FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ڈاکٹر فریاد آزر کا فن

 

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: سہ ماہی ’سمت‘ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۵ء

 

 

 

 

 

فریاد آزر

 

ڈاکٹر فریاد آزرؔ

 

ڈاکٹر فریاد آزر(سید فریاد علی) دس جولائی انیس سو چھپن کو بنارس ضلع کے غوثیہ  ٹاؤن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد الحاج سید عبدالحق  قادری قالین کے ایک اہم تاجر تھے، لیکن فریاد آزؔر کی اعلاٰ تعلیم کی تشنگی انھیں انٹر میڈئییٹ کے بعد  1972 میں دہلی  کھینچ لائی۔ انھوں نے دہلی یونی ورسیٹی سے بی اے، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے  ایم اے اور  بی۔ ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں اور جواہر لال نہرو یونیورسیٹی سے ماس کمیونیکیشنس میڈیا کا ایڈوانس ڈپلومہ حاصل کیا اور پھر آخر میں  جامعہ ملیہ سے  ہی  "اردو اور ہندی کی رومانی شاعری کا تنقیدی مطالعہ” پر پی۔ ایچ۔ ڈی ڈگری  کے لئے مقالہ لکھا۔

فریاد آزر نے  شاعری کی الف بے بنارس میں وہاں کے مقبول شاعر ساجنؔ پردیسی سے سیکھی لیکن جامعہ میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس سلسلہ میں ان کا ہاتھ ڈاکٹر عنوان چشتی کے ہاتھ میں دے دیا اور صحیح معنوں  میں فریاد آزر کی شاعری کا آغاز جامعہ ملیہ سے ہی ساتویں دہائی کے اواخر سے  ہوا۔ ابتدا سے ہی وہ  بر َ صغیر کے اہم ترین رسائل شاعر، شب خون، آہنگ، ادبِ  لطیف اور افکار میں کثرت سے شائع ہونے لگے۔ اسی عہد میں ہی ان کی شاعری کے تیور کو دیکھ کر  انھیں ” نئی غزل کا  اینگری ینگ مین” کہا جانے لگا۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ” خزاں میرا موسم ” 1994  میں شائع ہوا۔ اسکول کے چھوٹے بچوں کی قربت میں ان کی فی البدیہہ شاعری کا مجموعہ "بچوں کا مشاعرہ” دہلی اردو اکادمی کی طرف سے 1998میں شائع کیا گیا اور پھراس کا دوسرا ایڈیشن بھی دہلی اردو اکاڈمی نے شائع کیا۔ ان کی غزلیہ شاعری کا دوسرا  مجموعہ "قسطوں میں گزرتی زندگی   2005  میں شائع ہوا۔ ان کی غزلوں کا انتخاب ” کچھ دن گلوبل گاؤں میں ”  2009  میں شائع ہوا  اور اس کتاب کو دہلی اردو اکادمی نے   2010  میں  اعزاز سے بھی نوازا۔ عنقریب ان کی غزلوں کا تیسرا مجموعہ "اے لئین ” یعنی دوسرے سیارے کا آدمی منظرِ عام پر آنے والا ہے۔

نئی نسل کے اہم ترین نقادوں مثلا ً حقانی القاسمی پروفیسرابنِ کنول، ڈاکٹر مولا بخش اور ڈاکٹر کوثر مظہری وغیرہ نے ان کی شاعری پر طویل مضامین لکھے ہیں اور اب جلد ہی ان کی شخصیت اور شاعری پر  ڈاکٹر مولا بخش کی کتاب  ” نئی غزل کا اینگری ینگ مین”  منظرِ عام پر آنے والی ہے۔

ماہنامہ شاعر ممبئی نے ان کی شعری خدمات پر مختصر گوشہ، سہ ماہی انتساب  سرونج نے  طویل گوشہ اور پھر سہ ماہی تحریک ادب وارانسی نے طویل گوشہ شائع کیا۔

ڈاکٹر فریا آزر  برسوں ماہنامہ  انٹرنیشنل اردو میڈیا، دہلی  اور  ماہنامہ عاکف کی محفل، دہلی کے مدیرِ اعزازی رہے۔ اب انٹر نیٹ  پر  اردو کی خدمت بڑے ذوق و شوق سے کے کر رہے ہیں۔ سہ ماہی ویب زین سمت کے اعزازی  ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ”ادب ڈاٹ کوم ” جو کہ انٹر نیٹ پر گوگل کا  اردو کاسب سے بڑا ادبی گروپ  ہے، اس کے  موڈریٹر  بھی ہیں۔ عالمی پیمانہ پرکم و بیش اس گروپ کے ساڑھے پانچ ہزار ممبر ہیں۔ فریاد آزر کی ان  خدمات سے متاثر ہو کر  وائس آف امریکہ سے ان کا  طویل انٹر ویو  دو قسطوں میں گزشتہ مئی 2014  میں چار اور گیارہ تاریخ کی را ت ساڑھے دس سے گیارہ بجے تک نشر کیا گیا۔

انھیں سابق صدرِ جمہوریہ  گیانی ذیل سنگھ نے نشانِ غزل اعزاز سے نوازا تھا۔

فریاد آزر کا ایک شعر

چلے  تو  فاصلہ  طے  ہو  نہ  پایا  لمحوں کا

رکے تو پاؤں  سے آگے نکل گئیں  صدیاں

٭٭٭

 

 

 

 

گلوبل گاؤں کا نمائندہ شاعر،  ڈاکٹر فریاد آزر ۔۔۔ سعید رحمانی

 

اس میں شک نہیں کہ نئے عہد نے ہم پر خوش حالی اور عیش و عشرت کے در وا کئے ہیں سائینس اور ٹکنولوجی نے مادی ترقیات کو تیز رفتاری عطا کی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے مگر بایں ہمہ ان سائنسی دریافتوں اور فکری جدتوں نے مادی پیش رفت کے پہلو بہ پہلو روحانیت کو بھی مجروح کیا ہے۔ اطمینان، قلبی سکون اور راحت جیسی بے بہا دولت آج قصۂ پارینہ نظر آتی ہے۔ یہ سب اس لئے کہ اعلیٰ اقدار کی پامالی ، تہذیب کی شکست و ریخت،  خود غرضی اور منافقت جیسی علتیں ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہیں۔ آج کا انسان کبھی ذات کے محفوظ جزیرے میں قید نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی انتشار کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں خود کو نامساعدحالات سے متصادم پاتا ہے۔

اس بحران میں سانس لینے والی نسل زندگی کے چوراہے پر کھڑی آگے کا راستہ متعین کرنے میں منہمک نظر آتی ہے۔ اس نسل کے فنکاروں میں جنہوں نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے آس پاس اپنے تخلیقی وجود کا ثبوت دینا شروع کیا ان میں سے بیشتر کی شاعری اپنے عہد کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے  جس میں عہدِ حاضر کے مختلف چہرے عکس ریز ہیں انہی فنکاروں میں ڈاکٹر فریاد آزر ایک اہم نام ہے۔ وہ خالصتاً غزل کے شاعر ہیں۔ عصری شعور کی حامل ان کی غزلیں سماجی ،  معاشی اور نفسیاتی رویوں کے ہر رخ کی ترجمانی کے ساتھ بالخصوص امت مسلمہ کی حالتِ زار کا المناک پہلو پیش کرتی ہیں۔ ان غزلوں سے ان کا فکری  اخلاص مترشح ہے جن میں سماجی شعور اور اسلامی فکر کی ایسی فضا بندی ہوئی ہے جس سے ان کی غزل گوئی کے وسیع تر امکانات روشن نظر آتے ہیں۔

ان کا حقیقی نام سید فریاد علی ہے اور ادبی دنیا میں ڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے معروف ہیں۔ بنارس میں ان کی ولادت ۱۰جولائی۱۹۵۶؁کو ہوئی۔ انٹر میڈئٹ وہیں سے کیا اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آ گئے۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے ،  جواہر لا ل نہر ویونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ ان  ماس کمیونیکیشن میڈیا، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سردست دہلی میں قیام ہے جہاں وہ درس و تدریس کے معزز پیشہ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کا اچھا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ماہنامہ انٹر نیشنل اردو میڈیا کی ادارت سے تین سال تک وابستہ رہے۔ فی الحال ماہنامہ "عاکف کی محفل "کے مدیر اعزازی ہیں اور ادب ڈاٹ کوم کے موڈریٹر کی حیثیت سے  اپنا ایک ادبی  ویب سائٹ بھی چلا رہے ہیں جس کے ہزاروں ممبر ساری دنیا میں موجود ہیں۔

انھیں یوں تو بچپن سے شاعری کا شوق رہا ہے مگر اس کا باقاعدہ آغاز۱۹۷۸ء میں کیا۔ پہلے ساجن پردیسی مرحوم سے اصلاحیں لیں اور آخر میں پروفیسرعنوان چشتی مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ اب ماشاء اللہ وہ اس مقام پر ہیں کہ دوسرے ان سے کسب فیض کر رہے ہیں۔ یو ں تو طالب علمی کے دور سے ہی ان کی تخلیقات شاعر، شب خون،  آہنگ،  سب رنگ، ادب لطیف، افکار( پاکستان )جیسے مقتدر رسائل کی زینت بننے لگی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ بیشتر رسائل میں نظر آتے ہیں اور اپنی ایک منفرد شناخت بھی بنا ئی ہے تصنیفات میں بچوں کا مشاعرہ کے  علاوہ دو(غزلیہ )شعری مجموعے کے خزاں میرا موسم اور قسطو ں میں گزرتی زندگی منظر عام پر آ کر خراج تحسین وصول کر چکے ہیں اور ابھی ابھی  ان کا تیسرا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں منظرِ عام پر آیا  ہے جو دراصل پہلے دو مجموعوں کا ایک جامع انتخاب ہے۔ اس انتخابی مجموعہ کو پیش کرنے کا عمل اس نقطۂ نظر سے لائق تحسین ہے کہ ان کی نمائندہ تخلیقات یکجا نظر آئیں گی۔ جو لوگ تحقیقی امور جڑے ہیں وہ اگر آزرؔ صاحب پر کچھ لکھنا چاہیں تو اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ آزر صاحب کی شاعری کے متعلق لب کشائی سے پہلے میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا یہ قول پیش کرنا چاہوں گا۔ ” شاعر وہی اچھا ہے جو اپنی مہر بند شخصیت میں روزن بنا کر خود کو لامتناہیت کے لمس سے آشنا کرے "۔  ڈاکٹر فریاد آزر کی غزلوں میں واحد متکلم اگر چہ اپنی ہی ذات کے خول میں نظر بند آتا ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو وہ اپنی ذات کے اندر محدود نہ رہ کر ہر دور کے معاشرے کا ایک ایسانمائندہ فرد ہے جس کی نظیر مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے ریگستانوں میں کھڑے اس شخص سے دی جا سکتی ہے  جو ہمدردی اور خلوص کی چادر سے محروم ہے۔ دونوں مجموعوں کے بیشتر اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی وسطی زندگی جہد مسلسل میں گزری ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ  کے صحرا  میں مدتوں آبلہ پائی کے کرب سے دوچار  رہے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ ان کے کچھ اشعار میرے اس گمان کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ مثلاً

وہ لے رہا تھا مرا  امتحان قسطوں میں

خبر نہ تھی نکالے گا جان  قسطوں میں

٭

تمام  عمر بھٹکتا  رہا  میں  خانہ  بدوش

خرید بھی نہ سکا اک مکان  قسطوں میں

٭

تمام قرض ادا  کر کے  ساہوکاروں کا

بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں

٭

جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرایہ دار ہو کر رہ گئے

٭

صبح  ہوتی ہے تو دفتر میں بدل  جاتا ہے

یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے

٭

سب میں کرایہ داروں کے پائے گئے نشاں

جسموں کے شہر  میں کوئی  خالی مکاں نہ تھا

ان اشعار سے ظاہر ہے کہ آزر صاحب کی زندگی میں جو کڑے لمحے آئے ہیں ان میں بے گھری کا کرب سب سے نمایاں ہے۔ بنارس سے دہلی ہجرت اور پھر دہلی میں مستقل قیام کے دوران ان کی ذاتی زندگی میں  اچانک قیامتِ صغرا کی زبر دست  ہنگامہ آرائی بھی ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔ شخصیت اور شاعری کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے یا اس  کے اپنے جو مشاہدات و تجربات ہوتے ہیں انہیں اس طرح شعری لباس عطا کرتا ہے کہ فردیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے۔ فریاد آزر چونکہ ایک حساس انسان ہیں اس لئے عصرِ حاضر کی قہر سامانیاں ان پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی شاعری انسانیت کو درپیش مسائل سے مکالمہ آرائی کرتی نظر آتی ہے، آج کی صارفیت اور عالم گیریت کی اندھی دوڑ میں جبکہ اخلاقی قدریں اور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں۔ انسانیت کا قتلِ عام جاری ہے ایسے میں آزر صاحب نے اپنی شاعری سے نوک نشتر کا کام لینے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جنمیں عہدِ حاضر کا منظر نامہ قاری کو لمحۂ فکریہ عطا کرتا ہے۔

گھٹ کے  مرگیا  مرے  اندر  کا  آدمی

پھر آکے بس  گیا   کوئی  پتھر  کا  آدمی

٭

اب اس کی روح میں شیطان بس گیا آزرؔ

وہ جسم گاؤں  سے  انسان  لے کے  آیا تھا

٭

اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا

سچائی  افلاس  لکھے گی  اب  کے  برس بھی

٭

آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوں میں استواری نہیں رہی۔ اگر دنیا سکڑتی جا رہی ہے تو فرد سے فرد کی دوری بھی بڑھنے لگی ہے۔ اس فکری بعد اور ذہنی فاصلہ نے انسان کو اپنی ذات کے خول میں بند کر دیا ہے۔ تنہا ئی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ چنانچہ شناسالوگ بھی نظر پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کہ منھ اور کان  رہتے ہوئے بھی انسان گونگا اور بہرا لگتا ہے اور تو اور شہر ایک ایسا طلسم خانہ بن چکا ہے جس کی حدود میں قدم رکھتے ہی لوگ پتھر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔ ۔ ۔

وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں

جانتے ہیں سب مجھے پہچانتا کوئی نہیں

٭

پہلے تو اس نے  شہر کو  بہرا سمجھ  لیا

پھر یوں ہوا کہ خود کو  ہی گونگا سمجھ لیا

٭

اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں

جو بھی جا تا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے

اب ذرا دنیا کی تیز رفتاری اور خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ جدید دور کہ یہ کرشمے بھی دیکھیں کہ کمپیوٹر نے اب بچوں کی کتابوں کے بستہ کی شکل لے لی ہے۔ اوزون کے سوراخ سے در آنے والی بنفشی شعاعوں کا حملہ بھی ہونے لگا ہے جس سے عمل تنفس کا متاثر ہونا یقینی ہے اور لمحوں میں صدیوں کا فاصلہ طہ کرنا کوئی محیرالعقول بات نہیں رہی۔

ننھا کمپیوٹر، قلم،  کاپی،  کتابوں  کی جگہ

اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بستے جدید

٭

ورنہ ہم سانس لینے  کو ترس جائیں گے

سطح اوزون کو فضلات سے آزادی دے

٭

چلے  تو فاصلہ  طے  ہو نہ  پایا  لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

٭

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے جس جدید معاشرے کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوشگوار پہلو  ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے ان کی اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ عہدِ حاضر میں اسلا م مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب آج عالم اسلام جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ ہر ذی فہم کیلئے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ ایسے میں ایک قلم کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے تلوار کا کام لے اور اسلام مخالف سازشوں کا پردہ چاک کرے۔ آزر صاحب نے اس فریضہ کو بحسنِ خوبی نبھایا ہے۔ اس ذیل میں انہوں نے انگنت  شعر کہے ہیں۔ کہیں تلمیح سے کام لیا ہے تو کہیں ایمائیت سے اور کہیں کہیں برملا اظہار بھی ہے۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اشعار کا حوالہ پیش ہے۔

دہر میں زندہ ابھی  نمرود  کا ہمزاد ہے

امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی اولاد ہے

٭

کربلا ہو کہ ’فلسطین‘   کہ  ہو   بوسینیا

درد صدیوں سے مرا نام و نسب  جانتا ہے

 

سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا

محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید

٭

صحرا سے العطش  کی صدا آ رہی ہے پھر

تاریخ اپنے آپ  کو  دہرا رہی ہے پھر

٭

آزر صاحب کی شاعری سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مروجہ یکسائی فکر کی عام روش سے ہٹ کر انہوں نے جو اشعار کہے ہیں ان میں مواد اور ہئیت کے درمیان فاصلہ کو انہوں نے جس کامیابی سے طے کیا ہے اس سے ان کی فنی اور فکری بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی وہ راہِ اعتدال سے متجاوز نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل تراکیب اور دور از کار استعارات سے عمداً گریزسے ابلاغ وترسیل کامسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وہ محاسن ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری قاری کے انجذاب توجہ کا باعث بنتی ہے۔ ان کے ہاں کچھ اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیں جنہیں ان کا شناس نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً ان کا یہ اولین شعر دیکھیں۔

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

٭

بیشتر اشعار میں ان کی ایسی سوچ بھی کار فرما ہے جس سے ان کے فکری ارتفاع اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ خصوصاً لفظوں کو انہوں نے جو کثیر الجہتی عطا کی ہے اس کے سبب ان کی شاعرانہ آواز اپنے ہم عصروں میں دور سے پہچانی جا سکتی ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار دیکھیں۔

ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر

وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑ نے کی زندگی

٭

چلے  تو فاصلہ طے  ہو نہ  پایا  لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

٭

بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر

و ہ شخص جی  گیا مرے  حصے کی زندگی

٭

سب کی آنکھیں رکھی تھیں گروی میرے دشمن کے پاس

کون  میرے  گھر  کی  بربادی  کا  منظر  دیکھتا

 

اس میں شک نہیں کہ آزر صاحب حرف کے مزاج داں ہیں اور ان کا  کلام صلابتِ فکری اور شعری بصیرت کا نمونہ اس کے ساتھ ساتھ جدید حسیت، سماجی شعور اور اسلامی افکار سے وابستگی کے سبب ان غزلوں میں جو دلکش فضا بندی ہوئی ہے وہ ان کی شعری جہات کے وسیع تر امکانات کا جواز فراہم کرتی ہے۔  میں سمجھتا ہوں کے گلوبل گاؤ ں کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر فریاد آزؔر نے وقت کے محضر نامہ پر اپنے فکرو فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں ان کی شناخت  لکیروں کے ازدحام میں بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئی غزل کے معتبر فنکار: ڈاکٹر فریاد آزرؔ۔۔۔ رفیق شاہینؔ

 

 

عمر کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ڈاکٹر فریاد آزرؔ ہندوستان کی راجدھانی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ Ph. D. کے اعزاز سے سرفراز جدید لب و لہجے اور نئی آواز کے معتبرو و منفرد شاعر ہیں۔ ان کے تازہ ترین غزلوں کے مجموعے "قسطوں میں گزرتی زندگی” سے بھی پہلے ان کے دو شعری مجموعے "خزاں میرا موسم”(۱۹۹۴ء) اور "بچوں کا مشاعرہ” (۱۹۹۸ء) منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر ارباب دانش اور شائقین ادب سے بھر پور خراج تحسین وصول کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب پچھلی کئی دہائیوں سے بڑی لگن تندہی اور مستعدی کے ساتھ غزل میں مشق و ممارست کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب ایک قادر الکلام ا  اور پختہ گو شاعر کہلانے کا بجنا  طور پر استحقاق رکھتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات ملکی اور غیر ملکی صف اول کے ممتاز و معیاری رسائل و جرائد میں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آفاق ادب میں آپ کا نام نامی خورشید عالم تاب کی طرح تاباں ہے۔ ادب میں آپ کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے اور آپ کا نام صف اول کے ممتاز و معتبر شعرا ء کی فہرست میں شامل ہے۔

ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ہر طرح کی ادبی تحریکوں ،  منصوبوں ،  رجحانوں اور مخصوص ادبی نوعیت کی نظریاتی جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد رکھا ہے اور کسی بھی ادبی گروہ سے انہیں دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔

سادگی و سلا ست،  ندرت و انفرادیت،  عصری حسیت،  سماجی معنویت،  وحدت و صداقت ،  ذاتیت و آفاقیت،  خارجیت و داخلیت ،  فصاحت و بلاغت ،  لطافت و نزاکت ، جمالیت اور شعریت ان کی نئی غزل اور شاعری کا خلاصہ ہیں۔ ان کا فکری شعور ان کی اپنی آگہی کے ہنڈولے میں پروان چڑھا ہے۔ اپنے اطراف و اکناف اور معاشرے و ماحول پروہ گہری نگاہ رکھتے ہیں اور خارجی محرکات ہی ان کی داخلیت کی گہری جھیل میں شناوری کے عمل سے گزر کر شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان کی شاعری ذات سے لے کر کائنات تک کا سفر طے کرتی ہے۔ انہوں نے روایت کے طلسمنا ت اور رومانیت کی خیالی جنتوں اور حسن و عشق کے فرضی جہانوں اور پرستانوں میں پناہ لینے کے بجائے خود کو عصرِ حاضر کے سنگین مسئلوں اور تلخ سچائیوں کے حوالے کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کا چہرہ ہمیں حقیقی شکل میں نظر آتا ہے    ؎

جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے

اسی  زمین  سے  ہم  لخت لخت اگنے لگے

٭

پھر  انتخاب  کا  موسم  گزر  گیا شاید

پھر اس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اگنے لگے

٭

ضد  کرتا نہیں سستے کھلونوں کے لئے بھی

یہ  بچہ  میرا  مجھ سے بھی  بوڑھا نظر آیا

٭

حمام  میں  تو  خیر سبھی ہوتے ہیں ننگے

حمام  سے  باہر  بھی  وہ ننگا  نظر آیا

٭

دوسرے سیاروں پہ چلنے کی تیاری  کرو

یہ زمیں کرنے کو ہے ساری سبیلیں مسترد

٭

خلاؤں    میں  بھی  شر پھیلا رہا ہے

پرندہ  کتنا   پر   پھیلا      رہا  ہے

٭

فریاد آزرؔ کی شاعری میں ان کی اپنی آگہی نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ آفتابِ آگہی ان کی دنیائے شعور و ادراک اور جہان فکرو خیال کے ذرے ذرے کو اپنے نور کی زرق برق زریں شعاعوں سے تاباں و درخشاں کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے سحاب خامہ سے اشعار کے دمکتے موتی برسنے لگتے ہیں    ؎

مجھے  بھی  کرنا    پڑا  تھا  بسر جہنم میں

مرا  مکان  تھا جنت میں   گھر جہنم میں

٭

سانس بھی لوں اور شہر ہوا  سے بچنا چاہوں

دنیا  میں  رہ  کر دنیا   سے  بچنا چاہوں

٭

طرز  عمل  ایسا بھی نہیں جوزندہ  رکھے

پھر بھی میں انجامِ فنا   سے   بچنا چاہوں

٭

کن کن صعوبتوں     سے گزرنا پڑ ا مجھے

اس  زندگی  میں بار ہا       مرنا پڑا مجھے

جذبے میں آ کے میں نے بھی سچ بول تو دیا

پھر  اپنے  ہی  بیاں  سے مکرنا  پڑا  مجھے

٭

گھٹ گھٹ کے  مر گیا مرے اندر کا آدمی

پھر  مجھ  میں  آبسا  کوئی   پتھر کا آدمی

٭

ڈاکٹر صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نئی نئی شگفتہ زمینیں تلاش کر کے ان میں اپنے افکار و خیال اپنے نقشے کے مطابق سجا ا  اور سنوار کر ڈھالتے ہیں۔

"اندر کا آدمی”  "بسر جہنم میں ” اور” سر اتار دیتا ہے ” جیسی زمینوں والی ان کی غزلیں        اس کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب بخوبی واقف ہیں کہ آج سیاست ہو یا معاشرت ،  مذہب ہو یا ادب آج زندگی سے وابستہ ہر شعبہ سخت بے راہ روی اور افرا تفری کا شکار ہے۔ ذات پات، عدم انصاف، مذہبی و ملی عصبیت و منافرت، اہل سیاست کی ریشہ دوانیاں، مقتدر ہستیوں کی متعصبانہ روش، رہنماؤں کی خود غرضی و خود پرستی اور بے ضمیری ،  قانون کی خلاف ورزی، حقوق کی پائمالی ،  قاتل صفت جماعتوں کی وحشت و بربریت ،  رشوت خوری،  رشتوں سے لاتعلقی،  تہذیب و تمدن سے بیزاری ،  اعلیٰ قدروں کی پسپائی اور جائزہ و ناجائز طور پر دولت کمانے کی ہوس نے اس ارضی جنت کو ایک شعلہ فشاں جہنم میں تبدیل کر دیا ہے جہاں نیک دل سیدھے سچے ایماندار اور شریف انسانوں کے لئے جینا حرام ہو کر رہ گیا ہے۔ خود پرستانہ اور خود غرضانہ نئے نئے معیارات نے معاشرے کو سنگین مسائل کا ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں طاقتور اور دولتمند انسان نما درندے دندناتے پھر رہے ہیں اور غریب و شریف انسان اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سہمے اور سکڑے بیٹھے تبدیلی وقت کے مشاہدے میں مصروف ہیں۔ زندگی کو کہیں بھی جائے اماں نصیب نہیں اور موت سے بھی بدتر زندگی بڑی بے یقینی کے عالم میں بسر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ایسے ہی ناموافق حالات اور معاشرے کی کسمپرسی اور زبوں حالی کی اپنی شاعری میں بھر پور عکاسی کی ہے اور خوب کی ہے    ؎

 

کیوں نہیں یکبارگی کی موت  مرتی زندگی

اے مری جانکاہ قسطوں میں گزرتی زندگی

٭

گرو  کی  یاد انگوٹھے سے  آنے لگتی ہے

میں جب بھی ہاتھوں میں تیرو کمان لیتا ہوں

٭

آزما  کر عالمِ  ابلیس کے  حربے  جدید

ہو گئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید

٭

دفن کر دیتا تھا  پیدا ہوتے  ہی  عہد  قدیم

رحمِ  ہی میں مار دیتا   ہے  اسے  دور جدید

٭

اس  قبیلے  کے  لہو  میں  ذائقہ  اتنا لگا

جس کو بھی دیکھا اسی کے  خون کا  پیاسا لگا

٭

مدتیں گزریں مجھے احباب کو دیکھے ہوئے

مسئلوں نے مجھ  کو ایسی قید تنہائی کی دی

٭

پھر وہی منظر نظر کے سامنے  کیوں آ گیا

کربلا ،  خوں ریزی،  کوفہ، تشنگی،  صحرا ،  فرات

٭

پھربیعتِ یزید سے  منکر ہوئے حسین

اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر

٭

دہر میں  زندہ ابھی   نمرود  کا ہمزاد ہ ے

امتحاں میں اب بھی   ابراہیم کی اولاد ہے

٭

سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے

ہے  اس  کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا

٭

کم زور  شہ زورسے ،  معصوم گنہگار سے اور مظلوم ظالم سے ہمیشہ ہی تباہ و تاراج ہوتا رہا ہے۔ جھوٹ اقتدار کی مسند پر متمکن ہو کر وقت کا سب سے بڑا سچ بن جاتا ہے۔ طاقتور اپنے کسی بھی عمل پر جواب دہی سے مستثنیٰ ہے جبکہ کمزور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور کر دئیے جاتے ہیں۔ اس ظلم اور نا  انصافی پر نہ تو زمین کی چھاتی شق ہوتی ہے اور نہ ہی آسمان کا کلیجہ پھٹتا ہے البتہ ایک کونے میں بیٹھی ہو ئی  لاچار انسانیت  خون کے آنسو بہاتی رہتی ہے۔

یہاں تاریخ کہلاتی  ہے  فرسودہ   حکایت  بھی

اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہیں حقیقت بھی

٭

مر گئے بوئے ہوئے زہر سے  اتنے معصوم

اب اترتے نہیں کھیتوں میں پرندے معصوم

٭

آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت

بے  گناہی  کی سزا پاتے ہیں پودے معصوم

٭

اب  اترتے  ہیں  کسی  اور  ہی سیارے پر

اتنے خائف ہوئے دھرتی سے پرندے معصوم

٭

جو سیاست نے اٹھا دی ہے دلوں کی درمیاں

جانے کب ہوں گی وہ زہریلی فصیلیں مسترد

٭

وہ امن و آ شتی  کا نام  لے کر

جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے

٭

وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا

قبول  اس  کو  مجھے  بار  بار کرنا پڑا

٭

ذلیل  خود  کو  اسے با وقار کرنا پڑا

یہ  اہتمام   مجھے     بار  بار کرنا پڑا

مذکورہ مطلع بے پناہ مطلع ہے جو ہزاروں موقعوں پر حوالہ بن کر موقع محل کی نزاکت کا ترجمان ثابت ہو گا۔ ایسے شعر جو شاعر کے تجربے میں قاری کو شامل کر کے اور اس کی تائید حاصل کر کے اس سے مہر تصدیق ثبت کرا لیں مشکل سے ہی عالم وجود میں آتے ہیں۔

ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی زبان سادہ لہجہ تیکھا اور اسلوب نگارش ندرت و انفرادیت اور گہرے تاثر کا حامل ہے۔ ان کی شاعری میں احتجاج طنز اور نشتریت کے حربے بھی  آزمائے گئے ہیں لیکن دبی آواز اور لہجے کی نرمی و شائستگی کے سبب یہ طبیعت پر بارِ گراں ثابت نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر صاحب خیال کے اظہار میں تشبیہات و استعارات ،  رموز و علامات اور اشاریت و ایمائیت سے مدد لیتے ہیں مگر اس بات کا خیال خاص طور پر رکھتے ہیں کہ

ان کی شاعری  میں تجریدیت ،  تکثیریت، مجہولیت ،  ابہامیت اور مہملیت نہ در آئے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کھڑا نہیں کرتی۔ ان کا شعر سلاست و فصاحت اور بلاغت سے آراستہ ہونے کے سبب زبان پر آتے ہی اپنی شرح آپ بن جاتا ہے اور ان کی مقصد سے بھرپور بامعنی شاعری کم پڑھے لکھے قارئین کی سمجھ میں بھی بآسانی آ جاتی ہے۔

نئے لب و لہجے میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں لیکن فریاد آزرؔ کی بات ہی نرالی ہے۔ ۔ ان کی آواز کے سر میں جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پرتو ہے وہ کسی بھی شاعری میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔

ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے مختلف النوع مضامین اور موضوعات سے اپنے شعری گلدستے کو سجایا ہے۔ اس مختصر مضمون میں ان سبھی شعری جہات کا محاسبہ اور احاطہ ممکنات کی حد سے باہر ہے لہٰذا راقم الحروف  ان کے اس مقطع کے ساتھ ہی درِ مضمون بند کرتا ہے   ؎

آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا

صدیوں پہ ہے  محیط گھڑی بھر کا آدمی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سبز ساعتوں کا شاعر: فریاد آزرؔ ۔۔۔ ڈاکٹر ممتاز الحق

 

سنہ  ۸۰ کے آس پاس شعراء کی جو نئی نسل سامنے آئی وہ کئی لحاظ سے اپنے پیش رو شعراء سے مختلف تھی۔ تازہ دم، نئی فکر اور نئے اسالیب کی موجد، تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند ! ان کا کمٹمنٹ نہ ترقی پسندی سے تھا نہ جدیدیت سے۔ ایک آزاد تخلیقی فضا کا احساس دلانے والے ان شعراء میں ایک اہم نام تھا فریاد آزر  !  فریاد آزرؔ  ۱۹۵۶ میں بنارس میں پیدا ہوئے، انٹر میڈئیٹ کے بعد اعلا تعلیم کی غرض سے دہلی تشریف لائے۔ جامعہ ملیہ میں ڈاکٹر عنوان چشتی کی شاگردی میں  ۷۷۔ ۱۹۷۶ میں غزلیہ شاعری کا آغاز کیا۔

۱۹۹۴ میں فریاد آزرؔ کا پہلا شعری مجموعہ  خزاں میرا موسم منظرِ عام پر  آیا اور پھر ایک طویل وقفہ کے بعدسنہ  ۲۰۰۵ میں دوسرا شعری مجموعہ  قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا۔ اس طویل وقفہ کی وجہ ایسے مسلسل حادثات تھے جنھوں نے آزرؔ کے حوصلے پست کر دئے اور ان کی ذاتی زندگی بھی ایک مسلسل بے سکونی، ایک کرب ناک اضطراب اور ایک خاموش قیامتِ صغرا بن کر رہ گئی۔ دونوں مجموعوں کا  انتخاب کچھ دن گلوبل گاؤں میں ۲۰۱۰ شائع ہوا۔

خزاں میرا موسم اور  قسطوں میں گزرتی زندگی  دونوں مجموعوں کے  نام  شاعر کے فطری درد و غم، اضطراب اور محرومی کے غماز ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی حساس  فن کار ان سے بچ نہیں سکتا۔ زندگی کا عرفان انھیں جذبات و احساسات  کا مرہونِ منت ہے۔ آزرؔ کے یہاں ذاتی غموں اور ناکامیوں نے اس رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔

پڑا تھا لکھنا مجھے  خود ہی مرثیہ اپنا

کہ  اپنے بعد بھلا اور کون تھا اپنا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر

اور سر  پر  بارِ  ثقفِ   آسماں  جلتا   ہوا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یاس، محرومی، تذبذب، کرب، خوش فہمی، انا

اتنے ساماں تھے، مرا تنہا مکاں  چھوٹا  لگا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کربلا  ہو  کہ  فلسطین  کہ  ہو بوسنیا

درد صدیوں سے مرا نام و نصب جانتا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کربلا، فلسطین اور بوسنیا کی علامتیں بتاتی ہیں کہ شاعر کا غم محدود نوعیت کا نہیں ہے، یہ اسے ورثہ میں ملا ہے اور اس غم میں پوری ایک نسل اس کی شریک ہے۔ اسے صرف اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ حق کا طرفدار ہے اور اس کی وابستگی دینِ محمدی سے ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ آزرؔ کی پسندیدہ علامتیں قرآن، رسول، اذان، نماز، سورۂ رحمان، سورۂ یاسین وغیرہ ہیں۔ سبز رنگ ان کے یہاں خدا شناسی، خدا ترسی، پاکیزگی، اخوت و محبت اور حق گوئی و بے باکی کا استعارہ ہے۔ سبز رنگ کے مختلف شیڈس آزرؔ کے تخلیقی تجربات  کی رنگا رنگی کا وافر ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان پرکشش تراکیب پر نظر ڈالیں : سبز صدی، سبز لمحات، سبز ہوا، سبز لمس، سبز سایے، سبز موسم، سبز رخت، سبز ہاتھ اور سبز گھاس! اور جب یہ ترکیبیں جزوِ شعر بنتی ہیں تو یہی سبز رنگ کئی دوسرے رنگوں کے پیکر تخلیق کرتا ہے اور شعر کی بلاغت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نئی رتوں نے ہوا کی  رو سے  نہ جانے کیا ساز باز کر لی

کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس  نے  تو جڑ سے  کاٹ ہی دی تھی روایتاً

یہ سبز گھاس ہے  کہ  اگی  آ ر  ہی  ہے  پھر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مغربی طاقتیں مشرق اور خاص طور پر  اسلام کو ہمیشہ  زیر کرنے اور اور اسے بدنام کرنے کی فکر میں رہی ہیں، ان کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں مگر مشرقی ممالک کبھی گلوبلائزیشن کے نام پر، کبھی تیل کی سیاست اور کبھی  ایٹمی توانائی  کے حربوں سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آزر ؔ کی شاعری اس صورتِ حال  کے خلاف شدید احتجاج درج کرتی ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں

کسی  بہانے  و ہ  مجھ  کو  دبانا  چاہتا  ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سر پہ  آ کر  رک  گیا  ہے  آفتابِ  مغربی

پی نہ جائے وہ کہیں اب سارے کا سارا فرات

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس قبیلے کے  لہو میں  ذائقہ  اتنا  لگا

جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آزرؔ کی شاعری میں اقلیتی نفسیات کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور بعض مواقع پر انھیں دوئم درجہ کا شہری قرار دیا ہے۔ ہندستان میں بار بار فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا  اس امتیاز کی بدترین شکل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو مکاں اپنے بزرگوں نے  بنایا  تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے

میں سر اٹھا ہی نہ پاؤں زمانہ چاہتا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آزر ؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ ساری دنیا میں ملتِ اسلامیہ خود انتشار کا شکار ہے۔ اس کی ناکامی کا خاص سبب یہی ہے۔ اس رویہ کے خلاف آزرؔ کے یہاں شدید برہمی ملتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جدا جدا رگِ ظالم پہ وار  کرتے  ہیں

ستم زدہ کبھی وحدت میں کیوں نہیں آتے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

متحد ہو  کر نہ  سورج  کی  چمکے  تو پھر

رفتہ رفتہ جگنوؤں کے پر کتر جائے گی رات

حالانکہ آزرؔ کی شاعری کا مرکزی خیال قومی اور بین اقوامی مظالم کے خلاف شدید احتجاج ہے لیکن  اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس عہد کے دیگر مسائل کی طرف  ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ سماجی، سائنسی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، مذہبی، ادبی  گویا کہ ہر طرح کے مسائل  پر وہ بہت باریکی سے نگاہ ڈالتے ہیں۔ مندرجہ ذیل  قبیل کے بے شمار اشعار آزرؔ کے کلام میں  کثرت کے ساتھ ملتے ہیں۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت  لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دفن  کر  دیتا تھا  پیدا  ہوتے  عہدِ قدیم

رحم  ہی  میں  مار دیتا ہے  اسے  دورِ جدید

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر  نہیں خوف کوئی دونوں  بڑے دیووں سے

سبز  گلفاموں کو  گر تھوڑی  سیاست  آ جائے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے

سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گرو کی  یا د انگوٹھے سے آنے  لگتی ہے

میں جب بھی ہاتھ میں تیر و کمان لیتا ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زہر پینا ہی  پڑے  گا  ہمیں اپنا اپنا

اب کوئی  دوسرا شنکر  نہیں آنے والا

اظہار کی سطح پر آزرؔ نے  نئی شعری  روایات  سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ غیر آرائشی زبان، سامنے کی مگر تازہ علامتوں کا استعمال، فارسی اضافتوں سے کم سے کم کام لینے کا ہنر، صنعتِ تضاد کے ذریعہ بیان کو پر تاثیر بنانے کا ملکہ، جذبہ و فکر کی ہم آہنگی، قافیہ و ردیف کی بنیاد پر شعر کو استوار کرنے میں مہارت  ایسی خصوصیات ہیں جن سے آزرؔ کے شعری مزاج اور انفرادیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ ترکیب سازی میں بھی آزرؔ کے یہاں جدت نمایاں ہے۔ جسم کی کشتی، خواہشوں کا بحرِ بیکراں، سکوت موسم مکان، نیلا سراپا، تاریخی مسجدوں کا  سکوت، برہنہ طرزِ بیان، سیاہ لفظوں بھری داستان، مٹی کا بادشاہ، دھوئیں کا لشکر، کربِ فلسطین وغیرہ۔ اس طرح ان تراکیب کی مدد سے وہ نئی شعری زبان کونئے جہات سے آشنا کرنے میں بھی بڑی جدت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ مثلاً غارِ حرا کے لہجے میں پناہ دینا، ابرہہ کے لہجہ میں عذاب کا آنا، خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے ہونا، قربتوں کی زد میں آنا، قسطوں میں جوان ہونا، قسطوں میں جینا مرنا وغیرہ۔ آزرؔ کی ایک اور بڑی خصوصیت  یہ ہے ان کا شعری مواد کبھی گھسا پٹا نہیں ہوتا۔ ا س کی وجہ یہ کہ آزرؔ نے زندگی  اور دنیا کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، کائنات کے ذرہ ذرہ کو بغور محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ تخیل کی پرواز بھی آزرؔ کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے

کہ دنیائے غزل میں فریاد آزر ؔکا نام مستقبل قریب میں سورج کی طرح  نمایاں ہو گا کیوں کہ آزرؔ نے غزل میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

سبز آدمی کی تلاش اور آزر ؔکا جہانِ غزل ۔۔۔ پروفیسر مولا بخش

 

 

تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں، پھر گود میں، پھر سفر در سفر

دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں

 

پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آ گیا

کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات

 

جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے

اسی زمیں سے ہم لخت لخت اگنے لگے

 

یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود

کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر

مذکورہ بالا اشعار فریاد آزر کے شعری مجموعے ’خزاں میرا موسم‘اور’قسطوں میں گزرتی زندگی سے ‘ماخوذ ہیں جو آج دنیا میں ہر سو پھیلی ایک قوم مسلمان کی ازل سے اب تک کی سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی تشخص کی کہانی کہہ رہے ہیں۔ کربلا کی خوں ریزی، شہر کوفہ کی مکاری اور ان پر کڑی نگاہوں کے پہرے انہیں اکثر فرات اور اپنے پیاس کی شدت سے یاد دلاتے رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد کے شعرا اور بالخصوص ۸۰کے بعد کے اردو شعرا کے یہاں اقلیتی مخاطبے کا وفوراسی پس منظر میں سمجھاجا سکتا ہے۔

ہندوستان میں آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر جانے سے انکاری مسلمانوں کو یہاں کے ایک طبقہ نے اسی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا، جس نگاہ سے وہ پاکستانی مسلمانوں کو دیکھا کرتا ہے۔ لہٰذا یہاں کے مسلمانوں کو خود کے اقلیت میں ہونے کا احساس شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی نیز اقتصادی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی طبقے میں بھی ا حساس کمتری پیدا ہو گئی اور اس طبقے کے فکشن اور شاعری حتیٰ کہ غزل میں بھی اقلیت و اکثریت جیسے جوڑ ے دار ضدین میں تبدیل ہو گئے۔ ادب کی ایک بڑی تحریک ترقی پسندی اور مارکسی آئیڈیولوجی کی ہزار دہائیاں دینے کے بعد بھی ہندوستان میں غیر مذہبی ذات پات سے عاری لبرل معاشرہ قائم نہ ہوسکا اور تیزی سے ہندوستانی سیاست نے علیحدگی پسندی، ذات پات کی سیاست اور مذہبی جنون کو فروغ دیا۔ سیاست کے لیے اس ملک کی بڑی اقلیت مسلمان ووٹ بینک سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہو سکے اور بدلتے وقت کے ساتھ مسلمانوں میں احساس کمتری کے ساتھ احساس محرومی دن دونی رات چوگنی بڑھتی چلی گئی۔ بقول آزر:

کچھ بھی کہہ دیتا ہے وہ گزرے دنوں کے نام پر

آج ماضی کا بھی سینہ چاک ہونا چاہئے

 

مدتوں سے مرا ہوا ہوں میں

مجھ کو پھر ایک بار زندہ کر

ایسا لگتا ہے کہ فریاد آزر نے اپنی شاعری کو اقلیت کتھا میں تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے شعر میں ’وہ‘ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اکثریتی جبر ہے۔ اقلیت کے اندر پل رہے غم و غصہ اور خوف کی نفسیات اس شعر میں ماضی کا سینہ چاک کرنے جیسے فقرے سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے۔ ماضی اس شعر میں کسی خاص فرقے کے لیے رقیب کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک خاص قوم کے پیچھے مصائب کے بھوت پڑ گئے ہیں۔ اس کی وجہ آزر کے نزدیک یہ ہے کہ:

ہمارا حال ماضی کا پتہ دیتا نہیں یکسر

ہماری عظمت رفتہ پہ کس کو اعتبار آئے

جدیدیت کے رجحان کے تحت تنہائی اور ذات کے کرب نیز زندگی کی بے معنویت جیسے منفی قدریں شعر و ادب میں 1960تا1975قارئین کو جس حد تک بھی اپنے درد کا درماں معلوم ہو ئی اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ وجودیت کے فلسفے پر گہری نگاہ رکھتے تھے (جیسا کہ مغرب کے قارئین نے اسے اپنے مسائل کی رو سے اسے اپنے ذہن کا حصہ بنایا تھا)اس نوع کے ادب سے ان کی تھوڑی سی دلچسپی ہندوستانی سیاست کے زیر اثر(اس طبقے میں جو اردو جانتا تھا)ان میں سیاسی طور پر یتیم قوم ہونے کے شدید احساس  نے پیدا کی تھی۔ گویا جدیدیت اقلیتی احساس کمتری جیسے مرض کا علاج نہیں تھی بلکہ یہ فقط ان کے زخموں کو سہلانے کا کام کر رہی تھی۔ بعد کے ادوار میں یعنی۸۰کے بعد اردو شعر و ادب میں ہندوستانی سیاست کی پیدا کردہ اقلیتی و اکثریتی مخاطبے کے اظہار نے شعر و ادب میں مرکزیت حاصل کر لی۔ ذات پات کی سیاست، علیحدگی پسندی کی تحریکوں کے شور، عام آدمی کی بے روزگاری، اپنے عقیدے اور اپنی ثقافت کے تحفظ کے جذبے کا فروغ اور ان جیسے اور بھی مسائل جیسے ماحولیاتی آلودگی، زبان کی سیاست وغیرہ جیسے مسائل۸۰کے بعد کے شعر و ادب کی فکر مندی قرار پائے۔ اردو غزل نے بھی اپنی شعریات کی شرطوں پر نئے مضامین اور سابقہ جملہ غزلیہ اسالیب کو اپنائے ہوئے غزل کی زبان کو حتی الامکان اپنے عہد کے روزمرہ کے قریب کیا۔ اس عہد کی غزل کے اختصاص کو متعین کرنے میں کچھ جدیدیت کے شعرا کے ساتھ ساتھ جن شعرا نے اس دور کے بعد مابعد جدید غزل کی منفرد آواز کو وقار بخشا ان میں فرحت احساس، منظور ہاشمی، اسعد بدایونی، عنبر بہرائچی، منور رانا، انیس انصاری، اظہر عنایتی، عبد الاحد ساز، شارق عدیل، مہتاب حیدر نقوی، راشد انور راشد، شین کاف نظام، کرشن کمار طور، سلیم انصاری، شاہد کلیم، پروین کمار اشک، عشرت ظفر، عین تابش، جمال اویسی، خالد محمود، شہپر رسول، عذرا پروین، طارق نعیم، راشد طراز، ملک زادہ جاوید، شہباز ندیم ضیائی، عالم خورشید، خال عبادی، کوثر مظہری، مشتاق صدف، اقبال اشہر، خورشید اکبر، رئیس الدین رئیس، رسول ساقی، ابراہیم اشک اور بھی کچھ شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں فریاد آزر نے خود کو منفرد رنگ کی شاعری پیش کرنے میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔

فریاد آزر نے ماقبل شاعر اقبال کے مخاطبے کو ہم عصر سیاق اور اپنی طرح کی زبان میں پیش کیا ہے یعنی اپنے مذہب، قوم اور اپنی ثقافت کی زبوں حالی کا ماتم کرنے کے بجائے اس پر غور کرنے کی طرف قاری کی توجہ مبذول کی ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں اقلیتی مخاطبہ نہیں ہے۔ آزر نے اقلیتی مخاطبہ اورمسلمانوں کی پسماندگی اور عالمی سطح پر ان پر اور ان کے خلاف کی جانے والی سیاست پر آنسو بہانے کے بجائے ان میں حوصلہ پیدا کیا ہے اور ان مسائل کا تجزیہ کیا ہے ہاں اقبال وہاں یاد آتے ہیں جہاں جہاں آزر نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی واپسی کی تمنا کی ہے لیکن اس احساس کے ساتھ کہ :

کچھ تو ہو گا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب

یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کوئی نہیں

 

وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے

کہ اس کے پاؤں ہیں جنت میں، سر جہنم میں

یعنی ماضی سے لگاتار رشتہ بنائے رکھنے کا رجحان آزر اور ان کے معاصرین میں اکثر و بیشتر نظر آتا ہے اور یہیں پر اقبال کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ فریاد آزر نے اپنی شاعری میں کوڈ کے طور پر کربلا اور اس کے متعلقات صحرا وغیرہ کا وافر مقدار میں استعمال کیا ہے اور یہ بھی کہ ماضی کی شاندار روایتوں کو یاد کرنے اور یاد دلانے کا ایک فنی حربہ ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ فریاد آزر کی غزلوں میں عشقیہ رموز اور اس کی تخلیقی و تہذیبی رنگ کی پیش کش کا فنی انداز و اسلوب بھی نظر آتا ہے لیکن فریاد آزر کی شاعری کی سب سے بڑی فکر مندی سبز آدمی کی تلاش ہے جو بیک وقت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی حکومت، ان کی زندگی، مذہبی اسلوب، انسانیت پسندی کی معراج اور انسانیت نوازی کے  اس سنہرے دور کے آدمی کی واپسی کاساختیہ معلوم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی سبز آدمی کی اس تلاش کے عقب میں وہ سوچ بھی فنی طریقے سے بلند ہوتی ہے جسے ہم سبز انقلاب(Green Revolution)کہتے ہیں۔ آزر کے غزلیہ متن کا ایک بڑا حصہ ماحولیاتی آلودگی سے دنیا کیونکر بربادی کے دہانے پر ہے اس نوع کی فکر مندی اور انتباہ پر مبنی ہے۔

آزر کے اب تک تین شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’خزاں میرا موسم‘(1996)دوسرا مجموعہ’قسطوں میں گزرتی زندگی‘(2005)تیسرا مجموعہ ’کچھ دن گلوبل گاؤں میں ‘(2009)اپنے عنوان سے ہی مقصدی شاعری یا مسائل پر مبنی شاعری کا پتہ دیتا ہے۔ ’خزاں میرا موسم‘ کا میرافسانہ مسلمان قوم ہے جس پر خزاں یعنی زوال کا عرصہ صدیوں سے طاری ہے۔ مجموعے کا عنوان اسی امر کا کنایہ معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا مجموعہ ہندوستان ہی کیا پوری دنیا میں تجارت کے لیے قرض، تعلیم کے لیے قرض، گھر خریدنے اور  بنانے کے لیے قرض حتیٰ کہ موٹر خریدنے اور ٹی وی اور فریج کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور آج کا آدمی اور نئے ساہوکاروں کی چکی میں پستا ہوا عام آدمی کے المناک انجام کا کوڈ معلوم ہوتا ہے۔ تیسرا مجموعہ ’کچھ دن گلوبل گاؤں ‘ میں جو ان کے دو سابقہ مجموعوں کا انتخاب ہے، شاعر کی اپنی ہی شاعری کی قرات کی ایک صورت معلوم ہوتا ہے۔ یعنی یہ سیدھے گلوبلائزیشن پر طنز ہے مگر اس ایقان کے ساتھ عام آدمی اس سلوگن سے کچھ ہی دنوں کے لیے متاثر ہوا ہے۔

مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل

میں گلوبل گاؤں سے اکتا گیا ہوں

ذکر یہ کیا جا رہا تھا کہ ان کی شاعری میں سبز آدمی کی اساطیر کا ایک سیاق بلکہ زیادہ تر سیاق’مرد مومن‘ یا اسلام کا پسندیدہ رنگ سبز ہے جو شانتی اور امن کی علامت ہے۔ اگر ہم سبز آدمی سے متعلق مباحث کی اساطیر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ منکشف ہوتا ہے کہ وہ آدمی جس کی تصویر پیڑ کے پتوں کی ہئیت میں بنائی گئی ہو۔ اب ذرا اس خیال سے ملتی جلتی ایک صورت آزر کے مندرجہ ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیں :

خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت

کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اگنے لگے

شعر ی کردار ماحول دوست ہے۔ سوکھے درخت کو بوڑھا شجر کہا ہے۔ یہ بوڑھا شجر اپنی ہی شاخوں پہ کچھ پتے اگتے دیکھ کو خوش ہے لیکن برگ کو نیک بخت قرار دینے سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسی طرح ہمارے معاشرے کے بزرگ جب اپنے نونہالوں میں اچھے گن دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ شعر پڑھتے ہی آدمی کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جس کی تصویر پیڑ کے پتوں کی ہئیت میں بنائی گئی ہو۔ اشارہ اس جانب ہے کہ فطرت اور انسان دوہے ہی نہیں۔ راشٹریہ سہارا اخبار کے ایک کالم”مسلمانوں کا عالمی منظرنامہ” میں واشنگٹن کے مسلمانوں کے حوالے سے سہارا گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے ایک دلچسپ معلومات فراہم کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ”۱۴سوسال پہلے قرآن کریم میں کائنات کے ہر راز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ماحولیات کی تباہی ایک خطرناک عمل ہے ان نظریات کے تناظر میں زمین کے تحفظ اور اسلام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اس طرح واشنگٹن میں اسلام کے سائنسی نظریات اور انسانیت کی خدمات کے تحت اس کا ایک بلاگhttp:/Dc Green Muslims blogspot.comپر دستیاب ہے۔ اسی طرحDc Green Muslims  اس بات کو سمجھتا ہے کہ زمین پر آلودگی کے ان اثرات کا معاملہ اسلام کے لیے کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ "(روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 30مئی، 2014، ص:10مسلمانوں کا عالمی منظر نامہ، سید فیصل علی)

دراصل اسلام کا علامتی نشان’سبز‘ہے جو امن اور شادابی ا ور تر و تازگی کی طرف اشارے کرتا ہے جس کا ایک سیاق ماحولیات کے تحفظ میں اس سبز رنگ یعنی ہریالی کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ فریاد آزر اور اس عہد کے بیشتر شعرا ماحولیات کے تحفظ کا شعور اور ماحول دوست مزاج کی تشکیل پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ فریاد آزر کے متن میں یہ فکر مندی شدت کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے جس کا ایک اہم سیاق اساطیر یعنی انسان کا آرکی ٹائپی شعور ہے۔

ان کے معاصرین نے اسے اپنے متن کا بنیادی ساختیہ نہیں بنایا ہے جبکہ فریاد آزر نے لفظ سبز کا تواتر کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نیز اس کی اساطیری اور لاشعوری جہتوں کے اظہار کے ذریعے اپنے متن کو معنی آفریں بنایا ہے۔ آئیے پہلے خالص ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں کائنات پر خطرات کے بادل کیونکر منڈلا رہے ہیں اس سے متعلق ایک شاعر فریاد آزر کے انتباہ کا فنی اظہار ملاحظہ فرمائیں :

درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن

مرے بدن پہ ابھی میرے سر کا سایہ ہے

 

۔۔۔ ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے

سطح اوزان کو فضلات سے آزادی دے

 

وقت سے پہلے نہ آ جائے قیامت آزر

"گرین ہاؤس”کو بخارات سے آزادی دے

 

سبز لمحات سے جب ہو گی ملاقات اس کی

خود پہ روئے گا بہت عہد مزائیلوں کا

 

اے زمیں تری کشش کیوں اس قدر کم ہو گئی ہے

دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں

 

میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی

مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو

 

بار گناہ سے زمیں جس وقت تھک گئی

پھر دیکھنا کہ شمس کی جانب لڑھک گئی

 

زمین کانپنے لگتی ہے ٹھنڈ سے تو فلک

سنہری دھوپ کی چادر اتار دیتا ہے

مذکورہ بالا شعار کے خط کشیدہ الفاظ و تراکیب پر غور کرنا لازمی ہے۔ سطح اوزون، گرین ہاؤس، سبز ہاتھ، زمین، سبز لمحات، زمین کی خوشبو، سنہری دھوپ وغیرہ یہ کسی امر کا استعارہ نہیں، سفاک حقیقتیں ہیں۔ البتہ سبز لمحات، سبز ہاتھ، زمین کی خوشبو وغیرہ کو گہرے ماحولیاتی کوڈ یا نشان ضرور بنایا گیا ہے۔ ان اشعار میں فطرت کا لذت آمیز بیان ہے ہی نہیں جیسے کہ بادل محبوب کی زلفیں ہوں، ندی کی لہریں محبوب کی بلکھاہٹ ہو، یہاں فطرت بجائے خود شاعری کا معروض ہے۔ راوی کا ماحولیات سے عشق اور اس کے تحفظ کی فکر مندی  اس پر دھیان دینے اور فطرت میں مضمر تحیر اور زندگی کے سر بستہ رازوں سے آگہی حاصل کرنے کے احساس نے ہی ان اشعار کو خلق کیا ہے۔ یہاں ایک فطرت دوست یا ماحول دوست کردار سامنے آتا ہے۔ شعر نمبر۱، ۲، ۳، ۴، ۵اور۸کو ممکن ہے ادبیت کی تلاش کرنے والے نقاد شعریت سے خارج قرار دیں لیکن اسے پڑھتے وقت جس قسم کا لمحۂ فکریہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے وہی اس شعر کو ہمارے ذہن سے چپکا دیتا ہے اور یہی ان اشعار کے ہونے کا جواز ہے۔ یہ اشعار ہمیں ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے سد باب کے لیے چلائی جا رہی تحریکوں سے جوڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ سید فیصل علی کے مضمون اور واشنگٹن کے Green Muslimsسے بھی۔ ’سبز لمحات‘ اور’ سبز ہاتھ‘ استعاراتی جہت سے زیادہ اساطیری اور لاشعوری آرکی ٹائپی جہت رکھنے والے مرکبات معلوم ہوتے ہیں۔ سبز پری اور گلفام کی اساطیر اگر ذہن میں ہے تو آپ بڑی آسانی سے فن کار آزر کے شعر میں زمانے کے بدلنے کے احساس کے ساتھ اساطیر کیونکر معاصر ذہن سے جھانکتی ہے، اس وقت جب ہمعصر صورتحال کی سنگینی اور پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ایسی گھڑی میں اساطیر ہمارے مسائل کے حل کی طرف ہمارے ذہن کو لے جاتی ہے۔ آج ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ زمین رہے گی یا نہیں، اس کی کوئی گارنٹی اب نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول دوستی کی تشکیل پر شعر و ادب میں آج توجہ زیادہ دی جا رہی ہے۔ پہلے شعر میں اساطیر کی دیوی جن سے گلفام عموماً سیاست نہیں آنے کی وجہ سے ہار جاتے تھے، کی یا د دلاتے ہوئے آج کے دیوؤں کی طرف توجہ مبذول کی گئی ہے۔ آج کے دیو آلودگی، نیوکلیر بم، کل کارخانے اور خلا میں ہونے والے ریسرچ کو قرار  دیا جا سکتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ گلفام کو یا سبز پری کو پریشان کرنے والے دیو آج کے ان دیوؤں کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔

دوسرے شعر میں گلفام اور سبز پری دونوں اساطیری کردار استعمال کیے گئے ہیں۔ اس شعر کا متکلم ماحول دوستی ہے جس نے گلفام کی قسمت چرا لی ہے۔ یہ دراصل صحت اور خوشحالی کا کنایہ ہے۔ سبز پری اسے ہی مل سکتی ہے جو گلفام یعنی ماحول دوست ہو۔ سبز پری دراصل متکلم کو ’بن‘ میں ملے گی۔ کیا خوب رعایت ہے۔ بن بھی سبز ہی ہوتا ہے گویا سارا بن سبز پری ہے۔ یعنی سبز پری اور بن دراصل سبز انقلاب کا منبع ہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ اگر سبز پری یعنی ایک خوشحال انسانی زندگی مطلوب ہے تو اس کے لیے سبز انقلاب یعنی بن کے وجود اور اس کے تحفظ پر ہمیں زور دینا ہو گا۔ یہ شعر مقصدی شاعری کا کامیاب نمونہ ہے جس میں تخلیقی نشان پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کا انتہائی اکہرا اظہار بھی آزر نے کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے

مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی

کوئی قاری یہ سوال کر سکتا ہے کہ سبز پری یا لفظ سبز کا ماحولیات سے کیا تعلق ہے ؟کیونکہ اس رنگ کا Ripening life  پختہ زندگی اور زرخیزی سے تعلق ہے۔ اس رنگ کو ارتقا کے نئے اسلوب اور فوقی فطری یعنی دوسری دنیا کا کوڈ بھی سمجھا جاتا ہے مزید برآں اسے حقیقی دنیا کی توسیع کی علامت بھی قرار دیا گیا ہے۔ آئیے اب آزر کے یہاں اس نوع کے چند اشعار پر ایک بار پھر نگاہ ڈالیں :

نئی رتوں نے ہوا کی رو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی

کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ

 

سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے

سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا

 

جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس

روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا

 

ہوائے شفقت چھری بھی والد سے چھین لیتی

پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی

’سبز لمحات‘سے مراد اسلام کی وہ امن پسند صدیاں ہو سکتی جس نے عورت، پیڑ، بوڑھا اور بچوں کے لیے انوکھی انسانیت پسند آئیڈیولوجی کو جنم دیا تھا۔ ’سبز ہاتھ‘ انہیں کرداروں کا کوڈ معلوم ہوتا ہے جنہوں نے اس آئیڈیولوجی کے نفاذ میں حصہ لیا حتیٰ کہ اپنے ملک او حکومت کے جھنڈے پر سبز رنگ کو ہی جگہ دی اور ایسی صحرائی ثقافت کی تشکیل ہوئی جہاں فطرت دوستی کو مرکز میں رکھا گیا تھا۔ آزر کے یہاں زمین یعنی دھرتی’GIA’ْؒسے متعلق اشعار میں بھی یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس زمین پر پھر اسی طرح ہریالی چھائے گی جس طرح کہ جنگلوں میں ہوتا ہے۔ زمین کی کشش کے ختم ہونے کے ملال کے ساتھ زمین کی خوشبو یعنی اس سے انسان کے لاشعور ی رشتے کی طرف توجہ منعطف کر کے زمین کے تحفظ کے جذبے کو ابھارا گیا ہے۔ فریاد آزر کے یہاں ماحول دوستی اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے اور بھی اہم اور قابل غور اشعار ان کے شعری مجموعوں میں آپ کو ملیں گے طوالت کے خوف سے کچھ ہی اشعار پر یہاں گفتگو کی گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان کے یہاں وافر مقدار میں سبز لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مغرب میں Lady Raglanنے سبز آدمی کی اصطلاح 1939میں استعمال کی تھی۔ سبز آدمی کے بال اور داڑھی پتے نما ہوتی ہے۔ کبھی سر پوری طرح پتوں سے ڈھکا ہوتا ہے اسی طرح فنتاسیوں میں سبز آدمی کچھ اسی طرح کے حلیے میں نظر آتے ہیں۔ ہندوستان کے جین مندروں میں اس نوع کی تصویریں کھدائی کے بعد ملی ہیں حتیٰ کہ عراق میں بھی جن کے لباس اور گہنے حتیٰ کہ سر پر نباتات ہی نباتات دیکھے جا سکتے ہیں۔

Tom Cheethan(جو اسلامی تصوف کا بڑا اسکالر تسلیم کیا جاتا ہے )نے ، خضر کو، سبز آدمی قرار دیا ہے۔ کچھ لوگ ابن عربی کو سبزآدمی کا تصور دینے والا پہلا اسکالر مانتے ہیں۔ ہندوستانی اساطیر میں سبز آدمی کو شیو کی لیلا قرار دیا گیا ہے۔ فریاد آزر نے بھی لاشعوری طور پر شیو کے نیلے کنٹھ کا بار بار ذکر کیا ہے :

سبھی کو زہر اپنے حصے کا پڑا پینا

نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا

 

زہر کا رنگ اس کے بھی ہو جاتا حیرت سے سفید

گر  کبھی  نیلا  سراپا  میرا  شنکر  دیکھتا

سبز آدمی جسے شیو کی لیلا بھی قرار دیا گیا ہے آزر نے شیو اور اس کے زہر کے حوالے سے کئی اشعار کہے ہیں جس کا سیاق آج کی مصموم فضا ہے جس میں ہر نوع کا زہر گھل چکا ہے اور اس آلودگی کو ہر دور میں شیو ہی ختم کر سکتا ہے یعنی سبز کو برقرار رکھنے کے لیے شیو کو زہر پی کر نیلا ہونا پڑتا ہے :

ہزاروں ابرہا لشکر سجا رہے ہیں تو کیا

ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے

 

یہ قیامت کی علامت ہے یا کوئی انقلاب

سبز پیڑوں کے ہرے پتے بھی نیلے ہو گئے

 

گذشتہ دور کی بوباس لے کے آئی تھی

میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا

 

تمام سبز بدن پیڑ بھاگ جائیں گے

یہاں جو شہر کے لوگوں کو میں بلا لوں گا

 

وہ سبز ہاتھوں میں لے کر کتاب اترے گا

اب اس زمیں پہ حسیں انقلاب اترے گا

 

سر سبز موسموں میں ہی مانند برگ خشک

اندھی ہوا کی شہہ پہ بکھرنا پڑا مجھے

 

دی گئی لا منظری کی سبز آنکھوں کو سزا

ان پر موتی رولنے کا جرم عائد ہو گیا

فریاد آزر نے جنگل کے امیج کو بار بار قاری کے ذہن میں لانے کی کوشش کی ہے اور استعارے کی شکل میں نہیں خالصتاً ماحولیات کے منبع کے طور  پر اسے پیش کیا ہے کیونکہ جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہی دراصل صحیح معنوں میں سبز آدمی(Green Man)تھے اور عورتیں سبز پری یا عورت اس لحاظ سے سبز، خوشی، ارتقا اور شگفتگی و شادابی کا کوڈ رہا ہے :

حسین شہر کا منظر اسے بلاتا رہا

مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا

 

آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت

بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پورے معصوم

الغرض سبز لفظ کا استعمال جن اشعار میں آزر نے کیا ہے ان میں ایک ایسا راوی یا کردار نظر آتا ہے جس کے اپنے کچھ تعصبات ہیں یا تحفظات ہیں۔ یہ اقلیتی طبقے کا ایک انقلابی ذہن یا احتجاج پر آمادہ ذہن ہے جس نے سبز لفظ کو عموماً اسلامی روایات یا اسلام کے اصولوں کا کوڈ بنایا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا اشعار میں سبز صدیاں، سبز موسم، ہوائے سبز، سبز ہوا، یہ ساری اردو تراکیب اسلام کے شاندار ماحول دوست انسانیت پسند اصولوں یا آئیڈیولوجی کا کوڈ بن جاتے ہیں۔ انہیں اپنی شاعری میں بروئے کار لانے کی ایک وجہ آزر کے نزدیک یہ ہو سکتی ہے کہ شعری کردار سبز پسند یعنی انقلاب کا متلاشی ہے اور اسلام کی آئیڈیولوجی اسے سبز انقلاب کے اہم حوالے کے روپ میں نظر آتی ہے۔ اس بہانے ان کی غزلیہ شاعری میں اسلام کی عصری معنویت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً خزاں میرا موسم جو ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے کے مذکورہ بالا اشعار میں ابرہہ کے لشکر کا ذکر،  ہوائے سبز ، جو ابابیل ہونے والی ہے کا مژدہ سنانا دراصل ماضی کی اسی شاندار روایت کی واپسی کا سیاق سامنے لاتا ہے۔

آزر کے نزدیک سبز پیڑوں کے پتوں کے پیلے ہونے کا مطلب ہے قیامت کے آنے کا اشارہ۔ یعنی قیامت نام ہے ماحولیات کی آلودگی کا۔ ’خزاں میرا موسم‘ کے تیسرے شعر میں سبز ہوا سے لپٹ کے رونے کا ذکر اور آخری شعر میں شہروں کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ قرار دینا یعنی شہر کے لوگ جیسے ہی کہیں کسی گاؤں میں پہنچتے ہیں سبز بدن پیڑ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہنے کی یہ سعی کی گئی ہے کہ شہروں کی تشکیل ہی نے ماحولیاتی آلودگی کو جنم دیا ہے کیونکہ ترقی کے نام پر ہم جنگلوں کو کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح’ قسطوں میں گزرتی زندگی‘ سے ماخوذ اشعار کے پہلے شعر میں کس نوع کے انقلاب کے آنے کا مژدہ سنایا گیا ہے ؟ترقی پسند لوگ لال انقلاب کی دہائی دیتے تھے آج کے شاعر کے نزدیک اس سے زیادہ ضروری سبز انقلاب قرار پایا ہے۔ دوسرے شعر میں ماحولیاتی پیکروں کو انسان کی اپنی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ آخری شعر میں آج کے انسانوں کی محرومی کی وجہ بنجر پن ہے جن کی آنکھیں حسین   منظروں کے لیے ترس رہی ہیں۔

سبز لفظ پری سے وابستہ رہا ہے۔ سبز پری کا عالمی ادب میں بالخصوص اسکاٹ لینڈ کے ادب میں پری کو کنائے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان رہا ہے۔ ہمارے یہاں اندر سبھا میں سبز پری(نسوانی کردار)اور گلفام کا کردار ملتا ہے۔ فریاد آزر نے بھی سبز پری کو کنائے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ فریاد آزر نے اسلام کی ایک ایسی خوبی کو اپنے شعری جہان کے ذریعے ہمارے ذہن کا حصہ بنایا ہے جو فی زمانہ دنیا کے ہر ملک اور ہر انسان کی فکر مندی بن گئی ہے یعنی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے لیے سبز انقلاب لانے کا جتن کرنا آج کے ہر بیدار مغز انسان کے لیے عبادت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ اسلام کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر فریاد آزر نے اپنی شاعری میں اسلام کی اس انوکھی خوبی کو سامنے لا کر اسے غزل کی شاعری میں جس خوبی سے شعری صداقت کا حصہ بنایا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اسلام سبز رنگ کو یونہی پسند نہیں کرتا اس کے عقب میں ماحولیات کے تحفظ کا ایجنڈا کارفرما ہے۔ فریاد آزر کی شاعری کا یہ لفظ جو اساطیری استعاریت کی صورت میں ایک اہم ساختیہ بن گیا ہے ہماری شعری روایت کا حصہ رہا ہے اوراس شعری روایت کا حصہ ہے جس کا راست تعلق اردو سے ہے۔ میرا اشارہ فارسی شاعری کی جانب ہے۔ خسرو کی غزل سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

ازیں ہر دو نکو تر رنگ سبز است

کہ زیب اختراں ز اورنگ سبز است

(ان دونوں سے بہتر سبز رنگ ہے ( آگے گندمی سیاہ رنگ کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جس سے تاروں کی زینت ہے وہ آسمان بھی سبز ہوتا ہے )

برنگ سبز رحمت، ہا سرشت است

کہ رنگ سبز پوشان بہشت است

(سبز رنگ میں رحمتیں گوندھ دی گئی ہیں دیکھ لو کہ جنتی لوگوں کا لباس سبز ہوتا ہے )

(ظ انصاری، خسرو کا ذہنی سفر، انجمن ترقی اردو ہند، پہلا ایڈیشن(1977)انتخاب کلام مع ترجمہ:مولانا حسن عباس فطرت شاعر پونہ)، ص:17)

فریاد آزر نے اپنی شاعری میں سبز رنگ کی معنویت کو مزید آشکار کرنے کے لیے زندگی کے دوسرے رنگوں کو بھی پیش کیا ہے۔ نیلا رنگ جو زہر نگل جانے کے بعد نمودار ہوتا ہے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سنہرے رنگ کا ذکر اپنے شعروں میں ا س کے اپنے اساطیری سیاق میں کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا

سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے

 

سنہرے شہر کی تعلیم تھی بہت دلچسپ

کہ بے حسی بھی وہاں شامل نصاب رہی

 

سنہرے نازوں میں پل رہی ہیں بہک نہ جائیں

ذرا حنا خواہشوں کی بھی دیکھ بھال رکھنا

 

جب ملا تبدیلیِ تاریخ کا موقع اسے

نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا

 

جب چاند تارے جگنو سبھی نور کھو چکے

مانند آفتاب ابھرنا پڑا مجھے

 

رفاقتوں کا سنہرا جمال دینا تھا

ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا

 

میں زندگی کا سنہرا نصاب لاؤں گا

تمہارے چہرے سے اچھی کتاب لاؤں گا

لفظ’سنہرا ‘کا ستعمال سبز ہی کی طرح تواتر کے ساتھ فریاد آزر نے اپنی غزلوں میں مختلف سیاق و سباق میں کیا ہے۔ سورج کی اساطیر اور آریائی تصور کے مطابق سورج کے بال سنہرے ہوتے ہیں۔ سنہرا لفظ کا تعلق سونا سے بھی ہے۔ صبح کی سنہری کرنیں رات کی قربانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ رات صبح کی بہن ہے جسے سنہرے زیور پہننے کا شوق ہے۔ دراصل سوریہ رات یعنی اپنی ماں کا سینہ چاک کر کے یعنی اندھیرے کو کاٹ کر دنیا کو روشن کرتا ہے۔ ان سنہری کرنوں کے ساتھ سورج دراصل سحر کی تلاش میں صدیوں سے بھٹک رہا ہے اور اس طرح دنیا کو خوشحالی اور سنہری صبحیں عطا کرتا چلا جا رہا ہے۔ دراصل سنہرے رنگ میں پیلے کا ہونا زندگی کی علامت ہے۔ اگر اس موقع پر رابرٹ فراسٹ کی مندرجہ ذیل لائنیں بھی ذہن میں رہیں تو آزر کے یہاں مستعمل لفظ ’سنہرے ‘اور’سبز‘کے فنی معنیاتی تعلق تک رسائی حاصل کرنے میں اور آسانی ہو جائے گی۔ رابرٹ فراسٹ کو سنیے :

”Nature’s first green is gold،

Her hardest hue to hold

Her early leafs a flower;

But only so and hour;

Nothing gold can stay

(Robert Frost)

فراسٹ نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ سنہرے اور سبز کے وصال کو فطرت کا پہلا سبز قرار دیا ہے۔ اس کی پہلی پتی کو پھول کہا ہے۔ یعنی فطرت کی پہلی سنہری روشنی کی تمنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے سبز کی زندگی ہے۔ اس تناظر میں یہاں آزر کے کم از کم ایک شعر پر نگاہ ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے :

کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا

سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ بالا سنہرے لفظ کی توضیح و تشریح اور سورج کی اساطیر اس شعر کا آر کی ٹائپی نقش ہے جس کا ذکر ابھی کیا گیا ہے۔ سورج سحر کی تلاش میں نا معلوم زمانوں سے سفر میں ہے۔ رات نا معلوم زمانوں سے سورج کو اپنے گربھ میں رکھتی آئی ہے اور سفر میں ہے۔ ستارے، چاند اور خود سحر بھی۔ کیا خوب مصرعہ ہے، ’سب سفر میں ہیں کسی کا ہم سفر کوئی نہیں ہے ‘۔ سحرآتی ہے تو رات چلی جاتی ہے، شام آتی ہے تو دن چھپ جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعر میں اس المیہ کو سامنے لا کر شعری کردار نے کیا کہنا چاہا ہے۔ شاید یہ کہ اشارہ ایک ایسی شاندار قوم اور اس کے کارواں کا پوری دنیا میں پھیلنا ہے جس کی پہچان اجتماعیت تھی۔ یعنی آج کے مسلمان جو نماز جمعہ، با جماعت نمازوں، عیدین اور نہ جانے ایسے کتنے ہی موقعوں پر وہ ایک ایسی جماعت کی صورت میں نظر آتے ہیں جن میں احساس اجتماعیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ دم توڑ چکا ہے۔ معنی کا ایک اور قرینہ اس شعر سے سامنے آتا ہے جو عصر حاضر کے انسانوں میں اپنی ذات کے خول میں بند ہو جانے جیسی منفی قدر کی نشان دہی کرتا ہے۔ اجتماعی زندگی کا یعنی مل جل کر رہنے کا صدیوں پرانا انسانی وصف آج کے صارفی سماج میں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کی صورت میں بکھر گیا ہے۔

رنگ سبز اور ماحولیاتی تحفظ آج کی اتنی اہم بحث بن چکی ہے کہ تنقید کا ایک نیا اسکول سبز تنقید(Green Criticism)وجود میں آ گئی ہے۔ اردو میں اس حوالے سے راست طور پر پہلا متن فریاد آزر نے ہی خلق کیا ہے۔ علاوہ ازیں لفظ ’خلا‘ بھی ان کی شاعری میں بار بار استعمال ہوا ہے جس سے نہ کہ ماحولیات بلکہ ہم عصر زندگی کے تضادات، خطرناکیوں کی نشان دہی میں مدد ملی ہے :

(۱)کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی

مگر وہ ملتا ہے مجھ سے خلا کے لہجے میں

 

(۲)میں تھک چکا ہوں اور آخری صدا میری

انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے

 

(۳)عجب جستجو ہے خلاؤں میں بھی زندگی ڈھونڈتا پھر رہا ہوں

سمندر کی لہروں پہ میں نقش دریا دلی ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں

 

(۴)حصار کائنات سے نکل کے ڈھونڈتے تجھے

مگر خلا سے آگے کوئی راستہ نہیں ملا

(خزاں میرا موسم)

 

(۱)تخیلات میں پھر تاج و تخت اگنے لگے

زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اگنے لگے

 

(۲)خلاؤں میں کبھی پھرتا ہوں آزر

کبھی میں چاند پر دیکھا گیا ہوں

 

(۳)خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے

پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے

(قسطوں میں گزرتی زندگی)

’خلا‘  کا استعمال بطور ماحولیاتی فکر مندی خزاں میرا موسم کے شعر نمبر(۲)(۳)میں ہوا ہے اور  یہ تو اب واضح ہو چکا ہے کہ  آج کا انسان بارود کی ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے اور آخری سانسیں گن رہا ہے۔ تباہی کے بعد وہ خلا میں آواز کی صورت محفوظ رہ جائے گا یہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ انسان کی خواہشیں لا مختتم ہیں۔ زمین تا خلا وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ تیسرے شعر میں طنز ہے اور وہ یہ کہ انسان کی یہ کون سی تحقیق ہے کہ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پاتا کہ بعض اشیا کی تحقیق اسے بجائے فائدے کے نقصان پہنچائے گی اس خیال کو شعر کے دوسرے مصرعے میں سمندر کی لہروں پہ نقش دریا دلی ڈھونڈھنے جیسے واقعے سے واضح کیا گیا ہے۔ یہاں دریا دلی اور لہروں میں مناسبت قابل داد ہے۔ قسطوں میں گزرتی زندگی کے شعر(۱)میں انسان کی ہوسناکی اور خواہش بے جا کا مضمون قلم بند ہوا ہے دوسرے شعر میں بھی انسان کی لگاتار کوششوں اور فطرت کو مسخر کرنے کا سیاق ابھارا گیا ہے اور تیسرے شعر میں بھی انسان کی اسی ہوسناکی اور بے جا ترقی اور اس نام پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اب تو خلا کو آلودہ کرنے میں سائنس دانوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ یہاں ٹھہر کر ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ آزر نے فطرت کے ایک وسیع و عریض منظر ’صحرا‘ کو اپنی شاعری کا اہم ساختیہ بنایا ہے۔ صحرا کی خوبی یہ ہے کہ اس پر ثقافت کی کائی بہت جلد نہیں جمتی۔ یہ زمانوں تک رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ماحولیاتی مفکرین اسے خالص فطرت کے ذیل میں رکھتے ہیں لیکن آج یہ بھی گلوبل وارمنگ سے اثر انداز ہو چکا ہے۔ ایسا فکشن کہ جس میں زندگی کے گہرے رازوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہو یا ایسی شاعری جس میں تقدیر کے المیے کو پیش کیا گیا ہو صحرا وہاں اظہار کا ایک گہرا ساختہ بن جاتا ہے۔ دنیا کے نبی، اوتار عبادت کے لیے صحرا میں گئے اور انہیں زندگی کے راز سر بستہ سے آگہی حاصل ہوئی۔ اس امر کا احساس اقبال کو بھی تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ”

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی

اقبال کے اس شعر کا مطلب اتنا ہی ہے کہ صحرا ئی انسان ہی فطرت کے مقاصد کی سمجھ رکھتے ہیں۔ اس لفظ کا ایک سیاق اسلام اور اس کے ذریعے دنیا میں قائم ہونے والی ثقافت سے متعلق تلازمہ بھی ہے :

اب تو وحشت بھی بدلنے لگی منزل اپنی

شہر کی اور بڑھے آتے ہیں صحراؤں کے لوگ

 

صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر

 

اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یوں ہی آنسو رواں

نام ان کو دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات

(قسطوں میں گزرتی زندگی)

پہلے شعر میں وحشت اور صحرا ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ ما بعد جدید غزل میں شہر اور دیہات کا تقابل اظہر من الشمس ہے۔ ما بعد جدید غزل کا راوی شہر سے نفریں اور گاؤں کے ختم ہونے پر حد درجہ فکر مند نظر آتا ہے۔ اس امر کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ کیونکر اب صحرا بھی اپنی فطرت بدلنے لگا ہے۔ اس بات کی طرف فنی طریقے سے فریاد آزر نے بھی اشارہ کیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے شعر میں ماضی کے لوٹ آنے کی طرف صحرا کے حوالے سے ایقان کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہم اگر فریاد آزر کا غزلیہ متن پڑھیں اور اب تک کی گفتگو کو دھیان میں رکھیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فریاد آزر نے ما قبل بیانیہ یعنی اساطیر کی رد تشکیل کا متن بنانے میں اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ دلچسپی لی ہے۔ ان کے زیادہ تر اساطیر اسلامی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اس اساطیر کے ذریعے حال کے تضادات کو پرانے اور نئے کے فرق کو واضح کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

نوح  ؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور

خواہشوں  کا  ایک  بحر  بیکراں  جلتا  ہوا

 

ذرا سی دیر میں دیوار قہقہہ آزرؔ

فصیل گریہ میں تبدیل ہونے والی ہے

 

کوئی ہابیل صفت شخص نہ بچنے پائے

یہ ہے اعلان مرے شہر کے قابیلوں کا

 

عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی

بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا اپنا

 

زمین پھراسی مرکز پہ جلد آ جائے

ندائے کن میں سنوں ابتدا کے لہجے میں

 

پرندے لوہے کے اب کنکری گرانے لگے

عذاب  ہم پہ ہے کیوں ابرہا کے لہجے میں

 

کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی

آج سیتا کی خاطر جنک بک گئی

 

کس نے دل میں آگ لگائی

کون آیا لنکا کے اندر

طوفان نوح اور نوح کے ذریعے بنائی گئی کشتی کا قصہ کسے معلوم نہیں۔ حد درجہ گہرا شعر ہے۔ طوفان نوح میں نوح کی کشتی رواں دواں ہے۔ اس میں تب دنیا کے جانداروں کے ہر جوڑے سنبھال کر رکھے گئے تھے۔ آج کی دنیا ہی طوفان نوح بن گئی ہے اور کشتی میں خواہشوں کا طوفان لہریں لے رہا ہے۔ اشارہ انسان کی بے لگام خواہشوں کی طرف کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر دنیا تباہی کے دہانے پر ہے لیکن اس بار نہ نوح کی امت سبک کشتی میں ہے اور نہ امت کی فکر کرنے والے نوح۔ اسی طرح دوسرے شعر میں دیوار قہقہہ کی اساطیر کے سہارے زندگی میں اچانک ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ تیسرے شعر میں ہابیل جسے قابیل نے مار دیا تھا اور جسے دفن کرنے کا طریقہ فطرت (کوا)نے سکھایا تھا دراصل قابیل کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس نے ہابیل کا قتل کیا ہے۔ آج کا قابیل سب کچھ جانتے ہوئے نہ کہ اپنے بھائیوں کو مار رہا ہے بلکہ وہ ہابیل صفت کوئی انسان اس دھرتی پر نہ رہے اس فکر میں بھی مبتلا ہے۔ اسی طرح سے ندائے کن، بدن کے نیزے، لوہے کی کنکری کا گرانا، سویمبر، سیتا، جنک اور آخری شعر جس کا سیاق اردو غزل کا اہم ایجنڈا عشق ہے اس ناقابل بیان اور ناقابل تفہیم جذبے کی تصویر کشی کے لیے جس طرح سے اساطیر کو آرکی ٹائیپی پیکر میں بدلا گیا ہے اس کی داد جتنی دی جائے کم ہے۔ اس شعر میں غزل کا روایتی رنگ سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔ تجاہل عارفانہ نے کہ ’کون آیا لنکا کے اندر::اور کس نے دل میں آگ لگائی‘ کمال کا شعری اظہار ہے۔ لنکا کو دل کہنا جدت کی عمدہ مثال ہے۔ دراصل دل لنکا ہے نہیں کیونکہ لنکا تو راون کی نگری ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ لنکا کی یاد آ گئی ہے کیونکہ محبوب جیسے ہی دل میں آیا ایسی آگ لگی کہ دنیا ہی بدل گئی۔ ویسی ہی آگ جیسی ہنومان نے لنکا میں سیتا کی خاطر لگائی تھی۔ اس شعر پر جتنی بھی گفتگو کی جائے کم ہے۔ آئیے فریاد آزر کے کچھ ایسے اشعار پر نظر ڈالیں جن کی تعداد قابل ذکر ہے اور جن میں معنی آفرینی اور تہہ داری کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے یا جسے قاری اپنے اپنے طور پر مختلف النوع انداز سے معنی اخذ کرنے میں خود کو لطف محسوس کرتا ہے۔ ایسے اشعار اور ان کے مضامین ہر نوع کے ہیں۔ آئیے کچھ عشق کے تہذیبی و تخلیقی رنگ میں ڈوبے اشعار اور کچھ غم زمانہ کو سمجھنے اور سمجھانے والے گہرے اشعار پر ایک نگاہ ڈالیں :

ہزار چاہا کوئی اور صنف اپناؤں

میں شاعری کو غزل سے جدا نہ کر پایا

 

اپنے ہی معنی کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے

مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے

 

مجاز کا سنہرا حسن چھا گیا نگاہ پر

کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہو گیا

 

یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مسدود

کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر

 

ہوا وجود مٹا دے گی ایک لمحے میں

یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے

 

تنفس اک مسلسل خود کشی کا نام ہے شاید

میں جتنا جیتا ہوں اتنی نفی محسوس ہوتی ہے

 

یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ

یاد آیا نہیں دروازہ کھلا کس سے تھا

 

کچھ تو پانی کی لکیروں پہ لکھا ہے، کیا ہے ؟

زندگی آگ ہے مٹی ہے، ہوا ہے، کیا ہے ؟

 

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پانو سے آگے نکل گئی صدیاں

 

وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے

مجھے اک بار پھر سونا پڑے گا

پہلے شعر پر نظریاتی بحث گھنٹوں چھڑ سکتی ہے کہ کیوں ہزار کوششوں کے بعد ایک شاعر یا ایک قاری غزل ہی پسند کرتا ہے۔ دوسرا شعر ساختیاتی اور پس ساختیاتی تناظر میں لفظ و معنی کی تھیوری کی طولانی بحث کا متقاضی ہے۔ شاعر کو علم ہے کہ کسی لفظ کے اس کے اپنے معنی ہوتے ہی نہیں کیونکہ ہر لفظ کے معنی ایک لفظ ہے۔ تیسرا شعر وجود اور شہود کی صدیوں پرانی بحث کو نئے طریقے سے قاری کے ذہن میں لایا گیا ہے۔ وجود اور شہود کا فرق تبھی تک ہے جب تک سالک وجود کی منزلوں میں یعنی مجاز کے سنہرے حسن کے اثر میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی سالک مسلوک سے جا ملتا ہے جلوۂ شہود ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی بندے اور خدا کا فرق اعتباری ہے حقیقی نہیں۔

چوتھا شعر پڑھتے ہی ذوق کی یاد آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے::مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ‘لیکن آزر نے اس شعر میں ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جس کا تجربہ یہ ہے کہ دنیا ایک ایسا قید خانہ ہے جس میں انسان چاہے نہ چاہے رہنا ہی پڑتا ہے۔ کائنات سے بچنے کے لیے کسی پانچویں سمت کی تلاش بے سود ہے۔ کہا یہ ہے کہ دنیا سے نفرت اس سے بھاگنے کی کوشش بے سود ہے۔ ہر حال میں دنیا کرنی پڑتی ہے۔ آٹھویں شعر کو پڑھ کر بیک وقت غالب اور فانی یاد آتے ہیں۔ فانی کے نزدیک زندگی دیوانے کا خواب ہے، آزر کے نزدیک زندگی کے بارے میں اگر کچھ کسی نے بیان دیا ہے یا لکھا ہے کہ زندگی کیا ہے تو افسوس کہ اس نے کاغذ کت بجائے یہ باتیں پانی پر لکھی ہیں۔ غور کیجئے کہ بھلا پانی پر تحریر کی گئی کسی حقیقت کو بھلا کون پڑھ سکتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں سوال کی تکرار زندگی کی بے معنویت کی طرف نہیں ہمیں زندگی کی گہرائیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ چھٹے شعر میں تنفس کو یعنی آتی جاتی سانسوں کو خودکشی کا نام دینا بلیغ استعارہ ہے۔ کیونکہ زندگی کی ہر سانس ہمیں موت کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان ہر لمحہ نفی کے غار میں لڑھکتا ہوا خود کو محسوس کرتا ہے۔ ساتویں شعر کو پڑھ کر علی بابا اور مرجینا کی اساطیری کہانی کی یاد آتی ہے۔ جسے اس شعر میں گوندھ کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب شعر ہے جس کی تعبیر کی کوشش کسی ایک طور پر ممکن نہیں۔ شعر میں لفظ دروازہ آیا ہے۔ کہانی میں یہ خزانے کا دروازہ تھا جسے کھولنے کے لیے ہر شخص کو کھل جا سم سم کہنا پڑتا تھا۔ کہانی کے کردار کو اس لفظ کے بھول جانے کی وجہ سے کیا کیا پریشانیاں ہوئیں تھیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس اساطیری کہانی کی رد تشکیل کرتے ہوئے  شاید یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم دنیا میں آتے ہیں اور یہاں کے طرح طرح کے عیش و آرام میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم وہ ایک لفظ بھول جاتے ہیں۔ وہ لفظ دراصل دنیا کا بنانے والا ہوسکتا ہے، انسان کا ضمیر ہوسکتا ہے، انسان کی انسانیت ہو سکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کی اور بھی امور اس شعر کے حوالے سے قارئین سامنے لا سکتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے آخری شعر پر اپنی گفتگو ختم کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ جس میں وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے کے ’وہ‘ کو ڈی کوڈ کرنا ضروری ہے اور’ مجھے ایک بار پھر سونا پڑے گا‘ میں فعل’سونا‘کو سونا پر غور کرنا از حد ضروری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ غزل کا بنیادی ایجنڈا عشق و محبت اور احترام آدمی اور روحانی ہم رشتگی ہے۔ ’وہ‘ واحد غائب کون ہے ؟ظاہر سی بات ہے کہ محبوب ہے۔ چونکہ ہجر کی راتوں میں محبوب سے ملنے کا وسیلہ خواب ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اس خواب کی وجہ سے انسان جاگ بھی جاتا ہے۔ یعنی ہجر کا مارا عاشق حقیقت کے بجائے خواب میں ہی جینا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ’مجھے ایک بار پھر سونا پڑے ‘مصرعے کے ذریعے یہی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غزل کی اشاریت اور رمزیت اور اس میں کچھ کھو جانے اور کچھ پا لینے کا انداز اشعار میں لطیف ایمائیت پیدا کر دیتی ہے۔

شعر میں معنی کے اور بھی قرینے ڈھونڈے جا سکتے ہیں اور یہی زندہ اور تہہ دار اشعار کی پہچان ہوتی ہے۔

اخیر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ فریاد آزر نے اپنی شاعری میں رنگوں کے استعارے کے ذریعے ہم عصر زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا ہے۔ اساطیری استعاریت کے ذریعے ماضی اور حالی کی کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی ہے۔ ان کے عشقیہ رنگ کی شاعری میں زمینی اور مقامی رنگ کو نمایاں مقام عطا کیا گیا ہے۔ معاصر ثقافتی صورتحال اور عام آدمی کا شہر میں کیسا برا حال ہو گیا ہے اس دکھ کو زبان دینے کی کوشش کی گئی ہے اور فطری انسان کی معصومیت کی تلاش کے جذبے نے فی زمانہ ماحولیاتی آلودگی کو انہیں ہم عصر زندگی کا سب سے بڑا خطرہ تصور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں بارود کی ڈھیر پر بیٹھی اس دنیا کے تحفظ کے لیے شانتی اور امن کے پجاری یعنی ایک ایسی سبز آدمی کی تلاش پر حد درجہ زور دیا گیا ہے۔ اردو میں مقصدی شاعری کرنے والے شعرا ہمیشہ ناقدین کے نشانے پر رہے ہیں۔ آزر کی شاعری کی ایک اہم موتیف اپنے مذہب اور قوم کی زبوں حالی کا تجزیہ ہے۔ اس لحاظ سے آزر کی شاعری بھی مقصدی شاعری کے خانے میں چلی جاتی ہے لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فی زمانہ جس نوع کی شاعری ہو رہی ہے اس میں فریاد آزر ایک اہم غزل گو شاعر کی حیثیت سے ۸۰کے بعد کی غزلیہ شاعری میں ناقابل فراموش شاعر کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام بن چکے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

فریاد آزرؔ کی تخلیقی آزری۔۔۔ ڈاکٹر کوثرؔ مظہری

 

 

اردو غزل میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے واضح نقوش بہت کم شاعروں کے یہاں  نظر آتے ہیں۔ اپنے عہد کی ستم ظریفیوں ور عیاریوں کو آئینہ دکھانے کی ہمت ہر شاعر میں نہیں ہوتی۔ اس کام کے لئے صفائے باطن اور شعورِ فن کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت چاہئے۔ فریاد آزر  ایک ایسے شاعر ہیں  جو  ۱۹۸۰ کے  بعد کی ادبی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں فرد کی بے ضمیری اور معاشرے کی بے مروتی  دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے :

پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزیدوں کے خلاف

پھر  مرے  سر پہ  وہ  شمشیر  نظر  آنے لگی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب تو  ہر شہر ہے اک شہرِطلسمی کہ جہاں

جو بھی  جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں اپنی لاش  کو تنہا ہی د فن کر لوں گا

کہ تم بھی جاؤ، سبھی  لوگ گھر گئے اپنے

فریاد آزرؔ نے ر شتوں کے ٹوٹنے اور آدمی کے بکھر جانے کو بھی اپنے شعروں میں پیش کیا شعر ملاحظہ کیجئے :

نہ کوئی دوست  نہ ساتھی  نہ کوئی  رشتہ دار

غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گئے اپنے

۔ ۔ ۔ ۔

بسا رہا ہے ہر اک فرد  اک الگ ہی جہاں

بکھر رہا ہے ہر  اک خاندان  قسطوں میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فریاد آزر نے غزل کے چہرے سے پردۂ الہام کو چاک کیا ہے۔ وہ صاف گوئی سے کام لیتے ہیں اور معاشرے میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے  اس کی نشاندہی کرتے ہیں وہ جدید ذہنوں اور جدید تہذیبی بساط پر کھڑی نئی نسل کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ آزر کے فکری ابعاد کی زد میں عہدِ جدید اور عہدِ قدیم  دونوں ہیں۔ یہاں ایک ہی غزل کے دو شعر دیکھئے :

دفن کر دیتا  تھا پیدا ہوتے  ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا  ہے  اسے دورِ جدید

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سب  سنائی  دیتا ہے  آزرؔ اذانوں کے سوا

محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو  گئے  کتنے جدید

 

تہذیبی سفاکیت کو آئینہ دکھانے کا کام نئی غزل میں خوب کیا گیا ہے لیکن فریاد آزر کے یہاں یہ رنگ  قدرے تیز ہے۔ موضوع اور موتف پر غور کیجئے اور اوپر ذکر کئے گئے انسانی بے بسی کے حوالے سے چند شعر دیکھئے :

عجیب  طور  کی  مجھ  کوسزاسنائی گئی

بدن کے نیزے  پہ  سر رکھ دیا گیا میرا

۔ ۔ ۔ ۔

پانوں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر

اور  سر  پر  بارِ  سقفِ  آسماں  جلتا ہوا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آتا تھا  دیر رات  کو جاتا علی الصباح

بچے  اسے  سمجھتے  تھے  دفتر  کا آدمی

انسان کبھی کبھی غفلت شعاری  میں اپنی عمر کے قیمتی لمحات گنوا دیتا ہے۔ اسے پتہ نہیں  ہوتا کہ مستقبل کی کامیابی کا راز  حال کی محنت اور مشقت میں ہے۔ فریاد آزر ؔ نے بڑی خوبصورتی سے اس مضمون کو پیش کیا ہے۔

ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر

وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی

اسی طرح کبھی  انسانی پس و  پیش اور کشمکش کے موضوع کو آزرؔ پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی انسان کے لئے ایک لمحہ بھی بھاری پڑتا ہے اور کبھی ذرا سی  غفلت  سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ شعورِ ذات کی کلید  احساسِ  لطیف ہے۔ دونوں کی ہم آہنگی سے ہی فکری بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ آزرؔ اس راز سے واقف ہیں۔ زمانے کی ستم ظریفی اور گردشِ ایام پر  ان کی گہری نظر ہے۔ جس کے اندر ذرا بھی جھجھک  ہے ( بلکہ میں اس جھجھک کو  میں تہذیبی رکھ رکھاؤ کہوں گا) وہ  زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ  نہیں دے سکتا۔ فریاد آزر نے اسی بات کو  تخلیقیت کے عناصر  میں گھلا ملا کر یوں پیش کیا ہے :

چلے  تو  فاصلہ  طے  ہو نہ  پایا  لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ  بے دریغ   کئے  جا رہا  تھا  قتل مرا

میں  منتظر تھا  کہ اس پر عذاب اترے گا

فساد بہت ہی سامنے کا موضوع ہے۔ اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہو گا جس نے فساد کے حوالے سے ایک آدھ شعر نہ کہے ہوں۔ اس کو آزرؔ یوں پیش کرتے ہیں۔

جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے

اسی  زمین  سے  ہم  لخت  لخت اگنے لگے

فریاد آزرؔ  اس دور کے شاعر ہیں  لہٰذا  س عہد کے کرب کو انھوں نے سمجھا ہے، محسوس کیا ہے معاملہ چاہے ذاتی ہو، سماجی ہو یا بین اقوامی، ان کی نگاہ ہر اہم موضوع  پر ضرور پڑتی ہے۔ چاہے معاملہ سائنسی ترقیات اور خلائی سیارچوں کا ہو جس کے ذریعہ آج نہیں تو کل  اسٹار وار ہونا ہی ہونا ہے، یا پھر زمینی، فضائی یا خلائی آلودگی کا  ہو یا بین اقوامی دہشت گردی اور اس کو  بہانہ بنا کر پوری دنیا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی جگہ جگہ نسل کشی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اس کو  بغور دیکھ رہا ہے اور اس پر آنسوبہا رہا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہے بخوفِ طوالت محض چند اشعار پیش ہیں۔

خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے

پرندہ  کتنا  پر پھیلا   رہا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فضائے  شہر  آلودہ  بنا کر

وہ گاؤں پر نظر پھیلا  رہا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کون جائے ذوقؔ اب دلّی  کی گلیاں چھوڑ کر

صبح کی تازہ ہوا لے  آئیں گے  دوکان سے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فضا  کتنی  بھی   آلودہ   ہو  آزرؔ

ہمارے ذہنوں سے بہتر ہے اب بھی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس قبیلے  کے  لہو میں  ذائقہ  اتنا  لگا

جس کو بھی دیکھا، اسی کے خون کا پیاسا لگا

اس قدر آنکھیں کھلی رکھنے والا  انسان ہی صحیح معنوں میں شاعر ی کا حق ادا کر سکتا ہے ورنہ ذاتی مشغلہ کی بنیاد پر اشعار کہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں موجود رہتی مگر وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔ فریاد آزرؔ  ایسے شاعر ہیں جنھیں نہ تو غزل کی تاریخ  فراموش کر سکتی نہ ہی وقت کا غبار ان کے افکار کو دھندلا کر سکتا ہے۔ بہر حال غزل گوئی میں فریاد آزرؔ کی ریاضت جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی غزلیہ شاعری کے متون میں ان کی  زبر دست حصہ د اری  رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

فریاد آزر: شگفتہ خیال شاعر ۔۔۔ عمران عظیم

 

بنارس کی سرزمین جہاں صنعت و حرفت اور سیاحت کے سبب عالم گیر شہرت کی حامل ہے، وہاں اس کی ثقافتی، تہذیبی نیز ادبی سرگرمیوں کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر بین الاقوامی اہمیت کی حامل شخصیات نے جنم لیا اور اپنے اپنے کمالات و جوہر کا لوہا بھی منوایا۔ موسیقی اور رقص جیسے فنون لطیفہ کے ضمن میں بسم اﷲ خاں، گرجا دیوی، پنڈت کشن مہاراج، ستارہ دیوی اور ایم راجن کا تعلق بھی اسی شہر سے رہا ہے۔ ہندو مذہب کے علم برداروں نے ویدانت، فلسفہ اور بھکتی کا گیان بھی یہیں پر حاصل کیا۔ کبیر داس، پریم چند، غالب، فراق اور قرۃ العین حیدر نے بھی اس سرزمین سے کسی نہ کسی صورت سے تعلق رکھا۔ نامور ڈرامہ نگار آغا حشر بھی بنارس میں آ کر بس گئے تھے۔ عہد حاضر میں یہاں کے بہت سے مخلص خدام شعر و ادب سرگرم عمل ہیں اور اعلیٰ تخلیق ادب میں مصروف ہیں۔

دبستان بنارس کے بالغ اور بیدار مغز شاعر فریاد آزر دہلی میں مقیم ہیں تازہ فکر اور تازہ کار غزل گو ہیں۔ ان کی شاعری کئی دہائیوں پر محیط ہے اور ان کا ادبی سفر نہایت خلوص و لگن کے ساتھ جاری ہے۔ وہ اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے شاعر ہیں۔ انہوں نے عہد حاضر میں اقدار کی شکست و ریخت، تہذیب و اخلاق کے عروج و زوال، زندگی کی افرا تفری، نے ہمواریوں اور نامسائد حالات کو دیکھا ہے اس لیے ان کی شاعری میں معاشرتی، تہذیبی و تمدنی موضوعات کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ شعری بصیرت کے ساتھ سماجی و سیاسی مسائل و نکات کا بھی بھرپور شعور رکھتے ہیں جس کا اظہار ان کی شعری کائنات میں بکثرت مل جاتا ہے۔

فریاد آزر کی شاعری میں جدت، ندرت، اختراع اور اچھوتا پن نمایاں ہے غزل اس تہذیب کا نام ہے جس کی دلکشی اس کی رمزیت و اشاریت میں مضمر ہے۔ یہ عناصر تاریخی تلمیحات کے ساتھ ان کی شاعری کے سرور و تلذذ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے اس نوع کے اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

پھر بیعت یزید سے منکر ہوئے حسین

اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر

 

وہ لمحہ سرور عالم کو جب ملی معراج

اسی کے صدقۂ جاں سے سنبھل گئیں صدیاں

 

تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات

مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات

 

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید

 

گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے

میں جب ہاتھ میں تیر و کمان لیتا ہوں

عہد حاضر مادیت کا دور ہے۔ ہر شخص معاشی نقطہ، نگاہ سے سوچتا ہے۔ بے اطمینانی ہر شخص کا مقدر ہے۔ غیر محفوظیت، قنوطیت اور مایوسی کے ماحول میں انسان اپنی زندگی قسطوں میں بسر کرنے پر مجبور ہ۔ ان موضوعات کا اظہار آزر کے اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے :

کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی

اے مری جانکاہ قسطوں میں گزرتی زندگی

 

ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش

ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں

 

پہلے تو سر سے سایہ اٹھا آسمان کا

پھر پاؤں کے تلے سے زمیں بھی کھسک گئی

 

ضد کرتا نہیں سستے کھلونوں کے لیے بھی

یہ بچہ مرا مجھ سے بھی بوڑھا نظر آیا

 

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

 

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

 

وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لذتیں

نہ جانے کیوں وہی عذاب مانگتی ہے زندگی

شکست و ریخت کے نوحوں کے علاوہ ان کی شاعری میں زندگی دردمندی کا حساس بھی ہے۔ فرید آزر جس زمانی اور مکانی حدود میں رہتے ہیں ان میں در پیش مسائل کو اپنی شاعری میں بڑی مہارت اور سلیقہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کے شاعری اپنے قاری کو انوکھے کیف و سرور سے سرشار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ کسی ایک نہج پر گفتگو نہیں کرتے بلکہ اپنے شعری اظہار سے وہ انسانی زندگی سے وابستہ مختلف موضوعات پر بات کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع ان کے نظام فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے جذباتی و ذہنی تجربات کی نقش گری میں مکمل حسیت کے ساتھ صنف غزل کے فنی التزام اور ڈسپلن کو بھی ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا، تاہم وہ محنتی شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور صلاحیت کی بنیاد پر کئی غر مانوس اور اجنبی قوافی کا بھی استعمال تجربے کے نام پر کیا ہے میری رائے میں اسے شعری

وسعت میں نیک شگون اس لیے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ غزل کے مطلع کے ساتھ ہم صوت قوافی والے اشعار درج ذیل ہیں   ؎

آزما کر عالم ابلیس کے حربے جدید

ہو گئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید

 

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید

 

کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف

بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید

محل نظر ہے کہ لمحے جدید، حرب جدید کے ساتھ حرف اضافت کے ساتھ دور جدید کو محض صوتی ہم آہنگی کے باعث ہم قافیہ بنایا گیا جو قابل قبول نہیں۔ قوافی کے صوتی نظام میں اس جارحانہ دخل اور غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کے عمل سے گریز بہتر تھا۔ خوش بیانی، پرکاری اور معنی آفرینی کلام آزر کی قابل ذکر خصوصیات ہیں۔ عملی طور پر انہوں نے روایت سے قطعی انحراف نہیں کیا ماسوائے مذکورہ بالا غیر صحیح اور ناگوار ضابطہ شکنی کے، جو تجربے کے نام پر ان کے کلام میں گاہے بگاہے در آئی ہے۔ بلکہ انہوں نے جدید فکری نظام کی شجر کاری کی ہے۔

فریاد آزر نہایت شریف الطبع انسان ہیں۔ کاہلی اور سست رفتاری ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ دراصل عملی طور پر وہ جس کام کو کرتے ہیں اسے اطمینان اور سکون سے کرتے ہیں۔ ان کے شعری موضوعات کے تنوع کی رنگا رنگی ان کی شعری کائنات۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

 

تمام عمر ہمیں منزلیں نہیں ملتیں

ہم اہل درد سدا راستے میں رہتے ہیں

 

اس سادہ دل سے مل کے مجھے بھی یہی لگا

اب تک میں جی رہا تھا دکھاوے کی زندگی

 

ملی تھی جب اسے جنت تو خوش نہ تھا اتنا

وہ جتنا خوش ہے مجھے دیکھ کر جہنم میں

 

وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے

کہ اس کے پاؤں جنت میں، سر جہنم میں

 

تجھ سے بچھڑے تو آغوش مادر میں، پھر پاؤں پر، پھر سفر در سفر

دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت  میں ہیں

 

صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے

یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے

 

ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھا جس کا رکھ رکھاؤ

زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا

 

اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہیں

سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری

 

ہیں پستیاں ہی مقدر، بلند ہوتے ہوئے

میں خواب دیکھوں حقیقت پسند ہوتے ہوئے

 

یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے

رہائی مل تو جاتی ہے، سزا پوری نہیں ہوتی

 

حصہ درد وراثت سے زیادہ ہی ملا

مجھ کو شاید مری قسمت سے زیادہ ہی ملا

 

لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں

کوئی دروازہ، نہ آنگن، نہ دریچہ کوئی

 

غموں کی قید بھی کتنی عجیب ہے، جس سے

فرار ہوتے ہیں قیدی، بری نہیں ہوتے

 

درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے

بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا

 

بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزر

سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں

 

اہل صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف

سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے

 

کسی بھی قصہ کا کردار وہ نہیں تھا مگر

بغیر اس کے ہر اک داستاں ادھوری تھی

 

ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی

حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا

 

ضمیر کہتا ہے ایمان ہے تو سب کچھ ہے

زمانہ کہتا ہے پیسہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

 

جی زرق برق کپڑوں سے اس کا اچٹ گیا

آنکھوں میں بس گئی تھی کفن کی جمالیات

 

راکشس کی جان طوطے میں تھی اور ہم جیسے لوگ

دم بدم اگ آنے والا سر قلم کرتے رہے

مجموعی طور پر یہ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ فریاد آزر کی شاعری روشن امکانات کی حامل ہے۔ وہ زرخیز تخلیقی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے تخلیقی عمل میں ہم عصر زمانہ کی نمائندگی اور ترجمانی ہے۔ وہ عصری مسائل کا عرفان رکھتے ہیں اور انسانی نفسیات و احساسات پر گہری نظر، جو ان کی شاعری کو مقصدیت عطا کرتی ہے۔ فریاد آزر نہایت لگن، توجہ اور دل جمعی کے ساتھ شعری ریاضت میں مصروف ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

منفرد لب و لہجہ کا شاعر: فریاد آزرؔ ۔۔۔ پروفیسر ابنِ کنول

 

جس طرح اردو افسانوی ادب میں ۱۹۷۰ کے بعد ایک خاص تبدیلی آئی یعنی آٹھویں دہائی کے افسانہ نگاروں  نے ایک  نئی راہ اختیار کرتے ہوئے خود کو ترقی پسند تحریک اور جدید رجحان سے الگ کر کے اپنی شناخت قایم کی اسی طرح اس دور کے نوجوان شعرا نے بھی اپنی علاحدہ پہچان بنانے کی کوشش کی۔ فریاد آزر ان ہی نو جوانوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے تقریباً  آٹھویں دہائی میں  اپنی شاعری کی ابتدا کی اور بہت جلد اپنے منفرد موضوعات کی وجہ سے دہلی کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گئے۔ انہیں بے باک شخص، شاعر و نقاد  پروفیسر عنوان چشتی کی ادبی  سرپرستی بھی  حاصل رہی  جس کی وجہ سے ان کے لہجہ میں بے باکی پیدا ہو گئی۔ میں فریاد آزر کو ذاتی طور پر  تین دہائیوں سے جانتا ہوں، ان کے یہاں ٹھہراؤ نہیں ہے، خوب سے خوب تر کی  جستجو مسلسل جاری رہتی ہے، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ  ہمیشہ رہتا ہے :

بے بسی سے مری بے حس نہ سمجھ لینا مجھے

دل میں وہ لاوا ابلتا ہے کہ رب جانتا ہے

فریاد آزر کے اندر جذبات و احساسات کے ابلتے لاوے نے  ان کی شاعری مین ایسی تپش پیدا کر دی ہے جو مردہ احساسات کو گرماتی ہے، ان کے اشعار انسان کے اس کرب کی عکاسی کرتے ہیں جن سے آج کا انسان جوجھ رہا ہے :

فضائے آتشِ گجرات سے جو بچ نکلے

پرندے پھر نہ گئے لوٹ کر جہنم میں

 

پھر بیعتِ یذید سے منکر ہوئے حسین

اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر

 

زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا

اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا

 

وہ امن و آشتی کا نام لے کر

جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے

فریاد آزر جس دور سے گزر رہے ہیں یا گزر چکے ہیں وہ تاریخ کا ایسا دور ہے جس مین بظاہر انسان  ترقی کی منازل طے کرتا ہوا چاند پر پہنچ  گیا ہے لیکن بباطن آج اکیسویں صدی میں آ کر بھی وحشیانہ زندگی جی رہا ہے۔ عراق، افغانستان، فلسطین، بوسنیا،  چچنیا، لیبیا، شام اور مصر جیسے ممالک میں مظلوموں کی آہوں اور ظالموں کی بم باری نے تخلیقی فن کار کے دلو دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس جھنجھلاہٹ اظہار فریاد آزر کی شاعری میں جا بجا  نظر آتا ہے :

سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے

ہے اس کا مشغلہ صحنِ چمن میں زہر بونے کا

 

کربلا  ہو  کہ  فلسطین  کہ ہو بوسنیا

درد صدیوں سے مرا نام ونسب جانتا ہے

 

یم بہ یم، صحرا بہ صحرا  نقشِ جا ں جلتا ہوا

آتشِ نمرود  میں سارا  جہاں  جلتا ہوا

 

پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں

عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہا  کے  لہجے میں

فریاد آزر کا بسیرا اس شہر میں ہے جہان پورے ہندستان بلکہ  عالم کی تصویر دکھائی دیتی ہے، اس لئے ان کے مشاہدات میں وسعت ہے، تجربات میں گہرائی ہے۔ وہ اپنے مشاہدات، مطالعات اور تجربات کی  کی روشنی میں  احساسات کو شعوری پیکر عطا کرتے ہیں۔ فریاد آزر کے موضوعات  محدود نہیں ہیں، وہ ہر موضوع کو شعر کے قالب میں  ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ موضوعات کی پیش کش مین ان کے میر اور ناصر کاظمی کی سی سادگی ہے۔ وہ بری فن کاری سے تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کو اپنی غزل کا حصہ بنا لیتے ہیں :

اس قدر سبز درختوں کو نہ  کاٹو کہ کہیں

سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری

 

ہزاروں ابرہا لشکر سجا رہے ہیں تو کیا

ہوائے سبز  ابابیل ہونے والی ہے

 

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

فریاد آزر کے یہاں ہندو تہذیب کا عکس بھی ملتا ہے اور اسلامی تاریخ کی جھلک بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ان کے وسیع مطالعہ اور مشاہدہ کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کی غزل غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے، وہ کہیں فریادی نظر آتے ہیں اور اپنے عہد د کا دکھ بیان کرتے ہیں، کہیں آزر بن کر اپنے محبوب کا بت تراشتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ فریاد آزر کی شاعری  اردو شاعری کی تاریخ میں   خود اپنا مقام  متعین کرے گی اس لئے کہ ان کا لب و لہجہ، موضوعات اور ان کی پیش کش اپنے ہم عمروں اور ہم عصروں سے منفرد ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

فریاد آزرؔ:تخلیقی اڑان کے نئے زاویے  ۔۔۔ حقانی القاسمی

 

 

تخلیق کیVirgin Territory کی سیاحت، عصر حاضر کے بہت ہی کم فنکاروں کا مقدر بنی ہے، غیر ممسوس منطقے کی سیر کے لئے جس آشفتگی، دیوانگی، جرأت، بے خطری اور عصری آگہی کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے بہت سے تخلیق کار محروم ہیں۔ فریاد آزر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظر عطا کرنے کی جدو جہد میں اس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میں کامیاب ہوئے ہیں جو بہت حد تک کنوارا اور قدرے غیرمستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میں وہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصرِ حا ضر کی بیشتر تخلیق سے غائب ہو گیا ہے۔

آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میں تازگی، تحیر اور تابندگی آتی ہے۔ انہوں نے ’ تخلیقی اجتہاد‘سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچا لیا ہے جس میں اکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میں مدتوں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ” تا قیا

ت کھلا ہے باب سخن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فریاد آزر کی شاعری میں بابِ سخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیں اور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی و مشینی عہد میں آزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریں ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں۔ فریاد آزر کی شاعری میں جو احساس و اظہار  ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں ‘گذشتہ‘ مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیں مگر مستنیر ضرور ہے۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approachہے۔ آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے۔ ان کے یہاں اس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں ‘ میں اپنی شناخت کھو چکا ہے  اور بے چہرگی  جس کی  پہچان ہے۔ بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی ‘ خارجی صورتحال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوں کے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورتحال میں ان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی،  اقتصادی،  سماجی، تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔

جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات،  تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہے۔

فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیں انہوں نے احساس و اظہار کے جو صنم کدے تعمیر کئے ہیں ،  اس میں ان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میں گم نہیں ہیں بلکہ گردو پیش پہ ان کی گہری نظر ہے :

 

اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے

اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں یا کہ  جنت  میں ہیں

٭

خون مشرق کا بہاتے ہی رہیں گے  ناحق

اور کرسکتے ہیں کیا مغربی آقاؤں کے لوگ

٭

ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے

سطحِ  ’ اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے

٭

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ  قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

٭

رواج گاؤں میں پردے کا اس قدر نہ تھا

مگر  مزاج  میں بے پردگی  بہت کم تھی

٭

یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے

مگر فضاؤں  میں  آلودگی  بہت  کم تھی

٭

یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست ، سماج اور  دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لئے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جامِ جہاں نما‘ ہے جس میں پوری  انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اکثر شعروں میں حیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں ،  ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتہ چلتا ہے ان کے یہاں تخلیق کی علمی ، عرفانی ، وجدانی سطح بہت بلند ہے  اور سماجی ،  سیاسی، سائنسی شعور بالیدہ۔

فکریات کی سطح ُپر جہاں انہوں نے بہت سے نئے تجربے کئے ہیں یا پرانے تجربوں کی ’تقلیب ‘کی ہے ، وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیں ہے۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کر دے خواہ اس کا تعلق کسی زبان ،  مذہب،   حساس و اظہنملک سے ہو اس کا استعمال سے حذر نہیں کرتے ،  یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جمہوری آوازیں ہیں جو جلجا میش،  سقراط،  سرمد اور منصور کے ’ حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے سیاسی ، سماجی ، سفاکیت، آمریت،  مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ فرقہ واریت، فسطائیت کے خلاف بھی انہوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے :

بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر

ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہو گیا

٭

ہندو کوئی تو کوئی  مسلمان  بن گیا

انسانیت بھی مذہبی خانہ میں بٹ گئی

٭

بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا

اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ

٭

کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے

لہو میں  ڈوبی ہوئی  مری آستین لگے

ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی  آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفرادیت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعور بھی ہے،  ژرف نگاہی اور باطنی روشنی(Inner Light)بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انہوں نے اپنی شاعری میں سمولیا    ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کر دئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیں گے اور انہیں منزل مراد تک پہنچا دیں گے۔

فریاد آزر کا تہذیبی ، سماجی ،  سیاسی، شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں  ان کے تخلیقی نظام سے مربوط اور منسلک ہیں۔ اسکا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد  میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے :

٭

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے  اسے دورِ جدید

٭

مجھے اب  اور سیاروں  پہ لے چل

میں گلو بل گانوں سے اکتا گیا ہوں

٭

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

٭

اس قبیلے کے  لہو  میں  ذائقہ  اتنا لگا

جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا

٭

اب تو ہر شہر ہے  اک شہرِ طلسمی  کہ جہاں

جو بھی جاتا  ہے وہ  پتھر میں  بدل جاتا ہے

٭

سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے

میں سمجھتا تھا کہ یہ سب  کچھ مری ایجاد ہے

٭

تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر نے انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انہیں ’احساسِ زیاں ‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی، سماجی،  اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لئے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچیدگیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں ، یا فسانۂ شب ہائے دراز،  پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آج کی سفاک جاں گسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں  اور  اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے ۔ ’طوافِ کوچۂ جاناں ‘کے بجائے  ’غم دوراں ‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔

فریاد آزر کی شاعری میں یہی ” غم دوراں ،   عذاب جاں، آشوب” عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق، معروضیت اور فنی، فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فریاد آزرؔ کا جہانِ دیگر ۔۔۔ پروفیسر عتیق اللہ

 

فریادا آزر کا نیا ،  مجموعہ کلام موسوم بہ "کچھ دن گلوبل گاؤں میں ” منظرِ عام پر آ چکا ہے، اس سے قبل ان کے تین مجموعے ” خزاں میرا موسم ‘(1994)، بچوں کا مشاعرہ   (1998) میں اور قسطوں میں گذرتی زندگی‘ (2005)  میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان دس گیارہ برسوں کے دوران اگر چہ چوتھا محض انتخاب ہے۔ چار مجموعوں کی یکے بعد دیگرے اشاعت کے معنی یہ بھی ہیں کہ شاعر کا تخلیقی وجدان مسلسل روبہ نمو ہے اور اس نمو یافتگی میں بھی محض یکساں روی کا دخل نہیں ہے کہ شاعر نے جس آواز کو ابتدائے سفر میں اپنی پہچان کا وسیلہ بنایا تھا پندرہ بیس برس کے بعد بھی وہ اسی کی پرداخت میں مصروف ہے۔ فریاد آزر کے اس طویل تخلیقی سفر کے تمام سنگِ ہائے میل کا مجھے بخوبی علم ہے۔ اطمینان کی خبر یہ ہے کہ کسی بھی سنگِ میل کو انہوں نے مستقل پڑاؤ نہیں بنایا بلکہ ہر سنگِ میل کے وقفے کو انہوں نے ایک تجربے کے طور پرہی اخذ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فریاد آزر کے کلام میں واضح طور پر ایک ارتقاء کی صورت نظر آتی ہے۔ اس قسم کا ارتکازاوریکسوئی جو شاعر کے اعتماد کی دلیل ہے،  کم ہی کا مقدر بنتی ہے، اس کے لئے اپنے آپ سے بڑی جنگ لڑنی پڑتی ہے ،  اپنے آپ کو بار بار  رد کرنا پڑ تا ہے، بار بار اپنی باطن کی چھان پھٹک کرنی پڑ تی ہے، اپنے لمحاتی جذبوں اور ان کے وفور پر قدغن لگانی پڑتی ہے جب کہیں ارتکاز اور یکسوئی کی وہ صورت پیدا ہوتی ہے جو شاعر کے قدم بقدم پیش روی کرتی ہے۔ درج ذیل اشعار فریاد آزر کی تخلیقی سمت و رفتار کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور اس تخلیقی تدریجی ارتقاء کے مظہر بھی ہیں جس کا پہلا نقش ’خزاں میراموسم‘   نے قائم کیا تھا۔

عجیب  طور کی  مجھ  کو  سزاسنائی گئی

بدن کے نیزے پہ  سر رکھ دیا گیا میرا

٭

دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے

ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے

٭

اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ  جہاں

جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل   جاتا ہے

٭

تما م عمر بھٹکتا رہا   میں  خانہ بدوش

خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں

٭

جو مکاں اپنے بزرگوں نے  بنایا تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے

٭

(خزاں میرا موسم)

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

٭

پھر وہی منظر نظر کے سامنے  کیوں آ گیا

کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات

(۲)

جب ملا تبدیلیِ تاریخ  کا موقع اسے

نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا

٭

یہ بلائیں سر  سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

٭

مرے وجود سے اس درجہ خوف ہے اس کو

کہ میرا  نام و نشاں  ہی  مٹانا  چاہتا ہے

٭

(قسطوں میں گذرتی زندگی)

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ فریاد آزر نے کسی بھی مرحلۂ سفر کو مستقل پڑاؤ نہیں مانا۔ ’ خزاں میرا موسم‘کے اشعار میں آزر جس کرب  اور جس دکھ سے دوچار ہے وہ عصری تہذیبی زندگی کا پیدا کردہ ہے۔ فریاد آزر اپنی چاروں طرف کی ہنگامہ خیز اور شور آگیں زندگی سے پوری طرح بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ وابستہ بھی ہے اور اس سے ایک ایسی لاتعلقی بھی محسوس کرتا ہے جو اس کے لئے مستقل ایک سوال بنی رہتی ہے۔ دونوں کے درمیان ایک ایسی خلیج ضرور ہے جو بادی النظر میں دکھائی نہیں دیتی لیکن شاعر کا سارا دکھ ہی یہی ہے کہ پوری طرح شمولیت کے باوجود ایک اجنبی پن ایک نامانوسیت بہرطور برقرار ہے۔ دراصل فریاد آزر ایک ایسا خاص اخلاقی وِزن رکھتا ہے جسے تمام حقائق اور تمام چیزوں کی کسوٹی کا نام دینا چاہئے۔ اسے جہاں اپنی اخلاقیات سے تصادم کا سامنا ہوتا ہے وہیں اس کے قلم میں بھی ایک نئی آب آ جاتی ہے اور احتجاج اس کا کلمہ بن جاتا ہے۔ فریاد آزر کے لئے شہر اور اس کی اندھا دھند بڑھتی پھیلتی ہوئی تہذیبی زندگی ہی تمام اعلیٰ ترین انسانی اقدار کی مرگ آثاری کا باعث ہے انسانی رشتوں کی پامالی اور نیک ترین انسانی جذبوں اور بنیادی معصومیتوں کی ناقدری، فریاد آزر کے خوش خواب کے تئیں ایک بڑے چیلینج کا بھی حکم رکھتی ہے۔ فریاد آزر کا یہی خوش خواب (یوٹو پیا) ’قسطوں میں گذرتی زندگی‘ تک آتے آتے چکنا چور ہو جا تا ہے، جس کی بس کرچیاں ہی اس کے حصے میں آتی ہیں۔ غزل کی صنف کے عمومی مضامین کے برخلاف فریاد آزر کے مضامینِ شعر، ان کے اپنے تجربات کی کوکھ سے پھوٹے ہیں۔ جو غزل کی عمومی فضا کے تئیں یقیناً نامانوس ہیں لیکن اس اقلیت کے ایک فرد کے لئے قطعاً نامانوس نہیں ہیں، جو گذشتہ ساٹھ برسوں سے ایک انتہائی غیر یقینی، حوصلہ شکن، بشریت کُش، اور تاریخ کُش عہد میں زیست بسری کے لئے مجبور ہے۔ ہمارے ادوار میں تاریخ نے ایک ایسی مظلوم و مجبور عورت کا روپ دھارن کر لیا ہے جو تنہا اور بے چارہ ہے اور جس کی عصمت کو صدیوں کے من گڑھت مظالم کے انتقام کی پیاس بجھانے کے لئے بڑی بے دردی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ تار تار کیا جا رہا ہے۔ احمد آباد اور سورت کے واقعات، تاریخ کے وہ متون ہیں جن کے تحت المتون فریاد آزر کی شاعری کے اصل مخرج ہیں۔ فریاد آزر نے ان مضامینِ  نو کے علاوہ ایسے بہت سے مضامین کو بھی جگہ دی ہے، جن کی معنویت کا دائرہ قدرے وسیع ہے اسی نے حقائق کے پرے اور میرے دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی سعی کی ہے۔ ہر جا جو جہانِ دیگر ہے آزر اسے بڑے ضبط اور یکجائی کے ساتھ کسب کرنے کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ اس جہانِ دیگر کا تعلق جہاں ایک طرف اس کے ہر چہار طرف کی دنیا سے ہے وہیں اس کے اس باطن سے بھی گہرا ہے جو نہ تو محفوظ ہے اور نہ جس کی حیثیت ایک مامن کی رہی ہے۔ فریاد آزر کی شاعری میں انہیں بے چینیوں نے اس کی آواز کو بھی لہو رنگ بنا دیا ہے۔

چلے  تو فاصلہ  طے   ہو نہ پایا لمحوں کا

رُکے تو پاؤں سے آگے نکل گئی صدیاں

٭

سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے

میں سمجھتا تھا کہ یہ سب  کچھ مری ایجاد ہے

٭

بدلے میں اس کی موت  مرا میں تمام عمر

وہ شخص  جی گیا مرے  حصے  کی زندگی

٭

پاؤں کے نیچے سلگتی ریت صدیوں کا سفر

اور سرپر بارِ سقف آسماں جلتا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

منفرد لہجہ کا شاعر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فریاد آزرؔ ۔۔۔ احسن امام احسن

 

دورِ جدید میں چند مختلف اور منفرد شعرا ہیں جو اپنے کلام کے  مخصوص انداز کی وجہ سے منفرد کہلاتے ہیں۔ ان ہی منفرد شعرا میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹر فریاد آزرؔ کا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے انھیں پڑھتا  آ رہا ہوں۔ وہ واقعی متاثر کرنے والی شاعری  کرتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر  جو میرے ذہن پر نقش ہو گئے ہیں :

وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں

خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں

 

ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف

مٹا رہے ہیں خود  اپنی زبان قسطوں میں

یہ دو شعر میرے ذہن و دل پر چسپاں ہو گئے۔ اس کے بعد فریاد  ا ٓزر  کا بغور مطالعہ کرنے لگا۔ ان کے مضمون باندھنے کا انداز  عمدہ ہے۔ کس طرح کی باتوں کو کس انداز میں پیش کیا جائے، یہ ان کے تخیل کی پرواز سے  اندازہ ہوتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آج کے دور کے شعرا  سے بالکل الگ ہٹ کر کہنے  کا انداز  موصوف کا نرالا ہے۔ ان کی شاعری میں جا بجا اسلامی فکر نظر اتی ہے۔ ادبی محاذ کے مدیر جناب سعید رحمانی فرماتے ہیں :

"اس حقیقت سے انکار نہیں  جا سکتا کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے۔  جس میں  جدید معاشرہ کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم  ان کی شاعری کا ایک  خوش گوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر  آتا ہے اور وہ پہلو  ہے اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی  حیثیت حاصل ہے۔ ”

فریاد آزر منفرد طریقہ سے اپنے جذبات، محسوسات، اور مشاہدات  کو شعری پیکر میں  عطا کرنا خوب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں  ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس آئینے میں  آپ بھی زندگی کی تصویر دیکھیں :

عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی

بدن کے نیزہ پہ سر رکھ دیا گیا میرا

 

جو مکا اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے

 

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

 

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

 

بدلے میں اس کی موت مرا میں میں تمام عمر

وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی

 

آج کے عہد میں یہ کھیل چل رہا ہے کہ بچی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے، کیا کہتے ہیں آزر صاحب، دیکھئے :

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے  دورِ جدید

دوسری طرف والدین لڑکیوں کی شادی کے لئے پریشان رہتے ہیں، شاید اسی پریشانی کی وجہ سے اسے رحم میں مار دیتے ہیں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے میں جو پریشانیاں اٹھانی  پڑتی ہے شاید اسی کا اثر ہو کیوں کہ جدید دور میں مانگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ والدین کی راتوں کی نیند  حرام ہو گئی ہے۔ آج ہمارا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ ہم خوب صورت لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ آج نیک سیرت لڑکیاں گھر میں  بیٹھی ہیں۔ اس جدید دور میں لوگ سیرت لے کر کیا کیا کریں گے، صورت ہی سب کچھ ہے۔ ایک پیارا سا شعر جو  یہ سارے منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے :

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

فریاد آزر کا شعور بالغ ہے، ان کے منفرد ہونے پر مشہور و معروف شاعر، و ادیب رفیق شاہین صاحب لکھتے ہیں :

” نئے لب و لہجہ میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں، لیکن فریاد آزر کی بات ہی نرالی ہے،  ان کی آواز کے سر میں  جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پر تو ہے وہ کسی بھی شاعر میں موجود  نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور  تیکھے پن کی وجہ  سے   ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔ ”

رفیق شاہین کی بات میں پختگی  لگتی ہے کیوں کہ جس انداز سے فریاد آزر شعر کہتے ہیں وہ دیگر لوگوں  سے جدا اور نئے طرز کا  ہوتا ہے۔ چند شعر پڑھ کر آپ بھی لطف اندوز ہوں :

کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی

اے مری جاں کاہ قسطوں میں گزرتی زندگی

 

کن کن صعوبتوں سے گزرنا پڑا مجھے

اس زندگی میں بارہا مرنا پڑا مجھے

 

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

 

یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی  جس سے

رہائی مل تو جاتی ہے سزا پوری نہیں ہوتی

 

ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھ جس کا رکھ  رکھاؤ

زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا

فریاد آزر نے کس کس نظر سے زندگی کو دیکھا ہے، زندگی کے نشیب و فراز کا   Analysis  خوب صورت  انداز میں کیا ہے، زندگی کو استعارہ  بنا کر بات کہنے کا انداز بھی  ان کا مختلف ہے۔ عمران عظیم کہتے ہیں :

"شکست و ریخت کے نوحوں کے علاوہ ان کی شاعری میں درد مندی کا احساس بھی ہے۔  فریاد آزر  جس زمانی اور مکانی حدود میں رہتے ہیں، ان میں در پیش مسائل کو  اپنی شاعری میں  بڑی مہارت اور سلیقہ کے ساتھ اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ ”

واقعی  فریاد آزر کی شاعری  عمدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک  بلند خیال رکھنے والے  معیاری شاعر ہیں، فریاد آزر پر اسرار کیفیات کو  رمز و کنایہ کے ذریعہ  پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ موصوف عام روش سے ہٹ کر بھی معنوی  و صوری اعتبار سے  منفرد ثابت ہوتے ہیں، موضوعات اور مضامین کے خیال کا خاص آداب رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی  شک و شبہ نہیں کہ  فریاد آزر ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

فریاد آزرؔ کی غزلیہ شاعری ۔۔۔ سرور عالم راز سرورؔ

 

 

مرے اشعارِ بے معیار جیسے بھی ہیں اچھے ہیں

نہیں محتاج میں آزر فصاحت کا، بلاغت کا

 

فریاد آزرؔ کا یہ شعر کس حد تک ان کے غزلیہ کلام کی تعریف و شناخت کے لئے موزوں یا نا موزوں ہے اس کا اندازہ تو زیر نظر مضمون کے مطالعہ کے بعد ہی شاید ممکن ہو۔ فی الحال تو اتنا کہنے میں ہرج نہیں ہے کہ ایک سرسری نگاہ ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ آزرؔ کے کلام کو بے معیار کہنا سراسرزیادتی ہے۔ بے معیار تو کیا اُسے تو کم معیار بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایک قابل اور ماہر شاعر ہیں۔ معلوم نہیں موصوف کو یہ خیال کیسے آیا کہ ان کا کلام نہ صرف بے معیار ہے بلکہ اپنی معنی آفرینی کے لئے وہ فصاحت و بلاغت کا بھی محتاج نہیں ہے۔ اس شعر کو مضمون کی پیشانی پر لکھنے کا مقصداس کے پس منظر میں آزرؔ کی غزل کا تجزیہ کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ موصوف اپنی شاعری کے حوالے سے خود ہی کچھ مشکوک نظر آتے ہیں ورنہ وہ بھی مرزا غالبؔ کی تقلید میں ستائش اور صلہ سے بے نیازی کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہتے کہ

 

نہ ستائش کی تمنا، نہ صلہ کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی

 

بہر کیف یہ ممکن ہے کہ اُن کی غزل کے مطالعہ اور تجزیہ کے نتیجہ میں آزرؔ کے اس احساس کا کوئی سبب سامنے آئے۔

 

آزرؔ کی غزل پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ایک دردمند اور انسان دوست شاعر ہیں۔ روایتی غزل میں حزن و ملا ل اور آزردگی و دل گرفتگی کا عنصر تو یقیناً زیادہ ہوتا ہے لیکن اس میں ایسے مضامین کی بھی کمی نہیں ہوتی جن سے طبیعت میں تازگی اور شادابی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن آزرؔ کی غزل میں مایوسی، اُداسی اور محرومی کا عنصر بہت غالب ہے اور مسرت، اُمید یا شگفتہ خیالی اپنے فقدان کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ وہ دُنیا اور اس کے تمام متعلقات کو شکایت، اضطراب اور رنج و محن کے محدب شیشہ سے دیکھنے کے عادی ہیں چنانچہ ان کی غزل میں تلخی، اُداسی اور ترشی اس طرح سے رَچ بس گئی ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ کہیں زمانہ اور زندگی کا شکوہ ہے تو کہیں مغربی تہذیب کی یلغارسے رو بہ تنزل مشرقی روایات و اقدار کا نوحہ ہے، کہیں صنعتی ترقی کے نام پر ماحول کی آلودگی کا ماتم ہے تو کہیں معاشرہ کے اہل اقتدار کے ہاتھوں کمزوروں اور بے کسوں کے استحصال پر اپنی بے بسی کا اظہار ہے۔ وہ مغربی ممالک کی سیاست اور چال بازیوں سے نالاں ہیں اور ان کا دل ہر اُس ملک اور قوم کی ہمدردی میں نوحہ خواں ہے جو ان ممالک کی دست درازیوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔ عا م انسان سے ان کی ہمدردی ہمارے دل کو چھوتی ہے، اسے احتجاج اور جہادی کوشش کے لئے اکساتی ہے اور بار بار ان حالات کا احساس دلاتی ہے جو خود ہم نے اپنے آپ پر برپا کر لئے ہیں یا جو دوسروں نے ہماری بے ہمتی، سہل انگاری اور کم سوادی سے فائدہ اٹھا کر ہم پر جاری کئے ہیں۔ لیکن ان کا یہ احتجاج کسی انقلاب کی دعوت دیتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، اس میں گھن گرج اور للکار نہیں ہے، کسی آنے والے اچھے وقت کی نوید نہیں ہے بلکہ یہ احتجاج بالعموم ایک جھنجھلاہٹ اور غصہ کی شکل میں ہی نظر آتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ احتجاج ان کی بے بسی اور لا چاری کے اعتراف و احساس سے زیادہ اور کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ قاری کو آزرؔ سے ہمدردی تو یقیناً ہوتی ہے لیکن وہ اُس کو اپنی آواز سے ملا کر آواز بلند کرنے پر آمادہ نہیں کر سکے ہیں۔

 

اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ فریاد آزرؔ ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ ان کی سوچ کا انداز اور پھر اس سوچ کو اظہار کے نئے سانچوں میں ڈھالنے کی مہارت قابل تحسین وستائش ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج کل بھی غزل اس کثر ت سے کہی جا رہی ہے کہ غزل گوئی میں اپنا رنگ اور لب ولہجہ دوسروں سے اس طرح مختلف رکھنا کہ شاعر کی آواز الگ پہچانی جائے نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ آزرؔ نے یہ کام بہت آسان کر دکھایا ہے۔ اُن کی غزل بہ یک نظر قاری کا دامن اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان کی زبان و بیان دونوں نہ صرف عام غزل گو شاعروں سے ممتاز ہیں بلکہ ان کی سوچ بھی قاری کو دعوت فکر دیتی ہے۔ ان کے یہاں روایتی غزل کی خوبصورتی اور معنی آفرینی تو نظر نہیں آتی لیکن اگر ان کی غزل کی جدید فکری صورت سے آسودہ ہو کر اور اسے قبول کر کے اس کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے یہاں جا بجا دلکش اور خوش رنگ اشعار نظر آ جاتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھئے

 

عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی

بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا

 

لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً

اور یوں قد میرا اُن کے درمیاں چھوٹا لگا

 

یاس ،  محرومی ،  محبت ،  کرب ،  خوش فہمی،  انا

اتنے ساماں تھے ،  مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا

 

ایک اک لمحے کا جب مانگا گیا مجھ سے حساب

جانے کیوں ذہنِ شہنشاہِ زماں چھوٹا لگا

 

غموں کی قید بھی کتنی عجیب ہے جس سے

فرار ہوتے ہیں قیدی، بری نہیں ہوتے

 

انہیں گناہوں کی اکثر سزا بھگتتے ہیں

جو ہم شریفوں سے سرزد کبھی نہیں ہوتے

 

جو ہم ہیں اس کو چھپاتے ہیں جانے کیوں آزرؔ

جو ہم جتاتے ہیں خود کو وہی نہیں ہوتے

 

کبھی جو ذاتی غموں پر نظر گئی آزرؔ

غمِ زمانہ مجھے انتباہ کرنے لگا

 

تمام عمر ہمیں منزلیں نہیں ملتیں

ہم اہلِ  درد سدا راستے میں رہتے ہیں

 

تمام عمر جہاں کو پرکھتے بیت گئی

پر اپنے آپ کو پرکھا نہیں تو کچھ بھی نہیں

 

یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے

رہائی مل تو جاتی ہے، سزا پوری نہیں ہوتی

 

سر اٹھا کر کوئی جینے نہیں دیتا آزرؔ

اور مرنا بھی نہیں چاہے انا بیچاری

 

ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید

ختم اب گھر کا تصور ہے، مکاں باقی ہے

 

روایتی غزل کی متعدد خصوصیات و محاسن میں تغزل اور شعریت کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن کوآسان اور عام فہم انداز میں بیان کرنا جتنا مشکل ہے اتنا ہی ان کو محسوس کرنا آسان ہے کیونکہ دونوں کو انسانی جذبات کی صورت گری میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ آزرؔ کی غزل کا مطالعہ کیجئے تو جو بات سب سے پہلے سامنے آتی ہے وہ اس میں تغزل اور شعریت کی کمی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غزل کہنے سے ان کا مقصد قاری تک فقط ایک پیغام پہنچانا ہے یعنی یہ کہ زندگی کی ہر سطح پر عام انسان کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔ کہیں اس پر مالی اور معاشی بوجھ ہے تو کہیں اس کے آس پاس کا ماحول صنعتی آلودگیوں سے تباہ کیا جا رہا ہے اور کہیں مغربی اقدار اُس کی بیش بہا مشرقی تہذیب اور تاریخ کو تاراج کر رہی ہیں۔ اس ملال اور احساس نے ان کی فکر کی ہر سطح کو زخمی کر دیا ہے چنانچہ ان کی غزل اپنی روایتی اور بنیادی شناخت سے دور ہو کر ایک چیخ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ان کے یہاں ایسا کوئی شعر نہیں ہے جس کو تغزل یا شعریت کے حوالے سے میر تقی میر، مرزا غالب، مومن خاں مومن اور فراق گورکھپوری کے درج ذیل اشعارکے مقابل رکھا جا سکے۔

 

جب نام ترا لیجے تب چشم بھر آوے

اِس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

 

تو اور  آرائش خمِ  کاکل

میں اور اندیشہ ہائے دُور دَراز

 

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

 

لے اُڑی تجھ کو نگاہ شوق کیا جانے کہاں

تیری صورت پر بھی اب تیرا گماں ہوتا نہیں

 

جدید غزل کا شاعر ہونے کی حیثیت سے آزرؔ کا لب و لہجہ روایتی غزل کا لب و لہجہ نہیں ہے بلکہ ان کے لہجہ میں غزل کی نرمی، شگفتگی اور گھلاوٹ کی جگہ تلخی ہے، خفگی کی درشتگی اور کڑواہٹ ہے، ذہنی الجھن کا احساس ہے جیسے شاعر کی سمجھ میں زندگی کے بیشتر زاویے اور تقاضے نہیں آرہے ہیں اور اگر آ بھی رہے ہیں تو وہ اُن سے آسودہ اور مطمئن نہیں ہے۔ وہ کہیں خود سے خفا اور غیر مطمئن دکھائی دیتے ہیں تو کبھی اپنے ماحول اور اس ماحول کے باسیوں سے اکھڑے اُکھڑے معلوم ہوتے ہیں۔ کہیں وہ مغرب کی لائی ہوئی روایات و اقدار سے بدگمان و پریشان نظر آتے ہیں تو کہیں وہ دُنیا کے ارباب اقتدار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کسی سے خوش نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ خود سے بھی خوش نظر نہیں آتے ہیں شاید اس لئے کہ جن حالات پر وہ گریہ کناں ہیں ان کا مداوا اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ الجھن اور بے بسی کے اس ہجوم میں اس بات کا تعین ممکن نہیں ہے کہ وہ کس سے زیادہ ناخوش ہیں البتہ ان کی اس عالم گیر بیزاری اور نا خوشی نے ان کی آواز کے تاثر کو کم ضرورکر دیا ہے۔

 

غزل اپنے کئی تلازمات کے باعث فوراً پہچان لی جاتی ہے۔ ردیف، قافیے، وزن اور بحر کے علاوہ غزل کے مضامین، موضوعات، زبان اور انداز بیان اتنے سکہ بند اور عام فہم ہو چکے ہیں کہ ہر شخص بیک نظر اسے پہچان لیتا ہے۔ غزل کے لغوی معنی "اپنے محبوب سے بات چیت کرنا” ہیں۔ اس حوالے سے غزل منسوب ہے معاملاتِ عشق و محبت سے، اس کی مجبوریوں، محرومیوں اور کامرانیوں سے، ہجر و وصال کی دلکش اور بعض اوقات دل شکن داستان سے اور ہراُس بات سے جو انسان کی اس فطری ضرورت یعنی محبت کی کسی نہ کسی شکل میں صورت گری کرتی ہے۔ چنانچہ غزل کے سارے ایسے مضامین اِس فہرست میں شامل کئے جا سکتے ہیں جن کو جدید غزل کا شاعرفرسودہ، مصنوعی اور انسانی زندگی کی حقیقتوں سے دور کہہ کر اپنے دفتر شعر گوئی سے خارج کر دیتا ہے۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا کی دلچسپ اور دردناک داستانیں، گل و بلبل، قفس و صیاد کی روداد، بہار و خزاں کی کہانی، اپنوں کی بے رخی اور پرایوں کے ظلم، دُنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی بے اعتباری، غم روزگار، غم دُنیا، غم زندگی، غم آرزو مختصر یہ کہ ہر وہ خیال اور جذبہ جو انسانی زندگی میں اچھے یا برے رنگ بھرتا ہے اور ہمارے اوپر اثر انداز ہوتا ہے غزل کے ہار میں پرویا نظر آتا ہے۔ ان موضوعات سے کنارہ کش ہو کر جدید غز ل گو ایک عظیم سرمایۂ مضامین سے محروم ہو جاتا ہے اور ندرت فکر اور تنوع بیان کا میدان اپنے اوپر تنگ کر لیتا ہے۔ نتیجہ میں اس کے پاس کہنے کے لئے گنی چنی چند باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ اس کی غزل گھٹن کا شکار ہو جاتی ہے اور یہی صورت حال آزرؔ کو بھی پیش آئی ہے۔

جدید غزل گو شعرا نے روایتی انداز فکر اور طرز نگارش سے بغاوت کر کے غزل میں انسانی زندگی کے ان مسائل کو باندھنے کی کوشش کی ہے جو اُن کے نزدیک عشق و محبت سے زیادہ ضروری ہی نہیں ہیں بلکہ ہر انسان کی زندگی کا نا گزیر حصہ بھی ہیں۔ چنانچہ جدید غزل روایتی غزل کے مقابلہ میں زیادہ "زمینی” نظر آتی ہے کیونکہ وہ اپنے مقتضیات و تلازمات میں ایک عام انسان کی روزمرہ کی زندگی سے زیادہ قریب ہے۔ البتہ اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے زمینی اور غیر رومانی معاملات سے یہی قربت جدید غزل سے اس کی وہ دلکشی اور جاذبیت چھین لیتی ہے جو غزل کی پہچان اور جان ہے۔ جدید غزل وقتی طور پر ہمیں اپنے روزمرہ کی زندگی سے کتنی ہی قریب کیوں نہ لے جائے وہ بہر حال روایتی غزل کی مقبولیت اور دلآویزی کے مقابلہ میں کمزور اور بے جان دکھائی دیتی ہے۔ اسی لئے فریا د آزرؔ کی غزل کا مطالعہ روایتی غزل کے تناظر میں کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جدید غزل کا خمیر روایتی غزل سے ہی اٹھا ہے۔ ردیف، قافیہ، وزن اور بحر سب روایتی غزل سے ہی مستعار ہیں۔ جدید غزل کے موضوع سخن میں البتہ جدت فکر و بیان کی کوشش کارفرما ہے۔ جدید غزل کے مضامین کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اورجس طرح جدید غزل گو نے اپنے لئے میدان فکر تنگ کر لیا ہے اس پر بھی اظہار خیال کیا جا چکا ہے۔ یہاں آزرؔ کی جدید غزل کی چند خصوصیات پر خیال آرائی کی جائے گی۔ غزل کی ایک شناخت اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر شعر ایک اکائی ہوتا ہے یعنی وہ اپنا مطلب مکمل طور سے ادا کرتا ہے اور افہام و تفہیم کے لئے کسی دوسرے شعر کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح غزل کا ایک شعر اگر تصوف پر مبنی ہو تو دوسرا عشقیہ مضمون باندھ سکتا ہے جب کہ تیسرا آلام روزگار کا شکوہ کر سکتا ہے۔ یہ غزل کا عام انداز ہے۔ دو صورتیں ایسی ہیں جب اس خصوصیت سے غزل مستثنیٰ ہو جاتی ہے، ایک تو جب غزل کے چند اشعار قطعہ بند کی شکل میں نظم کئے گئے ہوں اور دوسری جب غزل کے سب اشعار ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو بیان کر رہے ہوں یعنی وہ غزلِ مسلسل ہو۔ آزرؔ کے یہاں غزلِ مسلسل کی صرف ایک مثال ملتی ہے جس میں انہوں نے اپنی محبوبہ کا ذکر بہت اہتمام سے کیا ہے۔ چونکہ ان کی اس غزل میں نسبتاًشعریت، تغزل اور معنی آفرینی کی جھلک ملتی ہے اس کے چند اشعار یہاں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 

تمام دن وہ مرا انتظار کرتی ہے

پھر ایک سانس میں باتیں ہزار کرتی ہے

 

نہیں وجود ہے اس کا کوئی جداگانہ

وہ اپنے آپ میں مجھ کو شمار کرتی ہے

 

اسی کے ذکر سے سب لوگ جانتے ہیں مجھے

وہی غزل کو مری شاہکار کرتی ہے

 

اسی کے حسن سے خود کو نکھارتی ہے غزل

اسی سے نظم بھی اپنا سنگھار کرتی ہے

 

میں اس کے عشق میں دنیا کو بھول جاؤں اگر

وہ اہتمامِ غمِ روزگار کرتی ہے

 

جہاں بھی جائے وہ راہوں میں پھول کھلنے لگیں

سو انتظار ہر اک رہ گزار کرتی ہے

 

یہ آزرؔ کی واحد غزل ہے جس میں روایتی غز ل کا رنگ جھلکتا ہے ورنہ ان کی غزل کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر انہوں نے کہیں قطعہ بند کہا ہے تو متعلقہ غزل میں اس کی مناسب نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ موصوف کی بیشتر غزلوں میں اشعار کے اکائی ہونے کی مذکورہ بالا خصوصیت نظر نہیں آتی ہے اور جا بجا اشعار اپنے پہلے یا بعد میں آنے والے اشعار سے مربوط اور متعلق ہو کر سرگوشی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ آزرؔ کی غزلوں میں غزل مسلسل کا یہ ادھورا رنگ عام ہے جیسے وہ متواتر اشعار میں ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور اچانک درمیان میں ایک آدھ ایسا شعر آ جائے جو اس تسلسل کو توڑ کر موضوع سخن کو خلط ملط کر دے اور قاری حیران و پریشان کھڑا رہ جائے۔ ایک غزل مثال کے طور پر دی جاتی ہے

 

خوبصورت سا بھرم توڑ گیا تھا کوئی

دور رہتی تھی کہیں چاند پہ بڑھیا کوئی

 

لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں

کوئی دروازہ، نہ آنگن نہ دریچہ کوئی

 

وہ فراعین ہیں کہ روحِ زمیں کانپتی ہے

اور اس عہد میں آیا نہیں موسا کوئی

 

میں بھی روتا ہی رہا نرگسِ بے نور کے ساتھ

دیکھ پایا نہ مجھے دیدۂ بینا کوئی

 

دفن کر دیتے ہیں خوابوں کو یوں ہی آنکھوں میں

شاید آ جائے نظر تجھ سا مسیحا کوئی

 

آج سیرت نہیں، صورت کو نظر ڈھونڈتی ہے

عمر ڈھل جاتی ہے، آتا نہیں رشتہ کوئی

 

اب فرشتوں سے ملاقات کہاں ممکن ہے

کاش انساں ہی ز میں پر نظر آتا کوئی

 

پھر نہ چھا جائے اندھیرا مری آنکھوں میں کہیں

پھر دکھاتا ہے مجھے خواب سنہرا کوئی

 

عمرِ نو سے ہی مسائل مرے محبوب رہے

میرے خوابوں میں نہ رضیہ ہے نہ رادھا کوئی

 

جو نئی نسل کو آفات کا حل بتلاتا

کیا بچا ہی نہیں اس شہر میں بوڑھا کوئی

 

چاند کے دھندلے اور ٹیڑھے میڑھے نقوش میں چرخہ کاتتی ہوئی بڑھیا ہمارے فرسودہ عقیدہ یا تصور کا قصور تو ہو سکتی ہے مگر وہ آزرؔ کا "بھرم” کس طرح ہو سکتی ہے جس کو توڑنے پر ایک انجانا "کوئی” قادر بھی ہے ؟ابھی قاری اس بھول بھلیاں سے فارغ نہیں ہو پاتا ہے کہ اس کا سامنا اگلے دو اشعار سے ہوتا ہے جو معاشرہ کے کمزور طبقہ کی اچھی تصویر کشی کرتے ہیں لیکن چوتھا شعر نرگس بے نور کا معمہ پیش کر دیتا ہے جسے قاری غیر شعوری طور پر علامہ اقبال ؔ کے اس مشہور شعر کے تناظر میں حل کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

اس کے فوراً بعد کم صورت لڑکیوں کے رشتے کا مسئلہ دَر آتا ہے اور اس تگ و دَو میں جو کسر رہ گئی تھی وہ غزل کا آخری شعر پوری کر دیتا ہے۔ اس منزل پر قاری یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے اور اس سے اسے کیا حاصل ہوا ہے ؟ اس سوال کا جواب دینا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

 

آزرؔ کی الجھن اور پریشانی کی وجوہ میں ایک معاشرہ کا وہ انتشار بھی ہے جو مغربی اقدار کی یورش نے پیدا کر دیا ہے۔ ہماری پرانی اور عزیز تہذیب و روایات، اخلاق و آداب، رہن سہن، معاشرہ اور تمدن، چھوٹوں اور بڑوں کا فرق و تمیز، زبان وا َدب غرضیکہ زندگی کا ہر شعبہ مغربی تعلیم و معاشرت سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور مسلسل تنزل اور ابتری کا شکار ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میں اچھے برے کی تمیز اٹھ گئی ہے اور ہم مغرب سے آئی ہوئی ہر قدر کو آنکھیں بند کر کے صرف اس مفروضہ کی بنا پر گلے لگا رہے ہیں کہ وہ مغرب کی دین ہے اس لئے اُس کا بہتر اور سودمند ہونا یقینی ہے۔ دوسروں کی اچھی باتوں کو قبول کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی ہرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ہر منطقی اصول کی رُو سے جائز اورمناسب ہے۔ بصورت دیگر ہماری تہذیب اور معاشرت پر برا اثر پڑنا لازمی ہے۔ آزرؔ کے کلام میں ان کی شکایات اور الجھنیں آپس میں ایسی خلط ملط ہو گئی ہیں کہ قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کا کوئی خاص موقف ہے بھی یا وہ ہر ایسی چیز کے یکساں خلاف ہیں جو اُن کی اقدار سے متصادم ہے۔ درجِ ذیل اشعار دیکھئے کہ موضوع سخن کس طرح ایک جگہ قرار نہیں پاتا ہے بلکہ جا بجا بھٹکتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا ان اشعار کو غزل کے اشعار کہا جا سکتا ہے ؟ اگر قاری کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ اشعار آزرؔ کی غزل کے ہیں تو وہ یقیناً انہیں غزلیہ شاعری کے خانے میں رکھنے میں تامل کرے گا۔

 

عجیب مغربی قانون ہے، جو مشرق کے

محبتوں سے بھرے گھر تباہ کرنے لگا

 

جنھوں نے دیکھ لیا حملۂ شبِ بغداد

کبھی نہ دیکھا ان آنکھوں کو بند ہوتے ہوئے

 

شادی و مرگ پہ مل پاتے ہیں باہم اب تو

ورنہ بچپن میں سبھی بھائی بہن تھے یکجا

 

منتشر ہو گئے سب لوگ شکم کی خاطر

کیا زمانہ تھا کہ احبابِ وطن تھے یکجا

 

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں رخصت آزرؔ

ہائے کیا دور تھا اعضائے بدن تھے یکجا

 

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

 

ابھی فرصت نہیں مرنے کی تیاری کی ہم کو

ابھی ہم لوگ جینے کی حماقت کر رہے ہیں

 

حقیقت اس قدر سنگین ہوتی جا رہی ہے

نگاہوں سے سنہرے خواب ہجرت کر رہے ہیں

 

نہیں مرغوب مردہ بھائیوں کا گوشت کھانا

تو ہم پھر کس لئے غیبت پہ غیبت کر رہے ہیں

 

بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزرؔ

سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں

 

آزرؔ کی شکایت کا ایک اور سبب معاشرہ کے طاقت ور طبقہ کی کمزوروں پر حکومت بالجبر ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دَور میں طاقت ور قوتوں نے کمزوروں کا استحصال کیا ہے اور ان سے ہر طرح سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ کلیہ زندگی کی ہر سطح پر عائد ہوتا ہے چنانچہ طاقتور انسان کمزورانسانوں کو دَباتے ہیں اور طاقتور حکومتیں کمزور حکومتوں پر ظلم کرتی ہیں۔ مغربی اقوام نے جس طرح مشرقی اقوام کااستحصال کیا ہے اور آج بھی کر رہی ہیں وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ایک حساس شاعر کی حیثیت سے آزرؔ کا اِ س صورت حال سے متاثر ہونا اور  اشعار میں اپنی آزردگی، غصہ اور بے بسی کا اظہار کرنا عین اقتضائے فطرت ہے۔ بہت سے دوسرے شاعروں نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اپنے اپنے طور پر احتجاج کیا ہے۔ علی سردار جعفری، جوشؔ ملیح آبادی، علامہ اقبال ؔ اور دوسرے شعرا اِس معرکہ میں پیش پیش رہے ہیں۔ فر ق یہ ہے کہ جہاں دوسروں نے نظم کو اپنے خیالات اور پیغام کا ذریعۂ اظہار بنایا ہے وہاں آزرؔ نے جدید غزل سے یہ کام لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اپنے جوش و خروش میں وہ بھول گئے کہ غزل اس مقصد کے لئے غیر موثر اور  نا مناسب ہے۔ قاری جب بھی غزل پڑھتا ہے تو وہ ہر شعر کو الگ الگ دیکھتا ہے اور یہ توقع رکھتا ہے کہ ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہو گا۔ آزرؔ کی غزل اسی لئے اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ ان کے خیالات اور انقلابی پیام کی صداقت سے انکار نہیں ہے اور نہ ہی ان کا غم و غصہ مصنوعی یا سیاسی ہے لیکن غزل کے پیرائے میں یہ خیالات اور یہ غصہ بے رنگ اور بے اثر ہو کر رہ گیا ہے۔ آزرؔ کو اس کام کے لئے نظم کا انتخاب کرنا چاہئے تھا۔ وضاحت کے لئے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

 

کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا!

درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے

 

ہمیں جہان کی صورت سنوارنے نکلے

کبھی بخارہ، کبھی تاش قند ہوتے ہوئے

 

زمانہ چاند سے آگے نکل گیا اور ہم

زمیں سے لپٹے ہوئے ہیں کمند ہوتے ہوئے

 

تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے

اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا

 

بڑا خود دار تھا کچھ مانگنے میں شرم آتی تھی

لہٰذا وہ چرا لاتا تھا ہر ساماں ضرورت کا

 

مرے حقوق کو پامال کرنے والا بھی

قصور سب مری تقدیر کا بتاتا ہے

 

جہاں قیامتِ صغرا گزرتی ہے ہم پر

زمانہ عدل جہاں گیر کا بتاتا ہے

 

دورِ حاضر میں زلیخائے سیاست کے عوض

کون یوسف ہے جو بے وجہ گرفتار نہیں

 

لغزشیں کچھ رشی منیوں سے بھی ہو جاتی تھیں

اور ہم عام سے انسان ہیں، اوتار نہیں

 

ان کے انداز سے لگتا تو یہی ہے شاید

لوگ حق دار ہیں جنت کے، طلبگار نہیں

 

ظاہر ہے کہ ایک شاعر صرف آواز ہی بلند کر سکتا ہے۔ ا س کے ہاتھ میں کسی قسم کا اقتدار یا اختیار نہیں ہے اور اس پر مستزاد ہمارے عوام بھی ان معاملات سے بے خبر ہیں یا بے خبر رکھے گئے ہیں۔ حالات نے ان کو بے عمل بھی بنا کر رکھ دیا ہے اور انھیں اپنی عافیت اسی میں نظر آتی ہے وہ خاموش رہیں۔ جب آزرؔ کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے تووہ بے بسی سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 

میں صرف سچ ہی نہ ہوتا تو کیا بگڑ جاتا

بلا ہی لیتا ہے جب تب ستونِ دار مجھے

 

یہ کیسا دور ہے، کیسی سیاستیں اس کی

گناہ خود وہ کرے ا ور سنگسا ر مجھے

 

یہ عاجزی تو پرانی رتوں کا تحفہ تھی

نئے زمانے میں لے ڈوبا انکسار مجھے

 

میں اس کے ظلم کا اس کو حساب دکھلاؤں

نہیں ہے خود پہ اب اتنا بھی اختیار مجھے

 

صنعتی دَور کی ترقی اور پیش رفت کی دین ماحول کی وہ آلودگی بھی ہے جس نے ہماری زندگی کو بے شمارمسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ کارخانوں اور فیکٹریوں کی تمام گندگی اور آلائش جس طرح ہماری ندیوں، جھیلوں اور تالابوں کو زہریلا کر رہی ہیں اور جتنی تیزی سے ہوا دھوئیں، خاک دھول اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے کوئلے کی راکھ کے علاوہ دوسری متعدد معدنی ذرات سے زہریلی ہوتی جا رہی ہے وہ نہایت تشویشناک ہے۔ اس صنعتی ترقی کے نتائج کئی ممالک میں اپنی انتہائی بھیانک شکل میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر چین کی تقریباً ساری ندیاں اس صنعتی غلاظت سے اس درجہ آلودہ ہو چکی ہیں کہ ان کا پانی نہ توانسان کی ضروریات زندگی کے لئے ہی قابل استعمال رہ گیا ہے، نہ مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور ہی اس پانی میں زندہ رہ سکتے ہیں، نہ پرندے اور دوسرے جاندار اُس سے سیراب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وہ کھیتوں اور درختوں کی سنچائی کے کام آ سکتا ہے۔ ماحول میں "اسماگ” (smog)یعنی دھوئیں سے بھرا ہوا کہرا اتنی بری طرح سرایت کر گیا ہے کہ بعض مقامات پر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے اور انسان گھر سے باہر نکل کرسانس لینے کے لئے چہرہ پر نقاب (mask) لگانے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بے تحاشہ پھیل رہی ہیں اور ہر طرح کا سرطان یعنی کینسر (cancer) عام ہو گیا ہے۔

 

ماحول کی اس آلودگی کے خلا ف آزرؔ کا وہی موقف ہے جو ہر صاحب عقل کا ہونا چاہئے یعنی اگر ہم اسی طرح غیر ذمہ دارانہ طور پر اپنا ماحول اور فطرت کے ودیعت کئے ہوئے انعام برباد کرتے رہیں گے تو اس کا نتیجہ مختلف امراض کی وَباؤں اور زندگی کو صحت مند طریقہ سے گزارنے کی سہولتوں کے فقدان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آخر کار ہونا یہ ہے کہ انسان اپنی حرکتوں کی وجہ سے بربادی، تہذیب و تمدن کی تباہی اور عبرتناک موت اپنے اوپر نافذ کر لے گا۔ آزرؔ نے بہت دردمندی سے انسان کی اس بے حسی اور خود غرضی کی نشاندہی کی ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کی ہے لیکن اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کہ کوئی ان جیسے لوگوں کی آوا ز پر دھیان دے گا اور اس صورت حال کا علاج کرے گا۔ انسان اپنی خود غرضی میں انسانیت کو بھول چکا ہے اوراس کا انجام ظاہر ہے۔ آزرؔ کے چند اشعار سنئے اور غور کیجئے

 

بدن صبا کا بھی یکسر دھوئیں میں لپٹا ملا

نسیم بھی لئے گرد و غبار گزری ہے

 

نفس نفس میں ترا قرض دار ہوں یا رب

تمام زندگی میری ادھار گزری ہے

 

جہاں کو اس میں بھی سازش مری نظر آئی

بہار اب کے جو بے برگ و بار گزری ہے

 

اس قدرسبز درختوں کو نہ کاٹو کہ کہیں

سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری

 

کیسے آلودہ فضاؤں سے بچے بادِ نسیم

کیسے مسموم نہ ہو جائے صبا بے چاری

 

سبب تھی فطرتِ انساں خراب موسم کا

فرشتے جھیل رہے ہیں عذاب موسم کا

 

وہ تشنہ لب بھی فریبِ نظر میں آئے گا

اسے بھی ڈھونڈ ہی لے گا سراب موسم کا

 

درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے

بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا

 

میں جس میں رہ نہ سکا جی حضوریوں کے سبب

یہ آدمی ہے اسی کامیاب موسم کا

 

جدید غزل کے شاعرسے یہ توقع تو ہوتی ہے کہ وہ موجودہ مادی اور  صنعتی دَور سے نالاں ہو اور اس کی شاعری میں اس کے پروردہ حالات پر احتجاج بھی ہو لیکن جب اس کی شاعری آج کے نوجوانوں کے اخلاق اور کردار پر بھی انگلی اٹھاتی ہے تو حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے۔ آزرؔ آج کے نوجوانوں کی نماز جیسی بنیادی عبادت سے بے توجہی اور خوف الٰہی سے بے نیازی پر شاکی ہیں، ان کی جھوٹ بولنے کی عادت پر اُن کوافسوس و حیرت ہے اور دُنیا کی ہوس پرست قوتوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک سے آپ کو پریشانی اور وحشت ہے۔ وہ اپنی غزل میں اس افسوسناک صورت حال کا ذکر بہت دلسوزی سے کرتے ہیں۔ شاعر اپنے دَور کا نباض ہوتا ہے اور اس کے ہر نشیب و فراز سے اس کا حساس دل متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بس میں صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنے دَور کی تاریخ دیانت داری سے قلم بند کرتا رہے۔ وہ تاریخ کا رُخ اُسی وقت موڑ سکتا ہے جب اس کے ساتھ ہم آواز ادبا اور شعرا کا ایک کثیر ہجوم ہو اور عوام و خواص ان کی آواز سے ہم آہنگ ہونے اور اس بغاوت کے تکلیف دہ نتائج برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ افسوس کہ ہمارے ملک اور قوم میں وہ فضا ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے جو ایسی انقلابی آواز کے لئے ہمہ تن گوش ہو۔ بہر کیف دیکھئے کہ آزرؔ اپنے کرب کا اظہار کس طرح کرتے ہیں۔

 

تجھے یہ سانس غنیمت نہیں، تعجب ہے

نماز کے لئے فرصت نہیں، تعجب ہے

 

تمام عمر گناہوں میں کاٹ دی تو نے

اور اپنے آپ سے وحشت نہیں، تعجب ہے

 

جسے بھی دیکھئے دو روزہ زند گی میں ہے گم

کسی بھی سر پہ قیامت نہیں، تعجب ہے

 

وہ شخص سچ کی روانی سے جھوٹ بولتا ہے

ذرا بھی لہجہ میں لکنت نہیں، تعجب ہے

 

درندگانِ ہوس نے کھلائے گل کیا کیا

اور اس جہان کو حیرت نہیں، تعجب ہے

 

ہے ماں کے پاؤں میں جنت، یہ جانتے ہوئے بھی

کسی کو خواہشِ جنت نہیں، تعجب ہے

 

کیا بزرگوں میں بھی کچھ خامیاں پائی گئی ہیں ؟

آج کیوں بچے نصیحت پہ اترّ آئے ہیں ؟

 

عرش کیوں ہلنے لگا ہے، کہیں ایسا تو نہیں !

کچھ گنہگار عبادت پہ اتر آئے ہیں

 

کیا مرا نامۂ ا عمال ہی کافی نہیں تھا؟

میرے اعضا بھی شکایت پہ اتر آئے ہیں

 

بے حسی دیکھ کے انسانوں کی اکثر شبِ غم

درد خود اپنی عیادت پہ اتر آئے ہیں

 

یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آزرؔ اپنی شاعری میں محبت ایسے خوبصورت انسانی جذبہ سے غافل نہیں رہے ہیں۔ محبت وہ انسانی جذبہ ہے جس کے بغیر صرف شاعری ہی نہیں بلکہ خود زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ہر زبان کی شاعری اور ادب میں محبت کو طرح طرح سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اُردو غزل پر محبت اور اس سے متعلقہ مضامین کا ایسا گہرا اثر رہا ہے کہ اس کے بغیر غزل کا تصور ہی ناممکن ہو کر رہ گیا ہے اور اگر زندگی یا شاعری سے محبت کی طلسماتی دُنیا چھین لی جائے تو دونوں کا لطف ہی جاتا رہتا ہے۔ آزرؔ کی غزلوں میں گاہے گاہے ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں محبت کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے

:

میں سمجھ پایا نہیں بالکل مگر

اس کے سمجھانے کا ڈھب اچھا لگا

 

چاند کیا مریخ تک ہم عصر جا پہنچے مگر

ہم تجھے پانے، تجھے کھونے کا غم کرتے رہے

 

وصالِ یار ہی سب کچھ نہیں محبت میں

جو دشتِ ہجرسے گزرا نہیں تو کچھ بھی نہیں

 

ہے جس کا نام زمانہ میں عشق، یہ دل بھی

مرید خود کو اسی پیر کا بتاتا ہے

 

دلِ عزیز پہ دعوا ہے آج بھی اس کا

اسے وہ مسئلہ کشمیر کا بتاتا ہے

 

میں جب بھی درد کو لفظوں کا روپ دیتا ہوں

زمانہ شعر اسے میرؔ کا بتاتا ہے

 

لو پھر نظارۂ حسن و جمال کر رہے ہیں

ہم آج دل کی حکومت بحال کر رہے ہیں

 

وہ صرف ایک نظر ڈال کر چلا بھی گیا

ہم اس کے بارے میں کیا کیا خیال کر رہے ہیں

 

تمھارا حسن، تمھارا خیال رکھ دل میں

ہم اپنے آپ کو اب مالا مال کر رہے ہیں

 

ان اشعار میں بھی محبت کا وہ رنگ اور رُوپ نہیں ملتا ہے جس سے آزرؔ بھی بخوبی واقف ہوں گے۔ ان کے یہاں جدیدیت کی یورش نے محبت کی شکل بھی میں بدل دی ہے۔ اِس اُلجھن میں آزرؔ کو حقیقی محبت کہیں ملتی ہے تو وہ ماں کی آغوش میں ملتی ہے۔ یہ نکتہ بھی بہت دلچسپ اور قابل غور ہے کہ جدید غزل کہتے کہتے جس میں روایتی غزل کی "مجازی محبت ” کا دو ر دور تک شائبہ بھی نظر نہیں آتا ہے انہیں اچانک ماں کی مامتا یاد آ جاتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔

 

وہ سیاست نے دئے ہوں کہ محبت نے تری

زخم اس دل کو ضرورت سے زیادہ ہی ملا

 

لوگ جنت کے طلب گار ہیں لیکن اے ماں

تیری آغوش میں جنت سے زیادہ ہی ملا

 

ہے ماں کے پاؤں میں جنت، یہ جانتے ہوئے بھی

کسی کو خواہشِ جنت نہیں، تعجب ہے

 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزرؔ جدیدیت سے غیر شعوری طور پر بیزار ہو کر ایک لمحہ کے لئے اُس دُنیا میں پہنچ گئے جہاں انہیں اچانک رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی جس میں آپ نے ماں کے پیروں کے نیچے جنت بتائی ہے۔ آزرؔ کو اس کا احساس تو یقیناً ہے کہ ان کا کلام حسن اور عشق کی رنگین داستان سے خالی ہے اور اس میں زندگی کی وہ شادابی اور تازگی نہیں ہے جو غزل کا طرۂ امتیاز ہے۔ وہ خود ہی اس احساس کے اعتراف میں شعر میں کہتے ہیں کہ

 

نغمگی سے مرے اشعار ہیں خالی آزرؔ

میرے افکار میں پازیب کی جھنکار نہیں

 

: "پازیب کی جھنکار” کی یہی کمی ہے جو ان کی غزل کو روکھی اور پھیکی مقصدیت تو دیتی ہے لیکن اس کے پیام کو سوز و ساز و گداز سے بیگانہ رکھتی ہے۔ وہ اپنے حق کے لئے بھی صرف طاقت پر بھروسہ کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے یہاں دعا نام کی کوئی چیز معتبر نہیں ہے جب کہ ایسی غزل جو دل کے تاروں کو چھیڑ جائے کسی دعا سے کم نہیں ہوتی ہے۔ بایں ہمہ وہ خود کو ایسے اہل درد میں شمار کرتے ہیں جو اندھیروں کو سحر پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں

:

یہ کام بے ہنروں کو ہی زیب دیتا ہے

ہنر رسیدہ کو عرضِ ہنر سے کیا لینا

 

اگر یہ حق ہے تو حق چھیننے سے ملتا ہے

فقط دعا ہے تو اس کو اثر سے کیا لینا

 

گلے اندھیروں سے جی بھر کے مل کے روتے ہیں

ہم اہل درد ہیں ہم کو سحر سے کیا لینا

 

یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آزرؔ کا اصل روپ کیا ہے۔ کبھی وہ ایک انقلابی کی شکل میں نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی وہ دل تھامے اپنی پرانی اقدار کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں، کہیں وہ ماحول کی آلودگی سے پریشان و ہراساں گریہ کناں دکھائی دیتے ہیں اور کہیں وہ کمزور ممالک کے مغربی طاقتوں کے ہاتھوں بربادی اور استحصال کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں ایسا کوئی پیغام یا فلسفہ نہیں ملتا ہے جسے ان کی شاعری کی اساس کہا جا سکے۔ اکثر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ ایک اضطرابی کیفیت میں زندگی اور دُنیا کے اس بیکراں سمندر میں ہاتھ پیر تومار رہے ہیں لیکن اپنی منزل سے نا آشنا ہیں۔ ان کو اپنے تئیں دعویٰ ہے کہ وہ اہل وفا میں سے ہیں لیکن اس پر پورا یقین خود ان کو بھی نہیں معلوم ہوتا ہے۔ ایک شعر ان کے اس تذبذب کی جانب اشارہ کرتا ہے  :

سبھی کو علم ہے پتلا وفا کا ہے آزرؔ

مگر و ہ شخص اداکار بھی ہوسکتا ہے

 

یہاں اتمام حجت کے لئے شاعری میں ابہام کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے خصوصاً اس لئے کہ آزرؔ کی غزل میں اس کا کافی استعمال کیا گیا ہے۔ ابہام یعنی شعر کا مبہم ہونا اس کی دلکشی اور معنی آفرینی میں اضافہ کا باعث ہوسکتا ہے۔ ابہام کی ایک صورت وہ ہے جس سے شعر معمہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اوراس کے معنی سمجھنا مشکل بلکہ نا ممکن ہوسکتا ہے۔ درجِ ذیل معروف شعر اس کی اچھی مثال ہے  :

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

 

ایسے ابہام سے گریز ہی بہتر ہے۔ ابہام کی دوسری شکل وہ ہے جو شعر کی معنی آفرینی میں اضافہ کرتی ہے۔ شعر میں ایسے اشارے چھوڑ دینا کہ تھوڑے سے فکرو تدبر سے شعر کے معنی واضح ہو جائیں ایک ایسا فن ہے جو مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ مومنؔ دہلوی کا نیچے دیا ہو ا شعرایسے ابہام کی اچھی مثال ہے کیوں کہ اس میں جو اشارہ کیا گیا ہے وہ نہایت لطیف ہے لیکن ایسا مشکل نہیں ہے کہ شعر کے معنی خبط ہو کر رہ جائیں۔

مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی

آخر کو دُشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

 

مومن ؔ کے اس شعر کے ابہام نے اس کی نزاکتِ خیال کو بڑھا دیا ہے اور شعر بہت خوبصورت ہو گیا ہے۔ آزرؔ نے اپنی غزلوں میں جا بجا ابہام کا سہارا لیا ہے البتہ وہ اس کوشش میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی خا ص وجہ یہی ہے کہ ان کی جدید غزلیں اپنے انقلابی اور احتجاجی پیغام کی موجودگی میں کسی قسم کی نزاکت خیال کی متحمل نہیں رہ گئی ہیں۔ انقلابی پیغام اور احتجاج جب تک بلند آواز سے نہ کیا جائے کوئی اثر نہیں رکھتا۔ بلند آواز سے کلام میں ایک قسم کی کرختگی اور کڑواہٹ کا پیدا ہو جانا لازمی ہے جس کی وجہ سے غزل کے لطف اور شعریت کا غائب ہو جانا لازمی ہے۔ اس طرح اشعار اپنی ہئیت میں تو غزل کے ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے آہنگ اور لب ولہجہ میں وہ غزل میں تکلف کے ساتھ ہی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آزرؔ اپنے اشعار میں جس طرح کا ابہام، علامات اور کنائے استعمال کرتے ہیں اس سے غزل کا عام قاری نا واقف ہے چنانچہ موصوف کے بہت سے اشعار اس کے لئے کم سے کم جزوی طور پر ایک معمہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس اجمال کی وضاحت کے لئے چنداشعار پیش کئے جا تے ہیں۔

 

سفید ہونے کا نقصان اس قدر تھا اسے

وہ اپنے بچوں کی شکلیں سیاہ کرنے لگا

 

کوئی پرندہ سمجھ لے ہمیں بعید نہیں

مکاں کے نام پہ جس گھونسلے میں رہتے ہیں

 

شاخ ہلنے پہ بھی کوئی نہ اُڑا پیڑوں سے

وہ پرندوں سے ملاقات کے ڈھب جانتا ہے

 

خواب کی راہوں میں حائل تھیں ہوا کی سرحدیں

راستے لیکن خلاؤں کے وسیلے ہو گئے

 

ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کر دے گی

خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہَوا جھیلوں کا

 

میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا لیکن

زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے

 

جو کلکتے سے پیشاور کا رشتہ جوڑ آئی ہے

وہ جی ٹی روڈ ہو جاتی ہے کیوں سوری نہیں ہوتی

 

یہ بچہ جانے کیوں ماں باپ سے خوش رہ نہیں پاتا

کبھی دادی سے ملتا ہے، کبھی مانی سے ملتا ہے

 

راکشش کی جان طوطے میں تھی اور ہم جیسے لوگ

ہر گھڑی اگ آنے والا سر قلم کرتے رہے

 

آزرؔ کو ان کے لب و لہجہ کی تلخی و برہمی کے پیش نظرAngry Young Man of New Ghazal یعنی "نئی غزل کا جوانِ برہم” کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ ان کی غزل کے عام مضامین اور ان کے مخصوص تلخ و ترش اظہار کو دیکھتے ہوئے اُن کے لئے یہ لقب ایک حد تک یقینامناسب تھا۔ "ایک حد تک” اس لئے کہا گیا ہے کہ آزرؔ کا لہجہ اور زبان  و بیان صرف تلخ ہی نہیں بلکہ پریشان اور پراگندہ یعنی 141confusedبھی ہیں۔ اکثر غصہ اور جھنجلاہٹ میں ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اپنا موقف بیان کیا جائے۔ وہ الفاظ کی بھول بھلیاں میں گم ہو جاتے ہیں۔ اشعار کا مطلب کہیں "در بطن شاعر” رہ جاتا ہے اور کہیں قاری کو اِس فکر میں چھوڑ جاتا ہے کہ آزرؔ یہاں کیا کہنا چاہتے ہیں اور جو اشارے، کنائے، تشبیہات و استعارات انہوں نے استعمال کئے ہیں ان سے کیا مطلب لیا جائے ؟ اوپر لکھے ہوئے اشعار روایتی غزل کے اشعارسے بہت دُور ہیں۔ پہلا، ساتواں اور آخری شعر خاص طور سے غزل کے رنگ و آہنگ سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور اپنے مطلب کے  لئے شاعر کے وضاحتی نوٹ کے محتاج ہیں۔ سب اشعار میں شعریت اور معنی آفرینی کا فقدان ہے۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ یہ اشعار پھیکے اور بے اثر ہیں اور انہیں غزل کے اشعار کہنا ممکن نہیں ہے۔ لب و لہجہ کی اِس ترشی اور پراگندہ خیالی کی مناسبت سے اگر آزرؔ کو "جدید غزل کا جوانِ برہم و پراگندہ خیال "یعنی Angry and Confused Man of New Ghazal کہا جائے تو نامناسب نہیں ہو گا۔

فریاد آزرؔ کی غزل کا یہ مطالعہ اور تجزیہ مختلف ہوسکتا تھا اگر جدید غزل کے شوق میں وہ یہ نہ بھول گئے ہوتے کہ یہ صنف سخن ان کے انقلابی مقاصد کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ان کا پیغام نظم کے ذریعہ دوسروں تک آسانی سے پہنچایا جا سکتا تھا جیسا کہ اب تک ہر انقلابی شاعر کرتا رہا ہے۔ غزل کا قاری اس کے ہر شعر کو ایک اکائی کی صورت میں دیکھنے کا عادی ہے۔ جدید غزل کی کوئی کوشش بھی اس کی اس عادت کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔ آزر ؔ صاھ لئے  صاحب عقل کا ہونا چاہٗب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ راقم الحروف کی رائے میں جدید غزل کو غزل کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔ صرف ردیف، قافیہ، وزن اور بحر سے غزل کی تشکیل نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مزاج، اس کی تہذیب، اس کے مضامین اور ان کو ادا کرنے کا اسلوب جب تک اپنی مخصوص صورت میں مرتب نہ کئے جائیں اس وقت تک غزل وجود میں نہیں آتی ہے۔ خود آزرؔ بھی جدید غزل سے آسودہ خاطر نہیں ہیں ورنہ وہ اپنے ایک شعر میں کیوں کہتے کہ :

لاکھ آزرؔ رہیں تجدیدِ غزل سے لپٹے

آج بھی میر ؔ کا اندازِ بیاں باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

غزلیں۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

 

 

(1)

وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کو ئی نہیں

جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کو ئی نہیں

 

جب سے میں نے گفتگو میں جھوٹ شامل کر لیا

میری  باتوں  کا  برا  پھر  مانتا  کو ئی  نہیں

 

آج  کل  ہر  خواب  کی  تعبیر ممکن ہے مگر

یہ  سنہرا  عز م  دل  میں  ٹھانتا  کو ئی  نہیں

 

کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب

یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کو ئی نہیں

 

اپنے اپنے زعم میں ہے مبتلا ہر آدمی

ایک دوجے کو یہاں گر دانتا کو ئی نہیں

 

میں نے جو کچھ بھی کہا ، سچ کے سوا کچھ بھی نہ تھا

پھر بھی آزرؔ بات میری مانتا کو ئی نہیں

٭٭٭

 

 

(2)

وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں

خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں

 

تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش

خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں

 

تما م قرض ادا کر کے ’ساہُکاروں‘ کا

بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں

 

ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے

بدل نہ جائے مری داستان قسطوں میں

 

ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش

ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں

 

بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں

بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں

 

ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف

مٹا رہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں

 

یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا

ہم ایسے لوگ ہوئے تھے جوان قسطوں میں

 

اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزرؔ

مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں

٭٭٭

 

 

(3)

حصۂ  درد    وراثت  سے   زیادہ   ہی  ملا

یعنی  مجھ  کو  مری قسمت  سے  زیادہ  ہی ملا

 

غم  زمانے  کا   ذرا   سا   ہی  خریدا  تھا مگر

مال  مجھ  کو  مری   قیمت  سے  زیادہ ہی ملا

 

وہ  سیاست  نے دئے ہوں کہ محبت نے تری

زخم  اس  دل  کو  ضرورت سے زیادہ ہی ملا

 

لوگ   جنت  کے طلب گار ہیں لیکن اے ماں

تیری  آغوش میں  جنت  سے  زیادہ  ہی ملا

 

لاکھ  تدبیر  نے  خوشیوں  کو    منایا لیکن

رنج  تقدیر  کو  راحت  سے   زیادہ ہی ملا

 

ہم  جسے  یوں  ہی  سدا چھوڑ دیا کرتے  تھے

حاشیہ  حسن  ِ عبارت  سے   زیادہ   ہی ملا

 

میں  حقیقت  کا   پرستار   ہوں  لیکن  آزرؔ

خواب  آنکھوں  کو  حقیقت سے زیادہ ہی ملا

٭٭٭

 

 

 

(4)

 

خوبصورت     سا   بھرم    توڑ  گیا   تھا  کوئی

دور  رہتی  تھی  کہیں    چاند    پہ  بڑھیا  کوئی

 

لوگ  دو گز کے  مکانوں میں بھی رہتے  ہیں جہاں

کوئی  دروازہ ،    نہ  آنگن     نہ   دریچہ  کوئی

 

وہ فراعین   ہیں  کہ   روحِ   زمیں  کانپتی ہے

اور  اس   عہد   میں  آیا    نہیں   موسا  کوئی

 

میں  بھی  روتا  ہی   رہا نرگسِ بے نور   کے ساتھ

دیکھ   پایا   نہ   مجھے     دیدۂ      بینا    کوئی

 

دفن کر  دیتے  ہیں خوابوں کو  یوں  ہی آنکھوں میں

شاید آ جائے   نظر   تجھ    سا    مسیحا  کوئی

 

آج سیرت   نہیں، صورت  کو نظر  ڈھونڈتی ہے

عمر ڈھل     جاتی ہے  ،   آتا   نہیں   رشتہ کوئی

 

اب   فرشتوں     سے  ملاقات  کہاں ممکن ہے

کاش   انساں   ہی    ز میں  پر    نظر آتا  کوئی

 

پھر نہ   چھا   جائے اندھیرا مری آنکھوں میں کہیں

پھر   دکھاتا     ہے  مجھے    خواب    سنہرا کوئی

 

عمرِ نو   سے   ہی   مسائل مرے  محبوب   رہے

میرے   خوابوں میں  نہ  رضیہ ہے   نہ رادھا کوئی

 

جو   نئی   نسل  کو    آفات    کا  حل  بتلاتا

کیا   بچا   ہی  نہیں  اس  شہر  میں  بوڑھا  کوئی

٭٭٭

 

(5)

 

اس  تماشے  کا  سبب  ورنہ   کہاں باقی ہے

اب بھی کچھ لوگ  ہیں  زندہ کہ جہاں  باقی ہے

 

اہلِ صحرا بھی بڑھے  آتے ہیں شہروں کی طرف

سانس  لینے  کو جہاں  صرف دھواں باقی ہے

 

زندگی  عمر  کے  اس  موڑ  پہ پہنچی  ہے جہاں

سود  ناپید  ہے،  احساسِ  زیاں    باقی ہے

 

ڈھونڈتی   رہتی ہے  ہر  لمحہ   نگاہِ  دہشت

اور  کس   شہرِ محبت  میں   اماں  باقی  ہے

 

میں کبھی  سود  کا  قائل  بھی  نہیں  تھا لیکن

زندگی  اور  بتا   کتنا   زیاں      باقی ہے

 

مار کر  بھی  مرے  قاتل  کو  تسلی نہ ہوئی

میں  ہوا  ختم  تو  کیوں نام و نشاں باقی ہے

 

ایسی  خوشیاں  تو کتابوں   میں  ملیں گی شاید

ختم  اب  گھر  کا تصور ہے، مکاں باقی ہے

 

لاکھ  آزرؔ  رہیں  تجدید ِ  غزل  سے  لپٹے

آج بھی   میر  ؔ کا   اندازِ  بیاں   باقی ہے

٭٭٭

 

 

(6)

 

دل  نے   اچھائی،  برائی  کو  بس  اتنا سمجھا

یعنی  گر  خود  کو برا  سمجھا  تو     اچھا سمجھا

 

ہم  سمجھنے  لگے   مجرم   ہے  ہمیں  میں کوئی

حادثہ      ایسا    رچایا    گیا    سوچا سمجھا

 

اب   سمندر   پہ  وہ  چلتا  ہے تو حیرت کیسی

عمر بھر  اس  نے  سرابوں  کو  ہی  دریا سمجھا

 

اور  چارہ  بھی نہ  تھا  اس  کے  علاوہ  کوئی

ہم  نے  ہر  دور  میں  قاتل  کو  مسیحا سمجھا

 

مجھ  کو سیلاب  نے سمجھایا  زمیںپیاسی تھی

زلزلہ  آیا  تو   میں   نے  ترا   غصہ سمجھا

 

اب تو وہ آگ ہیولوںسے بھی آگے ہے بہت

تو  نے  انساں  کو  فقط  خاک  کا  پتلا سمجھا

 

قصۂ  درد  سنا سب نے  مرا ، سچ  ہے  مگر

یہ  بھی  سچ  ہے کہ سبھی نے  اسے  قصہ سمجھا

 

مات   دی میں نے جو شیطاں کو بھی عیاری میں

پھر  مجھے   سارے  زمانے   نے  فرشتہ سمجھا

 

عمر  بھر  خامۂ  تنقید    نے   مانا     مردہ

بعد   از  مرگ  مجھے  اس  نے بھی زندہ سمجھا

 

جب  مرے  خواب حقیقت میں نہ بدلے  آزرؔ

میں  نے  دنیا  کی  حقیقت  کو بھی سپنا سمجھا

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید