FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

آلاپ

               مشتاق عاجز

 

 

انتسابِ اوّل

آسُودگانِ خاک

اشفاق امین، محمد انیس اور عبدالرشید کے نام

جو ابھی تک

خاموش لمحوں میں مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں

تنہا شاموں میں میرے ہم جلیس رہتے ہیں

 اور

تاریک راتوں میں میٹھی یادوں کے دیپ جلائے رکھتے ہیں

==============

تیز رفتاری سے میرے پاؤں چھلنی ہو گئے

ہو سکے تو اے مری عمرِ رواں ! آہستہ چل

==================

 

انتسابِ ثانی

دیارِ غیر میں مقیم ہمدمِ دیرینہ

احسان الٰہی کے نام

جو آنکھ سے اوجھل مگر دل کے آئینے میں ہے

 اور

واپسی کے سفر میں ڈھلواں راستوں پر ہم قدم

نسیم احمد کے نام

جو میری عمرِ گزشتہ کی گُم گشتہ بہاروں کا آخری معتبر حوالہ ہے

=========================

اوڑھ رکھی تھی اُداسی کی رِدا ماحول نے

کر رہا تھا ایک مغنی راگ بھیروں کا الاپ

=====================

 

عرضِ ناتمام

غزل دلِ گداختہ کی نوا ہے ۔ اس کے مزاج میں سوزو ساز کی نرمی اور گرمی رچی بسی ہے ۔ بلند آہنگی اور نالۂ شور انگیز سے اس کا فسوں ٹوٹ جاتا ہے ؛ اس کا حسن بکھر جاتا ہے ۔ جلوت اس کے مزاج کو راس نہیں ۔ یہ خلوت میں اپنا پورا اظہار کرتی ہے ۔ اس میں جلالت و شوکت نہیں بل کہ متانت و وقار ہے ۔ المیہ موضوعات ہی کو نہیں بل کہ نشاطیہ رنگ کے حامل مضامین کو بھی یہ اپنے سوزِ دروں سے پگھلا دیتی ہے ۔ ّحدت اس کے مزاج کا خاصہ ہے ۔ گداز اس کے وجود کی شناخت ہے ۔ نرمی اس کے بدن کا گہنا ہے اور کو ملتا اس کی روح کی پکار۔ ۔ ۔ !

مشتاق عاجز غزل کے مزاج داں ہیں اُنھوں نے ‘‘ الاپ‘‘ کی صورت میں جو سرمایہ تخلیق کیا ہے اس میں غزل کی حقیقی رُوح کارفرما ہے ۔ اُن کا کلام سوز و ساز کی اُس کیفیت سے لبریز ہے جو غزل کی اساسی صفت ہے ۔ اُن کے اشعار چونکاتے نہیں ۔ ۔ ۔ حیران نہیں کرتے ۔ تموّج پیدا نہیں کرتے بل کہ چُپ چاپ دل میں اُتر جاتے ہیں ۔ دل کی دھڑکنوں کے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔ خون میں سرایت کر جاتے ہیں ۔ پورے وجود میں وجدانی کیف کی ایک پُر اسرار فضا خلق ہو جاتی ہے ۔ تغزل کی مہکار سے سانسیں معطر ہو جاتی ہیں ۔

مشتاق عاجز موسیقی کے اسرار و رموز سے آشنا ہیں ۔ اس وصف نے اُن کی غزل میں ایک عجیب نوع کی موسیقیت پیدا کی ہے جو غزل کے مزاجِ خاص سے پوری مطابقت رکھتی ہے ۔ یہ موسیقیتِ تیور سُروں کے جلال اور گونج کی آئینہ دار نہیں بل کہ کومل سُروں اور مدھُر اور نشیلی مدھم لے کی عکاس ہے ۔ موسیقی کا یہ رچاؤ کسک اور سوز کی صورت میں مصرع بہ مصرع سفر کرتا ہے اور پوری غزل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ مشتاق صاحب کے مصرعے نیم قوسی زاویہ بناتے ہوئے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں ۔ مصرعوں کی اس سپردگی کے باعث پوری غزل ایک ہی کیفیت کا اظہاریہ بن جاتی ہے ۔ الاپ میں شامل کم و بیش تمام غزلیات میں یک کیفیتی کی فضا موجود ہے ۔ مصرعوں کے درو بست، الفاظ اور تراکیب کے چناؤ، اوزان و بحور کے انتخاب اور دیگر تکنیکی عناصر کے استعمال میں سوز و گداز کا یہی رنگ موجود ہے ۔

’’ الاپ‘‘ کی غزلیں یک موضوعی نہیں بل کہ ان میں عہدِ جدید کے انسانوں کے اعمال و افعال اور حالات و واقعات کے تمام رنگ نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ ان غزلوں میں خوابوں ، خیالوں ، آرزوؤں ، آدرشوں ، جذبوں اور تمنّاؤں کی دُنیا اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ عکس فگن ہے ۔ یوں موضوعات کا صرف خارجی رُخ ہی ظاہر نہیں ہوتا بل کہ اس کے باطنی زاویے بھی ستا رہ وار چمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔

‘‘ الاپ‘‘ کی غزلیں دل پذیری اور رعنائی کے اس وصف سے معمور ہیں جو دامنِ قلب و نگاہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنا اسیر کر لیتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شعری مجموعہ بازارِ سخن کی قدر و وقعت اور زیب و زینت کو چہار چند کر دے گا۔

ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد

۲۔ اگست ۲۰۰۸ء

 

’’ہے کوئی اس سا دوسرا تنہا‘‘

ہر انسان اپنی ذات میں ایک شہر بے مثال ہوتا ہے ۔ جس کی اپنی تاریخ ہوتی ہے ، جغرافیہ ہوتا ہے ، ثقافت ہوتی ہے ، اپنے موسم ہوتے ہیں ، اقدار و روایات اور تہذیبی تسلسل ہوتا ہے ۔ لیکن اس کی شناخت کا ایک حوالہ اس کی عمارتوں کا طرزِ تعمیر، سڑکیں ، باغات، چوک، گلیاں اور چوبارے بھی ہوتے ہیں ۔ اور وہ پرندے بھی جن کی چہچہاہٹ سے شہر کی فضاؤں میں نغمگی گونج اٹھتی ہے ۔

جی ہاں ہر انسان کے اندر یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں ۔ جن سے اس کی شخصیت کے خدوخال کا تعین بھی ہوتا ہے اور کیفیات کے بدلتے رہنے سے زندگی کا تحرک بھی مجسم ہوتا ہے ۔

مشتاق عاجز کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی تاریخی اور قدیم شہر کی خنک لیکن پر اسرار فضاؤں میں سانس لے رہے ہوں ۔ ایک ایسا شہر جو اپنے خدوخال کی ویرانی پر نوحہ کناں ہو۔ جہاں جذبات کی رعنائیاں جذباتیت کی گرد میں چھپ رہی ہوں ۔ جہاں اقدار کی خوبصورتی، رویوں کی بد صورتی میں ڈھل رہی ہو اور جہاں موسموں کا بانکپن بے کیفی کے عذاب سے دو چار ہو۔

لمحہ موجود میں عصری آشوب کا آسیب جس طرح ہماری دہلیز پر دستک دیتے دیتے ہماری روح تک میں اُتر چکا ہے اور ہم یاس و نا اُمیدی کے جس حصار میں سانس کی گھٹن کا شکار ہیں وہ سب المیے مشتاق عاجز کی شخصیت کا جزو بن گئے ہیں ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انتہائی ذاتی اور کائناتی دکھوں سے نبرد آزما اس شاعر کے اسلوب اور لہجے میں کسی جذباتی سطحیت کا ابال نہیں بغاوت کا نعرہ نہیں بلکہ ایک انتہائی شائستہ اور اندر سے مہذب انسان کا وہ شعوری رویہ ہے جس میں بالغ نظری خود کو میزان میں تولتی ہے ، برتتی ہے اور لفظوں کے پیکر میں اظہار کی اشکال متعین کرتی ہے ۔

عاجز کی شاعری کا بنیادی منطقہ، ذات اور بیرونِ ذات، جن موضوعات سے جنم لیتا ہے ان میں انفرادی و اجتماعی سطح پر منافقانہ رویے عظمت و وقار انسانیت کی طلب، مٹی کی محبت، اقدار کا زوال اور عصرِ حاضر کے ایسے دکھ شامل ہیں جو آج کے انسان کا المیہ ہیں ۔

سیاست و سیاست بازی اور اہلِ اقتدار کی بے حسی کا نوحہ مشتاق عاجز کے دل کو چیرتا ہے اور اہلِ وطن کی بے چہرگی و بے چارگی اسے اندر سے اداس کر دیتی ہے ۔ یہیں کہیں پہ اسے اپنی بے بسی اور بے چارگی کا احساس بھی ستاتا ہے ۔ لیکن وہ نا امید ہو کر سپر نہیں ڈالتا۔ یہ حوصلہ مندی اس کے اسلوب اور موضوعات دونوں میں جھلکتی ہے ۔

یہ حوصلہ مندی تو اس کے ان اشعار میں بھی جھلکتی ہے جو اس نے اپنے جواں مرگ بیٹے کی یاد میں لکھے اور جو پڑھنے والے کو اندر سے آبدیدہ کر دیتے ہیں ۔ اس کے ظرف کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ اس نے تو اس نادم و شرم سار دریا کو بھی معاف کر دیا جس نے اس کے جواں سال بیٹے کو نگل لیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تہذیبی رکھ رکھاؤ یہ شائستگی اور لب و لہجے کی یہ تمکنت کیا محض رویے ہیں ؟روایات ہیں ؟جی نہیں !اس کے پیچھے اقدار و روایات کا نسل در نسل وہ ورثہ موجود ہے جو نفسیات کے پیرائے میں شخصیت کی تشکیل و تکمیل کرتا ہے ۔ اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس سے مشتاق عاجز سے ہی نہیں ہمیں اس کے دکھوں اور غموں سے بھی پیار ہو جاتا ہے ۔

مشتاق عاجز کی شخصیت کے نفسیاتی تجزئیے سے اس کے اندر کی تنہائی آشکار ہوتی ہے ۔ سو وہ مکالمے کا طلب گار نظر آتا ہے ۔ اس کا مخاطب محض زمانہ ہی نہیں اس کے نہاں خانوں میں سانس لیتا اس کا ہمزاد بھی ہے ۔ اور یہ بات بڑی اہم ہے کہ اس نے مکالمے کے اظہار میں خطابیہ انداز کو اپنایا۔ اردو شاعری میں میرؔ کا خطابیہ انداز بھی اسی ذاتی تنہائی کے سبب ذہنی سہارے کا امکان پیدا کرتا ہے ۔ اور یہی چیز مشتاق عاجز کو بھی زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں نے اسے ٹوٹ پھوٹ سے بچایا اور اس نے جواب میں لفظوں کو اعتبار و وقار اور حرمت سے آشنا کیا۔

اس کی شاعری سطحی موضوعات یا اسالیب سے مرتب نہیں ہوتی سو اس کی شاعری کو ذہنی و روحانی سطح پر سمجھنے کے لئے بھی بہ ہر صورت ایک ادبی ریاضت کی ضرورت موجود رہتی ہے ۔

پیرایۂ اظہار میں مشتاق عاجز کا ایک اور کمال اس کی امیجری ہے ، وہ اپنے کئی اشعار میں لفظوں سے ایک دھندلی سی فضا تشکیل دیتا ہے جو کبھی فطری تو کہیں جمالیاتی محسوسات سے ایسی تصویریں بناتی ہے جن کے خدوخال غیر واضح ہونے کے باوجود اپنی تاثرّیت میں جنگل کی ہوا کی طرح ہوتے ہیں ۔

وہ لفظوں کا نباض ہی نہیں ان کی نفسیاتی جہتوں کا آشنا بھی ہے ۔ وہ الفاظ کو حسن اہتمام سے برتنے کا فن جانتا ہے ۔ اس کے شعروں میں زائد لفظوں کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ یہی کفایت شعاری اس کے انداز بیان کی خوبصورتی بن جاتی ہے ۔ سو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ فن اور فکر دونوں حوالوں سے مختلف نفسیاتی کیفیات اس کی شاعری کو ایک منفرد زاویہ عطا کرتی ہیں ۔

میں نے مشتاق عاجز کی شاعری پر اس مختصر سے جائزے میں جان بوجھ کر اس کے اشعار کا حوالہ نہیں دیا صرف اس لئے کہ جب آپ اس کی شاعری پڑھیں تو اس جمالیاتی، ذہنی و روحانی سر خوشی سے خود سیراب ہوں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ آپ کا حق بنتا ہے کہ میری رائے سے اتفاق کریں یا اختلاف۔ ذاتی طور پر میں مشتاق عاجز کی شخصیت کا اسیر بھی ہوں اور اس کی شاعری کا گرفتار بھی۔

ڈاکٹر نذیر تبسم

شعبہ اُردو، پشاور یونیورسٹی

 

۔ ۔ ۔ مسافرِ نواز بہتیرے

عشق تو لڑکپن ہی سے میرے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا اور میں رنگ و نور و نکہت کے آتے جاتے موسموں میں ہجر و وصال کی لذتوں اور رعنائیوں سے آشنا ہو چکا تھا مگر اظہار طلب آسودہ اور نا آسودہ جذبات میرے اندر جس شاعر کو پروان چڑھا رہے تھے وہ مجھ پر ۱۹۶۳ء میں آشکار ہوا۔ ایک ہی برس میں وہ میرا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مجھ سے اپنی الگ شناخت کا تقاضا کرنے لگا۔ میں نے اپنے نام کے پہلے حصے سے اس کا آدھا نام ملایا اور مشتاق عاجز بنا دیا کہ وہ میری ہی ذات کا عکس تھا۔ اب میں اپنے دوست اشرف آرٹسٹ کے توسط سے حکیم تائب رضوی کا ہم جلیس ہوا۔ تین برس کی بے تکلف اور گہری رفاقت کے دوران میں مجھے اعجاز سلیم کی ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل ہوا اور کچھ دوسرے شاعروں سے بھی متعارف ہو گیا مگر ابھی تک ادبی منظر نامے میں دور دور تک میرا نام و نشان نہ تھا۔ نومبر ۱۹۶۶ء میں ملازمت آغاز ہوئی تو میں اپنے شہر کی ادبی فضا سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا مگر شہر سے دور دیہات اور قصبوں میں شعری سفر جاری رکھا۔

جنوری ۱۹۸۹ء میں میری زندگی اور شاعری کے سفر میں ایک خوب صورت موڑ آیا ’’فضا میں خوشبو کے رنگ جاگے ‘‘ اور ’’گلوں میں رنگوں کا نور اترا‘‘ تو ’’ نہال غم میں نئی کونپلیں نکل آئیں ۔‘‘ زخم دل ہرا ہوا، سوئے ہوئے جذبات نے کروٹ لی تو مشتاق عاجز کا عکس آئینے سے باہر کی فضا میں جھانکنے لگا۔ ’’سو میں نے چاہا گلاب چن لوں ‘‘، ’’مہکتی سانسوں کے گیت سن لوں ‘‘، ’’بدن کے چاروں طرف کسی اجنبی کی خوشبو کا جال بن لوں ‘‘ مگر اس سے پہلے کہ دعا پر باب قبولیت وا ہوتا، موسم گل گزر چکا تھا۔ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۴ء کے وسط تک اسی پس منظر میں مجھے جذبات کی سچی شاعری کرنے کا موقع ملا کہ اس دوران میں محرکات بھی میسر تھے اور ریل کے رومان پرور سفر کے علاوہ دیہات کی خاموش تنہا راتیں بھی۔ ۱۹۹۴ء کے اواخر میں مجھے ایک بڑے قصبے کی، نسبتاً رنگین اور خوش گوار فضا میسر آئی اور خوشبو میں بسے نرم ہوا کے جھونکے گدگدانے لگے تو چند ماہ کے بے رنگ تعطل کے بعد رومانی شاعری کا تسلسل بحال ہو گیا جو چار پانچ سال جاری رہا اور میرے ذخیرۂ اشعار میں کچھ مزید رومانی شاعری کا اضافہ کر گیا۔

فروری ۱۹۹۸ء میں ملازمت سے سبک دوش ہو کر اپنا شعری سرمایہ اور تلخ و شیریں یادیں لیے اپنے شہر آیا تو ادبی فضا یک سر بدل چکی تھی۔ حکیم تائب رضوی، اعجاز سلیم، حکیم حیدر واسطی، احمد وحید اختر، جعفر ملک، مرزا اقبال بیگ نعیم اور علی جان نسیم جیسے مشاق سخن ور جہان سخن وراں کو خیر باد کہہ کر شہر خموشاں میں جا بسے تھے ۔ محفل شعرو ادب میں نذر صابری، ڈاکٹر سعد اللہ کلیم، سلطان محمود بسمل اور عبداللہ راہی موجود تھے مگر مجھے اس فضا سے مانوس ہوتے بہت دیر لگی۔ تیس بتیس برسوں میں ایک نسل جوان ہو چکی تھی اور کچھ نئی ادبی تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں جہاں بہت سے نوجوان شعر و ادب کی تخلیق میں مصروف تھے مگر میں بہت دیر ان سے دور ہی رہا کہ وہ فضا میری گم گشتہ فضاؤں سے بہت مختلف تھی۔

رفتہ رفتہ یہ فاصلہ کم ہوا تو میں نزاکت علی نازکؔ کے ’’ کاروان قلم‘‘ کا ہم قدم ہونے لگا اور یوں نوجوان شاعروں سے شناسائی ہوئی اورپرانے سخن وروں سے رشتہ بحال ہو گیا۔ شعری نشستوں میں آنے جانے لگا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ میرے پاس ۱۹۵۸ء کی واردات قلبی اور اسی حوالے سے ۲۰۰۰ء تک کے جذباتی اتار چڑھاؤ، کم و بیش سینتیس برس کے ریاض اور چھپن سالہ زندگی کے نت نئے زاویوں اور تجربوں سے جنم لینے والی شاعری کا ذخیرہ تو تھا ہی، میں نے اپنے دیرینہ دوست رانا افسر علی خان کے مشورے پر توجہ دی جو مجھے شعری مجموعہ کی اشاعت پر اکساتے رہتے تھے ۔ بیٹوں میں ملک اویس احمد خان (مرحوم) شعری ذوق کے سبب کبھی کبھی کتاب کی اشاعت کی خواہش کرتا رہتا تھا۔ مئی ۱۹۹۹ء میں وہ چل بسا تو میں نے اپنے کلام کو طباعت آشنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ رانا صاحب مجھے پروفیسر یوسف حسن کے پاس لے گئے اور انھوں نے ۲۰۰۰ء میں ’’ گندھارا‘‘ سے میری دیدہ زیب کتاب چھاپ دی۔

میں کہ ‘‘ سفر ہے شرط‘‘ پر یقین رکھتا تھا اور برسوں سے محو سفر تھا اپنے شعری سفر کے پہلے پڑاؤ پر پہنچ چکا تھا۔ میرا یہ طویل سفر گمنامی اور تنہائی کا سفر تھا مگر ’’آئینے سے باہر‘‘ آتے ہی میں گمنامی کے دھندلکے سے نکل کر اپنے سامعین اور قارئین کے قریب آ کھڑا ہوا اور میرا حرف سخن گوش سماعت سے چشم بصارت کے سفر پر نکل گیا۔ تحسین کے دو بولوں کو ترستا جنگل میں کھلا پھول رونق بازار رنگ و بو ہو گیا۔ شہر کم نظراں کا گلہ کرنے والا شاعر بیسیوں اہل نظر کا منظور نظر ٹھہرا۔ ‘‘ جہان سنگ میں شیشے کی آبرو کیسی‘‘ کہتے کہتے میں آئینہ بدست کسی جذباتی لمحے میں جشن سنگ باری میں آ نکلا۔ ایسے میں ارشد محمود ناشاد، شوکت محمود شوکت اور نزاکت علی نازک سنگ زنوں کے مقابل میری ڈھال بن گئے مگر موسم سنگ زنی شہر میں وارد ہو چکا تھا۔ سو میرے سر کا مقدر جاگا اور میں لہو لہو ہو کر سرخ رو ہو گیا۔

میرا نام اور کام شہر کی حدود پار کر چکا تھا اور حلقۂ آشنائی وسیع تر ہو رہا تھا۔ خالد مصطفی نے مجھے ڈی آئی خان تک اور شہاب صفدر نے بھکر، میانوالی، کوہاٹ اور محمد حامد سراج تک پہنچا دیا۔ ۲۰۰۴ء میں جاوید اقبال بھٹی نے جشن صد سالہ اٹک کی تقریبات میں سالانہ کل پاکستان مشاعرہ کی طرح ڈالی اور مسلسل چار سال تک بھرپور مشاعرے منعقد کرائے تو میں راول پنڈی، اسلام آباد کے بیشتر شعرا کے قریب آ گیا۔ بشریٰ فرخ نے مجھے پش اور کے ڈاکٹر نذیر تبسم جیسے خوش مزاج اور دل نواز شاعر کے علاوہ بہت سارے دیگر احباب سے بھی متعارف کرا دیا۔ شاہد زمان ایک ہی مشاعرے میں آیا مگر میرا دوست بن گیا اور اپنے دوستوں سے میرا غائبانہ تعارف کراتا پھرا۔ عائشہ مسعود نے ‘‘ میری ڈائری‘‘ اور نوائے وقت کے ادبی صفحے کے حوالے سے میرے نام اور کام کی وسیع تر تشہیر کی۔ سرگودھا کے دوستوں نے مزید دوستوں سے ملوایا۔ سہ ماہی ’’قرطاس‘‘ نے بھی میری عزت بڑھانے اور کلام کو دور و نزدیک تک پہنچانے کا سامان کیا۔ خ اور چودھری نے ’’تیسرا رخ‘‘ میں میری منظومات، مکالمہ اور تصویر چھاپ کر میرا نام ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسی ہستی کے قلم تک پہنچا دیا۔ سہ ماہی ’’قندیل‘‘ نے مسلسل اپنے چار شماروں میں میری تخلیقات نظم و نثر چھاپ کر شہر سخن میں میری آبرو بڑھائی۔

اتنی آشنائی، پذیرائی اور شناسائی کے بعد جی چاہا کہ اسی پڑاؤ پر پڑا رہوں مگر ایک غیبی ندا بار بار یاد دلاتی رہی‘‘ سفر ہے شرط‘‘‘ ‘ مسافر نواز بہتیرے ‘‘اب جو نئے سفر پر نکلا تو شاکر کنڈان، افضل گوہر اور رانا سعید دوشی کے علاوہ درجنوں دوست دو رویہ پیڑوں کی طرح سایہ فگن پائے ۔ ایسے میں کبھی کبھی ٹھنڈی چھاؤں میں سستانے لگتا تو ارشد محمود ناشاد ‘‘ ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے ‘‘ کہہ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا اور میں پھر سے چل دیتا۔ میرا سفر تیز تر ہو گیا تھا۔ ‘‘ موسم جاں رفتگی کی زد میں تھا‘‘ مگر میں چھوٹے چھوٹے لیکن تیز قدموں سے رواں دواں رہا۔ ‘‘ تیز رفتاری سے میرے پاؤں چھلنی ہو گئے ‘‘، قریب تھا کہ میں ہانپ کر گر پڑتا کہ ناشادؔ بہ تکرار محبت بھرا اصرار کرنے لگا کہ دم لے لوں ۔ رہبر منزل کا اشارہ پا کر میں نے رخت سفر کھول دیا اور ‘‘ الاپ‘‘ کے پڑاؤ پر خیمہ زن ہونے کا قصد کیا۔

سفر ابھی باقی ہے کہ سر لگایا ہے اور راگ کی شکل بنا رہا ہوں ۔ سچا سر لگا تو غزل کے انترے استھائی کا سفر درپیش ہو گا۔ ۔ ۔ سفر ابھی جاری ہے کہ ارشد محمود ناشادؔ کی بے بدل اور بے مثل رفاقت حوصلہ بڑھانے کو ہمہ دم میرے ساتھ ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ جب تک دم میں دم ہے ناشادؔ مجھے آمادۂ سفر رکھے گا اور کہیں لڑکھڑایا تو مجھے اپنے توانا بازوؤں سے سہار لے گا۔ مجھے اس کی دوستی پر بھروسا بھی ہے اور ناز بھی۔ اسی نے الاپ کے سر چنے ، کتاب کی اشاعت کے لیے راہ ہموار کی، اس پر اپنی رائے دی، اپنی ذات اور فن پر میرا اعتماد بحال کیا، میری اخلاقی مدد کی اور مجھے دیر تک زندہ رہنے کے اسباب مہیا کیے ۔ میں اس کا شکر گزار اور اس کی محبت کا قرض دار ہوں ۔

قارئین محترم! مجھے خوش کلامی کا کوئی زعم نہیں ، میں تو بس اپنے اندر کے شاعر کا کہا کرتا رہا، طبع موزوں تھی سو جو شاعر نے کہا میں نے آسانی سے لکھ دیا۔ مشتاق عاجز کیسے شاعر بنا؟ اور کیوں مجھ سے شعر کہلواتا رہا؟ میں بتا چکا ہوں ۔ ۔ ۔ کیا کہتا رہا اور کیسا کہتا رہا؟ آپ کے سامنے ہے ۔ ‘‘ الاپ‘‘ کے سر مدھم ہیں یا تیور؟ اداس ہیں یا چنچل؟ سچا سر لگا کہ نہیں ؟۔ ۔ ۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔ دعا کریں کہ یہ سفر ابھی جاری رہے ، اس راہ کے شجر سایہ دار اور مسافر نواز سلامت رہیں ۔ محبتیں بانٹنے اور سمیٹنے والے کم نہ ہوں کہ یہی لوگ بقائے حیات و کائنات کا جواز ہیں۔

مشتاق عاجز

اٹک

۲۴۔ اگست ۲۰۰۸ء

 

    جل جلالہ

    مرے غم کی عمر دراز کر، مرے درد دل کو دوام دے

    میں دعا بدست ہوں اے خدا ! کوئی خاص شے مجھے عام دے

    =================

    صلی اللہ علیہ و سلم

    اک چاندؐ جو کرتا نہ مری پشت پناہی

    مٹھی میں اندھیرا مجھے بھرنے ہی لگا تھا

    ======================

 

    دل میں چبھے نہ جن کو کبھی خار زیست کے

    کیا ان پہ آشکار ہوں اسرار زیست کے

    سیکھا نہیں جنھوں نے سلیقہ کلام کا

    تعلیم کرنے آئے ہیں اطوار زیست کے

    زیبا تھی جن کو زیست جہاں سے گزر گئے

    ہم مفت میں ہوئے ہیں سزاوار زیست کے

    کیوں ہم پہ ہی تمام ہوئیں غم کی نعمتیں ؟

    کیا اک ہمی ہوئے تھے گنہگار زیست کے ؟؟

    دیکھی ہے ہم نے رونق نیرنگی حیات

    منظر بدل چکے ہیں کئی بار زیست کے

    ّچکھی ہے ہم نے موت کی ّلذت ہزار بار

    گزرے ہیں ہم پہ حادثے دوچار زیست کے

    کار حیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا

    الجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تار زیست کے

    اک ایک سانس کے لیے کاسہ لیے پھریں

    ایسے بھی ہم نہیں ہیں طلب گار زیست کے

    رنگین ہے ہمارے لہو سے نصاب زیست

    عنواں رقم کیے ہیں ، سردار زیست کے

    اب آس ہے نہ کوئی ّتمنا نہ جستجو

    باقی نہیں ہیں زیست میں آثار زیست کے

    کیا زندگی کا رنگ ہو جانے ہمارے بعد

    ہم آخری امیں ہیں ، طرحدار زیست کے

٭٭٭

    دعا کو ہمنوائے نالۂ شب گیر کرنا ہے

    فغاں کو آشنائے ّلذت تاثیر کرنا ہے

    جنوں کو خوئے تسلیم و رضا تعلیم کرنی ہے

    بگولوں کو اسیر حلقۂ زنجیر کرنا ہے

    چھپا بیٹھا ہے اک دشمن حصار ذات کے اندر

    شکست جسم سے پہلے جسے تسخیر کرنا ہے

    وہ آنکھیں جن کو ورثے میں ملی جاگیر نفرت کی

    محبت کا سبق ان کے لیے تحریر کرنا ہے

    وہ منظر جو مری چشم تصور پر اترتے ہیں

    انھیں ہر چشم بینا کے لیے تصویر کرنا ہے

    ہزاروں خواہشوں کی بستیاں مسمار کرنی ہیں

    اسی ملبے سے پھر اک جھونپڑا تعمیر کرنا ہے

    اسے اپنا بنانے کی کوئی تدبیر کرنی ہے

    مجھے تبدیل اپنا کتبۂ تقدیر کرنا ہے

    مرے اجداد نے بھی بیعت باطل نہیں کی تھی

    مجھے بھی ّاتباع ّسنت ّشبیر کرنا ہے

    مرے اسلاف نے اچھے دنوں کا خواب دیکھا تھا

    سو ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے

٭٭٭

 

    زیب گلو وہ زلف گرہ گیر اب بھی ہے

    وحشی اسیر حلقۂ زنجیر اب بھی ہے

    کب کا اجڑ چکا ہے شوالہ شباب کا

    لیکن وہ بت، کہ آنکھ میں تصویر اب بھی ہے

    دل ہے کہ ٹوٹتا ہی چلا جائے ہے مگر

    امکاں میں ایک صورت تعمیر اب بھی ہے

    آمادۂ سوال نہیں غیرت جنوں

    ورنہ دعا کے حرف میں تاثیر اب بھی ہے

    دشت وفا میں آج بھی سر ہیں سجود میں

    دست جفا میں قبضۂ شمشیر اب بھی ہے

    رکھی ہوئی ہے درد کی دولت سنبھال کر

    ورثے میں جو ملی تھی وہ جاگیر اب بھی ہے

٭٭٭

    بڑے غرور سے جو سر اٹھائے پھرتا ہے

    بلا کا بوجھ بدن پر اٹھائے پھرتا ہے

    وہ جس کے دیدہ و دل روشنی کے منکر ہیں

    وہ مہر و ماہ منوّر اٹھائے پھرتا ہے

    ہجوم تشنہ لباں مشتعل نہ ہو جائے

    کہ شیخ شیشہ و ساغر اٹھائے پھرتا ہے

    ملا رہا ہے جو اک ہاتھ گرم جوشی سے

    وہ ایک ہاتھ میں خنجر اٹھائے پھرتا ہے

    نہ کوئی قیس گلی میں ، نہ بام پر لیلیٰ

    ہجوم کس لیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے

    نہ جانے کس کا مقدر ہو زخم دل عاجزؔ

    کہ سرخ پھول ستم گر اٹھائے پھرتا ہے

٭٭٭

 

لہو میں اک اجالا موجزن محسوس کرتا ہوں

جواں بیٹوں میں اپنا بانکپن محسوس کرتا ہوں

رگوں میں اجنبی سانسوں کی خوشبو رقص کرتی ہے

سلگتی روح پر کھلتا بدن محسوس کرتا ہوں

گئے دن کا پرانا پیرہن پھر چاہیے مجھ کو

نئے دن کے لبادے میں گھٹن محسوس کرتا ہوں

کہاں جلتا ہوا سورج ہتھیلی پر لیے پھرنا

کہاں یہ دن کہ سائے میں جلن محسوس کرتا ہوں

رکوں تو راستوں کی دل کشی آواز دیتی ہے

چلوں تو دو قدم چل کر تھکن محسوس کرتا ہوں

جوانی میں کوئی کڑوی کسیلی بات کہہ دی تھی

جبین وقت پر اب تک شکن محسوس کرتا ہوں

گلوں کی جستجو میں خار اتنے چن لیے عاجزؔ

کہ اب پھولوں کی خوشبو میں چبھن محسوس کرتا ہوں

٭٭٭

 

نہ گھر کے لوگ سلامت، نہ گھر سلامت ہیں

یہ اور بات کہ دیوار و در سلامت ہیں

نہ چادریں ہی سلامت رہیں ، نہ دستاریں

جئیں تو کیسے جئیں جن کے سر سلامت ہیں

زمیں کے چاند ستاروں کو بھوک چاٹ گئی

فلک ہے شاد کہ شمس و قمر سلامت ہیں

مسافران رہ شوق سوگوار نہ ہوں

کہ راستے میں ابھی کچھ شجر سلامت ہیں

چمن میں جشن بہاراں کا اہتمام کرو

کہ اک اسیر پرندے کے پر سلامت ہیں

یہ دل کے گھاؤ جو بھرتے نہیں ہیں مرہم سے

تو جانیے کہ ابھی چا رہ گر سلامت ہیں

گزر گئے ہیں غم دل کے روز و شب عاجزؔ

غم حیات کے شام و سحر سلامت ہیں

٭٭٭

 

دکھ نہ ہوں تو زندگی میں نور آئے کس طرح

شام سے پہلے ستا رہ جگمگائے کس طرح

سر پہ تم جلتا ہوا سورج ذرا آنے تو دو

دیکھنا پیروں تلے آتے ہیں سائے کس طرح

صحنِ گل سہما ہوا ہے ، گولیوں کی گونج سے

شاخ پر بیٹھا پرندہ چہچہائے کس طرح

ایک سے سب کے ّرویے ، ایک سی سب صورتیں

کوئی پہچانے بھلا اپنے پرائے کس طرح

تم کہ کشتِ گل میں بھی رہتے ہو اکتائے ہوئے

ہم سے پوچھو ہم نے ویرانے بسائے کس طرح

ہم نے پلکوں سے تمھاری راہ کے کانٹے چنے

جانتے ہو ! ہم تمھیں منزل پہ لائے کس طرح

چل رہے ہو اجنبی راہوں پہ آنکھیں موند کر

اب تمھیں کوئی بھٹکنے سے بچائے کس طرح

٭٭٭

 

لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ

کہ زندگی کا سلیقہ سکھا رہا ہے چراغ

وفور شوق میں لیلائے شب کے چہرے سے

نقاب زلف پریشاں اٹھا رہا ہے چراغ

ہمارے ساتھ پرانے شریک غم کی طرح

عذاب ہجر کے صدمے اٹھا رہا ہے چراغ

یہ روشنی کا پیمبر ہے اس کی بات سنو!

صداقتوں کے صحیفے سنا رہا ہے چراغ

شب سیاہ کا آسیب ٹالنے کے لیے

تمام عمر شریک دعا رہا ہے چراغ

ہوائے دہر چلی ہے بڑی رعونت سے

دیار عشق میں کوئی جلا رہا ہے چراغ

وہ ہاتھ بھی یدِ بیضا سے کم نہیں عاجزؔ

جو خاک ارض وطن سے بنا رہا ہے چراغ

٭٭٭

 

نغمۂ شوق مرا،جنبش لب تک پہنچا

سلسلہ تیری ّتمنا کا طلب تک پہنچا

ایک خوشبو سی مرے سنگ سفر پر نکلی

ایک سایہ سا دبے پاؤں عقب تک پہنچا

موسمِ گل نے مہکنے کی اجازت چاہی

موجۂ باد صبا غنچۂ لب تک پہنچا

عشق الہام کی صورت مرے دل پر اترا

ایک الزام مرے نام و نسب تک پہنچا

بین کرتے ہوئے سر سینۂ نے سے نکلے

شعلۂ سوز  نفس شہر طرب تک پہنچا

تو کہ سورج تھا مگر شام ڈھلے ڈوب گیا

میں کہ جگنو تھا مگر قریۂ شب تک پہنچا

 اور کیا اس سے سوا حسن طلب ہے عاجزؔ

حد سے گزرا بھی تو میں ّحد ادب تک پہنچا

٭٭٭

 

دوریاں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا

ختم ہو جائیں گے رشتے ، رابطہ رہ جائے گا

کرکرا ہو جائے گا میٹھا مزہ الفاظ کا

تلخ لہجے کا زباں پر ذائقہ رہ جائے گا

جھوٹ اک دن بولنے لگ جائیں گی آنکھیں سبھی

 اور منہ تکتا ہمارا آئنہ رہ جائے گا

منزلیں بڑھ کر مسافر کے گلے لگ جائیں گی

پاؤں چھونے کو ترستا راستہ رہ جائے گا

بھول جائے گا ہمیں ہر گنگناتا واقعہ

حافظے میں کلبلاتا حادثہ رہ جائے گا

یوں بدن میں بے حسی بیگانگی بس جائے گی

روح سے بھی واجبی سا واسطہ رہ جائے گا

عام ہو جائے گا اتنا سرد مہری کا چلن

منجمد ہو کر خوشی کا قہقہہ رہ جائے گا

ایک نقطے کی کمی عاجزؔ کہیں رہ جائے گی

نامکمل دوستی کا دائرہ رہ جائے گا

٭٭٭

 

اے مسافر! آرزو کا راستہ کیسا لگا؟

زیر پائے شوق پہلا آبلہ کیسا لگا؟

اڑتے بادل کے تعاقب کا نتیجہ کیا رہا؟

عشق میں دیوانگی کا تجربہ کیسا لگا؟

دو جہاں دامن میں بھر لینے کی خواہش کیا ہوئی؟

اپنی باہوں کا سمٹتا دائرہ کیسا لگا؟

تم کہ تھے مظلوم کے حامی، تمہارا کیا بنا؟

جب ہوا ظالم کے حق میں فیصلہ، کیسا لگا؟

زندگی کو تم سمجھتے تھے ہنسی کی داستاں

داستاں پر آنسوؤں کا تبصرہ کیسا لگا؟

کیسے کیسے خواب دیکھے پہلی پہلی عمر میں

 اور جب اترا جوانی کا نشہ، کیسا لگا؟

خوش ہوا کرتے تھے عاجزؔ تم کھلونے توڑ کر

اب جو ٹوٹا ہے انا کا آئنہ کیسا لگا؟

٭٭٭

 

نظر میں پھول کھلے ، خوشبوؤں کی یاد آئی

ترے لبوں کی، ترے گیسوؤں کی یاد آئی

نہال غم میں نئی کونپلیں نکل آئیں

کچھ اس طرح سے ہرے موسموں کی یاد آئی

بجھا تھا چاند تو گھر میں جلا لیے تھے دیئے

دیئے کچھ ایسے بجھے ، جگنوؤں کی یاد آئی

وہ ایک شخص کہ لگتا تھا دوسروں سے جدا

جدا ہوا تو مجھے دوسروں کی یاد آئی

کبھی جو رات گئے خواب کوئی ٹوٹ گیا

تری مہک میں بسے رتجگوں کی یاد آئی

دیئے کی لو پہ پتنگا جو کوئی آ کے گرا

رہ وفا میں لٹے قافلوں کی یاد آئی

کبھی کبھی تو کسی بت کو دیکھ کر عاجزؔ

بدن میں دیپ جلے مندروں کی یاد آئی

٭٭٭

 

بسا ہوا تھا مرے دل میں ، درد جیسا تھا

وہ اجنبی تھا مگر گھر کے فرد جیسا تھا

کبھی وہ چشم تصوّر میں عکس کی صورت

کبھی خیال کے شیشے پہ گرد جیسا تھا

جدا ہوا نہ لبوں سے وہ ایک پل کے لیے

کبھی دعا تو کبھی آہ سرد جیسا تھا

سفر نصیب مگر بے جہت مسافر تھا

وہ گرد باد سا، صحرا نورد جیسا تھا

جنم کا ساتھ نبھایا نہ جا سکا عاجزؔ

وہ شاخ سبز تو میں برگ زرد جیسا تھا

٭٭٭

 

شہر والوں نے تو رسماً عادتاً رسوا کیا

آپ کہیے ! آپ نے کیا سوچ کر ایسا کیا

میں تو اپنے دشمنوں کا بھی گلہ کرتا نہیں

دوستی میں آپ نے بھی جو کیا اچھا کیا

چھپ کے میرے لوٹنے والے مجھے لوٹا کیے

 اور میں اپنا تماشا دور سے دیکھا کیا

اک نظر دیکھے مجھے ، جس نے کبھی دیکھا نہ ہو

اک سمندر جس کو اپنی پیاس نے صحرا کیا

مفلسی تھی، اور تو کوئی کمی عاجزؔ نہ تھی

دوستوں کی بھیڑ میں جس نے مجھے تنہا کیا

٭٭٭

 

جو نگر اپنا نہیں تھا، اس نگر جانا نہ تھا

چھوڑ کر اپنی زمیں کو چاند پر جانا نہ تھا

منتظر ہوتا کوئی دہلیز پر تو بات تھی

دستکیں ہاتھوں میں لے کر دربدر جانا نہ تھا

اب شکستہ خواب کی چبھتی تو ہوں گی کرچیاں

پتھروں کے دیس میرے شیشہ گر جانا نہ تھا

جا لیا منزل کو لیکن حیرتوں میں گم رہے

ہم سفر کو راستے میں چھوڑ کر جانا نہ تھا

کوئی سیّا رہ تجھے اب گود لینے کا نہیں

تو نے آغوش زمیں کو معتبر جانا نہ تھا

خواب جیسے جسم کو بے آب کر کے رکھ دیا

انتہائے شوق میں حد سے گزر جانا نہ تھا

ارتکاب خودکشی کرنے لگی تھیں خواہشیں

ورنہ عاجزؔ وقت سے پہلے ہی مر جانا نہ تھا

٭٭٭

 

کچھ دن ہوئے کہ شہر ّتمنا اداس ہے

دل کیا اجڑ گیا ہے کہ دنیا اداس ہے

گہنا گیا ہے جب سے مرے گھر کا آفتاب

تاروں کا روپ، چاند کا چہرا اداس ہے

لگتا ہے تتلیوں کے کوئی رنگ لے اڑا

لگتا ہے جگنوؤں کا اجالا اداس ہے

کہتے ہیں ایک شخص کی دنیا اجاڑ کر

نادم ہے ، شرم سار ہے ، دریا اداس ہے

دو لخت ہو گیا ہے جہان تصوّرات

آدھے میں چہل پہل ہے ، آدھا اداس ہے

اب دیکھتا ہے مجھ کو تو کہتا ہے آئنہ

ّبچہ بچھڑ گیا ہے تو بوڑھا اداس ہے

عاجزؔ کسی بھی حال میں شکوہ روا نہیں

کیا تو بھرے جہاں میں اکیلا اداس ہے ؟

٭٭٭

 

امید رنگ و بو رکھی ہوئی ہے

تمنّائے سبو رکھی ہوئی ہے

ہمارے دل کے اک گوشے میں اب بھی

تمھاری آرزو رکھی ہوئی ہے

شکستہ پا سہی لیکن نظر میں

تلاش و جستجو رکھی ہوئی ہے

سفر رکتا نہیں بالیدگی کا

کہ فطرت میں نمو رکھی ہوئی ہے

عیاں ہے ہم پہ دنیا کی حقیقت

ہمارے روبرو رکھی ہوئی ہے

زباں کو بے طلب رکھا ہوا ہے

انا کی آبرو رکھی ہوئی ہے

دیا گھر میں جلا رکھا ہے عاجزؔ

ہوا سے گفتگو رکھی ہوئی ہے

٭٭٭

 

ایک سورج میری بینائی چرا کر لے گیا

میں بہ مشکل اک ہرا منظر بچا کر لے گیا

آنکھ بھر آئی تو دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا

ایک آنسو درد کی دنیا بہا کر لے گیا

ایک تنکا تھا پڑا رہتا تھا فرش خاک پر

اک بگولا کس بلندی پر اڑا کر لے گیا

میں بھلا کیوں دشمن جاں کی گلی جانے لگا

وہ تو اک خوشبو کا جھونکا ورغلا کر لے گیا

 اور پھر اگلے ہی لمحے میں در مقتل پہ تھا

اک پرانا یار باتوں میں لگا کر لے گیا

حسن کے دربار میں تحفے لئے جاتے تھے لوگ

میں بھی اپنا سر ہتھیلی پر سجا کر لے گیا

ایک بونے کا قد و قامت بڑھانے کے لیے

میرا سر اک دوسرا بونا اٹھا کر لے گیا

٭٭٭

 

خاک اوڑھے ہوئے منظر کا ّمقدر جاگے

کوئی آئے کہ مرے گھر کا ّمقدر جاگے

شہر خوابیدہ میں آواز دیئے جاتا ہوں

جانے کس وقت کسی در کا ّمقدر جاگے

سر بہ کف کوئی نہیں خاک بہ سر کوئی نہیں

کس طرح کوئے ستم گر کا ّ مقدر جاگے

وارد شہر ہوا سنگ زنی کا موسم

کیوں نہ اس بار مرے سر کا ّ مقدر جاگے

دست آزر کا ہنر ہاتھ لگا ہے عاجزؔ

دیکھیے کون سے پتھر کا ّمقدر جاگے

٭٭٭

 

گھر میں صد رنگ منظر کھلا ہے

یاد ماضی کا دفتر کھلا ہے

نیند کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں

چارپائی پہ بستر کھلا ہے

اپنے اندر بھی اک اجنبی تھا

اب کہیں جا کے مجھ پر کھلا ہے

خامشی میں بھی ہے اک ترنّم

لب سلے ہیں تو جوہر کھلا ہے

آج ہی پاؤں عاجزؔ کٹے ہیں

آج ہی ساتواں در کھلا ہے

٭٭٭

 

شہر کا شہر میرا دشمن ہے

کچھ دنوں سے عجیب الجھن ہے

پیاس بجھتی نہ بھوک مٹتی ہے

زندگی ہے کہ خالی برتن ہے

روئی روئی سی، کھوئی کھوئی سی

جانے آنکھوں میں کون برہن ہے

مانگ اجڑی ہے سب امیدوں کی

اک تمنّا سدا سہاگن ہے

اچھی لگتی ہے کانچ کی گڑیا

دل کے آنگن میں اب بھی بچپن ہے

دل میں اک یاد کیا مچلتی ہے

قبر پر اک چراغ روشن ہے

سود پر سانس قرض دیتا ہے

وقت کتنا بڑا مہاجن ہے

ناچتی نرتکی سی دنیا میں

نقرئی گھنگروؤں کی چھن چھن ہے

سب کے ہاتھوں میں بین ہے عاجزؔ

بن میں اک زرنگار ناگن ہے

٭٭٭

 

جیسے جیسے چشم شعلہ بار تر ہوتی رہی

زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی رہی

خشک میرے پھول سے بچوں کے لب ہوتے رہے

 اور میرے خون سے تلوار تر ہوتی رہی

روح میں اک آگ سی جلتی رہی برسات میں

بارشوں میں جسم کی دیوار تر ہوتی رہی

دھند میں لپٹے رہے سارے مناظر عمر بھر

آنسوؤں سے حسرت دیدار تر ہوتی رہی

پھول کے ساغر میں کچھ شبنم کے قطرے دیکھ کر

طائر ّامید کی منقار تر ہوتی رہی

بانجھ دھرتی میں کہیں فصل وفا اگتی نہ تھی

خاک میرے خون سے بیکار تر ہوتی رہی

گل سدا کھلتے رہے عاجزؔ نہال عشق پر

خونِ شاخِ گل سے شاخ دار تر ہوتی رہی

٭٭٭

 

کھو گئیں آنکھیں کسی کی منظروں کے درمیاں

ہو گیا رسوا کوئی دیدہ وروں کے درمیاں

آ گرے ہیں نیند کے نیلے پرندے خاک پر

خواب ہیں بکھرے ہوئے ٹوٹے پروں کے درمیاں

منتظر ہے کارواں ، اذن سفر ملتا نہیں

جنگ جاری ہے ابھی تک رہبروں کے درمیاں

فتح کا پرچم کھلا، نصرت کا نقارہ بجا

گھر گئے کچھ ناتواں ، طاقت وروں کے درمیاں

کیا بھلا تسلیم کی خو سے مرا رتبہ بڑھا

سر جھکائے جی رہا ہوں خود سروں کے درمیاں

سر بکیں گے اور دستاریں خریدی جائیں گی

طے یہی پایا ہے دو سوداگروں کے درمیاں

روز و شب گنجان ہوتی جا رہی ہیں بستیاں

بڑھ رہے ہیں فاصلے عاجزؔ گھروں کے درمیاں

٭٭٭

 

دل ہی کیا اب تو بدن بھی خستگی کی زد میں ہے

پیکر خاکی عذاب زندگی کی زد میں ہے

جا بجا بکھری پڑی ہیں کرچیاں احساس کی

آئنہ خانہ مرا دیوانگی کی زد میں ہے

وائے حسرت! غنچۂ امید، صحن شوق میں

اب کھلا جب موسم جاں رفتگی کی زد میں ہے

ہم ہوئے یا ہم سا کوئی اور دیوانہ ہوا

کوچۂ جاناں سدا آوارگی کی زد میں ہے

تا ابد آباد ہے عاجزؔ، عبادت گاہ شوق

ہر بت کافر ہماری بندگی کی زد میں ہے

٭٭٭

 

سانجھ سویرے اپنے آپ سے لڑتا ہوں

رات گئے پھر اپنے پاؤں پڑتا ہوں

دن کی کھڑکی کھلتے ہی اڑ جاتے ہیں

سوچوں کے جو پنچھی روز پکڑتا ہوں

رات کو آنسو چن کر بھیگی پلکوں سے

آنچل آنچل چاند ستارے جڑتا ہوں

وصل اور ہجر کے آتے جاتے موسم میں

اپنے آپ سے ملتا اور بچھڑتا ہوں

جانے کب تکمیل ہو عاجزؔ ہستی کی

لحظہ لحظہ بنتا اور بگڑتا ہوں

٭٭٭

 

آنکھوں میں رت جگے ہوں کہ خوابوں کے سلسلے

ہوتے نہیں تمام عذابوں کے سلسلے

راہوں میں جز فریب نظر اور کچھ نہ تھا

حد نگاہ تک تھے سرابوں کے سلسلے

تا بارگاہ حسن رسائی محال تھی

حائل تھے راستے میں ، حجابوں کے سلسلے

پلکیں اٹھا کے اس نے نہ دیکھا کہ دیکھتے

نیلم کے جام، سرخ شرابوں کے سلسلے

آتے ہی اک سوال کی صورت خیال میں

لکھے گئے جبیں پہ جوابوں کے سلسلے

سرزد ہوا تھا جرم وفا ہم سے با رہا

مقسوم تھے ازل سے ثوابوں کے سلسلے

دل میں بسی ہوئی تھیں کبھی بستیاں بہت

اب دور دور تک ہیں خرابوں کے سلسلے

عاجزؔ لہو لہو ہے سفر چشم شوق کا

خوابوں میں دیکھتا ہوں گلابوں کے سلسلے

٭٭٭

 

پکڑ کے ہاتھ مرا صبح دم نکلتا ہے

گلی گلی وہ مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

وہ میرے ساتھ سلگتا ہے سرد راتوں میں

مرے بدن میں وہی بارشوں میں جلتا ہے

جلائے رکھتا ہے غم کا الاؤ سینے میں

اسی کا درد مرے آنسوؤں میں ڈھلتا ہے

تمام رات مرے ساتھ نرم بستر پر

تھکن سے چور وہی کروٹیں بدلتا ہے

کوئی جو ایک نظر ہنس کے دیکھ لے اس کو

تو میرے من کی طرح بے طرح مچلتا ہے

یہ کون میری طرح ہی کا شخص ہے عاجزؔ

جو گر پڑے تو بہت دیر میں سنبھلتا ہے

٭٭٭

 

جو سن سکو تو کبھی وقت کی صدا بھی سنو

زبان خلق بھی نقارۂ خدا بھی سنو

لگاؤ کان کبھی اپنے دل کی دھڑکن پر

دیار غیر میں پیغام آشنا بھی سنو

قصیدہ خواں کی خوشامد پہ ہی نہ کان دھرو

کبھی کبھی کسی سائل کی التجا بھی سنو

کبھی جو ساغر و مینا کا سلسلہ ٹوٹے

شکست جام تمنّا کا ماجرا بھی سنو

شب رباب و شراب و شباب ختم ہوئی

اذان نغمۂ مرغان خوش نوا بھی سنو

سنو سنو!! کوئی غیبی ندا یہ کہتی ہے

کہ اپنے گوش و سماعت سے ماورا بھی سنو

جو سن کے بھول نہ جاؤ تو ایک بات کہوں

لبوں پہ آ کے رکا حرف مدّعا بھی سنو

٭٭٭

 

بے اماں بستی میں کوئی بے خطر جاتا رہا

سر ہتھیلی پر لیے دشمن کے گھر جاتا رہا

اب بھلا اس کی قدم بوسی گوارا کیوں کریں

سر کے بل جن راستوں پر عمر بھر جاتا رہا

سامنا اک بار کیا اک دشمن جاں کا ہوا

دو گھڑی میں جان سے جانے کا ڈر جاتا رہا

مرحلہ تھا عظمت انسان کی تکریم کا

حرمت دستار کے صدقے میں سر جاتا رہا

ہاتھ باندھے پیچھے پیچھے زندگی آتی رہی

زندگی سے چھپ کے دیوانہ جدھر جاتا رہا

اتنی عجلت میں سمیٹا اس نے سامان سفر

گھر میں یادوں کا اثاثہ چھوڑ کر جاتا رہا

خون کی ّحدت گئی، جذبات کی ّشدت گئی

آ گئی منزل تو سامان سفر جاتا رہا

حسرت پرواز تھی عاجزؔ قفس کی قید تک

پر کھلے تو اعتبار بال و پر جاتا رہا

٭٭٭

 

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں

موسم گل میں بھی اندر سے مرے رہتے ہیں

تم کو آنا ہو تو آ جاؤ مگر یاد رہے

ہم ذرا اپنے زمانے سے پرے رہتے ہیں

ہاں کبھی اپنے بھی ہمسائے ہوا کرتے تھے

اب تو ہم اپنے ہی سائے سے ڈرے رہتے ہیں

جیسے دیوار پہ رکھے ہوئے بے نور چراغ

ایسے کچھ سر بھی تو شانوں پہ دھرے رہتے ہیں

ہے مگر چاند کی خواہش بھی انھی کو زیبا

جن کے کشکول ستاروں سے بھرے رہتے ہیں

ان کو سولی پہ کہ نیزے پہ سجا دو عاجزؔ

جو کھرے ہیں وہ بہ ہر حال کھرے رہتے ہیں

٭٭٭

 

میں تیر تھا کماں سے نکلنا پڑا مجھے

ایمائے چشم غیر سے چلنا پڑا مجھے

کیا سائے کی بساط ہے ، کیا سائے کو ثبات

سورج کا چل چلاؤ تھا ڈھلنا پڑا مجھے

عمر گریز پا کے تعاقب میں چل دیا

گر گر کے بار بار سنبھلنا پڑا مجھے

پوروں میں اس کے رنگ رچانے کا شوق تھا

پھر یوں ہوا کہ پھول مسلنا پڑا مجھے

عاجزؔ مزاج یار ذرا مختلف سا تھا

اپنا مزاج خاص بدلنا پڑا مجھے

٭٭٭

 

غم کا بادل تری زلفوں سے گھنیرا نکلا

سایۂ ابر بھی قسمت کا اندھیرا نکلا

سو گئے چاند ستارے تو اجالا جاگا

چل دیئے ہجر کے مارے تو سویرا نکلا

اپنا گھر چھوڑ کے جانا کوئی آساں تو نہیں

ہاتھ ملتا مرے آنگن سے اندھیرا نکلا

نیند نے لوٹ لیے خواب خزانے میرے

جس کو آنکھوں میں بسایا تھا لٹیرا نکلا

ٹوٹ کر ظلم کی دیوار زمیں بوس ہوئی

چاند جب توڑ کے ظلمات کا گھیرا نکلا

میں تو سمجھا تھا کہ ویران ہے دل کی بستی

اس خرابے میں بھی اک وہم کا ڈیرا نکلا

شہر چھوڑا تھا تجھے دل سے بھلانے کے لیے

قریہ قریہ تری یادوں کا بسیرا نکلا

ایک دشمن جو ملا ہے تو میں کتنا خوش ہوں

شہر احباب میں اک شخص تو میرا نکلا

دل کو ہمدرد سمجھ رکھا تھا عاجزؔ میں نے

کیا قیامت ہے یہ بے درد بھی تیرا نکلا

٭٭٭

 

ایک رنگین خواب میں گزری

رات ساری عذاب میں گزری

اک قیامت ہماری آنکھوں پر

اک شب ماہتاب میں گزری

روز و شب انتظار میں گزرے

زندگی اضطراب میں گزری

خواہشوں کو شمار کرنے میں

حسرتوں کے حساب میں گزری

زیست کاہے کو ایک تتلی تھی

جستجوئے گلاب میں گزری

سہمی سہمی سی کوئی دوشیزہ

جیسے کالے نقاب میں گزری

ایک شب وصل کی بھی آئی تھی

وہ بھی عاجزؔ حجاب میں گزری

٭٭٭

 

زمیں پہ چاند اترتا ہے میں نے دیکھا ہے

مری گلی سے گزرتا ہے میں نے دیکھا ہے

نظر کلام بھی کرتی ہے آنکھ والوں سے

پیام دل میں اترتا ہے میں نے دیکھا ہے

ہوائیں گیت بھی گاتی ہیں تم سنو تو سہی

سحاب رقص بھی کرتا ہے میں نے دیکھا ہے

جو سانس لے تو ہوا میں مہک بکھرتی ہے

وہ پھول آہ بھی بھرتا ہے میں نے دیکھا ہے

نقاب جب بھی الٹتے ہیں ضو فشاں چہرے

فضا میں نور بکھرتا ہے میں نے دیکھا ہے

کسی کو کیسے محبت سے کوئی تکتا ہے

نصیب کیسے سنورتا ہے میں نے دیکھا ہے

زباں پہ حرف نہ آئے تو دل کی باتوں کا

جبیں پہ نقش ابھرتا ہے میں نے دیکھا ہے

جو میرا ساتھ نبھاتا ہے شام تک عاجزؔ

وہ سایہ رات سے ڈرتا ہے میں نے دیکھا ہے

٭٭٭

 

    زمیں پہ بوجھ تھے ، کیا زیر آسماں رہتے

    یہ کائنات پرائی تھی ہم کہاں رہتے

    ہم ایسے بے سر و ساماں جہان امکاں میں

    ہزار سال بھی رہتے تو بے نشاں رہتے

    جو ہم لہو کی شہادت بھی پیش کر دیتے

    جو بدگماں تھے بہ ہر حال بدگماں رہتے

    کوئی فریب وفا ہی میں مبتلا رکھتا

    تو اس کے جور و جفا پر بھی شادماں رہتے

    پکارتا جو کوئی سوئے دار بھی دل سے

    تو نقد جان لیے سر بہ کف رواں رہتے

    کسی کے ایک اشارے پہ جل بجھے ہوتے

    بلا سے بعد کے منظر دھواں دھواں رہتے

    مگر یہ سود و زیاں کا جہان تھا عاجزؔ

    یہاں خلوص کے سجدے بھی رائیگاں رہتے

٭٭٭

 

    آلودۂ گناہ طلب ہو گئی زباں

    اب اعتبار غیرت تشنہ لبی کہاں

    پیش نظر تھا جلوۂ حسن نظر نواز

    درپیش تھا نظر کے تقدّس کو امتحاں

    آگے بڑھا تو اپنی نگاہوں میں ہیچ تھا

    پیچھے ہٹا تو لوگ اٹھاتے تھے انگلیاں

    محرومیوں کی دھوپ جھلستی رہی بدن

    چھایا نہ آسماں پہ کبھی ابر مہرباں

    اک دعوت گناہ مرے گرد و پیش تھی

    قلب و نظر کی ساری ریاضت تھی رائیگاں

    آخر مجھے بھی نیند نے باہوں میں لے لیا

    سر پر کھلا جو زلفِ معطّر کا سائباں

    آمادۂ وصال جنوں جب تلک نہ تھا

    اپنے بدن کی خاک تھی رفعت میں آسماں

    عاجزؔ وفور شوق نے پامال کر دیا

    کیا کیا نہ میرے یار ہوئے مجھ سے بدگماں

٭٭٭

 

    پھول سا تیرا سراپا اور خو پتھر کی ہے

    ٹوٹ کر کیسے تجھے چاہوں کہ تو پتھر کی ہے

    ٹوٹ جانے کی گھڑی جیسے کھڑی ہو سامنے

    ایک مورت آئنے کے روبرو پتھر کی ہے

    آ گیا ہوں آبگینے بیچنے بازار میں

    دیکھتا کیا ہوں تجارت کو بہ کو پتھر کی ہے

    جو قریب آیا وہی منہ پھیر کر چلتا بنا

    بس کہ ہر سیمیں بدن کو جستجو پتھر کی ہے

    روشنی، تازہ ہوا، کوئی صدا آتی نہیں

    گویا اک دیوار میرے چار سو پتھر کی ہے

    پھر مجھے لہجہ بدل کر وقت نے آواز دی

    پھر مری دیوانگی سے گفتگو پتھر کی ہے

    آنکھ نیلم سی تو لب یاقوت سے اچھے لگے

    ہو نہ ہو عاجزؔ تجھے بھی آرزو پتھر کی ہے

٭٭٭

 

کیا طبیعت تھی کسی راہ پہ ڈالی نہ گئی

    کٹ گئی عمر مگر خام خیالی نہ گئی

    اک عذاب غم دوراں تھا کہ جھیلا نہ گیا

    اک بلائے غم جاناں تھی کہ ٹالی نہ گئی

    ایسا بھونچال مرے شہر بدن میں آیا

    دل کی گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہ گئی

    پھر جو شب خون اندھیرے کی سپہ نے مارا

    بچ نکلنے کی کوئی راہ نکالی نہ گئی

    در پہ آئی تھی شب ہجر سوالی بن کر

    لے گئی نیند مری، لوٹ کے خالی نہ گئی

    میں نے رکھا نہ قدم راہ وفا پر عاجزؔ

    جب تلک راہ میں دیوار اٹھا لی نہ گئی

٭٭٭

 

    مچل رہا ہے مرا دل فگار ہونے کو

    ترس رہی ہیں خزائیں بہار ہونے کو

    چھلک رہا ہے لہو اشک بن کے آنکھوں سے

    کسی کی تشنہ لبی پر نثار ہونے کو

    کھڑا ہوں سر کو سجائے ہوئے ہتھیلی پر

    قطار زندہ دلاں میں شمار ہونے کو

    جو ہو سکے تو مری جاں سمیٹ لے مجھ کو

    کہ ریزہ ریزہ بدن ہے غبار ہونے کو

    بس ایک سجدۂ دل، ایک حرف حق عاجزؔ

    یہی بہت ہے عبادت گزار ہونے کو

٭٭٭

 

    پھول کھلتے تھے من کے آنگن میں

    رنگ بکھرے ہوئے تھے جیون میں

    سوجھتا ہے مجھے ہرا ہر سو

    میں کہ اندھا ہوا تھا ساون میں

    اب جلاتا ہے رات بھر مجھ کو

    اچھا لگتا تھا چاند بچپن میں

    اب جو بوڑھا خموش بیٹھا ہے

    بولتا تھا بہت لڑکپن میں

    زعم کتنا تھا پارسائی کا

    داغ کتنے لگے ہیں دامن میں

    راکھ کا ڈھیر ہو گیا ہوں میں

    آگ ایسی لگی ہے تن من میں

    جاتے جاتے وہ مہرباں عاجزؔ

    مبتلا کر گیا ہے الجھن میں

٭٭٭

 

    کچھ ہے تو حقیقت سے سوا ہو نہیں سکتا

    چاہے بھی تو انسان خدا ہو نہیں سکتا

   تو چاند ہے تاروں کا جہاں تجھ کو مبارک

    میں خاک ہوں دھرتی سے جدا ہو نہیں سکتا

   تو ہے کہ زمانے کو خوشی بانٹ رہا ہے

    میں ہوں کہ ترے غم سے رہا ہو نہیں سکتا

    اے درد کی خیرات مجھے بانٹنے والے

    کیا کوئی نیا درد عطا ہو نہیں سکتا؟

    تسلیم! کہ سائل ہوں گداگر تو نہیں ہوں

    کشکول، مرا دست دعا ہو نہیں سکتا

    عاجزؔ مجھے نوچا تھا ہری رت میں کسی نے

    اب کوئی بھی موسم ہو ہرا ہو نہیں سکتا

٭٭٭

 

    اگرچہ خار بداماں ہے آرزو کا چمن

   کھلا ہوا ہے خزاں میں بھی داغ داغ بدن

    نفس نفس ہے گرفتار جرم عشق و جنوں

    نصیب شہر بدن ہے عذاب دار و رسن

    دیار دیدہ وراں ہے جہان سود و زیاں

    یہاں دلوں سے زیادہ عزیز چیز ہے دھن

    بدل سکا نہ مزاج ستم گراں ، موسم

    وہی زبان کی تلخی، وہی جبیں پہ شکن

    ملن ہوا بھی کسی سے تو یوں ہوا عاجزؔ

    کہ جیسے غنچۂ گل سے ہوا ہوا کا ملن

٭٭٭

 

    مقتل ہو کہ ہو کوئے بتاں ، پھول کھلائیں

    ہم لوگ جہاں جائیں وہاں پھول کھلائیں

    چاہیں تو سر دشت جفا چاند اگائیں

    چاہیں تو سر نوک سناں پھول کھلائیں

    گلزار کھلا لیتے ہیں سب موسم گل میں

    ہم وہ ہیں کہ جب آئے خزاں ، پھول کھلائیں

    آنسو ہیں جو آنکھوں سے رواں درد کو سینچیں

    سینے میں ہیں جو زخم نہاں ، پھول کھلائیں

    تم پھول سراپا ہو مگر آگ اگاؤ

    ہم شعلہ نفس، شعلہ بہ جاں ، پھول کھلائیں

    بولیں جو سر دار، مہک اٹھے خموشی

    کھولیں جو سر بزم زباں ، پھول کھلائیں

    عاجزؔ مری مٹی میں تو اگنے لگے شعلے

    اب کوئی بتائے کہ کہاں پھول کھلائیں

٭٭٭

 

   تو مخاطب تھا، کوئی بات وہ کرتا کیسے

    تیری آنکھوں میں جو ڈوبا تھا، ابھرتا کیسے

    میں جسے عمر گریزاں سے چرا لایا تھا

    وہ ترے وصل کا لمحہ تھا گزرتا کیسے

    میری مٹی میں فرشتوں نے اسے گوندھا تھا

    میرے پیکر سے ترا رنگ اترتا کیسے

    میں نے کافر کو دلیل رخ روشن دی تھی

    حسن یزداں سے مکرتا تو مکرتا کیسے

    آئنہ تیرے خدوخال، قد و قامت کو

    روبرو دیکھ نہ پاتا تو سنورتا کیسے

    کم نگاہی کا نہ طعنہ مجھے دینا عاجزؔ

   تو کہ سورج تھا تجھے آنکھ میں بھرتا کیسے

٭٭٭

 

    اک وہی شخص تھا بس چاہنے والا میرا

    اس نے بھی دل میں کبھی روگ نہ پالا میرا

    چاند سے کر دیا پتھر مجھے اک لمحے نے

    وقت نے چھین لیا مجھ سے اجالا میرا

    جانتا تھا کہ یہ شہرت نہیں رسوائی ہے

    جانے کیوں اس نے بہت نام اچھالا میرا

    اس کی چاہت میں ہوئے جاتے ہیں پاگل سارے

    چلیے اک کام تو یاروں نے سنبھالا میرا

    دل جو آئینہ صفت مجھ کو عطا کرنا تھا

    جسم کیوں کانچ کے پیکر میں نہ ڈھالا میرا

    کیا مزا اس کے فسانے میں رہے گا عاجزؔ

    ذکر اس نے جو کہانی سے نکالا میرا

٭٭٭

 

    جو بھی ہے یکسر بدلنا چاہیے

    زیست کا منظر بدلنا چاہیے

    ہو چکیں شاخیں بہت بے آبرو

    لہجۂ صرصر بدلنا چاہیے

    اک اچھوتے لمس کے طالب ہیں لب

    ساقیا ! ساغر بدلنا چاہیے

    نت نئی ٹھوکر مجھے مرغوب ہے

    راہ کا پتھر بدلنا چاہیے

    روح میں چبھتے ہیں کانٹے رات بھر

    ریشمی بستر بدلنا چاہیے

    زخم بھی کرنے لگے سرگوشیاں

    اب تو چا رہ گر بدلنا چاہیے

    دل کی چوکھٹ پر بھی خم ہوتا نہیں

    کیا یہ ّضدی سر بدلنا چاہیے ؟

    سنگ دل دنیا میں رہنا ہے تو پھر

    کانچ کا پیکر بدلنا چاہیے

    میرے گھر عاجزؔ اداسی ہے بہت

    روشنی کو گھر بدلنا چاہیے

٭٭٭

 

بچوں کی طرح دل سے لگا رکھے تھے ایسے

غم جیسے کھلونے ہوں ، اٹھا رکھے تھے ایسے

دیکھے سے جنھیں پھول کھلیں دشت وفا میں

دامن پہ کئی داغ سجا رکھے تھے ایسے

احساس ندامت سے بچا رکھا تھا سب کو

آنسو مری پلکوں نے چھپا رکھے تھے ایسے

پھل پھول تھے جن پر نہ گھنی چھاؤں تھی جن کی

مالی نے بہت پیڑ اگا رکھے تھے ایسے

تاریخ نے لکھا نہ جنھیں شرم کے مارے

کچھ ظلم زمانے نے روا رکھے تھے ایسے

گزرا نہ غم عشق غریبوں کی گلی سے

پہرے غم دوراں نے بٹھا رکھے تھے ایسے

سورج کی شعاعوں نہ ہواؤں کا گزر تھا

گھر شہر میں لوگوں نے بنا رکھے تھے ایسے

برگشتہ ہوا جن کی جبیں چوم کے گزری

آنگن میں دیئے ہم نے جلا رکھے تھے ایسے

مقبول نہ ہوتی تھی دعا کوئی بھی عاجزؔ

مفہوم پس حرف دعا رکھے تھے ایسے

٭٭٭

 

حکم ٹھہراؤ کا دریا کے بہاؤ پر لگا

 اور پھر تہمت سفر کی میری ناؤ پر لگا

پھول بن جائے یہ غنچہ، اے بہار کشت جاں

ایک چرکا اور دل کے گہرے گھاؤ پر لگا

ہار کا امکاں بہت ہے زندگی کے کھیل میں

جیتنا چاہے تو اپنا آپ داؤ پر لگا

زندگی کی گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں حادثے

خیمۂ جاں سوچ کر اگلے پڑاؤ پر لگا

بے سری ہونے نہ پائے دھڑکنوں کی راگنی

خون دل، خون جگر سر کے سبھاؤ پر لگا

کچھ عبادت پر لگا، کچھ دوسروں کی نذر کر

پھر جو لمحے بچ رہیں ، دل کے لگاؤ پر لگا

دل کی چنگاری سے عاجزؔ درد کا شعلہ اگا!

جسم کا ایندھن اکٹھا کر، الاؤ پر لگا

٭٭٭

 

بہت شاداب لیکن بے ثمر تھا

کسی ناراض موسم کا شجر تھا

وہ صدیوں کا تھکا ہارا مسافر

جسے درپیش لاحاصل سفر تھا

وہ اپنے آپ سے بچھڑا ہوا تھا

تلاش گم شدہ میں در بدر تھا

بدن کہتا تھا کتنی داستانیں

زباں چپ تھی کہ رسوائی کا ڈر تھا

وہ سوچوں میں ستارے ٹانکتا تھا

کہ اس کی راکھ میں کوئی شرر تھا

مثال آئنہ تھیں اس کی آنکھیں

مگر اس کا زمانہ کم نظر تھا

وہ ان دیکھے خدا کو مانتا تھا

فرشتوں سے زیادہ معتبر تھا

خرد مندوں کے شہر بے ہنر میں

وہ زندہ تھا یہی اس کا ہنر تھا

دیا اس کا بجھا رہتا تھا عاجزؔ

کسی آسیب کا شاید اثر تھا

٭٭٭

 

(شہنشاہ غزل مہدی حسن خاں کے لیے )

اک شخص مرے شہر میں ایسا بھی رہا ہے

جو بھیڑ کے ہوتے ہوئے تنہا بھی رہا ہے

تنہائی میں جس شخص کے رکتے نہیں آنسو

ہنگامۂ بازار میں ہنستا بھی رہا ہے

اب جس کے ّتکلم کو ترستا ہے زمانہ

دنیائے ّترنم میں وہ یکتا بھی رہا ہے

یہ ریت کا صحرا جو نظر آتا ہے تم کو

کہتے ہیں کسی دور میں دریا بھی رہا ہے

مُنہ زور ہواؤں سے گلہ کچھ نہیں عاجزؔ

تا دیر دیا پیار کا جلتا بھی رہا ہے

٭٭٭

 

کیا جو مجھ کو نشانہ تو وار کر کے رہا

مرے غرور کو آخر شکار کر کے رہا

وہ میری رہ میں اگا خاردار پودا تھا

الجھ گیا تو مجھے تار تار کر کے رہا

لپٹ گیا تھا وہ مجھ سے گناہ کی صورت

سو میرا دامن دل داغ دار کر کے رہا

وہ سیل آب کہ سیراب کرنے آیا تھا

مرے وجود کے صحرا کو پار کر کے رہا

میں ایک راز کی صورت رہا تھا سربستہ

وہ اک جہاں پہ مجھے آشکار کر کے رہا

ہزار جان سے اس پر نثار تھا عاجزؔ

سو اپنا نام و نسب تک نثار کر کے رہا

٭٭٭

 

وہ جو عشق تھا وہ نہیں رہا، وہ جو پیار تھا وہ نہیں رہا

مری آنکھ میں کسی خواب کا جو خمار تھا وہ نہیں رہا

وہ جو خوشبوؤں کی فصیل تھی مرے چارسو، وہ نہیں رہی

مرے چارسو، وہ جو روشنی کا حصار تھا وہ نہیں رہا

وہ جو رنگ و بو کا شکار تھا، وہ جو گل رخوں پہ نثار تھا

وہ جو مبتلائے بہار تھا، دل زار تھا، وہ نہیں رہا

غم جسم و جاں ، غم دوستاں ، غم رفتگاں بھی بجا مگر

وہ جو غم کدے کا نکھار تھا، غم یار تھا، وہ نہیں رہا

وہی جلوہ گاہ جمال ہے ، وہی رسم و راہ جنوں مگر

سر عاشقاں کا جو بانکپن سردار تھا، وہ نہیں رہا

وہ کرم رہا نہ ستم رہا، نہ خوشی رہی نہ وہ غم رہا

جو عنایتوں کا، شکایتوں کا شمار تھا، وہ نہیں رہا

٭٭٭

 

ملن ہوا بھی تو راجاؤں رانیوں جیسا

ہمارا پیار تھا ّقصے کہانیوں جیسا

اجڑ گیا ہے تو اب کوئی پوچھتا بھی نہیں

یہ دل کہ تھا جو کبھی راج دھانیوں جیسا

کرم لکھا تھا بہت ہاتھ کی لکیروں میں

ستم روا تھا مگر مہربانیوں جیسا

کسی کی پیاس بجھائی کسی کو لے ڈوبا

مزاج یار تھا دریا کے پانیوں جیسا

میں ایسے درد کا عاجزؔ علاج کیا کرتا

جو محترم تھا مقدّس نشانیوں جیسا

٭٭٭

 

 (مرحوم دوست اشفاق امین کے لیے )

پریشاں ہوں پرانا یار گم ہے

غموں کی بھیڑ میں غم خوار گم ہے

ادھر انبار ہیں کار جہاں کے

ادھر میرا شریک کار گم ہے

سوا نیزے پہ سورج آ گیا ہے

مگر سایہ پس دیوار گم ہے

مزاج گردش دوراں ہے برہم

کہیں اک ساعت سیّار گم ہے

بہت بے ربط ہوتی جا رہی ہے

کہانی کا کوئی کردار گم ہے

کوئی زیر زمیں سویا پڑا ہے

کوئی ساتھی سمندر پار گم ہے

قد و قامت میں بونا لگ رہا ہے

مرے سردار کی دستار گم ہے

کھڑا ہے لشکر اعدا مقابل

مگر میرا علم بردار گم ہے

٭٭٭

 

اس کو نگاہ شوق سے دیکھا بہت کیا

مجھ کو مرے مزاج نے رسوا بہت کیا

پونم کا چاند بھی ہے مرے جرم کا شریک

اس نے بھی حسن یار کا چرچا بہت کیا

برہم سوال وصل پر آخر وہ کیوں نہ تھا

ہنگامہ اس خیال نے برپا بہت کیا

میں چھپ کے جی لیا غم جاناں کی اوٹ میں

میرا غم حیات نے پیچھا بہت کیا

عاجزؔ مرے تو دھیان میں آنکھیں بسی رہیں

لوگوں نے ذکر ساغر و مینا بہت کیا

٭٭٭

 

آج کچھ لطف و کرم حد سے سوا ہے دل پر

جیسے اک کوہ گراں ٹوٹ پڑا ہے دل پر

چاند بھی گھر میں اترتا ہے تو ڈر جاتا ہوں

دست شب زاد نے یوں خوف لکھا ہے دل پر

سر مرا پاس مروّت سے جھکا جاتا ہے

پھر کسی آنکھ نے احسان دھرا ہے دل پر

تو گیا وقت نہیں ہے کہ بھلا دوں تجھ کو

تو مرا حال ہے اور بیت رہا ہے دل پر

آنکھ میں لکھے ہوئے کرب کو اب پڑھ بھی چکو

برملا کون کہے ظلم ہوا ہے دل پر

صحن گلشن میں جو اک پھول کھلا ہے عاجزؔ

ایسا لگتا ہے کہ اک زخم لگا ہے دل پر

٭٭٭

 

آنے والا کل بہت رنگین ہے چنتا نہ کر

نیند اڑ جائے گی راتوں کی، بہت سوچا نہ کر

شام کے سائے بدن کی روشنی پی جائیں گے

دن ڈھلے احساس کی دہلیز پر بیٹھا نہ کر

آنکھ میں کانٹا نہ چبھ جائے کسی کے روپ کا

دیکھنے والی نظر کو غور سے دیکھا نہ کر

روشنی کے پر سمیٹے چھپ گیا تو کیا ہوا

کل نیا سورج نکل آئے گا جی ہلکا نہ کر

دل کے دامن میں چھپا لے درد کا آتش فشاں

دیکھ اپنے آنسوؤں کو اس طرح رسوا نہ کر

نا امیدی کفر کی کالک ہے چہرے پر نہ مل

آئنے کو وسوسوں کی گرد سے میلا نہ کر

ضبط کی دیوار عاجزؔ پھاند کر پچھتائے گا

دیکھ میری مان لے ، ایسا نہ کر، ایسا نہ کر!!

٭٭٭

 

    اپنی ہر سانس میں اک حرف دعا رکھا ہے

    زیست کو ہم نے مناجات بنا رکھا ہے

    درد ایسا ہے کہ اظہار میں رسوائی ہے

    زخم ایسا ہے کہ ماتھے پہ سجا رکھا ہے

    کل کی امید پہ زندہ ہیں تو حیرت کیسی؟

    اک شکایت ہے جسے کل پہ اٹھا رکھا ہے

    شاید آ جائے کبھی لوٹ کے ، جانے والا

    در امید کو دن رات کھلا رکھا ہے

    کوئی تنہائی سی تنہائی ہے گھر میں عاجزؔ

    اپنی تصویر کو سینے سے لگا رکھا ہے

٭٭٭

 

   یہ راز عشق ہے افشا تو ہو گا

    گلی کوچوں میں تو رسوا تو ہو گا

    دیے جاتا ہے کوئی دل پہ دستک

    دریچہ ہے کسی دن وا تو ہو گا

    بہت روئے گا اپنی سادگی پر

    یہ دنیا ہے یہاں دھوکا تو ہو گا

    کوئی دیکھے گا جب میلی نظر سے

    بدن کا آئنہ میلا تو ہو گا

    اٹھیں گی انگلیاں جب اس پہ عاجزؔ

    تمہارا شہر میں ، چرچا تو ہو گا

٭٭٭

 

    آنکھ نم ہو تو مری جان میں جاں آتی ہے

    خشک موسم ہو تو بو باس کہاں آتی ہے

    ایک دستور ہے موسم کا بدلتے رہنا

    ہو کے مجبور گلستاں میں خزاں آتی ہے

    آسماں سن کے جسے آہ بھرے ، بین کرے

    ایک ایسی بھی مجھے طرز فغاں آتی ہے

    اک ذرا دیر ٹھہر، ہاتھ چھڑانے والے !

    تیرے ملنے کو مری عمر رواں آتی ہے

    گفت گو بند لبوں سے بھی تو ہو سکتی ہے

    تم نہ مانو مجھے آنکھوں کی زباں آتی ہے

    جب بھی سجتی ہے کہیں بزم ترنّم عاجزؔ

    ایسا لگتا ہے ابھی نورجہاں آتی ہے

٭٭٭

 

    جب تک بحال غم سے رہا رابطہ مرا

    ٹوٹا نہیں تھا خود سے کبھی سلسلہ مرا

    تنہا بھٹک رہا ہوں بیابان زیست میں

    رستے میں مجھ کو چھوڑ گیا قافلہ مرا

    چلتا نہیں تھا ساتھ مرے کوئی ہم سفر

    دشوار ہو گیا تھا بہت راستہ مرا

    دشمن تھا کون؟ کون مرا غم گسار تھا؟

    یادوں میں کھو گیا ہے کہیں حافظہ مرا

    عاجزؔ مرے خیال میں چبھتی ہیں کرچیاں

    شاید کسی نے توڑ دیا آئنہ مرا

٭٭٭

 

    زندگی کا رنگ ایسا تو نہ تھا

    روشنی کم تھی اندھیرا تو نہ تھا

    عکس تک اپنا نہ پہچانا گیا

    آئنہ ایسا بھی دھندلا تو نہ تھا

    کیوں نجانے اس نے آنکھیں پھیر لیں

    دیکھنے میں ایسا لگتا تو نہ تھا

    توڑنے کا حق اسے کس نے دیا

    دل کسی قیمت پہ بیچا تو نہ تھا

    دوستوں نے کیوں خدا جانا اسے ؟

    میں نے اس پتھر کو پوجا تو نہ تھا

    تھا نہ جب تک ساتھ کوئی دوسرا

    اپنے کھو جانے کا کھٹکا تو نہ تھا

    میں اکیلا تھا بہت اس شہر میں

    پھر بھی عاجزؔ ایسا تنہا تو نہ تھا

٭٭٭

 

    تازہ دم کونپلوں کا موسم تھا

    زرد پتوں کا آخری دم تھا

    یاد آیا تھا کوئی ّشدت سے

    ایک دیوانگی کا عالم تھا

    بین کرتی تھیں دھڑکنیں دل کی

    پھر کسی آرزو کا ماتم تھا

    چھلکے پڑتے تھے اشک آنکھوں سے

    میری توفیق سے بڑا غم تھا

    ڈبڈبانے لگی تھی چشم فلک

    اتنا موسم کی آنکھ میں نم تھا

    ہونے والا تھا حادثہ کوئی

    آج سینے میں درد کم کم تھا

    ڈھانپ رکھا تھا میں نے آنکھوں کو

    روشنی کا مزاج برہم تھا

٭٭٭

 

    جلتے ہوئے جسموں کا جہاں دیکھ رہا ہوں

    بجھتے ہوئے منظر کا دھواں دیکھ رہا ہوں

    دیکھی ہے بہت میں نے لپک شعلۂ دل کی

    اب اپنے سلگنے کا سماں دیکھ رہا ہوں

    سایہ سا مرے سر سے بھی گزرا تو ہے لیکن

    بادل کو برسنا ہے کہاں ؟ دیکھ رہا ہوں

    ہر شخص نے جس سمت نہ جانے کو کہا تھا

    ہر شخص اسی سمت رواں دیکھ رہا ہوں

    سو زخم چھپا رکھے ہیں ملبوس نے پھر بھی

    جو کرب ہے چہروں سے عیاں دیکھ رہا ہوں

    ہے جان بہ لب کوئی، کوئی جام بہ کف ہے

    انصاف ترا پیر مغاں دیکھ رہا ہوں

    جو تیر مرے دل میں ترازو ہے ازل سے

    کس ہاتھ میں ہے اس کی کماں دیکھ رہا ہوں

٭٭٭

 

مزاج دوستاں میں برہمی ہے

مری ہی ذات میں کوئی کمی ہے

ابھی دھندلی ہے صورت زندگی کی

ابھی آنکھوں میں تھوڑی سی نمی ہے

اسے رخصت ہوئے اک عمر گزری

فضا گھر کی ابھی تک ماتمی ہے

خوشی کا دور تک امکاں نہیں ہے

ابھی شاید کسی غم کی کمی ہے

کہیں عہد وفا مت بھول جانا

وفا شرط بقائے باہمی ہے

یہ کس موسم کی آمد ہے کہ عاجزؔ

ہرے پتوں پہ پیلی تہہ جمی ہے

٭٭٭

 

ہو سکے تو نت نئی مشکل میں رہنا چاہیے

آدمی کو آدمی کے دل میں رہنا چاہیے

بزم خوباں خوب ہے اہل نظر کے واسطے

اہل دل کو کوچۂ قاتل میں رہنا چاہیے

ہو نہ جائے ذوق نظارہ کی جب تک تربیت

جلوۂ جاناں تجھے محمل میں رہنا چاہیے

گرم رہنی چاہیے تا دیر بزم دوستاں

ذکر اس کا دیر تک محفل میں رہنا چاہیے

مجھ پہر ہنی چاہیے کچھ دیر تک اس کی نظر

تیر دم بھر سینۂ بسمل میں رہنا چاہیے

پیار کی خیرات سے بھرتا ہی کب ہے دل مگر

کچھ نہ کچھ تو کاسۂ سائل میں رہنا چاہیے

جل رہا ہے جب تلک عاجزؔ چراغ زندگی

ایک شعلہ تیرے آب و گل میں رہنا چاہیے

٭٭٭

 

    مرے گھر سے بہ حال غم گئی ہے

    خوشی کرتی ہوئی ماتم گئی ہے

    غم جاں کے پرندو لوٹ آؤ

    غم جاناں کی آندھی تھم گئی ہے

    نظر آتی ہے صورت مضمحل سی

    اداسی آئنے پر جم گئی ہے

    سکوں کی صورتیں کم تو نہیں تھیں

    ادھر میری نظر ہی کم گئی ہے

    شگفتہ تر ہے صبح نو کا چہرہ

    شب ہجراں بہ چشم نم گئی ہے

    ہوائے موسم جاں گھر میں عاجزؔ

    پریشاں آئی تھی برہم گئی ہے

٭٭٭

 

    اہل نظر نے جب بھی نیا زاویہ لکھا

    دنیا نے ابتلا کا کٹھن مرحلہ لکھا

    میں نے کلی کلی کا قصیدہ کہا مگر

    مسلے ہوئے گلوں نے مرا مرثیہ لکھا

    منزل نگاہ شوق میں لکھی سراب نے

    صحرا نے زیر پائے طلب آبلہ لکھا

    ہر چند ہاتھ بھر کی مسافت نہ تھی مگر

    دل نے بنام ذوق سفر فاصلہ لکھا

    آئی ہے جس کے ہاتھ بھی پرکار وقت کی

    کیا کیا نہ اس نے دائرہ در دائرہ لکھا

    اک قہقہہ بلند ہوا شہر عشق میں

    پتھر کو چشم شوق نے جب آئنہ لکھا

    اتنی طویل کب تھی غم دل کی داستاں

    اس نے بڑھا چڑھا کے مرا واقعہ لکھا

٭٭٭

 

    دیدۂ تر میں رہنا سیکھ

    خواب نگر میں رہنا سیکھ

    پانی پر مت محل بنا

    ریت کے گھر میں رہنا سیکھ

    پاؤں میں منزل باندھ کے چل

    اور سفر میں رہنا سیکھ

    دشت طلب کے پار اتر

    راہ گزر میں رہنا سیکھ

    لہروں کو پتوار بنا

    بیچ بھنور میں رہنا سیکھ

    آنکھوں آنکھوں گھوم مگر

    ایک نظر میں رہنا سیکھ

    ہونا ہے شہ کار اگر

    دست ہنر میں رہنا سیکھ

٭٭٭

 

    عقل کو کوئی مشغلہ بھی تو دے

    چشم حیراں کو آئنہ بھی تو دے

    زندگی مجھ کو بخشنے والے

    زندہ رہنے کا حوصلہ بھی تو دے

    میں تو چلتا ہوں تیری سمت مگر

    تیری مخلوق راستہ بھی تو دے

    من و سلویٰ اتارنے والے

    میرے گیہوں کو ذائقہ بھی تو دے

    میری محنت کو رائیگاں تو نہ کر

    اجرتی کو معاوضہ بھی تو دے

    میرے سجدوں میں کچھ اثر بھی تو ہو

    بندگی کا کوئی صلہ بھی تو دے

    اتنا حسّاس دل جو بخشا ہے

    کوئی سنگین حادثہ بھی تو دے

٭٭٭

 

    کیسے اخلاص کے زمانے تھے

    تیر کی تاک میں نشانے تھے

    بستی بستی جمال بکھرا تھا

    قریہ قریہ مرے فسانے تھے

    زندگی زندگی سی لگتی تھی

    زندہ رہنے کے سو بہانے تھے

    جام و مینا کی کس کو حاجت تھی

    آنکھوں آنکھوں شراب خانے تھے

    تنکا تنکا جو آج بکھرے ہیں

    کل پرندوں کے آشیانے تھے

    اس کو جلدی تھی لوٹ جانے کی

    میرے پیش نظر زمانے تھے

    شہر میں جشن سنگ باری تھا

    اور مجھے آئنے بچانے تھے

    آنسوؤں سے نہ دھل سکے عاجزؔ

    داغ گہرے تھے اور پرانے تھے

٭٭٭

 

    مری بنجر زمینوں کو ہرا کر

    کبھی اے آسماں ! رو بھی لیا کر

    بہت قلّاش ہے میرا زمانہ

    مرے لوگوں کو درد دل عطا کر

    سکوت مضمحل چھایا ہوا ہے

    مرے اندر کوئی محشر بپا کر

    سمندر میرے لب چھونے لگا ہے

    طلب کو تشنگی سے ماورا کر

    خدارا ! نکہت پیراہن گل

    مجھے کنج قفس میں مت ملا کر

    بہت چالاک ہے لمحہ خوشی کا

    نکل جائے گا پھر دامن بچا کر

    دھواں آنکھوں میں عاجزؔ بھر نہ جائے

    سلگتی سانس کو جلتا دیا کر

٭٭٭

 

    اے مرے دیدۂ تر غور سے دیکھ

    پھر ذرا ایک نظر غور سے دیکھ

    شعلۂ عشق بھی ّرکھا کہ نہیں

    اپنا سامان سفر غور سے دیکھ

    کس رعونت سے عدو دیکھتا ہے

    خوش مزاجی کا اثر غور سے دیکھ

    گلشن غم پہ بہار آئی ہے

    پھولتے پھلتے شجر غور سے دیکھ

    دیکھ نقش کف پائے جاناں

    غیر کی راہ گزر غور سے دیکھ

    کس پہ وا ہوتے ہیں چپکے چپکے

    یار و اغیار کے در غور سے دیکھ

    کتنے فتنوں کو جنم دے گا سکوت

    خیر میں رخنۂ شر غور سے دیکھ

    کتنے تاروں کی ضیا قتل ہوئی

    کتنی نادم ہے سحر غور سے دیکھ

    دامن حسن میں اک داغ بھی ہے

    پھول کو بار دگر غور سے دیکھ

٭٭٭

 

    سوچوں میں تھا وہ مثلِ گلِ تر بسا ہوا

    خوشبوئے یار میں تھا مرا گھر بسا ہوا

    عکس جمال یار تھا یا لاشعور میں

    خواب و خیال کا کوئی منظر بسا ہوا

    باہر کی بود و باش سے کچھ مختلف مزاج

    اک اور شہر تھا مرے اندر بسا ہوا

    پہلو میں بس گیا تھا غم زیست کی طرح

    اک شخص میرے گھر کے برابر بسا ہوا

    گھر سے نکل سکی نہ کبھی خواہش سفر

    دہلیز کے ادھر تھا کوئی ڈر بسا ہوا

    آنے لگا تھا میری نگاہوں سے ڈر اسے

    مجھ میں تھا خواہشات کا اژدر بسا ہوا

    صحرا کی پیاس تھی مرے اندر بسی ہوئی

    ظاہر کی آنکھ میں تھا سمندر بسا ہوا

    پڑتے نہ تھے زمین پہ عاجزؔ مرے قدم

    گھر تھا مکاں کی آخری چھت پر بسا ہوا

٭٭٭

 

    کچھ ایسے کسی آس نے آنکھوں میں بھرے خواب

    جی اٹھے ہیں پھر ذہن میں صدیوں کے مرے خواب

    مجھ پر بھی روا رکھا ستم دور خزاں نے

    میں نے بھی بچا رکھے تھے دو چار ہرے خواب

    کل رات ذرا نیند کے آثار سے پہلے

    اک یاد اڑا لے گئی تکیے پہ دھرے خواب

    اب سو بھی اگر جاؤں تو دستک نہیں دیتے

    تعبیر کے آسیب سے کچھ ایسے ڈرے خواب

    ایسے بھی ہیں کچھ لوگ یہاں نیند کے رسیا

    رکھ دیتے ہیں جو آنکھ کے پردے سے پرے خواب

    آتی نہیں جب نیند تو آتے ہیں بہت یاد

    بچپن کے ، لڑکپن کے ، جوانی کے کھرے خواب

    اک خواب ہے عاجزؔ کہ جو کہتا ہے بہ تکرار

    ڈھارس تو بندھا رکھی ہے ، کیا اور کرے خواب

٭٭٭

 

    سکون جسم و جاں بھی روح کا آزار لگتا ہے

    سو اب آرام سے جینا مجھے دشوار لگتا ہے

    مرے رستے میں لوگوں نے وہ دیواریں اٹھائی ہیں

    کہ اپنے گھر کا دروازہ بھی اب دیوار لگتا ہے

    کٹی ہے جب سے گردن ایک مرد سرکشیدہ کی

    مجھے ہر سر بریدہ صاحب دستار لگتا ہے

    لہو بہتا ہوا دیکھا ہے جب سے غنچہ و گل کا

    پر کاہ خمیدہ ہم سر تلوار لگتا ہے

    صف اعدا میں میرا اک پرانا یار شامل ہے

    سو ّمٹھی بھر یہ دستہ لشکر ّجرار لگتا ہے

    غم دنیا کوئی دن کے لیے روپوش ہی رہنا

    غم جاناں کئی دن سے جنوں آثار لگتا ہے

    کسی دن آ کے دیکھو تو خلوص دل کی ارزانی

    مری نادار بستی میں بھی اک بازار لگتا ہے

٭٭٭

 

    دیکھتے ہی دیکھتے تصویر مدھم ہو گئی

    رنگ پھیکے پڑ گئے یا روشنی کم ہو گئی

    رفتہ رفتہ موسم دل معتدل ہونے لگا

    ابر کیا چھایا کہ آنکھوں کی فضا نم ہو گئی

    پہلے کوئی اور فرط غم سے نم دیدہ ہوا

    پھر ہماری عمر ساری صرف ماتم ہو گئی

    باعث سوز و گداز انجمن اک شخص تھا

    اٹھ گیا تو بزم اہل درد برہم ہو گئی

    پہلے پہلے بادل ناخواستہ سہتے تھے غم

    ہوتے ہوتے طبع نازک خوگر غم ہو گئی

    چھوڑ دی پھر وقت کے رحم و کرم پر زندگی

    جام شیریں ہو گئی یا ساغر سم ہو گئی

٭٭٭

 

    دیا دل کے نگر میں رکھ لیا ہے

    اجالا رہ گزر میں رکھ لیا ہے

    اندھیرے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں

    رخ جاناں نظر میں رکھ لیا ہے

    میسر آ گیا تھا ایک جگنو

    وہی رخت سفر میں رکھ لیا ہے

    زمیں پر آ گرا تھا اک ستارا

    اٹھا کر چشم تر میں رکھ لیا ہے

    چھپانا تھا جسے سب کی نظر سے

    اسے شیشے کے گھر میں رکھ لیا ہے

٭٭٭

 

    مسلسل رابطہ رکھا ہوا ہے

    مگر اک فاصلہ رکھا ہوا ہے

    سفر طے کر چکا حرف تمنّا

    زباں پر آبلہ رکھا ہوا ہے

    جنوں کو پھر وہیں جانے کی ضد ہے

    جہاں اک حادثہ رکھا ہوا ہے

    وہ آنکھیں موند کر بیٹھے ہوئے ہیں

    مقابل آئنہ رکھا ہوا ہے

    فضائے بے یقینی میں بھی عاجزؔ

    دعا کا حوصلہ رکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

    سورج سے واجبی سا تعلق ہی تھا مرا

    میں پھر بھی اپنی دھوپ سدا بانٹتا پھرا

    کیوں در بجا رہی تھی مرا اے خنک ہوا

    کیا رات مجھ غریب سے کچھ کام تھا ترا؟

    میں کر رہا تھا اہل زمیں کے ستم شمار

    اتنے میں آسمان مرے سر پہ آ گرا

    دشت غم حیات! مرا حوصلہ تو دیکھ

    میں ڈھونڈنے چلا ہوں ترا دوسرا سرا

٭٭٭

 

بکھرے سُر

    مجھے جانا ہے اک لمبے سفر پر

    اجازت چاہتا ہوں زندگی سے

    ====

    کوئی کرے تو سہی روشنی طلب ہم سے

    دیا ہوا نہ ّمیسر تو گھر جلا دیں گے

    ====

باتوں باتوں میں عمر بیت گئی

ہاں مگر ایک ان کہی اے دوست!

    ====

عمر عزیز بھول بھلیّاں میں کٹ گئی

جو بھی ملا وہ ایک پہیلی سنا گیا

    ====

دیار عشق میں مجھ سا غریب کوئی نہیں

کہ اس کے شہر میں میرا رقیب کوئی نہیں

اب ایسے شہر میں کیا حاصل وفا کہ جہاں

نصاب عشق و جنوں میں صلیب کوئی نہیں

    ====

سر پہ آ پہنچا غم دہر کا جلتا سورج

کوئے جاناں سے کوئی مانگ کے لائے سائے

    ====

چھپی ہوتی ہے جن میں کوئی مورت

وہ پتھر ڈھونڈتا رہتا ہوں اکثر

    ====

بہت دنوں سے وہ چہرا نظر نہیں آیا

گزر گئے کئی موسم وہ گھر نہیں آیا

    ====

بجھ نہ جائے چراغ آخر شب

اپنے حصے کی روشنی لے جا

    ====

اب تک شکست فاش کی خفت نہیں مٹی

اک جنگ اپنے آپ سے ہارا تھا میں کبھی

    ====

بندگی سے بھی رام ہو نہ سکا

بت کے پیکر میں بھی خدا نکلا

    ====

آج سورج مری دہلیز پہ آ بیٹھا ہے

آج نکلے گا اندھیرا مرے گھر سے کیسے

باڑ کانٹوں کی اگا رکھی تھی ہر پیڑ کے گرد

اب اتاروں گا ثمر شاخ شجر سے کیسے

    ====

جل کے ہم راکھ ہوئے جس کی تپش سے عاجزؔ

روشنی بھی تو اسی برق تپاں سے آئی

    ====

تقویم مہ و سال سے پہچان رہے ہو

ماضی کو مرے حال سے پہچان رہے ہو

کب وقت نے چھوڑا ہے کوئی نقش سلامت

اب کس کو خدوخال سے پہچان رہے ہو؟

    ====

اڑنے لگتا ہے ہوا میں آدمی

خواہشوں کے جب نکل آتے ہیں پر

    ====

میں اس کی خوشبو پہن کے نکلا تھا موسموں سے خراج لینے

نجانے کب کوئی زرد پتّا مری ہتھیلی پہ دھر گیا تھا

    ====

زمیں پہ نقش پا تک بھی نہ چھوڑا

تو کیا میں خواب میں چلتا رہا ہوں

اندھیرا تو سر مو بھی نہ سرکا

مگر میں عمر بھر جلتا رہا ہوں

    ====

    رقص کرتی تتلیاں تھیں ، زر لٹاتے پھول تھے

    آج گلشن میں سماں اک اور ہی بستی کا تھا

    ====

    سورج مری تلاش میں نکلا تو تھا مگر

    میں رات کے طلسم سے باہر نہ آ سکا

    اک تو کہ میری روح میں تحلیل ہو گیا

    اک میں کہ اپنے جسم سے باہر نہ آ سکا

    ====

    دعویٰ  پارسائی اپنی جگہ

    اعتراف گناہ لازم ہے

    ====

    ان کی آنکھوں سے پوچھنا ہے ہمیں

    کون لکھتا ہے فیصلے دل کے

    ====

    میں تو سمجھا تھا کہ جب رات کٹے گی عاجزؔ

    میرے آنگن میں بھی گل رنگ سویرے ہوں گے

    گھر سے نکلا تھا اجالوں کے قدم لینے کو

    کیا خبر تھی کہ تعاقب میں اندھیرے ہوں گے

    ====

وہ جس کی خاطر دیار دل میں دئیے جلائے

فصیل شہر بدن سے باہر ٹھہر گیا ہے

    ====

گھر سے مسافروں کے نکلنے کی دیر تھی

پیڑوں نے اپنے سائے زمیں سے اٹھا لیے

    ====

سورج نے آنکھ موند لی، تاروں نے منہ چھپا لیا

تیرہ شبی نے آ لیا قریۂ بے چراغ میں

    ====

آمد خورشید کا اعلان ہے

رات کی دہلیز پر بجھتا دیا

    ====

    عمر بھر بھیڑ میں رہا تنہا

    ہے کوئی مجھ سا دوسرا تنہا

    یاد آئے ہیں کتنے یار مجھے

    جب کوئی شہر میں ہوا تنہا

    ====

    ایسا بھی ایک جرم ہے ان کے حساب میں

    میزان عدل میں جسے تولا نہیں گیا

    ====

    اب ترا نام بھی لے لوں تو سلگ اٹھتے ہیں

    اتنے ّحساس مرے ہونٹ کہاں تھے پہلے

    منکشف اب ہیں جو دھندلائی ہوئی آنکھوں پر

    ایسے اسرار کہاں مجھ پہ عیاں تھے پہلے

    ====

    آنکھوں آنکھوں ہجرت کرنا اس کو تھا مرغوب

    ورنہ اپنے خواب جزیرے کم آباد نہ تھے

    ====

    اشک بن کر چھلک گیا آخر

    غم مرے ظرف سے سوا نکلا

    ====

    مدّت ہوئی کسی نے کوئی دکھ نہیں دیا

    لگتا ہے اب کسی کو بھی چنتا نہیں مری

    ====

    مانا کہ میں نے غور سے دیکھا نہ تھا تمھیں

    سورج کو آنکھ بھر کے کوئی دیکھتا ہے کیا؟

    ====

    خواہش پرواز بھی آخر کو پوری ہو گئی

    کل ہوئی ساون کی بارش اور میرے پر لگے

    ====

 

تشکر: شاکر القادری، اٹک

ماخذ:

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%BE-%DB%94-%DB%94-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%A7%D9%82-%D8%B9%D8%A7%D8%AC%D8%B2-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%D8%B9%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D8%AC%D9%85%D9%88%D8%B9%DB%81.49758/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید