FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کتاب: حج کے مسائل

 

باب : حج زندگی میں (صرف) ایک بار فرض ہے۔

639: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم پر خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض ہوا ہے ، پس حج کرو۔ ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہر سال (حج کرنا ضروری ہے )؟ آپﷺ خاموش ہو رہے۔ اس شخص نے تین بار یہی عرض کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور پھر تم سے نہ ہو سکتا۔ پس تم مجھے اتنی ہی بات پر چھوڑ دو کہ جس پر میں تمہیں چھوڑ دوں۔ اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے نبیوں سے بہت سوال کئے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے۔ پس جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا ہو سکے عمل کرو اور جب کسی بات سے منع کروں تو اسکو چھوڑ دو۔

باب : حج اور عمرہ کا ثواب۔

640: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کفارہ ہو جاتا ہے درمیان کے گناہوں کا اور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

641: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اس گھر (بیت اللہ) میں آیا اور بیہودہ، شہوت رانی کی باتیں کیں اور نہ گناہ کیا، وہ ایسا پھرا کہ گویا اسے ماں نے ابھی جنا (یعنی گناہوں سے پاک ہو گیا)۔

باب : حج اکبر کے دن کے متعلق۔

642: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکرؓ  نے اس حج میں کہ جس میں رسول اللہﷺ نے ان کو حجۃ الوداع سے پہلے امیر بنا کر بھیجا تھا، مجھے اس جماعت میں روانہ کیا کہ جو نحر کے دن یہ پکارتے تھے کہ اس سال کے بعد اب کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ (جیسے ایام جاہلیت میں کرتے تھے )۔ ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ نے کہا کہ عبدالرحمن کے بیٹے حمید بھی سیدنا ابی ہریرہؓ  کی اسی حدیث کے سبب سے یہ کہتے تھے کہ حج اکبر کا دن وہی نحر کا دن ہے۔

باب : عرفہ کے دن کی فضیلت۔

643: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے ) قریب ہوتا ہے اور بندوں کا حال دیکھ کر فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟

باب : جب حج وغیرہ کے سفر میں سوار ہو تو کیا کہے ؟۔

644: سیدنا علی ازدیؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ  نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہﷺ کہیں سفر میں جانے کے لئے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے ، پھر یہ دعا پڑھتے ”پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارے تابع کر دیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیںﷺالزخرف:14,13 [۔ اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیز گاری مانگتے ہیں اور ایسے کام کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ! ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور اس کی مسافت کو ہم پر تھوڑا کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق سفر اور گھر میں نگران ہے۔اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور اپنے مال اور گھر والوں میں بُرے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے ) اور جب لوٹ کر آتے تو بھی یہی دعا پڑھتے مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے کہ ”ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ، خاص اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں“۔

باب : عورت کا سفر حج ذی محرم کے ساتھ ہونا چاہیئے۔

645: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، اسے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن کا زیادہ کا سفر کرے مگر جب اس کے ساتھ اس کا باپ ہو یا بیٹا ہو یا شوہر یا بھائی یا کوئی اور رشتہ دار جس سے پردہ نہ ہو۔

646: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے عورت کو ایک دن کا سفر (اکیلے ) کرنے سے منع فرمایا مگر جب اس کے ساتھ (اس کا شوہر یا) کوئی اور محرم رشتہ دار موجود ہو۔

647: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو مگر اس صورت میں کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔ اور نہ عورت (اکیلے ) سفر کرے مگر کسی محرم رشتہ دار کے ساتھ۔ پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میری بیوی نے حج کو جانے کا ارادہ کیا ہے اور میرا نام فلاں لشکر میں لکھا گیا ہے (یعنی مجاہدین میں میرا نام لکھا گیا ہے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج ادا کر

باب : بچے کا حج اور اس کا اجر اسے حج کرانے والے کے لئے ہے۔

648: سیدنا ابن عباسؓ  نے نبیﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ کو اونٹوں پر سوار کچھ لوگ (مقامِ) روحاء میں ملے تو آپﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان۔ تب ان لوگوں نے آپﷺ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ پھر ایک عورت نے ایک بچے کو ہاتھوں سے بلند کیا اور عرض کیا کہ کیا اس کا حج صحیح ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں صحیح ہے اور اسکا ثواب تم کو ہے (یعنی ماں باپ کو)

باب : جو آدمی سوار نہ ہو سکتا ہو اس کی طرف سے حج کرنے کا بیان۔

649: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ سیدنا فضل بن عباسؓ  رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے پس خثعم قبیلہ کی ایک عورت آئی اور وہ آپﷺ پوچھنے لگی اور سیدنا فضل اس کی طرف دیکھنے لگے ، تو وہ فضل کو دیکھنے لگی اور رسول اللہﷺ نے فضلؓ  کا منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ غرض اس عورت نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ نے جو اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے ، اور میرا باپ (اتنا) بوڑھا ہے کہ سواری پر سوار نہیں ہو ستا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں اور یہ حجۃ الوداع کا ذکر ہے۔

باب : حائضہ اور نفاس والی کے احرام کا بیان۔

650: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس کو محمد بن ابی بکر کے پیدا ہونے کا نفاس ذوالحلیفہ کے سفر میں شروع ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو بکرؓ  کو حکم کیا کہ ان سے کہیں کہ نہائیں اور لبیک پکاریں۔

باب : حج اور عمرہ کے میقات کا بیان۔

651: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا اور اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن المنازل اور اہل یمن کے لئے یلملم کو میقات فرمایا۔ اور یہ سب میقاتیں ان لوگوں کے لئے بھی ہیں جو ان ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے لئے بھی جو اور ملکوں سے حج یا عمرہ کی نیت سے و ہاں آئیں۔ پھر جو ان میقاتوں کے اندر رہنے والے ہوں یعنی مکہ سے قریب تو وہ وہیں سے احرام باندھیں یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ سے ہی لبیک پکاریں۔

652: سیدنا ابو زبیر سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے سنا (جب) ان سے احرام باندھنے کی جگہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا اور میرے خیال میں انہوں نے یہ مرفوعاً بیان کیا کہ میں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا کہ مدینہ والوں کے لئے اہلال (احرام باندھنے کی جگہ) ذوالحلیفہ ہے اور دوسرا رستہ حجفہ ہے اور عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات العرق ہے اور نجد والوں کے لئے قرن ہے اور یمن والوں کی یلملم ہے۔

باب : احرام باندھنے سے پہلے محرم کے لئے خوشبو۔

653: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ان کے احرام کے لئے خوشبو لگائی، جب احرام باندھا (احرام باندھنے سے پہلے ) اور ان کے حلال ہونے کے لئے طوافِ افاضہ سے پہلے۔

654: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گویا میں مشک کی چمک آپﷺ کی مانگ میں دیکھتی ہوں اور آپﷺ (اس وقت) احرام میں تھے۔

باب : کستوری سب سے اچھی خوشبو ہے۔

655: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنی اسرائیل کی ایک عورت کا ذکر کیا، جس نے اپنی انگوٹھی میں مشک بھری تھی اور مشک تو بہت عمدہ خوشبو ہے۔

باب : عود اور کافور کا بیان۔

656: نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ  جب خوشبو کی دھونی لیتے تو عود کی لیتے جس میں اور کچھ نہ ملا ہوتا، یا کافور کی (دھونی) لیتے اور اس کے ساتھ عود ڈالتے اور پھر کہتے کہ رسول اللہﷺ بھی اسی طرح خوشبو لیتے تھے۔

باب : ریحان (خوشبودار پھول) کے بارے میں۔

657: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کو خوشبودار گھاس دی جائے یا خوشبودار پھول دیا جائے تو وہ اس کو ردّ نہ کرے (یعنی لینے سے انکار نہ کرے ) اس لئے کہ اس کا کچھ بوجھ نہیں اور خوشبو عمدہ ہے۔

باب : مسجد ذو الحلیفہ کے پاس سے احرام باندھنا۔

658: سالم بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یہ بیداء تمہارا وہی مقام ہے جہاں تم لوگ رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھتے ہو اور آپﷺ نے لبیک نہیں پکاری مگر مسجد ذوالحلیفہ کے نزدیک سے۔

باب : جب سے سواری اٹھے ، اس وقت سے تلبیہ پکارنا۔

659: سیدنا عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن! میں نے تمہیں چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جو تمہارے ساتھیوں میں سے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ اے جریج کے بیٹے ! وہ کونسے کام ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اوّل یہ کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم کعبہ کے کونوں میں سے (طواف کے وقت) ہاتھ نہیں لگاتے ہو مگر دو کونوں کو جو یمن کی طرف ہیں۔ دوسرے یہ کہ تم سبتی جوتے پہنتے ہو۔ تیسرے یہ کہ (زعفران و ورس وغیرہ سے داڑھی) رنگتے ہو۔ چوتھے یہ کہ جب تم مکہ میں ہوتے تھے ، تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی لبیک پکارنا شروع کر دی تھی مگر آپ نے آٹھ ذی الحجہ کو پکاری۔ پس سیدنا عبد اللہؓ  نے جواب دیا کہ (سنو!) ارکان تو میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہﷺ ان کو چھوتے ہوں سوا ان کے جو یمن کی طرف ہیں اور سبتی جوتے تو میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ وہ بھی ایسے جوتے پہنتے تھے جس میں بال نہ ہوں اور اسی میں وضو کرتے تھے (یعنی وضو کر کے گیلے پیر میں اس کو پہن لیتے تھے ) پس میں بھی اس کو دوست رکھتا ہوں کہ میں بھی اسی کو پہنوں۔ رہی زردی تو میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ وہ بھی اس سے رنگتے تھے (یعنی بالوں کو یا کپڑوں کو) تو میں بھی پسند کرتا ہوں کہ اس سے رنگوں اور لبیک، تو میں نے رسول اللہﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپﷺ نے لبیک پکارا ہو مگر جب اونٹنی آپﷺ کو سوار کر کے اٹھی (یعنی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس)۔

باب : حج کا تلبیہ مکہ سے پکارنے کا بیان۔

660: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے حج مفرد کو آئے ، (شاید ان کا اور بعض صحابہ ‘ کا احرام ایسا ہی ہو اور نبیﷺ تو قارن تھے ) اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عمرہ کے احرام کے ساتھ آئیں، یہاں تک کہ جب (مقامِ) سرف میں پہنچے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں۔ پھر جب ہم مکہ میں آئے اور کعبہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی، تو ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم کیا کہ جس کے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی حلال ہو جائے ) تو ہم نے کہا کہ کیسا حل؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مکمل حلال ہو جانا، تو پھر ہم نے احرام بالکل کھول دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ہم نے اپنی عورتوں سے جماع کیا، خوشبو لگائی اور کپڑے پہنے اور اس وقت ہمارے اور عرفہ میں چار راتوں کا فرق باقی تھا۔ پھر ترویہ کے دن (یعنی ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ) کو (حج کے لئے ) احرام باندھا۔ پھر رسول اللہﷺ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہیں روتے ہوئے پایا، تو پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہو گئی ہوں اور لوگ احرام کھول چکے ہیں، اور میں نہ تو احرام کھول سکی، نہ طواف کر سکی، اب لوگ حج کو جا رہے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ایک چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی سب بیٹیوں پر لکھ دی ہے ، پس تم غسل کرو (یعنی احرام کے لئے ) اور حج کا احرام باندھ لو تو انہوں نے ایسا ہی کیا اور وقوف کی جگہوں میں وقوف کیا، یہاں تک کہ جب پاک ہوئیں تو بیت اللہ اور صفا و مروہ کا طواف کیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تمہ حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئیں تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اپنے دل میں ایک بات پاتی ہوں کہ میں نے طواف (یعنی طوافِ قدوم) نہیں کیا جب تک حج سے فارغ نہ ہوئی، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے عبد الرحمنؓ (بن ابی بکر ص)! ان کو تنعیم میں لے جا کر عمرہ کرا لاؤ۔ یہ معاملہ اس شب کو ہوا جب محصب میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

باب : تلبیہ کا بیان۔

661: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب اونٹنی پر سوار ہوئے اور وہ آپﷺ کو لے کر مسجد ذوالحلیفہ کے نزدیک سیدھی کھڑی ہو گئی، تب آپﷺ نے لبیک فرمائی یعنی ”میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بیشک سب تعریف اور نعمت تیرے لئے ہے ، ملک تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں“۔ انہوں نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے تھے کہ یہ رسول اللہﷺ کا تلبیہ ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  اس میں یہ کلمات زیادہ پڑھتے تھے کہ ”میں حاضر ہوں (تیری خدمت میں) میں حاضر ہوں، (تیری خدمت میں) میں حاضر ہوں اور سعادت سب تیری ہی طرف سے ہے اور خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔ میں حاضر ہوں اور تیری ہی طرف رغبت کرتا ہوں اور عمل تیرے ہی لئے ہے “۔

باب : حج اور عمرہ کے تلبیہ کا بیان۔

662: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے حج اور عمرہ (دونوں) کا احرام باندھا اور فرمایا ”لبیک عمرۃ و حجّاً“ یعنی (اے اللہ) میں حاضر ہوں عمرہ اور حج کی نیت سے۔ حاضر ہوں عمرہ اور حج کی نیت سے۔

663: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ، ابن مریمؑ  ضرور لبیک پکاریں گے ”رَوْحَاء“ گھاٹی میں۔ یا تو وہ حج کر رہے ہوں گے یا عمرہ کر رہے ہوں گے ، یا پھر حج اور عمرہ دونوں ادا کر رہے ہوں گے۔

باب : صرف حج مفرد کے بیان میں۔

664: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج مفرد کی لبیک پکاری۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حج مفرد کی لبیک پکاری۔

665: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حج افراد کیا (یعنی صرف حج کیا)۔

باب : حج اور عمرہ کو ملانے (حج قران)کا بیان۔

666: سیدنا بکر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو حج اور عمرہ دونوں کی لبیک پکارتے ہوئے سنا۔ بکر نے کہا کہ میں نے یہی حدیث سیدنا ابن عمرؓ  سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے صرف حج کی لبیک پکاری۔ پس میں سیدنا انسؓ  سے ملا اور ان سے کہا کہ سیدنا ابن عمرؓ  تو یوں کہتے ہیں تو سیدنا انسؓ  نے کہا کہ تم لوگ ہمیں بچہ سمجھتے ہو، میں نے بخوبی سنا ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے ، لبیک ہے عمرہ کی اور حج کی۔

باب : حج تمتع کا بیان۔

667: سیدنا عمران بن حصینؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا اور اسکے بارے میں قرآن نہیں اترا (یعنی اس سے نہی میں) جس شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔

(مراد سیدنا عمرؓ  ہیں کہ وہ حج تمتع سے منع کرتے تھے )۔ﷺ مقام غور ہے کہ سیدنا عمرؓ جیسے صحابی کی بات جب آپﷺ کی بات کے خلاف تھی تو صحابہ کرام نے سیدنا عمرؓ کی بات کا انکار کر دیا، اور آج ہم اور ہمارے علماء (منہ سے بھلے اقرار نہ کریں لیکن عملاً) اماموں کی بات کی وجہ سے آپﷺ کی بات (احادیث) چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو سیدھا رستہ دکھائے آمین[

668: سیدنا عمران بن حصینؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا اور ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا۔

669: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ آئے اور ہم حج کی لبیک پکارتے تھے ، تو رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس احرامِ حج کو احرامِ عمرہ کر ڈالیں۔

باب : جس نے حج کا احرام باندھا اور اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو۔

670: موسیٰ بن نافع کہتے ہیں کہ میں حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھانے (حج تمتع) کی غرض سے یومِ ترویہ سے چار روز قبل مکہ آیا تو لوگوں نے مجھے کہا کہ تیرا حج تو اہل مکہ کا حج ہے۔ تب میں نے عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا اور ان سے مسئلہ دریافت کیا تو عطاء نے کہا کہ مجھ سے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا جس سال آپﷺ کے ساتھ ہدی تھی (یعنی حجۃ الوداع میں اس لئے کہ ہجرت کے بعد آپﷺ نے ایک ہی حج کیا ہے ) اور بعض لوگوں نے صرف حج مفرد کا احرام باندھا تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم احرام کھول ڈالو اور بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کی سعی کرو اور بال کم کرا لو اور حلال رہو، یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن ہو (یعنی آٹھ ذوالحجہ) تو حج کی لبیک پکارو اور تم جو احرام لے کر آئے ہو اس کو حج تمتع کر ڈالو (یعنی اگرچہ وہ احرام حج کاہے مگر عمرہ کر کے کھول لو اور پھر حج کر لینا تو یہ حج تمتع ہو جائے گا) لوگوں نے عرض کیا کہ ہم اسے تمتع کیسے بنائیں، حالانکہ ہم نے حج کا نام لیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہی کرو جس کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔ اس لئے کہ میں اگر قربانی کو ساتھ نہ لاتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جیسا تم کو حکم دیتا ہوں مگر یہ کہ میرا احرام کھل نہیں سکتا جب تک کہ قربانی اپنے محل (یعنی ذبح خانہ)تک نہ پہنچ جائے۔ پھر لوگوں نے اسی طرح کیا (جیسا رسول اللہﷺ نے حکم فرمایا تھا)۔

باب : (عمرہ کا) احرام کھول دینے کا حکم منسوخ ہے اور حج عمرہ کو پورا کرنے کا حکم۔

671: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا، اور آپﷺ مکہ کی کنکریلی زمین میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے (یعنی وہاں منزل کی ہوئی تھی) تو آپﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ جس نیت سے نبیﷺ نے احرام باندھا ہے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپﷺ نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے ، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا ، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے ) آپ جانتے ہیں کہ امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمرؓ  کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہیئے ) تو میں نے کہا اے لوگو ! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہیئے۔ کیونکہ امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ  آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمرؓ  آئے تو میں نے کہا، امیر المؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے ؟ تو سیدنا عمرؓ  نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے :﴿واتموا الحج والعمرۃلله﴾ یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبیﷺ کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔

672: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ حج تمتع نبیﷺ کے صحابہؓ کے لئے خاص تھا۔ (سیدنا ابو ذرؓ  کا اپنا قول ہے ، حدیثِ نبویﷺنہیں)۔

باب : حج قران میں قربانی کرنا۔

673: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  ایام فتنہ میں عمرے کو نکلے اور کہا کہ اگر میں بیت اللہ سے روکا گیا، تو ویسا ہی کریں گے جیسا کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ میں کیا تھا۔ پھر عمرہ کا احرام کر کے نکل کر چلے یہاں تک کہ (مقامِ) بیداء پر پہنچے (جہاں سے رسول اللہﷺ کی لبیک اکثر صحابہؓ نے حجۃ الوداع میں سنی تھی) تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ حج اور عمرہ کا حکم ایک ہی ہے کہ دونوں سے اہلال کر سکتے ہیں تو میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے۔ اور چلے یہاں تک کہ بیت اللہ پہنچ کر طواف کے ساتھ سات چکر لگائے۔ اور سات بار صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کی، اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور اسی کو کافی سمجھا اور قربانی کی۔

باب : حج تمتع میں قربانی کا بیان۔

674: سالم بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع میں حج کے ساتھ عمرہ ملا کر حج تمتع کیا اور قربانی کی اور قربانی کے جانور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور شروع میں آپﷺ نے عمرہ کی لبیک پکاری پھر حج کی لبیک پکاری، اور اسی طرح لوگوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھایا اور لوگوں میں سے کسی کے پاس قربانی تھی کہ وہ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے ، اور کسی کے پاس قربانی نہیں تھی۔ پھر جب آپﷺ مکہ میں پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: جو قربانی لایا ہو وہ جن چیزوں سے احرام کی وجہ سے دور ہے ، حج سے فارغ ہونے تک کسی چیز سے بھی حلال نہ ہو۔ اور جو قربانی نہ لایا ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف، اور صفا و مروہ کی سعی کر کے اپنے بال کتر ڈالے اور احرام کھول ڈالے۔ پھر (آٹھ ذوالحجہ کو) حج کی لبیک پکارے اور چاہئیے کہ (حج کے بعد) قربانی کرے اور جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے حج میں رکھے اور سات روزے جب اپنے گھر پہنچے تب رکھے۔ اور رسول اللہﷺ جب مکہ میں آئے تو پہلے پہل حجرِ اسود کو بوسہ دیا پھر سات میں سے تین چکر دوڑ کر لگائے اور (جسے رمل کہتے ہیں) اور چار بار چل کر طواف کیا (جیسے عادت کے موافق چلتے ہیں) پھر جب طواف سے فارغ ہو چکے تو مقامِ ابراہیم کے پاس دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر سلام پھیرا اور صفا پر تشریف فرما ہوئے اور صفا اور مروہ کے بیچ میں سات بار سعی کی اور پھر کسی چیز کو اپنے اوپر حلال نہیں کیا ان چیزوں میں سے جن کو بہ سبب احرام کے اپنے اوپر حرام کیا تھا یہاں تک کہ حج سے بالکل فارغ ہو گئے اور اپنی قربانی یوم النحر یعنی ذوالحجہ کی دس تاریخ کو ذبح کی اور مکہ آ کر بیت اللہ کا طوافِ افاضہ کیا، پھر ہر چیز کو اپنے اوپر حلال کر لیا جن کو احرام میں حرام کیا تھا۔ اور جو لوگ قربانی اپنے ساتھ لائے تھے ، انہوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا رسول اللہﷺ نے کیا تھا۔

باب : (کسی عذر کی بنا پر) عمرہ چھوڑ کر حج کو اختیار کر لینا۔

675: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلے اور کسی نے عمرہ کا اور کسی نے حج کا احرام باندھا۔ جب مکہ آئے تو نبیﷺ نے فرمایا کہ جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی نہیں لایا، وہ احرام کھول ڈالے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا اور قربانی لایا ہے ، وہ نہ کھولے جب تک قربانی ذبح نہ کر لے اور جس نے حج کا احرام باندھا ہے وہ حج پورا کرے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں حائضہ ہو گئی اور عرفہ کے دن تک حائضہ رہی۔ اور میں صرف نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، تو آپﷺ نے مجھے عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا۔ کہتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب حج کر چکے تو میرے ساتھ عبدالرحمن (بن ابی بکر ص) کو بھیجا کہ میں تنعیم سے (احرام باندھ کر)عمرہ کر آؤں، وہ عمرہ جس کو میں نے پورا نہیں کیا تھا اور اس کا احرام کھولنے سے قبل حج کا احرام باندھ لیا تھا۔

باب : حج اور عمرہ میں شرط کرنا۔

676: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ ضباعہ رضی اللہ عنہا بنتِ زبیر بن عبد المطلب رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ میں بھاری، بوجھل عورت ہوں اور میں نے حج کا ارادہ کیا ہے تو آپﷺ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ حج کا احرام باندھ لو اور یہ شرط کرو کہ اے اللہ! میرا احرام کھولنا وہیں ہے جہاں تو مجھے روک دے۔ (راوئ حدیث ابن عباسؓ  نے ) کہا کہ انہوں نے حج پالیا (احرام کھولنے کی ضرورت نہیں پڑی)۔

باب : جو اس حالت میں احرام باندھے کہ اس پر جبہ اور خوشبو کا اثر باقی ہو، اس کو کیا کرنا چاہیئے ؟۔

677: یعلی بن منیہؓ  اپنے والد سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ جعرانہ میں تھے اور وہ شخص ایک جبہ پہنے ہوئے تھا جس پر کچھ خوشبو لگی ہوئی تھی یا یہ کہا کہ زردی کا کچھ اثر تھا۔ اس نے عرض کیا کہ آپﷺ مجھے عمرے کے (طریقے کے ) متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟ اتنے میں آپﷺ پر وحی اترنے لگی تو آپﷺ کو ایک کپڑا اوڑھا دیا گیا۔ یعلیؓ  کہتے ہیں کہ مجھے آرزو تھی کہ میں نبیﷺ کو اس وقت دیکھوں جب آپﷺ پر وحی اترتی ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ نبیﷺ کو دیکھو جبکہ آپﷺ پر وحی اترتی ہو؟ پھر سیدنا عمرؓ  نے کپڑے کا کونہ اٹھا دیا اور میں نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ اس طرح ہانپتے اور خرانٹے لیتے تھے راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا جیسے جوان اونٹ ہانپتا ہو۔ پھر جب آپﷺ سے وحی تمام ہو چکی تو فرمایا کہ عمرہ کے بارے میں پوچھنے والا سائل کہاں ہے ؟ (اور فرمایا کہ) اپنے کپڑے وغیرہ سے زردی کا یا فرمایا کہ خوشبو وغیرہ کا اثر دھو ڈالو اور اپنا کرتہ اتار ڈالو اور عمرہ میں وہی کرو جو حج میں کرتے ہو۔

باب : محرم کون سے لباس سے اجتناب کرے ؟

678: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ محرم کپڑوں کی قسم میں سے کیا (کونسے کپڑے ) پہنے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: نہ کرتے پہنو نہ عمامے باندھو، نہ پاجامے پہنو، نہ باران کوٹ اوڑھو اور نہ موزے پہنو مگر جو چپل نہ پائے وہ موزے اس صورت میں پہن لے کہ ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے اور نہ ایسے کپڑے پہنو جس میں زعفران لگا ہو یا ”ورس“ میں رنگا ہوا ہو۔

679: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ پاجامہ اس (محرم) کے لئے ہے جو تہبند نہ پائے اور موزہ اس (محرم) کے لئے ہے جو نعلین نہ پائے۔

باب : محرم کے لئے شکار کا بیان۔

680: سیدنا صعب بن جثامہ اللیثیؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو ایک جنگلی گدھے کا گوشت ہدیہ دیا اور آپﷺ (مقامِ) ابو اء یا دوّان میں تھے ، تو آپﷺ نے واپس کر دیا۔ کہتے ہیں جب آپﷺ نے میرے چہرے پر ملال دیکھا تو فرمایا: ہم نے کسی اور وجہ سے واپس نہیں کیا، فقط اتنا ہے کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں۔

681: طاؤس سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زید بن ارقمؓ  آئے تو سیدنا عبد اللہؓ نے ان کو یاد دلا کر کہا کہ تم نے شکار کے گوشت کی خبر کیسے دی تھی جو نبیﷺ کو ہدیہ دیا گیا تھا جبکہ آپﷺ احرام باندھے ہوئے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک عضو شکار کے گوشت کا ہدیہ دیا گیا تو آپﷺ نے واپس کر دیا اور فرمایا کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں، اس لئے ہم نہیں کھاتے۔

باب : محرم کے لئے شکار کے گوشت کا حکم ہے جسے کسی حلال آدمی نے شکار کیا ہو

682: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ حج کے لئے نکلے اور ہم آپﷺ کے ساتھ تھے۔ سیدنا ابو قتادہؓ  نے کہا کہ آپﷺ نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا، جن میں ابو قتادہ بھی تھے کہ تم ساحل بحر کی راہ لو یہاں تک کہ مجھ سے ملو۔ پھر ان لوگوں نے ساحل بحر کی راہ لی۔ پھر جب وہ لوگ رسول اللہﷺ کی طرف پھرے تو ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لیا سوائے سیدنا ابو قتادہؓ  کے کہ انہوں نے احرام نہیں باندھا۔ غرض وہ راہ میں چلے جاتے تھے کہ انہوں نے چند وحشی گدھوں کو دیکھا اور سیدنا ابو قتادہؓ  نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ پھر ان کے سب ساتھی اترے اور اس کا گوشت کھایا۔ سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے (شکار کا) گوشت کھایا اور ہم محرم تھے۔ کہتے ہیں پھر باقی کا گوشت ساتھ لے لیا اور جب رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہم نے احرام باندھ لیا تھا، اور ابو قتادہؓ  نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے چند وحشی گدھے دیکھے اور ابو قتادہ نے ان پر حملہ کر کے ان میں سے ایک کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ہم اترے اور ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اور پھر خیال آیا کہ ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں اور احرام باندھے ہوئے ہیں؟ تو اس کا باقی گوشت ہم لیتے آئے ہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس کا حکم کیا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟ ابو قتادہ کہتے ہیں! تو انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پس اس کا جو گوشت باقی ہے وہ کھاؤ (اور کچھ حرج نہیں)۔

باب : محرم کونسے جانور کو قتل کر سکتا ہے ؟

683: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: پانچ جانور موذی ہیں کہ حرم کی حدود سے باہر اور حرم کی حدود کے اندر مارے جائیں۔ ان میں سانپ، چتکبرا کوّا، چوہا ، پاگل کتا اور چیل شامل ہیں۔

684: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: پانچ جانور ایسے ہیں کہ ان کو حرم میں اور احرام کی حالت میں قتل کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے ، وہ جانور یہ ہیں: 1۔ چوہا۔ 2۔ بچھو۔ 3۔ کوّا۔ 4۔ چیل۔ 5۔ پاگل کتا۔

باب : محرم کے لئے پچھنے لگوانے کا بیان۔

685: سیدنا ابن بحینہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مکہ کی راہ میں اپنے سر کے درمیانی حصہ میں پچھنے لگوائے اور آپﷺ احرام کی حالت میں تھے۔

باب : محرم انسان اپنی آنکھوں میں دوا ڈال سکتا ہے۔

686: نبیہ بن وھب کہتے ہیں کہ ہم ابان بن عثمان کے ساتھ نکلے اور جب (مقامِ) ملل (جو کہ مکہ کی راہ میں مدینہ سے اٹھائیس میل پر ہے ) میں پہنچے تو عمر بن عبید اللہ کی آنکھیں دکھنے لگیں۔ اور جب روحاء (مقام) پر پہنچے اور درد شدید ہو گیا تو انہوں نے ابان بن عثمان سے (علاج کا) پوچھنے کے لئے آدمی بھیجا۔ انہوں نے کہا ایلوے کا لیپ کرو، اس لئے کہ سیدنا عثمانؓ  نے رسول اللہﷺ سے روایت کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: کہ جب مرد کی آنکھیں دکھنے لگیں اور وہ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان پر ایلوے کا لیپ کرے۔

باب : محرم اپنے سر کو دھو سکتا ہے۔

687: سیدنا عبد اللہ بن حنین نے سیدنا عبد اللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہؓ  سے روایت کی کہ ان دونوں میں (مقامِ) ابو اء میں تکرار ہوئی۔ (اس بات میں کہ) سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ محرم سر دھو سکتا ہے اور سیدنا مسورؓ  نے کہا کہ نہیں (دھو سکتا)چنانچہ عبد اللہ بن حنین نے کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباسؓ  نے سیدنا ابو ایوبؓ  کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا تو میں نے ان کو پایا کہ وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کے بیچ میں نہا رہے تھے اور وہ ایک کپڑے کی آڑ میں تھے۔ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ میں عبد اللہ بن حنین ہوں اور مجھے عبد اللہ بن عباسؓ  نے تمہاری طرف یہ پوچھنے کے لئے بھیجا ہے کہ رسول اللہﷺ احرام میں سر کیسے دھوتے تھے۔ پس سیدنا ابو ایوبؓ  نے اپنے دونوں ہاتھ کپڑے پر رکھے اور اسے تھوڑا سا جھکا دیا یہاں تک کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا۔ اور اس آدمی سے ، جو اُن کے سر پر پانی ڈال رہا تھا، پانی ڈالنے کا حکم دیا تو اس نے آپ (کے سر) پر پانی ڈالا۔ پھر وہ اپنے سر کو ہلاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے آگے اور پیچھے ملتے تھے۔ پھر کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایسے ہی (سر دھوتے ) دیکھا ہے۔

باب : محرم پر فدیہ کے بیان میں۔

688: سیدنا عبد اللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں سیدنا کعبؓ  کے پاس مسجد میں بیٹھا تھا۔ میں اس آیت ﴿ففدیۃمن صیام او صدقۃاو نسک﴾ کے متعلق پوچھا تو سیدنا کعبؓ  نے کہا کہ یہ میرے بارے میں اتری تھی۔ (پھر سارا قصہ بیان کیا کہ) میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے نبیﷺ کے پاس اس حال میں لے جایا گیا کہ میرے سر سے میرے چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ تجھے اتنی تکلیف ہو گی۔ اچھا! تمہارے پاس بکری ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی ﴿ففدیۃمن صیام او صدقۃاو نسک﴾ (یعنی حج کے موقعہ پر احرام کی حالت میں اپنے بال اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی نہ کر لو، البتہ کسی کو سر میں تکلیف ہو تو وہ سر منڈوا لے لیکن اس کے ساتھ کفارہ ادا کرے یا تو روزے رکھے یا صدقہ یا قربانی کرے )۔ (آپﷺ نے ) فرمایا کہ یا تو تین روزے رکھنے ہوں گے یا چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہو گا ، یا نصف صاع (یعنی سوا کلو کھانا) گندم وغیرہ فی کس چھ مساکین کو دینی ہو گی۔ اور (کعبؓ  نے )فرمایا کہ یہ آیت نزول کے لحاظ سے تو میرے ساتھ خاص ہے لیکن عمل کے لحاظ سے تمام لوگوں کے لئے عام ہے۔

باب : جو شخص احرام کی حالت میں فوت ہو جائے ، اس کے ساتھ کیا کیا جائے ؟۔

689: سیدنا ابن عباسؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اونٹ سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی جس سے وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کو اسی کے دو کپڑوں (یعنی احرام کی چادروں) میں کفن دو اور اس کا سر نہ ڈھانپو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھائے گا۔

باب : ذی طویٰ میں رات گزارنا اور مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا۔

690: نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ  مکہ میں جاتے ہوئے ذی طویٰ میں رات گزارتے ، پھر صبح غسل کرتے اور پھر دن کے وقت مکہ میں داخل ہوتے تھے اور ذکر کرتے تھے کہ نبیﷺ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔

باب : مکہ و مدینہ میں ایک راستے سے داخل ہو اور دوسرے راستے سے نکلے۔

691: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب (مدینہ سے ) نکلتے تو شجرہ کی راہ سے نکلتے اور معرس کی راہ سے داخل ہوتے (معرس مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے ) اور جب مکہ میں داخل ہوتے تو اوپر کے ٹیلے سے داخل ہوتے اور جب نکلتے تو نیچے کے ٹیلے سے نکلتے۔

باب : حاجیوں کے مکہ مکرمہ میں اترنے کے بیان میں۔

692: سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ !کیا آپ مکہ میں اپنے گھر رہائش فرمائیں گے ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر یا چار دیواری چھوڑی ہے ؟ (کہ وہاں رہائش کرینگے ) کیونکہ ابو طالب کے وارث تو عقیل اور طالب ہوئے تھے اور سیدنا علیؓ  اور سیدنا جعفرؓ  کسی چیز کے وارث نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور عقیل اور طالب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ (اس وجہ سے مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے )۔

باب : طواف اور سعی میں رمل کرنا (یعنی تیز چلنا یا دوڑنا)۔

693: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب حج یاعمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے ، پھر چار بار چلتے ، پھر دو رکعت نماز پڑھتے پھر صفا اور مروہ کی سعی کرتے۔

694: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں دوڑتے ہوئے طواف کیا۔

695: سیدنا ابو الطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے ؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی جھوٹے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا، کہ محمد (ﷺ ) اور آپﷺ کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپﷺ سے حسد رکھتے تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ سنت ہے ؟ کیونکہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد (ﷺ ) ہیں یہ محمد (ﷺ ) ہیں اور رسول اللہﷺ (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپﷺ )کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو ، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے ، ویسی آپﷺ کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپﷺ سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلا ضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپﷺ نے سوار ہو کر سعی کی)۔

باب : طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ۔

696: عبد اللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصلع (یعنی جس کے سر پر بال نہ ہوں، اس سے مراد سیدنا عمرؓ  ہیں) کو دیکھا (اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا لقب اگر مشہور ہو جائے اور وہ اس سے بُرا نہ مانے تو اس لقب سے اسے یاد کرنا درست ہے اگرچہ دوسرا شخص بُرا مانے ) اور وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں تجھے بوسہ دیتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے کہ نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا (اس قول سے بت پرستوں اور گور (قبر) پرستوں اور چلہ پرستوں کی نانی مر گئی جو قبروں وغیرہ کو اس خیال سے بوسہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد دیں گے اس لئے کہ جب حجر اسود جو یمن اللہ ہے اس کا بوسہ بھی اتباع رسول کریمﷺ کے سبب سے ہے نہ اس خیال سے کہ ضر ر رساں یا نفع دہندہ ہے تو پھر اور چیزیں جن کا بوسہ کہیں ثابت نہیں بلکہ منع ہے اس خیال ناپاک کے ساتھ کیونکر جائز ہو گا؟)۔

باب : طواف میں رکنین یمانیین (حجر اسود اور رکن یمانی) کا استلام۔

697: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ کو حجر اسود اور رکن یمانی کو استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے ، تب سے میں نے (بھی ان کا استلام) نہیں چھوڑا نہ سختی میں نہ آرام میں (یعنی کتنی ہی بھیڑ بھاڑ ہو میں استلام نہیں چھوڑتا)۔

698: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو رکنین یمانیین (حجر اسود اور رکن یمانی) کے علاوہ استلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (یعنی دوسرے دو ارکان کا استلام نہیں کیا)۔

باب : سوار ہو کر طواف کرنا۔

699: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی اونٹنی پر بیت اللہ کا طواف کیا اور حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھوتے تھے۔ (سوار اس لئے ہوئے ) تاکہ لوگ آپ کو دیکھیں اور آپ اونچے ہو جائیں اور آپﷺ سے مسائل پوچھیں، اس لئے کہ لوگوں نے آپﷺ کو بہت گھیرا ہوا تھا۔

باب : عذر کی وجہ سے سوار ہو کر طواف کرنا۔

700: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے اپنے بیمار ہونے کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ سب لوگوں کے پیچھے سے سوار ہو کر طواف کر لو۔ پس انہوں نے کہا کہ میں طواف کرتی تھی اور آپﷺ بیت اللہ کی ایک طرف نماز پڑھ رہے تھے جس میں سورۂ طور کی تلاوت کر رہے تھے۔

باب : صفا و مروہ کے درمیان طواف اور اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿ان الصفا والمروۃمن شعائر الله﴾ کے بیان میں۔

701: عروہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اگر میں صفا مروہ کی سعی نہ کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ عروہ نے کہا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پھر جو کوئی حج یا عمرہ کرے اور ان کا طواف کرے تو گناہ نہیں“ﷺالبقرة:158 [۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر یہ بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا کہ اگر کوئی طواف نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں۔ اور یہ بات تو انصار کے لوگوں کے بارے میں اتری کہ وہ لوگ جب لبیک پکارتے تو زمانہ جاہلیت میں مناۃ کے نام سے لبیک پکارا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں صفا اور مروہ میں سعی کرنا درست نہیں۔ پھر جب رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کو آئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ پس مجھے اپنی جان کی قسم ہے اس کا حج پورا نہ ہو گا جو صفا اور مروہ کی سعی نہ کرے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کسی کا حج اور عمرہ پورا نہیں ہوتا، جب تک صفا اور مروہ کا طواف (یعنی سعی) نہ کرے۔

باب : صفا و مروہ کے درمیان سعی (سات چکر) صرف ایک بار ہے۔

702: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک دفعہ سعی کی ہے۔ (یعنی مکہ میں جاتے ہی طواف کے بعد۔ پھر طواف افاضہ کے وقت نہیں کی)۔

باب : اس آدمی پر کیا لازم آتا ہے جو حج کا احرام باندھے اور مکہ مکرمہ میں طواف اور سعی کرنے کے لئے آئے۔

703: وبرہ (یعنی ابن عبدالرحمن) کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمرؓ  کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ مجھے عرفات میں جانے سے پہلے طواف کرنا صحیح ہے ؟ سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ ہاں تو اس نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ  تو کہتے ہیں کہ عرفات میں جانے سے پہلے طواف نہ کرو۔ سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے حج کیا اور عرفات میں جانے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا۔ تو اگر تو (اپنے ایمان میں) سچا ہے تو رسول اللہﷺ کا قول لینا بہتر ہے یا سیدنا ابن عباسؓ  کا؟ﷺ مقامِ عبرت ہے کہ سیدنا ابن عباس جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی کی بات جب آپﷺ کی بات کے خلاف ہو تو اُن کی بات کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے چہ جائیکہ آج کی طرح ائمہ یا پیر و مرشد کی باتوں پر بلا چوں چراں عمل کو دین سمجھ لیا جائے [۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ ہم نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی۔

704: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا ابن عمرؓ  سے پوچھا کہ ایک شخص عمرہ کے لئے آیا اور بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد صفا مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بی بی سے صحبت کر سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ مکہ میں آئے اور سات چکروں میں بیت اللہ کا طواف کیا اور مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا اور مروہ کے درمیان سات بار سعی کی اور تمہارے لئے رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ اسوۂ حسنہ ہے۔

باب : کعبہ شریف میں داخل ہونے ، اس میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کا بیان

705: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے دن آئے اور کعبہ کے صحن میں اترے۔ اور (کعبہ کے کلید بردار) عثمان بن طلحہؓ  کے پاس کہلا بھیجا تو وہ چابی لائے اور دروازہ کھولا اور آپﷺ اور سیدنا بلال اور سیدنا اسامہ اور عثمان بن طلحہؓ اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کرنے کا حکم دیا تو دروازہ بند کر دیا گیا۔ (آپﷺ اور صحابہ کرامؓ) تھوڑی دیر ٹھہرے پھر دروازہ کھول دیا گیا تو میں سب لوگوں سے پہلے آپﷺ سے کعبہ کے باہر ملا اور سیدنا بلالؓ  آپﷺ کے پیچھے تھے۔ پس میں نے سیدنا بلالؓ  سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے کہا کہ کہاں؟ انہوں نے کہا کہ اپنے سامنے کے دو ستونوں کے درمیان۔ اور میں بھول گیا کہ پوچھوں کتنی رکعتیں پڑھیں؟

706: ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا کہ کیا تو نے سیدنا ابن عباسؓ  کو یہ کہتے سنا ہے کہ تمہیں طواف کا حکم ہوا ہے اور کعبہ کے اندر جانے کا حکم نہیں ہوا۔ عطاء نے کہا کہ وہ اس کے اندر جانے سے منع نہیں کرتے ، مگر میں نے ان کو سنا کہتے تھے کہ مجھے سیدنا اسامہ بن زیدؓ  نے خبر دی کہ جب نبیﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس میں ہر طرف دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب نکلے تو قبلہ کے آگے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اس کے کناروں کا کیا حکم ہے اور اس کے کونوں میں نماز کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ بیت اللہ شریف کے ہر طرف قبلہ ہے۔

باب : نبیﷺ کے حج کا بیان۔

707: جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کے گھر گئے تو انہوں نے سب لوگوں کا (حال) پوچھا یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی ہوں سیدنا حسینؓ  کا پوتا تو انہوں نے میری طرف (شفقت سے ) ہاتھ بڑھایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے اوپر کا بٹن کھولا، پھر نیچے کا بٹن کھولا (یعنی شلوکے وغیرہ کے ) اور پھر اپنی ہتھیلی میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان میں رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا۔ پھر کہا کہ شاباش خوش آمدید، اے میرے بھتیجے ! مجھ سے جو چاہو پوچھو پھر میں نے ان سے پوچھا اور وہ نہ نابینا تھے اور اتنے میں نماز کا وقت آگیا تو وہ ایک چادر اوڑھ کر کھڑے ہوئے کہ جب اُس کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر رکھتے تھے تو وہ اس چادر کے چھوٹے ہونے کے سبب سے نیچے گر جاتے تھے اور ان کی بڑی چادر ایک طرف تپائی پر رکھی ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی (یعنی امامت کی) پھر میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے حج کے بارے میں خبر دیجئے (یعنی ٍحجۃ الوداع سے ) تو سیدنا جابرؓ  نے اپنے ہاتھ سے نو 9 کا اشارہ کیا اور کہا کہ رسول اللہﷺ نو برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور حج نہیں کیا پھر لوگوں میں دسویں سال اعلان کیا کہ رسول اللہﷺ حج کو جانے والے ہیں تو مدینہ میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور سب رسول اللہﷺ کی پیروی چاہتے تھے اور ویسا ہی کام کریں (حج کرنے میں) جیسے آپﷺ کریں۔ غرض ہم لوگ سب آپﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکرؓ  کو جنا۔ اور انہوں نے نبیﷺ سے کہلا بھیجا کہ (نفاس کی حالت میں) اب کیا کروں تو آپﷺ نے فرمایا کہ غسل کر کے ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لو۔ پھر رسول اللہﷺ نے مسجد میں دو رکعت پڑھیں اور قصوا اونٹنی پر سوار ہوئے ، یہاں تک کہ جب وہ آپﷺ کو لے کر سیدھی ہوئی (مقامِ) بیداء پر تو میں نے آگے کی طرف دیکھا کہ جہاں تک میری نظر گئی سوار اور پیدل لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف اور پیچھے بھی لوگوں کی ایسی ہی بھیڑ تھی اور رسول اللہﷺ ہمارے درمیان موجود تھے اور آپﷺ پر قرآن شریف اترتا تھا اور آپﷺ ہی اس کی حقیقت کو خوب جانتے تھے۔ اور جو کام آپﷺ نے کیا وہی ہم نے بھی کیا۔ پھر آپﷺ نے توحید کے ساتھ لبیک پکاری اور لوگوں نے بھی وہی لبیک پکاری جو اب لوگ پکارتے ہیں (یعنی نبیﷺ کی لبیک میں کچھ لفظ بڑھا کر پکارے اور آپﷺ نے ان کو روکا نہیں) اور پھر آپﷺ مسلسل لبیک ہی پکارتے ہی رہے۔ اور سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ ہم حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں رکھتے اور عمرہ کو پہچانتے ہی نہ تھے بلکہ ایام حج میں عمرہ بجا لانا ایام جاہلیت سے برا جانتے تھے یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ میں آپ کے ساتھ آئے تو آپﷺ نے رکن (یعنی حجر اسود) کو چھوا اور طواف میں تین بار رمل کیا (یعنی اچھل اچھل کر چھوٹے چھوٹے ڈگ رکھ کر اور شانے اچھال اچھال کر چلے ) اور چار بار عادت کے موافق چلتے ہوئے طواف پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی کہ ”مقامِﷺ براہیم کو نماز کی جگہ مقرر کرو“ اور مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان میں کیا پھر میرے باپ کہتے تھے اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہو (اپنی طرف سے ) مگر نبیﷺ سے ہی ذکر کیا ہو گا کہ آپﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں سورۃ  ”اخلاص“ اور سورۃ ”کافرون“ پڑھیں۔ پھر حجر اسود کے پاس لوٹ کر گئے اور اس کو بوسہ دیا اور اس دروازہ سے نکلے جو صفا کی طرف ہے پھر جب صفا کے قریب پہنچے (صفا ایک پہاڑی کا نام ہے جو کعبہ کے دروازے سے بیس پچیس قدم پر ہے ) تو یہ آیت پڑھی کہ ”صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ اور آپﷺ نے فرمایا کہ ہم شروع کرتے ہیں جس سے اللہ نے شروع کیا اور آپﷺ صفا پر چڑھے ، یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی بڑائی بیان کی (یعنی لا الٰہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہا) اور کہا کہ ”کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوا اللہ تعالیٰ کے وہ اکیلا ہے ، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا (یعنی دین کے پھیلانے کا او اپنے نبیﷺ کی مدد کا) اور اس نے اپنے بندے (محمدﷺ ) کی مدد کی اور اس اکیلے نے سب لشکروں کو شکت دی پھر اس کے بعد دعا کی، پھر ایسا ہی کہا، پھر دعا کی۔ غرض تین بار ایسا ہی کیا۔ پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے ، یہاں تک کہ جب آپﷺ کے قدم میدان کے بیچ میں اترے تو دوڑے یہاں تک کہ مروہ پر پہنچے۔ مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسے کہ صفا پر کیا تھا یعنی وہ کلمات کہے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعا کی یہاں تک کہ جب مروہ پر آخری چکر مکمل ہو گیا (یعنی سات چکر ہو چکے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے پہلے سے اپنا کام معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا (اور مکہ ہی میں خرید لیتا) اور اپنے اس احرامِ حج کو عمرہ کر ڈالتا۔ پس تم میں سے جس کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی طواف و سعی ہو چکی اور عمرہ کے افعال پورے ہو گئے ) اورﷺ سکو عمرہ کر لے۔ (یہ سن کر) سراقہ بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ حج کو عمرہ کر ڈالنا ہمارے اسی سال کے لئے خاص ہے یا ہمیشہ کے لئے اس کی اجازت ہے ؟ تو آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں اور دو مرتبہ فرمایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اجازت ہے۔ اور سیدنا علیؓ  یمن سے نبیﷺ کے اونٹ لے کر آئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ان میں سے ہیں جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا اور وہ رنگین کپڑے پہنے ہوئی تھیں اور سرمہ لگائے ہوئے تھیں۔ سیدنا علیؓ  نے بُرا مانا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ راوی نے کہا کہ سیدنا علیؓ  عراق میں کہتے تھے کہ میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس احرام کے کھولنے کے سبب سے غصہ کرتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس گیا۔ اور میں نے آپﷺ کو خبر دی کہ میں نے اس کو بُرا جانا تو آپﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا (یعنی میں نے ہی ان کو احرام کھولنے کا حکم دیا ہے ) پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے حج کا ارادہ کرتے ہوئے کیا نیت کی تھی؟ تو میں نے عرض کیا کہ میں نے کہا کہ اے اللہ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسولﷺ نے باندھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے ساتھ قربانی ہے (اس لئے میں نے احرام نہیں کھولا) اب تم بھی احرام نہ کھولو۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ پھر وہ اونٹ جو سیدنا علیؓ  یمن سے لائے تھے اور وہ جو نبیﷺ اپنے ساتھ لائے تھے سب مل کر سو اونٹ ہو گئے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ پھر سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کترائے مگر نبیﷺ نے اور جن کے ساتھ قربانی تھی (محرم ہی رہے ) پھر جب ترویہ کا دن ہوا (یعنی ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ) تو سب لوگ منیٰ کو چلے اور حج کی لبیک پکاری اور رسول اللہﷺ بھی سوار ہوئے اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور فجر (پانچ نمازیں) پڑھیں۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور آپﷺ نے ، وہ خیمہ جو بالوں کا بنا ہوا تھا (مقامِ) نمرہ میں لگانے کا حکم دیا۔ اور رسول اللہﷺ چلے اور قریش یقین کرتے تھے کہ آپﷺ مشعر الحرام میں وقوف کریں گے جیسے سب قریش کے لوگوں کی ایام جاہلیت میں عادت تھی۔ آپﷺ وہاں سے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات پہنچے اور آپﷺ نے اپنا خیمہ نمرہ میں لگا ہوا پایا تو اس میں اترے یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپﷺ کے حکم سے قصواء اونٹنی تیار کی گئی اور آپﷺ وادی کے درمیان میں پہنچے اور آپﷺ نے لوگوں پر خطبہ پڑھا۔ فرمایا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر (ایسے ) حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے اور زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ کا خون ہے کہ وہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا (یعنی اس وقت کا چڑھا سود کوئی نہ لے ) اور پہلے جو سود ہم اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑتے ہیں (اور طلب نہیں کرتے ) وہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لئے کہ وہ سب چھوڑ دیا گیا اور تم لوگ عورتوں کے بارہ میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے ، کوئی عضو ضائع نہ ہو، حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے ) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ ان کی روٹی اور ان کا کپڑا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے ) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارہ میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے ؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپﷺ اپنی انگشت شہادت (شہادت کی انگلی) آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا) پھر اذان اور تکبیر ہوئی تو ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت و نفل وغیرہ) پھر رسول اللہﷺ سوار کر موقف میں آئے اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور غروبِ آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہے۔ زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی تب (سوار ہوئے ) سیدنا اسامہؓ  کو پیچھے بٹھا لیا اور واپس (مزدلفہ کی طرف) لوٹے اور قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر کجاوہ کے آ(اگلے حصے ) مورک سے لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنآپیر جو لٹکا ہوا ہوتا ہے اس جگہ رکھتا ہے ) اور آپﷺ سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ اے لوگو! آہستہ آہستہ آرام سے چلو اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے ) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی (آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو تکبیروں سے پڑھیں اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپﷺ لیٹ رہے۔ (سبحان اللہ کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہﷺ کے کہ دن رات آپﷺ کے سونے بیٹھنے ، اٹھنے جاگنے ، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یادداشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرے ) یہاں تک کہ صبح ہوئی جب فجر ظاہر ہو گئی تو اذان اور تکبیر کے ساتھ نمازِ فجر پڑھی پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لا الٰہ الا اللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ بخوبی روشنی ہو گئی اور آپﷺ وہاں سے طلوعِ آفتاب سے قبل لوٹے اور سیدنا فضل بن عباسؓ  کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضلؓ  ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپﷺ چلے تو عورتوں کا ایک ایسا گروہ چلا جاتا تھا کہ ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی جاتی تھیں اور سیدنا فضلؓ ان کی طرف دیکھنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فضلؓ کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا۔

سبحان اللہ یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضلؓ  نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہﷺ کے اخلاق پر) تو رسول اللہﷺ نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا تیز چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلتی ہے ، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں۔ ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ، ایسی کنکریاں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر (یعنی قربان) کئے ، باقی سیدنا علیؓ  کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئے۔ اور آپﷺ نے ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا اور پھر ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا۔ (آپﷺ کے حکم کے مطابق لے کر) ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا پھر آپﷺ نے اور سیدنا علیؓ  دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ پھر آپﷺ سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے آپﷺ نے فرمایا کہ پانی بھرو اے عبدالمطلب کی اولاد! اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا (یعنی جب آپﷺ بھرتے تو سنت ہو جاتا تو پھر ساریﷺ مت بھرنے لگتی اور ان کی سقایت جاتی رہتی) پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپﷺ کو دیا اور آپﷺ نے اس میں سے پیا۔

باب : منیٰ سے عرفات چلتے وقت تلبیہ اور تکبیر کا بیان۔

708: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ جب ہم صبح کو رسول اللہﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کی طرف چلے تو ہم میں سے کوئی لبیک پکارتا تھا اور کوئی تکبیر کہتا تھا۔

709: سیدنا محمد بن ابی بکر ثقفیؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا انس بن مالکؓ  سے پوچھا اور وہ دونوں منیٰ سے عرفات کو جا رہے تھے کہ تم لوگ آج کے دن نبیﷺ کے ساتھ کیا کرتے تھے ؟ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ کوئی ہم میں سے لا الٰہ الا اللہ کہتا تھا تو اس کو کوئی منع نہ کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے اللہ اکبر کہتا تھا تو اس کو بھی کوئی منع نہ کرتا تھا۔

باب : عرفات میں وقوف اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ثم افیضوا من حیث افاض الناس﴾ کے متعلق۔

710: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے دین پر تھے ، مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حُمس کہتے تھے (ابو الہیثم نے کہا ہے کہ یہ نام قریش کا ہے اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لئے کہ وہ اپنے دین میں حمس رکھتے تھے یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے ) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وہاں وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں۔ اور یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ ”وہیں سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں“۔

711: سیدنا جبیر بن مطعمؓ  کہتے ہیں کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا ، میں عرفہ کے دن اس کی تلاش میں نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے ہیں تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ تو حمس کے لوگ ہیں یہ یہاں تک کیسے آ گئے ؟ (یعنی قریش تو مزدلفہ سے آگے نہیں آتے تھے ) اور قریش حمس میں شمار کئے جاتے تھے (جو لوگ مزدلفہ سے باہر نہ جاتے تھے )۔

باب : عرفات سے لوٹنے اور مزدلفہ میں نماز کا بیان۔

712: کریب سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا اسامہ بن زیدؓ  سے پوچھا کہ جب تم عرفہ کی شام رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو تم نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس گھاٹی تک آئے جہاں لوگ نمازِ مغرب کے لئے اونٹوں کو بٹھاتے ہیں، پس رسول اللہﷺ نے اونٹنی کو بٹھایا اترے اور پیشاب کیا۔ اور پانی بہانے کا ذکر سیدنا اسامہؓ  نے نہیں کیا۔ پھر وضو کا پانی مانگا اور ہلکا سا وضو کیا، پورا نہیں (یعنی ایک ایک بار اعضاء دھوئے ) اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! نماز؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپﷺ سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آئے اور مغرب کی نماز کی تکبیر ہوئی اور لوگوں نے اونٹ بٹھائے اور کھولے نہیں یہاں تک کہ عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپﷺ نے نمازِ عشاء پڑھائی پھر اونٹ کھول دئیے۔ میں نے کہا کہ پھر تم نے صبح کو کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ پھر سیدنا فضل بن عباسؓ  آپﷺ کے ساتھ پیچھے سوار ہوئے اور میں قریش کے پہلے چلنے والوں کے ساتھ پیدل چلا۔

باب : عرفہ سے واپسی میں چلنے کی کیفیت کا بیان۔

713: عروہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میرے سامنے کسی نے سیدنا اسامہ بن زیدؓ  سے پوچھا (یا انہوں نے کہا کہ میں نے خود سیدنا اسامہؓ  سے پوچھا) اور رسول اللہﷺ نے ان کو عرفات سے اپنی اونٹنی پر سوار کر لیا تھا کہ رسول اللہﷺ کیسے چلتے تھے ؟ (یعنی اونٹنی کو کس چال سے لئے جاتے تھے ) تو انہوں نے کہا کہ میٹھی (آہستگی سے ) چال چلاتے تھے پھر جب ذرا کھلی جگہ پاتے یعنی جہاں بھیڑ کم ہوتی تو اس جگہ ذرا تیز کر دیتے۔

باب : مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز کا بیان۔

714: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھی اور ان دونوں (نمازوں) کے درمیان ایک رکعت بھی نہیں پڑھی اور مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھیں اور سیدنا عبد اللہؓ  بھی اسی طرح (مغرب اور عشاء) جمع کر کے پڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے مل گئے۔

باب : مزدلفہ میں نماز مغرب اور عشاء (کی جماعت) ایک تکبیر سے۔

715: سیدنا سعید بن جبیرؓ  کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کے ساتھ لوٹ کر مزدلفہ میں آئے تو وہاں انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء ایک تکبیر سے پڑھائی۔ پھر لوٹے اور کہا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں اسی مقام پر اسی طرح نماز پڑھائی تھی۔

باب : مزدلفہ میں صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔

716: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ہمیشہ نماز وقت پر ہی پڑھتے دیکھا مگر دو نمازیں۔ ایک مغرب و عشاء کہ مزدلفہ میں آپﷺ نے ملا کر پڑھیں اور (دوسری) اس کی صبح کو نمازِ فجر اپنے (مقروف) وقت سے پہلے پڑھی۔

باب : بھاری عورت کے لئے مزدلفہ سے رات کے وقت واپسی کی اجازت۔

717: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اُمّ المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات رسول اللہﷺ سے اجازت مانگی کہ آپ سے پہلے منیٰ کو لوٹ جائیں اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے آگے نکل جائیں اور وہ ذرا فربہ (یعنی بھاری) عورت تھیں۔ راوی نے کہا کہ آپﷺ نے ان کو اجازت دے دی اور وہ رسول اللہﷺ کے لوٹنے سے قبل روانہ ہو گئیں اور ہم لوگ رکے رہے یہاں تک کہ ہم نے صبح کی اور نبیﷺ کے ساتھ لوٹے (اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) اگر میں بھی رسول اللہﷺ سے اجازت لے لیتی جیسے سودہ رضی اللہ عنہا نے لی تھی اور آپﷺ کی اجازت سے چلی جاتی تو خوب تھا اور اس سے بہتر تھا جس کے سبب سے میں خوش ہو رہی تھی۔

باب : وقت سے پہلے عورتوں کو مزدلفہ سے جانے کی اجازت۔

718: سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا اور وہ مزدلفہ دار کے پاس ٹھہری ہوئی تھیں کہ کیا چاند غروب ہو گیا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تو انہوں نے تھوڑی دیر نماز پڑھی پھر مجھ سے کہا کہ اے میرے بچے ! کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ روانہ ہو۔ پس ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں پھر اپنی جائے قیام پر نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ ہم بہت صبح سویرے روانہ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے ! کچھ حرج نہیں کیونکہ نبیﷺ نے عورتوں کو صبح سویرے روانہ ہونے کی اجازت دی ہے۔

باب : ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے پہلے روانہ کر دینے کا حکم۔

719: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے مزدلفہ سے سامان کے ساتھ (یا یوں کہا کہ ضعیفوں کے ہمراہ) رات کو ہی بھیج دیا۔

720: سالم بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ (ان کے والد) سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  اپنے ساتھ کے ضعیف لوگوں کو آگے بھیج دیتے تھے کہ وہ المشعر الحرام میں، جو کہ مزدلفہ میں ہے ، رات کو وقوف کر لیں اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہیں جب تک چاہیں۔ پھر امام کے وقوف کرنے سے پہلے لوٹ جائیں۔ سو ان میں سے کوئی تو صبح کی نماز کے وقت منیٰ پہنچ جاتا تھا اور کوئی اس کے بعد پہنچتا۔ اور سیدنا ابن عمرؓ  کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے ان ضعیفوں کو اس کی اجازت دی ہے۔

باب : جمرہ عقبہ کی رمی تک حاجی کا تلبیہ کہنا۔

721: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے سیدنا فضل (بن عباس)ؓ  کو مزدلفہ سے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھا لیا تھا۔ (راوی نے ) کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباسؓ  نے خبر دی اور انہیں سیدنا فضلؓ  نے کہ نبیﷺ جمرہ عقبہ کی رمی تک لبیک پکارتے رہے۔

722: عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  جب مزدلفہ سے لوٹے تو لبیک پکاری، تو لوگوں نے کہا کہ شاید یہ گاؤں کا کوئی آدمی ہے ؟ (یعنی جو اب لبیک پکارتا ہے ) تو سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  نے کہا، کیا لوگ بھول گئے (یعنی سنتِ رسول اللہﷺ ) یا گمراہ ہو گئے ؟ میں نے خود ان سے سنا ہے جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی (یعنی رسول اللہﷺ سے ) کہ وہ اس جگہ میں لبیک پکارتے تھے۔

باب : بطن الوادی سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہنے کا بیان۔

723: اعمش سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن یوسف سے خطبہ میں کہتے ہوئے سنا: قرآن شریف کی وہی ترتیب رکھو کہ جو جبریلؑ نے رکھی ہے۔ وہ سورت پہلے ہو جس میں بقرہ کا ذکر ہے پھر وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ پھر وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا کہ پھر میں ابراہیم سے ملا تو ان کو اس بات کی خبر دی تو انہوں نے اس کو برا بھلا کہا اور پھر کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے روایت کی کہ وہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کے ساتھ تھے اور وہ جمرہ عقبہ پر آئے اور بطن الوادی میں، جمرہ کو سامنے رکھتے ہوئے کھڑے ہوئے اور اس کو سات کنکریاں نالہ کے پیچھے سے ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے۔ (راوی نے ) کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! (یہ کنیت ہے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کی) لوگ تو اوپر سے کھڑے ہو کر کنکریاں مارتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اس معبود کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، یہ جگہ اس کی ہے جس پر سورۂ بقرہ اتری ہے (یعنی رسول اللہﷺ نے یہیں سے کنکریاں ماری تھیں)۔

باب : قربانی کے دن سواری پر سوار ہو کر جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا۔

724: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا کہ وہ جمرہ عقبہ کو قربانی کے دن اپنی اونٹنی پر سے کنکر مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں۔

باب : جمرہ کے لئے کنکریوں کا حجم (یعنی کنکری کتنی بڑی ہو)؟

725: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا ہے کہ آپﷺ نے جمرہ کو وہ کنکریاں ماریں جو چٹکی سے پھینکی جاتی ہیں۔

باب : رمی کا وقت۔

726: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نحر کے دن چاشت کے وقت جمرہ کو کنکریاں ماریں اور بعد کے دنوں میں جب آفتاب ڈھل گیا۔

باب : جمروں کو کنکریاں مارنے کی تعداد طاق ہونی چاہیئے۔

727: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ استنجا کے لئے ڈھیلے لینا طاق ہیں اور جمرہ کی کنکریاں طاق ہیں اور صفا اور مروہ کی سعی طاق ہے اور کعبہ کا طواف طاق ہے (یعنی آخری تینوں سات سات ہیں) اور ضرور ہے کہ جو استنجے کے لئے پتھر لے تو طاق لے (یعنی تین یا پانچ جس میں طہارت خوب ہو جائے۔ یعنی اگر طہارت چار میں ہو جائے تو بھی ایک اور لے تا کہ طاق ہو جائیں اور بعض بے وقوف فقہاء نے جو یہ لکھا ہے کہ ڈھیلے کے تئیں طہارت کے وقت تین بار ٹھونک لے کہ تسبیح سے باز رہے ، یہ بدعت، بے اصل اور لغو حرکت ہے اور طاق ڈھیلے لینا جمہور علماء کے نزدیک مستحب ہے )۔

باب : حج میں نبیﷺ کا بال منڈوانا۔

728: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ٍحجۃ الوداع میں اپنا سر منڈوایا۔

باب : سر منڈوانے اور (بال) کتروانے کے بیان میں۔

729: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں کو بخش دے “۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! بال کتروانے والوں کو بھی؟ پھر فرمایا کہ ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں کو بخش دے “۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کتروانے والوں کو بھی (یعنی ان کی مغفرت کی بھی دعا کیجئے ) آپﷺ نے فرمایا کہ ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں کو بخش دے “۔ پھر لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کتروانے والوں کی (مغفرت کی بھی دعا کیجئے ) پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کتروانے والوں کی (بھی مغفرت فرما)۔

باب : (پہلے ) کنکریاں مارنا، پھر قربانی کرنا ، پھر بال منڈوا لے اور بال منڈواتے وقت ابتداء داہنی طرف سے کرنا۔

730: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر قربانی کے اونٹوں کے پاس آئے ، نحر کیا۔ اور حجام بیٹھا ہوا تھا، آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے سر کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس حجام نے داہنی طرف مونڈ دی تو آپﷺ نے وہ بال ان لوگوں میں تقسیم کر دیئے جو آپﷺ کے نزدیک تھے پھر فرمایا کہ اب دوسری جانب مونڈو! پس پوچھا کہ ابو طلحہؓ کہاں ہیں؟ پھر وہ بال ان کو عنایت فرمائے۔

باب : جس نے قربانی سے پہلے بال منڈوا لئے یا کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی ، اس کے متعلق۔

731: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کھڑے تھے اور لوگ آپﷺ سے مسائل پوچھنے لگے۔ پس ایک نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! میں نے نہ جانا کہ رمی نحر سے پہلے ضروری ہے اور میں نے رمی سے پہلے نحر کر لیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں اب رمی کر لو اور دوسرے نے کہا کہ میں نے نہ جانا کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہئیے اور میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب نحر کر لو اور کچھ حرج نہیں۔ (راوی) نے کہا کہ میں نے سنا کہ اس دن جس نے بھی آپﷺ سے کوئی ایسا کام کہ جسے انسان بھول جاتا ہے اور آگے پیچھے کر لیتا ہے ، اس کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے یہی فرمایا کہ اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔

732: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا اور آپﷺ جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے ہوئے تھے کہ شخص آپﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈوا لیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب کنکریاں مار لو اور کچھ حرج نہیں اور دوسرا شخص آیا اور عرض کیا کہ میں نے رمی سے پہلے ذبح کر لیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔ اور تیسرا شخص آیا اور عرض کیا کہ میں نے رمی سے پہلے بیت اللہ کا طوافِ افاضہ کر لیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔ راوی نے کہا کہ اس دن نبیﷺ سے جو چیز پوچھی گئی کہ آگے پیچھے ہو گئی ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب کر لو اور کچھ حرج نہیں ہے۔

باب : قربانی کے گلے میں ہار ڈالنے اور اس کی کوہان کو چیر(کر نشان بنا) نے کا بیان۔

733: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی۔ پھر آپﷺ نے اپنی اونٹنی منگوائی اور آپ نے اس کی کوہان کے دائیں پہلو میں اشعار کیا (برچھی وغیرہ سے زخم کر کے خون نکالنا تاکہ قربانی کے جانور کی نشانی ہو جائے ) پھر اس خون کو ہاتھ سے مل دیا اور اونٹنی کے گلے میں دو جوتیوں کو لٹکا دیا۔ پھر آپﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ جب وہ میدان میں سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔ (تلبیہ ”لبیک اللہم لبیک“ کو کہتے ہیں)۔

باب : قربانی کا جانور بھیجنا اور اس کو ہار پہنانا جب کہ آدمی خود حلال ہو (یعنی احرام میں نہ ہو بلکہ گھر میں موجود ہو)۔

734: عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ابن زیاد نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  کہتے ہیں کہ جس نے (بغیر حج و عمرہ کے گھر میں رہتے ہوئے ) قربانی بھیجی، اس پر وہ چیزیں جو حاجی پر حرام ہوتی ہیں جب تک کہ قربانی ذبح نہ ہو جائے ، حرام ہو گئیں اور میں نے قربانی روانہ کی ہے پس جو حکم ہو مجھے بتا دیجئے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابن عباسؓ  نے جس طرح کہا ویسا نہیں ہے۔ میں نے خود رسول اللہﷺ کی قربانیوں کے ہار بٹے ہیں اور آپﷺ نے ان کے گلے میں ڈال کر میرے والد کے ساتھ قربانی روانہ کر دی اور اس کے ذبح تک کوئی چیز آپﷺ پر حرام نہ ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر حلال کی تھی۔

735: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ بیت اللہ کو بکریاں بھیجیں اور ان کے گلے میں ہار ڈالا۔

باب : قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا۔

736: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کا اونٹ کھینچتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا۔ اس نے عرض کیا کہ یہ قربانی کا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا۔ اور دوسری یا تیسری بار فرمایا کہ تیرے لئے خرابی ہو۔

737: ابو زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے سنا اور ان سے قربانی کے جانور پر سواری کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ جب تمہیں ضرورت ہو (اور سواری نہ ملے ) اس پر اس طرح سوار ہو کہ تکلیف نہ دو۔

باب : جو قربانی کا جانور (منیٰ میں) پہنچنے سے پہلے تھک جائے ، اس کا بیان۔

738: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ ان سے ذؤیب ابو قبیصہؓ  نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے میرے ساتھ قربانی کے اونٹ روانہ کرتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ اگر کوئی ان میں سے تھک جائے اور مرنے کا ڈر ہو تو اسکو نحر کر دینا اور اس کی جوتیاں خون میں ڈبو کر اسکے کوہان میں (چھاپا) مار دینا اور نہ تم کھانا اور نہ تمہارا کوئی رفیق اس میں سے کھائے۔

باب : قربانی کے جانور میں شرکت کا بیان۔

739: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے سات سات آدمی اونٹ اور گائے میں شریک ہو جائیں۔

باب : گائے کی قربانی۔

740: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قربانی کے دن اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔

باب : اونٹ کو کھڑا کر کے ، ہاتھ پاؤں باندھ کر نحر کرنا چاہیئے۔

741: زیاد بن جبیر سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ  نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ کو بٹھا کر نحر کر رہا ہے تو کہا کہ اس کو اٹھا کر، کھڑا کر کے پیر باندھ کر نحر کرو۔ یہی تمہارے نبیﷺ کی سنت ہے۔

باب : قربانی کا گوشت اور اس کی جُلیں اور اس کے چمڑے کو خیرات کرنا چاہیئے۔

742: امیر المؤمنین سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے حکم فرمایا کہ میں آپﷺ کے قربانی کے اونٹوں پر کھڑا رہوں اور ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں خیرات کر دوں اور قصاب کی مزدوری اس میں سے نہ دوں۔ اور سیدنا علیؓ  نے کہا کہ قصاب کی مزدوری ہم اپنے پاس سے دیں گے۔

باب : قربانی کے دن واپسی کا طواف۔

743: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے قربانی کے دن طوافِ افاضہ کیا اور پھر واپس آ کر ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھی۔ نافع نے کہا کہ سیدنا ابن عمرؓ  قربانی کے دن طوافِ افاضہ کر کے لوٹتے تھے اور نماز ظہر منیٰ میں پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ نبیﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

باب : جس نے بیت اللہ کا طواف کیا وہ حلال ہو گیا۔

744: ابن جریج سے روایت ہے کہ انہیں عطاء نے خبر دی کہ سیدنا ابن عباسؓ  فتویٰ دیتے تھے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا وہ حلال ہو گیا خواہ حاجی ہو یا غیر حاجی (یعنی عمرہ کرنے والا ہو) میں نے عطاء سے کہا کہ وہ یہ بات کہاں سے لیتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اس آیت سے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”پھر جگہ اس قربانی کے پہنچنے کی بیت اللہ تک ہے “الحج:33 [ تو میں نے کہا کہ یہ تو عرفات سے آنے کے بعد ہے تو انہوں نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ  کا قول یہ ہے (کہ محل اس کا) بیت اللہ ہے خواہ بعد عرفات کے ہو یا اس سے پہلے۔ اور وہ یہ بات نبیﷺ کے فعل مبارک سے نکالتے تھے آپﷺ نے خود ٍحجۃ الوداع میں لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم دیتے تھے۔

باب : حج قران کرنے والے کو حج اور عمرہ (دونوں) کے لئے ایک ہی طواف کافی ہے۔

745: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ (مقامِ) سرف میں حائضہ ہو گئیں اور عرفہ میں پاک ہوئیں (یعنی وقوف کے لئے غسل کیا) اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تمہیں صفا اور مروہ کا طواف، حج اور عمرہ دونوں کے لئے کافی ہے۔

باب : حج اور عمرہ کا احرام باندھنے والا احرام کب کھولے گا؟۔

746: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم ٍحجۃ الوداع کے سال رسول اللہﷺ کے ساتھ (مدینہ سے ) نکلے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے صرف عمرے کا احرام باندھا، کچھ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور کچھ نے صرف حج کا احرام باندھا تھا۔ اور خود رسول اللہﷺ نے صرف حج کا احرام باندھا تھا۔ (چنانچہ) جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تو (طواف کرتے ہی) حلال ہو گیا لیکن جس نے حج کا یا حج اور عمرہ (دونوں) کا احرام باندھا تھا وہ یوم النحر (قربانی کے دن) تک حلال نہیں ہوئے۔

باب : یوم النفر (بارھویں ذوالحجہ) کو وادی محصب میں اترنا اور اس میں نماز ادا کرنا۔

747: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ اور سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ابطح میں اترا کرتے تھے۔

748: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابطح (محصب) میں اترنا کوئی سنت (مؤکدہ) نہیں اور رسول اللہﷺ تو صرف اس لئے وہاں اترے تھے کہ وہاں سے نکلنا اسان تھا جب آپﷺ (منیٰ سے مکہ کی طرف) نکلے۔

749: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ہم منیٰ میں تھے رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا: کل ہم خیف بنی کنانہ میں اترنے والے ہیں، جہاں کافروں نے کفر پر قسم کھائی تھی۔ اور یہ کہ قریش اور بنی کنانہ نے قسم کھائی کہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب سے (یعنی ان کے قبیلوں سے ) اس وقت تک نکاح نہ کریں گے ، نہ خرید و فروخت کریں جب تک یہ رسول اللہﷺ کو اُن کے سپرد نہ کر دیں اور مراد خیف بنی کنانہ سے محصب ہے۔

باب : زمزم پلانے والوں کے لئے منیٰ کی راتوں میں مکہ میں رہنے کی اجازت کا بیان۔

750: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ  نے رسول اللہﷺ سے اجازت مانگی کہ منیٰ کی راتوں میں مکہ میں رہیں اس لئے کہ ان کو زمزم پلانے کی خدمت تھی، تو آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔

751: بکر بن عبد اللہ مزنی کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباسؓ  کے پاس کعبہ کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا کہ ایک گاؤں کا آدمی آیا اور اس نے کہا کہ کیا سبب ہے کہ میں تمہارے چچا کی اولاد کو دیکھتا ہوں کہ وہ شہد کا شربت اور دودھ پلاتے ہیں اور تم کھجور کا شربت پلاتے ہو، تم نے محتاجی کے سبب سے اسے اختیار کیا ہے یا بخیلی کی وجہ سے ؟ تو سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ الحمدللہ! نہ ہمیں محتاجی ہے نہ بخیلی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نبیﷺ اپنی اونٹنی پر تشریف لائے اور ان کے پیچھے اسامہؓ  تھے۔ اور آپﷺ نے پانی مانگا تو ہم ایک پیالہ میں کھجور کا شربت لائے۔ اور آپﷺ نے پیا اور اس میں سے جو بچا وہ سیدنا اسامہؓ  کو پلایا اور آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے خوب اچھا کام کیا اور ایسا ہی کیا کرو۔ پس جس کا حکم رسول اللہﷺ دے چکے ہیں ہم اس کو بدلنا نہیں چاہتے۔

باب : حج اور عمرہ مکمل کرنے کے بعد ”مہاجر“ کا مکہ میں رہنا۔

752: عبدالرحمن بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز سے سنا وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ تم نے مکہ میں رہائش کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ تو سائب بن یزید نے کہا کہ میں نے علاءؓ  (یا کہا کہ علاء بن حضرمی ص) سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مہاجر حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد تین روز تک مکہ میں ٹھہرے (مراد یہ تھی کہ اس سے زیادہ نہ رہے )۔ﷺ مکہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے ہجرت کرنے کے بعد مکہ میں اقامت کرنا یا مکہ کو وطن بنانا ممنوع کر دیا گیا تھا۔ البتہ حج اور عمرہ کے بعد تین دن کی اجازت اس حدیث میں ہے [۔

باب : طوافِ وداع کرنے سے پہلے کوئی (واپس) نہ چلے۔

753: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ لوگ ادھر اُدھر چل پھر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص کوچ نہ کرے جب تک کہ چلتے وقت بیت اللہ کا طواف نہ کر لے۔

باب : طوافِ وداع سے پہلے جو عورت حیض والی ہو گئی۔

754: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اُمّ المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حیض سے ہو گئیں۔ تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہﷺ سے کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ (اُمّ المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا) ہمیں مکہ میں روک دے گی؟ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! انہوں نے طواف افاضہ کر لیا تھا پھر بعد میں حیض سے ہوئیں ہیں تو نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ (ہمارے ساتھ) واپس چلے۔

755: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ آخر میں بیت اللہ کے پاس سے ہو کر (یعنی طواف کر کے ) جائیں اور حائضہ پر تخفیف ہو گئی (یعنی طوافِ وداع کے لئے )۔

باب : حج کے مہینوں میں عمرہ کے مباح ہونے کا بیان۔

756: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ لوگ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے ) حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو زمین پر سب سے بڑا گناہ جانتے تھے اور محرم کے مہینہ کو صفر کر دیا کرتے تھے۔اس لئے کہ تین مہینے مسلسل ماہِ حرام آتے ہیں جو ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں، تو وہ گھبرا جاتے اور لوٹ مار نہ کر سکتے کیونکہ مشرکین مکہ بھی حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے تھے۔ (افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ حرمت والے مہینے کون کونسے ہیں، ان کا احترام تو دور کی بات ہے ) اس لئے یہ شرارت نکالی کہ محرم کی جگہ صفر کو لکھ دیا اور خوب لوٹ مار کی اور جب صفر کا مہینہ آیا تو محرم کی طرح اس کا ادب کیا اور یہی نسی تھی جس کو قرآن میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کی عادت فرماتا ہے [ کہتے تھے کہ جب اونٹوں کی پیٹھیں اچھی ہو جائیں، (یعنی جو حج کے سفر کے سبب سے لگ گئی ہیں اور زخمی ہو گئی ہیں) اور راستوں سے حاجیوں کے اونٹوں کے نشان قدم مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ تمام ہو جائے تب عمرہ کرنے والے کو عمرہ جائز ہے۔ پھر جب رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ چوتھی ذی الحجہ کو احرام باندھے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا لیں (جیسے ابن قیم وغیرہ کا مذہب ہے ) پس لوگوں کو یہ بڑی انوکھی بات لگی اور انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! ہم کیسے حلال ہوں؟ (یعنی پورے یا ادھورے کہ بعض چیز سے بچتے رہیں) تو آپﷺ نے فرمایا کہ پورے حلال ہو (یعنی کسی چیز سے پرہیز کی ضرورت نہیں)۔

باب : ماہ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت۔

757: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے انصار میں سے ایک عورت سے ، جس کو اُمّ سنان کہا جاتا تھا، فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ حج کو کیوں نہیں چلتی؟ تو اس نے کہا کہ ہمارے شوہر کے پاس دو ہی اونٹ تھے ایک پر وہ اور ان کا لڑکا حج کو گیا ہے اور دوسرے پر ہمارا غلام پانی لاتا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے (یا فرمایا کہ ہمارے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے )۔

باب : نبیﷺ نے کتنے حج کئے ؟

758: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا زید بن ارقمؓ  سے پوچھا کہ تم رسول اللہﷺ کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے ؟انہوں نے کہا کہ سترہ غزوات میں۔ اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے انیس غزوات کئے اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا جسے ٍحجۃ الوداع کہتے ہیں۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے دوسرا حج مکہ میں(ہجرت سے پہلے ) کیا تھا۔

باب : نبیﷺ نے کتنے عمرے کئے ؟

759: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے چار عمرے کئے اور جو حج کے ساتھ کیا تھا ، اس کے علاوہ سب ذوالقعدہ میں کئے۔ ایک عمرہ حدیبیہ سے یا حدیبیہ کے سال ذوالقعدہ میں، دوسرا اس کے بعد کے سال میں ذوالقعدہ میں، تیسرا عمرہ جو جعرانہ سے ، جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا وہ بھی ذوالقعدہ میں کیا اور چوتھا عمرہ وہ جو حج کے ساتھ ہوا۔

760: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ انہیں سیدنا معاویہ بن سفیانؓ  نے خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مروہ (پہاڑی) پر رسول اللہﷺ کے بال تیر کی بھال سے کترے۔ (یا یہ کہا کہ میں نے آپﷺ کو مروہ پر دیکھا کہ آپﷺ تیر کی بھال سے بال کتروا رہے ہیں)۔

باب : حیض والی عورت عمرہ کی قضاء کرے۔

761: اُمّ المؤمنین (عائشہ صدیقہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! لوگ مکہ سے دو عبادتوں (یعنی حج اور عمرہ جداگانہ) کے ساتھ لوٹیں گے اور میں ایک عبادت کے ساتھ لوٹوں گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم ٹھہرو جب تم پاک ہو گی تو تنعیم کو جانا اور لبیک پکارنا اور پھر ہم سے فلاں فلاں مقام میں ملنا۔ میں گمان کرتا ہوں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ کل کے روز۔ اور تمہارے اس عمرہ کا ثواب تمہاری تکلیف اور خرچ کے موافق ہے۔

باب : جب حج وغیرہ کے سفر سے لوٹے تو کیا کہے۔

762: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب لشکروں سے یا لشکروں کی چھوٹی جماعت سے یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو جب کسی ٹیلہ پر یا اونچی کنکریلی زمین پر پہنچ جاتے ، تو تین بار اللہ اکبر کہتے پھر کہتے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کی سلطنت ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اور ہم لوٹنے والے ، رجوع ہونے والے ، عبادت کرنے والے ، سجدہ کرنے والے اور اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچاکیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور (کافروں کے ) لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی۔

باب : حج اور عمرہ سے واپسی پر ذی الحلیفہ میں رات گزارنا اور نماز پڑھنا۔

763: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین میں اپنا اونٹ بٹھایا تھا اور وہاں نماز پڑھی تھی اور (خود سیدنا ) عبد اللہ ابن عمرؓ  اسی طرح کیا کرتے تھے۔

764: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  جب حج یا عمرہ سے واپس آتے تو ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھا دیتے جہاں نبیﷺ نے اپنا اونٹ بٹھاتے تھے۔

765: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ آخر شب ذوالحلیفہ میں بطن الوادی میں آرام فرماتے تھے کہ آپﷺ کے پالش (فرشتہ) آیا اور آپﷺ سے کہا گیا کہ آپﷺ بطحاء مبارکہ میں ہیں۔ موسیٰ راوی کا کہنا ہے کہ سالم نے ہماری سواری کو وہاں بٹھایا جہاں مسجد کے پاس سیدنا عبد اللہ ابن عمرؓ  بٹھایا کرتے تھے اور وہ نبیﷺ کی رات گزارنے والی جگہ کو تلاش کرتے تھے اور وہ جگہ اس مسجد سے نیچے ہے جو وادی کے نشیب میں بنی ہوئی ہے اور جگہ مسجد اور قبلہ کے درمیان میں ہے۔

باب : مکہ شریف، اس کے شکار، اس کے درخت اور اس کی گری پڑی چیز کی حرمت کے بیان میں۔

766: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہﷺ کو مکہ پر فتح دی تو آپﷺ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی، حمد و ثناء کی پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحابِ فیل کو مکہ سے روک دیا اور اپنے رسولﷺ کو اور مومنوں کو اس پر مسلط فرما دیا۔ اور مجھ سے پہلے اس میں لڑنا کسی کو حلال نہیں ہوا اور میرے لئے دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کیا گیا۔اور اب میرے بعد کبھی بھی کسی کے لئے حلال نہ ہو گا۔ پھر اس کا شکار نہ بھگایا جائے ، اس کا کانٹا نہ توڑا جائے ، اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو بتاتا پھرے کہ جس کی ہو، اسے دیدے۔ اور جس کا کوئی شخص قتل کر دیا گیا تو اس کو دو باتوں کا اختیار ہے خواہ فدیہ لے لے یعنی (خون بہا لے ) اور خواہ قاتل کو قصاص میں مروا ڈالے۔ سیدنا عباسؓ  نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! سوائے اذخر کے (کہ اس کو حرام نہ کیجئے ) کہ ہم اس کو اپنی قبروں میں ڈالتے ہیں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں (چھت میں استعمال ہوتا ہے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ خیر اذخر (یعنی گھاس کی اجازت ہے ) توڑ لو۔ پھر یمن کا ابو شاہ نامی ایک شخص اٹھا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! مجھے لکھ دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ابو شاہ کو لکھ دو۔ ولید نے کہا کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ یا رسول اللہﷺ ! مجھے لکھ دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ یہی خطبہ جو رسول اللہﷺ نے فرمایا (یعنی اس کو ابو شاہ نے لکھوا لیا کہ بڑے نفع کی بات تھی)۔

767: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔

باب : نبیﷺ کا فتح مکہ کے دن بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا۔

768: سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے (قتیبہ نے کہا کہ فتح مکہ کے دن داخل ہوئے ) اور آپﷺ پر سیاہ عمامہ تھا (اور آپﷺ) بغیر احرام کے (داخل ہوئے تھے )۔

769: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، نبیﷺ سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ پھر جب خود اتارا تو ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کو پکڑے (چھپا ہوا) ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو۔

باب : کعبہ کی حطیم اور اس کے دروازہ کے متعلق۔

770: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا حطیم کی دیوار بیت اللہ میں داخل ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں (اس سے امام ابو حنیفہ کا مذہب ردّ ہوا اور حطیم کے اندر طواف ناجائز ہوا اس لئے کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہے ) میں نے (پھر) عرض کیا کہ اس کو انہوں نے بیت اللہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا۔ (پھر) میں نے عرض کیا کہ اس کا دروازہ کیوں اتنا اونچا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم کا کیا ہوا ہے تاکہ جس کو چاہیں اسے اس میں جانے دیں اور جس کو چاہیں نہ جانے دیں اور اگر تمہاری قوم نے نئی نئی جاہلیت نہ چھوڑی ہوتی اور مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ اس کو ناگوار سمجھیں گے تو میں ارادہ کرتا کہ حطیم کی دیواروں کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے ساتھ لگا دیتا۔

باب : کعبہ شریف کے توڑنے اور اس کی بنیاد کے بیان میں۔

771: عطاء کہتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ کے دَور میں اہل شام کی لڑائی میں جب کعبہ جل گیا اور اس کا جو حال ہوا سو ہوا، تو ابن زبیرؓ  نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا یہاں تک کہ لوگ موسمِ حج میں جمع ہوئے اور ابن زبیرؓ  کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر انہیں اہل شام کی لڑائی پر جرأت دلائیں یا انہیں اہل شام کے خلاف لڑائی کے لئے تیار کریں۔ پھر جب لوگ جانے لگے تو انہوں نے کہا کہ اے لوگو! مجھے خانہ کعبہ کے بارے میں مشورہ دو کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا اس میں سے جو حصہ خراب ہو گیا ہے اسے درست کروں؟ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی اور وہ یہ ہے کہ تم ان میں سے جو خراب ہو گیا ہے صرف اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ ابتداء اسلام میں تھا اور انہی پتھروں کو رہنے دو جن پر لوگ مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے تھے۔ سیدنا ابن زبیرؓ  نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی راضی نہ ہو گا جب تک نیا نہ بنائے پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے ، اس کا کیا حال ہے ؟ اور میں اپنے رب سے تین بار استخارہ کرتا ہوں پھر اپنے کام کا مصمم ارادہ کرتا ہوں پھر جب تین بار استخارہ کر چکے تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ کعبہ کو توڑ کر بنائیں اور لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ جو شخص پہلے خانہ کعبہ کے اوپر توڑنے کو چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل ہو جائے ، (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہؓ کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہیں اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقامِ کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے پڑے رہے ) یہاں تک کہ اس کی دیواریں اونچی ہو گئیں اور ابن زبیرؓ  نے کہا کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے ، اور میرے پاس بھی اتنا خرچ نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ میں حطیم سے پانچ ہاتھ کعبہ میں داخل کر دیتا اور ایک دروازہ اس میں ایسا بنا دیتا کہ لوگ اس میں داخل ہوتے اور دوسرا ایسا بناتا کہ لوگ اس سے باہر جاتے۔ پھر ابن زبیرؓ  نے کہا کہ ہم آج کے دن اتنا خرچ بھی رکھتے ہیں کہ اسے صرف کریں اور لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ راوی نے کہا کہ پھر ابن زبیرؓ  نے اس کی دیواریں حطیم کی جانب سے پانچ ہاتھ زیادہ کر دیں یہاں تک کہ وہاں پر ایک نیو (بنیاد) نکلی کہ لوگوں نے اسے اچھی طرح دیکھا (اور وہ بنیاد سیدنا ابراہیمؑ  کی تھی) پھر اسی بنیاد پر سے دیوار اٹھانا شروع کی اور کعبہ کی لمبائی اٹھارہ ذراع تھی۔ پھر جب اس میں زیادہ کیا تو چھوٹا نظر آنے لگا (یعنی چوڑان زیادہ ہو گئی اور لمبان کم نظر آنے لگی) پس اس کی لمبان میں بھی دس ذراع زیادہ کر دیئے اور اس کے دو دروازے رکھے ، ایک میں سے اندر جائیں اور دوسرے سے باہر آئیں۔ پھر جب عبد اللہ بن زبیرؓ  شہید ہو گئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو یہ خبر لکھ بھیجی کہ ابن زبیرؓ نے جو بنیاد رکھی ہے وہ انہی بنیادوں پر رکھی ہے جس کو مکہ کے معتبر لوگ دیکھ چکے ہیں، (یعنی سیدنا ابراہیمؑ  کی بنیاد پر بنیاد رکھی)۔ عبدالملک نے اس کو جواب لکھا کہ ہمیں ابن زبیرؓ  کی تغیر و تبدل سے کچھ کام نہیں، (تم ایسا کرو کہ) جو انہوں نے طول میں زیادہ کر دیا ہے وہ رہنے دو اور جو حطیم کی طرف سے زیادہ کیا ہے اس کو نکال ڈالو اور پھر حالتِ اُولیٰ پر بنا دو اور وہ دروازہ بند کر دو جو کہ انہوں نے زیادہ کھولا ہے۔ غرض حجاج نے اسے توڑ کر بنائے (بنیادِ) اوّل پر بنا دیا۔

772: ابو قزعہ سے روایت ہے کہ عبد الملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا اور اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابن زبیرؓ  کو ہلاک کرے کہ وہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  پر جھوٹ باندھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ کو توڑ کر اس میں حجر (حطیم) کا اضافہ کر دیتا اس لئے کہ تمہاری قوم نے کعبہ کی عمارت میں کمی کر دی ہے۔ (یہ سن کر) حارث نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! ایسا نہ کہئے ، اس لئے کہ میں نے بھی اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ یہ حدیث بیان کرتی تھیں تو عبد الملک نے کہا کہ اگر کعبہ گرانے سے پہلے میں یہ حدیث سنتا تو ابن زبیرؓ  ہی کی بنیاد کو قائم رکھتا۔

باب : حرمِ مدینہ اور اس کے شکار اور درخت کی حرمت اور اس کے لئے دعا کا بیان۔

773: سیدنا عبد اللہ بن زید بن عاصمؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سیدنا ابراہیمؑ  نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی اس کی حرمت ظاہر کی ورنہ اُس کی حرمت آسمان و زمین کے بننے کے دن سے تھی) اور اس کے لوگوں کے لئے دعا کی، اور میں مدینہ کو حرمت والا بناتا ہوں جیسے ابراہیمؑ  نے مکہ کو حرمت والا کیا اور میں نے مدینہ کے صاع اور مد کے لئے دعا کی ، اس کی دو مثل جو ابراہیمؑ  نے اہل مکہ کے لئے دعا کی تھی۔

774: فاتحِ ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں دونوں کالے پتھروں کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں کہ وہاں کا کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ وہاں شکار مارا جائے۔ اور فرمایا کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور کوئی مدینہ کی سکونت اعراض کر کے نہیں چھوڑتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں کوئی صبر کرتا اس کی بھوک پیاس اور محنت و مشقت پر مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔

775: عامر بن سعد سے روایت ہے کہ سیدنا سعدؓ  اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا کہ (راستے میں) ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا پتے توڑ رہا تھا تو اس کا سامان چھین لیا۔ جب سیدنا سعد واپس آئے تو اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ وہ اس کو پھیر دیجئے یا ہمیں عنایت کیجئے تو انہوں نے کہا: اس بات سے اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز پھیر دوں جو مجھے رسول اللہﷺ نے بطریقِ انعام عنایت کی ہے۔ اور انہوں نے اس کا سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔

776: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔

777: ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم پر سیدنا علی بن ابی طالبؓ  نے خطبہ پڑھا اور کہا کہ جو کوئی دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے پاس) کتاب اللہ اور اس صحیفہ، راوی نے کہا کہ صحیفہ ان کی تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا، کے سوا کوئی اور چیز ہے تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں (زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان ہے (یعنی قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کا جبل عیر سے جبل ثور تک کا علاقہ حرم ہے۔ پس جو شخص مدینہ میں کوئی نئی بات# یعنی بدعت نکالے یا نئی بات نکالنے والے کو یعنی بدعتی کو جگہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی۔ اللہ تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ سنت۔ اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے۔ اور جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی غیر کا فرزند ٹھہرایا، یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے آپ کو قرار دیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی سنت۔

ﷺ# یہاں ”حدث“ سے مراد کوئی بھی جرم ہے اور اس میں یہ (بات یعنی بدعت) بھی شامل ہے [۔

778: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کے پاس پہلا پھل آتا تو آپﷺ دعا کرتے کہ اے اللہ! ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں اور ہمارے مد اور صاع میں برکت در برکت فرما۔ پھر وہ پھل، (مجلس میں) موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔

باب : مدینہ طیبہ کی سکونت اور اس کی بھوک پر صبر کرنے کی ترغیب۔

779: ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ابو سعید خدریؓ  کے پاس حرہ کی راتوں میں آئے (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا تھا اور ظالموں نے مدینہ کو لوٹا تھا) اور ان سے مشورہ کیا کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور ان سے وہاں کی گرانی نرخ (مہنگائی) اور کثرتِ عیال کی شکایت کی اور خبر دی کہ مجھے مدینہ کی محنت اور بھوک پر صبر نہیں آ سکتا تو سیدنا ابو سعید خدریؓ  نے کہا کہ تیری خرابی ہو میں تجھے اس کا مشورہ نہیں دوں گا (کیونکہ) میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص یہاں کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا اور پھر مر جاتا ہے ، مگر یہ کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اگر وہ مسلمان ہو۔

780: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم مدینہ میں (ہجرت کر کے ) آئے تو وہاں وبائی بخار پھیلا ہوا تھا۔ اور سیدنا ابو بکرؓ  اور سیدنا بلالؓ  بیمار ہو گئے پھر جب رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کی بیماری دیکھی تو دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے مدینہ کو ہمارے لئے دوست کر دے جیسے تو نے مکہ کو دوست کیا تھا یا اس سے بھی زیادہ اور اس کو صحت کی جگہ بنا دے اور ہمیں اس کے ”صاع“ اور ”مد“ میں برکت دے اور اس کے بخار کو جُحفہ کی طرف پھیر دے۔

باب : مدینہ طیبہ میں طاعون اور دجال نہیں آ سکتا۔

781: سیدنا ابوہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مدینہ کے ناکوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون اور دجال نہیں آ سکتا۔

باب : مدینہ طیبہ اپنے ”میل“ کو نکال دے گا۔

782: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک وقت لوگوں پر ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے بھتیجے اور اپنے قرابت والے کو پکارے گا کہ خوشحالی کے ملک میں خوشحالی کے ملک میں چلو، حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا کاش کہ وہ جانتے ہوتے۔ اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی شخص مدینہ سے بیزار ہو کر نہیں نکلتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر دوسرا شخص مدینہ میں بھیج دیتا ہے۔ آگاہ رہو کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی مانند ہے کہ وہ میل کو نکال دیتا ہے اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ مدینہ اپنے شریر لوگوں کو نکال نہ دے گا جیسے کہ بھٹی لوہے کی میل کو نکال دیتی ہے۔

783: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ جل جلالہ نے مدینہ کا نام طابہ (طیبہ) رکھا ہے۔

باب : جو اہل مدینہ کی برائی کے متعلق ارادہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو گھلا دیتا ہے۔

784: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اس شہر (یعنی مدینہ) والوں کی بُرائی کا ارادہ کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسا گھلا دیتا ہے جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔

باب : شہروں کی فتح کے وقت مدینہ طیبہ میں رہنے کی ترغیب۔

785: سیدنا سفیان بن ابی زہیرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ یمن فتح ہو گا تو کچھ لوگ مدینہ سے اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اپنے گھر والوں اور خدام کے ساتھ نکلیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا، کاش وہ جانتے ہوتے۔ پھر شام فتح ہو گا اور مدینہ کی ایک قوم اپنے گھر والوں اور خدام کے ساتھ، اونٹوں کو ہانکتے ہوئے نکلے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا، کاش وہ جانتے۔ پھر عراق فتح ہو گا اور مدینہ کی ایک قوم اپنے گھر والوں اور خدام کے ساتھ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے نکلے گی حالانکہ مدینہ ان کے حق میں بہتر ہو گا، کاش وہ جانتے۔

باب : مدینہ طیبہ کے بارے میں، جب اس کے رہنے والے اس کو چھوڑ دیں گے۔

786: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ لوگ مدینہ کو اس کے خیر ہونے کے باوجود چھوڑ دیں گے اور اس میں کوئی نہ رہے گا سوائے درندوں اور پرندوں کے۔ پھر قبیلہ مزینہ سے دو چرواہے اپنی بکریوں کو پکارتے ہوئے مدینہ (جانے ) کا ارادہ کرتے ہوئے نکلیں گے اور وہ مدینہ کو ویران پائیں گے یہاں تک کہ جب ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔

باب : (نبیﷺ کی) قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

787: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے گھر اور منبر کے درمیان میں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔

باب : احد پہاڑ، ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

788: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اُحد (پہاڑ) کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اُحد ایسآپہاڑ ہے کہ وہ ہمیں دوست رکھتا ہے اور ہم اس کو دوست رکھتے ہیں۔

باب : (ثواب کی نیت سے ) سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف۔

789: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ کجاوے نہ باندھے جائیں (سفر نہ کیا جائے ) مگر تین مسجدوں کی طرف ایک میری یہ مسجد (یعنی جو مدینہ میں ہے مسجد نبویﷺ ) اور مسجد الحرام اور مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔

باب : حرمین شریفین کی دونوں مساجد (کعبہ مکرمہ ، مسجد نبوی) میں نماز کی فضیلت۔

790: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔

باب : اس مسجد کا بیان جو تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے۔

791: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرے پاس سے عبدالرحمن بن ابو سعید خدریؓ  گزرے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنے والد (سیدنا ابو سعید خدریؓ) کو کیسے سنا جو وہ اس مسجد کے متعلق فرماتے تھے کہ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے والدؓ  نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آپﷺ کی بیویوں میں سے کسی کے گھر میں داخل ہوا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! وہ کونسی مسجد ہے جسکے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ؟ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ایک مٹھی کنکر لے کر زمین پر مارے اور فرمایا کہ وہ یہی تمہاری مدینہ کی مسجد ہے۔ (ابو سلمہ بن عبدالرحمن) میں نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی تمہارے والدؓ  سے سنا ہے (کہ اس مسجد کا) ایسا ہی ذکر کیا کرتے تھے۔

باب : مسجد قباء کی فضیلت کے بیان میں۔

792: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد قباء کو پیدل بھی اور سوار بھی تشریف لایا کرتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔

793: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ وہ (ابن عمر) ہر ہفتہ کے دن (مسجد) قبا میں آتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ہر ہفتہ کے دن قبا جاتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

کتاب: نکاح کے مسائل

 

باب : نکاح کرنے کی ترغیب میں۔

794: سیدنا علقمہؓ  کہتے ہیں کہ میں عبد اللہؓ  کے ساتھ منیٰ میں چلا جاتا تھا کہ عبد اللہؓ  سے سیدنا عثمانؓ  ملے اور ان سے کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ پس سیدنا ع ثمانؓ  نے ان سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! ہم تمہارا نکاح ایسی نوجوان لڑکی سے نہ کر دیں کہ وہ تمہیں تمہاری گزری ہوئی عمر میں سے کچھ یاد دلا دے ؟تو سیدنا عبد اللہؓ  نے ان سے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو تو ہم سے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اے جوانوں کے گروہ! جو تم میں سے گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہئیے کہ نکاح کرے ،اس لئے کہ وہ آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور فرج کو (زنا وغیرہ سے ) بچا دیتا ہے اور جو (اس کی) طاقت نہ رکھتا ہو تو روزے رکھے کہ یہ اس کے لئے گویا خصی کرنا ہے۔

795: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے چند صحابہؓ نے نبیﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ سے آپﷺ کی خفیہ عبادت کا حال پوچھا (یعنی جو عبادت آپﷺ گھر میں کرتے تھے )اور پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا کسی نے کہا کہ میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔کسی نے کہا کہ میں کبھی بچھونے پر نہ سوؤں گا۔ (جب آپﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو) نبیﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف وثناء بیان کی اور فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسا ایسا کہتے ہیں؟ (اور میرا تو یہ حال ہے کہ رات کو) میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سو بھی جاتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔

796: فاتحِ ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ عثمان بن مظعونؓ  نے جب عورتوں سے الگ رہنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہﷺ نے اسے منع فرما دیا۔ اور اگر آپﷺ انہیں اجازت دے دیتے ،تو ہم (سب) خصی ہو جاتے۔

باب : دنیا کی بہترین متاع ،نیک صالحہ عورت (بیوی) ہے۔

797: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: متاع دنیا کام نکالنے کی چیز ہے اور بہتر کام نکالنے کی چیز دنیا میں نیک عورت ہے۔

باب : دیندار عورت سے نکاح کرنے کے بیان میں۔

798: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :عورت سے چار سبب سے نکاح کیا جاتا ہے ، اس کے مال کے لئے ، اس کے حسب و نسب، اس کے جمال و خوبصورتی کے لئے اور دین کیلئے۔ پس تو دیندار (سے نکاح کر کے ) کامیابی حاصل کر، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔

باب : کنواری عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے بیان میں۔

799: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ (جابرؓ  کے والد) وفات پا گئے اور نو یا سات بیٹیاں (راوی کو شک ہے ) چھوڑ گئے۔ تومیں نے ثیب عورت (جو مطلقہ ہو یا جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو) سے شادی کر لی۔ نبیﷺ نے مجھے فرمایا کہ اے جابرؓ تو نے شادی کر لی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کنواری سے یا ثیبہ عورت سے ؟ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ثیبہ سے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کنواری سے کیوں نہ کی کہ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے یا آپﷺ نے کہا کہ وہ تجھ سے ہنسی مذاق کرتی اور تم اس سے کیا کرتے ؟ سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میرے والد عبد اللہؓ  وفات پا گئے اور نو یا سات بیٹیاں چھوڑ گئے ، اور میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ ان لڑکیوں جیسی ہی لڑکی لے آؤں۔ میں نے یہ اچھا سمجھا کہ (اپنے نکاح میں اور ان کی تربیت کے لئے ) ایسی بیوی لاؤں جو ان کی نگرانی کرے۔ اور ان کی اصلاح کرے۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لئے برکت کرے یا پھر کوئی اور بھلائی کی بات فرمائی۔

باب : اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے۔

800: عبدالرحمن بن شماسہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے سنا اور وہ اس وقت منبر پر کہہ رہے تھے کہ بیشک رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن مومن کا بھائی ہے۔ پس کسی مومن کو جائز نہیں کہ کسی مومن کی بیع پر بیع کرے ، اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے کسی بھائی کے پیغام (نکاح) پر پیغام دے ، جب تک وہ چھوڑ نہ دے۔

باب : جو شادی کا ارادہ کرے تو عورت کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیئے۔

801: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کیا ہے ،تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کو دیکھ بھی لیا تھا؟ اس لئے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب بھی ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کتنے مہر پر؟ اس نے عرض کیا کہ چار اوقیہ چاندی پر۔ آپﷺ نے فرمایا کہ چار اوقیہ پر؟ گویا تم لوگ اس پہاڑ کے پہلو سے چاندی کھود لاتے ہو (یعنی جب تو اتنا زیادہ مہر باندھتے ہو) اور ہمارے پاس تمہیں دینے کو کچھ نہیں ہے ، مگر اب ہم تمہیں ایک لشکر کے ساتھ بھیج دیتے ہیں کہ اس میں تمہیں (غنیمت کا) حصہ ملے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر قبیلہ بنی عبس کی طرف آپﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا تو اس کے ساتھ اسے بھی بھیج دیا۔

باب : بیوہ اور باکرہ سے نکاح میں اجازت لینی چاہیئے۔

802: سیدنا ابوہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیوہ کا نکاح نہ ہو جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور باکرہ کا بھی نکاح نہ ہو جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ (باکرہ سے )اجازت کیسے لی جائے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا اذن یہ ہے کہ چپ رہے۔

803: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : بیوہ عورت اپنے نکاح میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور کنواری سے اسکے نکاح میں اجازت لی جائے۔اور اس کی اجازت چپ رہنا ہے۔

باب : نکاح کی شرائط کے بارے میں۔

804: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : سب شرطوں سے زیادہ پوری کرنے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن سے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے یعنی نکاح کی شرطیں۔

باب : چھوٹی (بچی) کا نکاح۔

805: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے نکاح کیا اور میں چھ برس کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو میں نو برس کی تھی۔ اور کہتی ہیں کہ پھر ہم مدینہ میں آئے تو وہاں مجھے ایک ماہ تک بخار رہا اور میرے بال کانوں تک ہو گئے (یعنی اس مرض میں جھڑ گئے تھے ) تب ام رومان (یہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں) میرے پاس آئیں اور میں جھولے پر تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں اور انہوں نے مجھے پکارا تو میں ان کے پاس آئی اور میں نہ جانتی تھی کہ انہوں نے مجھے کیوں بلایا ہے۔پس انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے دروازہ پر کھڑا کر دیا اور میں ہاہ ہاہ کر رہی تھی (جیسے کسی کی سانس پھول جاتی ہے ) یہاں تک کہ میری سانس پھولنا بند ہو گئی اور مجھے وہ ایک گھر میں لے گئیں اور وہاں انصار کی چند عورتیں تھیں اور وہ کہنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ خیر و برکت دے اور تمہیں خیر میں سے حصہ ملے۔ (غرض )میری ماں نے مجھے ان کے سپر د کر دیا۔اور انہوں نے میرا سر دھویا اور سنگار کیا اور مجھے کچھ خوف نہیں پہنچا کہ رسول اللہﷺ چاشت کے وقت آئے اور مجھے ان کے سپرد کر دیا۔

باب : لونڈی کو آزاد کرنے اور اس سے شادی کرنے کا بیان۔

806: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ غزوہ خیبر میں آئے تو ہم نے خیبر کے پاس صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی۔ پھر آپﷺ سوار ہوئے اور سیدنا ابو طلحہؓ  بھی سوار ہو گئے اور میں ابو طلحہؓ  کے پیچھے سوار تھا۔ نبیﷺ نے (اپنی سواری کو) خیبر میں داخل کر دیا اور میرا گھٹنا نبیﷺ کی ران کو لگ رہا تھا (کیونکہ) نبیﷺ کی ران سے چادر ہٹ گئی تھی، اور میں آپﷺ کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا۔ جب آپﷺ بستی (خیبر) میں داخل ہو گئے تو آپﷺ نے ”الله اکبر خربت خیبر“ کا نعرہ لگایا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور خیبر برباد ہو گیا۔ اور فرمایا جب ہم کسی قوم کے صحن (میدان) میں اترے (تو جس قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اس کی صبح بری ہوئی) آپﷺ نے یہ (نعرے ) تین مرتبہ لگائے۔ سیدنا انس نے کہا کہ قوم (یہود) اپنے کام کاج کے لئے جا رہی تھی۔ (وہ لشکر کو دیکھ کر اور نبیﷺ کی آواز سن کر) کہنے لگے کہ اللہ کی قسم محمدﷺ اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے ہیں۔ سیدنا انسؓ  فرماتے ہیں کہ ہم نے خیبر کو طاقت کے ساتھ فتح کیا اور قیدی ایک جگہ اکٹھے کئے گئے۔ پھر سیدنا دحیہ کلبیؓ  آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ قیدیوں میں سے مجھے کوئی لونڈی دے دیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور کوئی سی بھی لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا (جو کہ قیدیوں میں تھیں) کو پسند کیا اور لے گئے ، تو ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے دحیہؓ کو صفیہ بنت حیی دے دی جو کہ بنو قریظہ اور بنو نظیر کے سردار کی بیٹی ہے ، وہ صرف آپ کو ہی لائق ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ دحیہؓ  اور اس باندی کو بلاؤ۔ وہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو لائے۔ جب نبیﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو آپﷺ نے (دحیہؓ  سے ) فرمایا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور لونڈی لے لو۔ پھر آپﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان سے شادی کر لی۔ ثابت نے سیدنا انسؓ  سے پوچھا کہ اے ابو حمزہ آپﷺ نے اس کو (یعنی اُمّ المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو)حق مہر کتنا دیا تھا؟ تو انسؓ  نے جواب دیا کہ ان کا مہر ان کی اپنی ذات تھی کہ آپﷺ نے اس کو آزاد کیا اور نکاح کر لیا (یہی آزادی ان کا حق مہر تھا)۔ آپﷺ ابھی سفر میں ہی تھے کہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو بنایا سنوارا اور تیار کر کے نبیﷺ کے پاس پہنچا دیا۔ صبح آپﷺ نے عروس کی حالت میں کی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہو تو وہ لے آئے۔ اور آپﷺ نے دستر خوان بچھا دیا تو کوئی شخص پنیر لایا تو کوئی کھجور لایا اور کوئی گھی لے آیا۔ صحابہ کرامؓ نے ان تمام چیزوں کو ملا کر حسیس بنائی (اور کھائی) یہ نبیﷺ کا ولیمہ تھا۔

807: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔

باب : نکاح شغار کے متعلق۔

808: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیٹی دوسرے کو اس اقرار کے ساتھ بیاہ دیتا تھا کہ وہ بھی اپنی بیٹی اسے بیاہ دے اور دونوں کے درمیان مہر مقرر نہ ہو۔

باب : نکاح متعہ کے متعلق۔

809: قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے سنا وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور  ہمارے پاس عورتیں نہ تھیں تو ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ تو آپﷺ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا پھر ہمیں اجازت دی کہ ایک کپڑے کے بدلے معین مدت تک عورت سے نکاح (یعنی متعہ) کر لیں پھر سیدنا عبد اللہؓ  نے یہ آیت پڑھی کہ ”اے ایمان والو! مت حرام کرو پاک چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“۔ (المائدہ : 87)

810: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم (عورتوں سے کئی دن کے لئے ) ایک مٹھی کھجور اور آٹا دے کر رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ  کے دَور میں متعہ کر لیتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ  نے عمرو بن حریث کے قصہ میں اس سے منع کر دیا۔

باب : نکاح متعہ کے منسوخ ہونے اور اس کے حرام ہونے کے متعلق۔

811: سیدنا علی بن ابی طالبؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عورتوں کے متعہ سے گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔ (یعنی جنگلی گدھا حرام نہیں ہے )۔

812: ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے والدؓ  غزوہ فتح مکہ میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے اور کہا کہ ہم مکہ میں پندرہ یعنی رات اور دن ملا کر تیس دن ٹھہرے تو ہمیں رسول اللہﷺ نے عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی پس میں اور میری قوم کا ایک شخص دونوں نکلے اور میں اس سے خوبصورتی میں زیادہ تھا اور وہ بدصورتی کے قریب تھا اور ہم میں سے ہر ایک کے پاس چادر تھی اور میری چادر پرانی تھی اور میرے ابن عم کی چادر نئی اور تازہ تھی۔یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے نیچے یا اوپر کی جانب میں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی جیسے جوان اونٹنی ہوتی ہے ،صراحی دار گردن والی (یعنی جوان خوبصورت عورت)پس ہم نے اس سے کہا کہ کیا تجھے رغبت ہے کہ ہم میں سے کوئی تجھ سے متعہ کرے ؟ اس نے کہا کہ تم لوگ کیا دو گے ؟ تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنی چادر پھیلائی تو وہ دونوں کی طرف دیکھنے لگی۔ اور میرا رفیق اس کو گھورتا تھا (اور اس کے سر سے سُرین تک گھورتا تھا )اور اس نے کہا کہ ان کی چادر پرانی ہے اور میری چادر نئی اور تازہ ہے۔ تو اس(عورت) نے دو یا تین بار یہ کہا کہ اس کی چادر میں کوئی مضائقہ نہیں۔ غرض میں نے اس سے متعہ کیا۔ پھر میں اس عورت کے پاس سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک رسول اللہﷺ نے متعہ کو حرام نہیں کر دیا۔

813: سیدنا سبرہ جہنیؓ  سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ،پس آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ،اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لئے حرام کر دیا ہے ،پس جس کے پاس ان میں سے کوئی (یعنی متعہ والی عورت ) ہو تو چاہئیے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم انہیں دے چکے ہو واپس نہ لو۔

باب : محرم کا نکاح کرنا اور پیغامِ نکاح دینا منع ہے۔

814: نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ عمر بن عبید اللہ نے اپنے بیٹے طلحہ بن عمر کا نکاح شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے کرنے کا ارادہ کیا۔پس انہوں نے ابان بن عثمان کے پاس جو کہ اس وقت امیر حج تھے ، قاصد بھیجا کہ وہ بھی (نکاح کے موقعہ پر )آئیں۔ پس ابان (آئے ) اورکہا کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفانؓ  سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ محرم (جس نے حج و عمرے کا احرام باندھا ہووہ) نہ تو اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے۔

815: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور آپﷺ محرم تھے (یعنی حرم میں تھے )۔

816: سیدنا یزید بن اصمؓ  کہتے ہیں کہ مجھ سے اُمّ المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے خود بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے ان سے حلال ہونے کی حالت میں نکاح کیا اور میمونہ رضی اللہ عنہا میری اور ابن عباسؓ  دونوں کی خالہ تھیں۔

باب : کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔

817: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے چار عورتوں کو نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے اور وہ (عورتیں) عورت اور اُس کی پھوپھی اور عورت اور اس کی خالہ ہیں۔

باب : نبی کی ازواج مطہرات کے حق مہر کا بیان۔

818: ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی (ازواج مطہرات) کا مہر کتنا رکھا تھا؟ تو اُنھوں نے کہ آپﷺ کی ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔ (انھوں نے ) پوچھا کہ تمہیں نش کی مقدار معلوم ہے ؟ ابو سلمہ کہتے ہیں، میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ نصف اوقیہ ہے۔ یہ کل پانچ صد درھم بنتے ہیں اور یہی رسول اللہﷺ کا اپنی ازواج مطہرات کے لئے مہر تھا۔

باب : کھجور کی گٹھلی برابر سونے پر نکاح۔

819: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  پر زردی کا اثر دیکھا تو فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے ایک عورت سے کھجور کی گٹھلی بھر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے ،تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے ،ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کا ہو۔

باب : تعلیم قرآن پر نکاح دینے کا بیان۔

820: سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ  کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اس لئے حاضر ہوئی ہوں کہ اپنی ذات آپﷺ کو ہبہ کر دوں، (اس میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ”اگر کوئی مومنہ عورت اپنی جان نبیﷺ کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کا ارادہ کریں اور یہ حکم خاص آپﷺ کو ہے نہ کہ اور مومنوں کو“ اور اس سے خاص آپﷺ کے لئے ہی ہبہ کا جواز ثابت ہوا۔ ( احزاب:۵۰ ) پھر رسول اللہﷺ نے اس کی طرف خوب نیچے سے اوپر تک نگاہ کی اور پھر سر مبارک جھکا لیا پس جب اس عورت نے دیکھا کہ آپﷺ نے اس کے بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔اور ایک صحابی اٹھے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو مجھ سے اس کا عقد کر دیجئے۔آپﷺ نے فرمایا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے گھر والوں کے پاس جا کر دیکھو شاید کچھ مل جائے ،پھر وہ گئے اور لوٹ آئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں پایا۔ آپﷺ نے پھر فرمایا کہ جا دیکھ اگرچہ لوہے کا چھلہ ہو، وہ پھر گئے اور لوٹ آئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! ایک لوہے کا چھلہ بھی نہیں ہے ، مگر یہ میری تہبند ہے اس میں سے آدھی اس عورت کو دے دوں گا۔ راوی سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ اس غریب کے پاس اوپر والی چادر بھی نہ تھی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تمہاری تہبند سے تمہارا کیا کام نکلے گا؟ اگر تم نے اس کو پہنا تو اس میں سے اس پر کچھ نہ ہو گا اور اگر اس نے پہنا تو تجھ پر کچھ نہ ہو گا۔ پھر وہ شخص (مایوس ہو کر) بیٹھ گیا ،یہاں تک کہ جب دیر تک بیٹھا رہا تو کھڑا ہوا۔ اور رسول اللہﷺ نے جب اسے پیٹھ موڑ کر جاتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ نے اسے بلانے کا حکم دیا جب وہ آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے کچھ قرآن یاد ہے ؟ اس نے کہا کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں اور اس نے سورتوں کو گن کر بتا۔آپﷺ نے پوچھا کہ تو ان کو (منہ) زبانی پڑھ سکتا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں۔آپﷺ نے فرمایا کہ جا میں نے اسے تیرا مملوک کر دیا (یعنی نکاح کر دیا) اس قرآن کے عوض میں جو تجھے یاد ہے (یعنی یہ سورتیں اسے یاد کرا دینا، یہی تیرا مہر ہے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ترجی من تشاءُ منھن …﴾ کے متعلق۔

821: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں پر بہت غیرت کرتی تھی جو رسول اللہﷺ کو اپنی جان ہبہ کر دیتی تھیں۔اور میں کہتی تھی کہ عورت اپنی جان کو کیسے ہبہ کرتی ہو گی ؟پھر جب یہ آیت اتری کہ ”اے نبیﷺ! جس کو آپ چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو آپ چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جس کو علیحدہ کیا ہے اس کو بلا لیں“ تو میں نے نبیﷺ سے کہا کہ اللہ کی قسم میں دیکھتی ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کی آرزو کے موافق جلد حکم فرما دیتا ہے۔

باب : ماہِ شوال میں شادی و نکاح کا بیان۔

822: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا اور ماہ شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی اور کونسی عورت رسول اللہ کے پاس مجھ سے بڑھ کر پیاری تھی۔ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دوست رکھتی تھیں کہ ان کے قبیلہ کی عورتوں کی رخصتی ماہ شوال میں ہو۔

باب : نکاح میں ولیمہ کا بیان۔

823: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا سے (نکاح کے موقع پر) جیسا بہتر اور فراخی سے ولیمہ کیا، کسی اور زوجہ سے (نکاح) پر نہیں کیا۔ پس ثابت بنانی نے پوچھا کہ آپﷺ نے کس چیز کا ولیمہ کیا تھا ؟تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے گوشت روٹی کھلائی تھی ،حتی کہ لوگ سیر ہو کر چلے گئے اور کھانا بچ گیا۔

824: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نکاح کیا اور اپنی زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس داخل ہوئے اور میری ماں اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کچھ حیس بنایا اور اس کو ایک طباق میں رکھ کر کہا کہ اے انس! اس کو رسول اللہﷺ کے پاس لے جا (اس سے ثابت ہوا کہ نئے دولہا کے پاس کھانا بھیجنا جس سے ولیمہ میں مدد ہو مستحب ہے ) اور عرض کرنا کہ یہ میری ماں نے آپ خاص آپﷺ کے لئے ہی کی خدمت میں بھیجا ہے اور سلام عرض کیا ہے اور عرض کرتی ہے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کی خدمت میں ہماری طرف سے یہ بہت چھوٹا سا ہدیہ ہے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ پھر میں وہ رسول اللہﷺ کے پاس لے گیا اور میں نے عرض کیا کہ میری ماں نے آپﷺ کی خدمت میں مجھے بھیجا ہے اور سلام کہا ہے اور عرض کرتی ہیں کہ یہ ہماری طرف سے آپﷺ کی خدمت میں بہت تھوڑا ہدیہ ہے ،تو آپﷺ نے فرمایا کہ رکھ دو اور جاؤ فلاں فلاں شخص کو ہمارے پاس بلاؤ اور جو تمہیں مل جائے اور کئی شخصوں کے نام لئے۔ پس میں ان کو بھی لایا جن کا نام لیا اور ان کو بھی جو مجھے مل گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انسؓ  سے کہا کہ پھر وہ سب لوگ گنتی میں کتنے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے اور مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے انس! وہ طباق لاؤ پھر وہ لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ چبوترہ اور حجرہ بھر گیا (صفہ وہ جگہ جو باہر بیٹھنے کی بنائی جائے جسے دیوان خانہ کہتے ہیں) پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دس دس آدمی حلقہ باندھتے جائیں (یعنی جب وہ کھا لیں پھر دوسرے دس بیٹھیں) اور چاہئیے کہ ہر شخص اپنے نزدیک سے کھائے (یعنی کھانے کی چوٹی نہ توڑے کہ برکت وہیں سے نازل ہوتی ہے ) پھر ان لوگوں نے یہاں تک کھایا کہ سب سیر ہو گئے اور ایک گروہ کھا کر جاتا تھا تو دوسرا آتا تھا یہاں تک کہ سب لوگ کھا چکے ،تو نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ انس اس (برتن) کو اٹھا لے اور میں نے اس برتن کو اٹھایا تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ جب میں نے رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا تب اس میں کھانا زیادہ تھا۔اور بعض لوگ رسول اللہﷺ کے گھر میں بیٹھے باتیں کرنا شروع ہو گئے اور رسول اللہﷺ بیٹھے تھے اور آپﷺ کی زوجہ مطہرہ (یعنی اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا) دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں۔ان لوگوں کا بیٹھنا رسول اللہﷺ کو ناگوار گزر رہا تھا تو آپﷺ باہر نکلے اور اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے ہوئے لوٹ کر آئے۔ پھر جب ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ ہم نبیﷺ پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ،تو جلد ی سے دروازے پر گئے اور سب کے سب باہر نکل گئے اور رسول اللہﷺ آئے یہاں تک کہ آپﷺ نے پردہ ڈال دیا اور اندر داخل ہوئے اور میں حجرے میں بیٹھا ہوا تھا پھر تھوڑی دیر ہوئی ہو گی کہ آپﷺ میری طرف نکلے اور یہ آیتیں آپﷺ پر نازل ہوئی تھیں اور رسول اللہﷺ نے باہر نکل کر لوگوں پر پڑھیں کہ ”اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبیﷺ کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے (تو) جاؤ اور جب (کھانا) کھا چکو تو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو۔ نبیﷺ کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ وہ تو لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا …“ آخر آیت تک۔ (الاحزاب : 53)۔ (راوی حدیث) جعد نے کہا کہ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ سب سے پہلے یہ آیتیں میں نے سنی ہیں اور مجھے پہنچی ہیں اور رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات پردہ میں رہنے لگیں۔

باب : نکاح کی دعوتِ ولیمہ کو قبول کرنے کے بیان میں۔

825: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے تھے کہ جب کوئی اپنے بھائی کو بلائے تو چاہئیے کہ اس کی دعوت کو قبول کرے (دعوت ) شادی کی ہو یا اسی کی طرح کی کوئی اور دعوت ہو۔

826: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب کسی کو دعوت دی جائے تو چاہئیے کہ قبول کر لے اگر روزے سے ہو تو دعا کرے اور اگر روزے سے نہ ہو تو کھائے۔

827: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : بدترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے کہ جس میں جو آنا چاہتا ہے ، اس کو روکا جاتا ہے اور جو نہیں آتا اس کو بلاتے پھرتے ہیں۔ اور جو دعوت میں نہ آیا تو اس نے اللہ عزوجل اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی۔

باب : ہمبستری کے وقت کیا کہا جائے ؟

828: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اگر کوئی تم میں سے ارادۂ جماع کے وقت ”بسم الله … مَا رزقتنا“ کہہ لے تو اگر اللہ نے ان کی تقدیر میں لڑکا رکھا ہے تو اس کو شیطان ضر ر نہ پہنچائے گا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ میں شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے یا اللہ! بچا ہم کو شیطان سے اور دُور رکھ شیطان کو اس اولاد سے جو تو ہمیں عنایت فرمائے گا۔

باب : اللہ تعالیٰ کے قول ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں“ کے متعلق۔

829: ابن المنکدر سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جابرؓ  سے سنا وہ کہتے تھے کہ یہودی لوگوں کا قول تھا کہ جو مرد جماع کرے اپنی عورت سے قبل میں پیچھے ہو کر تو لڑکا بھینگا پیدا ہوتا ہے ، (کہ ایک چیز کو دو دیکھتا ہے ) اس پر یہ آیت اتری کہ ”عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ،پس اپنی کھیتی میں جس طرف سے چاہو آؤ (البقرہ:۲۲۳) (یعنی آؤ کھیتی میں اور کنوئیں میں نہ جاؤ اور کھیتی وہی ہے جہاں بیج ڈالے تو اُگے نہ وہ جگہ جہاں بیج ضائع ہو)۔

باب : اس عورت کے بارے میں جو اپنے خاوند کے بستر پر آنے سے رکتی ہے۔

830: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب مرد اپنی عورت کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ نہ آئے ،تو مرد اس پر رات بھر غصے رہے ،تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔

باب : عورت کے ہمبستری والے راز اور بھید کو ظاہر کرنے کے متعلق۔

831: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ بُرا لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہے جو اپنی عورت کے پاس جائے اور عورت اس کے پاس آئے (یعنی صحبت کریں) اور پھر اس کا بھید ظاہر کر دے۔

باب : اللہ تعالی انسان کے عمل پر پردہ ڈال دے تو انسان کے لئے اپنی طرف سے پردہ کھول دینے کی ممانعت۔

832: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ میری تمام امت معاف کی ہوئی ہے مگر ظاہر کرنے والے اور ظاہر کرنا یہ ہے کہ کوئی شخص رات کوئی (برا) عمل کرتا ہے ، جب صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس (اس برے کام) پر پردہ ڈال دیا ہوتا ہے لیکن وہ خود کہتا ہے کہ اے فلاں! آج رات میں نے فلاں (برا )عمل کیا ہے ،حالانکہ اس نے رات کو برا عمل کیا تھا (اور) اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تھا۔ رات کو رب پردہ ڈالتا ہے اور صبح کو یہ (شخص) اللہ تعالیٰ کے پردے کو ہٹا دیتا ہے۔

باب : عورت اور لونڈی سے عزل (یعنی صحبت کے وقت انزال باہر کرنے ) کے متعلق۔

833: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس عزل کا ذکر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کسی وقت آدمی کے پاس ایک عورت ہوتی ہے جو کہ بچے کو دودھ پلاتی ہے ، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور اُس کے حاملہ ہونے کو ناپسند کرتا ہے اور کسی کے پاس ایک لونڈی ہوتی ہے ، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اسے حمل ہو۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کرو؟ اس لئے کہ حمل ہونا نہ ہونا تقدیر سے ہے۔ابن عون نے کہا کہ میں نے یہ روایت حسن سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس میں جھڑکنا (ڈانٹ پلانا) ہے عزل کرنے سے۔

834: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے مروی ہے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے استفسار کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے پاس ایک لونڈی ہے جس سے میں عزل کرتا ہوں ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کو پیدا کرنے کا ارادہ کرے تو یہ (عزل) اسے روک نہیں سکتا۔ (کچھ ہی د ن بعد) وہ آدمی آپﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میں نے جس لونڈی کا آپﷺ سے ذکر کیا تھا وہ حاملہ ہو گئی ،تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔

باب : غیلہ (دودھ پلاتے وقت عورت سے صحبت کرنے ) کے متعلق۔

835: سیدنا عکاشہ کی بہن سیدہ جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں گئی ، تو آپﷺ فرما رہے تھے کہ میں نے چاہا کہ غیلہ سے منع کر دوں ،پھر میں نے دیکھا کہ روم اور فارس کے لوگ غیلہ کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو ضر ر نہیں ہوتا۔پھر صحابہ نے آپﷺ سے عزل کے متعلق پوچھا ،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ”وَأدْ“ خفی ہے۔ (یعنی بچے کو مخفی طور پر زندہ درگور کر دینا ہے )۔

باب : حاملہ لونڈیوں سے ہمبستری کے متعلق۔

836: سیدنا ابو درداءؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ ایک خیمہ کے دروازے پر سے گزرے اور وہاں ایک عورت کو دیکھا جس کا زمانہ ولادت قریب تھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شاید وہ شخص (جس کے پاس یہ ہے ) اس سے جماع کا ارادہ رکھتا ہے ؟لوگوں نے عرض کیا ”جی ہاں“۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے چاہا کہ اس کو ایسی لعنت کروں جو قبر تک اس کے ساتھ رہے ، وہ کیونکر اس لڑکے کا وارث ہو سکتا ہے ،حالانکہ وہ اس کے لئے حلال نہیں۔اور اس لڑکے کو غلام کیسے بنائے گا حالانکہ وہ اس کے لئے حلال نہیں۔

837: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو وہ ان سے لڑے اور ان پر غالب آ گئے اور ان کی عورتیں قید کر لائے۔ رسول اللہﷺ کے بعض صحابہؓ نے ان سے صحبت کرنے کو اس وجہ سے برا جانا کہ ان کے شوہر مشرکین موجود تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”حرام ہیں شوہروں والیاں مگر جو تمہاری ملک میں آ گئیں“ (النساء : 24) یعنی جب ان کی عدت گزر جائے تو وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔

باب : عورتوں کے درمیان (رات گزارنے میں) باری مقرر کرنا۔

838: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی نو بیویاں تھیں اور آپﷺ جب ان میں باری کرتے تھے تو پہلی بیوی کے پاس نویں دن تشریف لاتے تھے (اس لئے ) بیویوں کا قاعدہ تھا کہ جس گھر میں آپﷺ ہوتے تھے اس گھر میں جمع ہو جاتی تھیں۔ایک دن آپﷺ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے اور اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور آپﷺ نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں (عائشہ)نے عرض کی کہ یہ زینب ہیں پس تو آپﷺ نے ہاتھ کھینچ لیا اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ اور زینب رضی اللہ عنہما کے بیچ میں تکرار ہونے لگی، یہاں تک کہ دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں اور نماز کی تکبیر ہو گئی۔ سیدنا ابو بکرؓ  ان کے قریب سے گزرے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ نماز کو نکلئے اور ان کے منہ میں خاک ڈالئے۔نبیﷺ نکلے اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب نبیﷺ نماز پڑھ چکیں گے تو سیدنا ابو بکرؓ  آن کر مجھ پر ایسا ویسا خفا ہوں گے۔پھر جب آپﷺ نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابو بکرؓ  ان کے پاس آئے اور ان کو بہت سخت سست کہا اور کہا کہ تو ایسا کرتی ہے (یعنی نبیﷺ کے آگے چیختی اور آواز بلند کرتی ہے )؟

باب : باکرہ اور ثیبہ عورت کے پاس رات گزارنے کے متعلق فرق کا بیان۔

839: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب ان سے نکاح کیا تو آپﷺ تین روز ان کے پاس رہے اور پھر فرمایا کہ تم اپنے شوہر کے پاس کچھ حقیر نہیں ہو اگر تم چاہو تو میں ایک ہفتہ تمہارے پاس رہوں اور اگر ایک ہفتہ تمہارے پاس رہا تو اپنی سب عورتوں کے پاس ایک ایک ہفتہ رہوں گا(اور پھر ان سب کے بعد تمہاری باری آئے گی)۔

840: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ جب باکرہ سے نکاح کرے اور پہلے اس سے اس کے نکاح میں ثیبہ ہو، تو اس باکرہ کے پاس سات روز تک رہے (اور بعد اس کے پھر باری مقرر کرے ) اور جب ثیبہ سے نکاح کرے جبکہ اس پہلے سے اس کے پاس باکرہ ہو تو اس کے پاس تین دن رہے۔ خالد (راوئ حدیث) نے کہا کہا کہ اگر میں اس روایت کو مرفوع کہوں تو بھی سچ ہو گا مگر انسؓ  نے یہ الفاظ کہے تھے کہا کہ سنت اسی طرح ہے۔

باب : ایک عورت کا اپنی باری دوسری عورت کو ہبہ کرنا۔

841: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی عورت کو ایسا نہیں دیکھا کہ میں اس کے جسم میں ہونے کی آرزو کرتی، وہ تیز مزاج کی عورت تھیں۔ پھر جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی۔ پس رسول اللہﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو دن رہتے ، ایک دن ان کی اپنی باری کا اور ایک سودہ رضی اللہ عنہا کی باری کا۔

باب : بعض عورتوں کے درمیان باری مقرر نہ کرنے کے متعلق۔

842: عطاء کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباسؓ  کے ساتھ سرف میں اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ پر حاضر ہوئے تو سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا: خیال رکھو کہ یہ نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ جب تم ان کا جنازہ مبارک اٹھانا تو ہلانا جلانا نہیں اور بہت نرمی سے لے چلنا۔ اور یہ کہ رسول اللہﷺ کے پاس نو ازواج مطہرات تھیں جن میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر تھی اور ایک کے لئے نہیں۔ عطاء نے کہا کہ جن کے لئے باری مقرر نہیں تھی وہ اُمّ المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ (یہ راوی کا وہم ہے ، صحیح یہ ہے کہ اُمّ المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی، جیسے اس سے اوپر والی روایت میں ہے )۔

باب : جو کسی عورت کو دیکھے (اور اس کا نفس اس کی طرف مائل ہو) تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے تو اس کی رغبت ختم ہو جائے گی۔

843: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے کسی اجنبی عورت کو دیکھا۔ آپﷺ اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہ اس وقت چمڑے کو (رنگنے کے لئے ) رگڑ رہی تھیں۔ آپﷺ نے اپنی ضرورت (جماع) پوری کی اور پھر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا: بیشک عورت شیطان کی صورت میں آتی اور شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ (یعنی اسے دیکھ کر شیطانی خیالات بھڑکتے ہیں) پھر جب تم میں سے کوئی کسی (اجنبی) عورت کو دیکھے (اس پر شیطانی خیالات آئیں) تو اس کو اپنی بیوی کے پاس آنا چاہیئے ، اس عمل سے اس کے دل کے خیالاتِ فاسدہ کو ختم ہو جائیں گے۔

باب : عورتوں سے نرمی اور ان سے خیر خواہی کرنے کا بیان۔

844: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو کوئی اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی امر پیش آئے تو اچھی بات کہے یا چپ رہے اور عورتوں سے خیر خواہی کرو، اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں اونچی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے۔ پھر اگر تو اسے سیدھا کرنے لگا تو توڑ دے گا اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، عورتوں کی خیر خواہی کرو۔

باب : کوئی مومن (خاوند) کسی مومن عورت (بیوی) سے دشمنی نہ رکھے۔

845: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا: کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے سخت بغض نہ رکھے ، کہ اگر اس میں ایک عادت ناپسند ہو گی تو دوسری پسند بھی ہو گی یا” غیرہ“ کا لفظ ارشاد کچھ فرمایا۔

باب : اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کی (کبھی) خیانت نہ کرتی۔

846: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر بنو اسرائیل نہ ہوتے تو (کبھی) کوئی کھانا اور گوشت خراب نہ ہوتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر کی کبھی خیانت نہ کرتی۔

باب : جو (لمبے ) سفر سے آئے تو گھر میں جلدی داخل ہونے کی کوشش نہ کرے تاکہ (اس کی) عورت بالوں (وغیرہ) کو سنوار لے۔

847: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ پھر جب لوٹ آ رہے تھے تو میں اپنے اونٹ کو جو کہ بڑا سست تھا، جلدی جلدی چلا رہا تھا کہ ایک سوار میرے پیچھے سے آیا اور میرے اونٹ کو اپنی چھڑی سے ایک کونچا دیا، جو ان کے پاس تھی اور میرا اونٹ ایسے چلنے لگا کہ کہ جیسے تم کوئی بہت اچھا اونٹ دیکھتے ہو۔ میں نے پھر کر دیکھا تو وہ رسول اللہﷺ تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے جابر! تمہیں کیا جلدی ہے ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ باکرہ سے یا ثیبہ سے ؟ میں نے کہا ثیبہ سے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔ پھر جب ہم مدینہ آئے اور گھر داخل ہونے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ رات آ جائے یعنی عشاء کا وقت، تاکہ پریشان بالوں والی سر میں کنگھی (وغیرہ) کر لے اور جس کا شوہر باہر گیا ہوا ہو وہ زیر ناف بال صاف کر لے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جب گھر جاؤ تو سمجھ داری سے کام لینا۔ (یہ نہ ہو کہ عورت ایام حیض میں ہو اور تم اتنے دنوں بعد آئے ہو اور صبر نہ کر سکو)۔

 

 

 

کتاب: طلاق کے مسائل

 

باب : مرد حیض کی حالت میں اپنی عورت کو طلاق نہ دے۔

848: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ  نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر فاروقؓ  نے نبیﷺ سے استفسار کیا۔ آپﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اسے ایک حیض تک مہلت دو۔ پھر مہلت دو کہ (وہ اس حیض سے ) پاک ہو جائے ، پھر (اگر طلاق دینا چاہے تو) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے۔ اور یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ راوی (نافع) نے کہا کہ پھر جب سیدنا ابن عمر سے ایسے آدمی کے بارہ میں پوچھا جاتا کہ جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو، تو وہ یہی کہتے کہ اگر تو نے ایک یا دو طلاقیں (یعنی رجعی ہے ) دی ہیں تو اس بارہ میں رسول اللہﷺ نے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ پھر اسے ایک حیض اور حیض سے پاکیزگی حاصل کرنے کی مہلت دے ، اور پھر اسے (پاکیزگی کی حالت میں) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے۔ اور اگر تم نے اسے تین طلاق (یعنی طلاق بائنہ جس میں رجوع نہیں) دی ہے تو تم نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے معاملہ میں اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور تمہاری بیوی تم سے (مطلقہ) بائنہ ہو گئی۔

849: ابن سیرین کہتے ہیں کہ بیس برس تک مجھ سے ایک شخص جس کو میں متہم نہیں جانتا تھا روایت کرتا تھا کہ سیدنا ابن عمرؓ  نے اپنی عورت کو تین طلاق حالتِ حیض میں دیں تھیں اور ان کو رجوع کرنے کا حکم ہوا تھا۔ میں اس کی اُس روایت کو مہتم نہ کرتا تھا اور نہ حدیث کو بخوبی جانتا تھا (کہ صحیح کیا ہے ) یہاں تک کہ میں ابو غلاب یونس بن جبیر باہلی سے ملا اور وہ پکے آدمی تھے۔ پس انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سیدنا ابن عمرؓ  سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی تھی تو مجھے رجعت کا حکم دیا گیا۔ راوی نے کہا پھر میں نے پوچھا کہ وہ طلاق بھی ان پر شمار کی گئی تھی؟ (یعنی اگر دو طلاق دو تو وہ ملا کر تین پوری ہو جائیں) انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں کیا اگر وہ عاجز ہو گیا یا احمق ہو گیا (یہ سیدنا عبد اللہؓ  نے اپنے آپ کو خود کہا) یعنی اگر اس طلاق کو نہ گنوں تو حماقت ہے۔

باب : نبیﷺ کے دورِ اقدس میں تین طلاق کا بیان۔

850: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دَور میں اور سیدنا ابو بکر کے دَور خلافت اور سیدنا عمرؓ  کے دَور خلافت میں بھی (پہلے ) دو برس تک ایسے تھا کہ جب کوئی یکبارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس بات میں جس میں انہیں مہلت ملی ہے ، پس اگر ہم اس کو جاری کر دیں تو مناسب ہے۔ پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی یہ حکم دے دیا کہ جو کوئی یکبارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو جائیں گی)۔

باب : کسی آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی، وہ عورت دوسرے سے شادی کر لیتی ہے اور اس دوسرے نے دخول نہیں کیا، تو ایسی حالت میں یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہے۔

851: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ القرضی نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (یعنی بائنہ غیر رجعی طلاق) دے دی، تو اس نے (یعنی ان کی بیوی نے ) عبد الرحمن بن زبیرؓ  سے نکاح کر لیا۔ پھر نبیﷺ کے پاس آ کر استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں رفاعہؓ کے عقد میں تھی کہ اس نے مجھے تین میں سے آخری طلاق دے دی تو میں نے عبدالرحمن بن زبیرؓ  سے نکاح کر لیا۔ اور اپنی چادر کا ایک پلو پکڑ کر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم ان کے پاس تو کپڑے اس پلو کی طرح ہی ہے۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہﷺ (اس کی بات سن کر) مسکرا دیئے اور فرمایا کہ شاید تم پھر رفاعہؓ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو، نہیں ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمہاری لذت نہ چکھ لے اور تم اس کی لذت نہ چکھ لو (یعنی جماع نہ کر لو)۔ (اس وقت) سیدنا ابو بکر صدیقؓ  رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خالد بن سعید بن عامیؓ  حجرے کے دروازے پر اجازت کے منتظر تھے۔ راوی کہتا ہے کہ خالدؓ  نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کو آواز دی کہ آپ اس عورت کو ڈانٹتے کیوں نہیں ہو کہ یہ رسول اللہﷺ کے سامنے کیا کہہ رہی ہے ؟۔

باب : (کسی چیز کو ) حرام کہنے اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿یا ایھا النبی لم تحرم ما احل الله لک﴾ (التحریم:1) کے متعلق، اور اس میں اختلاف کا بیان۔

852: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو کہے تو مجھ پر حرام ہے ، تو یہ قسم ہے اس میں کفارہ دینا ضروری ہے اور سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ بیشک تمہارے لئے رسول اللہﷺ کے طریقہ میں بہتر نمونہ ہے۔

853: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرا کرتے اور ان کے پاس شہد پیا کرتے تھے۔ پس اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اور اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایکا کیا کہ جس کے پاس بھی آپﷺ تشریف لائیں، وہ آپﷺ سے عرض کرے کہ میں آپ کے پاس سے مغافیر کی بدبو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ (یہ ایک قسم کا گوند ہے جس کی بو ناپسندیدہ تھی)۔ نبیﷺ جب ایک کے پاس آئے تو اس نے آپﷺ سے یہی کہا، تو آپﷺ نے فرمایا بلکہ میں نے تو زینب کے پاس شہد پیا ہے اور اب کبھی نہ پیوں گا۔ پھر یہ آیت اتری کہ ”اے نبیﷺ! آپﷺ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے … اگر وہ دونوں توبہ کریں“ یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ ”نبی نے ایک بات چپکے سے اپنی ایک بیوی سے کہی“ (التحریم: 3-1) تو اس بات سے وہی بات مراد ہے جو نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں نے شہد پیا ہے۔

854: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو شیرینی اور شہد بہت پسند تھا اور (آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ) جب آپﷺ نمازِ عصر پڑھ چکتے تو اپنی ازواج مطہرات کے پاس آتے اور ہر ایک سے قریب ہوتے۔ پس ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں اور دنوں سے زیادہ ٹھہرے تو میرے اس کا سبب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت کے پاس سے ان کے پاس شہد کی ایک کپی ہدیہ میں آئی تھی، اور انہوں نے رسول اللہﷺ کو شہد کا شربت پلایا ہے۔ پس میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان سے ایک تدبیر کریں گی۔ میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا اور ان سے کہا کہ جب نبیﷺ تمہارے پاس آئیں اور تم سے قریب ہوں تو تم کہنا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آپﷺ کہیں گے نہیں، تو تم آپﷺ سے کہنا کہ پھر یہ بدبو کیسی ہے ؟ اور رسول اللہﷺ کی عادت تھی کہ آپﷺ کو اس بات سے بہت نفرت تھی کہ آپ سے بدبو آئے پھر نبیﷺ تم سے کہیں گے کہ مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے ، تب تم آپﷺ سے کہنا کہ شاید اس کی مکھی نے عرفط کے درخت سے رس چوس لیا ہے (عرفط اسی درخت کا نام ہے جس کی گوند مغافیر ہے )۔ اور میں بھی ان سے ایسا ہی کہوں گی اور  اے صفیہ (رضی اللہ عنہا) تم بھی آپﷺ سے ایسا ہی کہنا۔ پھر جب آپﷺ سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے جس اللہ کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں قریب تھی کہ نبیﷺ سے باہر نکل کر وہی بات کہوں جو تم نے (اے عائشہ) مجھ سے کہی تھی اور نبیﷺ دروازے پر تھے اور میرا کہنے میں اس طرح جلدی کرنا تمہارے ڈر سے تھا، پھر جب رسول اللہﷺ نزدیک ہوئے تو انہوں نے کہا کہ کیا آپﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے کہا کہ یہ بدبو کس کی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے حفصہ نے شہد کا شربت پلایا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ مکھی نے عرفط کا رس چوس لیا ہے (اس لئے اس کی بو شہد میں آ گئی ہے ) پھر جب میرے پاس آئے تو میں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے بھی آپﷺ سے یہی کہا پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، تو جب دوبارہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اس میں سے آپ کے لئے شہد لاؤں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سبحان اللہ! ہم نے رسول اللہﷺ کو شہد پینے سے روک دیا، تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ چپ رہو۔

باب : مرد کا اپنی بیوی کو اختیار دینا۔

855: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکرؓ  آئے اور رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور لوگوں کو دیکھا کہ آپﷺ کے دروازے پر جمع ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوئی۔ راوی نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ  کو اجازت مل گئی تو اندر چلے گئے۔ پھر سیدنا عمرؓ  آئے اور اجازت چاہی تو انہیں بھی اجازت مل گئی اور نبیﷺ کو پایا کہ آپﷺ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپﷺ کی ازواج مطہرات ہیں کہ غمگین چپکے بیٹھی ہوئی ہیں۔ سیدنا عمرؓ  نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں ضرور کوئی ایسی بات کہوں کہ نبیﷺ کو ہنساؤں۔ پس انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کاش آپ دیکھتے کہ خارجہ کی بیٹی کو (یہ سیدنا عمرؓ  کی زوجہ ہیں) کہ اس نے مجھ سے خرچ مانگا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کا گلا گھونٹنے لگا، تو رسول اللہﷺ ہنس دئیے اور فرمایا کہ یہ سب بھی میرے گرد ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور مجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں۔ پس سیدنا ابو بکرؓ  کھڑے ہو کر عائشہ رضی اللہ عنہا کا گلا گھونٹنے لگے اور سیدنا عمرؓ  حفصہ رضی اللہ عنہا کا اور دونوں (اپنی اپنی بیٹیوں سے ) کہتے تھے کہ تم رسول اللہﷺ سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے ؟ اور وہ کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم ہم کبھی رسول اللہﷺ سے ایسی چیز نہ مانگیں گی جو آپﷺ کے پاس نہیں ہے۔ پھر آپﷺ ان سے ایک ماہ یا انتیس دن جدا رہے پھر آپﷺ پر یہ آیت اتری کہ ”اے نبیﷺ! اپنی بیویوں سے کہہ دو …سے … اجر عظیم ہے “ تک (احزاب: 28,29)۔ پس رسول اللہﷺ پہلے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ اے عائشہ! میں تم پر ایک چیز پیش کر رہا ہوں ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اس میں جلدی نہ کرو جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ کیا بات ہے ؟ پھر آپﷺ نے ان پر یہ آیت پڑھی تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں آپﷺ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اختیار کرتی ہوں۔ اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کو میرے اس جواب کی خبر نہ دیں جو میں نے دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے فوراً خبر کر دوں گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تنگی اور سختی کرنے والا نہیں بلکہ آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

856: مسروق کہتے ہیں کہ مجھے کچھ خوف نہیں اگر میں اختیار دوں اپنی بیوی کو ایک بار یا سو بار یا ہزار بار جب وہ مجھے پسند کر چکی ہے اور میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا یہ طلاق ہو گئی؟ (یعنی نہیں ہوئی)۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وان تظاہرا علیہ﴾ کے متعلق۔

857: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ میں ایک سال تک سیدنا عمرؓ  سے اس آیت کے بارے پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کے رعب کی وجہ سے نہ پوچھ سکا، یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا۔ پھر جب واپسی میں تھے کہ سیدنا عمر ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف کسی حاجت کو جھکے اور میں ان کے لئے ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں ان کے ساتھ چلا۔ اور میں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ پر آپ کی ازواج میں سے زور ڈالا، تو انہوں نے کہا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما ہیں۔کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم میں آپ سے اس بارے میں ایک سال سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن آپ کی ہیبت سے نہ پوچھ سکا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا مت کرو، جو بات تمہیں خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو، اگر میں جانتا ہوں تو تمہیں بتا دوں گا۔کہتے ہیں پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے ، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو کہ اتارا اور ان کے لئے باری مقرر کی جو مقرر کی۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا کہ میری بیوی نے کہا کہ تم اس طرح کرتے تو خوب ہوتا، تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل؟ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تجھے اس سے کیا سروکار؟ تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تعجب ہے تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تمہیں جواب ہی نہ دے حالانکہ تمہاری صاحبزادی رسول اللہﷺ کو جواب دیتی ہے ، یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ رہتے۔ ہیں سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ پھر میں اپنی چادر لے کر گھر سے نکلا اور حفصہ پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! تو رسول اللہﷺ کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں؟ تو حفصہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو ان کو جواب دیتی ہوں پس میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور رسول اللہﷺ کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں اے میری بیٹی! تم اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن، اور رسول اللہﷺ کی محبت پر ناز کرتی ہیں (یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا)۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس قرابت کے سبب جو مجھے ان کے ساتھ تھی داخل ہوا اور میں نے ان سے بات کی۔ اُمّ اسلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تم پر تعجب ہے کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہﷺ اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دو۔ مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا جس نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کرنا چاہتا تھا۔ اور میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ انصار میں سے میرا ایک دوست تھا کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے (رسول اللہﷺ کی مجلس اور احادیث کی) خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اس کو خبر دیتا تھا اور ہم ان دنوں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا خوف رکھتے تھے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران میرے دوست نے آ کر دروازہ بجایا اور کہا کہ کھولو کھولو! میں نے کہا کہ کیا غسانی آ گئے ؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی ایک بات ہے ، کہ رسول اللہﷺ اپنی ازواج مطہرات سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لئے اور نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ ایک بالا خانے میں تھے کہ اس کے اوپر کھجور کی ایک جڑ سے چڑھتے تھے اور رسول اللہﷺ کا ایک سیاہ فام غلام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ پس میں نے کہا کہ یہ عمر ہے میرے لئے اجازت دی گئی۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہﷺ سے بیان کیا اور جب میں اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہﷺ مسکرا دیئے اور آپﷺ ایک چٹائی پر تھے کہ ان کے اور چٹائی کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اور آپﷺ کے سرکے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ اور آپﷺ کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپﷺ کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہﷺ کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عمر! تجھے کس بات نے رلایا؟ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسولﷺ! بیشک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت۔

تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ اور آپﷺ کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپﷺ کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہﷺ کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عمر! تجھے کس بات نے رلایا؟ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسولﷺ! بیشک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت۔

 

 

 

کتاب: عدت کے مسائل

 

باب : حاملہ عورت اپنے خاوند کی وفات کے (تھوڑے عرصے ) کے بعد بچہ جنے (تو اس کی عدت کا بیان)۔

858: عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے عمر بن عبد اللہ بن ارقم الزہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کی حدیث کے بارہ میں پوچھیں کہ ان سے رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا تھا جب انہوں نے آپﷺ سے فتویٰ طلب کیا تھا؟ تو عمر بن عبد اللہ نے ان کو لکھا کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جو قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھے اور غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے۔ ٍحجۃ الوداع میں انہوں نے وفات پائی تو یہ حاملہ تھیں۔ پھر ان کی وفات کے کچھ ہی دیر بعد وضع حمل (یعنی ولادت) ہو گئی۔ اور جب اپنے نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے منگنی کا پیغام دینے والوں کے لئے بناؤ سنگار کیا۔ ابو السنابل جو قبیلہ بنی عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے ، ان کے پاس آئے اور کہا کہ کیا سبب ہے کہ میں تمہیں سنگار کئے ہوئے دیکھتا ہوں؟ شاید تم نکاح کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور اللہ کی قسم تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم پر چار مہینے اور دس دن نہ گزر جائیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب انہوں نے مجھ سے یوں کہا تو میں اپنی چادر اوڑھ کر شام کو نبیﷺ کے پاس آئی اور آپﷺ سے پوچھا، تو آپﷺ نے مجھے فتویٰ دیا کہ میری عدت اسی وقت اپنی پوری ہو چکی تھی جب میں نے وضع حمل کیا اور اگر میں چاہوں تو مجھے نکاح کی اجازت دی۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں جانتا کہ کوئی عورت بعد وضع کے اسی وقت نکاح کرے اگرچہ وہ ابھی خون نفاس میں ہو مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا شوہر اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائے۔

باب : مطلقہ عورت اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کے لئے (باہر) جا سکتی ہے۔

859: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی اور انہوں نے چاہا کہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لیں، تو ایک شخص نے ان کے باہر نکلنے پر انہیں جھڑکا۔ وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں تم جاؤ اور اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لو۔ اس لئے کہ شاید تم اس میں سے صدقہ دو (تو اوروں کا بھلا ہو) یا اور کوئی نیکی کرو (کہ تمہارا بھلا ہو)۔

باب : مطلقہ عورت اپنے اوپر کسی ڈر کی وجہ سے اپنے گھر سے جا سکتی ہے۔

860: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں اور مجھے اپنے ساتھ سختی اور بد مزاجی کا خوف ہے ، تو نبیﷺ نے حکم دیا کہ وہ کسی اور گھر میں چلی جائیں۔ (راوی نے کہا کہ) وہ دوسری جگہ چلی گئیں۔

861: ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس نے اس کو خبر دی کہ وہ ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں اور ابو عمرو نے انہیں تین طلاقوں میں سے تیسری بھی دے دی۔ پھر وہ گمان کرتی تھی کہ وہ نبیﷺ کے پاس آئی تھی اور اس گھر سے نکلنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا تھا، تو آپﷺ نے اس کو عبد اللہ بن ام مکتومؓ  کے پاس منتقل ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس مروان نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ مطلقہ عورت (خاوند کے ) گھر سے نکل سکتی ہے۔ اور عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ کی بات کا انکار کر دیا۔ (مطلقہ عورت اپنے خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے )۔

باب : مطلقہ عورت عدت کے بعد شادی کر سکتی ہے۔

862: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دیں اور رسول اللہﷺ نے نہ اسے گھر دلوایا اور نہ خرچ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے خبر دینا۔ تو میں نے آپﷺ کو خبر دی۔ اور انہیں سیدنا معاویہ، ابو جہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے (شادی کے لئے )پیغام بھیجا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہے کہ اس کے پاس مال نہیں اور ابو جہم عورتوں کو بہت مارنے والا ہے مگر اسامہ۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ اسامہ (یعنی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا) اور رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کی فرمانبرداری تجھے بہتر ہے۔ پھر میں نے ان سے نکاح کر لیا اور عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔ (یعنی ہماری شادی کی کامیابی پر)۔

باب : میت پر عدت کے دوران سوگ اور (آنکھوں میں) سرمہ نہ لگانے کے متعلق۔

863: حمید بن نافع زینب بنت ابی سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں (حمید کو) ان تین احادیث کی خبر دی۔ کہتے ہیں کہ زینب نے کہا کہ اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے باپ ابو سفیانؓ  فوت ہوئے ، تو میں ان کے پاس گئی۔ امّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگوائی جو زرد خلوق تھی (ایک قسم کی مرکب خوشبو ہے ) یا کوئی اور خوشبو تھی اور ایک لڑکی کو (اپنے ہاتھوں سے ) لگائی اور پھر ہاتھ اپنے گالوں پر پھیر لئے اور کہا کہ اللہ کی قسم مجھے خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر (یہ صرف عام عورتوں کی تعلیم کے لئے تھا) میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ منبر پر فرما رہے تھے کہ اس شخص کو حلال نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو کہ وہ کسی مردے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگر یہ کہ عورت اپنے شوہر کے لئے چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔ زینب نے کہا کہ پھر میں زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جب ان کے بھائی فوت ہوئے ، تو انہوں نے بھی خوشبو منگوائی اور لگائی، پھر کہا کہ اللہ کی قسم مجھے خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ منبر پر فرما رہے تھے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو اس کو یہ درست نہیں ہے کہ کسی مردے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوا اس عورت کے جس کا خاوند فوت ہو جائے کہ وہ چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اپنی ماں اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی تھیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہﷺ! میری بیٹی کا خاوند فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں، تو کیا اس کے سرمہ لگاؤں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر اس عورت نے دو یا تین بار پوچھا تو آپﷺ نے ہر بار فرمایا کہ نہیں۔ پھر فرمایا کہ اب تو عدت کے چار مہینے اور دس دن ہی ہیں جاہلیت میں تو عورت پورے ایک برس بعد مینگنی پھینکتی تھی۔ (راوی حدیث) حمید کہتے ہیں کہ میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ سال بھر مینگنی پھنکتی تھی؟ تو زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ (جاہلیت کے زمانے میں) جب عورت کا خاوند فو ہو جاتا تو وہ ایک گھونسلے میں گھس جاتی (یعنی چھوٹے سے اور بدصورت گھر میں)، بُرے سے بُرا کپڑا پہنتی، نہ خوشبو لگاتی نہ کچھ اور، یہاں تک کہ ایک سال گزر جاتا۔ پھر ایک جانور اس کے پاس لاتے گدھا یا بکری یا چڑیا جس سے وہ اپنی عدت توڑتی (اس جانور کو اپنی کھال پر رگڑتی یا اپنا ہاتھ اس پر پھیرتی) ایسا بہت کم ہوتا کہ وہ جانور زندہ رہتا (اکثر مر جاتا کچھ شیطان کا اثر ہو گا یا اس کے بدن پر میلی کچیلی ایک گھونسلے میں رہنے سے زہر دار مادہ چڑھ جاتا ہو گا جو جانور پر اثر کرتا ہو گا) پھر وہ باہر نکلتی اور ایک مینگنی اس کو دیتے ، اس کو پھینک کر پھر جو چاہتی خوشبو وغیرہ لگاتی۔

باب : عدت گزارنے والی عورت کو خوشبو اور رنگین کپڑا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

864: سیدہ اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہیں کر سکتی، البتہ بیوی اپنے خاوند پر چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی۔ اور (اس عدت کی مدت میں) رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے مگر ”عصب“ کا کپڑا اور سرمہ نہ لگائے اور خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگائے مگر جب (حیض سے ) پاک ہو تو ایک پھایا قسط یا اظفار (ایک قسم کی خوشبو) کا استعمال کر سکتی ہے۔

بدن پر میلی کچیلی ایک گھونسلے میں رہنے سے زہر دار مادہ چڑھ جاتا ہو گا جو جانور پر اثر کرتا ہو گا) پھر وہ باہر نکلتی اور ایک مینگنی اس کو دیتے ، اس کو پھینک کر پھر جو چاہتی خوشبو وغیرہ لگاتی۔

 

 

 

کتاب: لعان کے مسائل

 

باب : اس آدمی کے متعلق جو اپنی عورت کے پاس (غیر) مرد کو پائے۔

865: سیدنا سہل بن ساعد یؓ  سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی ، عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! بھلا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے تو کیا اس کو مار ڈالے ؟ (اگر وہ مار ڈالے )تو پھر تم (اس مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالو گے یا وہ کیا کرے ؟ تو یہ مسئلہ میرے لئے رسول اللہﷺ سے پوچھو۔ عاصمؓ  نے رسول اللہﷺ  سے پوچھا تو آپ ﷺ نے اس قسم کے سوالوں کو ناپسند کیا اور ان کی بُرائی بیان کی۔ عاصمؓ  نے جو رسول اللہﷺ سے سنا وہ ان کو شاق گزرا۔ جب وہ اپنے لوگوں میں لوٹ کر آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ اے عاصم! رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا؟ عاصم رضی ا للہ عنہ نے عویمرؓ  سے کہا کہ تو میرے پاس اچھی چیز نہیں لایا کیونکہ رسول اللہﷺ کو تیرا (یہ) مسئلہ پوچھنا ناگوار ہوا۔ عویمرؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو باز نہ آؤں گا جب تک یہ مسئلہ آپﷺ سے نہ پوچھوں گا پھر عویمرؓ  رسول اللہﷺ کے پاس تمام لوگوں (محفل) میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! آپ کیا فرماتے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس غیر مرد کو دیکھے تو (کیا) اس کو مار ڈالے ؟ پھر آپ اس (مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے یا وہ کیا کرے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم اترا تو جا اور اپنی بیوی کو لے کر آ۔ سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس موجود تھا جب وہ فارغ ہوئے تو عویمرنے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر میں اب اس عورت کو رکھوں تو میں جھوٹا ہوں پھر سیدنا عویمرؓ  نے اس کو تین طلاق دے دیں اس سے پہلے کہ رسول اللہﷺ اس کو (اس بات کا) حکم کرتے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ ٹھہر گیا۔

866: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہؓ  نے کہا یا رسول اللہﷺ ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تومیں اس کو ہاتھ نہ لگاؤں جب تک چار گواہ نہ لاؤں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں بیشک۔ سیدنا سعدؓ  نے کہا کہ ہر گز نہیں، قسم اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں تو اس علاج تلوار سے جلد ہی کر دوں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تمہارے سردار کیا کہتے ہیں؟ وہ بڑے غیرت دار ہیں اور میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے زیادہ غیرت رکھتا ہے۔

867: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کی خلافت میں میرے سے لعان کرنے والوں کا مسئلہ پوچھا گیا تو میں حیران ہوا کہ کیا جواب دوں تو میں مکہ میں واقع سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کے مکان کی طرف چلا اور ان کے غلام سے کہا کہ میری عرض کرو۔ اس نے کہا کہ وہ (عبد اللہ بن عمر ص) آرام کرتے ہیں انہوں نے میری آواز سنی تو کہا کہ کیا جبیر کا بیٹا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اندر آ جاؤ، اللہ کی قسم تم کسی کام سے آئے ہو گے۔ میں اندر گیا تو وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھے تھے اور ایک تکئے پر ٹیک لگائے تھے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا میں نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! لعان کرنے والوں میں جدائی کی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ! بیشک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس باب میں فلاں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا جو فلاں کا بیٹا تھا۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ کیا  سمجھتے ہیں اگر ہم میں سے کوئی اپنی عورت کو بُرا کام کراتے دیکھے تو کیا کرے اگر منہ سے نکالے تو بُری بات اگر چپ رہے تو ایسی بُری بات سے کیونکر چپ رہے ؟ رسول اللہﷺ یہ سن کر چپ ہو رہے اور جواب نہیں دیا پھر وہ شخص آپﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ ! جو بات میں نے آپﷺ سے پوچھی تھی میں خود اس میں پڑ گیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں سورۂ نور میں ”اور وہ لوگ جو اپنی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں……“ آخر تک آپﷺ نے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اس کو نصیحت کی اور سمجھایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے (یعنی اگر تو جھوٹ طوفان باندھتا ہے تو اب بھی بول دے حد قذف کے اسی کوڑے پڑ جائیں گے مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے ) وہ بولا قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچائی کے ساتھ بھیجا کہ میں نے عورت پر طوفان نہیں جوڑا۔ پھر آپﷺ نے اس عورت کو بلایا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرمایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے وہ بولی کہ قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرا خاوند جھوٹ بولتا ہے تب آپﷺ نے مرد سے شروع کیا اور اس نے چار گواہیاں دیں اللہ تعالیٰ نے نام کی یقیناً وہ سچا ہے اور پانچویں بار یہ کہا کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو پھر عورت کو بلایا اور اس نے چار گواہیاں دیں اللہ تعالیٰ کے نام کی یقیناً مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ اس عورت پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر مرد سچا ہو۔ اس کے بعد آپﷺ نے ان دونوں میں جدائی کر دی۔

868: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے لعان کرنے والوں کو فرمایا کہ تم دونوں کاحساب اللہ تعالیٰ پر ہے اور تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ آپﷺ نے خاوند سے فرمایا کہ اب تیرا عورت پر کوئی بس نہیں کیونکہ وہ تجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی۔ مرد بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! میرا مال، جو اس نے لیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مال تجھے نہیں ملے گا کیونکہ اگر تو سچا ہے تو اس مال کا بدلہ ہے جو اس کی شرمگاہ تجھ پر حلال ہو گئی اور اگر تو جھوٹا ہے تو مال اور دور ہو گیا (یعنی بلکہ تیرے اوپر جھوٹ کا اور وبال ہوا)۔

869: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہﷺ کے دَور میں لعان کیا تو پھر آپﷺ نے دونوں کے درمیان جدائی کر دی اور بچے کا نسب ماں سے لگا دیا۔

870: محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ  سے پوچھا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ انہیں معلوم ہے پس انہوں نے کہا کہ ہلال بن امیہؓ  نے نسبت کی زنا کی اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے اور ہلال بن امیہ براء بن مالکؓ  کا مادری بھائی تھا اور اس نے اسلام میں سب سے پہلے لعان کیا راوی نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اس عورت کو دیکھتے رہو اگر اس کا بچہ سفید رنگ کا سیدھے بالوں والا، لال آنکھوں والآپیدا ہو تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور جو سرمگین آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا، پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ سیدنا انس بن مالکؓ  نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ اس عورت کا لڑکا سرمگیں آنکھ، گھونگھریالے بال، پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہوا۔

باب : بچے کا انکار اور ”رگ“ کے گھسیٹنے کے متعلق۔

871: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ بنی فزارہ میں سے ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میری بیوی کے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے (تو وہ میرا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ میں کالا نہیں ہوں) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ہاں آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا رنگ کیا ہے ؟ وہ بولا کہ لال ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان میں کوئی خاکی بھی ہے ؟ اس نے کہا ہاں خاکی بھی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر یہ رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا کسی رگ نے گھسیٹ لیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تیرے بچے میں بھی کسی رگ نے یہ رنگ گھسیٹ لیا ہو گا۔

باب : بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔

872: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  اور عبد بن زمعہؓ  دونوں نے ایک لڑکے کے بارے میں جھگڑا کیا سیدنا سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ لڑکا میرے بھائی کا بچہ ہے کہ میرے بھائی کا نام عتبہ بن ابی وقاص ہے اور انہوں نے مجھ سے کہہ رکھا تھا کہ یہ میرا فرزند ہے اور آپﷺ اس میں شباہت ملاحظہ فرما لیں اور عبد بن زمعہؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ لڑکا میرا بھائی ہے میرے باپ کے فراش پر اس کی لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے پس رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا کہ وہ عتبہ کے ساتھ بخوبی مشابہت رکھتا ہے اور فرمایا کہ اے عبد! لڑکا اسی کا ہے جس کے فراش پر پیدا ہوا اور زانی کو بے نصیبی اور محرومی ہے یا پتھر۔ اور اے سودہ (رضی اللہ عنہا) زمعہ کی بیٹی! تم اس سے پردہ کرو پھر اُمّ المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے اس کو کبھی نہیں دیکھا۔

باب : قیافہ شناس کی بات بچے کے متعلق قابل قبول ہے۔

873: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپﷺ خوش تھے اور فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تو نے نہ دیکھا کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا اور اسامہ اور زید دونوں کو دیکھا اور یہ دونوں ایک چادر اس طرح اوڑھے تھے کہ ان کا سر ڈھپا ہوا تھا اور پیر کھلے تھے تو اس نے کہا کہ یہ پیر ایک دوسرے کے جزو ہیں (یعنی ایک باپ کے ہیں دوسرے بیٹے کے )۔

 

 

 

کتاب: دودھ پلانے کے مسائل

 

باب : دودھ سے بھی ویسے ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسے ولادت سے۔

874: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف فرما تھے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے ، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! کوئی شخص آپ کے گھر پر اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ (رضی اللہ عنہا) کا رضاعی چچا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! اگر فلاں شخص (اپنے رضاعی چچا) زندہ ہوتا تو کیا میرے گھر آ سکتا تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں، رضاعت سے بھی ویسے ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسی ولادت سے۔

باب : دودھ کی حرمت آدمی کے پانی سے ہوتی ہے۔

875: اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا آیا اور مجھ سے (اندر آنے کی) اجازت مانگی، تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ میں نبیﷺ سے اس کے متعلق مشورہ نہ لے لوں۔ جب رسول اللہﷺ آئے تو میں نے عرض کیا کہ میرے رضاعی چچا نے میرے پاس آنے کی مانگی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا چچا تمہارے پاس آ سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے دودھ عورت نے پلایا تھا نہ کہ کسی مرد نے (یعنی دودھ عورت پلائے اور حقوق مرد کو بھی مل جائیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟) تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتا ہے۔

باب : رضاعی (دودھ کی) بھتیجی کی حرمت۔

876: امیر المؤمنین سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کو کیا ہے کہ (خاندان) قریش میں (نکاح) شوق سے کرتے ہیں لیکن ہمیں چھوڑ دیتے ہیں؟ (یعنی ہمارے پاس رشتے موجود ہیں لیکن آپﷺ لیتے ہی نہیں) تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کوئی رشتہ ہے ؟ میں نے کہا ہاں، (سید الشہداء) حمزہؓ  کی بیٹی ہے (جو کہ نبیﷺ اور سیدنا علیؓ  کی چچا زاد بہن تھی)، تو نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے لئے حلال نہیں، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ (وجہ یہ تھی کہ نبیﷺ اور سیدنا حمزہؓ  دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا تھا)۔

باب : ربیبہ اور بیوی کی بہن کی حرمت کے متعلق۔

877: اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ بنت ابی سفیانؓ  کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ میری بہن، بنت ابی سفیان کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ آپ ان سے نکاح کر لیں۔ (اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اس وقت یہ مسئلہ نہیں معلوم تھا کہ دو بہنوں کا ایک ساتھ نکاح میں رکھنا منع ہے )، تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ امر گوارا ہے ؟ میں نے کہا کہ میں اکیلی تو آپﷺ کے نکاح میں نہیں ہوں اور پسند کرتی ہوں کہ جو خیر میں میرے ساتھ شریک ہو وہ میری بہن ہی ہو۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے لئے حلال نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے درہ بنت ابی کو پیغام (نکاح) دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اُمّ سلمہ کی لڑکی؟ میں نے کہا ہاں آپﷺ نے فرمایا کہ وہ میری گود میں پرورش پانے والی نہ بھی ہوتی جب بھی وہ مجھ پر حلال نہ ہوتی۔ اس لئے کہ وہ رضاعت سے میری بھتیجی ہے مجھے اور اس کے باپ (سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ) کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ پس تم لوگ مجھے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کا پیغام نہ دیا کرو۔

باب : ایک دو بار (دودھ) چوسنے کے متعلق۔

878: سیدہ اُمّ فضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک گاؤں کا آدمی رسو ل اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ میرے گھر میں تھے۔ اس نے عرض کیا کہ یا نبی اللہﷺ ! میری ایک بیوی تھی اور میں نے اس پر دوسری عورت سے نکاح کر لیا میری پہلی بیوی یہ کہتی ہے کہ میں نے اس پر دوسری عورت کو ایک یا دو بار دودھ چوسایا ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایک بار یا دو بار چوسانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

باب : پانچ بار دودھ پینے کے متعلق۔

879: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا پہلے قرآن میں یہ حکم اترا تھا کہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ پھر یہ منسوخ ہو گیا اور یہ نازل ہوا کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے۔ اور رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو یہ قرآن میں پڑھا جاتا تھا۔

باب : برے آدمی کے دودھ پینے کے متعلق۔

880: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سالم مولیٰ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہما ان کے اہل خانہ ان کے گھر میں رہتے تھے اور سہیل کی بیٹی رسول اللہﷺ کے پاس آئیں (یعنی ابو حذیفہ کی بیوی) اور عرض کیا کہ سالم حد بلوغ کو پہنچ گیا اور مردوں کی باتیں سمجھنے لگا ہے اور وہ ہمارے گھر میں آتا ہے اور میں خیال کرتی ہوں کہ ابو حذیفہ کے دل میں اس بارہ میں ناپسندیدگی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم سالم کو دودھ پلا دو کہ تم اس پر حرام ہو جاؤ اس سے وہ ناگواری جو ابو حذیفہ کے دل میں ہے ، جاتی رہے گی۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور عرض کیا کہ میں نے اس کو دودھ پلا دیا تھا جس سے ابو حذیفہؓ  کی ناگواری جاتی رہی۔

881: سیدہ زینب بنت اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی تھیں کہ نبیﷺ کی تمام ازواج اس سے انکار کرتی تھیں کہ کوئی ان کے گھر میں اس طرح کا دودھ پی کر آئے۔ (یعنی بڑی عمر میں اس کو دودھ پلا دیا جائے جیسے پچھلی حدیث میں گزرا)۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کہتی تھیں کہ ہم تو یہی جانتی ہیں کہ یہ سالم کے لئے نبیﷺ کی خاص رخصت تھی اور نبیﷺ ہمارے سامنے ایسا دودھ پلا کر کسی کو نہیں لائے اور نہ ہم اس کو جائز خیال کرتی ہیں۔

باب : دودھ پینا وہ معتبر ہے جو بھوک کے وقت میں ہو (یعنی ایامِ رضاعت دو سال میں ہو)۔

882: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے پاس آئے اور اس وقت میرے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ آپﷺ کو سخت ناگوار گزرا اور آپﷺ کے چہرہ پر میں نے غصہ دیکھا، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ میرا دودھ شریک بھائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ذرا غور کیا کرو دودھ کے بھائیوں میں، اس لئے کہ دودھ پینا وہی معتبر ہے جو بھوک کے وقت میں ہو (یعنی ایام رضاعت میں یعنی دو برس کے اندر)۔ (یا اس کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت تب ثابت ہو گی جب بچہ اتنا دودھ پیئے کہ بھوک مٹ جائے۔ ایک دو گھونٹ پینے سے رضاعت حاصل نہ ہو گی۔ واللہ اعلم )۔

 

 

 

کتاب: اپنے اور اہل و عیال پر خرچہ کرنے کے مسائل

 

باب : اپنے نفس، اہل و عیال اور قرابت والوں سے ابتدا کرنے کے متعلق

883: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ بنو عذرہ کے ایک شخص نے اپنا غلام آزاد کیا مدبر بنا دیا (یعنی کہا کہ تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے )۔ اس کی خبر رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تیرے پاس اس کے سوا اور مال ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ تب آپﷺ نے (اعلان) فرمایا کہ اس کو مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ تو نعیم بن عبد اللہ العدوی نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور درہم نبیﷺ کو لا کر دیئے۔ آپﷺ نے غلام کے مالک کو اسے دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو۔ پھر اگر بچے تو اپنے گھر والوں پر، پھر بچے تو اپنے ناتے والوں پر، پھر بچے تو اِدھر اُدھر اور آپﷺ آگے اور دائیں اور بائیں اشارہ کرتے تھے۔ (یعنی صدقہ کر دے )۔

باب : غلاموں کے خرچہ کے متعلق اور جو انکے خرچہ کو روکتا ہے ، اس کا بیان

884: خیثمہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کا داروغہ آیا، تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے غلاموں کو خرچ دے دیا؟ اس نے کہا نہیں تو انہوں نے کہا کہ جاؤ اور ان کا خرچ دے دو اس لئے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کا خرچ اس کے ذمہ اس کا خرچ روک دے۔

باب : اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔

885: سیدنا ثوبانؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بہتر اشرفی؟ جس کو آدمی خرچ کرتا ہے وہ (اشرفی) ہے جسے اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے (اس لئے کہ بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کا نفقہ فرض ہے جیسے صغیر اولاد) اور اسی طرح وہ اشرفی جس کو اپنے جانور پر فی سبیل الله خرچ کرتا ہے (یعنی جہاد میں) اور وہ اشرفی جس کو اپنے رفیقوں پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ ابو قلابہ نے کہا کہ (آپ نے ) عیال سے شروع کیا پھر ابو قلابہ نے کہا کہ اس سے بڑھ کر کس کا ثواب ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ ان کو اس کے سبب سے (کسی کے آگے ) ہاتھ پھیلانے سے بچا دے یا نفع دے اور ان کو غنی کر دے۔

886: سیدنا ابو مسعود البدریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو مسلمان اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے اور اس میں ثواب کی امید رکھتا ہے ، تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔

باب : عورت کا حق یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے مال سے معروف طریق پر اسکے اہل و عیال پر خرچ کرے۔

887: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند (ابو سفیان کی بیوی) نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم پوری زمین کی پیٹھ پر کوئی ایسے گھر والے نہ تھے ، جن کے متعلق مجھے یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کر دے ، سوائے آپ کے گھر والوں کے (لیکن اب) پوری زمین کی پشت پر ایسے گھر والے نہیں ہیں جن کا عزت والا ہو جانا مجھے زیادہ پسند ہو، سوائے آپﷺ کے گھر والوں کے۔ نبیﷺ نے فرمایا! ہاں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ پھر ہندہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ابو سفیانؓ کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ اس کے اہل و عیال پر خرچ کروں تو مجھ پر گناہ تو نہیں ہو گا؟نبیﷺ نے فرمایا کہ اگر اچھے طریقے کے ساتھ (فضول خرچی سے بچ کر اس کے اہل و عیال پر) خرچ کرے تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔

باب : مطلقہ ثلاث (تین طلاق والی) کا نان و نفقہ (طلاق دینے والے خاوند پر) نہیں۔

888: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس کو تین طلاق دی گئی ہوں اس کے لئے نہ گھر ہے اور نہ نفقہ۔

889: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ فاطمہ کو یہ کہنا خوب نہیں ہے کہ مطلقہ ثلاثہ کے لئے نہ مکان ہے اور نہ نفقہ۔

890: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے ساتھ بڑی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور شعبی بھی ہمارے ساتھ تھے تو شعبی نے سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے نہ اسے گھر دلوایا اور نہ خرچ۔ (یہ سن کر) اسود نے ایک مٹھی کنکر لے کر شعبی کی طرف پھینکی اور کہا کہ افسوس تم اسے روایت کرتے ہو؟ اور حالانکہ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اپنے نبیﷺ کی سنت کو ایک عورت کے قول سے نہیں چھوڑ سکتے معلوم نہیں شاید وہ بھول گئی یا یاد رکھا۔ (مطلقہ ثلاثہ کو) گھر دینا چاہئیے اور خرچہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”مت نکالو ان کو ان کے گھروں سے مگر جب وہ کوئی کھلی بے حیائی کریں (یعنی زنا)“۔ (الطلاق: 1)

 

 

 

کتاب: غلاموں کو آزاد کرنے کے مسائل

 

باب : جو ایک مومن غلام آزاد کرے ، اس کی فضیلت۔

891: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، فرماتے تھے کہ جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کو غلام کے ہر عضو کے بدلے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس کی شرمگاہ کو بھی غلام کی شرمگاہ کے بدلے۔

باب : اولاد کا والد کو آزاد کرنا کیسا ہے ؟

892: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیٹا باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا مگر اس صورت میں کہ باپ کو کسی کا غلام دیکھے اور پھر خرید کر آزاد کر دے۔

باب : (مشترکہ غلام کا ایک مالک اگر) اپنا حصہ آزاد کرتا ہے (تو … )۔

893: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی شخص کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے ، پھر اس کا مال بھی اتنا ہو کہ غلام کی انصاف والی قیمت مقرر کر کے اس غلام میں شریک حصہ داروں کے حصے ادا کر سکے تو غلام اس کے حق میں آزاد ہو جائیگا (اگر اتنا مال نہ ہو تو) اس کا اپنا حصہ آزاد ہو جائیگا۔

باب : سابقہ باب اور کوشش کا بیان۔

894: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنا حصہ غلام میں آزاد کر دے ، اس کا چھڑانا (یعنی دوسرے حصہ کا بھی آزاد کرنا) بھی اسی کے مال سے ہو گا اگر مالدار ہو اگر مالدار نہ ہو تو غلام محنت مزدوری کرے اور اس پر جبر نہ کریں۔

باب : (غلام ) آزاد کرنے میں قرعہ ڈالنا۔

895: سیدنا عمران بن حصینؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا اور اس کے پاس ان کے سوا اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کو بلایا اور ان کی تین ٹکڑیاں کیں۔ اس کے بعد قرعہ ڈالا اور دو کو آزاد کر دیا اور باقی چار کو غلامی پر باقی رکھا اور آپﷺ نے میت کے حق میں سخت بات ارشاد فرمائی۔

باب : وِلاء اس کے لئے ہے جس نے آزاد کیا۔

896: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ میرے پاس آئی اور کہا کہ میرے مالکوں نے میرے ساتھ نو اوقیہ پر مکاتبت کی ہے ، ہر برس میں ایک اوقیہ۔پس تم میری مدد کرو۔ میں نے کہا کہ اگر تمہارے مالک راضی ہوں تو میں یہ ساری رقم یکمشت دے دیتی ہوں اور تمہیں آزاد کر دیتی ہوں، لیکن تمہاری ولاء میں لوں گی۔ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر اپنے مالکوں سے کیا تو انہوں نے نہ مانا اور یہ کہا کہ ولاء ہم لیں گے۔ پھر بریرہ میرے پاس آئی اور یہ بیان کیا تو میں نے اس کو جھڑکا، اس نے کہا اللہ کی قسم یہ نہ ہو گا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ رسول اللہﷺ نے سن لیا اور مجھ سے پوچھا، تو میرے سب حال بیان کرنے پر آپﷺ نے فرمایا: تو خرید لے اور آزاد کر دے اور ولاء کی شرط انہی کے لئے کر لے کیونکہ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔ میں نے ایسا ہی کیا اس کے بعد رسول اللہﷺ نے شام کو خطبہ پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی جیسے اس کو لائق ہے ، پھر اس کے بعد فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ وہ شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں ہیں۔ جو شرط اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ سو بار شرط کی گئی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب زیادہ حقدار ہے اور اللہ کی شرط مضبوط ہے۔ تم میں سے بعض لوگوں کا یہ حال ہے کہ دوسرے سے کہتے ہیں کہ تم (غلام یا باندی کو) آزاد کرو اور وِلاء ہم لیں گے حالانکہ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔

باب : پہلے باب سے متعلق، اور آزاد شدہ لونڈی کو اپنے خاوند کے متعلق اختیار۔

897: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ بریرہ کی وجہ سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ اس کو اپنے خاوند کے مقدمہ میں اختیار ملا، جب وہ آزاد ہوئی۔ دوسری یہ کہ اس کو (صدقہ کا) گوشت ملا۔ رسول اللہ میرے پاس آئے اور ہنڈیا میں گوشت آگ پر چڑھا ہوا تھا۔ آپﷺ نے کھانا مانگا تو روٹی اور گھر کا کچھ سالن سامنے لایا گیا، آپﷺ نے فرمایا کہ چولہے پر ہنڈیا میں گوشت نہیں چڑھا رکھا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ بیشک یا رسول اللہﷺ! مگر وہ گوشت صدقہ کا تھا جو بریرہ کو ملا تھا اور ہمیں برا معلوم ہوا کہ اس میں سے آپ کو کھلا دیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اس کے لئے صدقہ تھا اور اسکی طرف سے ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ تیسری یہ کہ رسول اللہﷺ نے بریرہ کے بار ے میں فرمایا کہ وِلاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔

باب : ولاء کی بیع اور اس کا ہبہ کرنا منع ہے۔

898: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ولاء کے بیع اور ہبہ سے منع کیا ہے۔

باب : جو شخص اپنی نسبت اپنے مالکوں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے (اس پر وعید) کے متعلق۔

899: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کو اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر مولیٰ بنائے ، اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔

باب : مالک جب اپنے غلام کو مارے تو اسے آزاد کر دے۔

900: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو پیٹ رہا تھا کہ اتنے میں مَیں نے پیچھے سے ایک آواز سنی، کہ ابو مسعود! جان لو بیشک اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی تو اس غلام پر رکھتا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہﷺ تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ اللہ کے لئے (یعنی بلا کسی قیمت و شرط) آزاد ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو ایسا نہ کرتا تو جہنم کی آگ تجھے جلا دیتی یا تجھ سے لگ جاتی۔

901: زاذان سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اسکی پیٹھ پر نشان دیکھا تو پوچھا کہ کیا میں نے تجھے تکلیف دی؟ اس نے کہا نہیں۔ سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ تو آزاد ہے۔ پھر زمین پر سے کوئی چیز اٹھائی اور کہا کہ اس کے آزاد کرنے میں مجھے اتنا بھی ثواب نہیں ملا۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص غلام کو بن کئے حد لگا دے (یعنی ناحق مارے ) یا طمانچہ لگائے تو اس کا کفارہ (یعنی اتار، جرمانہ) یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔

902: سیدنا سوید بن مقرنؓ  سے روایت ہے کہ ان کی لونڈی کو ایک آدمی نے طمانچہ مارا تو سیدنا سویدؓ  نے کہا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ منہ پر مارنا حرام ہے ؟ اور مجھے دیکھ میں رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں ہم سات بھائیوں کے پاس صرف ایک خادم تھا، بھائیوں میں سے ایک نے اسے طمانچہ مارا تو رسول اللہﷺ نے اس کے آزاد کرنے کا حکم دیا۔

باب : جو شخص اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائے ، اس کی سزا کا بیان

903: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ابو القاسمﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے غلام یا لونڈی کو زنا کی تہمت لگائے تو اس پر قیامت کے دن حد قذف لگے گی مگر جب کہ وہ سچا ہو(تو پھر سزا نہیں ملے گی)۔

باب : غلاموں پر طعام اور لباس کے معاملہ میں احسان کرنا اور ان کو ان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دینا۔

904: معرور بن سوید کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابو ذر غفاریؓ  کے پاس (مقامِ) ربذہ میں گئے وہ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی ویسی ہی چادر پہنے ہوئے تھا، تو ہم نے کہا کہ اے ابو ذرّ! اگر تم یہ دونوں چادریں لے لیتے تو ایک جبہ ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اور میرے ایک بھائی میں لڑائی ہوئی، اس کی ماں عجمی تھی تو میں نے اس کو ماں کی گالی دی۔ اس نے رسول اللہﷺ سے میری شکایت کر دی۔ جب میں آپﷺ سے ملا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ذرّ! تجھ میں جاہلیت ہے (یعنی جاہلیت کے زمانے کا اثر باقی ہے جس زمانے میں لوگ اپنے ماں باپ سے فخر کرتے تھے اور دوسرے کے ماں باپ کو حقیر سمجھتے تھے )۔ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ ! جو کوئی لوگوں کو گالی دے گا تو لوگ اس کے ماں باپ کو گالی دیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ذرّ! تجھ میں جاہلیت ہے (یعنی اگر اس نے تجھے بُرا کہا تھا تو اس کا بدلہ یہ تھا کہ تو بھی اس کو بُرا کہے نہ کہ اس کے ماں باپ کو) وہ تمہارے بھائی ہیں (اس سے معلوم ہوا کہ وہ غلام تھا مگر سیدنا ابو ذرّؓ  نے اس کو بھائی کہا کیونکہ رسول اللہﷺ نے بھی ان کو بھائی کہا) اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے (یعنی تمہاری مِلک میں) تم ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ان کی سکت سے زیادہ تکلیف مت دو اگر ایسا کام لو تو تم ان کی مدد کرو۔

905: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم سے کسی کے لئے اس کا خادم کھانا تیار کرے ، پھر لے کر آئے اور وہ کھانا پکانے کی گرمی اور دھواں اٹھا چکا ہو، تو اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ اور کھائے اور اگر کھانا تھوڑا ہو تو لقمہ یا دو لقمے اس کے ہاتھ میں دے دو۔

باب : غلام کا اجر و ثواب جب کہ وہ اپنے سردار سے خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت بھی اچھی طرح بجا لائے۔

906: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک غلام جب اپنے مالک کی خیر خواہی کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی اچھی طرح کرے ، تو اس کو دوہرا یا دو گنا ثواب ہو گا (بہ نسبت آزاد شخص کے )۔

907: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صالح غلام کے لئے دوہرا ثواب ہے (ایک تو اپنے مالک کی خیر خواہی کا دوسرے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا)۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے کہ اگر جہاد، حج اور ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنا نہ ہوتا، تو میں یہ خواہش کرتا کہ غلام ہو کر مروں۔ اور سیدنا ابو ہریرہؓ  نے اپنی والدہ کی صحبت اور خدمت کی وجہ سے ان کے فوت ہونے تک (کوئی نفلی) حج نہیں کیا۔

باب : (مالک کی موت کے بعد) مدبر غلام کی فروخت کے متعلق، جب اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ ہو۔

اس باب کے متعلق میں سیدنا جابرؓ  کی حدیث کتاب النفقات کے شروع میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث نمبر 883)۔