FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

یہ تنگ زمین

اور دوسرے افسانے

               ترنّم ریاض

اصل کتاب ’یمبرزل‘ کو یہاں ’یہ تنگ زمین‘ کے نام سے ’یمبرزل‘  اور ’میرا کے شام‘ کہانیوں کے علاوہ شائع کیا جا رہا ہے

 

وَوَصَیَّنَا الاِنسَانَ بوالِدَیہ حَملَتہُ اُمُّہُ وہنا عَلیٰ

اور ہم نے تاکید کر دی انسان کو اُس کے ماں باپ کے واسطے پیٹ میں رکھا اُس کو اُس کی ماں نے تھک تھک کر۔

We have enjoined on the human being to be kind to the parents in travail upon travail did their mother bore them.

 

سیادت

شجاعت

اور

یامین

کے لیے

جنھوں نے مجھے ممتا سے پہلے ممتا سے آشنا کیا

شرلی

اور

منو

کی محبتوں کے نام

 

کشتی

"ارے ہٹو۔۔۔ ہٹو۔۔۔ ہٹو بھائی۔۔۔ ایک طرف ہو جاؤ۔”

ٹیلیفون بوتھ کے پاس کھڑے کچھ لوگوں میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص نے باقی چار چھ لوگوں کو ہاتھوں سے ذرا ذرا سا پرے کرتے ہوئے نو وارد کے چہرے کی طرف بڑے خوش آمدانہ انداز میں دیکھتے ہوئے اس کے لیے راستہ بنایا۔

"نہیں نہیں۔میں اپنی باری سے فون کر لوں گا۔” آنے والے نوجوان نے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ "پلیز، ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ لوگ تو مجھ سے پہلے کے کھڑے ہیں۔”

نوجوان کا رنگ سانولا تھا، جسم صحت مند۔ وردی پہنے وہ خاصہ چاق و چوبند نظر آ رہا تھا۔ اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو اس کی نظر ایک جگہ پر رکی رہ گئی۔ دو آدمیوں نے ایک آٹھ نو سالہ لڑکے کو گود میں لے رکھا تھا۔ ٹانگیں تھام رکھنے والے شخص کے سفید پائجامے پر بچےّ کے جسم سے رسنے والے خون کے دھبےّ بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ نوجوان گھبرا کر بچےّ کے قریب آ گیا۔

"آپ پلیز جلدی کیجئے۔ کسے فون کرنا ہے،اس نے ایک کندھے سے لٹکی بندوق اتار کر دوسرے کندھے پر رکھی اور ٹیلی فون بوتھ کی طرف لپکا۔

"نمبر بتائیے۔ میں کرتا ہوں ڈائل۔ خون بہہ رہا ہے۔جلدی۔”

"مگر صاب جی۔” ادھیڑ عمر کا شخص کچھ کہنے لگا تھا کہ بندوق پر اس کا ہاتھ دیکھ کر باقی لوگوں کی طرح وہ بھی پل بھر کے لیے ٹھٹھک گیا مگر اب اس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک سی نظر آ رہی تھی۔ اس نے آگے کچھ نہ کہہ کر نمبر بتایا۔

نوجوان نمبر ملا چکا تو اس شخص نے آگے بڑھ کر اپنی علاقائی زبان میں کچھ کہا، اور بچےّ کے قریب لوٹ آیا۔ بندوق بردار نوجوان نے دوبارہ ان لوگوں کی جانب نگاہ ڈالی کہ شاید کسی اور کو فون کرنا ہو۔مگر کسی کو متوجہ نہ پا کر وہ فون کی طرف پلٹا۔

دور سے کوئی عورت تیز تیز قدم اٹھاتی ٹیلیفون بوتھ کی طرف آ رہی تھی۔ فون کے پاس بندوق بردار نوجوان دیکھ کر رک گئی اور باقی لوگوں کو دیکھنے لگی۔

"کک۔۔۔ کیا ہوا؟ خون دیکھ کر اس نے جانے کس سے پوچھا تھا۔ پاؤں پکڑنے والے کی پوری ٹانگ سرخ ہو گئی تھی۔

"تم لوگ کھڑے ہو۔ کچھ زخم پر باندھا بھی نہیں۔ اسپتال لے جاؤ نا۔ ایسے تو سارا خون۔۔۔ "

عورت نے ایک جھٹکے میں رومال نما مربع ساخت کا دوپٹہ کھینچا جو اس کے ماتھے سے ہوتا ہوا سرکے پچھلے حصّے تک چلا گیا تھا اور وہاں اس نے اس میں ڈھیلی سی گرہ ڈال رکھی تھی۔ اس نے دوپٹے کو پھاڑ کر دو حصوں میں تقسیم کیا۔

"ہم لوگ بس گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ آگے کرفیو ہے۔وہ گھر سے نکل چکے ہیں۔ راستے میں تلاشیاں ہو رہی ہوں گی۔ رکنا پڑ رہا ہو گا انھیں بار بار۔”

ادھیڑ عمر شخص نے بچےّ کی پتلون نیچے کو سرکائی۔ عورت اس کی ران پر پٹیّ باندھنے لگی تو با وردی بندوق بردار نوجوان آگے بڑھ کران کی مدد کرنے لگا۔اسے نزدیک آتا دیکھ کر لوگوں کی نظروں میں لمحہ بھر پہلے جو خوف ابھر آیا تھا وہ اسے بچےّ کے قریب دیکھ کر دور ہو گیا تھا۔ عورت کا سرخ و سفید چہرہ بھی پل بھر پہلے پیلا پڑ رہا تھا۔ لیکن اب وہ بھی مطمئن سی تھی۔ سب لوگ بندوق بردار نوجوان کو پٹیّ باندھتا دیکھ کر کچھ ایسے حیرت زدہ تھے جیسے کوئی عجیب و غریب بات وقوع پذیر ہو رہی ہو۔

اس نے کمالِ مہارت سے بچےّ کے زخم پر دوپٹہ باندھ دیا تھا کہ پہلے سے بندھے رومال کی طرح دوپٹہ بالکل سرخ نہیں ہوا،بلکہ کچھ ہی دیر بعد کافی وقت سے بے ہوش ّبچہ دھیمی آواز میں کراہنے لگا تھا۔

"کمال ہے۔ان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔؟” کسی نے سرگوشی کی۔ با وردی نوجوان یہ زبان نہیں جانتا تھا۔وہ بچےّ کو دیکھ رہا تھا۔

قریب کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ عورت نے رومال نما دوپٹے کے نصف مستطیل ٹکڑے کو سرپر مزید درست کیا۔

سب لوگ خاموشی سے سڑک کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے کسی گاڑی کے آنے کی توقع تھی۔

عورت نے سیدھے ہاتھ سے اپنے پھرن کی جیب میں کچھ ٹٹولا۔ جیب سے کسی چیز کے کھنکنے کی آواز آئی۔

"آپ اس وقت کیوں باہر آئیں ہمشیرہ؟” ایک شخص نے پوچھا۔ "حالات اور خراب ہو گئے ہیں۔اس طرف بھی کرفیو لگنے والا ہو گا۔ جانے کس احمق نے ان جانوروں کی طرف گولہ پھینکا،جو ہمارے قریب پھٹا۔ میرے دوست کا بھانجا ہے یہ۔ زخمی ہو گیا غریب۔”

اس نے بچےّ کا دھڑ تھامنے والے شخص کی طرف دیکھ کر کہا۔

"ان لوگوں کو تو بہانہ چاہئے۔ آپ فوراً گھر چلی جائیں۔”

"مجھے فون کرنا ہے۔ میرا شوہر دریا پار چائے انڈے بیچتا ہے۔ دوپہر میں کھانے کے لیے آیا ہی نہیں۔ پریشان ہو رہی ہوں۔ ّبچوں کو باہر سے تالا لگا کر آئی ہوں۔ چابیاں ساتھ ہیں میرے۔”

عورت نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔عورت کے ہاتھوں کی اوپری جلد کھردری اور کہیں کہیں سے چاک ہو گئی تھی مگر ہتھیلی پھول کی طرح ملائم تھی۔ اس نے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک کی لمبائی کا ہلکے رنگوں کی چھینٹ والے کسی موٹے کپڑے کا پھرن پہن رکھا تھا۔ کرتے کی کاٹ کا نسبتاً چوڑا، چغہ نما پیرہن،اتنا کھلا کہ اگر ہاتھ آستینوں کے اندر سے کھینچ کر جسم سے لگا لیے جائیں، یا سوکھی جھاڑیوں کی آگ سے بھرے مٹی کے پیالے کے گرد بید کی نرم ہری ٹہنیوں سے بُنی گئی کانگڑی اس کے اندر رکھ لی جائے جب بھی اس پیرہن کی تنگی کا احساس نہ ہو۔پھرن کے ساتھ اس نے نیم تنگ پائنچوں والی اسی چھینٹ کی شلوار پہن رکھی تھی۔اس کے پیروں کی جلد بھی گلابی تھی مگر ایڑیوں کے آس پاس کی سخت کھال میں چھوٹی بڑی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔

گاڑی آ گئی تھی۔ کارواں بچےّ کو لے کر کسی طرف چل پڑا تھا۔ بندوق بردار با وردی نوجوان ٹیلیفون پر کوئی نمبر ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔

"دور کہیں زور سے بادل گرجے تو عورت نے چونک کر آسمان کی جانب نظر اٹھائی۔ لمبی سڑک کے اس پار کوہِ سلیمان کی پہاڑی کے ٹیلے کے بالکل اوپر،آسمان کے کنارے پر تازہ برف کے تودوں جیسے سفید بادل دھیمی رفتار میں محوِ پرواز اسی طرف آ رہے تھے۔ابر کا ایک بڑا سا گالا پہاڑی کی چوٹی پر ایستادہ، شنکر آچاریہ کے سرمئی چٹانوں سے تراشے گئے پر شکوہ مندر کے کلس سے الجھا جیسے کہ ٹھہر گیا تھا اور ہو بہو ان بڑے بڑے نا تراشیدہ پتھروں کے رنگ جیسا سرمئی نظر آ رہا تھا۔

بادل کے اس دیو قامت ٹکڑے میں پل بھر کے لیے تیز روشنی کی ایک منحنی سی لکیر آڑھی ترچھی لہرائی اور غائب ہو گئی۔ بادل کچھ اور زور سے گرجے۔

عورت کے چہرے پر پریشانی سی جھلک اٹھی۔ اس نے پلٹ کر، فون ملانے میں کوشاں با وردی نوجوان کی طرف دیکھا اور پھر جیب میں کچھ ٹٹولا۔ چابیوں اور سِکّوں ملی جلی کھنک کے فضا میں تحلیل ہوتے ہی عورت نے گھبرا کے دائیں بائیں دیکھا پھر ٹیلیفون بوتھ کے شیشے میں لگے لمبے سے کیبن کے اندر بغور دیکھنے لگی۔

نوجوان کو نمبر نہیں مل رہا تھا۔ ٹیلیفون کے پیچھے دیوار میں لگے بڑے سے آئینے میں نوجوان نے عورت کو بار بار فون کی طرف دیکھتے دیکھا تو وہ کیبن سے باہر آ گیا۔

"آپ فون کر لو جی۔میں بعد میں Tryکر لوں گا۔”

وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ عورت بغیر کچھ بولے لپک کر فون کے پاس پہنچی۔جہاں اس کا شوہر چھوٹے سے کھوکھے پر سامان بیچتا تھا، وہیں پاس کی ایک دکان پر فون پر بات کر کے وہ اس کی خیریت معلوم کرنا چاہتی تھی۔ لیکن کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے آج کام زیادہ ہو۔ پاس والی دکان بند ہو۔ یا وہ گھر آ رہا ہو، پھر تو اِسی سڑک سے گزرے گا۔ مگر پھر اب تک گزرا کیوں نہیں، ہو سکتا ہے کہ اس نے اُسے نہ دیکھا ہو۔ مگر وہ تو دیکھ لیتا اسے۔ اگر گزرا ہوتا۔ کہیں کوئی ّبچہ جاگ نہ گیا ہو۔ مگر وہ آیا کیوں نہیں۔

اس نے آخری مرتبہ فون گھمایا۔ نمبر نہیں ملا۔ اس نے گردن موڑ کر بندوق بردار نوجوان کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ کچھ وقت بعد پھر کوشش کرے گی۔ جب تک یہ فارغ ہولے گا۔

نوجوان اسے باہر آتا دیکھ کر دوبارہ کیبن میں داخل ہو گیا۔

ہلکی ہلکی مگر قدرے خنک ہوا چلنے لگی تھی۔ عورت نے ہاتھ پھرن کے آستینوں میں سے اندر کھینچ لیے اور  انھیں مخالف کہنیوں تلے دبا لیا۔ دانت آپس میں ملا کر اور لب وا کر کے اس نے ایک لمبی سی سانس لی تو مارے سردی کے دانت بجنے لگے۔ اس نے دونوں شانے ایسے اوپر اچکائے جیسے گردن کو کندھوں میں چھپا دینا چاہتی ہو۔

وہ کبھی سر داہنی اور گھما کر سڑک کی طرف نظر ڈالتی کبھی کیبن میں فون پر مصروف باور دی بندوق بردار نوجوان کو دیکھتی۔ فون کے عقب میں دیوار میں نسب آئینے میں اسے نوجوان کے چہرے کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے۔

وہ سوچ میں پڑ جاتی۔ اسی کی طرح وہ بھی پریشان ہو رہا تھا۔ نمبر نہ ملنے پر جھنجھلا رہا تھا۔ پھر ایک نئی امید کے ساتھ دوبارہ نمبر ڈائل کرنے میں منہمک ہو جاتا۔ سیدھا سا نارمل انسان لگ رہا تھا وہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ یہ سب تو درندے ہوتے ہیں۔۔۔ جانور ہیں جانور۔۔۔ انسان لگتے ہی نہیں۔

عورت نے سر جھٹک کر منھ پھیر لیا۔

صبح جب وہ پاس کے مختصر سے بازار،دودھ لانے گئی تھی، اس وقت اس نے ایک نہایت ضعیف آدمی کو ہاتھ گاڑی پر لہسن بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ شاید پوتا تھا اس کا۔ بارہ تیرہ برس کا ایک لڑکا رک رک کر ہانک لگا رہا تھا۔ تازہ خوشبودار لہسن۔ بڑا بڑا لہسن۔ مٹی کے بھاؤ۔ آؤ بھائیو آؤ۔ آؤ بہنو آؤ۔ ختم نہ ہو جائے۔ ماں جی آئیے۔

گاڑی کو دونوں ساتھ ساتھ دھکیل رہے تھے۔ وقفے وقفے سے گاہک آتے، ترازو کھڑکتی۔ کچھ سکےّ، کوئی نوٹ۔ پھر اُسی رِدھم سے لڑکے کی صدائیں بلند ہوتیں جنھیں وہ حلق کی گہرائی سے نکالتا۔اس کے گلے کی جلد میں چھپی نسیں ابھر آتیں۔ چھوٹی چھوٹی سرمئی ندیوں جیسی بل کھاتی ہوئی نسیں۔

جانے کدھر سے ایک باریش، باور دی پولیس والا نمودار ہوا اور ہاتھ میں پکڑا کین لہسن کی ڈھیری پردے مارا۔ لہسن کی کئی پتھیاں زمین پر گر گئیں۔ بوڑھا جلدی جلدی اٹھانے لگا۔

"باپ کی سڑک ہے کیا۔ریڑھی لگانا منع نہیں ہے ادھر؟”

پولیس والا علاقائی زبان میں دہاڑا اور کین لڑکے کی پیٹھ میں چبھو دیا۔

"جناب۔ جناب۔ ابھی ابھی خریدا ہے۔ گھر ہی جا رہے ہیں حضور۔” بوڑھا دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر ان میں لہسن جمع کر کے جلدی جلدی اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ لڑکے کے کین چبھتے دیکھ کراس نے ہاتھوں میں پکڑا لہسن زمین پر گرا دیا اور سپاہی کے جوتے پکڑ کر گڑگڑانے لگا۔

"او۔تو تُو سکھا رہا ہے اسے بے ایمانی۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے تجھے لہسن بیچتے ہوئے۔ پیسے بٹورتے ہوئے۔ سمجھا؟”

باریش سپاہی نے لہسن کی ڈھیری کے نیچے بچھے بوریئے کا کونہ الٹ دیا اور دس روپے کا اکلوتا نوٹ اور پانچ کے تمام سکے اٹھا کر جیب میں ڈالے اور جھٹکے سے پاؤں چھڑا لیے۔ بوڑھا لڑھک گیا۔ اگر زمین پر نہ بیٹھا ہوتا تو زور سے گرتا۔ پھر جلدی سے سنبھلا اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔

"جناب۔۔۔ جناب یہ دس کا نوٹ مجھ کو۔ صبح سے بس اتنی ہی کمائی ہوئی تھی۔اب کچھ نہیں ہے میرے پاس۔”

"بابا تمباکو پیتا ہے صاب۔ کچھ تھوڑا پیسہ واپس دے دو صاحب جی۔”لڑکا سہما ہوا بولا۔

"بکواس بند کرو۔ الٹ دوں گا ریڑھی۔ دونوں کو تھانے میں بھر دوں گا۔حرام خور۔”

ہاتھ گاڑی کو پاؤں سے ٹھوکر مارکر باریش سپاہی اُلٹے ہاتھ سے اپنی سیاہ داڑھی سنوارتا ہوا دوسری طرف چل پڑا۔

عورت جب تک دودھ والے کی دُکان پر رہی تھی اس نے یہی دیکھا کہ بوڑھا شخص زمین پر بیٹھا اپنے ہاتھوں پر سے سپاہی کے جوتوں سے لگ جانے والی مٹی جھاڑ رہا ہے۔ جب وہ المونیم کی چھوٹی سی ڈولچی میں ایک پاؤ دودھ لے کر پلٹی تو کوئی مری مری سی آواز میں جیسے کہ رو رہا تھا۔

” لہسن۔ تازہ۔ تازہ۔”

یہ گوری رنگت اور ستواں ناک والا باریش محافظ۔ اس کا ہم مذہب، ہم زبان، اسی کی مٹی کی پیداوار۔

اور وہ، جو کل ز ّچہ ّبچہ ہسپتال کے پھاٹک کے پاس۔وہ کالے سانولے موٹی چوڑی ناکوں والے۔ ہر برقع پوش عورت کا نقاب یہ کہہ کر الٹتے تھے کہ اس کے اندر دہشت گرد ہو سکتا ہے۔

نازک ڈیل ڈول میں نرم کلائیوں اور چھوٹے پیروں والے برقع پوش دہشت گرد، جو میٹرنٹی ہسپتال میں آتے ہیں۔جن کے چہروں سے عمداً انگلیوں کو مس کرتے ہوئے انھیں بے نقاب کر کے بھوکی نظروں سے گھورا جاتا ہے۔

بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے آس پاس، یورپ کے ایک حصے میں ہر فوجی افسر کسی بھی عورت کو حکم دے سکتا تھا کہ وہ مکمل بے لباس ہو کر ثابت کرے کہ اس نے کوئی آتش گیر مادہ یا ہتھیار تو نہیں چھپا رکھا۔ یہ بات عورت نے بہت پہلے کسی کتاب میں پڑھی تھی۔

انھیں موقع مل جاتا تو۔جہاں جہاں انھیں موقع ملتا ہے وہاں۔ خدا کی پناہ۔ وہاں کیا نہیں کرتا یہ بندوق بردار۔ پکی رنگت والا یا صاف رنگ کا۔ باور دی یا بغیر وردی کے۔ سب ایک طرح کے درندے۔ خدا نے عورت کو بنایا ہی کیوں۔

اس کی نظریں باور دی نوجوان کی بندوق پر ٹھہری ہوئی تھیں۔ ماتھے پر شکن ابھر آئے تھے۔

باور دی نوجوان کا نمبر مل گیا تھا۔

وہ کسی سے بات کرنے میں مشغول تھا۔اس کے چہرے پر اچانک خوشی چھا گئی تھی۔ وہ جلدی جلدی کچھ پوچھ رہا تھا۔ عجب بے صبری سے، اونچی آواز میں، جو کیبن کے شیشوں کے اِس پار بھی سنائی پڑ جاتی تھی۔ مگر کسی غیر مانوس زبان میں۔ جو عورت کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

بوتھ سے کچھ میٹر کے فاصلے پر تنگ سی سڑک کے اس طرف ایک اور بندوق بردار کھڑا تھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ کیبن والے نوجوان نے اس کی طرف دیکھ کر ہوا میں مکّا لہرایا تو اس نے مسکرا کر زور زور سے سوالیہ انداز میں سر نیچے سے اوپر کو ہلایا کیبن کے اندر والے نوجوان نے ابرو اٹھا کر، آنکھیں پوری وا کر کے جوشیلے انداز میں سرکو بار بار اثبات میں جنبش دی۔ دونوں کے چہرے کھل اٹھے تھے۔

عورت اپنے محتاط مگر پر تجسّس تاثرات کو بخوبی چھپا کر سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

شاید اس کے ہاں بچہ ہوا ہو۔مگر یہ تو خود ہی کم عمر لگتا ہے۔ شادی کہاں ہوئی ہو گی اس کی۔ مگر ہو سکتا ہے۔ ہو بھی سکتی ہے۔ یا شاید ا س کے گھر والوں نے اس کی پسند کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہو۔۔۔ اور لڑکی بھی۔۔۔ لڑکی بھی اسے پسند کرتی ہو۔۔۔ لڑکی اسے۔۔۔ پسند کرتی ہو۔۔۔

پسند اس نے بھی کیا تھا کسی کو کبھی۔

جب وہ ایک نوخیز لڑکی ہوا کرتی تھی۔

اس کا نام دلّو تھا۔نہیں، اس کا نام دلشاد تھا۔۔۔ یعنی دلشاد بانو تھا۔ وہ ساتویں درجے تک تعلیم حاصل کر سکی تھی۔ اس کا باپ مجید بٹ نالائے مار کا ایک غریب مچھوارہ تھا۔ جو اپنے مختصر سے نیم بوسیدہ آبی گھر میں میلے گدلے پانی کے اس نالے کے ایک کنارے پر رہتا تھا۔ میلے، گدلے پانی والا نالا ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔

صدیوں پہلے جب نقل و حمل کا واحد وسیلہ پانی ہوا کرتا تھا تو سلطان زین العابدین کی حکومت میں جہلم سے کچھ اضافی نالے نکالے گئے تھے۔ نقل و حمل کے علاوہ سیلاب سے بچاؤ اور شہر کی خوبصورتی کا مقصد بھی ذہن میں رہا ہو گا۔ ان میں کٹ کل اور نالائے مار بھی شامل تھے۔ نالا تنگ و تاریک راستوں سے گزرتا ہوا، بے شمار شاخوں میں بٹتا ہوا،پھر جہلم میں جا ملتا تھا۔ اس میں ہر چھوٹی بڑی بستی کے لیے رسد گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ بڑے بڑے بجروں میں اناج ایندھن وغیرہ ہر گھاٹ پر پہنچایا جاتا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ آبی وسائل کی جگہ موٹر گاڑیوں نے لے لی۔جنگلوں کی مسلسل کٹائی سے پانی کم ہوتا گیا اور نالا رفتہ، رفتہ کوڑے کرکٹ کی آماجگاہ بنتا گیا، ساتھ ساتھ بیشتر مقامات پر سوکھتا چلا گیا تو اس پر تعمیرات ہونے لگیں۔

بعد میں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں سرکار نے وہاں سے باقاعدہ سڑکیں نکالیں۔ اور کہیں کہیں گدلے پانی میں کچھ مچھلیاں کچھ کشتیاں اور اکّا دکّا مختصر بستیاں رہ گئیں۔

مجید بٹ کا کل کاروباری اثاثہ ایک بوسیدہ سا جال اور ایک چھوٹی سی پرانی کشتی تھا۔ کشتی کا رنگ پانی نے اس قدر چوس لیا تھا کہ وہ بالکل اس گدلے پانی کے رنگ کی نظر آتی تھی۔

مجید بٹ کا ایک بیٹا بھی تھا۔اس کی خواہش تھی کہ اس کے بچےّ پڑھ لکھ جائیں اور دن بدن اور زیادہ آلودہ ہوتے جا رہے اس نالے میں ایک ایک مچھلی پکڑنے کے انتظار میں پہروں گزارتے ہوئے عمر گنوانے کی بجائے کہیں نوکری کر لیں۔ مگر مشتاکہ یعنی کہ مشتاق احمد بمشکل پانچ جماعتیں پڑھ سکا، اور بار ہا مار کھانے کے باوجود اس نے سکول کا رخ نہ کیا۔ آخرکار باپ اسے اپنے ساتھ کشتی پر ہی لے جانے لگا۔

دلّو ایک ذہین طالبہ تھی اور سینٹرل اسکول کے ساتویں درجے میں پڑھ رہی تھی۔ اساتذہ کو اس سے خاصی امیدیں تھیں۔ جماعت کے انچارج ٹیچر اس کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کا نیا نیا تقرّر ہوا تھا۔ دیکھنے میں بھی ماسٹر جی کا چہرہ خاصا جاذب تھا۔ گھنے گھنے بال اور چھوٹی سی داڑھی اُن پر خوب کھلتی تھی۔دِلّو کے باپ کی درخواست پر کبھی کبھی ماسٹر جی دلّو کو کوئی مشکل سبق گھر آ کر بھی پڑھا دیتے اور اس بات سے انھیں خود بھی دلی خوشی ملتی تھی۔

دِلّو کی آنکھیں نافے کی ٹکیاں ایسی تھیں۔ اس کے بال دیودار کی اس سلگتی ہوئی روغنی لکڑی ایسے سیاہ تھے جو روشنی کرنے کے لیے جلائی جاتی ہے۔ اور اس کی جلد سمانوار کے با رہا منجھے پیتل کے دستے کی رنگت لیے ہوئی تھی۔ ساتویں درجے میں آتے ہی وہ ایک دم بڑی بڑی سی لگنے لگی تھی۔ اس کے پاس سیاہ رنگ کا ایک پھرن تھا جس کے گریبان پر اس کی نانی کی یادگار، پانچ چاندی کے روپیوں کے ساتھ ٹانکا لگی گھنگھریوں والا ایک ہار رہتا تھا جو وہ بچپن سے پہنے ہوئے تھی۔ ورنہ ا س کی ماں کے سرپر پھیلے سوتی رومال کے نیچے لگی ٹوپی، ’کسابہ‘ کے اندر سے ماتھے پر جھانکنے والے تین تین جھومروں اور کان کی بڑی بڑی بالیوں والا چاندی کا زیور کب کا گھر کی ضروریات کی نذر ہو گیا تھا، جبکہ ایسے زیورات پانی پر رہائش پذیر خاندانوں کے مخصوص زیورات میں شمار ہوتے ہیں۔

آٹھویں دہائی کے غالباً آخری سال کا کوئی دن تھا جب دوسرے کنارے پر رہنے والے رشید ڈار کا منجھلا لڑکا جو دو ماہ پہلے اچانک غائب ہو جانے کے بعد کوئی ہفتہ بھر پہلے نمودار ہوا تھا، دلّو کے بھائی مشتاکے کو صبح صبح آ کر کہیں لے گیا۔ مشتاکہ اس دن دیر گئے گھر لوٹا اور ماں کے بار بار پوچھنے پر بھی کوئی جواب نہ دے کر سو گیا تھا۔ ماں کے سوالات کا جواب نہ سن کر مایوس باپ نے کوئی سوال نہ کیا تھا۔ مگر اس کا چین لٹ گیا تھا۔

دوسری صبح رشید ڈار کا منجھلا لڑکا پھر گھر آیا اور اندر کے چھوٹے کمرے میں کافی دیر تک مشتاکے کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا جبکہ مشتاکہ وقفے وقفے سے دھیمی آواز میں کچھ کہتا۔ مگر کمرے کے باہر صرف شور کا سا احساس ہو رہا تھا اور بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ تیسری بار جب رشید ڈار کا منجھلا لڑکا پھر آیا تو اندر کے کمرے سے دنوں کی بحث کرنے کی آوازیں بھی آئیں تھیں۔

دو ایک روز بعد جب کافی دن نکل آیا تھا، رشید ڈار کا منجھلا لڑکا آیا۔ مشتاکہ باپ کے ساتھ کشتی پر دور نکل گیا تھا۔

شام کو جب مشتاکہ اور مجید بٹ کام سے لوٹے تو دِلّو بے ہوش پڑ ی تھی۔اس کی گردن پر خراشیں تھیں اور چہرے پر نیلے دھبے اُبھر آئے تھے اور ماں نے اپنے بہت سارے بال نوچ ڈالے تھے۔ اس دن ماں کچھ نہیں بولی تھی۔

دوسرے دن سینٹر اسکول کے ماسٹر جی کو گولیاں لگنے کی بات سن کر ماں نے بتایا تھا کہ باپ اور بھائی کو بار بار پکارنے کے بعد دلّو نے کئی دفعہ ماسٹر جی ماسٹر جی کہا تھا اور پھر بے ہوش ہو گئی تھی۔

اسی دن سے مشتاکہ گھر سے غائب ہو گیا تھا اور کئی دن بعد جب رشید ڈار کے منجھلے لڑکے کی لاش نالے کے پانی میں تیرتی نظر آئی تو مشتاکہ گھر آ کر ماں سے لپٹ کر خوب رویا تھا۔ اس کے بھورے رنگ کے لمبے سے پھرن کے اندر بغل کے پاس ٹخنوں تک پہننے والے جوتے کی ساخت سے ملتی جلتی لوہے کی کوئی بالشت بھر لمبی چیز لٹک رہی تھی۔

ا س دن کے بعد مشتاکہ زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگا تھا۔

رشید ڈار کوئی دو ہفتے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ نہ ہی اس نے مسجد کا رخ کیا تھا۔ جس دن رشید ڈار مسجد میں آیا، اسی دن اس نے مصیبت کے وقت انسان کے اور خاص کر پڑوسی کے کام آنے کا ذکر کیا تھا۔ اور کچھ دن بعد اس نے اپنے بڑے لڑکے کے لیے جس کی ایک ٹانگ پر پولیو کا اثر تھا اور جس کی شادی کی عمر نکلا چاہتی تھی۔ مصیبت زدہ دلّو کا رشتہ ماں گا تھا۔دِلّو کے باپ نے یہ سوچے بغیر کہ کس کی مصیبت میں کون، کس کے کام آیا، اپنی حسین و جمیل نوخیز بیٹی کے لیے، یہ رشتہ قبول کر لیا تھا۔

مرے اشک بن میرے بابل بہے

ترے دل کے اندر جو تھے آبلے

دلّو کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر ہونٹ پر ٹِک گیا تھا۔ اس نے الٹے ہاتھ سے اسے پونچھ لیا۔ دروازہ کھلنے کی آواز اُسے چونکا کر ماضی سے حال میں لے آئی تھی۔

بندوق بردار باور دی نوجوان ہنستا مسکراتا ٹیلیفون بوتھ کے شیشے لگے کیبن سے باہر آیا اور بوتھ کے مالک کو بل ادا کرنے لگا۔ دلّو نے کیبن میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا کہ نوجوان کے بٹوے میں کسی لڑکی کی مسکراتی ہوئی رنگین تصویر تھی۔

نوجوان کودتا پھاندتا سڑک پارکر کے اپنے دوسرے باور دی ساتھی کے پاس پہنچا اور دفعتاً اسے کمر سے اٹھا کر واپس زمین پر رکھتے ہوئے اس کا منھ چوم لیا۔اُس کے ساتھی نے ہنستے ہوئے اپنا آپ چھڑایا اور اٹینشن میں کھڑا ہو گیا کہ سامنے سے سرکاری جھنڈے لگی تین موٹر گاڑیاں گزر رہی تھیں جن کے آگے پیچھے حفاظتی عملے کی دو بڑی بڑی گاڑیاں اور آخر میں اچانک حادثے کی صورت میں کام آنے کے لیے لمبی سی ایمبولینس تھی۔ اس کا ساتھی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کھِلے کھِلے چہرے کے ساتھ دوسری سمت کو جا رہا تھا۔

ٹھہرے ہوئے بندوق بردار کے سامنے سے پہلی گاڑی کے گزرتے ہی ایک زوردار دھماکا ہوا اور اس میں آگ لگ گئی۔ پیچھے کی گاڑیاں توازن کھو کر ادھر اُدھر بکھرنے لگیں۔ ان کے حفاظتی عملے نے چند لمحوں کے اندر اندر چاروں طرف اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں۔

ٹیلیفون بوتھ والے نے اندر سے دکان کا شٹر گرا دیا تھا۔ دِلّو کے علاوہ دو اور لوگ بھی دکان کے اندر رہ گئے تھے۔

اب شاید کرفیو لگ چکا ہو گا۔

دکان کے اندر گھٹن سی ہو رہی تھی۔

وہ گھر میں تالا لگا کر آئی تھی۔

کچھ دیر بعد باہر سناٹا چھا گیا تھا۔ پھر گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہو گئی کہ ہارن اور انجن کی آوازیں دکان کے اندر صاف سنائی دے رہی تھیں۔ دکاندار نے شٹر ذرا سا سرکا کر باہر جھانکا اور پورا شٹر کھول دیا۔

دِلّو تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف مڑی تو اس نے دیکھا کہ جائے حادثہ کا پتھروں سے احاطہ کر دیا گیا تھا۔ اِدھر اُدھر زمین پر سیاہی مائل سرخی چھا گئی تھی۔

گھر کے موڑ پر مڑتے وقت دلّو نے یہ بھی دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ کے ادھ جلے فوجی جوتے کے پاس ایک والٹ کھلا پڑا تھا، اور اس میں ایک مسکراتی ہوئی لڑکی کی تصویر پتلے سے بے رنگ پلاسٹک کے پیچھے سے چپ چاپ جھانک رہی تھی۔

دِلّو کے سینے میں ایک چیخ گھٹ کر رہ گئی۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔پھر کچھ لمحوں بعد کھول دیں۔

اب وہ نہایت دھیمی رفتار سے گھر کے راستے پر چل رہی تھی۔ ساری سڑک سنسان تھی۔ دور ایک شخص داہنا بازو جھُلاتا اور بایاں ہاتھ ہر دوسرے قدم کے ساتھ گھٹنے پر دھرتا لنگڑاتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا، مگر دِلّو کی رفتار پھر بھی تیز نہیں ہوئی، حالانکہ وہ جانتی تھی کہ چابیاں اُس آدمی کی نہیں خود اسی کی جیب میں ہیں۔ اور وہ گھر میں تالا لگا کر آئی ہے۔

٭٭٭

 

ٹیڈی بیئر

سیاہ چشمے کی بائیں جانب کے کھلے حصے میں سے وہ اسے چپکے چپکے دیکھ رہی تھی، جو خود میں گم گا رہا تھا اور گٹار بھی بجا رہا تھا۔ گاڑی کے ہلکوروں کے ساتھ اس کے ماتھے پر آگے کو لا کر پیچھے کی طرف سجائے گئے بال بھی جھول جاتے۔ اس نے قلمیں بڑھا رکھی تھیں جو کم عمری کے سبب گو زیادہ گھنی نہ تھیں مگر کسی نہ کسی طرح اس کے پسندیدہ اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے مغربی گلو کار کے بالوں کے اسٹائل سے ملتی تھیں کہ اسٹیج پر ایک کردار کی ادائیگی کے لیے اسے بال اُس کی طرح رکھنا تھے۔شہر کے اسکولوں میں وہ سب سے خوش گلو فنکار چنا گیا تھا۔

مقابلے کی تیاریوں کے دوران اس نے ایک دن ماں کو اس گانے کی وجہ تسمیہ بتائی تھی کہ ایک ہوٹل میں کسی نامعلوم نوجوان نے ایک پرزے پر ایک سطر لکھ چھوڑی تھی ’میں ایک تنہا راستے کا مسافر ہوں۔‘کسی نے اس حادثے سے متاثر ہو کر یہ گانا لکھا تھا۔

"دیکھئے نا مام۔۔۔ کس طرح ایک نامعلوم نوجوان اتنے بڑے Master Pieceکی بنیاد بن گیا۔ کیا ہوا ہو گا اسے۔۔۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں۔۔۔ کیوں کی ہو گی اس نے خودکشی۔۔۔ وہ کیوں تھا اکیلا۔۔۔ کیا اسے۔۔۔ کوئی سمجھتا نہیں ہو گا۔۔۔ یا پھر۔۔۔ "

راحیل کی لمبی لمبی انگلیاں گٹار کے تاروں پر ٹھہر گئی تھیں۔

"نہیں بیٹا۔۔۔ کبھی کبھی انسان کسی شدید جذباتی دباؤ کے زیر اثر سوچ نہیں پاتا اچھی طرح۔۔۔ اور اس کمزور پل میں اس طرح کی حرکت۔۔۔ کر گزرتا ہے۔۔۔ "

نائلہ کا ممتا بھرا دل پل بھر کو کانپ سا گیا تھا۔

"تو وہ لمحہ۔۔۔ انسان با ہمت ہو تو۔۔۔ ٹال سکتا ہے۔۔۔ اور اگر ٹل جائے۔۔۔ تو ایسا حادثہ کبھی نہ ہو۔۔۔ "

تمھیں تومیں سمجھتی ہوں میرے بچےّ۔۔۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے۔۔۔ میں تو تمھارے ساتھ ہوں۔۔۔

گاڑی میں بیٹھی نائلہ سوچتی رہی اور آہستہ سے گردن بائیں جانب موڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔ راحیل نے بے رنگ چشمہ پہن رکھا تھا۔اُس میں سے اس کی بند آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ چہرے کے تاثرات میں گرد و پیش سے بے خبری کا عالم تھا۔۔۔ مگر دونوں ہاتھوں کی محتاط انگلیاں نہایت ماہرانہ انداز میں گٹار کے سخت تاروں کو کچھ ایسی نرمی سے چھُو رہی تھیں کہ سُر بادلوں کی طرح فضا میں تیر رہے تھے۔اس نے بیحد سریلا نغمہ چھیڑ رکھا تھا۔ اسے پریکٹس کے لیے اپنے گروپ کے باقی ساتھیوں سے ملنے ایک دوست کے وہاں جانا تھا۔نائلہ کو بھی راستے میں ایک جگہ اترنا تھا۔ وہ اس کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھی اس کے گیتوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔لمحے بھر بعد اس نے ایک تیز دھن والا گانا شروع کیا۔

وہ بالکل مغربی انداز میں، کبھی بے حد اونچے سُر میں تان کھینچتا اور کبھی ٹھڈی حلق سے لگا کر بھاری سی غراہٹ نما آواز میں گا کر منھ بڑا سا کھول دیتا اور کبھی ایک دم دہانہ چوڑا کر کے تمام دانتوں کو نمایاں کرتا ہوا زور دار آواز میں نعرہ سا لگا کر کچھ پل خاموش ہو کر دائیں بائیں دیکھتا اور پھر یکلخت دوبارہ دھیمے سُر سے شروع کر کے اونچے سُر تک جا پہنچتا۔

اس عمل کا مشاہدہ نائلہ کے لیے نہایت دلچسپ عمل تھا۔ جب وہ چہرے کے سارے پٹھے تان کر دانتوں کی نمائش کر کے ماتھے پر بہت سے آڑے بل ڈال کر کوئی سُر ادا کرتا تو اسے بے تحاشا ہنسی آ جاتی جسے وہ کمال ضبط سے چھپا لیتی۔

Put a chain around my neck

And lead me everywhere

So let me be your teddy bear

کیا گا رہا ہے۔۔۔ میرا ٹیڈی بیئر۔۔۔

نائلہ کا دل کرتا اس سے کہے۔۔۔ ابھی کل تک گول مٹول سا ٹیڈی بیئر جیسا تھا،وہ سوچتی۔۔۔ دبلا پتلا، لمبا ہو گیا۔۔۔ ساری جان گانے کی ادائیگی میں لگانے سے اس کی گردن پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگتیں۔ حالانکہ گاڑی کے اندر ٹھنڈک تھی۔ نائلہ کا جی چاہتا کہ پرس میں سے رومال نکال کر اس کے چہرے اور گلے پر سے پسینہ پونچھ لے۔ اس سے پہلے کے نائلہ کی منزل آ جائے، سرخ ٹی شرٹ میں چھپے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس کا لمس اپنی ہتھیلی میں محفوظ کر لے۔مگر اس کے پاس ایسا کوئی بہانہ نہ تھا کہ اسے چھو لیتی۔

کہ وہ ناراض تھا اس سے۔۔۔ شاید۔۔۔ مگر اتنے دنوں۔۔۔ کیوں۔۔۔ آخر۔

کیا وہ خود بھی اس جیسی تھی۔۔۔

نائلہ سوچنے لگتی۔راحیل کی ثابت قدمی پر اسے خوشی ہوتی۔

نائلہ کو تصویریں بنانے کا شوق تھا۔

"اُف،اُف۔۔۔ گناہ۔۔۔ گناہِ کبیرہ۔۔۔ ” امّاں سرپر آنچل درست کرتی جانے کب آ کر اس کے عقب میں کھڑی ہو جاتیں۔

"ایک تو پڑھائی نہیں کرتی۔۔۔ دوسرا۔۔۔ یہ۔۔۔ شکلیں۔۔۔ اللہ۔۔۔ یہ اولاد۔۔۔ جہنم رسید کروائے گی۔۔۔ ” چوری پکڑے جانے سے وہ شرمندہ سی ہو کر رہ جاتی۔

"اپنی باجی کو دیکھو۔۔۔ اوّل آتی ہے اکثر ہی۔۔۔ ورنہ دوئم تو ضرور ہی۔۔۔ اور تم۔۔۔ پڑھو گی نہیں تو فیل ہو جاؤ گی۔۔۔ میں نے ہی بگاڑا ہے شاید تمھیں۔۔۔ "

"امّاں۔۔۔ یہ تو۔۔۔ ڈرائنگ ہے۔۔۔ اسکول میں۔۔۔ "

"جھوٹ تو نہیں بولتیں۔۔۔ ؟تمہارے ابّا سچ کہتے ہیں۔۔۔ کہ میرا ہی قصور ہے۔۔۔ تمہاری ہر بات مان لیتی ہوں۔۔۔ "

"جھوٹ ہی تو بولا جا رہا ہے۔۔۔ یقیناً۔۔۔ "ابّاکی آواز پتھر کی طرح کان کے پردے پر پڑتی۔۔۔ نائلہ پتھر سی دیکھا کرتی۔

"کہاں لے جائیں گی یہ لکیریں۔۔۔ یہ تصویریں تم کو۔۔۔ ؟”

ابّا جانے کیسے اسی وقت گھر میں داخل ہوتے۔

"یہ شریف لڑکیوں کا چلن نہیں ہے۔۔۔ "وہ چہرہ اس کی طرف اور نظریں دوسری جانب کر کے کہتے اور چلے جاتے اور امّاں پاؤں پٹختی ہوئی ان کے پیچھے۔ایسے میں کتنا غصہ آتا تھا۔۔۔ اُسے۔۔۔ دونوں پر۔

دجیومیٹری کی کاپی کے سادہ ورق پر بنے رنگ برنگے چہرے پر اس کے دو آنسو ٹپ سے گرتے۔ پانی کا رنگ (Water Colour) پانی میں گھل کر بے رنگ ہونے لگتا۔ رونے کی خواہش گلے کے اندر پھندا سا ڈال دیتی۔

اتنی محنت سے۔۔۔ میں نے۔۔۔ خراب ہو گئی تصویر۔۔۔ یہ ابّا۔۔۔ یہ ابّا۔۔۔ آخر ہیں ہی کیوں۔۔۔ سب کچھ تو ہوتا ہے امّاں کے پاس۔۔۔ کھانا۔۔۔ جیب خرچ۔۔۔ کتابوں کے پیسے۔۔۔ کاپیوں کے۔۔۔ کاپیوں کے پیسے۔۔۔ اتنے سارے۔۔۔ پھر ابّا بھلا کیوں۔۔۔ رعب جمانے کے لیے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ کہ۔۔۔

اللہ نہ کرے۔۔۔ ایسا سوچتا ہے کوئی اپنے ابّا کے لیے۔۔۔

جانے یہ کس کی آواز تھی۔۔۔ آواز تھی بھی یا۔۔۔

تصویریں بنانا جاری رہا۔۔۔ آرٹ فائل مہینے میں دو بار با قاعدگی کے ساتھ گم ہو جایا کرتی۔۔۔ رنگ سکول کے ساتھی استعمال کر لیتے تو بے چاری نائلہ کیا کرتی۔۔۔ جواز معقول ہوا کرتا۔۔۔ اور امّی کی تھوڑی سی ڈانٹ اور تنبیہ کے عوض ایک نئی آرٹ فائل۔۔۔ سودا مہنگا نہیں تھا۔بلکہ کبھی کبھی تو کس قدر فائدہ مند۔۔۔

پیلے رنگ کے پتلے ٹین کے مستطیل ڈبے میں بارہ خانے مختلف رنگوں کے۔۔۔ اور ساتھ میں نرم و نازک سنہری بالوں والا موقلم۔۔۔ تصوّر میں بسی ہزار شبیہات۔۔۔ کمرے کی تنہائی۔۔۔ اب جنت میں بھی کیا ہوتا ہو گا۔

زندگی جنت سے بھی حسین تھی۔مگر دنیا کی ہر جنت کی طرح عارضی۔۔۔ کہ اس کے سارے رنگ، راز اور تصوّر طشت از بام ہو گئے۔اسے آج بھی کتنا دکھ ہوتا ہے یاد کر کے۔۔۔

گاڑی رک گئی تھی۔نائلہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور ونڈو کے باہر دیکھنے لگی۔ سرخ روشنی پر لکھے Relaxکے دائرے میں باجی کا چہرہ نظر آیا۔۔۔ اس کا دل جیسے کہ خود کلامی کرنے لگا۔

ہفتے کا دن تھا۔اسکول میں آدھے دن کے بعد چھٹی ہوا کرتی تھی۔

باجی دو دن سے کہہ رہی تھیں کہ ان کی ہفتے اور اتوار کی دو دِن کی چھٹی ہے اور وہ امّاں کے ساتھ مل کر میرا کمرا صاف کروائیں گی۔

"میرا کمرہ صاف ہے بالکل۔” میں نے باجی کی آنکھوں میں جانے کون سی چمک سے نظریں چرا کر کہا تھا۔

"تم کیا جانو۔۔۔ اپنے پاؤں کے تلوے دیکھو کتنے میلے ہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں کیا صحیح ہے۔۔۔ ” انھوں نے ’میں ‘ پر زور دیا تھا۔ آخر کو مجھ سے پانچ، چھ برس بڑی تھیں۔

"رہنے دیجئے نا باجی۔۔۔ اگلے ہفتے کر لیں گے۔۔۔ یا  اتوار کو میری بھی چھٹی ہو گی نا۔۔۔ تو۔۔۔ "

"مجھے اپنے کام نہیں ہیں کیا  اتوار کو۔۔۔ ؟” باجی گردن مٹکاتیں۔

"ٹھیک کہتی ہیں باجی۔۔۔ تم زیادہ دخل مت دو۔” امّاں کو جب باجی پر زیادہ پیار آتا، تو اسے باجی بلایا کرتی تھیں۔۔۔ اماں کی یہ بات مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔

"اچھا چلو۔۔۔ اتوار کو ہی کر لیں گے۔۔۔ ” انھوں نے نہایت حاکمانہ انداز میں جیسے کہ رحم کھا کر کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔۔۔

مگر ایسا نہیں ہوا۔۔۔ باجی۔۔۔ دھوکے باز باجی۔۔۔

میں کسی ٹکٹ یافتہ مجرم کی طرح بیٹھک کے دروازے سے لگی تھی۔ تھانے کی دیواروں پر چسپاں جرائم پیشہ افراد کی تصویروں کی طرح میز پر میری چار آرٹ فائلوں کے موٹے موٹے ورق بکھرے تھے۔ بے شمار چہرے لیے ہوئے۔۔۔ کہیں بڑے۔۔۔ کہیں چھوٹے۔۔۔ کوئی بزرگ۔۔۔ کوئی ّبچہ۔نرم تاثرات لیے ہوئے، دودھ پہنچانے والے حاجی صاحب گوالے کا چہرہ۔۔۔ میری حساب کی سنگدل ٹیچر کا ناراض چہرہ۔۔۔ بڑے دانتوں والے چوکیدار بابا کا چہرہ۔۔۔ روتی ہوئی چھوٹی سی لڑکی کا بسورتا ہوا۔۔۔ کوئی مسکراتا۔۔۔ کوئی غصہ ور۔۔۔ کوئی گنجا۔۔۔ کہیں لمبے لمبے بالوں والی عورت کا۔۔۔ گورا۔۔۔ کالا۔۔۔ ہر چہرہ مجھے اپنے چہرے کی طرح عزیز تھا۔

"یہ سب کیا ہے۔۔۔ ؟” ابّاکی آنکھیں ابلی پڑ رہی تھیں۔انھوں نے میز پر اپنا بڑا بازو ایک جھٹکے سے جھاڑو کی طرح پھیر دیا۔لمبے سے فراک کے اندر میرے گھٹنے کانپ کانپ کر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے رہے۔

چہرے لہراتے لڑھکتے فرش پر بکھر گئے۔ اور بعد میں باجی کے قبضے میں چلے گئے۔

اماں نے مجھ سے بات کرنا ترک کر دیا۔

حساب کے پرچوں میں بمشکل تمام پاس ہونے کی بجائے۔۔۔ میں فیل ہو گئی۔۔۔ اور تعجب کی بات یہ کہ باجی کو پہلے ہی پتہ تھا کہ جو سوال وہ مجھے کروا رہی تھیں امتحان میں ویسے سوالات غلط کر کے میں فیل ہو جاؤں گی۔

مجھے دو بارہ باجی کی تحویل میں دینے سے پہلے ابّا  نے ایک نہایت تجربہ کار اور سینئر قسم کے حساب داں استاد کا انتظام کیا کہ باجی کے خود امتحان سرپر تھے۔

حساب کے استاد گھر آنے لگے۔

ماسٹر  جی کے پیلے دانتوں پر ہر وقت رالیں جمع رہتیں۔ منھ سے ریشم کے لچھوں ایسے نئے نویلے چوزوں کے درمیان جوں کے تو ں پڑے رہ جانے والے انڈے کی سی بدبو آتی۔ جنھیں باجی مجھے سنگھانے کے بعد پیٹ پکڑ کر دوہری ہوکے ہنسا کرتی تھیں۔ اور جیسے چوزوں کے استقبال کے لیے ٹوکری کے گرد کوٹھری میں کھڑی میں امّاں کے چہرے پر لاتعلق سی مسکراہٹ دیکھ کر بجھ جایا کرتی۔ اس سے کہیں زیادہ تکلیف مجھے ماسٹر جی کے پاس قیامت جیسا ایک گھنٹہ گزارنے میں ہوتی۔

اکثر سر پر سے شملے والا صافہ اتار کر ماسٹر جی دونوں ہاتھوں کے میلے ناخنوں سے اپنا گنجا سر کھجاتے ہوئے منھ کھول کھول کر جمائیاں لیتے اور الجبرا کے زبانی یاد فارمولے دوہراتے ہوئے آنکھیں بند کر کے سمجھایا کرتے۔

جیسے تیسے مڈل اسکول ہوا۔

باجی نے گھر میں مشورہ دیا کہ اگر آرٹس پڑھوں گی تو ڈرائنگ تو کرنا ہی ہو گی۔۔۔ اور سارا وقت میں ڈرائنگ کرتی رہوں گی تو پڑھوں گی کہاں۔۔۔ ا س لیے نویں درجے میں میڈیکل پڑھایا جائے اور یہ کہ وہ مجھے خود گائیڈ کریں گی۔۔۔ کہ آخر ان کی میڈیکل کی پڑھائی کس دن کام آئے گی۔۔۔ کہ۔۔۔ کہ روز Good یا Excellent ملتا تھا انھیں پریکٹیکل کاپی پر۔

گھر میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ جس دن باجی نے میری رَف کاپی پر ماسٹر جی کا جمائی لیتا سر کھجاتے ہاتھ والا چہرہ دیکھا تھا، اسی دن یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر میں ان کی سائنس کی ڈایگرامز بنایا کروں تو وہ کسی سے نہیں کہیں گی کہ میں نے چہرے بنانے میں دو بارہ وقت ضائع کرنا شروع کر دیا ہے۔

"یہ تو۔۔۔ بالکل۔۔۔ لگتا ہے ابھی ہاتھ نیچے کر کے آنکھیں کھولیں گے اور سوال چیک کریں گے۔۔۔ تمہاری کاپی پر۔۔۔ "

باجی کئی لمحوں تک تصویر کو دیکھتی رہی تھیں۔۔۔

"اب تو تم بالکل اصلی صورت جیسا۔۔۔ خیر۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات تو ہے نہیں۔۔۔ امّاں تو تمھیں کوئی کام تک نہیں بتاتیں کہ وقت نہ ضائع ہو۔۔۔ ویسے۔۔۔ میری ڈایگرامز میں ایسا کوئی وقت نہیں لگے گا۔۔۔ اور پھر میں ان سے کچھ۔۔۔ کہوں گی بھی نہیں۔”

بہرحال۔۔۔

میری ہمدرد باجی۔۔۔ میں Mathsمیں Nil، PhysicsکےProblemsکیسے Solve کروں گی۔

مجھے سائنس سے ذرا دلچسپی نہیں۔۔۔ میں کیا پڑھوں گی۔

مگر باجی جو تھیں پڑھانے والی۔

وہ میری استاد مقرر ہوئیں تو ان کا مجھے بلاوجہ پیٹنا بھی جائز ہو گیا۔۔۔

چہرے جانے کہاں چلے گئے۔۔۔ امّاں کا چہرہ ناراض۔۔۔ ابّا کا چہرہ مجھے دیکھتے ہی رنگ بدلتا۔۔۔ باجی کا چہرہ۔۔۔ فاتح سے تاثرات لیے۔۔۔ اور میرا چہرہ۔۔۔ آئینے میں نظر ہی نہ آتا۔۔۔

تمھیں تمہاری شخصیت مبارک ہو۔۔۔

نائلہ نے پہلو میں بیٹھے راحیل کو کنکھیوں سے دیکھا۔

موسیقی میں گم گرد و پیش سے بے خبر یہ چہرہ مبارک ہو۔۔۔

اس نے ڈرائیونگ سیٖٹ کے سامنے اوپر کی جانب لگے چھوٹے سے آئینے میں راحیل کی بند آنکھیں دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔

نواں درجہ کسی طرح ہوہی گیا تھا۔

نائلہ سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔ Physiologyکے Diagramsنے کہانی کی طرح سمجھے انسانی نظام کی Description میں بہت مدد دی۔ ریاضی اور فزکس میں فیل۔۔۔ باقی تمام میں اوّل۔۔۔

یہ تھا دسویں جماعت کے ششماہی امتحان کا نتیجہ۔ اور بورڈ کے امتحانات میں شامل ہونے کے لیے ان سب میں پاس ہونا ضروری تھا۔ بڑی مشکل سے ان پرچوں میں دو بارہ امتحان دینے کی اجازت ملی اور پاس کر لیے مگر بورڈز میں اگر ایک بھی مضمون میں فیل ہوں تو پورے امتحان میں فیل ہونا لازمی تھا۔اور پھر سال ضائع ہو جانا طے تھا۔

اور میں تین سال لگاتار پرائیویٹ امتحان دیتی اور فیل ہوتی گئی۔

نئی نئی لیکچرر ہوئی باجی کو جب لڑکے کی امّاں اور خالہ دیکھنے آئیں تو چھوٹے صاحبزادے کے لیے، جو پڑھائی چھوڑ کر بھائی کی دکان میں خاصا کام سنبھال لیتے تھے، مجھ پر غور ہوا۔

باجی کے سسرال جانے کے بعد کی آزادی کے تصور میں مگن اور مسرور میں اماں کا پیازی رنگ کا  کامدانی دوپٹہ اوڑھے خشک میوے کی طشتری لیے اندر داخل ہوئی تو دونوں بزرگ خواتین نے مجھے باری باری چونک کر دیکھا تھا۔

فیصلہ یہ ہوا کہ ایک کند ذہن لڑکی کو پڑھانے کی کوشش میں مزید وقت ضائع کرنا حماقت ہو گا۔رشتے کو قدرت کی طرف سے اشارہ سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔

سارے چہرے روٹھ گئے مجھ سے….

زندگی کے افق پر ایک نیا چہرہ ابھرا۔اس کا گھر سنبھالنے میں سارا آرٹ خوب کام آیا۔ اور پھر سگھڑ نکلی میں۔۔۔ کہ جیٹھ جی کی پروفیسر بیوی کی غیر موجودگی میں مجھے گھر کا ہر کام خوش اسلوبی سے نبھانے کی ہدایت تھی۔ اور وہ کبھی کبھی بہ آواز بلند خدا کا شکر کرتیں کہ کم از کم یہ ذرا سا سلیقہ تو پیدا ہوا مجھ میں۔۔۔ جو میں نے ان ہی کی صحبت میں سیکھا تھا۔۔۔ کیونکہ پڑھنے میں مصروف و مشغول ہونے کے باعث انھیں مجھے ہی کام کاج سمجھانا پڑا تھا مائیکے میں۔۔۔

اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ کیونکہ جب میری ہی دلچسپی تعلیم میں نہیں تھی تو پھر انھوں نے مجھے گھر سنبھالنے لائق بنانے میں محنت کی۔

رات کے کھانے کی میز پر پھولی ہوئی گرم گرم چتکبری روٹیاں میرے ہاتھ سے لیتے وقت، ان سب باتوں کا انھوں نے کئی دفعہ کھُلے دل سے اعتراف کیا تھا۔

کھُلے دل والی باجی۔۔۔

راحیل نے دوبارہ وہی سریلا نغمہ چھیڑا تو نائلہ پھولی ہوئی روٹی چھوڑ کر گاڑی کی پچھلی نشست پر لوٹ آئی۔

Since my baby left me

I found out a place to dwell

Its, down at the end of a lonely street

Of heart break hotel

وہ بالکل ایلوس پریسلی کی طرح سر ہلا رہا تھا۔ دھن بھی دل میں اترے جاتی تھی۔۔۔ آج راحیل کی آواز میں نائلہ نے درد محسوس کیا تھا۔ گانے کا اس کے بعد کا حصہ نائلہ کو اور اُداس کرے گا۔۔۔ وہ جانتی تھی۔اور شاید راحیل بھی جانتا تھا۔ اس نے آواز ذرا دھیمی کر لی۔ یہ گانا اسے بہت پسند تھا۔اور اسے اسٹیج پر بھی گانا تھا۔اسے گاتے وقت اداس ہو جانا بھی اچھا لگتا تھا۔

You make me so lonely baby

I get so lonely

You make me so lonely

I could die

نائلہ رنجیدہ نظر آ رہی تھی۔۔۔

خدا نہ کرے۔۔۔ میرے فنکار۔۔۔ آخری لائن سن کر اس نے دل میں کہا۔

آج بہت اداس ہے راحیل۔۔۔ وہ سوچنے لگی۔

اس کا باپ اس سے بہت خفا ہے۔۔۔ اور باپ کی ہاں میں ہاں اگر نہ ملائی جائے تو بچےّ خراب ہو جاتے ہیں۔ باجی نے کہا ہے۔

"میں نے اسے ِگٹار کیوں لے کر دی۔

میں نے اسے میوزک اسکول کیوں بھیجا۔

ہر شام بورن ویٹا والا دودھ ہاتھ میں لیے اس کے کمرے کے دروازے کے قریب کھڑے ہوکے اس کا گٹار سن سن کر اس کی حوصلہ افزائی کیوں کی۔

میں ماں ہوں۔۔۔ کہ دشمن۔۔۔ شرم نہیں آئی مجھے۔

اپنا انجام بھول گئی۔۔۔ میں۔۔۔

باجی، راحیل کے نویں جماعت کے ششماہی امتحان میں ریاضی کے ۱۰۰ میں سے ۳۴ نمبر دیکھ کر اونچی آواز میں سمجھا رہی تھیں۔ آوازیں سن کر گھر کے دوسرے لوگ بھی آ گئے تو مارے ہمدردی کے باجی کی آواز گلو گیر ہو گئی تھی۔

"O shut up.”وہ چیخا تھا۔یہ مام کا زمانہ نہیں ہے۔۔۔ شاید اس کی نظروں میں میرا اس کی کاپی کے کور پر پنسل سے کھنچا ہوا اس کا گٹار بجاتا اسکیچ گھوم گیا تھا۔جو دو سال سے اس نے اپنی میز کی دراز میں سنبھال رکھا تھا۔

"Just don’t interfere in my life”وہ اسکول سے ملا رپورٹ کارڈ لے کر کمرے سے جانے لگا تو اس کے باپ نے اس کے چہرے پر ایک زور کا تھپڑ مارا۔

"بڑوں سے زبان لڑاتے ہو؟”میں نے فوراً کہا۔

اس نے میری طرف زخمی نظروں سے دیکھا۔۔۔ شفاف رخسار پر پانچ سرخ لکیریں چھالوں کی طرح اُبھر آئی تھیں۔

کئی دن مجھ سے نظر ملا کر بات نہیں کی تھی۔میں نے سمجھانا چاہا تو کمرے میں گھس کر دروازہ پٹخ کر بند کر دیا۔

اس کے بعد میں نے کچھ نہ کہا۔

نائلہ نے تصوّر میں اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

اسکول کی طرف سے جب والدین کے اجازت نامے پر دستخط کی باری آئی تو۔۔۔ میں نے چپکے سے دستخط کر دیئے اور کسی کو پتہ نہ چلا۔

اب میرے ٹیڈی بیئر کو مجھ سے ناراض نہیں رہنا چاہئے۔

نائلہ سوچنے لگی۔

آج وہ اسی ریہرسل کے لیے جا رہا تھا۔ اپنے پسندیدہ گلوکار کے گائے سب سے پسندیدہ گانے کی ریہرسل۔۔۔ وہ اس کے گانے گاتے ہوئے اکثر سوچوں میں گم ہو جاتا۔

"قابل لوگ زیادہ دیر جیتے ہی نہیں۔۔۔ کیوں مام؟”

ایک دن جب اس نے نائلہ کو ایلوس پریسلی کے کئی گانے گا کر اور بجا کر سنائے تھے، وہ ایسے ہی اداس تھا۔

ایلوس پریسلی نوجوانی میں ہی انتقال کر گیا تھا۔ بے حد خوش شکل نوجوان تھا وہ۔۔۔ بیضوی چہرہ۔۔۔ اونچا قد۔۔۔ تندرست، چست بدن، سرخ و سفید رنگت، بالوں کا رنگ سیاہ کرتا تھا وہ اور پوشاک اپنے وضع کردہ انداز کی جاپانی شہزادوں کی بڑے کالروں والی جیسی کچھ۔ جس سے شانے اور وجیہہ معلوم ہوتے۔چمکیلے رنگوں والی۔ بہت سے رنگ برنگے بٹنوں والی۔ مختلف ڈیزائن کے ہیرے جڑی کمربند والی۔ گاتے ہوئے جب اسٹیج پر تھرکتا تو دلوں کی دھڑکن اس کی تال پر تھرکتی۔ یہ باتیں نائلہ کو راحیل نے بتائیں تھیں۔

نائلہ یاد کر رہی تھی کہ ایک بار اس نے کسی شو کے دوران اپنا پسینہ خشک کر کے رومال تماشائیوں کی طرف اچھالا تھا تو لوگوں نے اس رومال کو حاصل کرنے کے لیے کسی نایاب نعمت کی طرح انگنت ہاتھ بڑھائے تھے۔

ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا نائلہ نے۔

"موت تو اللہ کے اختیار میں ہے بیٹا۔۔۔ ایسا تو نہیں ہے۔۔۔ بہت سے قابل لوگ برسوں جیتے ہیں۔۔۔ بہت سے عام لوگ کم جیتے ہیں، یا اس کا الٹ بھی ہوتا ہے۔۔۔ "

"مگر مما۔۔۔ میں کیوں اس شدّت سے محسوس کرتا ہوں۔۔۔ اس کے بارے میں اتنا زیادہ۔۔۔ میں دیکھئے۔۔۔ اس کی موت کے تیس سال بعد پیدا ہوا۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ King تھا وہ Music کا۔۔۔ Rock-n-Rollکا۔۔۔ I just adore him mom”

"کیوں کہ آپ کی نظر میں وہ سب سے اہم آدمی ہے۔۔۔ آپ موسیقی کو جاننے سمجھنے والے ہیں۔۔۔ اور وہ ایک پیدائشی موسیقار تھا۔”

"ہاں۔۔۔ ایک مکمل فنکار تھا وہ۔۔۔ اُس گمنام شخص کا درد کیسے محسوس کیا اس نے۔۔۔ کہ درد کو گانے میں تبدیل کر کے امر کر دیا۔۔۔ کتنا مشہور ہو گیا Heart Break Hotelکے نام سے وہ مغربی ہوٹل۔۔۔ جب اس نے گانے کے ساتھ ڈانس کر کے لوگوں کا دل جیت لیا تھا جب تک گاتے ہوئے کوئی ناچا نہیں کرتا تھا اسٹیج پر۔۔۔ وہ ایک دردمند۔۔۔ ایک درد مند دل تھا اس کے پاس۔۔۔ امریکن ہو کر بھی وہ افریقیوں کے دکھ بانٹتا تھا۔

گورا ہو کر بھی اس کے اندر سے افریقیوں کی آواز آتی تھی۔۔۔ انسان کو ایسا ہی سچا اور ایماندار ہونا چاہیے۔۔۔ ہے نا۔۔۔ ہے نا مام۔۔۔ "

نائلہ کو اچھا سامع پا کر وہ دل کی باتیں کہتا۔۔۔

"ہاں۔۔۔ میری جان۔۔۔ میرا بچہ کتنا عقل مند ہے۔۔۔ "

وہ اس کاشانہ تھپتھپا دیتی۔۔۔

بال سہلا دیتی۔۔۔

ما تھا چوم لیتی۔۔۔

"مما۔۔۔ دیکھئے گا۔۔۔ سارے سکولز میں سے ہمارا گروپ ہی فرسٹ آئے گا۔۔۔ اس بار بھی۔ فائنل میں پرفارم کرنے کے لیے۔۔۔ ہم سب بہت Dedicatedہیں۔۔۔ "

"انشاء اللہ۔۔۔ ” نائلہ دعا دیتی۔

انشاء اللہ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھی نائلہ نے دھیرے سے گردن اس کی طرف موڑی۔

آج وہ ضرور مجھ سے بات کرے گا۔ میرا شکریہ ادا کرے گا۔میری گود میں سر رکھ کر مجھے منائے گا۔۔۔ معافی مانگے کا مجھ سے۔

نائلہ سوچتی رہی۔۔۔ وہ اپنی دھن میں گاتا بجاتا رہا۔

نائلہ کی منزل قریب آ رہی تھی۔وہ اس کے سرپر ہاتھ پھیر کر اسے کامیابی کی دعائیں دینا چاہتی تھی۔ بہت دنوں سے اس نے اس کا سر نہیں چھوا تھا۔مگر وہ بالکل بے خبر گا رہا تھا۔

یہ مجھ سے ایسے نہیں روٹھ سکتا۔ اس چہرے میں تو میں نے آرٹ فائلز کے سبھی چہرے جوڑ رکھے تھے۔اس کے معصوم ہاتھوں کی ماہرانہ جنبش سے چھیڑے جانے والے نغموں کو سنتے ہوئے میں پیلے رنگ کے ٹین کے نازک سے مستطیل ڈبے کے سب رنگ اور ان رنگوں سے مزید بننے والے ان گنت رنگ دیکھ لیتی تھی۔

نائلہ نے نہایت اُداسی سے سوچا۔

میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہو گا۔۔۔ مگر اس میں بسے فنکار کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دیا۔

اس کے اس Concertکی منظوری دینے کے لیے جانے کیسے کیسے جواب دہ ہونا ہو گا مجھے۔۔۔

وہ ایک آہ بھرکر رہ گئی۔اس کی آنکھیں آخرکار بھیگ ہی گئیں۔کون سمجھے گا مجھے۔۔۔ آخر۔۔۔ اس کے بوجھل دل میں خیال ابھرا۔۔۔

گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔اس نے تھکے ہارے سے قدم گاڑی سے باہر رکھے ہی تھے کہ راحیل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

"یہ سب۔۔۔ آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے مام۔۔۔ مجھے کامیابی کی دعا دیجئے۔۔۔ My sweet mom۔۔۔ آپ کو جانے کیا جھیلنا پڑے گا نا۔۔۔ ؟ مگر میں آپ کے ساتھ ہوں مما۔۔۔ آپ گھبرائیے گا نہیں۔” اس کی آواز بھرا گئی۔

"صرف آپ۔۔۔ آپ مجھ سے ناراض مت رہیے گا کبھی۔۔۔ میں غلط نہیں ہوں نا مما۔۔۔ ؟”

تم کبھی غلط نہیں تھے، میرے فنکار۔۔۔ نائلہ اسے دیکھتی رہی۔۔۔ پھر سر ہلکے سے نفی میں ہلا کر اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور مسکراتی ہوئی باہر آ گئی۔۔۔

٭٭٭

 

ایسے مانوس صیّاد سے۔۔۔

"کبھی کبھی آپ کو ایسا تو محسوس نہیں ہوتا کہ اگر آپ نے گھر خالی کر دیا ہوتا تو مشرا جی کے بچوّں کا گھر شاید نہ ٹوٹتا۔”

شینا نے سعید صاحب کے چہرے کی طرف بغور دیکھا۔ اُسے یقین تھا کہ اس بات کے جواب میں سعید صاحب کے ضمیر کا سارا بوجھ اُس کے سامنے عیاں ہو جائے گا۔

سعید صاحب نے میز پر سے پانی کا گلاس اُٹھایا اور ایک گھونٹ بھر کر واپس رکھ دیا پھر آہستہ سے روٹی کا نوالا توڑ کر ہاتھ سالن کی کٹوری کے کنارے کے قریب روک کر شینا کی رکابی کو دیکھنے لگے۔

"آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔۔۔ آپ باتوں میں اُلجھ گئیں یا پھر تکلّف۔۔۔ "

وہ نرمی سے مسکرائے۔

کوئی مہینہ بھر پہلے شینا کی تقرری اس یونیورسٹی میں فلسفے کی ٹیچر کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ یہ شہر اُس کے گھر سے بہت دور تھا۔ اور یونیورسٹی کی جانب سے رہائش الاٹ ہونے میں ابھی دیر تھی۔ کرائے کی رہائش کا انتظام کرنا اور پھر تنہا رہنا۔۔۔ وہ سوچ میں پڑ جاتی۔ کچھ دن سے وہ یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری ہوئی تھی مگر وہاں بھی آخر کب تک۔۔۔ اس سے پہلے کہ اُس کی پریشانی بڑھ جاتی، سعید صاحب نے اُسے انتظام ہو جانے تک اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دی۔ اُن کے پاس دو خوابگاہوں والا فلیٹ تھا۔ بیٹی سسرال چلی گئی تھی اور اُس کا کمرہ خالی پڑا تھا۔

شینا سعید صاحب کی نیک طینت شخصیت سے پہلے ہی متاثر تھی۔ اُن کی بیگم سے ملاقات ہونے کے بعد شینا نے بخوشی اُن کی دعوت قبول کر لی۔

سعید صاحب ہر ایک کی مصیبت میں کام آنے کے لیے مشہور تھے۔ جہاں اُن کا گھر تھا وہ جگہ بہت خوبصورت تھی۔ کشادہ چوکور پارک کے تین اطراف تعمیر کیے گئے تقریباً ایک جیسی ساخت کے مکانات۔ یعنی سامنے کی طرف مکانوں کا سلسلہ نہ تھا اور ایک کشادہ سی سڑک تھی۔ جس سے بصارت کو بھی کھلے پن کا احساس ہوتا تھا۔ کہ سڑک پر آمد و رفت محض اتنی ہی تھی جتنے لوگ ادھر اُدھر رہا کرتے تھے۔

درختوں سے گھرا ہریالی سے بھرا علاقہ۔ دن بھر پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی معلوم ہوتی۔ ماحول پُرسکون رہتا۔

سعید صاحب کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا اور اوپر بڑی سی چھت تھی جہاں سے صرف کھلا آسمان نظر آتا۔

نچلے فلیٹ میں مشرا جی رہتے تھے، اپنی ضعیف اہلیہ کے ساتھ۔

ایک دن جب شینا یونیورسٹی سے لوٹی تو دونوں میاں بیوی باغیچے میں بیٹھے تھے۔ بانس کی پرانی کرسیوں کے سامنے بانس کی ہی گول میز پڑی تھی جس کی اوپری سطح پر کانچ لگا ہوا تھا۔ میز پر چائے کے برتن رکھے تھے۔

"آداب عرض ہے بِٹیا۔”شینا اُن کی موجودگی محسوس کر کے دائیں بائیں نہ دیکھ کر راہداری پار کر رہی تھی کہ مشرا جی نے پکار کر کہا تھا۔

"جی،آداب۔”وہ دونو ں کی طرف باری باری دیکھ کر مسکرائی۔

"آؤ چائے پیو ہمارے ساتھ۔” مسز مشرا نے سر اثبات میں ہلا کر کہا۔

"میں کپ لاتی ہوں۔”وہ کرسی سے اُٹھنے لگیں۔

"نہیں نہیں۔آپ تشریف رکھئے۔۔۔ میں لاتی ہوں۔”شینا نے خوشدلی سے کہا اور گھر کے اندر کی طرف لپکی۔ اندازہ تھا کہ باورچی خانہ کہاں ہے کیونکہ دونوں منزلوں کی ساخت یکساں معلوم ہوتی تھی۔ وہ پیالی لے کر باہر آ گئی اور کرسی کھینچ کر اُن کے سامنے بیٹھ گئی۔

"سعید صاحب کی رشتہ دار ہو؟”مسز مشرا نے پیالی میں چائے اُنڈیلتے ہوئے پوچھا۔

"جی بس۔۔۔ ایک اپنائیت سی ہے ان لوگوں کے ساتھ۔”

شینا نے گردن کو ایک طرف خم دے کر نرم سے لہجے میں کہا۔

"سعید صاحب کے ساتھ ہی میں بھی یونیورسٹی میں ہوں۔”

شینا نے اپنی پیالی میں ایک چمچ چینی ڈال دی اور مسز مشرا نے اُس میں ذرا سا دودھ انڈیل دیا۔

"تمہارے آنے سے رونق سی آ گئی ہے۔” انھوں نے پر خلوص نظروں سے شینا کو دیکھا اور پیالی ہاتھ میں لے کر دونوں ہاتھوں سے شینا کو پکڑا دی۔ شینا نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔ اس نے جلدی سے پرچ پیالی تھام لیے۔

"میں بھی آپ لوگوں سے ملنا چاہ رہی تھی مگر۔۔۔ تعارف نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ذرا سی جھجک۔۔۔ "

"محبت میں تعارف کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ بس آ جاتیں۔۔۔ ” مسٹر مشرا بولے۔

زینہ اُترنے کی آواز آنے پر شینا نے مُڑ کر دیکھا۔ بیگم سعید تھیں۔

"میں اپنے لیے پیالی لینے جا رہی ہوں۔۔۔ سمجھ گئی تھی کہ انکل آنٹی نے روکا ہو گا تمھیں لان میں۔”وہ مسکراتی ہوئی بولیں اور باورچی خانے کی طرف مُڑیں۔

"صبا۔۔۔ اب دو لے آنا۔۔۔ تمہارے میاں بھی آ رہے ہوں گے۔”مشرا جی کی بیگم نے آواز لگائی۔

"اکثر شاموں کو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ ہم سب یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔۔۔ ” بیگم صبا سعید نے ایک کرسی میز کی جانب کھسکاتے ہوئے کہا۔

"تیس ۳۰ برس کی شناسائی ہے۔۔۔ کوئی مذاق نہیں۔ عادت سی ہو گئی ہے ان لوگوں کی۔” مشرا جی کی آواز میں کچھ سنجیدگی گھُل گئی۔

"اور گھر میں کون کون۔۔۔ "شینا نے پوچھنا چاہا تو بیگم سعید جلدی سے بولیں۔

"بس یہ ہی دو ہیں اور ہم۔۔۔ کافی نہیں ہیں۔۔۔ ؟” انھوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا مگر بزرگ میاں بیوی کے چہروں پر سنجیدگی سی اُتر آئی۔ لمحہ بھر بعد مسز مشرا نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پیالی میز پر رکھ دی۔

"ایک بیٹا ہے ہمارا۔۔۔ امریکہ میں رہتا ہے۔۔۔ ” اُن کے چہرے پر ہلکی سی چمک نظر آ رہی تھی۔

"دو سال پہلے آیا تھا۔۔۔ شاید اس سال بھی آئے گا۔۔۔ تمھیں ملوائیں گے اُس سے۔”مشرا جی نے بے تأثر چہرہ لیے کہا اور چائے پینے لگے۔ مسز مشرا نے ایک بسکٹ کے دوچار ٹکڑے کر کے دیوار کی طرف اچھال دیئے۔ادھر ایک چھوٹا سا درخت تھا۔جو دیوار کی اونچائی سے کچھ ہی اونچا تھا۔اُس پر دو گلکچیاں بیٹھی تھیں۔ بسکٹ دیکھ کر ایک گلکچیا چہکی۔ اونچی باریک آواز میں۔۔۔ اور سب کو ہنسی آ گئی۔ دوسری پھُر سے نیچے اُڑ آئی، کچھ دیر بعد پہلی بھی آ گئی۔ دونوں بسکٹ پر زور آزمائی کرنے لگیں۔

"پچھلے کئی سال سے یہ مینائیں ادھر رہتی ہیں۔”صبا بیگم بولیں۔

"ہاں تعجب ہے۔۔۔ اور ہمیشہ دوہی نظر آتی ہیں۔”مسز مشرا نے کہا۔

"حالانکہ ان کا گھونسلہ بھی ہے۔۔۔ اُدھر۔۔۔ اوپر اُس جگہ وہ جہاں سے ایک اینٹ نکلی ہے نا۔۔۔ ” صبا بیگم نے کہا۔

"جب ہم گھر بنا رہے تھے تو۔۔۔ کوئی۔۔۔ ۳۲ برس پہلے۔۔۔ اوپر کا لکڑی کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا۔۔۔ آس پاس۔۔۔ مزدوروں کے کام کرنے کے لیے۔ اسی دوران کہیں ان میناؤں نے یہاں گھونسلہ بنا دیا تھا۔ جب مکان مکمل ہو رہا تھا تو بانس کا وہ ڈھانچہ کھولنا پڑا تھا۔۔۔ دیکھا تو لکڑی اور دیوار کے درمیان۔۔۔ ایک گھونسلہ ہے۔۔۔ ریکھا کی نظر پڑی تھی۔۔۔ ورنہ مزدوروں کو تو بس اُکھیڑنے کی جلدی تھی۔” مشرا جی نے بیوی کی طرف دیکھا اور گھونسلے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔

"میں نے پھر وہاں سے ایک اینٹ نکلوا کر بڑی احتیاط سے وہ گھونسلہ خالی جگہ میں منتقل کر دیا۔” مسز مشرا بولیں۔

"دو انڈے بھی تھے نا اُس میں۔۔۔ آپ نے بتایا تھا۔” صبا بیگم نے کہا۔

"ہاں تھے تو۔۔۔ جانے کیا ہوا۔۔۔ یا تو بچےّ بڑے ہو کر یہیں رہتے ہیں اور ماں باپ اڑ جاتے ہیں۔۔۔ یا پھر بچےّ ہی کہیں اور اُڑ جاتے ہیں۔۔۔

بچےّ ہی کہیں اُڑ جاتے ہوں گے۔” انھوں نے ایک دبی دبی سی گہری سانس لی۔نظر تو بس یہ دو ہی مینائیں آتی ہیں۔۔۔ ہمیشہ۔”

مشرا جی اور ریکھا مشرا کے ہونٹوں پر بے معنی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔

"کتنے اُداس ہوتے ہیں ماں باپ۔”

صبا بیگم اور شینا جب اوپر آ گئیں تو شینا نے کہا۔

"بچےّ جانے کیوں چھوڑ جاتے ہیں اس طرح۔۔۔ والدین کو۔” شینا کے لہجے میں دُکھ تھا۔

"نہیں۔۔۔ دراصل ان کا لڑکا بہت فرمانبردار تھا۔”صبا بیگم باورچی خانے کی طرف بڑھیں۔ شینا اُن کے پیچھے ہولی۔

"تو پھر کیا ہوا۔۔۔ اتنی دور۔۔۔ بوڑھے ماں باپ”۔شینا نے پوچھا۔

صبا بیگم نے باورچی خانے کی کھڑکی کھول دی جو گیس کے چولہے کی دوسری طرف تھی۔ وہاں پیڑوں کی اونچی شاخیں نظر آتی تھیں۔۔۔ قریب ایک نیم کا درخت بھی تھا جس کے گھنے پتوں میں چڑیاں ادھر ادھر اُڑتی پھر رہی تھیں۔

"بہت خوبصورتی سے سجایا ہے آپ نے کچن۔”شینا نے کہا۔

"تیس سال سے Maintainکر رہی ہوں۔۔۔ اس گھر کو۔۔۔ یہ طاقچے تو تھے ہی نہیں۔۔۔ "صبا بیگم مسکرائیں۔

"اب تو گھر ایسا سنورا نہیں ہوتا۔۔۔ نغمہ ہوتی تھی تو گھر دلہن سا لگا کرتا تھا۔۔۔ اب سسرال میں۔۔۔ "

صبا بیگم نے دھیرے سے کہا۔

"اچھا بھابی۔۔۔ مشرا جی کے بیٹے نے شادی بھی بدیس میں ہی کی ہے؟”شینا نے پوچھا۔

"وہی تو دُکھ کی با ت ہے۔۔۔ میں نے اسی لیے نیچے لان میں موضوع بدل دیا تھا۔۔۔ ورنہ۔”

"کیوں ؟”

"وہ اس لیے کہ اُس کی بیوی اب اُس کے ساتھ نہیں رہتی۔۔۔ مگر شادی اُس نے اپنی مرضی سے نہیں کی تھی۔ نمرتا، مشرا جی کے دوست کی بیٹی تھی۔ برسوں سے آنا جانا تھا۔ روہت اور نمرتا میں دوستی بھی تھی۔ دونوں محنتی اور Professionalتھے۔ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔ گھر والوں نے شادی کر دی۔” صبا بیگم نے ریفریجیریٹر میں سے سبزی کی تھیلی نکالتے ہوئے کہا۔ شینا پرات میں آٹا نکالنے لگی۔

"پھر بھابی؟”

"دو ڈھائی برس تو خوب جمی دونوں میں۔۔۔ پھر جانے کیا ہوا۔۔۔ نمرتا چُپ چُپ سی رہنے لگی۔ کبھی کبھی اُن کے کمرے سے اُن دونوں کی بحث کرنے کی اونچی اونچی آوازیں بھی آتیں۔۔۔ اُن کا روم بالکل ہمارے بیڈروم کے نیچے والا تھا۔۔۔ "

"جی۔۔۔ پھر کیا ہوا؟”

"خدا جانے کیا بات ہوئی نمرتا اکثر گھر میں نظر آنے لگی جبکہ دونوں نے ایک مشترکہ دفتر کھول رکھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دفتر میں کچھ دوسرے لوگوں سے نمرتا کو اختلاف تھا۔۔۔ روہت اصل میں کچھ ضدّی قسم کا لڑکا واقع ہوا تھا۔۔۔ اُن دنوں نمرتا اُمید سے تھی۔ گھر میں تناؤ رہنے لگا تو۔۔۔ تو مشرا جی اور مسز مشرا اور نمرتا کے ماں باپ نے مشورہ کیا کہ دونوں کے دفتر الگ الگ ہو جائیں تو تناؤ کم ہو سکتا ہے۔پہلے تو روہت اس بات پر راضی ہی نہیں ہوا۔ مگر بعد میں با دلِ نخواستہ مان گیا۔ طے یہ ہوا کہ نمرتا کی Deliveryکے بعد Basementمیں ہی اُس کا دفتر کھولا جائے گا۔۔۔ پھر۔۔۔ کچھ ہفتہ دس دن سکون رہا مگر پھر تناؤ بڑھنے لگا دونوں کے والدین کے دہائیوں پرانے مراسم تھے۔ حیران تھے کہ کیا ہو گیا۔۔۔ "

"شاید وہی Ego Clash”شینا نے کہا۔

"ہاں۔۔۔ ہو سکتا ہے۔۔۔ مردوں کی انا ہوتی بھی تو اُن کے قد سے بڑی ہے۔۔۔ اُنہیں ذہین بیوی کی موجودگی میں بلاوجہ اپنی حیثیت خطرے میں نظر آتی ہے۔۔۔ حالانکہ عورت کا اس طرف دھیان جاہی نہیں سکتا۔ وہ تو ہر حال میں اپنے شوہر کو اپنے سے بہتر دیکھنا چاہتی ہے۔”

"مگر بھابی۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ بیوی ہی اپنی حیثیت منوانے پر تُل جائے۔”

"ہاں۔ہوتا ہے۔۔۔ مگر اُس وقت جب مرد اُس کی حیثیت کو للکارے۔”

"اچھا پھر کیا ہوا؟”

"بس دونوں کے والدین کسی طرح اس شادی کو بنائے رکھنا چاہتے تھے۔۔۔ وہ کسی طرح انھیں بچےّ کی پیدائش تک ساتھ رکھنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے کہ بعد میں بچہ خود دونوں کو قریب لے آتا۔”

"تو ایسا نہیں ہوا؟”

"نہیں۔۔۔ دونوں کے کمرے سے روز رات کو جھگڑنے کی آوازیں آتیں۔۔۔ نمرتا نے کہا کہ وہ ّبچہ ہونے تک الگ کمرے میں رہے گی۔۔۔ مگر کمرہ تو تھا ہی نہیں۔۔۔ ” صبا بیگم نے ایک لمبی سانس لی۔

"ہم بھی بہت سمجھاتے کہ نبھ جائے مگر۔۔۔ خیر۔۔۔ ہم سے کہا گیا کہ گھر خالی کر دیں۔۔۔ سعید صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔۔۔ ہم لوگ پورے ایک مہینے بعد گھر خالی کرنے والے تھے کہ۔۔۔ اچانک ایک دن ہمارے نام عدالت کا سمن آ گیا۔۔۔ "صبا بیگم نے اتنا ہی کہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ سعید صاحب لدے پھندے آ رہے تھے۔

"موسم کے پہلے آم ہیں۔”سعید صاحب نے سامان بیوی کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا۔

صبا بیگم انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں :

"ہاں بھائی۔۔۔ دے آیا ہوں ایک تھیلی نیچے بھی۔”

وہ مسکرائے۔

شینا کا تجسّس کچھ اور بڑھ گیا تھا۔وہ باقی حالات جانے کو بیقرار ہو گئی۔

"پھر کیا ہوا بھابی؟”شینا صبا بیگم کے ہاتھ سے سامان لے کر الماریوں اور ریفریجیریٹر میں رکھنے لگی۔

"پھر۔۔۔ ہم حیران کہ یہ کیسا سمن ہے۔”صبا بیگم بولیں تو سعید صاحب چونکے۔

"اچھا۔۔۔ وہ بات۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔۔ اُنہوں نے خوامخواہ سمن بھجوا دیا۔ میں نے وعدہ تو کیا ہی تھا۔۔۔ میں کبھی کوٹ کچہری کے چکر میں پڑا نہ تھا۔۔۔ حیرت میں پڑ گیا۔۔۔ اصل میں یہ سب روہت کا کیا دھرا تھا۔۔۔ وہ عجیب سرپھرا تھا۔۔۔ مجھے بھی ّغصہ آ گیا۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔۔ اب جو فیصلہ کوٹ کرے گا۔۔۔ وہی آخری ہو گا۔۔۔ شروع ہو گئیں تاریخیں۔۔۔ روہت گاڑی ڈرائیو کرتا۔۔۔ مشراجی اور مسز مشرا کچہری جانے سے پہلے مجھے بھی آواز لگاتے۔۔۔ میں بھی اُسی گاڑی میں سوار۔۔۔ ساتھ ساتھ کچہری پہنچتے۔۔۔ اور وہاں الگ الگ کٹہروں میں کھڑے ہو جاتے۔”

سعید صاحب نے ایک گہری سانس لی۔بیگم نے پانی کا گلاس پکڑایا۔۔۔ سب لوگ چلتے چلتے نشست گاہ میں آ گئے۔

"رنج ہوتا ہے یاد کر کے۔”وہ سر جھکا کر بولے اور صوفے پر بیٹھ گئے۔

"جج نے بیان لینا شروع کیا۔مشرا جی سے پوچھا کہ کتنے افراد ہیں گھر میں تو پتہ چلا کہ چار۔ پوچھا کہ پھر کس لیے اوپری کی منزل خالی کروا رہے ہیں۔ جو لوگ پچیس سال سے رہ رہے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔کس کے لیے چاہتے ہیں کمرے۔۔۔ تو مشرا جی بولے کہ بہو کے لیے۔۔۔ اب جج نے کہا کہ کیا بیٹا بہو دو الگ الگ کمروں میں سوئیں گے تو مشرا جی خاموش ہو گئے۔۔۔ لوگ ہنس پڑے۔۔۔ جج نے فیصلہ ہمارے حق میں سُنا دیا۔۔۔ "

سعید صاحب کچھ مسکرا کر خاموش ہو گئے۔

"کہ آپ یہیں رہیں گے۔۔۔ "شینا نے کہا۔

"ہاں۔۔۔ اور کیا۔۔۔ "

"اور کرایہ؟”

"تیس ۳۰ سال پہلے سوا سو دیتے تھے۔۔۔ اب تین سو روپئے دیتے ہیں۔” صبا بیگم نے کہا تو دونوں میاں بیوی مسکرا دیئے۔

شام ڈھل چکی تھی۔ ایک بلبل آ کر کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھ کر چہکنے لگی۔ جالی لگی کھڑکی میں سے اُسے اندر بیٹھے ہوئے انسان نظر نہیں آ رہے تھے۔ اُسی وقت مغرب کی اذان ہوئی تو سعید صاحب اُٹھ گئے۔

"اچھا بھئی۔۔۔ ذرا نماز پڑھ لیتے ہیں۔”وہ جاتے ہوئے بولے۔

شینا جیسے کہ سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔رات کے کھانے کے وقت شینا نے بات چھیڑی۔

"پھر۔۔۔ نمرتا کا کیا ہوا تھا؟” اُس نے صبا بیگم کی طرف دیکھا۔

"نمرتا اُن ہی دنوں اپنے والدین کے ہاں چلی گئی تھیں۔”سعید صاحب نے کہا۔

"پھر ایک دن اُن لوگوں کو پتہ چلا کہ اُس نے Abortionکروا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد روہت کو امریکہ سے Offerآئی۔۔۔ اصل میں وہ اُس کے لیے کافی دیر سے کوشش کر رہا تھا۔۔۔ وہ چلا گیا۔”صبا بیگم نے کہا۔

"اور یوں سارا گھر بکھر گیا۔۔۔ "شینا جیسے کہ اپنے آپ سے بولی۔

کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔شینا نے سر اُٹھا کر سعید صاحب کو دیکھا۔

"سر۔۔۔ آپ کو کبھی دُکھ ہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہوا؟”وہ آہستہ سے بولی۔

"ہاں بھئی۔۔۔ اگر ادھر نہ رہ رہے ہوتے تو کم از کم یہ اپنا گھر بنانے کا خیال تو کرتے۔۔۔ نغمہ اپنے گھر کی ہو گئی۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس شہر میں کیا کریں گے۔۔۔ واپس گاؤں جائیں گے۔ گھر،زمین وغیرہ سنبھالیں گے۔” سعید صاحب کی جگہ صبا بیگم بولیں۔

"تو۔۔۔ پھر یہاں کیا پتہ کیا ہو جائے۔۔۔ جب قبضہ ہی نہ رہے گا۔۔۔ کل کو نغمہ کے بچےّ آئیں گے۔۔۔ تو۔۔۔ شہر میں کوئی ٹھکانہ تو ہو۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔ وہ اُمید سے ہے۔”

سعید صاحب سر جھکائے آہستہ آہستہ کھانا کھاتے رہے۔

"ہاں۔۔۔ صبا کو ا س بات کا بے حد غصہ ہے کہ میں نے اپنا گھر نہیں بنایا۔۔۔ بھائی اب ایسا علاقہ کہاں ملتا ا س بھیڑ بھاڑ میں۔۔۔ یہاں کی عادت ہو گئی تھی۔۔۔ کوئی جگہ جچی ہی نہیں۔۔۔ پھر۔۔۔ ” انھوں نے فرش کی طرف دائیں بائیں دیکھ کر کہا پھر کچھ دیر خاموش ہو گئے۔ جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیلا۔

"کبھی آپ کو۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ۔۔۔ یہ سب غلط ہوا ہے۔۔۔ ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔” شینا نے آہستہ سے پوچھا۔ اُسے یقین تھا کہ ساری یونیورسٹی کے دُکھ درد میں سے اپنا حصہ مانگنے والے سعید صاحب ا س بات پر رنجیدہ تو ضرور ہوں گے کہ وہ برسوں کسی دوسرے کے گھر کے خوامخواہ مالک بنے رہے۔۔۔ اور حالات۔۔۔ ایسے ہو گئے۔

"ہاں۔۔۔ کل کو نغمہ کے بچےّ اگر نانا نانی کے ساتھ کبھی شہر میں رہنا چاہیں گے۔۔۔ تو۔۔۔ کیا کروں گا۔۔۔ اس مکان نے مجھے مستقبل کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیا۔۔۔ "

وہ آہستہ سے کچھ کہتے کہتے جیسے کہ رُک گئے تھے۔ شینا سمجھ گئی کہ واقعی انھیں ان حالات کا پچھتاوا ہے۔۔ اگر وہ براہِ راست ان سے سوال کرے گی تو یقیناً وہی بات اُن کی زبان پر آئے گی جو شینا ان سے سننا چاہتی تھی۔ اُس نے پہلے صبا بیگم اور پھر سعید صاحب کی طرف دیکھا کہ قانون ایک طرف مگر خود ان کا ضمیر تو کچھ اور کہتا ہو گا۔

"سر اگر آپ لوگ اُس وقت گھر چھوڑ دیتے۔۔۔ تو کچھ عرصہ الگ کمرے میں بحث اور جھگڑے سے دور رہ کر شاید نمرتا کا ذہنی تناؤ کم ہو جاتا۔” اُس نے صبا بیگم کی طرف دیکھا۔

"ہو سکتا ہے وہ مائیکے نہ جاتی۔۔۔ اپنے بچےّ کو جنم سے پہلے۔۔۔ اور پھر دونوں میاں بیوی آخر کار بچھڑ ہی نہ جاتے۔۔۔ یا پھر۔۔۔ یا پھر روہت ہی امریکہ نہ جاتا۔۔۔ اور انکل، آنٹی۔۔۔ یوں تنہا۔۔۔ "

شینا آخری جملہ کہتے ہوئے اُداس سی نظر آنے لگی۔سعید صاحب نے آہستہ سے نوالا توڑا اور اُسے سالن کی کٹوری کے کنارے سے ٹکا کر جانے کہاں دیکھنے لگے۔۔۔

"ہاں۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ مگر اکثر میرا ضمیر مجھے اس بات کے لیے کچوکتا ہے کہ میں اپنی بیٹی یا اُس کے ہونے والے ّبچوں کے لیے۔۔۔ ایک گھر تک نہ بنوا سکا۔۔۔ ” وہ اُداس ہو کر رُک رُک کر بولے۔۔۔ اور شینا حیرت زدہ سی اُنہیں دیکھتی رہ گئی۔

٭٭٭

 

رنگ

آج اُس نے پھر ویسا ہی خواب دیکھا۔وہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔ کیوں۔۔۔ ؟۔۔۔ کیوں دیکھتی ہوں میں یہ خواب۔ کہتے ہیں خواب میں انسان اپنی ادھوری خواہشات کو تکمیل کے عمل تک پہنچاتا ہے۔۔۔ میری تو کوئی خواہش ادھوری نہیں۔۔۔ کوئی کمی نہیں زندگی میں۔ ایک مکمل انسان ہوں میں۔۔۔ پھر؟

وہ کسی ہرے بھرے راستے سے گزر رہی تھی۔ دونوں طرف سرسبز پیڑ تھے۔ اور بڑی بڑی شاخیں راستے پر جھکی آ رہی تھیں۔ وہ اُن شاخوں کو ہاتھ کی ہلکی سی جنبش سے ذرا سا پرے کر دیتی۔ کبھی گہری سانس لے کر اُن کی خوشبو سے محظوظ ہو کر مسکرا دیتی۔ کتنی ہی دیر تک وہ اس خوبصورت راستے پر چلتی رہی۔ نرم نرم گھاس اس کے پیروں کو گدگداتی رہی۔ہر آٹھ دس قدم کے فاصلے پر کوئی پھولوں سے لدی کیاری اُس کا استقبال کرتی۔۔۔ وہ پھولوں کو انگلیوں کے پوروں سے چھوتی اور قہقہہ لگا کر ہنستی ہوئی آگے بڑھ جاتی۔

تھوڑی دور چل کر وہ اچانک رُک گئی اور خوشی سے چیخ پڑی۔ گھنے پتوں اور بے شمار پھولوں سے لدی ایک ڈال اس کے شانے کے برابر جھکی ہوئی تھی اور اُس کے آخری سرے کے بالکل قریب سنہرے رنگ کے نرم نرم تنکوں کا ایک گھونسلہ بنا ہوا تھا اور اس میں ایک نوزائدہ انسانی ّبچہ لیٹا ہوا تھا۔ اُس کا لباس کسی خوش رنگ پرندے کی طرح تھے۔ ہرا سرخ،نیلا، اُودا، نارنجی سبز، روپہلا اور کئی اور رنگوں کا جن کے نام وہ نہیں جانتی تھی۔ وہ ّبچہ اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ بھی مسکرائی اور اسے دیکھتی رہی۔ ّبچہ اسے دیکھ کر ہمکنے لگا۔ اسے اعتبار نہ ہو رہا تھا کہ ّبچہ اُسی کے لیے ہمک رہا ہے۔ وہ دائیں بائیں دیکھنے لگی کہ کیا یہ ّبچہ واقعی اُس کی گود میں آنا چاہتا ہے یا کسی اور کے لیے مچل رہا ہے۔ کئی لمحے اسی اُدھیڑبن میں گزر گئے۔ اُس کے علاوہ وہاں اور کوئی نہ تھا۔ پھر جب بچےّ کی خود سپردگی کے انداز سے اُسے یقین ہو گیا کہ ّبچہ اُسی کے پاس آنا چاہتا ہے تو فرطِ مسرّت سے اس کی آنکھیں بھر آئیں اور ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اُس نے رنگ برنگی پوشاک والے مسکراتے ہوئے بچےّ کو گود میں لے لیا اور سینے سے لگا کر کئی منٹ تک ہچکیاں لے لے کر روتی رہی۔ رونا ذرا تھما تو اُس نے دائیں بائیں دیکھا۔پرندے درختوں کی ڈالیوں پر بیٹھے نہایت سریلے نغمے گا رہے تھے۔ ہوا میں دل نواز سا ترنم تھا۔ نوزائیدہ بچّہ اُس کے کندھے سے لگا تھا اور کبھی کبھی سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھ کر مسکرا بھی دیتا تھا۔

پھر جانے کب وہ بچےّ کو لیے ہوئے گھر پہنچ گئی۔ آج اس کی خوابگاہ بہت پہلے کی طرح سجی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ جب وہ اپنے پسندیدہ رنگوں کے پردوں اور چادروں سے اُسے سجایا کرتی تھی۔ اُن دنوں اُس کے ہاں پہلے بچےّ نے جنم لیا تھا۔ آج خوابگاہ سے اُس کی پسندیدہ مصنوعی خوشبو کی مہک بھی آ رہی تھی۔ ریشمی پردے ہوا میں سرسرا کر اُس کا استقبال کر رہے تھے۔ پلنگ کے قریب روپہلی دھات سے بنا چھوٹا سا پالنا، جالی کی جھالر والے ننھے سے بستر سے مزئیّن تھا۔ اُس کے ساتھ گھنگھروؤں والی زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ گھونسلے والا ّبچہ پالنے میں لیٹا ہمک ہمک کر مسکرا رہا تھا۔

اس بچّے نے اس وقت وہ لباس پہن رکھا تھا جو اُس نے اپنے پہلے بچےّ کی اُمید کے دنوں میں بُنا تھا۔ یہ لباس اُس پر کتنا زیب دیا کرتا تھا۔ اُس کے بعد اُس کی بیٹی نے بھی کئی دفع یہ کپڑے پہنے تھے۔ طوطے کے پروں جیسے ہرے رنگ کے اون سے بُنا گیا سویٹر، موزے اور ٹوپی۔

وہ اپنے کمرے میں کھڑی پالنے میں لیٹے بچےّ کو ایک ٹک دیکھ رہی ہے۔ وہ اُس کے پاس آنے کو بیقراری سے پیر مار رہا ہے۔ ننھی ننھی گول گول باہیں اُس کی طرف بڑھا بڑھا کر مسکرا رہا ہے۔ نوزائیدہ بچےّ اس طرح دیکھ دیکھ کر مسکراتے نہیں، جس طرح وہ آنکھوں میں محبت کے سمندر لیے اُس کی گود میں جانے کے لیے بیقرار ہو رہا ہے۔ اُس نے پھر دائیں بائیں دیکھا۔۔۔ کیا یہ ّبچہ میرے لیے ہی۔۔۔ مسکرا رہا ہے،میرے لیے بے چین ہے۔ اُس کے سینے میں ممتا کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ اس نے اپنے سینے سے آنچل کھینچ کر پلنگ پر پھینک دیا۔ اُس کا گریباں بھیگ بھیگ گیا تھا۔ نمی رِس رِس کر قمیص کے دامن تک جانے لگی تو اُس نے بیقرار ہو کر دونوں باہیں پالنے کی طرف بڑھا دیں۔ اُس کے ہاتھ بچےّ کے قریب پہنچنے ہی والے تھے کہ کسی اونچی آواز سے اُس کا دل اُس کے سینے میں اچھل کر دھڑکنے لگا۔ اُس نے گھبراہٹ میں آنکھیں کھول دیں۔

اُس کا بیٹا دروازے میں کھڑا تھا۔ وہ آج اتوار ہونے کے باوجود نہا بھی چکا تھا اور باہر جانے کو تیار نظر آ رہا تھا۔

"آپ ابھی تک سو رہی ہیں مماں۔”وہ بُرا سا منھ بنا کر بولا۔

"ہمیں سکول کے لیے جگاتے وقت روز کہتی ہیں کہ دیر سے اٹھتے ہو۔ مجھے دوستوں کے ساتھ گھومنے جانا تھا اور اب تک ڈرائیور نہیں آیا۔”

"مما نے اُسے چھٹی دے دی ہو گی بھیّا۔”

اُس کی بیٹی اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔شب خوابی کے چغہ نما لمبے سے لباس میں وہ ایک دم بڑی بڑی سی لگ رہی تھی۔

"پاپا جب شہر سے باہر جاتے ہیں تو یہ ایسے عجیب عجیب حکم صادر کیا کرتی ہیں۔”

اُس نے ماں کی طرف ایک نظر پھینک کر منھ پھیر کر کہا۔

"میں حالانکہ ڈرائیو کر سکتا ہوں مگر Under Ageہوں ورنہ آپ سے کون پوچھتا۔” بیٹے کے ماتھے پر کئی بل اُبھر آئے تھے۔

وہ مسہری پر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔اور سینے پر ہاتھ دھر کر اپنے بے طرح دھڑکتے دل کی دھڑکن اعتدال میں لانے کے لیے لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ پھر سر ذرا سا نیچے کو خم کر کے وہ بائیں جانب کھڑکی کی طرف مڑی۔ کھڑکی اور مسہری کے درمیان چھوٹی سی تپائی پر ایک نہایت پرانا ٹیلیفون رکھا ہوا تھا۔

یہ ٹیلیفون تو لابی میں ہوا کرتا تھا۔ مہینہ بھر پہلے خریدا ہوا اُس کے پسندیدہ رنگ کا ٹیلیفون غائب تھا۔

"میں نے آپ کا فون اپنے کمرے میں Shiftکر لیا ہے اور اپنا لابی میں لگا لیا ہے۔ یہ یہاں لے آیا ہوں۔ ہر آنے والے کی نظر لابی میں پڑتی ہے۔ پھر یہاں تو کوئی آتا نہیں۔” بیٹے نے ماں کی نظروں کو دیکھ کر کہا۔

وہ چپ چاپ اپنے بچوّں کو دیکھتی رہی۔پھر سرکے پیچھے پڑے سرہانے درست کر کے نیم دراز ہو گئی۔ اس نے منھ دیوار کی طرف موڑ لیا اور آنکھیں موند لیں۔

"اور ہاں آج ہم گھر re setکریں گے۔”اس کی بیٹی کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

"آپ نے یہ پرانے زمانے کا پالنا ابھی تک کمرے میں رکھا ہے۔ ہم تو بڑے ہو گئے ہیں۔ اس میں اب ہم Fitنہیں ہوں گے۔” بیٹا بولا تو دونوں بہن بھائی قہقہہ لگا کر ہنسے۔ "اسے چھت پر رکھوا دیجئے۔ کسی کو ضرورت ہو تو دے دیجئے گا۔” بیٹی کہہ رہی تھی۔

"نہیں ” اُس نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور چیخ کر کہا۔پھر پالنے پر ہاتھ دھر کر دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ بچوّں نے اسے کچھ حیرت سے دیکھا۔

"لو یہ پھر سو گئیں۔”بیٹا ہاتھ ماں کی طرف اُٹھا کر بولا اور کمرے سے باہر کی طرف مُڑا۔

"اوہ فو۔۔۔ "بیٹی بھی باہر نکل گئی۔ کئی لمحے ایسے ہی گزر گئے۔۔۔ وہ ساکت لیٹی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

کچھ دیر بعد اُس کے ہونٹوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

٭٭٭

 

تجربہ گاہ

خاکی نے ہسپتال کی تجربہ گاہ میں لگے بڑے سے آئینے میں خود کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ وہ اپنے اُسی قیمتی لباس میں تھا جو اُسے بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ اُس کا قد چھ فٹ کے قریب تھا۔ رنگ کھِلتا ہوا گندمی، بال گھنے اور بھورے تھے۔ آنکھوں کی پُتلیاں سیاہ تھیں۔

بہت پہلے وہ دنیا بھر کے چند مشہور دولت مند لوگوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ یہ دولت اُسے وراثت میں ملی تھی۔ جسے وہ دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا تھا۔دن رات شراب سے مدہوش رہنے کی وجہ سے وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو گیا۔

اُس کی بہت سی معشوقاؤں میں سے کسی نے اُسے اس بلا نوشی سے باز رہنے کو نہیں کہا۔ بیوی کی وہ کوئی بھی بات نہیں مانتا تھا۔ اور چالیس برس کی عمر تک آتے آتے اُس کا جگر تقریباً ناکارہ ہو گیا۔ اُسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ دنیا کے چند ماہر ڈاکٹروں کی نگہداشت میں اُس کا علاج ہونے لگا۔

ایک تندرست ملازم کا انتخاب ہوا جس کے پھیپھڑوں کا سرطان آخری درجے پر پہنچ چکا تھا۔ اس کے گھر والوں کو ایک ضخیم رقم دے کر خاکی کے جگر کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

آپریشن کامیاب رہا۔۔۔ کچھ دن آرام سے گزرے مگر اُس کی لا پرواہیوں کی وجہ سے پیوند کیے ہوئے جگر نے زیادہ دن اُس کا ساتھ نہ دیا اور اُس میں Infectionہو گیا جینے کی آس جاتی رہی۔ ڈاکٹروں نے اس معاملے میں مشہور اداروں کے جنیٹیک انجینئروں سے مشورہ کیا۔

وہ گھیرا باندھے اُس کی مسہری کے گرد کھڑے تھے۔

اس رنگ و شباب کی دنیا کو کیا اُس کی دولت خرید نہیں سکتی۔کس کام کی یہ تحقیق۔۔۔ یہ سائنس۔۔۔ یہ تجربات۔۔۔

مجھے زندہ رہنا ہے۔۔۔

اُس نے احتجاج کیا۔۔۔

زہر نسوں کے اندر تک سرائیت کر چکا ہے۔۔۔ ڈاکٹر نا اُمید ہو گئے۔۔۔

سارا خون بدل ڈالو۔۔۔ یہ۔۔۔ دولت۔۔۔

اُس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔۔۔ مگر۔۔۔ !

مگر۔۔۔ ؟

مگر ہمیں اپنی تحقیق پر دنیا کے قیام سا اعتماد ہے۔ ہم موت پر قابو پانے والے ہیں ہمیں Gene کا Code حاصل ہو گیا ہے۔۔۔ وہ پیچیدہ ضرور ہے۔ مگر جس دن ہم اُسے Decode کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، سمجھ لیجئے کہ۔۔۔۔۔۔

مشہور عالم سائنسدانوں کی ٹیم ’اپنے آقا ہم‘ کے سربراہ نے کہا تھا۔

اپنی ساری دولت میں تمہارے نام کرتا ہوں۔

مگر اتنی جلدی تو ایسا کوئی امکان نہیں۔۔۔

او۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ مری سانس۔۔۔ مگر مجھے یقین ہے کہ میری ہڈیوں کا ڈھانچہ تندرست ہے تم اُسے محفوظ کر لو اور باقی کا جسم Hydrogen Peroxideمیں Dissolve کر لو۔۔۔۔۔۔ اور جب۔۔۔ اور جب۔۔۔

ہاں اور جب زندگی ہمارے قابو میں آ جائے گی تو صرف تمہارے DNAکو Developکر کے ہم بالکل تمہاری طرح کا انسان کلون کر لیں۔۔۔

سربراہ نے زوردار قہقہہ لگایا۔

سائنسدان اس کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگے۔

مگر اس سب کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ایک خلیہ محفوظ رکھ لینا ہی کافی ہو گا۔۔۔ سارا جسم اُسی سے بنتا جائے گا۔

نہیں۔۔۔ خاکی پوری طاقت استعمال کر کے چیخا۔

مجھے۔۔۔ مجھے بچپن سے جوان ہونے تک کا مرحلہ۔۔۔ طے نہیں کرنا۔۔۔ مجھے جوانی چاہیے۔۔۔ سیدھا جوان پیدا ہونا ہے مجھے۔۔۔ یہی قد۔۔۔ یہی صورت درکار ہے مجھے۔۔۔ مجھے۔۔۔ یہی صورت ڈاکٹر۔۔۔ اُف۔۔۔ میری سانس۔۔۔ پلیز ڈاکٹر۔۔۔ یہی زندگی۔۔۔ یہی دولت۔۔۔۔۔۔ ہاں دولت۔

مگر تمھیں دولت دینا ہمارے بس میں۔۔۔ کیسے؟

میں اسے۔۔۔ میں۔۔۔ وصیت کروں گا کہ۔۔۔ میری دولت۔۔۔ میرے کسی وارث کو اُس وقت تک۔۔۔ نہ دی جائے۔۔۔ جب تک میں خود۔۔۔ لوٹ کر۔۔۔ میں خود۔۔۔ زندہ ہو کر۔۔۔ اپنی مرضی سے۔۔۔ اپنی۔۔۔ مرضی سے۔۔۔ ہاں۔۔۔ اس چیک سے۔۔۔ اس چیک سے تم اپنے اخراجات۔۔۔ پورے کرتے رہنا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔

ایک زور دار قہقہہ۔

پھر ہچکیاں۔۔۔ ایک زور کی ہچکی۔

دستخط شدہ چیک اُس کی شہادت کی اُنگلی اور انگوٹھے کے درمیان دبا ہے۔

DNA، RNA اور TRNA کے علاوہ اُس کا ڈھانچہ بھی محفوظ ہے۔

تجربہ گاہ کو مزید وسعت دی گئی۔

تجربے ہوتے چلے گئے۔۔۔ برسہا بیت گئے۔

سربراہ کا انتقال ہو گیا۔دیگر ارکان بھی فوت ہو رہے ہیں، نئے نئے سائنسداں آ رہے ہیں۔

تجربہ گاہ کے بہت بڑے وسطی ہال کے عین درمیان دنیا کے ایک امیر ترین آدمی کا ڈھانچہ شیشوں میں محفوظ اپنے سرہانے اپنی شناخت لیے لیٹا ہے۔

نام : خاکی

پیدائش : ۱۹۶۰ء

موت : ۲۰۰۰ء

بہت پہلے لوگ دلچسپی سے اس ہال سے گزرا کرتے تھے۔ مگر اب یہ بات بھی پرانی ہو گئی۔

دو صدّیاں گزر گئیں۔۔۔ شناخت کی فائل جانے کب کی بند ہو گئی تھی۔

اچانک ایک نوجوان جینٹیک انجینئر کو ’اپنے آقا ہم‘ ٹیم کا خواب سچا ہوتا نظر آیا۔ لوگ کہتے تھے اُس انجینئر کی شکل ہو بہو شیشے میں بند آدمی کی، ہال میں دیوار پر آویزاں قد آدم تصویر جیسی ہے۔ بال۔چہرہ۔آنکھوں کا رنگ۔قد سب بالکل ویساہی۔

آخرکار انجینئر اپنے تجربے میں کامیاب ہو گیا۔

جیتے جاگتے متحیرّ خاکی نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔

دو صدیوں سے محفوظ پڑا اُس کا پسندیدہ لباس کچھ زیادہ پرانا نہیں لگ رہا تھا۔

بہت شکریہ۔۔۔ اب میں جاتا ہوں۔۔۔ اُس نے انجینئر کی طرف دیکھا۔ اور مزید حیرت زدہ رہ گیا۔

تم۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔

انجینئرمسکراتا رہا۔۔۔

تم۔۔۔ میری۔۔۔ اولاد ہو۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔

وہ خوشی سے چیخا۔

میں نہیں۔۔۔ جانتا۔۔۔ صدیوں پہلے کی بات میں کیا جانوں۔ انجینئر لاپرواہی سے بولا۔

صدیاں۔۔۔ ؟خاکی بڑبڑایا۔

ہاں۔۔۔ دو صدیاں گزر گئی ہیں تمہاری موت کو۔۔۔

دو سو سال۔۔۔ اُف۔۔۔

وہ سر تھام کر دیوار سے ٹک گیا۔

مگر تم۔۔۔ تو۔۔۔ تم۔۔۔ میری ہی نسل سے ہو۔۔۔ میری اولاد کی۔۔۔ اولاد کی۔۔۔ اولاد کی۔۔۔ وہ مسکرایا اور تمہارے Apron پر لگے اس نیم پلیٹ پر میرا دوسرا نام بھی ہے۔۔۔ تم۔۔۔

وہ ایک قدم آگے بڑھا۔ انجینئر اُسے بغیر کسی تاثر کے دیکھتا رہا۔۔۔

آؤ۔۔۔ ذرا حساب لگائیں کہ تم میری کون سی پیڑھی سے ہو۔۔۔ میں۔۔۔ تمھارا کون ہوں۔۔۔

انجینئر کے چہرے پر ناگواری سی چھا گئی۔

کچھ لمحے اسی طرح گزر گئے۔

ٹھیک ہے۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔

وہ انجینئر کی طرف پلٹا۔

کہاں جاؤ گے۔۔۔ انجینئر کی آواز ہو بہو اُسی کی طرح تھی۔

تمہاری آواز۔۔۔ تم۔۔۔ ہاں گھر جاؤں گا میں۔۔۔ میں۔

کس جگہ۔۔۔ ؟

اپنا پتہ جانتا ہوں میں۔۔۔ میرا پتہ ہے۔۔۔ دس ہزار درخت والے جنگل کے پاس میٹھے پانی کے دریا کے کنارے دو منزلہ محل۔

اس نام کا کوئی مقام پایا جانا ممکن ہی نہیں۔۔۔ تم بیٹھو۔۔۔ میڈیا تمھارا انٹرویو لینے کو بیقرار ہے۔۔۔ اور میرا بھی۔

نہیں۔۔۔ میرے کپڑے پرانے لگ رہے ہیں۔۔۔ مجھے نئے ملبوسات خریدنے ہیں۔

کیسے خریدو گے۔۔۔ ؟

تم جانتے نہیں ہو۔۔۔ میں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک۔۔۔

تھے۔۔۔ تم دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے،انجینئر نے اس کی بات کاٹی۔

مطلب۔۔۔ ؟خاکی کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

کیا وہ دولت اتنی پیڑھیاں گزر جانے کے بعد تمہارے وارثوں نے ختم نہیں کر ڈالی ہو گی؟

مگر میں نے تو وصیت۔۔۔

ایسی وصیت جو مر کر دوبارہ جی اُٹھنے سے متعلق ہو۔۔۔ کون مان سکتا تھا۔ دو صدی پیشتر۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ میری اسناد ہیں۔۔۔ میرا تجربہ۔۔۔ تو میرے پاس ہے۔۔۔ میں تیز رفتار ہوائی جہاز بنانے کا ماہر ہوں۔۔۔

اُس کی ضرورت برسوں ہوئے ختم ہو گئی۔۔۔ اب ہم Space Warpکے ذریعے ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسرے مقام پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔

۔۔۔ ارے۔۔۔ ؟اچھا۔۔۔ ؟۔۔۔ تو۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ میں محنت کر کے اپنی نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔۔۔

خاکی دروازے کے قریب جا کر دروازہ کھولنے والا دستہ گھمانے ہی لگا تھا کہ انجینئر نے لپک کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

چلو۔۔۔ ادھر بیٹھو۔۔۔ بیٹھو۔۔۔ گارڈس انجینئر تیز آواز میں پہرے داروں کو آواز لگاتا ہے۔

آرام سے اس کرسی پر بیٹھے رہو۔۔۔ تمہارے ساتھ لوگ باتیں کرنے آئیں گے۔۔۔ تم سے کئی طرح کے سوال کریں گے۔۔۔ تمہاری باتوں سے کوئی بے چینی ظاہر نہ ہو۔۔۔ سمجھے؟

تم کون ہو مجھ پر حکم چلانے والے۔ وہ چیخا۔

میں تمھارا خالق ہوں۔۔۔ تمھارا مالک ہوں۔تم ماضی کی کتاب کا ایک پھٹا ہوا ورق ہو۔ اب اگر تمہاری کوئی شناخت ہے تو وہ مجھ سے ہے کہ میں نے تمھیں بنایا ہے۔ مکمل کیا ہے تمہارے وجود کو۔ عالم میں دھوم مچ گئی ہے میرے اس کارنامے کی۔۔۔ اور اب میں ایک ایسا تجربہ کروں گا جس سے رہتی دنیا تک، میرا نام لوگوں کی زبان پر رہے گا۔اور اس کے لیے مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ انجینئر خاموش ہو گیا۔

مجھے کیا کرنا ہو گا۔۔۔ ؟وہ کانپتے ہوئے بولا۔

میں تمہاری شہ رگ کاٹ کر اسے میڈیا کے سامنے اُسی وقت جوڑ کر تمھیں مرنے کے فوراً بعد زندہ کروں گا۔

بس ذرا تمہاری صحت اچھی ہو جائے تو۔۔۔

نہیں تم۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔ میں۔۔۔ میں تم پر مقدمہ دائر کر دوں گا۔۔۔ اور قانون تمھیں۔تمھیں۔

ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ تم ہو ہی کون، ہڈّیوں کا ایک لا وارث ڈھانچہ۔۔۔ جو، اب۔۔۔ اب جو بھی ہے میری اپنی ملکیت ہے۔۔۔ میرے گھر کے پالتو جانوروں کی طرح۔۔۔ اور تم تو۔۔۔ تم تو اینیمل ایکٹ میں بھی نہیں آتے۔۔۔ گارڈس۔۔۔ اسے شیشے کے اس صندوق میں لٹا کر آکسیجن کی نلی لگا دو۔۔۔ حفاظت سے۔۔۔ صندوق کی چابی میرے کیبن میں رکھ دینا۔۔۔ میں باہر ذرا میڈیا سے بات کر لوں۔۔۔

محافظ خاکی کی طرف بڑھتے ہیں۔تو اُسے ایک زوردار جھٹکا لگتا ہے۔وہ اُٹھ بیٹھتا ہے۔ اور اپنے شب خوابی کے لباس کی ریشمی آستین سے ماتھے کا پسینہ پونچھتا ہے۔ اُلٹے ہاتھوں سے دونوں آنکھوں کو ملتا ہوا وہ بری طرح ہانپ رہا ہے۔ اب وہ پوری طرح بیدار ہو چکا ہے۔ اسے احساس ہوا کہ فون لگاتار بج رہا ہے۔

"او شٹ اپ۔۔۔ "

وہ فون اٹھا کر بغیر کچھ سنے واپس پٹخ دیتا ہے۔ اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد پلٹ کی بائیں جانب دیکھتا ہے۔

پلنگ کے برابر کی تپائی پر چاندی کی منقش کشتی میں اس کی صبح کے وقت پینے والی پسندیدہ شراب کی بھری ہوئی بوتل اور نیلے رنگ کے باریک کانچ کا نازک سا جام رکھا ہوا ہے۔دیوار کے ساتھ لگی، لکڑی کی نہایت خوبصورت گُل بوٹوں والی بڑی سی الماری میں کانچ لگے شفاف طاقچوں کے اندر مختلف اقسام کی شراب، چھوٹی بڑی جسامت کی الگ الگ شکل کی بوتلوں میں قطار در قطار سجی ہے۔ کھڑکی کے ذرا سے سرکے ہوئے پردے کی آڑ سے چلی آئی صبح کی دھوپ ٹھیک بار کی بوتلوں پرہی پڑ رہی ہے اور جھِل مِل جھِل مِل کر رہے شیشوں نے کمرے میں ساتوں رنگ بکھیر دیئے ہیں۔

وہ کچھ سیکنڈ یہ منظر دیکھتا رہا۔پھر اُس نے کشتی میں رکھی بوتل اٹھا کر پوری طاقت سے بار پر دے ماری تو سرخ رنگ کے دبیز کشمیری ریشمی قالین پر کانچ کے بے شمار ٹکڑے بکھر گئے اور کمرے میں ان گنت ننھے مُنے سورج جھلملانے لگے۔

چھ باور ی ملازم بھاگے بھاگے اندر آئے۔

"سر۔۔۔ ؟”وہ ہاتھ باندھے پریشان حال سے اُس کی پائینتی کی جانب کھڑے ہو گئے۔

"جسٹ۔۔۔ گیٹ۔۔۔ آؤٹ۔”وہ دانت پیس کر رُک رُک کر بولا تو سب باہر کی طرف لپکے۔ اور وہ مسہری سے اُتر کر کھڑکی کے قریب آیا۔ پردہ سرکا کر اس نے باغیچے میں نظر دوڑائی۔ اس کی بیوی گود میں اخبار پھیلائے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ سامنے سنگِ مرمر کی میز پر بیضوی کشتی میں نرم گرم ٹی کوزی کے اندر سے چائے دانی کا چمکدار روپہلا دستہ جھانک رہا تھا۔ برابر میں رکھی پیالی سے بھاپ اُٹھ رہی تھی۔ اُس کے شانوں پر پھیلے آدھے بھیگے بال صبح کی نرم دھوپ میں رچی ہوا سے ہولے ہولے لہرا رہے تھے۔ وہ بسکٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اپنے سامنے پھینک رہی تھی اور تین چار چڑیاں انھیں پھرتی سے چُگتی ہوئی ظاہر اور غائب ہو رہی تھیں۔ وہ کھڑکی سے ہٹ کر دروازے کی طرف مُڑا۔

اُس کا چہیتا ملازم جاتے ہوئے مُڑ مُڑ کر اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"لان میں ایک اور کرسی لگا دو۔۔۔

اور۔۔۔ ایک کپ بھی لے جانا۔۔۔ "

اُس نے مسکرا کر کہا۔

"یس سر۔۔۔ یس سر۔۔۔ "

وفادار ملازم کا چہرہ پھول کی طرح کھِل اُٹھا۔

٭٭٭

 

بی بی

بی بی ڈائینگ ٹیبل کے کونے سے پیٹھ ٹکائے اور ایک ہتھیلی کرسی کی پشت کے اونچے حصے پر دھر کر اپنے بدن کو سہارا دیے کھڑی اپنے پیروں کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کا سر وقفے وقفے سے ہلکے سے جھٹکے کھا کر ہل جاتا۔ ناک سکیڑنے کی آواز بھی رہ رہ کر سماعت سے ٹکراتی اور وہ اپنا خمیدہ سا تھرتھراتا ہوا ہاتھ ماتھے کے قریب لے جا کر بار بار اپنے خشک بالوں کو سمیٹ کر سر پر دھرے ململ کے دوپٹے کے نیچے اُڑستی جو لمحہ بھر بعد ہی پھسل کر واپس ماتھے پر بکھر جاتے۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور بدن لرز رہا تھا مگر وہ اپنے مسوڑھوں کو سختی سے بھینچ کر اپنی اس کیفیت کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوشش کیے جا رہی تھی۔ کمرے میں موجود سبھی لوگوں کی نگاہیں اُس پر جمی تھیں۔

"آخر اس عمر میں آپ کو یہ باتیں زیب دیتی ہیں ؟”باسط نے بیزاری سے منھ پھیر کر کہا۔ اور ہاتھ سے بال سنوارنے لگا۔

"جو بھی ہوتا ہے، آپ کو پتہ تو چلتا ہی ہے۔۔۔ پھر اس طرح اندر گھس کر۔۔۔ ” شیبا نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

"جھانک کر دیکھنے کی کیا۔ضرورت کیا ہوتی ہے آپ کو؟” بہو جملہ مکمل کرتے ہوئے باورچی خانے کی طرف پلٹی تو جھرّیوں میں جنبش سی ہوئی اور پوپلے منھ پر کھسیانی سی مسکراہٹ چھا گئی۔ اس نے سر کچھ اور جھکا لیا اور ہاتھ ماتھے تک لے جا کر بالوں کو آنچل میں سمیٹنے لگی۔

"بتائیے نا بی بی۔”اس بار پوتے کی آواز ذرا اونچی تھی۔

"سارا موڈ خراب کر دیا آپ نے۔۔۔ آج سوچا تھا کہ Examختم ہوئے ہیں دوستوں کے ساتھ کہیں گھوم آؤں۔ خوامخواہ مماں نے روک لیا کہ Lunchکر کے جاؤں۔۔۔ اور۔۔۔ اب لنچ ہے۔۔۔ کہ۔۔۔ ” باسط کی آواز کی جھنجھلاہٹ میں گِلے کی آمیزش صاف عیاں تھی۔

"مجھے تو ٹیوشن جانا ہے بھیّا۔ سکول میں سوچا تھا کہ فوراً کھانا کھا کر سو جاؤں گی تو شام تک Freshہو جاؤں گی۔۔۔ مگر۔” پوتی نے ناک کو انگلی سے سہلاتے ہوئے دادی کی طرف دیکھا تو دادی نے سر ذرا سا اٹھا کر دھندلی نظروں سے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔ پھر دروازے کی طرف نظر اٹھائی جہاں سے اس کی بہو کے سینڈل کی ایڑیاں فرش سے ٹکرا کر اونچی آواز پیدا کر رہی تھیں۔

"اب آپ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہیں۔۔۔ جائیے اپنے کمرے میں۔۔۔ آرام کیجئے۔۔۔ آپ نے تو کھا پی لیا ہے۔۔۔ میری آج شام کی ڈیوٹی ہے۔۔۔ اور اس Maidکو آج ہی جلدی جانا تھا۔۔۔ مگر آپ سے یہ سب کہنے سے کیا حاصل۔” بہو اندر داخل ہوتے ہوئے بولی اور باہر نکل گئی۔

"بیٹا تمہارے پاپا آتے ہوں گے۔۔۔ ” وہ پھر اندر آئی اور بچوّں کی طرف دیکھنے لگی۔

"تھرماس میں چائے رکھی ہے۔۔۔ پتہ نہیں آج دیر کیوں ہو گئی ان کو۔۔۔ ورنہ اب تک تو۔۔۔ "بہو نے بات ادھوری چھوڑ کر پھر بی بی کی طرف دیکھا۔ بی بی نے دو ایک بار پلکیں جھپکیں اور بہو کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھیں ایسی لگ رہی تھیں جیسے ان میں دودھیا رنگ کا کوئی گھول ڈالا گیا ہو اور چشمے میں لگے دو شیشوں میں سے ایک کا لینس زیادہ محدّب ہونے کی وجہ سے ایک آنکھ دوسری کی نسبت کوئی چار گنا بڑی نظر آ رہی تھی۔ اُس ایک آنکھ میں ڈر اور التجا بھرا کوئی ملا جُلا جذبہ تڑپتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پُتلی بے قرار سی اِدھر اُدھر تھرک رہی تھی۔ شاید دوسری آنکھ کی پُتلی بھی اس کا ساتھ دے رہی ہو مگر اس کا کانچ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ نچلا حصہ آدھے چاند کی شکل میں تراشا گیا تھا۔اور دونوں کو ملانے والا جوڑ پُتلی کی سیدھ میں ہونے کی وجہ سے آنکھ کچھ واضح نہیں تھی۔ اُس نے منحنی سا ہاتھ اٹھا کر جلدی جلدی بال سمیٹ کر پلّو کے نیچے کرنے کی کوشش کی۔

"اُس سے۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ کہنا بیٹا۔۔۔ ” بی بی نے دوسرے ہاتھ سے جو گٹھیا کے عارضے کی وجہ سے پرندے کے پنجے کی طرح سکڑا اور مُڑا ہوا تھا، ٹھہر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"اب۔۔۔ اب میں۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ ” بی بی نے سر جھکا لیا۔

"مجھ سے۔۔۔ کچھ۔۔۔ کچھ ہوتا تو۔۔۔ ہے نہیں۔۔۔ میں۔”اُس نے دونوں ہاتھوں سے کرسی کی پشت کو دھکا دیا۔ کرسی میز کے اندر سے ذرا سا باہر کو سرکی تو وہ اُس پر ٹک گئی۔زیادہ دیر کھڑا رہنے سے اُس کی سوکھی لکڑی سی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ اس کی نظریں بہو کی ہی طرف تھیں۔ "ابھی۔۔۔ جاتی ہوں۔۔۔ اندر۔۔۔ میں۔۔۔ تم۔۔۔ تم کچھ نہ کہنا اُس سے۔۔۔ وہ آئے گا تو۔۔۔ ورنہ۔۔۔ وہ تو۔۔۔ بچپن میں بھی اگر۔۔۔ کبھی ایسا ہو جاتا۔۔۔ تو پورا دن۔۔۔ کھانا چھوڑ دیتا تھا وہ۔۔۔ اب۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔ مجھ سے۔۔۔ تو ہوتا نہیں۔۔۔ کچھ۔۔۔ بالوں میں۔۔۔ تیل ڈالے۔۔۔ کنگھا کئے۔۔۔ زمانہ ہو گیا۔” بی بی کی آنکھ کے دودھیا گھول میں کوئی سیماب سی شے تیرنے لگی تو اُس نے بار بار پلکیں جھپکیں اور دھیرے سے ناک پونچھی۔

"تو یہاں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ آپ کے بال سنوارے بار بار۔ سب اتنے مصروف ہیں کہ۔۔۔ خیر وہ تو دوسری بات ہے۔ آپ پہلے ایسا کرتی ہی کیوں ہیں۔۔۔ ؟”

بہو نے بی بی کو ایسے دیکھا کہ آنکھوں میں لائے گئے حقارت کے تاثرات بی بی کو صاف نظر آئیں۔

"دانت بھی۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہیں میرے۔۔۔ اب۔۔۔ میں تو۔۔۔ "

"اب اس عمر میں دانت لگوا کر آپ کو کرنا بھی کیا ہے؟ دودھ، ڈبل روٹی،کیلا۔۔۔ اس میں ہے تو ساری غذائیت۔۔۔ آپ کو اور کسی چیز سے کیا مطلب۔۔۔ ؟؟” بہو بحث کرنے کے انداز میں بولی اور ساری کے فالز درست کرنے لگی۔

"اب۔۔۔ ایسا کبھی نہ ہو گا بیٹا۔۔۔ میں ادھر کا رخ بھی نہ کروں گی۔۔۔ میں تو صرف۔۔۔ خوشبو کے لیے۔”

"خوشبو کے لیے۔۔۔ خوشبو پھیل تو جاتی ہے سارے گھر میں۔۔۔ آپ کے کمرے میں بھی۔۔۔ پھر۔۔۔ !” بہو نے تحکمانہ انداز میں سر جھٹکے سے نیچے سے اوپر کر کے کہا اور کانوں میں پڑتی ہوئی کال بیل کی آواز پر دروازہ کھولنے باہر آئی۔

"بند مت کرنا دروازہ۔۔۔ چابی دینے آ رہا ہے ڈرائیور۔”

سیف خوشدلی سے بیوی سے مخاطب ہوا۔

"نہیں مجھے بھی گاڑی میں ہی جانا ہو گا۔۔۔ آفس کی گاڑی ہارن کر کے چلی گئی۔۔۔ میں تو عجیب مصیبت میں گھری ہوں۔۔۔ کیسے جاتی۔۔۔ چائے تھرمس میں ہے۔۔۔ "

وہ چہرے پر بے چارگی سی طاری کرتے ہوئے بولی۔

"کیوں کیا ہوا۔۔۔ ؟”سیف نے دروازے پر آئے ڈرائیور سے بیگ لے لیا۔ اور اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ میں تھمی چابی کی طرف دیکھا۔

"تم گاڑی میں بیٹھو۔۔۔ میم صاحب کو جانا ہے۔”ڈرائیور کے چہرے پر مایوسی کی ہلکی سی تہہ چھانے لگی تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔

"ٹھیک ہے صاحب۔۔۔ "وہ باہر کی طرف لپکا۔

بہو نشست گاہ میں داخل ہوئی تو سیف بھی اُس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا۔

"کیا ہوا۔۔۔ "اُس نے بیوی کی طرف رخ کر کے ماں کی طرف دیکھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔

"میری تو قسمت میں ہی پریشانیاں ہیں۔۔۔ آج۔۔۔ معلوم ہے سالن میں سے بال نکل آیا۔۔۔ بچوّں نے دیکھا۔۔۔ "

"اُف۔۔۔ "سیف نے نہایت ناگواری سے آنکھیں بھینچ کر منھ دوسری طرف موڑا۔

"میں Maidپر بگڑی کہ سکارف باندھ کر کام نہیں کرتی۔ وہ بھی چپ سی ہو گئی۔۔۔ ڈر ہے کام نہ چھوڑ دے۔۔۔ اب دوسری ڈھونڈنا۔۔۔ او گاڈ۔۔۔ "

مگر بال آیا کیسے۔۔۔ سالن میں۔۔۔ ؟” سیف نے برا سا منھ بنا کر تھوک نِگلا۔

بی بی نے چشمے کے پیچھے سے سہمی ہوئی نظروں سے بیٹے اور بہو کو باری باری دیکھا۔۔۔ اور اُنہیں ایک دوسرے سے مخاطب دیکھ آہستہ سے کرسی سے اُٹھی۔

"ارے آنا کہاں سے تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد Maidمجھے بالکنی میں لے گئی۔ سورج کی روشنی میں دیکھا تو سفید رنگ کا تھا بال۔۔۔ "

"سفید بال۔۔۔ ؟۔۔۔ سفید بال تو۔۔۔ "

بی بی دیوار کے سہارے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئی تھی۔

"اور کیا۔۔۔ اب آپ کی ماں آ آ کر ہر وقت ہانڈیوں میں جھانکے گی تو۔۔۔ "

بی بی نے اس کے بعد کچھ نہ سُنا۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ عجلت سے مسہری پر لیٹ کر اُس نے جلدی سے دروازے کی طرف ایک نظر دیکھا اور آنکھیں میچ لیں۔ چشمہ اُتارنا اُسے یاد ہی نہ رہا تھا۔

٭٭٭

ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔۔

"ہو سکتا ہے یہ میری آخری خواہش ہو۔۔۔ تم سے۔۔۔ کچھ۔۔۔ میں آخری بار مانگ رہا ہوں شاید۔” شاہد نے نادیہ کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھ کر ٹھہر ٹھہر کر کہا۔

"مجھے۔۔۔ ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ایسا مت کہو۔۔۔ "نادیہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

"کس بات سے۔۔۔ ؟میری خواہش سے۔۔۔ یا میرے اندیشے سے۔”

شاہد مسلسل اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔نادیہ نے پلٹ کر اُس کے چہرے پر نظر دوڑائیں۔ شاہد کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔ جیسے شک، طلب، التجا اور نہ جانے کیا کیا ایک ہی جگہ جمع ہوں۔

نادیہ کرسی سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور گلوکوز کی نلی میں سے شاہد کے جسم میں داخل ہونے والے پانی کی رفتار دھیمی کر دی۔

"سردی لگ رہی تھی نا۔۔۔ ؟”اُس نے آہستہ سے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ تمھیں کیسے۔۔۔ ؟؟”اُس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ نرس اندر داخل ہوئی۔

"وقت ختم ہو گیا ہے۔۔۔ اب مریض کو آرام کرنے دیجئے۔”

آج شاہد کیسی باتیں کر رہا ہے۔۔۔ گھر پر ثمرین بھی اکیلی ہے۔ نادیہ سوچنے لگی۔

"بابا کیسے ہیں امّی ؟”کل نادیہ کے ہسپتال سے لوٹنے پر اُس کی گیارہ سالہ ّبچی ثمرین نے پوچھا تھا۔

"اب شاہد بہتر ہیں کچھ۔”

نادیہ نے پرس مسہری کی طرف اچھال دیا تھا اور کرسی پر نیم دراز ہو گئی تھی۔

"پانی لاؤں امّی؟”ثمرین ماں کے قریب چلی گئی تو اُس نے ثمرین کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔

"نہیں بِٹیا۔تم بس میرے سینے سے لگ جاؤ۔”

نادیہ نے اُس کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔تو اس نے اپنی دبلی پتلی باہیں اپنی امی کی کمر کے گرد ڈال دیں۔

"بابا اچھے ہو جائیں گے تو۔۔۔ تو۔۔۔ پھر پہلے کی طرح۔۔۔ آپ سے لڑیں گے۔۔۔ آپ کو ماریں گے۔۔۔ "

ثمرین فرش پر بیٹھ گئی اور اپنا سر ماں کے زانو پر رکھ دیا۔

"نہیں بیٹا۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ "

"بابا بچیں گے نا۔۔۔ ؟”

"ہاں۔۔۔ اللہ میاں سے دعا کرو۔۔۔ وہ رحیم ہے۔ کارساز ہے۔” نادیہ کی آنکھیں بھر آئیں۔

نادیہ نے شاہد کو چاہا تھا۔ عیش و آرام ٹھکرا کر اس کی متوسط زندگی اپنائی تھی۔۔۔ اُسے محبت کے علاوہ اور کچھ نہ چاہئے تھا۔۔۔ مگر اُسے جلد ہی علم ہو گیا کہ شاہد گھر گرہستی کا کچھ ایسا شوقین نہیں ہے۔ جانے کتنی دوست تھیں اس کی۔ راتوں کو تک غائب رہا کرتا وہ۔

گھر میں تناؤ تھا۔

نادیہ نے اُس سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔وہ بات کرتا تو جواب دے دیتی۔

شاہد اکثر غصے میں نظر آتا۔

کوئی چار ایک برس پہلے کی بات ہے۔

اُن دنوں نادیہ دوسری بار امید سے تھی۔

ثمرین اپنی ماں کے پیٹ پر کان دھرے ماں کے قریب لیٹی تھی۔

"بھیّا کی شکل کیسی ہو گی امی؟” وہ ماں کے ابھرے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔

"تمہارے جیسی۔۔۔ پیاری پیاری سی۔”

"بابا جیسی تو نہیں ہو گی نا۔”اُس کے لہجے میں ہلکی سی تشویش تھی۔

"ہو سکتا ہے۔۔۔ تمہارے بابا کی شکل بھی تو اچھی ہے۔”نادیہ سیلنگ کی طرف دیکھتی رہی۔

"مگر اگر وہ بابا کی طرح غصہ کرے گا۔۔۔ تو۔۔۔ تو؟”

ثمرین پریشان سی ہو کر بولی۔

"نہیں بیٹا۔۔۔ وہ تو چھوٹا سا مُنا ہو گا۔۔۔ وہ کیوں غصہ کرے گا۔۔۔ اپنی ننھی سی باجی کو بہت پیار کرے۔۔۔ بہت عزت کرے گا تمہاری۔”

نادیہ نے انگلی کے پوروں سے ثمرین کا رخسار چھُوا۔

"امّی؟”

"جی!”

"صرف بھائی ہی بہن کی عزت کرتا ہے۔۔۔ یا۔۔۔ اور کوئی۔۔۔ بھی؟۔۔۔ کیا بابا آپ کی عزت کرتے ہیں ؟”

"ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔ "

"پھر آپ کو بری بری باتیں کیوں کہتے ہیں۔۔۔ ؟”

"وہ۔۔۔ شاید۔۔۔ اُن کی عادت۔۔۔ ہے۔”

"یہ تو گندی عادت ہے۔۔۔ اُن کو دادی جان نے بتایا نہیں ؟”

"کیا معلوم۔۔۔ وہ تو بہت پہلے اللہ میاں کے پاس چلی گئی تھیں۔‘ ‘

"ہم بھیّا کو بہت اچھی باتیں سکھائیں گے۔”

"انشاء اللہ۔ ‘‘

"اُسے بابا جیسا نہیں بننے دیں گے۔” ثمرین نے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ اُس کی سماعت کے قریب ہی ایک دھماکہ ہوا۔

"کیا پٹی پڑھا رہی ہو بیٹی کو؟” یہ آواز شاہد کی تھی۔

وہ دونوں مارے گھبراہٹ کے ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیں۔

ثمرین سہم کر ماں سے لگ گئی۔ نادیہ متعجب سی شاہد کو دیکھنے لگی۔

"کیا سکھا رہی ہو اسے؟” شاہد پاس جا کر آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ نادیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

"میں پوچھتا ہوں کیا سکھا رہی تھیں اسے تم۔” اُس نے نادیہ کے دونوں شانے پکڑ کر جھنجھوڑے تو ثمرین جلدی سے مسہری سے اُتر کر دیوار سے لگ گئی اور سہمی سی دونوں کو دیکھنے لگی۔

"امی۔”شاید کانپتی ہوئی آواز میں اس نے پکارا بھی تھا۔

نادیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کے ایک جھٹکے سے شاہد کے ہاتھوں کو اپنے شانوں سے ہٹایا اور مسہری سے اُتری۔ ابھی اُس نے پاؤں فرش پر رکھے ہی تھے کہ شاہد نے پوری طاقت سے ایک زور کا تھپڑ اس کے منھ پر جڑ دیا۔ وہ چیخ مارکر منھ کے بل مسہری پر گر پڑی۔ اُس کے گھٹنے مسہری کے بان سے ہوتے ہوئے زمین سے لگ گئے۔ ثمرین ہچکیاں لے کر روتی ہوئی، باپ کی جانب خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ماں کی طرف بڑھی تو شاہد کمرے سے باہر نکل گیا۔

"امّی۔۔۔ امّی۔۔۔ "اُس نے ماں کا چہرہ اپنی طرف موڑا تو دیکھا کہ امی کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لپک کر غسل خانے سے تولیہ لے آئی اور ماں کی ناک اور چہرہ صاف کرنے لگی۔ماں کے گال پر انگلیوں کے سرخ نشان آبلوں کی مانند اُبھر آئے تھے۔

"ثمرین۔”نادیہ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا اور زور سے کراہ کر دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ تھام لیا اور بلک بلک کر روتی ہوئی فرش پر آ گئی۔ ثمرین بے بسی سے روتی ہوئی ماں کو دیکھتی رہی اور اپنے ہاتھوں سے اُس کے آنسو پونچھتی رہی۔ ماں کی ناک سے خون بہنا بند ہو گیا تھا۔۔۔ مگر یہ کیا؟۔۔۔ ماں کے پیروں کے پاس اتنا خون۔۔۔ ؟

"امّی، کیا ہوا۔۔۔ پیر میں بھی چوٹ۔۔۔ کیسے لگی ہے۔۔۔ دکھائیے۔۔۔ میں پٹی کرتی ہوں۔”

ثمرین ماں کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اُس کی اشکبار آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اپنے جواب کا انتظار کرتی رہی مگر امی درد سے کراہتی رہی اور ہچکیاں لیتی رہی۔

ثمرین کچھ نہیں سمجھی تھی۔۔۔ حیرت سے امّی کے پچکے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر چپ چاپ سوچوں میں گم ہو جاتی۔۔۔ ایک بار امی سے پوچھا تھا تو امّی بہت غمزدہ ہو گئی تھی۔۔۔ دوبارہ اُس نے امی سے کبھی نہیں پوچھا۔

چھ ماہ کا حمل ضایع ہونے سے نادیہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ دوبارہ ماں ہو جانے کی امید بھی جاتی رہی۔ پیٹ کے اندر Infectionبھی ہو گیا تھا جس کے لیے اُسے مہینوں Antibioticsکھانا پڑے تھے۔ کوئی سال بعد وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئی مگر پھر بھی جسم میں خون کی کمی قائم رہی۔

گھر کا ماحول آسیب زدہ ساہو گیا تھا۔

وقت پر لگا کر اُڑتا رہا۔

نادیہ کے اس درجہ تکلیف اٹھانے کے باوجود بھی شاہد کا برتاؤ نہیں بدلا تھا۔ برسوں سے وہ مستقل طور پر  ثمرین کے کمرے میں ہی رہ رہی تھی۔ ادھر ہمیشہ سے اپنی صحت پر فخر کرنے والے شاہد کو اچانک بخار نے آ لیا۔ بخار بھی ایسا کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں، پیٹ میں رہ رہ کر درد اُٹھتا تھا۔ گولیاں وغیرہ آزمائی گئیں۔ فیملی ڈاکٹر کا نسخہ بھی کارگر نہ ہوا تو اُس نے خون کی جانچ کا مشورہ دیا۔ ان دنوں شاہد نسبتاً کم غصہ کرتا تھا۔ گھر میں تناؤ کچھ کم تو ہو گیا تھا مگر نادیہ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ خاموشی کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہو۔ جیسے وہ جان بوجھ کر چپ رہتا ہو۔ وہ کبھی کبھی نادیہ کو بغور دیکھتا اور دیکھتا چلا جاتا۔

نادیہ کسی فرض سے نہیں چوکتی،اس کی خدمت میں لگی رہتی۔ کبھی شوربہ تیار کر رہی ہے، کبھی پھلوں کا رس نکال رہی ہے۔ بار بار ثمرین کو شاہد کے پاس روانہ کرتی کہ اسے کچھ ضرورت تو نہیں ہے۔ اُس کے کمرے میں مسلسل Room Freshenerچھڑکتی رہتی۔

اصل میں شاہد کو برسوں سے پائیریا کا عارضہ تھا۔اُس کے مسوڑھوں سے خون رستا تھا۔ کبھی زیادہ کبھی کم۔ اُسے بار بار  ّکلی کرنا پڑتی تھی ورنہ اُس کے سانس سے کچھ زیادہ بدبو آنے لگتی۔ بستر پر پڑے رہنے سے سارے کمرے میں تعفن پھیلا رہتا تھا۔ جس سے نادیہ کو ابکائیاں سی آتیں مگر وہ چپ چاپ سب برداشت کرتی۔ حالانکہ وہ اس تعفن کا خود کو کبھی بھی عادی نہیں کر پائی تھی اور اُسے برداشت کرنے کا وہ مجبور مرحلہ جس سے بچنا اُس کے لیے ناممکن ہو جاتا تھا، ہمیشہ سوہانِ رُوح ثابت ہوا تھا کہ رِشتے کا یہ تقاضا نادیہ کے احساسِ مظلومیت کو پاتال کی قید جیسا بے دست و پا معلوم ہوتا تھا۔ ادھر کچھ برسوں سے الگ کمرے میں رہنے سے اسے اس بدبو سے نجات حاصل ہوئی تھی مگر شاہد کی بیماری کے دنوں میں وہ نہایت مستعدی سے اس کی تیمار داری میں منہمک تھی۔ اسے اور کچھ نہیں سوجھتا تھا۔

خون کی جانچ کے نتیجے کے روز ڈاکٹر نے نادیہ کو فون کر کے تجربہ گاہ بلایا تھا۔ اور اکیلے آنے کی تاکید کی تھی۔

شاہدHIV Positive تھا۔ مگر وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوا اور دوسری جگہ سے خون کی جانچ کروائی گئی۔ نتیجہ وہی تھا۔

پھر اُس کا باقاعدہ علاج شروع ہو گیا۔انجکشن، دوائیں، ہمدردی، خدمت، سب کچھ میسر تھا اُسے۔مگر ان چیزوں سے اُسے سکون ملنا ناممکن تھا۔ وہ اب چڑچڑا بھی ہو گیا تھا۔

جب سے نادیہ کے خون کی جانچ صحیح نکلی تھی،شاہد کا رویہ ایسا ہو گیا تھا جیسے اس کی بیماری کے لیے نادیہ ہی ذمہ دار ہو۔

ملنے والوں کو معلوم ہوا تو کنارہ کش ہو گئے۔شاہد اب کبھی گھر میں ہوا کرتا کبھی ہسپتال میں۔ نادیہ ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں لگی رہتی۔

کئی مہینوں سے لگاتار ہسپتال میں رہنے کے بعد آج مدّت بعد ڈاکٹر نے اسے گھر لوٹنے کی اجازت دی تھی۔

"تم کیا تیمار داری کا ڈھونگ رچاتی ہو۔۔۔ انتظار میں ہو گی کہ میں مروں اور تم جلد سے جلد دوسری شادی کروں۔” ایک دن نادیہ کے ہاتھ سے جوس کا گلاس لیتے ہوئے شاہد نے کہا۔

"مگر یاد رکھنا۔۔۔ تم سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔سب جانتے ہیں کہ تم دوبارہ ماں نہیں بن سکتی۔بانجھ ہو تم بانجھ۔۔۔ سمجھیں ؟۔۔۔ "اُس نے نفرت سے منھ پھیر لیا اور نادیہ اُسے پل بھر دیکھتے رہنے کے بعد کسی کام میں مشغول ہو گئی۔

"ہاں کوئی بوڑھا، لنگڑا لولا ہو تو بات دوسری ہے۔۔۔ کب کر رہی ہو شادی۔۔۔ ؟” وہ حلقوں میں دھنسی آنکھوں کو پھیلا کر بولا۔۔۔ نادیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔

"بولو۔۔۔ "وہ غصے سے چیخا۔

"کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ اپنے حواس کھو چکے ہو کیا۔”اُس نے تڑپ کر کہا۔

"سبھی عورتیں ایسا ہی کہتی ہیں۔۔۔ مگر ادھر شوہر کی آنکھ بند ہوئی، اُدھر وہ نیا خاوند تلاش کرنے نکل کھڑی ہوئیں۔”

نادیہ منھ پھیر کر چپکے چپکے رو دی۔

اُس روز وہ شاہد کو معائنے کے لیے ہسپتال لے گئی تو ڈاکٹروں نے اسے دوبارہ داخل کر لیا۔

جانے اُس روز ڈاکٹر نے نادیہ سے کیا کہا کہ دوپہر میں کچھ دیر کے لیے جب وہ گھر آئی تو ثمرین کو گلے سے لپٹائے کتنی ہی دیر وہ گم سم بیٹھی رہی۔

ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹر،شاہد کو درد سے نجات کے لیے انجکشن لگا چکا تھا۔ شاہد بے ہوشی کے عالم میں تھا۔ نادیہ نے اس کا چہرہ گیلے تولیے سے صاف کیا۔ ہمیشہ کی طرح اس کے بالوں میں کنگھا کیا۔آج سے پہلے نادیہ کا چہرہ کبھی اتنا بجھا ہوا نہیں تھا۔ آج وہ پتھر کا متحرک بت معلوم ہو رہی تھی۔

شاہد ہوش میں آیا تو نادیہ نے اُسے جوس کے گلاس کے ساتھ دوا کی ٹکی بھی دی۔

"زہر تو نہیں دے رہی ہو کہ تمہاری جان کا عذاب ختم ہو۔”شاہد دوا کی طرف دیکھ کر طنزیہ بولا۔ نادیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی منھ پھیرا۔۔۔ چپ چپ سی اُسے دیکھتی رہی۔ شاہد کا چہرہ آج سفید پڑ گیا تھا، چہرے کی تقریباً تمام ہڈّیاں ابھری ہوئی تھیں۔

"اس طرح گھور کیا رہی ہو؟۔۔۔ کیا میں بدصورت لگ رہا ہوں۔۔۔ یا نیم مردہ نظر آ رہا ہوں۔” وہ غصے سے بولا۔

"نہیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں۔۔۔ ایک گلاس اور دوں۔”وہ دھیرے سے بولی۔

"نہیں۔”وہ برجستہ بولا اور بغور اُسے دیکھتا رہا۔

دوسری صبح جب نادیہ آئی تو وہ خاموش اُسے دیکھتا رہا۔

"میرے قریب آؤ۔۔۔ "اُس نے آہستہ سے کہا۔

نادیہ اُسے چونک کر دیکھنے لگی۔

"گھبراؤ نہیں۔۔۔ میں کچھ نہیں کہہ رہا۔۔۔ "وہ کچھ نرمی سے بولا۔نادیہ اسے حیرت سے دیکھتی رہی۔

"میں تمھارا چہرہ چھونا چاہتا ہوں۔۔۔ چھونے سے انفکشن نہیں ہوتا۔”نقاہت کے مارے اُس نے سر پلنگ سے ٹکا دیا۔ اُس کا سانس بے ترتیب ہو رہا تھا آنکھیں مند رہی تھیں۔

"ہو سکتا ہے یہ میری آخری خواہش ہو۔۔۔ تم سے میں۔۔۔ آخری مرتبہ کچھ مانگ رہا ہوں شاید۔” شاہد نے آنکھیں کھول کر نادیہ کی طرف ملتجیانہ دیکھ کر کہا۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ایسا مت کہو۔۔۔ نادیہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

"کس بات سے۔۔۔ ؟میری خواہش سے یا میرے اندیشے سے۔”وہ مسلسل اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔نادیہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ شاہد کے چہرے پر کچھ طلب، کچھ التجا، کچھ حسرت، کچھ محرومی اور جانے کون کون سے جذبات ایک ساتھ نظر آ رہے تھے۔

نرس نے وقت ختم ہونے کا اعلان کیا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔ اور شاہد کو دیکھتی رہی۔وہ اب ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔نادیہ نے ایک قدم اس کی طرف بڑھایا تو شاہد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی بائیں طرف کی پہلی داڑھ پر خون لگا ہوا تھا۔ نادیہ کے چہرے پر عجب محرومی بھری یاسیت چھائی ہوئی تھی۔

وہ آگے بڑھ کر پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی تو شاہد دھیرے دھیرے اس کی طرف جھکا اور اپنے دونوں کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اُس کے رخسار تھام کرا ُس کے چہرے پر جھُک گیا۔ نادیہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔۔۔ شاہد نے اپنی پوری طاقت صرف کر کے اپنے ہاتھوں کی گرفت اس کے چہرے پر مضبوط کر دی۔ وہ اُس کے لب کو دانت سے کاٹنے کی کوشش میں جب زور سے دباتا چلا گیا تو نادیہ نے چیخ کر ایک جھٹکے سے خود کو اُس کی گرفت سے آزاد کرا لیا۔

اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔اگر اُس کا ہونٹ ایک ذرا سا بھی زخمی ہو جاتا تو۔۔۔ تو شاہد کے مسوڑھوں کا۔۔۔ خون۔۔۔

اُس نے زندگی میں پہلی بار شاہد کی طرف حقارت سے دیکھ کر زمین پر تھوک دیا اور بھاگ کھڑی ہوئی۔

 ٭٭٭

 

مجسمہ

عظمیٰ چیخ سن کر پلٹی تو دیکھا کہ اُس کی سات سالہ بیٹی کا چہرہ سفید پڑ رہا ہے۔ بہت عرصے بعد آج صبح ہی اُس نے نوٹ کیا تھا کہ عُنّاب کے رخسار پہلی بار گہرے گلابی نظر آنے لگے تھے۔

"کیا ہوا بِٹیا؟”عظمیٰ مختصر سے پتھریلے زینے پر ٹھہر گئی اور پلٹ کر عنّاب کی طرف دیکھا تو عناب بھاگ کر اُس کے گھٹنوں سے لپٹ گئی۔

"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ مجسمہ چلنے لگا ہے امّی۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔” عُنّاب پر کپکپی طاری تھی۔

"نہیں بیٹے۔۔۔ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔” عظمیٰ نے جھک کر اُس کے آنسو پونچھے۔ اُس کے ماتھے پر آ رہے بالوں کو ایک ہاتھ سے سنوارا اور دوسرے ہاتھ سے اُسے لپٹائے رکھا۔ مگر اُس کا ہاتھ اُس کے رخسار کے قریب ہی ٹھہر گیا اور وہ خود کسی پتھر کے بُت کی طرح اُس منظر کو دیکھتی رہ گئی، جسے اُس کی عقل کسی صورت بھی قبول کرنے پر تیّار نہ تھی۔

اُس دن بچےّ جھیل کی سیر کے بعد بیحد اُداس تھے۔عظمیٰ اُنہیں کِسی ایسے مقام پرلے جانا چاہتی تھی جہاں اُن کا جی بھی بہل جاتا اور اُن کے تجسس کی تسکین بھی ہو جاتی۔ عظمیٰ خود کو اُن کا مجرم سمجھ رہی تھی۔ مگر اُس کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔

"وہاں کی جھیلیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔” عظمیٰ نے اُنہیں سفر کرنے سے کئی دن پہلے سے جھیلوں اور وادیوں کی بہت سی باتیں بتائی تھیں۔

"بٹکل لیک جیسی۔۔۔ ؟” عنّاب نے پوچھا تھا۔

"نہیں بیٹے۔۔۔ یہ تو مصنوعی ہے۔۔۔ سیاحوں کو attractکرنے کے لیے سرکار نے بنوائی ہے۔”

"تو کیا وہاں کی ساری جھیلیں Naturalہی ہیں۔ ” عظمیٰ کا دس سالہ بیٹا راحیل بولا۔

"ہاں بیٹے۔جھیلیں تو قدرت کی ہی بنائی ہوتی ہیں۔ اب چونکہ انسان جھیلیں خود بھی بنا سکتا ہے اس لیے اب بہت سی مصنوعی جھیلیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ مگر ہمارے وہاں کی جھیلیں دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اُن کا پانی اتنا شفاف ہوتا ہے جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ "

"جیسے مِنرل واٹر؟”دو میں سے کسی نے کہا تھا۔

"ہاں بیٹا۔۔۔ ایسا شفاف کہ بس۔۔۔ کوئی دس سال پہلے آپ کے ابّو کے ساتھ گئی تھی میں وہاں۔۔۔ جھیل کی سیر کو۔۔۔ شکارے میں بیٹھ کر۔ پانی اتنا صاف تھا کہ جھیل کی تہہ میں اُگی آبی گھاس صاف نظر آتی تھی۔ لمبی لمبی۔۔۔ پانی کی سطح تک آتی ہوئی۔ ذرا سا جھانکو تو ہری ہری گھاس میں روپہلی مچھلیاں ادھر ادھر پھرتی نظر آتیں۔ چھوٹی، بڑی بے شمار۔ آپ دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ جھیل کے کناروں کے قریب جہاں پانی کی نسبت مٹی زیادہ ہوتی ہے وہاں گلابی رنگ کے نیلوفر یعنی۔۔۔ کنول کے بڑے بڑے پھول کھلا کرتے ہیں۔۔۔ اگست کے مہینے میں۔ اُن کے پتےّ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ عناب کے چھوٹے سے سرکا چھاتا بن سکتے ہیں۔” عظمیٰ نے عناب کا سر ہاتھ میں تھام کر ہولے سے ہلا دیا۔ دونوں بچےّ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

"پھر اُن مچھلیوں کے شکاری بھی نظر آتے ہیں۔ جانتے ہو کون؟”

"کون؟”

"نیل کنٹھ۔۔۔ اور کون۔۔۔ نیلے،سرخ، نارنجی پروں والے۔ لمبی لمبی چونچوں والے۔ پانی کے بالکل قریب اُڑتے ہوئے اچانک گردن تک پانی میں ڈبکی مار کر جھٹ سے کسی مچھلی کو دبوچ کر ’’پھُر‘‘ سے اُڑ جاتے۔”

"بیچاری۔۔۔ مچھلی۔۔۔ ” عناب نے اُداس سا ہو کر کہا۔

"یہ تو Food Chainہے۔۔۔ کوئی نہ کوئی Living Beingکسی نہ کسی دوسرے Living Being کو کھاتا رہتا ہے۔” راحیل نے عناب کو دیکھ کر سمجھانے کے انداز میں کہا تھا۔

عظمیٰ کی مسکراہٹ میں محبت جھلکنے لگی۔

"یہ تو ہم شہر کی جھیل کی بات کر رہے تھے۔ وہاں کے قصبوں میں اور بھی بہت سی مشہور جھیلیں ہیں جن کے حسن کا جواب ہی نہیں۔۔۔ ایک تو دنیا کی شفاف ترین جھیلوں میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔”

"پہلی صاف جھیلSupreme Lakeہے نا امّی؟” راحیل نے سر ہلا کر کہا تھا۔

"ہاں بیٹا۔”

بچوّں ہی کی طرح عظمیٰ خود بھی بے قرار تھی۔

کوئی دس برس ہو گئے تھے۔۔۔ اُس نے اُن گلیوں کو نہیں دیکھا تھا جہاں وہ کھیلی تھی۔ وہ خوابوں میں خود کو اُن راستوں پر ٹہلتا دیکھتی جہاں سے گزر کر وہ سکول، کالج، یونیورسٹی گئی تھی۔ اُسے اس ہوا کی خوشبو یاد آیا کرتی جس کی ٹھنڈک اُس کے جسم و جاں کو تر و تازہ رکھتی تھی۔

کیا دن تھے وہ۔۔۔

وہ ہاتھوں کی محراب سی بنا کہ منھ پر رکھ لیتی اور اپنے کمرے کی درمیانی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئی منھ سے کک کک کک۔۔۔ کک کک کک آوازیں نکالتی۔۔۔ جانے کس درخت کی کون سی ٹہنی پر ننھے ننھے کیڑوں کو کھوجتا کوئی ہُدہُد اُس کی آواز میں آواز ملا دیتا۔ کبھی وہ بولتی، کبھی ہُدہُد بولتا۔

کھڑکی کے قریب ایک پُرانا پیڑ بھی تھا۔ جس پر سیاہی مائل سرخ شہتوت اُگا کرتے تھے۔ اُس کی شاخوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنائے تھے۔ ان کی چہکار سے ہی اکثر وہ بیدار ہوا کرتی تھی۔

ایک دفع جب کرم کشی والوں نے ہر سال کی طرح، ریشم کے کیڑوں کے چارے کے لیے شہتوت کے درخت کی پتوں سے لدی ساری شاخیں اُتار لی تو چڑیا کا ایک گھونسلہ جانے کیسے دو ٹہنیوں کے درمیان ٹکا رہا تھا۔ مسہری پر کھڑے ہو کر عظمیٰ کو سارا منظر صاف دکھائی دیا کرتا تھا۔چڑیا اپنے بچوّں کے حلق میں چونچ ڈال کر اور سر جھٹک جھٹک کر دانہ اُنڈیلتی۔ اور بچےّ پنکھ پھڑپھڑاتے للچائی للچائی سی چہکار چھیڑے رکھتے۔ عظمیٰ پہروں اُنہیں سنا کرتی،گھنٹوں دیکھا کرتی۔ چڑیا نے کیسے اُڑنا سکھایا تھا اپنے بچوّں کو۔۔۔ قدم بہ قدم۔۔۔ جیسے عظمیٰ نے راحیل اور عُنّاب کو چلنا سکھایا تھا۔ جس طرح اس کی ماں نے اُسے سکھایا ہو گا۔

چڑیا ایک بار پھدک کر بچےّ کو دیکھتی تو وہ بھی ویسی ہی کوشش کرتا۔ مگر کبھی ایک پنکھ کھولنا بھول جاتا کبھی عدم توازن کی وجہ سے گر پڑتا۔ یا پھر بس۔ چڑیا کی طرف چونچ کیے رہ جاتا۔

چڑیا کے بچوّں نے جب پہلی انفرادی اڑان بھری تھی تو اُس کے کمرے کے درمیان میں لٹک رہے چھوٹے سے فانوس پر آ بیٹھے تھے۔ وہاں کمروں میں سیلنگ فین کم ہی ہوا کرتے تھے بلکہ ہوا ہی نہیں کرتے تھے۔ ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔

وہ چوکھٹ پر دانہ بکھیر دیا کرتی تھی۔ بچےّ شاید اُس کی موجودگی سے کبھی خائف نہ تھے۔

فانوس کی تار کے ارد گرد سوکھی ہوئی چکنی مٹی سے دو ابابیلوں نے سیلِنگ سے لگا کر ایک گھونسلہ بھی بنا رکھا تھا۔ خدا جانے یہ مخصوص مٹی کس مخصوص ندّی کے کنارے سے لاتی تھیں یہ ابابیلیں۔ایک گھونسلے کے لیے ان گنت بار مٹی ڈھونا پڑتی اور مٹی بھی ایسی جیسے اُس میں گوند ملا دیا گیا ہو۔ بھری ہوئی چونچ کی ساری مٹی گھونسلے سے چپک جاتی اور ایک ذرّہ بھی نیچے نہ گرتا۔کبھی اتوار کو عظمیٰ جب دیر سے بیدار ہوتی تو سیلینگ کے قریب سے یاقوت جیسی چار آنکھیں چمکا کرتیں۔ چپ چاپ دیکھتی ہوئی۔ ابابیلوں نے کبھی اُسے جگانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ مگر جب وہ اُٹھ بیٹھتی اور کھڑکی کا پردہ سرکاتی تو وہ لطیف سی چہکار چھیڑ دیتیں۔ جیسے ایک ایک ماترا پر گایا جانے والا کوئی غیر یقینی نغمہ۔۔۔ جن دنوں عظمیٰ اپنے اس کمرے میں اکیلی سونے لگی تھی تو ابابیلوں کی موجودگی نے اکیلے ہونے کا احساس تک اُس کے پاس نہ آنے دیا تھا۔

سفید سینوں اور کالے کالے لمبے پنکھوں والی ابابیلیں۔جیسے خمیدہ کمر والی ضعیفاؤں نے سفید لباس پر بڑے بڑے سیاہ اوور کوٹ پہن رکھے ہوں۔

کتنی یادیں کتنے سُکھ وابستہ تھے اُس جگہ کے ساتھ۔ دکھ بھی وابستہ ہوں شاید۔۔۔ مگر اُسے یاد نہ تھے۔

"مگر ہم جائیں گے کب امی۔۔۔ "عناب نے مچل کر کہا تھا تو راحیل کی آنکھوں میں سوالیہ سی چمک جگمگائی تھی۔

"آج آپ کے ابو ٹکٹ لے آئیں گے۔۔۔ بس آپ اپنی اپنی پیکنگ مکمل رکھئے۔ کل یا پرسوں ہی نکلنا ہو گا۔۔۔ گھنٹے بھرکی اُڑان۔۔۔ اور ہم اپنے شہر میں۔۔۔ "

جب وہ شہر پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ایرپورٹ سے نکل کر سڑک پر آئے تو سفیدے کے لمبے چھریرے درخت دیکھ کر عظمیٰ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

"یہ سفیدے کے درخت ہیں بیٹا۔”

گاڑی کی پچھلی نشست پر اپنے دائیں بائیں بیٹھے بچوّں سے اُس نے کہا۔

"اور وہ بید کے۔۔۔ یعنی Willow۔”

فیروز نے ہاتھ سے سڑک کے کناروں سے ذرا دور باغوں کی طرف اشارہ کیا۔

"ان کی ایک قسم Weeping Willowsکہلاتی ہے جو زیادہ نمی والی زمین میں اچھی طرح پنپتی ہے۔

"Weepingکیوں ابّو۔۔۔ "

"وہ بیٹا اس لیے کہ اُن کی ساری شاخوں کا جھکاؤ زمین کی جانب ہوتا ہے۔ جیسے کسی پہاڑی سے کوئی جھرنا بہہ رہا ہو۔ ان کو بیدِ مجنوں بھی کہتے ہیں۔۔۔”

"برگد کی طرح؟،جس کی جڑیں اوپر سے نیچے لٹکتی رہتی ہیں۔”راحیل نے کہا۔

"ہاں۔کچھ کچھ۔”

"لوگ کتنے گورے ہیں۔۔۔ وہ دیکھئے امّی۔” راحیل نے سڑک کے کنارے کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں بس سٹاپ پر کچھ طلبا بس کے منتظر تھے۔

"اور Red,Redبھی۔” عُنّاب نے کہا۔

"آپ یہاں رہیں گے تو آپ بھی ایسے ہی سرخ و سفید ہو جائیں گے۔ یہاں کی ہوا تازہ جو ہے۔۔۔ پہاڑوں پر ایسی ہی تازگی نظر آیا کرتی ہے۔۔۔ جب ہم یہاں سے گئے تھے تو راحیل کے رخسار سیب ایسے سرخ تھے۔”عظمیٰ نے اُس کے رخسا ر پر ہاتھ پھیرا۔

"اور میرے امّی۔۔۔ "

"آپ تو پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔Metro Polis اور گرم آب و ہوا میں رہ کر ہم سب ہی سانولے سلونے ہو گئے۔۔۔ ” عظمیٰ ہنس دی۔

چھٹیاں مہینے بھر کی تھیں۔ ہفتہ بھر رشتہ داروں سے ملاقاتوں میں گزر گیا۔

دوسرے ہفتے کوئی چھ روز ہڑتال رہی کہ کسی دکاندار کوکسی سرکاری محافظ نے محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر گولیوں سے بھون دیا۔اُس کے بعد شہر میں اِدھر اُدھر بم دھماکے ہونے لگے۔ ضروری کاموں کے لیے لوگ قدرت کے بھروسے نکل جاتے مگر گھومنے پھرنے کے خیال سے کہیں جانا۔۔۔ ؟ بات کچھ بنتی نہ تھی۔

پھر یوں ہوا کہ اُن کی رہائش ہی کے باہر بارودی سرنگ میں دھماکا ہوا۔۔۔ دھماکے والے بھاگ گئے۔ راہگیروں کو پکڑا گیا۔ گھروں کی تلاشیاں ہوتی رہیں۔

تین دن پہیہ جام رہا۔۔۔ اور آخیر ہفتہ بس سوچوں میں گزر گیا۔

واپسی میں دو دن رہ گئے۔ اب تو کہیں جانے کا پروگرام بنانا ہی تھا۔ بچےّ جھیل کی سیر کے لیے بیقرار تھے اور ان سے زیادہ عظمیٰ اور فیروز۔

جھیل تک کا راستہ کچھ زیادہ طویل نہ تھا۔اُن دنوں اُس راستے میں پانچ چھ سرکاری پارک ہوا کرتے تھے۔ اب صرف ایک بچا تھا۔ باقیوں میں قطار در قطار نئے نئے کتبے کھڑے تھے۔ اکثر پر درج عمریں ۱۵ اور ۳۰ برس کے درمیان تھیں۔

وہ لوگ جب جھیل کے قریب پہنچے تو موسم نہایت خوشگوار تھا۔

جھیل کا باندھ کئی جگہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ کناروں کے پانی میں چھلے ہوئے بھٹے اور Wafersکے خول تیر رہے تھے۔ پانی گدلا تھا۔

"یہ تو گندی ہے امّی۔۔۔ "عُنّاب نے ماں کی طرف دیکھ کر بے یقینی کے سے تاثرات لیے کہا۔

"یہ کنارہ ہے نا۔۔۔ آگے آگے بالکل شفاف ملے گی جھیل۔”عظمیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے جیسے اپنے آپ سے کہا۔فیروز شکارے والے سے بات کر رہا تھا۔

"ہم شکارے میں بیٹھ کر وہاں تک جائیں گے۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ دور جو چھوٹا سا جزیرہ ہے نا۔۔۔ جس میں چنار کے چار درخت ہیں۔۔۔ وہ وہاں۔۔۔ وہاں جاتے ہوئے ہمیں راستے میں بے شمار ننھی ننھی مچھلیاں، ہری ہری آبی گھاس۔۔۔ نیل کنٹھ اور سب کچھ دیکھنے کو ملے گا۔” عظمیٰ نے ہاتھ سے دور اشارہ کر کے بچوّں سے کہا۔

ہری بیلوں اور بڑے بڑے سرخ پھولوں والے پردوں اور نرم ربر کی کشادہ سیٹوں والا ایک شکارہ کنارے کے زینے سے لگا ان کا منتظر تھا۔۔۔ شکارے کا نام لیک برڈ (Lake Bird)تھا۔

بچےّ گاؤ تکیوں سے لگ کر بیٹھ گئے۔ عظمیٰ اور فیروز آگے والی نشست پر بیٹھے اپنے اطراف دیکھ رہے تھے۔۔۔ کوئی دو ایک شکارے دور دور نظر آ رہے تھے۔

"رونق کتنی کم ہو گئی ہے”۔عظمیٰ نے رونق کے غائب ہونے کی جگہ رونق کم کہا تو فیروز کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

کشتی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ عظمیٰ کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔

کتنی یادیں وابستہ تھیں اس جھیل کے ساتھ۔۔۔ وہ اپنے ابوّ امّی اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایک بڑی سی گھر نما کشتی میں، عمدہ پوشاک پہنے، سامانِ خورد و نوش سے لیس جھیل کی سیر کو نکلی ہے۔ کناروں پر مغل باغات کی سیر بھی کی جائے گی۔۔۔ ابوّ کتنی مصروفیت کے باوجود چھٹی کے روز سب کو سیر پر لے جاتے تھے۔

اب ابوّ بھی نہیں رہے۔۔۔ میلے کا سا سماں ہوا کرتا تھا۔مقامی لوگوں سے لدی کشتیاں، ملکی اور غیر ملکی سیاح۔۔۔ کوئی موٹر بوٹ پر جھیل کے پانی میں زور و شور سے لہریں پیدا کرتا ہوا جا رہا ہے کوئی Water Skiingکر رہا ہے۔ ہنی مون پر آئے جوڑے شکاروں کے پردے برابر کیے عہد و پیمان میں مصروف ہیں، کہیں پیراکی ہو رہی ہے، کہیں کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔۔۔ کسی پھولوں سے لدی کشتی کو کوئی گل رخ حسینہ کھیتی ہوئی پھول بیچ رہی ہے۔ ان پھولوں میں گلِ نیلوفر اپنے حسن و جسامت کی بنا پر سب پھولوں کا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اُس کے ساتھ گلاب، نرگس، گیندا، موگرا، چمیلی اور جانے کون کون سی قسم کے پھول ماحول کو معطر کیے ہوئے ہیں۔ کسی کشتی پر پھلوں اور سبزیوں کی بہا رہے۔ جھیل میں تیرتے باغیچوں میں اُگی سبزیاں اور ایک سبزی جو پانی میں اُگا کرتی ہے۔نیلوفر کے پھول کا موسم ختم ہو جانے پر اُس کے درمیان کا حصہ جہاں ننھی ننھی پتیاں اُگی ہوتی ہیں، رفتہ رفتہ پروان چڑھتا ہے اور کمل ڈوڈہ کہلاتا ہے۔ جس میں نرم و نازک لذیذ گریاں ہوتی ہیں اور اسی نیلوفر کی ڈنڈی بڑی ہو کر، کمل ککڑی، بھیں یا ندور کہلاتی ہے۔ جو ایک مرغوب سبزی ہے۔ جھیل کے کناروں پر ہی ایک مخصوص قسم کی گھاس بھی اُگتی ہے جس کی شاخیں نہیں ہوتیں۔ اس کی چٹائیاں بُنی جاتی ہیں۔ ان چٹائیوں پر مٹی بچھا کر اسے قابل کاشت بنایا جاتا ہے۔ ان تیرتے ہوئے باغیچوں میں اُگی سبزیاں حیاتین سے پُر ہوتی ہیں۔عظمیٰ نے سنا تھا کہ اس طرح کے تیرتے ہوئے باغ وادی کے علاوہ دُنیا میں صرف جنوبی امریکہ میں ’پیرو کی ٹٹیکا‘ جھیل میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ قدرت کے بنائے ہوئے جزیروں پر انسان نے لگائے ہیں، جانے کیسے تیرتے ہوں گے وہ جزیرے۔ اُن پر بھی سبزیاں اُگائی جاتی ہیں۔ مگر وادی کی جھیلوں، ڈل، وُلر وغیرہ پر تیرنے والے باغیچے انسان کے ہاتھوں کا کرشمہ ہیں۔۔۔ آج پھلوں پھولوں والی کوئی کشتی نظر سے نہیں گزی ابھی تک۔

عظمیٰ سوچتی۔۔۔

یہ ملاح کتنی سست رفتاری سے نیّا کھے رہا ہے۔ جیسے اُداس ہو۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں، پُر جوش ملاحوں کی کشتیوں میں بیٹھنا ایک الگ ہی لطف دیتا تھا۔

کہیں کیوں نظر نہیں آ رہی تھیں آج یہ سب چیزیں۔؟۔۔۔ کیوں۔۔۔ ؟ہاں وہ جانتی تھی کیوں۔ مگر سمجھنے سے قاصر تھی۔ دور کنارے پر کہیں کنول کے پھول کھِلے ہوئے تھے۔

عظمیٰ حیرت سے دیکھنے لگی۔

یہ تو اگست میں کھِلا کرتے تھے۔ جون میں ہی کیسے۔۔۔ ہاں کرۂ ارض کی حرارت بڑھ جو گئی ہے۔۔۔ اسی لیے۔۔۔ اس دفع دوپہریں کچھ گرم بھی تھیں۔۔۔ عظمیٰ کو کئی بار خیال آیا تھا کہ یہاں بھی گرمی سے نپٹنے کا کوئی انتظام کیا جانا چاہیے۔نئے مکانوں میں اسی لیے اب سیلِنگ میں پنکھے لگائے جا رہے ہیں۔۔۔ بھٹے، اخروٹ وغیرہ جو اکتوبر میں پکا کرتے تھے۔۔۔ فروخت ہو رہے ہیں۔۔۔ ساری دنیا ہی بدل رہی ہے۔۔۔ عظمیٰ آسمان کو دیکھنے لگی۔

مگر جھیل تو نہیں بدلی۔۔۔ اسے یکلخت خیال آیا تو وہ جھک کرپانی کو دیکھنے لگی۔کشتی کنارے سے خاصی دور آ گئی تھی۔۔۔ مگر پانی۔۔۔

عظمیٰ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا اور ریزہ ریزہ بکھر گیا۔ وہ پانی کو دیکھتی چلی گئی۔ پانی مسلسل ویسا ہی نظر آ رہا تھا جیسا کناروں کے قریب تھا صرف اُس میں اس وقت اُسے چھلے ہوئے بھٹے اور ویفرس کی خالی تھیلیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔

جھیل کا پانی پہلے سے اتنا مختلف تھا کہ اُسے محسوس ہوا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔ کوئی ڈراؤنا خواب جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔اُس کے چاروں طرف میلا گدلا پانی تھا۔۔۔ دور دور تک پھیلا ہوا۔۔۔ جیسے پانی میں سیاہی جیسی کوئی چیز گھل گئی ہو۔ گلی سڑی گھاس کے تنکے پانی میں تیر رہے تھے۔ پانی کسی کم گاڑھے دلدل کی طرح معلوم ہوتا تھا۔محض انچ بھر گہرائی کے بعد،پانی کے اندر کچھ واضح نہ تھا کہ کنارے پر بنے ہوٹلوں اور آبی گھروں کی آلودگی کا نکاس جھیل میں ہی ہوتا اور صفائی کا انتظام نہ کے برابر۔کہیں کوئی مچھلی نہیں تھی۔۔۔ نہ ہی کوئی نیل کنٹھ۔ بچےّ اُس سے جانے کیا کیا سوال کر رہے تھے۔ فیروز انھیں تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور وہ شاید اپنے اندر کوئی بکھراؤ سا محسوس کر رہی تھی کہ خود کو سمیٹ کر کسی سے بات کرنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔

کیا صدیوں پہلے کی طرح آج کوئی حکیم سُویہ نہیں پیدا ہو سکتا۔ کیا پھر سے کوئی معرکہ سر نہیں ہو سکتا۔ کتنا مشہور ہے کشمیر کی تاریخ میں سُویہ کا کارنامہ۔ صدیوں پہلے کا کارنامہ۔۔۔ نویں صدی کے ایک راجہ اونتی ورمن کے راج میں ایک دانا درباری حکیم سُویہ ہوا کرتا تھا۔ جہلم جو اُن دنوں وِتستا کہلاتا تھا، گرمی کے موسم میں اکثر و بیشتر طغیانی پر ہوتا کہ دھوپ کی تمازت سے پہاڑوں کی برف پگھل کر وادیوں کی طرف بہہ نکلتی تھی۔ اور کناروں پر بسے گاؤں، شہر سیلاب کی زد میں آ جاتے تھے۔ خطے کے شمالی علاقوں میں ایک حصہ ہر برس جب سیلاب کا شکار ہونے لگا تو سُویہ نے رعایا سے محبت کرنے والے راجہ اونتی ورمن کے خزانے سے اشرفیاں لے کر دریا میں پھینکی جنھیں پانے کی خواہش میں لوگوں نے دریا کی تہہ سے ّمٹی نکال کر دریا کو گہرا اور کناروں کو اونچا کر دیا جس سے سیلاب کا خطرہ جاتا رہا۔۔۔ لوگ سُویہ کے اس کارنامے کی وجہ سے اُسے حکیم سُویہ پکارنے لگے کہ اُس کی حکمت سے وہ ایک بہت بڑی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئے تھے۔ اس مقام کا نام سُویہ پور رکھا گیا جو رفتہ رفتہ سوپور ہو گیا۔۔۔ عظمیٰ افسردگی سے سوچتی رہی۔۔۔ کیا آج کوئی ایسا حکیم۔۔۔ کوئی حاکم۔۔۔ کوئی ہمدرد۔۔۔ کوئی۔۔۔

کشتی کو ہلکا سا جھٹکا لگا تو اُس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کشتی کنارے سے لگ چکی تھی۔ بچے بُجھے بُجھے سے تھے۔ فیروز خاموش۔۔۔ اور وہ بے حد اُداس۔ فیروز کو کہیں جانا تھا۔

عظمیٰ کی نظر بچوّں کے چہروں کی طرف اُٹھ گئی۔

"عجائب گھر دیکھیں۔۔۔ ؟۔۔۔ Museum?۔”

پتہ نہیں اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جیسی کوئی شے کہاں سے آ چپکی۔

"ایک دم پرانے زمانے کی چیزیں۔۔۔ جو آپ نے کبھی نہ دیکھی ہوں گی۔۔۔ "اُس نے تاثرات میں اشتیاق پیدا کیا۔

"جی امّی۔۔۔ "رحیل نے آہستہ سے کہا۔

"ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ "عناب ہلکے سے مسکرائی۔

میوزیم جہلم کے کنارے ایک روح پرور باغ سے لگا ہوا نہایت پرسکون معلوم ہو رہا تھا۔ پھاٹک کے قریب ریت کے تھیلیوں میں محفوظ پہرے دار نے ان کی شناختی پرچیوں کا معائنہ کیا۔۔۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی بچےّ ہشاش بشاش نظر آنے لگے۔

احاطے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک پرانے وقتوں کی توپ نے ان کا استقبال کیا۔اُس کے بعد مہاتما بدھ کا ایک قدیم مجسمہ نظر آیا۔ داہنی طرف چھوٹا سا زینہ اتر کر باغیچے کے کنارے سے لگا ہوا ایک بہت بڑا پتھر تھا جو کوئی کتبہ معلوم ہوتا تھا۔ دوسری طرف بغیر سرکی ایک مورتی تھی جس کا جسم نہایت خوبصورتی سے تراشا گیا تھا۔

عمارت کے اندر جانے کا راستہ مختصر تھا اور پتھر کی پتلی لمبی سلوں کو ساتھ ساتھ رکھ کر بنایا گیا تھا۔۔۔ سلوں کے درمیان جا بجا ہری ہری گھاس اُگ آئی تھی۔

عمارت میں داخل ہوتے ہی اُن کی نظر سرسوتی کے ایک پر شکوہ مجسّمے پر پڑی، جس کے قدموں کے پاس لکھی عبارت پر دوسری صدی کی کوئی تاریخ درج تھی۔ سرسوتی کا مجسمہ آنکھیں بند کیے پراسرار سے انداز میں مسکرا رہا تھا۔ شیشے کے ایک بڑے شوکیس میں ایک اور مورتی تھی۔۔۔ یہ مورتی درگا کی تھی جو ایک بہت بڑے دروازے میں جڑی ہوئی تھی۔ غالباً کسی مندر کا حصہ رہی ہو گی اور کھدائی میں دریافت ہوئی تھی۔اُس کے گرد لگے دائرے میں ماتا درگا کے مختلف رُوپ لیے کئی چھوٹے چھوٹے مجسّمے تھے۔۔۔ اور یہ سب ایک ہی پتھر کو تراش کر کسی عظیم فن کار نے نہایت مہارت سے بنایا تھا۔

"یہ چھٹی صدی میں رائج تھا۔۔۔ تانبے کاہے۔” بجھے بجھے سے گائڈ نے عجائب خانے کی سیر کو آئے اکلوتے سیاح کنبے کو بتایا۔ یہ سکہ مجسّمے کے بالکل سامنے شیشے کی چھوٹی سی صندوقچی میں لگا تھا۔

دوسری طرف بھگوان مہاویر کا بہت بڑا مجسمہ جیسے کہ صدیوں سے مراقبے میں بیٹھا تھا۔ کونے میں کالی کی پر جلال مورتی تھی۔اُس کا ترشول اُس کے پیروں کے پاس پڑے کسی ظالم کے سینے میں پیوست تھا۔

ہال کا آخری سِرا ایک مستطیل کمرے کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔۔۔ جس میں چھوٹے سے دروازے سے گزر کر ہی داخل ہوا جاتا۔

اُس کمرے میں مختلف اوزار اور ہتھیار تھے۔شیشے کی الماریوں میں بند۔جن کے کونوں پر سَن، حاکم کا نام وغیرہ درج تھا۔

راحیل اور عناب انھیں نہایت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

چھ چھ فٹ لمبی بندوقیں۔۔۔ ذرہ بکتر۔کچھ ہاتھی دانت کے دستے والی تلواریں تھیں۔ مخصوص امراء وزراء کی۔ کچھ پر دھات میں چِھلائی سے گل بوٹے بنے ہوئے تھے۔

قافلہ دوسرے ہال میں داخل ہوا۔۔۔ وہاں کی اشیاء بالکل مختلف تھیں۔ مغلوں کے زمانے کے غالیچے۔پشمینے کے قالین۔۔۔ شاہ توس کی ایک بڑی سی چادر پر مہاراجہ رنبیر سنگھ کے وقت کے شہر کا ایک نقشہ۔ مکمل تفصیل سے بنا ہوا۔ جس میں جھیلیں، بستیاں، کوہ، دریا سب مختلف رنگوں کے ریشمی دھاگوں سے کاڑھے گئے تھے۔

مغلیہ،شاہی پوشاکیں، رومال وغیرہ۔ پیرماشی اور اخروٹ کی لکڑی سے بنی دستکاریاں مختلف دھاتوں کے برتن۔ ہاتھ دھلوانے والا تانبے کا قلعی کیا ہوا بہت بڑا ّمنقش کوزہ اور آفتابہ۔

"اسے کیسے استعمال کرتے ہوں گے امّی؟” راحیل نے پوچھا۔

"کئی کئی لوگ اٹھاتے تھے دونوں کو۔۔۔ بیک وقت کم سے کم چھ چھ آدمی۔”گائڈ نے اُسے بتایا۔

شیشے کے ڈھکن والی لمبی سی میز کے اندر مختلف دھاتوں کے ہاتھ سے بنے زیورات تھے۔ ان میں کچھ اب بھی رائج ہیں۔ عظمیٰ نے سوچا۔ جیسے کانوں کے بڑے بڑے بالے۔ اتنے بھاری جھمکے کہ ایک دوسرے سے ایک زنجیر کے ساتھ جوڑے گئے تھے۔وہ زنجیر سرکے اوپر آنچل کے اندر رہتی اور کانوں پر بوجھ نہ پڑتا۔

دھات اور پتھروں سے بنی پازیبیں، مالائیں۔۔۔ کچھ برتن۔کچھ قدیم کتب کے قلمی نسخے۔۔۔ مغل بادشاہ اور نگ زیب کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک۔ کچھ قدیم ریاستی معاہدے۔۔۔

اتنی دلچسپ اور اہم اشیاء کو دیکھ کر عظمیٰ اور بچےّ کچھ کھِلے سے مطمئن سے نظر آ رہے تھے۔ اور پُر اشتیاق ہر شے کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

اس کے بعد کے ہال کو ایک راہداری کے ذریعے دوسری طرف کے ہال کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔بچےّ اگلے ہال کی طرف جا چکے تھے۔

عظمیٰ جب وہاں پہنچی تو بچےّ نہایت انہماک سے وہاں نسب مجسّموں کو دیکھ رہے تھے۔ یہ مجسمے ریاست کے تینوں خطوں میں رہنے والے لوگوں کے مختلف ملبوسات میں ایستادہ ڈمی کی طرح بنائے گئے تھے۔ مگر قدیم لباس میں۔ بغیر زیورات کے۔ سادہ۔سادہ سے۔

اپنے بچپن میں بھی عظمیٰ نے انھیں اسی جگہ پر ایسے ہی نسب دیکھا تھا۔ ان کے کپڑے اب بوسیدہ ہو چکے تھے۔ گو کہ نلکیوں کے ذریعہ تمام الماریوں تک پرزرویٹو گیس(Preservative Gas) پہنچائی جاتی تھی مگر یہ مجسّمے الماریوں میں نہیں رکھے گئے تھے۔

سامنے کا دروازہ ایک بڑے ہال میں وا ہوتا تھا۔ اس میں عنقا اور موجود، دونوں قسم کے بہت سے پرندوں اور جانوروں کی کھالیں حنوط کر کے اس مہارت سے اصلی شکل میں منتقل کی گئی تھیں کہ نقل کا گماں تک نہ ہوتا تھا۔

شیر۔چیتا۔تیندوا۔مارخور بکرا جس کے سینگ خمدار ہوتے ہیں اور جو بڑے شوق سے سانپ کھاتا ہے۔ اود بلاؤ۔ نیولا۔ بھالو وغیرہ۔ اور اس کے علاوہ وادی میں پائے جانے والے پرندے، چیل۔کوّا۔ گدھ۔ کبوتر۔ ُسن چچُر جو مور سے مشابہ ہوتا ہے کہ اُس کے سر پر تاج تو ہوتا ہے مگر دم نہایت مختصر۔ مختلف قسم کی بطخیں، راج ہنس، بگلے، طوطے، مینا، کستوری، کئی طرح کی بلبلیں اور دیگر اقسام کی چڑیاں۔

اسی ہال میں دوسری طرف اکبر بادشاہ کا چھوٹا سا آدھے دھڑ کا مجسمہ تھا۔ عظمیٰ کو یاد آیا کہ جب وہ بہت چھوٹی سے تھی تو اُس کے چچا نے بنایا تھا۔چچا بہت لگن سے مجسّمے بناتے تھے۔ انھوں نے اکبر کے تاج پر سونے کے گھول سے نقاشی کی تھی۔پھر بازو کی تکلیف کی وجہ سے انھوں نے اپنا یہ مشغلہ چھوڑ دیا تھا۔ چچا نے اپنی ایک چہیتی بیوی کا مجسمہ بھی بنایا تھا۔ وہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ وہ مجسمہ اب بھی ان کی آبائی حویلی کے کسی گوشے میں محفوظ ہے۔

یہاں کئی مجسمے چچا کے ہاتھوں کے بنے تھے۔اونی پھرن اور ٹوپی پہنے حُقہ پیتا ہوا آدمی۔ سماوار سے پیالی میں چائے انڈیل رہی تِلّے کی کڑھائی والے گریبان کا پھرن پہنے خاتون۔ ہل چلاتا ہوا کِسان۔ دودھ بلوتی ہوئی گرہستن وغیرہ،کانچ لگی الماریوں میں محفوظ تھے اور اب بھی ان کی چمک جوں کی توں قائم تھی۔ ویسی ہی جیسے عظمیٰ نے اپنے بچپن میں دیکھی تھی۔

مگر ٹوٹے کانچ کی الماریوں کے اندر کی چیزوں میں کوئی جاذبیت باقی نہیں تھی۔یعنی حال کی طرح ماضی بھی اُجڑ سکتا ہے کہ یہاں کی بھی دیکھ بھال ٹھیک طرح سے نہیں ہو رہی تھی۔ عظمیٰ نے ایک گہری سانس لی۔

گائڈ دوسرے ہال تک ساتھ آ کر لوٹ گیا تھا۔

وہ اُداس اُداس سی آگے بڑھتی رہی۔۔۔ ایک ایک چیز کو غور سے دیکھتی ہوئی جانے کیا کیا سوچتی ہوئی۔

ہال کے آخری سرے پر جہاں سے برآمدہ نظر آتا تھا،ایک قدِ آدم مجسمہ ایک پرانی چھوٹی سی میز پر ٹکا ہوا تھا۔ جیسے کسی ایسی بیمار لڑکی کی مورت، جو کھڑی رہنے سے تھک کر ذرا سا میز پر بیٹھ گئی ہو۔ سوکھی لکڑی سے ہاتھ پاؤں۔۔۔ گڈھوں میں دھنسی آنکھیں۔۔۔ عظمیٰ نے یہ مجسمہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ عظمیٰ سوچنے لگی۔ کس قدر عظیم فن پارہ۔۔۔ کسی بلند درجہ فن کار کا بنایا ہوا مجسمہ۔۔۔ وہاں کی ادھیڑ عمر کنواریوں کا ہو بہو عکاس۔ عظمیٰ اس شاہکار کو انگشت بدنداں دیکھتی رہ گئی۔

واہ۔۔۔

جانے مجسمے کی آنکھوں میں کیا بات تھی کہ دل میں درد سا بھر جاتا۔۔۔ اس کی نظریں باہر برآمدے والے راستے پر گڑھی تھیں جیسے وہ کسی کی راہ تک رہا ہو۔

عظمیٰ عش عش کر اُٹھی۔ اور بچوّں کو بلاتی ہوئی عمارت سے باہر نکل آئی۔ راحیل اُس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔

عنآب نے پکار کر کہا کہ آ رہی ہے۔۔۔

عجائب خانے کے کراہتے ہوئے سکوت میں اُس کی آواز گونج اُٹھی۔۔۔ اونگھتے ہوئے محافظ نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا تھا۔

عظمیٰ آگے بڑھ گئی۔ ابھی اُس نے پہلے ہی زینے پر قدم رکھا تھا کہ اُسے عناب کی چیخ سنائی دی۔ عناب کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔

ادھیڑ عمر کنواری لڑکی کا لاغر مجسمہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا ہوا اُنہی کی طرف چلا آ رہا تھا۔

عظمیٰ دم بخود اُسے دیکھتی رہ گئی۔

٭٭٭

بالکنی

"چلو۔۔۔ چلو چلو۔۔۔ راستہ دو۔۔۔ ایک طرف۔۔۔ ہاں۔۔۔ "

دوسپاہی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ اُن کے پیچھے ایک اعلیٰ افسر اور اُس کے عقب میں اور دو سپاہی تھے۔

"لیکن ہم نے کِیا کیا ہے بھیّا۔۔۔ یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ ہم تو خود پریشان ہیں حالات سے۔ ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بھی نہیں ہے۔ چوکی میں سب جانتے ہیں۔ یہاں تو آج تک کوئی۔۔۔ ہم یہاں ۱۵ برس سے رہ رہے ہیں۔”

ادھیڑ عمر عورت گھبرا کر بولی تو سپاہی رُک کر اپنے افسر کی طرف دیکھنے لگا۔

"سر۔۔۔ یہی تھا نا۔۔۔ ؟ جس رپورٹ کا آپ ذکر کر رہے تھے۔۔۔ اُس میں یہی گھر تھا نا؟”

"نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ماں جی۔۔۔ ہم بس ذرا اپنی ڈیوٹی پوری کر کے لوٹ جائیں گے۔”

افسر نے سپاہی کی بات نظرانداز کر کے عورت کو دیکھ کر دائیں بائیں دیکھا۔ جملے کا آخری حصہ ادا کرتے ہوئے اُس کے چہرے پر پریشان سے تاثرات چھا گئے۔

وہ مکان کے کشادہ صحن کے عین درمیان ا گیا اور بوسیدہ دیواروں کو بغور دیکھنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا مشرقی دیوار کے بالکل قریب چلا گیا اور اُنگلی سے ایک اینٹ کو چھُوا جو پلستر اُکھڑ جانے کی وجہ سے آدھی سے زیادہ نظر آ رہی تھی۔ اینٹ کی اوپری سطح بھُربھُرا گئی تھی اور اُس کی اُنگلی کا پور سرخ ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنی صاف شفاف وردی کے گریباں کے قریب جہاں بہت سے تمغے لٹک رہے تھے، اُنگلی کو ہلکے سے رگڑ کر صاف کیا اور پھر وردی پر لگے سرخ داغ پر بڑے سکون سے ہاتھ پھیر کر دونوں ہاتھ پتلون کی جیب میں ٹھونس دیئے اور زینے کی طرف بڑھ گیا۔

"تم یہیں رکو۔” اُس نے سپاہیوں کو حکم دیا۔

"میرا یقین کرو بیٹا۔۔۔ آج تک ہمارے یہاں سے نہ کوئی ایسا انسان پیدا ہوا۔۔۔ نہ کبھی آیا۔۔۔ نہ رُکا۔۔۔ ہم شریف لوگ ہیں میرے شوہر بجلی کے محکمے میں کام کرتے ہیں۔”

عورت اُس کے پیچھے پیچھے زینہ طے کرتی ہوئی سہمی سہمی سی کہہ رہی تھی۔ اُس کی نظریں افسرکے پہلو سے لٹک رہی پستول پر ٹھہر ٹھہر جاتیں۔

"یہ۔۔۔ یہ میری بیٹی کا کمرہ ہے۔” افسر نے ایک دروازے پر دستک دی تو ایک لڑکی نے دروازہ کھولا اور خوف زدہ سی ہو کر باور دی اجنبی کو دیکھنے لگی۔

"نہیں نہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ یہ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔”

ماں نے اپنی آواز میں اعتماد پیدا کرتے ہوئے کہا۔

"اس گھر کا ریکارڈ سارا محلہ جانتا ہے۔۔۔ بیٹا۔۔۔ اس مکان کی تو سارے محلے میں عزت ہے۔۔۔ ہم سے پہلے جو لوگ یہاں رہتے تھے۔ بہت ہر دل عزیز تھے۔ وہ میرے شوہر کے محکمے میں ایک بہت بڑے افسر تھے مگر ہر ایک کے کام آنے والے۔ اُن سے ہم نے خریدا تھا یہ گھر۔۔۔ ۱۵ برس پہلے۔”

"وہ لوگ۔۔۔ اب کہاں۔۔۔ ہیں۔”افسر دھیرے سے بولا۔

"خدا جانے بیٹا۔۔۔ صاحب خانہ کے انتقال کے بعد اُن کی بیگم نے یہ گھر بیچا تھا ہمیں۔۔۔ وہ پھر غالباً اپنے آبائی گاؤں چلی گئی تھیں۔”عورت کی آواز میں خوف کا عنصر کچھ کم ہو گیا تھا۔

"اور بچّے۔۔۔ ؟”افسر نے دروازے کی چوکھٹ کے اوپری حصّے پر کھدا ہوا کوئی لفظ پڑھنے کی کوشش کی تو اُس کے ہونٹوں پر ایک بے کیف سی مسکراہٹ چھا گئی۔

"بڑا بیٹا کہیں باہر پولیس یا فوج کی بڑی ٹریننگ کرنے گیا تھا۔۔۔ اور چھوٹا ماں کے ہی ساتھ۔۔۔ "

"یہاں سامنے کوئی رہتا۔۔۔ ؟”افسر کمرے میں داخل ہو کر کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا۔

"ہاں۔۔۔ رہتے ہیں۔۔۔ دو میاں بیوی۔۔۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔۔۔ ایک بیٹی ہے غزالہ۔۔۔ سسرال میں۔”

"ہاں۔۔۔ اچھا۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ ہے۔۔۔ غزالہ۔۔۔ ” وہ دھیرے سے بولا۔ اور کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ کمرے کے اندر سامنے کی دیوار میں ایک بڑا سا دروازہ لگا ہوا تھا۔ اُس نے لپک کر دروازہ کھول دیا تو اُس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔

"نہیں۔” اُس کے چہرے پر بے یقینی کے تاثرات چھا گئے تھے۔ دروازہ ادھ کھلا چھوڑ کر وہ غیر ارادی طور پر دو قدم پیچھے ہٹا تو عقب میں کھڑی لڑکی کے پاؤں پر اس کے جوتے کی ایڑھی پڑ گئی۔ لڑکی کے منھ سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی، لڑکی سہم کر ماں سے لگ گئی۔

"کیا ہوا۔۔۔ ؟”عورت نے لرزتی ہوئی آواز میں جانے کس سے پوچھا۔

"یہ۔۔۔ یہ الماری کہاں سے۔۔۔ یہ الماری آپ نے۔۔۔ کب بنائی۔۔۔ یہ۔۔۔ "

افسر نے جلدی سے پوچھنے کی کوشش میں کہا مگر الفاظ اُس کی زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔

"بہت دن ہوئے بیٹا۔۔۔ تم۔۔۔ تم اس کی تلاشی لے لو۔۔۔ دیکھ لو۔” عورت اب بری طرح گھبرا رہی تھی۔۔۔ اُس نے جلدی سے الماری کے دونوں پٹ پورے وا کر دیئے تو افسر کی کانپتی ہوئی آواز رُک رُک کر اُس کے کانوں میں پڑی۔

"یہاں۔۔۔ یہاں پر۔۔۔ چھوٹی سی بالکنی تھی۔۔۔ جو۔۔۔ جو سامنے والے گھر کے برآمدے کی بالکل سیدھ میں بنی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ اور میں بالکنی میں بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔”افسر آس پاس دیکھتا ہوا کمرے کی دہلیز تک آ گیا۔

"غزالہ برآمدے میں ٹہل ٹہل کر پڑھتی تھی۔”

"یہ۔۔۔۔۔۔ اوپر!۔”اُس نے دروازے کی چوکھٹ پر نرمی سے ہاتھ پھیرا۔

’ ’یہاں یہ۔۔۔ میں نے اپنا نام۔۔۔ لکھا تھا۔۔۔ پرکار سے۔۔۔ بہت برس پہلے۔۔۔ پھر مجھے گھر سے دور ہوسٹل میں رہنا پڑا۔۔۔ والد صاحب انتقال کر گئے۔۔۔ گھر بدل گیا۔۔۔ میرا۔۔۔ مگر میرا بچپن۔۔۔ میری آدھی عمر۔۔۔ اس۔اس گھر میں۔”

افسر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

٭٭٭

آہنگ

 

"Mama is that you?”

کال سینٹر کے آپریٹر نے اچانک کہا۔

"Yes my child”۔آسیہ کی آواز میں اُمڈتی ہوئی محبت نے اُس کی آنکھیں نم کر دیں۔ گلا اتنا رندھ گیا کہ آواز نکلنا محال ہو گیا۔ وہ کئی لمحے روتی رہی۔ پھر اُس نے بات کرنے کی کوشش کی۔

"I traced you my child. Now you have to come home. You have to son. Your grandpa passed away waiting and searching for you.

تمھارے پاپا بھی ٹھیک نہیں ہیں۔

He feels very lonely. You have to come. Forgive him son, come home

گھر آ جاؤ چاند۔”

آسیہ ہچکیوں کے دوران بولتی گئی۔ اُسے اپنے کانوں پر اپنے دل پر،ساری دنیا پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ اُسے خواب سا لگ رہا تھا یہ سب۔ کیا واقعی وہ اپنے بیٹے سے مخاطب تھی، جو کوئی چار برس پہلے اچانک گھر سے غائب ہو گیا تھا۔ جس دن اُس کی تجویز گھر والوں نے ٹھکرا دی تھی۔ اُس کے اگلے دن سے اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

"آخر اس میں برا کیا ہے ماما۔۔۔ "

وہ بڑی سی نشست گاہ کے برآمدے میں کھلنے والے دروازے پر کھڑا تھا۔ اُس کے تازہ دھلے بال جاڑوں کی نرم دھوم میں چمک رہے تھے اور ہوا سے رہ رہ کر لہرا بھی اُٹھے تھے۔

"اندر تو آ جاؤ۔۔۔ ہوا لگ جائے گی۔۔۔ گیلے ہیں بال تمہارے۔۔۔ Come on in۔”

آسیہ نے میز پر پھیلے اخباروں پر اپنا چشمہ رکھ دیا تھا اور بیٹے کی طرف دیکھنے لگی تھی جس نے اپنے طویل قامت جسم پر گہرے نیلے رنگ کی جینز پہن رکھی تھی۔ اور اُس پر مختلف رنگوں والا چار خانوں کے ڈیزائن کا سویٹر۔ یہ خانے سرخ، نارنجی، ہرے اور نیلے تھے۔ اُس کے صحت مند چہرے اور وجیہہ شانوں والے بدن پر اُس کی عمر کے لحاظ سے یہ لباس جچ رہا تھا۔ سویٹر کے گول گلے کے اندر سے ذرا ذرا سا جھانک رہے سفید قمیص کے کالر کے ساتھ اُس کے سفید Sports Shoes اچھے لگ رہے تھے۔

"کیا سمجھا رہی ہیں انھیں۔۔۔ ذرا حلیہ تو ملاحظہ کیجئے۔۔۔ "

جمال احمد نے میز پر پھیلے دو اخباروں میں سے ایک اپنی طرف سرکایا اور ہاتھ لہرا کر باسط کے بالوں کی طرف اشارہ کیا۔ باسط نے جلدی سے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور دوسری طرف دیکھنے لگا کہ آسمان کے پس منظر نے وہاں کئی رنگ بکھیر دیئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ باسط نے سویٹر میں شامل سارے رنگوں سے اپنے بالوں کو بھی رنگ رکھا تھا۔

"مجھے یہ سب بالکل پسند نہیں۔۔۔ "جمال احمد نے پہلا اخبار واپس میز پر رکھا اور دوسرا اُٹھا لیا۔

"ارے یہ ادھر دیجئے نا۔۔۔ پڑھ چکے آپ اسے۔۔۔ میں نے دیکھا بھی نہیں صبح سے۔۔۔ ” آسیہ نے ہاتھ بڑھایا تو جمال احمد نے اخبار اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔

"مگر مجھے پسند ہے پاپا۔۔۔ یہ میری Lifeہے آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ زندگی مجھے گزارنی ہے۔۔۔ آپ دیکھ لیجئے گا میں سارا کام کیسے Successfullyنبھاؤں گا۔۔۔ ” باسط کی اٹھارہ سالہ آنکھوں میں چمک سی لہرائی۔

"کام۔۔۔ ؟”باپ نے یکلخت سر اُٹھا کر اُسے غصے سے دیکھا۔۔۔ (نہیں۔ دیکھنے کی کوشش کی کہ اُن آنکھوں میں خواب ہی خواب تھے۔۔۔ اور چہرے پر اپنی عمر کے لحاظ سے پھیلی معصومیت میں عزم بھی تھا۔ ہونٹوں پر ایک ہلکی سی بے قرار مسکراہٹ تھی اور آنکھوں کی سیاہ پتلیاں بے چینی سے اپنے والد کے چہرے پر بدلتے تاثرات کا مشاہدہ کر رہی تھیں۔ جس کی تاب نہ لا کر جمال احمد نے سر جھکا لیا۔)

"زمانہ بدل گیا ہے  ڈیڈ۔۔۔ آپ Please try to understand۔۔۔ میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا۔” باسط دروازے سے اندر کی طرف دو قدم چلا۔

"اگر یہ تمہارے لیے غلط کام نہیں تو۔۔۔ پھر۔۔۔ پھر غلط کیا۔۔۔ "

جمال احمد سر جھکائے بولے اور جملہ مکمل نہیں کیا کہ اُن کے والد چودھری کمال احمد بیٹھک میں داخل ہوئے۔ وہ صوفے پر بیٹھنے لگے تو جمال نے اٹھ کر سارے اخبار اُن کے قریب رکھ دیئے۔ انھوں نے ایک اخبار ہاتھ میں اُٹھایا اور سب کو باری باری دیکھا۔

"کیا وہی بحث جاری ہے پچھلے دو دن سے۔۔۔ اب تک؟”وہ بولے۔

"جی۔۔۔ اب یہ اس بارے میں ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں۔۔۔ ” جمال احمد نے صوفے پر پڑا اپنا پشمینے کا دوشالہ والد کے گھٹنوں پر پھیلا دیا تو باسط نے جلدی سے جوتے اُتار کر قالین سے لگے پائدان پہ رکھے اور اندر داخل ہو کر اپنے دادا کے شانوں پر پھیلا شال درست کرنے لگا۔

"جیتے رہئے۔۔۔ یہ کیا ضِد پکڑ لی آپ نے بیٹا۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہو گا۔۔۔ "

"کافی پئیں گے ابّو؟”آسیہ بیگم نے آہستہ سے پوچھا۔

"ہاں بیٹی۔۔۔ بنوا دو۔۔۔ "انھوں نے ایک نظر بہو کی طرف دیکھا پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہوئے۔

"آپ نے شاید ٹھیک سے سمجھایا نہیں ہمارے بچےّ کو۔۔۔ یہ ہمارے لختِ جگر ہیں۔۔۔ اتنے بڑے گھرانے کے چشم و چراغ ہیں جو ابھی بھی اس دور میں بھی۔ اُس کے کرم سے کئی لوگوں کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ ایسے غیرت دار گھرانوں پر پورے سماج کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔۔۔ اگر اپنے۔۔۔ اپنے بچےّ ہی۔۔۔ "

"داجان۔۔۔ داجان آپ سنئے تو۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ میں تو۔۔۔ یہ کہہ۔۔۔ ” باسط جب اپنے دادا کو مخاطب کرتا تو دادا کا لفظ اتنی جلدی ادا کرتا کہ دادا جان کے بجائے داجان سُنائی پڑتا۔ دادا کا دل اس صدا پر محبت سے چھلکنے لگتا۔

"کیوں نہیں ہے۔۔۔ اب ایسا ویسا اور کیا ہوتا ہے۔” جمال احمد نے باسط کی بات کاٹ کر کہا۔

"کسی اچھے خاندان سے تمہاری بہن کا رشتہ نہیں آئے گا۔ لوگ ہم کو۔۔۔ ہم کو جانے کس کس نام سے بلائیں گے۔۔۔ ” جمال احمد نے اپنی بات کی تائید کے لیے جھٹکے سے سر بیوی کی طرف موڑا مگر آسیہ کے چہرے پر کوئی شدید ردِّ عمل نہ دیکھ کر سر جھکا لیا۔ اور پھر سر اُٹھا کر ریشمی پردے کی آڑ سے جھانک رہے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگے۔

پرسکون باغیچے کے درمیان سے گزرتے کنکریٹ والے راستے کے ایک طرف بڑے سے دبیز خوش رنگ قالین کو دھوپ میں پھیلایا گیا تھا۔ دوسری طرف ہرے سنگ مرمر کی گول میز کے گرد بید کی کرسیاں رکھی تھیں۔راستے پر لمبی لمبی دو گاڑیوں میں سے ایک کو ڈرائیور تیج پال بڑی پھرتی سے چمکا رہا تھا۔ جب چودھری صاحب کی آواز یکلخت اونچی ہو کر کھڑکی کے شیشے کے اُس پار چلی آتی، وہ چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھتا۔ وہ بہت چھوٹا سا تھا جب سے یہ آوازیں سنتا آ رہا تھا۔ جب اُس کا باپ دھرم پال بڑے چودھری صاحب کی گاڑی چلایا کرتا تھا۔ بٹوارے سے کچھ سال پہلے سے کئی سال بعد تک۔ تیج پال نے اسی گھر کی گاڑیوں پر ڈرائیونگ سیکھی تھی۔ جب بڑے چودھری پچھلی سیٹ پر دو چھوٹے چکور تکیے رکھ کر لمبے سفر کیا کرتے تھے۔ دلی سے لاہور، سیالکوٹ وغیرہ۔ پھر تقسیم کے بعد انھوں نے اس طرف ہی رہنا پسند کیا۔ حالانکہ اُن کا کاروبار راول پنڈی میں بھی پھیلا تھا۔جو صدر ایوب نے راجدھانی کے طور پر چُنا تھا مگر بعد میں غالباً نوآباد کاروباری طبقے میں مقبولیت حاصل نہ کر پانے کے سبب صدر نے راول پنڈی سے کچھ فاصلے پر نئی راجدھانی اسلام آباد بسائی۔ چودھری صاحب کا اُس خطے سے فون یا خط وغیرہ کے ذریعے رابطہ رہا کرتا تھا جو باسط کی نسل تک آتے آتے تقریباً ختم ہو گیا۔ اِدھر کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد میں کچھ ترقی بھی ہو رہی تھی مگر وہ زیادہ ترقی کے خواہاں نہ ہو کر قانع قسم کے انسان واقع ہوئے تھے۔ کہ رکھ رکھاؤ بھی پہلے سا تھا اور اطمینان بھی ویسا ہی۔۔۔ باسط اس بات پر اکثر سوچا کرتا تھا جسے وہ اعلیٰ تعلیم دلوانے کے خواہاں تھے۔ مگر اُس کا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگتا تھا۔ اُسے وقفے وقفے سے Fashion Designing اور Modellingکے دورے پڑے تھے جو بڑی سختی سے دبا دیئے گئے تھے۔

اب مگر اُس نے Hair Dresserبننے کی ضِد پکڑ لی تھی اور یہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی کہ گھر والے اُسے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ذاتی کاروبار سے وابستہ کر دینا چاہتے تھے۔

"تو پھر۔۔۔ ڈیڈ۔۔۔ آپ دیں گے مجھے اس کورس کے لیے فیس؟”

"نہیں بالکل نہیں۔۔۔ ہمت کیسے کرتے ہو تم یہ پوچھنے کی۔۔۔ احمق۔۔۔ حجّام بننا چاہتے ہو تم۔۔۔ دفع ہو جاؤ۔ میری نظروں سے۔۔۔ "

جمال احمد نے آواز اونچی کر کے کہا تھا۔

اور باسط دفع ہو گیا تھا۔ کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔ اور اُس کے جانے سے گھر کی ساری خوشیاں بھی جیسے رخصت ہو گئیں کہ سب علیل رہنے لگے تھے۔

باہر کی کسی کمپنی نے ایک نئی دوا ایجاد کی تھی جس سے کئی بیماریوں کا بیک وقت علاج ہو سکتا تھا۔ آسیہ نے جمال احمد کے دل کے عارضے اور ذیابیطس کی دوا کے سلسلے میں فون کیا تھا۔ Momکا لفظ سنتے ہی آسیہ نے اپنے بیٹے کی آواز پہچان لی تھی۔ اُس کا دل اچھل کر جیسے حلق میں اٹکا چاہتا تھا۔ مگر اُس نے خود کو منفی انداز میں سمجھایا کہ یہ اُس کے بیٹے کی آواز کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ تو کسی اور کی آواز ہے۔ اور دوسری بار ہیلو سُن کر اُسے ایسا ہی محسُوس ہوا تھا کہ یہ کسی اور کی آواز ہے۔ مگر جب اُس نے دوبارہ پوچھا تھا کہ کیا یہ اُس کی ماں بول رہی ہے تو ہ تڑپ اُٹھی تھی۔

"?Grand Pa”وہ سوالیہ انداز میں دھیرے سے بولا تھا۔

"ہاں۔ تمھارے دادا جان نہیں رہے بیٹا۔”

"کب آؤ گے گھر۔۔۔ اب آ جاؤ۔۔۔ اپنا کاروبار سنبھال لو۔۔۔ ہم نے تمہاری جدائی کے ان چار برس میں چار دہائیاں جی لی ہیں میرے لعل۔۔۔ اب ہم تھک گئے ہیں۔۔۔ تم آ جاؤ۔۔۔ کوئی ایسے روٹھتا ہے۔۔۔ تم جو چاہے کام کرو۔۔۔ میں منالوں گی تمہارے ڈیڈ کو۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ Please بیٹا۔۔۔ "آسیہ سسکیاں لیتی رہی۔ وہ اُس کی سسِکیاں ں سنتا رہا۔ اُس کے ہاتھ Key Boardپر ٹھہرے رہے۔ مانیٹر پر فون نمبر کے ساتھ گھر کا پتہ درج تھا وہ پتھر کے بت سا مانیٹر کو دیکھتا رہا۔

"کب آؤ گے بیٹا۔۔۔ ؟”آسیہ کی گلو گیر آواز نے اُسے چونکا دیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔

"Mom?”وہ دھیرے سے بولا۔

"Yes my baby”آسیہ کھنکھار کر بولی۔

”I don’t need dad’s money – I need your love- I need nothing else…….”

وہ ہچکیاں لینے لگا۔

"–I need you only.”وہ بمشکل بول رہا تھا۔

"Don’t ask me to come home. You come and stay with me ….. will you …… mom?….. please mama”.

"–but why?یہ تمھارا گھر ہے میرے بچےّ۔ تمہاری جائداد ہے۔۔۔ تم وارث ہو اس گھر کے۔۔۔ تمہاری بہن اپنے گھر میں آبا دہے۔۔۔ یہ تمھارا ہے سب۔۔۔ "

"You give it to her….. and come to me.”

"اچھا تم گھر تو آ جاؤ۔۔۔ یہاں ہی بات کر لیں گے۔۔۔ تم آؤ تو صحیح۔۔۔ "

"Mama first you come to me. Can you mom? Don’t say no please!”

"اچھا میرے بچےّ۔۔۔ آؤنگی میں ہی پہلے۔”

اُس نے آسیہ کو پتہ لکھوایا۔

آسیہ نے گاڑی نکلوائی۔

راستے بھر اُس کے آنسو بہتے رہے۔

میرا ّبچہ۔۔۔ اب تو ایک بار بھی امّی نہیں کہتا۔جانے کیسا لگتا ہو گا اب۔۔۔ کب وہ اُسے سینے سے لگائے گی۔

بتائے ہوئے پتے پر آسیہ بیگم نے بے قراری سے کال بیل بجائی تو ایک درمیانہ قد نوجوان نے دروازہ کھولا۔ اُس کے بال بھورے تھے اور چہرے پر داڑھی تھی۔ چشمے کے پیچھے اُس کی آنکھوں کی پُتلیاں بھی ہلکی بھوری نظر آ رہی تھیں۔

"باسط سے ملنا ہے۔۔۔ Does Basit live here”آسیہ لرزتی آواز میں بولی۔

لڑکا بغور آسیہ کو دیکھ رہا تھا۔

"I want to see my son Basit. Does he live here? He gave me this address.”

آسیہ نے ہاتھ میں پکڑی پرچی اُس کی طرف بڑھائی۔ نوجوان نے چشمہ اُتارا اور پرچی کو ایک نظر دیکھا۔ آسیہ نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔۔۔ اور ابھی بھی آنسو بھرے تھے۔ بلکہ بہہ نکلے تھے۔۔۔ "

"What happened?”

آسیہ نے جلدی سے پوچھا۔آنسو بہہ کر لڑکے کی داڑھی میں گم ہو گئے۔

”-Mom-"وہ دھیرے سے بولا۔

"تو کیا۔۔۔ تو کیا۔۔۔ تم۔۔۔ تم؟”آسیہ کا سر چکرانے لگا تو اُس نے بڑھ کر آسیہ کو تھام لیا۔

"I am not your son….. but….. but….. you are my mother. My mother died last year, whose voice was exactly like yours. I don’t know how I— how I called you mom, but you…. you are my mom. aren’t you….?”

وہ آسیہ کو سہارا دے کر کمرے میں لے آیا اور اُسے صوفے پر بیٹھا کر خود فرش پر بیٹھ گیا اور سر اُس کے گھٹنوں پر رکھ کر ہچکیاں لیتا رہا۔

"Yes…. I ….am.”آسیہ نے اُس کے سرپر دونوں ہاتھ رکھ دیئے اور بلک بلک کر رو پڑی۔

٭٭٭

چوری

"ارے ارے۔۔۔ ارے رکو۔۔۔ ارے۔۔۔ او بھائی۔۔۔ ارے کوئی پکڑو۔۔۔ وہ۔۔۔ چور چور۔۔۔ میں بھوکا مر جاؤں گا۔۔۔ ارے کوئی دوڑو۔۔۔ ارے۔۔۔ "

دُبلا پتلا نو عمر حسن چلتے چلتے پلٹا اور مخالف سمت کی طرف دوڑنے لگا۔ بازار شروع ہونے سے پہلے آنے والے اس موڑ پر جہاں چوراہا تھا، کئی دن سے چور سرگرم تھے۔ موڑ سے کوئی سو قدم پیچھے بینک تھا۔بینک والی سڑک چوڑی تھی اور ہر وقت مصروف بھی۔ کچھ آگے چل کر چوراہے کی بائیں جانب بازار شروع ہو جاتا۔ بازار کے اطراف چونکہ بستی تھی، اس لیے ہر وقت بھیڑ رہتی۔ کئی کشادہ گلیوں پر مشتمل اس بازار میں انڈے سے لے کر گاڑیوں کے پرزوں تک ہر شئے دستیاب تھی۔ ان کشادہ گلیوں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی گلیاں، آپس میں ملاتی تھیں۔

دو دن پہلے بھی کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ ایک آدمی بینک سے کچھ روپے لے کر نکلا تھا۔ رومال میں لپیٹ کر روپے اُس نے تھیلی میں رکھے تھے اور تھیلی کو لپیٹ کر مستطیل بنڈل بنا کر ہاتھ میں پکڑے چل رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے صابن کی دو بڑی بڑی ٹکیاں ہوں۔ مگر کوئی شخص شاید اُس کا پیچھا کر رہا تھا کہ موڑ پر مڑتے ہی اُس نے لفافہ جھپٹا اور جانے کس گلی میں غائب ہو گیا۔ وہ چیختا رہا، لوگ اِدھر اُدھر دوڑے بھی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

اُس کے دوسرے دن بھی بینک والے موڑ پر ہی ایک آدمی کا بیگ چھینا گیا۔اور کوئی پکڑا نہ گیا۔

آج جب حسن اُسی موڑ سے اندر بازار کی طرف مڑا تو کچھ قدم چلنے کے بعد ہی کوئی بھاگتا ہوا آیا اور اُس کے ہاتھ میں بڑی نفاست سے تھمی چوکور شکل میں لپٹی ہوئی چیز کو چھین کر بھاگا۔

مگر پیچھے سے سکوٹر پر ایک سردار جی آ رہے تھے،حسن کو یوں بھوکا مر جانے کی دہائی دیتے سُن کر بجلی کی پھرتی سے پلٹے اور چور کو گردن سے پکڑ لیا۔ حسن نے دوڑ کر اُس کے ہاتھ سے تھیلی چھین لی تو پاس کے بزرگ دکان دار نے پکار کر شاباشی دی۔

"یہ ہوئی نا بات۔ایسے بہادر ہوں تو یہ اُچکّے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔۔۔ ذرا گن تو لو اپنی رقم۔۔۔ پھر اس کو پولیس کے حوالے کریں گے۔”

حسن حیرت سے اُن کا منھ دیکھتا رہ گیا۔

"کون سی رقم لالہ جی۔۔۔ "

"ارے یہی یار۔۔۔ کیا معلوم اب تک ہی اس نے اُڑا لی ہو۔۔۔ اور خالی تھیلی تمہارے حصے آئی ہو۔۔۔ ” سردار جی نے حسن کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔

"یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ یہ تو روٹی ہے میری۔میری بیوی بڑے پیار سے پیک کرتی ہے اسے۔” وہ سُرمہ لگی آنکھیں جھپکا کر مسکرایا اور شرما کر آگے بڑھ گیا۔

٭٭٭

 

شہر

پلاسٹک کی میز پر چڑھ کر سونو نے نعمت خانے کی الماری کا چھوٹا سا کواڑ وا کیا تو اندر قسم قسم کے بسکٹ، نمک پارے، شکر پارے اور جانے کیا کیا نعمتیں رکھیں تھیں۔ پل بھر کو وہ ننھے سے دل پر کچوکے لگاتا ہوا غم بھول کر مسکرا دیا۔ اور نائٹ سوٹ کی لمبی آستین سے سوکھے ہوئے آنسوؤں بھرے رخسار پر ایک اور تازہ بہا ہوا آنسو پونچھ کر اس نے بسکٹ کا ڈبّہ ہاتھ میں لے لیا اور اپنے پانچ سالہ وجود کا بوجھ سنبھالتا میز سے نیچے اتر آیا۔ اسے بھوک بھی بہت لگی تھی۔ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا، اس کی چھوٹی سی اڑھائی برس کی بہن ثوبیہ بھی صبح سے بھوکی تھی۔ سارا دن وہ مسہری پر لیٹی اپنی ممی کو پکار پکار کر تھک گئی تھی۔ اور بہت زیادہ روتے رہنے کے باعث نڈھال سی ہو کر اس نے اپنا گھنگھریالے بالوں والا ننھا سا سر اپنی امی کے پھیلے ہوئے بازو پر رکھ چھوڑا تھا۔۔۔ دن بھر شاید وہ سوتی رہی تھی اور کچھ دیر پہلے ہی اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں آئی تھی۔

اس شہر میں آئے انھیں صرف ایک ہفتہ ہوا تھا۔

امان کو بہت عرصے سے اس شہر میں اپنی تبدیلی کروانے کی خواہش تھی لیکن اس میں بس ایک ہی پریشانی تھی کہ رہائش کا انتظام نہایت مشکل کام تھا۔ اُس کے قصبے کے انوار صاحب بھی اس کمپنی میں کام کرتے تھے مگر وہ ہیڈ آفس سے وابستہ تھے اور شہر میں رہائش پذیر تھے۔ رہائش بھی کمپنی کی طرف سے ملی ہوئی تھی کیونکہ وہ پچیس برس سے اسی دفتر میں تھے۔ اُس کے بعد آنے والے ملازمین میں سے بہت کم کو فلیٹ میّسر آیا تھا۔ غیر شادی شدہ لوگ تو ایک کمرے والی رہائش میں دو، یا تین تین کے حساب سے ہوسٹل کی طرح کمرہ بانٹ لیتے تھے مگر فیملی والے ارکان کے لیے یہ مسئلہ سب سے پیچیدہ تھا۔

امان اپنے قصبے میں کمپنی کا برانچ منیجر تھا۔انوار صاحب ہر تین ماہ کے بعد اپنی کمپنی کا کوئی کام نکال کر اپنے آبائی گھر آتے۔ بزرگ والدین سے ملاقات بھی ہو جاتی اور کمپنی کا کام بھی نمٹا لیتے۔

اس بار انوار صاحب اپنے ساتھ امان کے لیے کچھ سپنے بھی لے آئے تھے۔ بڑے شہر میں رہنے کے۔ بچوّں کو بڑے بڑے سکولوں میں تعلیم دلوانے کے اور ہیڈ آفس میں رہ کر ترقی کے نئے راستے وا ہونے کے۔

وہ ریٹائرمینٹ لے رہے تھے اور امان کے لیے ٹرانسفر کی بات بھی کر آئے تھے۔

امان اگر بر وقت نہ پہنچتا تو اُسے اور کچھ برس انتظار کرنا پڑتا اور فیملی فلیٹ اُسے جب ہی ملتا جب فیملی ساتھ ہوتی ورنہ اُسے بیچلر رومز میں رہنا تھا۔ انوار صاحب نے فلیٹ کی چابی ابھی دفتر میں جمع نہیں کرائی تھی۔ وہ یہ کام امان کی موجودگی میں کرانا چاہتے تھے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اُن کی عزّت کرتے تھے، اُنہیں یقین تھا کہ وہ اُن کی بات مان لیں گے۔ اور اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا آنے کی کوشش کرتا،وہ کسی کی علمیت سے پیشتر امان کے حق میں فیصلہ چاہتے تھے۔

امان نے دو دن کے اندر ساری تیاریاں مکمل کر لیں اور مع بابرا اور بچوّں کے شہر روانہ ہو گیا۔

انوار صاحب کا فلیٹ ۱۴ منزلہ عمارت کا سب سے اوپری فلیٹ تھا۔ عمارت کی ہر منزل پر تین تین فلیٹ تھے مگر سب سے اوپر والی منزل میں یہی ایک فلیٹ تھا۔ کیونکہ ایک طرف ڈش انٹینا تھا اور دوسری طرف پانی کی ٹینکیاں۔ درمیان میں یہ ایک فلیٹ بن پایا تھا۔ اس کے اوپر بڑا سا کشادہ ٹیرس تھا جس میں تقریبات وغیرہ ہوا کرتیں۔ وہاں سے نیچے دیکھنے پر سارا شہر دلہن کے ستارے لگے آنچل کی طرح نظر آتا۔

اس سے نیچے کے تین فلیٹس میں سے دو آباد تھے اور ایک پر کچھ تنازعہ چل رہا تھا۔ ایک فلیٹ کے مکین کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور ایک میں امان کی ہی کمپنی میں کام کرنے والے وکرم بھسین رہتے تھے۔

بابرا کو فلیٹ اور امان کو شہر بہت پسند آیا۔ فلیٹ کشادہ تھا۔ تین خوابگاہوں، ڈرائنگ روم اور باورچی خانے پر مشتمل۔ ہر کمرے کے ساتھ ملحقہ غسل خانہ، اور لباس بدلنے کے لے چھوٹا سا احاطہ۔ اونچی چھتیں، بڑی بڑی کھڑکیاں، لمبے لمبے دروازے۔ تین دن میں فلیٹ سج گیا۔ ضرورت کا سب سامان ا گیا سوائے ٹیلیفون کے۔ ٹیلیفون کی فیس پچھلے تین ماہ سے ادا نہیں ہوئی تھی اور ان مہربانیوں کے بدلے امان کو انوار صاحب کے لیے اتنا تو کرنا ہی تھا۔ ورنہ خواہ مخواہ انوار صاحب کی گریجوویٹی وغیرہ متاثر ہوتی۔ بلکہ امان کو تو کئی مہینے کا بجلی کا بل بھی بھرنا پڑا تھا جب جا کر بجلی کی سپلائی بحال ہوئی۔ ٹیلیفون کا بل ادا کرنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ امان نے پہلے دن آفس جوائن کرنے کے بعد دوبارہ آفس کا رخ تک نہیں کیا تھا کہ بغیر بجلی کے اس شہر میں ایک دن کے لیے بھی رہنا مشکل تھا اور سارا وقت اُسے ادھر اُدھر بھٹکنا پڑا تھا۔

کوئی پانچویں دن امان دفتر گیا کہ بھسین صاحب کے فلیٹ میں اُس کے لیے فون آیا تھا۔ اُسے سائٹ پر جانا تھا اور واپسی دوسرے دن کی تھی۔ وہاں کچھ ایسا کام پڑ گیا کہ امان دوسرے دن نہ آ سکا۔

صبح دروازے کی گھنٹی بجی تھی تو سونو کی آنکھ اُسی آواز سے کھل گئی تھی۔ ممی اور ثوبیہ سو رہی تھیں۔ سونو دروازے تک گیا اور اس نے دروازے کی نچلی چٹخنی بھی کھولی تھی مگر میز پر کھڑے ہونے کے باوجود اُس کا ہاتھ دروازے کے اوپر والی چٹخنی تک نہ پہنچ سکا۔

"جی کون ہے؟”اُس نے پکارا بھی تھا مگر باہر سے کوئی جواب نہ آیا۔ آنے والے نے شاید اُس کی آواز نہیں سنی تھی۔ اور دروازہ نہ کھلنے پر لوٹ گیا تھا۔

"ممی۔کوئی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ممی۔۔۔ ممی۔”اُس نے کئی بار ممی کو پکارا تھا مگر ممی جانے آج کیسی نیند سو رہی تھیں۔ جاگ ہی نہیں رہی تھیں۔

"ممی۔۔۔ ممی جی۔۔۔ کوئی دروازے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔” اُس نے اونچی آواز میں پکارا تو ثوبیہ نے ابروؤں کے رخ پر خمیدہ پلکوں والی منی منی آنکھیں کھول دیں۔ اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں جھپک جھپک کر ادھر اُدھر دیکھا اور بھائی کو ممی پکارتے سن کر خود بھی ممی ممی پکارنا شروع کر دیا۔

مگر ممی بول ہی نہیں رہی تھیں۔ ممی کے دہانے کے چاروں طرف کوئی سفید سی چیز جمی ہوئی تھی۔ ہاتھ پاؤں بھی کچھ عجیب طرح سے پھیلے ہوئے تھے۔

ثوبیہ نے ماں کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر رونا شروع کر دیا۔

"چپ ہو جانا۔ روتی کیوں ہے”۔ سونو نے جھلّا کر کہا تو ثوبیہ اور زور زور سے رونے لگی۔

’ممی سو رہی ہیں ثوبی۔”وہ بہن کو سمجھانے کے انداز میں بولا۔

"ممی۔ممی اُٹھئے نا۔”سونو نے پھر ماں کو جگانے کی کوشش کی۔ جب تک دروازے کی گھنٹی دوبارہ بجنے لگی تھی۔

"کون ہے۔۔۔ "وہ دروازے کے قریب جا کر اور اونچی آواز میں بولا۔ کوئی جواب نہ آیا۔

وہ واپس کمرے میں آیا۔ ثوبیہ باقاعدہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ سونو کچھ دیر ماں کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر روتی ہوئی بہن کو بغور دیکھنے لگا۔

"ممی۔”اُس نے ممی کو پوری طاقت سے جھنجھوڑا مگر ممی بے حس و حرکت پڑی رہیں۔

وہ کچھ دیر گُم سُم سا بیٹھا رہا۔ پھر ثوبیہ کے قریب جا کر اُس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کے آنسو پونچھے۔

"نہیں رونا ثوبی۔ ممی سو رہی ہیں۔” مگر ثوبی تھی کہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھی۔

"چپ ہو جا۔”وہ چیخا اور ساتھ ہی دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

جانے کب تک دونوں بہن بھائی روتے رہے مگر امی نے چپ ہی کرایا نہ کچھ بولیں۔ ثوبیہ کوئی گھنٹہ بھر رونے کے بعد تھک کر سو گئی۔

وہ سو گئی تو سونو پھر ماں کے قریب گیا۔ اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر دائیں بائیں ہلانے لگا۔

"ممی۔” ا س نے زور زور سے ممی کا سر ہلایا”ممی۔۔۔ ممی جی۔” اس نے آنسوؤں میں بھیگی آواز میں محبت گھول کر پکارا۔ ممی نے کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دیر بعد اٹھ کر وہ ڈرائنگ روم چلا گیا۔ پردہ سرکا کر کھڑی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگا۔

سامنے ایک بڑاسا پارک تھا جس میں چھوٹے چھوٹے کھلونوں جیسے رنگ برنگے بچےّ کھیل رہے تھے۔ پارک میں کئی طرح کے چھوٹے بڑے جھولے لگے ہوئے تھے ادھر اُدھر آئس کریم اور ویفرس کے پیکٹ والے اپنی چھوٹی چھوٹی ہاتھ گاڑیاں لیے ہوئے گھوم رہے تھے۔ ایک ریڑھی پر نہایت ننھی ننھی بوتلوں میں کولڈ ڈرنکس سجی ہوئی تھیں۔ پارک کی دوسری جانب لمبی سی سڑک پر چھوٹی چھوٹی بے شمار گاڑیاں بھاگ رہیں تھیں۔ سونو نے یہ ساری چیزیں اس قدر چھوٹی جسامت میں آج سے پہلے کبھی نہ دیکھیں تھیں۔ اُس کے ذہن میں عجیب عجیب سوال اور خیال اُبھرنے لگے۔ وہ کمرے میں لوٹ آیا۔

"ممی جی۔” اُس کے سینے سے درد بھری کراہ نکلی۔ اور اُس نے اپنا چھوٹا سا سر ممی کے سینے پر رکھ دیا اور دھیرے دھیرے سسکنے لگا۔آنسوؤں سے ممی کے شب خوابی کے لباس کا گریبان بھیگ بھیگ گیا مگر ممی نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ رو رو کر جب وہ ہلکان ہو گیا تو اسے نیند آ گئی۔

جانے کتنا وقت وہ سوتا رہا۔

"چھو۔چھو۔”نیند میں اس کے کانوں میں ثوبیہ کی آواز پڑی تو اُس نے آنکھیں کھول دیں۔

"چھوچھو۔”ثوبیہ نے ممی کی طرف سے نظر ہٹا کر بھائی کو دیکھ کر کہا۔

"سو سو کرنا ہے؟”سونو نے پوچھا تو اُس نے سر اُوپر سے نیچے کی طرف ہلایا۔ سونو نے غسل خانے کا ہینڈل گھما کر دروازہ کھول دیا۔

باہر شام ہو چکی تھی۔

ثوبیہ باتھ روم سے آ کر ماں کے پاس لیٹ گئی۔

"ممی۔۔۔ مم۔۔۔ ممی۔” ثوبیہ نے اپنی شہادت کی انگلی سے ماں کی آنکھ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔ وہ ناکام ہو کر پھر رونے لگی۔

ممی ی ی۔۔۔ "وہ ممی کو پکارتی ہوئی ہچکیاں لینے لگی۔

سونو بہن کو بے بسی سے دیکھتا رہا۔

"ممی اُٹھئے نا۔۔۔ ممی جی۔۔۔ ثوبی رو رہی ہے۔ اُسے بھوک لگی ہے۔”

وہ گلو گیر آواز میں ماں سے مخاطب ہوا۔۔۔ اُسے خود بھی بھوک لگی تھی مگر جب تک اُس نے ثوبیہ کی بھوک کا ذکر نہ کیا اس طرف اُس کا خیال نہ گیا تھا۔

اب اُسے بھوک کا احساس ہونے لگا۔

وہ ماں کے پاس سے اُٹھ کر باورچی خانے میں چلا گیا۔ تمام برتن دھلے دھلائے رکھے تھے۔ کسی میں کچھ کھانے کو نہ تھا۔

اُس نے ریفریجریٹر کھولا۔۔۔ اُس میں سیب رکھے تھے۔۔۔ وہ دو سیب اُٹھا کر کمرے میں آ گیا۔

ایک سیب کو خود کترنے لگا اور دوسرا ثوبیہ کو پکڑا دیا۔ ثوبیہ اسے کھانے کی کوشش کرنے لگی۔مگر اُس کے منھ میں اُگے آٹھ دانت سیب کے سخت چھلکے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اور وہ محض سیب کی سطح پر ایک آدھ نشان لگا کر رہ گئی اور چپ چاپ بھائی کو دیکھنے لگی۔ سونو نے سیب کا ایک ٹکڑا توڑ کر دیا تو وہ اُسے چبانے کی کوشش میں منھ کے اندر ادھر اُدھر گھماتی رہی اور آخر کار نگل گئی۔

دونوں سیب ختم ہو گئے تو سونو ریفریجریٹر میں پڑا آخری سیب اُٹھا لایا۔۔۔ کچھ دیر دونوں بہن بھائی سیب پر زور آزمائی کرتے رہے۔اس سے فارغ ہو کر پھر ممی کو جگانے کی کوشش کرنے لگے۔

ممی کچھ نہ بولی تو وہ رو رو کر ممی کو ہلانے لگے۔ گھر میں اتنی گرمی تھی مگر ممی کا بدن ایک دم ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں۔

پھر کسی وقت انھیں نیند آ گئی۔

دوسری صبح بھی ممی نہیں اُٹھیں۔ دروازے کی گھنٹی دو بار بجی تھی۔ جس سے سونو جاگ گیا تھا۔

"جی۔۔۔ ای ای۔۔۔ کون ہے۔” کوئی جواب نہ آیا۔ شاید مضبوط دیواروں اور بھاری دروازے کے اُس پار اُس کی کم سِن آواز پہنچ نہیں پائی تھی اور آنے والا پھر لوٹ گیا تھا۔

ثوبیہ نے جاگتے ہی رونا شروع کر دیا تھا۔اور ممی کے پاس جا کر زور زور سے چیختے ہوئے رو رو کر جب مایوس ہو گئی تو ہچکیاں لیتی ہوئی باہر آ گئی۔۔۔

اُس کا پھول سا چہرہ کمھلا گیا تھا۔

باورچی خانے میں سونو ریفریجریٹر کھولے بغور اندر دیکھ رہا تھا۔ پرسوں کا پڑا ہوا دودھ پھٹ چکا تھا۔ ثوبیہ کو قریب دیکھ کر اُس نے اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

"دُودُو پیئے گی۔”اُس نے ممی کی طرح پوچھا تھا۔

"ہُوں۔”وہ زور زور سے سر ہلا کر بولی۔

اُس نے پھٹا ہوا دُودھ چمچ سے ثوبیہ کے فیڈر میں ڈالنے کی کوشش میں بہت سا دُودھ گرا کر تھوڑا سا ڈالنے میں کامیابی حاصل کی اور فیڈر بہن کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں تھما دیا۔

ثوبیہ وہیں فرش پر چت لیٹ کر دودھ پینے لگی۔ جب پھٹے ہوئے دودھ کا کوئی ٹکڑا ربر کے نپل کا چھید بند کرنے لگتا، وہ پیر پٹخ پٹخ کر پوری طاقت سے دودھ پینے کی کوشش کرنے لگتی اور رونے لگ جاتی پھر خود ہی چُپ ہو جاتی۔

سونو نے دودھ کے کچھ بچے ہوئے چمچ خود بھی پئے اور ثوبیہ کے پاس جا بیٹھا۔۔۔ بوتل خالی ہوئی تو ثوبیہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ پھر کھڑی ہو کر ممی ممی پکارتی ہوئی خوابگاہ میں چلی گئی۔

سونو بھی کمرے میں آ گیا۔ اور کچھ دیر دروازے کے پاس کھڑا ہو کر ماں کو دیکھنے لگا۔ ممی کی شکل آج اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

مسز بھسین کی جزوقتی ملازمہ صبح اوپر آئی تھی تو کسی نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔۔۔ دراصل امان نے اُن کے ہاں فون کیا تھا کہ بابرا کو بتا دیں کہ وہ ایک دن اور رُک گیا ہے اور کل آ جائے گا۔ کیونکہ بابرا بہت جلد گھبرا جاتی ہے۔۔۔ ملازمہ سے دروازہ نہ کھُلنے کی خبر سن کر مسز بھسین نے سوچا تھا کہ پڑوسی کہیں گھومنے گئے ہوں گے۔ یا شاید سو رہے ہوں۔ یاجو بھی۔۔۔

"ثوبی!آ جا اندر بیٹھیں۔”سونو نے ثوبیہ سے کہا۔

"کھڑکی سے باہر دیکھیں گے۔”وہ سر اثبات میں ہلا کر بولا۔۔۔

"نہیں۔۔۔ ممی پاش۔۔۔ ” اُس نے جھٹکے سے سر نفی میں ہلایا۔

"ممی تو بولتی ہیں نہیں۔۔۔ تو میرے پاس آ جا۔” وہ اداس ہو کر بولا۔ اس کا چہرہ آج پیلا نظر آ رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔

"آنا ثوبی۔۔۔ آ جا۔”وہ دھیرے دھیرے سسکنے لگا۔۔۔ ثوبیہ ماں کے پھیلے ہوئے بازو پر سر رکھے اپنا انگوٹھا چوستی رہی اور سر نفی میں ہلا ہلا کر بھائی کو دیکھتی رہی۔۔۔

سونو اس کے قریب جا کر اسے اٹھانے لگا تو اسے محسوس ہوا کہ ممی کے پاس سے خراب سی بو آ رہی تھی۔ ممی نہائی نہیں نا کل سے۔۔۔ کپڑے بھی نہیں بدلے۔۔۔ ہم بھی نہیں نہائے۔۔۔ اس نے اپنا گریبان سونگھا۔۔۔ وہاں اُسے پرسوں کے لگائے ہوئے بے بی پاؤڈر کی ہلکی سی مہک آئی۔۔۔ اس نے پھر ممی کی طرف دیکھا۔۔۔ ممی کی شکل بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ ایک دو الٹے قدم اٹھاتا ہوا دیوار سے لگ گیا۔اس کی نظریں ماں کے چہرے پر گڑھی تھیں۔ وہ دیوار کے ساتھ چلتا ہوا کمرے کے دوسرے کونے میں پہنچ گیا۔۔۔ اور دیوار سے پھسلتا ہوا فرش پر بیٹھ گیا۔ اس کے دل میں عجیب قسم کا خوف سا چھا رہا تھا۔ اسے نیند بھی آ رہی تھی۔ مگر وہ پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا۔ خود اس کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا تھا۔ آنکھ لگنے لگتی تو فوراً آنکھیں کھول کر ماں کے چہرے کو دیکھنے لگتا۔۔۔ دور بیٹھا ہوا۔ وہاں سے ماں کے تلوے نظر آ رہے تھے اور پھر ماں کا باقی جسم۔ بعد میں چہرہ۔ ٹھوڑی سے شروع ہوتا ہوا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں پر رکھ دیے۔ اور۔۔۔ پھر پتا نہیں کب وہ دیوار سے لگا لگا فرش پر آ گیا۔ اس کے گھٹنے اس کے سینے سے لگے ہوئے تھے اور وہ سو چکا تھا۔

صبح پھر دروازے کی کال بیل لگاتار کچھ پل بجی تو وہی بیدار ہوا۔ دروازے تک گیا اور بے چارگی سے اسے دیکھتا رہا۔ کچھ منٹ بعد لوٹ آیا۔۔۔ گھر میں ہوتا تو کھڑکی سے نانی کو آواز لگاتا۔ یہاں تو نہ وہ دروازہ کھول سکتا تھا نہ کھڑکی۔ کھڑکی کھول بھی لیتا تو اس کی آواز کون سن پاتا کہ کھڑکی سے نظر آنے والے لوگ اس کی آواز کی رسائی سے بہت دور تھے۔

آج ثوبیہ ابھی تک سو رہی تھی۔ وہ دروازے پر ٹھہر کر ماں کی طرف دیکھنے لگا۔ماں کا چہرہ بغیر پانی کے گلدان میں پڑے کئی دن پرانے پھول سا لگ رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ ماں کے کچھ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا۔ممی کی شکل بدل گئی تھی۔ یہ شکل کسی اور کی تھی۔ میلے سے مٹیالے چہرے والی۔۔۔ ا س کی ممی تو گوری تھی۔۔۔ تو کیا یہ اس کی ممی نہیں تھی۔۔۔ تو کیا اس کی ممی کی شکل کو کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ یا۔۔۔ یا یہ کوئی اور ہے۔ کوئی عجیب سی شے۔۔۔ انسان جیسی کوئی شے۔۔۔

ذہن میں اس خیال کے آتے ہی وہ زور سے چیخ پڑا۔ ثوبیہ نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور رونے لگی۔ وہ چیختا ہوا کمرے سے باہر بھاگا اور ڈرائنگ روم کے لمبے صوفے کے عقب میں جا چھپا۔ اس کا چھوٹا سا وجود تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اور آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ رہے تھے۔ ثوبیہ کچھ دیر روتی رہی پھر اٹھ کر بھائی کو ڈھونڈنے لگی۔

"بیا۔بیا۔”وہ باورچی خانے میں گئی اور روتے روتے بھائی کو پکارنے لگی۔ وہاں اُسے نہ پا کر ڈرائینگ روم میں آ گئی۔

"بیا۔آ۔آ”اس نے نحیف سی آواز میں پکارا۔

سونو صوفے کے پیچھے سے نکل آیا۔ اس کے خوفزدہ دل میں احساسِ ذمہ داری نے قُوّت بھر دی۔ بہن کو دیکھ اس کے قریب چلا گیا اور دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ لے کراس کے آنسو پونچھنے لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی ثوبی کو بہت تیز بخار ہے۔

"بیّا۔پانی۔”وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔

"تجھے بخار ہے۔۔۔ آ جا۔ادھر لیٹ جا۔۔۔ میں پانی لاتا ہوں۔”

ا س نے صوفے پر چڑھنے میں بہن کی مدد کی اور باورچی خانے کی طرف گیا۔ خوابگاہ کے قریب سے گزرتے وقت اس نے ایک ادھوری سی نظر کمرے کی طرف تیزی سے ڈالی پھر ریفریجریٹر کے پاس چلا گیا اور بوتل نکال کرپانی گلاس میں انڈیلنے لگا۔ ساری بوتل خالی کر کے ہی کہیں گلاس بھر سکا تھا۔

گلاس اور چمچہ لیے وہ بہن کے پاس ا گیا اور اُسے دھیرے دھیرے پانی پلانے لگا۔ بیچ بیچ میں ایک آدھ چمچ وہ خود بھی پیتا رہا۔

"بھوکی لگی ہے؟”اس نے نہایت محبت سے ثوبیہ سے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

صبح جب دروازے کی گھنٹی سن کر سونو بے بسی سے پلٹ آیا تھا اس وقت مسٹر بھسین کے ہاں پھر امان نے ٹیلی فون کیا تھا۔ اور پھر مسز بھسین نے اپنی جزوقتی ملازمہ کو اوپر روانہ کیا تھا جو لگاتار تین چار گھنٹیاں بجا کر لوٹ آئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثوبیہ ڈرائینگ روم کے صوفے پر نڈھال پڑی تھی۔

سونو ذمہ دار بھائی کی طرح اس کے قریب بیٹھا تھا۔ بیچ بیچ میں دونوں اونگھ لیتے۔ شاید مسلسل نقاہت یا رات بھر گھٹی ہوئی آلودہ فضا میں رہنے کے باعث ان کی ایسی حالت ہو گئی تھی۔

کبھی کبھی سونو  سر گھما کر چور نظروں سے بیڈروم کی طرف دیکھتا اور جلدی سے چہرہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ وقفے وقفے سے اس کے آنسو بہہ نکلتے تھے۔

اس بار ثوبیہ جاگی تو پھر رونے لگی۔

"دُودھ پئے گی ثوبی۔؟”اس نے آواز میں پیار بھر کر کہا۔

"مگر دودھ تو ہے ہی نہیں۔اچھا ٹھہر جا میں کچھ اور دیکھتا ہوں۔” ثوبیہ نے کچھ نہ کہا۔ سونو کو خود بھی بہت بھوک لگ رہی تھی۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باورچی خانے کی طرف گیا اور پلاسٹک کی میز کھینچ کر نعمت خانے کی الماری کے ٹھیک نیچے تک لے گیا۔

بسکٹ کا ڈبہ لے کر جب وہ خوابگاہ کے باہر سے گزرا تو اس نے بے اختیار سا ہو کر اندر نگاہ دوڑائی حالانکہ وہ وہاں سے سیدھا ڈرائینگ روم میں بھاگ آنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا اندر اس کی ممی نہیں۔ پتہ نہیں کون ہے اور کیا ہے۔ اس نے دیکھا کہ بیڈ پر پڑی ہوئی ممی جیسی کوئی چیز جیسے دب کر پھیل گئی تھی۔ بند آنکھیں جیسے بڑے بڑے ابھرے ہوئے دائروں میں دھنسی پڑی تھیں۔ اس چیز کے ہاتھ پاؤں اور چہرہ جانے کس رنگ کے تھے۔۔۔ دوسرے ہی پل ا س نے منھ دوسری طرف موڑا اور پوری طاقت لگا کر ڈرائینگ روم کی طرف بھاگا۔ اس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔

شاید وہ ایک زوردار چیخ مارکر بے ہوش ہو جاتا مگر بخار میں چپ چاپ لیٹی ہوئی بہن نے اس کے حواس کو قابو میں رکھا۔ چیخ اس کے ننھے سے سینے میں گھٹ کر رہ گئی۔

وہ بہن کے قریب چلا گیا اور باچھیں کھول کر مسکرانے لگا تو اس کے سوکھے سوکھے لب سفید ہو رہے تھے۔

” بِسکٹ۔لایا ہوں۔”وہ تھرتھراتی ہوئی آواز میں بولا۔

"کھائے گی۔”وہ پیار سے پوچھنے لگا۔اور ثوبیہ ٹکر ٹکر بھائی کو دیکھتی رہی۔

(افسانوی مجموعے "ابابیلیں لوٹ آئیں گی” سے)

٭٭٭

 

پوتھی پڑھی پڑھی

بالکنی میں کھڑے ہونے کے بعد جب میں نے اوپر نظر اٹھائی تو راکھ کے رنگ کے آسمان کو دیکھتے ہی طبیعت بجھ سی گئی۔ اُداسیاں پھن پھیلائے میرے دائیں بائیں آ کھڑی ہوئیں۔ مجھے خود کو ان ناگنوں کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے۔زندگی ٹھہر تو نہیں گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ راکھ کے رنگ کا آسمان دیکھنے کی میں عادی نہیں ہوں، مجھے تو عادت ہی ایسے آسمان تلے جینے کی ہے۔ دہائی بھر سے اوپر ہو گیا اب تو۔بس کبھی کبھی کچھ دنوں کی چھٹیاں منانے کا موقع مل جائے یا کسی کانفرنس یا سمینار میں کہیں شہر سے باہر جانا ہو تو بات دوسری ہے۔ جب آسمان کا اصلی رنگ نظر آتا ہے۔ نیلا، فیروزی یا کپاس کے پھولوں ایسا سپید۔ یا کالے گھنے گھنے بادلوں سے ڈھکا ہوا، جھانکتا، چھپتا۔

ایسا ہی ایک اسٹڈی ویک اٹینڈ کر کے لوٹی تھی میں صبح ایک پہاڑی مقام سے۔ بلکہ ایک حسین ترین پہاڑی علاقے سے۔ کوئی چھ دن بعد۔

رات ٹرین کے آرام دہ کمپارٹمنٹ میں سوئی رہی۔ مگر شاید تین یا ساڑھے تین گھنٹے۔ حالانکہ میرے پاس سونے کے لیے پورے آٹھ گھنٹے تھے۔ مگر نیند نہیں آ رہی تھی۔ مجھے پہاڑ پر گزری ہوئی شاموں کا خیال آ رہا تھا۔ یہاں ایسی یکسوئی سے شام گزارنا ممکن ہوتا تو یہ اُداسیاں میرے ارد گرد۔۔۔ اس طرح۔۔۔

جب میں پہاڑ پر پہنچی تو صبحِ کاذب کے چہرے سے سیاہ نقاب سرکنے والی تھی، ہوا میں خنکی تھی، اور خنکی میں رچی نمی نے یہ احساس دلایا کہ آس پاس ہی کہیں صبح منتظر کھڑی ہے۔ اس بار میرے ساتھ کئی چیزیں پہلی بار ہوئی تھیں۔ میری نیند گہری نہیں ہوتی مگر چونکہ پہلی بار شب کا سفر کیا تھا اس لیے گھڑی اتار دی تھی کہ شاید تکان کا مارے نیند گہری آئے اور کوئی چور وور۔۔۔

میں نے سفری بیگ کی زپ سے لگا ننھا سا تالا کھول کر گھڑی نکالی تو چار بجنے میں ۱۰ منٹ باقی تھے۔ یہ بھی پہلا موقع تھا کہ میں سحر کے وقت کسی پہاڑی مقام پر کمرے سے باہر تھی۔ یہ سفر بھی میرا پہلا تنہا سفر تھا۔ پہلی بار میں نے سحر کی بھیگی ہواؤں کی خوشبو محسوس کی تھی۔ نیند کی کمی سے بوجھل سلگتی آنکھوں میں ایسی ٹھنڈک پڑی جیسے یعقوبؑ کو یوسفؑ کا لباس چھو جانے سے۔ تھکن سے چور بدن میں تازگی کی لہر دوڑ گئی، جیسے آٹھ نو گھنٹے آرام کیا ہو۔ جی چاہا کہ سامان گیسٹ ہاؤس کے چوکیدار کے حوالے کر دوں اور خود وہیں اس مختصر سے زینے کے کنارے پر بیٹھ کر شبنم میں بھیگ بھیگ جاؤں۔ تو یہ ہوتا ہے سَحر کا سِحر۔ نئی زندگی جیسا، نئی روح ایسا۔

میں لمبے سانس لیتی ہوئی آسمان پر چمکتے ستاروں کو تکنے لگی۔ چوکیدار نے مجھے دیکھا تو خود ہی سامان اٹھا کر اندر کی طرف چل پڑا۔ اس کا اوجھل ہونا تھا کہ میں نے اپنے نرم گرم شال کو دُپٹے کی طرح گردن سے لگا کر شانوں کے پیچھے پھینکا اور باہیں آسمان کی طرف پھیلا کر ایک پاؤں پر ایک دائرہ ناچ لی، جیسے کہ آسمان سے ستارے ٹوٹ کر میرے ہاتھوں میں آیا چاہتے ہوں۔ ہوا سرد مگر فرحت بخش تھی۔ میرے ہونٹوں پر جانے کب سے ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اپنے اندر مجھے ایک غیر یقینی سی خوشی اور توانائی کا احساس ہوا تو مجھے خیال آیا کہ داناؤں نے اسی لیے نسیمِ سحر کی اس درجہ پذیرائی کی ہے۔ اور اس مقام کی سحر۔۔۔ بات دو آتشہ ہو گئی۔ اگر صبح اتنی دلربا ہے تو شام کیسی جادو بھری ہو گی۔ جب طیور اپنے اپنے آشیانوں کی طرف پرواز کرتے ہوئے آپس میں چہلیں کرتے ہوں گے۔ میں کمرے کی بالکنی میں کرسی پر بیٹھ کر کافی کا گرم گرم مگ ہاتھوں میں تھامے انھیں دیکھوں گی اور ساتھ ساتھ حنا سے باتیں بھی۔

اوہ!میں تو بھول ہی گئی۔اس بار ایک اور نئی بات بھی ہوئی تھی۔ حنا میرے ساتھ نہیں تھی۔ اس کے بغیر میں زندگی بھر کبھی کہیں نہیں گئی۔ کبھی کبھی اپنی پرانی تصویریں دیکھا کرتی ہوں۔ چاند سے چہرے والی حنا کی گود میں ننھی سی، گل گوتھنا سی میں۔ رنگ برنگے پھولوں والا فراک پہنے ہوئے۔ دونوں ٹخنوں میں چھم چھم کرتی ہوئی، بے شمار گھنگھروؤں والی پازیبیں پہنے۔ یہ پازیبیں میں نے حنا کے جنم دن پر پہنائی تھیں اسے۔ ہاں یاد آیا۔ تصویر میں چاند سے چہرے والی وہ لڑکی حنا نہیں، میں ہوں اور میری گود میں حنا پائلیں پہنے ہوئے، حنا نے بولنا بہت جلد سیکھ لیا تھا۔ اور چلنا بہت دیر سے۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ بہت ذہین ہوتے ہیں جلد بولنے والے بچے۔ اور چلی تو وہ سال بھر سے کچھ اوپر ہو گئی جب ہی۔ پازیبیں پہنے ہوئے جب وہ گول نرم پاؤں اٹھا کر تھپ  تھپ آوازیں پیدا کرتی ہوئی چلتی تو فضا میں ایک لطیف سا ترنم چھڑ جاتا۔ گھنگھریاں چھن چھن بجتیں اور دھپ کی آواز کے ساتھ ایک دم بند ہو جاتیں۔ اور میں کان کلکاریوں پر لگا دیتی۔ بھاگ کر اسے گود میں اٹھا لیتی۔ وہ ایک آنکھ پر ہاتھ رکھے دوسری آنکھ سے میری راہ دیکھتی ہوئی ناز بھری آواز میں پکار چھیڑ دیتی۔

"ماریں گے۔ ماریں گے اس فرش کو ہم۔ ہمارے بچّے کو چوٹ لگا دی۔؟ گرا دیا۔؟ بہت خراب بات ہے۔ بہت خراب۔” میں ایک پاؤں دوچار بار فرش پر پٹختی اور اس کی ایک آنکھ کے پاس بسیار محنت کے باوجود بھی نہ آیا ہوا آنسو جھوٹ موٹ پونچھ کر سینے سے لپٹائے اپنے پاس لے آتی۔ وہ اپنی منّی منّی باہیں میرے گلے سے لپٹائے رکھتی۔ میں لکھنے کی میز کے پاس آتی تو وہ میرے زانوں پر بیٹھی رہتی۔ میز کو زور زور سے تھپکتی، پھر پتہ نہیں کب گود سے اتر جاتی۔ وہ جب چاہے گود سے نکل جاتی تھی۔چاہے میں کسی بھی زاویے سے اسے لیے رہوں۔ پکڑ کر کچھ کھلاؤں، دبوچے رکھوں مگر جانے کس طرح وہ بغیر روئے، شور مچائے، ہنستی ہوئی، اچانک مچھلی کی طرح۔۔۔ نہیں۔۔۔ مکھن کی ڈلی کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتی۔

وہ کبھی روتی نہیں تھی۔ میں گھنٹوں اسے اپنے ساتھ کبھی کہیں، کبھی کہیں بٹھائے رکھتی۔ ہال میں یوں بیٹھتی جیسے میں نہیں وہی ان کانفرنسوں اور سمیناروں میں شریک ہونے آئی ہو۔ خاموش دیکھتی، سنتی ہوئی۔ میری مختصر سی دنیا کی تکمیل میں اس کے مزاج کا بھی ہاتھ تھا ورنہ عنظر سے علیحدگی کے بعد شاید میں بھی کچھ سوچتی۔ مگر میری اس دوست اور رفیق نے مجھے کبھی احساسِ تنہائی نہ ہونے دیا۔ہر حال میں میں نے اسے صبر و شکر کی تصویر پایا۔ میں اگر مصروف ہوں اور اس کے دودھ کا وقت ٹل رہا ہے تو وہ چپ چاپ شہادت کی انگلی منھ میں ڈالے ساکت لیٹی چھت کو تکا کرتی۔ میں آتی تو مسکرا دیتی۔

وقت کو ایک کام بہت اچھی طرح آتا ہے۔ پر لگا کر اُڑنا۔ وقت میرے دیکھتے دیکھتے اُڑ گیا۔

حنا کے ہاتھوں میں مہندی رچی۔ وہ چلی گئی۔میری حنا مکھن کی ڈلی کی طرح ہاتھوں سے نکل گئی۔ میرے زندگی کے سارے رنگ ساتھ لے گئی اور میں ایک بار پھر Single Woman بن گئی۔ بلکہ ایک بار پھر یتیم ہو گئی۔

نظمی اچھا لڑکا ہے۔ کینیڈا میں ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر لڑکی کے لیے ڈاکٹر شوہر ہی موزوں رہتا ہے میرے خیال میں۔ سال بھر بعد واپس لوٹیں گے دونوں۔ پھر یہیں رہائش رہے گی۔ مجھے چار بیڈروم کے فلیٹ کا کیا  کرنا ہے۔

مگر ابھی تو حنا کو گئے ہوئے مہینہ بھی نہیں ہوا۔

"کیا جلدی تھی آپ کو میری شادی کی۔ میں ایم ڈی کر لیتی۔” وہ مہندی کی رات کو میرے گلے سے لپٹ کر لاڈلی سی آواز میں بولی تھی۔ گِلے کی آمیزش کے ساتھ ہلکا ہلکا احتجاج لیے ہوئے۔

"میں تو سمجھی تھی تم بہت خوش ہو اس رشتے سے۔” میں روہانسی ہو کر بولی تھی۔

"دکھی بھی نہیں ہوں۔ مگر میں نے سوچا کہ آپ اتنی خواہش مند ہیں مجھے دلہن بنانے کی تو۔” اس نے میرے گلے سے باہیں الگ کر کے نیچے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔اصل میں میں نے اسے نظمی کی Companyمیں بہت خوش دیکھا تھا۔ یا ایسا سمجھا تھا کہ جب وہ آتا تو خوب قہقہے لگتے۔ حنا باورچی خانے میں میرا ہاتھ بٹاتی۔ مجھے کھینچ کھینچ کر ڈرائنگ روم میں لے جاتی اور لطیفوں اور دلچسپ واقعات میں شریک کرتی۔ ہنستی ہنساتی رہتی۔

اور میں یہ سمجھی کہ۔۔۔ یہ سوچ کر کہ کہیں اس کی خوشیوں میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ میں نے جلدی میں رشتہ۔۔۔

رخصتی کے دن میں اسے کتنی باتیں کہنا اور سمجھانا چاہتی تھی مگر وہ الٹا مجھے ہی سمجھائے جا رہی تھی۔

"سیما کے پارلر سے بال نا بنوائیے گا امی۔۔۔ وہیں جائیے گا حبیب کے ہاں۔۔۔ برباد کر دیتی ہے وہ آپ کے بال۔۔۔ اور ہاں امی یہ جنریٹر بدلوا دیجئے گا۔ میں کب سے کہہ رہی ہوں۔ دیکھئے اس کی ڈوری آپ سے کھنچے گی نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ بازو دکھے گا تو لکھیں گی کیسے۔۔۔ رخسانہ کو کہیے گا کہ اپنے بیٹے کو یہیں لے آئے۔ گھر نہ جایا کرے شام کو۔ اب اس فلیٹ میں آپ اکیلی ہوں گی تو۔۔۔ ” وہ زور زور سے بولتی ہوئی اچانک خاموش ہو جاتی۔ مجھے سینے کے اندر سے دھپ کی آواز سنائی دیتی۔۔۔ پازیب کی جھنکار بند ہو جاتی تو میں اس کی طرف غور سے دیکھتی۔۔۔ وہ رندھی ہوئی آواز کو کامیابی سے قابو میں لاتی ہوئی کہتی۔۔۔ "اب اکیلی ہیں تو۔۔۔ ” وہ جیسے کچھ نگلتی۔۔۔ "تو یہ ٹانک لینا مت بھول جائیے گا۔ اس میں کیلشیم اور وٹامن کے ساتھ ساتھ بی کامپلیکس اور آئرن بھی ہے۔”

"افوہ۔۔۔ بتایا ہے نا تم نے مجھے کئی دفعہ میری امّاں۔” میں مجروح سی آواز پر ہنسی کا بینڈایڈ (Bandaid)چپکا کر کہتی۔ اور وہ اور میں دونوں ہنس دیتے۔ اور شادی میں آئے مہمان بھی۔ ہم دونوں کے علاوہ اپنی اپنی اور ایک دوسرے کی حالت کا اندازہ کسی کو نہ ہوتا۔

بچھڑتے وقت وہ زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑائی تھی۔ شاخِ گل سا سجا سنورا اس کا نازک سا وجود ہر ہچکی کے ساتھ ہچکولے کھاتا۔ میں اسے سنبھالنے کے بہانے خود طوفان کی زد میں آئی نیّا سی ڈولتی، لبوں تک آئے دم کو قابو میں رکھے،اسے وداع کر آئی۔ اور جب سے۔ جب سے اب تک۔ نسیم سحر سے دوستی ہونے تک ماہی بے آب سی تڑپتی رہی۔ رخسانہ اپنے بچّے کو لے کر ہمارے ہاں آ گئی ہے۔

حنا کے جانے کے بعد میں پہلی بار گھر سے نکلی ہوں۔

ہوا تیز چلنے لگی تھی۔ ہاتھوں اور پیروں میں ٹھنڈ سی محسوس ہوئی تو میں نے گلے سے لپٹی شال پھیلا کر اوڑھ لی۔قریب ہی سے کوئی کوّا بول اٹھا۔لہراتی ہوا میں پھولوں کی مہک شامل ہو گئی تھی۔ میں نے دور نظر دوڑائی۔ پہاڑوں کے قریب آسمان کی سیاہی میں نیلاہٹ گھلا چاہتی تھی۔ سامنے ایک کشادہ باغیچہ تھا۔ میں نے کیاریوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک چکر کاٹا۔ میرے بال پھر کھل گئے تھے۔ چاہے کسی بھی انداز سے بناؤں میں انھیں مگر یہ اس قدر ملائم ہیں کہ جوڑا پھسل پھسل جاتا ہے۔مُوباف سے نکل آتے ہیں اور ہیئر پن ڈھیلا ہو کر گِر جاتا ہے۔ جبھی تو حنا نے انھیں ترشوا لیا تھا۔ اب کچھ بے ترتیبی سے بڑھے ہوئے تھے تو میں نے انھیں ربر بینڈ میں سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ مگر اس وقت پھر ربر سے کسی طرح پھسل کر۔۔۔ اگر حنا ہوتی تو سفر سے پہلے ضرور میرے بال سیٹ کروا لیتی۔

میں نے کمرا تو دیکھا ہی نہیں تھا۔مجھے اندر جانا ہو گا۔ اس منظر کو چھوڑ کر۔۔۔

فرحتِ دیدنِ گل آہ کہ بسیار کم ست

آرزوئے دلِ مرغانِ چمن بسیار ست

میں اندر جاتے ہی حنا کی تصویر میز پر سجا دوں گی۔ دن میں کئی کئی بار تو دیکھتی ہوں میں اس کی تصویر۔ اور کل رات سے میں نے اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے اندر جانا چاہیے۔

میں زینے کی طرف مڑی تو پیچھے سے مجھے کسی کے دوڑنے کی آہٹ سنائی دی۔ کوئی ہلکی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ اسپورٹس شوز اور ٹریک سوٹ میں۔ داڑھی سفید تھی اور سر کے لمبے سفید بال جُوڑے کی شکل میں سرکے اوپر ایک رومال میں بندھے ہوئے تھے۔ مگر انداز خاصا پھرتیلا تھا۔ میں نے قدم آگے بڑھایا تو آواز آئی۔

"گڈ مارننگ۔” وہ مسکراتے ہوئے مجھ سے مخاطب تھے اور آواز میں سانس کا تیز اُتار چڑھاؤ واضح تھا۔

"گڈ مارننگ۔” میں نے جلدی سے کہا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ بدلتے موسموں کی مہربانی سے مجھے اس قدر محتاط رویے کو خیرباد کہہ دینا چاہیے تھا۔ مگر مجھ میں میں کم اور حنا زیادہ نظر آتی۔ لوگ کہتے تھے۔

اس لیے میں اس فطری احتیاط سے دامن نہ چھڑا سکی تھی۔۔۔

حنا کی میرے شانے پر رخسار رکھے کھنچی تصویر کو بوسہ دے کر میں نے کپڑے الماری میں ہینگروں پر لٹکا دیے۔ گرم پانی سے غسل کیا اور اُس ذی الجلال مبین کو یاد کیا۔

ڈائننگ ہال میں خاصے لوگ تھے۔ ۴۰ اور ۷۰ کے آس پاس کے سِن کے۔ جیسے کہ اس طرح کے، یونیورسٹیوں کے بعد توسیعی تعلیم کے اداروں سے متعلق اشخاص ہوا کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں سے شناسائی تھی۔ کچھ اجنبی تھے۔ ایک میز پر صبح والے سردار صاحب لطیفے سنا رہے تھے۔ ایک خاتون میری پہچان کی نظر آئیں۔ جو ہال میں کئی لوگوں سے واقف نظر آ رہی تھیں۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی میرے پاس چلی آئیں۔

"نمسکار رِتو جی۔” سردار صاحب رِتو شریواستو سے مخاطب تھے۔

"ارے آپ۔۔۔ کیسے ہیں،آئیے نا۔” رِتو نے کرسی کھینچی۔

"یہ فوزیہ سلیمان ہیں۔بہت اچھی قلمکارہ۔۔۔ فوزیہ! یہ تبسّم صاحب ہیں۔”

رِتو نے مجھ سے کہا”سریندر سنگھ تبسّم۔”

"آداب محترمہ۔۔۔ میں نے شاید آپ کو صبح دیکھا تھا۔ تعلیمی ہفتے میں شرکت کے لیے تشریف لائی ہیں۔ زہے نصیب۔” وہ میری طرف دیکھ کر کرسی پر ہاتھ دھرے کھڑے رہے۔ میں نے بھی اٹھ کر تسلیم کیا۔

"فوزیہ تم حیران ہو گی کہ سردار صاحب اور یہ نفیس اردو۔ آپ دراصل انگریزی کی پروفیسر شپ سے ریٹائر ہوئے ہیں، پنجابی میں کئی ناول تحریر کیے ہیں، اردو کے کچھ بڑے بڑے ناولوں کا ترجمہ کیا ہے۔”رِتو نے کہا تو تبسّم صاحب نے فوراً بات کاٹی۔

"رِتو جی کیا پورا بایو ڈاٹا ہی پیش کر دیں گی۔”سردار صاحب خوش دلی سے ہنستے ہوئے بولے۔

"اور کیا ہو رہا ہے آج کل سر۔”رِتو نے پوچھا۔

"پنجابی ادب کی تاریخ پر کتاب لکھ رہا ہوں۔ اب تو سال بھر سے یہیں ہوں۔” یہ کہہ کر وہ کچھ خاموش ہو گئے۔

جب ہم لوگ سمینار روم میں داخل ہو رہے تھے تو تبسّم صاحب مختلف لوگوں سے مل رہے تھے اور دوسروں سے بھی ملوا رہے تھے۔ جس کا ذکر کرتے، اس کی صدق دلی سے تعریف بھی کرتے۔ کسی کی چھوٹی سی خوبی کو بڑھا چڑھا کر سراہتے۔ اور ایسا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر پُر خلوص سے تاثرات چھا جاتے۔

دن دلچسپ گزرا۔ تازہ ہوائیں۔ کام۔ پڑھے لکھے لوگ۔ مباحثے، ہلکا پھلکا لنچ۔۔۔ اور لنچ کے فوراً بعد مقررین کو سنتے ہوئے، سوچنے کے بہانے پل دو پل کی جھپکیاں لیتے ہوئے حاضرین۔

شام کو کمرے میں لوٹی۔ کچھ کتابوں کو دیکھا، کچھ مقالے کو بھالا۔ بالکنی میں آئی۔ غروبِ آفتاب کا بہترین منظر نظر آ رہا تھا۔ بھٹی میں تپے ہوے گھڑے ایسا قرمزی رنگ کا خورشید اپنی جسامت سے بڑا نظر آ رہا تھا۔ ایک پرندہ سورج کے کہیں قریب ہی چکر کاٹ رہا تھا۔ باقی پرندے ٹولیوں میں بٹے جیسے سورج کے آس پاس پرواز کر رہے تھے۔

"حنا ذرا باہر تو آنا۔”میں نے پلٹ کر حنا کر پکارنا چاہا۔ آواز زباں بنتے بنتے لوٹ گئی۔

کتنی خاموشی تھی۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ لوگ شاید مارکیٹ کی طرف گئے ہوں گے۔

تبسّم صاحب کہیں سے آ رہے تھے۔ اسپورٹس شوز پہنے ہوئے۔ مگر اس وقت ان کی چال میں صبح والی چستی نہیں تھی۔ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں طرف پیڑوں اور سبزے کو دیکھتے ہوئے۔بیچ بیچ میں رُک بھی جاتے۔شاید کسی جھینگر پر غور کرنے کے لیے۔ ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی۔ جسے کبھی گھماتے اور کبھی عصا کی طرح ٹیکتے۔

بالکنی کے سامنے سے گزرے تو ہاتھ سے ویو کیا۔میں نے بھی جواب میں ہاتھ ہلایا۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد جب میں لائبریری کی طرف جانے لگی تو تبسّم صاحب سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ سر جھکائے ہوئے، جیسے کسی سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں ہوں۔ کچھ غمزدہ سے بھی نظر آ رہے تھے۔ یا شاید طبیعت نا ساز ہو۔

"آداب آداب۔” مجھے دیکھتے ہی بولے۔

"آداب۔”

"چائے پی جائے؟اگر Freeہوں توں۔۔۔ ” آداب کہتے وقت ان کے چہرے پر رونق سی آ گئی تھی۔ چائے پینے کا خیال ظاہر کرتے وقت رونق ایک ٹھہری ہوئی سنجیدگی میں تبدیل ہو گئی تھی۔اور آخری جملہ کہتے ہوئے وہ اس قدر اداس نظر آنے لگے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے کچھ ہی دیر میں رونے والے ہوں۔

"رِتو  بازار گئی ہے۔ بس ذرا آ جائے تو۔” میں نے سڑک کی طرف دیکھ کر کہا۔

"جب تک ہم ڈائیننگ ہال کی طرف چلتے ہیں ؟” انھوں نے اس انداز سے کہا جیسے انھیں یقین ہو کہ میں ہال کی طرف جانے والی نہیں ہوں۔

"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نا۔” میں نے آہستہ سے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ شام کو بس۔۔۔ انسان جیسے بیمار ساہو جاتا ہے یہاں۔” وہ کچھ ایسے بولے جیسے کوئی مہلک مرض چھپا رہے ہوں۔

"دن میں خاصے ایکٹیو تھے آپ۔۔۔ اس وقت۔”

"نہیں تو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔”

"آپ سیر کے بہت شوقین معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے انسان یہاں سیر نہ کرے تو پھر اور کہاں کرے۔۔۔ یہ تازہ ہوائیں۔۔۔ ہریالی۔”

میں نے سوال کے ساتھ خود ہی جواب جوڑ دیا۔

"جی ہاں۔۔۔ مگر اب سیر بھی کتنی کرے انسان۔۔۔ میں دراصل دیکھ رہا تھا کہ یہ سب لوگ۔۔۔ شاید کوئی مل جائے۔ باتیں واتیں ہوں، چائے ہو۔” ان کی آواز میں کرب سا اتر آیا تھا۔

حنا آج بے طرح یاد آ رہی تھی مجھے۔ وہ ساتھ ہوتی تو ہم دونوں اس لمبی سڑک پر ایک طویل چکر لگا آتے۔بہت سی باتیں کرتے ہوئے۔ ان چار دنوں کو اور خوبصورت طرح سے گزرانے کے پروگرام بناتے ہوئے۔۔۔ مگر یہاں دور تک نیم انسانی صورتوں میں صرف سیاہ لنگور نظر آ رہے تھے۔ Study Week کے بڑے سے بینر پر ایک قُمری چونچ بھینچے، اپنے ننھے، بھورے رنگ کے مہین مہین پروں والے حلقوں کو جنبش دیتی ہوئی کُک۔ کُک کی صدائیں لگاتی ہوئی اپنے چھوٹے سے سرکو ہلا کر اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی جانے کسے پکار رہی تھی۔

اگر اس کا حلق پھولتا پچکتا نہیں تو اس کی بند چونچ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہرگز ممکن نہ تھا کہ یہ صدائیں وہی لگا رہی ہے۔ یہ آوازیں فضا میں کچھ اس طرح تحلیل ہوتیں جیسے کہیں دور سے سنائی دے رہی ہوں۔ سامنے ایک شخص چائے کے خالی برتن لے کر کسی کمرے سے نکل رہا تھا۔

"دراصل یہاں۔۔۔ ان پہاڑوں پر شامیں اُداس ہوا کرتی ہیں۔” تبسّم صاحب نے ڈوبی ڈوبی سی آواز میں کہا۔

"ہاں،واقعی۔” جانے یہ جملہ میں نے فوراً ہی کیوں کہہ دیا۔

"آپ کو بھی محسوس ہوا نا۔۔۔ ” وہ انگلی میری طرف اٹھا کر بولے۔

"شام گزارنا ایک مسئلہ ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ تو ایسا ہی ہے۔” یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔اور کہیں دور دیکھتے ہوئے چلنے لگے۔

دور سے رِتو کسی کے ساتھ آتی دکھائی دی تو میں بھی تبسّم صاحب کے ساتھ چلنے لگی۔

"شام گزارنے کے لیے کوئی دلچسپ سا مشغلہ ڈھونڈ لیجیے نا۔” میں نے کہا۔

"ہاں سوچا تھا۔ بلکہ دو مہینے پہلے جب آفریدی صاحب۔۔۔ تھے تو۔۔۔ سوشیالوجسٹ، آپ جانتی ہوں گی مشہور ماہر سماجیات ہیں۔۔۔ وہ اور میں بیڈ مینٹن کھیلا کرتے تھے ہر شام۔۔۔ وقت کیسے گزرتا پتہ ہی نہ چلتا۔” تبسم صاحب کے چہرے سے خوشی پھوٹنے لگی۔ "مہینہ بھر خاصے پنکچول رہے ہم۔ کبھی کبھی سہ پہر بھی ساتھ گزرتی۔ مگر پھر وہ چلے گئے۔۔۔ ” ان کا چہرہ بجھ سا گیا۔ مگر دوسرے ہی پل لوگوں کو بازار سے لوٹتا دیکھ کر وہ کھل اٹھے۔

"وہ دیکھئے آپ کی رِتو جی بھی آ رہی ہیں۔ یہ خاتون جو اُن کے ساتھ ہیں یہاں فیلو ہیں ایک عرصے سے۔ بہت مصروف رہتی ہیں۔ آج مدت بعد نظر آ رہی ہیں یہ شام کے وقت۔ ورنہ بس لنچ ڈنر وغیرہ میں۔اُدھر دیکھئے کچھ ہمارے یا ر لوگ بھی آ رہے ہیں پیچھے پیچھے۔” آخری جملہ کہتے وقت ان کی آواز کی چہک نمایاں ہو گئی تھی۔

سبھی ساتھ ساتھ ڈائیننگ ہال پہنچے۔

"یہ مسز ترویدی ہیں۔” رِتو نے کہا تومیں نے آداب کہا۔

"رِتو کہتی ہے تم بہت اچھا لکھتی ہو۔” انھوں نے محبت اور اپنائیت سے کہا۔

"بور تو نہیں ہوئیں نا یہاں۔”انھوں نے پوچھا۔

"جی بس ذرا سا کسی وقت۔۔۔ رِتو بھی نہیں تھی نا۔۔۔ تو۔”

"رِتو۔۔۔ میرے کمرے میں آ گئی تھی۔ پھر ہم ذرا بازار کی طرف ہولیے۔ مجھے کچھ پھل وغیرہ خریدنے تھے اور اسے پتہ نہیں کیا کیا۔” مسز ترویدی ہنس دیں۔ وہ ایک دبلی پتلی جسامت کی پچھتّر چھہتر کے سِن کے مشفق سی خاتون تھیں۔ صاف رنگ۔ گہری گہری آنکھیں۔ بال چند ایک کو چھوڑ کر سب سفید۔ چہرے پر لکیریں ہی لکیریں مگر باریک، جو جلد میں پڑی تھیں۔ گہری جھرّیاں نہیں۔ مسکراتیں تو بچوّں کی سی معصوم نظر آتیں اور بات کرتیں تو محبت کے سارے معنی سمجھ میں آنے لگتے۔

"آپ تو کبھی بور نہیں ہوتیں میڈم۔۔۔ !” تبسّم صاحب سب کی طرف باری باری دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے۔ ان کا چہرہ خاصا بشاش نظر آ رہا تھا۔اس سوال میں مجھے بھی دلچسپی تھی۔

"پہلے پہل جب شہر سے ایک دم یہاں آئی تو۔۔۔ خالی خالی سا لگتا۔ ادھر گھر میں بھی بچےّ اپنی اپنی دنیاؤں کے ہو گئے تھے۔ کچھ ایسا فرق بھی نہیں پڑا مگر پھر بھی یہ سکوت کہیں اندر سے خاموش سا کر دیتا۔ حالانکہ دن خاصی مصروفیات میں گزرا کرتا اور کرنے کو اور بھی بہت کچھ ہوتا۔ مگر پھر بھی ایک احساس تنہائی سارے وجود پر مسلّط رہتا۔ سمینار وغیرہ ہوتے تو چہل پہل ہوتی۔۔۔ مگر میں نے خود کو کبھی اداس نہیں ہونے دیا۔”

"پھر۔۔۔ ؟”تبسم صاحب ہمہ تن گوش تھے۔

"بتاتی ہوں بھئی۔۔۔ ” وہ ہنس دیں۔ شفاف سا نپا تلا قہقہہ۔

"اگر دیکھا جائے تو انسان ہمیشہ اپنا بار اٹھاتا پھرتا ہے۔ بچپن میں انجانے میں اور بڑا ہو کر دانستہ۔۔۔ کوئی بھی ساتھ چل پڑے تو وہ اپنے وجود کو خود ہی اہم سمجھنے لگتا ہے۔۔۔ بڑے بڑے الفاظ میں اسے موہ مایا وغیرہ کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ صاف الفاظ میں یہ دوسروں پر انحصار کرنے والی بات ہے، اور کچھ نہیں۔”

"مگر یہ بات دماغ کہاں قبول کرتا ہے میڈم۔” تبسم صاحب افسوسناک سے لہجے میں بولے۔

"آپ کو تو کوشش کرنا چاہیے۔ اور آپ اپنے ذہن کو تیار کر سکتے ہیں اس بات کے لیے۔ اصل میں ہم جس طرح رہنا چاہتے ہیں یہ ہمارے اپنے ہی ہاتھ میں ہے۔”

"جیسے؟”رِتو بولی۔

"وہ اس طرح کہ جو ہمیں میّسر ہے۔ ہم اس کے مطابق اپنی ضروریات وضع کر لیں۔ میں نے بھی ان باتوں کی معراج یہاں آ کر ہی حاصل کی۔”

"مگر میرے ساتھ الٹا ہوا ہے۔ میں یہاں آ کر۔۔۔ ” تبسم صاحب کچھ کہتے کہتے رُک گئے۔

"میں یہ ہی تو کہہ رہی ہوں۔ میں بھی دن بھر کے کام کے بعد شام میں ایک لمبا چکر لگا آنے کے باوجود وقت کو منھ پھاڑے کھڑا دیکھتی۔ اور رات کے کھانے تک کا وقفہ جب بھی طویل محسوس ہوتا۔ اب چونکہ لکھنے پڑھنے کے کام کا زیادہ حصہ میں رات میں کیا کرتی ہوں۔اس لیے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ شام کیسے گزاروں۔”

"میری سمجھ میں آ گیا”رِتو چٹکی بجا کر بولی "کھیل کر یا کوئی میگزین دیکھ کر یا۔۔۔ یا پھر بازار گھوم کر۔۔۔ "

"کھیلنے کے لیے بھی ساتھ چاہیے کسی کا۔۔۔ ہے نا۔۔۔ صبح سیر کر لیتی ہوں لمبی سی۔ پھر ذرا سی شام کو بھی۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ یہ وقت۔۔۔ اخبار رسالے وغیرہ میں ناشتے کے وقت کے آس پاس دیکھ لیا کرتی ہوں۔” وہ سمجھانے کے انداز میں ہاتھ میز سے ذرا سا اٹھا کر بولیں۔ ان کی سفید کالی مہین مہین لکیروں والی ساری ان کے بالوں سے نہایت پر وقار سے انداز میں میل کھا رہی تھی۔ اور ان کی مسکراہٹ کا اسرار انھیں عجیب طرح کا تقدس بخش رہا تھا۔

"عبادت کر کے۔” میرے منھ سے اچانک نکلا۔

"سیانی ہے۔”مسز ترویدی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’عبادت صبح تو کرتی ہو گی۔۔۔ ” انھوں نے پوچھا”ہر ایک کرتا ہو گا اپنے اپنے طور سے۔۔۔ کچھ نہ کچھ۔۔۔ ہے نا۔۔۔ ” انھوں نے باری باری سب کی طرف دیکھا۔

"کچھ دیر ذرا گہرائی سے اس کا تصور کر کے دن شروع کرے انسان تو من پُر سکون، شانت رہتا ہے۔ جیسے ہم نے ہر کام اس کو سونپ دیا ہو۔ وہ جوہر چیز پر قادر ہے۔۔۔ ” انھوں نے اوپر کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہا۔

"ہمارے سوچنے سے کیا ہو سکتا ہے۔ اُداس ہو کر ہم دوسروں سے ذرا ذرا سا پیار اور اہمیت مانگ کر وقت گزارا بھی کریں تو تہی دامن ہی رہتے ہیں۔ خوشی کے لیے ہم دوسروں پر منحصر ہوں۔ اس سے بڑی نادانی کیا ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی طرف سے بہتر کر سکیں۔ خود کے لیے۔۔۔ دوسروں کے لیے۔۔۔ چلیے دوسروں کے لیے بہتر نہ بھی کریں۔ مگر کسی کو تکلیف بھی نہ دیں۔۔۔ اور باقی اُس پر چھوڑ دیں۔اُس کے ہو جائیں تو خوشی اندر سے، ہمارے دلوں سے پھوٹتی ہے۔ ہمیں اس کی تلاش میں مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا۔ صبح اُس کا ذکر کرتے ہیں۔ یا کبھی بھی کرتے ہوں۔ ذرا سا شام کو بھی دھیان کر لیں توچوبیسوں گھنٹے سپھل ہو جاتے ہیں۔ جو وقت اذان کا ہوتا ہے، آرتی کا ہوتا ہے، ارداس کا پاٹھ کا، کچھ بھی کہہ لیجیے۔ جب سورج اپنا فرض نبھا چکتا ہے، رات اپنی حکمرانی پر آیا چاہتی ہے۔ ماحول میں شور بھی کم ہوتا ہے۔ کتنا حسین وقت ہوتا ہے وہ۔ اب اُس کا ذکر آپ اگر شام کو بھی کرتے ہیں تو ذرا اور زیادہ وقت کے لیے کر لیا جائے۔ وقت بچا کر تنہائیوں کے سپرد کیوں کیا جائے۔ اُس سے لو کیوں نہ لگائی جائے جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔ پھر آپ وقت گزارنے کے بہانے نہیں ڈھونڈیں گے، وقت ہی آپ کا منتظر ہو گا۔باہر کی منفی طاقتوں کو اپنے اندر کے سکون پر حملہ کرنے کی اجازت بھی کیوں دیں گے۔ اپنی اندر کی طاقت سے اسے پسپا کر دیجئے۔ ذرا سا باہر سے لوٹ کر اپنے اندر سمٹ آئیے۔ اپنے اور اس پرم شکتی، اس محبوبِ حقیقی۔۔۔ اُس سچے پریمی کے اور قریب ہو جائیے۔ پھر بس سکون ہی سکون۔۔۔ آپ خوشیاں مانگیں گے نہیں، بانٹیں گے۔ آپ کا اندر روشن رہے گا اور آپ یہ روشنی دوسروں کو دیں گے۔” انھوں نے دونوں ہاتھ میز پر اوندھے رکھ دیے اور مسکراتے ہوئے ہمارے چہروں کا جائزہ لینے لگیں۔

جب ہم لوگ راہداری سے گزر رہے تھے تو رِتو میرے ساتھ چل رہی تھی اور تبسّم صاحب اور مسز ترویدی آگے آگے۔

"جب بھی ان کے ساتھ ہوتی ہوں تو مجھ پر کسی نئی خوشی کا انکشاف ہوتا ہے۔” رِتو بولی تو تبسم صاحب پیچھے مُڑے۔

"اس لیے کہ زندگی پرانی ہو جائے تو جینے کے لیے نئے طریقے چاہئیں۔ مجھے یہ راز پہلے معلوم ہوتا تو سال بھر سے اپنی شامیں بندروں سے گفتگو میں برباد نہ کرتا۔” انھوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ پہاڑیوں سے ٹکرا کران کا قہقہہ ہمارے پاس لوٹ آیا تو ہم سب بھی ہنس دیے۔

سمجھے تو گھر میں رہے پر سا پلک لگائے

تیرا صاحب تجھ میں انت کہو مت جائے

کبیر نے کہا ہے۔”

مسز ترویدی نے مڑ کر ہمیں دیکھتے ہوئے کہا:

"بنا پریم دھیرج نہیں برہا بنا بیراگ

ست گرو بنا نہ چھوٹیے من منسا کی آگ

یہ بھی کبیر نے کہا ہے۔”

تبسم صاحب پُر سکون سی مسکراہٹ لیے ہم سب سے بولے۔

اور پھر وہ شامیں۔ سب کی ہی شامیں پُر سکون گزری ہوں گی کہ میں نے پھر کسی شام تبسم صاحب کو نہیں دیکھا۔ یا وہ نظر نہ آئے یا میں شاموں کو باہر نہ نکلی۔ یا ہم دونوں ہی۔

اس فلیٹ سے حنا کی ان گنت یادیں وابستہ ہیں۔آسمان مٹ میلا سا ہے۔ ہوائیں صاف نہیں ہیں۔ فضا میں دھندلا دھندلا دھواں سا ہے۔باہر شور ہی شور ہے۔ یہاں حنا کی چیزیں، تصویریں، باتیں، خوشبو، سب ویسے ہی ہے۔ آسمان کو دھویں نے چھپا لیا ہے مگر بالکنی کے نیچے کی یہ زمین میرے پاس ہے۔ یہاں سے میری آنکھیں دھوئیں کے اُس پار، دور عرش کے قریب پہنچ سکتی ہیں۔ بس ذرا سامیں انھیں موند کر اپنے اندر سمٹ جاؤں میرے اندر کی خاموشی کو باہر کا شور مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ یہ سکوت میرے ابدی سکون کا پیامبر ہے،پھر روح پرور سحر تو میری اپنی ہے ہی۔ اور حنا اپنے گھر میں خوش ہے۔

(افسانوی مجموعہ "ابابیلیں لوٹ آئیں گی” سے)

٭٭٭

 

یہ تنگ زمین

میں نے جب اپنے خریدے ہوئے خوبصورت کھلونوں کو ڈھیر کی شکل میں لاپرواہی سے ایک کونے میں پڑا ہوا دیکھا تو مجھے دکھ سا ہوا۔یہ کھلونے کتنے چاؤ سے لائی تھی میں اس کے لیے۔ یہ چھوٹا سا پیانو۔۔۔ یہ جلترنگ۔۔۔ یہ چھوٹی سی گِٹار،چہکنے والی ربر کی بلبل،ٹیں ٹیں بولنے والا طوطا، اور ڈرم بجاتا ہوا ٹیڈی بیئر۔ اور سب سے بڑھ کر یہ Synthesiser جس میں سو قسم کی دھنیں تھیں، جن سے کئی اور دھنیں بن سکتی تھیں۔ جس میں موسیقی کے ہر آلے کی آواز تھی۔

مگر اس نے انھیں چھوا تک نہ تھا۔وہ تو ایسے کھلونوں کا عاشق تھا۔ کیا وہ خود کو اب میرا نہیں سمجھتا یا اب اسے مجھ سے محبت نہیں رہی۔وہ جسے میں نے دل کے ایک ٹکڑے کی طرح برسوں سینے میں چھپائے رکھا۔ وہ جس نے میری مجروح ممتا پر اُس وقت اپنی معصومیت کا پھاہا رکھا تھا جب میرے دامن میں کھِلنے والا پہلا پھول چند سیکنڈ کے بعد ہی مرجھا گیا تھا۔ جب میرے ہونٹوں پر لوریاں صدا پانے سے پہلے ہی بے سُر ہو گئی تھیں اور روٹھی ہوئی نیند کو میں نصف شب تک رو رو کر، کروٹیں بدل بدل کر منانے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ تب ایک سرد رات کے گیارہ بجے میرے شوہر اسے گود میں لیے ہوئے لوٹے۔ اس نے ٹویڈ کا دھاریوں والا ننھا سا پھرن پہن رکھا تھا اور مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنی غیر معمولی لمبائی والی منی منی پلکیں پھڑپھڑا کر کسی روبوٹ کی طرح جلدی سے کہا تھا،

"آنتی مت لوئیے۔ میں آ گیا۔ اب مت لوئیے”۔

کہ اس کے انکل جنھیں وہ اکل جی کہتا تھا اسے راستہ بھر یہ ہی سکھا کر لائے تھے۔ میں مسہری سے اٹھ کر آنسو پونچھتی ہوئی ان کے قریب گئی اور اسے گود میں لے کر سینے میں چھپا لیا۔ اُس کے سردی سے ٹھٹھرے چہرے کو میں نے جلتے ہوئے کلیجے سے لگا لیا۔ میرے دل سے خون رسنا تھم گیا۔ اُس کے گھنگھریالے بالوں کو میں نے آنسوؤں سے دھو دیا۔

"نہیں روؤں میں ؟ کیا تم میرے پاس رہو گے۔ اپنی ماما کے پاس نہیں جاؤ گے؟آنٹی کے ہی پاس رہ جاؤ گے بولو؟”

"ہاں آنتی پاش رہ جاؤں گا۔لوج لوج مجھ کو بکی ا ور چال کیٹ دو گے ؟”

اس نے اپنا ادھ چبا چاکلیٹ منھ میں ڈالنے کی کوشش میں اپنے گال پر مل لیا اور خرگوش کی سی تیزی سے سر ادھر اُدھر ہلا کر پوچھا۔ پھر پھرن کی اُس جیب میں ہاتھ ڈال دیا جس میں کچھ اور چاکلیٹ اور بسکٹ تھے۔

میری تڑپتی ہوئی ممتا کو صبر آ گیا۔

وہ میری بہن کا بیٹا تھا۔اور میرے شوہر بظاہر میری تڑپ کو بہلانے اور اصل میں خود اپنے دل کے قرار کی خاطر اُس دن اُسے اُس کے گھر سے لے آئے تھے۔ اس کی قربت پا کر میں بھول گئی کہ میری ممتا کے ساتھ اتنا بڑا ناخوشگوار حادثہ پیش آیا تھا۔ بھولی نہیں بھی تھی مگر بہل ضرور گئی تھی۔ وہ مہینوں میرے پاس رہتا اور کبھی اس کی امی اسے لینے آتی تو باقاعدہ وعدہ کر کے جاتا کہ کب لوٹے گا۔ پھر میرے پاس آنے کے لیے ان کی ناک میں دم کر دیتا اور طے شدہ وقت سے پہلے ہی چلا آتا۔ اس کی ماں بھی اسے کچھ زیادہ نہ روکتی کہ میرا درد وہ جانتی تھی۔

وہ واپس آ جاتا تو بہار آ جاتی گھر میں۔ اس کی عادتیں بھی دل موہ لینے والی تھیں۔ فطرت کا اس قدر عاشق کہ ہر وقت باہر لان میں کھیلتا۔ کمروں میں تو جیسے اسے اپنا آپ مُقّید محسوس ہوتا۔ میری انگلی پکڑ کر کھینچتا ہوا، ننھے ننھے جوتے پہنے چھوٹے چھوٹے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر لے جاتا۔ کبھی پھولوں پر غور کرتا یا کسی تتلی کا پیچھا کرتا ہوا،کبھی گھاس میں چھپے مینڈکوں کو بھگاتا ہوا گیٹ سے باہر نکل جاتا۔ جہاں چنار کے بہت سے پیڑوں کے پرے جھیل نظر آتی تھی۔ وہاں پہروں ایک جگہ کھڑا جھیل کو دیکھتا رہتا۔ یا چنار کے بڑے سے تنے پر چھوٹا سا ہاتھ دھر کر گول گول گھومتا۔ یا اس کے کھوکھلے تنے میں چھپ کر مجھے تلاش کرنے کو پکارتا۔ میں کتنی بار اندر چلی جاتی کہ پیچھے پیچھے آتا ہو گا مگر مجھے پھر باہر جانا پڑتا اس کی تلاش میں۔ اور اسے اپنی دھن میں مگن ہری ہری گھاس پر لیٹا ہوا نیلے نیلے آسمان کو تاکتا ہوا پاتی۔ وہ صبح سے شام کر دیتا کہ پرندے بولنے لگتے۔ کئی طرح کے پرندے چناروں کی اونچی نیچی شاخوں پر آ بیٹھتے اور اپنے اپنے آشیانوں میں شب بھر چھپ جانے سے پہلے کچھ دیر ان ٹہنیوں پر سستاتے چہکتے ایک لطیف سا شور برپا کر دیتے۔ اور وہ اُس میں کھو جاتا۔ مجھ سے ان کے نام پوچھتا اور یاد رکھتا۔یہ بلبل ہے، یہ پپیہا ہے، یہ کستوری ہے، یہ ابابیل ہے، یہ فاختہ ہے، یہ مینا ہے۔۔۔ اور ہر پرندے کی بولی پہچان لیتا اور ہو بہو نقل اتارتا۔ جب کوئی پرندہ نیچے کی ٹہنیوں سے اڑ کر اوپر گھنی شاخوں میں کہیں گم ہو جاتا تو وہ پہروں گھوم گھوم کر اسے تلاش کرتا۔

کوئی نیل کنٹھ پاس کی جھیل سے اپنی لمبی نیلی چونچ میں کوئی تڑپتی ہوئی روپہلی مچھلی آڑھی دبوچ کر لاتا اور اسے سیدھی نگل جانے کی دھن میں بار بار اگلنے لگتا اور ناکام ہو کر کسی اونچی موٹی سی ٹہنی پر اسے پٹخ پٹخ کر کھاتا تب وہ بھاگ کر اندر سے اپنی ننھی سی دوربین اٹھا لاتا اور باقاعدہ مشاہدہ کرتا۔ مجھے بھی اس کی ذہین بھول پن کو نہارنے کے علاوہ اور کسی کام میں لطف نہ آتا۔اس کے ایسے ہی بھول پن اور محویت کا فائدہ اٹھا کر میں اسے کھِلا پلا دیتی ورنہ فطرت کے اس پرستار کو میں باہر سے اندر لانا اگر بھول جاتی تو وہ کہیں باہر ہی سو جاتا، چاند کو سوچتا ہوا۔ تاروں کو دیکھتا ہوا۔ اور صبح جب اسے شبنم جگاتی تو شاید وہ پھر کسی ہُدہُد کو مٹی کی ننھی ننھی ڈھیریوں میں سے چھوٹے چھوٹے کیڑے ڈھونڈتے ہوئے دیکھنے میں کھو جاتا۔

میرے شوہر کہیں شہر سے باہر جاتے تو فون پر اسی کی باتیں کرتے مجھ سے۔ ہماری زندگیوں کا حصّہ بن گیا تھا وہ۔ ذہین بے انتہا تھا وہ، یادداشت غضب کی۔ موسیقی کا دلدادہ ایسا کہ کسی دن دھول میں اٹا سِتار کا غلاف اتار کر میں اسے بجانے لگتی تو دیکھتی کہ وہ بغیر تھکے تقریباً پون گھٹنہ اپنے ہی انداز میں اپنا ایجاد کیا ہوا کوئی رقص کرتا رہتا۔ اس کے ننھے منے ہاتھ پیر نہ تھکتے۔ کبھی ایک ٹانگ آگے کو جا رہی ہے کبھی پیچھے کو۔کبھی سامنے کے تکیے پر ایک آدھ لات رسید کی جا رہی ہے۔ کبھی ایک ٹانگ سے یا کبھی دونوں ٹانگوں سے کُودا جا رہا ہے۔ دونوں ہاتھ ہوا میں لہرائے جا رہے ہیں۔ سر بائیں کو مڑتا پھر تھوڑی دیر بعد دائیں کو۔اور اس طرح کی ہر حرکت میں میں دیکھتی کہ ایک رِدھم ہوتا۔ وہ جھوم جھوم جاتا۔ پسینہ پسینہ ہو جاتا۔ میں دیکھ دیکھ کر ہنستی۔ پھر سِتار چھوڑ کر اسے گود میں بھر لیتی۔ وہ حیرت سے دیکھتا کہ آخر ایسا کیوں، پھر اور بجانے کی ضد کرتا۔ میں بہلانے لگتی:

"ذرا آنکھیں بند کرو۔”وہ آنکھیں میچ لیتا۔

"یہ لمبی پلکیں کہاں سے لائے۔”

"باجار سے۔”وہ بھول پن سے جواب دیتا۔

"کتنے میں۔۔۔ ؟”

"دو لوپے میں۔” وہ آنکھیں پھیلا کر ابرو اٹھا کر دو پر زور دے کر کہتا۔ یہ بھولی بھالی باتیں مجھے زندگی کا احساس دلائے رکھتیں۔ اس کی آمد سے میرا ذہنی تناؤ دور ہو گیا تھا۔

اللہ نے میری بھی گود بھر دی۔

وہ کچھ بڑا ہوا تو اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اب وہ صرف Week End پر آتا۔ پھر سال بھر بعد ہمارا ٹرانسفر ہو گیا۔ ہم وہاں سے چلے آئے۔

اس کی جدائی کا غم پتھر کی سِل کی طرح سینے پر رکھا تھا۔ میں نے ہمیشہ اسے پہلوٹھی کے بیٹے کی طرح چاہا اور اس سے الگ ہو کر اس کے لیے ایسے ہی تڑپی جیسے ماں بچّے سے بچھڑ کر تڑپتی ہے۔ اُسی نے تو اپنے بچپن کو پہلے پہل میری گود میں جگہ دی تھی۔ مجھے ممتا اور محبّت سے آشنا کرایا تھا۔

وہ بھی ہم دونوں کو برابر یاد کرتا۔ہم سے ملنے کو مچلتا۔ فون ہی کچھ تسلی تھا دل کو۔ کافی دیر بات چیت چلتی۔ میں فون پر کہتی کہ ذرا آنکھیں بند کرو۔ وہ فوراً آنکھیں بند کرتا میں پوچھتی کہ یہ پلکیں کہاں سے لائے تو ویسی ہی سنجیدگی سے کہتا کہ باجار سے۔ دو لوپے میں۔ اس کے چھوٹے سے دماغ میں یہ خیال نہ آتا کہ میں تو اس کی بند پلکوں کو دیکھ ہی نہیں سکتی۔اُس کی امی مجھے بتایا کرتیں۔

پھر ایسے ہی دو تین سال گزر گئے۔ کبھی فون Connectہوتا کبھی کئی دن گزر جاتے۔ میرے دل سے اس کی محبّت ذرا کم نہ ہوئی۔ ا س کی یاد میں میری آنکھیں بھر آتیں، چھلک جاتیں۔ دل اُسے ایک نظر دیکھنے کو تڑپ اٹھتا۔ باہیں اسے سینے سے لگانے کو مچلتیں۔ روح جدائی کے غم سے درد کرتی۔ اور میں دل پر پتھر رکھ لیتی۔ اپنے بچوّں میں صبر ڈھونڈ لیتی۔ کہ صبر کرنا میں نے اسے پا کر ہی سیکھا تھا۔

ایک عرصے سے ہم بھی اور وہ لوگ بھی ملنے کا پروگرام بنانا چاہتے تھے۔ اور ملاقات تھی کہ طے ہی نہ ہو پاتی تھی۔ کچھ یہاں کا موسم کچھ ادھر کے حالات۔۔۔

اب کے سردیاں شروع ہوئیں تو وہ لوگ سچ مچ ہی آ گئے۔مجھے تو انھیں دیکھ کر بھی ان کی آمد کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ ا سکا قد تھوڑا سا لمبا ہو گیا تھا۔ تتلاہٹ ختم ہو گئی تھی۔ پہلے سے کچھ کم گو ہو گیا تھا۔ مگر دیکھنے میں ویسا ہی پیارا۔ دل موہ لینے والی صورت۔ کالی کالی بھولی سی آنکھیں۔ لمبی گھنی پلکیں۔ سیب ایسے گال اور سرخ سرخ کان۔ ہاتھ پاؤں وہی گورے، مکھن کے پیڑوں ایسے۔ مجھ سے لپٹا تو میں رونے ہی لگ پڑی اور وہ کتنی ہی دیر ہنستا چلا گیا۔ میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے مسکرا کر کہا:

"ذرا آنکھیں بند کرو۔”

اس نے آنکھیں جھکا لیں۔ میں نے پوچھا یہ پلکیں کہاں سے لائے تو شرما کر مسکرا دیا۔ میرے گھر میں بہاریں آ گئی تھیں۔ گھر میں کھانا اسی کی پسند کا بنتا۔ میں اسے طویل Driveپر لے جاتی۔ میرا سارا وقت اس کا ہو گیا تھا۔ مجھے میری گم گشتہ جنت مل گئی تھی۔

ایک دن صبح صبح گولیاں چلنے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ بھاگی بھاگی باہر نکلی تو دیکھتی ہوں کہ وہ بالکنی میں کھڑا منھ سے مختلف قسم کی گولیاں چلنے کی آوازیں نکال رہا تھا۔ ایسی مہارت سے کہ ان کے نقلی ہونے کا شک تک نہ گزرے۔

یہ سارا قصور میرا ہی تھا۔ وہ کتنے دن سے آیا تھا اور میں اس کے لیے ایک بھی کھلونا نہیں لائی تھی۔ اسی دن شام کو میں اس کی پسند کے کھلونے خرید لائی۔ جب وہ سو گیا تو میں نے وہ سارے کھلونے اس کی مسہری پر سجا دیے کہ صبح جاگتے ہی دیکھے گا تو کتنا خوش ہو گا۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ میں ذرا دیر سے جاگی۔ دیکھا کہ سارے کھلونے ایک طرف کو ایک ڈھیر کی شکل میں رکھے ہوئے ہیں۔ اور وہ غائب۔ میں نے اس کی ماں سے پوچھا تو بولیں کہ سب بچّے بڑے کمرے میں کھیل رہے ہیں۔

بڑے کمرے کے دروازے پر اس کی مُنّی سی بہن ہونٹوں پر انگلی رکھے پہرا دے رہی تھی۔

"شی ادھر نہیں جانا۔فائرنگ ہو رہی ہے۔”وہ مجھے خبردار کرتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔ اندر جھانکا تو عجیب منظر دیکھا۔ سارے گھر کے تکیے اور سرہانے ایک کے اوپر ایک اس طرح رکھے ہوئے تھے جیسے ریت کی تھیلیاں رکھ کر مورچے بنائے جاتے ہیں۔ وہ درمیان میں اوندھا لیٹا ہوا ایک بڑی سی لکڑی کو بندوق کی طرح پکڑے منھ سے مختلف طرح کی گولیوں کی آوازیں نکال رہا ہے۔ اور اس کے دائیں بائیں میرے دونوں بچےّ اپنی چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی بندوقیں لیے اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ جیسے حکم کرتا وہ دونوں ویسا ہی کرتے کبھی ایک بھاگ کر ایک کونے میں گھستا، کبھی دوسرا دوسرے کونے میں یہ ہی عمل دہراتا۔ کبھی ایک بک ریک کی آڑ میں ہو کر دوسری طرف کودتا۔ کبھی دوسرا الماری کے پیچھے چھپ کر، جست لگا کر دیوا رکے ساتھ چپک جاتا۔ اور وہ خود مورچہ سنبھالے کبھی ان کو ہدایت کرتا کبھی ان پر بندوق تان دیتا۔

اب یہ ہی اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔

وہ میٹھی بولیاں،وہ رقص، وہ موسیقی۔۔۔ وہ بھول گیا تھا اور یہ سب یاد دلانے کے لیے میں شاید اسے کہیں نہیں لے جا سکتی تھی۔

٭٭٭

بُلبُل

ڈینم کی بھاری سوتی جین کو کھنگال کر نچوڑنے کے بعد جب میں اسے ہینگر پر پھیلانے کے لیے سیدھی کھڑی ہونے لگی تو سارے بدن سے ٹیس سی اٹھی۔ پوری طرح ایستادہ ہونے میں مجھے دس بارہ سیکنڈ تو ضرور لگے۔ اور جب میں نے جین کو زور سے جھٹک کر جھاڑا تو میرے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی کا وہ لمبا سا ناخن جو جین کی موری کو رگڑتے ہوئے آدھا ٹوٹ گیا تھا، انگلی کے پور کی تھوڑی سی جِلد چھیلتا ہوا پورا الگ ہو گیا۔ خون کے قطرے گرنے لگے اور میں درد سے بلبلا اٹھی۔ مگر اس خیال سے کہ کہیں جین پر خون کا دھبّہ نہ لگ جائے میں نے ایک ہاتھ سے بمشکل تمام اسے ہینگر پر ڈال دیا۔ انگلی پر ٹِشو پیپر لپیٹ کر، میں کھڑکی کی طرف لپکی اور کھڑکی کے دونوں پٹ کھول دیے۔ اندھیروں سے نکل کر آتا ہوا، ہوا کا ایک اداس جھونکا۔۔۔ میرے چہرے سے ٹکرایا۔ جانے اتنی جلدی اندھیرا کیسے ہو گیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو میں نے کچھ دیر بعد ڈوبنے والے سورج کی ہلکی سی جھلک دیکھی تھی۔ بس اتنی سی دیر میں ؟۔۔۔ ایک ہی تو پینٹ دھوئی تھی میں نے۔۔۔ میری انگلی کا درد میرے دل میں اتر آیا۔ ایک تھکی ہوئی نظر میں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔ اتنے وسیع آسمان پر زہرا اکیلا چمک رہا تھا۔ زہرا کا عکس میری آنکھوں میں دھندلا سا گیا۔۔۔ اس ذرا سی بات پر۔۔۔ یہ آنسو بھی۔۔۔

کچھ دن پہلے جب انھوں نے بتایا کہ ان کے دفتری کام کے سلسلے میں ہم لوگ تین دن کے لیے شملہ جا رہے ہیں تو مسرّت کی ایک لہر میر ے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔ دراصل میری اپنی چھٹی کے بھی یہ ہی تین دن تھے۔ ان دنو ں منّو کی بھی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ معلوم نہیں میرا وقت کہاں چلا جاتا ہے۔ لوگ بور کیسے ہوتے ہوں گے۔ مجھے تو بور ہونے کا وقت کبھی میسر نہیں آیا۔ ویسے کچھ کرنا تو ہوتا نہیں مجھے ایسا۔مگر پھر بھی کبھی کبھی میں ایک ایک لمحے کو اپنے پاس بلا کر رہ جاتی ہوں۔ اسے دل کی گہرائیوں سے یاد کرتی ہوں۔ پچکارتی ہوں۔ تصورات کی باہیں پسارے اس سے وعدہ کرتی ہوں کہ اسے اتنے خوبصورت انداز سے گزاروں گی کہ شاید ہی اسے کسی نے اتنا حسن بخشا ہو۔اس کی منّت اور خوشامد کرتی ہوں۔ بڑی مشکل سے اتنی ساری عاجزی کے بعد جب وہ ایک لمحہ میرے پاس آنے کو تیار ہوتا ہے تو۔۔۔ اسی وقت کُکر کی سیٹی، ٹیلیفون کی آواز، دروازے کی گھنٹی،بچّوں کی پکار، گوالے کی ڈولچی کی کھڑکھڑاہٹ یا پھر کسی کام کا احساسِ ذمہ داری مجھے آ لیتا ہے۔ میرا اتنے جتن سے بلایا ہوا لمحہ مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی کہیں دور ساکت ہو جاتا ہے۔ میں خالی دامن اور خالی باہیں لیے کوئی فرض پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ جاتی ہوں۔ اور پھر مجھے دن بھر کرنا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ جزوقتی ملازمہ کپڑے دھوتی ہے، صفائی کرتی ہے۔ اب ایسا کون سا کام رہ جاتا ہے۔ ذرا سا بچّوں کو ہی تو دیکھنا ہوتا ہے۔ ان کی بکھری ہوئی چیزیں اپنی جگہ پر رکھنا۔ وہ اودھم بھی تو بہت مچاتے ہیں۔ یا پھر کھانا بنانا، سودا سُلف لے آنا یا دیگر خریداری وغیرہ کرنا۔ چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کے لیے بجلی والا یا نل ول ٹھیک کرنے والا بلانا۔ مجھے کہیں جانا تو ہوتا نہیں۔ آرام سے گھر میں کام کرتی، اپنے سامنے سب ٹھیک ٹھاک کرواتی رہوں گی تو میرا وقت گزرتا جائے گا۔ مستعد رہوں گی تو تندرست رہوں گی۔ وہ نوکر کے سخت خلاف ہیں۔ کہتے ہیں بڑے شہروں میں چھوٹا نوکر رکھنا بھی خطرہ مول لینے کے برابر ہے۔ وہ بہت عقلمند ہیں انھیں ہر بات کا تجربہ ہے۔ اب بھلا میں گھریلو عورت یہ سب کیا جانوں۔ مجھے کرنا ہی کیا ہوتا ہے ایسا۔ جھاڑ پونچھ لیا۔ کپڑے سنبھال لیے۔ مُنی کا دودھ، Nappiesوغیرہ۔ مُنے کی کتابیں کھلونے وغیرہ دیکھ لیے۔ اس کا ہوم ورک کرا لیا۔ بس اور کیا۔ پتہ نہیں چیزیں بار بار کیوں بکھر جاتی ہیں اور انھیں ٹھیک کرنے میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے۔اور پھر یہ وقت کیسے اتنی جلدی گزر جاتا۔

وہ بہت مصروف رہتے ہیں۔

اور میں سارا دن گھر میں ہی گزارتی ہوں۔ پھر بھی یہ تین دن جو اس گرمی سے دور ایک خوبصورت مقام پر گزریں گے، میرے اپنے ہوں گے۔ اور بچّے نئی جگہ میں محو رہیں گے۔ نہ باورچی خانہ، نہ خریداری۔ صرف خوبصورت پہاڑ، رنگ برنگے پرندے اور میٹھی میٹھی ان کی بولیاں، بڑے بڑے دانتوں والے بندر اور کالے منھ اور لمبی دم والے لنگور۔ ہری ہر ی گھاس اور خوش رنگ پھولوں پر منڈلاتی نیلی پیلی تتلیاں۔ چاندنی رات اور نا آلودہ آسمان کے بے شمار تارے۔ طلوع اور غروبِ آفتاب کا شفق گوں فلک۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور بھیگی بھیگی رُتیں۔ پل پل آنکھ مچولی کرتی ہوئی دھوپ کی کرنیں۔ اور نہ جانیں کیا کیا۔ یہ سب میں اپنی مرضی سے دیکھوں گی،محسوس کروں گی۔ یہ بہتّر گھنٹے میرے اپنے ہوں گے۔اوہ۔۔۔ کتنا سکون ملتا ہے اس تصوّر سے ہی مجھے۔ اسے محسوس کروں گی تو کیسا لگے گا۔میرے من میں گدگدی سی ہونے لگتی ہے۔ زندگی سہل سہل سی معلوم ہونے لگتی ہے۔

میں ہفتہ بھر پہلے ہی سفر کی تیاریوں میں لگ گئی۔ اس جھلستی گرمی سے تین دن دور۔ بہت ہوتے ہیں تین دن۔ یہ تین دن مجھے پوری طرح سے Recreate کریں گے۔

سفر پر جانے کی شام میں نے سب کی پیکنگ کی۔ را ت کے دو بج گئے یہ سب کرنے میں۔ صبح ہمیں ہمالین کوئین پکڑنی تھی چھ بجے سے پہلے۔ اس کے لیے ہمیں گھر سے ۵ بجے چلنا ہو گا۔ اور پھر مجھے چار بجے اٹھنا ہو گا۔ یہ بستر میں چائے پینے کے عادی ہیں۔ ان سب کے تیار ہونے سے جو چیزیں بکھریں گی انھیں سمیٹنا ہو گا۔مسہریاں بھی ٹھیک کرنا ہوں گی۔ ملازمہ تو اس وقت ہو گی نہیں۔ سب صفائی وغیرہ کر کے ہی نکلنا ہو گا۔

باہر سے لوٹ کر انھیں گندا گھر اچھا نہیں لگتا۔

پھر دروازوں کھڑکیوں کی کنڈیاں چٹخنیاں اچھے سے دیکھنا بھالنا،تالے چابیاں نل بجلیاں وغیرہ دیکھنا۔ سب کچھ مقّفل کرنا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کام میں ہی بہتر طریقے سے کر سکتی ہوں اور مجھے ہی کرنا ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔

دوسری صبح کچھ سوتے کچھ جاگتے ہم روانہ ہوئے اور دوپہر کو کالکا پہنچ گئے۔ وہاں سے شملہ کے لیے ٹیکسی لی۔منّو کو ان گھومتے بل کھاتے راستوں میں ابکائی ہو جاتی ہے۔ وہ سارا راستہ الٹیاں کرتا رہا۔میں اس کا سر تھامے رکھتی، منھ پونچھتی، گریبان صاف کرتی رہی۔

وہ اگلی سیٹ پر شاید سو رہے تھے۔۔۔ پہاڑی راستے اتنے دل موہنے والے تھے کہ سب تکان بھول کر میں ان اونچے اونچے پیڑوں کو ڈھلوانوں، گھاٹیوں کو دیکھنے لگی۔ کوئی ساڑھے تین گھنٹے کا سفر تھا۔ بوندیں پڑنے لگی تھیں۔ جہاں جہاں گاڑی بڑھتی ذرا سا راستہ چھوڑ کر وہیں پر بارش پڑنے لگتی۔ بادل ہمارے ہی رُخ پر تیر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ساتھ چل کر مینہٖ برساتے جاتے۔ دونوں بچےّ میرے دو کاندھوں پر سر ٹکائے سو رہے تھے۔ شاید اس ترنم کو لوری سمجھ کر جو بارش کے قطروں کے کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہا تھا۔ انھیں میٹھی نیند آ گئی تھی۔ یہ منظر اس قدر دل کش تھا کہ میری بوجھل پلکیں بھی بند نہ ہو پا رہی تھیں۔ زوروں سے برستا ہوا پانی سامنے کے شیشے پر چھا جاتا اور گاڑی میں لگا وائپر اسے پلک جھپکتے میں پونچھ لیتا اور اتنے ہی عرصے میں اس کی جگہ اور پانی لے لیتا اور پھر اسی طرح پونچھا جاتا۔ دونوں طرف کے شیشوں پربھی بوندیں ٹکرا ٹکرا کر پھسل رہی تھیں۔ بارش سیدھی، آڑھی، ترچھی جانے کیسے کیسے بہہ رہی تھی۔ ایک طرف پہاڑیاں ایک طرف جنگل اور اگر جنگل کی طرف دیکھیں تو بارش آسمان سے لے کر زمین تک برستی ہوئی پانی کی ہزاروں نہایت طویل دھاروں کی شکل میں رواں نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ہم خود اوپر سے نیچے پانی کے بے شمار دھاریں برسا رہے ہوں۔

گاڑی کے اندر ہلکی ہلکی گرمی تھی۔ باہر ہوائیں، سردی اور بارش اور تنہا بل کھاتی سرمئی طویل سڑک۔۔۔ مجھے نیند آ رہی تھی۔۔۔ منظر کو نہارنا اچھا لگتا تھا مگر تکان کے باوجود میں نے خود کو سونے سے روکے رکھا تاکہ موڑوں پر مڑتے وقت بچّوں کو کہیں چوٹ ہی نہ لگ جائے۔

یہ جگہ شملہ سے آگے تھی۔ بیچوں بیچ جنگل کے۔ویسے یہاں سب کچھ جنگل کے درمیان ہی تھا۔ مگر یہاں قدرتی حسن اپنے شباب پرتھا۔ چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر یہ خوبصورت سا ہوٹیل۔ پہاڑی کے شروع میں مختصر سا بازار۔۔۔ سب خوبصورت تھا۔

ٹیکسی سے اترتے ہی تازہ ہوا کے معطر جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔اس خوشبو میں جنگلی درختوں کی سوندھی سوندھی مہک بھی شامل تھی اور مختلف قسم کے پھولوں کی خوشبوئیں بھی، جو باغیچے میں چاروں طرف اور درمیان میں نہایت سلیقے سے اگائے گئے تھے۔ اس میں ایستادہ بڑے سے اخروٹ کے پیڑ پر ایک پہاڑی مینا اپنی پیلی چونچ وا کیے چہک رہی تھی۔نکھرے نیلے آسمان پر بادل کے دودھ ایسے سفید ٹکڑے اِدھر اُدھر ٹنگے ہوئے تھے۔ سرمئی پنکھوں اور پیلے پیٹ والی ایک منّی سی چڑیا یہاں سے وہاں اڑ رہی تھی۔آسمان پر قوس و قزح ابھر آیا تھا۔ بچوّں نے پہلی بار دھنک کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ آس پاس حدِ نظر تک دھلا دھلایا سا منظر۔نکھرے نہائے سے پیڑ، سجے سجائے شرمائے شرمائے سے پھول۔ ہری ہری گھاس پر اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی رنگ برنگی تِتلیاں۔ نیلا نیلا آسمان دیکھ کر گنگناتی ہوئی پہاڑی مینا۔۔۔ یہ منظر جانے کہاں لے گیا۔

کمرے میں پہنچ کر میں نے سب کے کپڑے Unpackکر کے الماری میں لٹکا دیے۔ بچّوں کو ہاتھ منھ دھلانے غسل خانے میں لے جانے لگی تو دیکھا کہ بادل اندر گھسے آ رہے تھے، کھڑکی کے راستے۔ اس سے پہلے کہ میں اس ہوش ربا منظر میں محو ہو جاتی، میں نے بادلوں سے درخواست کی کہ کچھ اور دیر ایسے ہی ٹھہر جائیں۔ میں بچّوں سے فارغ ہولوں کہ میں یہ سحرِ آگیں منظر پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔

وہ بالکنی میں کھڑے سگریٹ پھونک رہے تھے۔

کھانا کھاتے شام ہو گئی۔ شام سے مجھے عشق رہا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں شام ہی ہے جو مجھے اپنی سی لگتی ہے۔ پھر پہاڑوں کی شام کی بات تو کچھ اور ہی ہے۔ میں بالکنی میں بیٹھ کر بادلوں کو اپنے چہرے پر اپنے ہاتھوں پر محسوس کرنا چاہ رہی تھی کہ میں تین دن کے لیے بادلوں کے پاس اتنی اونچائی پر چلی آئی تھی۔ وہاں بیٹھ کر ذرا سا وہ میگزین دیکھنا چاہ رہی تھی جو میں نے اسٹیشن پر خریدا تھا۔۔۔ مگر

مگر ان کی سگریٹ ختم ہو گئی تھی اور ہوٹل میں وہ برانڈ نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے ہی بھیجنا مناسب سمجھا۔ کہنے لگے کہ بچوّں کو بھی ساتھ لے جاؤں بازار۔ راستہ بھی دیکھ لوں گی اور سیر بھی ہو جائے گی۔ وہ جب تک بالکونی میں بیٹھ کر میگزین دیکھیں گے۔ انھوں نے آہستہ سے میرے ہاتھ سے رسالہ لیتے ہوئے سمجھایا تھا۔

بازار دور سے نظر آ رہا تھا۔ ہمارے چلتے وقت آسمان پھر ابر آلود تھا۔مگر بوندیں اتنی باریک باریک برس رہی تھیں جیسے چھلنی میں سے چھن کر گر رہی ہوں۔ ہم ڈھلان طے کر کے چوڑی سڑک پر پہنچے ہی تھے کہ بارش اچانک تیز ہو گئی۔ اور ہم سب ایک دکان کے چھجے تک پہنچتے پہنچتے بری طرح بھیگ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بارش ذرا کم ہوئی تو جلدی سے سگریٹ اور کچھ بسکٹ وغیرہ لے کر میں گڑیا کو گود میں لیے منّو کی انگلی تھامے اوپر چڑھائی چڑھنے لگی۔سرد ہوا بدن کو چھوتی ہوئی لباس کے آر پار ہو کر گزر رہی تھی۔ مگر میں پسینہ پسینہ ہو رہی تھی۔ سانس بے ترتیب چل رہا تھا۔ منّو بھی بار بار رک رہا تھا۔ اگر وہ ذرا سا ڈھلان تک آ جاتے تو گڑیا کو سنبھال لیتے یا منّو کو ہی سہارا دے کر اوپر لے جاتے۔

ہانپتے کانپتے جب ہم اوپر پہنچے تو وہ مسہری پر نیم دراز گرم گرم چائے پی رہے تھے۔ ٹی وی آن تھا۔ کوئی پرانی فلم آ رہی تھی۔ فلم کی ہیروئن ایک ننھے سے بچےّ کو پیٹھ پر باندھے، کدال سے پتھر ایسی سخت زمین کھود رہی تھی۔وہ نہایت پرسکون تھے۔ انھوں نے ہم لوگوں کی طرف دیکھے بغیر سگریٹ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

میں نے جلدی سے بچّوں کے بال پونچھ کر ان کے کپڑے تبدیل کیے اور پھر اپنے۔ گڑیا کی کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے اسے کمبل اوڑھا کر ان کے برابر لٹا دیا۔ کچھ دیر بعد وہ بولے کہ گڑیا کو بخار آ رہا ہے۔ چھوا تو وہ تپ رہی تھی۔ میں نے اسے اور منوّ دونوں کو کروسین سِرپ کا ایک ایک چمچ پلا دیا۔ اس کے نازک سے ننھے وجود کو سردی ہو گئی تھی۔ اس دن پوری رات وہ بے چین رہی۔ میں بیچ بیچ میں دوائی بھی پلاتی رہی۔ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بھی کرتی رہی۔ صبح کے وقت جب اس کا بخار کم ہوا تو وہ سو گئی۔

یہاں تو یوں بھی مجھے کوئی کام نہیں۔نیند آئے گی تو دن میں بھی سو سکتی ہوں۔ مگر میں سو کر اس حسین منظر کی توہین نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی آنے والے دن کو نیند کے حوالے کر کے ضائع کروں گی۔ میں اسے محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ میں ہرگز نہ سوؤں گی۔

سحر ہونے کو تھی مگر ابھی باہر گھُپ اندھیرا تھا۔ قریب ہی کسی پیڑ پر کوئی پرندہ گا رہا تھا۔ اتنی صبح۔یعنی صبح سے بھی پہلے۔ یہ کون سا پرندہ گا سکتا ہے۔ اتنا میٹھا نغمہ۔ ایک مسلسل گیت۔ سُر اور َلے سے بھرپور۔ میں اٹھ کر کھڑکی تک آ گئی۔ میں نے اندھیرے میں غور سے دیکھا۔ سیاہی مائل نیلے پروں اور پیلی چونچ والی پہاڑی مینا گھاس پر ادھر ادھر کبھی چل کر کبھی پھدک کر چہل قدمی کر رہی تھی اور کبھی رک کر سر اوپر اٹھائے اس سُریلے نغمے کا الاپ کر رہی تھی جو اس گہرے سکوت کو توڑ کر روح کی گہرائیوں میں گھلا جا رہا تھا۔ یہ منظر اتنا ہوش ربا تھا کہ میرے پاؤں کھڑکی کے پاس جیسے کہ منجمد ہو گئے۔ صبحِ کاذب کے نئے نئے متوقع اسرار سے محظوظ ہونے کے لیے میں وہیں کھڑی رہی۔ ذرا سی دیر میں پو پھٹا چاہتی تھی۔ مینا اصل میں اتنی صبح باغیچے میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں اتری تھی ورنہ وہ ڈال پر بھی تو گا سکتی تھی۔ وہ ان ننھی منی بیر بہوٹیوں کے لیے پیغام اجل لیکر نمودار ہوئی تھی جو گھاس کے ایک مُنے سے تنکے کی اوٹ میں کچھ گھنٹوں کی زندگی گزارا کرتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے وہ شوق سے کھایا کرتی ہے۔ پہروں گھاس پر ادھر اُدھر گھوم کر انھیں تلاش کرتی تھک جاتی تو اڑان بھر کر پاس کے پیڑ پر بیٹھ کر نغمہ چھیڑ دیتی۔ جیسے کوئی مختلف سروں میں سیٹیاں بجا رہا ہو اور ساتھ ہی چہک بھی رہا ہو۔ کچھ سیٹیاں ایک چہک، پھر سیٹیاں پھر چہک۔۔۔

روشنی پھیلنے لگی تھی۔ پرندے جاگ گئے تھے۔ کسی شاخ پر بھورے سرمئی پروں اور پھرتیلے جسم والی کستوری لہک لہک کر گا رہی تھی۔ پی۔پی۔پی پیو پیو۔ کئی طرح کی مختلف بولیاں بول رہے تھے پرندے۔ کئی طرح کی بلبلیں گا رہی تھیں۔

کچھ ہی دیر میں دھند نے سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دراصل یہ دھند نہیں تھی، یہ بادل تھے جو ہمیں میدانی علاقوں میں بہت اوپر پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں ورنہ اگر یہ صرف دھند ہوتی تو صرف دھند ہی ہوتی۔ساتھ میں بارش بھی ہونے لگی تھی۔ پرندے خاموش سے ہو گئے تھے۔مگر وہ پہاڑی مینا اب بھی گھاس پر بھیگ بھیگ کر گھوم گھوم کر نغمے گا رہی تھی۔ نہ وہ بھیگنے سے گھبراتی نہ سردی سے۔ جی چاہ رہا تھا کہ نیچے باغیچے میں اتر کر میں بھی ذرا سا ٹہل کر تھوڑا سا بھیگوں اور اس دھلی دھلائی نکھری نہائی صبح کو اپنی روح میں اتار لوں مگر مسلسل کئی گھنٹوں کی تکان اور شب بیداری نے میرے پاؤں مَن مَن بھرکے کر دیے۔آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں، میں واپس مسہری پر آ گئی۔

چھت کے اوپر زوروں کی کھڑکھڑاہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی سے جھانکا تو دھوپ چمک رہی تھی اور ٹین کی چھت پر اچھلتے کودتے بندروں کا سایہ باغیچے کی گھاس پر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کمرے میں نہیں تھے۔ شاید منو بھی ان کے ساتھ گیا تھا۔

گڑیا چپ چاپ سو رہی تھی۔ ننھی سی جان کو بخار نے کمھلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کا پھول سا چہرہ مرجھا گیا تھا۔وہ پیلی پڑ گئی تھی، ہونٹ سوکھے ہوئے تھے۔ اگر ٹھیک ہوتی تو اپنے قد کے برابر ہر چیز کا وہ بھرپور جائزہ لے چکی ہوتی کہ ابھی ابھی کھڑا ہونا سیکھا تھا اس نے۔ ایش ٹرے جو اس کے قد کے برابر اونچی میز پر سلیقے سے ایک طرف کو سج رہی تھی، فرش پر اوندھی پڑی ہوتی اور سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے کچھ زمین پر ہوتے کچھ اس کے منھ میں۔ جگ الٹا ہوا ہوتا اور گلاس گِرا ہوا۔ دو منٹ میں اس کے سارے کپڑے بھیگے ہوئے ہوتے اور مجھے دیکھ کر ہنس ہنس کر کبھی مسہری کے نیچے گھُسنے کی کوشش کرتی کبھی میز کے نیچے۔ اور میں وہاں سے اس کے گول مٹول مکھن ایسے پیروں کو کھینچ کر اسے باہر نکالتی۔ ا س کا دہانہ صاف کرتی، منھ سے سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے نکال کر اسے خوب خوب پیار کرتی۔۔۔

مگر اس بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔

میں نے پانی پلانے کے خیال سے اس کے چہرے کو چھوا۔وہ اب بھی ہلکا سا گرم تھا۔ میں نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ پسینے کی وجہ سے نرم نرم بال ماتھے سے چپک گئے تھے۔ اس نے نحیف سی آواز میں مجھے پکارا۔ میں نے دو تین چمچ پانی پلایا۔ اس نے مشکل سے پیا۔ ا س وقت بھی اسے بھوک نہیں تھی۔ کل رات بھی اس نے کچھ نہ کھایا تھا۔ اور اب وہ بہت نحیف لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ کچھ دیر کے لیے آ جاتے تو میں بازار جا کر کچھ دلیا وغیرہ لے آتی۔ دوا سے کچھ دیر کے لیے جب اس کا بخار اترتا تو میں اسے دلیا کھلا دیتی۔دوپہر ہو گئی، وہ نہیں لوٹے۔ نیچے وہ کہہ گئے تھے کہ میرا کھانا کمرے میں بھجوا دیا جائے۔

سارا دن بخار میں تپتی ہوئی گڑیا کو سینے سے لپٹائے میں خود بھی تڑپتی رہی۔ وہ بھوکی تھی تو مجھ سے کہاں کھایا جاتا کچھ۔ میں نے ویٹر سے دودھ اوپر کمرے میں منگوایا تھا، اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔

صبح موسم خوشگوار تھا پھر معلوم نہیں کب بادل چھائے مطلع ابرآلود ہو گیا۔ ہوا کے جھونکے نے کھڑکی کا پٹ کھٹ سے کھول دیاتو میں نے گردن موڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس وقت گڑیا نیند یا غنودگی یا بخار میں مجھے پکار کر چیخی۔ میں نے ہلا کر جگا دیا۔ پانی کے دو چمچ پلائے، کچھ بات کرنا چاہی۔ وہ نیم وا سی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی۔ میں مسکرائی تو وہ بھی دھیرے سے مسکرائی۔ میں اس کا مکھڑا دیکھ رہی تھی۔ حرارت کچھ کم تھی۔ میرا دل پر سکون ہونے لگا۔ اب شاید وہ دودھ پی لے گی۔ کچھ تازہ سی خوشبوئیں محسوس ہوئیں تو میں نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ ہوائیں کمرے کے اندر چلی آ رہی تھیں۔ میں نے پہلی بار ہواؤں کو دیکھا تھا۔ پہلی بار ہوا کی خوشبو سونگھی تھی۔ مجھے اپنی قوتِ شامہ اور باصرہ پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ کیا ہوا کو دیکھا جا سکتا ہے؟ ہاں ہوا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب وہ بادلوں کے بے شمار خوردبینی ذرّات پر سوار ہو کر آئے۔ اور ہوا کو سونگھا بھی جا سکتا ہے۔۔۔ جب وہ جنگل کے عظیم درختوں کے نوکیلے پتوں کی سوندھی سوندھی مہک اور رنگ برنگے پھولوں اور ہری ہری گھاس کی نمی اور خوشبو اپنے ساتھ لے کر چپکے سے کھڑکی سے داخل ہو۔

کچھ دیر میں اس ّجنت میں گم ہو گئی جو بغیر بتائے کمرے میں آ کر مجھے سرشار کر گئی۔

میں نے دو تکیوں کی مدد سے گڑیا کو بٹھا کر چاروں طرف سے کمبل اوڑھا دیا۔ باہر زوروں کی بارش ہو رہی تھی۔ ایک پہاڑی مینا اڑتی آئی اور کھڑکی پر بیٹھ کر گانے لگی۔ اسے تو بہانہ چاہیے گانے کا۔بادل چھائیں تو گائے گی۔ بادل نہ چھائیں تو گائے گی۔ بارش برسے تو گائے گی بارش تھم جائے تو گائے گی۔ سورج چڑھے تو گائے گی اور ڈوبے تو بھی۔بلکہ سورج چڑھنے سے گھنٹوں پہلے منھ اندھیرے گانے لگے گی اور اسی طرح سورج غروب ہونے کے گھنٹوں بعد تک جب تک گھپ اندھیرا نہ ہو جائے اور کچھ بھی نظر نہ آ سکے، اُس وقت تک گاتی جائے گی۔ ایسا بھی دیکھا ہے کہ بجلی کڑکتی ہے اور یہ چہکتی ہے اور بادلوں کی زوردار کھردری دہاڑ میں بھی اس کا نہایت سریلا نغمہ کانوں میں رس گھولتا، گرج کو چیرتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ میں نے ایسا خوش مزاج پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔گاتی ہوئی پہاڑی مینا کا نغمہ یا ا س کی پیلی چونچ یا پھر سیاہی مائل نیلے پروں کی کشش تھی کہ گڑیا اس کا محویت سے مشاہدہ کرنے لگی۔ میں نے اس کی اسی محویت کا فائدہ اٹھا کر اسے چار چھ چمچ دودھ پلا دیا۔ اور خود چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے مینا کو دیکھنے لگی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے چائے پیوں۔ مگر مینا کے اڑ جانے کے ڈر سے میں وہیں گڑیا کے پاس مسہری پر بیٹھ گئی۔ مینھ زوروں کا تھا۔ ساتھ ہی موٹے موٹے اولے بھی پڑ رہے تھے۔ مینا کہیں اڑ گئی تھی۔ میں نے کھڑکی کے قریب جا کر بارش کے قطروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ہاتھ پھیلا دیا بڑی مشکل سے ایک اولا میری ہتھیلی پر رُکا۔ عجیب سی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے کہ میں ہوا کے دوش پر تیر رہی ہوں یا اپنے لڑکپن میں کہیں لوٹ آئی ہوں۔۔۔ نہیں لوٹ آیا چاہتی ہوں کہ دروازے کی دستک نے مجھے احساس دلایا کہ مجھے تیرنا نہیں آتا۔ وہ دونوں باپ بیٹے اندر داخل ہوئے۔

"بہت مزا آیا ماما۔آپ کیوں نہیں آئیں ہمارے ساتھ گھومنے۔”منو مجھ سے لپٹتے ہوئے بولا۔

"گڑیا ٹھیک ہو گئی؟”وہ بولے۔

"کچھ بہتر تو ہے۔”میں نے جواب دیا۔

"بہت تھک گئے ہم۔ ذرا روم سروس میں چائے کے لیے فون کر دیجئے۔”وہ بستر پر دراز ہوتے ہوئے بولے۔وہ واقعی تھک گئے تھے کہ اس طرح جوتوں سمیت بستر پر لیٹنے کا مطلب تھا کہ میں ہی ان کے جوتوں کے تسمے کھولوں، موزے اتاروں۔

جوتوں موزوں سے فارغ ہو کر میں نے منّے کو نہلا دیا۔

رات کا کھانا ہم سب نے نیچے ڈائیننگ ہال میں کھایا۔باہر آئے تو میں نے پہلی بار آسمان کی طرف دیکھا تھا۔آسمان پر بے شمار تارے تھے کہ شہر کے آلودہ آسمان پر تو بہت تھوڑے تارے ہوا کرتے ہیں جو بہت چھوٹے دکھائی دینے والے تارے ہوتے ہیں، وہ مَٹ مَیلے دھوئیں کے غلاف کے اس پار دِکھائی ہی نہیں دیتے۔ جو نظر آتے ہیں وہ بھی میلے میلے سے اور یہاں کتنا چمکدار آسمان۔۔۔ اور ایک دوسرا آسمان وہ جو زمین پر بھی نظر آ رہا تھا۔ رات کو پہاڑیوں کے اونچے نیچے مقامات پر بنے مکانات کی بجلیاں دور ہوا سے  ہلکورے کھانے والے ان گنت پتوں کے پیچھے سے یوں آنکھ مچولی کر رہی تھیں جیسے رنگ برنگے ستارے ٹمٹما رہے ہوں۔ بہت ہی لبھاؤنا منظر تھا۔ یہ نظارہ اگر شام کی سرمئی روشنی میں دیکھا جائے تو کتنا زیادہ حسن سمیٹ لے گا اپنے اندر۔ اس وقت تو نیلا آسمان بھی گہرا نیلا دکھائی دیتا ہو گا۔اور پر شکوہ درختوں کے اسرار بھی واضح ہوں گے۔ تب یہ روشنیاں دور سے ایسی لگتی ہوں گی جیسے درختوں کی شاخوں پر اَن گنت جگنوؤں کے جھرمٹوں نے ڈیرے ڈالے ہوں۔

یا اس اندھیرے میں اونچے لمبے ٹیلوں والی پہاڑیوں پر یہاں وہاں جیسے بے شمار دیے جھلملا رہے ہوں۔ دو دن تو جانے کیسے گزر گئے۔ کل شام میں یہ منظر ہرگز زائل نہ ہونے دوں گی۔ سورج کو غروب ہوتا ہوا دیکھوں گی۔ ان تمام پرندوں کو پاس کے سبھی درختوں پر غور کر کے تلاش کروں گی جو یہ دل چرانے والی چہکار جگا کر ہمیں سکون کی وادیوں کی سیر کراتے ہیں۔ اپنے روح پرور نغمے سنا کر مدہوش کر دیتے ہیں کہ ہمیں اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہوتا ہے۔ سارے غم، سارے کام، ساری ذمہ داریوں کے احساس پرسکون کا احساس حاوی رہتا ہے کہ سکون کی اب میرے نزدیک وہ اہمیت ہے کہ معصوم زندگیوں کی بے شمار ضرورتوں کی فکر نہ ہوتی۔۔۔ تو جان کے بدلے خرید لیتی۔ اور یہ خوش رنگ و خوش گلو پرندے،بے دام میری جھولی میں یہ دولت ڈال دیتے ہیں کہ زندگی کوئی اچھی چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔

یوں بھی نہیں کہ زندگی مجھے ہمیشہ جھیلنی پڑتی تھی، بلکہ میں نے تو زندگی سے خوب خوب محبت کی تھی۔ زندگی میرے لیے ہنسی کے نہ رکنے والے فوارے، ماں باپ کی ناز برداریاں،ننھے منّے بھتیجوں کے ساتھ عشق، بھائیوں کا لاڈ اور بھابیوں کے ساتھ سیر سپاٹے، شاپنگ اور فلموں کے علاوہ پینسل اسکیچنگ کرنا اور۔۔۔ پڑھائی کرنا تو خیر تھا ہی۔

اب تو اخبار تک کی شکل دیکھے ہفتوں گزر جاتے ہیں۔

وہ بھی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

مجھے کرنا ہی کیا ہے۔کوئی سوشل لائف تو میری ہے نہیں۔نہ دوست نہ سہیلی۔ جو احباب وغیرہ ہیں تو ان ہی کی طرف سے ہیں۔ ان سے اگر کبھی ہمارے ہاں ملاقات ہوتی ہے تو مجھے فرصت ہی نہیں ہوتی پاس ٹھہرنے کی۔ اور ان میں سے کسی کے ہاں وہ صرف خود ہی جا پاتے ہیں۔ انھیں اس بات سے بڑی کوفت ہوتی ہے کہ وہ دوستوں سے بات کر رہے ہوں اور بیچ میں بچےّ کے رونے کی آواز آ جائے یا ّبچہ زور سے ہنس پڑے۔ اس لیے میں بچوّں کو اپنے پاس ہی رکھتی ہوں۔باہری دروازے کی چابی ساتھ نہیں لے جاتے وہ، انھیں اچھا نہیں لگتا کہ وہ خود سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوں اور میں سوئی ہوں ملوں۔ میں بیٹھے بیٹھے اونگھ بھی جاؤں تو لیٹتی نہیں تاکہ وہ گھر لوٹیں تو دروازہ کھولوں۔ اب دوست کے گھر جائیں گے یا ان کے ساتھ کہیں جائیں گے تو یہ آدھی وادھی رات تو ہو ہی جاتی ہے۔تھک بھی جاتے ہیں۔ ان کو کپڑوں کی الماری کے دروازے پر لگے ہینڈل پر ہینگر میں ٹنگا شب خوابی کا لباس پکڑانا ہوتا ہے۔ موزے اور قمیض وغیرہ کپڑے دھونے کی مشین میں ڈالنا۔ اور کچھ کپڑے اسی ہینگر پر ڈال کر الماری میں رکھ دینا۔ جوتے جو یہ  ریک کے ٹھیک پاس اتارتے ہیں انھیں اٹھا کر قرینے سے ریک کے اندر رکھنا۔ گھر میں چار لوگ ہیں۔ اور پھر مجھے ایسا کرنا ہی کیا ہوتا ہے۔

بہرحال کل کا دن میرے پاس ہے۔ کل رات کی گاڑی سے جانا ہے۔ معلوم نہیں وہ اور منو کل کہاں گھومنے گئے تھے۔ آس پاس دیکھنے لائق مقام تو ہوں گے۔ دن میں کچھ نہ کچھ تو دیکھ ہی سکتی ہوں۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں فوراً پیکنگ کر لوں گی۔ مگر کیا معلوم وہ کتنے مصروف ہوں۔ انھیں کہیں جانا ہو۔ میں کبھی کوئی پروگرام بنا نہیں پاتی۔

ناشتے کے بعد جب میں پیکنگ کرنے لگی تو انھوں نے مشورہ دیا کہ یہ جو پلاسٹک کی تھیلی میں میں نے بچّوں کے میلے کپڑے ساتھ اٹھا لیے ہیں،انھیں یہاں ہی دھولوں۔ کہاں میلے کپڑوں کو اٹھاتی پھروں گی۔ٹھیک ہی کہتے تھے۔ اب میں ان کو یہ کہہ کر پریشان تو نہ کرتی کہ یہ سوکھیں گے نہیں شام تک، اور جب بھی تھیلی میں الگ سے ڈالنے پڑیں گے۔

خیر میں نے پیکنگ کا کام ادھورا چھوڑ دیا اور کپڑے دھونے لگ پڑی۔ دھوتے دھوتے جانے کب دوپہر ہو گئی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کسی طرف نکل گئے اور میں پیکنگ میں لگ گئی۔ اٹیچی بڑی مشکل سے بند ہوئی۔ اصل میں اس میں ان کے ملنے والوں کے لیے کچھ چھوٹے موٹے تحائف وغیرہ تھے۔ یہ ایک اضافہ تھا۔ اور بیگ میں بھی بھیگے کپڑوں نے ایک بڑی جگہ گھیر رکھی تھی۔بچّوں کو میں نے سفر کے لیے چاق و چوبند بنا دیا۔ خود بھی تیار ہو گئی۔ وہ تو تیار ہی تھے۔ سب سامان پیک ہو چکا تھا بلکہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھنس چکا تھا۔ پانچ بجنے والے تھے۔ شکر ہے سب کاموں سے نبٹ تو لی۔ اِدھر ادھر نہ سہی، آرام سے بالکنی پر وہ رسالہ دیکھوں گی جو تین دن پہلے میں نے خریدا تھا۔ اس کے بعد غروبِ آفتاب کا نظارہ پھر پرندے۔۔۔

اس خیال سے میں نے گڑیا کو انگلی پکڑائی اور اُسے دھیرے دھیرے چلاتی ہوئی بالکنی میں پہنچی ہی تھی کہ نیچے سڑک پر وہ آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ میں واپس کمرے میں لوٹ آئی۔ وہ آتے ہی کہنے لگے کہ ان کی جینز کافی میلی لگ رہی ہے۔اور یہ کہ انھیں جینز میں ہی سفر کرنا اچھا لگتا ہے۔ ا س لیے میں ذرا سا اسے دھولوں۔جینز دیکھنے میں میلی تو نہیں لگ رہی تھی، بس موریوں پر ذرا سی دھول مٹی تھی جو برش سے بہ آسانی صاف ہو سکتی تھی مگر وہ بہت صفائی پسند ہیں ! کہہ رہے تھے کہ مجھے بھی گاڑی کا وقت ہونے تک کچھ کرنا تو ہے نہیں ذرا سا اسے دھولوں گی اور پھر ذرا سا استری سے سکھا بھی دوں گی۔ اتنا وقت ہے میرے پاس۔ میں نے پریس ساتھ رکھی تھی۔ وہ ایک آدھ شکن والا لباس بھی نہیں پہن سکتے۔

میں نے نہایت مشکل سے پیک کی ہوئی اٹیچی کھول کر انھیں دوسری پتلون نکال دی اور جینز دھونے غسل خانے میں گھس گئی۔ڈینِم کے موٹے سوتی کپڑے کی جینز پانی میں اور بھی بھاری ہو گئی اور میں حتی الامکان اس وزنی پینٹ کو الٹ پلٹ کر دھوتی گئی۔ ہاتھوں میں لے کر رگڑتی گئی۔ کپڑے دھونے کا برش تو میرے پاس تھا نہیں، اس طرح اور زیادہ صاف کرنے کی کوشش میں میری انگلی کا ایک لمبا ناخن آدھا ٹوٹ گیا۔ جانے کتنا وقت لگا ہو گا مگر میں نے اسے آخرکار دھو لیا۔ اور اب اسے پھیلانے سے پہلے جھٹکتے ہوئے میرا پورا ناخن ہی اکھڑ گیا۔

خون کی دھار بہہ نکلی۔درد کی لہر سی اٹھی۔ میں نے انگلی پر ٹیشو پیپر لپیٹ دیا۔ اور وقت ضائع کیے بغیر غسل خانے کی کھڑکی کھول دی۔

اندھیروں کو چیر کر آتا ہوا سرد ہوا کا ایک افسردہ جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔ نہ معلوم کب اندھیرا ہو چکا تھا۔ سارے طیور آشیانوں میں جا چھپے تھے۔ نیلے پنکھوں اور پیلی چونچ والی مینا بھی غائب تھی۔ انگلی کی ٹیس دل میں سے ہوتی ہوئی روح میں سما سی گئی۔ تھکی ہوئی نظر میں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔

ستارۂ زہرا وسیع العرض آسمان پر اکیلا لٹک رہا تھا۔دور پہاڑیوں پر ٹنگی روشنیاں بھی برائے نام دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف دھند ہی دھند تھی۔

تھکی ہاری سی میں کمرے کی طرف پلٹی،تو کمرے کا منظر بھی مجھے دھندلایا سا لگا۔ یہ میری آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے۔

جینز کا اضافی پانی نچڑ چکا ہو گا۔مجھے اسے استری سے سکھانا بھی ہے وہ بہت نازک مزاج ہیں۔ذرا سی بھی Uncomfortable  چیز انھیں پریشان کر دیتی ہے۔

(افسانوی مجموعے "یہ تنگ زمین” سے)

٭٭٭

حضرات و خاتون

  انہوں نے داہنی اور بائیں  جانب نظر ڈالی۔ پھر سامنے کھڑکی کے باہر کی طرف دیکھا۔ ملحقہ غسل خانے سے بہتے نل کے شور میں سے سلمان صاحب کے ناک سڑکنے کی آواز ابھری تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مسہری سے اٹھ کر پیروں کے انگوٹھوں کو نرم سے سلپروں کے اوپر لگے کسی مخمل نما سیاہ رنگ کپڑے کی قوس میں   پرویا اور اندر کی جانب چل دیں۔ اس سے پہلے وہ بیدار ہوتے ہی برآمدے میں نکل کر آسمان کی جانب ایک نظر دیکھا کرتیں تھیں اور پھر سیاہی مائل سبز روشنی میں نیم عیاں سی ہریالی کے اندر جھانکتے چھپتے طیور کو دیکھنے اور سننے کی کوشش کیا کرتیں۔مگر آج وہ دونوں بیٹوں کے کمروں کے دروازوں  کے دستوں کو باری باری چھو کر لوٹ آئیں۔دستے برف ہو رہے تھے۔ یعنی ائر کنڈیشن کی ٹھنڈک میں وہ دونوں اطمینان سے سوتے رہے ہیں اور خواب جھوٹا تھا۔ کہیں کوئی میڈیا والا کیمرے کے توپ خانے،شانے پر دھرے ان کے شوہر کی گاڑی کے درپے نہیں تھا۔ نہ ہی ان کے بیٹوں کے دوست آنکھوں میں  شرارت بھرے سوالات لئے گھر کے پھاٹک کے باہر  اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں منتظر کھڑے تھے۔عاصمہ  بیگم نے مطمئن ہو کر شب خوابی کی آدھی آستین والی ریشمی عبا  میں چھپے شانے سے اپنا رخسار سہلایا۔انہیں بے سبب ہی ایسا محسوس ہوا تھا جیسے  وہاں پسینے کا قطرہ ہو۔

            باورچی خانے  سے لگے احاطے میں رکھی کھانے کی میز  والی ایک کرسی کھسکا کر وہ اس پر ٹک گئیں اور اپنے لئے چائے   بنانے لگیں کہ پیالہ لے کر وہ برآمدے کی طرف جانے والی تھیں۔ ذہن کے کسی گوشے میں  یہ خیال تھا کہ سلمان باہر آئیں  تو وہ چائے کی کشتی باہر منگوا لیں۔ مگر دماغ کا باقی حصہ سوچوں میں غرق تھا۔ان کے پاس وقت بہت کم تھا۔

  ’’ مین  ساب(میم صاحب)۔۔۔‘‘کرسی کھنچے جانے کی آواز سے سندری باورچی خانے  کے اندر سے نکل آئی۔

’’ تاجی گڑ مل گئی مین ساب۔۔‘‘ اس نے چھوٹی سی سفید بے داغ کشتی میں رکھی  شفّاف کانچ کی کٹوری میں گڑ کی ڈلی کو چُور کر رکھا تھا اور چمچماتی ہوئی کسی دھات کے منقش چمچ میں بھرکر اس نے یہ  چُورا  عاصمہ بیگم کی پیالی میں انڈیل دیا۔

 ’’ ابھی چھوڑ دو یہ نقلی چینی کھانا  مین ساب۔۔ ساب بولے تھے نا۔ ہڈی کا بیماری ہوتا ہے اس سے۔‘‘ اس نے شکر دان  اٹھا کر دوسری جانب رکھ دیا۔وہ  عاصمہ بیگم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

’’ ہاں ٹھیک ہے۔۔ سنو تم۔۔میں  نے سوچ لیا ہے۔۔وقت بہت کم ہے۔۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں تو سندری جو جھک کر  اُن کے پیالے میں چمچہ چلا رہی تھی، پیالہ ہاتھ میں لئے سیدھی ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔ عاصمہ بیگم باہر برآمدے کی طرف چلیں اور سندری ان کے پیچھے پیچھے۔

 ’’ وہ  جو اس طرف کا راستہ ہے نا۔۔۔ وہ ادھر سے۔۔‘‘ عاصمہ بیگم نے باہر کی طرف راستے کے رخ پر بانہہ پھیلائی۔

 ’’تم ادھر۔۔ او۔۔۔دھر دوسری اور مڑ جانا۔۔ بالا جی ٹینٹ ہاؤس کے۔۔ سامنے۔۔ وہی جس کے بورڈ پر سہرا باندھے دولہے کی تصویر بنی ہے نا اور لکھا ہے کہ۔۔او فو۔۔تم پڑھ بھی تو نہیں سکتیں  نا۔۔۔ اچھا تو اس کے سامنے جہاں پولیو کے ٹیکے کا اشتہار۔۔۔بھئی جہاں ایک چھوٹے سے بچے کے منہ  میں دوائی کا قطرہ ٹپکا۔۔۔‘‘

 ’’ جانتی ہے مے  پونیو۔۔ مین ساب۔۔ میرے کو بچپن مے ہوئی تھی نا تو۔۔‘‘سندری نے پرچ پیالی  پتھریلی سفید میز پر رکھ دی۔   عاصمہ بیگم اپنے دادا  بزرگوار کے ز مانے سے گھر میں پی جا  نے والی  ’   ارل  گرے  ‘  چائے کی سحر انگیز سی خوشبو کو بمشکل تمام نظر انداز کر کے  جلدی سے بولیں۔

’’ اچھا ؟۔۔ اچھا اچھا۔  تو پہلے میری بات سن۔۔ اسکے پاس ایک ریڈ کراس۔۔۔ میرا مطلب ہے سرخ رنگ کا ایسا نشان بنا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے بائیں ہاتھ کی  پہلی انگلی پر شہادت کی انگلی آڑی  رکھ کر سندری کی آنکھوں کو دیکھا۔

 ’’ ایسا۔۔ کچھ سمجھی بھی کہ میں یوں ہی۔۔ وہاں پر نچلی منزل میں  ہی۔۔۔‘‘

’’ ہاجی  مین ساب  مے سب  سمج گیا۔۔‘‘

’’ خاک سمجھ گیا۔۔بیس بار بھی بتائیں  جب بھی بھول جاتی ہے۔۔‘‘ عاصمہ بیگم  بید کی تیلیوں سے بُنی گئی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

    کوئی سال بھر پہلے ایک شام گھریلو ملا زمین مہیا کرنے والے ایک ادارے کی طرف سے ایک  ملازمہ کو بھجوایا گیا  تھا۔ لڑکی کی عمر کا کچھ اندازہ نہیں  لگا یا جا سکتا  تھا،تاہم وہ نو جوان ہی معلوم ہوتی تھی۔چھوٹا سا دبلا پتلا جسم،گہرے سے کچھ کم سانولا رنگ، نمایاں ہڈیوں والا لمبا چہرہ،چھوٹی آنکھیں جن کی پتلیاں دو زاویوں سے دیکھتی تھیں۔سیاہ  بالوں میں کچھ سفید بالوں کی لکیریں بھی تھیں اور دانت کچھ  بڑے اور لمبے تھے۔

’’ کہاں رہتی ہے۔۔۔؟عاصمہ بیگم نے ساتھ لانے والے آدمی سے پوچھا اور لڑکی کی جانب ایک نظر ڈال کر اپنے دو سال پرانے باورچی کی طرف دیکھا۔ کمل نے سیکنڈ بھر سے بھی کم  وقفے میں آنکھیں پھیلا کر شانے اچکائے اور ناک سکیڑ کر منہ دوسری طرف موڑا یعنی  وہ لڑکی سے خوف زدہ  ہونے کے ساتھ ساتھ ناپسندیدگی بھی ظاہر کر رہا ہو۔

 یہ تاثرات دیکھ کر عاصمہ بیگم نے دوبارہ لڑکی کی جانب نظر  اٹھائی۔برابر کے صوفے پر کچھ دن کے لئے آئی عاصمہ بیگم کی بزرگ والدہ بیٹھی تھیں۔  اپنے موٹے سے چشمے کے عقب سے  انہوں نے سب کی طرف باری باری دیکھا۔

’’ کیا نام ہے بیٹی۔‘‘انہوں نے نرم سی نگاہ لڑکی کی طرف ڈالی۔لڑکی کے لئے غالباً باورچی کے تاثرات اور عاصمہ بیگم کی سوچتی ہوئی نظروں جیسی چیزیں اجنبی نہ تھیں۔ وہ اس ساری فضا  کے زیر بار کچھ منمنائی جسے کوئی نہ سمجھ سکا۔

’’ اچھا اچھا۔۔ ماں باپ ہیں۔۔۔؟‘‘اماں نے گویا نام کی تعریف میں سر ہلایا۔

’’ میرا ماں نہیں ہے۔۔ سوتیلا ماں ہے۔ ‘‘  اس دفعہ لڑکی کی آواز واضح تھی جسے سن کرلانے والے شخص سمیت سب لوگ چونکے تھے۔

’’  اوہ۔۔ اچھا  اچھا۔۔کوئی بات  نہیں جا ہاتھ منہ دھو لے۔‘‘ والدہ صاحبہ نے  برآمدے کی بائیں جانب اشارہ کیا۔

’’ پہلی بار سہرآ ئی ہے نا تو اسکو بھاسا نہیں آتا۔۔‘‘سا تھ لانے والے شخص نے کہا۔

’’ آپ کو بہت اچھا بھاشا آتا ہے۔۔‘‘ کمل آنکھوں میں شرارت چھپائے سنجیدگی سے بولا۔عاصمہ بیگم نے اسے  جیسے کہ تنبیہاً دیکھا۔

’’ مگر سیکھ جائے گی۔۔‘‘ وہ جلدی سے بولا۔ غالباً کمل کا طنز جس کی زبان اس عرصے میں خاصی صاف ہو گئی تھی،  اس کی سمجھ میں  نہ آیا  تھا۔

’’ میں بھی پچھلے سال آیا تھا جھار کھنڈ سے۔۔میں نے بھی ادھر ہی سیکھا ہے بھاسا۔ ‘‘وہ مسکرایا

  ’’ تم لوگ اس کی صورت کی وجہ سے اس بن ماں کی بچی کو۔۔۔۔‘‘ والدہ صاحبہ نے کمل کی طرف جیسے کہ افسوس سے دیکھا ہو۔

’’ نہیں اماں جی۔۔۔۔ میں تو۔۔‘‘  وہ کچھ شرمندگی سے بولتا ہوا پچھواڑے کی طرف گیا۔

’’اور تم میری بیٹی۔۔ اکیلی ہو دیکھا جائے تو۔۔ اللہ نے تمہیں بیٹی نہیں دی۔۔ اسے اپنا لو۔ تمہارا ساتھ دے گی۔۔‘‘

’’ جی امّی مگر اسے کام بھی نہیں آتا۔۔زبان بھی  اچھی طرح نہیں سمجھتی۔۔‘‘

’’  سیکھ جائے گی۔۔۔ پہلی بار شہر آئی ہے۔۔۔غریب۔۔یتیم بچی۔۔‘‘ والدہ صاحبہ کی آواز میں درد سا بھر آیا تھا۔وہ کچھ کہنے جا رہی تھیں کہ کمل جیسے کہ تیزی سے اندر داخل ہوا۔

’’میم صاب جی۔۔میں باہر  الگنی سے کپڑے اٹھا نے گیا نا جی  تو۔۔وہ بال بنا  رہی تھی۔۔  دو سرے دروازے کے پاس۔۔ ‘‘

’’ تو۔۔ ؟۔۔۔کیا  ہوا۔۔بال نہیں بنانے چاہئیں اسے۔۔‘‘

’’ وہ۔۔ کچھ  اندھیرا  سا ہے نا جی تو۔۔ میں تو ڈر گیا جی۔۔ ایکدم بھوتنی کے جیسی لگ رہی تھی جی۔۔۔ ‘‘  والدہ صاحبہ اسے دیکھتی رہ گئیں۔

 ’’ چپ۔۔ اللہ نے بنایا ہے اسے۔۔ سوتیلی ماں ہے اسکی۔۔ جانے بھر پیٹ کھانے کو ملتا بھی ہو اسے۔۔ کمزور سی ہے  بیچاری،، کھائے  پئے گی  ٹھیک  ہو جائے گی۔۔ ایسی تکّبر کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘‘

والدہ صاحبہ کچھ خفگی سے بولیں اور دیوار پر آویزاں گھڑی کو بغور دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں پھر صوفے کے بازو کا سہارا لئے جھرّیوں والے گورے ہاتھ کی پتلی پتلی انگلیوں سے تسبیح کے دانے گھماتیں کھڑی ہوئیں اور اندر کی طرف مڑ گئیں۔ رومن ہندسوں والی اس گھڑی  پر انہیں وقت دیکھنا نہیں آتا تھا اور گھڑی کی جانب دیکھ کر وہ وہاں پر موجود کسی  سے بھی وقت پوچھا کرتیں۔ اس وقت انہوں نے کسی سے کچھ نہ پوچھا اور خاموشی  سے اندر چلی گئیں۔

لڑکی کو ملازم رکھ لیا گیا۔

 اسکا نام سندری تھا۔ زبان ہی جانتی تھی نہ کام۔مگر والد ہ صاحبہ جب تک رہیں اس نے ان کے سارے کام کرنے کی بھر پور کوشش ضرور کی۔ ان کے معمول میں رات گئے تک عبادت کرنا شامل تھا۔اور سندری اکثر دیر رات تک انکے فارغ ہونے کا انتظار کر کے ہی سوتی کہ اگر انہیں کچھ ضرورت ہو تو وہ پریشان نہ ہوں۔ملازمین کے کمرے گھر کے پچھواڑے تھے اور والدہ صاحبہ کے کمرے کا ایک دروازہ پچھلے برآمدے میں بھی کھلتا  تھا۔سندری اس دروازے پر دستک دیتی۔والدہ صاحبہ کی زبان اکثر وظیفے میں مصروف ہوتی اور  ہاں ہوں کی آواز سے کلام کا کام لیا جاتا۔جس میں اشارے بھی شامل ہوتے۔ چٹکی کی شکل میں  انگلیاں دہانے کی جانب لے جانا چائے  کے لئے اور ہتھیلی کے قریب کلائی کا حصہ ٹھوڑی سے چھو لینا پانی کا  اشارہ تھا۔وہ پانی گرم پیا کرتی تھیں ا ور اکثر یہی دو چیزیں انکو ضرورت ہوا کرتیں۔ کبھی کبھار سر دی لگنے کی صورت میں گرم پانی کی تھیلی کا  اشارہ شانے سکیڑ کر، دانتوں کو بجا کر کیا جاتا۔

’’ کہا تھا نا۔۔ سب سیکھ جائے گی۔۔‘‘

 والدہ صاحبہ ا س کی تعریف کرتیں تو کمل ان کی غیر حاضری میں عاصمہ بیگم کی طرف جیسے کہ بے بسی  سے دیکھتا۔

’’ یہ کام تو کوئی گوں گا بھی کر سکتا ہے نا میم  صاحب جی۔‘‘

 ’’ تمہارا  ہر بات میں بولنا ضروری ہے کیا۔۔‘‘عاصمہ بیگم مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کرتی دھیرے سے کہتیں۔

’’ نہیں جی میں تو۔۔‘‘

  سندری  ایماندار تھی۔اور صاف ستھری رہا کرتی تھی۔اس کے سیاہ فام پیروں کی ایڑیاں سفید ی مائل نظر آتیں اور چپل چم چم کرتے۔

   مخصوص  دلچسپ تاریخ کے حامل اپنے علاقے کے بارے میں وہ بڑی دلچسپ باتیں سنایا کرتی۔

’’مے چوہا اچھا پکاتا ہے  معلوم۔۔۔؟‘‘ اس نے ایک دن کمل سے کہا تھا۔

’’ کیا۔۔؟  کیا  پکاتا ہے ؟‘‘   پنیر بھونتے  ہوئے کمل کے ہاتھ سے کڑھائی میں چمچہ چھوٹ گیا تو تیل کے گرم

 چھینٹوں سے وہ  بلبلا اٹھا تھا مگر اس بات میں اس کی  دلچسپی جب بھی کم  نہ ہوئی تھی۔اس نے کلا ئی بہتے ہوئے نل کے نیچے چھوڑ دی۔

’’  کیا کہتی تھی تُو۔۔ پھر بول۔۔‘‘وہ اس کی طرف گردن موڑے بولا۔

’’ چوہا۔۔ بولا تھا۔۔ چوہا پکاتا ہے۔۔ مے۔۔ ہمرا گاؤ ں  میں ایکدم موٹا ہوتا ہے۔۔‘‘وہ سر جھکائے پالک کے ساگ سے پتے الگ کرتی  رہی۔

   عاصمہ بیگم نے کھلے نل کی مسلسل آواز سنی تو باورچی خانے میں آ گئیں۔

’’ کیوں پانی ضائع۔۔۔کیا ہوا۔۔اوہ۔۔ ہاتھ جلا لیا۔۔‘‘وہ  جلدی سے نل کے قریب گئیں۔

’’ آبلہ  تو نہیں پڑا۔۔نا۔۔‘‘

’’ نہیں میم صاب۔۔بچ گیا میں تو ابھی مر جاتا  جی۔۔‘‘

’’ کیوں۔۔کیا ہوا۔۔‘‘

’’ آپ میم صاب  اس سے پوچھئے نا۔۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔

’’کیا تم ہر وقت اس کی جان کے پیچھے لگے رہتے ہو۔۔ کیا ہوا  تھا سندری۔۔؟‘‘

’’ کچو نہی مین صاب۔۔مے کچو نہی کیا ہوں۔۔‘‘ وہ بے خبر سی کمل کو دیکھ کر بولی۔

’’ جرا بتا  نا میم صاب کو تو کیا پکاتی ہے۔‘‘

’’ اچھا وہ۔۔مے چوہا  بوت اچھا پکاتا ہے۔۔ میرا نانی کھا تا تھا۔۔اسی  نے سکھایا  تھا۔ اور کیا پکاتا۔ ادھر پشوپکھشی تو کھتم ہو گیا ہے نا۔‘ ‘

عاصمہ بیگم اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئیں۔

’’ تو بھی کھاتا ہے۔۔؟‘‘ کمل جلدی سے بولا تو عاصمہ بیگم  زور سے ہنس پڑیں۔

’’ مے نہی کھایا۔۔‘‘ سندری سر اٹھا کر دونوں کو باری باری دیکھ کر مسکرائی اور دوبارہ کام میں مشغول ہو گئی۔

’’ چکھا تو ہو گا نا پکاتے وقت تو نے کبھی۔۔‘‘کمل چھوٹے سے تولئے سے ہاتھ پونچھتا ہوا بولا تو عاصمہ بیگم مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوتی باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔

کمرے میں پہنچ جانے کے بعد تک  ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھائی رہی۔

      سلمان صاحب نے اُس خطے  کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بتائیں تھیں۔

                  ہندوستانی جزیرہ نما   کے  چھوٹا  ناگ پور  کی سطح مرتفع میں وسطی بھارت کا یہ حصہ ہمیشہ سے دلچسپیوں کا حامل رہا تھا۔ برِصغیر کے مختلف جغرافیائی خطوں سے ہجرت کر کے اس  ایک جگہ پر جمع ہونے  والے قبائل کی موجودگی کے سبب یہاں کئی طرح کی  زبانیں، تہذیب،جسمانی خد و خال وغیرہ یکجا نظر آتے۔مگر انسانی تہذیب کے محققوں اور سیاسی تجربوں نے ان کی اصل تہذیب کو کافی حد تک متاثر کیا۔

          برطانوی حکومت نے  یہاں بھی لوگوں کو اپنا وفادار بنانے کی غرض سے عیسائیت کو متعارف کرایا تھا جس کی شروعات وہاں کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے جرمنی کے چار پادریوں نے۔۔ اپنا گرجا گھر قائم کر کے کی تھی۔ رفتہ رفتہ دوسرے اعتقادات کے گرجے بھی جن میں         ’  اینگلی کنز  ‘   اور  ’   رومن کیتھولک   ‘ شامل  تھے اپنے قدم جمانے لگے۔اور یہاں کے باشندوں  میں اکثر کے معبد جو   ’سارانا  ‘ کہلاتے تھے۔ گرجا کہلانے لگے۔کہ پادری بپتسمہ کے وقت انکے نام کی طرز بدلتے تھے اور نہ رہن سہن کے طور طریقوں کو تبدیل کرنے پر زور دیتے تھے۔ اس لئے بظاہر تبدیلی کچھ ایسی نمایاں  اور اچانک معلوم نہیں ہو تی تھی۔

   روزگار کا واحد ذریعہ  زمینیں تھا  جو انگریزی قانون کے تحت سرکار کی ہو گئی تھیں اس لئے روزگار کے متبادل وسیلے پیدا کرنے  وا لی  سرکار کے مذہب کو اپنا  لینا رعائتوں کا باعث ہونے سے رجحان بھی بڑھا۔

ان سب باتوں کو سمجھنے والوں کی بھی کچھ ایسی کمی نہیں تھی بلکہ برسا منڈا  نے  جسے قبائلی  عقیدت سے برسا بھگوان کہتے تھے، عیسائیت کے اس طرح اطلاق کے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی جو بعد میں وہاں قومی  آزادی کے لئے بغاوت کے دوران نعرے کے طور پر ابھری۔آگے چل کر کچھ حد تک تعلیم و تربیت کی طرف بھی رجوع کیا گیا۔ جو اہم بات تھی۔

باورچی خانے سے کچھ گرنے کی آواز آئی تو عاصمہ بیگم کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

        سندری کام سنجیدگی سے کرتی تھی۔مگر غلطیوں کی تعداد کام سے زیادہ ہو جاتی۔اس کے الٹے سیدھے کاموں سے عاجز عاصمہ بیگم کمل کو بلاتی تو سندری برتن دھونے والے صابن سے لتھڑے ہاتھ لئے حاضر ہو جاتی۔

’’ کمل بھیا باجار گئی۔ مے برتن دھوتا ہوں۔‘‘

’’ اچھا۔۔ جا۔۔ دھو برتن۔۔ دھو چکے تو یہاں آ جانا۔‘‘ عاصمہ بیگم سر خم کر کے اسے دیکھتیں۔

’’ کیا توڑا سندری۔۔‘‘ عاصمہ بیگم ٹوٹ پھوٹ کی صدا پر چونک کر کہیں  سے پکار اٹھتیں۔

’’  او  اِکلا گلاس چھے میں سے بچا تھا نا۔۔او  ای ٹوٹا۔۔‘‘ سندری عاصمہ بیگم کے باورچی خانے میں پہنچ جانے پر ٹوٹے گلاس کا  پیندا حاضر کرتی ہوئی اطلاع دینے کے انداز میں کہتی کچرے کے ڈبے کی جانب لپکتی۔

  ’’کیوں سندری۔۔ تیرے ہاتھ کیا کانپتے ہیں۔۔ کچھ نہ کچھ توڑتی رہتی ہے۔‘‘

’’ وہ مین صاب۔۔ میرے کو چھوٹے میں  پونیو  ہو گئی تھی نا۔۔ میں چلتا نہی تھا  ایک دم۔۔   پھر دوائی کھایا۔۔ تب ٹھیک ہوا۔۔‘‘

’’ اوہ  ہاں۔۔پولیو  ہوا تھا۔۔اب  تو  ٹھیک ہو نا۔۔؟‘‘  عاصمہ بیگم ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتیں۔

’’  ٹھیک   اے  ہوں۔۔ نیکِل  ( لیکن  )  کبھی  کبھی۔۔‘‘

’’اور۔۔ یہ۔۔یہ کیا ہے۔۔؟ ‘‘   عاصمہ بیگم نے برتنوں کی الماری کے قریب اپنی پسندیدہ نیلے گلا بی پھولوں والی نہایت باریک چینی کی رکابی کے بیل کی ساخت میں ترشے سنہرے کنارے کا کونا ٹوٹا دیکھ کر حسرت سے پوچھا۔

’’ او۔۔۔ یہ۔۔جانتا نہی۔۔کمل  بھیا  توڑی ہو گی۔۔ مے نہی کیا۔۔‘‘اس نے  برتن دھوتے گردن موڑ کر بڑے بھول پن سے جواب دیا تو ہاتھ میں پکڑے دھل رہے گلاس کا کنارہ نل سے ٹکرا یا۔

’’اوہ۔۔سنبھل کے۔۔‘‘ عاصمہ بیگم ہاتھ ہلا کر رہ گئیں۔

’’  سوری مین صاب۔۔میں آپ کو ایک بات بتانا بھول گیا تھا۔۔‘‘اس نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر ٹوٹے کنارے پر انگلی پھیری۔

’’ نہیں نہیں۔۔ہاتھ کٹ جائے گا۔۔‘‘عاصمہ بیگم نے گلاس اس سے لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔اس کی زبان سے  ’ سوری‘  سن کران کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ کمرے میں لوٹ آئیں۔

  ’’سندری کتنی بار سکھایا ہے۔۔چادر سیدھی بچھا یا کر۔۔‘‘

’’سیدھے  ای  ہے نا مین صاب۔۔اے دیکھو۔۔  آپ۔۔ادھر سے۔۔  زرا سا۔‘‘ وہ بڑے یقین سے کہتی اور  چادر کا کونہ  ہلکے سے کھینچتی۔

اس کی خود اعتمادی سے عاصمہ بیگم کو مسّرت سی ہوتی۔

     ملک کے آزاد ہوتے وہاں کے مختلف گرجا گھروں میں  الگ الگ قبائل کے مقامی پادری بھی چن لئے گئے تھے۔  اور  ۱۹۴۹؁  میں علیحدہ جھار کھنڈ  ریاست کی مانگ کرنے والے تقریباً سبھی لیڈر مقامی عیسائی تھے۔

     ۲۰۰۰؁ میں  اسے بِہار سے علیحدہ کر دیا گیا۔

  سوائے حقِ رائے دیہی کے  عام طور سے یہاں کے باشندوں کے لئے حالات کچھ زیادہ نہیں بدلے۔مختلف سیاستیں کبھی مذہب کا  رنگ چڑھا نے کے نعرے سے وفاداری طلب کرتی ہیں کبھی مذہب کا رنگ اتارنے کی اہمّیت پر زور دیکر ساتھ مانگتی۔ اور روزگار کا مسئلہ وہیں  کا وہیں۔

     اس مسئلے سے سندری جیسے لوگ بھی دوچار تھے۔

  سلمان صاحب نے بتایا تھا۔

سندری کمرے سے جاچکی تھی مگر عاصمہ بیگم کی آنکھوں میں اس کا چہرہ گھومتا رہا۔۔ اچھی غذا سے اس کے رخساروں میں چربی بڑھ گئی تھی جس کے سبب چہرے کی جلد کچھ کھچی جانے سے ا  س کا رنگ  ذرا صاف نظر آنے لگا تھا۔ ہنستے ہوئے اس کے صاف ستھرے دانت اب  بھرے سے چہرے کے تناسب میں زیادہ بڑے نظر نہیں آتے تھے۔  دو زاویوں  سے دیکھتی ہوئی آنکھیں  جیسے کہ اس کے  نادانی کی حد تک پہنچے بھول پن میں اضافہ کرتی معلوم ہوتیں۔عاصمہ بیگم  باورچی خانے میں لوٹ آتیں۔

’’  ہم  تم کو آنکھوں کی کثرت سکھائیں گے۔۔‘‘ انہوں نے سندری کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔

’’ آنکھ کو کیا ہو گا مین صاب۔۔‘‘

’’ آنکھیں سندر ہو جائیں گی۔۔ بس جب بیٹھا کرو تو۔۔ ہاتھ کی پہلی  انگلی کے ناخن کو دیکھتے  ہوئے ناک کی سیدھ میں آنکھ کے قریب لانا اور دور لے جانا۔‘‘

 ’’ مین  صاب مے آپ کو ایک بات۔۔ بتانا تھا۔۔‘‘

’’ ہاں۔۔کون سا بات۔‘‘

’’ میں جب چھوٹا تھا نا۔۔ تو اندھی ہو گیا تھا۔۔‘‘ وہ خوش خبری سنا نے والے انداز میں ہنستی ہوئی بولی۔ میرا موسا  جی بولا باجا  (  ریڈیو )    ادھر دو۔۔ تو میں ان  کے اوپر گر گیا۔۔ وہ میرے کو ڈانٹا کہ دیکھتا نہی۔۔‘‘ وہ کچھ سنجیدگی سے بولی۔

’’ دلکھو نا مین صاب۔۔ وہ مجھے کیوں نہیں بتایا کہ مے گلتی چل رہا  تھا۔۔   مے  تو اندھا ہو گیا تھا۔۔ اس کو تو  بولنا تھا نا کہ توا ندھی ہو گیا ہے۔۔ میرے کو  ای بولتا رہا۔۔میرا گلتی تو نہیں تھا۔۔‘‘

 وہ عاصمہ بیگم کے چہرے پر اپنی بات کا ردِ عمل تلاش کر نے کی غرض سے مزید سنجیدگی سے انہیں دیکھنے لگی  تو عاصمہ بیگم کا مارے ہنسی کے بر ا حال ہو گیا۔ اور  انہیں ہنستا دیکھ کر وہ بھی ہنسی میں شامل  ہو گئی۔

’’ پھر۔۔ٹھیک کیسے ہوئیں۔۔‘‘ انہوں نے قہقہے کو بمشکل تمام روک کر پوچھا۔

’’ پھر۔ پھر   ٹامن  (وائٹامِن)   دوائی دیا ادھر دور  کا  گاؤں میں دوائی  والا  ( سرکاری دوا خانہ)  بیٹھتا ہے نا۔۔ او ای دیا۔۔۔ ایک ہی  مہینہ کھایا۔۔ مے  ٹھیک ہو گیا۔۔‘‘

                کمل کے گھر سے فون آیا کہ اس کے ہاں بچہ ہوا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی اس سال کی چھٹّیاں گزار آیا  تھا۔ مگر اسے چھٹّی دینا پڑی۔ بلکہ اس  کے لوٹنے کے بارے  میں بھی کچھ غیر یقینی والی صورتِ حال تھی کہ  پچھلے سال  اس کا پہلا بچہ  بچ نہیں پایا تھا۔ دوسرے ملازم کا انتظام کیا جانے لگا۔سندری  تنِ تنہا سارا  کام سنبھالنے کی بھر پور کوشش کرتی رہی۔

عاصمہ بیگم نے دیکھا اس کا  چہرہ اتر گیا تھا۔ انہوں نے اس کی کلا ئی ٹٹولی۔

’’ بخار  تو نہیں  ہے تجھے۔۔ پیلی پڑ  گئی ہے۔۔کیوں ؟۔۔ کام زیادہ ہو گیا نا تیرے ذمے۔۔‘‘ انہوں نے نرمی سے کہا۔

’’  کام تو  ٹھیک اے ہی ہے مین صاب۔۔ نیکل۔۔  جب سے شام بھّیا گئی ہے۔۔مے۔۔کچو کھانے  نہی سکتا۔۔‘‘ وہ  اداس سی آواز میں  بولتی کام میں مصروف رہی۔

            کچھ دن بعد  بڑ ے چوڑے  جبڑوں،پھیلی ناک، بھدی آواز  اور چہرے پر بے شمار دانے لئے  ایک اور آدی  واسی ملازم آیا، کوئی  بیس بائیس سال کا۔ اس کا  نام فلتوش تھا اور  وہ بھی  شہر پہلی بار وارد  ہوا  تھا۔ سندری بڑے اعتماد سے اس پر حکم چلانے لگی۔ اس نے سندری سے سندری کی طرح کام کرنا اور بولنا سیکھا۔

 سندری کے مصروف ہونے کی صورت میں وہ  بڑی چستی سے حاضر ہو جاتا۔

’’ میں  ابھی کرتی ہوں جی۔۔‘‘ وہ پلکیں تیزی سے جھپک کر کہا کرتا۔

   وہ بھی ادارے کی طرف سے گیارہ ماہ کے معاہدے پر آیا تھا۔ کام بھی  سمجھ جاتا تھا مگر ایک دن دوپہر کے بعد جب وہ کافی دیر کمرے سے نہیں آیا تو سندری اسے  بلانے گئی ۔

’’مین صاب  وہ میرے کو بولتی ہے۔۔ تیرے کو کاٹ دوں گا۔۔‘‘  سندری فوراً  لو  ٹ آئی۔

’’ کیا۔کون۔۔‘‘

’’مجھ سے بولا ا ہے فلتوش بھیا۔۔۔؟‘‘

’’۔۔ کیوں۔۔؟‘‘ عاصمہ بیگم حیرت سے اس کا منہ تکتی رہ گئیں۔

’’  مے کچو نہی بولا تھا  مین صاب۔۔  وہ کپڑا کا رسی کاٹنے کو  چاقو لے گیا تھا نا او۔۔  ہاتھ میں تھی۔۔ چاقو آگے کیا میرا منہ پاس۔۔ بولی چپ کر کاٹ دوں گا۔۔ وہ بوت گو صّہ والا ہے۔۔‘‘

’’ تجھے لگتا ہے وہ  ایسا کر سکتا  ہے۔۔‘‘عاصمہ بیگم آئے دن اخباروں میں نوکروں کے حملوں کی خبروں کو  یاد کرنے لگیں۔

’’ مالوم نہی مین صاب۔۔ نیکل۔۔وہ بوت گوصّہ والا ہے۔۔میرے کو آج پتہ چلی کہ اس کے اندر بوت  ہئی گوصّہ ہے۔۔‘‘

    فلتوش کو چھ ماہ ہوئے تھے۔ عاصمہ بیگم نے شوہر کو روداد سنائی۔ وہ قانون کی  عزت کرنے والے قانون دان اور راست باز سے آدمی تھے۔مسئلے حل کرنے کے معاملے میں جلد باز بھی واقع ہوئے تھے۔

’’ ہم  نہ کہتے تھے   احمق ہے۔ فوراً اسے نکال  باہر کیجئے۔۔خطر نا ک مجرم ہو سکتا ہے۔ فون کیجئے  پلیسمینٹ  والوں کو۔  کسی کو بھی پکڑ لائیں گے کیا۔  ہونہہ۔۔‘‘

  وہ ایک ہاتھ میں ذیابیطس کی گولی اور دوسرے میں پانی کا گلاس لئے عاصمہ بیگم کو  دیکھتے رہے۔عاصمہ بیگم نے ا ن سے جیسے  جواب کی توقع کی تھی  ویسا ہی پایا۔  سلمان صاحب نے بیگم سے نظریں ہٹا کر گلاس کی طرف دیکھا اور ٹکیا نگل لی۔اس کے بعد باہر جانے کی بجائے صوفے پر بیٹھ گئے اور ڈرائیور کو اندر کے دروازے تک بلوایا۔

’’ پہلے اسے پلیسمنٹ چھوڑ آئے۔۔ کہہ  دیجئے۔۔ ہم بعد میں جائیں گے۔‘‘

   کچھ روز پھر سندری کو  اکیلے کام چلانا  پڑا۔ ضرورت پوری ہو جاتی تھی لیکن سلیقہ نا پید رہا۔ مگر جلد ہی نیا ملازم آ گیا۔

  بھولی سی صورت  والا  اٹھارہ انّیس برس کا  لڑکا  جو سریلا گاتا تھا اور فلمی اداکاروں کی نقل کرتا تھا۔یہ اطلاعات سندری نے  عاصمہ بیگم  کو بہم پہنچائی تھیں۔

   ’’  اچھا ہے۔۔ نیکل۔۔ میرے سے چھوٹا ہے۔۔میرے کو دیدی کہتا ہے۔۔‘‘ سندری نے سنجیدگی سے کہا تو عاصمہ بیگم نے اسے چونک کر دیکھا۔

’’ تو کیا  ہوا۔۔ تم  اس سے بڑی ہو تو دیدی بلائے گا نا۔۔ ‘‘

’’ ہاں عمر تو میرا  جادہ ہے۔۔ دوائی سے بال  بھی پک گیا ہے۔۔۔ نیکل  مے کلر کرتی ہے نا۔۔تو میرا بال اچھی لگتی ہے۔۔ میرے کو پسند نہی  دیدی بولنا۔۔ مے اس کو بولے گی میرے کو نام سے بلائے۔۔‘‘

عاصمہ بیگم نے اس کی بات کو سمجھنے کی جیسے کہ کچھ کوشش سی کی۔

 اچھا۔۔ جو تیرا جی چاہے کر۔۔‘‘انہوں نے سر جھٹک کر کہا اور اندر کی طرف گئیں۔

               اب کام کچھ بہتر طرح ہونے لگا تھا۔ سندری  سے اس کے نئے شاگرد چمن نے  خاصی تربیّت حاصل کر لی  تھی۔  چمن  کام خوش اسلوبی سے کرتا۔اور اس کا فی الحال چھٹی لینے کا  بھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ عاصمہ بیگم اس  خوش انتظامی  سے مطمئن ہوا ہی  چاہتی تھیں کہ ایک صبح  سندری حواس باختہ سی تھکے تھکے چہرے پر پریشان سی آنکھیں لئے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

   ’’ مین صاب۔۔  میرے کو۔۔ میرے کو  مہینہ نہیں ہوئی۔ ‘‘ اس نے عاصمہ بیگم کے چہرے کی جانب نظر ڈال کر سر جھکا لیا اور مسہری کے پاس فرش پر دھپ سے بیٹھ گئی۔

 ’’  تو اتنا پریشان ہونے کی کیا  بات ہے۔ ہو جائے گا۔۔ ایک دو دن اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’ نہی مین صاب  کل چار دن ہو گیا۔۔آج بھی نہیں ہوا۔۔پانچ دن ہو گیا۔۔‘‘  اس نے ہا تھ کی انگلیاں پھیلا کر دکھائیں۔ اس کے چہرے پر گہری تشویش  صاف عیاں تھی۔

’’  کیا۔۔ مطلب تو نے۔۔تو نے کچھ۔۔‘‘ عاصمہ بیگم فوراً  بولیں۔

’’ جانتی ہے نا تو۔۔ غلطی کرنے سے مہینہ نہیں ہوتا بچہ ہو جاتا ہے۔۔ تو کہیں ماں۔۔‘‘

 مین  صاب۔۔  او  چمن  میرے کو  پکڑ لیا تھا۔۔‘‘ اس نے  ایک نظر اوپر دیکھا اور سر جھکا لیا۔

’’کیا بک رہی ہے۔۔ کب۔۔؟‘‘

’’ پچھلے  ہفتے۔۔‘‘

’’ تو۔تو نے مجھے بتایا ہی نہیں  اتنے دن۔۔اس بد تمیز کو  میں۔۔میں پو لیس میں۔۔‘‘عاصمہ بیگم کچھ کہتے کہتے رکیں۔

’’ کتنی بار پکڑا تھا اس نے تجھے۔‘‘

’’   تین بار۔۔  میر ا  مرجی نہیں تھا۔۔‘‘

’’ اوہ۔۔ اچھا۔۔  تیرا مرجی نہیں تھا۔‘‘ عاصمہ بیگم نے گہری سانس  لی۔

’’ اس فلتوش نے بھی کبھی ایسا کیا تھا۔۔‘‘عاصمہ بیگم نے کچھ حیرت اور بے یقینی سے پوچھا۔

’’ ہاں جی بہت بار۔۔ میرے کو ایسے  ہی  بوت چنتا لگتا تھا۔۔ مگر وہ کہتا تھا میرے کو پتہ ہے کِچو نہی ہو گا۔۔نیکل پھر مہینہ ہو جاتی تھی۔۔‘‘

’’اور کمل نے۔۔‘‘ عاصمہ بیگم ہکا بکا بولیں۔

’’ہاں جی اور  کیا۔۔ مگر وہ سمجھدار  تھا۔۔ اس کو پتہ تھی کہ کیسے کیا کرنا ہے۔۔ باجار میں کدھر کیا ملتا ہے۔۔ لاتا تھا۔۔،  میرے کو ایک دم چنتا نہیں  ہوتا تھا۔۔‘‘

’’بد تمیز۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کا ہاتھ بے اختیار اس کے چہرے کی طرف اٹھا مگر انہوں نے  اسے ٹھپڑ نہیں لگایا اور دانت پیس کر رہ گئیں۔

تُو۔۔ تُو بھّیا بلاتی تھی۔۔اُسے۔۔اور۔۔اور وہ کمبخت کہتا تھا کہ بال بناتے وقت تو۔۔ا یکدم۔۔ایکدم۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کا  سانس بے ترتیب ساہو گیا۔

 تو میری پرہیز گار ماں کو۔۔ ناپاک۔۔‘‘عاصمہ بیگم کانپتی آواز میں بولیں۔

’’ نہی مین صاب مے نہاتا تھا۔۔‘‘وہ جلدی سے بولی۔

   عاصمہ بیگم کا سر چکرا گیا۔انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے کنپٹیاں  تھام لیں۔کئی  پل ایسے  ہی گزر گئے۔

’’ اچھا۔۔ وہ۔۔ فلتوش نے تجھے پھر کیوں کہا تھا  مار ڈالے گا؟‘‘

’’ میرے کو مہینہ نہیں ہوئی تھی نا۔۔ مے اس کو بولی نہی ہوئی تو مے مین صاب کو بولے گا تو میرا شریر کو چھوا ہے۔۔اسے گوصہ آ گیا تھا۔۔‘‘

 عاصمہ بیگم کچھ لمحے سن سی اسے تکتی رہ گئیں۔

’’ پچھلی دفعہ کب ہوا تھا۔۔‘‘

’’جس دن آپ صاب  اور بھیّا  لوگ کھا نے پر گیا تھا نا باہر۔۔مے  چوڑی دار پہنی تھی۔۔ جو آپ لوگ انمیسری  (اینیورسیری)  کے دن  ’   ٹِپ  ‘   دیا تھا نا۔۔تو میں منگل باجار سے۔۔‘‘

’’ بکواس بند کر۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کی آواز اچانک اونچی ہو گئی۔

’’مہینہ کب ہوا تھا۔۔ تاریخ بتا۔‘‘انہوں نے آواز دھیما کرنے کی شعوری کوشش کی۔

’’او۔۔ مہینہ۔۔ جس دن مین صاب آپ سے بولی تھی نا۔۔ آج باجار سے سودا مے لائے گی۔۔ میرے کو  نیپکی (نیپکن)   لانا ہے۔۔اس کا دوسرا دن ہو ئی تھی۔۔‘‘

’’تاریخ  بھی تو ہو گی نا کچھ۔۔‘‘

’’میرے کو یاد نہیں مگر بہت دن ہو گیا۔۔‘‘

  عاصمہ بیگم نے ذہن پر زور دیا۔ وہ اس دن اپنے بڑے بیٹے کی دوست کو  دوپہر کا کھانا کھلانے  میریڈئن لے گئی تھیں۔لوٹنے پر غالباً اسی  دن سندری نے نیپکن لانے کی بات کہی تھی۔ مگر وہ اسے دو بار لے گئی تھی۔ ایک بار بیٹے کے کہنے سے دوسری دفعہ خود عاصمہ بیگم کا دل اس سے ملنے کو چاہا تھا کہ ا سکے گھر میں بیٹی کی کمی  کے احساس نے ا س کے دل میں ہمیشہ کسی بیٹی جیسے تعلّق کی خواہش کو سیراب کیا تھا۔

 جب انہوں  نے دیبا  کے لئے  اپنے سنگھار دان سے  نازک سی زنجیر والا  پینڈنٹ اور اس سے ملتے جلتے کرن پھول ڈھونڈ کر پرس میں رکھے  تھے۔ عاصمہ بیگم کو  دیبا  کا نازک سا گلا یاد ا گیا جس پر ہوٹیل  میر یڈئین  کے ر یستوراں میں بیس سے بھی کم سیلسیس پر ٹھہرے ہوئے  درجۂ حرارت  میں پسینے کی بوندیں چمک اٹھی تھیں۔ بے سبب ہی۔۔ اسے کیا معلوم کہ۔۔

 عاصمہ بیگم  کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہی تھی کہ انہیں موجودہ حالات کی نزاکت کا تیزی اور شدّت سے  احساس ہوا۔

   انہوں نے سر جھٹک کر سندری کو دیکھا۔

’’ کیا کروں اب بتا۔۔سوائے  اس کے کہ تمہیں تمہارے گھر بھیج دوں۔۔‘‘ کچھ دیر فضا پر خاموشی طاری رہی۔

’’ مگر تم پریگنینٹ ہو بھی یا۔۔۔‘‘

’’ کیا مین صاب۔۔‘‘

’’ کچھ نہیں۔۔تم۔۔تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔‘‘

 عاصمہ بیگم فرش کی طرف  دیکھتی رہیں ، اسی مقام پر بیٹھی بیٹھی ،کتنی ہی دیر تک۔

   بڑا بیٹا جوان  ہو گیا تھا۔۔ دوسرے  کا قد بھی نکل آیا تھا۔۔شوہر بھی  خیر سے جوان لگتے ہیں۔۔ سچ مچ امید سے ہوئی کمبخت  تو۔۔ لوگ۔۔جانے کیا  سوچیں گے۔۔ چمن کل چھٹی مانگ ر ہا تھا۔۔اور دو مہینے کی تنخواہ بھی۔۔ایک مہینے کی تنخواہ پلیسمنٹ  والا لے گیا۔۔

   سرخ  کنارے اور قوسِ قزح جیسے رنگوں کے مہین پھولوں والے کشمیری ریشمی قالین کے درمیان سمندری نیلے رنگ کی زمین پر بنی گہری سبز بیل پر بیٹھی خوش رنگ بلبل کے تاج پر سے نظریں ہٹا کر عاصمہ بیگم نے دریچے سے باہر نظریں گاڑ دیں۔ہرے ہرے  درخت کے گھنے  پتوں میں اٹکی ایک پھٹی ہوئی پتنگ بہت  بری لگ رہی تھی۔

۔۔بھاگ ہی نہ جائے کہیں مردود پیسے ملتے ہی۔۔اور۔۔ یہ لڑکی۔۔  بھاڑ میں جائے بے شرم۔۔ دفع کر دوں گی اس کو بھی۔۔ کیا  کیا  گل کھلاتی رہی  اور ہم۔۔  ہم ہیں کہ۔۔ بے وقوف بنتے رہے۔۔ گاؤں میں کرے ان کالی کرتوتوں کی نمائش۔۔  بے حیا کہیں کی۔۔ سلمان صاحب سے سب کہنا پڑے گا۔۔ہاں۔

 عاصمہ بیگم نے کچھ مطمئن ہو کر کھڑکی سے نظریں ہٹا لیں۔ اور دو صوفوں کے درمیان  شیر کے پاؤ ں کی ساخت کے پایوں والی پتھر کی میز پر رکھا کرسٹل  کے شفاف کانچ کا بنا چوکڑیاں  بھرتا ہرن ہاتھ میں لے لیا۔

  ۔۔۔ مگر سوتیلی ماں۔۔ اس کا جینا اور مشکل کر دے گی۔ اسے  سارے گاؤ ں  میں بدنام کرے گی۔۔ اسے کسی نے سمجھایا ہی نہ ہو گا۔۔ اچھا برا کیا ہے۔۔ماں ہی جب۔۔اور سوتیلی ماں کھانا اپنی  مرضی سے نکالنے پر کڑچھی سے  مار نے والی،اسے کھلے عام مارنے کا جواز  حا صل کر لے گی۔۔اسے ا س کے باپ  کے سامنے ذلیل کر ے گی۔۔گاؤ ں میں جا نے کیسے اس کا حمل گرایا جائے گا۔۔ ان چاہا حمل۔۔سو تیلی بیٹی کا۔۔ کسی بھی سستی سی نا تجربہ کار دائیہ سے۔۔اس کا  جانے کتنا خون بہہ جائے گا۔لا پر واہی ہو جائے گی۔۔زیادہ بہہ گیا تو۔۔۔

                      شا دی کے دو ماہ بعد خود  ا س کے سا تھ ایسا ہی ہوا   تھا۔ اسے مکمل آرام  کا مشورہ دیا تھا  اس کی ڈاکٹر نے کہ شاید اس سے اس کی امید ٹوٹنے سے بچ جائے۔۔اور وہ کم عمری  کے باعث  ناداں  اور بلا وجہ شرم کے سبب خاموش  بستر پر پڑی رہی۔  امید تو جاتی رہی، نسوں سے بھی خون نچڑ تا گیا۔ ربر کے دبیز بیس اونچے گدّے سے ہوتا جب پلنگ کے تختے کو نم کر چکا تو اسے  اچانک محسوس ہوا  تھا کہ اس کے ہاتھ برف  ہو گئے ہیں۔ امید کے دنوں میں اس کے پیر ٹھنڈے رہا  ہی کرتے تھے۔ معاً  اسے خیال آیا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ ہسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ اللہ کو پیاری ہونے ہی والی تھی۔

     جب اس پر۔۔ شہر کی سب سے مشہور ڈاکٹر کی نگرانی میں  یہ ستم ہو سکتا تھا تو۔۔ کہ امید ختم ہونے کے ساتھ  جینے کی امید بھی ختم ہونے کو تھی۔۔ تو۔۔اس۔۔ اس غریب کا کیا ہو گا۔۔ اسے تو نجات مطلوب ہے اس سے۔۔ جانے کتنا خون بہہ جانے کے بعد یا جب بھی  اسکے جسم سے الگ نہ ہو تو۔۔جب تک،کہ ماہر ہاتھوں  سے اُسے الگ نہ کیا جائے۔۔اور ماہر ہاتھ۔۔ اس کے نصیب میں۔۔

       باورچی خانے سے زور زور سے برتن دھوئے جانے کی آواز آ رہی تھی۔

      عاصمہ بیگم باورچی خانے کی طرف گئیں۔

     ’’  سندری۔۔ میں نے سوچ لیا ہے۔۔‘‘

 ’’ جی مین صاب۔۔‘‘  اس کی تشویش ناک سی اداس آواز ابھری۔ا  س نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

’’ اوہ۔۔ ادھر تو دیکھ۔۔ رو رہی ہے تو کیا۔۔‘‘

’’ مے کیا کروں  گا جی۔۔ میرے کو گاؤں والا لوگ۔۔‘‘ وہ ہچکیاں لینے لگی۔

’’ارے پاگل میں تھوڑے ہی بھیجوں گی اس حال میں تجھے گاؤں۔۔  جو ہو گا دیکھیں گے۔۔تم فکر نہ کرو۔۔ میں خود  دیکھتی ہوں۔۔ابھی  تو تمہیں دنوں کے بارے میں ہی کنفیوژن ہے۔۔‘‘  عاصمہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا تھا مگر ایسا نہیں کیا۔

’’  چار دن اور نہیں ہوا تو میں ہسپتال لے جا کر تمہارا  یورین  ٹیسٹ  کرواؤں  گی۔میرے خیال سے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا  ہے۔۔ بھوک تو لگتی ہے نا اچھے سے۔۔‘‘

’’ ہا  جی۔۔لگتا ہے۔۔‘‘

’’ اور متلی وغیرہ۔۔ ابکائی۔۔؟‘‘

’’ نا  جی۔۔‘‘

’’ بس باقی اوپر والے پہ چھوڑ دو۔۔ اور مجھ پر بھرو سہ رکھو۔۔اب جو ہونا تھا ہو چکا۔۔اس۔ اس مصیبت میں تمہیں۔۔‘‘ وہ اسے دیکھتے ہوئے جیسے اپنے آپ سے بولیں۔

’’اکیلے نہیں چھوڑیں  گے تجھ کو۔۔‘‘

   سندری نے رضا مندی میں گردن کو خم دیا۔

     عاصمہ بیگم کمرے میں لوٹ آئیں۔

    لے کر۔۔ کیسے جاؤں گی ہسپتال اسے۔۔ سکینڈل بن سکتا ہے۔۔اس بات کا۔۔اکیلے بھیجوں۔۔ راستے کہاں آتے ہیں اسے۔۔ ڈرائیور کے  ساتھ بھیج دوں  اسے۔۔ کوئی جرم تو رہا نہیں اب۔۔ اب۔۔ ا ب تو لڑ کیوں سے شادی کے بارے میں ہی پوچھتے  ہیں نہ   فی ٹس   (foetus) کے باپ کے بارے میں۔۔ قانوناً جائز  قرار دے دیا گیا ہے  ایبارشن۔۔

    سلمان صاحب تھکے ہوئے لوٹے تھے۔

 ان سے بات کرنا مناسب بھی نہ تھا۔۔

  پریشان ہو جائیں گے۔۔

ان سے بات کرنا مناسب تھا بھی۔۔؟

پریشان کر دیں گے۔۔

اپنے بیتابانہ ردِّ عمل سے۔۔ اس کی پریشانی میں بھی اضافہ کر دیں گے۔ عاصمہ بیگم  انہیں بے خیالی میں دیکھتی رہ گئی۔

            رات عاصمہ بیگم سو تو گئیں مگر پریشان کن خوابوں نے انہیں اپنے نرغے میں لئے رکھا۔اور صبح کے  تازہ خواب نے انہیں     اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیا تھا۔

       برآمدے میں   پہنچ کر انہوں نے  پلٹ کر سندری کی طرف دیکھا۔

  وہ۔۔ وہ دیکھ۔۔اِس گلی کے اُس طرف۔۔جہاں سڑک نظر آ رہی ہے نا۔۔؟ مدر ڈیری تک تو تُو جاتی ہی ہے۔۔ادھر سے د ا  ہنی جانب جا کر چھوٹی سی سڑک سے بائیں اور مڑ جانا۔۔سامنے  بالا جی ٹینٹ والے کا بڑا سا بورڈ لگا نظر آئے گا۔۔اس کے سامنے جہاں ننھے سے بچے کے منہ میں ڈاکٹر دوائی کی بوند ٹپکا رہا ہے نا۔۔ایک دم ادھر ہی۔۔بس سیدھی چلی جانا۔۔وہی سرکاری ہسپتال ہے۔۔ دس منٹ کا ہی تو راستہ ہے۔۔ گھبرا نا بالکل نہیں۔۔میں۔۔‘‘ عاصمہ بیگم نے رخ اس کی طرف موڑا تو سندری ادھ کھلا منہ لئے ان سے کچھ کہنے کو بیقرار سی  نظر آئی۔

’’ ہو گئی میرے کو مین صاب۔۔‘‘ وہ سر ہلا کر مسکرائی۔

’’ مطلب۔۔تو۔۔تیرا مطلب ہے کہ تُو۔۔‘‘عاصمہ بیگم کے چہرے پر  بے قراری مسکرانے لگی۔

  ’’  ہا   جی۔۔   مین صاب۔۔ مہینہ ہو گئی میرے کو۔۔‘‘

’’ کب۔۔؟‘‘  انہوں نے اس کے شانے تھام لئے۔

’’ رات ہئی کو۔۔‘‘

’’ سچ۔۔؟  شکر ہے۔ عاصمہ بیگم نے آسمان کی طرف نظر ڈال کر  واپس اس کی طرف دیکھا  پھر اس  کے کندھوں پر ہاتھ رکھے رکھے  اسے اپنے سے ذرا دور کھڑا کیا اور اس کے چہرے پر نظریں ٹھہرا دیں۔

’’ اب  دوبارہ ایسی غلطی مت کرنا۔۔ نہیں تو میں تجھے  سچ مچ ہی گاؤں بھیج دوں گی۔۔‘‘

’’ کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔ اب نہی کروں گا۔۔‘‘ وہ   مسکرائی۔

’’ مین صاب چمن چلا گیا۔۔‘‘

’’ہاں۔۔ کب۔۔؟‘‘

’’ معلوم نہی۔۔ مے سویرے جاگا تو کمرے میں نہیں تھا۔‘‘

’’ تُو اس کے کمرے میں کیا لینے گئی تھی۔۔۔‘‘

’’ گئی نہیں تھی۔۔ کمرہ کھلا تھی تو۔۔ نجر پڑ گیا۔۔سب سامان لے گیا۔۔‘‘ وہ بغیر کسی تاثر کے بولی۔

’’ ابی  سار ا کام کھُد ای کرنا پڑے گا۔۔‘‘

  ’’ چلو۔۔ بھاڑ میں جائے۔۔ بد تمیز کہیں کا۔۔دوسرا آ جائے گا۔۔ تجھے کیوں کرنا پڑے گا۔۔ ایک دو دن کی بات ہے۔۔۔ سارا کام تیرے بس کا  نہیں اور بچّوں کے زیادہ تر کام کے لئے لڑکا  ہے بھی ضروری۔۔۔۔خیر۔۔۔ تُو ذرا۔۔۔۔اُن لوگوں سے کہوں گی کوئی سمجھدار سا لڑکا بھیجیں اور۔۔۔۔ تُو بھی۔۔۔۔۔۔‘‘

   اور دوسرے دن سمجھدار لڑکا آ گیا۔

’’ مین صاب وہ آ گیا۔۔‘‘دروازے کی گھنٹی سن کر سندری نے  اسے گھریلو ملازمین  مہیا کرنے والے شخص کے ساتھ دیکھا تو دوڑتی ہوئی آئی۔

  ’’ درواجا کھول دوں مین صاب۔۔؟‘‘

  ’’ ہاں۔۔ہاں کھول دے نا۔۔‘‘

 لڑکا دیکھنے میں پہلے تینوں سے بہتر تھا۔فیشن کے مطابق اس نے بال بھی بڑھا رکھے تھے۔عاصمہ بیگم نے لڑکے کی طرف سے نظر ہٹا کر سندری کی جانب  دیکھا جو  مبہوت  سی اسے دیکھ رہی تھی۔وہ سامان رکھنے پچھواڑے کی طرف گیا تو سندری مسکراتی ہوئی باورچی خانے کو  پلٹی۔اور عاصمہ بیگم  اس کے پیچھے پیچھے اندر آئیں۔

’’  کام کرنے والا  نہیں  لگتا  نا  مین  صاب۔۔؟ بھیّا لوگ اور ان کا دوست جیسا لگتا ہے نا۔۔‘‘ و ہ فریج  سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے بولی۔

’’ اب جو بھی ہے سندری۔۔ تُو خدا کے لئے باز آ جا۔۔ اس کو بخش دے۔۔ورنہ سچ مچ میں اب کے تجھے۔۔‘‘ عاصمہ بیگم سمجھانے کے انداز میں بولیں تو سندری ہنسنے لگی اور اپنے دونوں کان  پکڑ لئے۔

’’ کان  پکڑ تا ہوں مین صاب۔۔۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا اور  زور سے کان  کھینچے۔ عاصمہ بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

وہ کان پکڑے پکڑے ہنسی۔ عاصمہ بیگم اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہیں۔

  اسکی معصوم سی ہنسی۔۔نادان سی ہنسی۔۔۔  پرسکون سی۔۔ بے خبر سی ہنسی۔۔

’’ نہیں سمجھی نا تُو۔۔دیکھ سندری۔۔ادھر دیکھ۔۔ اب پلیز تُو۔۔ کچھ مت کرنا۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کے چہرے پر التجا  ہی التجا  تھی۔

’’  ہاتھ جوڑوں کیا۔۔؟‘‘ عاصمہ بیگم نے ہاتھ جوڑ دئے۔

’’ نہی  نہی  مین صاب۔۔ میں کسم کھاتا ہوں۔۔جس کا قسم مر جی لے لو۔۔‘‘ وہ کان پکڑے بولتی رہی۔۔ اور ہنستی رہی عاصمہ کے  جڑے ہاتھ دیکھ کر بھی اس کی ہنسی نہیں رکی تھی مگر آنکھیں کچھ پھیل گئی تھیں۔

ایک آنکھ کا رخ داہنی جانب تھا اور دوسری کا بائیں اور۔

’’  نہ   نہ   مین صاب۔۔ ایسا مت کرو۔۔ مے سچ مچ سے کسم کھاتا ہوں۔۔ ‘‘ وہ عاصمہ کے ہاتھوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔

’’ میں بھگوان کا کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔میں اپنا مر ا  ہوا  ماں کا کسم کھاتا ہوں  مین صاب۔۔اب  ایسا نہی کروں گا۔۔‘‘

   اس نے قہقہوں کے درمیان رک رک کر کہا۔اور  بڑے ہی خلوص سے عاصمہ  بیگم  کو دیکھتے ہوئے  اس نے نہایت عاجزی سے  گر دن کو خم د یا اور ایک قدم ان کی طرف بڑھی۔

’’ مے۔۔مے۔۔ آپ  کا  کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔آپ میرے کو ماف کر دو۔۔ ‘‘ اس نے دھیمی سی آواز میں کہا اور مسکراتی  رہی۔

عاصمہ بیگم نے  دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں  نمی  تیر رہی تھی۔

٭٭٭

مصنّفہ ترنّم ریاض کی اجازت سے، بصد تشکّر

ان پیج سے تبدیلی۔ اعجاز عبید

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید