FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کتاب: سیر و سیاحت اور لشکر کشی

 

باب : جیوش اور سرایا کے امراء کو وصیت جو اُن کے مناسب ہو۔

1111: سیدنا بریدہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی کو لشکر پر یا سریہ پر امیر مقرر کرتے (سریہ کہتے ہیں چھوٹے ٹکڑے کو اور بعضوں نے کہا کہ سریہ میں چار سوار ہوتے ہیں جو رات کو چھپ کر جاتے ہیں)، تو خاص اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم کرتے اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو بھلائی کرنے کا حکم کرتے ، پھر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کے راستے میں جہاد کرو۔ اور اس سے لڑو جس نے اللہ کو نہیں مانا اور لوٹ کے مال (یعنی مالِ غنیمت) میں چوری نہ کرو اور معاہدہ نہ توڑو اور مثلہ نہ کرو (یعنی ہاتھ پاؤں ناک کان نہ کاٹو) اور بچوں کو مت مارو (جو نابالغ ہوں اور لڑائی کے لائق نہ ہوں) اور جب تو مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ملے ، تو ان کو تین باتوں کی طرف بلا، پھر ان تین باتوں میں سے جو بھی مان لیں، تم بھی قبول کرو اور ان (کو مارنے اور لوٹنے ) سے باز رہو۔ پھر ان کو اسلام کی طرف بلاؤ (یہ تین میں سے ایک بات ہوئی) اگر وہ مان لیں، تو قبول کرو اور انہیں مارنے سے باز رہو۔ پھر ان کو اپنے ملک سے نکل کر مہاجرین مسلمانوں کے ملک میں آنے کے لئے بلا اور ان سے کہہ دو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو جو مہاجرین کے لئے ہو گا وہ ان کے لئے بھی ہو گا اور جو مہاجرین پر ہے وہ ان پر بھی ہو گا (یعنی نفع اور نقصان دونوں میں مہاجرین کی مثل ہوں گے )۔ اگر وہ اپنے ملک سے نکلنا منظور نہ کریں، تو ان سے کہہ دو کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے اور جو اللہ کا حکم مسلمانوں پر چلتا ہے وہ ان پر بھی چلے گا اور ان کو مالِ غنیمت اور صلح کے مال سے کچھ حصہ نہ ملے گا، مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر (کافروں سے ) لڑیں۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں، تو ان سے جزیہ (محصول ٹیکس) مانگو۔ اگر وہ جزیہ دینا قبول کریں تو مان لو اور ان سے باز رہو۔ اگر وہ جزیہ بھی نہ دیں، تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑائی کرو۔ اور جب تو کسی قلعہ والوں کو گھیرے میں لو اور وہ تجھ سے اللہ یا اس کے رسول کی پناہ مانگیں، تو اللہ اور رسول کی پناہ نہ دو لیکن اپنی اور اپنے دوستوں کی پناہ دے دو۔ اس لئے کہ اگر تم سے اپنی اور اپنے دوستوں کی پناہ ٹوٹ جائے تو اس سے بہتر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ٹوٹے۔ اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے یہ چاہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تم ان کو باہر نکالو، تو ان کو اللہ کے حکم پر مت نکالو بلکہ اپنے حکم پر باہر نکالو۔ اس لئے کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تجھ سے ادا ہوتا ہے یا نہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی (راوئ حدیث) نے کہا کہ یوں ہی کہا یا اس کے ہم معنی۔

باب : گورنروں کو آسانی کرنے کے بارے میں۔

1112 : سیدنا ابو موسیٰؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے انہیں اور سیدنا معاذؓ  کو یمن کی طرف بھیجا، تو کہا کہ آسانی کرو اور دشواری اور سختی مت کرو اور خوش کرو اور نفرت مت دلاؤ اور اتفاق سے کام کرو پھوٹ مت کرو۔

باب : لشکروں یا قاصدوں کے متعلق اور جہاد پر جانے والے کا وہ نائب بنے جو جہاد پر نہیں جا سکا۔

1113: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی طرف ایک قاصد بھیجا اور فرمایا کہ (ہر گھر سے ) دو مردوں میں سے ایک مرد نکلے۔ پھر گھر میں رہنے والوں سے کہا کہ جو نکلنے والے کے گھر بار اور مال کی خبر گیری رکھے ، اس کو مجاہد کا آدھا ثواب ملے گا۔

باب : چھوٹوں بڑوں کے مابین حد بندی کہ کون جہاد میں جا سکتا ہے اور کون نہیں۔

1114: سیدنا ابن عمر صما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے سامنے اُحد کے دن پیش ہوا اور میں چودہ برس کا تھا، تو آپﷺ نے مجھے منظور نہ کیا (یعنی لڑنے والوں میں شامل نہ کیا) پھر میں خندق کے دن پیش ہوا جب میں پندرہ برس کا تھا، تو آپﷺ نے منظور کر لیا۔ نافع نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے پاس آ کر ان سے بیان کی اور وہ اُن دنوں خلیفہ تھے ، تو انہوں نے کہا کہ یہی بالغ اور نابالغ کی حد ہے اور اپنے عاملوں کو لکھا کہ جو شخص پندرہ برس کا ہو اس کا حصہ لگا دیں اور جو پندرہ سے کم ہو اس کو بال بچوں میں شریک کریں۔

باب : دشمن کی زمین میں قرآن کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت۔

1115: سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس ڈر سے قرآن ساتھ لے کر دشمن کی سرزمین کی طرف سفر کرنے سے منع کرتے تھے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ لگ جائے (اور وہ بے ادبی کریں)۔

باب : اچھے اور قحط کے موسم میں سفر کے متعلق ہدایات اور راستہ پر رات گزارنے کے متعلق۔

1116: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم چارا اور پانی کے دنوں میں سفر کرو (یعنی اچھے موسم میں، جب جانوروں کو پانی اور چارہ وافر ملے ) تو اونٹوں کو زمین سے ان کا حصہ لینے دو اور جب قحط میں سفر کرو، تو جلدی چلے جاؤ ان پر (تاکہ قحط زدہ ملک سے جلد پار ہو جائیں) اور جب تم رات کو اترو تو راہ سے بچ کر اترو (یعنی پڑاؤ کرو) کیونکہ رات کے وقت راستے کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔

باب : سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔

1117: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے تمہارے ایک کو (یعنی مسافر کو) سونے اور کھانے پینے سے روکتا ہے (یعنی وقت پر یہ چیزیں نہیں ملتیں اکثر تکلیف ہو جاتی ہے )۔ سو جب تم میں سے کوئی اپنا کام سفر میں پورا کر لے تو وہ اپنے گھر کو جلد چلا آئے۔

باب : سفر سے آ کر رات کے وقت گھر آنے کی کراہت۔

1118: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رات کو اپنے گھر میں آنے سے ، گھر والوں کی چوری یا خیانت پکڑنے کو یا ان کا قصور ڈھونڈھنے کو آنے سے منع فرمایا (کیونکہ اس میں ایک تو گمانِ بد ہے جو شریعت میں منع ہے دوسرے عورت کی دل شکنی کا باعث ہے اور اس میں سینکڑوں خرابیاں ہیں تیسرے اللہ نہ کرے اگر کچھ ہو تو اپنی جان کا خوف ہے )۔

1119: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سفر سے اپنے گھر میں رات کو نہ آتے بلکہ صبح یا شام کو آتے (تاکہ عورت کو آراستہ ہونے کا موقع ملے )۔

باب : جنگ شروع کرنے اور دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرنا۔

1120: ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے یہ پوچھنے کے لئے کہ لڑائی سے پہلے کافروں کو دین کی دعوت دینا ضروری ہے ؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا (جب کافروں کو دین کی دعوت نہیں پہنچی تھی) اور رسول اللہﷺ نے بنی مصطلق پر حملہ کیا اور وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے۔ آپﷺ نے ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقی کو قید کیا اور اسی دن اُمّ المؤمنین جویریہ یا البتہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو پکڑا۔ نافع نے کہا کہ یہ حدیث مجھ سے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں شامل تھے۔

باب : بادشاہوں کی طرف نبیﷺ کے خطوط، جن میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔

1121: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور ہر ایک حاکم کو لکھا ، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے اور یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس پر آپﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔

1122: سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ  نے ان سے بالمشافہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہﷺ کے درمیان ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت) ملک شام میں تھا کہ ہرقل شاہ روم کی طرف رسول اللہﷺ کا خط لایا گیا جو کہ دحیہ کلبی لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بصرہ کے رئیس کو دیا اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دیا۔ ہرقل نے پوچھا کہ یہاں اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھلایا اور پوچھا کہ تم میں سے رشتہ میں اس شخص سے ، جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے ، زیادہ نزدیک کون ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں ہوں (یہ ہرقل نے اس لئے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپﷺ کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھلایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھلایا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کو بلایا (جو دوسرے ملک کے لوگوں کی زبان بادشاہ کو سمجھاتا ہے ) اور اس سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص (یعنی ابو سفیان) سے اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے ، پھر اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابو سفیان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی (اور میری ذلت ہو گی) تو میں جھوٹ بولتا (کیونکہ مجھے آپﷺ سے عداوت تھی)۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھ کہ اس شخص (یعنی محمدﷺ) کا حسب و نسب (یعنی خاندان) کیسا ہے ؟۔ ابو سفیان نے کہا کہ ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے پوچھا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ دعویٰ (نبوت) سے پہلے کبھی تم نے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سنا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اچھا! ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ؟ میں نے کہا کہ غریب لوگ کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعداروں میں سے کوئی ان کے دین میں آ کر اور پھر اس دین کو بُرا جان کر پھرا؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے ؟ میں نے کہا ہاں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کی تم سے کیسے لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے )؟ میں نے کہا کہ ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے (جیسے کنوئیں سے ڈول پانی کھینچنے میں ایک ادھر آتا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی انکی فتح ہوتی ہے ) وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ وہ معاہدہ کو توڑتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ ہاں اب ایک مدت کے لئے ہمارے اور ان کے درمیان اقرار ہوا ہے ، دیکھئے اب وہ اس میں کیا کرتے ہیں؟ (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابو سفیان نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے سوائے اس بات کے اور کسی بات میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقعہ نہیں ملا (تو اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا کہ ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ تم اس شخص سے یعنی ابو سفیان سے کہو کہ میں نے تجھ سے ان کا حسب و نسب پوچھا تو تو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اور  پیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تو نے کہا نہیں، یہ اس لئے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ ہوتا، تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں۔ اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ؟ تو تو نے کہا کہ غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے ؟ تو نے کہا کہ نہیں اس سے میں نے یہ نکالا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں سے تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ (جھوٹا دعویٰ کر کے ) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو بُرا سمجھ کر پھر جاتا ہے ؟ تو نے کہا نہیں اور ایمان جب دل میں سما جاتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ بڑھتے جاتے ہیں اور یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ تم ان سے لڑتے ہو؟ تو نے کہا کہ ہم لڑتے ہیں اور ہمارے ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کو صبر و تکلیف کا اجر ملے اوران کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں)، پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ وہ دغا کرتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ دغا نہیں کرتے اور پیغمبروں کا یہی حال ہے وہ دغا (یعنی عہد شکنی) نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیاہے ؟ تو نے کہا کہ نہیں۔ یہ میں نے اس لئے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے پھر ہرقل نے کہا کہ وہ تمہیں کن باتوں کا حکم کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ نماز پڑھنے کا، زکوٰۃ دینے ، رشتہ داروں سے اچھے سلوک کرنے اور بُری باتوں سے بچنے کا حکم کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اگر ان کا یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا تو بیشک وہ پیغمبر ہیں اور (پہلی کتابیں پڑھنے کی وجہ سے ) میں جانتا تھا کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤنگا، تو میں ان سے ملنا پسند کرتا۔ (بخاری کی روایت میں ہے کہ میں کسی طرح بھی محنت مشقت اٹھا کر ملتا) اور جو میں ان کے پاس ہوتا، تو ان کے پاؤں دھوتا اور یقیناً ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں۔پھر ہرقل نے رسول اللہﷺ کا خط منگوایا اور اسکو پڑھا اس میں یہ لکھا تھا کہ:

”شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کی طرف جو کہ روم کا رئیس ہے۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تجھے دعوتِ اسلام کی طرف بلاتا ہوں کہ مسلمان ہو جائے تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت اور جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا، اللہ تجھے دہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے گا، تو اریسیین کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔ اے اہل کتاب! مان لو ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور ہم ایک دوسرے کو اللہ کے علاوہ رب نہ بنائیں۔ اگر اہل کتاب پھر جائیں تو تم کہو یقیناً ہم تو مسلمان (فرمانبردار) ہیں“۔ (آل عمران: 64)

پھر جب ہرقل اس خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو، لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور بک بک بہت ہوئی اور ہم باہر نکال دیئے گئے۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابو کبشہ کے بیٹے (محمدﷺ) کا درجہ بہت بڑھ گیا، ان سے بنی اصفر کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ اس دن سے مجھے یقین تھا کہ رسول اللہﷺ کامیاب اور غالب ہوں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی مسلمان کر دیا۔

باب : اللہ تعالیٰ کی طرف نبیﷺ کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر۔

1123: سیدنا اسامہ بن زید صراوی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے ، جس کی کاٹھی کے نیچے (شہر) فدک کی (بَنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زیدؓ  کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپﷺ بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہؓ  کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پر مشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے ، جس میں عبد اللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا۔ (اس وقت تک عبد اللہ بن ابی ظاہر میں بھی مسلمان نہیں ہوا تھا)۔ اس مجلس میں سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ  (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آ پہنچی) تو عبد اللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہﷺ نے سلام کیا اور  پھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبد اللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگر یہ سچ ہے تو بھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا۔ اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجئے ، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہﷺ ان سب کو چپ کرانے لگے (آخر کار وہ سب خاموش ہو گئے ) پھر رسول اللہﷺ سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہؓ  کے ہاں گئے اور ان سے فرمایا اے سعد! تو نے ابو حباب کی باتیں نہیں سنیں؟ }ابو حباب سے عبد اللہ بن ابی مراد ہے { اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہؓ  نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ سے معاف کر دیجئے اور اس سے درگزر فرمائیے اور قسم اس ذات کی جس نے آپﷺ پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپﷺ پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپﷺ کے آنے سے پہلے ) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبد اللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبد اللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اُس حق کے جو آپﷺ کو عطا کیاہے ، تو وہ آپﷺ کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے اس لئے اس نے (آپﷺ سے ) ایسے بُرے کلمات کہے ہیں۔ آپﷺ نے اس کا قصور معاف کر دیا۔

باب : دھوکہ بازی کی ممانعت۔

1124: سیدنا ابو سعیدؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جو اس کی دغا بازی کے موافق بلند کیا جائیگا اور کوئی دغا باز اس سے بڑھ کر نہیں جو خلق اللہ کا حاکم ہو کر دغا بازی کرے۔

باب : وعدے کی پاسداری۔

1125: سیدنا حذیفہ بن یمانؓ  کہتے ہیں کہ میں بدر میں صرف اسی وجہ سے شریک نہ کہ میں اپنے والد حسیل کے ساتھ نکلا (یہ سیدنا حذیفہؓ  کے والد کا نام ہے اور بعض لوگوں نے حسل کہا ہے اور یمان ان کا لقب ہے اور اسی سے مشہور ہیں) تو ہمیں قریش کے کافروں نے پکڑ لیا اور کہا کہ تم محمدﷺ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ پس ہم نے کہا کہ ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم تو صرف مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو جائیں گے اور محمدﷺ کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے۔ پھر ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ سب قصہ بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم مدینہ کو چلے جاؤ کہ ہم ان کا معاہدہ پورا کریں گے اور ان پر اللہ سے مدد چاہیں گے۔

باب : دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے۔

1126: ابو النضر سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبیﷺ کے صحابہ میں سے تھے ، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن عبید اللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لئے نکلے تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہﷺ کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسولﷺ دشمن سے لڑائی کی حالت میں تھے تو آپﷺ نے زوال آفتاب تک انتظار کیا اور پھر لوگوں (صحابہ کرام) میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن) جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ!کتاب نازل فرمانے والے ، بادلوں کو چلانے والے اور جتھوں کو بھگانے والے ، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔

باب : دشمن کے خلاف دعا۔

اس باب میں سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی کی حدیث ہے جو اوپر والے باب میں گزر چکی ہے۔

1127: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُحد کے دن یہ فریاد کر رہے تھے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو زمین میں کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا۔ (یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ پوری حدیث میں ہے کہ اگر آج مسلمان مغلوب ہو گئے تو اہل توحید مٹ جائیں گے )۔

باب : لڑائی مکر و حیلہ ہے۔

1128: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لڑائی مکر اور حیلہ ہے۔ (یعنی اپنے بچاؤ اور دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے حیلہ اور مکر و فریب کرنا جائز ہے )

باب : جہاد میں مشرکین سے مدد لینا (کیسا ہے ؟)۔

1129: اُمّ  ا لمؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جنگِ بدر کی طرف نکلے۔ جب (مقامِ) حرۃالوبرہ (جو مدینہ سے چار میل پر ہے ) میں پہنچے ، تو ایک شخص آپﷺ سے ملا، جس کی بہادری اور اصالت کا شہرہ تھا اور رسول اللہﷺ کے اصحاب اس کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ جب آپﷺ سے ملا تو اس نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپﷺ کے ساتھ چلوں اور جو ملے اس میں حصہ پاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو لوٹ جا، میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ پھر آپﷺ چلے جب شجرہ (مقام) پہنچے تو وہ شخص پھر آپﷺ سے ملا اور وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ آپﷺ نے بھی وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا اور فرمایا کہ لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ پھر وہ لوٹ گیا اس کے بعد پھر آپﷺ سے (مقامِ) بیداء میں ملا اور آپﷺ نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا کہ کیا تو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر یقین رکھتا ہے ؟ اب وہ شخص بولا کہ ہاں میں یقین رکھتا ہوں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر چل۔

باب : غازیوں کے ساتھ عورتوں کے جانے میں کوئی حرج نہیں۔

1130: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ (ان کی والدہ) اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے حنین کے دن ایک خنجر لیا، وہ ان کے پاس تھا کہ سیدنا ابو طلحہؓ  نے دیکھا تو رسول اللہﷺ! سے عرض کیا کہ یہ اُمّ سلیم ہے اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ آپﷺ نے (اُمّ سلیم سے ) پوچھا کہ یہ خنجر کیسا ہے ؟ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ ہنسے۔ پھر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے سوا طلقاء (یعنی اہل مکہ) کو مار ڈالئے ، انہوں نے آپﷺ سے شکست پائی (اس وجہ سے مسلمان ہو گئے اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! (کافروں کے شر کو) اللہ تعالیٰ بہت بہترین انداز سے کافی ہو گیا (اب تیرے خنجر باندھنے کی ضرورت نہیں)۔

1131: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ احد کے دن لوگ شکست خوردہ ہو کر رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور ابو طلحہؓ  آپﷺ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے تھے اور ابو طلحہؓ  بڑے ماہر تیر انداز تھے ، ان کی اس دن دو یا تین کمانیں ٹوٹ گئیں۔ جب کوئی شخص تیروں کا ترکش لے کر نکلتا، آپﷺ اس سے فرماتے کہ یہ تیر ابو طلحہؓ  کے لئے رکھ دو۔ آپﷺ گردن اٹھا کر کافروں کو دیکھتے ، تو ابو طلحہؓ  کہتے کہ اے اللہ کے نبیﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں آپﷺ گردن مت اٹھائیے ایسا نہ ہو کہ کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپﷺ کے سینے کے آگے ہے (یعنی ابو طلحہ نے اپنا سینہ آگے کیا تھا کہ اگر کوئی تیر وغیرہ آئے تو مجھے لگے )۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر اور اُمّ سلیمؓ کو دیکھا وہ دونوں کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں (جیسے کام کے وقت کوئی اٹھاتا ہے ) اور میں ان کی پنڈلی کی پازیب کو دیکھ رہا تھا، وہ دونوں اپنی پیٹھ پر مشکیں لاتی تھیں، پھر اس کا پانی لوگوں کو پلا دیتیں، پھر جاتیں اور بھر کر لاتیں اور لوگوں کو پلا دیتیں۔ اور سیدنا ابو طلحہؓ  کے ہاتھ سے دو تین بار اونگھ کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔

1132: سیدہ اُمّ عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئی، مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی، زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی۔

باب : جہاد میں عورتوں اور بچوں کا قتل ممنوع ہے۔

1133: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت ایک لڑائی میں پائی گئی جس کو مار ڈالا گیا تھا، تو آپﷺ نے عورتوں اور بچوں کے مارنے سے منع فرما دیا۔

باب : رات کے وقت حملہ میں دشمن کے بیوی بچوں کے مارے جانے کے متعلق۔

1134: سیدنا صعب بن جثامہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے مشرکین کی اولاد اور ان کی عورتوں کے بارے میں سوال ہوا، جب رات کے چھاپے میں مارے جائیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ انہی میں داخل ہیں۔

باب : دشمن کے کھجور کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا بیان۔

1135: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنی نضیر کی کھجوروں کے درخت کچھ کٹوا دیئے اور کچھ جلوا دیئے۔ اس موقع پر سیدنا حسانؓ  نے یہ شعر کہے : بنی لوئی (یعنی قریش) کے سرداروں اور شرفاء پر یہ آسان ہو گیا کہ بویرہ کا نخلستان آگ کی لپیٹ میں ہے۔ اور اسی بارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا ہوا چھوڑ دیا، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اس لئے کہ گنہگاروں کو رسوا کرے “ (الحشر:5)۔

باب : دشمن کی زمین سے کھانا (طعام) حاصل کرنا۔

1136: سیدنا عبد اللہ بن مغفلؓ  کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن چربی کی ایک تھیلی پائی۔ میں اس پر لپکا۔ میں نے دل میں کہا کہ میں اس میں سے کچھ بھی کسی کو نہ دوں گا۔ کہتے ہیں میں نے پلٹ کر دیکھا تو رسول اللہﷺ کھڑے مسکرا رہے تھے۔

باب : مالِ غنیمت کا اس امت (محمدیہﷺ) کے لئے خصوصی طور پر حلال ہونا

1137: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر نے جہاد کیا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ میرے ساتھ وہ آدمی نہ جائے جو نکاح کر چکا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اپنی عورت سے صحبت کرے لیکن ابھی تک اس نے صحبت نہیں کی۔ اور نہ وہ شخص جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی چھت بلند نہ کی ہو اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے جننے کا امیدوار ہو (اس لئے کہ ان لوگوں کا دل ان چیزوں میں لگا رہے گا اور اطمینان سے جہاد نہ کر سکیں گے )۔ پھر اس پیغمبر نے جہاد کیا تو عصر کے وقت یا عصر کے قریب اس گاؤں کے پاس پہنچا (جہاں جہاد کرنا تھا) تو پیغمبر علیہ السلام نے سورج سے کہا کہ تو بھی تابعدار ہے اور میں بھی تابعدار ہوں اے اللہ! اس کو تھوڑی دیر میرے اوپر روک دے (تاکہ ہفتہ کی رات نہ آ جائے کیونکہ ہفتہ کو لڑنا حرام تھا اور یہ لڑائی جمعہ کے دن ہوئی تھی)۔ پھر سورج رک گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دی۔ پھر لوگوں نے مال غنیمت اکٹھا کیا اور آگ آسمان سے اس کے کھانے کو آئی، لیکن اس نے نہ کھایا۔ پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے (لہٰذا یہ نذر قبول نہ ہوئی)۔ اس لئے تم میں سے ہر گروہ کا ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے۔ پھر سب نے بیعت کی، تو ایک شخص کا ہاتھ جب پیغمبر کے ہاتھ سے لگا تو پیغمبر نے کہا کہ تم لوگوں میں خیانت معلوم ہوتی ہے۔ تمہارا قبیلہ مجھ سے بیعت کرے۔ پھر اس قبیلے نے بیعت کی تو دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ پیغمبر کے ہاتھ سے لگا اور چمٹ گیا، تو پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ تم نے خیانت کی ہے۔ پھر انہوں نے بیل کے سر کے برابر سونا نکال کر دیا۔ وہ بھی اس مال میں جو بلند زمین پر (جلانے کے لئے ) رکھا گیا تھا رکھ دیا گیا۔ پھر آگ آئی اور اس کو کھا گئی۔ اور ہم سے پہلے کسی کے لئے مالِ غنیمت حلال نہیں تھا صرف ہمارے لئے حلال ہوا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضعیفی اور عاجزی دیکھی، تو ہمارے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا۔

باب : انفال (مالِ غنیمت) کے بارے میں۔

1138: سیدنا مصعب بن سعد اپنے والد سعدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے بارے میں چار آیتیں اتریں۔ ایک مرتبہ ایک تلوار مجھے مالِ غنیمت میں ملی، وہ رسول اللہ کے پاس لائے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ مجھے عنایت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو رکھ دے۔ پھر میں کھڑا ہوا تو (وہی کہا) اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کو جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔ پھر اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ تلوار مجھے دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو رکھ دو۔ پھر (چوتھی مرتبہ) کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ یہ تلوار مجھے مال غنیمت کے طور پر دے دیجئے کیا میں اس شخص کی طرح رہوں گا جو نادار ہے ؟ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اس کو لیا ہے۔ تب یہ آیت اتری کہ ”اے محمدﷺ آپ سے مال غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، تو آپﷺ فرما دیجئے کہ مال غنیمت، اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں“ (الانفال: 1)۔ (اس حدیث میں چار آیات میں سے صرف ایک آیت کا ذکر ہے )۔

باب : اصحاب سرایا (فوجی دستوں) کو مال غنیمت میں حصہ (اور انعام)دینا

1139: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نجد کی طرف ایک چھوٹا لشکر بھیجا، میں بھی اس میں نکلا۔ وہاں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں مالِ غنیمت میں ملیں، تو ہم میں سے ہر ایک کے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور رسول الله نے ہمیں ایک ایک اونٹ مزید دیا۔

باب : مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالنا۔

1140: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سول اللہﷺ کبھی بعض لشکر والوں کو باقی تمام لشکروں کی نسبت زیادہ دیتے اور ان سب مالوں میں خمس واجب تھا۔

باب : کافر مقتول کا سامان (حرب) قاتل کو دینا چاہیئے۔

1141: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حنین کی لڑائی میں نکلے۔ جب ہم لوگ دشمنوں سے لڑے ، تو مسلمانوں کو (شروع میں) شکست ہوئی (یعنی کچھ مسلمان بھاگے اور رسول اللہﷺ اور کچھ لوگ آپﷺ کے ساتھ میدان میں جمے رہے )۔ پھر میں نے ایک کافر کو دیکھا  کہ وہ ایک مسلمان پر (اس کے مارنے کو) چڑھا تھا۔ میں گھوم کر اس کی طرف آیا اور اس کے کندھے اور گردن کے بیچ میں ایک ضرب لگائی۔ وہ میری طرف پلٹا اور مجھے ایسا دبایا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی۔ اس کے بعد وہ خود مر گیا تب ہی مجھے چھوڑا۔ میں سیدنا عمرؓ  سے ملا انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا (جو ایسے بھاگ نکلے )، میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہﷺ بیٹھے اور آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی کو مارا اور وہ گواہ رکھتا ہو تو اس (مقتول) کا سامان وہی لے۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ سن کر میں کھڑا ہوا اور کہا کہ میرا گواہ کون ہے ؟ اس کے بعد میں بیٹھ گیا پھر آپﷺ نے دوبارہ ایسا ہی فرمایا، تو میں پھر کھڑا ہوا اور کہا کہ میرے لئے گواہی کون دے گا؟ میں بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار آپﷺ نے ایسا ہی فرمایا، تو میں پھر کھڑا ہوا آخر رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ اے ابو قتادہ! تجھے کیا ہوا ہے ؟ میں نے سارا قصہ بیان کیا، تو ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! ابو قتادہ سچ کہتے ہیں اس شخص کا سامان میرے پاس ہے تو ان کو راضی کر دیجئے کہ اپنا حق مجھے دے دیں۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ایسا کبھی نہیں ہو گا اور (رسول اللہﷺ کبھی ارادہ نہ کریں گے کہ) اللہ تعالیٰ کے شیروں میں سے ایک شیر جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے لڑتا ہے (اس کا) اسباب تجھے دلائیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ  سچ کہتے ہیں (اس حدیث سے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے سامنے فتویٰ دیا اور آپﷺ نے ان کے فتوے کو سچ کہا) تو وہ سامان ابو قتادہؓ کو دیدے۔ پھر اس نے وہ سامان مجھے دے دیا۔ سیدنا ابو قتادہؓ  نے کہا کہ میں نے (اس سامان میں سے ) زرہ کو بیچا اور اس کے بدل بنو سلمہ کے محلے میں ایک باغ خریدا۔ اور یہ پہلا مال ہے جس کو میں نے اسلام کی حالت میں کمایا۔

باب : (دشمن کا) سامان بعض قاتلین کو اجتہاد کی بنا پر دینا۔

1142: سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  کہتے ہیں میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا ہوا تھا اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو میرے دونوں طرف انصار کے نوجوان اور کم عمر لڑکے نظر آئے۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ان سے زور آور جوانوں کے درمیان ہوتا (یعنی آزو بازو اچھے قوی لوگ ہوتے تو زیادہ اطمینان ہوتا)۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے دبایا اور کہا کہ اے چچا! تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں اور اے میرے بھائی کے بیٹے ! تیرا ابو جہل سے کیا مطلب ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ابو جہل رسول اللہﷺ کو بُرا کہتا ہے ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں ابو جہل کو پاؤں تو اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی موت پہلے آئی ہو۔ سیدنا عبد الرحمنؓ  نے کہا کہ مجھے اس کے ایسا کہنے سے تعجب ہوا۔ (کہ بچہ ہو کر ابو جہل جیسے قوی ہیکل کے مارنے کا ارادہ رکھتا ہے )۔ پھر دوسرے نے مجھے دبایا اور اس نے بھی ایسا ہی کہا۔ کہتے ہیں تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ابو جہل کو دیکھا کہ وہ لوگوں میں پھر رہا ہے ، میں نے ان دونوں لڑکوں سے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم پوچھتے تھے۔یہ سنتے ہی وہ دونوں دوڑے اور تلواروں کے وار کئے یہاں تک کہ مار ڈالا۔ پھر دونوں لوٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ حال بیان کیا، تو آپﷺ نے پوچھا کہ تم میں سے کس نے اس کو مارا؟ ہر ایک بولنے لگا کہ میں نے مارا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لیں؟ وہ بولے نہیں۔ تب آپﷺ نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا کہ تم دونوں نے اسے مارا ہے۔ پھر اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموحؓ  کو دلایا اور وہ دونوں لڑکے یہ تھے ایک معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرے معاذ بن عفراءث۔

باب : اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول ) کا سامان نہ دینا۔

1143: سیدنا عوف بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ (قبیلہ) حمیر کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہاِ لیکن سیدنا خالد بن ولیدؓ  (جو رسول اللہﷺ کی طرف سے ) لشکر کے سردار تھے نے نہ دیا۔ سیدنا عوف بن مالکؓ  رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے یہ حال بیان کیا، تو آپﷺ نے خالدؓ  سے فرمایا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ سیدنا خالدؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ سامان اس کو دیدے۔ پھر سیدنا خالدؓ، سیدنا عوفؓ  کے ساتھ نکلے ، تو سیدنا عوفؓ نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، آخر وہی ہوا نا (یعنی سیدنا خالدؓ  کو شرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہﷺ نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے خالد! اس کو مت دے اے خالد! اس کو مت دے۔ کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا۔ پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لئے اور بُری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔

باب : دشمن کا سارا مال قاتل کو دینا چاہیئے۔

1144: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  کہتے ہیں کہ ہم غزوہ ہوازن (حنین) میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ( جو آٹھ ہجری میں ہوا)۔ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار آیا۔ اونٹ کو بٹھا کر اس کی کمر پر سے ایک تسمہ نکالا اور اس سے باندھ دیا۔ پھر آ کر لوگوں کے ساتھ کھانا اور کھانے ادھر ادھر دیکھنے لگا (وہ کافروں کا جاسوس تھا)۔ اور ہم لوگ ان دنوں ناتواں تھے اور بعض پیدل بھی تھے (جن کے پاس سواری نہ تھی) اتنے میں یکا یک دوڑتا ہوا اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس کا تسمہ کھول کر اس کو بیٹھ کر اور پھر اس پر بیٹھ کر کھڑا کیا، تو اونٹ اس کو لے کر بھاگا (اب کافروں کو خبر دینے کے لئے چلا)۔ ایک شخص نے خاکی رنگ کی اونٹنی پر اس کا پیچھا کیا۔ سیدنا سلمہؓ  نے کہا کہ میں پیدل دوڑتا چلا گیا پہلے میں اونٹنی کی سرین کے پاس تھا (جو کہ اس جاسوس کے تعاقب میں جا رہی تھی) پھر میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے سرین کے پاس آگیا پھر اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر اس کو بٹھا دیا۔ جونہی اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا، میں نے تلوار سونتی اور اس مرد کے سر پر ایک وار کر کے اس کو گرا دیا۔ پڑا پھر میں اونٹ کو کھینچتا ہوا، اس (جاسوس) کے سامان اور ہتھیار سمیت لے آیا۔ رسول اللہﷺ لوگوں کے ساتھ تھے جو آگے تشریف لائے تھے (میرے انتظار میں) مجھ سے ملے اور پوچھا کہ اس مرد کو کس نے مارا؟ لوگوں نے کہا کہ اکوع کے بیٹے نے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا سب سامان اکوع کے بیٹے کا ہے۔

باب : انعام اور قیدیوں کے بدلہ میں مسلمانوں کو چھڑانے کے متعلق۔

1145: سیدنا ایاس بن سلمہ اپنے والد سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے (قبیلہ) فزارہ سے جہاد کیا اور ہمارے سردار سیدنا ابو بکر صدیقؓ  تھے جنہیں ہمارا امیر رسول اللہﷺ نے بنایا تھا۔ جب ہمارے اور پانی کے درمیان میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہ گیا (یعنی اس پانی سے جہاں قبیلہ فزارہ رہتے تھے )، تو ہم سیدنا ابو بکرؓ  کے حکم سے پچھلی رات کو اتر پڑے۔ پھر ہر طرف سے حملہ کرتے ہوئے پانی پر پہنچے۔ وہاں جو مارا گیا سو مارا گیا اور کچھ قید ہوئے اور میں ایک گروہ کو تاک رہا تھا جس میں (کافروں کے ) بچے اور عورتیں تھیں میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں، میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان میں ایک تیرا مارا، تو تیر کو دیکھ کر وہ ٹھہر گئے۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا۔ ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی جو چمڑا پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی جو کہ عرب کی حسین ترین نوجوان لڑکی تھی۔ میں ان سب کو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے پاس لایا، تو انہوں نے وہ لڑکی مجھے انعام کے طور پر دے دی۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور میں نے ابھی اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا کہ رسول اللہﷺ مجھے بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم وہ مجھے بھلی لگی ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر دوسرے دن مجھے رسول اللہﷺ بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے اور تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ آپ کی ہے۔ اللہ کی قسم میں نے توﷺ سکا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر رسول اللہﷺ نے وہ لڑکی مکہ والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلہ میں کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے۔

باب : جو بستی لڑائی سے فتح کی گئی اس میں حصے اور خمس ہے۔

1146: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس بستی میں تم آئے اور وہاں ٹھہرے ، تو اس میں تمہارا حصہ ہے اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی یعنی لڑائی کی تو (مالِ غنیمت کا) پانچواں حصہ اللہ کا اور رسول کا ہے اور باقی (چار حصے ) تمہارے ہیں۔

باب : مال ”فے “ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔

1147: سیدنا مالک بن اوس کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمرؓ  نے بلایا اور میں ان کے پاس دن چڑھے آیا اور وہ اپنے گھر میں (بغیر بستر کے ) ننگی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ اور ایک چمڑے کے تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ دوڑ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب میں بانٹ دے۔ میں نے کہا کہ کاش یہ کام آپ کسی اور سے لے لیتے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تو لے لے۔ اتنے میں یرفا (ان کا خدمتگار) آیا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد ث آئے ہیں کیا ان کو آنے دوں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اچھا ان کو آنے دے۔ وہ آ گئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عباس اور علی ث آنا چاہتے ہیں، تو سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ان کو بھی اجازت دیدے۔ سیدنا عباسؓ  نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! میرا اور اس جھوٹے ، گنہگار، دغا باز اور چور کا فیصلہ کر دیجئے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے امیر المؤمنین! ان کا فیصلہ کر دیجئے اور ان کو اس مسئلے سے راحت دیجئے۔ مالک بن اوس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علیؓ  اور سیدنا عباسؓ نے ) سیدنا عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر اور سعدؓ کو (اس لئے ) آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمرؓ  سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں)۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ٹھہرو! میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟ سب نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباسؓ  اور سیدنا علیؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم دونوں کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟ ان دونوں نے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اللہ نے گاؤں والوں کے مال میں سے جو دیا، وہ اللہ اور رسولﷺ کا ہی ہے “ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی کہ نہیں پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے بنی نضیر کے مال تم لوگوں کو بانٹ دئیے۔ اور اللہ کی قسم آپﷺ نے (مال کو) تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپﷺ نے خود لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو، یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا۔ اس میں سے رسول اللہﷺ ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا، وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس اللہ تعالیٰ کی، جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کہ تم یہ سب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم جانتے ہیں۔ پھر سیدنا علیؓ اور عباسؓ کو بھی ایسی ہی قسم دی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہاں۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کا ولی ہوں، تو تم دونوں آئے۔ عباسؓ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہﷺ سیدنا عباس کے بھائی کے بیٹے تھے ) اور علیؓ  اپنی زوجہ مطہرہ کا حصہ ان کے والد کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا جو سیدنا علیؓ  کی زوجہ تھیں اور رسول اللہﷺ کی بیٹی تھیں) سیدنا ابو بکرؓ  نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ذیشان ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ، تو تم ان کو جھوٹا، گنہگار، دغا باز اور چور سمجھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے ، نیک اور ہدایت پر تھے اور حق کے تابع تھے۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ  کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہﷺ کا ولی ہوں اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کا، تو تم نے مجھے بھی جھوٹا، گنہگار، دغا باز اور چور سمجھا جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکو کار اور حق پر ہوں، حق کا تابع ہوں۔ میں اس مال کا بھی ولی رہا۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قربت رسولﷺ دونوں میں موجود ہے تم مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو تو میں نے کہا کہ اچھا! اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو اس شرط پر دے دیتا ہوں کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہﷺ کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ کیوں ایسا ہی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ پھر تم دونوں (اب) میرے پاس فیصلہ کرانے آئے ہو؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ قیامت تک کرنے والا نہیں، البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا، تو پھر مجھے لوٹا دو۔

1148: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی صاحبزادی نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے پاس کسی کو رسول اللہﷺ کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو مدینہ میں اور فدک میں دئیے تھے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھو ڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمدﷺ کی آل اسی مال میں سے کھائے گی اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گاجو رسول اللہﷺ کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے )۔ اور وہ رسول اللہﷺ کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ ۱۱ ہجری کو انہوں نے انتقال کیا) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علیؓ  نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور ان پر سیدنا علیؓ  نے نماز پڑھی۔ اور جب تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اس وقت تک لوگ سیدنا علیؓ  سے (بوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ) محبت کرتے تھے ، جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علیؓ  نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں، تب تو انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  سے بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا علیؓ  نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کو بلایا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمرؓ  کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ  نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے نہ پاس جاؤ؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے ؟ اللہ کی قسم میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابو بکرؓ  ان کے پاس گئے اور سیدنا علیؓ  نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابو بکر ص! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیا ہے۔ اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)، لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا؟ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہﷺ سے قرابت رکھتے تھے۔ پھر سیدنا ابو بکر صدیقؓ  سے برابر باتیں کرتے رہے ، یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی آنکھیں بھر آئیں جب سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہﷺ کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اورخمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے وہی کیا۔ سیدنا علیؓ  نے سیدنا ابو بکرؓ  سے کہا کہ اچھا آج دو پہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابو بکرؓ  ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے ، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علیؓ  کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا؟ وہ بھی کہا اور پھر مغفرت کی دعا کی۔ اور سیدنا علیؓ  نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابو بکرؓ  کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابو بکرؓ  پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے ، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا گیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علیؓ  سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیا مسلمان پھر سیدنا علیؓ  کی طرف مائل ہوئے۔

1149 : سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں جو چھوڑ جاؤں تو میرے وارث ایک دینار بھی نہیں بانٹ سکتے اور اپنی عورتوں کے خرچ اور منتظم کی اجرت کے بعد جو بچے ، وہ صدقہ ہے۔

باب : (مال غنیمت میں سے )گھڑ سوار اور پیدل فوج کے حصوں کے متعلق

1150 : سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے غنیمت کے مال میں سے دو حصے گھوڑے کو دلائے اور پیدل آدمی کو ایک حصہ دلایا۔

باب : مال غنیمت میں عورتوں کا حصہ نہیں ہے یوں کچھ دے دینا چاہیئے اور جہاد میں بچوں کے قتل کرنے کے متعلق۔

1151: یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  نے کہا کہ اگر علم کے چھپانے کی بات نہ ہوتی، تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتی لوگوں کا سردار تھا اور رسول اللہﷺ نے ان کی شان میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے )۔ نجدہ نے لکھا تھا کہ بعد حمد و صلوٰة۔ 1۔ بتاؤ کہ کیا رسول اللہﷺ جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے ؟۔ 2۔ کیا ان کو (مالِ غنیمت میں سے ) حصہ دیتے تھے ؟۔3۔ کیا آپﷺ بچوں کو بھی قتل کرتے تھے ؟۔ 4۔ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے ؟۔ 5۔ خمس کس کا حق ہے ؟ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے جواب لکھا کہ تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا رسول اللہﷺ جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے ؟ تو بیشک ساتھ رکھتے تھے اور وہ زخمیوں کی دوا کرتی تھیں اور ان کو کچھ انعام ملتا تھا، ان کا حصہ نہیں لگایا گیا۔ (ابو حنیفہ، ثوری، لیث، رشافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت اگر لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے تو اس کا حصہ لگایا جائے گا۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا اور یہ دونوں مذہب اس صحیح حدیث سے مردود ہیں) اور رسول اللہﷺ (کافروں کے ) بچوں کو نہیں مارتے تھے۔ تو بھی بچوں کو مت مارنا (اسی طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے ) اور تو نے مجھ سے پوچھا کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے ، تو قسم میری عمر (دینے والے ) کی کہ بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے ، پر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے اور نہ دینے کا (وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے )۔ پھر جب اپنے فائدے کے لئے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں، تو اس کی یتیمی جاتی رہتی ہے اور تو نے مجھ سے خمس کا پوچھا کہ کس کا حق ہے ؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمار ے لئے ہے لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔

باب : قیدیوں کے چھوڑ دینے اور ان پر احسان کرنے کے بار ے میں۔

1152 : سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے ، تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے جو اہل یمامہ کا سردار تھا۔ پھر اُسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبیﷺ نے اُس کے پاس جا کر کہا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے ؟ (کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمدﷺ میرا خیال بہتر ہے ، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے ، تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خون والا ہے (یعنی اس میں کوئی بھی قباحت نہیں کیونکہ میرا خون ضائع نہیں جائے گا بلکہ میرا بدلہ لینے والے موجود ہیں)۔ اور اگر آپﷺ احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے ، تو میں آپﷺ کا شکر گزار ہوں گا اور اگر آپﷺ مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے ،جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپﷺ چلے گئے۔ دوسرے دن پھر آپﷺ نے پوچھا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکاکہ اگر آپﷺ احسان کر کے چھوڑ دیں گے ، تو میں شکر گزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو، جو چاہو گے دیا جائے گا۔ آپﷺ نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے ؟ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپﷺ احسان کر کے چھوڑ دیں گے ، تو میں شکر گزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو، جو چاہو گے دیا جائے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے تعمیل حکم کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد کے قریب ہی ایک نخلستان کی طرف گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اے محمدا ! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا منہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپﷺ کا منہ دیکھ کر آتا تھا، اب آج کے دن آپﷺ کا چہرہ سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے ، اور اللہ کی قسم آپﷺ کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے بُرا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپﷺ کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپﷺ کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپﷺ کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا ہے۔ آپﷺ کے سواروں نے مجھے گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپﷺ کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے اسے مبارکباد دی اور عمرہ کرنے کی اجازت دی۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم بلکہ محمد رسول اللہﷺ کا فرمانبردار ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے اس وقت گندم کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا، جب تک کہ نبیﷺ اجازت نہ دے دیں۔

باب : مدینہ سے یہودیوں کو جلا وطن کرنا۔

1153 : سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہﷺ ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم آپﷺ کے ساتھ گئے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچے ، تو رسول اللہﷺ کھڑے ہو گئے اور ان کوپکارا اور فرمایا کہ اے یہود کے لوگو! مسلمان ہو جاؤ محفوظ ہو جاؤ گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسمﷺ! آپ نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام پہنچا دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں یہی چاہتا ہوں۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے یہود مسلمان ہو جاؤ محفوظ ہو جاؤ گے۔ وہ کہنے لگے کہ اے ابو القاسمﷺ! آپ نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں یہی چاہتا ہوں (کہ تم اللہ تعالیٰ کے پیغام کے پہنچ جانے کا اقرار کرو) پھر آپﷺ نے تیسری بار یہی کہا اور فرمایا کہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کو اس ملک سے باہر نکال دوں، تو جو شخص اپنے مال کو بیچ سکے ، وہ بیچ ڈالے اور نہیں تو یہ سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہے۔

باب : یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالنا۔

1154: سیدنا عمر بن خطابؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ البتہ میں یہود اور نصاریٰ کو جزیرۃالعرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہیں رہنے دوں گا۔

باب : حربی کافر اور عہد توڑنے والے کے متعلق حکم۔

1155 : اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن معاذؓ  کو خندق کے دن ایک جو قریش کے ایک شخص ابن العرفہ (اس کی ماں کا نام ہے ) نے ایک تیر مارا جو ان کی اکحل (ایک رگ) میں لگا، تو رسول اللہﷺ نے ان کے لئے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے ) تاکہ نزدیک سے ان کو پوچھ لیا کریں۔ جب آپﷺ خندق سے لوٹے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو پھر جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس اپنا سر غبار سے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپﷺ نے ہتھیار اتار ڈالے ؟ اور ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے۔ چلو ان کی طرف۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کدھر؟ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہﷺ ان سے لڑے اور وہ آپﷺ کے فیصلہ پر راضی ہو کر قلعہ سے نیچے اترے اور آپﷺ نے ان کا فیصلہ سیدنا سعدؓ  پر رکھا (کیونکہ وہ سیدنا سعد کے حلیف تھے )۔ سعدؓ  نے کہا کہ میں یہ حکم کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں وہ تو مار دئیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنائے جائیں اور ان کے مال تقسیم کر لئے جائیں۔ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا سعدؓ  سے فرمایا کہ تو نے بنی قریظہ کے بارے میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا اورا یک دفعہ یوں فرمایا کہ بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔

نام ہے ) نے ایک تیر مارا جو ان کی اکحل (ایک رگ) میں لگا، تو رسول اللہﷺ نے ان کے لئے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے ) تاکہ نزدیک سے ان کو پوچھ لیا کریں۔ جب آپﷺ خندق سے لوٹے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو پھر جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس اپنا سر غبار سے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپﷺ نے ہتھیار اتار ڈالے ؟ اور ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے۔ چلو ان کی طرف۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کدھر؟ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہﷺ ان سے لڑے اور وہ آپﷺ کے فیصلہ پر راضی ہو کر قلعہ سے نیچے اترے اور آپﷺ نے ان کا فیصلہ سیدنا سعدؓ  پر رکھا (کیونکہ وہ سیدنا سعد کے حلیف تھے )۔ سعدؓ  نے کہا کہ میں یہ حکم کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں وہ تو مار دئیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنائے جائیں اور ان کے مال تقسیم کر لئے جائیں۔ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا سعدؓ  سے فرمایا کہ تو نے بنی قریظہ کے بارے میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا اور ایک دفعہ یوں فرمایا کہ بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔

 

 

 

کتاب: ہجرت اور غزوات بیان میں

 

باب : نبیﷺ کی ہجرت اور آپﷺ کی نشانیوں کے بیان میں۔

1156: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء بن عازبؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  میرے باپ (عازب) کے مکان پر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا اور بولے کہ تم اپنے بیٹے سے کہو کہ یہ کجاوہ اٹھا کر میرے ساتھ میرے مکان تک لے چلے۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ کجاوہ اٹھا لے۔ میں نے اٹھا لیا اور میرے والد بھی سیدنا ابو بکر کے ساتھ اس کی قیمت لینے کو نکلے میرے باپ نے کہا کہ اے ابو بکر ! تم نے اس رات کو کیا کیا جس رات رسول اللہﷺ کے ساتھ باہر نکلے (یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے چلے ) سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ ہم ساری رات چلتے رہے یہاں تک کہ دن ہو گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا کہ راہ میں کوئی چلنے والا نہ رہا۔ ہمیں سامنے ایک بڑی چٹان دکھائی دی جس کا سایہ زمین پر تھا اور وہاں دھوپ نہ آئی تھی، ہم اس کے پاس اترے۔ میں پتھر کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ سے جگہ برابر کی تاکہ رسول اللہﷺ اس کے سایہ میں آرام فرمائیں، پھر میں نے وہاں کملی (چادر) بچھائی اور اس کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ سو جائیے ، میں آپﷺ کے گرد سب طرف دشمن کا کھوج لیتا ہوں (کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آیا)۔ پھر میں نے بکریوں کا ایک چرواہا دیکھا جو اپنی بکریاں لئے ہوئے اسی پتھر کی طرف اس ارادے سے جس ارادے سے ہم آئے تھے (یعنی اس کے سایہ میں ٹھہرنا اور آرام کرنا) آ رہا تھا۔میں اس سے ملا اور پوچھا کہ اے لڑکے تو کس کا غلام ہے ؟ وہ بولا کہ میں مدینہ (شہر یعنی مکہ) والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں۔ میں نے کہا کہ تیری بکریاں دودھ ولی ہیں؟ وہ بولا ہاں۔ میں نے کہا کہ تو ہمیں دودھ دے گا؟ وہ بولا ہاں۔ پھر وہ ایک بکری کو لایا تو میں نے کہا کہ اس تھن بالوں، مٹی اور گرد و غبار سے صاف کر لے تاکہ یہ چیزیں دودھ میں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا کہ) میں نے براء بن عازب کو دیکھا کہ وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے اور جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا، جس میں رسول اللہﷺ کے پینے اور وضو کے لئے پانی تھا۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور مجھے آپﷺ کو نیند سے جگانا بُرا معلوم ہوا، لیکن میں نے دیکھا کہ آپﷺ خود بخود جاگ اٹھے تھے۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ دودھ پیجئے۔ آپﷺ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کیا کوچ کا وقت نہیں آیا؟ میں نے کہا کہ آ گیا۔ پھر ہم زوال آفتاب کے بعد چلے اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا (اور وہ اس وقت کافر تھا) اور ہم سخت زمین پر تھے۔ کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہم کو تو کافروں نے پا لیا، آپﷺ نے فرمایا کہ مت فکر کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے سراقہ پر بددعا کی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا (حالانکہ وہاں کی زمیں سخت تھی) وہ بولا کہ میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لئے بددعا کی ہے ، اب میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تم دونوں کی تلاش میں جو آئے گا اس کو پھیر دوں گا تم میرے لئے دعا کرو (کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس عذاب سے چھڑا دے )۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو وہ چھٹ گیا اور لوٹ گیا۔ جو کوئی کافر اس کو ملتا وہ کہہ دیتا کہ ادھر میں سب دیکھ آیا ہوں غرض جو کوئی ملتا تو سراقہ اس کو پھیر دیتا۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ سراقہ نے اپنی بات پوری کی۔

باب : غزوہ بدر کے متعلق۔

1157: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کو قافلہء ابو سفیان کے آنے کی خبر پہنچی، آپﷺ نے مشورہ کیا۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے گفتگو کی، آپﷺ نے جواب نہ دیا پھر سیدنا عمرؓ  نے گفتگو کی، لیکن آپﷺ جب بھی مخاطب نہ ہوئے۔ آخر سیدنا سعد بن عبادہ (انصار کے رئیس) اٹھے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ہم (یعنی انصار) سے پوچھتے ہیں؟ تو قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ ہم کو حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں، تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپﷺ حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو برک الغماد تک بھگا دیں، (جو کہ مکہ سے بہت دور ایک مقام ہے ) تو البتہ ہم ضرور بھگا دیں گے (یعنی ہم ہر طرح آپﷺ کے حکم کے تابع ہیں گوہم نے آپﷺ سے یہ عہد نہ کیا ہو۔ آفرین ہے انصار کی جانثاری پر) تب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ وہاں قریش کے پانی پلانے والے ملے۔ ان میں بنی حجاج کا ایک کالا غلام بھی تھا، صحابہ نے اس کو پکڑا اور اس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھنے لگے۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے ابو سفیان کا تو علم نہیں، البتہ ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو یہ موجود ہیں۔ جب وہ یہ کہتا، تو اس کو مارتے اور جب وہ یہ کہتا کہ اچھا اچھا میں ابو سفیان کا حال بتاتا ہوں، تو اس کو چھوڑ دیتے۔ پھر اس سے پوچھتے تو وہ یہی کہتا کہ میں ابو سفیان کا حال نہیں جانتا البتہ ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں۔ پھر اس کو مارتے اور رسول اللہﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپﷺ نے یہ دیکھا تو نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اسکو مارتے ہو اور جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو (یہ ایک معجزہ ہوا)۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے اور ہاتھ زمین پر رکھ کر نشاندہی کی۔ اور یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔ راوی نے کہا کہ پھر جہاں آپﷺ نے ہاتھ رکھا تھا، اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر کافر اسی جگہ گرا (یہ دوسرا معجزہ ہوا)۔

1158: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بسیسہ (ایک شخص کا نام ہے ) کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ وہ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لائے وہ لوٹ کر آیا اور اس وقت میرے گھر میں رسول اللہﷺ کے سوا کوئی نہ تھا۔ راوی نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کی کس بی بی کا انسؓ  نے ذکر کیا پھر حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ باہر نکلے اور فرمایا کہ ہمیں کام ہے ، تو جس کی سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو۔ یہ سن کر چند آدمی آپﷺ سے اپنی سواریوں کی طرف جانے کی اجازت مانگنے لگے جو مدینہ منورہ کی بلندی میں تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں صرف وہ لوگ جائیں جن کی سواریاں موجود ہوں۔ آخر آپﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ چلے ، یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے بدر میں پہنچے اور مشرک بھی آ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نہ بڑھے جب تک میں اس کے آگے نہ ہوں۔ پھر مشرک قریب پہنچے ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس جنت میں جانے کے لئے اٹھو جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن حمام انصاری نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا واہ سبحان اللہ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ وہ بولا کچھ نہیں یا رسول اللہﷺ! میں نے اس امید پر کہا کہ میں بھی اہل جنت سے ہو جاؤں۔آپﷺ نے فرمایا تو جنتی ہے۔ یہ سن کر چند کھجوریں اپنے ترکش سے نکال کر کھانے لگا پھر بولا کہ اگر میں اپنی کھجوریں کھانے تک جیوں تو بڑی لمبی زندگی ہو گی اور جتنی کھجوریں باقی تھیں وہ پھینک دیں اور کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔

باب : فرشتوں کی امداد ، قیدیوں کے فدیہ اور مال غنیمت کے حلال ہونے کے متعلق۔

1159: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپﷺ کے اصحاب تین سو انیس تھے۔رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے پروردگار سے پکار پکار کر دعا کرنے لگے (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے ) یا اللہ! تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا اس کو پورا کر، اے اللہ! تو مجھے دیدے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا، اے اللہ اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کر دے گا، تو پھر زمین میں تیری عبادت کوئی نہ کرے گا۔ پھر آپﷺ اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر دعا کرتے رہے ، یہاں تک کہ آپﷺ کی چادر مبارک کندھوں سے اتر گئی۔ سیدنا ابو بکرؓ  آئے اور آپﷺ کی چادر کندھوں پر ڈال دی پھر پیچھے سے لپٹ گئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! بس آپﷺ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ اپنا وہ وعدہ پورا کرے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا“ (الانفال: 9) پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی مدد فرشتوں سے کی۔ ابو زمیل (راوئ حدیث) نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباسؓ  نے حدیث بیان کی کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو کہ اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے کوڑے کی آواز سنائی دی وہ کہتا تھا کہ بڑھ اے حیزوم (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر اس مسلمان کے سامنے چت گر پڑا۔ مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اسکا منہ پھٹ گیا تھا، جیسا کوئی کوڑا مارتا ہے اور وہ (کوڑے کی وجہ سے ) سبز ہو گیا تھا۔ پھر مسلمان انصاری رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو سچ کہتا ہے یہ تیسرے آسمان سے آئی ہوئی مدد تھی۔ آخر مسلمانوں نے اس دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابو زمیل نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ جب قیدی گرفتار ہو کر آئے ، تو رسول اللہ نے سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ  سے کہا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپﷺ ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دیجئے جس سے مسلمانوں کو کافروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی ہدایت کر دے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ص! تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! میری رائے وہ نہیں ہے جو ابو بکر کی رائے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم ان کو قتل کریں۔ عقیل کو علیؓ کے حوالے کیجئے ، وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجئے کہ میں اس کی گردن ماروں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے ”امام“ ہیں۔ لیکن رسول اللہﷺ کو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی اور جب دوسرا دن ہوا اور میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا (تو دیکھا کہ) آپﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ  دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے بھی بتائیے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونا آئے گا تو روؤں گا ورنہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ جو تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک (رسول اللہﷺ کے پاس ایک درخت تھا، اس کی طرف اشارہ کیا) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زمین میں کافروں کا زور نہ توڑ دے “ (الانفال: 69..67)۔

باب : جنگ بدر کے مردار کافروں سے نبیﷺ کی گفتگو جبکہ وہ مردہ تھے۔

1160: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا- پھر آپﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا کہ اے ابو جہل بن ہشام، اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔سیدنا عمرؓ  نے جب رسول اللہﷺ کا فرمانا سنا، تو عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر سڑ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔ پھر آپﷺ کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔ (یعنی وہ صرف نبیﷺ کی بات کو سن رہے تھے )۔

باب : غزوہ احد کا بیان۔

1161: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ احد کے دن (جب کافروں کا غلبہ ہوا اور مسلمان مغلوب ہو گئے ) اکیلے رہ گئے سات آدمی انصار کے اور دو قریش کے آپﷺ کے پاس رہ گئے تھے اور کافروں نے آپﷺ پر ہجوم کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو کون پھیرتا ہے ؟ اس کو جنت ملے گی یا جنت میں میری رفاقت ملے گی۔ ایک انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ (کفار نے ) پھر ہجوم کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کون ان کو لوٹاتا ہے ؟ اس کو جنت ملے گی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔ ایک اور انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ پھر یہی حال رہا یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے۔ (سبحان اللہ انصار کی جانثاری اور وفاداری کیسی تھی یہاں سے اصحاب رسول اللہﷺ کا درجہ اور مرتبہ سمجھ لینا چاہئیے ) تب آپﷺ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے اصحاب کے ساتھ انصاف نہ کیا (یا ہمارے اصحاب نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا) (پہلی صورت میں یہ مطلب ہو گا کہ انصاف نہ کیا یعنی قریش بیٹھے رہے اور انصار شہید ہو گئے قریش کو بھی نکلنا تھا دوسری صورت میں یہ معنی ہوں گے ہمارے اصحاب جو جان بچا کر بھاگ گئے انہوں نے انصاف نہ کیا کہ ان کے بھائی شہید ہوئے اور وہ اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں رہے )۔

باب : احد کے دن نبیﷺ کے زخمی ہونے کا بیان۔

1162: سیدنا ابو حازم سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ  سے سنا، جب ان سے رسول اللہﷺ کے احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور آپﷺ کے دانت ٹوٹ گئے اور آپﷺ کے سر پر خود ٹوٹا (تو سر کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی) پھر آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خون دھوتی تھیں اور سیدنا علیؓ  اس پر سے پانی ڈالتے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون اور زیادہ نکلتا ہے تو انہوں نے بورئیے کا ایک ٹکڑا جلا کر راکھ زخم پر بھر دی تب خون بند ہوا۔

1163: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا دانت احد کے دن ٹوٹا اور سر پر زخم لگا۔ آپﷺ خون کو صاف کرتے جاتے اور فرماتے تھے کہ اس قوم کی فلاح کیسے ہو گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا اور اس کا دانت توڑا حالانکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا تھا۔ اس وقت یہ آیت اتری کہ ”تمہارا کچھ اختیار نہیں اللہ تعالیٰ چاہے ان کو معاف کرے اور چاہے عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں“ (آل عمران : 128)۔

باب : نبیﷺ کی طرف سے احد کے دن جبریل اور میکائیل علیہم السلام کا لڑنا۔

1164: فاتح ایران سیدنا سعدبن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اُحد کے دن رسول اللہﷺ کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے (اور وہ آپﷺ کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے ) اس سے پہلے اور اسکے بعد میں نے ان کو نہیں دیکھا وہ جبرئیل اورمیکائیل علیہما السلام تھے (اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ان فرشتوں کے ساتھ عزت دی اور اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا صرف بدر میں لڑنا خاص نہ تھا)۔

باب : اللہ تعالیٰ کا غصہ اس پر بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہﷺ نے قتل کیا ہو۔

1165: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غصہ ان لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے ایسا کیا اور آپﷺ اپنے دانت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر (بھی) بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کریں (یعنی جہاد میں جس کو ماریں کیونکہ اس مردود نے پیغمبر کو مارنے کا قصد کیا ہو گا اور اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کو آپﷺ حد یا قصاص میں ماریں)۔

باب : آپﷺ کی قوم سے آپﷺ کو جو تکلیف پہنچی اس کا بیان۔

1166: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے (یعنی قریش کی قوم سے ) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا جب میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے آپ کو پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنانہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر (بہت زیادہ) رنج و غم تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلتا گیا) مگر جب (مقامِ) قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا تو ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور اس میں جبرئیلؑ تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کی قوم کا کہنا اور جو انہوں نے آپ کو جواب دیا سن لیا ہے۔ اور پہاڑوں کے فرشتے کو اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم کریں۔ پھر اس فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام کیا اور کہا کہ اے محمدﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کہنا سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپﷺ کے رب نے آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں میں کروں۔ پھر آپ جو چاہیں کہیں؟ اگر آپ کہیں تو میں دونوں پہاڑ (یعنی ابو قبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے ) ان پر ملا دوں (اور ان کو کچل دوں)؟۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ (میں یہ نہیں چاہتا) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو خاص اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے (سبحان اللہ کیا شفقت تھی آپﷺ کو اپنی امت پر۔ وہ رنج دیتے اور آپ ان کی تکلیف گوارا کرتے )۔

1167: سیدنا جندب بن سفیانؓ  کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں رسول اللہﷺ کی انگلی زخمی ہو گئی اور خون نکل آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہے تو مگر ایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بے حقیقت ہے )۔

1168: سیدنا ابن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اپنے دوستوں سمیت بیٹھا تھا اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ ابو جہل نے کہا کہ تم میں سے کون جا کر اس کی بچہ دانی لاتا ہے اور اس کو محمدﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان میں رکھ دیتا ہے جب کہ وہ سجدے میں جائیں؟ یہ سن کر ان کا بدبخت شقی (عقبہ بن ابی معیط ملعون) اٹھا اور لا کر رسول اللہﷺ جب سجدے میں گئے ، تو آپﷺ کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں وہ بچہ دانی رکھ دی۔ پھر ان لوگوں نے ہنسی شروع کی اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے میں کھڑا ہوا دیکھتا تھا، مجھے اگر زور ہوتا (یعنی میرے مددگار لوگ ہوتے )، تو میں اس کو آپﷺ کی پیٹھ سے پھینک دیتا اور رسول اللہﷺ سجدے ہی میں رہے اور آپﷺ نے سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ایک آدمی گیا اور اس نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر کی تو وہ آئیں اور اس وقت وہ لڑکی تھیں اور اس کو آپﷺ کی پیٹھ سے اتارا اور پھر ان لوگوں کی طرف آئیں اور ان کو بُرا کہا۔ جب آپﷺ نماز پڑھ چکے ، تو بلند آواز سے ان پر بددعا کی۔ اور آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپﷺ دعا کرتے تو تین بار دعا کرتے اور جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! قریش کو سزا دے۔ تین بار آپﷺ نے فرمایا: اور وہ لوگ آپﷺ کی آواز سن کر آپﷺ کی بددعاء سے ڈر گئے اور ان کی ہنسی جاتی رہی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! تو ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو برباد کر دے اور ساتویں کا نام مجھے یاد نہیں رہا(بخاری کی روایت میں اس کا نام عمارہ بن ولید مذکور ہے )۔ پھر قسم اس کی جس نے محمدﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا کہ میں نے ان سب لوگوں کو جن کا نام آپﷺ نے لیا تھا، بدر کے دن مقتول پڑے ہوئے دیکھا کہ ان کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنوئیں میں ڈالی گئیں (جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں) ابو اسحاق نے کہا کہ ولید بن عقبہ کا نام اس حدیث میں غلط ہے۔

باب : انبیاء علیہم السلام کا اپنی قوم کی تکلیف پر صبر کرنا۔

1169: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ گویا کہ میں (اب بھی) رسول اللہﷺ کو دیکھ رہا ہوں، کہ آپﷺ ایک پیغمبر کا حال بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے ان کو مارا تھا اور وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ (سبحان اللہ نبوت کے حوصلے کا کیا کہنا)۔

باب : ابو جہل کا قتل۔

1170: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابو جہل کی خبر کون لاتا ہے ؟ یہ سن کر سیدنا ابن مسعودؓ  گئے تو دیکھا کہ عفراء کے بیٹوں نے اسے ایسا مارا تھا کہ وہ زمین پر گرا ہوا تھا(یعنی قریب المرگ تھا) سیدنا ابن مسعودؓ  نے اس کی ڈاڑھی پکڑی اور کہا کہ تو ابو جہل ہے ؟ وہ بولا کہ کیا تم نے اس شخص (ابو جہل) سے زیادہ مرتبے والے شخص کو قتل کیا ہے ؟ (یعنی مجھ سے زیادہ قریش میں کوئی بڑے درجے کا نہیں) یا اس نے کہا کسی بڑے آدمی کو اس کی قوم نے قتل کیا ہے جو مجھ سے بڑا ہو؟(یعنی اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میری کوئی ذلت نہیں) ابو مجلز نے کہا کہ ابو جہل نے کہا کہ کاش کاشتکار کے سوا اور کوئی مجھے مارتا۔

باب : کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ۔

1171: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے ؟ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو بڑی تکلیف دی ہے۔ سیدنا محمد بن مسلمہؓ  نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپﷺ کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں؛ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ اپا نے فرمایا کہ تجھے اختیار ہے۔ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہؓ  اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمدا ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے ، اللہ کی قسم آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم اُس کا اتباع کر چکے ہیں اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا۔لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے اس نے کہا ٹھک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابی عبس بن جبر اور عباد بن بشر کو بھی ساتھ لائے گا۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔وہ قلعہ سے نیچے اتر کر اُن کے پاس آنے لگا۔ اُس کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہؓ اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں) عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ اور میرا دودھ شریک بھائی ابو نائلہ ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بھی بلایا جائے تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہؓ  (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے )۔ محمد بن مسلمہؓ  نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے ، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہؓ  نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔ کعب نے جواب دیا کہ ہاں! میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہؓ  نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ محمد بن مسلمہؓ  نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہؓ  نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔

باب : غزوہ رقاع کا بیان۔

1172: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم باری باری اس پر سوار ہوتے تھے۔ ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پیر پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے ، تو ہم نے اپنے پیروں پر پٹیاں باندھ لیں، اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔ ابو بردہ (راوی) نے کہا کہ یہ حدیث ابو موسیٰؓ  نے ایک مرتبہ سنائی پھر (ریا کاری کے خوف سے ) بیان نہیں کرتے تھے۔ اور ابو اسامہ نے کہا کہ برید کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ زیادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے۔

باب : غزوہ احزاب جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے۔

1173: سیدنا ابراہیم التیمی اپنے والد (یزید بن شریک تیمی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا حذیفہ بن یمانؓ  کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص بولا: اگر میں رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں ہوتا، تو آپﷺ کے ساتھ جہاد کرتا اور لڑنے میں کوشش کرتا۔ سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ کیا تو ایسا کرتا؟ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا۔ کرنا اور ہے اور کہنا اور ہے۔ صحابہ کرام نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا تھا) میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم غزوہ احزاب کی رات کو رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ، ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو جا کر کافروں کی خبر لائے ؟ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔ یہ سن کر ہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے )۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے ؟ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب کرے گا۔ کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے۔ آخر آپﷺ نے فرمایا کہ اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔ اب کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ آپﷺ نے میرا نام لے کر جانے کا حکم دیا تھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ جا اور کافروں کی خبر لے کر آ اور ان کو مجھ پر مت اکسانا۔ (یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ان کو مجھ پر غصہ آئے اور وہ تجھے ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں)۔ جب میں آپﷺ کے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپﷺ کی دعا کی برکت تھی اللہ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت پہلے تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کرے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے ) یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ ابو سفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے ، تو میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور مارنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے رسول اللہﷺ کا فرمان یا د آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو۔ اگر میں مار دیتا تو بیشک ابو سفیان کو مار لیتا۔آخر میں لوٹا پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حمام کے اندر چل رہا ہوں۔ جب رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا،اس وقت سردی معلوم ہوئی (یہ آپﷺ کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپﷺ نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا، جس کو اوڑھ کر آپﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سوتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اٹھ اے بہت زیادہ سونے والے !

1174: سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ غزوہ احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے (جب مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی)اور مٹی نے آپﷺ کے پیٹ کی سفیدی کو چھپا لیا تھا۔ آپﷺ یہ فرما رہے تھے : قسم اللہ تعالیٰ کی اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ تو ہم پر اپنی رحمت کو اتار ان لوگوں (یعنی مکہ والوں) نے ہمارا کہنا نہ مانا (یعنی ایمان نہ لائے )اور ایک روایت میں ہے کہ سرداروں نے ہمارا کہنا نہ مانا۔ جب وہ فساد کی بات کرنا چاہتے ہیں (یعنی شرک اور کفر وغیرہ) تو ہم ان کے شریک نہیں ہوتے اور یہ آپﷺ بلند آواز سے فرماتے تھے۔

1175: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب خندق کے دن یہ رجز پڑھ رہے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمدﷺ سے اسلام پر یا جہاد پر بیعت کی ہے (اس وقت تک) جب تک ہم زندہ رہیں اور رسول اللہﷺ یہ رجز پڑھ رہے تھے : اے اللہ! بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔

باب : بنی قریظہ کا بیان۔

1176: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ جب آپﷺ غزوہ احزاب سے لوٹے ، تو آپﷺ نے منادی کی کہ کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے محلہ میں۔بعض لوگ ڈرے کہ ایسا نہ ہو کہ نماز قضا ہو جائے۔ انہوں نے وہاں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم نہیں پڑھیں گے مگر جہاں رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے اگرچہ نماز قضا ہو جائے۔ پھر آپﷺ دونوں گروہوں میں سے کسی گروہ پر خفا نہیں ہوئے۔

باب : غزوہ ذی قرد کا بیان۔

1177: سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع)ؓ  نے بیان کیا، کہا ہم رسول اللہﷺ  کے ساتھ حدیبیہ میں پہنچے اور ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہور روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنوئیں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی ایسا کم پانی تھا)۔ پھر رسول اللہﷺ نے کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر یا تو دعا کی یا کنوئیں میں دہن مبارک ڈالا، تو وہ اسی وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پانی پلایا۔ اس کے بعد نبیﷺ نے ہمیں بیعت کے لئے درخت کی جڑ میں بلایا۔ (اسی درخت کو شجرۂ رضوان کہتے ہیں اور اسی درخت کا ذکر قرآن پاک میں ہے ) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں سے آپﷺ سے بیعت کی۔ پھر آپﷺ بیعت لیتے رہے ، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے تو اس وقت آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ! بیعت کر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں تو اوّل ہی آپﷺ سے بیعت کر چکا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر دوبارہ ہی سہی اور آپﷺ نے مجھے نہتا (بے ہتھیار دیکھا) تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی۔ پھر آپﷺ بیعت لینے لگے ، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے۔ اس وقت آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں تو آپﷺ سے اوّل لوگوں میں بیعت کر چکا ہوں پھر درمیان کے لوگوں میں بھی۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر سہی۔ غرض میں نے تیسری بار آپﷺ سے بیعت کی پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ! تیری وہ بڑی یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرا چچا عامر مجھے ملا اور وہ نہتا تھا، تو میں نے وہ اس کو دے دی۔ یہ سن کر آپﷺ ہنسے اور آپﷺ نے فرمایا کہ تیری مثال اس اگلے شخص کی سی ہے جس نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔ پھر مشرکوں نے صلح کے پیغام بھیجے ، یہاں تک کہ ہر ایک طرف کے آدمی دوسری طرف جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی۔ سلمہ نے کہا کہ میں طلحہ بن عبید اللہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا اسی کی پیٹھ کھجاتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا اور انہی کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اور میں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف ہجرت کر کے اپنا گھر بار، دھن دولت سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا، تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے صاف کئے اور جڑ کے پاس لیٹ گیا کہ اتنے میں مکہ کے چار آدمی مشرکوں میں سے آئے اور رسول اللہ کو بُرا کہنے لگے۔ مجھے غصہ آیا اور (مصلحت کی بناء پر) میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے۔ وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی کہ دوڑو اے مہاجرین ابن زنیم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا جو سو رہے تھے۔ ان کے ہتھیار میں نے لے لئے اور ایک گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے ، پھر کہا کہ قسم اس کی جس نے محمدﷺ کو عزت دی، تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں اس کا وہ عضو کہ جس میں اس کی ہیں (یعنی سر) تن سے جدا کر دوں گا۔ پھر میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس لایا اور میرا چچا عامر عبلات (جو کہ قریش کی ایک شاخ ہے ) میں سےایک شخص کو لایا جس کو مکرز کہتے تھے۔ وہ اس کو ایسے گھوڑے پر کھینچتا ہوا لایا جس پر جھول پڑی تھی مشرکین کے ستر آدمیوں کے ساتھ۔ رسول اللہﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو، مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو، پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہدشکنی ایک بار نہیں دوبار ہو تو ہمیں بدلہ لینا بُرا نہیں)۔ آخر رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کو معاف کر دیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”اس اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے (لڑائی سے ) روکا مکہ کی سرحد میں جب تم کو ان پر فتح دے چکا تھا…“ (پوری آیت)۔ (الفتح:24) پھر ہم مدینہ کو لوٹے راستے میں ایک منزل پر اترے جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا رسول اللہﷺ نے اس شخص کے لئے دعا کی جو رات کو اس پہاڑ پر چڑھ جائے اور آپ اور آپﷺ کے اصحاب کا کا پہرہ دے۔ میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا) پھر ہم مدینہ میں پہنچے ، تو رسول اللہﷺ نے اپنی اونٹنیاں اپنے غلام رباح کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا اور میں اس کے ساتھ طلحہؓ  کا گھوڑا لئے ہوئے انہیں پانی پلانے کے لئے ندی پر لانے کے لئے نکلا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری (مشرک) نے آپﷺ کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا کہ اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہﷺ کو خبر کر کہ کافروں نے آپﷺ کی اونٹنیاں لوٹ لیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوا اورمدینہ کی طرف منہ کر کے میں نے تین بار آواز دی کہ یاصباحاہ، یا صباحاہ (یہ الفاظ حملہ کے وقت اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے بولے جاتے تھے )۔ اس کے بعد میں ان لٹیروں کے پیچھے تیر مارتا اور رجز پڑھتا ہوا روانہ ہوا۔ (رجز یہ تھا) میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو (کاٹھی کو چیر کر) اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا اور کہتا: یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر اللہ کی قسم میں ان کو برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا۔ جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا، تو میں درخت کے نیچے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مار کر سوار یا گھوڑے کو زخمی کر دیتا تھا، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے ، تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کر دیئے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہﷺ کی سواری کا تھا، نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا ہو اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  نے چھین لئے )۔ سیدنا سلمہؓ  نے کہا کہ پھر میں ان کے پیچھے تیر مارتا ہوا چلا، یہاں تک کہ انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور نیزے اپنے آپ کو ہلکا کرنے کے لئے پھینک دیئے۔ اور جو چیز وہ پھینکتے اس پر میں پتھر کا ایک نشان رکھ دیتا تاکہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اسے اٹھالیں)، یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا اور وہ سب دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھے گئے۔ اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھ گیا۔ فزاری نے کہا کہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے کہ اس نے تو شخص نے ہمیں تنگ کر چھوڑا ہے۔ اللہ کی قسم اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے ، باربر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا کہ تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے ، جب وہ اتنی دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں، تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن اپنے آپ کو بوجہ شہرت کے دادا کی طرف منسوب کیا) قسم اس ذات کی جس نے محمدﷺ کو بزرگی دی کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں گا (تیر سے ) مار ڈالوں گا اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ سب لوٹے اور میں وہاں سے چلا نہیں تھا کہ رسول اللہﷺ کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے۔ ان کے پیچھے سیدنا ابو قتادہ ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندیؓ  تھے نے سیدنا اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں نے کہا کہ اے اخرم جب تک رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب نہ آ جائیں تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اے سلمہ! اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا یقین ہے اور تو جانتا ہے کہ جنت اور جہنم حق ہیں، تو مجھ کو شہادت سے مت روک (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ سے شہید ہوں گا تو اس سے بہتر کیا ہے ؟) میں نے ان کو چھوڑ دیا ان کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا۔ اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمن نے برچھی سے اخرم کو شہید کر دیا۔ اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا کہ اتنے میں سیدنا ابو قتادہ ص، رسول اللہﷺ  کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمن کو برچھا مار کر قتل کر دیا۔ تو قسم اس کی جس نے محمدﷺ کو بزرگی دی کہ میں ان کے پیچھے گیا۔ میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے نبیﷺ کا کوئی صحابی دکھلائی دیا نہ ان کا غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا۔ وہ پیاسے تھے اور پانی پینے کو اترے۔ پھر مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا، تو آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا کہ وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ اب وہ کسی گھاٹی کی طرف دوڑتے تو میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر اس کے شانے کی ہڈی میں مارا اور میں نے کہا کہ یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ وہ بولا اس کی ماں اس پر روئے (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے ) کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں اے اپنی جان کے دشمن! وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ ابن اکوعؓ  نے کہا کہ ان لٹیروں کے دو گھوڑے (دوڑتے دوڑتے تھک گئے تو) انہوں نے ان کوچھوڑ دیا۔ تو میں ان گھوڑوں کو ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس ایک گھاٹی میں لایا۔ وہاں مجھے عامرؓ  ملے۔ جن کے پاس ایک برتن میں دودھ اور ایک میں پانی تھا۔ میں نے وضو کیا اور اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوعؓ  کی ہمت کہ صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے ، اونٹ تھک گئے ، لوگ مر گئے مال رہ گئے لیکن سلمہ بن اکوعؓ  نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ یہ اللہ جل جلالہ کی خاص مدد تھی جو اس کی راہ میں ہمت و استقامت کے ساتھ چلنے والوں کو ملتی ہے ) پھر رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ نے سارے اونٹ لے لئے ہیں اور وہ سب چیزیں (بھی) جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں اور وہ نیزے اور چادریں۔ اور سیدنا بلالؓ  نے ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نحر (ذبح) کیا جو میں نے چھینے تھے اور وہ رسول اللہﷺ کے لئے اس کی تلی اور کوہان کا گوشت بھون رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے لشکر میں سے سو آدمی لینے کی اجازت دیجئے میں ان لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جو (اپنی قوم کو) جا کر خبر دے سکے یہ سن کر آپﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپﷺ کی داڑھیں آگ کی روشنی میں ظاہر ہو گئیں اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ تو یہ کر سکتا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں اس اللہ کی قسم جس نے آپﷺ کو بزرگی دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے اور وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔ اتنے میں غطفان میں سے ایک شخص آیا اور وہ بولا کہ فلاں شخص نے ان کے لئے ایک اونٹ کاٹا تھا اور وہ اس کی کھال نکال رہے تھے کہ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی، تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آ گئے اور وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح کے وقت آپﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر ابو قتادہؓ ہیں اور پیادوں (پیدل فوج) میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوعؓ ہیں۔ سلمہؓ  نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ نے مجھے  دو حصے دئیے ایک حصہ سوار کا اور ایک پیادے (پیدل) کا اور دونوں میرے لئے جمع کر دیئے۔ پھر اس کے بعد آپﷺ نے مدینہ کو لوٹتے وقت مجھے اپنے ساتھ عضباء پر بٹھا لیا۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کہ کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور بار بار یہی کہتا تھا۔ جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا کہ تو بزرگ کی بزرگی کا خیال نہیں کرتا۔ اور بزرگ سے نہیں ڈرتا؟ اس نے کہا نہیں البتہ رسول اللہﷺ کی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں مجھے چھوڑ دیجئے میں اس مرد سے دوڑ میں آگے بڑھوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا اگر تیرا جی چاہے۔ تب میں نے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کر کے کود پڑا پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو میں نے اپنا سانس بحال کیا پھر اس کے پیچھے دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور کہا کہ اللہ کی قسم اب میں آگے بڑھا۔ پھر اس سے آگے مدینہ کو پہنچا (تو معلوم ہوا کہ بغیر کسی لالچ و انعام کے مقابلہ بازی درست ہے اور انعام وغیرہ کی شکل میں اختلاف ہے۔ اکثر انعام وغیرہ کی شکل میں دھوکے بازی، سٹے بازی وغیرہ کا معمول بن چکا ہے ) پھر اللہ کی قسم ہم صرف تین رات ٹھہرے تھے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے اور میرے چچا عامرؓ  نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ ”اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پرواہ نہیں ہوئے تو ہمارے پاؤں کو جمائے رکھ اگر ہم کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسکین ہمارے اوپر اتار“۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ عامرؓ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو بخشے۔ سلمہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب کسی کے لئے خاص طور پر استغفار کرتے ، تو وہ ضرور شہید ہوتا۔ سیدنا عمرؓ  نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے کہ اے اللہ کے نبیﷺ! آپﷺ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ سلمہؓ  نے کہا کہ پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار لہراتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھ رہا تھا کہ ”خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں“ یہ سن کر میرے چچا عامر اس سے مقابلے کو نکلے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا کہ ”میں عامر ہوں پورا ہتھیار بند، لڑائی میں گھسنے والا“ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامرؓ  نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے۔ سلمہ نے کہا کہ پھر میں نکلا اور اصحابِ رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ عامرؓ کا عمل لغو ہو گیا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہﷺ کے پاس روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! عامرؓ کا عمل لغو ہو گیا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کون کہتا ہے ؟ میں نے کہا کہ آپﷺ کے بعض اصحاب کہتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے کہا جھوٹ کہا۔ نہیں! بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے مجھے سیدنا علیؓ  کے پاس بھیجا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو دوست رکھتا ہے یا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ اس کو دوست رکھتے ہیں (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح دے گا اور وہ بھاگنے والا نہیں ہے )۔ سلمہؓ  نے کہا کہ پھر میں سیدنا علیؓ  کے پاس گیا اور ان کو کھینچتا ہوا لایا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے پاس لے آیا۔ آپﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے۔ پھر آپﷺ نے ان کو جھنڈا دیا۔ مرحب وہی رجز پڑھتے ہوئے ”خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند، بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں“ سیدنا علیؓ  نے اس کے جواب میں کہا کہ ”میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے ، نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو) میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں  اُن کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں)“ پھر سیدنا علیؓ  نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح دی۔

باب : حدیبیہ کا واقعہ اور قریش سے نبیﷺ کی صلح کا بیان۔

1178: سیدنا براء بن عازبؓ  کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ بیت اللہ کے قریب (وہاں جانے سے ) روکے گئے اور مکہ والوں نے آپﷺ سے اس شرط پر صلح کی کہ (آئندہ سال) آئیں اور تین دن تک مکہ میں رہیں اور ہتھیاروں کو غلاف میں رکھ کر لائیں اور کسی مکہ والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ والوں میں سے جو (مشرکوں کا ساتھ قبول کر کے ) رہ جائے تو اس کو منع نہ کریں۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ  سے فرمایا کہ اچھا اس شرط کو لکھو کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہﷺ نے فیصلہ کیا، تو مشرک بولے کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، تو آپﷺ کی اطاعت ہی کر لیتے یا آپﷺ سے بیعت کرتے بلکہ یہ لکھئے کہ محمد بن عبد اللہﷺ نے فیصلہ کیا۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ  کو رسول اللہﷺ کا لفظ مٹانے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اچھا مجھے اس لفظ کی جگہ بتاؤ۔ سیدنا علیؓ  نے بتا دی، تو آپﷺ نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبد اللہ لکھ دیا (جب دوسرا سال ہوا تو آپﷺ تشریف لائے )۔ پھر تین روز تک مکہ معظمہ میں رہے۔ جب تیسرا دن ہوا، تو مشرکوں نے سیدنا علیؓ  سے کہا کہ یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے اب ان سے جانے کو کہو، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا اور آپﷺ نکل آئے۔

1179: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ﴿اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً …﴾ (الفتح:5-1) آخر تک تو آپﷺ حدیبیہ سے لوٹ کر آ رہے تھے اور صحابہؓ کو بہت غم اور رنج تھا اور آپﷺ نے حدیبیہ میں قربانی کے جانوروں کو ذبح و نحر کر دیا تھا (کیونکہ کافروں نے مکہ میں آنے نہ دیا)، تب آپﷺ نے فرمایا کہ میرے اوپر ایک آیت اتری ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ پسند ہے۔

باب : غزوہ خیبر کا بیان۔

1180: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی، تو ہم نے سونا اور چاندی نہیں لوٹا (یعنی چاندی اور سونا ہاتھ نہیں آیا) بلکہ ہم نے اسباب، اناج اور کپڑے کا مال غنیمت حاصل کیا۔ پھر ہم وادی کی طرف چلے اور رسول اللہﷺ کے ساتھ آپﷺ کا ایک غلام تھا (جس کانام مدغم تھا) جو آپﷺ کو جذام میں سے ایک شخص جس کا نام رفاعہ بن زیدتھا، نے ہبہ کیا تھا اور وہ بنی ضبیب میں سے تھا۔ جب ہم وادی میں اترے اور رسول اللہﷺ کا غلام کھڑا ہوا آپﷺ کا کجاوہ کھول رہا تھا کہ اتنے میں ایک (غیبی) تیر اس کو لگا جس میں اس کی موت تھی۔ ہم لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! مبارک ہو وہ شہید ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ وہ چادر اس پر آگ کی طرح سلگ رہی ہے جو اس نے مالِ غنیمت میں سے خیبر کے دن لے لی تھی اور اس وقت تک غنیمت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ یہ سن کر لوگ ڈر گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ میں نے خیبر کے دن ان کو پایا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ تسمہ یا تسمے آگ کے ہیں (یعنی اگر تو ان کو واپس نہ کرتا تو یہ تسمہ انگارہ ہو کر قیامت کے دن تجھ پر لپٹتا یا تجھے ان تسموں کی وجہ سے عذاب ہوتا)۔

باب : فتح کے بعد مہاجرین کا انصار کو عطیہ میں دی ہوئی چیزیں واپس کرنا۔

1181: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ مہاجرین مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کو خالی ہاتھ آئے تھے اور انصار کے پاس زمین تھی اور درخت تھے (یعنی کھیت بھی تھے اور باغ بھی)، تو انصار نے مہاجرین کو اپنا مال اس طور سے بانٹ دیا کہ آدھا میوہ ہر سال ان کو دیتے اور وہ کام اور محنت کرتے۔ سیدنا انس بن مالک کی والدہ جن کا نام اُمّ سلیم تھا اور وہ عبد اللہ بن ابی طلحہ کی ماں بھی تھیں جو سیدنا انس کے مادری بھائی تھے ، انہوں نے رسول اللہﷺ کو اپنا کھجور کا ایک درخت دیا تو رسول اللہﷺ نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ باندی اُمّ ایمن کو دے دیا جو کہ اسامہ بن زیدؓ  کی والدہ تھیں۔ (اس سے معلوم ہوا کہ اُمّ سلیم نے وہ درخت آپﷺ کو ہبہ کے طور پر دیا تھا اور وہ صرف میوہ کھانے کو دیتیں تو آپﷺ اُمّ ایمن کو کس طرح دیتے ) ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سیدنا انس بن مالکؓ  نے خبر دی کہ پھر جب رسول اللہﷺ خیبر کی لڑائی سے فارغ ہو کر مدینہ لوٹے ، تو مہاجرین نے انصار کو ان کی دی ہوئی چیزیں بھی لوٹا دیں اور رسول اللہﷺ نے بھی میری ماں کو ان کا باغیچہ لوٹا دیا۔ اور اُمّ ایمن کو اس کی جگہ اپنے باغ سے دے دیا ابن شہاب نے کہا کہ اُمّ ایمن جو اسامہ بن زید کی والدہ تھیں وہ عبد اللہ بن عبدالمطلب کی (جو رسول اللہﷺ کے والد تھے ) لونڈی تھیں اور وہ حبشہ کی تھیں۔ جب آمنہ نے رسول اللہﷺ کو آپﷺ کے والد کی وفات کے بعد جنا، تو وہ آپﷺ کی پرورش کرتی تھیں۔ آپﷺ نے بڑے ہو کر ان کو آزاد کر دیا پھر ان کا نکاح زید بن حارثہؓ  سے پڑھا دیا اور وہ رسول اللہﷺ کی وفات کے پانچ مہینے بعد فوت ہو گئیں۔

باب : فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپﷺ کا مکہ والوں پر احسان۔

1182: سیدنا عبد اللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہؓ  کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبد اللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابو ہریرہؓ  اکثر ہمیں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں، تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابو ہریرہؓ  سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتاہوں پھر انہوں نے فتہ مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہﷺ آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیرؓ  کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالدبن ولیدؓ  کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں، وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہﷺ ایک ٹکرے میں تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کیا ابو ہریرہ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس انصاری کے علاوہ کوئی نہ آئے اور شیبان کے علاوہ دوسرے راوی نے یہ اضافہ کیا کہ انصار کو میرے لئے پکارو۔ کیونکہ آپﷺ کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپﷺ نے ان کا رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپﷺ کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کئے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دے دیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔ پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا کہ تم مجھ سے صفا پر ملو۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابو سفیانؓ آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیانؓ  کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپﷺ نے ابو سفیانؓ  کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہﷺ کو) اپنے وطن کی محبت آ گئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپﷺ کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم حاضر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت آ گئی؟ انہوں نے کہا کہ بیشک یہ تو ہم نے کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا۔ نصاریٰ نے جیسے عیسیٰؑ کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپﷺ ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیشک اللہ اور رسول اللہﷺ تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لئے ) ابو سفیان کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لئے اور رسول اللہﷺ حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو چوما، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپﷺ احرام سے نہ تھے کیونکہ آپﷺ کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے ، آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپﷺ اس کا کونا تھامے ہوئے تھے جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا“ جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔ (الاسرا:81)۔

باب : کعبہ کے اردگرد سے (موجود) بتوں کو نکالنا۔

1183: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور وہاں کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ آپﷺ

انہیں اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی چبھوتے اور فرماتے جاتے تھے کہ” حق آیا اور جھوٹ مٹ گیا اور جھوٹ مٹنے والا ہے “ (الاسرا:81) اور جھوٹ نہ بناتا ہے کسی کو نہ لوٹاتا ہے (بلکہ دونوں اللہ جل جلالہ کے کام ہیں)۔ ابن ابی عمر نے اتنا زیادہ کیا کہ ”یومِ فتح (مکہ) کے دن (ایسا کیا)“۔

باب : فتح کے بعد کوئی قریشی باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔

1184: سیدنا عبد اللہ بن مطیع اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ آج کے بعد کوئی قریشی آدمی قیامت تک باندھ کر قتل نہ کیا جائے گا۔

باب : فتح کے بعد اسلام، جہاد اور خیر (نیکی) پر بیعت۔

1185: سیدنا مجاشع بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی ابو معید کو فتح (مکہ) کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اس سے ہجرت پر بیعت لیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہجرت مہاجرین کے ساتھ ہو چکی۔ میں نے کہا کہ پھر آپﷺ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اسلام، جہاد اور نیکی پر۔ ابو عثمان نے کہا کہ میں ابو معید سے ملا اور ان سے مجاشع کا کہنا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا۔

باب : فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت (جہاد) باقی ہے۔

1186: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد ہے اور نیت ہے اور جب تم سے جہاد کو نکلنے کے لئے کہا جائے تو نکلو۔

باب : جس پر ہجرت سخت محسوس ہو، اس کو عمل خیر (نیکی کرنے ) کا حکم کرنا۔

1187: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہﷺ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہجرت بہت مشکل ہے (یعنی اپنا وطن چھوڑنا اور مدینہ میں میرے ساتھ رہنا اور یہ آپﷺ نے اس لئے فرمایا کہ کہیں اس سے نہ ہو سکے تو پھر ہجرت توڑنا پڑے ) تیرے پاس اونٹ ہیں؟ وہ بولا ہاں۔ آپﷺ نے استفسار فرمایا کہ تو ان کی زکوٰۃ دیتا ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو سمندروں کے اس پار سے عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے کسی عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔

باب : ہجرت کے بعد پھر جنگل میں رہنے کی اجازت۔

1188: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے ، تو وہ بولا کہ اے ابن الاکوع! تو مرتد ہو گیا ہے کہ پھر جنگل میں رہنے لگا ہے سیدنا سلمہؓ  نے کہا کہ نہیں بلکہ رسول اللہﷺ نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی تھی۔

باب : غزوۂ حنین۔

1189: سیدنا کثیر بن عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ سیدنا عباسؓ  نے کہا کہ میں حنین کے دن رسول اللہﷺ کے ساتھ موجود تھا اور میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب (آپ کے چچا زاد بھائی) دونوں آپﷺ کے ساتھ لپٹے رہے اور جدا نہیں ہوئے اور آپﷺ ایک سفید خچر پر سوار تھے جو فردہ بن نفاثہ جذامی نے آپﷺ کو بطور تحفہ دیا تھا (جس کو شہباء اور دلدل بھی کہتے تھے )۔ جب مسلمانوں اور کافروں کا سامنا ہوا اور مسلمان پیٹھ موڑ کر بھاگے تو رسول اللہﷺ اپنے خچر کو کافروں کی طرف جانے کے لئے تیز کر رہے تھے (یہ آپﷺ کی کمال شجاعت تھی کہ ایسے سخت وقت میں خچر پر سوار ہوئے ورنہ گھوڑے بھی موجود تھے ) سیدنا عباسؓ  نے کہا کہ میں آپﷺ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا اور اس کو تیز چلنے سے روک رہا تھا اور ابو سفیانؓ  آپﷺ کی رکاب تھامے ہوئے تھے۔ آخر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عباس! اصحابِ سمرہ کو پکارو اور سیدنا عباسؓ  کی آواز نہایت بلند تھی (وہ رات کو اپنے غلاموں کو آواز دیتے تو آٹھ میل تک جاتی)۔ سیدنا عباسؓ  کہا کہ میں نے اپنی انتہائی بلند آواز سے پکارا کہ اصحابِ سمرہ کہاں ہیں؟ یہ سنتے ہی اللہ کی قسم وہ ایسے لوٹے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس چلی آتی ہے اور کہنے لگے کہ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔ (اس سے معلوم ہوا کہ وہ دور نہیں بھاگے تھے اور نہ سب بھاگے تھے بلکہ بعض نومسلم وغیرہ اچانک تیز تیروں کی بارش سے لوٹے اور گڑبڑ ہو گئی۔ پھر اللہ نے مسلمانوں کے دل مضبوط کر دئیے ) پھر وہ کافروں سے لڑنے لگے اور انصار کو یوں بلایا کہ اے انصار کے لوگو! اے انصار کے لوگو! پھر بنی حارث بن خزرج پر بلانا تمام ہوا (جو انصار کی ایک جماعت ہے ) انہیں پکارا کہ اے بنی حارث بن خزرج! اے بنی حارث بن خزرج! رسول اللہﷺ اپنے خچر پر گردن کو لمبا کئے ہوئے تھے ، آپﷺ نے ان کی لڑائی کو دیکھا اور فرمایا کہ وقت تنور کے جوش کا ہے (یعنی اس وقت میں لڑائی خوب گرما گرمی سے ہو رہی ہے ) پھر آپﷺ نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کافروں کے منہ پر ماریں اور فرمایا کہ قسم ہے محمدﷺ کے رب کی! کافروں نے شکست پائی۔ سیدنا عباسؓ  نے کہا کہ میں دیکھنے گیا تو لڑائی ویسی ہی ہو رہی تھی اتنے میں اللہ کی قسم آپﷺ نے کنکریاں ماریں، تو کیا دیکھتا ہوں کہ کافروں کا زور ٹوٹ گیا اور ان کا کام الٹ گیا۔

1190: سیدنا ابو اسحٰق کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا براءؓ  کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابو عمارہ ص! حنین کے دن تم بھاگ گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے منہ نہیں موڑا لیکن چند جلد باز اور بے ہتھیار لوگ قبیلہ ہوازن کی طرف گئے ، وہ تیر انداز تھے اور انہوں نے تیروں کی ایک بوچھاڑ کی جیسے ٹڈی دَل ہو، تو یہ لوگ سامنے سے ہٹ گئے اور لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور ابو سفیان بن حارث آپﷺ کے خچر کو چلاتے تھے۔ تو آپﷺ خچر پر سے اترے اور دعا کی اور مدد مانگی اور آپﷺ فرماتے تھے کہ میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں، اے اللہ! اپنی مدد اتار۔ سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جب خونخوار لڑائی ہوتی، تو ہم اپنے آپ کو آپﷺ کی آڑ میں بچاتے اور ہم میں بہادر وہ تھے جو لڑائی میں رسول اللہﷺ کے برابر رہتے۔

1191: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے حنین کا جہاد رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا۔ جب دشمن کا سامنا ہوا، تو میں آ گے بڑھ کر ایک گھاٹی پر چڑھا۔ دشمنوں میں سے ایک شخص میرے سامنے آیا۔ میں نے اس پر تیر مارا تو وہ مجھ سے اوجھل ہو گیا اور مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے کیا کیا۔ میں نے لوگوں کو دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے نمودار ہوئے اور ان کی اور نبیﷺ کے صحابہ کی جنگ ہوئی، لیکن صحابہ پیچھے کو پلٹے۔ میں بھی شکست خوردہ ہو کر لوٹا اور میں دو چادریں پہنے ہوئے تھا، ایک تہہ بند باندھے ہوئے اور دوسری اوڑھے ہوئے تھا۔ میری تہبند کھل گئی تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیا اور شکست پا کر رسول اللہﷺ کے سامنے سے گزرا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اکوع کا بیٹا گھبرا کر لوٹا۔ پھر دشمنوں نے رسول اللہﷺ کو گھیرا تو آپﷺ خچر پر سے اترے اور ایک مٹھی خاک زمین سے اٹھائی اور ان کے منہ پر ماری اور فرمایا کہ بگڑ گئے منہ۔ پھر کوئی آدمی ان میں ایسا نہ رہا جس کی آنکھ میں اسی ایک مٹھی کی وجہ سے خاک نہ بھر گئی ہو۔ آخر وہ بھاگ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہﷺ نے ان کے مال مسلمانوں کو بانٹ دئیے۔

باب : غزوۂ طائف کے متعلق۔

1192: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے طائف والوں کا محاصرہ کیا اور ان سے کچھ حاصل نہیں کیا (یعنی وہ زیر نہ ہوئے تھے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم لوٹ جائیں گے۔ صحابہؓ نے کہا کہ ہم بغیر فتح کے لوٹ جائیں گے ؟رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اچھا صبح کو لڑو۔ وہ لڑے اور زخمی ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہم کل لوٹ جائیں گے ، یہ تو ان کو اچھا معلوم ہوا۔ (اس پر) آپﷺ ہنسے۔

باب : نبیﷺ کے غزوات کی تعداد۔

1193: سیدنا ابو اسحٰق سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن یزید نمازِ استسقاء کے لئے نکلے اور لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، پھر پانی کے لئے دعا مانگی۔ کہتے ہیں کہ اس دن میں سیدنا زید بن ارقمؓ  سے ملا اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک شخص تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے کتنے جہاد کئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انیس۔ میں نے پوچھا کہ آپ کتنے غزوات میں نبیﷺ کے ساتھ شریک تھے ؟ انہوں نے کہا کہ سترہ میں۔ میں نے کہا کہ پہلا جہاد کون سا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ذات العسیر یا ذات العشیر (جو ایک مقام کا نام ہے۔ سیرۃ ابن ہشام میں اس کو غزوۃ العشیرہ لکھا ہے اس میں لڑائی نہ ہوئی اور رسول اللہﷺ عشیرہ تک جا کر مدینہ کو پلٹ آئے یہ واقعہ 2 ہجری میں ہوا اور ابن ہشام نے کہا کہ سب سے پہلے غزوہ ودان ہوا مدینہ میں آنے کے ایک سال کے اخیر پر اس میں بھی لڑائی نہیں ہوئی)۔

1193: سیدنا بریدہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے انیس غزوات کئے اور ان میں سے آٹھ میں لڑے۔