FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فارغ البال

 

انشائیوں کا مجموعہ

حصہ دوم

 

                عابد معز

 

 

 

 

 

اتفاق ہے کہ زندہ ہیں ہم

 

عنوان پڑھ کر آپ چونک گئے ہوں گے۔ غیب سے جب اس مضمون کا خیال آیا تو ہمیں بھی اچنبھا ہوا تھا۔ جوں جوں خیالات کو قلم بند کرتے گئے، ہماری حیرانی میں کمی ہوتی گئی اور جب مضمون ختم ہوا تو ہمیں عنوان سے مکمل اتفاق تھا۔

ہمارا دعوی ہے کہ ہم صرف اور صرف اتفاقاً زندہ ہیں۔ آس پاس موت کے اتنے سامان ہیں کہ ہمارا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہم زندہ ہیں۔ حیرت ہوتی ہے۔ اپنے آپ سے سوال کرنا پڑتا ہے کہ ہم بچ کیسے گئے ؟

آئیے دیکھیں، آپ ہمارے اتفاقیہ زندہ رہنے سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں !

ڈاکٹر صحت کے نگہباں بلکہ ٹھیکہ دار ہیں۔ وہ ہمیں ہشاش بشاش رکھنے کے لیے شب و روز بے تکان بیماریوں سے لڑتے جا رہے ہیں۔ نئی دوائیں دریافت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ گردے، آنکھ، دل، جگر اور دیگر اعضا یوں بدل رہے ہیں جیسے ہندوستانی فلموں میں گانوں کے دوران ہیرو اور ہیروئن کپڑے تبدیل کرتے ہیں۔ بے ہوش مریض کو عرصہ دراز تک زندہ رکھتے ہیں۔ تنگ آ کر رشتہ دار مریض کی زندگی ختم کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔

اب اس کو کیا کہیے گا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود زندگی آناً فاناً ختم ہو جاتی ہے۔ مسیحا خود حیران کہ یہ کیا ہو گیا۔ ہمارے حساب سے یہ مرنے کا کیس نہیں تھا۔ شام بھلا چنگا تھا۔ رات سویا تو صبح بستر پر مردہ پایا گیا۔ معمولی سردی زکام نے دماغی بخار کی خطرناک شکل اختیار کر لی۔ چند منٹ کی بیماری نے کام تمام کیا۔ ڈاکٹر حیران کہ یہ بیماری کیا تھی۔

سگریٹ مت پھونکیے۔ سگریٹ پینے سے زندگی کم ہوتی ہے۔ ماہرین حساب کر کے بتاتے ہیں کہ ایک سگریٹ پینے سے زندگی کے تین سکنڈ کم ہو جاتے ہیں۔ گھی اور تیل مت کھائیے۔ خون میں چکنائی بڑھے گی۔ ہارٹ اٹیک ہو گا۔ موٹاپا خوش حالی کی نشانی نہیں، مختلف بیماریوں کی آمد کا اعلان ہے۔ ذیابیطس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ زیادہ آرام نہ کیجیے۔ حرکت میں برکت ہے۔ پیدل چلا کیجیے۔ آرام نقصان دہ ہے لیکن زیادہ کام بھی تو مضر ہے۔ انسان جلد خرچ ہوتا ہے۔

بلڈ پریشر چیک کروائیے۔ لوگوں سے گھل مل کر نہ رہا کیجیے۔ معلوم نہیں کون سی بیماری موت کا بہانہ بن جائے۔ تڑپا تڑپا کر ختم کرنے کے لیے کینسر ہی کیا کم تھا کہ اب ایڈز بھی ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گیا ہے۔ دوائیں کھائیں تو بعض وقت بیماری سے پہلے بیمار ڈھیر ہو جاتا ہے۔

اب آپ ہی فیصلہ کیجیے۔ غذا نوش جاں کرنا مشکل، آرام دو بھر، بھاگ دوڑ خطرناک، سگریٹ سے عمر میں کمی، شراب مہلک، دوائیں زہریلی اور زندگی کے درپے مختلف النوع بیماریاں۔ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ ہم زندہ ہیں ؟

ہم ملاوٹ اور آلودگی کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہوا میں مختلف کیمیائی مادے ملے ہوئے ہیں۔ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا فاضل مادہ انسانی زندگی کا دشمن بنا ہوا ہے۔ پانی ان سے متاثر ہے۔ بے چاری مچھلیوں کی جان پر بن آئی ہے۔ ہر دن خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ آلودہ پانی سے آبی جانوروں کو خطرہ ہے۔ مٹی میں زہریلے مادوں کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔ زمین گرم ہو رہی ہے۔ خلا میں تنی چادر میں سوراخ پڑ رہے ہیں۔ سمیت غذا سے بھی لوگ جاں بحق ہوتے ہیں۔

متاثر ہوا میں سانس لینے، آلودہ پانی پینے، ملاوٹی غذا استعمال کرنے اور گرم ہوتی دنیا میں رہنے کے باوجود ہم زندہ ہیں۔ کیا آپ اسے اتفاق نہیں سمجھتے !

ترقی کے ساتھ انسان اپنی وقعت کھونے لگا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چند سکوں کے عوض زندگی ختم کی جاتی ہے۔ معمولی بات پر ایک دوسرے کی جان لی جاتی ہے۔ نام پوچھا۔ نام پسند نہ آیا اور کام تمام کیا۔ جلد کا رنگ اور بالوں کا انداز دل کو نہ بھایا تو مار کر ہی سکون پایا۔ جہیز نہ لانے پر زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ نسل در نسل دشمنی چلی آتی ہے۔ بعض لوگ موت کا کاروبار کرتے ہیں۔ چند روپیوں کی سپاری لے کر اپنے ہی بھائی کو ٹپکا دیتے ہیں۔ نشیلی دوائیں الگ انسانی زندگی کے درپے ہوتی جا رہی ہیں۔ نشہ میں چور لوگ اپنا اور دوسروں کا جینا محال کرتے ہیں۔

اخبار جرائم کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ بیوی نے شوہر کے ٹکڑے کر دئیے اور پھر ان ٹکڑوں کا سوپ بنا ڈالا۔ ماں اور بیٹے نے دس اشخاص کو ہلاک کر کے بینک لوٹا۔ پہلی جماعت کے لڑکے نے اپنے ساتھیوں پر گولیاں برسائیں۔ کمزور دل والے اخبار پڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا مشورہ بھی یہی ہے۔ احتیاط بہتر ہے۔ نہ جانے کس بھیانک خبر پر دل دھڑکنا بند کر دے۔ اتنی آسان اور سستی موت کے باوجود ہمارا زندہ رہنا کسی اتفاق بلکہ معجزہ سے کم نہیں ہے۔

حادثات پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ دن بہ دن حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کب، کہاں اور کیسے حادثہ درپیش ہو گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ حادثوں کی وجہ سے کہتے ہیں کہ موت کا بھروسہ نہیں کب آ جائے۔ ہر لمحہ تیار رہنا چاہیے۔

گھر میں آرام سے بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ سڑک پر جاتا ہوا ٹرک بے قابو ہو کر گھر میں گھس پڑا۔ اسٹیشن پر ریل گاڑی کھڑی تھی اور اسی لائن پر مخالف سمت سے ایک تیز رفتار دوسری گاڑی آئی اور ٹکرا گئی۔ ہوا میں اڑتا ہوا جہاز پرندے سے ٹکرایا اور لہرا کر زمین پر گر پڑا۔ پتنگ برقی تاروں کو چھو گئی اور شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی۔ گیس سیلنڈر پھٹ پڑا۔ کار بے قابو ہو کر الٹ گئی۔ بس اور بیل گاڑی آپس میں ٹکرا گئے۔ پیر پھسلا اور پانی میں ڈوب گئے۔ گدھے نے دولتی جھاڑی، سر کے بل گر پڑے اور فوت ہو گئے۔

کئی قسم کے حادثوں کے باوجود ہم بچ جاتے ہیں اور موت کے منہ سے زندہ نکل آتے ہیں۔ حادثے کے بعد معجزاتی طور پر بچنے والوں کی کہانیاں سنائی اور دہرائی جاتی ہیں۔ خطرناک حادثوں سے بچ رہنا، محض اتفاق ہی تو ہے۔

سائنس اور تکنالوجی نے جہاں ترقی کی نئی راہیں نکالی ہیں، وہیں انسانی زندگی کو بہت بڑے خطروں سے دوچار بھی کیا ہے۔ شہر رات کی تاریکی میں سو رہا تھا کہ فیکٹری سے مہلک گیس کا اخراج ہوا اور سارا شہر ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اٹامک شعاعیں تمام بندھن توڑ کر انسانوں کو مارتی اور مفلوج بناتی چلی گئیں۔ اٹامک تجربے کے بعد کئی سال تک انسانی آبادی پر تابکاری اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف شعاعیں فضا میں اپنا شکار ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔ الکٹرانک مشین خطرناک شعاعیں خارج کرتی ہے اور انسان ان مشینوں کے آگے پیچھے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات نذر کرتا بیٹھا ہے۔ موبائل فون کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے نکلنے والی شعاعیں نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

جان ہتھیلی پر لے کر سفر کرنا تو ہے ہی جوکھم کا کام لیکن چھپ کر گھر کی مضبوط دیواروں کے اندر بیٹھنا بھی محفوظ نہ رہا۔ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ ہم زندہ ہیں۔

دہشت گردی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بس میں سفر کر رہے تھے۔ دو مسافر اٹھے اور منزل مقصود کے بجائے مسافروں کو منزل آخر پہنچا دیا۔ آس پاس بم پھٹ پڑا اور تباہی مچ گئی۔ خط موصول ہوا، کھولنے کی کوشش کی اور لفافہ پھٹ پڑا۔ جہاز میں بیٹھے اڑ رہے تھے کہ اغوا کر لیے گئے یا ایسے نیست و نابود ہوئے کہ نام و نشان مٹ گیا۔

کرۂ ارض پر بعض مقامات ایسے ہیں جہاں برسوں سے لڑائی جاری ہے۔ کوئی آزاد ہونا چاہتا ہے تو کوئی انھیں محکوم بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ مرنے اور مارنے والے کو کوئی مجاہد مانتا ہے تو کوئی دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ بارود کے ڈھیر پر انسان پیدا ہوتے ہیں۔ بندوقوں سے کھیلتے ہوئے پلتے ہیں۔ مسیں بھی نہیں بھیگیں کہ مزائل اٹھائے لڑنے چلے۔ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہیں ملتی، تن ڈھانکنے کے لیے کپڑے نہیں ہوتے اور پیروں میں پہننے کے لیے جوتے دستیاب نہیں ہیں لیکن مرنے اور مارنے کے لیے بندوق، ہینڈ گرینیڈ، بم اور نہ جانے کیا کچھ حاصل ہے۔

افراط زر سے زیادہ افراط ہتھیار کا دور ہے۔ دل مسوس کر رہ جاتا ہے کہ ہم جنس کو گولی سے مارنے کے بجائے دو وقت کی روٹی سے مارتے !ایسے دور میں بھی ہم زندہ ہیں۔ کیا یہ اتفاق نہیں ہے۔

ہر ملک کو پڑوسی ملک سے خطرہ ہے۔ دنیا میں عجیب سیاست ہو رہی ہے۔ آج سیاست ہمیں زندہ رکھنے سے زیادہ مارنے کے درپے ہے۔ ایک دوسرے سے ڈر کر ہر کوئی اپنا دفاع مستحکم کرنے کی جستجو میں ہے۔ ہتھیار بناتا اور خریدتا ہے۔ مہلک سے مہلک ہتھیار وجود میں آ رہے ہیں جو انسان کو آناً فاناً ختم کر دیتے ہیں یا تڑپا تڑپا کر مارتے ہیں۔

ابھی دوسری جنگ عظیم کی تباہی اور بربادی مکمل نہیں ہوئی کہ لوگ تیسری جنگ عظیم کی باتیں کرنے اور تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق کرۂ ارض پر ہتھیاروں کا اتنا ذخیرہ ہے جو دنیا کو دو چار مرتبہ تباہ و تاراج کر سکتا ہے۔

اپنی حفاظت کے لیے تیار کیے گئے ہتھیاروں کی حفاظت انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ رکھے رکھے ہتھیار خود بخود چل پڑتے ہیں۔ بم پھٹنے اور مزائل اڑنے لگتے ہیں۔ لوگ ان کی زد میں آ کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

ایسی بے وقوفی کی موت سے پھر بھی ہم بچ جاتے ہیں۔ کیا یہ اتفاق نہیں ہے ؟

کہاوت مشہور ہے کہ موت کو بہانہ چاہیے۔ موت کسی صورت، کسی حال اور کہیں بھی آ سکتی ہے۔ آج تک ہم نے کسی کو موت سے بچتے نہیں دیکھا۔ لیکن لوگوں کو اتفاقات کے سہارے جیتے دیکھا ہے۔

حادثہ میں جہاز کے پرخچے اڑ گئے لیکن صرف ایک بچہ معجزاتی طور پر زندہ بچ نکلا۔ کار لڑھکتی ہوئی کھڈ میں گر پڑی اور جل کر راکھ ہو گئی۔ ڈرائیور مسکراتا اور کپڑے جھاڑتا کار کی تباہی کا تماشہ دیکھتا رہا۔ جنگ میں کسی کو مردہ قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں یہی مردہ صحیح سلامت اپنے گھر واپس ہوا۔ طوفان و باد و باراں کے دوران ایک شخص نے تین دن درخت پر بیٹھ کر اپنی زندگی بچائی۔ تدفین کے لیے لے جا رہے تھے کہ مرحوم اٹھ بیٹھے۔ اس طرح کے واقعات اس بات پر یقین کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہم اتفاقات کے سہارے زندہ رہتے ہیں۔

کیا اب آپ ہمارے مضمون اور اس کے عنوان سے اتفاق کرتے ہیں ؟

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ مئی 1988ء

 

 

 

 

تکیہ پر ہمارا تکیہ

 

مضمون لکھنا ہوتا ہے تو ہم تکیہ پر سر رکھ کر آنکھیں بند کئے سوچنے لگتے ہیں۔ کبھی جلد تو کبھی دیر میں مضمون سوجھتا اور خیالات آنے لگتے ہیں۔ چند لمحے تکیہ سے ’مشورہ‘ میں مصروف رہتے ہیں اور پھر اٹھ کر مضمون قلم بند کرنے لگتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ہم نے اپنا تخلیقی عمل شروع کیا ہی تھا کہ تکیہ نے سوال کیا۔ ’میں نے تمھیں اچھے اور بہت اچھے ڈھیر سارے مضامین دئیے ہیں جن کے برتے پر تم اتراتے پھرتے ہو۔ کیا کبھی تم کو خیال آیا کہ مجھ پر بھی مضمون لکھیں ؟‘

ہمیں محسوس ہوا جیسے تکیہ نے ڈنک مارا ہے۔ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ تکیہ کی شکایت بجا ہے۔ ہم اٹھ بیٹھے اور اپنے دیرینہ رفیق، ہمدم اور ہمراز کی شکایت دور کرنے کے لیے تکیہ کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔

ہمارا اور تکیہ کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کب سے ہم تکیہ پر تکیہ کر رہے ہیں۔ ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو تکیہ پر پایا۔ تحقیق کی تو پتا چلا کہ تکیہ ہمارا جنم جنم کا ساتھی ہے۔ انسان کی پیدائش سے پہلے سے تکیہ کا ساتھ شروع ہوتا ہے۔ ماں بڑے چاؤ سے آنے والے بچے کے لیے چھوٹے چھوٹے کپڑوں کے ساتھ چھوٹے تکیوں کا انتظام بھی کرتی ہے۔

تکیہ کے سہارے زندگی شروع ہوتی ہے۔ کمزور سر کو تکیہ کا سہارا دے کر مضبوط کیا جاتا ہے۔ پلٹنے لگتے ہیں تو بازو تکیہ رکھا جاتا ہے۔ روتے یا ضد کرتے ہیں تو ماں تکیہ پر تھپک تھپک کر بہلاتی ہے۔ عمر کے ساتھ گردن مضبوط ہوتی ہے تو وزنی سر کو تکیہ پر رکھا جاتا ہے۔ پھر تکیہ کی مدد سے بیٹھنا سکھایا جاتا ہے۔ تکیہ کے سہارے کمر گھٹ ہوتی ہے۔ تکیہ پر ہی پہلی کتاب رکھ کر تعلیم شروع ہوتی ہے۔

غرض کہ ہماری تعلیم اور تربیت میں تکیہ کا اہم حصّہ ہوتا ہے۔ اسی لیے تکیہ کو خراج پیش کرنے کے لیے ہمیں تکیہ کا ادب کرنا سکھایا جاتا ہے۔ تکیہ پر پیر رکھنا تو دور اس پر بیٹھنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے، بچپن میں تکیہ پر بیٹھتے تو دادی ماں ڈراتی تھیں کہ ہماری دم نکل آئے گی۔ تکیہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر خود تکیہ بھی سزا دیتا ہے۔ گردن پکڑتا ہے۔ گردن اکڑ جاتی اور بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حجام توبہ تلا کرواتا اور سزا کے طور پر سر اور گردن پر مالش کی شکل میں دھپے رسید کرتا ہے، تب کہیں گردن کی پکڑ چھوٹتی ہے۔

تکیہ بچپن میں ماں کی گود ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ جوانی میں محبوب کا نعم البدل اور بڑھاپے کا ساتھی بھی ہوتا ہے۔ بچے کو سلانے کے بعد ماں بازو تکیہ رکھ کر اپنے کام میں جٹ جاتی ہے۔ معصوم بچہ نیند میں تکیہ پر ہاتھ رکھ کر ماں کی آغوش کا مزہ لوٹتے گھنٹوں سوتا ہے۔ بعض بچوں کو تکیہ پر ہاتھ رکھ کر سونے کی عادت پڑ جاتی ہے جو بڑے ہونے کے بعد بھی مشکل سے چھوٹتی ہے۔

جوانی میں تکیہ محبوب کی جگہ لیتا ہے۔ عاشق تکیہ کو سامنے رکھ کر تصور میں تکیہ سے عہد و پیماں کرتے ہیں اور محبوب کی یاد سے بے چین ہو کر تکیہ کو بانہوں میں بھینچ لیتے ہیں۔ بے چارہ تکیہ خاموشی سے نوجوانی سے نباہ کئے جاتا ہے۔

بڑھاپے میں تکیہ بہترین ساتھی ثابت ہوتا ہے۔ ایک تکیہ کا سہارا کافی نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں تکیوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے۔ تکیوں کا سہارا دے کر بوڑھے شخص کو بٹھاتے ہیں اور دو ایک تکیے کمر اور گھٹنے کے نیچے بھی رکھے جاتے ہیں۔

تکیہ کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ تکیہ نہ ہو تو نیند نہیں آتی اور جب نیند نہیں آتی تو انسان تھکا ہوا رہتا ہے۔ بستر نہ ہو، کوئی مضائقہ نہیں لیکن سستانے، سونے اور تازہ دم ہونے کے لیے ایک تکیہ ضرور چاہیے۔ بے سروسامانی میں ہاتھ تکیہ بنتے ہیں۔ ہاتھوں کے تکیہ پر سر رکھا اور آرام سے سوگئے۔ مزدور کا تکیہ اس کے اوزار بنتے ہیں تو عالم کا تکیہ اس کی کتابیں !

کوئی نرم تکیہ پسند کرتا ہے تو کسی کو سخت تکیہ چاہیے۔ کوئی گول تکیہ پر سر رکھتا ہے تو کوئی چوڑے تکیہ پر آرام کرتا ہے۔ چاہے جیسا بھی ہو، ہر بشر کو تکیہ چاہیے جو اس کے سر کو اونچا اٹھائے اور تھکان دور کرنے کے لیے نیند کی آغوش میں پہنچا دے۔ اسی لیے سفر میں بھی لوگ تکیہ ساتھ رکھتے ہیں۔

زندگی کے طویل سفر میں بھی تکیہ ایک بہترین ساتھی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک صنعت کار دوست اپنی کامیاب زندگی کا راز اپنا خاندانی تکیہ بتاتے ہیں۔ ہر دم اور ہر وقت تکیہ ان کے ساتھ رہتا ہے۔ بزنس میٹنگ میں وہ تکیہ پر بیٹھتے ہیں۔ سفر میں گردن کے نیچے تکیہ رکھتے ہیں۔ تکیہ پر سر رکھ کر وہ سوچتے اور فیصلہ کرتے ہیں۔ اور جہاں انھوں نے تھکان محسوس کی تکیہ پر سر رکھا اور سستالیا اور پھر تازہ دم ہو کر کام میں جٹ گئے۔

تکیہ پر سر رکھتے ہی فکر کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ادیب، مفکر، شاعر، سائنس داں اور سیاست داں سے لے ایک عام انسان تک، تکیہ پر لیٹے سوچتا ہے۔ گھر کا بجٹ، بچوں کی تعلیم، لڑکی کا رشتہ، آفس کی الجھن، ملک کی سیاسی صورت حال، عالمی مسئلہ اور نہ جانے کس کس موضوع پر تکیہ پر تکیہ کئے غور و فکر ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ عام انتخابات میں وہ کس پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں گے ؟ موصوف نے جواب دیا۔ ’یار آج شب میں تکیہ پر سر رکھ کر اس تعلق سے غور کروں گا اور کل تمھیں بتاؤں گا۔ ‘

تکیہ پر سر رکھ کر غور و فکر کرنے کے مختلف انداز ہیں۔ آنکھیں بند کئے ٹانگوں کو ہلاتے ہوئے سوچنا بہتر نتائج دیتا ہے۔ بعض اشخاص تکیہ پر سر رکھے آنکھیں چھت یا آسمان کو لگائے سوچتے ہیں تو بعض لوگ اپنا چہرہ تکیہ میں چھپائے سوچنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔

بعض مرتبہ تکیہ پر سر رکھ کر سوچنے اور غور و فکر کرنے کا عمل طویل اور تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ تکیہ پر لیٹے کروٹیں بدل بدل کر سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں۔

ادیبوں اور شاعروں کو تکیہ سے خاص انس ہوتا ہے۔ تکیہ پر سر رکھے گھنٹوں ادبی تخلیقات، افسانے کا پلاٹ یا مصرعے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ تکیہ سے مضامین اور موضوعات بھی آتے ہیں۔ ہمارے ایک شاعر دوست سے ایک مرتبہ پوچھا گیا تھا۔ ’آپ شاعری کیسے کرتے ہیں ؟‘

جواب میں انھوں نے بتایا۔ ’تکیہ کی مدد سے ! مجھے شاعری کی تحریک تکیہ سے ملتی ہے۔ میں تکیہ پر سر رکھ کر گنگنانے لگتا ہوں تو شعروں کا نزول ہوتا ہے اور تخلیقی عمل سے تھک کر اسی تکیہ پر سوبھی جاتا ہوں۔ ‘

ہمارے شاعر دوست جب مشاعروں میں جاتے ہیں، اپنا تکیہ ساتھ ضرور لے جاتے ہیں۔ سفر کے دوران اپنے تکیہ کی مدد سے شاعری کرتے ہیں اور مشاعرہ میں تازہ کلام سنا کر مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ اتفاق سے موصوف کا تکیہ ایک مترنم شاعر کے تکیہ سے بدل گیا۔ مشاعرہ میں انھوں نے دوسرے تکیہ کی بدولت مترنم کلام تحت میں سنایا اور بے وزن ہونے کے سبب ہوٹ ہوئے۔

تکیہ کی طبی افادیت بھی ہے۔ مختلف بیماریوں میں تکیہ کی اونچائی بڑھتی اور گھٹتی ہے۔ تکیہ کی سختی اور نرمی، گرمی اور ٹھنڈک بھی بیماری اور بیمار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ سردرد میں گرم تکیہ آرام دیتا ہے تو بخار میں ٹھنڈا تکیہ راحت پہنچاتا ہے۔ بعض امراض کے علاج میں جڑی بوٹی تکیہ کے نیچے رکھی بھی جاتی ہیں۔

ہم نے سنا ہے کہ تکیہ کے سہارے کرتوت اور عملیات ہوتے ہیں۔ شوہر کو قابو میں کرنا ہو تو تعویذ تکیہ کے نیچے رکھیے۔ نوجوان سے اس کی محبت چھیننی ہو تو تکیہ پر عملیات کروائیے۔ نظر لگی ہے تو تکیہ پر پھونک مارئیے۔ دشمن کا خاتمہ کرنا مقصود ہو تو اس کے تکیہ میں پلیتے چھپائیے۔ گردن میں درد ہو تو تکیہ کو دھوپ میں سکھائیے۔ اولاد کی خواہش ہو تو چھوٹے بچوں کے تکیہ پر سات راتیں گزارئیے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ منجملہ شکایتوں میں ’کرامتی تکیہ‘ کی مدد سے افاقہ ہوتا ہے۔

تکیہ خواب دکھاتا ہے۔ سوتے اور جاگتے، ہر دو وقت! نیند کے خواب تکیہ کی مرضی کے ہوتے ہیں۔ ان میں تنوع ہوتا ہے۔ دیکھنے والے کا ان خوابوں پر بس نہیں ہوتا۔ کبھی رومانی تو کبھی ڈراؤنے۔ کبھی یاد رہے تو کبھی بھول گئے۔ ہمارے ایک دوست سے زیادہ سونے کی وجہ دریافت کی گئی تو انھوں نے بتایا۔ ’میرا تکیہ اچھے خواب دکھاتا ہے۔ ان خوابوں کو دیکھ کر میں زندگی کی تلخیوں کو بھول جاتا ہوں اور مجھ پر ایک نشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ میں اس نشہ کا عادی ہو چکا ہوں جس کے لیے میں زیادہ سونا چاہتا ہوں۔ ‘

جاگتے میں خواب تکیہ دیکھنے والے کی مرضی سے بتاتا ہے۔ جو چاہے دیکھیے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ مشہور اداکارہ کے ساتھ تفریح پر جائیے، ملک کا وزیر اعظم بنیے یا ملکوں ملکوں تفریح کیجیے۔ ہمارا تکیہ ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتا ہے کہ ہم اردو کے صفِ اول کے انشائیہ نگار ہیں۔ ہماری کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں اور ان کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ ہم تکیہ سے سر اٹھانے کے بعد ٹھنڈی آہ بھرتے ہیں۔ ’کاش ہماری نہ سہی کسی اور کی ہی سہی، اردو کتابوں کے ساتھ ہم ایسے خواب کی تعبیر دیکھ پاتے !‘

ہر دور میں تکیہ پر خالی اور ارزاں سر نے تکیہ کیا ہے جبکہ تکیہ کے اندر اور تکیہ کے نیچے کام کی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ پچھلے زمانے میں تکیہ خزانے کا کام دیتا تھا۔ لوگ پیسے اور زیورات تکیہ میں چھپائے رکھتے تھے۔ خزانے والا تکیہ ہر دم اپنے مالک سے چمٹا رہتا تھا۔ آرام کیا تو سر کے نیچے، بیٹھے ہیں تو کمر کے پیچھے اور چل رہے ہیں تو بغل میں تکیہ موجود ہے۔ ہماری دادی ماں کے پاس بھی ایک ایسا ہی خزانے والا تکیہ تھا۔ وہ کہتی تھیں۔ ’بیٹا ہمارے زمانے میں صندوق اور الماریاں نہیں تھے۔ قیمتی اشیاء اور پیسے تکیہ میں محفوظ رہتے تھے۔ ‘ جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ تکیہ میں سے مٹھائی کے لیے پیسے نکال کر دیتی تھیں۔

وقت کے ساتھ تکیہ کے اندر کی قیمتی اشیاء باہر آئیں اور اب انھیں تکیہ کے نیچے چھپایا جاتا ہے۔ چابیاں، بٹوہ، روپے، پیسے، دوائیں، گھڑی اور کاغذات تکیہ کے نیچے دبائے جاتے ہیں۔ گہری نیند میں بھی تکیہ کے نیچے نظر رہتی ہے۔ کسی شخص کو نیند سے فوری جگانا ہو تو اس کے تکیہ کے نیچے ہاتھ ڈالیے اور نتیجہ دیکھیے کہ کیسے وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔

تکیہ سے بہتر ہمارا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ تکیہ سے مشورہ کرنے پر وہ ہمیں وہی مشورہ دیتا ہے جو ہمارا اپنا خیال بلکہ ارادہ ہوتا ہے۔ تکیہ کے برخلاف کسی دوست سے مشورہ کیجیے تو موصوف اپنی شخصیت کو مد نظر رکھ کر صلاح دیتے ہیں اور اپنے انداز سے ہمارے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تکیہ ہمارا پیارا اور سچا دوست ہے۔ وہ ہمیں ہمت اور تحریک دیتا ہے کہ جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہی کریں۔

تکیہ ہر دم ہمارا ہم خیال نہیں ہوتا۔ بعض مرتبہ وہ ہماری گوش مالی پر اتر بھی آتا ہے۔ تکیہ ہمارے اندر ضمیر کو جگا کر اور اس سے سازش کر کے ہمیں پریشان کرتا ہے۔ ہمارے حرکات کا محاسبہ کر کے ہمیں نصیحتیں کرتا ہے۔ ہمیں غلطیوں کا احساس دلاتا ہے۔ ایسے وقت تکیہ ہمیں آفت کا پرکالہ لگتا ہے۔ جھلا کر ہم تکیہ پٹک کر بستر چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس کیفیت سے نجات پھر اسی تکیہ کے گود میں ملتی ہے۔

تکیہ ہمارا ہم راز ہوتا ہے۔ ہمارے کئی راز ایسے ہیں جو تکیہ اور ہمارے درمیان محفوظ ہیں۔ تکیہ دوسروں کو ان کی ہوا تک لگنے نہیں دیتا۔ ہم اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے کسی اور کا ارمان کرتے ہیں۔ بیوی سے باتیں کرتے ہوئے تصور میں اس کے ساتھ اپنی ایک الگ دنیا آباد کئے ہوتے ہیں۔ مجال ہے کبھی تکیہ نے ہماری بیوی سے کچھ کہا ہو۔ وہ ہمارے تکیہ کی صفائی کرتی ہیں اور غلاف بدلتی ہیں لیکن تکیہ کا ظرف دیکھیے، کبھی اس نے ہمارے عشق کی بھنک نہیں لگنے دی۔ تکیہ کے برخلاف شرٹ کو لیجیے۔ محبوبہ سے ملے نہیں کہ بال اپنے اوپر چپکا کر چغلی کھاتا ہے۔ رو مال سے آنسو پونچھے تھے کہ رو مال اپنے دامن میں پرائی خوشبو بسائے شکایت کرنے لگتا ہے۔

شتر مرغ شکاری سے بھاگ کر ریت میں منہ چھپاتا ہے۔ ایسے ہی ہم زندگی کے مسائل اور مشکلوں سے گھبرا کر اپنا منہ تکیہ میں چھپاتے ہیں۔ تکیہ پر سر رکھ کر دن تمام کی محرومیوں کا رونا روتے ہیں۔ دنیا اور اپنے دشمنوں کو جی بھر کر کوستے ہیں۔ کبھی پریشان ہو کر آنسو نکل پڑتے اور ہچکی بندھ جاتی ہے۔ تکیہ ہمارے آنسو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ دلاسہ دیتا، ہمت بندھاتا اور تھپک تھپک کر نیند کی آغوش میں پہنچا دیتا ہے اور تھکن دور کرنے کے بعد ہمیں پھر سے دنیا کے مسائل سے الجھنے کے لیے تر و تازہ کرتا ہے۔

زندگی بھر اچھے اور برے حالات میں بحیثیت دوست، ہمدرد، غم گساراور ناصح تکیہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ سر کے نیچے پڑا ہمیں جینے کے انداز سکھاتا ہے۔ ہمارے اندر نئی امنگیں پیدا کرتا اور ہماری دلجوئی کرتا ہے۔

غرض کہ تکیہ ہماری زندگی سے عبارت ہے تبھی تو زندگی کے روٹھنے پر ہمارے اپنے جن پر زندگی تمام ہم نے تکیہ کیا تھا، ہمارے نیچے سے تکیہ ہٹا لیتے ہیں۔ بغیر تکیہ ہمیشہ کے لیے سلادیتے ہیں اور ہماری تربت کے اوپر تکیہ پر ہمارا نام کندہ کر کے نصب کرتے ہیں !

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔

 

 

 

اقبالیہ

 

بچپن میں ہم مشہور نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ دعا عظیم شاعر اقبال نے بچوں کے لیے لکھی ہے۔ اس وقت سے یہ بات ہمارے ذہن نشین رہی ہے کہ اقبال بہت بڑے شاعر ہیں۔ ان کے کلام کی گہرائیوں تک رسائی آسان نہیں، اسی لیے اقبال کے اشعار کو سمجھنے سے کہیں زیادہ رٹنے کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ ہم کبھی اقبال فہمی کی کوشش کرتے بھی تو ناکام رہتے تھے۔ استادِ محترم کچھ دیر اشعار کی تشریح کرتے اور تھک ہار کر کہتے۔ ’بڑے ہو کر تم خود کلام اقبال کی گتھیاں سلجھا لو گے۔ ‘

بعد میں جب ہم نے اقبال کے کلام کا بغور مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ ایک ایک مصرعے کو سمجھنے کے لیے تاریخ، مذہب، فلسفہ، سیاست، سماجیات اور شاعری کے رموز کا مطالعہ درکار ہے۔ ہم ٹھہرے کام چور، ہمیں وہی شاعری راس آتی ہے جو سننے اور پڑھنے کے بعد سیدھے دل میں اتر جائے۔ اقبال کا کلام دماغ کی راہ سے قلب پر اثر کرتا ہے۔ یہ راستہ دشوار کن اور محنت طلب ہے لیکن جوں توں ہم اس راہ پر چل پڑے۔ ابھی تک ہمیں منزل کا نشان نہیں ملا لیکن دوران سفر ایک نشہ سا طاری رہتا ہے۔ اس نشہ کا سرور وہی جانے جس نے اقبال کی شاعری کو سمجھنے کے لیے محنت بلکہ ورزش کی ہو۔ غرض بچپن میں لاشعوری طور پر اقبال کے عظیم شاعر ہونے کی حقیقت کو بعد میں شعور نے ثابت کر دیا۔

اقبال کی شاعری اردو کی لاج ہے۔ اس تعلق سے ہم ایک واقعہ سناتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کو انگریزی زبان سے والہانہ محبت ہے اگر چہ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ بات بات پر شیکسپیر، ورڈس ورتھ، ملٹن، کیٹس اور ایلیٹ کا نہ صرف حوالہ دیتے ہیں بلکہ ان کی نظمیں سناتے اور ان کی تشریح بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خوبی انھیں ورثے میں ملی ہے۔ وہ اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے لیکن ان کا کرم ہے کہ اردو بول اور سن لیتے ہیں۔ ان کے والد کا خیال تھا کہ اگر بچہ اردو پڑھے اور لکھے گا تو اس کا مستقبل تو خراب ہو گا ہی، ساتھ ہی ساتھ مزاج عاشقانہ ہو جائے گا۔ وہ عشق کرے گا اور زلف گرہ گیر کا اسیر ہو کر نکما اور ناکارہ ہو جائے گا۔ اسی لیے ان کے والد نے اردو پڑھنے اور لکھنے سے باز رہنے کی نصیحت کی تھی جو اب وصیت کا درجہ رکھتی ہے۔

موصوف اپنے والد کی وصیت پر ایک عرصہ تک سختی سے عمل پیرا رہے۔ چند دن قبل ہم سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے انگریزی میں انکشاف کیا۔ ’میں اب تک یہی سمجھتا رہا کہ ڈیڈی کا خیال درست ہے۔ اردو شاعری صرف عشق و محبت، ہجر و وصال، شراب و شباب، شمع و پروانہ، گل و بلبل اور وفا اور بے وفائی کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ محبوبہ کا سراپا بیان کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں نرگسی، ناک ستواں، ہونٹ گلاب کی پنکھڑیاں، گال دہکتے انگارے، زلف کالی گھٹا اور گردن صراحی دار ہوتی ہے۔ صنف نازک کو اس قدر حسین بتایا جاتا ہے کہ بیان کرنے والے پر ہی دل آ جائے !

وہ تووہ ہے تمھیں ہو جائے گی الفت مجھ سے

یعنی طفیلی عشق۔ اتفاق سے مجھے ڈاکٹر اقبال کی شاعری کا انگریزی ترجمہ ہاتھ لگا۔ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اس میں اردو شاعری کے روایتی مضامین کا شائبہ نہ تھا۔ ان کی شاعری میں ایک فلسفہ بھی ہے، کھوڈی فلاسفی۔ ۔ ۔ ‘

ہم نے تصحیح کی۔ ’ کھوڈی فلاسفی نہیں فلسفۂ خودی کہیے۔ ‘انھوں نے پھر غلطی کی۔ ’ہاں۔ ہاں۔ وہی کھوڈی فلاسفی۔ ‘ہمیں جناب کی کھوڈی فلاسفی کو اقبال کے فلسفۂ خودی بنانے کے لیے ڈاکٹر کی طرح ٹارچ اور زبان دبانے کے آلہ کی مدد سےخ اور ڈ کے مخارج بتانے پڑے۔ چند منٹ کی ریاضت کے بعد وہ فلسفۂ خودی کہنے کے قابل ہوئے اور ہانپتے ہوئے کہا۔ ’ویل۔ اردو میں بہت اسٹف (stuff) ہے ! اب میں اردو سیکھوں گا۔ ‘

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اردو زبان کو اقبال جیسا عظیم شاعر عطا کیا۔

اقبال نے ادب برائے ادب کے برخلاف ادب برائے زندگی کو شعار بنایا۔ زندگی کے اہم مسائل، سیاست، قومیت، معاشرت، حتی کہ مذہب جیسے مشکل اور نازک موضوع کو اپنے کلام میں اس کامیابی سے پیش کیا کہ مبلغ مانے گئے۔ ایک مولوی صاحب کو جھومتے ہوئے ترنم کے ساتھ اقبال کے اشعار سناتے دیکھ کر ہم نے شاعری کے حلال ہونے کے تعلق سے سوال کیا تو موصوف نے فرمایا۔ ’صرف علامہ اقبال کی شاعری جائز ہے۔ ‘

ہمارے ایک دوست شاعروں کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے ان کا تعلق انسانوں سے نہ ہو۔ لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال ایک کامیاب اور مکمل انسان تھے۔ بنیادی طور پر وہ شاعر تو تھے ہی، انھوں نے فلسفے پر بھی عبور حاصل کیا۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ ہوا۔ بیرسٹری مکمل کر کے قانون داں کہلائے۔ طالب علموں کی پیاس پروفیسر بن کر بجھائی۔ حکومت وقت نے ’سر‘ کا خطاب دیا۔ مغربی شعرا کا جواب دیا تو ’شاعر مشرق‘ کے خطاب سے نوازے گئے۔ مذہبی خیالات اور کلام کی بدولت علامہ کہلائے گئے۔

اقبال ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ہر کوئی انھیں اپنا گردانتا تھا۔ مولویوں کے وہ علامہ ہیں تو شعرا انھیں شاعر اعظم کہتے ہیں۔ کوئی انھیں ڈاکٹر اقبال کہتا ہے تو کوئی سر محمد اقبال۔ موکلین کے لیے وہ بیرسٹر تو طالب علموں کے پروفیسر ہیں۔ لاہوریوں کے لیے ’اکبال‘ ہیں تو اہلِ دکن کے وہ ’اخبال‘ ہیں۔

اقبال کے ترانۂ ہندی کو مختلف طریقوں سے سمجھا اور برتا جاتا ہے۔ پہلا مصرعہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کا مطلب واضح اور آسان ہے۔ ہر کس وناکس کی سمجھ میں آتا ہے لیکن اس مصرعہ کو شیروانی اور اردو کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کبھی اردو والوں کو خوش کرنا، ان سے ووٹ مانگنا یا ان کی تائید حاصل کرنا مقصود ہو تو یہ مصرعہ بڑا کام آتا ہے۔ ضرورت کے لحاظ سے یہ مصرعہ کبھی تحت تو کبھی ترنم سے پڑھا جاتا ہے۔ ہم نے اس مصرعہ کو اتنی مرتبہ غلط تلفظ اور غلط انداز میں سنا ہے کہ اب یہ مصرعہ اپنی اہمیت اور توقیر کھو چکا ہے اور جب کسی لیڈر کی گفتگو پر ’ہندوستاں ہمارا‘ کا گمان ہوتا ہے تو عرض مدعا خود بخود ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موصوف کی مانگ ووٹ ہے یا صرف تالیاں اور جے جے کار درکار ہے۔

شاہین اپنی خصوصیات کی وجہ سے اقبال کا محبوب پرندہ رہا ہے جس کا ان کی شاعری میں اکثر ذکر آتا ہے۔ شہر بھوپال میں اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک کھمبے پر شاہین بنا کر نصب کیا گیا۔ بعض اقبال شناسوں نے اعتراض کیا۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر

تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

اور کہا۔ ’اگر اقبال کی یاد میں شاہین نصب کرنا ہی ہے تو شاہین کو پہاڑوں کی چٹانوں پر لے جائیے۔ شاہین کا شہر میں کیا کام ہے۔ ‘

ہمارے درمیان بعض ایسے حضرات موجود ہیں جو اقبال کے کلام کے ذریعہ اپنی قابلیت کی دھونس جماتے ہیں۔ موقع بے موقع اقبال کے اشعار پڑھتے ہیں۔ اردو کی بہ نسبت فارسی اشعار سنانا ان حضرات کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ اقبال کی زندگی کی اہم تاریخیں یاد رکھتے ہیں۔ ان موقعوں پر کسی بھی نوعیت کی محفل سجا کر اقبال کی یاد دلاتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے ایسے حضرات کے لیے ’اقبالچی‘ کی اصطلاح بنائی ہے۔ اقبالچی اپنے ڈھنگ سے اقبال کے کلام کی تشریح کرتے ہیں۔ اقبال کا ایک مشہور اور زبان زد خاص و عام شعر ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

ایک اقبالچی نے اس شعر کی تشریح کچھ اس طرح کی تھی۔ ’ہر انسان کی تقدیر لکھی جاچکی ہے۔ لیکن اللہ کے بعض محبوب بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تقدیر اللہ تعالی کورے کاغذ کی طرح صاف رکھتا ہے۔ زندگی میں یہی لوگ کامیاب اور کامران ہوتے ہیں۔ جب ان کی زندگیاں دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہیں تب خدا ان کامیاب لوگوں سے پوچھ کر تقدیر لکھتا ہے۔ ایسے بڑے لوگوں کی فہرست میں اقبال کا شمار بھی ہوتا ہے۔ ‘

اقبال کے نام کے ساتھ فلسفہ خودی کا خیال آتا ہے۔ اپنے کلام میں اقبال نے فلسفۂ خودی کو اجاگر کیا ہے لیکن بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ہم نے وہی سمجھا جو وہ کہنا چاہتے تھے۔ فلسفۂ خودی کے موضوع پر منعقدہ محفلوں میں ہم نے جب شرکت کی تواحساس ہوا کہ اقبال کے نقطۂ نظر کی مٹی پلید کی جا رہی ہے اور ماہرین اقبال نے اسے اتنا گنجلک بنا دیا کہ آج تک ہم اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔

ماہرین اقبالیات دوسرے نقادوں سے اپنے آپ کو بہتر اور برتر سمجھتے ہیں۔ اقبال فہمی گویا ان ہی کی میراث ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ اقبال بہ آسانی ہماری سمجھ میں آ گئے لیکن ماہر اقبال ہماری سمجھ سے بالاتر رہے۔ ماہرین اقبالیات نے اقبال پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اقبال کے کلام پر دوسرے شعرا کا اثر ڈھونڈا۔ گو حضرت داغ ان کے استاد تھے لیکن ماہرین نے بتایا کہ ان کا اثر صرف چند ابتدائی غزلوں تک محدود ہے۔ جب پوری طرح سے استاد کا اثر ثابت کرنے میں ناکام ہوئے تو اقبال کا رشتہ غالب اور میر سے جوڑا گیا۔ آخر طے پایا کہ اقبال نے اپنے پیش رو شعرا کے کلام کا بغور مطالعہ کیا اور ایک منفرد طرز اختیار کیا جو انھیں سب سے ممتاز کرتا ہے۔

اقبال کی کس حیثیت کو مقدم مانا جائے۔ شاعر، مفکر، فلسفی، مبلغ، صوفی یا محب وطن؟ کسی نے اقبال کے فلسفہ کو سراہا تو کوئی اقبال کی شاعری کا مداح ہے۔ کسی کو مذہبی کلام پسند ہے تو کسی کو وطن کی شان میں لکھی گئی نظمیں بھلی لگتی ہیں۔ بعض نقاد اقبال کا تقابل مغربی شعرا سے کرتے ہیں۔ ایک ماہر کہتے ہیں کہ اقبال یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

مغرب کے شعرا کے مقابلہ کے لیے خود ڈٹ گئے۔ انھوں نے سلام مغرب کا جواب پیام مشرق لکھ کر دیا اور بہت خوب دیا۔

ہم اردو والوں کو اقبال فہمی میں دشواری اس لیے بھی پیش آتی ہے کہ اقبال نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شاعری کی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اقبال اپنے خیالات کو ہندوستان سے باہر پہنچانا چاہتے تھے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو کی تنگ دامنی کی وجہ سے اقبال نے فارسی کا سہارا لیا۔

نقاد مختلف زاویوں سے اقبال کا احاطہ کرتے ہیں۔ کوئی ماہر فلسفۂ خودی ہے تو کوئی شکوہ جواب شکوہ پرا تھارٹی ہے۔ کوئی وطنیت پر اظہار کردہ خیالات پر حاوی ہے تو کوئی ان کی ترقی پسندی کی جزئیات سے واقف۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے ماہرین کی پوری ایک فوج درکار ہے۔ ماہرین اقبالیات بہت کچھ جاننے کے باوجود اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال اب بھی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایک ماہر اقبال یہاں تک کہتے ہیں کہ ہم نے اقبال کو نہ سمجھا تو نہ سہی خود اقبال کو بھی یہ اعتراف تھا کہ

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر واللہ نہیں ہے

٭ ٭ ٭ اکبری اقبال نمبر شگوفہ، حیدرآباد۔ اپریل 1986ء

 

 

 

 

ہمارے بھی ہیں ’ڈاکٹراں ‘ کیسے کیسے

 

انسان تکلیف میں خدا کو یاد کرنے کے بعد ڈاکٹر کو تلاش کرتا ہے۔ اس سے مشورہ کرتا اور اس کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ لفظِ ڈاکٹرسے ذہن میں مختلف صورتیں ابھرتی ہیں۔ بچہ سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر ایک جلاد ہے جس کے ہاتھ میں سدا ایک موٹا انجکشن رہتا ہے۔ قریب المرگ شخص کے لیے ڈاکٹر ملک الموت ہے اور شفا یاب مریض ڈاکٹر کو فرشتہ سمجھتا ہے۔

ہماری نظر میں ڈاکٹر سماج کے اس طبقہ کا نام ہے جو لوگوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا دیکھ کر خوش ہوتا اور اپنا روزگار پیدا کرتا ہے۔ آپ شاید ہم سے اختلاف کریں۔ ماضی میں ڈاکٹر کے تعلق سے ہمارا نظریہ ایسا نہ تھا۔ سماج میں موجود ڈاکٹر کہلائے جانے والے مختلف افراد کی بہتات نے ہمیں اپنا خیال بدلنے اور ڈاکٹروں کی اقسام پر مضمون لکھنے کے لیے مجبور کیا ہے۔

’اشتہاری ڈاکٹر‘ بہت مشہور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی پریکٹس کا دارومدار شہرت پر ہوتا ہے۔ افاقہ ہونے کی صورت میں مریض خود ڈاکٹر کی تشہیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لیکن اشتہاری ڈاکٹر اخباروں اور رسالوں میں اشتہار دے کر، دیواروں پر پوسٹر چسپاں کر کے اور عوام میں ورقیئے تقسیم کر کے شہرت حاصل کرتے ہیں۔ اشتہار میں بیماری اور اس کے علاج کے تعلق سے ڈینگیں ماری جاتی ہیں۔

ایک اشتہاری ڈاکٹر کا دعویٰ ہے۔ ’دنیا میں کسی کو بیمار نہ رہنے دوں گا۔ ‘ اب آپ سے کیا چھپائیں ہمیں دوا خانے کے اطراف کئی افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا نظر آئے اور با وثوق ذریعہ سے پتا چلا ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب بواسیر کے مریض ہیں۔ آنکھوں کے اشتہاری ڈاکٹر کا بیان ہے۔ ’میرے ہوتے ہوئے کوئی اندھا نہیں ہو گا۔ ‘ایک اور اشتہاری ڈاکٹر کا کہنا ہے۔ ’کوئی ایسا مرض نہیں ہے، جس کا علاج نہ ہو! پھر آپ اتنے دن سے کیوں بیمار ہیں ؟ ہم سے ملیے۔ ہمارے پاس ہر مرض کا علاج اور ہر علاج کا مرض موجود ہے۔ ‘ معاشیات سے دلچسپی رکھنے والے ایک ڈاکٹر کا نعرہ ہے۔ ’مہنگائی کے دور میں ہمارے یہاں سستے دام صحت خرید فرمائیے۔ ‘

ڈاکٹروں کی ایک قسم پوشیدہ ہوتی ہے۔ ہماری مراد مردانی اور زنانی جنسی امراض کے ماہرین سے ہے۔ اس قسم کے ڈاکٹر مریضوں کے پوشیدہ امراض کا علاج بڑی راز داری سے کرتے ہیں جبکہ وہ معہ پوشیدہ امراض، اشتہارات اور پوسٹرس پر بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ اشتہار میں چھپنے والی تصویر کی بدولت شہر کا بچہ بچہ انھیں جانتا ہے۔ بعض ڈاکٹروں کی تصویر کو Wanted یعنی ’مطلوب ہے ‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔

اخباروں اور رسالوں میں فلمی اشتہارات کے بعد سیکس اسپیشلسٹ کے اشتہارات دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ اشتہاروں میں استعمال ہونے والے چند مشہور فقرے برسوں سے رائج ہیں۔ عزت بچانے کے لیے ! ٹھہرئیے، خودکشی حرام ہے۔ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد! خوشیوں سے منہ نہ موڑئیے۔ خلوت اور جلوت میں شرمندگی کیسی؟ بچپن اور لڑکپن کی غلطیوں کا علاج۔ ہم ہر دو کی شرمندگی دور کرتے ہیں۔ وغیرہ۔ وغیرہ۔

ہم نے اخبار میں ایک اشتہار یوں بھی دیکھا تھا۔ ’پچھلے ہفتہ اسی جگہ خبر چھپی تھی کہ ایک نوجوان نے شادی سے عین قبل خودکشی کر لی۔ آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ شادی یا خودکشی! دونوں صورتوں میں ہم سے ایک مرتبہ ضرور مل لیں۔ ‘

’پوشیدہ ڈاکٹر‘ کا راز داری سے چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے۔ راز داری بعض پوشیدہ ڈاکٹروں کا طرہ امتیاز تو بعض کا شیوہ ہے۔ بقیہ ڈاکٹر مکمل راز داری کی طمانیت دیتے ہیں۔

پوشیدہ ڈاکٹروں کے دوا خانوں کے نام عوام کی خاص توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ ہم نے ’کنگس کلینک، رائل سیکس کلینک اور لیلا مجنوں دوا خانہ‘ دیکھے ہیں۔ پوشیدہ ڈاکٹر کی تیار کردہ دواؤں کے مخصوص نام فلمی ویلن، تاریخی عمارتوں اور شہنشاہوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ چند نام پیش خدمت ہیں۔ گولی واجد علی شاہ، معجون مغل اعظم، جوشاندہ قطب مینار، پریم کیپسول۔ حاجت مند کو دوا کا پورا ایک کورس استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت کے لحاظ سے اکسپریس اور انسٹنٹ قسم کی دوائیں بھی ہوتی ہیں۔ کیفیت لکھ بھیجنے اور پیشگی رقم ادا کرنے پر خط و کتابت اور پارسل سروس کے ذریعہ بھی مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

پوشیدہ ڈاکٹر جنس تبدیل کرنے پر بھی اختیار رکھتے ہیں۔ ہم نے ایک اشتہار دیکھا۔ ’آپ اپنی پسندکا کھاسکتے ہیں، پہن سکتے ہیں تو پھر اپنی پسند کی جنس کیوں نہیں اپناسکتے ! ہم حسب خواہش آپ کو مرد یا عورت میں تبدیل کرتے ہیں۔ ‘ ایک پوشیدہ ڈاکٹر دوران حمل جنس مقرر کرنے میں ماہر ہیں۔ ان کا اشتہار یوں ہے۔ ’جو چاہے لیجیے۔ ہماری دوا سے حسب منشا اولاد ہو گی۔ لڑکا چاہیے، لڑکا ہو گا اور لڑکی چاہیے، لڑکی ہو گی۔ ‘ لڑکے کے لیے دی جانے والی دوا کی قیمت تین گنا زیادہ وصول کی جاتی ہے۔

پوشیدہ ڈاکٹر سے رجوع ہونے والے مریض اپنے مرض اور علاج و معالجے کے تعلق سے کوئی ایسی بات نہیں کرتے جس سے پوشیدہ ڈاکٹر کی شہرت پر حرف آتا ہو۔ مریض کی زبان بندی پوشیدہ ڈاکٹر کی کامیابی کا راز ہے۔

کہنہ امراض جیسے دمہ، بواسیر، نواسیر، السر، ذیابیطس وغیرہ کا شرطیہ علاج کرنے والے ماہرین کو ہم ’کہنہ ڈاکٹر‘ کہیں گے۔ کہنہ ڈاکٹر خود کسی دائمی مرض کا شکار رہتے ہیں۔ ہم ایک صاحب کو جانتے ہیں جنھیں دمہ کا عارضہ تھا۔ علاج، تعویذ، گنڈے اور چٹکلے، سب کروا چکے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ ایک دن خودکشی کے ارادے سے انھوں نے نامعلوم جڑی بوٹی کھائی۔ موت تو نہ آئی لیکن مرض دمہ جاتا رہا۔ آج یہی صاحب ڈاکٹر بنے دمہ کا شرطیہ علاج کرتے ہیں۔

’کہنہ ڈاکٹر‘ بغیر آپریشن صرف چند پوڑیوں کے ذریعہ ان امراض کا علاج کرتے جن میں آپریشن ناگزیر ہوتا ہے۔ ’بغیر آپریشن صرف پندرہ یوم میں علاج۔ فائدہ نہ ہونے کی صورت میں پیسے واپس کر دئیے جائیں گے۔ ‘ کہنہ ڈاکٹر کا دعوی دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ بیماری واپس آتی ہے۔ پیچیدگیاں بھی ساتھ لاتی ہے اور پیسے ایک وقت جیب سے باہر آنے کے بعد کبھی واپس ہی نہیں ہوتے۔ طرفہ تماشا ہے !کہنہ ڈاکٹر شفا کی گیارنٹی اور طویل زندگی کی طمانیت دیتے ہیں جبکہ خود اپنی زندگی کا بیمہ کروا رکھتے ہیں۔

ایک قسم ’عطائی ڈاکٹر‘ ہوتی ہے جو عطائی نسخوں سے علاج کرتے ہیں۔ عطائی ڈاکٹر معاشی طور پر بے ضرر ہوتے ہیں۔ علاج کا معاوضہ نہیں لیتے، کہتے ہیں کہ پیسے لینے سے دوا کا اثر جاتا رہتا ہے۔ لیکن تحفے قبول کرنے میں انھیں کوئی عذر نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ تحفہ دینے سے دوا کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ عطائی ڈاکٹر صرف چند امراض کا علاج کرتے ہیں۔ یرقان ان کا محبوب مرض ہے۔ عطائی ڈاکٹر اشتہار بازی کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ایک اشتہار میں لکھا تھا۔ ’یرقان کا مفت علاج۔ ایک سو سال سے آزمایا ہوا ہر قسم کے یرقان کے لیے کامیاب نسخہ جسے ڈاکٹر صاحب کے پردادا کو ایک صوفی گھنے جنگل میں باد و باراں کے دوران دوپہر بارہ بجے دے کر غائب ہو گئے تھے۔ ‘

عطائی ڈاکٹر کا طریقہ علاج عجیب و غریب ہوتا ہے۔ نرالا پرہیز بتایا جاتا ہے۔ دوا کو نہار پیٹ جام، آم، انگور یا مچھلی کے اندر رکھ کر کھانا پڑتا ہے یا پھر چار سالہ کالی گائے کے دودھ میں ملا کر استعمال کرنی پڑتی ہے۔ تمام دن بھوکا رہنا اور رات میں مرغ پکوا کر دوسروں کو کھلانا اور خود کو باسی دال اور سوکھی روٹی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کے بعد ہدایت کی جاتی ہے کہ ہر جمعرات کو صوفی صاحب کی درگاہ پر حاضری دیں اور شیرینی تقسیم کریں !

دوا دینے کے لیے سال میں چند دن اور دن میں دوپہر یا سورج طلوع اور غروب ہونے کے بعد کا وقت مختص ہوتا ہے۔ مریض کی بدنیتی سے دوا کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اور جہاں فائدہ نہیں ہوتا وہاں بدنیتی عطائی ڈاکٹر کی ڈھال بنتی ہے۔

ایک قسم ڈاکٹروں کی وہ ہوتی ہے جنھیں کوئی یونیورسٹی یا ہسپتال سے سند نہیں ملتی بلکہ مریض، فیس کے ساتھ انھیں اسناد اور توصیف نامے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر کے فائدے کے لیے مریض اشتہار بھی بنتے ہیں۔ اشتہار دلچسپ ہوتے ہیں۔ ’ہماری شادی ہوئے پندرہ سال کا طویل عرصہ بیت چکا تھا۔ ہم اولاد کی خوشی سے محروم تھے۔ دنیا بھر کا علاج کروایا۔ جب کبھی سنتے کہ فلاں ڈاکٹر اچھا ہے، ہم امید لیے اس کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی تعریف سن کر ہم نے ان سے علاج کروایا۔ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے ہماری سونی زندگی میں بہار آئی۔ ہم اولاد نرینہ سے سرفراز ہوئے۔ لا ولد بھائیوں اور بہنوں سے ہم گذارش کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے رجوع کریں اور اپنی گود بھر لیں۔ ‘

ایک دوسرا اشتہار ملاحظہ فرمائیے۔ ’مایوسی میں امید کی کرن۔ شہر کے بڑے ہسپتال میں بتایا گیا کہ میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں۔ میں موت کے انتظار میں ایک ایک پل کاٹنے لگا۔ کسی نے ڈاکٹر صاحب کا پتا دے کر مجھ پر احسان کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دلجوئی سے میرا علاج کیا۔ اب میں بالکل ٹھیک ہو چکا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے موت کے منہ سے چھڑا لایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کینسر اور دوسرے لاعلاج امراض کا شرطیہ علاج کرتے ہیں۔ وہ ہمارے شہر میں صرف چار یوم قیام کریں گے۔ مایوس مریضوں کو میں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے مل کر نئی زندگی حاصل کر لیں۔ ‘ اشتہار میں مریض کی تصویر، پتا اور علاج سے پہلے اور بعد کی کیفیت کے بارے میں تفصیل درج ہوتی ہے۔ مریض سے ملنے کا وقت بھی دیا جاتا ہے۔

اشتہاروں میں ہمیشہ ڈاکٹر کی تعریف ہوتی ہے۔ مریض کوئی ایسا اشتہار نہیں چھپواتا کہ ’میں بلند بانگ دعوے پڑھ کر ڈاکٹر صاحب سے رجوع ہوا۔ علاج کرواتا رہا۔ پیسہ جاتا رہا اور مرض کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ جان کنی کے عالم میں پہنچا کر ڈاکٹر صاحب نے میری حالت کو مشیت الٰہی قرار دیا۔ میں آس کے مارے بھائیوں کو ڈاکٹر موصوف سے دور رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ‘

ایک قسم ’ہر فن مولا ڈاکٹر‘ کی ہوتی ہے۔ انھیں حکمت میں دخل رہتا ہے۔ جڑی بوٹی ان کے گھر کی کھیتی ہے۔ ماڈرن میڈیسن ان کا شوق ہے اور ہومیوپیتھی موصوف کی قابلیت ہے۔ نام سے پہلے ڈاکٹرو حکیم یا ڈاکٹر اور وید لکھتے ہیں تو نام کے بعد اسپیشلسٹ کا دم چھلہ لگا رکھتے ہیں۔ ایک مرض کا علاج مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ وقتی آرام کے لیے ماڈرن میڈیسن سے کام لیتے ہیں۔ جڑ پیڑ سے مرض کو ختم کرنے کے لیے حکمت کا سہارا لیتے ہیں۔ دوا کے مضر اثرات کو زائل کرنے کے لیے ہومیوپیتھی طریقۂ علاج کام آتا ہے۔ چومکھا علاج سے معلوم نہیں مرض کا حشر کیا ہوتا ہے لیکن مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہمیں ایک دوست کی یاد ستارہی ہے جس کی بے وقت اور بے وجہ موت پر ہم نے خون کے آنسو بہائے تھے۔ وہ ایک ہر فن مولا ڈاکٹر کے زیر علاج تھے۔ پیٹ کے درد کے لیے انجکشن لگواتے، جوشاندہ پیتے، حلوے چاٹتے اور چھوٹی چھوٹی گولیاں نگلتے ہوئے دنیا سے وقت سے پہلے گزر گئے۔

اکثر ڈاکٹروں کا طریقہ علاج سمجھ میں نہیں آتا جبکہ ’روحانی ڈاکٹر‘ کا پیدا کردہ مرض پلے نہیں پڑتا۔ ڈاکٹروں کی روحانی قسم ایسے ایسے امراض تشخیص کرتی ہے کہ سنتے ہوئے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں۔ پسینہ آنے لگتا ہے۔ حلق خشک ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں۔ ’آپ سرشام املی کے درخت کے نیچے سے گزر رہے تھے۔ آپ کی مردانہ وجاہت سے متاثر ہو کر ایک چڑیل وارد ہو چکی ہے۔ چڑیل کا پریشان کرنا فطری عمل ہے لیکن چڑیل کا ’چڑیلا‘ جذبہ رقابت میں آپ کا جانی دشمن ہو گیا ہے۔ ‘

چڑیل، شیطان، آسیب، بد روح، بھوت، جن وغیرہ کے مریضوں پر وارد ہونے کے علاوہ ایک عام مرض روحانی ڈاکٹر اکثر و بیشتر تشخیص کرتے ہیں۔ ’آپ پر کسی نے جادو ٹونا کروا دیا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت، جو موٹی ہے نہ دبلی، کالی ہے نہ گوری، رشتہ میں دور ہے اور نہ قریب، نے تیرہ تاریخ کی دوپہر میں اثرات ملا کھانا کھلایا تھا۔ ‘

روحانی ڈاکٹر گولی، کیپسول، شربت کے بجائے تعویذ، گنڈے، لوبان، لیموں سے لے کر مرغ اور بکرے تک علاج میں استعمال کرتے ہیں۔ بعض وقت جھاڑو اور جوتوں سے مریض کی خاطر تواضع بھی کی جاتی ہے۔ روحانی ڈاکٹر کے بیان کے مطابق جوتے مریض کو نہیں بلکہ مریض پر وارد شیطان کو پڑتے ہیں جو مار کے ڈر سے بھاگ جائے گا۔ روحانی ڈاکٹر کے فلسفہ پر یقین رکھنے والوں کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بڑی عقیدت کے ساتھ روحانی ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں۔

’خطابی ڈاکٹر‘ بھی ڈاکٹروں کی ایک قسم ہے۔ خطابی ڈاکٹر علاج نہیں کرتے۔ انھیں امراض کے تعلق سے عام آدمی سے زیادہ معلومات بھی نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ ڈاکٹر کے نام سے جانے پہچانے اور پکارے جاتے ہیں۔ ایک خطابی ڈاکٹر ہمارے دفتر میں کلرک ہیں۔ انھیں بچپن میں ڈاکٹر بننے کا جنون تھا۔ ڈاکٹر کے کھیل کھیلا کرتے تھے۔ جھوٹ موٹ انجکشن لگاتے اور رنگین پانی کی دوا دیتے تھے۔ ایک دن انھوں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ہم سے کہا۔ ’بدقسمتی سے میں ڈاکٹر نہ بن سکالیکن میرے شوق نے مجھے ڈاکٹر کا خطاب دلوایا۔ ‘

لوگ دوا خانے میں سفید کوٹ پہن کر کام کرنے والوں کو ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو دوا خانوں میں کام کرنے والے بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کرنے کے لیے اصرار کرتے ہیں۔ ایسے ’ڈاکٹروں ‘ کو بھی ہم نے خطابی ڈاکٹر کے زمرے میں شامل کیا ہے۔

ایک گروہ ’توڑ جوڑ ڈاکٹروں ‘ کا ہے جو ہڈیوں کے ٹوٹنے اور جوڑوں کے سرکنے کا علاج کرتے ہیں۔ توڑ جوڑ ڈاکٹر کا فن استاد کا مرہون منت ہوتا ہے۔ استاد انھیں ہڈیوں کو توڑنا اور جوڑنا سکھاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر مالش بھی خوب کرتے ہیں۔ توڑ جوڑ ڈاکٹر فلمی اداکاروں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح حجامت خانوں کے بورڈ پر فلمی ستاروں کو حجامت بنواتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، اسی طرح توڑ جوڑ ڈاکٹر کے بورڈ پر فلمی ستارے ہاتھ اور پیر بلکہ تمام جسم پر پٹیاں باندھے تھرکتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈاکٹری خاندانی پیشہ بھی ہے۔ پیڑھی در پیڑھی لوگ ’خاندانی دوا خانے ‘ چلاتے آ رہے ہیں۔ دادا جان نامور طبیب تھے۔ ابا حضور کو اپنی نگرانی میں دوا خانے کے لیے تیار کیا تھا اور پھر ابا حضور نے اپنے فرزند کی تربیت کی ہے۔ خاندانی ڈاکٹر کے مطب میں شجرہ نسب کی تفصیل موجود رہتی ہے۔

دواؤں کا کاروبار کرنے والے بھی ڈاکٹری کرتے ہیں۔ آپ کسی دکان پر جائیے اور بیماری کا حال سنائیے۔ سیٹھ صاحب پیسے وصول کر کے دوا دے کر پرہیز بتاتے ہیں۔ اس قسم کے دکانداروں کو ہم نے ’دکانی ڈاکٹر‘ کے زمرے میں شامل کیا ہے۔

چاہے گانا آئے یا نہ آئے ہر شخص گنگناتا اور باتھ روم سنگر کہلاتا ہے، اسی طرح ہر انسان تھوڑی بہت ڈاکٹری جانتا ہے۔ ہمارے خیال میں ڈاکٹری یعنی صحت مند ہونے کی کوشش ایک فطری خواہش بھی ہے۔ آخر انسان کا اپنے جسم پر اتنا تو حق ہے۔ اسی لیے کسی سے اپنی تکالیف بیان کرنے پر وہ ہسپتال کا راستہ بتانے سے قبل اپنی رائے ضرور دے گا۔ ’آپ کا مزاج سرد لگتا ہے۔ سردی کے سبب بلغم جمع ہو گیا ہے۔ گرم دودھ اور کالی مرچ استعمال کرنے سے فائدہ ہو گا۔ ‘

ڈاکٹروں کی اور بھی اقسام ہیں۔ جس طرح بیماریوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح نئے نئے ڈاکٹر ابھر کر آ رہے ہیں۔ طوالت کے خوف سے ہم آخر میں ’محنتی ڈاکٹر‘ کے بارے میں بتاتے ہوئے مضمون ختم کرتے ہیں۔ محنتی ڈاکٹر دو طرح کے ہوتے ہیں، کتابی اور دوائی۔ کتابی ڈاکٹر تحقیق کر کے مقالہ کی شکل میں کتاب لکھتے ہیں اور دوسرے محنتی ڈاکٹر ڈھیر ساری کتابیں پڑھ کر دوائی دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ دونوں قسم کے محنتی ڈاکٹر کئی برس تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آنکھوں پر موٹے عدسوں کی عینک چڑھا کر وزن گھٹا کر اور بال گنوا کر ڈاکٹر کہلاتے ہیں جبکہ دوسرے قسم کے ڈاکٹر آسانی سے یہ لقب اختیار کر جاتے ہیں !

ہمیں محنتی ڈاکٹروں سے ہمدردی ہے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شاداب، حیدرآباد۔ نومبر 1986ء

 

 

 

گھونگھٹ الٹنے سے پہلے

 

مضمون کا عنوان غلط فہمی میں مبتلا کر سکتا ہے۔ یہ کوئی موٹی موٹی مونچھوں والے سیکس اسپیشلسٹ کا انتباہ نہیں ہے۔ ’ ہوشیار! گھونگھٹ الٹنے سے پہلے ہمارے آزمودہ حلوے مانڈے کھا کر اپنے آپ کو فٹ کر لیں تاکہ گھونگھٹ الٹنے کے بعد پشیمان نہ ہونا پڑے !‘

ہمارے مضمون میں کوئی ایسی بات پنہاں نہیں ہے اور نہ ہی ہم پس پردہ ’پرائیویٹ گفتگو‘ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ارادہ نیک اور مقصد مظلوم کی مدد کرنا ہے۔ اس تحریر کے ذریعہ ہم اپنے تجربے اور مشاہدے کی مدد سے چند مفید مشورے شوہروں کے گوش گزارنا چاہتے ہیں تاکہ حق برادری ادا ہو سکے۔

شادی کے بعد مرد، بحیثیت شوہر مظلوم ترین شخصیت بن جاتا ہے۔ یہ خیال صرف ہمارا ہی نہیں ہے، کئی اور شوہر بھی ہم سے متفق ہیں لیکن انھیں اس طرح کہنے کی شاید اجازت یا ہمت نہیں ہے۔

ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے مشوروں پر نیک نیتی سے عمل پیرا ہونے والے شوہر کو فائدہ ہو گا اور اس کی ازدواجی زندگی پر امن گزرے گی۔ وقت شوہر کو ایسی تمام باتیں اور گر سکھادے گا جو ہم آگے کہنے والے ہیں لیکن اس سبق کی اسے قیمت چکانی پڑے گی۔ غیر شادی شدہ اصحاب کے لیے ہمارے مشورے نعمت غیر مترقبہ ہیں۔

کسی مظلوم شوہر کا کہنا ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا غم شادی اور سب سے بڑی پریشانی بیوی ہے۔ اگر بس میں ہوتا تو ہم خود بھی شادی نہ کرتے اور دنیا کے تمام مردوں کو شادی نہ کرنے کا مشورہ دیتے لیکن یہ صلاح دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ سقراط کا زہر پینا۔ سقراط ہی نے کہا تھا کہ ہر مرد کو شادی ضرور کرنی چاہیے۔ اچھی بیوی ملی تو زندگی ہنسی خوشی گزرتی ہے اور خراب بیوی شوہر کو فلسفی بنا دیتی ہے۔

یوں بھی مرد کو ’خوشہ گندم‘ کا مزہ چکھنا چاہیے۔ ہم یہ مشورہ دینے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے کہ آپ شادی ہرگز نہ کریں۔ شادی ضرور کریں اور دھوم دھام سے کریں لیکن شادی کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ ہر مرتبہ کچھ دن کے لیے ہی سہی شادی کی گھڑی کو ٹال کر اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش کیجیے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ صنف نازک خود پسند ہوتی ہے۔ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے اور دوسروں سے تعریف سنتے ہوئے وہ پھولے نہیں سماتی۔ اس فطری کمزوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کو ایک شوہر ہونے یا بننے کے ناطے اپنی طبیعت میں خوشامد کے عنصر کو بلا جھجھک شامل کر لینا چاہیے۔

ہر شوہر کی بیوی خوب صورت ہوتی ہے اور خوب صورتی اور عقل مندی کبھی یکجا نہیں ہوتے۔ اسی لیے اگر آپ بیوی کی تعریف کرتے رہیں گے تو بیوی کو پس پردہ حقیقت کا علم نہیں ہو گا۔ وہ خوش ہوں گی۔ ہم نے ایک شوہر کو کہتے سنا۔ ’بیگم تم وہی سنگ مرمر کی بنی حسن کی دیوی ہو جسے میں نے لڑکپن کے ایک خواب میں دیکھا تھا۔ اس دن سے میں تمھاری پوجا کرتا آ رہا ہوں۔ دن بہ دن میرے عشق سے تم نکھرتی جا رہی ہو۔ گال پر کالا ٹیکہ لگا لیا کرو۔ کہیں میری نظر نہ لگ جائے۔ ‘

ہر دم بیوی کی تعریف کرتے رہنے کے مشورے پر عمل کرنے سے فائدہ یہ ہو گا کہ گھر میں خوش گوار ماحول بنا رہے گا۔ لیکن خیال رہے کہ کمزور یادداشت کے لیے زیادہ جھوٹ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

کہتے ہیں شادی وہ ناول ہے جس کے پہلے ہی باب میں ہیرو کی موت ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق نہیں ہے۔ بہانہ سازی کے فن میں مہارت حاصل کر کے ایک شوہر شادی کے بعد اپنی انفرادیت باقی و برقرار رکھ سکتا ہے۔ بیوی سے محبت کے ساتھ جنگ بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی طویل ترین جنگ وہ ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان روز اول سے اب تک جاری ہے۔

محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کے اصول پر ہم سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد بہانہ بنانا یا جھوٹ بولنا بری عادت نہیں بلکہ یہ ایک طرح کا حفظ ماتقدم ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عورت بہانہ سازی کے فن میں مرد پر سبقت لے جاچکی ہے۔ شکست قبول کرنے والے شوہر کو ہمارا مشورہ ہے کہ جہاں باتوں سے کام نہ بنے وہاں رشوت دینا چاہیے۔ آپ رات کے دو بجے گھر شوق سے جائیے مگر ساتھ میں ایک تحفہ رکھیے۔ بیوی دیر سے آنے کی وجہ دریافت کرنا بھول کر تحفہ کی تعریف میں لگ جائے گی۔ یاد رکھیے تحفے محبت کی پائیداری کے لیے وٹامن کا کام دیتے ہیں۔

صنف نازک شادی سے پہلے صرف اور صرف ایک عدد شوہر کی تمنا کرتی ہے۔ شوہر مل جانے کے بعد بیوی کے دل میں کئی ارمان کروٹیں لینے لگتے ہیں۔ گھر چاہیے۔ گھر بھرنے کے لیے مختلف سامان درکار ہے۔ کار کی ضرورت ہے۔ زیور خوب صورتی میں اضافہ کا باعث ہیں۔ کپڑے قدر و منزلت بڑھاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ مختلف خواہشات پورا کرنے کی کوشش میں بیوی شاہ خرچ بن جاتی ہے اور شوہر کنگال۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی آمدنی کم بتائے جس طرح سے بیوی اپنی عمر بتاتی ہے اور سیاست دانوں کی طرح بیوی سے مختلف وعدے کر لے اور پھر ٹالتا جائے !

شوہر ہونے کے ناطے بیوی کو شاپنگ کے لیے لے جانا پڑتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہے کہ شاپنگ کے دوران بل ادا کرنے، سامان اٹھانے اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے بیوی شوہر کو ساتھ رکھتی ہے۔ چند دن قبل ہم نے ایک جوڑے کو شاپنگ کرتے دیکھا اور دیکھتے رہ گئے۔ شوہر کے اطراف بچوں اور تھیلیوں کا ہجوم تھا۔ بال الجھے ہوئے تھے اور چلتے چلتے لڑکھڑا جاتے تو راہ گیر سہارا دیتے تھے۔

کچھ نہ کچھ بہانہ کر کے شاپنگ کی بلا کو ٹالا کیجیے۔ ہمارے ایک دوست کو شاپنگ کے نام سے سینہ میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ ادھر بیگم نے شاپنگ کا قصد کیا ادھر موصوف نے دونوں ہاتھوں سے دل کو بھینچ لیا۔ پرس گھر پر بھول جانا بھی ایک حربہ ہے۔ بازار میں خود کو گم کر کے بھی شاپنگ کی مصیبت سے بچا جا سکتا ہے لیکن اکثر و بیشتر شاپنگ سے بچنے کے حربے ناکام ہو جاتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں صبر اور شکر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

شوہر اور بیوی کی فطرت میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شوہر ان چیزوں کا ماتم کرتا ہے جو وہ پا کر کھو دیتا ہے۔ شادی کے بعد شوہر اپنی آزاد زندگی کو یاد کر کے تڑپتا رہتا ہے اور موجودہ قید سے فرار کے راستے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف بیوی ان چیزوں پر واویلا کرتی ہے جو اسے حاصل نہ ہو سکیں۔

بیوی بے جا فرمائشیں اور خواہشات کا اظہار کر کے شوہر کو پریشان کرتی ہے۔ اس کی اکثر خواہشات شوہر کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔ کہیں گی۔ ’تارے توڑ کر مانگ میں سجادیجیے ‘۔ ’ایک اور تاج محل بنوائیے ‘۔ رہیں گی حیدرآباد میں اور خواہش کریں گی چاندنی چوک کے کبابوں کی! آپ ان کی فرمائشوں پر بالکل کان نہ دھریں اور ملین ڈالر مسکراہٹ بکھیر کر خاموش ہو جائیں۔

ویسے مستقل یہی رویہ اپنانا خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔ آپ نے وہ مشہور واقعہ سنا ہو گا۔ ایک صاحب جوتوں کی دکان پر بھاگے بھاگے آئے اور ہانپتے ہوئے کہنے لگے۔ ’بھائی میری بیوی کے لیے سینڈل چاہیے۔ ہلکی ایڑی والے۔ ناپ لانا بھول گیا ہوں۔ شاید وہ میرے پیچھے آ رہی ہو گی۔ ‘

چند منٹ بعد کچھ یاد آنے پر چونک کر کہا۔ ’ یاد آیا۔ میری پیٹھ پر اس کے جوتے کا سائز موجود ہے۔ ‘

گھونگھٹ الٹنے کے بعد مرد کم بولتا ہے اور عورت بہت باتونی بن جاتی ہے۔ اسے شوہر جیسا موضوع ہاتھ آ جاتا ہے۔ اپنے ’صاحب‘ کے بارے میں گھنٹوں بولتی ہے۔ اس کے بارے میں ایسی باتیں کہتی ہے جس کا علم شوہر کو بھی نہیں ہوتا۔ اسے اکثر خیال نہیں رہتا بلکہ پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ سامنے والا سن رہا ہے یا اونگھ رہا ہے۔

شوہر ہونے کے ناطے آپ اپنی یہ عادت بنایئے کہ بیوی سے باتیں کرتے وقت گردن ہلاتے، مسکراتے اور ہوں ہاں یا اچھا کہتے رہیں۔ جب آپ کسی بات کا جواب دینا چاہتے ہوں تو پھرتی سے عرض مدعا بیان کر ڈالیے۔ خدشہ رہتا ہے کہ بیوی کہیں موضوع نہ بدل دے۔ اگر آپ کسی بات کو راز میں رکھنا چاہتے ہوں تو اس کی خبر کسی صورت بیوی کو نہ ہونے دیں۔ راز اور عورت کبھی ایک میان میں اس لیے نہیں رہ سکتے کہ عورت خود ایک معمہ ہے۔

محبت اندھی ہوتی ہے لیکن گھونگھٹ الٹنے سے پہلے۔ شادی کے بعد جب خوش قسمت محبوب بد قسمت شوہر بن جاتا ہے تو محبت کو عقل کی روشنی سے منور کرنا چاہیے۔ شوہر کی حرکات و سکنات بیوی کے زیر اثر نہ ہوں بلکہ سرے سے پیش نظر نہ ہوں۔ ہمارے اس مشورہ پر عمل کرنے سے ایک شوہر کی حالت اس شخص سے مختلف ہو گی جس نے کہا تھا۔ ’موت کی طرح شادی سے بھی نہیں گھبرانا چاہیے۔ ‘

ہو سکتا ہے کہ شوہر کو قابو میں کرنے کے لیے بیوی اسے آنسوؤں میں بہانے کی کوشش کرے لیکن عورت اور مگر مچھ کے آنسوؤں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ عورت بہت جلد، موقع اور محل سے بے نیاز اور زیادہ مقدار میں آنسو بہاتی ہے۔ ہمیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے آنسوؤں سے گوند کر عورت کی تخلیق فرمائی ہے۔ یہ باتیں ایک شوہر کو تبھی حقیقت معلوم ہوں گی جب وہ عورت کے آنسوؤں کا مطالعہ عقل کی مدد سے کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عورت کے آنسو وہ آبی طاقت ثابت ہوں گے جس کا استعمال ہمیشہ غلط سمت میں ہوا ہے۔

آنسوؤں کے ناکام ہونے پر بیوی اپنے مطالبات منوانے کے لیے میکے جانے کی دھمکی دیتی ہے۔ شوہر کو اس دھمکی سے چنداں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنی پریشانی کو میکے بھیج کر چند دن ہی سہی سکون کا سانس لے سکتا ہے لیکن بہت کم بیویاں میکہ جانے کی دھمکی پر عمل کرتی ہیں۔

آپ اپنی بیوی کی تاریخ پیدائش یاد رکھیے اور عمر بھول جائیے۔ عموماً بیوی کی سال گرہ پر زبانی مبارک باد سے کام چل جاتا ہے۔ عورتیں اپنی برتھ ڈے پابندی کے ساتھ منانے کے حق میں نہیں ہیں۔ انھیں خدشہ رہتا ہے کہ لوگ کہیں ان کی صحیح عمر کا پتا نہ لگا لیں۔ وقت شوہر کو بوڑھا کرتا ہے لیکن بیوی کو جوان رکھتا ہے۔ خیال رہے کہ تیس برس کی عمر کے بعد بیوی کو سال گرہ کا دن یاد دلانا خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

ازدواجی زندگی میں شادی کی سال گرہ بھی منائی جاتی ہے۔ یہ دن شوہر کے لیے سال کا سب سے منحوس دن ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عمر بھر عورت کسی بہترین مرد کا انتظار کرتی رہتی ہے اور اسی دوران اس کی شادی ہو جاتی ہے۔ اسی لیے بیویاں شادی کی سال گرہ پر خوشی نہیں مناتیں بلکہ ماتم کرتی ہیں کہ وہ آپ سے شادی کر کے خسارے میں ہیں۔ ان کی کئی خواہشات پوری نہ ہو سکیں۔ اسی دن آپ کو پتا چلتا ہے کہ ’بیگم صاحبہ‘ کس قسم کا شوہر چاہتی تھیں۔ آپ اس حسرتی شوہر سے خود کا موازنہ کرتے اور غم کیا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہم آپ کو مشورہ دیں گے کہ شادی کی سال گرہ تنہا منائیں۔ اپنا غم غلط کرنے کے لیے گھر سے باہر رہیں اور واپسی پر جذبہ خیر سگالی کے طور پر ڈھیر سارے تحفے گھر لائیں۔

عورت میں جذبہ رقابت کا پایا جانا فطری تقاضہ ہے۔ جذبہ رقابت کا دوسرا نام عورت ہے۔ جذبہ رقابت عورت کی سب سے بڑی کمزوری اور شوہر کا بیوی کے خلاف واحد اخلاقی ہتھیار ہے۔ بیوی، شوہر کی بڑی سے بڑی دھمکی سے متاثر نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف اگر آپ اپنی بیوی کو سوت لانے کی دھمکی دیں تو بیگم صاحبہ کا وجود لرز جائے گا۔ خود اعتمادی پارہ پارہ ہو جائے گی۔ روتے روتے آنکھیں موٹی اور لال ہو جائیں گی۔ ہمارے ایک دوست اس افواہ پر گھر میں شیر بنے دندناتے پھرتے ہیں کہ وہ دفتر میں عشق لڑا رہے ہیں اور کسی بھی وقت ’حسین فتنہ‘ کو گھر لا سکتے ہیں۔

آپ اس اخلاقی ہتھیار کو وقتاً فوقتاً استعمال نہیں کر سکتے۔ بار بار استعمال سے یہ اپنی اہمیت کھو دے گا اور ہو سکتا ہے کہ بیوی سوت کا وجود گوارا کرنے کے لیے راضی ہو جائے۔ لیکن وہ کون بے وقوف مرد ہو گا جو ایک اور ملک الموت کو سر پر مسلط کرنا پسند کرے۔ ویسے دو بیویاں رکھنے سے یہ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے کہ دونوں آپس میں لڑتی رہیں گی اور آپ انگریز کی طرح خاموش تماشائی بنے لطف ہی نہیں فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں۔

عورت خدا کی ایک ایسی مخلوق ہے جو اس کے دئیے ہوئے حسن سے کبھی مطمئن نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آپ کو خوب تر اور حسین ترین بنانے کے لیے اپنی عمر اور شوہر کی دولت کا ایک قابل لحاظ حصّہ صرف کر دیتی ہے۔ اس تعلق سے ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ بعض مرتبہ خاموشی بہتر ہوتی ہے۔ اس خیال سے شاید شوہر کو تسلی ہو کہ جس طرح چاند مانگی ہوئی روشنی لے کر چمکتا ہے اسی طرح بیوی کا میک اپ سہاگ کی نشانی ہے !

صنف نازک کو شکایت ہے کہ اسے برابر کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ اسے مرد سے کم تر تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ لڑائی عورت اور مرد کے درمیان ہے۔ جہاں تک شوہر اور بیوی کا تعلق ہے، یقینی طور پر بیوی برتر اور بہتر ہے۔ اسی لیے بیوی کو نصف بہتر کہا جاتا ہے۔ یوں بھی شوہر کا ہار مان لینا ہی فائدہ مند ہے۔

مساوات کے دور میں شوہر کو جہاں کئی فائدے حاصل ہیں وہیں معمولی سا نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ گھریلو کام کاج میں ففٹی ففٹی حصّہ لینا پڑتا ہے۔ حقیقت کو برسرعام کہنے دیجیے۔ شرم کی کیا بات ہے۔ اکثر شوہر گھریلو کام انجام دیتے بھی ہیں۔ اگر گھونگھٹ الٹنے سے پہلے مرد ہوم سائنس کی شد بد سے واقفیت حاصل کر لے تو شوہر کو شرمندگی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ گھر میں اپنا نام روشن کر سکتا ہے۔ ہم ایک واقعہ سناتے ہیں۔ ہمارے گھر ایک بے تکلف ساتھی کو چائے پیش کی گئی۔ چائے کا پہلا گھونٹ لے کر انھوں نے رائے دی۔ ’یار یہ چائے کسی بھٹیار خانے کی ہے یا بھابی نے تکلیف فرمائی ہے۔ ‘

ہم نے جھوٹ بولا کہ چائے نکڑ کے ہوٹل کی ہے۔

عورت ہمیشہ خود کو صحیح سمجھتی ہے اور اپنی کمزوریوں کو قبول کرنا صنف نازک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ مضمون اگر آپ کی بیگم کی نظر سے گزرے تو وہ کہیں گی کہ مضمون سراسر لغو ہے۔ وہ ہمیں دقیانوسی خیالات کا حامی اور صنف نازک کا مخالف بھی قرار دیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں پاگل یا جنونی بھی کہیں۔ بیگم صاحبہ جو کچھ کہیں، یقین کیجیے۔

ہمارا آخری اور سب سے اہم مشورہ آپ کو اپنے گھر میں امن و امان اور سکون قائم رکھنے کے لیے یہ ہے کہ آپ اپنی بیگم کا ہر حکم بجا لائیں۔ ان کی ہر بات مانیں۔ ورنہ نتیجہ کے آپ ذمہ دار ہوں گے، ہم اور ہمارے زریں مشورے نہیں !

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ ستمبر 1981ء

٭٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید