آئینہ در آئینہ
ستیہ پال آنند کے ساتھ ایک انٹرویو
حصہ دوم
علّامہ ضیاء حسین ضیاء
٭ کیا آپ نے اپنی اولاد اور دوستوں کی فکری تربیت میں اپنے نظریات سے انصاف کیا ؟
آنند: نظریات سے انصاف ؟شاید نہیں، ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ ۔ ۔ ۔ اولاد کو تو ابتدائی تربیت کے بعد مالی، اقتصادی اور سماجی wherewithals مہیا کر کے ان کو خود پر چھوڑ دیا کہ وہ اس قابل ہو چکے تھے کہ امریکا جیسے ملک میں اپنا راستہ خود تلاش کریں۔ اب، ماشا اللہ، تینوں (دو بیٹے اور ایک بیٹی) اپنی اپنی nuclear families میں خوش ہیں، میں تو ایک خالی گھونسلے کا باسی ہوں، جسم میں بھی سکت نہیں ہے اور بقول بھگت کبیر ’’اگن شریر کی مند بھیو، بوڑھو بھیو کبیرؔ‘‘ اپنی ’حرارت و حدت‘آہستہ آہستہ کھو رہا ہوں، لیکن تسلی یہ ہے کہ آک کے پودے کی طرح، اپنے اور اپنے پرکھوں کے genes کے ساتھ جس طرح کی تعلیم و تربیت کے روئی کے گالے میں ملفوف کر کے میں نے اپنے بیجوں کو اڑایا تھا وہ کینیڈا اور امریکا کی، بر صغیر کی نسبت ایک اجنبی زمین میں بھی، سر سبز پودوں کی شکل میں لہلہا رہے ہیں۔ اس استعارے یعنی آک کے پودے اور اس کے بیج کی آک کے ریشوں کے پروں پر اڑتے ہوئے دور دراز جا کر اپنی زندگی کی ابتدا ۔ ۔ ۔ اسی آک کے genes سے شروع کرنے کے استعارے کو میں نے مہاتما بدھ کے ویاکھیانوں سے مستعار لیا ہے۔ حالیہ برس میں ہی کراچی سے (آصف فرّخی صاحب کے ادارے ’دنیا زاد‘ سے )میری بدھ مت کے بارے میں نظموں کا ایک مجموعہ ’’تتھا گت نظمیں ‘‘ کے زیر عنوان چھپا ہے۔ اس میں بھی یہ نظم موجود ہے اور میری انگریزی کتاب One Hundred Buddhas میں بھی شامل ہے، جو امریکا سے ٹریفورڈ پبلشرز نے شائع کی ہے اور آن لائین Amazon سے منگوائی جا سکتی ہے، ان دونوں میں یہ نظم موجود ہے۔ میں اسے یہاں نقل کر رہا ہوں۔ (واضح ہو، کہ یہ منظومات ویاکھیانوں کی شکل میں ہیں جن میں مہاتما بدھ اپنے بھکشو چیلوں یا ان عام انسانوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ )
بیج
اور پھر ایسے ہوا، اک شخص آیا بُدھّ کی خدمت میں، بولا
’’اے مہا مانَو، مرا بیٹا، جسے میں نے
بڑھاپے کا سہارا جان کر پالا تھا۔ ۔ ۔
مجھ سے دور، بھارت کی کسی نگری میں جا کر بس گیا ہے
میں تو دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں !‘‘
بُدھّ بولے
’’چاہتے کیا ہو؟ اسے واپس بلانا؟‘‘
’’ہاں، تتھا گت!‘‘
بُدھ جو اک پیڑ کی چھایا میں بیٹھے تھے
نظر اوپر کوتاوٗاٹھا کر
پیڑ کی جانب اشارہ کر کے بولے
’’پیڑ پودے چل نہیں سکتے، مگر یہ چاہتے ہیں
بیج ان کے دُور اُڑ جائیں۔ ۔ ۔
کوئی زرخیز دھرتی دیکھ کر اُگنے کی سوچیں
اور تم انسان ہو کر چاہتے ہو
تم، تمہارے گھر، تمہاری اپنی دھرتی میں ہی دب کر
بیج جڑ پکڑے، جسے تم اپنا بیٹا مانتے ہو
یہ غلط ہے !‘‘
’’ٹھیک پھر کیا ہے، تتھا گت؟‘‘
’’پیڑ، پودے، جانور سب اپنے بچے پالتے ہیں
اور جب پروان چڑھ جاتے ہیں بچے
چھوڑ دیتے ہیں انہیں۔ ۔ ۔
آزاد کر دیتے ہیں ان کو !
جس جگہ کا دانہ پانی راس آئے
اُس جگہ ٹھہریں، پھلیں، پھولیں، بڑھیں۔ ۔ ۔
پر
نئی رُت کے نئے بیجوں کو بھی یوں آزاد چھوڑیں
تا کہ وہ بھی جس جگہ چاہیں، وہیں جائیں
وہیں اپنی جڑیں گاڑیں۔ ۔ ۔
بہت دھرتی پڑی ہے !
کیا ضروری ہے، کہ ساری عمر
اک بچہ رہے اپنے ہی کنبے میں
جہاں پیدا ہوا ہے ؟‘‘
’’باپ ماں کے ساتھ رہنا کیا غلامی ہے تتھا گت؟‘‘
’’ہاں، سوالی
اس لیے پودا بنو اور بھول جاؤ
اُن کو جو آزاد ہونا چاہتے ہیں !
تم نے اپنا فرض خوبی سے نبھایا
اب اُسے بھی زندگی آزاد رہ کر
خود بسر کرنے کا موقع دو، سوالی!‘‘
اسی سوال میں مشمولہ ایک ضمنی سوال ’’دوستوں کی فکری تربیت ‘‘کے بارے میں ہے۔ بھائی جان، اگر اپنی ہی فکری تربیت ہو جائے تو کیا کافی نہیں ہے ؟ دوست احباب تو ان خربوزوں کی طرح ہیں جو ہمیں دیکھ کر رنگ پکڑتے ہیں۔ ہمیں تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ؛پہلے میں بھی تردد کیا کرتا تھا کہ آخر اس قدر تگ و دو کے بعد بھی ان تک میرا پیغام کیوں نہیں پہنچتا، اردو شاعری کے بابائے اعظم مرزا غالب کو نشانہ مشق بنا کر اس قسم کی نظمیں لکھ کر یہ فرض کر لیا کرتا تھا کہ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے، اب لوگ قافیہ بندی کے قبیح منظر نامے کو دیکھ کر بھی نہ سمجھیں تو ان کی مرضی!
قافیہ بندی
غالب نبود شیوۂ من قافیہ بندی
ظلمیست کہ بر کلک ورق می کنم امشب
غالب
صفحۂ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید
ڈگمگاتے، گرتے پڑتے
کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے
پیچھے ہٹتے
اپنے ’ہونے ‘ کی شہادت ڈھونڈتے تھے
کس طرف جائیں، کہاں ڈھونڈیں
کوئی مفہوم جس کو
ان کے خالق نے کسی ’آورد ‘ کے لمحے میں شاید
اپنے شعروں میں سمو کر
ان کی نا بینائی کے پردے کے پیچھے رکھ دیا تھا
لوٹ کر خالق سے اپنے کیسے پوچھیں
اے خدائے لفظ و معنی
تو نے ہم کو زندگی بخشی ہے، لیکن
ظلم کیسا تو نے اس کاغذ کے صفحے پر کیا ہے
رمز و تشبیہ و علامت
حمزہ و زیر و زبر
اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، پر
معنی و مفہوم کی بینائی۔ ۔
(جس پر اس قدر نازاں ہے تیری خود نگاہی)
واژگوں ژولیدگی، ریزہ خیالی میں کہیں گم ہو گئی ہے
کیسے اتنے فخر سے کہتے ہو غالب
( لفظ جن کی چشم بینا بجھ چکی ہے ) پوچھتے ہیں
’’قافیہ بندی مرا شیوہ نہیں ہے !‘‘
شعر کا آزاد ترجمہ یہ ہے : اے غالب، قافیہ بندی میرا شیوہ کبھی نہیں رہا، تو بھی آج کی رات میں کاغذ کے صفحے پر کیا ظلم روا رکھ رہا ہوں۔
٭ ہم مشرقی لوگ اولاد کے بگاڑ اور قدروں کو روتے ہیں، اور آپ۔ ؟(آ پ ولایتی سکونتی ہیں )
آنند: کیوں روتے ہیں ؟ شاید ان کا مسئلہ بھی بدھ کی خدمت میں حاضر ہونے والے سوالی کا سا ہے۔ کاش یہ بات وہ بھی سمجھ سکیں کہ ہر انسان، تعلیم اور ابتدائی تربیت کے بعد خود مکتفی ہے، آزاد ہے، جو چاہے، سوچے، جو چاہے، بنے۔ ’اولاد کا بگاڑ‘ ایک غلط مفروضہ ہے۔ ’قدروں ‘ کی بے حرمتی پر رونا ایک غلط فعل ہے۔ جی ہاں، میں تو ولایتی سکونتی ہوں لیکن میں اس بات کو خوب سمجھتا ہوں۔ (’سکونتی‘ کا جواب نہیں، حضور علامہ ضیا صاحب! سکونت کے آخر میں ہائے مصدری سے سکونتی۔ پہلی بار پڑھا، اور پلے باندھ لیا!)
٭ ستیہ پال آنند بطور انسان آئینے کو تقسیم کرنا اپنی ضرورت سمجھتا ہے ؟ یا ایک ہی چہرے سے اس کی عصری، نفسیاتی اور تخلیقی پہچان مکمل ہو جاتی ہے۔
آنند: کون سا آئینہ ہے جو مکنون و مکتوم قلبی یا وجدانی درونیت کا عکس مجھے یا دوسروں کو اُس چہرے پر دکھا سکے، جو میں ہر وقت پہنے پھرتا ہوں۔ آئینہ تو صرف ڈِسک discہی دکھائے گا، اس کا ویڈیو اور آڈیو ظاہر نہیں کرے گا۔ جی نہیں، ایک ہی چہرے سے سب ضروریات مکمل نہیں ہوتیں۔ عصری پہچان شاید کسی حد تک مکمل ہو سکتی ہو، لیکن وہ بھی ’’ حد‘‘ بھی ایک نقاب کی، ایک مکھوٹے کی مرہون منت ہو گی۔ نفسیاتی اور تخلیقی پہچان کے چہرے اگر مختلف نہ بھی ہوں تولینز Lens یعنی عدسہ convex ہو گا یا پھر concave ہو گا۔ پہلی حالت وہ ہے جس میں کسی گول گنبد، گیند یا غُبارے کو بیرونی سطح پر چپٹا دیکھا جا سکتا ہے اور دوسری حالت وہ ہے جس میں اسی گولائی کو اندرونی سطح سے دیکھ کر چپٹا ہونے کا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ میں دن میں تین چار چہرے بدلوں تو بہتر یہی ہو گا کہ مکھوٹے بدلتا جاؤں یا لینز کو گھماتے ہوئے مختلف زاویوں سے دیکھنے والوں کے لیے ان کی مرضی کے مطابق چہرے کی نمائش کروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف سونے سے کچھ دیر پہلے اپنی ’’اصلی‘‘ چہرے کو ’’اصلی‘‘ آئینے میں دیکھوں۔
یوں بھی اپنے چہرے کو آئینے میں دیکھنا والا شخص نرگسیت کا شکار ہو ہی جاتا ہے۔ Narcicuss یعنی نرگس کے بارے میں انگریزی کی ہندوستانی شاعرہ سروجنیؔ نایِیڈو کی ایک بہت مشہور نظم ’’شہزادی گلنار‘‘ ہے جس کی داستان فار سی سے مستعار لی گئی ہے۔ کسی زمانے میں مرحوم سروجنی نائیڈو کی آخری غیر مطبوعہ انگریزی نظموں کو میں نے ان کی صاحبزادی پد ماجاؔ نایِیڈو (جو ساٹھ کی دہائی میں مغربی بنگال کی گورنر تھیں ) کے ایما پر مرتب کیا تھا اور یہ کتاب سٹرلنگ پبلشرز، دریا گنج، دہلی سے چھپی تھی۔ اس میں میرا ایک خصوصی نوٹ اس نظم اور اس کی شان نزول کے بارے میں تھا۔ (افسوس کہ اب یہ کتاب آؤٹ آف پرنٹ ہے ) لیکن سروجنی نایِیڈو کی شاعری پر اردو میں لکھے ہوئے میرے ایک مضمون میں یہ نظم اور اس کی شان نزول کی داستان بجنسہ موجود ہے۔ یہ مضمون محترم نصیر احمد ناصرؔ کے میگزین ’’تسطیر‘‘ کے سب سے پہلے شمارے میں شامل اشاعت ہوا تھا۔ اگر کسی صاحب کے پاس ہو یا کسی لائبریری میں ہو، تو یہ نظم دیکھی جا سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ میری اپنی ایک مختصر نظم ’’نارسی سس ‘‘کے بارے میں ہے، یہ نظم اُن یک صد نظموں میں اسے ایک ہے جو میں نے بحر خفیف میں ’رن آن لائنز‘ کے التزام سے لکھی تھیں۔ اور میری کتاب ’’دست برگ‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم بھی پہلے انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ اردو متن پیش کرتا ہوں۔
اک معمہ تھا جس نے اپنا عکس
جھیل میں دیکھا، اور حل ہونے
کے لیے ڈوبنا غلط سمجھا
نرگس دیدہ ور تھا، اپنی ذات
کیسے پہچانتا وہ نا بینا !
مرحوم عبد القوی ضیاؔ صاحب نے ایک مکتوب میں مجھے لکھا تھا : ’’اس مختصر بحر کی مختصر ترین نظم میں تلاش کرنے والے کو، (اگر وہ لفظ ’نرگس‘ کی طرف متوجہ نہ بھی ہو تو، )’عکس‘، ’جھیل‘ ’معمہ‘، ’ڈوبنا‘، ’حل ہونا‘، ’اپنی ذات‘ ’دیدہ ور‘ اور ’نا بینا‘، یعنی الفاظ کی ایک لمبی قطار ضرور دکھائی دے گی جن کے ذو جہتی معانی اس کے ذہن میں ارتعاش اور انتشار پیدا کرتے ہوئے اسے نظم کے سمجھنے پر مجبور کر دیں گے۔ ‘‘
اب تک شاید میں اپنا جواب صحیح طور پر مکمل نہیں کر پایا۔ میری ایک سو نظموں کے مجموعے ’دست برگ‘ میں ایک اور نظم بھی اس موضوع پر تھی کہ ایک چھابڑی فروش کی طرح گلیوں کے پھیرے لگانے والا شاعر اپنی شاعری کا صحیح عدسہ کندھے پر اٹھائے ہوئے بلند آواز میں پکارتا پھرتا ہے۔ آپ بھی یہ آواز سنئے اور، مکرمی ضیا صاحب، اگر آپ کو بھی اپنا صحیح چہرہ دیکھنے کی تمنا ہو، تو اسے ٹھہرائیے، اپنی اونچی منزل سے نیچے اتریئے، اور اپنا صحیح چہرہ دیکھئے۔ یہ نظم بھی پہلے انگریزی میں خلق ہوئی تھی اور میری انگریزی نظموں کے مجموعے A VAGRANT MIRROR جو اسی نظم پر مبنی ہے، میں شامل ہے۔ یہ کتاب بھی آن لائن Amazon.com سے خریدی جا سکتی ہے۔
شہر میں گھومتا ہوا آئینہ
ایک آئینہ ہاتھ میں لے کر
ایک مدت سے شہر کی گلیوں
اور کوچوں میں گھومتا ہوں میں !
شہر والو ! مکانوں کی اونچی
منزلوں میں مکین لوگو، سنو
میرا آئینہ رو برو ہو کر
پیش کرتا ہے ہو بہو چہرے
تم جو بچپن میں اپنے چہروں کا
روپ کیسا تھا، اور کب، کیونکر
مسخ ہو کر بدل گیا، سب کچھ
بھول بیٹھے ہو۔ ۔ ۔ اور مدت سے
ایک کے بعد ایک جھوٹا نقاب
پہنے پھرتے ہو، میری بات سنو!
گھر سے نکلو۔ ۔ ۔ ۔ کہ میرا آئینہ
سب مکھوٹوں کو توڑ کر اصلی
بھولے بسرے ہوئے سبھی چہرے
یوں دکھاتا ہے، لوگ اپنے نام
۔ ۔ ۔ اور چہرے کا کیا تعلق تھا
جان جاتے ہیں۔ ۔ ۔ آؤ، اے لوگو
منزلوں میں مکین، گھر والو
میرا آئینہ رُو برُو ہو کر
پیش کرتا ہے ہُو بہُو چہرے ! (1975)ء
٭ یادش بخیر ! ایک صاحب نے (نام لینے کی ضرورت نہیں ) آپ پر سرقہ کا الزام لگایا تھا، جواب میں آپ نے اپنے سکوت کو اپنا ترجمان ٹھہرا لیا۔ ۔ کوئی تفصیل اس اجمال کی ؟
آنند: نام لے کر میں اپنا دہن نہیں بگاڑوں گا۔ صرف اتنا لکھوں گا کہ ان ’ادبی دہشت گردوں ‘ کو مطالعہ سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ Inter-textuality (بین المتونیت) کے معانی نہیں جانتے۔ میں اس موضوع پر اپنے مضامین میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ صنف غزل کی عمارت کا پرانا ڈھانچہ ہی اس پر استوار ہے لیکن ہم فارسی سے مستعار دو اصطلاحات کو صدیوں سے دہرائے چلے جاتے ہیں۔ سرقہ اور توارد ۔ ۔ ۔ استغفر اللہ! معافی چاہتا ہوں، اس کو دہرا کر، جس زہر کے پودے کو میں جڑ سے اکھاڑ چکا ہوں، اس کا بیج دوبارہ نہیں بونا چاہتا۔
٭ جدید غزل کا تصور سمجھانے کے لئے کیا نئے تصورات یا اصطلاحیں ایجاد کرنا پڑیں گی ؟
آنند: پہلے تو ہمیں ’جدید‘ کے حوالے سے قدیم کو سمجھنا پڑے گا، یا ’قدیم‘ کے حوالے سے جدید کو سمجھنا پڑے گا۔ اگر جدید غزل اپنی پوری جسامت میں معرض وجود میں نہ آئی ہو اور گھٹنوں کے بل ہی چل رہی ہو یا اس کے بینر کے نیچے چار پانچ عجیب الخلقت ورثا صلبی چل رہے ہوں جن میں ہر ایک کی وراثت کا کلیم ابھی ثابت ہونا باقی ہو، تو اس کے حوالے سے قدیم کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہاں، قدیم کو جدید تھیوریوں، نئے تصورات اور اصطلاحوں سے (جو پہلے نا پید تھیں ) بہت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ غزل کا ایک خاص مضمون اس مجموعی قسم All-inclusive categoryسے تعلق رکھتا ہے جسے خود ترحمی Self pityکہا جا سکتا ہے، (اور جس کے تحت غزل کے بیشتر اشعار رکھے جا سکتے ہیں ) یہ ہے، ’’تنہائی‘‘، جس کے تحت اس طرح کی ضمنی یا ذیلی یا تحت التحریر مقاطعی اصطلاحات رکھی جا سکتی ہیں۔ عزلت، بیگانگی، اعتکاف، بیراگ، تیاگ، دست کشی، اجنبیت، سُونا پن، اداسی، جوگ وغیرہ۔ یہ جواب لکھ رہا تھا کہ غالب اور میرؔ کے دو اشعار سامنے آئے۔ اور ’الحمرا‘ لاہور کے اسی ماہ (جولائی ) میں ایک ہمعصر شاعر کی اپج۔
وحشت دل سے شب تنہائی میں
صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے
(غالبؔ)
کوئی جہت یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میرؔ
یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں
(میر تقی میرؔ)
ایک ہمعصر شاعر (ظفر اقبال صاحب) کا شعر دیکھیں :
راستہ صحرا سے ہو باہر نکلنے کا کوئی
زندگی کی دھوپ میں مجھ کو شجر درکار ہے
(ظفر اقبال)
چہ آنکہ غالب اور میر کے اشعار ظفر اقبال کے شعر سے بہتر ہیں، تو بھی ظفر اقبال کا شعر صرف مصرع اولیٰ میں صحرا سے باہر نکلنے ‘ کی خواہش کا اعادہ کرنے کی بنا پر اس چبے چبائے ہوئے استعارے کی سطح پر بھی ایک نئی جہت کی تشکیل کرتا ہے۔ اس شعر میں بھی البتہ شاعر اپنا دامن راستہ، صحرا، دھوپ، شجر، جیسے پارینہ، چبے چبائے ہوئے اور پیش پا افتادہ کلیشے clicheکی قسم کی اصطلاحات سے اپنا دامن بچا نہیں پایا۔ جوliterally لاکھوں بار اردو کی غزلیہ شاعری میں استعمال ہو چکے ہیں۔ (اور موصوف خود انہیں سینکڑوں بار استعمال کر چکے ہیں !) اگر اس قماش کے شاعر اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی غزلوں کا خام مال حالیہ منڈیوں یا جمعہ بازاروں سے خریدتے ہیں، اور ’چائے ‘ کی ردیف کے ساتھ ہائے نسبتی کے قوافی (خالی چائے، اچھی چائے، کڑوی چائے، وغیرہ)کے استعمال سے یک صد شعروں کی غزل کہہ سکتے ہیں، تو انہیں اپنا ہی شعر دیکھ کر کچھ سوچنا چاہیے کہ کیا آج کل لوگ بسوں، کاروں، گاڑیوں، ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں یا صحراؤں میں بھٹکتے ہوئے دھوپ سے بچنے کے لیے شجر اور باہر نکلنے کے لیے راستہ تلاش کرتے ہیں۔
اب آپ کے تفنن طبع کے لیے بھی اور یہ نکتہ سجھانے (سمجھانے ‘ نہیں !) ‘ کے لیے یہاں اپنی ایک نظم لکھ رہا ہوں، جو جنت، دوزخ اور (عالم لاسوت) کے مابین دنیا ’’اعراف‘‘ یعنی limbo میں بھٹکتی ہوئی ایک روح کی داستان ہے جو مندرجہ بالا دنیاؤں میں جانے کے بجائے اس ’صحرا‘ میں بھٹکنے کو بہتر سمجھتی ہے۔ دیکھیں اور سمجھیں، داد نہ بھی دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
"In the Limbo”کے زیر عنوان یہ نظم پہلے انگریزی میں لکھی گئی
’خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا‘!
کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا
سر نکالے کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی جس سے رستہ پوچھتا
ایک قوس آسماں حّدِ نظر تک لا تعلق سی کہیں قطبین تک پھیلی ہوئی تھی
دھند تھی چاروں یُگوں کے تا بقائے دہر تک۔ ۔ ۔
اور میں تھا!
اور میں تھا
لاکھ جنموں کی مسافت سے ہراساں بھاگ کر
اعراف کے لا سمت صحرا میں بھٹکتا
کوئی روزن، کوئی در، کوئی دریچہ ڈھونڈتا، پر
یہ بھٹکنا خود میں ہی بے انت، ابد الدہر تھا
ایسی سناتن، قائم و دائم حقیقت
جس سے چھٹکارہ فقط اک اور قالب میں دخول عارضی تھا
اس جنم میں جو نئی زنجیر میں پہلی کڑی تھی
ان گنت کڑیوں کی صف بستہ قطاروں سے مرتب!
اور میں خود سے ہراساں
یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا
جس زنجیر سے میں، تسمہ پا، اک لاکھ جنموں کی مسافت سے صیانت پا چکا ہوں
اس میں پھر اک بار بستہ بند ہو کر چل پڑوں
بے انت جنموں کے نئے پیدل سفر پر؟
ہاں مجھے تسلیم ہے یہ
خانۂ مجنونِ صحرا گرد کی بے در مسافت!
میرے ’ہونے ‘اور ’بننے ‘کے گزرتے وقت کا دورانیہ
برزخ کے باب و در سے عاری دشت میں ہی
تا بقائے دہر تک
جنموں کے دوزخ سے رہائی کے لیے !
میں نے مندرجہ بالا متن کے کچھ حصص کو اپنی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے لیا ہے۔
تو محبی، مکرمی و محترمی : آپ کے سوال یعنی ’’جدید غزل کا تصور سمجھانے کے لئے کیا نئے تصورات یا اصطلاحیں ایجاد کرنا پڑیں گی ؟‘‘ کا جزوی جواب تو میں نے دے دیا لیکن ابھی آپ کو اور مجھے، قدم سے قدم ملاتے ہوئے، غزل کے حوالے سے بہت سا راستہ طے کرنا ہے، کچھ اور اصطلاحات کا لیکھا جوکھا آگے آنے کی امید ہے۔
٭ میڈیکل سائینس سے جسم نکال کر بات نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ تغزل میں اساسیات دل و روح و نظر اور۔ ۔ ۔ اس کے عوارضات کے علاوہ کیا ڈسکس کیا جا سکتا ہے اور کیسے ؟
آنند: حضور، آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ صرف غزلیہ شاعری ہی’اساسیات دل و روح و نظر‘ کی حامل ہو سکتی ہے ؟ یہ ایک بے حد ناقص مفروضہ ہے، کیونکہ پابند نظم کی کچھ کلاسیکی اصناف میں ان سب کا دخل بقدر ضرورت موجود ہے، کوئی توڑا نہیں ہے۔ نوحہ، مرثیہ، حمد۔ نعت، گیت، واسوخت، وغیرہ اصناف تو شاعری کے اٹوٹ انگ تھے ہی، پابند یا نظم یا بلینک ورس میں آپ کو ہزاروں نمونے ایسے مل جائیں گے جو آپ کی آنکھوں میں آنسو لے آئیں گے۔ آپ نے خود ہی ان سوالات کے سلسلے میں مجھے، جزع و فزع کا شاعر تسلیم کر لیا تھا اور پوچھا بھی تھا کہ اس سوز خوانی کی وجہ کیا ہے اور یہ کیسے شروع ہوئی، جس کے جواب میں اپنے والد کے وحشیانہ قتل کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ اس زہر کے پودے کو اپنے دل کی دھرتی سے اکھاڑ پھینکنے کے باوجود، میں سمجھتا ہوں، کہ یہی واقعہ وہ پہلا محرک تھا جس نے مجھے سدا کے لیے ندبہ سے روشناس کروا دیا اور میں آج تک نالہ کش ہوں۔
اساسیات دل و روح و نظر(آپ کے الفاظ)، شاید غزل سے بھی زیادہ شدت اور تفصیل کے ساتھ نظم میں بیان ہو سکتے ہیں۔ غزل میں تو دہرائے جانے کی وہ حد بھی ہے جو کچھ شعرا کو فانیؔ بدایونی بنا دیتی ہے، لیکن یہ الزام نظم کے شاعر کے بازو پر سیاہ پٹی کی طرح نہیں باندھا جا سکتا۔ اپنی دو مختصر نظمیں لکھ رہا ہوں، جن سے یہ بات شاید ثابت ہو سکے۔ پہلی نظم اپنی بیوی کی ناقابل علاج علالت کے دنوں کی ہے، جب میں نے مشکل کشا مولا علی سے دہائی کی شکل میں یہ التجا کی تھی:
دہائی ہے علی مشکل کشا
علی مشکل کشا، اس ستیہ پال آنند کو دیکھو
تمہارے در پہ جو ایسے کھڑا ہے جیسے اک بُت ہو
مگر اس بُت کی آنکھوں میں کئی نا گفتہ شکوے ہیں
یہ شکوہ بھی ہے جو اشکوں میں ڈھل کر تم سے کہتا ہے
کہ تم نے عرض سننے میں بہت تاخیر کر دی ہے
علی، تم نے تو اپنے در پہ آئے ہر سوالی کو
ہزاروں بار اپنی بخششوں سے یوں نوازا ہے
کہ ان کی مشکلیں آسانیاں بن کر ابھرتی ہیں
تو پھر یہ ستیہ پال آنند جو اک ٹک نظر گاڑے
کسی بُت سا تمہارے در پہ ٹھہرا ہے مہینوں سے
اگر شکوہ کرے تم سے تو کیا جائز نہیں ہو گا؟
تمہارے در کا بھک منگا دہائی دے رہا ہے کیوں ؟
علی مشکل کشا، اس بے نوا شاعر کی بیوی کو
کرم کی بھیک سے اپنی نوازو، پھر سے صحت دو!
یہ غزلیہ شاعری نہیں ہے۔ نظم معریٰ کی صنف میں ایک غیر مقفیٰ شعری کاوش ہے، تو بھی کیا اس میں دل و روح و نظر کی اساسیات نہیں ہیں ؟ جواب آپ پر ہی چھوڑتا ہوں۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس نظم کے شائع ہونے کے بعد دو سو کے لگ بھگ قارئین کے خطوط مدیر کو موصول ہوئے جو انہوں نے بنڈل بنا کر مجھے بھیج دیے کیونکہ سب میرے ہی نام تھے۔ کچھ میں تو آنسوؤں سے بھیگی ہوئی زبان میں اس بات کا اقرار تھا کہ یہ نظم پڑھ کر وہ نہ صرف خود اشکبار ہوئے بلکہ سجدے میں گر کر فوری طور پر دعائیں پڑھیں کہ میری دعا قبولیت کا شرف حاصل کرے۔
دوسری نظم اپنی بیوی کی رحلت کے بعد پہلے انگریزی اور پھر اردو میں لکھی گئی۔ انگریزی میں اس کا عنوان Snow Angel تھا لیکن اس کی آخر سطر پر مبنی
With Whom Shall I Converse at the Dead of the Night?
انگریزی کے معروف اہل قلم ڈاکٹرسید امجد حسین (ٹولیڈو، امریکا)نے مجھ سے اجازت لے کر اپنی مرحوم و مغفور بیوی کے نام اس کی رحلت کے بعد تحریر کردہ خطوط پر مبنی اپنی کتاب کا عنوان بھی یہی رکھا۔ اردو میں بھی اس کا عنوان ’’سنو اینجل‘‘ ہی تھا۔ اب نظم اور اس کے ساتھ اردو خواندہ قارئین کے لیے ایک نوٹ دیکھیں۔ انگریزی میں یہ نوٹ نہیں تھا کہ امریکا کے رہنے والے برفباری کے دنوں میں بچوں کے اس کھیل سے بخوبی واقف ہیں۔
(نوٹ) امریکا اور کینیڈا کے شمالی علاقوں میں جہاں برف بہت پڑتی ہے، اسکول سے واپسی پر بچے برف میں کھیلتے ہوئے ، تازہ پڑی ہوئی نرم نرم برف میں لیٹ کر اپنے جسم کا پورا نقشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری صبح اسکول جاتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا رات کو تازہ برفباری یا تیز ہوا نے اس نقشے کو مسخ کیا ہے یا نہیں۔ اگر یہ ویسے کا ویسا ہی موجود ہو تو خوشی سے چلاتے ہیں، ’’گُڈ لک ! یہاں رات کو سنو اینجل (برف کا فرشتہ ) سویا تھا۔ ‘ ‘ بچے اسے اچھی قسمت کی نشانی سمجھتے ہیں۔ یہ مفروضہ شاید شمالی امریکا کے اصلی باسیوں ’ریڈ انڈین‘ لوگوں کے کلچر کا حصہ تھا، جسے گورے لوگوں نے اپنا لیا ہے۔
سنو اینجل
رات کو کمرے کا سنّاٹا جکڑ لیتا ہے
اپنے آہنی ہاتھوں میں
اور پھر لا پٹختا ہے اُسی بستر پہ
جس کی برف سی برّاق چادر کی
ہر اک سلوٹ میں تم لپٹی پڑی ہو!
داہنی جانب کا ہلکا جھول
جس سے اک مکمل جسم کا خاکہ ابھرتا ہے
سنو اینجل کا شاید یہ سراپا
یا تمہارے اس بدن کا
جو تم اپنے ساتھ لے کر جا چکی ہو
مجھ کو اک گہری نظر سے دیکھتا ہے
اور میں ڈرتا ہوں
بائیں ہاتھ سوتا ہوں
تمہارا نقش بستر سے
سنو اینجل کا خاکہ
مٹ گیا، تو
شب کے سناٹے میں کس سے بات ہو گی؟
آپ کے اس سوال کا جواب یہاں ختم ہوا۔
٭ نئے قاری کی پیدائش تک غزل کی موجودہ سائیکی اور گائیکی پر اکتفا نہیں کرنا پڑے گا۔ ؟
آنند: جواب: نئے قاری کی پیدائش ؟قاری، سامع، نقاد۔ ۔ ۔ (نقاد بھی تو محولہ اولیں گروپ سے ہی ابھرتے ہیں !)ہم میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ شماریات کے ریاضی کے مطابق فی زمانہ تین سے چار تک نسلیں بیک وقت زندہ ہیں۔ ان میں نئے قاری لا تعداد ہیں بشرطیکہ ان کی برین واشنگ نہ کی جائے۔ یہ برین واشنگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دن رات کرتا رہتا ہے۔ غزل کے عشقیہ مضامین کی برین واشنگ کی پہلی کھیپ شروع جوانی کی کچی بلوغت ہے، جس میں داخل ہوتے ہی کچے اذہان پر اس کی بارش ہونے لگتی ہے۔ اگر کچھ ایک ان میں سے اس حالت تک نہ بھی پہنچیں کہ [دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ] تو بھی ان کی تر دامنی اس بارش سے وقفے وقفے کے بعد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس لیے کہ مطالعہ کا فقدان ہے اور درسی کتب میں غزل ہی کو شعر و شاعری کا کل ساز و سامان فرض کر لیا گیا ہے۔ بہر حال میں نا امید نہیں ہوں۔ 2013ء میں کراچی میں میری آمد پر انجمن ترقیِ اردو نے ایک ’’نظمیہ مشاعرہ‘‘ منعقد کیا جس میں صرف نظمیں سنائی گئیں۔ شنید ہے کہ ایسا ایک مشاعرہ لاہور میں بھی برپا کیا گیا۔ یہ رجحان مشاعروں میں نہ بھی رواج پا سکے تو رسائل میں غزل کے لیے مخصوص کچھ صفحات اب نظم کے علاوہ نثری نظم کو بھی دے دیے گئے ہیں کہ نئے شاعر اور نئے قاری یہ چاہتے ہیں۔
سائیکی اور گائیکی۔ ۔ ۔ ۔ یعنی Psyche and tone & tenorواہ، کیا ’ان جوڑ‘ جوڑ ملایا ہے آپ نے۔ آپ کی حس مزاح کی داد دینا پڑتی ہے۔ عرض کروں کہ سائیکی کی بات تو میں مندرجہ بالا پیراگراف میں مختصراً کر ہی چکا ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ کے باقی ماندہ سوالات ( ’’ماندہ‘‘ کہاں ؟ یہ تو بڑے چاک و چوبند قسم کے سوالات ہیں !) میں زیر بحث آ جائیں گے۔ اب رہی گائیکی۔ ۔ ۔ ۔ تو صاحب بستۂ سوالات، میرا جواب سنئے :
تاریخ بتاتی ہے کہ غزل کا جد امجد یعنی’ عربی قصیدہ ‘، جزیرہ نمائے عرب میں کبھیsolo song کے طور پر نہیں گایا گیا، تجوید، (یعنی حروف کو ان کے مخارج سے پڑھنے کا طریق) سے شاید پڑھا جاتا رہا ہو گا۔ ایران میں (کم از کم یہ میرے علم میں نہیں ہے ) آج تک غزلیہ شاعری محافل میں گا کر نہیں سنائی جاتی۔ میرے ایرانی طلبا کے پاس جو یہاں واشنگٹن ڈی سی میں رہتے ہیں، ایران سے سی ڈی، ویڈیو وغیرہ پہنچتے رہتے ہیں اور ایرانی پرچون اور حلال گوشت کی دکانوں پر بھی یہ ویڈیو موجود ہیں۔ غزلیہ شاعری گائی ضرور جاتی ہے، لیکن شعرا کی آواز میں نہیں، موسیقی کے آلات کے ساتھ پیشہ ور گانے والوں یا گانے والیوں کی آواز میں ! وہاں بھی یہی حالت ہے جو ہمارے ملکوں میں ہے کہ خریدار کہتا ہے کہ اسے جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی فلاں فلاں غزلیں درکار ہیں۔ اسے اس بات کا کوئی علم نہیں ہے (اور اس سے سروکار بھی نہیں ہے ) کہ یہ غزلیں کس شاعر کی ہیں۔ جیسے سین بھٹکنے کو بہتر سکڑوں فلمی گانے ہیں جن کو گانے والوں یا گانے والیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ’’بول‘‘ کس شاعر کے تھے ؟ کسی کو کیا غرض پڑی ہے کہ اس مخمصے میں پھنس کر اپنا وقت ضائع کرے ؟
بر صغیر میں (انڈیا میں زیادہ اور پاکستان میں کچھ کم) شاعر حضرات یا شاعرات کا ترنم سے پڑھنا ایک رواج سا بن گیا ہے۔ لیکن ایران میں آج تک رواج نہیں پا سکا۔ ۔ ۔ بیسویں صدی کے پہلے ساٹھ ستر برسوں میں تو ہر شاعر کا اپنا ایک مخصوص ترنم تھا جو ایک ٹریڈ مارک کی طرح ’’طے ‘‘ہو گیا تھا۔ تب بھی ان شعرا کو سنگیت کی کوئی سدھ بدھ نہیں تھی۔ لے، تال، سُر، تال میل، اتری پردہ، اُپ ناس، نیاس، گت، لہجہ یا ’گلے بازی ‘ کے فارمولے، تان پلٹے، بول تان، ولمپت، مَدھ، درت، لہرا، تال، ٹھاٹھ، سمپورن، اردھ سمپورن۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ سے انہیں سرسری واقفیت بھی نہیں تھی، لیکن ’’گاتے ‘‘ضرور تھے۔ اور اب تو۔ ۔ ۔ اب تو۔ ۔ ۔ میرے کم کہے کو بہت کہا جانئے، حضور ضیا صاحب۔
٭ اگر غزل سے ردیف قافیہ کی بندش اٹھا لی جائے (جیسا کہ کچھ تجربات ہو بھی چکے ہیں ) تو کیا اس سے غزل کی معنوی دشواریاں ختم نہیں ہو جائیں گی۔ ؟
آنند: تو پھر وہ غزل ہی کہاں رہے گی، صاحب؟ انڈیا میں ایک معروف شاعر مظہر امام صاحب نے ’’آزاد غزل‘‘ کی بیخ و بنیا رکھی۔ کچھ اور لوگوں نے ’’دوہا غزل‘‘، ’’غزل نما‘‘، (الجھا دیا آپ نے ! میرا تو سر گھوم رہا ہے )وغیرہ اصناف ’ایجاد‘ کیں۔
سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ غزل کو اپنی موجودہ ہیئت میں قائم رہنا چاہیے۔ اس کا ایک تاریخی کردار ہے جس سے ہم اپنی آنکھیں چرا نہیں سکتے۔ صرف ایک خواہش ہے کہ اپنی موجودہ ہیئت میں قائم رہتے ہوئے بھی موضوعات اور مضامین میں اس مویشی کو زندگی کی چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا جائے اور اسے ’’کھُرلی‘‘ پر باندھ کر ایک مخصوص قسم کا چارہ نہ کھلایا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مزید از ایں، اس کی مختصر ترین جسامت کی وجہ سے اس کی سب سے بڑی ضرورت استعارے اور علامت میں بات کہنے کی ہے۔ تا کہ کم از کم الفاظ میں بہت کچھ کہا جا سکے۔ غالبؔ کو بھی اس امر کا سامنا تھا، تو اس نے ملفوفیت اور مدوریت کی زبان استعمال کی۔ استعارہ سازی میں اتنا زیادہ جوڑ توڑ کیا کہ تقریباً ہر شعر ایک بھول بھلیاں بن گیا اور شرحیں لکھنے تک کی نوبت آ گئی، گویا شاعری نہ ہوئی، ایک کراس ورڈ پزل ہو گیا۔ تو بھی، بوجوہ (اور وہ وجوہ فارسی کے پیش روؤں کی نقالی تھی) مضامین اور موضوعات میں کوئی نیا باب نہیں کھلا۔ نہ غالب سے پہلے، نہ غالب کے وقتوں میں (اور یہ کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں !) اور نہ ہی اس کے ایک سو برس بعد تک! ترقی پسند تحریک کے زمانے میں بھی فیض اور دیگر شعرا نے وہی استعارے استعمال کیے جو ظالم معشوق کے لیے کیے جاتے تھے، صرف اب وہ ظالم حاکم کے لیے مخصوص کر دیے گئے۔ اپنے بمبئی کے مختصر قیام (1955ء) میں مجھے بہت سے سینئر دوستوں سے ملنے کا موقع ملا۔ (ان سب کا تذکرہ میری خود نوشت ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں موجود ہے )۔ معروف فلمی غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کے ساتھ ایک محفل میں ایک جونیر شاعر کی طرح بیٹھے ہوئے میں نے مودبانہ انداز میں ایک لقمہ دیا کہ فراق گورکھپوری صاحب نے کتنی خوبصورتی سے انقلاب کی آمد کو وثوق سے اس شعر میں پیش کیا ہے :
دیکھ رفتار انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز
تو مجروح نے، جو اپنی دانست میں سب سے بڑے غزل گو شاعر ہونے کا دم بھرتے تھے، جواب میں کہا، ’’ اس رجائیت کے لہجے کو میں نے بھی تو کئی شعروں میں پیش کیا ہے !‘‘۔ ۔ ۔ ۔ اور تب انہوں نے اپنی کئی اشعار سنائے، جن میں سے ایک کا مصرع ثانی مجھے اب بھی یاد ہے :
ع : اُٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے
اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس وقت بھی، یعنی ترقی پسندی کے hay-days میں بھی(جب جگر مراد آبادی جیسے سکہ بند غزل گو بھی یہ مصرع کہنے پر مجبور ہو گئے تھے : شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آجکل!‘‘) اردو شعرا اپنی poetic parlance میں کلاسیکی اردو شاعری کے استعاروں سے نجات نہیں پا سکے تھے۔ چہ آنکہ فراق کے شعر میں ما سواء ’کتنی آہستہ اور کتنی تیز‘ کے حسن بیان کے کچھ اور موجود نہیں تھا، مجروح صاحب کے مصرع میں تو وہی طائر کا شام گئے اپنے آشیانے کی طرف لوٹتے ہوئے اپنے بال و پر سے تخاطب کا انداز ہے۔ استعارہ سازی کی صنعت تو جیسے ان برسوں میں مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
٭ تنگنائے غزل کی اصل مجبوری اس کی ہیئت کی ہے یا مضامین کے فقدان کی۔ ؟
آنند: ہیئت کی مجبوری تو ایک طے شدہ امر ہے اور میرے خیال میں نہ اسے بدلا جا سکتا ہے، نہ بدلنا چاہیے۔ انگریزی میں Ode, Sonnet, Ballad وغیرہ اصناف سخن کو تقریباً ترک کر دیا گیا لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا، یا چاہا کہ انہیں بدل دیا جائے۔ شیکسپیئر کے وقتوں میں (سولھویں صدی کا آخر اور سترھویں صدی کی پہلی دو دہائیاں ) محسوس کیا گیا کہ سانیٹ کی جو ساخت لاطینی سے ان تک پہنچی ہے، یعنی پیٹرآرکن سانیٹ، وہ انگریزی کے لیے نسبتاً غیر موزوں ہے، تو شیکسپیئر نے ہی پہلے اسے بدلنے کا تجربہ کیا اور نئے فارمیٹ کا نام ہی شیکسپیرین سانیٹ پڑ گیا۔
یہ بالکل درست ہے کہ مضامین میں کبھی کبھار ہی کچھ دوستوں نے نئی جہتیں تلاش کی ہیں، ورنہ وہی پرانے ڈھرے اور نئے لوگ بھی انہی پرانے ڈھروں پر چلنے کے لیے مجبور۔ ۔ ۔ ۔ میں شاید کچھ سوالات کے سلسلہ وار جوابات میں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ غزل کے طریق کار کو مضمون آفرینی کے سائنسی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مائیکل رِفاترے Michael Riffaterre نے اپنے تنقیدی نظریہ سازی کے متون میں سائنسی، صوتی اور لسانی پیمانوں کے علاوہ بین المتونیات inter-textuality کا نظریہ پیش کیا جس سے ہم اردو غزل میں پرانے استعاروں کو بار بار پیش کرنے کی بدعت کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں زیر آب پڑی ہوئی چمکیلی چیزوں کی طرح کچھ ہیولے ایسے ہیں، جنہیں، لا شعوری طور پر، یعنی ہمارے آگاہ ہوئے بغیر، ہماری تخلیقی قوت کی کار کردگی، ہماری یاد داشت سے اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر غالبؔ یا میرؔ کی کچھ غزلیں ہم نے سولہہ برس کی عمر میں اپنے میٹرک کے نصاب میں پڑھی ہیں، اور اگر ہم نے اُسی دن یعنی آج چالیس برس کی عمر میں ایک ادبی رسالے میں منیر نیازی کی ایک غزل پڑھی ہے، تو ان کے اشعار میں مستعمل مضامین ہمارے ذہن میں time lapse کے امتیاز کے بغیر تازہ بہ تازہ موجود ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان میں مشمولہ مضامین کے ہیولے submerged matrixکی طرح ہمارا تخلیقی ذہن سطح پر لے آئے اور ہم یہ سمجھیں کہ یہ تو ’’آمد‘‘ ہے، وحی کی طرح یہ استعارہ ہم پر نازل ہوا ہے۔ اسی طرح دیگر مضامین ہیں، جنہیں رفاتریّ کی زبان میں ہی ’’جواہرات سے جڑی ہوئی وہ پرت جو اتنا عرصہ پانی میں ڈوبی رہی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس پرت میں صرف میرؔ، غالبؔ ہی نہیں ہیں، پرکھوں سے ودیعت ’اکھان‘، ’لوک بجھارتیں ‘، کہہ مکرنیاں کے قماش کی دو بیتیاں یا سہ بیتیاں، سِٹھنیاں، طعنے، مہنے، ٹھٹھا، ٹھول مٹھول کے بول، اور خدا جانے کیا الم غلم بھرا پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اسی میں یعنی collective or racial subconscious mind میں مذہبی قصے بھی ہیں، اساطیری داستانیں بھی ہیں، اپنے علاقے کے وہ لیجنڈ بھی ہیں جو ہم نے بچپن میں سنے اور ہماری یاد داشت نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیے، مافوق الفطرت مخلوقات کے قصے بھی ہیں۔ ۔ ۔ ۔
دنیا کی کسی بھی شعری صنف سے کہیں زیادہ اردو کی صنف غزل میں ’بین المتونیت‘ کا لا شعوری (اور of course, کبھی کبھی شعوری) استعمال موجود ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنے طریق کار میں گزشتہ متون کو اس طریقے سے جذب کرتا ہے کہ آخرش اس بات کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ ’’کیا کہا گیا‘‘، بلکہ پیش نظر صرف یہی رہتا ہے، کہ ’’کیسے کہا گیا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ’کیسے ‘ میں مضمون آفرینی کے علاوہ، روز مرہ اور محاورے کا استعمال، صوتیاتی مد و جذر، غنائیت اور تغزل کے علاوہ وہ چابکدستی بھی شامل ہے، جس میں استعارے سے صرف نظر ’’شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا‘‘ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ شاید یہی مقام برحق ہے جہاں مجھے یہ سوال کرنا لازم ہے کہ غزل کی بوسیدگی کم کرنے کے لئے کیا اسے گرائمر اور صرف و نحو کے قواعد میں کچھ رخصت‘‘ اور کچھ چھوٹ کیوں نہ دے دی جائے۔
آنند: غزل پر گفت و شنید کا ایک مثبت نتیجہ تو خیر سے برآمد ہوا کہ آپ اشتقاقی طرز تحریر میں ’غزل کی بوسیدگی‘ جیسی اصطلاح بلا روک ٹوک استعمال کرنے لگے۔ ۔ ۔ تو، آگے چلیں اور دیکھیں کہ اس کو کم کرنے کے لیے کیا کرنا لازم ہے۔ آپ نے میرے جواب کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے کہ اسے گرائمر اور صرف و نحو کے قواعد میں کچھ چھوٹ کیوں نہ دے دی جائے۔ نہیں صاحب، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ ایک راسخ صنف سخن کو اس جراحی کے عمل سے گزرنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن اس نکتے کو بحث کی بھٹی میں تپا کر دیکھنے میں کیا ہرج ہے کہ اس میں کتنا سونا ہے اور کتنا کھوٹ ہے۔
انگریزی میں آج تک ہم اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی شاعر الیکذانڈر پوپؔ کو ہیرائک کپلٹ Heroic couplet یعنی قافیہ بند اشعار کا کامیاب ترین شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی کچھ نظموں میں، جو سینکڑوں اشعار کا مرقع ہیں، پچاس یا اس سے بھی زیادہ قسم کے قوافی کا استعمال کیا گیا ہے۔ حروف ابجد کی تعداد کے حساب سے ان قوافی میں ہر بار صرف آخری دو حروف یعنی ایک حرف صحیح اور ایک حرفِ علّتconsonant & vowel کے انسلاک سے قافیے کی تشکیل کی گئی ہے۔ میں نے اپنے برٹش اوپن یونیورسٹی کے دنوں میں جب انگلستان میں مقیم ہندوستانی یا پاکستانی طلبہ کے لیے ایک ESL (English as a Second Language کورس کی تشکیل کرتے ہوئے غزل میں قوافی کے طریق کار اور انگریزی میں ہیرائک کپلٹ کی روایت پر غور کیا تو مجھے اچنبھا ہوا کہ پوپؔ یا اٹھارھویں صدی عیسوی میں ہی انگریزی کے دیگر شعرا کے ہاں صرف ایک ہی چلن ہے، یعنی آخری لفظ جو صرف دو یا تین syllables سے متشکل ہو، اسے ہی قافیہ بند کیا جائے، جیسے last / fast: ruse/fuse : for/nor : leave / weave : bold / sold وغیرہ، جب کہ ہمارے ہاں غزل میں یہاں تک آزادی ہے کہ صرف ایک آخری حرف علّت، الف (ممدودہ اور مقصورہ )، ’’ہ ‘‘(ہائے مختفی یا ہائے ہوز)، ’’ی ؍ے ‘‘ (یائے معروف اور یائے مجہول کا قافیہ بھی ممکن ہے، اور چار یا پانچ یا اس بھی زیادہ حروف سے متشکل الفاظ بھی قافیہ پیمائی میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے جہاں غزل میں ایک صوت کے سبھی قافیے لانے کی پابندی ہے، (جو کہheroic couplet ہیرائک کپلٹ میں نہیں ہے ) وہاں یہ آسانی بھی ہے، کہ اگر آپ کسی ’’ مصرع طرح ‘‘ پر غزل موزوں نہیں کر رہے ہیں، تو آپ کسی بھی ایسی زمین کا انتخاب کر سکتے ہیں، جس میں قوافی کی صرف ایک آخری حرف علت کی صوت کو ہر مصرع ثانی میں یکساں رکھ کر، صوتی ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے اشعار دll I Converse at the Dead of fگڑھے جا سکتے ہیں۔ میں جناب ظفر اقبال صاحب اور ان کے اور میرے دوست ساقی فاروقی کی مثال پہلے دے چکا ہوں کہ ’’چائے ‘‘ (بطور ردیف) اور صرف ’ی‘ یعنی یائے معروف کے ذیل میں آنے والی اقسام مثلاً یائے نسبتی، یائے خطاب، یائے مصدری، یائے لیاقت، یائے متکلم، یائے فاعلی، یائے مفعولی وغیرہ کو بطور قافیہ رکھ کر کہے گئے ہر دو اصحاب کے ایک ایک سو اشعار کی غزلیں تھیں (لنڈن میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ساقی نے مجھے اپنے بھی اور ظفر صاحب کے اشعار بھی پڑھ کر سنائے ) ۔ ۔ ۔ اب اس سے بڑھ کر آسان اور کیا زمین ہو گی؟ تو بھی ان دو سو اشعار میں ایک شعر بھی ایسا نہیں تھا جس پر میں سر ہلا کر کہہ سکتا کہ اس شعر کا مضمون قابل قدر ہے۔ اچھی چائے، بری چائے، کالی چائے، پھیکی چائے، روتی چائے، ہنستی چائے، بھیگی چائے، خالی چائے، نقلی چائے، اصلی چائے۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہم۔ سب اشعار کو سننے کے بعد، ساقی کو غزل کے تحت الثریٰ سے کھینچ کر اوپر والی سطح پر لانے کے لیے میں نے ایک فی البدیہہ شعر ضرور کہا تھا، جو مجھے یاد نہیں ہے لیکن اردو کے امرد پرست شعرا کے حوالے سے اتنا ضرور یاد ہے کہ اس کا قافیہ اور ردیف یہ تھے : ’’لوطی چائے۔ ‘‘ (ساقی الٹی کھوپڑی کا عاشق نہیں ہے، فراق ہوتے تو ضرور داد دیتے !)
تو صاحب، ’’غزل کی بوسیدگی کم کرنے کے لئے اسے گرائمر اور صرف و نحو کے قواعد میں کچھ رخصت‘‘ اور کچھ چھوٹ دے دینے سے معاملہ ’زمین‘ کی سطح پر حل ہونے والا نہیں ہے۔ معاملہ تو موضوعات اور مضامین کے انتخاب کی سب سے اونچی شاخ پر اٹکا ہوا ہے۔
٭ دین اور شرع میں جب اجتہاد کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے تو غزل ’’حدود اللہ ‘‘ میں تو نہیں آتی، کیالسانی تشکیلات کے زیر عنوان زبان کی شعری توسیع کا اہتمام ہو سکتا ہے ؟
آنند: زبان سطح پر لسانی تشکیلات کی شعری توسیع؟ اور وہ بھی صنف غزل کے لیے ؟ حضور، زبان تو منارۂ بابل کی طرح ہر چہار سو چہچہا رہی ہے۔ اگر آپ فلالوجی کے ماہر نہیں ہیں، تو بھی عوامی، دیسی، گھریلو، دیہاتی، قصباتی، شہری، مقامی بولیوں میں تمیز کر سکتے ہیں۔ زبان کی سرشت کو سمجھنے کے لیے تبحر علمی کی ضرورت نہیں۔ ، اخباری parlance تو اب معرض وجود میں آئی ہے، لیکن ادبی زبان اس سے پہلے بھی موجود تھی۔ ان سب کے لیے قاموس، معجم، کنکارننس، اعداد نامہ، شرح اصطلاحات، فقہہ اللغت وغیرہ تب بھی موجود تھے اور اب بھی ہیں۔ تو، حضور، آپ کس زبان کی شعری توسیع چاہتے ہیں۔ وہی جو غزل کے لفظی گڈے گڑیا کے کھیل سے پیدا ہوئی ہے اور اب اس صنف کی جگت بھاشا بن چکی ہے، ؟ وہی زبان جس کے وضع الفاظ میں مولویت تو نہیں ہے، لیکن غزل کی مخصوص کنیت کی وجہ سے معبود ذہنی بن چکی ہے۔ ؟
حضور، میں نے اپنی ادبی زندگی کے پچاس یا اس سے بھی کچھ اوپر برسوں میں اس خصوصی صرف و نحو، اس غزلیہ منصرف اور ملتخص زبان کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے کی سفارش کی ہے۔ یہ عذب البیانی شاید اپنے وقتوں میں صحیح تھی، لیکن اب نہیں ہے۔ گئے وقتوں میں اس کی رگ و پے میں جو توانائی، زور بیان، حذوبت، شیوہ بیانی تھی، وہ اب ضعیف و ناتواں بن چکی ہے۔ خوش بیانی اور حرارت، گرم جوشی اور ثقاہت اب بے کیف، یک نواخت ہو چکی ہے۔ اور آپ، قبلہ، مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں اس کی توسیع کے لیے کچھ سفارشات کروں۔ بڑے بھولے ہیں آپ!
٭ ظفر اقبال صاحب نے ’’لسانی تشکیلات‘‘ کے نام پر ایک جوکھم اٹھایا ، آپ اس کا فنی اور تخلیقی لیکھا جوکھا کیسے دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟
آنند: نا، بابا، نا، مجھے اس بکھیڑے میں مت الجھائیں۔ موصوف کے پاس جب کسی دوست کے اٹھائے ہوئے نکتوں کا منطقی جواب نہیں ہوتا تو وہ ایک کالم کیا، کئی کالموں میں اس کی مٹی پلید کر دیتے ہیں۔ مجھے غزل کے معاملے میں ’’خصّی‘‘ کہہ کر ایک کالم میں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے ہیں۔ اس سے پہلے شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ ان کا Love-Hate relationshipان کے کالموں کا موضوع بنا تھا۔ یہی حال وہ انتظار حسین صاحب کا بھی کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ نا بابا، نا۔ میں نہیں پھنسنے والا اس بکھیڑے میں ! اٹھا لو پاندان اپنا!
٭ جو نظم آج کل لکھی جا رہی ہے وہ قاری کے لئے ہے یا خود شاعر کے لئے۔ ۔ ؟
آنند: ہر نظم، یا فنون لطیفہ میں مشمولہ ہر نئی تخلیق بنیادی طور پر تو تخلیق کار کے ذہن سے ابھری ہوئی ایک ’سچی‘، یعنی اس کے ذہن کی ہو بہو عکاسی کرنے والی مصور کاوش (الفاظ، رنگ اور برش، پتھر اور تیشہ، کسی بھی میڈیم میں ) ’’فنکار کے اپنے لیے ‘‘ہی ہوتی ہے، چاہے وہ تصویر بیچنے کے لیے بنائے، نظم مشاعرے میں پڑھنے کے لیے لکھے یا ہتھوڑے اور چھینی سے مورتی مندر میں استھاپت کرنے کے لیے ہی کیوں نہ بنائے۔ اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں۔ یعنی اگر وہ فنی کاوش true to life(1) ہے، تو اسے true to the life of the mind of the artist (2) ہونا چاہیے۔ اب نمبر ایک (۱)اور نمبر دو (۲)میں فرق یہ ہے، کہ نمبر(۱) فوٹو گرافی کی One-to-One equation پر پوری اترتی ہے، لیکن نمبر دو(۲)میں خدا جانے یا کسی حد تک فرائڈ،ؔ یونگ،ؔ میک ڈوگل اؔور درجنوں دیگر نظریہ ساز سایکالوجسٹ جانیں، کیا کیا کچھ اور، یعنی فوٹوگرافی والی تصویر سے بعید، ما قبل اور مابعد، شعوری اور لا شعوری سطحوں پر موجود ہے۔ ان میں سے بہت کچھ تو فنکار کے علم میں بھی نہیں ہے۔
معافی چاہتا ہوں، میں شاید ایک کلاس روم ٹیچر کی طرح بولنے لگ گیا ہوں جو اپنی ’آرٹ ایپریسی ایشن ‘ کی کلاس پڑھا رہا ہے۔ لیکن یہ مضمون میں نے سالہا سال تک یہاں کی یعنی واشنگٹن ڈی سی کی یونیورسٹی میں پڑھا یا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں کہہ رہا تھا، کہ۔ ۔ ۔ ۔ چلیں ایک مثال ہی لے لیں۔ جب پکاسوؔ ایک تصویر بناتا ہے تو کیا وہ اس کو بیچنے کے لیے یا آرٹ گیلری میں آنے والے شائقین کے لیے بناتا ہے ؟ جی نہیں ! اگر وہ ان کے لیے بناتا بھی ہو، تو بھی جو تصویر بنفس نفیس کینوس پر اترتی ہے، اس کا جامع خاکہ تو شاید وہ خود بھی پہلے سے نہیں جانتا کہ وہ کیا بنائے گا۔ جوں جوں تصویر بنتی چلی جاتی ہے، شعوری، تحت الشعوری اور لا شعوری سطحوں کے اشتراک سے پیدا شدہ یہ مرقع ذہن کی بالائی سطحوں پر اجاگر ہوتا چلا جاتا ہے، تو بھی تصویر کے اختتام تک اس میں تبدیلیاں ممکن ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سارے بکھیڑے میں ناظر یا تصویر خریدنے والا یا نقاد یا آرٹ گیلری کا شائق کہیں موجود نہیں ہے ! اگر مصور دیکھنے والی ایک آنکھ کو گھٹنے پر فِٹ کر دیتا ہے تو وہ اس بات کو رمز و اشارہ و علامت سے ظاہر کر رہا ہے، کہ اس آنکھ کو گھٹنوں کے بل چل کر اس منظر کو دیکھنا ہے، اگر یہی آنکھ وہ فرضی پکاسوؔ پاؤں کے انگوٹھے پر فِٹ کر دیتا ہے تو اسے یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس آنکھ کو پاؤں کے بل چلنا ہے۔ (گھٹنوں کے بل چلنے اور پاؤں کے بل چلنے میں عمر کا جو تضاد ہے، اس کا اندراج یہاں ضروری نہیں ہے !ْ)
یہی صورت حال نظم گو شاعر کی بھی ہے۔ (یہ حالت غزل گو شاعر کی بھی فرداً فرداً ایک یا دو اشعار میں ہو سکتی ہے !)چاہے وہ یہ عزم کر کے ہی کیوں نہ بیٹھے کہ اسے پشاور کے اسکول میں بچوں کے قتل عام پر ایک احتجاجی یا ماتمی نظم لکھنی ہے، (اگر وہ versifier نہ ہو کر سچا اور اچھا شاعر ہے ) تو ذہنی استعاروں کی رقص گاہ میں ناچتے ہوئے ہیولے اسے دم بدم اپنی طرف متوجہ کریں گے۔ ان میں سے کچھ ایک کو وہ منتخب کر کے انہیں الفاظ کے ملبوس سے آراستہ کرے گا اور نظم لکھے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں یہ بات ایک بار پھر تاکید سے عرض کر رہا ہوں کہ یہ نظم اُس کے ذہن کی صحیح عکاسی کرنے کی وجہ سے، اصلاً اور نسلاً، اس کے اپنے لیے ہو گی۔ (چاہے وہ اسے اخبار میں چھپنے کے لیے بھیجتے ہوئے یہ بھی لکھ دے کہ اس نے یہ نظم اس خاص ضمیمے کے لیے لکھی ہے، جو اس قتل عام کے بارے میں ہے )۔ ۔ ۔ ۔ اس نظم کو لکھنے کے بعد وہ اس ہیجان، اتھل پتھل سے نجات حاصل کر لے گا، جسے creative tension کہتے ہیں، جو بچے کی پیدائش کے وقت درد زہ کی سی حالت میں زچہ کو ہوتی ہے۔
تو صاحب، اب آپ کا سوال اگر کسی اور جواب کا متقاضی ہے تو وہ میں نہیں جانتا۔ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آج کی سب نظمیں ایسی نہیں ہیں۔ وہ جن میں استعارہ سازی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، تو یقیناً ہیں، لیکن وہ (۱) جن میں بھول بھلیاں کی حد تک (راشدؔ کا نگینہ، انگوٹھی، ڈبیا، صندوق اور سمندر کی مثال پہلے دی جا چکی ہے ) استعاراتی عمرو عیار کی زنبیل میں پوشیدہ تصاویر ہیں، جن کا آپس میں کوئی organicرشتہ نہیں ہے، یا پھر وہ (۲) جو غزل کے استعارہ سازی کے گودام کے شیلفوں سے اٹھائی ہوئی ذہنی تصویروں سے بوجھل ’’منظوم جواب مضمون‘‘ کی طرح تحریر کردہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ دونوں اس ذیل میں نہیں آتیں۔ یہ دونوں قارئین کے لیے لکھی جاتی ہیں یا رسالوں کی زینت اس لیے بنتی ہیں کہ لکھی ہی اس وجہ سے گئی ہیں۔ ان کا genesis مصنوعی تخم کاری کا مرہون منت ہے۔
اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے میں کچھ اور زیادہ تفصیل سے صرف بات کرنا ہی نہیں چاہتا، آپ کو تحلیقی قوت کے کار بیوہار کے عمل سے انگلی پکڑ کر ایسے ہی ساتھ لیے چلتا ہوں جیسے میں آرٹ اپریسییشن کے کمرہ جماعت میں اپنے طلبہ کے سامنے کھڑا ہوں اور وہ مجھے بلیک بورڈ پر لکھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یا مجھے اوور ہیڈ پروجیکٹر پر گراف بناتے ہوئے میری تحریر یا گراف کو سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے، اور اس خاص مثال کو پوری طرح سمجھنے کے لیے، اس کے پس منظر کا علم ہونا ضروری ہے۔
1994ء میں سعودی عرب میں تین برس کے تدریسی قیام کے بعد لوٹنے پر میں کچھ ایسے نا مساعد حالات سے دو چار ہوا کہ ایک کے بعد ایک سانحے رونما ہوتے گئے جن کی وجہ سے میری جمع شدہ پونجی برباد ہو گئی، مکان بھی ہاتھ سے نکل گیا اور بیوی کی خرابیِ صحت کے علاوہ میں خود بھی شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گیا۔ ان نا مساعد حالات کی آخری کڑی میرا کار ایکسیڈنٹ تھا جس میں میری بائیں ٹانگ کی ہڈی تین جگہوں سے ٹوٹ گئی اور میں ایک لمبے عرصے کے لیے بار بستر ہو گیا۔ ہسپتالوں کے بل اور دیگر اخراجات کی وجہ سے مجھے بنکرپسی (دیوالیہ پن) کا سہارا لے کر ان بلوں سے جان چھڑانا پڑی ۔ ۔ ۔ ۔ ڈیپریشن کے دوران میں اکثر اپنی تقدیر کو کوستا، اس کے بنانے والے پر نفرین بھیجتا۔ لڑکپن میں کہیں سنا ہوا اور سہگل کا گایا ہوا ایک گیت دہراتا : اے کاتب تقدیر مجھے اتنا بتا دے، کیوں مجھ سے خفا ہے تو، کیا میں نے کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس کے کلیدی الفاظ ’’کاتب تقدیر‘‘ نہ صرف میرے ذہن میں گونجتے رہتے بلکہ بارہا مجھے غالب کے اس شعر کی یاد دلاتے اور میں اسے دہراتا رہتا : ’’پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق : آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا!‘‘
ایک دن لگ بھگ نیم بیداری کی حالت میں میرے ذہن میں ایک ہیولیٰ سا ابھر آیا کہ پٹواریوں کی طرح ایک تخت پر تقدیر لکھنے والے منشی بیٹھے ہیں اور بہی کھاتوں میں لوگوں کے مقدر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ بے ہنگم سے، بڑے بڑے پیٹوں والے، ادھیڑ عمر کے عجیب الجثہ اشخاص ہیں۔ کچھ اپنے قلموں کو سیاہی کی دوات میں ڈبوتے ہیں اور پھر فاضل روشنائی کو دیوار پر جھٹک کر منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہیں، مثلاً ’’یہ لے، یہ تیرے لیے ہے، بد نصیب شخص !‘‘اس کے ساتھ ہی لکھتے ہیں اور پھر اس نوشتے پر مہر ثبت کر کے اسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور دوسرا اٹھا لیتے ہیں۔
نیم بیداری کی حالت میں ہی میں نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی میں ! ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اردو میں کیوں نہیں، جبکہ دونوں محرکات، سہگل کا گایا ہوا گیت اور غالب کا شعر اردو میں تھے ؟ تب بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور آ جتک میں اس تضاد کی وجہ نہیں سمجھ پایا کہ انگریزی میں ہی کیوں ؟ بہر حال یہ سوال تو میں نے خود سے بعد میں پوچھا، اُس وقت تو صرف لکھنا شروع کر دیا۔
اب ایک نگاہ واپسیں ذہن کے اس slide by slide & bloc by bloc تصویری تسلسل پر ڈالتا ہوں تو وہ ساری فلم صریحاً آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے جو اُس وقت ذہن کی آنکھوں میں تھی، یعنی پٹواری یا محرر قسم کے لوگ تخت پر بیٹھے ہوئے، بہی کھاتوں میں لکھتے ہوئے، چہرے پر ناراضگی اور خشونت کے نشان، غصے سے روشنائی میں قلم ڈبوتے ہوئے، بے دردی سے فاضل روشنائی جھٹک کر دیوار پر پھینکتے ہوئے اور پھر لکھتے ہوئے بھی بڑبڑا، بڑبڑا کر دل کا غبار نکالتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ اللہ، کیا منظر تھا میرے بیمار ذہن کے نہاں خانے میں !
انگریزی میں جو نظم خلق ہوئی، وہ نیچے لکھ رہا ہوں۔ یہ میری انگریزی نظموں کے ایک مجموعے، بعنوان
IF WINTER COMESمیں شامل ہے۔
THE FORTUNE FATHEADS
A drip in the right arm vein
Wires and cables, meters and clock faces
Looking at me, on the surgery table
– I can’t move : No, I can’t move
But I can see – and I can hear
I can hear the silence of the operation theatre.
"Here he is”, a voice booms from somewhere above.
"The hot-headed poet, the inconscient babe-babbler
Come, you challenger of God,
Come and have your fortune writ for you!
Yea! Unworthy Sir, no money, no respite from want.”
"Nay, but there’s something”,
another voice – a sore-throated one says:
Yea, a name and a fame.”
Wrap it around your cuff, man and be happy.
I look up – and see a round , rotund face
A bulging belly hanging to his knees,
Going up and down with every guffaw.
Another chimes in with his rasping, birdlike voice:
O, the sharp-tongued one, isn’t he?
One who challenged everything and everybody –
Including us, the ultimate diviners?
F.۔ …him. Let him swallow his spittle.
I look up and see an emaciated face, almost a scarecrow
A womanish silk-soft sallow-voice sighs
Pity he doesn’t deserve.
Let him rot in the world some years more.
I open my eyes and find myself in the recovery room.
اب آپ غور فرمائیں۔ کہ ظہورہ کی سطح پر بلا صورت و آشکارائی جو ہیولے ذہن میں تخلیقی کار کردگی کے عمل کے شروع میں محسوسیت کی سطح پر تھے، جن کی ایک جھلک احاطۂ نظر کی حدود کے اندر جھانکتی دکھائی دیتی تھی، اس عمل کے دوران اخفا و اضمار کی چلمن کے عقب سے نکل کر کیسے اپنی ’’منہ دکھلائی‘‘ کرتے ہیں اور نہ صرف بشرہ، ناک نقشہ، حلیہ، شکل، تیور پیش کرتے ہیں، ( Example: a round , rotund face, A bulging belly, hanging down to his knees, going up and down with every guffaw) , بلکہ لہجہ، انداز بیان، بھی قابل شناخت بنا دیتے ہیں۔ (Example: Booming voice, (and) A rasping chirplike voice. ایک اور مثال یہ ہے :
an emaciated face, almost a scarecrow
A womanish silk-soft sallow-voice ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں اب صرف اتنا کہہ کر اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ سچی تخلیق کا دار و مدار فہم، شعور، عقل و دانش پر نہیں ہے۔ اس کے لیے کسی کو بھی چِت یا بودھ نہیں چاہیے، قوائے فکر و فطانت کی ضرورت نہیں، صرف خدا داد حسیت پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور پھر برافگندہ نقاب کے لیے وہ ’لشکارہ‘ چاہیے جسے چشم تماشا کی دید بافی کہا گیا ہے۔ الفاظ تو سنتری بھی ہیں، تماشبین بھی اور ہمہ بین گواہ بھی۔ ان سے پردہ کرنا غیر قدرتی ہے۔ یہ خود بخود، پرّا جمائے ہوئے دوڑے چلے آتے ہیں، یعنی کہ آپ اگر کلمہ جنبانی کا مذاق رکھتے ہیں اور آپ کو ایک فصیح گویندہ ہونے کا شعور ہے، تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آپ کی خدمت میں ہر وقت کمر بستہ ہیں۔
٭ نظم کے معنی کی تحدید اور تعیین ہو سکے تو نظم پر ثقہ تنقید کی راہ نکل سکے، کیا کہتے ہیں حضور ؟
آنند: نظم کے ’’معنی کی تحدید‘‘ یا اس کی حد بندی ؟ اس پہلو کے بارے میں تفصیل سے میں نے اپنے نویں شعری مجموعے ’’بیاض عمر کھولی ہے ‘‘ کے دیباچے میں تحریر کیا تھا کہ نظم کا ’معنی‘ اگر کوئی ہے تو اسے منبر کی اونچائی سے خطاب دینے والے مقرر کی طرح سے نہیں بلکہ ان امیجز کی وساطت سے قاری یا سامع تک پہنچایا جانا ضروری ہے تا کہ وہ اسے بجنسہ اپنے ذہن میں اجاگر کر سکے جیسے کہ خلق ہونے کے لمحے میں شاعر کے ذہن میں تھا۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اس دیباچے میں عرض کیا تھا کہ انگریزی شعرا میں سے، ایلیٹؔ سے بھی کہیں زیادہ میں ایذرا پاؤنڈؔ کا اس لیے مقروض تھا کہ اس نے کچھ اصول ایسے وضع کیے تھے، جنہیں ’شاعر‘ کا اندرونی ’میں ‘ اور اس کے personna کا بیرونی خطاب کنندہ تو One-to-one-equationمیں سمجھتے ہی ہیں، لیکن اس کے تخاطب کا نشانہ، یعنی اس کا سامع، قاری یا کئی دہائیوں یا صدیوں کے بعد اس کے قارئین اس کے ’چِتروں کے کتھن‘ (یعنی تصویری مفہوم یا جو کچھ تصویری امیجز کی زبان سے کہا گیا) سمجھ کر اپنی یاد د اشت میں اس کا نعم البدل ’چتر‘ یعنی تصویر تلاش کر سکیں۔ پاؤنڈؔ کا پہلا اصول یہ تھا کہ مفہوم کا پس منظر کچھ بھی کیوں نہ ہو، قدرتی مظاہر کو ہی علامت کا ’پیش منظر‘ بنایا جائے۔ ’’ Abstraction سے ڈر ڈر کر، پھونک پھونک کر قدم آتے رکھو ‘‘، اس نے کہا تھا۔ Solid image صرف ایک ارتسام یا مجرد خیال نہیں ہوتا، ایک شجر کے مضبوط تنے کی مانند ہوتا ہے، جس کے اوپر جوں جوں نگاہ چڑھتی جاتی ہے، نئی نئی کونپلیں پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ امیجز کا تسلسل ایک مضبوط ترین رسی ہے، جس سے ماضی، حال اور مستقبل سب بندھے ہوئے ہیں۔ اس نے اسے ’’ وورٹیکس‘‘vortexیعنی’ بگولا‘ یا ’گرد باد‘ کہا جو تینوں زمانوں کو اپنی گردش میں باندھتے ہوئے چکر کاٹتا ہی جاتا ہے۔
آگ، پانی، مٹی، ہوا، زمین، آسمان، ستارے۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے Concordant combinationsسینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ایک ’ابسٹریکٹ امیج‘ یا ’کانسیپٹ‘ (جو ایک مجرد خیال ہے، مثلاً حب الوطنی، غریبی، غرور، طاقت، عزت، ظلم و ستم، ہمدردی، وغیرہ الفاظ) کی جگہ پر ’کانکریٹ امیج‘ کا استعمال زمان و مکان کو فتح کر کے دور دراز کے ملکوں اور آنے والی درجنوں نسلوں تک ویسے ہی پہنچتا ہے جیسے کہ تخلیق کار کے ذہن میں نظم کے خلق ہونے کے لمحے میں تھا۔
میں نے تو ’حمد‘، ’نعت‘ اور ’منقبت‘ جیسی اصناف شعر میں بھی اس اصول کو مد نظر رکھا ہے۔ یہ ’حمد‘ اس بات کی تصدیق کرے گی کہ اس عمومی عقیدے کے مطابق کہ اللہ کی ثنا و حمد میں اس کی صفات کی گردان ضروری ہے اور صفاتی نام جس تعداد میں آئیں، اچھے ہیں، مجھے بھی یہ استعمال کرنے چاہیے تھے، لیکن میں نے نہیں کیے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
حمد
سمندر کو کنارے سے کوئی کیا دور رکھے گا؟
کوئی چھینے کا کیسے بادلوں سے
ان کی عادت خشک کھیتوں پر برسنے کی؟
گھنے، چھتنار پیڑوں سے کوئی کیسے کہے گا
اپنے سائے کی خنک چادر سمیٹو
لوگ اس پر بیٹھ کر آرام کرتے ہیں
کوئیں کو کیسے کوئی روک سکتا ہے
کسی پیاسے گھڑے میں پانی بھرنے سے ؟
کوئی کب منع کر سکتا ہے سورج کی تمازت کو
کہ مت بکھرو زمیں پر
پیڑ پودوں، جھاڑیوں، پھولوں پھلوں کو
سرد تاریکی میں گھٹ کر اپنی ابدی نیند سونے دو!
مرے مولا!
تری رحمت مرا ایمان ہے
تو جانتا ہے
میں تو ہر اک آتے جاتے سانس کے وقفے میں
تیری بے کراں بخشش کا رستہ دیکھتا ہوں۔
تو، میرے محسن، یہ رہا نظم کے معنی کی تحدید اور اس کا تعین! معنی کی ترسیل کے لیے، جہاں تک ممکن ہو، ’تصویری مفہوم‘ کو آلۂ کار بنائیں، ورنہ پیغام تو پہنچ جائے گا لیکن نظم ایک تقریر یا جواب مضمون بن جائے گی۔
معافی چاہتا ہوں کہ اس سوال کے جواب میں اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن جوں جوں گذرے ہوئے سوالوں اور آنے والے سوالوں پر ایک نظر ڈالتا ہوں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ، حضور، نہ تو آپ ہی تکرار و تجنیس و اعادہ سے دامن بچا پائے ہیں اور نہ میں ہی۔
٭ جیسی نظم نگاری کے آپ خواہاں ہیں ویسی نظم نگاری تو ’’بیورکیٹس نظم نگاری ‘‘ہے۔ ۔ ۔ کہاں سے لائیں گے اتنے بیوروکیٹس ؟
آنند: یہ تو، حضور، آپ ایک ہی جست میں مستغیث و جیوری و جج کی مشترکہ کرسی پر براجمان ہو گئے، یعنی آپ نے میرے جوابات کو پڑھے بغیر یہ طے کر لیا کہ جس نظم نگاری کا میں خواہاں ہوں، وہ تو bureaucrats یعنی ’’افسر شاہی‘‘ کی نظم نگاری ہے۔ اول تو میری ناقص عقل یہ اصطلاح سمجھ ہی نہیں پائی کہ دفتروں میں کام کرنے والے، افسروں یا کلرکوں کی شاعری کیا ہوتی ہے، اور اگر کچھ ہوتی بھی ہو، تو، صاحب، میں تو اس سے صریحاً انکار کرتا ہوں۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کہتا ہوں اور سچ کے سوائے کچھ نہیں کہتا ! سو، آنریبل چیف جسٹس صاحب، مجھے اس الزام سے بری کر دیں تو آپ کو اور آپ کے عیال و اطفال کو دعائیں دوں گا۔
٭ آپ فکری سطح پر لکڑیوں کا گٹھا ہیں یا ایک ایک لکڑی کا الگ الگ حساب رکھتے ہیں۔ مجھے آپ کی وحدانی اور مجموعی تفسیر چاہئے فکری بندوبست کے حوالے سے۔ (پیار سے )
آنند: ایسے محسوس ہوتا ہے، جیسے میرے حوالے سے آپ نے اس مقولے کو یوں بدل دیا ہے۔ ’’، من آنم کہ تو دانم!‘‘ بہر حال اگر یہ سچ بھی ہو کہ ’’تو دانی حساب کم و بیش را‘‘ تو بھی جواب دینا تو میرا فرض ہے۔
(۱) جی ہاں، میں فکری سطح پر لکڑیوں کا ایک گٹھا ہوں
(۲) جی ہاں، میں اس گٹھے میں بندھی ہوئی ہر ایک لکڑی کا الگ الگ حساب بھی رکھتا ہوں۔
پہلے تو یہ عرض کروں کہ میں اپنے قول و فعل میں خود اختیار ہوں، خلیع العذار ہوں، غیر وابستہ ہوں اور اپنی گاڑی خود ہانکتا ہوں۔ کسی کی ناک کا بال نہیں ہوں۔ تابع مہمل ہونا میں نے نہیں سیکھا۔ پھر یہ کہنے کی جرات کروں کہ فکری سطح پر اصناف ادب کے حوالے سے میں اول و آخر ایک ایمان دار قلم مزدور ہوں۔ شارٹ فکشن یعنی افسانے لکھا کرتا تھا تو بلا روک ٹوک لکھتا تھا، یہی حالت ناول نویس کے طور پر تھی۔ ایک ناول پنجاب (انڈیا) کی حکومت نے ضبط کیا تو بھی، اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی کسی کی دھونس میں نہیں آیا۔ لکھتا رہا، حتیٰ کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر کا فنکار جو بات کہنا چاہتا ہے وہ اس تیزی اور اکلمیت سے کہانی یا ناول کی اصناف میں نہیں کہہ سکتا جس کی تمنا اسے ہے۔ کہانی لکھنے پر، اسے اشاعت پذیر ہوتے ہوئے دیکھنے پر، اس کے ایک مجموعہ کلام کی مالا میں ایک موتی سا پروئے ہوئے دیکھنے پر وقت لگتا ہے۔ اتنا وقت میرے پاس نہیں ہے۔ میں تو کیا، کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ ن م راشد نے بھی شاید یہی سوچ کر نثر سے نظم کی طرف اپنی ڈاچی کی مہاریں موڑ دی ہوں گی۔ میں نے بھی یہی کیا اور چہ آنکہ افسانہ نویسی سے کلیتاً کنارہ کش نہیں ہوا (یعنی اب بھی کبھی کبھار ایک کہانی لکھ ہی لیتا ہوں ) تو بھی سارا وقت صنف نظم پر صرف کرنا ہی شروع کر دیا۔ یہ 1972-73ء کے لگ بھگ ہوا جب میں انڈیا سے پہلی بار باہر آیا اور انگلستان میں ریزیڈنٹ اس کالر کے طور پر برٹش اوپن یونیورسٹی، ملٹن کینیز میں دو اڑھائی برس ٹھہرا۔
کسی کا تابع مہمل نہ ہونے کا ایک اور بین ثبوت یہ ہے کہ اپنے لدھیانہ قیام کے دنوں میں (1948-59ء) یعنی گیارہ برسوں تک میں انجمن ترقی مصنفین سے منسلک رہا۔ پنجاب برانچ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔ اس کی پہلی رونق افروز کانفرنس بھیمڑی میں بھی شامل ہوا اور اس کے بعد دو اور کانفرنسوں یعنی دہلی اور امرتسر میں منعقدہ اجلاسوں میں بھی شرکت کی۔ ریزولیوشن مرتب کیے، الیکشن کے لیے ووٹ حاصل کرنے کی خاطر دوڑ دھوپ کی۔ یعنی وہ سب کام کیا جو ایک ذمہ دار کارکن کرتا ہے، لیکن روس کے آمر ستالین کی موت سے کچھ پہلے جب ان باتوں کی تصدیق ہونا شروع ہو گئی کہ روسی کمیونزم کے جھنڈے کے نیچے لاکھوں لوگ ’’گُلاگ آرکی پیلاگو‘‘ اور دیگرConcentration Camps میں سسک سسک کر مر چکے ہیں، اور میں خود لنڈن سے برلن جا کر ’برلن دیوار‘ کو ہاتھ سے چھو کر دیکھ آیا کہ اس کی دوسری طرف لوگ کس کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، یہ صاف ظاہر ہو گیا کہ کمیونزم ایک کھوکھلا نعرہ ہے جس کے نام پر شخصی آزادی سلب کی جاتی ہے اور کروڑوں لوگ پہلے سے بھی بد تر زندگی بسر کرتے ہیں، اور سوویت روس کا پروگرام تو تیسری دنیا کو ایسے ہی پاؤں کے نیچے روندنے کا ہے، جیسے اس نے وسط ایشیا کی اسلامی سلطنتوں کو کیا تھا۔ ۔ ۔ تو انجمن ترقی پسند مصنفین سے سبکدوش ہونے میں بھی کچھ وقت نہیں لگا۔
بات لکڑیوں کے گٹھے کی تھی اور ایک ایک لکڑی کی الگ الگ جسامت کی تھی۔ یہ فرض کیجیے، صاحب، کہ لکڑیوں کا گٹھا اصناف ادب۔ ۔ ۔ یعنی، ناول، افسانہ، شاعری اور نان فکشن نثر یعنی تحقیق، تنقید، تاریخ وغیرہ پر مشتمل تھا اور چار مختلف زبانوں، یعنی اردو، انگریزی، ہندی اور پنجابی میں تھا، تو اس میں چار ضرب چار یعنی سولہ لکڑیاں تھیں۔ ہر ایک لکڑی ستیہ پال آنند تھی اور لکڑیوں کا بندھا بندھایا گٹھا بھی ستیہ پال آنند تھا۔ حتیٰ الوسع ان سب کو وقت دینے کی کوشش میں کچھ کو کافی وقت نہ مل سکنے کی وجہ سے کچھ اصناف ادب دب گئیں، کچھ زیادہ ابھر کر سامنے آ گئیں، کچھ زبانیں آہستہ آہستہ تھک ہار کر بیٹھ گئیں، کچھ ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ اور اب یہ حالت ہے کہ اردو ہے اور انگریزی ہے، جو ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار ہندی یا پنجابی میں ایک نظم لکھ لیتا ہوں یا ایک غزل کہہ لیتا ہوں۔ لیکن اردو کو اب بھی انگریزی پر فوقیت حاصل ہے۔ انگریزی سے کچھ کمائی ہوتی ہے اور وہی کمائی اردو پر خرچ ہو جاتی ہے۔
فکری بندوبست کے حوالے سے یہی کچا چٹھا ہے میرا۔ اسے آپ تھانے کی F.I.R.یعنی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے طور پر دیکھیں یا میرے اقبال جرم کی فرد کے حوالے سے ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ ہے، بس یہی ہے۔
٭ بالآخر زندگی تفسیر با لرائے ہی تو ہے۔ ۔ ۔ فتویٰ تو نہیں۔ ؟
آنند: کیا خوبصورت بات آپ نے کہی ہے۔ یعنی کہ آپ کی بات صرف خوبصورت ہی نہیں، خوب سیرت بھی ہے۔ دیکھتا ہوں کہ سوچتے سوچتے میرا قلم کس طرف کو چلتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ جی ہاں، زندگی تفسیر بالرائے ہے، لیکن بالرائے ’’ہی تو‘‘ ہے، کچھ زیادہ ہی اس لفظ پر زیادہ زور دیتا ہے، یعنی تفسیر بالرائے ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ میرے پاس 1970 ء کا چھپا ہوا اردو اشعار کا ایک مرقع ہے جس میں دو سے زیادہ موضوعات پر کوئی اڑھائی ہزار اشعار ہیں۔ ان میں ’’زندگی‘‘ پر ۲۱۳؍ اشعار ہیں۔ زیادہ اشعار زندگی کی بے ثباتی پر ہیں، اس کے ایک امر واقع ہونے یا حق الیقین سمجھے جانے پر بہت کم تعداد میں ہیں، یعنی صرف چھ اشعار ہیں۔ الجھن، مخمصہ، اندیشہ، تذبذب، امکان، اتفاق، نا معتبر وغیرہ الفاظ کی گردان بھی بہت ہے لیکن غیر مستقل، عارضی ہونے پر سب سے زیادہ اشعار ہیں۔ معمائی، چیستانی، غیر منفصل، فرضی وغیرہ کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے۔
تو، بھائی علامہ ضیا صاحب، کیا سمجھا جائے ؟ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اردو شعرا (اپنی غم پرستی اور خود ترحمی کے باوجود) پڑھے لکھے، سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں، تو وہ زندگی کو ایک متیقن قطعیت کیوں نہیں تسلیم کرتے ؟ اسے امر واقعہ ہی سمجھ لیں، اور حیض بیص میں پڑے بغیراس کے قرین صواب ہونے پر اعتبار کر لیں۔
رہی فتویٰ ہونے یا نہ ہونے کی بات۔ ۔ ۔ ۔ جس امر کو آنکھوں سے دیکھا جا سکے، یعنی جو مبرا عن الخطا ہو، نقش کالحجر ہو، اس کے وجود کے بارے میں فتویٰ کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے۔
پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ کی بات نہ صرف خوب صورت ہے، خوب سیرت بھی ہے۔
٭ تخلیق انسان کا صفاتی اظہاریہ ہے ’’وجودی ذاتیہ‘‘ کونسا کہلائے گا ؟
آنند: پہلے تخلیق، جسے آپ صفاتی اظہاریہ کہتے ہیں، پر ہی کچھ بات کر لیں۔ کہ شاید یہ ہمیں وجودی اظہاریہ کی راہ پر چلتے ہوئے ’’وجودی ذاتیہ‘ کی سمت کچھ دوری تک آگے لے جائے۔ ۔ ۔ خاکسار لگ بھگ پچیس برس پہلے اردو کے معروف نقاد احمد سہیلؔ کی پی ایچ ڈی (ٹرنٹی یونیورسٹی) میں ان کا گائیڈ تھا۔ موضوع تو ’ساختیات‘ تھا، لیکن ان کا تھیسسس کئی دیگر موضوعات کا احاطہ بھی کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ا س میں ایک نکتہ یہ بھی تھا جس کا ذکر میں اب کر رہا ہوں۔ آج کل اگر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ تیکنالوجی کے اس دور میں جب ہم Geometrical multiplication or progressionکے حساب سے آگے بڑھ رہے ہیں اور شاعری اس دور میں غیر اہم اور irrelevant ہوتی جا رہی ہے۔ تو جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’فردیاتی سائیکی کو سمجھنے کے لیے شاعری سے بہتر کوئی اور اظہار کا ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ انسان اعصابی اور معاشرتی تناؤ کو گہرائی سے محسوس کرے تو شاعری انسانی زندگی اور اس سے متعلقہ معاش رتی پہلوؤں کی طاقتور مددگار بن جاتی ہے۔ ‘‘ اب دیکھیں کہ وجودی ذاتیہ اس صفاتی اظہاریہ سے کس طرح منسلک ہے اور کیسے اس سے نشو و نما کے ظواہر قبول کرتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آپ کی اس اصطلاح کو میں نے کیسے سمجھا ہے۔ آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ وجودی ذاتیہ کیا ہے، بلکہ یہ پوچھا ہے کہ وجودی ذاتیہ کون سا ہے، یعنی مجھے مختلف النوع انبوہ کی فردیات سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔
اگر تو ’وجودی ذاتیہ‘ میں بطور صفت استعمال کیا گیا ’وجودی‘ Existential کے معانی میں ہے، تو مجھے ژاں پال سارترؔ سے بھی سات آٹھ صدیاں پیچھے جا کر Existentialism کی جڑوں کو اطالوی فلسفی سینٹ تھامس ایقواناسؔ St. Thomas Aquinas (1225-1274) کے ارشادات میں تلاش کرنا پڑے گا، جو اس سوال کے جواب میں ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر (آپ کے سوال میں ) وجودی ذاتیہ Self Existential نہ ہو کر صرف وجود بمعنی ذات، فرد، خود، نفس الامر، جس کی صفات خلقی، طبعی، قائم، (یا ہندی لفظ اُپجی‘) ہو سکتی ہیں، کے معانی میں ہے، تو اس کا جواب اسلام، بُدھ مت، ہندو مذہب کے ویدانت فلسفے، عیسائیت، ہر جگہ ملتا ہے۔ میں سترھویں صدی کے میٹافزیکل شاعر ڈنؔ Donne سے کچھ سطریں مستعار لے رہا ہوں۔ ان کے ہجے پرانے ہیں، لیکن آپ اور اس انٹرویو کے قارئین سمجھ جائیں گے۔ ان سطور میں وہ ’موت‘ کو مخاطب کر کے اسے چیلنج کر رہا ہے کہ اے قضا، اتنا مت اترا، کہ مجھ جیسوں کو، جنہیں تو سمجھتی ہے کہ تم نے مٹی میں دبا دیا، تم انہیں مار نہیں سکتیں۔ مصرع اولیٰ کا پہلا حصہ، ’’ڈیتھ بی ناٹ پراؤڈ‘‘ ہی اس نظم کا عنوان ہے۔
Death, be not proud, though some have called thee
Mighty and dreadful, for, thou art not so
For, those, whom thou thinks’t, though doeth overthrow
Die not, poor death, nor yet canst thou kill me.
گویا، ایک خود آگاہ شاعر، اپنی شعری ریاضت کے بل بوتے پر موت کو للکار رہا ہے کہ تو مجھے مار نہیں سکتی، اس لیے اتنا غرور مت کر۔ میرے سامنے تو بے سکت ہے، میں ’’مرنے ‘‘ کے باوجود زندہ رہوں گا۔
اگر یہی ’وجودی ذاتیہ‘ ہے، تو ہزار سلام اس پر! میں تو اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔
٭ میرا جی کا کچھ برجستہ فکری فنی مراقبہ۔ کیسا پایا ؟
آنند: میں ان دو شعرا، راشد اور میرا جیؔ کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں، مجھے اپنے مرحوم و مغفور سینیر دوست ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ ۱۹۹۱ء میں بحثا بحثی کی وہ شام یاد آ جاتی ہے، جب ہم لاہور میں ان کے کمرے میں کھانا کھانے سے پہلے، کھانے کے دوران اور بعد ازاں رات کے بارہ بجے تک بیٹھے الجھتے رہے تھے۔ موضوع گفتگو میرا جی تھا۔ مجھے چونکہ ان کے ساتھ ہوئی گفتگو کا خلاصہ اپنی ڈائری میں بھی لکھنا تھا اس لیے اوپر اپنے کمرے میں جا کر بھی میں فجر کی اذان ہونے تک لکھتا رہا تھا اور پھر صبح دس بجے ناشتے کے بعد بھی ہم دونوں مصروف گفتگو رہے تھے، جب تک کہ محترم نصیر احمد ناصرؔ مجھے اپنے ساتھ میر پور لے جانے کے لیے اپنی کار سے نہ پہنچے تھے۔
وزیر آغا صاحب نے اپنے ایک پرانے مضمون کا ذکر کیا تھا جس میں انہوں نے اختر شیرانی، اقبال، اور فیض کو ایک ریلوے terminusکی طرح بتایا تھا۔ ان سے مختلف میرا جی کو ایک ریلوے اسٹیشن کی ریل پٹریوں کی تشبیہ دی تھی، جہاں ہمہ وقت پٹڑیاں کسی کیبن میں بیٹھے ہوئے ایک نادیدہ ہا تھ کی shuntingکے عمل میں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ پٹڑیاں خود کار نہیں ہیں اور وہ نا دیدہ ہاتھ بھی خود کار نہیں ہے۔ لیکن دونوں لازم و ملزوم ہونے کی حد تک ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے باوجود اپنی express will نہیں رکھتے۔ یہ مضمون میرا پڑھا ہوا نہیں تھا، (اور اس وقت کمرے میں readily available بھی نہیں تھا) لیکن باقی کے تین شعرا سے قطع نظر میرا جی کے بارے میں (جیسے میں نے کہا) گرم بحث اس لیے ہوئی تھی کہ میں میرا جی کا زیادہ قائل نہیں تھا اور مجھے اس میں، بطور شاعر، ’’عقل اور بے عقلی، سمجھ اور نا سمجھی‘‘ کا ایک ایسا امتزاج دکھائی دیتا تھا جس کے ذرات ریت کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں اور یہ ایک کار صعب و عسیر ہے کہ ان کو الگ الگ ڈھیریوں میں تقسیم کیا جائے۔ آغا جی کے استعارے میں میرا جی ایک single-track ذہن کی پٹڑی کی طرح پیش ہوتا ہے جو بوقت ضرورت اپنی پٹڑی کو مختلف حصوں میں combine or separate کر سکتا ہے، جب کہ میرے خیال میں اس ریت کے ڈھیر (یعنی میرا جی کی شاعری) میں سے سمجھ اور نا سمجھی کے ذرات کو الگ الگ کرنا اور انہیں مائکروسکوپ کے نیچے رکھ کر دیکھنا کار محال ہے۔
میں نے ایک کے بعد ایک میرا جی کی کئی نظمیں ان کے سامنے بآواز بلند پڑھیں اور ان کی سطروں میں مشمولہ حصص میں سے ’’سمجھ‘‘ کے، اور ’’ناسمجھی ‘‘ کے شذرات کو الگ الگ کر کے ایسے ہی پیش کیا تھا، جیسے میں کمرہ ٔ جماعت میں طلبا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ہنسے تھے آغا جی، اور کہا تھا انہوں نے، ’’آپ اپنا پروفیسری کا گاؤن اتار کر مجھ سے بات کریں تو میں زیادہ آسانی سے سمجھ جاؤں گا۔ ‘‘ لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا تھا کہ مجھے بھی میرا جی کی نظموں کو ایک بار پھر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل گیا تھا۔
آپ کے سوال کے جواب میں، محترم ضیا صاحب، میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ میں راشد کے مقابلے میں میرا جی کو اتنا اہم شاعر اس لیے نہیں سمجھتا کہ اس نے اردو شاعری پر اپنا کچھ اثر چھوڑا بھی ہو، تو وہ دیر پا نہیں ہے۔ راشد کی گلی میں سے گذرنے والے شعرا اب درجنوں کی تعداد میں ہیں، لیکن میرا جی کے کوچے میں سے ہو کر جانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
لیکن یہ نہیں کہ اس نے اچھی نظمیں نہیں لکھیں۔ کچھ بے حد اچھی نظمیں لکھی ہیں، جو ان نظموں سے کہیں بہتر ہیں جن میں ’’جنس ‘‘ بنفس کثیف ایک کردار کی صورت میں پیش ہوتی ہے اور قاری کے ذہن پر ایک غیر صحتمند اثر چھوڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔
کچھ سطریں پیش کرتا ہوں، جن میں میرا جی بنفس خود واحد متکلم کی طرح بولتا ہے۔ (ہمیں آخر میں پتہ چلے گا کہ یہاں شاعر میرا جی، ’’زمانہ میرا جی ‘‘ کی شکل میں بول رہا ہے۔ انہیں دیکھیں اور وہ تضاد جسے Poetic logical fallacy کہا گیا ہے، اور جو ایک خوبی ہے، خامی نہیں۔ ۔ ۔ نوٹ فرمائیں۔
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے (بیانیہ)
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے (پہلا تصویری منظر نامہ)
یہ میں کہہ رہا ہوں (بیانیہ)
میں کوئی برائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں (بیانیہ)
تسلسل کا جھولا نہیں ہوں (پہلے منظر نامے کا منفی سایہ۔ logical fallacy)
اب اس کے بعد اس نظم میں چھ سطریں ایسی ہیں جنہیں تسلسل کے جھولے اور شاعر کی اپنی existential position کے درمیان بانٹا گیا ہے۔ اس کے بعد تصویروں کا ایک سلسلہ ہے، جس میں اس وجودی بیچارگی اور تنہائی کو مظاہر قدرت کے ساتھ منسلک کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ بستی، جنگل، راستے، دریا، پربت، عمارتیں، مقبرے، مجاور وغیرہ اٹھارہ مناظر ath, nor yet canst thou kill meپیش ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اور پھر یکلخت یہ سطریں نمودار ہوتی ہیں :
یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے
زمانہ ہوں میں، میرے دم سے ہی ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
یہ کیسے کہوں میں کہ
مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں،
اتنی اچھی نظم میں بھی، افسوس صد افسوس، the penultimate line یعنی اتمامی سطر ایک مہلک ختمہ چھوڑ کر ہمیں مایوس کر جاتی ہے۔ ’’یہ کیسے کہوں میں کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں !‘‘ ایک بچگانہ سعی ہے، نظم میں فردیت اور کُلّیت کے اجزا کو ایک نام نہاد فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی سعی، جو ’’کھیل بچوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا‘‘ کا سا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ اسے میں ’’سمجھ‘‘ اور ’’نا سمجھی‘‘ کا امتزاج کہتا ہوں۔ مجھے علم نہیں کہ میں وزیر آغا مرحوم کو قائل کر پایا تھا کہ نہیں، لیکن آج اس سوال کے جواب میں میرا جی کو دوبارہ پڑھنے کے بعد یہ تاثر زیادہ پختہ ہو گیا ہے۔
٭ اختر الایمان، اختر حسین جعفری، کیسے رہے آپ کے تئیں۔
آنند: اختر حسین جعفری سے نا آشنا ہوں۔ اسے میری جہالت سمجھیں یا صرف لا علمی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میرے مطالعے کی سلیٹ میں کچھ سوراخ ہیں۔ خدا جانے کیوں اختر حسین جعفری اس میں سے منہا ہو گیا۔ یعنی کچھ پھُٹکل نظموں کو چھوڑ کر میں نے اسے ایسے نہیں پڑھا، جیسے میں نے دیگر جدید شعرا کو پڑھا ہے۔ اس لیے کچھ نہ لکھنے کی معافی چاہتا ہوں۔
ہاں، اختر الایمان کے بارے میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔ میں نے ان کی دو کتابوں کے ریویو لکھے۔ انہوں نے از راہ شفقت میری کتاب ’’لہو بولتا ہے ‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ ممبئی میں میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ میرے لیے یہ فخر کا مقام ہے کہ مجھے ’’اردو کا پڑھا لکھا شاعر‘‘ کہا کرتے تھے۔
میری کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں سے یہ اقتباس کافی رہے گا۔ کیونکہ اگر میں اسے دوبارہ لکھوں گا تو اختصار میں بہت کچھ چھوٹ جانے کا احتمال ہے، جو میں نہیں چاہتا۔ ۔ ۔ کہ اختر الایمان میرے مرغوب شعرا میں سے ایک ہے۔ اختر الایمان سے نیاز مندی تو پہلے ہی تھی، یعنی میں ان کو مودبانہ خطوط چنڈیگڑھ سے لکھتا رہتا تھا، لیکن اس بار کچھ ایسے ہوا کہ بمبئی میں میرے ہم زلف کے ہاں، جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، ان سے ملنے کے لیے ایک صاحب تشریف لائے، یہ ہماری کھتری برادری سے تھے، ان کا نام چڈھا صاحب تھا۔ وہ فوٹو گرافر تھے اور میرے ہم زلف سے ان کی رسم و راہ تھی۔ ایک بار وہ آئے تو بات چیت کرتے ہوئے جب میں نے اختر الایمان کا نام لیا تو انہوں نے چونک کر کہا، ’’میں فلمی فوٹو گرافر ہوں، میں نے ان کی تصویر بنائی تھی، جو انہیں بہت پسند ہے۔ چلئے، میں کو ان کے گھر لے چلتا ہوں۔ ‘‘
اختر الایمان تب باندرہ میں کین روڈ پر بینڈ اسٹینڈ بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہم ان بلڈنگ کے نمبر ۵۵ کے اپارٹمینٹ میں پہنچے، تو چڈھا صاحب کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ مجھ سے ہاتھ ملایا، اور جب میں نے اپنا نام لے کر اپنا تعارف کروایا تو پھر آگے آ کر مجھ سے گلے ملے، اور کہاِ، ’’تو آج ایک بہت پڑھے لکھے اردو شاعر سے بھی ملاقات ہو گئی، ورنہ اردو میں کون پڑھا لکھا ہے۔ سب ہی تو نیم خواندہ ہیں ! خدا آپ کو برکاۃ دے اور آپ اردو کے قارئین میں شاعری کے تئیں اک سنجیدہ رویہ پیدا کر سکیں، ورنہ یہاں تو وہی کیفیت ہے، یعنی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے لقمہ دیا، ’’جی ہاں، جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے !‘‘۔ ۔ ۔ بولے، ’’درست کہا، بھائی، ہماری شاعری کا ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہے، ابھی تک حسن و عشق کا نعرہ ہے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ میں نے کہا، ’’جی درست فرمایا، لیکن آپ نے تو اس سے بچنے کی کوشش بھی کی ہے اور مجھ جیسے جونیئر لوگوں کی رہنمائی بھی کی ہے۔ ‘‘
میں نے محسوس کیا کہ ملتے ہی ہم لوگ بات چیت میں جُٹ گئے ہیں۔ چڈھا صاحب بغلیں جھانکنے لگے اور پھر اجازت لے کر رخصت ہو گئے تو ہم لوگ ٹانگیں پسار کر بیٹھ گئے۔ چائے کے دو تین دور ہوئے، پھر کھانا ہوا، پھر چائے، اور پھر چائے۔ ۔ اور اس دوران میں باتیں ہوتی رہیں۔
میں ان کے ہاں تین دن تک ٹھہرا۔ میرے ہم زلف کے گھر سے ان کا نوکر میرا ’’سفری سامان‘‘ (برش، تولیہ، شیو کا سامان، بدلنے کا ایک جوڑا) پہنچا گیا تو میں بے فکر ہو گیا۔ باتوں کی تان شروع بھی اردو شاعری کے اس کردار کے بارے میں ہوتی تھی، جسے ہم انگریزی میں entertainment کہتے ہیں ( اردو میں تفریح جیسے کئی اور کئی الفاظ اکٹھے بھی کر لیں تو یہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا)۔ اور ٹوٹتی بھی اسی پر تھی۔ لُبِ لباب یہ تھا کہ ترقی پسند تحریک کے اعلانیہ انقلاب کے باوجود ہمارا شعری پیرایۂ اظہار ابھی تک اس ڈربے میں بند ہے جسے وہ خود ہی جاگیرداری سماج کی یا بورژوا طبقے کی زبان کہتے ہیں۔ زندگی میں تو، چاہے وہ تسلیم کریں یا نہیں، پہلے ہی ایک بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ حویلیاں اور جھونپڑیاں نہیں ہیں، یا تو متوسط طبقے کے اس جیسے گھر ہیں، جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں، یا کھولیاں ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا شہروں میں منتقل ہونا جاری ہے۔ نقل و حرکت کے ذرائع بدل چکے ہیں، لیکن ہم اب تک شاعری کو محفل کی آراستگی کے لیے منگوائے گئے گلدستوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ شعری لوازمات جو ایک بار خود رو پودوں کی طرح فارسی سے آ گئے تو اردو کی زمین میں ایسے جڑ پکڑ گئے کہ اب آپ اور میں ہزار جتن کریں، یہ جانے کے نہیں۔ استعارے وہی ہیں، تلمیحات وہی ہیں، تشبیہات وہی ہیں، حالانکہ خود فارسی والے گذشتہ صدیوں میں ان کو ترک کر چکے ہیں۔
بات کرتے کرتے اٹھے اور لکھنے کی میز تک گئے، ایک نوٹ بک اٹھا لائے، بولے، ’’پچھلے دنوں میں نے اپنی آنے والی کتاب کا حرف آغاز لکھنے کے لیے کچھ نوٹس بنائے تھے۔ سنو گے ؟‘‘ میرے اثبات میں سر ہلانے کے بعد پڑھنے لگے۔ جو کچھ میں نے سنا، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اردو شاعری کے مزاج میں علمی سنجیدگی تو درکنار، عام زندگی کے سنجیدہ مسئلوں کے اظہار کے بارے میں سوچنے اور نظم لکھنے یا غزل کہنے کا کوئی سنجیدہ وطیرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ وطیرہ اپنی سوچ میں بھلے ہی انقلابی ہو، اظہار میں رومانی ہے۔ بڑے سے بڑے شاعر کا کارنامہ اس حد تک پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے کہ جو غم ہو، اسے غم جاناں بنا دے۔ ’’بات چاہے جہاں سے نکلے، اس کی جوانی تک پہنچ جائے !‘‘ محض دلگی ہے، یہ شاعری کہاں ہے ؟ ’’یار لوگ بیٹھتے ہیں، اشعار میں معشوق کے قصے سنتے ہیں او چلے جاتے ہیں، نہ کوئی سنجیدہ بات سننے آتے ہیں، نہ کچھ گرہ میں باندھ کر لے جاتے ہیں۔ ‘‘
میں نے کہا، ’’بھائی جان، اس میں قصور ان بڑے شعرا کا بھی ہے۔ ‘‘ اور ساتھ میں لقمہ دیا۔ ’’فیض کا نام نہیں لوں گا، جو اپنے پیرایۂ اظہار کو غیر رومانی تو کیا، کھردرا تو کیا، ریشم کی طرح نرم، ملائم اور رواں رکھتے ہیں۔ ‘‘
کہنے لگے، ’’آپ درست فرماتے ہیں، فیض کو یہ بات منہ پر کہنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے کہ وہ اس اصلیت کو سمجھیں کہ اعلیٰ اور ارفع جذبوں کے لیے ضروری نہیں کہ الفاظ بھی اسی قماش کے ہوں۔ آپ بات تو کمزور طبقے کی کر رہے ہیں۔ کراہنا تو غریب کے زخموں پر چاہتے ہیں، اور تکلیف دہ، گھناؤنے، مبتذل الفاظ سے گریز کرتے ہیں۔ یہ ایمانداری نہیں ہے، روایت کو قائم رکھنے کی سازش ہے، جس میں ہم سب شریک ہیں۔ ‘‘
دوبارہ اپنی ڈائری سے پڑھنے لگے، ’’زبان کا مسئلہ تو سادہ سا صرف یہ ہے کہ اس کو عوام کے پیچھے چلنا ہے، عوام کو زبان کے پیچھے نہیں چلنا۔ زندگی کے جسم پر کوئی لباس، اس سے متعلق کوئی تشریح، کوئی تاویل، کوئی توضیح منطبق نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جو لباس دیا جاتا ہے، کچھ دن گھِس پٹ کر ختم ہو جاتا ہے اور پھر ایک نئے لباس، نئی تشریح، نئے الفاظ اور نئے اظہار کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ‘‘
خدا جانے میں ان سے فیض کے بارے میں کیا کہلوانا چاہتا تھا، یا وہ بار بار کہتے کہتے رک رہے تھے، اور میں انہیں آہستہ آہستہ وہ بات کہنے کی ہمت دلا رہا تھا، لیکن جب میں نے یہ کہا کہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ یا اس جیسے غنائی نغمے فیض نے انقلاب کو رومان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے تو لکھے ہی ہیں، لیکن ان سے عوام کی کیا خدمت ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ تو جیسے ایک دم بادل کا سینہ شق ہو گیا اور اختر الایمان صاحب موسلا دھار بارش سے برسنے لگے۔
کہنے لگے، ’’میں بزدل تو نہیں لیکن سب کے سامنے یہ بات کہنے سے پہلو تہی کرتا ہوں کہ فیض صاحب کو تاریخ نے ایک سنہری موقع عطا کیا تھا اور وہ ایک جست میں اردو شاعری کو پچاس برس آگے لے جا سکتے تھے، ان میں شاعرانہ خلاقیت کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس کو بروئے کار لاتے، انہوں نے حسن و عشق کے کھنڈرات میں بسی ہوئی ایک دنیا کی پرانی فصیلوں کے اندر ہی ایک دیوار کھڑی کرنی شروع کر دی۔ ضرورت تھی کہ کلچر، سماجیت، مارکسزم اور بر صغیر کے حالات کو اس پیمانے سے ماپا جاتا جسے ہم عقلی استدراک کہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے جذبات کا دامن کبھی ترک نہیں کیا۔ خود ہی تو ایک طرف کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے شاعروں کے پورے بھائی چارے نے مل کر اس خلیج کو پاٹنا ہے جو برسوں سے محنت کش طبقے اور مراعات پرور بورژوائی طبقے کے درمیان ہے، تو کیا اس کے لیے انہیں شرفا اور امراء کی زبان استعمال کرنا ہو گی؟ غالبؔ سے ہی کچھ سبق لے لیتے جس نے جذبات کو ادراک کی تحویل میں رکھ کر شعر کہے۔ ‘‘
تھک گئے، تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ وہ بولتے جاتے تھے اور میں ایک طالبعلم کی طرح اپنی ایجاد کی ہوئی اردو شارٹ ہینڈ میں نوٹس لیے جاتا تھا۔ کہنے لگے، ’’آپ مجھے ’ کوٹ‘ کر سکتے ہیں، کوئی غلط بات تو نہیں کہہ رہا!‘‘ گویا اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہوں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے، وہ اس سے منکر نہیں ہوں گے۔ پھر بولے، ’’کیا انہیں یہ علم نہیں تھا کہ صرف ایک سو برس پہلے تک، یعنی غالب کے زمانے کے بعد بھی کئی دہائیوں تک، شاعری رؤسا، نوابوں کے درباروں یا ذاتی محفلوں کی لونڈی تھی، ان کی انحطاط پذیر خواہشوں کا ایسے ہی ذریعہ تھی، جیسے مرغوں کی لڑائی یا پہلوانوں کا دنگل، یا رنڈیوں کا مجرا۔ ۔ ۔ تو فرق کیا رہ گیا اگر فیض اپنی انقلابی شاعری اسی دقیانوسی زبان کے پیش پا افتادہ استعاروں کی مدد سے ان محفلوں میں پڑھیں جن میں صرف کیمبرج اور آکسفورڈ سے پڑھ کر لوٹے ہوئے، گوری میموں کے خاوند ہوں یا ان کے جنے ہوئے شریک ہوں ! کسی عوامی جلسے کا بھی ذکر کریں جس میں فیض نے اپنی نظمیں اس انداز سے پڑھی ہوں جیسے جلیانوالا باغ کے خونی سانحے کے زمانے میں عوامی شاعر پڑھتے تھے ؟ ‘‘
اختر بھائی جان کا لہجہ تلخ ہو گیا، بولے، ’’میری عمر ابھی کچی تھی لیکن میں نے 1942 ء کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دنوں میں خود ایک اردو شاعر بھگت رام باغیؔ کو سنا ہے، جی چاہتا تھا، قبلہ جوش کی نظم ’’کمپنی کے سوداگروں سے ‘‘ کی طرح اس کو بھی زبانی یاد کر لیا جائے۔ لیکن فیضؔ تو ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت کے بغیر دار کی خشک ٹہنی پر وارا جانا بھی پسند نہیں کرتے !‘‘
ماحول میں کچھ تناؤ سا در آیا تھا۔ اس لیے میں اٹھا۔ ان کے لکھنے کے میز پر ہی جو الیکٹرک ہیٹر پڑا تھا، اسے آن کر کے اس پر کیتلی چڑھائی، لیکن انہوں نے اشارے سے منع کر دیا۔ خود اٹھ کر الماری سے وہسکی کی آدھی بھری ہوئی بوتل نکال لائے۔ چائے کے پیالوں کو دھو کر انہی میں انڈیلی اور مجھ سے کہا، ’’ایک مدت کے بعد سچ بولنے کا یارا ہوا ہے۔ تم بھی کیا کہو گے، ایک ترقی پسند شاعر کے ہاں گئے اور شراب تک نہیں پی۔ ۔ ۔ ‘‘ پھر خود ہی فوراً کہنے لگے، ’’۔ لیکن میں کہاں کا ترقی پسند ہوں ؟ ‘‘
کچھ دیر کے بعد پھر بات چیت شروع ہوئی۔ انہوں نے اپنی ایک نظم کا ذکر کیا جو اُنہی دنوں لکھی تھی۔ جب میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے، میں سناؤں گا بھی اور یہ بھی چا ہوں گا، کہ آپ اسے نقل کر ساتھ لے جائیں اور جہاں چاہے، چھپوائیں۔ یہ نظم لکھتے ہوئے میرے سامنے فیض ہی تھے۔ لیکن اس میں فیض صاحب کا نام کہیں نہیں آیا اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ آئے۔ اس کا عنوان ’’نراج‘‘ ہے، فارسی زدہ اردو میں ’’طوائف الملوکی‘‘ ہو گا، لیکن ’’ نراج ‘‘ تو سو فیصد لوگ سمجھیں گے، ’’طوائف الملوکی‘‘ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔
…………
خوب چّلاؤ، گلا پھاڑو سب
پنبہ در گوش ہے زیست
ہم بندھے بیٹھے ہیں خود اپنی ہی تاویلوں میں
زور سے بولے تو ناموس وفا جائے گی
لب ہلائے تو ہر اک کہنہ روایت، رشتے
سالہا سال کی تاریخ کے تابندہ، سنہری اوراق
یوں بکھر جائیں گے اک پُرزہ ملے گا نہ کہیں
خواجہ نے ایسی بہت باتیں اُڑا رکھی ہیں
ہم مگر خواجہ نہیں ڈر ہمیں کس بات کا ہو
ذرّہ جب ٹوٹا تھا، تخلیق ہوئی تھی یہ زمیں
پنبہ در گوش ہے زیست
سانس کی نالی کو اک دھونکنی سمجھو، چیخو
اتنا چلّاؤ کہ اک شور سے بھر جائے فضا
گونج الفاظ کی کانوں میں دھواں سا بن جائے
اک دھُنی روئی سی بن جائیں عقائد سارے
فلسفے، مذہب و اخلاق، سیاست، ہر چیز
ایسے گُتھ جائیں ہر اک اپنی حقیقت کھو دے
ایسا اک شور بپا کر دو کوئی بات بھی واضح نہ رہے
خود کو کم مایہ نہ سمجھو، اٹھو، توڑو یہ سکوت
پھر نئے دور کا آغاز ہو تاریکی سے !
’’یعنی، واقعی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ لیکن اختر میرے منشا کو فوراً سمجھ گئے۔ بولے، ’’ہاں، واقعی۔ ۔ سُن لیتے تو ناراض تو نہ ہوتے بس یہی کہتے کہ اختر، تم بلند بانگ شاعر ہو، میرا لہجہ دھیما ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن تب میں بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا، لہجے کو مارو گولی، میں اس شعری اسلوب یعنیpoetic parlance کی بات کر رہا ہوں، جو آپ نے استعاروں، تشبیہوں، اشاروں اور کنائیوں میں برتی ہے، اور جو اشرافیہ اہل ذوق کی لغت سے اخذ کی گئی ہے۔ ‘‘
(ڈائری کا اندراج: بمبئی، نومبر 1967ء)
اختر الایمان صاحب نے سید سجاد ظہیر کے ایک خط کا ذکر کیا، جس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیض صاحب کی منٹگمری جیل میں سکونت کے دوران ان کے جیل کے ایک ساتھی سید سجاد ظہیر کو ان کا تازہ کلام بھجواتے تھے، جو ان کی وساطت سے اخبارات اور رسائل میں چھپ جاتا تھا۔ ایک نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کو جواب میں سجاد ظہیر نے 21-2-1954 کو اپنے خط میں لکھا (یہ خط بھی کچھ رسائل میں شائع ہوا)۔ ’’تم نے اپنے گذشتہ خط میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اب انہیں (فیض کو)ہمت کر کے ایک جست لگانی چاہیے۔ تاکہ ان کی شاعری میں خوشبوؤں، گل بیزیوں کے علاوہ خلق خدا کے اس مبارک پسینہ اور خون کی حرارت کی آمیزش بھی ہو جس سے فی الحقیقت زندگی بنتی، بدلتی اور سنورتی ہے۔ ‘‘ سجاد ظہیر نے اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے یہ لکھا ۔ ’’میں ان کو ایسا کرنے کے لیے دھکّا نہیں دینا چاہتا۔ ۔ ۔ ان امید افزا اعلامات کے سبب سے جو حالیہ نظموں اور غزلوں میں خود ہی نظر آ رہی ہیں، جو کہ صحیح سمت کا پتہ دے رہی ہیں، میرے خیال میں وہ خود اس نکتہ کو سمجھتے ہیں۔ ‘‘
اختر الایمان صاحب سے میرے دوستانہ مراسم ان کی وفات تک، یعنی میرے ان کے دولت کدے پر قیام کے بعد اکتیس برسوں تک رہے۔ پہلے خط و کتابت سے اور پھر فون سے ان کے ساتھ رابطہ رہا، لیکن ان کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا موقع نہ مل سکا۔ میرے پاؤں میں ایک چکر تھا اور اگر میں باہر کے ملکوں کے لیے فلائٹ لیتا بھی تو دہلی سے ہی۔ پھر جب باہر جا کر بس گیا تو آہستہ آہستہ ان سے فون پر بات چیت میں بھی کچھ خلل پڑنے لگا، تو بھی اس دوران میں انہوں نے میرے تیسرے شعری مجموعہ ’’لہو بولتا ہے ‘‘ کا پیش لفظ لکھا۔ میں نے بھی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کے لیے اپنے کالم میں ان پر ایک مضمون لکھا، جس کے لیے انہوں نے خود مجھ سے فرمائش کی تھی، عینیؔ آپا پر ہوتا تو شاید رد کر بھی دیتیں، لیکن ویکلی کے مدیر خشونت سنگھ میری کسی لکھت کو رد نہیں کرتے تھے۔ جو پیش لفظ انہوں نے ’’لہو بولتا ہے ‘‘ میں لکھا، اس کے چند اقتباسات یہ ہیں :
ستیہ پال آنند کی نظمیں مجھے پسند ہیں کیونکہ یہ اسی خمیر سے اٹھی ہیں، جو میری نظموں کا خاصہ بھی ہے۔ ان کے مجموعوں میں اس بچے کے بارے میں نظمیں بھی ہیں جو اختر الایمان یا ستیہ پال آنند کے اندر چھپا ہوا ہے۔ اور بار بار اپنے توتلے لفظوں کی باز گشت میں شاعر سے مخاطب ہوتا ہے، جو سفر زادہ ہے۔ جو بالک بانی بولتا ہے اور آج تک تارے اور موتی اپنی مٹھی میں دبائے پھرتا ہے۔ وہ نظمیں بھی ہیں جس میں خود احتسابی شاعر کا اعمال نامہ بنتی ہے، اور پھر خود نوشت سرگذشت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ نظمیں بھی ہیں جن میں کتھا سامگری ہے اور مہاتما بدھ اپنے چیلے بھکشو آنند کے ساتھ بیٹھے گفتگو کرتے ہوئے ذات اور کائنات کی گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ وہ نظمیں بھی ہیں جن میں مشرقی اور مغربی فلسفیوں اور اہل دانش کے اقوال کو شاعری کے فریم میں جڑ کر تصویر کی طرح آویزاں کیا گیا ہے۔ وہ نظمیں بھی ہیں، جو وقتی، ذاتی اور تاثراتی نوعیت کی ہوتے ہوئے بھی اس سے اوپر اُٹھ کر پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ اور وہ نظمیں بھی ہیں جن میں زبان و بیان کا کھردرا پن کانٹوں کی سی چبھن اور لذت دیتا ہے۔ ان نظموں کے بارے میں میرے رائے وہی ہے جو میراؔ جی نے میری ’’نا رس‘‘ کی نظموں کے بارے میں دی تھی، یعنی ان کو دیکھنے کے بعد ایک چلتی پھرتی بلکہ بعض اوقات بولتی ہوئی حیات ذہنی کا نقشہ ابھر آتا ہے۔ لیکن زبان و بیان کی سطح پر ان سب نظموں میں ایک قدر مشترک واضح طور پر اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ نظمیں اس غزل کی لفظیات، استعارات اور زبان سے چپک جانے والی مٹھاس سے یکسر پاک ہیں، جس کی تفسیر یہ دی گئی تھی، ’’بازی کردن محبوب و حکایت کردن و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبت و عشق زناں ‘‘ اور جو آج تک نہ صرف مشاعروں میں پڑھی جاتی ہے، بلکہ شعرا اسے اپنے مجموعوں کی زینت بناتے ہیں اور نقاد حضرات اس کے بارے میں مضامین لکھتے ہیں۔ ‘‘
٭ اور ہاں جی ! نظم کے مہاتما مجید امجد کے بارے آپ کے تاثرات، تبصرات، محاصلات فکری و نظری کیا ہیں۔
آنند: نہیں جی، نہیں بنا پایا میں نظم کے ’ مہاں آتما ‘ مجید امجد سے کوئی بھی قرابت داری! یہ نہیں کہ کوشش نہیں کی۔ موصوف کو پڑھا۔ غزلیات کو طاق پر رکھ کر تمام منظومات کو دو دو تین تین بار پڑھا۔ کچھ ایسے لگا کہ ہم خویشی کا اگر کوئی رشتہ ہے بھی تو بالعکس نہیں ہے، بدل اشتراک نہیں ہے ہماری ’قبیل داری‘! وزیر آغا صاحب نے موصوف کے ایک عشق کے بارے میں لکھا تھا، اسے بھی پڑھ ڈالا، من ذالک مجھے کچھ بھی ابنیت نظر نہیں آئی۔ کچھ نظمیں اچھی لگیں۔ وہ بھی اس لیے نہیں کہ ان میں کوئی نیا تجربہ تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ ’’نظم ‘‘ کی روح کو قربان کیے بغیر قاری تک ایک پیغام پہنچاتی تھیں، جو موصوف سے پہلے کے شعرا سے ممکن نہیں تھا۔ جیسے ’شجر کُشی‘ پر ایک نظم، جس کی سطریں یہ تھیں :
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بان کے پہرے دار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف مری اک سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل!
جو نظم بہت اچھی لگی تھی وہ منٹو پر تھی۔ لیکن منٹو پر تو بہت سے احباب نے نظمیں لکھی تھیں۔ (خاکسار نے بھی ایک نظم لکھی تھی)۔ ان درجن بھر نظموں میں بھی مجید امجد کی نظم اگر سر فہرست نہیں تو دوسرے یا تیسرے نمبر پر ضرور ٹھہرتی۔
میں نے اس کو دیکھا ہے
اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اندھے
کی طغیانی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
’’دنیا تیرا حسن یہ بد صورتی ہے !‘‘
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
کون ہے یہ گستاخ؟
تاخ تڑاخ!
شاید اس میں میرا اپنا قصور ہی ہو، ضیا صاحب، قبلہ۔ لیکن میں مجید امجد کو راشد یا میرا جی، یا ان کے بعد آنے والے شعرا مثلاً وزیر آغا کے بھی ہم پلہ نہیں رکھ پایا۔ وجوہ؟ ایک نہیں، کئی، مثلاً یہ کہ مجید امجد بھی ن م راشد کی طرح loner تھے، لیکن جہاں راشد تنہائی پسند ہونے کے باوجود موقع ملنے پر مجلسی شاعر بننے کا جتن کرتے تھے، وہاں مجید امجد جھنگ سے باہر تو کجا، جھنگ میں رہتے ہوئے بھی کتراتے تھے دوستوں سے ملنے میں ! یہ شاید ان کی گوشہ گزیں ہونے یا غیر ملنساری کا ہی ایک رخ ہو کہ خطوں کے جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ ان کے ملنے جلنے والے جھنگ نواسی (بہت سے تو اب نہیں رہے ) بھی بتاتے ہیں کہ راہ چلتے ہوئے بھی زمین کی طرف دیکھتے ہوئے چلتے تھے اور دائیں بائیں سے کوئی جان پہچان والا گذر بھی جائے تو رک کر علیک سلیک کرنے سے درگذر کرتے تھے۔ ایک مثبت نقطۂ نظر سے اسے خود کفیلی بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ذاتی زندگی کے علاوہ ادبی زندگی میں بھی بے آمیز ہونا یا غیر ملنسار ہونا کسی بھی بڑے شاعر کو شوبھا نہیں دیتا۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا: ع۔ شہر سے دور، شہر یار سے دور۔ ۔ ۔ ۔ شہر یار سے دور ہونے کی بات تو میری سمجھ میں آتی ہے، لیکن شہر سے دور ہونے کی بات میرے پلے نہیں پڑتی۔
لیکن یہ جگہ اس بات کے لیے مختص نہیں کہ میں ایک مرحوم و مغفور، خاک آسودہ، خود سے بڑے شاعر کا تجزیہ کروں۔ صرف (اور صرف) اپنے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ پھر دہراتا ہوں کہ ان کی شخصیت یا ان کی شاعری کا لیکھا جوکھا کرنے میں شاید میرا ا پنا ہی قصور ہی ہو۔
٭ اپنے خود نوشت یاداشتوں کے مجموعے ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں آپ نے خود کو ایک بُدھ بھکشو کی تاویل دی تھی، جو تمام عمر اپنا کشکول اٹھائے ہوئے دانشوروں کے در کھٹکھٹاتا رہا ہے تا کہ اسے گیان کی بھکشا کے نام پر جو بھی کچھ مل جائے اسے اپنی تربیت کا ایک حصہ بنا لے۔ ادبی سطح پر اب تک کس کس دانشور کی بھکشا سے آپ فیض یاب ہوئے ہیں اور یہ بھکشا کیا ہے، تفصیل سے بتائیں۔
آنند: جی، عرض کرتا ہوں، بدھ مت میں ’ بھکشا ‘سے مراد بھکشوؤں کو ملی ہوئی ’سامگری‘ ہے۔ کھانا وہ خود پکاتے تھے۔ لیکن جو کچھ بھی ملے اسے اپنے کشکول میں سر جھکا کر ’سویکار‘ کر لیتے تھے۔ اگر کوئی چیز ان کے عقیدے یا طبیعت کے برعکس ملتی تھی تو اسے جانوروں یا پرندوں کے کھانے کے لیے بکھرا دیتے تھے۔ چاول، گہیوں کا آٹا، کچی سبزیاں، آلو، پھل، ایک چٹکی نمک، تھوڑا سا گھی، پکانے کے لیے ایک دو لکڑیاں ۔ ۔ ۔ یہی ان کی خوراک تھی ۔
آپ کا سوال بے حد اہم ہے اس لیے کہ یہ مجھے ایک بار پھر اپنی گذری ہوئی زندگی کا لمحہ لمحہ اور کونا کونا تلاش کرنے کا موقع فراہم کرے گا کہ میں نے کس کس سے ’گیان کی بھکشا‘ لی، اور پھر اس کو کیسے کیسے اور کہاں کہاں ’پکا ‘کر اپنے ذہن کے لیے خوراک مہیا کی۔ پہلا موقع مجھے تب ملا تھا جب میں اپنی یاداشتوں کا مرقع لکھ رہا تھا۔ یہ مرقع میں نے دس برسوں کی کڑی محنت سے، ایک ایک حوالہ چیک کرنے کے بعد، دو تین برس پہلے شائع کیا تھا۔ یہ دوسرا موقع ہے۔ یعنی کتاب میں اگر کوئی فروگذاشت ہو گئی ہے تو اس کی تلافی اس سوال کے جواب میں ہو جائے گی۔ اس متن میں، اپنی کتاب کے time sequence کے برعکس، میں ان کتابوں یا عظیم شخصیتوں کا ذکر، وقت اور مقام کے حساب سے نہیں کروں گا۔ جوں جوں مجھے شخصیات یا ان سے متعلق واقعات یا کتابوں کے نام یاد آئیں گے، لکھتا چلا جاؤں گا کہ یہ بیانیہ ہے، مفتاح یا کلید نہیں ہے۔
تو، حضور، ابتدا ’’عشق‘‘ نام کے اس بزرگ سے کرتا ہوں، جس کے بارے میں، خدا جانے کس شاعر کا ایک مشہور شعر ہے : سنتے ہیں عشق نام کے گذرے ہیں اک بزرگ: ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں :
فراق گورکھپوری
1964 ء میں فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات کے دوران جو موضوع زیر بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق ‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔ ‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم دونوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں ’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں، مسئلہ ٔ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے )۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ‘‘ کو حالت جماع میں دیکھتا ہے تا کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔
فراق جیسے حالت استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوحی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لوطیت تو خیر، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اول و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔ ‘‘
تو قبلہ ضیا صاحب، یہ رہی میرے ’’ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں ‘‘ کے حوالے سے عشق، اولون و سابقون و التمش کی داستان!
کروچےؔ
اب ایک اور موضوع کو ہاتھ بڑھا کر پکڑیں۔
یہ موضوع براہ راست میری اپنی نظموں کے تانے بانے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں اپنی نظموں کے متن میں استعارہ سازی کی کھڈی چلاتے ہوئے جو کپڑا بُنتا ہوں اس کے ابھرتے ہوئے رنگ آنکھوں کی راہ سے ذہن میں گھر کر لیتے ہیں۔ قارئین جب یہ نظمیں پڑھتے ہیں یا سامعین جب یہ نظمیں سنتے ہیں، وہ بھی ان باصری منظر ناموں کا کچھ نہ کچھ حصہ اپنے ذہن میں متشکل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ سبق مجھے کروچے Croce’ سے ملا جس کا ایک کلیدی جملہ میرے دل پر نقش ہو گیا۔ ’’جمالی فعل صرف اس وقت منصہ شہود پر آتا ہے جب انسانی ذہن میں کوئی واضح یا نیم واضح خیالی خاکہ ایک شکل میں ڈھل جائے۔ گویا ایک بصری منظر نامہ معرض وجود میں آ جائے۔ ‘‘
کروچےؔ نے علم و عمل کی ذو جہتی یونانی تھیوری کے مطابق یہ درس دیا کہ علم و عمل دونوں جہاں ایک طرف نفس امارہ، نفس مطمئنہ اور نفس لوامہ کے لیے وجدان کا سامان مہیّا کر سکتے ہیں وہاں منطق و ادراک، شعور و عقل کو بھی نشو و نما دیتے ہیں۔ موخر الذکر کے لیے تعقل یہ کام کرتا ہے اور اول الذکر کے لیے تخیل اپنا سب سر و سامان بروئے کار لاتا ہے۔ وجدان اپنے آپ میں صرف ایک حسی اور حسیاتی جذبہ ہے اور اس کی تکمیل تبھی ہوتی ہے، جب یہ اظہار کا راستہ تلاش کر لے ۔ اظہار کی تجسیم ہی اس کا فرض ہے اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو یہ کسی جانور کا خوشی میں چھلانگیں لگانے کا عمل تو کہا جا سکتا ہے، انسان کا وجدان نہیں۔
جس بات نے مجھے ہمیشہ کے لیے کروچےؔ کا مرہون منت کر لیا وہ اس کا یہ فرمان ہے کہ جمالی فعل صرف اس وقت منصہ شہود پر آتا ہے جب انسانی ذہن میں کوئی واضح یا نیم واضح خیالی خاکہ ایک شکل میں ڈھل جائے۔ گویا ایک بصری منظر نامہ معرض وجود میں آ جائے۔ مثال کے طور پر حب الوطنی ایک ’کانسیپٹ‘ ہے، جس کی کوئی واضح شکل انسانی ذہن میں موجود نہیں ہے۔ اس کانسیپٹ کو تخلیقی عمل میں سے گذرنے کی غٖرض سے اپنے لیے ایک سہارا ڈھونڈنا پڑتا ہے اور وہ ایک ایسا منظر نامہ ہے، جس سے اس کی غرض و غایت اگر ثابت نہ بھی ہو تو بھی اس کا عمل ثابت ہو۔ اس دورانیے میں تخلیقی ذہن اپنے لیے وہ جیومیٹری کی اشکال تراشتا ہے، جو زبان میں ڈھلنے کے بعد اس کا نقشہ قاری کو یا سامع کو سمجھا سکیں۔ یہاں یہ بات ضروری ہے، کہ اظہار کا یہ خارجی طریقہ شاعر کے لیے زباندانی، مصور کے لیے برش اور رنگوں کے استعمال کا ہنر، یا مورتی کلا کے لیے، خام سامان یعنی پتھر اور اوزار یعنی ہتھوڑا، چھینی وغیرہ کا ماہرانہ عمل، یہ سب خارجی اوزار اس کے اصلی اور اندرونی لائحہ عمل سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، اس کے لیے تو اسے فنکارانہ ہنر کی ضرورت ہے۔ فن اور ہنر کا یہی امتزاج کسی کو اچھا یا برا فنکار بنا سکتا ہے۔ جو کچھ ’باہر‘ معرض وجود میں آیا ہے، وہ ’اندر’ کی کاربن کاپی تو نہیں ہو سکتا۔ ’اندر‘ کے تصویری مونتاژ کی لا تعداد جہتیں، بے شمار رنگ، بے حد و نہایت زمان و مکان کے استمراری اور غیر استمراری آبان۔ اور ان سب کی دم بدم بدلتی ہوئی کیفیات کی کوئی ’’نقل برابر اصل‘‘ تصویر الفاظ میں یا رنگوں میں یا ایک مورتی کی شکل میں ڈھالی نہیں جا سکتی، تو پھر آرٹ کیسے ’’اصل ‘‘ یعنی اندرونی ’سچ‘ کو دکھا سکتا ہے ؟ اس کا کوئی جواب دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی، لیکن چنڈی گڑھ میں قیام کے دوران جب میں نے اورو بندو گھوشؔ کی انگریزی تصنیفات کو پڑھا تو مجھے یہ مسئلہ کچھ کچھ حل ہوتا ہوا دکھائی دیا۔
تو حضور، فیض گنجور ضیا صاحب: یہ معاملہ بھی طے ہوا کہ ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ‘‘ باقی کے سب حواس سے زیادہ کار گر ہے، اس لیے استعارہ سازی کا پہلا سبق باصری منظر نامہ تیار کرنا ہے۔
گراہم گرین، بریخت اور الزبتھ ھاون
اب ایک اور موضوع سے نبرد آزما ہوتا ہوں جو ہم سب لکھنے والوں کے لیے اہم ہے۔ ہم لکھتے کیوں ہیں، یعنی کہ ہم کیوں لکھتے ہیں ؟ ( ’’کیوں ‘‘ کی نشست دونوں جملوں میں ملاحظہ فرمائیں !)۔ ۔ ۔ ابھی میں ڈاکٹریٹ کے لیے رجسٹر ہوا ہی تھا کہ یونیورسٹی لائبریری میں مجھے 1933ء کی چھپی ہوئی ایک کتاب نظر آئی۔ کتاب کا عنوان تھا، Why Do I Write?۔ ۔ ۔ ۔ ( اپنے نام اشوع کروانے کے بعد میں نے ایک ہفتے کے اندر ہی لائبریری کو اس کی قیمت ادا کر دی کہ یہ مجھ سے تلف ہو گئی ہے، لیکن اسے واپس نہیں کیا کہ میں نے اس میں کثیر تعداد میں سطروں کو انڈر لائن کر دیا تھا ) یہ کتاب تین انگریزی ناول نگاروں کے خطوط کا مجموعہ تھی، جو گراہم گرینؔ، بریختؔ اور الزبتھ ہاونؔ نے آپس میں ایک دوسرے کو لکھے تھے۔ یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب برٹولڈ بریخت کے دو خطوط جو اس نے اپنی خاتون دوست الزبتھ ہاون کو لکھے تھے، مکتوب علیہ نے اپنے کامینٹس کے ساتھ گراہم گرین کو پڑھنے اور تبصرہ کرنے کے لیے بھیج دیے۔ بریخت چونکہ اس سلسلے کا محرک تھا، اس لیے اس کے دونوں خطوط میں نے کئی بار پڑھے، سرخ اور نیلی پنسلوں سے سطروں کو انڈر لاین ( اردو : خط زد ؟) کیا، حاشیے میں اپنے خیالات لکھے، اور پھر ان کا اردو ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ، ظاہر ہے، کسی ترقی پسند رسالے میں تو اس لیے نہیں شائع ہو سکتا تھا کہ اس کے مندرجات ترقی پسند تحریک کے منشور کے منافی تھے، لیکن دہلی سے چھپنے والے رسالے ’’راہی‘‘، جس کے اندرون سرورق پر اس کے مالک اور مدیر بلدیو متر بجلیؔ خدا آپ کو برکاُکے نام کے ساتھ ساتھ ترتیب دینے والوں میں میرا نام بھی از راہ مروت چھپتا تھا، اسے شامل اشاعت کر لیا۔ یہ بات تو طے تھی کہ جب تک یہ ’’شاہراہ‘‘ یا پاکستان کے ترقی پسند تحریک سے منسلک ادبی رسائل ’’سویرا‘‘ (مدیر احمد راہی) یا ’’نقوش‘‘ میں نہ چھپتا، اس کی طرف کسی کا توجہ دینا محال تھا۔ اور یہی ہوا، سوائے ایک دو دوستوں کے اس کی تعریف میں یا اس کی مخالفت میں مدیر کے نام کوئی خط موصول نہیں ہوا۔
بریخت کے خطوط اسی مفروضے سے شروع ہوتے تھے کہ سیاسی یا مذہبی عقیدہ ایک چیز ہے اور تخیل اس سے مختلف ایک دوسری۔ ایک قلم کار جو کچھ لکھتا ہے، وہ اس کی اس شخصیت سے الگ ہے، جو اس کے کیتھولک عیسائی ہونے یا کمیونسٹ ہونے کا دم بھرتی ہے۔ تخیل کی بنا پر نظم یا افسانہ لکھنے والی شخصیت اور عقیدے کی بنا پر اتوار کو گرجا گھر جانے یا کمیونسٹ پارٹی کے جلوسوں میں شامل ہونے والی شخصیتوں کا آپس میں کوئی لین دین نہیں ہے۔ اس نے تحریر کیا کہ ادیب کے طور پر یہ سوال خود میں لا یعنی ہے کہ ہم جس سماج کے فرد ہیں، اس کے مطالبات کے مطابق ہم ادب تخلیق کر رہے ہیں یا نہیں۔ ’’ ہم تو ان جھمیلوں سے آزاد ہیں ‘‘، اس نے لکھا۔ ’’ اور خصوصاً اگر ہم مبلغ کے طور پر، یعنی ڈھنڈورچی بن کر اپنے ناولوں اور ڈراموں میں ایک سیاسی نظریے کا پرچار کر رہے ہیں، تو ہم فنکار نہیں ہیں، ڈھنڈورچی ہیں۔ ‘‘
مجھے یہ باور کرنے میں کچھ تامل ہوا کہ اگر بریخت یہ کہتا ہے کہ ادیب کو ایماندارانہ طور پر اپنی اس شخصیت persona پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے جو اس کی تخلیقیت کا منبع ہے تو اس میں ترقی پسندوں کو اعتراض کیوں ہے۔ وہ ان ادیبوں پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں کہ اکثر ادیب ایماندار نہیں ہیں اور ’’بے تعلقی کے پردے میں عوام مخالف طاقتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ‘‘ نقادوں کے استاد گرامی احتشام حسین نے تو یہ لکھنے سے بھی گریز نہیں کیا: ’’جب ہم موجودہ دور کے عالمی ادب پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ عوام دوست ادیب اپنی جانبداری کا اعلان کرتے ہیں اور جو کچھ لکھتے ہیں شعوری طور پر عوام کے مفاد کے لیے لکھتے ہیں، لیکن وہ ادیب جو سرمایہ دار حاکم طبقہ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں اپنی غیر جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان کا مشاہدہ اور تجزیہ ان سے کوئی ایسے چیز لکھوا دیتا ہے جس سے عام انسانوں کے مفاد کو کوئی پہلو نکلے تو اس کی تاویلیں کرتے ہیں۔ ‘‘ مجھے ابکائی سی آئی، ایسے محسوس ہوا کہ یہ بات ہم سب کے پیر و مرشدسید احتشام حسین نہیں کہہ رہے، بلکہ ماؤ زے تُنگؔ کہہ رہا ہے، یا کمبودیا کا پول پاتؔ کہہ رہا ہے۔ تو کیا ادیب اور مبلغ میں کوئی تمیز نہیں۔ کیا تخلیقی قوت کی کارکردگی کو تسمہ پا کر کے اس بات پر مجبور کر دیا جائے کہ وہ صرف اور صرف عوام کی بہبودی کے لیے حرکت میں آئے، اور پھر ’عوام کی بہبودی‘ کیا وہی بہبودی ہے جس نے روس اور چین اور کمبودیا میں آمرانہ تسلط قائم کیا اور لاکھوں انسانوں کو یا تو موت کے گھاٹ اتارا یا پھر قیدی بنا کر کیمپوں میں بھر دیا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ احتشام حسین جیسے قابل احترام نقاد بھی ’’عوام دوست‘‘، ’’عوام دشمن‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ جھجکتے نہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
بریختؔ نے تو اس خط میں ایک سیدھا سادا جملہ لکھا تھا کہ وہ نہ تو کسی پڑھنے والے کے لیے لکھتا ہے، نہ عوام کے لیے، نہ سوسائٹی کے لیے، بلکہ صرف اپنی ذات کے لیے لکھتا ہے۔ اور یہ کہ لکھتے ہوئے اور لکھ چکنے کے بعد اسے اپنا ہی بنایا ہوا، لفظوں سے مزین، جمال آفرین خاکہ دیکھ کر روحانی مسرت ہوتی ہے۔ اس سیدھے سادے جملے پر عوام دوستی یا عوام دشمنی کے لیبل لگا کر یہ کہنا کہ ایسے ادیب ’’رجعت پسند‘‘ ہیں، نہ احتشام حسین کی اور نہ ہی ان جیسے کسی اور عزت مآب پروفیسر اور نقاد کی شان کے شایاں تھا۔ مجھے اپنے ترقی پسند تحریک کا ایک فرد ہونے پر کچھ کچھ شک تو پہلے ہی تھا، لیکن اس کتاب اور اس پر پروفیسر احتشام حسین کے ارشادات کو دیکھ کر طبیعت بہت مکدر ہوئی۔ تو برادر عزیز ضیا صاحب، یہ مسٔلہ بھی بخیر و خوبی طے پا گیا۔ اب اور مجھے کیا لکھنا سوچتا ہوں۔
ٹیری ایگلٹن اور قاری اساس تنقید کی ابتدا
1929ء میں ٹیری ایگلٹن کی شہرہ آفاق کتاب چھپی۔ اس وقت کا ایک اور بڑا نام I.A.Richards تھا، کیمبرج یونیورسٹی سے متعلق ہونے کی وجہ سے اس کا ایک رتبہ تھا، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے ایک in-door experiment میں اپنے جونیئر طلبہ میں کچھ نظمیں بانٹیں، جن پر شعرا کا نام نہیں تھا، عنوانات بھی حذف کر دیے گئے تھے۔ طلبہ کو کہا گیا کہ وہ کمرۂ جماعت کے اندر ہی بیٹھ کر ان پر اظہار خیال کریں۔ مقصود یہ تھا کہ کیا ہم عصر، ہم عمر، ایک ہی سماجی رتبہ رکھنے والے، ایک ہی شہر میں رہنے والے، معاشی اور معاشرتی سطح پر ایک جیسی ہی زندگی گذارنے والے، ایک جیسی نصابی کتابیں پڑھنے والے اور ایک ہی استاد کے طالبعلم قاری بھی اپنی subjective priorities کی بنا پر کسی تخلیق کے بارے میں مختلف یا متضاد آرا ء رکھ سکتے ہیں۔ اور اگر رکھتے بھی ہیں تو کیوں اور کس حد تک ؟ جو نتیجہ رونما ہوا وہ بے حد حیران کن تھا۔ ٹیری ایگلٹن کے بہت سے مفروضات کو ان سے ضرب پہنچتی تھی۔ طلبہ نے اس قدر مختلف النوع، مغایر اور نا موافق آراء پیش کیں کہ خود آئی اے رچرڈزؔ کو حیرت ہوئی۔ کچھ نے معروف شعرا کی نظموں کو اپنی دانست میں کسی مبتدی کی کاوش قرار دیا او مبتدی شعرا کی لغو قسم کی منظومات کو سراہا، کچھ نے ایک قدم اور آگے جا کر ان نظموں میں تصحیح اور اصلاح کرنے کی کوشش کی جو گذشتہ صدیوں میں ایک ایسے اسلوب میں لکھی ہوئی تھیں، ایک ایسا اسلوب جو بیسویں صدی کے پہلے نصف کے منافی تھا۔ ٹیری ایگلٹن نے اس تجربے کی بنا پر ایک مضمون لکھ کر یہ بات واضح کی کہ صرف یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ ہر مختلف مقام پر یا ہر مختلف دور میں قاری کسی بھی تخلیق کو اپنے آس پاس کے حالات کے تحت دیکھ کر لگ بھگ ایک ہی قسم کی رائے رکھتے ہیں۔ ذاتی، خاندانی، بود و باش کے مقام، آب و ہوا اور گھر میں بچپن کی تربیت کے عوامل نہ صرف شعوری سطح پر بلکہ لا شعوری سطح پر بھی کسی قاری کی سوچ کے دھارے میں اس قدر فعال رہتے ہیں، کہ باقی کے اثرات دب جاتے ہیں۔ تو قابل تعظیم و تکریم ضیا بھائی صاحب، یہ تھی شروعات اس تحریک کی جس کا نام کئی برسوں کے بعد قاری اساس تنقید رکھا گیا۔
اوریچر کی ایک فرانسیسی مثال
انگلستان کے اس بار کے قیام کے دوران ایک اور شخصیت سے ملاقات ہوئی جو خود چاہتے تھے کہ مجھ سے ملیں۔ یہ والٹر جے اونگؔ Walter J. Ong تھے جو ایک ایسے موضوع پر کام کر رہے تھے، جس میں مجھے بھی خاطر خواہ دلچسپی تھی۔ ان کی محققانہ نظر یورپ کی زبانوں پر خصوصاً اور ایشیا کی کچھ زبانوں پر عموماً صرف ایک حوالے سے تھی، کہ ان کے ادب میں کس حد تک لوک شاعری کی اس روایت کا عنصر شامل ہے، جسے مدت المدید تک تحریر میں نہیں لایا گیا اور چوپالوں میں، راستوں کے پڑاؤوں پر، سرائے یا دھرم شالا کی چھپرکھٹ پناہ گاہوں میں یا کھلے میدانوں میں الاؤ جلا کر ہاتھ تاپتے ہوئے گایا گیا ہے اور لوگوں نے اس کی تال پر چٹکی بجا کر یا تالی کی آواز سے ساتھ دیا ہے۔ یہ سنی سنائی جانے والی داستانیں ہر عہد میں اور ہر ملک میں تھیں اور جب انہیں تحریر میں لایا گیا تو بھی کتاب یا غیر مجلد اوراق سامنے رکھ کر قصّہ خوان گلو کاروں نے انہیں ہمیشہ گا کر سنایا۔ وہ خود مجھ سے اس لیے ملنا چاہتے تھے کہ ہندوستان جانے سے پہلے مجھ سے معلوم کریں کہ چاہے میرے ملک میں اس روایت کا لوک گاتھاؤں سے منسلک ہونا ایک طے شدہ امر ہے تو بھی کیا میلوں ٹھیلوں میں کتھا واچک، گلو کار، مداری اور شعبدہ باز آج بھی اس روایت کی کسی شاخ کو نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اور یہ قصّے گا کر سناتے ہیں۔ ڈاکٹر اونگؔ سے ہی میں نے پہلی بار ’’اوریچر‘‘ کی اصطلاح سنی۔ Oral + Literature = Orature اور ذہن میں محفوظ کر لیا، اس لیے کہ ان سے ملاقات سے بہت پہلے ہی میں صنف غزل کی بیخ و بنیاد کو عرب میں قصیدہ گوئی تسلیم کرنے کے بعد اس کے ثبوت تلاش کیے تھے کہ اسلام کے ظہور سے قبل، بلکہ کعبہ کی دیواروں پر لکھے جانے سے بھی بہت پہلے، بہادری کے وہ قصص جو مختلف قبیلوں میں زبان زد عام تھے، اور سینہ بہ سینہ چلتے ہوئے اس وقت تک پہنچے تھے، جب انہیں قلمبند کیا تھا، کیا آج بھی دور دراز کی صحرائی بستیوں میں رہنے والے اسی طرح گا کر پڑھتے ہیں۔ اس کا چرچا میں نے اپنی ایک تقریر میں کیا تھا جس میں دیگر اسکالرز کے ساتھ کہیں ڈاکٹر اونگ بھی بیٹھے تھے۔ بعد میں ان سے تعلق ہوا تو اس موضوع کی مختلف جہات پر مجھے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔
میرا تعلق آج تک ان سے قائم ہے، لیکن تب تک ان کی وہ کتاب نہیں چھپی تھی، جو چھپنے کے بعد یعنی 1985ء مجھے ان سے اعانتاً ملی تھی، اور جس میں دیے گئے معروضات کی روشنی میں میرے ایک درجن کے قریب وہ مضامین شائع ہو چکے ہیں، جن میں صنف غزل کی اس جہت کے حوالے سے کہ یہ سنی سنائی جانے والی صنف شعر ہے، میں نے اسے ’’اوریچر‘‘ کہا تھا۔ اس کتاب کا عنوان یہ ہے۔
Orality and Literacy : The Technologizing of the Word. Routledge, London & New York. 1983
تو عالی مقام جناب ضیا صاحب: یہ صرف ایک مثال تھی، اوریچر، یعنی Oral Literature کی جس کی شکل و صورت آج کل اردو کی غزلیہ شاعری میں دکھائی دیتی ہے۔
علامہ اقبال
ہمیں انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصّے کے شروع ہونے کے بعد سے ہی نظم کے حوالے سے کچھ نام ایسے ملتے ہیں جن کی بدولت یہ صنف کروٹیں بدلتی رہی ہے، لیکن اس تبدیلی کا احساس شاید اس لیے کسی کو نہیں ہو کہ اوّل تو یہ تبدیلی بے حد آہستگی سے وقوع پذیر ہوتی رہی ہے اور دوئم یہ کہ ہر اُس منظوم کلام کو نظم کا نام دے دیا گیا جو صنف غزل کے دائرے سے خارج تھی۔ اس طرح نذیر، حالی اور آزاد سے شروع کرتے ہوئے اقبال، اختر شیرانی، جوش اور حفیظ جالندھری تک چہ آنکہ نظم اپنا نک سک درست کرتی رہی ہے، لیکن یہ تبدیلی اس لیے چشم داشت نہ ہو سکی کہ یہ اسی روایت کے خول میں مقید رہی جو ہمارے دیرینہ شعری ورثے کا حصہ تھی۔ عظمت اللہ خان نے ہندوی چھندوں کے فیضان سے گیت نُما نظمیں لکھیں۔ قوافی کو اضافی سمجھ کر شرر نے بے قافیہ نظمیں لکھیں۔ اختر شیرانی کے علاوہ اختر جونا گڑھی نے سانیٹ لکھے۔ تبدیلی کا یہ عمل اس قدر سست رو تھا، قدامت اور روایت سے وابستگی اس قدر مضبوط تھی، اور بیسویں صدی کے پہلی چار دہائیوں تک اردو شعرا مغرب میں نظم کے حوالے سے رو نما ہو رہی تبدیلیوں سے اس قدر نا بلد تھے، کہ آج جب ہم ایک نگاہ باز آفرین ان پر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شعری تخلیقات کو کلام منظوم تو کہا جا سکتا ہے، نظم نہیں۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اقبال، اپنے مشرقی تاریخی شعور اور شعری حسیّت سے مملو، اس زمانے میں جرمنی میں مقیم تھے جب انگلستان میں امیجسٹ imagistشاعروں کی پہلی پود پروان چڑھ رہی تھی۔ ایذرا پاؤنڈ اور اس کے زیر اثر لکھنے والے Richard Aldington, T.E. Hulme, F.S. Flint , E.E.Cummings اور دوسرے کئی شعرا ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور امیجسٹ شعرا کی دوسری نسل کے لیے راستہ ہموار کر رہے تھے۔ خود جرمنی میں انیسویں صدی کے آخری برسوں میں ہی سمبلزم اور ایکسپریشن ازم کی تحاریک اپنی جگہ بنا چکی تھیں۔ کچھ نام جو دونوں فہرستوں میں شامل کیے جا سکتے ہیں ان میں Georg Trakl, Georg Heym, Gothifried Benn, August Stramm اور کئی دوسرے تھے۔ اگر فرانس اور اٹلی کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے تو بین الاقوامی شہرت رکھنے والے جو نام ملتے ہیں ان میں Williers de Auguste, Stephane Mallarme, Arthur Rimbaud, Emile Verhaeren, Jean Moreas, Jules Lafourgue, Maurice Maeterlinck, Paul Valery, Renee Vivien وغیرہ نام شامل ہیں۔ (ان میں سے کچھ لوگ بیسویں صدی کے وسط تک زندہ رہے ) ایک جائز سوال جو اٹھتا ہو وہ یہ ہے کہ کیا علامہ اقبال کی نظر میں اس وقت کی ان تحاریک کے مینی فیسٹو نہیں آئے ہوں گے ؟ حیرت یہ ہے کہ اقبال کی تحریروں میں کہیں بھی اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ وہ سمبلزم سے واقف تھے۔ ان کی شاعری میں بھی جہاں نیتشے اور مسولینی کا ذکر ایک مختلف تناظر میں ملتا ہے کہیں بھی سمبلزم یا ایکسپریشن ازم کی تائید یا تردید نہیں ملتی۔ اس سے یہ نتیجہ اگر اخذ کر لیا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اقبال جدید شاعری میں وقوع پذیر ہونے والے لسّانی، معروضی، جمالیاتی اور اسلوبیاتی تجربوں سے فیضیاب نہیں ہوئے۔ میں اقبال کو بہت بڑا شاعر تسلیم کرتا ہوں لیکن اقبال سے یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے (کہ ’’اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں : نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے !کے بمصداق) وہ اپنے ’’ذہن‘‘ کی رسائی کو اس قسم کے ’گندے ‘ یورپی اثرات سے ’’پاک‘‘ رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
یہ تھا تو ایک جملۂ معترضہ ہی لیکن اس جملے کے حوالے سے یہ نتیجہ نکالنے میں مجھے کوئی پس و پیش نہیں کہ اس خاص صنف کو، جسے (نظمیہ کلام سے مختلف)
’’نظم ‘‘کہا جا سکتا ہے، بد قسمتی سے اردو میں وارد ہونے میں کچھ دہائیاں اور لگ گئیں اور ’’ جب تک اختر شیرانی کی بیمار رومانی حسیّت کے کیچڑ سے رینگ کر ن۔ م۔ راشد اور میرا جی باہر نہیں آ گئے، یہ صنف اردو میں متعارف نہیں ہوئی۔ ‘‘
اس دور میں نظم نگار شعرا کی روایت سے وابستگی اس حد تک راسخ رہی کہ کسی بھی قماش کی گہرائی یا پیچیدگی کو، جو نظم کی ترسیل میں رتّی برابر بھی مانع ہو، برداشت نہیں کیا گیا۔ مثلاً نظم کا عنوان ہی بیشتر حالتوں میں وہ آیئنہ تھا جس میں نظم کے موضوع کی ہی نہیں، بلکہ مضمون کی شکل بھی دیکھ کر پہچانی جا سکتی تھی۔ ہیئت اور اسلوب بیان بھی، جو اس وقت مروّج تھے، شاعر کو اس بات سے دور رکھتے تھے کہ وہ کسی ذہنی ضرورت کے تحت ان سے انحراف کرے۔ اکہری نظم اس حد تک صریح اور شفّاف تھی کہ اس کا، ارسطو کے Poetics میں پیش کردہ قول کے مطابق، ڈرامے کی صنف سے مختلف ہوتے ہوئے بھی، آغاز، وسط اور انجام، A definite beginning, a definite middle and a definite endکو دور سے ہی دیکھ کر پہچانا جا سکتا تھا۔
اس مختصر نوٹ کے لکھنے کا مقصد، حضور علامہ ضیا صاحب، صرف یہ تھا کہ آپ صرف مثبت ذرائع سے ہی نہیں سیکھتے، ان بزرگوں سے بھی سیکھتے ہیں جو دائیں بائیں رونما ہوتے ہوئے واقعات سے، جانتے بوجھتے ہوئے بھی، آنکھیں بند کر کے چلتے رہتے ہیں کہ وہ انہیں خود سے غیر متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ مثال ایک ایسے ہی عظیم شاعر اور عظیم انسان کی ہے۔
پروفیسر پی لال، ڈاکٹر وی کے گوکک، ڈاکٹر گیان چند جین
معروف انگریزی شاعر پروفیسر پی لال، رائٹرز ورکشاپ، کلکتہ، کا ادارہ ہندوستان بھر میں انگریزی کے ہندوستانی شعرا کی ’نرسری‘تسلیم کیا جاتا ہے۔ فی زمانہ چوٹی کے ہندوستانی انگریزی شعرا کی بھی پہلی کتابیں پروفیسر پی لال کی زیر نگرانی کلکتہ سے شائع ہوئیں۔ میں انہیں 1970ء میں پہلی بار ملا اور اس کے بعد ان سے میری خط و کتابت سالہا سال تک رک رک کر جاری رہی۔ میری کتاب A Promise Kept بھی انہی کے ادارے سے شائع ہوئی۔ ایک سینئر رفیق کار کے طور پر وہ ہمیشہ نوجوان شعرا کی تربیت کی ذمہ داری لیتے تھے۔ میں نے بھی ادب کے کچھ ایک متنازعہ فیہ امور پر ان کی رائے سے فیضیاب ہوا۔ ان میں سے ایک امر بین المتونیت کی تھیوری کے بارے میں تھا۔
اسی طرح ڈاکٹر وی کے گوکک تھے جو 1964ء میں جب میں ایک نو ماہ کا کورس کرنے کے لیے انڈین انسٹیچیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز، حیدرآباد (دکن) میں پہنچا تو وہ اس انسٹیچیوٹ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ جنوبی ہندوستان کی سنسکرت سے بھی قدیم زبانوں میں سے ایک یعنی کنّڑ زبان کے صف اول کے شاعر ہونے کے علاوہ وہ یورپ کی پانچ چھ بڑی زبانوں کے اس کالر تھے اور حیدرآباد میں سکونت کے دوران اردو سیکھ گئے تھے اور اردو شاعری کے مداح تھے۔ ان سے بھی جن امور پر میں نے کچھ سیکھا، ان میں سے ایک امر بین المتونیت کا تھا۔
ڈاکٹر گیان چند جین اردو کے نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ کچھ برس پہلے ہی ان کا انتقال ہوا۔ مجھ سے پانچ چھہ برس بڑے تھے۔ ان سے میرے تعلقات نصف صدی تک بے حد خوشگوار رہے۔ جب وہ امریکا آ کر یہاں بس گئے تو لگ بھگ ہر روز ہی ان سے فون پر رابطہ رہتا تھا۔ ان سے بھی مجھے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ بین المتونیت کے بارے میں ان کے خیالات سے بھی میں نے فیض اٹھایا۔
اردو میں بین المتونیت کی تھیوری کے بارے میں لا علمی عام ہے۔ ۔ اس بات کے باوجود کہ غزلیہ شاعری میں نناوے فیصد تک موضوعات، مضامین، استعارات، زبان و بیان، عبارت آرائی، محاورہ پسندی فارسی اور اردو کے شعرا کے متون سے براہ راست یا گھما پھرا کر مستعار لی جاتی ہے، اس phenomenonکو صرف دو تین اصطلاحات میں باندھ دیا گیا۔ ’’ سرقہ‘‘ ’’غلو‘‘ اور ’’ توارد ‘‘ فارسی سے اردو میں آئے اور اب تک کم فہم لیکن نک چڑھے نیم استاد انہی کی گردان کرتے چلے جا رہے ہیں۔ Inter-textuality یعنی بین المتونیت کی اصطلاح پہلی بار اردو میں گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں مستعمل ہوئی لیکن اس کے معانی آج تک یہ نیم خواندہ شعرا نہیں سمجھ پائے اور موقع بے موقع جہاں ایک شاعر کا مضمون یا طرز تکلم یا ایک آدھ مصرع کسی دوسرے شاعر سے ٹکرا جائے، انہیں اپنی لیاقت بگھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔
اب میں ان بزرگوں سے بین المتونیت کے بارے میں کچھ معروضات حرف بحرف نقل کر رہا ہوں۔
پروفیسر پی لال (کلکتہ)
آپ سرقہ (Plagiarism) کا الزام کس پر لگائیں گے، شیکسپیئر پر، جس کے ڈراموں میں سے 17(سترہ ) کے پلاٹ ماخوز ہیں، جس کے کرداروں کے منہ میں ڈالے گئے مکالمات میں سینکڑوں دیرینہ متون کی بھنک ملتی ہے ؟ یا فی زمانہ ٹی ایس ایلیٹ پر جس کی شہرہ آفاق نظم The Waste Land میں ایک سو تہتر (173)متون کی زر بافی کسی دیرینہ یونانی، رومائے قدیم یا یورپی زبانوں کے مشاہیر ادب کے تحریر کردہ متون کی مرہون منت ہے۔ ایلیٹ کی جملہ شاعری میں اکیلے انجیل سے ہی دو سو اکیاسی (281)متون کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ شیکسپیئر کے عہد میں تو یہ ضروری بھی نہیں تھا (اور اب بھی ضروری نہیں ہے ) کہ شاعر خود ان متون کی نشاندہی کرے جن کو اس نے اپنی عبارت میں جذب کر لیا ہے۔ یہ کام تو نقادوں کا ہے، جو آج تک عرق ریزی سے ان کو تلاش کرتے رہے ہیں۔ (انگریزی سے ترجمہ)
ڈاکٹر گیان چند جین
بد قسمتی سے ہوا یہ ہے کہ اردو میں خصوصاً ایک طبقہ ان خود ساز ’’نقادوں ‘‘ کا بھی موجود ہے جو ابھی تک سرقہ، توارد وغیرہ کی کرم خوردہ اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، جو یورپی ادب سے نا بلد محض ہیں۔ جنہیں Inter-textuality کے بارے میں کچھ علم نہیں، اور اگر اپنی خوش قسمتی اور اردو ادب کی بد قسمتی سے وہ کسی رسالے کے مدیر بھی بن بیٹھے ہوں تو پھر جو چور کی سزا وہی اس شاعر یا ادیب کی جو ’’ پڑھا لکھا‘‘ ہے اور جو بین المتونیت کی تھیوری کو سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر وی کے گوکک
رولان بارتھ کے ارشادات نے یورپی ادب میں سمندر کی لہروں کی طرح وہ گرداب پیدا کیے جن کا جزر و مد دنیا بھر کے ادب کو سمجھنے میں اور اہم متون کے حوالہ جاتی پیش رو تحریروں سے تلاش میں معاون ثابت ہوا ہے۔ مختصراً یہ کہ ۰کوئی بھی متن اپنے تحریر شدہ مواد میں خود کفیل نہیں ہے۔ اس میں دیگر متون کے اثرات موجود ہیں یہاں تک کہ ہر ساختیہ، ہر لفظ، ہر جملہ یا تو گذشتہ خزینوں سے بجنسہ ہی مستعار لے لیا گیا ہے، یا اس پر ان کا ’’سایہ‘‘ ہے۔
’’طبع زاد‘‘ کی کوئی ’’حیثیت ‘‘اس لیے نہیں ہے، کہ اس کی کوئی ’’حقیقت‘‘ نہیں۔ طبع؟ کون سی طبع؟وہی جس پر لکھاری کے مطالعہ، مشاہدہ، لوگوں کے ساتھ زبانی بول چال کے ہزارہا رنگ چڑھ چکے ہیں ؟
دنیا کی پہلی کتاب ’’رِگ وید‘‘ سے لے کر آج تک کسی بھی ایسی تحریری متن کا وجود نا ممکن ہے، جو خود کفیل ہو، جس کی بابت کہا جا سکے کہ یہ پہلے نہیں کہا گیا، جو باکرہ نفس ہو، جسے پہلے کسی نے نہ چھوا ہو۔
(انگریزی سے ترجمہ)
گویا، علامہ ضیا صاحب: ’’پہل‘‘ (الست) نام کی کوئی شئے نہیں۔ ہر شئے کے سابقون، اوّلون موجود ہیں۔
’’بہم دگر بافتن‘‘ ہی ایک کلیہ ہے جو ادبی اقتضاء کو ’’دریافت‘‘۔ ۔ ۔ یعنی۔ ۔ ۔ ’’در‘‘ اور ’’یافت‘‘ سے کشید کر سکتا ہے۔
سوسیئر
1994 میں ژاک دریدا (Jacques Derrida )نے ماریزیو فیراسیس (Maurizio Ferrasis)سے ایک انٹرویو میں اس بات کو تسلیم کر لیا تھا کہ اس کے ’رد تشکیل‘ کے بارے میں معروضات، اصل میں ساختیات کی تھیوری کے براہ راست رد عمل کے طور پر معرض وجو میں آئے۔ ہم اردو والے اب تک اس بات کو نہیں سمجھ سکے تھے۔ جب میں نے متعلقہ اقتباس سب سے پہلے اس صدی کے پہلے برس میں پڑھا تو میری ایک پرانی تھیوری کی تصدیق ہو گئی۔ میں نے ہمیشہ نہ صرف یہ فرض کیا تھا کہ رد تشکیل ایک ’’منفی‘‘ رویہ کے طور پر عالمی ادبی سیناریو کا حصہ بنا بلکہ یہ بھی کہ اس کے آنے سے پہلے سے موجود شدہ مثبت رویہ رد نہیں ہوتا۔ اس انٹرویو میں فریسسؔ کے ایک چبھتے ہوئے سوال کے جواب میں ژاک دریدا نے کہا تھا :
"The first step for me, in the approach to what I proposed to call deconstruction, was a putting into question of authority of linguistics, of logocentrism .And this, accordingly, was a protest against the ‘linguistic turn’, which under the name of
"structuralism”, was already well on its way .Deconstruction was inscribed in the ‘linguistic turn’ ,when it was in fact a protest against linguistics.! ”
جوناتھن کیولر (Jonathan Culler)نے سوسئیر کے لسانی نظریات کے بارے میں لکھا ہے :ٖ
” For Saussure the identity of two instances of a linguistic unit (two utterances of the same phoneme )was not an identity of substance but of form only .This is one of his most important and influential principles, though it is also among the hardest to grasp.”
جدید لسانیات کے گذشتہ پچیس برسوں کے سفر نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ سوسئیر کی فراہم کی گئی فکری اساس مقابلتاً ہر اس تھیوری سے زیادہ معتبر ہے جو رد تشکیل کی بنیاد پر اپنی دیوار کھڑی کرتی ہے۔ سوسئیر نے جس ڈھنگ سے لانگ (Langue )اور پارول (Parole) کے ما بین ایک لکیر کھینچ کر ان میں ایک حد فاصل بنا دی، اس سے نقد و نظر کی دنیا میں ایک ایسا طوفان آیا جس نے جدید لسانیات کو از سر نو پرانی ریاضت کے بل بوتے پر ہی سہی، لیکن نئے نئے راستے تلاش کرنے پر آمادہ کیا۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ Langue ایک اصطلاح ہی نہیں، ایک مکمل نظام ہے یا ایک institution ہے، جب کہ parole محض وہ غالب عنصر ہے جو زبان کی ادائیگی کے نظام میں اپنا خمیر رکھتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے میں خود بسا اوقات الجھن کا شکار ہو جاتا تھا۔ لیکن ایک بار اس کو سمجھ لیا تو سوسیئر کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اگر میں یہ کہوں کہ سوسیئر کو between the lines پڑھنے سے (آخر کار انگریزی میں بھی سوسیئر ترجمے کی صورت میں موجود ہے !) میرے ذہن کے بہت سے جالے صاف ہو گئے تو یہ غلط نہ ہو گا۔
کچھ اور نام
ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کے بارے میں کئی مضامین لکھ چکا ہوں اور انہیں یہاں دہرانا مناسب نہیں ہے، لیکن ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ۔ ۔ چار دِشاؤں سے، ایک درجن سے بھی زیادہ زبانوں میں لکھنے والوں سے، میں نے ایک لالچی بھکشو کی طرح گیان کی بھکشا پائی ہے۔ ان سب کی بھکشا میرے کمنڈل میں اب تک پڑی ہوئی ہے ؟ وزیر آغا تو اتنے ’’اُدار ہردے ‘‘ یعنی فراخدل واقع ہوئے تھے کہ کہا کرتے تھے، میں ستیہ پال آنند سے بات چیت میں بہت کچھ سیکھتا ہوں، لیکن مجھ ہیچمداں کو علم ہے، کہ میں کتنا گیانی یا ا گیانی ہوں۔ گیان چکھشو (گیان کی آنکھ) ضرور کھلی رکھتا ہوں کہ جو کچھ دیکھوں اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لوں۔ یہ سلسلہ منشی تلوک چند محروم سے شروع ہوا، جب میں چودہ پندرہ برس کا تھا اور آج چوراسی برس کی عمر تک جاری ہے۔ جن لو گوں کا ذکر آ چکا ہے، وہ سب میرے بزرگوں میں سے تھے، لیکن اپنے سینیئر ہمعصروں سے بھی، جن میں ملک راج آنند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، جمیل الدین عالی، اور میری ہی عمر کے دوست گوپی چند نارنگ، بلراج کومل سر فہرست ہیں، ان سب سے میں نے بہت کچھ پایا ہے۔ کسی نوجوان نے مجھ سے کچھ سیکھا بھی ہے کہ نہیں، میں خود نا چیز اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟
(۲۲ اگست ۲۰۱۵ء کو یہ طویل انٹرویو مکمل ہوا )
٭٭٭
تشکر: ستیہ پال آنند جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید