FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

شمس الرحمٰن فاروقی کے

تین مضامین

 

 

                شمس الرحمٰن فاروقی

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

 

 

 

افسانے کی حمایت میں

 

4

 

                شمس الرحمٰن فاروقی

 

 

نومبر کا مہینہ ، شام کا وقت،اور غضب کی دھند۔ یا دھند نہیں کہرا کہیئے۔ بہار میں کہاسا کہتے ہیں، مجھے خیال آیا۔ چلئے کہاسا ہی سہی، لیکن نومبر کی شام میں اتنا کہرا /کہاسا کسی نے دیکھا نہ ایسی دھند دیکھی۔ نہیں، دھند تو ہوسکتی ہے۔ ہلکی گلابی سردی، زمین سے لپٹ کر دھیرے بہتی ہوئی کچھ ٹھنڈی ہوا،چولھوں سے اٹھتا اور فضا میں الجھتا ہوا دھواں، تیز یا سست آتی جاتی گاڑیوں کی اڑائی ہوئی گرد، اور کہیں کہیں، کبھی کبھی، واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں کے قدموں کی دھول، یہ سب مل کر دھند پیدا کر ہی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو کار چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ دیہات کہاں ۔۔۔یہ تو شہر ہے۔مگر کون سا شہر؟ میں سر شام انجان گڈھ سے سراے میراں کے لئے نکلا تھا۔ بمشکل پچاس کلو میٹر کا فاصلہ ہو گا۔پچاس کلومیٹر میں ۔۔۔کتنے میل ہوتے ہیں؟ میں میل اور سنگ میل کے زمانے کا آدمی ہوں، مینار میل بھی جانتا ہوں، یہ کلومیٹر میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ ایک اعشاریہ چھ کلومیٹر برابر ایک میل ہوتا ہے۔ بھلا کون حساب لگا سکتا ہے کہ پچاس کلومیٹر میں کتنے میل ہوتے ہیں؟تیس بتیس میل ہوں گے۔ میل کہہ دینے سے فاصلہ آسان تھوڑی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ راستے میں شہر کہاں آ ٹپکا؟ انجان گڈھ بھی قصباتی، سراے میراں بھی قصباتی۔۔۔خوش نوا مرغ گلستاں رند قصباتی ہے میاں۔۔۔مجھے میر کا مصرع یاد آیا۔ نہیں، لاحول ولا قوۃ، میرا حافظہ ابھی سے جواب دے رہا ہے ۔ میر نے ’’قصباتی‘‘ نہیں ’’باغاتی‘‘ کہا ہے۔ تو بھلا ’’رند باغات‘‘ کیا ہوا؟ وہ رنگین مزاج لوگ جو باغوں میں گھومتے پھرتے تھے؟

۔۔۔ نہیں احمق، ’’باغات‘‘ در اصل ایک محلہ تھا اصفہان میں۔وہاں کے لوگ بڑے حسین مشہور تھے۔’’ان صحبتوں میں آخر‘‘ میں اسی مناسبت سے لبیبہ خانم کو اصفہان میں آباد دکھایا گیا ہے۔مگر یہ شہر تو اصفہان نہیں۔۔۔یہ میں بار بار شہر کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ تو معمولی سی آبادی کا گاؤں ہونا چاہیئے۔ لیکن ابھی ایک دو میل ۔۔۔نہیں نہیں ایک دو یا تین کلومیٹر پہلے ایک بہت بڑے ہوائی اڈے کی روشنیاں نظر آئی تھیں۔ رن وے پر جھلملاتی ، بڑی بڑی روشنیوں سے چشمکیں کرتی ہوئی ٹھنڈی سبزی مائل نیلی روشنیاں، کنٹرول ٹاور سے پرواز کرتی ہوئی طاقتور سرچ لائٹیں، ہوائی اڈے کی چہار دیواری چکا چوندھ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سورجوں کی طر ح تمازت بھرے سوڈیم چراغوں کی آغوش میں مشغولیت سے بھری ہوئی ٹرمنل کی عمارت۔۔۔اجی کہاں کا قصہ لے بیٹھے ہو، ہو گا، کوئی ہوائی اڈا ہی ہو گا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم جہاں سے گذر رہے ہو وہ کوئی شہر ہی ہے۔ گذر رہے ہو؟ کون مسخرا گذر رہا ہے؟ گاڑی بمشکل ہی آگے بڑھ رہی ہے، کہرا۔۔۔کہاسا ہی اتنا ہے کہ بس۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ کیا فضول محاورہ ہے۔ ہاتھ میں کون سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں کہ دوسرا ہاتھ دکھائی دے۔مگر زبان تمھاری محکوم نہیں، تم زبان کے محکوم ہو۔ اور وہ جو کہتے ہیں کہ زبان تو فلاں استاد کے گھر کی لونڈی ہے؟ ہونہہ، تو ذرا اس لونڈی کی اسی ادا کو ٹھیک کر دیں۔۔۔حکم دے دیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینا غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے، اس لئے آج سے یہ محاورہ ہماری لونڈی کی زبان پر نہ آئے نہیں تو۔۔۔نہیں تو کیا؟ واجب القتل ہو گی؟زبان کو قتل کر دو گے تو پھر تم بولو گے کیا ؟بھوک لگے گی تو روٹی کیسے مانگو گے۔۔۔؟

مگر گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ہے؟ ظفر اقبال صاحب بھی عجب مسخرے تھے۔ کہہ گئے

گاڑی اتنی نہیں پرانی بھی

بات کیا ہے جو کھینچتی نہیں لوڈ

یہاں لوڈ کون سا ہے، یہاں تو میں اکیلی جان ۔۔۔اکیلی جان چوپایوں کے جنگل میں بھٹکتی ہے خدا جانے کس کا مصرع ہے۔ مگر ہے بڑا ڈراؤنا۔ اب تو لوگ کاروں اور اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں کے جنگل میں بھٹکتے نہیں، صرف قتل ہوتے ہیں۔ اماں موٹر سائیکل کو ہم لوگ پھٹ پھٹیا کہتے تھے، یا پھٹ پھٹی کہتے تھے۔ کیسے اچھے لفظ تھے۔ موٹر سائیکل کے لئے کئی زبانوں میں ایسے ہی لفظ ہیں۔بعد میں موٹر سائیکل کہنے لگے، چلو اس میں بھی ایک شان تھی۔ مگر اب صرف بائک کہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتیں چھوٹی کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟ مگر یہ راستہ تو چھوٹا نہیں، لمبا ہوتا جا رہا ہے۔پہلے زمانے میں شہروں کو کنکریٹ جنگل concrete jungleکہتے تھے۔ اب تو چلتا ہوا جنگل rolling jungleکہنا چاہیئے، جیسے ہمارے یہاں ریگ رواں کا استعارہ یا مشاہدہ تھا، ایسے ریگستانوں کے لئے جہاں ریت ہر وقت اڑتی رہے، گویا آگے بڑھتی جا رہی ہو۔ ملا سابق کا کیا عمدہ شعر ہے

نفس کے بیاساید از ہرزہ گردی

کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را

یہ ملا سابق تھے کون؟ کوئی ہوں گے، سابق کے معنی ہیں آگے جانے والا۔ وہ تو آگے نکل گئے، یہاں میں مسبوق بلکہ مذبوح ہوا جا رہا ہوں۔ مگر دیکھئے استعارے میں کیا قوت ہے کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را کس خوبی سے ہمارے جدید معاشرے پراس کا اطلاق ہوتا ہے۔ سڑکوں پر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی اور جگہ مل بھی جائے تو فرصت کسے۔ موٹریں، بسیں، بائکیں، آٹو رکشے اس طرح بپھرے ہوئے اندھا دھند بھاگتے رہتے ہیں گویا انھیں کہیں رکنا ہی نہ ہو۔

اندھا دھند۔دھند؟یہاں کی دھند کب ختم ہو گی؟ مجھے رات ڈھلے سراے میراں ضرور پہنچنا ہے۔اچانک سامنے سرخ نیلی روشنیاں نظر آ رہی ہیں۔ دو سپاہی ہاتھ اٹھا کر راستہ روک رہے ہیں۔میری جھنجھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے لیکن میں گاڑی کو سپاہیوں کے بالکل پاس لا کر روکتا ہوں۔ میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکا ہوں کہ سپاہی بتاتا ہے، آگے راستہ بند ہے صاحب۔ کیوں؟میں چیں بجبیں ہو کر پوچھتا ہوں۔ اچانک باڑھ آ جانے کے سبب آگے سڑک کئی گز دھنس گئی ہے اور دو تین سو گز جگہ جگہ سے کٹ گئی ہے۔ مرمت کا کام جاری ہے۔ اس میں تو گھنٹوں لگیں گے۔ مجھے جانے دو جمعدار صاحب بہت ضروری کام ہے۔ راستہ بالکل نہیں ہے جناب۔ لیکن ایک سروس روڈ ہم بنا رہے ہیں، ایک دو گھنٹے میں بن جائے گی۔ اتنی دیر آپ ہمارے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرئیے، وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے، اسی ہاتھ سے جس میں وہ اے۔کے۔سینتالیس تھامے ہوئے ہے۔لال نیلی روشنی میں پھیلا ہوا ہاتھ اور اس کی توسیع بہت بھیانک معلوم ہو رہے ہیں۔

میں بائیں طرف دیکھتا ہوں۔ ایک دھندلی سی عمارت نظر آتی ہے جس کے پورٹیکو میں زرد کمزور بلب جل رہا ہے۔ سپاہی کا ہاتھ ابھی تک ویسا ہی سخت اور سیدھا اشارہ کر رہا ہے۔ گیسٹ ہاؤس یا جیل خانہ؟ مگر بھلا مجھے کیوں قید کریں گے، میں تو ایک بالکل بے ضرر ادھیڑ عمر کا افسانہ نگار ہوں۔اور۔۔۔اور۔۔۔یہ تو کچھ کسی افسانے کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔تو کیا میں، میں نہیں ہوں، کسی افسانے کا کردار ہوں؟افسانے کے کردار اور افسانوی کردار میں کیا فرق ہے؟

میں اپنی گاڑی پورٹیکو میں لے جانا چاہتا ہوں لیکن ایک اور سپاہی کہیں سے نکل کر آتا ہے اور اشارہ کرتا ہے کہ گاڑی یہیں کھڑی کر دی جائے۔ میں دل ہی دل میں دانت بھینچتا ہوں لیکن گاڑی کھڑی کر کے بظاہر نہایت لا پروائی سے کمرے میں داخل ہو جاتا ہوں۔ وہاں کئی لوگ پہلے سے موجود ہیں، لیکن روشنی بہت کم ہے اس لئے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کتنے لوگ ہیں۔کچھ پرانے زمانے کے ریلوے ویٹنگ روم جیسا سماں ہے۔مگر یہ ماجرا کیا ہے کہ فوجیوں نے اچانک پہنچ کر سڑک بنانی شروع کر دی۔ یہاں تو ضلع حکام اور پولیس والے ہی کئی دن بعد ایسے موقعوں پر معائنے کے لئے آتے ہیں اور فوج تو تب بلائی جاتی ہے جب معاملہ سول حکام کے قابو کے بالکل باہر ہو گیا ہو اور یہ فوجی لوگ اتنے شریف کب سے ہو گئے کہ راہگیروں کے ٹھہرنے اور آرام کا انتظام کریں۔ ورنہ لوگ تو تین تین چار چار دن سڑک پر انتظار کرتے ہیں جب کہیں کسی راحت کی امید پیدا ہوتی ہے۔

میں سوچ رہا ہوں اس بات پر افسانہ ہو سکتا ہے۔ہوسکتاہے؟ مگر نہیں، یہ افسانہ ابھی تو کچھ کہتا نہیں معلوم ہوتا۔ محض ایک اتفاقی اور بے معنی سا واقعہ ہے ۔نہیں ابھی نہیں، لیکن جب میں اس میں کوئی با معنی انجام داخل کروں تب تو افسانہ بن جائے گا؟اچھا مان لو میں اس میں یہ دکھاؤں کہ یہ لوگ فوجی نہیں اور نہ سڑک ہی آگے مخدوش ہے۔ یہ لوگ ڈاکو ہیں۔۔۔نہیں ڈاکو اتنی دیر تک انتظار نہیں کرتے، وہ تو لوٹ مار کر جلد از جلد رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ اور یہ کچھ خاص دلچسپ بات بھی نہیں کہ ڈاکوؤں نے کچھ لوگوں کو۔۔۔نہیں، ڈاکو ہی کیوں؟ اگر یہ علاقہ انتہا پسندوں کا ہوتا۔۔۔ہاں ، انتہا پسندوں نے گھات لگائی تھی، سڑک کے مسافروںکو گولی ۔۔۔مگر انتہاپسندوں نے ہم لوگوں کو مار بھی دیا تو کیا؟ افسانہ تو پھر بھی نہ بن سکے گا۔ افسانے میں تو ہر واقعے کے، یا کم از کم مرکزی واقعے کے، کچھ معنی ضروری ہیں۔تو کیا یہ معنی کافی نہیں کہ کچھ انتہا پسندوں نے ۔۔۔انتہا پسندی بھی تو ایک معنی رکھتی ہے۔لیکن کوئی معنی نہ رکھنا بھی تو معنی کی ایک قسم ہے؟بھلا کافکا کے افسانوں میں معنی ہیں کہ نہیں؟ ہیں،لیکن کیا معنی ہیں ؟

تو کیا کافکا کے افسانے ہم سے کچھ بھی نہیں کہتے؟پتہ نہیں یہ نقاد بھی عجب شے ہیں۔ اب تک تو یہ کہا جاتا تھا کہ کافکا کے افسانوں میں لگتا ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے اور ایسا ہو رہا ہے جو معنی خیز اور اہم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ٹھیک سے نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی بات اہم ہے اور کون سی بات زیب داستاں کے لئے۔۔۔تو کیا افسانے میں کچھ زیب داستاں کے لئے بھی ہو سکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کیا معنی، ہوتا ہی ہے۔تو پھر افسانے میں معنی۔۔۔اجی جو زیب داستاں کے لئے ہوتا ہے وہ بھی معنی کی تعمیر میں اپنا حصہ رکھتا ہے۔ بھلا وہ کیسے؟پتہ نہیں، میں تو افسانہ نگار ہوں، گھٹیا ہی قسم کاسہی۔ یہ سب جاننا میرا کام نہیں میرا کام افسانہ لکھنا ہے۔ لیکن کافکا۔۔۔بھائی دنیا میں کافکا ہی تو ایک افسانہ نگار ہی نہیں۔مانا کہ اس کے افسانے میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے اور لگتا بھی ہے کہ یہ سب معنویت سے بھرا ہوا ہے۔لیکن معنویت کھلتی نہیں۔ ہم صرف قیاس لگا سکتے ہیں۔ لیکن اب بعض نقاد کہنے لگے ہیں کہ کافکا کے افسانے میں کچھ نہیں ہے۔ صرف اس کی نفسیاتی الجھنیں ہیں۔ ورنہ اسے انسان سے ہمدردی بھی نہیں۔

انسان سے ہمدردی، یہ ہوئی نہ بات۔لہٰذا افسانے کا اولین کام ہے کہ وہ انسان کے تئیں ہمدرد نظر آئے۔ ل۔۔۔لیکن کون سے انسان کے تئیں؟ ظالم کے تئیں ہمدردی رکھنا ۔۔۔نہیں نہیں انسان سے مطلب ہے عالم انسانی، اور عالم انسانی سے مطلب ہے اس عالم کے وہ فرد جو زندگی میں معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔زندگی میں معنی؟ زندگی میں معنی کی بات بعد میں کریں گے۔ ابھی جو واقعہ پیش آ رہا ہے اور جس کے ہونے کا چشم دید گواہ میں ہوں، اس میں کوئی معنی، یا کچھ معنی ہیں کہ نہیں؟پتہ نہیں۔۔۔

بھلا میں معنی کے چکر میں کہاں سے پڑ گیا۔ اچھا معنی نہ سہی، کسی افسانے میں کچھ تو ہونا چاہیئے۔ہاں یہ بات تو پتے کی ہے۔تو شیخ صاحب جس شعر کو پڑھ کر ملاقاتی کی سخن فہمی کا امتحان کرتے تھے اس میں کیا ہے؟

ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں

مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں

چھوڑو یا ر کہاں کی بات لے بیٹھے۔ افسانے میں کچھ ہوتا ہے، کچھ واقع ہوتا ہے، اور وہ بامعنی ہوتا ہے۔ اس شعر میں تو کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ صرف چار الگ الگ بیانات ہیں۔۔۔نہیں ، ذرا ٹھہرو۔وہ کیا تھا، کتا کھا گیا ڈھول نہ بجا۔۔۔ہاں امیر خسرو سے منسوب شعر ہے

کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا چلا

آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

یہاں بھی تو چار باتیں ہیں۔۔۔نہیں تین باتیں ہیں جو ہو چکی ہیں اور ایک ایسی ہے جو ہونے والی ہے۔ تو شاید ایسا بیان زیادہ معنی خیز ہوتا ہے جس میں کچھ ہونے والا ہو؟ارے بھائی کچھ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ ہونے کا مطلب بھی تو ہو۔

تو اس کے معنی ہیں کہ جو کچھ اس وقت مجھ پر گذر رہی ہے ۔۔۔چاہے تھوڑی دیر میں یہ فوجی سپاہی مجھے گولیوں کی باڑھ ہی پر کیوں نہ رکھ لیں، اس میں کچھ معنی نہیں؟ معنی یہ ہیں کہ کچھ معنی نہیں؟ لیکن یہ تو سچا واقعہ ہے اور پھر بھی بے معنی ہے۔لہٰذا معنی کا ہونا نہ ہونا سچائی پر منحصر نہیں۔ ارے یہ میں کیا کہہ گیا؟سچائی بے معنی ہے؟احمق انسان(شاید اسی لئے لوگ افسانہ نگاروں کو احمق کہتے ہیں)سچائی کو بے معنی کون کہتا ہے؟ ہاں کوئی سچا واقعہ بے معنی ضرور ہو سکتا ہے۔

تو کیایہ ہم انسانوں کا المیہ نہیں کہ جو ہم پر گذرتی ہے اس میں کوئی معنی نہیں ہوتے؟ المیہ۔۔۔کتنا اچھا لفظ ہے۔ ایک دن میری نظر ہندی کی ایک کتاب پر پڑی، عنوان کچھ ایسا تھا، فلاں شے کی تراسدی۔ میں تذبذب میں رہا کہ یہ تراسدی کیا بلا ہے؟شاید قدر و قیمت، یا تاریخ، یا روایت کے معنی میں ہندی کا کوئی لفظ ہو گا۔ لیکن کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ Tragedyکی ہندی ’’تراسدی‘‘ ہے۔ ارے صاحب زبان میں ’’ٹ‘‘ اور ’’ڈ‘‘ اور ’’ج‘‘ تینوں موجود ہیں اور اول الذکر دونوں تو زبان کی خاص پہچان مانی جاتی ہیں۔ پھر ان کو ترک کر کے یہ ’’تراسدی‘‘ چہ بوالعجبی است؟ جیسے بعض اردو والے جوش ایمان سے مغلوب ہو کر ’’ٹیلیگراف‘‘ کو ’’تلغراف‘‘ اور پروپیگنڈا‘‘ کو ’’بروبا غندہ‘‘ لکھنے اور بولنے کی سفارش کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ہماری عورتوں نے ایک سے ایک معنی خیز گالیاں ایجاد کر رکھی تھیں۔۔۔ پھر وہی معنی کا چکر۔ مجھے خیال آتا ہے کہ کامیو(Camus)کے ڈرامے ’’کیلیگیولا‘‘(Caligula)میں کچھ ایسا ہی جھنجھٹ ہے کہ ایک سراے میں مقیم سارے مسافروں کا قتل ہو جاتا ہے ۔اور قتل بالکل بے وجہ ہے۔ باپ رے باپ، رونگٹے کھڑے کر دینے والی بات ہے ،ہے نہ۔ اور میرا، بلکہ ہم لوگوں کا بھی تو کچھ ایسا ہی معاملہ ہونے جا رہا ہے؟ اللہ بچائے، لیکن اگر ایساہوا تو کون ہمارا افسانہ لکھے گا اور یقین بھی کس کو آئے گا؟ روز ہی اخبار میں اور ٹی وی پر ایک سے ایک گھناؤنے ایک سے ایک لرزہ خیز ایک سے ایک دردناک قتل کی واردات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اور سماج میں سیاست میں، برائیاں ہی برائیاں ہیں۔اور ہمارے افسانہ نگار ان کی روداد بھی اسی ٹی وی رپورٹ یا اخباری کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں۔ انھیں افسانہ نگار کون کہتا ہے؟ کم سے کم میں تو نہیں کہتا۔

افسانے میں کوئی بھی صورت حال اس وقت با معنی ہوتی ہے جب اسے متخیلہ کے رنگوں سے سرشار کیا جائے۔یعنی ہر بات کو تصور کیا جائے کہ یہ یوں ہوئی ہو گی، یا یوں ہو سکتی ہے۔ پھر تصور کی آنکھ سے جو دیکھیں اسے تخیل کی زبان میں بیان کیا جائے۔تخیل کی زبان، یعنی ؟اس وقت گھبراہٹ کے مارے حلق خشک ہوا جا رہا ہے مثالیں کہا ںسے یاد کروں۔ لیکن دیکھو میاں، اسی بات کو لے لو کہ نذیر احمد نے ظاہر دار بیگ کا نقشہ کن لفظوں میں کھینچا ہے۔لاحول ولا، مثال یاد بھی آئی تو ایسے متن سے جو کوئی سواڈیڑھ سو برس پرانا ہے اور ہمارے محمد احسن فاروقی مرحوم تو اسے ناول ہی نہیں مانتے تھے۔

وہ جو ایک لطیفہ ہے کہ ایک مولوی صاحب کہیں کھانے پر مدعو کئے گئے۔ کھانے میں ابھی ذرا دیر تھی ، لہٰذا صاحب خانہ نے وقت گذاری، یا انتظار کی گھڑیوں کوآسان کرنے کے لئے کہا ، ’’مولوی صاحب، وہ یوسف زلیخا ہے نہ۔ مولانا جامی کی مثنوی۔، تو اس کا قصہ ذرا بیان کر دیتے، وقت گذاری ہو جاتی۔‘‘

مولوی صاحب نے گول گول دیدے پھرائے اور کھنکھار کر فرمایا۔’’اجی کچھ نہیں۔ پیرے بود پسرے داشت گم کرد بازیافت۔ کھا نا منگوائیے۔‘‘

تو میاں افسانہ تو اتنا ہی ہے۔ پھر شاعر یا افسانہ نگار اسے تصور میں لاتا ہے کہ وہ بات کس طرح گذری ہو گی، اس کا رد عمل کیا ممکن تھا، اور کیا رد عمل ہوا ہو گا، وغیرہ۔جامی کی مثنوی میں زلیخا صرف عاشق اور اپنے شوہر کے آگے رسوا ہی نہیں ہوتی، محلات، باغات، کنیز باندیاں اور حکومت سب کچھ چھوڑ کر جوگن بلکہ بھکارن بن جاتی ہے۔ پھر مدتوں بعد حضرت یوسف اسے کہیں مل جاتے ہیں ۔ اس وقت جو سوال جواب ان کے درمیان ہوتے ہیں وہ اس بات کی مثال ہیں کہ تصور کی آنکھ سے دیکھنے اور پھر تخیل کے رنگوں میں بیان کرنے کا کیا مطلب ہے۔ جامی پہلے تو تصور کی آنکھ سے تمام امکانات کو دیکھتے ہیں، پھر ایک امکان منتخب کرتے ہیں(زلیخا کا بھکارن بن جانا)۔پھر وہ تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کی ملاقات یا عدم ملاقات کے امکانات کیا ہیں۔ ان میں سے ایک کو وہ اختیار کرتے ہیں اور پھر تخیل کا رنگ ملا کر دونوں کی ملاقات بیان کرتے ہیں۔

میں یوں ہی احمقوں کی طرح دروازے میں کھڑا ہوں اور کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں اور یہ خیالات بھی میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔مجھے اجنبیوں کے درمیان یوں چلے آنے میں بہت تکلف محسوس ہو رہا ہے۔ میں طبعاً شرمیلا ہوں، لوگوں کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا نہیں۔ میں امید میں ہوں کہ یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔۔۔

یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔

شاید یہاں میرا شناسا کوئی نکل آئے۔

یہاں شاید کوئی میرا شناسا نکل آئے۔

شاید کوئی میرا شناسا یہاں نکل آئے۔

شاید میرا یہاں کوئی شناسا نکل آئے۔

میرا کوئی شناسا یہاں شاید نکل آئے۔

کوئی شاید یہاں میرا شناسا نکل آئے۔

یہاں کوئی شاید میرا شناسا نکل آئے۔

اس ایک جملے کو کئی کئی طرح سے لکھا جا سکتا ہے۔یہ ہماری زبان کی خوبی ہے، فارسی ، عربی، انگریزی، فرانسیسی، کسی میں یہ بات نہیں۔ایسا جملہ لکھنے کی نوبت آئے تو میں بار بار سوچتا ہوں کہ کون سا پیرایہ سب سے بہتر ہو گا۔ معنی کا تھوڑا تھوڑا سا فرق ہر ایک میں ہے۔ میں متبادل جملوں کو بار بار دل میں دہراتا ہوں، روانی، آہنگ، نشست معنی، ہر طرح سے پرکھتا جانچتا ہوں۔ پھر ایک پیرایہ اختیار کرتا ہوں۔کیا اور لکھنے والے بھی اس طرح سوچتے ہیں؟یا کیا افسانہ نگار کے لئے ضروری نہیں کہ وہ زبان کی فطرت اور جملوں کی ماہیئت کے بارے میں اتنا غور کرے،اس قدر غور کرے؟کیا یہ ذمہ داری صرف شاعر کی ہے؟ کیا افسانہ نگار کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ جوں توں کر کے بات بیان کر دے؟ ہندی، انگریزی، خلاف محاورہ، بے محاورہ، کیاافسانے میں جو کچھ لکھو سب چلتا ہے؟

نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ افسانے یعنی فکشن اور شاعری کی شعریات ایک ہے۔جو چیز شاعری میں غلط ہے وہ افسانے میں بھی غلط ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی، کیونکہ افسانے کو عروضی وزن کا سہارا نہیں ہوتا۔تو میں کچھ بیوقوفوں کی طرح دروازے میں کھڑا دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور میں چونک کر لڑکھڑا جاتا ہوں۔ کیا یہ لوگ مسافروں کو گولی مار رہے ہیں؟ باہر کون سے مسافر ہیں؟ میں سراسیمہ ا دھر ادھر دیکھتا ہوں وہیں اے کاش مر جاتا سراسیمہ نہ آتا یاں مجھے میر کا مصرع یاد آگیا ۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر کچھ فوجی آواز میں اعلان ہوتا ہے: Attention, Everybody.گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ باہر کچھ دور پر سڑک بنانے کے لئے blasting ہو رہی ہے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیئے۔ کوئی خطرہ نہیں۔

بھلا سروس روڈ بننے کے لئے blasting ؟ کیا مطلب؟ میں ابھی اپنے آپ سے یہ سوال کر ہی رہا ہوں کہ باہر کئی بھاری بھاری بوٹوں والوں کے دوڑنے اور کمپاؤنڈ سے باہر جانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ بلاسٹنگ ہو رہی ہے یا کہیں raidہو رہا ہے؟ میں گھبرا کر دل میں پوچھتا ہوں۔ لیکن اب تک میری آنکھیں کمرے کی دھندلی روشنی کی عادی ہو چکی ہیں۔حاضرین میں کئی غیر ملکی ہیں، کئی عورتیں ہیں۔ کچھ بچے بھی۔سب کے چہرے پر بے اطمینانی کے آثار ہیں۔ لیکن خوف کے نہیں۔آخر اس سب کے معنی کیا ہیں؟ فرض کردم میں افسانہ لکھ رہا ہوں۔ اور یہی میرا افسانہ ہے۔ تو میں اسے کس طرح انجام تک پہنچا سکوں گا؟لیکن مجھے یہ معلوم تو ہونا چاہیئے کہ میں اس افسانے میں کیا دکھانا چاہتا ہوں۔پریم چند کہتے تھے کہ جب تک کوئی نفسیاتی نکتہ، کوئی سبق آموز واقعہ ذہن میں نہ آئے میں افسانہ لکھتا ہی نہیں۔ لیکن ٹی۔ ایس۔ الیٹ تو کہتا تھا کہ میں نظم کے بارے میں پہلے سے کیسے بتا دوں کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا؟ نظم مکمل ہو گی جبھی تو معلوم ہو گا کہ میں نے اس میں کہا کیا ہے؟

تو اگر افسانے اور شعر کی بوطیقا ایک ہی ہے تو جو افسانہ میں اس وقت اپنے ذہن میں لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں کیا بتاؤں کہ میں اس میں کیا کہوں گا، کیا دکھاؤں گا۔۔۔نہیں ،پریم چند ہی کی رائے ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ پہلے سے کچھ تو طے ہو کہ افسانے میں کیا دکھایا جائے گا؟ لیکن میں اتنا افسانہ تو لکھ گیا ہوں، آخر کچھ تو پتہ لگنا چاہئیے کہ میں کیا لکھوں گا؟اچھا فرض کیا اور کچھ نہیں لکھنا ہے۔ افسانہ یہیں ختم ہو گیا ہے۔ یا بس اتنا اور ہوتا ہے کہ فوجیوں نے تھوڑی دیر میں سروس روڈ مکمل کر دی اور سب مسافروں کو آگے جانے دیا۔میں بھی ذرا دیر سے سہی، لیکن سراے میراں پہنچ گیا۔ بس کہانی ختم پیسہ ہضم۔مگر اس میں کہانی کہاں تھی؟نہیں، کہانی تو تھی لیکن اس میں کہا کیا گیا تھا؟

اچھا اگر میں سڑک کی دھند، شام کے پھیلتے ہوئے اندھیرے، فوجیوں کے لباس اور چہرے مہرے، اس عمارت کا پورا احوال، یہ سب کچھ اوپر سے ڈال دوں تو کیا افسانہ بن جائے گا؟ اے۔ایس۔ بائٹ(A. S. Byatt)کے ناولوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جزئیات نگاری کی ملکہ ہے۔اور جزئیات تو داستان میں بھی ہیں، لیکن اور طرح کی۔

میرا دماغ چکرانے لگا ہے۔اتنی دیر سے یہاں کھڑا ہوں، یہ لوگ مجھے کیا سمجھ رہے ہو ں گے۔ کو ئی شخص جو تہذیب اور مہذب ماحول سے بیگانہ ہے؟ میں اٹک اٹک کر قدم آگے بڑھا کر کمرے میں آ جاتا ہوں، میری نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں کہ کوئی خالی کرسی ملے توجا کر چپ چاپ وہیں بیٹھ جاؤں اچانک ایک کونے سے کسی نے خوش گوار لہجے میں آواز دی ہے:

’’ادھر آ  وارا ا جو خوا تشکیل: اعجاز عبیدے متن کو استعمال کیا جائے تو احتیاط برتی جائے)

جائیے فاروقی صاحب، یہاں جگہ ہے۔‘‘

میں چونک کر کچھ متشکرانہ ، کچھ ہراساں ، ادھر دیکھتا ہوں۔ جن صاحب نے مجھے آواز دی ہے وہ عمر رسیدہ لیکن تنومند ہیں۔ میں انھیں پہچانتا نہیں ہوں۔ مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مجھ سے بہت تپاک سے ملتا ہے لیکن مجھے اس کا نام یاد آتا ہے نہ شکل یاد آتی ہے۔میں پھر طرح طرح سے بات بنا کر، اٹکل لگا کر، اس ہی سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کون ہے اور میں اسے کیونکر جانتا ہوں۔ کبھی کبھی لوگ خود ہی پوچھ دیتے ہیں، ’’پہچانا آپ نے؟‘‘تو میں دل میں اطمینان کی سانس لیتے ہوئے سچ میں کچھ جھوٹ ملا کر کہہ دیتا ہوں، ’’شکل تو پہچانی ہوئی ہے لیکن نام نہیں یاد آتا۔‘‘

میں آہستہ قدم رکھتا ہوا کمرے کے گوشے تک پہنچتا ہوں۔ ایک آرام کرسی، جسے انگریزی میں frog chairکہتے ہیں، ان صاحب کی بغل میں خالی ہے۔ میں ان صاحب کو سلام کر کے کرسی سنبھال لیتا ہوں۔ میں ان پر دوبارہ ہلکی سی دزدیدہ نگاہ ڈالتا ہوں لیکن ان کی صورت اب بھی پہلے کی طرح انجانی معلوم ہوتی ہے۔

’’تسلیمات عرض کرتا ہوں۔‘ ‘ میری آواز نہ جانے کیوں کچھ بھرائی ہوئی سی ہے۔’’خدا کا شکر ہے کہ ۔۔۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔‘‘وہ خوش اخلاقی سے کہتا ہے۔’’میرا نام ملا علی قاری ہے۔‘‘

میں چونک کر اس کی طرف دیکھتا ہوں، پھر غور سے دیکھتا ہوں۔کہیں وہ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔لیکن اس کے چہرے پر مسخرگی کے کوئی آثار نہیں۔

میں تھوڑا سا گڑبڑا جاتا ہوں۔ ملا علی قاری تو فرضی نام لگتا ہے۔سترہویں صدی میں ایک محدث اس نام کے تھے۔ یہاں اکیسویں صدی میں ملا علی قاری کہاں سے آ گئے۔ لیکن مجھے تو یہ ساری صورت حال ہی فرضی یاپراسرار طور پر فریب دماغ معلوم ہوتی ہے۔ ’’م۔۔۔مگر میں ۔۔۔میں اب سے پہلے تو آپ سے نہیں ملا تھا۔ آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا؟‘‘

وہ ہنستا ہے۔’’یوں ہی سہی۔ لیکن ایک نام کے دو شخص ہو سکتے ہیں۔‘‘وہ گویا میرے دل کی بات جان کر کہتا ہے۔

’’جی ہاں۔‘‘ میں کچھ جز بز ہو کر کہتا ہوں۔’’مگر مجھے اپنا نام بے حد نا پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کسی اور کا نام ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘

وہ زور سے ہنستا ہے۔ مجھے لگتا ہے کمرے کے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔میں اشارہ کرتا ہوں کہ آواز دھیمی رکھیں تو بہتر ہے۔’’کولرج کو بھی اپنا نام بہت نا پسند تھا۔ ‘‘

’’کاش میں کولرج ہوتا۔‘‘ میں کچھ تلخ لہجے میں کہتا ہوں۔اب میرا جی چاہتا ہے یہ تنومند بوڑھا چپ رہے تو بہتر ہے، فضول بکواس بہت کرتا ہے۔ پھر مجھے خیال آتا ہے ، اس شخص کو شاید کچھ زیادہ معلوم ہو کہ یہاں چکر کیا چل رہا ہے۔ لہٰذا میں ذرا سرگوشی کے لہجے میں پوچھتا ہوں:’’سنئے، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے یا۔۔۔‘‘

’’جی ہاں، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لیکن یہ فوجی اس وقت اس کی مرمت کے لئے کہاں سے دستیاب ہو گئے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے۔‘‘ وہ ایک لمحہ ٹھہر کر کہتا ہے۔’’بہر کیف، کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘

میں کچھ اور پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن میرا مفروضہ افسانہ اب پھر میرے ذہن میں گردش کرنے لگا ہے۔لیکن وہ دوسرا شخص، وہ۔۔۔وہ۔۔۔قاری، شاید میرے دل کی ہر بات جانتا ہے۔ اس کے پہلے کہ میں کچھ کہوں، وہ بول اٹھتا ہے:

’’کیا کسی ایسی تحریر کو افسانہ کہا جائے گا جس میں کچھ بیان ہوا ہو اور جس سے کوئی بامعنی نتیجہ اخذ کر سکیں؟‘‘میں اس کا منھ تکنے لگتا ہوں۔ ’’ میں آپ سے اس لئے پوچھتا ہوں کہ آپ ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔‘‘

نہ جانے کیوں اس کے لہجے میں مجھے کچھ تمسخر دانت نکالے ہوئے ہنستا دکھائی دیتا ہے۔’’بجا،‘‘ میں کچھ تیز لہجے میں کہتا ہوں۔ ’’لیکن ’بامعنی‘ کسے کہتے ہیں اور’ نتیجہ‘ سے کیا مراد ہے؟‘‘

’’مثلاًاسی بات کو لیجئے کہ ہم لوگ یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔اب جو کچھ بھی ہمارا انجام ہو۔مان لیجئے۔۔۔برا نہ مانئے گا، میں ایک مفروضہ بیان کر رہا ہوں۔‘‘

’’جی۔‘‘ میں نے خشک لہجے میں کہا۔

’’تو مان لیجئے یہ لوگ فوجی نہیں، ڈاکو ہیں۔۔۔‘‘وہ ہاتھ اٹھا کر مجھے روکنے کے انداز میں کہتا ہے۔’’یقین کیجئے، یہ سب افسانوی معاملہ ہے۔۔یا یہ لوگ انتہا پسند ہیں۔ اور یہ ڈاکو۔۔۔یا انتہا پسند۔۔۔ ہم سب کو یہاں گولی مار دیں، تو کیا ان واقعات کا بیان کسی بامعنی نتیجے کا حامل ہو گا؟‘‘

’’مشکل ہی ہے۔‘‘ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔’’بشرطیکہ اس میں اور کچھ بات نہ ہو ۔ مثلاً کوئی خفیہ بات، کوئی راز، یا شاید ہم میں سے کوئی شخص کوئی بڑا آدمی ہو۔ یا ان لوگوں نے کوئی شرطیں حکومت یا اہل اقتدار کے سامنے رکھی ہوں اور ان کی تکمیل پر ہی ہم لوگوں کی نجات ممکن ہو۔ ‘‘مجھے لرزہ سا آگیا۔ یہ ہم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہیں؟

’’لیکن اس سب سے کچھ بنتا نہیں۔‘‘ وہ کچھ زور دے کر کہتا ہے۔’’جب تک کچھ نتیجہ نہ بر آمد ہو۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ واقعے کا بامعنی ہونا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس سے کچھ اخذ کر سکیں۔‘‘

’’اخذ کرنے اور پریم چند کی سبق آموزی میں بھلا کیا فرق ہو سکتا ہے؟ دونوں ایک ہی بات ہیں۔‘‘

’’جی نہیں۔ نتیجہ اس کو کہتے ہیں جو اپنی معنویت کے لئے کسی سبق، کسی عبرت، کسی تعلیم، کا محتاج نہ ہو۔یعنی اگر افسانہ یہ کہے کہ دیکھو، فلاں شخص کی طرح نہ بننا، وہ بڑا خراب آدمی ہے۔ یا فلاں کام کرو گے تو اچھے انجام کو پہنچو گے،تو ان چیزوں کو میں ’سبق، عبرت، تعلیم‘ کہتا ہوں۔ اور اگر تحریر میں کوئی ایسی بات ہو جس میں۔۔۔‘‘

’’جو ہمیں سوچنے پر مائل کرے۔‘‘ میں بھی اب اس کے ما فی الضمیر کو خود بخود سمجھنے لگا ہوں۔’’جو خود تو کوئی فیصلہ نہ کرے لیکن ہماری قوت فیصلہ کو بیدار کرے۔جس میں افسانہ نگار ، افسانہ نگار لگے۔ یعنی ایسا شخص جس کا اصل کام ہمیں کوئی ایسی چیز بنا کر دکھا نا ہے جسے ہم زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات اور سوانح کی طرح قبول کریں لیکن یہ بھی سمجھیں کہ ایسے واقعات کے ’’واقعی‘‘، یعنی ’’مطابق فطرت‘‘ ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔۔۔‘‘

’’نہ۔نہ۔ایسا نہیں ہے۔‘‘ وہ کچھ بے صبری سے بولا۔’’فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم تو افسانے میں بیان کئے ہوئے واقعے کو حقیقی ہی سمجھ کر اس سے معاملہ کرتے ہیں۔‘‘

’’چاہے وہ غیر حقیقی یا خلاف فطرت کیوں نہ ہو؟‘‘

’’یقیناً۔ ورنہ افسانہ قائم کیسے ہو گا؟افسانہ پن یا کہانی پن جس کے ایک زمانے میں بہت شہرے تھے، در اصل ایک فرضی صورت حال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض طرح کے بیانات کو ہم افسانہ بھی سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی۔ یہی افسانہ پن ہے۔یہ نہیں تو کچھ نہیں۔‘‘

’’لیکن میں ایسا افسانہ لکھوں جس میں کچھ معنی نہ ہوں ؟‘‘

’’معنی ضرور ہوں گے ، اگر افسانے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو معنی بھی ہوں گے۔‘‘

’’تو ہم لوگ اگر یہاں مار دیئے گئے،‘‘ میری آواز میں کچھ لرزہ سا آگیا ہے۔’’تو یہ بیکار ہی ہو گا، کیونکہ اس پورے واقعے میں نتیجہ تو کچھ ہے نہیں۔‘‘

’’لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پورا واقعہ ہی نتیجے کا حکم رکھتا ہو۔‘‘اس کے لہجے میں تھوڑی سی شرارت ہے۔

’’یہ تو آپ فلابیئر جیسی بات کہہ رہے ہیں قاری صاحب۔‘‘مجھے اس کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگ رہی ہے۔’’فلابیئر کی تمنا تھی کہ میں ایسا ناول لکھوں جس کے کچھ معنی نہ ہوں۔‘‘

’’جی نہیں۔ فلابیئرکا مطلب یہ تھا کہ میرے ناول کوکسی سبق یا عبرت یا تعلیم کا منبع نہ سمجھ لیا جائے۔ پریم چند جیسے لوگ فرانس میں بھی تھے۔بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ پریم چند نے اپنی باتیں انھیں جیسوں سے سیکھی تھیں، کوئی روسی، کوئی انگریز، کوئی فرانسیسی، یہی لوگ تو ان دنوں ہمارے افسانہ نگاروں کے آدرش تھے۔مگر میرا مطلب کچھ اور ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ افسانہ کسی صورت حال کو بیان کر دے؟ افسانہ نگار اپنی پسند نا پسند کو بالاے طاق رکھ دے اور دنیا کو ویسی دکھائے جیسی کہ اسے نظر آتی ہے، نہ کہ ویسی جیسی وہ چاہتا ہے کہ اسے نظر آئے؟‘‘

’’لیکن دنیا تو دیکھنے والے کی ہے۔ یعنی جیسے ہم ہیں ویسا دیکھتے ہیں۔‘‘

’’جناب، میری مراد افسانے کی دنیا سے ہے۔افسانے کی دنیاافسانہ نگار کے دماغ میں ہوتی ہے۔ اس میں اچھے برے کے معیار عموماً وہی ہوتے ہیں جو عام دنیا میں ہیں۔ لیکن افسانے کی دنیا میں اچھے برے، عقل مند بے وقوف، وغیرہ کا حکم آسانی سے نہیں لگ سکتا۔ اچھے آدمی برے کام کرتے ہیں، یا غلطی کرتے ہیں۔ برے آدمیوں میں بھی کچھ ادا ایسی ہوتی ہے جس کی بنا پر ہمیں ان سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔‘‘

’’اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا ادراک حاوی نہیں ہوتا؟میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے بھی ہیں۔‘‘

’’افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا تخیل حاوی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ادراک کا کچھ بہت زیادہ کام نہیں رہ جاتا۔‘‘

’’آپ بھولتے ہیں کہ میں نے بھی افسانے لکھے ہیں۔‘‘

’’اسی لئے تو آپ سے ایسی بات کہہ سکتا ہوں۔‘‘قاری نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہما شما اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ افسانہ نگار جس دنیا کو اپنے افسانے، یا فکشن کہہ لیجئے، فکشن میں بیان کرتا ہے ، وہ اس کی اپنی ہوتی ہے، یعنی اس کے دماغ کی پیداوار ہوتی ہے۔مانا کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ خارجی مشاہدہ ہی سب کچھ ہوتا تو افسانہ یعنی فکشن بنتا کیسے؟ سب لوگ اپنے اپنے طور پر دنیا کو دیکھ رہے ہیں، کسی کو معلوم نہیں کہ دوسرا کیا دیکھ رہا ہے۔ یہی بات افسانہ نگار کی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ افسانہ نگار اپنی دیکھی ہوئی دنیا کو تصور میں لاتا ہے، پھر اس پر اپنے تخیل کو جاری کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہمیں ایک اور طرح کی دنیا دکھاتا ہے۔ یہ کام وہ نہیں کر سکتا جو افسانہ نگار نہیں ہے۔ شاعر بھی نہیں کر سکتا۔ شاعر تو اپنی آواز میں گفتگو کرتا ہے، نئی دنیا بنانا اس کا کام نہیں۔ اور افسانہ نگار کی دنیا میں اچھائی برائی افسانہ نگار کی مرضی کی پابند نہیں ہوتی۔یہ وہ دنیا ہے جس میں اس کے تخیل کے رنگ رچ گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ افسانہ نگار کو حقیقی دنیا سے کچھ تقاضے، کچھ توقعات ہوں۔ لیکن وہ ان توقعات اور تقاضوں کو بھلا کر ہمیں اپنی دنیا دکھاتا ہے۔‘‘

’’لیکن ہمیں اس دنیا سے بھی توقعات اور تقاضے ہوتے ہیں۔‘‘

’’بیشک،‘‘ قاری نے کچھ فتح مندانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔’’یہی وجہ ہے کہ ہم افسانے، یعنی فکشن، سے ہر وقت بر سر جدال رہتے ہیں۔ فلاں کردار نے یہ کیوں کیا، وہ کیوں نہیں کیا؟ فلاں بات اس طرح کیوں پیش آئی؟ وغیرہ۔‘‘

مجھے اچانک ایک بات سوجھتی ہے۔ ’’اور ہم لوگ افسانہ نگار سے بھی بر سر جدال رہتے ہیں کہ اس نے ایسی دنیا کیوں بنائی جس میں فلاں بات نہ ہوئی اور فلاں بات ہو گئی اور فلاں بات اس طرح کیوں ہوئی؟‘‘

’’یہ تو آپ نے میری بات کہہ دی۔‘‘قاری نے کہا۔’’ہم لوگ افسانہ نگار کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ کٹھ پتلی اپنے نچانے والے سے جھگڑتی نہیں، اور قاری ہمیشہ جھگڑتا ہے، یا جھگڑ سکتا ہے۔‘‘

’’شاید اسی کو افسانے یعنی فکشن کی سماجی قدر سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ میں اپنی رو میں بولتا چلا جا رہا تھا۔’’یہ افسانے کی ہی طاقت ہے جو ہمیں افسانہ نگار کو خالق کا درجہ عطا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘

قاری کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا،’’افسانے میں جس کر دار کو جیسا بنا دیا گیا، ویسا وہ بن گیا۔ افسانے میں جو واقعہ بیان کر دیا گیا وہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو گیا۔ یہی افسانے کی قوت ہے۔ ہمیں وہ کردار ناپسند ہو، یا ہم اس کے بارے میں کچھ گو مگو میں رہیں، یا ہم کچھ بھی کر ڈالیں، لیکن معاملہ ہمیں اسی سے کرنا ہے۔ کوئی نیا کردار ہم نہیں خلق کرسکتے۔ ہاں اپنی دنیا میں اس نئے کردار کو شریک کرنے کے لئے ایک نیا افسانہ لکھ سکتے ہیں۔ایک ہی کردار کو ایک شخص برا کہے گا اور دوسرا شخص اچھا کہے گا۔ یا کہے گا کہ اس کی اچھائی برائی کے بارے میں فیصلہ ممکن نہیں، وغیرہ۔کسی کردار کے ایک ہی عمل کو ایک شخص اچھا اور دانشمندانہ بتائے گا تو دوسرا اس کے بر عکس کہے گا۔اس سے بڑھ کر افسانے کی قوت کیا ممکن ہے کہ ۔۔۔‘‘

اچانک باہر کچھ شور اٹھا۔ کئی فوجی، کئی پولیس والے لمبی لمبی ٹارچیں لئے کھٹ کھٹ اندر آ گئے۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے پہلو بدلا، کچھ نے شاید یہ سوچ کر اٹھنا چاہا کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔پھر باہر کچھ گاڑیوں کے اسٹارٹ ہونے کی آوازیں آئیں۔ ٹارچ کی تیز روشنی مجھ پر پڑی اور ایک لحظے کے لئے میری آنکھیں جھپک گئیں۔ جب میری بینائی بحال ہوئی تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ملا علی قاری کی کرسی خالی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

چوں خمیر آمد بدست نانبا

 

 

اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ انسانی رشتوں کے تعلق سے میر ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ انسانی رشتوں کا یہ اظہار ان کی جنسیت میں بھی ہوا ہے۔ اور ان کی حس مزاح میں بھی ۔ حس مزاح کا عنصر غالب اور میر دونوں میں مشترک ہے۔ لیکن غالب اپنے مزاح کا ہدف زیادہ تر خود اپنے کو ہی بناتے ہیں، جب کہ میر کی حس مزاح معشوق کو بھی نہیں بخشتی۔ میر کو جب موقع ملتا ہے وہ معشوق سے پھکڑ پن بھی کر گذرتے ہیں۔ وہ زور زور سے قہقہہ لگانے سے گریز نہیں کرتے، جب کہ غالب کے یہاں عام طور پر تبسم زیر لب کی کیفیت ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کو اپنی پوزیشن اور اپنے وقار کا احساس میر سے بڑھ کر ہے۔ لیکن بنیادی بات وہی ہے کہ غالب کا مزاج تصوراتی زیادہ ہے۔ اسی بنا پر ان کے یہاں انسانی رشتوں کا تذکرہ بھی تصوراتی اور رسومیاتی سطح پر ہے۔ بہت بھونڈے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ میر تو ہر ایک سے بات کر لیتے ہیں، لیکن غالب کی گفتگو زیادہ تر اپنے ہی سے ہوتی ہے ؂

ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں ؂

کوئی آگاہ نہیں باطن یک دیگر سے

ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ

اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غالب کے یہاں جنسی تعلقات کا بیان بہت کم ہے۔ کم نقادوں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ غالب کے یہاں جنسیت اس وجہ سے کم نہیں ہے کہ وہ میر کی بہ نسبت زیادہ ’’مہذب‘‘ یا نفیس طبع‘‘ یعنیsophisticatedتھے۔ جنس بہر حال انسانی تعلقات کی سب سے زیادہ اختلاطی صورت اور منزل ہے۔غالب کو انسانی تعلقات سے چنداں دلچسپی نہ تھی، اس لیے انھیں جنس کے معاملات سے بھی وہ لگاؤ نہ تھا، ورنہ نام نہاد نفاست تو مومن کے یہاں بھی بہت ہے، لیکن ان کے یہاں جنس کی کارفرمائی بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بصری تخیل سے محروم ہونے کی وجہ سے مومن کا جنسی اظہار بہت پھیکا ہے۔ ان کے بر خلاف میر کے یہاں بصری تخیل کی فراوانی ہے۔ ہماری شاعری میں جنسی مضامین کے لیے بصری تخیل بہت موثر کردار ادا کرتا ہے۔ علاوہ بریں، معاملہ بند شاعر کو بصری تخیل بہت زیادہ درکار بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، جرأت کے یہاں جنسی مضامین خاصی تعداد میں ہیں، لیکن وہ زیادہ تر معاملہ بندی پر مبنی ہیں ( جیسا کہ آگے مثالوں سے واضح ہو گا۔) لہٰذا جرأت کا کام بصری تخیل کے بغیر چل جاتا ہے۔ عسکری صاحب نے غلط نہیں کہا ہے کہ جرأت دراصل بیانیہ انداز کے شاعر ہیں۔ بیانیہ انداز میں جنسی مضامین کا برتنا آسان ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں اپنی اور معشوق کی باتیں اور حرکتیں بیان ہوتی ہیں، خود معشوق کا بیان نہیں ہوتا۔ نواب مرزا شوق اور میر حسن دونوں کے یہاں جنسی مضامین اسی وقت چمکتے ہیں جب معاملہ بندی ہو۔ مومن کی مثنویاں اور غزلیں اس اصول کی عمدہ مثال ہیں۔ غزل میں جنسی بیان کے وقت بھی مومن مضمون آفرینی میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ جنس کا جذباتی اور لذت آفریں پہلو پس پشت جا پڑتا ہے۔ اور یہی مومن مثنوی میں بہت واضح اور پر اثر طور پر جنسی مضامین کو استعمال کرتے ہیں۔

میر نے جرأت کے بارے میں بقول محمد حسین آزاد اور قدرت اللہ قاسم، ’’چوماچاٹی۱؂‘‘ کا فقرہ کہا تھا۔ اس فقرے سے دو نتیجے نکالے گئے ہیں، اور دونوں ہی ہماری تنقید میں بہت مقبول و موثر رہے ہیں۔ پہلا نتیجہ تو یہ کہ جرأت کے یہاں جنسی مضامین کی غیر معمولی کثرت ہے، اور دوسرا نتیجہ یہ کہ میر کے یہاں ایسے مضامین بہت کم ہیں۔ میر کا کلام تو لوگوں نے پڑھا نہیں، اس مبینہ قول کی روشنی میں یہ نتیجہ ضرور نکالا کہ اگر میر نے جرأت کی شاعری میں جنسی مضامین کی کثرت دیکھ کر اس کو ’’چوما چاٹی۱؂‘‘ قرار دیا تو لازم ہے کہ میر نے خود اپنے یہاں اس طرح کے مضامین نہ برتے ہوں گے جن پر ’’چوما چاٹی‘‘ کا الزام لگ سکے۔

اردو تنقید میں مروج تاثراتی فیصلوں کی طرح یہ دونوں فیصلے بھی غلط ہیں۔ نہ تو جرأت کے یہاں جنسی مضامین کی بہتات ہے، اور نہ میر کے یہاں ان کا فقدان۔ اب یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ میر کے بارے میں اس درجہ ’’خوش فہمی‘‘ میں مبتلا ہیں کہ ان کو مبتلائے ہر رنج و الم کے ساتھ بالکل ’’معصوم‘‘ اور ’’بھولا بھالا‘‘ اور دل خستہ لیکن عشق کی ’’گندی‘‘ باتوں سے بے خبر کوئی نو عمر صاحبزادہ سمجھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تقریباً تمام چیزوں کی طرح عشقیہ، جنسی اور شہوانیاتی (erotic) مضامین کو بھی میر نے کثرت سے اور بڑی خوبی سے برتا ہے۔ میر نے جرأت کو چوما چاٹی کا شاعر اس لیے نہیں کہا تھا کہ جرأت کے کلام میں جنسی مضامین کی کثرت ہے۔ میر کا اعتراض دراصل یہ تھا کہ جرأت کے یہاں عشق کی گہرائی اور کش مکش نہیں ہے، صرف معاملہ بندی والے جنسی مضامین ہیں۔ عسکری صاحب نے اس نکتے کو پوری وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ان کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’جرأت شاعر سے زیادہ واقعہ نگار ہیں… جرأت کے یہاں کتنے ہی شعر ایسے ملیں گے جو حقیقت نگاری کی وجہ سے پھس پھسے بن کے رہ گئے ہیں۔‘‘ عسکری صاحب کے مطابق جرأت ’’اپنے عشق کو عام طور پر معاشقے کی سطح سے اونچا نہیں اٹھنے دیتے… میر کے یہاں وہ زبان ملے گی جو وسیع ترین انسانی تعلقات کے داخلی پہلو کی نمائندگی کرتی ہے۔ جرأت کے یہاں وہ زبان ہے جو خارجی حرکات کے بیان میں کام آتی ہے… نہ تو ان کے اندر کش مکش پیدا ہوتی ہے، جو حالی کے یہاں ہے، نہ وہ تضاد اور کھینچا تانی جو میر میں ہے۔ میر کے درد کا سبب یہ الجھن ہے کہ آخر عشق بہ یک وقت رحمت اور عذاب کیوں ہے؟‘‘ عسکری صاحب کا آخری نکتہ یہ ہے کہ چونکہ ’’جرأت کا عشق روح کی پکار سے زیادہ جسم کی پکار ہے، اور یہ شخصیت کے باقی حصوں کو متاثر نہیں کرتا، اس لیے ان کے یہاں لگاؤ کے ایک ہی معنی ہیں: یعنی لگاؤ کا خارجی اظہار۔‘‘ لہٰذا میر دراصل اس بات سے ناخوش تھے کہ جرأت کے یہاں معاشقہ نگاری اور سطحی جذباتی تلاطم کیوں ہے، وہ ’’تضاد اور کھینچا تانی‘‘ کیوں نہیں کہ انسانی تعالقات کی آویزش بھی ہو، اپنے دکھ کی کہانی سنانے کا ولولہ ہو، لیکن ان کا مطالعہ کرنے، اپنی معنویت دوسروں پر واضح کرنے، اور دوسرے کی معنویت اپنے اوپر واضح کرنے کا شوق ہو۔

عسکری صاحب کی بنیادی بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن انھوں نے جرأت کے ساتھ تھوڑی سی زیادتی یہ کر دی ہے کہ جرأت کے یہاں جو محزونی ہے اس کو نظر انداز کر کے انھوں نے صرف معاملہ بندی کو لے لیا ہے، اور تاثر یہ دیا ہے کہ جرأت کا کلیات جنسی مضامین سے لبالب ہے۔ پھر، انھوں نے اس بات کو بھی نظرانداز کر دیا ہے کہ معاملہ بندی ہماری غزل میں بہت بڑا انسان ساز (humanizing) عنصر ہے، یعنی وہ معشوق کو انسان کی سطح پر لے آتا ہے، اور اس لیے جنسی مضامین کے لیے یہ بہت اہم اور بنیادی اسلوب کا حکم رکھتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ جرأت کے یہاں میر کی طرح کا بصری تخیل نہ تھا، لہٰذا وہ مومن (اور خود مثنوی ’’معاملات عشق‘‘ کے میر) کی طرح محض معاملہ بندی تک رہ گئے۔ میر کی بڑائی اس بات میں ہے کہ وہ دیکھتے اور دکھاتے بہت ہیں، بیان کم کرتے ہیں (جنسی مضامین کی حد تک۔) ان کی دوسری بڑائی یہ ہے کہ وہ جنسی مضامین کو مضمون آفرینی کے لیے نہیں استعمال کرتے، بلکہ ان کا جنسی پہلو مقدم رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے یہاں وہ بے لطفی (یعنی جنسی مضمون کی حد تک بے لطفی) نہیں آنے پاتی جو ناسخ اور مومن اور لکھنؤ کے اکثر شعرا کے یہاں ملتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ میر کے یہاں جنسی مضامین میں بھی خوش طبعی اور طباعی یعنی wit اور اپنے اوپر ہنسنے کا انداز مل جاتا ہے۔ پہلی صفت میر اور مصحفی میں مشترک ہے، باقی میں کوئی ان کا شریک نہیں۔

اس سے پہلے کہ میں بات کو آگے بڑھاؤں، اور مثالوں کی مدد سے اسے مزید واضح کروں، ’’جنسی مضامین‘‘ کی اصطلاح کی وضاحت ضروری ہے۔ میں ’’عریانی‘‘ کا لفظ دو وجہوں سے نہیں استعمال کر رہا ہوں۔ ایک تو یہ کہ جنسی مضامین کے لیے عریانی شرط لازم نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے ’’عریانی‘‘ میں خواہ مخواہ اخلاقی فیصلے کا رنگ نمایاں ہے، اور میں جنسی مضامین کے خلاف اخلاقی فیصلے کا قائل نہیں۔ ممکن ہے بعض لوگوں کا خیال ہو کہ جو شاعری بہو بیٹیوں کے سامنے نہ پڑھی جا سکے اسے عریاں، مخرب اخلاق اور مذموم کہا ہی جائے گا، چاہے آپ اسے ’’عریاں‘‘ کہیں یا ’’جنسی مضامین‘‘ پر مبنی کہیں۔ ایسے لوگوں سے میرا کوئی جھگڑا نہیں۔ وہ اپنی اپنی بہو بیٹیوں کو میر کی شاعری سے محفوظ رکھیں، بڑی خوشی سے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے میں ادبی حسن کا جویا ہوں، اخلاقی تعلیم کا نہیں۔ اور نہ میں ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) کی طرح اس جھگڑے میں پڑنا چاہتا ہوں کہ فن پارے کی تشریح کے بجائے اس کی وجہ بیان کی جائے، کہ فلاں فلاں پیداواری رشتوں کے باعث اور سماج کے superstructure میں فلاں فلاں استحصالی رویوں کے باعث شاعر مجبور تھا کہ اس طرح کی شاعری لکھے۔ یعنی شاعر وہی لکھتا ہے جو سماج کے حاکم پیداواری و سائل پر اپنا تسلط جمائے رکھنے کی خاطر اس سے لکھواتے ہیں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ساری غزل کی اساس جنسی احساس پر ہے، لہٰذا یہ فطری ہے کہ اس میں جنسی مضامین بھی نظم ہوں۔ میں ایسے مضامین کو عریاں، مبتذل، ہو سنا کی پر مبنی، وغیرہ کچھ نہیں کہتا، بلکہ انھیں غزل کے مزاج کا خاصہ سمجھتا ہوں۔ اور ان کا مطالعہ ادبی نقطۂ نظر سے کرتا ہوں۔ اگر وہ حسن کے ساتھ بیان ہوئے ہیں تو یہ شاعر کی کامیابی ہے۔ اگر نہیں، تو یہ شاعر کی ناکامی ہے۔

غزل میں جنسی مضامین کا مطالعہ الگ سے کرنے کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ ہماری غزل کا معشوق بوجوہ اکثر بہت مبہم اور عینی (idealized) اور ناانسانی (dehumanized) معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اس کے معشوقانہ صفات عام طور پر بہت بڑھا چڑھا کر بیان کئے جاتے ہیں، اس لیے اس میں انسان پن بہت کم نظر آتا ہے اور اس باعث حالی کی طرح کے اخلاقی نقادوں اور ممتاز حسین یا کلیم الدین کی طرح غزل کی رسومیات سے بے خبر نقادوں کو شکایت کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ جنسی مضامین کے ذریعہ غزل کا معشوق انسانی سطح پر اتارا جا سکتا ہے۔ لہٰذا بطور صنف سخن غزل کو مکمل اور وسیع بنانے میں ان مضامین کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

جنسی مضامین سے میری مراد دو طرح کے مضامین ہیں۔ ایک تو وہ جن میں معشوق کے بدن، یا بدن کے کسی حصے، یا لباس وغیرہ کا تذکرہ انسانی سطح پر اور لطف اندوزی کے انداز میں ہو، یعنی اس طرح ہو کہ یہ بات صاف معلوم ہو کہ کسی انسان کی بات ہو رہی ہے، کسی مثالی، تصوراتی اور تجریدی ہستی کی نہیں۔ دوسری طرح کے مضامین وہ ہیں جن میں جنسی و صل کے معاملات کا ذکر ہو۔ اس صورت میں یہ مضامین معاملہ بندی کی ضمن میں آتے ہیں۔ ممکن ہے میر نے انھیں ہی ’’ادا بندی‘‘ کہا ہو۔ ظاہر ہے کہ بعض اوقات دونوں طرح کے مضامین ایک ہی شعر میں آ جاتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ جنسی مضامین اور معنی آفرینی، کیفیت اور مضمون آفرینی میں کوئی تضاد نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر معنی آفرینی یا مضمون آفرینی پر اس قدر زور دیا جائے کہ مضمون کی جنسیت پس پشت رہ جائے تو اس حد تک وہ شعر ناکام یا نا مکمل کہلائے گا۔ یعنی اگر ہم معشوق کے حسن سے زیادہ شاعر کی تیز طبعی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور ہوں، تو ایسا شعر اچھا تو کہلائے گا، لیکن اسے جنسی مضمون کے اعتبار سے ناکام کہا جائے گا۔

میر کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ جنسی مضامین میں بھی معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کو برتتے ہیں، لیکن اس طریق کار کے باوجود میر کے یہاں جنسی مضمون دبتا نہیں، بلکہ اور چمک اٹھتا ہے۔ مومن اور ناسخ ان مضامین کو برتنے میں معاملہ بندی سے گریز کرتے ہیں (ممکن ہے وہ بھی اسے چوما چاٹی سمجھتے ہوں۔ مومن کے یہاں معاملہ بندی کثرت سے ہے، لیکن جنسی مضامین پر بنی نہیں ہے۔ ناسخ کے یہاں معاملہ بندی بالکل نہیں ہے۔) لیکن مومن اور ناسخ مضمون آفرینی کو مقدم کرنے کے چکر میں مضمون کی جنسیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مثلاً مومن کو ہم بستری کا مضمون پسند ہے ؂

مجمع بستر مخمل شب غم یا د آیا

طالع خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہو گا

 

کب ہمارے ساتھ سوتے ہیں کہ دیکھے گا کوئی

ان کو بے تابی ہے کیوں اس خواب بے تعبیر سے

ساتھ سونا غیر کے چھوڑ اب تو اے سیمیں بدن

خاک میری ہو گئی نایاب تر اکسیر سے

 

بوئے گل کا اے نسیم صبح اب کس کو دماغ

ساتھ سویا ہے ہمارے وہ سمن بر رات کو

ظاہر ہے کہ ان شعروں میں کوئی جنسی لطف نہیں، کیوں کہ سارا زور مضمون بنانے میں صرف ہوا ہے۔ پہلے شعر میں کہا ہے کہ شب غم ہمیں بستر مخمل پر معشوق کے ساتھ سونا یاد آ گیا۔ ظاہر ہے کہ اب نیند کہاں؟ پھر طالع خفتہ کی نیند تو پریشاں ہو گی نہیں۔ یعنی تقدیر جاگے تو ہم سوئیں۔ دوسرے شعر میں معشوق کی پریشانی کا ذکر ہے کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ میں مومن کے ساتھ سو رہا ہوں ہوں۔ مومن اسے تسلی دیتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر تو کوئی ہے نہیں۔ نہ تم ہمارے ساتھ کبھی سوؤ گے اور نہ کوئی کبھی دیکھے گا۔ اس لیے بدنامی سے ڈرتے کیوں ہو؟ تیسرے شعر میں معشوق کو سیمیں بدن کہہ کر اور اپنی خاک کو اکسیر سے زیادہ نایاب کہا، اور یہ مضمون پیدا کیا کہ اب تو تم، جو چاندی سے بدن والے ہو، غیروں کے ساتھ سونا چھوڑ دو۔ تمھارے غم میں میری خاک گھس گھس کر اکسیر سے بھی زیادہ قیمتی ہو گئی ہے، گویا اب تو میں قدر کے لائق ہوا۔ آخری شعر میں معشوق کی سمن بری سے فائدہ اٹھا کر کہا ہے کہ اب ہمیں گلاب کی خوشبو سے کیا لینا دینا، ہمارا بدن اس سمن بر سے ہم بستر کے باعث خود ہی معطر ہے۔ پہلے اور دوسرے شعر میں خیال اس قدر باریک ہے اور اس قدر کم لفظوں میں بیان ہوا ہے کہ خیال کی باریکی اور نزاکت نے بیان کے حسن کو مجروح کر دیا ہے، اور چاروں شعروں میں مضمون آفرینی کی کثرت کے باعث جنسی مضمون (جو بنیادی مضمون ہے) پس منظر میں چلا گیا ہے۔

ناسخ اور ان کے بعض شعرائے مابعد نے بھی مضمون آفرینی اور طباعی اختیار کی، بلکہ بعض اوقات تو یہ خیال ہوتا ہے کہ جنسی مضامین ان لوگوں کے مقصود ہی نہیں۔ ناسخ کی خوبی یہ ہے کہ وہ استعاراتی یا اصطلاحی لفظ کو لغوی معنون میں استعمال کر کے نئی طرح کا استعارہ پیدا کر دیتے ہیں۔ اصل جنسی مضمون بالکل غیر اہم ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ان کا یہ لاجواب شعر ہے (مجھے خوشی ہے کہ رشید حسن خاں نے اسے اپنے انتخاب میں شامل رکھا ہے) ؂

دانے ہیں انگیا کی چڑیا کو بنت کی چنیاں

پلتی ہے بالے کی مچھلی موتیوں کی آب میں

طبا طبائی نے (غالباً) ناسخ کے کسی شاگرد کا ایک شعر نقل کیا ہے ؂

انگیا کے ستارے ٹوٹتے ہیں

پستاں کے انار چھوٹتے ہیں

اس طرح کے اشعار میں طباعی ہے۔ ان کی مضمون آفرینی بھی ان کی طباعی کے سامنے ماند پڑ گئی ہے۔ لیکن ان میں جنسی مضمون بہت پھیکا رہ گیا ہے۔ ناسخ کا عام انداز یہی ہے ؂

میں ہوں عاشق انار پستاں کا

نہ ہوں مرقد پہ جز انار درخت

تونے مگدر ہلائے کیوں نہ کریں

باغ عالم میں افتخار درخت

 

وصل کی شب پلنگ کے اوپر

مثل چیتے کے وہ مچلتے ہیں

ناسخ جب مضمون آفرینی ترک کر کے بیانیہ انداز میں آتے ہیں تو ان کے شعر کا لطف بالکل غائب ہو جاتا ہے ؂

جی میں ہے سر میں رکھ کے سو جاؤں

تکیہ مخمل کا ہے تمھارا پیٹ

 

ساتھ اپنے جو مجھے یار نے سونے نہ دیا

رات بھر مجھ کو دل زار نے سونے نہ دیا

 

یاد آتا ہے ہجر میں وہ مزا

بر میں لے لے کے تنگ سونے کا

اب مصحفی کا شعر دیکھئے تو بات صاف ہو جائے گی ؂

بخت ان کے ہیں جو سو کے ترے ساتھ لے گئے

گہ پیرہن کا لطف تو گا ہے بدن کا حظ

واقعہ یہ ہے کہ مصحفی کا کلام جنسی مضامین کے تنوع اور حسن کے اعتبار سے میر کی یاد دلاتا ہے۔ میر اور مصحفی ہمارے یہاں سب سے تیز آنکھ والے شاعر ہیں۔ میر کی صفت میں استعارہ، مضمون، معنی سب شامل ہیں۔ مصحفی وہاں تک نہیں پہنچتے جہاں میر اکثر نظر آتے ہیں، لیکن دونوں کا انداز ایک ہی طرح کا ہے۔

مصحفی: یوں ہے اس گورے بدن سے جلوہ گر لوہو کا رنگ

دشت قدرت نے ملایا جیسے میدے میں شہاب

(دیوان دوم)

 

میر: بیڑے کھاتا ہے تو آتا ہے نظر پان کا رنگ

کس قدر ہائے رے وہ جلد گلو نازک ہے

(دیوان دوم)

مصحفی: یوں ہے ڈلک بدن کی اس پیرہن کی تہ میں

سرخی بدن کی جھلکے جیسے بدن کی تہ میں

 

میر: کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے

کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے

(دیوان دوم)

 

میر کے یہاں معنی اور مضمون دونوں کی کثرت ہے۔ (تفصیل کے لیے شرح ملاحظہ ہو) مصحفی کے یہاں مضمون دوسرے مصرعے تک آتے آتے ہلکا ہو گیا، لیکن شعر کا مقصود حاصل ہو گیا۔ حسرت موہانی نے اس مضمون کو بار بار کہا، لیکن ہر بار غیر ضروری یا کم زور الفاظ نے شعر بگاڑ دیے ؂

 

اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بہ خود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

 

رونق پیرہن ہوئی خوبی جسم نازنین

اور بھی شوخ ہو گیا رنگ ترے لباس کا

 

پیراہن اس کا ہے سادہ رنگیں

یا عکس مے سے شیشہ گلابی

 

مصحفی کو ایک بار اور سن لیجئے تو کھرے کھوٹے کا فرق معلوم ہو جائے گا ؂

 

اس کے بدن سے حسن ٹپکتا نہیں تو پھر

لبریز آب و رنگ ہے کیوں پیرہن تمام

 

مصحفی نے حسن ٹپکنے کا ثبوت ’’لبریز آب و رنگ‘‘ کہہ کر فراہم کر دیا، اور انداز بھی انشائیہ رکھ کر مضمون میں ایک نئی جہت پیدا کر دی۔ یہ زمین دراصل میر کی ہے ؂

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

(دیوان دوم)

اس مضمون کو بدل بدل کر میر نے کئی بار استعمال کیا ہے ؂

اس کے سونے سے بدن سے کس قدر چسپاں ہے ہائے

جامہ کبریتی کسو کا جی جلاتا ہے بہت

(دیوان ششم)

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

(دیوان ششم)

میر کے یہاں تکرار کا شکوہ، بعض نقادوں نے کیا ہے۔ اس وقت تکرار کے اصول پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں، لیکن مندرجہ بالا تین شعروں سے یہ بات واضح ہوئی ہو گی کہ میر کی تکرار ہر جگہ ناروا نہیں ہوتی۔ اکثر وہ ایک ہی مضمون میں نئے پہلو پیدا کرتے ہیں۔ ’’بدن تمام‘‘ والے شعر میں دوسرے مصرعے کا زبردست پیکر اور پہلے مصرعے میں انشائیہ انداز کی وجہ سے ابہام اسے ’’بدن کے ساتھ‘‘ والے شعر سے الگ کرتا ہے۔ یہاں دوسرے مصرعے کے پیکر میں ’’لپٹا ہے‘‘ کے باعث جنسی اشارہ اور طرح کا ہے۔ انشائیہ انداز یہاں مصرع ثانی میں ہے، لیکن ’’تنگ جامہ‘‘ کی رعایت سے ’’پھٹ گیا‘‘ کے استعمال نے اسے مصرع اولیٰ کے ساتھ ایک اور طرح کا ربط مہیا کر دیا ہے۔ ’’جلاتا ہے بہت‘‘ والے شعر میں مصرع اولیٰ کا انداز انشائیہ ہے، لیکن ’’سونے سے بدن‘‘ کی دوہری معنویت اور ’’کبریتی‘‘ اور ’’جی جلاتا‘‘ کی رعایتوں نے اسے بالکل مختلف طرح کا زور بخش دیا ہے۔

معشوق کے ندی میں نہانے کا مضمون میر اور مصحفی کے ہاں مشترک ہے۔ میر نے اسے کئی بار باندھا ہے، لیکن اس کا بہترین اظہار غالباً مندرجہ ذیل اشعار میں ہوا ہے ؂

دیوان دوم: شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں

گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں

ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن

جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں

مصحفی اس مضمون کو بہت دور لے گئے ہیں، اور میر سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ لہروں کے آغوش بن جانے کا مضمون میر نے غالباً مصحفی سے پہلے باندھ لیا تھا۔ میر نے اس مضمون کو کئی جگہ باندھا ہے ؂

دیوان دوم: اٹھتی ہے موج ہر یک آغوش ہی کی صورت

دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش

 

دیوان اول: اسی دریائے خوبی کا ہے یہ شوق

کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں

بہر حال مصحفی کا شعر ہے ؂

کو ن آیا تھا نہانے لطف بدن نے کس کے

لہروں سے سارا دریا آغوش کر دیا ہے

معشوق کی برہنگی کا ذکر میر نے شاید تمام شاعروں سے زیادہ کیا ہے۔ معشوق کی برہنگی آتش کا بھی محبوب مضمون ہے۔ لیکن ان سے بات پوری طرح نبھتی نہیں، کیوں کہ وہ بیانیہ انداز سے کام زیادہ لیتے ہیں، اور مناسبت الفاظ کا دھیان نہیں رکھتے ؂

تا سحر میں نے شب و صل اسے عریاں رکھا

آسماں کو بھی نہ جس مہ نے بدن دکھلایا

(آتش)

حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنے کے باعث شعر کم زور ہو گیا۔ اس سے بہتر تو آتش کے شاگرد رند نے کہا ہے کہ یہاں حفظ مراتب تو ہے ؂

عریاں اسے دیکھا کیا میں شام سے تا صبح

دیکھا نہیں گردوں نے بھی جس کا بدن اب تک

میر یا تو پوری ہو سنا کی سے کام لیتے ہیں، اور پھر بھی حفظ مراتب رکھتے ہیں، یا پھر معشوق کی عریانی کو تہذیبی حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ؂

دیوان دوم: وہ سیم تن ہو ننگا تو لطف تن پہ اس کے

سوجی گئے تھے صدقے یہ جان و مال کیا ہے

دیوان دوم: مرمر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں

کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں

دیوان پنجم: راتوں پاس گلے لگ سوئے ننگے ہو کر ہے یہ غضب

دن کو بے پردہ نہیں ملتے ہم سے شرماتے ہیں ہنوز

آخری شعر کو مندرجہ ذیل شعر کے ساتھ پڑھئے تو معنی واضح تر ہوں گے ؂

دیوان پنجم: آنکھ لگے اک مدت گذری پاے عشق جو بیچ میں ہے

ملتے ہیں معشوق اگر تو ملتے ہیں شرمائے ہنوز

اور یہ کمال بھی میر ہی کو حاصل ہوا کہ اپنی برہنگی اور دیوانگی کا تذکرہ کیا، اور معشوق کو پورے لباس میں رکھا، لیکن اس کے باوجود جنسی تحرک سے بھرپور ہستی کے طور پر معشوق کی مکمل تصویر کھینچ دی ؂

دیوان چہارم: ترک لباس سے میرے اسے کیا وہ رفتہ رعنائی کا

جامے کا دامن پاؤں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا

پنہاں جسمانی اعضا کا ذکر جنسی مضمون پیدا کرنے کا آسان نسخہ ہے۔ لیکن لباس کا پورا پردہ قائم رہے اور پھر بھی لڑکی شاعر کی آنکھ کو عریاں دکھائی دے۔ یہ صرف بڑے شاعر کے بس کی بات ہے ؂

دیوان پنجم: کیا صورت ہے کیا قامت دست و پا کیا نازک ہیں

ایسے پتلے منھ دیکھو جو کوئی کلال بناوے گا

دیوان پنجم: مونڈھے چلے ہیں چولی چسی ہے مہری پھنسی ہے بند کے

اس اوباش نے پہنا وے کی اپنے تازہ نکالی طرح

میر کے یہاں معشوق کے بدن سے لطف اندوز ہو کر وجد میں آنے سے لے کر معشوق پر طنز، طباعی کا اظہار، صاف صاف لالچ کا اظہار، ہر طرح کا انداز موجود ہے۔ لالچ پر ایک شعر دیکھئے ؂

دیوان پنجم: پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب

وے کس مزے کے ہوں گے لب ہائے نامکیدہ

اللہ میاں سے تخاطب کی شوخی اور ’’معصومیت‘‘ بھی خوب ہے۔اسی غزل کا مطلع ہے، جو کامیاب ہوس کی گرمی سے پسینہ پسینہ ہے ؂

اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ

آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ

پھر جب معشوق کی نازک بدنی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ایک نیا انداز برہنگی کا سامنے آتا ہے ؂

دیوان پنجم: وے کپڑے تو بدلے ہوئے میر اس کو کئی دن

تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک

اس مضمون میں شوخی ہے، لیکن ہوس بھری اور بظاہر محض مدح پر مبنی ہے، کہ معشوق کس قدر نازک ہے۔ شوخی اس وقت کھلتی ہے جب یہ خیال آتا ہے کہ بدن پر تنگی پوشاک کے باعث جو شکن پڑی ہے، اسے دیکھنے کے لیے بندن کو ننگا دیکھا ہو گا۔ مندرجہ ذیل شعر میں معشوق کو بے لباس کرنے کا بہانہ اس کی تنگ پوشی اور نزاکت کو بنایا ہے ؂

دیوان سوم: تنگی جامہ ظلم ہے اے باعث حیات

پاتے ہیں لطف جان کا ہم تیرے تن کے بیچ

اسی غزل میں خسرو سے مستعار لے کر اپنا مضمون بنایا ہے ؂

کشتہ ہوں میں تو شیریں زبانی یار کا

اے کاش وہ زبان ہو میرے دہن کے پیچ

معشوق پر طنز کرنے یا اس بہانے خود پر طنز کرنے کا انداز جنسی مضمون میں کم نبھتا ہے۔ میر نے اس کو بھی نبھا کر دکھا دیا ہے ؂

دیوان ششم: آشنا ڈوبے بہت اس دور میں

گرچہ جامہ یار کا کم گھیر ہے

دیوان پنجم: ہندو بچوں سے کیا معیشت ہو

یہ کبھو انگ دان دیتے ہیں

 

دیوان پنجم: طالع نہ ذائقے کے اپنے کھلے کہ ہم بھی

ان شکریں لبوں کے ہونٹوں کا کچھ مزا لیں

 

دیوان پنجم: ننگے سامنے آتے تھے تو کیا کیا زجر اٹھاتے تھے

ننگ لگا ہے لگنے انھیں اب بات ہماری مانے سے

 

دیوان ششم: خمیازہ کش ہوں اس کی مدت سے اس ادا کا

لگ کر گلے سے میرے انگڑائی لے جماہا

 

معشوق کی انگڑائی اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ وہ عاشق کے ساتھ ساری رات جاگا ہے، اور اس وجہ سے بھی، کہ وہ عاشق سے اکتا گیا ہے۔ ساتھ رات گذارنے یا معشوق کو برہنہ دیکھنے کا کنایہ میر کے یہاں اکثر ملتا ہے۔ کچھ شعر اوپر گذر چکے، کچھ اور ملاحظہ ہوں ؂

 

دیوان اول: لیتے کروٹ ہل گئے جو کان کے موتی ترے

شرم سے سردر گریباں صبح کے تارے ہوئے

 

دیوان سوم: جس جائے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے

آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر

 

دیوان اول: دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا

ترکیب سے کیا کہئے سانچے میں کی ڈھالی ہے

دیوان ششم: ایسی سڈول دیہی دیکھی نہ ہم سنی ہے

ترکیب اس کی گویا سانچے میں گئی ہے ڈھالی

 

آخری دو شعروں کے مضمون کو مصحفی سے لے کر علی اوسط رشک تک کئی لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ میرنے ’’بھرت کا گڑوا‘‘، ’’دیہی‘‘، ’’سڈول‘‘ اور ترکیب‘‘ جیسے الفاظ رکھ کر مضمون کی رنگینی اور واقعیت اور تفصیل کو پوری طرح برت دیا ہے۔ اس پر مفصل بیان کے لیے شرح ملاحظہ ہو۔ میر کو چونکہ روزمرہ کی زندگی سے مضمون بنانے میں خاص مہارت تھی، اس لیے ان کے سامنے آتش، بلکہ مصحفی بھی غیر واقعی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً معشوق کے بھیگنے کا مضمون مصحفی اور میر دونوں کو پسند تھا ؂

بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا

پانی میں نگاریں کف پا اور بھی چمکا

جوں جوں کہ پڑیں منھ پہ ترے مینہ کی بوندیں

جوں لالۂ تر رنگ ترا اور بھی چمکا

 

جھلک بدن کی ترے ہے یہ رخت آبی میں

کہ جیسے جلوہ کرے آفتاب درتہ آب

پہلا شعر روز مرہ زندگی پر مبنی ہے۔ باقی مضامین خیالی تو نہیں ہیں، لیکن میر کے مندرجۂ ذیل شعر کے سامنے مصنوعی معلوم ہوتے ہیں ؂

دیوان چہارم: گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے

رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں

 

میر کے شعر پر نظیر اکبر آبادی کے ایک شعر کا ہلکا سا پر تو ہے، لیکن نظیر کے یہاں اشاروں کی اور بصری پیکر کی وہ فراوانی نہیں جو میر کے یہاں ہے ؂

سراپا موتیوں کا پھر تو اک گچھا وہ ہوتی ہے

کہ وہ کچھ خشک موتی کچھ پسینے کے وہ تر موتی

نظیر اکبر آبادی کے شعر میں بندش بھی بہت سست ہے۔ میر کے شعر میں پہلے اور دوسرے مصرعے میں برابر کے پیکر ہیں۔ لیکن چولی کے پسینے میں بھیگنے میں اشارات و انسلاکات اس قدر ہیں اور اتنے بے پناہ ہیں اور پھر بھی اتنے نزدیک کے ہیں کہ شعر معجزہ بن گیا ہے۔ تجربے کے جس منطقے کا یہ شعر ہے، اس کے بالکل متضاد منطقے سے اس طرح کے شعر برآمد ہوتے ہیں ؂

دیوان دوم: بوکئے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے

ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے

 

دیوان چہارم: ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت

جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں

میر کے جنسی مضامین کا تذکرہ ان کے امرد پرستانہ اشعار کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ عند لیب شادانی نے اپنا مضمون ’’میر صاحب کا ایک خاص رنگ‘‘ یوں لکھا تھا گویا میر نے اپنے یہ اشعار کہیں داب چھپا کر رکھ دیے تھے، یا اگر چہ یہ شعر کلیات میں تھے، لیکن لوگوں نے انھیں پڑھا نہ تھا۔ پھر یاروں نے طرح طرح سے اس ’’خاص رنگ‘‘ کی توجیہیں بھی کرنے کی کوشش کی۔ احتشام صاحب نے مسعود حسن رضوی ادیب کے نام شادانی کے مضمون پر بعض ’’بزرگوں‘‘ کے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’سنا کہ مرزا محمد عسکری صاحب بہت منغض ہوئے کیوں کہ شادانی صاحب، میر وغیرہ کے وہی اشعار پڑھ کر نتائج نکالتے رہے جن کا ذکر وہ اپنے مضامین میں کر چکے ہیں۔‘‘ (’’خطوط مشاہیر‘‘، مرتبہ نیر مسعود۔) حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جس شخص نے بھی کلیات میر کا سرسری ہی سا مطالعہ کیا ہو گا، وہ اس شوق اور شغف و انہماک سے بے خبر نہ رہا ہو گا جو امرد پرستی کے مضمون پر میر نے صرف کیا ہے۔ میں اس رجحان یا میلان کا دفاع نہیں کرتا۔ نہ اس کو مطعون کرتا ہوں۔ میں یہ بھی دعویٰ نہیں کرتا کہ میر یقیناً امرد پرست تھے، اور نہ فراق صاحب کی طرح یہ کہتا ہوں کہ دنیا کے اکثر بڑے لوگ امردپرست ہوئے ہیں۔ شاعرانہ اظہار کی حد تک امرد پرستی کے اشعار میں میر کے یہاں خود پر طنز کرنے، خود امردوں پر طنز کرنے، اور امردوں سے دلچسپی پر مبنی، ہر طرح کے اچھے برے شعر مل جاتے ہیں۔ فی الحال میری غرض جنسی مضمون کے حامل، اور امرد پرستی پر مبنی، اچھے اشعار سے ہے۔ چند کو بلا کسی مزید تفصیل کے پیش کرتا ہوں ؂

دیوان اول: باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر

یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا

 

دیوان پنجم: ساتھ کے پڑھنے والے فارغ تحصیل علمی سے ہوئے

جہل سے مکتب کے لڑکوں میں ہم دل بہلاتے ہیں ہنوز

 

دیوان پنجم: وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح

شاخ گل سا جائے ہے لچکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح

ان اشعار پر مفصل گفتگو شرح میں ملاحظہ کیجئے۔ میں ہر اس شعر کو، جس میں امرد پرستی کا شائبہ ہو، لازماً جنسی مضمون پر مبنی شعر نہیں مانتا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ امرد پرستانہ شعر میں معشوق آسانی سے عینیت پذیر (idealize) نہیں ہو پاتا، لہٰذااس حد تک اسے جنسی مضمون کا حامل قرار دینا ہی پڑتا ہے۔ بعض بعض جگہ فیصلہ الفاظ کے اصطلاحی معنوں پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً ٹیک چند بہار نے ’’دنداں مزد‘‘ کے معنی درج کئے ہیں کہ اصطلاح میں بوسے کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا ہے کہ یہ کس طبقے کی اصطلاح ہے۔ قرینے سے لگتا ہے کہ امرد پرستوں کی اصطلاح ہو گی۔ ایسی صورت میں دیوان ششم کا یہ غیر معمولی شعر اور بھی غیر معمولی ہو جاتا ہے ؂

آج اس خوش پرکار جواں مطلوب حسین نے لطف کیا

پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا

میر کے یہاں جنسی مضامین کا مطالعہ ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ میر کے یہاں عشق کا تجربہ کس نوعیت کا، یا یوں کہئے کہ کن نوعیتوں کا ہے۔ محمد حسن عسکری اسے انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کے مرادف قرار دیتے ہیں۔ لیکن بات شاید اتنی سادہ نہیں، کیوں کہ میر کے یہاں عشق کی پیچیدگیوں کے علاوہ اس کی وسعت اور تنوع بھی اس درجے کی ہے کہ اس پر کوئی ایک حکم نہیں لگ سکتا۔ اور میر کو صرف درون بیں یا عشق کے ’’اعلیٰ‘‘ اور ’’گھریلو‘‘ اور ’’ہوس آمیز‘‘ پہلوؤں کی کشاکش کا شاعر کہنے سے بات پوری نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس معاملے کو ذرا اور وسعت اور توجہ سے دیکھنا چاہئے۔ لیکن توجہ کو اس طرف منعطف کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی چھان بین کی جائے کہ جب میر جنسی مضمون کو ہر پہلو سے بیان کرنے پر قادر تھے، تو انھوں نے جرأت کی سی معاملہ بندی بھی کیوں نہ اختیار کی؟ اس سوال کا جواب اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہمیں میر کے یہاں عشق کے تجربے کی حدوں کا پتہ لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے اسی ضمن میں اس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ آیا میر کے عشق کی کوئی مرکزی نوعیت یا اس کا کوئی مرکز ہے کہ نہیں؟

ایسا نہیں ہے کہ میر جنسی مضامین کو معاملہ بندی کے اسلوب میں پیش کرنے پر قادر نہیں تھے۔ گذشتہ صفحات میں دیوان اول کے ایک قطعے کا ذکر ہو چکا ہے، اس کا پہلا شعر حسب ذیل ہے ؂

کل تھی شب وصل اک ادا پر

اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات

ایسا بھی نہیں ہے کہ جنسی مضامین کے باہر معاملہ بندی میں میر کو کوئی مشکل پیش آتی ہو۔ لہٰذا جنسی مضامین میں معاملہ بندی سے کم و بیش اجتناب کے وجوہ دریافت کرنا بہت اہم ہو جاتا ہے۔

جنسی مضامین پر مبنی اشعار کے بارے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر ان میں معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کی کثرت رکھی جائے تو اصل مضمون کے پھیکے پڑ جانے کا امکان رہتا ہے۔ میر اس معاملے میں غیر معمولی ہیں کہ وہ یہاں بھی اکثر و بیشتر مضمون آفرینی یا کثرت معنی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ استعارے کا ہر اسلوب جانتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کو رعایت لفظی میں کمال حاصل ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ حتی الامکان شعر کو بیانیہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن جن اشعار میں معشوق سے وصل کے مضمون کو جنسی لذت اندوزی کے رنگ میں کہا گیا ہو، ان میں بیانیہ رنگ در آنا لازمی ہے۔ میر نے وصل کے مضمون میں جنسی مضامین سے عام طور پر احتراز کیا ہے، اور اگر ایسا مضمون لائے بھی ہیں تو اس میں ابہام کا پہلو ایسا رکھ دیا ہے کہ خود بہ خود کثرت معنی پیدا ہو گئی ہے ؂

 

دیوان دوم: وصل اس کا خدا نصیب کرے

میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

 

دیوان پنجم: وصل میں رنگ اڑ گیا میرا

کیا جدائی کو منھ دکھاؤں گا

دیوان پنجم: اس کا بحر حسن سراسر اوج و موج و تلاطم ہے

شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج

 

دیوان چہارم: پاؤں چھاتی پہ میری رکھ چلتا

یاں کبھو اس کا یوں گذارا تھا

 

دیوان سوم: کیا تم کو پیار سے وہ اے میر منھ لگاوے

پہلے ہی چومے تم تو کاٹے ہو گال اس کا

 

دیوان دوم: منھ اس کے منھ کے اوپر شام و سحر رکھوں ہوں

اب ہاتھ سے دیا ہے سر رشتہ میں ادب کا

 

دیوان سوم: گو شوق سے ہو دل خوں مجھ کو ادب وہی ہے

میں رو کبھی نہ رکھا گستاخ اس کے رو پر

 

دیوان ششم: بدن میں اس کے تھی ہر جائے دلکش

بجا بے جا ہوا ہے جا بجا دل

 

دیوان سوم: گات اس اوباش کی لیں کیوں کہ بر میں میر ہم

ایک جھرمٹ شال کا اک شال کی گاتی ہے میاں

اوپر کے اشعار سے ظاہر ہے کہ میر وصل کی لذت اندوزی کے وقت بھی رعایت لفظی، ابہام اور استعارے سے کام لیتے ہیں اور بیانیہ انداز کا سہارا بہت کم لیتے ہیں۔ اکثر یہ بات بھی نہیں کھلتی کہ وصل ہوا ہے بھی کہ نہیں۔ ان اشعار میں معاملہ بندی سے گریز اور کبھی کبھی خود اپنے پر ہنسنے کی ادا اس بات کی غماز ہے کہ کچھ باتیں شاید ایسی بھی ہیں جن کو میر اپنے آپ پر بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے یہاں گستاخ دستی کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ اختلاط باطنی کے واضح بیان سے اکثر گریز کرتے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ ان کا مبہم اور استعاراتی مزاج اسے پسند نہیں کرتا۔ مضامین وصل میں اگر واضح معاملہ بندی کی جائے تو استعارے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ جرأت کا یہی معاملہ تھا۔ وہ استعارے کو وقوعے پر قربان کر دیتے ہیں۔ چند اشعار حسب ذیل ہیں ؂

 

ملائے لب سے لب لیٹے تھے جب تک وہ بھی لیٹا تھا

پھریری لے کے میں جو کر کے اف یک بار اٹھ بیٹھا

 

تو کچھ اٹھنے کے اس نے ساتھ ہی چتون جو پہچانی

تو کیا گھبرا کے بس جلدی سے وہ عیار اٹھ بیٹھا

 

لپٹ کر سونے سے شب کے چبھی پھولوں کی جو بدھی

تو کیا ہو کر وہ جھگڑالو گلے کا ہار اٹھ بیٹھا

 

کہاں ہے گل میں صفائی ترے بدن کی سی

بھری سہاگ کی تس پر یہ بو دلہن کی سی

 

یاد آتا ہے یہ کہنا جب تو اڑ جاتی ہے نیند

اپنی ہٹ تو رکھ چکے لو اب تو ہٹ کے سوئیے

 

تم جو کہتے ہو نہ جرأت سوئیں گے ہم تیرے ساتھ

سو زباں بہر خدا اب یہ پلٹ کے سوئیے

 

اپنے سینے پہ رکھا ہاتھ میں ان کا تو کہا

چھوڑ کم بخت ہتھیلی مری گلخن سے لگی

 

دل ہی جانے ہے کچھ اس کا مزا اور لذت

مل کے جب ایک شب و صل میں ہوں سینے دو

شعر نمبر چار اور ایک حد تک نمبر سات کے علاوہ باقی تمام شعروں میں مضمون کا فقدان ہے۔ شعر نمبر چار میں پیکر، اور انشائیہ انداز بیان اس طرح یک جا ہوئے ہیں کہ میر تو نہیں، لیکن مصحفی کا سارتبہ حاصل ہو گیا ہے۔ باقی تمام شعروں کا اسلوب خبر یہ ہے۔ معاملہ بندی کی ایک کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں انشائیہ اسلوب، جو خبریہ سے بہتر اور بلند تر ہوتا ہے، استعمال نہیں ہو سکتا۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ میر اگرچہ جنسی مضامین سے خود بالکل گریز نہیں کرتے، لیکن انھوں نے جرأت پر چوما چاٹی کا الزام اس لیے لگایا تھا کہ جرأت کے یہاں نری معاملہ بندی ہے، مضمون آفرینی بہت کم ہے اور ابہام و استعارہ تقریباً مفقود ہے۔ میر اگر واضح بیان اختیار بھی کرتے ہیں تو اس کے ساتھ کسی قسم کا حوالہ، طنزیہ، یا تہذیبی، یا نفسیاتی، ضرور رکھ دیتے ہیں۔ لہٰذا معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ میر کا عشقیہ تجربہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ میر اس تجربے کے اظہار کے لیے فنی چابک دستیوں اور باریکیوں کا اظہار بیش از بیش کرتے ہیں۔ ان چابک دستیوں کی بنا پر ان کے یہاں کثرت معنی ہے۔ مضمون کی ان کے یہاں فراوانی ہے، اور وہ مضمون آفرینی کے ساتھ جنسی مضمون کا صحیح تناسب قائم رکھتے ہیں۔

مضمون کی فراوانی کے ساتھ میر کے یہاں عام طور پر، اور جنسی لذت کے مضامین میں خاص طور پر، حواس خمسہ کی کار فرمائی بہت ہے۔ ان کے یہاں تن بدن اور ذہنی کیفیت کا زبردست انضمام و انہماک ہے۔ اس کے برخلاف غالب کے یہاں جنس اور بدن کے بھی اسرار کو تجرید کے ہوائی پردوں میں سمیٹنے کا عمل نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دو شعر دیکھئے ؂

غالب: کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا

تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے

میر (دیوان دوم) اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ

آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ

غالب کے یہاں بھی جنسی تجربے کا براہ راست حوالہ ہے، لیکن مصرع ثانی میں وہ فوراً تجرید اختیار کر لیتے ہیں۔ میر کے یہاں جنسی تجربے کا حوالہ مصرع ثانی میں اور بھی مستحکم، اور بدن کی سطح پر تمام ہوتا ہے۔ لالچ کے موقعے پر بھی میر حواس خمسہ میں سے وہ حس منتخب کرتے ہیں جو لطیف ترین تجربے کو بھی تیزی سے حاصل کر لیتی ہے، یعنی قوت ذائقہ ؂

(دیوان پنجم) پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب

وے کس مزے کے ہوں گے لب ہائے نامکیدہ

جنسی لذت اور جنسی تجربے کی تمام حسیاتی جہتوں میں میر کا انہماک و اشتعال تمام تر وہ کیفیت رکھتا ہے جسے مولانا روم نے ’’نانبائی کے ہاتھ میں خمیری آٹے‘‘ کی نادر اور پانچوں حواس پر مبنی استعارے کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ جس طرح نانبائی خمیری آٹے کو کبھی سخت گوندھتا ہے، کبھی نرم کرتا ہے، کبھی اس پر زور سے مٹھیاں لگاتا ہے، کبھی اس کو تختے پر پھیلا دیتا ہے، اچانک اٹھا کر ہاتھ میں لے لیتا ہے، کبھی اس میں پانی ڈالتا ہے، کبھی نمک، کبھی اس کو تنور میں ڈال کر دیکھتا ہے کہ ٹھیک پکا ہے کہ نہیں، وہی حال عاشق کے ہاتھ میں معشوق کا ہوتا ہے۔ مولانا روم اس کو یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ قدیم اور حادث، عین اور عرض میں بھی اس طرح کی بہم دست و گریبانی روز اول سے ویسی ہی فرض ہے جیسی ویس اور رامیں کے درمیان بہم بستگی اور بہم آویزش فرض تھی۔ یعنی یہ بھی اصول کائنات ہے، اور دونوں حقائق ایک ہی اصول کائنات کے پر تو ہیں۔ مثنوی (دفتر ششم) میں مولانا کہتے ہیں

زن بہ دست مرد در وقت لقا

چوں خمیر آمد بدست نانبا

 

بسرشد گاہیش نرم و گہ درشت

زو بر آرد چاق چاقے زیر مشت

 

گاہ پہنش واکشد بر تختۂ

درہمش آرد گہے یک لختۂ

 

گاہ در وے ریزد آب و گہ نمک

از تنور و آتشش سازد محک

 

ایں چنیں پیچند مطلوب و طلوب

اندریں لعب امذ مغلوب و غلوب

ایں لعب تنہا نہ شو را بازن است

ہر عشیق و عاشقے را ایں فن است

از قدیم و حادث و عین و عرض

پیچشے چوں ویس و رامیں مفترض

ان اشعار کی خوبیاں بیان کرنے میں بہت وقت صرف ہو گا۔ فلسفیا نہ نکات میں نے اوپر بیان ہی کر دیے ہیں۔ اب صرف یہ دیکھ لیجئے کہ پانچوں حواس (دیکھنا، چھونا، چکھنا، سونگھنا، سننا) یہاں پوری طرح صرف بروئے کار ہی نہیں آئے ہیں، بلکہ بیان بھی ہوئے ہیں۔ اور شروع کے چار شعروں میں حر کی پیکر کی اس قدر شدت ہے کہ بڑے بڑے شاعروں کی جھر جھری آ جائے۔ جب میر کے سامنے ایسے بڑے بڑے نمونے موجود تھے، اور خود ان کی صلاحیتیں بھی ان نمونوں کے برابر کلام کی قوت رکھتی تھیں تو وہ جرأت یا مصحفی یا شاہ حاتم کی طرف کیوں متوجہ ہوتے اور اس میدان میں بھی میر کا کلام ان لوگوں سے ممتاز کیوں نہ ہوتا؟

میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ میر میں زندگی کے تمام تجربات کو حاصل کرنے اور انھیں شعر کی سطح پر قبول کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ مولانا روم کی طرح وہ بھی ہر بات کو شعر میں کہہ سکتے تھے۔ مثنوی معنوی کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کو آج کل کے ’’مہذب‘‘ لوگ پڑھ یا سن نہیں سکتے۔ مولانا نے ان سے عارفانہ نتائج نکالے ہیں، یہ اور بات ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مولانا روم کو ’’فحش‘‘ مضامین بیان کرنے سے عارنہ آتی تھی۔ محمد حسن عسکری نے ایک خط میں لکھا ہے کہ جو قصہ بیان کر رہا ہوں وہ فحش تو ہے لیکن مولانا تھانوی نے بیان کیا ہے اور اس سے سبق آموزی کی ہے، اس لیے درج کرتا ہوں۔ پرانی تہذیب میں اس طرح کا احرام و تحریم نہ تھا جیسا آج کل ہم لوگوں نے اختیار کر لیا ہے۔ میر کے ظریفانہ اور پھکڑ پن کے اشعار پر مولوی عبدالحق بابائے اردو ناک بھوں چڑھاتے ہیں (یا شرمندہ ہوتے ہیں۔) باقی لوگ تو ان کا ذکر بھی کرتے شرماتے ہیں۔ حالانکہ وہ اشعار بھی تہذیب و کائنات کے ایک تصور کی عملی صورت ہیں۔ جنسی اشعار میں میر بہت زیادہ کھل تو نہیں کھیلے ہیں لیکن ان کا اصول وہی ہے، کہ تہذیب طرح طرح سے اپنا اظہار کرتی ہے۔ اور تہذیب کا ہر مظہر شعر کی سطح پر برتا جا سکتا ہے اگر شاعر جرأت اظہار کے ساتھ ساتھ سخن طرازی کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

انسانی تعلقات کی شاعری

 

 

میر کی زبان کے اس مختصر تجزیے اور غالب کے ساتھ موازنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ میر اور غالب میں اشتراک لسان ہے اور نہیں بھی۔استعمال زبان سے ہٹ کر دیکھئے تو بھی اشتراک کے بعض پہلو نظر آتے ہیں۔ اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ میر کے بعد غالب ہمارے سب سے بڑے انفرادیت پرست ہیں، اور ان دونوں کی انفرادیت پرستی ان کے کلام سے نمایاں ہونے والے عاشق کے کردار میں صاف نظر آتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ فراق صاحب کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا عاشق اور نیا معشوق دیا۔ عسکری صاحب کے خیال میں فراق کے عاشق کی نمایاں صفت ’’وقار‘‘ ہے۔آگے وہ لکھتے ہیں کہ غالب کے یہاں بھی ایک طرح کا وقار ہے، لیکن اس میں نرگسیت اور انانیت ہے، اور میر کے یہاں بھی ایک نوع کا وقار ہے، لیکن اس میں خود سپردگی زیادہ ہے۔ عسکری صاحب فرماتے ہیں:

میر کے یہاں سپردگی بہت زیادہ ہے، لیکن وقار بھی ہاتھ سے نہیں جانے پاتا… میر ایک ایسی دنیا میں بستے ہیں جہاں قدر اولین انسانیت ہے… یہ عاشق محبوب سے محبت کا طالب نہیں، بس اتنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ کیا جائے، اس کے عالم و فاضل ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض انسان ہونے کی وجہ سے… وہ انسان اس قدر ہے کہ ذہانت لازمی چیز نہیں رہتی۔ چناں چہ اس کا وقار ایک خوددار انسان کا وقار ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ فراق صاحب کے عاشق میں کوئی وقار یا ذہانت ہے کہ نہیں، عسکری صاحب کا یہ قول بھی محل نظر ہے کہ میر کا عاشق اپنے معشوق سے محبت کا طالب نہیں، صرف انسانی برتاؤ کا طالب ہے، اور اس میں وہ وقار ہے جو خود دار انسانوں میں ہوتا ہے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ میر کا عاشق اپنے معشوق سے صرف افلاطونی محبت نہیں، بلکہ ہم بستری کا بھی طالب ہے۔ وہ ہم بستر ہوتا بھی ہے اور ہجر کے عالم میں ہم بستری کے ان لمحات کو یاد بھی کرتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ وہ انسان اس قدر ہے کہ اس کے لیے ذہانت لازمی چیز نہیں رہتی۔ لیکن اسی انسان پن کے باعث وہ معشوق سے ہاتا پائی، گالی گلوج اور تشنیع بھی کر لیتا ہے اور ہوس ناکی کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ مگر ان باتوں کی بنا پر اس کے کردار میں کوئی انفرادیت نہیں ثابت کی جا سکتی۔ یہ باتیں تو اٹھارویں صدی کی غزل کا خاصہ ہیں اور آبرو سے لے کر مصحفی تک عام ہیں۔ درد تک کے یہاں اس کی جھلک مل جاتی ہے۔ رہا سوال وقار کا، تو جس چیز کو عسکری صاحب غالب کے عاشق کی انانیت کہتے ہیں، اسی کو ہم آپ اس کا وقار بھی کہہ سکتے ہیں۔ علاوہ بریں، جس طرح کا وقار عسکری صاحب نے میر کے یہاں ڈھونڈا ہے، وہ قائم کے یہاں بھی موجود ہے۔ صرف ایک، اور وہ بھی بہت مشہور شعر سن لیجئے ؂

گو ہم سے تم ملے نہ تو ہم بھی نہ مر گئے

کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گذر گئے

عسکری صاحب کی نکتہ رس نگاہ نے یہ بات تو دریافت کر لی تھی کہ اردو شاعری میں عاشق کا ایک روایتی کردار ہے، اور میر و غالب کے یہاں اس روایتی کردار سے مختلف چیز ملتی ہے۔ اس چیز کو انھوں نے میر و غالب کی انفرادیت پرستی پر محمول کیا تھا، اور بجا محمول کیا تھا۔ لیکن اس نئے کردار کے خد و خال متعین کرنے میں انھوں نے کچھ جلدی فیصلہ کر لیا، شاید اس لیے کہ انھیں فراق صاحب کے یہاں ایک تیسری ہی طرح کی انفرادیت دکھانی تھی۔ فراق کے یہاں عاشق کی انفرادیت کا مختصر تجزیہ میں کہیں اور کر چکا ہوں۔ اوپر بھی میں نے اشارہ کیا ہے کہ میر سے فراق صاحب نے کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا۔ میر کے عاشق کی انفرادیت دراصل یہ ہے کہ وہ روایتی عاشق کی تمام صفات رکھتا ہے، لیکن ہم اس سے ایک انسان کی طرح ملتے ہیں، کسی لفظی رسومیات (verbal convention)کے طور پر نہیں۔ یہ انسان ہمیں اپنی ہی دنیا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے، جب کہ رسومیاتی عاشق کے بارے میں ہم جانتے ہیں وہ بالکل خیالی اور مثالی ہوتا ہے۔

جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں، ہماری دنیا کا یہ انسان محمد تقی میر نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی افسانے (fiction) کا کردار ہے کہ اس کے افعال کے عوامل(motivati ٭٭ز ادپر مخص۔۔۔ہاں ، انتہا پسندons)تلاش کئے جائیں، اس کی نفسیات کا تجزیہ کرنے میں ہندی کی چندی کی جائے، اس کے تضادات سے بحث کی جائے، اس کی خوبیاں واضح کی جائیں، اس کی خرابیوں پر منھ بنایا جائے یعنی فکشن کے کردار کو ہم (اور فکشن نگار خود) اسی طرح برتتے ہیں جس طرح ہم حقیقی دنیا کے کسی شخص کو برتتے ہیں۔ فکشن کے کردار سے ہم اختلاف کرتے ہیں، اتفاق کرتے ہیں، نفرت کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں، وغیرہ۔ اور سب سے بڑی بات وہ جو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم اس کے عوامل افعال تلاش کرتے ہیں۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے ویسا کیوں نہ کیا؟ فکشن (بشمول ڈراما) کے کردار کی تنقید کا بنیادی سوال یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ میر کے عاشق سے ہم اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ ان معاملات سے بالا ترا ور ماورا ہے۔ یعنی اس کی رسومیاتی حیثیت مسلم ہے، اور اس کے باوجود ہم اس کو عام انسان کی سطح پر دیکھتے ہیں اور اصلی انسان کی طرح اس کا تصور کرتے ہیں۔ میر کی یہی زمینی صفت ان کے اسلوب سے تجریدیت کم کر دیتی ہے اور ان کی شاعری کو واقعے کی سطح پر لے آتی ہے۔ یہی زمینی صفت ان کے استعاروں اور پیکروں میں ظاہر ہوتی ہے جو محسوسات سے مملو ہیں۔ یہی زمینی صفت میر کے عشق میں جنسیت اور ان کی جنسیت میں امرد پرستی بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ یہی زمینی صفت انھیں معشوق سے پھکڑ پن کرنے، اپنے اوپر اپنا مذاق اڑانے، معشوق پر طنز کرنے کا انداز سکھاتی ہے۔ اسی صفت کی بنا پر میر کی زبان میں فارسی اور پراکرت کا غیر معمولی توازن نظر آتا ہے۔ اسی صفت کی بنا پر وہ دنیا اور دنیا کے معاملات میں اس قدر جذب ہیں کہ ان کا صوفیا نہ میلان بھی اور کائنات کی عظیم الشان وسعت کا احساس بھی، انھیں گوشت پوست کے احساسات سے بے خبر نہیں رکھتا۔ اسی کی بنا پر وہ کائنات کے اسرار سے واقف ہونے کے باوجود ان سے خوف زدہ نہیں ہوتے، کیوں کہ روز مرہ کی دنیا سے ان کا رشتہ مضبوط ہے۔ وہ اس دنیا کے ہیں، لیکن اس میں قید نہیں ہیں۔ اسی مضبوطی کی بنا پر وہ انسانی رشتوں کے تعلق سے ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں۔

میر کے عاشق کے کردار میں ان کی یہ تمام خصوصیات، جن کا اوپر ذکر ہوا، پوری طرح بروئے کار آتی ہیں۔ میر کے پورے کلام سے ایک کردار ابھرتا ہے جس نے دنیا کے تمام سچ جھوٹ، دکھ سکھ، مسرت اور غم تجزیہ اور انکشاف کو پوری طرح برتا ہے، پوری طرح برداشت کیا ہے۔ اس کردار کی شخصیت کسی چیز کے سامنے پست نہیں ہوتی۔ اس نے اتنا کچھ دیکھا، برتا اور سہا ہے کہ اس کی روح میں ہر شے نظر آتی ہے، نظر آئی ہوئی سی کا عالم نظر آتا ہے۔ اسے کسی زوال پر، کسی عروج پر، کسی ہجر پر، کسی وصال پر، کسی موت پر کسی زندگی پر، حیرت نہیں ہوتی۔ یہ شخصیت ہر طرح مکمل ہے، اور اس کا پر تو اس عاشق کے کردار پر پڑتا ہے جو میر کے کلام میں جلوہ گر ہے۔ میر پر یاس پرستی یا سراسر محزونی اور دل شکستگی کا حکم لگانے والے میر کے ساتھ انصاف نہیں کرتے، بلکہ ان کی شخصیت اور کلام کی عظمت کو محدود کر دیتے ہیں۔ جس شخص کے یہاں ہر چیز اپنی پوری قوت اور اپنے پورے پھیلاؤ کے ساتھ موجود ہو، اس کو کسی ایک طرف بند کر دینا خود اس کے ساتھ، ہی نہیں، پوری اردو شاعری کے ساتھ زیادتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میر کا عاشق، اور اس کی پوری شخصیت بھی ان کی زبان ہی کی طرح بے تکلف ، چونچال، طباع، پیچیدہ اور متنوع ہے۔

میر کے برعکس، غالب کے عاشق کی انفرادیت اس کی رسومیاتی شدت میں ہے۔ میر اور غالب ہمارے دو شاعر ہیں جن کے یہاں عاشق کا کردار، غزل کے رسومیاتی عاشق سے مختلف ہے اور اپنی شخصیت آپ رکھتا ہے۔ دونوں نے اس انفرادیت پرست کردار کو خلق کرنے کے لیے اپنے طریقوں سے کام لیا۔ غالب اور میر کا افتراق جتنا اس میدان میں ہے، اتنا اور کہیں نہیں ہے۔ میر نے رسومیات کی پابندی کرتے ہوئے بھی اپنے عاشق کو انسان کی سطح پر پہنچا دیا۔ غالب نے رسومیات کو اس شدت سے برتا کہ ان کے یہاں عاشق کی ہر صفت اپنی مثال آپ ہو گئی۔ اپنے استعاراتی اور محاکاتی تخیل اور اس تخیل کے زمین سے اوپر اٹھنے اور تجرید پر مائل ہونے کی بنا پر غالب نے عاشق کے خواص ئدtivatiiعادات، قول و فعل کے ہر رسومیاتی (یعنی خیالی اور مثالی) پہلو کو اس کی منتہائے کمال تک پہنچا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رشک ہو یا خود داری، وفاداری ہو یا نرگسیت، وحشت و آوارگی ہو یا اندر ہی اندر جلنے اور ٹوٹنے کا رنگ، جنون اور سودا ہو یا طنز و خود آگاہی، شکست جسم ہو یا نقصان جاں، شوق شہادت ہو یا ذوق و صل، وہ تمام چیزیں جن کا حالی نے بڑے طنز یہ لطف سے ذکر کیا ہے، غالب کے یہاں پوری، بلکہ مثالی شدت سے ملتی ہیں۔

مومن کے یہاں بھی بڑی حد تک ان چیزوں کی کارفرمائی ہے۔ لیکن مومن کا دماغ چھوٹا ہے، وہ استعارے تک نہیں پہنچ پاتے۔ ان کے یہاں کثیرالمعنویت کا پتہ نہیں، اس لیے وہ ایک تجربہ کے ذریعے کئی اور تجربے نہیں بیان کر سکتے۔ وہ بات کو گھما کر، پھرا کر، بہت بنا کر کہتے ہیں، لیکن معنی آفرینی اور استعارے کی کمی کے باعث ان کی بات چھوٹی اور ہلکی رہ جاتی ہے۔ غالب کا معاملہ ہی اور ہے۔ ان کی استعاراتی جہت اتنی وسیع ہے کہ وہ عاشق کے تمام معاملات کو پیچ در پیچ وسعت دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے یہاں عاشق، مومن کے مقابلے میں بہت زیادہ منفرد اور جاندار نظر آتا ہے۔ لہٰذا میزان کے ایک سرے پر میر ہیں، جو عاشق کو انسان بنا کر پیش کرتے ہیں، اور دوسری طرف غالب ہیں جو عاشق کو آئیڈیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ غالب گرمی اندیشہ کی بات کرتے ہیں اور میر اپنے شعر کو زلف سا پیچ دار بتاتے ہیں۔ دونوں کی اساس استعارے پر ہے، لیکن غالب کا استعارہ تجریدی ہے اور میر کا استعارہ مرئی۔

اس بات کی وضاحت چنداں ضروری نہیں کہ مثالی تنظیم و ترتیب، یعنی کسی چیز کو اس طرح اور اس حد تک بڑھانا کہ وہ مثالی ہو جائے، تجرید کے بغیر ممکن نہیں۔ ارسطو نے اسی لیے کہا تھا کہ اگر کوئی چیز بہت زیادہ بڑی ہو جائے تو اس کو دیکھنا ممکن نہ ہو گا۔ تجرید کے بہت سے تفاعل ہیں، اور ان میں سے ایک اہم تفاعل استعارہ بھی ہے۔ لہٰذا کوئی تعجب نہیں کہ غالب کے یہاں استعارہ اور تجرید نے مل کر عاشق کا مثالی کردار تعمیر کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار اس مثالی کردار، اور مثالی ہونے کی بنا پر اس کے فقیہ المثال (unique) ہونے کو ظاہر کرتے ہیں ؂

غالب مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو

جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل

 

باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں

ہیں چراغان شبستان دل پروانہ ہم

زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن

غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں

 

حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے

جادۂ راہ وفا جز دم شمشیر نہیں

 

ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے

میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

 

خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم

دل میں چھری چبھو مژہ گر خوں فشاں نہیں

 

گنجائش عداوت اغیار اک طرف

یاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں

 

بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

 

کیجئے بیاں سرور تب غم کہاں تلک

ہر مو مرے بدن پہ زبان سپاس ہے

 

سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالئے

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے

مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے

جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

 

سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسد

پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

 

موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال

ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

 

بندگی میں بھی وہ آزادۂ و خود بیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر دانہ ہوا

 

سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے

پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

 

دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا

 

لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر

میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

 

برنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بے تابی

ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

ظاہر ہے کہ اشعار کی کمی نہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جن اشعار میں مرئی پیکر ہیں بھی، وہ غیر مرئی باتوں کی وضاحت کے لیے ہیں۔ پورے کلام پر اسرار کی فضا محیط ہے، ایک نیم روشن دھند ہے جس کو دیکھ کر جھر جھری سی آ جاتی ہے۔ صرف تین شعر ایسے ہیں (بندگی میں بھی، سو بار بند عشق، اور دل سے مٹنا) جن کے معاملات پر روز مرہ کی دنیا کا دھوکا ہو سکتا ہے۔ اور ان میں ایک شعر ایسا ہے، جس میں پوری دنیا ایک انگشت حنائی میں سمٹ آئی ہے۔ یہاں ہر چیز تصور کی ہوئی سی ہے، نظر آئی ہوئی سی نہیں۔ یہاں وہ مبالغہ نہیں ہے، جو ہم آپ استعمال کرتے ہیں، یہاں ہر چیز کو نچوڑ کر اس کے جوہر کو تمام کرۂ ارض پر پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ وہ عالم ہے جس میں بے چارگی بھی بادشاہ وقت کا دبدبہ رکھتی ہے۔ یہاں بقول میر ’’تجرید کا فراغ‘‘ ہے، جس کی بنا پر آفتاب اپنے سائے سے بھی بھاگتا ہے۔

غالب کے علی الرغم میر دنیاوی رشتوں کے شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنے عاشق کو دنیا میں پیش کرنے کے لیے اور اس کی انفرادیت ثابت کرنے کے لیے اس کے بارے میں بہت سی باتیں خود اس کی زبان سے اور دوسروں کی زبان سے کہلائی ہیں۔ آپسی رشتوں کی یہ صورتیں حسب ذیل ہیں:

عاشق اپنے عادات و خواص و کیفیات کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتا ہے، گویا وہ معشوق سے گفتگو کر رہا ہو، یا معشوق کو موجود فرض کر رہا ہو۔ یہ معاملہ بندی نہیں ہے، بلکہ اس میں اور معاملہ بندی میں دو بہت بڑے فرق ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ معاملہ بندی میں خود عاشق کے حالات و کیفیات و عادات کا بیان نہیں ہوتا، بلکہ معشوق کی طرف سے کہی یا کی ہوئی بات کا حوالہ ہوتا ہے۔ معشوق کو یہاں بھی موجود فرض کر سکتے ہیں، لیکن بات معشوق کے قول فعل کی ہوتی ہے، تحسین کا رنگ ہوتا ہے اور وہ کسی مخصوص صورت حال کے حوالے سے ہوتا ہے۔ میر نے جو انداز اختیار کیا ہے، اس میں عاشق اپنے قول فعل سے معشوق کو اپنے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ اس میں شکایت یا تحسین کا رنگ بہت کم ہوتا ہے، اور اگر ہوتا بھی ہے تو کسی مخصوص صورت حال کے حوالے سے نہیں، بلکہ کسی عام صورت حال کے حوالے سے مثال کے طور پر، معاملہ بندی کے چند اشعار حسب ذیل ہیں ؂

مومن: الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ

بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ

 

مومن: یارب وصال یار میں کیوں کر ہو زندگی

نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ

 

مومن: کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ

ہر چند وصل غیر کا انکار ہے غلط

 

مومن: کس نے اور کو دیکھا کس کی آنکھ جھپکی ہے

دیکھنا ادھر آؤ پھر نظر ملا دیکھیں

 

مصحفی: کچھ ہماری بھی تمھیں فکر ہے اب یا کہ نہیں

جوں ہی یہ بات کہی اس سے تو بولا کہ نہیں

 

مصحفی: میں اور کسی بات کا شاکی نہیں تجھ سے

یہ وقت کے اوپر ترا انکار غضب ہے

 

غالب: کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی

بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

 

داغ: کیا اضطراب شوق نے مجھ کو خجل کیا

وہ پوچھتے ہیں کہئے ارادے کہاں کے ہیں

ظاہر ہے کہ تمام غزل گویوں کی طرح میر نے بھی معاملہ بندی کے اشعار کہے ہیں۔ معاملہ بندی میں کمی (یا اس میں تنگ دامانی) یہ ہے کہ وہ ہمیں عاشق یا معشوق کی شخصیت کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں بتاتی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ عشق کی واردات مبدل بہ حقیقت (actualize) ہو جاتی ہیں۔ میر کے یہاں سے معاملہ بندی کے چند شعر ملاحظہ ہوں ۔ دیوان اول کی ایک غزل میں قطعہ ہے ؂

 

کل تھی شب وصل اک ادا پر

اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات

جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ

پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات

کرنے لگا پشت چشم نازک

سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات

تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا

ہر چند کہ تب تھی ایک پہر رات

پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا

اب ہووے گی میر کس قدر رات

کچھ تو قطعہ بندی کی وجہ سے، اور کچھ میر کی ’’پیچ داری‘‘ کی بنا پر یہ اشعار معاملہ بندی کی حد سے کچھ آگے نکل گئے ہیں۔ ورنہ اسی مضمون کو مرزا علی لطف نے ایک ہی شعر میں خوب باندھا ہے ؂

یہ بھی ہے نئی چھیڑ کہ اٹھ وصل میں سو بار

پوچھے ہے کہ کتنی رہی شب کچھ نہیں معلوم

معاملہ بندی کو غزل کے اس انداز سے بھی بالکل الگ رکھنا چاہئے جس میں شاعر بظاہر تو معشوق کو مخاطب کرتا ہے، لیکن دراصل وہ اپنے آپ سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً غالب ؂

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہونا

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

یا پھر ایسے اشعار ہیں جن میں بظاہر معشوق سے خطاب ہے، لیکن خود کلامی کا لہجہ نمایاں ہے۔ مثلاً غالب ؂

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ

ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں

نہیں دیکھا شناور جوے خوں میں تیرے تو سن کو

میر کے جس انداز پر یہاں گفتگو مقصود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔ اس میں انکشاف ذات یا کم سے کم براہ راست خود اکتشافی (self-revelation)کا رنگ ہے۔ اور معشوق کو موجود فرض کرتا ہے۔ یعنی وہ معشوق کو اپنی صورت حال سے مطلع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں معاملہ رسومیاتی حد بندیوں سے نکل جاتا ہے اور انسانی تعلق کی سطح براہ راست قائم ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایسے اشعار میں اظہار عشق یا خواہش یا تمنا کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ بات، کہ عاشق اپنے معشوق کو اپنی صورت حال سے مطلع کر رہا ہے، خود ہی اظہار عشق یا اظہار خواہش یا اظہار تمنا (یا ان سب) کا حکم رکھتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کے اشعار میں وہ شخص اپنا اظہار حال کر رہا ہے، وہ مرکزی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

دیوان چہارم: لطف و مہر و خشم و غضب ہم ہر صورت میں راضی ہیں

حق میں ہمارے کر گذرو بھی جو کچھ جانو بہتر تم

 

دیوان چہارم: چپ ہیں کچھ جو نہیں کہتے ہم کار عشق کے حیراں ہیں

سوچو حال ہمارا ٹک تو بات کی تہ کو پاؤ تم

 

دیوان اول: رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے

ایک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم

 

دیوان چہارم: عہد کئے جاؤں ہوں اب کی آخر مجھ کو غیرت ہے

تو بھی منانے آوے گا تو ساتھ نہ تیرے جاؤں گا

 

دیوان اول: ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو

اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

 

دیوان اول ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل

مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر

 

دیوان دوم: اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر

لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر

 

دیوان اول: دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے

پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر

 

دیوان دوم: آج ہمارے گھر آیا ہے تو کیا ہے یاں جو نثار کریں

الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

 

دیوان سوم: وجہ بیگانگی نہیں معلوم

تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

 

اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو

یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں

 

دیوان اول: ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو

شعور چاہئے ہے امتیاز کرنے کو

 

دیوان دوم: اتنا کہا نہ ہم سے تم نے کبھو کہ آؤ

کا ہے یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جاؤ

 

دیوان اول: درویش ہیں ہم آخر دو اک نگہ کی فرصت

گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے

 

دیوان اول: چاہوں تو بھر کے کولی اٹھا لوں ابھی تمھیں

کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو

 

دیوان چہارم: در پر سے اب کے جاؤں گا تو جاؤں گا

یاں پھر اگر آؤں گا سید نہ کہاؤں گا

 

دیوان چہارم: عشق میں کھوئے جاؤ گے تو بات کی تہ بھی پاؤ گے

قدر ہماری کچھ جانو گے دل کو کہیں جو لگاؤ گے

 

دیوان پنجم: برسوں میں پہچان ہوئی تھی سو تم صورت بھول گئے

یہ بھی شرارت یاد رہے گی ہم کو نہ جانا جانے سے

 

دیوان دوم: یہ طشت و تیغ ہے اب یہ میں ہوں اور یہ تو

ہے ساتھ میرے ظالم دعویٰ تجھے اگر کچھ

اس طرح کے اشعار کے ساتھ ان شعروں کو بھی رکھا جائے جن میں دونوں امکانات ہیں، یعنی یہ کہ عاشق کا مخاطب معشوق ہے، یا کوئی بھی نہیں ہے، تو ایسے اشعار کی تعداد سیکڑوں سے زیادہ ہو گی جن میں میر کے عاشق نے اپنی شخصیت کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کے اشعار میں بھی معاملہ غالب سے مختلف ہے، کیوں کہ غالب کے یہاں ذہنی وقوعے یعنی mental event کا اظہار ہے، جب کہ میر کے یہاں موجود یعنی فوری صورت حال کا۔ مثلاً غالب کے دو شعر میں نے جو اوپر نقل کئے ہیں (ہے مجھ کو تجھ سے اور ابھی ہم قتل گہ) دونوں میں ان ذہنی اعمال کا ذکر ہے جن کا براہ راست تعلق فوری صورت حال سے نہیں ہے، بلکہ وہ عام صورت حالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے برعکس، میر کے مندرجہ ذیل اشعار میں فوری صورت حال کا ذکر ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان اشعار کے ذریعہ بھی عاشق کی انفرادی حیثیت ظاہر اور قائم ہوتی ہے ؂

دیوان اول: کہتے نہ تھے کہ جان سے جاتے رہیں گے ہم

اچھا نہیں ہے آ نہ ہمیں امتحان کر

 

دیوان اول: تا کشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق

تربت پہ میری خون سے میرے نشان کر

 

دیوان چہارم: تجھ کو ہے سوگند خدا کی میری اور نگاہ نہ کر

چشم سیاہ ملاکر یوں ہی مجھ کو خانہ سیاہ نہ کر

 

دیوان سوم: جس چمن زار کا تو ہے گل تر

بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں

 

دیوان دوم: زردی رخ رونا ہر دم کا شاہد دو جب ایسے ہوں

چاہت کا انصاف کرو تم کیوں کر ہم انکار کریں

 

دیوان چہارم: ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو

یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں

 

دیوان اول: چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے پاس

یہ ہمارا نشان ہے پیارے

 

دیوان اول: دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم

یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

 

دیوان پنجم: دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھے طریق غزالوں کا

وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا

 

دیوان چہارم: خانہ آبادی ہمیں بھی دل کی یوں ہے آرزو

جیسے جلوے سے ترے گھر آرسی کا بھر گیا

مندرجہ بالا دونوں طرح کے اشعار میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے لہجے میں تمکنت، خود اعتمادی، اپنی قدر و قیمت کا پورا احساس، اور کہیں کہیں المیہ ہیرو کا وقار ہے۔کہیں کہیں مزاح تو کہیں عام آدمی کی سی تلخی یا چڑچڑا پن ہے۔ کہیں چالاکی اور فریب کاری کا بھی شائبہ ہے۔ اگر وہ مسکین روتا بسورتا میر، یا وہ زار زار جوں ابر بہار روتا ہوا میر جو ہمارے نقادوں کے آئینہ خانوں میں جلوہ گر ہے، ان اشعار میں نظر نہیں آتا تو میرا قصور نہیں۔ میر کا کلام میر کا سب سے بڑا گواہ ہے، اور میر کے نقاد اور نکتہ شناس اگر اس گواہی کے بدلے مفروضات پر مبنی گواہیوں کو تسلیم کریں تو یہ بھی میرا قصور نہیں۔

معشوق سے براہ راست گفتگو اور اظہار حال والے اشعار کی ضمن میں ایسے اشعار بھی آتے ہیں، جن میں عاشق نے معشوق کو برا بھلا کہا ہے۔ جلی کٹی سنائی ہے یا اس کے کردار پر حملہ کیا ہے۔ ان اشعار میں وہ تہ داری اور پیچیدگی بہت کم ہے، جس سے مندرجہ بالا اشعار میں سے اکثر شعر متصف ہیں۔ لیکن جلی کٹی سنانے والے ان اشعار میں واسوخت کا بھی رنگ نہیں ہے، بلکہ وہی روز مرہ زندگی کے حوالے سے بات کہنے کا انداز ہے، جو اس میدان میں میر کا خاصہ ہے۔ اس طرح کے اشعار انیسویں صدی کے شعرا میں تقریباً مفقود ہیں۔ اٹھارویں صدی میں تھوڑا بہت ان کا چلن ضرور ملتا ہے۔ میر کے یہاں یہ لہجہ دوسرے شعرا کے مقابلے میں زیادہ عام اور زیادہ متنوع ڈھنگ سے نظر آتا ہے۔ دیوان سوم اور چہارم سے کچھ اشعار بغیر کسی خاص تلاش کے نقل کرتا ہوں ؂

دیوان سوم: سنا جاتا ہے اے گھتیے ترے مجلس نشینوں سے

کہ تو دارو پئے ہے رات کو مل کر کمینوں سے

 

دیوان چہارم: اب تو جوانی کا یہ نشہ ہی بے خود تجھ کو رکھے گا

ہوش گیا پھر آوے گا تو دیر تلک پچھتاوے گا

 

دیوان چہارم: خلاف وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تو وعدہ وفا کرو اب

ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب

 

دیوان چہارم: جو وجہ کوئی ہو تو کہنے میں بھی کچھ آوے

باتیں کرو ہو بگڑی منھ کو بنا بنا کر

 

دیوان چہارم: کیا رکھیں یہ تم سے توقع خاک سے آ کے اٹھاؤ گے

راہ میں دیکھو افتادہ تو اور لگاؤ ٹھوکر تم

 

دیوان چہارم: غریبوں کی تو پگڑی جامے تک لے ہے اتروا تو

تجھے اے سیم برلے بر میں جو زر دار عاشق ہو

 

دیوان سوم: عاقبت تجھ کو لباس راہ راہ

لے گیا ہے راہ سے اے تنگ پوش

 

دیوان چہارم: غیر کی ہمراہی کی عزت جی مارے ہے عاشق کا

پاس کبھو جو آتے ہو تو ساتھ اک تحفہ لاتے ہو

 

دیوان سوم: کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں

مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں

دوسری صورت جس میں معنوی پیچیدگی کم، لیکن ڈرامائی دلچسپی وافر ہے، یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص، یا کئی لوگ مل کر، معشوق کو میر کی حالت سے مطلع کرتے ہیں، اس کو رائے مشورہ دیتے ہیں، اس کو سمجھاتے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں، یہ بات واضح نہیں کی جاتی، لیکن لہجے سے لگتا ہے کہ یہ معشوق کے قریب والے یا ہم راز نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عاشق اور معشوق کی باتیں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ لوگ معشوق کے پاس جا کر میر کے تعلق سے گفتگو کرنا عوامی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے اشعار کی کثرت کے باعث میر کے عاشق کی دنیا نہ صرف بہت آباد اور مصروف معلوم ہوتی ہے، بلکہ اس کا عشق بھی روز مرہ کی دنیا کے لیے سرد کار(concern)اور تردد کی چیز معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ تشویش و تردد، یہ لگاؤ، خالص انسانی ہے۔ اس میں اخلاقی برتری یا ناصحانہ اصلاح کا کوئی شائبہ نہیں۔ جو لوگ معشوق سے گفتگو کرنے جاتے ہیں، وہ سب اس معاملے کو بالکل روز مرہ کے معاملات کی سطح پر برتتے ہیں۔ کوئی تصنع کوئی تیزی، کوئی جذباتی (sentimental) التجا یعنی جذبے کے تقاضے سے زیادہ الفاظ کا صرفہ، ایسی کوئی بات نہیں ؂

دیوان سوم: تم کبھو میر کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمھیں

اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں

 

دیوان سوم: گیا اس شہر ہی سے میر آخر

تمھاری طرز بد سے کچھ نہ تھا خوش

 

دیوان سوم: کیوں کر نہ ہو تم میر کے آزار کے درپے

یہ جرم ہے اس کا کہ تمھیں پیار کرے ہے

 

دیوان اول: ٹک میر جگر سوختہ کی جلدی خبر لے

کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا

 

دیوان دوم: حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میر میں تھی

گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آ نہ رہا

 

دیوان چہارم: رحم کیا کر لطف کیا کر پوچھ لیا کر آخر ہے

میر اپنا غم خوار اپنا پھر زار اپنا بیمار اپنا

 

دیوان دوم: صرفہ آزار میر میں نہ کرو

خستہ اپنا ہے زار ہے اپنا

 

دیوان دوم: گھر کے آگے سے ترے نعش گئی عاشق کی

اپنے دروازے تلک تو بھی تو آیا ہوتا

 

دیوان دوم: کہہ وہ شکستہ پا ہمہ حسرت نہ کیوں کے جائے

جو ایک دن نہ تیری گلی میں چلا پھرا

 

دیوان سوم: تم کہتے ہو بوسہ طلب تھے شاید شوخی کرتے ہوں

میر تو چپ تصویر سے تھے یہ بات انھوں سے عجب سی ہے

 

دیوان سوم: تمھارے پاؤں گھر جانے کو عاشق کے نہیں اٹھتے

تم آؤ تو تمھیں آنکھوں پہ سر پر اپنے جا دیوے

 

دیوان دوم: تھی جب تلک جوانی رنج و تعب اٹھائے

اب کیا ہے میر جی میں ترک ستم گری کر

اس طرح کے اشعار عاشق و معشوق کے مابین ایک نیا ربط، بلکہ نئی مساوات قائم کر دیتے ہیں۔ اکثر اشعار میں افسانے کی سی کیفیت ہے، اس معنی میں کہ اشعار میں جو بات بیان ہو رہی ہے، اس کے پہلے بھی کچھ ہو چکا ہے۔ لہٰذا ایسے اشعار کی وجہ سے میر کے عاشق کی دنیا بہت بھری بھری اور مصروف معلوم ہوتی ہے۔ لیکن غزل کی عام دنیا میں معشوق براہ راست عاشق سے بہت کم ہم کلام ہوتا ہے۔ معشوق کی گفتگو اگر غزل میں بیان بھی ہوتی ہے تو ہمیشہ کسی دوسرے کے الفاظ میں۔ زیادہ تر عاشق ہی معشوق کی گفتگو بیان کرتا ہے۔ معاملہ بندی کے ذیل میں جو چند شعر میں نے نقل کئے، ان میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے۔ لیکن میر نے عام طریقے کے خلاف جا کر معشوق اور عاشق کی براہ راست گفتگو بھی بیان کی ہے۔ معشوق کا لہجہ یا الفاظ یا دونوں ، عام طور پر استہزائیہ اور تمسخرانہ ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ ایک قطعہ میں نے اوپر نقل کیا ہے (اب ہووے گی میر کس قدر رات)، اس میں معشوق کا لہجہ ناز سے بھرپور ہے، لیکن تمسخرانہ یا طنزیہ نہیں ہے۔ اب چند شعرا یسے نقل کرتا ہوں جن میں معشوق براہ راست مخاطب ہے (یا اس کی گفتگو براہ راست تقریر (direct speech) کے انداز میں نقل ہوئی ہے۔) ان اشعار میں معشوق طنز واستہزا کا بادشاہ نظر آتا ہے ؂

دیوان دوم: میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو اس کے لب کے

ہر دم صدا یہی تھی دے گذرو ٹال کیا ہے

پر چپ ہی لگ گئی جب ان نے کہا کہ کوئی

پوچھو تو شاہ جی سے ان کا سوال کیا ہے

 

دیوان سوم: کہنے لگا کہ شب کو میرے تئیں نشہ تھا

مستانہ میر کو میں کیا جان کر کے مارا

 

دیوان دوم: یہ چھیڑ دیکھ ہنس کے رخ زرد پر مرے

کہتا ہے میر رنگ تو اب کچھ نکھر چلا

 

دیوان دوم: کا ہے کو میں نے میر کو چھیڑا کہ ان نے آج

یہ درد دل کہا کہ مجھے درد سر رہا

اس آخری شعر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے اس کا متکلم معشوق نہ ہو، بلکہ کوئی دوست یا شناسا ہو۔ اس کے دو جواب ممکن ہیں۔ اول تو یہ کہ اس شعر کے دو ہی متکلم ہو سکتے ہیں، یا کوئی دوست شناسا، یا خود معشوق۔ شعر میں براہ راست اشارہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں امکان برابر کے قوی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ درد کا ذکر، اور میر کی طرف سے درد دل کا پر  دومے تک لے ہے اترازور و شور بیان اس گمان کو قوی تر کر دیتا ہے کہ متکلم معشوق ہی ہے۔

دیوان سوم: ہوا میں میر جو اس بت سے سائل بوسۂ لب کا

لگا کہنے ظرافت سے کہ شہ صاحب خدا دیوے

 

دیوان سوم: مضطرب ہو جو ہمرہی کی میر

پھر کے بولا کہ بس کہیں رہ بھی

 

دیوان پنجم: کہنے لگا کہ میر تمھیں بیچوں گا کہیں

تم دیکھیو نہ کہیو غلام اس کے ہم نہیں

 

دیوان چہارم: شوخی تو دیکھو آپ ہی کہا آؤ بیٹھو میر

پوچھا کہاں تو بولے کہ میری زبان میر

ان اشعار میں معشوق کا لہجہ استہزائیہ ہے، کہیں کہیں اس میں لگاوٹ بھی ہے۔ لیکن عاشق بھی کوئی مجہول، پس ماندہ شخصیت نہیں رکھتا۔ اکثر تو وہ اپنے انداز گفتگو یا الفاظ کے انتخاب کے ذریعہ یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ اس نے بھی معشوق کے ساتھ شوخی برتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عاشق کے لیے معشوق کی ادائے ناز معشوق کے واقعی اقوال و افعال سے بھی زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا میر کی ’’پیچ داری‘‘ یہاں بھی موجود ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص، یا کچھ لوگ (مثالاً کوئی دوست شناسا، یا عام لوگ) عاشق کے حالات، اس کی زندگی اور موت، اس کی شکل و شباہت وغیرہ پر تبصرے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اس تبصرے میں رائے مشورہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کی اس کثرت کے باوجود پنچائتی کیفیت نہیں پیدا ہوتی، کیونکہ عاشق اپنی سی کرتا ہے، یا کر گذرتا ہے ؂

دیوان سوم: جہاں میں میر سے کا ہے کو ہوتے ہیں پیدا

سنایہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا

 

دیوان اول: مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا

القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا

 

دیوان اول: آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میر سے شب

واں جا کے صبح دیکھا مشت غبار پایا

 

دیوان اول: گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر

میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا

 

دیوان اول: کہیں ہیں میر کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں

کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہو گا

 

دیوان دوم: کل تک تو ہم وے ہنستے چلے آئے تھے یوں ہی

مرنا بھی میر جی کا تماشا سا ہو گیا

 

دیوان سوم: خراب احوال کچھ بکتا پھرے ہے دیر و کعبے میں

سخن کیا معتبر ہے میر سے واہی تبا ہی کا

 

دیوان سوم: تسبیحیں ٹوٹیں فرقے مصلے پھٹے جلے

کیا جانے خانقاہ میں کیا میر کہہ گئے

 

دیوان پنجم: آہ سے تھے رخنے چھاتی میں پھیلنا ان کا یہ سہل نہ تھا

دو دو ہاتھ تڑپ کر دل نے سینۂ عاشق چاک کیا

 

دیوان پنجم: نالۂ میر سواد میں ہم تک دو شیں شب سے نہیں آیا

شاید شہر سے ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا

 

دیوان پنجم: دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور

ہمرہ نعش عاشق کی اس ظالم کو بھی آنا تھا

 

دیوان پنجم: ایک پریشاں طرفہ جماعت دیکھی چاہنے والوں کی

جینے کے خواہان نہیں ہیں مرنے کو تیار ہیں سب

 

دیوان پنجم: کیا کیا خواہش بے کس بے بس مشتاق اس سے رکھتے ہیں

لیکن دیکھ کے رہ جاتے ہیں چپکے سے ناچار ہیں سب

 

دیوان ششم: جاتے ہیں اس کی جانب مانند تیر سیدھے

مثل کمان حلقہ قامت خمیدہ مردم

 

دیوان ششم: اے اصرار خوں ریزی پہ ہے ناچار ہیں اس میں

وگرنہ عجز تابی تو بہت سی میر کرتے ہیں

 

دیوان اول: میر صاحب رلا گئے سب کو

کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

 

دیوان اول: کہیں تو ہیں کہ عبث میر نے دیا جی کو

خدا ہی جانے کہ کیا جی میں اس کے آئی ہو

 

دیوان دوم: گفتگو اتنی پریشاں حال کی یہ درہمی

میر کچھ دل تنگ ہے ایسا نہ ہو سودا ہو میاں

 

دیوان دوم: تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میر کے

ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں

اس صورت حال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ، یا دوست آشنا، عاشق سے براہ راست گفتگو کرتے ہیں ؂

دیوان اول: میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے

جان ہے تو جہان ہے پیارے

 

دیوان اول: لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے ہو

ہے خیر میر صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

 

دیوان سوم: کیا تم کو پیارسے وہ اے میر منھ لگادے

پہلے ہی چومے تم تو کاٹو ہو گال اس کا

 

دیوان اول: چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے پھر تو میر

ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں

 

دیوان چہارم: چشمک چتون نیچی نگاہیں چاہ کی تیری مشعر ہیں

میر عبث مکرے ہے ہم سے آنکھ کہیں تو لگائی ہے

 

دیوان چہارم: چپکے سے کچھ آ جاتے ہو آنکھیں بھر بھر لاتے ہو

میر گذرتی کیا ہے دل پر کڑھا کرو ہو اکثر تم

 

دیوان چہارم: لگو ہو زور باراں رونے چلتے بات چاہت کی

کہیں ان روزوں تم بھی میر صاحب زار عاشق ہو

عاشق (اور اس کے حوالے سے معشوق) کی کردار سازی میں ان اشعار کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جن میں عاشق خود کلامی سے کام لیتا ہے، یا اپنے حالات کسی دوسرے شخص سے بیان کرتا ہے۔ چوں کہ اس طرح کے تمام اشعار میں گفتگو کا انداز اور روز مرہ کے واقعات کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے ان میں وہ مخصوص شاعرانہ واقعیت پیدا ہو جاتی ہے جسے رینسم (J.C. Ransome) شاعری کی افسانویت کا نام دیتا ہے۔ یعنی یہ بات ہم پر واضح رہتی ہے کہ ہم کسی اصلی شخص کی گفتگو نہیں سن رہے ہیں، لیکن جو کہا جا رہا ہے وہ اصلی دنیا سے مستعار ہے۔ دیوان چہارم کے چند شعر دیکھئے ؂

کیا ہم بیاں کسو سے کریں اپنے ہاں کی طرح

کی عشق نے خرابی سے اس خانداں کی طرح

 

چھپ لک کے بام در سے گلی کوچے میں سے میر

میں دیکھ لوں ہوں یار کو اک بار ہر طرح

 

کیسی کیسی خرابی کھینچی دشت و در میں سرمارا

خانہ خراب کہاں تک پھریے ایسا ہو گھر جاویں ہم

 

پاس ظاہر سے اسے تو دیکھنا دشوار ہے

جائیں گے مجلس میں تو ایدھر ادھر دیکھیں گے ہم

 

حیرت سے عاشقی کی پوچھا تھا دوستوں نے

کہہ سکتے کچھ تو کہتے شرما کے رہ گئے ہم

 

اس کی نہ پوچھ دوری میں ان نے پرسش حال ہماری نہ کی

ہم کو دیکھو مارے گئے ہیں آ کر پاس وفا سے ہم

 

کیا کیا عجز کریں ہیں لیکن پیش نہیں کچھ جاتا میر

سر رگڑے ہیں آنکھیں ملیں ہیں اس کے حنائی پاسے ہم

 

ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں

اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سرپر وہ دھمال نہیں

 

کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میر جگر کے لختوں سے

کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصال نہیں

 

عشق کی رہ میں پاؤں رکھا سو رہنے لگے کچھ رفتہ سے

آگے چل کر دیکھیں ہم اب گم ہوویں یا پیدا ہوں

 

کوئی طرف یاں ایسی نہیں جو خالی ہو وے اس سے میر

یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں

 

دل نہ ٹٹولیں کاش کہ اس کا سردی مہر تو ظاہر ہے

پاویں اس کو گرم مبادا یار ہمارے کینے میں

 

ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت

جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں

 

یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں

رسوا ہو کر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں

 

حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے

ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ

 

کیا کہیں ان نے جو پھیرا اپنے در پر سے ہمیں

مر گئے غیرت سے ہم بھی پر نہ اس کے گھر گئے

 

بے دل ہوئے بے دیں ہوئے بے دقر ہم ات گت ہوئے

بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے

 

معشوقوں کی گرمی بھی اے میر قیامت ہے

چھاتی میں گلے لگ کر ٹک آگ لگا دیں گے

اس طرح کے اشعار اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ بے تکلف ان سے ایک دیوان تیار ہو سکتا ہے۔ پھر ان میں ان اشعار کو بھی ملا لیجئے جن میں معشوق کا ذکر واحد غائب کے صیغے میں ہے، لیکن ایک شخص کی حیثیت سے ہے، علامت (یعنی معشوق کے تصور کی علامت) کے طور پر نہیں۔ معشوق کا ذکر معشوق کے تصور کی علامت کے طور پر غالب کے مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھئے ؂

ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم

آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں گو آئے

 

شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج

گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک

 

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں

ابھی دیکھا نہیں خوں میں شناور تیرے تو سن کو

 

جلوہ از بس کہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

 

اس کے بر خلاف، معشوق بطور ایک شخص کا اظہار غالب کے ان اشعار میں دیکھئے ؂

تھی وہ اک شخص کے تصور سے

اب وہ رعنائی خیال کہاں

 

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو

کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیوں کر ہو

 

منھ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا

 

کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا

تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے

یہ بات ظاہر ہے کہ معشوق کی شخصیت ان اشعار میں بھی کم و بیش پردۂ راز میں رہتی ہے۔ معشوق کو تصور کی سطح پر انگیز کیا گیا ہے۔ آخری شعر میں جہاں ایک جنسی معاملہ بیان ہوا ہے (اگر چہ عام شار حین نے اس شعر کو بھی غیر جنسی کہا ہے)معشوق خود موجود نہیں، صرف خود کلامی اور شاید wishful thinking ہے۔ غالب کا ذہن اس قدر تصورات اور تجریدی ہے کہ معشوق بحیثیت ایک شخص ان کے یہاں بہت کم ہے، اور جہاں ہے بھی، وہاں بھی تصوراتی پہلو حاوی نہیں تو نمایاں ضرور رہتا ہے۔ محمد حسن عسکری کو غالب سے شکایت تھی کہ وہ اپنی شخصیت کو پوری طرح ترک نہیں کرتے، بلکہ معشوق کے سامنے بھی اپنے آپ کو الگ شخصیت کا حامل ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا ان کے یہاں خود سپردگی کی کمی ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے یہاں خود سپردگی کم ہو، لیکن اس سے ان کی شاعرانہ عظمت نہ گھٹتی ہے،نہ بڑھتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تصوراتی اور تجریدی میلان کے حاوی ہونے کے باعث غالب کسی غیر شخص کو (چاہے وہ معشوق ہی کیوں نہ ہو) پوری طرح ظاہر اور بیان نہیں کر سکتے۔ میر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو ٹھوس، ارضی سطح پر برتتے ہیں۔ لہٰذا ان کے کردار تصوراتی سے زیادہ حقیقی،اور علامتی سے زیادہ افسانوی معلوم ہوتے ہیں۔ چناں چہ معشوق کے بارے میں واحد غائب کا صیغہ استعمال کرتے وقت بھی، یا خود کلامی کے دوران ان کا سارا تاثر کسی موجود شخص کا ہوتا ہے، کسی تصور یا علامت کا نہیں ؂

دیوان اول: نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں

سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا

 

دیوان اول: بارے کل ٹھیر گئے اس ظالم خوں خوار سے ہم

منصفی کیجئے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا

 

دیوان اول: خاک میں لوٹوں کہ لوہو میں نہاؤں میں میر

یار مستغنی ہے اس کو مری پروا کیا ہو

 

دیوان اول: جوں چشم بسملی نہ مندی آوے گی نظر

جو آنکھ میرے خونی کے چہرے پہ باز ہو

اس شعر میں پیکر اس قدر غیر معمولی اور واقعیت سے بھر پور ہونے کے باوجود شدت اور مبالغہ سے اس طرح بھر پور ہے کہ شیکسپیئر کے بہترین پیکروں کی یاد آتی ہے۔ معشوق کو خونی کہا ہے۔ پھر کہا ہے کہ جو آنکھ اس کے چہرے پر کھل گئی یعنی جس آنکھ نے اس کو دیکھ لیا، پھر وہ ہمیشہ ٹکٹکی لگائے اس کے چہرے کو تکتی رہے گی جس طرح کہ ذبح کئے ہوئے جانور کی آنکھ کھلی رہ جاتی ہے اور کبھی بند نہیں ہوتی۔ یعنی معشوق کے حسن اور اس حسن کے قتال ہونے، دونوں باتوں کو بہ یک وقت ’’چشم بسملی‘‘ کے پیکر کے ذریعہ ظاہر کر دیا۔ واقعاتی اشارے بالکل سامنے کے ہیں (معشوق کا حد درجہ حسین ہوتا، اس کا ظالم ہونا، اس کا خونی ہونا، لوگوں کا اسے دیکھنا تو دیکھتے ہی رہ جانا) لیکن استعارہ، مبالغہ اور تشدید سے بھرپور ہے۔ اس کے باوجود شعر کی فضا روز مرہ دنیا کی سی ہے، کیوں کہ ’’چشم بسملی‘‘ کے بعد اس میں دوسرا شاہ کار لفظ ’’میرے‘‘ ہے۔ یعنی وہ شخص جو میرا معشوق (خونی، معشوق) ہے، یا وہ جس نے میرا خون کیا۔ دونوں صورتوں میں ایک گھریلو سی اپنائیت ہے، جو معشوق کی شخصیت کو روز مرہ زندگی کے معاملات سے باہر نہیں جانے دیتی۔ اب دیکھئے غالب نے اسی پیکر کو کس درجہ تصوراتی اور عام دنیا سے کس قدر دور کر کے پیش کیا ہے ؂

اپنے کو دیکھتا نہیں ذوق ستم تو دیکھ

آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو

معشوق کو ذوق ستم اس قدر ہے کہ جب تک کسی مقتول کی کھلی ہوئی ٹکٹکی لگا کر تکتی ہوئی آنکھ کا آئینہ فراہم نہ ہو، وہ اپنی آرائش بھی نہیں کرتا۔

اس مثال کے بعد میر اور غالب کے طریق کار کا فرق ظاہر کرنے کے لیے مزید کچھ کہنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ معشوق کی شخصیت کے بارے میں میر کے چند اشعار صرف دیوان اول سے اور سن لیجئے ؂

دیوان اول: استخواں توڑے مرے اس کی گلی کے سگ نے

کس خرابی سے میں واں رات رہا مت پوچھو

 

دیوان اول: میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی

جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

 

دیوان اول: اس کے ایفائے عہد تک نہ جئے

عمر نے ہم سے بے وفائی کی

 

دیوان اول: اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میر یاد دیوے

اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی

 

دیوان اول: باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم

کا ہے کو میر کوئی دبے جب بگڑ گئی

 

دیوان اول: کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی

دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی

 

دیوان اول: شکوہ نہیں جو اس کو پروا نہ ہو ہماری

دروازے جس کے ہم سے کتنے فقیر آئے

 

دیوان اول: اس شوخ کی سر تیز پلک ہے کہ وہ کانٹا

گڑ جائے اگر آنکھ میں تو سر دل سے نکالے

 

دیوان اول: سو ظلم اٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا

ہر گز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلا لے

غرض کہ ایسے اشعار کا ایک دفتر ہے۔ کلیات کا کوئی صفحہ کھولیے، آپ کو دو چار شعر ایسے مل چائیں گے جن میں عاشق اور معشوق عام زندگی کے انسانوں کی طرح محو معاملات نظر آتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ میں ابھی ان شعروں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جن میں معشوق کے جسمانی حسن سے لذت اندوز ہونے کا براہ راست ذکر ہے اور جن میں معشوق سراسر گوشت پوست کا انسان نظر آتا ہے (اور وہ انسان بھی نہیں جس کے خط و خال کنگھی چوٹی، موباف، انگیا، کرتی اور محرم کے حوالے سے واضح کئے جائیں۔) معشوق سے لذت اندوز ہونے پر مبنی اشعار کو فی الحال چھوڑئے، کیوں کہ ان میں غیر معمولی حسن اور شوخی تو ہے، لیکن وہ اٹھارویں صدی کی غزل کے عام دھارے سے بہت الگ نہیں ہیں۔ میں نے جن اشعار کا حوالہ اوپر دیا ہے وہ میر کے اپنے طبع زاد رنگ کے ہیں۔ ان میں معشوق کی شخصیت جس نہج سے نمایاں کی گئی ہے وہ اردو شاعری کی عام نہج نہیں ہے، اور غالب سے بہر حال بالکل مختلف ہے۔

ان اشعار کے عناصر کا تجزیہ کیجئے تو یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ معشوق اور عاشق میں برابری کا رشتہ نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا۔ معشوق بہر حال عاشق پر حاوی رہتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ عاشق بالکل بے چارہ اور بے کس ہے۔ وہ کبھی کبھی احتجاج کرتا ہے، کبھی کبھی بگڑ بھی بیٹھتا ہے، کبھی کبھی اس کی اور معشوق کی ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ جب تک تعلقات ٹھیک رہتے ہیں، وہ معشوق کی سخت نرم باتیں برداشت کرتا ہے، لیکن جب بات بگڑ جاتی ہے، تو وہ بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے۔ وہ اس کی گلی تک پہنچ بھی جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہاں معشوق کی گلی کا کتا اس کی ہڈیاں توڑتا ہے، لیکن وہ اس واقعے کا بیان عجیب طمانیت اور ٹھوڑے بہت مزاح کے ساتھ کرتا ہے۔ مزاح کا عنصر اس کی شخصیت میں زیادہ نمایاں ہے، بے چارگی اور پس ماندگی کا کم لیکن معشوق میں استغنا اور نا پرسی، خوں ریزی اور شوق شکار، زہد رنجی اور جور بے وجہ و نہایت کے بھی عناصر پوری طرح کار فرما ہیں۔ یہ بات طے نہیں ہوتی کہ معشوق جان بوجھ کر ظلم کرتا ہے، یا اس کی فطرت میں ظلم اس طرح ودیعت کیا گیا ہے کہ اس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ظالم بھی ہے۔ دیوان اول کا یہ شعر پھر دیکھئے ؂

نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں

سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا

 

پھر یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں ؂

دیوان دوم: پلکوں سے رفو ان نے کیا چاک دل میر

کس زخم کو کس ناز کی کے ساتھ سیا ہے

 

دیوان سوم: قلب و دماغ و جگر کے گئے پر ضعف ہے جی کی غارت میں

کیا جانے یہ قلقچی ان نے کس سردار کو دیکھا ہے

’’قلقچی‘‘ وہ سپاہی ہوتا ہے جو بادشاہ کا براہ راست ملازم نہ ہو، بلکہ کسی رئیس کا ملازم ہو۔ قلب و دماغ و جگر کی حیثیت قلقچی کی سی ہے، کیوں کہ وہ (میر) عاشق کے ملازم ہیں۔ جب انھوں نے سردار کو دیکھا تو فوراً اس سے جا کر مل گئے اور اپنے رئیس کو چھوڑ دیا۔ یعنی معشوق کا سامنا ہوتے ہی قلب، دماغ، جگر سب ساتھ چھوڑ گئے۔

دیوان سوم: باؤ سے بھی گر تپا کھڑ کے چوٹ چلے ہے ظالم کی

ہم نے دام گہوں میں اس کے ذوق شکار کو دیکھا ہے

 

دیوان چہارم: جب تلک شرم رہی مانع شوخی اس کی

تب تلک ہم بھی ستم دیدہ حیا کرتے تھے

 

دیوان چہارم: کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی

آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ معشوق مومن (اور بڑی حد تک غالب) کے معشوق کی طرح سطوری(linear)اور کم و بیش باہم یکساں(Consistent) صفات رکھنے والا نہیں ہے۔ بلکہ یہ معشوق بہت ہی پیچیدہ (complex) کردار رکھتا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ سارے کلیات میں ایک ہی عاشق اور ایک ہی معشوق ہو۔ یہ بحث تو اس وقت پیدا ہوتی جب ہم یہ فرض کرتے کہ یہ عاشق اور معشوق کسی فکشن کے کردار ہیں۔ جیسا کہ میں اوپر واضح کر چکا ہوں، یہ کردار اس معنی میں کردار نہیں ہیں جس معنی میں فکشن نگار اپنے کردار بناتا ہے۔ یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ عاشق اور معشوق کا جو پیکر(image) میر کے کلیات میں ملتا ہے، وہ فکشن کے کردار کی طرح اپنی انفرادیت اور شخصیت رکھتا ہے اور واقعی زندگی کے انسانوں کی طرح بہت پیچیدہ بھی ہے۔ ان کرداروں میں رسمی قسم کی واقعیت نہیں ہے، لیکن یہ واقعی کرداروں کی طرح ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں ، کیوں کہ شاعر نے ان کو تصوراتی اور تجریدی سطح پر نہیں بیان کیا ہے(جیسا کہ غالب کا انداز ہے) بلکہ مرئی اور ارضی سطح پر بیان کیا ہے۔

واقعیت کے اس رنگ نے بہت سے نقادوں کو اس دھوکے میں مبتلا کر دیا کہ کلیات میر میں عاشق دراصل میر خود ہیں، اور جو معشوق ہے وہ بھی کوئی واقعی شخص ہے۔ حالانکہ معشوق کے کردار میں طرح طرح کے متضاد پہلوؤں اور خود معشوق کی جنس میں کہیں عورت اور کہیں واضح طور پر مرد کا تذکرہ اس بات کو صاف کرنے کے لیے کافی ہوتا چاہئے تھا کہ ہم کسی واقعی شخص یا اشخاص کا حال نہیں پڑھ رہے ہیں، اور نہ ہم ان غزلوں کے پردے میں میر کی سوانح حیات پڑھ رہے ہیں۔ لیکن نام نہاد سوانحاتی، سماجیاتی، تاریخی اسکول کے نقادوں کو اپنے عقائد اس قدر پیارے ہیں کہ وہ کلیات میر کے بجائے اپنے مفروضات کو پڑھ کر میر پر تنقید فرماتے ہیں۔ میر نے اپنے سوانح بیان کرنے کے لیے خود نوشت سوانح حیات اور مثنوی دونوں اصناف کو برتا ہے۔ غزل کا مقصد ان کی نظر میں یہ تھا ہی نہیں کہ اس میں’’سچے حالات‘‘ بیان کئے جائیں۔ جو لوگ غزل کو خود نوشت کے طور پر پڑھتے ہیں وہ کلاسیکی غزل کی شعریات سے ناواقف ہیں۔ میر کا کمال یہ نہیں ہے کہ انھوں نے غزل کے پردے میں اپنی داستان عشق نظم کر دی۔کلیات کا معمولی سا مطالعہ بھی بتا دے گا کہ مختلف واقعات و کیفیات و حالات و جذبات کا یہ بیان، ایسے رویوں کا بیان جو آپس میں کسی طرح بھی باہم یکساں (consistent) نہیں ہیں، عاشق اور معشوق کے آپسی عمل درد عمل میں اس درجہ گونا گونی کا احساس، یہ سب باتیں اس بات کی ضامن ہیں کہ میر کی غزل ان کی خود نوشت سوانح نہیں ہے۔ (خود نوشت سوانح کا نظریہ رکھنے والے نقاد یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ان غزلوں کو سوانح حیات ہی ہونا ہے تو وہ میر ہی کیوں، کسی اور کی سوانح کیوں نہیں ہو سکتیں؟) یہ اور بات ہے کہ شاعر (اور غزل کا شاعر عام شعرا سے زیادہ) اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات سے کام لیتا ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ میر نے بھی بہت سی باتیں ایسی کہی ہوں جو پوری کی پوری، یا کم و بیش، یا اس سے ملتی جلتی باتیں، خود ان پر گذری ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر پیش کر رہے ہیں، یا اپنے دل کا دکھڑا رو رہے ہیں۔

یہ تصور ہی مہمل ہے کہ میر نے اپنے غم کو آفاتی غم بنا کر پیش کیا۔ اول تو یہ بات کوئی ایسی اہم نہیں، لیکن زیادہ بنیادی بات یہ ہے کہ اوپر جن اشعار کا حوالہ گذرا، ان کا شاعر آپ بیتی، ذاتی غم و الم، دل کا دکھڑا رونا وغیرہ یک سطحی اور محدود باتوں سے بہت آگے اور بہت بلند ہے۔ اس کے یہاں تجربہ اور مشاہدہ کی وہ دنیا ہے جو غم، الم، درد ناکی، دل شکستگی، حرماں نصیبی وغیرہ جیسی اصطلاحوں کے ذریعہ نہیں بیان ہو سکتی۔ اس دنیا میں سب کچھ ہو چکا ہے اور سب کچھ ہوتا ہے۔ اس میں موت بھی ہے اور موت سے بدتر زندگی بھی۔ اس میں خود داری اور خود فریبی دونوں ہیں۔ اس میں معشوق بادشاہ بھی ہے اور اوباش بھی۔ اس میں زندگی مزے دار بھی ہے اور تلخ بھی۔ اس میں عاشق بیچارہ بھی ہے، لیکن تھوڑا بہت یا اختیار بھی ہے۔ جس دنیا میں سب کچھ ہوا ہو، اور جس شاعر نے سب کچھ برتا ہو، اس کو آپ بیتی ، اپنے دکھ درد کا محدود اظہار کرنے والا وہی نقاد کہہ سکتا ہے جس کو میر سے دشمنی ہو۔

علیٰ اہذالقیاس، وہ نقاد بھی غلط فہمی میں گرفتار ہیں جن کے خیال میں میر کی حرماں نصیبی اور محزونی اس معاشرے کی فطری پیداوار تھی جس میں عورتیں گھروں میں پردہ نشین رہتی تھیں اور عشق کرنا رسوائی کا سودا تھا۔ آزادانہ اختلاط کے مواقع نہ ہونے کی بنا پر عشق میں مایوسی لازمی تھی۔اور سماج اور مذہب کے خوف کے باعث عاشق و معشوق ان مواقع کا بھی فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے جو کبھی کبھی ان کو میسر ہو جایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں بھی نقادوں کی اپنی اختراع ہیں۔ ان کا غزل کے قواعد اور روایت سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ان سماجی حالات سے جو اٹھارویں صدی کی دلی میں واقعی رونما تھے۔ سماجی حالات کچھ بھی رہے ہوں، جو معشوق مندرجہ بالا اشعار، اور ان کی طرح کے سیکڑوں اشعار میں نظر آتا ہے، وہ بہر حال کوئی چھوٹی موٹی قسم کی پردے کی بو بو، کوئی ڈرتی جھجکتی، کو ٹھری میں چھپ چھپ کر رونے والی بنت عم نہیں تھی۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کی اپنی شخصیت خاصی پر قوت اور بڑی حد تک جارحانہ تھی، وہ اپنے قول فعل میں اس قدر مجبور بھی نہیں تھی کہ اس کا عشق بہر حال ناکام ہی ہوتا۔ بلکہ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے التفات و کرم (favours)کو عطا کرنے یا نہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے، اور اس بات کا بھی اختیار و قوت رکھتی ہے کہ وہ کسی برقعہ پوش کی طرح سہمی ہوئی باہر نکلنے کے بجائے اس طرح باہر نکلے کہ ہر طرف ’’ادھم‘‘ مچ جائے ؂

دیوان سوم: آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری

اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم ہوا

مجھے اس سوال سے کوئی بحث نہیں کہ آیا میر کے زمانے میں سماجی حالات واقعی ایسے تھے کہ ان میں اس طرح کا معشوق وجود میں آسکتا، جیسا کہ ان شعروں سے ظاہر ہوتا ہے؟ سماجی حالات اتنے پیچیدہ اور تہ دار ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی ایک حکم لگانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن فرض کیا کہ حالات ایسے نہیں تھے کہ معشوق کا وہ کردار ان میں ممکن ہوتا جو مندرجہ بالا شعروں میں نظر آتا ہے۔ تو پھر اس سے ثابت کیا ہوتا ہے؟ سماجی حالت کا وجود یا عدم وجود اشعار کے وجود کو تو عدم سے بدل نہیں سکتا۔ اشعار ہمارے سامنے ہیں، ان کی روشنی میں ہم کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ میر کے کلام میں عاشق اور معشوق کا پیکر کس طرح کا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس طرح کا نہیں ہے جیسا بعض نقاد فرض کرتے ہیں کہ میر کا معشوق کوئی پردے میں چھپ کر گھٹ گھٹ کر مرنے والی لڑکی ہے، اور عاشق بے چارہ پردے کے باعث عورتوں مردوں کی علیحدگی اور سماج کی عاشق دشمنی کا صید زبوں ہونے کی وجہ سے حرمان نصیبی اور نومیدی جاوید کا مرقع ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میر کے شعر کی طرح ان کے یہاں عاشق اور معشوق کا کردار بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس پر کوئی ایک حکم لگانا میر کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ میر کے عاشق و معشوق دونوں میں ایسی انفرادیتیں ہیں جو کسی اور کے یہاں نہیں ملتیں۔ یہ انفرادیتیں خود میر کے مزاج کی انفرادیت کا مظہر ہیں، اور ان کا اظہار بعض ایسی شعر ی اور ڈرامائی واقعیت کی طرزوں سے ہوا ہے جو میر کا طرۂ امتیاز ہیں۔ عاشق اور معشوق کے کردار کی واقعیت اور انفرادیت کا اظہار میر نے ایک ہی شعر میں بھرپور ڈھنگ سے کر دیا ہے ؂

دیوان چہارم: میر خلاف مزاج محبت موجب تلخی کشیدن ہے

یار موافق مل جائے تو لطف ہے چاہ مزا ہے عشق

٭٭٭

ماخذ:

http://www.adbiduniya.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید