فہرست مضامین
دیوندر ستیارتھی کی کچھ کہانیاں
حصہ اول
دیوندر ستیارتھی
چاروں حصے ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
حصہ دوم
حصہ سوم
حصہ چہارم
بٹائی کے دِنوں میں
پچھم کی طرف سے آنے والی ہوا کے نیچے گیہوں کے
پودے سر ہلا رہے تھے۔ کنکُوت کے لیے ریاست کا سرپنچ کھیت کی مینڈ پر کھڑا تھا۔ دیوان
صاحب کا آدمی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ فصل کا جائزہ لیتے ہوئے سر پنچ نے فیصلہ
کیا کہ کوئی ساٹھ ایک من دانے ہوں گے۔ جو کام پہلے آدھ گھنٹہ مانگتا تھا۔ اب چند ہی
منٹوں میں ختم ہو جاتا تھا۔ کسان نمائندہ موجود رہتا تو اب کے یہ بے نظیر ہمواری
کنکوت کی خصوصیت ہرگز نہ ہونے پاتی۔
کنکُوتیے بہت دور نکل گئے تھے۔ سنتُو اپنے دل میں
حساب لگانے لگا۔ اس کا مطلب ہوا بیس من دیوان کے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں مہینوں
محنت کرتا رہا ہوں، میں نے خون پسینہ ایک کیا ہے۔
اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تو سنتُو چھ فٹ کا جوان
دکھائی دینے لگا۔ کھُلے ہاتھ پاؤں گلے میں پڑا ہوا تعویذ ٹوٹے ہوئے کان، وہ پہلوان
دِکھائی دیتا تھا۔ تہمد کو اُوپر اُٹھا کولھوں پر رکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا۔۔۔ بیس
من۔۔۔ ہم آج تک دیوان کو اپنی زمینوں سے کھلاتے رہے ہیں۔ سارا سال زمین میں ہل جوتیں
ہم، بیلوں کے ساتھ بیل بنیں ہم اور پھر جب ہماری محنت کے نتیجے میں دھرتی کی آشائیں
آنکھیں کھول دیتی ہیں، اناج ہی اناج ہو جاتا ہے تو دیوان کہتا ہے کہ میرا حق پہلے
مجھے مل جائے زمین اصل میں میری ہے۔
اُجاگر نے آ کر بتایا کہ اُس کے کھیت کی کنکُوت
بھی ہو گئی۔ کنکوتیے پچاس من دانے لکھ کر لے گئے ہیں۔ اُجاگر نے اپنے چادرے کو گلے
سے اُتارا اور ہاتھ پھیلا دیئے وہ ایک بڑاسا پرندہ دکھائی دینے لگا، جو اُڑ کر
آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنے والا ہو۔ سنتُو کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ
بولا۔ ’’میں کہتا ہوں دیوان ریاست کے سرپنچ سے ملا ہوا ہے۔ یہ کنکُوت کا طریقہ بھی
کتنا برا ہے۔ بیکار ہی ہم کنکُوت کے لیے لڑتے رہے تھے۔ اب بھلا میرے کھیت میں پچاس
من دانے کہاں ہوں گے؟ اس سے تو یہی اچھا تھا پہلے کی طرح کہ کٹائی ہو چکنے پر ہماری
جنس تول لی جاتی اور دیوان کے حصّے کا ایک تہائی اناج دیوان کے گھر پہنچا دیا
جاتا۔‘‘
بُڈھا رحیمُو اس اثنا میں رہٹ کی گادھی پر آ بیٹھا
تھا۔ اُجاگر کی بات پر وہ خاموش رہا۔ سنتُو نے اپنی نوخیز مونچھوں پر ہاتھ پھیرا
اور سامنے پیپل کے نیچے سمادھ کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ’’سوگند ہے مجھے بابا ٹہل
سنگھ کی اگر میں دیوان کو ایک دانہ بھی دے جاؤں۔ اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ زمین
ہماری ہے۔ شہر سے آنے والا بابُو بھی اُس دن ہمیں یہی بتا رہا تھا۔‘‘
بڈھا رحیمو ایک ڈرپوک آدمی تھا اور ریاست کے ہر
معاملے میں مصلحت کے طور پر جبر کے آگے سر جھکا دیا کرتا تھا۔ اُس میں مصیبت اور
ظلم سے جنگ کرنے کی صلاحیت مر چکی تھی۔ حقے کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے وہ کھانس کر
بولا۔ ’’ارے سنتُو! جانے بھی دو۔ دس بیس سیر دانے زیادہ بھی دینے پڑ گئے تو کیا ہو
گیا؟ ایسا نہ ہو کہ تجھے پیاز بھی کھانے پڑیں اور جوتے بھی۔ یہ پیاز اور جوتوں کا
وہ قصّہ بھی سُنا ہے نا؟‘‘ اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہی وہ سنانے لگا:-
’’ایک
تھا جولاہا۔ پتہ نہیں سالا کیا قصور کر بیٹھا کہ پنچایت میں ایک دن یہ طے پایا کہ
وہ چاہے تو سو جُوتے کھا لے، چاہے تو ایک سو پیاز کھا لے۔ اُس نے کہا۔ پیاز منگوا
لو۔ اُس نے دس بارہ پیاز بھی نہ کھائے ہوں گے کہ سالا تنگ آ گیا۔ بولا- پیاز کھانا
کٹھن کام ہے، جُوتے ہی کھا لیتا ہوں۔ پھر اُس کے سر پر تڑا تڑ جوتے پڑنے لگے۔ اُس
کی چیخیں نکل گئیں۔ بولا -جوتے نہیں- پیاز- پیاز، سر پنچ بادشاہ! لیکن وہ لگاتار
اتنے پیاز بھی نہ کھا سکتا تھا۔ پھر جُوتے، پھر پیاز، پھر جُوتے، پھر پیاز آخر
حساب کرنے پر پتہ چلا کہ سالا سوکے سو جُوتے بھی کھا گیا اور کوئی ایک کم سو پیاز
بھی۔‘‘
سنتُو اپنے ڈھیلے تہمد کو درست کرنے لگا۔
اُجاگر بھی کچھ نہ بولا۔ رحیمو گادی پر بیٹھا حقّے کے کش لگاتا رہا۔ بیچ بیچ میں
اُس کی آنکھیں مِچ جاتیں شاید اُس کے دماغ میں بھولے بسرے دھندلے دھندلے خیالات تیر
رہے تھے۔ کوئی اور سماں ہوتا تو سنتُو کو رحیمو کے جھریوں والے جُتے ہوئے کھیت جیسے
چہرے پر ان آنکھوں کی یہ کیفیت دیکھ کر کسی مندر کے پٹ بند ہونے اور کھُلنے کا
گمان ہونے لگتا۔ اُس نے سوچا کہ رحیمو اُس پُرانے رہٹ کی طرح ہے جو ہمیشہ ایک ہی
سُر میں اپنا الاپ جاری رکھتا ہے۔ سر سے پاؤں تک اُس کے بدن میں ایک کپکپی سی دوڑ
گئی۔ ’’کھیتوں کے دیوان تو ہم کسان خود ہیں -خود کسان، رحیمو چچا‘‘۔ وہ بولا۔ ’’میں
اب کے ایک دانہ بھی دیوان کو دے جاؤں تو مجھے سنتُو مت کہنا۔ کچھ پروا نہیں اگر
مجھے پیاز بھی کھانے پڑیں اور جُوتے بھی کھانے پڑیں۔‘‘
اُجاگر نے قہقہہ لگایا اور رحیمو کی داغی بیروں
جیسی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’بابا! میں تو باز آیا پیاز اور جُوتے
کھانے سے۔‘‘
گیہوں کی بالیاں سائیں سائیں کی آواز کے ساتھ
ہوا کی تیز رفتاری کا قصّہ بیان کرنے لگیں۔ بادلوں کے ہلکے، گہرے سائے دور تک پھیل
گئے تھے۔ قریب ہی ایک پگڈنڈی تنی ہوئی تھی جس پر ایک دُلہن قطار سے بچھڑی ہوئی
کُونج کی طرح اپنی دھُن میں چلی جا رہی تھی۔ اُس کی پازیب کی جھنکار آہستہ آہستہ
خاموش ہو گئی۔ رحیمو چچا نے حقے کا ایک پُر زور کش لگایا۔
اُجاگر رحیمو چچا کی باتوں میں اُلجھ کر رہ گیا۔
لیکن سنتُو اپنی تیل پلائی ہوئی لوہے کے مُٹھے والی لاٹھی اُٹھا کر گاؤں کی طرف چل
پڑا۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری کرنیں مُٹھے کی ہموار سطح پر پھیل گئیں۔ دُور کہیں
سے گیت کی آواز آ رہی تھی- ’’کوئی لے گیا بھگت چُرا کے، برہمے دیاں دیداں
نُوں!‘‘۔۔۔ نغمے کے زیر و بم نے سنتُو کو بیقرار کر دیا۔ ایک لمحے کے لیے اسے دنیا
بھر کی بے انصافی کا راز معلوم ہو گیا۔ برہما کے پاس وید ہی نہیں رہے۔ نہ جانے کون
بھگت اُنھیں چُرا لے گیا۔
اُوپر آسمان پر رات کا دولھا سنجیدہ نظر آتا
تھا۔ گیہوں کے کھیت چاندنی میں اُونگھ رہے تھے۔ سرپنچ کے الفاظ سنتُو کے ذہن میں
سوئیوں کی طرح چُبھنے لگے- کوئی ساٹھ ایک من دانے ہوں گے۔ فصل میں ایک تہائی حصّہ
دیوان کا نہ ہوتا تو وہ کسی کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر اُس کا مرید بن جاتا۔ اور
کہتا، واہگورو کا پرتاپ چاہیے، ساٹھ کے بھی اسّی من دانے نکلیں گے۔ کُل ساٹھ من
دانے!- یعنی بیس من دیوان کے، اور میرے پاس رہ جائیں گے کُل چالیس من! اُس کے منہ
کا مزہ پل بھر میں ناخوشگوار ہو گیا۔ جیسے اس کی زبان کچّے پیلو کو اُگل کر باہر
پھینک دینا چاہتی ہو۔ وہ کوئی شاعر ہوتا۔ تو سرپنچ کی ہجو میں ایک لمبی نظم لکھ
ڈالتا۔ جس کے ایک ایک لفظ میں دنیا بھر کی نفرت پرو دیتا۔ اور اس وقت سرپنچ کہیں
مل جاتا، تو لوہے کی مُٹھے والی لاٹھی اس کے سر پر اتنے زور سے برستی کہ وہ دیکھتے
دیکھتے زمین پر گِر پڑتا۔ اس کی رگیں مونج کی بوسیدہ رسیوں کی طرح ایک بھرپور ہاتھ
کا زور بھی نہ سہہ سکتیں۔ اور وہ دیوان کا آدمی، جسے ہمیشہ مونچھوں پر تاؤ دینے سے
کام رہتا ہے، ایک پچکے ہوئے لہسوڑے کی طرح نظر آتا۔ ایک ہی وار کے بعد۔ اُس کی
آنکھیں چاند کی طرف اُٹھ گئیں، چاند اُسے گھُور رہا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو، یوں نہیں
بند ہونے کی یہ برسوں سے چلی آنے والی بٹائی، مُورکھ! ایک سرپنچ کو مار ڈالو گے،
دوسرا کوئی اس کی جگہ کھڑا نظر آئے گا۔ دیوان کو تو ایک چھوڑ بیس ملازم مل سکتے ہیں۔
وہ چاہتا تھا کہ چِلّا کر چاند کو بتا دے گی کہ جاگی ہوئی بغاوت اب سوئے گئی نہیں۔
وہ چاہتا تھا۔ کہ کوئی بھُوت اُس کے بس میں آ جائے اور رات گذرنے سے پہلے پہلے اس
کا اشارہ سمجھ کر سب کے سب کھیت جلا ڈالے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسان برباد ہو جائیں گے۔
اور مجبوراً اپنی ماتر بھُومی کو چھوڑ کر دور کسی شہر کی طرف چل پڑیں گے۔ مگر کم
از کم اس چاٹ کو پیاس بجھانے کی نوبت نہ آئے گی۔ کھیتوں میں کھڑی ہوئی فصلیں جل کر
راکھ ہو جانے پر دیوان کو بھی نانی یاد آ جائے گی۔ پھر کس سے بٹائی لے گا؟
اُس کی آنکھیں ایک بار پھر چاند کی طرف اُٹھ گئیں۔
چاند اسے گھُور رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو، ارے کل کے چھوکرے! تیری عقل کو کوئی بھینس
تو نہیں چر گئی؟ یہ بھی کوئی طریقہ ہے دیوان سے دشمنی مول لینے کا؟ تم چلے جاؤ گے
تو اور لوگ آئیں گے۔ یہاں تو تمھاری ہی طرح بیلوں کے ساتھ بیل بن کر کھیتی کریں
گے۔ اور اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کا ایک تہائی اپنے دیوان کو دیتے رہیں گے۔ اب یہ
بٹائی بند نہیں ہونے کی۔ اس پر قانون کی مُہر لگ چکی ہے۔
اس کے قدم اُٹھائے نہ اُٹھتے تھے۔ دماغ میں چیونٹیاں
سی رینگ رہی تھیں۔ جیسے یہ اندر ہی اندر جسم کے مختلف حصّوں تک سُرنگیں کھودنے کی
فکر میں سرگرداں ہوں۔ یہ تذبذب اس کے لیے ایک نئی چیز تھا۔ جیسے اس کے دل و دماغ میں
یہ ڈگڈگی کی طرح مسلسل حرکت کبھی ختم نہ ہو گی۔ چاند پر ایک سرکش بادل چھا گیا۔
اور اب یہ ایک اندھا لیمپ معلوم ہو رہا تھا، تاروں میں بھی ایک مری ہوئی روشنی باقی
تھی۔ راستے کے کنارے کنارے کھڑے ہوئے درخت بیحد بھیانک اور پُراسرار نظر آتے تھے۔
اب وہ وہاں پہنچ گیا تھا، جہاں راستہ نیچے کو
اُترتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ کسی زمانہ میں یہاں سے ایک دریا گزرتا تھا۔ اُس نے
سوچا کہ دریا بھی راستہ بدل لیتے ہیں۔ مگر ہم نے انسان ہو کر پُرانے راستوں سے لَو
لگا رکھی ہے۔ دور کہیں سے بیلوں کے گلے کی گھنٹیوں کی آواز آ رہی تھی، جِسے راہگیروں
کی خوش گپیاں بیچ بیچ میں چیر جاتی تھیں۔ دریا کا خشک پاٹ ختم ہونے پر راستہ اُوپر
کو چڑھنے لگا۔ جونہی وہ اونچی سطح پر پہنچا اس کے دماغ میں ایک گیت کے سُر گھومنے
لگے۔ جس میں گیہوں سے یہ التجا کی گئی تھی کہ وہ اب کے مہنگے بھاؤ بک کر دکھائے۔ گیہوں
کا بھاؤ بھی بدلتا رہتا ہے۔ انسان کو بھی بدلنا چاہیے وقت کے ساتھ ساتھ۔ اب کسانوں
کو چاہیے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں۔ اور اپنے بھلے کی کوئی راہ نکالیں، بٹائی بند کرا دیں۔
گھر پہنچتے ہی وہ کھا، پی کر کھُردری کھاٹ پر لیٹ
گیا۔ وہ چُپ چاپ پڑا رہا۔ بٹائی کے خلاف شور مچانے کا خیال اس کے ذہن میں زور
پکڑتا گیا۔ کسان آخر کسان ہیں۔ نرے ریشم کے کیڑے نہیں ہیں جو دھیرے دھیرے اپنے کو
سنہری کویوں میں لپیٹتے چلے جاتے ہیں۔ اور اپنے گرد شہتوت کے سبز پتّے دیکھ کر
سمجھتے ہیں کہ اُن کا ننھّا سا سورگ ہمیشہ کے لیے آباد رہے گا۔ جب تک یہ بٹائی
قائم ہے۔ ہمارا گاؤں سُکھ کی سانس نہیں لے سکتا۔ کوئی ساٹھ ایک من دانے ہوں گے۔ یعنی
بیس من دیوان کے پر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سوگند ہے مجھے بابا ٹہل سنگھ کی اگر گیہوں
کا ایک بھی دانہ کسی کے کھیت سے بھی دیوان کے گھر جانے دوں۔
گاؤں کی تاریخ، جو وہ چچا رحیمو سے مزے لے لے
کر سنا کرتا تھا، اس کے ذہن میں منڈلانے لگی۔ پُرانے وقتوں میں جب ریاست کی بنیاد
بھی نہ رکھی گئی تھی، اس کے گرد و نواح میں بڑی بد عملی پھیلی ہوئی تھی۔ کہیں نہ
کہیں سے ڈاکو آ نکلتے اور لوگوں کو لُوٹ کر چلتے بنتے، پھر ایک گھڑسوار بہادروں کا
ایک گروہ آیا۔ یہ سب ایک ہی کنبے کے آدمی تھے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ان کی
حفاظت کے لیے یہیں رہا کریں گے۔ لوگوں نے انھیں بخوشی اپنی اپنی فصل کا ایک چوتھائی
حصّہ بطور شکر گزاری دینا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں ریاست کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ اور اس کی حدود دُور دُور تک پھیل
گئی تھیں۔ مگر ہمارے گاؤں پر ریاست کا قبضہ نہ ہوا۔ گھڑسوار بہادروں نے یہاں اپنی
چھوٹی سی خود مختار حکومت قائم کر رکھی تھی۔ پھر جب سکھوں کا راج ختم ہو گیا اور
ہمارا گاؤں عملداری میں آ گیا۔ تو سرکار نے اپنے بندوبست میں بٹائی منسوخ کر دی۔
اور اس کی بجائے دیوان کے لیے نقد رقم کی صورت میں لگان مقرر کر دیا۔ بعد ازاں یہ
گاؤں ریاست کو دے دیا گیا۔ دیوان چاہتا تھا کہ مہاراج اپنے خاص حکم سے نقد لگان کی
بجائے پھر سے بٹائی رائج کر دیں۔ لیکن مہاراج نے کہا۔ ’’میں زبردستی نہ کروں گا۔
اگر خود کسانوں کو رضامند کر لو تو میں منظوری دے سکتا ہوں۔‘‘ دیوان نے ہمارے باپ
داداؤں کو نشہ پلا کر اپنے کاغذ پر ان کے انگوٹھے لگوا لیے، مہاراج نے بھی منظوری
دے دی۔ دیوان نے سر کردہ کنبوں کو اپنی طرف سے رشوت دے رکھی تھی وہ کچھ نہ بول
سکتے تھے۔ پھر بٹائی شروع ہو گئی۔ ایک چوتھائی کے بجائے ایک تہائی۔ چچا رحیمو کا خیال
تھا کہ یہ سب خدا کی باتیں ہیں۔ اُسی کے حکم سے پُرانے راج جاتے ہیں۔ اُس کے حکم
کے بغیر تو پتّہ تک نہیں ہل سکتا۔ آدمی کو چاہیے کہ چُپ چاپ اس کا حکم مانتا چلا
جائے۔ کوئی باغی خدا کی لاٹھی سے بچ نہیں سکتا۔ بٹائی نہیں ٹوٹنے کی۔ راجہ کا حکم
اس کے ساتھ ہے، خدا کا حکم بھی اس کے ساتھ ہے۔ لیکن یہاں پہنچ کر سنتُو کا اندازِ
فکر چچا رحیمو کا ساتھ نہ دے سکتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ یہ صرف ان کے اجداد کی
مصلحت پسندی کی ایک دلیل ہے کہ اُنھوں نے حالات کے ماتحت ڈاکوؤں سے بچنے کے لیے
چند بہادر گھڑسواروں کو اپنا سرپرست منظور کر لیا۔ اور اب تک ہم ان کے خاندان کو بٹائی
دے رہے ہیں۔ اب اگر مہاراج ایک تہائی کی بجائے ایک چوتھائی بٹائی کا حکم دیں تو بھی
ہماری تسلّی نہیں ہو سکتی۔ ہم چاہتے ہیں ہماری گردنوں پر ظلم کی اس تلوار کا چلنا
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ ہمیں نہ نقد لگان دینا منظور ہے نہ یہ بٹائی- یہ
سُسری بٹائی!
انگڑائی لے کر اس نے کروٹ بدل لی اور سوچ میں
ڈوب گیا۔ اپنے ذہن میں اُسے وہ تھر تھر کانپتا ہوا بکرا صاف نظر آ رہا تھا، جس نے
دو کسانوں کو اس بات پر اُلجھتے دیکھ کر کہ بکرے کو ذبح کرنے کا اصل طریقہ جھٹکا
ہے یا حلال، تڑپ کر کہا تھا- کاش کوئی میری رائے بھی پُوچھے۔۔۔
اُسے یاد آیا کہ شہر سے آنے والے اس بابو نے ایک
بار اسے بتایا تھا کہ شروع تاریخ سے ہمیشہ سے سرکار کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسانوں
کو اتنی ہی روٹی ملے جس سے وہ زندہ رہ سکیں اور اپنا کام کرتے چلے جائیں۔ یہی کوشش
رہی ہے کہ کسان کو دبا کر رکھا جائے۔ ذرا کوئی کسان زور پکڑنے لگا کہ ایک بہت
زبردست طعنہ گاؤں کی فضا میں گونج اُٹھا۔ ’’بھُکھّے جٹّ کٹورا لبھا پانی پی پی
آپھریا۔‘‘ یعنی کمزور کسان کو کٹوری مل گئی۔ اور وہ پانی پی پی کر اپھر گیا۔ لیکن
اب حالات بدل رہے ہیں۔ روس میں کسان مزدور کا راج قائم ہو چکا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ
کسان مزدور کا راج یہاں قائم ہونا چاہیے، بٹائی ضرور مِٹ کر رہے گی- یہ سُسری بٹائی!
اُوپر آسمان پر ٹھیک اس کی کھاٹ کے اُوپر،
کہکشاں نے پکے ہوئے کھیت کا روپ دھار رکھا تھا۔ وہاں کون کھیتی کرتا ہے۔ وہ سوچنے
لگا، اس کی کنکُوت کون کرتا ہے؟ بٹائی کون لیتا ہے؟
گیہوں کی کٹائی زوروں پر تھی۔ ہنسیے کہتے تھے
ہمارے دانت تیز ہیں۔ ہمارے دانت ہمیشہ تیز رہیں گے۔ لوک گیتوں کی شعریت کی طرح
دھرتی کی آبرو اُجاگر ہو اُٹھی تھی۔ کسان سوچتے کہ بٹائی کے دانے دے کر بھی ان کے
گھروں میں اتنا اناج پہنچے گا کہ وہ پرانے قرضوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ چار دن
زندگی کو گِدّھا ناچ کے تال پر تھرکتے پائیں گے۔
کھلیان ہی کھلیان۔ مٹی کتنا سونا اُگلتی آئی تھی۔
کسان خوش تھے۔ ان کے قہقہے دھرتی کی زندہ شکتی کے ترجمان تھے۔ کونجوں کی آخری قطاریں
جو دور ہمالہ کے اس پار اپنی ماتر بھُومی کو لوٹ رہی تھیں۔ کسانوں کا دھیان کھینچ
لیتیں۔
چچا رحیمو نے اُجاگر کا کندھا جھنجھوڑ کر کہا۔
’’کنکیں، کونجیں منیہا، جے رہن بیساکھیں‘‘ شروع دنیا سے گیہوں ٹھیک موسم میں پکتا
آیا ہے۔ اور ہمالہ پار کی کونجیں میدانوں میں جاڑے کے دن گزار کر گرمیاں شروع ہوتے
ہی اپنے وطن کے لمبے سفر پر تیار ہوتی آتی ہیں۔ اگر گیہوں وقت پر نہ پکے اور کونجیں
بیساکھ شروع ہوتے ہی اپنے سفر کی تیاری سے چُوک جائیں، تو یہ دونوں کے لیے طعنے کی
بات ہو گی۔
اُجاگر بولا۔ ’’آدمی ہونے کی بجائے ہم بھی
ہمالہ پار کے پنچھی ہوتے، تو نہ کوئی ہمارے کھیتوں کی کنکُوت کرتا۔ نہ ہمیں بٹائی
کی مصیبت جھیلنی پڑتی۔‘‘
چچا رحیمو حقے کے لمبے لمبے کش لگاتا رہا۔ وہ
اُجاگر کی بات پر ہنس دیا۔ ’’ناشکرا- خدا کا شکر نہیں کرتا۔ اتنی اچھی فصل میں سے
دیوان کو تھوڑا اناج دیتے ہوئے موت تو نہیں آ جائے گی۔ خدا تو سب کا رازق ہے۔ وہ دیوان
کا بھی رازق ہے۔‘‘
اُس وقت سنتُو وہاں آ نکلا اور بولا۔ ’’لو چچا
رحیمو! پنچایت میں آج یہ طے ہو گیا ہے کہ بٹائی نہیں دی جائے گی۔‘‘
چچا رحیمو نے ہنس کر کہا۔ ’’سب سے بڑے ناشکرے
تو تم ہو۔ بٹائی لینے والا اپنی بٹائی کیسے چھوڑ دے گا؟ چھوکروں کی پنچایت کی اس
وقت کوئی پیش نہ جائے گی۔ جب پولیس کے سپاہی تمھیں پکڑ لے جائیں گے۔‘‘
’’پنچایت
نرے چھوکروں کی تھوڑی ہے چچا رحیمو۔ تم نہ شامل ہوئے تو پنچایت کیسے رُک جاتی؟ گاؤں
کے دوسرے بڈھے تو شامل تھے۔ اب پولیس کا ڈر بھی پنچایت کے فیصلے کو روک نہیں سکتا۔
اور میں دیکھوں گا کہ چچا رحیمو کب تک پنچایت سے باہر رہ سکتا ہے؟‘‘
چچا رحیمو نے اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے
حقّے کا کش لگایا۔ پہلے وہ چپ رہا۔ سنتُو کو اپنے ارادے پر اٹل دیکھ کر اس نے جھٹ
اپنی بات کو پلٹتے ہوئے کہا۔ ’’میں اکیلا کیسے الگ رہ سکتا ہوں۔ اُجاگر بھی تو
تمھارا ساتھی معلوم ہوتا ہے۔ تمھارے ساتھ میں بھی پیاز اور جُوتے کھانے کو تیار
ہوں۔‘‘
پنچایت کا حکم تھا کہ کوئی بٹائی نہ دے۔ سب گیہوں
کھلیانوں ہی میں پڑا رہے۔ پولیس آئے گی اور زبردستی بٹائی کے دانے دِلانے کی کوشش
کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ دیوان ہمارے کچھ لوگوں کو رشوت دے کر اپنی طرف کرنے کی کوشش
کرے۔ لیکن بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ پر کیا فیصلہ سارے گاؤں کو منظور تھا۔ واضح طور
پر پنچایت نے لوگوں کی اس جد و جہد کے مختلف پہلو سمجھا دیے تھے۔ کوئی پروا نہیں
اگر ان کے کھلیان لہو سے لال ہو جائیں۔ بٹائی سے ضرور خلاصی مل جائے گی۔
نمبردار نے بہت کوشش کی کہ چچا رحیمو پنچایت میں
شامل ہونے سے انکار کر دے۔ دیوان کی طرفداری کرنے پر اُسے بہت کچھ مل سکتا تھا۔ لیکن
اس نے کسی طرح کی رشوت لینے سے انکار کر دیا اور کہا۔ ’’پنچایت کا فیصلہ اللہ پاک
کا فیصلہ ہے۔ ہم بزرگوں سے سُنتے چلے آئے ہیں کہ آوازِ خلق کو اللہ پاک کا نقارہ
سمجھو۔‘‘
کھلیانوں میں ہمیشہ ایک ہی گیت گونجتا رہتا:
’’دینا
نہیں کنک دا دانہ
بچّہ بچّہ قید ہو جائے!‘‘
ہم گیہوں کا ایک بھی دانہ نہ دیں گے، بھلے ہی
بچہ بچہ قید ہو جائے۔
مردوں سے کہیں زیادہ جوش عورتوں میں نظر آ رہا
تھا۔ عورتوں کا جلوس مائی امرتی کے کنوئیں سے شروع ہوتا اور سیدھا دیوان کے دروازے
پر جا پہنچتا۔ اس جلوس میں ہر عمر کی عورتیں اور لڑکیاں شامل ہوتیں۔ ’’دینا نہیں
کنک دا دانہ، بچّہ بچّہ کَید ہو جائے۔‘‘ یہ گیت فضا میں گونج اُٹھتا۔ بٹائی کے
خلاف طرح طرح کے نعرے لگائے جاتے۔ پہلے دیوان نے اسے چند روز کا تماشا سمجھ کر بے
توجہی دکھائی۔ لیکن عورتوں کے جوش میں کسی طرح کی کمی کا امکان نظر نہ آتا تھا۔ اب
تو عورتیں دیوان کے دروازے پر چھاتیاں پیٹنے کا مظاہرہ شروع کر دیتیں۔ ہائے ہائے
کے نعرے اس احتجاجی ماتم کی جان معلوم ہوتے تھے۔ دیوان حیران تھا، پولیس حیران تھی۔
اُوپر سے حکم آئے بغیر عورتوں پر کسی طرح کی سختی نہ کی جا سکتی تھی۔
رات کو دو دو تین تین فرلانگ سے مگھّر کے نعرے
سنائی دیتے۔ جن سے وہ گاؤں کے لوگوں کو بٹائی کے خلاف ڈٹے رہنے کے لیے برابر
اُکساتا رہتا۔ دس سال کلکتے میں رہ کر وہ اگلے ہی مہینے گاؤں میں آیا تھا۔ منہ پر
گراموفون کا بھونپو لگا کر وہ اپنی آواز کو دُور دُور تک پہنچا دیتا۔ عورتیں سوچتیں
کہ ضرور اس نے بھوت بس میں کر رکھے ہیں۔ اور وہ اپنا نیا گیت اجتماعی لَے میں گاتیں۔
جو کچھ اس طرح شروع ہوتا کہ گھر گھر بیٹوں کا جنم ہوتا ہے۔ مگر مگھّر جیسا بہادر
کبھی کبھار ہی پیدا ہوتا ہے۔ پولیس بھی سانپ کی طرح پھن مار کے رہ جاتی۔ مگھّر کو
پکڑنا آسان نہ تھا۔
کھلیانوں کو عورتوں کی نگرانی میں چھوڑ کر، سب
کسان ایک دن بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ پر اکٹھے ہوئے۔ پولیس کے سپاہی موقعہ پر موجود
تھے۔ گھڑسوار سپاہیوں کا ایک دستہ جو حال ہی میں ریاست کی راجدھانی سے چل کر یہاں
آیا تھا۔ ہر طرح کی سختی پر آمادہ نظر آتا تھا۔ چچا رحیمو نے قہر آلود نگاہوں سے
گھڑسواروں کی طرف دیکھا۔ اور اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا:
’’جب میں
بچہ تھا تو ہمیشہ اپنی بہن سے کہا کرتا تھا کہ اپنی کوہنی یا ناف کو زبان سے
چھُونے میں کامیاب ہو جاؤ تو تم لڑکی سے لڑکا بن سکتی ہو۔ وہ لاکھ کوشش کرتی پر
ناکام رہتی۔ سیانی ہونے پر وہ بیاہی گئی، تین بچّوں کی ماں بنی، بڑی نیک عورت تھی۔
میرا مذاق ہمیشہ قائم رہا- کیوں بہن عورت سے مرد بنو گی؟ وہ گھور کر میری طرف دیکھتی۔۔۔
اور اب اس گاؤں کی عورتوں نے ثابت کر دِکھایا ہے کہ وہ کسی طرح بھی اپنے مردوں سے
پیچھے نہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ پنچایت کی آواز سن لیں، اور جو فیصلہ ایک بار وہ کر
چکے ہیں اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔‘‘
اس کے بعد اُجاگر نے ہاتھ جوڑ کر ساری پنچایت کی
فتح بلائی- ’’بولو جی گرج کر شری واہگورو سادھ سنگت جی! میں نے سنا ہے کہ پہلے
وقتوں میں ہر کسی کی ناف پر گوشت کی ایک ڈھکنی سی لگی رہتی تھی، جسے اُٹھا کر جب
بھی کوئی چاہتا یہ دیکھ سکتا تھا کہ اس نے اس دن کیا کھایا ہے؟ ایک بار ایک لڑکی
اپنے خاوند کے ساتھ میکے میں آئی۔ اس نے اپنے خاوند کو اچھی اچھی چیزیں کھلائیں۔
اور اسے خود صرف روٹی اور ساگ ہی ملا۔ خاوند نے پوچھا تم نے کیا کھایا بولی وہی جو
تم نے کھایا۔ جب وہ سو گئی خاوند نے اس کی ناف پر سے ڈھکنی اُٹھا کر دیکھ لیا۔ اور
سب بات سمجھ گیا لڑکی کو معلوم ہوا تو اس نے دعا مانگی، ہے سچّے واہگورو ناف پر کی
ڈھکنی کو اب ہر مرد اور عورت کے جسم کے ساتھ ہی جوڑ دو تاکہ کوئی کسی کے بھوجن کے
راز سے واقف نہ ہو سکے۔ اور ایسا ہی ہو گیا۔ ناف پر کی ڈھکنی کو جسم کے ساتھ جوڑ
کر واہگورو نے کیا اچھا کیا۔ میں نہیں سمجھتا کاش! واہگورو اس ڈھکنی کو پھر سے پہلی
صورت دے دے۔ تاکہ ہمارے حاکم ہمارے بھوجن کے راز سے واقف ہو جایا کریں۔ سچ تو یہ
ہے کہ بہتوں کو روٹی اور ساگ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ حالانکہ ہمارے گاڑھے پسینے کی
کمائی کچھ اتنی کم بھی نہیں۔ ایک تہائی دانے بٹائی کے نکل جاتے ہیں۔ نہر کا لگان
الگ۔ شاہوکار کا بیاج الگ۔ سادھ سنگت جی! اب بٹائی بند کرانے کا وقت آ پہنچا ہے۔‘‘
اِتنے میں دُور کہیں سے مگھّر کا بگل بنکار
اُٹھا۔۔۔ بٹائی کے دن بیت گئے۔ زمین ہماری ہے۔ دیوان کی مہر ختم۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔
گرج کر بولو جی۔۔۔ بٹائی کے دن۔‘‘
جدھر سے آواز آ رہی تھی، اُدھر ہی کو سب
گھڑسوار سپاہی بھاگ نکلے۔ ان کے پیچھے پیچھے پیدل سپاہی لاٹھیاں اُٹھائے بھاگے
جاتے تھے۔
پھر ایک دن ریاست کی راجدھانی سے ٹھاکر صاحب
باغی کسانوں سے بات چیت کرنے کے لیے چلے آئے۔ تھانے کی بغل میں سبز رنگ کے شاہی خیمے
کے سامنے سب کسان حاضر ہو جائیں۔ بچّے، بوڑھے اور جوان سبھی۔ کھلیانوں پر ایک ایک
مرد یا عورت رہ جائے۔ رات کو گاؤں میں اور کھلیانوں میں یہ ڈھنڈورا پٹوا دیا گیا۔
عورتیں اور مرد ایک جلوس کی شکل میں چلے آ رہے
تھے۔ خیمے کے سامنے بہت سی سبز دریاں بچھا دی گئی تھیں۔ ایک طرف عورتیں بیٹھ گئیں۔
دوسری طرف مرد، ٹھاکر صاحب کی جے کا نعرہ گونج اُٹھا۔ پیشتر اس کے کہ وہ مہاراج کے
رُوبرو پہنچ کر فریاد کرتے مہاراج نے اپنا وزیر ان کا انصاف کرنے کو بھیج دیا تھا۔
ریاستی روایت کے مطابق سبز خیمے پر سبز جھنڈا
لہرا رہا تھا۔ گھڑ سوار پولیس نے بھی آج اپنے خاکی لباس پر سبز پھُندنے لگا رکھے تھے۔
کرسیوں پر بیچ میں ٹھاکر صاحب بیٹھے تھے۔ دائیں
طرف تھانے دار اور بائیں طرف گاؤں کے جاگیردار۔ دیوان صاحب اور ٹھاکر صاحب کا
اشارہ سمجھ کر تھانے دار نے کھڑے ہو کر کہا۔
’’جو
جس کی شکایت ہو بیان کر سکتا ہے۔‘‘
دیوان صاحب نے کھڑے ہو کر بڑے ادب سے ٹھاکر
صاحب کی طرف دیکھا۔ اور پھر کسانوں کی طرف دیکھا۔ اور پھر پُر شکایت لہجے میں کہا۔
’’میرے کسان میری بٹائی دینے سے انکار کر رہے ہیں حضور!‘‘
کسانوں کو چُپ دیکھ تھانیدار نے کہا۔ ’’کیا تم
لوگ بھی کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘
چچا رحیمو جسے سب لوگوں نے اپنا سرپنچ تسلیم کر
لیا تھا کھڑا ہو گیا۔ اور اُس نے بلند آواز سے نعرہ لگایا۔ جواب میں سب کسان یک
زبان ہو کر بولے- اللہ اکبر!‘‘
چچا رحیمو کے چہرے پر خوشی کی لہریں مچل رہی تھیں۔
جیسے وہ کسی چھوٹے سے دیس کا حکمران ہو اور ضرورت آن پڑنے پر اپنے پڑوسی حکمران کے
ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے چل کر آیا ہو۔ بولا۔ ’’ہم بٹائی نہیں دیں گے۔‘‘
’’کوئی
وجہ بھی ہو آخر؟ ٹھاکر صاحب نے بظاہر خلوص سے پوچھا۔‘‘
’’یہ
پنچایت کی آواز ہے۔‘‘
’’پنچایت
کی آواز؟ مگر ریاستی مہر کی آواز بھی تو کوئی چیز ہے۔‘‘
چچا رحیمو نے مسکرا کر ٹھاکر صاحب کی طرف دیکھا۔
پھر اس کی نگاہیں اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے کسانوں کی طرف اُٹھ گئیں۔ پہلے عورتوں نے
اور پھر مردوں نے وہ نعرے لگائے جو اُنھوں نے پہلے پہل مگھّر کی زبان سے سُنے تھے۔
اور جو شروع شروع میں ان کی سمجھ میں نہ آتے تھے- پنچایت کی آواز، کھیتوں کی آواز-
پنچایت کی آواز، گیہوں کی آواز۔
دیوان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ٹھاکر
صاحب نے حالات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ بٹائی توڑ سکنا میری طاقت سے باہر ہے۔ اس کے
لیے تم لوگوں کو مہاراج سے عرض کرنا ہو گی۔‘‘
چچا رحیمو بولا۔ ’’تو ہماری آواز اُن تک پہنچا
دی جائے۔‘‘
’’بٹائی
مہاراج بھی نہ توڑیں گے۔۔۔ میں کہتا ہوں بٹائی ضرور دے دی جائے قانون یہی کہتا
ہے۔۔۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے اور وہ بھی فریقین کی رضامندی سے دیوان صاحب حاضر ہیں۔
میں اتنا کر سکتا ہوں کہ بٹائی گھٹا کر ایک تہائی کی بجائے ایک چوتھائی ٹھہرا دی
جائے!‘‘
چچا رحیمو بولا۔ ’’پنچایت کی آواز ہے بٹائی مت
دو۔ بٹائی کے دن بیت گئے۔ ایک چوتھائی ہی تو تھی پہلے یہ بٹائی، پھر نہ جانے کون
سا نشہ پلا کر ہمارے باپ دادا سے ایک تہائی بٹائی پر انگوٹھے لگوا لیے گئے تھے۔ اب
ہم جاگ چکے ہیں۔‘‘
اُجاگر نے نعرہ لگایا۔ ’’گرج کر بولو جی شری
واہگورو۔‘‘
سب کسان یک زبان ہو کر بولے۔ ’’شری واہگورو۔‘‘
چچا رحیمو ایک زندہ بُت کی طرح خاموش کھڑا تھا۔
پیچھے سے سنتو نے نعرہ لگایا- پنچایت کی آواز! سب کسان یک زبان ہو کر بولے گیہوں کی
آواز!
ٹھاکر صاحب کے چہرے پر بھی ہوائیاں اُڑنے لگیں۔
لیکن جھٹ سے سنبھلتے ہوئے وہ بولے۔ ’’ایک سنہری موقع گنوایا جا رہا ہے۔ ایسے موقعے
روز روز نہیں آیا کرتے۔ بٹائی مہاراج بھی نہیں توڑ سکیں گے۔ ریاست کی مہر یہی کہتی
ہے۔ دیوان صاحب کی جدّی جائیداد کا بھی یہی تقاضا ہے۔ پھر شاید ایک تہائی سے ایک
چوتھائی کی سطح پر ہرگز ہرگز نہ اُتر سکے یہ بٹائی۔‘‘
’’ایک
چوتھائی؟- ہم بٹائی نہیں دے سکتے۔‘‘
گھڑسوار پولیس کے گھوڑے تیار نظر آتے تھے۔
معلوم ہوتا تھا وہ ابھی چچا رحیمو کو اپنے قدموں کے نیچے کچل کر رکھ دیں گے۔ سپاہیوں
کے چہرے اور بھی خونخوار ہو اُٹھے تھے۔
ٹھاکر صاحب نے ایک بار پھر بڑے اطمینان سے کہنا
شروع کیا۔ ’’اچھا میں آخری بات کہے دیتا ہوں۔ اور وہ بھی دیوان صاحب کو پوچھے بغیر
ہی۔۔۔ فصل کا پانچواں حصّہ بٹائی منظور ہے سب کو؟ اور تم کہو گے تو کنکُوت کا طریقہ
بھی ترک کر دیا جائے گا۔ کٹائی ہو چکنے پر جنس کو تول کر پانچویں حصّے کے دانے دیوان
صاحب کو دے دیے جایا کریں گے۔‘‘
چچا رحیمو چُپ کھڑا تھا۔ پیاز اور جُوتے کھانے
کا ڈر جیسے اسے چھُو تک نہ گیا ہو۔
دیوان صاحب نے آداب بجا کر کہا۔ ’’ٹھاکر صاحب
آپ کے انصاف کے سامنے میرا سر ہمیشہ جھکا رہے گا۔‘‘
موقعہ پا کر سنتو نے پھر نعرہ لگایا- پنچایت کی
آواز!
سب کسان یک زبان ہو کر بولے- گیہوں کی آواز!
اُجاگر نے نعرہ لگایا- بٹائی کے دن!
سب کسان یک زبان ہو کر بولے- ختم ہو گئے!
چچا رحیمو نے کہا۔ ’’میں اکیلا کچھ نہیں کہہ
سکتا۔ میں پنچایت سے پُوچھ دیکھوں۔ دوپہر تک ہمارا فیصلہ آپ کو پہنچ جائے گا۔‘‘
سب کسان جلوس کی شکل میں جا رہے تھے۔ اُن کا گیت
فضا میں گونج اُٹھا-
’’دینا
نہیں کنک دا دانہ، بچہ بچہ کید ہو جائے۔‘‘
بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ پر پنچایت اپنے آخری فیصلہ
پر غور کر رہی تھی۔ سنتو کا خیال تھا کہ ابھی پانچواں حصہ بٹائی منظور کر لی جائے۔
مگر چچا رحیمو نے بڑے جوشیلے انداز میں جنتا کے رُوبرو اپنے خیالات پیش کر دیے اور
کہا۔ ’’آؤ ہم آج ہمیشہ کے لیے بٹائی سے آزاد ہو جائیں۔‘‘ سب لوگ چچا رحیمو کے ساتھ
تھے۔ سنتُو نے نعرہ لگایا- پنچایت کی آواز چچا رحیمو کی آواز!‘‘
اُجاگر جھٹ پنچایت کا فیصلہ ٹھاکر صاحب کے خیمے
میں پہنچا آیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ آج ٹھاکر صاحب مہاراج کا آخری حکم سنادیں گے
اور ہمیشہ کے لیے اپنے کسانوں کو بٹائی کے جُوئے سے آزاد کر دیں گے۔ دیوان صاحب کو
ریاست کے خزانے سے پنشن جا سکتی تھی۔
لیکن دوپہر ڈھلنے سے پیشتر ہی پتہ چل گیا کہ
ٹھاکر صاحب پولیس سمیت کھلیانوں کی طرف آ رہے ہیں۔ تاکہ زبردستی بٹائی کے دانے دیوان
صاحب کو دِلا دیں۔ چچا رحیمو نے حکم دیا کہ سب عورتیں تیار رہیں۔ جس جس کھلیان میں
پولیس کے سپاہی یہ زبردستی شروع کرنے والے ہوں اُسی کے گِرد گھیرا ڈال کر، دھرنا
مار کر مقابلہ کریں۔ نوجوانوں کی ایک ٹولی کو یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ پانی
پلانے کا فرض ادا کریں۔
گھڑسوار پولیس کو دیوان صاحب کے دروازے پر پہرا
دینے کا حکم ملا۔ کیونکہ یہ ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں بے قابو ہجوم کسی طرح کی زیادتی
پر نہ اُتر آئے۔
پیدل پولس سمیت تھانیدار اور دیوان صاحب بابا
ٹہل سنگھ کی سمادھ کے قریب ایک کھلیان میں پہنچے۔ لیکن عورتیں اس کے گرد گھیرا
ڈالے بیٹھی تھیں۔ کہ بٹائی کے دانے تلوانے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ تھوڑی دیر
میں ٹھاکر صاحب کی کار بھی پہنچ گئی۔
’’میری
ماؤں بیٹیو، ایک طرف ہٹ جاؤ، سپاہیوں کو سرکاری کام کرنے دو۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے
بظاہر خلوص سے کہا۔
عورتیں اپنے دھرنے پر بضد تھیں۔ ٹھاکر صاحب نے
ایک بار پھر اپنا حکم دُہرایا۔ تیسری بار گرم ہو کر انھوں نے اپنا حکم دیا۔ ’’یوں
نہیں مانتیں تو ہٹا دو ان کو بازوؤں سے پکڑ کر۔‘‘
سپاہی ابھی آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ پانی
پلانے والے نوجوانوں کو جوش آ گیا۔ ان میں سنتُو بھی شامل تھا۔ ان نوجوانوں نے
سپاہیوں کی لاٹھیاں چھین لین اور سنتُو کا اشارہ سمجھ کر بُری طرح ان سپاہیوں پر
ٹوٹ پڑے۔ خود سنتُو نے اپنی تیل پلائی ہوئی لوہے کی مٹھے والی لاٹھی، جو اس نے کھلیان
میں چھپا رکھی تھی، اُٹھا کر تابڑ توڑ اتنے وار کیے کہ کھلیان کی خشک زمین پر لہو
کے چھینٹے نمایاں ہو اُٹھے۔ پیشتر اس کے کہ ٹھاکر صاحب کو گولی چلانے کی ضرورت
محسوس ہوتی، دیوان صاحب نے ہوا میں اپنی بندوق چلا دی۔ سب نوجوان بھاگ گئے۔ سنتُو
ذرا دیر سے بھاگا۔ لیکن ایسا بھاگا، کہ دو فرلانگ تک گھڑسوار تھانیدار بھی اِسے
پکڑ نہ سکا۔
عورتیں بالکل نہ گھبرائیں۔ اپنے دھرنے پر ڈٹ کر
کھڑی رہیں۔ چچا رحیمو کا حکم ان کے لیے سب سے بڑا حکم بن چکا تھا۔ لیکن ان کے دیکھتے
دیکھتے چچا رحیمو کو گرفتار کر لیا گیا۔ بیویوں کے خاوند، بہنوں کے بھائی، بیٹیوں
کے باپ اور ماؤں کے بیٹے سب گرفتار کر لیے گئے۔ سنتُو کو بھی ہتھکڑی پہنائی جا چکی تھی۔ لیکن عورتیں بالکل نہ گھبرائیں۔
ٹھاکر صاحب نے حکم دیا۔ کہ سنتُو کے پاؤں میں پورے من بھر لوہے کی بیڑی ڈالی جائے۔
دو سپاہی بھاگے بھاگے تھانے سے وہ بھیانک بیڑی لے آئے۔ عورتوں کے رُوبرو سنتُو کے پاؤں
میں وہ بیڑی ڈال دی گئی۔ وہ ذرا نہ گھبرایا۔ ’’پنچایت کی آواز، گیہوں کی آواز۔‘‘
اس نے بلند آواز سے نعرہ لگایا اُس سے بہت پوچھا گیا، کہ وہ باقی پانی پلانے والے
نوجوانوں کے نام بتا دے۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ نوجوان نہ جانے کہاں جا
چھپے تھے۔
’’بدمعاش کی پیٹھ ننگی کر کے خوب کوڑے لگاؤ جب
مانے گا۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے سنتُو کی طرف خونی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
سنتُو کی پیٹھ دھوبی کا تختہ بن چکی تھی۔ جگہ
بہ جگہ اس پر نیل پڑ چکے تھے۔ لیکن وہ برابر کہے جا رہا تھا- بٹائی کے دن بیت گئے۔
ایک طرف ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے دھرتی کے بیٹے
کھڑے تھے۔ جن کی آنکھوں میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ دوسری طرف کھلیان کے گرد
دھرتی کی بیٹیوں نے دھرنا مار رکھا تھا۔ انھیں اپنی جگہ سے ہٹنا منظور نہ تھا۔ چچا
رحیمو اب قیدی بن چکا تھا۔ لیکن اس کا حکم اب بھی پنچایت کا حکم تھا اور انھیں یقین
تھا کہ بٹائی کے دن کبھی کے بیت چکے ہیں۔
’’تو
نے کیا کھا کر جنا تھا سنتُو کو، نہالو؟‘‘ پیلی شلوار قمیص والی ایک عورت پوچھ رہی
تھی۔
سنتُو کی منگیتر اپنے ہونے والے دولھے کی طرف
چور نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ خود تھانیدار اور ٹھاکر صاحب اپنے ہاتھوں سے سنتُو کے
بال نوچ رہے تھے۔ دیوان صاحب چلّا رہے تھے ’’یہی حرامی ساری بغاوت کا بانی مبانی
ہے۔ ہم اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
٭٭٭
اور بنسری بجتی رہی
برگد سے کتنی ہی ڈاڑھیاں لٹک رہی تھیں -بل
کھاتے بھیانک سانپوں کی طرح۔ گھنے، سایہ دار درخت نے اس سنسان جگہ کو سڑک سے چھپا
رکھا تھا کہیں کہیں گھاس اُگ رہی تھی۔ جیسے جوانی سے ذرا پہلے کسی نوجوان کی مسیں
بھیگ رہی ہوں۔ ایک طرف ہموار ڈھلوان چلی گئی تھی اور دوسری طرف ایک ٹیکرا تھا۔ جو
ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کنواری دھرتی کا اُبھرا ہوا سینہ ہو۔
پرے کھیتوں میں دھوپ تھی، ہنسی تھی اور سرور کی
لہریں۔ فصل کے دانہ دانہ میں دھرتی کا دل دھڑکتا تھا اور کھیتوں کی مٹی سے اناج کی
سوندھی سوندھی خوشبو آتی تھی، جیسے گائے کے سانس میں سے دودھ کی بھینی بھینی خوشبو
آتی ہے۔ اور شرمیلی دُلہن کی طرح زندگی دھیرے دھیرے حرکت کر رہی تھی۔
دور- تا حدِ نگاہ سبزہ بچھا ہوا تھا اور آسمان
پر سیلانی پرندوں کی قطاریں دکھائی دے رہی تھیں۔ اُن کی خانہ بدوش طبیعت اُن کے
بازوؤں میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والی رو پیدا کرتی رہتی۔ آدمی اُنھیں دیکھتا اور
اپنی زندگی کے لیے نئے تاثرات حاصل کرتا۔ کس نے سکھائی یہ پرواز ان آزاد بے فکر
پرندوں کو؟ سینکڑوں نہیں ہزاروں میلوں سے، بلند برفانی پہاڑوں کی چوٹیوں کو پار
کرتے وہ میدانوں کی طرف نکل آتے ہیں، سال کے سال مقر رہ موسم میں۔ کس نے سکھایا
آدمی کو ہل چلانا اور دھرتی سے اناج کے جواہر پیدا کرنا۔ سال بسال، ہر فصل پر کھیتوں
کی کوکھ سے آدمی کی خوراک کا جنم ہوتا ہے۔ دنیا کی وسیع گود میں زندگی کھیلتی رہتی
ہے- متواتر، اٹوٹ کھلنڈرے پن سے! کون جانے اس کا آغاز کیسے ہوا اور کب؟ اور کیا یہ
کبھی ختم بھی ہو گی؟
اُس سنسان ٹیکرے پر ایک اہیر بنسری بجا رہا
تھا۔ گایوں نے چرنا چھوڑ دیا۔ بنسری کے جادو بھرے نغمے نے اُن پر ایک وجدانی کیفیت
طاری کر دی۔ ڈھلوان پر سے وہ اُوپر چڑھ آئیں۔ جنگل کے ہرن اور مور بھی دوڑے آئے
اور مست ہو کر بنسری کا نغمہ سننے لگے۔
سنسار اور اس کی دلچسپیوں سے بے خبر ہو کر اہیر
لگاتار اپنا نغمہ اَلاپ رہا تھا۔ بنسری میں اُس نے اپنا دل ڈال دیا تھا۔ جیسے وہ
بانس کا بنا ہوا آلۂ موسیقی نہ تھا بلکہ ایک دوشیزہ تھی جو اپنے محبوب کے عمیق ترین
احساسات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ جب سے اُس نے اپنے گانے میں ایک حقیقی پناہ پالی
تھی۔ اُسے اپنی بنسری سے ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا لگاؤ ہو گیا تھا۔ بار بار وہ
سوچتا کہ بنسری اس کی دُلہن ہے جو اس کے ہونٹوں کے لمس کے لیے ترستی رہتی ہے۔
گائیں مست ہو رہی تھیں، مور بھی اور ہرن بھی۔ جیسے
ان کی کوئی مدت کی پیاس بجھ رہی ہو، کوئی مدت کی بھوک مٹ رہی ہو۔ یہ کسی نئی زندگی
کا نغمہ تھا اس کی ایک ایک تان پر وہ جھوم رہے تھے۔ یہ نغمہ شاید زبانِ حال سے کہہ
رہا تھا کہ زندگی ایک ہے، سدا اِس کا دور جاری رہتا ہے۔
اور پھر آسمان کے پرندے بھی اس ٹیکرے پر اتر
آئے۔ یہ دوستی کا نغمہ تھا۔ اس کی ہر لَے عشق، حُسن اور شباب سے مل کر بنی تھی۔
بڑا میٹھا میٹھا رس تھا۔ بیچ بیچ میں ایک درد سا بھی- ایک ابدی درد! کھیتوں کا
سارا سنگیت درختوں کی سب سرگوشیاں، جھرنوں اور دریاؤں کے بہتے پانی کے سارے بول تیز
ہوا کی سنسناہٹ۔ گایوں کے دلوں کی دھڑکن۔ تیز سانس اور سر رسرر کی آواز جو ان کے
دودھ دوہے جانے سے پیدا ہوتی ہے- یہ سب کچھ شاید اس نغمہ میں سما گیا تھا اور پھر
زہری سانپ بھی اس ٹیکرے پر چڑھ آیا تھا۔
سانپ کی خصلت ہے کاٹنا۔ مگر وہ تو پیار کا نغمہ
تھا۔ سنتے سنتے وہ کئی بار چونک اُٹھا۔ اس کے کٹھور سر میں زہر حرکت کرنے لگا۔ لیکن
اُسے اپنے جسم میں ایک جھرجھری سی محسوس ہونے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے-
نغمہ نے اس کے زہر پر فتح پا لی تھی۔
نغمہ کی تانیں فضا میں بکھر رہی تھیں۔ چاروں
طرف ایک پُر سکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ زندگی کی ساری نفرت کون جانے کن گہرائیوں
میں گم ہو چکی تھی پوربی ہوا بھی تھم گئی- یہ شاید اس کی اطاعت کا ثبوت تھا۔
سانپ کا برہنہ جسم چمک رہا تھا۔ پھن پھیلا کر
وہ رقص کر رہا تھا۔ وہی ابدی رقص اس وقت وہ اپنے زہر سے بے خبر تھا۔ سانپ کا یہ
رقص کوئی مصنوعی رقص نہ تھا۔ یہ پیار کے نغمہ سے پیدا ہوا تھا۔ سانپ کی آنکھوں سے
بدستور آنسو گِر رہے تھے۔ وہ بھی دل رکھتا تھا، صرف زہر ہی نہیں۔ اور وہ دل کا درد
سمجھتا تھا- زندگی کی رگ رگ میں حرکت کرنے والا لطیف درد!
دُور پوربی اُفق پر ایک کالی بدلی چھا رہی تھی۔
پرے کھیت سے ایک کسان کی دلہن گا اُٹھی۔ ’’اری اور کالی بدلی! تم میری دھرم کی بہن
ہو۔ دیکھو، پیاری بدلی، پہلے میرے باپ کے کھیتوں پر برسیو، اور پھر سسرال کے کھیتوں
پر! چوکنا مت، بہن بدلی! جیسے میں کہتی ہوں، ویسے ہی کرنا پیاری!‘‘
اور اہیر نے اپنے لبوں سے بنسری ہٹا لی۔ نغمہ
بند ہو گیا۔ اُس کے کان کھیتوں سے آتے ہوئے گیت کی جانب متوجہ ہو گئے۔ گائیں ٹیکرے
سے نیچے اُتر رہی تھیں۔ ہرن بھی جا رہے تھے، اور مور بھی۔ پرندوں کو بھی آسمان کی
بلندیاں یاد آ گئی تھیں۔
زہری سانپ بدستور پھن پھیلائے رقص کر رہا تھا۔
اہیر ڈرا نہیں۔ وہ مسکرایا۔ یہ اُس کے نغمہ کی دلکشی کا ثبوت تھا۔ وہ خوش تھا۔
اور کسان دُلہن نے پھر گایا۔ ’’نیم پر، ہری ہری
نیم پر میری بہن جھولا جھول رہی تھی ہائے! میری ماں رو پڑی۔ میں بھی رو پڑی۔ بہن
کو کالے ناگ نے ڈس لیا تھا۔‘‘
کس ناگ نے ڈس لیا تھا جھولا جھولتی کنواری کو؟
کیا یہی سانپ تھا۔ وہ ناگ، جو اہیر کے پاس پھن پھیلائے جھوم رہا تھا؟ اسے تو رونا
آتا تھا۔ اب تک اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور جب کوئی روتا ہے اُس کا زہر مر
جاتا ہے!
زہری سانپ ٹیکرے سے نیچے اُتر رہا تھا
اُس کے بند بند میں ایک غیر معمولی تھکاوٹ
محسوس ہو رہی تھی۔ جذبات کی رو میں وہ بہت دیر تک رقص کرتا رہا تھا۔ ضرورت سے زیادہ۔
یہ نغمہ نہ تھا، ایک منتر تھا۔ ورنہ وہ وہاں کیوں
جاتا؟
اس کا جسم گرم ہونے لگا۔ لہو پہلی چال سے چلنے
لگا۔ وہ پھر وہی پہلا سانپ تھا۔ جس کی خصلت ہے کاٹنا۔ اور اس کے تاثرات کی خبر صرف
اسی کو ہی تھی۔
جب وہ کھیت کی مینڈھ کے پاس پہنچا تو اُس نے
سانپن کی لاش بدستور پڑی دیکھی۔ اب وہ بدبو دار ہو رہی تھی۔ سانپ کا دل بے چین ہو
گیا۔ لاش کے گرد اس نے پانچ چکّر کاٹے اور پھر ٹکٹکی لگا کر مردہ سانپن کی آنکھوں
کی طرف دیکھنے لگا، اُس کے سر میں زہر پھر جاگ اُٹھا۔
یہ سانپن اس کی محبوبہ بنی، اُس کے پیچھے پیچھے
چلا کرتی تھی۔ چاندنی راتوں کے کتنے ہی کیف آور لمحے دونوں نے بارہا ایک ساتھ
گذارے تھے۔ اُس کی صحبت میں زندگی کتنی خوبصورت معلوم ہوتی تھی، کتنی ملائم اور
چمک دار -سانپن کے جسم کی طرح، اور خود اُس کے اپنے جسم کی طرح جب کہ کینچلی ابھی
ابھی اُتار کر پھینکی گئی ہو! کتنی ہی بار اُس نے اپنی زبان سانپن کی زبان پر رکھ
کر اُسے اپنی دائمی محبت کا یقین دلایا تھا۔ تب وہ کیا جانتا تھا کہ ایک دن اُسے یوں
اپنی محبوبہ کے بے حس جسم پر آنسو گرانے ہوں گے۔
اس کا زہر اور بھی بھڑک اُٹھا۔ اپنا پھن لاش کے
نزدیک لا کر اُس نے اُسے پھر سُونگھا۔ اور اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ جلنے لگی۔
فضا میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پُوربی ہوا کے
لمس سے غصّہ ور سانپ کا بند بند ایک نئی قوت محسوس کرنے لگا۔
کسی شاہزادے کی چاند رانی سے سانپ کی محبوبہ کیا
کچھ کم تھی؟ اس چاند رانی کو کوئی مار ڈالتا تو قاتل کو پکڑنے کے لیے حکومت ایڑی
چوٹی کا زور لگا دیتی۔ اور اگر سانپ بھی اپنی محبوبہ کے قاتل کا دشمن بن گیا تو
کون سی بڑی بات ہو گئی؟
پہلے بھی ایک دن اہیر نے بنسری پر اپنا نغمہ چھیڑا
تھا۔ اور سانپ اور سانپن نغمہ کی آواز سے مست ہو کر اُس ٹیکرے کی طرف چل پڑے تھے،
جہاں اہیر اپنی لَے کی نرم نرم تھپکیوں سے گایوں کا من رجھا رہا تھا۔
اور جب سانپ اور سانپن پگڈنڈی کے کنارے کنارے
جا رہے تھے۔ کسی شریر راہی نے اپنی پرانی عادت کے مطابق سانپن کو نشانہ بنا دیا
تھا، سانپ کافی آگے آگے جا رہا تھا، ورنہ اگر اُسے اُسی وقت اپنی محبوبہ پر کیے
گئے اس ظلم کا پتہ چل جاتا تو وہ اُسی وقت اس ظالم راہی کو موت کی نیند سُلا دیتا۔
اب وہ راہی کہاں چلا گیا تھا؟ پچھلے غصّہ کی یاد نے انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکا
دیا۔
پہلے سانپ نے سمجھا کہ سانپن کی موت کی ذمہ داری
اہیر یا اس کے نغمہ پر کسی طرح عاید نہیں ہوتی۔ اور جب سے اُس نے اُس کی سب سے زیادہ
دودھ دینے والی گائے کی پچھلی ٹانگوں میں لپٹ کر اُس کا میٹھا میٹھا دودھ پینا
شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کی یاد کچھ کچھ فراموش کر بیٹھا تھا۔
مگر سانپن کی لاش دیکھ کر سانپ کے لہو کی ایک ایک
بُوند نفرت کی آئینہ دار بن گئی۔ اور وہ سب شانتی جو اُسے بنسری کا نغمہ سن کر
حاصل ہوئی تھی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔
وہ راہی اب نہیں ملتا تو نہ ملے۔ وہ اس اہیر کا
خاتمہ کر ڈالے گا۔ اور اُس کے نغمہ کو ہمیشہ کے لیے بند کر دے گا۔ نہ اُس دن اہیر
نے نغمہ چھیڑا ہوتا نہ وہ اپنی محبوبہ سمیت ٹیکرے کی جانب چل پڑتا! اور وہ راہی جس
نے سانپن پر پتھر پھینکا، ضرور اس اہیر کا بھائی بند ہو گا- آدم کا بیٹا، سانپوں
کا ابدی دشمن!
کسی دوسری سانپن سے وہ آسانی سے پیار کر سکتا
تھا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں اُسے کیا تکلیف ہو سکتی تھی، آدمی بھی ایک
عورت کے مر جانے پر دوسری عورت کا دم بھرنے لگتا ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہ تھا
کہ وہ انتقام کے جذبہ سے منہ موڑ لیتا۔
آخر زہر کا مفہوم کیا ہے؟ مارنا! انتقام لینا!
زہر بنا ہی ہے مارنے کے لیے آدمی کو سانپ سے ڈرنا چاہیے۔ سانپ کے انتقام سے۔ زہر
سانپ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے اُس کا زہر بھی مرتا نہیں۔
جھوٹے امرت سے تو سانپ کا زہر ہی ہزار بار سچا ہے۔ اس کی زبان ناپاک ہے تو ناپاک ہی
سہی مگر کیا وہ امرت کی ڈینگیں مارنے والوں سے انتقام لینا بھی چھوڑ سکتا ہے؟ اس
کے سر میں زہر سوتا رہتا ہے جب تک کہ کوئی اسے جگا نہیں دیتا۔
زہری سانپ بہت جلد اہیر کے ہاتھ سے بنسری گرا دینا
چاہتا تھا ہمیشہ کے لیے۔ تاکہ پھر کبھی اُس کا نغمہ فضا میں نہ گونج اُٹھے اور اسے
اس کے ارادہ سے کون روک سکتا تھا؟
پچھم کی طرف قوسِ قزح کمان کی طرح تنی ہوئی تھی۔
سانپ ٹیکرے کے اوپر چڑھ رہا تھا۔ اُس نے دیکھا
کہ اہیر سو رہا ہے۔ بڑا اچھا موقع تھا۔ دھیرے دھیرے وہ اس کے قریب جا پہنچا۔ اس نے
چھتری کی طرح پھن پھیلا لیا۔ اہیر کے پاؤں کا بوسہ لے لیا۔
اہیر پھر کبھی نہ جاگا۔ گائیں بدستور ٹیکرے کے
قریب چر رہی تھیں جہاں ہری ہری گھاس زندگی کا کوئی خاموش نغمہ سنتی ہوئی تیزی سے
اُگ رہی تھی۔
زہری سانپ نے اہیر کو ایسے غصہ سے کاٹا تھا کہ
وہ درد کے ایک شدید احساس سے تڑپا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکلی ناک سے خون بہنے لگا۔
اور وہ ہمیشہ کی نیند سو گیا۔
سانپ خوش تھا۔ اُس نے اپنے ابدی دشمن کا خاتمہ
کر دیا تھا۔ اُوپر آسمان پر چاند نمودار ہو رہا تھا۔ سانپ نے چاند کی جانب دیکھا
اور اُس کے من میں بسی ہوئی خود نمائی بول اُٹھی۔ آدمی تو آدمی ضرورت پڑے تو وہ
چاند کو بھی ڈس سکتا ہے۔ سانپن کی یاد اب اُسے رُلاتی نہ تھی۔ وہ تو شہید ہو گئی۔
اور اس نے انتقام لے کر اپنی نسل کی لاج رکھ لی۔ وہ شیطان بن گیا تھا۔
زہر کہتا ہے۔ او زندگی! مجھ سے ڈر۔ کون جانے
زہر کا آغاز کیسے ہوا اور کیا کبھی زہر ختم بھی ہو جائے گا؟ مگر زندگی کا سانس ہمیشہ
جاری رہتا ہے، جیون تو امر ہے۔
پوربی ہوا چل رہی تھی اور وہ مُردہ اہیر کے نیچے
پڑی ہوئی بنسری میں سے گذر کر نغمہ پیدا کر رہی تھی مگر ہوا اداس تھی۔ اور نغمہ کی
غمگینی اور دلسوزی فضا کی وسعتوں میں بکھر رہی تھی۔
برگد کی ڈاڑھیاں برابر لٹک رہی تھیں -بل کھاتے
بھیانک سانپوں کی طرح! پوربی ہوا کے جھونکے ڈاڑھیوں کو ہلا رہے تھے اور ان کی
سرگوشیاں بھی غمگین اور دل سوز ہو رہی تھیں۔
نغمہ گونج رہا تھا۔ سانپ حیران تھا۔ کون بنسری
بجا رہا ہے؟ اہیر تو مر گیا۔ وہ چاروں طرف حیران نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ بار بار
پھن پھیلاتا تھا۔ یہ نغمہ ضرور بند ہو جانا چاہیے کسے سوجھی ہے یہ شرارت؟ کیا وہ یہ
نہیں جانتا کہ میں اُس کا بھی اُسی طرح بوسہ لے سکتا ہوں- وہی بوسہ، جس نے اہیر کو
موت کے منہ میں دھکیل دیا؟
کس نے پھونکی زندگی میں اتنی خود نمائی؟ شروع میں
یہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے۔ جیسے درختوں پر بُور نمودار ہوتا ہے کیا امرت میں بھی
اتنی ہی خود نمائی ہوتی ہے، جتنی کہ زہر میں؟
زہری سانپ نے سمجھاکہ اہیر کے سب بھائی بند- آدم
کے بیٹے بنسریاں بجا رہے ہیں۔ اُس کے کالے چمکدار جسم کا بند بند دکھنے لگا۔ نہیں
وہ ڈرے گا نہیں۔ وہ مقابلہ سے بھاگے گا نہیں۔ اُس کا زہر اور بھی کڑوا ہو رہا تھا
جیسے بسنت رُت میں شہد اور بھی خوشبودار بن جاتا ہے اور میٹھا بھی۔
مگر وہ اکیلا ہے اور آدم کے بیٹے لاتعداد۔
مقابلہ سخت ہے۔ تو کیا ہوا وہ ڈٹ کر لڑے گا- مر جائے گا یا سب کو مار ڈالے گا- پہلے
سب اہیروں کو، اور پھر آدم کے باقی بیٹوں کو! اور اگر سب کے ہاتھوں سے بنسریاں نہ
گرا دیں، نغمہ نہ بند کر دیا، تو اس کا نام ناگ نہیں۔
وقت گذر رہا تھا۔ دھیرے دھیرے ختم ہونے والے
پہاڑی سایوں کی طرح۔ برگد کا درخت وہیں کھڑا تھا اور ٹیکرا بھی۔ نغمہ بدستور جاری
رہا۔ سانپ کے ذہن میں وقت کے لمبے سائے اپنا عکس ڈالتے رہے۔
اُس وقت خدا کا انصاف کہاں تک تھا جب ایک شریر
راہی نے پگڈنڈی کے کنارے سانپن کا سر پتھر مار کر توڑ ڈالا تھا۔ اب اگر خدا بھی
اُسے انتقام لینے سے منع کرے گا تو وہ ایک نہ سُنے گا۔ خدا ہو گا اپنے گھر میں وہ
بھی بے انصاف ہو سکتا ہے! سانپ پر اب اس کا حکم نہیں چلنے کا۔ وہ سانپ بھی ہے اور
شیطان بھی! اگر خدا میں ذرا بھی طاقت ہے تو وہ اس نغمہ کو ہی کیوں نہیں بند کر دیتا؟
خدا بھی غریبوں اور کمزوروں کو ڈراتا ہے۔ اکھڑ اور نڈر کے سامنے اُس کی بھی کوئی پیش
نہیں جاتی! اور سانپ ضرور کوئی ایسی ترکیب نکال لے گا۔ جس سے وہ آدمی تو آدمی خدا
اور آدمی کی مشترکہ طاقت کا بھی مقابلہ کر سکے۔ اکیلا آدمی تو ہرگز اس کے سامنے
کھڑا ہونے کی تاب نہ لا سکے گا۔
ایک دن سانپ سو کر اُٹھا تو وہ خوشی سے ناچنے
لگا۔ مگر پھر بہت جلد اس کی خوشی سنجیدگی میں بدل گئی۔ جیسے الہام کے بعد آدمی کی
کایا پلٹ جاتی ہے۔
پاتال کے سارے سانپ دھرتی پر آ گئے۔ زہری سانپ یہ
جانتا تھا کہ پاتال کے ان سب سانپوں کی طاقت سے وہ ایک ایک آدمی کی بنسری نہ گرا
سکے گا۔ مگر وہ خوش تھا کہ وہ اس کی دعوت پا کر بغیر کسی پس و پیش کے بھاگ چلے آئے
تھے۔ وہ ان سب سانپوں کو اپنی طرح طاقت ور بنا دے گا۔
پچھم کی طرف قوس و قزح تنی ہوئی تھی۔ آدم کے بیٹے
اسے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ یہ کسی بڑھیا کا جھولا ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی بڑھیا دادی
سے سنتے آئے تھے مگر انھیں یہ بھی تو یاد تھا کہ جہاں سے یہ جھولا اوپر اُٹھتا
دِکھائی دیتا وہاں اُفق کے قریب ہی زہری سانپ کا بِل بھی ہے۔ سانپ سے بچیو۔ بچہ
دادی اماں اور ماں کی یہ نصیحت آدم کے ہر بیٹے کو یاد تھی۔
زہری سانپ نے کھانے میں کسی طرح اپنے زہر کا بیشتر
حصہ ملا دیا۔ اور یہ کھانا کھانے کے بعد سب سانپ اُسی کی طرح مہلک بن گئے۔
رو رو کر اُس نے اپنی داستانِ الم سب سانپوں کو
سنائی اور انسان اور اس کے نغمہ کے ابدی دشمن بن جانے کی تلقین کی۔
سب سانپ رضامند ہو گئے۔ باہمی مشورہ سے اُنھوں
نے ایک پنچ سالہ پروگرام مرتب کیا جس میں وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں گے اور
زیادہ سے زیادہ آدمیوں کو ڈسیں گے۔
اِدھر اولادِ آدم نے بھی سانپوں کے اس پروگرام
کا بھید پا لیا۔ اُنھوں نے اپنی عورتوں کے مشورہ سے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے
کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی نسل قائم رہے اور جہاں تک بس چلے گا وہ اپنی لاٹھیاں برسا
کر سانپوں کے سر کچلتے رہیں گے- انھیں کبھی دودھ نہ پلائیں گے۔
گھنے سایہ دار برگد نے اُس سنسان جگہ کو اب بھی
سڑک سے چھپا رکھا تھا۔ کہیں کہیں گھاس اُگ رہی تھی۔ جیسے جوانی سے ذرا پہلے کسی
نوجوان کی مسیں بھیگ رہی ہوں۔ ایک طرف ہموار ڈھلوان چلی گئی تھی اور دوسری طرف ایک
ٹیکرا تھا۔ جیسے وہ کنواری دھرتی کا ابھرا ہوا سینہ ہو- اور بنسری بجتی رہی!
٭٭٭
اَنّ دیوتا
’’تب
اَن دیو، برہما کے پاس رہتا تھا۔ ایک دن برہما نے کہا۔ او بھلے دیوتا! دھرتی پر کیوں
نہیں چلا جاتا؟‘‘
اِن الفاظ کے ساتھ چنتُوؔ نے اپنی دل پسند کہانی
شروع کی۔ گونڈوں کو ایسی بیسیوں کہانیاں یاد ہیں۔ وہ جنگل کے آدمی ہیں، اور ٹھیک
جنگل کے درختوں کی طرح اُن کی جڑیں دھرتی میں گہری چلی گئی ہیں۔ مگر وہ غریب ہیں
… بھُوک کے پیدائشی عادی۔ چنتُوؔ کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ بھی ایک دیوتا
ہے جو دھرتی کے باسیوں کو اَنّ دیو کی کہانی سُنانے کے لیے آ نکلا ہے۔ گہری تاریکی
چھائی ہوئی تھی۔ اَلاؤ کی روشنی میں بغل کی پگڈنڈی کسی جوان گونڈن کی مانگ معلوم
ہوتی تھی۔ گھوم پھر کر میری نگاہ چنتوؔ کے جھُریوں والے چہرے پر جم جاتی۔ کہانی
جاری رہی …
’’دیوتا
دھرتی پر کھڑا تھا۔ پر وہ بہت اُونچا تھا۔ بارہ آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے
ہوتے، تب جا کر وہ اُس کے سر کو چھُو سکتے۔
’’ایک
دن برہما نے سندیس بھیجا۔ یہ تو بہت کٹھن ہے، بھلے دیوتا! تجھے چھوٹا ہونا ہو گا۔
آدمی کا آرام تو دیکھنا ہو گا۔
’’دیوتا
آدھا رہ گیا۔ پر برہما کی تسلّی نہ ہوئی۔ آدمی کی مشکل اب بھی پوری طرح حل نہ ہوئی
تھی۔ اُس نے پھر سندیس بھیجا اور دیوتا ایک چوتھائی رہ گیا۔ اب صرف تین آدمی ایک
دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہو کر اس کے سر کو چھُو سکتے تھے۔
’’پھر
آدمی خود بولا۔ ’’تم اب بھی اُونچے ہو، میرے دیوتا!‘‘
’’اَنّ
دیو اور بھی چھوٹا ہو گیا۔ اب وہ آدمی کے سینے تک آنے لگا۔ پھر جب وہ کمر تک رہ گیا
تو آدمی بہت خوش ہوا۔
’’اُس
کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔
’’آدمی
نے اُسے جھنجھوڑا اور بالیں دھرتی پر آ گریں۔‘‘
میں نے سوچا اور سب دیوتاؤں کے مندر ہیں۔ مگر
اَنّ دیو، وہ کھیتوں کا قدیمی سرپرست، کھُلے کھیتوں میں رہتا ہے، جہاں ہر سال دھان
اُگتا ہے نئے دانوں میں دودھ پیدا ہوتا ہے … ماں ہونے والی چھوکری کی چھاتیوں کی
طرح۔
ہلدیؔ بولی۔ ’’اب تو دیوتا دھرتی کے بیچوں بیچ
کہیں پاتال کی طرف چلا گیا ہے۔‘‘
چنتُوؔ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کی
طرف دیکھا۔ ایسا بھیانک کال اُس نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ دھرتی اس
طرح بنجر ہو گئی تھی، جیسے عورت بانجھ ہو جائے یا کسی ننھّے کی ماں کی چھاتی سُوکھ
جائے۔
ہلدیؔ پھر بولی۔ ’’اور دیوتاؤں کی طرح اَنّ دیو
بھی بہرہ ہو گیا ہے۔‘‘
چنتوؔ نے پوچھا۔ ’’پر اَنّ دیو کیوں بہرہ ہو گیا؟‘‘
’’یہ میں
مُورکھ کیا جانوں؟ پر بہرہ تو وہ ہو ہی گیا ہے۔‘‘
سال کے سال ہلدیؔ اَنّ دیو کی منّت مانتی تھی۔
ایک ہلدیؔ پر ہی بس نہیں، ہر ایک گونڈ عورت یہ منّت ماننا ضروری سمجھتی ہے۔ مگر اس
سال دیوتا نے ایک نہ سُنی۔ کس بات نے دیوتا کو ناراض کر دیا؟ غصّہ تو اور دیوتاؤں
کو بھی آتا ہے مگر آن دیو کو تو غصّہ نہ کرنا چاہیے۔
ہلدیؔ کی گود میں تین ماہ کا بچہ تھا۔ میں نے
اُسے اپنی گود میں لے لیا۔ اس کا رنگ اپنے باپ سے کم سانولا تھا۔ اُسے دیکھ کر
مجھے تازہ پہاڑی شہد کا رنگ یاد آ رہا تھا۔
ہلدیؔ بولی۔ ’’ہائے! اَنّ دیو نے میری کوکھ ہری
کی اور وہ بھی بھوک میں اور لاچاری میں۔‘‘
بچہّ مسکراتا تو ہلدیؔ کو یہ خیال آتا کہ دیوتا
اُس کی آنکھوں میں اپنی مسکراہٹ ڈال رہا ہے۔ پر اس کا مطلب؟ دیوتا مذاق تو نہیں
کرتا؟ پھر اُس کے دل میں غصّہ بھڑک اُٹھتا۔ دیوتا آدمی کو بھوکوں بھی مارتا ہے اور
مذاق اُڑا کر اُس کا دِل بھی جلاتا ہے۔
چنتوؔ بولا۔ ’’سچ جانو تو اب مجھے اَنّ دیو پر
وِسواس ہی نہیں رہا۔ اور اس کی کہانی، جو میں آج کی طرح سَو سَو بار سُنا چکا ہوں،
اب مجھے نری گپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ہلدیؔ یہ نہ جانتی تھی کہ چنتوؔ کا طنز بہت حد
تک سطحی ہے۔ یہ تو وہ خود بھی سمجھنے لگی تھی۔ کہ دیوتا روز روز کے پاپ ناٹک سے
ناراض ہو گیا ہے۔
’’اَنّ
دیو کو نہیں مانتے پر بھگوان کو تو مانو گے۔‘‘
’’میرا
دِل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ مردود بھگوان۔ کہاں ہیں اس کے میگھ راج؟ اور
کہاں سو رہا ہے وہ خود؟ ایک بُوند بھی تو نہیں برستی!‘‘
’’دیوتا
سے ڈرنا چاہیے اور بھگوان سے بھی۔‘‘
چنتوؔ نے سنبھل کر جواب دیا۔ ’’ضرور ڈرنا چاہیے۔
ہاہا۔ ہی ہی۔۔۔ اور اب تک ہم ڈرتے ہی رہے ہیں!‘‘
’’اب
آئے نا سیدھے رستے پر۔ جب میں چھوٹی تھی ماں نے کہا تھا دیوتا کے غصّہ سے سدا بچیو!‘‘
’’اری
کہا تو میری ماں نے بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ پر کب تلک لگا رہے گا یہ ڈر، ہلدیؔ؟‘‘
’’دیوتا
پھر خوش ہو گا اور پھر لہرائے گا وہی پیارا پیارا دھان۔‘‘
کال میں پیدا ہوئے بچّے کی طرف دیکھتے ہوئے میں
سوچنے لگا۔ ’’اِتنا بڑا پاپ کیا ہو گا کہ اِتنا بڑا دیوتا بھی آدمی کو چھماں نہیں
کر سکتا!‘‘
کال نے ہلدیؔ کی ساری سُندرتا چھین لی تھی۔
چنتوؔ بھی اب اپنی بہار کو بھول رہا تھا۔۔۔ درخت اب بھی کھڑا تھا مگر ٹہنیاں پُرانی
ہو گئی تھیں اور نئی کونپلیں نظر نہیں آتی تھیں۔
ہلدی نے مجھے بتایا کہ اُس کی چُلبلاہٹ اور اس
کے ہنس ہنس کر باتیں کرنے کے انداز نے چنتوؔ کو اُس کی طرف متوجہ کیا تھا۔ تب وہ
جوان تھی۔ ایک مست ہرنی۔ اُس کی ناک موٹی تھی اور نتھنے بھی کم چوڑے نہ تھے۔ پر جب
وہ اُچھلتی کُودتی ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں نکل گئی، اور چنتُوؔ نے اُسے دیکھا
تو اُس کے دل میں بھی ایک ہرن جاگ اُٹھا۔ وہ بھی دوڑنے لگا۔ ایک روز وہ اُس کے پیچھے
بھاگ نکلا تو وہ پیپل کے پیڑ تلے کھڑی ہو گئی۔ کھیتوں میں دھان لہلہا رہا تھا پیار کی طرح جو دل میں اُگتا ہے۔ پہلے وہ کچھ
کچھ ڈری۔ پھر وہ مسکرانے لگی۔ جب چنتوؔ نے اپنی اُنگلیوں سے اُس کے بال سُلجھانے
شروع کیے اور بیاہ کی بات چھیڑی تو ہلدیؔ نے سہمی ہوئی آواز سے کہا تھا ’’اَن دیو
ہمیں دیکھ رہا ہے۔ پہلے اس کا دھیان کر لو۔ پھر بیاہ کا نام لینا۔ ’’ہلدی کا خیال
تھا کہ دیوتا دھان کے پودوں میں چھُپا بیٹھا ہے اور اُن کا پیار اس نے دیکھ لیا
ہے۔ جب چنتُوؔ نے ریشم کے کیڑوں کا گیت گایا تھا تو ہلدی نے یہ محسوس کیا تھا کہ
چنتوؔ بھی ایسا ہی ایک کیڑا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کیڑے بیاہ نہیں کرتے، صرف پیار
کرتے ہیں۔ ہلدیؔ نے اَنّ دیو کی سوگند کھا کر اپنی سچائی کا یقین دلایا تھا اور
چنتوؔ نے کہا تھا۔ ’’تُم ضرور بول کی سچی رہو گی ہلدیؔ!اَنّ دیو کی سوگند بہت بڑی
سوگند ہوتی ہے۔‘‘
ہلدی کا بچہ میری گود میں رونے لگا۔ اُسے لیتے
ہوئے اُس نے سہمی ہوئی نگاہ سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا۔ بولی۔ ’’یہ کال کب جائے
گا؟‘‘
’’جب
ہم مر جائیں گے اور نہ جانے یہ تب بھی نہ جائے۔‘‘
’’یہ
کَتکی اور کودوں دھان کی طرح پانی نہیں مانگتے۔ یہ بھی نہ اُگے ہوتے تو ہم کبھی کے
بھوک سے مر گئے ہوتے۔۔۔ اُنھوں نے ہماری لاج رکھ لی۔۔۔ ہماری بھی، ہمارے دیوتا کی
بھی۔‘‘
’’دیوتا
کا بس چلتا تو اُنہیں بھی اُگنے سے روک دیتا۔۔۔ پاپی دیوتا!‘‘
’’ایسا
بول نہ بولو۔ پاپ ہو گا۔‘‘
’’میں
کب کہتا ہوں پاپ نہ ہو۔ ہو، سَو بار ہو۔‘‘
’’نہ
نہ، پاپ سے ڈرو۔ اور دیوتا کے غصّہ سے بھی۔‘‘
میں نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا ’’دوس تو سب آدمی
کا ہے۔ دیوتا تو سدا نردوس ہوتا ہے۔‘‘
رات غمزدہ عورت کی طرح پڑی تھی۔ دُور سے کسی
خُونی درندے کی دھاڑ گونجی۔ چنتُوؔ بولا۔ ’’اِن بھوکے شیروں اور ریچھوں کو اَنّ دیو
مِل جائے تو وہ اسے کچّا ہی کھا جائیں۔‘‘
بیساکھُو کے گھر روپے آئے تو ہلدی اسے بدھائی دینے
آئی۔ ’’بپتا میں پچیس بھی پانچ سو ہیں۔ رامُو سدا سکھی رہے۔‘‘
’’اَنّ
دیو سے تو رامو ہی اچھا نکلا۔‘‘ بیساکھو نے فرمائشی قہقہہ لگا کر کہا۔‘‘
چنتو بولا۔ ’’ارے یار چھوڑ اس اَن دیو کی
بات۔۔۔ اَنّ دیو، وَنّ دیو۔‘‘
ہلدیؔ نے اپنے خاوند کو سر سے پانو تک دیکھا۔
اس طنز سے اُسے چڑ تھی۔ دیوتا کتنا بھی بُرا کیوں نہ ہو جائے، آدمی کو تو اپنا دل
ٹھیک رکھنا چاہیے، اپنا بول سنبھالنا چاہیے۔‘‘
غُصّے میں جلی بھُنی ہلدیؔ اپنی جھونپڑی کی طرف
چل دی۔ بیساکھو نے پھر قہقہہ لگایا۔ ’’واہ بھئی واہ۔ رانڈ اب بھی اَنّ دیو کا پیچھا
نہیں چھوڑتی۔‘‘
چنتوؔ بولا۔ ’’جپنے دو اُسے اَنّ دیو کی مالا۔
ہم تو کبھی نہ مانیں ایسے پاپی دیوتا کو۔‘‘
’’تُو
سچ کہتا ہے چنتوؔ، دیوتا پاپی ہو گیا ہے۔‘‘
رامو بمبئی میں تھا۔ چنتُوؔ سوچنے لگا۔ کاش اس
کا بھی کوئی بھائی وہاں ہوتا اور پچیس روپے نہیں تو پانچ ہی بھیج دیتا۔
بیساکھو نے پوسٹ میں کو ایک دونّی دے دی تھی۔
مگر اُسے اِس بات کا افسوس ہی رہا۔ بار بار وہ اپنی نقدی گنتا اور ہر بار دیکھتا
کہ اُس کے پاس چوبیس روپے چودہ آنے ہیں، پچیس روپے نہیں۔
جھونپڑی میں واپس آیا تو چنتوؔ نے ہلدی کو بے
ہوش پایا۔ اُس نے اُسے جھنجھوڑا۔ ’’رسوئی کی بھی فکر ہے۔ اب سوؤ نہیں، ہلدی۔ دوپہر
تو ڈھل گئی۔۔۔‘‘
اُس وقت اگر خود اَنّ دیو بھی اُسے جھنجھوڑتا
تو ہوش میں آنے کے لیے اُسے کچھ دیر ضرور لگتی۔
تھوڑی دیر بعد ہلدیؔ نے اپنے سرہانے بیٹھے خاوند
کی طرف گھور کر دیکھا۔ چنتُوؔ بولا۔ ’’آگ جلاؤ ہلدیؔ!۔۔۔ دیکھتی نہیں ہو۔ بھوک سے
جان نکلی جا رہی ہے۔‘‘
’’پکاؤں اپنا سر؟‘‘
چنتُوؔ نے ڈرتے ڈرتے سات آنے ہلدیؔ کی ہتھیلی
پر رکھ دیے اور اُس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’یہ بیساکھو نے دیئے ہیں، ہلدیؔ،
اور میں سچ کہتا ہوں میں نے اُس سے مانگے نہ تھے۔‘‘
ہلدیؔ شک بھری نگاہوں سے چنتوؔ کی طرف دیکھنے
لگی۔ کیا آدمی غریبی میں اِتنا ہی گِر جاتا؟ مگر چنتوؔ کے چہرے سے صاف پتہ چلتا
تھا کہ اُس نے مانگنے کی ذلیل حرکت نہیں کی تھی۔ اور پھر جب ایک ایک کر کے سب کے
سب پیسے گنے تو اُس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔۔۔۔ چار روز دال بھات کا خرچ اور چل جائے
گا۔
’’شکر
ہے۔ اَن دیوتا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘
’’اَنّ
دیو کا یا بیساکھو کا؟‘‘
’’اَنّ
دیو کا جس نے بیساکھو بھائی کے دل میں یہ پریم بھاؤ پیدا کیا۔‘‘
چنتوؔ کا چہرہ دیکھ کر ہلدیؔ کو سُوکھے پتے کا
دھیان آیا جو ٹہنی سے لگا رہنا چاہتا ہو۔ دُور ایک بدلی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی؟‘‘
کاش! بوندا باندی ہی ہو جائے اناتھ چھوکری کے آنسوؤں کی طرح‘‘ مگر تیز ہوا بدلی کو
اُڑا لے گئی۔ اور دھرتی بارش کے لیے برابر ترستی رہی۔
کال نے زندگی کا سب لُطف برباد کر دیا تھا۔
معلوم ہوتا تھا دھرتی رو دے گی۔ مگر آنسوؤں سے تو سُوکھے دھانوں کو پانی نہیں
ملتا۔ اَنّ دیو کو یہ شرارت کیسے سوجھی؟ مان لیا کہ وہ خود کسی وجہ سے کسانوں پر
ناراض ہو گیا ہے مگر بادلوں کا تو کِسانوں نے کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ وہ کیوں نہیں
گھِر آتے؟ کیوں نہیں برستے؟ کاش وہ دیوتا کی طرفداری کرنے سے انکار کر دیں!
چار ایک چھوٹا سا گانو ہے۔
اُس روز یہاں دو تین سو گونڈ جمع ہوئے۔ پھڈکے
صاحب اور منشی جی دھان بانٹ رہے تھے۔ اپنے حصّے کا دھان پا کر ہر کوئی دیوتا کی جے
مناتا …اَنّ دیو کی جے ہو۔
چنتوؔ گانو کی پنچایت کا دایاں بازو تھا۔ دھان
بانٹنے میں وہ مدد دے رہا تھا۔ لوگ اس کی طرف احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھتے اور
وہ محسوس کرتا کہ وہ بھی ایک ضروری آدمی ہے۔ مگر لوگ دیوتا کی جے جے کار کیوں
مناتے ہیں؟ کہاں ہے وہ مردُود اَنّ دیو؟ ۔۔۔ وہ خود بھی شاید ایک دیوتا ہے۔۔۔ اور
شاید اَنّ دیو سے کہیں بڑھ کر۔۔۔
ہلدیؔ نے سوچا کہ یہ دھان شاید اَنّ دیو نے بھیجا
ہے۔ اُسے دُکھیارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے۔ مگر جب اُس نے پھڈکے صاحب اور منشی
جی کو حلوا اُڑاتے دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ پہلے تو اُس کے جی میں
آئی کہ حلوے کا خیال اب آگے نہ بڑھے۔ پر یہ خیال بادل کی طرح اُس کے ذہن پر پھیلتا
چلا گیا۔
قحط سبھا سے ملا ہوا دھان کِتنے دن چلتا؟
چنتوؔ کے چہرے پر موت کی دھُندلی پرچھائیاں نظر
آتی تھیں، مگر وہ دیوتا سے نہ ڈرتا تھا۔ کبھی کبھی گھُٹنوں کے بل بیٹھا گھنٹوں غیر
شعوری طور پر دیوتا کو گالیاں دیا کرتا۔ میں نے سمجھا کہ وہ پاگل ہو چلا ہے۔ دو
چار بار میں نے اُسے روکا بھی۔ مگر یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ وہ دیوتا کو اپنے دل
سے نکال دینا چاہتا تھا۔ مگر دیوتا کی جڑیں اُس کے جذبوں میں گہری چلی گئی تھیں۔
چنتو کی گالیاں سُن کر لوگوں کو ایک خاص طرح کی
خوشی ہوتی۔ وہ محسوس کرتے کہ اُن کا بدلہ لیا جا رہا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔ اَنّ
دیو اگر کچھ بھی دم رکھتا ہے تو چنتوؔ کو مار دے گا یا پھر پہلی طرح ٹھیک ہو کر
اُن کا دوست بن جائے گا۔ گونڈوں کو اِتنی دیوتا کی ضرورت نہیں جتنی ایک دوست کی وہ دیوتا
کیا جو گھر کا آدمی نہ بن جائے!
ایک دن چنتوؔ بہت سویرے اُٹھ بیٹھا اور بولا۔
’’دیوتا اَب دھنوانوں کا ہو گیا ہے۔۔۔ مردود۔۔۔ پاپی دیوتا! اری میں تو نہ مانوں ایسے
نیچ دیوتا کو۔‘‘
’’پر
نہیں، میرے پتی، دیوتا تو سب کا ہے۔‘‘
’’سب
کا ہے۔ اری پگلی، یہ سب گیان جھوٹا ہے۔‘‘
’’پر دیوتا
تو جھُوٹا نہیں۔‘‘
’’تو کیا
وہ بہت سچا ہے؟ سچا ہے تو برکھا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
’’دیوتا
کو بُرا کہنے سے دوس ہوتا ہے۔‘‘
’’ہزار
بار ہو۔۔۔ دھُورت دیوتا! لے سُن لیا؟ وہ اب ہمارے کھیتوں میں کیوں آئے گا؟ وہ
دھنوانوں کی پُوری کچوری کھانے لگا ہے۔ نِردھن گونڈوں کی اب اُسے کیا پروا ہے؟‘‘
چنتوؔ کی نکتہ چینی ہلدیؔ کے من میں غم گھول رہی
تھی۔ اُس نے جھونپڑی کی دیوار سے ٹیک لگا لی اور دھیرے دھیرے اچھے وقتوں کو یاد
کرنے لگی، جب بھوک کا بھیانک مُنہ کبھی اتنا نہ کھُلا تھا۔ وہ خوشی پھر لَوٹے گی،
دیوتا پھر کھیتوں میں آئے گا۔ اُس کی مسکراہٹ پھر نئے دانوں میں دُودھ بھر دے گی۔
اس کے من میں عجب کشمکش جاری تھی۔ دیوتا!۔۔۔ پاپی؟ ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ نیچ؟ نہیں تو۔
وہ باہر چلا گیا تو کیا ہوا۔ کبھی تو اُسے دَیا آئے گی ہی۔
ہلدیؔ سنبھل کر بولی۔ ’’سچ مانو، میرے پتی، دیوتا
پھر آئے گا یہاں۔۔۔‘‘
چنتوؔ کا بول اور بھی تیکھا ہو گیا۔ ’’اری اب
بس بھی کر، میری رانڈ، تیرا دیوتا کوئی سانپ تھوڑی ہے کہ تیری بین سُن کر بھاگا
چلا آئے گا؟‘‘
اُس دن رامو بمبئی سے لوٹ آیا۔ اُسے دیکھ کر
ہلدیؔ کی آنکھوں کو ایک نئی ہی زبان مِل گئی۔ بولی۔ ’’سناؤ، رامو بھائی، بمبئی میں
دیوتا کو تو تم نے دیکھا ہو گا۔‘‘
رامو خاموش رہا۔
میرا خیال تھا کہ رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا
کی تقریر سن رکھی ہوں گی اور وہ صاف صاف کہہ دے گا کہ دیوتا ویوتا کچھ نہیں ہوتا۔
اَنّ آدمی آپ اُپجاتا ہے اپنے لہُو سے، اپنے پسینے سے۔ اگر آدمی، آدمی کا لہو
چوسنا چھوڑ دے تو آج ہی سنسار کی کایا پلٹ جائے۔ کال تو پہلے سے پڑتے آئے ہیں، بڑے
بڑے بھیانک کال۔ مگر اب سرمایہ دار روز روز کسانوں اور مزدوروں کا لہو چوستے ہیں
اور غریبوں کے لیے تو اب سدا ہی کال پڑا رہتا ہے۔ اور یہ کال دیوتا کے چھُو منتر
سے نہیں جانے کا۔ اس کے لیے تو سارے سماج کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔
ہلدیؔ پھر بولی۔ ’’رامو بھائی! چُپ کیوں سادھ لی
تم نے؟ ۔۔۔ ہمیں کچھ بتا دو گے تو تمھاری وِدّیا تو نہ گھٹ جائے گی۔ بمبئی میں تو
بہت برکھا ہوتی ہو گی۔ پانی سے بھری کالی اُودی بدلیاں گھِر آتی ہو گی۔۔۔ اور بجلی
چمکتی ہو گی اِن بدلیوں میں رامُو!۔۔۔ اور وہاں بمبئی میں دیوتا کو رتّی بھر کشٹ
نہ ہو گا۔۔۔
رامو کے چہرے پر مُسکراہٹ پیدا ہونے کے فوراً
بعد کسی قدر سنجیدگی میں بدل گئی۔ وہ بولا۔ ’’ہاں، ہلدیؔ! اَنّ دیو اب بمبئی کے
محلوں میں رہتا ہے۔۔۔ روپوں میں کھیلتا ہے۔۔۔ بمبئی میں، ہلدیؔ، جہاں تم سے کہیں
سُندر رانڈیں رہتی ہیں۔۔۔‘‘
ہلدیؔ کچھ نہ بولی۔ شاید وہ اُن دِنوں کے متعلق
سوچنے لگی جب ریل ادھر آنکلی تھی اور اَن دیو پہلی گاڑی سے بمبئی چلا گیا تھا۔
آنسو کی ایک بوند، جو ہلدیؔ کی آنکھ میں اٹکی
ہوئی تھی، اُس کے گال پر ٹپک پڑی۔ پرے آسمان پر بادل جمع ہو رہے تھے۔ میں نے کہا
’’آج ضرور دھرتی پر پانی برسے گا۔‘‘
ہلدی خاموشی سے اپنے بچّے کو تھپکنے لگی۔ شاید
وہ سوچ رہی تھی کہ کیا ہوا اگر دیوتا کو وہاں سُندر رانڈیں مِل جاتی ہیں۔ کبھی تو
اُسے گھر کی یاد ستائے گی ہی اور پھر وہ آپ ہی آپ اِدھر چلا آئے گا۔
٭٭٭
تانگے والا
شاہ محمدؔ کے تکیے کا ایک حصّہ کاٹ کر اصطبل
بنا لیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ جبراً ہوا۔ آخر رمضانؔ کی چھاتی بھی تو چوڑی تھی اور
اس دیو ہیکل جوان کو دیکھ کر سب کے حوصلے جواب دے جاتے تھے۔ پھر جبر کا یہ قصّہ
اور بھی طویل ہو گیا۔ کبوتروں کے دڑبے سے لے کر مزار تک لید بکھری رہتی تھی۔ لید
بکھیرے رمضانؔ کا گھوڑا اور اُٹھائے مصلیؔ۔ جس کسی کی ناک میں بدبو آتی وہ لید
اُٹھا دیتا۔ رمضانؔ کو تو گھوڑے سے سروکار تھا۔ البتہ گھوڑے کے تھان کو وہ شیشے کی
طرح چمکا کر رکھتا تھا۔
کمیٹی میں شاید کسی کی شنوائی نہ ہو سکتی تھی۔
رمضانؔ اپنے تانگے پر داروغہ کو دریا کی سیر مفت کرا لاتا تھا۔ داروغہ کہتا۔
’’ہمارے راج میں رمضانؔ کو سب چھُٹّی ہے۔‘‘ رمضانؔ سمجھتا، داروغہ کا راج اٹل ہے۔
اس کی آنکھوں میں اصطبل پھر جاتا۔ تصوّر میں گھوڑے کا تھان اور بھی چمک اُٹھتا۔
محبت کے ایک نئے انداز سے وہ گھوڑے کی طرف دیکھتا اور سوچتا کہ داروغہ کو شاید یہ
حرکت اچھی نہ لگے۔ ورنہ وہ تانگے سے اُتر کر گھوڑے کی آنکھوں میں جھانکتا اور اس
کا سر اپنے سینے سے لگا لیتا۔
گھوڑے کا نام تھا عیدوؔ۔ آدمی کے کھلنڈرے بچّے
کی طرح اُسے کلیلیں کرتے دیکھ کر رمضانؔ کو یقین ہو گیا تھا کہ بڑا ہو کر یہ ابلق بچھرا
ایک خوبصورت اور ہوشیار گھوڑا نکلے گا۔ اور جب وہ عید کے دن اُسے خرید لایا تھا تو
دیر تک وہ اُس کے دانتوں کا ملاحظہ کرتا رہا تھا۔ آخر وہ چار پشت سے کوچوان تھا
اور گھوڑوں کے متعلق اُس کی واقفیت گویا مسلّمہ تھی۔ عیدوؔ کو نہلاتے وقت رمضانؔ
کے ہاتھ اس کی کالی مخملی پُشت پر پھسلتے چلے جاتے۔ اُس کے سفید ہاتھ پَیر وہ مَل
مَل کر دھوتا اور پھر اُس کا مُنہ کھول کر دیکھتا کہ دودھ کے دانت ابھی کتنے باقی
ہیں۔ اور عیدوؔ اپنی تھوتھنی رمضانؔ کے سینے پر تھپ تھپانے لگتا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔
’’ابھی سے مجھے تانگے میں جوتنے کی بات مت سوچو! رمضانؔ میاں۔ ابھی تو کھیلنے
مچلنے کے دِن ہیں میرے۔ پانچ سال کی عمر سے پہلے مجھے اپنے تانگے میں نہ جوتنا۔
پھر دیکھنا، میرے پھیپھڑے کتنے مضبوط ہو جاتے ہیں اور میں کتنا بھاگتا ہوں۔‘‘
رمضانؔ کہتا۔ ’’اب نہاؤ گے بھی آرام سے یا یوں ہی مفت کی شرارت کیے جاؤ گے عیدوؔ بیٹا؟‘‘
مگر عیدوؔ نہ مانتا اور رمضانؔ اپنی مُشکی دُلہن کو پُکار کر کہتا۔ ’’اری اب اِدھر
آ دیکھ، سمجھا دے اِسے ذرا۔ پر تو نے ہی تو اِسے سر چڑھا رکھا ہے، اس کی پیٹھ پر
ہاتھ پھیر پھیر کر۔‘‘
مُشکی دُلہن قریب آ کر کہتی۔ ’’تم ہٹ جاؤ، میں
خود نہلاؤں گی۔ اپنے بیٹے کو، تمھیں تو مزا آتا ہے اس بیچارے کی شکایتیں کرنے میں۔‘‘
اور رمضانؔ کہتا۔ ’’لے سنبھال اپنے بیٹے کو۔‘‘
اپنے مختلف بے ڈھنگے طریقوں سے عیدوؔ اپنی محبت
کا اظہار کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ پچھاڑی کو وہ عجیب انداز سے اُچھالتا تھا اور
رمضانؔ کو دیکھ کر ہنہنانے لگتا تھا۔ اور رمضانؔ کہتا۔ ’’بس ٹھہر جا بیٹا! ابھی آیا۔
تیرے لیے بہت اچھا مسالا منگوایا ہے۔ کھائے گا تو خوش ہو جائے گا۔‘‘ لیکن عیدوؔ
اتنی آسانی سے ماننے والا نہ تھا، لگاتار ہنہنائے جاتا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’دُور
مت جاؤ، رمضانؔ میاں۔ مسالا تو پھر بھی آ سکتا ہے۔ بس میں تمھیں دیکھتا رہوں،
تمھاری باتیں سنتا رہوں۔‘‘ رمضانؔ کہتا۔ ’’ارے بیٹا! بے صبر نہیں ہوا کرتے۔ ذراسی
دیر میں لَوٹ آؤں گابس۔‘‘ عیدوؔ ہنہنانا چھوڑ دیتا۔ مگر آزردہ سا ہو جاتا اور پھر یوں
معلوم ہوتا کہ وہ ابھی چٹخ کر کہہ دے گا۔ ’’اچھا ہو آؤ باہر دیر مت لگانا۔‘‘ اور عیدوؔ
کی خوبصورت تھوتھنی زمین کی طرف جھُک جاتی۔
گزشتہ سال سے رمضانؔ رنڈوے کی زندگی گزار رہا
تھا۔ بیوی بچاری گوٹے کے دوپٹے تک کے لیے ترستی رہی تھی۔ زمانے کے گرم و سرد نے
رمضانؔ کو بہت ستایا تھا۔ سائیں جی کا اُدھار الگ بڑھ گیا تھا۔ کہاں سے لے دیتا
گوٹے کا دوپٹہ اپنی مُشکی دُلہن کو؟ لے دے کر اب وہ عیدوؔ ہی سے جی بہلا لیتا تھا۔
اس سمجھدار، ہمدرد عیدوؔ کی بجائے اُس کے پاس وہی پہلا مریل گھوڑا ہوتا تو اس کی
زندگی ایک خاموش گرم دوپہر بنی رہتی۔
اصطبل میں بیٹھے بیٹھے اکثر رمضانؔ کی آنکھیں
مِچ جاتیں، جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ اُس وقت اُسے محسوس ہوتا کہ عیدوؔ کی
آنکھیں بھی مِچ گئی ہیں اور وہ دونوں بیک وقت مُشکی دُلہن کو دیکھ رہے ہیں۔ عیدو
کے گلے میں باہیں ڈال کر وہ پوچھتا۔ ’’سچ سچ بتاؤ عیدوؔ بیٹا تمھیں مُشکی دُلہن تو
یاد آتی ہو گی، جو ہر روز صبح تمھیں نہاری کھلایا کرتی تھی۔‘‘
سات سال کے لمبے عرصے میں مُشکی دُلہن کے کوئی
بچّہ نہ ہوا۔ بانجھ ہی وہ زمین کے نیچے قبر میں جا سوئی۔ کسی کسی رات رمضانؔ کو یوں
محسوس ہوتا کہ اس کی گردن پر کسی بچّے کی غیر مرئی اُنگلیاں رینگ رہی ہیں، جیسے
قبر میں مُشکی دُلہن کی کوکھ ہری ہو گئی ہو اور اللہ کی رحمت سے اس کا بچّہ اپنے
باپ کے اصطبل میں آن پہنچا ہو اور وہ سوچتا کہ یہ سب عیدوؔ کی دُعاؤں کا نتیجہ ہے۔
آگے بڑھ کر اس کے خواب میں اور بھی دلچسپ منظر پیش نظر ہوتا۔ وہ دیکھتا کہ اس کا
بچّہ اکیلا نہیں ہے۔ شہر بھر کے بچّے کِل بِل کرتے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرارہے
ہیں اور عیدوؔ ہنہنا رہا ہے، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’رمضانؔ میاں دیکھو تو یہ نظّارہ
اور بتاؤ کہ ان سب میں خوبصورت بچھرا کون سا ہے؟‘‘
یہ سب خواب اس کے سوئے ہوئے ساگر کی لہروں کو
جگا دیتے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ رمضانؔ پہلوان ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہ تھا۔ مگر یہ
بھی تو سچ تھا کہ بیوی کی موت کے بعد اس کی رُوح نے ایک تھرتھر کنپنی کا رُوپ دھار
لیا تھا۔ جس طرح یہ پرندہ جنگل میں بیٹھا یُونہی کانپتا رہتا ہے۔ اس کی رُوح بھی
مُشکی دُلہن کی یاد میں لرزتی رہتی تھی۔
’’آٹھ
سیر تو گیہوں کا آٹا ہے، عیدوؔ بیٹا!‘‘ رمضانؔ اپنی تنگدستی کی کہانی چھیڑ دیتا، جیسے
حیوان کا بیٹا انسان کے غم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘‘ ایک دن تو
ساڑھے پانچ سیر تک ہو گیا تھا آٹا، عیدوؔ بیٹا! یہ تو سرکار کو رحم آ گیا کہ آٹھ سیر
روپے کا بھاؤ ٹھہرا دیا۔‘‘ اور عیدو اپنی خوبصورت تھوتھنی اُوپر اُٹھا کر رمضانؔ کی
طرف دیکھتا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’گھبراؤ مت، رمضانؔ میاں، آٹا پھر آ جائے گا اپنے
پہلے بھاؤ پر -روپے کا پندرہ سیر۔‘‘ لیکن رمضانؔ سر جھُکا کر بیٹھ جاتا۔ اُسے یوں
محسوس ہوتا کہ کوئی مکڑی اس کے دماغ میں اپنا جالا تن رہی ہے۔ عیدوؔ ہنہناتا، جیسے
کہہ رہا ہو۔ ’’واہ! رمضانؔ میاں خوب پہلوان ہو تم بھی۔ ارے میاں حوصلہ رکھو، یہ
تکلیفیں ہمیشہ تو نہیں رہتیں۔‘‘ رمضانؔ کا سر اُوپر اُٹھ جاتا۔ عیدوؔ اپنی پچھاڑی
اُچھالتا اور رمضانؔ کی طرف دیکھنے لگتا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’مجھے نہاری بھی تو نہیں
ملتی رہی، رمضانؔ میاں، لیکن کچھ پروا نہیں۔ میں تمھارے لیے سوسو میل بھاگوں گا،
خون پسینہ ایک کر دوں گا۔‘‘ اور عیدوؔ بہت بھاگتا اور خون پسینہ ایک کر دیتا۔ لیکن
رمضانؔ کی آمدنی جسے وہ ہوائی رزق سمجھتا آیا تھا، ان دِنوں بہت گِر گئی تھی۔
تانگے کا ساز بہت پُرانا تھا۔ نئے ربر ٹائروں کی اب کوئی اُمید نہ تھی۔ ان کی قیمت
بہت بڑھ گئی تھی۔ زمانہ بدل گیا تھا، جیسے رات ہی رات میں موسم بدل جائے اور سائیں
جی کی قسطوں کی فکر اُس کے دماغ کو چھلنی کیے دیتی تھی۔
عیدوؔ کا کُملایا ہوا چہرہ دیکھ کر رمضانؔ اپنے
کو مجرم گرداننے لگتا۔ کہاں وہ اُسے روزانہ ڈیڑھ من ہرا چارا اور چار سیر دانہ
کھِلایا کرتا تھا۔ لیکن اب تو ان کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ پندرہ آنے کا ہرا
چارا آتا تھا اور آٹھ آنے کا دانہ اور رمضان اُسے پوری خوراک تو دُور رہی آدھی
خوراک بھی نہ دے پاتا تھا۔ اُسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی اور اب اُسے یوں محسوس
ہوتا کہ اس کے دماغ میں عیدوؔ کی آخری لید داخل ہو رہی ہے اور اس کے پیشاب کی دھار
بھی ضرور اُسی کے دماغ پر گرے گی۔ بے غیرت آدمی۔ بھوکے گھوڑے سے کام لیے جاتا ہے،
جسے وہ اپنا زر خرید غلام سمجھتا ہے۔
بھُوک بہت ستاتی، تو رمضانؔ کو اپنے پیٹ میں ایک
آتش گیر لاوا پیدا ہوتا محسوس ہوتا اور وہ سوچتا کہ عیدوؔ کے پیٹ میں بھی لاوا
بھڑک اُٹھے گا، وہ تانگے کو روک لیتا، لیکن یہ کوئی علاج تھوڑی تھا اور غضب خدا کا،
فاقہ زدہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے بھی اُسے یہ محسوس ہوتا کہ یہ لوگ اُسے گھور
رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ’’کمبخت! خود تو مرے گا ہی بھوک سے پر غریب گھوڑے کو بھی
کیوں مارتا ہے اپنے ساتھ۔ اِسے بیچ کیوں نہیں دیتا؟‘‘
لیکن عیدوؔ کو بیچنے کا خیال رمضانؔ کو سرے سے
نامنظور تھا۔ وہ بہت اُداس رہتا۔ غسل تو غسل کئی کئی دن وہ مُنہ تک نہ دھوتا۔ حتّیٰ
کہ اُسے محسوس ہونے لگا کہ اُس کے میلے جسم کی نچلی تہوں میں بھی دُنیا بھر کی
غلاظت بھرتی جاتی ہے۔ اس کی خاکی قمیص اور صافے پر کیچڑ کا رنگ چڑھ گیا تھا- شاید
اُس کی رُوح پر بھی۔
بھوک اور غلاظت میں کھوئے ہوئے سے رمضانؔ نے
محسوس کیا کہ جنگ کی خبریں ایک مقناطیسی قوّت رکھتی ہیں، جس کے سامنے اس کے رگ و ریشے
لوہ چون کے ذرّوں کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں-
’’جانتے ہو جرمن والا کیا کہتا ہے عیدوؔ؟‘‘ اُس
نے پوچھا۔
عیدوؔ خاموش رہا اور رمضانؔ بولا۔ ’’جرمن والا
کہتا ہے کہ روس والا اس کا سِکّہ مانے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد عیدوؔ نے سر ہلایا اور تھوتھنی
گھما کر رمضانؔ کی آنکھوں میں تکنے لگا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’یہ کوئی نئی خبر نہیں
ہے رمضانؔ میاں، شہر کے چوتھے دروازے کے باہر ریڈیو کے حلق سے میں بھی جنگ کی گرما
گرم خبریں سُن لیتا ہوں۔‘‘
جنگ کی تباہ کاریوں کی خبریں سُنتے ہوئے رمضانؔ
کو اپنی تکلیفیں بے حقیقت اور ہیچ نظر آنے لگتیں۔ اصطبل میں بیٹھ کر حقّے کا کش
لگاتے ہوئے وہ سوچتا کہ جرمنی ایک بہت بڑا تانگہ ہے جس پر سوار ہو کر ہٹلر روس میں
سے گزرنا چاہتا ہے۔ لیکن جب ایک دن کسی سواری کی زبانی اُسے پتہ چلا کہ روسی کسان،
مزدور، دو ہزار میل لمبی دیوار بنا کر ہٹلر کا راستہ روکے کھڑے ہیں اور ہٹلر سارا
زور لگا کر بھی اب اس انسانی دیوار کو توڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتا تو اُسے بہت خوشی
ہوئی اور اصطبل میں پہنچ کر وہ ہنکار اُٹھا! ’’روس کی سڑک پر ہٹلر کے تانگے کے نئے
ربر ٹائر بھی کام نہ دیں گے‘‘ اور عیدوؔ ہنہنایا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’میرے لیے
تمھاری کوئی بھی خبر نئی نہیں ہو سکتی رمضانؔ میاں!‘‘
رمضانؔ سوچتا کہ ہٹلرؔ کی ہار ہو جائے تو یہ
جنگ ختم ہو جائے۔ یہ رائے اُس نے سواریوں کی باتیں سُن سُن کر بنائی تھی۔ جنگ نے
ہر چیز کے دام چڑھا دیے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں میل دُور لڑی جانے والی جنگ کے بھیانک
پنجے ابھی سے غریبوں کے مُنہ سے روٹی چھین رہے تھے۔ اُسے عیدوؔ کی دھُندلی دھُندلی
آنکھوں میں غم اور خوف گلے ملتے دکھائی دیتے، جیسے وہ جنگ میں مرنے والوں کی چیخ
پُکار سُن رہا ہو- ایک لحظہ بہ لحظہ بڑھتی ہوئی پُکار، جیسے ایک عجیب لیکن شدید ڈر
اُس کی رُوح کو اپنی آہنی مٹھی میں دبا رہا ہو۔
خارپشت کے کانٹوں کی طرح لٹکتے ہوئے سر کے لمبے
بالوں میں شاید رمضانؔ نے کبھی انگلیوں سے بھی کنگھی نہ کی تھی۔ اُس کی چھاتی کا
ماپ بھی اب گھٹ چلا تھا۔ لیکن مصلّیؔ کو یہ حسبِ معمول انچ بہ انچ پوری نظر آتی تھی-
پوری چالیس اِنچ۔ رمضانؔ اب اُسے کبھی کبھار دریا کی طرف مُفت گھما لاتا اور
کبوتروں کے دڑبے کے قریب سے لید اُٹھاتے وقت مصلّیؔ کے انداز میں رقص کی سی کیفیت
دکھائی دے جاتی اور کبھی مصلّیؔ عیدوؔ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر دیتا تو وہ اُس کی طرف
تھوتھنی گھما کر ہنہناتا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’میں تمھیں جانتا ہوں، مصلّیؔ۔‘‘
ایک دن رمضانؔ رات کو گیارہ بجے اصطبل میں واپس
آیا۔ مصلّیؔ نے بتایا کہ عیدوؔ کے لیے ہری گھاس کا کٹھّا لینے کی کوشش کرتا رہا،
پر کوئی گھسیارن اُدھار پر رضامند نہ ہوئی۔ عیدوؔ نے دو چار مرتبہ اپنے مالک کے
دائیں بازو پر تھوتھنی تھپتھپائی، جیسے کہہ رہا ہو، کچھ پروا نہیں رمضانؔ میاں! میں
بغیر کچھ کھائے ہی رات کاٹ لوں گا۔‘‘
رمضانؔ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ تکیے کے قریب ہی
وہ ایک دُکان کے سامنے تانگہ روک کر تین تنوری روٹیاں خرید کرتا نگے پر بیٹھا بیٹھا
نِگل گیا تھا۔ لیکن عیدوؔ جو بھوکے پیٹ نئی آبادی تک سالم سواری لے کر گیا تھا اور
بھوکے پیٹ ہی وہاں سے لوٹا تھا، اب رات بھر بھوکا رہے گا۔ رات بہت جا چکی تھی۔ اس وقت تو دانہ بھی نہ مِل سکتا
تھا۔
رمضانؔ سوچنے لگا کہ آدھی رات کے بعد فرشتہ آئے
گا اور پوچھے گا ’’تمھیں کوئی شکایت تو نہیں ہے، زمین پر چلنے والو، اپنے مالک سے؟‘‘
اور عیدوؔ کہہ دے گا۔ ’’آسمان پر رہنے والو، ہمیں
شکایت کیوں ہوتی؟‘‘
فرشتہ عیدوؔ کے قریب آ کر کہے گا۔ ’’تمھارے
مالک کے لیے اب میں دُعا کرتا ہوں۔ تم بھی دُعا میں شامل ہو جاؤ میرے ساتھ۔‘‘
اور عیدوؔ میرے لیے دعا میں شامل ہو جائے گا۔ کیونکہ
صرف فرشتے کی دُعا خدا کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ ہر رات کو فرشتہ آتا ہے اور
گھوڑے سے یہی سوال کرتا ہے۔ مالک کی معمولی بدسلوکیوں کی تو کوئی بھی گھوڑا شکایت
نہیں کرتا۔ لیکن عیدوؔ کتنا نیک گھوڑا ہے کہ بھوکے پیٹ چودہ میل کا سفر کرنے کے
بعد بھی اُسے کھانے کو کچھ نہیں ملا اور فرشتے کے سامنے میرے خلاف ایک بھی لفظ منہ
پر نہ لائے گا۔ حالانکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ وہ بھوکا کھڑا ہے اور اس کے مالک نے اُس
کے دیکھتے دیکھتے تین تنوری روٹیاں کھالیں۔
رمضانؔ کو نیند نہ آتی تھی۔ دِن بھر کے مشاہدے
اور تجربے الگ الگ شکلیں دھار کر اُس کے سامنے پھرنے لگے۔ اندھیارے میں عیدوؔ کا
منہ صاف صاف نظر نہ آ سکتا تھا، کھاٹ سے اُٹھ کر وہ اس کے قریب گیا۔ وہ بدستور
کھڑا تھا۔ اُس کی تھوتھنی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بولا۔ ’’اب سو بھی جاؤ عیدوؔ بیٹا!
فرشتہ آئے تو یہ مت کہہ دینا کہ تم بھوکے ہو۔‘‘
عیدوؔ نے تھوتھنی نہ ہلائی، نہ وہ ہنہنایا ہی۔
عیدوؔ اُونگھ رہا ہے، یہ سوچ کر رمضانؔ پھر اپنی کھاٹ پر آ گیا۔ وہ خوش پوش نوجوان،
جو دس آنے سے شروع کر کے بڑی مشکل سے بارہ آنے میں سالم تانگہ لے کر نئی آبادی گیا
تھا، رمضانؔ کی آنکھوں میں پھرنے لگا۔ وہ اس سے بہت جلد مانوس ہو گیا تھا۔ رمضانؔ
نے اُسے بتایا تھا کہ وہ ایک رنڈوا ہے۔ پھر اُس نے مُشکی دُلہن کے لیے گوٹے کا
دوپٹہ نہ لے سکنے، عیدوؔ کی عید کے دن خریدنے اور داروغہ کی بیگار کاٹنے کا سب حال
اُسے تفصیل سے کہہ سنایا تھا اور خوش پوش نوجوان نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا تھا
’’کاش تم روس میں پیدا ہوئے ہوتے، کوچوان۔‘‘ یہ سُن کر کہ روس میں سب تانگے سوویٹ
سرکار کے ہیں، تانگے ہی کیوں، ریلیں اور موٹریں بھی، اُسے بہت خوشی ہوئی تھی۔
نوجوان نے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا سب چیزیں روس میں لوگوں کے لیے ہیں۔ سب مِل کر
اپنے اپنے حصّے کا کام، کھیت میں ہو یا کارخانے میں سرانجام دیتے ہیں۔ سب کو بھوک
لگتی ہے، کوئی بھُوکا نہیں رہتا۔ سب کو سوویٹ کے ہوٹلوں سے کھانے کو مِل جاتا
ہے۔‘‘ اور رمضانؔ نے سوچا، روس میں سچ مچ بہت مزہ ہوتا ہو گا۔ پھر اُس کی پلکیں
بوجھل ہونے لگیں، دماغ کی بتّیاں ٹمٹمانے لگیں۔ وہ نیند کے دھارے میں بہہ گیا بہتا
گیا۔۔۔
اُس نے دیکھا کہ آسمان سے روٹیاں برس رہی ہیں۔
وہ بہت خوش ہوا۔ صدیاں گزریں کہ حضرت موسیٰ کی قوم کے لیے من و سلویٰ اُترا کرتا
تھا آسمان سے۔ اب یہ روٹیاں برس رہی ہیں۔ یہ نئے زمانے کا من و سلویٰ ہے۔ سب غریبوں
کے لیے اچھی خیرات ہے خدا کی، اب کوئی بھوکا تو نہیں رہے گا۔ وہ روٹیوں کی طرف
لپکا۔
پتہ چلا کہ یہ روٹیاں نہیں ہیں بلکہ گول گول
چوڑی چوڑی پاتھیاں ہیں- روٹیوں کی شکل کے اُپلے! توبہ، توبہ، اللہ میاں بھی خوب
مذاق کرنے لگے ہیں زمین والوں کے ساتھ۔۔۔
اُس کی آنکھ کھُل گئی۔ اللہ کی لعنت اِن روٹی
نما پاتھیوں پر۔ وہ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ عیدوؔ اُس کا مُنہ غور سے تک رہا تھا۔
جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’مجھے رات بھر نیند نہیں آئی رمضانؔ میاں، تم نے بھی رَت جگا کیا
ہوتا تو ایک عجب تماشا دیکھا ہوتا۔ میں تو حیران رہ گیا۔ آسمان سے روٹیاں برسنے لگیں۔
یہاں وہاں روٹیاں ہی روٹیاں نظر آتی تھیں۔ مگر پیشتر اس کے کہ تم جاگ اُٹھتے اور
مجھے کھول دینے پر رضامند ہو جاتے، روٹیاں جانے کدھر گم ہو گئیں۔‘‘ رمضانؔ نے سوچا
کہ شاید انسان کی طرح حیوان کو بھی خواب آتے ہیں۔
مصلّیؔ کچھ ہری گھاس اور دانہ لے آیا تو عیدوؔ
ہنہنانے لگا- سورج کی کرنیں چھِن چھِن کر اُس کے سیاہ مخملی بُت پر پڑ رہی تھیں۔
مصلّیؔ نے قریب آ کر دانے والا بٹھّل عیدوؔ کی کھولی میں رکھ دیا۔ عیدوؔ پھر ہنہنایا،
جیسے کہہ رہا ہو ’’جب بھی کوئی خمیری گلگلا کہہ کر تمھارا مذاق کرتا ہے، میں چاہتا
ہوں اُسے کاٹ کھاؤں، مصلّیؔ اور وہ شخص رمضانؔ ہی کیوں نہ ہو- سواگز چھاتی والا چھ
فٹ اُونچا دیو ہیکل رمضانؔ، مصلّیؔ بولا ’’جیتا رہ عیدوؔ! اللہ رسول کی امان۔‘‘
اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رمضانؔ نے مصلّیؔ
کو اپنے پاس بُلایا۔ رمضانؔ بہت مطمئن نظر آتا تھا۔۔۔
ایک دن، دو دن، پانچ دن، بڑی مشکل سے رمضانؔ نے
آٹھ روپے بارہ آنے جوڑے تھے کہ دس روپے کی قسط کی ادائیگی کا وقت آن پہنچا۔ سائیں
جی آ دھمکے اور اِدھر اُدھر کی گفتگو کی منزلیں طے کرنے کے بعد اصلی تان دس روپے
پر ٹوٹی۔ پہلے تو رمضانؔ کے جی میں آیا، کہ سائیں جی سے کہہ دے کہ اُس کے پاس صرف
پانچ روپے ہیں جو وہ بخوشی دے سکتا ہے۔ باقی کے پانچ روپے چند روز ٹھہر کر ادا کرے
گا۔ اور حتی الوسع کوشش کرنے پر بھی ادا نہ کر سکا تو اگلی قسط دس کی بجائے پندرہ
کی ہو جائے گی۔ لیکن بیشتر اس کے کہ وہ ایسی کوئی بات شروع کرتا سائیں جی کہہ
اُٹھے۔ ’’تمھاری قسطوں کا تو کچھ جھگڑا نہیں ہے، رمضانؔ میاں، لیکن تم تو سیانے
ہو۔ وقت پر ہر قسط ادا کر دی جائے تو زیادہ آسانی دینے والے ہی کو رہتی ہے۔‘‘
رمضانؔ نے عیدوؔ کی طرف دیکھا، جیسے اُس کی
رائے مانگ رہا ہو۔ بے زبان عیدوؔ کی آنکھوں میں رمضانؔ نے اُس کے جذبات پڑھ لینے کی
وِدّیا سیکھ لی تھی۔ اُس کی سفارش یہی معلوم ہوتی تھی کہ جیب کی سب نقدی، پیسہ پیسہ
سائیں جی کے سامنے ڈھیری کر دی جائے اور رمضانؔ نے یہی کیا۔
سائیں جی نے رقم گِن ڈالی۔ اُن کے چہرے پر ایک
وحشیانہ ہنسی پھوٹ نکلی۔
’’بات
کیسے بنے گی، رمضان میاں، دس روپے کی ضرورت ہے اور سوا روپے کی کمی رہ گئی ہے۔‘‘
رمضانؔ کا دماغ سوچنے سے رُک گیا تھا۔ وہ چونک
پڑا۔ ’’سوا روپے کی کمی رہ گئی ہے۔ پیسہ پیسہ تو ڈھیری کر دیا سائیں جی۔ اب کیا
کہتے ہو؟‘‘
’’یہی
کہ سوا روپے کی کمی رہ گئی ہے۔‘‘
رمضانؔ کو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی اس کے دماغ
میں داخل ہو کر اُس کی سب سے اہم بال کمانی نوچ رہا ہو، جیسے اُس کے دِل میں سوراخ
کیا جا رہا ہو، تاکہ اس کا سب خون نکال لیا جائے۔ اُس نے عیدوؔ کی طرف دیکھا۔ اس کی
سفارش یہی معلوم ہوتی تھی کہ کل شام کا وعدہ کر لیا جائے اور اُس نے یہی وعدہ کر لیا۔
سائیں جی کے چہرے پر زندگی کی لہر دَوڑ گئی اور
وہ کبوتروں کے دڑبے کے قریب پڑی ہوئی لید کی طرف دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔
عیدوؔ ہنہنا رہا تھا۔ اُس کی ہنہناہٹ میں اُس کی
ساری خود داری کی چمک موجود تھی۔ وہ رمضانؔ کی تنگ دستی سے واقف تھا۔ لیکن شاید وہ
ہمیشہ ایک خوددار کوچوان کے تانگے میں جُتنے کی خواہش رکھتا تھا۔ رمضانؔ کا سر
جھُک گیا تھا، جیسے صدیوں کی گھنی ڈھیر قسطوں نے اپنا سارا بوجھ اس کی گردن پر ڈال
دیا ہو۔
نمناک آنکھوں سے رمضانؔ نے عیدوؔ کی طرف دیکھا۔
عیدوؔ نے اپنی تھوتھنی رمضانؔ کے کندھے پر رکھ دی اور پھر دھیرے دھیرے اُسے سہلانے
لگا جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’سوا روپیہ بھی کچھ چیز ہوتی ہے رمضانؔ میاں؟ کیوں گھبراتے
ہو؟‘‘ اور رمضانؔ نے سر اُٹھا کر عیدوؔ کی آنکھوں میں اس کے جذبات پڑھ لیے۔ ’’اچھا
یہ سواروپیہ اب تمھارے ذمے رہا، عیدوؔ بیٹا!‘‘
اگلے روز رمضانؔ شام کو اصطبل میں پہنچا، تو
اُس کی جیب میں صرف ایک روپیہ تھا۔ اُس کی حالت کم و بیش ایک ہارے ہوئے جواری کی سی
تھی جس کی تقدیر کو سانپ سُونگھ گیا ہو۔
تانگے سے کھول کر عیدوؔ کو اس کے تھان پر
باندھا گیا تو وہ پچھاڑی اُچھال اُچھال کر تھان کی زمین سونگھنے لگا، جیسے وہ مٹی
کھانے پر تیار ہو گیا ہو۔ ایک پِٹے ہوئے گدھے کی طرح اس کے جسم کا بند بند دُکھ
رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ رمضانؔ اس کے جسم پر مالش کر کے اس کی تکان دُور کر دے۔
لیکن رمضانؔ کی اپنی تکان بھی تو آج کچھ کم نہ تھی۔ وہ نمناک آنکھوں سے رمضانؔ کو
تکنے لگا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’تیار ہو جاؤ، رمضانؔ میاں، سائیں جی آتے ہی ہوں
گے۔‘‘
رمضانؔ نے فیصلہ کیا کہ سائیں جی کو کچھ نہ دے۔
یوں ہی ٹال مٹول کر دے۔ وہ کھاٹ ڈال کر بیٹھ گیا اور مصلّیؔ حقّہ تازہ کر کے چھوڑ
گیا تھا۔
عیدوؔ بہت اُداس تھا اُس کی بیکار رہنے والی،
زنگ آلود آنتیں باہر آیا چاہتی تھیں۔ ابلق کے بیٹے کو انسان سے کئی گُنا زیادہ
بھوک لگتی ہے۔ بے چارہ عیدوؔ۔ اُس کی تھوتھنی پر پسینے کی بوندیں پھوٹ آئیں۔ دھیرے
دھیرے اُس نے اپنے پیٹ کو اندر پچکانا شروع کیا۔ بھوک تو بڑھ رہی تھی، بڑھتی آ رہی
تھی اور اُس کی آنت آنت میں برما گھما کر چھید کر رہی تھی۔
رمضانؔ بھی اُداس تھا۔ سائیں جی لاکھ بُلایا کریں،
وہ اُن سے بولے گا ہی نہیں آج، گھنّی سادھ لینا کچھ مشکل تھوڑی ہے۔ مت ماری گئی ہے
سائیں جی کی۔ بہت دق کرتے ہیں۔ کوئی کسی کے روپے رکھ تو نہیں لیتا۔ کچھ بھی تو صبر
نہیں ہے، اس نے اپنے ذہن میں جھانک کر دیکھا، وہاں دھُندلی سپیدیاں پیدا ہو رہی تھیں
-زہر کی سپیدیاں۔ آج سائیں جی بچ کر نہ جائیں گے۔ ذرا سی بس اُن کی زبان درازی کی
دیر ہو گی اور یہ پہلوانوں کا سردار کوچوان اُنھیں ٹھیک کر دے گا۔ آج وہ اپنے عیدوؔ
کے سامنے اپنی جوانمردی کا ثبوت دے گا۔
اور سائیں جی آ گئے۔ وہ چُپ چُپ سے نظر آتے
تھے۔ وہ رمضانؔ کی کھاٹ پر بیٹھ گئے۔ رمضانؔ کے ذہن کی زہریلی سپیدیاں جانے کِدھر
دبی رہیں۔ اس نے سوچا کہ کوئی نرم سی بات کہہ کر ٹال مٹول کر دے لیکن اُس کے ہونٹ
نہ ہلے، جیسے گول کُنڈلی مارے یوں خاموش بیٹھا رہے گا ہمیشہ ہمیشہ۔
’’قسطوں
کا مطلب یہی ہوتا ہے رمضانؔ۔‘‘ سائیں جی بولے ’’کہ رقم آسانی سے اُتر جائے۔‘‘
رمضانؔ نے بے دلی سے سر ہلا کر کہا۔ ’’ہاں، سائیں
جی۔‘‘
’’یعنی
ایک قسط کا تھوڑا سا بقایا بھی دوسری قسط میں شامل نہ ہونا چاہیے۔ اور صاف بات تو یہ
ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ مقروض ہی کا منظور ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں
سائیں جی!‘‘ رمضانؔ نے عیدوؔ کی طرف آنکھ گھماتے ہوئے جواب دیا اور عیدوؔ ہنہنایا
جیسے وہ اپنے مالک کے ساتھ کسی طرح کی نا انصافی پسند نہ کرتا ہو اور اِس بات سے
جل رہا ہو کہ رمضانؔ نے آخر شرافت کا پلّو کیوں پکڑ رکھا ہے اتنی مضبوطی سے؟ کیوں
نہیں دھتا بتا دیتا، اس کمبخت سائیں جی کو؟
’’تمھاری ایمانداری، تمھاری دانائی اور سب سے بڑی
بات ہے تمھاری شرافت۔‘‘ سائیں جی نے پینترہ بدل کر کہا۔ ’’ان میں تو مجھے کبھی کوئی
شک نہیں گُزرا؟‘‘
’’آپ
مالک جو ہوئے۔‘‘ رمضانؔ نے نرم ہو کر کہا۔
’’لیکن
قسط کی ادائیگی تو ضروری ہے وقت پر، رمضانؔ میاں!‘‘
سائیں جی نے رمضانؔ کے کندھوں پر ہاتھ ٹیک کر
کہا۔ ’’اور یہ بات میں اپنی ہی غرض سے تھوڑی کہتا ہوں۔ جلدی اس بوجھ سے چھٹکارا
پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔‘‘
’’آج
تک تو کسی نے مجھ پر ٹھیکرا نہیں پھوڑا، سائیں جی!‘‘
’’یہی
تو میرا بھی خیال ہے۔‘‘ سائیں جی نے اُس کی آنکھوں میں تکتے ہوئے کہا اور اس کی
کھاٹ سے اُٹھ کھڑے ہو گئے۔
جیب سے روپیہ نکال کر رمضان نے سائیں جی کے
سامنے پھینک دیا۔
’’اور
چونّی۔‘‘ سائیں جی نے روپیہ اُٹھا کر کہا۔
’’رمضانؔ نے عیدوؔ کی طرف دیکھا۔ وہ تھوتھنی ہلا
رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’روپیہ تو تم دے ہی بیٹھے رمضانؔ میاں، اب کل چونّی بھی
مارنا سائیں جی کے ماتھے سے۔‘‘ اور رمضانؔ نے کل کا وعدہ کر لیا۔
سائیں جی
جا چکے تھے، رمضانؔ نے محسوس کیا کہ اُسے چاروں طرف سے نا اُمیدی نے گھیر
رکھا ہے۔ صدیوں کی بے شمار قسطوں میں آخر ایک روپے کی ادائیگی سے کتنا فرق پڑ سکتا
ہے؟ وہ بہت اُداس تھا، جیسے اس کا دِل بُجھ جائے گا ٹمٹما کر — اصطبل کے چراغ کی
طرح۔
عیدوؔ اپنے تھان پر بھوکا بندھا تھا۔ رمضانؔ اس
کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ بغیر بستر بچھائے ہی وہ کھاٹ پر گِر پڑا۔
اُس نے کروٹ بھی نہ بدلی۔ پیٹھ تو تختہ ہو گئی تھی۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ عیدوؔ
ہی کی طرح ہنہنانے لگتا۔ وہ تھکا ہارا نڈھال پڑا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ سو جائے۔
تنے ہوئے پیٹ پر تو نیند دوڑی چلی آتی ہے۔ جانے آج وہ کدھر غائب ہو گئی تھی۔
پھر مصلّیؔ آن پہنچا۔ کہیں سے وہ دو روٹیاں اور
اچار کی پھانک لے آیا تھا۔
’’رمضانؔ، او میاں رمضانؔ!‘‘دل میں گدگدی سی
محسوس کرتے ہوئے وہ بولا۔ ’’دیکھ تیرے لیے روٹیاں لایا ہوں۔ تُو بھوکا کیوں رہے
آخر۔ تیرے قریب ہی میں سو جاؤں ایک پیٹ سے زیادہ کھا کر۔ نہ بابا یہ تو نہ ہو گا
مجھ سے، آخر میں اس قطب اعظم کے مزار کا مجاور ہوں اور میں اللہ اور اس کے قطب سے
ڈرتا ہوں۔‘‘
رمضانؔ کا خیال فوراً من و سلویٰ کی طرف دوڑ گیا۔
مصلّیؔ روٹیاں رکھ کر چلا گیا تھا۔ رمضانؔ نے سوچا، آخر بھیج ہی دیا نا میرے اللہ
نے اور مجھے کسی کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نوبت نہیں آئی۔ اُس وقت عیدوؔ کے ہنہنانے
کی آواز رمضانؔ کے کانوں میں آئی۔ آج عیدوؔ کس طرح رمضانؔ کی آخری چونّی کے لیے دریا
تک چلا گیا تھا۔ اِس وقت رمضانؔ نے من و سلویٰ کا ایک ٹکڑا مُنہ میں ڈال لیا تھا۔
لیکن جھٹ سے اُس نے لقمے کو ہتھیلی پر اُگال کر دُور کنویں کی منڈیر پر پھینک دیا
اور بولا۔ ’’جب تک تیرے لیے دانہ، تیرے لیے من و سلویٰ نازل نہیں ہوتا، میں کھانا
نہیں کھاؤں گا، عیدوؔ بیٹا!‘‘ اور رمضانؔ نے کاغذ کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور
زبردستی اپنی پلکوں کے کواڑ بند کرنے لگا۔
٭٭٭
تلافی
وہ ایک لمحہ کے لیے رُکا اور ایک مٹھی چاول ہوا
میں اُچھالتے ہوئے لاپرواہی سے آگے بڑھ گیا۔ غار سے چلتے وقت اس نے اکیس مٹھی چاول
ہوا میں اچھالنے کی رسم پوری کر دی تھی۔ اور اکیس بار چاول کی شراب کی بوندیں دھرتی
پر گرا دی تھیں۔ اب ان مردود سپاہیوں کی روحیں اس کا پیچھا نہ کر سکتی تھیں۔
چاندنی رات کے رینگتے مچلتے سایوں میں ناگا
پہاڑیاں دشمن کی گھات میں کھڑے ہوئے جوانمردوں کی طرح اونچی نیچی ہوتی گئی تھیں۔
چاند بھی کوئی خونی معلوم ہوتا تھا۔ جیسے وہ خون سے رنگے ہوئے چہرے پر اِترا رہا
ہو۔ ستارے بھی خونی تھے۔ انھوں نے بھی دشمنوں کے سر کاٹ لیے تھے۔ اس نے حقارت سے
ان کی طرف دیکھا جیسے وہ انھیں بتا دینا چاہتا تھا کہ اکیس سپاہیوں کو تنہا موت کے
گھاٹ اُتار کر اُس نے نئی مثال قائم کر دی ہے۔
رات بھر وہ اس دو را ہے والی غار میں گھات
لگائے بیٹھا رہا تھا۔ اکیس کی اکیس لاشوں کو غار میں لے جا کر اس نے سب کے سر کاٹ
ڈالے تھے۔ اور دن بھر وہ وہیں دبک کر بیٹھا رہا تھا۔
یہ پگ ڈنڈی اس کی جانی پہچانی تھی۔ رات بھر کے
سفر کے بعد وہ صبح صبح اپنے گاؤں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ایک بار پھر اسے خدشہ سا
محسوس ہوا، جیسے سپاہیوں کی روحیں چیختی ہوئی اس کا پیچھا کر رہی ہوں۔ مردود روحیں۔
یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ ایک لمحہ کے لیے رُکا اور چور نگاہوں سے پیچھے کی
طرف دیکھتے ہوئے پہاڑ پر چڑھتا چلا گیا۔
اس کے کندھے پر نئے بانس کی نئی کانور تھی۔ جس
کے دونوں پلڑوں میں خون آلودہ سر لٹکائے ہوئے تھے۔ اگلے پلڑے میں چاول کی ڈلیا رکھی
ہوئی تھی جو نصف سے زیادہ خالی ہو چکی تھی۔ اس کے قریب چاول کی شراب کی مٹکی تھی
جس میں مشکل سے ایک چوتھائی شراب باقی ہو گی۔ پچھلے پلڑے میں اکیس کی اکیس لاشوں
سے کاٹی ہوئی ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں تھیں اور ساتھ ہی وہ کٹار بھی جس سے اس
نے دشمنوں کو مار گرایا تھا اور ان کے سر کاٹ ڈالے تھے۔ دونوں پلڑوں میں ان سروں
کو بہت قرینے سے لٹکایا گیا تھا۔ دونوں پلڑوں پر موٹی رسیوں کا جال تنا ہوا تھا۔
اور کسی چیز کے گرنے کا اندیشہ نہ ہو سکتا تھا۔
اسے یقین تھا کہ اسے اس بزدل، کمینے سپاہی کا
سر بھی مل گیا ہے جو روہی کی بڑی بہن رین سالی کو زبردستی اُٹھا لے گیا تھا۔ روہی
اسے دیکھ کر میری بہادری کا ترانہ چھیڑ دے گی۔ رین سالی بھی خوش ہو جائے گی۔ رین
سالی خود روہی سے کہے گی۔ رشمو تو بہت بہادر نکلا روہی! اب تم اس کی دُلہن بن جاؤ-
آخر اتنا بڑا بہادر روز روز تو پیدا نہیں ہوتا۔ اتنا بڑا بہادر جس نے ماں کے دودھ
کی لاج رکھ لی- یہ سوچتے ہوئے وہ پگ ڈنڈی کی ناہموار سطح پر تیز تیز قدم اُٹھاتا
چلا جا رہا تھا۔
غار سے چلتے وقت اس نے چاول کی شراب کے کچھ
گھونٹ حلق میں اُتار لیے تھے۔ ارے یہ تو مدھو ہے مدھو۔ آسامیوں کی طرح ایک ناگا بھی
تو اسے ’’مدھو‘‘ کے نام سے پکار سکتا ہے۔ مٹکی میں مدھو چھلک رہا ہے جانے مدھو کیا
کہہ رہا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب راستے میں مدھو بالکل نہ پئے، گھر پہنچ کر
پتوں کے ڈونے بھر بھر کر روہی اور رین سالی کو پلائے- روہی کی آنکھوں میں نئی چمک
آ جائے گی رین سالی مست ہو جائے گی۔ دونوں بہنیں خوش ہو کر میری طرف دیکھیں گی۔ ایک
اور بیس اکیس- پورے اکیس سر- روہی کہے گی، اب تو میں ضرور اپنے رشمو سے بیاہ کروں
گی- مدھو روہی کو ایک نئی زبان دے گا۔ اور وہ کہے گی، رشمو میں ہمیشہ تمھاری تھی۔
اور ہمیشہ تمھاری رہوں گی۔
اسے اپنے بزرگوں کے اس عقیدے پر فخر تھا کہ جب
تک ایک نوجوان کسی دشمن کا سر نہ کاٹ لائے اسے بہادر کا خطاب نہیں مل سکتا اور جب
تک وہ کسی لڑکی کو یادگار فتح کے طور پر اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اُتارے ہوئے
دشمن کا سر نہ دِکھا دے وہ اسے اپنا دولھا بنانے کا تصور تک نہیں کر سکتی۔
ادھر بہت برسوں سے یہ روایت نابود ہوتی جا رہی
تھی۔ کسی کا سر کاٹنے کا مطلب تھا پھانسی کی سزا لڑکیاں بھی سمجھ گئی تھیں۔ انسانی
سر کی پیش کش کا سوال ہی نہ اُٹھتا تھا۔ ناگا کسان پرانے جمع شدہ سروں کی قبائلی
ناچ کے موقع پر نمائش کو چھوڑتے تھے۔ لیکن جب سے برما کی سرحد پار کرتے ہوئے جاپانیوں
نے ناگا پہاڑیوں کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیا تھا، ناگا دوشیزاؤں نے پھر سے
انسانی سر کی پیش کش کو بیاہ کے لیے لازمی شرط قرار دے دیا تھا۔
اس کے کان میں روہی کی آواز گونج اٹھی- رشمو،
اور شمو، دھتکار ہے۔ تمھاری بہادری پر اگر تم اس پاپی کا سر کاٹ کر نہ لا سکو جو
اس دن رین سالی کو زبردستی اُٹھا لے گیا تھا۔۔۔ اسے یاد تھا کہ کس طرح اس نے روہی
کو ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ ارے یہ تو بہت کٹھن شرط ہے، روہی۔ اب خاص طور پر اسی پاپی
کا سر میں کہاں سے لا سکتا ہوں؟ ان سب کے دانت اونچے اونچے ہیں، ناک چپٹی، قد
چھوٹا، کوئی لاکھ جتن کرے، روہی، ایک جیسے ہی تو معلوم ہوتے ہیں یہ سب لوگ۔ اب خاص
اس پاپی کا سر مجھے کہاں ملے گا؟ ۔۔۔ روہی کی آواز برابر گونجتی رہی رشمو میں کہے
دیتی ہوں کہ میرا دولھا وہی بنے گا جو رین سالی کا بدلہ لے گا۔ تم تو دیکھ ہی رہے
ہو، رشمو، کہ جب سے رین سالی اس پاپی سے اپنا ’’ست‘‘لٹوا کر آئی ہے، وہ بالکل چپ
چاپ رہتی ہے۔۔۔ رین سالی کی تصویر اس کی آنکھوں میں پھر گئی۔ ایک حواس باختہ لڑکی۔
شاید وہ دشمن کی چھاؤنی سے بھاگ کر آئی تھی۔
اب تو میں یقیناً کامیاب ہو چکا ہوں، اس نے
سوچا، اکیس کے اکیس سپاہیوں کو مار گرانا ہر کسی کے بس کا روگ تو نہیں ہو سکتا۔
چلتے چلتے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا مکمل خاموشی تھی۔
ہر ناگا یہی سوچتا تھا کہ جب سے سر کاٹنا
قانوناً ممنوع قرار دے دیا گیا ہے زمین کی گرمی کم ہو گئی ہے اور اسی لیے زمین کی
پیداوار بھی گھٹ گئی ہے۔ لیکن جنگ چھڑتے ہی زمین کی گرمی پھر سے بڑھنے لگ گئی تھی۔
اب تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ گرمی صدیوں تک قائم رہے گی۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ
اچانک اس کے کندھے سے کسی نے کانور کا بوجھ اٹھا لیا ہے۔۔۔ روہی کی آواز اس کے ذہن
میں پھر سے گونج اُٹھی۔ اس پاپی کی روح تیری غلام ہو گئی ہے، رشمو! اب وہ خود تیری
کانور اُٹھا کر چلے گی۔ تیرے ساتھ ساتھ۔۔۔
ایک نہ دو نہ تین، پورے اکیس سر یعنی نو کم تیس۔
ارے میں نے نو کم تیس سر کاٹ ڈالے۔ ارے یہ بچوں کا کھیل تھوڑا ہے، روہی- اپنے ذہن
میں وہ ناگا دوشیزہ سے کہہ رہا تھا۔ ارے روہی، جس نے شیر کے بچّے کی طرح شیرنی کا
دودھ پیا ہو، وہی تو اکیس سروں کو کانور کے دونوں پلڑوں میں لٹکا کر تیز قدموں سے
چل سکتا ہے۔
پہلے تو چاندنی رات کبھی اتنی خاموش نظر نہ آتی
تھی۔ سائے پگھلتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ پہاڑیاں ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان میں
دھنسی جاتی تھیں۔ یہ پہاڑیاں پہلے تو کبھی اتنی پُراسرار نظر نہ آئی تھیں۔
اسے خون کی بُو آ رہی تھی۔ یہ بُو تو آئے گی ہی،
اس نے دل و دماغ کو سمجھایا، اسے کون ہٹائے۔ اُس نے اپنے خون آلودہ ہاتھوں کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا۔ میں رشمو ہوں رشمو، سر کاٹنے والے بزرگوں کا بیٹا۔
اُس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس کا پاؤں ایک جگہ
لانبی لانبی گھاس میں دھنس گیا۔ اُسے خیال آیا کہ کس طرح وہ گاؤں چھوڑتے ہوئے روہی
سے کہہ کر آیا تھا ارے دیکھنا، روہی، اب کپڑا بننے کی غلطی نہ کر بیٹھنا ورنہ تیرا
رشمو جنگل میں چلتے چلتے کسی بیل میں پیر اُلجھ کر گرنے سے مر جائے گا۔ جب میں لوٹ
آؤں تو خوشی سے کپڑا بننا۔۔۔ اس نے اپنے پاؤں کو آگے اُٹھاتے ہوئے سوچا۔ ارے یہ تو
گھاس ہے بیل تو نہیں۔ میرا پاؤں کیسے اُلجھ سکتا ہے؟ ۔۔۔ اور پھر اس کے ذہن میں
روہی کا بول گونج اُٹھا- میں کیوں کپڑا بنوں گی۔ رشمو، میں اتنی پاگل تھوڑی ہوں؟
گھر سے چلتے وقت اسے ہرگز یہ امید نہ تھی کہ
اتنی جلد کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب ہو جائے گا۔ کندھے پر کانور کا بوجھ اسے پھر
سے محسوس ہونے لگا۔ اسے خیال آیا چلو اچھّا ہی ہوا کہ باقی بد کرداروں کی طرح اس
پاپی مردود کی روح بھی پیچھے رہ گئی۔ اور تیز تیز قدم اُٹھانے لگا۔
اور پرستاروں میں اسے روہی مسکراتی ہوئی نظر آئی۔
چاند اب پھیکا معلوم ہوتا تھا۔ پھیکے چاند پر روہی کا چہرہ ابھر آیا۔ جیسے وہ اسے
پکار کر کہہ رہی ہو۔ حسن رین سالی کا دماغ روہی کا۔ رشمو، حسن کے تو سو بیری ہیں،
دیکھو رین سالی کا کیا حال ہوا وہ لشکری پاپی اسے پکڑ کر لے گیا تھا، رشمو۔ جانے
کس طرح پاپی نے رین سالی کا ’’ست‘‘ ناش کیا ہو گا میں تو کانپ اُٹھتی ہوں۔ رین سالی
تو پھر بھی بچ کر نکل آئی۔ ورنہ ان کے نیچے سے کب کوئی ناگا لڑکی کان یا ناک
کٹوائے بغیر واپس آئی ہے؟
اس نے کانور میں لٹکائے ہوئے سروں کی طرف دیکھا۔
اسے یقین تھا کہ ان میں اس پاپی کا سر بھی ضرور موجود ہو گا۔ دوبارہ چاند کی طرف دیکھتے
ہوئے اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ لیکن روہی کا چہرہ چاند کے داغوں میں تحلیل ہو چکا
تھا۔ بڑی نفرت سے اُس نے اپنے چاروں طرف دیکھا اور مستقل مزاجی سے پاؤں بڑھائے وہ روہی
سے ملنے کے لیے بیتاب ہو رہا تھا۔
روہی کا خیال آتے ہی اسے فوراً اپنے بزرگوں کا
خیال آ گیا۔ اس کا باپ جیسے آیا تھا ویسے ہی چلتا بنا۔ اس کا دادا البتہ بہادر
نکلا تھا۔ اس نے سات سر کاٹنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ساتوں کے ساتوں سر ابھی تک
ان کے گھر میں موجود تھے۔ تین سر ایک طرف، تین سر ایک طرف۔ بیچ میں وہ سر جو اس نے
اپنی دلہن کو پیش کیا تھا۔ یہ سات سر اس کے دادا نے پچاس برس کے عرصے میں حاصل کیے
تھے۔ اور یہاں یک بارگی اکیس سر کاٹ لیے گئے تھے۔
ابھی کوئی دس گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ سائے اور
بھی گہرے ہو گئے تھے۔ ان سایوں میں ہمیشہ مرے ہوؤں کی روحیں بھٹکتی ہیں۔ وہ جن کے
سر کاٹ لیے گئے۔ وہ ڈر گیا۔ جیسے اکیس کی اکیس روحیں چیخیں مار رہی ہوں۔ اسے خیال
آیا کہ ہو نہ ہو اس پاپی مردود کی روح باقی روحوں کو اس کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔ جیسے
اب سب روحیں اس کے خلاف سازش کر رہی ہوں۔ اس نے کانور زمین پر رکھ دی۔ ڈلیا سے ایک
مٹھی چاول ہوا میں اُچھال دیا۔ مٹکی سے تھوڑا مدھو زمین پر گرایا۔ اسے اب روحوں کا
شور کم ہوتا سنائی دیا۔ جیسے ہوا میں ایک خاموش نغمہ تھرک رہا ہو۔
کانور اُٹھا کر وہ تیز تیز قدم اُٹھانے لگا۔ اب
وہ ایک ایسی جگہ گزر رہا تھا، جہاں ہوا پھولوں کی خوشبو سے سست رفتار ہو گئی تھی۔ یہاں
کیسے کیسے پھول کھلے ہیں۔ اس نے سوچا، دن کا وقت ہوتا اور روہی بھی ساتھ ہوتی تو
وہ مل کر پھول چُنتے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے ہار پروتا اور روہی کے جسم پر ان کا ایک
جال سا بُن دیتا۔
مٹکی میں مدھو چھلک رہا تھا۔ زمین پر مدھو کی
بوندیں بہت ٹپکائی جا چکیں۔ روحوں کو بھی
مدھو پیارا ہے۔ اس نے ذرا رُک کر مدھو کے کچھ گھونٹ حلق میں اُتار لیے۔
ستارے اسے گھور رہے تھے۔ لیکن اس نے ان پر ایک
باغیانہ نگاہ دوڑائی جیسے وہ انھیں خاطر میں نہ لاتا ہو۔
معاً اسے اس کہانی کا دھیان آیا جو پہلے پہل
اسے روہی نے سنائی تھی۔ یہ اس وقت کی کہانی تھی جب سورج چاند تھا۔ اور چاند سورج۔
دنیا ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔ اس وقت چاند سورج سے زیادہ گرم تھا۔ رات کو بھی اتنی
گرمی پڑتی کہ جنگل جھلس جاتا اور انسان بھی پناہ مانگتے نظر آتے۔ پھر ایک دن چاند
نے جواب سورج ہے، سورج سے جواب چاند ہے۔ کہا کہ بھائی تم تو بہت ظالم ہو۔ اس طرح
دنیا کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ اب میں تمھیں سورج نہ رہنے دوں گا۔ وہ جھٹ سورج بن گیا۔
اور سورج کو چاند بنانے کی غرض سے اس کے چہرے پر گوبر مل دیا۔ اس نے روہی سے سنا
تھا کہ چاند پر جو داغ نظر آتے ہیں۔ اسی گوبر کے داغ ہیں۔ لیکن وہ خود بھی تو روہی
کا منہ چڑایا کرتا تھا۔ اور ہمیشہ کہا کرتا تھا۔ کہ یہ کہانی تو بہت بڑی گپ ہے۔
کبھی وہ اسے چھیڑنے کے لیے یہ بھی کہہ دیتا کہ لاؤ میں بھی تمھارے چہرے پر گوبر مل
دوں۔ اور روہی جھٹ بول اٹھتی- رہنے بھی دو، پہلے ہی میں کون سی خوبصورت ہوں؟
اسے یاد آیا کہ کس طرح ایک روز اس نے روہی سے
کہا تھا کہ شروع دنیا میں چاند اور سورج دونوں دن کے وقت نکلا کرتے تھے۔ سورج کو ایک
لڑکی سے محبت تھی۔ وہ بولی، پہلے کسی کا سر کاٹ کر لاؤ۔ پھر میں تمھارے ساتھ بیاہ
کروں گی۔ چاند کو کسی طرح پتہ چل گیا۔ کہ سورج اسی کا سر کاٹ ڈالنے پر آمادہ ہو
رہا ہے۔ چاند بھاگ گیا اور دن کے بجائے رات کو چڑھنے لگا۔
اس نے چاند کی طرف محبت سے دیکھا۔ اور چاند پر
روہی کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن اسے ذرا کامیابی نہ ہوئی۔
پگ ڈنڈی اب پہاڑ کے اوپر اوپر جا رہی تھی۔ چلتے
چلتے وہ مدھو کا نغمہ اَلاپنے لگا۔ مدھو کا ازلی و ابدی نغمہ:
لال لال خون بہتا ہے تو بہنے دو۔
ہڈیاں بھی ٹوٹنے ہی کے لیے بنائی گئی ہیں۔
خون بہنے ہی کے لیے پیدا ہوتا ہے۔
مدھو پی کر سر کاٹنے کا مزہ ہے۔
گاؤ گانے والو، مل کر گاؤ۔
ناچو ناچنے والو، مل کر ناچو۔
مل کر ہی گانے، ناچنے کا مزہ ہے۔
مدھو پی کر سر کاٹنے کا مزہ ہے۔
کوکھ جلی کیا لوری دے گی؟
بزدل کیا کھا کر لڑے گا؟
بزدل کو کون دُلہن پسند کرے گی؟
مدھو پی کر سر کاٹنے کا مزہ ہے۔
بھیڑوں اور بھیڑیوں کی کیسی دوستی؟
پڑے پڑے تو لوہے کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔
موت سے پہلے مرنے سے کیا فائدہ؟
مدھو پی کر سر کاٹنے کا مزہ ہے۔
اسے بڑی شدت سے مدھو پینے کا خیال آیا۔ مٹکی میں
مدھو چھلک رہا تھا۔ لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ اب یہ مدھو گھر پہنچ کر ہی پیا
جائے- روہی اور رین سالی کے ساتھ!
آخر کب تک ایک نوجوان مورنگ میں سوتا رہے؟ اس
نے سوچا، آخر کب تک، بیس اور ایک اکیس۔ اکیس سر۔ اب روہی کیسے انکار کر سکتی ہے؟
اب بس اس کی ہاں چاہیے۔ پھر اس کے دام اس کے ماں باپ کو چکا دینا کچھ کٹھن نہیں۔
نہیں، اب میں مورنگ میں سو کر راتیں نہیں گزار
سکتا۔ اس نے سوچا، مورنگ! مجھے مورنگ سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ رات گاؤں بھر کے
بن بیا ہے لڑکے مجھے مورنگ میں سوتے ہیں۔ ایک ہی جھونپڑے میں مل کر سونے کی رسم نہ
جانے کتنی پرانی ہو گی۔ اس جھونپڑے کو مورنگ کا پیارا نام دے کر ہمیں خوش کرنے کا
جتن کیا گیا ہے۔ اس کے ذہن کے کسی کونے سے روہی کی آواز آ رہی تھی -رشمو، اور شمو۔
ہم نیا گھر بنائیں گے، ہم اچھا دھان اُگانے والے وانگسی دیوتا کی جے منائیں گے!
ایک بار پھر خون کی بُو اُسے شدت سے محسوس ہونے
لگی۔ ارے ارے یہ بدمعاش روحیں تو مجھے کسی کھڈ میں گرا کر دم لیں گی -یہ کمینی،
بدکار روحیں! وہ کانور چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتا تھا۔ وہ کانور رکھ کر بیٹھ گیا۔
اپنی کلائی پر بندھی ہوئی کوڑی کو چھوتے ہوئے
اس نے سوچا، کوئی ڈر نہیں ان روحوں سے بچانے کے لیے تو یہ ایک کوڑی ہی کافی ہے۔
گانٹھ سے کھول کر اس نے پیاز کو چھوا اور اپنے دل کو مضبوط کر لیا۔ پیاز کے جادو
پر اسے یقین تھا۔
جاؤ جاؤ، اور بدکردار روحو، اس نے چلّا کر کہا،
اسی غار میں جاؤ جہاں تمھارے جسم پڑے ہیں۔ ایک رین سالی کا کیوں، میں نے تو سینکڑوں
لڑکیوں کا بدلہ لیا ہے۔ تمھارے کالے پاپوں کا بدلہ۔ جاؤ جاؤ تمھارے سر اب تمھیں نہیں
مل سکتے۔۔۔ اسے یقین تھا کہ آخر خون نے اپنا اثر دکھایا۔ وہ انتقامی خون جو اسے
ورثہ میں ملا تھا۔۔۔
کانور اُٹھا کر وہ پھر اپنی منزل کی طرف چل
پڑا۔ روحیں پیچھے ہٹ گئیں تھیں۔
ناپاک روحیں۔ اس نے تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے
زور کا قہقہہ لگایا۔ قہقہہ، جو ہتھوڑے کی چوٹ کا حکم رکھتا تھا۔ بدکردار روحیں! اب
وہ میرا پیچھا نہیں کر سکتیں اس نے کانور کے پلڑوں میں پڑے ہوئے سروں کی طرف دیکھا
اور روہی کے خیال میں کھو گیا۔ اس نے بدلہ لے لیا۔ رین سالی کا بدلہ اور پھر وہ اور
سوچنے لگا کہ روہی کہے گی۔ اور شمو، میری آواز میں تو سو سو گیت گھلے ہوئے ہیں۔ گویا
اسے روہی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔۔ سوسو گیت کیوں نہ گھلے ہوئے ہوں تمھاری آواز
میں روہی- وہ بولا اری جب تو بچی تھی تو پہلے پہل ماں نے تجھے بلبل کا گوشت کھلایا
ہو گا۔۔۔ تو کیا میں سچ مچ بلبل کی طرح چہکتی ہوں، رشمو؟- اور پھر یکبارگی جیسے
بہت سی چیخیں فضا میں گونج اُٹھی ہوں جیسے روہی کی جادو بھری آواز ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے اس شور میں گھل مل گئی ہو۔
تاروں کی بھیگی بھیگی چھاؤں ختم ہوتی گئی۔ وہ
پگڈنڈی پر چڑھتا چلا گیا۔ ابھی سورج نکلنے میں دیر تھی۔ اس نے سوچا رین سالی اسی
طرح اپنی جھونپڑی کے قریب چٹان پر بیٹھی ہو گی۔ ابھی تک اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں
میں چمک پیدا نہ ہوئی ہو گی۔ جب سے جان چھڑا کر واپس آئی ہے، وہ کسی سے بات بھی نہیں
کرتی۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش ہو جائے گی۔ میں اس کے دشمن کا سر اس کے قدموں میں رکھ
دوں گا۔
اسے پگڈنڈی پر غصّہ آنے لگا۔ ابھی اور کتنے موڑ
آئیں گے۔ اسے خیال آیا کہ شاید ان سروں میں اس مردود کا سر نہ نکلے۔ یک بیک کانور
بوجھل ہو گئی۔ وہ تھک چکا تھا۔
اُوپر کو اُٹھتی ہوئی پگڈنڈی پھر نیچے اُترنے
لگی۔ وہ رُکا نہیں۔ اگلے موڑ سے پگڈنڈی پھر اُوپر کو چڑھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں
رین سالی کی ساکت و جامد نگاہیں پھر گئیں۔ کیا اب اس کی نگاہیں ہمیشہ ساکت و جامد
نظر آئیں گی؟
اب وہ اس اونچی چٹان کے قریب پہنچ چکا تھا جس
کے اس پار روہی اور رین سالی کی جھونپڑی تھی۔ اسے یقین تھا کہ روہی اسے دیکھ کر
بھاگی چلی آئے گی اور کہے گی- رشمو، میرا رشمو، سروں کا شکاری رشمو! تیز تیز قدم
اُٹھاتا ہوا وہ چلا جا رہا تھا۔ پورب میں سورج نکل آیا تھا۔ وہ چٹان بہت پیچھے رہ
گئی تھی۔ اور اب روہی اور رین سالی کی جھونپڑی نظر آ رہی تھی۔
رین سالی سورج کی طرف منہ کیے بیٹھی تھی، جیسے
وہ اس ٹھِگنی سے چٹان کی شہزادی ہو۔ سورج کی پہلی کرنیں اس کے غمزدہ چہرے پر سونے
کا پانی پھیر رہی تھیں۔ روہی اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے یوں کھڑی تھی، جیسے
وہ اس کی کالی کالی آنکھوں میں حسن کی نئی کروٹوں کا منظر دیکھنا چاہتی ہو۔
یونہی رشمو نزدیک پہنچا روہی نے دوڑ کر اس کا
استقبال کیا۔ سورج کی پہلی کرنوں میں کانور کے پلڑے چمک اُٹھے تھے۔
سر، اتنے سر، وہ بولی، رشمو، میرا بہادر رشمو!
رین سالی اسی طرح اس ٹھگنی چٹان پر بیٹھی رہی جیسے
اسے رشمو سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ رشمو نے کانور اُتار کر چٹان کے قریب روہی کے
قدموں میں رکھ دی۔
سورج کی کرنیں رین سالی کے جسم پر پھیل رہی تھیں۔
جنگلی کیلے کے بیجوں کی مالا اس نے نہ جانے کہاں اُتار پھینکی تھی۔ اب تو اس کے
بازوؤں میں کہنیوں سے اوپر جست کے بازو بند بھی نظر نہ آتے تھے۔ دونوں بہنوں کے
جسم پر صرف وہی ایک کپڑا تھا جو کمر سے گھٹنوں تک لٹک رہا تھا۔ ادھر جب سے رین سالی
کا ’’ست‘‘ لٹ چکا تھا اس نے اپنے جسم کی طرف کچھ توجہ ہی نہ دی تھی۔ روہی نے بھی
مناسب نہ سمجھا تھا کہ اپنے جسم کو تیل سے چمکائے۔ اب اسے اپنے بازو بند دیکھ کر
شرم محسوس ہوئی۔ جنگلی کیلے کے بیجوں کی مالا بھی اسے بدصورت معلوم ہونے لگی۔ روہی
جلدی جلدی کانور کے دونوں پلڑوں سے رسیوں کا جال کھول رہی تھی۔ خوشی خوشی، ایک سر
نکال کر اس نے رین سالی سے پوچھا- ’’کہیں یہی تو اس پاپی کا سر نہیں، رین سالی؟‘‘
رین سالی کچھ نہ بولی۔ روہی نے خود کہا- ’’یہ
اس کا سر نہیں ہو سکتا۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی نگاہیں اس پر گڑ گئیں۔ پھر اس نے
آہستہ سے اسے ایک طرف زمین پر رکھ دیا۔
رشمو خاموش کھڑا روہی اور رین سالی کے چہروں کا
جائزہ لیتا رہا۔
دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، ان میں روہی کو
وہ سر کہیں نظر نہ آیا۔ رین سالی کی ساکت و جامد نگاہوں میں زندگی کے آثار پیدا
ہوتے نظر نہ آتے تھے۔
رشمو نے اکھڑی اکھڑی آواز میں کہا: ’’تو گھبراؤ
مت، رین سالی، میں پھر جاؤں گا میں ہزار بار جاؤں گا۔ کوئی پروا نہیں، میں نے بھی
ماں کا دودھ پیا ہے۔ میں اپنے خون کی پکار سن سکتا ہوں۔‘‘
روہی کانور سے سر نکال نکال کر بڑے غور سے دیکھتی
جاتی تھی۔ بولی۔ ’’کیا ان میں وہ سر نہیں ملے گا؟ رشمو، تجھے پھر جانا ہو گا۔ تجھے
تو انکار نہ ہو گا۔ لیکن کیا میں تیری جان پھر جوکھوں میں ڈالوں گی؟‘‘
پھر ایک سر نکال کر وہ دیر تک اسے دیکھتی رہی۔
جیسے یہ اسی مردود کا سر ہو۔ اس نے کئی بار رین سالی سے پوچھا۔ وہ حیران تھی کہ اس
مردود کی پہچان رین سالی کو اتنی جلدی کیسے بھول گئی۔
رین سالی کے چہرے پر پیلاہٹ کی تہ موٹی ہوتی
جاتی تھی۔ آنکھوں میں مُردنی چھا رہی تھی۔ لب ساکت تھے، جیسے وہ پتّھر سے تراشی گئی
ہو۔
رشمو نے ایک بار پھر اسی اکھڑی اکھڑی آواز میں
کہا- ’’رین سالی، میں پھر جاؤں گا۔ میں ہزار بار جاؤں گا۔‘‘
روہی نے نیا سر نکالتے ہوئے چمک کر کہا- ’’یہ
بھی نہیں تو اور نکالتی ہوں ابھی تو کئی سر باقی ہیں۔‘‘
روہی نے ایک ایک کر کے کئی سر نکالے۔ لیکن وہ
مایوس ہوتی گئی- فضا میں خون کی بُو سما گئی۔ انسانی سروں کا ڈھیر بہت بھیانک
معلوم ہوتا تھا۔ وہ سب جذبات جو عین مرتے وقت ان لوگوں کے دل و دماغ کو چھو گئے
ہوں گے اب ان کے چہروں پر ساکت و جامد نظر آتے تھے۔
روہی مایوس ہو کر قریب ہی دوسری چٹان پر جا بیٹھی۔
رین سالی اپنی جگہ سے ذرا نہ ہلی۔
رشمو نے دیکھا کہ ابھی کانور میں تین چار سر
اور پڑے ہیں۔ وہ کانور کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے ایک سر نکال کر رین سالی کو دِکھایا
اور پوچھا- ’’یہ تو نہیں؟ ۔۔۔‘‘ ایک لمحہ کے لیے وہ اسے گھورتی رہی اور پھر ڈھیر
اس نے اسے پر پھینک دیا۔
اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ پھر جانا ہو گا۔
ایک بار نہیں سو بار ہزار بار۔ ڈرتے ڈرتے اس نے آخری سر نکالا۔ اسے دیکھتے ہی رین
سالی اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اس وقت اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ جیسے اس کے ذہن میں سب
یاد تازہ ہو رہی ہو۔ رین سالی نے آگے بڑھ کر یہ سر رشمو کے ہاتھ سے لے لیا۔ وہ اسے
غور سے دیکھتی رہی۔ معاً اس نے اس پر تھوک کر اسے زمین پر پھینک دیا۔
رشمو نے خوشی سے چلّا کر کہا۔ ’’ارے یہی تھا وہ
کمینہ؟‘‘ اسے تو میں نے سب سے پہلے مارا تھا۔ باقی بیس تو میں نے بعد میں دبوچے
تھے۔ اس کے کوٹ پر ایک تمغہ بھی تھا۔‘‘
گانٹھ کھول کر رشمو نے وہ تمغہ رین سالی کو
دِکھایا۔ یک لخت رین سالی کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ اس نے ایک لمبا سانس کھینچتے
ہوئے غرور سے سر اٹھایا، ایک لمحہ کے لیے کٹے ہوئے سر کی طرف غور سے دیکھا اور وہ
پوری طاقت سے چلّائی:- ’’بزدل!‘‘
روہی بُت کی طرح خاموش کھڑی تھی۔ دوسرے لمحے میں
اس نے دیکھا کہ زمین پر پڑے ہوئے سر کو رین سالی نے زور سے ٹھوکر ماری اور وہ
لڑھکتا ہوا پرے کھڈ میں جا رہا تھا۔ رین سالی کے زرد چہرے پر مسرت ناچ رہی تھی۔ ایسا
معلوم ہوتا تھا کہ اسے اس کی کھوئی ہوئی دوشیزگی واپس مل گئی۔
٭٭٭
شبنما
بتّیاں جل چکی ہیں۔ چکلے میں رات ذرا پہلے ہی
اتر آتی ہے۔ شبنما ایک چالیس بیالیس برس کی عورت اپنے گال رنگ کر، ہونٹ رنگ کر
کُرسی پر آ بیٹھی ہے۔ دھیرے دھیرے اُس کے ہونٹ ہلتے ہیں، کچھ نہ کچھ گنگنا رہی ہو
گی۔ بیاہ میں کیا دھرا تھا؟ یہاں تو روز بیاہ ہوتا ہے نئے آدمی سے، گھڑی گھڑی۔ وہ
ایک اچھی عورت ہے، نئے لٹھّے کی شلوار پہن کر تو وہ ضرور اچھی نظر آتی ہے۔ اچھی ہی
نہیں، جوان بھی اور نہیں تو۔ جوانی ابھی گئی تھوڑی ہی ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر
بھی کچھ عمر ہوتی ہے؟ ۔۔۔
اس کی آنکھوں میں ایک مسکراہٹ لہرا جاتی ہے۔ گلی
سے گزرنے والوں پر اُس کی تنقیدی نگاہیں برابر اُٹھتی رہتی ہیں۔
اچھا خاصہ کمرہ ہے۔ بچاری دیواریں بہت بوسیدہ
ہو رہی ہیں۔ سامنے کی دیوار کی ننگی، کالی کلوٹی اینٹیں ایک صدی پہلے کی یاد دلا
رہی ہیں۔ جانے کِس بھٹّے پر تیار ہوئی ہوں گی، جانے کِس نرخ پر خریدی گئی ہوں گی۔
شبنما شایدایسی کسی بات کا جواب نہ دے سکے۔ طاق میں دِیا روشن ہے۔ دِیے کی لَو
تھرتھرا رہی ہے۔ دِیے کی قیمت بہت زیادہ تو نہ ہو گی۔ اور شبنما کی قیمت-یہ تو
ظاہر ہے- اِدھر بہت کم ہو گئی ہے۔ مگر دِیے سے تو کہیں زیادہ ہو گی اب بھی۔ ہر چیز
کی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ اس مکان ہی کو لیجیے۔ یہ چکلے میں نہ ہوتا تو اس کا کرایہ بہت
ہی کم ہوتا۔
یہ کانگڑی، جس میں کوئلے دہک رہے ہیں، کسی کشمیرن
سہیلی سے مِلی ہوئی چیز ہے۔ زانوؤں پر رکھی ہوئی کانگڑی کے قریب مُنہ لے جا کر جب
وہ پھونک مارتی ہے تو اُس کے گال گرم ہو جاتے ہیں، ہونٹ اور بھی گرم ہو جاتے ہیں۔
اُس کی آنکھوں میں پھر ایک مسکراہٹ لہرا جاتی ہے۔ اُس کے ہونٹ ہلتے ہیں دھیرے دھیرے،
جیسے وہ گنگنا رہی ہو۔ جاڑے میں کانگڑی کی قسمت چمک اُٹھتی ہے۔ کانگڑی ہی کی کیوں،
عورت کی بھی۔ اچھا رواج ہے کشمیر کا۔۔۔ وہ کشمیرن ہونے کا دھوکا تو نہیں دے رہی۔
دھوکا دے بھی تو نہیں سکتی۔ گال رنگ سکتی ہے، ہونٹ رنگ سکتی ہے مگر کشمیری آنکھیں
کس سے لے گی مانگے کی؟
سامنے والی ہمسائی تو بغیر کانگڑی کے بیٹھی ہے۔
بے پناہ جاڑے سے ٹھٹھرتی اوڑھنی کو اپنے جسم کے گرد کستی، وہ جانے کیا سوچ رہی ہے،
شبنما اُس کی طرف دیکھتی ہے تو اُسے وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب وہ بھی چکلے میں نئی
نئی داخل ہوئی تھی۔ جوانی خود گرم ہوتی ہے، خود ایک کانگڑی۔ یوں جوانی چلی تو نہیں
گئی ابھی۔ ضرورت پڑنے پر وہ بھی کانگڑی کے بغیر رہ سکتی ہے۔
اب کے جاڑا پچھڑ کے آیا ہے۔ آتے ہی پُوس کی یاد
دلا دی۔ جاڑا تو چکلے کا پُرانا دوست ہے۔ دوسرے موسموں میں بھی یہاں رات کو میلہ
لگتا ہے۔ مگر اس میلے پر پُورا جوبن جاڑے ہی میں آتا ہے۔
’’جاڑا
تو ابھی پڑے گا اور۔‘‘
’’ہاں،
ہاں، جاڑا تو ابھی پڑے گا اور۔‘‘
’’چاند
بھی سہما جاتا ہے- زرد، خاموش چاند!‘‘
’’اور
کتنا چمکے گا جاڑے کا چاند؟‘‘
سچ ہے۔ اور کتنا چمکے گا جاڑے کا چاند؟ زیادہ
روشنی یہاں چاہیے بھی تو نہیں۔ یہاں بیویوں کے خاوند چلے آتے ہیں۔ ہونے والی بیویوں
کے ہونے والے خاوند بھی، اسی طرح کتنے ہی فرشتے اور شیطان بھی، جنھیں بیویاں نصیب
ہونے کی کوئی اُمید نہیں رہی۔ اور تو اور مفلس اور بیمار آدمی بھی، جیبوں میں اپنی
کمزور کمائی ڈالے، اِدھر آ نکلتے ہیں۔ پیٹ کی بھوک بھی ہو گی، مگر اس جنسی بھوک سے
اس کا مقابلہ ہی کیا؟ ۔۔۔ اور یہ رات کی دُلہنیں ہیں کہ اپنی رضامندی کا مول لگاتی
ہیں۔ دام کھرے نہ کریں تو کھائیں کہاں سے؟ عجیب مزدوری ہے یہ بھی۔
شبنما اپنے کمرے کی بوسیدہ چھت کی طرف دیکھتی
ہے اور سوچتی ہے کہ اس کا جسم بھی بوسیدہ ہو چلا ہے۔ بار بار اُس کا ہاتھ پیشانی
پر آ ٹِکتا ہے، جہاں جھُریوں کا جال بُنا جا رہا ہے دھیرے دھیرے۔ کس مکڑی کی
کارستانی ہے یہ؟ وہ بہت ٹٹولتی ہے، مکڑی کہیں ہاتھ نہیں لگتی۔ پھر اس کا ہاتھ
گالوں پر آ ٹِکتا ہے، جہاں ہڈیاں اُبھر رہی ہیں- اُونٹ کا کوہان سا بنتا جا رہا ہے
دونوں طرف! نہیں نہیں، ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی کچھ
عمر ہوتی ہے۔ اُس کی آنکھیں تو سدا جوان رہیں گی۔ اِتنے برسوں سے وہ اِن میں ممیرے
کا سُرمہ ڈالتی آئی ہے۔ البتہ بھوکی ضرور ہے وہ! بھوک کو جھٹلانا تو آسان نہیں۔
اُس کی ہمسائی نے چائے منگوائی ہے ابھی ابھی۔
گرم چائے جسم کو گرم رکھتی ہے جاڑے میں۔ ٹھیک تو ہے۔
’’تھوڑی
تم بھی پی لو، شبنما!
’’میں
نہ لُوں گی ابھی خورشیدؔ، بس پیو شوق سے۔‘‘
’’اچھا
تو ایک سموسہ ہی قبول کر لو۔‘‘
’’ضرورت ہوتی تو خود مانگ لیتی۔ بس کھاؤ شوق
سے۔‘‘
شبنما اپنی اُداسی کو چھُپانے کی کوشش کرتی ہے۔
انصاف، آزادی اور انسانیت بہت بڑی باتیں ہیں۔ امدادِ باہمی کا درجہ بھی کچھ کم نہیں۔۔۔
مگر کمائی ہونی چاہیے اپنی۔ اپنا پیٹ، اپنی چائے۔۔۔ روٹی، سب کچھ۔۔۔ خود داری تو
تبھی قایم رہتی ہے۔ کب بُجھتی ہے زندگی کی بتّی، خود داری کی بتّی؟ ۔۔۔ جب سپنو کی
تکمیل میں ذرا یقین نہ رہے۔۔۔ سپنوں کو بھی چھوڑیے۔۔۔ بھوک کا علاج تو ہوتا رہے۔
دو ۲اور دو ۲؟- معلوم نہیں کس نے کسی بھوکے سے پوچھا۔ چار روٹیاں، اُس نے جواب دیا۔
بھوکا آدمی اور کسی پہلو سے سوچ ہی نہیں سکتا۔
اُسے اپنے رنگے ہوئے گالوں پر غصہ آنے لگتا ہے۔
رنگے ہوئے ہونٹوں کو چُوس کر وہ اُن کا رنگ تھوک دینا چاہتی ہے۔ کسی کو اِن گالوں
کی ضرورت نہیں۔ نہ اِن ہونٹوں کی۔ بے کار ہی پاؤڈر ملتی رہی، سُرخی ملتی رہی۔ آج ہی
نہیں، کل بھی اور پرسوں بھی۔ تین دن سے کوئی شریف آدمی اندر نہیں آیا، نہ شریف، نہ
بدمعاش۔
’’کیا
سے کیا حال ہو گیا دُنیا کا۔ دیکھنے والے سَو آتے ہیں، دس چھوڑ، بیس چھوڑ، پچاس پھیرے
لگاتے ہیں۔ کوئی دام پُوچھ کر ہی جھٹ سے پرے ہٹ جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ-؟
’’سمجھ
میں کیا آئے خاک؟ بُرا حال ہے۔ پرسوں تین آئے- تین سواریاں!۔۔۔ کل صرف ایک، اور آج
ایک کی بھی آس ختم ہو رہی ہے۔ حالانکہ سب دیکھتے ہیں نیا مال ہے، گدرائی ہوئی جوانی۔‘‘
بھوک ہمیشہ زندگی کی ہتک کرتی آئی ہے۔ کئی صدیوں
سے، اَن گِنت نسلوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کتنی سُکڑ جاتی ہے دُنیا جب بھوکے پیٹ
کے اندر روٹی کا ایک بھی ٹکڑا نہیں جا پاتا۔
شبنما، دِیے کی تھرتھراتی لَو کی طرف نگاہ
اُٹھاتی ہے۔ تیل ہے تو دِیا ہے۔ روٹی کے بغیر کیسا حُسن، کہاں کی جوانی، مگر نہیں،
ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر کی بھی کچھ عمر ہوتی ہے؟
اُدھر سے ایک قوی ہیکل، لمبا تڑنگا آدمی آ نکلتا
ہے ’’لاؤ کرایہ!‘‘وہ بلند آواز سے کہتا ہے۔ آج تو تیار نہیں۔‘‘
’’تیار
نہیں؟ نیا مہینہ تو شروع بھی ہو گیا۔‘‘
’’دینے
سے تو انکار نہیں- آج ہی چاہیے تو چھ روپے لے جا۔‘‘
’’اور
ایک روپیہ گرہ سے ڈالوں؟‘‘
’’سات
تو نہیں میرے پا س- اور سُن۔۔۔ لوگ مجھے دو روپے دیتے ہیں۔ آٹھ دس رات بھر کے لیے-
تُو آج رات یہیں رہ لے۔۔۔ کرایہ ورایہ کیا مانگتا ہے؟ ۔۔۔‘‘
’’اری
واہ ری بُوڑھی گھوڑی۔ اچھا لا چھ ۶تو
نکال۔ ایک کل مل جائے ضرور۔ مالک بھی سچا ہے۔ جس کی کھولی میں بیٹھ کے رُوپ کے ہاٹ
لگا رکھی ہے وہ بھاڑا تو مانگے گا ہی وقت پر۔‘‘
شبنما چھ روپے نکال کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیتی
ہے، اور وہ قوی ہیکل، لمبا تڑنگا آدمی مونچھوں پر تاؤ دیتا ہوا اور شبنما کی سامنے
والی ہمسائی کی طرف گھورتا ہوا دُور نکل جاتا ہے۔ ابھی تک اس کی اُونچی آواز شبنما
کے کان میں گونج رہی ہے۔ معاً یہ سوچ کر کہ قصور تو اصل میں اُس دائی کا ہے جس نے
اس کے حلق میں اُنگلی ڈال کر اسے اپنے ہی حساب کے مطابق چوڑا کر دیا تھا، وہ اُس کی
زبان درازی کو معاف کر دیتی ہے۔
’’ایسے
لوگوں سے خدا ہی بچائے شبنما!۔۔۔ اور یہ جوان تو پورا لٹھیت ہے کوئی۔‘‘
’’ہاں
لٹھیت۔‘‘
’’وہ
تو تمھاری طرف اس طرح لپک کر آیا تھا جیسے تم کوئی عورت نہیں ہو بلکہ ایک کبوتری
ہو اور اس کے چھتنارے سے اُڑ کر اِدھر آ بیٹھی ہو۔ مجھے تو بہت غصّہ آتا ہے ایسے
لوگوں پر۔‘‘
’’غصّہ
تو آئے گا ہی۔‘‘
کوئی نہیں دیتا دام رُوپ جوانی کے۔ تیل ہو تو
دِیا جلتا ہے۔ روٹی ہے تو جسم ہے۔ شبنما کی آنتیں منمنا رہی ہیں۔ ہمسائی سے چائے پی
لی ہوتی۔ ایک آدھا سموسا کھا لیا ہوتا۔ اب وہ چائے نہ پلائے، سموسا نہ کھلائے، مٹھی
بھر مونگ پھلی ہی منگوا دے۔ مونگ پھلی نہیں تو پیسے کی مکّی ہی لے دے۔
کرسی سے اُٹھ کر وہ چبوترے پر آ گئی ہے۔ کاش
کوئی سواری آ جائے۔ کون اَیسا شریف آدمی ہو گا جو کچھ کچھ آنکھیں میچ کر اس کی طرف
دیکھے اور وہ اس کی نگاہ میں جچ جائے۔ کوئی آئے تو سہی۔ وہ اس کے ساتھ کوئی دام نہ
چکائے گی، گھڑی کی گھڑی وہ اُس کی بیوی کی طرح ہی لاج بھر آنکھوں سے اُسے دیکھے گی۔۔۔
کیا ہو گیا مجھے آج؟ کوئی آ کیوں نہیں جاتا، کوئی شریف آدمی، کوئی بدمعاش؟ دونوں میں
جون سا بھی ہو۔۔۔ وہ چاہے تو پاس کی دُکان پر جا سکتی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو مِل ہی
سکتا ہے مانگنے پر۔ اُدھار تو اُدھار، بھوکا پیٹ تو چوری تک کی صلاح دے دیتا ہے!
نہیں نہیں اُسے کسی سواری کا انتظار ہے، سواری ضرور آئے گی۔
وہ پھر اپنی کرسی پر جا بیٹھتی ہے۔ گلی سے
گزرنے والوں کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ساگر تٹ پر بیٹھی کوئی
اپسرا لہریں گن رہی ہے۔ لیکن کوئی اپسرا شاید کبھی یوں بھوکی نہ رہی ہو گی۔ کوئی
نہ کوئی لہر تو اُس کے پاؤں کو چھو ہی سکتی ہے۔ لیکن اُس کے پاؤں تو سُوکھے ہیں۔
اس کے پتلے اور خشک ہونٹ برابر کانپ رہے ہیں۔ دِیا ٹمٹما رہا ہے۔ اتنی روشنی کچھ
کم تو نہیں۔ کانگڑی ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ اسی طرح ایک دن یہ دل بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔
پھر نہ بھوک ہو گی نہ اسے مٹانے کی چنتا۔ دِیا بھی پھر جلے نہ جلے۔۔۔ لیکن نہیں،
وہ زندہ رہے گی۔ اس کا حُسن زندہ ہے اب تک۔ دِیا بھی جلتا ہے اب تک۔ کانگڑی میں
پھر دہکیں گے کوئلے، پیٹ بھی پالے گا اپنا ایندھن۔ سواری ضرور آئے گی۔ یہ انتظار ہی
کیا کم وجہ ہے جینے کی۔۔۔ کوئی آئے تو سہی۔ خدا بھی مرگیا ہے آج- شیطان بھی مرگیا۔
میرے لیے ہر کوئی مر گیا۔ مجھے بھی مر جانا چاہیے، قبر کی مٹی تلے دب جانا چاہیے۔
ایک بھوکی عورت کب تک زندہ رہ سکتی ہے؟ ۔۔۔ جذبات کی رَو میں اُس کی آنکھیں نمناک
ہو گئی ہیں۔ ہونٹ یخ ہو رہے ہیں۔ ہونے دو۔ پروا نہیں۔ کسی کو پسند ہی نہیں آیا رنگ
اِن کا۔ اور گال- رنگے ہوئے گال بھی یخ ہو رہے ہیں۔ کسی نے آ کر ان پر اپنے اپنے
گرم گرم ہونٹ نہیں رکھے۔ نہیں، نہیں، یہ بات نہیں۔ پیٹ کا دوزخی تنور ٹھنڈا ہو گیا
ہے وہی تو سارے جسم کو گرم رکھتا ہے۔
آئینہ اُٹھا کر وہ اپنی شکل دیکھتی ہے۔ حُلیہ
بگڑ رہا ہے۔ ایک مرمّت طلب گھڑی کی طرح۔ اُسے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دل کی ہلکی
ٹِک ٹِک بھی ختم ہو رہی ہے۔ کاش کوئی گھڑی ساز آ جائے۔ نہیں نہیں، مجھے کسی گھڑی
ساز کی ضرورت نہیں۔ خمیری روٹی کے چند ٹکڑے کافی ہوں گے بس۔ ساتھ میں اچار نہ ہو
تو نہ سہی۔ پر سُوکھی روٹی کیسے نگلوں گی؟ ۔۔۔
ہوا ایک دم ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ یہ بس ایک ہی خبر
سُنارہی ہے کہ کہیں دُور اولے پڑے ہیں۔ ورنہ ہوا اتنی ٹھنڈی کیسے ہو سکتی تھی؟ اُسے
یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے سات ماہ کا حمل گر گیا ہو۔۔۔ حمل! ہا ہا ہا- ہنسا بھی تو
نہیں جاتا- بھوکی عورت کو کیسی کیسی باتیں سُوجھتی ہیں۔۔۔ سینے کے اندر ہاتھ ڈال
کر وہ اپنے پستانوں کو سہلاتی ہے۔ کس قدر لچک رہے ہیں یہ دونوں کبوتر۔ ٹھنڈسے مرے
ہی تو جاتے ہیں۔ نہیں نہیں۔ ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی
کچھ عمر ہوتی ہے۔
’’شبنما! شبنما!‘‘ خورشید آواز دیتی ہے۔ ’’اری کیا
سوچ رہی ہو آنکھیں بند کیے؟‘‘
’’کچھ
نہیں۔ بھوکا آدمی سوچ ہی کیا سکتا ہے؟- یہ پیٹ دوزخ -‘‘
’’سچ
ہے پیٹ سے بڑا دوزخ اور کوئی نہیں، نہ اُوپر نہ نیچے۔ اس میں ضرور پڑتا رہے کچھ نہ
کچھ۔ کیا کھاؤں گی؟‘‘
’’کچھ
نہیں خورشید! میں نے تو سرسری بات کی تھی۔ میں بھوکی تھوڑے ہی ہوں۔‘‘
’’ٹھنڈ
ہے ذرا۔ بس کچھ گرم گرم –‘‘
’’کیا
چیز؟‘‘
’’سموسے۔‘‘
’’سموسے!‘‘
’’تم
جانتی ہو شبنما! مجھے سموسے بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘
شبنما اُٹھ کر خورشید کے ہاں چلی جاتی ہے۔
دونوں مِل کر گرم گرم چائے پیتی ہیں۔ سموسے کھاتی ہیں۔ شبنما سموسے کو یوں پکڑتی
ہے جیسے یہ کوئی باغی ممولا ہے۔
’’اچھا
ہے یہ ممولا۔‘‘
’’ممولا؟‘‘
’’ممولا نہیں، سموسا۔ میں بھی ایک ہی پگلی
ہوں۔‘‘
گراموفون ریکارڈ کی آواز آ رہی ہے۔ ستاروں کے
آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ’’ستاروں کے آگے یا سموسوں کے آگے؟‘‘ شبنما پوچھتی ہے۔
’’ہاہاہا۔‘‘ خورشید ہنس کر کہتی ہے۔ ’’ان شاعروں
کی نظر ہمیشہ ستاروں سے شروع ہوتی ہے۔ بھوک بڑی زحمت ہے مگر۔ ہمارا حُسن زندہ ہے
اب تک تو اسی لیے کہ ہم دُنیا کو روٹی کے زاویے سے دیکھتی ہیں، پیٹ میں گھس کر
سودا کرتی ہیں۔ شریف آئے چاہے بدمعاش، ہمارے لیے دونوں برابر ہیں۔ ہمیں بس اپنی قیمت
سے غرض ہے۔ روٹی تو چاہیے آخر۔‘‘
’’اور
جب روٹی نہیں ملتی تو گویا نیکی بھی مر جاتی ہے، بدی بھی مر جاتی ہے، خورشید!‘‘
یہ تو سچ ہے۔ پھر نہ دن دن لگتا ہے، نہ رات،
رات۔‘‘
’’پھیپھڑوں
میں بھی تبھی تک سانس چلتا ہے، خورشید، جب تک آدمی کو روٹی ملتی رہتی ہے۔‘‘
’’سَو
سیڑھیوں کی ایک ہی سیڑھی ہے روٹی، شبنما! چار دن کی بھوک ہی سے ایک ایک رگ ڈاواں
ڈول ہو جاتی ہے۔‘‘
’’کوئی
آسمانی بادشاہت، کوئی جنّت کی دُنیا، کوئی نجات ممکن نہیں جب تک بھوک نہیں مٹتی۔‘‘
شبنما پھر اپنی کرسی پر آ بیٹھی ہے۔ وہ سوچتی
ہے کہ روٹی سب سے بڑی عیب پوش ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی عیب خود اسی کے لیے کیے
جاتے ہیں۔۔۔ جاڑا بھی بڑے مزے کا موسم ہے۔ دن چھوٹے رہ جاتے ہیں، کافی چھوٹے۔ راتیں
بڑی ہوتی جاتی ہیں۔ اب بھی اگر چکلے کی آمدنی میں اضافہ نہ تو بیچارے جاڑے کا کیا
قصور ہے۔ جاڑا آیا۔ ہمارے لیے کیا کچھ لایا؟ -نئے نئے گاہک لیتا آیا۔۔۔ کاش کہ
حُسن کے بازار کا ہر راہرو حُسن کا گاہک بن کر ہی ادھر قدم اُٹھایا کرے۔ کچھ عجیب
عجیب چہرے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ گال دیکھو تو سرے سے سُوکھے، سُکڑے، پچکے، جیسے
بھرتا کیے ہوئے بیگن، آنکھیں اندر ہی اندر دھنسی جا رہی ہیں۔ مگر ہمیں تو پیسہ چاہیے۔
شبنما کانگڑی میں کوئلے دہکا رہی ہے۔ دِیے میں
بھی اُس نے تیل ڈال دیا ہے، بتّی اُکسا دی ہے۔ مُنہ دھو کر اُس نے پھر سے گالوں پر
پاؤڈر کر تہ جمائی ہے، سُرخی ملی ہے، ہونٹ بھی رنگ ڈالے ہیں۔ بالوں میں پھر سے
کنگھی کی ہے اور بائیں طرف کی زُلف پر ایک پُرانی شیشی سے مہندی کے عطر کی آخری دو
بوندیں نکال کر لگا لی ہیں۔ وہ بھی رات کی کسی دوسری دُلہن سے کم نہیں۔ ابھی تو وہ
کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی کچھ عمر ہوتی ہے۔ ابھی تو بہت سے لوگ آ
جا رہے ہیں گلی میں۔ پُرانے پاپی تو بلکہ آتے ہی ذرا دیر سے ہیں۔ دوسرے کاموں سے
پوری طرح فارغ ہو کر۔
اسے اپنے گالوں پر کسی کے غیر مرئی ہونٹوں کا
لمس محسوس ہو رہا ہے۔ خدا کی دُنیا میں عاشقوں کی کیا کمی ہے؟ سارے شہر سے الگ یہ
چکلا کتنا گرم ہے؟ ۔۔۔ آدم کے بیٹے اِن رات کی دُلہنوں کو لتاڑ کر دور نکل جاتے ہیں۔
ان عورتوں کے پاس رہ جاتا ہے کچھ کچھ دُکھ درد یا تھکان- یا پھر چاندی کی گرمی۔
دِیا ٹمٹماتا ہے۔ شبنما کا دھیان نہ جانے کِدھر
چلا گیا ہے۔ وہ گویا یکلخت اُفق کے پار دیکھنے لگتی ہے جہاں اُسے بادلوں کے نیچے کیکر
اور شیشم میں گھِرے ہوئے گھر نظر آتے ہیں۔
جس روز وہ اپنے گاؤں سے بھاگ کھڑی ہوئی تھی، یہ
درخت پھل سے لد رہا تھا۔ اور جب وہ بھاگنے سے پہلے روز شہتوت کھا رہی تھی اُسے بار
بار یہ خیال آیا تھا کہ گھر سے بھاگ جانا آسان نہیں۔ اس کی قلم اُس نے اپنے ہاتھ
سے لگائی تھی۔ تین سال کے عرصے میں وہ خود بھی کتنی بدل گئی تھی۔ بارھویں سال سے تیرھویں
سال میں پیر رکھنے کے روز اُس کا بھائی خیرگل نہ جانے کہاں سے اتنے میٹھے شہتوت کی
قلم لیتا آیا تھا۔ اسے پانی دے دے کر وہ روز اس کے نئے نئے پتے نکلنے کا نظارہ کیا
کرتی۔ اس کا بھائی بہت چاہتا کہ کبھی کبھی وہ بھی اس ننھّے پیڑ کو پانی پلائے۔ مگر
شبنما کی اجازت کے بغیر وہ شاید کبھی اس پر اپنا پیار ظاہر نہ کر سکا۔ بڑا اچھا
بھائی تھا، بہن کی چیز بہن کی رہنے دی۔
اتنے برسوں کے بعد بھی شبنما کو اپنا شہتوت
بھولا نہیں۔ اب تو یہ شہتوت بہت بُوڑھا ہو گیا ہو گا، گِر تو نہ گیا ہو گا۔ بڑی
گہری قلم لگائی تھی اس نے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اُس کے سامنے یہ شہتوت گاؤں کے کسی
حسّاس دانا کی طرح نمودار ہو جاتا ہے۔
جب وہ یہ قلم لگا رہی تھی اس کی ماں نے دُعا کی
تھی کہ ’’او دو عالم کے خالق! اس شہتوت کا خاص خیال رکھیو، اس کی عمر دراز کیجیو۔‘‘
اس کا باپ کھِلکھلا کر ہنس پڑا ’’اری پگلی دُعا ہی کرنی ہے تو شبنما کے لیے کر۔
کہہ ’’او دو عالم کے خالق! میری بیٹی کو گاؤں کی سب لڑکیوں میں ممتاز بنا دے۔‘‘
اپنے باپ کے مُنہ سے یہ الفاظ سُن کر شبنما کو بے حد خوشی ہوئی تھی۔ یہ کوئی مذاق
تو نہ تھا۔ بلکہ اس کا تو یہ خیال تھا کہ اس کا باپ، زبان پر یہ الفاظ لانے سے پیشتر
ہی، خدا کے حضور میں خود یہ دُعا کر چکا تھا۔
ماں بھی شبنما کو بہت چاہتی تھی۔ کبھی کبھی
اُسے شبنما کے چہرے کے خطوط دیکھ کر اپنے گزشتہ خاوند کی یاد آ جاتی۔ وہ زندہ رہتا
تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر، اپنے خیرگل کو دیکھ کر میری اصل قیمت پہچان لیتا۔ خیرگل
کا چہرہ اُس کے اپنے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا مگر شبنما کے چہرے پر اُسے ذرا بھی
اپنا عکس نظر نہ آتا تھا۔ کئی بار چھُپ چھُپ کر وہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی اور
پھر اس سے شبنما کے پتلے سے چہرے کا مقابلہ کرتی۔ خدا کا کارخانہ بندوقوں کی دُکان
سے کتنا الگ قاعدہ رکھتا ہے، وہ سوچتی، ایک ہی فیشن کی بندوقیں چاہے کتنی بنوا لو،
خرید لو، مگر خدا شاید ہر بار سانچہ بدلتا ہے۔ ایک سے ایک صورت نہیں ملتی۔ اور پھر
یہ تو اور بھی غضب ہے کہ شبنما باپ کا چہرہ پا کر پیدا ہو جب کہ اس سے اڑھائی تین
سال پہلے خیرگل میرا اپنا رنگ رُوپ لے کر آیا تھا۔
دس گیارہ سال کی بیٹی ماں کو یہ رائے تو دے سکتی
تھی کہ وہ اس کے مرحوم باپ کی یاد کے پاکیزہ چہرے کو نوچ کر اُسے مکروہ نہ بنا دے۔
حق تو یہ ہے کہ جب پہلے روز ماں نے نئے باپ سے شبنما کا تعارف کرایا، اُسے کبھی
بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اس کی ماں پھر سے جوان ہو کر، گزشتہ یاد کو کسی
غیر مرئی صندوق میں بند کر کے، اُس کے نئے باپ ہی کو اپنا سب کچھ سونپ دے گی۔ نئے
باپ نے شبنما کو دیکھتے ہی سینے سے لگا لیا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ میری اولاد کو
چاہتا ہے تو مجھے تو کبھی نہیں ٹھکرائے گا خان، اسی خیال نے اس کی نگاہ کو رنگ دیا۔
شبنما کو بھی خان کے ہاتھوں میں ہمدردی اور پدرانہ شفقت کی گرمی محسوس کر کے بڑی
تسلّی ہوئی۔ خیرگل بالکل چُپ رہا۔ ایک کُرتا پھٹ کر چیتھڑے چیتھڑے ہو کر گر گیا، نیا
کُرتا پہن لیا گیا۔ اس میں کیا برائی ہے؟ ماں تو بہت سمجھدار ہے- شبنما نے بھائی
کا خیال جھٹ بھانپ لیا۔
دن بدن وہ شہتوت بڑا ہو رہا تھا۔ اُس کے نئے
پتّوں اور نئی ٹہنیوں کو دیکھ کر شبنما کو یہ دھیان آتا کہ وہ خود بھی زمین سے رَس
کھینچنا سیکھ گئی ہے اور اس کی رگوں میں صرف لہُو ہی نہیں دوڑتا، بلکہ شہتوت کے رگ
و ریشے کی طرح اُس کا بدن بھی زمین کی سوندھی سوندھی خوشبو کو قبول کر رہا ہے، اُس
کے دل میں بھی کھیتوں کی دھڑکن پیدا ہو جاتی ہے۔
خان کی نگاہ خواہ مخواہ شبنما کی طرف اُٹھ جاتی۔
وہ شاید اُسے اُسی خلوص سے دیکھتا جس سے وہ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے شہتوت کو دیکھتی۔
ٹھیک تو تھا۔ شبنما شہتوت کی کونپلوں کو چھو کر دیکھ سکتی تھی اور آزاد علاقے کا
پٹھان اپنی نئی بیوی کی شریف بیٹی کو جو در اصل اُس کی اپنی اولاد نہ تھی، پنجابیوں
کی طرح ’’پچھوتری‘‘ کہہ کر حقارت کی نگاہ سے تو نہ دیکھ سکتا تھا۔ بلکہ وہ اس پر
ہاتھ پھیر نا ضروری سمجھتا۔ جیسے وہ اس کی اپنی بیٹی ہو۔ اپنی ہی تو تھی۔ فرق تو
تب پڑتا ہے جب دل میں کفر بھر جائے۔ شبنما کی ماں- میری بیوی- شبنما- میری بیٹی۔
شہتوت کا تنا موٹا ہو رہا تھا۔ ٹہنیاں بھی
گدرائی ہوئی سی نظر آتی تھیں۔ تنے کو چھوتے ہوئے شبنما سوچتی کہ اس نئے گھر میں
آئے پہلا سال بیت گیا، دوسرا بیت گیا اور تیسرا بھی پورا ہونے کو ہے۔ خدا کا کتنا
بڑا فضل ہے، کتنا میٹھا پھل پیدا کیا ہے اُس نے۔
ماں سمجھاتی۔ ’’شبنما بیٹی! اتنے شہتوت نہ کھایا
کر۔‘‘
خان کہتا۔ ’’ہرج ہی کیا ہے؟ یہ تو خدا کا پھل
ہے۔‘‘
خیرگُل چپ رہتا۔
شبنما، خیرگل کے لیے بہت سے شہتوت جمع کر رکھتی۔
وہ ایک نہ چھوڑتا۔ بھائی ہو تو ایسا۔ جو بولے چاہے کم مگر بہن کی معمولی سے معمولی
پیشکش کو بھی قبول کر لے۔
خان کہتا۔ ’’شبنما! مجھے بھی ملنا چاہیے میرا
حصّہ!‘‘
ماں کہتی۔ ’’ٹِک کے بیٹھ بیٹی۔ خان نہیں کھائے
گا شہتوت۔‘‘
شبنما یہ نہ سمجھ سکتی کہ جب بھی خان شہتوت کی مانگ
پیش کرتا ہے، اس کی ماں جھٹ اُس کی زبان کیوں بند کر دیتی ہے۔
اس اثنا میں شبنما دو نئے بھائی کھو بیٹھی تھی۔
وہ زندہ رہتے تو شاید اس کا پیار بنٹ جاتا۔ اب خیرگل کے لیے اس کا دِل اور بھی
فراخ ہو گیا۔ بھائی ہو تو ایسا۔ خیرگل کتنا پیارا بھائی ہے۔ ہوں گے اور لڑکیوں کے
بھی بھائی، خیرگل سے مقابلہ ہی کیا کسی کا؟ وہ بندوق جو اُسے مرحوم باپ نے لا کر دی
تھی، اب تک اُس نے سنبھال کر رکھ چھوڑی ہے۔۔۔
اور دو بیٹوں کو کھو کر خان نے سمجھ لیا کہ خیرگل
ہی اب اُس کا بیٹا ہے۔ شبنما کا بھی وہ بہت خیال رکھتا۔ پشاور سے وہ اُس کے لیے
جاپانی سِلک کی قمیص سلوار کے تین چار جوڑے سِلا لایا تھا۔ کانوں کے لیے رولڈ گولڈ
کے آویزے لیتا آیا تھا۔ آج سبز قمیص سلوار پہن لے شبنما! آج نیلے رنگ کی پہننا۔ آج
سُرخ رنگ کی۔ شبنما کو بہت گھبراہٹ ہوتی۔ کپڑے کیا لائے ابّا جان، طوفان کھڑا کر دیا۔
آج یہ پہنو، آج وہ۔ بہتر ہوتا کہ لائے ہی نہ ہوتے۔ مگر وہ خان کا دِل رکھنا بھی
ضروری سمجھتی۔ آویزے تو وہ کبھی اُتارتی ہی نہ تھی۔ یہ اُسے خود بھی پسند تھے۔ ماں
لاکھ روکتی کہ روز کپڑے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ مگر شبنما ہر بات میں ماں کے حکم ہی
کو ترجیح نہ دے سکتی۔ لیکن خان کی ان فرمائشوں کو وہ بھی حیرت سے دیکھتی۔
شبنما کچھ ہی دنوں میں بہت لمبی ہو گئی تھی۔ جیسے
رات ہی رات میں سرسوں کا ڈنٹھل اُونچا اُٹھ جائے۔ بال تو کمر کو چھُو رہے تھے۔ یہ
کیسے بڑھتے رہتے ہیں، قدرت کی کوئی طاقت چرخہ کاتتی رہتی ہے۔ اس غیر مرئی چرخے کا
فنکار شبنما پر بہت خوش نظر آتا تھا، گال بھر گئے تھے۔ ہونٹ بھی گدگدے ہوتے جا رہے
تھے۔ سینہ بھی بھر چکا تھا۔ سپاٹ جگہ پر اُبھار آ گیا تھا۔
پہلے کبھی اُس نے آئینے میں صورت دیکھ کر اتنی
خوشی محسوس نہ کی تھی۔ خان اس کے لیے رولڈ گولڈ کے آویزے نہ لے آیا ہوتا تو شاید
اُسے اس کا خیال ہی نہ آتا۔ یہ آویزے یوں ہلتے تھے جیسے ٹہنیوں پر شہتوت جھوم رہے
ہوں۔ آئینہ دیکھتے دیکھتے وہ مسکراتی، شرماسی جاتی۔
مرحوم باپ کی یاد شبنما کو اب اتنی نہ آتی۔ باپ
ہونا چاہیے، پُرانا ہو یا نیا۔ خان کو اُس نے اپنے حقیقی باپ کی جگہ دے دی۔ لیکن
جب خان اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا اور ’’میری شبنما، میری اپنی شبنما‘‘ کی رٹ
لگانا شروع کر دیتا، وہ گھبراسی جاتی۔ وہ اسے اپنے سینے سے لگا لیتا۔ وہ اس کا نیا
باپ تھا۔ مگراُس کی ماں کو خان کی یہ حرکت پسند نہ تھی۔ کئی بار اُس نے اُسے روکا
بھی۔ مگر وہ کوئی پیش نہ جانے دیتا۔ شبنما کسی اور ماں کی بیٹی تو نہیں۔ شبنما کی
ماں- میری بیوی۔ شبنما میری بیٹی۔ وہ ہار مان لیتی۔ خان ایک بار پھر شبنما کی پیٹھ
پر ہاتھ پھیرتا عجب خلوص سے اُسے سہلاتا۔
ایک دن شبنما کی ماں چارسدے کے قریب ایک گاؤں میں
گئی، جہاں اُس کی بڑی بہن رہتی تھی۔ شبنما گھر میں اکیلی تھی۔ خان باہر سے آیا تو
وہ چُپ سا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایک عجب وحشت سی آتی گئی۔
شبنما سہم گئی۔ وہ ایک شِکرے کی مانند نظر آتا تھا جو کسی ٹھُنڈ پر بیٹھا کسی بھولی
بھٹکی چڑیا کی بے خبری کا انتظار کر رہا ہو۔ شبنما اپنا کام کرتی رہی۔
’’جلدی
سے آنا، شبنما!‘‘ کوٹھے کے اندر سے خان کی آواز آئی۔
شبنما، خان کے قریب جا کھڑی ہوئی تو وہ بولا۔
’’آج وہ صدری کہاں گئی؟- وہ ستاروں والی، سَو بٹنوں والی صدری جو تیرے سینے۔۔۔ سینے
کے سُلیمانوں کی عظمت بڑھاتی ہے- وہ صدری-‘‘
شبنما کیا جواب دیتی؟ وہ گھبرا گئی۔ جیسے کسی
نے فاختہ کے سینے پر گونسا دے مارا ہو۔ اس کے بدن کا سارا لہو منہ کو آنے لگا۔ خان
نے حسبِ معمول اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کی طرف مُسکرا کر دیکھا
’’شبنما، میری شبنما!‘‘ ان آنکھوں میں یہ میلی سی مسکراہٹ دیکھ کر شبنما کا دل زور
زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ آنکھوں میں دھواں سا پیدا ہوا، پیشانی پر گویا چیونٹیاں
رینگنے لگیں۔ پہلے اس کا خون کبھی اتنا گرم نہ ہوا تھا۔
خان اُسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا۔ اور یُونہی
اس کا ہاتھ بیباک ہو کر آگے بڑھا۔ جیسے کوئی شریر بچّہ کہیں کوئی خوبصورت کھِلونا
دیکھ کر للچا اُٹھے، وہ اُچک کر پرے جا کھڑی ہوئی۔ بولی۔ ’’ہاں تو آپ اس صدری کے لیے
کہہ رہے تھے۔ میں ابھی پہن آتی ہوں۔‘‘ اور خان جو سالن میں سُرخ مرچ کو ہمیشہ پسند
کرتا تھا، بولا۔ ’’ہاں جاؤ، پہن آؤ۔‘‘
شبنما اُچک کر چلی گئی اور پھر وہ پیچھے سے دیوار
پھاند کر پڑوسیوں کے زنان خانے میں جا پہنچی۔
شام کے قریب ماں واپس آ گئی۔ خیرگل اُس کے ساتھ
تھا۔ خالہ کے ہاں سے وہ بہت سی چیزیں لایا تھا۔ خالو نے اس دن کسی تقریب میں چار
بکرے حلال کیے تھے، ایک سالم بکرے کا گوشت خیرگل کو دے دیا گیا تھا۔ جسے اُس نے سر
پر اُٹھا رکھا تھا۔ شبنما اُن کی خبر پا کر سہمی ہوئی گھر آ گئی۔ خان کا نشہ اب تک
ہرن ہو چکا تھا۔ عجب مجرمانہ نگاہوں سے وہ شبنما کی طرف دیکھتا۔ خان کی دست درازی
امّاں کو کیسے بتائے، شبنما کو یہی اُلجھن تھی۔ خیرگل کے غصّے سے وہ واقف تھی،
اُسے بھی نہ بتا سکی، اُسے تو ذرا سا اشارہ ہی کافی تھا۔ انتقام لے کر چھوڑتا اور
کیا خبر خان کے علاوہ وہ ماں کو بھی مار ڈالتا جو ایسے آدمی کی بیوی بن گئی تھی۔
اس واقعہ کے بعد خان کی آنکھیں کھُل جائیں گی۔ یہ
سوچ کر شبنما نے کچھ کچھ تسلّی پالی۔ لیکن خان کی زبان عادت سے باز نہ آئی۔
’’شبنما، میری اپنی شبنما۔‘‘ وہ کہہ اُٹھتا۔ اُس کے ہاتھ اس کی پیٹھ پر آ ٹکتے۔ وہ
اُسے سہلانے لگتا۔
شبنما کا لہو بار بار گرم ہو جاتا اور مُنہ کی
طرف زور مارتا۔ وہ گھبرا کر بیٹھ جاتی۔ زبان پر جیسے کسی نے ٹانکا لگا دیا تھا۔
آخر اُس نے چھوٹی خالہ کے ہاں جو پشاور میں تھی، بھاگ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس
شہتوت کے نیچے کھڑے ہو کر اُس نے من ہی من میں سات بار یہ الفاظ دُہرائے- اب اور
نہ رہوں گی اِس گھر میں- اور وہیں کھڑے کھڑے اُس نے اپنے کانوں سے وہ رولڈ گولڈ کے
آویزے اُتار کر شہتوت کی جڑ کے قریب دفن کر دیے۔ ماں تو آ ہی سکے گی پشاور اور خیرگل
بھی- اب اور نہ رہوں گی اس گھر میں۔۔۔
اُس کی خالہ مکان تبدیل کر چکی تھی۔ نئے مکان
کا پتہ نہ چل سکا۔ وہ اُسی جگہ، جہاں پہلے اُس کی خالہ رہا کرتی تھی، ٹھہر گئی۔ یہ
کوئی مہربان عورت تھی۔ شبنما کی کہانی سُن کر اُس کا دل پسیج گیا۔ کام دھندا کر دیا
کرے تو روٹی ملتی رہا کرے گی اُسے۔ ایسے ہی سہی۔ شبنما کام میں لگ گئی۔ مگر جس آگ
سے بھاگ کر وہ اتنی دُور پشاور میں آئی تھی، وہ تو کہیں بھی، کسی بھی دِل میں سُلگ
سکتی تھی۔ یہی ہوا بھی۔ مکان والوں کا بڑا لڑکا اُسے دِق کرنے لگا۔۔۔۔
اس کے بعد وہ جہاں بھی گئی اُسے یہی مصیبت پیش
آئی۔ دو عالم کے والی! اب میں کِدھر جاؤں؟ ۔۔۔ بار بار یہ سوال اُس کے ہونٹوں پر آیا۔
خدا ہر بار چُپ رہا۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑوں پر، بھٹک بھٹک کر اس کی نگاہیں پھر
زمین کو ٹٹولنے لگتیں۔ زمین کا کچھ اعتبار نہ تھا۔ جگہ جگہ بھیانک، زہری ناگ
پھنکار اُٹھتے تھے۔ کس کس بانبی سے بچ سکتی ہے ایک کچّی، کنواری لڑکی، اور زمین
اور آسمان کے ابدی بادشاہ!۔۔۔
آخر ایک عورت نے اس کی ڈھارس بندھائی۔ اُس نے
ماں سے بھی زیادہ پیار ظاہر کیا۔ شبنما اُسی کے ساتھ رہنے لگی۔ چند روز بعد اُس نے
اُسے اس شہر کی ایک بُڑھیا کے ہاتھ بیچ دیا اور بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے پانچ سو
روپے کھرے کر لیے تھے۔
۔۔۔ اس کے بعد اُس نے کئی بار گھر بھاگ جانا
چاہا۔ لیکن دباؤ کچھ بے طرح پڑا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بُڑھیا بھی ایک دن موٹر تلے دب
کر مر گئی۔ لیکن ایک دفعہ ٹھکانے سے بھاگی ہوئی عورت آج تک صحیح معنوں میں واپس نہیں
لوٹ سکی۔۔۔
شبنما کے دل میں اب تک خیرگل کا خیال باقی ہے۔
بھائی ہو تو ایسا۔ شہتوت کو دیکھ کر تو اُسے بھی میرا خیال آ جاتا ہو گا۔ شہتوت تو
اب بھی پکتے ہوں گے۔ اب بھی جھُولتے ہوں گے شہتوت ٹہنیوں پر، جیسے میرے کانوں میں
رولڈ گولڈ کے آویزے ہلتے رہتے تھے۔ وہ آویزے جو بدستور شہتوت کی جڑ کے قریب دفن
ہوں گے اور جنھیں اب تک زمین نے قبول نہ کیا ہو گا، اُنھیں اپنی صورت نہ دی ہو گی!۔۔۔
لیکن وہ گھر سے کیوں بھاگ نکلی تھی؟ خان اُسے کھا تھوڑی ہی جاتا؟ خیرگل جو تھا- ماں
جایا، ایک ہی باپ کا بیٹا۔ بھائی بہن اور بلکہ ماں بھی کہیں اور ٹھکانا بنا لیتے یا
شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ تینوں مِل کر خان کو کان سے پکڑ کر سیدھا کر دیتے۔ خیرگل
اس کا بال بیکا نہ ہونے دیتا۔ اور اگر مناسب ہوتا تو جھٹ کہیں کوئی اچھا سا دولھا
تلاش کر دیتا۔ برات آتی، باجے بجتے اور آج یہ حال نہ ہوتا۔ آج وہ ماں ہوتی اور ایک
اچھی بیوی بھی۔ کسی پر اُس کا زور ہوتا، زمین کے کسی ٹکڑے پر اس کا حق ہوتا!
خورشید پوچھتی ہے۔ ’’چُپ کیوں ہو گئی شبنما؟ میں
تو کبھی اتنی سُست نہیں ہوئی سموسے کھانے کے بعد۔‘‘
’’سُستی
وستی کچھ نہیں۔ یُونہی دل ہی تو ہے، بھٹکنے لگتا ہے اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے
اِدھر۔‘‘
کرایہ کے خیال سے شبنما کا تن بدن پھُنک رہا
ہے۔ بڑی مشکل سے چھ روپے جوڑے تھے۔ اب ایک اور چاہیے، ضرور چاہیے، ورنہ وہ پُوربیا
لٹھیت جانے کیا کر گزرے۔ بظاہر وہ خورشید سے بول لیتی ہے کبھی کبھی، اور خیرگل کے
متعلق سوچنے لگتی ہے۔
ایک ادھیڑ عمر کا سردار، گلو بند سے خود ہی
پھانسی لگائے، خورشید کے دروازے پر آتا ہے۔ روزمرّہ کی طرح اشاروں میں باتیں ہوتی
ہیں، سودا چُکتا ہے اور خورشید اُسے ساتھ لیے اندر چلی جاتی ہے۔
سنسان رات جس کا آخری گاہک ساتھ کے کمرے میں جا
چُکا ہے، شبنما کو نگلتی دکھائی دیتی ہے۔ کتنی خوش قسمت ہے یہ خورشید، پانچ نہیں
تو اڑھائی تو لے ہی مرے گی۔ کاش وہ ایک روپیہ مجھے دے دے اُدھار۔ کم از کم پورُبیے
لٹھیت سے تو جان چھوٹے۔ اور کچھ نہ کچھ روٹی کے لیے بھی تو چاہیے۔ اصلی برکت تو
اپنی کمائی سے ہوتی ہے۔ مگر ایک روپیہ تو میں ضرور مانگ دیکھوں گی یہ بخار تو نہیں
سہا جاتا اور!۔۔۔ رات اپنے بے شمار تاروں کی آنکھیں جھپکتی ہوئی گھورتی جاتی ہے۔
چاند کا چہرہ جانے کیوں پھیکا پڑ گیا ہے، اُداس ہو گیا ہے؟ شبنما کا کوئی بھی خریدار
پیدا نہیں ہوتا۔ کیا صرف عورتیں ہی بوڑھی ہوتی ہیں دُنیا میں؟ مرد بُوڑھے نہیں
ہوتے؟ لیکن بوڑھے مردوں کو بھی جوان عورتوں ہی کی تلاش کیوں رہتی ہے؟ اس پورُبیے
کے سامنے روپیہ پیدا نہ کر سکی تو بُرا حال ہو گا۔ اور یہی حالت رہی تو کرایہ سر
پر چڑھتا چلا جائے گا اور مجھے یہاں سے اُٹھا دِیا جائے گا۔ او میرے اللہ! تُو کیوں
نہیں دیکھتا میری غریبی، میری یہ بھوک؟ کیسے دن آنے والے ہیں، میرے اللہ؟ اس وقت
چا ہے تُو کچھ جواب نہ دے، کچھ خبر نہ لے، تُو ضرور میرے حال پر مہربان ہو گا۔ آخر
تُو اللہ جو ہوا۔ مگر تُو چُپ کیوں ہے، میرے اللہ؟ کہیں بہرہ تو نہیں ہو گیا، گوں
گا تو نہیں ہو گیا، میرے اللہ؟ ضرورت تو سر پر آن پہنچی ہے کل ہی تو پُورا روپیہ،
پونے سولہ آنے بھی نہیں پیدا کرنا ہو گا۔۔۔ اگر مجھے یہاں سے اُٹھا دیا جائے تو
مجھے کہاں ٹھکانا مِل سکتا ہے؟ بھیک مانگتی پھروں گی کیا؟ وہاں سڑک پر، جہاں دربار
کے سامنے عرس لگا کرتا ہے، چکّر کاٹا کروں گی کیا؟ وہاں جہاں ایک عورت پڑی رہتی ہے
– بدبو دار بھنبھناتی مکھیوں کے درمیان! شاید وہ کسی کھولی سے ہی میری طرح مجبور
ہو کر اُٹھ گئی ہو گی۔ کیا اِس جگہ بڑھاپے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
دِیے کی لَو تھرتھرا رہی ہے۔ شبنما اُٹھ کر دِیے
میں تھوڑا تیل اور ڈال دیتی ہے بتّی کو بھی اُکسا دیتی ہے۔ لَو نئے امیر کی طرح
بھڑکتی ہے۔ پرچھائیاں تھرکنے لگتی ہیں- بیکار لالچ کی طرح ہوا کا جھونکا آتا ہے،
دِیا بُجھتے بُجھتے بچ جاتا ہے۔
شبنما کو پتہ چلتا ہے کہ وہی سردار رات کا آخری
دولھا نہیں تھا۔ دُور گلی میں ایک کونے سے ایک لڑکھڑاتا ہوا آدمی نمودار ہوتا ہے۔
شبنما کا دِل دھڑکنے لگتا ہے۔ دائیں طرف بائیں طرف سب دروازے بند ہیں۔ شمعیں گُل کی جا چکی ہیں، اُمید کے دِیے کی طرح صرف اس کا
اپنا ہی دِیا ٹمٹما رہا ہے۔
وہ مرد شراب سے لڑکھڑاتا ہوا آتا ہے۔ پگڑی کھُل
کر اُس کے گلے میں پڑی ہے۔ نشے نے اُسے اندھا کر رکھا ہے۔ بوڑھی عورت اور جوان
عورت میں وہ کوئی تمیز نہیں کر سکتا، بھاڑ اچکانے کے لیے آگے آتا ہے۔
شبنما چونک پڑتی ہے، پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ پرے طاق
میں دِیے کی لَو بھڑکتی ہے، تھرکتی ہے۔ شبنما کی آنکھوں میں دھُواں سا پیدا ہو
جاتا ہے۔ اُس کا بس چلے تو کہیں بھاگ جائے، چھُپ جائے۔ کمرے کا فرش ہی پھٹ جائے
اور ہو سکے تو وہ اُس میں سما جائے۔
شبنما بڑے غور سے اس شرابی کی طرف دیکھتی ہے۔ ایک
دفعہ بھی اس کے دماغ میں خیرگل کی وجیہ شکل پیدا ہو جاتی ہے۔ خیرگل اور اس نوجوان
میں بال بھر کا بھی فرق نہیں۔ اس دن جب وہ خالو کے ہاں سے سالم بکرے کا گوشت لے کر
آیا تھا اس کے چہرے پر ایسی ہی کچھ مستی سی چھائی ہوئی تھی۔ وہی چھوٹی چھوٹی مونچھیں،
گھنی پلکیں، گہری آنکھیں اور گوشت سے بھرے ہوئے گال -وہی پیشانی تک آیا ہوا بالوں
کا گپھا۔
شبنما سوچتی ہے کہ ماں نے اس کا نام کس قدر سوچ
کر رکھا تھا- شبنما!۔۔۔ شبنم صبح کے وقت ہی زمیں پر نمودار ہوتی ہے اور پھر صبح کے
وقت ہی سورج کی کرنیں اسے پی جاتی ہیں۔ لیکن شاید ماں کے خیال میں یہی تھا کہ میری
شبنما صبح کی شبنم ہی رہے گی۔ کاش وہ آ کر دیکھتی کہ اس کی شبنما رات کے وقت
نمودار ہوتی ہے اور رات ختم ہونے سے پہلے پہلے رات کیا تھاہ تاریکیاں اسے اپنے حلق
میں انڈیل لیتی ہیں۔
پھر ایک نظر وہ بند دروازوں کی طرف دیکھتی ہے
اور نوجوان کو باہر دھکیلتے ہوئے جھٹ سے دروازہ بند کر لیتی ہے۔ وہ بھنبھناتی ہوئی
مکھیوں والی بڑھیا کا تصور دل میں لیے شکستہ حال اپنی کھاٹ پر گر پڑتی ہے۔
٭٭٭
ستلج پھر بپھرا
اِن جنونی لوگوں کی باتوں پر اُنھیں غصّہ آ رہا
تھا۔ کبھی کوئی بڑا بوڑھا یوں بول اُٹھتا، جیسے پھٹا ہوا ڈھول دھپ دھپائے، کبھی
کوئی ایسی آواز اُبھرتی جیسے گیلا پٹاخہ پھٹ جائے۔ ستلج اُن کا منہ چڑا رہا تھا۔ لیکن
بڑے بوڑھے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کھڑے تھے۔ بچّوں کے لیے یہ ہلڑ مچانے کا موقع
تھا۔ ادھیڑ عمر کے لوگ کسی طرح اپنی گھبراہٹ کو ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
اترسوں رات سے پانی کا زور بڑھ گیا تھا۔ لیکن پیر گاؤں میں نہ تھا۔ بڑے بوڑھے کہہ
رہے تھے۔ بس پیر کے آنے کی دیر ہے اُسے دیکھتے ہی ستلج شرافت سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
اس شور میں نوجوانوں کی آوازیں الگ نوعیت رکھتی تھیں۔
سکھیؔ چند تو خیر اسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ لیکن
نیرجاؔ کے لیے یہ منظر نیا تھا۔ وہاں کھڑے کھڑے اُسے وہ باتیں یاد آئیں جو اُس نے
کالج کے لان میں بیٹھے بیٹھے سکھیؔ چند سے سُنی تھیں۔ تیری بات دوسری ہے نیرجاؔ، کیونکہ
تو ابھی ستلج سے باتیں نہیں کر پائی، تو نے ستلج کو دیکھا ضرور ہے۔ لیکن ریل کے
ڈبّے میں سے۔ اتنے بڑے بڑے دریا سے تو نہایت ادب سے ملنا چاہیے۔ آرام سے کنارے پر
بیٹھے رہو۔ گھنٹوں پانی کی طرف دیکھتے جاؤ۔ جب کہیں کوئی اُس کا راز داں بن سکتا
ہے۔ لیکن ریل کے ڈبے میں سے اس کی طرف دیکھ کر تم کیسے اس کا راز پا سکتی تھیں؟
۔۔۔ اور اس کے جواب میں اُسے خاموش پا کر سکھیؔ چند نے پھر کہا تھا- ستلج کی پرانی
عظمت اب کہاں نیرجا؟ؔ بہت سا پانی نہروں میں چلا جاتا ہے۔ وہ بھی بُرا تھوڑی ہے۔
کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں، ستلج اسی طرح غریب ہوتا چلا گیا تو ایک
روز بیچارے کا دیوالہ پٹ جائے گا۔۔۔
سکھی چند نے سگریٹ سُلگائی۔ نیرجا پرے ہٹ گئی۔
لیکن اس وقت اُسے تمباکو ہی سے نہیں اپنے وجود سے بھی نفرت ہونے لگی تھی۔ کا ہے کو
وہ ادھر چلی آئی؟ آرام سے لاہور میں رہتی، روز نیا جوڑا باندھ کر نکلتی۔ نئی سے نئی
ساڑھی پہنتی انارکلی میں مسکراہٹیں بکھیرتی۔ اُس کا خیال کتنا غلط نکلا۔ تُف ہے ستلج
پر، ستلج کے پانیوں پر۔ پھر کہا جاتا ہے ستلج غریب ہے۔۔۔
سگرٹ کا کش لگاتے ہوئے سکھیؔ چند نے نیرجاؔ کے
قریب ہونے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’اِن جنونی لوگوں کو ہم نہ سمجھا سکیں گے نیرجاؔ۔‘‘
پانی کا زور بڑھ رہا تھا۔ بڑے بوڑھے جو بدستور
دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کھڑے تھے، بُت معلوم ہوتے تھے۔ بچّوں کا ہلّڑ کسی قدر دھیما
پڑ گیا تھا۔ ادھیڑ عمر کے لوگ پیر کا انتظار کرتے کرتے اُوب گئے تھے۔ نوجوان نیرجاؔ
کے جُوڑے کی طرف گھور رہے تھے۔ یہ وہ جوڑا نہ تھا جسے نیرجاؔ خود باندھ سکتی۔ اسے
وہ ہمیشہ کی طرح ماں سے بندھوا کر لائی تھی۔ پہلے موٹی مینڈھیاں گوندھی جاتیں، پھر
انھیں پھرتیلی ہوشیار اُنگلیاں فنکارانہ انداز سے یہ شکل دے دیتیں۔ سکھی چند کو خیال
آیا کہ گاؤں کے ایک ایک نوجوان سے نیرجاؔ کا تعارف کرائے اور صاف صاف بتا دے کہ
اُس کا جوڑا بنگالی روایت کا حامی ہے۔ اور یہ بھی بتا دے کہ اُس کی رگوں میں پنجابی
اور بنگالی خون مل کر بہہ رہا ہے۔
نیرجاؔ کو اپنے بوڑھے پروفیسر کا دھیان آیا۔ جو
ہمیشہ اس بات پر زور دیتا کہ ہندوستانی موسیقی پر یونانی اثر غالب ہے۔ اُسے اپنا
لمبا قہقہہ بھی یاد تھا جو ایک بار بوڑھے پروفیسر کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُس کے
ہونٹوں سے پھوٹ نکلا تھا اور اُس نے شرارتی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
تھا۔ ’’جب تو جناب کل کو یہ بھی کہیں گے کہ ہماری کوئل پر کسی یونانی پرندے کا اثر
غالب ہے۔‘‘ اور اس پر ساری کلاس کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ سب لڑکے اسے ایک مورتی
سمجھتے تھے، جسے ابھی ابھی کسی بُت ساز نے نمائش میں لا رکھا ہو۔ اپنے جھمکوں کی
تھرکن سے وہ ہمیشہ سکھیؔ چند کو اپنی طرف متوجہ کیے رہتی۔ اور تیرتھ جو اس پنجابی
باپ اور بنگالی ماں کی بیٹی کو دوغلی کہنے سے باز نہ آتا۔ اُس کا سب سے بڑا حاسد
تھا۔
سکھیؔ چند کو تیرتھ کا خیال آیا جیسے وہ جھاڑیوں
میں چھپا بیٹھا ہو، اور اُن کی طرف ایک طویل قہقہہ پھینکنے والا ہو۔ جب وہ بھی اُس
سے کہتا کہ نیرجاؔ خوب گاتی ہے، وہ جی کھول کر زہر اُگلتا اور کہتا ہندوستان کی
غلامی کا سب سے بڑا سبب اس کی موسیقیانہ دلچسپیاں ہیں۔ اُس نے سوچا اچھا ہی ہوا کہ
اس موقعہ پر جب کہ سارا گاؤں خطرے میں ہے کسی کو گانے کا خیال نہیں آ سکتا، نہ نیرجاؔ
کسی فلمی نغمے کی دھن گنگنانے کی حماقت کر سکتی ہے۔
یہ شور بھی تو ایک بے سُرا نغمہ تھا۔ بار بار
کچھ سُر اُونچے اُٹھ جاتے۔ نیرجاؔ حیران تھی کہ جب لوگوں کا شور پانی کو نہیں روک
سکتا، تو اکیلے پیر کی دعا کیسے ایک کامیاب ٹونا بن کر پانی کا زور گھٹاتی چلی
جائے گی۔ مسلمان اور ہندو سب پیر کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ سکھ اس ہجوم سے پیچھے
ہٹ کر کھڑے ہو گئے تھے جیسے انھیں پیر پر اعتقاد نہ ہو۔
اپنی اپنی بہی کو دُکانوں پر چھوڑ کر گاؤں کے
بنیے بھی چلے آئے۔ ایک جگہ کھڑے ہو کر وہ بھی اس آفت کا جائزہ لینے لگے۔ تھوڑی دیر
بعد وہ بھی سکھوں کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ شاید سب سے زیادہ خطرہ اُنھیں کو محسوس
ہو رہا تھا پھر سکھوں کے گروہ سے الگ ہو کر وہ بڑے ہجوم کے قریب سرکنے لگے۔
’’رام،
رحیم، گورو میں کچھ بھید نہیں۔‘‘ ایک بوڑھا بنیا کہہ رہا تھا۔ ’’شردھا چاہیے
شردھا۔ پُجاری، پیر، گرنتھی سب اُس کے ہیں، اُسی کے گن گاتے ہیں۔‘‘ وہ سہمی ہوئی
نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ پھر سکھی چند کے قریب آ کر بولا۔ ’’لاہور سے
کب آئے تھے بیٹا؟‘‘
’’کل
رات‘‘ سکھیؔ چند نے چلّا کر کہا۔
نیرجاؔ سمجھ گئی کہ بابا بڑھاپے میں بہرے ہو
رہے ہیں۔ بابا نے نیرجا کو دیکھا اَن دیکھا نہ کیا کیونکہ ابھی اُس کی نگاہ قائم
تھی۔ سکھیؔ چند کے سر پر وہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ ’’اور یہ کنیا کنواری؟‘‘
’’اِس
کے پتا ایک پنجابی سنگیت آچاریہ ہیں‘‘ بابا، اور اس کی ماتا ہے خاص ڈھاکے بنگالے کی،
خاص ڈھاکے بنگالے کی بٹیا۔ وہ بڑی نیک اور شریف عورت ہے۔
’’ ہاں
بابا۔‘‘
’’تو
اس کے پِتا کو ذرا ڈر نہ لگا؟ میں نے تو سُنا ہے کہ ڈھاکے بنگالے کی استری پردیسی
کو مکھّی بنا کر دیوار سے چپکا دیتی ہے۔ تو یہ کوئی اچھی بنگالن ہو گی بیٹا! کیا
نام ہے اس کنیا کنواری کا۔‘‘
’’نیرجاؔ!‘‘
’’یہ
بھی کوئی ڈھاکے بنگالے کا نام معلوم ہوتا ہے۔ اب کہاں ہیں اِس کے ماتا پِتا بیٹا؟‘‘
’’لاہور میں ہیں بابا۔‘‘
’’تو
وہ بنگالن بہت دیاوان نکلی۔ پردیسی کو اپنی غلامی میں رکھنے کی بجائے خود اُس کی
غلام ہو گئی۔ لاہور میں ہی جنم ہوا تھا اِس کنیا کنواری کا؟‘‘
’’ہاں
بابا۔ لاہور ہی میں اسے ستلج سے باتیں کرنے کا شوق تھا بابا۔ لیکن ستلج کو
نامہربان دیکھ کر وہ اپنی بھول پر پچھتا رہی ہو گی۔‘‘
’’پچھتانے سے کیا لابھ؟ پیر کے آنے کی دیر ہے۔
پانی پیچھے ہٹ جائے گا۔ پچاس سال سے تو میں اسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ ہی
رہا ہوں۔‘‘
بابا نے دیکھا کہ سکھوں کا گروہ بھی بڑے ہجوم میں
شامل ہو چکا ہے۔ یہ اچھا ہی ہوا اُس نے سوچا ایک کا خطرہ سب کا خطرہ، اتفاق بڑی چیز
ہے۔ پیر بھی آ رہا ہو گا۔ رات کا بھیجا ہوا آدمی صبح سے دو گھنٹے پہلے ہی پیر کے
پاس جا پہنچا ہو گا اور وہاں سے چلنے میں پیر نے دیر نہ کی ہو گی۔
پرے ایک بچّہ رور رہا تھا۔ اُس کے ساتھی نے اسے
دھکا دے دیا تھا۔ بابا نے پاس جا کر اُسے اُٹھایا اور اپنی جیب سے گُڑ کا چھوٹا سا
ٹکڑا نکال اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔ بچّے کی سِسکیاں جھٹ رُک گئیں۔ اُس کا شرارتی
ساتھی جو قریب ہی کھڑا تھا، للچائی ہوئی نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا، جیسے کہہ
رہا ہو، اگر گرنے کا انعام گُڑ کا ٹکڑا ہو سکتا ہے تو لو میں کھڑا ہوں لو مجھے بھی
گرا دو۔ اور نیرجاؔ نے سوچا کہ سکھیؔ چند بھی اُسے گرا کر بابا سے گُڑ حاصل کر
سکتا ہے۔
’’یوں
کب تک کھڑی رہو گی نیرجاؔ؟‘‘ سکھیؔ چند کہہ رہا تھا میں جانتا ہوں بابا کی باتیں
تمھیں اچھی نہیں لگیں۔ بزرگوں کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں نیرجاؔ۔‘‘
’’اچھی
کیوں نہیں لگیں بابا کی باتیں۔‘‘ نیرجاؔ نے غصّہ جھٹکتے ہوئے کہا۔ ’’بابا سے کہیں
زیادہ تو مجھے تم پر غصّہ آ رہا ہے۔ بابا نے تو صرف اتنا ہی پوچھا تھا اور یہ کنیا
کنواری۔ اس کے جواب میں اتنا ہی کہہ دیا ہوتا کہ یہ کپور صاحب کی بیٹی ہے اور ہم
کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں اور اب وہ ستلج کے درشن کرنے چلی آئی ہے، اس طرح بات
یہیں ختم ہو جاتی۔ لیکن ڈھاکے بنگالے کا ذکر چھیڑ کر تم نے بابا کی حیرت کو دعوت دی۔
یہ سب شرارت تھی۔‘‘
’’بڑھاپا سر پر آ پہنچا، لیکن تم نے دیکھا نیرجاؔ
کہ بابا کے من پر ابھی تک کنیا کنواری سوار ہے۔‘‘ سکھیؔ چند نے صفائی پیش کی۔
’’ڈھاکے بنگالے کے ذکر کی دیر تھی تم نے دیکھا بابا کہاں سے کہاں جا پہنچا۔‘‘
’’میں
سب سمجھتی ہوں سکھیؔ چند۔‘‘ وہ بولی۔ اور سُکھیؔ چند نے بات کا رُخ پلٹتے ہوئے
کہا۔ ’’پرے اُس پار وہ ٹیکرا ہے، نیرجاؔ، جہاں کھڑے کھڑے سکندر نے اپنے سُورماؤں
کو آگے جانے سے اِنکار کرتے ہوئے سُنا تھا۔‘‘
’’میں
کچھ نہیں جانتی، سُکھیؔ چند!‘‘
’’روایت
یہی کہتی ہے۔‘‘
’’تم
روایت کا اعتبار کر سکتے ہو، سکھیؔ چند!‘‘
سُکھیؔ چند نے کئی بار اس روایت پر شک کیا تھا۔
روایت وہ برف ہے جو ایک بار جم کر پگھلنا جانتی ہی نہیں۔‘‘ نیرجاؔ کی طرف گہری
نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’ ہاں میں سمجھ سکتا ہوں نیرجاؔ، کہ سکندر اور اُس
کے سُورما گھُڑسوار اس گاؤں تک آ پہنچے تھے۔‘‘
’’اور
کچھ یونانی سُورما یہیں بس گئے ہوں گے۔‘‘
’’تم
ٹھیک کہتی ہو نیرجاؔ، کچھ یونانی سورما یہیں بس گئے ہوں گے۔ یہیں اُن کے بیاہ ہوئے-
ہاں میں دیکھ سکتا ہوں ان لوگوں کے چہروں پر یونانی اور پنجابی خدّ و خال کا
امتزاج پیشِ نظر ہے۔ ان کی رگوں میں اب تک یونانی اور پنجابی خون ساتھ ساتھ بہہ
رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا تمدّن بھی دوغلا ہے۔‘‘
نیرجاؔ نے ناک سکوڑی، لفظ دوغلا سے اُسے دلی
نفرت تھی۔ لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ انتہائی ضرورت آ پڑنے پر اس کا استعمال
ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سکھیؔ چند نے معافی طلب نگاہوں سے نیرجا کے چہرے کا
جائزہ لیا، جہاں پنجابی اور بنگالی خد و خال ملے جلے نظر آتے تھے۔ اُسے خیال آیا
کہ کپور صاحب بھی ایک یونانی سورما کی طرح بنگال کے دور دراز گاؤں میں جا پہنچے
تھے، جاتے ہی انھوں نے اپنا نغمہ چھیڑ دیا ہو گا۔ وہیں اُنھیں گھنگھریالے بالوں
والی دُلہن مل گئی۔ جس نے نیرجاؔ کو جنم دیا۔ نیرجاؔ کی ستواں ناک کپور صاحب کی
مرہونِ منّت ہے لیکن اُس کے گھنگھریالے بال اور پیشانی اور ٹھوڑی کی ساخت ہو بہو
بنگالی فن کا نمونہ ہے اور اُس کے مد بھرے نین کہہ رہے ہیں- اسی جگہ بنگال اور
پنجاب کی سرحدیں ملتی ہیں۔
نیرجاؔ چلّائی۔ ’’یہ لوگ تو ستلج میں بہہ ہی
جائیں گے۔ اور ان کی عقل تو کبھی کی بہہ چکی ہے کیونکہ انھیں بے بنیاد وشواس ہے
اپنے پیر پر- ہم بھی کیوں بہہ جائیں؟ اب تو وہ پِیر آنے سے رہا۔‘‘
سکھی چند نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔
’’گھبراتی کیوں ہو نیرجاؔ، ہمارے سورماؤں سے تمھیں واسطہ نہیں پڑا۔‘‘
’’تمھارے
سورما- ہاں تمھارے سورما۔‘‘ نیرجاؔ نے طنزاً کہا۔ ’’جو سکندر کے حملے کو نہ روک
سکے تھے۔‘‘
سُکھیؔ چند کے جی میں تو آئی کہ اس کا کھرکھرا
جواب سُنا ڈالے کہ جب بنگال کا دُور دراز گاؤں اکیلے کپور کو نہ روک سکا اور سب کے
دیکھتے دیکھتے کپور نے ایک بنگالی چھوکری کو دلہن بنا لیا تو ہمارا گاؤں اتنے یونانی
سورماؤں کو کیسے روک سکتا تھا۔ جب ڈھاکے بنگالے کا جادو کام نہ آیا تو ہمارے ٹونے
ٹوٹکے بھلا کیا کر سکتے تھے۔ اُسے خیال آیا کہ سکندر کے حملے کا چھوٹا موٹا جواب
تو اس گاؤں کے سورماؤں نے ضرور دیا ہو گا اور حتی الوسع اُنھوں نے اسے روکنے کی
کوشش بھی کی ہو گی۔ لیکن سورماؤں کا طوفان کس کے روکے رُکا ہے؟ اس کی لہریں گاؤں
کے گھروں میں گھس آئیں بہت سی کنیائیں یونانی سورماؤں کی دلہنیں بنیں۔ اُنھوں نے
خوبصورت بچّوں کو جنم دیا۔ اور اُن کی لوریوں میں یونانی گھُڑسواروں کے گھوڑوں کی
ٹاپ بھی کھلی ہوئی تھی۔
نیرجاؔ پھر چلّائی۔ ’’ سکھیؔ چند ان جنونی
لوگوں کو ہم نہ سمجھا سکیں گے۔‘‘
’’ہاں
نیرجاؔ۔‘‘ سکھیؔ چند کہہ رہا تھا۔ ’’لیکن اِن سُورماؤں میں بڑے بڑے تیراک بھی ہیں
نیرجاؔ اور یہ ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہاں کی لڑکیاں بھی تیرنا جانتی ہیں۔
تم ستلج کو خشمناک حالت میں دیکھ رہی ہو۔ ورنہ تم نے اسے بیحد پسند کیا ہوتا۔ یہاں
کی لڑکیاں تیرتے تیرتے اُس پار جا پہنچتی ہیں۔ اُس وقت اُن کے ایک ہاتھ میں سرسوں
کے ساگ کے چھنّے پر رکھی ہوئی مکئی کی روٹیاں کھدر کے پرنے میں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔
کیا مجال کہ تیرنے کے دوران پانی کا چھینٹا اِن روٹیوں پر آ گِرے۔ تم یہاں رہو تو
تم بھی تیرنا سیکھ جاؤ۔ جب ستلج مہربان ہوتا ہے تو بیحد مہربان ہوتا ہے۔ مجھے اس کی
خشمناکی دیکھ کر اس کی مہربانیاں نہیں بھول سکتیں۔ اچھے دنوں میں تم ستلج کے کنارے
آ بیٹھو تو اس کی لہریں تمھارے ساتھ باتیں کریں گی، وہ تمھیں تیرنے کی دعوت دیں گی۔‘‘
’’دیکھو
پیر ابھی تک نہیں آیا سکھیؔ چند! یہ سورما تیراک دیوار بنا کر کھڑے ہو جائیں اور
بڑھتے ہوئے طوفان کو آگے بڑھنے سے روک لیں، یہ بات میری سمجھ میں آ سکتی ہے۔ لیکن
اس میں پیر کیا کرے گا؟‘‘
ایک لمبی بارش کے بعد سورج برابر چمک رہا تھا جیسے
سورج کی کرنیں بھی کہہ رہی ہوں، ابھی بادل پھر گھِر آئیں گے اور پھر ہو گی وہی
موسلادھار بارش جو کسی کے تھامے نہ تھمے گی۔ اور اس میں پیر کیا کرے گا؟ ۔۔۔ سکھی
چند نے بات کا رُخ ستلج کی مہربانیوں کی طرف پلٹتے ہوئے کہا۔ ’’یہ بھی ہو سکتا ہے
نیرجاؔ کہ ستلج کو پھر سے یاد آ جائے کہ ہم اُسی کی سنتان ہیں۔‘‘
پیر ابھی تک نہیں پہنچا تھا اور پانی کا زور
پہلے سے بہت بڑھ گیا تھا۔ بڑے بوڑھے برابر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کھڑے تھے۔ ’’یا
خواجہ خضر!‘‘ ہجوم میں سے ایک بوڑھی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سنائی دی۔ اور پھر سینکڑوں
آواز مل کر دعا مانگنے لگیں ’’یا خواجہ خضر!‘‘ سب لوگ مل کر کھلے پانیوں کے تنہا
رہنما خواجہ خضر کو پکار رہے تھے اور یہ نا ممکن تھا کہ خواجہ خضر اتنے لوگوں کی
اجتماعی دعا کو ٹھُکرا دیتا۔
سکھیؔ چند نے نیرجاؔ سے کہا۔ ’’پیر اب آئے نہ
آئے، پیر کا کام اب لوگ خود کریں گے۔ اُنھیں اپنی طاقت پر بھروسہ ہے۔ خواجہ خضر کے
انصاف پر اعتماد ہے۔‘‘
اُدھر سے بابا نیرجاؔ کے قریب آ کر بولا۔
’’طوفان اب تھما کہ تھما۔ اب مت گھبرانا۔‘‘
اور بہرے بابا کے کان کے قریب منہ لے جا کر نیرجاؔ
نے بلند آواز سے کہا۔ ’’ہاں بابا۔‘‘
بابا نے للچائی ہوئی نگاہوں سے نیرجاؔ کی طرف دیکھا۔
سکھیؔ چند کو یوں محسوس ہوا جیسے بابا کی دور دراز جوانی سمٹ کر نزدیک آ گئی ہو
اور جیسے دوردراز ماضی بھی زمانۂ حال میں تبدیل ہو گیا ہو اور جیسے سکندر کا حملہ
خاص اسی صدی کا واقعہ ہو وہ خیالات کی لہروں میں کھو گیا۔۔۔ تنہائی اور سکوت کا
عالم تھا اور کوئی ایک نوجوان دھیمے سروں میں کہہ رہا تھا۔ ہاں تو تمھاری ماں سچ
کہتی تھی۔ کیا کہتی تھی وہ؟ یہی ناکہ بیٹی! تمھارا دولھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے
گا۔ میں آ گیا۔ مجھے دیکھ لو۔ مجھے پسند کر لو۔ میری دلہن بن کر تمھیں گھاٹا نہیں
رہے گا -اور پھر خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک چھوکری کی آواز آئی- ہاں میرے راجہ، میں
تمھاری دلہن ہوں۔ یہیں رہنا۔ بھاگ مت جانا۔ یہ نہ ہو کہ لوریاں دیتے ہوئے میں اپنے
بچّے کے روبرو عمر بھر اُس کے پردیسی باپ کی شکایت کرتی رہوں۔۔۔
سکھیؔ چند کو محسوس ہوا کہ یہ آخری آواز اُس کی
اپنی ماں کی آواز تھی۔ اُسے وہ پھبتی یاد آئی جو تیرتھؔ ہمیشہ اُس پر کسا کرتا- ’’سکندر
کا بیٹا۔‘‘ اُس وقت آئینہ سامنے ہوتا تو یقیناًاُسے اپنے خدوخال پر یونانی اثر
غالب نظر آتا۔ تیرتھ کی پھبتی اُسے بہت بڑی حقیقت معلوم ہونے لگی۔ لاکھ کوئی کہے
سکندر کا قصّہ بہت پہلے کا ہے۔ اگر آج بھی کپور صاحب ڈھاکے بنگالے کی دلہن حاصل کر
سکتے ہیں تو بھلا سکندر ہی ستلج پار کے گاؤں میں کیوں بیاہ نہیں رچا سکتا۔ تیرتھؔ
سچ کہتا تھا- سکندر کا بیٹا، سکندر کا بیٹا۔ طوفانی لہروں کے اُس پار وہ ٹیکرا تھا
جہاں کھڑے ہو کر سکندر نے اپنے سورما گھُڑسواروں کو دنیا پر فتح پانے کے آدرش کی
تکمیل کے لیے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کی ترغیب دی تھی۔ لیکن اس گاؤں میں آ کر
وہ خود ہار گیا -ایک لڑکی کے روبرو۔ اور آج سکندر کا بیٹا بھی تو اپنی ہار مان رہا
تھا- نیرجاؔ کے روبرو۔ جس نے ابھی تک اُسے قبول نہیں کیا تھا۔ اُس کے خیالات نیرجاؔ
کو ہمیشہ دوغلے معلوم ہوتے اور یہ سکندر کا بیٹا جھنجھلا کر کہہ اُٹھتا۔ ہماری
انسانیت، ہمارا تمدّن، ہمارا فن، آج کچھ بھی تو دوغلاپن سے مبّرا نہیں، نیرجاؔ!
پیر آ پہنچا، اور ہجوم کا شور بلند سے بلند تر
ہوتا گیا۔ بوڑھے پیر پر لوگوں کی اُمیدیں مرکوز ہو گئیں۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ پیر
کس طرح دعا مانگے گا اور کون کون سے نئے اور پرانے ٹونے استعمال کرے گا۔ اُنھیں بس
ایک ہی خیال تھا کہ طوفان اب اور نہیں بڑھ سکتا اور سب کے دیکھتے دیکھتے پانی پیچھے
ہٹ جائے گا۔ بابا اپنی بوڑھی آواز سے چلّایا۔ ’’سب پرے ہٹ جاؤ۔ پیر کو دعا مانگنے
دو۔ پچاس سال سے تو میں اسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’پیر
کو ستلج کا منتر یاد ہے۔‘‘ ایک بڑھیا براہمنی کہہ رہی تھی۔ ’’دھنیہ ہو، ستلج دیوتا
تمھاری شکتی اپرم پار ہے۔‘‘
روتے ہوئے بچّے چُپ ہو گئے۔ بڑوں بوڑھوں نے اطمینان
کا سانس لیا۔ اب اُنھیں پتھر کے بُتوں کی طرح دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کھڑے رہنے کی
ضرورت نہ تھی۔ دوشیزائیں اور نوجوان پیر کا جادو دیکھنے کے لیے منتظر تھے۔
پیر خاموش تھا۔ ابھی تک اُس کے ہونٹ نہ ہِلے
تھے۔ شاید وہ اپنی تمام طاقت ایک نقطے پر جمع کر رہا تھا۔ یہ اُس کا امتحان تھا- اُس
کی دعاؤں کا امتحان۔ یا شاید وہ کوئی بھولا ہوا داؤ یاد کر رہا تھا۔ اُسے سچّے سائیں
پر اعتقاد تھا۔
پہلے بڑے بوڑھوں نے پیر کے پاؤں چُومے۔ پھر ادھیر
عمر کے لوگوں نے، پھر جوانوں نے- اور اب دوشیزائیں باری باری پیر کے پاؤں چوم رہی
تھیں۔
نیرجاؔ کو یوں ہجوم سے ہٹ کر تماشہ دیکھنا
ناگوار گذر رہا تھا۔ سکھیؔ چند کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔ ’’چلو چل کر پیر کو
منتر پڑھتے دیکھیں، سکھی چند، ذرا چلنے سے پیروں میں خون بھی حرکت کرنے لگے گا۔‘‘
یونہی وہ ہجوم کے قریب پہنچے اُنھیں یہ دیکھ کر
حیرت ہوئی کہ پانی بدستور بڑھا چلا آتا ہے۔ بڑے اطمینان سے وہ پیر کے جادو کا
انتظار کرنے لگے۔ ہجوم کے شور سے کچھ آوازیں اُبھرتی دکھائی دیں، کچھ مردانہ، کچھ
زنانہ-
’’رات
بھر میں بشنے کا کھیت کٹ گیا۔‘‘
’’طوفان ہٹ بھی جائے تو وہاں اب ریت ہی ریت ہو گی۔‘‘
’’اب پیر
کا ٹونا ریت کو کیسے دُور کر سکتا ہے؟‘‘
’’اِتنا تھوڑا ہے کہ پیر ڈوبتے گاؤں کو بچا
لے۔‘‘
’’پیر
تو گاؤں بھر کا باپ ہے۔‘‘
’’ہاں
بہن، ستلج پیر کی بات نہیں ٹال سکتا۔‘‘
’’پیر
ناراض بھی ہو گا تو ہمیشہ کے لیے ناتا توڑنے سے رہا۔‘‘
’’پیر
کا صدقہ میری باریک باریک مینڈھیوں کو رب خیر کرے، ستلج پیچھے ہٹ جائے۔‘‘
’’دودھ
پُوت پر پیر کی مہر۔‘‘
’’پیر
ریت کو چھو دے تو سونا ہو جائے، پانی کو چھو دے تو دودھ ہو جائے۔‘‘
لیکن پیر خاموش تھا۔ بابا بھی اُس کے قریب کھڑا
تھا۔ نیرجاؔ کو اپنے قریب پا کر بابا نے پھر بوڑھی آواز کا مظاہر کیا۔ ’’پچاس سال
سے تو میں اِسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘
سکھیؔ چند کو بابا کی آواز پر جھنجھلاہٹ محسوس
ہوئی۔ نیرجاؔ کے کان کے قریب منہ لے جا کر اُس نے پوچھا۔ ’’کیوں نیرجا، یہاں اچھا
لگتا ہے یا پھر ہجوم سے ہٹ کر کھڑے ہونا پسند کرو گی؟ مجھے تو یہاں متلی ہو رہی ہے
اور اس شور میں میرے کان الگ پھٹے جا رہے ہیں۔‘‘
’’خواجہ خضر کے پاؤں کسی کنّیا نے چُومے ہوں یا
نہیں۔‘‘ نیرجاؔ کہہ رہی تھی ’’لیکن پیر کے پاؤں تو سب کنّیائیں چُوم رہی ہیں، بابا
کو دیکھو، وہ بھی شاید پیر کے ساتھ منتر پڑھے گا۔‘‘
’’بابا
کی کیا بات ہے نیرجا! اَن گنت صدیوں سے وہ پیر کے ہمراہ منتر پڑھتا آیا ہے۔ لیکن
اُس وقت کہاں تھا اُس کا منتر جب سکندر نے حملہ کیا تھا؟ تب پیر کی بھی پیش نہ چلی۔‘‘
نیرجاؔ بولی۔ ’’پیر کے پاؤں چُومنے کی روایت
بہت پرانی ہے۔ سکھیؔ چند- سکندر سے بھی پُرانی۔ خواجہ خضر پُرانے وقتوں کا جل دیوتا
معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’ماضی
کی منجمد رسم پر مجھے بُری طرح غصّہ آ رہا ہے۔‘‘ سکھیؔ چند نے شہ دی لاکھ کوئی کہے
کہ جل دیوتا کی پوجا دوغلے پن سے مبرّا ہے۔ میرا دماغ اِن جنونی لوگوں کی طرح کبھی
اسے قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
نیرجاؔ کی اُنگلیاں بار بار جُوڑے کی طرف اُٹھ
جاتیں پنجابی نائین ایسا جُوڑا نہ گوندھ سکتی تھی، یہ تو بنگالی ہاتھوں کا کام
تھا۔ یہ جُوڑا ہی سکھیؔ چند کو اُس کے قریب لایا تھا اور سکھیؔ چند کا یہ خیال کہ
پنجابی دوشیزہ کے سر پر باریک مینڈھوں کا باریک جال یونانی آنکھوں کو بھی پسند آیا
ہو گا، اُسے سرے سے بے سر پیر کی گپ نظر آنے لگا۔
قریب ہی ایک دوشیزہ نیرجاؔ کو گھُور گھور کر دیکھ
رہی تھی۔ جیسے وہ حیران ہو کہ یہ عجیب و غریب جُوڑے والی لڑکی پیر کے پاؤں کیوں نہیں
چُومتی اور دعا کیوں نہیں مانگتی۔ پیر کا صدقہ میرے جُوڑے کو ربّ خیر کرے، ستلج پیچھے
ہٹ جائے۔
پانی کی سطح نیچی تھی۔ طوفانی لہریں پہلے کنارے
کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتیں پھر جب بڑا سا تودہ گر جاتا تو ان کا حملہ شروع ہو
جاتا۔
لوگوں کو برابر اپنے بوڑھے پیر پر اعتقاد تھا۔
بچّے بوڑھے، جوان سب شور مچا رہے تھے۔ جیسے یہ شور بھی پیر کے ٹونے کا جزو ہو، لیکن
پیر آگے بڑھنے سے جھجکتا تھا شاید اُسے اپنی طاقت پر یقین نہیں رہا تھا۔ جب سے وہ
آیا تھا کنارے سے کئی تودے گِر کر پانی میں ڈوب گئے تھے۔
بڑے بوڑھوں نے ایک بار پھر دعا کے لیے ہاتھ
اُٹھا لیے۔ بچّوں نے پھر سے ہلّڑ مچانا شروع کر دیا۔ ادھیڑ عمر کے لوگ بچّوں کو
چُپ کرانے کے بہانے خود بھی اِس ہلّڑ میں حصہ لے رہے تھے۔
سب سے زیادہ خطرہ بنیوں کو محسوس ہو رہا تھا۔
اور بابا اُنھیں سمجھا رہا تھا۔ ’’اب گاؤں کو کوئی خطرہ نہیں۔ بس دیکھتے جاؤ۔ ستلج
بیچارے کی کیا مجال کہ پیر کی حکم عدولی کرے۔ پچاس سال سے تو میں اُسے پیر کے حکم
میں بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘
پیر اب دعا مانگ رہا تھا۔ وہی ستلج تھا، وہی پیر۔
بابا حیران تھا آج ہو کیا گیا؟ آج صبح کس کا منہ دیکھا ہو گا پیر نے آنکھ کھلنے
پر، کلجگ ہے کلجگ۔ انصاف چلا گیا۔ جھوٹ نے پاؤں پھیلا لیے۔ پیر کی دعا میں بھی
طاقت نہیں رہی۔
دیکھتے ہی دیکھتے کئی تودے گِر گئے اور اب اُن
سے گستاخ لہریں ٹکرا رہی تھیں۔ پیر بھی حیران تھا۔ لیکن وہ بدستور دعا پڑھ رہا
تھا۔ اُسے یقین تھا کہ ستلج کو ہٹنا پڑے گا۔ آہستہ آہستہ وہ کنارے کے قریب سرک رہا
تھا۔
سکھیؔ چند نے نیرجاؔ کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’نیرجاؔ -نیرجاؔ! طوفان تو آتے ہی رہیں گے۔ اُن پر کسی پیر کا حکم نہیں چل سکتا- دریاؤں
کے طوفان- تہذیب و تمدّن کے طوفان- ستلج کو تو تم نے دیکھ ہی لیا۔ اب اور کیا چاہیے؟-
چلو اب یہاں سے چلیں۔‘‘
اِدھر ہجوم کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا
کیونکہ ایک اور تودہ پانی کی نذر ہو گیا اور اُس کے ساتھ ہی بپھرے ہوئے ستلج کی
بپھری ہوئی لہریں بوڑھے پیر کو اُس ہجوم، اُس گاؤں، اُس شور و شغب سے دُور بہائے لیے
جا رہی تھیں۔
٭٭٭
سلام لاہور
ایک
بھرتری ہری کہہ گئے -کالو نہ یاتا و یمئیو یاتا!
وقت نہیں گزرتا، ہم گزر جاتے ہیں۔
بس ایک نغمہ، بس ایک المیہ، بس ایک جستجو۔
سر سے ڈھلکا ہوا آنچل اور سر ڈھکنے کی کوشش میں
کھلتا ہوا سینہ۔
کوئی بھی سر ہو- کومل رِکھب یا کومل گندھار۔
عشقے دی گلی وچوں کوئی کوئی لنگھدا!
’’تو کیا
اپنے کانوں کے جھُمکے اُتار کر پیش کر دوں؟‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں
نہیں، یہ جہاں ہیں، وہیں ٹھیک ہیں۔‘‘ میں یہ کہہ کر چلا آیا۔
وہ پکارتی رہی۔ جیسے سُلگتے ہوئے چندن کی
خوشبو۔
تقسیم کے بارہ برس بعد میں لاہور گیا تو چار مہینے
لاہور اور کراچی کی خاک چھان کر وہیں جمار ہا۔
واپس آتے وقت جب ریل گاڑی نے واہگہ کی سرحد پار
کی تو ایسا احساس ہوا کہ اب میں ہندوستان کو پیچھے چھوڑ کر پاکستان میں داخل ہو
رہا ہوں۔
یہ احساس اس لیے کہ چار مہینے کے عرصے میں ایک
لمحے کے لیے مجھے یہ نہ لگا کہ میں کسی غیر ملک میں ہوں۔
دو
وہ کہانی، جو فرشتے کو انسان بنائے۔
ہر طرف ایک میگھ گمبھیر آواز۔
فلیش بیک زندہ باد۔
’’شاعری
میری محبوبہ نہیں بلکہ بیوی ہے!‘‘ یہ کس نے کہا؟ گوپال متّل نے اور کس نے؟
کوئی زمانہ تھا کہ اسی لاہور میں ایک اخبار کے
دفتر میں گوپال متّل کے منھ سے یہ بات سُن کر میرے تو ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ
گئے تھے۔
کون جانے، کون سمجھے!
کبھی نقوش کارواں، کبھی رفتار کی لے، اور کبھی
پکار کا احساس۔
بات ادھوری رہ گئی۔ لیکن کچھ نہ کچھ پاؤں جمے
رہے۔
بہ انداز احترام-
’’اک
آپ ہنسے، اک نین ہنسے، ایک نین کے بیچ ہنسے کجرا!‘‘ آدمی کیسے رہے گھر میں اجنبی؟-
جیسے جھیل کی تہہ تک اُتر گئے تارے!
حیرت کی قسم! حسرت کی قسم!
گھڑی کی وہی ٹِک ٹِک ٹِک۔ اسی کا نام بارشِ
الہام۔ نیک بندے بھی قلم کا سفر کرتے ہی رہے۔ بقول پنڈت ہری چند اخترؔ۔
مسکرا دے، قصۂ اُمید کر دے مختصر
یا بڑھا لے چل ذرا سی بات کو افسانہ کر
سنہری مچھلی کی کہانی کس نے لکھی؟
میری کتاب ’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ کے دیباچہ میں
ہمایوں کے مدیر اعلیٰ میاں بشیر احمد نے زبان و بیان کو ممتاز قرار دیتے ہوئے پیشین
گوئی کر ڈالی کہ یہ کتاب ہمیشہ زندہ رہے گی۔
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم تو لنکا تک ہو
آئے۔ واقعی میاں بشیر احمد صاحب نے مبالغہ آرائی کا نہیں بلکہ خلوص دلی کا ثبوت دیا۔
اب کیا کہیے، کیا کیا گزری! کچھ کھو بھی گئے،
کچھ پا بھی گئے! اس کے باوجود لطیفہ بھی گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑنے لگتا ہے۔
جو جھوٹ بولے گا چوری بھی کرے گا۔
کسی کی نیند اُچٹ گئی اور بڑبڑاتے ہوئے کون جاگ
کر اُٹھ بیٹھا۔ کچھ اُٹھ بھی گئے، کچھ آ بھی گئے!
آنکھوں کے نیچے ہیں سائے۔ کچھ پی بھی گئے،
چھلکا بھی گئے۔
میراجی ریڈیو میں چلے گئے۔ لاہور سے دلی، گُل
سے نظر ملتی ہی رہی، اب دل کی کلی کھلتی ہی رہی۔
فیض احمد فیض، نم راشد اور چراغ حسن حسرت فوج میں
ملازم ہو گئے۔ لیکن میرے ہاتھ میں ’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ کے بعد ’’گائے جا
ہندوستان‘‘۔
حفیظ جالندھری کو حکومت ہند نے سانگ پبلسٹی کا
ڈائرکٹر بنا دیا تو حفیظ نے پنڈت ہری چند اخترؔ کو اپنا نائب چُن لیا۔
محکمہ سونگ پبلسٹی نے جنگ کی حمایت میں جو گیت
لکھوائے ان میں بہترین گیت حفیظ ہی کا تھا۔
یہ اڑوسن پڑوسن چاہے کچھ کہے
میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی ری
محفل تو کبھی سونی نہ رہی۔
کوئی قہقہہ لگاتا، کوئی زیر لب مسکراتا۔
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں! ہم زلف پریشاں بھول
گئے۔ مجرم ہو کوئی سزا کوئی بھگتے۔ سب کے تو گریباں سی ڈالے، اپنا ہی گریباں بھول
گئے۔ لیکن یہ کیسے بھول جائیں کہ چور چور موسیرے بھائی۔ اس کے باوجود سب سے نرالی
اپنی بات۔ خیر جو جی میں آئے کہہ لو۔
ابھی اور کیا گزرے ہم پر! با ادب با ملاحظہ!
ہوشیار
آنسو میں سمندر تشریف لا رہا ہے!
بار الزام، بہ اندازِ احترام۔ مذاق سمجھو مذاق۔
عرب ہوٹل میں بڑے بڑے ادیب چائے کی پیالی منھ
سے لگائے بیٹھے رہتے۔
یہ اچھی رہی! یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ جو
سر پر پڑی ہے، اسے خود ہی بھگتو۔
اب عرب ہوٹل کی ادبی محفل انارکلی کی نگینہ بیکری
میں آ گئی۔
وہ آ گیا، ہمارا موتیوں والا۔۔۔ سمجھ گئے نا!
ارے بھئی جیسے جال میں پھنس کر مچھلی تڑپتی ہے۔ ہم نہ کہتے تھے اسے مذاق ہی سمجھو۔
واہ بھئی واہ! مینھ جو پڑ رہا ہے موسلا دھار۔
اونچی چیخ کس کی زبان سے نکلی؟
پانچ منٹ، دس منٹ، آدھا گھنٹہ گزر گیا۔
ہزار داستان، بہ اندازِ احترام۔ ہماری آنکھیں
بھربھرآ رہی ہیں۔ لیکن ہم رونا نہیں چاہتے۔
ایک طوائف کے بار بار منع کرنے کے باوجود ایک درویش
نے ایک سانپ پال رکھا تھا۔
ایک روز سانپ نے اپنا تمام زہر درویش کے جسم میں
اُتار دیا۔ لیکن درویش نے اپنے عقیدے کے مطابق سانپ کا سر کاٹ ڈالنے کی بجائے سانپ
کو معاف کرتے ہوئے کہا۔ جاؤ، دوست! ہم چلے۔ خدا حافظ! تم آزادی سے زندگی بسر کرو۔
سانپ اور درویش کی کہانی منٹو نے سنائی تھی۔
’’کیا
آپ کو سانپ سے اب بھی محبت ہے؟‘‘ طوائف نے پوچھا۔
درویش نے ہوش و حواس کھونے سے پہلے پوچھا۔ ’’کیوں
نہیں؟ کیوں نہیں؟ اتنی سردی تو شاید قبر میں بھی نہ لگے گی۔‘‘
’’درویش
نہیں، فراڈ!‘‘ منٹو کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
وہ دن اور آج کا دن۔ منٹو کی زبانی ایسی کہانی
پھر کبھی نہ سنی۔
میرا انتر من مور کی طرح ناچ اُٹھتا ہے۔
نئی پرانی نسلوں کا ٹھہراؤ اور جوش بخوبی پیش کیا
جا سکتا ہے۔
’’سانپ، درویش اور نٹنی‘‘۔۔۔ کہانی کے لیے
لاجواب عنوان۔
اس کے باوجود میں تو یہی کہوں گا کہ ہم کیا ہیں
اور کیا نہیں ہیں، اس کا فیصلہ آج نہیں کل ہو گا۔
تین
گفتگو کے دوران میں تو یہی سوچتا رہا کہ کیا
واقعی الفاظ ہم پر جبر کرتے ہیں۔
بھلے ہی بہت سی باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہوتی
ہیں۔ لیکن خانہ بدوشوں کی طرح جگہ جگہ بھٹکتے ہوئے الفاظ ہمارے ہم سفر بن جاتے ہیں۔
سوال انصاف، بھائی بندی اور امن قائم کرنے کا۔
محبوبہ کو ناگن کس نے کہا؟ جادوگر، او جادوگر!
اس پر گرما گرم بحثیں ہوا کرتیں کہ خوشبو کا
آنچل کیا کہہ گیا؟
کسی کسی محفل میں تلے ہوئے یا نمکین کاجو خوب
کھائے جاتے۔ محبوبہ کے ہزار نام- کبھی گلبدن، کبھی دل آرام۔ کبھی کبھی لال ٹین میں
تیل ختم ہو جاتا اور رات بھر یہی خوف جان لیوا محسوس ہوتا رہتا کہ کہیں روپے کی قیمت
اور نہ گر جائے۔ کئی بار سب سے ضروری بات ہماری سمجھ سے پرے رہتی۔ اس کے باوجود
ہماری تان یہیں ٹوٹتی کہ اپنی بات ایک دوسرے سے بلا تکلف کہنا سکھاتی ہے۔ کہانی۔
او صنم، او ہم صنم، تیری قسم! سیڑھیوں میں ہلکے قدموں کی چاپ۔ بہت اچھی کہانی ہے
آج کل ہمارے ہاتھ میں۔ جی شکریہ۔ کہانی نے جلوس میں راستہ بنایا۔
اوپر آسمان، نیچے پاتال۔
ساقی کو آئینہ کس نے کہا؟ ہمت شاہ نے، اور کس
نے۔ اپنا ہمت شاہ، جو چترکار بھی ہے اور مورتی کار بھی۔
سر جھکائے گزر گیا ہمدم۔
آئیے آئیے۔ غریب خانہ میں تشریف لائیے۔
اس دور کی باتیں، کچھ لوگ بتاتے ہیں
وہ دورِ غلامی تھا، یہ کوئی نہیں کہتا
جانے کس کس کی باچھیں کھل گئیں۔ کہیے کیسے آنا
ہوا؟
چار
کچھ نہ کچھ بات تو ہو گی۔ چند لمحے خاموشی رہی۔
جھوٹ کی کئی قسمیں ہیں۔ آج پھر بحث زوروں پر تھی۔
شاباش۔
مور پھر ناچ اُٹھا۔ قابو کچھ اپنے آپ پر لانے
لگے تھے ہم۔
جذبے کی وہ دھڑکن۔ انارکلی کو کبھی غصہ نہیں
آتا۔
گھڑی کی وہی ٹِک ٹِک ٹِک۔ اللہ میاں خوش۔
کہانی کو شعلہ بن کر بھڑکنے دو۔ دنیا بھر کی
زندہ دلی۔
لاہور کی ہر بات یاد ہے اب تک۔ لاہور کا ہم پر
بڑا احسان ہے۔
جانے کہاں کہاں فرمائشی قہقہے پڑتے رہے۔ لاہور
کی پسند کچھ لاہور ہی بہترسمجھتا ہے۔
دوستوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
کیسے کہیں کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے؟ کون کہہ
سکتا ہے، کہ پیچھے لاہور، آگے آگرہ۔
تو خود ہی سوچو۔ کون کس سے کھنچا کھنچا سا رہا
واہ رے واہ ہم۔ ڈوبتے کو تنکے کاسہارا۔
آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔ گھر، نہ سہی، باہر سہی۔
کچھ بیتی ہنسنے رونے میں کچھ آنکھ چرانے میں
گزری۔
مزاج تو اچھے ہیں، بڑے میاں؟
یہ پھول اور خوشبو۔ شاید سبب کچھ اور ہے۔
اجی چھوڑیے بھی۔ خو تم آدمی نہیں فرشتہ ہے!
پانچ
کبھی اُلٹے قدموں بھی چلتی ہے، کہانی۔ شاباش
شاباش! کبھی لاچاری، کبھی مجبوری۔ کبھی پاس کی دوری۔
کبھی آوارہ مجنوں، کبھی آوارہ نغمہ۔ آنکھوں سے
مسکرانے والے۔ آواز گلے میں اٹک اٹک گئی۔
قہقہے ہم پر لگاتا ہے۔ ابھی موسم نہیں بدلا۔ ہم
اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
آواز کا پُل کہاں دیکھا؟
ہم مسلسل چل رہے ہیں۔ اپنا اپنا ٹھور ٹھکانہ۔
ابھی سرگم نہیں بدلا۔ آخر ہوا کیا؟ کچھ کہو تو۔ کہاں کہاں ہم گم سم رہے!
اس نے میرے کیا کیا نام دھرے۔
یا خدا یہ کیا مصیبت ہے؟ اس کے باوجود دن دونی،
رات چوگنی ترقی کا انتظار۔
دھرتی کی خوشبوؤں میں کہانی کا جادو ہے۔
جادوگر! او جادوگر!
سب نے قہقہہ لگایا۔ بد اچھا بدنام بُرا۔ واہ رے
مست قلندر!
ناؤ کس گھاٹ پر آ لگی؟ اب تو بدلیں گے آسمان کے
دن۔
کیا لاہور کیا امرتسر۔ سب جگہ ایسا ہی حال ہے،
سرکار! ماں کی لوری پیارے تھپکتی رہی۔
کبھی کبھی جنگل میں منگل۔
کہو یہ کس کی کارستانی ہے، کس کا کیا دھرا ہے؟
سات سمندر، سات سُر اور ہفتے کے سات دن۔
لوٹ آؤ دوبارہ لوٹ آؤ۔ منٹو کو کیسے آواز دوں؟
چھ
کون کس کے نزدیک پہنچا؟ شملہ پہاڑی کے اور کس
کے؟
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں کتنی افواہیں جناب۔
شملہ پہاڑی سے بہت قریب سے لاہور کا ریڈیو سٹیشن۔
گفتگو کا سلسلہ۔
ہماری سب دعائیں بے اثر تو نہیں۔ ہمارا —
ہمارا یہ حال۔ کمال کا بیٹا جمال۔ لیکن ہم
ہنستے زیادہ ہیں۔
جانے کس کس نے بے تُکا قہقہہ لگایا۔
چائے کی پیالی میں طوفان دیکھا کہاں کہاں؟
تصویر در تصویر پر عالمانہ گفتگو ہوتی رہی۔
بس اب غصہ تھوک بھی ڈالو۔
ہم اپنی پلکیں بچھاویں گے مہمان کے قدموں میں۔
اس شہر کو قریب سے پہچانتے ہیں ہم۔
ہماری حیثیت خالی لفافے کی سی تو نہیں ہے؟
کوئی نہ کوئی رونے کے انداز میں مسکرائی تو میں
نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔
کسی سے یہ مت کہو کہ تمھارا دماغ خراب ہو گیا۔
سات
نہ جانے کتنے موڑ آتے ہیں چھوٹی سی کہانی میں۔ یہی
کہو! یہی کہو۔
ایک ناٹک کے ہم سب ابھینیتا ہیں، بڑے میاں! ہم
نے کس کس کے ناز اُٹھائے!
شاخ پر پھول کھلا ہو جیسے۔ سوچتے ہیں ہم کہ سسکیوں
پر کیسے قابو پائیں۔
جس کو آنا ہے یہاں بن کے سوالی آئے۔
حافظا گر وصل خواہی، صلح کن با خاص و عام
با مسلماں اللہ اللہ، با برہمن رام رام!
شہر در شہر کہو بات اچھالی جائے۔
چلو آج آوارہ نغمہ ہی گائیں — راگ نٹ کلیان۔
الغوزے پر راگ جو گیا۔ جھک جائے آسمان۔
اب کہو لاہور کا لمبا سفر کیسا رہا!
پرچھائیوں کے پیچھے جو بھی بھاگا، بڑے میاں!
وہ بھی سمجھو پرچھائیں بن کے جاگا، بڑے میاں!
شہر لاہور کی شان جہانگیری نہیں جاتی۔
ہیلو مقبرہ جہاں گیر! راوی کے اس پار، پل سے
گزر کر، پیدل یا بس پر، اکیلے یا دوستوں کے ہمراہ، یہی ایک راستہ ہے۔ کچھ حقیقتیں
بھی ہیں بعض داستانوں میں۔
انگوٹھی میں جڑے ہوئے بیش قیمت نگینے کی قسم!
گھر میں اجنبی لگتا ہوں کیسے کہوں؟
شوق کی آگ نہ دھیمی پڑنے پائے۔
نورجہاں کے مقبرے پر یہی تو لکھا ہے۔
بر مزارِ ما غریباں نے چراغ نے گلے
نے پر پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے!
اسے کہتے ہیں انکسار، بڑے میاں!
محبتوں کا سلام، لاہور!
زندہ باد لاہور، زندہ باد بڑے میاں!
زندہ باد انارکلی! زندہ باد نیلا گنبد!
کراچی کی ایک خاص بات۔ غلام عباس کی ’’آنندی‘‘
کی سوغات۔
مکتبہ جدید لاہور کی پیش کش۔ قیمت چار روپے۔
بار اول، اپریل ۱۹۴۸ء۔
میرے لیے ایک کوہ نور۔
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ یہ انمول کتاب میرے
کمرے کی بک شیلف میں اب تک محفوظ ہے۔
اس پر موجود ہے غلام عباس کے ہاتھ سے لکھے ہوئے
الفاظ، جن کی حیثیت سمراٹ اشوک کے کسی شِلا لیکھ سے کم نہیں-
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
چاروں حصے ڈاؤن لوڈ کریں