FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ملک کی آزادی کا صحیح مطلب اور فائدہ

               مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

 

 ۸؍ فروری ۱۹۹۳؁ء کو شہر رائے بریلی میں گورنمنٹ کالج کے وسیع میدان میں منعقد ایک جلسہ میں کی گئی تقریر۔

ناشر: پیام انسانیت فورم، لکھنؤ

بشکریہ

www.abulhasanalinadwi.org

 

            بھائیو اور دوستو ! ہمارے چھوٹے وطن رائے بریلی اور بڑے وطن ہندوستان کے رہنے والو! میں بے تکلف کہتا ہوں کہ مجھے فخر ہے کہ وقت کی اہم ضرورت اور وقت کے تقاضے پر ہمارے شہر رائے بریلی میں ایک آواز پر اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا، میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے، یہ رائے بریلی کی تاریخ کے لحاظ سے بھی ( جس کا میں ایک طالب علم بھی ہوں اور مصنف بھی ) رائے بریلی کے شایان ِ شان ہے، اس رائے بریلی کا نام آپ تاجکستان و ترکستان اور ترکی میں جا کر لیں ، افغانستان میں جا کر لیں ، بہت سے عرب ممالک میں جا کر لیں ، یورپ اور امریکہ کے ان حلقوں میں لیں جو اصلاحی تحریکوں اور ملکوں کی آزادی کی کوششوں کی تاریخ اور تحریکات سے واقف ہیں ، اور اس موضوع پر لکھتے پڑھتے ہیں ، تو وہ رائے بریلی کے نام سے واقف نکلیں گے اور احترام و توجہ کے ساتھ پیش آئیں گے۔

حضرت سید احمد شہیدؒ اور تحریک آزادیِ ہند

            یہ کیوں ؟ یہ شہر ہندوستان کا کوئی بہت بڑا شہر نہیں ہے، اور یہاں آثار قدیمہ اور قابل دید مقامات بھی نہیں ہیں ، یہ بات صرف اس وجہ سے ہے کہ یہاں بعض بڑی با عظمت شخصیتیں پیدا ہوئیں ، اور یہ بعض ایسی شخصیتوں کا وطن اور جائے پیدائش ہے جنھوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کی سب سے پہلے اور سب سے بڑی کوشش کا آغاز کیا ، میری مراد حضرت سید احمد شہید ؒ سے ہے جو یہیں ( اس مقام سے کچھ فاصلہ پر ) پیدا ہوئے، اور انھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف جدو جہد شروع کی، اور ایک ایسی جماعت تیار کی جو اپنے اخلاق و سیرت، خداترسی و انسان دوستی، عالی ہمتی و بلند نگاہی، جان سپاری و سرفروشی میں دور دور تک اور دیر دیر تک بھی اپنی نظیر نہیں رکھتی ، اس کام کے لیے انھوں نے ہندوستان کے والیانِ ریاست اور اہلِ اثر و اقتدار کو بھی آواز دی، ان کی انسانی غیرت، وطن دوستی اور خطرہ کے احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کی، اس کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں :

            وہ راجہ ہندو راؤ (وزیر گوالیار) کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’ جناب کو خوب معلوم ہے کہ یہ پردیسی سمندر پار کے رہنے والے(۱) (انگریز مراد ہیں ، جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں ہندوستان پر اپنا اقتدار جمانا شروع کر دیا تھا، اور اس کی سیاست میں دخیل ہو گئے تھے۔) دنیا جہاں کے تاجدار، اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے، بڑے بڑے اہلِ حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انھوں نے خاک میں ملا دیا ہے، جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ، اس لیے مجبوراً چند غریب اور بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے.‘‘(۲)

            (۲) ماخوذ از مجموعۂ خطوط حضرت سید احمد شہید ؒ بزبان فارسی۔

            ریاست گوالیار کے ایک معتمد اور اعلیٰ عہدے دار غلام حیدر خاں کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’ ملک ہندوستان کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کے قبضہ میں چلا گیا ہے، اور انھوں نے ہر جگہ ظلم و زیادتی پر کمر باندھی ہے، ہندوستان کے حاکموں کی حکومت برباد ہو گئی، کسی کو ان کے مقابلہ کی تاب نہیں ،  بلکہ ہر ایک ان کو اپنا آقا سمجھنے لگا ہے ، چونکہ بڑے بڑے اہلِ حکومت ان کا مقابلہ کرنے کا خیال ترک کر کے بیٹھ گئے ہیں ، اس لیے چند کمزور اور بے حقیقت اشخاص نے اس کا بیڑہ اٹھایا۔‘‘(۳)

(۳)ایضاً

            ۱۸۵۷؁ء میں انگریزی اقتدار کے خلاف اور پورے ہندوستان کے انگریزی حکومت کی غلامی میں آ جانے کے اندیشہ کے پیش نظر جس جنگ آزادی کا آغاز ہوا، اور جس میں اس ملک کے باشندے عمومی طور پر شریک ہوئے، اور جس کو انگریزوں اور ان کی نقالی کرنے والوں نے عذر  (Mutiny)کا نام دیا ہے، جو ابھی تک چلا آ رہا ہے، اس کے بارے میں مشہور انگریز مصنف سرویلیم ہنڑ (Sir William Hunter) نے صاف طور پر لکھا ہے کہ:

’’ ۱۸۵۷؁ء کے غدر میں سید صاحب کی تحریک جہاد کی بچی کھچی چنگاریاں کام کر رہی تھیں ۔‘‘(۴)

(۴)The Indian Musalmans

            ہندوستان کی جنگ آزادی کی کامیابی کا جو شہرہ ہوا، اور دنیا میں اس جدو جہد اور اس کے مخلص اور صاحب بصیرت رہنماؤں کو جو عزت ملی، ان کے کارنامہ کا جس طرح اعتراف کیا گیا، اور معاصر دنیا اور محکوم ملکوں کے لیے وہ جس طرح ایک شاندار نظیر اور ہمت افزا کارنامہ بن گیا، اس نے جس طرح ہندو مسلم اتحاد کا ، ترک موالات(Non Co-operation)جیلوں کے بھر دینے اور قربانیوں کے نمونے پیش کرنے کا منظر دنیا کے سامنے پیش کیا، اس نے ہندوستان کا نام روشن کیا اور دنیا کے کئی ملکوں نے جو آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اس کو اپنے لیے نمونہ اور قابل تقلید مثال سمجھا، آج بھی بہت سے ایشیائی و مشرقی ملکوں میں ہندوستان کا نام بڑی عزت سے لیا جاتا ہے، اور جنگ آزادی کے سورماؤں (Freedom Fighters)کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

            ملک کی آزادی کی اس نعمت اور کارنامہ کا حق یہ تھا کہ ہم ہر قیمت پر اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس کی حفاظت کریں ، اور اس کی آبرو اور عزت قائم رکھیں ، اس پر ہر دور میں اور ہر جگہ فخر اور شکر کے جذبات کا اظہار کیا جائے، غلامی کے دور کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، اور ہمارے اندر کراہت و حقارت، نفرت اور ’’گھِن‘‘ کا ایک جذبہ پیدا ہو، اور ہم کسی حال میں اس دور کے واپس آنے کا تصور اور اس کو ترجیح دینے کا تخیل بھی گوارا نہ کرسکیں ۔

آج غلامی کے دور کو یاد کیا جانے لگا ہے

             لیکن میں اب دل پر پتھر رکھ کر اور اپنے ضمیر (Conscience)اور سامعین سے معذرت کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج ہمارے ملک کی جو حالت ہو رہی ہے اور خاص طور پر (۶؍دسمبر کے بعد سے) ہندوستان کے کئی بڑے بڑے شہروں میں اپنے ہم وطنوں اور ملکی بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، جس سفاکی اور بے دردی کے ساتھ ہزاروں آدمیوں کا خون بہایا گیا، گھر اور دکانیں لوٹی گئیں اور جلائی گئیں ، عورتوں کی بے عزتی کی گئی، بچوں کو مٹی کے برتنوں کی طرح توڑا اور خاک میں ملا دیا گیا، کروڑوں اور اربوں کا سرمایہ لوٹا گیا اور ضائع کیا گیا، میدانِ جنگ کی طرح خوف و ہراس کی فضا باغ و بہار شہروں اور تماشا گاہ بستیوں پر ہفتوں طاری رہی، اس نے ملک کو ایک ایسی منزل پر کھڑا کر دیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد غلامی کے دور کو یاد کرنے لگی، اور اس زمانہ کو نہ صرف ترجیح دینے لگی،  بلکہ اس کی آرزو کرنے لگی، جب ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا، عزتیں اور عصمتیں محفوظ تھیں ، بچوں پر کوئی بری نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا، ساری خرابیوں اور بد کرداریوں کے ساتھ اور اس حقیقت کے ساتھ کہ سات سمندر پار کے رہنے والے انگریزوں کو اس ملک پر حکومت کرنے کا ہرگز حق نہ تھا، اور وہ ایک بدیسی راج تھا جو یہاں سے دولت حاصل کر کے اپنے ملک کو منتقل کرتا تھا، عام شہریوں کو اس کا اطمینان تھا کہ وہ محفوظ ہیں ، پولیس اور فوج ڈرنے کی چیز نہیں تھی، وہ کرایہ کے ٹٹو تھے اور بدیسی حکومت کے غلام،  لیکن ان میں اپنے ہم مذہبوں اور اپنی ذات برادری کی حمایت و ترجیح کا جذبہ نہیں تھا، وہ امنِ عامہ اور تحفظ کا اپنے کو ذمہ دار سمجھتے تھے، اس سے زیادہ اس دور اور اس دور کے حاکموں کی تعریف اور اعتراف میں کہنا اپنی غیرت و ضمیر کو گوارا نہیں ، اور یہ بھی جو کچھ کہا گیا وہ بھی دل پر جبر کر کے کہا گیا۔

            اس سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں کی مختلف قومیں اور مذاہب اپنے عقیدے اور مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت (Religion and culture) کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کو اپنی آئندہ نسل تک منتقل کرنے اور اس کے مطابق تعلیم گاہیں ، مکاتب و مدارس قائم کرنے ، اپنی زبان میں لکھنے پڑھنے میں آزاد تھے، ان پر کوئی علم الأصنام (Mythology) مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، اس وقت انگریزی کی ریڈروں اور نصابِ تعلیم ( Curriculum)  میں جانوروں کے قصے، کتے بلی کی حکایتیں اور تصویریں ، یا عالمی تاریخی شخصیتوں (Historical Personalities) کے قصے اور ان کا تعارف ہوتا،  لیکن عیسائی مذہب (Christianity)  کے حضرت عیسیؑ کے بارے میں ، عقیدۂ تثلیث (Trinity)یا صلیب (Cross)کی تصویر و تقدیس کی دعوت نہیں ہوتی تھی، اس لیے جن لوگوں کو مذہب سب سے زیادہ عزیز تھا، ان کو اس معاملہ میں کوئی بڑی تشویش نہ تھی، صرف مغربی تہذیب و معاشرت، مغربی فیشن اور مغربی تخیلات و معیار اور کسی کسی وقت مذہبی آزادی ، الحاد اور بے راہ روی کا ڈر رہتا تھا۔(۱)

(۱)اس کے بارے میں لسان العصر اکبرؔ الہٰ آبادی اور علامہ اقبالؔ کا کلام دیکھنا چاہیے، اور علماء کی ان کوششوں کو جو انھوں نے اس کے اثر کو زائل کرنے میں صر ف کیں ، اور ان کے اچھے نتائج بر آمد ہوئے۔

            لیکن اب اس سلسلہ میں صورتِ حال مختلف ہے، اور بعض جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے تعلیمی و تربیتی منصوبوں کا صاف اعلان کر دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اب ایک ہی زبان ہندی رہے گی، نصاب کی کتابوں میں ایک خاص میتھالوجی (دیومالا) ہی داخل کی جائے گی، ایک بدلی ہوئی تاریخ پڑھائی جائے گی، آزاد مدارس و مکاتب کا قیام مشکل ہو جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔

            حضرات! اب اس کے بعد دل کو تھام کر اور پوری معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے وہ لوگ جن کو اپنا مذہب عزیز ہے اور اپنے خاندانوں اور ہم قوموں کی عزت وناموس عزیز ہے، اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ملک کا امن و امان اور پرسکون زندگی عزیز ہے، جس میں وہ دینی، اصلاحی ، تعلیمی، تصنیفی، ادبی اور فنی کام اور مشاغل اطمینان سے انجام دے سکیں ، اور اس سے بڑھ کر اپنی عبادت گاہیں ، درس گاہیں اور کتب خانے عزیز ہیں ، وہ اس زمانہ کو یاد کرنے لگے ہیں ، (خواہ وہ کتنا ہی غیر فطری تھا) جب یہ سب چیزیں عام طور پر محفوظ اور خارج از بحث تھیں ۔

اس سے زیادہ شرم کی کوئی بات نہیں

            میں آپ کو یہ بھی سنادوں کہ میں نے ایک مرتبہ محترمہ اندراجی سے ان کی وزارتِ عظمی کے زمانہ میں جب ایمرجنسی نافذ تھی، اور بعض جگہ بعض اقلیتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی تھیں ، کہا کہ اندراجی ! اس سے زیادہ شرم کی کوئی بات نہیں کہ لوگ انگریزوں کے دور کو جو غلامی کا دور تھا یاد کرنے لگے ہیں ، مجھے یہ یقین ہے کہ ہمارے جنگ آزادی کے رہنماؤں کو اس کا کسی وقت اندازہ ہوتا یا تصور بھی آتا کہ ملک کے آزاد ہونے کے بعد ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ ملک کے ذمہ داروں کی تنگ نظری اور غلط کاری کی بنا پر انگریزوں کی حکومت کا دور یاد آنے لگے گا اور وہ اس کی تمنا کرنے لگیں گے، تو آپ یقین مانیے کہ ان کے عزم و ہمت اور جوش خروش میں ( جو ملک کو آزاد کرانے کے لیے ظاہر ہو رہا تھا ) کمی ہو جاتی، اور ان کے دل اور قوتِ عمل(Vigour) کو بڑا دھکا لگتا، اور ان کی تقریروں میں وہ زور اور ان کی جدو جہد میں وہ جوش و خروش نہ رہتا، اور یہ جنگ آزادی اس آسانی کے ساتھ اور نیک نامی کے ساتھ کامیاب نہ ہوتی، اور اپنی منزل کو نہ پہنچتی، جس پر پہنچی۔

            ایک ایسا زمانہ جس میں آدمی اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش نہ ہو، اپنے مدرسوں اور کتابی ذخیروں کو دیکھ کر مطمئن نہ ہو، اپنی محنتوں کے حاصل ، اور اپنے جوہر و قابلیت کے نتیجہ سے اس میں افتخار کیا، اعتماد کا بھی جذبہ پیدا نہ ہو، انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے مستقبل کی طرف سے مشکوک و متردد ہو، اس میں زندگی کا کیا مزہ؟اور ایسے ملک میں کس معنی میں آدمی اپنے کو آزاد شہری، ملک کی زندگی میں دخیل اور اس کی تعمیر و ترقی میں شریک اور سرگرم ہو؟ پوری انسانی تاریخ میں انسان کا ضمیر اس بات کو پکار پکار کر کہتا سنائی دیتا ہے کہ غلامی سے بڑھ کر عیب و ذلت اور شرم کی کوئی بات نہیں ، خدا نہ کرے کہ ایسی عدالت قائم ہو کہ مجھے گواہ پیش کرنے کی نوبت آئے،  لیکن سیکڑوں کو پیش کیا جا سکتا ہے، جو یہ کہتے تو نہیں ہوں گے،  لیکن سوچتے ضرور ہوں گے ، گھر میں بیٹھ کر باتیں بھی کرتے ہوں گے۔

یہ میکدہ کی یہ ساقی گری کی ہے توہین

            پھر کسی آزاد ملک میں جس نے ملک کی آبادی کے تمام عناصر(Sections) اور قوموں اور فرقوں (Castes and Creeds) کے تعاون (Co-operation)  جدو جہد اور قربانیوں کے ذریعہ آزادی حاصل کی ہو، اس کی قیادت اور رہنمائی میں وہ ملک آزاد ہوا ہو، اس کا کوئی جواز نہیں کہ کوئی ایک فرقہ یا قوم (Community) خواہ وہ کیسی کھلی اکثریت اور بڑی تعداد میں ہو، اور کیسا ہی سرمایہ دار اور باوسائل ہو، وہ نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے عقائد اور دیومالا کی تعلیم و تبلیغ اور اس کو اپنی نئی نسل کی طرف منتقل کرنے ، اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان و رسم الخط کے نہ صرف رواج دینے اور قائم رکھنے میں ،  بلکہ پورے ملک پر اور نئی نسل پر اس کو جاری اور رائج کرنے میں آزاد ہو، اور دوسرا فرقہ (Other Community)دوسرا مذہب رکھنے والے (خواہ وہ اپنی تعداد میں کئی ملکوں کے اسی مذہب کے باشندوں سے زیادہ تعداد رکھتے ہوں ) اپنے دین و مذہب کے مطابق تعلیم دینے ، اپنی زبان و رسم الخط کی ترویج و بقا، اپنی تہذیب و ثقافت (Culture and Traditions)کے تسلسل کی کوشش میں آزاد نہ ہو، روز بروز اس پر نئی نئی پابندیاں عائد کی جائیں ، اور رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ چلنے پھرنے ، کھانے کمانے میں تو آزاد ہے،  لیکن لسانی، ثقافتی اور تعلیمی طور پر پابند اور غلام ہے۔ اہلِ علم و نظر جانتے ہیں کہ صرف رسم الخط (Script) کی تبدیلی سے ایک ملک کے پورے باشندوں کا اپنے قدیم علمی ورثہ (Intellectual Heritage) اور پوری ثقافت (Culture)سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اور وہ اپنے ماضی سے منقطع ہو جاتے ہیں ، اسی بنا پر ایک فلسفی مؤرخArnold Toynbeeنے لکھا ہے کہ ’’اب کسی کتب خانہ ، اور علمی ذخیرہ کو نذر آتش کرنے اور برباد کرنے کی ضرورت نہیں ، رسم الخط (Script) کا بدلنا کا فی ہے، اس طریقہ سے اس ملک کا اپنے ماضی سے رابطہ بالکل ختم ہو جائے گا‘‘۔(۵)

(۵) A Study of History, P. 518-519

            ہم اس مضمون کو اور اس اظہارِ حقیقت کو کہ وہ آزادی ہی نہیں جس کا سایہ ملک کے ایک حصہ پر پڑے، دوسرا حصہ محروم رہے، ایک فرقے کے حق میں آزادی کی بہار آئے اور اس کا باغ نئے برگ و بار لائے اور وسری جگہ خزاں کا دور دورہ ہو، اور نئے نئے علمی اور ذہنی ، تعلیمی و تربیتی اور مذہبی و اعتقادی طوق و سلاسل اور رکاوٹوں اور پابندیوں کا منظر، اس مضمون کو اس دور کے مشہور و مقبول شاعر حضرت جگر مراد آبادی کی ایک غزل پر ہم اپنے اس مقالہ کو ختم کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں :

چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں

کہیں بہار نہ آئے ، کہیں بہار آئے

یہ میکدہ کی یہ ساقی گری کی ہے توہین

کوئی ہو جام بکف، کوئی شرمسار آئے

خلوص و ہمت اہل چمن پہ ہے موقوف

کہ شاخ خشک میں بھی پھر سے برگ و بار آئے

 

ملک کی نازک صورت حال اور محبان وطن کی ذمہ داری

تقریر : مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

حیدرآباد میں ۲۹؍دسمبر ۱۹۸۸؁ء کو منعقد ’’اجلاس پیام انسانیت‘‘ کا خطبۂ صدارت۔

ناشر: پیام انسانیت فورم، لکھنؤ

بشکریہ:  www.abulhasanalinadwi.org

            بھائیو اور دوستو! آپ مجھے معاف کریں ، میں بھائیو اور دوستو کے الفاظ کے سوا اس وقت دوسرے الفاظ استعمال نہیں کر رہا ہوں ، کسی اسٹیج پر اگر مختلف خصوصیات اور اعزاز و امتیاز رکھنے والے معزز حاضرین بڑی تعداد میں تشریف رکھتے ہوں تو ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر خیر مقدم کرنا، اور حاضرین جلسہ کو باخبر کرنا کہ ایسے معزز حضرات ہمارے اسٹیج پر تشریف رکھتے ہیں ، نہ صرف نازک بلکہ ایک خطرناک کام ہے، کہ معلوم نہیں کسی ممتاز شخصیت کا نام رہ جائے یا اس کی شان کے مطابق القاب و آداب ذہن میں نہ رہیں ، اس لیے میں الگ الگ نام لینے اور ان کی خصوصیات کے ساتھ خطاب کرنے سے احتیاط کر رہا ہوں ، اور بھائیو اور دوستو ہی کہہ کے آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں ، اور یہی ہماری اس تحریک ’’پیام انسانیت‘‘ کی روح اور اسپرٹ ہے، اور میں اسی کو عام کرنا چاہتا ہوں ۔

ہر انسان کے دو گھر ہوتے ہیں

            حضرات! میں کسی لمبی چوڑی تمہید و علمی و فلسفیانہ انداز بیان کے بغیر کہنا چاہتا ہوں کہ ہر انسان کے دو گھر ہوتے ہیں ، ایک اس کا اپنا گھر جس میں وہ اپنے کنبہ اور بال بچوں کے ساتھ رہتا ہے، اس گھر کا پُرسکون ہونا، محفوظ اور ہر خطرہ سے دور رہنا، اس میں محبت، امن و سکون اور بھائی چارہ کی فضا رہنا بہت ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انسان کا ایک دوسرا گھر بھی ہے، وہ گھر بڑا ہے، وہ کیا ہے؟ وہ اس کا ملک ہے، لیکن ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہ دونوں ہمارے گھر ہیں ، ایک ہمارا چھوٹا گھر (چاہے وہ بڑی وسیع اور شاندار کوٹھی ہو) جس میں ہمارے بچے اور ہمارا کنبہ رہتا ہے، دوسرا بڑا گھر جو ہمارے چھوٹے گھر جیسے بے شمار گھروں سے مل کر بنا ہے، جس میں ہمارے بھائی بند اور اہل وطن رہتے ہیں ، ہم جس طرح اپنے چھوٹے سے خاندان کے فرد ہیں ، اسی طرح ہم اس بڑے کنبہ، سوسائٹی (معاشرہ یا سماج) اور ملک کی آبادی کے بھی ایک فرد ہیں ۔

آپ کے گھر کی قسمت ملک سے وابستہ ہے

            ہمارے نظروں سے یہ حقیقت اکثر اوجھل ہو جاتی ہے کہ ایک گھر کی قسمت دوسرے گھر سے وابستہ ہے، معاف کیجیے گا، بڑے گھر (ملک) کی قسمت آپ کے گھر سے اتنی وابستہ نہیں ہے جتنی آپ کے گھر کی قسمت اس بڑے گھر (ملک) سے وابستہ ہے، اگر وہ گھر پُر امن اور پُرسکون (شانْت) ہے، اگر وہ گھر محفوظ ہے، اگر اس گھر میں محبت کا دور دورہ ہے، اگر اس گھر کا ہر فرد دوسرے فرد کا حق پہچانتا ہے، اس کو اس کی جان پیاری ہے، وہ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھتا ہے، اس کا اپنے اوپر حق مانتا ہے، اس کی جان کی، اس کے مال کی، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، تو وہ گھر خوش نصیب ہے، وہاں جینے اور رہنے کا مزہ ہے، اور وہ گھر خطرہ سے محفوظ ہے، جب تک ہم اس بڑے گھر (اپنے ملک اور دیش کو) اپنا گھر نہ سمجھیں گے، اس گھر کی فکر نہ کریں گے، اس گھر میں امن کا دور دورہ اور محبت و باہمی اعتماد کی فضا نہ ہو گی، اس کی ہر چیز ہم کو پیاری نہ معلوم ہو گی، اس وقت تک اس چھوٹے گھر کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، اس کی بقا اور حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ۔

گھر کے باہر کی فضا کا سازگار ہونا ضروری ہے

            لیکن یہ بدیہی اور واضح حقیقت اکثر ہمارے ذہن سے نکل جاتی ہے، اپنے ذاتی گھر کی فکر، اس کی محبت جسے بڑے گھر (دیش اور ملک) کے مقابلہ میں ’’بچوں کا گھروندا یا گڑیوں گڈوں کا محل‘‘ کہنا غلط نہ ہو گا، ہم اپنی دنیا سمجھتے لگتے ہیں ، اپنی زندگی اور اپنی فکر و دل چسپی کو اس گھر کی چہار دیواری میں محدود سمجھ لیتے اور اپنی قسمت کو اپنے کنبہ اور خاندان کے افراد سے وابستہ کر دیتے ہیں ، اور بڑے گھر کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیتے ہیں ، یہ حقیقت ہمارے ذہنوں سے نکل جاتی ہے کہ جب باہر زور کی آندھیاں اور ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہوں ، باہر آگ لگی ہو اور وہ آگ بڑھتی چلی آ رہی ہو، ہماری بستی سیلاب کی زد میں ہو، یا زلزلہ کے پُر زور جھٹکے آرہے ہوں ، تو کوئی ایک گھر بھی اس بنیاد پر محفوظ نہیں رہ سکتا، کہ وہ بڑی مضبوط اور گہری بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے، اور انجینئری اور فن تعمیر (Architecture) کے اعلیٰ اصولوں پر اس کی تعمیر ہوئی تھی، اور وہ نہایت مضبوط، آہنی پھاٹک رکھتا ہے، جس سے اگر شیر اور ہاتھی بھی سر ٹکرائیں تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

            اسی طرح اگر یہ گھر محبت و الفت کی گھنی چھاؤ ں کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، زمین کے ذرہ ذرہ اور درخت کے پتہ پتہ سے امن و شانتی کا پیغام مل رہا ہے، خاندان کا ہر فرد دوسرے فرد پر قربان ہونے کے لیے تیار ہے، لیکن باہر نفرت کی گرم اور زہریلی ہوائیں چل رہی ہیں ، بد گمانیوں اور دشمنیوں کے طوفان اٹھ رہے ہیں ، تو یہ گھر بھی سکون کے ساتھ نہیں رہ سکے گا، جب کسی بستی میں یا بستی کے آس پاس وبا پھیلی ہوتی ہے (اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے) اور جب غذاؤں اور پانی میں بیماری کے جراثیم اور سُمّیت پیدا ہو جاتی ہے تو بڑے سے بڑا صاف ستھرا گھر اور بعض اوقات صحت و بیماریوں سے حفاظت کے مرکز سینوٹوریم (Sanatoriums) اور ہسپتال دوا خانے بھی محفوظ نہیں رہتے، آپ ہزار اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیں ، دروازوں پر تالے ڈال لیں ، اور اوپر سے شامیانہ بھی لگا دیں ، اور سب کو تاکید کر دیں کہ خبردار کوئی باہر قدم نہ نکالے، تو یہ سب انتظامات بھی کام نہ دیں گے، جب تک کہ باہر کی پوری فضا آپ کے گھر سے تعاون نہ کر رہی ہو، آپ کے گھر کی فضا کے لیے سازگار نہ ہو، اس وقت تک وہ محفوظ نہیں کہا جا سکتا۔

ایک مثال

            میں اس کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ، گرمی کا سخت زمانہ ہے، آگ برس رہی ہے، آپ ایک پتھر پر کھڑے ہوئے ہیں ، پتھر جل رہا ہے، آپ ایک بالٹی پانی اپنے پاؤں کے نیچے کے پتھر پر ڈال دیتے ہیں ، وہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈا ہو جاتا ہے، مگر آپ کو تھوڑی دیر کے بعد ہی احساس ہو جائے گا کہ پتھر اور زمین پر نہیں ، آپ کی محنت پر پانی پھر گیا، وہ جگہ پھر گرم ہو گئی، اگر پورا فرش جل رہا ہے اور موسم ہی ایسا ہے، تو جہاں آپ کھڑے ہیں اس حصہ کو ٹھنڈا کرنے سے کام نہیں چلے گا، یہ موسم اور ماحول کی گرمی کا اثر ہے، آپ اپنی جگہ پر برف کی سل رکھ لیں اور اس پر آپ کھڑے ہو جائیں ، تھوڑی دیر بعد وہ برف کی سل بھی پگھل جائے گی اور گرمی آپ کے پیروں کو  جھلسا دے گی۔

مستقل طور پر ساتھ رہنے والی چیز باہر کی کائنات اور ماحول ہے

            آج ہمارے بڑے بڑے دانا اور فرزانہ، مفکرین اور مصنفین، یہاں تک کہ جینیس لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں ، وہ صرف اپنے رہنے کی جگہ کو ایرکنڈیشن کر رہے ہیں ، لیکن اس ماحول اور فضا سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں جس میں آپ کو زندگی گزارنی ہے، آپ ایک گھر یا ایک محلہ یا ایک بستی کو بھی Airconditioned کر لیں تو اس سے کام نہیں چلے گا، اگر آپ یہ بھی طے کر لیں کہ آپ اس گھر سے باہر نہیں نکلیں گے تب بھی ایر کنڈیشن زیادہ دیر تک آپ کا ساتھ نہیں دے گا، فضا کی گرمی اس کا موٹر جلا کر رکھ دے گی، یا اس کے ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت کچھ عرصہ کے بعد دم توڑ دے گی، کام کرنے والی چیز قانون قدرت ہے، مستقل طور پر ساتھ دینے والی چیز باہر کی کائنات اور ماحول ہے، آسمانی کتابیں بھی یہی تعلیم دیتی ہیں ۔

نفس پرستی اور دولت پرستی کا نتیجہ پورے معاشرہ پر پڑتا ہے

            قرآن شریف کی آیت ہے:

{وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَّاعْلَمُوْآ أَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ} (سورۃ الأنفال:۲۵)

’’اور اس فتنہ سے بچتے رہو جو اگر اٹھا تو اس کی زد صرف اُنہیں پر نہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں ، بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے، اور جان لو کہ اللہ (بد عملیوں کی)سزا دینے میں سخت ہے۔‘‘

            کسی معاشرہ یا ماحول میں بے راہ روی ، اصول و اخلاق سے چشم پوشی ، نفس اور دولت پرستی، ظلم و سفاکی کا نتیجہ اسی فرد یا افراد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کا اثر پورے معاشرہ اور ماحول پر پڑتا ہے، اور وہ پورا معاشرہ اور ماحول جس نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور اس سے آنکھیں بند کر لیں ، اس کی گرفت میں آ جاتا ہے۔

            تاریخ بھی بتاتی ہے کہ دنیا میں کئی ایسی مستحکم سلطنتیں اور ترقی یافتہ تہذیبیں گزری ہیں جن کا دنیا میں طوطی بولتا اور ڈنکا بجتا تھا، لیکن ان میں مرور زمانہ سے ذہنی انتشار، اخلاقی زوال و انحطاط رونما ہوا، نفس پرستی و دولت پرستی کا لاوہ پھوٹ پڑا، انسانی حقوق پامال اور عزت و  آبرو خاک میں ملائی جانے لگی، خواہشات نفس کی تسکین اور ذاتی مفادات کی تکمیل پر ذہانتیں اور عملی طاقتیں صرف کی جانے لگیں ، مذہبی تعلیمات اور اخلاقی قدروں سے بالکل آنکھیں بند کر لی گئیں ، بلکہ ان کا مذاق اڑایا جانے لگا، محلوں اور کوٹھیوں میں داد عیش دی جا رہی تھی اور انگریزی مثال کے مطابق ’’روم جل رہا تھا‘‘، اس زمانہ میں بھی بڑے بڑے تھنکر، فلاسفر، ادیب و شاعر اپنے اپنے کاموں میں لگے تھے، وہ اپنے جوہر دکھا رہے تھے، اور لوگوں کو اپنی فنی مہارت اور ادبی کمالات سے مسحور کر رہے تھے، لیکن معاشرہ بگڑا ہوا تھا، بازاروں میں فساد تھا، سڑکوں پر فساد تھا، خاندانوں میں فساد تھا، مختلف طبقوں میں فساد تھا، جب فساد کی یہ اندھی آندھی چلی تو رومن ایمپائر بھی جو اپنے قانون (Roman Law) ، اپنے نظم و نسق (Administration)، اپنی وسیع فتوحات اور شاندار نو آبادیوں اور ترقی یافتہ تہذیب اور بلند معیار زندگی کی بنا پر دنیا میں ضرب المثل تھا، اس سب کے باوجود خالق کائنات کے مقرر کردہ ترقی و زوال اور موت و حیات کے ازلی و ابدی قانون سے بچ نہ سکا، جس کی قرآن کریم نے تصویر کھینچی ہے:

            {وَکَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَرْیَۃٍ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَہَا فَتِلْکَ مَسٰکِنُہُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ بَعْدِہِمْ إِلَّا قَلِیْلاً وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ} (سورۃ القصص:۵۸)

            ’’اور ہم بہت سی ایسی بستیاں ہلاک کر چکے جو اپنے سامان عیش پر نازاں تھیں ، سو ان کے یہ گھر ہیں ، کہ ان کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے، مگر تھوڑی دیر کے لیے، اور آخر کار ہم ہی مالک رہے۔‘‘

            اس تاریخی زوال و انحطاط پھر آخری سقوط و زوال کی تاریخ اور اس کی تفصیلات آپ انگریزی کے شہرہ آفاق مصنف و ادیب Gibbon کی کتاب The History of the Decline and Fall of the Roman Empire (تاریخ زوال و سقوم روما) کے صفحات میں پڑھ سکتے ہیں ۔

اس وقت کا سب سے بڑا مرض

            آج ہندوستان میں ہم اسی حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں ، ہمیں صرف اپنے گھر کی فکر ہے، اس وقت کا سب سے بڑا مرض وہ ہے جس کو ہمارے صوفی (سَنْت) اور شاعر ’’نفسی نفسی‘‘(یعنی میں ہی میں ) کہتے تھے، شخص کی انانیت (Ego) اتنی بڑھ گئی ہے کہ ساری اخلاقی قدریں ، سارے انسانی اعتبارات اور سارے قومی و ملکی مفادات پس پشت پڑ گئے ہیں ، خود غرضی، مفاد پرستی کا ایک جنون پیدا ہو گیا ہے، ہر شخص اسی فکر میں ہے کہ میں دن بھر میں کتنا کما سکتا ہوں ، میں مہینہ بھر میں کتنی آمدنی کرسکتا ہوں ، میری تنخواہ کتنی اور میری بالائی آمدنی کتنی ہے، مجھے معاف کیجیے، آج کل بالائی آمدنی اصل ترجیح و فضیلت کا معیار (Qualification) ہے، شادی بیاہ کے رشتوں اور پیاموں میں بے تکلف پوچھا جاتا ہے، اور تعارف و تعریف میں بھی کہا جاتا ہے کہ بالائی آمدنی کتنی ہے؟ معاف کیجیے گا، اس بالائی آمدنی سے بہت کم لوگ بالا و بلند ہیں ۔

صرف اپنے گھر کی فکر کر لینا اور اس کو مثالی بنا دینا کافی نہیں

            حضرات! اپنے گھر کی فکر کر لینا، اپنے گھر کو گلزار بنا لینا، اور اس کو ایک مثالی (Ideal) ماحول بنا دینا بالکل کافی نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ سمندر میں تو جزیرے (Islands) ہوسکتے ہیں ، سمندر میں ہزاروں اور اس سے زائد بھی جزیرے ہوں گے، وہ ہزاروں لاکھوں برس سے اپنی جگہ پر ہیں ، لیکن زمین کسی جزیرے کو قبول نہیں کرسکتی، قانون قدرت سمندر میں جزیروں کی اجازت دیتا ہے، اور ان کی سلامتی کا ضامن ہے، قانون قدرت خدا کا Natural Law ہے، وہ ابدی اور دائمی ہے، وہ زمین میں جزیرہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا، آج ہم نے گھر گھر کو جزیرہ بنا  رکھا  ہے، شہر شہر کو جزیرہ بنا رکھا ہے، اپنی ذات اپنی برادری کو جزیرہ بنا رکھا ہے، یہ جزیرے ٹھہر نہیں سکتے، ہم آج سے دو ہزار سال پہلے کی تاریخ پڑھتے ہیں ، تو ان جزیروں کا نام ملتا ہے، وہ جزیرے آج تک موجود ہیں ، اور رہیں گے، پہاڑ لاکھوں برس سے کھڑے ہیں ، لیکن سطح زمین کے لیے اللہ کا قانون دوسرا ہے، وہاں اپنی الگ دنیا نہیں بسائی جا سکتی، وہاں کے ہر خطہ کا متأثر اور مؤثر ہونا قانون قدرت ہے، اس پوری سطح زمین کے لیے خدا کا حکم، مذہب کی تعلیم اور قانون فطرت یہ ہے کہ مل جل کر رہا جائے، انسانیت ایک مسلسل زنجیر ہے، جس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے پیوست ہے، ہر ایک کی قسمت دوسرے سے وابستہ ہے، یہاں ہر ایک ایک ہی وقت میں سائل اور مسؤل ہے، ہر ایک محتاج اور محتاج الیہ ہے، قدیم مشرقی فلسفہ کی اصطلاح میں انسان ’’مدنی الطبع‘‘ ہے، (یعنی فطرتاً متمدن اور اجتماعی زندگی گزارنے کا خواہشمند اور ضرورت مند ہے)، یہاں جنگل کی زندگی نہیں گزاری جا سکتی کہ ایک جانور کو دوسرے جانور سے سروکار نہیں ، اور ہر طاقتور کمزور کو شکار کرنے کے لیے تیار ہے، کوئی کام باہمی صلاح و مشورہ اور تعاون سے نہیں ہوتا۔

اہل وطن کی ذمہ داری

            ہر ملک اور شہر کو ایک ایسے حساس، شریف النفس، پر محبت خاندان کی طرح رہنا چاہیے جو دوسرے کی تکلیف سے تکلیف اور دوسرے کی خوشی سے خوشی محسوس کرے، جہاں چمن کے پھولوں ، مناظر قدرت، اور جمالیاتی مظاہر، اس سے آگے بڑھ کر اپنے سرمایہ و دولت اور سامان عزت و لذت سے بڑھ کر اپنے ہم وطنوں اور انسانی بھائیوں کے بچوں کو دیکھ کر خوشی محسوس ہو، بلکہ پیار آئے، میں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس ملک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جہاں لوگ خود اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش نہ ہوسکیں ، وہ بچوں کو دیکھیں تو بجائے خوش ہونے اور اطمینان کا سانس لینے اور شکر کرنے کے ان پر یہ فکر غالب ہو کہ معلوم نہیں کل ان کے ساتھ کیا پیش آئے، کل امن و امان کی حالت کیا ہو گی، کوئی طوفان جھکڑ ایسا چلے کہ یہ کلیاں پھول بننے سے پہلے مسل دی جائیں اور کہنے والا حسرت سے کہے ع

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

            یہ ایک ایسی انوکھی، غیر معمولی اور استثنائی بات ہے جس کو باہر کا آدمی مشکل سے باور کرسکتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ مختصراً اس لیے کہ انسانی قدر و قیمت کا احساس نہیں ، انسانیت کے رشتہ سے ایک خاندان ہونے کا، اور اس کی طرف کشش اور میلان ہونے کا جذبہ نہیں ، معصومیت، انسانی جمال و کمال سے لطف لینے، ملک کی ہر چیز کو ملک کی دولت سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی عادت نہیں ، حالانکہ ہمارے اس ملک کو اس بات کا فخر ہے کہ یہاں وہ لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے باہر کی دنیا کو بھی امن و محبت کا پیغام دیا، اس ملک کے خمیر میں محبت ہے، پریم ہے، آپ اس ملک کی تاریخ پڑھتے ہیں ، اس ملک کی تاریخ خالی مہابھارت نہیں ہے، رامائن نہیں ہے، اس ملک کی تاریخ میں محبت کی وہ داستانیں ، آپ کے بھائی چارہ اور ایثار و قربانی کا جذبہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے، میں صرف دو تین باتیں یہاں کے صوفیوں کی سناتا ہوں ، میں تاریخ کا ایک طالب علم ہوں اور اسی کے ناطہ ان صوفیوں کے کچھ واقعات نقل کرتا ہوں ۔

حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ  کا واقعہ

            حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ چھٹی صدی ہجری اور بارہویں صدی عیسوی کے ایک بزرگ ہیں ، ان کے پاس ایک شخص قینچی لایا، ہر شہر کا ایک تحفہ ہوتا ہے، وہ اس کے شہر کا تحفہ تھا، جہاں قینچیاں بہت اچھی بنتی تھیں ، وہ بہت خوش تھا کہ میں حضرت کے سامنے اپنے شہر کی یہ سوغات پیش کروں گا، تو حضرت بہت خوش ہوں گے کہ بڑی کام کی چیز لایا اور مجھے دعا دیں گے، لیکن جب ان کے سامنے قینچی پیش کی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کیا؟ یہ ہمارے کام کی چیز نہیں ، ہمارا کام کاٹنا نہیں ، پھاڑنا نہیں ، ہمارا کام سینا اور جوڑنا ہے(ان کا مطلب دلوں کو جوڑنا اور ملانا تھا) ہمیں قینچی کی ضرورت نہیں ہے، تم ہمارے لیے سوئی لائے ہوتے۔

سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا

            انھیں کے ایک جانشین اور خلیفہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے (جن کو دلی والے سلطان جی کہتے ہیں ) فرمایا کہ دنیا کا دستور تو یہ ہے سیدھے کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھے کے ساتھ ٹیڑھا، لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا، اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے ایک کانٹا ڈال دے اور میں بھی کانٹا ڈالوں تو کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے، اگر اس نے کانٹا ڈالا تو تم اس کے سامنے پھول ڈالو، پھول ہی پھول ہو جائیں گے، یہ پیام ہندوستان میں خاص طور پر دیا گیا، اور یہاں باہر سے جو لوگ آئے، انھوں نے اس کو اور زیادہ طاقت اور سرگرمی سے دیا، یہاں تک کہ اس کی خوشبو سارے ملک میں پھیل گئی اور پاس کے ملکوں میں بھی پہنچی۔

اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت

            اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے (اور یہی پیام انسانیت کی تحریک کا خلاصہ ہے) کہ ہم اپنے اس بڑے گھر کی فکر کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم آرام سے ہیں ، اور اصول و اخلاق کی زندگی گزار رہے ہیں ، تو پھر باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، پیغمبر انسانیت حضرت محمد ﷺ نے اس کی ایسی بلیغ اور واضح مثال دی ہے جس سے بہتر مثال کم سے کم مجھے نہیں ملی، میں لٹریچر کا بھی طالب علم ہوں ، اور ہسٹری اور فلاسفی کا بھی، مختلف ملکوں میں جو اصلاحی تحریکیں پیدا ہوئیں ، ان سب کا میں نے امکانی حد تک مطالعہ کیا ہے، مجھے ایسی سمجھ میں آنے والی مثال نہیں ملی۔

            آپ ﷺ نے فرمایا: زندگی ایک کشتی کی طرح ہے، اس میں ایک بالائی درجہ (Upper Class) اور ایک زیریں درجہ (Lower Class) ہے، میں اس کو بھی رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ سمجھتا ہوں ، عرب کے ملک میں نہ دریا ہیں ، نہ نہریں ، اس وقت کوئی ایسی بین الاقوامی بندرگاہ بھی نہیں تھی جہاں غیر ملکی کشتیاں اور جہاز آئیں جیسا کہ اس وقت جدہ ہے، باہر کی دنیا میں بھی عام طور پر ایک ہی درجہ کی معمولی اور سادہ کشتیاں چلتی تھیں ، تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپؐ نے کبھی سمندر کا سفر نہیں کیا، پھر آپؐ نے بالائی اور زیریں طبقہ کی مثال کیسے دی؟ سب جانتے ہیں کہ جو لوگ اپر کلاس میں رہتے ہیں ، وہ بالا نشینوں کی طرح بلند خیال، بلند معیار زندگی کے لوگ اور ضرورت سے زیادہ حساس (Sensitive) اور خوددار ہوتے ہیں ، اور نیچے کے طبقہ میں غریب غرباء اور متوسط الحال لوگ سفر کرتے ہیں ، آپؐ نے فرمایا کہ اس کشتی میں پانی کا انتظام بالائی حصہ میں ہے، اور وہیں سے سب مسافروں کو ملتا ہے، حصہ زیریں کے رہنے والے بھی بہر حال انسان ہیں ، پانی کے بغیر ان کا بھی گزارا نہیں ، وہ اوپر جاتے ہیں ، اور پانی بھر کر لاتے ہیں ، پانی کی فطرت ہے کہ وہ چھلکے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون پاس بیٹھا ہے، یہ بڑے آدمی ہیں ، ان پر پانی نہیں گرنا چاہیے، یہ بے ادبی ہے، گستاخی ہے، لیکن پانی نے منطق نہیں پڑھی، پانی جب گرے گا تو چاہے کسی ملک کا بادشاہ بیٹھا ہوا ہو وہ بھی بھیگ جائے گا، پھر یہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ کشتی یا جہاز ہلنے والی چیز ہے، اور دریا یا سمندر مواج بھی ہے اور متلاطم بھی، برتن بھی ہر ایک کے پاس بڑا نہیں ہوتا، کوئی چھوٹا برتن لے کر آتا ہے، یا جہاز ہلتا ہے، پاس بیٹھا ہوا آدمی مزے مزے کی باتیں کر رہا ہے، کوئی شعر و شاعری میں مصروف ہے، کسی نے ابھی کپڑے بدلے ہیں ، اور قیمتی فرش پر جلوہ افروز ہے، پانی اِدھر گرا اُدھر گرا، اُن بالا نشینوں کی اونچی پیشانی پر غصہ کی شکن آ جاتی ہے، ان کو گراں گزرتا ہے، ایک مرتبہ ہو دو مرتبہ ہو تو آدمی برداشت بھی کر لے، لیکن یہ تو روز کا اور کئی کئی مرتبہ کا کام ہے، انھوں نے کہا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ہم اس کو برداشت نہیں کرسکتے، کام ان کا پانی کا اور پریشان ہم ہوں ، ہم پانی نہیں لے جانے دیں گے، اب یہاں کوئی پانی لینے نہ آئے۔

            نیچے کے درجہ والوں نے جب یہ سنا تو کہا کہ پانی کے بغیر گزارا نہیں ، اگر آپ ہمیں اوپر نہیں آنے دیتے تو آپ آرام سے بیٹھیے، خدا مبارک کرے، ہم نیچے ہی کشتی میں سوراخ کر لیتے ہیں ، وہیں بیٹھے ہی بیٹھے پانی بھر لیا کریں گے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ نے ان کو عقل دی ہے، اور ان کی شامت نہیں آئی ہے، تو ان کی خوشامد کر لیں گے کہ خدا کے لیے ہمیں معاف کرو، ہم سے غلطی ہوئی، تم کشتی میں سوراخ نہ کرو، اس لیے کہ اگر کشتی میں سوراخ ہوا تو نہ ہم بچیں گے اور نہ تم بچو گے، آپؐ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سارے انسان ایک ملک کے بسنے والے، ایک معاشرہ کے افراد (خواہ ان میں نسل و نسب، عرفی حیثیت، اقتصادی حالت اور دماغی سطح کے لحاظ سے کتنا ہی فرق ہو)ایک کشتی کے مسافر ہیں ، ہمارے ملک میں خود یہ محاورہ ہے ’’ایک کشتی کے مسافر‘‘ یعنی اگر کشتی پر کوئی مصیبت آئے گی تو کوئی فرق و امتیاز نہیں ہو گا، اور بڑے چھوٹے سب ڈوبیں گے۔

کسی سماج کی اخلاقی ترقی و تنزلی کا تھرمامیٹر

            صاحبو! میرے لیے ایک بڑی پہیلی ہے جس کا بوجھنا مشکل ہے کہ اتنے لانبے چوڑے ملک میں چند سو آدمی بھی ایسے نہیں ہیں جن کو اس بڑے گھر کی فکر ہو، جو اس سے ڈر رہے ہوں کہ (ملک) پر کوئی آفت آئی تو ہماری بھی خیریت نہیں ، یہاں کسی طبقہ کی کمی نہیں ، دانشوروں اور فضلاء کی کمی نہیں ، اہل قلم، مفکرین، حکماء اور سیاسی رہنماؤں کی بھی کمی نہیں ، اجتماعی خدمت (Social work) کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ، لیکن آپ مجھے معاف کریں ، وہ کتنے آدمی ہیں جو اس فکر میں ڈوبے چلے جا رہے ہیں ، جن کی راتوں کی نیند اڑ رہی ہو کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ اس ملک میں کرپشن کا یہ حال ہے کہ آخری چیز جو کسی سماج کی خرابی کی دلیل ہوسکتی ہے، وہ بھی یہاں شروع ہو گئی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ غذاؤں ہی میں نہیں دواؤں میں بھی ملاوٹ ہونے لگی ہے، اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو مرکزی حکومت کے ایک وزیر صحت نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ ۶۰ فیصدی دواؤں میں ملاوٹ شروع ہو گئی ہے، ایک رفاہی اسپتال کے افتتاح کی تقریب میں جس میں اس ریاست کے چیف منسٹر بھی موجود تھے، اور بڑے بڑے اہم اور ذمہ دار لوگ بھی، میں نے کہا تھا کہ کسی سماج کے اخلاقی ترقی و تنزل کا تھرمامیٹر یہ ہے کہ اسپتال میں جا کر دیکھیے کہ وہاں کس قدر ہمدردی اور خلوص اور بے غرضی سے مریضو ں کی خدمت ہوتی ہے، اور کرپشن وہاں تو نہیں پہنچ گیا ہے؟ ابھی کچھ عرصہ ہوا واقف دوستوں نے بتایا کہ بعض اسپتالوں میں جائے ضرورت (Toilet) پر تالے لگا دیے گئے ہیں ، جب مریض یا اس کا تیمار دار بے قرار ہو کر دوڑتا ہے تو وہاں کے عملہ کا کوئی آدمی کہتا کہ پہلے دو روپیہ دو، پہلے پانچ روپیہ دو، پھر ہم تالہ کھولیں گے، میرے ایک عزیز دوست نے جو سرکاری ملازم ہیں ، ابھی بتایا کہ ہم کو ہر سال میڈیکل ٹسٹ کرانا پڑتا ہے، کبھی ترقی کے لیے، کبھی پوسٹ کے لیے ، ہمیشہ check up کے لیے جاتے تھے، اور رپورٹ لے کر واپس آ جاتے تھے، لیکن اس دفعہ گئے تو چیک کرنے والے اور رپورٹ دینے والے کہنے لگے کہ آپ کے بائیں پھیپھڑے پر دھبہ ہے، اب کیا کیا جائے؟ انھوں نے کہا کہ دو ہزار روپے، اس کا علاج انجکشن نہیں ہے، اس کا علاج دو ہزار روپے ہیں ، جب دو ہزار روپے ان کے ہاتھ میں رکھے گئے تب جا کر وہ دھبہ مٹا، ادھر مٹھی گرم ہوئی ادھر کلیجہ ٹھنڈا ہوا، اس طرح ملک کیسے چلے گا؟ اور زندگی کا لطف تو بڑی چیز ہے، زندگی کیسے گزاری جائے گی؟

ہم مسلمانوں نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتا ہی کی

            میں یہ تسلیم کرتا ہوں اور اپنا مذہبی فرض سمجھتا ہوں کہ ہم مسلمانوں نے بھی اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی، ہم کو ہمارے پیغمبر ﷺ نے تعلیم دی تھی کہ

            ’’اَلرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمٰنُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی، اِرْحَمُوْا مَنْ فِي الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِي السَّمَائِ۔‘‘(۱) [جامع الترمذي، أبواب البر والصلۃ، باب ماجاء في رحمۃ الناس۔]

            ’’رحم کرنے والوں پر بڑی رحمت کرنے والا خدا بھی رحم کرتا ہے، تم اہل زمین کے ساتھ رحم و شفقت کا برتاؤ کرو، جو آسمان پر ہے وہ تمہارے ساتھ رحمت و مہربانی کا معاملہ کرے گا۔‘‘

            ہندوستان کے مشہور شاعر حالیؔ نے نظم میں اس طرح ترجمہ کیا ہے:

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر

نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

            اگر ہم سے قیامت میں سوال ہوا کہ اس ملک میں رہتے ہوئے تم نے کیسے ان خرابیوں کو برداشت کیا، سب سے پہلے تمہاری ذمہ داری تھی، تمہیں اس کے لیے اپنا سب کچھ داؤں پر لگا دینا تھا، یہ اس لیے کہ ابھی ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت اور زندگی، آپ کی تربیت دی ہوئی نسل کے کارنامے، اور خدمات کا ذخیرہ موجود ہے، اس ملک میں کثرت سے روحانی پیشوا، معلمین اخلاق، زہد و ایثار کی زندگی گزارنے والے اور انسانیت کا سچا درد رکھنے والے مسلسل پیدا ہوتے رہے ہیں ، تم نے وہ محنت کیوں نہیں کی جو تمہیں کرنی چاہیے تھی؟

            میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہوں کہ اسلام ایک متعین عقیدہ اور ایک معین مذہب ہے، اس کے حدود ہیں ، اس کا ایک قانون ہے، اس کی ایک شریعت ہے، اس پر عمل کرنا، اس کے مطابق زندگی گزارنا ہم سب کا فرض ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس ملک کو بچائیں ، ہمارے ہوتے ہوئے یہ ملک ڈوبے نہیں ، ہم اگر کسی کشتی پر سوار ہیں تو اس کشتی کو ڈوبنا نہیں چاہیے، یہ ہماری اور آپ سب کی ذمہ داری ہے، اور قیامت میں ہم سے اس کا سوال ہو گا۔

ملک سوگیا ہے مرا نہیں ہے

            حضرات!آخر میں مَیں صفائی سے کہتا ہوں کہ ملک سو گیا ہے، مرا نہیں ہے، سویا ہوا شخص سوبار جگایا جا سکتا ہے، مرا ہوا ایک بار بھی زندہ نہیں کیا جا سکتا، دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ممالک، معاشرے، تہذیبیں اور ماحول ہزاروں بار سوئے ہزاروں بار جاگے، سونا عیب نہیں ، سونا زندگی کی ضرورت اور علامت ہے، لیکن سونے کی ایک حد ہوتی ہے، رات بھر سوئیے، دن میں بھی سو لیجیے، لیکن سوتے ہی رہیے، اس کی اجازت نہیں ، خاص طور پر ایک ایسے زمانہ میں جب زندگی کی دوڑ بہت بڑھ گئی ہے، ریس بہت تیز ہو گئی ہے، اور اب بہت بڑا مقابلہ درپیش ہے، اس وقت ساری دنیا میں ایک مقابلہ ہے، یہ مقابلہ خالی اقتصادیات کا، سیاسیات کا، فوجی طاقتوں کا نہیں ، اخلاقی مقابلہ بھی ہے اور اصولی بھی، اس وقت ہمارے ملک کو اپنی اخلاقیات کی بھی فکر کرنی چاہیے، اور معاشرہ کو بھی نمونہ کا اور معیاری بنانا چاہیے، ہماری پیام انسانیت کی یہ تحریک ’’نقار خانہ میں طوطی‘‘ کی آواز کہی جا سکتی ہے، لیکن اگر طوطی کو کسی نے بھی نہیں سنا، جب بھی وہ کم سے کم خدا کے سامنے گواہی دے گا کہ میں نے آواز لگائی، لیکن طوطی کی آواز سنی جاتی ہے، ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کبھی نقار خانوں کو بھی طوطی کی آواز کو سننا اور اس پر دھیان دینا پڑا ہے، ساری تاریخ ان نقار خانوں کے گھن گرج، اور طوطی کی نحیف آواز کی تاریخ سے بھری ہوئی ہے، اور اس بات کی شہادتیں موجود ہیں کہ طوطی کی آواز کو کبھی بہروں نے بھی سنا، اور نقار خانوں نے بھی اس کی رسید دی، اور وہ آواز کلیۃً ’’صدا بصحرا‘‘ نہیں ثابت ہوئی، اسی توقع پر ہم مختلف مقامات پر یہ جلسے کرتے ہیں ، اور یہاں بھی آئے ہیں :

جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر

یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

٭٭٭

تشکر: ابو الہادی الاعظمی جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید