FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مشکلات میں جینے کا فن

 

 

                پروفیسر محمد عقیل

 

 

 

 

تعارف

 

اگر آپ کو شدید بخار ہو تو دنیا کی تمام نعمتیں آپ کے لئے بے معنی ہو جاتی ہیں۔ بہترین سے بہترین کھانا بے لذت اور مشروب بد ذائقہ لگنے لگتا ہے۔ ارد گرد کے حسین مناظر بدنما لگتے، پرکشش آسائشیں بے معنی ہو جاتیں اور تمام دلچسپیوں سے بےزاری ہو جاتی ہے۔ اگر بخار کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو اس سے کئی مزید جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو آپ کو آہستہ آہستہ موت کے دہانے تک بھی لے جا سکتی ہیں۔

بالکل یہی معاملہ نفسیاتی بیماریوں کا ہے۔ اگر آپ کسی شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہو جائیں تو کم و بیش یہی نتائج نکلتے ہیں۔ آپ ٹینشن کے باعث کھانے پینے کی خواہش میں کمی محسوس کرتے، سکون سے محروم ہو جاتے، خوشیوں کو نظر انداز کرتے اور مایوسی و ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس ذہنی بیماری کے نتیجے میں کئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں حملہ آور ہوتی رہتی ہیں جن کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو نتیجہ یا تو ایک انتہائی تکلیف دہ زندگی کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر اس کا انجام ایک تکلیف دہ موت ہے۔

آج کے دور میں لوگ بالعموم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ، لوٹ مار، قتل و غارت گری اور اس طرح کے دیگر مسائل نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ملکوں کے شہری بےراہ روی، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ، معاشی خوف، بے مقصدیت اور کئی نفسیاتی عوارض سے پریشان ہیں۔ ان پریشانیوں میں نوجوان اور بوڑھا، امیر اور غریب، مزدور و آجر، پڑھا لکھا اور جاہل، عورت اور مرد سب مبتلا ہیں۔ ان میں سے ہر شخص اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کر کے ایک صحت مند شخص بننا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس میں سکون، اعتماد، پر امیدی اور امنگ پیدا ہو۔ وہ بھی شوگر، ہارٹ، السر، تیزابیت، سر کا درد، بلڈ پریشر ، گٹھیا اور تھائی رائیڈ جیسی کئی ممکنہ جسمانی بیماریوں سے دور رہے۔ وہ بھی نفرت، غصہ، ٹینشن، بےچینی و گھبراہٹ، خوف، تکان اور دیگر نفسیاتی و ذہنی امراض سے نجات حاصل کرے۔ وہ بھی صبح کی تازگی کو انجوائے کرے، رات کی تاریکی سے لطف اٹھائے، پرندوں کی نغمگی سے مسحور ہو اور نیند کی حسین وادی میں کھو جائے۔

ایک پرسکون اور پریشانیوں سے مبرا شخصیت کو صرف یہ دنیاوی فائدے ہی نہیں ملتے بلکہ اس سے اس کی اخروی زندگی بھی پروان چڑھتی ہے۔ ایک نفسیاتی طور پر مضبوط شخص اپنے رب کے احکامات سے روگردانی نہیں کرتا، وہ مضبوط قوت ارادی سے عبادات اور معاملات میں پابندی برقرار رکھتا، نفس کی ناجائز خواہشات کا قلع قمع کرتا اور شیطان کی چالاکیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔

اس ماہ سے ہم رسالے میں ایک سلسلے کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد آپ کو پریشانیوں سے نجات فراہم کر کے ایک پرسکون، خوشیوں اور توانائی سے بھرپور زندگی سے روشناس کرانا ہے۔ ہماری اس تحریر کی بنیاد ڈیل کارنیگی کی شہرہ آفاق کتاب ’’پریشان ہونا چھوڑئیے اور جینا شروع کریں‘‘   پر رکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا اصل نام ہے:

’’How to stop worrying and start living‘‘

اس کتاب میں ڈیل کارنیگی نے پرسکون زندگی کے کچھ اصول بیان کئے ہیں۔ اس تحریر میں انہی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے ہم آپ کو راہنمائی فراہم کریں گے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم ہر اصول پر قسط وار آرٹیکلز اور کیس اسٹڈی شائع کریں گے۔ ان مضامین میں آپ کو پریشانیوں سے نجات کے اصول اپنانے کا طریقہ کار اور مشقیں بتائی جائیں گی۔ چنانچہ آپ سے گذارش ہے کہ ان مختصر مضامین اور کیسز کو غور سے پڑھیں بلکہ دو سے تین مرتبہ پڑھیں۔ پھر ان میں بیان کردہ اصولوں پر عمل درآمد کریں۔

 

                اصول نمبر ۱۔ آج کے لئے زندہ رہیں

 

کیس اسٹڈی

 

’’احمد چھٹی کی وجہ سے صبح دیر سے سو کر اٹھا۔ باہر نکلا تو موسم بہت سہانا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش درخت کے پتوں کو غسل دے رہی تھی۔ مٹی سے اٹھنے والی مہک نے فضا کو مسحور کر دیا تھا، بادلوں کی گھن گرج ایک موسیقی بکھیرے دے رہی تھی۔ احمد کو یوں محسوس ہوا کہ گویا وہ جنت میں ہو۔ اسے بہت اطمینان محسوس ہونے لگا۔ وہ مناظر میں اتنا گم ہوا کہ اپنے سارے غم بھلا بیٹھا۔ وہ اسی شوق و مستی کے عالم میں ایک گھنٹے تک بیٹھا رہا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ کل اس کی دفتر میں ایک اہم میٹنگ ہے، اگر اس میٹنگ میں بات بن گئی تو ایک بہت بڑا کانٹریکٹ مل جائے گا۔ وہ میٹنگ کی تیاری مکمل کر چکا تھا۔ لیکن اس کا خیال آتے ہی موسم کا مزا کرکرا ہو گیا اور وہ آنے والے کل کے اندیشوں میں گرفتار ہو گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ رو بہک گئی اور اسے یہ بھی یاد آیا کہ کل اس کے باس نے کس طرح اس کی بےعزتی کی تھی۔ یہ سوچ کر اس کا خون کھولنے لگا۔ موسم اتنا ہی خوبصورت تھا، مناظر اتنے ہی حسین تھے لیکن احمد ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے اندیشے میں اتنا گرفتار ہوا کہ آج کو بھول گیا‘‘۔

 

وضاحت

 

پریشانیوں سے نجات کا پہلا اصول یہ ہے کہ آج میں زندہ رہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ آنے والا کل ایک سراب ہے اور گذرا ہوا کل ماضی کی داستان۔ خود کو ایک ایسے کمرے میں بند محسوس کریں جس کا کوئی دروازہ، کوئی کھڑکی نہیں۔ یہ کمرہ آج کا کمرہ ہے۔ اس کمرے کے آگے مستقبل کے اندیشے ہیں اور پیچھے ماضی کے پچھتاوے۔ دونوں طرح کے کل کو نظر انداز کر کے محض آج میں زندہ رہیں۔

اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھیں یا مستقبل کے مسائل سے نبٹنے کی تیاری نہ کریں۔ یہ دونوں کام ضروری ہیں۔ آج میں زندہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے کل یا گذرے ہوئے کل کیلئے کسی قسم کا کوئی تردد، فکر، تشویش، پریشانی، بےچینی اور اضطراب کا مظاہرہ نہ کریں۔

ایک فلسفی کا قول ہے:

’’آپ آنے والے کل کے لئے غیر ضروری طور پر پریشان نہ ہوں۔ آنے والا کل اپنا خود بندوبست کرے گا۔ آپ محض اپنے آج کی فکر کریں اور اسی جانب توجہ مبذول رکھیں‘‘۔

اگرمستقبل کا جائزہ لیا جائے تو عام طور پر دو طرح کی فکریں اور اندیشے ہوتے ہیں۔ ایک قسم تو ان مسائل کی ہے جن کے بارے میں ہم آج تیاری کرسکتے اور ان کا تدارک کر سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر روزگار کا حصول، بہتر مستقبل، اچھا معیار زندگی، اچھی صحت کا حصول وغیرہ۔ دوسری قسم ان فکروں کی ہے جن کے لئے ہم آج کچھ بھی نہیں کرسکتے اور ان کا حل یا تو اس وقت ممکن ہو گا جب یہ مسئلے درپیش آئیں گے یا پھر ان کا تدارک تقدیر کے ہاتھ میں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی بیٹیاں ہیں لیکن وہ ابھی کم عمر ہیں۔ چنانچہ بیٹیوں کے لئے اچھے رشتوں کے لئے آج تشویش میں مبتلا ہونا بے وقوفی ہے۔ مستقبل کے غیر ضروری اندیشوں سے نجات کا ایک بہترین راستہ توکل ہے۔ توکل کا مطلب ہے کہ اپنے کرنے کا کام مکمل کر کے باقی کام اور نتائج  الله کے سپرد کر دینا۔

اسی طرح ماضی کے غم بھی دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن سے ہم سبق سیکھ کر کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں محنت نہ کرنے کے سبب فیل ہو گیا۔ اب اسے چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر آئندہ محنت کرے۔ دوسرے وہ رنج و الم ہوتے ہیں جن سے ہم کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے اور یہ ہماری یادوں میں کانٹوں کی مانند موجود رہتے اور وقتاً فوقتاً کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا بچہ فوت ہو گیا۔ اب یہ خیال اسے بار بار تنگ کرتا رہتا ہے۔ اس خیال سے چھٹکارا ہی خوشحال زندگی کا ضامن ہے۔

 

اسائنمنٹ

 

۱۔ کیس کو دوبارہ پڑھئیے اور تحریر کریں کہ احمد کے آنے والے کل اور گذرے ہوئے کل کی پریشانیوں کی کیا نوعیت تھی۔

۲۔ آپ کو مستقبل کے بارے میں جو پریشانیاں لاحق ہیں ان کی ایک لسٹ بنائیں اور ہر ایک کے سامنے یہ لکھیں کہ یہ قابل حل ہے یا نہیں۔ اگر وہ قابل حل ہے تو حل تجویز کر کے اسے بھلا دیں اور ناقابل حل ہے تو ابھی سے بھلا دیں۔

۳۔ ماضی کے پچھتاووں کی ایک فہرست بنائیں اور دیکھیں کہ ان میں سے ہر ایک سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سب پچھتاووں کو بھلا دیں۔

۴۔ آج پر غور کریں اور ان نعمتوں کی فہرست بنائیں جو آپ کو آج حاصل ہیں جیسے صحت، دولت ، عزت، تعلیم وغیرہ۔ پھر ان نعمتوں سے محظوظ ہوں اور الله کا شکر ادا کریں۔

 

                اصول نمبر 2 ۔ بدترین صورت حال کا مقابلہ کریں

 

کیس اسٹڈی

 

’’ولیم نیویارک میں پٹرول بیچنے کا کاروبار کرتا تھا۔ اس کا کاروبار اپنے عروج پر تھا کہ وہ ایک بدترین سانحے سے دوچار ہو گیا۔ اس وقت نیویارک میں جنگ کے قوانین نافذ تھے اور قانون کے تحت ولیم  کی کمپنی محض انہی گاہکوں کو تیل فراہم کرنے پر پابند تھی جن کے پاس راشن کارڈ تھے۔ لیکن ولیم بے خبر تھا کہ اس کی کمپنی کے ٹرک ڈرائیور گاہکوں کو کم مقدار میں تیل سپلائی کر کے کچھ تیل بچا لیتے اور پھر یہ فاضل تیل وہ مہنگے داموں دیگر لوگوں کو فروخت کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ولیم کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا لیکن وہ بے خبر تھا۔

ایک دن ایک شخص اس سے ملنے آیا۔ اس نے خود کو حکومت کا انسپکٹر ظاہر کیا۔ اس نے تفصیل سے ولیم کو ڈرائیوروں کی اس حرکت کے بارے میں بتایا۔ ساتھ ہی اس نے ولیم سے ایک بھاری رقم کی صورت میں رشوت کا مطالبہ بھی کر دیا۔ ولیم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہو گا۔ گو کہ ولیم اس میں ملوث نہیں تھا لیکن قانونی طور پر وہی ان سب معاملات کا ذمہ دار تھا۔

وہ اتنا فکر مند ہوا کہ بستر دراز ہو گیا۔ تین راتیں اور دن اس کیفیت میں گذرے کہ نہ تو وہ سو سکا اور نہ ہی کچھ کھا سکا۔ کبھی وہ سوچتا کہ رشوت دے کر جان چھڑا لے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ وہ آدمی اس کا پیچھا چھوڑ دیگا۔ کبھی وہ سوچتا کہ اس آدمی سے جا کر کہہ دے کہ جو جی میں آئے کر لو لیکن اس صورت میں اس کا چوبیس سالہ بزنس برباد ہو جاتا۔

دن یونہی گذر رہے تھے کہ ایک شب اس کے ہاتھ میں ولز ایچ کیرئیر کا ایک کتابچہ ملا جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ’’بری ترین صورت حال کا مقابلہ کریں‘‘۔ اس نے اس کتابچے کے بتائے گئے طریقہ کار پر عمل کا فیصلہ کیا۔

اقدام نمبر ایک کے طور پر اس نے یہ جائزہ لیا کہ اس معاملے میں ناکامی کا زیادہ سے زیادہ کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ملا کہ کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور اسے جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ ممکن نہ تھا۔ نہ تو اسے پھانسی پر لٹکایا جا سکتا اور نہ ہی کالے پانی کی سزا دی جا سکتی تھی۔

اقدام نمبر دو میں اس نے خود کو اس بری صورت حال کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اگر اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا اور جیل ہو گئی تو رہائی کے بعد وہ ملازمت کے لئے تگ و دو کرسکتا تھا کیونکہ اس کے پاس اس فیلڈ کا ایک وسیع تجربہ تھا۔ یہ سوچ کر اس کے بوجھ میں کمی واقع ہونی شروع ہوئی اور وہ مثبت بات سوچنے کے قابل ہوتا گیا۔

تیسرے اور آخری اقدام کے طور پر اس نے سوچنا شروع کیا کہ وہ اس بدترین صورت حال کے منفی اثرات کو کس طرح کم کرسکتا ہے۔ اس کا ذہن اب کافی حد تک نارمل ہو چکا تھا اس لئے اس کے ذہن میں کئی حل آنے لگے۔ اس نے طے کیا کہ وہ اپنے وکیل کو یہ ساری باتیں بتائے گا اور اس سے مشورہ لے گا۔ حالانکہ یہ سامنے کی بات تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔

یہ تینوں اقدام طے کر لینے کے بعد وہ بستر پر دراز ہو گیا اور اتنی گہری نیند سویا گویا کہ وہ نشے میں چور ہو۔ اگلی صبح وہ اٹھا اور وکیل کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ وکیل نے اطمینان سے یہ سب کچھ سنا اور مشورہ دیا کہ ولیم اس صورت حال کو ڈسٹرکٹ اٹارنی کے علم میں لے آئے۔ ولیم نے ایسا ہی کیا۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی نے ولیم کی باتیں سنیں اور اسے بتایا کہ جو شخص ولیم کو دھمکی دے رہا ہے وہ کوئی انسپکٹر نہیں بلکہ ایک بلیک میلر ہے اور وہ کافی عرصے سے پولیس کو مطلوب ہے۔ چنانچہ ولیم کی مدد سے اس جعلی انسپکٹر کو پکڑ لیا گیا اور یوں ولیم کی خلاصی ہوئی۔ ولیم نے سوچا کہ اگر وہ اس بدترین صورت حال سے نبٹنے کے لئے تین اقدامات نہ اٹھاتا تو آج وہ اسی بلیک میلر کے ہاتھوں ٹھگا جا رہا ہوتا یا پھر کسی نفسیاتی ہسپتال میں زیر علاج ہوتا۔ (ڈیل کارنیگی کی کتاب سے ماخوذ)

 

وضاحت

 

ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم میں سے ہر شخص کی زندگی میں ایسے سانحے اور حادثے رونما ہو جاتے ہیں جو ہمیں ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے میں دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو ہم صورت حال کے آگے گھٹنے ٹیک کر خود کو تقدیر کے دھارے میں بہنے دیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اس سانحے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو جائیں اور اس سے مقابلہ کریں۔ پہلی صورت میں بے چینی اضطراب، ڈپریشن، مایوسی اور بیماری ہمارے حصے میں آئے گی۔ دوسری صورت میں ہم خود اعتمادی، سکون اور صحت مند زندگی کی جانب پیش قدمی کریں گے۔ ایک فلسفی لن یونگ نے کہا تھا ’’حقیقی ذہنی سکون اسی صورت میں میسر آ سکتا ہے جبکہ آپ بری ترین صورت حال کو ذہنی طور پر تسلیم کر لیں‘‘۔

یہ بد ترین صورت حال کیا ہوسکتی ہے؟ اس سے مراد کسی عزیز کا انتقال، کسی معذوری کا سامنا، کاروبار میں تباہی، تعلیمی میدان میں ناکامی، کسی انسلٹ کا سامنا، کسی مقصد کے حصول میں ناکامی وغیرہ ہوسکتی ہے۔ جب بھی کسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑے تو ولز ایچ کیرئیر کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے خود سے درج ذیل سوالات کریں:

۔ میرے اس مسئلے سے بدترین صورت حال کیا ہوسکتی ہے؟

۔ اس بدترین صورت کے اثرات سے میں کس طرح نبٹ سکتا ہوں؟

۔ اس بدترین صورت حال کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے میں کیا اقدام کرسکتا ہوں؟

 

اسائنمنٹ

 

۔ اس طرح کا کوئی کیس آپ اپنی یا دوستوں کی زندگی سے لے کر تحریر کریں اور ان تین اقدام کو اپلائی کرتے ہوئے تحریر کریں کہ اس سے کس طرح نبٹیں گے۔

۔ آپ جب کسی بری صورت حال کا سامنا کرتے ہیں تو اس سے کس طرح نبٹتے ہیں۔ تحریر کریں۔

۔ آپ گاڑی چلا رہے ہیں کہ اچانک سامنے ایک بچہ آ جاتا ہے۔ آپ اس کو ہٹ کر دیتے ہیں جس سے وہ شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ آپ کیا کریں گے؟ ان تین اقدامات کی روشنی میں حل تجویز کریں۔

 

                اصول نمبر 3 ۔ پریشانیوں کے نقصانات پہچانیں

 

کیس اسٹڈی

 

‘‘غزالی کو پریشان ہونے کی عادت ورثے میں ملی تھی۔ مالی اعتبار سے وہ اچھی پوزیشن میں تھا، تعلیم بھی مناسب تھی، گھر بار، ملازمت، اولاد، بیوی غرض وہ سب کچھ حاصل تھا جو ایک اچھی زندگی گزارنے کے  لئے ضروری ہوتا ہے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہو جانا اس کی مستقل صفت بن چکی تھی۔ کبھی اسے یہ اندیشہ ہوتا کہ ملازمت ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟ کبھی وہ بچوں کے مستقبل کے خود ساختہ مسائل کو سوچتا تو کبھی باہر نکلنے پر اسے ایکسیڈنٹ کا خوف ستانے لگتا۔ اس کے دوست احباب اسے سمجھاتے کہ یہ سب سوچیں وہم ہیں اور ان کو خود پر حاوی کرنا فضول ہے۔ لیکن اسے اس طرح کی زندگی کی عادت ہو گئی تھی کیونکہ اس طرز زندگی میں خود کو اوپر اٹھانے کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی۔

لیکن وہ بھول گیا تھا کہ ان تفکرات کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے چڑچڑے پن کی بنا پر بیوی اور بچے اس سے دور ہونے لگے، خوف کا یہ عالم ہوا کہ رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی اور پھر نیند غائب ہو جاتی، دفتری معاملات الٹ پلٹ ہونے لگے۔ ان سب باتوں کے علاوہ صحت کی خرابی بھی ظاہر ہو گئی۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ڈپریشن جیسی بیماریوں نے حملہ کر دیا جبکہ ڈاکٹروں نے دل کی کمزوری کا بھی عندیہ دے دیا۔

اب اس کی خود ساختہ پریشانیاں حقیقی مسائل میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ وہ ان سب سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا لیکن کئی دہائیوں سے جن مسئلوں کو وہ پال پوس کر بڑا کرتا رہا وہ اب طاقتور ہو چکے تھے اور انہیں جڑ سے نکالنا مشکل تر تھا۔ بہرحال ایک دن ایک اور مہلک بیماری حملہ آور ہوئی۔ بلڈ پریشر کے ایک جاندار حملے  نے اس کے دائیں حصے کو مفلوج کر ڈالا۔ وہ آج  اپنے پلنگ پر بیٹھا یہ سوچتا رہتا ہے کہ وہ اگر جانتا کہ ان پریشانیوں کو پالنے کی کیا قیمت ہے تو ان کا ابتدا میں ہی قلع قمع کر دیتا لیکن آج ان پریشانیوں نے اس کا کام تمام کر دیا۔

 

وضاحت

 

جدید میڈیکل ریسرچ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ خوف، بے چینی، اضطراب اور پریشانیاں بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ Nervous Stomach Trouble کے مصنف ڈاکٹر جوزف لکھتے ہیں کہ ہمیں کھانے پینے کی بد پرہیزی کی بنا پر معدے کے السر کا اتنا خدشہ نہیں ہوتا جتنا غم ، فکر اور ٹینشن کی بنا پر ہوتا ہے۔

ہمارے تفکرات، خوف، مایوسی، تھکان محرومی وغیرہ بے شمار نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کی جانب آہستہ آہستہ دھکیلتے ہیں۔ ان بیماریوں میں بلڈ پریشر، امراض قلب، تھائیرائیڈ، شوگر اور گٹھیا جیسی مہلک اور تکلیف دہ بیماریاں شامل ہیں۔ ان جسمانی بیماریوں کے علاوہ یہ پریشانیاں ہماری ازدواجی زندگی کی ناکامی، سوشل لائف کی بربادی، نفرت و کدورت، غصہ و انتقام، افسردگی و ڈپریشن جیسی مصیبتوں کا سبب بھی بنتی ہیں۔

لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اگر ان تفکرات سے نجات حاصل کر لی جائے تو زندگی میں ترقی ممکن نہیں۔ یہی فکر اور ٹینشن ہے جو ایک طالب علم کو پاس کرواتی، ایک ملازمت پیشہ شخص کی ترقی کا سبب بنتی اور ایک کاروباری فرد کی کامیابی کا ضامن ہوتی اور ایک خاتون خانہ کو بہتر مستقبل کی ضمانت دیتی ہے۔ چنانچہ ان تفکرات سے اگر نجات حاصل کر لی جائے تو ترقی کا یہ سفر رک جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری زندگی میں بے شمار مسائل اور ان گنت پریشانیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کیرئر میں کامیابی اور زندگی کے مجموعی ارتقاء میں توازن کا ہونا ضروری ہے۔ ایک شخص جوانی کے قیمتی لمحات، صحت اور سوشل لائف غرض سب کچھ داو پر لگا کر ایک بہت بڑا بزنس مین یا ایک اعلیٰ  عہدے کا حامل بن جاتا ہے۔ لیکن جب وہ دنیا کی ساری نعمتیں اور آسائشیں  اپنے گرد جمع کر کے دنیا کے سامنے ایک کامیاب انسان بن کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کا باطن ناکامی کا ثبوت دے رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص بیماری کے سبب نارمل اور میٹھا کھانا کھانے سے محروم ہو جاتا ہے، وہ وقت کی کمی کے سبب اپنے ارد گرد کی آسائشوں کو انجوائے ہی نہیں کر پاتا، وہ اپنی اولاد کے ساتھ کھیلنے کے قابل نہیں ہوتا، وہ اپنی بیوی کو مطلوبہ وقت دینے سے قاصر ہوتا ہے، وہ اپنی دولت کا خطیر حصہ علاج کی نظر کر دیتا اور اکثر اوقات وہ اپنی اوسط عمر سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ اس کی زندگی کی خوشیوں کو اگر گنا جائے تو وہ شاید مجموعی طور پر ایک کسان کی خوشیوں سے بھی کم نکلیں گی۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اس نے ٹوٹل سکسیس مینجمنٹ Total Success Management کی بجائے زندگی کے محض ایک یا دو پہلوؤں پر ہی ساری توانائی صرف کر دی اور منہ کی کھائی۔ چنانچہ وہ شخص کسی طور کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا جو تفکرات اور پریشانیوں کے سبب بیماریوں میں گرفتار ہو جائے اور اس سبب زندگی کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو۔

اس ضمن میں جو دوسرا پہلو قابل غور ہے وہ یہ کہ تفکرات تو بے شمار ہیں لیکن ان میں سے کچھ مسائل تو حقیقی ہوتے ہیں جبکہ اکثر مسائل فرضی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک غریب آدمی کے لئے یہ سوچنا کہ آج رات کھانے کا بندوبست کس طرح کرنا ہے، یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ لیکن اسی غریب آدمی کا یہ سوچنا غیر حقیقی ہے کہ اگر کل صبح زلزلہ آ گیا تو کیا ہو گا۔ اسی طرح کچھ پریشانیوں کا حل ہمارے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ اکثر مسائل لاینحل ہوتے ہیں۔ جیسے گھر میں اگر پانی نہیں ہے تو یہ مسئلہ قابل حل ہے اور اس پر آرام سے نہیں بیٹھا جا سکتا۔ لیکن دوسری جانب لوڈ شیڈنگ کا کوئی انفرادی حل نہیں چنانچہ اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنا ہی مناسب ہے۔

پریشانیاں اگر حقیقی اور قابل حل ہوں تو ان کا حل تلاش کر کے انہیں ذہن سے نکال دیں۔ اگر یہ مسئلے غیر حقیقی یا ناقابل حل ہیں تو انہیں پہلے ہی سے ذہن سے نکال دیں۔ یعنی کسی بھی صورت میں پریشانی کو زیادہ عرصے دل میں نہ رکھیں۔ اور اگر رکھیں تو پھر ان کی قیمت چکانے کے لئے بھی تیار ہو جائیں۔

 

اسائنمنٹ

 

اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور ان پریشانیوں کی لسٹ بنائیں جو غیر حقیقی ہیں۔ پھر انہیں ذہن سے نکال دیں کیونکہ وہ غیر حقیقی ہیں۔

ان تفکرات کی لسٹ تیار کریں جو ناقابل حل ہیں لیکن پھر بھی وہ آپ کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔

اپنے ارد گرد لوگوں کا جائزہ لیں اور ان لوگوں کی بیماریاں تحریر کریں جو تفکرات کی بنا پر ان میں مبتلا ہوئے۔

اگر آپ بھی پریشانیوں کی بنا پر کسی بیماری کا شکار ہیں تو اس کا نام لکھیں اور اس سے نبٹنے کی حکمت عملی تیار کریں.

آپ تحریر کریں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کسی ایک پہلو میں کامیابی ہے یا ٹوٹل سکسیس مینجمنٹ؟ ٹوٹل سکسیس مینجمنٹ کے تصور کو واضح کریں۔

 

                اصول نمبر4 ۔ مسئلہ حل کرنے کے اقدام کریں

 

کیس اسٹڈی

 

مرگی ایک ایسا مرض ہے جس میں مریض پر جب دورہ پڑتا ہے تو اس کے ہاتھ اور پاوں مڑنے لگتے ہیں اور وہ زمین پر گر جاتا ہے۔ یہ کیفیت کچھ دیر تک برقرار رہتی ہے پھر اعضا معمول کی پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔ آج سے سیکڑوں سال قبل اس مرض کے بارے میں ایک تھیوری پیش کی جاتی تھی۔ وہ یہ کہ اس مرض کی وجہ مریض کے اندر ایک بد روح کا داخل ہو جانا ہے۔ یہ بد روح مریض کے دماغ میں گھس کر اس کے ہاتھ پاؤں موڑ دیتی ہے۔ اس کا علاج یہ تھا کہ مریض کے سر میں ایک کیل ٹھونکی جاتی تھی تاکہ اس بد روح کو باہر آنے کا راستہ مل سکے۔ اس عمل سے بد روح نکل جاتی تھی اور مریض سکون میں آ جاتا تھا۔ لیکن اس اخراج کے ساتھ ہی مریض کی اپنی روح بھی نکل جاتی اور یوں اسے نیک اور بد دونوں روحوں سے مکتی مل جایا کرتی تھی۔

یہ غیر سائینسی نظریہ جدید میڈیکل سائینس نے باطل کر دیا۔ جب باقاعدہ ریسرچ کی گئی تو علم ہوا کہ مرگی کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ دراصل ہمارے دما غ کو خون سپلائی کرنے والی ایک خاص وین ہوتی ہے۔ مرگی کے مریض میں عارضی طور پر خون کی سپلائی رک جاتی ہے جس کی بنا پر مریض کے ہاتھ پاؤں مڑنے لگتے ہیں۔ چنانچہ اس سپلائی کو بحال کرنے کے لیے کئی دوائیاں بنائی گئیں اور آج مرگی کے مرض کا علاج ممکن سمجھا جاتا ہے۔

 

وضاحت

 

ہمیں جب بھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے اکثر لوگ مسائل کو حل نہیں کر پاتے۔ اس کی بنیادی وجہ مسئلے کو غیر سائنسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جب تک مسئلے کو سائنٹفک طریقے سے حل نہیں کیا جائے گا، یہ جوں کا توں برقرار رہے گا۔ مثال کے طور پر ایک سبزی بیچنے والا یہ دیکھتا ہے کہ اس کے برابر والی دوکان پر ہر وقت رش لگا رہتا ہے جبکہ اس کی دوکان پر شاذ ہی لوگ آتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ کچھ سوچے سمجھے بنا اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دے۔ کسی پیر فقیر سے رابطہ کرے، اگر بتیاں جلائے اور برکت کے لئے قرآنی آیات لٹکائے۔ اس سے ظاہر ہے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ پریشانی میں اضافہ ہی ہو گا۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا سائنسی تجزیہ کرے اور اس کو حل کرنے کے لیے درج ذیل اقدام کرے:

 

اسٹیپ نمبر ۱: مسئلے کو بیان کرے۔

اسٹیپ نمبر ۲: مسئلے کی وجوہات بیان کرے۔

اسٹیپ نمبر ۳: مسئلے کے ممکنہ حل تلاش کرے۔

اسٹیپ نمبر ۴: ممکنہ حل میں سے بہترین حل کو اختیار کرے۔

اسٹیپ نمبر ۵: ممکنہ حل پر عمل درآمد کا پروگرام بنائے اور اس پر عمل شروع کر دے۔

پہلا قدم یہ ہے کہ مسئلے کو لکھ لیا جائے۔ ایک اچھی طرح لکھا ہوا مسئلہ آدھا حل خود ہی پیش کر دیتا ہے۔

مثال کے طور پر وہ سبزی فروش مسئلے کو اس طرح بیان کرسکتا ہے۔

بیان نمبر ا: ‘‘میرا کاروبار تباہ ہو رہا ہے’’۔

اگر اس بیان کو دیکھا جائے تو یہ مسئلے کا درست بیان نہیں۔ اس سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ تباہی کی کیا نوعیت ہے، کاروبار کب سے تباہ ہو رہا ہے وغیرہ۔

بیان نمبر۲ : ’’ میرے کاروبار کی گذشتہ چھ مہینوں سے فروخت اوسطاً فی صد کم ہو رہی ہے’’۔

یہ مسئلے کا درست بیان ہے جو اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈال رہا ہے۔

دوسرا قدم یہ ہے کہ وہ اس فروخت میں کمی کی وجوہات معلوم کرے۔ وجوہات معلوم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حقائق جمع کئے جائیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ڈین نے کہا تھا :

‘‘دنیا کی نصف یا آدھی سے زائد پریشانیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس وہ معقول علم نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر انہوں نے فیصلہ سرانجام دینا ہوتا ہے.’’

اس سبزی فروش کی سیل میں کمی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثال کے طور پر سبزی کی خراب کوالٹی، دوکان کی لوکیشن، قیمت میں تفریق، کسٹمر سے برتاؤ وغیرہ۔ درست وجہ معلوم کرنے کے لیے حقائق کو بلا کسی جانبداری کے جمع کرنا چاہیے۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ تعصب کی بنا پر یہ سوچنے لگ جائے کہ اس کا حریف دوکاندار اس لئے کامیاب ہے کہ وہ چاپلوس ہے اور وہ گاہکوں کو گھیرتا ہے وغیرہ۔ حقائق کو غیر جانبداری سے جمع کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لی جائے۔ چنانچہ اگر یہ دوکان دار کسی شخص کو ڈمی گاہک بنا کر دو تین مرتبہ اپنے حریف کے پاس بھیجے تو علم ہو گا کہ اس کا حریف اس لئے زیادہ کامیاب ہے کہ وہ گاہکوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے مزید یہ کہ وہ کسٹمرز کو اضافی گوشت بھی دے دیتا ہے۔

تیسرا قدم یہ ہے کہ مسئلے کے ممکنہ حل تلاش کرے۔ یہ حل درج ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں:

ایک حل تو یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق بہتر بنا کر کسٹمر کو اپنی جانب متوجہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اضافی سبزی بھی دینے لگ جائے۔

دوسرا حل یہ ہے کہ وہ ابتدا میں قیمتیں کم کر دے تاکہ کسٹمرز اس کی جانب متوجہ ہو جائیں۔

تیسرا حل یہ ہے کہ وہ خود پس منظر میں چلا جائے اور کسی چرب زبان اور خوش اخلاق سیلز مین کو دوکان پر بٹھا دے۔

چوتھا قدم یہ ہے کہ تمام ممکنہ حل کا تجزیہ کیا جائے اور ان کی اچھائیاں اور برائیاں دیکھ کر بہترین حل کا انتخاب کیا جائے۔ اگر وہ پہلا حل اپناتا ہے یعنی اپنے اخلاق بہتر کر کے سیل بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ایک طویل مدتی قدم ہے کیونکہ لوگوں کو اس کے اخلاق کی بہتری کا کافی دیر بعد علم ہو گا۔ دوسرا حل قیمتوں میں کمی کا ہے۔ یہ ایک شارٹ ٹرم اور فوری حل ہے لیکن اس سے پرافٹ مارجن میں کمی آ سکتی ہے۔ البتہ کچھ عرصے بعد قیمتوں کو دوبارہ اسی سطح پر واپس لایا جا سکتا ہے۔ تیسرا حل بھی قابل عمل ہے کہ خود پس منظر میں جاکر کسی خوش اخلاق سیلز مین کو سامنے لایا جائے۔ اس سے لوگوں میں انتظامیہ کی تبدیلی کا تاثر پیدا ہو گا۔ چنانچہ وہ حل نمبر 2 اور 3 بیک وقت اپنانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔

پانچواں اور آخری قدم یہ ہے کہ اس حل پر عمل درآمد کے لئے پروگرام بنایا جائے۔ چنانچہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ نئے سیلز مین کو وہ اگلے ہفتے سے اپائنٹ کر لے گا اور اگلے ہی ہفتے سے وہ قیمت میں دس فیصد کمی کا اطلاق کر لے گا۔

 

اسائمنٹ

 

۔ اپنی زندگی کے دو اہم مسئلے لکھئے اور ان کے حل کے لئے پانچ اقدامات کریں.

۔ اوپر بیان کردہ کیس اسٹڈی میں قدیم لوگوں سے مرگی کے علاج میں کیا غلطی ہو رہی تھی؟ انہیں مسئلے کا حل کس طرح کرنا چاہیے تھا؟ پانچ اقدامات کو اپلائی کرتے ہوئے جواب دیں۔

۔آپ مستقبل کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ کون سا پیشہ اختیار کریں۔ ان پانچ اقدام کو اپلائی کرتے ہوئے حل تلاش کریں۔

۔ ایک اسٹوڈنٹ ہمیشہ امتحان میں کم نمبر لاتا ہے۔ ان پانچ اقدامات کی روشنی میں وہ کس طرح مسئلہ حل کرسکتا ہے؟

 

                اصول نمبر 5  ۔ خود کو مصروف رکھیں

 

کیس اسٹڈی

 

وہ بڑی افسردگی سے اپنی داستان الم دوست کو سنا رہا تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے توقف کیا اور پھر اپنی بات جاری رکھی: ’’میرا ایک سات سالہ بیٹا اور پانچ سالہ بیٹی تھی۔ ان سے میں بے حد محبت کرتا تھا۔ اچانک میری بیٹی کو ڈنگی بخار نے آلیا اور کچھ ہی عرصے میں وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ اس کی موت کے بعد اللہ نے ہمیں ایک اور بچی سے نوازا لیکن پانچ دنوں کے اندر وہ بھی چٹ پٹ ہو گئی۔ یہ دونوں نقصان میرے لئے ناقابل تلافی اور ناقابل برداشت تھے۔ میرا امن و سکون رخصت ہو چکا تھا۔ مجھے نہ رات کو نیند آتی نہ دن میں آرام۔ بھوک پیاس کا احساس ختم ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں کے چکر لگائے تو کسی نے سکون آور ادویات تجویز کیں تو کسی نے سیرو تفریح کا مشورہ دیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میرا جسم شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہو اور وہ شکنجہ سخت سے سخت تر ہو رہا ہو۔ شب و روز اسی رنج و الم کی کیفیت میں گزر رہے تھے کہ ایک دوپہر میرا بیٹا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ میں اس کے لیے ایک کشتی بنا دوں۔ میں اپنی پریشانیوں میں غلطاں تھا اور کسی کام کے موڈ میں نہیں تھا۔ لیکن بیٹا بھی دھن کا پکا تھا۔ اس کے مسلسل اصرار نے مجھے کشتی بنانے پر آمادہ کر ہی لیا۔ مجھے اس کے لیے کشتی بنانے میں تین گھنٹے لگے، جب کشتی مکمل ہو گئی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ تین گھنٹے جو میں نے کشتی بنانے میں صرف کئے وہ انتہائی انمول تھے۔ گذشتہ کئی ماہ کے دوران یہی تین گھنٹے مجھے ملے تھے کہ جن کے دوران میرا ذہن تفکرات اور پریشانیوں سے آزاد رہا اور مجھے کچھ سکون میسر آیا۔ اب مجھ پر یہ بھید کھل چکا تھا کہ اگر پریشانی، رنج اور الم سے بچنا ہے تو خود کو مصروف رکھنا پڑے گا۔ چنانچہ میں نے   گھر، دفتر اور دوست احباب میں مصروف رہنے کے لیے ایک منصوبہ بندی کی۔ آج میں اتنا مصروف ہوں کہ میرے پاس پریشان ہونے کے لئے کوئی وقت نہیں۔’’ (ڈیل کارنیگی کی کتاب سے ماخوذ وضاحت)

ہماری اکثر پریشانیوں اور غموں کا سبب فارغ اوقات میں بیٹھ کر اوٹ پٹانگ سوچوں کو ذہن میں جگہ دینا ہے۔ فراغت میں کبھی آفس کی پریشانی یاد آتی ہے تو کبھی گھر کا کوئی مسئلہ۔ مردوں کے برعکس خواتین کو اکثر اپنی ساس یا بہو سے متعلق سوچیں آتی ہیں جس سے ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ ذہن میں آنے والی یہ سوچیں اگر اس قابل ہیں کہ انہیں حل کیا جائے تو کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو انہیں ٹالنے کا مشورہ دے گا۔ لیکن اگر یہ سوچیں اس نوعیت کی ہیں کہ آپ ان کو حل کرنے کے لیے فی الوقت کچھ نہیں کرسکتے یا پھر یہ سوچیں ان مسئلوں پر مبنی ہیں جن کو حل ہی نہیں کیا جا سکتا تو ایسی صورت میں ان سے چھٹکارا پانا لازمی ہے۔ یہ لایعنی سوچیں اور ناقابل حل پریشانیاں اگر ذہن میں پلتی رہیں تو یہ آہستہ آہستہ دماغ کے کونوں کھدروں میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ ان کی مثال کھٹملوں کی سی ہے جو چا رپائی کے ایک ایک انگ میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اگر ان کا قلع قمع نہ کیا جائے تو یہ انڈے بچے دے کر اپنی نسل کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دیتے ہیں۔

ان سوچوں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خود کو مصروف رکھا جائے اور غیر ضروری فراغت سے گریز کیا جائے۔ ایک پروفیسر جیمز ایل مرسل کیا خوب کہتے ہیں:

’’جب آپ مصروف ہوتے ہیں تب پریشانیاں اور تفکرات آپ پر حملہ آور نہیں ہوتیں لیکن جب آپ کے کام کاج کے اوقات اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں اس وقت آپ کا ذہن بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ایک موٹر فارغ چل رہی ہو اور اس کی توانائی کہیں استعمال نہ ہو۔ ایسی صورت میں یہ موٹر اپنے ہی پرزے جلا دے گی کیونکہ وہ بنا کسی لوڈ کے چل رہی ہے۔ یہی حال ایک فارغ ذہن کا ہے۔ اس لئے پریشانیوں اور تفکرات سے نجات کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی موٹر کو کسی تعمیری کام میں مصروف رکھا جائے۔ اتنا مصروف کہ یہ سوچنے کا بھی وقت نہ ہو کہ آپ خوش ہوں یا ناخوش۔’’

مصروفیت کے لئے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ مصروفیت اس نوعیت کی ہو کہ اس سے آپ کا ذہن اور جسم دونوں مصروف رہیں۔ جیسے اگر ایک عورت کپڑے تہہ لگے تو اس دوران میں اس کا دماغ مسلسل سوچوں میں غلطاں رہ سکتا ہے۔

اسی طرح مصروفیت مثبت اور تعمیری ہو۔ مثال کے طور پر گھنٹوں بلا مقصد ٹی وی دیکھنا خود کو تھکانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح کسی لڑائی جھگڑے میں خود کو مصروف کرنا بھی کوئی مناسب تدبیر نہیں۔ مصروفیت میں یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کسی قسم کا ذہنی یا جسمانی نقصان تو وابستہ نہیں۔

مثبت مصروفیات میں جو امور شامل ہیں ان میں کسی کے کام آ جانا، کسی کھیل کود میں حصہ لینا، کسی سماجی سرگرمی کا حصہ بننا، کسی تحریر کا لکھنا، اولاد، بیوی یا شوہر کو وقت دینا، ماں باپ سے نیک سلوک کرنا، رشتے داروں کے مسائل نبٹانا، محلے کے اجتماعی مفاد میں اقدام کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار سرگرمیاں ہیں جو آپ اپنے ذوق کے مطابق منتخب کرسکتے ہیں۔

 

اسائنمنٹ

 

۔ آپ جائزہ لیں کہ شب و روز میں کتنے گھنٹے آپ فارغ رہتے ہیں؟ پھر فراغت میں آنے والی پریشانیوں کی فہرست بنائیں۔

۔ یہ دیکھیں کہ آپ کس طرح اپنی فراغت کو مثبت سرگرمیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں؟

۔ اگر آپ پہلے ہی سے ایک مصروف زندگی گذارتے ہیں تو تحریر کریں کہ آپ اپنی مصروفیت کو مزید مثبت کس طرح بنا سکتے ہیں۔

 

مطالعے کی عادت کیسے اپنائی جائے

 

اس سائنسی دور کی بہت ساری ایجادات مثلاً ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ نے انسانیت کو جہاں بہت سارے فائدے پہنچائے ہیں وہاں ا ن ایجادات کی وجہ سے انسان کا رشتہ کتابوں سے کمزور پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے آج کے انسان کے پاس معلومات کا ذخیرہ تو بہت زیادہ ہے لیکن وہ اُس حقیقی علم سے محروم ہوتا جا رہا ہے جواس کی دنیوی و اُخروی زندگی کی کامیابی کے لئے انتہائی مطلوب ہے کیونکہ کتابیں آج بھی علم کا اصل ماخذ ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ مطالعہ کا انسان کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور اس بات کا مشاہدہ ہماری روزمرہ زندگی میں مطالعہ کرنے والے اور مطالعہ نہ کرنے والے لوگوں کے عادات و اطوار اور اخلاق و کردار میں واضح فرق کی صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے اس لئے مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیے کیونکہ مطالعہ نہ صرف ایک بہترین مشغلہ ہے بلکہ انسان کے فارغ اوقات کا بہترین مصرف بھی ہے اور اس مطالعہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم کا عملی زندگی پر اطلاق کر کے ہم اپنی دنیاوی و اُخروی زندگیوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

ذیل میں کچھ تجاویز دی گئی ہیں جن پر عمل کر کے آپ مطالعہ کو اپنی زندگی کا جزو بنا سکتے ہیں:

۔ مطالعہ کی عادت کو اختیار کرنے کے لئے آغاز قرآن مجید کی تلاوت اور احادیث کے مطالعہ سے کیجیے اور اس کے لئے بہترین وقت نماز فجر کے بعد کا ہے۔ شروع میں روزانہ صرف 10 منٹ مطالعہ کے ساتھ آغاز کیجیے لیکن اس کو ہر صورت باقاعدگی سے روزانہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ اس وقت میں سے بھی پہلے 5 منٹ قرآن مجید کی تلاوت کے لئے وقف کیجیے اور باقی 5 منٹ حدیث کی کسی کتاب کا مطالعہ کیجیے مگر اس میں ضروری بات یہی ہے کہ اس کام کو روزانہ بلا ناغہ کیا جائے۔ کچھ ہی عرصے میں یہ عادت آپ کی زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ اس سے نا صرف آپ کا دین سے تعلق قائم رہے گا بلکہ کتاب اللہ اور حدیث رسول کا باقاعدہ مطالعہ تزکیہ نفس کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ بصورت دیگر آپ وقت مقرر کرنے کی بجائے روزانہ کا ہدف بھی مقرر کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے چند رکوع کی روزانہ تلاوت کی جائے اور ساتھ ہی احادیث کی کسی اچھی کتاب میں سے روزانہ فقط ایک یا دو احادیث کا مطالعہ کر لیا جائے۔ مگر آپ اپنا روزانہ کا ہدف صرف اتنا مقرر کیجیے جو با سانی مکمل کیا جا سکے۔

 

                اصول نمبر 6 ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کیجئے۔

 

کیس اسٹڈی

 

وہ جب آفس میں داخل ہوا تو بہت خوش تھا کیونکہ ترقی ہونے کے بعد یہ پہلا دن تھا۔ نیا کمرہ، گھومنے والی کرسی، گھنٹی پر حاضر ہونے والا چپراسی، ٹھنڈک والی مشین، انٹرکام اور بہت کچھ اس کا منتظر تھا۔ وہ انہی خیالات میں کھویا دفتر میں داخل ہوا۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ اس کا شاندار استقبال کیا جائے گا۔ لیکن یہ کیا؟ یہاں تو کچھ بھی نہ ہوا۔ سب لوگ اپنی سیٹ پر بیٹھے تھے اور کسی نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ وہ کچھ دیر تو شش و پنج کے عالم میں کھڑا رہا لیکن جب کوئی رسپانس نہ ملا تو اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہ وہی کمرہ تھا جس کے بارے میں وہ تھوڑی دیر قبل تصوراتی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔لیکن دفتری ساتھیوں کے روئیے نے اس کا موڈ خراب کر دیا تھا۔ وہ کافی دیر بیٹھ کر یہی سوچتا رہا اور اپنے ساتھیوں کی بے رخی پر ماتم کرتا رہا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ اس عمل سے اسے ہی نقصان ہو رہا ہے تو اس نے اس خیال کو جھٹک دیا اور اس نئی زندگی کے پہلے دن کو انجوائے کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔’’

 

وضاحت

 

ہماری زندگی کا بہت تھوڑا حصہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ ہمارے ماحول کی لاتعداد چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ معاملات بڑے ہوتے ہیں کچھ چھوٹے۔ بڑے معاملات کے نتائج چونکہ سنگین نکلتے ہیں اس لئے ہم انہیں حل کرنے کی پوری کوشش کرتے اور ذہنی طور پر ان سے نبٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے مسائل کو ہم کم اہم سمجھ کر حل نہیں کرتے۔ جب یہ چھوٹے مسائل حل نہیں ہوتے تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ طاقت ور ہو جاتے ہیں اور ہماری شخصِیت کو شکست دینے پر تل جاتے ہیں۔

ان چھوٹے چھوٹے معاملات سے ہمیں روز مرہ واسطہ پڑتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ عام طور پر رویوں میں یہ شکایت ہوتی ہے کہ کسی نے سلام نہیں کیا، منہ بنا کر بات کی، خیریت نہیں پوچھی، مہمانداری نہیں کی، تعاون نہیں کیا وغیرہ۔ یہ معمولی باتیں چیزوں کے حوالے بھی ہوتی ہیں جیسے گھر کی بکھری ہوئی چیزیں، دیوار کی دراڑ، لباس کی شکنیں، بد ذائقہ کھانا وغیرہ ہمارا موڈ خراب کر دیتے ہیں۔ ماحول میں بھی ان باتوں کا امکان موجود رہتا ہے جیسے ٹریفک جام کی شکایت، لوڈ شیڈنگ، شدید گرمی وغیرہ۔

غرض روزمرہ کی زندگی میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں ایک ایسے مچھر کی طرح تنگ کرتی رہتی ہیں جو کان پر آ کر بھن بھن کرتا اور بار بار کرتا رہتا ہے۔ ان باتوں کا علاج یہ ہے کہ ان پر کان نہ دھرا جائے، انکے بارے میں سوچ کر ذہنی توانائی کو صرف نہ کیا جائے، ان پر توجہ نہ کی جائے اور ان کو سوچ میں آنے سے پہلے ہی فنا کر دیا جائے۔ یہ باتیں اتنی معمولی اور حقیر ہوتی ہیں کہ ان کو ابتدا میں ہی نظر انداز کر دینا ضروری ہے۔

زندگی انتہائی مختصر لیکن پریشان کن ہے۔ یہ غیر حقیقی پریشانیاں ہماری زندگی کو مزید مختصر اور زیادہ پریشان کن بنا دیتی ہیں۔ ان کو نظر انداز کیجئے اور زندگی کا لطف اٹھائیے۔

 

اسائنمنٹ

 

۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی فہرست بنائیں جو آپ کو تنگ کرتی ہیں۔

۔ ان پریشانیوں پر غور کریں کہ آیا یہ قابل حل ہیں یا نہیں۔

۔ اگر یہ قابل حل ہوں تو انہیں حل کر لیں اور اگر نہیں تو انہیں بھول جائیں۔

۔ بھولنے کے ایک ہفتے بعد دوبارہ جائزہ لیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کو دوبارہ تو تنگ نہیں کر رہی ہیں؟

 

                اصول نمبر7 ۔ قانون اوسط سے مدد لیجیے

 

کیس اسٹڈی

 

چند دوست آپس میں اپنے اپنے خدشات اور خوف کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک دوست نے کہا۔ مجھے آسمانی بجلی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جب بجلی کڑکتی ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مجھ پر ہی گرے گی’’۔

ایک اور دوست بولا:

‘‘یار مجھے تو فائرنگ سے بہت خوف آتا ہے۔ کراچی شہر کا کچھ پتا نہیں کب نامعلوم سمت سے آنے والی گولی ہمیں چاٹ جائے۔ میں اس خوف کی بنا پر باہر بہت کم نکلتا ہوں اور اکثر پریشان رہتا ہوں۔ اس خوف کے سبب میں اپنی نیند بھی پوری نہیں کرپا رہا۔ ‘‘

تیسرا دوست جو بڑی دیر سے اپنی بات کو ضبط کیا ہوا تھا بول پڑا۔’’بھئی مجھے تو گھر سے دفتر نکلنے کے بعد دن بھر یہی خیال ستاتا رہتا ہے کہ کہیں میرا چھوٹا بیٹا سیڑھیوں سے تو نہیں گر گیا؟ کہیں میں استری جلتی ہوئی تو چھوڑ کر نہیں آ گیا؟ کہیں میری بیوی کی طبیعت تو خراب نہیں ہو گئی؟ انہی خدشات کے پیش نظر میں بار بار گھر فون کرتا اور خیریت معلوم کرتا رہتا ہوں لیکن کچھ دیر بعد پھر کوئی وسوسہ دل میں آ کر سکون غار ت کر جاتا ہے’’۔

آخری دوست بھی نچلا نہ بیٹھا اور اپنے خوف کو بیان کرنے لگا۔’’بھائیو! میرا مسئلہ کچھ مختلف ہے لیکن نوعیت کے اعتبار سے وہی ہے۔ مجھے مختلف قسم کے امراض کا خوف رہتا ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ ڈینگی ہو گیا ہے اور میں راتوں میں اٹھ کر اپنے بدن پر سرخ دھبے تلاش کرتا ہوں، کبھی مجھے وضو کرتے وقت نیگلیریا کا خوف ہوتا ہے، کبھی میں کانگو وائرس کی علامات اپنے اندر تلاش کرتا ہوں تو کبھی ہارٹ اٹیک کا وسوسہ میرے شب و روز کا سکون غارت کئے دیتا ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس چکر لگا لگا کر تنگ آ گیا ہوں اور ڈاکٹر بھی مجھ سے نالاں ہے۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں’’۔

قریب ہی ایک بزرگ ان دوستوں کی باتیں سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس کا علاج ہے۔ سب دوستوں نے اچانک پلٹ کر انہیں دیکھا اور علاج دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج  ہے کہ قانون اوسط سے مدد لو۔

 

وضاحت

 

ہمارے خارجی اور داخلی ماحول میں بے شمار خدشات اور خطرات موجود ہوتے ہیں۔ ان خطرات میں زلزلے، سیلاب، طوفان، روڈ ایکسیڈنٹ، فائرنگ، ہارٹ اٹیک، ڈینگی، کینسر، معذوری اور اس نوعیت کے دیگر معاملات شامل ہوتے ہیں۔  مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان خطرات کو ایک حد تک ہی قابو کرسکتے اور ان سے ایک حد تک ہی بچ سکتے ہیں۔ باقی زندگی ہمیں انہی کے ساتھ رہ کر گذارنی ہے۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہر وقت ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی زندگی اجیرن بنا لیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون اوسط اور قانون امکانات سے کام لیں۔

قانون اوسط یہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے کسی مصیبت یا حادثے کے شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسمانی بجلی ساڑھے تین لاکھ میں سے کسی ایک فرد پر ہی گرتی ہے، کینسر میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص ہی ہلاک ہوتا ہے۔ فائرنگ سے کروڑوں کے شہر میں دس یا بارہ افراد ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ ڈینگی مچھر اتنی بڑی آبادی میں محض چند درجن لوگوں ہی کو متاثر کرپاتا ہے وغیرہ۔ جب آپ اس قانون سے کام لیں گے تو آپ کو علم ہو گا کہ آپ پر کسی بیماری، جرثومہ یا آفت کے حملے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ آپ پرسکون رہیں، حفاظتی تدابیر اختیار کریں، اللہ سے دعا کریں، اللہ پر توکل کریں، اور نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا کام خاموشی سے کرتے رہیں۔

اس پر ایک اعتراض یہ وارد ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے آج گولی مجھے ہی لگ جائے یا ڈینگی سے متاثر ہونے کی باری میری ہی ہو یا آج حادثہ میرے ہی ساتھ ہو جائے۔ اب کیا کیا جائے؟ اس مشکل کے تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ کہ ہم تمام گولی مارنے والے لوگوں کو ختم کر دیں یا تمام ڈینگی ہلاک کر دیں یا تمام حادثات رونما ہونے کے امکانات ختم کر دیں اور جب تک ایسا نہ کر لیں چین سے نہ بیٹھیں۔ اگر آپ اس آپشن پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجئے لیکن ایک نارمل آدمی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ہم ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلیں جائیں جہاں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو۔ اگر ایسا کرنے سے آپ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو ضرور ایسا کریں۔ لازمی سی بات ہے کہ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو۔ ہاں اس کے امکانات کم ہو سکتے ہیں اور جونہی آپ امکانات کی بات کرتے ہیں تو آپ دوبارہ قانون اوسط پر آ جاتے ہیں۔ نیز ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ جب تک آپ کسی پرسکون جگہ تک نہیں پہنچ جاتے آپ کو ان مشکلات کو برداشت کرنا اور ان کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ تیسرا حل ان مشکلات کے ساتھ زندہ رہنا اور وہی قانون اوسط سے مدد لینا ہے۔ اور یہی اس کا حل ہے۔

 

اسائینمنٹ

 

۔ ان خدشات اور خوف کی نشاندہی کریں جو آپ کو تنگ کرتے ہیں۔

۔ خوف کا جائزہ لیں کہ وہ حقیقی ہیں یا غیر حقیقی۔ اگر غیر حقیقی اور وہم ہیں تو اسے یکسر نظر انداز کر دیں۔

۔ ان کے بارے میں ڈیٹا اکھٹا کریں کہ اس کے کتنے امکانات ہیں کہ وہ حادثہ آپ کے ساتھ وقوع پذیر ہوسکے۔

۔ اس حادثے سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر نوٹ کریں اور انہیں اختیار کریں۔

۔ اللہ سے دعا کریں اور پھر اس پر کامل بھروسہ کر لیں کہ وہ آپ کو اس مشکل سے بچائے گا۔

۔ ان اقدام کے بعد کسی وہم میں مبتلا نہ ہوں اور اپنا کام کرتے رہیں۔

 

                اصول نمبر8 ۔ اٹل حقیقت کو تسلیم کر لیں

 

کیس اسٹڈی

 

وہ آج بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا۔ آج اسے برسوں پرانے سپنے کی تعبیر مل گئی تھی۔ وہ خوشی سے سرشار اپنے گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے لپٹ گیا۔

’’ امی! میں کامیاب ہو گیا۔ مجھے ائیر فورس میں پائلٹ کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے ‘‘۔

ماں اس کی بلائیں لینے لگی اور دعا دینے لگی۔ وہ ماں کو یہ خوشخبری دینے کے بعد بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگا تاکہ جلد از جلد رپورٹ کر کے اپنی ڈیوٹی جوائن کرسکے ۔ ابھی مغرب ہی ہوئی تھی اور اسے پوری رات کاٹنی تھی۔ اس نے سوچا کہ کل دفتر جانے کے لیے کچھ اچھے کپڑے خرید لے ۔ چنانچہ وہ ایک دوست کے ساتھ بازار گیا اور شاپنگ میں مصروف ہو گیا۔ ابھی وہ دوکاندار سے بھاؤ تاؤ میں مصروف ہی تھا کہ اس کے کانوں میں ایک شدید دھماکے کی آواز آئی۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ چھت اس کے سر پر گر گئی ہو۔ پھر اس کا دماغ  تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔

جب ہوش آیا تو ابتدا میں کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جب غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ وہ اسپتا ل میں ہے ۔ اس نے گھبرا کر اٹھنے کی کوشش کی تو درد کی ٹیسوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹروں کی ایک ٹیم داخل ہوئی۔ ان کے ساتھ  اس کی ماں بھی تھی جس کی آنکھیں رونے کے باعث سوجھ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا ، ایک ڈاکٹر اس سے مخاطب ہوا۔

‘‘مسٹر وقاص! آپ بازار میں ایک بلاسٹ کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس میں کئی جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ بچ گئے ہیں ۔ لیکن ایک بری خبر یہ ہے کہ بلاسٹ میں آپ کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو چکی ہیں ‘‘۔

وقاص کے لیے یہ دھماکہ پہلے والے بلاسٹ سے شدید تر تھا۔ وقاص کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ دن گذرتے گئے لیکن وقاص مایوسی اور پژمردگی میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اس کا وجود ایک زندہ لاش کی مانند تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ مر کیوں نہیں گیا۔ لیکن اس قسم کی سوچوں سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھنے لگا۔ وہ ایک دن اسی مایوسی کے عالم میں کتاب کے صفحات پلٹ رہا تھا کہ ایک دعائیہ جملے نے اس کی توجہ مبذول کر لی۔ وہ بار بار ڈاکٹر ربن ہولڈ  کے اس جملے کو پڑھنے لگا۔

’’ اے اللہ ! مجھے اتنی عقل عطا فرما کہ میں ان حالات سے سمجھوتہ کر لوں جنہیں بدلنے پر میں قدرت نہیں رکھتا’’۔

اس جملے نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس نے سوچ لیا کہ یہ ٹانگیں واپس نہیں آ سکتیں اور نہ ہی اسے پائلٹ کی نوکری دوبارہ مل سکتی ہے ۔ لیکن دنیا دو ٹانگوں اور پائلٹ کی ملازمت پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ چنانچہ اس نے ایک گھر کے قریب ایک کالج جوائن کر لیا اور درس و تدریس میں مشغول ہو گیا۔

آج کئی برس بعد اس کی بیوی بھی ہے اور بچے بھی۔ وہ اپنے بچوں کو خوش و خرم لہجے میں یہی درس دیتا ہے کہ ’’ جس حقیقت سے فرار ممکن نہیں اس حقیقت کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرو’’۔

 

وضاحت

 

زندگی میں ہمیں دو طرح کی ناخوشگوار حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ایک وہ معاملات ہیں جنہیں ہم بدلنے پر قادر ہیں جیسے بیمار ہونے پر دوائی کھانا۔ دوسری جانب وہ امور ہیں جو ناخوشگوار تو ہیں لیکن ہم انہیں بدلنے پر قادر نہیں۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ ہی عقل مندی ہے ۔ مثال کے طور پر معذوری، بدصورتی، کسی عزیز کی موت، کوئی مالی محرومی، کسی قیمتی شے کا کھو جانا وغیرہ۔ ان تمام معاملات میں اگر کوئی شخص خود کو ایڈجسٹ نہ کر پائے تو زندگی مشکل تر ہو جاتی بلکہ جہنم بن جاتی ہے ۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے آگے کی طرف دیکھنا اور مثبت زندگی کا آغاز کرنا ہی واحد چارہ ہوتا ہے۔ایلسی میک کارمک کا کہنا ہے کہ جب ہم کسی ناگزیر صورت حال سے جنگ کرنا ترک کر دیتے اور اسے قبول کر لیتے ہیں تو ہم وہ توانائی حاصل کر لیتے ہیں جو ایک کامیاب اور بھرپور زندگی کے لیے ضروری ہے ۔

لیکن اس ضمن میں عام طور پر افراط و تفریط ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آیا یہ حقیقت بدلی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ نیز کیا اس واقعہ کا  ذمہ دار فرد خود ہے یا حالات۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اب یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اسے یہ فیصلہ قبول کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ان اسباب کو بھی تلاش کرنا ہے جن کی بنا پر وہ ناکام ہوا۔ اگر وہ اس ناکامی کو اٹل حقیقت سمجھ کر بیٹھ جائے تو بے وقوفی ہو گی۔ بالکل ایسے ہی اگر کوئی شخص بیمار ہے تو آخری حد تک اس بیماری سے لڑے گا کیونکہ یہ ایک اٹل اور ناقابل تبدیل حقیقت نہیں بلکہ اس صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اٹل حقیقت کو اٹل سمجھنے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

 

اسائنمنٹ

 

۔ ان حقائق کی فہرست بنائیے جو آپ کے لیے ناخوشگوار ہیں لیکن اٹل ہیں یعنی تبدیل نہیں ہو سکتے ۔

۔اٹل حقیقتوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے آ پ کیا لائحہ عمل تیار کریں گے ۔

 

                اصول نمبر 9 ۔ اسٹاپ لاس (Stop Loss) کے قانون سے مدد لیں!

 

کیس اسٹڈی

 

لیو ٹالسٹائی کی خوش نصیبی تھی کہ وہ جس لڑکی سے دیوانہ وار محبت کرتا تھا وہ اسے حاصل بھی ہو گئی اور دونوں کی شادی ہو گئی۔ لیکن وہ لڑکی انتہائی حاسد اور شکی مزاج نکلی۔ وہ بھیس بدل کر اکثر اپنے شوہر کا تعاقب کرتی، اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی اور شک کی بنا پر خودکشی کی دھمکی دیا کرتی تھی۔ ٹالسٹائی یہ بات جانتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک ڈائری لکھنا شروع کی جس میں اس نے خود کو معصوم اور اپنی بیوی کو ہر قصور کا مورد الزام ٹھہرایا  تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں اسے معصوم سمجھیں۔ اس کی بیوی کو جب خبر ہوئی تو اس نے بھی اپنی ایک تصنیف میں ٹالسٹائی کو ایک گھریلو شیطان اور خود کو ایک شہید کے روپ میں پیش کیا تاکہ آئندہ کی نسلیں اسے اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ دونوں آئندہ آنے والی نسلوں کے سامنے تو اپنی پوزیشن کلئیر کرنے میں لگے رہے لیکن انہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ آپس میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی پوزیشن کلئیر کریں۔ وہ اگر اسٹاپ لاس کا قانون اپلائی کرتے تو ان کی زندگی بہت خوشگوار ہو جاتی۔ وہ یہ تھا کہ جو ہو چکا سو ہو چکا، اب مزید نقصان نہیں اٹھانا۔

 

وضاحت

 

ہماری زندگی میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم نقصان اٹھاتے ہیں۔ کبھی غصے میں آ کر کسی کو کچھ کہہ دیا، کبھی کوئی غلطی کر کے کسی کا دل دکھا دیا ۔ کبھی یہ غلطی چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی بڑی۔ لیکن یہ نقصان ہو چکا ہے۔ اب عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر اسٹاپ لاس کا اصول اپلائی کر کے مزید غلطیوں اور نقصان سے بچا جائے۔ لیکن ہوتا عام طور پر اس کے برعکس ہے ۔ ہم اس غلطی کو جسٹفائی کرنے کی کوشش میں نقصان در نقصان کئے جاتے ہیں۔ اور یوں نتیجہ بھیانک گمراہی اور ٹوٹل لاس کی شکل میں نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی نماز چھوٹ گئی ہے تو اسٹاپ لاس کا قانون یہ کہتا ہے کہ اس پر توبہ کر کے اس کی قضا پڑھ  لی جائے اور آئندہ نماز نہ چھوڑی جائے۔ لیکن عام طور پر لوگ ایک نماز چھوڑنے کے بعد ہمت ہار جاتے اور مستقل بے نمازی بن جاتے ہیں ۔ اسی طرح خاندانی جھگڑوں میں بعض اوقات یہ علم ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن اسٹاپ لاس کرنے کی بجائے ہم غلطی کو جسٹفائی کرتے چلے جاتے ہیں جس سے تعلقات میں بحالی کی امید ختم ہو جاتی ہے ۔

 

اسائنمنٹ

 

۔ ان حقائق کی فہرست بنائیے جہاں آپ اسٹاپ لاس کا قانون اپلائی کرسکتے تھے اور آپ نے نہیں کیا۔

۔ان مستقبل کے مواقع کی فہرست بنائیے جہاں آئندہ آپ اسٹاپ لاس کا قانون اپلائی کرسکتے ہیں ۔

 

                اصول نمبر 10۔ ماضی مر چکا ہے

 

کیس اسٹڈی

 

وہ نفسیات کی کلاس تھی۔ پروفیسر صاحب کے آنے کا انتظار تھا ۔ لیکن پروفیسر صاحب کی ٹیبل پر ایک دودھ کی بوتل رکھی تھی۔ تمام طلباء اس مخمصے میں تھے کہ آخر اس بوتل کا کیا مقصد ہے۔ ابھی چہ مہ گوئیاں جاری تھیں کہ اچانک پروفیسر صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ کلاس میں ایک سکوت طاری ہو گیا۔ اچانک پروفیسر صاحب نے بوتل اٹھائی اور دیوار پر دے ماری۔ سب ارے ارے کرتے رہ گئے لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ بوتل ٹوٹ چکی تھی اورسارا دودھ بہہ گیا تھا۔ اچانک پروفیسر صاحب نے سوال کیا :

‘‘کوئی ہے جو اس دودھ کو واپس بوتل میں ڈال سکے ؟’’۔ سب نے نفی میں جواب دیا ۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اور کہنے لگے :

‘‘یہ دودھ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ اور ماضی پر ماتم نہیں کرنا چاہئے ۔ جو دودھ ضائع ہو گیا اس پر ماتم مت کرو، اسے بھول جاؤ اور آگے کا سوچو’’۔

 

وضاحت

 

ماضی ایک اٹل حقیقت ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں واپس نہیں جایا جا سکتا۔ جو واقعہ ایک منٹ قبل ہوا وہ ماضی کا حصہ بن گیا اور اب وہ ہمارے اختیار میں نہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم یا تو ماضی کے پچھتاووں میں زندگی گذارتے ہیں یا مستقبل کے اندیشوں میں ۔ اس ماضی اور مستقبل کے درمیان حال ہے جو اصل زندگی ہے ۔ گزرے ہوئے خوشگوار لمحے کم یاد رہتے ہیں لیکن ناگوار واقعات ہمارے لاشعور میں بعض اوقات چپک جاتے ہیں ۔ کسی کو باپ کے مرنے کا غم چین نہیں لینے دیتا تو کسی کو اولاد کی کی جدائی کا افسوس ہوتا ہے۔ کوئی ماضی کی بے عزتی پر ملول رہتا ہے تو کوئی عشق میں ناکامی کو دل کا روگ بنا لیتا ہے۔ کسی کو اپنے جمے ہوئے کاروبار کی یاد ستاتی ہے تو کوئی تعلیم میں پیچھے رہ جانے پر شب و روز ماتم کرتا ہے ۔

حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی کا نقصان ہماری اپنی کوتاہی کی بنا پر ہوا ہو یا قسمت کی بے وفائی کی وجہ سے ، دونوں صورتوں میں ماضی میں جا کر نقصان کو فائدے میں نہیں بدلا جا سکتا۔ چنانچہ اسے بھلا دینا، اپنے لاشعور سے نکال پھینکنا اور صبر و استقامت سے کام لینا ہی عقلمندی ہے ۔

ماضی کو بھلانے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے ۔ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے تو ایک ناکام ماضی کامیاب مستقبل کی نوید بن سکتا ہے۔ یہ نہ صرف ماضی کے قابل تلافی نقصانات کو فائدے میں بدل سکتا ہے بلکہ ایک مثبت زندگی کی داغ بیل بھی ڈال سکتا ہے ۔

اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ماضی کے نقصان پر غم بالکل نہ ہو۔ ایسا انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ جب چوٹ لگے گی تو دکھ ہو گا لیکن پہلے اسٹیپ میں اس غم پر واویلا کرنے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لیا جائے اور غم کے نامعقول اظہار سے حتی الامکان گریز کیا جائے ۔ دوسرے اسٹیپ میں اس صدمے کو پالا نہ جائے ۔ تیسرے اسٹیپ میں یہ دیکھا جائے کہ کن اسباب کی بنا پر یہ صدمہ ملا۔ اگر یہ اللہ کی طرف سے تھا تو اس کی قضا پر راضی رہا جائے ۔ اگر یہ ہماری کسی کوتاہی کی بنیاد پر ہوا تو آئندہ اس کوتاہی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔

 

اسائنمنٹ

 

﴾ ان ماضی کے پچھتاووں کی فہرست بنائیے جن پر آپ اکثر ملول و غمزدہ ہو جاتے ہیں ۔

﴾ ان صدموں کو دو کالمز میں لکھیں کہ کونسے واقعات آپ کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوئے اور کون سے آپ کے اختیار سے باہر تھے ۔

﴾ وہ واقعات جو آپ کی اپنی وجہ سے ہوئے ان کا سد باب تحریر کریں اور آئندہ ان سے بچنے کی کوشش کریں ۔

﴾ اس کے بعد ماضی پر پچھتانا چھوڑ دیں کیونکہ جو دودھ بہہ گیا اس پر واویلا عقلمندی نہیں ۔

 

                اصول نمبر 11۔ ہماری سوچیں اور ہم

 

کیس اسٹڈی

 

وہ جب ہسپتال میں داخل ہوا تو بون میرو کے ذریعے پتا چلا کہ اسے آئی ٹی پی (idiopathic thrombocytopenic purpura) کا مرض ہے ۔ اس مرض میں دفاعی نظام خون میں موجود پلیٹ لیٹس کو دشمن سیل سمجھ کر ختم کرنا شروع کر دیتا ہے اور یوں جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد مناسب لیول سے کم رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جسم کے اندر اور باہر کہیں بھی خون بہنے کا امکان ہوتا ہے اور اگر چوٹ لگ جائے تو خون کا بہاؤ مشکل سے رکتا ہے ۔

اسے جب اس بیماری کا علم ہوا تو شروع میں منفی سوچوں نے زندگی بدل کر رکھ دی۔ اکثر رات کو سوتے وقت یوں لگتا کہ ناک سے خون بہہ رہا ہے اور وہ ہڑ بڑا کر اٹھ جاتا اور باتھ روم میں جا کر دیکھتا تو ایسا کچھ نہ ہوتا۔ کبھی یوں لگتا کہ جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں ، انہیں غور سے دیکھنے پر وہ دھبے گہرے ہوتے جاتے یہاں تک کہ وہ دہشت زدہ ہو کر ان کا جائزہ لینا چھوڑ دیتا۔ کبھی سر میں درد ہوتا تو یوں لگتا کہ اب دماغ میں بلیڈنگ اسٹارٹ ہوا ہی چاہتی ہے ۔

ایک مرتبہ تو حد ہو گئی۔ اس نے آفس میں ایک دوست سے ہاتھ ملایا تو اس نے توجہ دلائی کہ اس کے ہاتھ غیر معمولی طور پر لال ہو رہے ہیں ۔ اس نے جب غور سے دیکھا تو ہتھیلیاں اور ہاتھ کی پشت بہت زیادہ لال تھی ۔اس نے ہاتھ دھو کر وہ لالی چھٹانے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ اب تو بلیڈنگ ہونی لازمی ہے ۔ جب اسے یہ یقین ہونے لگا کہ یہ پلیٹ لیٹس میں کمی ہی کی وجہ سے ہے تو اسے چکر آنے لگے ، جسم میں نقاہت محسوس ہونے لگی اور بدن میں دوڑتا ہوا خون ایسا لگنے لگا کہ اب باہر آیا کہ تب۔

وہ اس دہشت زدگی کے عالم میں تھا اور یہی سوچ رہا تھا کہ کس ہسپتال کی جانب کوچ کیا جائے ۔ اچانک اس نے اپنے جسم کے دیگر حصوں کا جائزہ لیا تو وہاں اس قسم کی کوئی علامت نہ تھی ۔ اس نے دماغ کو پرسکون کیا اور اس امکان پر غور کرنے لگا کہ ممکن ہے کوئی چیز ایسی ہو جس سے ہاتھ سرخ ہو گئے ہوں ۔ وہ سوچتا رہا سوچتا رہا یہاں تک کہ اسے خیال آیا کہ کچھ دیر پہلے وہ باتھ روم سے ہو کر آیا تھا اور وہاں ایک ایسے رومال سے ہاتھ صاف کئے تھے جو پہلی مرتبہ استعمال کیا تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے جیب سے اس رومال کو نکالا۔ وہ لال رنگ کا تھا اور کچھ گیلا ہو رہا تھا۔ اس نے وہ رومال اپنے اور اپنے ساتھی کے ہاتھوں پر رگڑا تو اس کے ہاتھوں کا رنگ بھی ویسے ہی سرخ ہو گیا۔ عقدہ یہ کھلا کہ رومال رنگ چھوڑ رہا تھا اور بس۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد پلیٹ لیٹس کم ہونے کی وہ ساری علامات جو وہ اپنے جسم میں محسوس کر رہا تھا یکدم غائب ہو گئیں اور وہ ہشاش بشاش اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ لیکن اس نے دوبارہ اس نامعقول رومال کو ہاتھ نہیں لگایا۔

 

وضاحت

 

ہم وہی ہوتے ہیں جو ہماری سوچیں ہوتی ہیں ۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم ایک بدنصیب ، بدبخت اور لاچار انسان ہیں تو ہماری باڈی اسی طرح ری ایکٹ کر کے ہمیں ایک بے بس انسان بنا دیتی ہے ۔ اگر ہم غموں کی سوچ کو خود پر حاوی کریں تو ہمارا روپ ایک پژمردہ شخص ہی کا ہوتا ہے ۔ اگر ہم چوبیس گھنٹے اپنے جسم میں درد کو محسوس کرتے رہیں تو ایک نفسیاتی درد محسوس ہونے لگ جاتا ہے ۔

اس کے برعکس اگر کوئی خود کو ایک با ہمت ، طاقتور اور توانا کے روپ میں سوچے تو اس کا جسم اس کی نفسیات کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کوئی اگر خوشی اور مسرت کی سوچوں میں رہے تو کئی حقیقی تکالیف بھی محسوس نہیں ہوتیں ۔ کوئی اگر دوسروں کے بارے میں منفی سو چ کو نکال دے تو اس کے دماغ میں نفرت کے کانٹوں کی بجائے محبت کے پھول کھلنے لگ جاتے ہیں ۔

یہ سوچ ہی ہے جس کی بنا پر نپولین بونا پارٹ جیسا عظیم فاتح یہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں حقیقی کامرانی سے بھرپور لگاتار چھ دن بھی نہیں دیکھے ۔ اور یہ سوچ ہی ہے کہ ایک اندھی، گونگی اور بہری ہیلن کیلر کہتی ہے کہ میں نے زندگی کو انتہائی خوبصورت پایا ہے ۔

 

اسائنمنٹ

 

﴾ آپ اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ اسے تین جملوں میں بیان کریں ۔

﴾ آپ اپنی سوچوں کی لسٹ بنائیے اور یہ تعین کریں کہ وہ مثبت ہیں یا منفی۔

﴾ اپنی سوچوں کو بہتر اور مثبت بنانے کے لئے لائحہ عمل تیار کریں

 

                اصول نمبر 12۔ برائی کا جواب برائی سے دینے کی قیمت

 

کیس اسٹڈی

 

وہ آج دفتر میں داخل ہوا تو چپراسی نے کہا کہ صاحب یاد کر رہے ہیں ۔ وہ آل تو جلال تو پڑھتا ہوا باس کے کمرے میں داخل ہوا ۔ باس کا موڈ ٹھیک نہ تھا۔ ’’ تمہیں پتا ہے تم نے فراڈ کیا ہے ؟ باس مخاطب ہوا لیکن اس کی نگاہیں بتا رہی تھیں کہ وہ اپنا جھوٹ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے ۔

اس نے فراڈ کا انکار کیا لیکن اس ملاقات کا انجام اس کی ملازمت برطرفی پر ہوا اور یوں باس نے اپنے دیرینہ انتقام کو پورا کر لیا۔ وہ منہ لٹکائے گھر واپس آ گیا ۔ باس کی شکل اسے دنیا کے قبیح ترین جانور سے ملتی جلتی نظر آ رہی تھی، اندر غم و غصے کا ایک طوفان برپا تھا۔ ایک طرف بے روزگاری کا غم تو دوسری طرف انتقام لینے کی شدید خواہش۔ وہ اپنے ایک جاننے والے کے پاس پہنچا جو ایک پیشہ ور قاتل تھا۔ اس نے سارا کیس اس کے سامنے رکھ دیا۔

’’مجھے ہر صورت میں باس کی لاش چاہئے اس کے بعد تم جو بولو گے ہو جائے گا۔‘‘ اس نے اپنے جاننے والے پیشہ ور قاتل سے کہا۔ اس نے جواب دیا کہ تم ابھی جاؤ اور ایک مرتبہ پھر سوچ لو۔ کل بات کریں گے ۔ وہ واپس تو آ گیا لیکن اس یقین کے ساتھ کہ کل بھی وہ یہی کہے گا اور باس کا خون کروا کے ہی دم لے گا۔

رات کو جب سونے کے لئے لیٹا تو نیند کوسوں دور تھی۔ اس نے دو نیند کی گولیاں پھانکیِں اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔ آنکھیں بند ہونے کے باوجود اس کا لاشعور اسے وہی دکھاتا رہا۔ اس کے سامنے اس کے باس کی لاش پڑی ہے اور اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر وہ قہقہے لگا رہا ہے ۔ پھر منظر بدلتا ہے ۔ اس کا دوست اس سے اس سے قتل کی قیمت وصول کرنے آ جاتا ہے ۔ یہ قیمت پیسوں سے نہیں بلکہ ٹارگٹ کلر بن کر ہی چکائی جا سکتی تھی۔ یوں وہ ایک ٹارگٹ کلر بن کر لوگوں کا خون کرنا شروع ہی کرتا ہے کہ اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔ وہ منہ دھوکر اٹھتا ہے اور اب اس کا رخ اپنے دوست کی جانب نہیں بلکہ نئی ملازمت کی تلاش کی طرف تھا۔ اس نے انتقام کی مہنگی قیمت چکانے کی بجائے اس واقعے کو فراموش کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

 

وضاحت

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دنیا ہم نے نہیں بنائی ۔ اسی لئے یہاں ہر روزایسے واقعات درپیش ہوتے ہیں کہ جن میں ہمیں لوگوں سے شکایت ہوتی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ شکایت جائز ہے یا ناجائز، ہم اپنے مخالفین سے نفرت کرتے ہیں ۔ ہماری نفرت ہمارے دشمنوں کو وہ قوت فراہم کرتی ہے جس سے وہ باآسانی ہم پر غلبہ پا سکتے ہیں ۔ اگر ہمارے دشمنوں کو یہ بات پتا چل جائے کہ ہم کس قدر پریشان ہیں تو وہ خوشی سے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیں ۔ ہماری نفرت، پریشانی، لعنت ملامت اور حسد سے دشمنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ ہماری اپنی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔

اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے دشمنوں سے پیار کریں اس لئے نہیں کہ واقعی ہمیں ان سے پیار ہے بلکہ اس لئے کہ ہمیں اپنے آپ سے پیار ہے ۔ دشمنوں سے انتقام لینے کی قیمت دینے کی بجائے دشمنوں کو معاف کر دیں اور ناخوشگوار واقعے کو بھول جائیں ۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو انتقام کی قیمت چکانے کے لئے تیار ہو جائیں ۔

 

اسائنمنٹ

 

۔ اپنے مخالفین کی فہرست بنائیے اور اختلاف کی وجہ بھی لکھیں ۔

۔ یہ لکھیں کہ اگر آپ بدلہ لیں گے تو اس کی قیمت کیا ہو گی؟

فراموش کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ آپ اپنے دشمن نہیں دوست ہیں ۔

٭٭٭

ماخذ: انذار ڈاٹ آرگ

http://www.inzaar.org/category/%D9%85%D8%B4%DA%A9%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D9%86/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید