راز و نیاز
رازؔ چاند پوری
تمہید
الٰہی! خیر، یہ کیا ماجرا ہے
دگرگوں رنگِ محفل ہو گیا ہے
وہ محفل، محفلِ حسن و محبت
جہاں تھی جلوہ گستر شمعِ اُلفت
وہ شمعِ سوز آگیں ، مہر پرور
ضیابارِ حقیقت تھی جو یکسر
منور جس کے جلوے سے تھی محفل
جوابِ طور تھا کاشانۂ دل
ہوئی ہے اس کو اب خلوت سے نفرت
بنی ہے رونقِ بازارِ اُلفت
کچھ اس انداز سے جلوہ نما ہے
نظر بیگانۂ حسنِ حیا ہے
تکلم میں ہے شانِ خود فروشی
تکلف ہے سراسر گرم جوشی
وفاداری بہ رنگِ مغربی ہے
جفا کیشی کی شاہد خودسری ہے
بڑھا ہے ایسا شوقِ ہرزہ کاری
وبالِ جاں ہوئی ہے خانہ داری
نظام زندگی برہم ہوا ہے
سکونِ دل کا اب حافظ خُدا ہے
رفیقِ زندگی کیوں سرگراں ہے
ترا قصّہ نہیں ، یہ داستاں ہے
فسانہ ہے یہ اربابِ جہاں کا
تجھے دھوکا ہے سرّ دلبراں کا
مجھے معلوم ہے رازِ حقیقت
مسلّم ہے ترا صدقِ محبت
مروّت کیش ہے تو، باوفا ہے
خلوص آمیز تیری ہر ادا ہے
مگر اک بات، اچھا پھرکہوں گا
قصیدہ تیری سیرت کا پڑھوں گا
تقریر
رفیقِ زندگی! اللہ اکبر
قیامت خیز ہے دُنیا کا منظر
عجب اک انقلاب آیا ہوا ہے
جسے دیکھو وہ گھبرایا ہوا ہے
کوئی مستِ شرابِ خودسری ہے
ہوائے ’’ہم چو مَن‘‘ سر میں بھری ہے
کوئی خود بیں ہے، کوئی خود نما ہے
برائے نام کچھ ذکرِ خدا ہے
محبت دہر سے عنقا ہوئی ہے
مروت اک تماشا بن گئی ہے
وفاداری ہے افسانوں میں پنہاں
جفا کاری کا دلدادہ ہے انساں
کہاں باقی ہے اب وہ صدقِ الفت
ریاکاری پہ قائم ہے محبت
فریب آمیز ہے حسنِ تکلّم
شرر آلود ہے برقِ تبسّم
تکلف ہے سراسر خوش بیانی
تصنّع ہے فقط شیریں بیانی
غرض دُنیا ہے اور مطلب پرستی
یہی ہے کائناتِ بزمِ ہستی!
غلط ہے کیا کہا؟ میری شکایت
بہت ہی بے مزا ہے یہ حکایت
مگر یہ بات سچّی اور کھری ہے
کہ دنیا مبتلائے خودسری ہے
مثالاً آج کل عورت کی حالت
نہیں کیا موجبِ افسوس و حیرت؟
وہ عورت ، وہ شریکِ زندگانی
مجسّم پیکرِ حسنِ معانی
انیس و غم گسار و نیک سیرت
رفیقِ یاس و حرمان و مصیبت
وفا خو تھی، صداقت آشنا تھی
محب کیش تھی وہ، بے ریا تھی
وہ عورت اب وبالِ جاں ہوئی ہے
سراسر رہزنِ ایماں ہوئی ہے
نظر آوارۂ کوئے خودی ہے
جبیں آئینۂ روئے خودی ہے
ہوئی ہے مبتلائے خود پرستی
تزلزل میں ہے اب ایوانِ ہستی
کرشمہ ہے ہوائے مغربی کا
خدا حافظ ہے شمعِ مشرقی کا
زباں کو روکئے اپنی خدارا!
انہیں باتوں سے دل ہے پارہ پارا
خدا سمجھے، یہ کوئی شاعری ہے
حلاوت کے عوض تلخی بھری ہے
پڑیں پتّھر اس اندازِ بیاں پر
یہ حملے اور پھر اک بے زباں پر
کہاں تک اس طرح طعنے سہوں گی
بڑھے گی بات اگر میں کچھ کہوں گی
کسی سے کیا کہوں رازِ حقیقت
یہ باتیں اور دعوائے محبت!
ناظرہ
کبھی آتا ہے غصّہ آسماں پر
کبھی پیشِ نظر ہے محفلِ دوش
کبھی ہیں فکرِ فردا سے ہم آغوش
عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے
خدا کے فضل کا بس آسرا ہے
نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر
ٹھکانا ہی نہیں گویا کہیں پر
فضائے بزمِ راحت ہے نظرسوز
صدائے سازِ الفت ہے غم آموز
مکاں ویراں ہے، بے پروا مکیں ہے
حریفِ آسماں گھر کی زمیں ہے
در و دیوار ہیں خاموش یکسر
قیامت ہے یہ وحشت خیز منظر
حریمِ ناز میں ظلمت نہاں ہے
چراغِ خانۂ الفت کہاں ہے؟
اسی کا نام ہے شاید ترقی
کہ خانم کو نہیں کچھ فکر گھر کی
خیالِ بیش و کم سے وہ بَری ہے
نمائش کی ہوا سر میں بھری ہے
یقیناً اگلے وقتوں کی ہے یہ بات
محافظ تھی وہ اپنے گھر کی دن رات
مگر یہ دَورِ تہذیب و ترقی
اجازت ہی نہیں دیتا ہے اس کی
کہ اپنے گھر کی بھی اُس کو خبر ہو
نظامِ زندگی پر بھی نظر ہو
اُسے مطلب نہیں کچھ این و آں سے
اُسے فرصت کہاں سیرِ جہاں سے
یقیناً اس کا حق ہے سیرِ گلشن
اگر جلتا ہے، جل جائے نشیمن
یقیناً اس کا حق ہے دیدِ عالم
کسی کے درد و غم کا اس کو کیا غم
اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے
اُسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے
بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں
بہت بہتر، میں ایسی بے ہُنر ہوں
بڑی خود بیں ، بڑی خود کام ہوں میں
زمانے میں بہت بدنام ہوں میں
بڑی کم ظرف ہوں میں ، خود نما ہوں
بہت کج خلق ہوں میں ، بے وفا ہوں
مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں
خودی و خودسری کا آئنا ہوں
مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی
کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟
شکر رنجی
رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں
انیسِ خاطرِ رازِ پریشاں
بڑی خوش فہم ہے تو خوش نظر ہے
رموزِ این و آں سے با خبر ہے
میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا
تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا
تو واقف ہے مری فکر و نظر سے
صدائے سازِ دل، سوزِ جگر ہے
جہاں میں تو ہی میری راز داں ہے
مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے
محبت کیش ہوں یا بیوفا ہوں
نیاز آگیں ہوں یا میں خود نما ہوں
سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر
مجسّم آئنہ یا راز یکسر
الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے
جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے
یہ تمہید اور یہ شانِ تکلّم
یہ اندازِ سخن، جانِ تکلّم
بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے
مری تعریف کا دفتر کھلا ہے
میں اس تعریف کے لائق نہیں ہوں
میں اس توصیف کی شائق نہیں ہوں
یقیناً کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں
شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں
معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے
ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟
نہیں ایسا نہیں ، ہرگز نہیں ہے
مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہے
حقیقت یا فریبِ ناروا ہے
عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل
سمجھنا ہو گیا ہے اُس کا مشکل
خودی ہے یا مجسّم حق پرستی
معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی
کبھی اک پیکرِ مہر و وفا ہے
سراپا انکسار و التجا ہے
کبھی تصویر ہے جور و جفا کی
کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی
کبھی خنداں ہے مثلِ لالۂ و گل
کبھی نالہ سرا ہے مثلِ بلبل
کبھی خاموش مثلِ بے زباں ہے
کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے
میں ا ب سمجھی ،میں اب سمجھی حقیقت
جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت
بڑے تم نکتہ رس ہو، خوش نظر ہو
نہایت دور بیں ہو، حق نگر ہو
مگر افسوس، یہ نغمہ سرائی
خودی ہے یا سراپا خودستائی
مری کمزوریوں پر تو نظر ہے
مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟
بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت
معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت!
ملاپ
رفیقِ زندگی دلگیر کیوں ہے؟
سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے؟
غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے
شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے
جمالِ دلنشیں ، آتش بجاں ہے
نگاہِ مہر میں برقِ تپاں ہے
ادائے دلبری ہے قہر ساماں
نیازِ ناز ہے شعلہ بداماں
پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے
لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے
تکلّم مظہرِ شانِ جلالی
تبسّم بے نیازِ خوش جمالی
نظر بیگانۂ مہر و محبت
ستم پرور، جفا آگیں ، قیامت
ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے
مگر اس برہمی میں دلکشی ہے
میں قرباں ، یہ ادائے بے نیازی
میں صدقے، یہ طریقِ دلنوازی
خدارا اک نگاہِ قہر آگیں
شرابِ تلخ بھی ہوتی ہے شیریں
وہ آئی، اب ہنسی آئی کسی کو
کوئی روکے تو دیکھوں اس ہنسی کو
چلو، جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا
معمّا ہوں معمّا میں سراپا!
مگر یہ عقدہ یوں تو حل نہ ہو گا
بتاتی ہوں ابھی میں راز اس کا
بہت بیباک ہوں ، بیباک ہوں میں
بڑی چالاک ہوں ، چالاک ہوں میں
مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے
مری طینت حریفِ آسماں ہے
خودی ہوں ، بیخودی ہوں ، خود سری ہوں
جفا جُو ہوں ، وفا سے میں بَری ہوں
بڑی مکّار ہوں ، عیّار ہوں میں
بڑی خود کام ہوں ، خودکار ہوں میں
ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت
ریاکاری ہے گویا میری فطرت
بڑی بے رحم ہوں ،جلّاد ہوں میں
بڑی بے درد ہوں ، فولاد ہوں میں
ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے
مری چشمِ غضب، جادو اثر سے
کہیں ایسا نہ ہو مسحور ہو کر
کرو سجدے کسی کے آستاں پر
بڑی خوددار ہوں ، خوش کار ہوں میں
بڑی فرزانہ و ہشیار ہوں میں
میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے
نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے
حقیقت ہے، نہیں یہ خود فروشی
’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘
نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم
بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم؟
سنو گے اور کچھ میری زباں سے
زبانِ نکتہ دان و خوش بیاں سے
دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی
مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی
نظامِ دہر پر قبضہ ہے میرا
بدل سکتی ہوں میں دُنیا کا نقشا
دکھا سکتی ہوں شانِ کبریائی
مٹا سکتی ہوں مردوں کی خدائی
بنا سکتی ہوں اک تازہ جہاں میں
جہانِ تازہ و رشکِ جناں میں
کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی
دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی
سکھا سکتی ہوں آدابِ محبت
بتا سکتی ہوں اسرارِ حقیقت
مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے
کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے
نہ مانو گے، نہ مانو ، خیر، اچھا
انہیں باتوں سے دل ہوتا ہے کھٹّا
بڑے آئے کہیں کے ناز بردار
پڑے اس ناز برداری پہ پھٹکار
ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا
جلانے سے مجھے تم کو ملا کیا؟
نیاز و ناز، توبہ، یہ معمّا
ہوا ہے حل کبھی مجھ سے، نہ ہو گا
جمالِ دلنشیں کہتے ہیں کس کو
نگاہِ سرمگیں کہتے ہیں کس کو
ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے
یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے
مجسّم شعر ہوں ، نغمہ ہوں ، لَے ہوں
کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں ؟
قصیدہ ہوں ، غزل ہوں ، یا رباعی
تو گویا صنف ہوں اک شاعری کی
تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے
تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے
بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا !
کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا
٭٭٭
ماخذ: باقیاتِ راز، تشکر: سرور عالم راز سرورؔ جن سے فائل دستیاب ہوئی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید