FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

روزے سے متعلق اہم مسائل

 

 

یہ رسالہ کتاب وسنت کے دلائل سے مزین روزے کے اہم احکامات پر مشتمل ہے، جس میں ان امور کو ترجیح دی گئی ہے جو اہل علم کے نزدیک شرعی دلیل جو کتاب یاسنت پر مشتمل ہے ،اور ہم نے اس رسالے کو طول دینے سے احتراز کیا ہے تاکہ قاری کو ایکساتھ ان تمام مسائل سے واقفیت ہو جائے جو ماہ رمضان میں پیش آتے ہیں، نیز اس بات کی بھی کوشش کی گئی کہ ہر مسئلہ کے ساتھ حکم شرعی اور اس کی دلیل بیان کی جائے، ہم نے جن مصادر سے استفادہ کیا ہے ان میں سید سابق کی کتاب ”فقہ السنہ”، شیخ عثیمینؒ کی کتاب کتاب” الشرح ا لممتع ”شامل ہیں، نیز ہم نے موجودہ دور میں روزے کے دوران علاج و معالجہ سے متعلق اٹھنے والے سوالات کی کثرت او ر ان کی ضرورت کے پیش نظر اس موضوع پر ایک قیمتی رسالہ بھی ملحق کر دیا ہے۔

 

               روزہ کی لغوی تعریف

 

امساک یعنی باز رہنا اور رکے رہنا ہے ۔ جبکہ روزے کی شرعی تعریف علامہ عثیمین ؒ کے بقول:طلوع فجر سے غروب شمس تک کھانے پینے اور ان تمام چیزوں سے رکنا ہے جن کے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے” اور ابن قیم کے بقول : روزہ یعنی گناہوں سے اعضاء کو روکنا اور پیٹ کو کھانے پینے سے روکنا،جس طرح کھانا اور پینا روزہ کو ختم کر دیتے ہیں اسی طرح گناہ بھی روزہ کے ثواب کو ختم کر دیتے ہیں اور اس کے نتائج کو فاسد کر دیتے ہیں اور روزے دار گناہ میں ملوث ہونے کے بعد بے روزہ دار کی طرح ہو جاتا ہے”۔

روزہ ہجرت کے دوسرے برس ماہ شعبان میں فرض کیا گیا اور کتاب وسنت اور اجماع امت سے اس کی فرضیت ثابت ہے:ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ: مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو [البقرہ:183]

صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان) متفق عليه.

ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

امت کا روزے کی فرضیت پر اتفاق ہے، جس نے روزے کی فرضیت کا انکار کیا اس نے کفر کیا، اور اسی طرح جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا ، تو اس نے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کیا۔

حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں: مومنین کے پاس یہ طئے ہے کہ جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی عذر کے ترک کیا تو وہ زانی اور نشہ کرنے والے سے زیادہ گناہ گار ہے، بلکہ اس کے اسلام پر شک ہے اور اسے زندیق اور منحرف میں شمار کیا گیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: اگر کسی نے رمضان میں روزے توڑنے کی حرمت معلوم ہونے کے باوجود حلال سمجھتے ہوئے روزے کو توڑ دیا تو اس کا قتل واجب ہو گیا، اور اگر وہ فاسق ہو تو اس کے روزہ توڑنے پر اسے سزا دی جائے گی”۔

 

               ماہ رمضان کے روزوں کی فضیلت

 

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” اذا دخل شھر رمضان فتحت ابواب السماء وغلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین”۔

ترجمہ: جب ماہ رمضان کا آغاز ہوتا ہے تو آسمان دنیا کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

صحیحین میں سھیل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ يُقَالُ أَيْنَ الصَّائِمُونَ فَيَقُومُونَ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ”رواه البخارى

ترجمہ: جنت میں ایک دروازہ ہے، جسے ریان کہتے ہیں، قیامت کے دن جس سے روزے دار داخل ہوں گے،ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہو گا،کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوسکے گا، جب (سب روزہ دار داخل ہو جائیں گے)دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر اس دروازے سے کوئی دوسرا داخل نہ ہوسکے گا”۔

اور صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، نبی ﷺکا ارشاد ہے: (وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ إِنَّمَا يَذَرُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ وَشَرَابَهُ مِنْ أَجْلِي فَالصِّيَامُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّيَامَ فَهُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ".

ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے؛ روزے دار کی منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے، بیشک روزہ دار اپنی شہوت اور اپنا کھانا پینا میرے لئے چھوڑ دیتا ہے، لہٰذا روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا بدلہ عطا فرماتا ہوں، ہر نیکی کا اجر دس سے لے کر سات سو گناہ تک عطا کیا جاتا ہے لیکن روزہ میرے لئے ہے اوراس کا بدلہ میں عطا کرتا ہوں”۔

امام عز بن عبدالسلام ؒ فرماتے ہیں:

امام ترمذی، ابن ماجہ، البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا۔۔ وللہ عتقاء من النار وذلک کل ليلة۔

اور رمضان کی ہر رات جہنم سے آزادی کے پروانے دیئے جاتے ہیں۔

اور روزے کے فضائل صرف اخروی اجر ہی پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت سارے صحی اور اجتماعی فوائد حاصل ہوتے ہیں،دیگر مذاہب کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ مسلمان ایک قوم ہے،ایک ہی وقت میں کھاتے ہیں،ایک ساتھ روزہ رکھتے ہیں،اور اسے اللہ تعالیٰ کی نعمت سے غنیمت سمجھتے ہیں اور فقیر پر مہربانی کا معاملہ کرتے ہیں۔

اسی طرح پورے ایک مہینے کے روزے موٹاپے کی بیماری کو کم کرتے اور فضلات اور زہریلے جراثیم سے نجات دلاتے ہیں اور اس کی وجہ سے جسم کے خلیوں اور غدود کو خاص طور پر معدہ، دل اور آنتوں کو اپنے فرائض مکمل طور پر انجام دینے کا موقع ملتا ہے۔یہاں تک کہ روزہ دار صحت یاب ہو جاتا ہے۔ روزہ دار کو چاہیے کہ سحر میں تاخیر کرے اور افطار میں جلدی کرے،کھانے میں اسراف نہ کرے،آج رمضان کے روزے کے سلسلے میں لوگوں نے تقلیدی، میراثی اور تاریخی رویہ اختیار کر لئے ہیں، جس کے نتیجے میں عبادت کی روح باقی نہیں رہی ہے، اور ماہ رمضان فتنوں کا موسم بن کر رہ گیا ہے، جس میں مختلف النوع کھانوں، مشروبات اور کھیل کود کے سامان مہیا کیئے گئے ہیں، حالانکہ ماہ رمضان تو صبر، استقامت،زہد ، ایمان اور جہاد والا مہینہ تھا۔

 

               ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت

 

روزہ ہر عاقل بالغ مقیم اور تندرست پر فرض ہے۔

بچہ پر روزہ فرض نہیں ہے،ہاں اگر بچہ روزے رکھے تو اسے روزہ کا ثواب ملے گا اور اس کا روزہ درست ہو گا، نیز والدین پر تعلیم، تربیت اور روزے کی ترغیب دینے پر اجر و ثواب ہے، شیخین نے حضرت ربیع بنت معوذ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا: ہم اسے (عاشوراء کے روزہ)بعد میں بھی رکھتے تھے، ہم بھی رکھتے اور ہمارے بچے بھی، اور ان میں سے کوئی کھانے کے لئے رونے لگتا تو ہم اس کے لئے اون کا کھلونا بنا کر دے دیتے،یہاں تک وہ افطار تک کام آ جاتا۔

پاگل اور مخبوط الحواس بوڑھے کا روزہ درست نہیں ہے۔

اسی طرح حائضہ اور نفساء عورتوں کے لئے روزہ جائز نہیں ہے؛ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟! قلن: بلی؛ قال : فذلک من نقصان دینھا”[البخاری]

 

               ماہ رمضان کا اول و آخر

 

رمضان کے روزے دو بنیادی چیزوں میں سے کسی ایک کے ہونے سے فرض ہوتے ہیں:

۱)۔ قوی البصر با اعتماد اور نیک آدمی کی رؤیت ہلال کی شہادت کے بعد؛ ابوداؤد نے ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے: کہتے ہیں : لوگوں نے ہلال یعنی پہلی تاریخ کا چاند دیکھا؛ تو میں نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ میں نے بھی دیکھا ہے؛ تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا”۔

۲)۔اگر چاند نظر آئے تو ماہ شعبان کے ۳۰/ دن مکمل ہونے پر روزہ شروع کر دیا جائے گا۔چونکہ مہینہ ۳۰/ دن سے زیادہ نہیں ہوتا، جیسا کہ صحیحین میں ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّا أمَّة أمِّيَّة لا نكتب ولا نحسب الشهر هكذا وهكذا يعني مرة تسعة وعشرين ومرة ثلاثين ". رواه البخاري

ہم ان پڑھ قوم ہیں، ہم لکھنا نہیں جانتے، اور نہ ہی شمار کرنا جانتے ہیں، مہینہ اس طرح اس طرح ہے؛ یعنی ایک مرتبہ ۲۹/دن کا ایک بار ۳۰/ کا ہوتا ہے۔

اسی طرح مہینہ کے اخیر کے بارے میں شوال کا چاند دیکھا جائیں گا ورنہ رمضان المبارک کے پورے ۳۰ / دن مکمل کئے جائیں گے۔

یوم شک یعنی شک والے دن کا روزہ جائز نہیں ہے؛ شک والا دن شعبان کا ۳۰/ واں ہوتا ہے، جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً مروی ہے:

”لاتقدموا رمضان بصوم یوم ولا یومین الا رجل کان یصوم صوما فلیصمہ”۔

(رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے ہاں مگر اس کے لئے اجازت ہے جو پہلے ہی سے رکھتا ہوا آرہا ہے۔)

رمضان میں داخل ہونے کے لئے حساب پر عمل کرنا بدعت ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث میں اس مسئلہ کی دلیل ہے، صحیحین میں وارد ہے:

”صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ، فان غبی علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین”۔

(چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑو، اگر بادل کی وجہ سے چاند دیکھ نہ سکو تو شعبان کے تیس مکمل کر لو)

رمضان المبارک کی آمد پر مبارکباد دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کو رمضان المبارک کے آمد کی خوشخبری دیا کرتے تھے، امام نسائی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اتاکم رمضان شھر مبارک فرض اللہ عز وجل علیکم صیامہ، تفتح فیہ ابواب السماء، تغلق فیہ ابواب الجحیم، وتغل فیہ مردۃ الشیاطین لله فيه ليلة خير من ألف شهر ، من حرم خیرھا فقد حرم”۔

ماہ مبارک آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا ہے، اس مہینے میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس ماہ میں ایک رات اللہ کے لئے ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہوتی ہے، جو شخص اس کے خیر سے محروم رہا تو محروم ہے”۔

 

               روزے کا آغاز اور اختتام

 

ماہ رمضان کی پہلی رات میں کسی بھی وقت نیت کرنا ضروری ہے، اور اس نیت کی تجدید ہر رات کرنا چاہیئے، امام احمد اور ابوداؤد نے حضرت حفصہ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”من لم یجمع الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ”

”جس نے فجر سے پہلے روزے کو جمع نہیں کیا تو اس کا کوئی روزہ نہیں”

نیت اس بات پر پوری ہو جائے گی کہ روزے دار یہ خیال کرے کہ کل وہ روزے دار ہو گا۔ یہ علماء کے اقوال کے مطابق فرض روزوں کی حد تک ہے؛ امام مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے فرماتی ہیں: ایک روز آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اور ارشاد فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ ہم نے کہا: نہیں ، آپ نے ارشاد فرمایا: تو پھر میں روزہ ہوں”۔

روزے دار روزے کا آغاز تمام مفطرات کو چھوڑ کر طلوع فجر صادق سے کر کے غروب شمس پر اختتام کرے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۔

اور خدا نے جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو۔ [البقرہ: 187]

روزہ کھولنے کے بعد کھانا پینا اور جماع پوری رات جائز ہے۔

اذان ثانی سے دس منٹ پہلے ہی رک جانا یا اس سے کچھ دیر پہلے سب چیزوں سے رکنا یہ بدعت ہے، جس طرح اس پر ابن حجر اور ابن باز ؒ نے دلیل دی ہے۔

 

               روزے کی رخصت

 

۱)۔ مسافر:مسافر وہ ہے جو عرف عام میں مشہور ہے۔ مسافر جب اپنے سفر کا عزم مصمم کر لے تو اس کے لئے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

” أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ”

(روزوں کے دن) گنتی کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کر لے [البقرہ:184] روزے نہ رکھنے کی علت سفر ہے نہ کہ مشقت، لہٰذا کسی بھی سفر میں روزے نہ رکھنے جائز ہے، اگر چہ کہ سفر آرام دہ ہو جیسے جہاز یا کسی اور ذریعے سے۔

مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنا مستحب ہے؛ امام احمد نے اپنے مسند میں حضرت نافع بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”ان اللہ یحب ان توتی رخصہ کما یکرہ ان توتی معصیتہ”۔

اور جس پر روزہ رکھنا شاق ہو یعنی روزے کی وجہ سے ہلاکت یا کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کے لئے روزہ حرام ہے، اس سلسلے میں نص صریح وارد ہے، امام مسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح کے سال رمضان میں مکہ کی جانب روانہ ہوئے، آپ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ کراع الغمیم پہنچے، لوگوں نے بھی روزہ رکھا، آپ سے دریافت کیا گیا: لوگوں پر روزہ سخت گذر رہا ہے اور وہ آپ کی اتباع کر رہے ہیں، تو آپ نے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگایا، پھر اسے بلند کیا، یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو دیکھ لیا، پھر آپ نے پی لیا، اس کے بعد آپ سےکہا گیا: بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہے، تو آپ نے ارشاد فرمایا: وہ لوگ نافرمان ہیں وہ لوگ نافرمان ہیں”۔

مسافر جیسا ہی سفر کا ارادہ کرے گا اس کے لئے بغیر روزہ رہنا جائز ہے۔ ترمذی وغیرہ میں حضرت محمد بن کعب سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : میں رمضان میں انس بن مالک کے پاس آیا ، وہ سفر کا ارادہ کر رہے تھے، ان کی سواری تیار تھی، انھوں نے سفر کا لباس بھی زیب تن کر دیا تھا، انھوں نے کھانا منگوایا اور تناول فرمایا، میں نے ان سے کہا: کیا یہ سنت ہے؟ فرمایا: سنت ہے، پھر وہ سوار ہو گئے”۔

۲)۔ مریض: ہر وہ مریض جسے روزہ رکھنے میں دشواری ہو وہ بغیر روزہ رہ سکتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ

” تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کر لے [البقرہ:184]

اگر روزے کے سبب مرض میں شدت ہو تو پھر روزہ رکھنا جائز نہیں؛ امام احمد نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ نہ ضرر ہو اور نہ نقصان”۔

مریض پر شفاء کے بعد اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے؛ اگر مریض کے مرض کے زوال کی کوئی امید نہ ہو تو ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے؛ یہ ایسے مریض کی جانب سے کیا جائے گا جو لمبی عمر والا ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔

ہاں بے ہوش انسان پر روزے کی قضاء اور کفارے کے طور پر کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے، اگر احتیاطا قضاء کر دی جائے تو کوئی بات نہیں، اگر بے ہوشی کی مدت لمبی ہو یعنی کئی دن ہو ، تو پھر کوئی قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ بے ہوش کا حکم مجنون کے حکم سے قریب ہے،جو کہ اپنی عقل کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے، احمد، ابوداؤد، اور ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ انھوں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتی یستیقظ، وعن الطفل حتی یحتلم، وعن المجنون حتی یبرا او یعقل”۔

تین لوگوں سے قلم کو اٹھا لیا گیا: سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل یا مجنون سے حتی کہ اس کی عقل ٹھکانے لگے۔

جس کا آپریشن کیا جا رہا ہو وہ بھی بے ہوش شخص کے حکم میں شامل ہے،بشرطیکہ آپریشن کئی گھنٹوں پر مشتمل ہو۔

شیخ ابن باز ؒ فرماتے ہیں: مشقت کا کام کرنے والے لوگ بیماروں اور مسافرین کے حکم میں نہیں ہیں، ان پر رات میں روزہ کی نیت کرنا ضروری ہو گا، اگر دن میں بے چینی کی حالت پیش آ جائے تو پھر انہیں روزہ توڑنے کی اجازت ہے تاکہ بے چینی کو دفع کرسکے، اور جسے ضرورت پیش نہ آئے تو اسے اپنے روزے کو جاری رکھنا ضروری ہے، کتاب وسنت سے ادلہ شرعیہ کا تقاضا یہی ہے۔

۳)۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت: اگر ان عورتوں میں روزہ رکھنے کی مشقت ہو تو یہ عورتیں روزہ نہیں رکھیں گی۔ اور نہ ہی اپنے روزوں کی قضا کرے گی؛ حضرت ابن عباس سے روایت ہے اور اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے:

اذا خافت الحامل علی نفسھا، والمرضع علی ولدھا فی رمضان، قال : یفطران ویطعمان مکان کل یوم مسکینا ، ولا یقضیان صوما”۔

اگر وہ ان دنوں کی قضا کر لے تو اختلاف سے بچنے کے لئے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔

جو بھی روزہ چھوڑے اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ قضاء کے کرنے میں جلدی کرے اور یکے بعد دیگرے رکھے، قضا کے روزے شوال کے چھ روزوں سے پہلے رکھے،ہاں جس کے رمضان کے بہت سارے روزے چھوٹ گئے ہیں جیسے نفاس والی عورتیں تو ان کے لئے قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ان کے لئے قضا کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول ہے:مجھ پر رمضان کے روزے کی قضا رہتی تو میں شعبان کے علاوہ اس کی قضا نہیں کرسکتی تھی۔ یحی کہتے ہیں: نبی کریم ﷺ سے یا نبی کریم ﷺ کے ذریعے عمل، اور بعید ہے کہ ام المومنین اس اجر عظیم کو چھوڑ دے!!۔

۵)۔ کبیر السن افراد: ایسے افراد چاہے وہ مرد ہو یا عورت روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ”۔

اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے [البقرہ: 184]

 

               روزے کو توڑنے والی چیزیں

 

۱)۔ کھانا پینا: عمدا ًکھانا پینا،، اگرچہ کھانا پینا منہ کے علاوہ جگہوں سے داخل ہو، جیسے ناک وغیرہ، مسند احمد میں مروی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو سوائے حالت صیام کے”۔

۲)۔ جماع: اگرچہ انزال نہ ہو؛ شیخین نے حضرت ابوہریرہ کی روایت بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی آیا، اور کہا: اے اللہ کے رسول میں ہلاک ہو گیا ہوں، آپ نے فرمایا: تجھے کیا ہو گیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنی بیوی سے روزے کی حالت میں جماع کر دیا۔ آپ نے ارشاد ﷺ فرمایا: کیا تم کسی غلام کو پاتے ہو کہ اسے آزاد کر دو؟ اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: تو کیا تم دو مہینے مسلسل روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں ، پھر آپ نے فرمایا: کیا آپ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ (راوی کہتے ہیں) نبی ﷺ تھوڑی دیر ٹھہرے، اس دوران آپ ﷺ کے پاس عرق لا گیا جس میں کھجور تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا: میں ہوں۔ آپ نے فرمایا: اسے لے لو اور اسےصدقہ کرو، اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول کیا مجھ سے زیادہ کوئی فقیر ہے؛ بخدا ان دو پہاڑیوں کے درمیان میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی فقیر گھرانہ نہیں ہے، آپ ﷺ ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہو گئے، پھر آپ نے ارشاد فرمایا: اسے اپنے گھر والوں کو کھلا دو”۔

اور جس نے بھول کر یا لاعلمی میں جماع کیا، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا”

ترجمہ: اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہو گئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ [البقرہ: 286]

اور بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

”اذا نسی فاکل وشرب فلیتم صومہ فانما اطعمہ اللہ وسقاہ”

ترجمہ: اگر کوئی بھول کر کھانا کھا لے یا کوئی چیز پی لے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا روزہ مکمل کرے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔

جماع بھی اسی معنی میں ہے۔یعنی اگر کوئی بھول کر جماع کر لے تو وہ بھی اپنے روزہ کو مکمل کرے۔

۳)۔شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا: اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے جسے شیخین نے روایت کیا ہے:

” یترک طعامہ وشرابہ وشھوتہ من اجلی”

ترجمہ: بندہ میرے لئے اپنے کھانے اور پینے اور اپنی خواہش کو چھوڑتا ہے۔

قضا کے ساتھ معصیت پر توبہ کرنا بھی ضروری ہے، جہاں تک مذی کا معاملہ ہے تو اس بارے میں راجح قول یہ ہے کہ مذی سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگرچہ مذی شہوت کے ساتھ نکلے یا مباشرت سے نکلے سوائے جماع کے۔

۴)۔ عمداً قئے کرنا: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس پر قئے کا غلبہ ہو تو اس پر کوئی حرج نہیں، اختلاف عمدا ً قئے کرنے میں ہے، چاہے اپنی انگلی کو منہ میں ڈال کر کیا ہو یا کوئی ایساعمل کیا ہو جس سے قئے ہوتی ہو، روزے کے دوران عمدا ًایسا کرنے سے روزہ باطل ہو جائے گا۔

جو حدیث اس سلسلے میں وارد ہے، جس نے اسے صحیح کہا ہے وہ عمداً قئے کرنے کو ناقص صوم کے قائل ہیں جبکہ جن محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے وہ عدم نقص صوم کے قائل ہیں۔

اس حدیث کو احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور الفاظ ترمذی کے ہے: کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من ذرعہ القیء فلیس علیہ قضاء، ومن استقاء عمدا فلیقض”۔

اس حدیث کو ابن قدامہ حنبلی، امام نووی، امام شافعی، ابن عربی المالکی نے صحیح کہا ہے جبکہ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔

ابوعیسی ترمذی ؒ کہتے ہیں: اہل علم کے پاس ابوہریرہ کی حدیث پر عمل ہے، اور سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحق کا بھی یہی قول ہے۔

۵)۔حیض اور نفاس: امام بخاری نے نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کو نقل کیا ہے: کہ آپ ﷺ نے عورت کے بارے میں ارشاد فرمایا:

الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟! فذلک نقصان دینھا”۔

کیا جب وہ حائضہ ہوئی تو نماز نہیں پڑھی اور روزہ نہیں رکھی؟ پھر یہ اس کے دین کا نقصان ہے”۔

اگر عورت روزہ رکھے تو اس کا روزہ مقبول نہیں ہے، اس لئے عورت کو بغیر روزہ رہنا ضروری ہے اور اس پر اس کی جانب سے کوئی فدیہ بھی نہیں ہے۔

عورت نے جتنے دن روزے چھوڑی ہیں اسے ان کی قضا کرنا ضروری ہو گا، صحیحین میں حضرت معاذہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا: میں نے کہا: حائضہ کے بارے میں کیا ہے، آیا وہ روزے کی قضا کرے گی یا نہیں؟ حضرت عائشہ نے فرمایا:کیا تو خارجی ہیں؟ میں نے کہا: میں خارجی نہیں ہوں تاہم میں پوچھ رہی ہوں، فرمانے لگی: ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہوتی تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

 

               روزے کے مستحبات اور آداب

 

۱)۔ سحر میں تاخیر کرنا

 

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”تسحروا فان فی السحوربركة”

(سحر کرو کیونکہ سحرمیں برکت ہے)

سحرمیں برکت اس لئے ہے کہ یہ رات کا آخری حصہ ہوتا ہے، اور یہ وقت مبارک وقت ہوتا ہے، نیز سحر کرنے سے روزے دار کو تقویت بھی حاصل ہوتی ہے۔

سحر کو امکان کے بقدر مؤخر کرنا مستحب ہے؛ امام بخاری نے حضرت سھل بن سعد سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: میں اپنے گھر میں سحری کھاتا پھر مجھ کو جلدی ہوتی کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ صبح کی نماز پالوں۔

اور سحرمستحب ہے چاہے پانی کے ایک گھونٹ ہی سے کیوں نہ ہو، ارشاد نبوی ﷺ ہے:

السحور اکلہ بركة، فلا تدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعة من ماء؛ فان اللہ عز وجل وملائکتہ یصلون علی المتسحرین” رواہ احمد وحسنہ الالبانی۔

سحرکھانے میں برکت ہے، لہٰذا اسے چھوڑا نہ کرو، اگر چہ کہ تم سے کوئی پانی ایک گھونٹ ہی پی لے، چونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحر کرنے والوں پر سلام بھیجتے ہیں۔

روزے دار کے لئے مستحب ہے کہ وہ کھجور سے سحر کرے، جیسا کہ ابوداؤد میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”نعم سحور المؤمن التمر” (مومن کا بہترین سحر کا کھانا کھجور ہے)

طلوع فجر میں اگر شک ہو تو طلوع کے یقین ہونے تک کھانا اور پینا جائز ہے؛ چونکہ یقین شک کو زائل نہیں کرتا، کیونکہ روزے دار کو کھانے اور پینے کی اباحت پر یقین ہے ، لہٰذا دخول فجر کے یقین تک یہ حرام نہیں ہو گا۔

اسی طرح روزے دار کے لئے جائز ہے کہ اگر وہ کھانا کھا رہا ہے یا پانی وغیرہ پی رہا ہے اور اسی حالت میں اذان ثانی سنے تو اپنے کھانے اور پینے کو مکمل کرے؛ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”اذا سمع احدکم النداء والاناء علی یدہ فلا یضعہ حتی یقضی حاجتہ منہ”

(جب تم سے کوئی اذان سنے اور برتن ہاتھ میں ہو تو وہ اسے نہ رکھے یہاں تک کہ اس سے اپنی ضرورت کو پورا کر لے)

 

۲)۔افطار میں جلدی کرنا

 

افطار میں یہود اور نصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے جلدی کرے، چونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں ستاروں کے ظاہر ہونے تک تاخیر کرتے ہیں، ابن خزیمہ اور حاکم میں حضرت سھل بن سعد سے مروی ہے فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لاتزال امتی علی سنتی مالم تنتظر بفطرھا النجوم”۔

(میری امت اس وقت تک میری سنت پر رہے گی جب تک کہ وہ ستاروں کا انتظار نہ کرنے لگے)

افطار تازہ کھجور سے شروع کرنا مستحب ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو جو کھجور میسر ہو، اگر کسی بھی قسم کی کھجور میسر نہ ہو تو پھر پانی سے افطار شروع کرے؛ احمد اور ابوداؤد میں حضرت انس بن مالک سے مروی ہے فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ رطبات یعنی تازہ کھجوروں سے روزہ کھولتے تھے، اگر یہ میسر نہ آتی تو تمرات سے افطار فرماتے اگر یہ بھی نہ پاتے تو پھر پانی سے افطار فرماتے۔

 

۳)۔ دعا کا اہتمام

 

روزے کے دوران اور افطار کے وقت دعا کا اہتمام کرنا، دعاء عبادت ہے، اور دعاء عبادتوں میں اقرب الی اللہ ہے، ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت کی ہے فرماتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”ان للصائم عند فطرہ لدعوۃ ما ترد”

(روزے دار کی افطار کے وقت کی دعاء رد نہیں کی جاتی ) افطار کے وقت کی جانے والی ماثورہ دعاؤں میں ”ذھب الظماء وابتلت العروق وثبت الاجر ان شاء اللہ ” شامل ہے[ابوداؤد]

 

۴)۔ روزے دار کو افطار کرانا

 

جس نے ایک روزے دار کو افطار کرایا اس کے لئے روزے دار کے برابر ثواب ہے، امام احمد اور ترمذی نے حضرت زید بن خالد الجھنی سے روایت کی ہے فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”من فطر صائما کان لہ مثل اجرہ غیر انہ لا ینقص من اجر الصائم شیئا”۔

(ترجمہ: جس نے ایک روزے دار کو افطار کرایا، اس کے لئے روزے دار کے برابر ثواب ہے اور روزے دار کے اجر میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی)

 

۵)۔ قیام اللیل

 

قیام اللیل یعنی تراویح، صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں قیام اللیل کرنے میں دلچسپی لیتے تھے، لیکن اس کے عزم کا حکم نہیں دیتے تھے، آپ فرماتے تھے:

”من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ”۔

(جس نے ثواب کی امید اور یقین کے ساتھ قیام اللیل کیا اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں)

 

۶)۔ جودوسخا: کھانا کھلانا، صدقہ، خیرات، صلہ رحمی اور پڑوسیوں کا اکرام کرنا۔

 

۷)۔ قرآن کریم کو مکمل پڑھنا

 

کثرت سے تلاوت کرنا، اسے یاد کرنا، قرآن پر غور کرنا اور اس کی تفاسیر پڑھنا، صحیحین میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتَّى يَنْسَلِخَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏”۔

نبیﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے بھلائی پہنچانے میں اور رمضان میں جب جبرئیل آپﷺ سے ملتے رہتے تو آپﷺ اور دنوں سے زیادہ سخاوت کر تے جبرئیل رمضان میں ہر رات آپﷺ سے ملا کرتے رمضان گزرنے تک وہ آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تو جن دنوں جبرئیل آپﷺ سے ملتے رہتے آپﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوتے۔

 

۸)۔ رمضان کا عمرہ

 

دیگر مہینوں کے مقابلے رمضان میں عمرہ کی خصوصی فضیلت ہے، رمضان میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ثواب ہے: صحیحین میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے: حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”فان عمرۃ فی رمضان تقضی حجة او حجة معی”

(رمضان میں عمرہ ایک حج یا میرے ساتھ حج کے ثواب کے برابر ہے)

 

               ۹)۔اعتکاف

 

رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرنا، لہٰذا معتکف ۲۱ ویں رات کے غروب شمس سے پہلے داخل ہو گا اور عید کی نماز کی ادائیگی تک ٹھہرا رہے گا، آپ ﷺ ہر رمضان میں پابندی سے اعتکاف کیا کرتے تھے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم ﷺ ہر رمضان میں دس روز اعتکاف فرماتے تھے، جس برس آپ کا وصال ہوا آپ نے بیس روز اعتکاف فرمایا”۔ اعتکاف ایسی مسجد میں ہو جہاں جمعہ اور پانچوں نمازیں با جماعت ہوتی ہو، اعتکاف کی حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے عبادات، ذکر اور دعا میں مشغول رہ کر لیلۃ القدر تلاش کی جاتی ہے،خصوصاً وتر راتوں میں ، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول؛ اگر میں شب قدر پالوں تو کیا دعا کروں؟ آپ نے فرمایا: تم کہو: ”اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی”

 

               روزے میں مباح امور

 

بعض ایسے امور ہیں جسے لوگ مفاسد صیام یعنی روزے کو باطل کرنے والے سمجھتے ہیں لیکن ان کے کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے وہ امور اس طرح ہیں:

۱)۔غسل کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا: صحیحین میں حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے مروی ہے: روزے دار کے لئے مضمضہ اور استنشاق میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے؛ لقیط بن صبرہ کی روایت میں ہے: فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول؛ مجھے وضو کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا:

”اسبغ الوضوء، وبالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما”۔

وضو کو اچھی طرح کرو اور استنشاق میں مبالغہ کرو، مگر روزے کی حالت میں مبالغہ نہ کرو”۔

۲)۔سرمہ لگانا: سرمہ لگانے سے حلق میں ذائقہ محسوس ہو یا نہ ہو، اگر محسوس ہو تو اسے تھوک دینا چاہیے اور نگلنا نہیں چاہیے، سنن ابوداؤد میں حضرت انس بن مالک سے مروی ہے: کہ وہ روزے کی حالت میں سرمہ لگایا کرتے تھے، کیونکہ آنکھ اور کان کھانے پینے کے راستے نہیں ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں نبی کریم ﷺ سے کوئی حدیثِ صحیح نہیں ہے۔

۳)۔ خون کا عطیہ دینا یا حجامت کرنا: خون کا عطیہ دینا یا حجامت کرنا یہ عمل اگرچہ روزے کی حالت میں نہ کرنا بہتر اور افضل ہے کیونکہ ان اعمال سے روزے دار کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے اور روزہ مکمل کرنا دشوار ہو جاتا ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: آپ ﷺ نے روزے کی حالت میں حجامت کی” اسی طرح ثابت بنانی سے صحیح بخاری میں مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس مالک سے دریافت کیا گیا: کیا تم لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں روزے دار کے لئے حجامت مکروہ سمجھتے تھے؟ فرمایا: نہیں، لیکن صرف کمزوری کی وجہ سے۔

۴)۔ بوسہ لینا اور مباشرت: نبی کریم ﷺ سے روزے دار کے لئے بوسہ لینا ثابت ہے، صحیح مسلم میں حضرت عمر بن ابی سلمہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا: کیا روزے دار بوسہ لے سکتا ہے؟ تو ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس بات کو ام سلمہ سے پوچھو۔پھر انھوں نے بتایا: کہ نبی کریم ﷺ اس طرح کیا کرتے تھے، تو عمر بن ابی سلمہ نے کہا: اے اللہ کے رسول؛ یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں؛ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:” اما واللہ انی لاتقاکم للہ واخشاکم لہ” (جہاں تک میرا معاملہ ہے تو میں تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا اور اللہ تعالٰی سے ڈرنے والا ہوں)، لہٰذا روزے دار کے لئے اس سلسلے میں احتیاط کرنا ہی بہتر ہے، جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے: وہ فرماتی ہیں: نبی کریم ﷺ حالت روزہ میں بوسہ لیتا اور مباشرت فرماتے ؛ لیکن آپ ﷺ تم میں سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو پانے والے تھے”۔

۵)۔ مسواک: مسواک کرنا یا اس معنی میں جو چیزیں آتی ہیں ان کا استعمال کرنا اگر معجون اسنان کا استعمال اس طور پر کیا جائے کہ وہ پیٹ میں داخل نہ ہو تو یہ بھی کرسکتے ہیں، مسواک کے استعمال کے باب میں اس کے استحباب پر بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں ، اور اس کے استعمال کی کوئی وقت کے ساتھ تخصیص بھی نہیں کی گئی، جو لوگ زوال کے بعد روزے دار کے لئے مسواک کے استعمال کو مکروہ کہتے ہیں سندا اور استدلالا صحیح نہیں ہے۔

۶)۔ سفر: اگر کوئی مباح ضرورت ہو اور روزہ دار رخت سفر باندھے تو اس کے لئے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے تاہم رمضان کے بعد اس روزے کی قضا ضروری ہو گی، ہاں اگر کوئی شخص روزے چھوڑنے کی غرض سے سفر کرتا ہے تو اس کے لئے سفر کرنا درست نہ ہو گا، اور سفر میں بغیر روزہ رہنا بھی صحیح نہیں ہو گا۔ چونکہ واجب کو ساقط کرنے کے لئے حیلہ کرنے سے واجب ساقط نہیں ہوتا جیسا کہ حرام پر حیلہ کرنے سے حرام حلال نہیں ہوتا۔

 

               صدقہ فطر

 

حالت روزے میں ہونے والی خرابیوں اور نقص اور کمی سے روزے دار کو پاک کرنے کے لئے اور عید کے دن فقراء، مساکین کو سوال کی ذلت سے محفوظ رکھنے کے لئے زکاۃ الفطر مشروع قرار دیا گیا، ابوداؤد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:

”فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطرطھرۃ للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساکین”۔

(رسول اللہ ﷺ نے روزے دار کے لئے لغویات، گالی گلوج سے پاکی کے لئے اور مساکین کے کھانے کے لئے فطر کا صدقہ فرض کیا )

فطر کا صدقہ ہر مسلمان پر واجب ہے، چاہے مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، تندرست ہو یا مریض، چاہے شہر والوں میں سے ہو یا دیہات والوں میں سے، چاہے وہ رمضان میں مقیم ہو یا مسافر، بالاجماع جس پر مسلمان ہونے کا اطلاق ہوتا ہے صدقہ فطر واجب ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض سلف جنین کی جانب سے بھی صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔اس کے وجوب کی دلائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں: صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:

فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ‏

(رسول اللہ ﷺ نے فطر کا صدقہ کھجور کا یا جو کا ایک صاع فرض کیا ہر غلام اور آزاد اور مرد اور عورت اور چھوٹے اور بڑے کی طرف سے جو مسلمان ہوں اور عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلےاس کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔)

نیز صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:

كُنَّا نُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ‏.‏ وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَكَانَ طَعَامَنَا الشَّعِيرُ وَالزَّبِيبُ وَالأَقِطُ وَالتَّمْرُ‏۔

(ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عیدالفطر کے دن ایک صاع کھانے کا (صدقہ کے لئے) نکالا کرتے ابو سعید نے کہا ان دنوں ہمارا کھانا یہی تھا جو اور منقیٰ اور پنیر اور کھجور۔)

لہٰذا اہل شہر میں جو غذا زیادہ رائج ہو اس میں سے فطرے میں ادا کرنا چاہئے، صدقہ فطر کی مقدار 2.5 یعنی ڈھائی کلو ہے اگر کوئی مالدار ہے تو وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے، صدقہ فطر عید کے دن یا رات میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا چاہیئے، صدقہ فطر میں کھجور، جو، گیہوں اور چاول میں سے جو بھی ہو دے سکتے ہیں، نیز مسلمان کو ان تمام کی جانب سے صدقہ فطر نکالنا ہو گا جن پر خرچ کی اس پر ذمہ داری ہے۔

 

               روزہ اور معاصر علاج

 

علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چار چیزوں سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔

۱)۔ کھانا

۲)۔ پینا

۳)۔جماع

۴)۔حیض اور نفاس

دلیل کے اعتبار سے روزے کو فاسد کرنے والا اقرب ذریعہ معدہ ہے، جس میں پیٹ کے ذریعے کھانے کی چیزیں داخل ہوتی ہیں۔ معدہ کے علاوہ بدن کے دیگر عضو میں کسی شئے کے دخول سے روزے میں فساد پیدا نہیں ہوتا۔

علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا پیٹ میں ایسی اشیاء کا دخول ہو جائے جو کھائی نہیں جاتی تو کیا اس سے روزہ باطل ہو جائے گا یا نہیں؟ اقرب یہی ہے کہ روزہ صرف کھائی جانے والی اشیاء کے دخول سے باطل ہوتا ہے۔

۱)۔ بخاخ الربو: اقرب یہ ہےاس سے روزہ باطل نہیں ہوتا ، اس کو ہم روزے دار کے لئے مضمضمہ اور استنشاق(یعنی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا) اور مسواک کے استعمال کے جواز پر قیاس کرتے ہیں۔

۲)۔ قینچی رکھنا: دل کی دھڑکنوں کے علاج کے لئے زبان کے نیچے قینچی رکھی جاتی جو پیٹ تک نہیں پہنچتی لہٰذا اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔

۳)۔ٹیلی اسکوپ: پیٹ کی بیماری کی جانچ کے لئے ٹیلی اسکوپ کرایا جاتا ہے یعنی پیٹ میں مشینی آلات کو داخل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اقرب اور صحیح یہ ہے کہ لوہا یا کوئی ایسی شئے جسے کھایا نہیں جاتا بطن میں داخل کیا جائے تو روزہ باطل نہیں ہو گا، ہاں اگر ٹیلی اسکوپ کے دوران آلات کے دخول میں آسانی کے لئے غذائی تیل پر مشتمل کوئی مواد ڈالا جائے تو پھر روزہ فاسد ہو جائے گا۔

۴)۔ نوز ڈراپ: یعنی ناک میں ڈراپ ڈالنا، اس بارے میں اکثر علماء کی رائے ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن بظاہر اس سے روزہ باطل نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ ڈراپ یا قطرہ معدہ تک بہت ہی معمولی پہنچتا ہے جو قابل معافی ہوسکتا ہے، اور یقین شک کو زائل نہیں کرسکتا، لہٰذا افضل یہی ہے کہ یہ کام رات میں کیا جائے۔

۵)۔آکسیجن کا گیس: آکسیجن کے گیس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، یہ صرف ایک ہوا ہے، جس میں کسی قسم کا کوئی ایسا مادہ موجود نہیں ہے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو۔

۷)۔وارننگ: جب وارننگ یا تنبیہ بناوٹی ہو تو روزہ نہیں توڑنا چاہیے، اس لئے کہ اس سے کوئی چیز پیٹ میں داخل نہیں ہوتی اور نہ اس میں کوئی غذائی مواد ہوتا ہے، ہاں اگر ایسی تنبیہ ہو کہ مریض روزہ نہ توڑنے کی وجہ سے اپنے ہوش کھو جائے گا اور دن کا طویل حصہ باقی ہو تو روزہ توڑنا چاہیے،اس کی دلیل صحیحین میں حدیث مروی ہے:

”یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی”

(وہ اپنی خواہش اور اپنا کھانا میرے لئے ترک کر دیتا ہے) ۔

اور بے ہوشی تنبیہ پر صادق نہیں آتی ہے، اگر مریض دن کے کسی حصے میں نیند سے بیدار ہو تو صحیح یہی ہے کہ وہ روزہ نہ توڑے، کیونکہ کھانے پینے سے رکے رہنے کی نیت دن کے ایک حصہ ہونے کے بعد بھی کی جا سکتی ہے۔

۸)۔ کان ڈراپ: کان میں ڈراپ ڈالنے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ دونوں کانوں اور پیٹ کے درمیان کوئی منفذ نہیں ہے،اور کانوں کے غسل کا حکم کان ڈراپ کے حکم میں شامل ہے، لیکن Ear drumیعنی کانوں کے اندر موجود ہوا کو منتقل کرنے والا عضو اگر پھٹ جائے تو اس راستے کوئی مواد اگر داخل ہو جائے تو پھر روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔

۹)۔آنکھوں میں ڈراپ ڈالنا: اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لئے کہ یہ قطرہ آنکھ اور ناک کو ملانے والی ہڈی سے گزرتا ہے، لہٰذا بلغم تک نہیں پہنچتا اور اگر بلغم تک نہ پہنچے تو پھر معدہ میں بھی نہیں پہنچتا ہے، اگر معمولی پہنچ بھی جائے تو مضمضمہ یعنی کلی میں معمولی پانی جس طرح معاف ہے یہ بھی معاف ہے۔

۱۰)۔ علاج کے لئے انجکشن لگانا: علاج کے طور پر انجکشن لگانے سے جمہور فقہاء کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوتا، اس لئے کہ روزہ اس وقت تک فاسد نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے فساد کی دلیل نہ ہو،لہٰذا انجکشن لگانا ، کھانے پینے یا اس معنی میں نہیں ہے، اسی طرح شوگر کے مریض سے انگلی کا خون برائے جانچ لینا بھی روزہ کو نہیں توڑتا۔

۱۱)۔غذائی انجکشن: اکثر اہل علم کے نزدیک اس طرح کے انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ کھانے اور پینے کے معنی میں ہے، جس شخص کو یہ انجکشن لگایا جاتا ہے اسے کھانے پینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۱۲)۔ تیل: تیل، مرہم، علاجی تھوک روزے کو نہیں توڑتے، نیز اس سلسلے میں اجماع بھی ہے۔

۱۳)۔کھیتیٹر: یعنی مثانہ سے ٹیوب کے ذریعے پیشاب خارج کرنا، اس عمل سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، کیونکہ یہ کھانا اور پینے کے معنی میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ معدہ میں داخل ہوتا ہے۔

۱۴)۔ Laparoscope:یہ بھی معدہ تک نہیں پہنچتا ہے، لہٰذا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

۱۵)۔ڈالیسیز یا گردے کی دھلائی: اس عمل کے دوران غالباً غذائی مواد یا شوگر مستعمل ہوتا ہے لہٰذا اس بنیاد پر روزہ فاسد ہو جائے گا۔

۱۷)۔ حقنۃ الشرج: جب اس میں پانی ہو، یا غذائی مواد ہو ، جسے آنت چوستے ہیں، لہٰذا اس شکل میں روزہ جاتا رہے گا، اس انجکشن سے جسم کو تقویت ملتی ہے۔

۱۹)۔speculum: اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، کیونکہ یہ معدہ تک نہیں پہنچتی اور نہ ہی اس سے جسم کو غذائیت ملتی ہے۔

۲۰)۔ کیتھیٹر کا داخل کرنا: کیتھیٹر یا ٹیلی اسکوپ کا مثانہ کی صفائی کے لئے داخل کرنے یا کسی ایسے مادہ کے ذریعے صفائی کی جائے جس میں شعاعوں کی مدد لی گئی ہو تو بھی روزہ باطل نہیں ہوتا ہے؛ یہ اس وقت جب پیشاب اور معدہ کے کو جوڑنے والے عناصر کے درمیان کوئی منفذ نہ ہو۔

۲۱)۔خون کا عطیہ کرنا: اسے حجامت پر قیاس کرتے ہیں، لیکن اس سلسلے میں علماء کے درمیان زبردست اختلاف ہے، لیکن حجامت پر قیاس کرتے ہوئے اقرب روزہ فاسد نہیں ہوتا، لہٰذا خون کے عطیہ سے روزے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

۲۲)۔جانچ کرنے کے لئے تھوڑا خون نکالنا: اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے۔

وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭

ماخذ:

وذکر ڈاٹ انفو

http://www.wathakker.info

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید