچا چلا جاتا تھا۔
تاہم مجھے بنسی سے شکار زیادہ پسند ہے۔ خلیج میں مچھلیوں کی کثرت تھی اور مناسب جسامت کی مچھلیاں بہ آسانی اور تھوڑی کوشش سے مل جاتی تھیں۔ اس جگہ ٹونگ کول، ببارا، بارا کوڈا اور کئی دوسری اقسام کی مچھلیاں عام پائی جاتی تھیں۔ ہم نے خاموشی سے اپنی ڈوری کے ساتھ پوری خلیج کا چکر لگایا۔ کانٹے پر مرغی کے پر لگے ہوئے تھے جو ہمارے پیچھے پیچھے سطح پر تیرتے آ رہے تھے۔ کانٹا ہم نے تیل کے کنستر کو کوٹ کر اس کے ٹکڑے سے بنایا تھا۔ وہ بھی لہروں پر اس طرح ناچ رہا تھا کہ ہر شکاری مچھلی اسے دیکھ کر دھوکہ کھا جاتی۔
بعض اوقات کم عمر شارکوں سے ہمیں الجھن ہوتی۔ ایسے لگتا جیسے تاریک پانیوں سے طوفانی بادل اٹھ رہا ہو۔ پاس پہنچتے تو پتہ چلتا کہ شارکوں سے ڈر کر دوسری مچھلیاں بھاگ رہی ہوتی تھیں۔ یہ شارکیں ایک مسئلہ تھیں اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں راستہ نکالنا پڑا۔ ہمارے پاس ہمیشہ تاڑ کے پتے موجود رہتے تھے۔ تاڑ جنگلی کھجور کی ایک قسم ہے اور اس کے پتے سخت اور رگدار ہوتے ہیں۔ ماضی میں جاوا کے علما مذہبی احکامات اس درخت کے خشک پتوں پر لکھتے تھے اور پھر انہیں باندھ کر کتاب جیسی شکل دی جاتی تھی۔ اس طرح قدیم احکامات آج بھی محفوظ رہ گئے ہیں۔ لالچی شارکوں کا علاج یہی پتے تھے۔ ہم نے ایک شارک پکڑ کر اس کے بالائی پر میں پرانگ سے سوراخ کر کے ایک پتہ گزارا اور اسے واپس پانی میں پھینک دیا۔ باقی شارکوں نے جب اس کے پر سے بندھے پتے کی کھڑکھڑاہٹ سنی تو ڈر کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔ یہ شارک بیچاری ان کے پاس رہنے کی کوشش کرتی اور وہ سب اس سے دور بھاگتیں۔ اس طرح ان تمام شارکوں سے ہمیں نجات مل گئی۔
اس طرح اس خلیج میں دن گزرتے رہے۔ سارا دن میں آرام کرسی پر لیٹا رہتا اور بخار سے ہونے والی نقاہت دور کرتا رہتا اور بوڑھا خانساماں میری خدمت کرتا رہتا۔ فارغ وقت میں میں ساحل پر جا کر کبھی مچھلیاں پکڑتا تو کبھی سنائپ کا شکار کرتا۔ مجھے تو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں سست اور موٹا نہ ہو جاؤں۔ اچانک ایک شیر کی آمد سے حالات بدل کر رہ گئے جو غیر متوقع تو تھا ہی مگر برا نہیں ثابت ہوا۔
سب سے پہلے میرے دوست کو ایک کمپونگ کے نمبردار نے ہرکارے کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اس کے کمپونگ کو ایک انتہائی شیطان شیر نے دہشت زدہ کر رکھا ہے اور تھوان اس کے خلاف کچھ کریں۔ میرا دوست اس وقت کام پر تھا اور سہ پہر کو کھانے کے وقت واپس لوٹا۔ میں نے اسے نمبردار کا پیغام دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ جمعے کا دن تھا۔ میرے دوست نے اگلے روز صبح روانہ ہونے کا سوچا مگر دوپہر تک انتظار کرنا پڑا تاکہ پورا اختتامِ ہفتہ کام سے دور رہ سکے۔ یہ کمپونگ ساحل سے زیادہ دور نہیں تھا اور امید تھی کہ ہم اندھیرا ہونے سے پہلے پہنچ جائیں گے۔ جمعہ کی شام کو ہم نے ہرکارے سے اس بارے طویل مگر دلچسپ گفت و شنید کی۔ شیر نے مویشی خوری کی عادت ڈال لی تھی۔ کئی ماہ قبل اس نے پہلی گائے ہلاک کی تھی۔ یہ گائے ایک متروک کھیت میں چر رہی تھی۔ اس وقت سے شیر نے کمپونگ کے ساتھ رہائش رکھ لی اور مسلسل مویشی مارنے لگا۔ شام چار بجے کے بعد گاؤں کے باسی باہر رہنے سے ڈرتے تھے کہ شیر بہت نڈر ہو گیا تھا۔ علی الصبح اور دن کے وقت بھی شیر کھیتوں میں چلتا دکھائی دیتا تھا۔ جتنی دیر شیر گائے یا کتے مارتا رہا، اس سے پیدا شدہ نقصان کی تلافی ممکن رہی۔ مگر چند دن قبل شیر کمپونگ میں گھسا اور آدمیوں کے شور کے باوجود ایک بچھڑے کو اٹھا لے گیا۔ شیر بالغ نر ہو گا کہ ہرکارے نے میز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اتنا اونچا تھا۔
ہم نے شام کا باقی وقت اپنے ہتھیاروں اور سامان کی دیکھ بھال میں گزارا۔ میرے دوست کے پاس بیلور یا شکاری لالٹین نہیں تھی۔ ہاشم میرے ساتھ تھا اور اسے ایک ایسا لالٹین بنانا پڑا۔ میرے دوست نے گھر میں موجود تمام لالٹین ہاشم کے سامنے رکھ دیے۔ ہاشم نے تیل سے جلنے والا ایک لالٹین اٹھایا اور تیل کے کنستر کا ایک حصہ کاٹ کر اس نے منعکس گر بنا لیا۔ یہ لیمپ بہت اچھا کام کرتا تھا مگر اسے بہت زیادہ جھکانا ممکن نہیں تھا، ورنہ بہت زیادہ دھواں اٹھنے لگ جاتا اور منعکس شدہ روشنی بیکار ہو جاتی۔ اس کے علاوہ حرارت سے شیشہ بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ خیر، ہم نے بہتری کی توقع رکھی۔
اگلی صبح ہم ہر ممکن جلدی ہاشم اور ہرکارے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ہاشم کے ذمے میرے سامان کی نگرانی تھی۔ پانچ میل کا سفر کم آباد علاقوں سے گزرا اور پھر بل کھاتا دریا ہمارے سامنے آیا جس کے ساتھ ایک چھوٹا گاؤں تھا۔ ہم نے ایک کشتی کرائے پر لی اور دو گھنٹے بعد منزل پر پہنچ گئے۔
کمپونگ دریا سے دو سو گز دور تھا اور درمیان میں جنگل کی پٹی کو صاف کر دیا گیا تھا۔ زیادہ تر اس صاف جگہ پر کاشتکاری کی گئی تھی اور باڑ لگا کر ہرنوں اور جنگلی سوروں سے بچاؤ کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ کمپونگ میں بمشکل بیس گھر تھے جو ایک صاف ندی کے کنارے آباد تھے۔ گھروں کے درمیان مویشیوں کے باڑے تھے جن پر نرسل سے بنی چھتیں تھیں۔ دھواں اور دیگر بوئیں یہاں پھیلی ہوئی تھیں۔ بچوں اور کتوں کے غول نے ہماری آمد پر خوب شور مچایا۔
مجھے اور ہاشم کو نمبردار کے گھر لے جا کر ٹھہرایا گیا۔ ہاشم نے مچھر دانیاں نصب کر دیں اور خیمہ وغیرہ عارضی طور پر باہر رکھ دیے۔ ایسی جگہوں کو خوب تسلی سے دیکھ لینا چاہیے کہ تکلیف دہ کیڑے پائے جاتے ہیں۔ اکثر کمرے میں داخل ہوتے ہی انہیں مار دینا چاہیے۔ مجھے اس چھوٹے کمرے میں شب بسری کی فکر نہیں تھی کہ مجھے پتہ تھا کہ دن کے وقت شیر کے نشانات دکھائی دے گئے تو ہم اگلی رات پرانگن یا مچان پر گزاریں گے۔
آمد کے بعد میں نے نمبردار سے طویل گفتگو کی۔ اگرچہ ہرکارے سے گفتگو کر کے ہمیں تمام تر باتیں پتہ چل چکی تھی، مگر نمبردار یہ سب باتیں ایک بار پھر سے ہمیں بتانے پر مصر تھا اور میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نمبردار کا چوڑے شانوں والا خوبصورت بیٹا بھی گفتگو میں شریک ہو گیا اور کچھ اور نوجوان دروازے کے باہر جمع ہو گئے۔ بار بار مجھے لفظ ‘مینک’ سنائی دیتا رہا۔ مجھے پتہ تھا کہ اس لفظ کا مطلب ‘بزرگ’ہے اور یہ ہمیشہ شیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ مسلمان تھے مگر توہم پرستی عروج پر تھی اور مختلف جانوروں کے بارے بات کرتے ہوئے اپنے بزرگان کے نام سے مخاطب کرتے۔ تاہم جب کسی مخصوص شیر جیسا کہ اس شیر کا تذکرہ کرنا ہوتا تو اسے ‘بزرگ’ کہتے۔ شاید اس طرح وہ اس شیر کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرتے۔
مجھے ‘بزرگ’ کی تمام تر تفصیل سننا پڑی اور اتنی دیر میں ہمارے لیے پرتکلف ضیافت تیار ہوتی رہی۔ سفر نے ہمیں بہت تھکا دیا تھا اور بھوک بھی کھل گئی تھی۔ کھانے کے اختتام پر میں ہاشم، نمبردار، اس کے بیٹے اور دو اور ساتھیوں کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ یہ لوگ مجھے شیر کے آخری شکار کی باقیات کو لے جا رہے تھے۔ گاؤں کے چوک والے نشانات تو کب کے مٹ گئے تھے۔ تاہم یہ لوگ مجھے سیدھا لڈانگ کی جانب لے گئے جہاں جنگل شروع ہو رہا تھا۔ اس جگہ سے شیر کے پگوں کا پیچھا کرنا بہت آسان تھا۔ ہاشم کا کام شروع ہو گیا تھا۔ وہ شکاری کتے کی طرح نشانات کو سونگھتا ہوا سیدھا نرسل کے جھنڈ کی طرف بڑھا جو لڈانگ سے دو سو گز دور تھا۔ یہاں سے گزر کر ہم جنگل میں داخل ہو گئے۔ نرسلوں کی جگہ پر تو شیر کے پگ بالکل واضح دکھائی دے رہے تھے۔ انگریزی کے حرف وی کی شکل میں نرسل کچلے ہوئے شیر کے راستے کو صاف دکھا رہے تھے، یا کم از کم میں نے یہی سوچا تھا۔ تاہم نرسلوں میں گھستے ہی مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ یہاں جنگلی سوروں اور ہرنوں کے راستوں میں شیر کے نشانات کھو گئے تھے۔ گرمی انتہائی شدید تھی اور شیر کے نشانات تلاش کرنا بہت مشکل۔ ہاشم نے خود ہی رہنمائی کا فریضہ اپنے سر لے لیا اور طویل گھاس سے بغیر کسی دقت کے لے کر ہمیں بڑھتا چلا گیا۔
جب ہم نرسلوں میں تین چوتھائی راستہ عبور کر چکے تو ہاشم جھک کر محتاط انداز میں چلنا شروع ہو گیا۔ اس نے مڑ کر مجھے دیکھا اور میں فوراً اس کے قریب پہنچ گیا کہ وہ چاہ رہا تھا کہ یہاں سے ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب رہ کر پیش قدمی کریں۔
ہاشم کے تجربے کے مطابق شیر اپنے شکار کو ہمیشہ پانی کے پاس کہیں لے جاتا ہے اور پیٹ بھرنے کے بعد اسے شدید پیاس لگتی ہے۔ پانی پی کر وہ بقیہ لاش کو اسی جگہ چھوڑ کر خود ایسی جگہ تلاش کر کے گہری نیند سو جاتا ہے جہاں کوئی اسے تنگ نہ کرے۔
جب ہاشم نے نرسلوں کے جھنڈ میں چلنا شروع کیا تو اس نے آگے جنگل کے فاصلے کا اندازہ بھی لگا لیا اور فیصلہ کیا کہ نرسلوں میں دوسرے کنارے سے تھوڑا پہلے تک شیر سے ٹکراؤ نہیں ہو گا۔ شاید شیر نے ان نرسلوں اور جنگل کے درمیان کسی جگہ اپنی پیاس بجھائی ہو گی۔ جب ہم اس جگہ پہنچے تو اس بات کے امکانات بہت زیادہ تھے کہ شیر دکھائی دے جائے۔
میں نے اپنی بندوق کا گھوڑا چڑھا دیا اور انتہائی احتیاط سے ہم لوگ آگے بڑھے۔ تاہم پیش قدمی آسان نہ تھی کہ نرسل ہمارے سر جتنے بلند اور ان کے پتے تیز دھار تھے۔
ہوا بالکل ساکن تھی اور اس جگہ حبس بہت زیادہ تھا۔ چھپ کر چلنا بہت دشوار ہو گیا تھا۔ نیچے جھک کر چلتے ہوئے ہماری پیش قدمی سست تھی اور راستہ بھی پوری طرح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
نم اور بو دار ہوا سے ہمارے گلے میں عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔ پسینہ بہہ رہا تھا۔ اس تنگ سے راستے پر مجھے فکر ہونے لگی۔ میں نے بہت بار خود کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ شیر اس وقت گہری نیند سو رہا ہو گا اور ہاشم اسے پہلے تلاش کر لے گا۔ اس جگہ اونچے نرسلوں کے بیچ، جہاں چھ فٹ دور دیکھنا ممکن نہیں، میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا تھا۔
آخرکار میری تسلی ہوئی جب نرسل چھٹنے لگے اور پھر چند قدم بعد اچانک ختم ہو گئے۔ اب ہمارے سامنے گھنی جھاڑیوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا جس کے درمیان پانی کھڑا تھا۔ طویل خشک سالی کے باعث اس جگہ کنارے خشک ہو چکے تھے اور ان پر بے شمار ہرنوں اور جنگلی سوروں کے کھروں کے نشانات خشک ہو چکے تھے۔ بعض جگہوں پر تو جانوروں کی آمد و رفت سے مٹی باریک دھول کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
اس جگہ ہم کچھ دیر بیٹھے رہے اور آس پاس کا جائزہ لیتے رہے۔ یہاں بھی ہوا بالکل ساکن تھی۔ سورج سوا نیزے پر تھا۔ ہمارے سامنے جنگل کے درخت بے برگ اور اونچے کھڑے تھے جیسے دیوار ہو۔ جنگلی بیلوں کے پتے بھی بالکل ساکن تھے۔ اس چھوٹے تالاب کے اوپر ایک بھنبھیری اڑ رہی تھی۔ تا حد نگاہ اور کوئی زندہ جانور نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ لاش کہیں قریب ہی تھی کہ ہمیں متعفن بو آ رہی تھی۔
آخرکار ہاشم نے مجھے اشارہ کیا کہ محتاط رہوں۔ انتہائی احتیاط سے میں نے اپنی تین نالی بندوق اٹھائی اور تیار ہو گیا۔ پھر ہم لاش کو دیکھنے آگے کو بڑھے۔ جب ہم اس کے قریب آئے تو کسی جانور کے چھینکنے اور بھاگنے کی آواز آئی۔ یہ جانور زمین کے قریب رہ کر بھاگ رہا تھا۔ بندوق میرے شانے پر تھی مگر ہاشم نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور ہونٹوں کی حرکت سے کہا، ‘منجاوک’۔ یہ بڑی گوہ تھی جو ہماری آمد سے ڈر کر لاش کو چھوڑ کر بھاگی۔ شاید وہ شیر کے شکار سے اپنا پیٹ بھر رہی تھی۔ چند لمحے بعد ہم اس بچھڑے کی لاش پر پہنچ گئے۔ لاش تھوڑی سی بچی تھی۔ ہڈیاں، کھال کے ٹکڑے اور خون کا ایک بڑا تالاب دکھائی دیا جس پر مردہ خور سبز مکھیاں بھی توجہ نہیں دے رہی تھیں۔
شام کو چار بجے ہم گاؤں واپس لوٹے۔ ہماری کوشش رائے گاں گئی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ شیر بچھڑے کی باقیات پر کبھی نہ لوٹتا۔ اس لیے وہاں رات بسر کرنا بیکار رہتا۔ تھکے ماندے اور مایوس حالت میں واپس لوٹ کر میں کچھ آرام کیا اور اپنے ساتھی کی واپسی کا انتظار کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کی واپسی ہوئی اور ہم نے باقی بچی روشنی میں ندی پر غسل کیا۔ مقامی لوگ کچھ پریشان دکھائی دیے کہ یہ کئی ہفتوں سے شیر کی معمول کی گشت کا وقت تھا۔ تاہم یہ ندی اس جگہ سے نہیں بہتی تھی جہاں سے شیر گزرتا تھا۔ اس لیے ہمیں جنگل کی جانب سے کسی اندیشے کی فکر نہیں تھی۔ تاہم ہماری بندوقیں تیار رکھی رہیں۔
پانی انتہائی شفاف اور ٹھنڈا ہونے کے علاوہ چھوٹی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب ہم ندی کی تہہ میں لیٹے تو اتنی دیر مچھلیوں کے غول ہمارے اردگرد تیرتے رہے۔ کچھ فاصلے پر ایک کنگ فشر بھی درخت کی شاخ پر بیٹھا ہمیں دیکھ رہا تھا اور اس کے رنگ انتہائی شوخ اور مخملی تھے۔ پہلے پہل تو وہ حیرت سے دیکھتا رہا کہ مچھلیاں کیوں ہمارے اردگرد تیر رہی ہیں۔ کچھ دیر دیکھنے کے بعد اس نے اڑان بھری اور پانی پر اڑتا ہوا چلا گیا۔ اس کی آواز پانی سے ٹکرا کر گونجتی رہی۔
غسل سے ہم بہت لطف اندوز ہوئے مگر اردگرد ماحول پر کڑی نظر رکھی۔ سارا گاؤں بالکل خاموش ہو چکا تھا حالانکہ وہ اپنے گھروں اور جھونپڑوں کے اندر محفوظ بیٹھے تھے۔ گاؤں سے مچھر بھگاؤ آگ والے الاؤ کے دھوئیں بل کھاتے اٹھ رہے تھے۔
میں نے اپنے دوست کو دن کی ناکام مہم کے بارے بتایا اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ شیر آج رات لازماً گاؤں کا چکر لگائے گا۔ ہم نے طے کیا کہ میرا دوسترات کو نمبردار کے گھر سونے کی بجائے کمپونگ کے دوسرے سرے پر واقع ایک اور گھر میں رات بسر کرے جہاں سے شیر عموماً گزرتا تھا۔ مویشیوں کے شور سے ہمیں شیر کی آمد کا علم ہو جاتا اور ہم دونوں میں سے کسی ایک کو گولی چلانے کا موقع مل سکتا تھا۔ چاند پورا ہونے والا تھا، سو رات کے ابتدائی چند گھنٹے تو روشنی رہتی۔
آہستہ آہستہ جنگل کے سائے اندھیرے میں مدغم ہوتے چلے گئے اور اندھیرا گہرا ہوتا گیا۔ دو پرندے گزرے جو بہت بلندی پر تھے اور ان کے پروں کی تیز حرکت کی آواز آئی۔ دور سے جنگل میں بندروں کی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس طرح ہم دس منٹ تک پانی میں لیٹے رہے۔
اچانک ہمیں زور کی دھاڑ سنائی دی جو اندھیرے میں پھیل رہی تھی۔ یہ آواز زمین کے قریب سے نکالی گئی تھی۔ کسی انجان سمت سے یہ درندہ آ رہا تھا۔ گہری آواز جو بڑھ کر طویل ہوتی گئی، ‘ہا۔ ۔ ۔ اوہب۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ اوہب’۔
ہم دونوں نے اپنی بندوقیں اٹھائیں اور ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر چاروں سمت دیکھنے لگے۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ اپنے تمام تر تجربے کے باوجود ہمیں نہ تو شیر کی سمت کا اندازہ ہو پا رہا تھا اور نہ ہی یہ جان پا رہے تھے کہ شیر دور ہے یا نزدیک۔
یہ آواز شکار کی تلاش میں نکلے ہوئے بنگال ٹائگر یعنی شیر کی تھی جس کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں تھی اور نہ ہی اسے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کی کوئی ضرورت۔ شکار محض اپنی سلطنت کے دورے پر نکلا ہوا تھا اور سر زمین کے قریب جھکائے ہوئے وہ وقفے وقفے سے آواز نکال رہا تھا جو کبھی کھانسی سے مشابہ ہوتی تو کبھی طویل دھاڑ لگتی۔ اس آواز کا مقصد آس پاس کے جنگلی جانوروں میں ہیجان پیدا کرنا تھا۔ عموماً شیر کے شکار کا علاقہ ایسا ہوتا ہے جہاں جنگلی جانوروں کی کئی پگڈنڈیاں آن کر ملتی ہیں۔ جنگلی سور اور ہرن ہمیشہ اپنے مخصوص راستوں پر چلتے ہیں۔ شیر کو بھی یہ بات پتہ ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اپنا سر زمین کے قریب لا کر دھاڑتا ہے۔ اس طرح کسی جانور یا انسان کو علم نہیں ہو پاتا کہ خطرہ کہاں ہے۔ اس طرح ہیجان میں مبتلا ہو کر جانور اندھا دھند اپنے جانے پہچانے راستوں پر بھاگتے ہیں۔ اکثر خطرہ انہی راستوں کی جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھا ان کا منتظر ہوتا ہے۔
شیر کبھی اپنے دانتوں کی مدد سے شکار کو ہلاک نہیں کرتے۔ میں نے شیروں کے شکار کردہ انسانی اور حیوانی شکار جتنے بھی دیکھے ہیں، ان کی شہ رگ پر یا ان کی گردن کی ہڈی پر دانتوں کے سوراخ ہوتے ہیں اور یا تو ہڈی ٹوٹنے سے یا پھر خون کے بہنے سے موت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں سے پکڑ کر شیر اپنا شکار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے تو وہاں بھی دانتوں کے نشان پائے جاتے ہیں۔
ندی میں پشت سے پشت ملائے ہم بیٹھے چاروں طرف شیر کو تلاش کرتے رہے اور گھبراہٹ کا سبب تیزی سے کم ہوتی ہوئی روشنی تھی۔ شیر کی آواز اب مسلسل چھوٹے وقفوں سے آ رہی تھی۔ پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ بعجلت ہم نے کپڑے اٹھائے اور پوری رفتار سے گاؤں کو بھاگے۔ اس حالت میں بھی ہم ایک دوسرے کی پشت سے پشت ملا کر گئے تاکہ ہر طرف حملے سے خبردار رہیں۔
میں نے اپنے دوست کو اس کے مطلوبہ گھر تک پہنچایا اور پھر وہ دروازے پر کھڑا ہو کر نگرانی کرنے لگا اور میں نے بھاگ کر نمبردار کے گھر کا رخ کیا جہاں ہاشم دروازہ کھولے میرا منتظر تھا۔ ہاشم کا پہلا سوال ہی یہ تھا، ‘ آپ نے آواز سنی؟’ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک بار پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔
دھندلکا اب آبادی پر پھیل گیا تھا اور ہر چیز کے خدوخال گم ہو گئے تھے۔ ہر چیز ایک دوسرے سے مل کر ایک طرح سے بے رنگ ہو رہی تھی اور رات کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ کہیں دور بارہ سنگھا ایک بار چلایا، پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار آواز آئی۔ کسی باڑے سے گائے گھبرا کر حرکت کی۔ ہوا میں عجیب سی بے چینی طاری تھی۔ پہلے والے شور کی نسبت یہ خاموشی زیادہ تکلیف دہ ہو رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ساری تاریکی شیر کے خوف سے ملبوس ہو۔
ہم نے بعجلت اپنا رات کا کھانا کھایا جو چاول اور نمکین مچھلی پر مشتمل تھا اور اب تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ کھانا نمبردار نے پیش کیا۔ اس مکان میں اب ہم کل تین افراد تھے کہ نمبردار کی بیوی اور بچے نمبردار کے سسرال رات گزارنے گئے تھے۔ کھانے کے بعد ہم مچھر دانیوں میں گھس گئے۔ میں نے نمبردار سے کہا کہ تیل سے جلنے والا ایک چھوٹا لالٹین ساری رات جلتا رہے اور ہاشم کے پاس مشعل تیار تھی۔ تیل کی لرزتی روشنی میں میں بہت دیر تک پہلو بدلتا رہا اور پھر نیند آ ہی گئی۔ گھر کے نیچے مویشیوں کے باڑے سے آنے والی پریشان جانوروں کی آوازیں مجھے جگائے رہیں اگرچہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ شیر قریب پہنچتا تو جانوروں کی آواز ہمیں جگا دیتی۔
پتہ نہیں میں کتنی دیر سویا مگر اچانک نیچے موجود مویشیوں کے شور سے آنکھ کھل گئی۔ کتے زور زور سے بھونک رہے تھے اور گائیں باڑے کے اندر بھاگ رہی تھیں اور ان کی ٹکر سے باڑے کی دیواریں گونج رہی تھیں۔ کچھ دور سے ایک عورت کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی۔
چونکہ میں شیر کے بارے سوچتا ہوا سو گیا تھا، اس لیے پہلا خیال یہی آیا کہ شیر آ گیا ہے۔ میں نے مچھر دانی کے نیچے سے نکل کر اپنی تین نالی بندوق بھری جو پاس ہی رکھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ہاشم نمبردار سے سرگوشیوں میں بات کر رہا ہے۔ پھر اس نے مشعل جلا کر اسے ہلایا جلایا تاکہ زیادہ سے زیادہ روغن آگ پکڑ لے۔ پھر ہم دروازے پر پہنچے اور اسے احتیاط سے کھولا۔
ہلکی چاندنی گاؤں میں پھیلی ہوئی تھی مگر زیادہ تر جگہیں سائے میں تھیں۔ ہاشم نے مشعل کو اونچا اٹھایا مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اگر شیر ہماری جانب دیکھتا تو ہمیں اس کی چمکتی آنکھیں دکھائی دے جاتیں۔
پھر ہاشم نے مجھے شیر کی طرف اشارہ کیا جو پانچ گھر چھوڑ ایک باڑے میں شکار میں مصروف تھا۔ ہمیں عورت کی چیخیں، بچے کے رونے کی آواز اور پھر گھر میں مرد کی آواز آئی جو فرش بجا بجا کر اور ڈانٹ کر شیر کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شیر نے جواب میں محض ایک غصیلی غراہٹ نکالی۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک تاریک جسم باڑے سے باہر نکلا اور دوسرا تاریک جسم اس کے پیچھے گھسٹ رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے لیے سبز رنگ کے نقطے چمکتے دکھائی دیے اور میں نے اندازے سے ان پر گولی چلائی۔ فاصلہ ستر گز ہو گا۔ گولی سے اتنا فرق پڑا کہ شیر کی رفتار تیز ہو گئی۔ لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا شیر دوسری گولی چلانے سے قبل گم ہو گیا۔
میں نے خالی نالی بھری اور پھر ہاشم کے ساتھ تیزی سے نیچے اترا تاکہ دیکھ سکیں کہ شیر نے کیا تباہی مچائی ہو گی۔ سارا گاؤں شور مچا رہا تھا اور ہر دروازے سے روشنی جھانک رہی تھی۔ مرد پوچھ رہے تھے کہ کیا شیر مارا گیا ہے۔ ہاشم میری بے عزتی کو محسوس کر چکا تھا اور اس نے جواب دیا، ‘شیر کو گولی لگی ہے مگر وہ مرا نہیں۔ ‘ دروازے فوراً ہی بند ہو گئے۔
باڑے کی ایک دیوار مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ حیران کن طور پر شیر نے انسانی بازو کی موٹائی کے تنے توڑ کر راستہ بنایا تھا۔ اندر کا منظر میدانِ جنگ لگ رہا تھا۔ چار مردہ گائیں پڑی تھیں۔ ان کی آنکھیں ابلی ہوئی اور زبانیں منہ سے نکلی ہوئی تھیں۔ ان کی گدی پر پنجوں کے نشانات تھے اور خون کا ایک قطرہ بھی دکھائی نہیں دیا۔ ہاشم نے ٹوٹے تنوں پر لگے ہوئے چند سفید بال دکھائے جس سے ثابت ہوا کہ ہم نے درست دیکھا تھا۔ شیر پانچویں گائے ساتھ لے گیا تھا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتنے وزنی جانور کے ساتھ شیر کیسے چھلانگیں لگاتا ہوا بھاگا ہو گا۔
پو پھٹنے سے قبل ہم تیار تھے۔ سارے گاؤں والے متاثرہ باڑے کے گرد جمع تھے۔ اس کا غریب مالک انتہائی پریشان تھا۔ اس کی پریشانی سمجھنا آسان تھی۔ کمپونگ والے امیر نہیں ہوتے اور ایک ہی رات میں ایک ہی بندے کی پانچ گائیں ماری جائیں تو یہ بہت بڑی مصیبت تھی۔
جتنا جلدی ممکن ہوا، ہم روانہ ہو گئے۔ اس بار ہم نے مقامی لوگوں کو ساتھ نہیں لیا تاکہ شور سے شیر بیدار نہ ہو جائے۔ جتنا زیادہ لوگ ساتھ جاتے، اتنا زیادہ شور ہوتا اور شیر فرار ہو جاتا۔
میرا دوست، ہاشم اور میں، ہم تین شیر کے پنجوں کے نشانات کے تعاقب پر نکلے جو سیدھی انہی نرسلوں کو جا رہی تھی۔ ہاشم ہماری رہنمائی کر رہا تھا۔ شبنم سے بھیگے نرسلوں پر شیر کے جسم کی بو محسوس ہو رہی تھی۔ ہاشم نے راستے پر ہمیں خون کے نشانات بھی دکھائے۔
اس روز اونچے نرسلوں سے گزرنا اتنا مشکل تھا جتنا گزشتہ روز۔ بعض اوقات جب جنگلی سور ہمارے قریب سے مگر نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بھاگتا تو ہم چونک جاتے۔
ایک بار پھر ہم بغیر کسی رکاوٹ کے پانی کے تالاب تک پہنچ گئے اور شیر کے پنجوں کے نشانات تالاب کے بائیں سے ہو کر گزرے۔ ہاشم نے اس جگہ رک کر چند لمحے کچھ سوچا اور پھر سر ہلا کر ہمیں واپس مڑنے کا اشارہ کیا۔ اس نے دیکھ لیا کہ شیر کا شکار سو گز آگے کھلی جگہ پر پڑا تھا۔ امکان تھا کہ شیر نے پیٹ بھرنے کے بعد پانی پی کر انہی نرسلوں کے کنارے کسی جگہ سونے کا ارادہ کیا ہو گا۔ کوئی بھی جانور یا انسان شیر کی پیش قدمی کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھتا تو شیر کے قریب سے گزرتا اور شیر بیدار ہو جاتا۔
اس طرح ہم لوگ دو سو گز واپس لوٹے۔ پھر ہاشم نے رہنمائی کا فریضہ سنبھالا۔ اس بار اس نے ایک سمت جانے والے جنگلی سوروں کے راستے کا انتخاب کیا۔ جب ہم اس راستے پر سو گز چلے تو ہاشم مڑ کر دوسری سمت چلنے لگا۔ اب تالاب کو جانے والا پرتجسس اور اعصاب شکن کام ایک بار پھر شروع ہو گیا۔
ہاشم عجوبہ روزگار تھا۔ وہ ہمیں لے کر لاش سے دس گز قریب پہنچا۔ نرسلوں کے کنارے پر بیٹھ کر ہمیں لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لاش پر مردار خور سبز مکھیوں کا بادل جمع تھا اور بہت بلندی پر ایک گدھ اڑ رہا تھا۔
ہم نے آس پاس کا بغور جائزہ لیا اور شیر کی موجودگی کا سوچا۔ تیس گز دور کافی بڑا درخت تھا مگر اس پر بہت کم پتے تھے۔ عام طور پر شیر جب پیٹ بھرتا ہے تو اس کا رخ ہمیشہ اس جانب ہوتا ہے جہاں سے اسے خطرہ محسوس ہو۔ مثال کے طور پر کسی راستے یا لڈانگ یا کھیت کی جانب رخ کر کے۔ تاہم چونکہ لاش اس وقت درخت اور لڈانگ کے درمیان موجود تھی، اس لیے جب شیر اپنا پیٹ بھرنے آتا تو اس کی پشت درخت کی جانب ہوتی اور ہمیں گولی چلانے کا کچھ موقع مل سکتا تھا۔ دوسری جانب ہمیں یہ فائدہ تھا کہ شیر کے زیادہ امکانات یہی تھے کہ وہ انہی نرسلوں میں لیٹا ہے اور جب شکار پر آتا تو ہمارے سامنے سے گزرتا اور ہم اسے دیکھ لیتے۔
لاش کافی اونچی جھاڑیوں کے بیچ پڑی تھی۔ اگر ہمیں شکار کا اچھا موقع چاہیے تھا تو ہمیں کچھ جھاڑیاں کٹوانا پڑتیں جو کہ ایک اور مسئلہ تھا۔ شکار پر واپس لوٹتے ہوئے شیر ہمیشہ کچھ وقت جھاڑیوں میں چھپ کر ماحول کا جائزہ لیتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کیسے، مگر ہمیشہ شیر کو اس جگہ چھوڑ کر جانے کے بعد جھاڑیوں وغیرہ میں ہونے والی معمولی سے معمولی تبدیلی کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ اگر تبدیلی دکھائی دے جائے تو پھر شیر لاش کے گرد جھاڑیوں میں چھپ کر دائروں میں چکر لگانا شروع کر دیتا ہے مگر قریب نہیں جاتا۔ یہاں میں تجربہ کار شیر کی بات کر رہا ہوں۔ گائے کے قاتل شیر کے بڑے پگوں سے صاف ظاہر تھا کہ یہ تجربہ کار شیر ہے۔
ہم لوگ کچھ دیر وہیں بیٹھ کر تمام امکانات کو دیکھتے رہے اور آس پاس کے واقفیت پیدا کرتے رہے۔ مگر ہمیں درخت کے علاوہ اور کوئی بہتر امکان نہ دکھائی دیا۔
میرا ساتھی ہاشم کے ساتھ گاؤں کو لوٹا تاکہ مزدور، پتلے تنے اور رسیاں لائے۔ یہ سامان مچان بنانے کے لیے ضروری تھا۔ اس مقصد کے لیے ہمیں کہیں دور سے کٹائی کرنی پڑتی کہ شیر یہیں کہیں سو رہا تھا۔
میں اس جگہ رک کر پوری توجہ سے آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا۔ لاش سے تعفن اٹھ رہا تھا اور ایک گوہ اس کی طرف آئی تو مکھیوں کا بادل اڑا۔ آسمان پر کئی گدھ اڑ رہے تھے جو اب قریب ہوتے جا رہے تھے اور ایک تو لاش کے قریب زمین پر اتر آیا تھا۔ گوہ پھنکاری۔ گدھ نے شاید مجھے دیکھ لیا تھا اور لاش کے قریب نہ آیا۔
کافی دیر بعد مجھے اپنے پیچھے نرسلوں میں سرسراہٹ سنائی دی۔ میں نے اپنی بندوق کا گھوڑا چڑھایا اور ساتھ ہی جنگلی مرغ کی آواز نکالی۔ میں نے ہاشم کے ساتھ یہ اشارہ مقر ر کیا تھا۔ نرسلوں سے فوراً جواب آیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ ہاشم اور میرا دوست واپس آ گئے ہیں۔ جلد ہی وہ دکھائی دینے لگے۔ میرا ساتھی اپنے ہمراہ دو دیہاتی لایا تھا جو ہماری بندوقوں کی حفاظت میں رہتے ہوئے ہر ممکن خاموشی سے درخت پر مچان بناتے۔
شیر کے شکار کے لیے بنائی جانے والی مچان میں کئی مسائل ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ مچان اتنی بلند ہو کہ شیر جست لگا کر اس تک نہ پہنچ سکے۔ دوسرا اتنا زیادہ بلند بھی نہ ہو کہ مصنوعی روشنی میں درست نشانہ لگانے میں دقت پیش آئے۔ مزید یہ کہ مچان کو ہر ممکن طریقے سے درخت کے عمومی خدوخال جیسا ہونا چاہیے تاکہ شیر کو واپس آتے ہوئے تاریک آسمان کے پسِ منظر میں درخت کو دیکھ کر کوئی اچنبھا نہ ہو۔
ہوا کے رخ کے بارے ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ درخت نرسلوں سے اتنا دور تھا کہ ہماری بو کبھی بھی شیر تک نہ پہنچ پاتی۔
نصف گھنٹے بعد مچان تیار تھی اور میں نے اس کی مضبوطی جانچی اور پھر ہم گاؤں کو واپس لوٹے۔
ہم نے احتیاط سے لاش کے آس پاس کچھ شاخوں اور جھاڑیوں کو پرانگ کی مدد سے کاٹ دیا تاکہ گولی چلانے میں سہولت رہے۔ اگرچہ یہ شکار کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی مگر اس کے بغیر گزارا بھی نہیں تھا۔ عموماً یہ اصول پیشہ ور شکاریوں کے لیے ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے شکار کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے جیسے کبھی کبھار شکار کرنے والے لوگوں کا ساتھ اکثر قسمت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ شیر کیا کرے گا۔ ہر شیر کی اپنی انفرادی شخصیت ہوتی ہے اور انسانوں کی طرح ان کا رویہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ ایک شیر ہو سکتا ہے کہ دوسرے کی نسبت زیادہ جارح مزاج ہو یا غیر محتاط ہو یا پھر زیادہ ظالم ہو۔ اس کے علاوہ ہر درندے کا تجربہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
دن کا بقیہ حصہ ہم نے کچھ آرام کیا کہ ساری رات ہم نے جاگ کر گزارنی تھی۔ گھروں کے اندر بہت حبس تھا اور چونکہ پچھلی رات ہر قسم کے حشرات ہمیں تنگ کرتے رہے تھے، اس لیے ہم نے گاؤں کے باہر سائے میں اپنے خیمے گاڑے اور رک سیک سے تکیے کا کام لیا اور خوب گہری نیند سو گئے۔ ہاشم نگرانی کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ دوپہر کو تین بجے ہاشم نے ہمیں جگایا۔ مختصر غسل کے بعد ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور نکل کھڑے ہوئے۔ ہاشم نے اپنے ساتھ دو چھوٹے تکیے، پانی کی بوتل اور پان کے پتے اور بیلور بھی اٹھا لیا۔
ہم نسبتاً دیر سے پہنچے۔ جہاں سفید فام افراد شکار کرتے ہیں، ان علاقوں میں تین بجے تک مچان پر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاہم ایک نظر ڈالتے ہی ہمیں علم ہو گیا کہ شیر لاش پر واپس نہیں آیا۔ ہم تیزی سے درخت پر چڑھے اور مناسب جگہوں پر بیٹھ کر آئندہ پیش آنے والے واقعات کا انتظار کرنے لگے۔
سہ پہر نسبتاً آہستگی اور خاموشی سے گزری۔ نرسلوں کے اوپر گرم ہوا لہرا رہی تھی۔ سورج آہستہ آہستہ مغربی افق کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا اور آخرکار سرخ تھالی بن گیا۔ ہم نے جنگل کے کنارے پر جنگلی سوروں کے غول کو گزرتے دیکھا۔ دوسری جانب ایک بارہ سنگھا تالاب پر آیا۔ بارہ سنگھا وہاں رک کر کافی دیر تک ہر سمت ہوا کو سونگھتا رہا۔ جب اسے خطرہ نہ محسوس ہوا تو پھر دو مادائیں محتاط انداز میں نکل کر پانی پینے آئیں۔ جب بندروں کا ایک غول شور مچاتا وہاں آیا تو ایک لمحے کو مادہ بارہ سنگھا جھجھک گئیں۔ جب بندر پانی پینے لگے تو ان کے شور و غوغا سے مادائیں چھینکنے لگیں اور نر نے زمین پر کھر مارنے شروع کر دیے۔ ایک بڑا نر بندر جس کی سفید مونچھیں تھیں، اونچی شاخ پر بیٹھا نگرانی کر رہا تھا۔
اس طرح جنگل اور تالاب میں زندگی کے آثار دکھائی دیے۔ وقفے وقفے سے آہستہ بولتے ہوئے آبی پرندے پانی سے اڑتے ہوئے گزرتے رہے۔
پھر سورج غائب ہو گیا۔ بارہ سنگھے پھر جنگل میں داخل ہو گئے اور ان کے کان کھڑے اور گردنیں آگے کو بڑھی ہوئی تھیں۔ بندر بھی چلے گئے۔ ایک بار پھر ان کا درختوں پر کھیل شروع ہو گیا۔
سائے گہرے ہونے لگے اور سکوت چھا گیا۔ دھندلکے کا مختصر وقفہ آیا اور پھر ہر قسم کی روشنی بند ہو گئی۔ ایسا لگا جیسے پوری فطرت ساکت ہو کر منتظر ہو۔ عجیب سی کیفیت چھانے لگ گئی۔
میں نے ہاشم کو ہدایت کی کہ وہ بیلور جلا کر کسی شاخ سے اس طرح لٹکا دے کہ اس کی مدھم روشنی لاش پر پڑتی رہے۔ لاش ہمیں صاف تو نہیں دکھائی دے رہی تھی مگر پھر بھی ہمیں یہ پتہ تھا کہ لاش ہے کہاں۔
شاید آپ کو عجیب لگے کہ ہم نے مصنوعی روشنی کے لیے لیمپ جلا کر شیر کے شکار کے لیے استعمال کیا۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ اگر روشنی بہت زیادہ تیز اور متحرک نہ ہو تو شیروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے پہل جب انہیں روشنی دکھائی دے گی، وہ اسے کچھ دیر تو دیکھتے رہیں گے، مگر لاش پر جانے سے جھجکیں گے نہیں۔ بدقسمتی سے بیلور کچھ ایسے انداز سے لٹک رہا تھا کہ جلد ہی اس سے دھواں اٹھنے لگتا اور روشنی تھرتھرانے لگ جاتی۔ ہاشم کو بخوبی احساس تھا اور اس نے اپنی قمیض سے ایک دھجی پھاڑی اور ایک مناسب شاخ توڑ کر اس کے گرد دھجی لپیٹ دی۔ اس طرح جب بھی ضرورت پڑتی، وہ لالٹین کے شیشے کو صاف کر لیتا۔
چاند نکل آیا اور باریک ہلال کی شکل میں دکھائی دیا۔ جنگل پر طاری خاموشی کافور ہو گئی اور ہر طرح کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جھینگروں کا راگ شروع ہو گیا۔ مچھروں نے ستانا شروع کر دیا مگر پان کے پتے اس سے بچاؤ کا سبب تھے۔ ہم نے پتے کچل کر ان کے رس کو اپنے جسم کے کھلے حصوں پر لگایا۔ جنگلی جانوروں کو پان کے پتوں کی خوشبو سے اجنبیت نہیں محسوس ہوتی اور بھاگتے نہیں۔
تاریکی میں ہمارے اعصاب پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ جتنی دیر روشنی رہی اور ہمیں آس پاس کے مناظر دکھائی دیتے رہے، یہ کیفیت قابلِ برداشت تھی۔ مگر تاریکی میں چھٹی حس بیدار ہو گئی جو حیاتیات کی کسی کتاب سے ثابت نہیں مگر ہر انسان اس سے بخوبی واقف ہے۔ یہ کیفیت ہمارے اندر بہت گہرائی میں ہوتی ہے اور عام طور پر اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تاہم جب رات کو ہم بیٹھے بڑے جانوروں کا انتظار کر رہے ہوں تو اچانک ہماری چھٹی حس بیدار ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو جلد پر کسی نہ کسی جگہ سنسنی کا احساس پیدا کر کے کسی جانور کی آمد کا احساس دلاتی ہے حالانکہ آنکھیں اور کان اسے بہت بعد میں جا کر دیکھ اور سن پاتے ہیں۔
ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کہ شیر نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ستر گز دور نرسلوں کے کنارے سے چھینک نما آواز نے ہمیں احساس دلایا کہ شیر آ رہا تھا کہ کوئی مداخلت ہوئی ہے۔ شاید ہماری بو ابھی تک راستے پر موجود ہو یا پھر ہماری مچان دکھائی دے گئی ہو۔ اب ہمیں ہر ممکن طور پر ساکت بیٹھنا تھا۔ مگر کتنی دیر؟
چاند نرسلوں کے قریب ہو رہا تھا اور جنگل کے کنارے تالاب تک اندھیرا چھا چکا تھا۔ بار بار ہم کوشش کرتے کہ نرسلوں کے کنارے شیر کی چمکتی آنکھیں دیکھ سکیں مگر ناکام رہے۔ اگر شیر اس جانب سے آ رہا ہوتا تو شاید آنکھیں سکوڑے ہوئے تھا۔ ہمارے اردگرد اتنی خاموشی تھی کہ چھینک کی آواز وہم لگ رہی تھی۔ مگر ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمیں غلط فہمی نہیں ہوئی۔ ہم سانس بھی احتیاط سے لے رہے تھے۔ شیر کی قوتِ سماعت اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہاشم نے ہمیں مچان پر بیٹھنے سے قبل ناک صاف کرنے اور ناک کے لمبے بال کاٹنے کا کہا۔ سانس لیتے ہوئے لمبے بالوں سے گزرتی ہوئی آواز جو ہمیں بمشکل سنائی دیتی ہے، شیر فوراً سن لیتا ہے۔
منٹ پر منٹ گزرتے گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ ہمیں تو یہ منٹ بھی طویل مدت لگ رہے تھے اور اعصابی دباؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ ہماری آنکھیں نرسلوں کی جانب دیکھ دیکھ کر پھٹنے والی ہو رہی تھیں۔ چونکہ مدھم چاندنی سیدھی ہماری آنکھوں میں پڑ رہی تھی، اس لیے ہماری آنکھیں بھی تقریباً بند تھیں۔
اچانک ہمارے عقب سے ایک خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ہمارے علم کے بغیر شیر نرسلوں سے چلتا ہوا ہمارے عقب تک پہنچ گیا تھا۔ یہ بات خلافِ توقع اور ناپسندیدہ تھی۔ اب یہ ضروری تھا کہ ہم میں سے ایک پیچھے کو منہ کر کے بیٹھے۔ تاہم آواز پیدا کیے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ چونکہ یہ کام لازمی کرنا تھا اس لیے میں نے انتہائی آہستگی سے اپنا سر موڑنا شروع کر دیا۔ مگر مطلوبہ سمت تک میں گردن نہ موڑ سکتا تھا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ شیر ہمارے عقب سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور شاید جست لگانے کے لیے حساب لگا رہا ہو گا۔
میں نے بے چینی سے مزید آواز کا انتظار کیا مگر خاموشی رہی۔ میری کنپٹیوں پر خون کی گردش اتنی تیز تھی کہ مجھے لگا کہ شیر بھی سن لے گا۔ اچانک میں پسینے میں نہا گیا۔
بظاہر بہت طویل مدت کے بعد دوبارہ آواز آئی۔ اس بار شیر عین ہمارے پیچھے غرایا۔ میرے اعصاب اتنے تنے ہوئے تھے کہ غراہٹ کی آواز بادلوں کی گرج لگی۔ مجھے علم ہے کہ میں چونک گیا۔
شیر کو ہماری موجودگی کا علم ہو گیا تھا اور اس کے ذہن میں ہزاروں سوال آئے ہوں گے۔ کمپونگ میں مٹرگشت کے دوران ظاہر ہے کہ شیر نے انسانی بو سونگھی ہو گی مگر وہ بو انسانی آبادی سے منسلک تھی۔ مگر کسی انسان کا اس کے شکار اور پانی پینے کے مقام تک آنے کا یہ پہلا واقعہ تھا جس کی وجہ سے وہ حیران اور محتاط ہو گیا ہو گا۔ اس کے علاوہ شیر بے صبرا بھی ہو گیا ہو گا کہ اسے بھوک لگی ہو گی اور اس کا کھاجا چند گز دور موجود تھا۔ شاید اس کی فطرت اسے اندھیرے سے نکل کر خطرے میں آنے سے روک رہی ہو گی۔
معلوم نہیں کہ کتنی دیر میں شیر کے عقب سے حملے کی دہشت میں مبتلا رہا۔ صرف میرے طویل شکاری تجربے نے مجھے پیچھے مڑنے سے روکے رکھا۔
پھر آہستہ آہستہ اور محتاط انداز سے ہاشم نے اپنا ہاتھ میرے بازو پر رکھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ابھی کچھ دیکھنے کے قابل ہے۔ تاہم مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ میں نے آہستہ آہستہ بندوق کو پھر سے تھاما۔ اس بار ہاشم نے انتہائی آرام سے بندوق والے ہاتھ کو پکڑ کر دوسری جانب موڑنا شروع کر دیا۔ جب اس نے ہاتھ ہٹایا تو مجھے علم تھا کہ اب مجھے اسی جانب دیکھنا ہے۔ میں نے آنکھوں پر پورا زور ڈالا۔ بیلور دھوئیں کی وجہ سے مدھم ہو رہا تھا۔ بس یہی امید تھی کہ شیر عین اس جگہ بیٹھا اور بیلور کی جانب دیکھ رہا ہو گا کہ اس کی آنکھیں روشنی کو منعکس کر رہی ہوں۔ ہمارے علم میں آئے بغیر شیر نے کیسے اس جگہ تک حرکت کر لی، حیران کن تھا۔ شاید یہ شیر بہت بے صبرا تھا یا پھر بہت نو آموز کہ سیدھا روشنی کی سیدھ میں بیٹھ گیا تھا۔
جتنی دیر یہ سوال میرے ذہن میں پیدا ہوتے رہے، میری آنکھیں درد کرنے لگیں۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں براہ راست شیر کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں۔ غیر یقینی سی دو سبز گیندیں تاریکی میں دکھائی دے رہی تھیں۔ پھر وہ گم ہو کر پھر دکھائی دیں اور پھر کچھ دیر بعد گم ہو کر پھر نمودار ہوئیں۔
شیر نرسلوں کے کنارے پر لیٹا شاید اپنے پنجوں پر سر رکھے ہماری جانب بیلور کو تجسس سے دیکھے جا رہا تھا اور پلکیں جھپک رہا تھا۔
احتیاط اور انتہائی آہستگی سے میں نے دوسرے ہاتھ سے بندوق کا دستہ تھاما اور میرے انگلیوں کو لبلبی کا سرد احساس ہوا۔ اسی وقت مجھے عجیب طریقے سے پتہ چل گیا کہ یہ شیر اب ہم سے نہیں بچ سکتا۔ یہ عجیب کیفیت تھی مگر اس سے مجھے سکون ملا اور نشانے میں آسانی ہو گئی۔
آہستہ آہستہ میں نے ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے بندوق شانے تک اٹھائی۔ میرا اندازہ تھا کہ فاصلہ تیس گز کے قریب ہو گا۔ بلندی کی رعایت سے میں اس کی آنکھوں سے ایک انچ اوپر کا نشانہ لے کر گولی چلاؤں تو اس کی گردن آسانی سے ٹوٹ جائے گی۔ آنکھوں کے درمیان کا نشانہ بہتر نہیں تھا۔ شیر سیدھا ہماری جانب دیکھ رہا تھا اس طرح آنکھوں کے درمیان چلائی گئی گولی ناک کے درمیان لگتی۔
شانے پر بندوق لا کر میں نے شیر کو اپنے قابو میں محسوس کیا۔ گہرا سانس لے کر میں نے آہستہ آہستہ سانس نکالا۔ رائفل کا دید بان بیلور کی روشنی میں واضح دکھائی دے رہا تھا اور شیر کی آنکھیں عین اس کے پیچھے دکھائی دے رہی ہیں۔ اچانک آنکھیں گم ہو گئیں۔ میں نے ان کے دوبارہ نمودار ہونے کا انتظار کیا۔ جونہی سبز رنگ کی روشنیاں دوبارہ دکھائی دیں، میں نے ہلکا سا بندوق کو اٹھا کر لبلبی دبا دی۔
پھر ہر چیز انتہائی تیزی سے واقع ہونے لگی۔ جونہی میں نے لبلبی دبائی، دونوں آنکھیں اچانک پوری طرح جلیں اور اوپر کو اٹھیں۔ جونہی میری گولی چلی، شیر نے اسی وقت لاش پر آنے کا فیصلہ کیا۔
ٹمٹماتی روشنی میں ہمیں ایسا لگا کہ جیسے کوئی دبا ہوا سپرنگ اچانک چھوٹا اور پھر واپس پیچھے جھاڑیوں پر گرا۔ انتہائی طاقتور دھاڑ سے ہمارے حواس مختل ہو گئے۔ آج تک میں نے کسی شیر کی ایسی دھاڑ نہیں سنی۔ شیر کی ہر دھاڑ مجھے اپنے چہرے پر گرم ہوا کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ شیر ہر ممکن طریقے سے اپنے غصے اور تکلیف کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے لرزتی روشنی میں دوبارہ شیر کا نشانہ لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ میرے ہمراہی کا حال مجھے سے بہتر نہیں تھا۔ اس نے تو مچان پر کھڑے ہو کر شیر کو دیکھنے کی کوشش کی۔ صورتحال انتہائی حوصلہ شکن تھی۔ زمین سے محض پندرہ فٹ اونچائی پر ہم بیٹھے تھے اور نیچے زخمی شیر اندھیرے میں تھا۔ یہ فاصلہ انتہائی کم تھا۔ زخمی شیر سے زیادہ شاید ہی کوئی چیز خطرناک ہو۔ اس کا حملہ کسی طوفان کی مانند اور ناقابلِ دفاع اور مہلک ہوتا ہے۔
ہمارے آس پاس کا جنگل بیدار ہو گیا۔ بندروں نے چلانا شروع کر دیا اور جہاں شیر گرا تھا، وہاں سے دھاڑوں کے علاوہ خس و خاشاک کے حرکت کرنے کی آواز صاف آ رہی تھی۔ اپنی تین نالی بندوق کو تیار رکھتے ہوئے میں نے شیر کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور ذہن میں سوالات کی بھرمار تھی۔ شیر نے حملہ کیوں نہیں کیا؟ گولی کہاں لگی ہو گی؟ موٹی شاخیں شیر کے وار سے ٹوٹ پھوٹ رہی تھیں جو ہر طرف اپنے پنجے چلا رہا تھا۔ پھر مجھے ہاشم کی سرگوشی سنائی دی، ‘اور گولی مت چلائیں۔ بات ختم ہو گئی ہے۔ اگر دوبارہ گولی چلائیں گے تو اگر شیر ہلاک نہ ہوا تو اور بھی غصے میں آ جائے گا’۔
پھر یہ ہنگامہ تھمنے لگا۔ ہر دھاڑ کے درمیان وقفہ بڑھتا گیا اور درمیان میں کھوکھلی کھانسی کی آواز آتی رہی۔ تاہم دھاڑیں جاری رہیں۔ پھر اچانک مجھے شیر کی آنکھیں دوبارہ دکھائی دیں۔ اگرچہ ایسا لمحے بھر کو ہوا مگر میرے لیے کافی تھا۔ ہم دونوں نے بیک وقت گولیاں چلائیں۔ نشانہ کافی مشکل تھا اور بارود کے دھوئیں نے مزید گولی چلانے کا موقع ختم کر دیا۔
گولیوں کی گونج سے بندروں کا شور بڑھ گیا۔ پھر اچانک ہر طرف انتہائی پریشان کن سکوت طاری ہو گیا۔ خاموشی جاری رہی۔
پندرہ منٹ بعد ہم انتہائی محتاط ہو کر نیچے اترے اور ہاشم نے اس دوران لالٹین کو صاف کر کے روشنی کو اس جگہ مرکوز کر دیا جہاں شیر گرا تھا۔ تاہم کچھ نہ ہوا۔ جنگل کا شور ختم ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی کسی بندر کی چیخ یا دور کہیں سے بارہ سنگھے کی آواز سنائی دے جاتی۔ جھینگروں نے اپنا شور شروع کر دیا تھا۔ جہاں شیر گرا تھا، اس جگہ بالکل خاموشی تھی۔ باریک چاند اب جنگل کے اوپر آ چکا تھا۔
ہم نے درخت کے تنے کے پاس رک کر انتظار کیا اور ہاشم نے احتیاط سے بیلور نیچے لٹکائی۔ پھر خود بھی نیچے اتر آیا۔ لالٹین ہاشم نے اٹھایا اور ہم اس کے دونوں طرف بندوقیں تیار حالت میں اٹھائے ہوئے آگے بڑھے۔ بمشکل پچاس گز دور ہمیں ٹوٹی شاخوں اور پتوں کے بیچ ایک بے ہنگم جسم سا دکھائی دیا۔ ہم نے وہیں رک کر انتظار کیا۔ پھر میں نے زور سے سیٹی بجائی۔ تاہم ہر چیز ساکت رہی۔ پھر میں نے احتیاطاً مٹی کا ایک ڈھیلا اس پر پھینکا۔ کچھ نہ ہوا۔ شیر مر چکا تھا۔
ہم قدم قدم کر کے آگے بڑھے۔ قریب جاتے ہوئے ہیں اس کے مختلف حصے دکھائی دیے۔ گائے کا قاتل ہماری مخالف سمت منہ کیے پڑا تھا۔ شاید آخری جست کے وقت اس نے قلابازی کھائی تھی جس کی وجہ سے ہمیں اس کی آنکھیں محض ایک بار دکھائی دی تھیں ورنہ اس کی آنکھیں پوری طرح کھلی تھیں۔
آخر ہم اس کے قریب پہنچے اور میں نے اپنی بندوق سے ٹہوکا دیا۔ شیر نے حرکت نہیں کی۔ کامیابی کی خوشی چھا گئی۔
ہمارے سامنے گائے کا قاتل نر شیر پڑا تھا۔ بعد میں ہم نے ماپا جو دس فٹ لمبا نکلا۔ اس کی گہری لکیروں والی کھال محفوظ تھی۔ اس کے طاقتور جبڑوں کے پاس سفید بالوں کی داڑھی سی تھی۔ میری پہلی گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی پر لگی اور اس کی پچھلی ٹانگیں بیکار ہو گئیں۔ اسی وجہ سے نہ تو اس نے ہم پر حملہ کیا اور نہ ہی فرار ہو سکا۔ چونکہ گولی چلاتے وقت شیر آگے بڑھا تھا، سو گولی گردن سے پیچھے لگی۔ بعد میں چلائی گئی دونوں گولیاں ترچھی لگیں اور ایک گولی اس کے دل کو چھید گئی۔
خوشی کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو گولیوں کے زخم اور شیر کا بہت بڑا سر اور اس کے پنجے اور دانت دکھائے۔ ہم نے اس کی کھال کو ٹٹولا جس کے نیچے اس کا جسم ابھی تک گرم اور پٹھوں سے بھرپور تھا۔
رات کے نو بج رہے تھے۔ ہمارا جوش ٹھنڈا ہو رہا تھا تو اچانک ہمیں گائے کی لاش سے اٹھتے تعفن کا احساس ہوا۔ اس جگہ ہمیں وقت گزارنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ آپس میں بات کر کے میں مچان پر چڑھ گیا جب کہ میرے دوست اور ہاشم نے گاؤں کا رخ کیا تاکہ قلیوں کو لے آئیں۔ ہاشم نے بیلور اٹھایا ہوا تھا۔ اگر میں نہ رکتا تو ممکن تھا کہ بڑی گوہ یا کوئی اور جانور شیر کی لاش سے پیٹ بھرنے لگ جاتا۔ جنگلی سور سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا کہ شیر کی بو انہیں بھگانے کے لیے کافی تھی۔
ساڑھے گیارہ بجے چاند غروب ہو گیا۔ مجھے ابھی بھی کافی دیر تاریکی میں انتظار کرنا تھا اور وقفے وقفے سے مٹی کے ڈھیلے اور شاخیں وغیرہ شیر کی طرف پھینکتا رہا۔ آخرکار نرسلوں سے روشنی اور پھر شور آنا شروع ہو گیا۔ کل دس افراد آن پہنچے اور ان کی باتوں سے ہیجان ظاہر ہو رہا تھا۔ دو افراد کے پاس انسانی بازو جتنے موٹے ڈنڈے تھے جس پر شیر کو اٹھایا جانا تھا۔ انہوں نے شیر کو ہر طرح سے دیکھا اور باتیں کرتے رہے۔ ہم تینوں نے پورا دھیان رکھا کہ ہمارے شیر کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ مقامی اور چینی آبادی میں مظاہر پرستی عام ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر شیر کی داڑھی کے بال جلا کر سفوف بنا کر خوراک یا مشروب میں ڈال کر استعمال نامردی کا تیرِ بہدف علاج ہے۔
شیر کے پنجے باندھ کر اس میں ڈنڈے ڈال کر شیر کو اٹھایا گیا اور پھر نرسلوں سے ہوتے ہوئے کمپونگ کو روانہ ہو گئے۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم فاتحانہ کمپونگ میں داخل ہوئے۔ تاہم ساری رات ہاشم نے شیر کی نگرانی کی تاکہ کوئی اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔
٭٭٭
باب ششم: اڈجاک
میں کئی سال سے مغربی جاوا میں کام کر رہا تھا اور میرا کام بٹنزورگ سے رنگ کسبٹنگ کے درمیان سڑک کا سروے کرنا تھا۔ مجھے جنگل میں فطرت کے قریب رہنا بہت راس آیا مگر کچھ وقت شہر میں گزارنا بھی اچھا تجربہ تھا۔ کام سے فارغ ہو کر میں اور میرا ساتھی شہر میں رکنے کی بجائے بٹنزورگ کا رخ کرتے جو ڈیڑھ گھنٹہ دور تھا۔ بٹنزورگ ایک پہاڑی دیہات تھا جو سبز پہاڑیوں اور وادیوں کے درمیان کسی نگینے کی طرح جڑا ہوا تھا۔
پورا علاقہ قابلِ شکار جانوروں سے اٹا پڑا تھا۔ سور اور تیندوے بالخصوص کثرت سے تھے۔ تاہم ہمیں بڑا شکار نہیں دکھائی دیا۔ مزید جنوب کی طرف جائیں تو بنٹنگ ملتے تھے جو بھینسے کی ایک قسم ہے۔ تاہم وہاں جانے کا ہمیں کم ہی وقت ملتا تھا۔
میں اور میرا ساتھی دونوں ہی شکاری تھے اور اس کے علاوہ بھی ہم اچھے دوست تھے اور ہر کام ایک ساتھ کرتے تھے۔ میرے ساتھی کا بھائی ایک پلانٹیشن کا نگران تھا جو کئی برس سے استعمال ہو رہی تھی مگر اب بھی اسے اچھی خاصی توجہ درکار ہوتی تھی۔ اس جائیداد کا بڑا حصہ مقامی افراد کو چاول کی کاشت کے لیے مستاجری پر دیا جاتا تھا اور نگران کا کام محض بیج مہیا کرنا تھا۔ مزارعین بدلے میں پلانٹیشن کے کام بھی کرتے تھے اور چاول کی فصل سے بھی کچھ حصہ بطور معاوضہ دیا کرتے تھے۔ اس طرح زمین مستقل استعمال میں رہتی تھی اور مقامی آبادی کو روزگار ملتا تھا اور مالک کے اخراجات بھی کم ہو جاتے تھے۔ یہ گاؤں ٹنڈجنگ یعنی خلیج سوڈنگ کے ساحل سے بیس میل دور تھا۔ اس کم آبادی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں جنگلی سوروں کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی اور اس سے مقامی آبادی اور پلانٹیشن کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ میرے ساتھی کے بھائی کے پاس شکار کا کافی وقت تھا اور وہ ڈِنگ ڈِنگ (شکار شدہ جانور کو نمک لگا کر خشک کرنا) سے بھی خاصی کمائی کر لیتا تھا۔
ایک دن اس نے ہمیں اپنے سلطنت دکھانے کے لئے دعوت دی۔ ہم دونوں نے چار دن کی چھٹی لی اور روانہ ہو گئے۔ دو دن تو آنے جانے کے سفر پر خرچ ہونے تھے۔ ہم شام کو روانہ ہوئے اور اگلے دن دوپہر کو وہاں جا پہنچے۔
سفر کے بارے بتانے کو کچھ خاص نہیں۔ بس سارا علاقہ ہی غیر آباد تھا جو ان چھوئے جنگلات سے کہیں زیادہ مختلف تھا۔ راستہ سارا ہی ایسے غیر آباد علاقوں سے گزرتا تھا۔ راستے کی دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی اور بہت برے حال میں تھا۔ مغربی مون سون کے دوران یہ سارا راستہ ناقابلِ عبور دلدل بن جاتا ہو گا اور خشک مون سون کے دوران زمین پھٹ جاتی ہو گی اور جگہ جگہ ٹوٹی شاخیں اور ایلیفنٹ گراس اگ آتی ہو گی۔ سارے راستے پر باریک گرد کی موٹی تہہ تھی جو ہماری گاڑی کے پہیوں سے اڑ کر ہوا میں بلند ہوتی رہی۔ کہیں کہیں ہمیں راواہ (دلدل تالاب) دکھائی دیتی تھی اور ہمیں اس کا احساس مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ سے ہوتا تھا۔ راستے میں ہم تین کمپونگوں سے گزرے اور وہاں سے گھوڑے بدلے اور سفر جاری رکھا۔ کوئی بھی کموپنگ بیس جھونپڑیوں سے زیادہ بڑا نہیں تھا۔
آٹھ بجے صبح ہم آخری کمپونگ کو پہنچے۔ ہمارے سامنے تا حدِ نگاہ خالی چٹیل میدان تھا اور آسمان بالکل صاف۔ گاڑی پر لگے کپڑے سے سورج کی شعاعیں گزر کر ہمیں جھلسا رہی تھیں۔ گاڑی کے پہیوں پر لوہے کی پتری چڑھی ہوئی تھی اور ہر اونچ نیچ ہمیں بری طرح محسوس ہوتی۔ ہمارے گزرنے سے اتنی دھول بلند ہوتی کہ ہم چند گز پیچھے بھی نہ دیکھ پاتے۔ دھول کی وجہ سے ہی سورج کی روشنی زردی مائل دکھائی دیتی تھی۔ منحنی سے جاوا نسل کے گھوڑے ہمیں دنیا کے دوسرے کونے تک لے جانے کو تیار تھے۔
آخرکار دن کے گرم ترین حصے میں جب ہم اپنے سفر کی طوالت سے مایوس ہونے لگے تھے کہ ہماری منزل آ گئی۔ میرے ساتھی کے بھائی نے ہمارا والہانہ استقبال کیا جو مہینوں تنہا رہنے کے بعد ہمیں دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ مہینوں بعد ہی کوئی اسے ملنے آتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ کچھ عجیب سا ہو گیا تھا۔ اس کا رنگ مقامی افراد جیسا گہرا اور جلد کھردری ہو گئی تھی۔
اس کا گھر بھی بہت سادہ تھا۔ لکڑی سے بنے گھر کو رجپ قسم کی دیمک اچھا خاصا نقصان دے چکی تھی۔ برآمدے کے بعد اس کے گھر میں کل فرنیچر دو آرام کرسیوں اور ایک بوسیدہ میز پر مشتمل تھا۔ گھر میں دو کمرے تھے جن میں سے ایک کو طعام گاہ اور دوسرے کو خواب گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ دونوں میں فرق یہ تھا کہ خواب گاہ میں سونے کے لیے بانس سے بنی دو بنچیں تھیں۔ گھر کے پیچھے ایک بالکنی سی بنی تھی اور اس کے ایک سرے پر نوکروں کا کمرہ اور باورچی خانے کے علاوہ آگے ایک غسل خانہ بھی تھا۔ جنگل میں رہنے والے بڈجنگ (اکیلے بندے ) کی یہ عام رہائش گاہ تھی جو محض مقامی طور پر دستیاب چیزوں پر زندگی بسر کرتا تھا۔ دو ملازمین اس کے گھر کا کام کرتے تھے اور پان چباتے ہوئے وہ انتہائی سکون سے ہر کام کرتے۔
احاطے میں کئی کتے کھیل رہے تھے۔ سارے ہی کتے کمزور تھے حالانکہ ان کی خوراک کا خیال رکھا جاتا تھا اور ان کی جلد اچھی حالت میں تھی۔ بالکونی پر ایک طوطا بیٹھا تھا اور اصطبل میں اچھا گھوڑا بھی بندھا تھا۔
غسل کے بعد ہم محض پتلونوں میں باہر برآمدے میں بیٹھ کر تھکن اتارنے لگے۔ سگریٹ بنا کر ہم نے پینا شروع کر دیے۔ ہم اپنے ساتھ شراب لائے تھے اور جتنی دیر ہم بیئر پیتے اور باتیں کرتے رہے، باورچی خانے سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبوئیں ہماری بھوک بڑھاتی رہیں۔ دونوں بھائیوں نے جب اپنی خاندانی گفتگو پوری کر لی تو ہم نے موضوع بدلا۔
گفتگو کے دوران ہمارے میزبان نے جنوبی ساحل کے جنگلی کتوں کا ذکر کیا تھا۔ ذکر بھی کچھ اس وجہ سے چھڑا کہ جب باورچی نے گوشت کا ایک ٹکڑا نیچے پھینکا تو کتنے اس پر لڑنے لگے۔ تاہم ایک کتے نے انتہائی خاموشی اور سکون سے لڑائی جاری رکھی اور دوسرے کتوں کے برعکس ذرا بھی آواز نہ نکالی۔
میں نے اس قسم کا کتا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ باقی سارے کتے عام سے تھے جو ہر شکاری کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ ایک کتا دوسروں سے چھوٹا تھا اور اس کا منہ نوکیلا، کان پیچھے کو جھکے ہوئے اور اور سرخی مائل بھوری رنگت تھی۔ میرے ساتھی کے بھائی نے بتایا کہ اس کتے کا باپ اڈجاک تھا اور ماں اسی احاطے میں موجود ایک کتیا۔ پیدا ہونے والے جھول کے چار بچے مر گئے تھے اور یہ کتا بھی شروع میں کافی بیمار رہا تھا۔ مگر اب بالکل تندرست لگ رہا تھا۔
بات سے بات نکلتی گئی اور ہمارے میزبان نے بتایا کہ ٹنڈجنگ سوڈنگ کے ساحل پر بہت زیادہ اڈجاک پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک بار پہلے وہاں جا چکا تھا مگر کسی وجہ سے دوبارہ کسی قیمت پر جانے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے اس بارے مزید بات بھی کرنے سے انکار کر دیا اور موضوع بدل دیا۔ جلد ہی کھانا لگ گیا۔
اس مقام کے اعتبار سے یہ کھانا کسی طور شاہی طعام سے کم نہیں تھا۔ ابلے ہوئے سفید چاولوں کے ساتھ سور کا گوشت، مچھلی، مرغی سے بنے چند سالن اور کئی اقسام کی ساجوران (سبزیاں ) بھی ہمراہ تھیں۔ پینے کے لیے بہت ساری بیئر۔
اس دعوت کے بعد ہم برآمدے میں جا کر بیٹھ گئے اور باتیں شروع ہو گئیں۔ مگر پیٹ بھرنے کے بعد آنکھیں کھلی رکھنا بھی دشوار ہو رہا تھا اور ہم سو گئے۔ ہمارے میزبان نے سہ پہر کو جب ہمیں بیدار کیا تو گرمی کی شدت کم ہو چلی تھی۔ ہم نے ایک بار پھر غسل کیا اور بہت گرم کافی پی کر بالکل تازہ دم ہو گئے۔ اس دوران ہمارے میزبان نے ہمارے لیے جنگلی سور کے شکار کا اہتمام کیا تھا۔ اس نے تجویز پیش کی کہ ہم اس کی جائیداد کے کنارے پر جائیں اور وہاں مخصوص جگہوں پر چھپ کر انتظار کریں۔ تاہم اس نے واضح کر دیا کہ رات نو بجے کے بعد ہر حالت میں وہ واپس آ جائے گا۔ گولہ بارود، ڈنگ ڈنگ کی تیاری، منتقلی اور مقامیوں کے معاوضے کو نکالنے کے بعد بھی مارے جانے والے ہر سور کے بدلے اسے 4 گلڈن (اس وقت کی ولندیزی کرنسی جو وہاں رائج تھی) ملتے۔ اس کے علاوہ دن بھر خالی بیٹھنا بھی اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ چونکہ ہمیں اور کچھ مصروفیت نہیں تھی اس لیے ہم نے سوچا کہ اس طرح شاید زیادہ جانور شکار ہوں۔ پندرہ منٹ بعد ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔
اس جگہ جنگلی سوروں کی بھرمار تھی۔ چلتے ہوئے ہمیں جگہ جگہ اکھڑی ہوئی مٹی اور کھدائی کے آثار دکھائی دیتے رہے۔ کچلی ہوئی لمبی گھاس میں ان کی گزرگاہیں بھی بکثرت تھیں۔ ہم لوگ پلانٹیشن کے کنارے سے ڈیڑھ سو گز دور بیٹھ گئے۔ جلد ہی شام ڈھل گئی اور ماحول پر چھایا ہوا موت جیسا سکوت ٹوٹ گیا۔ آسمان بالکل صاف تھا اور جنگلی جانوروں کا شور شروع ہو گیا۔ کبھی کبھی پرندے کی آواز سنائی دے جاتی۔ چمگادڑیں میرے سر پر سے چوں چوں کرتی گھومتی رہیں۔ ان کا شکار ہمارے اوپر جمع ہونے والے مچھروں کے بادل تھے۔ ہر طرف سے عجیب آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سائے تاریکی میں گم ہونے لگ گئے اور پھر چاند نکل آیا۔ ٹھنڈی چاندنی آہستہ آہستہ آنے لگی۔
سات بجے سور آنا شروع ہو گئے۔ کچھ فاصلے پر ایک گولی چلی اور پھر دوسری۔ گولی کی آواز سے پرندے بولنے لگے اور مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ شروع ہو گئی۔ میرے سامنے النگ النگ (سعادہ) گھاس اگی ہوئی تھی۔ مجھے گھاس کی سرسراہٹ سنائی دی۔ میں نے بندوق کا گھوڑا چڑھا دیا۔ پندرہ منٹ بعد تین چھوٹے تاریک سائے آتے دکھائی دیے۔ یہ جندجیہ تھے یعنی نوعمر سور جو اپنا پیٹ بھرنے جا رہے تھے۔ بالغ سور ہمیشہ بچوں کو آگے بھیجتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ان بچوں کو بھول کر بالغ سوروں کا انتظار کرنا تھا۔ اس کے علاوہ ہمیں مادہ کا فرق بھی کرنا تھا تاکہ انہیں بچایا جا سکے۔ اس لیے میں نے بچوں کو آرام سے گزرنے دیا۔ چند گز کے فاصلے سے انہوں نے مجھے دیکھا۔ خوف سے چیخ مار کر وہ اچانک رکے اور پتھر کی مانند مجھے گھورنے اور تھوتھنی لمبی کر کے مجھے سونگھنے لگے۔ بالغ سور پیچھے چھپے رہے۔
نصف گھنٹے بعد ایک سور النگ النگ گھاس سے نکل کر میدان کا جائزہ لینے کھڑا ہوا تو میں نے اسے مار لیا۔
ساڑھے دس بجے ہم برآمدے میں واپس بیٹھ گئے تھے۔ ہم نے کل چار سور مارے تھے جو نیچے صحن میں ہاشم کی زیرِ نگرانی دو لالٹین کی روشنی میں کاٹے جا رہے تھے۔
شراب پیتے ہوئے میں اور میرے دوست نے پھر اڈجاک کی بات چھیڑ دی۔ گفتگو جاری رہی اور پھر مچھروں سے تنگ آ کر ہم نے بستروں کا رخ کیا جو مچھر دانی کے نیچے لگے ہوئے تھے۔ وہاں لالٹین کی روشنی میں بھی ہماری گفتگو جاری رہی اور روشنی کو دیکھ کر مزید پتنگے پہنچ گئے۔ آخرکار ہمارے میزبان نے بانس کی دیوار کے پار سے وعدہ کیا کہ وہ کل ہمیں ٹنڈجنگ سوڈنگ لے جائے گا تو ہم سو گئے۔
جس علاقے سے ہم نے ہو کر جانا تھا، وہ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا تھا اور وہاں شیر بھی پائے جاتے تھے۔ ہم نے ایک تنگ راستہ لیا جس پر جگہ جگہ درخت اور جھاڑ جھنکار اگا ہوا تھا۔ بندروں کے ایک غول نے ہمارا پیچھا کیا اور ہم پر چلاتے ہوئے پھل اور شاخیں پھینکتے رہے۔
گننگ میں ایک پہاڑی پر چڑھے۔ پلانٹیشن اس کے دامن میں تھی۔ ایک کھائی کو عبور کر کے ہم زمین کے لمبوترے قطعے کو پہنچے جسے مقامی زبان میں پنگراک کہا جاتا ہے۔ یہ زمین ٹنڈجنگ سوڈنگ کے سامنے تھی۔ کھائی عبور کرنے سے ہمارا سفر ایک گھنٹہ مختصر ہو گیا کیونکہ عام راستے سے پہنچنے میں ساڑھے پانچ گھنٹے لگتے جبکہ ہم چار گھنٹوں میں پہنچ گئے۔ ہماری حیرت دیکھیے کہ اچانک ہم ساحل پر کھڑے تھے۔ سب سے پہلے باکو باکو کی تنگ پٹی آئی جو مینگروو پر مشتمل تھی۔ اسے بائیں جانب چھوڑ کر ہم آگے بڑھے اور جنگل چھدرا ہوتا گیا اور ہمارے سامنے سورج کی روشنی میں چمکتے سمندر کا بہترین نظارہ تھا۔ ۔
ساحل پر پہنچ کر ہم تازہ دم ہو گئے۔ جنگل کی گھٹن کے بعد اچانک ہمیں سمندر کی نمکین ہوا مل گئی۔ سورج کی روشنی میں چمکتے سمندر کا دوسرا کنارہ نظروں سے اوجھل تھا۔
سمندری لہریں زور سے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں اور دودھیا سفید جھاگ پیدا ہو رہی تھی۔ ساحل پر خشک لکڑیاں بھی بکثرت پڑی تھیں۔ جگہ جگہ جنگل سے ڈھلوان نیچے اتر کر سمندر تک جاتی تھی۔ ان پر بڑی چھپکلیاں لیٹی دھوپ سینک رہی تھیں۔
پنگ کروک کے بارے ہمارا پہلا نظریہ یہی تھا کہ فطری قوتیں بہت عظیم ہیں اور ان کے آگے انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کیفیت کا دباؤ بہت بڑھ گیا کیونکہ تا حدِ نگاہ ساحل پر کچھووں کے خول اور ڈھانچے بکھرے پڑے تھے۔ سورج کی روشنی، ریت اور پانی سے جیسے وہ چمکنے لگ گئے ہوں۔
میں اس کیفیت کی تب تو کوئی وضاحت نہیں کر سکا۔ سارا ماحول جیسے بیجان اور بنجر ہو، جیسے ایک بہت بڑا قبرستان ہو۔ جوش کھاتے سمندر اور ناریل کے خشک درختوں کے درمیان جنگل پھیلا ہوا تھا جس کے بعد کچھووں کے ڈھانچے تھے۔ اکثریت تو شاید کئی برسوں سے پڑے اور بالکل خشک تھے کچھ ایسے تھے کہ ان پر ابھی تک گوشت کے ریزے باقی تھے اور انہی سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ سارے خول الٹے پڑے تھے اور بعض کی آنتیں پھولی ہوئی اور باہر نکلی ہوئی تھیں جو موٹے سانپوں سے مشابہ تھیں۔ یہ منظر ناقابلِ فراموش تھا۔
کافی دیر تک ہم وہیں خاموشی سے کھڑے رہے۔ واحد آواز پتھریلے ساحل سے ٹکرانے والی لہریں تھیں جیسے کسی ساز پر ایک ہی دھن بار بار بجائی جا رہی ہو۔
پھر ہم نے اس منظر کے سحر سے خود کو آزاد کیا اور جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے ساحل کو بڑھے۔ ہمارے رو مال ہمارے ناکوں پر تھے اور ہم نے اس جگہ راستہ بنایا اور آگے بڑھتے رہے۔ مگر جب ہمت نہ رہی تو ہم نے فوراً واپسی کا رخ کیا تاکہ اس خوفناک مقام سے دور نکل جائیں۔
ہم جنگل میں ایک کشادہ قطعے پر رکے جس کے پاس شفاف ندی بہہ رہی تھی۔ ہمیں یہاں بھی لہروں کا شور سنائی دے رہا تھا مگر تعفن اب ختم ہو گیا تھا۔ ہم نے اس شفاف پانی میں اپنے منہ، سینہ اور ہاتھ پیر دھوئے اور سائے میں لیٹ گئے۔ ہم نے ساتھ لایا ہوا کھانا بغیر کسی خاص اشتہا کے کھایا۔ پھر ہماری واپسی کا وقت ہو چلا تاکہ اندھیرا ہونے سے قبل پلانٹیشن پر پہنچ سکیں۔
ایسا لگا کہ میرا ساتھی جیسے عین اسی لمحے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر میں نے توجہ دی تو احساس ہوا کہ ہاشم بھی کافی دیر سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ بغیر کچھ کہے، ہم تینوں ہی یہ سوچ رہے تھے کہ ہمیں رات یہاں گزارنی چاہیے۔ ہم نے اپنے میزبان سے پوچھا کہ آیا ہم اس کے ساتھ ایک رات اضافی گزار سکتے ہیں تاکہ اڈجاک کو کچھووں کا شکار کرتے دیکھیں۔
اس نے میری طرف دیکھا، سر ہلایا اور ہنسنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا، ‘چونکہ آپ نے یہ ذکر کیا ہے تو میں کہوں گا کہ میں خود کافی عرصے سے رات یہاں گزارنے کا سوچ رہا تھا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ جگہ اتنی نفرت انگیز ہے کہ میں جھجھک جاتا ہوں۔ مجھے یہاں اکیلا آنا پڑتا کہ کوئی مقامی میرے ساتھ یہاں آنے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ چاہے جتنے بھی روشن خیال ہو جائیں، جنات سے بہت ڈرتے ہیں۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو ہم یہیں رک جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے والے ہم پہلے انسان ہوں گے۔ ‘
ہم نے اس منظر کے لیے مناسب مقام تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ہمیں ساحل کے نزدیک ایک کھائی سی دکھائی دی۔ اس جگہ ساحل سے آنے والی ہوا بلا روک ٹوک گزر رہی تھی، اس لیے بو سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ گھنی جھاڑیوں نے پیچھے موجود جنگل سے ہمیں چھپا رکھا تھا۔ اونچے درختوں کا سایہ خوشگوار تھا اور اس جگہ سے ہمیں آس پاس کا سارا ماحول صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ہم نے سائے میں کچھ دیر سونے کی کوشش کی کیونکہ رات کو ہمیں سونے کا موقع نہ ملتا۔
اس جگہ خاموشی اور ٹھنڈک تھی۔ اوپر موجود درخت کی شاخوں سے دیکھا تو بہت اوپر ایک گدھ دائروں میں اڑ رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ پر پھڑپھڑا لیتا۔ یہی دیکھتے دیکھتے میں سو گیا۔ ہاشم بیدار رہا کہ اس کے بقول اسے نیند کم آتی تھی۔ اس نے ناریل کے درخت سے ٹیک لگائی اور بیڑی پینے لگا۔ تلخ تمباکو کا دھواں نیند کے دوران میرے نتھنوں میں پہنچا اور مجھے تحفظ کا احساس ہوا کہ ہاشم پوری توجہ سے چوکیداری کر رہا ہے۔
جب ہاشم نے ہمیں بیدار کیا تو ہم پوری طرح تازہ دم ہو چکے تھے سورج خلیج کو جھک گیا تھا جس کے خدوخال ہمیں سرخ آسمان کے سامنے واضح دکھائی دے رہے تھے۔ رات کی آوازیں جنگل سے آنا شروع ہو گئی تھیں، جھینگروں کی جھائیں جھائیں اور پرندوں آوازیں سنائی دینے لگیں۔
ہم نے جلدی جلدی دوپہر کے بچے ہوئے کھانے کو ختم کیا اور جوتے اور کپڑے پھر پہن لیے اور رات کے لیے تیار ہو گئے۔ سورج اب غروب ہو گیا تھا۔ شفق آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جا رہی تھی اور پھر تاریکی چھا گئی۔ تقریباً پورا چاند سمندر سے ابھر آیا اور لال رنگ کا لگ رہا تھا۔ ابھی تو اس کی روشنی زیادہ نہیں تھی مگر جلد ہی اس کی روشنی تیز ہو جانی تھی۔ ساحل سے ٹکراتی لہروں سے اٹھنے والی جھاگ چمک رہی تھی جس کی وجہ سے ساحل کی لکیر مسلسل متحرک لگ رہی تھی۔
ہوا تیز تھی اور مچھروں کو ہمیں ستانے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ انتظار کی کیفیت ہمیں لطف دے رہی تھی۔
اچانک ہاشم نے میرا بازو تھاما اور جادوئی الفاظ کہے، ‘لیات، تھوان!’ سمندر سے کوئی چیز ابھری ہوئی تھی۔ ایک تاریک جسم لہروں سے نکل رہا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اس کی بھاری جسامت کے ارد گرد لہریں لپٹ رہی تھیں اور آہستہ آہستہ یہ جسم رینگتے ہوئے ساحل پر آ رہا تھا۔
یہ بہت بڑا کچھوا تھا جو ساحل پر حفاظت کی خاطر آ رہا تھا جو ان کچھووں کی عادت ہے۔ جب یہ پوری طرح پانی سے باہر آ گیا تو ہمیں دکھائی دینا بند ہو گیا مگر اس جیسے اور بھی بہت سے کچھوے باہر آ رہے تھے۔ کچھ کچھوے ہمارے قریب تو کچھ ہم سے دور تھے۔
اس سے مجھے ایک اور منظر یاد آ گیا کہ مویشیوں کا ریوڑ جیسے کسی مذبح خانے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہو۔ تاہم میری سوچوں کا سلسلہ اچانک جنگل سے آنے والی ایک عجیب سی چیخ سے ٹوٹ گیا۔ چیخ اچانک شروع ہوئی اور اچانک ہی ختم ہو گئی۔ بہت خوفناک چیخ تھی۔ شروع میں محض بھونکنے سے مشابہ اور آخر میں خون جما دینے والی چیخ بن گئی۔
جب یہ چیخ ختم ہوئی تو ایسا لگا کہ جیسے جنگل نے اپنی سانس روک لی ہو۔ پھر اچانک ایک اور چیخ کسی اور جانب سے آئی اور اس کا جواب مزید نئی سمت سے ملا۔ عجیب کمینگی سے بھرپور چیخیں تھیں۔ یہ اڈجاک تھے جو تیزی سے آ رہے تھے۔
سانس روکے ہم یہ شور سنتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اکا دکا اور چھوٹے گروہوں میں موجود کتے مل کر بڑے گروہ کو تشکیل دیتے جا رہے تھے۔
اچانک اگرچہ ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیا مگر ہمیں پتہ تھا کہ وہ ساحل پر پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں دوڑنے کی آواز آئی اور ساحل پر بھاگتے ایڈجاک کے پنجوں کی آوازیں آنے لگیں۔
میں نے جوش کی کیفیت میں دیکھنے کی کوشش تو کی مگر چاندنی اتنی مدھم تھی کہ کچھ نہ دکھائی دیا۔ جلد ہی ہماری آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں اور ہمیں تاریک سائیوں کی ایک لہر سی ساحل کے ساتھ بھاگتی دکھائی دی۔
پھر اچانک مجھے کچھ دکھائی دیا اور میں نے بمشکل نعرہ روکا۔ شاید چاند کی روشنی کچھ تیز ہو چلی تھی۔ اب مجھے اڈجاک دکھائی دینے لگے تھے۔ میں نے بیس گنے، قاتل، بے رحم اور خون کے پیاسے اڈجاک۔ میں نے بندوق کا گھوڑا چڑھایا مگر ہاشم نے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ‘ڈجانگانگ، تھوان (ایسا مت کریں جناب)، ‘ اس نے سرگوشی کی۔
مجھے اس کی بات سمجھ آ گئی۔ اڈجاک کے بارے جتنی بھی کہانیاں مشہور ہیں، سب کا ایک ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ شکار کرتے اڈجاک کے غول پر کبھی گولی مت چلائی جائے ورنہ سارے کے سارے شکاری کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ ہمیشہ انتظار کرنا چاہیے کہ وہ اپنا پیٹ بھر لیں۔ اس کے بعد وہ اتنے خونخوار نہیں رہ جاتے۔ سو میں نے ہاشم کے کندھے پر تھپکی دے کر اسے تسلی دی مگر اپنی بندوق تیار رکھی۔
ساحل پر بہت سارے پنجوں کی آواز آنے لگی اور کسی کسی وقت غراہٹ کی آواز بھی آ جاتی اور ہڈیوں کے چبائے جانے کی آواز بھی۔ میں نے کچھووں کو واپس سمندر کا رخ کر کے پانی میں غائب ہوتے دیکھا۔ مگر چند ایک پکڑے گئے تھے۔ چھ یا سات کتے ایک کچھوے پر حملہ کرتے ہیں اور ایک کتا اس کا سر کتر دیتا اور باقی سب مل کر اسے پشت کے بل الٹا دیتے۔ اس وقت ساحل پر محض بھونکنے اور کاٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جلد ہی یہ کام بھی پورا ہو گیا اور کتوں نے بغیر سر والے کچھووں کو الٹا کر ان کے پیٹ کی ہڈیاں کاٹ دیں اور خون اور گوشت سے پیٹ بھرنے لگے۔ کبھی کبھی دو کتے لڑ پڑتے مگر جلد ہی ان کی لڑائی ختم ہو جاتی اور وہ پھر کچھوے پر پل پڑتے۔
اگر کسی کچھوے سے پیٹ بھرتے کتوں کے پاس سے کوئی کچھوا سمندر کو جاتے ہوئے گزرتا تو وہ اسے چھوڑ کر نئے شکار پر ٹوٹ پڑتے۔ یہ شکار ان کی بھوک مٹانے کو نہیں تھا بلکہ بے رحم قاتلوں کا قتل کرنے کا شوق تھا۔
ہر کچھ دیر بعد ایک آدھ کتا کسی جانب سٹک جاتا، شاید کچھووں سے پیٹ بھرنے کے بعد وہ نزدیکی چشمے سے پانی پینے جاتا ہو گا۔ سارا منظر اتنا بھیانک اور غیر حقیقی لگ رہا تھا کہ جیسے شیطانی قوتیں برسرِ پیکار ہوں۔ دور سے مزید کتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شاید ان کتوں کے غول جگہ جگہ قتلِ عام میں مصروف ہوں گے کہ یہ بہت طویل ساحل تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی کتے غائب ہوتے گئے مگر اب بھی کافی بڑی تعداد میں کتے موجود تھے۔
چاند ڈوب رہا تھا جب ہم نے دیکھا کہ اڈجاک بے چین ہونے لگ گئے۔ اب وہ ساحل پر کھانا چھوڑ کر گوشت کے ٹکڑے منہ میں دبائے جنگل کو بھاگنے لگے۔ اب ان کا شور بھی کم ہو گیا تھا۔
بھوری روشنی میں ہمارے سامنے پورا ساحل موجود تھا۔ ہر جگہ کچھووں کے ڈھانچے اور لاشیں بکھری پڑی تھیں اور اڈجاک ان کے درمیان بھاگ دوڑ رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ کتے جنگل کی طرف ایک ایک دو دو کر کے بھاگ رہے ہیں۔ بار بار ان کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی اور پھر فریقین میں سے ایک بھاگ کھڑا ہوتا۔ ہمارے قریب ساحل پر لگ بھگ درجن بھر کتے موجود تھے مگر صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھی بھاگنے کی تیاری میں ہیں۔ اتنی روشنی تھی کہ ہمیں صاف دکھائی دے رہے تھے اور بہت کم وقت بچا تھا۔ میں نے دوسروں کو اشارہ کر کے اس کتے کا نشانہ لیا جو ایک کچھوے سے گوشت نوچ رہا تھا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرا جسم کیسے سرد ہو چکا ہے۔ پٹھے ساکن ہو چکے تھے اور انتہائی تکلیف کے ساتھ بمشکل دورانِ خون بحال کر کے میں نے نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔
گولی کا دھماکہ بہت زور سے گونجا اور اڈجاک میں کھلبلی مچ گئی اور کتوں نے راہِ فرار اختیار کی۔ میرے بعد دو گولیاں اور چلیں اور بھاگتے کتوں میں سے دو اور گر گئے۔ میری دوسری گولی جنگل میں داخل ہوتے ایک کتے کو لگی اور قلابازی کھا کر وہ گرا اور اپنے پچھلے پنجوں کو بھنبھوڑنے لگا۔ میری تیسری گولی نے اس کا قصہ پاک کر دیا۔ اب ساحل پر ایک بھی اڈجاک نہیں بچا، جیسے کسی نے جادوئی چھڑی ہلا کر انہیں غائب کر دیا ہو۔ دور جنگل میں بندروں کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی۔
ہم اٹھے اور اپنے شل پٹھوں کو حرکت دی اور سگریٹ بنائے۔ رات کا ہمارا تجربہ کسی بھیانک خواب کی مانند لگ رہا تھا۔ اب ہمارے ساتھ صرف رات کی سرد ہوا اور بے چین سمندر تھا۔
ہم نے طلوعِ آفتاب کا انتظار کیا اور پھر نیچے اتر کر اپنے شکاروں کو دیکھنے چل پڑے۔ پہلا کتا جو کچھوے کو نوچ رہا تھا، اسے کان کے نیچے گولی لگی تھی۔ اس کی سبزی مائل بھوری آنکھیں لمبی اور پیچھے کو جھکی ہوئی تھیں جیسے منگولوں جیسی شباہت ہو۔ اس کا سر لومڑی سے مماثل اور برف جیسے سفید دانت اور لال رنگ کے مسوڑھے تھے۔ عام کتوں کی نسبت اس کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم لمبا تھا۔ اس کی کھال سرخی مائل بھوری تھی۔ دم خوب گھنی تھی۔ اس کے پنجے ابھرے ہوئے اور مضبوط، ناخن تیز، اس طرح یہ کتے تیز رفتاری سے جنگل کے راستوں پر بھاگ سکتے تھے۔ ان کتوں کی جسمانی ساخت اور فطرت کے بارے ہم نے کچھ بھی سنا تھا، جیسا کہ جنگل میں اور ساحل پر بے رحم قاتل، اکیلا کتا بزدل اور شرمیلا جبکہ غول میں نڈر۔
ہاشم نے جلدی جلدی دو کتوں کی کھال اتاری اور تیسرے کے سر کو کاٹ کر ساتھ اٹھا لیا۔ بعد میں ہم نے پلانٹیشن پر اس سر کو دفن کر دیا اور چند دن میں ہی چیونٹیوں اور کیڑوں نے ہڈیوں کے سوا سب کچھ ہڑپ کر لیا اور پھر اس کھوپڑی کو ہم نے مضبوط ڈوری کی مدد سے آبشار پر لٹکا دیا اور پانی نے چند دن میں اسے خوب رگڑ کر صاف کر دیا۔ اب میرے ساتھی کی الماری پر اڈجاک کی بہترین پالش کی ہوئی کھوپڑی رکھی ہے۔
واپسی کے بعد بھی بہت عرصے تک اس رات کے مناظر مجھے یاد آتے رہے۔ اب مجھے اچھی طرح علم ہو چکا ہے کہ مقامی لوگ کیوں اس جگہ آنے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے۔
کچھوے اس مہلک مقام پر کیوں آتے ہیں، اس بارے میں محض اپنا خیال ہی پیش کر سکتا ہوں کہ جاوا کے جنوبی ساحل سخت اور چٹانی نوعیت کے ہیں اور ایسے ساحل کم پائے جاتے ہیں۔ کچھووں کو جلد یا بدیر ساحل پر جانا ہی ہوتا ہے، اور کچھ نہ سہی تو انڈے دینے کو تو جانا ہی پڑتا ہے۔ یہ صورتحال اتنی دردناک ہے کہ میں اس بارے نہیں سوچنا چاہتا۔
بعد میں جاوا کے ایک آتش فشاں کے پاس قائم ایک نیچر ریزرو کے نگران نے مجھے بتایا کہ اڈجاک اکثر کئی کئی ماہ کے لیے ساحل سے دور اور ہرے بھرے میدانوں میں جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ جب یہ شکار کو گھیرے میں لیتے ہوئے چیختے ہوں گے تو شکار بیچارہ حواس کھو بیٹھتا ہو گا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کسی بھی فرد کے لیے یہ کتے ایک آفت سے کم نہیں۔ جہاں پہنچتے ہیں، وہاں کچھ ہی دنوں میں یا تو تمام جنگلی جانوروں کو بھگا دیتے ہیں یا پھر انہیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔
اڈجاک کی محفوظ کی ہوئی کھال میرے گھر کی ایک دیوار پر ٹنگی ہے۔ مگر اس کے بال ایک سال بعد گرنے لگ گئے تھے۔ جس چینی کے ذمے میں نے اس کھال کو محفوظ کرنے کا کام لگایا تھا، اس نے لاپرواہی سے کام لیا تھا۔ بعد میں مجھے یہ کھال پھینک دینی پڑی کہ اس کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ یہ کھال محض اس رات کی ایک یادگار تھی مگر مجھے اس رات کی کسی یاد کی ضرورت نہیں۔
٭٭٭
باب ہفتم: مندمل زخم
میرے شکاری دنوں کی یادگاروں میں سے ایک، میرے ماتھے اور کنپٹیوں پر مندمل زخموں کے نشانات ہیں۔ یہ نشانات مجھے بنٹنگ یعنی خطرناک جنگلی بھینسوں کے شکار کے دوران لگے تھے۔ یہ شکار ایک جزیرہ نما جگہ پرکیا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب میں نے ٹنڈجنگ سوڈنگ میں کچھووں کو کتوں کی خوراک بنتے دیکھا تھا۔ میرا ایک دوست وسطی جاوا میں گورنر کے عہدے پر فائز تھا اور اس نے مجھے مروس کے پاس جنوبی ساحل پر شکار کی دعوت دی۔ اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ میں نے فوراً یہ دعوت قبول کر لی اور وسطی جاوا کو روانہ ہو گیا جہاں تین دن میں نے گورنمنٹ ہاؤس میں میزبانی کا لطف اٹھایا۔
میری آمد کے اگلے دن ہم اس علاقے کی سیر کو گئے جہاں ہم نے شکار کھیلنا تھا۔ پرانے انداز کی گھوڑا گاڑیاں تھیں جنہیں گورنر کے گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ ان پر بیٹھ کر ہم شکارگاہ پہنچے جو بیس میل جنوب میں واقع تھی۔ جنگل کے قطعے کے سامنے سورج کے رخ پر چھ فٹ اونچی النگ النگ گھاس اگی ہوئی تھی اور جگہ جگہ بانس کے جھنڈ اور جھاڑیاں بھی تھیں۔ النگ النگ کے میدان تین سمتوں میں افق تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ گھاس زرد رنگ کی اور خشک تھی اور ایسے لگتا تھا کہ آگ کے شعلے تھم گئے ہوں۔
درختوں کے تنوں سے بنے اونچے جھونپڑے اس جگہ موجود تھے جہاں گورنر اور اس کے مہمان بیٹھتے تھے۔ مہمانوں میں یورپی کنٹرولر، بی بی، تین وڈانا (مقامی رہنما)، گورنر کے کچھ رشتہ دار اور میں شامل تھے۔ ہر فرد کے لیے ایک ہٹ تھا اور ہٹوں کے درمیان سو گز کا فاصلہ تھا۔ اس طرح لگ بھگ ہزار گز ہمارے شکار کی زد میں ہوتا۔
یہاں اس علاقے کے وڈانا، کمپونگ کے دو نمبرداروں اور شکار کے سربراہ نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ لوگ ہمارے استقبال کے لیے بنائے گئے نئے چبوترے پر موجود تھے۔ یہ چبوترہ چار بانسوں پر قائم تھا جس پر خشک النگ النگ گھاس کی چھت بنی ہوئی تھی۔ اس کے نیچے ایک بڑی میز اور بہت ساری کرسیاں تھیں۔ ایک دوسری چھت کے نیچے باورچی خانہ تھا جہاں کئی خواتین ہمارے لیے کھانا تیار کر رہی تھیں۔ ایک گاڑی پر مشروبات بھی تھے۔ اتنی دور افتادہ جگہ پر بھی ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ گورنر بہترین میزبان تھا۔
جب ہم آرام سے بیٹھ کر سفر کی تھکان اتارتے اور مشروبات سے شغل کرتے رہے، شکار کے انتظام کے بارے تفصیلی بات ہوتی رہی۔ گورنر کے شکار میں ہمارے یورپی شکار کا شائبہ تک نہ تھا۔ قدیم شکاری پارٹیوں کی مانند اس شکار میں قصابانہ جھلکیاں واضح تھیں۔
مقامی لوگوں کے لیے گورنر نہ صرف ان کا منتظم تھا بلکہ کی مشکلات کے دوران ان کی مدد اور رہنمائی بھی کرتا تھا۔ اگر بارہ سنگھے یا جنگلی سور ان کی فصلوں کو اتنا نقصان پہنچاتے کہ قحط کا خطرہ ہو جاتا تو وہ گورنر کے پاس اپنا وفد بھیجتے تاکہ گورنر ان جنگلی جانوروں کے شکار کا انتظام کرے۔ یہ عادت بعد میں گورنروں کا شغل بن گئی۔ اس شکار سے مہینوں قبل گورنر مقامی لوگوں کو احکامات بھجوا دیتا تاکہ لوگ قابلِ شکار جانوروں کو محدود جگہوں پر گھیر کر باڑ لگا دیتے۔ پھر جب شکار کے دن قریب ہوتے تو مقامی لوگ مناسب مقامات پر شکاریوں کے لیے کمین گاہیں بنا دیتے اور اس جانب سے رکاوٹیں ہٹا دی جاتیں۔ شکار کے دن ہانکے والے ان احاطوں کی مخالف سمت جمع ہوتے اور ہر ممکن شور کر کے جانوروں کو شکاریوں کی طرف بھیجتے۔ گورنر اور اس کے عزت مآب مہمان اپنی جگہوں پر بیٹھے نکلنے والے جانوروں کے قتل میں مصروف ہو جاتے۔
ہمارے بنٹنگ کے شکار کا موقع گورنر کے شکار کے موقع پر آیا مگر حالات فرق تھے۔ یہ بڑے بھینسے فصلوں کو زیادہ نقصان نہیں دیتے تھے۔ تاہم حالیہ برسوں میں ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ مقامی آبادی نے مدد مانگی۔ ماضی میں مقامی لوگ لمبے چاقوؤں اور تیز رفتار گھوڑوں کی مدد سے ان کا شکار کرتے تھے۔ وہ لوگ بنٹنگوں کو لمبی گھاس میں لا کر پھر چاقو کی مدد سے ان کے سینے پر وار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شکار میں بہت زیادہ ہمت درکار ہوتی تھی۔ تاہم اب یہ اونچی اور مضبوط کمین گاہوں تک محدود ہو گیا تھا۔ یہاں ہم محفوظ اور آرام سے کرسیوں پر گدیاں ڈالے بیٹھے تھے اور ہمیں بھینسوں کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنا تھا۔
میں شکاریوں کی قطار میں بائیں جانب آخری سے پہلا تھا اور میرے پیچھے بانس کا جنگل تھا۔ سامنے النگ النگ کا میدان تھا جو پچاس گز چوڑا ہو گا۔ اس میں دس گز چوڑی پٹی سے گھاس کاٹ دی گئی تھی۔ دائیں اور بائیں دیگر شکاریوں کی کمین گاہیں مجھے گھاس کے اوپر سے دکھائی دے رہی تھیں۔
سورج پہلے ہی کافی اونچا ہو گیا تھا اور روشنی آنکھیں چندھیا رہی تھی۔ بہت اوپر کوئی پرندہ دائروں میں گھوم رہا تھا جس کے علاوہ کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیا۔ گورنر کی طرف سے ہر ہٹ میں سگریٹ کے لیے تمباکو، کافی کی بوتل اور پسانگ (پان) کے پتوں میں کچھ کھانے کی چیزیں بھی رکھی گئی تھیں۔ میں نے تمباکو نکال کر ایک سگریٹ بنایا۔ سگریٹ پیتے ہوئے میں شکوک کا شکار ہو گیا۔ شکار کا یہ طریقہ اتنا اجنبی تھا کہ میں نے سوچا کہ اگر میں گورنر سے اجازت لے کر نیچے اتروں اور خود ہی شکار کو تلاش کر کے اسے شکار کروں تو کیا اسے برا تو نہیں لگے گا۔ اس طرح زیادہ مزہ آتا اور اس سمت آنے والے بنٹنگ کو بہتر موقع ملتا۔
گورنر میرے والدین کا پرانا دوست تھا اور مجھے میرے بچپن سے جانتا تھا۔ بہت پہلے میں اس کے بچوں کے ساتھ اس کی سرکاری رہائش گاہ کے صحن میں چھپن چھپائی کھیلتا تھا۔ یعنی میرے تعلقات ان لوگوں سے بہت اچھے تھے۔ میں جہاں بھی جاتا تو مجھے مشروبات اور اچھی کتب ہمیشہ گورنر اور اس کی بیوی کی جانب سے بھجوائی جاتیں۔ اس کے علاوہ میں جب بھی جاوا میں ہوتا تو ہر تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھی لازمی ملتا۔ یعنی گورنر سے میری اتنی بے تکلفی تھی کہ میں یہ بات کر سکتا تھا۔
اس لیے میں نے آرام اور حفاظت کو ایک طرف رکھا اور نیچے اتر کر چھ فٹ اونچی گھاس سے گزر کر گیا۔ حفاظت کے خیال سے میں نے اپنی بندوق کی نالی پر اپنا سفید رو مال باندھا اور اسے گھاس کے اوپر بلند کیے رکھا۔
پہلے ہٹ پر ونڈانا بیٹھا تھا جس نے مجھے دیکھتے ہی تشویش سے پوچھا کہ خیریت تو ہے ؟ میں نے اسے تسلی دی اور شکار کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ آخرکار میں گورنر کے ہٹ کو جا پہنچا جو مجھے کچھ دور سے حیرت سے دیکھے جا رہا تھا۔
میں نے اسے اپنی درخواست پیش کی اور صاف دکھائی دیا کہ وہ پریشان ہو گیا ہے۔ مجھے تشویش ہوئی کہ کہیں میری بات سن کر وہ خفا نہ ہو جائے، مگر اس نے آہستگی سے بات شروع کی:
‘ہاں میرے بچے، مجھے کافی پریشانی ہو رہی ہے۔ اس لیے نہیں کہ تم نا تجربہ کار ہو، بلکہ اس لیے کہ جب تم اونچی گھاس میں بنٹنگ پر گھات لگاؤ گے تو دوسرے شکاریوں کی گولیوں کا شکار بھی ہو سکتے ہو۔ اس کے علاوہ زخمی اور غصیلا بنٹنگ شیر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ خیر، یہ سب کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خیر، تمہیں کچھ ہوا تو مجھے بہت افسوس ہو گا۔ گھر میں کئی ایسی اچھی چیزیں ہیں جو تمہیں نہیں چھوڑنی چاہئیں۔ خیر، اب جا کر اپنے ہٹ میں بیٹھو، بنٹنگ آنے ہی والے ہوں گے۔ ‘
اس پدرانہ شفقت بھری نصیحت پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر خوش ہوا کہ میری درخواست سے اسے تکلیف نہیں پہنچی۔ سو میں نے ایک بار پھر اصرار کیا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں فائرنگ لائن یعنی شکاریوں کی قطار سے دور رہوں گا۔ چونکہ مہمانوں کو محض سامنے گولی چلانے کی ہدایت کی گئی تھی، اس لیے زیادہ خطرہ ویسے بھی نہیں تھا۔ میں نے وعدہ کیا کہ پوری طرح محتاط رہوں گا اور کسی طور بھی بنٹنگ کے سینگوں کی زد میں نہیں آؤں گا۔ میں نے اتنا اصرار کیا کہ گورنر کو اجازت دیتے ہی بنی۔ مگر اس نے ڈھیر ساری نصیحتیں بھی کر دیں۔
میں نے گورنر کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔ جب میں فائرنگ لائن کے پیچھے مناسب جگہ تلاش کر رہا تھا تو دور سے میں نے پہلے ہانکے کی آواز سنی۔ مسلح ہانکے والوں کی لمبی قطار تھی جو دس دس قدم کی دوری پر چل رہے تھے، جنگل سے نکل کر اس میدان میں گھستی دکھائی دی۔ ابھی وہ لوگ یہاں سے آدھا میل دور تھے۔ ان کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی گئیں جو اس سمت چلنے والی ہوا لا رہی تھی۔ ان کی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
النگ النگ کے پورے میدان کی چوڑائی پر پھیلے ہانکے والے بڑھتے چلے آ رہے تھے اور تمام جانور ان کے آگے بھاگ رہے تھے۔ پرندے اڑتے رہے اور بندر چیخیں مارتے رہے مگر کتوں کی آواز نہ آئی۔
تیزی سے اونچی گھاس میں اپنا راستہ بناتے ہوئے اور بندوق پر رو مال کو بلند کیے میں بڑھتا رہا۔ پندرہ منٹ بعد مجھے بہترین کمین گاہ دکھائی دی جو میری مچان کے برابر بلندی پر مگر اس سے کچھ پیچھے تھی۔ اس جگہ دو چھوٹے درختوں کے درمیان سے سامنے کا بہترین نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ سے مجھے ہانکے کا بخوبی علم ہو رہا تھا اور میں بیٹھا بنٹنگ کا انتظار کر رہا تھا۔
ہانکے والوں کی آواز قریب سے قریب تر ہوتی گئی۔ اچانک مجھے انتہائی دائیں جانب سے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی جو میرے لیے بری علامت تھی۔ ہر شکاری جانتا ہے کہ ہانکے کے دوران کتوں کی آواز کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ساری آوازیں ایک ساتھ مل کر بلند ہوئی ہوں اور رائفل کی لبلبی پر انگلی تن جاتی ہے۔
ہانکے والوں اور کتوں کا شور و غل قریب ہوتا چلا آیا۔ آگے جھک کر میں نے شاخیں ہٹائیں اور جھانکا۔ میرے سامنے النگ النگ کا میدان دور دور تک واضح دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں جانور بھی دکھائی دیے۔ میری دائیں جانب اوپر تلے دو گولیاں چلیں۔ میں جوش کے مارے کھڑا ہو گیا۔ ایسے وقت میں ہر شکاری خودغرض ہو جاتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ گولیاں کس نے چلائی ہوں گی اور ان کا کیا نتیجہ نکلا ہو گا۔ قبل اس کے مجھے پتہ چلتا کہ یہ گولیاں ایک ونڈان نے چلائی ہیں اور ایک شاندار بارہ سنگھا شکار کیا ہے، میرے سامنے چیزیں تیزی سے وقوع پذیر ہونے لگ گئیں۔ مجھے یہ واقعات بہت دیر تک یاد رہیں گے کہ میرے چہرے پر لگے زخموں کے مندمل شدہ نشانات اس کی گواہی ہیں۔
میرے عین سامنے چیزیں آنا شروع ہو گئیں۔ مجھے ہانکے والوں کے شور کی آواز اور ڈھول تاشے کے شور بھی سنائی دے رہے تھے۔ پھر مجھے کئی گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ گولیاں بے ترتیب چل رہی تھیں۔ بعض یکے بعد دیگرے تو بعض زیادہ وقفے سے۔ گولیاں ہوا سے گزر رہی تھیں اور مجھے جوش نے آ لیا۔
اچانک بغیر کسی انتباہ کے ایک کڈانگ رکی اپنے بچے کے ساتھ گھاس سے نکلی۔ تیزی سے جائزہ لیتی اور سر کو ادھر ادھر گھماتی، جست لگاتے ہوئے میرے پاس سے گزری۔ میں نے انہیں آرام سے گزرنے دیا۔ مجھے صبر کا پھل فوراً مل گیا کہ اس کے فوراً بعد ایک بہت بڑا سور میرے سامنے سے گزرا۔ میری گولی اس کی آنکھوں کے عین درمیان لگی اور خالی ہوتے ہوئے بورے کی طرح وہ گرا۔ اس کا سر بڑا، بھوری مونچھیں اور مدھم سفید کچلیاں تھیں۔
بعجلت میں نے اپنی تین نالی بندوق کھولی اور پھونک مار کر نالی میں لگا بارود اڑایا اور نئی گولی بھری۔ ابھی میں نے بندوق بند کر کے گھوڑا چڑھایا ہی ہو گا کہ میرے سامنے بائیں جانب گھاس سے انسانوں اور کتوں کا ایسا شور سنائی دیا جیسا محض اس وقت سنائی دیتا ہے جب کسی بھینسے کو پھنسا لیا گیا ہو۔ ہر ممکن کوشش سے میں نے آگے دیکھنے کی کوشش کی۔ جلد ہی میرے سامنے گھاس میں آڑی ترچھی کی بجائے سیدھی لکیر میں حرکت دکھائی دی اور وقفے وقفے سے سرخی مائل بھوری پشت دکھائی دی۔ انتہائی جوش کی کیفیت میں میں نے جان لیا کہ میری امید ناکام نہیں رہی۔
یہ جانور اس جگہ پہنچا جو میرے ہٹ سے پچاس گز دور تھی اور وہاں دس گز چوڑائی میں گھاس کٹی ہوئی تھی۔ بہترین نظارہ دکھائی دیا کہ دنیا کا خوبصورت ترین بھینسا میرے سامنے حسن اور طاقت کا بہترین نمونہ بنا کھڑا تھا۔ انتہائی سکون سے چلتے ہوئے اور فولادی جسامت کے ساتھ، اس کی سرخی مائل بھوری کھال پر بڑے بڑے سفید دھبے تھے، گردن جیسے پتھر کو تراش کر بنائی گئی ہو، تیز سینگ جو نفاست سے مڑے ہوئے تھے، میرے سامنے تھا۔ میں نے مسحور ہو کر دیکھا۔ بہت مشکل سے میں نے اس پر گولی چلانے سے خود کو روکا۔
پھر پہلی گولی چلی۔ کنٹرولر نے ماؤزر سے گولی چلائی۔
بھینسا ویسے ہی کھڑا رہا، جیسے فیصلہ نہ کرپا رہا ہو۔ اس کے جسم کی حرکت سے پتہ چل رہا تھا کہ سانس لے رہا ہے اور خون کا ایک قطرہ تک دکھائی نہ دیا۔ اچانک بنٹنگ کے پیچھے ایک ہلکے رنگ کے کتے نے گھاس سے سر نکالا اور فوراً ہی اس نے بھینسے کی پچھلی ٹانگ میں دانت گاڑ دیے۔ فوراً ہی دیگر کتے پہنچ گئے اور بھونکنے لگے۔ انہوں نے بنٹنگ کو ہر طرف سے گھیر لیا اور شور کرنے لگے اور ہر ممکن کوشش سے اس کو مختلف جگہوں پر کاٹنے لگے۔
بنٹنگ نے دولتی چلائی اور جو کتا اس کی پچھلی ٹانگ کو دبوچے ہوئے تھا، اڑ کر گھاس میں دور جا گرا اور اس کی چیخ اچانک تھم گئی۔ اس عظیم بھینسے نے دیگر کتوں سے ایسے پیچھا چھڑایا جیسے ہم مکھیاں اڑاتے ہیں۔ آہستہ سے مڑ کر اس نے سر جھکایا اور سامنے موجود ہر کتے کو اپنے سینگ دکھائے۔ کتے بھی اس کے ساتھ ساتھ مڑتے رہے اور جونہی بھینسا ان کی طرف بڑھتا تو پیچھے ہٹ جاتے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کنٹرولر نے پھر گولی کیوں نہیں چلائی۔
پھر اچانک اس بار دائیں جانب سے ایک گولی چلی۔ دہشت سے مڑ کر اس نے دوڑ لگا دی اور راستے میں موجود کتوں کو کچلتا ہوا بھاگا۔ مجھے یقین نہ آ سکا۔ پھر اس نے ٹھوکر کھائی اور میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اب میرا موقع تھا۔ میں نے چٹان سے چھلانگ لگائی اور محتاط انداز میں پیچھے بھاگا۔ ہر ممکن تیزی سے بھاگتے ہوئے میں نے اس جگہ کا رخ کیا جہاں بھینسا گرا تھا۔ جب میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہ جگہ خالی تھی اور دائیں جانب سے آواز آئی۔ میں اس جانب بھاگا تو دیکھا کہ دور گھاس ہل رہی تھی۔ اس جگہ مجھ سے ستر گز دور بھینسا سر اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اس کی بائیں ٹانگ ناکارہ تھی۔ اس جگہ کھڑا جھومتا رہا۔ پھر جیسے اچانک اس میں کوئی شیطانی روح حلول کر گئی ہو، انتہائی تیز رفتاری سے اس نے سر جھکا کر سیدھا مجھ پر حملہ کر دیا۔
میری بندوق خود بخود میرے شانے پر آ گئی اور میں نے سانس باہر نکالا۔ مشینی انداز میں میں نے نشانہ لیا اور میرے شانے پر دھکا لگا اور گولی کی آواز گونجی۔ میں نے محسوس کیا کہ گولی نشانے پر لگی ہے مگر بھینسا اسی رفتار سے بڑھتا چلا آیا۔ میں نے دوسری گولی چلائی اور بھینسا پھر بھی نہ رکا۔ اب پسینہ میری گردن سے ہوتا ہوا سینے پر بہہ رہا تھا اور میں نے تیسری گولی چلائی۔ بھینسا پھر بھی دوڑتا آیا۔
گھبراہٹ میں میں نے دائیں جانب النگ النگ میں جست لگائی اور جان بچانے کے لیے بھاگ پڑا۔ سیدھا گھاس اور جھاڑیوں کے بیچ سے گزرتا، گرے درختوں کے تنے پھلانگتا اور پسینے سے شرابور میں اپنی جیب میں مزید کارتوس تلاش کرتا رہا۔ خون میری کنپٹیوں پر جیسے ٹھوکریں مار رہا ہو۔ اس کے علاوہ میں نے محسوس کیا کہ بھینسا میرے پیچھے ایک لمحے کو رکا جیسے اس نے میرے فرار کی سمت کو جاننے کی کوشش کی ہو اور پھر میرے پیچھے سخت زمین پر بھاگ پڑا ہو۔ میں سیدھا بھی بھاگا اور آڑا ترچھا بھی، مگر بھینسا میرے پیچھے لگا رہا۔
میرے سامنے بانس تھے۔ میں نے بلا جھجک ان کا رخ کیا کہ یہ میرے بچاؤ کا واحد راستہ تھا کہ بانس کے جھنڈ بہت گھنے ہوتے ہیں۔ بانس کے چاقو کی مانند تیز پتوں نے میرے بازوؤں پر زخم لگائے اور کانٹے چبھتے رہے مگر میں نے راستہ بنا ہی لیا۔ پھر اچانک مجھے خوف نے آ لیا۔ میں اپنی زندگی کے لیے لڑ رہا تھا مگر آگے نہیں جا سکتا تھا۔ میں دو بانسوں کے درمیان پھنس گیا۔ سامنے ایک گز بھی دیکھنا مشکل تھا اور پیچھے بھینسا لگا ہوا تھا۔ پھر ایک ہی کام باقی بچا تھا۔ بری طرح ہاپنتے ہوئے میں نے پتلون کی جیب سے کارتوس نکالا اور انتہائی مہارت سے بندوق بھری اور پھر مڑا تاکہ بازو آزاد ہو جائیں اور گولی چلا سکوں۔ مجھے کولہوں میں تیز درد کا احساس ہوا مگر میں خطرے کی سمت منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ میرا سینہ بہت تیزی سے حر کت کر رہا تھا اور بندوق میرے ہاتھوں میں ہل رہی تھی۔
وہ رہا! گھنی گھاس میں کسی چیز کی حرکت کی آواز آ رہی تھی۔ مجھے پتے ہلتے دکھائی دیے اور پھر بھینسا دکھائی دیا۔ اتنی عجیب حالت میں کیسے کوئی انسان اپنی جان بچانے کے لیے گولی چلا سکتا ہو گا؟ مجھے تھوڑا سا بھی سکون مل جاتا تو کام آسان ہو جاتا۔
اچانک جیسے انسان کسی بھیانک خواب سے بیدار ہوتا ہے، مجھے انسانی آوازیں آنے لگیں۔ ہانکے والے پریشانی اور فکر مندی سے چلا رہے تھے، ‘بنداراہ، بنداراگ! لوہا بندارا بوتن انتن (تھوان موجود نہیں )’۔
تمام تر طاقت مجتمع کرنے کے بعد میں چلایا، ‘کینے کینے (یہاں، میں یہاں ہوں )۔ ‘
فوری ردِ عمل ملا۔ میں نے محسوس کیا کہ فکر، پریشانی اور خوف مجھ سے اچانک دور ہو گئے۔ مگر ساتھ ہی میں اچانک بہت کمزور اور بیمار سا محسوس کرنے لگا۔ پھر اچانک جیسے دو بنٹنگ آ گئے ہوں، دو بھورے چہرے میرے سامنے نمودار ہوئے اور میں ان پر گولی چلاتے چلاتے رہ گیا۔ گھنٹے بعد میں نے انہیں اچھے انعام سے نوازا۔
میرے لیے مسکرانے میں مشکل ہو رہی تھی اور مجھے حالات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا۔ ‘بنٹنگ کہاں ہے ؟’ میں نے پوچھا۔
اپنی آنکھوں کے اوپر سے پسینہ پونچھ کر انہوں نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ‘باہر بندرارا، مردہ!’
انہیں بانس کے درخت کاٹنے پڑے، پھر جا کر میں آزاد ہوا۔ میں نے انتہائی تشکر سے نیلے آسمان، النگ النگ گھاس اور گورنر کے پریشان چہرے کو دیکھا۔ تھوڑی دور سرخی مائل بھورے رنگ کا پہاڑ تھا، مردہ بنٹنگ۔
میں شرمندگی سے ہنسا اور گورنر کا ہاتھ تھاما۔ گورنر نے مجھے ہر طرف سے اچھی طرح دیکھ بھال کر پھر مبارکباد دی۔ میں حیران رہ گیا، میں نے بنٹنگ مار لیا؟ بظاہر میں نے ہی ہلاک کیا تھا اور اسی وجہ سے سبھی مجھے مبارکباد دینے آ رہے تھے۔ میری خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی، میں بنٹنگ کے پاس گیا۔ بھینسے کا معائنہ کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے جسم میں انتہائی شدید درد ہو رہا ہے میرے منہ میں نمکین پسینے اور خون کا ذائقہ تھا۔ جیب سے رو مال نکال کر میں نے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔ درد ناقابل برداشت لگ رہا تھا۔ میرے سارے منہ پر جیسے دہکتے انگارے رکھے ہوں۔ پسینہ ان زخموں پر جیسے نمک چھڑک رہا ہو۔ جب میں نے رومال دیکھا تو وہ خونم خون ہو رہا تھا۔
پھر گورنر مجھے نرمی سے ایک طرف لے گیا۔ میں اس وقت قابلِ دید نظارہ رہا ہوں گا، لیر لیر کپڑے اور چہرہ سوجا ہوا اور خون سے رنگا۔
گورنر نے خود میرے بازو اور منہ کو گیلے تولیے سے پونچھا اور جب میں نے تولیہ لینے کی کوشش کی تو اس نے منع کر دیا۔
ایک ملازم نے سگریٹ جلا کر میرے ہونٹوں میں دے دیا اور دوسرا میرے لیے جن کا گلاس لایا۔ آدھا گلاس تو مجھ سے چھلک گیا۔ تاہم مجھے سب سے زیادہ تکلیف گورنر کی پریشانی کو دیکھ کر ہو رہی تھی۔ مگر گورنر بہت مہربان اور شفیق تھا۔ اس نے گزرے واقعات پر ایک لفظ بھی نہیں ضائع کیا۔ اس نے محض اتنا کہا:
‘تم دیکھنا کہ جب اس حالت میں میں تمہیں لے کر جاؤں گا تو میری بیوی کا کیا ردِ عمل ہو گا!’
پھر ہم نے گرم چاول کھائے اور ہانکے والے بتا رہے تھے کہ بانس کے جھنڈ میں پہنچنے سے قبل بھینسے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا۔ جب یہ لوگ مجھے اٹھانے آئے تو انہوں نے بھینسے کو رحم کھاتے ہوئے تکلیف سے نجات دلا دی۔ پھر وہ یہ خبر لے کر میرے پاس پہنچے۔
بھینسا بوڑھا نر تھا جو افزائشِ نسل کے زمانے سے ہٹ کر ہمیشہ اکیلا رہتا ہو گا اور النگ النگ کے میدانوں اور پہاڑوں پر رات کے وقت چرتا ہو گا۔ مون سون کے دور میں اپنے جسم پر کیچڑ کی موٹی تہہ چڑھاتا ہو گا تاکہ مکھی مچھروں سے بچ سکے۔ خشک موسم میں وہ آبادیوں کا رخ کرتا ہو گا۔
بہت خوبصورت اور جاندار جانور تھا۔ اس کے سینگ اور دانت بہترین حالت میں تھے اور اس کے ایک پہلو پر گہرا زخم تھا۔ شاید کسی دوسرے نر سے مقابلے کے دوران اسے یہ زخم لگا ہو گا۔
دھکے اور تکلیف کی کیفیت سے باہر نکلنے کے بعد مجھے سکون آ گیا۔ بنٹنگ کی کھال کے نیچے اس کے پٹھے ابھرے ہوئے تھے اور اس کی کھال سے جنگل کی بو آ رہی تھی۔ بے تاج بادشاہ۔
گورنمنٹ ہاؤس واپسی پر گورنر کی بیوی کا سامنا کرنا میرے لیے مشکل تھا مگر گورنر نے ہنس کر کہا:
‘ارے نہیں، یہ محض جوانی کا جوش ہے، وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے لیے اتنی سزا کافی ہے کہ آج کی رات اسی چہرے کے ساتھ بال پر جائے گا’۔
واقعی، اس رات بال (ڈانس) کا پروگرام تھا اور اس چہرے کے ساتھ میں کافی عجیب لگ رہا تھا۔ مگر کھانا عمدہ تھا اور مجھے بہت مزہ آیا۔
ہمارے میزبان اس تقریب کی جان تھے اور مہمانوں میں ان کا درجہ منفرد تھا۔ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود رہے۔
دو دن بعد جب میں واپس روانہ ہوا تو گورنر نے مجھے ایک بہت عمدہ شکاری چاقو دیا جس کے دستے پر خوبصورت بنٹنگ کا سر کندہ تھا۔ اس شکار کی بہترین یادگار۔
٭٭٭
باب ہشتم: کموڈو کے ڈریگن
میں نے بہت مرتبہ وران یعنی بڑی گوہ کے بارے سنا تھا جو سنڈا جزائر کے سلسلے کے مشرقی سرے پر پائی جاتی تھیں۔ ان کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ ڈریگن یعنی اژدر کی نسل سے ہیں۔ سماٹرا کے جنگلات میں چھ سال کی سخت محنت کے بعد مجھے تین ماہ کی چھٹی ملی تو میں نے یہ وقت ایک دوست کے ساتھ گزارنے کا سوچا جو اس علاقے میں سارجنٹ میجر تھا۔ ارادہ تھا کہ ہم لوگ ایک کشتی میں سوار ہو کر کموڈو کے جزیرے پر جائیں گے جہاں یہ ڈریگن اکثر ملتے ہیں۔ میرے دوست کا ایک جاننے والا ایک مچھلیوں کا تاجر چینی بگان سی اپی اپی تھا جو ہمیں سمندر میں سفر کے قابل جہاز دینے کو تیار ہو گیا۔ ہمیں محض جہاز کے لنگر انداز ہونے کا محصول اور پانچ افراد کے عملے کی خوراک اور تنخواہ دینی تھی۔
ہفتوں ہم اس کشتی پر سفر کرتے رہے اور سارا وقت سو کر گزرتا۔ پانی کا شور، جنگل سے آتے جانوروں اور جھینگروں کی آوازیں وغیرہ ہمارے لیے معمول بن کر رہ گئیں۔ جاگتے ہوئے ہمارا زیادہ تر وقت مچھلیاں پکڑنے میں گزرتا۔ ہر کھانے پر ہمیں بہترین تازہ مچھلی ملتی تھی۔ مچھلی پکڑنے سے ہمارا کبھی جی نہیں بھرا۔
ہر روز ہم کسی نہ کسی ساحلی گاؤں میں رک کر پانی، مرغیاں اور پھل لیتے۔ سماٹرا کے ساحل پر دلدلی دریائی کناروں پر پانی سے پرے یہ گاؤں بکثرت ہیں۔ جب مد و جزر کا پانی اترتا تو یہاں سڑتے ہوئے آبی جانوروں کی بو ناقابلِ برداشت ہو جاتی۔ ساحل پر ہر طرف اس طرح کی زہریلی فضا پائی جاتی تھی اور اسی پر سبز مینگروو جنگلات کے ساتھ ہی گاؤں آباد ہوتے تھے جن پر ہر وقت ملیریا طاری رہتا۔
جونہی سماٹرا کا ساحل افق سے پرے چھپا، ہم ان جزائر کو پہنچ گئے۔ سبز، خوابیدہ اور خوبصورت، لہروں کی برف جیسی سفید جھاگ کے پیچھے موجود تھے۔ ان کے کنارے پر پانی تقریباً ساکن، شفاف اور نیلا تھا۔ جزائر ایسے لگتے تھے کہ جیسے سمندر میں موتی تیر رہے ہوں۔ اس بہشت نما نظارے کو انسان ساری عمر دیکھتا رہے۔
مغرب کے وقت ہم اپنے چھوٹے جہاز کے عرشے پر ایک ساتھ بیٹھ گئے اور تازہ ہوا سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ہم سب بہت اچھا محسوس کر رہے تھے اور جہاز لہروں پر ہلکا ہلکا ڈول رہا تھا۔ ہوا سے ساری گرمی بھاگ گئی تھی اور تھوان اور ملازمین کا فرق مٹ گیا تھا اور ہم سب برابری کی سطح پر آ گئے تھے۔ سب کہانیاں سناتے رہے اور باڈجو آدمیوں اور ہمارے درمیان اعتبار بڑھ گیا اور اس لمبے سفر کے آخر تک یہ ہمارے شاندار اور ناقابلِ فراموش تعطیلات کی بنیاد تھا۔
شام کو ہمیں بہت خوشی ہوتی۔ ہزاروں کی تعداد میں جیلی فش سطح پر آ جاتیں اور شوخ گلابی سے شفاف نیلے تک ہر رنگ دکھائی دینے لگ جاتا۔ جب تاریکی چھا جاتی تو پھر خود روشن قسم کی جیلی فش کالے سیاہ پانی سے نکل کر باہر آتیں۔ اکثر ہم لیمپ باہر لٹکا کر انہیں دیکھتے رہتے۔ اس جگہ ہم نے انتہائی عجیب قسم کی مچھلیاں بھی پکڑیں۔ ایک بار عجیب کام ہوا کہ گفتگو کے دوران اچانک شدید خوفزدہ ہو کر باڈجا خاموش ہو گئے۔ دہشت سے تھر تھر کانپتے ہوئے وہ دور پانی کی سطح پر ابھرنے والے ایک چمکدار جسم کو دیکھ رہے تھے۔ جب ہم نے وجہ پوچھی تو ناخدا نے سرگوشی میں بتایا: ‘بوبوٹجا۔ ‘
اس علاقے میں بوبوٹجا بہت بڑے آکٹوپس کو کہا جاتا ہے جو ماہی گیری کی چھوٹی کشتیوں کے لیے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ خیر، جو بھی ہو، ہمارے ملاحوں نے جہاز کی تمام روشنیاں بجھا دیں اور ایک بندے نے جہاز کو مسلسل حرکت دیتے ہوئے اس آکٹوپس سے دور ہی رکھا۔ باڈجا نے ہمیں آکٹوپس کے بارے ہر قسم کی کہانیاں سنائیں۔ ان کے خیال میں بوبوٹجا اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ اس کا دھڑ پانچ یا چھ فٹ گولائی تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے لمبے بازو جن پر چُسنیاں لگی ہوتی ہیں، پندرہ سے بیس فٹ لمبے ہو جاتے ہیں۔ اس کے جسم کے اوپری حصے پر آنکھیں ہوتی ہیں اور منہ چونچ دار۔ اس کی کھال ریگمال کی طرح کھردری اور ایک انچ موٹی ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ باڈجا کے لیے یہ ایک آفت ہوتا ہے۔ اپنے مضبوط بازوؤں کے ساتھ وہ کسی کشتی کو پکڑ لے تو پھر اسے اپنے ساتھ پانی کے اندر کے لے جاتا ہے۔ گہرے پانی میں یہ نیچے جا کر مرجان کی چٹانوں کو دو یا تین بازوں سے تھام کر کشتی کو نیچے ہی روکے رکھتا ہے۔ اوسط درجے کا جہاز بھی ایسے پھنس جاتا ہے جیسے کسی مضبوط تار سے بندھا ہو۔
آکٹوپس مرجان کی چٹانوں میں چھپ کر شکار پر گھات لگاتا ہے۔ اس کا نشانہ چھوٹی مچھلیاں نہیں ہوتیں۔ باڈجا کے مطابق سمندرکی تہہ میں عموماً لڑائی آکٹوپس کی وہیل اور سورڈ فش کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ لڑائی دو نر ہاتھیوں کی لڑائی سے مماثل ہے۔
جب مچھیرے دور دراز کے پانیوں کو شکار کے لیے جاتے ہیں تو اپنے ساتھ ہمیشہ خاص بنے ہوئے پرانگ لے جاتے ہیں جو انہی آکٹوپس کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یہ پرانگ چوڑے اور موٹے ہوتے ہیں اور ان کے دستے بہت ہلکے اور باریک۔ ان کی اصل خوبی ان کے سرے پر ہوتی ہے اور ان کے استعمال کے لیے خاص محنت کرنی پڑتی ہے مگر اس طرح یہ ہتھیار مہلک بن جاتا ہے۔ اس کی خاص بناوٹ کی مدد سے آکٹوپس کی انتہائی سخت کھال کاٹی جاتی ہے۔
پرانگ کے علاوہ مچھیروں کے پاس ایک اور چیز ہوتی ہے جس پر انہیں پرانگ سے زیادہ اعتبار ہوتا ہے۔ ڈجیرک نپیس نامی ایک ترشادہ پھل ہوتا ہے جو انتہائی ترش ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہ پھل جادو ٹونے کا اہم جزو ہے۔ مدورا علاقے میں گاڑی بان اپنے بھینسوں کے سینگوں پر یہ پھل پھنسا دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان کے بھینسوں کو زیادہ طاقت اور رفتار ملتی ہے۔ اس پھل کو قربانی کی رسومات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کو شدید سر درد ہو تو اس پھل کی قاشیں کنپٹی پر رگڑی جاتی ہیں تاکہ پیشانی کے پیچھے موجود تکلیف کا سبب بننے والا شیطان بھاگ جائے۔
جب مچھیروں پر یہ آکٹوپس حملہ کرتا ہے تو ہر ممکن تیزی سے آکٹوپس کی کھال میں ایک سوراخ کر کے اس پھل کے رس کے چند قطرے ٹپکا دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آکٹوپس اس طرح کشتی کو چھوڑ کر بھاگتا ہے جیسے اس پر بجلی گری ہو اور سمندر کی گہرائیوں میں چھپ جاتا ہے۔ مچھیروں کا خیال ہے کہ یہ اسی جادوئی پھل کا کرشمہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زخم پر لگنے والے انتہائی ترش مائع سے زخم میں شدید جلن پیدا ہوتی ہو گی۔
ساڑھے تین ہفتوں کے بحری سفر کے بعد ہم نے افق پر فلورس کے ساحل کو نمودار ہوتے دیکھا۔ اگلی صبح ہم رُٹنگ کے گاؤں کو روانہ ہوئے جو ہماری پہلی منزل تھا۔ اس جگہ ہمیں رکنا پڑا کیونکہ ہمارے جہاز کے نچلے حصے پر سمندری گھاس اور دیگر جانداروں کی موٹی تہہ چڑھ گئی تھی۔ ہم نے ناخدا سے کہا کہ وہ اس جگہ رکنے کے بعد لتوہو خلیج کو جائے جو کموڈو کے جزیرے پر واقع ہے۔ اس جگہ میں اور میرا دوست اس کا انتظار کریں گے۔
جتنی دیر جہاز کو کھینچا جاتا، ہم لوگ رُٹنگ میں رہے۔ یہاں چینی جہازوں کی مرمت کی ایک جگہ ہے۔ ہم نے گھوڑے کرائے پر لیے اور مشرق کو منگاری سے ہوتے ہوئے ساحلی کمپونگ لنٹنگ کو روانہ ہو گئے۔ اس جگہ کا موسم استوائی اور خشک نوعیت ہے اور محض پہاڑی گھاس کے میدان ہیں۔ جھلسی ہوئی پہاڑیاں ہر سمت افق تک پھیلی ہوئی ہیں جن پر محض گھاس دکھائی دیتی ہے اور درختوں کے کہیں کہیں جھنڈ بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔ تنگ کھائیوں سے پتلی ندیاں گزرتی ہیں۔
ایسے علاقے میں گھوڑوں کو مسلسل قابو میں رکھنا اہم ہے۔ کہیں بھی آپ کو جنگلی گھوڑوں کے غول دکھائی دے سکتے ہیں۔ فلورس، سمبا اور سمباوا میں جنگلی گھوڑے عام ملتے ہیں۔ در اصل یہ گھوڑے مقامی لوگوں کے ہوتے ہیں جو انہیں گھاس کے میدانوں میں چھوڑ دیتے ہیں اور یہ گھوڑے یہاں کھلے آسمان تلے چرتے ہیں اور افزائشِ نسل کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے مگر بہت طاقتور گھوڑے ہوتے ہیں۔ ان کی لمبی ایال اور لال نتھنے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل جنگلی ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ سخت جان اور محنتی گھوڑے مشکل سے ہی کہیں ملیں گے۔ رات کو میں نے پہاڑ کی چوٹی سے ایک نر کے ہنہنانے کی آواز سنی۔
ہم راتیں کسی دریا کی تہہ میں ریت پر گزارتے اور پتھروں کے درمیان سوتے اور پہاڑوں سے نیچے کی سمت ہوا چلتی۔ تاہم اس سرد ہوا کا ایک فائدہ یہ تھا کہ مچھر بھاگ جاتے تھے۔ سارا دن سخت زمین پر گھڑسواری کے بعد آنے والی گہری نیند میں کسی قسم کا خواب نہ آتا۔ الاؤ پر پکائے ہوئے گرم چاولوں سے پیٹ بھر کر کے ہم ندی میں نہاتے اور اپنے پتلے کمبلوں میں گھس جاتے۔ تکیے کی جگہ ہمارے لباس ہوتے اور چھت کی جگہ تاروں بھرا آسمان۔ نیند سے ایک بار ہمیں اچانک بیدار ہونا پڑا کہ ایک گھوڑا محبت سے ہماری گردن سے اپنی نرم ناک رگڑنے لگا۔
تین دن بعد ہم لنٹنگ میں تھے جو ساحلی کمپونگ ہے اور اس میں گھر موسم سے متاثر ہیں۔ ہر جگہ مچھلیوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس جگہ ہم نے اپنے رہنماؤں اور گھوڑوں کو واپس بھیج دیا اور کموڈو جانے کے لیے کشتی کا بندوبست کرنے لگے۔ ہم لوگ یہاں دوپہر کو پہنچے۔ جلد ہی کشتی بان مل گیا مگر ہمارا سفر صبح سے پہلے شروع نہ ہو سکا۔ فلورس اور اس سے اگلے جزیرے کے درمیان کا سمندر تیز لہروں اور تند ہواؤں کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ اس جگہ سمندر کو محض صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان عبور کیا جا سکتا تھا۔ سو شام کو ہم نے خشکی کے مگرمچھوں یعنی بواجا درات کے بارے معلومات لیتے گزاری۔ بواجا درات کو کموڈو کے وران بھی کہا جاتا ہے، فلورس پر بھی موجود ہوتے تھے مگر بہت نایاب۔ یہ نسل تیزی سے ناپید ہو رہی تھی۔ اس لیے ان کے شکار پر انتہائی سختی سے پابندی تھی اور محض کسی چڑیا گھر کے لیے ہی ان کو پکڑا جا سکتا تھا۔ تاہم اس مقصد کے لیے بھی خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی۔
ایک بوڑھے شخص نے بتایا کہ اس نے بواجا درات کو شمال مغربی میراک، نیو گنی میں بھی دیکھا ہے۔ یہ شخص جاپانیوں کے ساتھ سمندر سے موتی تلاش کرتا تھا۔ وران تو عام سا مگرمچھ ہوتا ہے جو اس جزیرہ نما ملک کے تقریباً تمام دریاؤں اور دلدلوں میں ملتا ہے۔ تاہم یہ اتنا سخت جان ہے کہ اس سے بالکل ماحول میں بھی آرام سے رہ سکتا ہے۔
اگلی صبح ہم کشتی پر سوار ہوئے جو کافی کمزور لگ رہی تھی۔ اس میں جگہ جگہ کیڑوں نے سوراخ کیے ہوئے تھے اور پیندے میں ٹخنے جتنا پانی جمع تھا۔ تیز ہوا نے جب پیوند لگے بادبان بھرے تو کشتی ایک جھٹکے سے روانہ ہو گئی۔ ہمارا کشتی بان چالیس برس کی عمر کا اور پتلا سا مگر سخت جان انسان تھا۔ سمندر اور سورج کی وجہ سے اس کے بال سفید ہو چکے تھے اور عقابی چہرہ تھا۔ جلد ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ ہم پچھلی شام کیوں نہیں روانہ ہو سکے۔ فلورس اور رنٹجا اور کموڈو کے درمیان بہت خطرناک قسم کی چٹانیں تھیں جو آتش فشانی عمل سے بنی تھیں۔ سمندر انتہائی اونچی لہروں کا پہاڑ لگ رہا تھا مگر کشتی پر خطرہ نہیں محسوس ہوا۔ کشتی کے ناخدا نے انتہائی توجہ سے ہر جانب نگاہ رکھی اور ایک لمحے کو بھی غافل نہیں ہوا۔ ہم ہر لمحہ اس کی مہارت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ خطرہ کہاں ہے۔ جہاں دو یا تین مخالف لہریں ٹکراتیں، وہاں سطح پر اور اس کے نیچے بھنور سے بنتے اور یہی کشتی کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتے تھے۔ اگر کشتی ان میں پھنس جاتی تو اس کی تباہی یقینی تھی۔
یہ بھنور خطرناک دکھائی دیتے تھے سو ہم نے ان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ ہماری زندگیاں ہمارے ناخدا کے ہاتھ تھیں اور ہم اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہے۔
ہاشم کشتی کے درمیان میں بیٹھا اور کنارے کو مضبوطی سے پکڑے رہا۔ اس کی نظریں ہمارے اوپر آسمان پر جمی ہوئی تھیں۔ اس پر موت کا خوف چھایا ہوا تھا اور وہ یہاں سے دور بھاگ جانا چاہتا تھا۔
جلد ہی ہمیں افق پر رنٹجا دکھائی دیا۔ ہم نے جزیرے کا سیدھا رخ نہیں کیا اور سلیٹی رنگ کی ایک خلیج سے بچ کر کموڈو کی طرف گئے جو سامنے تھا۔
چند گھنٹے بعد ہم نسبتاً ساکن پانیوں کو پہنچے اور کموڈو کے کمپونگ پر جا اترے۔ اونچی چٹانوں سے گھرے اس عام سے ساحلی کمپونگ میں گھر اونچے ستونوں پر بنائے گئے تھے۔ جب مد و جزر کا پانی چڑھتا تو اس کمپونگ کے کنارے تک آن پہنچتا۔ اس طرح قدرتی طور پر صفائی ہو جاتی۔ رہائشی اس جگہ محض اپنے فضلے اور گند کو نیچے پھینک دیتے جو پانی اپنے ساتھ بہا لے جاتا۔ تاہم پانی سے بدبو ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوا اسے ختم کر پائی۔
لوگ بہت مہمان نواز اور دوستانہ تھے۔ یہ لوگ ہمارے منتظر تھے اور جونہی ہم پہنچے تو کتوں نے اتنا غل مچایا کہ الامان۔ بچوں نے ڈنڈوں اور پتھروں سے کتوں کو تمیز سکھانے کی کوشش کی۔ کمپونگ کے نمبردار نے ہمیں اپنے جھونپڑے میں رات گزارنے کی دعوت دی اور ہمارے لیے ضیافت تیار تھی۔ ہم جھونپڑے کے اندر سونے سے جھجھک رہے تھے۔
ہم نمبردار کے لیے کچھ تمباکو لائے تھے۔ اس تحفے کو اس نے جھجھک کر قبول کیا۔ اس طرح ہم نے مزید دعوت سے کنی کتراتے ہوئے نمبردار کو بتایا کہ ہم لوگ آج ہی آگے جانا چاہتے ہیں۔ مناسب تکلفات کے بعد ہم اصل مدعے پر آ گئے۔
نمبردار نے فوراً جواب دیا کہ یہاں بہت سارے بواجا درات پائے جاتے ہیں اور ان کو تلاش کرنا مشکل نہیں۔ مگر پہلے تھوان سفر کی تکان اتار لیں اور اس کی بیوی کا بنایا ہوا کھانا کھا لیں۔
ظاہر ہے کہ اس بات پر ہمیں کیا اعتراض ہونا تھا۔ تازہ چاول اور مچھلی کا کھانا کھا کر ہم نے مقامی افراد کے مشورے سنے۔
کموڈو کا جزیرہ مغربی تہذیبی اثرات سے پاک ہے۔ یہاں وقت جیسے تھم گیا ہو۔ یہاں لوگ قدیم طور طریقوں سے رہتے آ رہے ہیں جو مستقل اور کبھی نہ ختم ہونے والی جد و جہد ہوتی ہے۔ یہ جد و جہد شدید گرمی، خشک موسم اور سمندری مشکلات کے خلاف ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ سخت جان، محنتی ماہی گیر ہیں جو ہمیشہ اپنے خیالات مجتمع کرتے رہتے ہیں تاکہ جب کوئی مہمان آئے تو اسے اپنے خیالات سے آگاہ کر سکیں۔
سہ پہر کو پتہ چلا کہ محض تین ماہ قبل ہی ایک چھوٹے بچے پر بڑے وران نے حملہ کیا تھا۔ یہ بچہ لکڑیاں چیر رہا تھا کہ مگرمچھ النگ النگ سے نکلا اور اسے پکڑ لیا۔ بچے کی چیخیں سن کر اس کا باپ دوڑا دوڑا آیا اور اپنے پرانگ کی مدد سے اس نے وران کو بھگا دیا۔ مگر بچہ اتنا زخمی ہو چکا تھا کہ وہ انتہائی تکلیف کے ساتھ اگلے دن مر گیا۔
ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ہر سال پانچ یا چھ افراد وران کے حملوں سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اموات زہر پھیلنے سے ہوتی ہیں جو ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وران مردار خور ہوتے ہیں۔
کموڈو وران عام شکاری درندہ ہے اور اس علاقے میں پائے جانے والے دیگر جانوروں بشمول بارہ سنگھا، گھوڑے اور جنگلی سور کا بھی شکار کرتا ہے۔ یہ جانوروں کی گزرگاہ پر گھات لگاتا ہے۔ جب جانور نزدیک پہنچتا ہے تو یہ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر غراتے ہوئے اس پر جست لگاتا ہے۔ اپنے وزن کی مدد سے یہ اپنے شکار کو نیچے گراتا ہے اور اپنے دانتوں اور پنجوں سے اسے دبا لیتا ہے اور اکثر شکار کے بچنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔
ان کہانیوں نے ہمیں جیسے مسحور کر دیا ہو۔ ہم نے اس بارے بے شمار سوالات کیے۔ یہ لوگ ہمیں ہر چیز بتانے کو تیار تھے جو وہ جانتے تھے یا جس پر یقین رکھتے تھے۔ کئی کہانیاں بہت عجیب تھیں۔ آخر پر تو ہاشم کا منہ کھلا اور نتھنے جوش کے مارے پھڑپھڑا رہے تھے۔
بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہم ایک جنگلی سور کو ہلاک کر کے کھلے میں ڈال دیں تو کافی وران جمع ہو جائیں گے۔ مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ جہاں ہم ان جانوروں کو دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے قریب ہی سور کو مارنا بہتر رہے گا۔ چونکہ ہم نے سمندر میں بہت وقت گزارا تھا، اس لیے ہم فوری نکلنے کو تیار تھے کہ شکار سے ہمیں زیادہ دلچسپی تھی۔ کمپونگ کے آس پاس جنگلی سور بہت مل جاتے، اس لیے ہم نے ہانکے کی بجائے شکار کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس جگہ لوگ گھوڑے پر بغیر زین کے سوار ہو کر ہاتھ میں نیزے لیے اور کتوں کی مدد سے بارہ سنگھے کا گھاس کے میدانوں میں پیچھا کرتے ہیں اگر ہمارے پاس مزید وقت ہوتا تو ہم بھی اس شکار میں حصہ لیتے مگر وقت کی تنگی کے باعث ہم نے اپنے طریقے کو ترجیح دی۔
ہم نے اپنی بندوقیں نکالیں اور دو مقامی افراد کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ پہاڑی علاقہ گاؤں کے ساتھ ہی شروع ہو گیا جس میں جگہ جگہ تنگ کھائیاں بھی تھیں۔ کمپونگ سے آدھا میل دور ہی ایک کھائی سے ایک بارہ سنگھا نکل کر بھاگا۔ ہم اتنی جلدی کسی جانور کے لیے تیار نہیں تھے، سو یہ بارہ سنگھا ہم سے بچ کر نکل گیا۔
تھوڑا آگے جا کر جہاں النگ النگ گھاس میں پام کے درخت دکھائی دینے لگے تو ہمیں دیگر جانوروں کی آوازیں آنے لگیں۔ یہاں بہت زیادہ سور تھے جو ہمیں آسانی سے قریب آنے دے رہے تھے۔ ایک جنگلی سور تو اس طرح کھڑا ہو گیا کہ جیسے اسے ہم سے ملاقات کا شوق ہو۔ ہم نے اس کے سر کو اوپر نیچے ہوتے دیکھا اور پھر جب دور ایک اور سور نے چیخ ماری تو یہ بھی بھاگ کھڑا ہوا۔
تاہم ہمارا ارادہ تھا کہ ہم کافی آگے جائیں گے۔ کمپونگ کے نمبردار نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ خلیج لتوہو کے آس پاس اپنا کیمپ لگائیں تو زیادہ فائدہ مند ہو گا۔ یہ وادی اس جزیرے کے دوسرے سرے پر کمپونگ کموڈو سے پانچ گھنٹے کے فاصلے پر تھی۔ جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ ہم نے بہت بڑا جانور شکار کیا ہے۔ اس کا پیٹ چاک کر کے آنتیں وغیرہ نکالنے کے بعد بھی اس کا اتنا وزن تھا کہ دو رہنما اسے بمشکل اٹھا پا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح وہ زیادہ فاصلے تک اسے نہ لے جا سکتے تھے۔ اس لیے ہم چاہے جتنا افسوس کرتے، مگر اسے وہیں چھوڑ کر جانا پڑا۔ ہم نے محض گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا۔
ہمارا ارادہ تھا کہ رات ہم کمپونگ سے نصف گھنٹے کی مسافت پر کسی ندی کے ریتلے کنارے پر بسر کریں گے۔ چونکہ بارش کا کوئی امکان نہیں تھا، اس لیے ہمیں خیمہ بھی لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔
دو مقامی افراد ہمارے ساتھ رہے۔ یہ ہماری عادت تھی کہ اجنبی جگہ پہنچ کر ہم ہمیشہ چند مقامی افراد اپنے ساتھ رکھتے۔ اس سے کئی فائدے تھے، مثلاً انہیں مقامی خطرات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ہمیں درندوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ کموڈو کے جزیرے میں کوئی درندہ نہیں پایا جاتا۔ وران ہماری موجودگی سے گھبرا کر بھاگ جاتے۔ مگر ہم نے دیکھا کہ ہمارے مقامی ساتھیوں نے شام ہوتے ہی آگ جلا کر کھانا تیار کیا اور کھانے کے بعد جونہی تاریکی پھیلنا شروع ہوئی، انہوں نے آگ بجھا دی۔ سماٹرا میں مچھروں کو بھگانے کے لیے ہمیشہ آگ ساری رات جلائی جاتی ہے۔ جب ہم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آگ اس لیے بجھائی گئی ہے تاکہ سانپ متوجہ نہ ہوں۔ اس علاقے میں پف ایڈر نامی ایک بہت زہریلا سانپ ملتا ہے جس کے کاٹنے سے انسان نصف گھنٹے میں بہت تکلیف دہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ رات کے وقت جب پہاڑیوں سے سرد ہوا چلتی ہے تو سرد خون والے سانپ فوراً آگ کا رخ کرتے ہیں۔
سانپ سے بچاؤ کا ایک اور طریقہ بھی ہے کہ آپ بالوں سے بنی رسی کو اپنے بستر کے اردگرد پھیلا دیں۔ لوگ کانٹے دار شاخوں سے کو ایک دوسرے سے بل دے کر بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب سانپ حرکت کرتے ہیں تو ان کے چھلکوں کے درمیان خلا پیدا ہوتا ہے۔ بال یا کانٹے جب اس خلا میں گھستے ہیں تو سانپوں سے یہ برداشت نہیں ہو پاتا۔ آپ نے دیکھا کہ انجان علاقے میں مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے سے کتنا فائدہ ہوتا ہے۔
مگر یہ بھی یاد رہے کہ مقامی افراد کے بارے آپ کو کچھ نہ کچھ علم ہونا چاہیے ورنہ اور بھی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک بار میں نے بورنیو میں ایک ڈجاک رہبر ملازم رکھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ فلاں جگہ جانے پر کتنا وقت لگے گا۔ اس نے جواب دیا: ‘جتنی دیر سگریٹ پینے میں لگتی ہے۔ ‘ مجھے سگریٹ پینے میں تقریباً سات منٹ لگتے ہیں۔ سو میں نے سوچا کہ یہ بہت مختصر فاصلہ ہے۔ سو ہم چل پڑے۔ دس منٹ بعد پوچھا کہ کتنی مسافت باقی ہے تو وہی جواب ملا۔ گھنٹے بھر کے سفر کے بعد پوچھنے پر یہی جواب ملا۔ دس گھنٹے بعد بھی ہمارا سفر جاری تھا۔ خیر، اس روز مجھے ڈجاک لوگوں کے وقت کے تخمینے کا اندازہ ہو گیا۔ ایک سگریٹ سے مراد مکئی کے خشک پتوں کا پورا پیکٹ تھا جن میں وہ تمباکو لپیٹتے ہیں (تمباکو کے ساتھ وہ اکثر گوبھی کے پتے بھی ملا لیتے ہیں )۔ اس ایک پیکٹ کے پینے کا دورانیہ اتنا تھا کہ ہم نے نو اچھی جسامت کی پہاڑیاں، تین کھائیاں عبور کیں اور پورا دن اسی سفر پر لگا۔
مقامی لوگوں کی عادات کے بارے جاننا ایک اور وجہ سے بھی اہم ہے۔ مندرجہ بالا سفر کے دوران ایک بار پورے دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم نے دریا کے کنارے کیمپ لگا لیا۔ ہمارے ساتھ ہی ایک اور کیمپ تھا جو ڈجاک لوگ سفر کرتے ہوئے استعمال کرتے تھے۔ چھوٹی سبز مکھیوں جنہیں اگاگ کہا جاتا ہے، اور پسینے سے میرے پورے بدن پر کھجلی ہو رہی تھی۔ اندھیرا چھانے سے قبل میں نے تازہ دم ہونے کے لیے غسل لیا۔ پندرہ منٹ غسل اور تیراکی کے بعد میں باہر نکلا۔ کنارے پر ایک بوڑھا ڈجاک بیٹھا مجھے دلچسپی سے دیکھے جا رہا تھا۔ میں نے اس کی جانب دوستانہ انداز میں مسکرا کر دیکھا تو اس نے بھی مسکراہٹ سے جواب دیا۔ رات کے کھانے کو بیٹھا تو مجھے ہلکی سی تعفن کی بو آنے لگی۔ یہ بو جنگل سے آ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید کسی جانور کی لاش ہو گی اور ڈجاک سے پوچھا۔
یہ لاش ایک انسان کی تھی جو ڈجاک روایات کے مطابق جنگل میں سو گز دور ‘دفن’ کی گئی تھی۔ یہ لوگ اپنے مردوں کو کسی درخت پر اونچی جگہ تختے پر رکھ دیتے ہیں تاکہ مردار خور پرندے اور چیونٹیاں اسے کھا سکیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ چند روز قبل مگرمچھ نے اسی جگہ ایک بچے کو اپنا لقمہ بنایا تھا۔
جب میں نے اپنے غسل کے بارے سوچا تو میری سانس رکنے لگی۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا اس دریا میں مگرمچھ ہیں ؟ اس نے بتایا کہ ہاں، بہت سارے مگرمچھ ہیں۔ جب میں نے پوچھا، ‘بھلے آدمی، مجھے خبردار کرنے کی بجائے تم بیٹھ کر کیا تماشا دیکھتے رہے ؟’
ڈجاک نے انتہائی معصومیت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے پوچھا کب تھا؟ اس نے بتایا کہ اس کے خیال میں جب تک تھوان کچھ نہ پوچھے، اسے کچھ بتانا بد اخلاقی ہو گی۔
آپ کو نہ صرف مقامی لوگوں کی عادات اور ان کی روایات سے واقفیت رکھنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ ان کے ساتھ بے تکلف بھی ہوں تاکہ ان کی فطری شرم انہیں آپ سے بات کرنے سے روک نہ سکے۔
اس طرح ہمارے رہنماؤں کی مہربانی سے آگ بجھ گئی ورنہ ہم اس کے گرد بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔ مگر اب ہمارے اوپر ستاروں سے بھرا بہت خوبصورت آسمان تھا اور سرد اور تکلیف دہ ہوا چل رہی تھی۔ یہ رات ہم نے اپنے پتلے کمبلوں میں ٹھٹھرتے ہوئے گزاری۔
افق پر روشنی نمودار ہوتے ہی ہم اٹھ بیٹھے۔ فوراً ہی آگ جلا دی گئی۔ آگ کے ساتھ بیٹھ کر ہم نے اپنے یخ بستہ اعضا تاپے اور گرم کافی بنا کر پی اور پھر غسل کے بعد بالکل تازہ دم ہو گئے۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کتنی جلدی سردی کی جگہ حدت اور پھر گرمی آ جاتی ہے۔ تھوڑے ہی وقت میں ساری فضا گرمی سے جھلسنے لگی۔
جلد ہی ہم لتوہو کی طرف روانہ ہو گئے۔ سارا علاقہ بنجر اور خالی تھا جیسے چاند کی سرزمین ہو۔ پتھریلی چٹانوں پر بمشکل ہی کوئی سبزہ دکھائی دیتا اور ہر چیز دن اور رات کے درجہ حرارت کے اتنے وسیع فرق کی وجہ سے ناکارہ ہو جاتی ہو گی۔ گہری کھائیوں میں کہیں کہیں کوسمبی اور کموننگ کے درخت مل جاتے تھے اور کہیں کہیں پام کے جھنڈ بھی دکھائی دے جاتے جو النگ النگ گھاس میں دور سے دکھائی دے جاتے۔ بہت دشوار راستہ تھا جس پر پتھر اور گڑھے وغیرہ بکثرت تھے۔ سارا راستہ ہی بھیانک خواب لگ رہا تھا اور انہی جگہوں پر ہی ظاہر ہے کہ کموڈو ڈریگن پائے جانے تھے۔
ہم ہانپتے کانپے، پسینے میں شرابور اور بالکل خاموشی سے چلتے گئے۔ ایک بار ہمارے رہنما نے ایک پہاڑی پر بھاگتے ہوئے بارہ سنگھے کی جانب اشارہ کیا۔
جب ہم اس طرح راستے پر تین گھنٹے جتنا چل چکے تو ہمارے رہنما نے رکنے کا اشارہ کیا۔ یہیں کہیں ہمیں جنگلی سور کا شکار کرنا تھا۔ ایک کوسمبی درخت کے سائے تلے اپنا سامان رکھ کر ہم ایک گھنی کھائی میں گھسے جہاں سوروں کی بہت ساری گزرگاہیں تھیں۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے ایک مناسب جسامت کے سور کو شکار کر لیا تاکہ اسے لتوہو لے جانے میں دقت نہ ہو۔
منزل پر پہنچنے سے ذرا قبل ایک مزے کا واقعہ ہوا۔ ہمارا رہنما آگے چلتے چلتے اچانک رک کر بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے کہ اس نے کچھ دیکھا ہو گا۔ میں احتیاط اور خاموشی سے اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ بمشکل تیس گز دور ہمارا پہلا بواجہ درات ایک تنے پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔
اگر اس کی بجائے کوئی سور یا بارہ سنگھا ہوتا تو ہماری بو سونگھ کر فرار ہو چکا ہوتا۔ مگر یہ بواجہ درات وہیں بیٹھا دوسری جانب دیکھ رہا تھا کہ جیسے اسے ہماری موجودگی کا علم ہی نہ ہو۔
اس کی گہرے رنگ والی کھال سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ کھال اس کے جسم پر لٹک رہی تھی۔ اوپری سطح تہہ دار اور جھریوں بھری تھی جیسے کسی درزی نے یہ کھال اس کے بڑے ہونے کی گنجائش کے ساتھ بنائی ہو۔ مضبوط پیروں پر بڑے اور تیز ناخن تھے۔
ہم نے سکون سے رک کر وران کو دیکھا۔ پھر میں نے رہنما کی آواز سنی جو عام آواز میں کہہ رہا تھا کہ اس کی غار شاید سامنے والی جھاڑیوں کے پیچھے پہاڑی غار ہو گی جو ہمیں کچھ کچھ دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے غصے سے اسے اشارہ کیا کہ ذرا آہستہ آواز میں بولے۔ مگر اس نے سر ہلایا اور اسی طرح زور سے بتایا کہ بواجہ درات تقریباً بہرے ہوتے ہیں۔ اس کی بات سچ تھی کیونکہ یہ بواجہ درات اس طرح بیٹھا رہا کہ جیسے اس نے کچھ نہ سنا ہو۔
ہمارے رہنما نے بتایا کہ وران کی آنکھیں اور ناک بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ مجھے اس سے تجسس ہوا اور میں نے ایک پتھر اٹھا کر پوری طاقت سے وران کے بالکل سامنے درخت کے تنے پر مارا۔ تھوڑا سا غبار اڑا اور پتھر جھاڑیوں میں جا گرا۔ وران کے جسم میں جیسے کوئی لہر دوڑ گئی ہو، اس نے سر اٹھا کر تنے کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔ ہم نے دیکھا کہ سورج کی روشنی میں اس کی دو مونہی زبان چمکی اور پھر وہ بھاگ نکلا جیسے کوئی بڑا مگرمچھ اپنا جسم بلند کر کے بھاگتا ہے۔ چند لمحوں میں وہ گھاس میں گھس کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔
ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اب ہمیں سورج کی حدت یا تھکاوٹ کا احساس نہیں رہا تھا کہ ہم نے اپنا پہلا وران دیکھ لیا تھا۔ یہ کم عمر اور چھوٹا تھا مگر ہم نے حقیقی وران دیکھ تو لیا تھا۔ اب امید تھی کہ بڑے اور بالغ وران بھی سامنے آئیں گے۔
ہم لیتوہو کی وادی کو جا پہنچے جو وسیع تھی اور اس میں جھاڑیاں، کموننگ درخت اور پام کے درخت بھی تھے۔ ڈھلوان پہاڑیوں پر سرخ اور پیلے پتھروں کی چوڑی پٹیاں تھیں۔ سورج اور ہوا اور کٹاؤ کی وجہ سے یہ پتھر نکل آئے تھے۔ ان پہاڑیوں کے پیچھے خلیج سے سمندری موجوں کی آواز آ رہی تھی۔
ہمارے قیام اور کیمپ کے لیے ایک چوڑی پٹی صاف کر دی گئی اور ہمارے مقامی ساتھیوں نے زمین اور درختوں کے سوکھے تنے بجانے شروع کر دیے تاکہ اگر کوئی پف ایڈر چھپے ہوئے ہوں تو بھاگ جائیں۔ جب بھاری کام ہو گئے تو میرا دوست مقامی لوگوں کے ساتھ سور کی لاش کے لیے مناسب مقام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ گھنٹے بھر بعد وہ لوٹے۔ انہوں نے ایک کھائی میں وران کی جائے قیام تلاش کر لی تھی اور اس کے سامنے لاش کو رکھ کر چلے آئے تھے۔ اگر ہماری قسمت ساتھ دیتی تو سہ پہر تک ہمیں وران لازمی دکھائی دیتے۔
اس دوران ہاشم ہمارے لیے کھانا تیار کرتا رہا۔ نہانے کے بعد ہم خیمے کے سائے میں بیٹھ گئے اور اس کے نیچے ہم نے بہترین چاول کھائے۔ یہ خیمہ ہم نے دو درختوں کے درمیان لگایا ہوا تھا۔
بھرے پیٹ اور شدید گرمی کی وجہ سے ہم وہیں سو گئے۔ ویسے بھی اس وقت اور کیا کر سکتے تھے۔ ہم سہ پہر کو تین بجے بیدار ہوئے اور پسینے سے نہائے ہوئے جیسے کسی تندور میں ہوں۔ اب ہمارا خیمہ ہی ساری حرارت کو قید کر کے ہمیں اذیت دیے جا رہا تھا۔ دن کے وقت یہاں درخت کے سائے تلے آرام کرنا بہتر رہتا ہے۔ درخت کے سائے کے علاوہ ہر طرف سے ہوا چلتی ہے۔
ہم ایک بار پھر نہائے اور تیز کافی پینے کے بعد نکل کھڑے ہوئے۔ جس کھائی میں لاش رکھی گئی تھی، وہ ہمارے کیمپ سے نصف گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ اس کی چوڑائی ڈیڑھ سو گز تھی اور اس میں جگہ جگہ کھائیاں اور غاریں سی بنی ہوئی تھیں۔ کھائی کی ایک جانب ایک گز اونچی گھاس اگی ہوئی تھی اور دوسری جانب پتھروں، سوکھے درختوں اور ٹہنیوں سے اٹی ہوئی۔ میرے دوست نے وران کی غار کی جانب اشارہ کیا۔ مجھے اس جگہ ایک چٹان کے نیچے سوراخ دکھائی دیا جہاں ایک مردہ کموننگ درخت جو کہ سفید رنگ کا تھا، جھکا ہوا تھا۔ لاش ایک چھوٹے سے نشیب میں تھی جو گھاس سے بیس گز کی مسافت پر رہا ہو گا اور ہمیں وہاں کئی وران پیٹ بھرتے دکھائی دیے۔ لاش سے بو اٹھنے لگ گئی تھی۔
میرے دوست نے یہاں ایک ایسی جگہ چنی تھی جہاں بیٹھ کر ہم وران کو دیکھ سکتے تھے۔ یہ جگہ ایک اونچائی پر تھی اور یہاں سے پوری کھائی اور اس میں چلنے والے ہر جانور کا بہترین نظارہ دکھائی دیتا تھا۔ ہماری کمین گاہ کے سامنے جھاڑیاں لگا کر اسے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ وران کی دیکھنے کی صلاحیت انتہائی حیرت انگیز ہوتی ہے۔
ہاشم دونوں مقامی ساتھیوں کے ساتھ کسی جانور کے شکار پر نکل کھڑا ہوا تاکہ ان لوگوں کو بطور انعام دیا جا سکے۔ میں اور میرا دوست یہیں رک گئے۔ ہم نے بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنا چاہی مگر ناکام رہے۔ پہاڑی کی سطح غیر ہموار اور تندور کی مانند دہک رہی تھی۔ ہم نے ہر ممکن کوشش سے کم تکلیف دہ جگہیں چنیں اور جم گئے۔
سب سے پہلے انگرنگ یعنی لال چیونٹے آئے۔ ان کے جسم کا بڑا حصہ ان کے سر پر مشتمل ہوتا ہے اور سر کا بھی بڑا حصہ محض جبڑا۔ جب یہ چیونٹے کاٹتے ہیں تو انسان تکلیف کی شدت سے اچھل پڑتا ہے۔
یہ چیونٹے پاس موجود کسی کھوکھلے تنے سے آئے ہوں گے۔ ہم نے تو انہیں نہیں چھیڑا مگر شاید ہم ان کے علاقے میں بیٹھے تھے۔ ان سے چھٹکارا پانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہمیں اچھلنا گوارا نہیں تھا کہ ہم وران کے غار کے عین سامنے بیٹھے تھے۔
ہم پینتالیس منٹ تک ان لال چیونٹوں کے رحم و کرم پر رہے اور پھر بواجا درات آن پہنچا۔ میرے دوست نے اسے پہلے دیکھا۔ اس نے لمبی گھاس میں کسی چیز کی طرف اشارہ کیا۔ ہلکی سی لہر کی سی حرکت ہو رہی تھی جیسے کوئی چیز گھاس میں احتیاط سے چلتے ہوئے کھلے کو آ رہی ہو۔ بار بار یہ حرکت رک جاتی۔ کئی منٹ تک ہمیں وران کا محض چپٹا سر دکھائی دیتا جو آس پاس کا جائزہ لے رہا ہوتا تھا۔ پھر سر غائب ہو جاتا اور وران آگے کو چل پڑتا۔
مطلوبہ جانور کو لمبی گھاس میں چلتا دیکھنا بہت مزے کا ہوتا ہے۔ جانور کی پیش قدمی کا ہر گز ہیجان میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔
جب وران ابھی گھاس میں ہی تھا کہ ہم نے پہاڑیوں پر سے گولی کی آواز سنی۔ ہاشم کو مطلوبہ شکار مل گیا ہو گا۔ اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ وران نے یہ آواز سنی ہو گی۔ مگر اس نے سنی بھی تو ان سنی کر دی ہو گی۔ اس نے آرام سے اپنا سفر جاری رکھا اور آہستہ آہستہ کھلے کے قریب ہوتا گیا۔ گھاس کے سرے پر آن کر وہ کچھ دیر رکا اور پھر باہر نکل آیا۔ بہترین جانور جو کہ کم از کم دس فٹ لمبا ہو گا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی غراہٹیں ہمیں بخوبی سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے سیدھا لاش کا رخ کیا۔ وہ لاش پر چڑھ کر اپنے پنجوں کو کھبو کر اوپر اٹھا اور ہر طرف دیکھنے لگا۔
یہ منظر دم بخود کرنے والا تھا۔ اس کا چپٹا سر سورج کی روشنی میں تانبے کی مانند چمک رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی موٹی گردن گھماتا رہا۔ اس پورے بے جان منظر میں اس واحد جانور نے جیسے جان بھر دی ہو۔ یہ تصویر کسی قسم کے تکلفات اور تفاصیل سے پاک تھی اور اس ماحول میں وران عجیب قسم کی خوبصورتی لگا۔ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم اچانک لاکھوں سال قبل پہنچ کر کسی قدیم بلا کو دیکھ رہے ہوں۔
پھر وران نے احتیاط کا دامن چھوڑ کر لاش کو کھانا شروع کیا۔ سڑتے ہوئے گوشت سے بڑے بڑے لوتھڑے نوچ کر اس نے کھانا شروع کر دیے۔ اس کی اس حرکت سے ہم پر طاری سحر ختم ہو گیا اور ہم واپس حال میں لوٹ آئے۔ اب ہم پھر کموڈو کے جنگل میں تھے اور یہ قدیم بلا محض ایک مردار خور بدصورت جانور تھی۔
اچانک ہم نے ایک اور وران کی موجودگی محسوس کی۔ یہ جانور نسبتاً چھوٹا تھا اور اس نے اپنے پیروں پر خود کو اٹھایا ہوا تھا اور پہلے والے کی مانند غراتا آ رہا تھا۔ پہلے وران نے مڑ کر دیکھا اور ہمیں نے اس کے بد ہیئت جسم میں ایک لہر سی دوڑتی دیکھی۔ پھر اس نے غصے سے خود کو اوپر اٹھایا۔
چھوٹا وران رک کر مڑا اور انتظار کرنے لگا۔ دونوں وران کچھ دیر اسی طرح رکے رہے۔ پھر بڑے وران نے لاش سے پیٹ بھرنا شروع کر دیا۔ دوسرے نے کچھ انتظار کیا اور پھر آہستگی سے آگے بڑھنے لگا۔ بڑے نے ایک بار پھر اسے دیکھا اور پھنکارا۔ مگر لڑائی نہیں ہوئی اور دوسرے وران نے بھی کھانا شروع کر دیا۔ اس کی اوپر کو اٹھی ہوئی دم بتا رہی تھی کہ وہ ابھی بھی خبردار ہے۔ لاش ہلتی اور الٹ پلٹ ہوتی رہی کہ دونوں وران اس سے پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ کھینچا تانی بھی کرتے رہے۔
معلوم نہیں کہ ہم کتنی دیر اس منظر کو دیکھتے رہے اور مشینی انداز میں اپنے جسم سے لال چیونٹے ہٹاتے رہے۔ اچانک کھائی میں ڈھلتے ہوئے سایوں نے ہمیں خبردار کیا کہ تاریکی چھانے والی ہے۔ سورج کو جیسے غروب ہونے کی جلدی ہو۔
میرے دوست نے سرگوشی کی، ‘چلنا چاہیے ؟’ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اس نے ایک شاخ کو ہلانا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو وران کو علم نہ ہوا مگر پھر بڑے وران نے اچانک ہماری سمت دیکھا اور پھنکار کر اس نے فرار کی راہ اختیار کی۔ چھوٹا بھی اس کے ساتھ بھاگا۔ ان کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہم بمشکل دیکھ پا رہے تھے۔
پھر ہم اپنی نشستوں سے اٹھے اور بچے کچھے لال چیونٹے نوچ کر الگ کیے اور نیچے اتر کر لاش کی طرف گئے۔ قریب پہنچے تو مکھیوں کا ایک بادل سا اٹھا۔ بدبو ناقابلِ برداشت تھی مگر لاش میں اب بہت کم گوشت بچا تھا۔ ہم نے وران کے راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر دھوپ کی وجہ سے زمین اتنی سخت تھی کہ کچھ نہ دکھائی دیا۔ اس تعفن سے ہمارا جی الٹنے لگا اور ہم نے کیمپ کی راہ لی۔ کھائی تقریباً تاریک ہو چکی تھی اور ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی۔
کیمپ پہنچے تو دیکھا کہ سبھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ہاشم نے ایک جوان ہرن مارا تھا۔ انہوں نے اسے درخت سے الٹا لٹکایا اور اب اس کا گوشت کاٹ رہے تھے۔ دو الاؤ بھی روشن تھے اور کموڈو آدمی ان کے اوپر ہری شاخوں کو پرو کر چھجا بنا رہے تھے۔ اس پر انہوں نے شکار کے گوشت کی پتلی پتلی پٹیوں کو دھواں دینا شروع کر دیا۔ پورے کیمپ میں پکتے گوشت کی خوشگوار مہک پھیلی ہوئی تھی۔
ابلے چاولوں کا برتن تیار تھا اور چائے کی کیتلی بھی۔ جتنی دیر ہم پیٹ بھرتے، ہم نے گفتگو جاری رکھی۔ اپنے رہنماؤں کو شکار کردہ ہرن کے گوشت سے لطف اندوز ہوتے دیکھنا بہت اطمینان بخش تجربہ تھا۔ ان کی زندگی بہت سخت اور مشقت بھری ہوتی ہے اور انہیں پیٹ بھر کر مزیدار کھانا کم ہی کھانے کو ملتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اس بار خوب انصاف کیا اور پیٹ بھر کر گوشت کھایا۔
وران کو دیکھنے کے لیے ہمارے پاس کل چار دن تھے۔ پھر ہمارا جہاز لیتوہو خلیج آ جاتا۔ ایک دن ہم وران کی غار کو گئے۔ یہ غار ایک گہری کھائی میں تھا جہاں گھاس اور اکا دکا درخت بھی تھے۔ ایک زخمی سور کا پیچھا کرتے ہوئے ہاشم نے اسے دریافت کیا۔ تاہم اس نے اکیلا اندر جانے کی کوشش نہیں کی۔ جب ہم غار کے منہ پر کھڑے ہوئے تو مجھے سمجھ آئی کہ ہاشم کیوں نہیں گیا۔ اس کی وجہ خوف نہیں بلکہ توہم پرستی تھی۔ اس غار سے سڑتے ہوئے گوشت کی بو آ رہی تھی۔ تقریباً تمام مشرقی آدمیوں کی طرح ہاشم کو بھی موت سے متعلق کسی بھی چیز سے خوف آتا تھا۔ اس لیے اس نے ہمیں اس غار کی تلاشی کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔
ہم نے کئی غاریں دیکھی تھیں مگر ایسا بڑا غار پہلی بار دیکھا۔ افسوس کہ ہمارے پاس لیمپ یا ٹارچ نہیں تھی۔ ہم نے ایک خشک شاخ جلائی اور اس کی مدد سے اندر داخل ہوئے۔
غار کے منہ کے پاس ہی ہمیں خشک ہڈیوں کا ایک چھوٹا ڈھیر دکھائی دیا جو کسی کم عمر جانور کی ہڈیاں لگ رہی تھیں۔ تاہم یہ بو ان ہڈیوں سے نہیں آ سکتی تھی۔ غار تقریباً پانچ فٹ اونچی تھی۔ منہ سے دس فٹ آگے اس کی تین شاخیں ہو گئیں۔ اندر کا ماحول بہت نم اور گرم تھا۔ جیسے کوئی دلدل ہو۔ ہماری مشعل کی لرزتی روشنی میں ہر چیز عجیب لگ رہی تھی۔ تعفن ہر قدم پر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
درمیانی راستہ تیزی سے تنگ ہوتا گیا اور پھر آگے جا کر مڑا۔ اسی سے ہی شاید بو آ رہی تھی کیونکہ جونہی اس میں روشنی داخل ہوئی تو اندر پوشیدہ وران کے پھنکارنے کی آواز آنے لگی۔ پھر سخت کھال والے کسی جانور ہمیں پتھریلی دیواروں پر چلنے کی آواز آنے لگی۔
ہماری مشعل بجھنے والی تھی، سو ہم نے باہر کا رخ کیا۔ اگر مشعل بجھ جاتی تو ہم تاریکی میں ایک انجان وران کے رحم و کرم پر رہ جاتے جو پہلے ہی ہماری موجودگی سے ناراض تھا۔
ہمیں زیادہ تو دکھائی نہ دیا مگر یہ پتہ چل گیا کہ وران جس ماحول میں رہتے ہیں، وہ زہریلا اور متلی دلانے والا ہوتا ہے۔
اگلے دن ہمیں ایک گھوڑے کی آدھ کھائی لاش ملی۔ مقامی افراد نے اسے فوراً پہچان لیا کہ یہ اسی گاؤں کے ایک اور بندے کا گھوڑا تھا۔ یہ لوگ ہر سال افزائشِ نسل کے موسم میں اپنے گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ نئی نسل سخت جان پیدا ہو۔
میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وران گھوڑے کو بھی مار سکتے ہیں۔ وران گھوڑے کی طرح برق رفتار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے پنجے اتنے طاقتور کہ وہ جانور کو دبوچ سکیں۔ تاہم رہنماؤں نے بتایا کہ بواجہ درات ہمیشہ کسی درخت پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب کوئی گھوڑا نیچے سائے میں آرام کرنے آتا ہے تو یہ اس پر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور اس کی گردن اور پشت پر پنجے جما کر اسے بھنبھوڑتے ہیں۔ حملے کے مقام سے میلوں دور بھاگ کر چوبیس گھنٹے میں ہی گھوڑا انتہائی تکلیف دہ موت مر جاتا ہے۔ وران کو شاید ہی اپنا شکار کردہ جانور مل پاتا ہو۔
اس وضاحت سے اس بات کا بھی ہمیں جواب مل گیا کہ ہمیں درختوں پر وران کے پنجوں کے نشان اتنے بکثرت کیوں دکھائی دیتے تھے حالانکہ ہم نے کبھی کوئی وران درخت پر چڑھے نہیں دیکھا۔
ایک بار ہمیں ایک بڑے وران کی لاش دکھائی دی جو پوری طرح کچلی ہوئی اور ریزہ ریزہ تھی اور آس پاس کی گھاس بھی کچلی ہوئی تھی۔ شاید اس وران نے سور کے بچے پر حملہ کیا ہو گا اور اس کی ماں نے غصے میں آ کر اس کے چیتھڑے اڑا دیے۔ عام طور پر وران سور پر بھاری پڑتا ہے مگر جب جنگلی سور کی مادہ غصے میں آ جائے تو شیر بھی اس کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے۔
چوتھے دن ہمارا جہاز لیتوہو خلیج آ گیا۔ ہم نے کیمپ اکھاڑا اور اپنے مقامی رہنماؤں کو رخصت کیا۔ ہم نے انہیں سرونگ اور تمباکو کے علاوہ بھی بہت سے تحائف دیے جن میں سب سے قیمتی شاید تیل کے پانچ کنستر تھے جن میں خشک شدہ گوشت بھرا ہوا تھا۔
جہاز کے عملے کے لیے بھی ہم تیار تھے۔ میرے دوست نے ایک کم عمر ہرن مارا تھا جو ہمارے اور جہاز کے عملے کے لیے دو دن کافی رہا۔
ہم نے سہ پہر کو لنگر اٹھایا اور پھر کچھ دیر بعد کموڈو کے ساحل کو افق پر گم ہوتے دیکھا۔ یہ ایسی جنگلی اور سخت سرزمین تھی کہ جہاں وقت ہمیشہ کے لیے رک گیا تھا اور آخری ‘ڈریگن’ یہاں کے باسی تھے۔
‘پتہ ہے کیا، میں نے کئی بار ان بواجہ درات کو شکار کرنے کا سوچا، چاہے اجازت ہوتی یا نہ ہوتی۔ ہر شام میں جب سارے دن کے واقعات کے بارے سوچتا تو میں ان کے شکار کا فیصلہ کر لیتا۔ کم از کم دس تو ہماری زد میں آئے ہی ہوں گے۔ کئی تو بہت بڑے تھے۔ مگر جب بھی مجھے گولی چلانے کا موقع ملتا، کسی نہ کسی وجہ سے میں گولی نہ چلا پاتا۔ مجھے ان کے بارے سوچ کر افسوس ہوتا ہے۔ یہ جانور ہماری دنیا سے الگ لگتے ہیں مگر سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ کموڈو زرخیز نہیں، مگر اس کا مقصد یہی ہے کہ آخری بچے ہوئے بواجہ درات کو پناہ دے سکے۔ کاش کہ یہ سرزمین بحری اور ہوائی جہازوں کی زد سے ہمیشہ دور رہے۔ ‘ میرے دوست نے کہا۔
میرا دوست سارجنٹ میجر عجیب انسان تھا، بیک وقت فلسفی بھی اور بچہ بھی تھا۔
‘یعنی دیہاتی لوگ یہاں ہمیشہ ہی وران کی خاطر غربت اور تکلیف کی زندگی گزارتے رہیں ؟’ میں نے پوچھا۔
اس نے تکلیف سے سر ہلایا اور کہا، ‘نہیں، ایسے مت کہو۔ یہ میں محض تخیل کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ میں نے اب یہ ‘ڈریگن’ دیکھ لیے تو مجھے علم ہے کہ یہ وجود رکھتے ہیں اور انہی کی وجہ سے دیومالائی داستانیں بنی ہیں۔ شاید یہی تخیل ہی ہم انسانوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بغیر ہماری زندگی بیکار اور خالی ہو جاتی۔ اب چونکہ مجھے علم ہے کہ ‘ڈریگن’ موجود ہیں تو سوچتا ہوں کہ اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پائی جاتی ہوں گی۔ محض تخیل کی خاطر، میں چاہتا ہوں کہ اس جزیرے کو بھلا دیا جائے۔ ‘
ہم نے جزیرے کی سمت دیکھا، تنہائی اور اکیلے پن کی سرزمین۔ سورج ڈوب چکا تھا اور انتہائی خوبصورت رنگوں کے بادل افق پر تیر رہے تھے۔
٭٭٭
باب نہم: تیندوے
تیندوا نہ تو شریف اور نہ ہی اچھا درندہ ہے۔ یہ چھپ چھپا کر آنے والی خاموش موت کا نام ہے اور جتنا محتاط ہوتا ہے اتنا ہی خوفناک بھی۔ تیندوے کے کردار کے بارے بتانے کے لیے میں آپ کو اس تیندوے کے شکار کی مثال دیتا ہوں جسے میں نے پورے دل و جان سے شکار کیا تھا۔ جاوا اور سماٹر میں کئی برس کے قیام کے دوران میں نے کئی تیندوے شکار کیے تھے مگر یہ واحد تیندوا تھا جس کے خلاف میں نے پورے جوش و جذبے سے کام لیا۔ باقی سب تیندوے محض شکار برائے شکار کیے تھے مثلاً ایک تیندوا ربڑ کی پلانٹیشن کے اندر پایا گیا اور اسے پھندے میں پکڑ لیا گیا تھا اور دوسرا تیندوا ہانکے کے دوران نکلا تو میں نے مار لیا۔ تاہم سنگی (دریا) گنگسل کے کنارے اور اندراگری کی سرحد پر ڈجامبی علاقے کا یہ جانور بالکل ہی الگ مخلوق تھا۔
مجھے اس علاقے میں کئی ماہ قبل بھیجا گیا تھا کہ تاکہ ساگو اور ربڑ کی پلانٹیشن کے لیے سڑک بناؤں۔ ان پلانٹیشن کی بدولت یہاں کی مقامی آبادی کا معیارِ زندگی بہتر ہو رہا تھا۔ اگرچہ کام بہت زیادہ تھا مگر معاہدہ زیادہ بڑا نہیں تھا اور کام تیزی سے ہو رہا تھا۔ اس لیے عارضی قیام گاہیں بنانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں بھی ممکن ہوتا، میں کام کے ساتھ ہی آبادی میں کسی جھونپڑے کا بندوبست کر لیتا یا پھر ہم سڑک یا دریا کے کنارے ہی کیمپ لگا لیتے۔ جنگل میں بے انتہا تعمیراتی سامان مل جاتا تھا اور کیمپ کی زندگی بذاتِ خود ایک دلچسپی تھی۔
مئی شروع ہو گیا تھا اور خشک موسم کی ابتدا ہو چلی تھی جس سے کام آسان ہو گیا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جلد ہی ہم یہ کام پورا کر لیں گے۔ ایسے کاموں پر بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں پیش آتی اور وقت سے پہلے ہی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں۔ مگر اچانک ایک تیندوے نے آ کر اودھم مچا دیا۔
یہ بات ہاشم اور میرے لیے آج بھی معمہ ہے کہ اس علاقے میں تیندوا آیا کہاں سے۔ گنجان آباد جاوا میں جنگل محض کھیتوں کے درمیان کہیں کہیں بچ گئے ہیں، تیندوے کی موجودگی کا فوراً علم ہو جاتا اور سماٹرا میں یہ بات مختلف ہے کہ وہاں آج بھی جنگل بہت زیادہ ہیں اور جنگلی درندوں کو انسانی آبادیوں کا رخ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ تیندوے کے لیے یہ بات اور بھی زیادہ درست ہوتی ہے کہ وہ بہت بزدل اور محتاط ہوتا ہے اور اپنے ہی علاقے میں ایک جانور کو ہلاک کرنے کے لیے پورا دن بھی گھات لگا سکتا ہے۔ 19ویں صدی کے آغاز سے ذرا قبل تک محض جاوا کے تیندوے کے بارے بات ہوتی تھی اور یہ بات بھی پوری طرح ثابت نہیں کہ آیا سماٹرا میں تیندوے بھی پائے جاتے ہیں یا نہیں۔
خیر، ہمارے ضلع میں ایک رماؤ دا ان نمودار ہوا۔ ایک دن علی الصبح ہمارے کام کی جگہ کے پاس موجود بپھرے ہوئے دریا کے کنارے اس کا پتہ چلا۔ یہ دریا در اصل ایک گہری اور تیز پہاڑی ندی تھی۔ نیزوں اور کلہاڑیوں سے مسلح کئی لوگ دریا کے کنارے کھڑے تھے اور ان کے پاس چند کمزور کمپونگ گلیڈکر بھی تھے۔ یہ لوگ چلا چلا کر اور ہاتھ کے اشاروں سے دو بندوں کو کچھ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ دو بندے اس دریا میں دو پتھروں پر کھڑے کسی چیز کو دریا میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
میرے مزدوروں میں سے ایک نے چلا کر پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو ان کے جواب میں مجھے صرف ایک لفظ سمجھ آیا، ‘رماؤ دا ان’۔ ہاشم اور میں ہر ممکن تیزی سے نیچے اترے اور ان آدمیوں کے پاس جا پہنچے۔ ان میں مقامی نمبردار بھی تھا اور اس نے بتایا کہ رات کو ایک بڑا تیندوا ایک دیہاتی کے باڑے سے ایک بکری لے گیا۔ انہوں نے اس مقام تک تیندوے کے پیروں کے نشانات کا پیچھا کیا۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ بکری ایک بڑے پتھر کے پاس پھنسی ہوئی پڑی تھی۔
اس جگہ دریا کے آر پار بڑے پتھر اس طرح پڑے تھے کہ چھلانگ لگا کر دریا عبور کیا جا سکتا تھا یعنی ایک قدرتی پل سمجھ لیں۔ میں نے پتھروں پر جست لگاتے ہوئے دریا عبور کیا اور تیندوے کے پگ جا کر دیکھے۔ شاید تیندوا بکری اٹھائے پتھروں پر چھلانگ لگا رہا تھا کہ بکری اس کے منہ سے چھوٹ گئی۔
یہ بکری خوب پلی ہوئی اور بڑی جسامت والی تھی اور اس کے سینگ شاندار تھے۔ اس کی گردن پر کاٹنے کا نشان تھا اور گردن کے مہرے پر بھی زخم کا نشان۔ اس کی زبان کھلے منہ سے باہر لٹک رہی تھی اور آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں۔ مردہ جانور کی آنکھیں ہمیشہ ہی عجیب سا تاثر دیتی ہیں۔
بکری کا مالک تھوان کی موجودگی میں چپ تھا مگر جس طرح وہ پیار سے بکری کے ساتھ بیٹھ کر اس کے سینگ اور کھروں کو بار بار چھو رہا تھا، اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کے کیا جذبات رہے ہوں گے۔ ان غریبوں کے لیے یہی بکری ہی ان کا کل اثاثہ ہوتا ہے جو انہوں نے کسی نہ کسی ہنگامی صورتحال کے لیے بچا کر رکھا ہوتا ہے۔ اور پھر اچانک ایک روز ایسا آتا ہے کہ ان کا باڑہ خالی ہو جاتا ہے۔ خاندان کی ساری جمع پونجی غائب ہو جاتی ہے اور باڑے کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے درندے کے نشانات بتاتے ہیں کہ کیا ہوا۔
ہاشم کے ساتھ میں نے دریا کی دوسری جانب تیندوے کے نشانات کا پیچھا شروع کر دیا۔ پہاڑی ندی کا کنارہ بہت پتھریلا، سخت اور کٹا پھٹا تھا۔ جھاڑ جھنکار بہت زیادہ تھا اور جگہ جگہ بانس اور ایلیفنٹ گراس کے جھنڈ پائے جاتے تھے۔ مٹی خشک اور بھربھری تھی اور جگہ جگہ دیو ہیکل پتھر موجود تھے۔ نشانات جلد ہی غائب ہو گئے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ تیندوا آس پاس کہیں موجود ہو گا۔ شاید بانس کے جھنڈ میں یا پھر النگ النگ گھاس میں۔ تعاقب میں ناکام ہو کر ہم دریا کے کنارے کو واپس لوٹے۔
ہمارے مزدور اور کارکن سارے ہی پہاڑی پر دریا کے دوسرے کنارے جمع تھے اور کام چھوڑ کر اپنی اپنی کدالوں اور بیلچوں کے سہارے کھڑے تیندوے کے بارے باتیں کر رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ تیندوے سے چھٹکارا پانا معمولی کام ہو گا، سو میں نے چلا کر قلیوں کو دریا عبور کر کے اپنی سمت بلایا۔ خوب شور مچاتے اور بلند حوصلے سے یہ سب آن پہنچے۔ ان کے پاس ڈنڈے اور کلہاڑیاں بھی تھیں۔ دیہاتی بھی ان کے ساتھ اپنے کتوں کو اٹھا کر پتھروں کو پھلانگتے دریا عبور کر کے آن پہنچے۔ چند منٹ میں میرے پاس ہانکے کے لیے سو افراد جمع ہو گئے تھے۔
میں نے انہیں ہدایت کی کہ میں ندی کے بہاؤ کی سمت تین سو گز آگے جا کر ان کا انتظار کرتا ہوں۔ اس جگہ کھلا میدان تھا جو دریا کے کنارے واقع تھا۔ اگر ہانکے والے بہاؤ کی مخالف سمت سو گز جا کر ہانکا شروع کرتے اور ہاشم ان کی قطار کا خیال رکھتا تو پورا امکان تھا کہ تیندوا گھنٹے بھر میں شکار ہو جاتا۔
ضروری ہدایات اور نصیحتوں کے بعد میں ہر ممکن تیزی سے پہاڑ پر چڑھا اور مسلسل تیندوے کے حملے سے خبردار رہا کہ وہ کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ کھانستا اور پسینے سے شرابور میں آخر منزل پر جا پہنچا۔ اس جگہ مجھے نیچے بپھرے ہوئے دریا کا بہترین نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہانکے والے جھاڑیوں میں غائب ہو چکے تھے۔ میرے پاس اپنی تین نالی بندوق تھی جو ہمیشہ شیروں کی وجہ سے میرے پاس ہی رہتی تھی۔ میں نے ایک اچھے حجم کے پتھر کو اپنی نشست بنایا۔ پندرہ منٹ بعد ہی مجھے ہانکے والوں کی آوازیں سنائی دینے لگ گئیں جو شور مچاتے اور درختوں اور بانسوں پر لاٹھیاں مارتے آ رہے تھے۔ میں نے اپنے نیچے گھاس کے میدان پر کڑی نظر رکھی۔ ہانکے والے ابھی کئی سو گز دور تھے مگر تجربے سے میں جانتا تھا کہ اکثر پہلی آواز سن کر ہی درندے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
اچانک دور سے مجھے کتوں کی آواز آئی جو شاید تیندوے کی تازہ بو سونگھ کر بھونک رہے تھے۔ ان کی آواز سے کھائی گونج رہی تھی اور صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے تیندوے کا پیچھا شروع کر دیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ جب عام شکار پر نکلتے ہوئے کتوں کو کسی بھی جانور کی بو آ جائے تو وہ اس کا پیچھا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر کسی خاص شکار پر نکلتے ہوئے انہیں کسی جانور کی بو سنگھا دی جائے تو پھر وہ اور کسی جانور پر توجہ نہیں دیتے۔ تاہم یہ تجربہ کار کتوں کی بات ہو رہی ہے۔ پہلی بار شکار پر نکلنے والا کتا ہر جانور پر بھونکتا ہے چاہے وہ درخت پر بیٹھا مینڈک ہو، سانپ، وران یا کچھ اور۔ تاہم یہ کتے تجربہ کار تھے اور ان کے جسم پر لگے سور کی کچلیوں کے زخم اور خاردار جھاڑیوں سے گزرنے کے نشانات صاف دکھائی دیتے تھے۔ اب انہوں نے تیندوے کی بو پر بھونکنا تھا۔
تاہم یہ آواز میری سمت آتی ہوئی نہیں بلکہ مجھ سے دور اور پہاڑی کے اوپر کو جاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یعنی تیندوا پہلو کی جانب سے بھاگنے کے چکر میں تھا۔ ہر ممکن تیزی سے میں بھی اسی سمت بھاگا اور پتھروں پر چڑھتا اور جھاڑیوں کو چیرتا ہوا نکلا۔ مجھے یقین تھا کہ ہاشم بھی اسی جگہ کا رخ کر چکا ہو گا تاکہ تیندوے کے فرار سے قبل اسے شکار کر سکے۔
تاہم گولی کی آواز نہ آئی۔ میں نے سرتوڑ کوشش کی مگر چوٹی پر جب پہنچا تو ہانکے والے چند افراد بھی آ چکے تھے۔ ان کے بدن پیسنے سے لشک رہے تھے اور خراشوں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لوگ افسوس سے کتوں کو تیندوے کا پیچھا کرتے دیکھ رہے تھے جو اب ہم سے مسلسل دور ہوتے جا رہے تھے۔ تیندوا بچ نکلا۔
اگلا کام تیندوے کے فرار کی راہ تلاش کرنا تھا۔ ہم نے پورے علاقے اور جھاڑیوں کو چھان مارا۔ ہاشم نے ہی یہ راہ تلاش کی۔ یہ تقریباً ناقابل شناخت تھی اور ایک کانٹے سے اس نے سنہرا بال نکالا۔ زمین خشک اور سخت تھی، سو پیروں کے نشانات ملنا ممکن نہ تھا۔
ہانکے والے یکے بعد دیگرے پہنچتے رہے۔ ان کی سانسیں پھولی اور جسم پسینے میں شرابور تھے۔ ہیجانی کیفیت میں تیندوے کے بارے بولتے اور اس کے فرار کی سمت تھوکتے رہے۔
مختلف حالات ہوتے تو میں تیندوے کا پیچھا جاری رکھتا۔ یہ درندے عموماً کافی فاصلہ طے کرتے ہیں اور جونہی وہ جنگل میں پہنچتے ہیں تو کسی درخت پر چڑھ کر چھپ جاتے ہیں اور تعاقب کرنے والوں کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر میرے پاس وقت اور موقع ہوتا اور مجھے علم ہوتا کہ آنے والے ہفتوں میں تیندوے نے کتنی آفت بن جانا ہے تو میں پیچھا جاری رکھتا۔ مگر میں نے پہلے کبھی تیندوے کا پیچھا نہیں کیا تھا۔ میرا تجربہ محض ہانکے سے نکلنے والے تیندوے یا خود ہی بندوق کی مار میں آنے والے تیندوے کے شکار تک محدود تھا۔ مگر اس وقت میرے پاس وقت کی کمی تھی۔ اس صبح میں نے ایک چٹان کو بارود سے اڑانا تھا جو کافی مشکل کام تھا اور میں ہر ممکن جلدی سے اسے کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ بھی خیال تھا کہ تیندوا رات کو اپنے شکار پر لوٹے گا تو میں وہیں اس کا انتظار کروں گا۔ اس لیے میں نے شکار کو وہیں روک دیا۔
ہم پہاڑی سے اترے، پتھروں کے ذریعے دریا کو عبور کیا اور کمپونگ کو لوٹے۔ پھر ہم نے مردہ بکری کے بارے بات کی۔ میں نے اس بکری کو اس کے مالک سے خرید لیا کہ اب اسے اس جانور سے کوئی فائدہ نہ ملنا تھا۔ اگر وہ اسے ذبح کر لیتا تو پھر گوشت کھا سکتا تھا کہ اسلامی قوانین اسے مردہ بکری کھانے سے روکتے تھے۔ موجودہ حالت میں بکری اس کے لیے بیکار تھی اور اس نے بخوشی بیچ دی۔
میں نے بکری کو واپس اسی جگہ بھجوا دیا جہاں وہ ملی تھی۔ میں نے بکری کا پیٹ چاک کر کے صاف نہیں کیا تاکہ سڑنے کا عمل تیز تر ہو سکے۔ پھر میں نے نمبردار سے کہا کہ وہ اپنے آدمیوں کو اس جگہ سے دور رکھے۔
شام چار بجے میں اس جگہ بیٹھ گیا۔ بکری میرے سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر پڑی تھی۔ ایک جھاڑی پر بیلور لگا کر اس کا رخ جھاڑی کی جانب کر دیا گیا تھا تاکہ اندھیرا چھانے کے بعد لاش پر ہلکی سی روشنی پڑتی رہے۔ چونکہ یہاں کوئی درخت نہیں تھے، سو میں زمین پر ایک پتھر پر بیٹھا اور امید کی کہ میرے پیچھے تاریک کنارہ اور گہری تاریکی کی وجہ سے تیندوا مجھے نہ دیکھ پائے گا۔ ہاشم میری پیٹھ سے پیٹھ ملا کر بیٹھ گیا۔ مجھے شک تھا کہ تیندوا کہیں اور سے دریا عبور کر کے میرے پیچھے نہ آ جائے۔
پہاڑی ندی کے شور سے ہر آواز دب گئی تھی۔ ہمیں مچھروں نے بہت تنگ کیے رکھا اور یہ واحد جاندار تھے جو رات کو دکھائی دیے۔ تیندوا نہ آیا۔ شاید صبح ہونے والے دھماکے سے وہ ڈر گیا ہو گا جو میں نے چٹان توڑنے کے لیے کیا تھا۔
اگلے دو روز تک میں نے لاش وہیں پڑی رہنے دی اور ہر صبح اور سہ پہر جا کر دیکھتا۔ مگر تیندوے کی بجائے محض وران پیٹ بھرتے رہے۔ آخرکار میں نے اسے دفن کرا دیا۔
تین دن بعد ہم گاؤں سے کچھ فاصلے پر کام کر رہے تھے کہ مجھے کمپونگ کے نمبردار کا پیغام ملا۔ تیندوے نے پھر کمپونگ کا چکر لگایا اور تین کتے شوقیہ مار ڈالے۔ میں نے یہاں لفظ شوقیہ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کہ تیندوا کسی بھی قیمت پر تین کتے ایک ساتھ نہیں کھا سکتا۔ شیر بھی بعض اوقات ایک سے زیادہ جانور ہلاک کرتے ہیں مگر اصولی طور پر شیر صرف اپنی بھوک مٹانے کی خاطر شکار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس تیندوے محض شوق میں قتل کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک جانور سے ان کا دو دن پیٹ بھر سکتا ہے، مگر یہ پورے ریوڑ کو تباہ کر دیتے ہیں۔
میں نے فوراً قلیوں کو کام جاری رکھنے کے لیے ضروری ہدایات دیں اور ہاشم کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ گاؤں میں ہمیں پہلے والا منظر دکھائی دیا۔ لوگ بیٹھ کر اس پر بات کر رہے تھے۔ کمپونگ کے نمبردار نے میری آمد کی تیاری کی ہوئی تھی۔ تیز اور تلخ کافی کا ایک بڑا برتن میز پر تیار رکھا تھا اور ساتھ چپاتیاں بھی تھیں۔
پھر مجھے بتایا گیا کہ کیا ہوا ہے۔ سارے لوگ میرے گرد کھڑے تھے۔ تیندوا نصف شب کو گاؤں داخل ہوا اور لوگوں نے اپنے مویشیوں کا شور سنا اور کتے ایک کونے میں جمع ہو گئے۔ پھر انہیں تیندوے کی غصیلی غراہٹیں سنائی دیں اور کتوں کے رونے کی آواز آئی۔ سارے گاؤں والوں نے مل کر شور مچایا۔ جب مویشی خاموش ہو گئے تو چند جیالے کلہاڑیاں اور مشعلیں اٹھا کر باہر نکلے۔ وہاں انہیں باڑے کے پاس تین کتوں کی لاشیں دکھائی دیں جن کی لاشوں کے چیتھڑے اڑے تھے۔ مردہ حالت میں بھی ان کی دمیں ٹانگوں میں دبی ہوئی تھیں۔
میں نے نمبردار کو کہا کہ وہ ہانکے کا بندوبست کرے۔ تھوڑی دیر میں پورا گاؤں جمع ہو گیا اور کتے بھی آ گئے۔ مگر کتے اپنے مردہ ساتھیوں کے پاس جانے کو تیار نہ تھے کہ ان سے ابھی تک تیندوے کی بو آ رہی تھی۔
اس دوران ہاشم نے تیندوے کے جانے کے راستے کا پیچھا کیا تھا۔ یہ راستہ عین انہی پتھروں کی جانب جا رہا تھا جہاں چند دن قبل ہم نے تیندوے کی شکار کردہ بکری پائی تھی۔
میں نے نمبردار کو ہدایت کی کہ وہ ہانکے والوں کو دریا کی دوسری جانب ہی رکھے اور جب میں کہوں تو وہ دریا عبور کر کے آئیں۔ ہاشم کے ساتھ میں تیندوے کی گزرگاہ پر چل پڑا۔ میں چاہتا تھا کہ پہلے مجھے تیندوے کی موجودگی کا کچھ اندازہ ہو جائے۔ یہ کام کافی مشکل تھا۔ زمین بہت سخت اور کٹی پھٹی تھی اور اس پر کوئی نشان نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ مگر ہم نے جلدی نہیں کی اور ہاشم نے اس کام میں اپنی مہارت دکھائی۔ اگر کہیں اس سے نشانات کھو جاتے تو واپس جا کر وہ دوبارہ دیکھتا۔ آخرکار ہم نے جان لیا کہ تیندوا النگ النگ گھاس کے کنارے چلتا ہوا پہاڑی کے دامن کو گیا ہے۔ میں نے ہاشم کو ضروری ہدایات دیں کہ وہ جا کر ہانکے والوں کو لے آئے اور انہیں دریا کے ساتھ نصف دائرے کی شکل میں جمع کرے۔ پھر وہ لوگ آگے بڑھتے ہوئے ہانکا کرتے۔
میں پہاڑی پر چڑھا اور النگ النگ سے بچ کر چلتے ہوئے میں نے مناسب جگہ کی تلاش جاری رکھی۔ پہلی بار بھی تیندوا پہاڑی پر گیا تھا، عین ممکن ہے کہ اس بار بھی وہ یہی کرتا۔
اس جگہ سے نظارہ زیادہ بہتر نہیں تھا۔ جگہ جگہ اونچی خاردار جھاڑیاں تھیں بڑے بڑے پتھر بھی عام تھے۔ میں ایک بہت اونچے پتھر پر چڑھا۔ اس جگہ مجھے یقین تھا کہ گھاس میں چلتے ہوئے تیندوے کو بہ آسانی دیکھ لوں گا۔
ہانکا شروع ہوا اور کہیں کوئی وقفہ نہ چھوڑا گیا کہ ان لوگوں نے النگ النگ کو آگ لگا دی۔ یہاں کھائی میں ہوا نہیں تھی۔ اس لیے دھوئیں کے بادل بمشکل آگے بڑھ رہے تھے۔ تاہم کھائی کے کنارے پر پہنچتے ہی ہوا شروع ہو گئی اور شعلے لپکنے لگے۔ کھائی میں ہانکے والوں کے شور کے ساتھ آگ کے شعلوں اور گھاس کے جلنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔
اچانک کتوں نے دیوانہ وار بھونکنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ہانکے والوں کا شور دو گنا بڑھ گیا۔ جلد ہی مجھے لفظ ‘بابی’ سنائی دیا، کتوں نے جنگلی سور بھگایا تھا۔ چونکہ آگ کی وجہ سے انہیں تیندوے کی بو آنا بند ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے جو جانور بھی دیکھا، اس کے پیچھے لگ گئے۔
اس وقت مجھے احساس ہوا کہ تیندوا ہم سے پھر بچ کر نکل گیا ہے۔ اگر النگ النگ میں جنگلی سور موجود ہیں تو وہاں تیندوا ہونا ممکن نہیں تھا۔ تو پھر تیندوا کہاں ہے ؟ میں نے جواب تلاش کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ نگرانی بھی جاری رکھی۔ تاہم یہ بیکار تھا۔ تیندوا دکھائی نہ دیا۔ گھنٹوں بعد جب آگ دوسرے سرے پر پہنچ کر بجھی اور دھوئیں کے باعث ہانکے والے کالے بھجنگ اور جھلسے ہوئے شیطان لگ رہے تھے۔ خیر دریا میں نہا دھو کر ان کا حلیہ کچھ بہتر ہوا تو شور اور قہقہوں کے بیچ اچانک میرا جذبہ شکار بیدار ہو گیا۔ یہ تیندوا یقیناً اس قابل تھا کہ اس کے شکار پر پوری توجہ دی جاتی۔
ہاشم کے ساتھ میں نے پوری سہ پہر تیندوے کی گزرگاہ کی تلاش میں گزاری مگر ناکام رہے۔ بھوک اور تھکن سے بے حال ہو کر ہم شام کے قریب واپس لوٹے اور میں نے کمپونگ پیغام بھجوا دیا کہ اگر تیندوا دوبارہ نازل ہو تو مجھے فوراً اطلاع دی جائے۔
اگلی صبح پیغام آ گیا۔ ایک لڑکا کئی خوفزدہ گایوں کے ساتھ گاؤں پہنچا اور بتایا کہ اس نے ایک درخت پر بیٹھے تیندوے کو دیکھا ہے۔ وہ درخت کے نیچے پہنچنے والا تھا کہ گایوں نے تیندوے کی بو سونگھ لی اور دمیں اٹھائے وہ بھاگم بھاگ گاؤں آن پہنچیں۔
ہاشم اور میں فوراً روانہ ہو گئے۔ ہم پیغامبر کے ساتھ گئے اور کمپونگ کے دائیں جانب سیدھا اسی جگہ پہنچے جہاں گایوں نے تیندوا دیکھا تھا۔ یہ جگہ دریا کے دوسرے جانب اور کمپونگ کی سمت ایک وسیع وادی میں تھی جو گھاس اور چھوٹے درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس جگہ کسی چیز کو تلاش کرنا ناممکن ہوتا مگر ہمارے ہمراہی کو بخوبی علم تھا کہ اس لڑکے اور گایوں کو کہاں تیندوا ملا تھا۔ یہ جگہ ایک چھوٹا سا راستہ تھی جہاں چند گھاس اور چند درخت تھے۔
میں اور ہاشم اس گزرگاہ کے دونوں جانب اس طرح آگے بڑھے کہ ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔ ہمارا درمیانی فاصلہ سو گز سے کم رہا ہو گا۔ ہماری پیش قدمی بہت آہستہ تھی کہ ہمیں ہر راستے میں آنے والے ہر درخت کا جائزہ لینا تھا اور جھاڑیاں بھی دیکھے بنا آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ انتہائی احتیاط سے ہم آگے بڑھتے رہے اور کوشش کی کہ کم سے کم شور پیدا ہو۔
ہم لوگ اس طرح نصف گھنٹے تک بڑھتے رہے اور پھر اچانک ہاشم غائب ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اس نے کچھ دیکھا ہو گا اور چھپ کر آگے بڑھ رہا ہو گا۔ یعنی اس نے تیندوا دیکھ لیا ہو گا۔ دس منٹ بعد وہ دوبارہ دکھائی دیا۔ تیزی سے کھڑے ہو کر اس نے اپنی بندوق شانے سے لگائی اور گولی چلا دی۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس کی رائفل کی نال حرکت کر رہی تھی اور پھر دوسری گولی چلی۔
اب احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔ میں چھلانگیں لگاتا ہوا اس کی جانب دوڑا۔ ہاشم نے تیزی سے اپنی بندوق دوبارہ بھری اور تھوڑا آگے ایک درخت کی سمت بڑھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ کیا ہوا تھا۔ جب وہ آگے بڑھ رہا تھا تو اس نے اپنی غیر معمولی سماعت کے باعث پتوں کی سرسراہٹ سنی۔ جب اس نے آواز کی جانب دیکھا تو تیس گز دور ایک درخت کے پتوں کے درمیان سنہری سی کوئی چیز دکھائی دی۔ درخت کا تنا اور شاخیں کچھ اس انداز سے تھیں کہ ہاشم گولی نہ چلا سکا اور آگے بڑھا۔ پندرہ گز آگے بڑھنے پر تیندوے نے اچانک زمین پر جست لگائی۔ ہاشم نے فوراً کھڑے ہو کر اسے دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے ہاشم کو تیندوے کی پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں کہ تیندوا گھاس میں گھس رہا تھا۔ اس نے گولی چلا دی۔ گھاس میں ہونے والی حرکت سے اسے تیندوے کے مقام کا اندازہ ہوتا رہا اور اس نے اندازے سے دوسری گولی بھی چلا دی۔
اس کی آنکھوں سے مایوسی جھلک رہی تھی کہ وہ نشانہ خطا کرنے کا قائل نہیں تھا۔ اس کے نشانہ خطا کرنے پر میری بھی کچھ ذمہ داری تھی۔ جب ہاشم پوانگ رمبا (شکاری) تھا تو جانوروں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ کبھی بھی نشانہ خطا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس لیے وہ شکار کے پیچھے رینگتا، چھپتا، کسی حیوانی جبلت کے تحت شکار سے چند گز کے فاصلے پر پہنچ کر گولی چلاتا اور خطا کرنے کے امکانات ہی نہ رہ جاتے۔ وہ چاہتا تو اب بھی اس طریقے کو اپنا سکتا تھا مگر اس طرح وہ کبھی ماہر نشانہ باز نہ بن پاتا کہ اسے اس کا موقع ہی نہ ملتا اور اس کی اپنی جان خطرے میں ہوتی۔ مگر جب سے اس نے یورپی شکاریوں کے ساتھ شکار کرنا شروع کیا تو اسے کبھی گولیوں یا بارود کی کمی کا مسئلہ نہیں رہا اور اس لیے وہ ہم یورپیوں کی طرح اب گولی چلاتا اور خطا بھی کرتا تھا۔
درخت پر تیندوے کے ناخنوں کے نشانات موجود تھے۔ ہاشم نے تیندوے کے فرار کی راہ پر گھاس کو دیکھا مگر کہیں بھی خون کا نشان نہ ملا۔ ایک بار پھر تیندوا ہم سے بچ کر نکل گیا تھا۔
اس طرح ہم چلتے رہے اور ہر قسم کے سوالات آتے رہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ تیندوا ہمیں دو بار دریا کے ایک جانب ملا اور اب اچانک اس نے اپنی شکارگاہ بدل لی؟ میں نے ہاشم سے پوچھا اور اس کا جواب تھا کہ شاید دوسرے کنارے پر ہماری وجہ سے تیندوا کافی پریشان ہوا ہو گا اور شاید النگ النگ گھاس جلنے کی وجہ سے اسے کہیں اور شکار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہم نے اس علاقے کو توجہ سے دیکھا۔ یہ تنگ وادی تھی جس کے تین اطراف پر اونچی پہاڑیاں تھیں جن پر خوب جھاڑیاں وغیرہ اگی ہوئی تھیں۔ ان کے پیچھے جنگل تھا۔ ہم نے مفرور تیندوے کے راستے کا پیچھا کرنے کا سوچا۔ چونکہ وہ اتنی عجلت سے اور اتنے ڈھلوان راستے سے بھاگا کہ اس کا پیچھا کرنا مشکل نہیں تھا۔ ٹوٹی شاخیں اور کچلی گھاس اور تھوڑا آگے جا کر سبزہ کم ہو گیا اور ہمیں تیندوے کے ناخنوں کے نشانات صاف دکھائی دینے لگے۔ راستہ سیدھا پہاڑیوں کو گیا۔ تیندوا ناک کی سیدھ میں بھاگتا گیا۔ اس نے گرے درختوں کو چھلانگ لگا کر عبور کیا۔
میل بھر تک اسی طرح ہم نے پیچھا جاری رکھا اور پھر ہم جنگل کے سرے پر پہنچ گئے جہاں درخت شروع ہو گئے۔ اس جگہ ہاشم زیادہ محتاط ہو گیا کہ یہاں پہنچ کر تیندوے نے کسی درخت پر محفوظ مقام تلاش کر کے ہمارا انتظار کرنا شروع کر دیا ہو گا۔ اس جگہ راستہ بھی مشکل ہو گیا تھا اور ہاشم نے ایسے راستہ تلاش کیا جیسے وہ کوئی جادوگر ہو۔ اس جگہ تیندوا زیادہ محتاط ہو کر گزرا تھا۔
یہاں پہنچ کر ہاشم نے چھوٹے چھوٹے دائروں کی شکل میں حرکت کرنا شروع کر دی اور زمین اور گھاس پر موجود ہر نشان کا بغور جائزہ لیتا۔ اس دوران میں نے درختوں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا شروع کر دیا اور بندوق گولی چلانے کے لیے تیار تھی۔ اس تلاش پر بہت وقت لگا۔ دو گھنٹے بعد ہاشم نے عجیب بات بتائی کہ تیندوا دائروں میں گھوم رہا ہے۔
اس کی دو وجوہات بنتی تھیں کہ یا تو تیندوا اتنا نڈر یا پھر اتنا نا تجربہ کار تھا کہ ہم پر ہی گھات لگانا چاہ رہا تھا جو اس گھنی جھاڑیوں اور گھاس سے بھرے علاقے میں پریشان کن بات تھی۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ وہ ایسے ہی دائروں میں گھوم رہا تھا۔
میں نے پہلی بار ہاشم کو الجھا دیکھا۔ بیچارے کو پتہ نہیں تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے شکار ہمیشہ انسانی ذہانت اور حیوانی فطرت کے مابین ایک با عزت مقابلہ رہا تھا۔ مگر اس وقت اس کی ذہانت ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ اسے اس بات کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ تیندوا آخر چاہتا کیا ہے۔
تیندوے کی حرکت کے دائرے کم از کم بیس گز چوڑے تھے اور بتدریج بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ شاید تیندوا ہمیں کسی چیز سے دور لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یا شاید وہ ہم پر ہی گھات لگانا چاہ رہا تھا۔ ہم نے سرگوشیوں میں بات کی اور فیصلہ کیا کہ اگر تیندوا ہم پر گھات لگانا چاہتا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ ہم اندرونی دائرے میں ہی رک کر اس کا انتظار کرتے۔ نصف گھنٹہ انتظار کے بعد ہم نے سیدھا بیرونی دائروں کا رخ کرتے۔ اس طرح کوئی نہ کوئی طریقہ ہمیں تیندوے کے مقابل لے آتا۔ یہ بہترین طریقہ تو نہیں تھا مگر ہمارے پاس وقت کم تھا کہ تین بج چکے تھے۔
ہم نے گھنی جھاڑیوں میں کمین گاہ تلاش کی۔ درخت پر چڑھنا خطرناک ہوتا کیونکہ تیندوا زیادہ آسانی سے ہمیں دیکھ سکتا تھا۔
ہم نے تنے ہوئے اعصاب اور حسوں کے ساتھ مسلسل نگران رہے۔ ہوا رکی ہوئی تھی۔ سورج کی گرمی سے اطراف سے گرم ہوا اٹھ رہی تھی۔ آسمان پر بہت بلندی پر گدھ اڑ رہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد ہم ان جھاڑیوں سے بغیر شور کیے ایک دیمک کے ٹیلے کو رینگتے ہوئے گئے جو اس مقام سے سو گز دور تھا اور ایک بنجر کھیت کے کنارے پر تھا۔
ابھی ہم نے نصف فاصلہ طے کیا ہو گا کہ اچانک شور سے ہم رک گئے۔ یہ آواز انتہائی مدھم اور پتوں کی سرسراہٹ تھی۔ اچانک پھر خاموشی چھا گئی اور ہمیں وہم گزرا کہ آیا یہ آواز تھی بھی کہ نہیں۔ ہاشم نے زمین پر بیٹھ کر سامنے کا بغور جائزہ لیا۔ پھر وہ چند گز آگے بڑھا اور پھر معائنہ کیا۔ آخرکار اس نے ہاتھ ہلایا۔ اس نے کوئی چیز دیکھ لی تھی۔ میں بھی انتہائی احتیاط سے جھک کر اس کے پاس پہنچ کر بیٹھ گیا۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ہمیں کیا کرنا ہو گا۔ تپتی زمین پر سورج کی چندھیا دینے والی روشنی اور گرمی سے سارا منظر جیسے پانی میں تیر رہا ہو۔ مجھے کچھ وقت لگا پھر جا کر میں نے دیکھا کہ ڈیڑھ سو گز دور ایک چھوٹے درخت پر کوئی چیز موجود تھی۔
ہم نے ہوا کا رخ جانچا تو وہ موافق نہیں تھا۔ ہلکی سی ہوا ہم سے درخت کی سمت جا رہی تھی۔ ہاشم نے ساری صورتحال کو بھانپ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے علم تھا کہ اس نے کیا سوچا ہے۔ ہم ہر ممکن تیزی سے جنگل کے سرے پر پہنچنے کی کوشش کرتے اور وہاں جھاڑیوں کی اوٹ میں رہتے ہوئے اس درخت کو جاتے۔ پھر آخری پچاس گز سیدھا اس درخت کی سمت رینگ کر طے کرتے۔ اُس جگہ سارا علاقہ جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا مگر وہاں رینگ کر ہی جانا پڑتا۔ اس کے علاوہ جنگل سے اس درخت تک ہوا کا رخ ہمارے موافق ہوتا۔
ایک ایک گز کر کے ہم جھکے ہوئے جنگل کے کنارے تک پہنچے۔ یہ کام بہت تھکا دینے والا تھا۔ تیندوے کی موجودگی جاننے کے لیے ہاشم نے مسلسل درخت پر بھی نظر رکھی۔
بہت دیر تک رینگنے کے بعد ہم جنگل کو پہنچے اور پھر ہماری پیش قدمی تیز ہو گئی۔ مگر پھر بھی ہمیں بالکل خاموشی سے آگے بڑھنا تھا۔ ہاشم نے گھنی جھاڑیوں میں انتہائی مہارت سے پیش قدمی جاری رکھی۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اب کھلے کا رخ کرنا ہے۔
اب یہاں پہنچ کر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اس جگہ جھاڑیاں بہت کم تھیں۔ تیندوا ہمیں لازمی دیکھ لیتا۔ ہم نے اسے واضح طور پر دیکھا۔ اس کی دم نیچے لٹکی ہوئی اور سر اگلے پنجوں پر ٹکا ہوا تھا۔ بظاہر وہ سو رہا تھا۔ یہاں سے اس کا فاصلہ ساٹھ گز ہو گا۔ اگر شاخیں درمیان میں نہ آ رہی ہوتیں تو میں گولی چلا دیتا۔ اس تیندوے نے پہلے ہی ہمارے تین دن ضائع کرا دیے تھے اور اب میں ہر قیمت پر کمپونگ کو اس سے نجات دلانا چاہتا تھا۔
اگر میں ہاشم کو اپنی بندوق دے کر اسے تیندوے کی جانب چھپ چھپا کر جانے کا کہتا تو وہ یہ کام اکیلے بخوبی سر انجام دے سکتا تھا۔ اگر ضرورت پڑتی تو میں اس کی دو نالی بندوق سے تیندوے پر گولی چلا سکتا تھا۔ ہاشم گھات لگانے کا ماہر تھا اور اس کی کامیابی کے امکانات میری نسبت زیادہ تھے۔
میں نے اس کے کان میں سرگوشی کر کے یہ بات بتائی تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ ہم نے ایک دوسرے سے بندوقیں بدلیں اور میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دے کر اسے بھیجا۔ اس کا پتلا جسم کسی سانپ کی طرح بل کھاتا ایک جھاڑی سے دوسری اور گھاس کے ایک جھنڈ سے دوسرے کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا اور میری پوری توجہ تیندوے پر مرکوز ہو گئی۔
ابھی تک تیندوے کو خطرے کا شبہ بھی نہیں ہوا تھا۔ شاخ پر وہ بے حرکت لیٹا رہا اور پتوں سے چھنتی دھوپ اس پر پڑتی رہی۔
ہاشم کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ کوئی پتہ یا شاخ ہلتی نہیں دکھائی کہ ہاشم کی موجودگی کا علم ہو پاتا۔ میں نے انتہائی ہیجان کی حالت میں انتظار جاری رکھا اور خیالوں میں اس کے ساتھ رہا کہ وہ کیسے غیر انسانی مہارت سے چھپتا چھپاتا تیندوے کی سمت جا رہا ہو گا۔ تیندوے کو اس کی آمد کی خبر بھی نہیں ہو سکے گی۔ وہ ہاتھوں اور پیروں پر رینگتا ہوا جا رہا ہو گا کہ اگر اس کا پیٹ زمین سے لگتا تو شاید کوئی آواز پیدا ہوتی۔ یہ کام انتہائی مہارت کا متقاضی تھا۔
ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ منٹوں پر منٹ گزرتے گئے مگر کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہ دیا۔ تیندوا اسی طرح بے حس و حرکت شاخ پر سوتا رہا۔
اچانک میری اپنی تین نالی بندوق کے دھماکے سے میں چونک پڑا، حالانکہ اس آواز کو کتنی دیر سے سننے کا منتظر تھا۔
شاخ پر ہلکی سی تھرتھراہٹ دکھائی دی اور پھر وہ جسم آہستگی سے پھسل کر زمین پر گرا۔ میں اچھل کر کھڑا ہوا اور ہاشم جھاڑیوں سے نمودار ہوا۔ میں نے دوڑ کر ہاشم کو مبارکباد تھی۔
پھر ہم بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے مردہ تیندوے کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ گولی اس کی گردن اور سر سے ہو کر گزری تھی۔
مگر ہماری حیرت دیکھیے کہ یہ تیندوا ایک مادہ تھی اور اس کے تھنوں میں دودھ تھا۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات تھی کہ اس کے بچے اب بھوک سے مر جاتے۔ ہمیں اس کی بھِٹ جلد ہی تلاش کرنی تھی۔
مگر اب دیر ہو رہی تھی اور سائے لمبے ہونے لگے تھے اور آسمان پر بھی رنگ چھانے لگے۔ ہم نے تیندوے کے پیر باندھ کر ان میں سے ڈنڈا گزار کر اسے اٹھا لیا اور کمپونگ روانے ہوئے۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام تھا۔ ہر چند منٹ بعد رک کر ہمیں سانس بحال کرنا پڑتا تھا۔ جب ہم وادی میں پہنچے تو ہم اتنے تھک گئے تھے کہ ایک لفظ بھی نہ بول سکے۔ میں وہیں تیندوے کے پاس رک گیا اور ہاشم گاؤں سے قلی بلانے چلا گیا۔
جب قلی پہنچے تو تاریکی چھا چکی تھی۔ ان کی مشعلیں سرخ روشنی پھیلا رہی تھیں۔ ہاشم کے ساتھ آٹھ بندے آئے جو ہمارے شکار کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اسے اٹھانے میں سبقت لے جانے کو لڑنے کو تیار ہو گئے۔
ہماری مایوسی کی انتہا دیکھیے کہ گاؤں کے قریب پہنچے تو ہمارا استقبال دہشت اور پریشانی کی آوازوں سے ہوا۔ ہاشم کو میں نے قلیوں کے ساتھ چھوڑا تاکہ قلی تیندوے کی مونچھیں نہ کاٹ لیں، اور پھر گاؤں کو بھاگا۔
کمپونگ میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ لالٹین ہر جگہ کھلے دروازوں سے جھانک رہے تھے اور چند گاؤں والے مجھے بری خبر سنانے کو تیار کھڑے تھے۔ ہاشم جب قلیوں کو ساتھ لے کر نکلا تو اس کے پندرہ منٹ بعد مویشیوں اور پھر خواتین کے شور سے ایک اور تیندوے کی موجودگی کا علم ہوا۔
مگر ہوا کیا تھا؟ گاؤں کے ایک سرے پر جہاں ہاشم کے ساتھ آنے والے قلی رہتے تھے، ان کی بیویاں اور بچے دروازوں میں ہماری کامیابی پر خوش کھڑے تھے کہ اچانک تاریکی سے تیندوے نے جست لگائی اور پہلے وار میں اپنی ماں کے پاس کھڑے ایک چھوٹے لڑکے کو ہلاک کر دیا۔ دوسرے وار میں بچے کی ماں کی ٹانگ کی ہڈی توڑ دی اور پھر طوفان کی مانند بھاگتے کتے کی طرف لپکا اور دو یا تین جستوں میں اسے جا لیا۔ پھر اسے ہلاک کر کے اپنے ساتھ لے کر بھاگ گیا۔ خواتین کو کچھ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
ایک جھونپڑے سے مجھے اس بیچاری خاتون کی آہ و بُکا سنائی دی جس کے بچے کو تیندوے نے ہلاک کیا تھا۔ یہ چار سالہ بچہ بہت پیارا تھا۔ تیندوے کے پنجے جب اس کی گردن پر لگے تو بچہ بیچارہ فوراً ہلاک ہو گیا ہو گا۔
پورے گاؤں میں ہیجان اور دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ سارے مرد انتقام کی بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کلہاڑیاں اور نیزے اٹھا رکھے تھے اور تیندوے کے پیچھے جانے کو تیار ہو گئے تھے۔ اس دوران مردہ تیندوا آن پہنچا۔ لوگوں نے دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے۔ قبل اس کے کہ مجھے کچھ کہنے یا کرنے کا موقع ملتا، انہوں نے تیندوے کے چیتھڑے اڑا دیے۔ کھال بیکار ہو کر رہ گئی تھی۔
بچے کا باپ جو تیندوے کو اتنے فخر سے اٹھا کر لا رہا تھا، اپنے بیٹے کی ہلاکت پر نڈھال ہو گیا۔ لوگ اتنے بپھرے ہوئے تھے کہ وہ اسی وقت تاریکی میں ہی مشعلیں اٹھا کر روانہ ہو گئے۔ ہم بہت تھکے اور بھوکے تھے مگر ہم بھی ساتھ روانہ ہو گئے تاکہ کوئی مزید آفت نہ آئے۔
تیندوے کی گزرگاہ کو تلاش کرنا آسان تھا کہ کتے کا خون بہتا جا رہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی کہ تیندوے نے پھر دریا کے اسی حصے کا رخ کیا جہاں سے وہ پہلے گزرتا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نے اصل تیندوا نہیں ہلاک کیا جو مسلسل کمپونگ پر حملے کر رہا تھا۔
ہم نے دریا عبور کیا۔ دوسرے کنارے پر پیچھا مزید آسان تھا کہ وہاں تیندوے کے پیروں کے نشانات جلی ہوئی النگ النگ کی راکھ پر واضح تھے۔ اس کے علاوہ کتے کے خون کے نشانات بھی ملتے رہے۔ چوٹی عبور کرتے ہی ہمیں لاش جھاڑیوں میں پڑی دکھائی دی۔ لاش جزوی طور پر کھا لی گئی تھی اور شاید تیندوا ہمارے شور سے گھبرا کر بھاگا ہو گا۔
تاریکی میں مزید پیچھا بھی بیکار ہوتا مگر پھر بھی تیندوے کا تعاقب جاری رہا۔ دو گھنٹے بعد جب سب تھک گئے اور جوش ٹھنڈا ہو گیا تو ہم گاؤں کو واپس لوٹے۔ چونکہ بچے کی ہلاکت پر اور کچھ کرنا ممکن نہیں تھا، سو میں نے بچے کے باپ کو اس کی تدفین کے لیے کچھ پیسے دیے۔
میں بھی تدفین میں شامل ہوا جس میں صرف مرد شامل تھے۔ ہم سب کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے۔ گاؤں کا قبرستان وادی کے کنارے پر تھا جس کے گرد باڑ سی لگائی گئی تھی۔ تمام قبروں کا رخ مشرق کی جانب تھا۔ تدفین کے بعد قبر پر بھاری پتھر رکھ دیے گئے تاکہ سور لاشوں کو نکال کر نہ کھا سکیں۔
تدفین کے بعد میں تعزیت کے لیے متوفی بچے کے گھر والوں سے ملا اور پھر ہاشم اور بچے کے باپ کے علاوہ چند اور افراد کے ساتھ تیندوے کی تلاش کو نکل کھڑا ہوا۔
اب یہ شکار میری ذاتی انا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ اس لیے میں تیندوے کو ہر ممکن طریقے سے ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
انتہائی صبر کے ساتھ ہاشم نے اپنے تمام تر تجربے کو بروئے کار لانے کی کوشش کی مگر تیندوے کو تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے کتے کی لاش کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
مجھے بھی تیندوے کے واپس نہ لوٹنے کا یقین تھا مگر پھر بھی اس موقعے کو ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور بیلور باندھ کر رات وہیں گزاری۔ ہاشم گاؤں واپس لوٹ گیا مبادا کہ تیندوا وہاں آئے۔ اس رات بھی تیندوا غائب رہا۔ نصف شب کے بعد مجھے کھائی کے ایک سور کے چیخنے کی آواز آئی جو اچانک گھُٹ کر رہ گئی۔ جنگل میں یہ کام ہر رات ہوتا ہے۔ اگلی صبح میں نے اس جگہ جا کر دیکھا کہ کیا ہوا تھا۔ مجھے وہاں جد و جہد اور خون کے نشانات اور ایک کتری ہوئی دم ملی۔ پانچ سو گز دور ایک چھوٹے سے تالاب کے پاس سور کی ادھ کھائی لاش پڑی تھی۔ قدموں کے نشانات سے پتہ چلا کہ یہ تیندوے کی کاروائی تھی۔ یہ بات معمہ بن گئی کہ جب تیندوے کو جنگل میں شکار بکثرت مل جاتا ہے تو وہ کمپونگ پر کیوں حملے کرتا ہے ؟
دو رت جگوں کے بعد میں انتہائی تھک چکا تھا اور گاؤں کو واپس لوٹا۔ ہاشم راستے میں ہی ملا اور اس نے بتایا کہ گاؤں بھی محفوظ ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے گاؤں گئے اور میں نے وعدہ کیا کہ شام کو لوٹ آؤں گا۔ پھر ہم کیمپ کو چل پڑے۔
میری عدم موجودگی میں کام بخوبی چلتا رہا تھا۔ میرے تین بہترین فورمین تھے جنہوں نے کام نہیں رکنے دیا۔ میں نے سب کے سامنے انہیں انعام دیا اور قلیوں کو بھی تعریفی کلمات کہے۔ پھر میں نے انہیں بچے کی موت کا بتایا اور کہا کہ اگر وہ میری مدد کرنا چاہتے ہیں تو اپنا کام پوری توجہ اور لگن سے کرتے رہیں تاکہ میں اس تیندوے کو مار سکوں۔ ہاشم ہمیشہ کی طرح انتھک اور محنتی تھا۔ اس نے سہ پہر میں جا کر ایک ہرن شکار کیا اور قلیوں کو دے دیا۔ اس غیر متوقع دعوت پر قلیوں میں بہت جوش پیدا ہو گیا۔
میں نے غسل کیا، کافی کا ایک بڑا مگ پیا اور تھوڑے سے گرم چاول کھانے کے بعد سو گیا۔ میں سہ پہر تک سوتا رہا۔ پھر ایک اور غسل اور پیٹ بھر کر کھانے کے بعد بالکل تازہ دم ہو گیا۔ اب میں نئے سرے سے شکار کے لیے تیار تھا۔
شام ہوئی تو میں اور ہاشم کمپونگ کو لوٹ گئے۔ لوگ بہت مایوس تھے۔ پریشانی اور فکر کی وجہ سے گاؤں کا عمومی ماحول ماتمی نظر آ رہا تھا۔
ہم نے گاؤں میں داخلے کی جگہ پر کھونٹے کے ساتھ ایک بکری بندھوا دی۔ پاس موجود گھر کے دروازے پر ایک بیلور لٹا کر میں اور ہاشم اس گھر میں بیٹھ گئے۔ یہ رات بھی بیکار گزری۔ تیندوا بہت ماہر لگ رہا تھا۔ ہاشم بہت اداس تھا کہ وہ اس تیندوے کو ابھی تک شکار نہیں کر سکا۔
اگلی صبح ہم نے تیندوے کی تلاش کرنے کا سوچا۔ ابھی ہم گاؤں سے باہر نکلے ہی تھے کہ ہمیں پیچھے سے لوگوں کے چلانے کی آواز آئی اور پھر کمپونگ کے کچھ لوگ اور وہاں رہنے والا ایک قلی اپنی جانب بھاگتے نظر آئے۔ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہو گا۔ قلی نے پر جوش انداز میں بات بتائی۔ جب یہ لوگ صبح کام پر جا رہے تھے تو نئی بنی سڑک پر ایک تیندوا ان کے سامنے سے گزارا۔ اس نے قلیوں کو دیکھا مگر توجہ نہ دی۔ جب قلیوں نے شور مچایا تو تیندوا بالائی ہونٹ سکوڑ کر غرایا اور انتہائی تیزی سے جست لگا کر جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ پھر ایک فورمین نے قلی میری سمت دوڑا دیے۔
ہم فوراً واپس لوٹے اور اس جگہ پہنچے۔ یہاں بہت سارے قلی جمع تھے۔ سب بیک وقت مجھے وہ جگہ دکھانا چاہ رہے تھے۔ تیندوے کے نشانات مٹی پر واضح تھے اور اس کے پنجے بہت بڑے تھے۔
ہاشم اور میں نے ان نشانات کا پیچھا شروع کر دیا۔ پہلے نشانات سڑک کے دوسرے کنارے سے جھاڑیوں سے گزر کر ڈھلوائی پہاڑی تک گئے اور پھر مڑ کر کچھ فاصلے تک جنگلی جانوروں کی گزرگاہ کو گئے۔
سارا علاقہ غیر آباد تھا۔ پہاڑیاں اور گھاس کے میدان ہر طرف دکھائی دے رہے تھے اور دور فاصلے پر تین اطراف میں جنگل تھا۔ ہم کئی میل اسی طرح پیچھا کرتے رہے حتیٰ کہ نشانات گم ہو گئے۔ صاف ظاہر تھا کہ تیندوے کو قلیوں کی مڈبھیڑ سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور اس نے آرام سے اپنی مٹرگشت جاری رکھی۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ تیندوا اپنے شکار کے مقام سے اتنی دور کیوں گیا؟ ہاشم بھی اس بات پر الجھا ہوا تھا۔ اس کے سوا اور کیا چارہ تھا کہ جہاں بھی تیندوے کی موجودگی کا علم ہوتا، ہم اس کا پیچھا کرتے۔ مگر یہ کام اتنا مشکل تھا کہ ہمیں مسلسل ناکامی ہوتی رہی۔
ابھی ہم اس جگہ کھڑے تیندوے کے گم ہونے والے نشانات پر کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں، اچانک مجھے مادہ تیندوے کے بچوں کا خیال آیا۔ موجودہ صورتحال ایسی تھی کہ میں انہیں یکسر بھول گیا تھا۔ ان کی ماں ہمارے ہاتھوں ماری گئی تھی۔ اب اگر وہ بچے تلاش نہ ہو پاتے تو بھوک سے مر جاتے۔ میں نے ہاشم کو یہ بات کہی اور ہم دونوں نے موجودہ تلاش کو ناکام شمار کر کے تیندوے کے بچوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔
دو بجے ہم اس جگہ پہنچے جہاں جنگل اس ویران کھیت سے ملتا تھا۔ ہم نے پہلے وہ درخت تلاش کیا جہاں ہاشم نے مادہ تیندوے کو ہلاک کیا تھا۔ ہم نے پوری احتیاط سے آس پاس کا علاقہ چھاننا شروع کر دیا۔ جلد ہی ہاشم کو تعفن کی بو آئی۔ ہم وہاں پہنچے تو ان کی باقیات دکھائی دیں۔ ان کی ہلاکت بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ پرانگ کے وار سے ہوئی تھی۔ مجھے شدید افسوس ہوا۔ ظاہر ہے کہ گاؤں والوں نے دیکھ لیا ہو گا کہ مادہ تیندوے کے تھنوں میں دودھ تھا اور انہوں نے ہم سے پہلے بچوں کو تلاش کیا ہو گا اور بھوکے بچوں کی آوازیں سن کر انہیں مار ڈالا ہو گا۔
ہم نے ان پتلی اور چھوٹی لاشوں کو گدھوں، سوروں اور چیونٹیوں کے لیے چھوڑا اور گاؤں کا رخ کیا۔ ہمارے اندیشوں کی تصدیق ہو گئی۔ ایک روز قبل صبح کو مردہ بچے کا باپ اپنے تین دوستوں کے ساتھ ان بچوں کی تلاش کو نکلا تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ بچے اتنے لاغر ہو چکے تھے کہ ان کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔
ہم نے نمبردار کو بتایا کہ تیندوا اپنی عام شکارگاہ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ نمبردار نے ہمیں بتایا کہ اس ماہ ننگویس یعنی ایک خاص نسل کے مقامی سور جو محض سماٹرا میں ملتے ہیں، کی سالانہ ہجرت کا وقت آ گیا ہے۔ یہ سور خشک موسم ساحلی علاقے میں گزارتے ہیں اور جونہی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو غول در غول سینکڑوں کی تعداد میں یہ سور بالائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں دریا عبور کرتے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہم اس موسم کے عین وسط میں تھے اور ہر طرف سے شکاری درندے اس سمت کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس بات سے ہمیں یقین ہو گیا کہ اسی وجہ سے تیندوے نے یہ علاقہ چھوڑا ہے۔ جب ہم نے تیندوے کے جانے کی سمت کے بارے نمبردار کو بتایا تو اس نے سر ہلایا اور چھڑی کی مدد سے نقشہ بنا کر ہمیں دریائے گنگسل کے بارے بتایا جہاں ننگویس اسے عبور کرتے ہیں۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں نے پہلے کبھی ننگویس نہیں دیکھے تھے۔ ان کے بارے اندراگیری علاقے میں مجھے بتایا گیا تھا جہاں کا مقامی قبیلہ اورانگ مماک بطورِ خاص ان کا شکار کرتا تھا۔ مگر ان کی کہانیاں اتنی عجیب ہوتی تھیں کہ میں نے ہمیشہ انہیں نظرانداز کر دیا۔ تاہم جب نمبردار نے ان کے بارے بات کی تو میں نے فوراً اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔
ہم واپس اپنے کیمپ لوٹے۔ میں نے اپنے فورمینوں سے بات کی اور انہیں اگلے چند روز کی ہدایات دے دیں اور رات کیمپ میں بسر کرنے کے بعد اگلی صبح ہاشم کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ ہم نے دو روز کے لیے کھانے کا سامان اور کمبل کے علاوہ بہت سارے کارتوس بھی اٹھا لیے۔ سارا دن ہمارا رخ نیچے اترائی کو رہا اور شام کو ہم دریا کے کنارے جا پہنچے۔ دریا کافی گہرا اور مٹیالے پانی سے بھرا ہوا تھا اور یہاں گھنے اور اونچے درختوں والا جنگل تھا۔ یہاں ہم نے الاؤ کے لیے لکڑیاں چیریں، کیمپ لگایا اور کھانا پکا کر کھانے کے بعد آرام کو لیٹ گئے۔ ہم نے نگرانی کے لیے باری باری جاگنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی دریا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔
ہم جلدی اٹھے اور کھانا کھانے کے بعد کام پر لگ گئے۔ ہمیں اس جگہ کی تلاش کرنی تھی جہاں سے ننگویس دریا عبور کرتے تھے۔ اسی جگہ پر تیندوے سے مڈھ بھیڑ ہونے کے امکانات تھے۔ ہم نے کیمپ کو وہیں چھوڑا کہ سامان بعد میں بھی اٹھایا جا سکتا تھا۔ جب ہمیں گزرگاہ مل جاتی تو ہم سامان کو وہیں لے جاتے اور وہیں کیمپ بنا لیتے۔ ہاشم بہاؤ کی سمت اور میں مخالف سمت جاتا اور دوپہر کو کیمپ کو لوٹ آتے۔
گھنی جھاڑیوں میں راستہ بنا کر دریا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنا بہت مشکل کام تھا۔ ایک گھنٹے بعد میری کلہاڑی کند ہو گئی۔ دریا مٹیالا تھا اور اس میں بہت سی عجیب چیزیں بہہ رہی تھیں۔ کنارے پر مردہ تنے پڑے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ طوفانی راتوں میں یہ تنے کنارے پر آ جاتے تھے۔ دریا میں تو یہ چھوٹا سا سبز جزیرہ لگتے مگر پھر بہاؤ کے ساتھ کنارے پر آ جاتے۔ ایک جگہ ساحل پر گڑھے میں میں نے چھوٹے مگرمچھ کو دھوپ سینکتے دیکھا۔
ساڑھے دس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں دریا چوڑا ہونے لگ گیا۔ اس جگہ کٹاؤ کی وجہ سے جنگل کنارے سے دور ہو گیا تھا۔ بیس گز دور دریا کی دوسری جانب بھی اسی طرح کا کنارہ تھا۔ میں پانی کے بہاؤ کو اترا اور قریب جا کر دیکھا تو اس پر تازہ تازہ جنگلی سوروں کے بے شمار کھر ثبت تھے۔ مگر اس سے کوئی بات نہیں ثابت ہوئی کہ ان نشانات کا رخ پانی کی جانب اور اس کے مخالف سمت بھی تھا۔ بظاہر سور اس جگہ پانی پینے آتے تھے۔ مگر مجھے شبہ تھا کہ ننگوئی اس جگہ دریا کو عبور بھی کرتے تھے۔ باقی ہر جگہ کنارے بہت اونچے اور ڈھلوان تھے۔
اس دریافت سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے کیمپ کا رخ کیا۔ وہاں ہاشم پہلے ہی میرا منتظر تھا اور اس نے کیمپ کا سامان لپیٹ لیا تھا۔ شاید اس نے بھی گزرگاہ تلاش کر لی تھی۔ ہم نے اپنی اپنی بات کہی سنی اور ہاشم والا راستہ چونکہ آسان اور مختصر تھا، اس لیے ہم نے کیمپ کو اس کے دریافت کردہ راستے کو منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم لوگ روانہ ہوئے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ ہاشم نے واپسی پر پورا راستہ سا بنا ڈالا تھا۔ اس جگہ دریا کا بہاؤ تیز تھا مگر کنارے چوڑے اور زیادہ کیچڑ تھا۔ یہاں بھی بہت زیادہ نشانات ملے۔ میرے تلاش کردہ مقام کی نسبت یہ مقام زیادہ چوڑا تھا۔ اس جگہ ہمیں کنارے سے محض بیس گز دور کیمپ لگانے کے لیے جگہ بھی مل گئی۔
اندھیرا چھانے سے قبل ہم نے دریا کے کنارے نصف میل تک تیندوے کی گزرگاہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ البتہ ہرنوں کا ایک چھوٹا غول ہمیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔
ہم نے دریا کے کنارے اندھیرا چھانے سے قبل اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ اس جگہ بہت سے جنگلی سور آئے انہوں نے پانی پینے سے قبل مگرمچھوں کا اطمینان کر لیا۔ بندروں کا غول بھی شور مچاتا کنارے پر آیا۔ دوسرے کنارے پر بھی اس طرح سور پانی پیتے اور کیچڑ میں کھیلتے رہے۔ ہماری موجودگی کا کسی کو علم نہ ہو پایا۔ تاہم ننگوئی اور تیندوا نہ آئے۔
تیندوے کی تلاش بھوسے کے ڈھیر سے سوئی کی تلاش کے مترادف تھی۔ ہمارے اطراف میں سیکڑوں مربع میل تک گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ تیندوا کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ ہمارا واحد امکان یہی تھا کہ ہم اسے ننگوئی کے دریا عبور کرنے کے مقام پر تلاش کرتے۔ تاہم ایسی جگہیں بہت سی تھیں اور ہم ہر جگہ کی بیک وقت نگرانی نہیں کر سکتے تھے۔
میں نے اگلے دن صبح کو اپنی دریافت کردہ دوسری جگہ کو دیکھنے کا سوچا۔ ہمارا سفر انتہائی دشوار تھا اور باری باری ہم راستے کی صفائی کا کام کرتے رہے۔ سفر کے اختتام پر ہمارے لیے انتہائی حیران کن چیز موجود تھی۔
اس مقام کے قریب پہنچے اور وہ مقام ابھی ایک موڑ کے پیچھے پوشیدہ تھا کہ آگے چلنے والے ہاشم نے اچانک مجھے روک لیا۔ ہم گھٹنوں کے بل جھک کر سانس روک کر بیٹھ گئے تاکہ دوسری جانب سے آنے والی ہر آواز سن سکیں۔ اس جگہ ہمیں پانی میں شپ شپ کرنے کی مدھم آوازیں آ رہی تھیں۔ میری دھڑکن تیز ہو گئی، شاید ننگوئی ہوں۔
مگر ہمیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ ہم رینگتے ہوئے آگے بڑھے حتیٰ کہ جھاڑیوں میں سے منظر دکھائی دینے لگا۔
ناقابلِ بیان نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ سوروں کا بہت بڑا غول دریا عبور کر رہا تھا اور عبور کرتے ہوئے ہر قسم کا شور کر رہا تھا۔ اس کنارے سے اُس کنارے تک سور اتنے قریب قریب تھے کہ جیسے ایک زندہ اور متحرک پل سا بن گیا ہو۔ کئی سور بڑے اور کئی چھوٹے بھی تھے اور ایک دوسرے کی دم سے سر جوڑے آ رہے تھے اور اس غول کا کوئی سرا دکھائی نہیں دیا۔ دوسرے کنارے پر ان گنت سور دریا عبور کرنے پہنچے ہوئے تھے۔ ماداؤں کے پیچھے اور آگے کالے موٹے بالوں کے ٹکڑے تھے جن کا رنگ گوشت کی مانند لال تھا۔ ان کے سر لمبے اور سرے پر اچانک چوڑی تھوتھنی ختم ہو جاتی تھی۔ ان کی تھوتھنی پر بال نہیں تھے مگر اندرونی سرے پر موٹے بال کی پٹی تھی جو داڑھی کی مانند دکھائی دیتی تھی۔
اس شاندار تجربے سے میرا سانس پھول رہا تھا جو انتہائی شاندار تھا۔ یہ سلسلہ کافی دیر پہلے سے شروع لگ رہا تھا اور ابھی اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم یہ منظر 45 منٹ تک دیکھتے رہے۔ یہ منظر اتنا خوبصورت اور مسحور کن تھا کہ ہم اپنی بندوقیں بھول گئے۔ جب آخری سور بھی پانی سے نکل کر خود کو جھٹکے دیتا بھاگا تو ہم اٹھے اور سیدھا پانی کا رخ کیا۔ سور ابھی تک دکھائی دے رہے تھے۔
اس جگہ کے قریب بہاؤ نے اچانک موڑ کاٹا تھا اور اونچے درختوں کے نیچے ایک دلدلی سرنگ سی بنا دی تھی۔ ہزاروں جانوروں کے گزرنے سے یہاں کی زمین باریک سفوف بن چکی تھی۔ اس سرنگ سے ہمیں ان سوروں کے غول کی آوازیں آتی رہیں۔ سارا جنگل شور سے بھر گیا تھا۔ ہم نے پانی میں چھلانگ لگائی جو بمشکل بیس فٹ چوڑا بہاؤ تھا۔ کیچڑ ہمارے ٹخنوں تک آ رہا تھا اور ہم نے دریا عبور کیا اور دوسرے کنارے پر چڑھ گئے۔ جونہی ہم موڑ مڑے، ہمیں تیندوا دکھائی دیا، یا تیندوے کی باقیات سمجھ لیں۔
بہاؤ کے عین وسط میں کچھ عجیب سی پڑی تھی جو بے شمار کھروں تلے آ کر اپنی اصل شکل کھو چکی تھی۔ پہلے پہل تو ہمیں احساس نہ ہوا کہ یہ تیندوا ہی ہے۔ مگر چونکہ یہ عجیب سی چیز ہماری توجہ کا مرکز بن چکی تھی تو ہم نے جھک کر اسے غور سے دیکھا۔
جنگلی سوروں کی بو جنگل پر حاوی ہو رہی تھی۔ مگر مجھے ایک اور بو بھی محسوس ہوئی۔ جب ہاشم نے اپنے پرانگ سے اس چیز پر سے کیچڑ ہٹایا تو ہم نے تیندوے کی کھال دیکھی۔ جلد ہی ٹوٹی ہڈیاں اور جبڑے کی ہڈی اور لمبے دانت بھی دکھائی دیے۔ اس کے نیچے سور کی کھال کے ٹکڑے اور اس کی ریزہ ریزہ کھوپڑی دکھائی دی۔
ہاشم نے اپنا پرانگ صاف کیا اور میری جانب دیکھا۔ میرے سوال کا جواب اس کی آنکھوں میں واضح تھا۔ اس تنگ سی سرنگ نما جگہ پر سوروں کی بو بھری ہوئی تھی اور یہیں ہاشم نے مجھے بتایا کہ کیا ہو گا۔
تیندوا یہیں کہیں چھپ کر بیٹھا ہو گا مگر اس نے مہلک غلطی یہ کی کہ اس غول کے سب سے آگے والے سور پر حملہ کیا۔ عموماً سب سے آگے والا جانور سب سے زیادہ طاقتور اور جسیم ہوتا ہے۔ تیندوے کے بچنے کے امکانات تبھی ہوتے جب وہ حملہ کرتے ہی مادہ کو ہلاک کرتے ہوئے اسے اٹھا کر فوراً غائب ہو جاتا۔ مگر آگے والا جانور نر اور سب سے بڑا تھا، اس لیے تیندوے کو اچھی خاصی لڑائی لڑ کر اسے مارنا پڑا جس کی وجہ سے پورے غول کو آنے کا موقع مل گیا۔ جب دیگر سوروں نے اپنے رہنما کو گرتے دیکھا تو سب کے سب بھاگ پڑے اور اپنے لاتعداد کھروں تلے سور اور تیندوا، دونوں کو کچلتے گئے۔
اس طرح تیندوا اپنے انجام کو پہنچا۔ اگرچہ مجھے اس طرح اس کی ہلاکت کا خیال تو نہ تھا مگر جو ہوا سو ہوا۔ اس بہانے ہمیں جنگل کے ایک انتہائی نادر واقعے کو دیکھنے کا موقع مل گیا تھا۔
ہم لوگ اس سے ہوتے ہوئے واپس لوٹے اور دریا کے کنارے کنارے اپنے کیمپ تک جا پہنچے۔ شام کو ہم اپنے قلیوں کے ساتھ روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو چکے تھے۔
٭٭٭
باب دہم: آنائی کے شیر آدمی
میں آپ کو جنگلات میں ہونے والے چند عجیب واقعات کے بارے بتا چکا ہوں کہ جن سے میری زندگی کے عجیب تجربات وابستہ ہیں۔ انسان کسی چیز کے بارے سن کر اسے سنجیدگی سے سمجھتا ہے یا پھر اس پر استہزائیہ انداز میں مسکرا دیتا ہے، یہ دونوں رویے اس کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں۔ جنگلی زندگی گزارنے والے لوگوں کو استہزاء پسند نہیں اور ایسا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بیزار ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر ان لوگوں کی باتوں کو بظاہر توجہ سے سنا جائے تو جنگل اور فطرت کے بارے بہت سی نئی اور خوبصورت چیزیں پتہ چلتی ہیں۔
قدرتی طور پر مجھ میں جنگل کے باشندوں کی باتیں سننے اور ان کو ہنسے بغیر برداشت کرنے کی عادت ہے اور ان کے طور طریقے اور ان کے ماحول کی پراسراریت کا مذاق نہیں اڑاتا۔ سو، جب چند برس جاوا میں گزارنے کے بعد مجھے سماٹرا جانے کا حکم ملا تو میں بہت خوش ہوا۔ سماٹرا میں فطرت پورے جوبن پر ہوتی ہے اور ایسے علاقے بھی بکثرت ہیں جہاں انسان کا پیر نہیں پہنچا۔ ہاشم نے جب روانگی کا سنا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔
ہاشم کی برسہا برس کی خدمات سے خوش ہو کر میں نے اسے ڈبل بیرل ساوؤر رائفل خرید کر دی تھی۔ رائفل پا کر ہاشم ایسے خوش تھا جیسے کسی بچے کو اس کا پسندیدہ کھلونا مل جائے۔ برسوں پہلے جب ہاشم مقامی شکاری کے فرائض سرانجام دیتا تھا تو اس کے پاس استعمال شدہ پرانی فوجی رائفل تھی۔ اس بوسیدہ رائفل کے مقابلے میں ساوؤر رائفل انتہائی خوبصورت تھی اور عمدہ کام کرتی تھی۔ پرانی رائفل کا چلانا اپنی جگہ خطرناک تھا۔ جب بھی وہ رائفل چلتی تو دو ہی ممکنہ صورتحال ہوتیں، یا تو شکار کو گولی لگتی یا پھر شکاری کو جان کا خطرہ ہوتا۔
جب ہماری روانگی کا وقت آیا تو ہم دونوں جاوا سے روانہ ہونے اور سماٹرا پہنچنے کا سوچ کر انتہائی خوش تھے۔
سماٹرا پہنچ کر ہم پلمبنگ ضلع میں دریائے للانگ سے بیس میل کے فاصلے پر ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گئے۔ اس سے زیادہ بری جگہ میں نے آج تک نہیں دیکھی کہ اس جگہ ملیریا اور کالے بخار کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔
میرے ملازمین کے نزدیک حفظانِ صحت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انہیں بار بار ہدایت کرتا رہا کہ ان بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے مگر انہوں نے کان نہ دھرے۔ بار بار میں نے فورمینوں کو حکم دیے کہ وہ میرے احکام کی پابندی کرائیں مگر ناکام رہا۔ ہر شام دلدلی علاقے سے مچھروں کے بادل اٹھ کر حملہ آور ہوتے مگر میرے مزدوروں کی عقل میں یہ بات نہ آتی۔ ہر روز سورج غروب ہوتے ہی میرے حکم کے مطابق بیرکوں کے ساتھ الاؤ جلائے جاتے اور مجھے ہر روز فورمینوں کی ڈیوٹی لگانی پڑتی کہ وہ نگرانی کرتے رہیں، ورنہ جس قلی کے ذمے آگ کی دیکھ بھال ہوتی، وہ چند منٹ بعد سو جاتا اور آگ بجھنے میں زیادہ دیر نہ لگتی۔ ہر چند روز بعد میں فورمینوں کے ساتھ جا کر بیرکوں کے آس پاس کی جھاڑیاں کٹواتا اور پانی کی نکاسی کا نظام دیکھتا کہ درست کام کر رہا ہے یا نہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قلی پینے کے پانی کے سلسلے میں کتنے لا پرواہ ہیں۔ پانی کے برتنوں پر مچھروں کے ہزاروں لاروے تیر رہے ہوتے تھے اور قُلی ہاتھ سے انہیں ہٹا کر پانی پینا شروع کر دیتے۔
اس طرح ہماری مسلسل کوشش کے باوجود قُلی باقاعدگی سے بیمار ہوتے رہے۔ اس علاقے میں نہ تو کوئی سرکاری ڈاکٹر تھا اور نہ ہی فوجی ڈاکٹر، اس لیے مجھے ہی ڈاکٹر کے فرائض سرانجام دینے پڑ رہے تھے۔
ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا تمام تر فارغ وقت انہی کاموں میں گزرتا اور شکار کا وقت نہ مل پاتا۔ مجھے اس کا زیادہ افسوس یوں بھی ہوتا کہ ہمارے آس پاس کے جنگلات ہر قسم کے شکار سے بھرے ہوئے تھے۔ دلدلی علاقے میں ہر قسم کے آبی پرندے بھی مل جاتے تھے۔ پانی والی جگہوں پر مگرمچھ بھی تھے۔ جہاں ہم کام کر رہے تھے، مقامی لوگوں کے بقول یہاں سے تین میل دور پہاڑی ڈھلوانوں پر گینڈے کے پگ عام ملتے تھے۔ جنگلی جانوروں کی گزر گاہوں کے پاس والے درختوں پر شیر کے پنجوں کے نشان، ان کے پگ وغیرہ تو روز ہی دکھائی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ہرنوں اور سور بھی عام پائے جاتے تھے۔
ہاشم اس بات سے بہت چڑتا تھا کہ میرا کتنا وقت قلیوں کی دیکھ بھال پر ضائع ہو رہا ہے۔ تجربہ کار فارسٹ رینجر ہونے کی وجہ سے وہ ملیریا سے بچاؤ کی تمام تدبیروں پر سختی سے کاربند رہتا تھا اور ویسے بھی ملیریا کے خلاف اس کے جسم میں قدرتی مدافعت بھی تھی۔ تقریباً روز ہی وہ اپنی رائفل لے کر جانوروں کا پیچھا کرتا۔ بسا اوقات وہ قلیوں کو خوش کرنے کے لیے ہرن مار کر لاتا تو بعض اوقات میری خاطر کبوتر مار لاتا۔ اکثر وہ واپس آتا تو بتاتا کہ اس نے دلدلی زمین پر گینڈے کے پگ دیکھے تھے۔
اس جگہ مجھے آئے چار ماہ ہو چکے تھے کہ ایک روز سرکاری انجینیئر دورے پر آیا جو بہت دوستانہ قسم کا بندہ نکلا۔ سارے دن کے کام کے بعد شام کو اس کے ساتھ خوب نشست جمتی۔ جونہی ہمارا کام ختم ہوتا تو اس کے بعد سرکاری معاملات پر بات بالکل نہ کرتا۔ شام کے وقت اچھی گپ شپ رہتی۔
اس کا قیام ایک ہفتے کا تھا اور ہر روز وہ میرے ساتھ کام پر جاتا اور وقتاً فوقتاً کام کے حوالے سے اچھے اور دوستانہ مشورے دیتا۔ افسرِ بالا ہوتے ہوئے بھی بہت دوستانہ اور خوش اخلاق تھا۔ اس طرح کے سرکاری افسران کے دورے ہمیشہ مسرت کا سبب بنتے ہیں۔
اس انجینیئر کو شکار کا تو کوئی شوق نہیں تھا لیکن اسے لوگوں کے رسوم و رواج وغیرہ کے بارے جاننے کا بڑا شوق تھا۔ سرکاری کام سے فارغ ہو کر اس کا سارا وقت ہی مقامی لوگوں سے ملنے اور ان سے معلومات جمع کرنے اور ان کے رسوم و رواج کے بارے جاننے میں گزرتا تھا۔ گفتگو کے فن پر اسے عبور حاصل تھا۔
ایک شام گفتگو کے دوران شیر آدمیوں اور فالور ٹائگرز کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے اس بارے اپنے تجربات کا ذکر بہت ہچکچاہٹ سے کیا۔ لیکن جو باتیں سنی تھیں، من و عن اسے بتا دیں۔ اس نے ان باتوں کو پوری توجہ سے سنا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ میرے کہی ہوئی باتیں اس نے پہلے بھی سنی ہوئی ہیں اور اب اسے یقین آ رہا ہے۔ پھر اس نے مجھے ایک کہانی سنائی جو اسے قابل بھروسہ ذریعے سے ملی تھی۔ اس روز میں نے آنائی کے شیر آدمیوں کے بارے پہلی بار سنا۔
یہاں آنے سے چھ ماہ قبل یہ انجینیئر معائنے کی خاطر کسی ایسے ضلع گیا تھا جہاں فساد پھیل چکا تھا۔ اس کی حفاظت کی خاطر مقامی سپاہیوں کا ایک دستہ بھی اس کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ ان سپاہیوں کی کمان لاؤبل نامی ایک بیلجین بندے کے پاس تھی۔ ظاہر ہے کہ انجینیئر کا پسندیدہ موضوع ایک شام کیمپ فائر پر چھڑ گیا۔ جتنی دیر انجینیئر بولتا رہا، لاؤبل پوری توجہ سے اس کی بات سنتا رہا۔
‘آپ میری اس سنجیدہ بات پر مت ہنسیے گا۔ میں اس موضوع پر ایسے لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا جو اسے سن کر ہنس دیں ‘۔ لاؤبل نے جواب دیا۔
لاؤبل ایک مہم کو شیروں کی کھائی میں لے گیا تھا۔ اس کھائی کو یہ نام وہاں موجود شیروں کی کثرت کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ یہاں پہنچ کر فوجیوں کے پاس راشن تھوڑا پڑ گیا، سو لاؤبل نے ایک دن شکار کرنے کا سوچا تاکہ تازہ گوشت میسر ہو سکے۔ اس جگہ بہت کم آبادی تھی اور جنگل انسانی اثرات سے پاک تھا۔ ایک فوجی کو ساتھ لے کر لاؤبل کھائیوں اور جنگل میں شکار کرنے کی نیت سے نکلا۔ تاہم ان کے شکار کا اختتام غیر متوقع طور پر ہوا۔ انہوں نے پتھروں پر چھلانگ لگاتے ہوئے ایک پہاڑی ندی عبور کرنی تھی کہ لاؤبل کا پیر پھسلا اور ٹخنے میں موچ آ گئی۔
فوجی نے اسے دریا سے نکالا اور انہوں نے واپسی کا دشوار سفر شروع کیا۔ اچانک ہی فوجی نے لاؤبل کی توجہ ساتھ موجود عمودی پہاڑی کے اوپر جنگل کے ایک قطعے سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی طرف مبذول کرائی۔ انہیں محسوس ہوا کہ یہاں انسان رہتے ہوں گے۔ لاؤبل نے سوچا کہ اگر وہ اس جگہ رک جائے تو اس کا ساتھی فوجی اس کے لیے مدد لینے آسانی سے جا سکے گا۔
گھنٹے بھر کی انتہائی دشوار چڑھائی کے بعد وہ اوپر پہنچے تو ان کے سامنے ایک سادہ سی جھونپڑی تھی۔ ایک بوڑھی عورت بیٹھی سبزیاں پکا رہی تھی۔ اور کوئی ذی روح وہاں نہ تھا۔ بوڑھی عورت نے دونوں کا استقبال خوش دلی سے کیا اور انہیں بیٹھنے کو بنچ دی۔ پھر بوڑھی عورت ان کے لیے بھنی ہوئی مکئی سے بنا قہوہ لے آئی۔ تھوڑی دیر بعد فوجی نے کیمپ کا رخ کیا اور لاؤبل بوڑھی عورت کے ساتھ اکیلا رک گیا۔
جب اس نے بات کی تو پتہ چلا کہ بوڑھی عورت بیوہ ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے بچے بھی ہیں۔ اس کے کل آٹھ بچے ہوئے جن میں سے پانچ مر گئے۔ باقی تین جوان ہیں اور اس نے ہاتھ لہرا کر جنگل کی طرف اشارہ کیا کہ ‘یہیں کہیں ‘ ہوں گے۔ پہاڑی کے پاس موجود یہ جنگل انتہائی گھنا اور دشوار گزار دکھائی دیتا تھا۔ پھر اس نے پوچھا کہ ‘تھوان (جناب)’ یہاں کیسے آئے ہیں ؟ شاید شکار کرنے ؟ یہاں بارہ سنگھے بے شمار ہیں۔ آپ نے دیکھے تو ہوں گے ؟ اگر اس کی مدد درکار ہو تو حاضر ہے۔
لاؤبل نے اس عورت کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ تاہم اسے عجیب سا خطرے کا احساس گھیرے ہوئے تھا۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے اس کے آس پاس، حتیٰ کہ ہوا میں بھی خطرہ موجود ہو، لیکن وہ اسے جان نہ پایا۔ بظاہر ہر چیز ہی عجیب تھی۔ بوڑھی عورت یہاں پہاڑی پر اکلوتے جھونپڑے میں اکیلی رہ رہی تھی حالانکہ اسے تو کسی کمپونگ (دیہات) میں رہنا چاہیے تھا جہاں اس کے لیے زندگی آسان ہوتی۔ اس کے علاوہ اس کا جھونپڑا ستونوں کی بجائے زمین پر کیوں بنا ہے ؟ حالانکہ یہاں شیر بکثرت ہوں گے۔
بوڑھی عورت نے پیار سے اسے دیکھا اور پھر پوچھا کہ اگر وہ کوئی مدد کر سکتی ہو تو حاضر ہے۔ جب لاؤبل جھجکا تو عورت نے بتایا کہ وہ اس کے لیے موٹا تازہ بارہ سنگھا لے آئے ؟
لاؤبل کے لیے انکار کرنا ممکن نہ رہا۔ اس لیے دونوں جھونپڑی سے ایک ساتھ نکلے۔ بوڑھی عورت عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بہت پھرتیلی تھی اور پہاڑی بکری کی مانند پتھریلی پہاڑی پر چڑھ رہی تھی۔ لنگڑاتے لاؤبل کے ساتھ اس نے جھونپڑی سے سو گز دور خاصی اونچی چٹان کا رخ کیا اور لاؤبل کو کہا کہ وہ وہاں جا کر انتظار کرے۔ تکلیف کے باوجود لاؤبل وہاں چڑھا۔ اس جگہ سے آس پاس کا بھرپور نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے پچاس گز اوپر جنگل سے نکلنے والے جانوروں کا اس نے شکار کرنا تھا۔
بوڑھی عورت غائب ہو گئی۔ پندرہ منٹ بعد لاؤبل نے ایک لمبی اور عجیب سی چیخیں سنیں جو بہت دور سے آ رہی تھیں۔ بوڑھی عورت کے لیے اتنی اونچی آواز میں چیخنا ناممکن لگ رہا تھا۔ تاہم چیخوں کی آوازیں کئی بار آئیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔
لاؤبل نے انتظار جاری رکھا۔ ابھی تک وہ خوف والی کیفیت سے باہر نہ نکل سکا تھا مگر کھلی فضاء میں بیٹھنا اسے بہتر لگا۔ آس پاس کا سارا علاقہ اس کی رائفل کی زد میں تھا۔ تاہم ہر چیز بالکل ساکن تھی اور کوئی آواز بھی نہیں سنائی دی۔
نصف گھنٹے بعد اچانک ہی جنگل سے ایک بارہ سنگھا نکلا اور لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا سیدھا لاؤبل کی طرف بڑھا۔ بارہ سنگھے کی آمد اتنی اچانک ہوئی تھی کہ ایک لمحے کو تو وہ رائفل اٹھانا بھول گیا۔ پھر چونک کر اس نے گولی چلائی۔ ہرن سیدھا اس کے سامنے بیس گز کی دوری پر گرا۔
سر جھٹک کر اس نے رائفل دوبارہ بھری۔ اس کا ارادہ تھا کہ نیچے اتر کر بارہ سنگھے کو قریب سے دیکھے کہ اچانک جنگل کے کنارے سے کسی جانور کے بھاگنے کی آواز آئی اور پھر ایک شاندار اور تنومند بارہ سنگھا اس کے سامنے نکلا۔ لاؤبل نے سوچے سمجھے بناء گولی چلا دی۔ تاہم گولی نشانے پر لگی اور بارہ سنگھا گرتا ہوا ایک چٹان کے سہارے رک گیا۔ اسی دوران جنگل سے کئی سؤر نکلے اور پھر ایک اور بارہ سنگھا۔ اس کے پیچھے جنگل بالکل خاموش تھا۔
جب چوتھا بارہ سنگھا اسی طرح نکلا تو لاؤبل سے برداشت نہ ہو سکا اور اس نے اپنی جگہ کھڑے ہو کر ہاتھ لہرائے اور چلا کر جنگل سے نکلنے والے ہر جانور کو خبردار کرنے لگا۔ جنگل سے نکلنے والا ہر جانور سیدھا لاؤبل کی سمت اس طرح لپکتا جیسے کسی شدید خوف نے اسے لاؤبل کی سمت بھاگنے پر مجبور کر دیا ہو۔ تاہم جب لاؤبل نے انہیں خبردار کرنا شروع کیا تو جانور اس کے قریب سے گھوم جاتے۔
جب پریشان، گھبرایا اور پریشان لاؤبل جھونپڑی میں پہنچا تو بوڑھی عورت چاول پکا رہی تھی۔
جب لاؤبل جھونپڑی میں داخل ہوا تو بوڑھی عورت نے پیار سے اسے دیکھا اور پوچھا کہ شکار کر لیا؟ جب لاؤبل نے کہا کہ ہاں، تو بوڑھی عورت اٹھی اور کھائی کے کنارے جا کر چیخی۔ اس کی چیخ جنگل اور کھائی کے پرلے سرے تک گونجتی ہوئی جا پہنچی۔
پھر واپس آ کر اس نے لاؤبل کو آگ کے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی۔ اس نے بتایا کہ کھانا تیار ہے اور اگرچہ سادہ سا ہی کھانا ہے، مگر ‘تھوان’ کے ساتھ کھانے سے اس کی عزت افزائی ہو گی۔
بعد میں جب فوجی پہنچے تو ان کے پاس موٹی شاخوں اور ٹینٹ کے کپڑے سے بنا سٹریچر تھا۔ لاؤبل نے بوڑھی عورت سے اجازت چاہی اور فوجی یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ لاؤبل نے نہ صرف اس عورت سے مصافحہ کیا بلکہ اس کے سامنے احتراماً جھکا بھی۔
شام کو آگ کے سامنے بیٹھ کر اور بھنا ہوا شکار کھاتے ہوئے فوجی بہت خوش ہو کر گپیں مار رہے تھے۔ لاؤبل مچھر دانی کے اندر اپنے بستر پر بیٹھا آگ کو گھورتے ہوئے اس عورت کے بارے سوچے جا رہا تھا۔
دو دن بعد جب لاؤبل چلنے کے قابل ہوا تو کیمپ منتقل کرنے کی تیاری ہوئی۔ تاہم روانگی سے قبل لاؤبل دو فوجیوں کے ہمراہ اس بوڑھی عورت کے لیے مختلف تحائف لے کر اس سے ملنے گیا۔ اس کے پاس دیگر تحائف کے علاوہ مچھر دانی اور کمبل بھی تھے۔ بوڑھی عورت انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور کسی ننھے بچے کی طرح ان سے باتیں کرنے لگی۔ فوجی اس کی جھونپڑی کے باہر کھڑے رہے۔ بوڑھی عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر کسی زمانے میں شیر آدمی تھا۔ جب اس کی شادی ہوئی تو پورے گاؤں والوں نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا۔ اس لیے یہ دونوں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑی پر جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ اگرچہ یہ جگہ آنائی کے جنگلی علاقے میں تھی اور انسانی آبادی سے بہت دور، مگر وہ اپنی زندگی سے مطمئن تھی۔ یہاں اسے کسی جنگلی جانور سے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کے تینوں بیٹے بھی شیر آدمی تھے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے مستعد رہتے تھے۔ اگرچہ ان کی آمد و رفت بہت کم ہوتی تھی مگر بوڑھی عورت کے کھانے پینے کا تمام تر سامان ہمیشہ مہیا کرتے رہتے تھے۔ تینوں بیٹے بہت ہوشیار اور فرمانبردار تھے اور بوڑھی عورت نے یہ بات بڑے فخر سے بتائی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ‘تھوان’ نے دیکھا نہیں کہ اس کی درخواست پر اس کے بیٹوں نے کیسے بارہ سنگھے اور دیگر جانور شکار کے لیے بھیجے ؟ انہوں نے شیر کا روپ اختیار کر لیا تھا اور باقی کام آسان تھا۔
یہ تھی لاؤبل کی داستان۔ میں نے انجینیئر سے کہا کہ لاؤبل والا واقعہ ڈیڑھ سال پرانا ہے، کیوں نہ ہم چند دن کے لیے اس علاقے میں جا کر اس سے ملاقات کریں ؟ کیا پتہ وہ بوڑھی عورت ابھی زندہ سلامت اور وہیں رہائش پذیر ہو؟ اسے یہ تجویز بہت اچھی لگی اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ ہم دونوں کے لیے ایک ساتھ چھٹی کا بندوبست کر کے بتاتا ہے۔ ہم نے پورا پروگرام طے کر لیا اور مجھے یقین تھا کہ چھٹی لینا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
تین ماہ بعد جب ایک دن میں کام ختم کرنے والا تھا کہ مجھے اس انجینیئر کی طرف سے سرکاری مراسلہ ملا جس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی ہے فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک تین ہفتے کی مقامی تعطیل لے لوں۔ ساتھ ہی نجی چٹھی منسلک تھی کہ ‘فلاں تاریخ کو پڈانگ میں ملو’۔
پڈانگ سے ہم شیروں کی وادی کے تین روزہ سفر پر روانہ ہوئے۔ تیسرے روز شام کو ہم آنائی کی وادی جا پہنچے۔ اونچی نیچی سوانا سرزمین پر بنی یہ کھائی پانی کے کٹاؤ سے بنی تھی۔ ہم کھائی کے کنارے دریائے آنائی کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔ اس جگہ پانی کے کنارے چمکدار پتھر بکثرت تھے اور اس کے کنارے اونچی جھاڑیاں تھیں جن پر پانی کے قطرے موجود تھے۔ سورج کی ترچھی کرنیں ان جھاڑیوں کے پتوں پر جب پڑتیں تو انتہائی خوبصورت منظر بنتا۔ اس کے بعد کھائی کا رنگ گہرا سبز ہوتا گیا جو مسلسل پانی کے بہاؤ کا نتیجہ تھا۔
آنائی میں پہلی رات ہم نے ایک اونچی چٹان کے چھجے پر خیمے لگائے۔ اس اونچی جگہ پر خیمے لگانے کا فائدہ یہ بھی تھا کہ تیز ہوا کی وجہ سے مچھروں سے جان چھوٹ گئی تھی۔ اس جگہ ہمیں پورے علاقے کا بہترین نظارہ میسر تھا۔ ہمارے سامنے گھنا جنگل افق تک پھیلا ہوا تھا اور جگہ جگہ مختلف آبشاریں دکھائی دے رہی تھیں جو ڈوبتے سورج کی روشنی میں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ہمارے پاس بانس کے جھنڈ میں ہوا سرسرا رہی تھی۔ کھائی کے اوپر سے ایک ندی خاموشی سے بہہ رہی تھی۔ بائیں جانب کی ایک وادی میں چاول کے چھجے دار کھیت سبزے کے سمندر میں جزیرے کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کھیت اس وادی میں آباد ایک کمپونگ کی ملکیت تھے۔ نیچے درختوں کی چوٹیوں پر سرد ہوا چل رہی تھی۔
شام کو ہم خیموں کے باہر آرام کرنے کو بیٹھ گئے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی یہ تھی کہ پلمبنگ کے برعکس یہاں مچھروں کی بھنبھناہٹ نہیں سنائی دے رہی تھی اور ہوا چل رہی تھی۔ مدھم ہوتا ہوا آسمان بالکل صاف تھا اور اس وادی پر گنبد کی طرح چھایا ہوا تھا۔
ایسے لمحات میں انسان مکمل خوش ہوتا ہے اور اسے کسی چیز کی طلب نہیں رہ جاتی۔ آزادی کی روح بن بلائے مہمان کی طرح پہنچ جاتی ہے۔ اسے دیکھا تو نہیں جا سکتا لیکن اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور انسان اس سے لطف اندوز ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
سو، یہ تھی آنائی کی سرزمین۔ یہیں کہیں وہ بوڑھی عورت اپنے شیر بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔
دو دن بعد ہم لوگ مطلوبہ جھونپڑی تک پہنچ گئے۔ یہ مسطح زمین ایک بہت ڈھلوان پہاڑی کے اوپر کنارے پر واقع تھی۔ اس کے پاس ہی آبشار گر رہی تھی۔ اس آبشار سے گرنے والے پانی سے جھاگ کے بادل اڑ رہے تھے جسے ہوا مسلسل کاٹے جا رہی تھی۔
اس جگہ ہم نے چھ قلیوں کو خیمے گاڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ہاشم کو لے کر ہم دونوں نیچے اترنے لگے۔ جھونپڑی کے آس پاس کی جگہ بالکل صاف ستھری تھی۔ یعنی بوڑھی عورت ابھی بھی زندہ ہو گی یا پھر اس کے بیٹے یہاں آن کر رہنے لگ گئے ہوں گے۔ جب میرے ہمراہی نے دروازے پر دستک دی تو میں نے کنارے پر جا کر دیکھا کہ انتہائی گہری کھائی جیسے منہ کھولے منتظر ہو۔
دستک کا کوئی جواب نہ ملا۔ ہم نے دوبارہ دستک دی اور پھر اندر سے مدھم سی آواز آئی۔ پھر دروازہ کھلا تو اس میں پوپلے منہ والی ایک بہت بوڑھی عورت نے جھانکا۔ اس کے سینے پر ساڑھی لپٹی ہوئی تھی اور اس کے کندھوں کی ہڈیاں نمایاں تھیں۔ سفید بال اس کے کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی ٹانگیں مینڈک کی مانند لمبی اور چپٹی تھیں۔ بے چاری بہت بدصورت خاتون تھی۔ تاہم اس کی آنکھیں انتہائی حیرت انگیز طور پر چمکدار تھیں اور دوستانہ جذبے سے بھری ہوئی۔
اس عورت نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ساتھ موجود درخت کے سائے میں بیٹھنے کی دعوت دی۔ پھر اس نے کسی کو جھونپڑی کے اندر سے بلایا اور فوراً ہی طاقتور اور مضبوط نوجوان برآمد ہوا۔ اس نے ہمیں دوستانہ انداز سے اور دلچسپی سے دیکھا۔ اس نے ہمارے بیٹھنے کے لیے چٹائی بچھا دی۔
فوراً ہی ہماری توجہ اس کی جانب ہو گئی کہ وہ اس عورت کا ہی بیٹا ہو گا۔ چھدرے جسم کا لیکن بالکل عام سا نوجوان تھا جس کے لمبے بال چوٹی کی شکل میں بندھے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً اس کے بالائی ہونٹ کو شیر انسان کی نشانی تلاش کرنے کو دیکھا مگر اس کے بالائی ہونٹ پر نشان عام انسانوں جیسا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی۔
نوجوان نے فوراً ہماری توجہ کو محسوس کر لیا اور منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ بوڑھی عورت نے اسے ہمارے پینے کی خاطر کچھ لانے کا کہا۔ فوراً ہی نوجوان جھونپڑے سے لمبے بانس میں تاڑی کی بہترین شراب لایا۔ پھر ہم سے کچھ دور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔
ماں کی خاطر اس کی فرمانبرداری دیکھ کر ہمیں بہت اچھا لگا۔ دوسرے لوگوں کی آراء اور اس تجربے کی روشنی میں مجھے یہ شیر آدمی بہت اچھی مخلوق لگنے لگے۔ تاہم جہاں یہ شیر آدمی شکار کرتے تھے، ان علاقوں کے باشندوں کی رائے اس کے بالکل برعکس تھی۔
سلام دعا کے بعد انجنیئر نے اپنے ساتھ لائے ہوئے تحائف انہیں پیش کیے جن میں کافی سارا تمباکو بھی تھا جو اس عورت کے بیٹوں کے لیے تھا۔ تحفے دیکھتے ہی نوجوان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ ہم زیادہ دیر نہیں رکے۔ جب ہم روانہ ہوئے تو نوجوان ہمارے ساتھ آیا۔ ہم نے اس سے شکار کے بارے پوچھا تھا اور وہ ہمارے ساتھ ایک دن شکار کو جانے پر تیار ہو گیا۔ ہم نے اس شکار کے بارے اپنے تمام تر خوشی بھرے جذبات چھپائے رکھے۔
اگلی صبح جب ہم اپنے خیموں سے باہر نکلے تو نوجوان جھاڑیوں کے پاس بیٹھا ہمارا منتظر تھا۔ صبح کافی سرد تھی اور ابھی اندھیرا ہی تھا اور دھند چھائی ہوئی تھی۔ ہم نے ہاتھ ہلا کر اسے خوش آمدید کہا اور اس نے مسکراتے ہوئے جواب میں سر ہلایا۔ جتنی دیر ہاشم آگ کو بھڑکا کر ناشتہ تیار کرتا، ہم نے یخ بستہ ندی میں غسل کیا اور بدن خشک کر کے کپڑے پہنے اور آگ کے کنارے بدن سینکنے لگے۔ ہم سب نے مل کر مہمان کے ساتھ ناشتہ کیا اور شکار کا منصوبہ بنانے لگے۔ ہمارے مہمان نے تجویز دی کہ ہم لوگ یہاں سے کیمپ ہٹا کر ایک روز کے سفر پر واقع ایک اور بالائی وادی میں جا کر شکار کھیلیں۔ ہمارے لیے یہ بات کافی حیران کن تھی کیونکہ اس جگہ شکار کی کثرت تھی۔ چونکہ ہمارا مقصد اپنے مہمان کے بارے زیادہ سے زیادہ جاننا تھا، اس لیے کچھ دیر ولندیزی میں بات کرنے کے بعد ہم نے اس کے منصوبے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہمارا خیال تھا کہ ہمارے مہمان کو انسانی آبادی کے قرب و جوار میں شکار کھیلنا شاید پسند نہیں۔
ایک گھنٹے بعد ہم لوگ روانہ ہو چکے تھے۔ پہلے پہل ہمارے راستے میں پہاڑ آیا، پھر ہم نے کھائی میں اترے اور جنگل کے کنارے چند گھنٹے چلتے رہے۔ جنگل گھنا ہوتا جا رہا تھا اور مناظر بہت خوبصورت تھے۔ سرزمین جنگلی ہوتی جا رہی تھی۔ جگہ جگہ گھنی گھاس میں چوڑے پتوں والی جھاڑیاں موجود تھیں اور جنگلی جانوروں کی گزرگاہیں بکثرت تھیں۔ عظیم الجثہ درختوں کے مردہ تنے بھی دکھائی دے رہے تھے جو گل رہے تھے۔ خوبصورت تتلیاں بھی بکثرت تھیں۔ جنگل کے کنارے سے پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ جنگل کے کنارے ہمیں بار بار بندروں کا غول دکھائی دے رہا تھا جو ہمیں توجہ اور تجسس سے دیکھتا جا رہا تھا۔ درختوں کے پتے مسلسل سرسرا رہے تھے۔
ایک بار ہماری آمد کی وجہ سے ایک نشیب میں درخت کے سائے تلے آرام کرتے دو ہرن بھاگ گئے۔ بھاگتے ہوئے ان کی قلانچیں بہت خوبصورت نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ ایسے مناظر کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
پرانے درختوں پر کائی کی اتنی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی کہ درخت جھکے پڑ رہے تھے۔ جنگل میں بقا کی پرانی جد و جہد کی یہ ایک قسم ہے۔ ہر درخت اور ہر جھاڑی سورج کی زیادہ سے زیادہ روشنی پانے کی خاطر دوسروں سے زیادہ اونچے ہوتے ہیں۔ جو پودا یا درخت اس حیات آفریں روشنی تک نہ پہنچ پائے، وہ کمزور اور منحنی سا رہ جاتا ہے۔
جنگل کے بہت بڑے درختوں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ہمیشہ قائم رہیں گے۔ مگر مون سون کے موسموں میں ان پر کائی چڑھنے لگتی ہے اور ان کا رس پیتی جاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کی چھوٹی چھوٹی جڑیں درخت میں گڑتی جاتی ہیں اور کائی کا اوپر کو سفر جاری رہتا ہے۔ درخت کی چھال پر سبز کائی کی تہہ چڑھ کر بظاہر بہت خوبصورت لگتی ہے۔ تاہم آخرکار یہی معانقہ دونوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے اور پہلے درخت اور پھر اس کی طفیلیہ کائی موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ پھر کائی کی یہ موٹی بے رنگ تہیں تنوں اور شاخوں سے لٹکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور جب زمین پر گرتی ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے کپڑا گل سڑ رہا ہو۔
پھر وہ طفیلئے پودے نمودار ہوئے گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے گوشت کے رنگ والے پھولوں سے سڑاند آتی ہے۔ اس بو کی وجہ سے بہت سارے حشرات پیٹ بھرنے کے لیے اس کی کھلی پتیوں کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم جونہی یہ حشرات ان پتیوں سے مس کرتے ہیں تو پتیاں بند ہو کر موت کا کمرہ بن جاتی ہیں۔ جب تمام تر رس چوس لیا جائے تو پھر پتیاں کھلتی ہیں اور بے جان اور سوکھی ہوئی بے جان لاش پھینک دی جاتی ہے۔ ایسے بھی گوشت خور پودے موجود ہیں جن سے خوشبو آتی ہے اور ان کے رنگ بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور یہ پرندے رس چوسنے والے ہمنگ برڈز کو کھاتے ہیں۔
جب سورج سر پر آیا تو ہمارے آس پاس کی سرزمین بھٹی کی مانند گرم ہو گئی اور ہم ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے رکے جو جنگل سے ہماری جانب بہہ رہی تھی۔ یہاں تقریباً سارے کپڑے اتار کر ہم لوگ سائے میں بیٹھ گئے۔ ہمارے قلیوں نے بھی آرام کرنا اور گپ شپ شروع کر دی۔ انہوں نے ایک دوسرے پر پانی پھینکا اور بندروں کی نقالی کی جو ہمیں دیکھ کر چلا رہے تھے۔
جب آدمی جنگل میں اکٹھے ہوں تو ان میں تفاوت نہیں رہ جاتی اور تکلفات ختم ہو جاتے ہیں۔ شاید سورج نے پسینے کی شکل میں تکلفات کو ہمارے مساموں سے نکال لیا ہو یا پھر کیمپ فائر سے یہ تکلفات ختم ہو گئے ہوں اور ہم سب محض عام انسان بن گئے۔ تمام تر دنیاوی آلائشوں سے پاک، خالص عام انسان۔
غسل لے کر ہم تازہ دم ہوئے اور پھر ساتھ لائے ہوئے کھانے سے انصاف کرنے بیٹھ گئے جو ٹھنڈے چاولوں اور نمکین مچھلی پر مشتمل تھا۔ جب جسم خشک ہوئے تو کپڑے پہن کر ہم آگے روانہ ہو گئے۔
گرمی بہت شدید تھی اور جونہی ہم سائے سے نکل کر کھلی زمین پر آئے تو ہر طرف سورج کی روشنی ہمیں چندھیانے لگی۔ انجینئر کے ساتھ لائے گئے دو تازی کتے بھی گرمی سے پریشان ہو رہے تھے۔ ہمارے ساتھ لگ کر چلتے ہوئے وہ ہمارے معمولی سے سائے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب ہمارے سامنے ایک چھپکلی گزری تو کتوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جلد ہی شیر آدمی دوسری سمت مڑ گیا۔ اب ہم جنگل میں داخل ہوئے اور یہاں ہمیں اپنا راستہ کاٹ کر بنانا پڑا۔ اس جگہ گرمی سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم گرم حمام میں داخل ہو گئے ہوں۔
آخرکار جب جنگل ختم ہوا تو ہم اپنی مطلوبہ وادی کے نچلے سرے پر پہنچ گئے۔ یہ وادی افق تک پھیلی ہوئی تھی اور گھنے جنگل پر مشتمل تھی اور اس کے وسط سے ایک دریا گزر رہا تھا جو کہیں کہیں چمکدار پٹی کی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔
ہم وادی میں اترے اور جلد ہی کیمپ لگانے کی اچھی جگہ مل گئی۔ اس جگہ جھاڑیاں وغیرہ نہیں تھیں، سو ہمارے خیمے یہیں گاڑ دیے گئے۔ پتلی اور لمبی شاخیں کاٹ کر ان کی چھال اتارنے کے بعد انہیں چوکور شکل میں جوڑ کر خیمے کی بنیاد بنا دی گئی اور اس پر خیمے کا کپڑا لپیٹ دیا گیا۔ اگرچہ اس طرح خیمہ کوئی بہت زیادہ آرام دہ تو نہیں تھا لیکن اس سے بہتر یہاں ملنا ممکن بھی نہیں تھا۔ ہمارے قلیوں نے اپنے لیے اسی طرح شاخوں سے چوکور شکل دے کر ان پر چوڑے پتوں والی شاخیں جما دیں۔ راستے میں کئی جگہ ہمیں شیروں کے پگ دکھائی دیے تھے اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ رات بھر آگ جلتی رہے۔ اس نیت سے میں نے ہاشم سے کہا کہ لکڑیاں جمع کر لے۔ تاہم ہاشم نے سرگوشی میں مجھے مطلع کیا کہ شیر آدمی نے جب اسے لکڑیاں جمع کرتے دیکھا تو منع کر دیا کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اس نے وضاحت نہیں کی لیکن قلیوں کو اس کی بات فوراً سمجھ آ گئی کہ اس موقع پر اس بندے سے بگاڑنا اچھا نہیں اور انہوں نے اس کی تجویز پر عمل کیا۔
نصف شب کے وقت ہاشم نے مجھے جگایا اور بتایا کہ شیر آدمی موجود نہیں۔ میں نے فوراً اپنی بندوق سنبھالی کہ اس جگہ بعض مقامی قبائل کے لوگ اس طرح کیمپ والوں کو قتل کر کے ان کا سامان لوٹ کر فرار ہو جاتے تھے۔ ہاشم نے مجھے سرگوشی میں کہا کہ آواز نہیں پیدا ہونی چاہیے ورنہ ہر کوئی بیدار ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ اسے نیند کم آتی ہے، اس لیے وہ ساری رات اپنی رائفل سنبھالے پہرہ دے گا۔
میں نے اس کے بازو کو خاموشی سے تھام کر اشارتاً اس کا شکریہ ادا کیا۔ پھر میں نے احتیاط سے انجینئر کو اس طرح بیدار کیا کہ وہ گھبرا نہ جائے اور پھر اسے ہاشم کا بیان سنا دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت ہم خیمے سے باہر نہیں نکلیں گے اور باری باری جاگتے رہیں گے۔
میری نیند گم ہو گئی تھی۔ مجھے مسلسل خیمے کے باہر کسی چیز کے حرکت کرنے کی آواز آتی رہی جس سے میں پریشان رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ رات کبھی ختم نہیں ہو گی مگر آخرکار صبح کی روشنی نمودار ہو ہی گئی۔
ہم بندوقیں سنبھال کر خیمے سے باہر نکلے لیکن بظاہر ایسے گئے جیسے کسی چیز کی فکر نہ ہو۔ ہاشم معمولی سی آگ جلائے اس کے سامنے بیٹھا اسے تیز کر رہا تھا۔ اس کی بندوق ساتھ ہی رکھی تھی۔ قلی ندی میں نہا رہے تھے۔ ہاشم نے سر ہلا کر مجھے آبشار کی طرف متوجہ کیا اور بولا، ‘اُدھر’۔ واقعی وہاں شیر آدمی نہا رہا تھا۔ طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں اس کا گہرا رنگ تانبے کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔
اس روز ہم نے شکار شروع کیا اور دو اچھے بارہ سنگھے مارے۔ شیر آدمی شکار شروع ہوتے ہی غائب ہو گیا مگر ہم نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی کہ ہاشم اور قلی بھی کتوں کے ساتھ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ تاہم ہم یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے کہ دونوں بارہ سنگھے قلیوں اور ہاشم کے عین مخالف سمت سے دوڑتے آئے تھے۔ تاہم دن کے وقت ان لوگوں کی طرف سے ایک بڑا سور آیا جو گھنے جنگل کی وجہ سے بچ کر نکل گیا۔
رات کو شیر آدمی پھر کیمپ سے نکل گیا۔ تاہم مجھے اب پریشانی نہیں تھی۔ ہاشم پھر آیا اور سرگوشی کی، ‘تھوان، وہ پھر غائب ہے۔ ‘ تاہم میں نے آرام سے کروٹ لی اور جواب دیا کہ مجھے علم ہے۔ تاہم ہاشم نے میری بات پر کہا تو کچھ نہیں مگر چوکیداری پر بیٹھ گیا۔
اگلے روز ایک عجیب بات ہوئی۔ دوپہر کو شکار کے بعد ہم جب آرام کرنے بیٹھے تو ہمیں خیال آیا کہ شیری نامی ایک کتا غائب ہے۔ کسی آدمی نے اسے غائب ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ کیا پتہ اسے کسی جنگلی سور نے مار ڈالا ہو یا زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو؟
تاہم انجینیئر کتے کی گمشدگی پر بہت پریشان تھا۔ شیری اور بوریل، یہ دونوں کتے اس کے بہترین شکاری کتے تھے۔
شام کو جب ہم کیمپ میں آگ کے ساتھ بیٹھے تو شیر آدمی بظاہر شرمندہ حالت میں ہمارے پاس آیا۔ ہم نے تب توجہ دی جب ہاشم نے اس کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی۔ پاس آ کر وہ بولا، ‘جناب، ناراض نہ ہوں، مگر مجھے علم ہے کہ آپ کا کتا کہاں ہے۔ ‘
ہم نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پھر اسے سگریٹ دے کر پوچھا کہ وہ کیا بتانا چاہتا ہے۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے پرانگ کو میان سے نکالا۔ تاہم اس کا مقصد محض زمین پر آگ کی روشنی میں خاکہ بنانا تھا۔
اس نے سخت زمین پر ایک گہری لکیر کھینچی جو کسی ندی کو ظاہر کرتی تھی اور پھر اس کے کنارے پر ریت ڈالی اور بولا۔
‘میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں، مگر مجھے علم ہے کہ آپ کا کتا کہاں ہے۔ یہاں دیکھیے، اس جگہ کچھ جنگل سا ہے جہاں سے بارہ سنگھا آیا تھا۔ یہ بارہ سنگھا آپ کے کتوں نے بھگایا تھا۔ اس جگہ دریا آبشار سے دور ہٹتا ہے۔ ‘
پھر اس نے بغیر اجازت لیے فلاسک سے پانی اس راستے پر انڈیلا۔ پانی کچھ دور تک اس راستے پر بہنے کے بعد زمین میں جذب ہو گیا۔
‘آپ نے دیکھا؟’ پھر اس نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں میں چٹان پر بیٹھا تھا۔
‘اس جگہ سے بارہ سنگھا نکلا اور دونوں کتے اس کے پیچھے لگے تھے۔ ‘ اس نے اس جگہ مزید پانی انڈیلا اور چھوٹی سی شاخ کو تین حصوں میں توڑ کر پانی میں ڈال دیا۔ پہلا ٹکڑا فوراً پانی عبور کر کے دوسرے کنارے پر ٹِک گیا۔ دوسرا بھی اس کے فوراً بعد دوسرے کنارے پر پہنچا۔ دوسرا ٹکڑا بوریل ہو گا کیونکہ بارہ سنگھا کے عین پیچھے وہ بھی پانی سے نکلا تھا۔
تاہم تیسرا ٹکڑا وہیں اس چھوٹی سی آبشار کے پاس دائرے میں گھومنے لگا اور گھومتے گھومتے ایک بڑے پتھر کے نیچے پھنس کر گھومنے لگا۔
اس دوران شیر آدمی پوری توجہ سے جھک کر اس منظر کو دیکھتا رہا اور آگ کی روشنی میں اس کے چہرے کا رنگ سرخ دکھائی دے رہا تھا۔
ہم پوری توجہ سے اس منظر کو دیکھتے رہے۔ پھر شیر آدمی بولا۔
‘جناب، اس جگہ آپ کا کتا موجود ہے۔ اگر آپ کل میرے ساتھ چلیں تو ہم کتے کو تلاش کر لیں گے۔ ‘
‘تمہیں یہ سب کیسے پتہ چلا؟’ انجینئر نے پوچھا۔
‘میں نے خود دیکھا ہے ‘۔ جواب ملا
‘دیکھا ہے ؟ تم نے میرے کتے کو مرتے دیکھا ہے ؟’ انجینئر نے پر جوش انداز سے پوچھا۔
شیر آدمی نے اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر عجیب تاثرات تھے۔ شرمندگی سے اس نے اپنے اردگرد دیکھا اور بولا ‘میں نے دیکھا ہے، مگر اپنی آنکھوں سے نہیں، اپنی روح سے دیکھا ہے۔ ‘ اس نے جھجھکتے ہوئے ہاتھ لہرا کر کہا۔ جب میں کچھ دیر اکیلا بیٹھا تو مجھے یہ منظر دکھائی دیا۔ میں فوراً آپ کو بتانے چلا آیا۔ مجھے معلوم ہے کہ کتا کہاں ہے۔ کل ہم اسے تلاش کرنے نکلیں گے ‘۔
پھر اس نے ہماری جانب دیکھا۔ اس کے انداز سے پریشانی عیاں تھی کہ آیا ہم اس بات پر اس کا مذاق تو نہیں اڑاتے۔ ہر کوئی خاموش تھا اور ہاشم اپنے پیر کے انگوٹھے سے ریت کو کھود رہا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے اعصاب چٹخنے والے ہیں۔
انجینیئر نے تمباکو کی تھیلی نکالی اور دوسروں کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا، ‘کل صبح ہم کتے کی تلاش میں نکلیں گے۔ ‘ پھر اس نے نوجوان کو دیکھتے ہوئے کہا، ‘مجھے یقین ہے کہ تم نے درست کہا ہے۔ ‘
شیر آدمی کا چہرہ کھل اٹھا اور اس سر ہلایا۔
اگلی صبح سورج طلوع ہونے سے قبل ہم بیدار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ جونہی ہم آبشار پر پہنچے، ہمیں شیری اس کے نیچے اس حالت میں دکھائی دیا کہ اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی۔ گیلے بال اس کے جسم پر چپکے ہوئے تھے۔ اس کی بے نور آنکھیں درختوں کی چوٹیوں کو دیکھ رہی تھیں اور اس کا جسم پانی میں گھوم رہا تھا۔ آبشار کا تیز پانی اس کے پاس سے بہہ رہا تھا۔
شیر آدمی ہم سے کچھ دور منہ پھیر کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی مضبوط کمر خوب چمک رہی تھی۔ اس کے بہت آگے آنائی کا وحشی اور پہاڑی علاقہ تھا جہاں صاف آسمان دکھائی دے رہا تھا۔
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید