فہرست مضامین
آنائی کے آدم خور وحشی
ترجمہ: مقبول جہانگیر
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں……
مصباح الایمان کے نام
اِک دوست مل گیا ہے وفا آشنا مجھے
یہ کتاب
اردو زبان میں اب تک شکاریات کے موضوع پر گنی چُنی کتابیں ہی لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب بھی انہی میں سے ایک ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے پہلے اردو میں شکاریات کی کتابوں کا مطالعہ کر چکے ہیں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ کتاب اپنی پیش رو کتابوں سے کچھ ہٹ کر مرتب کی گئی ہے۔ کرنل جم کاربٹ، کینتھ اینڈرسن، کرنل پیٹرسن ، جی۔ اے۔ ہنٹر، فرینک سی ہبن، آرمنڈ ڈینس، ٹام شچلنگ، مسٹر ہسکلے اور ہاورڈ ہل جیسے مایہ ناز شکاری شخصیتوں کے کارنامے پہلی بار اس کتاب میں یکجا کر دیے گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں جنگلوں میں بسر کی ہیں اور دنیا کو بتایا ہے کہ ان جنگلوں میں درندے اور انسان ہزار ہا سال سے کس طرح مل جل کر رہتے چلے آئے ہیں اور درندے جب انسان کے دشمن بن جاتے ہیں تو انسان اپنے بچاؤ کی کون سی تدابیر اختیار کرتا ہے اور درندوں سے کیسے نجات حاصل کرتا ہے۔ اس کتاب میں آپ تاریک بر اعظم کے قدیم باشندوں کی معاشرت اور رسم و رواج کے نمونے بھی دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلوں میں رہنے والے درندوں اور دوسرے جانوروں کی عجیب و غریب حرکتوں اور ذہنی کیفیتوں کی بھی صحیح تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ ہاتھی، شیر، چیتے، گینڈے، ریچھ، دریائی گھوڑے، گوریلے، جنگلی بھینسے اور مگرمچھ جب انسانوں سے انتقام لینے پر اترتے ہیں تو عیاری، مکاری، نڈرپن اور دھوکے بازی کے کیسے کیسے مظاہرے کرتے ہیں اور بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ ایسے شہرۂ آفاق شکاریوں کے یہ سچے کارنامے اس سے پہلے اردو زبان میں منتقل نہیں کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اسے شکاریات کے موضوع پر اپنی نوعیت کی اوّلین کتاب قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
مقبول جہانگیر
آنائی کے آدم خور وحشی
(اصل مصنف ٹان شچلنگ)
یہ ہیبت ناک اور لرزہ خیز داستان سماٹرا کے جنگلات سے تعلق رکھتی ہے، واقعات اس قدر پر اسرار اور بعید اَز فہم ہیں کہ سائنس کے اس عظیم الشان دور میں بمشکل ہی ان پر یقین آئے گا، لیکن مجھے ایک روز مرنا ہے اور میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس داستان کا ایک ایک حرف صحیح ہے۔ دنیا کے متمدّن اور با رونق شہروں میں رہنے والے لوگ ‘جنگل کی زندگی’ کے تصوّر سے بھی نا آشنا ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ جنگل میں بسنے والوں کو قدم قدم پر کس طرح موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کی تہذیب، ان کی رسمیں، ان کے رواج وہی ہیں جو ہزار ہا سال سے ان قوموں میں رائج ہیں اور جنہیں ہم وحشیانہ حرکتیں کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کئی سال تک جاوا کے جنگلوں میں گھومنے کے بعد جب میں اپنے وفادار ملازم ہاشم کی معیت میں سماٹرا کی طرف روانہ ہوا۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنے دل میں ایک عجیب اضطراب محسوس ہونے لگا۔ جیسے کوئی قوّت بار بار میرے کان میں کہہ رہی ہو کہہ تو وہاں مت جا۔۔۔۔۔ تو وہاں مت جا۔۔۔۔۔ میں ایک شکاری ہوں۔ جس نے زندگی میں صدہا خطرات کا مقابلہ کیا ہے اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ اپنے حلقۂ تعارف میں مجھے بزدل نہیں سمجھا جاتا۔۔۔۔۔ مگر ہر انسان کی طبیعت میں قدرت نے وہم کا مادہ رکھ دیا ہے جس سے وہ علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح مجھے بھی اس وہم نے آ گھیرا ہے کہ سماٹرا میں موت تیرا انتظار کر رہی ہے اور اگر گورنمنٹ کی ملازمت نہ ہوتی تو شاید میں وہاں نہ جاتا۔
میری اضطراب کی وجہ یہ نہ تھی کہ سماٹرا میرے لیے ایک نئی جگہ تھی۔ جی نہیں۔ میں وہاں اس سے پہلے کئی برس رہ چکا تھا اور وہاں کے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ جاوا کے جنگلات کی نسبت سماٹرا کے جنگلات کہیں زیادہ گھنے اور بھیانک ہیں۔۔۔۔۔ پھر کیا بات تھی کہ جب مجھے سماٹرا جانے کا حکم ملا تو بجائے خوش ہونے کے میں افسردہ ہو گیا۔۔۔۔۔ حالانکہ میرا ملازم ہاشم خوشی کے مارے ناچا ناچا پھر رہا تھا۔ اس معمّے کا حل بہت کوشش کے بعد بھی مجھے نہیں مل سکا۔
ہاشم کی شاندار خدمات کے صلے میں میں نے اسے دو نالی رائفل خرید کر دے دی تھی اور وہ اسے پا کر اتنا خوش تھا جیسے کسی بچے کے ہاتھ نیا کھلونا آ گیا ہو۔۔۔۔۔ اس سے پہلے اس کے پاس ایک بھاری اور بہت پرانی رائفل تھی جسے چلانا بھی کارے دارد تھا۔ سماٹرا پہنچ کر مجھے پیلمبنگ کے ضلع میں تعینات کیا گیا۔ یہ علاقہ دلدلی میدانوں اور گھنے جنگلوں سے پٹا پڑا تھا اور فضا میں ہر وقت ایک بو دار رطوبت سی چھائی رہتی تھی۔ میری عملداری میں جو علاقہ آیا وہ دریائے میلانگ کے کنارے واقع تھا اور بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔۔ میں جس روز یہاں پہنچا، مزدوروں کی ٹولیاں مجھے دیکھنے کے لیے آئیں اور میں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ ان سب کے چہرے سوجے ہوئے اور سیاہ تھے اور چال ڈھال سے بھی وہ مضمحل نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کالا بخار اور ملیریا کثرت سے پھیلا ہوا ہے اور یہاں ان مزدوروں کا علاج کرنے والا بھی کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ مصیبت یہ تھیں کہ یہ لوگ اس قدر جاہل اور وحشی تھے کہ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے جو قواعد انہیں بتائے جاتے، ان پر بالکل عمل نہ کرتے تھے۔ حالانکہ وہ دیکھتے تھے کہ وبائی امراض کی بدولت روزانہ تین چار آدمی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ سورج غروب ہوتے ہی دریا کی جانب سے ایک سیاہ بادل کی شکل میں بڑے بڑے مچھروں کی فوج اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتی اور بد نصیب مزدوروں پر ٹوٹ پڑتی۔ ان کے پاس مچھروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ آگ کے الاؤ جلا دیے جاتے تاکے مچھر نزدیک نہ آئیں۔ مگر جونہی ان بے چاروں پر نیند کا غلبہ ہوتا اور آگ مدھم پڑ جاتی، وہ ہزاروں کی تعداد میں ایک آدمی سے چمٹ جاتے اور جب صبح ان کی آنکھ کھلتی تو ان کے چہرے اور جسم سوجے ہوئے نظر آتے۔
اگرچہ مزدوروں کے رہنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کوارٹر اور جھونپڑیاں موجود تھیں مگر مچھروں کی یلغار روکنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ البتہ میرے پاس ذاتی ملازموں اور مدد گاروں کے لیے مچھر دانیاں تھیں جن کی بدولت ہم ان موذی مچھروں سے محفوظ رہتے تھے۔
اگرچہ میں نے حکم دے رکھا تھا کہ پانی ابال کر پیا جائے لیکن مزدوروں کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ دریا اور گڑھوں میں سے پانی نکال کر بے تکلفی سے پی لیتے تھے حالانکہ اس پانی کی سطح پر مچھروں کے انڈے تیر رہے ہوتے تھے۔ قصّہ مختصر میری جان توڑ کوششوں کے باوجود ملیریا کا مرض مزدوروں میں پھیلتا چلا گیا۔ میں بھلا کیا کرتا؟ میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا کہ ان کا علاج کرتا رہتا۔ پھر بھی مجھ سے جو ہو سکا کرتا رہا۔ یہاں تک کہ کونین کا ذخیرہ ختم ہو گیا اور پھر مجبوراً مجھے حکومت کو خط لکھنا پر کہ اگر چند روز تک کسی ڈاکٹر کا انتظام نہ کیا گیا تو ان مزدوروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکے گا۔
مزدوروں کی تیمار داری اور ان کی صحت برقرار رکھنے کے مسائل پر میرا اتنا وقت صرف ہونے لگا کہ سیر و شکار کی طرف طبیعت راغب ہی نہ ہوئی۔ حالانکہ اس علاقے میں شکار کی کثرت تھی۔ اس علاقے میں جا بجا وسیع جوہڑ تھے جہاں مرغابیاں کثرت سے ملتی تھیں۔ ہاشم کبھی کبھار موج میں آتا تو چند مرغابیوں کو میرے لیے شکار کر لاتا تھا۔ دریائے میلانگ کی گہرائیوں میں خونخوار مگرمچھ ہزاروں کی تعداد میں تیرتے رہتے تھے اور پھر تین میل دور فلک بوس پہاڑیوں کی وادی میں ہرن، جنگلی بھینسے، بارہ سنگھے، گینڈے، چیتے اور شیر سبھی موجود تھے۔ مگر قسمت دیکھیے کہ پیلمبنگ میں آنے کے دو ماہ بعد تک مجھے شکار کی کسی مہم پر جانے کا موقع نہیں ملا۔ ہاشم بار بار مجھے ترغیب دیتا کہ آقا کسی روز شکار کو چلیے۔۔۔۔۔ ہماری رائفلوں کو اب زنگ لگنے لگا ہے۔۔۔۔۔ مگر میں ہنس کر ٹال دیتا۔ قلی اور مزدور اس سے بے حد خوش تھے کیونکہ وہ دو ایک مرتبہ بارہ سنگھا شکار کر کے لایا تھا اور اس کا گوشت اس نے مزدوروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سارا سارا دن وہ باہر جنگل میں یا دریا کے کنارے کنارے گھومتا رہتا، یہاں اسے اپنی نئی رائفل کے جوہر دکھانے کا بڑا ہی اچھا موقع ملا تھا۔ روزانہ ہی شام کو جب وہ واپس آتا تو گینڈوں، چیتوں اور مگرمچھوں کی داستانیں سناتا جو اس کی رائفل کا نشانہ بنتے بنتے بچ گئے تھے۔
آخر وہ دن بھی آ گیا کہ مجھے مزدوروں اور قلیوں کے علاج معالجے سے فرصت ملی۔ یعنی وہ ڈاکٹر جس کا انتظار تھا، آ گیا تھا اور سچ پوچھیے تو اس سے مل کر مجھے حقیقی مسرّت ہوئی۔ بڑا ہی خوش مزاج اور زندہ دل انسان تھا۔ چند ہی روز میں اس نے مزدوروں پر ایسا جادو کیا کہ سب اس کا کلمہ پڑھنے لگے اور اس کی ہدایات پر پوری طرح عمل پیرا ہو گئے۔ مچھروں کو مارنے کے لیے کچھ سائنٹیفک طریقے استعمال کیے اور دور دور تک ان کی جتنی آبادیاں اور انڈے بچے تھے، سب کو ختم کر دیا۔ ڈاکٹر مجھ سے جلد ہی بے تکلف ہو گیا اور رات کو خاصی دیر تک ہم اِدھر اُدھر کی گپ شپ کر کے دل بہلانے لگے اور جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھی شکار سے دلچسپی رکھتا ہے تو مجھے اور بھی خوشی ہوئی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ جانوروں اور درندوں کی نفسیات کے علاوہ یہ شخص علم الانسان کا بڑا ماہر تھا اور چونکہ جاوا اور سماٹرا میں عرصۂ دراز تک رہ چکا تھا اس لیے ان جزیروں کے نہ صرف چپے چپے سے واقف تھا بلکہ باشندوں کی عادات اور خصائل، ان کے رسم و رواج اور زبان سے بھی خوب آگاہ تھا۔
ایک روز جب ہم دونوں اپنے خیمے میں بیٹھے کافی پی رہے تھے، ڈاکٹر نے حسب معمول اپنے تجربات کی داستان کا آغاز کر دیا اور ایک ایسی عجیب کہانی سنائی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے جو کچھ اس نے سنایا اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے بھی مختلف لوگوں سے میں سن چکا تھا، مگر محض من گھڑت قصے سمجھ کر میں نے ایسے واقعات پر زیادہ غور کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا، مگر جب ڈاکٹر نے تفصیلاً مجھے وہی کہانی سنائی تو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ واقعی اس داستان کی تہہ میں کچھ نہ کچھ حقیقت کا عنصر موجود ہے۔
قصّہ یہ تھا کہ آنائی کے پہاڑی جنگلوں میں جو کوسوں میلوں میں پھیلے ہوئے ہیں ایسا قبیلہ پایا جاتا ہے جو انسانوں کا خون پیتا اور گوشت کھاتا ہے۔ اگرچہ اس آدم خور قبیلے کے افراد بہت کم ہیں، لیکن ان کی دہشت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ کوئی شخص اس طرف جانے کی جرات نہیں کرتا اور جو بھولا بھٹکا وہاں جاتا ہے، کبھی واپس نہیں آتا۔۔۔۔۔ یہ آدم خور لوگ اکیلے دکیلے کی تاک میں رہتے ہیں اور بعض اوقات بستیوں میں آ کر عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آدم خور آدمی رات کی تاریکی میں کسی جھونپڑی کے دروازے پہ دستک دیتا اور جونہی کوئی آدمی یا عورت دروازہ کھولتا تو آدم خور جھپٹ کر اسے پکڑ لیتا ہے اور اس سے پہلے کہ اس کا تعاقب کیا جائے، وہ اپنے شکار کو لے کر جنگل کی تاریکی میں غائب ہو جاتا ہے۔ یہ آدم خور اس قدر شہ زور اور پھرتیلے ہیں کہ بیک وقت دو آدمیوں کو اٹھا لینا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اس موقعے پر ڈاکٹر نے جو داستان مجھے سنائی وہ آپ اسی کے الفاظ میں سنیے۔
’یہ آج سے چھ ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ مجھے ان دنوں آنائی کے جنگلوں میں درختوں کی کٹائی کا کام کرنے والے مزدوروں کی دیکھ بھال پر لگایا گیا۔ علاقہ چونکہ بے حد خطرناک تھا۔ اس لیے گورنمنٹ نے بارہ مقامی سپاہیوں پر مشتمل ایک دستہ میری حفاظت کے لیے روانہ کیا۔ اس دستہ کی کمان جس شخص کے سپرد کی گئی اس کا نام لاڈبل تھا اور وہ بلجئیم کا رہنے والا ایک نڈر اور خاص تنو مند آدمی تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میری نسبت یہاں کے باشندوں اور ان کے رسم و رواج کے بارے میں لاڈبل کی معلومات بہت وسیع تھیں۔ ایک رات کا ذکر ہے، ہم دونوں آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے کہ لاڈبل نے مجھ سے آنائی کے آدم خور انسانوں کا پہلی بار ذکر کیا۔ میں یہ سمجھا کہ یہ بھی محض گپ ہے، اس لیے ہنس کر کہا، ‘چھوڑو یار! کوئی اور قصّہ سناؤ میں نے ایسے قصّے بہت سنے ہیں۔‘
لیکن لارڈبل کے چہرے پر پھیلی ہوئی سنجیدگی اور گہری ہو گئی۔ چند لمحوں تک وہ اپنی گھنی مونچھوں کے سِرے مروڑتا رہا پھر بولا، ‘ڈاکٹر! یہ معاملہ مذاق میں ٹالنے والا نہیں ہے۔ تم جانتے ہو کہ بارہ سپاہیوں کا یہ دستہ آخر کس لیے بھیجا گیا ہے؟’
’میری حفاظت کے لیے !’
’ٹھیک ہے، مگر یہ تم نے نہیں سوچا کہ آخر یہاں تمہاری حفاظت کا کیوں خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے۔ آخر اس سے پہلے بھی تم بہت سے مقامات پر جا چکے ہو۔ حکومت نے اس وقت تمہاری حفاظت اس طرح نہیں کی تھی۔‘
بے شک وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ معاملے کے اس پہلو پر ابھی تک میں نے کوئی توجہ ہی نہ کی تھی۔ اتنے میں لاڈبل نے کہا، ‘اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم آنائی کے علاقے میں ہیں، جہاں درندوں کے علاوہ آدم خور انسان بھی موجود ہیں۔ جو رات کی تاریکی میں شیروں اور چیتوں کی کھالیں اوڑھ کر آتے ہیں اور اپنے شکار کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اسے کچا ہی کھا جاتے ہیں۔ اگر تم انسانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں دیکھنا چاہو تو میرے ساتھ چلنا۔ کھائیوں اور گھنی جھاڑیوں میں یہ ہڈیاں پڑی مل جائیں گی۔‘
دہشت کی ایک لہر مجھے اپنے جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جیسے کسی نے میری ریڑھ کی ہڈی پر برف رکھ دی ہو۔ ‘تو حکومت ان آدم خوروں کو نیست و نابود کیوں نہیں کر دیتی؟’ میں نے سوال کیا۔
لاڈبل مسکرایا۔ ‘ڈاکٹر! تم بھی کیا معصومانہ بات کرتے ہو۔ پہلے اس علاقے کو دیکھو۔ یہ تو کانگو کے خوفناک جنگلوں کو بھی مات کرتا ہے۔ اس میں ایک دو آدمی تو درکنار، اگر ایک لاکھ بھی چھپ جائیں تو ان کو تلاش کرنا محال ہے۔ حکومت نے اسی کوشش میں اپنے بہت سے جانباز افسر اور مانے ہوئے شکاری گنوائے ہیں جن کی ہڈیاں بھی بعد میں دستیاب نہیں ہوئیں۔ ابتدا میں تو برسوں تک علم نہ ہوا کہ انسانوں کو پھاڑ کھانے کی وارداتیں خود انسان ہی کر رہے ہیں۔ سارا الزام شیر اور چیتوں پر ڈال دیا جاتا تھا کیوں کہ انہی کے پنجوں کے نشانات بستیوں اور جنگلوں میں دیکھ جاتے تھے، مگر یہ بعد میں انکشاف ہوا کہ درندے بے قصور ہیں۔ یہ تو آدم خور انسان ہیں۔‘
تھوڑی دیر توقف کے بعد لاڈبل نے اپنی داستان یوں شروع کی، ‘یہ دو سال پہلے کا ذکر ہے، جب میں آنائی کے علاقے میں پہلی بار آیا، میں نے سنا تھا کہ یہاں ‘شیروں کی وادی’ مشہور ہے۔ جہاں شیر اور چیتے کثرت سے ہیں۔ مقصد صرف شکار کھیلنا تھا۔ ان دنوں آدم خور انسانوں کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا بلکہ جو شخص جنگل میں گم ہو کر واپس نہ آتا اس کے بارے میں یہی سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ کسی درندے کے منہ کا لقمہ تر بن چکا ہو گا۔ ایک روز رہنمائی کے لیے میں ایک مقامی باشندے کو ساتھ لے کر شیروں کی وادی میں گھومنے کے لیے نکلا۔ اس کا نام تھا شائیکا اور یہ پولیس میں کافی عرصے تک ملازمت کر چکا تھا اور بڑا وفادار اور بہادر شخص تھا۔ میرے اور شائیکا کے پاس رائفلیں تھیں۔ ایک وسیع و عریض دلدلی میدان کو ہزاروں صعوبتوں کے بعد عبور کرتے ہوئے ہم شیروں کی وادی میں پہنچے۔ یہ دلدلی میدان سے کوئی تین میل دور پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع تھی۔ یہ پہاڑی سلسلہ دلدلی میدان سے بھی زیادہ دشوار گزر ثابت ہوا اور ہمیں اونچے اونچے ٹیلے پھلانگ کر آگے بڑھنا پڑا۔ جنگل میں چاروں طرف ایک ہیبت ناک سناٹا طاری تھا اور قدم قدم پر خار دار جھاڑیاں ہمارا راستہ روکے کھڑی تھیں۔
اسی طرح کوئی ایک میل تک ہم دونوں شکاری آگے نکل گئے۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے جاتے تھے، جنگل میں تاریکی پھیلتی جاتی تھی، کیونکہ بلند درختوں کی چوٹیاں آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح گتھی ہوئی تھیں کہ سورج کی روشنی بمشکل زمین تک پہنچ سکتی تھی۔ دفعتاً شائیکا کے منہ سے حیرت کی ایک ہلکی سی چیخ نکلی اور اس نے لپک کر میرا بازو پکڑ لیا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا تو سامنے ہی جھاڑیوں میں کوئی بیس پچیس گز کے فاصلے پر ایک شیر خونخوار نظروں سے ہمیں گھور رہا تھا۔ شیر یکایک دھاڑا اور ارد گرد کی پہاڑیاں اس کی ہولناک گرج سے کانپ گئیں۔ جنگل میں شیر کی ہیبت کا صحیح اندازہ وہی شکاری کر سکتے ہیں جو شیر کے شکار کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ کتنا ہی نڈر اور جری آدمی ہو، شیر کو پہلی بار دیکھتے ہی، ممکن نہیں اس کے ہوش و حواس برقرار رہیں اور یہی کیفیت میری ہوئی۔ رائفل میرے ہاتھوں میں تھی لیکن جب چلانے کا ارادہ کیا تو ایسا معلوم ہوا جیسے میرے ہاتھ سن ہو چکے ہیں۔ شیر نشانے کی عین زد میں تھا، مگر ہم دونوں پتھر کی طرح بے جان مورتیوں کی مانند بے حس و حرکت کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ یکایک اس نے جست لگائی اور بجلی کی طرح ہماری طرف لپکا۔ سنبھلنے کا موقع ہی کہاں تھا۔ اس سے پہلے کہ میری رائفل سے گولی نکلے شیر نے ایک ہی دو ہتڑ میں شائیکا کو گرا دیا۔ مگر دوسرے ہی لمحے خود بخود میری انگلی سے رائفل کی لبلبی دب گئی اور گولی شیر کی گردن میں لگی۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ شیر نے قلابازی کھائی اور غرّاتا دھاڑتا ہوا سامنے کی جھاڑیوں میں گھس کر نظروں سے غائب ہو گیا۔
یہ حادثہ ایسا غیر متوقع اور فوری تھا کہ آج بھی سوچتا ہوں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ شائیکا کے دائیں کندھے سے گاڑھا گاڑھا خون مسلسل نکل رہا تھا۔ ظالم درندے نے ایسا جچا تلا ہاتھ مارا تھا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کیا جائے اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے خود موت کے سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ اس ہیبت ناک جنگل میں جو شیروں سے بھرا پڑا تھا، دو آدمیوں کا ہمیشہ کے لیے گم ہو جانا کسی کے لیے بھی حیرت کا باعث نہ تھا اور نہ یہاں ہمیں کوئی تلاش کرنے کے لیے آتا۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ زخمی شیر کہیں قریب ہی موجود تھا۔ کیوں کہ اس کے غرّانے کی لرزہ خیز آوازیں مسلسل بلند ہو رہی تھیں۔ میں چاہتا تو شائیکا کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے واپس جا سکتا تھا، لیکن یہ فعل ایسا سنگدلانہ اور وحشیانہ ہوتا کہ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکتا تھا۔
زندگی کی اہمیت اور قدر و قیمت کا صحیح احساس انسان کو خطرے کے وقت ہوتا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس بھیانک منظر کی منظر کشی کر سکوں۔ غریب شائیکا تکلیف کی شدّت سے اس قدر نڈھال ہو چکا تھا کہ اس کا بچنا محال دکھائی دیتا تھا۔ اس کا چہرہ تپے ہوئے تانبے کی مانند سرخ اور آنکھیں باہر کو ابلی پڑتی تھیں اور اب اس کے منہ سے کراہنے اور چیخنے کی ملی جلی آوازیں نکلنی بند ہو گئی تھیں۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا اور اِدھر میری کیفیت یہ کہ سارے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ جھاڑیوں میں چھپا ہوا زخمی شیر بار بار گرجتا اور اس کی ہر گرج کے ساتھ ہی میرا کلیجہ اچھال کر حلق میں آ جاتا۔
لاڈبل نے چند لمحے توقف کے بعد اپنی داستان کا سلسلہ آگے بڑھایا۔
طوعاً و کرہاً میں نے شائیکا کا بے حس و حرکت جسم اپنے کندھوں پر اٹھایا اور واپس آنے لگا۔ اب ہم دونوں کے بچنے کی صرف ایک ہی تدبیر تھی کہ ایک فرلانگ پیچھے ایک اونچے پہاڑی ٹیلے پر پناہ لی جائے، مگر آہ! جونہی میں پیچھے مڑا شیر غرّاتا ہوا جھاڑیوں میں سے نکلا۔ جنگل کے اس بے کراں سناٹے اور لمحہ لمحہ پھیلتی ہوئی تاریکی میں اس کی گھن گرج یوں محسوس ہوتی تھی جیسے بیک وقت کئی توپیں چل گئی ہوں۔ اس کی آنکھیں مشعل کی مانند روشن تھیں۔ میں نے شائیکا کو فوراً زمین پر پٹخا اور رائفل سے شیر کا نشانہ لے کر پے در پے دو فائر کیے۔ اتنا یاد ہے کہ رائفل کی نالی سے شعلہ نکلتے ہی شیر فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور وہیں ڈھیر ہو گیا اور پھر میں بھی غش کھا کر وہیں گر پڑا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے میں وہاں کتنی دیر بے ہوش پڑا رہا۔ جب آنکھ کھلی تو مجھے اپنے گھٹنے میں درد کی ٹیسیں محسوس ہوئیں۔ میرے کانوں میں جو پہلی آواز آئی وہ شائیکا کے کراہنے کی آواز تھی۔ میں نے جیب ٹٹول کر ٹارچ نکالی اور اس کی روشنی میں گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ مجھ سے دس قدم کے فاصلے پر شائیکا پڑا تھا۔ میں نے اسے آواز دی تو وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور میرے قریب آ گیا۔ پھر ہم دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیے ہوئے اپنے کیمپ کی طرف واپس ہوئے۔ ہزار صعوبتوں اور بے پناہ دشواریوں کے ساتھ ہم ابھی بمشکل تین چار فرلانگ ہی گئے تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جنگل کا یہ حصہ دلدلی میدان کے سرے پر واقعہ تھا۔ اس لیے یہاں گنجان درخت اور جھاڑیاں نہیں تھیں اور ہم زیادہ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ ہمارے دائیں جانب کوئی ایک فرلانگ دور ایک بلند اور عموداً اٹھتی ہوئی پہاڑی تھی۔ جس کی چوٹی سے دھوئیں کا سیاہ بادل بل کھاتا ہوا آسمان کی طرف جا رہا تھا۔ ہم حیرت سے اس دھوئیں کو یوں تک رہے تھے جیسے زندگی میں پہلی بار دھواں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو۔ شائیکا نے کہا، ‘ضرور اس پہاڑی پر کوئی رہتا ہے، لیکن اس ویرانے میں، جو صدیوں سے درندوں اور حشرات الارض کا مسکن ہے۔ کون ہے جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے یہاں آن بسا ہے؟ میرا خیال ہے اس پہاڑی کے اوپر یا اس کی پشت پر ضرور کوئی بستی ہے۔‘
گھسٹتے اور لڑکھڑاتے ہوئے ہم دونوں بہ ہزار دقّت و دشواری اس پہاڑی کے اوپر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں ایک بوڑھی عورت ایک جھونپڑی کے قریب بیٹھی آگ سلگا رہی ہے۔ ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر اس نے اپنا سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ خدا رحم کرے ! میری اتنی عمر ہونے کو آئی، مگر حلفیہ کہتا ہوں کہ اتنی بھیانک شکل و صورت کی عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ اس کی عمر خدا ہی بہتر جانتا ہے کتنی ہو گی۔ سر کے بال اور بھنویں تک چاندی کے تاروں کی مانند سفید تھیں۔ چہرے پہ پڑی ہوئی بے شمار جھرّیوں نے اس کی شکل بے حد مکروہ بنا دی تھی اور ہڈیاں اوپر کو ابھری ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ فراخ دہانے اور اس میں سے باہر کو نکلے ہوئے لمبے زرد دانتوں کے علاوہ اس کے سیاہ چہرے کو جس شے نے مزید بھیانک بنا دیا تھا۔ وہ اس چڑیل کی آنکھیں تھیں جو بھیڑیے کی آنکھوں سے مشاہد تھیں۔ ان میں سرخی مائل چمک تھی۔ آنکھوں کی پتلیاں کبھی پھیلتی اور کبھی سکڑ جاتیں۔ ہم دونوں ایک لمحے کے لیے حیرت زدہ ہو کر اس کو تکنے لگے اور وہ بھی ہمیں گھورتی رہی۔ دفعتاً وہ اپنی جگہ سے ایک چیخ مار کے اٹھی اور ہماری جانب بڑھی اور پھر میں نے دیکھا کہ اس کے سیاہ ناخن بھی ریچھ کے ناخنوں کی طرح بڑھے ہوئے تھے۔
’آقا یہ چڑیل ہے۔‘ شائیکا دہشت زدہ ہو کر چلایا اور وہیں غش کھا کر گر پڑا۔ بد حواسی میں مجھے کچھ نہ سوجھا تو رائفل کا کندا اس چڑیل کے سر پر دے مارا اور وہ لڑکھنیاں کھاتی ہوئی کسی گہری کھائی میں گر کر ختم ہو گئی۔ میری زندگی کا یہ ناقابلِ فراموش حادثہ اتنی جلدی رونما ہوا کہ میں کچھ سوچ ہی نہیں سکا کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ میرا جسم پسینے سے تر ہو چکا تھا اور ذہن بالکل ماؤف، تاریکی اب اس قدر بڑھ چکی تھی کہ دس گز دور کی شے بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس ویران اور سنسان پہاڑی جنگل میں پھیلی ہوئی پر اسرار خاموشی حد درجہ اذیت ناک تھی، جسے کبھی کبھی الّو کی بھیانک چیخیں توڑنے کی کوششیں کر رہی تھیں۔
میرے گھٹنے میں درد کی ٹیسیں پھر تیز ہو گئیں اور میں وہیں لیٹ گیا۔ مجھے اب اپنی موت کا یقین ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر میں جب میری طبیعت سنبھلی اور ہوش و حواس اپنی جگہ پر واپس آنے لگے تو میں نے گرد و پیش کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ فضا میں ایک عجیب قسم کی ناگوار بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے سڑے ہوئے گوشت کی ہوتی ہے۔ اس بوڑھی چڑیل کا چہرہ میری نظروں کے آگے بار بار رقص کر رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کیا میں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے؟ مگر نہیں یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ آگ کا الاؤ جو اس چڑیل نے روشن کیا تھا اب پوری طرح جل رہا تھا۔ میں نے بد نصیب شائیکا کو اٹھایا اور لے جا کر اسے جھونپڑی کے ایک طرف ڈال دیا اور الاؤ کی روشنی میں جھونپڑی کا جائزہ لینے لگا۔ یہ جھونپڑی بالکل اسی طرز پر بنی ہوئی تھی جس طرز پر امریکہ کے ریڈ انڈینز اپنی جھونپڑیاں بناتے ہیں۔ یعنی گول اور اوپر سے مخروطی۔ میں نے محسوس کیا کہ جھونپڑی کے کونے اور گوشوں میں سے سڑے ہوئے گوشت کی بساند اٹھ رہی ہے۔ ایک جانب پرانے کپڑوں کی دھجیاں اور مٹی کے برتن بھی دکھائی دیے۔ جلتے ہوے الاؤ کی روشنی جھونپڑی کے اندر پہنچ تو رہی تھی مگر اس قدر مدھم تھی کہ میں پوری طرح اندرونی حصّہ نہ دیکھ سکتا تھا۔ میں نے ٹارچ نکالی اور اسے روشن کیا۔ جونہی روشنی کا یہ مختصر، مگر تیز دائرہ ٹارچ سے خارج ہوا اور میری نگاہ جھونپڑی کے بائیں گوشے میں گئی تو فرطِ خوف سے میرا جسم لرز گیا اور ایک لمحے کے لیے مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے خون میری رگوں میں سرد ہو کر جم رہا ہے۔
انسانی ہڈیوں، کھوپڑیوں اور گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑوں کا ایک اونچا ڈھیر تھا جو مجھے دکھائی دیا اور وہ ناقابل برداشت بدبو اسی ڈھیر میں سے اٹھ رہی تھی۔ میں نے چاہا کہ وہاں سے نکل بھاگوں۔ مگر میرے پیروں میں جیسے جان ہی نہ تھی، اپنی قوّتِ ارادی جمع کر کے میں جھونپڑی سے باہر نکلا۔ اب یہاں ٹھہرنا جان بوجھ کر موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ خدا معلوم یہ کیا بلا تھی جو انسانوں کو کھایا کرتی تھی اور یہ خیال مجھے بار بار آیا کہ شاید ایسی ہی آدم خور چڑیلیں قریب ہی کہیں موجود نہ ہوں۔ ابھی میں اسی کیفیت میں گم تھا کہ ناگہاں دور جنگل کی بیکراں اور پرہول تاریکی میں شیروں کے دھاڑنے کی آوازیں آئیں۔ ان کی آوازوں نے رہے سہے ہوش بھی اڑا دیے۔
میری چھٹی حِس ایسے موقعوں پر اچھی طرح بیدار ہو جایا کرتی ہے۔ چنانچہ اضطراب اور بے چینی کی ایک زبردست لہر یک لخت میرے اعصاب میں دوڑنے لگی۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب کسی بھی لمحے کوئی نامعلوم خطرہ نازل ہونے والا ہے۔ دفعتاً میں نے پہاڑ کے دامن میں ایک ہلکی سی آہٹ سنی۔ جیسے کوئی درندہ اپنے پنجوں سے زمین خرچتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو۔ یہ آواز لمحہ بہ لمحہ میرے قریب آ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ دہشت سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ رائفل میرے دائیں ہاتھ میں تھی اور یہی میرا آخری سہارا تھا، جسے میں خطرے کے وقت استعمال کر سکتا تھا۔
میں جھونپڑی سے باہر نکلا تو الاؤ سے تھوڑے فاصلے پر شائیکا کا بے ہوش جسم پڑا دکھائی دیا۔ خدا معلوم وہ مر چکا تھا یا ابھی اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی تھی۔ یہ میں کبھی نہ جان سکوں گا کیوں کہ چند ہی لمحوں بعد جو منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ مجھے خوف سے پاگل کر دینے کے لیے کافی تھا۔ وہ پراسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی آواز در اصل کسی درندے کی قدموں کی نہ تھی بلکہ بہت سے جنگلی انسانوں کی تھی جو پہاڑی پر چل رہے تھے۔ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا مگر بلندی پر ہونے کے باعث میں انہیں دیکھ چکا تھا۔ میرے سامنے فرار کی ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ میں جھونپڑی کی پشت پر ہو کر پہاڑی سے نیچے اتر جاؤں۔ ٹارچ میرے پاس تھی جس کی مدد سے راستہ تلاش کرنا کچھ مشکل نہ تھا، مگر آہ! جب میں اِدھر آیا تو معلوم ہوا کہ پہاڑی کا یہ حصّہ اس قدر دشوار اور عمودی ہے کہ قدم کی ایک لغزش مجھے تحت الثریٰ میں پہنچا دینے کے لیے کافی ہو گی۔ جھونپڑی اب مجھ سے بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھی اور میں جس جگہ کھڑا تھا وہاں اس قدر گپ اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا۔ پس میں وہیں پیٹ کے بل لیٹ گیا اور رائفل کا رخ جھونپڑی کی طرف کر کے انگلی ٹریگر پر رکھ دی۔
سوکھی شاخوں کا جلتا ہوا الاؤ اب بجھنے کے قریب تھا اور اس کی مدھم روشنی میں شائیکا کا بے ہوش جسم صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں وہ وحشی اوپر چڑھ آئے۔ وہ تعداد میں پانچ تھے۔ سب کے سب بالکل ننگ دھڑنگ۔ بالوں سے ان کا سارا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ داڑھی، مونچھ اور سر کے بال اس طرح آپس میں مل گئے تھے کہ سوائے آنکھوں کے چہرے کا کوئی حصّہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ بالکل ایک قد آور ریچھ کی مانند تھے اور حقیقت یہ ہے اگر میں نے انہیں دونوں پیروں کے سہارے چلتے نہ دیکھتا تو انہیں ضرور ریچھ ہی کی نسل کا کوئی درندہ سمجھ لینے پر مجبور ہو جاتا۔
شاید وہ اس بوڑھی چڑیل کی تلاش میں یہاں آئے تھے، جو انہی کے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، مگر وہ انہیں کہیں نظر نہ آئی۔ شائیکا کو انہوں نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ پہلے میرے جی میں آیا کہ رائفل سے اندھا دھند فائر کر کے ان خون آشام موذیوں کا ہمیشہ کے لیے قصّہ پاک کر دوں لیکن اس خدشے سے رک گیا کہ اگر میرا نشانہ خطا ہو گیا اور ان جنگلیوں کو میری موجودگی کا پتہ چل گیا تو ان کے منہ کا لقمۂ تر بننے سے مجھے کوئی معجزہ ہی بچا سکے گا۔
دفعتاً انسانی شکلوں کے ان درندوں کے منہ سے بھیانک چیخیں نکلیں اور میرا کلیجہ لرز گیا۔ انہوں نے شائیکا کو وہاں پڑا ہوا دیکھ لیا تھا اور اب خوشی سے چلّا رہے تھے۔ وہ خونخوار بھیڑیوں کی طرح اس بد نصیب سپاہی کی طرف جھپٹے اور جونکوں کی مانند اس سے چمٹ گئے۔ شاید وہ اس کا خون پی رہے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ کسی ہتھیار کے ذریعے انہوں نے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور جلدی جلدی کچا گوشت چبانے لگے، یہ منظر اس قدر دہشت انگیز تھا کہ میرا بدن برف کی مانند سرد پڑ گیا۔ میری آنکھوں کے آگے پہلے شرارے ناچنے لگے اور پھر میں جیسے تاریکی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا۔‘
ڈاکٹر نے لاڈبل کی یہ پراسرار داستان کچھ اس انداز سے سنائی کہ ایک مرتبہ تو دہشت کی لہر میرے جسم میں بھی دوڑ گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، لاڈبل اب کہاں ہے؟’
اس نے بتایا، ‘لاڈبل کی جان تو بچ گئی لیکن اس حادثے نے اس کا ذہنی توازن درہم برہم کر دیا تھا۔ بعض اوقات وہ راتوں کو سوتے سوتے چونک کر چیخنے لگتا تھا۔ بعد ازاں اسے جبری رخصت پر اپنے وطن واپس بھیج دیا گیا اور اب مجھے کچھ علم نہیں کہ وہ جیتا ہے یا مر گیا۔‘
جب میں نے ڈاکٹر سے اپنے اس شبہے کا اظہار کیا کہ کیا ہمیں لاڈبل کی روایت پر یقین کر لینا چاہیے تو وہ کہنے لگا، ‘مجھے اس حادثے کی صداقت پر اس طرح یقین ہے جیسے کل سورج مشرق سے طلوع ہو گا۔ وہ جھوٹ اور گپ بازی کا عادی نہیں تھا اور اس نے مجھے بعد میں کئی مرتبہ وہاں لے جا کر نہ صرف وہ جھونپڑی دکھائی بلکہ انسانوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں بھی دکھائی تھیں جو یقیناً اب بھی وہاں موجود ہوں گی۔‘
اس رات میں آرام سے نہ سو سکا اور سونے کا سوال کیا تھا؟ مجھے نیند ہی نہیں آئی بار بار یہی خیال ذہن میں گردش کرتا تھا کہ کیا واقع آدم خور انسانوں کی کوئی نسل ہے جو آنائی کے جنگلوں میں بستی ہے یا محض لاڈبل کے فریب و تخیل کی کرشمہ سازی ہے۔ انسانی فطرت میں تجسس کا جو مادہ فطرت نے رکھ دیا ہے، وہ اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا خواہ کچھ بھی ہو میں خود اس معاملے کی تحقیق کروں گا۔
صبح جب میں نے ڈاکٹر کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو اس نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور صاف جواب دے دیا کہ وہ اس خطرناک ترین مہم میں میرا ساتھ دینے کی حماقت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ اس نے مجھے بھی سمجھانے اور اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر میرے سر پر تو قضا کھیل رہی تھی۔ میں نے ایک نہ سنی اور اب مجھے تسلیم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر میں ڈاکٹر کی نصیحت مان کر اپنا ارادہ ترک کر دیتا تو وہ اذیت ناک حادثہ پیش نہ آتا جس کی بدولت میری زندگی اب مُردوں سے بدتر ہو چکی ہے۔ کئی مرتبہ اس جان کنی سے تنگ آ کر خود کشی کا ارادہ کر چکا ہوں مگر موت نہیں آتی۔ میری زندگی کے تجربات میں سے یہ وہ تجربہ ہے جسے میں شاید مرنے کے بعد بھی یاد رکھوں گا۔
آج بھی تنہائی کے وحشت انگیز لمحات میں جب میں چشمِ تصوّر سے ان حالات کا جائزہ لیتا ہوں جن سے مجھے دو چار ہونا پر تو یقین کیجیے کہ اپنے ہوش و حواس پر شک گزرنے لگتا ہے کہ کیا واقع ایسا ممکن ہے۔ آدم خور وحشیوں کو دیکھنے اور ان سے دو دو ہاتھ کرنے کا جنون مجھ پر اس شدّت سے طاری ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔ کوئی نادیدہ اور پر اسرار قوّت تھی جو کشاں کشاں مجھے شیروں کی وادی میں لے جا رہی تھی۔
اس طویل تمہید کے بعد میں اب اصل واقعے کی طرف آتا ہوں۔ میں نے رخصت حاصل کرنے کے لیے اپنے محکمے کے افسر اعلیٰ کو درخواست پڈانگ بھیجی۔ پڈانگ سماٹرا کا دارالحکومت ہے اور تمام بڑے بڑے سرکاری دفاتر یہیں ہیں۔ درخواست میں صرف یہ ظاہر کیا کہ میں یہ رخصتیں صرف سیر و سیاحت اور تھکن دور کرنے کے لیے لے رہا ہوں، امید کے مطابق یہ درخواست جلد ہی منظور ہو گئی اور میں زندگی کی آخری اور خطرناک ترین مہم پر روانہ ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ سب سے پہلے میں نے آنائی کے علاقے کا مکمل نقشہ حاصل کیا اور پھر ایسے رہبر کی تلاش ہوئی جو اس علاقے میں گھومنے کا عملی تجربہ رکھتا ہو۔ پیلمبنگ میں شکاریوں اور سیاحوں کی سہولت کے لیے حکومت نے ایک علیحدہ محکمہ کھول رکھا ہے، جہاں سے انہیں ہر قسم کی معلومات اور نقشے بہم پہنچائے جاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر معمولی رقم کی عوض ایک ایسا شخص بھی مہیا کر دیا جاتا ہے جو سیاحوں اور شکاریوں کو جنگلوں اور پہاڑیوں میں لیے لیے پھرتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب میں پیلمبنگ کے محکمۂ سیر و سیاحت میں آنائی کے نقشے لینے گیا تو وہاں دو امریکی سیاحوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک کا نام تھا نکسن اور دوسرے کا ولیم۔ گفتگو کے درمیان میں پتہ چل گیا کہ نہ صرف وہ سیر و سیاحت سے دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اچھے شکاری بھی ہیں۔ میں امریکی لوگوں سے مل کر اس لیے خوش ہوتا ہوں کہ وہ نہایت زندہ دل، ملنسار اور جلد گھل مل جانے والے لوگ ہیں اور فطری طور پر مہم پسند بھی ہوتے ہیں۔ وہ اس وقت بورینو سے سیدھے سماٹرا آئے تھے اور وہاں کے تاریک اور سرد جنگلات کا ذکر بار بار کرتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آنائی کے جنگلوں میں آدم خور انسان پائے جاتے ہیں تو وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگے جیسے مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہوں اور جب میں نے یہ بتایا کہ چند روز تک میں انہی آدم خور انسانوں کی تلاش میں وہاں جانے والا ہوں تو انہیں میرے پاگل ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا۔ البتہ میں نے انہیں دعوت دی کہ اگر وہ میرے ساتھ چلنا پسند کریں تو خوب لطف رہے گا۔
میں واپس اپنی قیام گاہ پر آ گیا اور ہاشم سے کہا کہ وہ قلیوں اور خچروں کا انتظام کرے تاکہ ہم اپنے سفر پر جلد روانہ ہو سکیں۔ ہاشم بہت خوش تھا کیوں کہ اتنے عرصے بعد اسے اپنی رائفل کے جوہر دکھانے کا موقع مل رہا تھا۔ ایک روز شام کے وقت میں اپنے خیمے میں بیٹھا قہوہ پی رہا تھا کہ ہاشم اپنے ساتھ ایک عمر رسیدہ لیکن بے حد قوی الجثہ شخص کو لے کر آیا۔ میرے اندازے کے مطابق اس کی عمر ساٹھ اور ستّر کے درمیان تھی لیکن کاٹھ اس قدر مضبوط تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھے اس پر رشک سا آیا۔ اس کے تیور بتا رہے تھے کہ زمانے کے سرد گرم دیکھ چکا ہے۔ وہ آتے ہی میرے سامنے مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ہاشم کی طرف دیکھا۔
’مالک! اس کا نام بابی ہے اور یہ گائیڈ کا کام پیشے کے طور پر کرتا ہے۔‘
بابی مقامی زبان میں جنگلی بھینسے کو بھی کہتے ہیں، میں نے اسے اپنے نزدیک بیٹھا لیا۔ قہوے کا ایک پیالہ پیش کیا اور پوچھا کہ کیا وہ آنائی کے علاقے سے بھی واقف ہے۔ بابی کی آنکھوں میں ایک نئی چمک نمودار ہوئی۔ چند لمحوں تک وہ گردن جھکائے کچھ سوچتا رہا۔ پھر آہستہ سے بولا، ‘صاحب! آپ وہاں نہ جائیں تو اچھا ہے۔۔۔۔۔ وہاں۔۔۔۔۔‘
’کیوں؟ وہاں کیا ہے؟ تم چپ کیوں ہو گئے؟ اگر تم وہاں نہیں جانا چاہتے تو میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔‘
بابی کا چہرہ صاف غمّازی کر رہا تھا کہ اس کے دل میں کوئی بات ضرور ہے جسے زبان پر لانے سے وہ ہچکچا رہا ہے اور وہ بات سوائے آدم خور بلاؤں کے اور کیا ہو سکتی تھی۔ جب میں نے اصرار کیا تو بابی نے یوں زبان کھولی، ‘مالک! اگر آپ وہاں جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیں۔ کون ہے جو آپ کو روک سکتا ہے، لیکن یہ یاد رکھیے کہ شیروں کی وادی سے کوئی جان سلامت لے کر نہیں آیا۔ وہ بد روحوں اور شیطانی بلاؤں کے رہنے کی جگہ ہے جو درندوں کے بھیس میں آ کر انسانوں کو کھا جاتی ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید میں شیروں کی وادی میں جانے سے ڈرتا ہوں۔ نہیں مالک! یہ بات نہیں ہے۔ مجھے تو ایک روز مرنا ہے اور موت کا وقت معین ہے۔ اگر میری موت شیروں کی وادی میں آئے گی، اگر آسمانی دیوتاؤں نے یہ حکم دے دیا ہے کہ میں شیطانی روحوں کا شکار بنوں تو کون ہے جو دیوتاؤں کا حکم ٹال سکتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا مالک۔‘
اس کے بعد اس نے سختی سے یوں اپنے ہونٹ بھینچ لیے جیسے آئندہ نہ بولنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ ہاشم حیرت سے بابی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر دہشت کی علامات پھیلتی ہوئی دیکھ لیں، لیکن میں جانتا تھا کہ اس کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جہاں میرا پسینہ گرتا وہاں خون بہانے کے لیے ہر وقت مستعد رہتا تھا۔ دو تین دن کے اندر اندر ہم نے اس مہم کی تیاریاں مکمل کر لیں۔ بابی حیرت انگیز طور پر بہت جلد چار قلیوں اور خچروں کا انتظام کر دیا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ نہایت کم سخن اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی ہے۔ ہاشم کی طرح فضول گفتگو اور گپ بازی کا فن اسے نہیں آتا تھا۔ میں اس سے کبھی کبھی کچھ پوچھنے کی کوشش کرتا تو صرف گردن ہلاتا اور مسکرا کر کسی اور کام میں مصروف ہو جاتا۔ بہرحال مجھے اس پر پورا اعتماد تھا کہ وہ ہمیں دغا نہیں دے گا۔
روانگی سے ایک روز پیشتر کا ذکر ہے۔ سہ پہر کا وقت ہو گا۔ میں آرام دہ کرسی پر بیٹھا عالم تصوّر میں آدم خور انسانوں کو دیکھ رہا تھا کہ دور سے گھوڑوں کے دوڑنے کی آواز کان میں آئی۔ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو شخص گھوڑوں پر بیٹھے میری ہی طرف آ رہے تھے۔ جب وہ نزدیک آئے تو میں نے فوراً انہیں پہچان لیا۔ وہ ولیم اور نکسن تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پڈانگ سے سیدھے پیلمبنگ آ رہے ہیں۔ ان کا سامان شام تک آ جائے گا۔ ان کے آ جانے سے سچ پوچھیں تو مجھے بڑی تقویت پہنچی۔ رات کو جب کافی کی محفل جمی تو اِدھر اُدھر کی باتوں کا سلسلہ دراز ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ آنائی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ولیم نے بتایا، ‘ہم نے پڈانگ میں ایک انگریز شکاری سے ملاقات کی تھی اور اس نے بھی وہی بات بتائی جو تم نے اس سے پہلے بتا چکے تھے، یعنی آدم خور وحشیوں کے متعلق اور اب ہمیں یقین ہے کہ ضرور اس بات میں صداقت کا عنصر موجود ہے۔ یہی ہمارے آنے کی وجہ ہے۔‘
۱۱ جون ۱۹۴۴ءکی وہ خوش گوار صبح میرے حافظے کی لو پر آج بھی یوں روشن ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ اس روز نو آدمیوں پر مشتمل یہ قافلہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوا جس کے بارے میں اس وقت کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ کب اور کہاں ختم ہو گا، لیکن بعد میں جو واقعات پیش آئے انہوں نے بتا دیا کہ یہ سفر وہاں ختم ہوا، جہاں زندگی کی حد ختم ہوتی ہے اور موت کی سرحد کا آغاز ہوتا ہے۔ جاوا سے سماٹرا آتے وقت مجھ پر اضطراب اور بے چینی کی شدّت کا جو بھوت سوار ہوا تھا، وہ اتنے عرصے بعد اب پھر مجھے پریشان کر رہا تھا اور میں ہی کیا، مہم میں شامل سبھی لوگ اس روز سراسیمہ اور خوف زدہ دکھائی دیتے تھے۔ ولیم اور نکسن کے لبوں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹیں غائب تھیں اور ہاشم کے وہ فلک شگاف قہقہے بھی دم توڑ چکے تھے جن کی بدولت ایک ہنگامہ سا برپا رہتا تھا، ہم سب چپ چپ تھے۔ ہم نے خاموشی سے ناشتہ کیا اور جونہی دروازۂ خاور کھلا اور آفتابِ عالم کی پہلی کرن ہمارے سلام کو حاضر ہوئی، ہم نے اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔
تین روز تک مسلسل دن رات ہم شیروں کی وادی کی طرف بڑھتے رہے۔ راہ میں اگرچہ ہماری زبانوں پر پڑے ہوئے قفل کھل گئے تھے۔ امریکی شکاریوں کی خوش طبعی واپس آ گئی تھی اور ہاشم کے قہقہوں میں بھی جان پڑ گئی تھی، لیکن اس کے باوجود دہشت کی ایک ہلکی سی لہر تھی جو اس قافلے میں پھیلی ہوئی ضرور محسوس ہوتی تھی۔ بوڑھا بابی بے حد پراسرار اور عجیب شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا محال تھا کہ وہ فکرمند ہے یا نہیں۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا یا وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ راستے کا نقشہ ساتھ ہونے کے باوجود ہم سب اس کے رحم و کرم پر تھے اور میں نے پہلے ہی سب کو سمجھا دیا تھا کہ بابی کو ہر ممکن طریقے سے راضی رکھا جائے۔
آنائی سے کوئی ایک میل اِدھر ایک چھوٹا سا کمپونگ ہے۔ کمپونگ مقامی زبان میں گاؤں کو کہتے ہیں۔ دوپہر کا وقت تھا جب ہم اس کمپونگ کے قریب پہنچے۔ ایک ندی کے کنارے، جس میں پانی کم تھا اور کیچڑ زیادہ، ہم نے ڈیرے ڈال دیے۔ کیوں کہ بھوک سے ہمارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ہاشم کی مستعدی اس قسم کے معاملات میں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ کہنے لگا، ‘آقا! میں ذرا اپنی رائفل کو سیر کرا لاؤں۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔‘
میں نے اسے اجازت دے دی اور وہ ندی کے کنارے ٹہلتا ہوا دور نکل گیا۔ اتنی دیر میں ہم نے کچھ کھانا کھایا اور پھر اطمینان سے سگار سلگا کر آئندہ کے پروگرام پر غور کرنے لگے۔ بمشکل پندرہ منٹ ہوئے ہوں گے کہ مقامی کسانوں کا ایک گروہ چیختا چلّاتا ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔ ہم سمجھے کہ شاید یہ لوگ ہمیں لوٹنے کے ارادے سے آ رہے ہیں۔ پس ہم نے اپنی اپنی رائفلیں فوراً ان کی طرف تان لیں، مگر جب وہ لوگ نزدیک آئے تو یہ دیکھ کر میرے پسینے چھوٹ گئے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں ہاشم کی لاش اٹھا رکھی تھی۔ یہ حادثہ اس قدر فوری اور زبردست تھا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے زمین گھومتی دکھائی دی اور قریب تھا کہ میں غش کھا کر گر پڑوں کہ امریکی دوستوں نے مجھے سنبھال لیا۔
’آپ کے آدمی کو بوجا (مگرمچھ) نے ہلاک کیا ہے۔ وہ بہت سے آدمیوں اور جانوروں کو مار چکا ہے۔ اس میں ضرور کوئی بد روح ہے صاحب۔ وہ کسی سے نہیں مرتا۔ اس نے ہماری گائیں کھا لیں، اس نے ہمارے بچے چبا ڈالے، اس نے ہماری عورتیں ہڑپ کر ڈالیں۔ وہ بہت ظالم ہے۔‘
مختلف آوازیں تھیں جو میرے کانوں میں آ رہی تھیں۔ میں نے ہاشم کی لاش کا معائنہ کیا۔ ظالم مگرمچھ نے خدا جانے کس طرح اس پھرتیلے اور ہوشیار آدمی کو اپنے قابو میں کیا ہو گا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاشم کی ایک ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے بالکل غائب تھی اور دایاں بازو کہنی کے اوپر سے اس طرح کٹا ہوا تھا، جیسے مگرمچھ نے چبا ڈالا ہو۔ بد نصیب کی آنکھیں شدّتِ تکلیف سے باہر کو نکل آئی تھیں اور اسی عالم میں شاید اس کی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔
کچھ کہہ نہیں سکتا کہ ہاشم کی لاش دیکھ کر مجھ پر جنون و غضب کی کیا حالت طاری ہوئی۔ آنائی کے علاقے نے اپنا پہلا شکار ہم سے وصول کر لیا تھا۔ میں نے طے کر لیا کہ جان خواہ رہے یا جائے، جب تک اس مگرمچھ کا قصّہ پاک نہ کر دوں گا، یہاں سے نہ جاؤں گا۔
رائفلیں، نیزے اور کلہاڑے سنبھال کر پندرہ بیس آدمیوں کی یہ ٹولی اس موذی مگرمچھ کی تلاش میں نکلی۔ میرا یہ اندازہ کہ ندی میں پانی کم اور کیچڑ زیادہ ہوتی ہے، غلط نکلا۔ کیوں کہ ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ندی کا پاٹ حیرت انگیز طور پر وسیع ہو گیا تھا اور اس میں پانی یوں جوش مار رہا تھا جیسے اُبل رہا ہو۔ کسانوں کا لیڈر ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جسے ہاشم کی موت کا بے حد افسوس ہوا تھا۔ وہ در اصل گائے کو پانی پلانے ندی پر لایا تھا۔ اسی اثنا میں ہاشم بھی ٹہلتا ہوا اُدھر آ نکلا اور دونوں باتوں میں مصروف ہو گئے۔ گائے ان سے کچھ فاصلے پر کھڑی ندی میں منہ ڈالے پانی پی رہی تھی۔ مگرمچھ پانی میں اندر ہی اندر آیا اور جھپٹ کر گائے کی گردن اپنے فولادی جبڑے میں جکڑ لی اور اسے پانی میں گھسیٹنے لگا۔ گاہے اتنی آسانی سے قابو میں آنے والی نہیں تھی۔ وہ اچھل کر پوری قوّت سے پیچھے ہٹی تو مگرمچھ اس کے ساتھ ہی ندی سے باہر نکل کر کنارے پر آ گیا۔ ہاشم اور کسان چلّاتے ہوئے مگرمچھ کی طرف بڑھے۔ مگرمچھ نے گائے کو فوراً چھوڑ دیا اور ہاشم پر حملہ کیا۔ ہاشم کے ہوش و حواس جواب دے گئے۔ اس کا وقت پورا ہو چکا تھا، وہ منہ کے بل پانی میں گرا۔ مگرمچھ نے بجلی کی مانند لپک کر اس کی ٹانگ منہ میں دبائی اور ندی میں گھس گیا۔ اتفاق کی بات اُدھر سے کشتی میں سوار دس بارہ ماہی گیر گزر رہے تھے، کسانوں نے فوراً مدد کے لیے انہیں پکارا۔ ماہی گیروں نے مگرمچھ کا تعاقب کیا تو اس نے فوراً ہاشم کو چھوڑ دیا۔ ہاشم فرطِ خوف سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکا تھا۔ بعد ازاں اس کی لاش نکالی گئی۔ اس کی ایک پنڈلی غائب تھی۔ آخر ہم اس جگہ پر پہنچے جہاں یہ دلدوز حادثہ پیش آیا تھا۔ ندی کے کنارے کیچڑ میں گائے کے خوروں اور مگرمچھ کے گھسٹنے کے نشانات موجود تھے۔ اس موذی مگرمچھ کا سراغ لگانا اتنا آسان کام نہ تھا۔ خدا معلوم وہ اس وقت کہاں سے کہاں گیا ہو گا۔ ماہی گیروں میں سے ایک کہنے لگا، ‘صاحب! میں اس کے رہنے کی جگہ جانتا ہوں، لیکن وہاں دلدل اتنی گہری ہے کہ ایک مرتبہ پھنس جانے کے بعد زندہ بچ نکلنا نا ممکن ہے۔ وہ اپنا شکار وہیں ایک گڑھے میں چھپا رکھتا ہے اور سڑے ہوئے گوشت کی بدبو ہمیں بتائے گی کہ وہ گڑھا کہاں ہے۔‘
کشتی میں سوار ہو کر ہم ندی میں بہاؤ کے رخ آگے بڑھنے لگے۔ میرا خون اس وقت کھول رہا تھا اور یہی جی چاہتا تھا کہ مگرمچھ کو اپنے ہاتھ سے ہلاک کروں۔ یکایک بائیں جانب سے مچھلیوں اور کچھووں کے سڑے ہوئے گوشت کی بے حد ناگوار بدبو ناک میں آئی اور ماہی گیر فوراً کشتی کنارے پر لے آئے، کنارے کی کیچڑ کے ساتھ بلا شبہ مگر مچھ کے پنجوں کے گہرے نشانات نمایاں تھے اور اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پیشتر ہی یہاں سے گیا ہو گا۔
کافی دیر تک گھومنے کے بعد ہم گاؤں کی طرف چلے آئے اور طے یہ ہوا کہ مگرمچھ کی تلاش کل بھی کی جائے گی۔ رات کو جب ہم کھانے سے فارغ ہو کر ایک جگہ جمع ہوئے تو گاؤں سے کسانوں اور ماہی گیروں کی ٹولیاں بھی آ گئیں۔ فضا میں نمی اور دھند کی باعث سرِ شام ہی اندھیرا چھا گیا تھا اور مچھروں کا بادل ندی کے کناروں سے اٹھ اٹھ کر گاؤں کی طرف جا رہا تھا۔ گاؤں والے ان موذی مچھروں سے محفوظ رہنے کے لیے یہی طریقہ جانتے تھے کہ جگہ جگہ آگ روشن کر دیتے اور لکڑیوں پر پانی چھڑکتے رہتے تاکہ ان میں سے دھواں اٹھے اور مچھروں کو بھگا دے۔ یہ ترکیب خاصی کارگر تھی۔
ہاشم کی اچانک اور درد ناک موت کی باعث ہمارے قافلے میں مایوسی اور خوف کا گہرا تاثر پھیل چکا تھا۔ ہر شخص سراسیمہ اور پریشان تھا۔ ارد گرد کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی پرہول اور وحشت انگیز تھا کہ خواہ مخواہ اعصاب میں تناؤ پیدا ہونے لگتا تھا۔ گاؤں والوں کے آنے سے دلوں پر رکھا ہوا افسردگی کا بوجھ کچھ دور ہوا۔ یہ لوگ تہذیب و تمدّن اور سائنس کی دنیا سے اس قدر دور ان جنگلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہیں مر جاتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں سادگی اور رنگینی کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے، محنت جفا کشی، ہمّت و جرات جیسے مثالی اوصاف کی ساتھ ساتھ یہ لوگ سچائی، بہادری، ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کے جذبات سے بھی مالا مال ہیں۔
رات ہوتے ہی تاریکی اور سردی ایک دم حملہ کرتی ہیں، لیکن ہم نے آگ کا ایک بڑا الاؤ سرِ شام ہی روشن کر لیا تھا۔ جس سے حرارت بھی حاصل ہو رہی تھی اور مچھروں کو بھگانے کا کام بھی لیا جا رہا تھا اور ہم سب اس الاؤ کے گرد بیٹھے یونہی وقت گزاری کے لیے سگار پی رہے تھے۔ تھوڑی دیر قبل ہاشم کی لاش ہم نے اسی نرم دلدلی زمین میں گڑھا کھود کر دبا دی تھی۔ بابی نے شاید ان لوگوں کے سردار کو بتا دیا تھا کہ ہم آدم خور انسانوں کی تلاش میں یہاں آئے ہیں اور میں دیکھ رہا تھا کہ دونوں کچھ فاصلے پر بیٹھے آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے کہ اتنے میں بابی اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا، ‘مالک گاؤں والے کہتے ہیں کہ آپ رات اس جنگل میں قیام نہ کریں۔ یہ بد روحوں اور شیطانوں کی رہنے کی جگہ ہے۔ وہ آپ کو اذیت دیں گے۔ آپ ان کے ہمراہ گاؤں میں چلے جائیں۔‘
میں نے بابی سے پوچھا، ‘کیا واقعی یہ بات ان کا سردار کہتا ہے یا تم خود اپنے طور پر کہہ رہے ہو۔ اگر تمہیں یہاں رہتے ہوئے ڈر لگتا ہے تو تم خوشی سے گاؤں میں جا سکتے ہو، ہم بھوتوں اور بد روحوں پر یقین نہیں رکھتے۔‘
بابی کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو گیا۔ وہ چند لمحے تک میری طرف دیکھتا رہا پھر بولا، ‘مالک! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ وقت آنے پہ معلوم ہو گا کہ بوڑھا بابی اتنا بزدل نہ تھا۔‘
میں نے اشارے سے گاؤں کے سردار کو بلایا اور اس سے پوچھا، ‘تم نے کبھی انسانوں کو کھانے والے وحشی لوگ یہاں دیکھے ہیں؟’
یہ سنتے ہی بڈھے پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس کا بدن کانپنے لگا، رنگ سفید پڑ گیا اور ہونٹ تھرتھرانے لگے۔ وہ تھرّائی ہوئی آواز میں بولا، ‘مالک! آپ کو ان کے بارے میں باتیں کس نے بتائیں؟ ہم نے اپنے بزرگوں سے ان کے بارے میں سنا ضرور ہے، لیکن دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ وہ ہزاروں سال سے ان جنگلوں اور دریاؤں پر حکومت کرتے آئے ہیں اور کسی دوسرے کو اپنے علاقے میں آنے نہیں دیتے۔ کبھی کبھی رات کی تاریکی میں جب موسلا دھار بارش ہو رہی ہو، آسمان پر بادل گرج رہے ہوں اور بجلی زور سے کڑکتی ہو تب ان ناقابلِ عبور پہاڑوں کی جانب سے وحشی درندوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ شیروں کی وادی ہے مالک! شیروں کی وادی! آپ یہاں سے چلے جائیے۔‘
اتنا کہہ کر وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ جیسے کسی اندیکھی قوّت کو سجدہ کر رہا ہو۔ اس بوڑھے کے منہ سے یہ پراسرار لفظ سن کر اتنا خوف و ہراس میرے ساتھیوں پر طاری ہوا کہ ان کے منہ سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکل گئیں۔ بابی کے لائے ہوئے چاروں مزدوروں کی حالت تو ہاشم کی دردناک موت کے بعد ہی غیر ہو چکی تھی اور اب بوڑھے کی حرکتیں دیکھ کر رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ وہ تو گاؤں والوں کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ اِدھر ولیم اور نکسن کے چہروں پر بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ مجھے اس طرح تک رہے تھے جیسے میں انہیں مار ڈالنے کے ارادے سے یہاں لے آیا ہوں۔
میں نے ڈانٹ ڈپٹ کر گاؤں والوں کو وہاں سے بھاگ جانے کا حکم دیا کیوں کہ میں جانتا تھا کہ جب تک یہ ہمارے پاس بیٹھے رہیں گے، میرے ساتھیوں کو فضول کے قصّے کہانیاں سنا کر ڈراتے رہیں گے۔ گاؤں والے تو ہاتھ جوڑتے ہوئے فوراً وہاں سے چلے گئے اور مزدوروں کو میں نے گولی مار دینے کی دھمکی دے کر روک لیا۔ یہ بالکل مجبوری کے طور پر کیا گیا، ورنہ سامان اٹھانے اور رکھنے میں بری دقّت پیش آتی۔
تنہائی میں میں نے اپنے امریکی دوستوں کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ اگر وہ اتنے ہی بزدل تھے تو انہیں آنے سے پہلے سوچ بچار کر لینی چاہیے تھی۔ وہ از حد شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آخری دم تک میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد ہم اپنے خیموں میں گئے اور مچھر دانیاں تان کر سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ بوڑھا بابی اپنا لمبا نیزا سنبھالے میرے خیمے کے باہر پہرا دینے کے لیے بیٹھ گیا۔ وہ کہتا تھا کہ رات کو اسے نیند کم آتی ہے۔ وہ رات کسی حادثے اور خطرے کے بغیر خیریت سے گزر گئی۔
آنائی کی فلک بوس پہاڑیوں کے پیچھے سے جب سورج طلوع ہوا تو اس وقت کا منظر اس قدر دلفریب اور معصوم تھا کہ ہم سب تھوڑی دیر کے لیے اسی میں گم ہو گئے۔ سرد ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے پہاڑی جنگلوں کی طرف سے آتے اور ہمیں سلام کرتے ہوئے گزر جاتے۔ چاروں طرف پرندوں کے چہچہانے کی دلکش آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے اونچے اونچے درخت تمام کے تمام اوس میں نہائے ہوئے تھے اور ان کے پتّوں پر پڑے ہوئے قطرے سورج کی سنہری کرنوں میں موتیوں کی مانند چمک رہے تھے۔ تا حدِ نظر کوہستانِ آنائی کا ایک وسیع و عریض سلسلہ پھیلتا چلا گیا تھا اور انہی کے درمیان کہیں شیروں کی وادی واقع تھی۔ ہمارے بائیں ہاتھ آنائی کی ندی کا پانی ایک دودھیا لکیر کی مانند بل کھاتا ہوا دور تک جنگل میں چلا گیا تھا، ندی کے اوپر آبی پرندوں کے غول کے غول پرواز کر رہے تھے۔ میں نے جلدی جلدی کافی بنائی، ناشتہ کیا اور رائفل لے کر ان پرندوں کے شکار کے لیے نکل پڑا۔ مجھے ہاشم کی یاد بری طرح ستا رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا اگر وہ اس وقت میرے ساتھ ہوتا تو کس قدر لطف آتا، پھر مجھے اس خونخوار مگرمچھ کا خیال آیا جس نے ہاشم کو ہلاک کیا تھا۔ اتنے میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو ولیم اور نکسن دونوں اپنی رائفلیں ہاتھوں میں پکڑے میری طرف آ رہے تھے اور ان کے پیچھے بوڑھا بابی ایک خچر کو ساتھ لیے آ رہا تھا۔ جب وہ قریب آ گئے تو میں نے بابی سے پوچھا، ‘خچر کس لیے لائے ہو؟ آخر اس کی کیا ضرورت تھی؟’
’مالک! کیا آپ مگرمچھ کو مارنے کا ارادہ بدل چکے ہیں !’
میں حیرت سے اس کے منہ کی طرف تکنے لگا۔ میں نے جھنجھلا کر کہا، ‘مگرمچھ کا اس خچر سے کیا واسطہ؟’
’مالک! مگرمچھ مارنے کے لیے یہ خچر ہی اس وقت کام دے گا۔ وہ صبح ہی صبح اپنے شکار کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ہم اس خچر کو اس جگہ باندھ دیں گے جہاں کل مگرمچھ نے گائے کو پانی میں گھسیٹا تھا۔ مگرمچھ خچر دیکھ کر ضرور کنارے پر آئے گا۔‘
میں نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ بالکل سیدھی بات تھی مگر دھیان ہی نہیں گیا۔ میں نے بوڑھے بابی کے کاندھے پر دوستانہ انداز میں تھپکی دی اور کہا، ‘مجھے تمہاری استادی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے بابا۔‘
وہ مسکرایا اور خچر کی رسی تھامے آگے بڑھ گیا۔ بالآخر ہم اس جگہ پہنچے جہاں مگرمچھ نے ہاشم کو ہلاک کیا تھا۔ بابی نے اشارے سے ہم سب کو اِدھر اُدھر دُبک جانے کا اشارہ کیا اور پھر اپنے کپڑوں کے نیچے سے لکڑی کی ایک میخ نکال کر نرم زمین میں گاڑ دی۔ رسی کا ایک سر اس نے میخ کے ساتھ باندھا تاکہ خچر بھاگنے نہ پائے۔ اس کاروائی کے بعد وہ ہماری طرف لوٹ آیا۔ ہم کنارے سے کوئی پچاس گز دور درختوں کی آڑ میں کھڑے تھے اور اب صرف مگرمچھ کا انتظار تھا۔ ہماری نظریں ندی کے پانی پر مرکوز تھیں، جو کسی ہل چل کے بغیر آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔
کامل پون گھنٹہ اسی عالم میں گزر گیا۔ مگرمچھ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ انتظار کے یہ لمحات بھی کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں، یہ کسی شکاری سے پوچھیے۔ بابی بار بار اپنے منہ پر انگلی رکھ کر ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتا اور ہم کسمسا کر رہ جاتے۔ آخر ہم اکتا کر چلنے ہی والے تھے کہ یکایک خچر نے زور زور سے اچھالنا اور ہنہنانا شروع کر دیا۔ اس نے شاید خطرے کی علامات سونگھ لی تھیں، پندرہ منٹ تک خچر اسی طرح بے چینی سے اچھلتا اور کھونٹے سے آزاد ہونے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میخ زمین میں اتنی گہری گڑی ہوئی تھی کہ اکھڑ نہ سکی۔ ہم سب سانس روکے اپنی رائفلیں تانے بالکل مستعد کھڑے تھے اور طے یہ ہوا تھا کہ مگرمچھ جونہی رینگتا ہوا کنارے پر آئے، بیک وقت تینوں رائفلوں سے اسے نشانہ بنایا جائے۔
خچر تک پہنچنے کے لیے مگرمچھ کو ندی سے نکل کر پندرہ بیس گز دور آنا پڑتا اور ندی میں عین اس مقام پر جہاں سے خچر نزدیک ہی تھا، پانی کھولتے ہوئے تیل کی طرح جوش کھا رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مگرمچھ نے اپنی لمبی سی تھوتھنی پانی سے باہر نکالی اور سرنگ نما جبڑا کھول کر دو تین مرتبہ اِدھر اُدھر منہ گھمایا اور آہستہ آہستہ کنارے پر آ گیا۔ خدا کی پناہ! کس قدر زبردست مگرمچھ تھا، حالانکہ ہم اس سے کافی فاصلے پر تھے، پھر بھی صاف اندازہ ہوتا تھا کہ منہ سے لے کر دم تک اس کی لمبائی سولہ سترہ فیٹ سے کم نہ ہو گی۔ خچر کی حالت قابلِ رحم تھی۔ بے چارہ اسے دیکھ کر یوں سہم گیا تھا جیسے کبوتر بلّی کو سامنے پا کر سہم جاتا ہے۔ کچھ ایسی دہشت خچر پر چھا گئی کہ وہ یک لخت بے حس و حرکت ہو کر مگرمچھ کو دیکھنے لگا، جو آہستہ آہستہ مکارانہ انداز میں اپنے شکار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ خچر کے بالکل قریب پہنچ کر مگرمچھ ٹھہر گیا۔ پہلے اس نے اپنا جبڑا کھولا اور پھر تیزی سے اپنی دم کو گردش دینے لگا۔ اگرچہ وہ اب ہمارے نشانے کی عین زد میں تھا، لیکن خدشہ یہ تھا کہ اگر گولی اسے نہ لگی تو خچر کو ضرور لگ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ فوراً ہی بے چارے خچر کا کام تمام ہو جاتا اور حالات ایسے تھے کہ خچر کو ہم کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ویسے بھی مگرمچھ کی پشت اور جبڑے کی کھال اس قدر سخت ہوتی ہے کہ گولی اس پر اثر نہیں کرتی اور اس کو مارنے کی واحد صورت یہی ہے کہ گولی مگرمچھ کے پیٹ میں لگے۔
مگرمچھ کا خچر پر حملہ کرنا اور خچر کا وار بچانا، اس قدر عجیب اور حیرت انگیز تماشا تھا کہ ساری زندگی یاد رہے گا۔ مگرمچھ نے اچھل کر اپنے جبڑے میں خچر کی گردن پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن خچر بھی غافل نہ تھا۔ اس نے گردن موڑ کر ایک دولتی اس زور سے ماری کہ مگرمچھ پشت کے بل گر گیا مگر فوراً لوٹ پوٹ کر وہ پھر خچر کی طرف لپکا اور اس مرتبہ اس نے خچر کی ٹانگ اپنے منہ میں دبا لی۔ خچر اور مگرمچھ دونوں کے حلق سے اب طرح طرح کی خوفناک آوازیں نکل رہی تھیں۔ مگرمچھ نے پوری قوت سے خچر کو گھسیٹنے کے لیے سر جھکایا اور زمین میں گڑی ہوئی میخ اکھڑ گئی۔
میخ اکھڑتے ہی خچر کو جیسے نئی زندگی ملی، اس نے جنگل کی طرف بھاگنا چاہا اور مگرمچھ اسے ندی کی طرف لے جانا چاہتا تھا۔ کئی منٹ تک یہی کھینچا تانی جاری رہی یہاں تک کہ خچر سخت لہو لہان اور زخمی ہو کر گر پڑا۔ اب مگرمچھ نے اسے دوبارہ اپنے منہ میں پکڑا اور کنارے کی طرف پلٹا۔ ہم نے سوچا کہ خچر تو مارا ہی گیا، اب مگرمچھ کو جانے نہ دیا جائے، ہماری رائفلوں سے بیک وقت تین شعلے نکلے اور مگرمچھ قلابازی کھا کر ڈھیر ہو گیا۔ خچر اب بھی زندہ تھا اور مگرمچھ کے جبڑے سے اپنا گلا چھڑانے کی جد و جہد کر رہا تھا۔ ہم بھاگتے ہوئے ذرا قریب پہنچے تو مگرمچھ نے پھر انگڑائی لی اور خچر کی ٹانگ لپک کر پکڑ لی اور تیزی سے کنارے کی طرف بڑھا۔ کتنی زبردست قوّت اس کے جسم میں چھپی ہوئی تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود اس نے کوئی اثر نہ لیا۔ اس سے پیشتر کہ ہم قریب پہنچ کر دوبارہ فائر کریں، مگرمچھ اپنا شکار لے کر ندی میں پھرتی سے داخل ہو گیا، عین اسی وقت بابی کا ہاتھ جنبش میں آیا اور اس نے نشانہ لے کر نیزہ پوری رفتار سے مگرمچھ کی طرف پانی میں پھینک مارا۔ مگرمچھ کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ نیزے کی نوک اس کے کھلے جبڑے کے اندر نرم گوشت میں گڑ گئی تھی۔ درد کی شدّت سے بے تاب ہو کر وہ پانی میں اچھلنے لگا۔ اس کے خون سے ارد گرد کا پانی سرخ ہو چکا تھا۔ یوں ہاشم کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، یہ گاؤں وہاں واقعہ تھا جہاں سے پانچ میل دور شیروں کی وادی کی سرحد شروع ہوتی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ مزید تاخیر کے بغیر وہاں پہنچ جائیں۔ چند مرغابیوں کو شکار کر کے ہم اپنے کیمپ کی طرف لوٹے تو چاروں مزدور غائب تھے۔ البتہ بقیہ تین خچر اور سارا سامان وہاں موجود تھا۔ گاؤں والوں نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ انہوں نے مزدوروں کو نہیں چھپایا۔ بہرحال ہم نے ضروری سامان ساتھ لیا۔ خیمے اکھاڑ کر خچروں پر لادے اور باقی سامان گاؤں کے نمبردار کے پاس اس شرط پر رکھ دیا گیا کہ اگر زندہ واپس آئے تو لے لیں گے ورنہ یہ سامان اس کی ملکیت ہو گا۔
پانچ میل کا یہ پر صعوبت سفر ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے پانچ صدیوں کی مسافت ہے اور جب ہم آنائی کے پہاڑوں کو عبور کر کے وادی میں داخل ہوئے تو سورج کی کرنیں چوٹیوں پر الوداعی نگاہیں ڈال کر رخصت ہو رہی تھیں۔ ہم سب تھکن کے باعث چُور چُور تھے۔ فضا میں نمی کی شدّت صاف محسوس ہوتی تھی اور مچھروں کا بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ ان سے محفوظ رہنے کے لیے ہم نے ایک پہاڑی کے بلند اور فراخ ٹیلے پر اپنے خیمے جما دیے تاکہ تیز اور سرد ہوا کے تھپیڑے
مچھروں کی فوج کو بھگاتے رہیں۔ بلند ٹیلے سے وادی کے پہاڑوں اور جنگلوں کا دور دور تک نظارہ کیا جا سکتا تھا، جو اُفق تک پھیلتے چلے گئے تھے۔ ان پہاڑوں کے اوپر سے کہیں کہیں آبشاریں گرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں، پانی کی اس سفید چادر پر جب ڈوبتے ہوئے آفتاب کی نارنجی کرنیں پڑتیں تو وہ ہیرے کی مانند چمکتی تھیں۔ تا حدِ نگاہ تک چاروں طرف بانسوں کے اونچے اونچے جنگل سینہ تانے کھڑے تھے اور تیز ہوا جب ان کے درمیان سے گزرتی تو سیٹیاں سی بجنے لگتی تھیں۔ پانچ میل دور وہ گاؤں، جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے، اس بلندی سے صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہاں جلتے ہوئے آگ کے الاؤ لمحہ بہ لمحہ روشن ہوئے جاتے تھے۔ پوری وادی میں ایسا بے کراں سناٹا اور خاموشی طاری تھی جیسے یہاں کوئی جاندار نہیں بستا، حتیٰ کہ پرندوں کی اڑتی ہوئی قطاریں بھی غائب تھیں جو دن بھر دانا دنکا چگنے کے بعد سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی اپنے گھونسلوں کو واپس آتی ہیں۔ آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ تھا، البتہ مغربی اُفق پر پھیلی ہوئی شفق ہر لمحہ رنگین سے رنگین تر ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی سرد ہوا کے جھونکے پوری شدّت سے چلنے شروع ہو گئے تھے۔ قدرت نے اس خطّے کو حسن و جمال کی جس دولت سے نوازا ہے، اس کی داد نہ دینا نا شکرا پن ہو گا۔ وہ بے پناہ تھکن جس کی وجہ سے جسم کا بند بند فریاد کر رہا تھا، یکلخت غائب ہو چکی تھی اور میں اپنے آپ کو بالکل تر و تازہ محسوس کرنے لگا اور یہ کیفیت میری ہی نہیں میرے ساتھیوں کی بھی تھی۔ بوڑھا بابی ہم سے ذرا فاصلے پر اپنا نیزا تھامے مشرق کی طرف منہ کیے بیٹھا کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ شاید یہ نظارے اس کے لیے نئے نہ تھے۔ یکایک وادی کے اندرونی حصّے میں شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی اور یوں محسوس ہوا جیسے ارد گرد کی پہاڑیاں لرز گئی ہوں۔ ہم سب چونکنے ہو کر اس طرف دیکھنے لگے۔
پانچ منٹ بعد شیر کے دھاڑنے کی آواز پھر آئی۔ مگر یہ آواز اب زیادہ قریب محسوس ہوتی تھی۔ ہم سب اس بے تابی سے آواز کے رُخ دیکھ رہے تھے کہ کیا تماشا ظہور میں آتا ہے۔ دفعتاً چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک بڑا سا بارہ سنگھا دوڑتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کا رُخ ہماری طرف تھا۔ بے تحاشا چھلانگیں لگاتا ہوا وہ آناً فاناً میں پہاڑی کے نیچے آ گیا۔ کوئی ایک منٹ بعد ہی کیا دیکھتے ہیں کہ اسی طرف سے بیک وقت دو شیر غرّاتے اور دھاڑتے نکلے اور بارہ سنگھے نے بچ کے نکل جانا چاہا، مگر شیروں نے دونوں جانب سے اسے گھیر لیا اور چند منٹ میں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا اور اپنا آدھا آدھا حصّہ لے کر مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔ جنگل کی فضا میں پلے ہوئے یہ شیر نہایت جسیم اور طاقتور دکھائی دیتے تھے اور ایک بارہ سنگھے کے تعاقب میں دو شیروں کا نکلنا اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ یہ علاقہ واقعی شیروں سے پٹا پڑا ہے۔
سورج غروب ہوتے ہی تاریکی کے غلاف نے زمین سے لے کر آسمان تک کو اپنے اندر لپیٹ لیا اور جوں جوں اندھیرا بڑھتا جاتا تھا، فضا میں خنکی اور ہوا کی تیزی میں شدّت پیدا ہو رہی تھی۔ یہاں تک کے ہم سردی کے باعث کانپنے لگے اور ہمیں خیموں کے اندر پڑے ہوئے کمبلوں میں پناہ لینا پڑی۔ ولیم کا خیال تھا کہ رات کو سردی اور بڑھے گی اس لیے آگ جلا لینی چاہیے، مگر بابی نے فوراً انکار میں سر کو جنبش دی اور ہم حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’کیوں بابا! آگ جلانے میں کیا نقصان ہے؟ مجھ سے رہا نہ گیا تو پوچھ ہی بیٹھا۔
’مالک! آپ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ مقام کون سا ہے۔ کیا آدمیوں کو کھانے والے وحشی آپ کو یاد نہیں رہے؟ رات کی تاریکی میں جب وہ آگ کے شعلے دیکھیں گے تو ضرور آئیں گے۔‘
بابی کے یہ الفاظ نہ تھے، بجلی کی لہریں تھیں جو میرے جسم میں دوڑ گئیں۔ خدا کی پناہ! ان وحشیوں کو تو ہم فراموش ہی کر چکے تھے اور اب وہی مقام جو تھوڑی دیر پہلے ہمارے لیے جنّتِ نگاہ اور فردوسِ گوش بنا ہوا تھا، یک بیک ایک بھیانک مقتل کی شکل اختیار کر گیا۔ دہشت و خوف کا وہ دورہ جو ہم پانچ میل پیچھے چھوڑ آئے تھے، اب دوبارہ ہم پر مسلط ہو گیا۔ بہرحال شام کے کھانے سے فارغ ہو کر ہم اپنے اپنے کمبلوں میں دُبک گئے اور آئندہ پروگرام کے متعلق باتیں کرتے ہوئے خدا جانے کب نیند کی دیوی نے ہمیں اپنے آغوش میں لے لیا۔
کچھ معلوم نہیں کتنی دیر سویا، لیکن اتنا یاد ہے کہ شور کی ایک ہلکی سی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میرے دونوں امریکی دوست قریب ہی پڑے بے خبر سو رہے تھے۔ میں نے کان لگا کر یہ پراسرار شور سننے کی کوشش کی، مگر آواز اس قدر مدھم اور غیر واضح تھی کہ کچھ پتا نہ چلا کہ کدھر سے آ رہی ہے۔ بس یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوسوں میل دور کہیں ڈھول سا بج رہا ہو اور بہت سی عورتیں مل کر بَین کر رہی ہوں۔ کبھی یہ آواز مدھم ہو جاتی اور کبھی تیز، اور کبھی یوں محسوس ہوتا جیسے بالکل قریب سے آ رہی ہے۔ میں آہستہ سے اٹھا، سرہانے رکھی ہوئی رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور خیمے سے باہر نکلا۔ پچھلے پہر کا چاند آسمان کے مشرقی حصّے پر اپنا زرد چہرہ لیے حیرت سے مجھے تکنے لگا۔ چاند کی اس سوگوار اور اداس چاندنی میں جو حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔ پہاڑ، جنگل اور وادیاں سناٹے اور خاموشی کی گہری چادر اوڑھے محوِ خواب تھیں۔
میری چھٹی حِس مجھے بتاتی تھی کہ کوئی نامعلوم خطرہ پیش آیا ہی چاہتا ہے۔ وہ خطرہ کہاں تھا! یہ میں نہیں جانتا تھا۔ مگر لمحہ بہ لمحہ میرے حواس خود بخود معطل ہو رہے تھے اور کلیجہ اندر ہی اندر بیٹھا جا رہا تھا۔ میں بابی کو دیکھنے کے لیے دوسرے خیمے میں گیا۔ اندر ٹارچ کی روشنی ڈالی تو زمین پیروں تلے نکل گئی۔ خیمہ بالکل خالی پڑا تھا اور بابی غائب تھا۔ اس وقت بوڑھے بابی کا غائب ہونا نیک فعال نہ تھی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا حادثہ پیش آیا، وہ کدھر گیا۔ میں اسی فکر میں گم تھا کہ میرے عقب میں ہلکی سی آہٹ ہوئی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دہشت سے میرے بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی اور اس سردی میں بھی پسینے کے قطرے میری پیشانی پر پھوٹ نکلے۔
دو وحشی جنہوں نے شیر کی کھالیں اوڑھ رکھی تھیں، بیس قدم کے فاصلے پر کھڑے حیرت سے مجھے گھور رہے تھے۔ ڈیل ڈول اور قد و قامت میں وہ بالکل دیو کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ ان کی داڑھیاں اور سر کے بال حد سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے اور آنکھیں یوں روشن تھیں جیسے اندھیرے میں شیر کی آنکھیں چمکتی ہیں۔ ایک دو سیکنڈ تک وہ مجھے دیکھتے رہے۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہ تھا۔ میں بھی بے حِس و حرکت اپنی جگہ پر کھڑا اُن کی طرف دیکھتا رہا۔ یکا یک وہ آگے بڑھے اور میں نے ہوش میں آ کر جلدی سے رائفل سیدھی کی اور اندھا دھند فائر کر دیا۔ ایک وحشی چیخ مار کر گرا اور لڑھکتا ہوا نیچے خدا جانے کہاں جا گرا۔ دوسرا ڈر کر فوراً ایک چٹان کی آڑ میں ہو گیا اور میں نے دوبارہ اس کا مکروہ چہرہ نہیں دیکھا۔ میرے ہاتھ پیر اس غیر متوقع حادثے کی بدولت بری طرح لرز رہے تھے۔ فائر کی آواز سن کر ولیم اور نکسن بیدار ہو گئے اور رائفلیں سنبھال کر باہر نکل آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمیں فوراً یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔ کیوں کہ وحشیوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ آدھی رات کو اس پراسرار وادی میں ہم تین اجنبی شخص اب اپنی جان بچانے کی فکر میں غرق تھے۔ مجھے یقین تھا کہ بوڑھا بابی ضرور ان خونخوار وحشیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ ورنہ یوں اچانک غائب نہ ہو سکتا تھا۔ وہ پراسرار آواز جو بہت دور سے آتی تھی اب قریب آ رہی تھی اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہ تھا کہ یہ ضرور آدم خور وحشیوں کی ٹولی ہے جو اس وقت شکار کی تلاش میں نکلی ہے۔ انتہائی بد حواسی میں اپنا تمام سامان وہیں چھوڑ کر ہم تینوں رائفلوں اور کارتوسوں سمیت وہاں سے بھاگ نکلے۔ اب سوال یہ تھا کہ جائیں کس طرف؟
شمال کی طرف کوہستانِ آنائی کا سلسلہ ہمیں پناہ دے سکتا تھا، پس اسی طرف روانہ ہوئے۔ وہی چاندنی جو تھوڑی دیر پہلے اداس اور سوگوار نظر آتی تھی، اب ہمارے لیے نہایت مددگار ثابت ہوئی۔ ورنہ ہم اندھیرے میں ضرور کسی سینکڑوں فٹ گہرے کھڈ میں جا گرتے۔ عین اسی لمحے جنگل میں شیروں نے گرجنا شروع کر دیا۔ شاید وحشیوں کے غل غپاڑے سے ان کے آرام میں خلل پڑ گیا تھا۔ اضطراب اور پریشانی کی وہ کیفیت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ کس طرح ہانپتے کانپتے اور دلدلوں کو پھلانگتے، ٹھوکریں کھاتے اور زخموں سے لہولہان ہوتے ہوئے ہم شمال میں ان پہاڑی غاروں کے قریب پہنچے جو خدا جانے لیل و نہار کی کتنی گردشیں دیکھ چکے تھے۔ یہ غار بالکل ویران تھے۔ ممکن ہے یہاں کبھی کبھار جنگلی درندے بارش اور طوفان میں پناہ لینے کے لیے آ نکلتے ہوں۔ ہمیں یہ بھی خدشہ تھا کہ ان غاروں میں آنائی کے وہ مشہور و معروف اژدہے نہ ہوں جو چھپکلی سے مشابہ ہوتے ہیں۔
ایک غار کے پاس رک کر ہم نے فیصلہ کیا کہ اب آگے بڑھنے کی سکت نہیں، بس یہیں پناہ لی جائے۔ یکایک ولیم کا پیر کسی چیز سے ٹکرایا اور اس نے جھک کر دیکھا تو بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ یہ ایک انسانی کھوپڑی تھی اور اب جو ہم غور سے چاروں طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ایسی ہی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا خدا معلوم کتنا ذخیرہ پڑا تھا۔ اس وقت کوئی ہمارے ٹکڑے بھی کر دیتا تو یقین ہے کہ خون کا ایک قطرہ نہ نکلتا۔ اتنی ہیبت ہم پر طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ ہمارے ذہن مفلوج ہو چکے تھے اور جسم حرکت کرنے سے قاصر، وہی معاملہ تھا کہ ‘نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن’۔ ابھی ہم اسی فکر میں گم تھے کہ اچانک ہمارے عین سامنے کے غار سے روشنی کی ہلکی سی کرن نمودار ہوئی اور پھر اس کے اندر سے دس بارہ وحشیوں کا ایک غول نکلا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لکڑی کی مشعلیں تھام رکھی تھیں اور اس کے سِروں پر خدا جانے کون سی چربی مل رکھی تھی جو پوری طرح جل رہی تھی۔ یہ وحشی اچھلتے کودتے باہر نکلے اور ان کے درمیان مجھے بوڑھا بابی دکھائی دیا۔ اگر ہم فوراً زمین پر نہ لیٹ جاتے تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لیتے۔
اس کے بعد جو منظر ہم نے دیکھا وہ اتنا لرزہ خیز تھا کہ آج چالیس برس گزر جانے کے بعد بھی میرے حافظے کی لوح پر اس کے نقوش دھندلے نہیں ہوئے۔ وحشیوں نے آگ کا ایک بڑا الاؤ دہکایا، پھر اس الاؤ کے اندر انہوں نے لوہے کی بنی ہوئی ایک گول سی ٹوپی رک دی اور آگ کے گرد وحشیانہ پن سے اچھلتے کودتے رقص کرنے لگے۔ بوڑھے بابی کے جسم سے کپڑے نوچ نوچ کر انہوں نے اسے بالکل برہنہ کر دیا تھا اور اب دو وحشی اسے بازوؤں میں تھامے کھڑے تھے۔ کامل ایک گھنٹے تک وہ اسی طرح ناچتے رہے۔ اس کے بعد ان کے لیڈر نے جو سب سے زیادہ لمبا تڑنگا تھا، لوہے کی ایک سلاخ کی مدد سے لوہے کی ٹوپی آگ کے الاؤ سے نکالی جو انگارے کے مانند سرخ ہو چکی تھی۔ ہم حیران تھے کہ آخر اس آہنی ٹوپی کو گرم کرنے سے ان وحشیوں کا مقصد کیا ہے، مگر تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے بوڑھے بابی کو دھکیل کر درمیان میں کیا تو فرطِ خوف سے ہمارے کلیجے اچھلنے لگے۔ بابی کا برہنہ جسم خشک پتّے کی مانند لرز رہا تھا اور موت کو اس قدر بھیانک انداز میں اپنے قریب دیکھ کر کون تھا جو اپنے ہوش و حواس قابو میں رکھتا۔ یکایک وحشیوں نے وہی ٹوپی ہوا میں معلّق کی اور زور سے بابی کے سر پر رکھ دی۔ بد نصیب بوڑھے کے حلق سے اس موقعے پر جو چیخ نکلی اس کی آواز میں آج بھی سن سکتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب دونوں امریکیوں کے منہ سے چیخیں نکل گئیں اور وحشیوں کی توجہ فوراً ہماری جانب مبذول ہو گئی، مجھے اپنی بزدلی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میں نے ان امریکیوں کو وہیں چھوڑا اور وہاں سے بے تحاشا بھاگ پڑا۔ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وحشیوں نے انہیں پکڑ لیا تھا۔ تمام رات میں مسلسل بھاگتا رہا۔ بھاگتا رہا۔ اندھا دھند۔ مجھے راستے کا کچھ علم نہ تھا۔ میرے کپڑے دھجیاں دھجیاں ہو چکے تھے اور پیر زخمی۔ آخر ایک جگہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو ایک جھونپڑی کے اندر پایا۔ کچھ لوگ مجھے گھیرے کھڑے تھے۔ معلوم ہوا میں پورے تین دن بعد ہوش میں آیا ہوں اور یہ لوگ وہی ہیں جن کے گاؤں کے نزدیک آنائی ندی میں ہم نے مگرمچھ مارا تھا۔
پڈانگ کے ہسپتال میں پڑا دو سال تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ میری دونوں ٹانگیں بے کار ہو چکی تھیں اور ڈاکٹروں نے اس خدشے کے پیشِ نظر کہ زہر جسم میں نہ پھیل جائے۔ دونوں ٹانگیں کاٹ دیں۔ میں آج زندہ ہوں لیکن مُردوں سے بدتر اور اب بھی راتوں کو سوتے سوتے یک لخت چیخنے لگتا ہوں۔ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔ کیا میں واقعی پاگل ہوں؟
٭٭٭
ساؤ کے آدم خور
(اصل مصنف: لیفٹیننٹ کرنل جان ہنری پیٹرسن)
میری زندگی کے ناقابلِ فراموش لمحات وہی ہیں جو میں نے ساؤ کے علاقے میں بسر کیے۔ وہ زمانہ آج بھی مجھے یوں یاد ہے، جیسے کل ہی کی بات ہو۔ میں ان دنوں جوان تھا اور خطروں میں کود جانے کی اُمنگ شباب پر تھی۔ مجھے افریقہ میں جن مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا اور جو خطرے میرے گِرد منڈلاتے رہے ان کے نقوش بالکل تازہ ہیں، جن کے تصوّر سے آج جی لرزتا ہے اور میں بعض اوقات سوچتا ہوں تو ذہن میں حیرت و تعجّب کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر دوڑنے لگتی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ کیا واقعی ساؤ کے آدم خوروں کو میں نے مارا تھا۔ جنہوں نے کی سو مزدور ہڑپ کر ڈالے تھے۔ جنہوں نے میرا دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر دی تھی اور یہ تکلیف دہ سلسلہ پورے نو ماہ تک جاری رہا تھا۔ میں خود ان کا لقمہ بنتے بنتے کئی مرتبہ بچا اور پھر کس قدر صعوبت اور مشقّت کے بعد ان موذیوں سے خلقِ خدا کو نجات دلائی۔ یہ سب واقعات میرے حافظے کی لو پر روشن ہیں۔ ساؤ کے وہ آدم خور شیر، سیاہ گینڈے، جنگلی بھینسے جو طاقت میں ہاتھی سے کم نہ تھے اور سولہ سولہ فٹ لمبے مگرمچھ جو دریائے ساؤ میں چھُپے ہوئے اپنے شکار کی آمد کے منتظر رہتے تھے اور ان مصیبتوں کے علاوہ افریقہ کے وحشی اور جنگلی قبائل کے خونخوار باشندے جو سفید فام لوگوں کے خون کے پیاسے تھے۔ ان حالات میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریلوے لائن کی تعمیر کا کام کس قدر دشوار اور مشکل تھا۔ جان ہر وقت سولی پر لٹکی رہتی تھی۔ تاہم ایک شکاری کے لیے ان حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینا زیادہ محنت طلب بات نہ تھی۔
کبھی کبھار ریلوے لائن کی تعمیر کا کام ضروری سامان وقت پر نہ پہنچنے کے باعث رک جاتا اور کی کی دن تک رکا رہتا۔ ان دنوں مجھے اِدھر اُدھر علاقے میں دور دور تک گھومنے کا اچھا موقع مل جاتا تھا۔ میں بچپن ہی سے ایسی طبیعت لے کر آیا تھا جو سکون اور بے حِسی سے نا آشنا تھی۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنا کا سودا سمایا ہوا تھا۔ اپنی اس عادت کے باعث میں کئی مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصیبت میں مبتلا ہوا، لیکن یہ عادت نہ بدلی۔ انہی دنوں جب کہ کام رک گیا تھا، میں نے فیصلہ کیا کہ ساؤ کا تمام علاقہ دیکھ لیا جائے۔ خدا کی پناہ! کس قدر گھنا اور تاریک جنگل تھا اور اتنا وسیع و عریض کہ بعض اوقات احساس ہوتا کہ شاید روئے زمین پر اس جنگل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
ایک روز میں دریائے ساہا کے کنارے گھوم رہا تھا کہ دریائی گھوڑوں کا ایک جوڑا دکھائی دیا۔ وہ مجھ سے کوئی دو فرلانگ کے فاصلے پر دریا میں نہا رہا تھا۔ میں دیر تک اس قوی الجثہ اور عجیب الخلقت حیوان کو دیکھتا رہا۔ خدا کی پناہ! کس قدر زبردست اور طاقت ور جانور تھا۔ کبھی کبھی وہ دریا کی سطح پر آ کر سانس لینے کے لیے اپنا وسیع و فراخ منہ کھولتا تو میرے جسم پر چیونٹیاں سی رینگنے لگتیں۔ اس کا منہ اتنا بڑا تھا کہ میرے جیسا ڈیل ڈول رکھنے والا شخص آسانی سے اس میں سما سکتا تھا۔
تیرتے تیرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے دریائی گھوڑے میرے بہت قریب آ گئے اور اب انہوں نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ چند منٹ تک وہ حیرت سے منہ کھولے اپنی ننھّی ننھّی آنکھوں سے مجھے یوں تکتے رہے جیسے آدمی کو دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا ہے۔ پھر انہوں نے دریا میں ڈبکی لگائی اور تیزی سے اسی طرف واپس ہو گئے، جدھر سے آئے تھے۔ قوت کا بے پناہ خزانہ ان کے جسم میں چھپا ہوا تھا، لیکن ایک نخیف و کمزور آدمی کو دیکھتے ہی خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے۔ بد قسمتی سے میرے پاس جو رائفل تھی اس سے چھوٹے موٹے جانور اور شیر چیتے تو مارے جا سکتے تھے، لیکن دریائی گھوڑے کے لیے یہ رائفل بالکل بے کار تھی۔ اس میں چھوٹے اور ہلکے کارتوس استعمال ہوتے تھے۔ بھاری رائفل کا تو فی الحال کوئی انتظام نہیں ہو سکتا تھا، البتہ اپنے مطلب کے کارتوس بنائے جا سکتے تھے۔ بارود کی وافر مقدار میرے پاس موجود تھی۔ میں نے ارادہ کیا کہ کم از کم ایک سو ایسے کارتوسوں میں بارود کی مقدار دوگنی ہو۔ پس میں نے سیسے کے بنے ہوئے خالی کارتوسوں میں بارود بھرنے کا کام شروع کر دیا۔ اگرچہ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ تجربہ کامیاب رہے گا، لیکن پھر بھی کوشش کر کے دیکھنے میں کیا حرج تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی خطرہ تھا کہ رائفل کی نالی اتنی زبردست قوّت برداشت نہ کر سکے گی اور پھٹ جائے گی۔
ایک روز میں نے رائفل میں اپنا بنایا ہوا کارتوس بھرا اور اسے ایک درخت کے تنے سے باندھ دیا، پھر رائفل کے گھوڑے کے ساتھ میں نے سو فیٹ لمبی ڈوری باندھی اور اتنے فاصلے پر ایک دوسرے درخت کے پیچھے کھڑے ہو کر جب میں نے ڈوری کھینچ کر لبلبی دبائی تو رائفل چل گئی اور یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ رائفل کی نالی صحیح سلامت تھی۔ اب میں دریائی گھوڑوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ اس کے بعد بھی میں نے کارتوس آزمانے کے لیے کئی ایک تجربے کیے اور ان کی قوّت پر پورا اطمینان ہو گیا۔ تیس گز کے فاصلے سے اگر فولاد کی چادر پر فائر کیا جاتا تو اس میں سے بھی گولی نکل جاتی تھی اور ظاہر ہے کہ دریائی گھوڑے کی کھال فولاد کی چادر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک روز انہی کارتوسوں کی وجہ سے میں مرتے مرتے بچا۔ قصّہ یہ ہوا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا خالی کارتوسوں میں بارود بھر رہا تھا کہ دفعتاً ایک کارتوس پھٹ گیا اور جلتا ہوا بارود ایک دھماکے کے ساتھ میرے چہرے پر بکھر گیا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہزارہا سوئیاں گرم کر کے میرے چہرے میں گھونپ دی گئی ہیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ ڈھانپ لیا اور سب سے پہلا خیال جو میرے دل میں آیا وہ یہ تھا کہ میں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو چکا ہوں کیوں کہ میں جب بھی آنکھیں کھولتا مجھے اپنے ارد گرد تاریکی معلوم ہوتی تھی، لیکن خدا کا شکر ہے یہ حالت چند گھنٹوں سے زیادہ قائم نہ رہی اور میں ایک بار پھر اسی دیکھی بھالی دنیا میں لوٹ آیا۔
جب میں ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو چکا تو ہم پانچ چھے آدمیوں کا گروہ دریائے ساباکی کی طرف روانہ ہوا۔ اس گروہ میں میرے علاوہ ایک ہندوستانی ملازم مہینا، باورچی مبارک اور ایک سقّہ شامل تھا۔ یہ ہندوستانی مزدور نہایت محنتی، نڈر اور سخت جان ہوتے ہیں اور فطری طور پر مُہم پسند بھی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ سامان اور کھانے پینے کی چیزیں اٹھانے کے لیے میں نے چند مقامی مزدور بھی ساتھ لے لیے۔ سیر و شکار میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ہمیں اپنے کیمپ سے کئی کئی روز مسلسل غیر حاضر رہنا پڑتا۔ تاہم میں نے کبھی چھوٹے بڑے خیمے اپنے ساتھ نہیں رکھے۔ میں ہمیشہ باہر کھُلی جگہ میں رات بسر کرنا اچھا سمجھتا ہوں۔ اگرچہ خوراک کا کافی ذخیرہ ہم لے کر چلے تھے، مگر میں راستے میں تیتر، جنگلی مُرغ اور مُرغابیاں وغیرہ شکار کرتا رہا۔ دریائے ساباکی کے کنارے کے ساتھ ساتھ دونوں جانب اونچی نیچی چٹانوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ان چٹانوں کے اندر بہت بڑی تعداد میں چوہے کی شکل و صورت کے خرگوش ملتے ہیں۔ دور سے دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بڑی جسامت کے چوہے ہیں۔ ان خرگوشوں کی دم بالکل نہیں ہوتی اور یہ پھُدکتے ہوئے چلتے ہیں۔ اگرچہ ان کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔ تاہم مقامی باشندے انہیں پسند نہیں کرتے۔ دریائے ساباکی اور دریائے ساؤ کا درمیانی علاقہ حسن و جمال کے اعتبار سے اس سرزمین کی بہشت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ناریل کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ فضا میں خوشگوار سی نمی کا احساس ہوتا ہے۔ ان درختوں کے علاوہ یہاں کثرت سے خوبصورت اور رنگ برنگے جنگلی پھول اور پودے بھی اُگتے ہیں۔ سینکڑوں قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندے ہر طرف اڑتے اور چہچہاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ بندر بھی ہزاروں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ لیکن یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ اس سرسبز و شاداب خطّے کو عبور کرتے ہی ہمارے سامنے ایک لق و دق صحرا آ جاتا ہے۔ جس میں خود رَو اور خار دار جھاڑیوں کے سوا کوئی شے نہیں۔ کہیں کہیں درختوں سے جھُنڈ ہیں، مگر پھولوں اور پتّوں سے بے نیاز۔ بالکل ٹنڈ منڈ جیسے ان پر موت وارِد ہو چکی ہو۔ سورج کی حدّت اور تپش یہاں اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آدمی بمشکل ایک دو گھنٹے ٹھہر سکتا ہے۔ دریائے ساؤ اس صحرا کے ایک جانب سے گزرتا ہے۔ یہاں اس کی چوڑائی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یو گینڈا کے دریاؤں میں ساؤ اور ساباکی بہت مشہور ہیں۔ ساؤ کا منبع کیلے منجورو کی برف پوش چوٹی ہے۔ اس چوٹی پر سال کے بارہ مہینے برف جمی رہتی ہے۔ موسمِ گرما میں یہ برف بڑی مقدار میں پگھلتی ہے تو دریا کا پاٹ حیرت انگیز طور پر وسیع ہو جاتا ہے۔ یہاں سے یہ دریا نکل کر شمال کی جانب تقریباً اسّی میل کا فاصلہ طے کر کے دریائے اتھائی میں مل جاتا ہے۔ دریائے اتھائی ساؤ اسٹیشن سے سات میل نشیب میں واقع ہے۔ اسی مقام پر دریا میں بہت سے ندی نالے آن کر ملتے ہیں اور پھر یہی دریائے ساباکی نام اختیار کر کے مشرق کی طرف بہتا ہوا مالندی کے مقام پر بحرِ ہند کی بے کراں وسعتوں میں گُم ہو جاتا ہے۔ مالندی ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہے جو ممباسا کے شمال میں ستّر میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
اگرچہ ہماری رفتار سست تھی، کیوں کہ قدم قدم پر جھاڑیوں اور درختوں کں کی شاخوں سے واسطہ پڑتا تھا لیکن ہم رُکے بغیر دریائے ساباکی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ دریا کے کنارے پہ کئی جگہ ہم نے مگرمچھ دیکھے جو اطمینان سے آنکھیں بند کیے اور تھوتھنیاں پانی میں ڈالے پڑے تھے لیکن ہماری آہٹ پاتے ہی وہ تیزی سے رینگتے ہوئے پانی میں غڑاپ غڑاپ کود گئے۔ کوئی دو میل اسی طرح چلنے کے بعد ہمیں ایک جگہ ریت پر دریائی گھوڑے اور گینڈے کے قدموں کے بڑے بڑے نشانات دکھائی دیے۔ یہ نشانات دیکھ کر ہمارا شوقِ جستجو اور تیز ہو گیا اور ہم زیادہ مستعدی اور ہوشیاری سے آگے بڑھنے لگے۔ یہ نشانات نصف فرلانگ تک پھیلے ہوئے تھے اور کہیں کہیں ریتیلے کنارے پر گڑھے بھی موجود تھے اور صاف پتہ چلتا تھا کہ گڑھے کسی بھاری اور قوی جسم کے گرنے سے بنے ہیں۔ شاید اس مقام پر کسی گینڈے اور دریائی گھوڑے کا آمنا سامنا ہو گیا تھا اور ان میں جنگ بھی ہوئی تھی۔ جن شکاریوں نے اپنی عمر میں کبھی کسی دریائی گھوڑے، گینڈے یا جنگلی بھینسے کو آپس میں لڑتے دیکھا ہے، وہی جان سکتے ہیں کہ یہ جنگ کس قدر خوفناک اور لرزہ خیز ہوتی ہے۔ دریائی گھوڑا فطری اعتبار سے نہایت شرمیلا اور رکھ رکھاؤ والا جانور ہے اور لڑنا بھرنا پسند نہیں کرتا لیکن ایسا موقع اگر آ بھی جائے تو پھر نہایت بہادری اور بے خوفی سے اپنے حریف کا مقابلہ کرتا ہے اور اکثر فتح یاب اور کامران ہوتا ہے۔ کرۂ ارض پر ہاتھی کو چھوڑ کر دریائی گھوڑا اس وقت سب سے زیادہ قوی اور وزنی جانور ہے۔ اس کا شمار دودھ پلانے والے حیوانوں میں ہوتا ہے۔ اس کی شکل و شباہت سؤر سے بہت ملتی ہے۔ اس کے جسم کی لمبائی عموماً چودہ فٹ اور اونچائی تین فٹ دس انچ تک ہوتی ہے اور وزن چوراسی من سے زائد ہوتا ہے۔ کان اگرچہ چھوٹے اور لچک دار ہوتے ہیں لیکن سماعت کی حس غضب کی ہوتی ہے۔ جسم موٹا، بھدّا اور پیر چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ تیرتے وقت اس کی آنکھیں اور نتھنے پانی سے باہر رہتے ہیں، دریائی گھوڑے کا سب سے بڑا عجوبہ اور خطرناک ہتھیار اس کا غار نما منہ ہے۔ جس کے دونوں طرف بڑے بڑے دانت نظر آتے ہیں۔ اوپر کا ہونٹ نچلے ہونٹ کی نسبت بہت موٹا ہوتا ہے۔ کھال کی موٹائی دو انچ سے زائد ہوتی ہے۔ دریائی گھوڑے بیس بیس چالیس چالیس کے گروہوں کی شکل میں دریاؤں کے کنارے یا ڈیلٹاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کی خوراک دریائی پودے اور جنگلی گھاس پھوس ہے۔ پکی ہوئی فصلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور آن کی آن میں سب کچ تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔ جزیرہ کریٹ، مالٹا، سسلی، بھارت، برما اور افریقہ کے شمالی حصّے میں بھی دریائی گھوڑوں کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں جزیرۂ مڈغاسکر میں بھی ان کی ایک نئی اور ذرا چھوٹی قسم دریافت ہوئی ہے۔ مغربی افریقہ کے جنگلوں میں بھی دریائی گھوڑے ملتے ہیں لیکن ان کا قد و قامت سؤر سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔
دریائے ساباکی کے کنارے ان گڑھوں کو دیکھ کر مجھے خود اپنا ایک چشم دید واقعہ یاد آ گیا۔ ایسا عجیب اور خوفناک واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دوبارہ نہیں دیکھا۔ اس لیے میں یہاں بیان کرتا ہوں۔ یہ ایک دریائی گھوڑے اور جنگلی بھینسے کی خون ریز جنگ تھی۔ میں اس زمانے میں کانگو کے جنگل میں گھوم رہا تھا۔ ایک روز دوپہر کے وقت جنگل کے کھلے حصّے میں، جہاں سے دریائے کانگو صاف دکھائی دیتا تھا، تھرماس میں سے قہوہ نکال کر پی رہا تھا کہ یکایک ایک دریائی گھوڑا دریا میں سے نکلا اور کنارے پر آ کر جنگل کی طرف بڑھا۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ غالباً وہ بھوکا تھا اور خس و خاشاک سے اپنا پیٹ بھرنے آیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ میرے نزدیک آتا گیا۔ میں درخت کی اوٹ میں بیٹھا سب تماشا دیکھ رہا تھا۔ کئی مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ دریائی گھوڑے پر فائر کروں لیکن وہ اتنے پرسکون اور معصومانہ انداز میں گھاس اور پودے کھا رہا تھا کہ مجھے اپنے فاسد ارادے پر شرم محسوس ہونے لگی۔ یکایک میرے دائیں ہاتھ پر جھاڑیوں میں کچھ کھڑکھڑاہٹ سی پیدا ہوئی۔ میں چونکنا ہو کر اُدھر دیکھنے لگا۔ پہلا خیال جو میرے دل میں آیا وہ کسی شیر یا چیتے کا تھا۔ کیوں کہ یہ درندہ اسی طرح جھاڑیوں میں چھُپ چھُپ کر شکار کا تعاقب کرتا ہے۔ میں لپک کر اسی درخت پر چڑھ گیا۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ اگر جھاڑیوں میں چھپنے والا جانور کوئی شیر ہی ہے تو دیکھیں وہ دریائی گھوڑے پر حملہ کرتا ہے یا نہیں۔ ابھی میں بمشکل درخت پر بیٹھنے کے لیے ایک محفوظ سی جگہ تلاش کر ہی پایا تھا کہ چمک دار سیاہ رنگ کا ایک قوی ہیکل جنگلی بھینسا جھاڑیوں کو چیرتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں اور گردن تکبّر اور غرور کے انداز میں تنی ہوئی تھی۔ اس جنگلی بھینسے کو دیکھ کر یوں تو خوف آنا لازمی تھا، مگر سب سے ڈرانے والی شے اس کے لمبے اور نوکیلے سینگ تھے۔ جن کی زد میں آ کر مشکل ہی کوئی حریف یا مقابل زندہ بچ سکتا تھا۔ بعض اوقات میں نے خود دیکھا ہے کہ جنگل کا بادشاہ بھی ان سینگوں سے ڈر کر بھاگ نکلتا ہے۔ دریائی گھوڑے نے بھی فوراً اپنے حریف کی موجودگی کو محسوس کر لیا۔ کیوں کہ اب وہ بے حس و حرکت کھڑا منہ اوپر اٹھائے اپنے عین سامنے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ اپنے موٹے اور بے ڈول پیروں سے بھد بھد کی آواز پیدا کرتا ہوا جنگلی بھینسے کی طرف بڑھا۔ میرا خیال تھا کہ جنگلی بھینسا اپنے اس زبردست مقابل کو دیکھ کر راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گا۔ لیکن نہیں۔ وہ بھی گردن جھکا کر نہایت جارحانہ انداز میں اچھالتا ہوا دوڑا اور جاتے ہی ایک ٹکّر دریائی گھوڑے کے منہ پہ ماری۔ دریائی گھوڑے نے اس حملے سے بچنے کے لیے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا اور بھینسے کے نوکیلے سینگ اس کی گردن میں گڑ گئے۔ بھینسا اگرچہ دریائی گھوڑے کے مقابلے میں حقیر تھا، تاہم نہایت پھرتیلا اور چست ثابت ہوا۔ چند ہی منٹ میں اس نے دریائی گھوڑے کو لہولہان کر دیا۔ اس کے جسم کے ہر حصّے پر اپنے نوکیلے سینگوں سے سوراخ کر دیے۔ جن میں سے خون فوارے کی طرح اچھلتا ہوا نکل رہا تھا۔ دریائی گھوڑا نہایت وزنی ہونے کی باعث بھینسے کے حملے کو روکنے پر قادر نہیں تھا۔ اس طرح اس کا سیروں خون بہہ گیا۔ ادھر بھینسے کا جوش و خروش بڑھتا ہی جاتا تھا۔ بار بار وہ پیچھے ہٹ کر اچھلتا ہوا آتا اور پوری قوت سے اپنے سینگ دریائی گھوڑے کے جسم میں گھونپ دیتا۔ ان دونوں کے منہ سے طرح طرح کی چیخیں نکل رہی تھیں، جن سے پورے جنگل پر ایک لرزہ سا طاری تھا اور زمین ان کے قدموں کی دھمک سے بار بار کانپ اٹھتی تھی۔ میں درخت پر سہما ہوا بیٹھا یہ عجیب و غریب اور خون ریز جنگ دیکھنے میں محو تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس جنگ میں جنگلی بھینسا کامیاب و کامران ہو گا۔ آدھے گھنٹے کی لڑائی کے بعد دریائی گھوڑا بالکل بے بس اور لاچار ہو گیا۔ اب وہ قطعی طور پر ادھ مؤا ہو چکا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دھڑام سے زمین پر گر گیا۔ اب جنگلی بھینسا اس کے چاروں طرف پھوں پھوں کی آوازیں نکالتا ہوا رقص کرنے لگا اور گھوڑے کے پیٹ میں سینگ گھونپتا رہا۔ دریائی گھوڑا ابھی تک زندہ تھا اور اس کا پہاڑ سا جسم خون میں لت پت ہو چکا تھا۔ میں سمجھا کہ بس یہ چند منٹ کا مہمان ہے لیکن اس کے بعد جو منظر میں نے دیکھا وہ مجھے زندگی بھر حیرت زدہ بنائے رکھنے کے لیے کافی ہے۔
جنگلی بھینسا دریائی گھوڑے کے جسم میں مسلسل اپنے سینگ گھونپے جا رہا تھا اور اپنی طرف سے وہ دشمن پر پوری طرح قابو پا چکا تھا۔ دریائی گھوڑا دم سادھے پڑا تھا، لیکن ایک ہی مرتبہ اس نے اپنا غار سا منہ کھول کر جنگلی بھینسے کی گردن پکڑ لی اور اسے اس زور سے بھینچا کہ بھینسے کی گردن علیحدہ ہو کر دریائی گھوڑے کے منہ میں رہ گئی اور دھڑ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ چند منٹ بعد بھینسے کی سر کٹی لاش ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ دریائی گھوڑا لوٹ پوٹ کر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا دریا کے اندر کود کر پانی کی تہہ میں نہ جانے کدھر غائب ہو گیا۔
دریائے ساباکی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کا پاٹ کہیں بہت تنگ اور کہیں بہت وسیع ہو جاتا ہے کہ اسے عبور کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ دریا کے اندر ہی اندر بعض مقامات پر چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جن پر رات کے وقت دریائی گھوڑے آ کر لوٹ مارتے ہیں۔ میرے ملازم مہینا نے کہا کہ انہی جزیروں میں سے کسی ایک پر ہم رات کو ڈیرہ جمائیں، لیکن اس کے ساتھ ایک عظیم خطرہ یہ بھی لاحق تھا کہ دریا میں مگرمچھ بڑی تعداد میں تھے اور عین ممکن تھا کہ جب ہم پانی میں قدم رکھتے تو کوئی مگرمچھ اندر ہی اندر تیرتا ہوا آتا اور ہم میں سے کسی کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ کر لے جاتا۔ آخر ہم نے دریا کے کنارے ایک بڑے درخت کے نیچے اپنا سامان رکھ دیا۔ دوپہر سر پر آ چکی تھی اور تھکن سے سب کا برا حال تھا۔ مبارک باورچی نے جلدی جلدی سب کے لیے کھانا نکالا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے بقیہ لوگوں کو وہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی اور خود مہینا کو ساتھ لے کر کسی جزیرے کی تلاش میں آگے روانہ ہوا۔ ابھی ہم بمشکل ایک فرلانگ ہی گئے تھے کہ یکایک مہینا نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھ سے دس قدم آگے جا رہا تھا۔ میں رک گیا۔ وہ الٹے قدموں واپس آیا اور کہنے لگا، ‘وہ دیکھیے دریا کے کنارے ایک ہرن کھڑا پانی پی رہا ہے۔‘
میں نے غور سے اس طرف دیکھا۔ کیا شاندار اور پلا ہوا ہرن تھا۔ اس کی سیاہ کھال شیشے کی مانند چمک رہی تھی۔ پہلے میں نے ارادہ کیا کہ ذرا قریب جا کر نشانہ بناؤں، لیکن اس خوف سے کہ ہرن میری آہٹ پا کر فرار نہ ہو جائے میں نے وہیں کھڑے کھڑے نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ فائر ہوتے ہی ہرن فضا میں اچھلا اور دریا کے اندر جا پڑا۔ ہم دونوں اس کی طرف بھاگے، مگر وہ فوراً ہی اٹھا اور پانی میں تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر چڑھ کر جنگل میں گھس گیا۔ مجھے یقین تھا کہ گولی ہرن کو لگی ہے اور اب اسے کسی قیمت پر بھی چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ پس ہم بھی مگرمچھوں کے خوف سے بے نیاز ہو کر دریا میں کود پڑے۔ خوش قسمتی سے اس مقام پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا۔ ہم دس منٹ کے اندر اندر دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ ہم نے جلد ہی ہرن کے قدموں کے نشانات تلاش کر لیے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ریت پر ان نشانات کے ساتھ ساتھ خون کے تازہ قطرے بھی موجود تھے، لیکن ہرن کو اس گھنے جنگل میں جہاں کئی کئی فٹ لمبی گھاس اور قد آدم جھاڑیاں کھڑی تھیں تلاش کرنا کارے وارد تھا۔ ہم دونوں دیوانوں کی طرح جنگل میں گھس گئے اور ہرن کو ڈھونڈنے لگے۔ مجھے خوف یہ تھا کہ ہرن زخمی ہونے کے باعث کمزور ہو کر کہیں گر پڑے گا اور کسی درندے کے منہ کا لقمہ بن جائے گا اور میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہمیں قطعاً احساس نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا اور رات کب سر پر آ گئی۔ سورج غروب ہوتے ہی تاریکی نے غلبہ پا لیا اور جنگل کی زندگی بیدار ہونے لگی۔ درختوں پر چھپے ہوئے پرندے بولنے لگے۔ بندر چیخنے لگے اور دور کہیں ہم نے کسی شیر کے دھاڑنے کی آواز بھی سنی۔
شیر کی دھاڑ سنتے ہی ہمارے ہوش اڑ گئے۔ اگرچہ میں ایک تجربہ کار شکاری ہوں اور زندگی میں بہت سے آدم خور شیروں کا مقابلہ کر چکا ہوں۔ تاہم یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تاریک جنگل میں رات کے وقت شیر کی دھاڑ سن کر نڈر سے نڈر آدمی کا پتّہ بھی پانی ہو جاتا ہے۔ خدا نے اس درندے کی آواز میں دبدبے اور دہشت کا ایسا عنصر رکھ دیا ہے کہ دل کانپ کانپ جاتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ شیر خواہ کتنی ہی دور دھاڑ رہا ہو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے بہت قریب ہے۔
شیر کی پکار سن کر مہینا کی حالت مجھ سے زیادہ ابتر تھی۔ بے چارہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا، ‘آقا! خدا کے واسطے یہاں سے نکل چلیے۔ شیر ہمارے آس پاس پھر رہا ہے۔ وہ ضرور شکار کی تلاش میں نکلا ہے۔ یہ ہرن اس کے لیے چھوڑ دیجیے۔‘
دل تو میرا بھی ڈر رہا تھا، مگر اس کے سامنے میں نے زبردستی ہنس کر کہا، ‘مجھے آج معلوم ہوا کہ تم خاصے بزدل آدمی ہو۔ ارے پاگل! یہ شیر جس کی آواز تم سن رہے ہو۔ یہاں سے کئی میل دور ہے۔ جتنی دیر میں وہ اِدھر آئے گا۔ ہم کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہوں گے۔ آؤ اب واپس چلیں۔‘
خوش قسمتی سے رات اتنی اندھیری نہ تھی اور غالباً چاند نکلنے ہی والا تھا۔ ہم تیز تیز چلتے ہوئے دریا کی طرف روانہ ہوئے۔ چلتے رہے۔ چلتے رہے۔ نہ معلوم کتنی دیر ہم رکے بغیر چلے۔ دریا کا کہیں پتہ نہ تھا۔ البتہ مشرق کی طرف سے سرد ہوا کے جھونکے بار بار ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے بتا جاتے کہ دریا قریب ہی ہے۔ چاند اب اتنی بلندی پر آ چکا تھا کہ اس کی روشنی سے جنگل منوّر ہو گیا اور ہمیں کافی فاصلے کا منظر آسانی سے دکھائی دے رہا تھا۔ ایک بھیانک خاموشی ہر طرف طاری تھی۔ البتہ کبھی کبھی کوئی بڑی چمگادڑ پھڑپھڑاتی ہوئی ہمارے سروں پر سے گزر جاتی۔ اب ہم دریا کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ لہروں کے پُرشور آواز بخوبی سنائی دے رہی تھی۔
تھوڑی دور اور چلنے کے بعد دریا ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ چاند کی روشنی میں اس کا پانی چاندی کی ایک لمبی سی لکیر کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور تیز ہو گئے۔ ہمیں چند قدم آگے بڑھنے پر فوراً احساس ہو گیا کہ یہ جگہ وہ نہیں ہے جہاں سے ہم نے دریا عبور کیا تھا۔ بلکہ راستہ بھول کر ہم ایسے مقام پر آ نکلے تھے جہاں دریا کا پاٹ نہایت وسیع تھا اور پانی جس رفتار سے بہہ رہا تھا، اسے دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کافی گہرا ہے اور لازماً اس میں مگرمچھ چھُپے ہوں گے۔ اب ہم وہاں کھڑے یہ سوچ رہے تھے کہ کیا کریں کدھر جائیں دریا عبور کرنا تو حماقت ہی تھی۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ کافی فاصلے پر دریا میں ایک بہت بڑا سیاہ دھبہ حرکت کر رہا تھا۔ میں نے مہینا سے کہا، ‘یہ کیا چیز ہے؟’
وہ بغور دیکھنے لگا یہ دھبّہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ یکایک وہ چیخا، ‘صاحب! یہ دریائی گھوڑوں کا قبیلہ ہے۔‘
میں حیرت سے اس قبیلے کو دیکھنے لگا جس میں بلا مبالغہ تیس چالیس دریائی گھوڑے تھے۔ ان کے جسم پانی کے اندر چھُپے ہوئے تھے اور صرف منہ باہر تھے۔ ان کے جلوس میں ایک بے پناہ شور اور ہنگامہ چلا آ رہا تھا۔ وہ پانی میں اچھلتے، ایک دوسرے کو منہ مارتے اور دھکیلتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم کنارے سے ذرا دور ہٹ گئے اور ایک درخت کی آڑ میں کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ چند منٹ بعد وہ ہمارے قریب سے گزر گئے۔ اب ہم کنارے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگے۔ ہمارا خیال تھا کہ آگے یقیناً ایسا مقام مل جائے گا، جہاں دریا کا پاٹ اتنا چوڑا نہ ہو اور ہم آسانی سے دریا عبور کر لیں۔ ایک گھنٹے تک مسلسل چلنے کے بعد آخر ایسی جگہ ہمیں نظر آ گئی۔ مجھے سب سے زیادہ فکر اُن لوگوں کی تھی جنھیں میں ایک جگہ ٹھہرنے کی ہدایت کر آیا تھا وہ یقیناً ہماری گمشدگی کے باعث سخت پریشان ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ ہماری تلاش میں گھوم رہے ہوں۔
اس مقام میں دریا کا پانی کمر تک تھا۔ ابھی ہم نے آدھا فاصلہ طے کیا تھا کہ دوسرے کنارے پر سامنے جنگل میں سے یکایک ایک دریائی گھوڑا نمودار ہوا اور دریا میں کود پڑا۔ اس کا رخ ہماری طرف تھا، لیکن جونہی اس نے ہمیں دیکھا وہ واپس پلٹا اور جلدی سے کنارے پر چڑھ کر جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ یہ واقعہ اتنی سرعت سے پیش آیا کہ میرا ذہن ایک لمحے کے لیے قطعی ماؤف ہو گیا۔ میری نظروں کے سامنے کوئی پچاس گز کے فاصلے پر اونچی اونچی اور نہایت گھنی جھاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور دریائی گھوڑا ان میں سے آسانی کے ساتھ یوں گزر گیا، جیسے یہ جھاڑیاں نہ تھیں بلکہ خس و خاشاک کی معمولی سی دیوار تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم بھی دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ ہمارے کپڑے بھیگ چکے تھے اور لمحہ لمحہ بڑھتی ہوئی خنکی میں ان بھیگے ہوئے کپڑوں کا پہنے رہنا جان بوجھ کر بیماری مول لینے کے مترادف تھا۔ اُدھر دریائی گھوڑے کا بھی ڈر تھا کہ نہ معلوم وہ کس وقت اِدھر آ جائے اور وار کرے۔ میں نے رائفل ایک طرف رکھی اور جلدی جلدی سوکھی شاخیں اور گھاس پھونس جمع کر کے آگ سلگائی۔ کپڑے اتار کر خشک کیے۔ اسی اثنا میں دو تین مرتبہ دریائی گھوڑے کی نقل و حرکت کا ہمیں علم ہوا۔ وہ کہیں قریب ہی اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔ جھاڑیوں میں اس کے گھسیٹنے اور شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ دفعتاً شیر کی ہولناک دھاڑ سے جنگل لرز گیا اور میں نے جھپٹ کر رائفل اٹھا لی۔ مہینا چلّایا، ‘صاحب! شیر نے ہماری بُو پا لی ہے۔ جلدی سے درخت پر چڑھ جائیے۔‘
ہم دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے ایک درخت پر چڑھ گئے۔ پچھلے پہر کے زرد چاند کی مدھم روشنی میں ارد گرد کا منظر نہایت سوگوار اور خاموش دکھائی دیتا تھا۔ شیر کی آواز کا اثر دریائی گھوڑے پر فوری ہوا کیوں کہ چند منٹ تک شاخیں ٹوٹنے کی آواز رکی پھر ایک دم زمین میں تھرتھراہٹ سی نمودار ہوئی اور خشک پتّے چرچرائے اور پھر جھاڑیوں کو چیرتا ہوا ایک مست ہاتھی کی مانند دریائی گھوڑا ہمارے عین سامنے نمودار ہوا۔ اس کی کھال کا سیاہ رنگ شیشے کی مانند چمک رہا تھا۔ جھاڑیوں کے اس پار آ کر وہ رکا اور اپنی موٹی بھدّی گردن اور آدھا جسم موڑ کر پیچھے دیکھنے لگا۔
میں نے درخت کے تنے کا سہارا لے کر رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ فائر کی آواز جنگل میں گونجی اور درختوں پر بسیرا کرتے ہوئے پرندے اچانک ہزاروں کی تعداد میں اپنے اپنے گھونسلوں سے نکل کر فضا میں پرواز کرنے لگے۔ گولی دریائی گھوڑے کے بائیں کندھے میں پیوست ہو گئی، لیکن اس نے کچھ زیادہ اثر نہ لیا بلکہ مشتعل ہو کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔ پھر بھد بھد کرتا ہوا وہ دریا کی طرف بھاگا۔ میں نے دو فائر اور کیے۔ دریائی گھوڑا پھر پلٹا اور دوڑتا ہوا اس درخت کی طرف جس پر ہم دونوں چھُپے بیٹھے تھے، پوری قوّت سے آیا اور غالباً قریب سے نکلنا چاہتا تھا، مگر سنبھل نہ سکا اور درخت سے ٹکرایا اور گر پڑا۔ اب وہ درخت کے عین نیچے پڑا لوٹ پوٹ کر اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا اس کا جسم اور گردن کے اوپر کا حصّہ خون میں لت پت ہے۔ اس کا منہ پوری طرح کھلا ہوا تھا اور حلق میں سے نہایت ڈراؤنی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اتنے میں بائیں جانب سے شیر کے دھاڑنے کی پھر آواز آئی اور خون میری رگوں میں جمنے لگا اور پھر اگلے ہی لمحے دو گینڈے اچھلتے کُودتے اور جھاڑیاں پھلانگتے وہاں آ نکلے۔ وہ دونوں خوفزدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ شیر ان کے تعاقب میں یہاں تک آ گیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے گینڈے وہاں رُکے۔ پھر اسی طرح اچھلتے اور دوڑتے دریا کی طرف چلے گئے۔
دریائی گھوڑا لوٹ پوٹ ہو کر ایک بار پھر سے اپنے پیروں کے بل کھڑا ہو گیا تھا۔ اب وہ زور زور سے ہانپ رہا تھا اور اس کے ہانپنے کی آواز اتنی اونچی تھی کہ شیر جو پہلے ہی شکار کی تلاش میں پھر رہا تھا فوراً اِدھر آیا اور میں نے پہلی نگاہ میں پہچان لیا کہ وہ شیر نہیں شیرنی ہے۔ اس کا پورا جسم جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا اور صرف چہرہ باہر تھا۔ اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے وہ دریائی گھوڑے کو چند لمحوں کے لیے دیکھتی رہی۔ پھر نہایت آہستہ دبے پاؤں آگے بڑھی، بالکل اسی انداز میں جیسے بلّی چوہے کو دیکھ کر چُپکے چُپکے آگے بڑھتی ہے۔ شیرنی کی لمبائی دُم سمیت دس فٹ سے کسی طرح بھی کم نہ تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے ساؤ کے علاقے میں ایسی قد و قامت اور جسامت والی شیرنی دیکھی۔ اس وقت مجھے دریائی گھوڑے پر بڑا ترس آیا۔ شیرنی کی موجودگی کا اُسے احساس ہو چکا تھا، لیکن کوئی غیر مرئی قوّت تھی جو اسے وہاں جکڑی ہوئی تھی۔ پھر میں نے دیکھا کہ شیرنی آگے بڑھی اور دریائی گھوڑے کا جسم کانپنے لگا اور جب وہ اس سے صرف پندرہ گز کے فاصلے پر رہ گئی تو دریائی گھوڑے نے یکایک زور سے جھرجھری لی اور رُخ بدل کر بے تحاشا جنگل کے اندرونی حصّے کی طرف بھاگا، مگر شیرنی بھلا کہاں جانے دیتی۔ اس نے پوری قوّت سے دو تین چھلانگیں لگائیں اور دریائی گھوڑے پر حملہ آور ہوئی۔ شیرنی نے اپنے دونوں پنجے اس کی پشت پر گاڑ دیے اور لمبے لمبے دانتوں سے اس کی گردن نوچنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ شیرنی کے حلق سے گرجنے اور غرّانے کی آوازوں نے دریائی گھوڑے کو بالکل بد حواس کر دیا۔ زخمی وہ پہلے سے تھا۔ اب رہی سہی کسر شیرنی کے حملوں نے پوری کر دی۔ وہ دھڑام سے زمین پر گرا اور پھر اٹھ نہ سکا۔ شیرنی نے نہایت اطمینان سے اس کی گردن سے منہ لگا کر خون پیا۔ دو تین مرتبہ فاتحانہ انداز میں گرجی اور چھلانگیں لگاتی ہوئی چشم زدن میں نظروں کے سامنے سے اوجھل ہو گئی۔
دسمبر ۱۸۹۸ء میں ریلوے لائن کلندنی کے مقام تک پہنچ چکی تھی۔ کام زور و شور سے جاری تھا۔ ہزارہا مزدور اور کاریگر لگے ہوئے تھے۔ جنگل میں منگل بنا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کام جلد ہی مکمل ہو جائے گا، لیکن چند ہی دنوں میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ صورتحال بالکل بدل گئی۔ مجھے یہاں آئے ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ دو قُلیوں کے گُم ہونے کی اطلاع ملی۔ میں نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ میرے خیال میں انہیں کسی نے پیسوں کے لالچ میں قتل کر دیا تھا، لیکن لوگوں کا خیال یہ تھا کہ انہیں کسی درندے نے اپنا لقمہ بنایا ہے۔ مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں تھا اور چند ہی دنوں کے بعد لوگ اس واقعے کو بھول گئے۔
اس حادثے کے تقریباً تین ہفتے بعد ایک روز جب میں منہ اندھیرے اٹھا تو مجھے بتایا گیا کہ انگن سنگھ جمعدار کو آدھی رات کے وقت خیمے کے اندر سے ایک شیر گھسیٹ کر لے گیا اور اسے ہڑپ کر گیا۔ جمعدار انگن سنگھ میرے آدمیوں میں سب سے زیادہ محنتی، فرض شناس اور لمبا تڑنگا جوان تھا۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت صدمہ ہوا۔ میں فوراً موقعۂ واردات پر پہنچا۔ بلا شبہ یہ کام شیر ہی کا تھا۔ خیمے کے باہر ریت پر شیر کے پنجوں کے نشانات موجود تھے۔
جس خیمے سے شیر انگن سنگھ کو اٹھا کر لے گیا۔ وہ اس میں اکیلا نہیں تھا۔ بلکہ وہاں چھ سات اور بھی مزدور سو رہے تھے۔ انگن سنگھ کے قریب ہی سونے والے ایک مزدور نے شیر کے آنے اور انگن سنگھ کو اٹھا لے جانے کا دردناک واقعہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کا بیان تھا، ‘صاحب! کوئی آدھی رات کا عمل تھا۔ ہم سب خیمے کے اندر پڑے بے خبر سو رہے تھے۔ یکایک خیمے سے کچھ فاصلے پر میں نے شیر کی غرّاہٹ اور اس کے قدموں کی چاپ سنی اور اس سے پہلے کہ میں اپنے ساتھیوں کو بیدار کروں یا خیمے کا کھلا ہوا دروازہ بند کروں، ایک بہت بڑے شیر کا سر دروازے میں دکھائی دیا۔ انگن سنگھ دروازے کے بالکل قریب تھا۔ شیر نے آناً فاناً اس کی گردن منہ میں دبائی اور خیمے سے باہر چلا گیا۔ انگن سنگھ کی چیخوں نے سب سوئے ہوئے مزدوروں کو جگا دیا، لیکن کسی کی ہمّت نہ پڑی کہ وہ خونخوار درندے کے جبڑوں سے اسے بچانے کی کوشش کرے۔ چند لمحوں تک ہم سب اپنی اپنی جگہ دم سادھے انگن سنگھ کی چیخیں سنتے رہے۔ آہستہ آہستہ چیخوں کی آواز مدھم پڑتی چلی گئی اور ہم نے سمجھ لیا کہ انگن سنگھ ختم ہو چکا ہے۔‘
جمعدار انگن سنگھ کی اس درد ناک موت کا رنج تمام مزدوروں کو تھا۔ میں نے سب کو دلاسہ دیا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، جو ہونا تھا ہو چکا۔ انگن سنگھ کی موت اسی طرح لکھی تھی۔ انہی دنوں اتفاق سے میرا ایک ہم وطن کیپٹن ہیلم ساؤ کی سیاحت پر آیا ہوا تھا۔ اسے بھی میری طرح شیر و شکار کا کا جنون تھا۔ میں نے فوراً آدمی بھیج کر ہیلم کو بلایا اور سارا واقعہ سنا کر کہا کہ اس آدم خور کو اگر جلد ٹھکانے نہیں لگایا تو وہ نہ معلوم کتنے آدمیوں کو ہڑپ کر جائے گا۔ کیپٹن ہیلم اس مہم میں میرا ساتھ دینے کو تیار ہو گیا۔ پھر ہم شیر کے پنجوں کے نشانوں کے ساتھ ساتھ جنگل میں اس طرف گئے جدھر وہ انگن سنگھ کی لاش گھسیٹ کر لے گیا تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہمیں خون کے بڑے بڑے دھبّے بھی دکھائی دیے جو اس بات کا بیّن ثبوت تھے کہ شیر نے رُک رُک کر اپنے شکار کا خون پیا ہے۔ آدم خور شیر کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ نیا شکار حاصل کر لینے کے بعد گوشت کھانے سے پہلے اس کے جسم کا خون چاٹتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے وہ لاش کی کھال نوچ کر گوشت کو ننگا کر ڈالتا ہے اور پھر اسے اتنا چاٹتا ہے کہ گوشت خشک ہو کر لکڑی کی مانند سخت ہو جاتا ہے۔ کئی فرلانگ تک ان نشانوں کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہم ایسے مقام پر پہنچے جہاں انگن سنگھ کی لاش کے بچے کچھے ٹکڑے اور سر پڑا ہوا دکھائی دیا۔ یہاں جا بجا خشک اور جمے ہوئے انسانی خون کے بڑے بڑے دھبّے بکھرے ہوئے تھے۔ آدم خور نے انگن سنگھ کی لاش نہایت بے دردی سے چیڑ پھاڑ کر ایک ایک عضو الگ کر ڈالا تھا۔ پیروں اور بازوؤں کی ہڈیاں اور پسلیوں کا ڈھانچہ ایک طرف پڑا تھا اور کوئی پندرہ گز کے فاصلے پر ہمیں اس کا سر دکھائی دیا۔ کھوپڑی اور پیشانی پر شیر کے دانتوں اور پنجوں کے نشانات اور سوراخ موجود تھے۔ ہیلم نے آہستہ سے کہا، ‘پیٹرسن! میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ شیر لاش کے جسم سے سر الگ کر کے اتنی دور کیوں لے گیا؟’
ہم دونوں ایک دوسرے کو تکنے لگے، لیکن جلد ہی معاملہ حل ہو گیا۔
انگن سنگھ کی لاش کو دو شیروں نے کھایا تھا۔ ان دونوں کے پنجوں کے نشانات وہاں موجود تھے۔ جنہیں ہم نے شناخت کر لیا اور ارد گرد کا ماحول دیکھ کر فوراً اندازہ ہو گیا کہ لاش پر قبضہ کرنے کے لیے ان دونوں آدم خوروں کے درمیان خاصی کشمکش ہوئی اور آخر ایک لاش کا سر نوچ کر دور فاصلے پر لے گیا، لیکن نہ جانے اسے کیوں کھانا پسند نہیں کیا۔ ہم نے جلد جلد انگن سنگھ کی لاش کے بچے کچھے ٹکڑے ایک ڈھیر کی شکل میں جمع کیے اور بعد ازاں انہیں پتھروں سے ڈھانپ دیا۔ اس کا سر ہم اپنے ساتھ کیمپ میں لے آئے تاکہ ساؤ کے سرکاری میڈیکل افسر کے سامنے شناخت کے لیے پیش کیا جائے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ ساؤ کے آدم خور شیروں سے میرا تعارف ہوا۔ اسی رات میں نے انگن سنگھ کے خیمے کے قریب ایک مضبوط اور بلند درخت پر شیر کا انتظار کرنے کا پروگرام بنایا اور سرِ شام ہی کیل کانٹے سے لیس ہو کر وہاں پہنچ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کسی اور انسانی شکار کی تلاش میں ضرور اِدھر آئے گا۔ میں نے مزدوروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خیموں کے دروازے اچھی طرح بند کریں تاکہ شیر اندر داخل نہ ہو۔ میرے پاس اشارہ ۳۰۳ اور ۱۲ بور کی دو بندوقیں تھیں اور میں معتصم ارادہ کیے بیٹھا تھا کہ خواہ کچھ ہو، میں ان آدم خوروں کو ختم کر کے دم لوں گا۔ رات آہستہ آہستہ اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ یکایک شیر کی خوفناک دھاڑ سے جنگل لرز اٹھا۔ یہ آواز اگرچہ ایک ڈیڑھ میل دور سے آئی تھی، لیکن رات کے سنّاٹے میں یوں محسوس ہوا جیسے شیر درخت کے عین نیچے کھڑا ہے۔ اس کے بعد کامل دو گھنٹے تک پھر وہی بھیانک سکوت جنگل پر طاری رہا۔ میں شیر کی آواز دوبارہ سننے کے لیے مضطرب تھا۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ ضرور دبے پاؤں اپنے شکار کی تلاش میں پھر رہا ہے اور عنقریب اِدھر آنے والا ہے، لیکن شیر نہ آیا۔
وہ رات آنکھوں میں کٹ گئی اور جب میں دوسرے قلیوں کے ساتھ اپنے کیمپ میں پہنچا تو ایک تازہ خبر میرا انتظار کر رہی تھی۔ ریل ہیڈ کیمپ میں آدم خور شیروں نے حملہ کیا اور ایک مزدور کو پکڑ کر لے گئے۔ وقت وہی تھا۔ جب میں نے گزشتہ رات شیر کی دھاڑنے کی آواز سنی تھی۔ شیر ایک چوکیدار پر حملہ آور ہوئے، جو بے خبر سویا ہوا تھا۔ ایک رات اور ایک دن تھکن اتارنے کے بعد میں اپنی بندوقیں سنبھال کر ریل ہیڈ کیمپ کی طرف گیا اور اس مقام پر جہاں شیروں نے چوکیدار کو چیرا پھاڑا تھا۔ ایک درخت پر مچان بندھوائی۔ اس سے دس فٹ کے فاصلے پر ایک دوسرے درخت کے نیچے میں نے ایک بکرا بندھوایا۔ روشنی کے لیے میں نے تیل کی لالٹین بھی روشن کر کے ایک شاخ پر لٹکا دی۔
بکرا پہلے تو کافی دیر تک چُپ چاپ بندھا رہا، لیکن جونہی رات گہری ہوئی وہ خوف سے چلّانے لگا۔ اس کی آواز جنگل کی خاموشی کو چیرتی ہوئی یقیناً دور دور تک پہنچ رہی تھی کیوں کہ میں نے فوراً شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی۔ یہ آواز سنتے ہی بکرا فوراً چُپ ہو گیا۔ غالباً شیر کی دہشت سے اس کی آواز بند ہو گئی تھی۔ بکرے کا یوں چُپ ہو جانا مجھ پر نہایت شاق گزر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ بکرا اور زور سے چلّائے تاکہ شیر اس کی آواز پر ادھر چلے آئیں۔ اسی اثنا میں آسمان پر سیاہ بادلوں کی آمد آمد ہوئی۔ پھر بادل زور سے گرجے، بجلی کڑکی اور ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ میرے پاس اس بلائے ناگہانی سے بچنے کے لیے کوئی سامان نہ تھا۔ سوائے اس کوٹ کے جو میں پہنے ہوئے تھا۔ میں نے کوٹ اتار کر اپنے سر اور بازوؤں کو ڈھانپ لیا۔ ہوا لمحہ با لمحہ تیز ہو رہی تھی اور جب جنگل کے گھنے حصّے میں سے گزرتی تو شائیں شائیں کی خوفناک آوازیں بلند ہوتیں۔ جیسے ہزارہا درندے چلّا رہے ہوں۔
ہوا اور بارش کا یہ طوفان ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ میں اِتنا بھیگ چکا تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میرا جسم سردی سے کانپنے لگا۔ خدا خدا کر کے بارش تھمی۔ بکرا ایک مرتبہ پھر حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّایا۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ رات بھی ضائع ہو گئی۔ شیر اب اِدھر کا رخ نہ کرے گا۔ آدھی رات کے بعد میں نے کسی آدمی کے چیخنے کی آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں میرے عقب سے آ رہی تھیں۔ افسوس کہ ایک بار پھر آدم خور شیروں نے نہ جانے کہاں اپنا شکار مار لیا تھا۔ ایک بڑی مصیبت یہ تھی کہ کارکنوں، قلیوں اور مزدوروں کے مختلف کیمپ اس وقت ساؤ میں کام کر رہے تھے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ کیمپ ایک دوسرے سے فاصلے پر آٹھ مربع میل کے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ آدم خور بے دھڑک ہو گئے تھے۔
ایک ہندو بنیا، جو اس علاقے میں عرصے سے تجارت کا کاروبار کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ انہی آدم خوروں کا شکار ہوتے ہوتے معجزانہ طور پر بچا۔ یہ ہندو بنیا نہ جانے کس گاؤں سے خرید و فروخت کے بعد اپنے گھر واپس آ رہا تھا۔ گدھے پر وہ خود بھی سوار تھا اور مٹی کے تیل کے دو خالی کنستر بھی اس نے گدھے کی گردن پر باندھ رکھے تھے۔ رات کا پہلا پہر تھا۔ بنیا گدھے پر بیٹھا غنودگی کے عالم میں جا رہا تھا کہ یکایک عقب کی جھاڑی میں سے شیر غرّایا اور اس سے پیشتر کہ بنیا اپنی مدافعت کی کوشش کرتا۔ شیر نے ایک ہی دو ہتڑ میں گدھے اور بنیے کو زمین پر گرا دیا۔ شیر نے گدھے کی طرف مزید توجّہ نہ کی اور بنیے کو منہ میں دبانے کے لیے لپکا۔ نہ جانے کس طرح شیر کا پنجہ اس رسّی میں پھنس گیا جس سے ٹین کے خالی کنستر بندھے ہوئے تھے۔ شیر نے پنجہ چھُڑانے کے لیے جھٹکا دیا تو دونوں کنستر آپس میں زور سے ٹکرائے۔ ان کے ٹکرانے سے جو آواز پیدا ہوئی۔ شیر اس سے ڈر گیا اور اپنے شکار کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ بنیا خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ شیر جب غائب ہو گیا تو وہ جلدی سے اٹھا اور دوڑ کر پاس ہی ایک درخت پر چڑھ گیا اور دہشت کے باعث صبح تک وہیں دُبکا بیٹھا رہا۔
اسی طرح ایک رات شیر قلیوں کے خیمے میں گھُس آیا۔ خیمہ کافی بڑا تھا۔ جس میں چودہ پندرہ قلی سوئے ہوئے تھے اور اس خیمے میں گندم اور چاولوں کی چند بوریاں بھی رکھی تھیں۔ شیر نے پہلے تو ایک قلی کے کندھے پر زور سے پنجہ مارا کہ اس بد نصیب کا کندھا جسم سے الگ ہو گیا، اس کے منہ سے چیخ نکلی تو دوسرے قلی ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھے۔ شیر بد حواس ہو گیا اور جلدی میں اپنے شکار کو چھوڑ کر چاولوں کی ایک بوری منہ میں پکڑی اور گھسیٹ کر خیمے سے باہر لے گیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب شیر نے بوری کو چیرا پھاڑا تو اس میں سے چاول نکل کر بکھر گئے۔ شیر کو اپنی حماقت کا احساس ہوا اور وہ بوری وہیں چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔ دوسرے روز صبح چاولوں کی بوری خیمے سے ایک میل کے فاصلے پر پر پائی گی۔ یہ واقعات شروع شروع کے ہیں۔ بعد میں ان شیروں کو اپنا شکار حاصل کرنے میں بڑی مہارت ہو گئی تھی اور وہ حد سے زیادہ چالاک اور نڈر ہو گئے تھے۔
ان نازک حالات میں جب کہ ہر شخص کو اپنی جان بچانے کی فکر پڑی ہوئی تھی، میرا خیمہ ایک کھلی جگہ پر لگا ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد حفاظتی تار بھی تھا۔ ایک رات میڈیکل آفیسر ڈاکٹر روز میرے کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات گئے تک ہم انہی آدم خوروں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ کوئی دو بجے کا عمل تھا کہ خیمے کے باہر ہم نے ہلکی سی آہٹ سنی اور ایسا معلوم ہوا کہ کوئی جانور یا آدمی خیموں کے رسّوں سے الجھ کر گرا ہے۔ ہم نے فوراً لالٹین اٹھائی اور باہر نکلے۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ہمیں خیال ہوا کہ شاید یہ ہمارا وہم تھا، لیکن صبح جب میں نے خیمے کے ارد گرد شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے تو میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں اور ڈاکٹر روز موت کے منہ سے بال بال بچے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیر اگر رات کو خیمے کے اندر گھُس آتا تو ہمارے پاس بچاؤ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میں نے فوراً وہاں سے اپنا خیمہ اکھڑوایا اور ڈاکٹر بروک کے خیمے کے قریب نصب کروا دیا۔ ڈاکٹر بروک ساؤ کے ضلع میں نیا میڈیکل آفیسر تعینات ہو کر آیا تھا۔
ہم نے اپنے خیموں کے ارد گرد خار دار جھاڑیوں کی شاخیں اور گھاس پھُونس رکھوا دیا تھا تاکہ شیر آسانی سے اندر داخل نہ ہو سکے۔ ہمارے یہ جھونپڑی نما خیمے دریائے ساؤ کے مشرق میں اس مقام پر واقع تھے، جہاں سے ایک بہت قدیم سڑک یو گینڈا کی طرف چلی جاتی ہے۔ ہم نے یہ انتظام بھی کیا کہ آگ کے الاؤ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ساری رات جلتے رہیں۔ ملازموں کی ایک جماعت ہر وقت ان خیموں میں موجود رہتی تھی، لیکن آدم خور شیروں کی اس قدر دہشت اور خوف ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا کہ رات کہیں ذرا بھی کھٹکا ہوتا تو ہم رائفلوں کی طرف لپکتے اور جنگل میں سے گزرنے والا ہر جانور ہمیں شیر دکھائی دیتا۔ اگرچہ ہم نے مزدوروں اور قلیوں کے کیمپوں کے ارد گرد بھی خار دار باڑیں لگوا دی تھیں، لیکن شیر کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے تھے۔ وہ رات کے سنّاٹے میں دبے پاؤں آتے اور جس جگہ سے باڑ ذرا نیچے دکھائی دیتی، وہیں سے چھلانگ لگا کر کیمپ میں گھُس آتے اور سینکڑوں مزدوروں کی موجودگی میں ایک نہ ایک آدمی کو منہ میں دبا کر بھاگ جاتے۔
آدم خوروں کی ان ہلاکت خیز سرگرمیوں سے کیمپ کے ہزارہا مزدوروں اور قلیوں میں انتہائی بے چینی اور خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور وہ کام چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ ان کیمپوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مزید انتظامات کیے گئے ہیں، لیکن نئے انتظامات کے باوجود آدم خوروں کو کیمپ میں گھُسنے سے باز نہ رکھا جا سکا اور ہر رات ایک دو آدمی کیمپ سے غائب ہوتے رہے۔ کیمپ کے مزدوروں اور قلیوں کے لیے ایک سفری ہسپتال کا انتظام بھی کیا گیا۔ یہ ہسپتال ایک بڑے سے خیمے میں تھا اور ہمیشہ کیمپ سے تین چار فرلانگ پیچھے رکھا جاتا تھا۔ تاکہ بیماروں کے کانوں میں کسی قسم کا شور و غل نہ پہنچے پائے۔ ہسپتال کے ارد گرد خار دار جھاڑیوں، درختوں کی شاخوں اور لوہے کے تاروں کی ناقابلِ عبور دیوار کھڑی کی گئی تھی اور ہمیں پورا اطمینان تھا کہ شیر اس کے اندر کبھی نہ جا سکیں گے، لیکن ایک رات ایسا ہولناک واقعہ پیش آیا، جس نے میرے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا۔
رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ ہسپتال میں مریض اپنے اپنے بستروں میں آرام سے سو رہے تھے۔ اسسٹنٹ ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھا۔ وہ اپنے خیمے میں لیمپ جلائے کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کہ یکایک کچھ فاصلے پر اس نے آہٹ سی سنی۔ فوراً وہ چوکنا ہو گیا۔ اس نے کان لگا کر آہٹ دوبارہ سننے کی کوشش کی، مگر پھر کوئی آواز نہ پا کر اطمینان سے کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو گیا۔ اسی اثنا میں ہسپتال کے دوسرے خیمے سے کسی مریض کے کراہنے کی آواز آئی۔ ڈاکٹر نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور مریض کو دیکھنے کے ارادے سے اٹھا۔ دروازہ کھول کر جونہی وہ باہر نکلنا چاہتا تھا کہ اس کی نگاہ دس گز دور کھڑے ایک شیر پر پڑی۔ شیر کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں اور وہ چپ چاپ کھڑا ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔ ایک ثانیے تک انسان اور آدم خور ایک دوسرے کو تکتے رہے اور اس سے پہلے کہ ڈاکٹر دروازہ بند کر سکے۔ شیر نے جست لگائی اور ڈاکٹر کی طرف لپکا۔ ڈاکٹر گھبرا کر پیچھے ہٹا اور میز سے ٹکرا گیا۔ میز کے اوپر دواؤں سے بھرا ہوا بکس رکھا ہوا تھا۔ میز الٹ گئی اور بکس میں رکھی ہوئی شیشے کی بوتلیں اور شیشیاں ایک پُر شور آواز کے ساتھ فرش پر گر پڑیں۔ اس آواز نے شیر کو بد حواس کر دیا۔ اس نے گھبرا کر دوسری طرف چھلانگ لگائی اور ملحقہ خیمے کے اندر چلا گیا۔ یہاں آٹھ مریض تھے۔ شیر ان کے اوپر جا گرا۔ اس کے پنجوں سے دو مریض شدید زخمی ہوئے۔ تیسرے مریض کو شیر نے منہ میں دبایا اور باڑ کی طرف چھلانگ لگا دی اور خار دار جھاڑیوں کو چیرتا ہوا اپنا شکار لے کر صاف نکل گیا۔
دوسرے روز مجھے اس حادثے کی اطلاع ملی اور میں نے فوراً ہسپتال کو اس مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے تمام مریضوں کو نئے ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ میں نے مصلحتاً پرانے خیمے وہیں رہنے دیے، کیوں کہ مجھے امید تھی کہ رات کو کسی وقت شیر پھر اِدھر کا رخ کرے گا اور میں اسے رائفل کا نشانہ بنا لوں گا۔ چناچہ رات کو ڈاکٹر کے خیمے میں تیار ہو کر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کے بعد دفعتاً میں نے شیر کے دھاڑنے اور بہت سے مزدوروں کے چیخنے اور کنستر پیٹنے کی آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں اس طرف سے آ رہی تھیں۔ جدھر ہسپتال نئی جگہ پر منتقل کیا گیا تھا۔
صبح پتہ چلا کہ ہسپتال کے بہشتی کو شیر اٹھا کر لے گیا ہے۔ حالانکہ اس وقت آگ کا الاؤ روشن تھا اور کئی مزدور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ شیر نے چُپکے چُپکے خیمے کے چاروں طرف باڑ کا معائنہ کیا۔ ایک جگہ باڑ کچھ نیچی اور کمزور تھی۔ اس نے وہیں سے چھلانگ لگائی اور خیمے کے اندر آن کودا۔ باڑ کے قریب ہی ہسپتال کا بہشتی خرّاٹے لے رہا تھا۔ شیر جونہی خیمے میں داخل ہوا اس کی نظر بہشتی پر پڑی۔ شیر نے بہشتی کو منہ میں دبایا اور باہر جانے کا ارادہ کیا، لیکن دوسرے مزدوروں نے شور مچایا۔ شیر گھبرا کر مڑا۔ اسی اثنا میں بہشتی نے ہاتھ پیر مار کر شیر کے منہ سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا اور قریب ہی رکھے ہوئے لکڑی کے ایک بھاری صندوق کو پکڑ لیا تاکہ شیر اسے دوبارہ گھسیٹ نہ سکے، لیکن شیر نے فوراً اس کی ٹانگ منہ میں دبا لی اور زور سے جھٹکا دیا۔ بہشتی نے اب خیمے کا ایک رسّا پکڑ لیا۔ لیکن درندے کی بے پناہ قوّت کے سامنے یہ رسّا کیا وقعت رکھتا تھا۔ رسّا ایک ہی جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔ بہشتی کے حلق سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ ادھر شیر بھی غصّے میں گرج رہا تھا۔ دوسرے قلی اور مزدور دروازہ کھول کر فوراً باہر بھاگ گئے۔ شیر نے اس کے بعد اطمینان سے زخمی بہشتی کو منہ میں پکڑا اور چھلانگیں لگاتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔ شیر کی اس دلیری سے جو خوف و ہراس مزدوروں میں پھیلا اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بعد ازاں میں نے بہشتی کے گوشت کے ریشے، نُچی ہوئی کھال کے ٹکڑے، بال اور کپڑوں کی دھجیاں خار دار باڑ میں اٹکی ہوئی پائیں۔ آدم خور بد نصیب بہشتی کو باڑ کے اندر سے گھسیٹ کر لے گیا تھا۔
خیمے سے چار سو گز کے فاصلے پر جھاڑیوں کے پیچھے میں نے اور ڈاکٹر بروک نے بہشتی کی کھائی ہوئی لاش کے بچے کچھ اجزا دیکھے، کھوپڑی جبڑوں، ٹخنوں اور کولہے کی ہڈیاں اور دائیں ہتھیلی کا ایک حصّہ بھی جس میں دو انگلیاں باقی رہ گی تھیں۔ ان انگلیوں میں سے ایک میں چاندی کی انگوٹھی اٹکی ہوئی تھی اور اسی انگوٹھی سے ہم نے بہشتی کو شناخت کیا۔ دوبارہ ہسپتال یہاں سے ہٹا کر دوسری جگہ لے جایا گیا اور سارے مریض وہاں منتقل کر دیے گئے۔ اس کے چاروں طرف اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور اونچی باڑ لگائی گئی۔ پرانے ہسپتال کے قریب چند خالی خیمے چھوڑ دیے گئے جن میں سے ایک میں میں نے چند مویشی بندھوائے تاکہ شیر ان کی بُو پر آئے۔ اس کے بعد میں نے ایک خالی ویگن اِدھر منگوائی اور رات اس ویگن میں چھُپ کر شیر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی روز دوپہر کو معلوم ہوا کہ دونوں شیر نواحی علاقے میں مختلف مقامات پر گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ساؤ سے چار میل دور انہوں نے ایک قلی کو پکڑنے کی کوشش کی جو ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا، لیکن قلی بہت پھرتیلا نکلا اور اس لئے اس کی جان بچ گئی۔ وہ دوڑ کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور بہت دیر تک درخت پر بیٹھا رہا۔ شیروں نے شکار ہاتھ سے جاتا دیکھا تو ان کی جھلّاہٹ کی انتہا نہ رہی۔ وہ دوڑ دوڑ کر آتے اور جست لگا کر قلی کو پکڑنے کی کوشش کرتے، لیکن وہ ان کی پہنچ سے باہر تھا۔ آخر تھک ہار کر شیر وہاں سے چلے گئے۔ شیروں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ادھر سے ساؤ کے ٹریفک مینیجر کا گزر ہوا۔ وہ ریل میں بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کی نظر درخت پر بیٹھے ہوئے قلی پر پڑی۔ مینیجر نے گاڑی رکوائی اور قلی کو درخت سے اتار کر اپنے ساتھ لے گیا۔ ڈر کے مارے قلی کی گھگھی بندھی ہوئی تھی اور سارا جسم برف کی مانند سرد تھا۔ بہت دیر بعد اس کے حواس درست ہوئے۔
بعدِ ازاں ان آدم خوروں کو ساؤ اسٹیشن پر لوگوں نے دیکھا۔ وہاں سے یہ بھاگے تو جنگل میں مزدوروں نے انہیں دیکھا۔ ڈاکٹر بروک اس وقت ہسپتال سے واپس آ رہا تھا۔ شیروں میں سے ایک نے ریل کے ساتھ ساتھ اس کا کچھ فاصلے تک تعاقب کیا اور پھر لوٹ گئے۔ پروگرام کے مطابق میں اور ڈاکٹر بروک رات کے کھانے سے فارغ ہو کر ویگن کی طرف روانہ ہوئے۔ جو ہماری رہائش گاہ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ اگرچہ رات کے وقت ہمارا یوں نکلنا سراسر حماقت تھی۔ تاہم ویگن تک ہم خیریت سے پہنچ گئے۔ دس بجے رات تک ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ چاروں طرف بھیانک سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم نے ویگن کے دروازے کا نچلا حصّہ بند کر رکھا تھا۔ اوپر کا آدھا حصّہ باہر جھانکنے کے لیے کھُلا چھوڑ دیا تھا۔ دفعتاً ایک آواز گونجی، جیسے کسی درخت کی شاخ ٹوٹی ہو۔ ہم دم بخود، دھڑکتے دلوں کے ساتھ کان لگا کر آہٹ سننے لگے۔ اس کے بعد ہمارے دائیں ہاتھ پر ایسی آواز آئی جیسے کوئی جانور دبے پاؤں چل رہا ہو۔ اس کے بعد یوں معلوم ہوا جیسے کوئی بھاری جسم زور سے زمین پر گرا ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے چند خالی خیموں کی بے ڈھنگی سی قطاریں کھڑی تھیں۔ جن کے گرد خار دار باڑیں لگی رہنے دی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک خیمے کے اندر بندھے ہوئے مویشیوں میں ہلچل مچی۔ ان کے بولنے اور اِدھر اُدھر بھاگنے کی آوازیں ہمارے کانوں تک صاف پہنچ رہی تھیں۔ اس کے بعد دفعتاً پھر پہلا سا سکوت طاری ہو گیا۔ اس موقعے پر میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ شیر یقیناً اِدھر آ گئے ہیں اور بہتر یہ ہے کہ میں ویگن سے نیچے اتر کر ایک جانب لیٹ جاؤں تاکہ جونہی شیر نمودار ہو اسے آسانی سے گولی ماری جا سکے، لیکن ڈاکٹر بروک مصر تھا کہ یہیں ٹھہر کر شیر کا انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے اور اچھا ہی ہوا کہ میں نے اس کی بات مان لی، ورنہ اس رات میں ختم ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ چند ہی سیکنڈ بعد شیر دھاڑتا ہوا نمودار ہوا اور بجلی کی مانند تڑپ کر ویگن کی طرف آیا۔ بیک وقت ہماری رائفلوں سے شعلے نکلے اور فائروں کی دھماکہ خیز آوازوں سے جنگل تھرّا اٹھا۔ اندھیرے میں ہم بس اتنا دیکھ پائے کہ فائر ہوتے ہی شیر زور سے گرجا اور چھلانگیں لگاتا ہوا غائب ہو گیا۔
میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ ان مہیب درندوں سے کس طرح خلقِ خدا کو نجات دلائی جائے۔ ان آدم خوروں کو مارنے کی ترکیبیں سوچتے سوچتے میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ کئی کئی ماہ راتوں کو مسلسل جاگتے جاگتے میری صحت جواب دے گئی، لیکن میں نے ہمّت نہ ہاری۔ آخر ایک روز ایک نہایت ہی عمدہ ترکیب ذہن میں آئی۔ میں نے ریل کے سلیپر اور آہنی گارڈر جمع کیے اور پھر ایک بڑا سا پنجرہ بنایا کہ شیروں کو زندہ گرفتار کیا جا سکے۔ پنجرے کے دو حصّے تھے سامنے کا حصّہ شیروں کے لیے اور عقبی حصّہ مویشیوں یا آدمیوں کے لیے، تاکہ شیر ان کی بُو پر پنجرے میں داخل ہو اور جونہی اس کا بھاری بھرکم جسم کا بوجھ ایک کمانی دار تختے پر پڑے، اوپر سے لوہے کی سلاخوں کا دروازہ فوراً گرے اور شیر کے باہر نکلنے کی راہ بند ہو جائے۔ اس کے بعد میں نے پنجرے سے ذرا فاصلے پر ایک خیمہ نصب کرایا اور اس کے چاروں طرف کانٹوں کی مضبوط باڑ لگوائی اور ہر طرح کیل کانٹے سے لیس ہو کر رات کو اس خیمے میں بیٹھ گیا۔ آپ یقین جانیے کہ میں نے تین راتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ دیں اور شیر نہ آیا۔ میں مصمّم ارادہ کر چکا تھا کہ خواہ ساری زندگی اس خیمے میں بسر کرنی پڑے۔ میں یہاں سے شیر کو مارے بغیر نہ ٹلوں گا۔ چوتھی رات حسب معمول کافی کے کئی گرم گرم پیالے پی کر شیر کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ نہ معلوم کب میری آنکھ لگ گئی اور اس اثنا میں وہ موذی شیر وہاں آ پہنچا۔ میرے اندازے کے مطابق پہلے تو وہ پنجرے کو ایک نئی چیز سمجھ کر اس کا معائنہ کرتا رہا۔ شیر کو قریب پا کر پنجرے کے دوسرے حصّے کے مویشیوں میں ہلچل مچی اور وہ بد حواس ہو کر چلّانے لگے۔ پھر شیر کی نگاہ میرے خیمے پر پڑی اور وہ فوراً باڑ کے اندر گھُس آیا۔ میں شاید اس وقت اطمینان سے خرّاٹے لے رہا تھا، لیکن شیر کی گرج سن کر میری آنکھ کھُل گئی، مگر اب بچنے کا موقع کہاں تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ شیر خیمے کی رسّیوں میں الجھ گیا۔ اس نے طیش میں آ کر دو تین جھٹکے دیے تو پورا خیمہ دھڑام سے ہم دونوں کے اوپر آن پڑا۔ میرے ہوش و حواس تو پہلے ہی گُم ہو چکے تھے۔ رائفل تک اُٹھانا بھول گیا اور اسی گرے ہوئے خیمے میں لپٹ گیا۔ شیر نے جھلّا کر خیمہ نوچنا شروع کر دیا۔ میں اس بھیانک موت کے تصوّر سے لرز رہا تھا کہ ابھی چند سیکنڈ بعد شیر مزے لے لے کر میری ہڈیاں چبا رہا ہو گا۔ اپنے بچاؤ کی کوئی ترکیب ذہن میں نہیں آتی تھی۔ میں خیمے کے اندر لپٹے ہوئے بستر کی مانند چھُپا ہوا تھا۔ شیر نے مجبور ہو کر اس بستر کو منہ میں پکڑا اور باڑ میں سے گھسیٹ کر باہر لے آیا اور اس کی یہی حرکت مجھے دوبارہ زندگی بخش دینے کا باعث بنی، ورنہ کانٹوں کی باڑ ایسے نازک وقت میں عبور کرنا میرے لیے نا ممکن سی بات تھی۔
حسنِ اتفاق سے چھولداری اس کے منہ سے چھُوٹ گئی اور وہ اپنے ہی زور میں دس پندرہ گز کے فاصلے پر جا گرا۔ میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اُٹھا اور دوڑ کر پنجرے کے اندر چلا گیا۔ کمانی دار تختے پر جونہی میرا بوجھ پڑا، اوپر سے لوہے کی سلاخوں کا دروازہ گرا اور میرے اور شیر کے بیچ حائل ہو گیا۔ آدم خور اب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا، لیکن شکار کو یوں پنجے سے نکلتا دیکھ کر اس کے غیض و غضب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ اچھل اچھل کر پنجرے کو الٹ دینے کی کوشش کرتا اور پنجرے کے اندر ہاتھ ڈال کر مجھے پکڑنا چاہتا تھا، لیکن میں اب ادھ موؤں کی طرح ایک گوشے میں پڑا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ صبح کاذب تک اس نے مجھے بار بار پکڑنے کی کوشش کی، آخر تھک ہار کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا تھا کہ کاش میرے پاس رائفل ہوتی تو میں اس شیر کو یہیں بھون کر رکھ دیتا۔ اس حادثے کے بعد بھی میں نے کئی راتیں وہاں اس امید پر گزاریں کہ شاید آدم خور پھر اِدھر آئے، لیکن وہ بہت زیادہ چالاک ثابت ہوا اور وہ دوبارہ نہ آیا۔
آہستہ آہستہ ان آدم خوروں نے اپنی سلطنت کو وسیع کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی ریل ہیڈ کیمپ پر حملہ کرتے، جو دس بارہ میل دور تھا اور کبھی ساؤ اسٹیشن اور ساؤ کیمپ پر چڑھ آتے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ چاندنی راتوں میں وہ بہت کم انسانی شکار کرتے تھے۔ البتہ اندھیری راتوں میں وہ دو تین انسانوں کو ضرور ہڑپ کر جاتے۔
ان کے شکار کا طریقہ یہ تھا کہ ہمیشہ دونوں ساتھ ساتھ آتے۔ ایک آدم خور کیمپ کی باڑ کے باہر کھڑا ہو جاتا اور دوسرا جست لگا کر کیمپ میں آن دھمکتا۔ اس کے آتے ہی مزدوروں اور قلیوں میں حشر برپا ہو جاتا۔ سبھی کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور ان کے سامنے آدم خور کسی موٹے تازے قلی کو پکڑ لیتا اور باڑ توڑ کر آسانی سے باہر نکل جاتا۔ جہاں اس کا ساتھی منتظر ہوتا۔ پھر وہ زیادہ دور جانے کی زحمت بھی گوارہ نہ کرتے اور وہیں بیٹھ کر شکار کو کھانا شروع کر دیتے۔ پانچ چھے فٹ موٹی خار دار باڑ کو یہ آدم خور یوں توڑ کر نکل جاتے تھے جیسے وہ تاش کے پتّوں سے بنی ہوئی دیوار ہو۔
آدم خوروں کی خبریں ساؤ سے نکل کر افریقہ کے دوسرے بڑے شہروں اور یورپ تک پہنچ چکی تھیں۔ کئی یورپین شکاری ان آدم خوروں سے دو دو ہاتھ کرنے آئے، لیکن سب کے سب ناکام رہے، بلکہ یوں کہیے کہ شیر کو مارنا تو درکنار اپنی جانیں بڑی مشکل سے بچائیں۔ اب یہ عالم تھا کہ جونہی سورج غروب ہوتا، کیمپوں میں ہو کا عالم طاری ہو جاتا۔ مزدور اور قلی اپنے خیموں کے بجائے درختوں پر چارپائیاں باندھ کر سونے لگے اور جب درختوں میں جگہ نہ رہی تو انہوں نے زمین میں گہرے گڑھے کھودے، ان کے اندر چارپائیاں ڈالیں اور بعد ازاں لکڑی کے موٹے موٹے اور بھاری تختوں سے ان گڑھوں کو ڈھانپ دیا۔ یہ گڑھے ان کے لیے بہت محفوظ ثابت ہوئے، کیونکہ شیر ان کے اندر داخل ہونے پر قادر نہ تھے۔ تاہم یہ موذی روزانہ کہیں نہ کہیں سے اپنی خوراک حاصل کر لیتے تھے۔ سرِ شام ہی جنگل ان کی گھن گرج سے ہلنے لگتا۔ گویا یہ اس بات کا اعلان ہوتا کہ شیر آدمی کے خون اور گوشت کی تلاش میں نکلنے والا ہے۔ ان آوازوں کو سن کر ہر شخص کا کلیجہ بیٹھنے لگتا اور موت کے سائے اُسے اپنے چاروں طرف پھلتے ہوئے محسوس ہوتے۔ رات بھر کیمپوں میں پہرے دار نعرے لگاتے رہتے۔
’بھائیو! خبردار رہو۔۔۔۔۔ شیطان آتا ہے۔۔۔۔۔ بھائیو! خبردار رہو۔۔۔۔۔‘
لیکن یہ نعرے بازی شیروں کے لئے قطعاً بے کار تھی۔ وہ سنسناتی ہوئی گولیوں، آگ کے الاؤ، خار دار باڑوں اور سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی سے بھی خوف نہ کھاتے۔ کیمپوں میں آن کُودتے اور ایک دو ‘بھائیوں‘ کو منہ میں دبا کر بھاگ جاتے۔ ایک رات جب کہ میں اپنے کیمپ میں موجود تھا، ان آدم خوروں نے ریلوے اسٹیشن کے کسی آدمی کو پکڑا اور میرے خیمے کے قریب ہی اُسے کھانے لگے۔ ہڈیاں چبانے اور گوشت بھنبھوڑنے کی آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں، لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ باہر اتنا اندھیرا تھا کہ دس گز کے فاصلے کی چیز بھی نظر نہ آتی تھی اور اس عالم میں شیروں کو للکارنا خود موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ میرے علاوہ چند دوسرے لوگوں نے بھی یہ آوازیں سنیں اور انہوں نے مجھ سے میرے ہی خیمے میں آ جانے کی اجازت مانگی۔ وہ سب کے سب میرے خیمے میں آ گئے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنے پیچھے ایک بیمار قلی کو تنہا چھوڑ آئے ہیں۔ میں نے اس فعل پر انہیں لعنت ملامت کی اور خود چند آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں گیا تاکہ اسے بھی لے آؤں، لیکن افسوس میں نے وہاں اس کی لاش پائی، اس کے دل کی حرکت شیروں کے خوف اور تنہائی سے بند ہو گئی تھی۔
مزدوروں کے تیور تو ان شیروں کی ابتدائی سرگرمیوں کے باعث پہلے ہی بگڑے ہوئے تھے، لیکن جب یہ معاملہ حد سے گزر گیا اور ساٹھ ستّر آدمی اسی طرح ہلاک ہو گئے تو ان کا ایک وفد میرے پاس آیا اور کہا، ‘ہم ہزاروں میل کا سفر کر کے یہاں آئے ہیں۔ ہمیں شیروں کا لقمہ بننا منظور نہیں۔ اس لیے اب ہم یہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ ہمیں اس روپے کا کیا فائدہ جو جان ضائع کرنے پر حاصل ہو۔‘
میں نے ان لوگوں کو دلاسہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ لوگ کسی طرح نہ مانے اور سو سو اور دو دو سو کے قافلوں کی صورت میں ساؤ سے بذریعہ ریل ممباسہ جانے لگے۔ ایک مرتبہ جب ریلوے نے انہیں لے جانے سے انکار کر دیا تو وہ سب پٹری پر لیٹ گئے اور ریل روک کر زبردستی اس میں چڑھ گئے۔ ان حالات میں بھلا ریلوے لائن اور پلوں کی تعمیر کا کام کیسے جاری رہ سکتا تھا۔ تین مہینے تک کام بالکل رکا رہا۔ اس اثنا میں میں نے منّت سماجت کر کے بقیہ مزدوروں کو اس شرط پر روک لیا کہ ان کے لیے ٹن کی چادروں سے چھوٹے چھوٹے کوارٹر بنا دیے جائیں گے۔ تاکہ شیر ان میں داخل نہ ہو سکیں۔ ٹن کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹب نما کوارٹر پانی کی بلند ٹنکیوں پر بنائے گئے تھے اور ہر کوارٹر میں چار مزدور سوتے تھے۔ اس کے علاوہ اونچے اور مضبوط درختوں پر بھی مزدور اپنی چارپائیاں باندھ کر سوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک درخت پر بہت ساری چارپائیاں باندھی گئی تھیں اور رات جب آدم خور ان درختوں کے ارد گرد پھر رہے تھے کہ زور سے ہوا چلی اور کئی چارپائیاں شاخوں سمیت ٹوٹ کر نیچے گر پڑیں۔ اس وقت جو ہنگامہ ہوا اور مزدور جس طرح حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّائے، وہ آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ بھوکے شیروں نے فوراً دو قلیوں کو پکڑ لیا اور کیمپ سے باہر بھاگے۔ اس کے بعد جمعدار نے بندوق سے ان کی طرف کئی فائر کیے، لیکن آدم خور اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ ہلے جب تک انہوں نے قلیوں کے خون اور گوشت سے اپنا پیٹ نہ بھر لیا۔
مزدوروں کے کام کاج چھوڑنے سے ایک ہفتہ پہلے میں نے ڈسٹرکٹ آفیسر مسٹر وائٹ ہیڈ کو خط لکھا تھا کہ اگر ممکن ہو تو وہ آئیں اور ان موذی شیروں کو مارنے میں میری مدد کریں اور اگر وہ اپنے ساتھ مقامی پولیس کے چند جوان بھی لا سکیں تو بہت ہی اچھی بات ہو گی۔ مسٹر وائٹ کا جواب توقع کے خلاف جلد موصول ہوا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وہ دوسری تاریخ کو شام کے چھے بجے ساؤ کے اسٹیشن پر پہنچ رہے ہیں۔
میں نے مسٹر وائٹ کی آمد کے روز شام کے وقت اپنے ایک ملازم لڑکے کو اسٹیشن کی طرف روانہ کیا تاکہ مسٹر وائٹ کے ساتھ جو سامان زائد ہو، وہ لڑکا اٹھا لائے۔ کوئی پون گھنٹے بعد یہ حبشی لڑکا حواس باختہ اور پسینے میں تر بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ اس کا جسم سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ لڑکا کہنے لگا، ‘صاحب! اسٹیشن تو سنسان پڑا ہے۔ نہ وہاں کوئی گاڑی ہے اور نہ کوئی آدمی۔ ایک بہت بڑا شیر اسٹیشن کے اندر گھوم رہا ہے۔‘
لڑکے کی کہانی پر مجھے یقین نہ آیا کہ اس بے وقوف نے راستے میں کوئی اور جانور دیکھ لیا اور ڈر کر واپس بھاگ آیا۔ چلو خیر مسٹر وائٹ خود ہی آ جائیں گے۔ وہ مانے ہوئے شکاری اور دلیر آدمی ہیں۔ میں نے اطمینان سے کھانا کھایا۔ جب میں کھانا کھا رہا تھا، اس وقت سٹیشن کی جانب سے گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی اس لیے کہ شیروں کو ڈرانے کے لیے اسٹیشن کے لوگ گولیاں چلایا ہی کرتے تھے۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اپنی رائفل سنبھالی اور ایک بلند مچان پر جا بیٹھا۔
سورج غروب ہونے میں اگرچہ دس منٹ باقی تھے، لیکن جنگل کے اندر شام کا اندھیرا تیزی سے پھیل رہا تھا اور ہر شے ڈراؤنی معلوم دے رہی تھی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ جنگل کی بھیانک خاموشی تھی۔ یکایک تھوڑے فاصلے پر اونچی اونچی گھاس کے پیچھے میں نے ہڈیاں چبانے کی آواز سنائیں۔ میرے کان ان آوازوں سے خوب مانوس تھے۔ میں سمجھ گیا کہ شیر اپنا شکار کھا رہا ہے، لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ شیر نے یہ شکار اتنے چُپکے سے کس طرح حاصل کر لیا، کیوں کہ اس مرتبہ نہ تو شیر کے گرجنے اور دھاڑنے کی آواز سنی گئی تھی اور نہ آدمیوں کے چیخنے چلّانے کا کوئی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ شیر نے کسی مقامی باشندے کو جنگل میں سے پکڑ لیا ہو۔ چند منٹ میں کان لگائے ہڈیاں چبانے، گوشت بھنبھوڑنے اور چر چر کی آوازیں سنتا رہا۔ پھر میں نے اس آواز پر ہی اپنی رائفل کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ اس کے جواب میں شیر کی ایک زبردست گرج سنائی دی۔ پھر وہ اسی طرح دھاڑتا ہوا بہت دور چلا گیا۔ میں وہیں مچان پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے کب خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹنے لگا۔
میری آنکھ منہ اندھیرے کھلی اور فوراً مجھے اس شیر کا خیال آیا جو رات نہ معلوم کہاں سے شکار لایا اور جس پر میں نے اندازے سے گولی چلائی تھی۔ مچان سے اتر کر میں اپنے تجسّس کی تسکین کے لیے اس مقام پر گیا جہاں شیر ہڈیاں چبا رہا تھا۔ ابھی میں بمشکل ایک فرلانگ دور ہی گیا تھا کہ درختوں کے درمیان میں سے ایک پریشان صورت اور نہایت خستہ حال، جیسے برسوں کا مریض ہو، ایک یورپین آدمی کو دیکھا جو آہستہ آہستہ میری طرف چلا آ رہا تھا۔ جب وہ قریب آیا تو یہ دیکھ کر پیروں تلے زمین نکل گئی کہ وہ تو مسٹر وائٹ ہیں۔ انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا اور ہم دونوں رک کر ایک دوسرے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ آخرکار میں نے اس طلسمِ حیرت کو توڑا، ‘خدا کی پناہ! مسٹر وہائٹ! آپ کہاں سے آ رہے ہیں اور رات کہاں غائب رہے؟’
’کرنل صاحب! آپ نے میرے استقبال کا انتظام خوب کیا۔ وہ تو یوں کہیے کہ زندگی کے چند روز باقی تھے۔ ورنہ اس ظالم نے کسر نہ چھوڑی۔‘ مسٹر وائٹ نے مُسکرا کر کہا۔
’مسٹر وائٹ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟’ میں نے تعجّب سے کہا۔
مجھے اب ان کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا تھا۔
’ارے صاحب! کہنا کیا ہے۔ آپ کے آدم خور دوست نے ہم سے کہا کہ آج رات یہیں رک جاؤ۔ صبح تک اگر ہم نے تمہیں نہیں کھایا تو پھر تم کرنل کے پاس چلے جانا۔‘
یہ کہہ کر مسٹر وائٹ مڑے اور اپنی پشت میری نظروں کے سامنے کر دی۔
’لیجیے میری بات کی صداقت پر اب آپ کو کوئی شک نہ گزرے گا۔‘
دہشت سے میرا رُواں رُواں کھڑا ہو گیا۔ مسٹر وائٹ کی پشت گردن سے لے کر آخری حصّے تک لہو لہان تھی۔ شیر کے پنجوں کے چار گہرے نشانات تھے، جن میں سے خون رِس رِس کر جم گیا تھا۔ میں مسٹر وائٹ کو وہاں سے اپنے خیمے میں لے گیا۔ گرم پانی سے ان کے زخم صاف کیے اور دوائیں لگا کر پٹّی باندھی، کپڑے مہیّا کیے اور کھانا کھلا کر انہیں سُلا دیا، کیوں کہ بے چارے ایک تو زخمی اور دوسرے رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ فوراً ہی انہیں نیند آ گئی۔
تیسرے پہر ان کی آنکھ کھُلی اور انہوں نے اپنی رام کہانی یوں بیان کی:
’کرنل صاحب! قصّہ یوں ہوا کہ ہماری گاڑی اتفاق سے ساؤ اسٹیشن پر بہت تاخیر سے پہنچی۔ پروگرام کے مطابق مجھے شام کے چھے بجے آپ کے پاس پہنچ جانا چاہیے تھا، لیکن گاڑی رات کے نو، سوا نو بجے پہنچی۔ میرے ساتھ میرا حبشی ملازم عبد اللہ بھی تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں رائفل تھی۔ اسٹیشن سے نکل کر ہم پیدل ہی چل پڑے۔ ابھی ہم نے بمشکل آدھا راستہ ہی طے کیا ہو گا کہ یکایک ہمارے عقب سے ایک شیر آیا اور مجھ پر حملہ آور ہوا۔ اس نے اپنا پنجہ میری پشت پر مارا، وہ تو یوں کہو میں ذرا آگے جھُک گیا تھا۔ ورنہ وہ موذی تو میری کمر نوچ کر لے جاتا۔ عبد اللہ نے فوراً لالٹین رکھ کر رائفل سے شیر پر کئی فائر کیے، لیکن وہ اِدھر اُدھر اچھل کر وار خالی کرتا رہا۔ کوئی گولی اسے نہ لگی۔ البتہ فائروں سے ڈر کر وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ میں نے جھپٹ کر عبد اللہ کے ہاتھ سے رائفل چھینی اور شیر پر فائر کرنا ہی چاہتا تھا کہ وہ ظالم بجلی کی مانند آیا اور عبد اللہ کو اٹھا کر لے گیا۔ عبد اللہ کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اس کے آخری الفاظ یہ تھے۔
’آقا۔۔۔۔۔ شیر۔۔۔۔۔ شیر۔۔۔۔۔‘
تھوڑے فاصلے پر شیر رکا اور عبد اللہ کو چھیر پھاڑ کر وہیں کھانے میں مشغول ہو گیا۔ میں اگرچہ خود زخمی تھا لیکن میں نے اندازاً اس سمت میں کئی فائر کیے، لیکن شیر نے ذرا پروا نہ کی اور مسلسل ہڈیاں چباتا رہا۔ میں مجبوراً ایک درخت پر چڑھ گیا اور ساری رات وہیں بیٹھا رہا اور صبح اتر کر آپ ہی کے پاس آ رہا تھا کہ آپ مجھے مل گئے۔‘
مسٹر وائٹ کی کہانی نہایت دردناک تھی۔ اُنہیں اپنے وفادار حبشی ملازم عبد اللہ کے یوں مارے جانے کا بڑا صدمہ تھا۔ اس کی دو بیویاں اور دو بچے تھے، یہ خبر سن کر ان بد نصیبوں پر کیا قیامت نہ گزرے گی۔
مسٹر وائٹ کی اس کہانی سے یہ معمّہ بھی حل ہو گیا کہ رات کو میں نے مچان پر بیٹھے بیٹھے جو آواز سنی تھی، وہی آواز تھی جب شیر عبد اللہ کو ہڑپ کر رہا تھا۔ چند روز میں مسٹر وائٹ کے زخم بھر آئے اور جلد اُن کی کھوئی ہوئی قوّت بحال ہو گئی۔ انہی دنوں ممباسہ سے سپرنٹنڈینٹ مسٹر لی کوہر بھی اپنے سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر ان آدم خوروں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ساؤ پہنچ گئے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے جوش و خروش سے کام شروع کر دیا۔ جگہ جگہ سپاہیوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ میں نے شیر پکڑنے کا جو آہنی پنجرہ بنایا تھا۔ اس کا معائنہ کیا گیا اور طے ہوا کہ شیر ہلاک کرنے کی یہی تدبیر ہے کہ اس کو پنجرے میں پھنسا لیا جائے۔ شام ہوتے ہی ہم سب اپنی اپنی مچانوں پر بیٹھ گئے۔ پنجرے کے عقبی حصّے میں اس مرتبہ مویشیوں کے بجائے دو سپاہیوں کو رائفلوں، کارتوس کے ایک ڈبے اور لالٹین کے ساتھ بند کیا گیا اور مسٹر لی کوہر نے ان سپاہیوں کو سختی سے حکم دیا کہ شیر جونہی پنجرے میں قید ہو جائے وہ اس پر گولیوں کی بارش کر دیں۔
اب سب لوگ اپنی اپنی مچانوں میں چھُپے ہوئے نہایت بے صبری سے آدم خوروں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک ایک منٹ صدیوں میں تبدیل ہو گیا تھا۔ شاید وقت ٹھہر گیا تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ ہم ایک دوسرے سے بات چیت بھی نہ کر سکتے تھے کہ شاید شیر خبردار ہو جائے اور اِدھر کا رُخ ہی نہ کرے۔ مسٹر وائٹ کو میں نے اپنے ہی ساتھ بٹھایا تھا۔ رات کے گیارہ بجے ہوں گے کہ دور جنگل میں شیر کے گرجنے اور دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ ہمارے دل دھک دھک کرنے لگے۔ خونخوار درندہ آج شکار جلد نہ ملنے پر کسی قدر مشتعل معلوم ہوتا تھا۔ چند منٹ تک وہ دھاڑتا رہا، پھر خاموش ہو گیا۔ ہم گھُپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شیر کا سراغ پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی حیص بیص میں دو گھنٹے اور گزر گئے۔ شیر کی آواز دوبارہ سنائی نہ دی۔ جنگل پر موت کا سکوت طاری تھا۔
دفعتاً ایک پُر شور آواز کے ساتھ پنجرے کا آہنی دروازہ گرا اور ہم سب اپنی اپنی جگہ اچھل پڑے۔ اس کے ساتھ ہی شیر کے گرجنے اور پنجرے کے ہلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ فوراً ہی مچانوں پر لالٹینیں روشن ہوئیں اور ان کی مدھم روشنی میں ہم نے دیکھا کہ آدم خور پنجرے کے اندر پھنس چکا ہے۔ وہ سلاخوں کے اندر غیض و غضب سے اچھل رہا تھا اور اتنی قوّت سے دھاڑ رہا تھا کہ دل دہل جاتا تھا، لیکن تعجّب اس امر پر تھا کہ دوسرے حصّے میں موجود سپاہی کیوں اس پر فائر نہیں کرتے۔ کئی منٹ اسی طرح گزر گئے اور فائر کی کوئی آواز نہ آئی۔ مسٹر لی کوہر حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّائے اور سپاہیوں کو فائر کا حکم دیا۔ آفیسر کی آواز سنی تو بے چارے سپاہیوں کی جان میں جان آئی۔ آدم خور کو اپنے اس قدر قریب پا کر ان پر اس قدر دہشت طاری ہو گئی تھی کہ رائفلیں ان کے ہاتھوں میں کانپ رہی تھیں۔ اب جو انہوں نے فائر شروع کے تو بالکل اندھا دھند۔ شیر کو تو کوئی گولی نہ لگی، البتہ ہمارے دائیں بائیں گولیاں شائیں شائیں کرتی ہوئی نکلتیں اور درختوں کی شاخوں میں پیوست ہو جاتیں۔ شیر نے اس دوران پنجرے کو ہلا ڈالا، پھر پوری قوّت لگا کر اس نے لوہے کی سلاخیں لچکا ڈالیں اور ان کے درمیان میں سے صاف نکل گیا اور یہ سارا کھیل ان بے وقوف اور بزدل سپاہیوں کی باعث کِرکِرا ہو گیا۔ یہ احمق اگر ذرا ہوش سے کام لیتے تو شیر کے جسم سے رائفلوں کی نال لگا کر تین چار فائروں میں ہی اسے ڈھیر کر سکتے تھے۔ اس ناکامی کا مسٹر لی کوہر اور مسٹر وائٹ پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہ دوسرے روز ہی اپنے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے اور ایک بار پھر میں تنہا رہ گیا۔
مسٹر وائٹ اور مسٹر لی کوہر کے واپس جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد کا ذکر ہے کہ میں کسی کام سے باہر نکلا تو کیا دیکھا ایک حبشی باشندہ سر پر پاؤں رکھے بے تحاشا میری جانب دوڑتا چلا آتا تھا اور حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنی زبان میں کچھ کہتا بھی جاتا تھا۔ معلوم ہوا کہ دریا کے نزدیک ایک مقام پر شیر نے اس پر حملہ کیا۔ یہ گدھے پر بیٹھا ہوا تھا۔ کسی نہ کسی طرح یہ خود تو بچ کر آ گیا، مگر شیر نے گدھے کو وہیں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ خبر دلچسپ تھی۔ میں فوراً اپنی رائفل کندھے سے ٹکا کر اس کے ساتھ اُدھر چل دیا۔ شیر وہاں موجود تھا اور غالباً نہایت بھوکا ہونے کی باعث گدھے کے بدمزہ گوشت ہی پر قناعت کر رہا تھا، میں نہایت احتیاط سے پھُونک پھُونک کر قدم آگے بڑھا رہا تھا، لیکن میرے رہنما حبشی نے اپنی حماقت سے ایک جگہ سوکھی شاخوں پر پیر رکھ دیا۔ آہٹ ہوئی تو شیر چونکنا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے اپنے قریب خطرے کی بُو سونگھ لی تھی۔ وہ غرّاتا ہوا جنگل میں گھُس گیا۔ میں واپس آیا۔ کیمپ سے چار پانچ سو قلی جمع کیے۔ جمعداروں سے کہا کہ خالی کنستر، ڈھول، باجے، ٹن غرض یہ کہ جو شے بھی مل سکے لے آؤ۔ جب یہ سامان مہیّا ہو گیا تو میں نے ان سب کو ہدایت کی کہ کنستر اور ڈھول پیٹتے ہوئے اور خوب شور مچاتے ہوئے ایک نصف دائرے کی شکل میں آہستہ آہستہ جنگل کی طرف چلو اور میں خود اسی جگہ جا کر چھُپ گیا، جہاں شیر نے گدھے کو ہلاک کیا تھا۔ قلیوں کے ہنگامے سے جنگل میں ایک قیامت برپا ہو گئی۔ چند منٹ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ آدم خور مضطرب ہو کر جنگل سے نکلا۔ وہ تعجّب اور خوف سے اِدھر اُدھر دیکھتا۔ غالباً اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا شور و غُل اور ہنگامہ نہ سنا تھا۔ وہ چند قدم چلتا اور پھر رُک کر اپنے ارد گرد دیکھنے لگتا۔ آخر وہ مجھ سے اتنا قریب آ گیا کہ میں اس کی کھال میں چبھے ہوئے کانٹے بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ آدم خور نے مجھے نہیں دیکھا۔ اس کی پوری توجّہ اس ہنگامے پر مرکوز تھی۔ میں نے رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ آدم خور کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ وہ فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور دھاڑتا ہوا میری جانب آیا۔ میں نے فوراً دو فائر اور کیے اور دونوں گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ وہ وہیں قلابازی کھا کر ڈھیر ہو گیا۔ یہ موقع ایسا نازک تھا کہ میرا نشانہ خطا ہو جاتا تو میری موت یقینی تھی۔ شیر کے ہلاک ہوتے ہی قلیوں اور مزدوروں میں مسرّت کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی۔ پہلے تو وہ شیر کے گِرد رقص کرتے رہے، پھر انہوں نے مجھے کندھے پر اٹھا لیا اور پورا جنگل ‘شاباش’ اور ‘زندہ باد’ کے نعروں سے گونجنے لگا اور اس طرح ساؤ کا پہلا آدم خور جس کی لمبائی ۹ فٹ ۱ انچ تھی اور جس نے ڈیڑھ سو افراد کو اپنا لقمہ بنایا تھا، کئی ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔ آدم خور کے مارے جانے کی خبر بہت جلد سارے ملک میں پھیل گی۔ دوستوں اور دوسرے شکاریوں کی طرف سے مبارکباد کے پیغاموں اور تاروں کا تانتا بندھ گیا، لیکن سچ پوچھیے تو مجھے اتنی خوشی نہ تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس کا ساتھی دوسرا آدم خور ابھی تک زندہ سلامت ہے اور جب تک اس کا بھی قصّہ پاک نہیں کیا جاتا، آرام سے بیٹھنا ممکن نہ ہو گا۔
پہلے آدم خور کی لاش کئی دن تک کیمپ میں رکھی گئی۔ ہزارہا لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے تھے۔ مرنے کے بعد بھی لوگوں پر اس کا دبدبہ اور دہشت قائم تھی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اسے ‘بد روح’ سمجھ کر قریب آنے سے خوف کھاتے اور دور دور ہی کھڑے دیکھتے رہتے اور بلا شبہ وہ شیر تھا بھی بڑا خوفناک۔ ظالم کا قد ساڑھے تین فٹ سے بھی کہیں اونچا تھا اور وزنی اتنا تھا کہ جنگل سے پورے آٹھ آدمی اسے دو بانسوں پر لاد کر لائے تھے۔ ایک ڈیڑھ ہفتے تک ساؤ کے کیمپ میں بالکل امن و امان رہا، مزدور اور قلی بھی اطمینان سے اپنا کام کرنے لگے اور کسی آدمی کے غائب ہونے کی کوئی واردات ان دنوں پیش نہ آئی۔ مجھے بھی خیال ہوا شاید دوسرا آدم خور اپنے ساتھی کا برا حشر دیکھ کر کسی اور طرف بھاگ گیا ہو گا، لیکن چند ہی روز بعد پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے مجھے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔
ایک رات آدم خور ایک انسپکٹر کے بنگلے کے برآمدے میں گھُس آیا۔ بنگلہ زمین سے کئی فٹ اونچا بنا ہوا تھا اور برآمدے تک پہنچنے کے لیے سات آٹھ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں اور اس کے چاروں طرف لوہے کا خار دار تار بھی لگا ہوا تھا، لیکن شیر ایک ہی جست لگا کر اس تار کو عبور کر کے سیڑھیوں کے راستے برآمدے میں آ گیا۔ رات کا سنّاٹا ہر سُو پھیلا ہوا تھا۔ شیر نے انسانی شکار کو تلاش کرنے کے لیے اِدھر اُدھر سونگھا۔ گڑبڑ ہوئی تو انسپکٹر کی آنکھ کھُل گئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شیر برآمدے میں پھر رہا ہے۔ وہ سمجھا کہ کوئی شرابی قلی نشے میں بہک کر برآمدے میں سونے کے لیے آ گیا ہے۔ وہ وہیں سے چلّایا، ‘برآمدے میں کون ہے؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے بدمعاش۔ ورنہ تمہاری اچھی طرح مرمّت کروں گا۔‘
انسپکٹر فطری طور پر کچھ آرام طلب اور کاہل آدمی تھا اور اسی عادت نے اس رات اس کی جان بچائی۔ آرام دہ بستر سے اٹھنا اور کمرے کا دروازہ کھول کر برآمدے میں آنا اس کے لیے بڑا مشکل تھا۔ پس وہ وہیں سے ‘شرابی قلی’ کو گالیاں بکتا رہا۔ وہیں برآمدے میں انسپکٹر صاحب کی چند بکریاں بھی بندھی ہوئی تھیں۔ شیر نے پہلے ان کی طرف رُخ نہ کیا، لیکن جب اسے کھانے کے لیے آدمی کا گوشت نہ ملا تو اس نے دو بکریاں اٹھائیں اور جنگل میں چلا گیا۔
دوسرے روز مجھے انسپکٹر کی زبانی اس حادثے کا علم ہوا۔ وہ غریب صبح جب اٹھا تو برآمدے میں بکریوں کا خون پھیلا ہوا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات برآمدے میں اور برآمدے سے باہر باڑ کے نزدیک آئے تو وہ دہشت زدہ ہو کر بغیر ناشتہ کیے میرے پاس آیا۔ پورا قصّہ سنا کر کہنے لگا، ‘کرنل صاحب! میرے باپ کی توبہ ہے جو میں اس بنگلے میں ایک رات بھی رہوں۔ مجھے تو آپ اپنے ساتھ ہی رکھیے۔‘
میں نے انسپکٹر کو دلاسہ دے کر اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ کیا اور خود اسی شام کو سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی انسپکٹر کے بنگلے کے نزدیک ایک خالی ڈبے میں بیٹھ گیا۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر شیر کے پھنسانے کے لیے تین موٹی بکریاں ڈھائی سو پونڈ وزنی لوہے کی پٹری کے ایک ٹکڑے سے باندھ دی گئیں۔ ساری رات میں گھپ اندھیرے میں شیر کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔ بکریوں نے چیخ کر سارا جنگل سر پر اٹھا رکھا تھا۔ صبح کاذب کے وقت جب میں انتظار کی یہ تکلیف دہ کیفیت ختم کرنے ہی والا تھا کہ شیر کی دھاڑ سنائی دی، پھر بکریاں زور سے چلّائیں اور ایک دم خاموشی چھا گئی۔ میں اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تکنے لگا، لیکن شیر دکھائی نہ دیا۔ میں نے اندازے سے کام لیتے ہوئے اس جانب دو تین فائر جھونک دیے۔ بعد میں پتہ چلا کہ شیر کو کوئی گولی نہ لگی۔ البتہ ایک بکری میری رائفل کا نشانہ بنی اور اس عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھار گئی، لیکن شیر اتنا قوی نکلا کہ آہنی ٹکڑے سمیت بکریوں کو گھسیٹ کر ایک میل دور جنگل میں لے گیا۔
سورج کی روشنی جنگل میں پھیلتے ہی میں نے کیمپ سے چار پانچ آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور آدم خور کی کھوج میں نکلا۔ شیر بکریوں کو جس راہ سے گھسیٹ کر لے گیا تھا۔ اس کا سراغ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو شیر جھاڑیوں میں چھُپا بکریوں کو ہڑپ کر رہا تھا۔ ہمارے قدموں کی آہٹ سن کر اظہار ناراضی کے لیے وہ آہستہ سے غرّایا۔ ہم سب جس جگہ تھے وہیں رک گئے اور یہ اچھا ہی ہوا کہ شیر نے غرّا کر ہمیں پہلے خبردار کر دیا ورنہ ہم اور نزدیک چلے جاتے تو ضرور ہم میں سے ایک نہ ایک اس کے ہاتھوں مارا جاتا۔ میں نے جھاڑیوں میں فائر کرنے کے لیے رائفل سیدھی ہی کی تھی کہ آدم خور دفعتاً دھاڑتا ہوا جھاڑیوں میں سے نکلا اور ہم سب بد حواس ہو کر ارد گرد کے درختوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگے۔ میرے ساتھ میرے مددگار انجینئر مسٹر ونکلر بھی تھے۔ ان پر تو اتنی دہشت طاری تھی کہ وہیں گُم سُم کھڑے رہے۔ شیر غالباً خود بھی پریشان ہو چکا تھا۔ اس لیے اس نے ونکلر کی طرف توجہ نہ کی اور مسلسل دھاڑتا ہوا جنگل کی دوسری جانب بھاگ گیا۔ شیر کے چلے جانے کے بعد ونکلر کی جان میں جان آئی اور وہاں سے دوڑ کر ایک درخت پر چڑھ گئے۔ آدھے گھنٹے بعد ہم سب درختوں سے اتر کر ان جھاڑیوں میں گھُسے جہاں شیر چھُپا ہوا تھا۔ بکریوں کی لاشیں موجود تھیں اور شیر کو ابھی بہت کم گوشت کھانے کا موقع ملا تھا کہ ہم پہنچ گئے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر بھوکا ہے اور وہ کسی نہ کسی وقت اِدھر آ کر ضرور اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرے گا۔ میں نے جلد جلد وہاں سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر مچان بندھوائی اور اپنے ذاتی ملازم مہینا کو یہ ہدایت دے کر کہ جونہی شیر کی آمد کا کھٹکا ہو، فوراً مجھے جگا دے۔ میں وہیں مچان پر لیٹ کر سو گیا۔ تیسرے پہر تک میں بے خبر سوتا رہا، پھر مہینا نے آہستہ آہستہ سے میرا شانہ ہلایا اور آہستہ سے کان میں کہا، ‘صاحب! شیر آ رہا ہے۔‘
میں فوراً اٹھا اور غور سے ان جھاڑیوں کی طرف دیکھنے لگا، جہاں بکریاں مری پڑیں تھیں۔ بلا شبہ جھاڑیاں ہل رہی تھیں اور درندہ چُپکے چُپکے ان میں گھُسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں دم سادھے یہ تماشا دیکھتا رہا۔ آدم خور نے ایک مرتبہ جھاڑیوں سے سر نکال کر ارد گرد کا جائزہ لیا، پھر اس کا آدھا جسم باہر نکلا اور فوراً ہی میری رائفل سے بیک وقت دو فائر ہوئے اور گولیاں شیر کے کندھے پر لگیں ایک مہیب دھاڑ کے ساتھ شیر جھاڑی سے نکل کر باہر آیا اور میرے سامنے سے ہو کر دوبارہ جنگل میں گھُس گیا۔ اس کے فرار ہونے کے بعد میں اور مہینا دونوں مچان میں سے اترے اور اس مقام تک گئے جہاں شیر زخمی ہوا تھا۔ تازہ تازہ خون جھاڑیوں میں دور تک پھیلتا چلا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ شیر بری طرح زخمی ہوا تھا۔ خون کے بڑے بڑے دھبے جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ دل تو چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کا تعاقب کر کے معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے، لیکن شام سر پر آ گئی تھی اور جنگل کے اندھیرے میں زخمی آدم خور کا تعاقب کرنا آسان مرحلہ نہ تھا۔ میں نے یہ قصّہ کل پر اٹھا رکھا اور ملازم کے ساتھ کیمپ میں آ گیا۔
دوسرے روز جب میں نے جنگل میں شیر کا سراغ لگانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ سر گلفورڈ مالزورتھ تشریف لا رہے ہیں۔ سر گلفورڈ بڑے نامی گرامی انجینئر تھے اور کام کا معائنہ کرنے کے لیے آ رہے تھے۔ میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور ان کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگا۔ سر گلفورڈ آئے اور جب دوپہر کے کھانے پر ہماری بات چیت ہوئی تو میں نے دوسرے آدم خور کے زخمی ہونے کا قصّہ سنایا۔ وہ سن کر ہنسے اور کہنے لگے، ‘کرنل صاحب! مجھے تو شک ہے کہ ابھی پہلا آدم خور بھی نہیں مرا۔ دوسرے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔‘
میں ان کے طنزیہ فقرے کا مطلب سمجھ گیا۔ وہ در اصل مجھے اناڑی سمجھ کر مذاق اڑا رہے تھے۔ میں ہنس کر خاموش ہو گیا۔
سر گلفورڈ دوسرے روز ممباسہ روانہ ہو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کے رخصت ہو جانے کے دس دن بعد تک دوسرے آدم خور کے بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ اس نے کسی کیمپ پر حملہ کیا ہو یا کسی قلی کو اٹھا کر لے گیا ہو۔ اس کے یوں غائب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر کہیں جھاڑیوں میں مر چکا ہو گا۔ تاہم حفاظتی انتظامات بدستور جاری تھے اور مزدور درختوں یا گڑھوں کے اندر سویا کرتے تھے۔ اس طرح ایک ہفتہ اور گزر گیا۔ تب ان لوگوں اور مجھے یقین ہو گیا کہ آدم خور کا قصّہ ہمیشہ کے لیے پاک ہو چکا ہے۔ آہستہ آہستہ مزدور اور کاریگر پھر پہلے کی طرح اطمینان اور لاپروائی سے اپنے کام پر آنے جانے لگے اور آدم خور کا ڈر گویا ان کے دلوں سے نکل گیا۔
۲۷ دسمبر ۱۸۹۹ء کی وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں اپنے خیمے میں لیٹا خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہا تھا کہ یکایک خیمے سے باہر کچھ فاصلے پر قلیوں کے چیخنے چلّانے کی جگر خراش آوازوں نے مجھے بیدار کر دیا۔ اس کے بعد شیر کی گرجدار آواز نے میرا دل ہلا دیا۔ خدا کی پناہ! آدم خور پھر نمودار ہو چکا تھا۔ اس وقت خیمے سے باہر نکلنا خود کشی کے مترادف تھا۔ میں نے ایک سوراخ سے باہر جھانکا۔ گھُپ اندھیرے میں مجھے کچھ سجھائی نہ دیا۔ قلی مسلسل چیخ رہے تھے۔ میں نے جلدی سے اپنی رائفل اٹھائی اور تین چار ہوائی فائر کر دیے۔ فائروں کے دھماکوں سے جنگل گونج اٹھا اور آدم خور ڈر کر ایک جانب بھاگ گیا۔ کیوں کہ اس کے بعد میں نے قلیوں کی آواز سنی نہ شیر کی۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ فائر عین وقت پر ہوئے تھے، ورنہ آدم خور ضرور کسی کو لے جاتا۔ قلیوں کی چیخ پکار اور فائروں نے اسے خوفزدہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ درختوں اور خیموں کے قریب خار دار باڑوں کے چاروں طرف اس کے پنجوں کے نشانات موجود تھے۔ شام ہوئی تو میں رائفل لے کر ایک درخت پر چڑھ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ آدم خور کل کی ناکامی کا بدلہ لینے ضرور آئے گا۔ خوش قسمتی سے اس رات آسمان پر بادل نہ تھے اور مہتاب سارے جنگل کو منوّر کر رہا تھا۔ آدم خور کا انتظار کرتے کرتے رات کے دو بج گئے۔ چاروں طرف ایک سوگوار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کوئی بڑی سی چمگادڑ آسمان پر پرواز کرتی ہوئی دکھائی دیتی یا پہریداروں کی آوازیں تھیں جو ہر پندرہ منٹ بعد بلند ہوتیں۔ میں نے پہریداروں کو ہدایت کر دی تھی کہ شام ہی سے آوازیں دینا شروع کر دیں تاکہ آدم خور انسانوں کی آوازیں سنے اور بے چین ہو کر سیدھا اِدھر آئے۔ رات آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی اور مجھے نیند کے جھونکے آ رہے تھا۔ پھر میں وہیں درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر اونگھنے لگا۔
نہ معلوم کتنی دیر تک غنودگی کے عالم میں گُم رہا کہ دفعتاً میرے حواس خود بیدار ہو گئے۔ میں نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ہر شے ساکن ساکن اور چُپ چاپ اپنی جگہ قائم تھی۔ تاہم میں نے اپنے اندر اضطراب اور بے چینی کی لہریں دوڑتی ہوئی محسوس کیں۔ یہ میری چھٹی حِس تھی جو مجھے بتاتی تھی کہ میرے نزدیک کوئی ذی روح موجود ہے۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ درخت سے پندرہ گز دور گھنی جھاڑیوں پر چند منٹ تک نظریں جمائے رکھنے سے پتہ چلا کہ اس میں ہمارے پرانے دوست آدم خور صاحب چھُپے ہوئے غالباً میری نگرانی کر رہے ہیں اور کمال کی بات یہ تھی کہ ظالم اِن جھاڑیوں میں بھی ایسی احتیاط سے حرکت کرتا کہ جھاڑی ذرا نہ ہلتی تھیں۔ میں بھی مچان پر بے حِس و حرکت بیٹھا اس کی عیّاری کا جائزہ لیتا تھا، پھر میں نے اسے مزید دھوکہ دینے کے لیے اپنی آنکھیں جھوٹ موٹ موند لیں اور مصنوعی خرّاٹے لینے لگا۔ ایک آدھ منٹ بعد میں نیم باز نگاہوں سے دیکھ لیتا کہ وہ کتنا نزدیک آ گیا ہے۔ اعشاریہ ۳۰۳ بور کی بھری ہوئی رائفل میرے پاس تیّار تھی اور پھر پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ آدم خور مجھ ہی کو اپنا لقمہ بنانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ میں جس مچان پر بیٹھا تھا، زمین سے اس کی بلندی دس گیارہ فٹ سے زیادہ نہ تھی اور شیر آسانی سے جست لگا کر اتنی بلندی پر وار کر سکتا تھا۔ خوف کی ایک سرد لہر میرے بدن میں دوڑ گئی۔ شیر اب مجھ پر حملہ کرنے کے لیے قطعی مستعد تھا۔ وہ ایک دم جھاڑیوں کو چیرتا ہوا آیا اور چھلانگ لگا کر میری جانب لپکا، لیکن میں بھی غافل نہ تھا۔ فوراً میری رائفل سے شعلہ نکلا اور گولی شیر کے بائیں کندھے میں لگی۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ آدم خور پشت کے بل گرا، مگر دوسرے ہی لمحے وہ اٹھا اور اچھل کر مجھ پر حملہ کیا۔ اس کا پنجہ مچان سے دو انچ نیچے ایک شاخ پر پڑا اور شاخ تڑخ کر نیچے جا پڑی۔ آدم خور کی گرج اور دھاڑ نے مجھے بد حواس کر دیا۔ میں نے بد حواسی میں اس پر دو فائر اور کیے اور یہ دونوں گولیاں کارآمد ثابت ہوئیں۔ اس کا دایاں بازو تو بالکل ہی بے کار ہو چکا تھا۔ وہ تین ٹانگوں پر اچھلتا ہوا جھاڑیوں کی طرف بھاگا، لیکن اب بھاگنے کا موقع کہاں تھا۔ ظالم درندے کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ نڈھال ہو کر گر پڑا۔ اس اثنا میں کیمپ کے سینکڑوں مزدور اور قلی ہاتھوں میں ڈنڈے اور کلہاڑیاں لے کر آ گئے۔ شیر تو پہلے ہی مر چکا تھا۔ انہوں نے غیض و غضب کے عالم میں مرے ہوئے شیر ہی پر ڈنڈے اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا۔ میں نے للکار کر انہیں روکا ورنہ شیر کی اس وقت تکّا بوٹی ہو گئی ہوتی۔ شیر کی لاش اٹھوا کر میں اپنے خیمے میں لے گیا۔ اس کے جسم سے چھے گولیاں برآمد ہوئیں۔ کھال تو کانٹوں نے پہلے ہی خراب کر دی تھی اور اس طرح نو ماہ کی جان توڑ کوشش کے بعد دونوں آدم خور ہلاک ہوئے جن کی ہیبت ناک یاد اتنے برس بعد آج بھی میرے دل میں روزِ اوّل کی طرح تازہ ہے۔
٭٭٭
گینڈوں کی بستی میں
میری شکاری زندگی کے تمام واقعات و حادثات میں ایک حادثہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مشرقی افریقہ میں میخاوس کا ضلع گینڈوں کی کثرت کے لیے مشہور ہے اسی ضلعے میں میکونی کا گھنا اور خار دار جنگل پھیلا ہوا ہے یہاں کے گینڈے اپنی نسل، قد و قامت، ڈیل ڈول اور وحشیانہ پن کی وجہ سے شکاریوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دور دراز کے علاقوں سے جو سیّاح اور شکاری افریقہ آتے ہیں وہ میخاوس ضرور آتے ہیں۔ اُن گینڈوں کے علاوہ یہاں کی دوسری آبادی وکمبا قبیلے کے لوگ ہیں جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہزار سال قدیم رسموں کو اپنائے ہوئے ہیں اور تیر کمان ہی سے شکار کرتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کے حیرت انگیز کرتب دیکھے ہیں، ان کا تیر بھی گینڈے اور شیر کو اسی طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے جس طرح ہماری اعشاریہ پانچ سو کی رائفل۔۔۔ جس زمانے کا مَیں ذکر کر رہا ہوں، ان دنوں کپتان رچی کینیا کے گیم وارڈن تھے اور علم الحیوانات کے مانے ہوئے استاد۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ افریقی جانوروں کے بارے میں کپتان رچی کی معلومات بہت زیادہ تھیں۔ وہ 1929ء سے لے کر 1940ء تک افریقہ میں رہے اور اس دوران میں انہوں نے حقیر کیڑے مکوڑے سے لے کر ہاتھی جیسے گرانڈیل حیوان تک پر تحقیق کی اور دنیا کے سامنے معلومات کا یہ خزانہ کئی کتابوں کی شکل میں پیش کر دیا۔
انہی دنوں اس علاقے کے انگریز حکّام کو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ وکمبا قبیلے کی آبادی گزشتہ کئی برسوں سے برابر بڑھ رہی تھی اور زائد آبادی کے لیے نئی زمین درکار تھی۔ مگر دوسری طرف گینڈوں کی کثرت میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اور ان کی حرکتوں کے باعث وکمبا قبیلے کے لوگ سخت پریشان تھے۔ یہ گینڈے سینکڑوں کی تعداد میں کھڑی فصلوں پر حملہ آور ہوتے۔ جھونپڑیاں روند ڈالتے اور بعض اوقات آدمیوں کو بھی ہلاک کر دیتے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ قبیلے کے لوگوں نے راتوں کو اپنی جھونپڑیوں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ انہوں نے اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی بہت کوشش کی اور اپنے تیر کمان سے جہاں تک ممکن تھا، گینڈوں کو ہلاک کرتے رہے۔ لیکن یہ ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ حتیٰ کہ ضلع میخاوس کے انگریز کمشنر جارج براؤن کے پاس فریاد کی گئی اور وہاں سے کپتان رچی کے دفتر میں یہ احکام بھیجے گئے کہ وکمبا قبیلے کے لوگوں کی مدد کی جائے۔ گینڈوں سے یہ علاقہ خالی کرا لیا جائے۔ اور اس علاقے میں مقامی باشندوں کی نئی بستی آباد کر دی جائے۔ یہ کام اتنا آسان نہ تھا ان دنوں کینیا میں پیشہ ور شکاریوں کا کال پڑا ہوا تھا۔ گرمی کے جان لیوا موسم میں بھلا کون ایسا بے وقوف تھا جو ادھر کا رُخ کرتا، لیکن اسے کیا کہیے کہ قرعہ فال میرے نام نِکلا۔ میں نے فوراً میکونی پہنچ کر اپنے فرائض کا چارج لے لیا۔
گینڈوں کے علاوہ یہاں جس دوسری مصیبت کا سامنا کرنا پڑا وہ زہریلی مکھیاں تھیں جنہیں‘سیسی’ کہا جاتا ہے۔ ان مکھّیوں کے ڈنک میں زہر کی اتنی مقدار ہوتی ہے کہ چھوٹے موٹے جانور یا تو بیمار ہو جاتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ یہ مکھیاں گینڈوںک خون کی بڑی پیاسی ہیں اور جب آپ مکھیوں کا بادل کسی جھاڑی کے اوپر دیکھیں۔ تو فوراً سمجھ جائیے کہ اس جھاڑی کے اندر کوئی گینڈا ضرور موجود ہے۔ میکونی کے اس جنگل میں سیسی مکھیوں کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں: ایک وہ جن کی جسامت ذرا بڑی ہوتی ہے اور ڈنک چھوٹا، یہ مکھیاں اتنی زہریلی نہیں ہوتیں اور صرف گینڈوں کے خون پر پرورش پاتی ہیں۔ دوسری مکھیاں جسامت میں چھوٹی، لیکن ڈنک بڑا اور نہایت زہریلا رکھتی ہیں۔ ان کے ڈنک کا فوری اثر ہوتا ہے۔ اور آدمی اپنے جسم میں سے آگ نکلتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔ اگر فوراً علاج نہ کیا جائے، تو اس کا زہر جسم میں پھیل کر موت کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ مکھّیاں گینڈوں کے علاوہ مویشیوں، کتّوں اور انسانوں پر بھی ٹڈی دَل کی طرح حملہ آور ہوتی ہیں۔
اب مسئلہ گینڈوں سے زیادہ ان آفتِ جان مکھیوں سے نبٹنے کا تھا۔ گینڈوں کو بھگانے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے جھاڑیاں صاف کی جائیں اور جھاڑیاں صاف کرنے نتیجہ یہ نکلتا کہ مکھیوں کا یہ ٹڈی دَل قبیلے کا رُخ کرتا اور مویشیوں اور انسانوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑتا۔ میں اس علاقے میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ آ چکا تھا اور کئی گینڈے بھی مارے تھے۔ لیکن اس مرتبہ جو مرحلہ میرے سامنے درپیش تھا، سچ پوچھیے تو اس نے میرے حواس ہی گُم کر دیے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا راستہ اختیار کروں کہ جنگل بھی صاف ہو جائے، گینڈے بھی بھاگ کر جنگل کے اندرونی حصے میں مستقل طور پر چلے جائیں اور ان خون آشام مکھیوں سے بھی نجات حاصل ہو۔
ان دنوں میرے پاس تین مقامی باشندے مددگار کی حیثیت سے ملازم تھے اور شکار کا کھوج لگانے میں مجھے ان لوگوں کی بڑی مدد ملتی تھی۔ ان میں سے پہلا شخص چالیس سال کی عمر کا تھا اور جنگل کے بارے میں اس کی معلومات حیرت انگیز حد تک صحیح تھیں۔ یہ شخص کبھی جرائم پیشہ گروہ سے تعلق رکھتا تھا اور کئی مرتبہ جیل یاترا بھی کر آیا تھا۔ تاہم جب میں نے اسے اپنے پاس رکھا یہ پیشہ اس کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ اس کے بعد اس شخص نے لوٹ اور چوری کی وارداتیں ترک کر دیں اور دوسرا شخص، جو پچیس چھبیس سالہ نوجوان تھا، درخت پر چڑھنے کے فن میں طاق تھا۔ وہ بندر کی سی پھرتی کے ساتھ چند ثانیوں میں اونچے سے اونچے درخت پر چڑھ سکتا تھا۔ اور افریقہ کے برّاعظم میں کسی شخص کا اس فن میں ماہر ہونا بہت بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے اور ایسے شخص کی مقامی باشندوں میں بڑی عزت کی جاتی ہے۔ وہ فخریہ کہتا تھا۔ ‘بوانا (جناب) میرے لیے درخت پر چڑھنا، اسی طرح آسان ہے جس طرح آپ پختہ سڑک پر چل سکتے ہیں۔ درخت اونچا ہو یا نیچا، اس کا تنا خار دار ہو یا کھُر دار اور ٹیڑھا میڑھا میرے لیے کوئی مشکل نہیں۔ میری استادی کو جنگل کے بندر بھی مانتے ہیں۔‘
تیسرا شخص کہنے کو بارہ تیرہ سال کا لڑکا ہی تھا، مگر بلا کا چست اور چالاک۔ اس کے بدن میں گویا بجلی بھری ہوئی تھی۔ وہ میلوں تک کہیں رُکے اور سستائے بغیر دوڑ سکتا تھا۔ افریقہ کے ایسے علاقوں میں جہاں بیل گاڑیاں، موٹریں، حتّیٰ کہ سائیکل بھی نہیں چل سکتی’ پیغام رسانی کے لیے ایسے صبا رفتار لڑکے بہت کارآمد ہیں۔ قصّہ مختصر میں نے ان تینوں کے سامنے گینڈوں کے مقابلے کا جب پروگرام پیش کیا، تو فرطِ جوش و مسرّت سے ان کے سیاہ چہرے چمکنے لگے اور آنکھیں سُرخ ہو گئیں۔ مقامی باشندوں کے خوشی سے بے قابو ہونے کی یہ سب سے بڑی علامت ہے کہ سیاہ چہرے اور سیاہ ہو جاتے ہیں اور آنکھوں میں خون اترتا دکھائی دیتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے تیر کمان فوراً درست کرنے شروع کر دیے۔ اگرچہ یہ تینوں باشندے عرصہ دراز سے میرے ساتھ تھے، لیکن میری سر توڑ کوششوں کے باوجود وہ رائفل کا صحیح استعمال نہ سیکھ سکے۔
میکونی کا یہ خطہ میرے رائے میں پورے مشرقی افریقہ کا سب سے زیادہ تکلیف دہ اور دشوار گزار خطّہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا میں اس جیسا مقام کوئی اور نہ ہو گا۔ یہ جنگل نہ زیادہ گھنا ہے اور نہ بالکل ہی ہموار میدان ہے بلکہ اونچی نیچی خار دار جھاڑیوں کے طویل سلسلے ہیں جو بے ترتیبی سے پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں درختوں کے جھُنڈ ہیں۔ اُن کی اُونچائی بھی دس پندرہ فٹ سے زیادہ نہیں ہے اور ان درختوں پر بھی تنے سے لے کر اُوپر کی چھوٹی شاخوں تک دو دو انچ لمبے کانٹے اُگتے ہیں یہاں کی زمین خشک، ریتلی اور کسی قدر سرخ رنگ کی ہے۔ جس کو دیکھ کر طبیعت میں ایک قسم کی وحشت پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ زمین نرم اور ریتلی ہے، اس لیے قدموں کے نشانات اس پر بھی اچھی طرح واضح ہو جاتے ہیں اور شکار کا سراغ لگانے میں ان نشانات سے بڑی مدد ملتی ہے۔ لیکن کہیں کہیں پندرہ فٹ اونچی گھاس کے اتنے جھُنڈ بھی ہیں، جنہیں عبور کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں اور جنگلی درندے گھاس کے اسی جھنڈ میں اکثر آرام کرتے ہیں۔
اس علاقے میں بعض مقامات کی مٹی ایسی بھی ہے جو سورج کی تیز دھوپ میں تپ کر لوہے کی مانند ٹھوس اور سخت ہو جاتی ہے اور سے توڑنے کے لیے کافی مشقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ برطانوی گورنمنٹ نے اس عجیب مٹی سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور سارے کینیا میں نہایت عمدہ سڑکیں اس مٹی سے تیار کرا دی ہیں۔ اس مٹی پر قدموں کے نشانات بالکل واضح نہیں ہوتے، البتہ ان علاقوں میں رہنے والے پرانے شکاری یہ نشانات سونگھ سونگھ کر اپنے شکار کا تعاقب کرتے ہیں۔
جس روز میں میکونی پہنچا ہوں، اسی روز وکمبا قبیلے کا سردار جس کا نام موتو تھا، مجھ سے ملنے آیا اور اس نے بتایا کہ گزشتہ کئی ماہ سے گینڈوں نے بستی کے لوگوں پر آفت ڈھا رکھی ہے۔ فصلیں تہس نہس کر دیں۔ جھونپڑیاں گرا دیں اور بستی کے کئی آدمیوں اور بچوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ گینڈے اپنی کثرت کے باعث اتنے شوخ اور شریر ہو گئے ہیں کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ایک لمحے کے لیے بھی چین نہیں لینے دیتے۔ وہ گروہ کی صورت میں گاؤں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں میں نے موتو کو سے کہا کہ کمشنر صاحب نے مجھے تمہاری مدد کے لیے بھیجا ہے اور اب ہم مل کر اپنے ان دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایک دوسرے کے پڑوسی ہوتے ہوئے وکمبا قبیلے کے لوگ ماسائی قبیلے سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ ان کے قد چھوٹے اور جسم مضبوط ہوتے ہیں۔ جبکہ ماسائی لوگوں کے مقابلے میں بہت موٹے ہوتے ہیں اور رنگ توے کی مانند چمکدار۔ ماسائی جنگجو ہیں، تو وکمبا لوگ شکاری کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان کا خاص ہتھیار کمان اور زہر آلود تیر ہیں، ان کی کمانیں بے حد مضبوط اور تیروں کے سرے سوئی کی مانند نکیلے اور کئی کئی انچ لمبے ہوتے ہیں۔
میں نے اور میرے ملازموں نے اپنی مہم کا آغاز کرنے سے پہلے ایک ہفتہ وکمبا گاؤں میں قیام کیا اور سردار موتوکو کی میزبانی کا خوب لطف اٹھایا۔ اس دوران میں مَیں نے اپنے ملازموں کو رائفل چلانے کی دن رات ٹرنیننگ دی اور انہیں اتنی مشق کرا دی کہ رائفل سے اچھا خاصا نشانہ لگانے لگے۔ اس عرصے میں ہم نے وکمبا لوگوں کی مخصوص زبان کے بہت سے الفاظ بھی کام چلانے کے لیے سیکھ لیے۔ میں جتنے عرصے تک وکمبا میں رہا، میں نے تہذیب و تمدّن اور سائنس کی دنیا سے بہت دور، ان سیدھے سادھے، قدیم جنگلی حبشیوں کو نہایت ایماندار، بے حد جفاکش، محنتی اور ملنسار پایا۔ دنیا میں پھیلی ہوئی وہ سینکڑوں برائیاں جو آج کل فیشن میں داخل ہیں، ان کا یہاں کی تہذیب میں کہیں وجود نہ تھا۔ ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ قتل، چوری، جھوٹ اور دوسرے کے مال پر بُری نظر رکھنا کیا چیز ہے۔ یہاں ہر شخص محنت کر کے اپنی روزی کماتا تھا۔ عورتیں بھی ہر قسم کے کاموں میں اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہے، حتّیٰ کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی بیکار نہیں بیٹھتیں۔ اور کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہیں اور جنگل سے لکڑیاں چُن چُن کر لاتی ہیں۔ مجھے حیرت اس وزن پر ہے جو وکمبا قبیلے کی عورتیں اپنے سروں اور پیٹھ لاد کر آسانی سے چلتی ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہاں ایک عورت دو اڑھائی من وزن بخوبی اٹھا لیتی ہے۔ نو عمر لڑکیاں بھی ایک سو پچاس پونڈ وزنی آسانی سے اٹھا لیتی ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی انہیں محنت کرنے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد جب یہ سطریں میں انگلستان کے ایک دور افتادہ گاؤں میں بیٹھا سپردِ قلم کر رہا ہوں، وکمبا قبیلے کے لوگوں کی حسین یاد میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔
اسی گاؤں میں پہلے پہل میری ملاقات مولمبی شکاری سے ہوئی۔ وہ وکمبا قبیلے ہی سے تعلق رکھتا تھا اور میری خوش قسمتی تھی کہ اس یادگار مہم میں ایسا شخص مجھے مل گیا جو نہایت قابلِ اعتماد، وفادار اور بہادر آدمی ثابت ہوا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے اتنی جلد مزاج شناس ہو گئے کہ جب میں کینیا سے ریٹائر ہو کر انگلستان آنے لگا تو مولمبی آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگا:
‘بوانا! آپ جا رہے ہیں، مجھے بھی ساتھ لے چلیے۔ میں ایک لمحہ آپ سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔‘
مولمبی کا محبت آمیز ایثار ایسا نہ تھا کہ اسے رَد کر دیا جاتا۔ میں اسے اپنے ساتھ انگلستان لے آیا اور وہ آج بھی اسی تندہی اور خلوص سے میری خدمت کر رہا ہے جس طرح آج سے چودہ برس پہلے کرتا تھا۔
ایک رات کا ذکر ہے۔ گاؤں کے سبھی کتے بھونکنے لگے اور ان کے شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ کتّوں کا یوں مل کر بھونکنا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ کوئی درندہ انسانی بستی کے قریب آ گیا ہے۔ میں ابھی آنکھیں مل ہی رہا تھا کہ دفعتاً زمین لرزنے لگی اور پھر گینڈوں کے دوڑنے کی آوازیں اور ان کے حلق سے نکلتی ہوئی غرّاہٹ نما چیخیں ایک قیامت برپا کرنے لگیں۔ گاؤں میں جیسے زلزلہ آ گیا، لیکن اس سے پہلے کہ کوئی شخص گینڈوں پر اپنا تیر کمان آزمائے گینڈوں کی یہ فوج دس پندرہ جھونپڑیوں کو روندتی ہوئی نکل گئی۔ علی الصبح موتو کے ساتھ جب میں نے گاؤں کے حالات کا جائزہ لیا تو ہر طرف گینڈوں کے قدموں کے نشانات نظر آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی تعداد پندرہ اور بیس کے درمیان ہے میں نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے ساتھیوں کو جمع کی اور ہم ان گینڈوں کے تعاقب میں روانہ ہو گئے تینوں شخص ننگے پیر تھے اور میں نے ربڑ کے جوتے پہن رکھے تھے۔ گینڈے کی قوتِ سماعت اس غضب کی ہوتی ہے کہ وہ ہلکی سے ہلکی آواز بھی سن لیتا ہے اور فوراً چوکنّا ہو جاتا ہے۔ ربڑ کے جوتوں کا فائدہ یہ تھا کہ ٹوٹی ہوئی شاخ یا پتوں کے ڈھیر پر میرا پاؤں پڑتا تو آواز آنے سے پہلے ہی میں خبردار ہو جاتا اور اگلا قدم احتیاط سے اٹھاتا۔ تینوں سکاؤٹ اس خار دار جنگل میں ننگے پاؤں یوں دوڑ رہے تھے جیسے وہ کسی نرم اور دبیز قالین پر چل رہے ہوں۔ ہم کافی دیر تک گینڈوں کے پیروں کے نشانات کا تعاقب کرتے رہے۔ موسم چونکہ خشک ہو چکا تھا اس لیے زمین بھی سخت اور کھردری ہو رہی تھی اور ان نشانات کو بار بار جھُک جھُک کر دیکھنا پڑتا تھا۔ پہلا سکاؤٹ جو ان نشانات کو سونگھنے کا ماہر تھا۔ سب سے آگے تھا وہ کسی تازی کتے کی طرح رُکے بغیر مسلسل آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک جانب سے ایسی آواز میرے کانوں میں آئی جیسے کوئی جانور جگالی کر رہا ہے۔ یہ آواز اتنی صاف اور واضح تھی کہ ہمارے اٹھتے ہوئے قدم فوراً رُک گئے اور ہم سب نے اس آواز کی طرف کان لگا دیے۔ دس منٹ تک ہم بے حس و حرکت کھڑے یہ آواز سنتے رہے۔ یہ گینڈا ہی تھا جو شاخیں اور پتے چبا رہا تھا۔
آواز جس سمت سے آ رہی تھی، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ گینڈا ہمارے بائیں ہاتھ پر ہے۔ اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد ہم اسی سمت میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ اگر گینڈے نے ہماری ذرا بھی آہٹ پالی تو وہ رفو چکّر ہو جائے گا۔ میرے ساتھیوں کے جسموں پر صرف لنگوٹیاں بندھی تھیں اور جب وہ خار دار جھاڑیوں میں سے مُڑ تُڑ کر گزرتے تھے تو اگرچہ کانٹے ان کو چبھتے تھے مگر کیا مجال کہ کِسی کی زبان سے اُف بھی نکلی ہو۔ چند قدم چلنے کے بعد ہم رُک کر آواز سن لیتے تھے۔ گینڈا بدستور جگالی کر رہا ہے۔ یکایک یہ آواز تھم گئی اور اس کے ساتھ ہی ہم بے حس و حرکت اپنی جگہ کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے جھاڑیوں میں سے جھانک کر دیکھا، تو تھوڑے فاصلے پر گینڈا کھڑا تھا۔ اس کے کان آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ گویا آواز سننے کی کوشش کر رہا ہے۔ گینڈا جھاڑیوں کے اندر اسی حالت میں کھڑا تھا کہ اس پر فائر کرنا آسان نہ تھا۔ جب چند منٹ اسی طرح گزر گئے تو میرے ہمراہی اپنی فطرت کے مطابق بے چین ہونے لگے۔ یہ لوگ شکار کو سامنے دیکھ کر صبر کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ فوراً ہی اس پر حملہ کر دیا جائے۔ گینڈے کی پشت پر چھوٹے چھوٹے چند پرندے بیٹھے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور گینڈے کو چونچیں مارتے تھے۔ گینڈے کا جسم اتنا بھاری اور کھال اتنی سخت اور موٹی ہوتی ہے کہ پرندوں کے بیٹھنے کا بھی اسے احساس نہیں ہوتا۔ در اصل یہ پرندے گینڈے کے جسم سے چمٹے ہوئے کیڑے مکوڑے اور جوؤں کو کھاتے ہیں اگرچہ گینڈے کی بصارت تیز نہیں ہوتی اور وہ زیادہ فاصلے کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن یہ چھوٹے چھوٹے پرندے اس کی ہر وقت رہنمائی کرتے ہیں اس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ پرندوں نے فوراً محسوس کر لیا کہ ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔ پس وہ چوکنّے ہو گئے۔ پھر دفعتاً اُڑ کر ہماری طرف آئے اور جھاڑیوں میں چھُپ کر زور زور سے بولنے لگے جیسے گینڈے کو خبردار کر رہے ہوں۔ جونہی پرندے اس کی پشت سے اڑ کر ہماری جانب آئے، گینڈے نے منہ چلانا بند کر دیا اور فوراً چوکنّا ہو کر سامنے دیکھنے لگا۔ اس کے کان بھی باری باری آگے پیچھے حرکت کرنے لگے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا ہماری جانب بڑھنے لگا۔ ہم نے اپنی رائفلیں تان لیں۔ گینڈا جب ہم سے صرف دس گز کے فاصلے پر رہ گیا تو اس نے پہلی بار ہمیں دیکھا اور ٹھٹھک کر ٹھہر گیا۔ اس کی دُم اوپر کو اٹھ گئی اور ٹینکی مانند پیٹ کی حرکت میں اضافہ ہو گیا۔ اس نے اپنے دشمنوں کو پہچان لیا تھا۔ اس کی گردن تَن گئی اور ناک کے اوپر لگے ہوئے لمبے نوک دار سینگ کا سرا دکھائی دینے لگا۔ ایک لمحے تک وہ اپنی چندھی چندھی آنکھوں سے اس صورتِ حال کا جائزہ لیتا رہا۔ غالباً اس کے چھوٹے سے سر میں ننھا سا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا، خوراک خوب پیٹ بھر کر کھا لینے کے بعد کوئی جانور دنگا فساد کرنا پسند نہیں کرتا۔ اور راہِ فرار اختیار کرتا ہے اس گینڈے کی بھی یہی کیفیت تھی۔ اس کے تیور بتاتے تھے کہ وہ لڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ لیکن اس سیدھے سادے حیوان میں اتنی عقل نہ تھی کہ وہ مڑ کر جھاڑیوں میں چلا جاتا اور اس طرح اپنی جان بچا لیتا۔ اس نے پہلے دو تین مرتبہ اپنے اگلے پاؤں زمین پر مارے اور بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح اُچھلتا ہوا ہماری جانب آیا۔ اسی لمحے میری رائفل سے فائر ہوا اور گولی گینڈے کے دائیں شانے میں پیوست ہو گئی۔ گینڈا لڑکھڑا کر گھٹنوں کے بل زمین پر گِرا، مگر فوراً ہی لوٹ پوٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس کا قوی جسم دھونکنی کی مانند حرکت کر رہا تھا اور غیظ و غضب کی انتہا نہ تھی۔ اس کے شانے سے خون کی دھار اُبل پڑی۔ وہ پہلے کئی گز پیچھے ہٹا اور پھر پوری قوت سے دوڑتا ہوا ہماری جانب آیا۔ ادھر میں بھی مستعد تھا دوسری گولی بھی شانے پر لگی اور گینڈا ہمارے قریب آن گرا۔ میں نے اس کے بعد اپنے ساتھیوں کو للکار کر کہا اس پر گولیاں برساؤ۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی دس پندرہ منٹ میں قوی الجثہ گینڈا ختم ہو چکا تھا۔ اس کی موٹی کھال گولیوں سے چھلنی ہو گئی تھی۔
ابھی ہم اُسکی کھال اتارنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ہمارے عقب میں لوگوں کے بھاگنے اور ان کی آوازوں کا شور سنائی دیا۔ آناً فاناً قبیلے کے بے شمار لوگ لمبے لمبے چاقو لیے نمودار ہوئے اور گوشت خور چیونٹیوں کی مانند گینڈے پر پل پڑے۔ وہ فرطِ مسّرت سے بے قابو ہوئے جا رہے تھے گینڈے کا گوشت ان فاقہ مست وحشیوں کے لیے نعمتِ خیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے اور پندرہ بیس منٹ میں گاڑھے گاڑھے خون اور ہڈیوں کے سوا وہاں گینڈے کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ ان لوگوں نے اس کی بوٹی بوٹی تقسیم کر لی اور پھر دیر تک آپس میں چھینا جھپٹی ہوتی رہی۔ میرے اندازے کے مطابق پچاس من وزنی گینڈا پورے قبیلے کی ایک روزہ ضیافت کے لیے کافی تھا۔ ان کم بختوں نے اس کی انتڑیاں بھی باقی نہ چھوڑیں اور سب ہضم کر گئے۔
اس علاقے میں گینڈوں کو ختم کرنے کا یہ پہلا قدم تھا۔ جس میں مجھے کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد آئندہ پندرہ دنوں میں میں نے بارہ گینڈے اور مارے اور انہیں ہلاک کرنے میں کسی خاص دقّت کا سامنا نہیں ہوا۔ سولہویں روز مجھے معلوم ہوا کہ محکمہ زراعت کے افسرِ اعلیٰ مسٹر بیوالے مزدوروں، قلیوں اور لکڑہاروں کے جم غفیر کے ساتھ میکونی آ گئے ہیں اور اب جنگل کو صاف کرنے کا ٹھیکہ ان کے پاس ہے۔ مسٹر بیوالے کے ساتھ بیٹھ کر میں نے کام کا تفصیلی نقشہ بنایا اور طے ہو گیا کہ جس رفتار سے گینڈوں کا خاتمہ ہو جائے گا یا انہیں میلوں دور دھکیل دیا جائے گا۔ اسی رفتار سے خار دار جھاڑیوں اور درختوں کی کٹائی ہوتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں میں سے کسی کی جان ضائع ہو۔ اس معاملے میں ہر ممکن احتیاط کی ضرورت ہے اگر ایسا حادثہ ہوا، تو بقیہ مزدور کام چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ آپ اپنے شکاریوں کو لے کر آگے آگے چلیے اور جب ایک علاقہ فتح کر لیں تو مجھے اطلاع دے دیجیے، میں پھر اپنے آدمیوں کو لے کر وہاں پہنچ جاؤں گا۔‘
اس سے اگلے روز ہم اپنی مہم پر روانہ ہو گئے اور آبادی سے بہت دور ایسے مقام پر جا پہنچے جہاں یک لخت زمین ڈھلوان شکل اختیار کر گئی۔ یہ در اصل ایک بے آب و گیاہ وادی تھی۔ جس کے دونوں جانب اونچے اونچے آتش فشاں پہاڑ تھے جو ہزار ہا سال پہلے کبھی زندہ تھے۔ اس وادی میں تیز رفتار ہوا کے جھکڑوں سے سابقہ پڑا۔ جس سے گینڈوں کا تعاقب کرنے میں بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہوا ہماری جانب سے وادی کے اندرونی حصے کی طرف چلنے لگتی تھی تو گینڈے انسانوں کی بُو پا کر ہوشیار ہو جاتے تھے۔ اور انہیں گھیرنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی تھی۔ ایک موقعے پر تو میرے ملازموں میں سے چھوٹا لڑکا مرتے مرتے بچا۔ قِصّہ یوں ہوا کہ اس نے رائفل چلانا ابھی سیکھا ہی تھا اور اسے کسی جانور پر آزمانے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک روز گینڈے کو جھاڑیوں کی قطار کے ساتھ ساتھ ٹہلتے ہوئے پایا اور رائفل لے کر اس کے پیچھے چل پڑا۔ اس نے یہ کارنامہ چپکے سے سر انجام دینے کی خوشی میں مجھے اور دوسرے ساتھیوں کو بتانا بھی مناسب نہ سمجھا۔ گینڈے نے اگرچہ لڑکے کو اپنے پیچھے آتے دیکھ لیا تھا۔ مگر اس نے شرافت سے کام لیتے ہوئے لڑکے پر فوراً حملہ نہ کیا۔ بلکہ بھاگتا ہوا جنگل کے گھنے اور تاریک حصّے میں چلا گیا۔ لڑکے نے اسے جو ہاتھ سے جاتے دیکھا، تو بے تحاشہ اس کے تعاقب میں دوڑا اور ایک فائر بھی جھونک مارا۔ بس پھر کیا تھا۔ گینڈا غیظ و غضب کی تصویر بن گیا اور فوراً پلٹ کر لڑکے کی طرف آیا۔ اگر یہ لڑکا پھرتیلا اور چست نہ ہوتا تو ختم ہو چکا تھا۔ جونہی گینڈا قریب آیا، یہ اچھل کر ایک جانب ہٹ گیا۔ اور اسی اثناء میں رائفل لڑکے کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ گینڈا اپنے ہی زور میں کئی گز آگے نکل گیا، لیکن فوراً ہی گھوم کر آیا اور اس سے پیشتر کے لڑکا اپنے اوسان بحال کر سکے، گینڈے نے سر جھکایا اور ایک ہی جست میں لڑکے کے قریب پہنچ کر ٹکر ماری۔ لڑکا ایک طرف ہٹا اور گینڈے کا سینگ دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ گینڈے نے زور سے جھٹکا دیا اور لڑکا فضا میں اڑتا ہوا بہت دور جھاڑیوں کے ایک گھیرے میں گرا جہاں ذرا کشادہ جگہ تھی اور گرتے ہی بے ہوش ہو گیا۔ فائر کی آواز میرے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ ہم سب اسی جانب دوڑ پڑے اور بہت تلاش کے بعد لڑکے کو جھاڑیوں کے اندر پڑے پایا وہ اس وقت بھی بیہوش تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس حادثے کے باوجود اسے زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی اور وہ چند منٹ میں ٹھیک ہو گیا۔ جب میں نے اسے اس جلد بازی پر ڈانٹ ڈپٹ کی تو کہنے لگا، ‘بوانا، مجھے بالکل پتہ نہیں تھا کہ گینڈا ریل کے انجن کی طرح ایک دم دوڑتا ہوا آئے گا اس نے تو مجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔‘
میں نے اس سے کہا کہ اگر گینڈا کبھی کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیتا اور واقعہ بھی یہی ہے کہ گینڈے کو قدرت نے قوی ہیکل جسم عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت کے عجیب و غریب طریقے سکھائے ہیں۔ دوڑ کر حملہ کرنے کا انداز ہی اتنا بھیانک اور روح فرسا ہے کہ ایک عام آدمی تو کیا، ہاتھی جیسا عظیم ڈیل ڈول رکھنے والا حیوان بھی خوفزدہ ہو کر اس کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے۔ خود میں نے بارہا یہ دلچسپ منظر دیکھا ہے کہ ہاتھی اور گینڈے ایک ہی جگہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے پودے اور شاخیں چرنے میں مصروف ہیں کہ یکایک کسی ہاتھی اور گینڈے کا آمنا سامنا ہو گیا اور دونوں لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ایک مرتبہ ایسا ہی دلچسپ تماشہ دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا، اسے یہاں درج کرتا ہوں۔
گینڈے کو دیکھ کر ہاتھی غضب ناک ہو کر چنگھاڑا اور آگے بڑھ کر اسے اپنی سونڈ میں جکڑنے کی کوشش کی۔ گینڈا بھی غافل نہ تھا۔ اس نے ہاتھی کا وار خالی دیا اور پیچھے مُڑ کر بھاگا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہاتھی سے ڈر کر بھاگ گیا ہے۔ لیکن پچاس ساٹھ گز دور جا کر وہ دفعتاً رُکا اور ہاتھی کی جانب رُخ پھیر کر کھڑا ہو گیا۔ گینڈا اب لڑائی کے لیے پوری طرح مستعد تھا۔ گردن جھکا کر اپنے اگلے دونوں پاؤں زمین پر مار رہا تھا اور چھوٹی سی دُم اُوپر اٹھ گئی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ گینڈا اب پورے جوش و خروش میں ہے اور یہ حالت ایسی ہے کہ ہاتھی تو ایک طرف، شیر بھی سامنے ہو تو گینڈا پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ چند ثانیے تک اُچھلنے کودنے اور حلق سے ڈکرانے کی آوازیں نکالنے کے بعد گینڈا اپنے حریف کی جانب پوری قوت سے دوڑا اور اس کی اگلی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں ٹکر ماری۔ یہ ٹکر ایسی زبردست تھی کہ ہاتھی سنبھل نہ سکا۔ اور ایک جانب دھم سے جا گرا اس کا گرنا گویا بھونچال کا آنا تھا۔ زمین کانپ گئی اور چرند پرند ہراساں ہو کر شور مچانے لگے۔ ہاتھی کے گرتے ہی گینڈا اس کے اوپر جا پڑا اور پھر تو ان دونوں میں ایسی خونریز جنگ ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ میں ایک درخت پر بیٹھا ہوا جنگل کے ان دو قوی الجثّہ جانوروں کا مقابلہ دیکھ رہا تھا جو بہت کم شکاریوں کے مشاہدے میں آتا ہے۔ گینڈا اپنے حریف کو بُری طرح رگڑ رہا تھا اور چند ہی منٹ میں اس نے ہاتھی کو بے دم کرنے کے بعد خوب ٹکریں ماریں مار مار کر اس کا سارا جسم لہولہان کر دیا۔ گینڈا بار بار پیچھے ہٹ کر اچھلتا اور اپنا لمبا نوک دار سینگ ہاتھی کے جسم میں پیوست کر دیتا اور ہاتھی سونڈ اٹھا کر بھیانک آواز میں چیخ مارتا۔ اس نے کئی مرتبہ گینڈے کو اپنی سونڈ کے ذریعے قابو میں کرانا چاہا۔ مگر گینڈے کی پھرتی اور ہوشیاری کے آگے ہاتھی کی ایک نہ چلی۔۔۔ ہاتھی جب بالکل ہی نڈھال ہو گیا تو اس نے اپنے آپ کو گینڈے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اب گینڈا بار بار اس کے گرد چکر لگاتا اور اپنا سینگ اس کے گوشت میں گھونپتا رہا۔ نہ معلوم ان کی لڑائی کب تک جاری رہتی کہ معاً شیر کی گرج سے جنگل گونج اٹھا۔ غالبا وہ کہیں قریب ہی موجود تھا اور اس کے آرام میں اس لڑائی خلل پڑا تھا۔ شیر کی آواز سنتے ہی اِدھر تو میں نے اپنی رائفل سنبھالی اور اُدھر حیرت انگیز طور پر گینڈے اور ہاتھی نے اپنی جنگ ختم کر دی۔ چند منٹ تک دونوں ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہانپتے رہے۔ اتنے میں شیر پھر دھاڑا تو گینڈا اُچھلا اور دوڑتا ہوا ایک جانب چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد زخموں سے چور چور ہاتھی بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوا دوسری جانب چلا گیا۔
ان دونوں کی لڑائی کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ شیر جس کی تلاش میں مَیں پندرہ دن سے مارا مارا پھر رہا تھا، یکایک میرے سامنے موجود تھا۔ اس نے پہلے تو آ کر ‘میدان جنگ’ کا معائنہ کیا۔ گینڈے اور ہاتھی کے جسم سے جو خون گرا تھا اسے سونگھتا رہا اور پھر منہ اوپر اٹھا کر دھاڑا۔ غالباً خون دیکھ کر اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے اور یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شیر گینڈے کو بُو پا کر اسی جانب چلا جدھر گینڈا گیا تھا۔ میں نے رائفل کا نشانہ لیا اور لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ ایک دلچسپ واقعہ ظہور میں آیا۔ گینڈا زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ بلکہ وہاں جھاڑیوں میں چھپا ہوا سستا رہا تھا۔ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا اور گینڈا بھی اسے اپنی طرف آتے دیکھ کرتا ڑ گیا تھا کہ جنگل کا بادشاہ کسی اچھی نیّت سے نہیں آ رہا۔ پس ایک بار پھر وہ اپنے طاقتور دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے نکلا۔ اگرچہ شیر تازہ دم تھا اور گینڈا ہاتھی سے جنگ کرنے کے بعد زخموں سے چُور چُور، تاہم اس نے شیر کا جی توڑ کر مقابلہ کیا۔ شیر غرّاتا ہوا گینڈے پر حملہ آور ہوا اور اس کی گردن پر اپنے اگلے دونوں پنجے گاڑ دیے۔ گینڈے کی گردن سرخ سرخ خون سے تر ہو گئی۔ لیکن شیر کی نسبت وہ کہیں زیادہ جاندار اور وزنی تھا۔ اس نے گردن کو زور سے جھٹکا دیا، تو شیر کئی لڑھکنیاں کھا کر دور جا گرا۔ اب تو اس کے بھی غیظ و غضب اور طیش کی انتہا نہ رہی۔ ایک ہی جست میں وہ پھر گینڈے کے سر پر آ گیا اور اس پر بری طرح حملہ کیا کہ گینڈا جلد ہی زمین پر گِرا اور اپنے ہی خون میں لوٹ لگانے لگا۔ شیر نے اب اس کی گردن اپنے جبڑے میں دبا لی تھی۔ عین اسی وقت میری دو نالی رائفل سے فائر ہوئے اور دونوں گولیاں شیر کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئیں اور اس طرح جنگل کا یہ خونیں ڈرامہ ایک گھنٹے بیس منٹ بعد ختم ہو گیا۔ لیکن گینڈے میں ابھی جان باقی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ شیر حرکت نہیں کرتا تو لوٹ پوٹ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر انہی جھاڑیوں کی جانب بڑھنا چاہتا تھا کہ میری رائفل نے اس کا قصہ پاک کر دیا۔ اب مجھے افسوس تھا۔ تو اس ہاتھی پر جو بچ کر نکل گیا، ورنہ میں ایسا شکاری ہوتا۔ جس نے ایک ہی دن میں ہاتھی، گینڈے اور شیر کو مار کر ریکارڈ قائم کر لیا تھا۔
آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ گینڈا سبزی خور حیوان ہونے کے باوجود درندوں کے مقابلے سے کتراتا نہیں اور اس میں بھی بہادری اور جرأت کے وہی اوصاف موجود ہیں جو شیروں اور چیتوں میں پائے جاتے ہیں۔
ہاتھیوں کی طرح گینڈوں پر بھی مستی اور جوش کا ایک وقت آتا ہے اور ان دنوں میں وہ نہایت مضطرب اور کسی قد بدمزاج ہو جاتا ہے۔ جنگل کے دوسرے جانور اس صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہی دُور دُور پناہ لیتے ہیں اور گینڈوں کے علاقے کی جانب پھٹکنے کی جرأت نہیں کرتے۔ اس موسم میں مادہ گینڈا بچہ دیتی ہے اور کبھی کبھار کسی مادہ کو اپنانے کے سلسلے میں کئی کئی گینڈے ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے ہیں اور خوب زور و شور سے لڑائی ہوتی ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ ایک نہایت ہی ضروری کام کی تکمیل کے لیے مجھے فوری طور پر نیروبی جانا پڑا۔ میری بیوی ان دنوں وہیں تھی اور اس کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ میں مسلسل اپنی جان جوکھوں میں ڈالے رہوں۔ چنانچہ اس نے مجھے بلانے کے لیے پے در پے خط لکھے اور پھر بیماری کا بہانہ کیا۔ میں ہرگز ان چالوں میں نہ آتا اگر نیروبی کے کمشنر کا خط مجھے نہ ملتا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا اور ظاہر ہے کہ کوئی ضروری بات ہو گی جس کے لیے کمشنر نے خود مجھے خط لکھا۔ میرا خیال تھا کہ نیروبی زیادہ سے زیادہ مجھے ایک ہفتہ لگ جائے گا۔ لیکن وہاں کچھ ایسے جھنجھٹوں میں پھنس گیا کہ پورے دو ماہ بیت گئے۔ اس دوران میں میکونی میں پھر گینڈوں کی ہلاک خیز سرگرمیاں اپنے عروج پر آ گئیں اور واقعہ یہ تھا کہ بارش کا موسم شروع ہو چکا تھا اور گینڈوں پر مستی اور جوش و خروش کا عالم طاری تھا۔ اس مرتبہ میرے ساتھ نیروبی کے چڑیا گھر کے منتظم اعلیٰ مسٹر ساویج بھی آئے تھے جن کو حکم ملا تھا کہ لندن چڑیا گھر کو بھیجنے کے لیے گینڈے کا بچہ پکڑ کر لائیں۔ مسٹر ساویج نے مجھ سے کہا کہ اگر گینڈے کے بچے کو پکڑ لیا جائے تو اس کی اچھی قیمت چڑیا گھر والوں سے وصول ہو سکے گی، چنانچہ میں نے اپنے نوکروں اور دوسرے باشندوں کو ہدایت کر دی تھی اگر وہ کسی مادہ گینڈے کے ساتھ بچے کو دیکھیں تو فوراً مجھے خبر کر دیں۔
میں اب تک اس مہم میں 75 گینڈے ہلاک کر چکا تھا۔ یہ بلا شبہ ایسا ریکارڈ ہے جسے آج تک دنیا کا کوئی شکاری توڑ نہیں سکا۔ اس قتلِ عام کا نتیجہ یہ نکلا کہ گینڈے خوفزدہ ہو گئے اور وکمبا قبیلے کی آبادی سے بہت دور انہوں نے پناہ لی اور جنگل کے اس حصّے پر قبضہ جمالیا۔ جہاں ان کے پرانے حریف ہاتھی صدیوں سے رہتے سہتے چلے آتے تھے۔ فیصلہ کیا گیا کہ گینڈوں کا مزید تعاقب کیا جائے اور انہیں کافی دور دھکیل دیا جائے۔ تاکہ عرصۂ دراز تک انسانی بستیوں کا رُخ نہ کریں۔
آبادی سے شمال کے رُخ کوئی پچیس میل کے فاصلے پر جنگل کے عین بیچوں بیچ ہم نے اپنے خیمے نصب کر لیے کیونکہ ایک طویل مہم ہمارے پیش نظر تھی جس میں گینڈوں کے علاوہ ہاتھیوں اور دوسرے جانوروں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے تھے۔ اس لیے ہم سب آدمی کیل کانٹے سے اچھی طرح لیس تھے اور ہمیں امید تھی کہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی لیکن تیسرے ہی روز ایک عجیب حادثے سے دوچار ہونا پڑا اور ہمیں محسوس ہوا کہ انسان خواہ اپنی حفاظت کا کیسا ہی انتظام کرے، جنگل میں بالکل درندوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور حفاظت کی کوئی تدبیر وقت پر کام نہیں آتی۔
صبح چار بجے کا وقت تھا۔ جنگل کے پرندے خدا کی حمد کر رہے تھے۔ نسیم سحر رنگ برنگ کے جنگلی پھولوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی گزر رہی تھی۔ جن لوگوں کو کبھی جنگل میں صبح کا منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہی جان سکتے ہیں کہ اس وقت فطرت اپنے آپ کو کس طرح بے نقاب کر دیتی ہے اور اس حُسن بے پروا کے نظارے سے وجدان کی کیسی حیات آفرین فرحت حاصل ہوتی ہے۔ میرے تینوں ملازم خیمے میں پڑے خراٹے لے رہے تھے۔ میں اور مسٹر ساویج چائے پینے کے بعد ٹہلنے کے لیے جنگل نکل گئے۔ گزشتہ رات خوب زور کی بارش ہوئی تھی اور جگہ جگہ پانی رُکا ہوا تھا۔ ہم نے چونکہ چمڑے کے لمبے شکاری جوتے پہن رکھے تھے۔ اس لیے بے خوف ہو کر پانی میں گھس جاتے تھے۔ حسبِ عادت رائفل میرے کندھے سے لٹک رہی تھی اور مسٹر ساویج خالی ہاتھ تھے۔
دفعتاً ہم نے ایک مقام پر لمبی گھاس میں سانپ کی پھنکار سنی اور ہم دہشت سے فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ یہ مُوذی سانپ غالباً اسی جانب رینگ رہا تھا جدھر ہم کھڑے تھے۔ چند منٹ بعد ہلتی ہوئی گھاس سے ہم نے اندازہ لگایا کہ سانپ کدھر ہے۔ در اصل اس نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا اور دشمن سمجھ کر اب ہمیں ڈسنے کے لیے آ رہا تھا۔ یکایک سانپ گھاس سے نکل کر ہمارے سامنے آ گیا۔ اسے دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ سانپ کی بجائے ایک لمبا کافی موٹا اژدہا ہمیں دیکھ کر پھنکاریں مار رہا تھا۔ اس کا رنگ سبزی مائل زرد تھا اور کھال پر بڑے بڑے چکتے سے پڑے ہوئے تھے۔ مسٹر ساویج کا رنگ ہلدی کی مانند پیلا پڑ گیا اور ایک دم غش کھا کر پانی میں گِر گئے۔ میں نے اپنے اوسان بحال کیے اور رائفل کندھے سے اتاری اور اژدہے کے سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ نشانہ خطا ہو گیا کیونکہ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اژدہا اپنی کئی انچ لمبی زبان باہر نکال کر پھنکارا اور اس کے منہ سے شعلے نکلتے دکھائی دیے اس کی آنکھیں یاقوت کی مانند سرخ تھیں اور ان میں ہیرے کی سی چمک تھی۔ جونہی میری اور اس کی نظریں چار ہوئیں، میں نے محسوس کیا کہ جسم میرا بے جان ہو گیا ہے اور میں اب کوئی حرکت نہیں کر سکتا۔ اگرچہ یہ کیفیت تھوڑی دیر ہی رہی۔ مگر مجھے احساس ہوا جیسے کئی گھنٹے بیت گئے ہیں۔ اژدہا حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ وہ سرک کر چند فٹ اور آگے آیا، اب میرا اور اس کا درمیانی فاصلہ صرف تین یا چار گز کا ہو گا۔ میرے بائیں ہاتھ گدلے پانی میں پڑے ہوئے مسٹر ساویج نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھولیں اور پانی میں سے اٹھنے کی کوشش کی تو آہٹ سن کر اژدہے کی توجہ اس طرف ہو گئی۔ بس وہ ایک لمحہ ہم دونوں کی جان بچا گیا۔ فائر کرنے کا اس وقت موقع ہی کہاں تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر پوری قوت سے اپنی رائفل اژدہے کے سر پر دے ماری یہ ضرب کارگر ثابت ہوئی اور ہیبت ناک اژدہا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
ہانپتے کانپتے ہم دونوں اپنے کیمپ کی طرف پلٹے۔ طبیعت سخت مکدر ہو چکی تھی اور ناشتے کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ یکایک ہم نے جنگل کے اندرونی حصے میں انسانی چیخوں کی مدھم آوازیں سنیں اور پھر زمین لرزنے لگی۔ خطرے کے احساس سے میرا دل کانپنے لگا۔ مسٹر ساویج کی رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کدھر پناہ لیں کہ دفعتاً پچاس ساٹھ گینڈوں کا ایک غول ہم سے کوئی ایک فرلانگ دور جھاڑیوں کے عقب میں دوڑتا ہوا نمودار ہوا۔ اس غول کو دیکھ کر یقین کیجیے کہ میرا خون ہی خشک ہو گیا اور معاً مجھے خیال آیا کہ میرے ملازموں کی خیر نہیں یہ گینڈے ادھر سے ضرور گزرے ہیں اور کچھ عجب نہیں کہ انہوں نے ہمارا کیمپ تباہ کر دیا ہو۔ ہم درختوں کے پیچھے چھپ گئے۔ گینڈے ایک لمبا چکر کاٹ کر آئے اور ہمارے قریب آن کر ٹھہر گئے۔ اب ہم بالکل ان کے رحم و کرم پر تھے۔ ان کی تعداد میرے اندازے کے مطابق ساٹھ سے کسی طرح کم نہ تھی اور یہ سب کے سب نر گینڈے تھے اور ان پر مستی کا عالم طاری تھا۔ میرے پاس ایک رائفل تھی اور ظاہر ہے کہ ایک رائفل سے ان ساٹھ گینڈوں کو بیک وقت مارا نہیں جا سکتا تھا۔ بد قسمتی سے ہم جن درختوں کے پیچھے چھپے کھڑے تھے ان کی اونچائی بھی کچھ زیادہ نہ تھی اور یہ نہایت کمزور درخت تھے جو گینڈے کی ایک ہی ٹکر سے گِر جاتے۔ اس وقت میں نے خدا کو سچّے دل سے یاد کیا اور عہد کیا کہ اگر اس مرتبہ جان بچ گئی تو آئندہ گینڈے کے شکار سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لوں گا۔
گینڈوں نے اب تک ہماری بو نہیں پائی تھی اور وہ ہمارے قریب ہی اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے اور ان کی آپس میں دھینگا مشتی جاری تھی وہ ایک لمحہ ہم پر صدیوں کے عذاب کی مانند گزر رہا تھا۔ مسٹر ساویج کا چہرہ فرطِ خوف سے سپید پڑ چکا تھا اور اس کی ٹانگیں تھرتھرا رہی تھیں۔ میری کیفیت یہ نہ تھی، تاہم موت کو اتنا قریب پا کر کوئی شخص اپنے حواس برقرار نہیں رکھ سکتا میرا بدن بھی پسینے سے تر تھا۔ ہم دونوں درختوں کے ساتھ چمٹے ہوئے بے حس و حرکت کھڑے تھے۔
آدھ گھنٹے بعد گینڈوں کا سردار اچانک ایک جانب بھاگ نکلا اور پھر سب کے سب دوڑتے ہوئے اس کے تعاقب میں چلے گئے، تب ہماری جان میں جان آئی۔ افتاں و خیزاں اپنے کیمپ میں پہنچے، تو وہاں ہو شربا منظر دکھائی دیا۔ ہمارا خیمہ الٹا ہوا تھا اور ہر شے تہس نہس ہو چکی تھی۔ دو ملازم تو غائب تھے اور سب سے چھوٹے لڑکے کی لاش کچلی ہوئی خیمے کے قریب پڑی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ بے خبر سو رہا تھا کہ گینڈوں کے پیروں تلے کچلا گیا۔ اس کی لاش قیمہ بن گئی تھی اور کوئی ہڈی سلامت نہ تھی۔ یہ حادثہ کم از کم میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ میں اسی روز میخاوس پہنچا اور بصد حسرت و یاس اپنا استعفیٰ کمشنر صاحب کے سامنے رکھ دیا اور ان کے احتجاج کے باوجود اپنا بوریا بسترا باندھا اور اسی روز نیروبی پہنچ کر دم لیا۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر کبھی گینڈے پر گولی نہیں چلائی۔
٭٭٭
کانگو کے گوریلے
41ء کے موسمِ خزاں کا ذکر ہے کہ مجھے نیویارک کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ ایک ہفتہ پہلے میں مغربی افریقہ کے جنگلوں میں دو سال کاٹ کر آیا تھا۔ میری بد قسمتی کہ ان دنوں میں نے جتنے جانور پکڑے، ان میں آٹھ چمپنزی بندر بھی شامل تھے جن کے بارے میں نیویارک کے چڑیا گھر والوں کو نہ جانے کس طرح پتہ لگ گیا۔ اور انہوں نے مجھ سے تار کے ذریعے درخواست کی کہ یہ سب کے سب بندر منہ مانگے داموں پر چڑیا گھر کے لیے فروخت کر دیے جائیں۔ ان میں سے پانچ نر تھے اور تین مادہ چمپنزی۔۔۔ میں نے ان بندروں کو ہوائی جہاز کے ذریعے نیویارک بھیج دیا اور خود فلوریڈا چلا گیا جہاں میری بیوی کے رشتے دار رہتے تھے۔ فلوریڈا میں قیام کیے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے کہ میرے ایک ہم پیشہ اور ہم مذاق دوست نے مجھے نیویارک آنے کی دعوت دی اور لکھا کہ اگر تم میرا خط ملنے کے تیسرے دن نیویارک نہ پہنچے تو میں فلوریڈا آ جاؤں گا اور تمہاری زندگی تلخ کر دوں گا۔ اس دھماکہ خیز خط کے تیور بتاتے تھے کہ لکھنے والے کے حکم کی تعمیل نہ کی گئی، تو وہ یقیناً مجھے پریشان کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر گزرے گا۔ پس میں نے سسرال والوں سے اجازت لیے بغیر چپکے سے جہاز کا ٹکٹ خریدا اور نیویارک کے لیے روانہ ہو گیا۔ نیویارک پہنچنے پر مجھے شرارت سوجھی اور اپنے دوست سے ملنے کے بجائے میں سنٹرل پارک کے ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔
چونکہ میں جنگلوں کی آزاد فضا میں رہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ اس لیے نیویارک کے اس آرام دہ ہوٹل کا کمرہ مجھے قید خانے کی کوٹھڑی سے بھی بدتر محسوس ہو رہا تھا۔ یہاں عجیب گھٹن سی تھی۔ آدھی رات کے وقت میں اس کمرے سے بیزار چہل قدمی کے ارادے سے باہر نکلا اور چھٹے ایونیو کی جانب چل پڑا۔ گھومتے گھومتے 42 سٹریٹ کے سرے پر آیا تو ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ دیکھ کر طبیعت مچل گئی۔ پیاس لگ رہی تھی۔ کچھ پینے کے ارادے سے بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔ لیکن اندر جاتے ہی جس شخص سے سب سے پہلے نظریں چار ہوئیں وہ میرے پرانے دوست رنیز کے سوا اور کئی نہ تھا۔۔۔ وہی رنیز۔۔۔ جس کا دھمکی آمیز خط مجھے فلوریڈا میں مل چکا تھا۔ میں نے اسے ٹھیک چھ سال بعد دیکھا تھا۔ اور پہچاننے میں شبہ یوں نہ تھا۔ کہ اس کے دائیں رخسار پر گہرے زخم کا لمبا نشان صاف دکھائی دے رہا تھا۔ زخم کا یہ نشان ایک افریقی چیتے کے پنجے کا تھا۔ جس کا تعاقب رنیز کر رہا تھا اور میری اس کی پہلی ملاقات بھی اسی مہم کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ رنیز ارجنٹائن کا باشندہ تھا۔ اور سونے کی تلاش میں افریقہ آیا تھا۔ لیکن جب سونا نہ ملا تو وہ چڑیا گھر کے لیے جانور پکڑ پکڑ کر فروخت کرنے لگا۔
مجھے دیکھتے ہی وہ چیتے کی مانند میری جانب لپکا۔ اس کا گھونسا میرے جبڑے پر پڑتا۔ اگر میں پھرتی سے اچھل کر ایک طرف نہ ہٹ جاتا۔ وہ اپنے ہی زور میں آگے پڑی ہوئی کرسی سے ٹکرایا۔ اتنی دیر میں مَیں اسے اپنی بانہوں میں جکڑ چکا تھا۔ اس کے منہ سے مغلظات کی بارش ہونے لگی اور میں ہنستا رہا۔ دو بے تکلف دوست عرصۂ دراز کے بعد ملے تھے اور ایک دوسرے کو خوش آمدید کہنے کا بہترین طریقہ یہی دوستانہ گالیوں کا تبادلہ تھا۔
جب یہ ہنگامہ ختم ہوا اور ہم اپنی اپنی کرسیوں پر اطمینان سے بیٹھ گئے تو میں نے کہا:
‘تو یہاں نیویارک میں کیا کر رہا ہے؟ کیا یہاں بھی کوئی سونے کی کان ڈھونڈنے کا ارادہ ہے۔‘
وہ زور سے ہنسا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا:
‘اجی میں نے سونے کی ایسی کان ڈھونڈ لی ہے جس کا علم تمہارے فرشتوں کو بھی نہ ہو گا۔‘
‘اچھا! ہم بھی تو سنیں کہ یہ کان کہاں واقع ہے؟’
‘یہ فرانسیسی کانگو میں ہے۔‘ رنیز نے فخر سے سینہ پھُلاتے ہوئے جواب دیا۔ ‘اس کاروبار میں میرے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے۔ ابھی ابھی ہم نے تین گوریلے گرفتار کیے ہیں اور چند ہفتوں کے اندر اندر ان گوریلوں کو امریکہ کے مختلف چڑیا گھروں میں فروخت کر دیا جائے گا۔ میں تمہاری خاطر اتنا کر سکتا ہوں کہ ایک گوریلا تمہارے ہاتھ سستی قیمت پر صرف پانچ ہزار ڈالر میں فروخت کر دوں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تم جب اسے بیچو گے، تو زیادہ دام وصول کر سکو گے۔‘
‘سب بکواس ہے، میں سمگل کیے ہوئے جانور نہیں خرید سکتا اور خریدوں بھی تو میرے پاس فی الحال پانچ ہزار ڈالر نہیں۔‘ میں نے جواب دیا۔
‘تمہاری قسمت۔۔۔‘ رنیز نے ہنس کر کہا۔۔ ‘بہرحال میں ان تین گوریلوں کو بیس ہزار ڈالر سے کم قیمت میں ہرگز نہ بیچوں گا۔ اگر ان کے خریدار یہاں نہ ملیں گے، تو انہیں جنوبی امریکہ لے جاؤں گا۔‘
‘تم جہنم میں جاؤ یار۔۔۔ یہ کیا قصّہ لے بیٹھے۔۔۔ کچھ اور باتیں کرو۔ کہو اتنے دن کہاں رہے۔‘
اور اس طرح میں نے گفتگو کا رخ پھیر دیا۔ وہ اپنے گزشتہ چھ سال کے کارنامے بیان کرتا رہا۔ میں نے اس شخص کی باتوں پر ذرا دھیان نہ دیا، کیونکہ وہ بلا کا دروغ گو تھا۔ جہاں تک گوریلے پکڑنے کا تعلق ہے، وہ قطعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ گوریلے صرف بیلجین کانگو میں پائے جاتے ہیں۔ اور وہاں بھی ان کی نسل ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے بعد وہاں کی حکومت نے ان گوریلوں کی حفاظت کے انتظامات بڑے سخت کر دیے تھے۔ اور کسی ایرے غیرے کو جنگل کے اس حصّے میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی جہاں گوریلے رہتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے پھر اپنے تین گوریلوں کا ذکر کیا، تو میں نے قدرے غصّے سے کہا:
‘رنیز، خدا کے لیے تم مجھے اتنا بے وقوف نہ بناؤ۔ گوریلے صرف بیلجین کانگو میں پائے جاتے ہیں۔ اور وہاں تم قدم نہیں رکھ سکتے اس لیے یہ افسانے مجھے نہ سناؤ۔‘
اب اس کے بھڑکنے کی باری تھی۔ اس نے میز پر گھونسا مارتے ہوئے کہا:
‘تم خود بے وقوف ہو اور مجھے بے وقوف کہتے ہو۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ گوریلے بیلجین کانگو کے علاوہ دنیا بھر میں اور کہیں نہیں؟ ارے نادان، ابھی میں نے تمہارے سامنے افریقہ کے فرانسیسی استوائی خطّے کا ذکر کیا ہے۔ بیلجین کانگو کی تو میں نے بات ہی نہیں کی۔ اس خطّے میں اتنے گوریلے ہیں کہ جب سے کرۂ ارض وجود میں آیا ہے بیلجین کانگو کی سرزمین نے اتنے گوریلے خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے اور میں نے جہاں سے گوریلے پکڑے ہیں، وہاں کے قبائلی باشندے انہیں شکار کر کے ان کے گوشت سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔‘
‘بھائی یہ بے پر کی کہیں اور اڑانا، میں ان باتوں میں آنے والا نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ بیلجین کانگو کے علاقے کے سوا اصلی گوریلے کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ سننے کے لیے تیار نہیں۔‘
‘بہت اچھا۔۔۔ اب تمہیں یقین دلانے کا میرے پاس ایک ہی طریقہ ہے۔‘ رنیز نے غصّے سے بل کھاتے ہوئے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک تصویر نکالی اور میرے آگے پھینک دی۔ یہ تین کم سن گوریلوں کی تصویر تھی جو خس و خاشاک کے ایک بڑے سے ڈھیر پر بیٹھے تھے۔ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا۔ کہ ہر گوریلے کا وزن چالیس پونڈ کے لگ بھگ ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی اور رنیز کی کہانی پر یقین آنے لگا۔ اب میں نے اس سے تفصیلات پوچھنے کا ارادہ کیا لیکن وہ ایک منٹ بھی بیٹھنے پر تیار نہ تھا۔ وہ ناراض ہو کر چلا گیا۔
میرا خیال تھا کہ ناراضی دور ہونے کے بعد رنیز مجھ سے ملے گا۔ لیکن وہ نہ آیا اس کا دو دن انتظار کرنے کے بعد میں واپس فلوریڈا چلا گیا۔ رنیز نے جب سے ان گوریلوں کی تصویر مجھے دکھائی تھی، میں اپنے آپ کو اس فکر سے آزاد نہ کر سکا کہ ممکن ہے وہ ٹھیک ہی کہتا ہو اور فرنچ کانگو میں بھی گوریلوں کی کوئی نسل آباد ہو۔ فرنچ کانگو کو آج کل سنٹرل افریقن ری پبلک کہا جاتا ہے۔ اس میں چار علاقے شامل ہیں: گیبن، وسطی کانگو، یوبنگی شاری اور چڈ۔ 1960ء میں ان نو آبادیوں نے فرانس سے آزادی حاصل کی اور متحد ہو کر ایک جمہوری حکومت قائم کر لی۔ افریقن ری پبلک کا رقبہ 9 لاکھ 47 ہزار میل کے لگ بھگ ہے اور آبادی پچاس لاکھ کے قریب۔ یہ علاقہ انتہائی زرخیز اور شاداب ہے کہیں کہیں دلدلی خطے بھی ہیں۔ کانگو یہاں کا عظیم الشان دریا ہے۔ ہزارہا مربع میل میں پھیلے ہوئے گھنے جنگل اور پہاڑی سلسلے ہیں۔ ندیاں اور چھوٹے دریا بھی کثرت سے ہیں۔ شمال مشرقی حصّے میں ایک بلند اور وسیع و عریض سلسلہ کوہ پھیلا ہوا ہے جس کی ایک چوٹی ایمی کوسی گیارہ ہزار فٹ سے زائد اُونچی ہے۔
گھنے اور تاریک جنگلوں میں ہزار ہا قسم کے کیڑے مکوڑوں حشرات الارض پرندوں اور چرندوں سے لے کر ہاتھی جیسے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ البتہ شیر اور چیتے کمیاب ہیں۔ دریاؤں میں دریائی گھوڑے عام ہیں۔ اس علاقے کا کوبرا سانپ بڑا مشہور ہے۔ جس کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا۔ چمپنزی بندروں کی کئی نسلیں یہاں آباد ہیں۔ لیکن میری معلومات کے مطابق گوریلے ان جنگلوں میں نہیں تھے۔ تاہم میں نے تحقیق کا فیصلہ کر لیا اور ایک لائبریری میں جا کر جب اس خطّے کا مطالعہ کیا، تو پتہ چلا کہ واقعی یہاں گوریلوں کا بھی وجود تھا۔ 1856ء میں ایک فرانسیسی سیّاح اور شکاری پال ڈی چلیو نے گیبن کی سیّاحت کے دوران اپنی ڈائری مرتب کی تھی جس میں وہ لکھتا ہے کہ یہ پُر اسرار جنگل دنیا کا ایک بڑا عجوبہ ہے۔ یہاں ہزاروں نرالے جانور میں نے دیکھے جن میں سے بہت سے جانوروں کے سکیچ میں نے بنا لیے ہیں۔ دریاؤں میں چھوٹی بڑی مچھلیوں کی بے شمار قسمیں ہیں جن کو یورپ والوں نے کبھی دیکھا بھی نہ ہو گا۔ اٹھارہ اٹھارہ فٹ لمبے مگرمچھ ہیں اور جنگلوں میں دوڑنے والے سُرخ بھینسے تو شاید ساری دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے یہاں میں نے جنگل میں سے گزرتے ہوئے چند گوریلے بھی دیکھے ہیں۔۔۔ جن کے جسموں پر لمبے لمبے سیاہ بال تھے۔۔۔ ان کے بازو بہت لمبے ہیں۔۔۔ اور شکلیں انسان سے حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتی ہیں۔‘
یہ شہادت ایسی ٹھوس تھی اور واضح تھی کہ مجھے اپنے اوپر شرم آنے لگی اور میں نے رنیز کو جھٹلانے کی جو حماقت کی تھی، اس پر سخت افسوس ہوا۔ اگرچہ فرانسیسی سیّاح نے گیبن کے جنگلوں میں سو سال پہلے گوریلوں کو دیکھا تھا۔ اور عین ممکن ہے کہ اب وہاں ان کا وجود نہ ہو تاہم مجھے رنیز کو جھٹلانا نہیں چاہیے تھا۔
اب اتفاق دیکھیے کہ ایک روز میں اپنے والد مرحوم کی لائبریری میں چلا گیا۔ وہاں دوسری کتابوں کے درمیان میں رکھی ہوئی پال ڈی چلیو کی کتاب بھی مجھے نظر آئی جسے میں بچپن میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا، کیونکہ اس میں دلچسپ واقعات کے ساتھ ساتھ تصویریں بھی تھیں۔ اور مجھے خوب یاد ہے۔ کہ اس کی کتاب میں گوریلوں کی تصویریں خاص طور پر میں بڑے شوق سے دیکھا کرتا تھا۔ اور سب سے پہلے مجھے اسی کتاب نے بتایا تھا کہ دنیا میں انسانوں سے ملتی جلتی ایک مخلوق بستی ہے۔ جو ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے۔ بعد میں جب میں نے انسان کی نشو و نما اور ارتقاء کے مختلف نظریات سے آگاہی حاصل کی، تو گوریلوں سے میری دلچسپ بڑھتی چلی گئی اور پھر قسمت نے مجھے ایسے میدان میں ہمیشہ کے لیے لا کھڑا کیا جہاں مشقّت اور جان جوکھوں کا کام کیے بغیر روزی ملنی محال تھی۔ میرا مطلب افریقہ اور امریکہ کے جنگلوں میں جا کر فلم سازی سے ہے جو اب میرا پیشہ بن چکا ہے۔ اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اس فن میں میرے حریف بہت ہی کم ہیں۔
رنیز نے مجھے جو خط لکھا تھا، اس میں اس کا پتہ بھی درج تھا۔ بعد میں جب میں نے خط تلاش کیا، تو مجھے نہیں ملا۔ اب میں رنیز سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔ اور بار بار افسوس کرتا کہ میں نے اسے ناحق ناراض کیا۔ نیویارک جیسے شہرِ غدار میں اس کا سراغ پانا آسان کام نہ تھا۔ تاہم مجھے امید تھی کہ ایک روز اس کی خفگی دور ہو جائے گی۔ اور وہ مجھے دوبارہ خط لکھے گا۔ اس دوران میں مجھے خود فرنچ کانگو کے بارے میں تازہ معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔ چند ہفتوں کی خط و کتابت اور اِدھر اُدھر سے پوچھ گچھ کے بعد مجھے اتنا پتہ چل گیا کہ بیلجین کانگو کے دار الحکومت برازویل سے شمال کی جانب تقریباً تین سو میل کے فاصلے پر ایک خطّہ ایسا بھی ہے جہاں گوریلے پائے جانے کا امکان ہے۔ اس خطے کے متعلق بعد ازاں مجھے پتہ چلا کہ ابھی تک اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی، کیونکہ یہاں جنگل نہایت گھنا اور دُشوار گزار ہے قدم قدم پر سینکڑوں فٹ گہرے دلدلی میدان ہیں، جھیلیں بکثرت ہیں۔ اور ان جنگلوں کے اندر قدیم باشندے آباد ہیں، لیکن تحقیق کے باوجود ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ میں نے نقشے پر اس خطّے کو تلاش کیا، تو وہاں بھی اتنی جگہ خالی تھی۔ تاہم اتنی تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں کسی حد تک رنیز کی بیان کر دہ کہانی پر ایمان لے آیا۔
اس سے پیشتر میں نے فلوریڈا میں چمپنزی بندروں کی ایک ‘پرورش گاہ’ قائم کی تھی۔ چمپنزی بندروں کی کئی نسلیں میں مشرقی اور مغربی افریقہ کے جنگلوں سے لایا تھا۔ اور انہوں نے حیرت انگیز طور پر مجھے مالی فائدہ پہنچایا۔ اب میں سوچنے لگا۔ کہ کیوں نہ گوریلوں کی بھی ایک پرورش گاہ بنائی جائے۔ بیلجین کانگو کی حکومت نے اپنے علاقے میں گوریلے مارنے اور لے جانے والے کے لیے دس سال قید با مشقت کی سزا مقرر کر رکھی تھی۔ اس لیے وہاں سے تو گوریلے لانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا، البتہ فرنچ کانگو کے اس گمنام اور پراسرار خطے سے اگر رنیز جیسا شخص گوریلے کو پکڑ کر لا سکتا ہے اور بقول اس کے، وہاں کے باشندے انہیں شکار کر کے گوشت پر گزارہ کر سکتے ہیں۔ تو پھر میرے لیے یہ کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا۔ چنانچہ اسی دن میرے سر پر اس پُر اسرار معمّے کو حل کرنے کی دھن سوار ہو گئی اور میں برازویل جانے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر وہاں سے میں چند نر اور مادہ گوریلے فلوریڈا لانے میں کامیاب ہو گیا، تو پھر وارے نیارے ہو جائیں گے۔
آپ کو یاد ہو گا یہ زمانہ دوسری جنگ عظیم کے شباب کا تھا۔ ہٹلر کی فوجیں آندھی کی طرح سے جرمنی سے اُٹھیں اور انہوں نے تمام یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ افریقہ بھی اس کی استبدادی کاروائیوں سے محفوظ نہ تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہٹلر پورے افریقہ پر قبضے کرنے کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہچانا چاہتا ہے۔ آنے جانے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ سمندروں میں اتحادیوں اور نازیوں کے درمیان ہولناک جنگ برپا تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو مجھے برازویل پہنچنا چاہیے۔
فلوریڈا کے سرکاری حلقوں میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ میں فرنچ کانگو کے علاقے سے گوریلے لا کر ان کی پرورش گاہ قائم کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ کئی ماہرین علمِ الحیوانات اور دوسرے سائنس دانوں نے اس تجویز کو پسند کیا کہ وہ اس معاملے میں میری ہر ممکن مدد لیں گے۔ لیکن بد قسمتی سے ان دنوں حالات اتنی جلد ابتر ہو گئے کہ 44ء کے آغاز تک مجھے برازویل جانے کا موقع نہ مل سکا۔ ڈیڑھ سال کا یہ وقفہ مجھ پر عذاب کی مانند گزرا اور اگر لندن میں مقیم امریکن سفیر جس سے میرے دوستانہ تعلقات قائم تھے، میری مدد نہ کرتا تو شاید میں قیامت تک فرنچ کانگو پہنچنے میں کامیاب نہ ہوتا۔ فروری 44ء میں جب میں بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی غرض سے ناروے کے ایک جہاز پر سوار ہو رہا تھا تو امریکہ کے صدر روز ویلٹ کا ایک سفارشی خط بھی فرنچ کانگو کی گورنمنٹ کے نام میری جیب میں موجود تھا۔
ہمارے پاس سامان کی مقدار بہت کم تھی۔ دو ہلکے پھلکے بستر، کپڑے اور پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں، کیمرہ اور اسی طرح کا دوسرا سامان ان کے علاوہ تھا۔ اگرچہ میرا پروگرام اس مرتبہ فلم سازی کا نہ تھا۔ تاہم احتیاط میں نے کیمرہ لے جانا بھی مناسب سمجھا۔ سولہ ملی میٹر کا کیمرہ اور بیس ہزار فٹ لمبی رنگین فلم، بس یہ دو چیزیں اور میرے پاس تھیں جن کا وزن 45 پونڈ سے زیادہ نہ تھا۔
بحرِ اوقیانوس کا یہ ہولناک سفر بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ جہاز اگرچہ ناروے کا تھا جو لڑائی میں شریک نہ تھا، تاہم نازی آبدوز کشتیوں سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اس غیر جانبدار جہاز کو بھی معمولی شبے پر نشانہ بنا دیتیں۔ جہاز سیرالیون کے راستے فرنچ کانگو جا رہا تھا۔ اس کے تمام مسافر دہشت زدہ تھے۔ ہر شخص دوسرے کو جاسوس سمجھ کر خائف تھا۔ اور آپس میں بات چیت سے کتراتا تھا۔ سبھی کی نظریں مجھ پر تھیں، کیونکہ میرے سامان میں کیمرہ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں شامل تھیں۔ جہاز پر رات کے وقت بالکل اندھیرا رہتا۔ عرشے پر سگریٹ پینے کی بھی سختی سے ممانعت تھی۔ ذرا ذرا سے وقفے پر اس کے اوپر لگے ہوئے سائرن بھیانک آواز میں چلّانے لگتے اور ہمارے کلیجے حلق کو آ جاتے۔ یہ سائرن اس خطرے کا اعلان تھے کہ کوئی نازی آبدوز سمندر میں دیکھی گئی ہے۔ خدا خدا کر کے یہ اذیت ناک سفر ختم ہوا۔ ختم یوں ہوا کہ ہم یہاں بیوری فری ٹاؤن کی بندرگاہ پر اُتر گئے، ورنہ جہاز تو سیدھا سیرالیون جا رہا تھا۔ یہاں صدر روز ویلٹ کا سفارشی خط بڑا کام آیا اور ہمیں ایک امریکن سروس ہوائی جہاز میں برازویل تک جانے کی اجازت مل گئی۔
فروری کے آخری ہفتے میں میں برازویل پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ چند دن آرام کرنے کے بعد اپنی مہم کا آغاز کروں گا، لیکن یہاں آ کر مجھے جن پریشانیوں اور تکلیفوں سے سابقہ پڑا، ان سے میں پہلے کبھی آشنا نہ ہوا تھا۔ برازویل کے فرانسیسی حکّام اپنی مرکزی حکومت سے کٹ چکے تھے اور درمیان میں نازی حائل ہو رہے تھے۔ برازویل کے اندر ایک ہنگامہ برپا تھا اور صورتِ حال فرانسیسی حکام کے قابو سے باہر ہو گئی تھی۔ جاسوسی، سازش اور قتل کی وارداتیں عام تھیں۔ نازیوں نے جا بجا اپنے خفیہ اڈے قائم کر لیے تھے اور وہ ہر اس شخص کو مار ڈالتے جو ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا چاہتا یا جس کے بارے میں نازیوں کو ذرا بھی شبہ ہوتا کہ یہ اتحادیوں کا آدمی ہے۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتے۔ برازویل سے باہر جانے کے لیے بھی فرانسیسی گورنر سے پاسپورٹ لینا ضروری تھا۔ چنانچہ جب میں نے اس کے پاس اس مضمون کی درخواست بھیجی کہ میں گیبن کے جنگلوں سے چند گوریلے پکڑنا چاہتا ہوں، تو اس نے فوراً مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید کوئی خبطی یا دیوانہ شخص ہے کہ جنگ کے اس نازک دور میں صرف گوریلے پکڑنے کے لیے بحرِ اوقیانوس عبور کر کے برازویل آیا ہے جب میں نے اپنا تعارف کرایا اور صدر روز ویلٹ کا خط دیا، تو حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے میرے حالات سننے کا اشتیاق بھی پیدا ہوا اور جلد ہی ہم بے تکلّف دوستوں کی طرح باتیں کر رہے تھے۔ اس نے مجھے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا اور برازویل کے بینک سے مجھے حسب ضرورت رقم لینے کا حکم نامہ بھی لکھ دیا۔
چند روز بعد مجھے شمال کی جانب سفر کرنے کا پاسپورٹ دے دیا گیا اور میں نے گیبن کے جنگلوں کو جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ کچھ اندازہ نہ تھا کہ وہاں کتنے دن لگیں گے۔ اس لیے کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں خریدنا لازمی امر تھا۔ میرے پاس روپے کی کمی نہ تھی، لیکن جنگ کے باعث برازویل کے بازاروں میں ہر شے عنقا تھی۔ البتہ دوگنی تگنی قیمت پر بلیک مارکیٹ میں ہر شے خریدی جا سکتی تھی۔ میں نے خشک گوشت، مکھن اور خشک دودھ کے بہت سے ڈبے خریدے، دو خیمے، کھانا پکانے کے برتن، شیشے اور چینی کی پلیٹیں، چار پانچ کرسیاں اور ایک میز بھی خریدی گئی۔ اب یہ تمام سامان لادنے کے لیے ایک گاڑی کی ضرورت پیش آئی۔ ایک پرانا ڈاج ٹرک جس کی باڈی اور انجن اچھی حالت میں تھا، مجھے سستا ہی مل گیا۔ گویا سفر کا ایک بڑا مرحلہ طے ہو گیا۔ اب ضرورت تھی چند ملازموں کی جن کا دستیاب ہونا کارِ دارد تھا۔ لیکن غیب سے یہ انتظام بھی بروقت ہو گیا۔ جوزف نامی ایک افریقی باورچی مل گیا۔ جو ایک مقامی پولیس افسر کے پاس برسوں کام کر چکا تھا اور اب محض مہم میں حصہ لینے کے لیے میرے ساتھ جانے پر تیار تھا۔ برازویل کے چڑیا گھر میں کام کرنے والا ایک اور لڑکا جس کا نام زنگا تھا وہ بھی کچھ رقم پیشگی وصول کرنے کے بعد ہمارا ساتھ دینے پر رضامند ہو گیا۔ زنگا نے بلا شبہ اس سفر میں ہماری بڑی مدد کی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ چڑیا گھر میں وہ چمپنزی بندروں اور گوریلوں ہی کی دیکھ بھال کرتا تھا اور ان جانوروں کی عادتوں اور خصلتوں سے بخوبی آگاہ تھا۔
ایک خوشگوار اور چمکیلی صبح کو ہمارا مختصر سا قافلہ ‘گریٹ نارتھ روڈ’ پر روانہ ہو گیا۔ میری بیوی اس روز بہت خوش تھی اور ٹرک چلانے کی ذمے داری بھی اس نے اپنے سر لی تھی۔ اگر آپ کو کبھی کسی ایسی مہم پر جانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ اُس اضطراب آمیز مسرّت کا اندازہ کر سکتے ہیں جو ہم پر طاری تھی۔ ٹرک بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ گرمی آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ برازویل کے اس علاقے میں گرمی بہت پڑتی ہے۔ اور دوپہر کو اتنی شدید لُو چلتی ہے کہ اگر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے تو جان سے ہاتھ دھونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ‘گریٹ نارتھ روڈ’ کہنے کو تو سڑک تھی، مگر در اصل ایک بہت ہی پتلی اور ٹیڑھی پگ ڈنڈی کا نام تھا۔ جو گھنے جنگلوں میں سے گزرتی تھی اور انہی جنگلوں کے اندر کہیں وہ پُر اسرار قبیلہ آباد تھا جو گوریلوں کا گوشت کھایا کرتا تھا۔ جب ہم سفر پر روانہ ہوئے تو فرانسیسی حکام نے خبردار رہنے کی سخت تاکید کی تھی۔ سب سے پہلے تو انہوں ان دلدلی میدانوں سے بچنے کی ہدایت کی تھی جو راستے میں پڑتے تھے اور جہاں دلدل میں دھنس جانے کا خطرہ تھا۔ ایک نقشہ بھی انہوں نے ہماری سہولت کے لیے تیار کر دیا تھا۔ دوسری ہدایت یہ تھی کہ جب ہم جنگل کے گھنے اور تاریک حصے میں پہنچیں، تو دن کے بجائے رات کو سفر کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دن کی گرمی میں ٹرک کا انجن جلد گرم ہونے کا خدشہ تھا اور اگر اس کے لیے پانی دستیاب نہ ہوتا تو ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا تھا۔
وحشی درندوں اور جنگلی آدمیوں سے حفاظت کے لیے ہمارے پاس تین رائفلیں اور کارتوسوں کے دس ڈبے بھی موجود تھے لیکن ہمیں امید تھی کہ ان کی ضرورت بہت کم پیش آئے گی۔ پہلے روز ہم نے ساٹھ میل کا فاصلہ بغیر رُکے طے کر لیا اور جب رات گہری ہو گئی اور جنگل کی زندگی بیدار ہونے لگی، تو ایک محفوظ مقام پر ہم نے ٹرک روکا اور اس کے اندر ہی سونے کا پروگرام بنایا۔
زنگا کو چوکیداری پر مقرر کر کے ہم جلدی ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ ویسے بھی صبح ہونے میں صرف تین گھنٹے باقی تھے۔ طے ہوا تھا کہ اب چونکہ آئندہ رات کو ہی سفر کیا جائے گا۔ اس لیے دن میں سبھی لوگ باری باری نیند پوری کر لیں گے۔
شفق کی گلابی روشنی آسمان کے مشرقی گوشے میں جونہی نمودار ہوئی، ہم ناشتے سے فارغ ہو چکے تھے اور ہمارا ٹرک آگے بڑھنے کے لیے تیار تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ دوپہر سے پہلے پہلے جتنا فاصلہ طے کیا جا سکے، اتنا طے کر لیا جائے گا، پھر گرمی بڑھ جانے پر سورج غروب ہونے تک آرام کیا جائے گا۔ اب ہم جس علاقے سے گزر رہے تھے، وہ بالکل ویران اور بے آب و گیاہ تھا۔ جنگل مغرب کی جانب بہت فاصلے پر نظر آ رہا تھا اور شمال مشرقی حصے میں برہنہ چٹانیں اور ریتلے ٹیلے سر اٹھائے کھڑے تھے۔ یہاں کہیں کہیں ہم نے چند جانوروں کے قدموں کے نشانات بھی دیکھے، لیکن کچھ اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ نشان کس جانور کے ہیں۔ بہرحال ہمارے کیمرے نے ان نشانات کو محفوظ کر لیا۔ کہیں کہیں ہمیں چھپکلیوں اور کنکھجوروں سے ملتے جلتے جانور نظر آئے جو دلدلی زمین پر رینگ رہے تھے۔ ان کے رنگ بھی مختلف تھے اور دور سے بہت خوبصورت نظر آتے تھے، نیلے، پیلے، سرخ، گلابی گہرے سبز اور سیاہ۔ میں نے انہیں پکڑنے کی تجویز پیش کی تو زنگا فرطِ خوف سے چیخ اٹھا، ‘ماسٹر، ایسا ہرگز نہ کیجیے، یہ بہت زہریلے جانور ہیں۔ اگر آپ نے ذرا بے احتیاطی کی، تو آپ دوسرا سانس بھی نہ لے سکیں گے۔‘ یہ سن کر میں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ البتہ متحرک کیمرے سے ان کی فلم ضرور اتار لی تاکہ یورپ کے لوگ تاریک برِّ اعظم کی ایک پراسرار زمین کے ان رنگین حشرات الارض کو دیکھیں اور خدا پر ایمان لے آئیں۔ اگرچہ میرے لیے اس قسم کا یہ سفر کوئی خاص بات نہ تھی۔ کیونکہ میں اس سے پہلے بھی افریقہ، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کے جنگلوں میں گھوم چکا تھا۔ لیکن کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ افریقہ کی سرزمین میں جو‘پُر اسراریت اور ڈراؤنا پن’ ہے وہ کہیں اور نہیں۔ یہاں کا چپہ چپہ زندہ اور متحرک محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے افریقہ کی ہر شے آپ کے لیے اجنبی اور غیر مانوس ہے۔ جنگلوں کے درخت، پودے، جھاڑیاں، پہاڑی سلسلے، سرسبز میدان، دریا، جھیلیں، جانور اور یہاں کے باشندے، یہ سب پوری دنیا سے علیحدہ اور انوکھے ہیں۔ جب ہم ان کے ہزار ہا سال کے ماضی اور قدیم تاریخ پر، بشرطیکہ اسے تاریخ کہا جائے، نظر ڈالتے ہیں، تو ہمارے ہاتھ سوائے حیرت کے کچھ نہیں آتا۔ ایسی حیرت جس میں دہشت اور خوف کا بڑا عنصر شامل ہے۔ یورپ والوں کو افریقہ سے صحیح معنوں میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب سر رائیڈر ہیگرڈ نے اس سرزمین کو اپنے زندۂ جاوید ناولوں کا موضوع بنایا اور ناول کے پیرائے میں اس سرزمین کے صحیح حالات کی ایسی لاجواب تصویر کشی کی کہ سفید فام قومیں افریقہ پر دھاوا بول دینے پر مجبور ہو گئیں۔
میں ابھی انہی خیالات میں گم تھا کہ امیلیا نے ایک جھٹکے کے ساتھ ٹرک روک دیا۔ اور میں بھی چونک پڑا۔ معلوم ہوا کہ انجن میں کچھ گڑبڑ ہے۔ جوزف باورچی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو موٹر مکینک بھی سمجھتا تھا۔ اس نے انجن کا معائنہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں، صرف پانی کچھ کم ہو گیا ہے۔ اور اس سے پیشتر کہ میں اسے روکوں، اس نے پینے کے پانی کا ایک بھرا ہوا ڈبہ اٹھایا اور ریڈی ایٹر میں انڈیل دیا۔
زنگا کہنے لگا، ‘ماسٹر، آپ نے اس بے وقوف کو اپنے ساتھ لا کر غلطی کی۔ آپ بتایے کہ راستے میں اگر کوئی جھیل نہ ملی، تو ہمارا گزارا کیسے ہو گا؟ یہ پانی جو ریڈی ایٹر میں ڈالا گیا ہے، رات کو کام آتا، اب دن بھر میں یہ یقیناً خشک ہو جائے گا۔‘ جوزف نے یہ بات سنی، تو شرمندہ ہو کر منہ پھیر لیا۔
‘چلو جو کچھ ہوا، ٹھیک ہوا۔‘ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔ ‘اب آگے چلنا چاہیے۔ ابھی تو دس بجے ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ اور سفر کر سکتے ہیں۔ راستے میں پانی ضرور مل جائے گا۔ اب سٹیرنگ میں نے سنبھال لیا اور امیلیا ڈائری لکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے ڈائری لکھنے کا جنون ہے۔ وہ تمام تفصیلات درج کرتی ہے۔ پہلے مجھے اس کام سے بہت چڑ تھی۔ بھلا یہ کیا لکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اتنے بجے کھانا کھایا، اتنے بجے آرام کیا اور اتنے بجے سفر شروع کیا۔ بس ضروی معلومات درج کر دینا کافی ہے اور میرا ہمیشہ اس سے اس بات پر جھگڑا ہوتا تھا کہ وہ بیکار کاموں میں وقت ضائع کرتی ہے۔ لیکن جب یہ سفر ختم ہوا اور مجھے کتاب لکھنے پر مجبور ہونا پڑا، تو سچ پوچھیے امیلیا کی مرتب شدہ یادداشتیں بہت کام آئیں اور احساس ہوا کہ اس قسم کی مہموں کا ہر لمحہ ریکارڈ میں آنا لازمی ہے۔
چوتھے روز ہم اوکیو پہنچ گئے۔ اس علاقے میں قدیم باشندوں کی یہ پہلی بستی تھی جہاں ہم نے قیام کیا۔ ہماری آمد کی خبر آگ کی مانند پھیل گئی اور جھونپڑیوں میں سے ننگ دھڑنگ مرد، عورتیں اور بچّے ہمیں دیکھنے کے لیے نکل پڑے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر حیرت کا اظہار نہیں کیا جس سے پتہ چلتا تھا کہ سفید فاموں کو وہ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ زنگا اور جوزف نے قبیلے کے سردار سے گفتگو کی اور اس سے بستی میں ٹھہرنے کی اجازت لی۔ اس موقعے پر ہم نے اسے اور اس کی بہت سی بیویوں کو نقلی موتیوں کے ہار اور آئینے تحفے کے طور پر تقسیم کیے۔ جب ان سے گوریلوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو وہ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگے۔ ان کے چہروں پر جو تاثرات نمودار ہوئے، ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ گوریلے اس علاقے میں نہیں پائے جاتے۔ یہ دیکھ کر مجھے صدمہ ہوا اور ساری محنت پر پانی پھرتا ہوا معلوم ہونے لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں ایک فرانسیسی شخص بھی رہتا ہے جس کا نام شیلر ہے۔ جلد ہی شیلر سے ہماری ملاقات ہوئی جو تیس سال کا ایک ہٹا کٹا آدمی تھا۔ اور یہاں ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے رہائش پذیر تھا۔ وہ ہمیں اپنے خوبصورت بنگلے پر لے گیا۔ جو اس بستی میں ایک ہی پختہ عمارت تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ چند ملازموں کے ہمراہ تین سال سے یہاں مقیم ہے اور اب اس قدر اکتا چکا ہے کہ خود کشی کے امکانات پر غور کر رہا ہے۔ تو کبھی کا جا چکا ہوتا، مگر جنگ نے سارا کام گڑبڑ کر دیا ہے۔ اب اسے یہاں جنگ کے اختتام تک رہنا پڑے گا۔ ہم رات گئے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس وقت تک میں نے اپنی آمد کا اصل مقصد نہیں بتایا تھا۔
دوسرے روز صبح ناشتے کی میز پر میں نے یہ موضوع چھیڑا۔ اس نے گوریلوں کا ذکر سنتے ہی تلخ قہوے کا گھونٹ جلدی سے حلق کے نیچے اتارا اور میری طرف یوں دیکھا جیسے میں پاگل تھا۔
ایک طویل خاموشی کے بعد شیلر نے زبان کھولی اور رک رک کر کہا، ‘میں نے آج تک ان گوریلوں کو دیکھا تو نہیں، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ان جنگلوں میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اوکیو سے بہت فاصلے پر یہ گوریلے ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں بہت کم سفید فام لوگ پہنچ پائے ہیں۔ راستے میں بیشمار رکاوٹیں اور مصیبتیں ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ جان کا خطرہ بھی ہے۔ پھر ان علاقوں میں بسنے والے باشندے حد سے زیادہ وحشی اور خطرناک ہیں۔ اگر انہیں کسی طریقے سے رام کر لیا جائے، تو پھر بات بن سکتی ہے۔ بہرحال آپ کے تیوروں سے مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ کو سمجھانا یا روکنا فضول ہو گا۔ آپ وہاں جائے بغیر باز نہ آئیں گے۔ پس میرے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ آپ کی ہر ممکن مدد کروں اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دوں لیکن میں یہ ضرور جاننا چاہوں گا کہ وہ کون بے وقوف ہے جس نے آپ کو یہاں آنے کا مشورہ دیا۔‘
میں نے محسوس کیا کہ اس شخص کے دل میں خلوص ہے اور واقعی میرے لیے کام کرے گا۔ میں نے رنیز کی بیان کر دہ کہانی اسے تفصیل سے سنائی، پھر صدر روز ویلٹ کا سفارشی خط اس کے سامنے رکھ دیا اور برازویل کے حکام سے جو بات چیت ہوئی تھی، وہ من و عن اسے سنا دی۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کا سُتا ہوا چہرہ ظاہر کرتا تھا کہ معاملہ کس قدر نازک اور اہم ہے۔ میری تقریر ختم ہوئی، تو وہ اٹھا اور کہنے لگا۔
‘مسٹر ڈینس، آپ تھکے ہوئے ہیں۔ اس لیے آرام کیجیے۔ میں مسٹر ڈینس سے بھی معافی کا خواست گار ہوں، یہ کہہ کر وہ دروازے تک گیا۔ ہم میاں بیوی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دروازہ کھول کر وہ مڑا اور ڈرامائی انداز میں بولا۔ ‘کل صبح آٹھ بجے تک تیار رہیے۔ اپنی رائفلیں دیکھ بھال لیجیے، ممکن ہے ان کی ضرورت پیش آئے، ہم کل گوریلوں کی تلاش میں چلیں گے۔‘
اس نے آہستگی سے دروازہ بند کیا اور شب بخیر کہہ کر چلا گیا۔
‘عجیب آدمی ہے۔‘ ہم دونوں کے منہ سے بیک وقت یہ الفاظ نکلے۔
‘آدمی بلا شبہ کام کا ہے۔‘ میں نے کہا۔ ‘دیکھتے ہیں صبح کیا ہوتا ہے۔‘
شیلر اپنے قول کا سچّا نکلا۔ ٹھیک آٹھ بجے صبح ہم سب کیل کانٹے سے لیس ہو کر اوکیو کے مغرب کی جانب سرگرمِ سفر تھے۔ ہمارے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھا۔ اونچی اونچی خار دار جھاڑیاں، گنجان درخت جن کی شاخیں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی تھیں اور سورج کی کرنوں کا راستہ روکنا چاہتی تھیں۔ شاید اسی لیے جنگل کی فضا میں خنکی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں دن کے وقت بھی تاریکی سی تھی۔ دوپہر تک ہم رکے بغیر آگے بڑھتے رہے۔ شیلر نے لنچ تک کرنے کی اجازت نہ دی، سارے راستے وہ خاموش بیٹھا رہا۔ سہ پہر کے بعد ہمیں جنگل کے اندرا ایک چھوٹی سی آبادی کے آثار دکھائی دیے۔ اس آبادی سے کچھ دور ہم نے اپنا ٹرک روک لیا۔
شیلر نے بتایا کہ اس گاؤں کا نام اوکا ہے اور یہاں چالیس پچاس جھونپڑیاں ہیں۔ اور اس آبادی تک سارا انتظام ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے۔ یہاں ہم نے ان لوگوں کی سہولت کے لیے ایک ڈسپنسری بھی کھول رکھی ہے جہاں مریضوں کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ایک معلّم بھی ہے جو انہیں لکھنا پڑھنا سکھاتا ہے، لیکن یہ لوگ اتنے وحشی اور ناسمجھ ہیں کہ ہمیں اب تک اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
جب ہم بستی کے قریب پہنچے، تو ہم نے چند عمر رسیدہ آدمیوں کو ایک جگہ کھڑے پایا جن کے جسموں پر سوائے چیتھڑوں کے اور کچھ نہ تھا۔ شیلر کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک نمودار ہوئی۔ شیلر نے اشارے سے ان میں ایک آدمی کو بلایا جس کی سوکھی ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں بھی غائب تھیں۔ اس کا چہرہ بے شمار جھرّیوں کے باعث بھیانک ہو گیا تھا۔ اور خرگوش کی مانند لال لال آنکھیں خوب چمکتی تھیں۔ اس بوڑھے حبشی کو دیکھ کر ایسی کراہت اور نفرت میرے دل میں پیدا ہوئی کہ بیان سے باہر۔ میری بیوی تو خوف سے چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ بوڑھا قریب آ کر مسکرایا اور اس کے ٹوٹے ہوئے زرد زرد دانت دیکھ کر مجھے متلی ہونے لگی۔
شیلر نے مجھ سے کہا۔ ‘اس کا نام بمبو ہے اور یہ اس قبیلے کا سردار ہے۔ میں نے سنا ہے کہ نوجوانی کے عالم میں یہ گوریلوں کا مانا ہوا شکاری تھا۔ اگر آپ اسے اپنی مدد پر راضی کر لیں تو آپ کا کام بن جائے گا۔ لیکن میں یہاں سے جانے کے بعد آپ کی جان و مال کی حفاظت کا کوئی ذمّہ لینے تیار نہیں۔ آپ اگر قیام کرنا چاہیں، تو ڈسپنسری کے اندر رہ سکتے ہیں۔ اس کی دیواریں پختہ اور چھت مضبوط ہے۔ اب مجھے اجازت دیجیے۔ اور ہاں آخری بات غور سے سن لیجیے، وہ یہ کہ ان لوگوں سے ہر وقت ہوشیار رہیے۔ ان پر اعتماد کرنا حماقت ہے۔ یہ دیکھنے میں انسان ہیں، لیکن حقیقت میں وحشی درندوں سے بڑھ کر سفّاک اور ظالم ہیں۔ یہ شیطان ہیں۔ بس میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔‘
شیلر کی تقریب سن کر میں تو کانپ ہی گیا، لیکن امیلیا کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ وہ تو خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ میں نے دلاسا دینے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔ ‘امیلیا خدا کے لیے اپنی حالت پر قابو رکھو۔ اگر ہم ڈر گئے، تو اپنے وطن کبھی نہ پہنچ سکیں گے۔‘
زنگا اور جوزف اگرچہ افریقہ ہی کے باشندے تھے، لیکن بڈھے بمبو کو دیکھ دیکھ کر ان کی حالت بھی غیر تھی۔ خدا جانے اس کے چہرے پر خباثت اور مکّاری کی کتنی تہیں چڑھی ہوئیں تھیں جن کا اندازہ کرنا ہمارے بس میں نہ تھا۔ شیلر نے ہم سے ہاتھ ملایا اور گھوڑے پر بیٹھ کر واپس ہو گیا جو ہمارے ٹرک کے ساتھ ساتھ آیا تھا۔ اس دوران میں بستی کے تمام لوگ ہمارے استقبال کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ انہیں خوش کرنے کے لیے میرے پاس کافی سامان تھا۔ یہاں بھی کانچ اور شیشے کے رنگ برنگے ٹکڑے تقسیم کیے گئے۔ عورتوں کو موتیوں کے ہار اور آئینے دیے اور بوڑھے بمبو کو میں نے ایک چمکتا ہوا لمبا خنجر دیا جسے لے کر وہ خوشی سے ناچنے لگا۔ اور پھر انہوں نے اپنی زبان میں زور زور سے نعرے بلند کیے جن کا مطلب تھا۔
‘ان سفید فاموں کو ہم اپنا دوست کہتے ہیں۔‘
ڈسپنسری کافی آرام دہ جگہ پر تھی اور جلد جلد ہم نے اپنی چیزیں قرینے سے رکھ دیں اور کھانا پکانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جوزف نے یکایک سر پیٹ کر کہا۔ ‘ماسٹر غضب ہو گیا۔ نمک کا ڈبہ تو ہم لانا بھول گئے۔ اب کھانا کیا خاک پکے گا۔‘
‘فکر نہ کرو۔ نمک ہمیں اس ڈسپنسری سے مل جائے گا۔‘ زنگا نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور فوراً ہی اس نے ایک الماری کھولی اور بہت سی شیشیوں میں سے نمک کی شیشی تلاش کر لی۔ جدل جلد کھانا تیار کیا گیا اور ہم سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ شیلر کی ہدایت کے مطابق ہم نے اپنی حفاظت کے انتظامات بھی کر لیے تھے۔ زنگا اور جوزف کو باری باری پہرے پر مقرر کیا گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ کسی نے مجھے چپکے سے جگایا، جوزف میرے سرہانے کھڑا تھا۔ ‘ماسٹر’ جلدی اٹھیے، بمبو آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ کوئی اہم خبر لایا ہے اور کہتا ہے کہ جب تک اسے پندرہ سینٹ نہ دیے جائیں گے‘ وہ زبان نہ کھولے گا۔‘
امیلیا کو جگائے بغیر میں باہر نکلا۔ چاروں طرف ہیبت ناک سنّاٹا طاری تھا۔ پچھلے پہر کا چاند آسمان پر روشن تھا۔ جس کی روشنی میں بمبو کا جھریوں والا منحوس چہرہ اور بھی بھیانک نظر آ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ ہنسا اور شکستہ فرانسیسی میں کہا، ‘مجھے پندرہ سینٹ دو۔۔۔ تب میں ایک بات بتاؤں گا۔‘
میں نے جوزف کو اشارہ کیا، اس نے بمبو کو یہ رقم دے دی، تو وہ خوشی سے بولا۔
‘مجھے ابھی ابھی پتہ چلا ہے کہ ہمارے پڑوسی گاؤں میں رہنے والے شکاریوں نے ایک گوریلا پکڑا ہے۔ کیا آپ اسے دیکھنے چلیں گے؟’
کہہ نہیں سکتا کہ یہ خبر سن کر مجھے کتنی مسرت حاصل ہوئی۔ میں نے جوزف سے کہا کہ میری رائفل لے آئے۔ چند منٹ کے اندر اندر میں نے بمبو کو ٹرک میں بٹھایا اور جوزف کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دے کر، ٹرک سٹارٹ کر دیا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ بمبو کہیں دھوکا نہ دے رہا ہو۔ یہ سوچ کر میرے پسینے چھوٹنے لگے، لیکن رائفل میرے پاس تھی اور اس کی موجودگی میں کسی کو مجھ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہو سکتی تھی۔
پو پھٹتے ہی ہم ایک اور گاؤں کے نزدیک پہنچ گئے۔ دو گھنٹے کا پر مشقت سفر ختم ہوا۔ گاؤں کے اندر سے لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بمبو کی معیّت میں جب میں وہاں پہنچا، تو مجھے گھیر لیا گیا۔ بمبو کے حکم پر یہاں بھی میں نے گاؤں کے سردار کو کچھ رقم پیش کی اور پھر مجھے ایک جھونپڑی کے اندر لے جایا گیا۔
صبح کے اس دھندلکے میں جھونپڑی کے اندر جو کچھ میں نے دیکھا، وہ ساری عمر یاد رہے گا۔ موٹے بانسوں اور درختوں کی شاخوں سے بنے ہوئے بڑے پنجرے کے اندر ایک قوی ہیکل اور سیاہ بن مانس اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے بیٹھا تھا۔ اتنے عظیم تن و توش کا گوریلا میں نے اس پیشتر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اور ہماری جانب دیکھا۔ خدا کی پناہ!۔۔۔ دہشت سے میرا بدن لرز گیا۔ ایک ہولناک چیخ کے ساتھ بن مانس اپنی جگہ سے اچھلا اور پنجرے کے اندر اچھلنے کودنے لگا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔ اور کھلے ہوئے جبڑے میں سے بڑے بڑے سپید سپید دانت جھانک رہے تھے۔ طیش میں آ کر وہ اچھلتا اور پھر ڈھول کی مانند اپنے سات فٹ لمبے بازوؤں سے سینہ پیٹنے لگتا۔ یکایک اس نے پوری قوت سے اچھل کر پنجرے کو دھکا دیا اور ایک ثانیے کے اندر، مجھے اچھی طرح یاد ہے، یہ مہیب درندہ پنجرے کی موٹی لکڑیاں توڑ کر آزاد ہو چکا تھا۔ جھونپڑی کے اندر جتنے آدمی جمع تھے، دہشت سے چیخیں مارتے ہوئے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے باہر کی طرف دوڑے۔ ایک قیامت خیز ہنگامہ سارے گاؤں میں برپا ہو گیا۔ بن مانس کی دل دوز چیخیں ان سب آوازوں پر حاوی تھیں۔
پتھر کے مجسمے کی مانند میں اپنی جگہ پر بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ جس وقت گوریلا پنجرے سے آزاد ہوا۔ اس وقت میں اس سے دس فٹ کے فاصلے پر تھا۔ اگرچہ وہ آزاد ہو چکا تھا لیکن وحشیوں کے شور و غل سے وہ اتنا بد حواس ہوا کہ پنجرے کے پیچھے جا کھڑا ہو گیا اور وہیں بھیانک آوازیں نکال نکال کر چیخنے لگا جن سے خون سرد ہو جاتا تھا۔
چشمِ زدن میں جھونپڑی آدمیوں سے خالی ہو گئی۔ گوریلا اب بھی غُرّا رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں اگرچہ رائفل تھی، لیکن مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اسے چلا نہیں سکتا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میرے اعصاب نے اس گوریلے کا اثر قبول کیا۔ اس کی وجہ، جو مجھے بعد میں معلوم ہوئی، یہ تھی کہ اس سے پہلے میرا سابقہ جن گوریلوں سے پڑ چکا تھا یہ ان سب سے جسامت میں بڑا اور شکل و صورت کے اعتبار سے بے حد ڈراؤنا اور کریہہ تھا۔ اس کے دونوں ہونٹ کسی بیماری کے باعث جھڑ گئے تھے اور صرف دانت ہی دانت نظر آتے تھے۔ فراخ سینے پر مسلسل ہاتھ مارنے کے باعث بال جھڑ چکے تھے اور ایک فٹ لمبا سر، جو اوپر سے گول ہو گیا تھا، بالکل گنجا تھا۔ جب وہ بل کھا کر پلٹا، تو میری اور اس کی نظریں دوبارہ چار ہوئیں اور مجھے پھر وہی احساس ہوا کہ میرے سوچنے سمجھنے کی ساری قوت سلب ہو چکی ہے۔ اچھل کر میری جانب بڑھا۔ عین اس وقت کسی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے پیچھے گھسیٹ لیا، ورنہ گوریلے کا ہاتھ پورے زور سے میرے سر پر پڑتا۔ میں نے گھوم کر دیکھا۔ وہ جوزف تھا جو حلق پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا۔ ‘ماسٹر، فائر کیجیے۔‘
غیر ارادی طور پر میں نے رائفل سیدھی کی اور اندھا دھند گوریلے پر گولیوں کی بارش کر دی۔ چند ثانیوں کے اندر اندر اس کا سینہ چھلنی ہو چکا تھا اور خون کی دھاریں ابل رہی تھیں۔ وہ دھڑام سے زمین پر گرا اور تڑپنے لگا۔ اس وقت اس کے کی آوازوں سے کان کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ اتنے میں گاؤں کے شکاری ہاتھوں میں لمبے لمبے نیزے لیے آ گئے اور انہوں نے گوریلے کو نیزے مار مار کر ختم کر دیا۔ جوزف مجھے سہارا دے کر کھلی ہوا میں لے گیا۔ اس حادثے کو مکمل ہونے میں بمشکل پانچ منٹ لگے ہوں گے، لیکن میرے لیے یہ اذیّت ناک لمحات صدیوں سے کم نہ تھے۔ گوریلا میرے سامنے مردہ پڑا تھا اور میں سوچ رہا تھا۔ کہ اگر ان جنگلوں میں ایسے ہی گوریلے آباد ہیں، تو انہیں زندہ پکڑ کر امریکہ لے جانا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہیں۔
ہوش و حواس جب ذرا بحال ہوئے، تو میں نے گوریلے کی لاش کا قریب سے معائنہ کیا۔ اگرچہ وہ اب بے جان تھا لیکن پھر بھی اسے چھُوتے ہوئے جسم میں تھرتھری چھوٹتی تھی۔ جیسا کہ میں نے بتایا، اس کا سر ایک فٹ لمبا تھا۔ اسے دھڑ سے علیحدہ کر کے جب وزن کیا گیا، تو 28 پونڈ نکلا۔ چہرے کے چاروں طرف اور گردن تک سیاہ بالوں کے گُچھّے تھے جن پر خون جما ہوا تھا۔ اس کے سپید دانت شیر کے دانتوں کی مانند نوکیلے اور بڑے تھے۔ کٹے ہوئے ہونٹوں، مسوڑوں اور زبان پر بھی خون جما ہوا تھا۔ کسی شکاری کے نیزے نے گوریلے کے بائیں گال کی ہڈی توڑ ڈالی تھی۔ اور اس جگہ گہرا گھاؤ موجود تھا۔ اس کی ایک آنکھ بھی باہر بالکل کو نکل آئی تھی۔ پیر کے انگوٹھے سے لے کر کھوپڑی تک گوریلے کا قد پانچ فٹ نو انچ تھا، لیکن اس کے بازوؤں کی لمبائی حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ تھی، یعنی سات فٹ نو انچ۔ چھاتی کا گھیرا باون انچ، گردن کی موٹائی ساڑھے انتیس انچ، بازوؤں کا گھیرا ساڑھے اٹھارہ انچ اور کلائی ساڑھے پندرہ انچ تھی، ہتھیلی چھ انچ چوڑی اور ٹخنوں کا گھیرا ساڑھے چودہ انچ تھا۔ اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس قدر وسیع جسامت رکھنے والی مخلوق کس قدر خطرناک اور قوی ہو گی۔
یہی سوچ کر میرا پتہ پانی ہوا جاتا تھا۔ جب میں بمبو اور جوزف کی معیّت میں اس گاؤں سے چلا تو یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں، اس لیے مجھے واپس امریکہ چلے جانا چاہیے، لیکن جب اوکیو پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا روٹھا ہوا دوست رنیز امیلیا سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا ہے۔
جب میں نے رنیز کو وہاں بیٹھے پایا، تو حیرت کے مارے دم بخود رہ گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن دوسرے ہی لمحے رنیز کا گھونسا میری گردن پر پڑا اور قہقہہ لگا کر مجھ سے چمٹ گیا۔ اس کے آ جانے سے سچ جانیے تو مجھے بڑی تقویت پہنچی، کیونکہ وہ ایک ماہرِ فن اور تجربہ کار شکاری تھا۔ اس نے اپنے یہاں پہنچنے کی نہایت دلچسپ اور طویل ڈرامائی داستان سنائی اور بتایا کہ جنگ کے اس نازک زمانے میں وہ کتنی مرتبہ نازیوں کے ہتھے چڑھتے چڑھتے بچا ہے اور ایک بار تو اسے انہوں نے جاسوسی کے شبے میں پکڑ کر شوٹ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسی رات کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے اپنی مہم کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو وہ طنزیہ لہجے میں بولا:
‘بھائی جان! گوریلے پکڑنا تمہارے بس کی بات نہیں، یہ کام تو ہم ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ اب ذرا میرے ہاتھ دیکھو کہ دو ہفتوں کے اندر اندر کتنے ہی گوریلے پکڑتا ہوں۔ سب سے پہلے تو پنجرے تیار کرنے کا مرحلہ طے ہونا چاہیے جس پر تم نے اب تک توجہ ہی نہیں دی۔ پنجرے تیار کرنا اہم اور ضروری مسئلہ ہے تاکہ ہم گوریلوں کو ان میں بند کر کے امریکہ لے جا سکیں اور یاد رکھو کہ پنجرے اگر ذرا بھی کمزور ہوئے تو ہم میں سے کسی کی خیر نہیں۔‘
‘کتنے پنجرے تیار کیے جائیں !’ میں نے پوچھا۔
‘کم از کم دس۔۔۔‘ رنیز نے کہا اور انہیں تیار کرنے کے لیے ہمیں دو ماہ درکار ہوں گے۔‘
‘دو مہینے !‘ امیلیا چلا اٹھی، اس کا مطلب ہے کہ ہم ساری زندگی اس منحوس جنگل میں بسر کر دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے یہاں کے لوگوں سے خوف آنے لگا ہے۔ کتنے وحشی اور دیوانے ہیں ! خدا معلوم یہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں، اس لیے بہتر ہے کہ گوریلوں کا صرف ایک جوڑا پکڑنے ہی پر اکتفا کیا جائے اور زیادہ لالچ نہ کیا جائے۔‘
‘تم چپ رہو جی، عورتوں کا اس معاملے میں کیا تعلق!’ رنیز نے اسے ڈانٹا۔ یہاں آنے سے پہلے ہی سب کچھ سوچ لینا چاہیے تھا۔‘
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا: ‘تم کیا کہتے ہو؟ بیوی کی بات پر عمل کر کے یہاں سے بھاگ جاؤ گے یا کچھ دن میرے ساتھ رہو گے، بولو، ابھی فیصلہ کر لو۔ بعد میں تمہارا کوئی حیلہ بہانہ کارگر نہ ہو گا۔‘
میں نے اسے یقین دلایا کہ مَیں اسی کا ساتھ دوں گا۔ وہ مطمئن ہو گیا اور نہایت سرگرمی سے پنجرے تیار کرنے کا پروگرام بنانے لگا۔ اس نے جلد ہی بمبو سے دوستی پیدا کر لی اور اسے یہاں تک اعتماد میں لے لیا کہ بمبو نے فوراً کسی ‘پیشگی’ کے بغیر اپنے آدمیوں کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لانے کے کام پر لگا دیا۔ جوزف اور زنگا بھی رنیز کا کلمہ پڑھنے لگا میری بیوی امیلیا کو اس نے جلد ہی اپنی خوبیوں کا معترف بنا لیا اور میں تو اس کا پرانا دوست تھا ہی۔ اس کے احکام پر چوں چراں کرنے کی ذرا بھی جرأت نہ ہوئی کہ وہ ناراض ہو جانے کے بعد مشکل ہی سے قابو آتا تھا۔
رنیز کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ وہ بیک وقت دس بڑے بڑے پنجرے بنانے پر تُلا ہوا تھا۔ اسے یقین تھا کہ دس گوریلے تو لازماً پکڑ لیے جائیں گے۔ اس کی دوراندیشی ملاحظہ ہو کہ پنجرے کے لیے جن اوزاروں کی ضرورت تھی، وہ سب اوزار اپنے ساتھ امریکہ سے لے کر آیا تھا۔ اور چونکہ خود بڑھئی کے کام سے آگاہ تھا، اس لیے بڑے بڑے شہتیروں کو چیرنا، ان کے تختے کاٹنا اور انہیں میخوں سے جوڑنا اس کے لیے خاصی مصروفیت اور دلچسپی کا باعث تھا۔ اس نے جلد ہی مجھے اور میری بیوی کو اپنے ساتھ شریک کر لیا۔ ہم نے جو پہلا پنجرہ بنایا وہ آٹھ فٹ اونچا اور ساڑھے چار فٹ چوڑا اور وزن میں سات من سے زائد تھا۔ دو پنجرے بنانے میں پورا ایک ہفتہ لگ گیا۔ ہمیں پنجرے کی خوبصورتی سے زیادہ اس کی مضبوطی کا خیال تھا کیونکہ گوریلا بہت ہی قوی جانور ہے اور اگر پنجرہ ذرا بھی کمزور ہو تو اسے دو ہی گھونسوں میں توڑ پھوڑ دینا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔۔۔ پنجرے بنانے کا کام ہم گاؤں اوکا میں کر رہے تھے، اس گاؤں کی حد سے باہر ہی کوئی پانچ، سات میل دور گوریلوں کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ گاؤں کے لوگ ان گوریلوں کے ازلی دشمن تھے اور کہتے تھے کہ یہ گوریلے بھی انہیں کی طرح قبیلوں اور خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر قبیلے کا سردار ایک بڈھا گوریلا ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر انہوں نے جس گوریلے کو پکڑا تھا اور جسے بعد ازاں مار ڈالا گیا، وہ بھی اپنے قبیلے کا سردار تھا جس کے مارے جانے پر گاؤں کی عورتوں نے اپنے ‘قومی رقص’ کا خاص پروگرام بنایا تھا اور جس کا گوشت ‘تبرک’ کے طور پر گاؤں کے ہر گھر میں تقسیم ہوا تھا۔
بمبو کا کہنا تھا کہ گوریلوں کا یہ قبیلہ اپنے سردار کی موت کا بدلہ لینے کے لیے گاؤں پر ضرور حملہ کرے گا۔ اسی لیے ہر وقت گاؤں کے پندرہ بیس مشّاق شکاری باقاعدگی سے پہرہ دیتے تھے۔ ایک روز دوپہر کے وقت پورے گاؤں میں ہل چل مچ گئی۔ اور سبھی عورتیں چیختی چلاتی اِدھر سے ادھر دوڑنے لگیں۔ بمشکل اتنا پتہ چل سکا کہ چند عورتوں نے، جو گاؤں سے باہر مکئی کی فصل کاٹنے نکلی تھیں، دو گوریلے دیکھے تھے جن میں سے ایک مادہ تھی اور ایک نر، فوراً ہی ہم نے بھی اپنا کام چھوڑا اور رائفلیں سنبھال کر مقامی شکاریوں کے ساتھ جنگل کی جانب چل پڑے۔ دو میل کے فاصلے پر ہم نے گوریلوں کے قدموں کے تازہ نشانوں کا سراغ لگا لیا۔ رنیز کے جوش و اضطراب کی انتہا نہ تھی وہ تازی کتے کی طرح ان نشانوں کو سونگھتا ہوا ادھر سے ادھر دوڑ رہا تھا۔۔۔ شدید ہیجان سے اس کا چہرہ سرخ اور نتھنے پھولے ہوئے تھے۔
بمبو اپنے نئے ‘ماسٹر’ کی ان حرکتوں میں بیحد دلچسپی لے رہا تھا اور اسے احساس ہو گیا تھا کہ یہ شخص بھی مقامی شکاریوں کی طرح گوریلے کے قدموں کے ذریعے جنگل میں اسے تلاش کر سکتا ہے۔ جلد ہی رنیز نے اس مخصوص راستے کا پتہ لگا لیا جدھر سے گوریلوں کا جوڑا جنگل میں گزرا تھا۔ پانچ میل کے پر مشقّت اور تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم جنگل کے اس حصے میں پہنچ گئے جہاں گھنے اور اونچے درختوں کی چوٹیاں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی تھیں۔ اور سورج کی روشنی بمشکل ان میں سے راستہ بنا سکتی تھی۔ ہمارے پاس اتفاق سے ٹارچیں موجود تھیں۔ جو اس وقت کام آئیں۔
ایک وسیع و عریض دلدلی میدان کے کنارے پہنچ کر ہمیں رکنا پڑا۔ کیونکہ یہاں سے آگے جانا بے حد مشکل تھا۔ بمبو اور اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ دلدل بے شمار جانوروں اور انسانوں کو نگل چکی ہے اور بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ گوریلے ادھر آنے کی جرأت کرتے ہوں۔ چند روز قبل ہی ایسی دلدل میں پانچ انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ان کا واقعہ بڑا دلچسپ اور عجیب ہے جو آگے آئے گا۔ ویسے بھی اسے اس امر پر حیرت تھی کہ دو گوریلے نہ جانے کس طرح گاؤں کی سرحد پر پہنچ گئے۔ جب کہ ان کی فطرت یہ ہے کہ بیس بیس اور تیس تیس کے گروہ کی صورت میں نکلتے اور دن کا بڑا حصہ پیٹ بھرنے میں گزارتے ہیں۔ پھل دار درختوں اور فصلوں کے جانی دشمن ہیں اور موقع ملتے ہی انہیں تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔ اس دوران میں اگر کوئی مرد ان کے ہتھے چڑھ جائے، تو یہ گوریلے اسے ہلاک کر دیتے ہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ عورتوں کو شاذ و نادر ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر جنگل میں سے گزرتی ہوئی عورتوں کا سامنا کسی گوریلے سے ہو جائے تو وہ فوراً اُن کا راستہ چھوڑ کر دور ہٹ جاتا ہے اور کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی گوریلے نے عورت پر حملہ کیا ہو، البتہ ایک واقعہ اس موقعے پر بیان کرنا ضروری ہے جس میں گوریلوں نے انتہائی طیش کے عالم میں چند عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شکاریوں نے ایک مادہ گوریلے کو ہلاک کر دیا تھا جو بچہ دینے والی تھی۔ بمبو نے مجھے یہ واقعہ اسی دلدل کے کنارے کھڑے ہو کر سنایا۔ جہاں یہ لرزہ خیز حادثہ پیش آیا تھا۔
‘ایک مرتبہ ہم نے جنگل کے اس حصے میں گوریلوں کے ایک گروہ کا سراغ لگایا جس میں نر اور مادہ سبھی شامل تھے۔ رات کا بڑا حصہ بیت گیا تھا اور دن بھر پیٹ بھرنے کے بعد گوریلوں کا یہ گروہ جنگل کے اس حصے میں آرام کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ گوریلوں کی عادت ہے کہ ایک مرتبہ سو جائیں، تو آسانی سے بیدار نہیں ہوتے اور ان کی اس کمزوری سے شکاری فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سورج نکلنے سے ذرا پہلے ہی گوریلوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس وقت ان کے اعصاب پژمردہ اور سست ہوتے ہیں اور وہ جم کر مقابلہ نہیں کرتے۔ حملہ کرنے سے پہلے رسیوں کا بنا ہوا ایک بڑا جال چاروں طرف درختوں اور جھاڑیوں سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ گوریلے فرار نہ ہو سکیں۔ شکاری اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر پہلے انہیں تیروں سے زخمی کرتے ہیں۔۔۔ گوریلے بد حواس ہو کر بری طرح چیختے ہیں اور ادھر ادھر چھُپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد ہی پتہ چل جاتا ہے۔ کہ وہ جال سے باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ ان کا غیظ و غضب عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اور وہ جنگل کو سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ چیخنے کے ساتھ ساتھ وہ سینہ کوبی بھی کرتے ہیں۔ جس سے ڈھول کی مانند آواز پیدا ہوتی ہے۔ گوریلے جب تیروں کی تاب نہ لا کر خوب زخمی ہو جاتے ہیں۔ تو نڈھال ہو کر گرنے لگتے ہیں۔ اگر زندہ پکڑنا ہو تو انہیں رسیوں کے پھندوں میں جکڑ لیا جاتا ہے۔ ورنہ نیزے مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے چنانچہ ہمارے شکاری کیل کانٹے سے لیس ہو کر گوریلوں پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ اس گروہ میں زیادہ جوان گوریلے تھے جن کا سردار ایک قوی ہیکل اور بڈھا گوریلا تھا جو سب سے آگے ایک محافظ کے طور پر سو رہا تھا اور اس کے خراٹوں کا شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب ہمارے شکاریوں نے سوئے ہوئے گوریلوں پر حملہ کیا تو عین اس وقت دوسرے گاؤں کی طرف سے ایک قافلہ جس میں پچاس ساٹھ مرد عورتیں شامل تھیں جنگل میں آ نکلا۔ در اصل ان کے گاؤں میں اگلے روز کوئی تقریب تھی جس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے یہ لوگ ہمارے گاؤں آ رہے تھے۔ ان کے ساتھ جلتی ہوئی مشعلیں اور ڈھول تھے اور وہ ان گوریلوں کی موجودگی سے بے خبر سیدھے اس مقام پر آ گئے جہاں ہمارے شکاریوں نے جال لگا رکھے تھے۔ جب گوریلوں پر تیروں کی بارش ہوئی تو وہ جاگے اور چیختے چلاتے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی۔ مگر جال نے راستہ روک لیا۔ وہ دیکھ چکے تھے کہ دونوں جانب سے آدمیوں نے انہیں گھیر لیا ہے ہمارے شکاریوں کے لیے بڑی مصیبت یہ تھی کہ وہ اب تیر نہیں چلا سکتے تھے۔ کیونکہ دوسری جانب سے آنے والے لوگ یقیناً ان تیروں کی زد میں آ جاتے۔ عین اس وقت گوریلوں نے ایک جانب سے جال توڑ کر راستہ بنا لیا اور انتہائی طیش کے عالم میں دوسرے گاؤں کے قافلے پر حملہ کر دیا۔
گوریلوں کی لرزہ خیز چیخیں، شکاریوں کے نعرے اور للکار، ڈھول کی گرجتی آواز اور عورتوں کی چیخ پکار۔۔۔ ان سب نے ایک قیامت خیز ہنگامے کو جنم دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گوریلے جیسے ‘امن پسند’ جانور بھی اس قدر غیظ و غضب میں آئے کہ دس نہتے آدمی ان کے ہاتھوں مارے گئے، پندرہ بیس شدید زخمی ہوئے۔ جال کے ٹوٹ جانے سے اور غضب ہو گیا۔ شکاریوں کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ جو لوگ درختوں پر چڑھے ہوئے تھے، وہ تو محفوظ تھے، لیکن جنگل میں پھرنے والوں کو اندھا دھند دور دور تک بھاگنا پڑا۔ بعض خار دار جھاڑیوں میں پھنس کر لہو لہان ہو گئے اور سورج نکلنے تک یہ کیفیت ہوئی کہ پورا جنگل گوریلوں کے غم و غصّہ کا نشانہ بن چکا تھا۔ کیونکہ اسی اثناء میں ان کے گروہ کی ایک حاملہ مادہ ہلاک ہو گئی تھی گوریلوں نے اس کا عجیب اور نہایت بھیانک انتقام لیا۔ دوسرے گاؤں کی پانچ عورتوں کو انہوں نے گھیر لیا اور انہیں ہانکتے ہوئے اسی دلدلی میدان کی طرف لے آئے اور انہیں دلدل کے اندر کود جانے پر مجبور کیا اور یہ پانچوں عورتیں سینکڑوں فٹ گہری دلدل کے اندر دھنس گئیں۔
بمبو یہ کہانی سنا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ رات سر پر آ گئی تھی اور ہم اس تاریک اور گھنے جنگل میں گاؤں سے پانچ میل دور نکل آئے تھے۔ میں نے واپس چلنے کا مشورہ دیا، تو رنیز نے گھُور کر مجھے دیکھا اور کہا:
‘دونوں گوریلے قریب ہی چھپے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ذرا ہمّت کریں، تو انہیں شکار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے گروہ سے بچھڑ گئے ہیں اور جلدی ہی اپنی کمین گاہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے، انہیں تلاش کرنا چاہیے۔‘
بمبو اور اس کے ساتھیوں نے بھی رنیز کی رائے سے اتفاق کیا اور ایک بار پھر سرگرمی سے ان گوریلوں کی تلاش شروع ہو گئی۔ یہاں ایسا گھپ اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور اس پر حد سے زیادہ خں کی۔۔۔ گرم کپڑوں کے باوجود میرا جسم سرد ہونے لگا اور دانت بج اٹھے۔ رنیز تازی کتے کی مانند جھاڑیوں میں سونگھتا اور جھانکتا پھر رہا تھا۔ دوسرے ننگ دھڑنگ شکاری جن کے ہاتھوں میں لمبے لمبے نیزے اور گلے میں تیر کمان پڑے ہوئے تھے اس بے پروائی اور اطمینان سے گوریلوں کو ڈھونڈ رہے تھے جیسے وہ معمولی خرگوش یا بھیڑوں کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ جنگل کا جنوبی حصّہ بہت ہی گنجان اور دشوار گزار تھا اور رنیز کا اصرار تھا کہ گوریلے اس طرف چھپے ہوئے ہیں۔ اس سے پیشتر کہ میں اسے روکتا، وہ جھاڑیوں میں گھستا اور پھلانگتا ہوا نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔ چند سیکنڈ تک اس کے جوتوں کی آواز سنائی دی پھر یک لخت سنّاٹا چھا گیا۔ بمبو اور اس کے ساتھی بھی رنیز کے پیچھے پیچھے چلے گئے اور میں تنہا رہ گیا۔ میں دل ہی دل میں انہیں کوس رہا تھا۔ یکایک ایک جھاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے کچھ آہٹ سی سنائی دی اور اس سے پہلے کہ میں اس معاملے پر غور کر سکوں، ایک مہیب شکل و صورت کا گوریلا جھاڑیوں میں سے نِکلا۔ اسے دیکھتے ہی میرا جسم سُن ہو گیا۔ اور دِل کی دھڑکن جیسے رک گئی۔ میرا اس کا فاصلہ دس فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ جنگل کی تاریکی میں اس کا سیاہ جسم ایک طویل القامت دیو کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ لمبے لمبے بازو زمین تک پہنچ رہے تھے۔ اس کی پشت میری جانب تھی۔
گوریلے کو دیکھ کر اتنی ہیبت میرے دِل پر طاری ہوئی کہ بیان سے باہر۔۔۔ رائفل میرے ہاتھ میں تھی اور مجھے یاد ہے کہ میں نے اسے جنبش دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ اتنی دیر میں گوریلا دبے پاؤں چلتا ہوا جھاڑیوں میں گم ہو چکا تھا۔ میرے قدم سو سو من کے ہو گئے تھے۔ میں نے الٹے پاؤں بھاگنا چاہا۔ لیکن زمین نے جیسے مجھے جکڑ لیا۔ کیونکہ میرے عقب میں ایک مرتبہ پھر خشک پتوں کے چرچرانے اور جھاڑیوں کی شاخیں ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو رہا سہا خون بھی خشک ہو گیا۔ کیونکہ مادہ گوریلا اپنے نر کی تلاش میں ادھر ہی آ رہی تھی۔ میں حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھاڑیوں کے اندر لیٹ گیا۔ اس وقت اگر میں چاہتا تو اسے آسانی سے اپنی رائفل کا نشانہ بنا سکتا تھا، لیکن ارادہ تو یہ تھا کہ انہیں زندہ پکڑا جائے، اس لیے گولی چلانا مناسب نہ تھا۔ رنیز اور دوسرے شکاری نہ جانے کہاں غارت ہو گئے تھے اور مجھے رنیز پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ اگر وہ میرے سامنے ہوتا تو شاید شوٹ کر دیتا۔ گوریلا بڑا سمجھ دار جانور ہے۔ یہ دونوں گوریلے بھانپ گئے تھے کہ شکاری ان کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے جھاڑیوں میں چھُپے رہے اور صبح ہونے سے پہلے پہلے یہ دونوں یقیناً اس وسیع جنگل میں غائب ہو جائیں گے۔ اس وقت ضرورت تھی کہ رنیز اور شکاریوں کو واپس بلایا جائے۔ فوراً ہی میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور میں نے عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔
مادہ گوریلا میرے سامنے سے گزر کر اپنے نر کی بو سونگھتی ہوئی دوسری جانب چلی گئی۔ میں رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک درخت پر چڑھ گیا اور ٹارچ جلا کر اس کی روشنی چاروں طرف پھینکنے لگا۔ پھر ایک ہوائی فائر بھی کیا جس سے جنگل کی سوئی ہوئی فضا بیدار ہو گئی۔ گوریلے جو پہلے ہی مضطرب تھے۔ اب بے اختیار غرّانے اور سینہ کوبی کرنے لگے۔ چند لمحے بعد میں نے دور جنگل میں ایک ٹارچ کی روشنی دیکھی جو قریب آ رہی تھی۔ رنیز اور اس کے ساتھیوں نے میرا اشارہ پا لیا تھا۔ اور وہ تیزی سے میری جانب آ رہے تھے، پھر رنیز کی رائفل سے جوابی فائر کا دھماکہ جنگل میں گونجا۔
فرنچ کانگو کے اس تاریک اور سرد جنگل میں رات کے وقت رائفلوں کے دھماکے شکاریوں کا دوڑنا، ٹارچوں کی مسلسل روشنی اور گوریلوں کی چیخیں ایک ناقابل فراموش واقعہ بن کر ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئیں۔ میں نے دوبارہ ٹارچ کی روشنی میں ان گوریلوں کو دیکھا جو بد حواس ہو کر ادھر ادھر جھاڑیوں کو توڑ توڑ کر ان میں چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم ان کی دہشت دلوں پر ایسی بیٹھی ہوئی تھی کہ میں بیس پچیس تجربہ کار مقامی شکاریوں کی یہ جماعت جس کی رہنمائی بمبو اور رنیز کر رہے تھے، گوریلوں سے کچھ فاصلے پر رُک گئی۔ رنیز نے پکار کر کہا، ‘آرمنڈ’ تم کہاں ہو؟’
میں نے حلق پھاڑ کر جواب دیا: ‘میں یہاں درخت پر موجود ہوں۔ فکر نہ کرو، یہ گوریلے صبح ہمارے قبضے میں ہوں گے۔ بمبو سے کہو کہ وہ اسی وقت چند آدمیوں کو گاؤں بھیج کر سب آدمیوں کو صبح تک پہنچنے کی ہدایت کر دے تاکہ ہم انہیں زندہ پکڑ سکیں۔ خبردار۔۔۔ کوئی شخص انہیں نقصان پہچانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ گوریلے جوان ہیں اور آسانی سے مانوس ہو سکتے ہیں۔‘
تھوڑی دیر بعد میں درخت سے اتر کر رنیز کے پاس پہنچ گیا۔ خوشی کے مارے وہ مجھ سے لپٹ گیا اور بولا:
‘بس اب فتح ہی فتح ہے۔ ہم انہیں صبح تک یقیناً گرفتار کر لیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت دو پنجرے بالکل تیار ہیں۔۔۔ پنجرے نہ ہوتے تو ان گوریلوں کو ہم کہاں قید کرتے۔‘
ادھر بمبو چیخ چیخ کر اپنے آدمیوں کو مختلف ہدایتیں دے رہا تھا۔ گوریلے بھی لگاتار غرّا رہے تھے۔ انہیں روکنے کے لیے چاروں طرف جلدی جلدی گھاس پھونس کے ڈھیر جمع کر کے آگ لگا دی گئی۔ گوریلے آگ سے بہت ڈرتے ہیں اور اس کے قریب نہیں جاتے۔ آگ کے الاؤ روشن ہوتے ہی ہمارے قلب و جسم میں قوت کا ایک نیا خزانہ بھر گیا اور جنگل میں روشنی پھیلنے سے اِدھر اُدھر کا منظر صاف دکھائی دینے لگا۔ سردی سے بچنے کے لیے ہم نے بھی آگ کے قریب ہی پناہ لی۔
ساری رات گوریلوں نے ایک ثانیے کے لیے بھی ہمیں چین نہ لینے دیا۔ وہ سینہ پیٹتے اور غل مچاتے رہے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ ان کی آواز سن کر اگر گروہ کے بیس پچیس گوریلے ادھر آ نکلے تو جان بچانا مشکل ہو جائے گا۔ ہم صبح ہونے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ بمبو نے جو چند شکاری گاؤں سے آدمی لانے کے لیے بھیجے تھے وہ ہوا کی طرح وہاں پہنچے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جب مشرق سے پو پھٹتی، تو جنگل میں جدھر نظر جاتی تھی، ننگ دھڑنگ اور سیاہ فام مرد اور عورتیں دکھائی دیتے تھے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ہتھیار تھا۔ عورتیں نہایت جوش و خروش سے رقص کر رہی تھیں۔ اکثر عورتوں کے پاس رسیوں اور موٹے بان کے بنے ہوئے جال تھے۔ اور بہت سی عورتوں نے اپنی کمر سے بڑے بڑے ٹوکرے باندھ رکھے تھے جن میں سوکھا گوشت، سبزیاں اور جنگلی پھل بھرے تھے۔ یہ خوراک وہ ان شکاریوں کے لیے لائی تھیں جو گوریلوں کو پکڑنے میں کامیابی حاصل کر لیتے۔ ادھر منحوس گوریلوں کا یہ حال تھا کہ وہ جھاڑیوں کے اندر سہمے ہوئے بیٹھے تھے اور خوفزدہ نظروں سے ان آدمیوں اور عورتوں کو دیکھ رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ اپنا غار نما منہ کھول کر پوری قوت سے چیختے اور دونوں ہاتھوں سے سینہ پیٹتے لگتے۔ ان کی اس حرکت پر عورتیں زور زور سے ہنستیں اور زیادہ تیزی سے ناچنے لگیں۔
میں نے بمبو سے پوچھا کہ ان آدمیوں اور عورتوں کی تعداد کتنی ہے۔ اس نے بتایا چار سو۔ معلوم ہوا کہ پڑوسی گاؤں کے بہت سے شکاری بھی جن کے پاس پرانے زمانے کی زنگ آلود بندوقیں تھیں، ان گوریلوں کے شکار میں حصہ لینے آئے تھے۔ انہیں سمجھا دیا گیا تھا کہ گوریلوں پر فائر کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ انہیں زندہ پکڑنا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے اپنی بندوقیں ایک طرف رکھ دیں اور ہاتھوں میں نیزے تھام لیے۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی پچاس ساٹھ شکاریوں نے ایک وسیع دائرے کی صورت میں گوریلوں کے گرد جال پھیلا دیا۔ بہت سے شکاری رسیوں پھندے بنا کر ارد گرد کے درختوں پر چڑھ گئے۔ اب اس مہم کا ‘کمانڈر ان چیف’ بمبو تھا اور ہر شخص کے لیے اس کا حکم ماننا ضروری تھا۔ رنیز کی حالت اس وقت قابلِ رحم تھی۔ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے جب وہ میری جانب دیکھتا، میں مسکرا دیتا اس پر وہ اور چِڑ جاتا۔ میں نے اس کے کان میں کہا اس موقعے پر بمبو کے کام میں مداخلت نہ کرنا وہ ناراض ہو جائے گا۔ ہمیں گوریلوں سے غرض ہے، وہ کسی طرح ہمارے قابو میں آنے چاہئیں، ہم اپنی جان جوکھوں میں کیوں ڈالیں۔ یہ سننا تھا کہ رنیز آتش فشاں پہاڑ کی مانِند پھٹ پڑا۔ پہلے تو اس نے مجھے بے نقط سنائیں اور پھر بمبو کو ڈانٹا کہ وہ چپ چاپ تماشا دیکھے اور ہمیں پریشان نہ کرے۔ بوڑھے بمبو کے سیاہ چہرے پر ایک لمحے کے لیے حیرت کے آثار نمودار ہوئے۔ وہ اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ ایک سفید چمڑی والے نے اس کی توہین کی تھی۔ وہ تِلملا کر میری جانب آیا اور کہنے لگا:
‘ماسٹر’ میں یہاں سے جا رہا ہوں۔ یہ ہمارا جنگل ہے۔۔۔ یہ سب لوگ میرے شاگرد ہیں۔۔۔ میں نے ساری عمر اس جنگل پر حکومت کی ہے اور میں دیکھوں گا کہ یہاں سے اِن گوریلوں کو پکڑ کر کون لے جاتا ہے۔ ‘بمبو کے یہ کلمات پاس کھڑے کئی شکاریوں نے سنے۔ وہ بھی بپھر گئے اور اگر میں انہیں نہ روکتا، تو رنیز کی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ میں نے فوراً جیب سے نقدی نکالی اور ان میں تقسیم کر دی اور ان سے وعدہ کیا کہ گوریلے پکڑ لینے کے بعد جب گاؤں جائیں گے تو انہیں مزید انعام دیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ ٹھنڈے ہوئے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر رنیز کے پسینے چھوٹ گئے، آدمی سمجھ دار تھا۔ اس نے بمبو سے معذرت کی اور دُور ہٹ گیا۔
ادھر عورتوں کا رقص عروج پر پہنچ چکا تھا۔ شکاری اپنی اپنی جگہ مستعد کھڑے تھے۔ سورج اب پوری طرح آسمان کے مشرقی حصے پر اُبھر آیا تھا۔ اور اس کی چمکیلی روشن دھوپ جنگل کے گوشے گوشے کو منوّر کر رہی تھی۔ بمبو نے پتہ چلّا کر کچھ کہا اور عورتوں کا رقص یک لخت رُک گیا۔ اور وہ سِمٹ کر ایک طرف کھڑی ہو گئیں۔ درختوں پر چڑھے ہوئے شکاریوں نے اپنے اپنے پھندے تیار کر لیے۔ نیزہ بردار شکاری تن کر کھڑے ہو گئے اور جال کی حفاظت کرنے والے دوڑ کر چاروں طرف پھیل گئے۔ اور ایک سنّاٹا سا ہر طرف چھا گیا۔ گوریلے اب بھی جھاڑیوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ بمبو نے میری جانب دیکھا اور میرا اشارہ پا کر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔
جال کے قریب کھڑے ہوئے شکاری گوریلوں پر نیزے برسانے لگے۔ لیکن اس احتیاط سے کہ نیزے گوریلوں کے دائیں بائیں جھاڑیوں میں پیوست ہوتے رہے اور کسی نیزے نے گوریلوں کو زخمی نہیں کیا۔ نیزوں کے ساتھ ساتھ تیر بھی برس رہے تھے۔ گوریلوں نے لرزہ خیز چیخ ماری اور جھاڑی سے باہر نکل کر ایک جانب دوڑے، لیکن جال نے راستہ روک لیا۔ گوریلوں نے اپنے مضبوط اور لمبے ہاتھوں سے جال کو نوچنے کی کوشش کی۔ تو شکاریوں نے ہلکے ہلکے ان کے جسموں میں نیزوں کی انّیاں چبھو دیں۔ جدھر جاتے اُدھر شکاری ان کا راستہ روکتے اور نیزوں سے انہیں ڈرا دیتے۔ گوریلوں نے چیخ چیخ کر جنگل سر پر اٹھا لیا۔ اور طیش میں آ کر جھاڑیوں کو جڑوں سے اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکنے لگے۔ مجھ پر یہ منظر دیکھ کر ہیبت طاری تھی۔ لیکن جنگلی عورتوں اور تماشائی مردوں کی طرف سے قہقہوں اور اچھلنے کودنے کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تھا۔ رنیز دوڑ کر جال کی طرف گیا اور بے مثال بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک درخت پر چڑھا اور گوریلوں کی سرحد میں کُود گیا۔ سینکڑوں آدمیوں کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔
رنیز کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع اور دیوانگی سے بھرپور تھی کہ خود اس جنگل کے باسی، جن کی عمریں ایسی ہی مہلک ترین مہموں میں کٹ جاتی ہیں، انگشت بدنداں رہ گئے۔ رنیز اب قطعی گوریلوں کے رحم و کرم پر تھا۔ اگرچہ وہ بد حواسی اور خوف کی وجہ سے اس کے نزدیک نہ آئے۔ تاہم وہ اسے آن واحد میں پکڑ کر ہلاک کر سکتے تھے۔ رنیز کے ایک ہاتھ میں رائفل اور دوسرے میں رسی کا پھندا تھا۔ اس نے للکار کر دوسرے شکاریوں کو بھی جال کے اندر کود پڑنے کی ہدایت کی اور ادھر بوڑھے بمبو نے حیرت انگیز جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جال کو عبور کر لیا۔ بس پھر کیا تھا۔ بیسیوں نیزہ بردار شکاری گوریلوں کی سرحد میں پہنچ گئے۔ گوریلے جو ادھر اُدھر جان بچانے کی کوشش میں دوڑ رہے تھے، دبک کر پھر جھاڑیوں میں جا چھپے اور وہیں سے غرّانے اور چیخنے لگے۔ شکاری اب چاروں طرف سے ان کے گرد گھیرا ڈالنے میں کامیاب ہو گئے اور اس حصے میں جتنی بھی جھاڑیاں تھیں وہ چند لوگوں نے لمبے لمبے کلہاڑوں کی مدد سے اکھاڑ کر پھینکیں اور جگہ کشادہ ہو گئی۔
گوریلوں پر سے پہلے رنیز نے پھندہ پھینکا اور پھر ہر طرف سے پھندوں کی بارش ہو گئی۔ مقامی باشندے امریکہ کے ‘کاؤ بوائے‘ لوگوں کی طرح پھندے بڑی مہارت سے پھینکتے تھے۔ آدھ گھنٹہ کی جان توڑ تگ و دو کے بعد انہوں نے گوریلوں کو قطعی بے بس کر دیا۔ نر گوریلے کی گردن اور ایک ٹانگ اور مادہ گوریلے کے دونوں لمبے بازو پھندے میں جکڑے جا چکے تھے۔ ہر چند کہ پچاس ساٹھ طاقت ور شکاریوں نے یہ رسے پکڑ رکھے تھے۔ لیکن گوریلوں میں بھی اس بلا کی قوت تھی کہ وہ ایک ہی جھٹکے میں ان آدمیوں کو جدھر چاہتے تھے، گھسیٹ لیتے تھے۔
اس وقت پورے جنگل پر زلزلے کی سی کیفیت طاری تھی۔ آسمان پر ہزاروں پرندے پرواز کر رہے تھے۔ اور جنگل کے اندر رہنے والے سینکڑوں بندروں نے غل مچا مچا کر ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ بہت دور فاصلے پر ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آوازیں بھی بہت جلد سنائی دینے لگیں۔ وقت اُڑ رہا تھا۔ سورج اب ہمارے عین سروں پر آ چکا تھا۔ اور ہر لحظہ حِدّت بڑھتی جا رہی تھی۔ جلد ہی ہم سب پسینے میں نہا گئے۔ رنیز اب گوریلوں کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ مہم قریب الختم ہے کیونکہ بے شمار پھندے ان قوی ہیکل جانوروں کے گرد پڑ چکے تھے۔ اب وہ حرکت کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔ البتّہ ان کے کھلے ہوئے بھیانک منہ سے ہولناک چیخیں مسلسل نکل رہی تھیں۔ عورتوں نے ایک بار پھر رقص کا دیوانہ وار آغاز کیا اور چند آدمی پوری قوت سے ڈھول پیٹنے لگے۔ دونوں گوریلوں کو جب بانسوں کے ساتھ باندھا جا رہا تھا، تو بہت سے شکاری سستانے کے لیے ایک طرف بیٹھ گئے اور انہوں نے عورتوں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ قدیم رواج کے مطابق گرفتار شدہ گوریلوں کے گرد رقص کریں۔
میری نگاہیں گوریلوں پر جمی ہوئی تھیں۔ مادہ گوریلے کو بانسوں کے بنے ہوئے ایک بڑے سے تختے پر لٹا کر باندھا جا چکا تھا۔ اور اب نر کی باری تھی۔ یکایک اس نے ایک زبردست چیخ کے ساتھ دو تین جھٹکے مارے۔ جن شکاریوں نے رسیاں پکڑ رکھی تھی، وہ عورتوں کا رقص دیکھنے میں مصروف تھے۔ جھٹکا ناقابلِ برداشت تھا۔ رسّیاں ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں۔ گوریلے نے ایک بار پھر زور لگایا اور اپنے دونوں بازو آزاد کرا لیے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس موقعے پر کیسی افرا تفری مچی تھی۔ میں نے اپنے دوست رنیز کو دیکھا جو گوریلے کی زد میں آ چکا تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اسے بچانے کے لیے دوڑا۔ ادھر سے بمبو اور اس کے چند ساتھی شکاری بھی گوریلے کی طرف لپکے اور اس نے رنیز کو للکار کر پیچھے ہٹ جانے کی ہدایت کی۔ لیکن رنیز کی قسمت میں جو لکھا تھا، پورا ہو کر رہا۔ گوریلے نے غضبناک ہو کر رنیز پر حملہ کیا۔ اس کا فولادی پنجہ رنیز کی گردن پر پڑا۔ اور وہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا دور جا گرا۔ دوسرے شکاریوں نے بد حواسی میں اور کام خراب کر دیا۔ انہوں نے جب گوریلے کو اپنے قابو سے باہر دیکھا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ کیونکہ وہ اس وقت بالکل نہتّے تھے۔ رنیز گوریلے سے صرف دس بارہ فٹ کے فاصلے پر بے ہوش پڑا تھا۔۔۔ گوریلا چشمِ زدن میں اس کے سر پر جا پہنچا اور جھک کر اسے ایک تنکے کی مانند اٹھا لیا۔ عین اسی لمحے بمبو اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے تیر کی مانند نیزے نکلے اور گوریلے کے جسم میں پیوست ہو گئے ایک نیزہ رنیز کی ریڑھ کی ہڈی کو چھیدتا ہوا دوسری جانب نکل گیا۔
اس حادثے نے میرے ہوش و حواس گم کر دیے۔ کسی طرح یقین نہ آتا تھا کہ میرا پرانا بہادر دوست رنیز ہلاک ہو چکا ہے۔ میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے دوست کی لاش کو دیکھ رہا تھا جو تھوڑی دیر پہلے جوانی قوّت اور صحت کا مجسّمہ تھا۔ لیکن اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا تھا۔ اس کی جلد بازی اور جوش نے اسے موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔ مردہ گوریلا جس کے جس میں بیس پچیس نیزے پیوست تھے، رنیز کے قریب ہی پڑا اور اس کی مادہ اب بھی بری طرح چیخ رہی تھی۔ اس حادثے نے ایسا ناگوار اثر میرے قلب و دماغ پر ڈالا کہ میں نے گوریلے کی مادہ کو بھی رہا کرنے کا حکم دے دیا اور تیسرے روز ہی اپنی بیوی اور ملازموں کو لے کر امریکہ واپس جانے کی تیاریاں کرنے لگا۔
٭٭٭
سوانی پَلی کا سیاہ چیتا
(اصل مصنف: کینتھ انڈرسن)
سوانی پلی کا جنگل سیر و تفریح اور شکار کے لیے ہمیشہ سے میری پسندیدہ جگہ رہا ہے۔ مجھے ایک پیشہ ور شکاری کی حیثیت میں دنیا کے اکثر جنگلوں میں گھومنے اتفاق ہوا ہے۔ افریقہ، ایشیا اور یورپ کے بے شمار چھوٹے بڑے جنگل سبھی میری نظر میں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوانی پلی کا چھوٹا سا خوب صورت جنگل میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس کا مناسب محلِ وقوع، اس کی خوشگوار اور فرحت بخش آب و ہوا۔ شہر بنگلور سے اس کا قرب، سرسبز پہاڑیوں کے طویل سلسلے، صندل کے گنجان درخت اور کہیں کہیں فرازِ کوہ سے اترتی ہوئی سرد اور شیریں پانی کی ندیاں، سوانی پلّی کے جنگل کو بہشت کا نمونہ بنا دیتی ہیں۔ خصوصاً چاندنی راتوں میں گھوڑے پر سوار ہو کر اس جنگل میں گھومنے سے دل میں مسرت کا ایک ایسا میٹھا میٹھا احساس ابھرتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ تلاش معاش کے جھنجھٹوں سے مجھے جب بھی فرار ہونے کا موقع مِلتا، میں سیدھا سوانی پلی کے جنگل میں پناہ لیتا اور ایک آدھ ہفتے خوب تفریح کرتا۔ یہاں دوسرے جانوروں کے علاوہ چیتوں کی کثرت بھی میری خاص دلچسپی کا باعث تھی۔
سوانی پلی کا جنگل اور اسی نام کی ایک مختصر سی آبادی بنگلور سے پچاس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسی بستی کے مشرقی حصے میں جو جنگل دور تک پھیلا ہوا تھا اس کے آخری حصے میں ایک پہاڑی تھی۔ غالباً پانچ سو فٹ بلندی پر ایک بنگلہ بنا ہوا تھا جسے گل ہٹی کہتے ہیں۔ گل ہٹی کے مشرق میں کوئی ساڑھے چار میل کے فاصلے پر ایک اور بنگلہ موجود ہے۔ اس جگہ کو آیور کہتے ہیں۔ شمال مغربی جانب چار میل دور ایک پہاڑی پر جسے کو چواری کے نام سے پکارتے ہیں، فارسٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے افسروں اور دوسرے سیاحوں کے لیے ایک اور بنگلہ بنوایا ہے۔ یہ جگہ اپنے محلِّ وقوع اور مناظرِ قدرت کے اعتبار سے نہایت حسین اور دل کش تھی، یہاں چاروں طرف صندل کا جنگل پھیلا ہوا تھا اور لکڑی کاٹ کاٹ کر یہیں سے ڈینکانی کوٹہ کے مقام پر بھیجی جاتی تھی۔ سوانی پلّی کی بستی میں لوگ برائے نام ہی آباد تھے۔ گنتی کی چند جھونپڑیوں تھیں جن میں وہی مزدور اپنے بال بچّوں سمیت رہتے تھے جو جنگل میں درختوں کی کٹائی وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ یہ لوگ نہایت محنتی، جفا کش اور با ہمّت تھے۔ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپس میں لڑائی جھگڑا اور چپقلش سے کوسوں دور تھے۔ دغا بازی، جھوٹ اور فریب سے نا آشنا۔ یہی وجہ تھی کہ ان باشندوں کے درمیان رہ کر مجھے روحانی خوشی حاصل ہوتی تھی۔
چاندنی راتوں میں سوانی پلّی کا جنگل حسن و جمال کا ایک نادر منظر پیش کرتا تھا۔ نہ معلوم میں نے کتنی ایسی راتیں اس جنگل میں گھومتے ہوئے گزاری ہیں اور کتنی ہی بار فطرت کو بے نقاب ہوتے دیکھا ہے۔ جنگل کا چپّہ چپّہ میرا دیکھا بھالا تھا۔ میں خوب جانتا تھا کہ کون کون سے جانور جنگل کے کس کس حصے میں رہتے ہیں۔ جنگلی بھینسے کے علاوہ سبھی چرند پرند اور درندے یہاں موجود تھے۔ چیتے، ہاتھی، سانبھر، ہرن اور سیاہ ریچھ، ان کی کثرت تھی اور جنگل میں ان کی ملی جلی آوازیں اکثر سنائی دیتی تھیں۔ لیکن کیا عجیب اتفاق تھا کہ کسی درندے نے کبھی کسی انسان کو نقصان پہچانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
1934ء کا ذکر ہے کہ اچانک سوانی پلّی کے جنگل میں ایک سیاہ چیتے کے نمودار ہونے کی خبر پھیلی۔ سب سے پہلے ایک چرواہے نے اس چیتے کو جنگل میں ایک چشمے پر پانی پیتے دیکھا۔ یہ شخص گاؤں کے مویشیوں جو جنگل میں چرانے لے جایا کرتا تھا۔ شام کے پانچ بجے تھے اور یہ شخص گائے بھینسوں کو لے کر گاؤں کی طرف آ رہا تھا۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا اور جنگل میں اچھی خاصی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت اس نے سیاہ چیتے کو اس چشمے کے پاس جو جھاڑیوں کے قریب تھا، کھڑے پایا۔ یہ شخص قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ چیتے کا رنگ اندھیری رات کی مانند سیاہ تھا۔ مویشیوں کے پیروں کی آہٹ سن کر چیتے نے مڑ کر دیکھا، ایک مرتبہ غرّایا اور چھلانگیں لگاتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔
غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ اس جنگل میں سیاہ چیتا دیکھا گیا۔ جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں۔ سیاہ چیتا کسی اور نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مادہ چیتا ایک جھول میں کئی بچے دیتی ہے اور ان بچوں میں کبھی کبھار اتفاقاً ایک بچّہ سر تا پا سیاہ نکل آتا ہے۔۔۔ قد و قامت اور شکل و صورت میں وہ دوسرے چیتوں کی مانند ہی ہوتا ہے۔ سیاہ چیتے ملایا برما اور آسام کے جنگلوں میں عموماً پائے جاتے ہیں۔ میں نے ہندوستان کے مغربی گھاٹ پر واقع جنگلوں میں بہت سے سیاہ چیتے خود دیکھے ہیں۔ پس میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ایک مرتبہ تو دریائے کاویری کے کنارے ایسے ہی ایک سیاہ چیتے کے ہاتھوں میں مرتے مرتے بچا تھا۔ خدا نے چاہا تو کسی اور موقعے پر دلچسپ داستان آپ کو سناؤں گا۔ اس وقت تو سوانی پلّی کے چیتے کا قصّہ سامنے آ گیا ہے۔ ماہرینِ حیوانات اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکتے کہ سیاہ چیتا پیدا کیوں ہو جاتا ہے۔ یہ قدرت کا ایک سربستہ راز ہے۔ اگر کسی چڑیا گھر میں آپ کو سیاہ چیتے دیکھنے کا اتفاق ہو، تو آپ اسے غور سے دیکھ کر فوراً معلوم کر لیں گے کہ اس کے گھنے سیاہ بالوں کے نیچے گول گول دھبّے اور پیلی پیلی دھاریاں موجود ہیں، جو کسی وجہ سے اپنا اصل رنگ حاصل نہ کر سکیں۔ بہرحال اس ‘فنی بحث’ کو چھوڑ کر میں اصل کہانی کی طرف لوٹتا ہوں۔
یہ چرواہا سیاہ چیتے کو دیکھ کر ایسا خوفزدہ ہوا کہ بھاگم بھاگ گاؤں میں آیا اور سب لوگوں کو جمع کر کے یہ دہشت ناک خبر سنائی۔ جیسا کہ مجھے بعد میں پتہ چلا، گاؤں کے لوگوں نے اس کے بیان پر یقین نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنے عرصے تک کبھی کوئی سیاہ چیتا جنگل میں دکھائی نہیں دیا۔ اب یہ نیا چیتا کہاں سے آ گیا؟ تاہم بھوت پریت اور بد روحوں پر پختہ اعتقاد رکھتے ہوئے گاؤں کے سادہ دل لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگرچہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، مگر اس نے ضرور کسی بد روح کو سیاہ چیتے کے روپ میں دیکھ لیا ہے۔ اس طرح چند ہفتے گزر گئے۔ سیاہ چیتے کو اس عرصے میں دوبارہ کسی شخص نے نہیں دیکھا اور رفتہ رفتہ چرواہے کی کہانی لوگ بھول گئے۔ ایک روز کا ذکر ہے دوپہر کا وقت تھا۔ آسمان پر سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سوانی پلّی کے جنگل میں دو چرواہے دوپہر کی روٹی کھا کر آرام سے سایہ دار درختوں کے نیچے لیٹے خراٹے لے رہے تھے۔ ان کے درجن بھر مویشی بھی ادھر ادھر بیٹھے جگالی کر رہے تھے جنگل میں ہر طرف ایک سکوت طاری تھا۔ دفعتاً سیاہ چیتے دبے پاؤں جھاڑیوں میں سے نکلا اور سب سے علیحدہ بیٹھی ہوئی ایک بھوری جوان گائے کی طرف بڑھا اور اچھل کر اس کی گردن میں اپنے لمبے نوکیلے دانت پیوست کر دیے۔ درد کی شدت سے گائے کے حلق سے بے اختیار ایک بھیانک آواز نکلی۔ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھی۔ اور ایک جانب بھاگی چیتا غرّاتا ہوا پھر اس پر حملہ آور ہوا۔ اس اثناء میں چرواہوں کی آنکھ کھل گئی۔ لیکن سیاہ چیتے کو دیکھ کر اتنی دہشت ان دونوں پر طاری ہوئی کہ انہوں نے گائے کو بچانے کی قطعی کوشش نہ کی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاہ چیتے کے بد روح ہونے کا وہم ان لوگوں کے دل میں پہلے ہی سے بیٹھا ہوا تھا۔ ورنہ عام حالات میں اگر کوئی چیتا اس طرح مویشیوں پر حملہ کرتا تو یہ لوگ چیختے چلّاتے اور دوڑتے اور چیتے کو بھگانے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے سیاہ چیتے کو دیکھ کر اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کی۔ اتنی دیر میں قوی ہیکل چیتا گائے کو گھسیٹ کر پچاس گز کے فاصلے پر لے جا چکا تھا۔ چند سیکنڈ تک گائے گھاس پر تڑپتی رہی پھر ٹھنڈی ہو گئی۔ چیتے نے صرف ایک بار مڑ کر ان چرواہوں کی طرف دیکھا اور اپنا خون آلود جبڑا کھول کر انگڑائی لی۔ اس کے بعد اس نے مردہ گائے کی گردن منہ میں دبائی اور جھاڑیوں کے اندر گھسیٹ کر لے گیا۔
جونہی چیتا نظروں سے اوجھل ہوا، چرواہوں کی جان میں جان آئی اور وہ سر پر پیر رکھ کر گاؤں کی طرف بھاگے۔ انہوں نے فوراً دیہاتیوں کو جمع کر کے اس خونچکاں حادثے کی خبر سنائی۔ چند جی دار جوان اسی وقت چیتے کے تعاقب میں روانہ ہونے پر تیار ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ گائے کی لاش ہی کم از کم واپس لائی جا سکتی ہے۔ ورنہ چیتا اسے ہڑپ کر جائے گا۔ چنانچہ کلہاڑیوں اور لاٹھیوں سے مسلّح ہو کر چند آدمی ان چرواہوں کی رہبری میں جنگل گئے۔ خون کے بڑے بڑے دھبّوں سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ چیتا گائے کی لاش کدھر گھسیٹ کر لے گیا ہے۔ جائے حادثہ سے کوئی دو فرلانگ دور گھنے جنگل میں انہوں نے ایک جگہ گائے کی لاش اس حالت میں پڑی پائی کہ چیتے نے اس کی ایک ران چبا ڈالی تھی۔
اس روز کے بعد اس گاؤں کے مویشیوں پر سیاہ چیتے نے حملے شروع کر دیے۔ ہر چوتھے پانچویں دن وہ کسی نہ کسی گائے، بھینس کو ہلاک کر ڈالتا اور گھسیٹ کر جنگل میں لے جاتا۔ گاؤں میں چیتے کی ان ہلاکت خیز سرگرمیوں سے زبردست دہشت پھیل گئی اور چرواہوں نے گاؤں سے باہر زیادہ دور تک اپنے مویشی لے جانے بند کر دیے۔ سیاہ چیتے کو اپنی خوراک حاصل کرنے میں جب مشکلیں پیش آنے لگیں تو اس نے اپنا دائرہ کار وسیع کر دیا۔ اب وہ انچتی، گل مٹی اور آئیور کے دیہاتوں سے جنگل میں آ کر چرنے والے مویشیوں کو شکار کرنے لگا۔ جنوب مغرب اور مشرقی حِصّے پر کاملاً اسی کی حکومت تھی۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ وہ سالورم گاؤں کے ایک گدھے کو بھی پکڑ کر لے گیا۔ یہ گاؤں سوانی پلّی جانے کا اتفاق ہوا۔ لوگوں نے مجھے سیاہ چیتے کی داستان سنائی۔ میرے لیے اس میں دلچسپی اور شوق کا بڑا سامان تھا۔ یوں تو میں نے اپنے شکاری زندگی میں سینکڑوں ہی جانور مارے تھے۔ مگر سیاہ چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے کا اتفاق کبھی نہیں ہوا۔ صرف ایک مرتبہ جنگل میں یوں ہی آمنا سامنا ہو گیا تھا۔ میرے پاس رائفل نہ تھی۔ میں نے ایک اونچے درخت پر چڑھ کر جان بچائی ورنہ اس روز خاتمہ ہو گیا تھا۔ بعد ازاں میں نے اس سیاہ چیتے کی تلاش میں کافی وقت صرف کیا۔ مگر وہ ایسا غائب ہوا کہ پھر کبھی اس کا نشان نہ ملا۔ میں جانتا تھا کہ چیتے کی ایسی قسمیں شاذ و نادر ہی عالمِ وجود میں آتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ چیتا کسی اور شکاری کی رائفل کا نشانہ بن گیا ہو۔
قصّہ مختصر، میں نے ان دیہاتیوں سے کہا کہ آئندہ جب بھی یہ چیتا کسی گائے کو ہلاک کرے، اس کی لاش وہیں پڑی رہنے دی جائے۔ اسے ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔ میں نے وعدہ کیا کہ اس ہلاک ہونے والے جانور کی قیمت میں خود ادا کروں گا۔ بشرطیکہ وہ لوگ میری ہدایت پر عمل کریں اور جونہی چیتا اسے ہلاک کرے، مجھے فوراً بنگلور اطلاع بھجوا دیں۔ سوانی پلّی سے بس کے ذریعے ہاسور کے قصبے تک پہنچ کر ٹیلی گراف آفس سے مجھے تار پر یہ خبر پہنچائی جا سکتی ہے، ہاسور کا قصبہ مویشیوں کی خرید و فروخت کے لیے اس علاقے میں خاص شہرت رکھتا ہے اور تاجروں کی سہولت کے لیے گورنمنٹ نے یہاں تار گھر بھی قائم کر دیا تھا۔ میں نے دیہاتیوں کو خوب سمجھا دیا کہ وہ گاؤں کے ہر شخص کو تلقین کر دیں کہ جونہی چیتا کسی مویشی کو ہلاک کرے، فوراً مجھے اطلاع کریں۔ اور جو شخص سب سے پہلے ایسی خبر پہنچائے گا۔ اسے پچاس روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔
چند روز سوانی پلّی میں قیام کے بعد میں بنگلور واپس چلا گیا اور بے چینی سے اس خبر کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ انتظار کی اس شدت میں پندرہ روز بیت گئے۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ میرا اضطراب دیکھیے کہ میں نے پہلے ہی سے اپنی مچان نما چارپائی اور دوسرا سازو سامان تیار کر رکھا تھا کہ تار ملتے ہی چند منٹ کے اندر اندر بنگلور سے سوانی پلّی چل پڑوں۔ آخر ایک روز شام کو چار بجے کے قریب وہ تار مجھے مل گیا، لیکن وقت تنگ ہونے کے باعث میں صرف رائفل ہی اپنے ساتھ لے جا سکا۔
تار ملنے کے پندرہ منٹ بعد میں سفر پر روانہ ہو گیا اور جس وقت میں سوانی پلّی کی حدود میں داخل ہوا گھُپ اندھیرا چھا چکا تھا۔ اور میری گھڑی سوا سات بجا رہی تھی۔ یہ تار سوانی پلّی کے ایک شخص رنگا سوامی نے مجھے بھیجا تھا اور اس نے غلطی یہ کہ ایکسپریس کی بجائے اسے معمولی تار کی صورت میں بھیجا۔ رنگا سوامی کو میں پہلے جانتا تھا، کیونکہ کئی مرتبہ یہ شخص جنگل میں میری رہنمائی کر چکا تھا وہ خود بھی ایک نڈر، اور تجربہ کار شکاری تھا۔ میری آمد کی خبر پاتے ہی رنگا سوامی دوڑا آیا، اس نے مجھے بتایا کہ اسی روز صبح جب کہ گاؤں کے مویشی چرنے کے لیے جنگل کی طرف گئے تھے، سیاہ چیتے نے ان میں سے ایک گائے کو ہلاک کر دیا۔ چرواہے کو معلوم تھا کہ میں نے پچاس روپے انعام کی پیش کش کر رکھی ہے پس وہ اسی روز رنگا سوامی کے پاس گیا اور خبر سنائی۔ رنگا سوامی فوراً ڈینکا کوڑ روانہ ہو گیا۔ وہاں سے اس نے سوا بارہ بجے ہاسور جانے والی بس پکڑی اور تار گھر پہنچ کر دوپہر کے ایک بجے مجھے تار دیا۔
اگرچہ میں اس وقت بُری طرح تھکا ہوا تھا۔ تاہم میرے پیشِ نظر دو باتیں تھیں ایک تو یہ کہ اندھیرے کی پروا کیے بغیر ٹارچ لے کر جنگل میں جاؤں۔ ممکن ہے چیتا لاش کو ہڑپ کرنے کے لیے وہاں آئے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ رات اور کل کا دن آرام کروں اور پھر شام کے وقت جانور کی لاش کے قریب چھپ کر چیتے آمد کا انتظار کروں۔ ان میں سے پہلی تجویز پر پورا اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا کہ چیتا ضرور اس لاش کو کھانے آئے گا لیکن دوسری تجویز میرے مزاج اور طبیعت کے خلاف تھی۔ میرے لیے یہ رات اور اگلا پورا دن محض شام کے انتظار میں کاٹنا بڑا مشکل تھا۔ میں نے رانگا سوامی سے پوچھا کہ چیتے نے گائے کو یہاں سے کتنے فاصلے پر ہلاک کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ گاؤں کے مغرب میں بمشکل آدھ میل دور یہ حادثہ ہوا ہے اور یہی وہ مقام جہاں سے وہ لمبی ڈھلوان شروع ہوتی ہے جو ندی تک گئی ہے۔ یہ سن کر میں نے اسی وقت جنگل میں جانے کا تہیہ کر لیا اور رانگا سوامی سے کہا کہ وہ مجھے جنگل میں کم از کم اس مقام تک لے جائے جہاں گائے کی لاش پڑی ہے، چیتے سے میں خود نبٹ لوں گا۔ رانگا سوامی اور چرواہے نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اصرار کیا کہ رات کے وقت اس اندھیرے میں وہاں جانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کل شام تک انتظار کر لیا جائے، لیکن میں نہ مانا۔
میں نے گھڑی دیکھی۔ آٹھ بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ جلد جلد میں نے رائفل پر برقی ٹارچ لگائی۔ تین فالتو سیل اپنی جیب میں رکھے۔ اعشاریہ 475 کی ونچسٹر رائفل میں چار کارتوس بھرے۔ تین کارتوس میگزین میں اور ایک سپاؤٹ میں رہنے دیا۔ میں ہمیشہ احتیاط کے طور پر رائفل کے میگزین میں ایک کارتوس کم ہی بھرتا ہوں تاکہ وہ جام نہ ہو سکے اور دوبارہ لوڈ کرنے میں آسانی رہے۔ اس کے بعد میں نے چمڑے کے بھاری جوتے اتار کر ربڑ کے ہلکے جوتے پہنے تاکہ چلنے پھرنے میں آہٹ نہ ہو۔ خاکی قمیض اور پتلون اتار کر انہیں بھی سیاہ کپڑوں سے تبدیل کیا جو اس مقصد کے لیے ہر وقت میرے سفری تھیلے میں موجود رہتے تھے۔
رانگا سوامی اور چرواہے کی معیّت میں میں جنگل کی طرف چل پڑا۔ جلد ہی ہم ایک خشک ندی کے قریب پہنچ گئے۔ میں نے محسوس کیا۔ کہ سیاہ چیتے کی ہیبت ان پر اس حد تک اثر انداز ہو چکی ہے کہ وہ آگے بڑھنے سے کترا رہے ہیں۔ میں نے انہیں واپس چلے جانے کی اجازت دے دی۔ رانگا سوامی نے مجھے بتایا کہ یہ خشک ندی مغرب کے رُخ چلی گئی ہے۔ راہ میں دو موڑ گزرنے کے بعد تیسرے موڑ کے قریب ہی چیتے نے گائے کو ہلاک کیا اور وہاں سے اسے جنوب کی طرف گھنے جنگل میں دو سو گز دور گھسیٹ کر لے گیا ہے۔
وہ رات میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔۔۔ سوانی پلّی کا جنگل تاریک اور خاموش تھا۔ آسمان پر سیاہ بادل آہستہ آہستہ جمع ہو رہے تھے اور ایک ایک تارا باری باری نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا۔ نہایت احتیاط سے ندی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا میں گھنے جنگل کی طرف بڑھا۔ دونوں موڑ خیریت سے طے کرنے کے بعد جب میں تیسرے موڑ پر پہنچا تو چند لمحوں کے لیے میں نے کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کی۔ مگر کوئی آواز کان میں نہ آئی۔ میں نے اندازہ کیا کہ میں تقریباً دو سو گز کا فاصلہ طے کر چکا ہوں اور گائے کی لاش قریب ہی ہو گی۔ اس طرح میں ایک ایک انچ آگے بڑھا۔ کبھی کبھار لمبی گھاس میں لیٹ کر زمین سے کان لگا کر آواز سننے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے یقین تھا کہ چیتا اگر لاش کو کھانے میں مشغول ہو گا تو آواز ضرور سنائی دے گی۔ میں اب جنگل کے اس حصّے میں سے گزر رہا تھا۔ جہاں قدم قدم پر رکاوٹیں موجود تھیں۔ گھاس میں سے کسی سانپ یا کسی اور زہریلے جانور کے ڈس لینے کا خدشہ بھی مجھے پریشان کر رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ سیاہ چیتے نے ابھی انسان کا گوشت نہیں چکھّا اس لیے زیادہ چالاک اور ‘تجربہ کار’ نہیں ہوا ہو گا۔ میرے قدموں کی آہٹ بالفرض وہ سن بھی لے تو بھاگنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ وہ سمجھے گا کہ یہ کوئی اور ‘جانور’ ہے تاہم مجھے اپنی طرف سے پوری ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
دفعتاً میرے کانوں میں وہی مانوس آواز آئی۔ جس کا میں اتنی دیر سے منتظر تھا۔ گوشت بھنبھوڑنے اور ہڈیاں چبانے کی آواز۔۔۔ میرے اعصاب پوری طرح بیدار ہو گئے۔ چند سیکنڈ تک میں اپنی جگہ بے حس و حرکت کھڑا یہ آواز سنتا رہا۔ اس اندھیرے میں اگرچہ میری آنکھیں تھوڑے فاصلے تک بخوبی دیکھنے کی عادی ہو گئی تھیں۔ لیکن عجب بات تھی کہ قطعی پتہ نہ چلتا تھا کہ یہ آواز کس رخ سے آ رہی ہے۔ چیتا بلا شک و شبہ گائے کو ہڑپ کر رہا تھا۔ میں جس جانب آہستہ آہستہ کھسک رہا تھا، یہ آواز اس جانب سے نہیں آ رہی بلکہ میں نے محسوس کیا کہ یہ یا تو میرے عقب میں یا بائیں ہاتھ سے آ رہی ہے۔ ایک لمحے کے لیے میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔ سانس روک کر میں ایک بار پھر گھاس میں لیٹ گیا۔ اور کان اس آواز کی طرف لگا دیے۔ اب صاف معلوم ہوتا تھا کہ آواز بائیں جانب ہی سے آ رہی ہے اور چیتا پچاس ساٹھ گز سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔ میں پھر اسی کے رُخ ایک ایک انچ سرکنے لگا۔ میں نے سوچا کہ اگر چیتا گائے کو گھنی جھاڑیوں میں گھسیٹ کر لے گیا ہے تو اس پر صحیح نشانہ لے کر فائر کرنا بہت مشکل ہے۔ خدا کرے وہ ان جھاڑیوں کے باہر ہی موجود ہو۔ میں جانتا تھا کہ چیتا جب تک گوشت کھانے میں مشغول رہے گا، اسے میری آمد کا پتہ نہیں چل سکے گا۔۔۔ اب میں اس قدر قریب پہنچ چکا تھا۔ کہ ہڈیاں چٹخنے اور چیتے کے جبڑے ہلنے کی آوازوں میں بخوبی امتیاز کر سکتا تھا۔ دفعتاً میرے قدموں تلے ایک سوکھی شاخ چرچرائی اور فوراً ہی آواز بند ہو گئی۔ چیتا یقیناً یہ آہٹ سن چکا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے رائفل کی لبلبی پر انگلی رکھ دی اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے سامنے گھورنے لگا۔ کئی منٹ جو صدیوں پر بھاری تھے گزر گئے۔ ایک بھیانک اور تکلیف دہ سناٹا میرے ارد گرد طاری تھا۔ میں نے اپنے حواس برقرار رکھے اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ کیا چیتا خطرے کی بُو پا کر کسی طرف بھاگ گیا ہے۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مجھے دیکھ چکا ہو اور اب موقع پا کر مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اب آگے بڑھنا خطرناک تھا۔ مجھے یہیں ٹھہر کر چیتے کی آئندہ حرکت کا انتظار کرنا چاہیے اور اسی فیصلے نے میری جان بچا دی۔ چند سیکنڈ بعد یہ آواز تھم گئی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور دہشت کی ایک نئی لہر جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
کوئی ذی روح یقیناً میرے سامنے پھیلی ہوئی لمبی گھاس میں حرکت کر رہا تھا۔ یہ کیا چیز ہے؟ کوئی سانپ یا جنگلی چوہا۔ ممکن ہے یہ آواز چیتے کے چلنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہو۔ میں جانتا تھا کہ چیتا جب اپنے حریف پر چھپ کر حملہ کرنے کے ارادے سے بڑھتا ہے تو دائیں پنجے آگے بڑھا کر پیٹ زمین سے لگا کر سرکتا ہے۔ یقیناً یہ چیتا ہی ہو گا جو میری طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔ یہ خیال مجھے بد حواس کر دینے کے لیے کافی تھا۔ میری پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور آنکھوں کے سامنے شرارے سے رقص کرنے لگے۔ سیاہ چیتا اس اندھیرے میں کسی طرح نظر نہیں آ سکتا تھا۔ میں نے اسی وقت رائفل کی نالی پر لگی ہوئی برقی ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔ تیز روشنی کی لمبی لکیر نے سامنے کا منظر عیاں کر دیا۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اگر ٹارچ روشن کرنے میں چند سیکنڈ تاخیر اور ہوئی ہوتی تو چیتا میرا ٹیٹوا دبا چکا ہوتا تھا۔ ایک ثانیے کے اندر اندر میں نے اسے اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر گھاس میں چھپتے دیکھا۔ وہ اپنا سر باہر نکال کر غرّایا اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔ ٹارچ روشن ہوتے ہی وہ گھبرا کر پیچھے مڑا اور گھاس میں سے گزرتا ہوا دور جا کھڑا ہوا۔ غالباً اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے یہ عجیب و غریب روشنی رات کے وقت جنگل میں دیکھی تھی۔ اس کی غرّاہٹ اب گرج میں تبدیل ہو گئی اور سویا ہوا جنگل لرز اٹھا۔ میں نے فوراً اس کے سر کا نشانہ لیا اور رائفل کی لبلبی دبا دی۔۔۔ گولی چلتے ہی اتنا میں نے دیکھا کہ چیتا فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور پوری قوت سے غرّاتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔ اس کے چیخنے اور گرجنے کی آوازیں کچھ دیر تک سنائی دیں، اس کے بعد جنگل میں پھر وہی موت کی سی خاموشی چھا گئی۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ اسے ضرور گولی لگی ہے وہ زیادہ دور نہیں جا سکے گا۔ بہرحال اس کا تعاقب اس وقت کرنا نا ممکن بات تھی۔ میں نے اس کام کو اگلے روز پر ملتوی کیا اور گاؤں کی طرف واپس ہو لیا۔ اب میں ٹارچ کو بے کھٹکے استعمال کر سکتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹے تک گاؤں میں پہنچ جاؤں گا، لیکن جلد ہی اپنی حماقت کا احساس ہو گیا۔ میں راستہ بھول چکا تھا۔ نہایت ہی پریشانی اور اضطراب کے عالم میں میں سوچنے لگا کہ کدھر جاؤں۔ پھر اس جنگل میں کئی مرتبہ آ چکا تھا اور اس کے مختلف راستوں سے آگاہ تھا۔ مگر اس رات ذہن ایسا بگڑا کہ راستہ بھول کر کہیں کا کہیں جا نکلا۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ بادلوں نے اب کالی گھٹا کی شکل اختیار کر لی تھی۔ مغرب کی طرف بجلی کبھی کبھی کوندتی، تو ایک ثانیے کے لیے جنگل منور ہو جاتا۔ اس کے بعد پھر وہی اندھیرا۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ بارش ہونے سے پہلے پہلے سوانی پلّی پہنچ جاؤں، لیکن کامل ڈھائی گھنٹے تک بھٹکنے اور بارش میں خوب بھیگنے کے بعد میں جنوب کی طرف اس راستے پر ہو لیا جو گاؤں سالورم کو جاتا تھا، لیکن اس راہ میں ایک نئی مصیبت میرا انتظار کر رہی تھی۔
ابھی میں بمشکل نصف فرلانگ ہی چلا تھا کہ دو ریچھ، غالباً نر اور مادہ تھے، میرے دائیں ہاتھ پر بنے ہوئے ایک اندھیرے پہاڑی غار میں سے چیختے چلّاتے برآمد ہوئے۔ میں لپک کر ایک درخت کی آڑ میں کھڑا ہو گیا اور رائفل ان کی طرف تان دی۔ لیکن انہوں نے مجھے نہیں دیکھا، بلکہ میرے قریب سے گزر گئے۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی اور درندہ ان کے تعاقب میں ہے اور وہ درندہ سوائے چیتے کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً وہاں سے واپس ہوا۔ اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا، کیونکہ تھکن کے باعث مجھ میں اب کسی درندے کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ اسی راستے میں ایک پگڈنڈی کے قریب مجھے وہ راستہ مل گیا جو سوانی پلّی کو جاتا تھا۔ رات کے ڈھائی بجے ہانپتا کانپتا اور بارش کے پانی میں بھیگا ہوا گاؤں پہنچا اور گھاس کے ایک اونچے ڈھیر کے اندر گھس کر سو گیا۔
دوسرے روز صبح جب میری آنکھ کھلی تو میرا جسم پھوڑے کی مانند جگہ جگہ سے دکھ رہا تھا۔ گھاس کے ننھّے ننھّے کیڑوں نے جی بھر کر میرا خون چوسا تھا اور جا بجا سرخ سرخ دھبّے سے پڑ چکے تھے۔ میں نے اپنی طبیعت بے پژ مُردہ محسوس کی۔ رانگا سوامی کے گھر سے برتن مانگ کر میں نے اسی گھاس کو جلا کر آگ روشن کی اور چائے کے لیے پانی کھولایا۔ انڈے انہی لوگوں سے خریدے۔ ناشتا کرنے کے بعد جان میں جان آئی۔ اب میں نے گاؤں میں موجود تمام آدمیوں کو جمع کیا اور گزشتہ رات کی مہم سنانے کے بعد درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے مویشیوں کو لے کر جنگل میں چلیں تاکہ چھپے ہوئے چیتے کو جھاڑیوں سے باہر نکالا جا سکے، لیکن افسوس کہ کسی نے اس تجویز پر رضامندی ظاہر نہ کی۔ چیتے کی اس قدر دہشت ان لوگوں کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی کہ کوئی شخص بھی اپنا جانور ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ادھر سے مایوس ہو کر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ کتّا ہی مہیا کر دیں۔ جسے میں اپنے ساتھ لے جا سکوں اور وہ چیتے کا سراغ لگا سکے، مگر لوگوں نے پھر کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ وہ ہرگز اپنے کتّوں کو جنگل میں نہیں جانے دیں گے۔ یہ صورتحال انتہائی مایوس کن تھی۔ مجھے اس وقت غصّہ تو بہت آیا۔ مگر خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو رہا۔ اتنے میں وہی چرواہا ادھر آ نکلا جس کی گائے ایک روز قبل چیتے نے ہلاک کر دی تھی۔ اس نے سارا معاملہ سنا، تو میرے کان میں کہا کہ گاؤں کے پجاری کے پاس ایک بہترین کتیا ہے۔ اگر آپ اسے کچھ روپے دینے پر تیار ہوں تو وہ کتیا ابھی یہاں آ سکتی ہے۔ میں نے فوراً اس کے ہاتھ پر چند روپے رکھ دیے۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور پجاری صاحب کو مع ان کی ‘بہترین’ کتیا کے پکڑ لایا۔ کتیا کو دیکھتے ہی مجھے اپنے روپے ضائع جانے پر صدمہ ہوا۔۔۔ اس کا رنگ بھورا اور قد بہت چھوٹا تھا۔ دونوں کان سروں پر سے کٹے ہوئے تھے۔ البتہ دم بڑی لمبی تھی۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ یہ اس سے پہلے یہ کتیا کبھی جنگل میں کسی مہم پر نہیں گئی تو میں نے واقعی سر پیٹ لیا۔ مجھے بتایا گیا کہ کتیا کا نام ‘خوشیا’ ہے۔ تھوڑی دیر غور و فکر کے بعد میں نے جنگل میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے ساتھ رانگا سوامی چرواہا اور پجاری صاحب بھی بمع اپنی کتیا، جانے کے لیے تیار ہو گئے کیونکہ انہیں مجھ سے اور بھی انعام ملنے کی امید تھی۔
جنگل میں پہنچ کر اب ایک نئی پریشانی سامنے آ کھڑی ہوئی۔ مجھے اب اس راستے کا سراغ نہیں مل رہا تھا جس راستے پر میں گزشتہ رات مارا مارا پھرا تھا۔ ایک بڑی مصیبت یہ تھی کہ رات کے وقت جن جھاڑیوں اور درختوں کو بخوبی دیکھا تھا اور اچھی طرح جن کی شناخت کر لی تھی، اب دن کی روشنی میں ان کی شکلیں بدلی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ چرواہے کو بلا شبہ وہ مقام معلوم تھا جہاں چیتے نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور میں اس کی رہنمائی میں بڑی آسانی سے گائے کی لاش تک پہنچ بھی سکتا تھا۔ لیکن وہاں جانے سے فائدہ نہ تھا۔ میں تو وہ جگہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ جہاں سے میں نے رات کو چیتے پر گولی چلائی تھی۔ اگر آپ کو میری طرح جنگلوں میں کبھی شکار پر جانے کا اتفاق ہوا تو یہ آپ خوب جانتے ہوں گے کہ رات کے وقت جو درخت اور جھاڑیاں ہمیں نظر آتی ہیں، دن کو وہ ویسی دکھائی نہیں دیتیں۔ یہی حال فاصلے کا بھی ہے رات کو جب میں نے پہلی بار چیتے کو دیکھا تو وہ مجھے اپنے سے چند قدم دور کھڑا دکھائی دیا تھا، مگر اب دن کی روشنی میں غور کرنے سے احساس ہوا کہ اس کا فاصلہ مجھ سے کم از کم پچاس گز دور تو ضروری ہی ہو گا۔ مجبوراً چرواہے کی مدد سے گائے کی لاش تک پہنچنے کا راستہ تلاش کیا۔ گائے آدھی سے زیادہ ہڑپ کی جا چکی تھی۔ یہ اندازہ کرنا دشوار تھا کہ آیا چیتا اسے گزشتہ رات سے پہلے پہلے ہی کھا چکا تھا یا وہ دوبارہ بھی ادھر آیا تھا۔ اگر وہ دوبارہ آیا، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ گولی اسے نہیں لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ چیتے مخصوص حالات میں اپنے شکار پر واپس آتے ہیں۔ عین ممکن ہے چیتا رات کو میرے گاؤں واپس جانے کے بعد بھوک سے بے تاب ہو کر دوبارہ یہاں آیا ہو۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ میری گولی سے شدید زخمی ہوا ہو۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے پوری احتیاط سے نشانہ لے کر فائر کیا تھا۔ اس لیے گولی اپنا اثر کر گئی ہو گی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ وہ ایک دائرے کی شکل میں چلیں اور خوب غور سے اِدھر اُدھر دیکھتے جائیں۔ ممکن ہے چیتے کے خون کا کوئی داغ دھبّہ نظر آ جائے۔ تھوڑی دور تک ہم سب اس طرح جھاڑیوں اور لمبی لمبی گھاس میں جھک جھک کر دیکھتے بھالتے آگے بڑھے۔ کتیا نے فوراً اندازہ کر لیا کہ ہم کیا تلاش کر رہے ہیں۔ وہ بھی سونگھ کر آگے دوڑنے لگی اور ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
چند منٹ بعد ہی وہ ایک جگہ ٹھہر کر کچھ سونگھنے اور بے چینی سے چکر کاٹنے لگی۔ بار بار وہ اسی مقام کی طرف جاتی۔ جب میں نے اس جگہ کا بغور معائنہ کیا تو یہ دیکھ کر دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ وہاں جمے ہوئے خشک خون کا ایک بڑا سا دھبّہ موجود تھا۔ مجھے کتیا کی اس صلاحیت پر تعجب ہوا اور اس کے بارے میں اپنے پہلے تاثرات یاد کر کے ندامت بھی ہوئی۔ میں نے اسے پچکارا، گردن پر تھپکی دی تو وہ بھی پیار سے اپنی لمبی دم ہلانے لگی۔ غالباً یہ بتانا چاہتی تھی کہ ہم لوگ جس چیز کی تلاش میں ہیں، اس سے وہ خود بھی غافل نہیں ہے۔
تھوڑی دیر تک کتیا اسی طرح بے چینی سے اِدھر اُدھر گھومتی رہی۔ اس کے بعد تیزی سے ایک طرف دوڑنے لگی۔ ہم سب اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ اب ہمیں جگہ جگہ پتّوں، شاخوں اور گھاس پر چیتے کے خون کے دھبّے دکھائی دیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ درندے کو کاری زخم لگا ہے اور سیروں خون بہہ گیا ہے۔ بعض ایسے مقامات پر جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی تھی اور کافی نمی تھی، چیتے کا خون خشک نہیں ہوا تھا۔ میں نے اسے چھُوا تو یہ پتہ چلا کہ یہ خون نہ تو زیادہ گاڑھا ہے اور نہ زیادہ سرخ ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ چیتے کے جسم کی کسی معمولی سی رگ ہی کو صدمہ پہنچا ہے۔
کتیا تھوڑی دیر بعد مغرب کے رُخ دوڑنے لگی۔ یہ وہی راستہ تھا جدھر کئی سو فٹ لمبی ڈھلوان ندی کے ساتھ ساتھ دور تک چلی گئی تھی۔ اس ندی کا نام انیکل وانکا تھا۔ آگے چل کر ایک دوسری ندی دودا ہالہ نامی اس میں شامل ہو جاتی تھی۔ اس مقام پر ندی کا پاٹ چوڑا اور گہرائی اتنی تھی کہ اچھا خاصا قدِ آدم شخص بھی ڈوب سکتا تھا۔ یہاں سے ایک راستہ گاؤں انچتی کو جاتا تھا۔
گھنے جنگل میں سے گزر کر جب ہم ندی کے کنارے پہنچے، تو وہاں بھی ایک مقام پر چیتے کا خون کافی مقدار میں بکھرا دکھائی دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ندی پار کرنے سے پہلے وہ یہاں دیر تک آرام کر چکا ہے۔ غالباً اتنا خون بہہ جانے کے سبب وہ نڈھال اور کمزور ہو گیا تھا۔ ندی پار کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر گھنے جنگل میں گزرنا پڑا۔ کتیا تیزی سے خار دار جھاڑیوں میں گھس گھس کر اپنا راستہ بنا رہی تھی اور ہم سب کو اس کے تعاقب میں دوڑنا پڑ رہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کانٹوں میں اُلجھ اُلجھ کر ہمارے کپڑے پھٹنے لگے اور جسموں پر جا بجا زخم بھی آئے۔ آخر کتیا کے مالک نے رک کر اپنی پگڑی سر سے اتاری اور اس کا ایک سرا کتیا کے گلے میں باندھ کر دوسرا سرا ہاتھ میں پکڑ لیا۔ چیتے کے جسم سے گرے ہوئے خون کے دھبے مسلسل ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔ خدا خدا کر کے گھنے جنگل سے نکل کر ہم اب نہایت خشک اور سنگلاخ پہاڑی حصّے میں داخل ہوئے جہاں پہاڑیوں کے اندر بے شمار چھوٹے بڑے غار نظر آ رہے تھے۔ یہاں ایک بار پھر چیتا کچھ دیر کے لیے سستایا تھا کیونکہ خون کافی مقدار میں ایک ہی جگہ گرا تھا۔ اور چیتے کے پنجوں کے نشانات بھی پتھروں پر موجود تھے اس کے بعد خون کے چھوٹے بڑے دھبّوں کی ایک لکیر دو سو گز دور پہاڑیوں کے اندر چلی گئی تھی۔ تھوڑی دیر سراغ رسانی کے بعد پتہ چل گیا کہ زخمی چیتا انہی غاروں میں سے ایک غار کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہوا ہے۔ غار کا بہت اونچا اور کھلا ہوا حصّہ جو دروازے کا کام دیتا تھا، دھوپ کے رُخ پر تھا اور ہم دیکھ سکتے تھے کہ اس کی چھتوں پر شہد کی مکھّیوں نے نو دس بڑے بڑے چھتّے بنا رکھے تھے۔ بے شمار مکھّیاں اس وقت بھی غار کے مُنہ پر بھنبھنا رہی تھیں۔ لیکن انہوں نے ہماری طرف کوئی توجہ نہ کی، میں خوب جانتا تھا کہ جونہی ان مکھیوں نے ہماری جانب سے خطرہ محسوس کیا، وہ لاکھوں کی تعداد میں ہم پر ٹوٹ پڑیں گی اور پھر ان کے زہریلے اور سوئی کی مانند نوکیلے ڈنک سے بچنا نا ممکن ہو گا۔ جس کا نتیجہ موت کی صورت میں ظہور پذیر ہو گا۔
اپنے ساتھیوں کو ذرا دو مختلف جگہوں پر چھپ جانے کا اشارہ کر کے میں نے کتیا کو ساتھ لیا اور غار کے منہ پہنچ گیا۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ یہاں اتنی تیز تھی کہ مجھے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لینے پڑے۔ میں نے اس سے بچنے کے لیے اپنی جیب سے رو مال نکالا، اسے پھاڑ کر دو چھوٹی چھوٹی دھجیاں بنائیں اور کانوں کے اندر ٹھونس لیں۔
غار کے اندر جب میں آہستہ آہستہ چلا تو کتیا نے میرے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ خوفزدہ ہو کر ایک گوشے میں چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ چیتے کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے وہ آگے بڑھنے سے کترا رہی ہے۔ میں اسے تھپکی دی تب بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ غار کے اندرونی حصے میں گھپ اندھیرا تھا۔ اب پہلی بار مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ ٹارچ میرے پاس نہ تھی۔ وہ میں گاؤں میں ہی بھول آیا تھا۔ ایک لمحے کے اندر اندر مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یا تو دوبارہ کسی گاؤں جا کر یا کسی کو بھیج کر ٹارچ منگواؤں یا خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی طرح اندھیرے میں زخمی چیتے کا سراغ لگاؤں۔ میں نے ہر چہ بادا باد کہہ کر قریب پڑا ہوا ایک پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے غار کے اندر پھینکا۔ پتھر غار کی کسی دیوار سے ٹکرایا اور ایک گونج سنائی دی۔ کتیا نے یکایک حلق پھاڑ کر بھونکنا شروع کر دیا۔ اسی لمحے وہ موذی چیتا غرّاتا ہوا غار کے ایک گوشے سے نکلا اور میری جانب لپکا۔ رائفل سے یکے بعد دیگرے دو فائر ہوئے۔ دونوں گولیاں چیتے کو لگیں اور وہ قلابازی کھا کر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ لیکن فائر کرنے سے ایک قیامت میرے سر پر گزر گئی۔ شہد کی لاکھوں مکھّیوں کا بے پناہ شور اور پھر ان کا مجھ پر اچانک حملہ۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔۔ اب بھی یاد آتا ہے۔ تو خوف سے بدن کانپنے لگتا ہے۔
مکھیوں کو دونوں ہاتھوں سے جھاڑتا نوچتا ہوا میں اندھا دھند غار سے نکل کر بھاگا۔ کتیا میرے پیچھے پیچھے تھی۔ ہزار ہا مکھّیاں اُسے بھی چمٹ رہی تھیں۔ کئی فرلانگ تک ان مکھّیوں نے میرا تعاقب کیا۔ سینکڑوں مکھیاں میرے کپڑوں کے اندر تک گھس گئی تھیں اور ڈنک مار مار کر انہوں نے مجھے ایسا عذاب دیا کہ میں ایک جگہ منہ کے بَل گرا۔ اور شدتِ تکلیف سے میرا سارا جسم اور چہرہ سوج چکا تھا اور ایک آنکھ بھی وَرم کے باعث بند ہو چکی تھی۔ دوسرے روز میں اپنے آدمیوں کے ساتھ غار میں گیا اور سیاہ چیتے کی لاش اٹھا کر لے آیا۔ بعض سرکاری کاموں کے باعث، جن کی تکمیل ضروری تھی، میرا تبادلہ یکایک بنگلور کر دیا گیا۔ اگرچہ سوانی پلّی کو خیر باد کہتے ہوئے مجھے بے حد افسوس ہو رہا تھا، لیکن دوسری طرف بنگلور کے حسین و شاداب علاقے کی تعریف بھی میں نے سُن رکھی تھی۔ اور خود میں نے کئی بار اس علاقے کی سیّاحت کرنے کا ارادہ بھی کیا تھا، مگر یہ آرزو وقت سے پہلے پوری نہ ہوئی۔
بنگلور، جنوبی ہندوستان کی ریاست میسور کا عرصہ دراز تک دار الحکومت اور بہت بڑی فوجی چھاؤنی رہا ہے اس کے مشرق میں خلیج بنگال اور مغرب میں بحیرۂ عرب واقع ہے۔ بنگلور سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ کی اونچائی پر ایک طویل و عریض سلسلۂ کوہ پر آباد ہے اور عمدہ آب و ہوا کے اعتبار سے جنوبی ہندوستان کا کوئی اور علاقہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہاں کے موسم کی خوبی یہ ہے کہ سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے نہ گرمیوں میں شدید گرمی۔ نہ بارش زیادہ ہوتی ہے۔ اور نہ خشک سالی سے کبھی اُسے واسطہ پڑا ہے۔ اگر آپ یہاں سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے ہو کر چاروں طرف دیکھیں تو آپ کو تین سر بفلک پہاڑ علی الترتیب شمال مغرب میں سینہ تانے کھڑے نظر آئیں گے۔ یہ پہاڑ 35 مربع میل کے دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر پہاڑ کی بلندی چار ہزار فٹ سے زائد ہے۔ شمالی پہاڑ ان میں سب سے اونچا ہے اور اس کی تین چوٹیاں جو ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ اس کا نام تداروگ ہے یہاں ایک قلعہ بنا ہوا ہے۔ جس کے کھنڈر اس زمانے میں بھی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ سیّاحوں کے لیے باعثِ کشش ہیں۔ یہ قلعہ میسور کے سلطان ٹیپو شہیدؒ نے بنوایا تھا جسے لوگ محبت سے ‘شیرِ میسور’ کہا کرتے تھے۔
بنگلور کے شمال مغربی پہاڑ کا نام سوانا گنگا ہے۔ اس کی چوٹی پر ایک مندر بنا ہوا ہے۔ یہاں ہر سال ہندو یاتری کثرت سے آتے ہیں۔ اسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک کنواں بھی موجود ہے جس کے بارے میں طرح طرح کی داستانیں لوگوں میں مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کی گہرائی کا اندازہ آج تک کسی کو نہیں ہو سکا۔ تیسرے پہاڑ کو مگادی کہا جاتا ہے اور یہی وہ پہاڑ ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کی ایک خطرناک مہم کامیابی سے سر کی تھی اور اسی مہم کا قِصّہ آپ ان صفحات میں پڑھیں گے۔ فطرت نے پہاڑ کو دو حصّوں میں اس خوبی سے تقسیم کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دُور سے دیکھیے تو دونوں حصّے اپنی بناوٹ اور بلندی کے اعتبار سے ایک ہی جیسے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ڈھلوان وادی میں ایک اتنا گھنا جنگل ہے کہ اسے آسانی سے عبور نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ یہ بلندی سے ایک دم نیچے اترتا ہے اور یہاں پھسلن بہت زیادہ ہے اس لیے ذرا سی بے احتیاطی آپ کو تحت الثّریٰ میں پہنچا سکتی ہے۔ نہ جانے کتنے ہی بد نصیب افراد اس جنگل نے نگل لیے ہیں اور یہی وہ جنگل تھا جس کے اندھیرے غار میں وہ زبردست چیتا رہتا تھا۔ جس کا ذکر سنتے ہی بستی کے لوگ دہشت سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔
مگادی کے علاقے کا جب میں نے پہلے پہل سروے کیا تو خود میری سٹّی بھی گم ہو گئی۔ واقعی نہایت ہی خطرناک اور ڈراؤنا جنگل تھا۔ خصوصاً اس کا جنوبی حصہ تو ایسا ہے جہاں قدم رکھتے ہوئے خوف معلوم ہوتا تھا۔ یہاں سے لے کر دریائے کاویری تک ستّر میل دور یہ گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ جس میں ہزارہا چیتے اور ریچھ بستے تھے۔ حکومت کے محکمۂ جنگلات کی فائلوں میں اسے ‘محفوظ جنگل’ کے عنوان سے درج کیا جاتا تھا۔ اس جنگل کے اندرونی حِصّے میں تقریباً نصف فاصلے پر کھلی جگہ میں پاس پاس دو گاؤں آباد تھے۔ جن کے نام کانریت اور کھان ہالی تھے۔ اپنے زمانہ قیام کے دوران یہاں میرے 23 سالہ بیٹے نے چالیس چیتے اور ایک درجن لگ بھگ ریچھ ہلاک کیے۔ میرے ‘کارنامے‘ اس کے علاوہ ہیں۔
مگادی پہاڑ کا مغربی حِصّہ اتنا گھنا اور خطرناک نہیں تھا۔ یہاں درندوں کی بجائے سیاہ ہرن، خرگوش، مور، تیتر، بٹیر اور اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے جانوروں کی بڑی کثرت تھی۔ مغربی حصّہ پھیل کر نشیب میں شمال تک چلا گیا تھا۔ مگادی کے مشرق میں 35 میل کے فاصلے پر بنگلور آباد تھا۔ اسی راستے کے تیئیسویں میل پر کارواتی نام کی ایک چھوٹی سی ندی بہتی تھی۔ حکومت نے اس ندی کے گرد بند باندھ دیا تھا کہ اس کا پانی بنگلور کے لوگوں کی ضروریات پوری کر سکے۔ یہاں سے سڑک کے ساتھ ساتھ 23 میل لمبی ایک پائپ لائن لگائی تھی جس کے ذریعے ضرورت کے وقت پانی بنگلور سپلائی کیا جاتا تھا۔
ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ مگادی کے دامن میں بسی ہوئی آبادیوں کی دو تین بکریاں ایک چیتے نے ہلاک کر دی ہیں۔ اس علاقے کے باشندوں کے لیے یہ حادثہ نیا نہ تھا۔ وہ پشت ہا پشت سے جنگل کے انہی درندوں کے ساتھ رہتے آئے تھے۔ اور ان کی عادتوں سے خوب واقف تھے۔ چند روز بعد چیتے نے، جو اپنے پہلے کارنامے پر نڈر ہو چکا تھا، بستی کے مویشیوں پر حملہ کیا اور یکے بعد دیگرے دو طاقتور بیل اور دو گائیں مار ڈالیں۔ چیتے کی یہ حرکت ناقابلِ معافی تھی۔ کیونکہ ہندو لوگ اپنے بیلوں اور مویشیوں اور گایوں کو دیوتا سمجھ کر پوجتے ہیں اور یہی جانور ایسے ہیں جو ان لوگوں کی پرورش کا بُوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ بیل ان کے کھیتوں میں ہل چلاتے ہیں۔ گائیں دودھ دیتی ہیں۔ جس سے مکھّن اور گھی بنایا جاتا ہے۔ ہندو لوگ اسی لیے گائے کو ‘گؤ ماتا’ کہتے ہیں اور اس کا گوشت کھانا تو درکنار، چھونا بھی حرام جانتے ہیں۔
اب اس عجیب قِصّے کے‘ ہیرو’ کا تعارف آپ سے کراتا ہوں۔ بنگلور میں ایک شخص مان سوامی رہتا تھا۔ یہ نہایت مکّار اور بدمعاش آدمی تھا۔ بنگلور میں رہنے والے انگریز افسروں کو جو شکار کے فن میں اناڑی اور نا تجربہ کار ہوتے تھے، شکار کی جھوٹی سچّی خبریں پہنچا کر انعام کے طور پر روپے اینٹھ لینا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ جنگل سے متعلق اس کا تجربہ وسیع تھا۔ اور اس لیے وہ مبتدی شکاریوں کو شیشے میں آسانی سے سے اتار لیتا تھا۔ اس کے ترغیب دلانے کا انداز یہ تھا:
‘سر۔۔۔ میں آپ کے لیے بہترین خوش خبری لایا ہوں۔ یہاں سے صرف بارہ میل کے فاصلے پر چالیس سُوروں کا ایک گروہ جنگل میں گھوم رہا ہے، یا وہ کہتا ‘ماسٹر۔۔۔ مگادی روڈ کے دسویں میل پر اور شہر میسور کی سڑک کے اٹھارویں میل پر بے شمار سیاہ ہرن موجود ہیں۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا ہوں، آپ تین چار ہرن آسانی سے شکار کر سکتے ہیں۔ ماسٹر! اگر آپ نے یہ موقع کھو دیا تو مجھے بہت افسوس ہو گا۔‘
شکاری ان چکنی چپڑی باتوں سے خوش ہو کر شکار پر جانے کے لیے فوراً آمادہ ہو جاتا۔ تب مان سوامی مطالبہ کرتا کہ اسے یہ خبر پہچانے کے عوض اتنے روپے ادا کیے جائیں۔ صاحب سے پندرہ بیس روپے وصول کر کے مان سوامی اسے جھانسا دیتا کہ آپ سامان وغیرہ تیار کیجیے۔ میں آپ کو جنگل میں فلاں مقام پر ملوں گا۔۔۔ یہ کہہ کر رفو چکر ہو جاتا۔ بے چارہ شکاری جنگل میں اِدھر اُدھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد جب مقر رہ مقام پر پہنچا تو اسے مان سوامی تو مل جاتا، مگر کالے ہرن یا پلے ہوئے سوروں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ اس سے پیشتر کہ شکاری غُصّے میں آئے، مان سوامی الٹا ناراض ہونے لگتا:
‘ماسٹر! آپ کبھی اچھے شکاری نہیں بن سکتے۔۔۔ آپ کو بنگلے سے فوراً روانہ ہو جانا چاہیے تھا۔ آپ نے اتنی دیر کر دی۔ کل ہی بہت سے بڑے بڑے فوجی آفیسرز اپنی موٹروں میں آئے تھے، انہوں نے بہت سے ہرن اور سُور مارے، باقی سب بھاگ گئے۔۔۔ اب آپ بنگلے پر واپس جائیے۔ میں ان ہرنوں کو تلاش کرتا ہوں۔ چند روز تک آپ کو اطلاع دوں گا اور بد نصیب شکاری اپنا سا منہ لے کر لوٹ جاتا۔ ایک ڈیڑھ ہفتے انتظار کے بعد مان سوامی ایک اور بنگلے پر پہنچتا اور صاحب سے سامنا ہوتے ہی جوش سے چلّاتا: ‘صاحب۔۔۔ جناب۔۔۔ سر۔۔۔ میں آپ کے لیے ایک زبردست خبر لایا ہوں۔ ابھی تک کسی کو نہیں پتہ چلا۔ جلدی کیجیے سر۔۔۔ ورنہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔۔۔ یہاں سے پندرہ میل دور ایک بہت بڑا چیتا جنگل میں گھوم رہا ہے۔۔۔ آپ اسے آسانی سے شکار کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ کھانا کھالی کی سڑک پر ہے، اگر آپ مجھے صرف دس پندرہ روپے دے دیں، تو مَیں یہ چیتا آپ کے سامنے حاضر کر دوں گا۔ صاحب۔۔۔ میں اس روپے سے ایک گدھا بھی خریدوں گا۔۔۔ اور گدھے کو جنگل میں باندھ دوں گا۔ چیتا اُسے مار ڈالے گا۔۔۔ پھر میں آپ کو یہ اطلاع دینے آؤں گا۔۔۔ میں آپ کے لیے بہت مضبوط مچان بھی تیار کر سکتا ہوں۔‘
یہ خبر سُن کر شکاری کے منہ میں پانی بھر آتا وہ سوچتا کہ یہ سودا تو بڑا سستا ہے، صرف پندرہ روپے خرچ سے چیتے کا شکار ہو جائے گا۔۔۔ اور وہ زیادہ دور بھی نہیں، پندرہ میل کا فاصلہ ہے۔۔۔ وہ فوراً جیب سے پندرہ روپے نکال کر مان سوامی کے حوالے کرتا اور کہتا کہ جلدی جاؤ۔ گدھے کا انتظام اور مچان وغیرہ باندھنے کی تیاری کرو۔۔۔ مان سوامی ان روپوں کے علاوہ دو روپے اپنے کھانے پینے کا خرچ اور تین روپے بس کا کرایہ وصول کرتا اور صاحب سے وعدہ کر کے چند دنوں تک چیتے کے متعلق تازہ خبر لائے گا وہاں سے رفو چکّر ہو جاتا۔ روپے جیب میں رکھتے ہی مان سوامی سیدھا تاڑی خانے پہنچتا۔ اوپر تلے تین بوتلیں چڑھا کر وہیں انٹا غفیل ہو جاتا۔ چوبیس گھنٹے تک گہری نیند سونے کے بعد وہ اٹھتا اور وہاں سے بنگلور کے ایک کانجی ہاؤس میں جاتا جہاں آوارہ کُتّے اور لا وارث گدھے نیلام کیے جاتے تھے۔ یہاں سے وہ ایک یا دو روپے میں کوئی مرگھلا سا گدھا خریدتا اور اسے لے کر جنگل میں اس مقام پر باندھ آتا جہاں وہ چیتے کے گھومنے کا فرضی قِصّہ صاحب کو سنا چکا ہوتا۔ دو روز تک گدھا وہیں بھوکا پیاسا بندھا رہتا۔ تیسرے روز مان سوامی علیٰ الصبح وہاں جاتا۔ اور گدھے کو خود ہی ہلاک کر ڈالتا۔ پھر وہ ایک خاص طرز کے چاقو اور گھوڑے کے سموں میں لگائے جانے والے تیز نعل کے ذریعے مُردہ گدھے کے جسم پر چیتے کے پنجوں کے مصنوعی نشان اس چابکدستی اور مہارت سے بناتا کہ ناواقف شکاری فوراً دھوکا کھا جاتا۔ اس کاروائی کے بعد وہ گدھے کا پیٹ پھاڑ کر آنتیں ادھر ادھر بکھیر دیتا۔ پھر لاش گھسیٹ کر جھاڑیوں کے اندر لے جاتا اور وہاں اسی طرح چھپاتا جس طرح چیتا اپنے شکار کی لاش چھپاتا ہے۔ اس کے بعد مان سوامی اپنے تھیلے میں سے ایک عجیب و غریب شے باہر نکالتا۔ ذرا سوچیے کہ وہ کیا شے ہو سکتی ہے۔ یہ در اصل کسی مرے ہوئے چیتے کا پنجہ تھا، جو ہمیشہ مان سوامی کے کام آتا، اس پنجے کے ذریعے وہ گدھے کی لاش کے ارد گرد اور ذرا فاصلے تک جا بجا نشان بنا دیتا! اس مہم سے فارغ ہو کر وہ بنگلور جانے والی بس پر چند آنے کا ٹکٹ خرید کر سوار ہوتا اور صاحب کے بنگلے پر پہنچ کر نہایت ڈرامائی انداز میں چیتے کے آنے اور گدھے کے پھاڑ کھانے کی لرزہ خیز داستان بیان کرتا۔ صاحب خوش ہو کر مان سوامی کی نہ صرف چائے اور انڈوں سے تواضع کرتا بلکہ اُسے پانچ دس روپے انعام بھی دیتا۔ اس کے بعد صاحب جلدی جلدی سفر کی تیاری کرتا۔ اپنی رائفل، زائد کارتوس، ٹارچ اور اسی طرح کی ضروری و غیر ضروری چیزوں کو تھیلے میں بھرتا اور مان سوامی کے ساتھ اپنی موٹر میں بیٹھ کر اس چیتے کے تعاقب میں نکل جاتا جس نے ‘اسی روز’ گدھے کو ہلاک کیا تھا۔
جائے حادثہ پر پہنچ کر صاحب کا اضطراب حد سے بڑھ جاتا۔ مان سوامی اسے چیتے کے پنجوں کے نشان دکھاتا، پھر وہ جھاڑیوں میں چھپی ہوئی گدھے کی لاش ڈھونڈ نکالتے۔ مان سوامی صاحب کو وہیں چھوڑ دوڑا دوڑا قریبی بستی میں جاتا اور دو قلیوں کو بلا لاتا۔ ان کی مدد سے وہ وہیں ایک درخت پر صاحب کے لیے مچان باندھتا اور مچان باندھنے کا معاوضہ پانچ روپے وصول کرتا۔ لیکن قلیوں کو وہ بارہ بارہ آنے دے کر ٹرخا دیتا۔۔۔ صاحب کو مچان پر چڑھا کر وہ تاکید کرتا:
‘دیکھیے سر آپ رائفل سنبھال کر یہیں بیٹھیے، چیتا لاش کو کھانے ضرور آئے گا۔ اگر آپ نے ہوشیاری سے کام لیا تو وہ بچ کر نہیں جا سکتا۔ میں صبح آؤں گا، یہ کہہ کر وہ بیچارے شکاری کو مچان پر اونگھنے اور مچھروں کو اڑانے کے لیے چھوڑ جاتا۔۔۔ شکاری پر ایک ایک لمحہ قیامت کا گزرتا، ذرا سی آہٹ بھی ہوتی تو وہ چونک کر جھاڑیوں گھورنے لگتا۔ کبھی سے رائفل سے نشانہ لیتا اور کبھی گھبراہٹ میں ٹارچ روشن کر کے اپنا اطمینان کرتا کہ گدھے کی لاش ویسے ہی پڑی ہے اور چیتا ابھی نہیں آیا، لیکن چیتا وہاں ہوتا تو آتا۔ غرض کہ ساری رات اس تماشے میں بیت جاتی اور صبح جب مان سوامی صاحب کی خبر لینے آتا تو صاحب کو مچان پر سوئے ہوئے پاتا وہ آواز دے کر انہیں جگاتا اور کہتا:
‘صاحب! شاید چیتا نہیں آیا۔۔۔ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ وہ بہت عیّار اور مکّار جانور ہے۔ اُسے یقیناً شبہ ہو گیا کہ ایک شکاری میری تاک میں بیٹھا ہے۔ آپ فکر نہ کیجیے، آج رات وہ ضرور آئے گا۔ مگر اناڑی شکاری اس ایک رات ہی میں ‘چیتے کے شکار’ کا ایسا لطف اٹھا چکتا تھا کہ دوسری رات مچان پر جاگنا اسے ناقابل برداشت عذاب دکھائی دیتا اور پھر کبھی آنے کا وعدہ کر کے مان سوامی کو ایک گدھا خریدنے کے لیے پانچ روپے دے کر رخصت ہو جاتا۔ غرضیکہ اسی طرح یہی ڈرامہ بار بار دہرایا جاتا۔ حتیٰ کہ شکاری چیتے کے شکار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توبہ کر لیتا اور خرگوشوں اور تیتروں کو مارنے پر ہی اکتفا کرتا۔ مان سوامی کی ان چالبازیوں کا مجھے بھی یوں علم ہوا کہ ایک مرتبہ اس نے مجھے فرضی چیتے کا جھانسہ دے کر بیوقوف بنایا تھا۔ وہ تو اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے اس کے تھیلے میں رکھا ہوا چیتے کا پنجہ دیکھ لیا۔ اور جب مان سوامی کو ذرا دھمکایا، تو اس نے سچ سچ سارا ماجرا کہہ سنایا اور بعد میں گڑگڑا کر کہنے لگا:
‘صاحب مجھے معاف کر دیجیے۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ آپ سے کوئی دھوکا نہیں کروں گا۔۔۔ کیا کروں صاحب، اس پیٹ کی وجہ سے مجبور ہوں۔ یہی میرا دھندا ہے۔ آپ جیسے صاحبوں کے ذریعے چار پیسے کما لیتا ہوں۔‘
مجھے ہنسی آ گئی اور میں نے صدق دل سے اسے معاف کر دیا اور کہا: ‘میں تمہارے دھندے کو تباہ نہیں کرنا چاہتا، تم دوسرے اناڑی شکاری کو جی بھر کر بیوقوف بناتے رہو، مجھے کوئی سروکار نہیں، لیکن اگر تم نے میرے ساتھ آئندہ فریب کیا تو تم جانو گے۔‘
میں نے مان سوامی جیسی انوکھی اور دلچسپ شخصیت کا تفصیلی تعارف اس لیے کرایا ہے کہ یہ قِصّہ جو میں بیان کرنے والا ہوں، اس کا ‘ہیرو’ در اصل وہی ہے۔
مگادی کے اس چیتے کی ہلاکت خیز سرگرمیوں کی خبر مان سوامی کے کانوں تک بھی پہنچی۔ اس نے سوچا کہ مبتدی شکاریوں کو پھانسنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔ اس خبر کی تصدیق کے لیے وہ فوراً بس کے ذریعے مگادی گیا اور لوگوں سے پوچھ گچھ کر کے اچھی طرح تسلّی کر لی کہ واقعی اس چیتے نے کئی بکریوں اور گایوں کو ہلاک کیا ہے۔ مگر اب اس کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی۔ مان سوامی کا نام یورپین شکاریوں میں شیطان کی طرح مشہور ہو چکا تھا۔ اگرچہ وہ مختلف ناموں سے ان کو دھوکہ دیتا رہا تھا، مگر اس کی شکل و صورت سے سب ہی واقف تھے۔ وہ یہ خبر لے کر ایک درجن شکاریوں کے پاس گیا۔ مگر کسی اس کی بات پر کان نہ دھرا اور یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ تم ہمیشہ جھوٹ بولتے رہے ہو بھاگ جاؤ، ورنہ تمہیں پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔
یہ صورتِ حال مان سوامی جیسے مکّار شخص کے لیے بڑی مایوسی کن تھی۔ اسے اپنا دھندا خطرے میں دکھائی دینے لگا، مگر وہ آسانی سے ہار ماننے والا آدمی نہ تھا۔ سوچتے سوچتے ایک تدبیر اس کے ذہن میں آ ہی گئی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی مٹتی ہوئی شہرت کو سہارا دینے کے لیے اس چیتے کو کیوں نہ خود ہی مارا جائے۔ اگر چیتا میرے ہاتھوں مارا گیا تو پو بارہ ہیں۔ میں پھر بڑے فخر سے ان شکاریوں کو بتا سکوں گا۔ میں نے جو خبر دی تھی وہ صحیح تھی۔ اس معاملے پر وہ جتنا غور کرتا، اتنا ہی اسے اپنی کامیابی کا یقین ہوتا گیا۔ اس نے پروگرام بنایا کہ چیتے کو مارنے کے بعد وہ اسے ایک جلوس کی شکل میں سارے علاقے میں نمائش کے لیے لے جائے گا۔ اس کے ساتھ اپنی تصویریں اتروا کر دوسرے یورپین شکاریوں کو ڈاک کے ذریعے بھیجے گا۔ اور پھر اپنا تفصیلی تعارف بھی کرائے گا کہ مان سوامی شکاری نے فلاں جنگل میں فلاں مقام پر ایک چیتے کو مارا۔
مان سوامی کے پاس کسی زمانے میں ایک بندوق ہوا کرتی تھی، وہ اس نے تاڑی پینے کے لیے بیچ دی تھی۔ اب چیتے کو مارنے کے لیے اسے ایک رائفل کی جستجو ہوئی۔ اس نے ایک انگریز شکاری کی منّت سماجت کر کے چند روز کے لیے پرانی بارہ بور کی دو نالی بندوق حاصل کی۔ اور اپنی پرانی خاکی وردی پہن کر جو کسی صاحب کا عطیہ تھا، اسی گاؤں میں جا پہنچا۔ جہاں چیتے نے بکریاں ہلاک کی تھیں۔ گاؤں والوں پر اس نے خوب رعب گانٹھا کہ کوئی معمولی شکاری نہیں ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں شیر اور چیتے مارے ہیں۔ بڑے بڑے فوجی ‘جرنیلوں، کرنیلوں‘ اور وائسرائے صاحب بہادر تک کو مَیں نے اپنے ساتھ لے جا کر شکار کھیلنے کے طریقے بتائے ہیں۔ اب میں اس چیتے کا قِصّہ پاک کرنے آیا ہوں، جس نے تمہاری بکریاں اور گائیں مار ڈالی ہیں، اور مَیں اس وقت تک اس گاؤں سے نہیں جاؤں گا جب تک چیتے کو ہلاک نہ کر دوں گا۔ تم لوگوں کا فرض ہے کہ اس جان جوکھوں والے کے کام میں میری مدد کرو۔ جونہی چیتا کسی مویشی پر حملہ کرے مجھے فوراً خبر کرو۔
دیہاتیوں پر اس تقریر کا خاصا اثر ہوا انہوں نے مان سوامی کی ‘بہادری’ اور تجربے کی داستانیں اکثر سُنی تھیں، اس لیے انہوں نے نہ صرف اس کے ٹھہرنے کا بندوبست کیا بلکہ اپنے پاس سے کھانے پینے کا خرچ اٹھانے پر بھی رضامند ہو گئے۔ دو روز بعد اطلاع آئی کہ چیتے نے ایک اور گائے کو ہلاک کر دیا ہے۔ مان سوامی کیل کانٹے سے لیس ہو کر فوراً جائے حادثہ پر پہنچا۔ گائے کی لاش سے تھوڑی دور ایک مضبوط درخت پر اس نے مچان باندھا اور چیتے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ سورج غروب ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی چیتا بھوک سے بے تاب ہو کر گائے کی لاش پر آیا اور اطمینان سے ہڈیاں چبانے لگا۔ مان سوامی نے ٹارچ جلائی۔ چیتا اس سے صرف دس پندرہ گز کے فاصلے پر کھڑا ہوا تھا۔ اس سے پیشتر کہ چیتا خطرے کی بو پا کر فرار ہو، مان سوامی نے بندوق چلا دی۔ نشانے کا کچّا تھا، اس لیے گولی چیتے کو زخمی کرتی ہوئی نکل گئی۔۔۔ اب مان سوامی صاحب میں اتنی جرأت تو نہ تھی کہ وہ زخمی چیتے کا تعاقب کرتے۔ ساری رات مچان پر بیٹھے رہنے کے بعد وہ صبح جب گائے کی لاش کے قریب گیا تو وہاں چیتے کے خون کے دھبے موجود تھے۔ گاؤں پہنچ کر اس نے اپنے کارنامے کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا کہ چیتا شدید زخمی ہو کر بھاگا ہے اور یقیناً کسی جھاڑی کے اندر مر چکا ہو گا۔ گاؤں والوں نے مل جل کر وہ تمام حصہ چھان مارا مگر چیتے کی لاش نہ پائی۔ مان سوامی کسی بہانے وہاں سے غائب ہو گیا۔
کئی ہفتے بیت گئے۔ اس دوران میں چیتے کے بارے میں کوئی نئی خبر سننے میں نہ آئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چیتا واقعی مر چکا ہے۔ لیکن یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی۔ جب ایک روز دوپہر کے وقت مگادی سے 22 میل دور کلوزپیٹ کے مقام پر ایک چیتے نے نہ صرف بکریوں کے ایک ریوڑ پر حملہ کیا بلکہ چرواہے اور اس کے کم سِن لڑکے کو بھی سخت زخمی کیا۔ اسی روز شام کو ایک حادثہ پیش آیا۔ میسور سے رات کو آنے والے ٹرین سے تین مسافر کلوزپیٹ ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ انہیں وہاں سے دس میل دور ایک گاؤں میں فوری طور پر پہنچنا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں میں بس سروس شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے جنگل میں سفر کرنے کے لیے ٹٹو گاڑی چلتی تھی۔ ٹٹو گاڑی ان تین مسافروں کو لے کر خیریت سے گاؤں میں پہنچ گئی۔ گاڑی بان نے سوچا کہ رات اسی گاؤں میں گزار کر وہ علی الصبح کلوزپیٹ واپس چلا جائے گا۔ اس نے ٹٹو کو گاڑی سے کھول کر ایک جانب کھڑا کر دیا اور تھوڑی سی گھاس اس کے آگے ڈال کر سونے کے لیے گاؤں روانہ ہو گیا۔ ٹٹو نے تھوڑی دیر بعد گھاس ختم کر دی، لیکن اس کی بھوک ابھی زوروں پر تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا مزید گھاس کی تلاش میں پہلے گاؤں کی گلیوں میں گھومتا رہا۔ پھر جنگل کی جانب نکل گیا۔ ادھر خونخوار چیتا اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس نے ٹٹو پر حملہ کیا اور اس کی گردن اپنے منہ میں دبا لی۔ ٹٹو بھی خوب پلا ہوا تھا۔ اس نے جھٹکا دے کر اپنی گردن چیتے کے جبڑے سے آزاد کرا لی اور بگٹٹ گاؤں کی طرف بھاگا۔ چیتا غرّاتا ہوا اس کے تعاقب میں آیا۔ مگر اتنی دیر میں گاڑی بان اور دوسرے لوگ چیتے کی آواز سن کر جاگ چکے تھے۔ وہ سب اپنے گھروں سے نکل آئے تو چیتا بھاگ گیا۔ ٹٹّو لہولہان ہو چکا تھا۔ اس کی گردن میں چیتے کے لمبے دانتوں کے دو بڑے بڑے گھاؤ پڑ گئے تھے۔ اس کا سارا بدن خشک پتّے کی مانند کانپ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دھم سے گر پڑا اور دم توڑ دیا۔
دوسرے روز گاڑی بان نے کلوزپیٹ پہنچ کر پولیس چوکی میں چیتے کی رپورٹ درج کی کہ اگر اسے جلدی ہلاک نہ کیا گیا تو وہ آدمیوں کو بھی اپنا لقمہ بنانے لگے گا۔ ارد گرد کے علاقے میں چونکہ ایسی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں، اس لیے دیہاتی لوگ خطرے کی پروا کیے بغیر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں آتے جاتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اسی روز چیتے نے ایک راہ گیر کو جنگل میں آ لیا۔ اس کے سینے اور پشت پر چیتے نے اپنے پنجوں سے گہرے زخم لگائے۔ چیتا یقیناً اُسے مار ہی ڈالتا اگر موقع پر اتفاق سے دو راہ گیر نہ پہنچ گئے ہوتے ! انہوں نے اس بے ہوش زخمی دیہاتی کو مگادی کے ہسپتال میں پہچانے کے ساتھ ساتھ پولیس چوکی کے انچارج سارجنٹ کو اطلاع دے دی۔ سارجنٹ پولیس نے اس رپورٹ پر فوری کاروائی کی۔ ایک سائیکل سوار کانسٹیبل کو لے کر جائے واردات پر جا پہنچا۔ وہاں چیتے کے پنجوں کے نشان اور انسانی خون کے جمے ہوئے بڑے بڑے دھبّے یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھے کہ چیتے نے دیہاتی سے خوب زور آزمائی کی ہے۔ وہاں چند تماشائی دیہاتی بھی جمع تھے۔ یکایک ان میں سے ایک نے سارجنٹ سے کہا: ‘وہ دیکھیے جناب، سامنے اس پہاڑی پر چیتا بیٹھا ہوا ہے‘، واقعی دو فرلانگ دُور ایک پہاڑی ٹیلے پر چیتا اطمینان سے بیٹھا انہی لوگوں کی جانب دیکھ رہا۔ سارجنٹ نے سپاہی کو حکم دیا کہ کہ پولیس چوکی جائے اور رائفل لے کر جلد سے جلد واپس آئے۔ لیکن جتنی دیر میں سپاہی رائفل لے کر آیا، چیتا وہاں سے غائب ہو چکا تھا یہ اعشاریہ 303 کی رائفل تھی۔ اسی رائفلیں اس زمانے میں پولیس اور فوج میں اکثر استعمال ہوتی تھیں اور اس میں صرف ایک ہی کارتوس بھرا جاتا تھا۔ دوسرا فائر کرنے کے لیے پھر کارتوس میگزین میں بھرنا پڑتا تھا۔ سارجنٹ نے سوچا کہ چیتا ضرور اس ٹیلے کے عقب میں چھُپ گیا ہے۔ اگر ذرا کوشش کی جائے، تو اس کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ پس اس نے رائفل ہاتھ میں لی، چند زائد کارتوس جیب میں ڈالے، دو تین دیہاتیوں اور سپاہی کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ پہاڑی ٹیلے کی طرف بڑھا۔ آدھ گھنٹے تک سارجنٹ اس پہاڑی کے گرد و نواح میں چیتے کو ڈھونڈتا رہا۔ جوش اِضطراب میں اس نے اپنے ساتھیوں پیچھے چھوڑ دیا اور خود کافی آگے بڑھ گیا۔ یکایک ایک ٹیلے کے عقب سے خونخوار چیتا دبے پاؤں نکلا اور عقب سے سارجنٹ پر حملہ کر دیا۔ سارجنٹ حواس باختہ ہو گیا، رائفل ہاتھ سے چھُوٹ کر گر گئی۔ آن واحد میں چیتے نے اسے زمین پر لٹا کر اس بُری طرح سے پنجے مارے کہ سارجنٹ بے ہوش ہو گیا۔ اس کے جسم سے سیروں خون نکل چکا تھا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ چیتا اس وقت تک مردم خور نہیں ہوا تھا۔ اس نے جب محسوس کیا کہ حریف بے بس ہو چکا ہے تو وہ چھلانگیں لگاتا اور غرّاتا ہوا ایک طرف بھاگ گیا۔ دیہاتیوں اور سپاہی نے اگرچہ چیتے کو سارجنٹ پر حملہ کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا مگر ان کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ دوڑتے اور چیتے کو ڈرانے کی کوشش کرتے۔ جب چیتا بھاگ گیا، تو وہ لرزتے کانپتے وہاں آئے اور بے ہوش ہو کر سارجنٹ کو اٹھا کر پہلے پولیس چوکی اور پھر ہسپتال لے گئے۔ اگلے روز اسے بنگلور کے وکٹوریہ ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ کیونکہ زخم بہت گہرے تھے۔ سارجنٹ کو وہاں خون دیا گیا ورنہ وہ یقیناً مر جاتا۔
چیتے کی ان سرگرمیوں سے مگادی ہلز کے پورے علاقے میں خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی۔ معاملہ بنگلور کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تک پہنچا اور اس نے فوری تحقیقات کا حکم دیا۔ پولیس نے آتے ہی مان سوامی کا ٹینٹوا دبایا، کیونکہ اس نے سب سے پہلے مچان باندھ کر چیتے پر گولی چلائی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ مان سوامی کے پاس بندوق کہاں سے آئی؟ کس نے دی؟ اس کے پاس لائسنس تھا؟ مان سوامی کے حواس گُم ہو گئے، کیونکہ اس کے پاس بندوق کا لائسنس نہ تھا۔ مگر ڈی ایس پی اس شخص کے بارے میں کئی کہانیاں سن چکا تھا۔ اس نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ مان سوامی سے کہنے لگا! دیکھو۔۔۔ تمہارے خلاف جرم بہت سنگین ہے۔ اگر سارجنٹ مر گیا تو تمہیں پھانسی کی سزا ہو گی۔ اب یہ ایک ہی تدبیر سے تمہاری جان بچ سکتی ہے۔ میں تمہیں چار دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر اس عرصے میں تم چیتے کو ہلاک کر کے اس کی لاش ہمیں دکھا دو، تو تمہاری جان بخشی ہو سکے گی، ورنہ۔۔۔‘ مان سوامی بیچارہ مرتا کیا نہ کرتا اسے قول دینا پڑا کہ وہ چار دن کے اندر اندر چیتے کو مارنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اگر وہ کامیاب نہ ہوا تو پولیس کو اختیار ہو گا کہ جیسا چاہے سلوک کرے۔۔۔ جیل سے نکلتے ہی مان سوامی فوراً میرے بنگلے پر آیا۔ اس کے چہرے کا رنگ خوف سے سپید تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں دل ہی دل میں خوش ہوا۔ کم بخت بڑا چالاک اور مکّار بنا پھرتا تھا۔ اب چھٹی کا دودھ یاد آئے گا۔ مجھے دیکھتے ہی سرکار سرکار کہہ کر میرے قدموں پر گر پڑا اور چِلّایا، ‘میری جان بچائیے صاحب۔۔۔ میں ساری زندگی آپ کا غلام رہوں گا۔‘
میں نے انجان بن کر پوچھا۔ ‘خیر تو ہے مان سوامی؟ تم پر کیا افتاد پڑی جو یوں پریشان ہو؟ کیا کوئی رشتے دار مر گیا ہے۔‘
‘جی نہیں سرکار۔۔۔ میرا تو کوئی رشتے دار اس دنیا میں نہیں جو میری جان کو روئے گا۔۔۔ آپ نے اس چیتے کا ذکر تو سنا ہو گا۔ جس نے ابھی چند روز پہلے پولیس کے ایک آفیسر کو زخمی کیا ہے۔۔۔ مجھے ڈی ایس پی صاحب نے پکڑ کر جیل میں بند کر دیا تھا، کیونکہ میں نے بغیر لائسنس کی بندوق سے اس چیتے کو زخمی کیا تھا۔۔۔ مجھے پھانسی ہو جائے گی صاحب۔۔۔ میری جان اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ انہوں نے مجھے چار دن کی مہلت دی ہے کہ اس دوران میں چیتے کو مار کر اس کی لاش ڈی ایس پی کے حوالے کر دوں۔‘
میں نے مسکرا کر کہا۔ ‘تو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟ تم چپکے سے کہیں رو پوش ہو جاؤ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔ جب یہ قصّہ رفع دفع ہو جائے تو واپس آ جانا۔‘
‘صاحب، یہ آپ کیا کہتے ہیں۔۔۔ پولیس مجھے کہیں نہ چھوڑے گی۔۔۔ اور یہاں سے بھاگ کر میں جا بھی کہاں سکتا ہوں؟ یہیں پیدا ہوا پلا، بڑھا اور اب بوڑھا ہونے کو آیا۔ مجھے اس زمین کے چپّے چپّے سے محبّت ہے۔۔۔ میرا روزگار یہیں لگا ہوا ہے۔ آپ جیسے صاحب لوگوں کے ٹکڑوں پر پڑا ہوا زندگی کاٹ رہا ہوں۔۔۔‘ یہ کہتے ہی وہ پھر زار زار رونے لگا۔ میں نے سنجیدگی سے اس صورتحال پر غور کیا کہ کیا مجھے مان سوامی کی مدد کرنی چاہیے؟ اس شخص کو بندہ بے دام بنانے کا زرّیں موقع ہاتھ آ رہا تھا۔ میں نے اس کا شانہ تھپتھپایا اور کہا: ‘گھبراؤ مت۔۔۔ اس چیتے سے میں خود نبٹ لوں گا لیکن ایک شرط ہے۔‘
مان سوامی کا چہرہ روشن ہو گیا۔ اس نے جھٹ چادر کے پلّو سے اپنے آنسو پونچھ لیے جو شاید مگرمچھ کے آنسو ہی تھے اور بولا: ‘وہ کونسی شرط ہے جناب؟ میں آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوں۔‘
‘شرط یہ ہے کہ جب میں چیتے پر گولی چلاؤں گا، تو تم میرے پاس رہو گے، اگر تم ڈر کر بھاگے، تو میں وہی گولی تمہیں مار دوں گا۔‘
‘مجھے منظور ہے۔‘ مان سوامی چلّایا۔
آپس میں یہ معاہدہ طے ہونے کے بعد میں اسی روز شام کے وقت مان سوامی کو اپنے ساتھ لے کر ڈی ایس پی کے گھر گیا اور مان سوامی کا قصور معاف کروانے کی کوشش کی، لیکن ڈی ایس پی بالکل نہ مانا۔ وہ کہتا تھا کہ ‘اِس شخص نے بہت سے لوگوں کو فرضی قِصّے سُنا سُنا کر لوٹا ہے اور اب اسی شخص کی مذموم حرکتوں کے باعث یہ چیتا زخمی ہوا اور اس نے جانوروں اور انسانوں کو نقصان پہچانا شروع کر دیا۔ اب یہ خدشہ ہر وقت موجود ہے کہ اگر چیتے نے ایک بار بھی انسانی خون کا مزہ چکھ لیا، تو وہ کتنی ہی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے گا۔۔۔ میں اس بدمعاش آدمی کو ہرگز ہرگز چھوڑنے پر تیار نہیں ہوں۔۔۔ اگر یہ چار روز کے اندر اندر چیتے کی لاش میرے سامنے لا کر ڈال دے، تو پھر میں اس کے بارے رعایت سے کام لینے پر غور کروں گا۔‘
‘واقعی یہ شخص ہے تو کڑی سے کڑی سزا کا مستحق۔۔۔ مگر میں آپ سے اتنی سفارش کرتا ہوں کہ چار روز کی قید اٹھا دیجیے۔ یہ بیچارہ چیتے کو کیا مار سکے گا خود ہی اس کا نوالہ بن جائے گا۔ البتہ اس نے میرے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا ہے اور میں ضمانت دیتا ہوں کہ جب تک چیتا مارا نہیں جاتا، یہ شخص کہیں فرار نہیں ہو گا۔‘
ڈی ایس پی نے مان سوامی کو بنگلے سے باہر جانے کا اشارہ کیا اور پھر مجھ سے ہنس کر کہنے لگا۔
‘مَیں تو اس بدمعاش کو ہمیشہ کے لیے سبق دینا چاہتا ہوں۔ مجھے علم تھا کہ اس کے فرشتے بھی چیتے کو نہیں مار سکیں گے۔ اور یہ ضرور آپ ہی کی خدمات حاصل کرے گا۔ اب آپ اس کو اپنے ساتھ رکھیے۔ اگر آپ کو پولیس سے کسی قسم کی بھی مدد درکار ہے تو فوراً اطلاع دیجیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس چیتے کا جلد از جلد خاتمہ ہو جائے۔‘
دوسرے روز صبح سویرے میں نے اپنا ساز و سامان تیار کیا اور سٹوڈی بیکر سٹارٹ کر کے مگادی ہلز کی جانب روانہ ہو گیا۔ مان سوامی میرے ساتھ تھا۔ راستے میں جتنی چھوٹی بستیاں دکھائی دیں، وہاں ہر جگہ میں نے چیتے کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ گاؤں مگادی میں پولیس کے سپاہیوں نے سارجنٹ کے زخمی ہونے کی تفصیلی داستان سنائی۔ وہاں سے کلوزپیٹ گیا۔ راہ میں وہ گاؤں بھی پڑتا تھا۔ جہاں چیتے نے ٹٹو پر حملہ کیا تھا۔ سب انسپکٹر پولیس نے میری فرمائش پر گاڑی بان کو بلایا اور اس نے سب تفصیلات سنائیں۔ ان چار دنوں میں سے ایک دن اسی طرح تحقیق و تفتیش میں صرف ہو گیا۔۔۔ مان سوامی کے چہرے پر پھر ہوائیاں سی اڑنے لگیں، گویا اس کی زندگی کے اب تین دن باقی رہ گئے تھے۔
وہاں سے ہم لوٹ کر پھر مگادی آئے اور وہ رات ڈاک بنگلے میں بسر کی۔ اگلے روز ایک شخص مجھ سے ملنے کے لیے آیا۔ وہ جنگلی جڑی بوٹیاں اور شہد جمع کر کے فروخت کیا کرتا تھا۔ اس شخص کا بیان یہ تھا، ‘چند ہفتے کا پہلے ذکر ہے۔ میں نے جنگل میں ایک زخمی چیتے کو دیکھا۔ وہ جدھر سے گزرا وہاں خون کے بڑے بڑے دھبّے بھی مَیں نے دیکھے۔ میں نے اس روز گاؤں جا کر پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ کسی شکاری نے اسے زخمی کیا تھا۔ اتفاق کی بات کہ اگلے روز جب پہاڑی درّوں میں سے گزر رہا تھا تو وہاں بھی میں نے چیتے کے خون کے خشک دھبّے دیکھیے۔ ایک چٹان پر غالباً وہ دیر تک سستایا تھا کیونکہ وہاں خون کافی مقدار میں پھیلا ہوا تھا یہیں ایک غار کے اوپر مجھے شہد کی مکھیوں کا چھتّا نظر آیا۔ میں جب اسے غور سے دیکھنے کے لیے آگے بڑھا، تو غار میں سے چیتے کے غرّانے کی آواز آئی۔ میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ چیتا اب بھی وہیں ہو گا کیونکہ وہ بہت زخمی تھا۔‘
اس شخص کا نام مٹھّو تھا۔ مٹھو ہندی زبان میں طوطے کو کہتے ہیں۔ مٹھو کو چونکہ اسی غار سے شہد کا چھتّہ اتارنا تھا، اس لیے وہ بھی ہمارے ساتھ جانے پر تیار تھا۔ میں نے مان سوامی سے کہا: ‘فوراً سامان تیار کرو۔ ہمیں دوپہر تک لازماً وہاں پہنچنا ہے۔ چیتا دوپہر کو سویا ہوا ہو گا۔ اس لیے ہمارے آنے کی آہٹ سن کر فرار نہ ہو سکے گا۔‘
اب مان سوامی پھر رونے اور گڑگڑانے لگا، ‘مجھے نہ لے جاؤ، چیتا مجھے کھا جائے گا۔‘ مجھے اس بزدل شخص پر بے حد تاؤ آیا۔ میں نے کہا۔ ‘بہت اچھا۔۔۔ میں بھی نہیں جاتا تم پھانسی پر مرنا پسند کرتے ہو تو مجھے کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ چیتے کو مارنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالوں۔‘
مان سوامی کو میں نے ایک فالتو رائفل دی، اپنی خاکی وردی پہنائی اور موٹر میں بٹھا کر کلوزپیٹ کی جانب روانہ ہوا۔ مٹھو ہمارے ساتھ تھا۔ ہم ٹھیک سوا دس بجے سڑک کے اس مقام پر پینچ گئے جس کے مقابل دور سے پہاڑ کی دو چوٹیوں کے درمیان ڈھلان میں جنگل اترتا تھا۔ مٹھو نے مشورہ دیا کہ اگر ہم یہیں اتر کر سفر پیدل طے کریں تو آسانی رہے گی۔ میں نے محفوظ جگہ کار کھڑی کی اور مان سوامی کو آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ یہ ڈھلوانی جنگل سڑک سے کئی میل دور تھا، لیکن دیکھنے سے یوں معلوم ہوتا جیسے سامنے ہی چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ آخر ایک جگہ مٹھو نے ہمیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ پھر وہ گھٹنوں کے بل جھک کر کچھ سونگھنے لگا۔ مان سوامی خوفزدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔
‘یہ دیکھیے صاحب۔۔۔ یہ رہے خون کے دھبّے۔‘ مٹھو نے مجھ سے کہا۔ میں نے بھی جھک کر دیکھا۔ بے شک کئی دن کا جما ہوا خون تھا۔ ان جھاڑیوں سے پرے جنگل اتنا گھنا نہیں تھا۔ یہاں بڑے بڑے پہاڑی ٹیلے ایک دوسرے سے ذرا فاصلے پر کھڑے تھے اور زخمی چیتا انہی کے درمیان سے گزر کر اپنے غار تک گیا تھا کیونکہ انہی ٹیلوں پر جا بجا اس کے خون کے داغ موجود تھے۔
ڈیڑھ گھنٹے کی جان لیوا اور پُر صعوبت کوشش کے بعد ہم اس غار تک پہنچ جانے میں کامیاب ہوہی گئے۔ جس میں زخمی چیتا پناہ لیے ہوئے تھا۔ میں نے مان سوامی سے کہا۔ ‘ آگے بڑھو اور غار میں داخل ہو جاؤ۔‘ بے چارے کا چہرہ دہشت سے سپید ہو گیا۔ اس کی گھگھی بندھ گئی۔ میں نے پھر رائفل کا اشارہ کیا تو وہ میرے قدموں پر گر پڑا اور بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ ‘سرکار مجھ پر رحم کیجیے۔ مجھے کیوں موت کے منہ میں بھیج رہے ہیں۔ میرے باپ کی توبہ جو میں آئندہ اس جنگل کا رخ بھی کروں۔‘ میں نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا، ‘مان سوامی تم نے تو بزدلی کی حد کر دی۔۔۔ بندہ خدا، رائفل تمہارے پاس ہے۔ دو آدمی تمہاری حفاظت کے لیے ساتھ ہیں اور تم پھر بھی ڈر رہے ہو۔‘
یکایک مٹھو کے حلق سے ایک چیخ نکلی اور وہ بدک کر جنگل کی طرف بھاگا۔ یقین کیجیے اگر تین سیکنڈ کی تاخیر اور ہوتی تو وہ موذی چیتا، جو نہ جانے کب سے لمبی گھاس میں چھپا ہوا تھا، ہم میں سے ایک آدھ کو ضرور لے مرتا۔ بجلی کی مانند تڑپ کر وہ گھاس میں سے اچھلا اور مان سوامی پر آن پڑا۔ مان سوامی منہ کے بل گھاس میں گر گیا۔ میری دو نالی رائفل سے بیک وقت دو فائر ہوئے اور چیتے کے سر کے پرخچے اڑ گئے۔ کیونکہ وہ مجھ سے بمشکل پانچ فٹ کے فاصلے پر تھا۔ ایک ہولناک چیخ کے ساتھ چیتے نے قلابازی کھائی اور مان سوامی کے اوپر ڈھیر ہو گیا اور اس طرح اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر وہ چیتا ہلاک ہو گیا۔ جس نے کئی ماہ سے اس علاقے میں اُدھم مچا رکھا تھا۔
٭٭٭
نربدا کا آدم خور
(اصل مصنف: کیپٹن فورسیتھ)
میں برآمدے میں کرسی پر بیٹھا ہوا نارنگیوں سے بھرے ہوئے درختوں کو دیکھنے میں محو تھا۔ فروری کا مہینہ تھا۔ لیکن مدھیہ پردیش میں موسم یکایک تبدیل ہو رہا تھا۔ گرمی کی آمد آمد تھی۔ کمرے میں سخت حبس تھا۔ یہاں عموماً حبس بارش کی آمد کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور واقعی تھوڑی دیر بعد ہی آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور بادل گرجنے لگے۔ مگر میں اس منظر سے بے پروا خدا جانے کیوں اس روز خوش رنگ نارنگیوں کو دیکھنے میں محو تھا۔ یکایک میرا مقامی ملازم گوٹو گھبرایا ہوا آیا۔ اور آتے ہی کہنے لگا: ‘صاحب میرا لڑکا جنگل میں گیا تھا۔ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ میرا دل گھبرا رہا ہے کہیں اسے۔۔۔‘ اس فقرہ نامکمل چھوڑ دیا اور سسکیاں بھرنے لگا۔ میں نے جب اس سے پوچھا کہ لڑکا جنگل میں کب گیا تھا۔ تو اس نے بتایا کہ، وہ معمول کے مطابق پانچ بجے مویشیوں کے ساتھ واپس آ گیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ آ کر لکڑیاں چیرو مگر اس نے ایک نہ سنی اور یہ کہہ کر جنگل میں بھاگ گیا کہ میں جنگلی پھل جمع کرنے جا رہا ہوں اور ابھی لوٹ آؤں گا۔ میں حیران تھا کہ آخر اس میں ڈرنے یا گھبرانے کی کیا بات ہے۔ لڑکا ہوشیار ہے۔ اور جنگل کے چپّے چپّے سے واقف۔ وہ وہاں اکیلا روزانہ گھنٹوں گھومتا رہتا ہے۔ میں نے گوٹو سے کہا، ‘جاؤ اطمینان سے کام کرو۔ لڑکے کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ ذرا دور نکل گیا ہو گا۔ ‘‘مگر صاحب آپ سن نہیں رہے کہ جنگل کے تمام جانور خوفزدہ آوازوں میں چلّا رہے ہیں۔ پہلے بندر چیخ رہے تھے۔ پھر ایک چیتل اور ابھی ابھی میں نے سانبھر کی آواز سنی۔ ضرور کوئی بات ہے۔‘
بلا شبہ جنگل میں جانوروں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں اس وقت نارنگیوں کے نظارے میں اتنا محو تھا کہ میں نے یہ آوازیں پہلے نہیں سنیں۔ سورج غروب ہونے میں اگرچہ آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ مگر آسمان پر گھٹا کے باعث چاروں طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ اور کوئی دم میں بارش ہونے والی تھی۔ میں نے گوٹو سے کہا کہ وہ دو چار آدمیوں کے ساتھ جنگل میں جائے اور اپنے لڑکے کو تلاش کرے۔ اس کے جاتے ہی بارش شروع ہو گئی جو دو گھنٹے تک جاری رہی۔ بارش کے دوران ہی گوٹو دوبارہ شرابو میرے پاس آیا۔ اس کا چہرہ فق تھا۔ اور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ لڑکا کہیں نہیں ملا۔ جنگل سے ایک میل دور لڑکے دادا دادی رہتے تھے۔ اس خیال سے کہ شاید لڑکا وہاں چلا گیا ہو، گوٹو وہاں بھی گیا۔ مگر انہوں نے بتایا کہ لڑکا یہاں نہیں پہنچا۔ اب تو مجھے تشویش ہوئی۔ مگر اس وقت جنگل میں جا کر لڑکے کو تلاش کرنا نا ممکن سی بات تھی۔ بارش اور گھُپ اندھیرے کے ہاتھوں ہم مجبور تھے۔ میں نے گوٹو کو تسلّی دی کہ بارش سے بچنے کے لیے لڑکا کسی موزوں مقام پر ٹھہر گیا ہو گا۔ اور صبح تک وہ ضرور واپس آ جائے گا۔ لیکن جب دوسرے روز دوپہر تک اس لڑکے کا کوئی سراغ نہ ملا تو میں نے اپنی بندوق سنبھالی اور گاؤں کے سات آٹھ جوانوں کو ساتھ لے کر جنگل میں جانے کا پروگرام بنایا۔ جانے سے پہلے میں نے گوٹو کے گھر والوں کو ایک جگہ جمع کیا اور گمشدہ لڑکے کے متعلق سب سے باری باری سوالات کیے۔ ایک چھوٹے بچے نے بتایا کہ:
‘سکھّو کل کہہ رہا تھا۔ کہ اس نے جنگل میں ایک نیا درخت دیکھا ہے جس پر تازہ پھل لگے ہوئے ہیں۔ میں تمہیں اس درخت کا پتہ ہرگز نہیں بتاؤں گا۔ ورنہ تم دوسرے لوگوں کو بتا دو گے اور وہاں جا کر سب پھل توڑ لیں گے۔ میں چپکے سے وہاں جایا کروں گا۔ اور پھل لے کر آیا کروں گا۔ پھر ہم دونوں مل کر کھائیں گے۔‘
ہمیں اس سے زیادہ اور کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ لیکن ایک وسیع و عریض جنگل میں جہاں ہزار ہا درخت موجود ہوں، ایک خاص پھل دار درخت کو تلاش کرنا آسان کام نہ تھا اس کے علاوہ بچّے کی روایت پر پورا اعتماد بھی تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال خدا کا نام لے کر ہم سب آدمی جنگل کی طرف چل دیے اور اتفاق کی بات کہ تھوڑی دیر کی تگ و دو کے بعد ہمیں گمشدہ لڑکے کا سراغ مل گیا۔ اس کا کرتہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا پایا گیا جس پر جمے ہوئے خون کے بڑے بڑے دھبّے تھے۔ اب یہ امید بہت ہی کم تھی کہ لڑکا ہمیں زندہ سلامت ملے گا۔ گوٹو کی حالت تو وہ خون آلود کرتہ دیکھتے ہی غیر ہو گئی تھی اور وہیں اپنا سینہ پیٹنے لگا۔ میں نے اسے دو آدمیوں کے ساتھ گاؤں واپس بھیج دیا۔ سچ پوچھیے تو خود میرے حواس بھی گم تھے۔ میں بڑے عرصے سے اس جنگل کے قریب رہتا تھا اور کبھی بھی ڈر محسوس نہ کیا تھا۔ لیکن آج مجھے کسی خونخوار درندے کے تصوّر سے خوف آ رہا تھا۔ اور جب میں نے اپنے ساتھ آنے والے دیہاتیوں کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ضرور کسی شیر یا چیتے کی حرکت ہے تو ان سب کے چہرے اتر گئے اور وہ خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
لڑکے کے خون آلود کُرتے کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے ارد گرد کی زمین کو بغور دیکھا تو وہاں بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لڑکے کو درندے نے دُور تک گھسیٹا تھا۔ کیونکہ کہیں کہیں اس کے پیروں کے گھسٹنے سے زمین پر لمبی لمبی لکیریں کھنچ گئی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دور پر خون کے کے چھوٹے بڑے خشک دھبّوں کے نشانات یہ ظاہر کر رہے تھے کہ درندہ اپنے شکار کو کس طرف لے گیا ہے۔ ایسی نازک صورتِ حال میں بہت سے لوگوں کا آگے بڑھنا مناسب نہیں ہوتا ورنہ درندہ چوکنّا ہو جاتا ہے۔ بندوق میرے پاس تھی اس لیے میں نے سب کو رخصت کیا اور خود ان نشانات کے پیچھے پیچھے خاموشی سے آگے بڑھنے لگا۔ گزشتہ روز کی شدید بارش کے باوجود خون کے یہ نشانات موجود تھے۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ لڑکا صبح تک زندہ سلامت تھا اور بارش رکنے کے بعد کسی وقت درندے نے اس پر حملہ کیا ہے۔
ابھی میں کئی ستّر اسّی گز ہی دور گیا تھا کہ یکایک ایک جھاڑی کے نزدیک مجھے آہٹ سی سنائی دی۔ میں فوراً ٹھہر گیا اور اس طرف غور سے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی اور فوراً سمجھ گیا کہ وہ شیر نہیں چیتا ہے۔ یہ چیتا مجھے دیکھتے ہی غائب ہو گیا۔ میں کچھ دیر تک اس کے دوبارہ آنے کا انتظار کرتا رہا لیکن کوئی آہٹ تک نہ ہوئی اور میں آہستہ آہستہ جھاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ بد نصیب لڑکے کی ادھ کھائی ہوئی لاش جھاڑی میں پڑی تھی۔ ظالم چیتے نے اس کی ایک پوری ٹانگ اور کمر کا کچھ حصہ کھا لیا تھا۔
جنگل کا یہ حصہ جہاں میں کھڑا تھا، اتنا زیادہ گھنا تو نہ تھا۔ مگر کچھ فاصلے پر جھاڑیاں کثرت سے تھیں جو ایک قاتل کے لیے محفوظ کمین گاہ ثابت ہو سکتی تھیں۔ لڑکے کی لاش دیکھ کر میری آنکھوں آنسو آ گئے اور میں نے سوچا کہ اچھا ہوا جو گوٹو کو میں نے گاؤں واپس بھیج دیا۔ وہ اگر اپنے جوان لڑکے کو اس حالت میں دیکھتا تو شاید اس کی حرکتِ قلب بند ہو جاتی۔ میں نے لڑکے کی لاش گھاس پھونس سے اچھی طرح ڈھانپ دی تاکہ گِدھ اور کوّے اسے ہڑپ نہ کر سکیں۔ ویسے بھی یہ امر یقینی تھا کہ چیتے کو جب بھوک لگے گی تو وہ پھر اسے کھانے کے لیے یہاں آئے گا۔ اب میں ان کوارٹروں کی طرف پلٹا جو جنگل میں کام کرنے والے سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے عارضی طور پر بنوائے تھے۔ گوٹو یہیں اپنے بال بچوں سمیت رہتا تھا۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بد نصیب لڑکے کی موت کی خبر کس طرح گوٹو کو سناؤں گا اور اس جہاں گل خبر سن کر اس پر کیا گزرے گی۔
میں نے گوٹو کو تمام تفصیلات سے باخبر کرنے کے لیے اس کی طرف ایک آدمی بھیج دیا۔ اور خود اس چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ اور ابھی دن کا بڑا حصہ باقی تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج ہی یہ کام ہو جانا چاہیے۔ میں نے اپنے ساتھ چار آدمی لیے اور جنگل میں دوبارہ اس مقام پر پہنچا جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی۔ بد قسمتی سے یہ جگہ ایسی تھی کہ یہاں کوئی اونچا درخت نہ تھا بلکہ تین سو مربع گز کے علاقے میں صرف خار دار جھاڑیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان جھاڑیوں پر مچان باندھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ بس یہی ایک طریقہ تھا کہ میں یہیں کہیں جھاڑیوں میں چھپ جاؤں اور جب چیتا بھوک سے مجبور ہو کر لاش کا بقیہ حصہ کھانے آئے، اسے گولی کا نشانہ بنا دوں۔ اس پروگرام کے مطابق لڑکے کی لاش سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر میں نے اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ چن لی اور آدمیوں کی مدد سے ان جھاڑیوں کو کانٹ چھانٹ کر اتنی گنجائش نکال لی کہ میں اطمینان سے وہاں چھپ سکوں۔ ہم نے کٹی ہوئی جھاڑیوں کا خس و خاشاک اس طرح کھڑا کر دیا کہ باہر سے کوئی مجھے نہ دیکھ سکے۔ لیکن میں اپنی جگہ سے باہر کا تمام منظر دیکھ سکوں۔ اب مجھے عین سامنے موجود جھاڑیوں میں لڑکے کی اَدھ کھائی ہوئی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ جس پر گھاس پھونس ہٹا دیا گیا تھا۔
اس کاروائی کے بعد میں نے آدمیوں کو رخصت اور خود اپنی کمین گاہ میں انسان کے سب سب خطرناک دشمن کا انتظار کرنے لگا۔ دو باتیں یقینی تھیں۔ اوّل چیتے نے اگر ہمیں جھاڑیوں کو کاٹتے چھانٹتے دیکھ لیا ہے تو وہ قیامت تک ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ دوسرے اگر اس نے ہمیں نہیں دیکھا تو پھر وہ ضرور آئے گا۔ جو شکاری چیتے کی فطرت کا گہرا مشاہدہ کر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آدم خور شیر کے برعکس آدم خور چیتا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ وہ انسان سے ڈرنے کے باوجود اس پر حملہ کرتا ہے۔ لیکن رات کی تاریکی میں، دن کے وقت سامنے آنے کی شاذ و نادر ہی جرأت کرتا ہے۔ اور وہ بھی اس وقت جب بھوک اس کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ رات کے وقت جب وہ باہر نکلتا ہے تو اس کی پھرتی اور چستی اور لپک جھپٹ کر ایک آفت لیے آتی ہے۔ وہ اپنے شکار کو بند دروازوں سے بھی نکال کر لے جاتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ جنگل میں کچھ فاصلے پر جہاں درختوں کی کٹائی گزشتہ کئی ہفتوں سے ہو رہی تھی، مزدور حسبِ معمول اپنے کام پر آ گئے ہیں اور درختوں پر آرے اور کلہاڑیاں چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں نے سوچا یہ آوازیں چیتے کے لیے اب تک مانوس ہو چکی ہوں گی۔ اور وہ ان پر توجہ نہیں دے گا۔ کوئی ایک گھنٹے تک میں وہیں بیٹھا ہوا لاش کو تکتا رہا اور کان لگائے پوری توجہ کے ساتھ چیتے کی آہٹ سننے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ نہ آیا۔ یہی ایک صورت باقی تھی۔ کہ میں اب یہاں سے چلا جاؤں اور سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر پیشتر یہاں آ جاؤں اور چیتے کی راہ دیکھوں۔ یہ سوچ کر میں نے خس و خاشاک ایک طرف ہٹایا اور باہر نکلا۔ جھاڑیوں کو پھر پہلے کی طرح درست کیا اور اپنے بنگلے کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ گوٹو کے گھر میں حشر برپا ہے۔ لڑکے کی ماں یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئی خود گوٹو کا بہت برا حال ہے۔ میں نے وہاں جا کر ان لوگوں کو دلاسا دیا اور یقین دلایا کہ چیتے کو ایک دو روز تک ضرور ہلاک کر دیا جائے گا اور حکومت سے تمہاری امداد کے لیے ایک معقول رقم دلا دی جائے گی۔ اس پر انہیں کچھ صبر آیا۔
سورج غروب ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے کہ میں کیل کانٹے سے پوری طرح لیس ہو کر دوبارہ وہاں پہنچا۔ لڑکے کی موت کے بعد سے جنگل میں کام کرنے والے لکڑہارے بے حد خوفزدہ تھے اور ایک جگہ خود اپنی کمین گاہ میں چھپ گیا۔ جنگل میں آہستہ آہستہ تاریکی غلبہ پانے کو تھی۔ سکھو کی لاش بالکل اسی حالت میں پڑی تھی جس حالت میں اسے چھوڑ گیا تھا۔ کتنی عجیب بات تھی۔ ایک سنسان جنگل میں دو دشمن ایک انسان ایک حیوان بیک وقت اپنی اپنی جگہ چھپے ہوئے سورج غروب ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ جونہی سورج غروب ہوا، چیتا بھوک سے بیتاب ہو کر فوراً باہر نکلے گا۔ اس وقت بہت سے پرندے شور مچا رہے تھے۔ قسم قسم کے پرندے جنگلی طوطے، مینائیں، کوّے، چیلیں، چمگادڑیں، گدھ، کافی فاصلے پر میں نے چیتل ہرن کی آواز سنی اور میں چوکنّا ہو گیا۔ ہرن کی آواز اس بات کی یقینی علامت تھی کہ چیتا یا کوئی اور درندہ باہر نکل آیا ہے۔ میں سانس روکے بندوق کے گھوڑے پر انگلی رکھے، سامنے کی جھاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ پرندوں کے بولنے کی پر شور آوازیں یک لخت تھم گئی ہیں۔ اب ہر طرف ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔
دفعتہّ بائیں طرف کوئی چالیس پچاس گز کے فاصلے پر جنگلی طوطے ٹیں ٹیں کرتے ہوئے اپنے گھونسلوں سے نکلے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ طوطوں کی یہ بے چینی بے معنی نہ تھی۔ چیتا ضرور آس پاس ہی پھر رہا تھا۔ شاید وہ گرد و پیش کا جائزہ لے رہا تھا کہ کوئی ‘دشمن’ تو اس کی تاک میں نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جنگل میں دوسرا کوئی جانور چیتے کی طرح حساس، خبردار اور چوکنّا نہیں ہوتا۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ کیا مجال جو ذرا سی آہٹ بھی پیدا ہو جائے۔
میں اب خشک پتوں پر کسی کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ چیتا قریب آ گیا تھا۔ میں اُدھر بغور دیکھنے کے باوجود اس کی جھلک نہ دیکھ پایا۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس علاقے کے شیروں اور چیتوں کی کھال کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ جھاڑیوں میں چھپ جائیں تو پتہ نہیں چل سکتا کہ یہاں کوئی درندہ چھپا بیٹھا ہے۔ خدا معلوم وہاں کتنا وقت گزرا، مگر مجھے تو یہی محسوس ہوا جیسے کئی دن بیت گئے ہیں۔ میرا جسم اب پتھر کی مانند سن ہو چکا تھا۔ کیونکہ بے حس و حرکت ایک جگہ بیٹھے رہنے سے خون کا دوران سست پڑ جاتا ہے۔ آخرکار میں نے اسے دیکھ ہی لیا۔ خدا کی پناہ، کتنا قد آور اور قوی جانور تھا۔ اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ وہ سکھو کی لاش کے قریب کھڑا تھا۔ اور اس کی دُم آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ اب بھی دائیں بائیں خطرہ محسوس کر رہا ہے پھر اس نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور لاش کی طرف ایک قدم آگے بڑھایا۔ اسے منہ میں پکڑا اور جھاڑی میں لے گیا۔ اب چیتے کا جسم میری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ لیکن لمبی دم صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ایک لمحے بعد ہی ہڈیاں چبانے کی آواز چپڑ چپڑ آواز سنائی دی۔ دو منٹ بعد وہ پھر جھاڑی سے باہر نکلا اور چاروں طرف خوب غور سے دیکھا۔ اب اس کا سر میرے سامنے تھا۔ میں نے فوراً بندوق سیدھی کی اور نشانہ لے کر فائر کرنے ہی والا تھا، کہ ایک انگڑائی لے کر چیتا مڑا اور پھر جھاڑی میں گھس گیا۔ اب پھر ہڈیاں چبانے اور گوشت بھنبھوڑنے کی جانی پہچانی آواز آنے لگی۔
سورج اگرچہ غروب ہو چکا تھا۔ لیکن پھر بھی جنگل میں اتنی روشنی تھی کہ کافی فاصلے تک کا منظر بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ شاید چیتے کے اضطراب کی وجہ بھی یہی تھی کہ جنگل میں اسے کچھ روشنی نظر آ رہی تھی۔ ورنہ گہرے اندھیرے میں تو وہ دلیری اور جرأت کا جامہ پہن لیتا ہے اور خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔
کوئی دو منٹ بعد وہ پھر بے چین ہو کر جھاڑی میں سے نکلا مگر اب اس کا رخ کچھ یوں تھا۔ کہ میں صحیح نشانہ نہیں لے سکتا تھا۔ لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میں نے اس میں ایک عجیب تغیّر محسوس کیا۔ وہ پہلے سے بہت چھوٹا نظر آتا تھا اور جب اس نے منہ پھیر کر جھاڑیوں میں قدم بڑھایا تو یہ دیکھ کر مجھے اپنے حواس پر شک ہونے لگا کہ ایک کی بجائے اس کی دو دُمیں ہیں۔ ایک دائیں جانب ہلتی تھی تو دوسری بائیں جانب میں نے خیال کیا ممکن ہے یہ محض فریبِ نظر ہو۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے رو مال نکالا، آنکھیں صاف کیں اور دوبارہ غور سے دیکھا مگر اب ایک ہی دُم تھی۔ میں بھوت پریت کا قائل نہیں اور نہ ہی میرا دماغ اتنا کمزور ہے کہ چیتے کی ایک دم کے بجائے مجھے دو دُمیں نظر آتیں۔ بہر حال میں نے یہ محسوس ضرور کیا کہ میرے جسم کے رونگٹے خوف سے کھڑے ہو گئے ہیں۔ اور بندوق پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔
جنگل میں ایک ہیبت ناک سنّاٹا چھایا ہوا تھا اور لمحہ بہ لمحہ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ دفعتاً قریب سے کوئی اُلّو بھیانک آواز میں چیخنے لگا۔ اور جھاڑیوں سے چیتا بپھر کر باہر نکل کر میری طرف آیا۔ مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر آ کر رکا اور غور سے دیکھنے لگا۔ میں سمجھا کہ اس نے ضرور مجھے دیکھ لیا ہے۔ پھر اس نے گردن گھما کر اس طرف دیکھا جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی اور جس میں سے وہ تھوڑی دیر پہلے گوشت کھا رہا تھا۔ میں نے بندوق کی نالی پر فٹ کی ہوئی ٹارچ کا بٹن دبایا۔ روشنی کی تیز لکیر چیتے کے جسم پر پڑی اور اس سے پیشتر کہ وہ جَست لگا کر کسی طرف کو غائب ہو جائے، میں نے لبلبی پر انگلی رکھ دی۔ فائر کے زبردست دھماکے سے سارا جنگل کانپ اٹھا۔ میں صرف اس قدر دیکھ سکا کہ چیتے کے منہ سے غرّاہٹ کی زور دار آواز بلند ہوئی، وہ فضا میں کئی فٹ اُونچا اُچھلا اور اگلے ہی لمحے میں نے خشک پتّوں پر اس کے دوڑنے کی آواز سنی۔ پھر دور تک اس کے غرّانے کی مسلسل آوازیں آتی رہیں۔ میں نے قیاس کیا کہ چیتا بائیں جانب بھاگا ہے کیونکہ اس کے دوڑنے اور غرّانے کی آوازیں اسی سمت سے آ رہی تھیں دو منٹ بعد پھر وہی پراسرار خاموشی طاری ہو گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر گولی چیتے کے لگی ہے تو وہ زیادہ دور نہیں جا سکے گا۔ اور اگر گولی نہیں لگی اور وہ صحیح سلامت ہے۔ تو دوبارہ شاید ادھر کا رُخ نہ کرے۔ اب سوال یہ تھا کہ میں اب اپنی کمین گاہ سے باہر نکلوں تو کیونکر؟ ممکن ہے کہ چیتا میرا تعاقب کرے۔ رات کی تاریکی میں وہ اپنے شکار کو جنگل کے آخری سرے تک پیچھا کرتا ہے اور اگر میں رات بھر یہیں بیٹھا رہتا ہوں تو یہ تکلیف دہ بات ہو گی۔ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں چند منٹ کیلئے بے خبر ہو گیا تو چیتے کے لیے چپکے سے آ جانا کوئی مشکل بات نہیں ہے اور وہ مجھے یہاں چھپے ہوئے دیکھ ہی چکا ہے۔
میں اسی فکر میں تھا کہ دائیں جانب سے کوئی پچیس تیس گز کے فاصلے پر کسی جانور کے ہانپ ہانپ کر دوڑنے کی آواز آئی۔ میں نے یہ آواز فوراً پہچان لی۔ وہی چیتا ہی تھا۔ مگر۔۔۔ وہ چیتا جس پر میں نے فائر کیا تھا، جنگل میں بائیں جانب بھاگا تھا۔ اور اب اس کی آواز دائیں جانب سے آ رہی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے گولی نہیں لگی۔ میری پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور دل دھڑکنے لگا۔ میں نے بے سوچے سمجھے رائفل اٹھائی اور ہوا میں دو فائر کر دیے۔
ایک مرتبہ پھر فائر کے دھماکے سے جنگل گونج اٹھا۔ پرندے گھبرا کر اپنے گھونسلوں سے باہر آ گئے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ میں نے ٹارچ کی روشنی چاروں طرف پھینکی۔ خیال تھا کہ چیتا اگر قریب ہو گا تو ڈر کر بھاگ جائے گا۔ لیکن وہاں چیتے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ البتہ سکھو کی لاش کا بچا کچھا حصّہ اور کینوس کا سفید جوتا اب بھی سامنے کی جھاڑیوں میں پڑا تھا۔ میں نے سوچا اب جانا چاہیے۔ یہاں بیٹھے رہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ میں نے جلدی جلدی اپنے آگے سے جھاڑیاں اَور گھاس پھونس کا انبار ہٹایا اور باہر نکل آیا۔ گھڑی دیکھی تو آٹھ بج رہے تھے۔
ٹارچ کی روشنی میں مَیں نے اس مقام کا معائنہ کیا جہاں مجھ سے دس گز کے فاصلے پر چیتا آن کر رُکا تھا۔ وہاں اس کے پنجوں کے گہرے نشانات موجود تھے۔ اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اضطراب کے عالم میں وہ اپنے پنجوں سے زمین کریدتا رہا تھا اور پھر بائیں جانب اس کے پنجوں کے نشانات دور تک چلے گئے تھے۔ بارش کے باعث زمین نرم اور ابھی تک گیلی تھی۔ اس لیے چیتے کے پنجوں کے یہ نشانات نہایت گہرے ثبت ہو گئے تھے۔ اور بغور دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اگلے دائیں پنجے کا نشان دوسرے نشانوں کی نسبت کسی قدر ہلکا ہے۔ اب میں لڑکے کی لاش دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ چیتے نے اس کی دوسری ٹانگ بھی کھالی تھی اور کھوپڑی گردن سے نوچ کر تقریباً علیحدہ کر دی تھی۔ میں نے ٹارچ کی روشنی میں ارد گرد کی زمین کا جائزہ لیا تو حیران کن انکشاف ہوا۔ یہاں میں نے چیتے کے پنجوں کے جو نشانات دیکھے۔ وہ ان نشانات سے بالکل مختلف تھے جو میں اس سے پہلے دیکھ چکا تھا۔ فوراً ہی مجھے احساس ہوا کہ چیتا ایک نہیں بلکہ دو ہیں اور میں نے جس پر فائر کیا وہ ذرا چھوٹے قد کا تھا۔ اپنے تجسّس کی تسکین کے لیے میں ایک بار پھر اس مقام تک گیا جہاں میں نے پہلے چیتے کے نشانات دیکھے تھے۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں جب جھک کر میں نے ان نشانات کو دیکھا اور پھر ان کے ساتھ ساتھ ذرا آگے بڑھا تو ایک جگہ تازہ خون کا بڑا سا دھبّہ دکھائی دیا۔ اس کے بعد آگے بھی خون کے چھوٹے بڑے دھبّے دکھائی دیے۔ اس کا مطلب تھا کہ اسے گولی ضرور لگی ہے۔ یہ دریافت میرے لیے خوش کن تھی۔ میں نے فوراً اپنے بنگلے کا راستہ لیا اور سوچا کہ علی الصبح اس چیتے کو تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا کیونکہ وہ زخمی ہو چکا ہے اور زیادہ دور نہیں جا سکا ہو گا۔
جب میں اپنے بنگلے پر پہنچا تو اس قدر تھکا ہوا تھا کہ فوراً ہی بستر پر پڑ کر سو گیا اور صبح دیر تک سوتا رہا۔ میری آنکھ اس وقت کھلی جب میرا ملازم مجھے خود جگانے آیا۔ اس وقت گیارہ بچ چکے تھے۔ میں باہر برآمدے میں آیا تو دیکھا کہ آسمان پر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ میں نے ملازم سے پوچھا آج گوٹو نہیں آیا تو اس نے جواب دیا کہ گوٹو کو بخار ہے، میں نے اس کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ یکایک کوارٹروں میں سے چار پانچ مزدور بنگلے کی طرف آتے دکھائی دیے۔ ان کے چہرے خوف سے زرد اور وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔ یہ لوگ تلگو زبان بول رہے تھے۔ میں ان کی گفتگو سمجھنے سے قاصر تھا۔ میرے ملازم نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مزدور آج جب کام پر نہ آیا تو ٹھیکیدار کو قدرے تشویش ہوئی۔ ایک شخص اس مزدور کے گھر گیا۔ جب وہ جھونپڑے میں داخل ہوا۔ تو اس کو مرا ہوا پایا۔ جھونپڑے کی ایک دیوار درمیان سے ٹوٹی ہوئی تھی اور نرم نرم گیلی زمین پر چیتے کے پنجوں کے نشانات موجود تھے۔ چیتے نے سوئے ہوئے مزدور پر حملہ کیا اور اس کے سینے بازوؤں اور پیٹ پر پنجے مارے۔ بد نصیب مزدور کی انتڑیاں جھونپڑی میں بکھری ہوئی تھیں۔ چیتے نے اسے ہلاک کرنے کے بعد جنگل میں گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی مگر مزدور کی لاش بہت وزنی تھی۔ چیتا بمشکل اسے دروازے تک گھسیٹ سکا اور کسی نامعلوم سبب کے باعث وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔
میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ شرارت ضرور بڑے چیتے کی ہے۔ اس نے غیر متوقع طور پر یہ حرکت کی تھی۔ میں فوراً تیار ہو کر جائے حادثہ پر پہنچا تو وہاں ٹھیکیدار اور مزدوروں کا جمِ غفیر موجود تھا۔ اور سب کے سب متوحش اور خوفزدہ نظر آتے تھے۔ میں نے چیتے کے پنجوں کے نشانات دیکھے، بلا شبہ وہی موذی چیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ‘قتل’ کی یہ واردات بالکل صبح کے وقت ہوئی ہے۔ چیتا اتنا قوی تھا کہ اس نے بانس کے موٹے سرکنڈوں کی دیوار تک گرا دی تھی۔ اور پھر مجھے وہ چیتا یاد آیا جس پر میں نے رات کو گولی چلائی تھی۔ مزدوروں کو تو میں نے دلاسا دے کر کام پر بھیجا اور اپنے ساتھ تین آدمی لے کر جنگل میں اس مقام پر روانہ ہوا جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی۔
ابھی ہم راستے ہی میں تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ یہ جنگل ست پورہ کے ضلع میں واقع ہے جہاں قریب ہی دریائے نربدا گزرتا ہے۔ ان دنوں دریا خوب چڑھاؤ پر تھا اور خبریں آ رہی تھیں کہ اس میں زبردست سیلاب آنے والا ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں چیتے کسی نہ کسی طرح نربدا کے بڑے عقبی جنگل سے بھاگ کر ست پورہ کے اس چھوٹے جنگل میں آ گئے تھے۔ جب ہم جنگل میں ذرا دور تک گئے تو سب سے پہلے ہماری مڈبھیڑ ایک چیتل سے ہوئی جو ایک فرلانگ کے فاصلے پر درخت کے نیچے کھڑا گردن موڑ موڑ کر کسی چیز کو دیکھ رہا تھا۔ خاصا موٹا تازہ ہرن تھا۔ میں نے ساتھیوں کو دبک جانے کا اشارہ کیا اور کندھے سے بندوق اتار کر نہایت احتیاط سے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی کھاتے ہی چیتل وہیں گرا اور تڑپنے لگا۔ ہم سب بے تحاشہ اس کی طرف بھاگے۔ لیکن جونہی ہم قریب پہنچے چیتل لوٹ پوٹ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور لنگڑاتا ہوا ایک جانب کو بھاگا۔ گولی در اصل اس کی پچھلی بائیں ٹانگ میں لگی تھی اور اس سے پہلے کہ میں رُک کر اسے دوبارہ نشانہ بناؤں وہ جھاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا۔
زخمی ہرن کو چھوڑ دینا ایک شکاری کے لیے باعثِ فخر نہیں ہو سکتا۔ پس میں بھی ادھر بھاگا جدھر ہرن گیا تھا اور اس وقت ایسا جوش و خروش مجھ پر طاری تھا کہ میں آدم خور چیتے اور سکھو کی اَدھ کھائی ہوئی لاش یکسر فراموش کر چکا تھا۔ ہرن کی ٹانگ سے رِستا ہوا خون اس کا سراغ لگانے کے لیے کافی تھا۔ کوئی ایک فرلانگ تک میں اسے تلاش کرتا ہوا نکل گیا۔ اس جگہ جنگل کچھ زیادہ ہی گھنا ہو گیا تھا۔ اور دن کی روشنی کے باوجود ہلکا ہلکا اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ ایک مقام پر مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ کوئی جانور ایک درخت کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور مجھے دیکھتے ہی اچھل کر وہ جھاڑی میں چھپ گیا۔ میں نے سمجھا وہی زخمی ہرن ہو گا۔ پس بے دھڑک آگے بڑھا۔ اور جھاڑیوں کے قریب جا کر بغور دیکھنے لگا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ میرے چاروں طرف دور دور تک گھنی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں اور میں جھک جھک کر ہر جھاڑی میں دیکھ رہا تھا۔ خدا معلوم وہ ہرن تھا کہ چھلاوہ۔ ایسا غائب ہوا کہ پتہ ہی نہ چلا۔ میں مایوس ہو کر واپس آنے ہی لگا تھا کہ یکایک ایک جھاڑی میں سرسراہٹ سی پیدا ہوئی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو ایک بڑا سیاہ ناگ تیزی سے باہر نکل رہا تھا۔ سانپ نے اگرچہ مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مگر میں دہشت زدہ ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میری پشت ایک جھاڑی سے ٹکرائی اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایک بھیانک غرّاہٹ کے ساتھ وہ موذی چیتا جو جانے کب سے جھاڑی میں آرام کر رہا تھا، میری طرف تیر کی طرح آیا۔ بندوق چلانے کا موقع ہی نہ تھا۔ وہی بندوق جو میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے گھما کر پوری قوت سے اس کے سر پر دے ماری۔ چیتا اپنے ہی زور میں کئی گز دُور جا گِرا لیکن پھر بھی اس کا ایک پنجہ میری گردن پر گہرا زخم لگا چکا تھا۔ غرّاتا ہوا وہ پھر اٹھا اور دوبارہ جست لگانے کا ارادہ کیا۔ اتنی دیر میں مَیں اپنی بندوق سیدھی کر چکا تھا۔ میں نے لبلبی دبا دی اور یکے بعد دیگرے دو فائر کیے اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ ایک گولی بھیجے کے پار ہو گئی تھی۔ اور دوسری دل میں لگی تھی۔
فائروں کی آواز سن کر وہ مزدور، جو میرے ساتھ آئے تھے، دوڑتے ہوئے ادھر آئے اور جب انہوں نے چیتے کو مرا ہوا پایا تو خوشی سے اچھلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے چیتے کا معائنہ کیا۔ یہ وہی چھوٹا چیتا تھا۔ جس پر گزشتہ رات میں نے گولی چلائی تھی اور زخمی ہونے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ اور غالباً اسی موذی نے نوجوان سکھو کو ہلاک کیا تھا۔ چیتے کے پنجے سے جو مجھے زخم لگا ابتداء میں تو اس زخم کا پتہ ہی نہ چلا۔ لیکن جب خون زخم سے رس کر قمیض کو تر کرنے لگا تو محسوس ہوا کہ معاملہ نازک ہے۔ خون روکنے کی کوشش کی گئی مگر نہ رُکا۔ تھوڑی دیر بعد میں کمزوری سی محسوس کرنے لگا اور پھر غالباً بے ہوش ہو گیا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو اپنے بستر پر پایا۔ میرے ارد گرد تین چار آدمی کھڑے تھے۔ جن میں گوٹو بھی شامل تھا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کو بلانے کے لیے آدمی ست پورہ گیا ہوا ہے، مجھے اس وقت تیز بخار تھا۔ دن بھر یہی کیفیّت رہی اور میں غنودگی کے عالم میں ہذیان بکتا رہا۔ چھٹپٹے کے وقت ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے زخم دیکھ کر نہایت تشویش کا اظہار کیا۔ کہنے لگے اگر جلدی علاج نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ زہر سارے جسم میں پھیل جائے گا۔ آپ کو ناگپور کے ہسپتال میں فوراً چلے جانا چاہیے۔ وہ رات میں نے نہایت ہی تکلیف میں گزاری۔ گردن کا زخم سوہانِ روح بن گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اگرچہ زخم دھوکر پٹی باندھ دی تھی اور خون بہنا بند ہو گیا تھا، لیکن زخم میں کھجلی اس قدر شدت سے ہوئی تھی کہ جی چاہتا کہ گردن الگ کر دوں۔ انجکشن سے تھوڑی دیر فائدہ رہا لیکن پھر وہی کھجلی شروع ہو گئی۔ ساری رات تڑپتا رہا۔ صبح کے وقت کچھ غنودگی سی طاری ہوئی کہ میرا ملازم ایک وحشت ناک خبر لے کر آیا۔ خبر یہ تھی کہ رات چیتے نے پھر ایک مزدور کو ہلاک کر دیا اور اسے گھسیٹ کر وہیں لے گیا۔ جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی۔ اور یہ کہ سارے مزدوروں نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اپنے اپنے جھونپڑیوں میں جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹھیکیدار رونی صورت بنائے میرے پاس آیا۔ وہ سخت پریشان تھا۔ کہ کیا کرے۔ اس کے ٹھیکے کی مدّت پوری ہو رہی تھی اور کام ابھی باقی تھا اسے ڈر تھا۔ کہ اگر کام نہ ہوا تو اس کا زرِ ضمانت ضبط ہو جائے گا۔ میری حالت دیکھ کر اسے کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا اور نہ میں جانتا تھا کہ وہ میرے پاس کس لیے آیا ہے۔ بہرحال میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر ناگپور سے زندہ واپس آ گیا اور یہ چیتا بھی یہاں رہا تو اس سے دو دو ہاتھ ضرور کروں گا۔
ناگپور ہسپتال میں میں ایک مہینے تک رہا۔ زخم تو اچھا ہو گیا لیکن اینٹھن اتنی تھی کہ میں آسانی سے گردن تک نہ موڑ سکتا تھا۔ اس دوران میں اس چیتے کی ہلاکت خیزی اور ظلم و ستم کی خبریں مسلسل میرے پاس پہنچتی رہیں۔ وہ اس عرصے میں تیس انسانوں کو لقمہ بنا چکا تھا۔ اور اس کی جرأت یہاں تک بڑھ گئی تھی۔ کہ دن دھاڑے بستی میں گھس آتا اور کچّے مکانوں کے اندر سے عورتوں یا بچوں کو اٹھا کر لے جاتا تھا۔ پچاس مربع میل کے اس وسیع و عریض علاقے میں جہاں آس پاس بہت سے گاؤں تھے۔ اس ایک چیتے نے اتنی زبردست دہشت پھیلا رکھی تھی کہ لوگ جہاں جاتے ٹولیوں کی حفاظت میں جاتے اور سر شام ہی سے اپنے گھروں کے دروازے مضبوطی سے بند کر لیتے۔ بعد میں مَیں نے سنا کہ لوگوں کے واویلے پر حکومت نے ایک پیشہ ور شکاری اس چیتے کو مارنے پر مقرر کیا۔ مگر دوسرے ہی دن اس کی لاش ایک گڑھے میں پائی گئی۔ چیتے نے اس بد نصیب کے چیتھڑے تک اڑا دیے تھے۔
پہلے تو میں نے خیال کیا کہ شاید یہ سب لوگوں کی مبالغہ آرائی ہے۔ مگر جب ہسپتال سے رخصت ہو کر میں اسی علاقے میں پہنچا تو چیتے کی حکمرانی کا قائل ہونا پڑا۔ ہر طرف ایک سناٹا اور ویرانی تھی۔ بہت سے مزدور تو وہاں سے کام کاج چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ گاؤں کے لوگوں میں سے بھی بہت کم تھے جو اپنی خاص مجبوریوں کے باعث سکونت تبدیل کرنے پر قادر نہ تھے۔ ورنہ وہاں بھی یہی حال تھا۔ یہاں سے اٹھارہ میل دور ایک گاؤں موہن پورہ ہے۔ جہاں میرے آنے سے دو روز قبل چیتے نے ایک بوڑھی عورت کو ہلاک کیا تھا۔ وہ ایک ندی پر اپنی گائے کو پانی پلانے جا رہی تھی کہ راہ میں خونخوار چیتے سے سامنا ہو گیا۔ چیتے نے گائے کو تو کچھ نہ کہا۔ ایک ہی دوہتڑ میں بڑھیا کو ہلاک کیا اور لاش منہ میں دبا کر گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے گیا۔ تھوڑا بہت گوشت کھایا اور بقیہ حصہ وہیں چھوڑ کر کسی جھاڑی میں گھس کر سو گیا۔ جب بڑھیا اور گائے دیر تک گھر نہ پہنچی تو اس کے رشتہ داروں کو تشویش ہوئی۔ وہ تلاش کرنے گئے تو گائے انہیں مل گئی اور قریب ہی تازہ خون کے دھبّے اور چیتے کے پنجوں کے نشانات پائے گئے۔ ان لوگوں کی آمد کی خبر چیتے کو بھی ہوئی۔ وہ نہایت دیدہ دلیری سے جھاڑیوں میں سے نکلا۔ ایک نگاہِ غلط انداز ان بد نصیبوں پر ڈالی جو پتھر کے بت بنے اسے دیکھ رہے تھے اور اطمینان سے ایک طرف کو چلا گیا۔
میں سیدھا موہن پورے پہنچا۔ وہاں کے لوگوں نے جب یہ سنا کہ میں چیتے کو مارنے آیا ہوں تو وہ اس طرح میرے ہاتھ پیر چومنے لگے جیسے میں کوئی آسمانی دیوتا تھا۔ اس روز بھی لوگوں نے چیتے کو بستی کے گرد و نواح میں گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔ پس میں نے فیصلہ کیا کہ آج ہی اس درندے سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو اچھا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چیتے کو اگر آج شکار نہ ملا تو وہ ضرور بستی کے اندر آئے گا۔ چنانچہ سر شام ہی بستی کا ہر شخص اپنے گھر میں گھس گیا۔ کھڑکیاں اور دروازے نہایت احتیاط سے بند کیے گئے۔ میرے پاس تھری ناٹ تھری کی رائفل تھی۔ کیونکہ معمولی بندوق سے کام چلتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہوتے پوری بستی پر ایک ہُو کا عالم طاری ہو گیا۔ قبرستان کی مانند ایک ہیبت ناک سناٹا جس میں کوئی آواز تک کسی طرف سے نہ آتی تھی۔ رائفل کی نال پر لمبی طاقتور ٹارچ میں نے پہلے ہی فِٹ کر لی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اس کے بعد میں نے بستی کی تنگ گلیوں میں گشت شروع کر دی۔ بستی کیا تھی جنگل کے سرے پر ڈیڑھ سو کچّے مکانوں کا ایک محلہ سا تھا۔ کہیں کہیں بانس کی کھپریلیں اور جھونپڑے بھی بنے ہوئے تھے۔ جن میں بستی کے ‘کمین’ لوگ رہتے تھے۔ یہ جھونپڑی بستی کے سب سے آخر میں تھے اور جنگل کے بالکل ابتدائی سرے پر۔ گویا جنگل سے گزرنے والا کوئی بھی شخص بستی میں آنا چاہتا تو اسے پہلے ان جھونپڑوں کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ میں نے جھونپڑوں میں جھانک کر دیکھا، سب کے سب خالی پڑے ہوئے تھے۔ غالباً ان کے مکین چیتے کے ڈر سے کہیں اور بھاگ گئے ہوں گے۔
دفعتاً میری نگاہ ایک جھونپڑے کی شمالی دیوار کے ساتھ زمین پر پڑی تو وہاں چیتے کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے۔ بارش کے باعث یہاں ہر طرف گہری کیچڑ اور دلدل پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں چیتے کے پنجوں کے یہ نشانات نہایت واضح اور گہرے تھے اور ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس جگہ سے گزرا ہے اور اب بھی آس پاس کہیں چھپا ہوا میری حرکات دیکھ رہا ہو گا۔
یہ خیال مجھے بد حواس کر دینے کے لیے کافی تھا۔ چیتے کی مکاری سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اچانک مجھ حملہ کر دیتا۔ مجھے خوب اندازہ تھا کہ جو درندہ اب تک تیس بتّیس انسانوں کو ہلاک کر چکا ہے وہ کس قدر نڈر اور عیّار ہو چکا ہو گا۔ میں فوراً وہاں سے پلٹا اور گاؤں کے اندرونی حصے کی طرف آ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ چیتا ضرور میرا تعاقب کرے گا۔ اور وہ صرف گہرا اندھیرا ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ میں اب ایسی جگہ تلاش کرنا چاہتا تھا جو ہر طرف سے محفوظ ہو اور جہاں چیتا آسانی سے نہ آ سکے۔ اور میں اس کی نقل و حرکت سے خبردار رہ سکوں۔ بانس کے جھونپڑوں اور کھلی کھپریلوں پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ میں دیکھ چکا تھا کہ طاقتور چیتے نے کس طرح درمیان میں سے دیوار توڑ کر مزدور ہلاک کر دیا تھا۔ مجھے تو ایسی جگہ درکار تھی۔ جو جنگل کے قریب ہو اور چیتا ادھر سے لازمی طور پر گزرے۔ آخر ایک کچّا مکان ایسا مل ہی گیا جس کی سپاٹ چھت زمین سے کوئی بارہ فٹ اونچی تھی۔ اور یہاں سے ٹارچ کی روشنی میں جنگل سارا منظر نظر آ سکتا تھا۔
اب بستی پر اندھیرے نے اتنا غلبہ کر لیا تھا کہ آس پاس کی چیزیں صاف دکھائی نہ دیتی تھیں۔ میں نے ایک مرتبہ ٹارچ روشن کر کے گرد و پیش کا اچھی طرح جائزہ لے لیا کہ چیتا کسی طرف سے دبے پاؤں تو نہیں آ سکتا اور جب اطمینان ہو گیا تو میں نے وہیں چھت پر ڈیرے ڈال دیے۔ پہلے ہی میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر آیا تھا۔ تھرماس بوتل میں گرم گرم قہوہ، سگار ڈبّہ نیند کو دور رکھنے والی گولیاں اور میری وفادار رائفل یہ سب چیزیں میرے پاس تھیں۔
جنگل میں ہر طرف سناٹا تھا۔ کسی چرند پرند کی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔ البتہ بے شمار جگنو جنگل میں پتنگوں کی طرح اڑ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جنگل میں بہت سی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں۔ میں نے گھڑی دیکھی، ساڑھے سات بجے تھے۔ لیکن ماحول ایسا تھا۔ جیسے آدھی رات کے بعد کا وقت ہو۔ بستی کے اندر سے البتہ کبھی کبھی آوارہ کتّے کے بھونکنے کی آواز یا چھوٹے بچوں کے چلّانے اور رونے کی آوازیں بھی آ جاتی تھیں۔ جن سے میرے دل کی کچھ ڈھارس سی بندھ جاتی۔
چیتے کو اپنی طرف بلانے کے لیے ضروری تھا کہ میں کوئی ایسی حرکت کروں جس سے اسے میری موجودگی کا علم ہو جائے۔ پس میں نے اُونچی آواز میں ایک گانا شروع کر دیا تھا تو یہ پاگل پن، مگر اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ نڈر ضرور اس آواز پر آئے گا۔ آدھے گھنٹے تک میں اسی طرح گاتا رہا۔ لیکن چیتے کا دُور دُور تک پتہ نہ تھا۔ البتہ میری آواز سن کر بستی کے پیچھے چھپے ہوئے آوارہ کتّے بے دھڑک باہر نکل آئے اور انہوں نے آپس میں بھونکنے کا مقابلہ شروع کر دیا۔
میں نے اتنی دیر میں قہوے کی ایک پیالی پی اور سگار سلگا کرتا زہ دم ہو گیا۔ کتے بدستور بھونک رہے تھے۔ لیکن تھکے تھکے سے میں نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی دیر اور اس طرح انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے سوچا ایسا نہ ہو کہ میں یہاں بیٹھا رہوں اور چیتا کسی اور طرف نکل جائے۔ اس کی توجہ ادھر ہی مبذول نہ ہو کہ میں یہاں بیٹھا رہوں اور چیتا کسی اور طرف نکل جائے۔ اس کی توجہ ادھر ہی مبذول رہنی چاہیے۔ میں چھت سے اترا، رائفل سنبھالی اور ٹارچ روشن کر کے ایک مرتبہ پھر بستی کی سنسان گلیوں میں چوکیدار کی طرح گشت کرنے لگا۔ مجھے دیکھتے ہی بھونکنے والے کتّے ڈر کر ادھر ادھر بھاگ گئے۔ چند منٹ تک تو وہ بھونکتے رہے۔ اور پھر چپ ہو گئے۔ ٹہلتے ٹہلتے میں اب پھر جنگل کے قریب آ گیا اور اس جھونپڑے کے پاس پہنچ گیا۔ جہاں سر شام چیتے کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ ٹارچ کی روشنی میں مجھے دور جنگل میں جنگلی گیدڑ دوڑتے ہوئے دکھائی دیے جو ایک لمحے میں نظر سے اوجھل ہو گئے اور پھر ہُو ہُو کر چیخنے لگے۔
اب میں پھر اپنے اڈّے پر آ گیا۔ یعنی اس کچّے مکان کی بارہ فٹ بلند چھت پر رات کافی گزر چکی تھی۔ اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ جنگل کی جانب سے سرد ہوا کے جھونکے آتے تھے اور مجھے تھپکیاں دے کر نکل جاتے۔ میں نے سوچا کہ اگر نیند نے مجھے غافل کر دیا تو چیتا مجھے مار ڈالے گا۔ میں نے شیشی سے دو گولیاں نکال کر کھائیں۔ قہوے کے دو کپ پیے اور نیند سے نجات پانے کا پورا سامان کر لیا۔ وقت کچھوے کی چال چل رہا تھا۔ میں اکتا کر بار بار گھڑی دیکھتا اور اونگھنے لگتا۔ بہت سا وقت پھر گزر گیا۔
اتنا یاد ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے میں سو گیا تھا۔ کیونکہ چھت کے عین نیچے کسی کتّے کے بھونکنے کی پر شور آواز سے میری آنکھ کھلی تھی۔ اس کے بعد میں نے سنا کہ کتّا بھونکتا ہوا تیزی سے ایک طرف کو بھاگا۔ میں نے فوراً نیچے جھانکا تو وہاں کچھ نہ تھا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور آسمان ابر آلود ہوا لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی اور جنگل میں بانس کے درختوں کے درمیان سے گزرتی تو شائیں شائیں کی گونج پیدا ہوتی تھی۔ آسمان کی مغربی جانب بجلی کڑکنے لگی۔ بجلی چمکتی تو اس کی روشنی میں گرد و نواح کا سارا علاقہ یکدم چمک اٹھتا اور میں دور دور تک آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
اتنے میں پھر جنگل سے اُلّو کے بولنے اور گیدڑوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کے ساتھی ہی کتّوں نے دوبارہ بھونکنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ چیتا اب شکار کی تلاش میں نکل آیا ہے اور غالباً قریب ہی ہے۔ دفعتاً کتّے چپ ہو گئے اور ایک بھیانک خاموشی ہر طرف چھا گئی۔ بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ دو فرلانگ کے فاصلے پر کوئی سیاہ چیز جھاڑیوں میں سے نکلی اور ایک طرف کو غائب ہو گئی۔ میں نے فوراً اپنے پرانے دشمن کو پہچان لیا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ دو بج رہے تھے چیتے کو دیکھ کر نیند غائب ہو گئی تھی۔ اور میرے اعصاب پوری طرح بیدار اور چست ہو گئے تھے۔ چیتے کے صبر و استقلال کی داد نہ دینا ظلم ہو گا۔ اگرچہ اس نے سر ِشام ہی دیکھ لیا تھا۔ لیکن پورے سات گھنٹے انتظار کرنے کے بعد وہ اپنی کمین گاہ سے باہر نکلا تھا۔ مجھے اب یہ اندیشہ تھا کہ اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر وہ جست لگا کر چھت پر چڑھ آیا تو میری خیر نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کافی طاقتور اور پھرتیلا ہے۔ اور ایسے چیتے کے لیے بارہ یا پندرہ فٹ تک جست لگا لینا کوئی مشکل کام نہ ہو گا۔
بجلی ایک مرتبہ پھر چمکی اور میں نے سامنے دیکھا تو چیتا مجھ سے صرف بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا۔ میں نے رائفل کی نال پر فِٹ کی ہوئی ٹارچ روشن کی تو چیتا وہاں سے غائب تھا۔ غالباً وہ کسی جھونپڑے کی آڑ میں ہو گیا تھا۔ اب میں نے پہلی مرتبہ اس کے غرّانے کی آواز سنی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ جسے وہ ‘شکار’ سمجھ رہا ہے وہ شکار نہیں، شکاری ہے۔ بستی کے آوارہ کتّے جو خاموش تھے۔ یک لخت بھونکنے لگے اور چیتے کی غرّاہٹیں بھی بلند ہو گئیں پھر میں نے خشک پتوں پر اس کے دوڑنے کی آواز بھی سنی اور ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔
اب مشرق کی طرح سے صبحِ کاذَب کے ہلکے ہلکے آثار نمودار ہو رہے تھے۔ میں کافی دیر تک وہیں بیٹھا رہا کہ شاید چیتا دوبارہ آئے مگر وہ نہ آیا۔ آسمان پر گھٹا تلی کھڑی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی۔ میں مجبوراً وہاں سے اترا اور گاؤں کے نمبردار کے مکان کی طرف بھاگا۔ اس کا مکان بھی دو ڈھائی فرلانگ دور تھا۔ جونہی میں چھت سے نیچے اُترا۔ مکان کی شمالی دیوار کے ساتھ دبکا ہوا ایک کتا بُری طرح بھونکا اور ایک طرف کو بھاگا۔ میں ٹارچ کی روشنی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ سامنے جھاڑیوں میں سے چیتا غرّاتا ہوا نکلا اور چھلانگیں مارتا ہوا میری طرف آیا۔ اس وقت اس حیوان میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں۔ میں نے بد حواسی میں نشانہ لیے بغیر فائر جھونک دیا۔ چیتے نے قلابازی کھائی اور واپس جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔ اس کے حلق سے اب غرّانے اور چیخنے کی بھیانک آوازیں نکل رہی تھیں جن سے سارا جنگل لرز رہا تھا۔ ہوش و حواس میرے بھی جواب دے گئے تھے۔ میں چھت پر چڑھ گیا۔ موسلا دھار بارش میں وہیں بیٹھا رہا۔ میں نے ٹارچ روشن کر لی۔ چیتا سامنے جھاڑیوں میں چھپا ہوا بار بار غرّا رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ زخمی ہو گیا ہے۔ بارش میں بھیگنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سردی سے تھر تھر کانپنے لگا۔ بڑی مصیبت میں جان تھی۔ میں نے سوچا اگر اس طرح بارش میں بھیگتا رہا تو صبح تک میری لاش بھی اکڑ چکی ہو گی۔ پس رائفل اٹھائی اور سامنے جھاڑیوں میں فائروں کی بارش کر دی۔ دس بارہ فائر کیے۔ چیتا غرّایا لیکن پھر یکدم چپ ہو گیا۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد نیچے اترا۔ رائفل میرے ہاتھ میں تیار تھی۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں مَیں نے جھاڑیوں کو خوب دیکھا، مگر وہاں تازہ خون کے بڑے بڑے دھبّوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اور خون کے یہ دھبّے بھی آہستہ آہستہ بارش کے پانی سے صاف ہوتے جا رہے تھے۔
دوسرے روز میں دن چڑھے تک سوتا رہا اور جب بیدار ہوا تو میرے جسم کا بند بند تھکن سے درد کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا۔ کہ چیتا بڑا سخت جان نکلا۔ اگر وہ بچ گیا تو پہلے سے بھی زیادہ غضبناک ہو گیا ہو گا۔ اتنے میں بنگلے کے باہر ڈھول کے ساتھ ساتھ بہت سے آدمیوں کا شور و غل سنائی دیا۔ میں باہر نکلا تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دس بارہ آدمی آگے آگے اچھلتے کُودتے اور ڈھول بجاتے چلے جا رہے تھے۔ اور پیچھے ایک دو موٹے بانسوں پر پانچ آدمیوں نے چیتے کی لاش اٹھا رکھی تھی۔ معلوم ہوا کہ چیتے کی لاش صبح کے وقت جنگل میں ندی کے کنارے پڑی ہوئی پائی گئی۔ اس کے پیٹ میں دو گولیاں اور کندھے پر ایک گولی لگی تھی۔
اور اس طرح ست پورہ کا وہ آدم خور چیتا جس نے بتّیس جانوں کو ہلاک کیا تھا، اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
٭٭٭
شانگو کے پانچ مگرمچھ
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں دریا میں گرا، تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نادیدہ قوت نے مجھے پانی میں دھکیل دیا ہے۔ میرا جسم ایک دم سن ہو گیا۔ اور ہوش و حواس رخصت ہو گئے۔ میں نے بمشکل اپنے اوسان بحال کیے۔ در اصل یہ حادثہ ایسا فوری تھا کہ پانی میں گرنے سے اپنے آپ کو بچا نہ سکا، ورنہ مجھ جیسا تجربہ کار اور مشّاق شکاری یوں بچوں کی طرح پانی میں گر جائے، قطعی نا ممکن بات ہے۔ وہ موذی مگرمچھ، جس کا میں تعاقب کر رہا تھا، ضرورت سے زیادہ قوی اور چالاک ثابت ہوا۔ میں نے اپنا ہار پون متعدّد مرتبہ اس کے اوپر پھینکا، لیکن ہر بار وہ صاف بچ نکلتا۔ مگرمچھ بار بار پانی کی تہہ میں جاتا اور پھر سطح پر آتا۔ اس کی لمبی دُم پانی میں تیزی سے گردش کر رہی تھی اور پانی دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ گرمی سے اُبل رہا ہے۔ میری کشتی اب مگرمچھ کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔ میں نے ایک بار پھر ہارپون ہاتھ میں سنبھالا اور مگرمچھ کے کھلے ہوئے جبڑے کا نشانہ لے ہی رہا تھا کہ اس نے اپنی دم اس زور سے ماری کہ کشتی چکّر کھا گئی اور میں اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور الٹ کر دریا میں جا گرا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ گرتے گرتے بھی میں نے اپنے ساتھی ہنری کی آواز سنی تھی۔
‘کشتی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ مگرمچھ تمہارے پیچھے ہے۔ میں اس پر حملہ کر رہا ہوں۔‘
میں ایک دم دریا کہ تہہ میں بیٹھتا چلا گیا اور جب چند سیکنڈ بعد سطح پر ابھرا تو خونخوار مگرمچھ کشتی کی جانب بل کھا رہا تھا۔ ہنری نے جب مجھے پانی کے اوپر دیکھا، تو چلّایا: ‘خبردار۔۔۔ ادھر ہی ہے۔۔۔‘ پھر اس نے اپنی ٹارچ روشن کی، ایک لمحے کے لیے میری آنکھوں میں چکا چوند سی ہوئی اور پھر میں نے آگے بڑھ کشتی کا ایک تختہ تھام لیا۔ آسمان پر تارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ‘ذرا ایک منٹ صبر کرو۔ میں تمہارا ہاتھ پکڑتا ہوں۔‘ ہنری پھر چلّایا۔ اتنے میں کشتی کو جھٹکا لگا اور میرا ہاتھ پھسل گیا اور میں ایک بار پھر پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ میں نے اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیے اور کشتی تک پہنچنے کے لیے پوری قوت صرف کر دی۔ رات ایسی نہیں اندھیری تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں نے ہنری کو آواز دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ موجوں کے شور میں میری آواز دب گئی۔ یکایک میرا ہاتھ کسی نرم شے سے ٹکرایا اور بجلی کی ایک رو میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرا ہاتھ مگرمچھ کی کھال کو چھو چکا تھا جو پانی کے اندر تیر رہا تھا۔ اتنے میں ہنری کی کانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ‘ولیم’ یہاں سے فوراً تیر کر دُور نکل جاؤ۔ مَیں دیکھ چکا ہوں، کئی مگرمچھ ہیں اور ان سب سے لڑنا حماقت ہے۔ وہ ہمیں زندہ نہ چھوڑیں گے۔۔۔ جلدی کرو۔‘ یہ کہہ کر اس نے پھر ٹارچ روشن کی اور خوف سے میری جان ہی نکل گئی۔ مجھ سے کوئی دس پندرہ گز کے فاصلے پر ایک مہیب مگرمچھ اپنا بھیانک جبڑا کھولے موجود تھا، اس کے عقب میں دو چھوٹے مگرمچھ اور تھے۔ میں نے جان بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے۔ مگرمچھ میرے قریب آ چکا تھا۔ اسی لمحے ہنری کے ہاتھ سے ہارپون سنسناتا ہوا آیا اور مگرمچھ کے حلق میں گڑ گیا مگرمچھ کی درد شدت سے پانی کے اندر الٹ گیا اور بُری طرح تڑپنے لگا۔ اس کی لمبی دم میری پشت سے آ کر لگی اور میں ایک بار پھر پانی کے اندر ڈبکیاں کھانے لگا۔ مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے کسی نے کوڑے مار مار کر میری پشت لہولہان کر دی ہے۔ چند سیکنڈ بعد ہنری نے اندھا دھند ہارپون پھینکنے شروع کر دیے۔ جو میرے سر کے اوپر سے سنسناتے ہوئے گزرنے لگے اور میں نے سمجھ لیا کہ اب میرا کام تمام ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں۔ آخری بار حلق پھاڑ کر چیخا: ‘ہنری، ارے بیوقوف، گدھے، یہ بند کرو، کیا مجھے مار ڈالنے کا ارادہ ہے۔‘
اتنے میں اس کی ٹارچ پھر روشن ہوئی اور میں نے دیکھا کہ کشتی اب تیس بتیس گز دور ہے میں نے ایک بار پھر کشتی کی طرف ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے لیکن میں تھک گیا تھا۔ دریا کے یخ بستہ پانی نے میرا جسم سُن کر دیا اور پھر دو تین مگرمچھ اب بھی مجھ سے کچھ فاصلے پر موجود تھے۔ اور مجھے ہڑپ کر لینے کے لیے مستعد۔۔۔ موت کا بھیانک چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔ ذرا غور کیجیے کہ آدھی رات کا وقت۔۔۔ دریا کا سرد پانی تین خونخوار مگرمچھ اور میری اکیلی جان۔۔۔ مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہونے لگا کہ ایسی موت مرنا اپنی قسمت میں لکھا تھا۔ سچ ہے کہ لالچ کے ہاتھوں یہ کڑا وقت دیکھنا پڑا۔ ان دنوں ہم دونوں پر مگرمچھ مارنے کا بھُوت بُری طرح سوار تھا، کیونکہ کھالوں کی بڑی مانگ تھی۔ اور ہم اب تک ساٹھ ستّر مگرمچھ مار چکے تھے، اس لیے دوسرے بیشتر شکاری ہم سے حسد کرنے لگے۔ اسی لالچ کے تحت ہم نے سوچا کہ دن کو تو دوسرے شکاری بھی مگرمچھ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ مقابلہ ہمارے لیے بڑا کٹھن ہوتا ہے، اس لیے کیوں نہ رات کے وقت شکار پر نکلا جائے، چنانچہ ہم آدھی رات کے وقت دریا کے سینے پر اپنی بڑی سی کشتی چلاتے اور ٹارچوں کی مدد سے مگرمچھوں کو تلاش کرتے رہتے اور جلد ہی ہمیں دو تین مگرمچھ مل جاتے جو یا تو ریت پر لیٹے آرام کر رہے ہوتے یا دریا میں تیرتے ہوئے نظر آ جاتے ہمارے پاس لمبے لمبے ہارپون تھے۔ یہ نیزے کی شکل کا ایک ہتھیار ہوتا ہے جس کے اوپر کا حصّہ لمبی رسّی سے بندھا رہتا ہے۔ جونہی ہمیں مگرمچھ پانی میں نظر آتا، پوری قوت سے ہارپون اس کے اوپر پھینک دیتے۔ ہارپون سنسناتا ہوا جاتا اور مگرمچھ کی گردن یا کمر میں گڑ جاتا۔ مگرمچھ کو اس طرح متعدد بار زخمی کرنے کے بعد اسے گھسیٹ کر کنارے پر لے جاتے۔ ہم نے پروگرام بنایا تھا کہ جب کافی رقم جمع ہو جائے گی۔ تو ایک رائفل خرید لیں گے اور اپنی کشتی میں موٹر بھی لگا لیں گے۔
اس رات بھی ہم حسبِ معمول مگرمچھ کی تلاش میں نکلے، تو پہلے ہی موقعے پر یہ حادثہ پیش آیا۔ اتنا بڑا مگرمچھ اس سے پہلے اس دریا میں کسی نے نہ دیکھا تھا۔ ظالم میں بلا کی قوّت تھی اور اس کا جبڑا تو غار کی مانند کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے اور ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمارا نصیبہ اوج پر ہے۔ اس کی کھال بیچ کر وارے نیارے ہو جائیں گے، لیکن یہ خبر نہ تھی کہ مگرمچھ کے روپ میں موت میرا تعاقب کر رہی ہے۔ یکایک میں نے محسوس کیا کہ مگرمچھ نے میری دونوں ٹانگیں اپنے جبڑے میں دبا لی ہیں اور میں آہستہ آہستہ پانی کے اندر اتر رہا ہوں۔ میں نے مگرمچھ کے جبڑے سے ٹانگیں آزاد کرانے کی کوشش نہ کی، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اگر ایسی کوشش کی گئی، تو میری ٹانگیں کٹ کر اسی کے جبڑے میں رہ جائیں گی۔ میں جانتا تھا کہ وہ مجھے ہلاک کرنے کے لیے پانی کے اندر لے جا رہا ہے، مگر فوراً ہی اسے سانس لینے کے لیے پانی کی سطح پر آنا پڑے گا۔ اس لیے میں نے اپنا سانس روک لیا اور اپنے آپ کو مگرمچھ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
یقین کیجیے کہ اگر مجھے سانس روکنے کی مشق نہ ہوتی، تو آج یہ واقعہ آپ کو سنانے کے لیے میرا وجود دنیا میں نہ ہوتا۔۔۔ مگرمچھ نے مجھے اندازاً دو منٹ تک پانی کے اندر دبائے رکھا اور جب اس نے محسوس کیا کہ مجھ میں حرکت باقی نہیں رہی تو وہ اسی طرح مجھے منہ میں پکڑے ہوئے پانی کے اوپر جانے لگا اور جونہی اس نے اپنا سر باہر نکالا، میں نے پوری قوت سے جھٹکا دیا اور اس کے جبڑے کی گرفت سے آزاد ہو گیا۔ میری کمر کے ساتھ بندھی ہوئی چمڑے کی پیٹی میں لمبا شکاری چاقو موجود تھا۔ اس سے پیشتر کہ مگرمچھ مجھے دوبارہ اپنے شکنجے میں گرفتار کرے، مَیں نے ہاتھ بڑھا کر چاقو اس کی گردن کے نچلے حصّے میں گھونپ دیا۔ مگرمچھ کی گردن سے خون نکلنے لگا لیکن اس نے اس زخم کا کوئی اثر قبول نہ کیا اور ایک بار پھر غصّے سے بل کھا کر میری ٹانگیں اپنے جبڑے میں دبا لیں۔ درد کی شدت سے میں تقریباً بے ہوش ہو چکا تھا۔ تاہم اتنا احساس باقی تھا کہ مگرمچھ مجھے گھسیٹ کر تیزی سے پانی کے اندر تیر رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ احساس بھی جاتا رہا اور میں قطعی طور پر بے ہوش ہو گیا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو ایک تاریک اور انتہائی بدبو دار مقام پر پڑے پایا۔ میرے بدن کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ ہلنے جلنے کی سکت بالکل نہ تھی۔ چند لمحے تک میں وہیں پڑا سوچنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہاں مَیں کیسے آیا اور یہ کون سی جگہ ہے۔ پھر یاد آیا کہ مجھے تو مگرمچھ گھسیٹ کر لایا تھا۔ ذہن کام کرنے لگا اور میں نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی، تو گہری کیچڑ کے اندر جسم دھنسنے لگا اور سڑے ہوئے گوشت کی بدبو ٹھنڈی ہوا کے ساتھ اور تیزی سے میرے نتھنوں میں گھسنے لگی۔ مجھے یہ خوف تھا کہ میں اس مقام پر قید ہو چکا ہوں جہاں مگرمچھ دن کے وقت آرام کرتا ہے اور اپنی شکار کی ہوئی مچھلیاں اور دوسرے جانور یہیں چھپاتا ہے تاکہ گوشت خوب سڑ جائے، تو وہ اسے ہڑپ کر جائے۔ مگرمچھ نے مجھے بھی مُردہ سمجھ کر یہاں لا ڈالا تھا اور مجھے اب موت کے اس گڑھے سے کسی نہ کسی طرح نکلنا تھا۔
یکایک میں نے اس تاریک گڑھے کے اوپر مگرمچھ کے خراٹوں کی آواز سُنی۔ یہ آواز سُنتے ہی میرا رہا سہا خون بھی خشک ہونے لگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مگرمچھ باہر موجود ہے اور اگر میں ذرا بھی حرکت کروں گا تو وہ جاگ اٹھے گا۔ مجھے اب چپ چاپ یہ مشاہدہ کرنا چاہیے کہ مگرمچھ کیا کرتا ہے۔ رہائی کی ایک ہی صورت ہے کہ اسے بھوک لگے اور وہ مچھلیاں ہڑپ کرنے دریا کے اندر چلا جائے، مجھے اس بدبو دار کیچڑ سے بھرے ہوئے تاریک غار میں پڑے پڑے آدھ گھنٹہ بیت گیا، لیکن محسوس ہوا جیسے میں صدیوں سے یہ عذاب جھیل رہا ہوں۔ میری دونوں ٹانگیں بُری طرح زخمی ہو چکی تھیں۔ مگرمچھ کے لمبے دانتوں نے میرے ٹخنوں اور پنڈلی کی ہڈیوں میں سوراخ کر دیے تھے اور میں انہیں ذرا بھی حرکت دیتا تو ناقابل برداشت درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ یکایک اس گڑھے کے اندر دریا کا سرد پانی آہستہ آہستہ بھرنے لگا۔ اب تو میں سخت گھبرایا۔ میرے اندازے کے مطابق یہ قبر نما خوفناک گڑھا کم از کم سات فٹ گہرا تین چار فٹ چوڑا تھا۔ میں اپنے انجام سے گھبرا اٹھا۔ جب میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو مجھے اس کے اندر بڑی بڑی ہڈیوں اور سڑے ہوئے گوشت کے ڈھیر دکھائی دیے۔ میں نے کان لگا کر مگرمچھ کے سانس لینے کی آواز سننا چاہا۔ مگر اندازہ ہوا کہ وہ بیدار ہو کر دریا کے اندر جا چکا ہے۔ پس میں نے اپنی تکلیف کو نظر انداز کیا اور کیچڑ کے اندر ہاتھوں سے ٹٹولتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔ میرے ہاتھ اور پیر بار بار پھسل جاتے اور میں دھڑام سے گڑھے کی تہہ میں جا گرتا۔ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت میری جسمانی اور ذہنی کیفیت کا کیا عالم تھا۔ میرے کپڑے اور سارا جسم پانی اور انتہائی غلیظ کیچڑ میں لت پت تھا، کانوں کے اندر شائیں شائیں کی تیز آوازیں مسلسل گونج رہیں تھیں۔ سر چکرا رہا تھا اور پیروں کے اندر درد کی شدّت میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وزنی کیچڑ میرے پاؤں میں اچھی طرح بھر چکی تھی۔ اس وجہ سے میرے لیے مزید اچھلنا اور گڑھے سے باہر نکلنے کی کوشش کرنا خاصا مشکل کام ہو گیا۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس اچھل پھاند میں میرے بائیں بازو کی ہڈی بھی چٹخ گئی تھی۔
سورج طلوع ہونے تک میں گڑھے سے نکلنے کی برابر کوشش کرتا رہا۔ حتیٰ کہ میرا بدن تھک کر شَل ہو گیا۔ آہستہ آہستہ سورج کی روشنی اس اندھیرے گڑھے میں آنے لگی اور میں اچھی طرح دیکھنے کے قابل ہوا تو مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس گڑھے کے ایک جانب تنگ سا راستہ ہے جو مگرمچھ ہی نے کھود کر بنایا تھا، کیونکہ وہاں بھی گوشت اور ہڈیوں کا بڑا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں اس ڈھیر پر چڑھ گیا اور ٹٹول کر راستہ تلاش کرنے لگا۔ آخر میرے ہاتھوں نے دریا کے پانی کی سطح کو چھو لیا اور اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو دریا کے اس حصے میں پایا جہاں پانی گھٹنوں گھٹنوں تک اونچا تھا۔ دوسرے کنارے پر پہنچ کر ریت پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ بعد میں ہنری نے مجھے بتایا کہ میں پورا ایک دن اور ایک رات وہاں لاش کی طرح پڑا رہا ہوں۔ ہنری نے میری تلاش میں دریا کا دور دور تک چکر لگایا اور اتفاق دیکھیے کہ جب وہ تیسرے روز مُنہ اندھیرے اسی مگرمچھ کو مار کر واپس جا رہا تھا۔ اس نے کنارے پر کوئی کالی کالی شے پڑی دیکھی۔ شوقِ تجسّس میں جب وہ اس شے کو قریب سے دیکھنے کے لیے کشتی وہاں لایا تو یہ دیکھ کر اسے خوشی ہوئی کہ اس کا گم شدہ دوست وہاں زندگی اور موت کی درمیانی کڑیاں طے کر رہا تھا۔ اگر ہنری اس روز مجھے وہاں نہ پاتا تو میں یقیناً کسی اور مگرمچھ کے مُنہ کا نوالہ بن چکا ہوتا۔ یہ پہلا حادثہ تھا جو مجھے گوٹی مالا کے مشہور دریا موٹا گوا میں پیش آیا۔
تین ماہ بعد جب میں دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا، تو اس دوران میں وہ تمام روپیہ جو میں نے مگرمچھ کی کھالیں بیچ بیچ کر جمع کیا تھا، خرچ ہو چکا تھا اور میں پھر اپنی کشتی اور ہارپون لیے دریا کے کنارے کھڑا تھا اور اب میں نے پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مگرمچھوں کو ہلاک کیا اور جلد ہی دریائے موٹاگوا کو ان آدم خور جانوروں سے پاک کر دیا۔ اس روپے سے میں نے دو طاقتور رائفلیں خریدیں اور ہارپون جیسا قدیم ہتھیار چھوڑ کر ان رائفلوں سے کام لینے لگا۔ میں نے اپنی پیشہ ور شکاری زندگی میں سات آٹھ سو مگرمچھ مارے اور اس لیے میرا نام مگرمچھ کے شکار کے لیے اپنے ہم پیشہ لوگوں میں بہت مشہور ہے۔ انہی دنوں شمالی رہوڈیشیا کے ایک گاؤں سے جس کا نام شی شونگو ہے اور یہ گاؤں، بیروٹ سی لینڈ کی سرحد پر واقع ہے۔ میرے دو پرانے دوستوں کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ تم گوٹی مالا کے مگرمچھوں کو مار کر شاید اپنے آپ کو بہت بڑا شکاری سمجھ رہے ہو ہم تو جب جانیں کہ یہاں آؤ اور ایک آدھ مگرمچھ مار کر دکھاؤ۔‘
والٹ اور رابنسن دونوں بھائی سیر و شکار سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ جہاں تک مگرمچھ کے شکار کا تعلق ہے، ان دونوں سے زیادہ چابک دست اور اپنے فن میں ماہر شکاری میری نظر سے نہیں گزرے۔ یہ ظالم بغیر کسی ہتھیار کے کنارے پر لے آتے اس کام کے لیے صرف ایک موٹا رسّا انہیں درکار ہوتا، اور بس۔۔۔ ان کا اصل پیشہ مگرمچھوں، کچھووں، پرندوں اور وحشی جانوروں کو زندہ پکڑ کر سرکسوں اور چڑیا گھروں کے لیے فروخت کرنا تھا۔ یہ دونوں شکاری مُلک مُلک کی سیّاحت کر چکے تھے اور اب شمالی رہوڈیشیا کا یہ دُور اُفتادہ گاؤں انہیں اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے مستقل طور پر وہیں ڈیرے ڈال دیے اور اپنی اپنی شادیاں بھی مقامی عورتوں سے رچا لیں۔
میرے پاس جب ان کا خط آیا، تو مجھے بے حد خوشی ہوئی اور پرانے دوستوں سے ملنے کی خواہش میرے دل میں شدت سے انگڑائیاں لینے لگی۔ میں نے ہنری سے کہا کہ چلو رہوڈیشیا چلتے ہیں، تو وہ کہنے لگا کہ کیا مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر سینکڑوں میل دور دھکّے کھاتا پھروں۔ تمہیں تو اس دنیا میں رونے والا بھی کوئی نہیں۔ اس لیے تم شوق سے جا سکتے ہو۔ میں نے اپنا مختصر سامان باندھا اور رہوڈیشیا جانے والے جہاز پر سوار ہو گیا۔ جس روز میں شی شانگو پہنچا ہوں اسی روز دونوں بھائیوں نے ایک نئی کشتی مکمل کی تھی جس کی لمبائی 12 فٹ اور چوڑائی 4 فٹ کے قریب تھی اور اسے انہوں نے ایک نئے انداز سے بنایا تھا کہ دور سے یہ کشتی لکڑی کا ایک مربّع صندوق نظر آتی تھی۔ میں نے حیران ہو کر کہا، یہ تم نے کیسے بنائی ہے، کیا اس کے ذریعے مگرمچھ کا شکار کرو گے۔‘
‘تم چپ چاپ دیکھتے جاؤ۔۔۔ جب یہ دریا میں چلے گی پھر اس کشتی کا فائدہ تمہیں معلوم ہو گا۔‘
تین دن تک آرام کرنے اور سفر کی تھکن اُتارنے کے بعد والٹ اور رابنسن نے شکار پر جانے کا فیصلہ کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ آج کل زندہ مگرمچھ سے زیادہ قیمتی مردہ مگرمچھ ہے، حال ہی میں مگرمچھ کی کھالیں خریدنے کے لیے برطانیہ سے ایک تاجر یہاں آیا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ تین شلنگ فی انچ کے حساب سے چھوٹے مگرمچھ کی کھالیں خریدنے کے لیے تیار ہے اور بیس فٹ لمبے مگرمچھ کی کھال 36 پونڈ میں خریدے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ خاصا معاوضہ ہے۔
‘بے شک۔۔۔ معاوضہ تو معقول ہے، لیکن یہ بتاؤ کہ یہاں بیس فٹ لمبے مگرمچھ بھی پائے جاتے ہیں، یا نہیں؟’
‘بے شمار۔۔۔‘ والٹ نے کہا، ‘لیکن ان کو مارنا اپنی جان ہتھیلی پر رکھنے کے مترادف ہے یہ کم بخت بہت ہوشیار ہوتے ہیں اور کنارے پر تو شاذ و نادر ہی آرام کرتے ہیں۔ ان کو دریا کی گہرائی کے اندر تلاش کر کے مارا جا سکتا ہے۔ بہرحال جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ہمیں کام شروع کر دینا چاہیے۔ آدھی رات کے بعد ہم دریا پر چلیں گے کیونکہ یہ وقت ہے جب اکثر مگرمچھ خطرے سے بے پروا ہو کر کناروں پر نیند کے مزے لوٹا کرتے ہیں۔ فیصلہ ہوا کہ میری آمد کی خوشی میں شکار کے لیے رائفلیں استعمال کی جائیں گی۔
ان بھائیوں کے چھوٹے سے خوب صورت مکان سے کوئی تین فرلانگ کے فاصلے پر دریائے شانگو بہتا تھا اور میں دیکھ چکا تھا کہ یہ دریا مگرمچھوں کی بہت بڑی پرورش گاہ ہے۔ اس دریا کا پاٹ کافی وسیع تھا اور اس کے اندر چھوٹے بڑے مگرمچھ مچھلیوں کی مانند تیرتے دکھائی دیتے تھے دوپہر کے وقت جب میں اور روبنسن دریا کی طرف گئے تو ایک درجن کے قریب مگرمچھ ریتلے کنارے پر بے حس و حرکت پڑے تھے۔ ہماری آہٹ پاتے ہی وہ بڑی پھرتی سے غڑاپ غڑاپ پانی میں کود گئے اور دریا کے درمیانی حصّے میں تیرنے لگے۔ روبنسن نے کندھے سے رائفل اتاری اور ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ کئی گولیاں مگرمچھوں کو لگیں، لیکن بے سود۔۔۔ آخر ایک گولی مگرمچھ کے مختصر سے بھیجے کو پھاڑتی ہوئی گزر گئی۔ چند منٹ تک وہ دریا میں مچلتا رہا۔ آخر اس کی لاش سرد ہو کر سطح پر تڑپنے لگی اور اس سے پیشتر کہ ہم کنارے پر بندھی ہوئی چھ سات کشتیوں میں سے ایک کشتی پر سوار ہو کر مُردہ مگرمچھ کو گھسیٹ کر لاتے، چھ سات دوسرے مگرمچھ ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے اور لاش گھسیٹ کر پانی کی تہہ میں لے گئے۔ روبنسن طیش میں آ کر ان مگرمچھوں کو گالیاں دینے لگا اس نے مجھے بتایا کہ گزشتہ دو مہینوں میں تقریباً بیس مگرمچھ میں نے مارے، لیکن صرف پانچ مگرمچھوں کی لاشیں حاصل کر سکا۔ بقیہ پندرہ لاشیں دوسرے مگرمچھ ہڑپ کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان موذیوں کو زندہ پکڑنے ہی میں اپنا فائدہ سمجھتے ہیں۔ خدا نے ان دریائی جانوروں کو ایسی سخت جان عطا کی ہے کہ وہ آسانی سے نہیں مرتے۔ ایک مرتبہ میں نے کوئی اٹھارہ فٹ لمبا مگرمچھ دھوپ میں آرام کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کی زرد کھال دھوپ میں چمک رہی تھی اور اس پر آنکھ نہیں ٹھہرتی تھی۔ میں نے بلا مبالغہ اس پر دس فائر کیے ہوں گے اور میرا کوئی نشانہ خطا نہیں گیا۔ لیکن خدا معلوم اس کی کھال فولاد کی بنی ہوئی تھی کہ دس گولیاں کھا کر بھی اس نے کوئی اثر نہ لیا، بلکہ تیزی سے رینگتا رہا اور دریا میں کُود گیا۔ مجھے یقین تھا کہ اِس قدر زخمی ہونے کے باوجود وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ پس میں چار گھنٹے تک اس کا انتظار کرتا رہا کہ اب اس کی لاش پانی کی سطح پر اُبھرے گی، لیکن دریا میں دور دور تک تلاش کرنے کے باوجود مجھے اس کا سراغ نہ ملا۔ ایک ہفتے بعد جب کہ وہ مگرمچھ میرے ذہن سے اتر چکا تھا اور میں ایک قوی الجثّہ کچھوے کو شکار کر کے کنارے پر گھسیٹ کر لا رہا تھا، میں نے دور پانی میں اس کا جبڑا سطح پر نمودار ہوتے اور پھر فوراً ہی پانی میں غائب ہوتے دیکھ لیا تھا۔ وہ یقیناً میرا تعاقب کر رہا تھا۔ اتفاق کی بات کہ میرے پاس ایک ہارپون کے سوا اور کوئی ہتھیار نہ تھا۔ اپنی بے بسی پر اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا اگرچہ یہ ہارپون ہلکا تھا، لیکن بد قسمتی سے اس کی رسی بھی زیادہ دراز نہ تھی، ورنہ میں اسے مگرمچھ پر ضرور پھینک دیتا۔ میں نے سوچا کہ مگرمچھ کو فریب دینا چاہیے۔ میں جلدی جلدی کنارے پر پہنچا اور کچھوے کی لاش بے پروائی سے ذرا دور چھوڑ کر اس سے تیس گز کے فاصلے پر ریت کے ایک ڈھیر کے پیچھے چھپ گیا۔ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد مگرمچھ پانی کی سطح پر ابھرا اور آہستہ آہستہ کنارے پر آیا اور لمبی تھوتھنی پانی سے باہر نکال کر ریت پر رکھ دی اور زرد زرد آنکھوں سے کچھوے کی لاش کو دیکھنے لگا۔ پھر وہ چند فٹ رینگتا ہوا باہر آیا اور رک گیا۔ میں سانس روکے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مگرمچھ کو ریت پر گھسٹنے میں خاصی قوت صرف کرنی پڑی ہے، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ گولیاں کھانے کے باعث جگہ جگہ سے اس کا جسم زخمی ہو چکا تھا اور خون کی اچھی خاصی مقدار خارج ہو چکی تھی۔ قصّہ مختصر پکھوے سے چند فٹ کے فاصلے پر آ کر وہ رکا۔ لیکن پھر اپنے پنجوں کے بل گھوم کر اس نے دریا کی طرف اس انداز میں دیکھا کہ اتنی دور آ کر اس نے غلطی کی ہے اور بلا شبہ اس غلطی نے اس کی جان گنوائی۔ غالباً وہ بہت بھوکا تھا اور کچھوے کا گوشت ہڑپ کرنے کے لالچ میں پانی سے اتنی دور نکل آیا۔ اس نے جلدی سے اپنے جبڑے میں کچھوے کو دبایا اور دریا کی طرف پلٹا۔ بس اسی لمحے میں نے اپنا ہارپون بلند کیا اور پوری قوّت سے مگرمچھ کی طرف پھینکا۔ ہارپون سنسناتا ہوا گیا اور اس کا نُکیلا سرا مگرمچھ کی بائیں پسلی کے اندر پیوست ہو گیا۔ مگرمچھ نے بل کھایا اور مردہ کچھوا اس کے جبڑے سے نکل کر ریت پر گر گیا۔ اب اس کے منہ سے سیٹی کی مانند تیز آوازیں بلند ہونے لگیں اور اس کے زخم سے خون اُبلنے لگا۔ لیکن اس کے باوجود دریا میں کود گیا۔ ہارپون سے بندھی ہوئی رسّی کا ایک سرا میرے ہاتھ میں تھا۔ جب مگرمچھ دریا میں اترا، تو جھٹکے سے رسّی کا یہ سرا میرے ہاتھ سے نکل گیا۔ میں نے دوڑ کر رسّی کو پکڑنا چاہا مگر اتنی دیر میں مگرمچھ پانی کی تہہ میں اتر چکا تھا۔ میں نے بھی سوچے سمجھے بغیر دریا میں چھلانگ لگا دی۔ مگرمچھ سے زیادہ میرے لیے وہ ہارپون قیمتی تھا۔ جسے تیار کرنے میں کافی محنت اور وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔
جب میں دریا کودا تو مگرمچھ آہستہ آہستہ پانی کی تہہ سے اوپر آ رہا تھا میں نے خیال کیا کہ وہ مر چکا ہے، کیونکہ اس میں حرکت کے آثار قطعاً نہ تھے۔ ہارپون اب بھی اس کی پسلی میں گڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بے جان مگرمچھ پانی کی سطح پر تیرنے لگا۔ میں نے بے دھڑک اس کی دم پکڑ لی۔ مگر دُم پکڑتے ہی جیسے میرے بدن میں خون جمنے لگا۔ کیونکہ بجلی کی مانند مگرمچھ نے بل کھایا اور میرا بایاں ہاتھ جبڑے میں دبا لیا۔ اس کا سارا جسم تھرتھرا رہا تھا اور اس میں ابھی جان باقی تھی میں نے دائیں ہاتھ سے اس کے جبڑے کے اُوپر کا حصّہ پکڑ لیا اور اسے اوپر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کہاں ایک قوی ہیکل مگرمچھ اور کہاں ایک معمولی قوّت رکھنے والا انسان۔۔۔ مگرمچھ مجھے لے کر پھر دریا کے اندر جانے لگا۔ میں نے اپنے آپ کو مگرمچھ کے منہ سے آزاد کرانے کی سر توڑ کوشش کی مگر جلد ہی دم ٹوٹنے لگا اور مجھے اپنی موت کا پورا یقین ہو گیا۔ اس بے بسی کے عالم میں اتفاق سے ہارپون پر میرا ہاتھ جا پڑا۔ میں نے ہارپون اس کے جسم سے کھینچ لیا۔ مگرمچھ ایک بار پھر پانی کے اندر تڑپا اور جونہی اس نے جبڑا کھولا، میں اس کی گرفت سے آزاد ہو گیا۔ میں سانس لینے کے لیے پانی کی سطح پر آیا تو مگرمچھ مجھے پکڑنے کے لیے لپکا۔ مگر اب وہ بھی سست ہو چکا تھا۔ میں نے فوراً ہی اس کے جبڑے کے اندر ہارپون اتار دیا اور رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر کنارے کی جانب تیرنے لگا۔ پندرہ منٹ بعد مُردہ مگرمچھ کنارے پر پڑا تھا اور میں جان بچ جانے پر بار بار خدا کا شکر ادا کر رہا تھا۔ جب میں نے اٹھارہ فٹ لمبے مگرمچھ کی کھال اتاری تو اس پر ہارپون کی ضربوں اور متعدّد گولیوں کے نشان موجود تھے۔ اس لیے یہ کھال ٹکڑے ٹکڑے کر کے فروخت کی۔
رات اندھیری تھی ہوا شام ہی سے تیز چل رہی تھی۔ دریا کی جانب سے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے جب آتے، تو میرے بدن پر کپکپی سی طاری ہو جاتی۔ لیکن رابنسن اور والٹ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر شکار پر جانے کی تیاریوں میں اطمینان سے مصروف تھے۔ انہوں نے اپنی مدد کے لیے تین مقامی ملّاحوں کو بلوا لیا تھا۔ رائفلوں کو صاف کیا جا چکا تھا۔ ہارپون کی جانچ کی جا چکی تھی، شکاری چاقو کمر سے باندھ لیے گئے تھے اور برقی ٹارچیں احتیاط سے کوٹ کی جیبوں میں رکھ لی گئی تھیں۔ صندوق نما کشتی آہستہ آہستہ دریا کی لہروں پر اچھلتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔ چونکہ ہم بہاؤ کے الٹے رُخ جانا چاہتے تھے، اس لیے ملاحوں کو خاصا زور لگانا پڑ رہا تھا۔ جب ہم دریا میں کافی دور نکل آئے تو رابنسن اور والٹ نے اپنی اپنی ٹارچیں روشن کیں اور پانی کی سطح دیکھنے لگے۔ خدا کی پناہ۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بلا مبالغہ سینکڑوں ہی سُرخ سُرخ چمکتی ہوئی آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں۔ دریا کا یہ حصّہ مگرمچھوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ سب پانی کے اندر چلے گئے اور میرے دوستوں نے ملّاحوں کو حکم دیا کشتی اور تیز کر دو تاکہ یہ مگرمچھ کناروں کی طرف چلے جائیں۔ پھر ہم آسانی سے پانچ دس مگرمچھ مار لیں گے۔ کشتی اور تیز ہو گئی۔ ہوا کا طوفان آہستہ آہستہ شدّت اختیار کرتا جا رہا تھا اور دریا میں اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگی تھیں جو ہماری کشتی سے بار بار ٹکراتیں اور اس کا رخ پھیر دیتیں۔ اب میں سمجھا کہ اگر یہ کشتی اس خاص طریقے سے نہ بنائی جاتی تو اس میں یقیناً پانی بھر جاتا۔۔۔ والٹ نے فخریہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہا! آج دریا زوروں پر ہے لیکن ہم بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ اس طوفانی موسم میں بہت کم شکاری یہاں آنے کی جرأت کریں گے۔ اس لیے ہمیں اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اتنے میں رابنسن نے اپنی ٹارچ روشن کی۔ تیز سفید روشنی کی ایک لمبی لکیر دریا کی لہروں سے گزرتی ہوئی کنارے تک پہنچ گئی اور وہ ایک دم چلّایا، ‘وہ دیکھو کتنے مگرمچھ کنارے پر موجود ہیں۔ کشتی فوراً ادھر لے چلو۔‘ اس نے جوشِ اضطراب میں مگرمچھوں کو گننے کی کوشش کی۔ ‘ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔ پانچ۔۔۔ چھ۔۔۔ سات۔۔۔ اور وہ آٹھ۔۔۔‘ وہ بچّوں کی طرح کشتی کے اندر تالیاں بجا کر اچھلنے لگا۔ ‘یہ سب ہمارے مہمان دوست کی برکت ہے‘۔
وہ دونوں تو خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور میرا حال یہ تھا کہ بدن سے پسینہ چھوٹ رہا تھا۔ بار بار یہ خدشہ میرے سامنے آتا کہ اگر اس دریا میں ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی گر جائے تو اس کی لاش تو درکنار، ہڈیوں کا بھی پتہ نہ چلے گا خدا کی پناہ۔۔۔ سارا دریا مگرمچھوں سے بھرا ہوا تھا اور میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ دریا میں گرنے کے بعد کوئی شخص کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔
جب کشتی کنارے سے تھوڑے فاصلے پر رہ گئی تو ملّاحوں نے چپّو چلانے بند کر دیے تاکہ ان کی آہٹ سے مگرمچھ خبردار نہ ہو جائیں۔ میں اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ آخر ایک جگہ کشتی رُک گئی اور ہم تینوں گھٹنے گھٹنے پانی میں اتر گئے اور کنارے پر جا پہنچے۔ کشتی سے اترتے وقت والٹ نے ملّاحوں کے کان میں کہا کہ وہ کشتی کو ذرا دور ہٹا کر کنارے پر احتیاط سے باندھ دیں۔ تاکہ پانی کے تیز بہاؤ میں بھٹک نہ جائے۔ اس کے بعد ہم گیلی گیلی ریت پر پیٹ کے بَل لیٹ گئے۔ چند منٹ بعد جب میری آنکھیں اندھیرے میں کام کرنے لگیں، تو یہ دیکھ کر روح فنا ہو گئی کہ مجھ سے صرف بیس فٹ کے فاصلے پر پانچ مگرمچھ موجود ہیں، جن کی کھلی تھوتھنیوں میں سے لمبے لمبے سفید دانت چمک رہے تھے۔ ان کے جسم رات کی تاریکی اس طرح پوشیدہ تھے کہ نظر باندھ کر اگر نہ دیکھا جائے، تو کچھ پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ یہ مگرمچھ ہیں یا درختوں کے کٹے ہوئے تنے پڑے ہیں۔ پہلے ان کی تعداد آٹھ تھی، لیکن ہمارے پہنچنے سے قبل تین مگرمچھ پانی میں اتر چکے تھے۔۔۔ یکایک والٹ اور رابنسن نے اپنی ٹارچیں روشن کر دیں اور مگرمچھوں نے فوراً خبردار ہو کر اپنی سُرخ سُرخ آنکھیں کھول دیں۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل زور سے دھڑکا، کیونکہ روشنی میں وہ اپنی جسامت سے کئی گنا بڑے دکھائی دینے لگے اور جونہی انہوں نے بیک وقت پانی کی طرف رینگنے کے لیے حرکت کی ہماری رائفلیں شعلے اُگلنے لگیں۔ میں نے ٹارچوں کی تیز روشنی میں دیکھا کہ ایک گولی مگرمچھ کی آنکھوں کے عین درمیان میں لگی اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔ خون کی ایک ابلتی ہوئی اس کی پیشانی سے برآمد ہو رہی تھی۔ باقی چار مگرمچھ گولیوں کی بوچھاڑ میں سے صاف نکل کر پانی میں کود گئے۔
والٹ کے حلق سے فاتحانہ نعرہ بلند ہوا اور وہ تڑپتے ہوئے مگرمچھ کی طرف بھاگا۔ ہم نے بھی اس کی تقلید کی۔ اگر ایک منٹ کی بھی تاخیر ہوتی تو زخمی مگرمچھ پانی میں کود چکا تھا اس موقعے پر ہارپون نے خوب کام دیا۔ رابنسن نے رائفل پھینک، مگرمچھ کی دم پکڑ لی اور والٹ نے اپنا ہارپون اس کے کھلے ہوئے جبڑے کے اندر اتار دیا۔ چند ثانیے بعد مگرمچھ نے دم توڑ دیا۔ ہم نے اس کی لاش کنارے سے گھسیٹ کر تقریباً پندرہ فٹ پر ڈال دی اور علیحدہ علیحدہ ہو کر ریت پر لیٹ گئے۔ ہمیں معلوم تھا کہ گھنٹے آدھے گھنٹے بعد اس مگرمچھ کی بُو پا کر دوسرے مگرمچھ کنارے پر ضرور آئیں گے۔ اب انتظار کا ایک ایک لمحہ مجھے کاٹنا دوبھر ہو گیا تھا۔ بیس منٹ بعد میں نے اکتا کر اپنی ٹارچ روشن کی۔ کیا دیکھتا کہ کنارے پر بہت سی سُرخ سُرخ آنکھیں پانی کے باہر جھانک رہی ہیں۔ میں نے فوراً ٹارچ بُجھا دی۔ اتنے میں یوں دکھائی دیا کہ ایک بڑا مگرمچھ آہستہ آہستہ پانی میں سے نکل کر کنارے پر آنے لگا۔ وہ چند فٹ رینگتا اور پھر دم سادھ کر پڑ جاتا۔ میں نے گردن موڑ کر رابنسن اور والٹ کی جانب دیکھا، وہ بے حس و حرکت اپنی جگہ پڑے تھے۔ جب یہ مگرمچھ اتنا قریب آ گیا کہ اس کے جسم سے اٹھنے والی بدبو میرے نتھنوں میں گھسنے لگی تو میں نے ٹارچ روشن کی، اس لمحے بجلی کی مانند مگرمچھ نے بل کھایا اور پانی کی طرف لپکا لیکن میں بھی اناڑی نہ تھا۔ میں نے رائفل سے بیک وقت دو فائر کیے اور دونوں گولیاں مگرمچھ کی کھال میں پیوست ہو گئیں۔ اُدھر سے والٹ اور رابنسن نے تاک کر ہارپون پھینکے اور دوسرا مگرمچھ بھی آن واحد میں ڈھیر ہو چکا تھا۔ اس فوری کامیابی پر ہمیں جو مسّرت ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم دو بڑے مگرمچھ مار چکے تھے۔ ملّاحوں نے اِن دونوں کو رسّوں سے جکڑا اور کشتی کے ساتھ باندھ دیا۔ ان دونوں کی لمبائی پندرہ فٹ سے زیادہ تھی اور دونوں کھالوں کی قیمت پچاس پونڈ۔۔۔
اس رات پو پھٹنے تک ہم نے تین مگرمچھ اور مارے اور جب واپسی کی تیاریاں کر رہے تھے، تو رات بھر جاگنے اور مگرمچھوں سے جنگ کرنے کے باعث ہمارے بدن تھک کر چُور ہو چکے تھے کشتی کے ساتھ پانچوں مگرمچھوں کی لاشیں بندھی ہوئیں تھیں۔ اور کشتی کو پانی میں دھکیلنے کے لیے ہم سب پوری سے چپّو چلا رہے تھے۔ یکایک ایک ملّاح نے پکار کر کہا: ‘کشتی روکو۔۔۔ کشتی روکو۔۔۔ رسّا ٹوٹ گیا ہے‘۔
پانچ وزنی لاشیں تین رسّوں سے بندھی ہوئی تھیں جن میں سے درمیانی رسّا ٹوٹ گیا تھا۔ ابھی ہم کشتی کو سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک بڑے بھنور میں کشتی پھنس کر چکر کھانے لگی۔ مارے دہشت کے ہم سب کے چہرے سپید پڑ گئے۔ دریا کے یہ بھنور کتنے مہلک ہوتے ہیں، ان کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں کبھی ان میں گھر کر قسمت کی یاوری سے نکل جانے کا اتفاق ہوا ہو۔ یہ بھنور دریا کے مشرقی حِصّے میں صبح کے وقت کثرت سے پڑتے تھے اور شکار مارنے کی خوشی میں میرے ساتھیوں کو ان کا خیال رہا اور نہ ملّاحوں کو۔ رسّا ٹوٹنے کی اصل وجہ بھی یہی بھنور تھا۔ جس کے باعث کشتی کو ایک دم جھٹکا لگا اور رسّا ٹوٹ گیا۔ اس رسّے سے دو مگرمچھ بندھے ہوئے تھے۔ اگر کشتی بھنور میں گھری ہوئی نہ ہوتی، تو ہم یقیناً انہیں ضائع نہ ہونے دیتے، مگر اب تو خود ہمیں جانوں کے لالے پڑ رہے تھے۔ کشتی بچانے کی واحد صورت یہ تھی کہ اسے ہر ممکن ذریعے سے گردش میں نہ آنے دیا جائے اور اس کے پیچھے جو وزن بندھا ہوا ہے اسے ضائع کر دیا جائے۔ فوراً باقی دونوں رسّے بھی کاٹ دیے گئے اور ہم نے کشتی کے ایک جانب اپنے جسموں کا پورا وزن ڈال دیا، تاکہ پانی کا تیز بہاؤ کم سے کم اثرانداز ہو۔۔۔ ابھی ہم اسی تگ و دو میں تھے کہ دریا میں سینکڑوں مگرمچھوں نے ہمارا تعاقب شروع کر دیا۔ وہ کشتی کے چاروں طرف جمع ہونے لگے۔ وہ مُردہ مگرمچھوں کو حاصل کرنے کے لیے آپس میں چھینا جھپٹی کرنے لگے، لیکن بھنور کے قریب آنے کی کسی نے جرأت نہ کی۔ والٹ اور رابنسن نے رائفلوں سے فائر کر کے انہیں خوف زدہ کر دیا اور وہ دُور دُور ہٹ گئے۔ اتنے میں دریا کے اندر ایک طاقتور لہر اٹھی اور کشتی سے ٹکرائی، سنبھلنے کے باوجود ملّاحوں میں سے ایک شخص اچھل کر دریا میں جا پڑا۔ اس کے ساتھی چلّانے لگے۔ گرنے والا ملّاح بے بسی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ لیکن پانی اسے ہم سے دور لے گیا اور ہم نے صرف یہ دیکھا کہ مگرمچھوں نے آناً فاناً اس کی تکّا بوٹی کر ڈالی۔ یہ ایسا ہولناک منظر تھا جس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے اور میں دل ہی دل میں خدا سے اپنی جان کی سلامتی کی دعا مانگنے لگا۔ اپنے ساتھی کی موت کا اثر دونوں ملّاحوں پر ایسا ہوا کہ وہ قطعی بد حواس ہو گئے اور ہمت ہار دی۔ خود رابنسن اور والٹ کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ اب میں نے ہارپون سنبھالا اور مگرمچھوں پر اندھا دھند وار کرنے لگا۔ مگرمچھ سمٹ کر کشتی کے بائیں جانب آ گئے اور انہوں نے اتنی جرأت کی کہ جبڑے کھول کھول کر ہمیں پکڑنے کے لیے اچھلنے لگے۔ والٹ اور رابنسن کشتی سنبھالنے کی فکر میں سب کچھ بھولے ہوئے تھے اور گرداب سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم پر ایک ایک لمحہ قیامت بن کر گزر رہا تھا۔ خدا خدا کر کے کشتی اس گرداب سے نکلی اور پانی کے بہاؤ پر تیرنے لگی۔ اس حادثے نے ہمارے ذہن ماؤف کر دیے تھے۔ جب ہم کنارے پر پہنچے تو آسمان کے مشرقی کنارے سے سورج طلوع ہو رہا تھا۔
دریائے شانگو کے مگرمچھوں کے اپنے پانچ ساتھیوں کی جان کا بدلہ آخر ہم سے لے ہی لیا۔
٭٭٭
جہور کا آدم خور
1926ء کا موسمِ بہار میں نے سنگاپور میں گزارا۔ کیا با رونق اور خوبصورت شہر ہے۔ میرا دل چاہا کہ عمر کا بقیہ حصہ اسی حسین شہر میں بسر کروں، مگر ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھانے کے لیے ادھر ادھر مارا مارا پھرنا پڑتا ہے۔ چار دن بھی قرار سے بیٹھنے کا موقع نصیب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اپنی حالت پر غور کرتا ہوں، تو ہنسی آتی ہے اور آسمان کی ستم ظریفی پر کبھی خون کھول جاتا ہے۔۔۔ کیا کروں، مجبور ہوں۔ درندوں، پرندوں اور آبی جانوروں کو پکڑنے میں یہ خاکسار شیطان کی طرح مشہور ہے اور کیوں نہ ہو؟ ہر چڑیا گھر اور سرکس میں میرے پکڑے ہوئے جانور موجود ہیں۔ شیر، چیتے، مگرمچھ، ہاتھی، گینڈے، بن مانس، بندر، طوطے، قمریاں، مور، اُودبلاؤ، ریچھ، جنگلی بلّیاں، بھیڑیے، تیندوے، مچھلیاں، عقاب، اژدہے، سانپ، ملک ملک کے عجیب و غریب حشرات الارض اور خدا جانے کیا الا بلا۔ ان جانوروں کو پکڑنے کے لیے میں ایسی ایسی خطرناک جگہوں پر گیا ہوں کہ آدمی کا پتّہ پانی ہو جائے، موت کے جبڑوں سے کتنی بار جان بچا کر نکلا، اس کا تو شمار ہی کیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ آپ کی دعا سے بڑی ہی سخت جان پائی ہے۔ جاوا، سماٹرا، بورنیو، ہندوستان، برما، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے جنگلوں کا چپہ چپہ میرا دیکھا بھالا ہے۔
ان دنوں برما جانے کا مقصد صرف چند سیاہ چیتے اور کچھ بندر پکڑنا تھا، اپنے وسیع تجربے کی بدولت میں جلد ہی یہ جانور حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اب میں سنگاپور کے موسم بہار کا لطف اٹھانے کے بعد بحری جہاز سے سان فرانسسکو روانہ ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ کیونکہ یہ جانور وہاں کے چڑیا گھر کے لیے لے جانے تھے۔ پینتیس چالیس دن کے اس خطرناک بحری سفر میں میرے لیے سب سے زیادہ جو چیز پریشان کن تھی، وہ ان جانوروں کے پنجرے تھے۔ جی ہاں۔ لکڑی، لوہے اور ٹین کی چادروں کے بنے ہوئے پنجرے، میں اچھی طرح اطمینان کر لینا چاہتا تھا کہ سفر کے دوران میں جہاز کے ہچکولوں سے کوئی پنجرہ ٹوٹ تو نہیں جائے گا۔ ایک مرتبہ ذرا سی بے احتیاطی کے باعث میں مرتے مرتے بچا تھا۔ قصہ یہ ہوا کہ کانگو کے جنگلوں سے میں نے ایک جوڑا بن مانسوں کا پکڑا تھا اور میں اس جوڑے کو لکڑی کے ایک بہت مضبوط پنجرے میں بند کر کے لندن لے جا رہا تھا۔ ایک رات سمندر میں زبردست طوفان آیا، جہاز میں رکھے ہوئے جانوروں کے پنجرے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے اور اسی اثناء میں بن مانسوں کے پنجرے کی ایک دیوار چٹخ کر ٹوٹ گئی۔ بس پھر کیا تھا! دونوں قوی ہیکل بن مانس آزاد ہو گئے۔ اتفاق دیکھیے کہ مجھے آخر وقت تک پتہ نہ چلا کہ وہ آزاد ہو چکے ہیں۔ میں جب پو پھٹے معائنے کے لیے اس وسیع کمرے میں گیا جہاں پنجرے رکھے تھے تو دروازہ کھولتے ہی دونوں بن مانس اچھل کر اپنی جگہ سے اٹھے اور میری جانب لپکے۔ میں اگر اپنے حواس برقرار نہ رکھتا، تو وہ دونوں آناً فاناً مجھے دبوچ کر مار ڈالتے، پنجروں کی اوٹ لیتا ہوا کھلے دروازے سے نکل گیا۔ اس طرح ایک بار ایک بڑا چیتا پنجرے سے آزاد ہو گیا تھا۔ لوہے کی سلاخیں کچھ ڈھیلی تھیں، چیتے نے زور لگایا اور سلاخیں علیحدہ کر کے باہر نکل آیا۔ وہ پہلے بندروں کے پنجروں کی طرف گیا اور پنجے مار مار کر انہیں زخمی کر دیا۔ بندروں کی چیخیں سن کر میرے ساتھی وہاں دوڑتے ہوئے گئے۔ انہوں نے چیتے کی غُراہٹین سنیں۔ میں نے دو گھنٹے کی کوشش کے بعد چیتے کو بہلا کر ایک دوسرے پنجرے میں بند کیا۔
دراصل ان درندوں کے لیے پنجرے بنانا بھی ایک آرٹ ہے جو ہر بڑھئی کے بس کی بات نہیں۔ بڑی تلاش کے بعد مجھے سنگاپور ہی میں ایک ‘فن کار’ چینی بڑھئی مل گیا جس کا نام ہن مونگ تھا۔ میری اور اس کی رفاقت سالہا سال تک رہی۔ اسے بھی جانوروں سے دلچسپی تھی اور آدمی سیر و سیاحت کا بڑا شائق تھا۔ نئے نئے ملک دیکھنے کے جنون میں وہ میرے ساتھ ہو لیا۔ اس کے پاس گنتی کے چند اوزار تھے لیکن ان کی مدد سے وہ ایسے عمدہ اور مضبوط پنجرے بناتا تھا کہ اس کی کاریگری پر مجھے حیرت ہوتی تھی۔ ہن مونگ بڑا محنتی اور ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
سفر سے چند روز قبل کا ذکر ہے، میں سنگاپور کے ہوٹل ریفلز کے ایک آرام دہ کمرے میں بیٹھا تھا کہ یکایک ہن مونگ وہاں آیا۔ اس کا چہر شدّتِ جذبات سے تمتما رہا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا۔ ‘جناب، جلدی چلیے۔ سلطان جہور آپ سے ٹیلی فون پر کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔’
میں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگا۔ سلطان جہور میرا پرانا دوست تھا، اور میں شکار کی کئی مہمات میں اس کے ساتھ جا چکا تھا لیکن اتنے سویرے وہ کس مقصد کے لیے مجھے فون کر رہا تھا؟ ضرور کوئی خاص بات ہے۔ یہ سوچ کر میں سیڑھیاں اُتر کر نیچے کمرے میں گیا جہاں ٹیلی فون رکھا تھا۔ میں نے ریسیور کان سے لگایا:
‘ہیلو، میں فرینک بول رہا ہوں۔’
‘بھئی میں نے تمہیں بے وقت تکلیف دی۔’ اُدھر سے سلطان جہور کی مدھم آواز میرے کان میں آئی۔ ‘میں سوچ رہا تھا کہ اگر تم سفر پر روانہ ہو گئے، تو بہت بُری بات ہو گی۔ قصّہ یہ ہے کہ ایک آدم خور شیر نے بڑی تباہی پھیلائی ہے۔ کیا تم اسے زندہ پکڑ سکتے ہو؟ کل اس آدم خور نے جہور سے شمال کی جانب کوئی پچّیس میل دور ربڑ کے درختوں کے جنگل میں ایک قلی کو ہڑپ کر لیا ہے۔ وہاں سینکڑوں مزدور کام پر لگے ہوئے ہیں، کیونکہ آج کل ربڑ کی پیداوار کا موسم ہے۔ لیکن اس آدم خور کی وجہ سے ان سب میں دہشت پھیل گئی ہے اور وہ کام کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ایک فوجی افسر اور آٹھ دس سپاہیوں کو وہاں بھیج دوں تاکہ اس آدم خور کا قصہ پاک ہو جائے۔ پھر مجھے تمہارا خیال آیا۔ اگر تم اس کو زندہ پکڑ لو تو تمہیں کوئی بھی چڑیا گھر اچھی خاصی رقم دے سکتا ہے۔ بولو کیا ارادہ ہے؟’
سلطان جہور نے ایک سانس میں یہ ساری باتیں کہہ ڈالیں۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اس صورت حال پر غور کیا، معاملہ بے ڈھب تھا۔ میں نے بہت سے شیروں اور چیتوں کو گرفتار کیا تھا۔ لیکن آدم خور سے آمنا سامنا کرنے کی نوبت کبھی آئی نہ تھی۔ سلطان جہور نے شاید میری خاموشی سے اندازہ لگا لیا کہ میں اس مسئلے میں متذبذب ہوں۔ وہ فوراً بولا، ‘دیکھو دوست، میں تم پر زور نہیں دے سکتا کہ تم ضرور ہی اس آدم خور کو زندہ پکڑو۔ اسے ہلاک بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ مزدوروں میں پھیلا ہوا خوف و ہراس دور ہو جائے۔ اگر تم رضا مند ہو تو میں سپاہیوں کو تمہاری کمان میں دے سکتا ہوں۔’
‘ہز ہائی نس، میں آپ کی اس توجہ کا شکر گزار ہوں۔’ میں نے جواب دیا۔ ‘اگرچہ اس سے پہلے آدم خور شیر کو زندہ پکڑنے کا اتفاق نہیں ہوا، تاہم میں یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ آپ کی تجویز منظور ہے۔’
‘خوب، خوب، مجھے اب اطمینان ہوا۔ بھئی بات یہ ہے کہ میرے سپاہی اور دوسرے لوگ شیر وغیرہ کےمعاملے میں قطعی اناڑی ہیں۔ مجھے احساس تھا کہ یہ لوگ اسے مارنے میں آسانی سے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب تم فوراً میرے قلعے میں آ کر مجھ سے ملو، تفصیلات تمہیں یہیں معلوم ہو جائیں گی۔’ یہ کہہ کر سلطان نے فون بند کر دیا۔
اپنے کمرے میں آ کر میں نے ہن مونگ کو بتایا کہ سلطان نے فون پر کیا کہا ہے، تو اس کا چہرہ دہشت سے سپید پڑ گیا۔ وہ دیر تک چینی زبان میں کچھ کہتا رہا، کیونکہ وہ انگریزی روانی سے نہیں بول سکتا تھا۔ اسی روز دوپہر کو ریاست جہور کے عظیم الشان قلعے میں یہاں کے مسلمان بادشاہ سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ قلعہ ریاست کے فوجی ہیڈ کوارٹر حیثیت سے بھی استعمال ہوتا ہے۔ سلطان نے میرا تعارف اپنی فوج کے ایک میجر سے کرایا جو اس مہم میں میرا مددگار بننے والا تھا۔ وہ پستہ قد، لیکن گٹھے ہوئے جسم کا مالک تھا۔ پہلی نظر میں وہ مجھے ایک اچھا اور ملنسار آدمی معلوم ہوا۔ وہ وردی کی بجائے انگریزی لباس پہنے ہوئے تھا۔ جس کی اچھی تراش خراش سے اندازہ ہوتا تھا کہ لباس کے معاملے میں یہ شخص اچھا ذوق رکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اعشاریہ 303 کی شاٹ گن تھی۔ سلطان نے مجھے بتایا کہ میجر اسی گن سے کئی شیر پہلے مار چکا ہے۔ میں نے اس کے بعد دوسرے سپاہیوں کو دیکھا وہ سب خاکی وردی پہنے ہوئے تھے۔ اور کافی چاق و چوبند دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے سروں پر ملایا کی جانی پہنچانی نشانی سیاہ ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔
میجر نے مجھے بتایا کہ موٹر تیار ہے، اس لیے ہمیں فوراً موقعۂ واردات پر پہنچنا چاہیے۔ میری ہدایت کے مطابق سلطان نے حکم جاری کر دیا تھا کہ جس قلی کو شیر نے ہلاک کیا ہے، اس کی لاش جس جگہ پڑی ہے، وہیں رہنے دی جائے اور کوئی شخص اسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش نہ کرے۔ جہور سے ربڑ کے اس وسیع جنگل تک نہایت عمدہ اور پختہ سڑک بنی ہوئی ہے ہم جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ ہمارے آنے کی خبر سن کر بہت سے مزدور وہاں جمع ہو گئے۔ ان سب کے چہرے اداس تھے اور وہ خوف زدہ نظروں سے جنگل کی طرف بار بار دیکھتے تھے۔
قُلی کی لاش مجھے دکھائی گئی۔ شیر نے اس کی ایک ٹانگ اور بایاں شانہ چبا لیا تھا۔ گردن اور سینے پر بھی گہرے کھاؤ تھے۔ اس قلی پر شیر نے اس وقت حملہ کیا جب وہ ایک درخت سے ربڑ نکال رہا تھا۔ اس کا پیالہ اور ٹوکا قریب ہی پڑے تھے۔ انہیں بھی کسی نے ہدایت کے مطابق وہاں سے نہیں اٹھایا۔ شیر نے جب اسے نیچے گرا لیا، تو وہ قُلی کو گھسیٹ کر پندرہ گز دور جھاڑیوں میں لے گیا اور اپنا پیٹ بھرنے کے بعد لاش کو گھاس پھونس سے ڈھانپ کر چلا گیا۔ شیر کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے شکار کو چھپا دیتا ہے تاکہ گدھ، بھیڑیے، گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور آسانی سے اس کا سراغ نہ پا سکیں۔
ربڑ کے ان درختوں کی حفاظت کے لیے اونچی خاردار جھاڑیوں کی ایک دیوار چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس سے ذرا ہٹ کر انناس کے درختوں کا ایک جھُنڈ تھا جس کا پھل فروخت نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ مزدوروں کے لیے وقف تھا۔ اس جھُنڈ کے اردگرد بھی حفاظت کے لیے خاردار جھاڑیاں کھڑی کی گئی تھیں تاکہ جنگلی سؤر ان درختوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس جھنڈ کے اندر جا بجا شیر کے پنجوں کے نشانات واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے اور وہ اسی باڑ کے اندر سے گزر کر ربڑ کے جنگل تک پہنچا تھا، چنانچہ اس مقام پر باڑ کے اندر خاصا بڑا سوراخ بنا ہوا تھا۔ جس سے پتہ چلتا تھا کہ جس شیر نے اسے عبور کیا ہے، وہ غیر معمولی قوّت رکھتا ہے۔
وقت ضائع کیے بغیر میں نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ فوراً بیلچے اور کدالیں منگوائی جائیں تھوڑی دیر بعد بیلچے اور کدالیں لیے ہوئے مزدور وہاں پہنچ گئے۔ انناس کے درختوں کے جھنڈ میں عین اس مقام پر جہاں شیر نے جھاڑیوں کی باڑ کو عبور کیا تھا، چار فٹ لمبا، چار فٹ چوڑا اور پندرہ فٹ گہرا گڑھا کھودنے کی ہدایت کی۔ تین گھنٹے کی محنت کے بعد مزدوروں نے یہ گڑھا کھود ڈالا۔ گڑھے کا منہ ہم نے گھاس پھوس، نرم شاخوں اور پتّوں سے اس طرح ڈھانپ دیا کہ قریب سے دیکھنے پر بھی اندازہ نہ ہو سکے کہ یہاں گہرا گڑھا کھدا ہوا ہے۔ اس کے بعد گڑھے سے نکلی ہوئی مٹی جنگل میں ادھر ادھر ذرا فاصلے پر بکھیر دی گئی اور قلی کی لاش کو وہیں پڑا رہنے دیا گیا جہاں ایک روز پہلے شیر نے اس کا کچھ حصہ کھایا تھا۔ مزدوروں کو سمجھا دیا گیا کہ اس حصے میں کوئی شخص نہ آئے ورنہ شیر خبردار ہو جائے گا اور ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ سپاہیوں کے ذمّے یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ صبح کے وقت اس گڑھے کا معائنہ کریں۔ اگر شیر اس میں موجود ہو، تو مجھے جہور کے قلعے میں خبر کر دیں۔ مجھے امید تھی کہ شیر رات کو کسی وقت ادھر آئے گا۔ اور گڑھے میں ضرور گرے گا۔
لیکن اگلے روز دوپہر تک کوئی اطلاع نہ آئی تو انتظار کی کوفت سے نجات پانے کے لیے میں علی کو ساتھ لے کر خود وہاں چلا گیا۔ صورتِ حال میں کوئی تغیّر رونما نہیں ہوا تھا۔ شیر اس رات ادھر نہیں آیا اور کسی شخص نے اسے دیکھا اور نہ اس کی آواز سنی۔ قُلی کی لاش اب بدبو دینے لگی تھی اور اس کے ساتھی اور رشتے دار اس کی مزید ‘بے حرمتی’ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ لوگ اپنے عقیدے میں کٹر مسلمان ہیں اور اپنے مذہب کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے۔ میں نے ان کی بدلی ہوئی نگاہوں سے اندازہ کیا کہ وہ مجھ پر بھی شک کر رہے ہیں کہ لاش کو دفن کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔
‘صاحب، اب شیر کا انتظار بے سود ہے۔ لاش میں سے بدبو اٹھ رہی ہے۔ بہتر ہے کہ اب اسے دبا دیا جائے۔’ میں نے ان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے قلی کی لاش کو وہاں سے اٹھوا دیا جسے بعد ازاں اس کے رشتے داروں نے لکڑی کے ایک صندوق میں بند کر کے اور اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے کے بعد دفن کر دیا۔ اب سوال یہ تھا کہ میں کیا کروں؟ کیا سفر کا پروگرام ملتوی کر کے اس آدم خور کے تعاقب میں لگ جاؤں؟ یا سلطان جہور سے صاف کہہ دوں کہ میں یہاں رک نہیں سکتا، کیونکہ جو جانور میرے قبضے میں ہیں۔ ان کی خوراک اور دیکھ بھال کا خرچ اتنا زیادہ ہے کہ میری جیب جلد ہی خالی ہو جائے گی۔ میں ان جانوروں کو وعدے کے مطابق امریکہ پہنچا دینا چاہتا ہوں۔ ابھی میں اسی مخمصے میں مبتلا تھا کہ میجر نے مجھ سے کہا۔ ‘میں اپنے آدمیوں کو لے کر جنگل میں آدم خور کو تلاش کرنے جا رہا ہوں۔ میں اس ٹھکانے کا پتہ لگاؤں گا۔ اگر آپ چلنا چاہیں، تو چلیں۔’ میں نے اس سے کہا کہ وہ جنگل میں جا کر آدم خور کو تلاش کرے۔۔۔ فی الحال میں سنگا پور واپس جا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں سلطان جہور سے بات کروں گا۔ میرے دل کے کسی گوشے میں یہ خواہش سر اٹھا رہی تھی کہ اگر میں آدم خور پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤں، تو وارے نیارے ہو سکتے ہیں۔ مجھے صرف اسی ایک شیر کی اتنی قیمت وصول ہو جائے گی جتین قیمت ان جانوروں کو بیچ کر کر حاصل کروں گا۔ لہٰذا کیوں نہ قسمت آزمائی کی جائے، لیکن اس لالچ کے ساتھ ہی یہ دہشت بھی میرے دل میں موجود تھی کہ یہ شیر آسانی سے قابو میں آنے والا نہیں، وہ آدمی کے لہو کا ذائقہ چکھ چکا ہے۔ اگر اس نے مجھے اپنا نوالہ بنا لیا؟
شام کے وقت میں نے اپنے ہوٹل سے جہور کے قلعے میں فون کیا۔ معلوم ہوا کہ میجر اور اس کے سپاہیوں نے جنگل کا چپّہ چپّہ چھان مارا، مگر آدم خور کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ میجر کا خیال ہے کہ درندہ اس علاقے سے نکل کر کسی اور طرف کو چلا گیا ہے اور جب تک وہ کوئی اور واردات نہ کرے، اس کا صحیح پتہ معلوم کرنا دشوار ہے۔ یہ سُن کر میں نے ایک سرد آہ بھری اور فون بند کر دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ قِصّہ ختم۔ میں نے اپنے دل سے اس شیر کا خیال نکال دیا اور اطمینان سے اپنے سفر کی ضروری تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔
تیسرے روز علی الصبح سلطان جہور کی طرف سے بھیجا ہوا ایک ‘ضروری تار’ میرے نام آیا میں نے جب تار پر نظر ڈالی، تو حیرت سے اچھل پڑا۔ اس میں لکھا تھا۔
‘جلدی پہنچو’ شیر گڑھے میں گر گیا ہے۔’
میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے تار کا یہ مضمون دیکھتا رہا۔ خدا کی پناہ۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا واقعہ اتنی جلد ممکن ہے۔ شاید کسی نے مذاق کیا ہے۔ میں دیوانہ وار سیڑھیاں پھلانگتا ہوا ہوٹل کے دفتر میں گیا اور جہور کے قلعے میں فون کیا۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد لائن مل گئی اور میں نے سلطان کی آواز سُنی:
‘بھئی میں نے تم سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تھی، مگر معلوم ہوا کہ ہوٹل کا فون خراب ہے۔ مجبوراً تار بھیجنا پڑا۔ تم فوراً پہنچو۔’
میں نے اپنے ملازم علی سے کہا کہ وہ موٹر کا انتظام کرے۔ جلد جلد میں نے ضرورت کی چند چیزیں اپنے تھیلے میں رکھیں اور موٹر میں بیٹھ کر ستر میل فی گھنٹے کی رفتار سے جہور کے جنگل کی جانب روانہ ہو گیا۔ میرے جوش و اضطراب کی انتہا نہ تھی۔ اب مجھے صرف یہ فکر تھی کہ وہ بے وقوف مزدور کوئی ایسی حرکت نہ کر دیں جس سے گڑھے میں گرا ہوا شیر فرار ہونے میں کامیاب ہو جائے۔ میں جب وہاں پہنچا تو ایک ہنگامہ برپا تھا۔ ہر شخص بدحواسی کے عالم میں ادھر سے ادھر بھاگا پھر رہا تھا۔ اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سینکڑوں مزدور اور قلی جنگل میں اور انناس کے درختوں کے جھنڈ میں کھڑے تھے اور سب کی نظریں اس گڑھے پر لگی ہوئی تھیں جس کے اوپر کٹے ہوئے درختوں کے بڑے بڑے تنے رکھ دیے گئے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ گڑھے میں سے جب شیر کے غرّانے کی آواز کان میں پہنچی، تو پہلی بار فتح مندانہ مسکراہٹ میرے لبوں پر نمودار ہوئی۔ میں نے علی سے کہا:
‘دیکھا، آخر ہم نے شیر کو پکڑ ہی لیا۔’
وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور بولا: ‘جناب’ مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ شیر ضرور اس میں گرے گا۔’
‘ہاں ہاں۔ تمہیں تو پہلے ہی سے ہر بات کا پتہ ہوتا ہے۔’
میجر اور اس کے سپاہی بھی وہاں موجود تھے۔ ان کے علاوہ انگریز عورت اور اس کا شوہر بھی بڑی دلچسپی سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ عورت کے ہاتھ میں کیمرا تھا اور وہ مختلف زاویوں سے تصویریں اتار رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی مزدوروں کے چہرے کھل اٹھے اور وہ بھاگ بھاگ کر میرے گرد جمع ہونے لگے۔ اب ہر شخص اس کوشش میں تھا کہ شیر کے پکڑے جانے کی داستان سب سے پہلے وہ سنائے۔ میں نے بمشکل ان کو پرے دھکیلا اور کہا: ‘مجھے پہلے شیر کو دیکھنے دو اس کے بعد میں ہر شخص کا قصّہ سننے کے لیے تیار ہوں۔’ میجر اور اس کے سپاہیوں نے گڑھے پر رکھے ہوئے بڑے بڑے تنوں میں سے ایک تنا اٹھایا، میں نے جھک کر گھاس پھونس اور پتّوں میں سے جھانکا، تو ایک بہت بڑا شیر منہ اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔ آن واحد میں وہ غرّا کر اچھلا اور پنجہ مارنے کی کوشش کی۔ اس کا پنجہ میرے چہرے سے ایک فٹ دور ہی رہ گیا۔ میں نے اندازہ کیا کہ اگر درخت کے تنے گڑھے کے منہ پر نہ رکھے جاتے، تو یہ قوی الجثہ شیر اس گڑھے میں سے بڑی آسانی سے نکل سکتا تھا۔ اس کے لیے صرف ایک چھلانگ ہی کافی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے جسیم اور قوی شیر دیکھے تھے لیکن ملایا کا یہ آدم خور اپنی مثال آپ تھا۔ اس کا قد بلا مبالغہ گدھے سے بھی اونچا اور لمبائی بارہ فٹ تھی۔ بلکہ اس سے بھی زائد ہو گی۔ اب میرے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اتنے قوی شیر کو اس گڑھے میں سے کیسے نکالا جائے۔ اس دوران میں اگر یہ آزاد ہو گیا تو پھر کیا ہو گا؟ پہلے میرا خیال تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا شیر ہو گا، اسے میں رسّیوں کے پھندے کے ذریعے جکڑ کر باہر نکالوں گا۔ ایک بات میں آپ کو بتانا بھول گیا کہ گڑھا اوپر سے چار فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا تھا۔ لیکن زیادہ گہرائی میں جا کر اس کی وسعت بھی دس فٹ تک پھیل گئی تھی تاکہ اتنی جگہ میں پنجرہ بھی اتارا جا سکے۔ شیر کو دیکھ کر میں سخت بدحواس تھا کہ اسے آخر کس طرح پنجرے میں بند کیا جا سکے گا۔ میرا طریقہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ شیر جب گڑھے میں گر جاتا، تو میں رسیوں کی مدد سے لوہے کا پنجرہ گڑھے میں لٹکا دیتا۔ اس پنجرے میں کسی جانور کو بند کر دیا جاتا۔ پنجرے کا دروازہ رسی کے ذریعے مرضی کے مطابق کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا۔ پنجرے کا دروازہ رسی کے ذریعے مرضی کے مطابق کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا۔ شیر کو ایک دن بھوکا رکھا جاتا، شیر پنجرے کے جانور کو کھانے کے لیے جب بالکل آمادہ ہو جاتا، تو پھر پنجرے کا دروازہ اوپر اٹھا لیا جاتا شیر پنجرے میں گھس کر اس جانور پر جھپٹتا اور فوراً ہی پنجرے کا دروازہ گرا دیا جاتا۔ اس طرح شیر پنجرے میں قید ہو جاتا اور ہم اُسے آسانی سے باہر نکال لیتے، لیکن اس شیر کے معاملے میں صورت حال ہی دوسری تھی۔ میں نے جو گڑھا قاعدے کے مطابق کھدوایا تھا، وہ اس شیر کے لیے ناکافی تھا۔ فرض کیجیے، میں پنجرہ نیچے لٹکاتا ہوں، جانتے ہو شیر کیا کرے گا؟ وہ فوراً پنجرے پر چڑھے گا اور دوسرے ہی لمحے چھلانگ لگا کر گڑھے سے باہر آ جائے گا۔ مجھے دراصل پندرہ بیس فٹ کے بجائے یہ گڑھا تیس فٹ کی گہرائی تک کھدوانا چاہیے تھا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟
میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی، سورج غروب ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو مجھے آج ہی اس آدم خور کو پنجرے میں قید کر کے سنگاپور لے جانا ہے۔ میں نے لوگوں کو ہدایت کی کہ میں سنگاپور جا رہا ہوں، ضروری انتظامات کے بعد پھر واپس آؤں گا۔ اس دوران میں وہ آدم خور کی پوری حفاظت کریں ایک بار پھر میں نے اپنی موٹر کو ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چھوڑ دیا۔ علی میرے ساتھ تھا۔ ہن مونگ اور اس کے شاگرد اپنے مکان پر موجود تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ فوراً سب کام چھوڑ کر ایک بڑا پنجرہ ایک گھنٹے کے اندر اندر تیار کر دیں۔ میں نے شیر کی جسامت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پنجرے کا نقشہ بھی انہیں سمجھا دیا۔ پھر بازار سے تین سو فٹ لمبا اور ڈھائی انچ موٹا بے حد مضبوط رسّا خریدا۔ رسّا خریدنے کے بعد میں بندرگاہ پر گیا اور وزن اتارنے کی مشین عاریتاً حاصل کی۔ اس کے بعد شہر واپس آ کر ایک ٹرک کرائے پر لیا۔ اس اثناء میں ہن مونگ اور اس کے شاگرد پنجرہ تیار کر چکے تھے۔ پنجرہ، رسّا اور جرِّ ثقیل میں نے ٹرک میں رکھ لی۔ علی کے بھتیجے سے کہا کہ وہ فوراً جہور کی طرف چل پڑے۔ میں علی کو لے کر اپنی کار میں پیچھے پیچھے آتا ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ راستے میں قلعۂ جہور میں رک کر سلطان سے ملاقات کرتا چلوں۔ جونہی میری گاڑی قلعے کی وسیع صحن میں رکی سلطان اپنے کمرے سے برآمد ہوا اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ اس نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ پھر کہنے لگا۔
‘اچھا ہوا کہ تم یہاں آ کر مجھ سے مل لیے، ورنہ شیر تم کو کھا جاتا تو میں کبھی تمہیں معاف نہ کرتا۔’ میں ہنس پڑا۔ سلطان کی نظر کار میں رکھی ہوئی چمڑے کی کمند پر پڑی۔ اس نے حیرت سے پوچھا:
‘کیا تم کمند کا استعمال جانتے ہو؟ لیکن میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں کاؤ بوائے کمندوں کے ذریعے گھوڑوں اور سانڈوں کو قابو میں لایا کرتے ہیں۔ اب تم یہ طریقہ شیر پر آزمانا چاہتے ہو۔ میرے خیال میں ایسا کرنا خطرناک ہو گا۔’
‘ہز ہائی نس، آپ فکر نہ کریں، میں اس کمند کو پہلے بھی کئی مرتبہ شیروں پر استعمال کر چکا ہوں اور کبھی ناکام نہیں ہوا۔ ایک دن آپ دیکھیں گے میں اسی کے ذریعے ہاتھی کو بھی گرفتار کر لوں گا۔’
سلطان نے قہقہہ لگایا۔ ‘ارے تم اس شیر کو تو پہلے پکڑو، ہاتھی تو بعد میں آئے گا۔ بھائی یہ امریکی گائے نہیں، ملایا کا شیر ہے شیر۔ کیا سمجھے؟’
یہ سن کر میری رگ حمیت پھڑک اٹھی اور میں نے کہا:
‘ہز ہائی نس، اگر آج سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے شیر کو آپ کے قدموں میں ڈال دوں، تو آپ کیا انعام دیں گے؟’
‘ناممکن۔ قطعی ناممکن۔’ سلطان نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ ‘مجھے خدشہ ہے کہ وہ تمہیں ہڑپ نہ کر جائے۔ علی اپنے ‘صاحب’ کا ذرا خیال رکھنا۔ بہرحال اگر تم کامیاب ہوئے تو شامپین کی ایک بوتل تمہارے لیے تیار ہو گی۔ اب جاؤ، خدا حافظ!’
جب میں قلعے سے موٹر لے کر نکلا، تو آسمان پر سیاہ بادل جمع ہو رہے تھے اور کہیں کہیں بجلی کڑک رہی تھی۔ علی نے کہا: ‘بارش ہونے والی ہے، ذرا جلدی پہنچنا چاہیے۔’
میں نے ایکسیلیٹر پر پیر رکھ دیا اور موٹر ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر بارش شروع ہو گئی، تو کام بگڑ جائے گا۔ سب سے پہلی مشکل تو یہ ہو گی کہ جنگل کی نرم زمین بارش میں بھیگ کر پھسلواں ہو جائے گی۔ اور دوسری رکاوٹ رسّا پیدا کرے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ پانی میں تر ہو کر رسا کتنا سخت ہو جاتا ہے۔ میں اگر شیر کو سورج چھپنے سے پہلے پہلے سلطان کے پاس نہ لے جا سکا، تو بڑی سُبکی ہو گی۔ شاید قدرت مجھے اس بے جا دعوے کی سزا دینے کے لیے بارش کا یہ زبردست طوفان نازل کر رہی تھی۔
اس روز میں نے ستّر میل فی گھنٹے کی رفتار سے موٹر چلائی۔ علی میرے ساتھ بیٹھا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس نے دبی زبان میں موٹر آہستہ چلانے کے لیے کہا بھی تھا، مگر میں تو بارش سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتا تھا، لیکن جونہی سڑک کی آخری حد تک پہنچ کر موٹر سے اترا، بارش شروع ہو گئی اب ہمیں تین میل کا سفر پیدل طے کرنا تھا، کیونکہ آگے گھنا جنگل تھا اور موٹر اس کے اندر نہیں جا سکتی تھی ہمارے کپڑے جلد ہی پانی سے تر ہو گئے، مگر ہم رُکے نہیں، بلکہ ہم مسلسل دوڑتے رہے۔ گڑھے کے ارد گرد بہت سے قُلی گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ میجر اور اس کے سپاہی بھی بارش میں بھیگ رہے تھے۔ مجھے ان کی فرض شناسی پر دلی خوشی ہوئی میں نے میجر کا شکریہ ادا کیا، تو وہ صرف مسکرا دیا۔
بارش کی پروا کیے بغیر میں تندہی سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ گڑھے کے اندر شیر پانی میں بھیگنے کے باعث غرّا رہا تھا اور مزدور خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ شیر اس گڑھے میں سے نکل نہیں سکتا، اس لیے وہ اطمینان سے وہیں کھڑے رہیں۔ میں چند منٹ میں اسے پنجرے کے اندر بند کر دوں گا۔ وہ سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے اپنا لمبا شکاری چاقو نکالا اور رسے کے کئی ٹکڑے کر دیے۔ پھر ان کے سروں پر مختلف پھندے بنائے، اس کے بعد میں نے مزدوروں کی مدد سے گڑھے کے اوپر رکھے ہوئے تنوں میں سے درمیانی تنا اٹھایا۔ اب میں شیر کو گڑھے کے اندر اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔ بارش کا پانی گڑھے میں جمع ہونے کے باعث شیر کا جسم کیچڑ میں اچھی طرح لت پت ہو چکا تھا اور وہ منہ کھولے بُری طرح سے دھاڑ رہا تھا۔ غالباً وہ بھوکا بھی تھا۔
چند منٹ تک شیر کی حرکات بغور دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے پنجے چکنی مٹی کے اندر پھسل رہے ہیں، کیونکہ جب وہ بے قراری سے ادھر ادھر گھومتا یا گڑھے کی دیوار پر پنجے رکھ کر اوپر اچھلنے کی کوشش کرتا، تو اس کے پنجے پھسل جاتے اور وہ پیٹھ کے بل گڑھے میں جا گرتا۔ میں خوش تھا کہ بارش نے میرے کام میں جو رکاوٹ ڈالی تھی، شیر بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ میں نے میجر اور اس کے سپاہیوں سے کہا کہ وہ ہوشیار رہیں۔ اپنی بندوقیں ہنگامی حالت کے لیے تیار رکھیں، کیونکہ ہمارا واسطہ ایک آدم خور درندے سے ہے جو نہ جانے کب ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے اور کسی کی جان لے لے۔ ادھر بارش لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی آسمان پر سیاہ بادلوں کی فوج اُمڈ امڈ کر آ رہی تھی اور بجلی اس زور سے کڑکتی کہ دل دہل جاتے۔ ہوا کی شدت سے پانی کے تھپیڑ سے اس زور سے چہرے پر پڑتے کہ کچھ سجھائی نہ دیتا۔ پھر آدم خور کا مسلسل چیخنا اور دھاڑنا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا قیامت خیز سماں ہو گا۔
میں گڑھے کے کنارے پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کمند شیر کی گردن میں پھنسانے کی کوشش کرنے لگا۔ کئی مرتبہ پھندا اس کے گلے میں پڑا، مگر جونہی میں اسے کھینچنا چاہتا، شیر زور سے جھٹکا مارتا اور اپنی گردن پھندے سے نکال لیتا اور پھر غیظ و غضب سے دھاڑنے اور اچھلنے لگتا۔ اسے فوراً یہ احساس ہو گیا تھا کہ میں اس کی گردن رسّے سے جکڑ لینا چاہتا ہوں۔ ایک بار جب میں نے بڑی احتیاط سے پھندا اس کی گردن پر پھینکا تو شیر نے اپنا منہ کھول کو اسے دانتوں میں دبا لیا اور اس زور کا جھٹکا مارا کہ اگر گڑھے کے اوپر رکھے ہوئے تنوں کا سہارا مجھے نہ ملتا، تو میں لازماً اس میں جا گرتا اور شیر کی خوراک بن جاتا۔ ظالم کے دانت ریزر بلیڈ کی مانند تیز تھے۔ اس نے کئی رسوں کو دانتوں سے کاٹ کاٹ کر بیکار کر دیا۔
ایک گھنٹے کی زبردست اور جان لیوا کوشش نے مجھے اور شیر دونوں کو تھکا دیا۔ اب میں نے ایک نیا پھندا بنا کر ڈالا۔ شیر نے اسے بھی منہ میں دبانا چاہا مگر کامیاب نہ ہوا۔ میں نے فوراً رسّا کھینچ لیا اور شیر کا جبڑا پھندے میں آ کر کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اب وہ اپنے منہ بند نہیں کر سکتا تھا میں نے جلدی سے رسّے کا سرا دو مزدوروں کو تھمایا اور انہیں ہدایت کی کہ اسے ڈھیلا نہ ہونے دیں۔ اس کے بعد دوسرا پھندا پھینکا اسے شیر کے دائیں پنجے میں پھنسا کر یہ بھی میں نے دو مزدوروں کے حوالے کیا۔ پھر اس کا بایاں پنجہ اور کمر رسّوں میں جکڑ لی۔ اب بیک وقت پندرہ مزدور اس قوی ہیل شیر کو رسوں میں پھنسائے ہوئے کھڑے تھے۔ شیر گڑھے کے اندر پوری قوّت سے اچھل رہا تھا۔ میں نے اسے اب آٹھ پھندوں میں گرفتار کر لیا۔ گڑھے کے چاروں طرف مزدور اور قلی رستے تھامے ہوئے تھے اور اکیلا شیر قوت میں ان سب پر بھاری تھا۔ میں بار بار انہیں ہدایت کرتا کہ اگر رسّے ذرا بھی ڈھیلے ہوئے، تو شیر آزاد ہو جائے گا۔ شیر سے اس زور آزمائی اور بارش میں مسلسل بھیگنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے کندھے، گردن اور پیٹھ شل ہو گئی۔ ادھر پانی آنکھوں میں بار بار آ جاتا۔ جب میں نے دیکھا کہ شیر اچھی طرح قابو میں آ گیا ہے، تو قلیوں کو حکم دیا کہ وہ آہستہ آہستہ رسوں کو اپنی طرف کھینچیں اور شیر کو گڑھے کی گہرائی سے نکال کر سطح کے قریب لے آئیں۔ شیر کو اوپر اٹھانے کے لیے مزدوروں کو اس قدر زور لگانا پڑا کہ بیچارے ہانپنے لگے، تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری۔
ابھی میں سپاہیوں کو پنجرہ گڑھے میں لٹکانے کا حکم دینے ہی والا تھا کہ ایک قلی کی چیخ سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا، تو وہ قلی جس نے سب سے پہلے رسا تھام رکھا تھا، پھسلتا ہوا گڑھے کے کنارے تک آ گیا تھا۔ اس کے قدم اکھڑ چکے تھے میں اب اس پوزیشن میں کھڑا تھا کہ ہاتھ سے بڑھا کر اسے تھام لوں اور جونہی میں نے لپک کر اسے پکڑنا چاہا، خود میرے پیر بھی پھسل گئے اور میں قلی کے ساتھ گھسٹتا ہوا گڑھے میں گرنے ہی والا تھا کہ میرے عقب میں کھڑے ہوئے علی نے جست لگا کر وہ رسّا پکڑ لیا جو میرے ہاتھ سے چھٹنے والا تھا۔ پھر سپاہیوں نے فوراً ہمیں آن کر تھام لیا۔ ورنہ میں اور دو قلی ضرور گڑھے میں گر جاتے اور ہمارا کیا حشر ہوتا، اسے سوچ کر میں آج بھی کانپ جاتا ہوں۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ میرے اور قلی کے گرتے ہی دوسرے قلی بدحواس ہو کر رسے چھوڑ دیتے اور آدم خور آزاد ہو کر ہمارے ساتھ ہی گڑھے میں گرتا۔
قلیوں کے حلق سے اس اچانک خطرے پر چیخیں نکل رہی تھیں۔ بارش نے زمین اس قدر چکنی اور پھسلواں کر دی تھی کہ ان کے قدم جمنے دشوار ہو رہے تھے۔ ادھر شیر ان کو مسلسل جھٹکے دے رہا تھا۔ سپاہیوں نے جلدی سے پنجرہ گڑھے میں اتارا۔ شیر کا سر گڑھے کی سطح کو چھو رہا تھا اور اس کی دم نیچے لٹک رہی تھی۔ میں نے پنجرہ اس رخ سے گڑھے میں رکھوایا کہ اس کا دروازہ اوپر کی جانب کھلتا تھا۔ اب شیر کو اس دروازے کے اندر داخل کرنا تھا۔ اس کے بعد وہ بالکل ہمارے قابو میں آ جاتا، لیکن یہی سب سے زیادہ خطرناک کام تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اگر تھوڑی دیر تک ان مزدوروں کو رسّے سے نجات نہ دلائی گئی، تو رسّا ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اور اس طرح ساری محنت پر آنِ واحد میں پانی پھر سکتا ہے میں نے جلد جلد علی کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ پھر میں نے میجر سے کہا۔
‘میجر، اب میں معاملہ تمہارے اوپر چھوڑتا ہوں۔ ان قلیوں کو سنبھالے رہنا۔’ اس سے پیشتر کہ وہ کچھ پوچھے یا کہے، میں نے ایک اور رسّا پکڑا اور اس کے سہارے گڑھے میں اتر گیا۔ اب شیر میرے سر پر لٹک رہا تھا۔ اور میں پنجرے کے قریب کھڑا اسے دیکھ رہا تھا میں نے ایک بار پھر گڑھے میں سے چلّا کر کہا: ‘میجر’ رسّوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، ورنہ شیر مجھے زندہ نہ چھوڑے گا۔ بس چند منٹ کی تکلیف اور ہے ہاں اپنی بندوقیں بھی سنبھالے رکھو۔’
اب میں خود مٹی اور کیچڑ میں اچھی طرح لت پت ہو چکا تھا۔ پنجرے کا دروازہ کھولنے کے بعد میں نے شیر کی دم پکڑ لی اور اسے گھسیٹ کر پنجرے کے عین اوپر لے آیا اور پھر پکار کر کہا:
‘اب سب لوگ نہایت احتیاط سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے جائیں۔ دیکھنا کسی کا پیر نہ پھسلنے پائے۔’
شیر کا آدھا دھڑ جب پنجرے میں داخل ہوا تو میں نے کہا: ‘رسّے چھوڑ دو۔’
قلیوں نے ایک دم رسّے چھوڑ دیے اور ایک دھماکے کے ساتھ جہور کا آدم خور پنجرے میں گر گیا۔ میں نے پھرتی سے سلاخ دار دروازہ گرا دیا۔ شیر بُری طرح دھاڑ رہا تھا۔ پنجرے میں بند ہوتے ہی اس نے اس کی دیواروں کو ہلانا شروع کر دیا اور اس سے پیشتر کہ میں گڑھے سے باہر نکلوں، لکڑی کے بنے ہوئے بے حد مضبوط پنجرے کی ایک دیوار چرچرانے لگی اور اس کا ایک تختہ باہر نکل آیا۔ یہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔ شیر اگر اسے دھکا اور لگاتا تو تختہ یقیناً اکھڑ جاتا۔ یقین کیجیئے، دہشت سے میرا بدن سن ہو گیا۔ شیر کا وزن کم از کم تین سو پونڈ تھا اور ظاہر ہے کہ اتنے وزنی درندے کے لیے لکڑی کا پنجرہ توڑ دینا آسان بات تھی۔ ایک بار پھر میں حلق پھاڑ کر چیخا: ‘جلدی سے ہتھوڑا اور کیلیں مجھے دے دو جلدی۔۔۔ خدا تمہیں غارت کرے۔ ہتھوڑا اور کیلیں مجھے پکڑا دو۔’
اتنے میں تختہ ذرا سا اور باہر نکلا۔ میں نے اسے پیچھے دھکیلنے کے لیے اپنی پوری جسمانی قوت صرف کر دی۔ کئی منٹ گزر گئے، ہتھوڑا اور کیلیں مجھے نہ ملیں، البتہ گڑھے کے اوپر مزدوروں کے چلّانے اور بھاگنے دوڑنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مجھ پر ایک ایک لمحہ عذاب کی مانند گزر رہا تھا۔ میں پھر پاگلوں کی طرح چیخا: ‘ارے ظالمو’ ہتھوڑا اور کیلیں مجھے دے دو۔ علی، تم بھی بھی میری آواز نہیں سنتے؟’
تب علی نے گڑھے کے اوپر سے جھانک کر دیکھا اور کہا: ‘صاحب ہتھوڑا اور کیلیں مل ہی نہیں رہیں۔ سب لوگ تلاش کر رہے ہیں۔ شاید وہ مٹی کے ڈھیر میں گم ہو گئی ہیں۔’
میں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ’میں تم سب کو قتل کر دوں، کسی کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔ ورنہ مجھے ہتھوڑا اور کیلیں مہیّا کرو۔ اُلّوو، گدھو’۔۔۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے قلیوں اور مزدوروں کے علاوہ میجر اور اس سپاہیوں کو بھی کتنی گالیاں دے ڈالی تھیں۔ آخر آواز آئی، ‘ہتھوڑا مل گیا ہے مگر کیلیں نہیں ملتیں۔’
مجھے اس وقت ایسا غصہ آیا کہ اگر ان میں سے کوئی میرے نزدیک ہوتا، تو میں ضرور گلا گھونٹ دیتا۔ پھر کسی نے اوپر سے ہتھوڑا نیچے پھینکا۔ ادھر شیر پنجرے کا ایک کمزور مقام تلاش کر کے وہاں قوت آزمائی کر رہا تھا۔ میں نے گڑھے کی دیوار میں اپنے دونوں پیر ٹکا کر ہاتھوں کی قوت سے تختے کو اندر دھکیلا۔ پھر ہتھوڑا لے کر اس تختے کے کنارے پر ابھری ہوئی کیلیں ٹھونکیں۔ کم بخت ہن مونگ نے جلدی میں پنجرے کے اس جانب کیلیں بہت کم لگائی تھیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ تختہ اکھڑ رہا تھا۔ خدا خدا کر کے علی نے کیچڑ میں سے کیلیں تلاش کر کے مجھ تک پہنچائیں اور جب میں نے سب کیلیں اچھی طرح ٹھونک دیں، تو میں بے دم ہو کر وہیں گڑھے میں لیٹ گیا۔
جب ہم نے آدم خور کے پنجرے کو گڑھے سے نکال کر ٹرک میں رکھا تو بارش کے طوفان کی تُندی میں فرق آ چکا تھا۔ بادل آہستہ آہستہ پھٹنے لگے اور جب ہم جہور کے قلعے تک پہنچے، تو سلطان میرے استقبال کے لیے دروازے پر کھڑا تھا۔ عین اس وقت مغرب میں بادلوں کے اندر سے ڈوبتے ہوئے سورج نے ایک لمحے کے لیے جھانکا اور پھر رو پوش ہو گیا۔ سلطان کا چہرہ فرطِ مسرت سے تمتما رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر مجھے سینے سے لپٹا لیا اور جب وہ معانقے کے بعد الگ ہوا، تو میرے جسم پر تھپی ہوئی کیچڑ کا بڑا حِصّہ اس کے قیمتی کپڑوں کو داغدار کر چکا تھا۔
٭٭٭
جرنگاؤ کا آدم خور
جرنگاؤ ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام ہے جو ضلع ڈنگن کے اندر دریائے ڈنگن کے کنارے آباد ہے اور یہیں رہنے والے آدم خور شیر کی داستان میں آپ کو سناتا ہوں۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنا بڑا شیر میں نے زندگی میں اس سے پیشتر کبھی نہیں دیکھا۔ اس کا قد گدھے کے برابر لمبائی اور دس فٹ سات انچ اور منہ ببّر شیر کی مانند چوڑا اور با رعب تھا۔ مکّاری اور قوّت میں بھی وہ ملایا کے عام شیروں سے کچھ زیادہ ہی بڑھا ہوا تھا۔ جرنگاؤ سے تین میل کے فاصلے پر ڈنگن کے کنارے ہی ایک دوسرا کمپونگ واؤ نامی بھی آباد تھا۔ ملائی زبان میں کمپونگ گاؤں کو کہتے ہیں اور اس سے آگے تین میل دور کمپونگ مانچس واقع تھا۔ دریا کا یہ علاقہ جہاں تینوں گاؤں قریب قریب آباد تھے، ربڑ کے درختوں سے پٹا پڑا تھا اور ان باشندوں کی گزر اوقات کا سب سے بڑا ذریعہ ربڑ کے یہی درخت تھے۔ جن سے وہ شب و روز کی سخت محنت کے بعد ربڑ جمع کرتے، لیکن 1950ء کے اواخر میں ان باشندوں پر جرنگاؤ کے آدم خور کی صورت میں ایک مہیب بلا نازل ہوئی جس نے اس بستیوں کا امن چین غارت کر دیا اور بہت سی جانوں کو اپنا لقمہ بنا لیا۔
دریا کے دوسری جانب بھی ربڑ کا جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس جنگل سے پرے لوہے کی کانیں تھیں جن میں سے ان دنوں لوہا تیزی سے نکالا جا رہا تھا۔ ریلوے لائن جنگل کے قریب سے گزرتی تھی جہاں چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں خام لوہا بھر کر ضلع ڈنگن پہنچایا جاتا تھا۔ لوہے کی کانوں کے قریب ریل کی آخری حد پر کمپونگ پُولت آباد تھا۔ اس کے عین سامنے دریا کے دوسرے کناروں پر گاؤں مانچس نظر آتا تھا۔ جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ اس مقام پر جرنگاؤ تک پہنچنے کے لیے چھ میل طے کرنے پڑتے تھے اور اس کے دو ہی راستے تھے، پہلا راستہ دریا کا اور دوسرا جنگل کا تھا۔ میرا مکان کیمان میں واقع تھا جو ڈنگن کے جنوب میں ہے۔ اور یہاں سے جرنگاؤ تک پہنچنے میں چھ گھنٹے صرف ہوتے تھے۔
آدم خور نے میرے یہاں پہنچنے سے پیشتر ہی اپنی ہلاکت خیز سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا اور بہت سے مویشیوں کا اور انسانوں کو ہڑپ کر چکا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ آدم خور نے سب سے پہلا انسانی شکار 12 جولائی 1950ء کو دریائے ڈنگن کے اس حصے میں کیا جو جرنگاؤ اور واؤ کے درمیان واقع ہے یہ ایک بد نصیب مزدور تھا۔ جو سورج غروب ہونے کے بعد کام سے واپس آ رہا تھا۔ اس کے ساتھی آپس میں گپ بازی کرتے ہوئے کچھ پیچھے چلے آ رہے تھے کہ یکایک انہوں نے اپنے ساتھی کی چیخیں سنیں اور پھر شیر کی غرّانے کی آواز سنائی دی جس سے یہ سب دہشت زدہ ہو کر اُدھر ہی بھاگ گئے جدھر سے آ رہے تھے۔
جب دوسرے روز بھی یہ مزدور نظر نہ آیا، تو اس کے ساتھیوں نے سمجھ لیا کہ شیر نے اسے ہلاک کر دیا۔ اب یہ پندرہ بیس آدمیوں کے گروہ کی شکل میں جنگل میں نکلے اور دریا کے کنارے ایک جگہ لمبی گھاس کے اندر انہیں مزدور کی لاش پڑی مل گئی۔ شیر نے اس کا بڑا حصہ ہڑپ کر لیا تھا۔ اردگرد کی گیلی زمین پر شیر کے پنجوں کے نشان آسانی سے تلاش کر لیے گئے اور یوں معلوم ہوا جیسے اس کی لاش کو بیک وقت دو شیروں نے مل کھایا ہے کیونکہ پنجوں کے یہ نشان ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
یہ لوگ مزدور کی لاش کے بچے کھچے ٹکڑے وہاں سے اٹھا کر اس کے گاؤں واؤ میں لے گئے اور اسے بعد ازاں مذہبی رسمیں ادا کرنے کے بعد دفن کر دیا گیا۔ اس سے اگلے روز صبح جب اس گاؤں کے لوگ اپنے کام پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر ان کے خوف کی انتہا نہ رہی کہ شیر کے پیروں کے واضح نشان گاؤں کے نواحی علاقے میں موجود ہیں۔ اور جس راستے سے یہ لوگ مزدور کی لاش لے کر آئے تھے، شیر بھی اسی راستے پر ان کا تعاقب کرتا ہوا گاؤں تک پہنچا ہے۔ غالباً وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا کھاجا یہ آدمی کہاں لیے جا رہے ہیں۔
گاؤں کے پینگولو (نمبر دار) نے سب مرد عورتوں کو خبردار کر دیا کہ آدم خور جنگل میں چھپا ہوا ہے۔ اس لیے کوئی فرد گاؤں سے اکیلا باہر نہ جائے اس ہدایت پر سختی سے عمل کیا جاتا رہا اور آدم خور نے دو ہفتے تک کسی پر حملہ نہ کیا۔ لیکن جب لوگوں نے دیکھا کہ جنگل میں شیر کے گرجنے اور غرّانے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تو وہ سمجھے کہ آدم خور کسی اور جانب چلا گیا ہے۔ اس لیے وہ پھر آزادی سے جنگل میں گھومنے پھرنے لگے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین روز بعد ہی آدم خور نے ایک اور انسانی جان کو اپنا تر نوالہ بنا لیا۔ یہ بھی ربڑ کے درختوں پر کام کرنے والا ایک مزدور ہی تھا، دو روز تک گھر نہ پہنچا تو اس کے رشتے داروں کو تشویش ہوئی اور جب اسے تلاش کیا گیا تو اس کی لاش اس عالم میں پڑی ملی کہ شیر نے اس کی دائیں ٹانگ ہڑپ کر لی تھی اور لاش کو گھاس کے اندر چھپا دیا تھا۔۔۔ لوگوں نے اس لاش کو بھی وہاں سے اٹھا کر زمین میں دفن کر دیا اور ایک بار پھر احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جانے لگا۔ اس کے بعد کئی ماہ تک اس علاقے میں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ البتہ مویشیوں کو شیر اٹھا کر لے جاتا رہا۔ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ کسی اور شیر کی حرکت ہے۔
فروری 1951ء میں شیر نے ایک اور مزدور کو ہلاک کیا اور اس کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر چار پانچ آدمی اس کے ہاتھوں مارے گئے تو اردگرد کی بستیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور مزدوروں نے کام پر جانا چھوڑ دیا۔ ایک روز جب کہ میں دریائے ڈنگن میں کشتی کے ذریعے سفر کر رہا تھا، کمپونگ واؤ کے نزدیک مجھے بہت سے آدمیوں اور عورتوں کا مجمع دکھائی دیا۔ عورتیں اونچی آوازیں میں رو رہی تھیں۔ میں نے کشتی کنارے پر لگائی اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو لوگوں نے بتایا کہ شیر نے کل ایک اور آدمی کو مار ڈالا ہے، جس کی لاش ابھی تک وہیں پڑی ہے۔ اور جب چند آدمی لاش اٹھانے کے لیے جنگل میں گئے تو آدم خور نے ان کا بھی تعاقب کیا اور اور وہ وہیں موجود ہے۔ معاملہ روز بروز نازک صورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ اگر آدم خور کی ان سرگرمیوں کو فوراً نہ روکا گیا تو وہ ان سب آدمیوں کو ایک ایک کر کے ہڑپ کر جائے گا۔ مزدوروں نے کام پر جانے سے صاف انکار کر دیا تھا اور یہ وہ موسم تھا جب درختوں کے تنے ربڑ کے رس سے بھرے ہوئے تھے۔ اور اگر اس رس کو بر وقت نکالا نہ جائے تو یہ ضائع ہو سکتا ہے۔
ڈنگن کے پولیس اسٹیشن کا انچارج بھی اس صورتِ حال کے اچانک نمودار ہو جانے سے سخت ہراساں تھا۔ اور اس کے ذہن میں اس آفت سے نبٹنے کی کوئی تدبیر نہ آتی تھی۔ اس نے مجھے اور جرنگاؤ کے تھانے کے پولیس افسر کو صلاح مشورے کے لیے بلایا اور ہم دیر تک آپس میں نئی نئی تجاویز پر بحث کرتے رہے۔ اس زمانے میں ملایا کے صوبے ترینگانو کی سرحدوں پر چینی کمیونسٹ دہشت پسندوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں اور پولیس کی ان دہشت پسندوں کے ساتھ جھڑپیں روزانہ ہوا کرتی تھیں۔ اب آدم خور کا معاملہ درمیان میں آن پڑا تو مزدوروں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انہوں نے کام پر حاضر ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ اب اتفاق دیکھیے کہ چند روز بعد ہی مجھے خبر ملی کہ ڈنگن پولیس سٹیشن کا انچارج ترینگانو کی سرحد پر گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا اور آدم خور سے دو دو ہاتھ کرنے کا جو پروگرام ہم نے وضع کیا تھا، وہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے بھی ڈنگن ہی میں قیام کرنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ مجھے اس شیر کا قصّہ پاک کرنے کا موقع مل جائے۔ میں نے اپنی مدد کے لیے جرنگاؤ اور ڈنگن سے چند پولیس مین بلوا لیے تھے جو بندوق چلانا جانتے تھے۔
سات مارچ 1951ء کا دن تھا۔ میں صبح ناشتے سے فارغ ہو کر روزانہ رپورٹ لکھنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ کہ ایک پولیس مین کمرے میں آیا اور کہنے لگا کہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ آدم خور نے ایک اور مزدور کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کی لاش دریا کے کنارے عین اسی جگہ پڑی پائی گئی ہے جہاں پہلے بھی شیر نے ایک مزدور کو مار ڈالا تھا۔ میں نے فوراً سب سپاہیوں کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی بندوقیں لے کر میرے ساتھ چلیں۔ مجھے خدشہ تھا اگر موقعۂ واردات پر پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر ہوئی تو دوسرے مزدور لاش کو وہاں سے اٹھا لے جائیں گے۔
دریا پر موٹر بوٹ کا انتظام چوبیس گھنٹے رہتا تھا۔ میں نے اپنی رائفل اور کارتوسوں کا ڈبہ سنبھالا اور سپاہیوں کو لے کر موٹر بوٹ پر سوار ہو گیا۔ اور اسے پوری رفتار سے چلا دیا۔ ابھی ہم دریا میں ایک میل ہی گئے ہوں گے کہ دوسری جانب سے ایک اور موٹر بوٹ آتی ہوئی دکھائی دی۔ جب یہ موٹر بوٹ قریب آئی تو میں نے دیکھا کہ اس میں چھ آدمی سوار ہیں۔ اور درمیان میں اسی مزدور کی لاش پڑی ہے جسے شیر نے ہلاک کیا تھا۔ اس کے کپڑے خون میں لت پت تھے اور چہرہ بُری طرح نُچا ہوا تھا۔ ان مزدوروں نے بتایا کہ وہ یہ لاش مجھے دکھانے کے لیے لا رہے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ لاش کو وہاں سے ہرگز نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ بلکہ اسے وہیں رہنے دیا جاتا تاکہ رات کو کسی وقت شیر اسے کھانے کے لیے آتا تو ہم اسے گولی کا نشانہ بنا دیتے۔ لیکن یہ لوگ اس مشورے پر عمل کرنے کو تیار نہ تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا مذہب لاش کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا اور تاکید کی گئی ہے کہ میّت کو جلد از جلد دفنا دینا چاہیے۔ میں نے انہیں نرمی سے سمجھایا کہ اس طرح آدم خور تم سب کو ایک ایک کر کے ہڑپ کرتا جائے گا اور ہم اسے قیامت تک ہلاک نہیں کر سکیں گے اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس لاش کو صرف ایک روز کے لیے وہیں لے جا کر رکھ دو جہاں سے لائے ہو۔ میرا ارادہ ہے کہ میں قریب ہی چھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ضرور آئے گا اور اس وقت میں اسے اپنی رائفل کا نشانہ بنا سکوں گا۔
میں نے لاش کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ شیر نے پہلے اس کے عقب سے آ کر گردن پر پنجہ مارا جہاں گہرا گھاؤ تھا۔ اسی ضرب سے مزدور زمین پر گر گیا ہو گا۔ پھر شیر نے اس کے کندھوں اور سینے پر پنجے مارے اور بعد ازاں گردن منہ میں دبا کر اسے دور تک گھسیٹا تھا۔ گردن پر شیر کے دانتوں کے جو نشانات موجود تھے، ان کو بغور دیکھنے سے یہ انکشاف ہوا کہ شیر کے نچلے دو بڑے دانتوں میں سے ایک دانت یا تو ٹوٹا ہوا ہے یا بالکل ہی غائب ہے۔ اِسی اثناء میں ایک اور خیال میرے دِل میں پیدا ہوا۔ ممکن ہے کہ ہے یہ شیر نہ ہو، بلکہ شیرنی ہو، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ملایا کے ان علاقوں میں اکثر شیرنیاں ہی آدم خور بن جایا کرتی ہیں۔
مزدوروں نے لاش کو دوبارہ وہاں لے جانے سے انکار کر دیا۔ مجبور ہو کر میں نے ان سے مزدور کے خون آلود کپڑے حاصل کیے، کیونکہ شیر پھنسانے کی ایک نئی تجویز میرے ذہن میں آ چکی تھی۔ میں نے سپاہیوں کو تو رخصت کیا اور اپنے ڈرائیور کو ساتھ لے کر اسی کشتی کے ذریعے جرنگاؤ پہنچا اور وہاں لوگوں سے آدم خور کے بارے میں تمام تفصیلات حاصل کیں۔ مجھے تعجّب ہوا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران میں کسی شخص نے آدم خور کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا۔ البتہ اس کے غرّانے اور بولنے کی آوازیں ضرور سنی تھیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے وہ مقام دکھایا جائے جہاں مزدور کی لاش پڑی ملی تھی۔ گاؤں سے ساٹھ آدمیوں کا ایک گروہ تیار ہوا اور پھر دریا کے کنارے کنارے جنگل کی طرف چلے۔ میں اس امّید پر زمین کو دیکھتا جا رہا تھا کہ کہیں نہ کہیں آدم خور کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیں گے جن سے اس کے نر یا مادہ ہونے کا پتہ لگ سکے گا۔ مگر دور تک کوئی نشان دکھائی نہ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں زمین پر خشک گھاس اگی ہوئی تھی اور خشک گھاس میں شیر کے پنجوں کے نشانات تلاش کرنا ناممکن بات تھی۔
چونکہ دِن کا بڑا حصہ باقی تھا اور چمکیلی دھوپ جنگل میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شام سے پہلے پہلے اپنی تدبیر کو عملی جامہ پہنا دینا چاہیے۔ ایک گھنٹے کے بعد ہم اس مقام پر پہنچے جہاں مزدور کی لاش پڑی دیکھی گئی تھی۔ یہ دراصل ایک وسیع و عریض دلدلی قطعہ تھا۔ جس کے اوپر گھاس اُگی ہوئی تھی اور بہت کم لوگ ادھر سے گزرنے کی جرأت کرتے تھے۔ اس قطعے کے کنارے جھاڑیوں کے اندر، جہاں دن کے وقت بھی اندھیرا سا محسوس ہوتا تھا، شیر نے لاش چھپائی تھی۔ اردگرد کی زمین پر اس کے پنجوں کے بڑے بڑے نشانات بھی موجود تھے۔ اور پہلی نظر میں پتہ چل گیا کہ آدم خور شیرنی نہیں، شیر ہے۔
میں نے ان نشانات کا تعاقب کیا تو یہ جنگل کے اس حصے کی جانب جاتے تھے، جس کے پار ربڑ کے درختوں کا بہت لمبا چوڑا جنگل اُگا ہوا تھا اور جہاں صبح سے لے کر سورج غروب ہونے تک سینکڑوں مرد، عورتیں اور بچے ربڑ جمع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کی موجودگی کے باعث جنگل میں منگل کی سی کیفیت چھائی رہتی تھی، مگر اب وہاں ایک بھیانک سناٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ کبھی کبھی کسی پرندے کے پھڑپھڑانے اور جنگلی طوطوں کے چیخنے کی آوازیں اس سکوت کو توڑتی ہوئی ہمارے کانوں تک آتی تھیں۔
ربڑ کے اس وسیع قطعے کے مشرقی کنارے پر ایک پگڈنڈی تھی جو گاؤں تک جاتی تھی اور اس پر اکثر آمد و رفت رہتی تھی اور یہیں آدم خور نے اس مزدور پر حملہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ راستہ بھی گاؤں والوں کے لیے محفوظ نہیں رہا تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے قطعی طور پر اندازہ ہو گیا کہ شیر نے بد نصیب مزدور پر کس طرح حملہ کیا ہو گا۔ اور میں نے اس حادثے کی بکھری ہوئی کڑیاں اس طرح ترتیب دیں کہ جھٹپٹے کے وقت شیر حسبِ معمول شکار کی تلاش میں نکلا اور پھرتا پھراتا ربڑ کے درختوں کے طرف آن نِکلا اور یہیں اس نے ایک درخت پر مزدور کو دیکھا جو اپنا کام تقریباً ختم کر چکا تھا۔ درخت سے بندھے ہوئے برتن ربڑ سے پُر ہو چکے تھے۔ اور اب انہیں لے جانے کے لیے کھول رہا تھا۔ شیر نے موقع غنیمت سمجھا اور بِلّی کی مانند دبے پاؤں ربڑ کے درختوں کے درمیان چلتا ہوا اس مزدور کے عقب میں کوئی پندرہ گز دور ایک گِرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ کر اسے دیکھتا رہا۔ اسے امید تھی کہ یہ شخص اب اس طرف آئے گا۔ لیکن جب شیر نے دیکھا کہ وہ دوسری جانب جا رہا ہے تو وہ غصّے سے غرایا اور پوری قوت سے دوڑا اور اس سے پیشتر کہ حواس باختہ مزدور اپنے بچاؤ کی تدبیر اختیار کرے، شیر نے اسے نیچے گرا دیا۔
اس مزدور کی دو تین چیخیں جنگل کی خاموش فضا میں گونجیں اور دور فاصلے پر کام کرنے والوں کے کانوں میں گئیں۔ اس نے شیر کے غرانے اور دھاڑنے کی آواز بھی ایک مرتبہ سنی اور پھر وہی بھیانک سکوت جنگل پر طاری ہو گیا۔ اس مزدور نے بعد میں مجھے بتایا کہ ‘شیر کی آواز سن کر میں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی شخص اس کے ہتھے چڑھ گیا ہے، لیکن مجھے وہاں جانے کی جرأت نہ ہوئی۔ میں نے اپنا ربڑ وہیں چھوڑا اور گاؤں کی طرف بھاگ گیا۔‘
میں نے اس گرے ہوئے درخت کا معائنہ کیا جہاں شیر مزدور پر حملہ کرنے سے پہلے چھپا تھا۔ اور وہاں میں نے اس کے پنجوں کے گہرے نشانات پائے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے شکار پر حملہ کرنے سے پیشتر پوری تیاری میں تھا اور جس طرح بلّی شکار پر جھپٹتے وقت اپنی گردن اور پیٹ جھکا لیتی ہے اور پچھلے پنجوں پر پورا بوجھ پڑتا ہے، اسی طرح شیر نے بھی دو چھلانگیں لگائیں اور بے خبر مزدور کو جا لیا۔ شکار پر حملہ کرتے ہوئے شیر کے چھلانگیں لگانے کا انداز جن شکاریوں نے دیکھا ہے، وہی سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت دہشت کا کیا عالم ہوتا ہے۔
شیر نے جب دیکھا کہ شکار ٹھنڈا ہو گیا، تو وہ اسے گھسیٹ کر اس مقام تک لے گیا جہاں وہ اس سے پہلے بھی کئی آدمیوں کو لے جا کر ہڑپ کر چکا تھا۔ میں نے اس مقام پر کئی انسانی ہڈیاں پڑی پائیں اور یہ جھاڑ جھنکار سے پُر ایسی جگہ تھی کہ اگر اتفاق رہنمائی نہ کرتا تو کوئی بھی یہاں اس مزدور کی لاش نہ پا سکتا تھا۔ اس مقام پر میں نے شیر کے بیٹھنے اور آرام کرنے کی واضح علامات بھی پائیں، گویا دوسرے الفاظ میں آدم خور رہتا بھی یہیں تھا۔
اب مجھے ایک ایسے مناسب درخت کی تلاش تھی جہاں میں مچان باندھ کر کسی خطرے کے بغیر اطمینان سے بیٹھ کر شیر کا انتظار کر سکوں اور وہ مجھے نہ دیکھ سکے۔ ربڑ کے درخت ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر قطعاً اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس موقعے پر انہی میں سے ایک اونچے درخت کا اعتبار کرنا پڑا۔ میرے ڈرائیور نے جلدی سے اس پر چڑھ کر دو مضبوط شاخوں کے درمیان رسّیوں سے ایک تختہ باندھا۔ جس پر میں بیٹھ سکتا تھا اور لیٹنا چاہتا تو تھوڑی دیر کے لیے لیٹ بھی سکتا تھا۔ اپنے آپ کو شیر کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے تختے کے اردگرد کی شاخوں پر دوسرے درختوں سے پتّوں کی ٹہنیاں اور گھاس پھونس جمع کی گئی اور اسے بھی ڈوریوں کے ذریعے باندھ دیا گیا۔ اب میں ان پتوں اور گھاس کے اندر اس طرح چھپ گیا تھا کہ درخت کے نیچے کھڑا ہوا کوئی بھی شخص میری موجودگی سے آگاہ نہ ہو سکتا تھا۔
اس کام سے فارغ ہو کر ہم نے اب دوسرا مرحلہ طے کیا۔ مزدور کے خون آلود کپڑے میرے پاس تھے۔ میں نے اسی جگہ جہاں لاش ملی تھی، یہ کپڑے گھاس پھونس کا ایک انسانی جسم بنا کر اس پر پھیلا دیئے۔ دور سے دیکھنے پر کوئی بھی دھوکہ کھا جاتا کہ یہ آدمی مرا پڑا ہے۔ اگرچہ مجھے پورا یقین نہیں تھا کہ شیر آج رات ضرور ہی ادھر آئے گا تاہم میں نے ارادہ کر لیا کہ مسلسل کئی راتوں تک اس کا انتظار کروں گا۔ اس لیے میں نے ڈرائیور سے کہہ دیا کہ جرنگاؤ ہی میں میری رہائش کا انتظام کرے اور کوئی مناسب سا مکان تلاش کرے تاکہ میں ڈنگن سے اپنی بیوی کو بھی بلوا لوں جو میری ان سرگرمیوں پر بہت خوفزدہ رہتی ہے اور اگر میں چار پانچ روز تک واپس نہ گیا تو وہ یہی سمجھے گی کہ شیر نے مجھے بھی اپنا لقمہ بنا لیا ہے۔
چونکہ مجھے شیر کے انتظار میں رات بھر جاگنا تھا۔ اس لیے میں نے تھرماس میں گرم چائے بھروا کر اپنے پاس رکھوا لی۔ سگرٹوں کے پیکٹ، ماچس اور برقی ٹارچ میرے پاس پہلے ہی سے موجود تھی۔ جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے اور پرندوں کی ٹولیاں اپنے اپنے آشیانوں کو واپس آنے لگیں تو میں نے اپنے ڈرائیور صالح بن محمود کو جرنگاؤ چلے جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ علی الصبح آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے جائے۔
سورج غروب ہوتے ہی فضا میں خنکی بڑھنے لگی اور اب مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا کہ میں نے سردی سے بچنے کا تو کوئی انتظام ہی نہیں کیا۔ کم از کم ایک کمبل ہی منگوا لیتا۔ اب تو ڈرائیور یہاں سے جا چکا۔ رات بھر مجھے سردی سے ٹھٹھرنا پڑے گا۔ میری جیبوں میں اتفاق سے دستانے موجود تھے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہاتھوں کو تو سردی سے بچایا جا سکتا ہے، ورنہ رائفل چلانے میں بڑی دقّت ہوتی۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، سات بج رہے تھے اور جنگل میں گھپ اندھیرا چھا چکا تھا۔ ہر شے پر سکوت طاری تھا۔ دلدل کے اوپر جھاڑیوں کے قریب بہت سے جگنو چمک کر شراروں کی مانند اڑ رہے تھے۔ میں دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔
مجھے قطعاً احساس نہیں ہوا کہ میں کب نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ اچانک میری آنکھ کھلی۔ ایک اُلو کہیں بھیانک آواز میں چیخ رہا تھا۔ سردی کا اثر زائل کرنے کے لیے میں نے تھرماس سے چائے نکال کر پی اور سگرٹ سلگا لیا۔
تھوڑی دیر بعد مشرق کی جانب سے پچھلے پہر کے زرد چاند کا ابھرتا ہوا چہرہ دکھائی دیا اور جنگل میں مدھم سی سوگوار روشنی پھیل گئی، جس میں ہر شے ساکت اور خاموش دکھائی دیتی تھی میں نے اپنی چھٹی حِس کو بیدار پایا اور رائفل سنبھال کر مصنوعی لاش کی طرف دیکھنے لگا چس کے اوپر رکھی ہوئی ہڈّی دکھائی دے رہی تھی۔ دفعتہً میں نے دلدل کے قریب کھڑکھڑاہٹ اور خشک پتّوں کے چرچرانے کی آواز سنی۔ میں سانس روک کر بیٹھ گیا اور پلک جھپکائے بغیر اُدھر تکنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ آدم خور مصنوعی لاش کے قریب کھڑا ہے اور غالباً اسے بھی کسی ‘دشمن’ کی موجودگی کا احساس ہو گیا ہے۔ میرا دل دھڑکنے لگا اور سردی کے باوجود پیشانی پر پسینے کے قطرے پھوٹنے لگے۔ بلند مچان پر بیٹھنے اور کئی شیروں کو ہلاک کرنے کے باوجود مجھ پر آدم خور کا خوف سوار ہو گیا کیونکہ یہ اس سے میرا پہلا سابقہ تھا۔
میں نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں تھا اور جانتا تھا کہ اگر میری جانب سے اس نے ذرا سی بھی آہٹ پائی تو وہ فرار ہو جائے گا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کرے گا۔ پس میں سانس روکے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ چند منٹ بعد درختوں کے پار میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی وہ دبے پاؤں چل رہا تھا۔ پھر اس نے مُنہ پھیر کر اس جانب دیکھا، جدھر میں بیٹھا ہوا تھا اور خون میری رگوں میں جمنے لگا۔ خدا کی پناہ۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں، لیکن ارادے کے باوجود فائر کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ چند سیکنڈ بعد آدم خور میری نظروں سے اوجھل ہو گیا، تو میری جان میں جان آئی اور مجھے اپنی بزدلی پر شرم آئی کہ شیر سے اس قدر فاصلے پر اور مچان پر محفوظ ہونے کے باوجود میں اس سے ڈر رہا ہوں۔
ایک بار پھر میں نے جھاڑیوں میں کھڑکھڑاہٹ سنی، آدم خور غالباً مصنوعی لاش کو نوچ رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ اس طرح کھڑا تھا کہ مجھے اس کی پشت دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نشانہ باندھا اور خدا کا نام لے کر لبلبی دبا دی۔ رائفل کے منہ سے شعلہ نکلا اور جنگل گونج اٹھا۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ شیر نے ایک ہولناک گرج کے ساتھ جست کی اور دوڑتا ہوا ادھر چلا گیا، جدھر سے آیا تھا۔ اس کے غرانے اور گرجنے کی آوازوں سے جنگل دیر تک لرزتا رہا اور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکل کر فضا میں اڑنے لگے اور بندروں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میں حیران تھا کہ کہ صحیح نشانہ باندھنے کے باوجود بچ کر نکل گیا۔ ممکن ہے وہ زخمی ہو چکا ہو۔ یہ خیال آتے ہی میرے دل کی ڈھارس بندھی اور میں صبح کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن آدھے گھنٹے بعد ہی جنگل میں لالٹینوں کی روشنیاں۔۔۔۔۔ اور پھر بہت سے آدمیوں کے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔۔ جرنگاؤ کے آدمیوں تک رائفل کی آواز پہنچ گئی تھی۔
بارہ آدمی لاٹھیاں اور لالٹینیں لیے نمودار ہوئے ان کے ساتھ بندوقیں سنبھالے ہوئے تین سپاہی اور میرا ڈرائیور صالح بن محمود تھا۔ انہوں نے سیڑھی لگا کر مجھے نیچے اتارا اور پھر ہم نے اس مقام کا معائنہ کیا جہاں شیر کھڑا تھا۔ اس نے مصنوعی لاش کو نوچ ڈالا تھا۔ اس کے پنجوں کے نشان زمین پر گہرے تھے اور قریب ہی ایک شاخ پر میری رائفل سے نکلی ہوئی گولی کا نشان تھا۔ آدم خور بال بال بچ گیا تھا۔
صبح کاذب کا دھندلکا آسمان کے مشرقی گوشے پر شفق کی ہلکی سرخی میں آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا تھا۔ میں مایوسی کی حالت میں منہ لٹکائے ان لوگوں کے ساتھ جرنگاؤ چلا آیا۔ رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ اس لیے خوب گھوڑے بیچ کر سویا۔ سہ پہر کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے سب سے پہلے اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ آدم خور کے بارے میں کوئی تازہ خبر ملی؟ اس نے اثباب میں سر ہلایا اور کہا! ‘شیر کے پنجوں کے نشانات جرنگاؤ کے اندر پائے گئے ہیں۔ لیکن اسے کسی آدمی پر حملہ کرنے کا موقع نہیں مِلا۔ بھوکا ہونے کے باعث اس نے ایک گائے کو ہلاک کیا اور گھسیٹ کر لے جا نہ سکا۔ سبھی لوگ اس واقعے سے بے حد خوف زدہ ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ وہ اس وقت تک گھروں سے باہر قدم نہیں رکھیں گے جب تک اس بلا کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ گیم ڈیپارٹمنٹ والوں نے وعدہ کیا کہ وہ عنقریب چند تجربہ کار شکاری بھیج رہے ہیں۔
‘گائے کو شیر نے کہاں ہلاک کیا؟’ میں نے سوال کیا۔
‘باڑے میں گھس کر۔’ محمود نے جواب دیا۔ ‘آپ کو معلوم ہے کہ گاؤں کے سب مویشی ایک ہی باڑے میں رات کو بند کیے جاتے ہیں۔ لکڑی کے مضبوط تختوں کی ایک وسیع چار دیواری ہے جس کی اونچائی چار فٹ ہے اور شیر اس کے اندر چھلانگ لگا کر بخوبی داخل ہو سکتا ہے۔ گزشتہ رات جب آپ نے شیر پر فائر کیا تو وہ بے چین ہو کر ادھر ادھر گھومتا رہا۔ اسے یقیناً بھوک ستا رہی تھی۔ پس وہ گاؤں میں گھس گیا۔ وہاں کتّوں نے اسے دیکھ کر بھونکنا شروع کیا تو وہ مویشیوں کے باڑے میں پھلانگ گیا اور ایک گائے کو گرا لیا۔ شیر کے اندر آتے ہی سو ڈیڑھ سو مویشیوں میں بھگدڑ مچ گئی جس نے شیر کو بدحواس کر دیا اور وہ غرّاتا ہوا وہاں سے نکلا اور جنگل کی جانب چلا گیا۔ آپ چائے پی کر میرے ساتھ چلیے، تو میں گائے کی لاش اور شیر کے پنجوں کے نشان آپ کو دکھا دوں۔’
میں نے جلد جلد چائے زہر مار کی اور محمود کے ساتھ گائے کی لاش دیکھنے چلا۔ باڑے کے باہر ریتلی زمین پر شیر کے پنجوں کے گہرے نشان دکھائی دیے۔ جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے اندر داخل ہونے سے پہلے چاروں طرف چکر لگایا اور جب وہ باڑے میں کودا تو جانوروں میں ہل چل مچ گئی۔ شیر نے طیش میں آ کر ایک گائے پر حملہ کیا اور اسے شدید زخمی کر دیا لیکن اس دوران میں دوسرے مویشیوں نے شیر کے خوف سے ادھر ادھر دوڑنا اور اچھلنا شروع کر دیا ۔ شیر اپنے شکار کا خون بھی چکھ نہ سکا اور بدحواس ہو کر باہر بھاگ گیا، اتنے میں گاؤں کے بہت سے لوگ مویشیوں اور شیر کے غرانے کی آواز سن کر وہاں پہنچ گئے۔ اگرچہ اندھیرا کافی تھا مگر انہوں نے شیر کی سرخ آنکھیں دیکھ ہی لیں۔ افسوس کہ ان میں سے کسی کے پاس رائفل نہ تھی ورنہ آدم خور کا کام اسی وقت کام تمام ہو جاتا۔ یہ لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے ہوئے تھے اور اگر ہمت کر کے شیر کو گھیر کر اس پر لاٹھیاں برسا دیتے تو یقیناً اس کا کچومر نکل جاتا۔
میں نے گائے کی لاش کو وہاں سے اٹھوایا اور جنگل میں عین اس مقام پر رکھوا دیا جہاں گزشتہ رات مصنوعی لاش بنا کر رکھی گئی تھی۔ مجھے اب ایک بار پھر شیر کے انتظار میں اسی مچان پر رات کاٹنی پڑی۔
وقت مقررہ پر میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر مچان پر پہنچ گیا اور آدم خور کا انتظار کرنے لگا۔ اس مرتبہ مجھے یقین تو نہیں تھا کہ وہ ادھر کا رخ کرے گا تاہم اس کا یہاں آنا محال بھی نہ تھا۔ قصّے کو مختصر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ رات ایک بجے جب میرے اعصاب پر میرے پژمردگی طاری ہو چکی تھی اور میں آدم خور کی آمد سے تقریباً مایوس ہو چکا تھا کہ درختوں پر بسیرا کرنے والے سینکڑوں پرندے یکایک اپنے اپنے آشیانوں سے اڑے اور فضا میں سایوں کی مانند چکر کاٹنے لگے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ شیر اپنی کمین گاہ سے برآمد ہو چکا ہے۔ اور شکار کی تلاش میں پھر رہا ہے۔ دفعتہً میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی جو میں اپنے ایک پیشرو شکاری۔۔۔۔۔ کینتھ اینڈرسن کے حالات میں دیکھ چکا تھا کہ جب وہ شیر کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تو اونچی آواز میں بولنا یا گانا شروع کر دیتا۔ آدم خور شیر چونکہ انسانی آواز فوراً پہچان لیتا ہے۔ اس لیے بے دھڑک اس جانب دوڑ کر آتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی بھولا بھٹکا انسان جنگل میں آنکلا ہے جسے تر لقمہ بنایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ حربہ ایک حماقت ہے لیکن اس کے موثر ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ میں نے یہ محسوس کر کے شیر قریب ہی موجود ہے، اونچے لہجے میں بولنا اور نادیدہ لوگوں کی آوازیں دینی شروع کر دیں۔ چند منٹ بعد اچانک ایک جانب سے شیر کے غرّانے کی ہلکی سی آواز آئی۔ اور میرا کلیجہ سمٹ کر حلق میں آ گیا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس درندے کی آواز میں کیسا دبدبہ اور رعب تھا کہ نڈر سے نڈر آدمی کی ایک مرتبہ گھگھی بندھ ہی جاتی ہے۔
میرے چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اور میں بار بار مشرق کی طرف دیکھتا کہ پچھلے پہر کا چاند نمودار ہونے میں کتنی دیر ہے تاکہ شیر کی موجودگی کا صحیح اندازہ کر سکوں۔ میری رائفل پر اگرچہ طاقتور برقی ٹارچ لگی ہوئی تھی لیکن جب تک شیر کی صحیح پوزیشن کا علم نہ ہو جائے، ٹارچ روشن کرنا حماقت تھی۔ شیر اس کی روشنی دیکھتے ہی فرار ہو جاتا ہے۔
چند منٹ تک جنگل پر موت کا سا سکوت طاری رہا۔ فضا میں اڑتے ہوئے پرندے اب آہستہ آہستہ درختوں پر جمع ہوتے جا رہے تھے۔ شیر یقیناً کسی درخت کی اوٹ میں کھڑا منتظر تھا کہ ‘راہ گیر’ اس کے پاس سے گزرے، تو وہ حملہ کرے۔ میں نے ایک بار پھر گانا شروع کر دیا ۔ اور اب جواب میں شیر غرایا۔۔۔۔۔۔ اب میں اس کی آواز کا رخ پہچان لیا۔ چاند نکلنے کا انتظار فضول تھا۔ میں نے خدا کا نام لے کر رائفل کی نالی اس طرف پھیری۔ اور ٹارچ روشن کر دی۔ آدم خور ایک بھیانک آواز کے ساتھ دھاڑا اور چھلانگیں لگاتا ہوا میرے سامنے سے گزرا۔ بس وہی لمحہ تھا کہ میں نے نشانہ لیے بغیر فائر کر دیا ۔ شیر نے ایک قلابازی کھائی اور وہیں گر پڑا۔ میں نے فوراً دوسرا فائر کیا اور یہ گولی بھی شیر کے شانے میں پیوست ہو گئی۔ اور چند منٹ بعد وہ سرد ہو چکا تھا۔
میں فرطِ مسرّت سے بے تاب ہو کر مچان سے درخت پر پھسلتا ہوا اترا اور شیر کی جانب بھاگا۔ اس کا دم لبوں پر تھا۔ جبڑا کھلا ہوا تھا۔ اور سرخ آنکھیں اپنی چمک زائل کرتی جا رہی تھیں۔ مجھے قریب دیکھ کر اس نے آخری کوشش کی اور میری جانب جست کی۔ میں اسے مردہ سمجھ کر قطعاً غافل تھا۔ شیر میرے اوپر آن پڑا۔ اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بوجھ سے میری کمر ٹوٹ جائے گی۔ رائفل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک طرف جا گری۔
اب مَیں آدم خور کے رحم و کرم پر تھا۔ میں نے اپنے حواس بحال کر کے اس کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں پوری قوت صرف کر دی اور جھپٹ کر رائفل اٹھالی اور دو گولیاں اس کی کھوپڑی میں اتار دیں۔ آدم خور کے پیر تھرتھرائے اور وہ بالکل ختم ہو گیا، اور اس طرح جرنگاؤ کا وہ آدم خور جس نے کئی انسانی جانوں کو ہڑپ کیا تھا بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
٭٭٭
کراگاانو اور جنگلی بھینسا
میں اور میری بیوی ہلڈا جب جزیرہ نومو سے لوٹے تو ملازم نے کپتان چی کی طرف سے میرے نام آیا ہوا رقعہ دکھلایا، جس میں درج تھا کہ میں اس سے فوراً ملوں۔ بے چارہ ایک بھاری مصیبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ وہ کینیا کے محکمہ سیر و شکار کا انچارج تھا اور آئے دن کسی نہ کسی جان لیوا چکّر میں پھنس جاتا تھا۔ میں اس کے پاس گیا تو اس نے بتایا کہ مپسن فال کے علاقے میں جنگلی بھینسوں کے گروہ نے آفت مچا رکھی ہے جنگلی بھینسے نہ صرف تیّار فصلیں تباہ کر رہے ہیں بلکہ انسانی جانوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ میں نے وعدہ کیا کہ اس سلسلے میں جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا، کروں گا۔
جنگلی بھینسا افریقہ کے خطرناک ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ جانور سبزی خور ہے لیکن اس کی کل عادات و خصائل گوشت خور درندوں سے مشابہ ہیں۔ نہایت ہی نڈر، سخت اور مکّار ہوتا ہے۔ گینڈے کی طرح قوی چیتے کی طرح پھرتیلا، لومڑی کی طرح عیّار اور ہاتھی کی طرح مست۔۔۔۔۔ یہ اس کی چند خصوصیات ہیں۔ اپنے حریف کا جنگل کے آخری سرے تک تعاقب کرتا ہے جب تک خود نہ مر جائے یا اسے نہ مار ڈالے پیچھے ہٹنا اپنی ہتک سمجھتا ہے اس کے حملے کا انداز بھی بڑا ہی لرزہ خیز ہوتا ہے اور بعض اوقات گینڈے اور شیر تک اس کا سامنا کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ اس کی گردن اور سینگوں میں خدا نے بے پناہ قوّت دے رکھی ہے۔ اس کے لمبے نوکیلے سینگوں کی زد میں آ کر بچنا خاصا مشکل کام ہے۔ اناڑی اور نا تجربہ کار شکاری اس سے خوف کھاتے اور ہمیشہ بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مصیبت اس کی موٹی کھال اور شہ زوری ہے۔ آپ رائفل کی صرف ایک گولی سے گینڈے یا ہاتھی کا کام تمام کر سکتے ہیں۔ لیکن جنگلی بھینسے کے لیے یہ بیکار ہے۔ جب تک اس کا جسم گولیوں سے چھلنی نہ کر دیا جائے اس وقت تک وہ مرنے کا نام نہیں لیتا۔ اس کے علاوہ اس جانور کی ایک بڑی خوبی اس کی ذہانت اور اعلیٰ قوّتِ سماعت ہے۔ جب وہ اپنے حریف کا تعاقب کرتا ہے تو اس کے قدموں کے نشانات سونگھتا جاتا ہے جب اس کا سراغ پا لیتا ہے تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتا بلکہ جھاڑیوں میں چھپ کر مناسب موقعے کا انتظار کرتا ہے۔ جونہی اسے محسوس ہو کہ حریف بے خبر ہے فوراً اپنی کمین گاہ سے نکلتا اور آندھی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کے حملے کا انداز اتنا جارحانہ ہوتا ہے کہ اکثر تجربہ کار شکاری بھی بد حواس ہو جاتے ہیں۔ اس کی فطرت یہ ہے کہ بعض اوقات بغیر کسی سبب اشتعال میں آ جاتا ہے اور شکاریوں کے تعاقب میں نکل کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر یہ کہا جائے کہ جنگلی بھینسا افریقہ کے تمام جانوروں میں سب سے خطرناک جانور ہے تو اسے مبالغہ نہ سمجھیے۔
اعشاریہ 500 کی بھاری رائفل اور شکاری کتّوں کا لشکر لے کر میں وقت مقر رہ پر تھامپسن فال کے علاقے میں پہنچ گیا۔ اس علاقے کے لوگ جنگلی بھینسوں کی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے بہت پریشان تھے۔ جس گاؤں کے قریب میں نے اپنا کیمپ لگایا وہاں سے جنگلی بھینسوں کی سرحد زیادہ دور نہ تھی۔ اسی روز بہت سے مقامی باشندے میرے پاس آئے۔ وہ خوش تھے کہ اب اس مصیبت سے نجات مل جائے گی۔ کہنے کو تو یہ لوگ ماسائی قبیلے ہی کی ایک شاخ تھے اور لڑنے مرنے میں طاق۔ شیروں اور چیتوں کو نیزوں سے مار ڈالنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ مگر جنگلی بھینسے کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ جاتی تھی۔ ان لوگوں کو زبانی جب مجھے چند واقعات معلوم ہوئے تو حیرت کے ساتھ ساتھ ڈر بھی لگنے لگا۔ مثلاً ایک شخص کی ایڑی ٹخنے کے نیچے سے غائب تھی۔ میں نے جب اس حادثے کا سبب دریافت کیا تو اس کا چہرہ متغیّر ہو گیا۔ کہنے لگا کہ یہ ستم ایک جنگلی بھینسے نے ڈھایا ہے۔ قصّہ یہ تھا کہ ایک روز یہ شخص اپنے کسی کام سے جنگل میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک اس کے عقب میں جھاڑیوں کے اندر کسی جانور کے غرّانے کی آواز پیدا ہوئی۔ وہ فوراً رُک گیا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔ چشم زدن میں ایک قوی ہیکل جنگلی بھینسا ڈکراتا ہوا اور اپنے کھروں سے مٹی اکھیڑتا ہوا پوری قوّت سے اس شخص کی جانب آیا۔ یہ بے چارہ بد حواس ہو کر اندھا دھند بھاگنے لگا لیکن چند ہی چھلانگوں میں بھینسا اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔ مجبوراً یہ شخص ایک درخت کی نچلی شاخ پکڑ کر لٹک گیا اور درخت کے تنے پر پیر رکھ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جنگلی بھینسا اپنے ہی زور میں درخت سے آگے نکل گیا۔ لیکن چند ثانیے بعد واپس آیا اور درخت کے گرد فوں فوں کرتا ہوا اور کھر زمین پر مارتا ہوا چکر کاٹنے لگا۔ یہ شخص خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لیں اور دونوں بازوؤں سے شاخ مضبوطی سے پکڑ کر لٹکنے لگا۔ بد قسمتی سے درخت کے تنے تک اس کا پیر اچھی طرح نہیں پہنچ رہا تھا۔ اسی اثنا میں اس نے اپنا دایاں پیر سہارے کے لیے درخت کے تنے تک پہچانا چاہا۔ جنگلی بھینسے نے لپک کر اس کی ایڑی اپنے بڑے منہ میں دبا لی اور پیچھے ہٹا۔ ایڑی لہولہان ہو گئی۔ بھینسے نے جب اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس کیا اور بو اس کے نتھنوں میں پہنچی تو اس نے پیر چھوڑ دیا اور اچھلتا کودتا ایک جانب چلا گیا۔ اس عرصے میں یہ بد نصیب درد کی شدت سے بیہوش ہو چکا تھا۔ ہوش آنے کے بعد جس جان کنی کی کیفیت سے گزر کر یہ بستی تک پہنچا، اسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
اسی طرح ایک روز دوپہر کے وقت میرے پاس کیمپ میں ایک شخص آیا جس نے پیش کش کی کہ اسے رہبر کی حیثیت سے ملازم رکھ لیا جائے۔ بات چیت کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی رانوں اور گھٹنوں پر زخموں کے لمبے اور گہرے نشان تھے۔ جب میں نے ان زخموں کا سبب پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ‘صاحب اگر مونگو (خدا) کی نظرِ کرم میرے حال پر نہ ہوتی تو میں اب تک زندہ نہ ہوتا۔‘ اس کے بعد اس نے ان الفاظ میں اپنی غم ناک کہانی سنائی۔
‘میں اس روز اپنی پالتو شہد کی مکھیاں دیکھنے جنگل میں جا رہا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد بیچنے کا دھندا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جنگل میں اونچے اونچے درختوں پر لکڑی کے چھوٹے ڈبے سے بنا کر لٹکا دیتے ہیں۔ مکھیاں خود بخود ان گھروں میں رہنے لگتی ہیں۔ بعض اوقات سانپ اور دوسرے چھوٹے پرندے بھی ان پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ بہرحال میں یہ سوچتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ شہد اب تک تیار ہو چکا ہو گا کہ یکایک لمبی گھاس میں سے گزرتے ہوئے میرا پیر سوئے ہوئے ایک جنگلی بھینسے کی دُم پر پڑ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا، غیظ و غضب سے بھرے ہوئے بھینسے نے اچھل کر اپنے سینگوں پر مجھے اٹھایا اور فضا میں پھینک دیا۔ میں پیٹھ کے بل دور جا گرا۔ لمبی گھاس میں گرنے سے چوٹ تو نہیں آئی مگر اُٹھتے اُٹھتے بھینسا میرے سر پر آ چکا تھا۔ اس نے اپنے سینگ میرے سینے میں گھونپنے کے لیے گردن جھکائی۔ میں نے جلدی سے کروٹ لی اور کچھ نہ سوجھا تو دائیں ہاتھ سے اس کا سینگ پکڑ لیا اور بائیں ہاتھ سے ایک کان۔ اس حرکت سے بھینسا اور مشتعل ہو گیا۔ وہ منہ کھول کر بھیانک آواز میں چیخا اور گردن کو زور زور سے جھٹکے دیئے لیکن میں نے اس کا کان، چھوڑا نہ سینگ، بلکہ جتنے قوّت تھی صرف کر دی۔ بھینسا اب مجھے لے کر دوڑتا ہوا جنگل میں جا رہا تھا۔ یکایک وہ گھنی خار دار جھاڑیوں میں گھس گیا۔ کانٹے میرے جسم میں پیوست ہو رہے تھے۔ لیکن میں نے اب بھی بھینسے کا سینگ نہ چھوڑا۔ جھاڑیوں سے نکل کر اس نے ایک زور دار جھٹکے سے مجھے پرے پھینک دیا۔ میرا جسم زخموں سے لہولہان ہو چکا تھا۔ زمین پر گرا تو اٹھنے کی سکت ہی نہ رہی مگر اس عالم میں بھی کچھ کچھ ہوش مجھے ضرور تھا۔ میں چاروں شانے چت پڑا پھٹی پھٹی آنکھوں سے بھینسے کو دیکھ رہا تھا۔ جس کا غیظ و غضب عروج پر تھا۔ وہ دیوانہ وار میرے ارد گرد گھوم رہا تھا۔ دفعتاً وہ رکا، پھر گردن جھکا کر آہستہ آہستہ قریب آیا اور اپنا ایک سینگ میرے پیٹ میں گھونپ دیا۔ میرے منہ سے ایک چیخ نکلی اور پھر مجھے قطعاً ہوش نہ رہا۔
‘آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی۔ پہلے پہل مجھے معلوم نہ ہوا کہ کہاں پڑا ہوں۔ آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا چھا جاتا۔ میں نے ہاتھ پیر ہلانے کی کوشش کی مگر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے جسم کے یہ حصے مردہ ہو چکے ہوں۔ بہت دیر بعد میرا ذہن کام کرنے کے قابل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ جنگل میں بہنے والی ندی قریب ہی ہے۔ میرا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا۔ پیٹ کے اوپر بڑا سا گھاؤ تھا جس پر خون جما ہوا تھا۔ رانوں اور سینے پر بھی زخموں کے گہرے نشان تھے۔ جا بجا کانٹے بھی چبھے ہوئے تھے۔ ارادے کی پوری قوت کے ساتھ ندی کی طرف رینگنے لگا۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اس ندی کے قریب کیچڑ میں پورے دو ہفتے تک پڑا رہا۔ مجھے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ مجھ پر نیم غنودگی کی کیفیّت طاری رہی۔ میرا جسم بے حس ہو گیا تھا۔ بائیں بازو سے چلّو بھر پانی بھر کر بمشکل پانی حلق میں ڈالتا اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھاس پھونس چباتا رہا۔ رات کے وقت جنگل کے اکثر جانور اس ندی پر پانی پیتے آتے تھے۔ میں اسے بھی خدا کا خاص کرم سمجھتا ہوں کہ کسی نے مجھے نقصان پہچانے کی کوشش نہیں کی، شاید اس لیے کہ ابھی زندگی کے کچھ دن باقی تھے۔ گینڈے بھی وہاں آتے اور ہاتھی بھی۔۔۔۔ کئی مرتبہ لگڑ بگھّے آئے لیکن مجھے دور ہی سے دیکھ کر واپس چلے گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ ندی میں بڑے بڑے کئی مگرمچھ بھی تھے وہ مجھے مردہ سمجھ کر پانی کی سطح سے باہر آتے اور رینگتے ہوئے میرے بہت قریب پہنچ جاتے۔ لیکن جونہی میں آنکھیں کھولتا وہ غڑاپ غڑاپ پانی میں کود جاتے۔
ادھر گاؤں والوں نے میری گمشدگی پر یہ سمجھ لیا تھا کہ میں کسی درندے کا لقمہ بن چکا ہوں اس لیے کسی نے بھی مجھے ڈھونڈنے کی زحمت گوارا نہ کی، تاہم مجھے یہ امید تھی کہ اس عرصے میں اگر میں زندہ رہا تو شہد حاصل کرنے والے ضرور ادھر آ نکلیں گے۔ آخر ایک روز وہ آئے اور مجھے اٹھا کر لے گئے۔ میرا جسم زخموں سے سڑ چکا تھا۔ انہوں نے بعض جڑی بوٹیوں سے میرا علاج کیا۔ میں اب اچھا ہو گیا ہوں لیکن زندگی کی تمام مسرتوں سے محروم ہوں۔‘
اس شخص کی دردناک داستان سن کر میں دم بخود تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ اس تجربے کے بعد بھی تم کیوں میرے ساتھ شکار پر جانے کے لیے مُصر ہو؟’ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور وہ ڈرامائی انداز میں بولا، ‘بوانا (جناب) میں اس جنگلی بھینسے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے اس کی شکل اور سینگ اچھی طرح یاد ہیں۔ میرے سینے میں انتقام کی آگ سلگ رہی ہے۔ میں جب تک اس کا خون نہ پی لوں گا یہ آگ نہ بجھے گی۔ اس لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔‘
میں جس جنگل کے بھینسوں سے دو دو ہاتھ کرنے آیا تھا اس کا نام مارمینٹ فارسٹ تھا۔ ایسا گھنا اور تاریک جنگل افریقہ میں کہیں کہیں ملتا ہے۔ یہاں دن کو بھی رات کا منظر نظر آتا ہے۔ یہاں شکار کرنا کار داد ہے۔ اب پہلی بار نازک صورتِ حال اپنی صحیح شکل میں میرے سامنے آئی۔ اس جگہ جنگلی بھینسا واقعی ایک خطرناک جانور ثابت ہو سکتا تھا۔ تاہم مجھے اطمینان تھا کہ میرے پاس تجربہ کا اور نڈر کتّوں کا گروہ موجود تھا۔ تاہم مجھے اطمینان تھا کہ میرے پاس تجربہ کار اور نڈر کتّوں کا گروہ موجود تھا۔ جن کا لیڈر ‘بف’ نامی ایک السیشن کتا تھا۔ مجھے امید تھی کہ یہ کتے جنگلی بھینسے کو پاتال سے بھی اٹھا لائیں گے۔
جنگلی بھینسوں کے شکار پر آئے ہوئے مجھے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ اس دوران میں جیسا کہ مجھے خدشہ تھا کہ کوئی ناخوش گوار حادثہ پیش نہیں آیا۔ البتّہ میرے کئی شکاری کتے موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ میں نے اس عرصے میں جتنے بھینسے شکار کیے ان کی تعداد سترہ تک پہنچتی تھی۔ ابھی مجھے چند دن اور یہاں ٹھہرنا تھا۔ مقامی باشندے جو ‘گیم سکاؤٹ’ کی حیثیت سے میرے پاس ملازم تھے، مجھے خوب مدد دے رہے تھے اور سچ تو یہ ہے، میں نے اپنی شکاری زندگی انہی لوگوں کی مدد کے سہارے گزاری۔ میں نے ساڑھے تین سو کے قریب جنگلی بھینسے ہلاک کیے۔
ایک روز جب کہ حسبِ معمول اپنے نائب شکاریوں اور کتّوں کے گروہ کو لے کر جنگل میں جانے والا تھا، ایک مقامی باشندہ میرے پاس آیا۔ اس کا نام تھا ایبا۔ اس کی خواہش تھی کہ میں اسے بھی ملازمت میں لے لوں۔ معلوم ہوا کہ وہ اس علاقے کے مشہور جنگجو اور بہادر قبیلے ترکانا سے تعلق رکھتا ہے۔ ترکانا قبیلے کے لوگوں کی بہادری اور جیالے پن کی داستانیں میں بہت سن چکا تھا۔ یہ لوگ وحشی ہیں اور اکثر ننگ دھڑنگ رہتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ایک گول چاقو ہے جسے یہ دائیں کلائی میں چوڑی کی طرح پہنتے ہیں۔ اس چاقو کا پھل ریزر بلیڈ کی طرح تیز ہوتا ہے۔ اپنے حریف کی گردن کلائی کے ایک ہی جھٹکے سے الگ کر دینا ان کا خاص فن ہے۔ پہلی نظر میں ایبا مجھے پسند آیا۔ اس کے لمبے تڑنگے جسم، غیر معمولی قوت اور آنکھوں کی بے پناہ چمک نے مجھے کافی متاثر کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ تھامپسن فال کے جیل خانے سے رہا ہو کر آیا ہے۔ جرم یہ تھا کہ وہ زہر آلود تیروں کا استعمال کرتا رہا ہے۔ میں اس کے سچ بول دینے سے اور خوش ہوا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ یہ ملازمت کیوں کرنا چاہتا ہے تو اس نے کہا مجھے رائفل چلانے کا بڑا شوق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی خدمت کروں تاکہ کسی موقعے پر میرے پاس اپنی رائفل ہو۔ قصہ مختصر میں نے ایبا کو اس شرط پر ملازمت میں لے لیا کہ اگر وہ میرے احکام کی تعمیل کرے گا۔ کبھی دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کرے گا اور اس نے اچھا کام کیا تو رائفل دے دی جائے گی۔
جیسا کہ مجھے توقع تھی، ایبا کام کا آدمی ثابت ہوا۔ چند روز میں اس نے اپنی بہادری اور نڈر پن کا سکّہ میرے دل پر بٹھا دیا۔ میں نے اسے اپنی ایک پرانی فالتو رائفل دے دی اور چلانے کا طریقہ بھی سکھایا۔ اس نے حیرت انگیز طور پر رائفل کا میکنزم سمجھ لیا بلکہ اچھے نشانے کی مشق بھی بہم پہنچا لی۔ میں خوش تھا کہ عرصہ دراز کے ایک ایسا کار آمد آدمی ہاتھ لگا ہے۔ ایک روز میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ میں نے ایبا کو رائفل اور کارتوس دیے۔ دو گیم سکاؤٹ اس کے ہمراہ کیے اور جنگل میں جنگلی بھینسوں کا تعاقب کرنے بھیج دیا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں سکاؤٹ چہروں پر پریشانی کے آثار لیے کیمپ میں آئے اور کہنے لگے۔ ‘ایبا نے ہمیں واپس بھیج دیا۔ وہ ہمیں ساتھ لے جانے سے انکار کرتا ہے۔‘
‘کیوں؟’ میرے دل میں پہلی بار شک و شبے کے کانٹے چبھنے لگے۔
‘جناب! وہ کہتا ہے کہ میں ترکانا قبیلے کا سردار ہوں اور ہم لوگ اکیلے ہی شکار کھیلتے ہیں۔‘
یہ سن کر میرے غصے کی انتہا نہ رہی۔ یہ صریحاً میرے احکام کی خلاف ورزی تھی۔ میں جانتا تھا کہ ایبا اگر اکیلا جنگل میں نکل گیا تو ضرور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اتنا تجربہ کار ہونے کے باوجود میں نے کبھی ان جنگلوں میں تنہا جانے کی جرأت نہیں کی تھی۔ بہرحال میں نے فیصلہ کیا کہ ایبا اگر لوٹ آیا تو اسے عبرتناک سزا دوں گا۔ مگر وہ نہ آیا۔
دوسرے روز پروگرام کے مطابق مجھے اسی علاقے کے ایک دور دراز مقام پر دورے کے لیے جانا تھا۔ وہاں سے پانچ روز بعد جب میں واپس آیا تو میرا خیال تھا کہ ایبا اب تک آ چکا ہو گا۔ مگر پتہ چلا کہ وہ تو ابھی تک نہیں آیا البتہ اس کی بیوی آئی ہے۔ میں نے اسے بلایا۔ اس کی حالت نہایت خستہ تھی۔ بے چاری چند گندے چیتھڑوں سے اپنا تن ڈھانپے ہوئے تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں آنسو بھر آئے۔ اب مجھے بھی تشویش ہوئی۔ اگرچہ میں لمبے سفر سے واپس آیا تھا۔ اور تھکا ہوا تھا، مگر فوراً ہی ایک کھوجی جماعت تیاری کر کے ایبا کی تلاش میں روانہ ہو گیا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ اس وسیع و عریض پہاڑی جنگل میں ایبا ہمیں زندہ یا مردہ اتنی جلد مل جائے گا۔ لیکن چار گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد ایک ڈھلوان راستے پر درخت کے نیچے ہم نے اس کی مسخ شدہ لاش پائی۔ گدھوں اور لگڑ بگّوں نے لاش کو نوچ نوچ کر خوب پیٹ بھرا تھا۔ میں نے ایبا کو اس کے کاسہ سر کی خاص بناوٹ سے شناخت کیا۔ تھوڑی دیر کے معائنے کے بعد ہی یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ بد نصیب ایبا کو کسی درندے نے نہیں بلکہ کسی انسان نے ہلاک کیا ہے۔ کیونکہ وہاں نہ جنگلی بھینسے کے پاؤں کے نشان تھے نہ کسی ایسی جد و جہد کے آثار جن سے پتہ چلتا کہ ایبا کسی اور جانور کا شکار ہوا۔ لاش کے قریب ہی ایک گہرا گڑھا البتّہ موجود تھا۔ جو میرے خیال کے مطابق ایبا نے خود اپنے لیے اس مقصد کے تحت کھودا ہو گا کہ اس میں چھپ کر جنگلی بھینسے کا انتظار کرے گا۔ اس کی کئی پسلیاں اس انداز سے ٹوٹی ہوئی تھیں جیسے ان پر ڈنڈے برسائے گئے ہوں۔ رائفل اور کارتوس کی پیٹی غائب تھی۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی جانور رائفل اور کارتوس اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ میں نے فوراً اس حادثے کی اطلاع تھامپسن فال کے پولیس انسپکٹر مسٹر جائے کو بھجوا دی۔
اس زمانے میں ضلع تھامپسن فال کے علاقے کے بہت سے بدمعاش مغرور تھے۔ یہ مہینوں برسوں تک جنگلوں میں روپوش رہتے۔ راہ چلتے اِکّا دُکّا مسافروں یا آبادیوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت کے بعد بھاگ جاتے۔ مجھے شک تھا کہ ایبا کو بھی ایسے ہی کسی بدمعاش نے رائفل اور کارتوس حاصل کرنے کے لالچ میں ٹھکانے لگایا ہے۔ بہرحال اسلحہ کا وحشی بدمعاشوں کے ہاتھوں میں پہنچ جانا نہایت تشویش انگیز مسئلہ تھا۔ دوسرے روز انسپکٹر جائے مسلح پولیس عسکری جوانوں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچ گیا۔ میں خود اپنے نائب شکاریوں کے ساتھ اس کی مدد کو موجود تھا۔ انسپکٹر نے فیصلہ کیا کہ ارد گرد کے علاقے کا اچھی طرح معائنہ کیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس طرح کوئی نیا سراغ ہاتھ آ جائے، چنانچہ پولیس اور شکاریوں کی بہت بڑی جماعت کو چھوٹے چھوٹے کئی گروہوں میں تقسیم کر کے مختلف سمتوں میں روانہ کر دیا گیا۔ تھامپسن فال کے علاقے میں میرے آنے کے بعد یہ پہلا جانی نقصان تھا اور میں اس بارے میں سخت فکرمند تھا۔
جستجو کی یہ کوشش ناکام نہ رہی اور دو گھنٹے بعد ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور مجھے بتایا کہ اس نے ایک جنگلی بھینسے کی لاش جھاڑیوں میں دیکھی ہے۔ میں نے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور اس طرف چل پڑا۔ راستے میں میں نے دیکھا کہ گوشت خور چیونٹیاں لاکھوں کی تعداد میں اِدھر سے اُدھر جا رہی ہیں۔ یہ چیونٹیاں آدھ انچ سے زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ لیکن افریقہ میں جن لوگوں کو کبھی ان کا عذاب سہنا پڑا ہے وہ ساری عمر انہیں بھول نہیں سکتے ہیں۔ ان کی فطرت ہے یہ ہے کہ اَن گنت تعداد میں سفر کرتی ہیں، راہ میں جو حیوان اور انسان مل جائے، اسے آن واحد میں چٹ کر جاتی ہیں۔ میں خود کئی مرتبہ انہی خون آشام چیونٹیوں کے پھندے میں پھنس کر موت کا سا مزہ چکھ چکا ہوں۔
جب ہم بھینسے کی لاش سے پانچ گز دور کھڑے تھے تو میں نے دیکھا کہ کروڑوں چیونٹیاں اس سے چمٹی ہوئی ہیں۔ قوی ہیکل بھینسے کا گوشت آہستہ آہستہ غائب ہوتا جا رہا تھا۔ اور نیچے سے سفید بڑی ہڈیاں جھانک رہی تھیں۔ چیونٹیوں نے ہمیں دیکھتے ہی خطرہ محسوس کیا اور بھینسے کو چھوڑ کر ہم پر حملہ کرنے کے ارادے سے مورچہ بنانے لگیں۔ یہ دیکھ کر ہم سب سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اتفاق کی بات کہ ہم اس سمت میں دوڑے جدھر مرے ہوئے بھینسے کا رخ تھا۔ کوئی سو گز دور جانے کے بعد ہمیں درخت کی ٹوٹی ہوئی ایک موٹی شاخ پڑی نظر آئی جس پر خون کے بڑے بڑے خشک دھبّے تھے۔ اس شاخ سے چند فٹ کے فاصلے پر لمبی گھاس میں ایبا کی رائفل پڑی پائی گئی۔ رائفل کے چیمبر میں ایک کارتوس تھا ایک کارتوس کا خول گھاس پر پڑا پایا گیا۔ ارد گرد کی زمین کا اچھی طرح معائنہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ ایبا کو کسی انسان نے نہیں مارا بلکہ اسی جنگلی بھینسے نے مارا تھا، کیونکہ یہاں ایبا کے اور جنگلی بھینسے کے قدموں کے نشان پاس پاس دکھائی دیے۔ ایبا نے جنگلی بھینسے کو گولی ماری تھی اور یہ گولی یقیناً بھینسے کے پیٹ میں لگی، کیونکہ پیٹ سے نکلے ہوئے گاڑھے خون اور پانی کے بڑے بڑے دھبے وہاں موجود تھے۔ اب میں نے اس حادثے کی کڑیاں یوں ملائیں کہ ایبا نے اپنے کھودے ہوئے گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر جنگلی بھینسے پر گولی چلائی۔ گولی نشانے پر لگی اور بھینسا زخمی ہو کر بھاگ نکلا۔ ایبا نے اس کا تعاقب کیا۔ بھینسا فوراً جھاڑیوں میں چھپ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ ایبا جوش و خروش میں جب اندھا دھند قریب آیا تو جنگلی بھینسے نے اس پر حملہ کر دیا۔ ایبا کو دوسرا فائر کرنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ بھینسے نے سینگ مار کر اسے فضا میں پھینکا۔ وہ درخت کی اس ٹوٹی ہوئی شاخ سے ٹکرایا جو ایبا کے ساتھ ہی نیچے آن گری اور وہ اس میں دب گیا، لیکن ہمت کر کے اپنے کھودے ہوئے گڑھے کی طرف رینگنے لگا۔ مگر وہاں پہنچتے پہنچتے اس کا دم نکل گیا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد مختلف جگہوں پر گرے ہوئے کارتوس بھی دستیاب ہو گئے۔
ابھی ابیا جیسے بہادر شخص کی دردناک موت کا غم تازہ تھا کہ ایک اور عظیم حادثہ پیش آیا۔ چند روز بعد کا ذکر ہے کہ میں اپنے خیمے میں بیٹھا قہوہ پی رہا تھا کہ کپتان رچی کے آنے کی اطلاع ملی۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ وہ یک لخت کسی پروگرام کے بغیر کس طرح آ گیا۔ کپتان رچی نے آتے ہی مجھ سے کہا، ‘یار قصہ یہ ہے کہ ایک یورپین شہزادہ اس علاقے میں شکار کے لیے آ رہا ہے۔ مجھے ہدایات ملی ہیں کہ اس کی رہنمائی کے لیے کسی تجربہ کار اور مشّاق شکاری کا انتظام کروں۔ میری نظر انتخاب تم پر پڑی ہے۔ معاوضہ معقول ملے گا۔ اگر ارادہ ہو تو میں شہزادے کو تمہاری منظوری کی اطلاع بھجوا دوں؟’
میں نے جواب دیا۔ ‘اس شرط پر شہزادے کے ساتھ شکار پر جا سکتا ہوں کہ وہ بے چون و چراں میرے حکم کی تعمیل کرے گا۔ میں اسے جنگل میں شہزادہ ہرگز نہیں سمجھوں گا۔ اس قسم کے لوگ حماقت اور اناڑی پن کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں۔‘
کپتان رچی میری رضامندی پر خوش ہو گیا۔ میں نے بھی یہ کہا کہ شہزادے کے ساتھ ایک یا دو آدمی جنگل میں جا سکتے ہیں۔ زیادہ آدمیوں کو میں برداشت نہیں کروں گا۔ قصہ مختصر ایک ہفتے بعد شہزادے صاحب تشریف لے آئے۔ میں اس وقت بعض مصلحتوں کی بناء پر یہ نہیں بتاؤں گا۔ کہ وہ کس ملک کے شہزادے تھے۔ خدا جانے کس ذاتِ شریف نے انہیں افریقہ کے جنگلوں میں شیروں اور ہاتھیوں کا شکار کھیلنے کا مشورہ دیا تھا۔ شکار کی ابجد سے بھی وہ ناواقف تھے۔ البتہ خوبصورت لیکن ہلکے اسلحے کی خوب ریل پیل تھی۔ بیک وقت چار چار بندوقیں پستول چھُرے اور رائفلیں ان کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ ان کے ساتھ کافی آدمی تھے۔ مگر میں نے کہا کہ صرف ایک یا دو شخص جنگل میں شکار پر جا سکتے ہیں۔ باقی لشکر کیمپ میں رہے گا۔ شہزادے صاحب کا منہ چڑھا ایک افریقی ملازم تھا۔ جو اپنے آپ کو بہت بڑا شکاری سمجھتا تھا۔ لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ بھی اس معاملے میں اپنے آقا کی طرح کورا ہی تھا۔ اعشاریہ 416 کی رائفل بہت ہی مناسب تھی لیکن جہاں تک گینڈے یا جنگلی بھینسے کا تعلق ہے اس رائفل کی وقعت ایک کھلونے سے زیادہ نہ تھی۔ میں نے شہزادے سے کہا کہ یہ رائفل ہلکی ہے آپ کو اعشاریہ پانچ سو کی رائفلیں پاس رکھنا چاہیے تھیں۔ مگر وہ ایک خذۂ استہزاء سے فرمانے لگے کہ، ‘ہم نے انہی ہلکی رائفلوں سے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہزاروں ہی شیر، گینڈے اور ہاتھی مار ڈالے ہیں جنگلی بھینسے کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔‘
میں نے جل کر کہا، ‘پھر تو آپ کی شاگردی کر لینی چاہیے۔‘ یہ سن کر وہ مسکرائے اور مزید لاف زنی سے باز رہے۔
رات کو ہم جب شہزادے صاحب کے عظیم کارناموں کی تفصیل خود انہی کی زبان سے سن رہے تھے تو دفعتاً جنگل شیر کی گرج سے گونج اٹھا۔ شہزادے صاحب چونک کر آواز سننے لگے۔ پھر بولے، ‘شیر کہیں قریب ہی گھوم رہا ہے ایسا نہ ہو کہ رات ہم سو رہے ہوں اور وہ بے خبری میں ہم پر آن پڑے۔‘ میں ان کی بد حواسی پر ہنسی نہ روک سکا۔ اس سے پیشتر کہ میں کچھ کہتا میرا عزیز ترین افریقی دوست کراگانو جو ماسائی قبیلے کا مشہور و معروف نیزہ باز شکاری تھا، بول پڑا۔
‘بوانا۔۔۔۔ (جناب) یہ شیر اس وقت بہت دور ہے۔ آپ اطمینان سے سو جائیں۔ وہ ادھر نہیں آئے گا۔ شیر جنگلی بھینسوں کے علاقے میں نہیں آتا۔‘
‘یہ کون ہے؟ ’شہزادے نے کراگانو کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
‘جناب، یہ شخص ماسائی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی بہادری اور تجربے کے بارے میں یہ سن لیجئے کہ یہ لوگ صرف نیزے سے شیر کو مار ڈالتے ہیں اور یہ شخص خود کئی شیروں کو مار چکا ہے۔‘
‘نیزے سے؟’ شہزادہ چلّایا۔‘ میں کبھی نہیں مان سکتا۔‘
‘میں آپ کو ماننے پر مجبور کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ حقیقت یہی ہے۔‘
‘اچھا، کل اس شخص کا امتحان ہو گا۔ اگر یہ اس میں کامیاب رہا تو ہم اسے رائفل انعام میں دیں گے۔‘
دوسرے روز علی الصبح ہمارا چار افراد پر مشتمل مختصر سا گروہ شیر کی تلاش میں نکل گیا۔ مارمینٹ جنگل کے جنوبی حصّے میں شیروں کی بستی تھی اور اس حصے تک پہنچنے کے لیے ہمیں سات میل کا ایک لمبا چکر کاٹنا پڑا۔ کراگانو حسبِ معمول نیزے سے مسلح تھا۔ میرے پاس اعشاریہ 500 کی رائفل اور شہزادے اور افریقی ملازم کے پاس وہی اعشاریہ 416 کی تین رائفلیں تھیں۔ یہ بات پہلے سے طے ہو چکی تھی کہ شیر پر اس وقت فائر کیا جائے گا جب شکاری کے بچنے کی امید نہ ہو۔ سہ پہر کے تین بجے تھے کہ ہم جنوبی حصے میں پہنچ گئے۔ تھکن کے مارے سبھی کے چہرے پژ مردہ اور بجھے بجھے تھے۔ خاص طور پر شہزادے صاحب کی حالت تو ابتر تھی۔ بیچارے کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اسے کیا معلوم ہم شیروں کے رہنے کی حدود میں داخل ہو چکے تھے اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر کر رکھنا پڑتا تھا۔ کراگانو نیزہ سنبھالے اور ڈھال بائیں کندھے سے لٹکائے سب سے آگے تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ آنے والے مقابلے کے تصوّر سے تانبے کی مانند تپ رہا تھا۔ اس کے گہرے سیاہ رنگ کے اندر سے ابھرتی ہوئی یہ سرخی بہت ہی خوفناک معلوم ہوتی تھی سورج کی تیز دھوپ کا اس جنگل میں گزر نہ تھا۔ لمبی لمبی گھاس کے ایک وسیع و عریض قطعۂ زمین کو طے کرتے ہوئے یکایک کراگانو رک گیا اور نیزہ سر سے بلند کر کے سب کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اس کی چمکتی ہوئی نظریں پچاس گز دور ایک خاص مقام پر جمی ہوئی تھیں۔ شہزادے اور اس افریقی نوکر نے رائفلیں سنبھال لیں اور چوکنّے ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگے۔ میں نے کراگانو سے پوچھا، ‘تم رک کیوں گئے؟’
‘کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جنگل کے بادشاہ کی مخصوص بو اس علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔‘ کراگانو نے بھرّائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ یہ کہہ کر اس نے کمر سے بندھا ہوا شکاری چاقو نکالا اور اس کا دستہ زور زور سے ڈھال پر مارتا ہوا ایک وحشیانہ جوش سے آگے بڑھا۔ شہزادے نے حواس باختہ ہو کر مجھ سے کہا: ‘اس پاگل کو روکو۔ اگر گھاس میں شیر چھپا ہوا تو وہ ایک دم حملہ کرے گا۔ یہاں تو بھاگنے کی بھی جگہ نہیں۔‘ میں نے فوراً جواب دیا: ‘جناب آپ بھاگنے آئے ہیں یا شیر کا شکار کھیلنے؟ ذرا حوصلے سے کام لیجیے ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ آپ کراگانو کو آگے جانے دیجیے۔ شیر سے وہ خود نمٹ لے گا۔‘
اتنے میں سامنے کی لمبی گھاس زور سے ہلی اور شیر یک لخت ناراض ہو کر غرایا۔ اس کے آرام میں اس وقت خلل پڑا تھا۔ شیر کی آواز سنتے ہی میں بھی خبر دار ہو گیا۔ ادھر شہزادے اور اس کے افریقی ملازم نے بھی رائفلیں تان لیں۔ میں نے دیکھا کہ فرطِ خوف سے شہزادے کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ ادھر اُدھر درختوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ خطرے کے وقت کس درخت پر چڑھنا آسان رہے گا۔ کراگانو جوں جوں آگے بڑھتا جاتا تھا شہزادے کا رنگ متغیّر ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے دل ہی دل میں ‘ہز ہائی نس’ کی بہادری پر ہنسی آ رہی تھی۔ اس شخص نے اپنے کارنامے سنا سنا کر ہمیں عاجز کر دیا تھا اور اب کیفیت یہ تھی کہ بار بار پناہ کی جگہ ڈھونڈتا تھا۔ شیر یکایک ایک ہولناک گرج کے ساتھ گھاس کو چیرتا ہوا باہر نکلا۔ میری طبیعت اسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی۔ وہ افریقی نر شیروں کے حسن کا شاندار نمونہ تھا۔ اس کی گردن پر سیاہ بالوں کا ایک زبردست گچھّا شاہانہ تاج کی شکل میں لپٹا ہوا تھا اس وقت وہ مقابلے کے موڈ میں قطعاً نہ تھا۔ دو تین مرتبہ وہ غرّا کر واپس گھاس میں غائب ہو گیا۔ کراگانو چلّایا، ‘جلدی کرو صاحب میرے پیچھے آؤ۔۔۔۔ ہم اسے گھیر لیں گے۔‘ یہ کہہ کر وہ دوڑا۔ اس کے تعاقب میں مجھے بھی جانا پڑا۔ شہزادہ اور اس کا افریقی نوکر بھی مجبوراً میرے ساتھ چلے۔ شیر کے پنجوں کے نشان دیکھتے ہوئے ہم ایک میل اور آگے بڑھے۔ اب ہم جنگل کے خشک اور پتھریلے حصے میں آ چکے تھے جہاں خار دار گھنی جھاڑیاں قدم قدم پر راستہ روکے کھڑی تھیں لیکن شیر ان میں سے اس طرح نکل جاتا تھا جیسے پانی میں مچھلی تیرتی ہے۔ کئی بار وہ ہماری رائفلوں کی زد میں آیا، لیکن یہ تو پہلے ہی طے ہو چکا تھا۔ کہ شیر پر فائر نہیں کیا جائے گا۔ وہ بار بار رکتا، مڑ کر ہماری جانب اپنی چمکتی آنکھوں سے دیکھتا اور غرّا کر پھر دوڑنے لگتا۔ آخر ایک پہاڑی درّے میں جو آگے سے بند تھا وہ خود بخود رک گیا۔
شام کے سائے جنگل میں پھیلنے لگے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ آج رات ہمیں اس جنگل میں اسی پہاڑی پر بسیرا کرنا ہو گا۔ کیمپ بہت دور تھا اور رات کو اس بھیانک جنگل میں سے گزرنا نا ممکن سی بات تھی۔ کراگانو نے ہمیں چٹانوں پر چڑھ جانے کا اشارہ کیا۔ شیر اس وقت اپنے آپ کو محبوس پا کر زور زور سے گرج رہا تھا۔ وہ مضطرب ہو کر اپنے دائیں بائیں فرار ہونے کا اپنے سینے کے آگے کیے بت کی مانند بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ میں نے چلّا کر کہا ‘کراگانو فکر نہ کرو میں پوری طرح مستعد ہوں۔‘ یہ اشارہ پا کر ایک خودکار مشین کی طرح اس کا دایاں ہاتھ فضا میں بلند ہوا، نیزے کی لمبی تیز دھار والی انّی ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں میں چمکنے لگی۔ پھر وہ با وقار انداز میں شیر پر نظریں جما کر ایک قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا اس لمحے شیر کے اشتعال اور غیض و غضب کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس کی دُم تیزی سے گردش کر رہی تھی اور جبڑا نہایت بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا۔ جس میں دو طرفہ لگے ہوئے بڑے بڑے نوکیلے دانت اپنے حریف کی بوٹیاں اڑا دینے پر آمادہ تھے۔ کراگانو جب شیر سے دس گز دور رہ گیا تھا تو دفعتاً شیر نے گردن جھکائی اس کا بھاری پیٹ زمین کو چھونے لگا۔ نہایت جوش میں وہ اپنے پنجوں سے زمین کھود رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ وہ اچھلا اور کراگانو کی طرف آیا۔ فوراً ہی نیزہ بجلی کی مانند کراگانو کے ہاتھ سے نکلا اور شیر کی گردن میں پیوست ہو گیا۔ شیر قلابازی کھا کر پیچھے الٹ گیا۔ لیکن گرتے گرتے بھی اس نے ایک دو ہتڑ کراگانو کے سر پر مارا۔ اس نے فوراً ڈھال آگے کر دی۔ شیر کا پنجہ ڈھال پر پڑا اور وزنی ڈھال کراگانو کے ہاتھ سے چھوٹ کر پلاسٹک کے کھلونے کی طرح دور جا گری۔ ماسائی شکاری کے نیزے کی انّی شیر کی گردن سے پار ہو گئی۔ شیر نے ایک اور چھلانگ لگائی اور کراگانو کو نیچے گرا دیا۔ اب ان میں باقاعدہ زور آزمائی ہونے لگی۔ چند ہی سیکنڈ میں درندہ اور انسان خون لت پت ہو چکے تھے۔ کراگانو نے شیر کو پچھاڑ کر اپنا چاقو اس کے سینے میں اتار دیا تھا۔ اس کے بعد وہ خود مردے کی طرح شیر کی لاش ڈھیر ہو گیا۔ میں دوڑتا ہوا گیا اور اپنے دوست کو کھینچ کر شیر سے پرے ہٹا دیا۔ دفعتاً شیر نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ خدا کی پناہ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں کبوتر کے خون کی مانند سرخ ہو گئیں۔ اس نے مجھ پر حملہ کرنے کے لیے جست لگانا چاہی، مگر اسی لمحے اس کی جان نکل گئی۔ اگر ایک منٹ اور لگتا تو میں شیر پر گولی چلا کر اس کی کھال خراب کرنے کا قصور وار گردانا جاتا۔
وہ رات ہم نے اسی پہاڑی پر آگ جلا جلا کر بسر کی۔ کراگانو کے زخم زیادہ مہلک نہ تھے۔ رات کے پچھلے پہر تک وہ اچھی طرح ہوش میں آ چکا تھا۔ شہزادے نے وعدے کے مطابق اسے اپنی رائفل دی اور اس کی بہادری پر اچھے الفاظ میں تبصرہ کیا۔ صبح ہم نے شیر کی کھال اتاری اور کیمپ کی طرف سے لوٹے۔ راستے میں دوپہر کے وقت جب ہم پانچ میل کا سفر طے کر چکے تھے، یکایک شہزادے نے اسی گز دور ایک بھاری بھرکم جنگلی بھینسے کو دیکھا۔ اس نے فوراً اپنی رائفل سے نشانہ لیا اور میرے روکنے کے باوجود فائر کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ گولی کھاتے ہی بھینسا گرا۔ ابھی ہم اس طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ ایک دوسرا بھینسا جھاڑیوں میں سے نکلا اور ہمارے قریب سے نکل گیا۔ شہزادے نے ایک اور فائر جھونک دیا۔ گولی اس دوسرے بھینسے کے پیٹ میں لگی۔ مگر اس دفعہ وہ گرا نہیں بلکہ چیختا ہوا مسلسل بھاگتا رہا اس کے قدموں کی دھمک دیر تک سنائی دی۔ میں نے کراگانو سے کہا کہ آؤ اس کا تعاقب کریں۔ مگر شہزادے نے اصرار کیا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گا۔ وہ کہتا تھا: ‘یہ بھینسا تو میں خود ہی ماروں گا۔‘ اس کی ضد کے آگے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ابھی ہم بھینسے کے تعاقب میں پندرہ بیس گز ہی گئے تھے کہ وہ جھاڑیوں میں کھڑا دکھائی دیا۔ میں نے شہزادے کو دکھانا چاہا، مگر کم بخت کی نظر کمزور تھی سامنے کھڑا ہوا بھینسا نظر آیا۔ بھینسے نے ہمیں دیکھ لیا اور وہاں سے بھی بھاگ نکلا۔ اب ہم گھنی جھاڑیوں میں سے گزر رہے تھے۔ کراگانو حسبِ معمول سب سے آگے بھینسے کے قدموں کے نشان دکھاتا جاتا تھا۔ اس کے پیچھے میں اپنی رائفل سنبھالے چل رہا تھا۔ میرے تو پیچھے شہزادہ اور اس کے ساتھ افریقی رائفل بردار ملازم آ رہا تھا۔ یہ جھاڑیاں اتنی گھنی اور بلند تھیں کہ ان کے پار کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ شہزادہ اس بھاگ دوڑ سے فوراً اکتا گیا اور کہنے لگا: ‘واپس چلو۔۔۔۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خوفناک حادثہ پیش آنے والا ہے۔‘
اس کے یہ الفاظ سن کر مجھے غصہ آیا کہ عجیب بیوقوف آدمی سے پالا پڑا ہے۔ میں اب زخمی بھینسے کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے کراگانو اور شہزادے کے افریقی نوکر سے کہا کہ وہ جہاں کھڑے ہیں۔ وہیں کھڑے رہیں۔ بھینسے کا ہرگز تعاقب نہ کریں اور گولی نہ چلائیں۔ سختی سے یہ ہدایات دے کر میں نے شہزادے کو ساتھ لیا اور دائیں جانب ذرا کھلے میدان میں لے گیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس بزدل کو کسی محفوظ جگہ پہنچا کر بھینسے کے تعاقب میں نکل جاؤں گا۔ ایک مناسب سی جگہ شہزادے کو چھپا کر میں نے کہا: ‘آپ یہیں ٹھہریے میں ان دونوں کو بھی بلا لاتا ہوں۔‘ یہ کہتے ہی میں واپس ہو گیا۔ ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ بھینسے کے ڈکرانے اور چیخنے کی آوازیں میرے کان میں آئیں۔ ان آوازوں کو سنتے ہی میرا دل دہل گیا۔ کیونکہ یہ آوازیں بھینسا اس وقت نکالتا ہے جب وہ اپنے حریف پر حملہ کرنے کے لیے بالکل آمادہ ہو۔ اس کے بعد میں نے گولی چلنے کی آواز بھی سنی۔ آہ۔۔۔ غضب ہو گیا۔ بھینسے نے کراگانو اور اس کے ساتھی پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ سوچتے ہی میں دیوانہ وار اچھلتا کودتا اور پھلانگتا ہوا بھاگا۔ جونہی آخری جھاڑی چیر کر میں اس مقام پر نمودار ہوا تو ایک دہشت ناک منظر میرے سامنے تھا۔ کراگانو بیہوش زمین پر پڑا تھا اور بھینسا اپنے دونوں پیروں کے بل زمین پر جھکا ہوا کراگانو کے جسم میں مسلسل سینگ گھونپ رہا تھا۔ اس وحشیانہ فعل میں یہ موذی جانور اس درجہ مشغول تھا کہ اس نے میری آمد کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ جب میں اس سے صرف پانچ گز کے فاصلے پر رہ گیا تو دفعتاً وہ مجھے دیکھ کر اچھلا اور میری جانپ لپکا۔ اسی لمحے میری بھاری رائفل سے شعلہ نکلا اور گولی بھینسے کے شانے میں پیوست ہو گئی۔ گولی کھاتے ہی بھینسا پیچھے ہٹا اور یکایک آگے کی جانب سے دھم سے گر پڑا۔ اس کے وزنی جسم کا نصف حصّہ کراگانو کے اوپر پڑا ہوا تھا۔ میں نے بد حواس ہو کر کراگانو کی ٹانگیں پکڑیں اور اسے گھسیٹ کر بھینسے کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر بے سود۔ پھر میں نے چلّا چلّا کر شہزادے کو آوازیں دیں۔ تھوڑی دیر بعد شہزادہ دوڑتا ہوا ادھر آیا۔ اس کا چہرہ دہشت سے سفید تھا۔ ہم دونوں نے بڑی مشکل سے کراگانو گھسیٹ کر علیحدہ کیا۔ خدا کی پناہ۔۔۔۔۔ اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔ کئی زخم بہت گہرے تھے۔ بازوؤں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی اور انگلیاں بھینسے نے چبا ڈالی تھیں۔ شاید کراگانو کا ہاتھ اس کے منہ میں آ گیا تھا۔
میں نے اپنے سفری تھیلے میں سے سرنج نکالی اور مارفیا کا ایک انجکشن اسے لگایا تاکہ درد کی شدت کم ہو۔ چند منٹ کے اندر اندر وہ اچھی طرح ہوش میں آ چکا تھا۔ آنکھیں کھولتے ہی اس کے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے، ‘کیا رائفل بردار مر چکا ہے؟ اگر نہیں مرا تو مجھ میں ابھی اتنی قوت ہے کہ پہلے اسے جہنم رسید کروں۔‘
کراگانو کے بیان کے مطابق اس سارے حادثہ کا ذمہ دار وہی شہزادے کا افریقی ملازم تھا۔ در اصل وہ اپنا کارنامہ دکھانے کے لیے دیر سے مضطرب تھا میرے وہاں ٹلتے ہی وہ بھینسے کے قدموں کے نشان دیکھتا ہوا آگے بڑھا۔ کراگانو نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر اس نے سنی ان سنی کر دی اور مسلسل ان قدموں کے پیچھے چلتا رہا۔ تھوڑے فاصلے پر اس نے دیکھا کہ بھینسا زمین پر بے حس و حرکت پڑا ہے۔ یہ بیوقوف بڑا خوش ہوا۔ پھر اپنی کار گزاری دکھانے کے لیے رائفل سے اس ‘مرے‘ ہوئے پر ایک فائر بھی جھونک دیا۔ رائفل کا دھماکہ ہوتے ہی بھینسا پورے جوش سے اچھلا اور اس کی طرف لپکا۔ یہ بد حواس ہو کر کراگانو کی طرف بھاگا۔ لیکن بھینسے نے اسے راستے ہی میں جا لیا اور ایک ٹکر اس زور سے ماری کہ یہ گر کر دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ یہ تمام واقعہ اتنی سرعت سے پیش آیا کہ بیچارہ کراگانو اپنا نیزہ بھی استعمال نہ کر سکا۔ اس سے پیشتر کہ وہ اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر سوچتا غیظ و غضب سے بھرا ہوا زخمی بھینسا کراگانو کو بھی زمین پر لٹا چکا تھا۔
کراگانو کے دائیں ہاتھ کوئی اٹھارہ فٹ کے فاصلے پر رائفل بردار کی لاش پڑی تھی۔ اس کی زبان دانتوں میں بھنچ کر کٹ گئی تھی۔ گردن دو جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ بھینسے کی ٹکر نے اسے پانی بھی نہیں مانگنے دیا۔ جب میں نے کراگانو کو بتایا کہ رائفل بردار مرا پڑا ہے تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ میں نے اور شہزادے نے کراگانو کو کندھوں پر اٹھایا اور کیمپ کی طرف لوٹے۔ اس کی حالت دم بدم ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ میں کوشش کے باوجود اسے بچا نہ سکا۔ کاش بروقت کوئی ڈاکٹر میسّر آ جاتا تو یقیناً اس کی قیمتی جان بچا لیتا لیکن قریب ترین ڈاکٹر بھی اس بھیانک جنگل سے ایک سو میل کے فاصلے پر تھا۔۔۔ تکلیف کے باعث رہ رہ کر اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکل رہی تھیں۔ میں نے ایک جگہ رک کر اسے پانی پلانا چاہا مگر پانی حلق میں نہ جا سکا۔ منہ کے دونوں کناروں سے بہہ گیا۔ مرتے ہوئے بھی ماسائی شکاری نے اپنی دیرینہ روایات ترک نہ کیں۔ وہ واقعی پیدائشی شکاری تھا۔ جب ہم ایک جگہ رُکے تو بارش شروع ہو گئی۔ اسی اثنا میں ایک ہاتھی ادھر آ نکلا۔ ہاتھی دیکھتے ہی کراگانو کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اس کے لب پھڑپھڑائے جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ میں اپنا کان اس کے منہ کے پاس لے گیا۔ وہ نحیف کپکپاتی آواز میں بولا:
‘بوانا۔۔۔۔ اس کے دانت کتنے قیمتی ہیں۔۔۔ آپ اسے شکار ضرور کریں۔‘ اسی رات میرا دوست کراگانو۔۔۔۔ جس نے میری شکاری زندگی بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور سینکڑوں مرتبہ میری جان بچائی تھی، میرے بازوؤں میں دم توڑ گیا۔ تاہم مجھے مسرت ہے کہ جب وہ مرا تو اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔ اور اس کا نیزہ بھینسے کے شانے میں اترا ہوا تھا۔ وہ صاف ستھرے اور بے داغ نیزے کے ساتھ کبھی مرنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔
٭٭٭
شرقی اور آدم خور
شرقی نے جب یہ خبر سنی کہ کیسپین کے آدم خور شیر نے علی بیگ ماہی گیر کو ہڑپ کر لیا ہے، تو اس کے غم و غصّہ کی انتہا نہ رہی۔ اس نے اس وقت فیصلہ کر لیا کہ جب تک اس آدم خور کو جہنم واصل نہ کر لے گا، اس پر کھانا پینا اور سونا حرام ہے۔ بد نصیب علی بیگ ماہی گیر سے پہلے یہ آدم خور ایک سو گیارہ افراد کو اپنا لقمہ بنا چکا تھا۔ علی بیگ گاؤں رَودِ سار کا رہنے والا اور شرقی کا بہترین دوست تھا۔ وہ اپنے دو ساتھیوں سمیت صبح سویرے سورج نکلنے سے تھوڑی دیر پیشتر ساحل سمندر پر مچھلیاں پکڑنے گیا۔ اس کے دونوں ساتھی ابھی جال وغیرہ درست کر ہی رہے تھے کہ آدم خور وہاں آیا اور علی بیگ کو گھسیٹ کر لے گیا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کے چیخنے چِلّانے کی آوازیں سنیں، مگر ان پر ایسی دہشت چھائی کہ وہ علی بیگ کو بالکل نہ بچا سکے۔ شرقی شکاری ان دنوں شمالی ایران کے ایک گاؤں رامسر میں رہتا تھا اور یہ لرزہ خیز داستان میں نے خود شرقی شکاری کی زبانی سنی تھی۔ یہ 1954ء کا ذکر ہے۔ سردی کا موسم اپنے شباب پر تھا اور مَیں شاہِ ایران کے بھائی پرنس عبد الرضا کی دعوت پر تہران گیا تھا۔ وہیں میری ملاقات شرقی سے ہوئی جو شاہ ایران کے ملازم شکاریوں میں سب سے زیادہ تجربہ کار اور نڈر تھا اور وہ آرمینیا کا باشندہ اور مذہباً عیسائی تھا۔ وہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں شریک رہا۔ متعدّد مرتبہ قید و بند کے مصائب جھیلے جن دنوں وہ جزیرہ کریٹ میں جرمنوں کی قید میں تھا، وہاں اس نے جرمن زبان بھی سیکھ لی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ کیسپین کے ساحلی گاؤں رامسر میں آباد ہو گیا۔ یہاں وہ پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور تھا اور سیاحوں کو کوہستان البرز کی سیر کراتا تھا۔
شرقی ایک پستہ قامت اور معمولی ڈیل ڈول کا آدمی تھا اس کے بال سیاہ اور چہرے کا رنگ گندمی تھا۔ اس کے پاس اعشاریہ 303 کی رائفل تھی۔ جو کسی موقع پر شاہ ایران نے خوش ہو کر اُسے انعام میں دی تھی اور شرقی اس رائفل کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ ایران میں لوگوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ بہت کم خوش نصیب ایسے ہیں جن کے پاس اسلحے کے لائسنس ہیں۔ شرقی نے مجھے بتایا کہ بحیرہ کیسپین کے ساحلی علاقوں میں کسی زمانے میں کافی تعداد میں شیر پائے جاتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ ان شیروں کے بارے میں کبھی یہ نہیں سُنا گیا کہ انہوں نے کسی انسانی جان کو ہلاک کیا ہو۔ یہ درندے عام طور پر بارہ سنگھوں بکروں اور دوسرے جانوروں کو شکار کر کے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ شاہِ ایران اور ان کی شکاری پارٹیاں اکثر اس علاقے میں شکار کھیلنے جایا کرتی تھیں اور انہوں نے ان شیروں کی تعداد اور کم کر دی تھی، لیکن اب صدیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی شیر آدمیوں کو ہڑپ کرنے پر اتر آیا۔ شرقی کا کہنا کہ 50ء میں کسی پہاڑی شکاری نے اپنی بوسیدہ بندوق سے فائر کر کے اس شیر کا چہرہ زخمی کر دیا تھا جس کے باعث یہ مشتعل ہو کر انسانوں پر حملہ کرنے لگا۔ جب پہلی بار اس نے آدمی کا خون چکھا تو پھر دوسرے جانوروں کا شکار کرنا چھوڑ دیا۔ شیر کا جبڑہ چند ہفتے تک قطعی بیکار رہا۔ اس دوران وہ بھوکا اور تکلیف کی شدت سے بے چین تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے جبڑے کا زخم مندمل ہوتا گیا، لیکن اب شیر کسی مویشی کو اپنے جبڑے میں پکڑ کر گھسیٹ لے جانے کی قوت سے عاری ہو چکا تھا۔ جب وہ فاقوں کے باعث مرنے لگا تو اس نے انسانوں پر حملے شروع کر دیے اور جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس ‘جانور’ کا شکار کرنا نہ صرف بہت آسان ہے، بلکہ اس کا گوشت اور خون بے حد لذیذ ہے۔
شرقی کی معلومات کے مطابق شیر نے سب سے پہلے گاؤں پادرا کی ایک لڑکی کو اپنا تر نوالہ بنایا۔ اس لڑکی کا باپ چند آدمیوں کے ساتھ ایک پہاڑی پر لکڑیاں جلا کر کوئلہ بنا رہا تھا۔ ان پہاڑیوں کے درمیان ایک چھوٹی سی سڑک ہے جسے شاہ روڈ کہتے ہیں۔ لڑکی اپنے باپ کے لیے برتن میں چائے لے جا رہی تھی۔ اس سے پیشتر لکڑہاروں نے پہاڑی کے نیچے ذرا فاصلے پر شیر کو درختوں کے اندر پھرتے دیکھا تھا، لیکن انہوں نے اس طرف کوئی توجّہ نہ کی۔ وہ جانتے تھے کہ اس علاقے میں اکثر شیر پھرتے رہتے ہیں۔ اور وہ انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ دفعتہً انہوں نے لڑکی کی چیخیں سُنیں۔ انہوں نے پہاڑی سے جھانکا تو شیر چھلانگیں لگاتا ہوا لڑکی کی جانب جا رہا تھا اور معصوم لڑکی اپنی جگہ کھڑی خوف سے چلّا رہی تھی۔ چشم زدن میں شیر لڑکی کے قریب پہنچ گیا۔ شیر کا جبڑا کھُلا ہوا تھا۔ اس کی دُم تیزی سے گردش کر رہی تھی۔ لڑکی نے جب شیر کو اپنے نزدیک دیکھا تو وہ بدحواس ہو کر اچانک الٹے پاؤں بھاگ اٹھی۔ لیکن شیر نے اچھل کر لڑکی کے سر پر دایاں پنجہ مارا اور اسے نیچے گرایا۔ پھر اُسے اپنے منہ میں آسانی سے دبا لیا اور بھاگ اٹھا۔ لڑکی اب بھی چلّا رہی تھی۔ اور اپنے ہاتھوں سے شیر کا منہ پیٹتی جاتی تھی۔ لکڑہاروں نے یہ ماجرا دیکھا، تو اپنی اپنی کلہاڑیاں لے کر پہاڑی سے نیچے اُترے، مگر اتنی دیر میں شیر، لڑکی کو لے کر بہت دور جا چکا تھا۔ انہوں نے خون کے نشانات دیکھے اور ان نشانات کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے وہ دو تین میل دور ایسے مقام پر جا پہنچے جہاں گھنا جنگل تھا۔ اب انہیں آگے بڑھنے میں تامل ہوا۔ شیر کا خوف ان پر غالب آ چکا تھا۔ وہ دوڑتے ہوئے گاؤں میں آ گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ گاؤں کے ایک شخص کے پاس بندوق ہے۔ دس بارہ آدمیوں کی جماعت بندوق والے آدمی کے ساتھ جب جائے حادثہ پر دوبارہ پہنچی، تو وہاں انہوں نے لڑکی کے ہاتھ سے گرا ہوا چائے کا برتن پڑا پایا۔ وہاں خون بڑی مقدار میں بکھرا ہوا تھا اور ابھی خشک نہ ہوا تھا۔ اس سے تھوڑے فاصلے لڑکی کی لاش کے بچے کھُچے حِصّے پڑے دکھائی دیے۔ شیر نے اس کے پیٹ سے آنتیں نکال کر ادھر ادھر بکھیر دی تھیں۔ لڑکی کا سر بھی ایک جانب پڑا تھا۔ شرقی نے جب یہ خبر سنی، تو دوسرے دن ہی وہاں پہنچ گیا اور لڑکی کے باپ اور دوسرے لکڑہاروں سے اس شیر کے بارے میں تفصیلات دریافت کیں جنہوں نے اُسے دیکھا تھا۔ یہ 51ء کے موسمِ بہار کا ذکر ہے۔ شرقی حیران تھا کہ شیر کا جبڑا زخمی ہوا تو اس نے 50ء کا موسم سرما کس طرح بسر کیا ہو گا، تاہم یہ بات واضح تھی کہ فاقہ کشی کے دوران میں وہ انسانوں سے انتقام ضرور لے گا اور جیسا کہ آئندہ پیش آنے والے حادثات نے بتایا کیسپین کے آدم خور شیر کا انتقام بہت ہی بھیانک ثابت ہوا۔ چھ سال کی طویل مدّت میں وہ جانوروں کو چھوڑ کر صرف انسانوں پر حملہ کرتا رہا اور اس نے ایک سو سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا۔
شرقی شکاری کا ایک دوست ایزک تھا اور وہیں پہاڑیوں کے دامن میں اپنی زمین پر چاولوں کی کاشت کیا کرتا تھا۔ سب سے پہلے اس شخص نے شرقی کو شیر کے جبڑے کے بارے میں بتایا اور کہا اس کا منہ پوری طرح نہیں کھلتا۔ ایزک کے پاس دس پندرہ گائیں تھیں جنہیں چرانے کے لیے اس کا نوجوان لڑکا جنگل میں لے جایا کرتا تھا۔ ایک روز ایسا ہوا کہ ایزک اپنے لڑکے سے کوئی بات کہنے کے لیے پہاڑیوں کے اس پار جنگل میں گیا۔ جہاں اس کے مویشی چر رہے تھے۔ ایزک کا لڑکا ایک درخت پر بیٹھا اونچی آواز میں ایک پرانا گیت گا رہا تھا۔ جب اس نے اپنے باپ کو دور سے آتے دیکھا تو نیچے اتر آیا۔ ایزک کا کہنا ہے: ‘میں لڑکے سے بات کرنے بھی نہ پایا تھا کہ گایوں کے دوڑنے اور ان کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ دونوں ادھر گئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑا شیر کھڑا ہے۔ جونہی اس نے ہمیں دیکھا، وہ زور سے غرّایا اور میں نے دیکھا کہ اس کا جبڑا ایک جانب سے ٹوٹا ہے اور اوپر کا ایک دانت بھی شکستہ ہے۔ اس سے پیشتر کہ ہم اپنے بچاؤ کی تدبیر سوچتے، شیر اپنی جگہ سے اُچھلا اور چشم زدن میں ہماری جانب آیا۔ اس نے میرے لڑکے کا شانہ اپنے منہ میں دبا لیا اور جدھر سے آیا تھا ادھر دوڑ گیا۔ میں پتھر کے بت کی مانند اپنی جگہ کھڑا رہا۔ آدم خوروں میری نظروں کے سامنے میرے اکلوتے بیٹے کو اٹھا کر لے گیا اور میں کچھ نہ کر سکا۔ مجھے تو اپنا خنجر بھی پیٹی سے نکالنے کی جرأت نہ ہوئی۔
شرقی کہتا تھا کہ ایزک اپنے بیٹے کی ناگہانی موت پر خون کے آنسو روتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ کاش اس کے بدلے شیر مجھے لے جاتا۔
ابتدا میں جب اس شیر کی ہلاکت خیز سرگرمیوں کی خبریں اردگرد کے علاقے میں پھیلیں، تو لوگوں میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑ گئی، بہت سے نڈر آدمیوں نے شیر کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ یہ درندرہ مکّار اور چالاک ثابت ہوا۔ وہ کسی ایک مرتبہ کسی انسانی جان کو ہلاک کرنے کے بعد وہاں سے غائب ہو کر کسی دوسرے علاقے میں پہنچ جاتا اور وہاں تباہی پھیلانے لگتا اور جب وہاں کے لوگ اسے مارنے کے منصوبے باندھنے لگتے تو پھر یہ آدم خور وہاں سے رفوچکّر ہو کر کسی اور جگہ پہنچ جاتا۔ رفتہ رفتہ وہ اتنا بے باک اور نڈر ہو گیا کہ دن دہاڑے آدمیوں عورتوں اور بچوں کو اٹھا کر لے جاتا اور ان کے لواحقین رو پیٹ کر صبر کر لیتے اسی طرح دو سال گزر گئے۔
53ء کے ابتدائی دنوں کا ذکر ہے، وادئِ سیف میں ایک کسان کے چھوٹے سے لڑکے نے آدم خور شیر کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور یہ لڑکا اتنا خوش نصیب نکلا کہ شیر نے اسے دیکھنے کے باوجود اس پر حملہ نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ شیر اس وقت پہلے ہی شکار کیے ہوئے ایک آدمی کو ہڑپ کر رہا تھا۔ لڑکے کے ہاتھ میں ایک لمبی سی چھڑی تھی۔ جس سے وہ جھاڑیوں کو پیٹتا اور اکیلا شوخیاں کرتا ہوا جنگل میں چلا جا رہا تھا۔ یکایک اس نے ایک جھاڑی کے نیچے شیر کو آرام سے بیٹھے دیکھا۔ شیر کے قریب ہی ایک آدمی کی لاش پڑی تھی لڑکا یہ نظارہ دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا۔ عین اسی لمحے شیر نے بھی سر اٹھا کر اسے دیکھا، پھر اس نے اپنی دُم کو حرکت دی اور منہ کھول کر آہستہ سے غرایا، مگر اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔ لڑکا وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور گاؤں پہنچ کر دم لیا پھر اس نے سب لوگوں کو یہ قصّہ سنایا۔ فوراً دس پندرہ آدمی لمبے لمبے چاقو اور کلہاڑیاں لے کر لڑکے کے بتائے ہوئے راستے پر روانہ ہوئے۔ لیکن شیر وہاں سے جا چکا تھا۔ البتّہ آدمی کی کھائی ہوئی لاش وہیں پڑی تھی۔ اگلے روز شرقی شکاری جب اپنی بس لے کر اس گاؤں سے گزرا تو لوگوں نے اسے شیر کی موجودگی سے باخبر کیا۔ شرقی پانچ روز تک گاؤں کے گرد و نواح میں شیر کو تلاش کرتا رہا، لیکن اس کا نام و نشان بھی نہ ملا۔
ایک ماہ تک آدم خور کے بارے میں شرقی کو کوئی صحیح اطلاع نہ ملی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے، لیکن اچانک ایک روز گرُو گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ آدم خور نے ایک عورت پر حملہ کیا، مگر اسے اٹھا کر لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ان دنوں اس گاؤں میں ایک تیوہاری میلہ لگا ہوا تھا۔ اور اردگرد کے دیہات سے کثیر تعداد میں مرد عورتیں گرُو میں آئے ہوئے تھے۔ گرُو گاؤں کے ایک جانب پہاڑی سلسلہ ہے اور دوسری جانب ایک وسیع میدان جہاں لمبی لمبی گھاس اور خودرو پودے کثرت سے اُگے ہوئے ہیں۔ یہ مقام آدم خور کے چھپنے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ جس روز میلے کی تقریبات کا آغاز ہوا ہے، اسی روز بعد دوپہر کا ذکر ہے کہ گاؤں کی پانچ دس عورتیں خشک گھاس اور لکڑیاں جمع کرنے اس ویران میدان کی جانب آ نکلیں۔ ان عورتوں کے وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ وہ آدم خور شیر جس کے چرچے بچّے بچّے کی زبان پر ہیں، اسی جگہ چھپا ہوا ہو گا۔ یہ عورتیں آپس میں ہنستی بولتی اس میدان کے کنارے تک آن پہنچیں اور گھاس جمع کرنے لگیں اور ان میں سے ایک عورت اپنی ساتھیوں سے بچھڑ کر ذرا دور نکل گئی۔ معاً اس نے محسوس کیا کہ کوئی جانور اس گھاس کے اندر چل رہا ہے، کیونکہ گھاس تیزی سے ہل رہی تھی۔ یہ عورت حیرت سے ادھر دیکھنے لگی پھر اس نے شیر کو وہاں چھپے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ بالکل بلّی کی مانند گھاس میں دبکا ہوا ان عورتوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس عورت کی نظر جونہی شیر پر پڑی، اس نے گھاس کا گٹھا وہیں پھینکا اور شیر شیر چلّاتی ہوئی بے تحاشا دوڑنے لگی۔ چونکہ یہ عورتیں تعداد میں زیادہ تھیں، اس لیے آدم خور کو ان کا تعاقب کرنے کی جرأت نہ ہوئی وہ صرف غُرّایا اور گھاس کو روندتا ہوا دوسری جانب نکل گیا۔
یہ سب عورتیں مسلسل چیختی چلّاتی گاؤں میں پہنچ گئیں اور انہوں نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ۔ بازاروں اور دوکانوں پر بیٹھے ہوئے مرد فوراً اپنے اپنے ہتھیار لے کر جمع ہو گئے اور میدان کی جانب لپکے۔ وہاں واقعی آدم خور موجود تھا اور زور زور سے غرّا رہا تھا۔ ان آدمیوں کے پاس صرف چاقو اور کلہاڑیاں تھیں اور ظاہر ہے کہ ان ہتھیاروں سے آدم خور کو مارا نہیں جا سکتا تھا اور پھر یہ کہ ہر شخص کے دل پر اس کی اتنی دہشت چھائی ہوئی تھی کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے ڈرتا تھا۔ تاہم ان لوگوں نے اتنا کام کیا کہ وہیں پہرہ دینے کا فیصلہ کیا کہ شیر رات کے وقت گاؤں میں داخل نہ ہو سکے۔
ایک دن اور ایک رات آدم خور اس میدان میں گشت کرتا اور دھاڑتا رہا۔ غالباً وہ بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا، لیکن یہ عجیب بات تھی کہ اس دوران میں اس نے وہاں چرنے والے کسی مویشی پر حملہ نہیں کیا۔ گاؤں کا ہر فرد اُسے اپنی آنکھوں سے میدان میں پھرتے ہوئے دیکھ چکا تھا اور سبھی ڈرے ہوئے تھے کہ نہ جانے یہ آدم خور کس کو ہڑپ کرے گا۔ تیسرے دن شرقی وہاں آیا۔ تو آدم خور غائب ہو چکا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس نے ضرور کہیں نہ کہیں سے اپنا ‘انسانی شکار’ تلاش کر لیا ہو گا اور حقیقت بھی یہی نکلی۔ شرقی جب شیر کی جستجو میں نکلا اور سارے میدان کا چکّر لگایا اور دریا تک جا پہنچا۔ تو وہاں اس نے ایک بوڑھی عورت کی لاش اس حال میں پڑی پائی کہ آدم خور نے اس کی پشت اچھی طرح چبا ڈالی تھی اور گردن پر دانتوں کے گہرے نشانات تھے۔ یہ بد نصیب بڑھیا غالباً دوسرے گاؤں کی رہنے والی تھی جو نہ جانے اپنی کس ضرورت کے لیے ادھر آ نکلی اور شیر کا نوالہ بن گئی۔
آدم خور کی ان سرگرمیوں کی خبریں تہران کے سرکاری حلقوں تک پہنچ گئی تھیں۔ گرُو گاؤں کے نمبردار نے شاہ ایران کو اس مضمون کا تار بھی روانہ کیا کہ ایک آدم خور شیر نے اس علاقے میں سخت تباہی پھیلا رکھی ہے۔ براہِ کرم! اسے جلد از جلد ہلاک کیا جائے، ورنہ چند دنوں تک یہاں کسی فرد بشر کا نام و نشان بھی نہ ملے گا۔ شرقی شکاری اس صورتِ حال سے سخت پریشان تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شیر مارا نہ گیا تو خود اس کی شہرت کو نقصان پہنچے گا، کیونکہ ایران کے شکاری حلقوں میں اس کا نام بہت مشہور تھا اور دوسرے پیشہ ور شکاری بھی اس سے یوں حسد کرتے تھے کہ پرنس عبد الرضا شاہ پہلوی کی نظروں میں وہ ایک تجربہ کار اور نڈر شکاری کی حیثیت رکھتا تھا۔ گویا اب یہ شرقی کا ذاتی مسئلہ بن چکا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اس شیر کو نیست و نابود کر دے یا خود مر جائے۔
لیکن اس دوران میں دوسرے شکاری کیسپین کے آدم خور کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ان میں سے ایک کی یہ کوشش تھی کہ وہ آدم خور کو مار کر شاہ کے سامنے اعزاز حاصل کرے۔ ان شکاریوں نے شیر کو مارنے کے لیے سر توڑ کوششیں کیں اور ہر حربہ آزمایا، مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ آدم خور کے اندر کوئی ایسی مخفی قوّت تھی جو اُسے آنے والے خطرات سے آگاہ کر دیتی اور وہ عین موقعے پر بچ کر نکل جاتا۔ اس نے جب کئی شکاریوں کو بھی اپنا لقمہ بنا لیا، تو شکاریوں کی جماعت میں سخت خوف و ہراس پھیل گیا۔ انہوں نے افواہ اڑا دی کہ یہ آدم خور کوئی ‘شیطانی بلا’ ہے جس پر قابو پانا انسانی قدرت سے باہر ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ جس رفتار سے یہ شیر آدمیوں کو ہڑپ کرتا گیا، اسی رفتار سے اس کے قد و قامت اور ڈیل ڈول میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس کا قد اچھے خاصے ٹٹّو کے برابر تھا اور شرقی کے اندازے کے مطابق دُم سے لے کر سر تک شیر کی لمبائی گیارہ فٹ تو ضرور ہو گی۔ 54ء اور 55ء کے درمیانی عرصے میں یہ آدم خور دفعتہً غائب ہو گیا۔ اس دوران میں اس نے کوئی واردات نہیں کی اور نہ کسی شخص نے اسے دیکھا۔ شیر کے یوں غائب ہو جانے سے توہم پرست لوگوں نے بھی یقین کر لیا کہ وہ شیطانی بلا ہی تھی جو اچانک اس طرح غائب ہو گئی۔ اس وقت تک وہ پچاس کے قریب افراد ہلاک کر چکا تھا۔ ایک اور عجیب بات شرقی کے مشاہدے میں آئی اور وہ یہ کہ شیر جب کسی شخص کو ہلاک کر کے اپنا پیٹ بھر لیتا، تو بچا کچھا گوشت وہیں چھوڑ جاتا اور اسے دوبارہ کھانے کے لیے کبھی وہاں نہ آتا، حالانکہ یہ شیر کی فطرت کے خلاف ہے۔ تجربہ کار شکاری کہتے ہیں کہ یہ شیر ایک بار تو ضرور ہی واپس آتا ہے جہاں اس نے شکار مارا ہو۔ مگر کیسپین کا یہ آدم خور ایک نرالی فطرت کا مالک تھا وہ کئی کئی روز بھوک سے بے تاب ہو کر غرّاتا اور دھاڑتا رہتا، لیکن نہ تو انسانی شکار کا باسی گوشت چکھتا اور نہ کسی مویشی پر حملہ کرتا۔ ہمیشہ تازہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرتا اور پھر ہفتوں تک غائب رہتا۔ اس کے مسکن کا علم کسی کو نہ تھا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں جا کر آرام کرتا تھا۔
حکومت کے مقرر کیے ہوئے شکاری مسلسل کئی کئی دن ان درختوں کے میں چھپے رہے جن کے نیچے شیر کی کھائی ہوئی انسانی لاشیں پڑی تھیں۔ انہیں امید تھی کہ شیر انہیں کھانے کے لیے واپس آئے گا، مگر ان کی یہ امیدیں غلط ثابت ہوئیں، شیر اُدھر کبھی نمودار نہیں ہوا۔ ہاں ایک مرتبہ جب کہ ایک شکاری رات بھر اونگھنے کے بعد صبح درخت سے اُترا، قریب کی جھاڑیوں سے آدم خور نے اپنا سر باہر نکالا اور ایک ہی جست میں شکاری کو آن دبوچا اور چند لمحوں کے اندر اندر شکاری کے جسم کا آدھا گوشت شیر کے پیٹ میں جا چکا تھا۔ ایک ہفتے بعد جب اس شکاری کی گمشدگی کا علم ہوا، تو لوگوں نے اس کی ادھ کھائی لاش درخت کے نیچے پڑی پائی۔ پاس ہی سرکاری رائفل پڑی تھی جس میں کارتوس بھرے ہوئے تھے آدم خور کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ وہ شکار مارنے کے بعد اپنے بڑے بڑے پنجوں سے اس کے کپڑے نوچ نوچ کر پرے پھینک دیتا اور لوہے یا چمڑے کی پیٹیاں علیحدہ گھسیٹ کر لے جاتا۔
اس دوران میں اس کی غیر معمولی فطرت کے بعض عجیب واقعات بھی سننے میں آئے کہتے ہیں ایک عورت اپنی دو معصوم بچیوں کو لے کر گاؤں کی اس پگڈنڈی پر جا رہی تھی جو جنگل کے کنارے سے ہو کر دوسرے گاؤں میں جاتی ہے۔ نصف راستے پر اس عورت نے آدم خور کو دیکھا جو جھاڑیوں سے نکلا اور بچّیوں کو دیکھا، چند سیکنڈ بعد وہ غرّاتا ہوا بچّیوں کی جانب لپکا۔ عورت کا بیان ہے کہ اسے کچھ اور نہ سُوجھا، تو اس نے اپنی سرخ رنگ کی شال جسم سے اتاری اور شیر کے اوپر پھینک دی۔ شیر اس شال کے اندر اُلجھ گیا۔ عورت نے کمال جرأت کا مظاہر کرتے ہوئے اپنی بچیوں کو اٹھایا اور الٹے قدموں بھاگی۔ شیر نے اگرچہ شال کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اور اگر وہ چاہتا تو اپنے شکار کو دوبارہ پکڑ سکتا تھا، مگر اس نے ان کا تعاقب نہ کیا۔ غالباً وہ بچّیوں کے چیخنے چلّانے سے متاثر ہو گیا تھا۔ وہ چند لمحے تک غرّاتا رہا، پھر جھاڑیوں میں جا کر بیٹھ گیا۔
کیسپین کے اس ساحلی علاقے میں، جہاں آدم خور کا راج تھا، غالب آبادی ان لوگوں کی تھی جو ماہی گیر تھے یا لکڑہارے۔۔۔۔ اور انہی بے چاروں پر سب سے زیادہ مصیبت نازل ہوئی۔ کتنے ہی بچّے یتیم ہو گئے اور کتنی ہی عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ حتیٰ کہ ماہی گیروں نے سمندر کے قریب اور لکڑہاروں نے جنگل میں جانا چھوڑ دیا اور روزگار کی تلاش میں یہاں سے نقل مکانی کر کے دور دور چلے جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ یہ صورتحال خود حکومت کے لیے خاصی تشویش باعث بن گئی۔ تہران کے سرکاری حلقوں میں اس آدم خور کا ذکر ہر ایک کی زبان پر تھا۔ طرح طرح کی تجویزیں اور تدبیریں اسے مارنے کے لیے سوچی جا رہی تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار اور تربیت یافتہ شکاریوں کی کمی تھی اور جو چند نامی گرامی شکاری تھے انہیں یہ آدم خور پہلے ہی ہڑپ کر چکا تھا۔ اَب لے دے کر شرقی کی ذات ایسی تھی جس پر سب کی نگاہیں بار بار پڑتی تھیں۔ آخر حکومت نے اعلان کیا کہ جو شخص اس آدم خور کو ہلاک کرے گا اسے پانچ ہزار ریال انعام دیئے جائیں گے۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب ایران کی حکومت ایک سیاسی بحران سے گزر رہی تھی اگر یہ بحران نہ ہوتا، تو عین ممکن تھا کہ خود شاہِ ایران اس آدم خور کو ہلاک کرنے پر کمر بستہ ہو جاتے، تاہم شرقی کے لیے پانچ ہزار ریال کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے اور نہ وہ کسی اعزاز و ا کرام کا متمنّی تھا۔ وہ تو یہ صرف چاہتا تھا کہ آدم خور کو اس کے ہاتھوں سے مر جانا چاہیے اور بس۔۔۔۔۔۔ اکتوبر 55ء کا مہینہ تھا جب شرقی نے آدم خور کا تعاقب شروع کیا اور اور پورے چودہ ماہ تک۔۔۔۔ اس نے اپنے اوپر دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر لی تھی۔ اس تمام عرصے میں وہ پاگلوں کی طرح اپنی رائفل اور بستر اٹھائے اٹھائے اِس گاؤں سے اُس گاؤں اور اُس گاؤں سے اِس گاؤں مارا مارا پھرتا رہا۔ اس طرح اس نے سینکڑوں میل کا سفر پیدل طے کیا ہو گا۔ اَب بچّے بچّے کی زبان پر شرقی کا نام تھا اور لوگ گلی کوچوں میں اعلانیہ کہتے کہ ‘آدم خور اگر مارا جائے گا، تو شرقی کے ہاتھوں۔’
بیسیوں مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ شرقی اور شیر کا آمنا سامنا یا تو ہوتے ہوتے رہ گیا یا شرقی کو دیکھ کر شیر فرار ہو گیا۔ غالباً اسے بھی علم ہو گیا تھا کہ یہ شخص اُس کی قضا بن کر آیا ہے، اس لیے اس سے حتی الامکان محفوظ رہنا چاہیے۔ ایک روز صبح شرقی گاؤں خونس کے قہوہ خانے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آدم خور کے ٹھکانے کا سُراغ کیسے لگایا جائے اور اسے مارنے کے لیے کونسی تدبیر اختیار کی جائے کہ قہوہ خانے سے باہر ایک شکستہ موٹر ٹیکسی آن کر رُکی اور ڈرائیور کود کر باہر نکلا۔ اس کی حالت سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ خاصا مضطرب ہے۔ ٹیکسی کا انجن چلتا چھوڑ کر ڈرائیور قہوہ خانے میں داخل ہوا اور جونہی اس نے شرقی کو دیکھا، ایک نعرہ مار کر اس کی جانپ لپکا، ‘ارے تم یہاں بیٹھے ہو اور اس آدم خور نے کل شام ایک عورت کو مار ڈالا۔’
ڈرائیور کا نام عربد تھا اور شرقی اسے مدّت سے جانتا تھا۔ شرقی نے یہ خبر سنتے ہی اپنی رائفل اٹھائی اور عربد کو گھسیٹتا ہوا ٹیکسی میں لے آیا اور بولا:
‘مجھے جلدی اس مقام پر لے چلو ایک لمحہ ضائع نہ کرو۔’
عربد چیختا ہی رہ گیا کہ مجھے قہوے کا ایک گھونٹ تو پی لینے دو، مگر شرقی نے اس کی ایک نہ سنی۔ خونس سے کئی میل دور یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ یہاں ایک کھیت کے کنارے چھوٹا سا مکان بنا ہوا تھا۔ جس میں کسان اور اس کے بیوی بچّے رہتے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ مکان کا بیرونی دروازہ کھلا تھا۔ کسان اور اس کے دونوں چھوٹے چھوٹے لڑکے کمرے میں تھے اور بچوں کی ماں صحن میں بیٹھی تھی۔ یکایک شیر خاموش دبے پاؤں ادھر آیا اور مکان کا دروازہ کھلا دیکھ کر فوراً اندر آ گیا۔ اس سے پہلے کہ بیچاری عورت اپنے بچاؤ کا سامان کرے اور اس کا شوہر مدد کو پہنچے، آدم خور نے لپک کر اپنے ادھ کھلے جبڑے میں عورت کا شانہ پکڑا اور گھسیٹ کر باہر لے گیا۔ عورت کا شوہر جب چیخا چلّایا تو قریب ہی رہنے والے دوسرے کسان اپنے گھروں سے باہر نکل کر آئے اور آدم خور کے تعاقب میں دوڑے، مگر اتنی دیر میں وہ بہت دور جا چکا تھا۔ رات کے اندھیرے میں یہ لوگ آگے بڑھتے ہوئے خوف کھاتے تھے، اس لیے انہوں نے عورت کی لاش ڈھونڈھنے کے لیے صبح جانے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے روز بارہ آدمیوں کا گروہ جنگل میں گیا اور ایک مقام پر انہوں نے لاش کے چند ٹکڑے پڑے پائے۔۔۔
شرقی اور عربد دوپہر کے قریب اس کسان کے گھر پہنچے اور اس کی زبانی اس دردناک حادثے کی تفصیل سنی۔۔۔ باتوں باتوں میں کسان نے شرقی کو بتایا کہ جس جگہ انہوں نے لاش پڑی پائی، اس سے کوئی آدھ میل دُور ایک تالاب ہے۔ جہاں جنگل کے اکثر جانور آ کر پیاس بُجھاتے ہیں۔ شرقی اپنے ہمراہ دو آدمیوں کو لے کر اس تالاب پر پہنچا۔ اگرچہ اس میں پانی کی بہت تھوڑی مقدار تھی، لیکن اس کے کنارے کیچڑ میں جانوروں کے پیروں کے نشانات دکھائی دیے تھے۔ ان میں بھیڑیوں اور بارہ سنگھوں کے پیروں کے نشانات نمایاں تھے۔ شرقی کو یہ دیکھ کر تعجّب ہوا کہ آدم خور اس طرف نہیں آیا، حالانکہ اسے لازماً شکار ہڑپ کرنے کے بعد پانی پینے کے لیے اس طرف آنا چاہیے تھا۔ شرقی کو اگرچہ یقین نہیں تھا کہ آدم خور پانی پینے اس تالاب پر آئے گا، تاہم اس نے رات وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا۔ کسانوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کھلی جگہ میں ٹھہرنا خطرناک ہو گا جہاں شیر کسی وقت بھی اس پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس تالاب کے گرد کوئی درخت نہیں تھا، البتہ لمبی لمبی گھاس چاروں طرف دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس تالاب سے ذرا فاصلے پر ایک چھوٹی سی پگڈنڈی گزرتی تھی جو اس گاؤں کو دوسرے گاؤں سے ملاتی تھی اور اس پگڈنڈی پر لوگ بیل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے لیکن جب سے آدم خور نے اپنے ساتھیوں کو واپس گاؤں میں بھیج دیا اور خود اپنے چھپنے کے لیے ایک مناسب سی جگہ تلاش کرنے لگا۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ آدم خور سے زیادہ خطرناک وہ زہریلے حشرات الارض اور سانپ بھی ہو سکتے ہیں جو اس گھاس میں رینگتے پھرتے ہیں۔ لیکن یہ خطرہ مول لینے کے سوا اور چارہ بھی کیا تھا۔
تالاب سے کوئی پچاس گز دُور پگڈنڈی کے پیچھے خشک اور گھنی گھاس میں وہ چھپ گیا۔ شرقی کا بیان ہے کہ یہ اس کی شکاری زندگی کی سب سے زیادہ صبر آزما اور بھیانک رات تھی۔ جب وہ کیسپین کے آدم خور کا انتظار کر رہا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی جنگل کا سنّاٹا اس کے اعصاب کو معطّل کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ آسمان پر پرندوں کی قطاریں اڑتی ہوئی اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہی ہیں دور کہیں بھیڑیوں اور گیدڑوں کے غول چلّا رہے تھے۔ یکایک اس نے دیکھا کہ تین موٹے تازے ہرن آہستہ آہستہ چلتے ہوئے تالاب کی جانب آ رہے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی سُرخ آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔ انہوں نے جلدی جلدی پانی پیا اور چھلانگیں لگاتے جدھر سے آئے تھے اُدھر چلے گئے۔ شرقی اگر چاہتا، تو ان میں سے ایک کو تو ضرور ہی فائر کر کے ڈھیر کر دیتا، مگر وہ ایسا نہ کر سکا وہ تو صرف آدم خور کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس تالاب پر آج پانی پینے آئے گا، دفعتہً اُسے ایک عجیب احساس ہوا جس نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ فرض کرو کہ آدم خور اس کے عقب میں آ جائے اور ایک دم حملہ کر دے تو؟ شرقی نے بدحواس ہو کر پیچھے دیکھا، بلاشبہ یہ خطرہ ہر وقت سر پر تھا۔ چاروں طرف کہیں بھی پناہ لینے کہ جگہ نہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ آدم خور کس قدر نڈر اور چالاک ہے وہ اب تک سو سے زیادہ افراد کو ہضم کر چکا ہے۔ اس لیے وہ آسانی سے اپنے کو شرقی کے حوالے نہیں کرے گا۔ اَب تک وہ اکڑوں بیٹھا تھا، مگر یہ بات سوجھتے ہی کہ شیر عقب سے حملہ نہ کر دے وہ پیٹ کے بل گھاس میں لیٹ گیا اور رائفل اپنے سامنے رکھ لی۔
دس بجے کے قریب مشرقی پہاڑیوں کے پیچھے سے چاند آسمان پر نمودار ہوا اور اس کی روشنی میں تالاب کا پانی شرقی کو صاف دکھائی دینے لگا۔ لمبی گھاس کے سائے تالاب کے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ دفعتہً اس نے مغرب کی جانب سے شیر کے غرانے کی آواز سنی اور اسے جیسے جھٹکا سا لگا۔ وہ چوکنّا ہو کر اُدھر تکنے لگنے لگا اور رائفل سختی سے تھام لی۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا ہر طرف موت کا سا سکوت طاری تھا۔ جنگل میں اس نئی آواز سے دوسرے جانوروں اور پرندوں کی آوازیں فوراً رُک گئیں۔ جنگل کے بادشاہ کی آواز سننے کے بعد پھر کس کی مجال تھی کہ اپنی زبان کھولتا۔ شرقی نے محسوس کیا کہ اس کی پیشانی پر پسینے سے تر ہو رہی ہے۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر پسینہ پونچھا اور شیر کی آواز کی جانب کان لگا دیے۔ آدھ گھنٹے بعد اس نے پھر شیر کی آواز سنی اس مرتبہ آواز اور قریب سے آئی تھی آدم خور یقیناً تالاب پر پیاس بجھانے آ رہا تھا۔ شرقی جانتا تھا کہ اس نازک وقت میں ذرا سی بے احتیاطی اسے موت کے منہ پہنچا سکتی ہے، پس وہ اپنی جگہ بے حس و حرکت دبکا رہا پھر اس نے کچھ فاصلے پر چاند کی مدھم روشنی میں آدم خور کو تالاب سے ذرا دُور کھڑے پایا۔ لمبی گھاس میں اس کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ شرقی کا سانس آہستہ آہستہ پھولنے لگا۔ اس نے اپنے اعصاب پر قابو پانے کی بڑی کوشش کی، مگر ناکام رہا اُسے خوف تھا کہ آدم خور اگر اس مرتبہ بچ کر نکل گیا تو پھر اسے تلاش کرنا کارے داد ہو گا۔ دفعتہً آدم خور ہلکی آواز میں غرّایا اور جدھر سے آیا تھا خاموشی سے اُدھر لوٹ گیا۔
شرقی کے اضطراب اور غصّے کی انتہا نہ رہی۔ وہ اپنی رائفل اٹھا کر دبے پاؤں اس جانب چلا جدھر شیر گیا تھا۔ لیکن ابھی وہ چند گز دُور ہی چلا ہو گا کہ گھاس میں چھپا ہوا آدم خور دھاڑتا ہوا وہاں سے برآمد ہوا اور شرقی کی جانب لپکا۔ اس کا دایاں پنجہ شرقی کے بازو پر پڑا اور شرقی رائفل سمیت اُلٹ کر زمین گر گیا۔ آدم خور اس سے ذرا ہٹ کر فاتحانہ انداز میں گرج رہا تھا۔ شرقی نے اپنے اوسان بحال رکھے اور فوراً رائفل سے اس کے سر کا نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔۔۔ گولی شیر کے سینے میں لگی وہ فضا میں اچھلا۔۔۔ اس نے ایک بار پھر شرقی پر حملہ کرنے کی کوشش کی، مگر اس مرتبہ اس کا وار خالی گیا۔ شیر کے سینے سے خون کا فوارہ اُبل پڑا۔ شرقی نے وقت ضائع کیے بغیر دوسرا فائر کیا اور گولی شیر کا سر چھیدتی ہوئی نِکل گئی۔ شیر کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور وہ شرقی پر آن پڑا۔ اس کے بعد شرقی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔
جب اس کی آنکھ کھلی، تو اس نے اپنے اردگرد گاؤں کے کسانوں کو کھڑے پایا ان کے ہاتھوں لالٹینیں تھیں۔ شرقی نے گردن موڑ کر دیکھا تو آدم خور کے مارے جانے کی خبر آگ کی مانند اردگرد کے تمام دیہات میں پھیل گئی۔ آدم خور کی لاش کو گاؤں گاؤں نمائش کے لیے لے جایا گیا۔ شرقی کو نہ صرف پانچ ہزار ریال انعام کے طور پر دیے گئے، بلکہ لوگوں نے اس کے سامنے تحائف کے ڈھیر لگا دیے۔ ہر شخص اس کا احسان مند تھا اور جدھر سے وہ گزرتا تھا، لوگ اسے کندھوں پر اٹھا لیتے اور خوشی کے نعرے لگاتے، کیونکہ شرقی وہ آدمی تھا جس نے جان پر کھیل کر کیسپین کے اس آدم خور کو مارا تھا جو پانچ سال کے عرصے میں ایک سو پندرہ افراد کو اپنا لقمہ بنا چکا تھا۔
٭٭٭
عالم بخش اور خونخوار ریچھ
(اصل مصنف: کینتھ انڈرسن)
یہ ایک بہت بڑے اور سیاہ سیاہ ریچھ کا قِصّہ ہے جس کی خونخواری اور بربریّت کی دہشت عرصہ دراز تک لوگوں کے دلوں میں بیٹھی رہی۔ جنگل کے تمام حیوانات میں ریچھ واحد جانور ہے جو محض اپنی تفریح طبع کے لیے دوسرے جانوروں اور آدمیوں کو ہلاک کرتا ہے۔ نہایت کینہ پرور، جلد اشتعال میں آنے والا اور انتہائی ناقابلِ اعتماد حیوان ہے۔ حافظے کے اعتبار سے اس کا ذہن ایک عجوبہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اپنے دشمن کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اسے خوب یاد رہتا ہے اور موقع ملتا ہی اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ خواہ اپنی جان ہی کیوں نہ جاتی رہے۔
اپنی شکاری زندگی کے طویل ترین تجربات کی روشنی میں یہ پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ریچھ بعض حالات میں آدم خور شیر سے بھی زیادہ خونخوار اور بے رحم ثابت ہوا ہے۔ آدم خور شیر تک میں یہ صفت دیکھی گئی ہے کہ اگر اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو اور کوئی شخص اس کے آگے سے گزر جائے تو شیر کچھ نہیں کہتا۔۔۔۔ یہی حال ہاتھیوں کا ہے۔ وہ کبھی بلا وجہ دوسروں کو نقصان پہچانے کی کوشش نہیں کرتے۔ چیتا البتہ کبھی کبھار شرارت پر اُتر آتا ہے‘ وہ بھی رات کی تاریکی میں۔۔۔۔ مگر ریچھ کو دیکھ کر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے دل میں کیا ارادہ ہے اور وہ اب کون سا پینترا بدل کر حملہ کرے گا۔
وہ موذی سیاہ ریچھ جس کا ذکر ان صفحات میں کیا جا رہا ہے نہایت ہی ظالم اور عیّار تھا۔ دن دہاڑے بستی میں آ کر بچوں اور بوڑھوں پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کر ڈالتا اور میلوں تک اپنے شکار کا تعاقب کیا کرتا تھا۔ لوگوں میں اس خونخوار ریچھ کے بارے میں طرح طرح کی داستانیں مشہور تھیں، جن میں حقیقت کا عنصر کم اور مبالغے کا زیادہ۔۔۔ کوئی کہتا تھا کہ وہ بد روح ہے جو ریچھ کے بھیس میں آتی ہے۔ کوئی مُصر تھا کہ نہیں وہ ہے تو ریچھ ہی مگر پاگل ہو چکا ہے، کسی کو ضد تھی کہ وہ نر ریچھ نہیں، مادہ ریچھ ہے جس کے بچوں کو ایک مرتبہ کوئی شکاری اٹھا کر لے گیا تھا اور مادہ ریچھ اب نسلِ انسانی سے انتقام لینے کی قسم کھا چکی ہے۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ خود میرا اندازہ تھا کہ ریچھ واقعی غیر معمولی جسامت کا ہے اور کسی قدر چالاک بھی ہے۔ تبھی وہ خطرے کی بو دور سے سونگھ کر غائب ہو جاتا ہے۔ اسی دوران میں اس ریچھ کے متعلق ایک عجیب کہانی سننے میں آئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک سال پیشتر یہ ریچھ ایک نوجوان لڑکی کو اغوا کر کے لے گیا۔ لڑکی اپنی بکریاں چراتی ہوئی اس پہاڑی جنگل میں چلی گئی تھی، جہاں وہی ریچھ رہتا تھا۔ جب لڑکی شام تک اپنے گھر واپس نہ آئی اور اس کی بکریاں خود بخود راستہ تلاش کرتی ہوئی گھر پہنچ گئیں تو گاؤں والوں میں خوف و ہراس کی زبردست لہر دوڑ گئی۔۔۔ لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلّح ہو کر ایک گروہ لڑکی کی تلاش میں نکلا۔ جلد ہی انہیں لڑکی اور ریچھ کے قدموں کے نشانات کا سراغ مل گیا۔۔۔۔۔ لڑکی ایک غار کے پاس بے ہوش پڑی تھی اور ریچھ قریب ہی بیٹھا تھا اس کے تلوے چاٹ رہا تھا۔۔۔ اتنے سارے آدمیوں کو دیکھ کر وہ فوراً وہاں سے چیختا چلّاتا بھاگ نکلا اور جنگل کے گھنے حصّے میں روپوش ہو گیا۔
میں نے اس کہانی کی تصدیق کے لیے گاؤں کے متعدّد لوگوں سے پوچھ گچھ کی، مگر وہی معاملہ تھا کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ۔۔۔۔ بہرحال یہ ثابت ہو گیا تھا کہ ریچھ نے ایسی حرکت ضرور کی تھی۔ جب ریچھ کا معاملہ میرے سامنے آیا، اس وقت دوبارہ افراد کو ہلاک اور بیسیوں آدمیوں کو زخمی کر چکا تھا۔ ریچھ کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شکار کے منہ پر پہلے وار کرتا ہے اور اپنے طاقتور اور نوکیلے پنجوں کے ذریعے نہایت آسانی سے چہرے کا حلیہ بگاڑنے کے بعد جسم کا جوڑ جوڑ الگ کر ڈالتا ہے۔ میں نے اس ریچھ کے ہاتھوں زخم کھائے ہوئے اکثر لوگ دیکھے۔ کسی کی ایک آنکھ غائب تھی تو کسی کی دونوں آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ کسی کا کان نُچا ہوا تھا تو کسی کی ناک۔۔۔ اکثر لوگوں کے دائیں بائیں رخساروں پر گہرے گھاؤ بھی دیکھے گئے۔ ان کے علاوہ اس ریچھ کے ہاتھوں مرنے والوں کی جو لاشیں جنگل میں ملیں، ان کی حالت دیکھ کر ہی جسم پر کپکپی سی طاری ہونے لگتی تھی۔ ریچھ سب سے پہلے گردن مروڑتا، پھر پیٹ میں پنجے گھونپ کر انتڑیاں باہر نکال کر دور تک پھیلا دیتا تھا۔ یہ افواہیں بھی عام تھیں کہ ریچھ نہ صرف اپنے شکار کا خون چوستا ہے بلکہ اس کا گوشت بھی کھا جاتا ہے، اس دعوے کے ثبوت میں کہا جاتا تھا کہ ریچھ نے جن آخری تین آدمیوں کو ہلاک کیا تھا۔ ان کی لاشوں کا ابھی تک سراغ نہیں مِلا۔ میں نے اس افواہ کی تصدیق کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مخصوص حالات کی بنا پر ایک ریچھ کے لیے آدم خور بن جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ اگرچہ فطری طور پر وہ سبزی کھانے والا جانور ہے، لیکن انتہائی بھوک کی حالت میں اگر انسان کا تازہ گوشت اسے مل جائے تو وہ اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔
پہلے پہل یہ ریچھ ناگواڑہ کی پہاڑیوں میں گھومتا پھرتا تھا۔ یہ پہاڑیاں ارسیکری کے مشرق میں واقع ہیں۔ ارسیکری، بنگلور (ریاست میسور) کے شمال مغرب میں تقریباً ایک سو پانچ میل کے فاصلے پر خاصا بڑا قصبہ ہے۔ انہی پہاڑیوں پر اس خونخوار ریچھ نے اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی اور جب اس موذی نے کئی آدمیوں کو ہلاک کر ڈالا تو اس کا دل اور بڑھا اور یہ میدانی علاقوں پر بھی چھاپے مارنے لگا۔ وہ غروبِ آفتاب کے وقت اپنی کمین گاہ سے نکلتا اور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسانوں اور ان کے بیلوں کی جوڑیوں پر حملہ کرتا اور رفو چکّر ہو جاتا۔ اس نے یہاں تک اودھم مچایا کہ پورے قصبے کے گرد و نواح میں دہشت سی پھیل گئی۔ آہستہ آہستہ اس ریچھ کی وحشیانہ سرگرمیاں میرے کانوں تک بھی پہنچیں۔ مگر میں نے یہ سوچ کر ان پر دھیان نہ دیا کہ دیہاتیوں میں وہم اور مبالغہ آرائی کی عادت زیادہ ہے۔ رائی کا پہاڑ بنانے میں یہ لوگ یکتائے زمانہ ہیں۔
ایک سال بیت گیا اور ریچھ کی ہلاکت خیز سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ آخر ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ مجھے اس کے تعاقب میں جانا ہی پڑا۔ میرا ایک مسلمان دوست، جس کا نام عالم بخش تھا، شموگا کے مقام پر ایک خانقاہ کا مجاور تھا۔ اگر ہم سڑک کے راستے ارسیکری جائیں تو شموگا راستے میں پڑتا تھا۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے ولیوں اور پیروں کے سینکڑوں مزار ہیں۔ جن کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ عالم بخش سے میری پہلی ملاقات عجیب نوعیّت کی تھی۔ میں ایک آدم خور شیر کے تعاقب میں تھا جو شموگا کے علاقے میں گھوم رہا تھا، ایک رات میں بنگلور سے اپنی موٹر میں بیٹھ کر شموگا جا رہا تھا۔ جب میں شموگا سے تھوڑی دور رہ گیا تو دفعتاً میری موٹر کا پچھلا ٹائر دھماکے سے پھٹ گیا۔ موٹر فوراً رُک گئی۔ شام سَر پر آ گئی تھی۔ میں حیران و پریشان موٹر سے اتر کر ٹائر کا معائنہ کرنے لگا۔ جنگل میں دہشت ناک سناٹا تھا۔ اور میری کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ ادھر اُدھر نظر دوڑانے پر میں نے دیکھا کہ اسی جنگل کے ایک گوشے میں چھوٹی سی عمارت موجود ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ضرور کسی پیر فقیر کی خانقاہ ہے۔ غالباً خانقاہ کے مجاور عالم بخش نے موٹر کا ٹائر پھٹنے کی دھماکہ خیز آواز سن لی تھی۔ کوئی پانچ منٹ بعد ہی وہ اپنے ہاتھ میں لالٹین لے آ گیا۔ میں نے جلدی جلدی پھٹا ہوا ٹائر پہیّے سے نکال کر دوسرا اچھا ٹائر اس میں لگا دیا۔ پھر بوڑھا عالم بخش مجھے خانقاہ میں لے گیا۔ اس نے چائے بنا کر مجھے پلائی۔ عالم بخش کے اس خلوص کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم دونوں میں جلد ہی گہری دوستی ہو گئی۔ بعد ازاں میں جب اس سڑک سے گزرتا عالم بخش سے ملے بغیر آگے نہ بڑھتا تھا۔
شموگا کی اس خانقاہ کے عقب میں اندازاً چار سو گز کے فاصلے پر کوئی چار اونچے اونچے پہاڑی ٹیلوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ انہی پہاڑی ٹیلوں کے درمیان کہیں کہیں زمین خاصی ہموار اور زرخیز تھی جن میں مون سون کی بارشوں کے بعد مقامی کسان مونگ پھلی وغیرہ بو دیتے تھے۔ ریچھ مونگ پھلی کے بہت شائق ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے اس ریچھ نے بھی انہی پہاڑی ٹیلوں میں کہیں اپنا گھر بنا رکھا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی وہ بھوک سے بیتاب ہو کر اپنے غار سے نکلتا اور مونگ پھلی کے پودوں کو اجاڑتا ہوا دور تک نکل جاتا۔ رات بھر وہ اپنا پیٹ بھرتا اور صبح سورج نکلنے سے تھوڑی دیر پیشتر وہ مستی میں جھومتا ہوا اپنے غار کی طرف واپس چلا جاتا۔ اور دن بھر آرام سے سوتا۔ اس کے گھر کے پاس ہی ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس میں بارش کا پانی جمع رہتا تھا۔ اور ریچھ یہیں سے اپنی پیاس بجھاتا۔ زندگی کی تمام آسائشیں قدرت نے اسے مہیا کر دی تھیں۔
اُدھر جنگل میں انجیر اور گولر کے درختوں پر جب سرخ رنگ کا پھل پکتا تو سینکڑوں قسم کے پرندے خدا جانے کہاں کہاں سے آ جاتے اور پھر دن بھر ان پھلوں کو توڑ توڑ کر کھاتے رہتے اور سورج غروب ہوتے ہی جب یہ پرندے اپنے گھونسلوں کو لوٹتے تو ہزاروں کی تعداد میں بڑی بڑی چمگادڑیں چیختی چلّاتی اور ایک دوسرے کو پَر مارتی ان درختوں پر حملہ آور ہوتیں اور پکے ہوئے درختوں پر ٹوٹ کر گرتیں۔ ریچھ اگرچہ درختوں سے پھل توڑنے کے قابل نہ تھا، مگر پرندوں اور چمگادڑوں کی چھینا جھپٹی سے بہت سے پھل زمین پر بکھر جاتے، جنہیں ریچھ رات کو چن چن کر ہڑپ کر جاتا۔
عالم بخش کا ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی عمر بائیس سال ہو گی۔ یہ پورا خاندان صرف چار افراد پر مشتمل تھا۔ عالم بخش، اس کی بیوی، لڑکا اور اس کی چھوٹی بہن۔۔۔ ایک رات کا ذکر ہے، 9 بجے کے قریب ان سب نے کھانا کھایا اور پھر سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ اسی اثنا میں لڑکا کسی کام کے لیے خانقاہ سے باہر گیا۔ رات نہایت ہی تاریک تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دیتا تھا۔ اس وقت ریچھ کہیں قریب ہی گھوم رہا تھا۔ اس نے لڑکے کو اپنی طرف آتے دیکھا تو طیش میں آ کر اس کی طرف لپکا اور اپنا پنجہ پوری قوت سے لڑکے کے چہرے پر مارا مگر پنجہ اوچھا پڑا اور لڑکے کے گلے سے خون کی دھاریں بہہ نکلیں۔ لڑکا چیخا اور ریچھ کو لاتیں اور گھونسے مار مار کر بھگانے کی کوششیں کرنے لگا۔ مگر ریچھ کا غیظ و غضب بڑھتا ہی جاتا تھا۔ اس مرتبہ اس نے لڑکے کے چہرے سے ناک اور اور ایک آنکھ نوچ لی اور چھاتی، کندھوں اور پیٹھ پر بھی گہرے زخم لگائے۔ اس کے بعد وہاں سے بھاگ گیا۔ بد نصیب لڑکا خون میں نہایا ہوا اور لڑکھڑاتا ہوا خانقاہ تک پہنچ گیا۔ اس کی گردن کی رگ بھی کٹ چکی تھی اور خون مسلسل بہہ رہا تھا۔ عالم بخش اور اس کی بیوی اپنے بچے کی یہ حالت دیکھ کر سخت پریشان ہوئے انہوں نے دھجّیاں پانی میں تر کر کر کے لڑکے کے زخموں پر باندھیں تاکہ خون رُک جائے۔ مگر خون کسی طرح نہ رُکا۔ گھر میں جتنے بھی پرانے کپڑے تھے۔ سب یکے بعد دیگرے انہوں نے لڑکے کے جسم پر باندھے اور سبھی خون سے تر ہو گئے۔ یہاں تک کہ صبح تک لڑکے نے آخری سانس لیا اور اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔
عالم بخش بے چارہ اتنا مفلس تھا کہ وہ اس حادثے کی اطلاع نہ تو مجھے تار کے ذریعے دے سکتا تھا اور نہ اس کے پاس بنگلور تک آنے کے لیے بس یا ریل کا کرایہ تھا۔ تاہم اس نے پوسٹ کارڈ پر اردو زبان میں ٹیڑھے میڑھے شکستہ انداز میں یہ ساری دردناک کہانی لکھ کر بھیج دی۔ اس کے آنسوؤں کی نمی پوسٹ کارڈ پر صاف محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا خط مجھے دو دن بعد مِلا۔ میں تین گھنٹے کے اندر اندر سیکری کی جانب روانہ ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ ریچھ کو مارنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ ظالم وہیں چھپا ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹے میں اسے جہنم رسید کر دوں گا۔ یہی سوچ کر میں نے کچھ لمبی چوڑی تیاری نہ کی۔ ٹارچ، اعشاریہ 405 کی ونچسٹر رائفل اور کپڑوں کے دو جوڑے۔۔۔۔ کُل یہ سامان میں نے اپنے ساتھ لیا۔ اور اسی روز شام کے پانچ بجے عالم بخش کی خانقاہ میں پہنچ گیا۔ عالم بخش، اس کی بوڑھی بیوی اور چھوٹی بچی چہرے ویران اور آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے تک رہے تھے۔ میں نے انہیں دلاسا دیا اور کہا کہ جب تک اس قاتل ریچھ کو ہلاک نہ کر لوں گا، یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا۔
رات تاریک اور سرد تھی۔ چاند نکلنے میں ابھی کئی روز باقی تھے۔ آٹھ بجے میں نے جنگل میں جانے کی تیاری کی۔ تاریکی میں ٹارچ کے ذریعے ریچھ کو ڈھونڈ لینا اتنا مشکل کام نہ تھا۔ میں نے ٹارچ کو رائفل کی نال کے سرے پر باندھ دیا تاکہ اس کی روشنی میں صحیح نشانہ لے سکوں۔ میرے چاروں طرف ایسا گھُپ اندھیرا تھا کہ خود مجھے اپنی رائفل تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے مجھے ٹارچ روشن کرنی پڑی اور اس کا مختصر سا مگر نہایت طاقتور روشنی کا دائرہ دور تک پھیل گیا۔ میں نے اپنے گرد و نواح پر نظر ڈالی۔ میرے بائیں ہاتھ پر مونگ پھلی کے پودے اور دائیں ہاتھ پر سڑک کے ساتھ ساتھ انجیر کے درخت دور تک چلے گئے تھے۔ ریچھ کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور اب مجھے گھوم پھر کر اسے تلاش کرنا تھا۔ سڑک کے دونوں جانب انجیر کے درخت پھیلے ہوئے تھے۔ میں نے ابتداء اس طرف سے کی اور سڑک کے درمیان چلنے لگا ٹارچ کی روشنی کبھی بائیں جانب پھینکتا، کبھی دائیں جانب۔۔۔ اس طرح میں ڈیڑھ میل تک نِکل گیا۔ لیکن ریچھ کا کوئی پتہ نہ چلا۔ آخر پلٹا اور خانقاہ کی طرف آ کر سامنے کی جانب اسے تلاش کرتا ہوا پھر ڈیڑھ میل دور چلا گیا۔ ریچھ ادھر بھی نہ تھا۔ میں نے سوچا وہ ضرور مونگ پھلی کے پودوں میں ہو گا۔
اس مقام پر پہنچ کر جب میں نے ٹارچ روشن کی تو مجھے بہت سی ننھی ننھی آنکھیں چمکتی دکھائی دیں۔ یہ جنگلی خرگوش اور گیدڑ تھے، جو مجھے دیکھتے ہی چھلانگیں لگاتے ہوئے غائب ہو گئے۔ ان پودوں میں ریچھ کو تلاش کرتا ہوا میں پانی کے تالاب تک پہنچ گیا۔ یہاں میں نے سُوروں کے چیخنے کی آوازیں سنیں۔ مگر ریچھ ان میں نہ تھا۔ آخر آگے بڑھتا ہوا میں پہاڑی ٹیلے کے نیچے آ پہنچا۔ یہاں رک کر میں نے ایک مرتبہ پھر ٹارچ کی روشنی میں اوپر نیچے چاروں طرف ریچھ کو دیکھنے کی کوشش کی۔ مگر خدا جانے وہ موذی کہاں جا چھپا تھا۔ میں اور آگے بڑھا۔۔۔ یکایک میرے قدموں تلے سرسراہٹ سی پیدا ہوئی اور اسی لمحے اگر میں اچھل کر پیچھے نہ ہٹ جاتا تو میرا کام تمام تھا۔۔۔۔ ٹارچ کی روشنی میں کیا دیکھتا ہوں کہ صرف ایک فٹ کے فاصلے پر ایک خوفناک سانپ میری طرف دیکھ کر گھور رہا ہے، اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اور حلق سے ایک تیز سیٹی کی آواز نکل رہی تھی۔ اس نے اپنا جسم سمیٹ لیا اور گردن اٹھا کر میری طرف لپکا۔ میں چاہتا تو ایک ہی فائر میں اس کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ مگر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گیا کہ اس طرح ریچھ خبردار ہو جائے گا۔ میں نے قریب پڑا ہوا ایک پتھر اٹھایا۔ اور سانپ کی طرف بڑھا۔ سانپ کو روکنے کے لیے یہ اقدام کافی تھا۔ وہ مڑا اور پہاڑی ٹیلوں میں گھس گیا۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج ریچھ کہاں غائب ہو گیا۔ دو ہی باتیں ذہن میں آتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ شاید سرِ شام ہی وہ اپنے غار سے نکل کر کسی اور جانب چلا گیا یا ابھی تک اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور وہ غار میں بے خبر پڑا سو رہا ہے۔ یہ سوچ کر میں خانقاہ کی طرف واپس ہوا۔ عالم بخش میرے انتظار میں جاگ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ تھوڑی دیر بعد میں ایک مرتبہ پھر ریچھ کی تلاش میں جاؤں گا۔
آدھی رات کو میں پھر ریچھ کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی میں نے اسے چاروں طرف ڈھونڈا۔ مگر بے سود۔ خدا معلوم اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا تھا۔
تھک ہار کر میں خانقاہ میں واپس آیا۔ اور بستر پر گر کر بے خبر سو گیا۔۔۔ آنکھ کھلی تو سورج اپنا آدھا سفر طے کر چکا تھا۔ جنگل اور پہاڑی ٹیلے تیز چمکیلی دھوپ میں جگمگا رہے تھے عالم بخش کی بیوی نے میرے لیے پلاؤ پکایا تھا۔۔۔ یہ کھانا لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور واقعی خوب لذیذ ہوتا ہے۔ کھانے اور چائے سے فارغ ہو کر مَیں نے پھر کمر کسی، دن کے اُجالے میں ریچھ کا کھوج لگانا نسبتاً آسان تھا۔ مَیں جانتا تھا کہ وہ لازماً اس وقت اپنے غار میں پڑا سو رہا ہو گا۔ عالم بخش میرے ساتھ پہاڑی تک گیا اور ہاتھوں کے اشارے سے اس نے مجھے وہ غار دکھایا جہاں اس کے خیال کے مُطابق ریچھ رہتا تھا۔ مَیں نے اُسے رخصت کیا اور خود آہستہ آہستہ غار کی طرف چڑھنے لگا۔ میرے پاؤں میں ربڑ سول کے جوتے تھے جن سے قدموں کی ذرا سی آہٹ بھی پیدا نہ ہوتی تھی۔ غار کے منہ پر آ کر میں رک گیا اور کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔ ریچھ کی عادت ہے کہ وہ سوتے ہوئے زور سے خراٹے لیا کرتا ہے، لیکن غار میں بالکل سناٹا تھا۔ میں نے دس منٹ تک انتظار کیا کہ شاید کوئی آواز سنائی دے۔ دھوپ اتنی تیز تھی کہ پسینے سے میرے کپڑے تر ہو چکے تھے۔ تنگ آ کر میں نے چند پتھر اٹھائے اور غار میں پھینکے مجھے یقین تھا کہ ریچھ اگر غار میں کہیں موجود ہے تو یہ پتھر اسے جگانے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن بے سود میں اور نزدیک گیا۔ اندر جھانکا۔ غار میں ریچھ نہ تھا۔
میں خانقاہ پہنچا اور عالم بخش کو بتایا کہ ریچھ شاید یہاں سے کہیں اور چلا گیا ہے اور اب میں بنگلور واپس جا رہا ہوں۔۔۔ میں نے عالم بخش کو کچھ روپے دیے اور تاکید کی کہ جونہی ریچھ اسے گرد و نواح میں دکھائی دے وہ فوراً تار کے ذریعے مجھے اطلاع دے۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا اور ریچھ کی کوئی خبر مجھ تک نہ پہنچی۔
ایک روز مجھے چک مگلور کے ضلعی افسر کی طرف سے ایک تار اس مضمون کا موصول ہوا کہ سیکری پٹنہ کے قریب ایک ریچھ نے حملہ کر کے دو لکڑہاروں کو شدید زخمی کر دیا ہے جن میں بعد ازاں ایک لکڑہارا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔ تار میں درخواست کی گئی تھی کہ اگر وہاں پہنچ کر اس ریچھ کا قصہ پاک کر دوں تو یہ بہت بڑی خدمت ہو گی۔
بابا عالم بخش کی خانقاہ سے کوئی بیس میل دور شمال مغرب کی جانب چک مگلور کا جنگل واقع ہے۔ چک مگلور میسور کے ضلع کھادر کا مشہور مقام ہے اور سیکری پٹنہ کا مختصر سا قصبہ چک مگلور اور کھادر کے درمیان میں ہے۔ میں نے اس تار سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ وہی ظالم ہے جس نے عالم بخش کے بیٹے کو ہلاک کر دیا تھا۔ مگر اب سوال یہ تھا کہ اتنے وسیع و عریض علاقے میں جو سینکڑوں ہی درندوں سے پٹا پڑا ہے ایک خاص ریچھ کو کیوں کر تلاش کیا جا سکتا ہے؟ میں نے ضلعی افسر کو لکھا کہ وہ اس ریچھ کے بارے میں مزید معلومات بھیجے کہ وہ پہلے کس مقام پر دیکھا گیا اور کیا اس نے کسی اور پر تو حملہ نہیں کیا۔ دس روز بعد جواب آیا کہ ریچھ کے بارے میں یہ اندازہ ہے کہ سیکرٹری پٹنہ سے تین میل دور وہ ایک پہاڑی گپھا میں رہتا ہے۔ اس کے قریب ہی ایک جھیل ‘لونکیری’ واقع ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ سڑک جنگل میں سے جاتی ہے۔ حال ہی میں ریچھ نے جنگل کا ایک چوکیدار بھی مار ڈالا ہے۔ وہ اس سڑک پر حسبِ معمول نگرانی کے لیے گشت لگا رہا تھا۔
میرے لیے یہ اطلاع کافی تھی۔ میں نے ضروری سامان اپنی موٹر میں رکھا اور چک مگلور پہنچا۔ وہاں سے محکمۂ جنگلات کے ضلعی افسر کو ساتھ لیا اور سیکری پٹنہ پہنچ کر ریسٹ ہاؤس میں ڈیرے ڈال دیے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اس روز سہ پہر کو جبکہ ہم سفر کی تھکن اتار رہے تھے، ایک شخص دوڑتا ہوا ریسٹ ہاؤس میں آیا اور کہنے لگا کہ ریچھ نے اس کے بھائی پر حملہ کر دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس شخص کا بھائی اسی پہاڑی کے قریب اپنے مویشی چرا رہا تھا کہ ریچھ ایک طرف نمودار ہوا اور اس نے چرواہے پر حملہ کیا۔ چرواہا مدد کے لیے چیخنے چلّانے لگا لیکن اس کی آواز ریچھ کی غرّاہٹوں میں دب کر رہ گئی۔۔۔ چرواہے کا چھوٹا بھائی، جو یہ خبر ہمارے پاس لایا، پہاڑی کے نیچے بیٹھا تھا۔ اس نے چیخوں کی آواز سنی اور ڈر کے مارے ادھر جانے کی بجائے سیدھا ہمارے پاس آیا۔
یہ خبر میرے لیے باعثِ حیرت تھی۔ میں ریچھوں کی فطرت سے بخوبی واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ کبھی دن کے وقت اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ انہیں یا تو سورج غروب ہوتے وقت یا علی الصبح گھر سے باہر دیکھا جاتا ہے۔ ورنہ سارا دن وہ سو کر گزارتے ہیں۔ اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بد نصیب چرواہا اپنے مویشی لے کر یقیناً ایسی جگہ جا پہنچا جہاں ریچھ خراٹے لے رہا ہو گا۔ ریچھ کی آنکھ کھلی اور اس نے غصّے میں آ کر چرواہا پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے کی یہی ایک توجیہہ ہو سکتی ہے۔
اس وقت ساڑھے چار بجے تھے۔ میں نے فوراً اپنی رائفل سنبھالی، تین چار مددگاروں کو ساتھ لیا اور چرواہے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا کہ شاید ریچھ نے اسے زخمی کر کے چھوڑ دیا ہو۔ میرا خیال تھا کہ وہ مقام زیادہ دور نہ ہو گا۔ مگر ہمیں جنگل میں مسلسل چھ میل تک چلنا پڑا۔ آخر ہم ایک پہاڑی کے نیچے پہنچے جس کے چاروں طرف اور اوپر گھنی جھاڑیاں تھیں۔ آخر ہم ایک پہاڑی کے نیچے پہنچے جس کے چاروں طرف اور اوپر گھنی جھاڑیاں تھیں۔ اور بانس کے درختوں کا جھُنڈ تھا وہاں تک پہنچتے پہنچتے شام کے چھ بج گئے۔۔۔ سردیوں کے دن تھے۔ اور سورج غروب ہو چکا تھا۔
سردی اور تاریکی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ لطف کی بات یہ کہ گاؤں کے وہ آدمی جو میری مدد کے لیے میرے ساتھ یہاں تک آئے تھے، اچانک خوفزدہ سے دکھائی دینے لگے۔ انہوں نے مزید آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ ہم تو گاؤں واپس جا رہے ہیں۔ خود انہوں نے مجھے بھی نصیحت کی کہ اب تو اندھیرا ہو گیا ہے، ریچھ کا ملنا محال ہے، کل صبح آ کر اسے تلاش کریں گے۔ البتہ چرواہے کے بھائی نے کہا کہ وہ وہیں ٹھہرے گا۔ آگے جانے سے اس کا بھی دم نکلتا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ چیخوں کی آواز وہاں سے آئی تھی۔۔۔ میں آگے بڑھ گیا اور اس شخص کا نام پکارنے لگا جس پر ریچھ نے حملہ کیا تھا۔ مگر میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ کوئی جواب نہ آیا جنگل میں ہیبت ناک سناٹا تھا۔ مجھے اندھیرے کی فکر نہ تھی کیونکہ ٹارچ میرے پاس تھی۔ جسے میں روشن کر کے اپنا راستہ طے کر رہا تھا۔ میں آگے بڑھتا گیا۔ اور راستہ تنگ سے تنگ، زیادہ مشکل اور گھنا ہوتا گیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر خار دار جھاڑیوں نے میرا راستہ روک لیا۔ میں وہاں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ واپس جاؤں یا کیا کروں کہ دفعتاً میرے کانوں میں کراہنے اور ہچکیاں لینے کی بہت مدھم سی آواز آئی۔ میں چونک اٹھا اور کان لگا کر یہ آواز سننے لگا۔ آواز یقیناً آ رہی تھی لیکن دور سے۔۔۔ میں جس مقام پر کھڑا تھا، وہ کافی اونچائی پر تھا اور نیچے میرے قدموں تلے دو پہاڑی ٹیلوں کے درمیان ایک چھوٹی سی وادی تھی۔ آواز وہیں سے آ رہی تھی۔
اب میرے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان جھاڑیوں کو عبور کروں اور اس آدمی کی تلاش کر کے اپنے ساتھ لے جاؤں جو خدا جانے کس مصیبت میں مبتلا ہے۔ ٹارچ کی روشنی میں مجھے ایک مقام ایسا دکھائی دیا جہاں جھاڑیاں نسبتاً کم گھنی تھیں۔ کانٹوں سے الجھتا ہوا میں مشکل سے دوسری جانب نکلا۔ میرے سامنے اب ایک ڈھلوان اور ایک پھسلواں راستہ تھا جس پر اترنا تھا۔ یہاں رک کر میں نے اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر پوری قوّت سے چرواہے کا نام لے کر آواز دی۔
‘تھِمّا۔۔۔ تھِّما۔۔۔‘
مجھے یقین تھا کہ میری آواز وہ اب ضرور سن لے گا۔ پہاڑی ٹیلوں سے میری آواز ٹکرا کر واپس آئی۔ اور سویا ہوا جنگل یکایک گونج اٹھا۔ میں کان لگائے جواب کا منتظر تھا۔ کوئی دو منٹ بعد ہی میرے دائیں ہاتھ پر وادی کے اندر سے کراہنے کی آواز آئی۔ میں نے ڈھلوان راستہ طے کیا۔ ایک جگہ پیر پھسلا اور میں گرتے گرتے بچا۔ یہ تمام راستہ خار دار جھاڑیوں سے پٹا پڑا تھا اور کانٹوں نے میرے کپڑے تار تار کر دیے تھے، جسم پر کئی جگہ خراشیں آ گئی تھیں۔ کئی سو گز کا فاصلہ طے کر کے میں نے پھر آواز دی اس مرتبہ جواب میں کراہنے کی جو آواز سنائی دی وہ بالکل قریب سے آئی تھی۔۔۔ چند ہی منٹ بعد میں نے اسے ڈھونڈ لیا۔
بد نصیب چرواہا ایک درخت کے تنے کے ساتھ اپنے ہی خون میں نہایا ہوا تھا۔ میں نے جھک کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر اتنے گہرے گھاؤ تھے کہ رخساروں کی ہڈیاں صاف دکھائی دیتی تھیں اور گاڑھا گاڑھا خون چہرے پر جم کر سیاہ پڑ گیا تھا۔ ریچھ نے اس کے پیٹ پر بھی پنجہ مارا تھا اور انتڑیاں باہر نکال دی تھیں۔ کبھی کبھی اس کے حلق سے کراہنے کی اونچی آواز بلند ہو جاتی تھی جس سے پتہ چلتا کہ وہ شدید زخمی ہونے کے باوجود ابھی تک زندہ ہے۔
یہ صورت حال اس قدر نازک اور خطرناک تھی کہ میرا ذہن ماؤف ہونے لگا۔ سرسری نگاہ ڈالتے ہی مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر یہ بد نصیب چرواہا رات بھی یہاں اسی طرح پڑا رہا تو صبح تک اس کا زندہ رہنا محال ہے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کہ کیا کیا جائے سوائے اس کے اسے اٹھا کر وہاں تک پہنچایا جائے جہاں اس کے بھائی کو میں چھوڑ آیا تھا۔ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن زخمی اور ایسے بھاری صحت مند شخص کو اٹھا کر اپنے کندھے پر لادنا بھی ایک مسئلہ تھا۔ اس کاوزن تقریباً میرے برابر تھا۔ تاہم جوں توں کر کے میں نے اسے اٹھایا۔ اور اپنی رائفل کا سہارا لیتا ہوا واپس بلندی پر چڑھنے لگا۔ وہ رات شاید میں کبھی فراموش نہ کر سکوں۔۔۔۔ ایسا خطرناک اور جان لیوا تجربہ مجھے اپنی طویل شکاری زندگی میں کبھی پیش نہ آیا تھا۔ ٹارچ کی روشنی میں ایک ایک قدم بڑی احتیاط سے رکھتا ہوا میں بڑی مشکل سے اوپر چڑھ رہا تھا اور ابھی لبِ بام دو چار ہاتھ رہ گیا تھا کہ دفعتاً میرا بایاں پاؤں پھسلا۔ اور میں تھِمّا سمیت لڑھکنیاں کھاتا ہوا نیچے گرا۔ پندرہ بیس فٹ تک ہم دونوں لڑھکتے چلے گئے۔ اگر خار دار جھاڑیاں ہمیں نہ روک لیتیں تو اسی روز میرا خاتمہ ہو گیا تھا۔ میرے بائیں ٹخنے میں درد کی ایک تیز ٹیس اٹھی اور پھر ایکدم آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ رائفل میرے ہاتھ سے نکل کر خدا جانے کس کھڈ میں جا پڑی تھی۔
معلوم نہیں میں کتنی دیر بے ہوش رہا۔ شاید دس یا پندرہ منٹ۔۔۔ ہوش آیا تو میں نے اٹھنے کی کوشش کی۔ ٹانگ میں پھر درد کی زبردست ٹیس اٹھی اور میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ خوش قسمتی سے ٹارچ میرے قریب ہی پڑی تھی۔ اس کا سفید پالش کیا ہوا خول چمک رہا تھا۔ میں گھسٹ کر آگے بڑھا اور ٹارچ اٹھا کر روشن کی تو تھِمّا کو پانچ فٹ دور پڑے پایا۔ میں نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا، وہ زندہ تھا۔ میں نے وہیں لیٹے لیٹے زور زور سے تھِمّا کے بھائی کو آوازیں دینا شروع کیں کہ شاید وہ آواز سن لے اور ادھر آ جائے۔ مگر ایک گھنٹے تک چیخنے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ڈرپوک آدمی آواز سننے کے باجود بھی ادھر آنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ مجھے اب یہ رات اسی تاریک جنگل میں ایک نیم جان اور زخمی شخص کے ساتھ بسر کرنی تھی۔ اور وہ جنگل جس میں ایک خونخوار ریچھ موجود تھا۔ سردی دم بدم بڑھ رہی تھی، یہاں تک کہ میرا جسم سردی سے بالکل سن ہو گیا۔ اب میں ہاتھ پاؤں بھی نہ ہلا سکتا تھا۔ ریچھ اگر اس وقت ادھر آ نکلتا تو بڑی آسانی سے مجھے ہلاک کر جاتا۔۔۔۔ خدا خدا کر کے وہ لرزہ خیز رات کٹی۔ مشرق کی طرف سے جب صبحِ صادق کی روشنی نمودار ہوئی اور ارد گرد کا منظر صاف دکھائی دیا۔ تو میں نے چرواہے کو ٹٹولا۔ وہ خدا معلوم کب مر چکا تھا۔ میں نے ہمت کر کے پہاڑی پر چڑھنے چاہا۔ مگر ہڈی ٹوٹنے کے باعث ٹانگ بری طرح سوج گئی تھی اور ذرا سی ٹھیس لگنے پر اتنا شدید درد ہوتا کہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا۔
مجھے یقین تھا کہ فارسٹ آفیسر ضرور چند آدمیوں کو لے کر میری تلاش میں آئے گا۔ میں وہیں جھاڑیوں کے سائے میں دوپہر تک پڑا رہا۔ فارسٹ آفیسر ایک درجن دیہاتیوں کے ساتھ مجھے ڈھونڈتا ہوا ادھر نکل آیا۔ اس کے ساتھ چرواہے کا بھائی بھی تھا۔ مجھے انہوں نے اٹھا کر سیکری پٹنہ کے بنگلے میں پہنچایا۔ وہاں سے رات کے نو بجے فارسٹ آفیسر مجھے اپنی کار میں چک مگلور کے ہسپتال میں چھوڑ آیا۔ ایک ماہ تک میں موت و زیست کی کش مکش میں مبتلا رہا۔ اس اثنا میں ریچھ کی قاتلانہ سرگرمیوں کی اطلاعات برابر میرے کانوں تک پہنچتی رہیں۔ میں اپنے بستر پر پڑے پڑے یہ قسم کھا چکا تھا کہ تف ہے مجھ پر اگر تندرست ہونے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر اس ریچھ کو جہنم واصل نہ کروں۔ جونہی میں اس قابل ہوا کہ چند قدم تک آسانی سے چل سکوں۔ میں نے ہسپتال سے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور سیدھا سیکری پٹنہ پہنچا۔ گاؤں والے ریچھ کی دہشت انگیز حرکتوں سے اس قدر نالاں تھے کہ انہوں نے مجھے فرشتۂ رحمت سمجھا۔ معلوم ہوا کہ اس عرصے میں ریچھ چھ سات افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ اور وہ روزانہ شام کے وقت گاؤں سے ایک میل دور اپنے شکار کی تلاش میں گھومتا رہتا ہے۔
میں شام کو پانچ بجے اپنی رائفل سمیت وہاں پہنچ گیا اور ایک گھنے درخت کے نیچے ڈیرہ جما دیا۔ مجھے یقینِ کامل تھا کہ آج ریچھ کی قضا اسے ضرور ادھر لے آئے گی۔ درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر اور اپنی رائفل گھٹنوں پر رکھ کر میں اس طرح جم کر بیٹھ گیا کہ جیسے صدیوں تک ریچھ کا انتظار کرنے کا ارادہ ہے۔
آخر رات کے گیارہ بجے دفعتاً ریچھ کی غراہٹوں اور پودوں کی شکست و ریخت سے اندازہ ہوا کہ ظالم آ پہنچا۔ ادھر میں سراپا انتظار بیٹھا تھا۔ تاروں کی مدھم روشنی میں میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے صرف پچاس گز کے فاصلے پر ہے۔ خاصا قد آور اور ہٹّا کٹّا جانور تھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی سرخ آنکھیں چمک رہی تھیں۔ خاصا قد آور اور ہٹّا کٹّا جانور تھا۔ میں نے فوراً ٹارچ روشن کی۔ تیز روشنی کی ایک لمبی لکیر ریچھ کے جسم پر پڑی۔ وہ اچھلا اور اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر میری جانب گھورنے لگا۔ اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ ایسی چیخ کہ کوئی اور سنتا تو خون رگوں میں جم جاتا۔ لیکن میرا واسطہ خدا جانے کتنے آدم خور شیروں سے پڑ چکا تھا۔ میں اس ریچھ کو کیا حیثیت دیتا تھا۔ نہایت اطمینان سے میں نے اس موذی کی چھاتی کا نشانہ لیا اور رائفل کا گھوڑا دبا دیا۔ اور بیک وقت دو فائر کیے۔
ریچھ نے قلابازی کھائی اور پھر وہ زمین سے دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ اس طرح چک مگلور کے اس وحشی درندے کا خاتمہ ہوا۔ جس نے عرصے تک اس وسیع علاقے پر اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔
٭٭٭
ایک پاگل ہاتھی
(اصل مصنف: کینتھ انڈرسن)
یہ ایک وحشی اور پاگل ہاتھی کی داستان ہے، جس کے بارے میں آج تک یہ پتہ چل سکا کہ وہ اچانک اِنسانی جانوں کا کیوں دشمن بن گیا تھا اور وہ کون سا حادثہ تھا جس نے اس ہاتھی کو اس قدر مشتعل کر دیا کہ وہ بے دریغ انسانوں کو ہلاک کرتا رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومتِ ہند بھی اِس قاتل ہاتھی کے مظالم کی روک تھام پر مجبور ہو گئی۔ یہ تقسیمِ ہند سے بہت پہلے کا قِصّہ ہے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ 03 کی بات ہے، ضلع مدراس میں گرہنٹی نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ واقع ہے، جس کے قریب بانس کا ایک گھنا جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہاتھی اپنے قبیلے کے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اِسی جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے، یہ ہاتھی اپنے قبیلے کے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اِسی جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہاتھی اپنے قبیلے کے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اِسی جنگل میں رہتا تھا۔ ہاتھی فِطری طور پر رحم دل اور امن پسند حیوان ہے اور اس کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بلا وجہ دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتا، لیکن اگر اسے تنگ اور پریشان کیا جائے تو وہ نہایت خطرناک بلکہ جان لیوا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ پھر بچّے بوڑھے، عورت مرد کسی میں تمیز نہیں کرتا، وہ ہلاکت و بربادی کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیتا ہے، جو عرصے تک ختم ہونے میں نہیں آتا۔ بعض اوقات ایک پاگل ہاتھی نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں ہیں۔ میں آپ کو جس ہاتھی کا قِصّہ سنا رہا ہوں، وہ بھی ایسا ہی تھا، جنگل کا نِگران آفیسر، جو ان دنوں گرہنٹی میں مقیم تھا۔ اِس ہاتھی کے پاگل ہونے کی اس اس واقعے کی بنیاد پر شہادت دیتا تھا کہ ایک رات اس نے جنگل میں دو ہاتھیوں کے لڑنے کی آوازیں سنیں، وہ دونوں بُری طرح چنگھاڑ رہے تھے، اور ان کی چیخوں سے جنگل لرز رہا تھا۔ جب وہ زمین پر دوڑتے تو یہ محسوس ہوتا کہ زلزلہ سا آ گیا ہے۔ دونوں ہاتھی نہایت قوی ہیکل اور ایک دوسرے کے زبردست حریف تھے، غالباً اِن میں کِسی ہتھنی سے ‘شادی’ کے معاملے میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ کامل تین گھنٹے تک ان میں جنگ ہوتی رہی اور یہ لڑائی بھی گارڈ آفیسر کے بنگلے کے قریب ایک تالاب کے کنارے کوئی آدھ میل کے فاصلے پر ہوئی۔ بھلا کِس کی شامت نے پکارا تھا کہ اِس وقت کوئی شخص جنگل میں اپنی آنکھوں سے اِن دو زبردست رقیبوں کی جنگ کا تماشہ دیکھنے کی جرأت کرتا۔ صبح اٹھتے ہی گارڈ آفیسر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جنگل میں جا کر اس جگہ کا معائنہ کیا جہاں گزشتہ رات ہاتھیوں میں قیامت خیز جنگ ہوئی تھی، وہاں عجیب منظر دکھائی دیا۔ ارد گرد زمین میں جا بجا گڑھے پڑے ہوئے تھے، اکثر درخت جڑوں سے اکھڑ چکے تھے، جھاڑیاں بُری طرح روندی گئی تھیں، اور پھر جمے ہوئے خون کے بے شمار بڑے بڑے دھبّے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ لڑنے والے دونوں حریف شدید زخمی ہوئے ہیں، غالباً زیادہ زخمی ہونے والا ہاتھی بعد میں پاگل ہو گیا۔
ایک بھلے چنگے صحیح دماغ ہاتھی کے پاگل ہو جانے کا ایک بڑا سبب بعض احمق اور نا تجربہ کار شکاری بھی ہوتے ہیں، جو جنگل میں ہاتھی کو دیکھتے ہی خوامخواہ اِسے پریشان کرتے ہیں یا پھر وہ بے وقوف کسان ہیں جو اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے ہاتھیوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں اور انہیں یہ قطعاً یاد نہیں رہتا کہ ہاتھی اپنے حریف کو کبھی فراموش نہیں کرتا، بہرحال اسی قسم کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، جو ہاتھی کو بغاوت اور فساد پر اکساتے ہیں اور یہی معاملہ ہمارے اِس ہاتھی کے ساتھ پیش آیا۔ جس نے یکایک چار سو مربع میل علاقے میں اپنی وحشیانہ اور ہلاکت خیز سرگرمیوں سے دہشت پھیلا دی تھی حتیٰ کہ ایک دن وہ آیا جب اس علاقے کی تمام بستیوں کے لوگوں نے ان سڑکوں پر چلنا چھوڑ دیا جو جنگل میں سے گُزرتی تھیں۔
گرہنٹی ایک بہت مختصر اور دور افتادہ گاؤں ہے، جس کی آبادی چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے، پہاڑی علاقے کے یہ لوگ زیادہ تر مزدور اور لکڑہارے ہیں جو بانس کے وسیع و عریض جنگلوں میں کام کرتے ہیں، اس گاؤں کے قریب سے تل ویری ندی گزرتی تھی اور یہ ندی جنوب مغرب کی طرف کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر دریائے کاویری میں مل جاتی تھی، اسی تل ویری ندی کے کنارے دو ہاتھی رہتے تھے، گارڈ آفیسر کی روایت کے مطابق ان دو ہاتھیوں میں خونریز جنگ ہوئی تھی، جنگل کے اِس حِصّے میں ہاتھیوں کے کئی قبیلے عرصۂ دراز سے رہتے تھے، وہ شاذ و نادر ہی بستیوں کی طرف آتے اور اگر آتے بھی تو کِسی کو نقصان پہنچائے بغیر واپس چلے جاتے۔
تل ویدی ندی کے شمال میں تقریباً بارہ میل کے فاصلے پر ایک اور ندی بہتی تھی جس کا نام گولا موتی تھا۔ یہ ندی آگے جا کر دریائے کاویری کی ایک معاون ندی گندالام میں مل جاتی تھی اور ان تینوں ندیوں کو اونچی پہاڑیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، جن پر بانسوں کا گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ اور یہی وہ مقام تھا۔ جہاں سب سے پہلے وحشی ہاتھی نے اپنا پہلا انسانی شِکار کیا۔
گرمیوں کے موسم میں جب سورج کی حِدّت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے، ان ندیوں کا نایاب پانی بہت جلد سوکھ جاتا ہے، البتہ وہ چھوٹے چھوٹے تالاب جن میں پہاڑی چشموں کا پانی جمع ہوتا ہے، اس لیے خشک ہونے سے بچ جاتے تھے کہ ان کے اُوپر چٹانوں اور درختوں کی وجہ سے سایہ رہتا تھا۔ اس مقام پر کسی کسی تالاب میں چھ سے آٹھ انچ تک لمبی مچھلیاں پائی جاتی تھیں، ایک دن کا ذکر ہے۔ قریبی گاؤں سے دو آدمی دوپہر کے وقت مچھلیاں پکڑنے کے ارادے سے ایک ایسے تالاب پر پہنچے جس میں پانی کم اور مچھلیاں کثرت سے تھیں، انہوں نے تالاب میں جال ڈال کر کافی مچھلیاں پکڑ لیں اس کے بعد انہوں نے مچھلیاں اپنے ٹوکروں میں رکھیں اور سستانے کے لیے وہیں ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں لیٹ کر سو گئے، تقریباً شام پانچ بجے ہوں گے کہ ان میں سے ایک شخص کی آنکھ کھلی، سورج مغرب کی جانب ایک پہاڑی کے پیچھے غروب ہو رہا تھا اور شفق کی سُرخی آسمان پر پھیل رہی تھی، دوسرا آدمی بے خبر سو رہا تھا۔ یکایک اُس جاگنے والے شخص نے سُنا کہ اس کے عقب میں ہلکی سی آہٹ پیدا ہوئی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بھورے رنگ کا ایک قوی ہیکل ہاتھی جس کا قد بارہ فٹ سے بھی نِکلتا ہوا تھا، گولا موتی ندی میں گزر کر اسی تالاب کی جانب چلا آ رہا تھا۔ ہاتھی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اس شخص کے اوسان خطا ہو گئے، اس نے اپنے ساتھی کو جھنجھوڑ کر جگایا اور چلّا کر تاتال زبان میں کہا، ‘انائی وارادھو، انائی وارادھو۔‘ جس کا مطلب تھا ہاتھی آ گیا، لیکن سونے والا یوں بے سدھ پڑا تھا کہ اٹھنے کا نام نہ لیتا تھا، ہاتھی اتنے میں اور قریب آ چکا تھا، جاگا ہوا شخص دہشت زدہ ہو کر اُٹھا اور ندی کے شمالی کنارے کی جانب بھاگتا ہوا جنگل میں جا گھسا، ہاتھی نے اسے بھاگتے دیکھ کر ایک زبردست چنگھاڑ ماری، جس سے جنگل اور پہاڑیاں لرز اٹھیں، ہاتھی کی ہولناک چنگھاڑ نے سوئے ہوئے بد نصیب شخص کو جگا دیا، وہ مبہُوت ہو کر ہاتھی کو دیکھنے لگا، اس میں اتنی جرأت بھی نہ تھی کہ اُٹھ کر بھاگتا، دوسرے ہی لمحے غصّے سے بھرے ہوئے ہاتھی نے اِس بد نصیب کو اپنی سونڈ میں جکڑ لیا، اور زمین پر مار مار کر ہلاک کر ڈالا، اس شخص کی چیخوں کی آواز جنگل میں وہاں تک پہنچی جہاں اس کا ساتھی ہاتھی سے ڈر کر چھپا ہوا تھا، چند منٹ تک چیخوں کی آواز جنگل میں گونجتی رہی اس کے بعد موت کی سی خاموشی چھا گئی۔
دو دن بعد گاؤں کے بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک جماعت مقامِ حادثہ پر پہنچی۔ ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کے مختلف چھوٹے بڑے ٹکڑے وہاں بکھرے پڑے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ظالم ہاتھی نے اپنا ایک پاؤں اس شخص کے اُوپر رکھ کر اسے کچلا پھر سونڈ میں پکڑ کر اس کی ایک ٹانگ اکھاڑ ڈالی اور اس کے بعد اسے ایک درخت سے ٹکرا ٹکرا کر ہلاک کر ڈالا، نہایت ہی دردناک موت تھی اور قاتل ہاتھی کا یہ پہلا انسانی شکار تھا۔
اس کے بعد دوسرا حادثہ ایک لڑکے کے ساتھ پیش آیا جو محض اپنے پھرتیلے پن کے باعث موت کے مُنہ میں جانے سے بچ گیا، شام کا وقت تھا، وہ اپنے مویشیوں کو ساتھ لے کر اسی مقام سے گزر رہا تھا، جہاں چند روز قبل ہاتھی نے مچھلی پکڑنے والوں میں سے ایک کو ہلاک کر ڈالا تھا، ندی کے قریب پہنچ کر اس نے سوچا کہ ہاتھ منہ دھونا چاہیے۔ وہ رُک گیا۔ مویشی اپنے باڑے کا راستہ پہچانتے تھے۔ اِس لیے وہ آگے بڑھ گئے، لڑکا ہنسی خوشی ندی کے پایاب سرد پانی سے کھیلنے لگا، دیر تک وہ نہاتا رہا، یکایک اس نے اپنے عقب میں ہاتھی کی چنگھاڑ سنی، لڑکا بد حواس ہو کر پیچھے مُڑا تو ہاتھی اس سے صرف پندرہ گز کے فاصلے پر تھا اور جھومتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ اس نے نہایت وحشیانہ انداز میں اپنی سونڈ بلند کر رکھی تھی لڑکا ندی سے نکل کر پہاڑی کے طرف بھاگا۔ اتنی دیر میں ہاتھی نے ندی عبور کر لی اور لڑکے کے پیچھے بھاگنے لگا، لڑکا بے تحاشا بھاگ رہا تھا۔ راستے میں نوکیلے پتھروں اور کانٹوں سے اس کا جسم لہولہان ہو گیا، لیکن وہ ایک پہاڑی چٹان تک پہنچے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ چٹان کوئی دو سو گز اونچی تھی اور ظاہر ہے کہ ہاتھی اس سپاٹ چٹان پر نہیں چڑھ سکتا تھا، وہ بار بار بے چینی سے اِدھر اُدھر گھومتا چنگھاڑتا اور اپنے قدموں سے زمین کو کچلنے کی کوشش کرتا رہا، لڑکا سہما ہوا چٹان پر بیٹھا رہا، ہاتھی نے پھر طیش میں آ کر اپنی سونڈ میں بڑے بڑے پتھر اٹھائے اور لڑکے کی طرف پھینکنے شروع کیے، لڑکا اور پرے ہٹ گیا اور چٹان کے اوپر ایک طرف آڑ میں چھپ گیا۔
ساری رات وہ ہاتھی کے خوف سے وہیں دبکا بیٹھا رہا، اس میں اتنی جرأت نہیں رہی تھی کہ چٹان سے نیچے اتر کر گاؤں کی طرف بھاگ جاتا، جو وہاں سے صِرف پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ دوسرے روز جب سورج طلوع ہوا تو لڑکا چپکے چپکے پہاڑی سے نیچے اترا اور اپنے گاؤں کی طرف بھاگا، اس نے یہ قِصّہ خود مجھے سُنایا، گاؤں کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ ہاتھی مست ہو گیا ہے، کیونکر وہ موسم ہی ایسا تھا کہ نوجوان ہاتھی مست ہو جایا کرتے تھے، یہ موسم تین ماہ تک رہتا تھا اور یہ عرصہ گزرنے کے بعد ہاتھی خود بخود اپنی طبعی حالت پر آ جایا کرتے تھے۔ اس حادثے کے ایک ماہ تک اس ہاتھی کو کِسی نے نہیں دیکھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یا تو وہ جنگل میں کِسی اور طرف نِکل گیا ہے یا اپنے قبیلے کے ہاتھیوں میں شامل ہو گیا ہے، لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا، ہاتھی وہیں جنگل میں چھپا ہوا تھا، وہ غالباً طبیعت کی ناسازی کی بنا پر اپنی کمین گاہ سے باہر نہیں نِکلا اور جونہی اس کا وحشیانہ پن عود کر آیا وہ پھر جنگل میں آیا اور اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگا۔
گاؤں اینچتی سے آٹھ میل جنوب کی طرف ایک اور گاؤں نتراپالم ہے اور جنگل اس گاؤں کے بہت قریب ہے، ایک روز گاؤں کے دو فرد جن میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص اور دوسرا دس سالہ لڑکا تھا۔ جنگل میں باتیں کرتے جا رہے تھے کہ دفعتاً لڑکے نے چیخ ماری اور اُلٹے پاؤں پیچھے کی طرف دوڑا، ادھیڑ عمر آدمی عالمِ حیرت میں اسے بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا، اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یک بیک لڑکے پر یہ کیا بھُوت سوار ہو گیا ہے، وہ بے تحاشہ بھاگے جا رہا تھا، دفعتاً ہاتھی کی لرزہ خیز چنگھاڑ جنگل میں گونجی، اس شخص کو اب احساس ہوا کہ لڑکے کے بھاگنے کی وجہ کیا تھی، لیکن آہ اب کیا ہو سکتا تھا۔ دشمن اس سے صرف سو گز کے فاصلے پر تھا اور برق رفتاری سے اس طرف چلا آ رہا تھا۔ اگر اس شخص کے اوسان خطا نہ ہوتے تو وہ یقیناً اپنی جان بچا سکتا تھا۔ وہ کِسی درخت پر چڑھ جاتا۔ یا بھاگ کر سامنے کِسی پہاڑی ٹیلے پر پناہ لے لیتا مگر ہاتھی کو اپنی جانب آتے دیکھتا رہا۔ آخر اس کے حواس بحال ہوئے اور وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹا، لیکن ایک درخت سے ٹکرا کر گر پڑا، اتنے میں ہاتھی اس کے سر پر آ چکا تھا۔ ہاتھی نے اپنی شکار کو سونڈ میں پکڑا اور اِسی درخت سے ٹکرا ٹکرا کر اس کا قیمہ کر ڈالا اور بعد میں فاتحانہ انداز میں چنگھاڑتا ہوا رقص کرتا ہوا جنگل میں اسی جانب واپس چلا گیا، جدھر سے آیا تھا۔ اس بد نصیب شخص کے کپڑوں کی دھجیاں اور گوشت کے لوتھڑے درخت کے تنے کے ساتھ چمٹے ہوئے پائے گئے۔ اس کی کھوپڑی تک ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔
اِس دردناک حادثے نے اس علاقے کے حکّام کو ہاتھی کے خلاف کار روائی کرنے پر مجبور کر دیا، اور ضلع سالم کے کلکٹر نے یہ حکم جاری کیا کہ ہر وہ شخص جس کے پاس شکار کا لائسنس ہے۔ صرف اس ہاتھی کو ہلاک کرنے کا مجاز ہے، حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ حکم اِس لیے جاری کیا گیا کہ ان دنوں اس جنگل میں جانوروں کو مارنا سرکاری طور پر پر ممنوع تھا اور خصوصاً ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کی کِسی صورت میں بھی یہی اجازت نہ تھی، کیونکہ ان کی خاص نسل اس جنگل میں ملتی ہے جسے سُرخ ہاتھی کا نام دیا گیا ہے اور یہ نسل سوائے اس جنگل کے دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔
اس دوران میں قاتل ہاتھی کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں، اس نے محکمۂ جنگلات کی ایک بیل گاڑی پر حملہ کیا جس پر صندل کی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ گاڑی بان کے ساتھ فارسٹ گارڈ بھی تھا، ان دونوں نے گاڑی پر لکڑی لدی ہوئی تھی۔ گاڑی بان کے ساتھ فارسٹ گارڈ بھی تھا، ان دونوں نے گاڑی سے کُود کر بمشکل جانیں بچائیں۔ لیکن ہاتھی نے ان کا بدلہ گاڑی اور بیلوں سے لے لیا، اس نے گاڑی کا ایک ایک تختہ الگ کر دیا اور دونوں بیلوں کو ٹکریں مار مار کر وہیں ہلاک کر ڈالا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ وہ مویشیوں کو بھی مارنے لگا، جنگل میں چرتی ہوئی گائیں بھینسیں، بکریاں جونہی اس کے نزدیک آتیں، زندہ واپس نہ جاتیں۔ اسی اثنا میں یہ خبر سنی گئی کہ ہاتھی نے گاؤں کے ایک پجاری کو بھی مار ڈالا ہے۔ ‘پجاری’ کی موت سے ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ گاؤں کے لوگ سے اپنا مذہبی رہنما مانتے تھے، اسی لیے وہ سب روتے پیٹتے ضلعے کے افسر کے پاس پہنچے اور فریاد کی، اس نے انہیں تسلی دی کہ حکومت نے ہاتھی کو مارنے کے لیے شکاریوں کی خِدمات حاصل کر لی ہیں اور چند روز تک اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
شکاری ہونے کی حیثیت سے مجھے بھی ان حادثات سے دلِ چسپی پیدا ہوتی جا رہی تھی لیکن میری طبیعت ہاتھی کے شکار پر مائل نہ ہوتی تھی۔ میں تو آدم خور شیروں اور چیتوں کا شکاری تھا۔ اس شکار میں بہت زیادہ لذّت تھی، اس لیے میں کِسی اور جانور کا شکار کرنا بھی نہیں چاہتا تھا، لیکن جب تین ہفتوں کے بعد میرے خاص مخبر شکاری رانگا کا مجھے خط ملا۔ جو پیگرام گاؤں میں رہتا تھا تو میں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گیا، رانگا نے خط میں لکھا تھا کہ ہاتھی ابھی چند روز پیشتر گرہنٹی سے سات میل دُور انبید ہمادو کے مقام پر ایک پجاری عورت کو ہلاک کر چکا ہے، انبید ہمادو ایک قدرتی تالاب کا نام ہے، جس میں بارش کے پانی کے علاوہ دریائے ہالا کا پانی بھی جمع ہوتا ہے دریائے ہالا اس علاقے کے قریب سے گزرتا تھا، اور آگے چل کر دریائے چنار میں شامل ہونے کے بعد دریائے کاویری میں جا گرتا تھا۔ اس تالاب کے بارے میں لوگوں میں طرح طرح کی داستانیں مشہور تھیں، یہ تالاب کافی گہرا تھا۔ اس لیے کسی موسم میں خشک نہیں ہوتا تھا۔ سچ تو یہ ہے اِس کی گہرائی کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکا۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ جنگل سے کوئی ہاتھی اس تالاب پر پانی پینے آیا۔ لیکن اتفاق سے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ تالاب میں گر گیا، اور پھر دوبارہ نہ نکل سکا ہاتھی بہت اچھا تیراک ہوتا ہے اور دریا میں نہایت روانی اور تیزی سے تیر سکتا ہے۔ اس میں قوتِ برداشت اور سکون برقرار رکھنے کا مادہ بھی قدرت نے بہت زیادہ رکھا ہے، لیکن تالاب میں گرنے والا ہاتھی اس وجہ سے باہر نہ نکل سکا کہ اس کے ارد گرد نوکیلی اور پھسلوان چٹانیں تھیں، وہ جب اپنے بھاری جسم کے ساتھ ان چٹانوں پر پیر رکھنے کی کوشش کرتا۔ الٹ کر دوبارہ تالاب میں جا گرتا، تین دن اور تین راتیں وہ مسلسل تالاب سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر اس کے اعضاء جواب دے گئے اور وہ سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی میں جو دُور دُور سے یہ ‘تماشا’ دیکھنے آئے تھے تالاب میں غرق ہو گیا۔
رانگا نے مجھے لکھا تھا کہ اس ہاتھی نے گرد و نواح میں سخت دہشت پھیلا رکھی ہے۔ وہ اب تک بہت سے خون کر چکا ہے اور اگر میں جلد وہاں نہ پہنچا تو ہاتھی بستیوں کی بستیاں ویران کر دے گا۔ میں جانتا ہوں کہ رانگا ایک سچّا آدمی ہے۔ اِس نے جو اطلاع دی ہے وہ یقیناً صحیح ہو گی۔ اس تاثر کے پیش نظر میں نے چار روز کی رخصت لی، اپنی موٹر میں بیٹھ کر پینگرام پہنچا، وہاں سے رانگا کو ساتھ لیا اور جنگل میں سے گزرنے والی سڑک کے ذریعے 18 میل کا سفر طے کر کے گرہنٹی کے ڈاک بنگلے میں جا ڈیرہ جمایا۔ اسی روز گرہنٹی کا فارسٹ گارڈ ملنے کے لیے آیا، اس نے بتایا کہ آج کل ہاتھی اس علاقے میں پھر رہا ہے۔ اِس کے علاوہ دس اور ہاتھی بھی اسی جنگل میں دیکھے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بنگلے سے تھوڑی دور ہی پانی کا ایک بہت مختصر سا تالاب تھا سب ہاتھی پانی پینے وہیں آیا کرتے تھے اور انہی میں غالباً وہ ہاتھی تھا، جس سے ہمارا سابقہ پڑنے والا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ ہاتھیوں کے اس گروہ میں اس ہاتھی کو شناخت کیسے کیا جائے؟ سرکاری طور پر اس ہاتھی کا جو حلیہ بیان کیا گیا تھا وہ مبہم اور غیر تسلی بخش تھا۔ اس میں صِرف اتنا درج تھا کہ ہاتھی کا قد آٹھ فٹ اور رنگ سیاہ ہے۔ بھلا اس سے کیا خاک شناخت ہو سکتی تھی؟ اس میں شبہ نہیں کہ غسل کے بعد ہاتھی کی کھال کا رنگ سیاہ ہی نکل آتا ہے لیکن اکثر ریت میں لوٹ لگانے کا عادی ہوتا ہے اور جنگل کی مٹی اور دریاؤں کی ریت بھی مختلف رنگوں کی ہوتی ہے، کہیں سُرخ، کہیں بھوری اور کہیں خاکی اور کہیں کہیں سیاہ البتہ ہاتھی کو شناخت کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ اس کے دو بیرونی دانت ہوتے ہیں یہ دانت ہر ہاتھی کی انفرادیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، یہ مسئلہ گارڈ نے حل کیا اس نے بتایا کہ ہاتھی کے بیرونی دانت تین تین فٹ لمبے ہیں، اور ان دانتوں کے سرے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں، ان علامات کی مدد سے اسے پہچان لینا ایسا مشکل نہ تھا، قِصّہ مختصر اسی رات کوئی دس بجے کے قریب میں نے بنگلے کے تالاب پر ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آوازیں سنیں، وہ پانی پینے کے لیے آئے تھے، تھوڑی دیر تک ہاتھی چنگھاڑتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔
منہ اندھیرے ہی میں نے رانگا اور فارسٹ گارڈ کو اپنے ساتھ لیا اور تالاب پر پہنچ گیا، تالاب کے ارد گرد دور دور تک کیچڑ تھا، جس میں ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات بہت گہرے تھے۔ بعض بہت بڑے، بعض درمیانے اور بعض چھوٹے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ بوڑھے، جوان اور کم عمر سبھی قِسم کے ہاتھی یہاں آئے تھے۔ تالاب کے ارد گرد کی زمین کا جائزہ لیتے ہوئے دفعتاً مُجھے ایک نئی بات معلوم ہوئی، ہاتھیوں کا یہ گروہ جو رات کو پانی پینے آیا تھا۔ اس کے قدموں کے نشانات تالاب کے بائیں جانب تھے اور وہ اِسی طرف سے آئے تھے، لیکن دائیں جانب صرف ایک ہاتھی کے قدموں کے نشانات تھے جو غالباً اکیلا ہی واپس چلا گیا۔ میرے دِل نے فوراً کہا یہ اِسی بدمعاش ہاتھی کے قدموں کے نشانات ہیں جس نے انسانی خون سے ہولی کھیلنا اپنا معمول بنا لیا ہے۔
اب ہم تینوں ان نشانات کے تعاقب میں روانہ ہوئے، آگے آگے رانگا، اس کے پیچھے میں، اور میرے پیچھے فارسٹ گارڈ، میرے ہاتھ میں میری پُرانی رفیق اعشاریہ 500/400 کی دو نالی رائفل تھی اور فارسٹ گارڈ کے ذمّے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ پیچھے کا دھیان رکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھی چکّر کاٹ کر ہمارے عقب میں آ جائے اور ہم پر حملہ کر دے، تھوڑی دُور تک تو ہم آسانی سے ان نشانات کے پیچھے پیچھے چلتے رہے لیکن پھر ایسا ہوا کہ راستہ نہایت پیچیدہ اور دشوار گزار ہوتا چلا گیا۔ خار دار جھاڑیاں اور لمبی لمبی سخت گھاس قدم قدم پر ہماری راہ روک رہی تھی، حتیٰ کہ ہمارے کپڑے پھٹنے لگے تاہم ہاتھی کا سُراغ پانے کی تمنّا ہمیں اس تکلیف دہ سفر پر مجبُور کرتی رہی، اِسی طرح ہم کانٹوں سے الجھتے، جھاڑیوں کو چیرتے اور لمبی گھاس میں سے راستہ بناتے ہوئے ایک میل تک چلے گئے، یہاں ایک چھوٹی سی ڈھلوان پہاڑی جنگل میں دکھائی دی، جِس کے چاروں طرف بانس کے موٹے موٹے اور اونچے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ہاتھی اِس پہاڑی پر آسانی سے چڑھ کر بانس کے اِس گھنے خطے کو عبور کر چکا تھا، کیونکہ وہاں ہم نے نہ صرف اس کے قدموں کے نشانات پائے بلکہ کئی درخت اکھڑے ہوئے بھی دیکھے، ہاتھی نے بعض مقامات پر بانس کے پودوں کی نرم نرم شاخیں بھی چبائی تھیں۔ اس مقام پر پہنچ کر ہم سستانے کے لیے تھوڑی دیر رکے، ویسے بھی یہاں ہمیں اپنی رفتار ہلکی کرنی ہی پڑتی تھی کیونکہ بانس کا یہ جنگل نہایت خطرناک اور گھنا تھا، سستانے کے بعد ہم آگے بڑھے دو تین فرلانگ کا فاصلہ اور طے کیا۔ جنگل میں کبھی کبھار طوطوں یا دوسرے پرندوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں یا وہ بندر تھے جو پہاڑی کے دوسری جانب چیخ رہے تھے، کئی بار رُک کر ہم نے ہاتھی کی آواز سننے کی کوشش کی کہ شاید وہ بانس کے پودے کھا رہا ہو یا آرام سے آنکھیں بند کئے کہیں کھڑا ہو۔ اس صُورت میں اِس کے سانس لینے کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔
اب چلتے چلتے ہم ایک اونچے مقام پر پہنچ چکے تھے اور وادی کا منظر دور تک ہمارے سامنے پھیلا ہوا تھا۔ ہم نے چاروں طرف خُوب غور سے دیکھا۔ مگر ہاتھی کا کہیں نام و نشان نہ تھا، البتہ اس کے قدموں کے نِشانات بتاتے تھے کہ وہ اس طرف آیا ضرور ہے۔ ہاتھی کا سُراغ لگائے بغیر اب واپس جانا سراسر حماقت تھی۔ پس خدا کا نام لے کر ہم آگے بڑھے، دو سو گز کے فاصلے پر ہمیں ایک ندی ملی جس کا پانی خشک ہو چکا تھا اور اب صرف دلدل باقی رہ گئی تھی، ہاتھی اس ندی کے درمیان سے گزر کر دوسری جانب گیا تھا۔ ندی کا دوسرا کِنارا اتنا اونچا تھا کہ ہم اس کے پار کچھ نہ دیکھ سکتے تھے، ہمیں اب یقین تھا کہ ہاتھی ضرور کہیں قریب ہی ہے۔ نہایت آہستہ آہستہ ہم اس ندی میں اترے، ہمارے پاؤں ٹخنوں تک کیچڑ میں دھنس گئے بڑی مشکل سے قدم اٹھاتے ہوئے ہم ندی کے پار پہنچے اور پھر رانگا نے ذرا اوپر ہو کر جھانکا تو ہاتھی وہاں نہ تھا، البتّہ اس کے قدموں کے نِشانات موجود تھے۔ ارد گرد بانس کے چند نرم نرم پودے بھی بکھرے مِلے، جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ یہاں بھی تھوڑی دیر رکا تھا۔ اب ہم نے ذرا تیز تیز چلنا شروع کیا۔ ابھی ہم نے چوتھائی میل کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ یکایک رانگا ٹھہر گیا اور اس نے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا، ہم سب دھڑکتے دلوں کے ساتھ کان لگا کر کھڑے ہو گئے، ہاتھی کے خراٹوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
میں نے رانگا اور فارسٹ گارڈ کو املی کے ایک مضبوط درخت پر چڑھنے کی ہدایت کی اور خود زمین پر لیٹ کر اس آواز کی جانِب رینگنے لگا، ہاتھی بانس کے گھنے درختوں میں لیٹا ہوا آرام کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے خراٹوں کی آواز بھی بلند ہو گئی، جس کا مطلب تھا کہ بے خبر سویا ہوا ہے، نہایت احتیاط اور سکُون سے ایک، ایک انچ سرکتا ہوا میں اسی جانب بڑھتا گیا، ہاتھی کی قوتِ شامہ غضب کی ہوتی ہے اور مُجھے خدشہ تھا کہ اگر ہوا کا رُخ اس کی جانِب ہوا تو وہ ضرور میری بُو سونگھ لے گا لیکن خوش قِسمتی سے اس وقت ہوا بالکل بند تھی، کوئی تنکا تک ہلتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ میں بے خوفی سے آگے بڑھتا گیا۔
بھورے رنگ کا ایک نہایت قوی الجثّہ ہاتھی میری جانب پیٹھ کیے اطمینان سے محوِ خواب تھا، اب میں سخت کشمکش میں مبتلا ہو گیا، ہاتھی پر بغیر شناخت کیے فائر کرنا بیکار سی بات تھی، شناخت صرف دو طریقوں سے ہو سکتی تھی، یا تو میں ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری جانِب جاؤں اور ہاتھی کا چہرہ اور اس کے دانت دیکھوں یا اسے کسی طرح جگاؤں تاکہ وہ پلٹ کر میری جانِب دیکھے۔ دوسری صُورت اگرچہ خطرناک تھی، مگر اب خطرہ مول لیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا اور زور سے سیٹی بجائی، میرا خیال تھا کہ ہاتھی چونک کر اٹھے گا، مگر وہ تو بے خبر سو رہا تھا۔ یا ممکن ہے اس نے سوچا ہو کہ یہ سیٹی کسی پرندے کی آواز ہے، میں نے اس مرتبہ اپنے حلق سے ایک چیخ نکالی۔ ہاتھی بجلی کی مانند اپنی جگہ سے اٹھا اور گھوم کر میری جانب دیکھنے لگا، اس کے بڑے بڑے کان تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ میرے اندازے کے مطابق اس کا قد دس فٹ سے بھی نکلتا ہوا تھا۔ کس قدر شاندار اور خوب صورت جانور تھا۔ اس کے بیرونی دانت صُبح کی سنہری دھوپ میں چمک رہے تھے، لیکن یہ دیکھ کر میری مایوسی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے دانتوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا اور یہ وہ ہاتھی نہیں تھا جِس کی مجھے تلاش تھی۔
اب قصّہ سنیے کہ نیند سے یکدم چونکا ہوا ہاتھی ایک لمحے تک حیرت زدہ میری طرف تکتا رہا۔ اس کی آنکھوں اور چہرے سے ناراضگی کا صاف اظہار ہو رہا تھا۔ غالباً وہ دِل ہی دِل میں مُجھے کوس رہا تھا کہ اس بدبخت نے خواہ مخواہ نیند حرام کی، پھر یکایک وہ دو تین قدم آگے بڑھا، اس کی چال میں جارحانہ انداز تھا۔ میں خدا جانے اس قِسم کے کتنے ہاتھیوں کو دیکھ چکا تھا۔ نہایت اطمینان سے میں نے ایک اور سیٹی بجائی، ہاتھی رک گیا، پھر وہ مڑا اور دم ہلاتا ہوا تیزی سے جنگل میں بھاگ گیا۔ دیر تک میں اس کے دوڑنے اور درختوں کی ٹہنیاں چٹخنے کی آوازیں سنتا رہا۔
جب میں واپس آیا تو رانگا اور فارسٹ آفیسر کو املی کے درخت کے نیچے کھڑا ہوا پایا۔ غالباً وہ بھی یہ سوچ کر اتر آئے تھے کہ جس ہاتھی کی تلاش تھی وہ نہیں مِلا ہم تینوں منہ لٹکائے ہوئے واپس ہوئے۔ راستے میں کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت بھی نہ کی، تھکن کے زیرِ اثر ہم تینوں کی طبیعتیں نہایت بیزار تھیں۔ بار بار جھنجھلاہٹ سی ہوتی تھی کہ خوامخواہ وقت ضائع ہوا کپڑے الگ پھٹے اور جسم کانٹوں سے لہولہان الگ ہوا۔
اسی روز پانچ بجے شام کا ذکر ہے کہ بنگلے کے سامنے بیل گاڑی آن کر رُکی اور اس میں سے دو مقامی باشندے اتر کر بنگلے کی طرف آئے، رانگا کو انہوں بتایا کہ وہ اینچتی سے آ رہے ہیں، وہ اب یہاں ایک رات گزارنا چاہتے تھے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے، اینچتی سے نکل کر ابھی ہم چار میل ہی چلے تھے کہ گولا موتی ندی کے قریب ہم نے ہاتھی کے پیروں کے تازہ نشانات دیکھے۔ ان نشانوں سے پتہ چلتا تھا کہ یہ ہاتھی بہت بڑا ہے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ اِس علاقے میں ایک مست ہاتھی گھوم رہا ہے، جس نے بہت سے لوگوں کو مار ڈالا ہے، ہم نے اپنے بیلوں کو تیزی سے ہانکا، شاید ہمارے بیلوں کو بھی اس ہاتھی کی موجودگی کا احساس ہو گیا تھا۔ کیونکہ ان کی رفتار بھی خود بخود تیز ہو گئی تھی۔
یہ اطلاع میرے لیے خاصی حوصلہ افزا تھی، اگرچہ دن بھر کی مسافت کے باعث میں خُوب تھکا ہوا تھا، تاہم میں نے جُوں تُوں کر کے تیاری کی فارسٹ آفیسر کو میں نے بنگلے پر چھوڑا اور ان دو دیہاتیوں کو اپنی موٹر میں بٹھا کر اینچتی کی طرف روانہ ہو گیا۔ میری موٹر جنگل کے اندر کچّی سڑک پر معمولی رفتار سے چلنے لگی۔ دونوں دیہاتی سہمے ہوئے سے نظر آتے تھے۔ غالباً وہ دل ہی دل میں مجھے کوس رہے تھے کہ نہ ہاتھی کا ذِکر کرتے اور نہ اس مہم پر آنا پڑتا۔ سات بجے تک ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں دیہاتیوں نے ہاتھی کے قدموں کے نشانات دیکھے تھے، جنگل میں ہولناک سناٹا طاری تھا اور گولا موتی ندی کا پانی پرسکون تھا۔ کار کی اگلی بتیوں کی تیز روشنی میں ہم جلد ہی یہ نشانات تلاش کر لیے، بلا شبہ یہ نشانات ان تمام نشانات سے مختلف تھے، جو میں اِس سے پہلے بنگلے کے قریبی تالاب پر دیکھ چکا تھا۔ ان نشانوں سے عیاں تھا کہ ہاتھی کو یہاں سے گزرے ہوئے تین گھنٹے سے زائد عرصہ نہیں ہوا۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ابھی قریب ہی ہے۔ گرمی کے موسم میں ہاتھی ہمیشہ سُورج غروب ہونے کے بعد تفریح کے لیے نکلتا ہے، عین ممکن ہے، اس نے ہماری کار کی آواز سنی ہوں یا بتیوں کی روشنی دیکھ لی ہو۔
ہوا جو تھوڑی دیر پہلے آہستہ آہستہ چل رہی تھی، یکایک تیز ہو گئی، وہ جب بانس کے درختوں کے اندر سے گزرتی تو شائیں شائیں کی سی آوازیں بلند ہوتیں۔ رانگا کے پاس بھی ٹارچ اور رائفل تھی اور میں بھی مسلح تھا۔ البتّہ دونوں دیہاتی خالی ہاتھ تھے، میں نے ان سے کہا یا تو وہ موٹر ہی میں خاموشی سے بیٹھے رہیں یا ہمارے ساتھ چلیں انہوں نے دوسری صُورت کو ترجیح دی، ہم چاروں آدمی اِن نشانات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے، میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس مرتبہ بھی یہ کوئی اور ہاتھی نِکلا تو پھر کیا ہو گا؟ اب اِسی قِسم کے تجربات میں زیادہ دیر تک جان کو خطرے میں ڈالا نہیں جا سکتا تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ہاتھی نہ مِلا تو میں اپنے گھر لوٹ جاؤں گا۔ ویسے مجھے یہ اُمید تھی کہ اگر یہ وہی خونخوار ہاتھی ہے تو ضرور ہماری بُو سونگھ کر واپس آئے گا۔
ساڑھے آٹھ تک ہم مسلسل ایک قطار کی صورت میں ان نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے، آگے آگے رانگا پیچھے میں اور میرے پیچھے دونوں دیہاتی۔ ذرا سا پتّہ بھی کھڑکتا تو سہم کر ادھر اُدھر تکنے لگتے تھے، مُجھے اپنی اس حماقت کا احساس ہوا کہ میں ان بیچاروں کو خواہ مخواہ اپنے ساتھ لایا۔ یکایک ہم سے کوئی چار پانچ سو گز کے فاصلے پر ہاتھی کی زبردست چنگھاڑ جنگل میں گونجی، ہم نے فوراً بیٹریاں بجھا دیں اور درختوں کے ارد گرد دبک کر کھڑے ہو گئے، اِس کے بعد گہری خاموشی چھا گئی۔ آدھے گھنٹے تک ہم سب اسی طرح بے حس و حرکت اپنی جگہ پر کھڑے رہے، پھر رانگا نے آہستہ سے کہا:
‘صاحب میرا خیال ہے ہاتھی اِن روشنیوں سے ڈر کر دُور بھاگ گیا ہے، واپس چلیے نکل۔۔۔‘ ابھی فقرہ اس کے مُنہ ہی میں تھا کہ جنگل میں ٹہنیوں اور شاخوں کے چٹخنے اور ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھیں، ہاتھی ہماری بُو پا کر ادھر ہی آ رہا تھا۔ غالباً وہ کُچھ فاصلے پر آ کر رک گیا۔ میں نے رانگا کو اشارہ کیا کہ چپکے چپکے پیچھے ہٹ چلو تاکہ ہاتھی کھلی جگہ میں آ جائے۔ ہماری گاڑی ندی کے بائیں کنارے کھڑی تھی۔ پیچھے ہٹتے ہوئے ہم ندی کے قریب پہنچ گئے، رائفل اور ٹارچ میرے ہاتھ میں تیار تھی، صرف ہاتھی کا انتظار تھا۔
آدھا گھنٹہ پھر اسی عالم میں گزر گیا، ایک بے پناہ سناٹا اور گھُپ اندھیرا کسی جانور اور کِسی پرندے کی آواز تک نہ آتی تھی، جیسے یہاں سوائے اس ہاتھی اور ہم چار انسانوں کے اور کوئی ذی رُوح موجود نہیں، دیہاتیوں کو میں نے کار میں چھُپ جانے کی ہدایت کی اور رانگا کو کار کے عقب میں کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد میں نے جانور کو اپنے قریب بلانے کا پرانا حربہ استعمال کیا، یعنی اونچی آواز میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا، مجھے یقین تھا کہ میری آواز ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی ہاتھی کے بڑے بڑے کانوں سے ٹکرائے گی اور وہ جوشِ غضب میں اس جانب دوڑنے لگے لگا۔ یہ حربہ کارگر ثابت ہوا، ہاتھی نے پھر ایک چنگھاڑ ماری۔ اس مرتبہ اس کی آواز ندی کے دائیں کنارے سے آئی تھی، یہ لمحہ ایسا نازک اور پُر خطر تھا کہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہاتھی ہمیں دیکھ چکا ہے اور اب سوچ رہا ہے کہ کِس رُخ سے حملہ کیا جائے۔ میں نے رانگا کو اشارہ کیا کہ وہ دائیں جانِب دھیان رکھے اور میں خود ندی کے بائیں کنارے کی نگرانی کرنے لگا۔ ایک مِنٹ، دو منٹ، پانچ منٹ، دس منٹ، بیس منٹ، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ اسی جان کنی کے عالم میں گُزر گیا۔ ہاتھی خدا جانے کہاں تھا، بلکہ مجھے تو یہ شک بھی ہوا کہ ہاتھی سرے سے جنگل میں موجود ہی نہیں مگر۔۔۔۔ چنگھاڑنے کی آوازیں۔۔۔۔۔۔
دفعتاً رانگا کی ٹارچ سے روشنی کا دائرہ نِکلا اور پھیلتا ہوا دور تک دائیں جانب چلا گیا۔ مہیب ہاتھی جو اس وقت بالکل ایک سیاہ پہاڑ کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ ہم سے صِرف پچاس گز کے فاصلے پر تھا۔ وہ اپنی سونڈ کو نہایت اضطراب سے اُوپر نیچے حرکت دے رہا تھا اور پھر میں نے دیکھا کہ اِس کے دونوں دانت سروں پر سے ایک دوسرے کو قطع کر رہے ہیں۔ ہاتھی نے طیش کے عالم میں ایک ہولناک چیخ ماری اور رانگا کی جانب دوڑا۔ ادھر میری رائفل سے شعلہ نِکلا اور گولی ہاتھی کے بائیں کندھے میں لگی، لیکن اس دیو پیکر مست ہاتھی پر ایک گولی کیا اثر کرتی۔ چشم زدن میں وہ رانگا کے سر پر جا پہنچا، رانگا بد حواسی میں پیچھے بھاگا اور ندی میں جا گرا۔ میں نے اس دوران میں دوسرا نشانہ لیا۔ اور فائر کر دیا، لیکن بد قسمتی سے نشانہ خطا ہو گیا۔ رائفل کی نالی پر لگی ہوئی ٹارچ ایک دم بُجھ گئی، ہاتھی کی چیخوں اور چنگھاڑنے شورِ محشر برپا کر دیا تھا۔ اس اندھیرے میں مَیں نے یہ دیکھا کہ وہ موٹر کے پاس جا پہنچا ہے اور اس پر اپنی سونڈ پھیر رہا ہے، موٹر کے اندر بیٹھے ہوئے دونوں دیہاتی حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّا رہے ہیں، اِتنی دیر میں ٹارچ روشن کر کے میں نے بیک وقت دو اور فائر کیے۔ اس مرتبہ گولیاں ہاتھی کے حلق میں لگیں وہ ایک طرف کو جھُکا مگر پھر سنبھل گیا۔ اور اسی لمحے دونوں دیہاتی موٹر سے نکل کر ندی کی جانِب دوڑے اور اس میں چھلانگیں لگا دیں، رانگا اب میرے پاس پہنچ چکا تھا۔ وہ اپنی رائفل اور ٹارچ وہیں ندی میں پھینک آیا تھا۔ ہاتھی نے اپنے شکار کو ہاتھ سے جاتا دیکھا تو پلٹنے کی کوشش کی مگر اب وہ اتنا زخمی ہو چکا تھا کہ بار بار ایک جانب کو جھکا جاتا تھا۔ اِس مرتبہ میری رائفل سے ایک اور گولی نکلی، اور اس کی پیشانی میں پیوست ہو گئی، ہاتھی کے حلق سے ایک ایسی دلدوز چیخ نکلی کہ میں سہم کر بُت کی طرح بے حس و حرکت ہو گیا۔ بانس کے درختوں کو اکھاڑتا ہوا وہ بے تحاشا جنگل کے اندر بھاگا۔ پانچ منٹ تک اس کی چیخوں کی آوازیں آتی رہیں۔ میں نے اس کا تعاقب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دیہاتیوں کے اوسان خطا ہو چکے تھے اور وہ غریب تھر تھر کانپ رہے تھے، ان کے کپڑے پانی میں شرابور اور کیچڑ سے لَت پَت تھے، ان سب کو موٹر میں بٹھایا اور گاؤں کی طرف چل دیا۔
گرہنٹی پہنچ کر میں نے دیہاتیوں کو رانگا کے سپرد کیا اور خود بستر پر لیٹ کر میٹھی نیند سو گیا۔ آنکھ اس وقت کھلی جب رانگا ہاتھ میں چائے کی کیتلی لیے میرے سرہانے کھڑا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر کوئی ساڑھے چھ بجے کے قریب ہم دونوں پھر گولا موتی کی طرف چل کھڑے ہوئے۔ دِن کی روشنی میں کار نے یہ فاصلہ بہت جلد طے کر لیا۔ ندی کے دائیں کنارے پر جہاں تک نِگاہ جاتی تھی، خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔ گاڑھا سُرخ خون جو اب خشک ہو رہا تھا۔ اور جس رُخ ہاتھی فرار ہوا تھا وہاں تمام راستے پر جھاڑیوں میں جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے ویسے موجود تھے اور کہیں کہیں تو خون کا یوں چھڑکا ہوا تھا جیسے کِسی بکرے کو ذبح کیا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بھاگتے وقت وہ دم لینے کے لیے کئی جگہ رُکا تھا۔ کئی درختوں کے تنے بھی خون میں لت پت تھے۔
دو میل تک خُون کے ان دھبوں کو سُراغ لگانے کے بعد ہم نے ہاتھی کو تلاش کر لیا۔ وہ ایک درخت کے تنے کے ساتھ تِرچھا، گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا، وہ اس وقت تک زندہ تھا کیوں کہ ہماری آہٹ پا کر اس نے بمشکل اپنی گردن اٹھائی اور ہمیں دیکھا، مگر کوشِش کے باوجود اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکا۔ خون کی بہت بڑی مقدار خارج ہو جانے کے باعث وہ بے حد کمزور اور نحیف ہو چکا تھا جیسے برسوں کا بیمار ہو۔ میں اس کے قریب آ گیا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سُرخ تھیں اور ان میں بھی بے پناہ چمک باقی تھی۔ پھر میں نے آہستہ سے اپنی رائفل سیدھی کی۔ اس کی پیشانی کا نشانہ لیا۔ ہاتھی مجھے تکتا رہا شاید وہ جان گیا تھا کہ اب اس کا آخری وقت آ گیا ہے۔ اس کا پہاڑ جیسا جسم ایک بار تھر تھر کانپا۔ بڑے بڑے کان پھڑپھڑائے اور پوری ہمت جمع کر کے وہ دو قدم آگے بڑھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہو۔ اسی لمحے میری رائفل سے گولیاں نکلیں اور ہاتھی کا بھیجہ اڑاتی ہوئی نِکل گئیں، وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔
اگرچہ اس واقعے کو کئی برس گُزر گئے ہیں، مگر گرہنٹی کا یہ ہاتھی مُجھے آج بھی یاد ہے جس نے نہایت اِستقلال اور بہادری سے اپنی جان دے دی تھی۔
٭٭٭
مُوسی کا آدم خور مگرمچھ
(اصل مصنف: ٹان شچلنگ)
شکار کی اصطلاح میں ‘آدم خور’ اس شیر یا چیتے کو کہا جاتا ہے جو دوسرے جانوروں کو چھوڑ کر صرف آدمی کے گوشت پر گزارا کرتا ہے۔ یہ قیاس کرنا بھی صحیح نہیں کہ تمام شیر اور چیتے آدم خور ہوتے ہیں۔ فطری طور پر یہ درندے انسان سے خوف کھاتے ہیں اور اس وقت حملہ کرتے ہیں جب انہیں چھیڑا یا ستایا جائے، لیکن ایک مرتبہ آدمی کا خون مُنہ کو لگ جائے تو پھر زندگی کے آخری لمحے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بعض شیر بوڑھے ہو جانے پر آدم خور بن جاتے ہیں۔ کیونکہ چار پایہ جانوروں کو شکار کرنے کے لیے جس چُستی اور پھُرتی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان میں باقی نہیں رہتی، اس کے علاوہ دو پایہ جانور (انسان) کا شکار کرنے میں زیادہ جد و جہد نہیں کرنی پڑتی۔ پہلے پہل ایسے درندے بستیوں کے قریب رہنے لگتے ہیں۔ اور آوارہ گایوں، بھینسوں، بکریوں اور کتوں کو اپنا کھاجا بناتے ہیں۔ اس کے بعد انسانوں کی باری آتی ہے۔
لیکن شیروں اور چیتوں کے علاوہ دنیا میں اور بھی ایسے حیوان ہیں جن پر ‘آدم خوری’ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مگرمچھ کو لیجیے۔ اگرچہ آدم خور مگرمچھ کی دہشت اتنی زیادہ نہیں ہوتی، جتنی آدم خور کی ہوتی ہے تاہم وہ بیحد خطرناک ہوتا ہے اور کئی کئی سو افراد کو اپنا لقمۂ تر بنا لیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شیر مگرمچھ کی نسبت زیادہ وسیع علاقے پر حکومت کرتا ہے اور جہاں جی چاہے جا سکتا ہے، لیکن مگرمچھ اسی دریا یا ندی میں رہنے پر مجبور ہے، جہاں اس نے پہلے پہل انسانی شکار کیا ہو۔
اب میں ایک آدم خور مگرمچھ کی داستان آپ کو سناتا ہوں جس نے عرصہ دراز تک اپنی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے دہشت پھیلا رکھی تھی۔ یہ مگرمچھ دریائے موسی کے ایک زیریں حصّے میں رہتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق جب معلومات کیں تو پتہ چلا کہ وہ محض اتفاقیہ طور پر آدم خور بن گیا، ورنہ اس سے پہلے وہ بڑا امن پسند اور الگ تھلگ رہنے والا جانور تھا۔ قصّہ یہ ہوا کہ اس دریا میں کہیں سے ایک مادہ مگرمچھ بھی آ گئی۔ جس کے پیچھے پیچھے ایک اور نر مگرمچھ چلا آیا اور دریا میں اسی مقام پر اس نے رہائش اختیار کر لی جہاں پہلے سے یہ مگرمچھ رہتا تھا۔ ایک روز دونوں ‘رقیبوں‘ کا آمنا سامنا ہو گیا۔ نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ جس میں باہر آنے مگرمچھ ہلاک ہو گیا۔ میرے ملازم خاص ہاشم نے بتایا کہ دریائے موسی میں پہلے کئی مگرمچھ رہتے تھے، لیکن ہمارے اس خونخوار آدم خور مگرمچھ نے سب کو مار مار کر وہاں سے بھگا دیا۔ وہ در اصل دریا پر بلا شرکتِ غیر سے قابض رہنا چاہتا تھا اور ویسے بھی یہ مگرمچھ کی فطرت کی ہے کہ اپنی جنس کے جانور کو اپنے علاقے میں آتے نہیں دیکھ سکتا، خود کہیں اور چلا جاتا ہے یا اسے مار ڈالتا ہے۔ نر مگرمچھ تو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہیں البتہ مادہ مگرمچھ اتنی تند خو اور جھگڑالو نہیں ہوتی، چنانچہ کئی کئی مادہ مگرمچھ ایک ہی جگہ آسانی سے رہتی ہیں۔ اور جھگڑا اس وقت ہوتا ہے جب ان کے درمیان کوئی نر مگرمچھ آ جائے۔
جس مگرمچھ کا میں ذکر کر رہا ہوں، کوئی معمولی مگرمچھ نہ تھا۔۔۔۔۔ نہایت ہی قوی بے رحم اور شریر جانور تھا۔ اس کی پوری لمبائی سولہ فٹ سے بھی نکلتی ہوئی تھی۔ دریا کی پُر سکون اور خاموش لہروں کے ساتھ ساتھ اس طرح تیرتا کہ ہلکی سی آواز بھی پیدا نہ ہوتی تھی اور بے خبری میں اپنے شکار کو جبڑوں میں دبوچ کر تہہ میں اتر جاتا تھا۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشانات مجھے دکھائی نہیں دیے۔ اس کی خونخواری اور مزاج کی سختی سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کئی معرکے سر کر چکا ہے اور آسانی سے قابو میں آنے والا نہیں ہے۔
میں نے سب پہلے اس موذی کا ذکر ایک تانی (کسان) کی زبانی سنا جو اپنے مویشیوں کو ندی پر پانی پلا کر واپس آ رہا تھا۔ دریائے موسی کی ایک معاون ندی ہے جس کا نام اس وقت بھول رہا ہوں، وہاں ارد گرد کے دیہاتی کسان اپنی گایوں بھینسوں کو پانی پلانے لے جایا کرتے تھے۔ اس ندی میں کبھی کوئی مگرمچھ نہیں دیکھا گیا تھا، وجہ یہ تھی کہ یہاں مچھلیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ شروع شروع میں کسان یہ کیا کرتے تھے کہ مویشیوں کو ندی پر لے جانے سے پہلے پانی کو خوب غور سے دیکھ لیتے تھے کہ کہیں کوئی مگرمچھ چھپا ہوا تو نہیں ہے۔ مگر تھوڑے ہی عرصے میں ان کا خدشہ دور ہو گیا اور بے دھڑک مویشیوں کو وہاں لے جانے لگے۔ ایک روز کیا ہوا کہ ایک کسان اپنی خوبصورت اور موٹی تازی گائے کو پانی پلانے لایا۔ گائے بہت پیاسی تھی۔ دور ہی سے ندی کو دیکھ کر دوڑتی ہوتی آئی۔۔۔ اور پانی میں منہ ڈال دیا۔ کسان بھی پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ پانی میں ہلچل سی پیدا ہو گئی۔ لہریں اور بلبلے سے اٹھے اور پھر اس نے ایک بہت بڑا مگرمچھ دیکھا جو اپنا غار سا منہ کھولے گائے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کسان نے مگرمچھ کو دیکھتے ہی دہشت زدہ ہو کر چیخ ماری اور گائے کو پیچھے ہٹانے کے لیے دوڑا مگر بے سود۔ مگرمچھ نے چشم زدن میں گائے کی گردن دبوچ لی اور اسے پانی میں گھسیٹنے لگا۔ گائے بھی ہٹی کٹی تھی۔ وہ پیچھے ہٹنے کے لیے پورا زور لگا رہی تھی۔ کسان نے گائے کی دم پکڑ لی اور مدد کے لیے چلّانے لگا مگر وہاں کون اس کی مدد کو آتا۔ گائے اسی اثنا میں لہولہان ہو چکی تھی اور جونہی اس کی قوت کم ہوئی، مگرمچھ ایک ہی جھٹکے میں اسے اپنے ساتھ پانی میں لے گیا اور بد نصیب کسان روتا پیٹتا اپنے گھر چلا آیا۔
دوسرے روز جب کئی لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے ندی کے پاس ایک درخت کی جڑوں کے پاس اسی گائے کی ہڈیاں اور بچا کھچا گوشت دیکھا اس حادثے کے بعد کسانوں نے اپنے مویشیوں کو ندی پر لے جانا بند کر دیا اور بہ امرِ مجبوری جاتے بھی تھے تو پہلے شور غل مچا کر اور پانی میں لاٹھیاں مار مار کر مگرمچھ کو وہاں سے بھگا دیا کرتے تھے۔ شروع شروع میں مگرمچھ خوفزدہ ہو کر ندی میں کسی اور طرف نکل جاتا تھا لیکن بعد میں جب وہ بھوکا مرنے لگا تو اس نے اپنی فطری مکّاری سے کام لینا چاہا۔ اب وہ روز روز کے شور و غل اور ہنگاموں کا عادی ہو گیا تھا۔ آخر ایک روز اس نے پھر وار کیا۔ چرواہے حسبِ معمول اپنے مویشیوں کو پانی پلانے ندی پر لائے۔ پہلے تو انہوں نے ندی میں لاٹھیاں ڈال ڈال کر اور خوب غل مچا کر اپنی جانب سے مگرمچھ کو بھگا دیا۔ لیکن مگرمچھ ندی کی تہہ میں دم سادھے پڑا رہا۔ گائیں بھینسیں پانی پینے لگیں۔ مگرمچھ نہایت آہستہ آہستہ پانی کی تہہ سے ابھرا اور سطح پر آ گیا۔ اس نے اپنا جسم پانی کے اندر ہی رکھا، صرف آنکھیں باہر نکال لیں۔ ذرا فاصلے پر ایک گائے علیحدہ کھڑی پانی پی رہی تھی۔ چالاک مگرمچھ نیچے ہی نیچے تیرتا ہوا اس کی طرف گیا اور پھر بجلی کی سُرعت سے گائے کی گردن اپنے بھاری اور مضبوط جبڑے میں دبوچ کر اسے پانی میں لے گیا۔ دوسری گایوں نے اسے دیکھا تو دہشت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگیں اسی اثنا میں چرواہے بھی ہوشیار ہو گئے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ مگرمچھ ان کی پہنچ سے باہر تھا۔
سماٹرا کے ان کسانوں کو توہم پرستی نے گھیر رکھا تھا۔ یہ لوگ بھوت پریت اور بد روحوں پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ مگرمچھ نے جب دو تین وارداتیں کیں تو اس کے بارے میں خود ہی یہ فرض کر لیا گیا کہ کوئی شیطانی بلا ہے۔ یہ فرض کر کے ان لوگوں نے اپنے مویشی وہاں لے جانے بند کر دیے۔ انڈونیشیا کے لوگ فطری طور پر مگرمچھوں سے خائف رہتے ہیں البتہ بعض شکاری ایسے بھی ہیں جو مگرمچھوں کو زندہ پکڑنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کو مقامی زبان میں ‘باجڑ’ کہا جاتا ہے۔ لوگ مگرمچھ کو ‘بوجا’ کہتے ہیں۔ اس موقعے پر میں ایک عجیب و غریب اور نہایت پراسرار رسم کا ذکر کرتا ہوں جو میں نے انڈونیشیا کے سوا دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں دیکھی۔ یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب مگرمچھ آدم خور ہو جاتا ہے کئی جانوں کو اپنا نوالہ بنا چکا ہوتا ہے۔
ایک خاص دن مرد، عورتیں اور بچے سینکڑوں کی تعداد میں اس دریا پر جاتے ہیں جہاں آدم خور رہتا ہے۔ ایک ‘ہاجڑ’ کے پاس بانس کی تیلیوں اور کھپچیوں کی بنی ہوئی ٹوکری ہوتی ہے جس میں مرغیوں کے انڈے، چند خوشبودار پودے، سلگتا ہوا لوبان اور ایک سفید مرغا رکھ کر اسے دریا میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنی خاص زبان میں کوئی دعا پڑھتے ہیں۔ دعا میں خدا سے التجا کی جاتی ہے کہ اس شیطانی بلا کو دور کر دے جو انسانوں کو اپنا لقمہ بنا رہی ہے۔ دعا مانگنے کے چند روز بعد ایک مرتبہ پھر دریا کے کنارے سینکڑوں افراد کا مجمع لگتا ہے اور سب لوگ زور زور سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ یہ منظر نہایت ہی عجیب اور تاثر سے پُر ہوتا ہے اور پھر وہ آدم خور مگرمچھ آہستہ آہستہ دریا کی تہہ سے نکل کر کنارے کی طرف اس طرح آتا ہے جیسے کوئی نادیدہ قوت اسے پکڑ کر گھسیٹ لا رہی ہے۔ اس کے بعد جوش و خروش سے بھرا ہوا ہجوم مگرمچھ پر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے وہیں ہلاک کر دیتا ہے۔
اس قسم کے واقعات بہت سے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ تاہم یہ بتایا نہیں جا سکتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور وہ کونسا ‘جادو’ ہے جو ایک خونخوار اور مردم خور مگرمچھ کو اتنے آدمیوں کے سامنے بے بس کر دیتا ہے۔
اب میں اپنے قصے کی طرف لوٹتا ہوں۔ دریائے موسی میں رہنے والے مگرمچھ نے جن گایوں کو ہلاک کیا تھا، وہ خاصی قیمتی اور خوبصورت گائیں تھیں اور ان کے مالک بیچارے تھے بھی بڑے غریب۔ ان پر تو گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس زمانے میں ایک پوروپین شکاری اس علاقے میں آیا ہوا تھا۔ کسانوں نے اس سے مگرمچھ کو مار دینے کی درخواست کی۔ شکاری صاحب نے مگرمچھ کے شکار کا وہی پرانا حربہ استعمال کرنا چاہا۔ اس نے مگرمچھ کے رہنے کی جگہ تلاش کی، پھر اس کے قریب ہی پھندا لگا کر ایک مردہ بندر کو باندھ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مگرمچھ جب بندر کو ہڑپ کرنے آئے گا تو پھندے میں پھنس جائے گا۔ اور پھر وہ اسے آسانی کے ساتھ گولی کا نشانہ بنا سکیں گے۔ مگرمچھ اتنا عیّار نکلا کہ اس نے اِدھر کا رخ بھی نہ کیا۔ بلکہ دور ہی دور پھرتا رہا۔ بعض اوقات وہ دریا کے کنارے پانی پیتے ہوئے بندروں کو بھی جھپٹ کر دبوچ لیتا۔ آخر کار شکاری صاحب نے کئی روز کے انتظار کے بعد ایک زندہ بندر کو پھندے کے قریب باندھ دیا۔ اور دریا کے کنارے ذرا فاصلے پر جھاڑیوں کے اندر ایک آدمی کو نگرانی کے لیے بٹھا دیا کہ جونہی مگرمچھ پھندے میں پھنس جائے وہ فوراً شکاری صاحب کو اس کی خبر دے۔ دوپہر کے وقت اس شخص نے دیکھا کہ دریا میں ایک بہت بڑا مگرمچھ تیرتا ہوا آہستہ آہستہ کنارے کی طرف آ رہا ہے۔ اس کی نظریں اس بندر کی طرف گڑی ہوئی ہیں جو پھندے کے قریب بندھا ہوا دہشت سے چیخ رہا ہے۔ مگرمچھ پانی میں رینگتا ہوا بندر کی طرف بڑھا۔ اس کا جبڑا یوں کھلا ہوا تھا جیسے بندر کو نگل لینے کے لیے بے تاب ہے، مگر فوراً ہی وہ رُکا اور تیزی سے پانی میں گھس گیا۔ شاید اس نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر وہ ذرا دور اور آگے بڑھا تو جال میں پھنس جائے گا۔
لیکن رات کی تاریکی میں مگرمچھ بھوک سے بیتاب ہو کر پھر ادھر آیا اور بندر کو جبڑے میں دبا کر لے گیا، مگرمچھ اتنا قوی تھا کہ اس نے پھندے کو بھی توڑ دیا۔ بندر کی چیخیں سن کر نگرانی کرنے والے شخص دوڑا دوڑا گیا اور شکاری کو اطلاع دی۔ شکاری صاحب فوراً اپنی رائفل اور لالٹین کے ساتھ موقعۂ واردات پر آ دھمکے اور معائنہ کرنے سے احساس ہوا کہ مگرمچھ کو مارنا اتنا آسان کام نہیں۔ اب ان کے سامنے اس کے سِوا اور کوئی تدبیر نہ تھی کہ کشتی میں سوار ہو کر دریا کو چھان ماریں اور مگرمچھ جہاں بھی ملے اسے اپنی رائفل کا نشانہ بنا دیں۔ لیکن مگرمچھ تو شکاری صاحب سے بھی زیادہ باخبر اور چالاک ثابت ہوا۔ دو روز تک وہ اس کی تلاش میں دریا میں کئی کئی میل تک نکل گئے لیکن اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ شکاری بہت پریشان ہوا اور اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ مگرمچھ ضرور کوئی بد روح ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دریائے موسی میں اسے کئی اور مگرمچھ دکھائی دیے۔ مگر وہ سب کے سب چھوٹے تھے۔ اس لیے شکاری صاحب نے انہیں ہلاک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آخر وہ بیچارے مایوس ہو کر اور اس مگرمچھ کو ہلاک کرنے کی حسرت دل میں لیے کسی اور جانب چلے گئے۔
کہنے کو تو شکاری میں بھی ہوں، مگر نامعلوم مجھے کیوں ابتدا ہی سے ان مگرمچھوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں سوچتا تھا بھلا پانی کے اس جانور کا شکار کھیلنا کہاں کی بہادری ہے۔ میں تو شیروں، چیتوں، دریائی گھوڑوں، گینڈوں اور جنگلی بھینسوں کا عاشق ہوں اور انہی سے دو دو ہاتھ کرنے میں مزا آتا ہے۔ اس بناء پر میں نے اس مگرمچھ میں عادتاً کوئی دلچسپی نہیں لی۔
ایک روز شام کے وقت کمرے میں بیٹھا اپنی رائفل صاف کر رہا تھا کہ ہاشم نے عجیب خبر سنائی۔ قصّہ یہ تھا کہ دریائے موسی سے کئی میل دور ایک گاؤں کی عورت کو مگرمچھ نے ہڑپ کر لیا۔ بد نصیب عورت سرِ شام جنگل میں سے گزر کر نہ جانے کدھر جا رہی تھی، دریا قریب ہی تھا۔ اس نے سوچا ذرا منہ ہاتھ دھو لوں، لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ دریائے موسی کے کنارے مگرمچھ کی شکل میں موت اس کا انتظار کر رہی ہے۔ جونہی اس نے پیر پانی میں ڈالے، ظالم مگرمچھ جو پہلے ہی سے شکار کی تلاش میں بیٹھا تھا، فوراً بجلی کی مانند جھپٹا اور اسے پانی میں گھسیٹ لیا۔ رات گئے جب وہ عورت کے گھر نہ پہنچی تو گاؤں والوں کو تشویش ہوئی۔ اس کا خاوند دو تین آدمیوں کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے کنارے جنگل میں کافی دور تک اسے تلاش کرتا پھرا۔ ایک جگہ انہیں تنکوں کی ٹوکری ملی جس میں بہت سی جڑی بوٹیاں اور پھول بھرے ہوئے تھے۔ خاوند نے اپنی بیوی کی ٹوکری فوراً پہچان لی، کیونکہ وہ جڑی بوٹیاں چننے ہی جنگل میں گئی تھی۔ آخر یہ لوگ رو پیٹ کر گھر واپس چلے گئے۔ تین روز بعد اسی شخص کو دریائے موسی کے کنارے اس عورت کے بھیگے ہوئے کپڑوں کی دھجیاں پڑی ملیں۔ مگرمچھ کا یہ پہلا انسانی شکار تھا۔
جس گاؤں کی وہ عورت تھی، وہاں اس مگرمچھ کے خلاف غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑ گئی۔ یہ لوگ پیشہ کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔ پس انہوں نے دریا پر دھاوا بول دیا۔ بہت سے ماہی گیر نیزے اور کلہاڑیاں سنبھالے اپنی کشتیوں میں بیٹھے اور مگرمچھ کی تلاش میں پھرنے لگے۔ دریا کے کنارے پر دور دور تک انہوں نے جال لگائے۔ پانی میں بڑے بڑے کانٹے گوشت کے ٹکڑے لگا لگا کر پھینکے۔ مگر یہ ساری کوششیں بیکار گئیں۔ مگرمچھ ان کے قابو میں نہ آیا۔ اس نے کئی جال توڑ دیے اور کانٹے گھسیٹ گھسیٹ کر لے گیا۔ اس کی حرکتوں سے ظاہر ہو گیا تھا کہ بہت قوی اور نڈر ہو چکا ہے۔
دو ہفتے بعد اسی دریا پر مگرمچھ نے ایک بھینس کو ہلاک کر دیا۔ پھر گاؤں کے نمبردار کے پالتو کتے کو ہضم کر گیا۔ ماہی گیروں کے بجے دریا میں اکثر اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑا کرتے تھے۔ اگرچہ ان بچوں کو دریا پر جانے سے روک دیا گیا تھا لیکن پھر بھی بعض شریر بچے چھپ چھپا کر چلے جاتے تھے۔ ایک روز دو بچے گھر واپس نہ آئے تو گاؤں میں ایک بار پھر سراسیمگی پھیل گئی۔ لوگ ان کی تلاش میں نکلے، گاؤں سے کئی دور دریا میں ان لڑکوں کی کشتی تیرتی پائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں، بچوں اور اکیلے دکیلے آدمی نے دریا کے قریب سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔ لوگ پانی لینے یا مویشیوں کو پلانے جاتے تو گروہوں کی شکل میں مسلح ہو کر جاتے بعض لوگوں خیال تھا کہ جانوروں اور انسانوں کو ہلاک کرنے کا کام ایک مگرمچھ کا نہیں بلکہ کئی مگرمچھوں کا ہے۔ تاہم وہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔ عموماً رائے یہی تھی کہ ان ہلاکت خیز سرگرمیوں میں ایک ہی مگرمچھ مصروف ہے جسے وہ قاتل مگرمچھ کہتے تھے۔
مشرقی اور مغربی مون سون ہواؤں کے زمانے میں ہم نے اس مگرمچھ کے بارے میں کوئی خبر نہیں سنی کہ وہ کہاں ہے اور اس نے کس کس کو ہلاک کیا ہے۔ ہاشم مجھ پر بار بار زور دیتا تھا کہ اس مگرمچھ کو تلاش کرنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ مگرمچھ نے شاید ‘شادی’ رچا لی ہے اور وہ مادہ مگرمچھ کے ساتھ کسی اور طرف نکل گیا ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد جب لوگ مگرمچھ کو تقریباً فراموش کر چکے تھے۔ یکایک ایک ماہی گیر نے یہ لرزہ خیز بات سنائی کہ اس نے ایک بہت بڑے مگرمچھ کو دریا کے کنارے ریت پر آرام کرتے دیکھا ہے۔ ماہی گیر اپنی کشتی میں بیٹھا دریا میں مچھلیاں پکڑنے جا رہا تھا۔
ہاشم نے جب یہ خبر سنی تو وہ مگرمچھ کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہو گیا اور اس نے مجھے بھی ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا۔ آخر ہم نے ایک کشتی اور مشّاق ملاحوں کا انتظام کیا۔ اور مگرمچھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دریا میں کئی گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد ہم اس گاؤں کے قریب پہنچے جہاں ماہی گیر نے مگرمچھ کو کنارے پر آرام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہماری ملاقات یہاں اس ماہی گیر سے ہوئی اور اس نے مگرمچھ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا واقعہ نہایت تفصیلی انداز میں سنایا۔
‘ارے صاحب، اتنا بڑا مگرمچھ میں نے اپنی پوری عمر میں کبھی نہیں دیکھا۔ میں مزے مزے میں اپنی کشتی چلا رہا تھا۔ یکایک بائیں جانب جو دیکھتا ہوں تو کنارے کے بالکل قریب ہی ریت پر وہ لیٹا ہوا تھا۔ بالکل بے حس و حرکت۔ اسے دیکھتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں نے چپو تیزی سے چلانے شروع کیے اور پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تو وہ آہٹ پا کر فوراً ہی غڑاپ سے پانی میں گھُس گیا۔‘
دوسرے روز دوپہر کے وقت ہم نے اس مقام کا معائنہ کیا جہاں مچھیرے نے مگرمچھ کو دیکھا تھا۔ دریا کی کچھ گیلی اور کچھ خشک ریت پر مگرمچھ کے پنجوں اور دُم کے نشانات واضح تھے اور یہ نشانات کنارے کے قریب قریب دور تک گیلی زمین میں چلے گئے تھے۔ ان نشانات کا تعاقب کرنے میں ہمیں بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے تھے زمین اسی قدر نرم اور دلدلی ہوتی جاتی تھی حتیٰ کہ ہمارے ٹخنوں ٹخنوں تک دلدل آتی تھی جمی ہوئی کائی اور سڑے ہوئے پودوں اور گھاس کی بدبو نے ہمارا دماغ اڑا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن مگرمچھ کا ٹھکانہ ڈھونڈنے کی جستجو آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ہاشم رائفل تھامے آگے چل رہا تھا۔ ہم اب اپنے ملّاحوں اور کشتی کو ایک میل پیچھے چھوڑ آئے تھے یکایک ہاشم رکا اور منہ اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر وہ مڑا اور مجھ سے کہنے لگا۔
‘مالک کیا آپ کو سڑے ہوئے گوشت کی بدبو نہیں آ رہی؟’
اب میں نے منہ اٹھا کر ناک سے زور کا سانس کھینچا۔ بلا شبہ سڑے ہوئے گوشت کی ناگوار بدبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مگرمچھ کا ٹھکانہ قریب ہی موجود ہے، کیونکہ وہ سڑا ہوا گوشت چھپا کر کسی گڑھے میں رکھتا ہے اور کئی کئی روز تک کھاتا رہتا ہے اب ہم اور احتیاط سے آگے بڑھنے لگے۔ سورج عین ہمارے سر پر چمک رہا تھا اور ہمیں اطمینان تھا کہ مگرمچھ اس وقت اپنے گھر میں آرام کر رہا ہو گا۔ گھر سے باہر وہ عموماً سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت نکلتا ہے اور اسی وقت شکار مارتا ہے۔ باقی وقت وہ ریت پر لیٹ کر قیلولہ کرنے میں گزار دیتا ہے۔ ویسے بھی دوپہر کے وقت مگرمچھ قویٰ مضمحل ہوتے ہیں اور وہ زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
نہایت گہری دلدل اور کیچڑ میں سے گذرتے ہوئے، جہاں قدم قدم پر خود رو پودے اور جمی ہوئی گھاس ہمارا راستہ روکتی تھی، ہم نے آخرکار مگرمچھ کا گھر تلاش کر ہی لیا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور تیس فٹ لمبا ایک نشیبی گڑھا تھا جس میں خشک پودے جھاڑیاں، گھاس پھونس، کیچڑ اور مرے ہوئے جانوروں اور پرندوں کی ہڈیاں اور سڑا ہوا گوشت جمع تھا اور ایک ناقابلِ برداشت بدبو اس میں سے اٹھ رہی تھی جس نے ارد گرد کی ساری فضا کو مسموم اور متعفّن بنا دیا تھا۔
ہم نے اپنی رائفلیں تان لیں، رو مال کس کر ناک پر باندھے اور آگے بڑھے۔
اس گڑھے سے دریا کا کنارا آدھ فرلانگ کے فاصلے پر تھا جہاں بے شمار آبی پرندے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ ہم نے گڑھے کا جائزہ لیا تو اس گندگی کے انبار میں مگرمچھ نظر نہیں آیا۔ البتہ ہاشم نے ایک دلچسپ بات ضرور دریافت کی اور وہ یہ کہ وہاں مادہ مگرمچھ نے انڈے دے رکھے تھے اور ان انڈوں کے قریب ہی سڑی ہوئی مچھلیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ ان انڈوں سے چند ہی روز میں بچے نکلنے والے تھے۔ کیونکہ مادہ مگرمچھ بچے نکلنے سے پہلے ان کی خوراک کا انتظام کر لیتی ہے۔ پیدائش کے وقت یہ بچے سولہ سولہ انچ لمبے ہوتے ہیں اور ان کی غذا یہی سڑی ہوئی مچھلیاں ہوتی ہیں۔
‘سمجھ میں نہیں آتا مادہ مگرمچھ کہاں چلی گئی؟’ ہاشم نے یوں پریشان ہو کر کہا جیسے مادہ مگرمچھ سے اس کی کوئی رشتہ داری تھی۔ اس کی اس بے چینی پر میں ہنس پڑا اور کہا، ‘آؤ اب واپس چلیں۔ کل صبح ہی آئیں گے۔ مگرمچھ کا ٹھکانہ تو ہم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ اب وہ بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔‘
جب ہم دریا کے قریب پہنچے تو کشتی کنارے پر موجود تھی لیکن دونوں ملّاح غائب تھے ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا، آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔ ہاشم کے چہرے پر غصے اور پریشانی کی گہری علامات نمودار ہوئیں وہ اپنی زبان میں بڑبڑایا جس کا ترجمہ یہ تھا:
‘نامعلوم یہ گدھے کے بچے کہاں چلے گئے۔ آئیے مالک، اب ہم خود ہی کشتی چلائیں گے۔ انہیں جہنم۔۔۔‘ فقرہ ابھی اس کے منہ ہی میں تھا کہ یکایک وہ دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹا اور میرے اوپر آن پڑا اور حلق پھاڑ کر چلّایا۔
‘آواس۔۔۔۔۔ تو آن۔۔۔۔۔ آواس تو آن۔۔۔‘ اس جملے کا مطلب یہ تھا:
‘سامنے دیکھیے جناب۔۔۔ سامنے دیکھیے۔۔۔‘
میں نے گھبرا کر دائیں بائیں اور سامنے دیکھا، مگر کچھ بھی نظر نہ آیا۔ ہاشم کی گھِگھی بندھی ہوئی تھی اور وہ میری پشت پر کھڑا مسلسل چیخ رہا تھا ‘آواس۔۔۔ تو آن۔۔۔ آواس توآن۔‘ ظالم نے اس قدر بد حواسی کا مظاہرہ کیا کہ میرے بھی ہاتھ پیر پھول گئے۔۔۔ میں نے جھلّا کر دو ہتڑ اس کے سر پر مارا اور کہا۔
‘کیا بکتا ہے کم بخت، صحیح صحیح بتا۔‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بتائے، میں سمجھ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ بائیں ہاتھ پر اُگی ہوئی لمبی لمبی گھاس میں سے نکل کر ایک بڑا مگرمچھ تیزی سے رینگتا ہوا کنارے کی طرف جا رہا تھا۔ شاید وہ ہم سے خوفزدہ تھا اور غالباً اسے دیکھ کر ہی وہ دونوں ملاح فرار ہوئے تھے۔
‘مالک گولی چلائیے۔ یہ مادہ مگرمچھ ہے۔‘ ہاشم چیخا۔
مادہ مگرمچھ اپنے چاروں پنجوں کے بل چل رہی تھی اور اس کا بڑا سا سنہری پیٹ زمین سے ایک ڈیڑھ فٹ اوپر اٹھا ہوا تھا۔ پھر اپنا جبڑا کھول کر اس نے زور سے ایک چیخ ماری جسے سن کر دریا کے کنارے اونگھتے ہوئے آبی پرندے اڑنے لگے اور جنگل میں بندروں کے چلّانے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے اس کے گلے کا نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ نشانہ صحیح جگہ لگا۔۔۔ مادہ مگرمچھ نے فضا میں جست کی اور گر پڑی، اس کی دم تیزی سے گردش کر رہی تھی، جس کے باعث کیچڑ، ریت، گھاس پھونس اور خشک شاخیں ہوا میں اڑنے لگیں۔ میں نے دو فائر اور کیے اور مادہ مگرمچھ تین چار قلابازیاں کھانے کے بعد وہیں ٹھنڈی ہو گئی۔ اس کا رُخ ہماری طرف تھا اور ویران آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں ہماری جان میں جان آئی۔ ہم دونوں کیچڑ میں لت پت ہو چکے تھے۔ رومالوں سے ہم نے اپنے چہرے صاف کیے اور لاش کو قریب سے دیکھنے لگے۔
میری پہلی گولی حلق کی بجائے پیشانی میں لگی۔ دوسری گولی حلق میں پیوست تھی اور تیسری ریڑھ کی ہڈی کو توڑتی ہوئی نکل گئی تھی اور ہاشم کو اس بات افسوس تھا کہ اتنی قیمتی کھال خواہ مخواہ خراب ہو گئی۔ اب اس کی قیمت بہت کم وصول ہو گی۔
گاؤں پہنچ کر ہاشم نے ایک شخص کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ روزانہ مگرمچھ کے ٹھکانے کا معائنہ کیا کرے اور جونہی انڈوں میں سے بچے نکلیں، فوراً خبر دے۔ وہ دل ہی دل میں حساب لگا چکا تھا کہ مگرمچھ کے بچوں کی کھالوں سے اتنا روپیہ مل جائے گا۔ مگرمچھ کے بچوں کی کھالیں بھاری قیمت پر یورپین ملکوں میں بکتی ہیں۔ ان کی خرید و فروخت کا کاروبار زیادہ تر چینیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ شکاریوں سے مگرمچھ کے نوزائیدہ بچے خرید کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں کے اندر بنے ہوئے تالابوں میں پالتے ہیں۔ جب یہ بچے ایک ایک گز لمبے ہو جاتے ہیں تو انہیں ہلاک کر کے نہایت احتیاط سے کھالیں اتار لی جاتی ہیں۔
دو روز بعد ہمیں یہ خبر ملی کہ اسی گاؤں کی ایک بکری کو آدم خور مگرمچھ نے ہلاک کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مگرمچھ اپنے علاقے میں واپس آ گیا ہے۔ اسی روز ہم کیل کانٹے سے لیس ہو کر اس کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہوئے لیکن وہاں مگرمچھ نہ تھا اور نہ ہمیں اس بکری کی ہڈیاں بوٹیاں ملیں۔ البتہ مگرمچھ کے پنجوں کے بڑے بڑے تازہ نشانات ضرور دیکھے گئے۔ مگرمچھ کی فطرت یہ ہے کہ وہ شکار کو پکڑ فوراً پانی کی تہہ میں لے جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پانی کی سطح پر ابھرتا ہے اور پھر نیچے لے جاتا ہے یہاں تک کہ شکار کی روح نکل جاتی ہے، چھوٹے موٹے جانوروں کو تو فوراً ہی نِگل جاتا ہے لیکن بڑے جانوروں مثلاً گایوں، بھینسوں یا بارہ سنگھے کے معاملے میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ان کو ہلاک کرنے کے بعد وہ لاش کسی گڑھے یا گھاس پھونس میں چھپا دیتا ہے اور جب گوشت خوب سڑ جاتا ہے، تب وہاں سے گھسیٹ کر کنارے پر لاتا ہے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے۔ جتنا گوشت کھانا ہو کھا کر بقیہ ٹکڑے وہیں لے جا کر چھپا دیتا ہے۔ بعض اوقات وہ بڑے جانور یا آدمی کی لاش کو ٹکڑے کرنے کے لیے مضبوط درختوں کے تنوں سے ٹکراتا ہے تاکہ ہڈیاں چٹخ جائیں، چنانچہ میرا خیال یہی تھا کہ اگر وہ بکری کو لے گیا ہے تو اس نے ضرور اس کی لاش کسی نہ کسی جگہ ٹکرائی ہو گی۔ مگر مجھے ایسا کوئی سراغ نہیں مِلا۔
اس کے بعد ہم کئی مرتبہ کتّوں کو لے کر بھی مگرمچھ کی تلاش میں نکلے۔ البتّہ اس کے دھوکے میں کئی دوسرے بڑے مگرمچھوں کو ہم نے رائفلوں کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح کئی ہفتے گزر گئے۔ آخر ایک روز ہم نے خبر سنی کہ آدم خور مگرمچھ نے ایک ماہی گیر پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ ماہی گیر دریا کے نزدیک اپنی کشتی کسی درخت سے باندھ کر گاؤں گیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب وہ واپس آ کر کشتی کھول رہا تھا تو پیچھے سے مگرمچھ آیا اور ماہی گیر کی ٹانگ اپنے جبڑے میں دبا کر گھسیٹتا ہوا پانی میں لے گیا۔ ماہی گیر بہت نڈر اور بہادر آدمی تھا اور اپنی زندگی میں کئی مگرمچھوں سے جنگ کر چکا تھا۔ اس نے کوشش کر کے مگرمچھ کے منہ سے اپنی ٹانگ چھڑائی اور پانی کی سطح پر آیا۔ لیکن مگرمچھ نے اسے پھر پکڑ لیا۔ اسی دوران میں ماہی گیر نے اپنی کمر سے بندھا ہوا لمبا چاقو نکال لیا اور مگرمچھ پر تابڑ توڑ کئی وار کیے۔ ایک گہرا زخم مگرمچھ کے سر پر آیا۔ مگرمچھ نے زخموں سے بے تاب ہو کر فوراً ماہی گیر کو چھوڑ دیا اور خود خون کی تللیاں چھوڑتا ہوا پانی کے اندر چلا گیا۔ ماہی گیر بھی اگرچہ سخت زخمی ہو چکا تھا، مگر اس کے اوسان بحال تھے اور اپنی پوری قوت سے صرف کر کے وہ کنارے تک پہنچ گیا۔ دوسرے روز صبح کے وقت وہ اسی طرح گھسٹتا ہوا بالکل جاں کنی کی سی کیفیت میں گاؤں کے اندر آیا۔ اس کی ایک ٹانگ اور ایک بازو مگرمچھ نے چبا ڈالا تھا۔ میں نے خود ماہی گیر کے گھر جا کر اس کی حالت دیکھی اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو چکا تھا اور وہ بے ہوش پڑا تھا۔ اس کی بیوی غم و اندوہ سے نڈھال ایک طرف بیٹھی تھی اور غالباً یہ میری شکاری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کسی مگرمچھ کے خلاف صحیح معنوں میں نفرت اور غصے کے جذبات میرے دل میں پیدا ہوئے۔ میں نے ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست اپنے چیف آفیسر کے پاس بھیج دی اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہاشم کی معیّت میں آدم خور مگرمچھ سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے نِکل کھڑا ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درخواست بھیجنے کے نو دن بعد میری چھٹی منظور ہونے کے احکامات آئے لیکن میں اس وقت مگرمچھ کو جہنم رسید کر بھی چکا تھا۔
پہلے ہی روز علی الصبح ہم مگرمچھ کی تلاش میں نکلے اور دریا کا اچھی طرح معائنہ کیا اور جان پر کھیل کر ان تمام خطرناک جگہوں اور گڑھوں میں بھی اترے جہاں مگرمچھ کے چھپ جانے کا امکان تھا۔ مگر خدا جانے وہ ظالم کہاں پوشیدہ ہو جاتا تھا۔ سارا دن ہم دیوانہ وار اسے ڈھونڈتے رہے اور جب سورج کی کرنیں درختوں کی چوٹیوں کو چوم چوم کر رخصت ہونے لگیں تو ہم تھکے ماندے گھروں کو لوٹے۔
دوسرے روز پھر اسی دھن میں نکلے اور دوپہر تک پھرتے رہے۔ دوپہر کے وقت اس علاقے میں سورج کی حِدّت و تپش ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پس ہم ایک گھنے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر دریا بہہ رہا تھا اور اس کا پانی دھوپ میں چاندی کی ایک چمکدار لکیر کی مانند نظر آ رہا تھا۔ ابھی ہمیں بیٹھے یہاں آدھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ یکایک ہم نے دریا میں ایک ماہی گیر کشتی دیکھی جو تیزی سے کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہم حیرت سے اس کشتی کو دیکھ رہے تھے۔ اس میں صرف ایک شخص سوار تھا۔ جلدی جلدی کشتی کنارے پر لا کر وہ اس میں سے کودا اور گاؤں کی طرف بے تحاشہ بھاگنے لگا۔ ہاشم مجھ سے کہنے لگا۔
‘سرکار اس کا یوں بھاگنا خلافِ معمول ہے۔ اس نے ضرور مگرمچھ کو کہیں دیکھا ہے۔‘
یہ بات میرے دل کو لگی۔۔۔ اور ہم نے پکار کر اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ جب وہ ہمارے پاس آیا تو اس کا سانس پھُولا ہوا تھا۔ چہرہ تپے ہوئے تانبے کی مانند سرخ اور پیٹ دھونکنی کی طرح حرکت کر رہا تھا۔ جب اس کے حواس ذرا درست ہوئے تو اس نے بتایا کہ دریا کے عین درمیان میں یہاں سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر خشکی کے ایک بہت چھوٹے قطعے پر ایک بہت بڑا مگرمچھ لیٹا ہوا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑا سا زخم بھی ہے جس میں سے خون رس رہا ہے۔ اس کا منہ پانی کے اندر ہے اور دھڑ ریت پر اور وہ جبڑا کھولے زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ ہمارے لیے یہ اطلاع نہ صرف عجیب بلکہ حیران کن بھی تھی۔ اب وقت ضائع کرنا فضول تھا۔۔۔ ہم دونوں دریا کی طرف چلے لیکن مشکل یہ درپیش تھی کہ مگرمچھ کو مارا کس طرح جائے۔ کشتی لے جانا حماقت تھی کیونکہ کشتی کی آہٹ پاتے ہی وہ دریا میں اتر کر غائب ہو جاتا اور کنارے پر کھڑے ہو کر دو سو گز کے فاصلے پر صحیح نشانہ لینا بھی دشوار کام تھا۔ ماہی گیر ہمیں اپنے ساتھ کنارے پر لے گیا اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ مگرمچھ اس جگہ موجود ہے۔ بلا شبہ دریا کے اندر بہت دور فاصلے پر خشکی کے ایک چھوٹے سے قطعے پر دھبّہ سا نظر آ رہا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کشتی چلا کر ذرا اور آگے لے جائی جائے۔ خوش قسمتی سے دریا کا بہاؤ بھی اسی جانب تھا ہماری کشتی خود بخود اسی رُخ پر آہستہ آہستہ بہنے لگی۔ خشکی کا قطعہ لمحہ بہ لمحہ ہمارے نزدیک آ رہا تھا۔ آخر ہم اس قدر نزدیک پہنچ گئے کہ قوی الجثّہ مگرمچھ ہمیں صاف دکھائی دینے لگا۔ وہ قطعی بے حِس و حرکت اپنا منہ پانی میں ڈالے پڑا تھا، مگرمچھ اب ہم سے صرف پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر تھا۔ کنارے پر اتر کر میں نے اپنی رائفل سے اس کا نشانہ لیا۔ یکایک مگرمچھ کے جسم میں حرکت ہوئی۔ اس نے اپنا جبڑا پانی نکالا۔ ہم فوراً کنارے پر لیٹ گئے اور جھاڑیوں میں اپنا جسم چھپا لیا ایک لمحے کے لیے مگرمچھ نے اپنا منہ اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا، اسے شاید خطرے کا احساس ہو چکا تھا اور ادھر ہمارے دِل دھڑک رہے تھے کہ اگر اس مرتبہ بھی یہ بچ کر نکل گیا تو نامعلوم کتنے دِن اور اسے تلاش کرنے میں لگیں گے۔ وہ نازک ترین لمحہ مجھے ساری عمر یاد رہے گا۔ جونہی مگرمچھ نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور اس کا حلق دکھائی دینے لگا، میں نے لبلبی دبا دی۔ فائر کی آواز سے فضا تھرّا اٹھی اور مگرمچھ سر کے بل گرا، مگر فوراً ہی وہ لوٹ پوٹ کر سیدھا ہوا اور غڑاپ سے پانی میں کود گیا۔
‘وہ مارا۔‘ ہاشم چلایا۔ ‘آئیے مالک۔ اب ہم اسے پالیں گے۔‘ یہ کہتے ہی وہ کشتی کی طرف دوڑا۔ پسینے سے میرا جسم تربتر ہو چکا تھا اور سورج کی عمودی کرنیں میرے روئیں روئیں میں آگ لگا رہی تھیں، لیکن مگرمچھ کو ہلاک کرنے کے جنون میں مَیں سب کچھ فراموش کر چکا تھا۔ ہم دونوں کشتی میں سوار ہو کر اس کی طرف لپکے۔ اور پانچ منٹ میں خشکی کے اس قطعے پر پہنچ گئے۔ مگرمچھ کے کے جسم سے نکلا ہوا تازہ خون پھیلا ہوا دکھائی دیا اور دریا میں اس جگہ پانی بھی سرخ ہو چکا تھا جہاں زخمی تھا اور اب میری رائفل کی گولی کا نشانہ بننے کے بعد یقیناً وہ زیادہ دیر تک پانی میں چھپے رہنے کے قابل نہ تھا، اسے سانس لینے کے لیے لازماً باہر آنا پڑے گا۔ پانی کے بلبلے اور ہلکے گلابی رنگ کی ایک لکیر اس کے فرار ہونے کی صاف نشاندہی کرتی تھی۔ رائفل میرے ہاتھ میں تیار تھی، لیکن آفرین ہے اس موذی پر، ڈیڑھ فرلانگ تک وہ دریا کے اندر ہی اندر تیرتا رہا۔ ہم بھی ملک الموت کی طرح اس کے تعاقب میں تھے۔ آخر مجبور ہو کر وہ سطحِ آب پر آیا۔ جونہی اس کا جبڑا پانی کے اوپر اُبھرا، میری رائفل سے شعلہ نِکلا وہ پھر پانی کے اندر چلا گیا۔ دوسری گولی بھی یقیناً اپنا کام کر گئی تھی کیونکہ چند منٹ بعد ہماری کشتی اس جگہ سے گزری۔
٭٭٭
پیشکش اور ٹائپنگ: انیس الرحمٰن
ماخذ: اردو محفل،
http: //shikariyat.blogspot.com/
https: //cafeadab.com/author/maqbooljahangir/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں