فہرست مضامین
- آدمی گزیدہ
- حمد
- حمد رب جلیل
- نعتِ سرور عالم صَلی اللہ علیہ وسلّم
- نعت پاک
- نعت نبیؐ
- نعتِ رسولِ رب العالمین علیہ الصلٰوتُ والتسلیم
- نعتِ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
- جب ضروری ہو تبھی بو لتا ہو ں
- قدم کانٹوں پہ دھرنا ہی پڑے گا
- دیکھیے جس کو، زخم دیدہ ہے
- خامیوں میں ہوا شمارِ وفا
- ملا نہ اس طرح، جس طرز سے زمانہ ملا
- ہر دم کی کشمکش سے نکل، راستہ بدل
- لپکے جنوں شعار یکے بعد دیگرے
- برتے کچھ امتیاز تو انسان کم سے کم
- گل اور طرح کے ہیں، ثمر اور طرح کے
- تمھیں پسند ہے تنہا سفر زیادہ تر
- زیادہ رد و کد مت کیجئیے گا
- ترکِ رسم و راہ پر افسوس ہے
- ذہن کی رَو جدھر بہا لے جائے
- پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں
- سامنے دنیا کے خم ٹھو نک کے سچ بو لا تھا
- طبیعت میں تفا خُر آ گیا ہے
- کسی سے د ا د کے طالب نہ ہا ؤ ہو والے
- فضائے شہر محبت کو نا گوار نہ کر
- چال کیسی یہ چل گئی دنیا
- سامنے ہو کر بھی کب سب پر عیاں ہو تے ہیں لوگ
- یہ کس دھچکے سے دہلا تھا سمندر
- دوری تھی جن پہ شاق ، بھلانا تو درکنار
- زہر کے جام ہیں بہت سارے
- سَر لیا کیوں وبال لوگوں کا
- عالم اضطرار میں ہے وہ
- گِر نہیں پا ئی دوستو دیوار
- راہ میں اِک دیا ہی دھر جائے!
- کر ۂ ارض پہ ہے زیست کا بانی پانی
- ر نج کے سائےتمھا ر ے ر خ پہ لہرائے تو تھے
- کتنے بَرسے نگر نگر پتّھر !
- Related
آدمی گزیدہ
ضیاء الدین نعیم
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
حمد
مر ے لیے مر ے رب کس قد ر سعید رہا
تِرا لحاظ عمل میں بہت مفید رہا
قریب ہے مر ے مو لا بہت قریب ہے تو
بعید تجھ سے ر ہا مَیں ، تو کب بعید رہا؟
تِرے کرم پہ سرا پا سپا س ہوں ما لک
تر ا کر م کہ نہ گمراہ میں مزید ر ہا
ہے تجربے پہ ا سا س اب تو میر ے ایماں کی
گئے وہ دن کہ مد ا ر اِس کا جب شنید رہا
گزارتا ہوں جو دن بھی تری اطاعت میں
میں دیکھتا ہوں کہ وہ دن مثالِ عید رہا
سد ا نعیم ر ہے گا کر م کے ہا لے میں
سد ا جو پیش نظر مصحفِ مجید رہا
٭٭٭
حمد رب جلیل
جب سے روشن ہو ئی دل میں شمعِ یقیں ، مالک ا لملک یا ارحم الراحمیں
زندگی کس قد ر ہو گئے حسیں ، مالک ا لملک یا ارحم الراحمیں
اب نہ محرومیاں ہیں نہ مایوسیاں ، اب عنایت ہے مجھ پر تری بے کراں
خانۂ دل میں تو ہو گیا جا گزیں ، مالک ا لملک یا ارحم الراحمیں
میں مسلمان تھا پر مسلماں نہ تھا ، واقفِ رشتۂ علم و ایماں نہ تھا
تیری رحمت سے پہنچا کہیں سے کہیں ، مالک ا لملک یا ارحم الراحمیں
وہ بھی دن تھے کہ آلودۂ شرک تھا ، بے ثمر تھی عبادت دعا نا رسا
نا مرا دی سے اب کچھ علاقہ نہیں ، مالک ا لملک یا ارحم الراحمیں
د و ر تجھ کو سمجھنا بڑی بھو ل ہے کیونکہ تیرا ہی ارشاد مقبول ہے
میں تو بندے کی شہ رگ سے بھی ہوں قریں ، مالک ا لملک یا ارحم الراحمیں
میں کسی اور کے د ر پہ جا ؤں تو کیوں؟ آس میں ماسوا سے لگا ؤں تو کیوں؟
کو ئی حا جت ر و ا اور ہے ہی نہیں ، مالک ا لملک یا ارحم ا لرا حمیں
جی میں آتا ہے کہتا پھروں کو بہ کو ، تو نے جب کہہ دیا ہے کہ لا تقنطوا
ر و ح کیوں مضطرب ، قلب کیوں ہو حزیں ؟ مالک الملک یا ارحم الراحمیں
ہے نعیم اب مزیّن جو ایمان سے ، صرف تیرے کرم تیرے احسان سے
ہو گیا اک سیہ بخت روشن جبیں ، مالک الملک یا ارحم ا لرا حمیں
نعتِ سرور عالم صَلی اللہ علیہ وسلّم
دَمک ایسی ستارے میں نہ تابش ایسی گوہر میں
نظر آتی ہے جو نقشِ کفِ پائے پیمبر میں
علائق سے عدم وابستگی کا کیا ٹھکانہ تھا !
نہ رکھا مال و زر کو ایک شب بھی آپ نے گھر میں
نشانِ راہِ منزل ہیں فقط نقش قدم اُن کے
کسی کی پیروی نافع نہیں ہے اب جہاں بھر میں
ہے تفسیر کتابِ کبریا ہَر ہَر عمل اُن کا
مجسم ہو گیا قرآن گویا اُن کے پیکر میں !
نعیم اللہ توفیق اطاعت بھی تمھیں بخشے
کہ بس حسنِ بیاں کافی نہیں مدح پیمبر میں!!
نعت پاک
ز با ن پر با ر با ر آئے درود اُن پر سلام اُن پر
سحا بِ رحمت جو بن کے چھائےدرود اُن پر سلام اُن پر
مطیع ر بِّ جلیل و بر تر فلک نے دیکھا نہ اُن سے بڑھ کر
خد ا نے و صف اُن کے خو د گنائےدرود اُن پر سلام اُن پر
وہ عفو اُن کا وہ اُن کی شفقت ، وہ فتح کے دن بھی یہ عنایت
کہ جائے ہر شخص ا ما ن پائے درود اُن پر سلام اُن پر
قرینۂ بند گی سکھا یا فلا ح کا راز یہ بتا یا
کہ شرک دل میں نہ راہ پائے درود اُن پر سلام اُن پر
کہیں ہوئی اُن پہ سنگ با ر ی ، کبھی رہی بھوک پیا س طاری
جبیں پہ لیکن شکن نہ لائے درود اُن پر سلام اُن پر
اطاعت اُن کی میں چھوڑ بیٹھوں ؟ میں رابطہ رب سے توڑ بیٹھوں
نعیم وہ دن کبھی نہ آئے درود اُن پر سلام اُن پر
٭٭٭
نعت نبیؐ
چاہتا ہے جو دکھ سے بچے آدمی
اُ ن کے نقش قدم پر چلے آدمی
دیکھنا جب بھی ہو اُن کے اخلا ق کو
مصحفِ کبر یا دیکھ لے آدمی
نفر توں کے نہیں تھے وہ پیغام بر
نفر توں سے کنا ر ا کر ے آ دمی
وہ جو طائف میں گز ری رہے ذہن میں
صبر سے آزمائش سہے آدمی !
حکم اُ ن کا یہی ہے ، عمل بھی یہی
جو کٹے کیوں نہ اُس سے جُڑ ے آدمی (حدیث)
؛ خاک سے ہیں سب آد م کی او لا د ہیں ؛ (حدیث)
کھینچتا کیوں ہے یہ دائرے آدمی ؟
جس نے محروم رکھا ہمیشہ نعیم
وقت آئے تو اُس کو بھی د ے آدمی (حدیث)
٭٭٭
نعتِ رسولِ رب العالمین علیہ الصلٰوتُ والتسلیم
شعور و فہم کے پیغام بَر خد ا کے رسول
و فا تمام یقیں سر بسر خدا کے رسول
اِلٰہ ا و ر نہیں ہے کو ئ مگر اللہ !
یہ د رس دیتے رہے عمر بھر خد ا کے رسول
نہ کھا ئی جَو کی بھی ر و ٹی کبھی تسلسل سے
ر ہے تھے عیش سے د و ر اِس قد ر خد ا کے رسول
جو چا ہتے تو سب آ سائشیں قد م لیتیں
یہ چا ہتے ہی نہیں تھے مگر خد ا کے رسول
بر ا بر اپنے رفیقوں کے کلفتیں جھیلیں
عجیب شا ن کے تھے ر ا ہ بر خد ا کے رسول
نعیم اُن کو محبت تھی ر ب سے بے پا یا ں
رضا پہ رکھتے تھے اُس کی نظر خد ا کے رسول
٭٭٭
نعتِ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
زبان پر بار بار آئے درود انؐ پر ، سلام انؐ پر
سحا بِ رحمت جو بن کے چھائے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
…مطیعِ ربِ جلیل و بر تر ، فلک نے دیکھا نہ انؐ سے بڑھ کر
خدا نے وصف انؐ کے خود گنائے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
وہ عفو انؐ کا وہ انؐ کی شفقت ، وہ فتح کے دن بھی یہ عنایت
کہ جائے ہر شخص امان پائے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
کہیں ہوئی انؐ پہ سنگ باری ، کبھی رہی بھوک پیاس طاری
جبیں پہ لیکن شکن نہ لائے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
قرینۂ بندگی سکھا یا فلا ح کا راز یہ بتا یا
کہ شرک دل میں نہ راہ پائے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
وہ جس کو دعویٰ ہے پیر وی کا ، جو چاہنے والا ہے نبیؐ کا
سنے انھو ںؐ نے نہ دل دکھائے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
اطاعت انؐ کی میں چھوڑ بیٹھوں؟ میں رابطہ رب سے توڑ بیٹھوں؟
نعیم وہ دن کبھی نہ آئے، درود انؐ پر سلام انؐ پر
٭٭٭
جب ضروری ہو تبھی بو لتا ہو ں
دل میں جو ہے ، میں و ہی بو لتا ہو ں
یوں بھی ہو تا ہے نہیں بو لتا میں!!
سب سمجھتے ہیں ابھی بو لتا ہو ں
دو ست ، جب مجھ سے کہیں بولنے کو
پھر بَرغبت بخوشی بو لتا ہوں
بشریت کے تقاضے بھی تو ہیں
اُن کے بھی تحت کبھی بو لتا ہوں
چپ نہیں رہتا ، ستم دیکھ کے میں
تو ڑ کر کم سخنی بو لتا ہوں !
ہر بُری با ت کو کہتا ہوں بُری
ہر بھلی شے کو بھلی بو لتا ہوں
تجزیہ کر کے ز باں کھو لی ہے
یہ نہ سمجھو ، کہ یونہی بو لتا ہوں
خو د بھی کرتا ہوں نعیم اُس سے گریز
میں جسے بے ا د بی بو لتا ہوں
٭٭٭
قدم کانٹوں پہ دھرنا ہی پڑے گا
کوی اقدام کرنا ہی پڑے گا
دکھانا ہی پڑے گا دل کا دم خم
بس اب جاں سے گزرنا ہی پڑے گا
اٹھائے گا جو سر دشتِ بلا میں
اسے بے موت مرنا ہی پڑے گا
ا کھاڑے دے رہی ہے پاؤں، آندھی
بلندی سے اترنا ہی پڑے گا
جو پیچھے رہ گیے ہیں، آ ملیں وہ
کہیں دو پل، ٹھہرنا ہی پڑے گا
اندھیرے ور نہ پسپا کیسے ہو ں گے؟
تجھے سو رج ! ابھرنا ہی پڑے گا
نعیم، انساں ہوا میں جتنا اڑ لے
زمیں پر تو اترنا ہی پڑے گا
٭٭٭
دیکھیے جس کو، زخم دیدہ ہے
آدمی، آدمی گزیدہ ہے
میں غلط کس طرح کہوں اس کو
واقعہ میرا چشم دیدہ ہے
ہے عیاں صاف سب کے چہروں سے
صورتِ حال کچھ کشیدہ ہے !
کس کو کہتے ہیں اور پچھتا نا؟
آنکھ پر نم ہے، سر خمیدہ ہے
دلِ نا کر دہ کار ! کیا گزری
کونسی بات پر کبیدہ ہے؟
سوچ کے کرنا اعتبار نعیم
بات دیدہ نہیں، شنیدہ ہے
٭٭٭
خامیوں میں ہوا شمارِ وفا
یہ ہے اب حالِ دلفگارِ وفا
دل کو کس امتحان میں ڈالا؟
سر پہ کیوں لے لیا یہ بارِ وفا؟
ساتھ دینے کے کیا ہوے وعدے؟
کیا ہوا آپ کا قرارِ وفا؟
پاس خاطر کسی کاہے ملحوظ
ورنہ کس کو ہے اعتبارِ وفا
شعلہ بن کر بھڑک بھی اٹھے گا
شرط ہے دل میں ہو شرارِ وفا
جبر سا جبر ہے جہاں والو !
ہو گیا سلب اختیارِ وفا
کوی آسیب در نہ آئے گا
بیٹھ جا کھینچ کر حصارِ وفا
منزلت پائیں گے نعیم اک دن
آپ، اور آپ کا شعارِ وفا
٭٭٭
ملا نہ اس طرح، جس طرز سے زمانہ ملا
یہ کون شخص تھا؟ جو مجھ سے والہانہ ملا
اور اب تو رزق ہی وابستگی کا محور ہے
اسی کے ہو گیے، جس در سے آبو دانہ ملا
لگا کہ جیت مری اسکو اپنی جیت لگی
شکست کھا کے بھی وہ مجھ سے فاتحانہ ملا
بڑے مکان کی حسرت میں جاں گھلائیں کیا
یہی بہت ہے کہ رہنے کو اک ٹھکانہ ملا
نعیم چرچے ہیں لوگوں میں اسکی نخوت کے
مجھے تو جب بھی ملا ہے وہ عاجزانہ ملا
٭٭٭
ہر دم کی کشمکش سے نکل، راستہ بدل
اب اور ان کے ساتھ نہ چل، راستہ بدل
یہ خلفشار ذہن، یہ خد شے، یہ حجتیں
ان سب کا بس ہے ایک ہی حل، راستہ بدل
نخوت پسند لو گوں کو چھوڑ ان کے حال پر
وقت ان کے خود نکالے گا بل، راستہ بدل
سوچوں میں جن کی تازہ ہوا کا گزر نہیں
کر دیں گے تیرا ذہن بھی شل، راستہ بدل
یہ تیری زندگی ہے، گزار اپنے ڈھنگ سے
سانچے میں دوسروں کے نہ ڈھل، راستہ بدل
تو جن کا ہم قدم ہے، یہ بے مہر لوگ ہیں
ہوں گے ترے یہ آج نہ کل، راستہ بدل
نقصان دے گا تجھ کو تذبذب بہت نعیم
تاخیر کر نہ ایک بھی پل، راستہ بدل
٭٭٭
لپکے جنوں شعار یکے بعد دیگرے
پایا فراز دار یکے بعد دیگرے
پروانے اڑ کے آتے ہیں کس اہتمام سے
ہونے کو نذرِ نار یکے بعد دیگرے
لب بستہ بستیوں کا پھر انجام یہ ہوا
سب کا لٹا قرار یکے بعد دیگرے
یہ کیا کہ اہلِ دل ہی کے حصے میں آئے ہیں
الزام، بے شمار یکے بعد دیگرے
دل کا کمال ہے متزلزل نہیں ہو ا
کتنے ہوئے ہیں وار، یکے بعد دیگرے
ان مسئلوں نے ڈھنگ سے جینے کہاں دیا؟
سر پر رہے سوا ر، یکے بعد دیگرے
مٹتے دکھائی دیتے ہیں افسوس اے نعیم
اچھے سبھی شعار یکے بعد دیگرے
٭٭٭
برتے کچھ امتیاز تو انسان کم سے کم
ہو اپنے دوستوں کی تو پہچان کم سے کم
اہل غرض، کسی کے ہوے ہیں جو ہوں مرے؟
اتنا تو سوچ اے دل نادان کم سے کم !
ہو گا یہی، بہت سے بہت، جاں سے جائیں گے
رہ جائے گی وفا کی مگر آن کم سے کم
چلیے معاملہ یہ کسی سمت تو ہوا
کم تو ہوا، یہ روز کا خلجان کم سے کم
ایسا نہیں کہ مایۂ احساس بھی نہ ہو
اتنے نہیں ہیں بے سرو سا مان کم سے کم
نا ممکنات میں سے تو شاید نہ ہو نعیم
آمد بہار کی نہیں آسان کم سے کم
٭٭٭
گل اور طرح کے ہیں، ثمر اور طرح کے
اس راہگزر کے ہیں شجر اور طرح کے
تم اور طرح کے سحرو شام سے گزرے
اِس سمت رہے شامو سحر اور طرح کے
پہچان کھرے کی ہے نہ کھوٹے کی پرکھ ہے
ہیں آج کے ار با بِ نظر اور طرح کے
ظاہر سے نہ ان لو گوں کے تم دھو کے میں آنا
کچھ اور ہیں، لگتے ہیں مگر اور طرح کے
ان میں تمھیں اخلاص کی بو باس ملے گی
یہ عام سے گھر، ہوتے ہیں گھر اور طرح کے
جاں جا نے کے اندیشے سے یہ خم نہیں ہوتے
ہم خاک نشینوں کے ہیں سر اور طرح کے
گل پوش گزرگاہیں، نعیم ان کے لیے تھیں
در پیش رہے ہم کو سفر اور طرح کے
٭٭٭
تمھیں پسند ہے تنہا سفر زیادہ تر
یہی رہا مرے پیش نظر زیادہ تر
گماں، کہ لوٹ کے آ جائیں گے کسی ساعت!
اسی گماں نے اجاڑے ہیں گھر زیادہ تر
گریز کے کوی لمحے بھی آ گیے ہوں گے !!
تمھاری یاد، رہی ہمسفر زیادہ تر
دکھائی دیتی ہیں کب خود کو خامیاں اپنی
فریب کھاتی ہے اپنی نظر زیادہ تر
کہاں مقام وہ ہو تا ہے سر جھکا نے کا؟
وہ جس مقام پہ جھکتے ہیں سر زیادہ تر
یہ اعتبار کی دنیا بھی خوب دنیا ہے
کہ معتبر بھی ہے، نا معتبر زیادہ تر
نعیم کام کیے، کم ہی، کام کے ہم نے
عبث گزر تے ہیں شامو سحر زیادہ تر
٭٭٭
زیادہ رد و کد مت کیجئیے گا
نئی باتوں کو رد مت کیجئیے گا
یونہی پروان چڑھتی ہیں زبانیں
طلب، پر پل سند مت کیجئیے گا
حقارت سے نظر ڈالے زمانہ!
کم اتنا اپنا قد مت کیجیے گا
رہے تصویر میں ابہام غالب !!
نمایاں، خال و خد مت کیجئیے گا
ہمیں بھی جب نہ پائیں حق بجانب
ہماری بھی مدد مت کیجئیے گا
محبت کی طلب بڑھنے لگی ہے
کم اب اس کی رسد مت کیجئیے گا
ارادہ ہے اگر دادو دہش کا
تمیزنیک و بد مت کیجئیے گا
وہ محنت کر کے پہنچا ہے یہاں تک
نعیم اس سے حسد مت کیجیے گا
٭٭٭
ترکِ رسم و راہ پر افسوس ہے
چار دن کی چاہ پر افسوس ہے
بے خیالی میں جو لب پر آ گئی
آج بھی اُس آہ پر افسوس ہے
چھین لے جو آدمیت کا شرف
ایسے عز و جاہ پر افسوس ہے
جو جلا بیٹھا ، خود اپنے ہاتھ بھی
اپنے اس بد خواہ پر افسوس ہے
راہ سے کچھ ہے نہ منزل سے گلہ
بس دلِ گمراہ پر افسوس ہے
رنگ لائی بھی تو کب لائی نعیم
کاوش جاں کاہ پر افسوس ہے
٭٭٭
فکر میں نظم ہے نہ استحکام
ذہن کی رَو جدھر بہا لے جائے
ر ب سے کٹ کر ، کٹی پتنگ ہوں میں
اب جہاں بھی مجھے ہوا لے جائے
پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ، لگاؤ لہجے میں
یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تم نے
عیاں ہے صاف کسی کا د با ؤ لہجے میں
عدم توجہی گویا ، مری کھلی اُس کو
تبھی د ر آیا ہے اتنا تناؤ لہجے میں
یہ گفتگو ، کسی ذی رو ح کی نہیں لگتی
کوئی اتار نہ کوئی چڑھاؤ لہجے میں
زبان پر تو بظاہر خوشی کے جملے ہیں
د ہک رہا ہے حسد کا الاؤ لہجے میں
نعیم دن وہ سہا نے ، خیال و خواب ہو ئے
مٹھا س لفظوں میں تھی ، رکھ رکھاؤ لہجے میں
٭٭٭
سامنے دنیا کے خم ٹھو نک کے سچ بو لا تھا
اُس نے ، خود اپنے پہ آ فا ت کا د ر کھو لا تھا
میں نے بھی ظرف کا اندازہ کیا تھا اس کے
آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس نے بھی مجھے تولا تھا
گا ؤں کا گاؤں ہے اب زد میں تو سب چیختے ہیں
مجھ پہ بیتی تو کوئی شخص نہیں بو لا تھا
اور پھر کس کی عطا ہے ، یہ تہی دامانی
ہم سفر تھے کہ لٹیر وں کا کو ئی ٹولہ تھا ؟
اب جو عیّار ی میں شیطان سے بھی آ گے ہے
کبھی ، یہ شخص بھی بچّوں کی طرح بھو لا تھا
بےنیا ز ا نہ گزر آئے ہیں سیدھے ہم ہی !
اچھے اچھوں کا اِسی موڑ پہ جی ڈ و لا تھا
زیر د ا م آ نے کو ، پھر لو گ چلے آئیں گے
زیبِ تن ا س کے نعیم آ جنیا چو لا تھا
٭٭٭
طبیعت میں تفا خُر آ گیا ہے
بہت اُ س میں تغیر آ گیا ہے
مر وّ ت پہلے تھی لہجوں میں ، اکثر
اب اکثر میں تمسخر آ گیا ہے
سبھی خانہ پُر ی کر نے لگے ہیں
سبھی کے ہا تھ یہ گُر آ گیا ہے
ا نو کھا لگ رہا ہے کیا یہ سب کچھ؟
تِرے ر خ پر تحیّر آ گیا ہے !
رویّے کا یہ ٹھہر ا ؤ ، یہ نرمی
عجب تجھ میں تدبر آ گیا ہے !!
کہاں پھر جا گزیں ہو گی محبت ؟
د لوں میں تو تکدر آ گیا ہے
و ہ ر ستہ لے نعیم اپنا ، ہم اپنا
ا گر اُس میں تکبر آ گیا ہے
٭٭٭
کسی سے د ا د کے طالب نہ ہا ؤ ہو والے
عجیب لو گ ہیں ہم لو گ جستجو والے
سسکتی ، خو د کشی کر تی بھی ایک دنیا ہے
اِدھر بھی دیکھ لیں ، دنیائے رنگ و بو والے
یہاں یہ امر یقینی بنا یا جا تا ہے
کہ سکھ کا سا نس نہ لیں ، سکھ کی آ ر ز و والے
سییں گے کیسے مر ے زخم زخم سینے کو ؟
کہاں سے ایسا ہنر لائیں گے ر فو والے
اُدھر تو ایک سمند ر ہے بے اصولی کا
اِدھر ہیں عدل کی چھو ٹی سی آب جُو والے
و ہ جن کی با توں میں اِک حسن تھا ، لطافت تھی
کہاں گئے وہ دھنک رنگ گفتگو والے
فضائے شہر پہ اب سفلگی کا ر ا ج ہو ا
یہاں سے کو چ کریں لو گ آ بر و والے
نعیم خانۂ دل میں اُنہیں مکین کر و
نصیب ہو تے ہیں کم کم و فا کی خو والے
٭٭٭
فضائے شہر محبت کو نا گوار نہ کر
وفا کے نام پہ لوگوں سے کا ر و با ر نہ کر
جو انبساط کی کلیاں چنی ہیں گِن اُن کو
جو زخم تجھ کو ملے ہیں اُنہیں شما ر نہ کر
کٹے نہ عمر کہیں دشتِ نا مرادی میں
اِن آرزوؤں کو اِتنا بھی بے مہا ر نہ کر
جو آگ بجھنے لگی ہے ، ہو ا نہ د ے اُس کو
د و با ر ہ گر م یہ میدانِ کا ر زا ر نہ کر
ز ما نے بھر کو سناتا نہ پھِر ستم اُس کے
قرار لوٹنے والے کو بے قرار نہ کر
سو ائےاُس کے تجھے اور کچھ نہ یاد رہے
ذ ر ا سی با ت کو یوں ذہن پر سو ار نہ کر
میں کیسے دیکھوں گا دشمن کے روپ میں اُس کو
نعیم اُس سے کہو سامنے سے وار نہ کر
٭٭٭
چال کیسی یہ چل گئی دنیا
سوچ کا ر خ بدل گئی دنیا
کس قدر پیچھے رہ گئے ہم لوگ
کتنا آگے نکل گئی دنیا
وقت نے جو بھی دے دیا سانچہ
اسی سانچے میں ڈھل گئی دنیا
اپنے حالات کا بدلنا تھا
ایک پل میں بدل گئی دنیا
کس کے اعمال کی سیاہی تھی
کس کے چہرے پہ مل گئی دنیا
ہم تو تب بھی نہ اس کے د ر پہ گئے
جب و ہاں سر کے بل گئی دنیا
کتنی پر کار سادگی سے نعیم
راز سب کے اگل گئ دنیا
٭٭٭
سامنے ہو کر بھی کب سب پر عیاں ہو تے ہیں لوگ
جو نظر آ تے ہیں و یسے ہی کہاں ہو تے ہیں لوگ
چھا پ سے ماحول کی بچنا بہت دشوار ہے
ا پنے گر د و پیش ہی کے ترجماں ہو تے ہیں لوگ !
پستیوں میں بھی نشاں عظمت کے آ تے ہیں نظر
خاک پر رہتے ہوئے بھی آسماں ہو تے ہیں لوگ
قا فلہ سا لار جب ہو تے ہیں اُ ف و ہ ساعتیں !!
ہائے وہ لمحہ کہ جب بے کا ر واں ہو تے ہیں لوگ
ظلم پر باندھیں کمر تو الامان و الحفیظ
مثل چنگیز اِک بلائے بے اماں ہو تے ہیں لوگ
مہر بانی پر جو آ جائیں تو تپتی دھوپ میں
چھاؤں کی ما نند گویا ، سائباں ہو تے ہیں لوگ
نقش پا تک بھی نہیں ملتے کہیں اُن کے نعیم
دیکھتے ہی دیکھتے یوں بے نشاں ہو تے ہیں لو گ
٭٭٭
یہ کس دھچکے سے دہلا تھا سمندر
زمیں کی سمت کیوں لپکا سمندر
قیامت کی تباہی ساتھ لا یا
اِدھر آ یا نہیں تنہا سمندر
ر ہیں او قا ت میں سار ے سفینے
ڈ بو د ے گا اُنہیں و ر نہ سمندر
بڑھی حد سے ز یا دہ تشنہ کامی
نظر آیا تبھی صحرا سمندر
یہ پانی کے سفر کا دائرہ ہے
گھٹا بارش ندی د ر یا سمندر
و ہی پھیلا ؤ ماں کے پیار جیسا
تِری وسعت کا کیا کہنا سمندر
نعیم اِک آبجو تھا وہ ذ ر ا سی
سمجھ بیٹھی اُسے دنیا سمندر
٭٭٭
دوری تھی جن پہ شاق ، بھلانا تو درکنار
وہ بھی بدل گئے ہیں زمانہ تو درکنار
رسمی تعلقات بھی اب اُن پہ بار ہیں
دیرینہ راہ و رسم نبھانا تو درکنار
یہ بھی نہیں کہیں گے کہ صورت شناس ہیں
تم سے تعلّقات جتانا تو درکنار
اب مُڑ کے دیکھنے کا بھی یارا نہیں رہا
اِن راستوں سے لوٹ کے آنا تو درکنار
تم شعر کہہ کے حالِ دلِ زار کی نعیم
تشہیر کر رہے ہو ، چھپانا تو درکنار
٭٭٭
زہر کے جام ہیں بہت سارے
سچ کے انعام ہیں بہت سارے
یہ جو اُن کا سلام آیا ہے………
اِس میں پیغام ہیں بہت سارے
ذکر کس کا کریں ، کسے چھوڑیں ؟
ذ ہن میں نام ہیں بہت سارے
سادگی کم نوائ نادانی
ہم پہ الزام ہیں بہت سارے
ایک ہی کام تو نہیں ہم کو
اور بھی کام ہیں بہت سارے
بچ کے چلنا نہیں نعیم آساں
دام ہر گام ہیں بہت سارے
٭٭٭
سَر لیا کیوں وبال لوگوں کا
روگ اِتنا نہ پال لوگوں کا
ہاتھ ، دُکھتی رگوں پہ آنے دے
دیکھ پھر اِشتعال لوگوں کا
سائےسے بھی ہیں اپنے خوفزدہ
یہ ہے ، دہشت سے حال لوگوں کا
منہ بہت لَگ رہے ہیں حاکم کے
جانے کیا ہو مآل لوگوں کا؟
طَے ہوا ہے ، جَکڑ دیا جائے
قرض میں بال بال لوگوں کا
قہر کا رات رقص ِ آ خر تھا
خام ہے ، یہ خیال لوگوں کا!!
دیکھنا یہ وہی گروہ نہ ہو !!
با اثَر ہم خیال لوگوں کا
وہ اُتر آیا سِفلگی پہ نعیم
ٹھیک تھا اِحتمال لوگوں کا
٭٭٭
عالم اضطرار میں ہے وہ
اپنے کب اختیار میں ہے وہ
حالت اُس کی نہ دیکھی جاتی تھی
اب تو خاصا قرار میں ہے وہ
کوئی گنتا نہ تھا اُسے کل تک
آج لیکن شمار میں ہے وہ
کم ہی ملتے ہیں لوگ ، اُس جیسے
ایک سمجھو ہزار میں ہے وہ
اِک مہک سی فضا میں ہے رقصاں
کہیں قرب و جوار میں ہے وہ
٭٭٭
گِر نہیں پا ئی دوستو دیوار
بَن گئ میری گو مگو دیوار
جتنی ہے راہ ورسم ، وہ تو رہے
اور اونچی تو مت کرو دیوار !
دَر جو دستک پہ وا نہیں ہوتے
اُن کو دَر کی جگہ گِنو دیوار !!
ہاتھ رو کو ستم شعاروں کے
ظلم کی راہ میں بنو دیوار
سنگ و آہن بہم نہ ہوں تو نہ ہوں
ریت کی بھی مگر نہ ہو دیوار !
بعض پا بندیاں ضروری ہیں
تم کہو تو اِنہیں کہو دیوار
ہو سکے تو ، بناؤ پُل مابین
درمیاں اپنے مت چُنو دیوار
گھر عبارت ہے چاہتوں سے نعیم
گھر بناتے نہیں دَ ر و دیوار
٭٭٭
راہ میں اِک دیا ہی دھر جائے!
آدمی کچھ نہ کچھ تو کر جائے
عقل ہی کا اگر کہا مانیں
پھر یہ بے چارہ دل کدھر جائے!
ساتھ تھا ، روشنی تھی جب تک ساتھ
کتنی دور اور ہم سفر جائے؟
پھر چلے آئیں گے ، نشانے پر
ِ رس رہا ہے جو زخم بھر جائے!!
راستہ ہے یہ سر فرازی کا
جائےاِس راہ میں تو سَر جائے!
وہ نہ آئےکسی پہ وقت نعیم
بچ رہے جسم روح مر جائے
٭٭٭
ہے داد رس ، فر یا د ر س اللہ بس اللہ بس
ا ے ہم نشیں ا ے ہم نفس اللہ بس اللہ بس
کس نے کیا پیدا یہ سب ، ہے کون جو سب کا ہے رب
کہنا پڑ ے بے پیش و پس اللہ بس اللہ بس
سو چو تو اک نکتہ ذرا ہے حکم سے کس کے بھلا
پھولوں میں خوشبو ، پھل میں رس اللہ بس اللہ بس
کس کی حدی پر ہے رواں یہ زندگی کا کا ر و ا ں
آ و ا ز دل صوتِ جرس اللہ بس اللہ بس
انسان منکر ہے تو ہو اقرار کرتی ہے سنو
اِس جسم کی ایک ایک نس اللہ بس اللہ بس
در در پھرا رسو ا ہوا جب شرک میں تھا مبتلا
لب پر نعیم اب ہے یہ بس اللہ بس اللہ بس
٭٭٭
کر ۂ ارض پہ ہے زیست کا بانی پانی
کتنے اد و ا ر کی کہتا ہے کہانی پانی
قد ر ہی تیری نہ ہم نے کبھی جانی پانی !
و ر نہ یوں آ ج نہ ہو تی یہاں ؛ پانی پانی ؛
ر ا ستہ اپنا بہر طور بنا لیتا ہے
تھمنے دیتا ہے کہاں اپنی روانی پانی
جستجو کس کی سفر میں اسے رکھتی ہے سدا
کرتا رہتا ہے یہ کیوں نقل مکانی پانی ؟
د ل پگھل جا تے ہیں آنکھوں میں جب اشک آ تے ہیں
اللہ اللہ تر ی شعلہ بیانی پانی !!
د ل ہی زند ہ نہ ہوں جن کے ، وہ کہاں رو تے ہیں
زند گی ہو نے کی ہو تا ہے نشانی پانی
سبک اعصاب کو کر دیتا ہے یہ گریہ نعیم
بڑ ھ کے دھو دیتا ہے ذہنوں کی گرانی پانی
٭٭٭
ر نج کے سائےتمھا ر ے ر خ پہ لہرائے تو تھے
ہم کو دکھ دے کر یقیناً تم بھی پچھتائے تو تھے
کو ن کہتا ہے نہ تھا کو ئی ہما ر ا ہمسفر
تم نہ تھے لیکن تمھاری یاد کے سائے تو تھے
وہ تو کہئے آپ کے غم نے سہا ر ا د ے دیا
و ر نہ ہم آ لا م کی یورش سے گھبرائے تو تھے
ہم ہی ناداں تھے سمجھ پائے نہ جینے کا طریق
طرز دنیا نے ر موز زیست سمجھائے تو تھے
پھر وہی ر ا ہِ جنوں ہے اور اپنا دل نعیم
ہم بڑ ی مشکل سے دل کو ر ا ہ پر لائے تو تھے
٭٭٭
رہتا ہے اسی شخص کو حالات پہ قابو
رکھتا ہے جو ہر حال میں جذبات پہ قابو
روکے نہیں جا سکتے ، گزرتے ہوئے لمحے
دن پر کوئی بس ہے نہ کوئی رات پہ قابو
آ جائیں برسنے پہ تو تھمتی نہیں آنکھیں
کیا پائے کوئی اشکوں کی برسات پہ قابو
پا بندیاں کیوں ساری ہمارے ہی لئے ہیں؟
ان کو بھی تو ہو اپنے کرشمات پہ قابو
نا چاری کی تصویر بنی بیٹھی ہے دنیا
اس بات پہ قابو ہے نہ اس بات پہ قابو
کتنے ہیں ؟ جنھوں نے کبھی دل کی نہیں مانی
کس کس کو ہے اس رند خرابات پہ قابو ؟
حالات سے سمجھوتا نعیم اچھی روش ہے
کس کو ہے بھلا گردش حالات پہ قابو
٭٭٭
کتنے بَرسے نگر نگر پتّھر !
حوصلے کر نہ پائےسَر ، پتّھر
جو ، نشاں زَد ہوئے ہیں اپنے لئے
وہ تو سب آئیں گے اِدھر پتّھر!!
بات کہہ دی تھی اِک خدا لگتی
میری سَمت آئے کِس قدَر پتّھر
دیکھ ! مہنگی پڑ ے گی ، مَن مانی
باندھنے ہوں گے پیٹ پر پتّھر
سوچ کے کر ، کسی پہ سنگ زنی
آ بھی سکتے ہیں لَوٹ کر پتّھر !
سَب پہ حسرت کی اِک نظر کر کے
ہو گئی ایک چشم تر پتّھر !
عدل اُن کا نعیم کیا کہنا
پھول اپنی طرف ، اِدھر پتّھر
٭٭٭
مصنف کے کتاب چہرہ (ٖFacebook) پروفائل/ نوٹس اور مختلف کتاب چہرہ گروہوں سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید