FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ہم پہ خواب برسے

 

 

 

 

               طفیل چترویدی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

سب کو گھاٹا ہونا ہے

اب سمجھوتہ ہونا ہے

 

لوٹے گی پھر دیر سے گھر

پھر واویلا ہونا ہے

 

اگر نہ تیرے ہاتھ چھوئیں

شہد تو کڑوا ہونا ہے

 

راتیں روشن کرنے میں

دن تو کالا ہونا ہے

 

یہ کہتی ہے تاریکی

بہت اجالا ہونا ہے

 

اس سے لڑ کر لوٹا ہوں

خود سے جھگڑا ہونا ہے

 

میرے شعروں کا کل تک

بوٹی تکا ہونا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کاش اس سے مرا فرقت کا ہی رشتہ نکلے

راستہ کوئی کسی طرح وہاں جا نکلے

 

لطف لوٹائیں گے اب سوکھتے ہونٹوں کا اسے

ایک مدت سے تمنا تھی وہ پیاسا نکلے

 

پھول سا تھا جو تیرا ساتھ، ترے ساتھ گیا

اب تو جب نکلے کبھی شام کو تنہا نکلے

 

ہم فقیرانہ مزاجوں کی نہ پوچھو بھائی

ہم نے صحرا میں پکارا ہے تو دریا نکلے

 

پہلے اک گھاؤ تھا اب سارا بدن چھلنی ہے

یہ شفا بخشی، یہ تم کیسے مسیحا نکلے

 

مت کریدو، نہ کریدو مری یادوں کا الاؤ

کیا خبر پھر وہ سلگتا ہوا لمحہ نکلے

 

ہم نے روکا تو بہت پھر بھی یوں نکلے آنسو

جیسے پتھر کا جگر چیر کے جھرنا نکلے

٭٭٭

 

 

 

کسی بھی جھیل سے ہنستے کنول نکالتا ہوں

میں ہر زمین میں اچھی غزل نکالتا ہوں

 

چلو کہ میں ہی جلاتا ہوں خون سے یہ چراغ

چلو کہ میں ہی اندھیرے کا حل نکالتا ہوں

 

بنا کے باندھ تجھے جھیل کر کے چھوڑوں گا

ذرا سا ٹھہر ندی تیرے بل نکالتا ہوں

 

یہ ہو بھی سکتا ہے اس بار داؤ لگ جائے

میں پانسے پھینک کے پھر سے رمل نکالتا ہوں

 

عبادتوں کی طرح پیار ہے مرا جاناں

میں تیری یاد کے ہر دن سے پل نکالتا ہوں

٭٭٭

 

کوئی وعدہ نہ دیں گے دان میں کیا

جھوٹ تک اب نہیں زبان میں کیا

 

میری حالت پہ آنکھ میں آنسو،

درد درآیا کچھ چٹان میں کیا

 

کیوں جھجکتا ہے بات کہنے میں

جھوٹ ہے کچھ ترے بیان میں کیا

 

سچ عدالت میں کیوں نہیں بولے

کانٹے اگ آئے تھے زبان میں کیا

 

رات دن سنتا ہوں تیری آہٹ

نقصپیدا ہوا ہے کان میں کیا

 

مجھ پہ تو ظلم کیوں نہیں کرتا

اب نہیں ہوں تری امانمیں کیا

 

تو تو رہتا ہے دھیان میں میرے

میں بھی رہتا ہوں تیرے دھیان میں کیا

 

وہی چہرہ نظر نہیں آتا

دھول اڑنے لگی جہان میں کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غزل کے شعروں کی قیمت ہنسی سے مانگتے ہیں

وہ خونبہا بھی مرا اب مجھی سے مانگتے ہیں

 

اسی لیے تو کچلتی ہے رات دن دنیا

ہم اپنا حق بھی بڑی عاجزی سے مانگتے ہیں

 

انھیں سکھاؤ نہ آداب زندگی یارو

یہ مغفرت بھی اسی شاعری سے مانگتے ہیں

 

بہت سنبھل کے فقیروں پہ تبصرہ کرنا

یہ لوگ پانی بھی سوکھی ندی سے مانگتے ہیں

 

یہ تیری مرضی ہے ہم سے نہ مل، نہ دے درشن

مگر یہ سوچ کہ ہم تجھ سخی سے مانگتے ہیں

 

کبھی زمانہ تھا اس کی طلب میں رہتے تھے

اور اب یہ حال ہے خود کو اسی سے مانگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

رات جاگی نہ کوئی چاند نہ تارا جاگا

عمر بھر ساتھ میں اپنے ہی اکیلا جاگا

 

قتل سے پہلے زباں کاٹ دی اس نے میری

میں جو تڑپا تو نہ اپنا نہ پرایا جاگا

 

بھر گئی سات چٹک رنگوں کی لے کمرے میں

گدگدایا اسے میں نے تو وہ ہنستا جاگا

 

میں خیالوں سے ترے کب رہا غافل جاناں

شب میں نیند آ بھی گئی تو تیرا سپنا جاگا

 

اس کی بھی نیند اڑی سو نہیں پایا وہ بھی

میں وہ صحرا ہوں کہ جس کے لئے دریا جاگا

 

دن کو تو طے تھا مگر خواب میں جاگا شب کو

یعنی میں جاگ کے حصے کے علاوہ جاگا

 

پھر وہ لو دینے لگے پاؤں کے چھالے میرے

پھر مرے سر میں تیری کھوج کا فتنہ جاگا

٭٭٭

 

 

 

 

بےچینی پل پل مجھ میں

کوئی ہے گھائل مجھ میں

 

میری جنگ ہے خوابوں سے

خود میرا مقتل مجھ میں

 

مجھ میں مجھ سے کون خفا

رات اور دن ہلچل مجھ میں

 

کونپل کونپل روتا ہے

اک جلتا جنگل مجھ میں

 

میں آکاش کا سونا پن

اڑتے ہیں بادل مجھ میں

 

ڈھونڈتی ہے اپنی آواز

اک گونگی کوئل مجھ میں

 

تھوڑا بچ کر چل پیارے

ہے گہرا دلدل مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

میں خود سے روشناسی کا طریقہ دیکھتا ہوں

تیری آنکھوں کے آئینے میں چہرہ دیکھتا ہوں

 

پریشانی تجھے پانے میں جانے کتنی ہوگی

خیالوں کو بھی اپنے آبلہ پا دیکھتا ہوں

 

مجھے معلوم ہے مجھ میں نہیں ہے کوئی خوبی

بہت کہتی ہے تو دنیا، دوبارہ دیکھتا ہوں

 

بتاتا ہوں کہ پتھر دے گئے ہیں بھیک کتنی

میری وحشت ذرا رک، تن کا کاسہ دیکھتا ہوں

 

بہت مشکل ہے اس میں آ سکے کوئی خوشی اب

تیرے غم کا میں اپنے دل پہ پہرہ دیکھتا ہوں

 

جدائی اس قدر گہرا گئی ہے مجھ میں جاناں

میں اب تو خواب تک میں خود کو تنہا دیکھتا ہوں

 

ارے او آنسوؤ! تم کام کب آؤ گے آخر

بھری برسات میں میں دل کو جلتا دیکھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

مہک رہے ہیں فضاؤں میں بے حساب سے ہم

قریب آ کے ترے ہو گئے گلاب سے ہم

 

دکھائی دے نہ ہمیں اور کچھ سوا تیرے

اٹھا رہے ہیں، نظر اپنی اس حساب سے ہم

 

ہمیں سنبھال کے رکھنا محبتوں کی طرح

نہ ٹوٹ جائیں کہیں دم میں اک حباب سے ہم

 

وہی سلگتی نظر آگ آگ سارا بدن

جلا کیے ہیں ہمیشہ اک آفتاب سے ہم

 

یہ بات سچ ہے مگر آئے گا یقیں نہ تمہیں

جھلس گئے ہیں میاں، چاندنی کے خواب سے ہم

 

ہم اپنی ذات میں روشن ہیں اس کے نور کے ساتھ

ستارو! تم کو بتا دیں، ہیں ماہتاب سے ہم

 

مزاج ہی تھا صداقت پسند کیا کرتے

سو اپنے واسطے ثابت ہوئے عذاب سے ہم

 

غزل کے شعروں میں کوئی کمی سی لگتی ہے

طفیلؔ جوڑ لیں رشتہ پرانے خواب سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

تج دے زمین، پنکھ ہٹا، بادبان چھوڑ

گر تو بغاوتی ہے، زمیں آسمان چھوڑ

 

یہ کیا کہ پاؤں پاؤں سفر موتیوں کے سمت

ہمت کے ساتھ بپھرے سمندر میں جان چھوڑ

 

خوشبو کے سلسلے دے یا آہٹ کی راہ بخش

تو چاہتا ہے تجھ سے ملیں تو نشان چھوڑ

 

بجھتے ہی پیاس تجھ کو بھلا دیں گے اہلِ دشت

تھوڑی سی تشنگی کا سفر درمیان چھوڑ

 

میں چاہتا ہوں اپنا سفر اپنی کھوج بین

اس بار میرے سر پہ کھلا آسمان چھوڑ

 

کیوں روکتا ہے مجھ کو اشاروں سے بار بار

سچ سننا چاہتا ہے تو میری زبان چھوڑ

 

مجھ کو پتہ چلے تو یہاں کون ہے میرا

آ سامنے تو میری طرف کھل کے بان چھوڑ

٭٭٭

 

 

 

 

جو شاعری کی ترے انگ انگ ایسی تھی

غزل کی رات لہو میں امنگ ایسی تھی

 

اناکے ساتھ کھلا تھا محاذسوچوں کا

مجھے تو ہار ہی جانا تھا جنگ ایسی تھی

 

کسی جنم کا میرے سر پہ قرض تھا شائد

مجھے ڈبو کے ہی پلٹی ترنگ ایسی تھی

 

تیرے علاوہ کوئی کیسے اس میں رک پاتا

میری نظر کی گلی بھی تو تنگ ایسی تھی

 

لہو قلم سے ٹپکتا ہے بوند بوند اب تک

نگاہ پھول سے چہرے کی سنگایسی تھی

 

وہ، اور آئیں، مرا حال پوچھنے میرے گھر

زبان کچھ بھی نہ کہہ پائی دنگ ایسی تھی

 

بہل گئی جو سنی خودکشی کی بات ذرا

کہ خواہشوں سے میری ذات تنگ ایسی تھی

٭٭٭

 

 

 

وہ بچھڑتے وقت ہونٹوں سے ہنسی لیتا گیا

مجھ میں سانسیں چھوڑ دیں، بس زندگی لیتا گیا

 

وہ بھی ہونٹوں پر لئے آیا تھا دریا اب کی بار

میں بھی ملتے وقت ساری تشنگی لیتا گیا

 

دھوپ کا احساس یوں رہتا ہے میری روح میں

ایک سایہ جیسے ساری چھاؤں ہی لیتا گیا

 

چاند اور پھر چاند پونم کا، کسے امید تھی

روشنی دینے کے بدلے روشنی لیتا گیا

 

ایک گہرا گھاؤ جیسے توڑ دے راہی کا دم

میرا ماضی آنے والی زندگی لیتا گیا

٭٭٭

 

غزل کا سلسلہ تھا یاد ہوگا

وہ جو اک خواب سا تھا یاد ہوگا

 

بہاریں ہی بہاریں ناچتی تھیں

ہمارا بھی خدا تھا یاد ہوگا

 

سمندر کے کنارے سیپیوں سے

کسی نے دل لکھا تھا یاد ہوگا

 

لبوں پر چپ سی رہتی ہے ہمیشہ

کوئی وعدہ ہوا تھا، یاد ہوگا

 

تمہارے بھولنے کو یاد کر کے

کوئی روتا رہا تھا یاد ہوگا

 

بغل میں تھے ہمارے گھر تو لیکن

غضب کا فاصلہ تھا یاد ہوگا

 

ہمارا حال تو سب جانتے ہیں

ہمارا حال کیا تھا یاد ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

یادیں حملہ آور تھیں کتنی رات، اداسی، تنہا میں

دل تل تل کر کے ٹوٹا ہر لمحہ خود سے جوجھا میں

 

جانے کس کو ڈھونڈھ رہا ہوں، جانے کس کی ہے یہ کھوج

سونی آنکھیں، بال بکھیرے، ہر دروازے رکتا میں

 

نفرت ہو یا پیار ہو یا دوری بس تجھ سے رشتہ ہو

جیسے چاہے مجھے برت لے تیرا، کیول تیرا میں

 

اس کو کیا معلوم کہ میرے من کی پرتیں کچی ہیں

باہر باہر بادل گرجا، اندر اندر ٹوٹا میں

 

اس کا چہرہ، اس ک ا چہرہ، اس کے جیسا کوئی نہ تھا

پربت، وادی، دریا، گلشن، صحرا، جنگل بھٹکا میں

 

میری فوج میں میرے بازو، اس کی فوج میں میرا دل

سوچ رہا ہوں اس سے الجھ کر کیسے جیت سکوں گا میں

 

سارے عکس ڈراتے جیسے آسیبوں کی بستی ہو

دنیا کے اس شیش محل میں سہما ایک پرندا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چھاؤں کی خواہش میں یوں مجھ کو ملا گھر دھوپ کا

میں لکھا کر لایا ہوں جیسے مقدر دھوپ کا

 

اس کی یادیں جیسے سر پر برف کی چادر کوئی

ہم نے توڑا ہے میاں پنداراکثر دھوپ کا

 

ہم نے پھر بھی تیرے خوابوں کا نہ رنگ اڑنے دیا

ہر طرف سے جب کے گھیرے ہے سمندر دھوپ کا

 

ایک سائے کے طلب میں زندگی پہنچی یہاں

دور تک پھیلا ہوا ہے مجھ میں منظر دھوپ کا

 

میں نے جس کے واسطے سائے تراشے سانس سانس

اس نے مارا ہے میرے سینے پہ پتھر دھوپ کا

 

اس قدر لو کے تھپیڑے روز کھائے ہیں کہ بس

ذہن سے اب جا چکا ہے دوستو ڈر دھوپ کا

٭٭٭

 

 

 

 

خوشبوؤں کی کتاب دے آیا

میں اسے پھر گلاب دے آیا

 

مسکرانا بھی کتنے کام کا ہے

اس کی آنکھوں کو خواب دے آیا

 

سوچتی تھی بھلا کرے گی مرا

زندگی کو جواب دے آیا

 

دل کو سمجھا دیا وہ آئیں گے

پیاس کو پھر سراب دے آیا

 

مسکراہٹ کے قرض کیا چکتے

آنسؤں کا حساب دے آیا

 

پھر سے ایمان ہو گیا تازہ

مولوی کو شراب دے آیا

 

کیا ضرورت تھی سچ بتانے کی

میں اسے کیا عذاب دے آیا

٭٭٭

 

 

 

 

دعا کسی کی بھی خدمت گزار ہوتی نہیں

کنارے بیٹھ کے ندی تو پار ہوتی نہیں

 

یہ معجزہ تو ہمارے ہی بس میں ہے پیارے

ہوا دئیے کی کبھی پہریدار ہوتی نہیں

 

یہاں پہ تھوڑی بہت چھوٹ لینا پڑتی ہے

شرافتوں سے برائی شکار ہوتی نہیں

 

اندھیرا سازشیں کرتا ہے رات دن لیکن

کسی طرح بھی اجالے کی ہار ہوتی نہیں

 

افق اٹھا کے پروں پر، اڑان بھرتے ہیں

ہمارے جیسے پرندے کی ڈار ہوتی نہیں

 

نئے خیالوں کو چن چن کے نظم کرتے ہیں

غزل ہماری کبھی شرمسار ہوتی نہیں

 

مکھوٹے چڑھتے ہیں ہمدردیوں کے چکر میں

اداسی غم کا میاں! اشتہار ہوتی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ اس طرح سے ترے غم کو کال کاٹتا ہے

کسی کی جیب کو جیسے دلال کاٹتا ہے

 

جئے کے عیب کو برتا ہے اس نے فن کی طرح

حرام کام سے روٹی حلال کاٹتا ہے

 

کسی غریب کا جینا بڑا کٹھن ہے میاں

یہاں وزیر پیادے کی چال کاٹتا ہے

 

مرے قبیلے پہ شب خون مارنے والے

یہاں تو موم بھی لوہے کی ڈھال کاٹتا ہے

 

میں جنگ جیت کے محفوظ لوٹ تو آیا

مگر غنیم کا مجھ کو ملال کاٹتا ہے

 

روایتوں کی صفیں ٹوٹتی نہیں سب سے

کئی برس میں کوئی ایک جال کاٹتا ہے

 

خموشی توڑ نہ دے ڈور کو تعلق کی

جواب دیجیے صاحب سوال کاٹتا ہے

 

ترے فراق میں یوں زندگی کٹی اپنی

غلام جیسے کسی گھر میں سال کاٹتا ہے

 

کچھ ایک روز تو لگتے ہیں سچ کی عادت میں

طفیلؔ جوتا نیا ہو تو کھال کاٹتا ہے

٭٭٭

 

 

 

مہکتے پھول سے لمحوں کی جولانی پلٹ آئی

وہ کیا لوٹا کہ گھر میں پھر فضا دھانی پلٹ آئی

 

کمک سورج کی آنے تک تجھے ہی جوجھنا ہوگا

چراغ شب وہ اندھیارے کی سلطانی پلٹ آئی

 

محبت کرنے والے جانِ من! تنہا نہیں رہتے

ترے جاتے ہی گھر میں دیکھ ویرانی پلٹ آئی

 

بہت مشکل ہے چڑھتے آنسوؤں کی دھار پر ٹکنا

کنارے آ لگا تھا میں کہ طغیانی پلٹ آئی

 

ذرا مہلت مجھے دی وقت نے سپنے سجانے کی

پھر اس کے بعد میری ہر پریشانی پلٹ آئی

٭٭٭

 

 

پھاگن سے میرے بھی رشتے نکلیں گے

ہاں، سوکھا ہوں لیکن پتے نکلیں گے

 

رشتے داروں سے امیدیں کیوں کی تھیں

فجری آموں میں تو ریشے نکلیں گے

 

برسوں کی سچائی کے غم ہیں دل میں

کتنے کانٹے دھیرے دھیرے نکلیں گے

 

مشکل ہے تو مشکل سے گھبرانا کیا

دیواروں میں ہی دروازے نکلیں گے

 

ممکن ہو تو پانچ بجے تک آ جانا

شام ڈھلے آنسو آنکھوں سے نکلیں گے

 

ٹوٹے پھوٹے دل ہیں پھر بھی مت پھینکو

ان میں کچھ تو کام کے پرزے نکلیں گے

 

اتنی بات مہابھارت رچواتی ہے

اندھے کے بیٹے ہیں، اندھے نکلیں گے

 

لوگ عقیدت پر تیشہ ماریں لیکن

گنگا کے پانی میں سکے نکلیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

طے تو ہوا تھا ساتھ ہی چلنا، کہاں چلا

کچھ تو بتاتا جا، یہ اکیلا کہاں چلا

 

تنہائیوں کے خوف سے بھاگا خلاکی سمت

دل نے کبھی ٹھہر کے نہ سوچا کہاں چلا

 

تیرانصیبمجھ سے زیادہ یہاں ہے کون

مجھ سے چھڑا کے ہاتھ اجالا کہاں چلا

 

شب بھیگتی ہوئی ہے بچھڑتا ہوا ہے چاند

ایسے میں ساتھ چھوڑ کے سایہ کہاں چلا

 

وہ اک نظر میں بھانپ گیا میرے دل کا حال

اس کے حضور کوئی بہانہ کہاں چلا

 

میں ہوں فقیر، کاٹ ہی لیتا کہیں پہ رات

کیوں روشنی نے مجھ کو پکارا کہاں چلا

 

بارش کی خشک آنکھ ٹپکنے لگی طفیلؔ

بھیگے ہوئے پروں سے پرندا کہاں چلا

٭٭٭

 

 

 

 

بچے بچے ہوئے پھرتے ہو کیوں اداسی سے

ملا جلا بھی کرو عمر بھر کے ساتھی سے

 

غزل کی دھوپ کہاں ہے، پناہ دے مجھ کو

گزر رہا ہوں خیالوں کی سرد گھاٹی سے

 

پکڑ سکا نہ میں دامن، نہ راہ روک سکا

گزر گیا ہے ترا خواب کتنی تیزی سے

 

حویلیوں کی نگاہوں میں آگ تیرتی ہے

سوال پوچھ رہا ہوں میں ایک کھڑکی سے

 

فنا کے بام پہ جا کر تلاش حق ہوگی

دکھائی کچھ نہ دیا زندگی کی سیڑھی سے

 

ہوا کے رخ سے الگ اپنی منزلیں مت ڈھونڈ

یہ رنجشیں تو مناسب نہیں ہیں کشتی سے

 

چمک پہ آنکھوں کی تم کو طفیلؔ حیرت کیوں؟

دیے جلے ہیں یہ اک عمر کھارے پانی سے

٭٭٭

 

 

 

 

داغ دھبے چھوڑ کر اچھا ہی اچھا دیکھنا

جانتے ہیں ہم بھی آئینے میں چہرہ دیکھنا

 

سوچ پھر چھونے چلی ہے اس کے قدموں کے نشاں

انگلیوں کو پھر خیالوں کی جھلستا دیکھنا

 

وہ کہ پیاسا تھا مگر سوچا ہے کتنے چین سے

ہو نہ ہو راس آ گیا خوابوں میں دریا دیکھنا

 

ہر طرف پھیلا ہوا بے سمت بے منزل سفر

بھیڑ میں رہنا مگر خود کو اکیلا دیکھنا

 

اپنی سوچوں کے خلاء کو جاننا رنگوں کا باغ

اپنی آنکھوں کے اندھیرے کو اجالا دیکھنا

 

جگمگاتی جاگتی دنیا ہے خود میں اک الگ

آنکھ جب اب کے لگے تم بھی تماشا دیکھنا

 

یہ پرانی رسم ہے سنسار کی بھائی طفیلؔ

ہر سہارا جب ضرورت ہو تو چھٹتا دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

وہی رگوں کا ٹوٹنا وہی بدن نڈھال ماں

وہی نظر دھواں دھواں تو پھر مجھے سنبھال ماں

 

ملے گی تو جو اب کے تو مجھے چہکتا پائے گی

مجھے بھی آ گیا ہے دکھ چھپانے کا کمال ماں

 

میں زندگی کی الجھنوں سے بھاگ آیا تیرے پاس

نہ کر طلب جواب ماں نہ کر کوئی سوال ماں

 

ہزاروں غم تھے پیاسے سب کی پیاس کو لہو دیا

تری طرح کیا ہے ہم نے کام بے مثال ماں

 

پھر آج بالپن کی کچھ کہانیاں سنا مجھے

ہے زرد زرد زندگی چھڑک ذرا گلال ماں

 

سفید بال سر پہ، آ گئی بدن پہ جھریاں

اڑھا گئی ہوائیں دیکھ مجھ کو تیری شال ماں

 

مرے قلم کے رکھ رکھاؤ سے حریف جل اٹھے

میرے عروج نے دیا ہے پھر مجھے زوال ماں

٭٭٭

 

 

 

 

بھلا لگا مجھے میں اس سے خوش گمان جو تھا

وہ بدمزاج تھا، ہر چند میری جان جو تھا

 

تمام عمر کڑی دھوپ تھی، میں بچ ہی گیا

کسی کی یاد کا ہر سمت سائبان جو تھا

 

سہارے لاکھوں تھے لیکن پکارتا کیسے؟

مجھے تو ڈوب ہی جانا تھا بے زبان جو تھا

 

نفس نفس وہ چمکتا تھا دل میں شعلہ سا

تمہارے بخشے ہوئے زخم کا نشان جو تھا

 

مزاج ہی نہیں مل پاتا تھا ہواؤں کا

ہماری ناؤ کا بوسیدہ بادبان جو تھا

 

چھلک رہی تھی فضائیں، مہک رہا تھا سفر

تمام جسم محبت میں زعفران جو تھا

 

بلا کی بھیڑ میں بھی اس نے مجھ کو دیکھ لیا

چمک رہا تھا الگ میں لہولہان جو تھا

٭٭٭

 

 

 

 

قبول کم ہے یہاں بات، رد زیادہ ہے

تمہارے شہر میں بھائی حسدزیادہ ہے

 

تمام شہر الجھتا ہے رات دن مجھ سے

تو کیا یہ سچ ہے کہ کچھ میرا قد زیادہ ہے

 

اسی لیے تو ہمیشہ ہی مات کھاتے ہیں

ہماری اگلی صفوں میں خردزیادہ ہے

 

ذرا سا دیکھ کے رکنا نہ کوئی دھوکہ ہو

یہاں پہ زخمی پرندو! مدد زیادہ ہے

 

وہ کر کے نیکیاں احساں جتاتا رہتا ہے

بھلائی اس میں ہے لیکن وہ بد زیادہ ہے

 

وہ بادشاہ ہے اور آدمی بھلا ہے وہ

یہ بات جھوٹ صحیح مستندزیادہ ہے

 

میں ٹھیک ہوں، پہ نگاہوں کے گھاؤ کیسے چھپاؤں

مرے خلاف مری ہی سندزیادہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شہر تاریک، نظر دھندلی، خرابہ تاریک

دل تھا تاریک تو پھر ہونی تھی دنیا تاریک

 

میں سمجھتا تھا کہ آندھی میں جلے گا مرا دیپ

کر گیا میرا مکاں ایک ہی جھونکا تاریک

 

تیرے چہرے کی دھنک اب کے برس بھی نہ کھلی

ہم نے خوابوں کا یہ موسم بھی گزارا تاریک

 

پھر مری بات کو سمجھے نہیں میرے ساتھی

یہ صحیفہ بھی میرے دل نے اتارا تاریک

 

پو تو پھوٹی ہے دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

کر دیا دل کے اندھیرے نے سویرا تاریک

 

اک سیہ خواب اجالے کا پتہ کیا دیتا

جاں تھی تاریک تو پھر ہونی تھی دنیا تاریک

 

دیکھ کر حال مرا لوٹ گئے ساتھ کے لوگ

میرے زخموں نے کیا لوگوں کا رستہ تاریک

٭٭٭

 

 

 

 

سیدھی سادی شاعری کو بے سبب الجھا لیا

رات پھر ہم نے غزل پر بحث میں حصہ لیا

 

ہم کہ ناواقف تھے اردو خط سے پر غزلیں کہیں

موم کی بیساکھیوں سے دوڑ میں حصہ لیا

 

یہ قلم، یہ میں، یہ میرے شور اور یہ تیرا غم

یعنی تنکا جان پر کہسار سا صدمہ لیا

 

یوں ہوا پھر زد پہ سارے شہر کی ہم آ گئے

ناسمجھ تھے اس لیے ہنستا ہوا چہرہ لیا

 

اور تو ہم کر ہی کیا پاتے اپاہج وقت میں

خود کو دیکھا جب بھی، لب پر قہقہہ چپکا لیا

 

رات کیا آئی کہ اک سچ ٹھہرا میرے ساتھ بس

ساتھیوں نے دھیرے دھیرے راستہ اپنا لیا

 

ہم سے بھی پوچھا گیا تھا، ہم نے ٹھہرے دل کے ساتھ

عمر بھر کا رت جگا تا زیست کا لکھنا لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پھول، خوشبو، چاند، سورج، رنگ، صندل لکھ دیا

ایک مصرعے میں ترا پرتو مکمل لکھ دیا

 

پیاس کی کچھ ایسی بھی گھڑیاں تری راہوں میں تھیں

بدحواسی کے سبب صحرا کو بادل لکھ دیا

 

تم خفا کیوں ہو رہے ہو اس میں میری کیا خطا

آج جل تھل تھیں مری آنکھیں تو جل تھل لکھ دیا

 

مسکراہٹ غم کی، الجھن کی مہک، دکھ کی پھوار

زندگی بھر تم نے جو بخشا وہ پل پل لکھ دیا

 

ہر طرف خونی گھٹاؤں سے لہو گرتا ہوا

میری ہر منزل پہ جانے کس نے مقتل لکھ دیا

 

الجھے الجھے بال، بکھرے بکھرے سارے ہاؤ بھاؤ

ایک لمحے نے مرے چہرے پہ پاگل لکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ اس ادا سے تمام شب ہم پہ خواب برسے

ہری بھری زندگی پہ جیسے عذاب برسے

 

وہ موسموں پر اچھالتا ہے سوال کتنے

کبھی تو یوں ہو کہ آسماں کے جواب برسے

 

حویلیوں کی درکتی دیواریں خوش بہت ہیں

پر ایک کھڑکی ترس رہی ہے گلاب برسے

 

دشا دشا میں ہماری آنکھوں کی پیاس ہے بس

ہمارے چاروں طرف ہمیشہ سراببرسے

 

بدن فراغتکی آرزو میں گھسٹ رہا ہے

کسی نظر کا لہو پہ اب تو عتاببرسے

 

شفق نظر! زندگی کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں

اجالے برسے مگر بلا کے خراب برسے

 

تھی مسولادھار کی جھڑی بہہ گیا سبھی کچھ

ترستے ہونٹوں کی رت پہ اب کے عتاببرسے

٭٭٭

ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ

ہندی سے اردو تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید