آبِ رواں
نذیر فتح پوری
دل کا ورق لکھو
بات ہو سادہ سی
کچھ بھی نہ ادق لکھو
لکھی تو بہت ’’یاری‘‘
سمجھا نہیں اب تک
لفظوں کی ریاکاری
بے خوابی کی نظمیں ہیں
چین اُڑا دیں گی
یہ ایسی ہی چیزیں ہیں
لب ہیں ،نہ دعائیں ہیں
کیسی ہے مجبوری
آہیں نہ صدائیں ہیں
ہر لفظ ہے بازی گر
سینے پہ کاغذ کے
دکھلائے عجب منظر
پھولوں کو ہنسا دینا
طرفہ تماشہ ہے
کلیوں کو رُلا دینا
تفریق بڑھاتے ہیں
دودھ کے آنگن میں
دیوار اُٹھاتے ہیں
آسیب کا سایا ہے
اپنا جو رستہ تھا
وہ آج پرایا ہے
اندھیارے مٹا دینا
دل کی منڈیروں پر
اک دیپ جلا دینا
ساون ہے تو سر گم ہے
کیسے یہ رشتے ہیں
تتلی ہے تو شبنم ہے
مت کوئی وظیفہ پڑھ
خود کے سمجھنے کو
بس دل کا صحیفہ پڑھ
ماضی سے چھڑا مجھ کو
آج کا انساں ہوں
قصے نہ سنا مجھ کو
بے رنگ ادا پہنے
آ گیا پھر ساون
زخموں کی قبا پہنے
اتنی سی تیاری رکھ
سانپوں کی بستی میں
چندن سے نہ یاری رکھ
ہم کاہے سے ڈرتے ہیں
خود سے نہیں ڈرتے
ہمسائے سے ڈرتے ہیں
منظر ہیں عذابوں کے
’’ریت سمندر‘‘میں
نقشے ہیں سرابوں کے
بیداری سے کیا لینا
رات کی پلکوں سے
کچھ اشک اُٹھا لینا
ہر راز بیاں کر دے
اپنی حقیقت کو
تو سب پہ عیاں کر دے
یہ تاج ہے،یہ دل ہے
چاہے جسے چن لے
یہ سہل،یہ مشکل ہے
جو دھوپ میں گزرے گا
شہرِ نگاراں میں
وہ زلف تو ڈھونڈے گا
کیا دیکھنا، کیا لینا
ٹوٹتی محرابیں
اور چیختا مینارہ
تختے پہ جو لیٹا تھا
تیری عنایت سے
وہ تخت پہ بیٹھا تھا
جو رکھتے نہیں شانے
بوجھ اُٹھائیں گے
کیا یاری کا دیوانے
ذروں کے جہاں میں تھے
خواب میں کل یارو
ہم ریگِ رواں میں تھے
چوپال کا برگد ہے
کاٹ نہ اس کو تو
یہ پیار کی سرحد ہے
یہ تیج کا میلا ہے
بھیڑ قیامت کی
دل پھر بھی اکیلا ہے
سسرال چلی سجنی
میکے کی سب باتیں
اب بھول گئی سجنی
کھوٹے ہیں کہ سچے ہیں
ماں کے لیے بیٹے
سب ایک ہی جیسے ہیں
تنہا نہیں آیا ہوں
گاؤں کی یادوں کو
میں شہر میں لایا ہوں
پربت سے اتر ماہی
گود زمیں کی اب
تخلیق سے بھر ماہی
کیا درد جگاتا ہے
دور کوئی ماہی
’الغوزہ‘ بجاتا ہے
دل ایسا مجیرا ہے
درد کے ہاتھوں سے
تنہائی میں بجتا ہے
کیا جھونکے ہوا کے ہیں
بانس کے جنگل میں
سنگیت بجاتے ہیں
تو درد جگاتا چل
ماہیے چاہت کے
’دل تارے‘ پہ گاتا چل
کچھ میری سنو بھائی
گھر میں محبت سے
مل جل کے رہو بھائی
چاہت کی نشانی ہے
عمر کے بستے میں
اک یاد پرانی ہے
یہ پریم کے بوٹے ہیں
کوئی بھی موسم ہو
بس کھلتے ہی رہتے ہیں
الفاظ میں ڈھالیں گے
تیری جدائی کو
ہم گیت بنا لیں گے
کس درد کا پھیرا ہے
گھر میں دئیے روشن
اور دل میں اندھیرا ہے
عادت ہے عجیب اس کی
وار بھی کرتا ہے
کرتا ہے حفاظت بھی
مجھ کو تو یہ الجھن ہے
جاں کا محافظ ہی
اب جان کا دشمن ہے
طاقوں میں سجا لینا
چہرۂ ہستی کو
آئینہ بنا لینا
وہ آئے ہیں پھیروں پر
چاند چمکتا ہے
کھیتوں کی منڈیروں پر
وہ آئیں گے ٹیلوں پر
گیت محبت کے
ہم گائیں گے ٹیلوں پر
اس سال تو آئیں گے
تیج کے میلے میں
ہم ڈھول بجائیں گے
خوشبو ہے نہ پایل ہے
رات کٹے کیسے
تنہائی کا جنگل ہے
نغمہ ہے نہ جگنو ہے
خواب کی وادی میں
تنہائی کا آہو ہے
جھنڈے یونہی گاڑیں گے
جا کے اکھاڑے میں
دشمن کو پچھاڑیں گے
ممتا بھری لوری کی
یاد ستاتی ہے
پھر دودھ کٹوری کی
موسم ہے جل تھل کا
سوکھی زمینوں پر
رتھ اترا ہے بادل کا
کس کس کو جگاتی ہے
رات کی نوٹنکی
کیا کھیل دکھاتی ہے
لٹ جانے کا ڈر بھی ہے
دور ہے منزل بھی
صحرا کا سفر بھی ہے
کیا درد کے منظر ہیں
پانی کی بوندیں
پیاسوں کا مقدر ہیں
یہ بھی تو مقدر ہے
جانا ہے جس جانب
بے آب سمندر ہے
یہ شہرِ محبت ہے
آگے قدم مت رکھ
جب دل میں کدورت ہے
رنجیت ہیں یہ کیسے
تیر چلاتے ہیں
ترکش بھی نہیں رکھتے
ماتھے پہ نہیں بندیاں
گاؤں کی گوری سے
کیا روٹھ گئے سیّاں
سوغات ہے سپنوں کی
نیند کے آنگن میں
بارات ہے سپنوں کی
شمشیر بکف آیا
کیسا مسیحا ہے
مرہم نہ دوا لایا
ہم یوں بھی نبھا لیں گے
ایک کلی سے ہی
گلزار بنا لیں گے
کہنے کو پرانی ہے
عمرِ گزشتہ کی
ہر یاد سہانی ہے
جو بام سے اتری ہے
درد کے آنگن میں
وہ دھوپ کنواری ہے
یہ کار نہیں کرتے
دل کی عمارت کو
مسمار نہیں کرتے
احساس جگاتے ہیں
شعر ہوں سچے تو
مرتوں کو جِلاتے ہیں
کیا خوب جیالا ہے
کوئی بھی موسم ہو
سر نیزے پہ رکھتا ہے
کیا کس سے کہا جائے
دل کا تقاضہ ہے
خاموش رہا جائے
احساس جگا دیں گے
آئنے ایسے ہیں
اک روگ لگا دیں گے
یوں خود میں مگن ہو جا
درد ستائے تو
مصروفِ سخن ہو جا
مدفون کتابوں میں
میرا لہو ڈھونڈو
تاریخ کے صفحوں میں
کاغذ پہ نظر بھی رکھ
حرف شناسی میں
کچھ اپنا ہنر بھی رکھ
یہ کیسی پہیلی ہے
دن تھا اکیلا کل
اب رات اکیلی ہے
ہر حال میں بیٹھیں گے
گاؤں میں جائیں گے
چوپال میں بیٹھیں گے
یہ درد کی دھارا ہے
اس میں جو بہہ جائے
وہ آدمی پیارا ہے
تحلیل نہیں ہوتے
دل کے ارادے تو
تبدیل نہیں ہوتے
آنسو بھی ہیں ،آہیں بھی
وقت کی جھولی میں
سسکی بھی،کراہیں بھی
سایہ تو کبھی دے گا
اس کی حفاظت کر
یہ پیڑ ہے رشتوں کا
وِش کنیا سے ڈرتے ہیں
ڈس کے رہے گی یہ
ہم دنیا سے ڈرتے ہیں
وہ گانوں سے کیا روٹھی
کھیت میں سناٹا
پنگھٹ پہ ہے خاموشی
کیا چاند چمکتے ہیں
نیند جزیروں پر
اب خواب ہمکتے ہیں
کیا صبح کا منظر ہے
اوس کی خوشبو سے
ہر چیز معطر ہے
دھرتی کی دعا بن جا
سوکھا موسم ہے
ساون کی گھٹا بن جا
تم آئے تو یوں آئے
گھر میں اندھیروں کے
اک چاند اُٹھا لائے
کیا دھوپ ہے میری جاں
پیاس کی شدت بھی
اور اس پہ یہ ریگستاں
جب باغ میں جائیں گے
پھول کے بدلے میں
کچھ تتلیاں لائیں گے
کیا درد کے منظر ہیں
پانی کی کچھ بوندیں
پیاسوں کا مقدر ہیں
یہ خواب ہے اندھوں کا
دنیا کی رعنائی
دھوکا ہے نگاہوں کا
وہ خواب ہی اندھا تھا
دل کے اشارے سے
میں جس کو بلاتا تھا
ایسا بھی کسی پل ہو
رات ہو برہا کی
اور درد کا کمبل ہو
میں خوش ہوں بہاروں سے
مجھ کو بلاتی ہیں
خوشبو کے اشاروں سے
موسم ہے یہ جل تھل کا
خشک زمینوں پر
رتھ اترا ہے بادل کا
محبوب کی مہندی ہے
دل کو رچائے گی
یہ چیز ہی ایسی ہے
ہے شکر مرے بھائی
ہم پہ نہیں کھلتا
دربارِ شہنشاہی
مرنے سے نہ اتنا ڈر
دوست تُو رکھا کر
سانسوں کو ہتھیلی پر
جذبوں میں مچی ہلچل
آ گیا کمرے میں
اک اُڑتا ہوا بادل
کیا بات ہے کونجوں کی
اپنے تصور میں
بارات ہے کونجوں کی
یوں لطف اٹھائے گا
میری خموشی پر
بے نطق سنائے گا
کیا آس لگائیں ہم
ٹوٹی ہیں محرابیں
کیا خواب سجائیں ہم
کیا جنگ کی منزل ہے
میرا محافظ ہی
اب میرے مقابل ہے
مت سوچ یہ کیسی ہے
خواب کی بستی بھی
بے خواب سی لگتی ہے
میں ساتھ رہوں کس کے
خواب جو رکھتا ہو
یا خواب نہیں جس کے
کب جوگی کے پھیرے ہیں
گھومنے پھرنے کو
ہم گھر سے نکلتے ہیں
ست رنگی نظاروں میں
جب بھی نظر الجھی
تم آئے بہاروں میں
بے کار نہیں پڑھتے
چہرے جو پڑھتے ہیں
اخبار نہیں پڑھتے
میں رستہ تکوں تیرا
دیکھ مسیحا تو
بیمار ہے دل میرا
تحقیق ادھوری ہے
جانِ غزل آجا
تخلیق ادھوری ہے
خاموش بھی رہنا ہے
کیسی ہے مجبوری
حق بات بھی کہنا ہے
جو عقل کا اندھا ہے
اس کو ہی کاٹے گا
جس شاخ پہ بیٹھا ہے
بارود بچھاتے ہو
امن کی دھرتی پر
کیوں آگ لگاتے ہو
رُخ دیکھ ہواؤں کا
دیپ جلانا پھر
رستے پہ دعاؤں کا
جب رات سلگتی ہے
نیند کے کمرے میں
تنہائی پگھلتی ہے
آنسو ہو کہ سپنا ہو
غور کرو خود پر
تم کون ہو اور کیا ہو
مت دھوپ میں سویا کر
صبح کی ٹھنڈک سے
آنکھوں کو بھگویا کر
یہ کام بھی کرتا ہے
نام پہ خدمت کے
وہ جیب بھی بھرتا ہے
کیا رات چراغوں کی
اپنی دوالی ہے
جلتے ہوئے داغوں کی
پھولوں سا کھلیں گے ہم
باغ میں جائیں گے
ساون سے ملیں گے ہم
کیا وقت کا پھیرا ہے
اونچی حویلی میں
اب خوف کا ڈیرا ہے
کیوں درد بڑھاتے ہو
دوستو ! بچپن کی
کیوں یاد دلاتے ہو
جگنو جو نظر آئے
قافلے والوں کو
پھر راستہ مل جائے
تھے سوئے ہوئے رستے
اس نے قدم رکھا
تب جاگ پڑے رستے
جذبات کا مظہر ہے
ماہیا اپنا تو
حالات کا مظہر ہے
ہر سمت خوشی چھائی
چاند کی،بادل سے
صورت جو نظر آئی
کیا عید کے منظر ہیں
آج کے دن یارو
خوشیاں ہی مقدر ہیں
خوشیوں کو جگاتے ہیں
عید کے یہ لمحے
روتوں کو ہنساتے ہیں
رُت چھائی ہے خوشبو کی
عید کے موسم میں
بن آئی ہے خوشبو کی
یاد ان کو ذرا رکھنا
عید کے دن یارو
کچھ حق ہے غریبوں کا
جو ہجر کے صدمے ہیں
عید کے دن جاناں
وہ ہم نے اٹھائے ہیں
جس وقت وہ یاد آیا
دل کے شبستاں میں
اک چاند سا لہرایا
ممتا کا گھنا سایا
عید کے دن مجھ کو
وہ یاد بہت آیا
اک جست لگائے گا
عید کے دن وحشی
کیا جشن منائے گا
جب عید منانا ہو
درد کے ماروں کو
ہر گز نہ بھلانا ہو
ماہی کو سنائیں گے
عشق کا ماہیا ہے
ہم عید پہ گائیں گے
کمیاب کہوں اس کو
یاد جو آیا ہے
مہتاب کہوں اس کو
منظر ہے نصیبوں کا
عید کے دن یارو
کیا کام رقیبوں کا
ہم عید منائیں گے
بس کا سفر اچھا
لاہور کو جائیں گے
ملتے ہیں گلے جتنے
عید کے دن یارو
مٹتے ہیں گلے کتنے
دل خوشیوں سے بھر لے
عید کے دن بھائی
تجدیدِ وفا کر لے
کیا ٹھاٹ ہیں شاہانہ
رہتے ہیں دھرتی پر
پربت سے ہے یارانہ
معتوب نہیں کرنا
سچ کے محافظ کو
مصلوب نہیں کرنا
ہر آنکھ ہے نم،کیا ہے
جس پہ سبھی روئیں
سوچو تو وہ غم کیا ہے
کاغذ پہ نظر بھی رکھ
حرف شناسی کا
تھوڑا سا ہنر بھی رکھ
امکان کو روشن رکھ
گھور اندھیروں میں
ایمان کو روشن رکھ
پامال خیالی سے
دور سدا رہنا
لفظوں کی جگالی سے
ہر وار سے ہٹ کر ہے
معرکہ اپنا تو
تلوار سے ہٹ کر ہے
زر دار سے ہٹ کر ہے
پیار کی قیمت تو
بازار سے ہٹ کر ہے
مطلب کے جو بندے ہیں
شہہ پہ ہواؤں کے
رُخ اپنا بدلتے ہیں
موسم کے ستم سہنا
کام غریبوں کا
ہر حال میں خوش رہنا
کیا ساز بجاتی ہے
گیت بہاروں کے
جب بوند سناتی ہے
سچائی سے ٹکرانا
خواب کے جھولوں سے
اترو تو چلے آنا
آنا تھا، نہ آیا ہو
بھول گیا شاید
وہ وعدۂ فردا کو
جو تیرا دوانہ ہو
اس کا کسی دن تو
جنگل میں ٹھکانہ ہو
ہر لفظ رواں لکھو
درد کا افسانہ
لکھو تو جواں لکھو
بیٹھے ہو کناروں میں
ڈوب نہیں جانا
گہرائی کے دھاروں میں
جب نیند ہمکتی ہے
آنکھ میں سپنوں کی
پازیب چھنکتی ہے
کیسی ہے ہوا سمجھو
خوشبو کے جھونکے سے
موسم کی ادا سمجھو
جو آنکھ میں بستی ہے
اور نہیں کوئی
وہ خواب کی بستی ہے
ہے رائے مِری ہمدم
سب کو نہیں ملتا
عرفانِ غمِ موسم
کیا عرض گزاروں میں
شہر ہے اپنوں کا
اب کس کو پکاروں میں
کچھ ربط دعا سے رکھ
دیپ جلائے تو
پہچان ہوا سے رکھ
غالبؔ کی غزل جیسا
چہرا تمہارا ہے
بس تاج محل جیسا
تتلی ہے نہ غنچہ ہے
اپنے تخیل کا
ہر باغ انوکھا ہے
تنہائی کے مارے ہیں
ان کی خبر لینا
یہ لوگ بچارے ہیں
یوں ٹوٹ گیا سپنا
نیند منڈیروں پر
اب کوئی نہیں اپنا
کیا اور نظر دیکھے
دورِ سیاست میں
جلتے ہوئے گھر دیکھے
کیا آبرو بچ پائے
جامۂ ایمانی
جب تن سے اُتر جائے
ہر لفظ پگھل جائے
دل کا یہ کاغذ ہے
اشکوں سے نہ جل جائے
سب تیرے ہی صدقے ہیں
کیسۂ ہستی میں
جو سانس کے سکے ہیں
وہ آئے گا خوش منظر
دیپ جلا لینا
آنکھوں کی منڈیروں پر
وہ جان گیا شاید
آئنہ حیراں ہے
چہرا ہے نیا شاید
کیا خواب ہمکتے ہیں
نیند جزیروں پر
اب چاند چمکتے ہیں
کیا رنگ ہے گیتوں کا
تیری جدائی میں
اب سنگ ہے گیتوں کا
پانی کی لکیروں سے
کام نہیں بنتا
معزول وزیروں سے
تُو ہے تو ہے ہر منظر
ساتھ نہیں تیرا
پھر کیا ہیں یہ بحر و بر
فریاد نہیں کرنا
حرف پرندوں کو
آزاد نہیں کرنا
ہر سمت جھمیلے تھے
ساتھ ترا جب تھا
کیا خوشبو کے میلے تھے
محسوس ہوا اکثر
آنکھیں ہی آنکھیں ہیں
منظر ہے نہ پس منظر
چاہت میں ہے رسوائی
سوچ لے پہلے تو
پھر چاہ مرے بھائی
کیا دھوپ ہے میری جاں
پیاس کی شدت بھی
اور اس پہ یہ ریگستاں
ہو سچ میں ترے جیسی
میری تمنا ہے
اک نظم لکھوں ایسی
٭٭٭
نذرِ کالی داس گپتا رضا
قرطاس و قلم ہیں خم
ماہرِ غالبؔ کا
کیا لکھیں تعارف ہم
توصیف بیاں کیا ہو
شعر میں لا ثانی
ہیں نثر میں یکتا وہ
جب ان سے ملے تھے ہم
دورِ خزاں میں بھی
پھولوں سا کھلے تھے ہم
اندھیارے میں جوتی ہیں
شعرِ رضاؔ کیا ہیں
افکار کے موتی ہیں
وہ پل میں بھڑک اُٹھا
نقد ہواؤں سے
خاموش جو شعلہ تھا
ہر فن میں ہیں وہ اعلیٰ
سب کو نہیں ملتا
استاد رضاؔ کا سا
کیا اپنی بھی قسمت ہے
آپ سے نسبت تو
بس داغؔ سے نسبت ہے
کیا آپ کا لہجہ ہے
نقرئی سکوں کا
احساس دلاتا ہے
نذرِ امین حزیں
مدہوش بناتے ہو
پونے کی دھرتی پر
جب ماہیے گاتے ہو
نذرِ حیدر قریشی
مشہود ہے،شاہد ہے
نام بھی ہے حیدرؔ
ماہیے کا مجاہد ہے
٭٭٭
ماخذ:
http://punjnud.com/PageList.aspx?BookID=2976&BookTitle=Abr%20e%20Rawan
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید