FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

رات بہت ہوا چلی

 

(نظمیں)

 

                رئیس فروغ

پیشکش: تصنیف حیدر

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

 

رئیس فروغ 1926 میں پیدا ہوئے اور 1982 میں ان کا انتقال ہوا۔ان کی شاعری اس قدر منفرد اور معیاری ہے کہ ادب کے قارئین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مگر افسوس کہ رئیس فروغ کو ہمارے مشہور و معروف شاعروں کے گروپ میں کوئی خاص جگہ نہیں مل سکی۔جبکہ ان کا نیا پن بہت سے معروف شاعروں کو معنوی و لفظی طور پر ان کے آگے بونا ثابت کرتی ہے۔رئیس فروغ کا یہ مجموعہ طارق رئیس فروغ صاحب کی وجہ سے آپ تک پہنچ سکا ہے۔ مجھے ان کا یہ مجموعہ ادبی دنیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ان کی شاعری نے مجھے بھی بہت متاثر کیا ہے اور غزل میں جدیدیت کے صحیح مطلب سےواقف کرایا ہے۔ امید ہے کہ قارئین کو یہ مجموعہ بے حد پسند آئے گا۔شکریہ

 

تصنیف حیدر

اس برقی کتاب میں محض نظمیں شامل ہیں۔ غزلوں کی ایک علاحدہ ای بک ’پھر مجھے نیند آ گئی‘ کے عنوان سے بنا دی گئی ہے

 

اعجاز عبید

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیتاں

 

گرتے ستاروں کے آس پاس کہیں

گریٹ آئیڈیاز

اور ان میں گھرا ہوا ولیم جیمز

 

اس کے لڑکپن میں

پہاڑ بھاگتے تھے

جنگل بہتے تھے

بہتے جنگلوں میں نہاتی بطخوں کا پیچھا کرتے ہوئے

ہم

دھوئیں کے فلیٹوں تک پہنچ گئے

ان تمام صدیوں کے دوران

اس چھری نے کئی چہرے بدلے

جسے پہلی بار ہم نے

سبزی کے تھال میں دیکھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

انکوائری

 

کیوں گھومنے والی کرسی پر

اُڑتا ہوا بادل جا بیٹھا

کیوں کمپیوٹر کے کیبن میں

پھیلا ہوا جنگل جا بیٹھا

چھوٹے چھوٹے چا لاکوں میں

کیوں بڑا سا پاگل جا بیٹھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئے شہروں کی بنیاد

 

ان کی بارگاہ میں

جنگل کے شیر

جاروب کشی کرتے ہیں

 

موت نے ان سے وعدہ کیا تھا

آگ نہیں جلائے گی

ساتویں نسل تک

لیکن میں ہوں

آٹھویں نسل میں

میں نے ان کی سفید خو شبو کو محسوس کیا ہے

 

ان کی دستار کا

ایک سِرا مشرق میں گم ہے

 

ایک سِرا ایک اور مشرق میں گم ہے

وہ سورج کے آگے آگے قبا پہن کر چلتے ہیں

 

ہم اپنی حدوں میں سمٹے ہوئے

انھیں دیکھتے ہیں

اور کہتے ہیں

نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں

جو جنگل کے شیروں کو

جاروب کشی پر مامور کر دیں

 

ہم تو

اپنے گھوڑوں کی گردن پر

باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈپریشن کی شام

 

گردنوں کو لپٹے ہوئے

السیشن

سانس کی نالیوں میں اتارے ہوئے

ٹیوب

صدقے کی راس بیچنے والا

قندھار گُل

 

زخموں کی گیلری میں

چھینٹے

پا ئینچے

انگارے

کو بالٹ ریز اور وارڈ بوائے کی ٹوکے سنگم پر

آخری اسٹریچر

٭٭٭

 

 

 

 

خانم جان

 

مٹّی کا بدن

ناچے تو کرن

وہ روشنیوں میں ناچنے والی

خانم جان

 

اس کے ہاتھوں کی بدلی میں

میرے باز

اپنا آنگن بھول گئے

 

میں نے کہا

میں نے تیری دو آنکھوں میں

کتنے بسترپینٹ کیے

جس وقت یہ کمرا چھوڑوں گا

اپنے سارے خواب

تجھ سے واپس لے لوں گا

 

اس نے کہا

آؤ صبح سے پہلے

ہم تم

پچھلے ایک برس میں مرنے والوں کے فوٹو دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدھا سفر ہم نے خیالوں میں کیا

 

پھر وہ بولا

جال کو دوست سمجھو

اور بادبان کا خواب دیکھو

اس بات پر لڑکی کو ہنسی آئی

اور ہنسی میں زپ سرکنے کی آواز گم ہو گئی

 

لائٹ ہاؤس اعلان کر رہا تھا

وہ ایبسکو نڈرز ہیں

اس کے چہرے سے چمگا دڑ کا سایہ اُڑا

اور افسروں کی گھنٹیاں بجنے لگیں

کوری ڈور میں قدم تیز ہو گئے

 

موٹے جوتوں کے شور میں

وہ لائٹ ہاؤس کا پیغام سنتارہا

اور سوچتا رہا میں کون ہوں

سوچنا پہلے ہے یا ہونا پہلے ہے

 

پھر ٹیلی فون کے تاروں میں

الجھی ہوئی پتنگیں پھڑ پھڑائیں

جال نے بادبان سے کچھ کہا

 

لڑکی لہروں پر ہاتھ پھیرنے لگی

ایک لہر میں بھی بناؤں گی

 

اپنے نام کی لہر بنا دو

اور لانچ سے کود جاؤ

 

بندر گاہ کی میز پر ڈاک جمع ہو رہی ہے

ہوا کی انگلیاں ٹائپ رائٹر پر دھُن بجا تی ہیں

 

جال اور بادبان باتیں کیے جا تے ہیں

لڑکی روتی ہے

وہ لہر کہاں گئی جو زپ کے ساتھ کھلی تھی

وہاں ہنس کی جوڑی تھی

ان کے بچّے بدلیوں کے آنچل کھینچ رہے تھے

اور جنگل کا پہلا موسم گہرا ہو رہا تھا

اور آگ چُرانے والے دیودار کی شاخوں سے جھانک رہے تھے

وہ لہر کہاں گئی

٭٭٭

 

 

 

 

بُوچر

 

پتّھر گرا

پتّھر گرا

 

ہا۔۔ہا۔۔ہا

کوئی تارا ہو گا

ٹوٹ کر گرا ہو گا

تارے جب ٹوٹ کر گرتے ہیں

تو ایسی ہی عجیب آوازیں آتی ہیں

 

فرّاش سے کہو

دن نکلنے سے پہلے ہی پہلے

اسے اٹھا کر مز بلے پر ڈال آئے

صبح کو

بلدیہ کی گاڑی آئے گی

 

تو وہ اسے لے جائیں گے

اور اس کی کھال اُتار کے بیچ ڈالیں گے

ہا۔۔ہا۔۔ہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہارڈنگ برج

 

آٹھواں سورج

اس ٹاور کے ماتھے سے ٹپکتا ہے

جو بے نمبر کی بس کا ٹرمنس ہے

جہاں موٹی سی عورت کی بہت موٹی سی پنڈلی

چاہتی ہے

بھوری مٹی کی گھڑی ٹاور سے مل جائے

مگر ہر بینک اپنی انتہا پر ملگجے گودام میں تبدیل ہوتا ہے

وہاں راتوں کو

گنّے بیلنے کی ریڑھیاں پُرزے بدلتی ہیں

اور ان کی بے لباسی کا تماشا واش بیسن دیکھتا ہے

دیکھتا ہے اور کسی پچھلے جنم میں جا نکلتا ہے

کسی پچھلے جنم کے سرمئی مندر کی سیڑھی پر سمندر پاؤں رکھتا ہے

تو کالی دیوداسی اپنی چوٹی کھول دیتی ہے

 

میرا عزرائیل کہتا ہے

کہ یہ ریلنگ میری خود کشی کی ارج سے کمزور ہے

ہمیں اس بانسری کی آرزو ہے

جو کسی رتھ بان کی سب سے

بڑی پہچان ہے

 

بانسری ملتی نہیں

پیٹرول کے پائپ نظر آتے ہیں

جن کے دائروں میں

فاصلے اور وقت مل کر پُل بناتے ہیں

اسی پل پر تو روحِ عصر تصویر یں بناتی ہے

روحِ عصر کی آوارہ تصویریں

مشینی شہر کے سمبل

جو تمبولا چلاتے ہیں

 

یہ گہرے پانیوں سے بھاگنے والی

بڑی چھوٹی سنہری مچھلیاں

اس ڈور کے کانٹے سے اندھی ہیں

جس کا سِرا

اس وقت میرے ہاتھ میں گُم ہے

 

گم اندھیرے میں عمارت جگمگاتی ہے

درختوں کی طرح ہر سال اک منزل بڑھاتی ہے

چلو کھڑکی سے دیکھیں

کس طرح سرکش جہازوں کے ہیولے

کیکڑوں کا روپ اپناتے ہیں

پھر روپوش ہو جاتے ہیں

اس شپ یارڈ کے پیچھے

جہاں اک باؤلا انجن

خیالی بوگیوں کو شنٹ کرتا ہے

ان کڑیل کرینوں کے علاقے میں

جو باٹل پام کی مانند خوش قامت ہیں

اور موٹی سی عورت کی بہت موٹی سی پنڈلی سے زیادہ سروقد ہیں

 

آج قربانی کی شب ہے

اور اک بینر پہ لکھا ہے

کہ ہم حاضر ہیں

رانیں روسٹ کرنے کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ریت کا شہر

 

مجھے اپنے شہر سے پیا ر ہے

نہ سہی اگر مرے شہر میں

کوئی کوہِ سر بہ فلک نہیں

کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں

 

یہ عظیم بحر

جو میرے شہر

کے ساتھ ہے

مری ذات ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سانپ والی

 

بانہوں میں شام لپیٹے

جب تو مجھ سے ملتی ہے

تیری سانس میں

ایک نہ ایک

زہر کی لہر

کم ہوتی ہے

 

سُن ری سجنی

جنم جنم سے ایک شریر

آدھا تیرا

آدھا میرا

تو مر جائے تو سارا میرا

٭٭٭

 

 

 

 

شیرانی

 

منے!

شادی کس سے کرو گے

آپ سے

ہا ہا ہا

شریر کہیں کے

 

اب سلمیٰ باجی

قبرستان کا حصہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لیڈی ڈفرن

 

ہمیشہ پھولتا پھلتا ترا وجود رہے

جو آج کل تری باتوں میں سرسراتی ہے

وہ آگ وقت گزرنے کے باوجود رہے

 

میں چاہتا ہوں تری مامتا کی بانہوں میں

ہر ایک سال نئے پھول کی بہار آئے

تمام عمر تری چھاتیوں میں دودھ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

گھوڑے سے خطاب

 

جاؤ پہاڑوں پر جاؤ

اودی نیلی وادی میں

اک پیاری سی گھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کمرا

 

مجھے نہ کھولو

مرے اندھیرے میں

ایک لڑکی

لباس تبدیل کر رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

قاتل

 

آج بھی

اس کے دونوں ہاتھ

لرز رہے تھے

 

اور

 

ہر انگلی کے سرے پر

ایک ستارہ چمک رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

انکل

 

وہ اس روز

بہت رویا اور بہت ہنسا

جب پہلی بار اسے معلوم ہوا

اس کے باپ کے سارے دوست

بدمعاش ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ائیر پورٹ

 

اگر تو نہ جاتی

تو اے جانِ جاں

مِرا پیار

جاڑے کی بارش میں

سی آف کرنے کی لذّت سے

محروم رہتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پڑھے لکھے لوگ

 

آپ پھر آ گئے

اگر اب خیالی ٹرینوں کے نیچے سے گزریں

تو بیوی کا ہاتھ

اور اولاد کا ساتھ بھی

چھوڑ دیں

٭٭٭

 

 

 

 

کالا دن

 

جب نیچا بھاری آسمان

آہیں بھرتی روح پر

ڈھکنے کی طرح آ جاتا ہے

 

جب اُفق کی پوری وسعت کو

لیے ہوئے آغوش میں

وہ ہم پر نازل کرتا ہے

کالا دن

راتوں سے زیادہ کالا دن

جب دھرتی بن جاتی ہے

سیلی ہوئی سی جیل

جیل میں امید

جیسے کوئی چمگادڑ

اپنے پروں کو دیواروں پر پھیلائے

 

اپنے سر کو شہتیروں سے ٹکرائے

جب ظالم قاتل مکڑیوں کا

ایک ہجوم

ذہن کی گہرائی میں

اپنے جال بچھاتا ہے

گھنٹیاں پاگل ہو جاتی ہیں

اپنا شور اچھالتی ہیں

آسمان کی طرف

جیسے بے گھر اور آوارہ روحیں

بے قابو ہو کر روتی ہیں

اور مُردے ڈھونے والی

لمبی لمبی ایمبولینسیں

میری روح میں داخل ہوتی ہیں

ہاری ہوئی امید

روتی ہے

اور اک ظالم کرب

اپنا کالا کالا جھنڈا

گاڑتا ہے

میری کالی کھوپڑی پر

(بادلئیر سے ترجمہ )

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسفنج کی اندھی سیڑھیوں پر

 

مجھے اس جنریٹر کی تلاش ہے

جو سیاروں کو بجلی سپلائی کرتا ہے

اور جس کے کرنٹ سے میرے سیل روشن ہوتے ہیں

 

میں نے ایک آدمی کے ماتھے پر

غرور سجادگی کے گلاب دیکھے

وہاں چھوٹی اینٹوں کی دیوار پر اسم سیادت چمکتا ہے

 

پھر ہوا نے ٹین کی چادریں گردنوں پر پھینکیں

مائیں نیند سے لڑنے لگیں

 

باپ آنگن کو پرواز سے روکتے رہے

اور زمین کے نیچے مایا کی دیگیں سرکتی رہیں

بکریوں نے شور کیا

پہلوٹی والا دو

پہلوٹی والا دو

 

وہ دیکھو اسفنج کی اندھی سیڑھیوں پر

ناخن کے بعد ناخن

ہزار پایہ سفر میں ہے

سفر ۔ سفر ۔ سفر

گھومتے ہوئے پہئیے

ٹوٹتے ہوئے بریک

ایک انچ میں ہزار انچ غبار

اور اسکول یونی فارم

ہم گئیر بدلنے سے پہلے ہی

ڈینجر زون میں کیوں داخل ہو جاتے ہیں

بوڑھا ڈرائیور سوچتا ہے

رانوں کے کراس پر چہرے کی ہڈی کس خطرے کا نشان ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لیاری پیاری

 

موج موج دھنک بہتی ہے

انگ انگ لہو لہرائے

اندر جگنو

باہر خوشبو

خوشبو سے گھبرائے

جگنو سے شرمائے

لیاری

 

کس بادل کے ساتھ چلا

گولی مار کا پُل

پُل کا سپنا

کاسموپولیٹن روشنیوں میں

ہری بھری عورتیں

جن کے بازو

ساون رت کی بیل

جائیں مردوں کے ساتھ

کمر میں ڈالے ہاتھ

اسکوٹر کی لہروں میں

 

وہ کہتے ہیں

آج کی رات

مطلع ابر آلود رہے گا

ٹھہر ٹھہر کے صبح تلک

گرج چمک کے ساتھ

بوندا باندی ہو گی

 

لیاری

اب ترا بادل

چورنگی کے سگنل پر

دھواں اڑاتی بسوں کے پیچھے

بھوں بھوں

سوچتا ہے

 

اب کے سیزن میں

اپنی سڑکوں کے

سارے کتوں کا

سائز چھوٹا ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بینچ

 

گلہریوں میں سانپ

رینگنے لگے

شہد چوسنے والیاں

سفر سے لوٹنے والیاں

بینچ

 

آکاش بیل

شیرنی کے پاؤں میں

الجھ رہی ہے

 

پٹریاں

لیٹی ہوئی

اک دوسرے کو دیکھتی ہیں

 

کیا ہم

ٹرین کے انتظار میں

بینچ

ہو جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوا کا لڑکا

 

ہوا کے چھوٹے لڑکے نے

اسٹیچو سے کود کے

شائیں شائیں

دھوپ کو اڑا دیا

شور کو الٹا دیا

بادل کو

سوئمنگ پول میں

کھینچ لیا

 

لان میں لہریے پھیل گئے

فواروں کا پانی

کانپنے لگا

 

دریا میں موٹر بوٹ

کب چلے گی

 

شائیں شائیں شائیں

دروازہ کھول دو

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات کا شریک

 

بادل اوڑھ سڑک پر دوڑے

گھنے خیالوں میں غرائے

خواب کے بیچ میں بیٹھ کے سوچے

نیند کے اوپر حرف بچھائے

میں صدیوں کی آنکھیں مانگوں

وہ منٹوں کی فلم دکھائے

ایش ٹرے میں شہر بسائے

سورج سے سگریٹ سلگائے

کھل جائے تو کاٹ ہی کھائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہار میرے لئے احمق کا خوفناک قہقہہ لائی

 

راں بو

کی ایک سطر

 

گلابی زمین پر لیٹنے والی

اب کی بارش میں

جب میں اس کی فاختہ کو

کچی نیند میں جگاؤں

تم اسے

ہرے چراغوں کے درمیان

تلاش کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

امپوسٹر

 

کمرے میں بلب

آنگن میں اندھیرا

آنگن میں بلب

کمرے میں اندھیرا

 

تو پھر اس نقطۂ نہفتہ کا تعین

کہ جس نقطۂ نہفتہ سے

اندرون بھی روشن

بیرون بھی روشن

 

ایسی کوئی جگہ ہو گی تو سہی

پر مجھے اس کا علم نہیں

 

علم نہیں تو جستجو

جستجوئے نقطۂ نہفتہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنریشن گیپ

 

فلیٹوں کے پیچھے

گئے سال کی بارشیں

دھوپ شانوں پہ لٹکائے

بیٹھی ہیں

 

خاکروبوں سے کہہ دو

کسی ڈسٹ بن سے

زندہ لمحے کے رونے کی آواز

آئے تو

ہم کو بتانا

٭٭٭

 

 

 

سائن آپریٹر

 

کسی رات کو

آخری شو کے بعد

سیلو لائیڈ کی گہرائیوں سے اچھل کر

وہ سب

ہال میں بھر نہ جائیں

 

کس کس کا میک اپ

اتاروں گا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چرس نوش

 

کیا خبر ہے

کہ کسی روٹ سے بھاگی ہوئی بس

آخر شب

مرے بیڈ روم میں گھس آئے کبھی

اور پیٹرول کے نشے میں

کسی اونگھتے صوفے سے کہے

آؤ ٹوئسٹ کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لورکا سے ایک بند

 

ایک تھا گھوڑا بہت بڑا

جو پانی سے ڈرتا تھا

وہ کالا کالا پانی

گھنے درختوں کے نیچے

پل کے پاس

ٹھہر ٹھہر کے گاتا تھا

 

کسے خبر ہے

چشمے نے

ہرے بھرے میدانوں کے

لمبے چوڑے ہاتھوں میں

کیا رکھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈاکٹر فانچو

 

کسی روز میں شہر کے پاگلوں کو ڈنر پر بلاؤں گا

ان سے کہوں گا کہ

اے دوستو ، دشمنو، مہربانو، کمینو

یہ مانا کہ تم کہکشاں کے جراثیم ہو

اور سب راستے روم ہی کو گئے ہیں

مگر اب

اٹالی سے آتی ہوئی اک سڑک کے سپاہی کی سیٹی سنو

جو کہتی ہے تم مرچکے ہو

نہیں تو میں چلتی ہوئی کار سے کود کر اپنے بتیس دانتوں

کو فٹ پاتھ پر

ڈاکٹر فانچو کے حوالے کر دوں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک رومانی قصے کا عنوان

 

قبرستان کی

بوڑھی چیل

ہنسی

 

نیلی آندھی کا آنچل تھامے

وہ

اک مردہ عورت کے سرہانے

پھول چڑھانے

آیا تھا

 

پھر موسم کی پہلی بارش ٹوٹ پڑی

ٹوٹی پھوٹی لاشیں

کٹی پھٹی قبروں سے نکلیں

 

میں تیری محبوبہ ہوں

میں تیری محبوبہ ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایسا بھی ایک توتا

 

اس روز جب ہم

ٹھنڈ پڑے گارڈن میں گئے

تو موسمی کی چھاؤں میں سورج

اور سنگترے کے سائے میں چاند

زہریلی نیند سو چکا تھا

 

اور اِن وزیبل کینو کے رس کا آخری قطرہ

مردہ بستیوں کو عبور کرنے والے

توتے کی مڑی ہوئی چونچ کے ڈھلوان پر

سلگ رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایکسیڈنٹ

 

ہر روز یہ بس

اسی طرف سے

جاتی تھی

کوئی شریف لڑکی

اسکول جا رہی ہو جیسے

مگر آج

فٹ پاتھ پہ کیوں چڑھی کھڑی ہے

اس پیڑ میں کیوں اڑی پڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نا معلوم کی پہاڑیوں سے آواز

 

میں سمندر کا ہاتھ ہوں

اور میری ذمہ داریوں میں سے ایک

وہ شارک ہے

جو مشروم کی خوراک بنے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئے پرندے

 

جہاں درختوں میں آگ لگنے سے

اژدھے جل کے راکھ ہوتے ہیں

ان پہاڑوں کی گھاٹیوں میں

ہمارے بیٹے

نئے پرندے تلاش کرنے

چلے گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کالی ریت

 

مٹیالی راتوں کا پانی

کالے بستروں پر بہتا ہے

 

تم نے سمندر کے کنارے بستروں کا خواب دیکھا

اور اپنے فیصلے میں ظاہر ہو گئیں

پھر وہ بندرگاہ خالی ہو گئی

جس پر

دو شاخیں لہراتی ہیں

اور

ایک پتھر چمکتا ہے

 

میں ان بارشوں کو تھمتا ہوا دیکھتا ہوں

جن کی

برہنگی میں ہم سمندروں تک جاتے تھے

اور نیکیاں تلاش کرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاید گلاب شاید کبوتر

 

پھر کیا ہوا

پھر یوں ہوا

کہ اس کی ایک آنکھ سے چمگادڑ نے چھلانگ لگائی

اور ایک آنکھ سے پھڑ پھڑاتا ہوا خارپشت نکلا

 

پھر جو وہ ایک دوسرے پر جھپٹے ہیں

تو ایسے جھپٹے

کہ منڈیریں کبوتروں سے

اور کیاریاں گلابوں سے

بھر گئیں

 

اس دن کے بعد ہم نے مداری کو کبھی نہیں دیکھا

اچھا اب تم

میرے لئے پان لگا دو

اور اچھے خوابوں پہ دھیان جما کے

سو جاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

پینوراما

 

وہ چرچ نہیں

ریسٹ ہاؤس ہے

وہ مینار نہیں

دھواں ہے

وہ صلیب نہیں

ایریل ہے

وہ ویدر کاک نہیں

رئیل کاک ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چسپیدہ زیر جامے

 

ادھورے گھروں میں

جو رہتے ہیں

وہ جانتے ہیں

کہ برفیلی راتوں کی

نیلی ہوائیں

لحافوں کے اندر بھی

سیلے ہوئے زیرجامے کے مانند

جسموں سے چسپیدہ رہتی ہیں

کہتی ہیں

دیکھو تمہارے چراغوں کے نیچے

وراثت کی پختہ فصیلیں نہیں ہیں

تمہارے خیالی جہازوں کے پیغام

کنٹرول ٹاور میں کوئی سمجھتا نہیں

تو کیوں بایونک لڑکیوں کے

بلاوے کے خوابوں کی خواہش لیے

عمر بھر جاگتے ہو

 

ادھورے گھروں کے کہن سال بچو!

تمہارے ستاروں میں صرف ایک ہی خواب ہے

آخری نیند کا خواب

خواب خاکستری

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سگ ہم سفر اور میں

 

سگ ہم سفر اور میں

وہاں آ گئے ہیں

جہاں ختم ہے کائنات

 

یہاں سے نشیب زمان و مکاں کا اگر جائزہ لیں

تو لگتا ہے جیسے دھندلکوں کے اس پار

جو کچھ بھی ہے ٹھیک ہے

حسب معمول ہے

 

مرا نام شینانڈورا ہے

میں کتنی صدیوں سے اس بحر زخار میں خیمہ زن تھا

جو مواج سمت دگر میں رہا

 

ایک دن

دفع آسیب و رفع بلا کے لیے

کچھ پراسرار فقروں کی گردان کرتا ہوا

جادۂ خوف پر گامزن تھا

میں اپنے شبستاں کی جانب

کہ اک لرزش ناگہاں سے گزرنا پڑا

 

تو اندھے زمانوں کی صحرا نوردی کے آخر میں

وہ ایک تاریک لمحہ تھا جب

سگ ہم سفر اور میں

ماندہ وگرسنہ

یہاں اس علاقے میں وارد ہوئے

اور اندھیرے میں کچھ فاصلے پر تری روشنی دیکھ کر

رقص کرنے لگے

سگ ہم سفر اور میں

سگ ہم سفر اور میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آج کی رات

 

آج کی رات

اک شخص تنہا

بہت ہی اداس اور بہت ہی خطرناک ہے

 

آج کی رات

اس قریۂ مہرباں میں

نہیں ہے کوئی مہرباں دستیاب

 

آج کی رات

کس اجنبی میزباں سے

توانا رہے جادوئے برشگال

 

آج کی رات

اپنے فلیٹوں سے دیکھو

شکستوں کی زد میں شرار و شہاب

 

ائیر پورٹ سے گھر تلک خواہشیں

آپ کے ساتھ بستر تلک خواہشیں

سو بستر کی بتی بجھاتے ہوئے

بری شاعری گنگناتے ہوئے

ناگہاں یہ خبر یہ خیال

کہ خواہش تو ہے ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ لڑکی

 

وہ اس وقت میرے قریب آئی

جب مجھے ایک دوست کی سخت ضرورت تھی

رات کے گہرے اندھیرے میں

وہ ایسی جگہوں پر روشنی پھینک سکتی تھی

جہاں پہلے کبھی تم نا گئے ہو

جس میں تم اپنی بینائی گم کر دینا پسند کرو گے

وہ اس طرح کی روشنی ہے

 

یقین کرو

وہاں کوئی ایسی چیز تھی

جسے جیت ہی لینا چاہئیے

 

تم پورے انہماک سے اسے چمٹا سکتے تھے

مگر وہ ہوا کی طرح تمہارے بازوؤں سے پھسل جاتی

اور پرواز کرنے لگتی

 

ایک بار پھر اسی رات میں

جہاں ناممکن تھا کہ وہ دوبارہ تمھیں نظر آ جاتی

٭٭٭

 

 

 

 

سات پل والی سڑک

 

جنوبی آسمان تاروں سے بھرا ہوا ہے

جنوب کی طرف اگر کوئی جائے

وہاں چاندنی ہے اور درختوں کی ہریالی ہے

سات پُل والی سڑک کے ساتھ ساتھ

 

کبھی میں بے خبر بچہ بن کر تیرے پاس آیا

کبھی تنہائی پسند لڑکا بن کر تجھ سے پیار کیا

کبھی پالتو جانور کی طرح تجھے چاہا

کبھی درندوں کی طرح عشق بازی کی

 

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ میرا ہی کوئی حصہ

مجھے چھوڑ کر پلٹتا ہے

اور تاروں کے نیچے دوڑتا چلا جاتا ہے

سات پل والی سڑک کے ساتھ ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

جذباتی شریف خاتون

 

جذبوں سے بھری ہوئی تم

موجود ہو

مگر میں نہ دیکھوں

تو پھر تم کہیں بھی نہیں

 

ہم ایک ایسے لمحے میں زندہ ہیں

جب کہ ہماری سوچ سے مفہوم کی پھوہار گرتی ہے

اسی لیے تو میں نے لمبا سفر کیا

لمبے سفر کے بعد میں تمہارے بالکل قریب آ گیا ہوں

 

ہاں جو کچھ میں نے کہا

اور جو کچھ میں نے چاہا

وہ سبھی کچھ مجھے تیزی سے یاد آتا ہے

جب میں تمہارے ساتھ ہوتا ہوں

 

چودہ مسرتیں اور ایک ارادہ خوش رہنے کا

اور یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے

 

جذباتی شریف ہوا

ایک بار پھر میری زندگی میں چل رہی ہے

جذباتی شریف خاتون

٭٭٭

 

 

 

 

 

زہر بھری

 

اوری لڑکی ہری ہری

کیوں رہتی ہے ڈری ڈری

تیری یادیں ایسے آئیں

جیسے ہوائیں زہر بھری

 

جیون کیا ہے روپ نگر ہے

جیون کے اس روپ نگر میں

تو ہے میری بارہ دری

 

دنیا نے کیوں پاؤں میں تیرے

رسموں کی زنجیریں ڈالیں

تو ہے کیا پکھراج پری

 

یہ جو گیت ہیں جگمگ جگمگ

تیرے لیے ہیں میرے لیے ہیں

یہی جہیز اور یہی بری

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈی ڈو ڈا

 

بینک مرا بحرانی معانی

جس میں مہمل رقمیں بھرنا

لفظ مرے وہ چیک ہیں جن پر

بھول گیا میں سائن کرنا

 

ڈی ڈو ڈو ڈو

ڈی ڈا ڈا ڈا

 

لفظ سبھی کے دوست ہیں جن کو

کتنے لوگ لکھا کرتے ہیں

کتنے لوگ پڑھا کرتے ہیں

 

لفظ جو باغی ہو جائیں تو

جو بھی لکھنے پڑھنے آئے

اس کے ساتھ زنا کرتے ہیں

 

ڈی ڈو ڈو ڈو

ڈی ڈا ڈا ڈا

٭٭٭

 

 

 

 

ساتواں زینہ

 

میرے دل میں سات نام

چار مجھے بہکانا چاہیں

دو مجھ کو پتھرانا چاہیں

ایک رکھے بس چاہ سے کام

 

ساتویں زینے پر وہ لڑکی

شانوں پر سے شال پھسلتی

آہستہ آہستہ چلتی

مجھے نہ ایسے دیکھو لڑکی

 

دل کا پھول ابھی کھلنا ہے

چاہے ہماری ہار ہو بے بی

چاہے ہماری جیت ہو پیاری

دوسری بار نہیں ملنا ہے

 

کھٹ کھٹ کھٹ دروازہ کھولو

دیکھتی ہو تو پاس آنے دو

دو اک لمحے راس آنے دو

کھٹ کھٹ کھٹ دروازہ کھولو

٭٭٭

 

 

 

 

بوسٹن ٹی پارٹی

 

ریڈ کوٹ گاؤں گاؤں پھیل گئے

لڑائی گلیوں تک پہنچ گئی

ریڈ انڈین اور پہاڑی لوگ افواہیں پھیلا رہے ہیں

 

کنگ کہتا ہے میں چائے پر ٹیکس لگاؤں گا

اسی لیے تو امریکہ کی نئی نسل کافی پیتی ہے

 

پہاڑوں میں آگ ہے

جس کے شعلے ہر تنور تک جاتے ہیں

اور امریکی صدر نے

ایک زخمی خبر کو

دانتوں میں دبا رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھاگ

 

باتھ روم کی کھڑکی

انتظار میں گم ہے

باتھ روم کا شاور

آبشار میں گم ہے

ایک پیڑ کے نیچے

پیار بھرا اندھیرا ہے

چوستی ہے وہ بے بی

اپنے ہی انگوٹھے کو

سات دن کے ہفتے میں

ایک دن میرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہیلو گڈ بائی

 

تم کہتے ہو یس

میں کہتا ہوں نو

تم کہتے ہو ٹھہرو

میں کہتا ہوں چلو چلو

اوہ نو

میں کہتا ہوں اونچا

تم کہتے ہو نیچا

میں کہتا ہوں کیوں

تم کہتے ہو کیا خبر

اوہ نو

تم کہتے ہو گڈ بائی

میں کہتا ہوں ہیلو

ہیلو ہیلو

معلوم نہیں تم کیوں کہتے ہو گڈ بائی

 

میں کہتا ہوں ہیلو

کیوں کیوں کیوں

کیوں کیوں کیوں

تم کہتے ہو گڈ بائی گڈ بائی

ہیلو ہیلو خبر نہیں

تم کیوں کہتے ہو گڈ بائی

میں کہتا ہوں ہیلو

ہیلو ہیلا ہی با ہیلو آ چاچا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تنہا لوگ

 

چرچ میں ہوتی

جس دن کوئی

شادی کی تقریب

 

چہرے پر اس روز

پرانا ماسک لگا کے

صدقہ اور خیرات لینے

آیا کرتی

 

رِگبی

بیٹھے بیٹھے

لکھتے رہتے لکھتے رہتے

ایسا سرمن

جس سرمن کا سننے والا کوئی نہ تھا

اس کے بعد

پھٹے پرانے اپنے موزے

سیتے رہتے سیتے رہتے

فادر میکنزی

 

آخر اک دن

لے کے آخری سانس

سوگئی لمبی نیند

رِگبی

 

رِگبی کو

خاموشی سے دفن کیا

اور اس کی قبر سے لوٹ آئے

اپنے ہاتھوں کی

مٹی کرتے صاف

فادر میکنزی

٭٭٭

 

 

 

 

پیسا گلی

 

پیسا گلی میں باربر کی دکان ہے

دکان میں ان تمام سروں کے فوٹو ہیں

جن سے اسے شرف ملاقات حاصل ہوا

سبھی آنے جانے والوں سے اس کی علیک سلیک ہے

 

کونے میں بینکر ہے اور اس کی موٹر کار ہے

پیچھے کھڑے بچے اس پر ہنستے ہیں

بینکر برسات میں برساتی نہیں پہنتا

ہا۔۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔۔ہا

 

پیسا گلی جانی پہچانی دیکھی بھالی ہے

نیلے مضافاتی آسمان کے نیچے

میں کہیں بھی ہوں

آنکھیں بند کرتے ہی پیسا گلی میں ہوتا ہوں

 

وہاں ایک فائر مین ہے

اس کے پاس موٹی سی گھڑی ہے

اس کی جیب میں ملکہ کی پورٹریٹ ہے

وہ اپنے فائر انجن کو صاف رکھتا ہے

 

پیسا گلی جانی پہچانی دیکھی بھالی ہے

جو مچھلیوں اور کبابوں سے بھری رہتی ہے

وہاں چوک سے آگے موڑ کے بیچوں بیچ

خوبصورت نرس

ٹرے میں

گل لالہ فروخت کرتی ہے

اور اس طرح جیسے

کھیل میں اداکاری کرتے ہیں

خیر یہ تو اپنا اپنا انداز ہے

 

پیسا گلی میں

باربر ایک اور آدمی کا شیو بناتا ہے

بینکر بیٹھا ہے اور اپنی حجامت کے انتظار میں ہے

٭٭٭

 

 

وہ ایک شہر ہے جلا ہوا اور غیر آباد

 

فلسطین سے ویتنام تک

رہبانیت سے پیتھوڈین تک

وہ ان بسوں میں بیٹھتے ہیں

جن کے ڈرائیور جرائم پیشہ ہیں

 

ان کے

ریڈیو سیٹ

خفیہ اسٹیشن نہیں پکڑتے

ٹیلی ویژن اسکرین

اندھے ہیں

 

ٹیلی فون

ٹیپ ہوتے ہیں

گیس کے چولھے

پھٹ جاتے ہیں

 

وہ مصنوعی سیّارے چلاتے ہیں

مگر ان کے خیال سینس آف ٹریفک سے محروم ہیں

 

وہ اندھیری راتوں میں اپنے کتوں کی زنجیریں کھول دیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

قبر اس کے نام کی

 

اس کی میز کے نیچے

کالے جنگل ہیں

 

وہ اپنے مہمانوں کو کافی پلاتا ہے

پھر ان پر درندے چھوڑ دیتا ہے

اس کی کار کا ٹینک پیٹرول سے بھرا رہتا ہے

اور پیٹ وٹامن سے

 

ایک دن یوں ہوا

وہ شیو بناتے ہوئے

جھاگوں کی دلدل میں پھنس گیا

اور تمام ٹائم پیس گھوم گئے

 

مگر ہم دیکھتے ہیں

اس کے نام کی قبر میں وہ ہے

جس نے اس کی موت کا

جھوٹا پتھر لکھا

٭٭٭

 

 

 

رِنگ ماسٹر

 

اچھے اچھے مہمانوں سے

باتیں کرنے

 

میں بیڈ روم مقفل کر کے

اپنے ڈرائینگ روم کو جاؤں

ایسے میں تم

دروازے کی

درزوں میں سے

جھانکتے ہو

کیوں جھانکتے ہو

اپنی اپنی آوازوں میں

زیر لب غراتے ہو

بولو کیوں غراتے ہو

 

آج تمھیں پتھر کی طرح چپ رہنا ہے

آج ذرا بھی شور کیا

تو

میں تم سب کو

باندھ کے

پھر سے

جنگل میں چھوڑ آؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بات سر جان مارشل کو معلوم نہیں

 

یہ بات اس کھلاڑی کو معلوم ہے

جو ہر شے کو گیند بنا دیتا ہے

وہ ہماری بہنوں کی سجی ہوئی کاریں دیکھتا ہے

اور کھیلتا ہے

وہ ہمارے بھانجوں کی پیدائش دیکھتا ہے

اور کھیلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نیتشے نے کہا

 

وہ سب پرندے جو اُڑ کے جاتے ہیں فاصلوں میں

کہیں بہت دور فاصلوں میں

سو ان کے بارے میں یہ تو سب جانتے ہیں ، آخر کہیں کوئی ایک یا

دوسری جگہ ایسی آ ہی جاتی ہے، وہ جہاں تھک کے بیٹھ جائیں

وہ کوئی مستول یا کوئی بنجر چٹان ہوتی ہے، جس کو پاکر وہ سوچتے ہیں

کہ یہ بھی کچھ کم نہیں بہت ہے،

 

مگر بھلا کون اس حقیقت کو جان کر یہ گماں کرے گا کہ ان سے آگے

وہاں کشادہ فضا نہیں، یا وہ ایک ایسا مقام ہے، جس سے آگے

پرواز کا کسی طرح کوئی امکان ہی نہیں ہے

ہمارے سارے عظیم استاد اور سب پیش رو بھی آخر کہیں پہنچ کر

ٹھہر گئے تھے

 

سو ایسا ہی میرے ساتھ ہو گا

سو ایسا ہی تیرے ساتھ ہو گا

نئے پرندے تو آگے ہی جائیں گے

 

 

مگر ہاں

یہی بصیرت یہی یقیں ہم میں اور ان میں مقابلے کا سبب ہے

جو ہم سے اور ہماری صلاحیت سے بلند ہو کر فضا کی وسعت میں دیکھتا ہے

کہ کچھ پرندے ہیں ہم سے بڑھ کر جواں توانا

اور ان توانا جواں پرندوں کے غول کوشاں ہیں آج بھی اس جگہ

جہاں پر ہم اپنی ساری صلاحیت آزما چکے ہیں

 

 

جہاں ہر اک چیز ہے سمندر

جہاں ہر اک چیز ہے سمندر

ہم اب کہاں جائیں

یہ سمندر

بتاؤ کیا ہم اسے کبھی پار کرسکیں گے

 

یہ آرزو اب کہاں ہمیں لے کے جا رہی ہے

اسی طرف کیوں

کہ جس طرف جانے والے انسانیت کے سب جگمگاتے خورشید

چھپ گئے ہیں

 

کبھی ہمارے لئے بھی شاید یہی کہا جائے گا کسی دن

کہ ہم نے مغرب کی سمت گہرے سمندروں میں سفر کیا تھا

امید یہ تھی کہ ہم کو مشرق میں اک نئی سرزمیں ملے گی

مگر مقدر یہ تھا کہ اے دوست

بے کرانی سے جا کے ٹکرائیں اور ہم پاش پاش ہو جائیں

یا مرے دوست شاید۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تِکّا کارنر

 

چٹکتے ہوئے کوئلوں پر

کبا ب اور تکے سے رِستے عرق کی مہک

انگیٹھی سے میزوں تلک

 

پھڑکتی ہوئی بوٹیاں

کڑکتی ہوئی ہڈیاں

 

مگر آج

کونے کے صوفے پہ اس نے

دوپٹے کا آنچل اڑاتی ہوئی

اک ہری شاخ دیکھی

٭٭٭

 

 

 

 

رازیا کا بھائی رافی

 

ٹن

کلاک نے بہت جلد قدم آگے رکھ دیا

 

گھنٹے مہینے سال

وہ ابھی میری گود میں سو رہی تھی

اس کے ننھے ہاتھوں کا لمس

اس کی جھنجھناتی ہوئی ہنسی

 

رازیا

میں نے بچپن میں تمھیں

ہاں تمھیں یاد ہو گا

انکل شیرا کے ساتھ مری کی سیر کرائی تھی

تمھیں چنار کے درختوں میں شام کی اداسی دکھائی تھی

زمین پر جمی ہوئی برف کیسی بھلی لگتی تھی تم کو

 

رازیا

اس سے کس نے کہا تھا

کہ بادل بن کے آئے

 

اور ہماری آنکھوں میں جست بھر کے چلا جائے

وہ دن مکڑیوں بھری دیوار کی طرح ہم پر گرا

 

رافی بابو

امی جان کے چشمے کا نمبر بدل گیا

رازیا کے چہرے پر اداسی کا غبار

نہیں میں تمھارے چہرے کو

برقی فرنیس کی طرح دہکتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں

جیسا کہ وہ ہوا کرتا تھا

میں تمھارے خون کے لئے ایرانی گلاب لاؤں گا

 

مگر ایسا کیوں ہے اس وقت کہ اے لڑکی

خوف کی دھار میرے سینے میں اتر رہی ہے

گرہ کٹ کے

بلیڈ کی طرح

٭٭٭

ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید