FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ

 

مشتاق احمد یوسفی

 

آبِ گم : حصہ پنجم

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

آبِ گم ۔۔۔ حصہ پنجم

حصہ اول: حویلی (بشمول ’غنودیم غنودیم)

حصہ دوم، سکول ماسٹر کا خواب

حصہ سوم: کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ

حصہ چہارم: شہرِ دو قصہ

حصہ پنجم: دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ

 

 

 

 

فیل ہونے کے فوائد

بشارت کہتے ہیں کہ بی اے کا امتحان دینے کے بعد یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر فیل ہو گئے تو کیا ہو گا۔ وظیفہ پڑھا تو بحمد للہ یہ فکر تو بالکل رفع ہو گئی، لیکن اس سے بھی بڑی ایک اور تشویش لاحق ہو گئی۔ یعنی اگر خدانخواستہ پاس ہو گئے تو؟ نوکری ملنی محال۔ یار دوست سب تتر بتر ہو جائیں گے۔ والد ہاتھ کھینچ لیں گے۔ بے کاری، بے روز گاری، بے زری، بے شغلی۔۔۔ زندگی عذاب بن جائے گی۔ انگریزی اخبار فقط wanted کے اشتہارات کی خاطر خریدنا پڑے گا۔ پھر ہر کڈھب اسامی کے سانچے میں اپنی کوالیفیکیشنز کو اس طرح ڈھال کر درخواست دینی ہو گی گویا ہم اس عالمِ رنگ و بُو میں صرف اس ملازمت کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنا ہو گا۔ روزانہ دفتر بہ دفتر ذلت اٹھانا پڑے گی۔ تا وقتے کہ ایک ہی دفتر میں اس کا مستقل بندوبست نہ ہو جائے۔ ہر چند کہ فیل ہونے کا قوی امکان تھا، لیکن پاس ہونے کا خدشہ بھی لگا ہوا تھا۔

 

دیکھیں کیا گزرے ہے خدشے پر خطر ہونے تک

بعض لڑکے اس ذلّت کو مزید دو سال کے لیے ملتوی کرنے کی غرض سے ایم اے اور ایل ایل بی میں داخلہ لے لیتے تھے۔ بشارت کی جان پہچان کے جن مسلمان لڑکوں نے تین سال پہلے یعنی 1933 میں بی اے کیا تھا، وہ سب جوتیاں چٹخا تے بیکار پھر رہے تھے۔ سوائے ایک خوش نصیب کے، جو مسلمانوں میں اول آیا تھا اور اب مسلم مڈل اسکول میں ڈرل ماسٹر لگ گیا تھا۔ 1930 کی بھیانک عالم گیر کساد بازاری اور بے روزگاری کی تباہ کاریاں ابھی ختم نہیں ہوئیں تھیں۔ مانا کہ ایک روپے کے گیہوں پندرہ سیر اور اصلی گھی ایک سیر ملتا تھا، لیکن ایک روپیہ تھا کس کے پاس؟

کبھی کبھی وہ ڈر ڈر کے مگر سچ مچ تمنّا کرتے کہ فیل ہی ہو جائیں تو بہتر ہے۔ کم از کم ایک سال اور بے فکری سے کٹ جائے گا۔ فیل ہونے ہر تو، بقول مرزا، صرف ایک دن آدمی کی بے عزتی خراب ہوتی ہے۔ اس کے بعد چین ہی چین۔ بس یہی ہو گا نا کہ جیسے عید پر لوگ ملنے آتے ہیں، اسی طرح اس دن خاندان کا ہر بزرگ باری باری برسوں کا جمع شدہ غبار نکالنے آئے گا اور فیل ہونے اور خاندان کی ناک کٹوانے کی ایک مختلف وجہ بتائے گا۔ اس زمانے میں نوجوانوں کا کوئی کام، کوئی فعل ایسا نہیں ہوتا تھا جس کی جھپیٹ میں آ کر خاندان کی ناک نہ کٹ جائے۔ آج کل والی صورت نہیں تھی کہ اول تو خاندانوں کے منھ پر ناک نظر نہیں آتی اور ہوتی بھی ہے تو tube۔ less tyre کی مانند جس میں آئے دن ہر سائز کے پنکچر ہوتے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر آپی آپ جڑتے رہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات خاندان کے دور و نزدیک کے بزرگ چھٹی ساتویں جماعت تک فیل ہونے والے بر خورداروں کی، حسبِ قرابت و طاقت، دستِ خاص سے پٹائی بھی کرتے تھے۔ لیکن لڑکا جب ہاتھ پیر نکالنے لگے اور اتنا سیانا ہو جائے کہ وہ آوازوں سے رونے لگے، یعنی تیرہ چودہ سال کا ہو جائے تو پھر اسے تھپڑ نہیں مارتے تھے، اس لیے کہ اپنے ہی ہاتھ میں چوٹ لگنے اور پہنچا اترنے کا اندیشہ رہتا تھا۔ فقط لعن طعن اور ڈانٹ پھٹکار سے کام نکالتے تھے۔ ہر بزرگ اس کی certified (مستند، مصدقہ) نالائقی کا اپنے فرضی تعلیمی ریکارڈ سے موازنہ کرتا اور نئی پود میں تا حدِ (موٹی) نظر، انحطاط، اور گراوٹ کے آثار دیکھ کر اس خوشگوار نتیجے پر پہنچتا کہ ابھی دنیا کو اس جیسے بزرگ کی ضرورت ہے۔ بھلا وہ ایسی نا لائق نسل کو دنیا کا چارج دے کر اتنی جلدی کیسے رحلت کر سکتا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ ہر بزرگ بڑے پیغمبرانہ انداز میں بشارت دیتا تھا کہ تم بڑے ہو کر بڑے آدمی نہیں بنو گے! صاحب یہ تو اندھے کو بھی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ حد تو یہ کہ خود ہمیں بھی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ نظر آ رہا تھا۔ یہ پیشین گوئی کرنے کے لیے سفید داڑھی یا ستارہ شناس ہونے کی شرط نہیں تھی۔ بہر طور، یہ ساری farce ایک ہی دن ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن پاس ہونے کے بعد تو ایک عمر کا رونا تھا۔ خواری ہی خواری۔ ذلّت ہی ذلّت۔

 

بشارت اور شاہ جہاں کی تمنّا

بالآخر دوسرا خدشہ پورا ہوا۔ وہ پاس ہو گئے، جس پر انہیں مسرت، پروفیسروں کو حیرت اور بزرگوں کو شاک ہوا۔ اس دن کئی مرتبہ اپنا نام اور اس کے آگے بی اے لکھ لکھ کر دیر تک مختلف زاویوں سے دیکھا کیے۔ جیسے آرٹسٹ اپنی پینٹنگ کو ہٹ ہٹ کر دیکھتا ہے۔ ایک مرتبہ تو B. A کے بعد بریکٹ میں (First Attempt) بھی لکھا۔ مگر اس میں شیخی اور تکبر کا پہلو نظر آیا۔ تھوڑی دیر بعد گتے پر انگریزی میں نیلی روشنائی سے نام اور سُرخ سے B. A لکھ کر دروازے پر لگا آئے۔ پندرہ بیس دن بعد اردو کے ایک مقامی اخبار میں اشتہار دیکھا کہ دھیرج گنج کے مسلم اسکول میں جہاں اسی سال نویں کلاس شروع ہونے والی تھی، اردو ٹیچر کی اسامی خالی ہے۔ اشتہار میں یہ لالچ بھی تھا کہ ملازمت مستقل، ماحول پاکیزہ و پرسکون اور مشاہرہ معقول ہے۔ مشاہرے کی معقولیت کی وضاحت بریکٹ میں کر دی تھی کہ الاونس سمیت پچیس روپے ماہوار ہو گا۔ سوا روپیہ سالانہ ترقی اس پر مستزاد۔۔۔۔ ۔ ملک الشعراء خاقانیِ ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق کو بہادر شاہ ظفر نے اپنا استاد بنایا تو بہ نظرِ پرورش چار روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ”تنخواہ کی کمی پر نظر کر کے باپ نے اکلوتے بیٹے کو اس نوکری سے روکا۔۔۔۔ ۔ لیکن قسمت نے آواز دی کہ للعہ (چار روپے) نہ سجھنا۔ یہ ایوانِ ملک الشعرائی کے چارستون قائم ہوتے ہیں۔ موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دینا۔ ” اور ان کا قصرِ آرزو تو پورے پچّیس ستونوں پر کھڑا ہونے والا تھا!

لیکن وہ”پرسکون ماحول”پر مر مٹے۔ دھیرج گنج کانپور اور لکھنؤ کے درمیان ایک بستی تھی جو گاؤں سے بڑی اور قصبے سے چھوٹی تھی۔ اتنی چھوٹی کہ ہر شخص ایک دوسرے کے آباء و اجداد کے کرتوتوں تک سے واقف تھا۔ اور نہ صرف یہ جانتا تھا کہ ہر گھر میں جو ہانڈی چولھے پر چڑھی ہے اس میں کیا پک رہا ہے، بلکہ کس کس کے ہاں تیل میں پک رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے زندگی میں اس بری طرح دخیل تھے کہ آپ کوئی کام چھپ کر نہیں کر سکتے تھے۔ عیب کرنے کے لیے بھی ساری بستی کا ہنر اور تعاون درکار تھا۔ عرصے سے ان کی تمّنا تھی کہ قسمت نے ساتھ دیا تو ٹیچر بنیں گے۔ لوگوں کی نظر میں استاد کی بڑی عزت تھی۔ کانپور میں ان کے والد کی عمارتی لکڑی کی دکان تھی۔ مگر آبائی کاروبار کے مقابلے میں انھیں دنیا کا ہر پیشہ دلچسپ اور کم ذلیل لگتا تھا۔ بی اے کا نتیجہ نکلتے ہی والد نے ان کی تالیفِ قلب کے لیے اپنی دکان کا نام بدل کر”ایجوکیشنل ٹمبر ڈپو”رکھ دیا۔ پر طبیعت ادھر نہیں آئی۔ مارے باندھے کچھ دن دکان پر بیٹھے، مگر بڑی بے دلی کے ساتھ۔ کہتے تھے بھاؤ تاؤ کرنے میں صبح سے شام تک جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ جس دن سچ بولتا ہوں اس دن کوئی بوہنی بکری نہیں ہوتی۔ دکان میں گردا بہت اڑتا ہے اور گاہک چیخ چیخ کر گفتگو کرتے ہیں۔ ” ہوش سنبھالنے سے پہلے وہ انجن ڈرائیور اور ہوش سنبھالنے کے بعد اسکول ٹیچر بننا چاہتے تھے۔ کلاس روم بھی کسی سلطنت سے کم نہیں۔ استاد ہونا بھی ایک طرح کی فرماں روائی ہے۔ جبھی تو اورنگ زیب نے شاہ جہان کو ایّامِ اسیری میں بچّوں کو پڑھانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ بشارت خود کو شاہ جہاں سے زیادہ خوش نصیب سمجھتے تھے۔ خصوصاً ً اس لیے کہ انہیں تو معاوضے میں پورے پچیس روپے بھی ملنے والے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں معلمی کا پیشہ بہت با وقار اور با عزّت سمجھا جاتا تھا۔ زندگی اور کیریئر میں دو چیزوں کی بڑی اہمیت تھی۔ اول عزّت۔ دوم ذہنی سکون اور بے فکری۔ دنیا کے کسی اور ملک میں "عزت”پر کبھی اتنا زور نہیں رہا جتنا کہ بر صغیر میں۔ انگریزی میں تو اس مفہوم کا حامل کوئی ڈھنگ کا مترادف بھی نہیں ہے۔ چنانچہ انگریزی کے بعض صحافیوں اور نامور کہانی لکھنے والوں نے اس لفظ کو انگریزی میں جوں کا توں استعمال کیا ہے۔ آج بھی جہاں دیدہ بزرگ جب کسی کو دعا دیتے ہیں تو خواہ صحت، عافیت، کثرتِ اولاد، آسودہ حالی اور فزونیِ ایمان کا ذکر کریں یا نہ کریں، یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ اللہ تمہیں اور ہمیں عزّت و آبرو کے ساتھ (بالترتیب) رکھے۔ اٹھائے۔ ملازمت کے ضمن میں بھی ہم حسنِ کار کردگی، ترقیِ درجات اور بلندی مناصب کی دعا نہیں مانگتے۔ اپنے لیے ہماری واحد دعا یہ ہوتی ہے کہ عزّت کے ساتھ سبکدوش ہوں! یہ دعا آپ کو دنیا کے کسی اور زبان یا ملک میں نہیں ملے گی۔ سبب یہ کہ ملازمت پیشہ آدمی بے توقیری کو Professional hazard سمجھ کر قبول اور انگیز کرتا ہے۔ فیڈل عہد کی روایت، خو بو اور خواری جاتے جاتے جائے گی۔ ان دنوں ملازم خود کو نمک خوار کہتے اور سمجھتے تھے۔ ( روم میں تو عہدِ قدیم میں سپاہیوں کو تنخواہ کے بجائے نمک دیا جاتا تھا اور غلاموں کی قیمت نمک کی شکل میں ادا کی جاتی تھی۔) تنخواہ تقسیم کرنے والے محکمے کو بخشی خانہ کہتے تھے۔

 

نیک چلنی کا سائن بورڈ

اشتہار میں مولوی سیّد محمد مظفّر نے، کہ یہی اسکول کے بانی، منتظم، مہتمم، سرپرست اور خازن و خائن کا نام تھا نے مطلع کیا تھا کہ امیدواروں کو تحریری درخواست دینے کی ضرورت نہیں۔ اپنی ڈگری اور نیک چلنی کے دستاویزی ثبوت کے ساتھ صبح آٹھ بجے اصالتاً پیش ہوں۔ بشارت کی سمجھ میں نہ آیا کہ نیک چلنی کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ بد چلنی کا البتہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً چالان، مچلکہ، وارنٹِ گرفتاری، مصّدقہ نقل حکم سزایابی یا "بستہ الف” جس میں نامی بدمعاشوں کا اندراج ہوتا ہے۔ پانچ منٹ میں آدمی بد چلنی تو کر سکتا ہے، نیک چلنی کا ثبوت فراہم نہیں کر سکتا۔ مگر ان کا تردّد بے جا تھا۔ اس لیے کہ جو حلیہ انھوں نے بنا رکھا تھا، یعنی منڈا ہوا سر، آنکھوں میں سرمے کی تحریر، اٹنگا پاجامہ، سر پر مخمل کی سیاہ رام پوری ٹوپی، گھر، مسجد اور محلّے میں پیر پر کھڑاؤں۔۔۔۔ ۔۔ اس حلیے کے ساتھ وہ چاہتے بھی تو نیک چلنی کے سوا اور کچھ ممکن نہ تھا۔ نیک چلنی ان کی مجبوری تھی، اختیاری وصف نہیں۔ اور ان کا حلیہ اس کا ثبوت نہیں، سائن بورڈ تھا۔

یہ وہی حلیہ تھا جو اس علاقے میں مڈل کلاس خاندانی شریف گھرانوں کے نوجوانوں کا ہوا کرتا تھا۔ خاندانی شریف سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں شریف بننے، رہنے اور کہلانے کے لیے ذاتی کوشش قطعی نہیں کرنی پڑتی تھی۔ مہرِ شرافت، جائداد اور مذکورہ بالا حلیہ نسلاً بعد نسل اس طرح ورثے میں ملتے تھے جس طرح ہما شما کوGenes اور موروثی امراض ملتے ہیں۔ عقیدے، مبلغِ علم اور حلیے کے لحاظ سے پڑپوتا اگر ہو بہو اپنا پڑ دادا معلوم ہو تو یہ خاندانی نجابت، شرافت اور اصالت کی دلیل تصور کی جاتی تھی۔ انٹرویو کے لیے بشارت نے اسی حلیے پر صیقل کر کے نوک پلک سنواری۔ اچکن دھلوائی۔ بد رنگ ہو گئی تھی لہٰذا دھوبی سے کہا ذرا کلف زیادہ لگانا۔ سرپر ابھی جمعے کو”زیرو نمبر”کی مہین مشین پھروائی تھی۔ اب استرا اور اس کے بعد آم کی گٹھلی پھروا کر آملہ کے تیل سے مالش کروائی۔ دیر تک مرچیں لگتی رہیں۔ ٹوپی پہن کر آئینہ دیکھ رہے تھے کہ اندر منڈے ہوئے سر سے پسینہ اس طرح رسنے لگا جیسے پیشانی پر”وکس”یا”بام”لگانے کے بعد جھڑتا ہے۔ ٹوپی اتارنے کے بعد پنکھا جھلا تو ایسا لگا جیسے کسی نے ہوا میں پیپر منٹ ملا دیا ہو۔ یہاں یہ اعتراف غالباً بے محل نہ ہو گا کہ ہم نے اپنا ایشیائی خول اتار کے یورپ کے رنگ ڈھنگ پہلے پہل”ننگی آنکھ”سے دیکھے تو ہمارے سارے وجود کو بالکل ایسا ہی محسوس ہوا۔ پھر بشارت نے جوتوں پر تھوک سے پالش کر کے اپنی پرسنلٹی کو فنشنگ ٹچ دیا۔ سلیکشن کمیٹی کا چیرمین تحصیل دار تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ تقرریوں کے معاملے میں اسی کی چلتی ہے۔ پھکڑ، فقرے باز، ادب دوست، ادیب نواز، ملنسار، نڈر اور رشوت خور ہے۔ گھوڑے پر کچہری آتا ہے۔ نادم تخلص کرتا ہے۔ آدمی بلا کا ذہین اور طبیعت دار ہے۔ اسے اپنا طرف دار بنانے کے لیے بادامی کاغذ کا ایک دستہ اور چھ سات نیزے ( نرسل) کے قلم خریدے اور راتوں رات اپنے کلام کا انتخاب یعنی ستائیس غزلوں کا گلدستہ مرتب کیا۔ مخمور تخلص کرتے تھے جو ان کے استاد جوہر الٰہ آبادی کا عطا کردہ تھا۔ اسی کی رعایت سے کلیاتِ نا تمام و بادہ خام کا نام”خمخانہ مخمور کانپوری ثم لکھنوی”رکھا۔ ( لکھنو کو ان سے صرف اتنی نسبت تھی کہ پانچ سال قبل اپنا پِتّا نکلانے کے سلسلے میں دو ہفتے وہاں کے اسپتال میں تقریباً نیم بے ہوشی کی حالت میں قیام فرمایا تھا) پھر اس میں ایک ضخیم ضمیمہ بھی شامل کر دیا۔

اس ضمیمے کا قصّہ یہ ہے کہ اپنی غزلوں اور اشعار کا انتخاب انھوں نے دل پر پتھر بلکہ پہاڑ رکھ کر کیا تھا۔ شعر کتنا ہی لغو اور کمزور کیوں نہ ہو اسے بقلم خود کاٹنا اور حذف کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنی اولاد کو بد صورت کہنا یا زنبور سے اپنا ہلتا ہوا دانت خود اکھاڑنا۔ غالب تک سے یہ مجاہدہ نہ ہو سکا۔ کاٹ چھانٹ مولانا فضل حق خیرآبادی کے سپرد کر کے خود ایسے بن کے بیٹھ گئے جیسے بعض لوگ انجکشن لگواتے وقت دوسری طرف منھ پھیر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ بشارت نے اشعار قلم زد کرنے کو تو کر دیے، مگر دل نہیں مانا۔ چنانچہ آخر میں ایک ضمیمہ اپنے تمام منسوخ کلام کا شامل کر دیا۔ یہ کلام تمام تر اس دور سے تعلق رکھتا تھا جب وہ بے استادے تھے اور فریفتہ تخلص کرتے تھے۔ اس تخلص کی صفت یہ تھی کہ جس مصرعے میں بھی ڈالتے، وہ بحر سے خارج ہو جاتا۔ چنانچہ بیشتر غزلیں بغیر مقطعے کے تھیں۔ چند مقطعوں میں ضرورتِ شعری کے تحت فریفتہ کا مترادف شیدا اور دلدادہ استعمال کیا اور صراحتاً اوپر ڈوئی بھی بنا دی، مگر اس سے شعر میں کوئی اور سقم پیدا ہو گیا۔ بات در اصل یہ تھی کہ غیب سے جو مضامین خیال میں آتے تھے ان کے الہامی وفور اور طوفانی خروش کو وزن و عروض کے کوزے میں بند کرنا انسان کے بس کا کام نہ تھا۔

 

خدا بنے تھے یگانہ، خدا بنا نہ گیا

کلیات کے سر ورق کی محراب پر”اِنَ من الِشعر لِحکمتۃ وَ اِنَ مِنَ البیَان لسّحراً”لکھا۔ اور اس کے نیچے "خمخانہ مخمور کانپوری ثم لکھنوی۔ ترتیبِ جدید۔ ” نیچے کی دو سطروں میں "باہتمام کیسری داس سپرنٹنڈنٹ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ میں چھپ کر شائع ہوا”لکھا۔ پھر”ہوا”کا الف مٹا کر اس کی جگہ بہت باریک خط میں "گا”اس طرح لکھا کہ پہلی نظر میں "ا”ہی دکھائی دیتا تھا۔ آخری سطر میں "پہلا ایڈیشن۔ دسمبر 1937 قیمت للعہ۔ ” کتاب کے نام کے نیچے اس سے دگنے جلی حروف میں اپنا نام لکھا:

” بشارت علی فاروقی کانپوری ثم لکھنوی۔ بی اے (آگرہ یونی ورسٹی)

جانشین افسر الشعراء، افصح الفصحاء حضرت جوہر چغتائی الہ آبادی اعلیٰ اللہ مقامہ۔ ” ہمارے جن پڑھنے والوں کو اس میں غلو یا زیبِ داستان کا شائبہ نظر آئے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ 1947 تک کرشن چندر بھی اپنے نام کے ساتھ ایم اے کا دُم چھلہ لگاتے تھے۔ اور اس کے بغیر ان کا نام بالکل ننگ دھڑنگ بلکہ کسی اور کا معلوم ہوتا تھا۔ اور ایک انھیں پر موقوف نہیں، ان سے بہت پہلے اکبر الہ آبادی کا نام ان کے مجموعوں اور رسالوں میں اس طرح چھپتا تھا:

” از لسان العصر خان بہادر اکبر حسین صاحب۔ پینشنر سشن جج، الہ آباد”

اور بشارت کے پسندیدہ شاعر یگانہ چنگیزی نے جو خود کو "امام الغزل، ابو المعانی، یگانہ علیہ السلام”کہتے اور لکھتے تھے، اپنے دوسرے مجموعہ کلام کو اپنے ہیر اور مرشدِ روحانی، چنگیز خاں کے نام انتہائی عقیدت سے ان الفاظ کے ساتھ معنون کیا:

"تحفہ ادب بجناب ہیبت مآب، پیغمبرِ قہر و عذاب، شہنشاہ بنی آدم سر تاج سکندر و جم، حضرت چنگیز خانِ اعظم، قہر اللہ، منجانب میرزا یگانہ چنگیزی، لکھنوی۔ ”

ایک سنگین غلطی البتہ نادانستہ در آئی۔ بشارت نے ساری عبارت اور القاب مع قیمت للعہ، نول کشور پریس کی ایک ٹائٹل سے من و عن نقل کیے تھے۔ روا روی میں اپنے استاد جوہر چغتائی الہ آبادی کے نام کے آگے "اعلیٰ اللہ مقامہٗ” نقل کرتے وقت یہ خیال نہ رہا کہ ابھی تو وہ حیات ہی نہیں، جواں بھی ہیں اور آخرت میں ان کے مقامات بلند ہونے میں ابھی خاصی دیر ہے۔

یگانہ نے اپنے مطبوعہ دیوان میں اپنی پسندیدگی کی مناسبت سے اشعار پرص کے نشان بالالتزام چھپوائے تھے۔ جو اشعار زیادہ پسند آئے ان پر دو ص ص اور جن پر خود لوٹ ہو ہو جاتے تھے ان پر تین ص ص ص لگوائے، تاکہ کل کلاں کو لا پرواہ پڑھنے والا یہ نہ کہے کہ مجھے خوب، خوب تر اور خوب ترین کے فرق سے کب کسی نے آگاہی بخشی؟ بشارت نے استاد کا تتبع تو کیا، مگر اتنی سی ترمیم کے ساتھ کہ صاد کے دقیانوسی نشان کے بجائے سرخ ٹک مارک دائیں اور بائیں دونوں حاشیوں میں لگا دیے۔

دھیرج گنج کی ملازمت پر انھیں صرف ایک اعتراض تھا۔ مخمور کے آگے دھیرج گنجوی لکھنا تخلص اور تغزّل کا دہرا خون کرنے سے کم نہ تھا۔ لیکن جب ان مظلوم شاعروں پر نظر کی جو اس سے بھی زیادہ گنوارو اور کڈھب نام کے قصبوں، مثلاً پھپھوند، بہرائچ، گونڈہ، بارہ بنکی، چریا کوٹ، جالندھر، لوہارو، لدھیانہ، مچھلی شہری کے ساتھ نباہ کیے جا رہے تھے تو بقول ان کے "صبر تو نہیں آیا، سمجھ آ گئی”پھر ایک دن لیٹے لیٹے دفعتاً خیال آیا کہ عظیم شاعر نظامی بھی تو اپنے تخلص کے بعد گنجوی لکھتا تھا۔ چلیے، ” گنج”کی خلش دور ہو ئی۔ اللہ نے چاہا تو اسی طرح دھیرج کا کانٹا بھی دفعتاً نکل جائے گا۔

 

مولوی مجن سے تانا شاہ تک

حفظِ ما تقرر کے طور پر تحصیل دار تک سفارش پہچانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ البتہ مولوی مظفر (جو حقارت، اختصار اور پیار میں مولوی مجّن کہلاتے تھے) کے بارے میں جس سے پوچھا اس نے ایک نیا عیب نکالا۔ ایک صاحب نے کہا: قوم کا درد رکھتا ہے، حکام رس ہے، پر کم ظرف۔ بچ کے رہنا۔ دوسرے صاحب بولے، مولی مجّن ایک یتیم خانہ، شمع الاسلام بھی چلاتا ہے۔ یتیموں سے اپنے پیر دبواتا اور اسکول کی جھاڑو دلواتا ہے۔ اور ماسٹروں کو یتیموں کی ٹولی کے ساتھ چندہ اکھٹا کرنے کانپور اور لکھنؤ بھیجتا ہے۔ وہ بھی بِلا ٹکٹ۔ مگر اس میں شک نہیں کہ دھن کا پکّا ہے۔ مسلمانانِ دھیرج گنج کی بڑی خدمت کی ہے۔ دھیرج گنج کے جتنے بھی مسلمان آج پڑھے لکھے اور بر سرِ روزگار نظر آتے ہیں وہ سب اسی اسکول کے زینے سے اوپر چڑھے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا کہ لوگوں کو مولوی مظفر سے بغضِ للہّٰی ہو گیا ہے۔ بشارت کو ان سے ایک طرح کی ہمدردی ہو گئی۔ یوں بھی ماسٹر فاخر حسین نے ایک مرتبہ بڑے کام کی نصیحت کی تھی کہ کبھی اپنے کسی بزرگ یا باس یا اپنے سے کم بد معاش کی اصلاح کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ انہیں غلط راہ پر دیکھو تو تین دانا بندروں کی طرح اندھے، بہرے اور گونگے بن جاؤ۔ ٹھاٹ کرو گے۔

ایک جلے تن بزرگ جو رسالہ ” زمانہ ” میں کاتب تھے، فرمانے لگے ” وہ چھاکٹا یہ نہیں چرکٹا بھی ہے۔ پچیس روپے کی رسید لکھوا کر پندرہ رُپلّی ہاتھ میں ٹکا دے گا۔ پہلے تمہیں جانچے گا۔ پھر آنکے گا۔ اس کے بعد تمام عمر ہانکے گا۔ اس نے دستخط کرنے اس وقت سیکھے جب چندے کی جعلی رسیدیں کاٹنے کی ضرورت پڑی۔ ارے صاحب! سرسیّد تو اب جا کے بنا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اسے اپنے نکاح نامے پر انگوٹھا لگاتے دیکھا ہے۔ ٹھوٹھ جاہل ہے۔ مگر بَلا کا کڑھا ہوا ہے۔ گھِسا ہوا بھی ہے اور گھٹا ہوا بھی۔ ایسا ویسا چپڑ قنات نہیں ہے۔ لُقّہ بھی ہے۔ لُچہ بھی اور ٹُچّہ بھی” بزرگوار موصوف نے ایک ہی سانس میں پاجی پن کے ایسے باریک شیڈز گنوا دیے کہ جب تک آدمی ہر گالی کے بعد لغت نہ دیکھے، یا ہماری طرح عرصہ دراز تک زبان دانوں کی صحبت کے صدمے نہ اٹھائے ہوئے ہو، وہ زبان اور نالائقی کی ان نزاکتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔

سید اعجاز حسین وفا کہنے لگے ” مولی مجّن پانچوں وقت ٹکریں مارتا ہے۔ گھُٹنوں، ماتھے اور ضمیر پر یہ بڑے گٹے پڑ گئے ہیں۔ تھانے دار اور تحصیل دار کو اپنے حسنِ اخلاق، اسلامی جذبۂ اخوت و مدارات اور۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ رشوت سے قابو میں کر رکھا ہے۔ دمے کا مریض ہے۔ پانچ منٹ میں دس دفعہ آستین سے ناک پونچھتا ہے۔ ” در اصل انہیں آستین سے ناک پونچھنے پر اتنا اعتراض نہ تھا جتنا اس پر کہ آستین کو اَستین کہتا ہے۔ یخنی کو اَخنی اور حوصلہ کو حونصلہ۔ انھوں نے اپنے کانوں سے اسے مجاز شریف اور شبرات کہتے سنا تھا۔ جہلا، دہقانیوں اور بکریوں کی طرح ہر وقت، میں، میں! ، کرتا رہتا ہے۔ لکھنؤ کے شرفا انانیت سے بچنے کی غرض سے خود کو ہمیشہ ” ہم” کہتے ہیں۔ اس پر ایک نحیف و لاغر بزرگ نے اضافہ فرمایا کہ ذات کا قصائی کنجڑا یا دِلّی والا معلوم ہوتا ہے۔ کس واسطے کہ تین دفعہ گلے ملتا ہے۔ اودھ میں اشراف صرف ایک مرتبہ گلے ملتے ہیں۔

یہ اودھ کے ساتھ سراسر زیادتی تھی۔ اس لیے کہ صرف ایک دفعہ گلے ملنے میں شرافت و نجابت کا غالباً اتنا دخل نہ تھا جتنا نازک مزاجی کا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ اس زمانے کے چونچلے ہیں جب نازک مزاج بیگمات خشکے اور شبنم کو آلہ خود کشی کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ اور یہ دھمکی دیتی تھیں کہ خشکہ کھا کر اوس میں سو جاؤں گی۔ وہ تو خیر بیگمات تھیں، تانا شاہ ان سے بھی بازی لے گیا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ گرفتار ہو کر دربار میں پا بجولاں پیش کیا گیا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ اسے کسطرح مروایا جائے۔ درباریوں نے ایک سے ایک تجویز پیش کی ہو گی۔ مثلاً ایک درباری نے کہا کہ ایسے عیّاش کو مست ہاتھی کے پیر سے باندھ کر شہر کا گشت لگوانا چاہیے۔ دوسرا کورنش بجا کے بولا: بجا، مگر مست ہاتھی کو شہر کا گشت کون مائی کا لال لگوائے گا۔ ہاتھی گشت لگانے کے لیے تھوڑا ہی مست ہوتا ہے۔ البتہ آپ تانا شاہ کی عیاشی کی سزا ہاتھی کو دینا چاہتے ہیں تو اور بات ہے۔ اس پر تیسرا درباری بولا کہ تانا شاہ جیسے عیاش کی اس سے زیادہ اذیت ناک سزا نہیں ہو سکتی کہ اسے مخنث کر کے اسی کے حرم میں کھلا چھوڑ دیا جائے۔ ایک اور درباری نے تجویز پیش کی کہ آنکھوں میں نیل کی سلائی پھروا کر اندھا کر دو۔ پھر قلعہ گوالیار میں دوسال تک روزانہ نہار منہ پوست کا پیالہ پلاؤ تالہ اپنے کو دھیرے دھیرے مرتے ہوئے خود بھی دیکھے۔ اس پر کسی تاریخ داں نے اعتراض کیا کہ سلطان ذی شان کا تانا شاہ سے کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے۔ یہ سلوک تو صرف سگے بھائیوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ ایک شقی القلب نے کہا کہ قلعے کی فصیل سے نیچے پھینک دو۔ مگر یہ طریقہ اس بنا پر رد کر دیا گیا کہ اس کا دَم تو مارے ڈر کے رستے میں ہی نکل جائے گا۔ اگر مقصد اذیت دینا ہے تو وہ پورا نہیں ہو گا۔ بالآخر وزیر نے، جس کا با تدبیر ہونا ثابت ہو گیا، یہ مشکل حل کر دی۔ اس نے کہا کہ اگر ذہنی اذیت دے کر اور تڑپا کر مارنا ہی مقصود ہے تو اس کے پاس سے ایک گوالن گزار دو۔ جن پڑھنے والوں نے بگڑے ہوئے رئیس اور گوالن نہیں دیکھی ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مکھّن اور کچے دودھ کی بُو، ریوڑ باس میں بسے ہوئے لہنگے اور پسینے کی کھار سے سفید پڑے ہوئے سیاہ شلوکے کے ایک ہی بھبکے سے امراورؤسا کا دماغ پھٹ جاتا تھا۔ پھر انھیں ہرن کے نافے سے نکلے ہوئے مادّے کے لخلخے سنگھا کر ہوش میں لایا جاتا تھا۔

 

حلوائی کی دکان اور کتے کا ناشتہ

انٹرویو کی غرض سے دھیرج گنج جانے کے لیے بشارت صبح تین بجے ہی نکل کھڑے ہوئے۔ سات بجے مولوی مظفر کے گھر پہنچے تو وہ تخت پر بیٹھے جلیبیوں کا ناشتہ کر رہے تھے۔ بشارت نے اپنا نام پتہ بتایا تو کہنے لگے ” آئیے آئیے! آپ تو کان ہی پور کے ( کانپور ہی کے) رہنے والے ہیں۔ کانپور کو گویا لکھنؤ کا آنگن کہیے۔ لکھنؤ کے لوگ تو بڑے مدمغ اور ناک والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ناشتے کے لیے جھوٹوں بھی نہیں ٹوکوں گا۔ اے ذوق تکّلف میں ہے تکلیف برابر( جی ہاں۔ انھوں نے سراسر، کو، برابر، کر دیا تھا) ظاہر ہے ناشتہ تو آپ کر کے آئے ہوں گے۔ سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ انجمن کے دفتر میں ایک گھنٹہ بعد ہو گی۔ وہیں ملاقات ہو گی۔ اور ہاں جس ناہنجار سے آپ نے سفارش کروائی وہ نہایت بخیل اور نا معقول آدمی ہے۔ ”

اس تمام گفتگو میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگے ہوں گے۔ مولوی مظفر نے بیٹھنے کو بھی نہیں کہا۔ کھڑے کھڑے ہی بھگتا دیا۔ گھر سے منھ اندھیرے چلے تھے، مولوی مظفر کو گرم جلیبی کھاتے دیکھ کر ان کی بھوک بھڑک اٹھی۔ محمد حسین آزاد کے الفاظ میں بھک نے ان کی اپنی ہی زبان میں ذائقہ پیدا کر دیا۔ گھوم پھر کر حلوائی کی دکان دریافت کی اور ڈیڑھ پاؤ جلیبیاں گھان سے اترتی ہوئی تلوائیں۔ دونے سے پہلی جلیبی اٹھائی ہی تھی کہ حلوائی کا کتّا ان کے پورے عرض کے غرارے نما لکھنؤی پاجامے کے پائنچے میں منھ ڈال کر بڑی تندہی سے لپڑ لپڑ ان کی پنڈلی چاٹنے لگا۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ، بے حس و حرکت چٹواتے رہے۔ اس لیے کہ انھوں نے کسی سے سن رکھا تھا کہ کتّا اگر پیچھا کرے یا آپ کے ہاتھ پیر چاٹنے لگے تو بھاگنا یا شور نہیں مچانا چاہیے، ورنہ وہ مشتعل ہو کر سچ مچ کاٹ کھائے گا۔ جیسے ہی انھوں نے اسے ایک جلیبی ڈالی، اس نے پنڈلی چھوڑ دی۔ اس اثنا میں انھوں نے خود بھی ایک جلیبی کھائی۔ کتّا اپنی جلیبی ختم کرتے ہی پھر شروع ہو گیا۔ زبان بھی ٹھیک سے صاف نہیں کی۔ اب ناشتے کا یہ "پیٹرن” بنا کہ پہلے ایک جلیبی کتّے کو ڈالتے تب خود بھی ایک کھا پاتے۔ جلیبی دینے میں ذرا دیر ہو جاتی تو وہ لپک کر دوبارہ بڑی رغبت و انہماک سے پنڈلی چچوڑنے لگتا۔ شاید اس لیے کہ اس کے اندر ایک ہڈی تھی۔ لیکن اب دل سے کُتے کا خوف اس حد تک نکل چکا تھا کہ اس کی ٹھنڈی ناک سے گدگدی ہو رہی تھی۔ انہوں نے کھڑے کھڑے دو نہایت اہم فیصلے کیے۔ اول یہ کہ آئندہ کبھی جہلائے کانپور کی طرح سڑک پر کھڑے ہو کر جلیبی نہیں کھائیں گے۔ دوم، شرفائے لکھنؤ کی دیکھا دیکھی اتنے چوڑے پائینچے کا پاجامہ ہرگز نہیں پہنیں گے۔ کم از کم زندہ حالت میں۔ کتّے کو ناشتہ کروا چکے تو خالی دونا اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ شیرہ چاٹنے میں منہمک ہو گیا تو حلوائی کے پاس دوبارہ گئے۔ ایک پاؤ دودھ کلھڑ میں اپنے لیے اور ڈیڑھ پاؤ کتے کے لیے خریدا، تاکہ اسے پیتا چھوڑ کر سٹک جائیں۔ اپنے حصّے کا دودھ غٹاغٹ پی کر قصبے کی سیر کو روانہ ہونے لگے تو کتّا اپنا دودھ چھوڑ کر ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ انھیں جاتا دیکھ کر پہلے کتّے کے کان کھڑے ہوئے تھے، اب ان کے کھڑے ہوئے کہ بد ذات اب کیا چاہتا ہے۔ تین چار جگہ جہاں انھوں نے ذرا دم لینے کے لیے رفتار کم کرنے کی کوشش کی، یا اپنی مرضی سے مڑنا یا لوٹنا چاہا تو کتّا کسی طرح راضی نہ ہوا۔ ہر موڑ پر گلی کے کتّے چاروں طرف سے انہیں اور اسے گھیر لیتے اور کھدیڑتے ہوئے دوسری گلی تک لے جاتے جس کی بین الکلبی سرحد میں دوسرے تازہ دَم کتّے چارج لے لیتے۔ کتّا بڑی بے جگری سے تنہا لڑ رہا تھا۔ جب تک جنگ فیصلہ کن طریقے سے ختم نہ ہو جاتی یا کم از کم عارضی سگ بندی نہ ہو جاتی یا بصورت دیگر، دوسری گلی کے شیروں سے ازسِرنو مقابلہ شروع نہ ہوتا، وہ UNO کی طرح بیچ میں خاموش کھڑے دیکھتے رہتے۔ وہ لونڈوں کو کتوں کو پتھر مارنے سے بڑی سختی سے منع کر رہے تھے۔ اس لیے کہ سارے پتھر انھی کو لگ رہے تھے۔ وہ کتّا دوسرے کتّوں کو ان کی طرف بڑھنے نہیں دیتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی اخلاقی ہمدردیاں بھی اب اپنے ہی کتّے کے ساتھ ہو گئیں تھیں۔ دو فرلانگ پہلے جب وہ چلے تھے تو وہ محض ایک کتّا تھا۔ مگر اب رشتہ بدل چکا تھا۔ وہ اس کے لیے کوئی اچھا سا نام سوچنے لگے۔

انھیں آج پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ گاؤں میں اجنبی کی آمد کا اعلان کتّے، مور اور بچے کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سارے گاؤں اور ہر گھر کا مہمان بن جاتا ہے۔

 

ٹیپو نام کے کتّے

انھیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ حلوائی اور بچے اس کتّے کو ٹیپو! ٹیپو! کہہ کر بلا اور دھتکار رہے تھے۔ سرنگا پٹم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے کثرت سے کتّوں کا نام ٹیپو رکھنا شروع کر دیا تھا۔ اور ایک زمانے میں یہ نام شمالی ہندوستان میں اتنا عام ہوا کہ خود ہندوستانی بھی آوارہ اور بے نام کتّوں کو ٹیپو کہہ کر بلاتے اور ہشکارتے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ یہ جانے بغیر کہ کتّوں کا یہ نام کیسے پڑا۔ باستثنائے نپولین اور ٹیپو سلطان، انگریزوں نے ایسا سلوک اپنے کسی اور دشمن کے ساتھ روا نہیں رکھا۔ اس لیے کہ کسی اور دشمن کی ان کے دل میں ایسی ہیبت اور دہشت کبھی نہیں بیٹھی تھی۔ بر صغیر کے کتے سو سال تک سلطان شہید کے نام سے پکارے جاتے رہے۔ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمائش، عقوبتِ مطہرہ اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ ربِ جلیل انہیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔

 

تلوا دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والا

حالانکہ ان کا اپنا گھر پختہ اور اسکول نیم پختہ تھا، لیکن مولوی مظفر نے اپنی دیانت اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی سادگی کا نمونہ پیش کرنے کے غرض سے اپنا دفتر ایک کچے ٹن پوش مکان میں بنا رکھا تھا۔ سلیکشن کمیٹی کا اجلاس اسی جگہ ہونے والا تھا۔ بشارت سمیت کل تین امیدوار تھے۔ باہر دروازے کے بائیں طرف ایک بلیک بورڈ پر چاک سے یہ ہدایات مرقوم تھیں (1) امیدوار اپنی باری کا انتظار صبر و تحمل سے کریں (2) امیدواروں کو سفر خرچ اور بھتہ ہرگز نہیں دیا جائے گا۔ ظہر کی نماز کے بعد ان کے طعام کا انتظام یتیم خانہ شمع الاسلام میں کیا گیا ہے (3) انٹرویو کے وقت امیدوار کو مبلغ ایک روپے چندے کی یتیم خانے کی رسید پیش کرنا ہو گی(4) امیدوار حضرات براہِ کرم اپنی بیڑی بجھا کر اندر داخل ہوں۔ ”

بشارت جب انتظار گاہ یعنی نیم کی چھاؤں تلے پہنچے تو کتا ان کی جلو میں تھا۔ انھوں نے اشاروں کنایوں سے کئی بار اس سے رخصت چاہی مگر وہ کسی طور ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ نیم کے نیچے وہ ایک پتھر پر بیٹھ گئے تو وہ بھی ان کے قدموں میں آن بیٹھا۔ نہایت مناسب وقفوں سے دُم ہلا ہلا کر انہیں ممنون نگاہوں سے ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔ اس کا یہ انداز انھیں بہت اچھا لگا اور اس کی موجودگی سے انھیں کچھ تقویت سی محسوس ہونے لگی۔ نیم کے سائے میں ایک امیدوار جو خود کو الہ آباد کا L.T بتاتا تھا، اُکڑوں بیٹھا تنکے سے ریت پر ایک تکسیر یعنی 20 کا مبارک نقش بنا رہا تھا، جس کے خانوں کے عدد کسی طرف سے بھی گنے جائیں، حاصل جمع 20 بنتا تھا۔ تسخیرِزن اور افسر کو رام کرنے کے لیے یہ نقش تیر بہدف سمجھا جاتا تھا۔ کان کے پیچ و خم میں جو سوالیہ نشان کے اندر ایک اور سوالیہ نشان بنا ہوتا ہے، ان دونوں کی درمیانی گھائی میں اس نے عطرخس کا پھویا اُڑس رکھا تھا۔ ” زلفِ بنگال ہیئر آئل”سے کی ہوئی سینچائی کے ریلے جو سر کی فوری ضروریات سے زائد تھے، پیشانی پر بہ رہے تھے۔ دوسرا امیدوار جو کالپی سے آیا تھا، خود کو علی گڑھ کا بی اے، بی ٹی بتلاتا تھا۔ دھوپ کی عینک تو سمجھ میں آتی تھی، لیکن اس نے گلے میں سلک کا سرخ اسکارف بھی باندھ رکھا تھا، جس کا اس چلچلاتی دھوپ میں بظاہر یہی مصرف نظر آتا تھا کہ چہرے سے ٹپکا ہوا پسینا محفوظ کر لے۔ اگر اس کا وزن سو پونڈ کم ہوتا تو وہ سوٹ جو وہ پہن کر آیا تھا، بالکل فِٹ آتا۔ قمیض کے دو نیچے کے بٹن اور پتلون کے دو اوپر والے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ صرف سولر ہیٹ صحیح سائز کا تھا۔ فیروزے کی انگوٹھی بھی غالباً تنگ ہو گئی تھی، اس لیے کہ انٹرویو کے لیے آواز پڑی تو اس نے جیب سے نکال کر چھنگلیا میں پہن لی۔ جوتے کے تسمے جنہیں وہ کھڑے ہونے کے بعد دیکھ نہیں سکتا تھا، کھلے ہوئے تھے۔ کہتا تھا گول کیپر رہ چکا ہوں۔ اس تن و توش کے باوجود خود کو نیم کے دو شاخے میں اس طرح فٹ کیا تھا کہ دور سے ایک V نظر آتا تھا جس کی ایک نوک پر جوتے اور دوسری پر ہیٹ رکھا تھا۔ یہ صاحب اوپر ٹنگے ٹنگے ہی گفتگو میں حصہ لے رہے تھے۔ اور وہیں سے پیک کی پچکاریاں اور پاسنگ شو سگریٹ کی راکھ چٹکی بجا بجا کر جھاڑ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بشارت کے پاس ایک جنگم فقیر[1] آن بیٹھا۔ اپنا سونٹا ان کے ماتھے پر رکھ کر کہنے لگا۔ ” قسمت کا حال بتاتا ہوں پاؤں کے تلوے دیکھ کر۔ ابے جوتے اتار۔ نہیں تو سالے کو یہیں بھسم کر دوں گا۔ ” انھوں نے اسے پاگل سمجھ کر منھ پھیر لیا، لیکن جب اس نے نرم لہجے میں کہا ” بچہ! تیرے پیڑو پہ تِل اور سیدھی بغل میں مَسّا ہے۔ ” تو انھوں نے خوفزدہ ہو کر جوتے اتار دیے، اس لیے کہ اس نے بالکل صحیح نشاندہی کی تھی۔ ذرا دور پر ایک بَڑ کے درخت کے نیچے تیسری جماعت کے لڑکے ڈرل کر رہے تھے۔ اس وقت ان سے ڈنڑ لگوائے جا رہے تھے۔ پہلے ہی ڈنڑ میں ” ہوں! ” کہتے ہوئے سر نیچے لے جانے کے بعد صرف دو لڑکے ہتھیلیوں کے بل اٹھ پائے۔ باقی ماندہ وہیں دھول میں چھپکلی کی طرح پٹ پڑے رہ گئے۔ اور گردن موڑ موڑ کر بڑی بے چارگی سے ڈرل ماسٹر کو دیکھ رہے تھے، جو انھیں طعنے دے رہا تھا کہ تمہاری ماؤں نے تمہیں کیسا دودھ پلایا ہے؟

دروازے پر سرکنڈوں کی چق پڑی تھی جس کا نچلا حصہ جھڑ چکا تھا۔ سُتلی کی لڑیاں لٹکی رہ گئی تھیں۔ سب سے پہلے علیگ امیدوار کو اس طرح آواز پڑی جیسے عدالت میں فریقینِ مقدمہ کے نام مع ولدیت پکارے جاتے ہیں۔ پکارنے کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا گویا سو دو سو امیدوار ہیں جو ڈیڑھ دو میل دور کہیں بیٹھے ہیں۔ امیدوار مذکور نیم کی غلیل سے دھم سے کود کر سولر ہیٹ سمیت دروازے میں داخل ہونے والا تھا کہ چپراسی نے راستہ روک لیا۔ اس نے یتیم خانے کی رسید طلب کی اور پاسنگ شو کی ڈبیا جس میں ابھی دو سگریٹ باقی تھے بصیغہ خراج دھَر والی۔ پھر جوتے اتروا کر بحالتِ رکوع اندر لے گیا۔ پچاس منٹ بعد دونوں باہر نکلے۔ چپراسی نے دروازے کے پاس رکھی ہوئی چوبی گھوڑی میں معلق گھنٹے کو ایک دفعہ بجایا جس کا مقصد اہالیانِ قصبہ اور امیدواروں کو مطلع کرنا تھا کہ پہلا انٹرویو ختم ہوا۔ باہر کھڑے ہوئے لڑکوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ اس کے بعد الہ آبادی امیدوار کا نام پکارا گیا اور وہ بیس کا نقش مٹا کر لپک جھپک اندر چلا گیا۔ پچاس منٹ بعد پھر چپراسی نے باہر آ کر گھنٹے پر دوبارہ اتنے زور سے ضرب لگائی کہ قصبے کے تمام مور چنگھاڑنے لگے۔ ہر انٹرویو کا دورانیہ وہی تھا جو اسکول کے گھنٹوں کا۔ چپراسی نے آنکھ مار کر بشارت کو اندر چلنے کا اشارہ کیا۔

 

بلیک ہول آف دھیرج گنج

بشارت انٹرویو کے لیے اندر داخل ہوئے تو کچھ دیر تک تو کچھ نظر نہ آیا، اس لیے کہ بجز ایک گول موکھے کے، روشنی آنے کے لیے کوئی کھڑکی یا روشندان نہیں تھا۔ پھر دھیرے دھیرے اسی اندھیرے میں ہر چیز کی آؤٹ لائن اُبھرتی، اُجلتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ دیواروں پر کہگل یعنی پیلی مٹی اور گوبر کی تازہ لپائی میں مضبوطی اور گرفت کے لیے جو کڑبی کی چھیلن اور توڑی کے تنکے ڈالے گئے تھے ان کا قدرتی سنہری وارنش اندھیرے میں چمکنے لگا۔ دائیں طرف نیم تاریک کونے میں دو بٹن روشن نظر آئے۔ وہ چل کر ان کی طرف آنے لگے تو انہیں خوف محسوس ہوا۔

یہ اس بلّی کی آنکھیں تھیں جو کسی اَن دیکھے چوہے کی تلاش میں تھی۔ بائیں طرف ایک چار فُٹ اونچی مچان نُما کھاٹ پڑی تھی جس کے پائے غالباً درختوں کے سالم تنے سے بنائے گئے تھے۔ بسولے سے چھال اتارنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی تھی۔ اس پر سلیکشن کمیٹی کے تین ممبر ٹانگیں لٹکائے بیٹھے تھے۔ اس کے پاس ہی ایک اور ممبر بغیر پشت کے مونڈھے پر بیٹھے تھے۔ دروازے کی طرف پشت کیے مولوی مظفر ایک ٹیکی دار مونڈھے پر براجمان تھے، جس کے ہتھوں کی پیڈنگ نکلنے کے بعد سر کنڈے ننگے سر کھڑے رہ گئے تھے۔ ایک بغیر بازو والی لوہے کی کرسی پر ایک نہایت خوش مزاج شخص الٹا بیٹھا تھا۔ یعنی اس کی پشت سے اپنا سینہ ملائے اور کنارے پر اپنی ٹھوڑی رکھے ہوئے۔ اس کا رنگ اتنا سانولا تھا کہ اندھیرے میں صرف دانت نظر آ رہے تھے۔ یہ تحصیلدار تھا جو اس کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ ایک ممبر نے اپنی تُرکی ٹوپی کھاٹ کے پائے کو پہنا رکھی تھی۔ کچھ دیر بعد جب بلّی اس کے پھُندنے سے طمانچے مار مار کے کھیلنے لگی تو اس نے پائے سے اتار کر اپنے سر پر رکھ لی۔ سب کے ہاتھ میں کھجور کے پنکھے تھے۔ مولی مجّن پنکھے کی ڈنڈی گردن کے راستے شیروانی میں اتار کر بار بار اپنی پیٹھ کھجانے کے بعد ڈنڈی کی نوک کو سُونگھتے تھے۔ تحصیل دار کے ہاتھ میں جو پنکھا تھا اس میں سرخ گوٹ اور درمیان میں چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ امیدوار کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول، جس کے وسط میں گُردے کی شکل کا ایک سوراخ تھا جو اس زمانے میں سب اسٹولوں میں ہوتا تھا۔ اس کا مصرف ایک عرصے تک ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ بعض لوگ گرمیوں میں اس پر صراحی یا ٹھلیا رکھ دیتے تھے تاکہ سوراخ سے پانی رِستا رہے اور پیندے کو ٹھنڈی ہوا لگتی رہے۔ بشارت آخر وقت تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ وہ خود نروس ہیں یا اسٹول لڑکھڑا رہا ہے۔ تحصیل دار پیڑے کی لسی پی رہا تھا اور بقیہ ممبران حقہ۔ سب نے جوتے اتار رکھے تھے۔ بشارت کو اگر یہ علم ہوتا تو یقیناً صاف موزے پہن کر آتے۔ مونڈھے پر بیٹھا ہوا ممبر اپنے بائیں پیر کو دائیں گھٹنے پر رکھے، ہاتھ کی انگلیوں سے پاؤں کی انگلیوں کے ساتھ پنجہ لڑا رہا تھا۔ بدقلعی اگالدان گردش میں تھا۔ ہوا میں حقے، پان کے بنارسی تمباکو، کونے میں پڑے ہوئے خربوزے کے چھلکوں، عطرِخس اور گوبر کی تازہ لپائی کی بو بسی ہوئی تھی۔۔۔ اور ان سب پر غالب وہ بھبکا جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دیسی جوتوں کی بو ہے جو پیروں سے آ رہی ہے یا پیروں کی سڑاند ہے جو جوتوں سے آ رہی ہے۔

جس موکھے کا ہم ذکر کر چکے ہیں اس کے بارے میں فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ وہ روشنی کے لیے بنایا گیا ہے یا اندر کی تاریکی کو contrast (تضاد، تقابل) سے اور زیادہ تاریک دکھانا مقصود ہے۔ باہر کا منظر دیکھنے کے لیے روزن ہے یا بہر والوں کو اندر تانک جھانک کرنے کے لیے جھانکی مہیا کی گئی ہے۔ روشندان، ہوا دان، دود کش، دریچہ، پورٹ ہول۔۔ بقول بشارت یہ ایشیا کا سب سے کثیر المقاصد سوراخ تھا جو بے حد overworked اور چکرایا ہوا تھا۔ چنانچہ ان میں سے کوئی سا فریضہ بھی ٹھیک سے انجام نہیں دے پا رہا تھا۔ فی الوقت اس میں ہر پانچ منٹ میں ایک نیا چہرہ فٹ ہو جاتا تھا۔ ہو یہ رہا تھا کہ باہر دیوار تلے ایک لڑکا گھوڑا بنتا اور دوسرا اس پر کھڑے ہو کر اس وقت تک اندر کا تماشہ دیکھتا رہتا جب تک گھڑے کے پیر نہ لڑکھڑانے لگتے اور وہ کمر کو کمانی کی طرح لچکا لچکا کے یہ مطالبہ نہ کرنے لگتا کہ یار! اُتر مجھے بھی تو دیکھنے دے۔ گاہے گاہے یہ موکھا آکسیجن اور گالیوں کی رہگزر کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مولی مجّن دمے کے مریض تھے۔ جب کھانسی کا دورہ پڑتا اور ایسا لگتا کہ شاید دوسرا سانس نہیں آئے گا وہ دوڑ کر آکسیجن کے لیے موکھے میں اپنا منھ فٹ کر دیتے اور جب سانس کی آمد و شد بحال ہو جاتی تو قرات سے الحمد للہ کہنے کے بعد لونڈوں کو سڑی سڑی گالیاں دیتے۔ تھوڑی دیر بعد دھوپ کا رُخ بدلا تو سورج کا ایک چکا چوند لپکتا نیزہ اس روزن سے داخل ہو کر کمرے کی تاریکی کو چیرتا چلا گیا۔ اس میں دھوئیں کے بل کھاتے مرغولوں اور ذروں کا ناچ دیدنی تھا۔ بائیں دیوار کے طاق میں دینیات کے طلبہ کے ہاتھ کے بنائے ہوئے استنجے کے نہایت سڈول ڈھیلے قرینے سے تلے اوپر سجے تھے، جن پر اگر مکھیاں بیٹھی ہوتیں تو بالکل بدایوں کے پیڑے معلوم ہوتے۔

دائیں دیوار پر شہنشاہ جارج پنجم کے فوٹو پر گیندے کا سُوکھا کھڑنک ہار لٹک رہا تھا۔ اس کے نیچے مصطفیٰ کمال پاشا کا فوٹو اور مولانا محمد علی کی تصویر جس میں وہ چغہ پہنے اور سُموری ٹوپی پر چاند تارا لگائے کھڑے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان مولی مجّن کا بڑا سا فوٹو اور اس کے نیچے فریم کیا ہوا سپاس نامہ جو اساتذہ اور چپراسیوں نے ان کی خدمت میں ہیضے سے جانبر ہونے کی خوشی میں درازی عمر کی دعاؤں کے ساتھ پیش کیا تھا۔ ان کی تنخواہ پانچ مہینے سے رکی ہوئی تھی۔

ہم یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ جب بشارت انٹرویو کے لیے اٹھ کر جانے لگے تو کتّا بھی ساتھ لگ لیا۔ انھوں نے بہتیرا روکا مگر وہ نہ مانا۔ چپراسی نے کہا، آپ اس پلید کو اندر نہیں لے جا سکتے۔ بشارت نے جواب دیا یہ میرا کتّا نہیں ہے۔ چپراسی بولا تو پھر آپ اسے دو گھنٹے سے آغوش میں لیے کیوں بیٹھے تھے؟ اس نے ایک ڈھیلا اٹھا کر رسید کرنا چاہا تو کتے نے جھٹ پنڈلی پکڑ لی۔ اور وہ چیخنے لگا۔ بشارت کے منع کرنے پر اس نے فوراً پنڈلی چھوڑ دی۔ شکریہ ادا کرنے کے بجائے چپراسی کہنے لگا، اس پر آپ کہتے ہیں کہ کتّا میرا نہیں ہے! جب وہ اندر داخل ہوئے تو کتا بھی ان کے ساتھ گھس گیا۔ روکنا تو بڑی بات ہے اب چپراسی میں اتنا حوصلہ نہیں رہا تھا کہ ٹوک بھی سکے۔ اس کے اندر گھُستے ہی ایک بھونچال آ گیا۔ ممبرانِ کمیٹی نے چیخ چیخ کر چھپر سر پر اٹھا لیا۔ لیکن جب کتا ان سے بھی زیادہ زور سے بھونکا تو سب سہم کر اپنی اپنی پنڈلی گود میں لے کر بیٹھ گئے۔ بشارت نے کہا کہ اگر آپ لوگ خاموش و ساکت ہو جائیں تو یہ بھی چپکا ہو جائے گا۔ اس پر ایک صاحب بولے کہ آپ انٹرویو میں کتّا ساتھ لے کر کیوں آئے ہیں؟ بشارت نے قسم کھا کر کتے سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا تو وہی صاحب بولے اگر آپ کا دعویٰ ہے کہ یہ کتّا آپ کا نہیں ہے تو آپ اس کی عادات قبیحہ سے اس درجہ کیوں کر واقف ہیں؟

بشارت انٹرویو کے لیے اپنی نشست پر بیٹھ گئے تو کتّا ان کے پیروں سے لگ کر بیٹھ گیا۔ ان کا جی چاہا کہ وہ یونہی بیٹھا رہے۔ اس کی وجہ سے اب وہ نروس محسوس نہیں کر رہے تھے۔ انٹرویو کے دوران دو مرتبہ مولی مجّن نے بشارت کی کسی بات پر بڑی حقارت سے زور دار قہقہہ لگایا تو کتّا ان سے بھی زیادہ زور سے بھونکنے لگا اور وہ سہم کر اپنا قہقہہ بیچ میں ہی سوئچ آف کر کے چپکے بیٹھ گئے۔ بشارت کو کتّے پر بے تحاشہ پیار آیا۔

 

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

انٹرویو سے پہلے تحصیل دار نے گلا صاف کر کے سب کو خاموش کیا تو ایسا سناٹا طاری ہوا کہ دیوار پر لٹکے ہوئے کلاک کی ٹک ٹک اور مولوی مظفّر کے ہانپنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ پھر انٹرویو شروع ہوا اور سوالوں کی بوچھار۔ اتنے میں کلاک نے گیارہ بجائے اور سب دوبارہ بالکل خاموش ہو گئے۔ دھَیرج گنج میں کچھ عرصے رہنے کے بعد بشارت کو معلوم ہوا کہ جب کلاک کچھ بجاتا ہے تو دیہات کے آداب کے مطابق سب خاموش ہو کر سنتے ہیں کہ غلط تو نہیں بجا رہا۔

انٹرویو دوبارہ شروع ہوا تو جس شخص کو وہ چپراسی سمجھتے تھے وہ کھاٹ کی اَدواین پر آ کر بیٹھ گیا۔ وہ دینیات کا ماسٹر نکلا جو ان دنوں اردو ٹیچر کے فرائض بھی انجام دے رہا تھا۔ انٹرویو میں سب سے زیادہ دھر پٹخ اسی نے کی، گو کہ مولوی مظفّر اور ایک ممبر نے بھی جو عدالت منصفی کے ریٹائرڈ سرشتہ دار تھے، اینڈے بینڈے سوال کیے۔ تحصیل دار نے البتہ درپردہ مدد اور طرف داری کی اور سفارش کی لاج رکھ لی۔ چند سوالات ہم نقل کرتے ہیں جن سے سوال کرنے والے اور جواب دینے والے دونوں کی قابلیت کا اندازہ ہو جائے گا۔

مولوی مظفّر: ("کلیاتِ مخمور”پر چمکارنے کے انداز سے ہاتھ پھیرتے ہوئے) شعر کہنے کے فوائد بیان کیجیے۔

بشارت: (چہرہ پر ایسا ایکسپریشن گویا آؤٹ آف کورس سوال پوچھ لیا) شاعری… میرا مطلب ہے۔ شعر… یعنی اس کا گویا مقصد… تلامیذ الرحمٰن… بات در اصل یہ کہ شوقیہ…

مولوی مظفّر: اچھا! خالق باری”کا کوئی شعر سنائیے۔

بشارت:

خالق باری سر جن ہار

واحد ایک بِدا کرتار

سرشتہ دار: آپ کے والد، دادا اور نانا کس محکمے میں ملازم تھے؟

بشارت: انھوں نے ملازمت نہیں کی۔

سرشتہ دار: پھر آپ کیسے ملازمت کر سکیں گے؟ چار پشتیں یکے بعد دیگرے اپنا پتّا ماریں، تب کہیں ملازمت کے لائق جوہرِ قابل پیدا ہوتا ہے۔

بشارت: (سادہ لوحی سے) جناب عالی! میرا پتِّا آپریشن کے ذریعے نکالا  جا چکا ہے۔

دینیات ٹیچر: شگاف دکھائیے۔

تحصیل دار: آپ نے کبھی بید استعمال کیا ہے؟

بشارت: جی نہیں۔

تحصیل دار: آپ پر کبھی بید استعمال ہوا ہے؟

بشارت: بار ہا۔

تحصیل دار: آپ یقیناً ڈسپلن قائم رکھ سکیں گے۔

سرشتہ دار: اچھا یہ بتائیے، دنیا گول کیوں بنائی گئی ہے؟

بشارت: (سرشتہ دار کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے چاروں خانے چت ہونے کے بعد پہلوان اپنے حریف کو دیکھتا ہے)

تحصیل دار: سرشتہ دار صاحب، انھوں نے اردو ٹیچری کی درخواست دی ہے۔ جغرافیہ والوں کے انٹرویو جمعرات کو ہیں۔

دینیات ٹیچر: بلیک بورڈ پر اپنی خوشخطی کا نمونہ لکھ کر دکھائیے۔

سرشتہ دار: داڑھی پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟

بشارت: کچھ نہیں۔

سرشتہ دار: پھر رکھتے کیوں نہیں؟

دینیات ٹیچر: آپ کو چچا سے زیادہ محبت ہے یا ماموں سے؟

بشارت: کبھی غور نہیں کیا۔

دینیات ٹیچر: اب کر لیجیے۔

بشارت: میرے کوئی چچا نہیں ہیں۔

دینیات ٹیچر: آپ کو نماز آتی ہے؟ اپنے والد کی نمازِ جنازہ پڑھ کر دکھائیے۔

بشارت: وہ حیات ہیں!

دینیات ٹیچر: لاحول ولا قوۃِ میں نے تو بُشرے پر قیاس کیا تھا۔ تو پھر اپنے دادا کی پڑھ کر دکھائیے۔ یا آپ ابھی ان کے سائے سے بھی محروم نہیں ہوئے؟

بشارت: (مری آواز میں) جی، ہو گیا۔

مولوی مظفّر: مسّدس حالی کا کوئی بند سنائیے۔

بشارت: مسّدس کا تو کوئی بند اس وقت یاد نہیں آ رہا۔ حالی ہی کی "مناجاتِ بیوہ” کے چند اشعار پیش کرتا ہوں[2]

تحصیل دار: اچھا، اب کوئی اپنا پسندیدہ شعر سنائیے، جس کا موضوع بیوہ نہ ہو۔

بشارت:

توڑ ڈالے جوڑسارے باندھ کر بندِ کفن

گور کی بغلی سے چت ہیں پہلواں، کچھ بھی نہیں

تحصیل دار: کس کا شعر ہے؟

بشارت: زبان کا شعر ہے۔

تحصیل دار: اے سبحان اللہ! قربان جائیے۔ کیسی کیسی لفظی رعایتیں اور قیامت کے تلازمے باندھے ہیں! توڑ کی ٹکر پہ جوڑ۔ ایک طرف باندھا ہے تو دوسری طرف بند۔ واہ وا! اس کے بعد بغلی قبر اور بغلی داؤ کی طرف لطیف اشارہ۔ پھر بغلی داؤ سے پہلوان کا چت ہونا۔ اخیر میں چت پہلوان اور چت مردہ اور کچھ بھی نہیں، کہہ کر دنیا کی بے ثباتی کو تین لفظوں میں بھُگتا دیا۔ ڈھیر سارے صنائع بدائع کو ایک شعر کے کوزے میں بند کر دینا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا ٹھُکا ہوا، اتنا پختہ اور اتنا خراب شعر کوئی استاد ہی کہہ سکتا ہے۔

مولوی مظفر: آپ سادگی پسند کرتے ہیں یا عیش و عشرت؟

بشارت: سادگی۔

مولوی مظفّر: شادی شدہ ہیں یا چھڑے دم؟

بشارت: جی۔ غیر شادی شدہ ہوں۔

مولوی مظفّر: پھر آپ اتنی ساری تنخواہ کا کیا کریں گے؟ یتیم خانے کو ماہوار کتنا چندہ دیں گے؟

تحصیل دار: آپ نے شاعری کب شروع کی؟ اپنا پہلا شعر سنائیے؟

بشارت: ہے انتظارِ دید میں لاشہ اچھل رہا

حالانکہ کوئے یار ابھی اتنی دور ہے

تحصیل دار: واہ وا! "حالانکہ” کا جواب نہیں۔ واللہ! اور سر اُفتادہ زمین میں "لاشہ” نے جان ڈال دی۔ اور "اتنی دور” میں کچھ نہ کہہ کر کتنا کچھ کہہ دیا۔

بشارت: آداب بجا لاتا ہوں!

تحصیل دار: چھوٹی بحر میں کیا قیامت شعر نکالا ہے۔ شعر میں کفایتِ الفاظ کے علاوہ خست خیال بھی پائی جاتی ہے۔

بشارت: آداب!

تحصیل دار: ( کتّا بھونکنے لگتا ہے) معاف کیجیے، میں آپ کے کتّے کے بھونکنے میں مخل ہو رہا ہوں۔ یہ بتائیے کہ زندگی میں آپ کی کیا ambition ہے؟

بشارت: یہ ملازمت مل جائے۔

تحصیل دار: تو سمجھیے مل گئی۔ کل صبح اپنا اسباب، برتن بھانڈے لے آئیے گا۔ ساڑھے گیارہ بجے مجھے آپ کی Joining Report مل جانی چاہیے۔ تنخواہ آپ کی چالیس روپے ماہوار ہو گی۔

مولوی مظفّر چیختے اور پیر پٹختے ہی رہ گئے کہ سنیے تو! گریڈ پچیس روپے کا ہے۔ تحصیل دار نے انہیں جھڑک کر خاموش کر دیا۔ اور فائل پر انگریزی میں یہ نوٹ لکھا کہ اس امیدوار میں وہ تمام اعلیٰ اوصاف پائے جاتے ہیں جو کسی بھی لائق اور ambitious نوجوان کو ایک کامیاب پٹواری یا کلاس ٹیچر بناسکتے ہیں، بشرطیکہ مناسب نگرانی اور رہنمائی میسر آ جائے۔ عدیم الفرصتی کے باوجود میں اسے اپنا کچھ وقت اور توجہ دینے کو تیار ہوں۔ ابتدا میں، میں نے اسے 100 میں سے 80 نمبر دیے تھے، مگر بعد میں پانچ نمبر خوش خطی کے بڑھائے۔ لیکن پانچ نمبر شاعری کے کاٹنے پڑے۔

 

خواصِ مُولی اور اچھا سا نام

بشارت نے دوپہر کا کھانا یتیم خانے کے بجائے مولوی بادل (عباد اللہ) کے ہاں کھایا جو اسی اسکول میں فارسی پڑھاتے تھے۔ مکھن سے چپڑی ہوئی گرم روٹی اور آلو کا بھُرتا اور لہسن کی چٹنی مزہ دے گئی۔ مولوی بادل نے اپنی شفقت اور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ برخور دار! میں تمہیں کھُونتے کو رفو کرنا، آٹا گوندھنا اور ہر طرح کا سالن پکانا سکھا دوں گا۔ بخدا! بیوی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو گی۔ سرِ دست انہوں نے مُولی کی بھجیا بنانے کی جو ترکیب بتائی وہ خاصی پیچیدہ اور پُر خطر تھی۔ اس لیے کہ اس کی ابتدا مولی کے کھیت میں پو پھٹنے سے پہلے جانے سے ہوتی تھی۔ انھوں نے ہدایت کی کہ دیہات کے آداب کے خلاف، لہلہاتے کھیت میں علی الصبح منھ اٹھائے نہ گھس جاؤ، بلکہ مینڈھ پر پہلے اس طرح کھانسو کھنکھارو جیسے بے کواڑ یا ٹاٹ کے پردے والے بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے کھنکھارتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہدایت کہ ٹخنے سے ایک بالشت اونچا لہنگا اور ہنسلی سے دو بالشت نیچی چولی پہننے والی کھیت کی مالکن دھاپاں سے تازہ گدرائی ہوئی مولی کا محلِ وقوع اور اسے توڑنے کی اجازت کس طرح لی جائے کہ نظر دیدنی پر نہ پڑے۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ چمگادڑ سبزیاں مقوی اور کاسِر ریاح ہوتی ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ پودے تھے جو اپنے پیر آسمان کی طرف کیے رہتے ہیں۔ مثلاً گاجر، گوبھی، شلغم۔ پھر انھوں نے پتے دیکھ کر یہ پہچاننا بتایا کہ کون سی مُولی کھاری، پھپھس نکلے گی اور کون سی جڑیلی اور مچھیل۔ ایسی تیزابی کہ کھانے والا کھاتے وقت منہ پیٹ لے اور کھانے کے بعد پیٹ پیٹتا پھرے۔ اور کوئی ایسی سڈول، چکنی اور میٹھی کہ بے تحاشا جی چاہے کہ گز بھر کی ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کبھی غلطی سے تیزابی مولی اکھاڑ لو تو پھینکو مت۔ اس کا عرق نکال کے اونٹ کی کھال کی کُپّی میں محفوظ کر لو۔ چالیس دن بعد جہاں داد یا ایگزیما ہو وہاں پھریری سے لگاؤ۔ اللہ نے چاہا تو جلد ایسی نکل آئے گی جیسے نوزائیدہ بچے کی! کچھ عرصے بعد جیسے ہی بشارت نے اپنے ماموں کے ایگزیما کی پھنسیوں پر اس عرق کی پھریری پھیری تو بزرگوار بالکل نو زائدہ بچّے کی طرح چیخیں مارنے لگے۔

بشارت انٹرویو سے فارغ ہو کر با مراد شام کو نکلے تو کتّا ان کے ساتھ نتھی تھا۔ انھوں نے حلوائی سے تین پوریاں اور ربڑی خرید کر اسے کھلائی۔ وہ ان کے ساتھ لگا لگا مولوی بادل کے ہاں بھی گیا۔ انٹرویو میں آج جو معجزہ ان کے ساتھ ہوا، اسے انھوں نے اسی کے دَم قدم کا ظہورا سمجھا۔ کانپور واپس جانے کے لیے وہ لاری میں سوار ہونے آئے تو وہ ان سے پہلے چھلانگ لگا کر اس میں گھس گیا جس سے مسافروں میں کھلبلی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ کلینر اسے انجن اسٹارٹ کرنے والے ہینڈل سے مارنے کو دوڑا تو انھوں نے لپک کر اس کی کلائی مروڑ دی۔ کتّا لاری کے چھت پر کھڑا ان کے ہمراہ کانپور آیا۔ ایسے با وفا کتّے کو کتّا کہتے ہوئے اب انھیں حجاب محسوس ہونے لگا۔ انھوں نے اسی وقت اس کا نام بدل کر لارڈ ولزلی رکھا جو اس جنرل کا نام تھا جس سے مقابلہ کرتے ہوئے ٹیپو نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

کانپور پہنچ کر انھوں نے پہلی مرتبہ اس پر ہاتھ پھیرا۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ کتّے کا جسم اتنا گرم ہوتا ہے۔ اس پر جا بجا لڑکوں کے پتھروں سے پڑے ہوئے زخموں کے نشان تھے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک خوبصورت کالر اور زنجیر خریدی۔

 

بحضور فیض گنجور تحصیل دار صاحب بہادر

دوسرے دن بشارت اپنی ساری کائنات ٹین کے ٹرنک میں سمیٹ کر دھیرج گنج آ گئے۔ ٹرنک پر انھوں نے ایک پینٹر کو چار آنے دے کر اپنا نام، ڈگری اور تخلص سفیدے سے پینٹ کروا لیے تھے جو بمشکل دو سطروں میں سما پائے۔ یہ ٹرنک ان کی پیدائش سے پہلے کا تھا، مگر اس میں چار لیور والا پیتلی تالا ڈال کر لائے تھے۔ اس میں کپڑے اتنے کم تھے کہ راستے بھر اندر رکھا ہوا مراد آبادی لوٹا ڈھولک بجاتا آیا۔ اتنا شور مچانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے اثاث البیت میں یہ تازہ قلعی شدہ لوٹا ہی سب سے قیمتی شے تھی۔ ابھی انھوں نے منھ ہاتھ بھی نہیں دھویا تھا کہ تحصیل دار کا چپراسی ایک لٹھ اور یہ پیغام لے کر وارد ہوا کہ تحصیل دار صاحب بہادر نے یاد فرمایا ہے۔ انھوں نے پوچھا ابھی؟ بولا، اور کیا؟ فوراً سے بیشتر! بالمواجہ، اصالتاً۔ چپراسی کے منھ سے یہ منشیانہ زبان سن کر انھیں حیرت ہوئی اور خوشی بھی، جو اس وقت ختم ہوئی جب اس نے یہ پیغام لانے کا انعام، دوپہر کا ما حضر اور زادِ راہ اسی زبان میں طلب کیا۔ کہنے لگا، تحصیل ہٰذا میں یہی دستور ہے۔ بندہ تو اجورہ دار[3] ہے۔ جتنی دیر وہ ان مطالبات پر غور کریں، وہ اپنے لٹھ کی چاندی کی شام کو منھ کی بھاپ اور انگوچھے سے رگڑ رگڑ کر چمکاتا رہا۔

جھلستی جھلساتی دوپہر میں بشارت ڈیڑھ دو میل پیدل چل کر ہانپتے کانپتے تحصیل دار کے ہاں پہنچے تو وہ قیلولہ کر رہا تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے انتظار کے بعد اندر بلائے گئے تو خس کی ٹٹی کی مہکیلی ٹھنڈک جسم میں اُترتی چلی گئی۔ لُو سے جھلسی ہوئی آنکھوں میں ایک دَم ٹھنڈی ٹھنڈی سی روشنی سی آ گئی۔ اوپر چھت میں لٹکا ہوا جھالر دار پنکھا ہاتھی کے کان کی طرح ہل رہا تھا۔ فرش پر بچھی چاندنی کی اُجلی ٹھنڈک ان کی جلتی ہوئی ہتھیلی کو بہت اچھی لگی۔ اور جب اس کی حدّت سے چاندنی گرم ہو ہو جاتی تو وہ ہتھیلی کھسکا کر دوسری جگہ رکھ دیتے۔ تحصیل دار بڑے تپاک اور شفقت سے پیش آیا۔ برف میں لگے ہوئے تربوز کی ایک قاش اور چھلے ہوئے سنگھاڑے پیش کرتے ہوئے بولا، تو اب اپنے کچھ ایسے اشعار بھی سنائیے جو مہمل نہ ہوں، چھوٹی بحر میں نہ ہوں۔ وزن اور تہزیب سے گرے ہوئے نہ ہوں۔ بشارت اشعار سنا کر داد پا چکے تو اس نے اپنی تازہ نظم ” ماہ و پرویں ہیں یہ ذراتِ زمیں آج کی رات” سنائی جو ڈپٹی کلکٹر کے حالیہ دورہ دھیرج گنج کے موقع پر لکھی تھی۔ نظم بشارت کو پکڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ 27 تاریخ کو ڈپٹی کلکٹر کے سالے کی شادی ہے۔ اسی نمونے کے مطابق ایک پھڑکتا ہوا سہرا لکھ کر مجھے دکھائیے۔ (آنکھ مارتے ہوئے) بحر وہی اپنی "مناجاتِ بیوہ” والی ٹھیک رہے گی۔

 

حق بحقِ تحصیل دار رسید

وہ اپنی ران کھجائے چلا جا رہا تھا۔ ٹانگوں پر منڈھے چوڑی دار پاجامے میں نہ جانے کیسے ایک بھُنگا گھس گیا تھا۔ اور وہ اسے اوپر ہی اوپر چٹکی سے مسلنے کی بار بار کوشش کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک خوش شکل نو عمر خادمہ نازو، تازہ توڑے ہوئے فالسوں کا شربت لائی۔ تحصیل دار کنکھیوں سے برابر بشارت کو دیکھتا رہا کہ وہ نازو کو دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔ موٹی ململ کے سفید کرتے میں قیامت ڈھا رہی تھی۔ وہ گلاس دینے کے لیے جھکی تو اس کے بدن سے جوان پسینے کی مہکار آئی۔ اور ان کا ہاتھ اس کے چاندی کے بٹنوں کے گھنگھروؤں کو چھو گیا۔ اس کا آڑا پاجامہ رانوں پر سے کسا ہوا تھا اور پیوند کے ٹانکے دو ایک جگہ اتنے بکسے ہوئے تھے کہ نیچے چنبیلی بدن کھلکھلا رہا تھا۔ شربت پی چکے تو تحصیل دار کہنے لگا کہ آج تو خیر آپ تھکے ہوئے ہوں گے، کل سے میرے بچوں کو اردو پڑھانے آئیے۔ ذرا کھلنڈرے ہیں۔ تیسرے نے تو ابھی قاعدہ شروع ہی کیا ہے۔ بشارت نے کچھ پس و پیش کیا تو یکلخت اس کے تیور بدل گئے۔ لہجہ کڑوا اور کڑوا ہوتا چلا گیا۔ کہنے لگا۔ جیسا کہ آپ کو بخوبی معلوم تھا، ہے اور ہو جائے گا، آپ کی اصل تنخواہ پچیس روپے ہی ہے۔ میں نے جو پندرہ روپے از خود بڑھا کر چالیس کر دیے تو وہ در حقیقت پانچ روپے فی بچہ ٹیوشن تھی۔ ورنہ میرا دماغ تھوڑا ہی خراب ہوا تھا کہ کالج سے نکلے الل بثھیرے کو مسلمانوں کی گاڑھی کمائی کے چندے سے پندرہ روپے کی نذر گزارتا۔ آخر کو ٹرسٹی کی کچھ ذمّے داری ہوتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ چالیس روپے ہے اور وہ تو بی اے، بی ٹی (علیگ) سیکنڈ ڈویژن ہے۔ امروہے کا ہے۔ مگر نہایت شریف۔ سیّد ہے۔ علاوہ ازیں، سر منڈوا کے عشقیہ شعر نہیں کہتا۔

آخری سات لفظوں میں اس نے ان کی شخصیت کا خلاصہ نکال کے رکھ دیا۔ اور وہ ڈھے گئے۔ انھوں نے بڑی لجاجت سے پوچھا، کیا کوئی alternative بندوبست نہیں ہو سکتا؟

تحصیل دار چڑاونی ہنسی ہنسا۔ کہنے لگا، ضرور ہو سکتا ہے۔ وہ آلٹرنیٹو بندوبست یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ وہی پچیس روپے رہے، اور اسی میں آپ میرے بچوں کو بھی پڑھائیں گے۔ آیا خیال شریف میں؟ برخور دار! ابھی آپ نے دنیا نہیں دیکھی۔ میں آپ کے ہاتھ میں دو کبوتر دیتا ہوں۔ آپ یہ تک تو بتا نہیں سکتے کہ مادہ کون سی ہے!

ان کے جی میں تو بہت آئی کہ پلٹ کر جواب دیں کہ کولمبس صاحب! اگر اسی ڈسکوری کا نام دنیا دیکھنا ہے تو یہ کام تو کبوتر کہیں بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے! اتنے میں تحصیل دار دو تین دفعہ زور زور سے کھانسا اور ہال میں دور ایک کونے میں دبکا گر داوَر قانون گو لپک کر بشارت کے پاس آیا اور ان کی ٹھڈی میں ہاتھ دیتے ہوئے کہنے لگا، آپ سرکار کے سامنے کیسی بچکانی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ عزت کسے نصیب ہوتی ہے۔ سرکار جھوٹوں بھی اشارہ کر دیں تو لکھنؤ یونیورسٹی کے سارے پروفیسر ہاتھ باندھے سر کے بل چل کے آئیں۔ سرکار کو تین دفعہ ڈپٹی کلکٹری آفر ہو چکی ہے، مگر سرکار نے ہر دفعہ پائے حقارت سے ٹھکرا دی کہ میں خود غرضی پر اتر آؤں اور ڈپٹی کلکٹر بن کر چلا جاؤں تو تحصیل دھیرج گنج کا عملہ اور رعایا کہے گی، سرکار! ہمیں بیچ منجدھار میں کس پہ چھوڑے جاتے ہو؟

بشارت دَم بخود رہ گئے۔ مرد ایسے موقعوں پر خون کر دیتے ہیں اور نامرد خود کشی۔ انھوں نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ نوکری کی، جو قتل اور خود کشی دونوں سے کہیں مشکل کام ہے۔

 

یہ رتبۂ بلند مِلا جس کو مل گیا

تحصیل دار نے زنانے سے اپنے صاحبزادگان کو بلوایا اور ان سے کہا، چچا جان کو آداب کرو۔ یہ کل سے تمہیں پڑھانے آئیں گے۔ بڑے اور چھوٹے لڑکے نے آداب کیا۔ منجھلے نے دائیں ہاتھ سے اوک بنایا اور جھک جھک کے دو دفعہ آداب کرنے کے بعد جب تیسری دفعہ رکوع میں گیا تو ساتھ ہی منھ بھی چڑایا۔

اب تحصیل دار کا موڈ بدل چکا تھا۔ لڑکے قطار بنا کر واپس چلے گئے تو وہ بشارت سے کہنے لگا ” پرسوں جغرافیہ ٹیچر کی اسامی کے لیے انٹرویو ہیں۔ میں آپ کو سلیکشن کمیٹی کا ممبر نامزد کرتا ہوں۔ دینیات کا ٹیچر اس لائق نہیں کہ کمیٹی کا ممبر رہے۔ مولی مجّن کو مطلع کر دیا جائے گا۔ ” یہ سنتے ہی بشارت کے گدگدیاں ہونے لگیں۔ اس وقت کوئی انھیں وائسرائے بنا دیتا تب بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ اب وہ بھی انٹرویو میں اچھے اچھوں کو خوب رگیدیں گے۔ اور پوچھیں گے میاں، تم ڈگریاں بغل میں دبائے افلاطون بنے پھرتے ہو۔ ذرا یہ بتاؤ کہ دنیا گول کیوں بنائی گئی ہے؟ بڑا مزہ آئے گا۔ یہ عزت کس کو نصیب ہوتی ہے کہ خود بلاوجہ ذلیل ہونے کے فوراً بعد دوسروں کو بلاوجہ ذلیل کر کے حساب برابر کر دے۔ ان کی گھائل انا کے سارے گھاؤ پل بھر میں بھر گئے۔

مارے خوشی کے وہ یہ وضاحت کرنی بھول گئے کہ بندہ ہر انٹرویو کے بعد نہ آواز لگائے گا، نہ گھنٹا بجائے گا۔ چلنے لگے تو تحصیل دار نے گرداوَر قانون گو کو آنکھوں سے کچھ اشارہ کیا اور اس نے پندرہ سیر گندم اور ایک ہانڈی پیوسی کی ساتھ کر دی۔ اسے یہ بھی ہدایت کر دی کہ کل اتالیق صاحب کے گھر جَواسے کی ایک گاڑی ڈلوا دینا۔ اور بیگار میں کسی پنی گر کو بھیج دینا کہ ہاتھوں ہاتھ ٹٹی بنا دے۔ اس زمانے میں جو لوگ خس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، وہ جواسے کے کانٹوں کی ٹٹی پر اکتفا کرتے تھے۔ اور جو اس قابل بھی نہ ہوتے وہ خس کی پنکھیا پر کوری ٹھلیا کا پانی چھڑک لیتے۔ اسے جھَلتے جھَلتے جب نیند کا جھونکا آتا تو خس خانہ و برفاب کی خوابناک خنکیوں میں اترتے چلے جاتے۔

 

اردو ٹیچر کے فرائضِ غیر منصبی

اگلے دن علی الصبح بشارت اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے۔ مولوی مظفّر نے ان سے تحریری چارج رپورٹ لی کہ آج صبح فدوی نے با ضابطہ چارج سنبھال لیا۔ ” چارج” بہت جامع اور دھوکے میں ڈالنے والا لفظ ہے، ورنہ حقیقت صرف اتنی تھی کہ جو چیزیں ان کے چارج میں دی گئیں وہ بغیر چارج کے بھی کچھ ایسی غیر محفوظ نہ تھیں:

کھادی کا ڈسٹر (ڈیڑھ عدد) مروحہ (دستی پنکھا۔ 1 عدد) رجسٹر حاضری (1عدد) سفالی مٹی کی دوات (2عدد)

مولوی مظفّر نے بلیک بورڈ کا ڈسٹر ان کی تحویل میں دیتے ہوئے تنبیہ کی تھی کہ دیکھا گیا ہے کہ ماسٹر صاحبان چاک کے معاملے میں بہت فضول خرچی کرتے ہیں۔ لہٰذا مجلسِ منتظمہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ماسٹر صاحبان چاک خود خرید کر لائیں گے۔ کھجور کے پنکھے کے بارے میں بھی انھوں نے مطلع کیا کہ گرمیوں میں ایک مہیّا جائے گا۔ ماسٹر بالکل لا پروا واقع ہوئے ہیں۔ دو ہفتے میں ہی ساری بنائی ادھڑ کے جھونترے نکل آتے ہیں۔ نیز، اکثر ماسٹر صاحبان چھٹی کے دن اسکول کا پنکھا گھر میں استعمال کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ بعضے کاہل الوجود بھی ہیں۔ اسی کی ڈنڈی سے لونڈوں کو مارتے ہیں۔ حالانکہ دو قدم پر نیم کا درخت بیکار کھڑا ہے۔ اور ہاں مولوی مظفّر نے ایک چوبی ہولڈر بھی ان کی تحویل میں دیا جو اُن کے پیشروؤں نے غالباً مسواک کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس کا بالائی حصّہ عالمِ فکر میں مسلسل دانتوں تلے رہنے کے باعث جھڑ گیا تھا۔ بشارت کو اس بے جا استعمال پر بہت غصہ آیا، اس لیے کہ اب وہ اس سے کمر بند نہیں ڈال سکتے تھے۔

چارج مکمل ہونے کے بعد بشارت نے کورس کی کتابیں مانگیں تو مولوی مظفّر نے مطلع کیا کہ مجلسِ منتظمہ کے ریزولیوشن نمبر 5، مجریہ 3 فروری1935 کی رو سے ماسٹر کو کورس کی کتابیں اپنی جیب سے خرید کر لانی ہوں گی۔ بشارت نے جَل کر پوچھا ” سب؟ یعنی کہ پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک؟ ” فرمایا ” تو کیا آپ کا خیال ہے کہ پہلی جماعت کے قاعدے سے آپ مڈل کا امتحان دلوا دیں گے؟ ”

مولوی مظفّر نے چلتے چلتے یہ اطلاع بھی دی کہ مجلسِ منتظمہ بے جا اخراجات کم کرنے کی غرض سے ڈرل ماسٹر کی پوسٹ ختم کر رہی ہے۔ ” خالی گھنٹوں میں آپ پڑے پڑے کیا کریں گے؟ اسٹاف روم ٹھالی ماسٹروں کے اینڈنے اور لوٹیں لگانے کے لیے نہیں ہے۔ خالی گھنٹوں میں ڈرل کرا دیا کیجیے۔ (پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) بادی بھی چھٹ جائے گی۔ جوان آدمی کو چاق و چوبند رہنا چاہیے۔ ” بشارت نے کھردرے اختصار سے جواب دیا ” مجھے ڈرل نہیں آتی۔ ” بہت شفیق اور شیریں لہجے میں جواب دیا ” کوئی مضائقہ نہیں۔ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے ڈرل کرتا ہوا پیدا نہیں ہوتا۔ کسی بھی طالب علم سے کہیے۔ سکھادے گا۔ آپ تو ماشاء اللہ سے ذہین آدمی ہیں۔ بہت جلد سیکھ جائیں گے۔ آپ ٹیپو سلطان اور طارق، فاتحِ اندلس کے نام لیوا ہیں۔ ”

بشارت بڑی محنت اور لگن سے لڑکوں کو اردو پڑھا رہے تھے کہ دو ڈھائی ہفتے بعد مولوی مظفّر نے اپنے دفتر میں طلب کیا اور فرمایا کہ آپ الحمد للہ مسلمان کے فرزند ہیں، جیسا کہ آپ نے درخواست میں لکھا تھا۔ اب جلد از جلد نمازِ جنازہ اور نیاز دینا سیکھ لیجیے۔ کوردِہ ہے۔ وقت بے وقت ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ نمازِ جنازہ تو کورس میں بھی ہے۔ ہمارے زمانے میں تو مکتب میں غسلِ میت بھی ‘کمپل سری‘ تھا۔ دینیات کے ٹیچر کی بیوی پر بارہ بنکی میں جن دوبارہ سوار ہو گیا ہے۔ اماوس کی راتوں میں چار پائی اُلٹ دیتا ہے۔ اسے اُتارنے جا رہا ہے۔ پچھلے سال ایک پڑوسی کا جبڑا اور دو دانت توڑ کے آیا تھا۔ اس کی جگہ آپ کو کام کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے اس حرام خور کی عوضّی کرنے آسمان سے فرشتے تو اترنے سے رہے۔

تین چار دن کا بھُلاوہ دے کر مولوی مظفّر نے پوچھا، برخوردار آپ اتوار کو کیا کرتے رہتے ہیں؟ بشارت نے جواب دیا، کچھ نہیں۔ فرمایا‘ تو یوں کہیے فقط سانس لیتے رہتے ہیں۔ یہ تو بڑی معیوب بات ہے۔ سر محمد اقبال نے فرمایا ہے، کبھی اے نوجوانِ مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟ جوان آدمی کو اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیکار نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جمعے کو اسکول کی جلدی چھٹی ہو جاتی ہے۔ بعد نمازِ جمعہ یتیم خانے کی خط و کتابت دیکھ لیا کیجیے۔ آپ تو گھر کے آدمی ہیں۔ آپ سے کیا پردہ؟ آپ کی تنخواہیں در اصل یتیم خانے کے چندے ہی سے دی جاتی ہیں۔ تین مہینے سے رکی ہوئی ہیں۔ میرے پاس الٰہ دین کا چراغ تو ہے نہیں۔ در اصل یتیموں پر اتنا خرچ نہیں آتا جتنا آپ حضرات پر۔ اتوار کو یتیم خانے کے چندے کے لیے اپنی سائیکل لے کر نکل جایا کیجیے۔ کارِ خیر بھی ہے۔ اور آپ کو بیکاری کی لعنت سے نجات مل جائے گی سو الگ۔ آس پاس کے دیہات میں الحمد للہ مسلمانوں کے کافی گھر ہیں۔ تلاش کرنے سے خدا مل جاتا ہے، معطی کس کھیت کی گاجر مولی ہیں۔

بشارت ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ‘معطی‘ کو کیسے تلاش اور شناخت کریں گے کہ اتنے میں سر پر دوسرا بم گرا۔ مولوی مظفّر نے کہا کہ چندے کے علاوہ گرد و نواح کے دیہات سے موزوں یتیم بھی تلاش کر کے لانے ہوں گے!

 

آئیڈیل یتیم کا حلیہ

یتیم جمع کرنا بشارت کو چندہ جمع کرنے سے بھی زیادہ دشوار نظر آیا۔ اس لیے کہ مولی مجّن نے یہ پَخ لگا دی کہ یتیم تندرست، مسٹنڈے نہ ہوں۔ صورت سے بھی مسکین معلوم ہونا چاہئیں۔ خوش خوراک نہ ہوں۔ نہ اتنے چھوٹے ٹوئیاں کہ چونچ میں چوگا دینا پڑے۔ نہ اتنے ڈھؤ کے ڈھؤ اور پیٹو کہ روٹیوں کی تھئی کی تھئی تھور جائیں اور ڈکار تک نہ لیں۔ پر ایسے گلبدن بھی نہ ہوں کہ گال پہ ایک مچھر کا سایہ بھی پڑ جائے تو شہزادہ گلفام کو ملیریا ہو جائے۔ پھر بخار میں دودھ پلاؤ تو ایک ہی سانس میں بالٹی کی بالٹی ڈکوس جائیں۔ بعضا بعضا لونڈا ٹخنے تک پولا ہوتا ہے۔ لڑکے باہر سے لاغر مگر اندر سے بالکل تندرست ہونے چاہییں۔ نہ اتنے نازک کہ پانی بھرنے کنویں پر بھیجو تو ڈول کے ساتھ یوسفِ بے کارواں خود بھی کھچے کھچے کنویں کے اندر چلے جا رہے ہیں۔ جب دیکھو حرام کے جَنے ثبوت میں ٹوٹے گھڑے کا منھ لیے چلے آ رہے ہیں۔ ابے مجھے کیا دکھا رہا ہے؟ یہ ہنسلی اپنی میا بہنا کو پہنا۔ میانہ قد اور درمیانہ عمر کے ہوں۔ اتنے بڑے اور ڈھیٹ نہ ہوں کہ تھپڑ مارو تو ہاتھ گھنٹے بھر تک جھنجھناتا رہے اور ان حرامیوں کا گال بھی بیکا نہ ہو۔ جاڑے میں زیادہ جاڑا نہ لگتا ہو۔ یہ نہیں کہ ذرا سی سردی بڑھ جائے تو سارے قصبے میں کانپتے، کپکپاتے، کٹکٹاتے پھر رہے ہیں اور یتیم خانے کو مفت میں بدنام کر رہے ہیں، اور ہاں یہ تصدیق کر لیں کہ رات کو بستر میں پیشاب نہ کرتے ہوں۔ خاندان میں فی اور سر میں لیکھیں نہ ہوں۔ اُٹھان کے بارے میں مولوی مجّن نے وضاحت کی کہ اتنی معتدل بلکہ مفقود ہو کہ ہر سال جوتے اور کپڑے تنگ نہ ہوں۔ اندھے، کانے، لولے، لنگڑے، گونگے، بہرے نہ ہوں، مگر لگتے ہوں۔ لونڈے خوش شکل ہر گز نہ ہوں۔ منھ پر مہاسے اور ناک لمبی نہ ہو۔ ایسے لونڈے آگے چل کر لوطی نکلتے ہیں۔ وہ آئیڈیل یتیم کا حلیہ بیان کرنے لگے تو بار بار بشارت کی طرف اس طرح دیکھتے جیسے آرٹسٹ پورٹریٹ بناتے وقت ماڈل کا چہرہ دیکھ دیکھ کر کینوس پر آؤٹ لائن بناتا ہے۔ وہ بولتے رہے، لیکن بشارت کا دھیان کہیں اور تھا ان کے ذہن میں ایک سے ایک منحوس تصویر ابھر رہی تھی۔ بلکہ tableau کہنا چاہیے، جس میں وہ خود کو کسی طرح فٹ نہیں کر پا رہے تھے۔

 

مثنوی مولانا روم اور یتیم خانے کا بینڈ

پہلا منظر: ٹرین کا گارڈ ہری جھنڈی ہاتھ میں لیے سیٹی بجا رہا ہے۔ چھ سات لڑکے لپک کر چلتی ٹرین کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں چڑھتے ہیں، جس سے ابھی ابھی ایک سُرمہ اور سلاجیت بیچنے والا اُترا ہے۔ سب نیکر پہنے ہوئے ہیں۔ صرف ایک لڑکے کی قمیض کے بٹن سلامت ہیں، لیکن آپس کی لڑائی میں حریف اس کی داہنی آستین جڑ سے نوچ کر لے گیا۔ کسی کے پیر میں جوتا نہیں، لیکن ٹوپی سب پہنے ہوئے ہیں۔ ایک لڑکے کے ہاتھ میں بڑا سا فریم ہے۔ جس میں ضلعے کے ایک گمنام لیڈر کا سرٹیفکٹ جڑا ہوا ہے۔ کمپارٹمنٹ میں گھستے ہی لڑکوں نے کہنیوں اور دھکوں سے اپنی جگہ بنا لی۔ جیسے ہی ٹرین سگنل سے آگے نکلی، سب سے بڑے لڑکے نے ریزگاری سے بھرا ہوا ٹین کا گولک جھن جھنے کی طرح بجانا شروع کیا۔ ڈبّے میں خاموشی چھا گئی۔ ماؤں کی گود میں روتے بچّے سہم کر دودھ پینے لگے اور دودھ پیتے ہوئے بچّے دودھ چھوڑ کر رونے لگے۔ مردوں نے سامنے بیٹھی عورت کو گھورنا اور اس کے میاں نے اونگھنا چھوڑ دیا۔ جب سب مسافر اپنا اپنا شغل روک کر لڑکے کی طرف متوجہ ہو گئے تو اس نے اپنا گولک راگ بند کیا۔ اس کے ساتھیوں نے اپنے منھ آسمان کی طرف کر لیے اور آسمانی طاقتوں سے براہِ راست رابطہ قائم کرنے کے ثبوت میں سب نے ایک ساتھ آنکھوں کی پتلیاں اتنی اوپر چڑھا لیں کہ صرف سفیدی دکھائی دینے لگی۔ پھر سب مل کر انتہائی منحوس لے میں کورس گانے لگے:

ہماری بھی فریاد سُن لیجیے

ہمارے بھی اک روز ماں باپ تھے

تھرڈ کلاس کے ڈبّے میں یتیم خانے کے جو لڑکے داخل ہوئے ان سب کی آوازیں پھَٹ کر کبھی کی بالغ ہو چکی تھیں۔ صرف ایک کے کنٹھ نہیں پھوٹے تھے یہی لڑکا چیل جیسی آواز میں کورس کو lead کر رہا تھا۔ اس زمانے میں پشاور سے ٹرانکور اور کلکتے سے کراچی تک ریل میں سفر کرنے والا کوئی مسافر ہو گا جو اس نحوستوں سے لبریز گانے اور اس کی خانہ برباد لے سے نا آشنا ہو۔ جب سے برصغیر میں ریل اور یتیم خانے آئے ہیں، یہی ایک دھُن چل رہی ہے۔ اسی طرح برصغیر ہندو پاکستان میں کوئی آدم آزار شخص مثنوی مولانا روم کی ایسی اسطوخودوس[4] مولویانہ دھُن کمپوز کر گیا ہے کہ پانچ سو سال سے اوپر گزر گئے، اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ شعر کو اس طرح ناک سے گا کر صرف وہی مولوی پڑھ سکتا ہے جو گانے کو واقعی حرام سمجھ کر گاتا ہو۔ کسی شخص کو گانے، تصوف، فارسی اور مولوی، چاروں سے بیک وقت متنفر کرنا ہو تو مثنوی کے دو شعر اس دھُن میں سنوا دیجیے۔ "سنا دیجیے” ہم نے اس لیے نہیں کہا کہ یہ لے صرف ایسے شخص کے گلے سے نکل سکتی ہے جس نے زندگی میں کسی ایرانی کو فارسی بولتے نہ سنا ہو اور جس کے گلے سے مفت کی مرغی کے علاوہ کوئی چیز نہ اُتری ہو۔

دوسرا منظر: یتیم خانے کا بینڈ بج رہا ہے۔ آگے آگے سر کو دائیں بائیں جھلاتا بینڈ ماسٹر چل رہا ہے۔ جس طرح پہلوان، فوج کے جوان اور بے کہی لڑکیاں سینہ نکال کے چلتی ہیں، اسی طرح یہ پیٹ نکال کر چل رہا ہے۔ کچھ لڑکوں کے ہاتھ میں پیتل کے بھونپو نما باجے ہیں جو جلیبی اور Angry Young Men کی طرح پیچ و تاب کھا کے بالآخر بڑی آنت کی شکل میں اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ یوں تو ان باجوں کی ٹونٹی لڑکوں نے اپنے ہونٹوں سے لگا رکھی ہے، لیکن انھیں پھونکنے، دھونکنے کا غریبوں میں دَم درود کہاں۔ لہٰذا بیشتر وقت ڈھول اور بانسری ہی بجتی رہتی ہے۔ بعض وقت بانسری کی بھی سانس اکھڑ جاتی ہے اور تنہا ڈھول سارے آرکسٹرا کے فرائض انجام دیتا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ ایسا بینڈ باجا تو خدا دشمن کی شادی میں بھی نہ بجوائے۔ بینڈ کی اجاڑ دھن بھی برصغیر کے طول و عرض میں ایک ہی تھی۔ لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے بینڈ میں چند دلچسپ فرق تھے۔ مثلاً یہی کہ مسلمان بالعموم مجیرے نہیں بجاتے تھے۔ اور ہندوؤں کے اناتھ آشرم کے بینڈ میں ڈھول بجانے والا اتنی مستی سے گھوم گھوم کے ڈھول نہیں پیٹتا تھا کہ ترکی ٹوپی کا پھندنا ہر ضرب پر 360 ڈگری کا چکر لگائے۔ ہندو یتیم لڑکے پھندنے کے بجائے اپنی اصلی چوٹیاں استعمال کرتے تھے۔ دوم، ہندوؤں میں یہ بینڈ صرف اناتھ آشرم کے یتیم بجاتے تھے۔ مسلمانوں میں یتیم ہونے کی شرط نہیں تھی۔ چنانچہ کراچی کے بعض اسکولوں میں ہم نے اسکول بینڈ کو اسپورٹس ڈے پر marching songs بھی اسی دھن میں بجاتے ہوئے سنا ہے:

ہمارے بھی اک روز ماں باپ تھے، ہمارے بھی اک روز ماں باپ تھے

 

کچھ علاج اس کا، ” شہنشاہِ غزل! ” ہے کہ نہیں؟

اس لائن (ہمارے بھی اک روز ماں باپ تھے) کی خوبی یہ ہے کہ اس کے سات الفاظ، چار اجزائے ترکیبی پر مشتمل ہیں اور یہ چاروں ہی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے بھی/ اک روز / ماں باپ / تھے۔ آپ کسی بھی جزو پر زور دے کر پڑھیں، بے کسی اور نحوست کا ایک نیا پرت ابھرے گا۔ حد یہ کہ تنہا ” تھے ” بھی پوری لائن کے تاکیدی معنی، رخ اور لہجہ بدل کے رکھ دے گا۔ تھےے ےے! ایسے چومُکھے مصرعے بڑے بڑے شاعروں کو نصیب نہیں ہوتے۔ البتہ مہدی حسن اپنی گائیکی سے شعر کے جس لفظ کو چاہیں کلیدی بنا دیتے ہیں۔ ان میں جہاں ایک ہزار ایک خوبیاں ہیں وہاں ایک بری عادت یہ پڑ گئی ہے کہ اکثر اپنی سخن فہمی کا ثبوت دینے کے لیے شعر کا کوئی سا لفظ جس پر انہیں کلیدی ہونے کا شبہ ہو جائے، پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ الاپ روک کے سامعین کو نوٹس دیتے ہیں کہ اب ذرا جگر تھام کے بیٹھو۔ گنجینہ معنی کا طلسم دکھاتا ہوں۔ پھر آدھ گھنٹے تک اس لفظ کو جھنجھوڑتے بھنبھوڑتے ہیں۔ اسے طرح طرح سے پٹخنیاں دے کر ثابت کرتے ہیں کہ سارا مفہوم اس ایک لفظ میں بند ہے۔ باقی تمام الفاظ فقط طبلہ بجانے کے لیے ہیں۔ یعنی صرف شعر کا وزن پورا کرنے اور ٹھیکا لگانے کے لیے۔ مقصد یہ جتانا ہوتا ہے کہ میں شعر سمجھ کر ہی نہیں، سمجھا سمجھا کر گا رہا ہوں۔ ان کی دیکھا دیکھی اوروں نے خود سمجھے بغیر ہی سمجھا سمجھا کر گانا شروع کر دیا ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ مہدی حسن کبھی اس لفظ کو کھدیڑتے ہوئے راگ اور غزل کی No۔ man’s۔ land (نہ تیری نہ میری زمین) میں چھوڑ آتے ہیں۔ اور کبھی ” کبڈی! کبڈی! ” کہتے ہوئے اسے اپنے پالے میں لے آتے ہیں۔ پھر فری اسٹائل میں اس کے مختلف حصّوں کو کو اپنی طاقت اور سامعین کی برداشت کی حد تک توڑتے، مروڑتے اور کھینچتے ہیں۔ وہ بے دَم ہوکے سَت چھوڑ دے تو اسے پھپھیڑنے لگتے ہیں۔ ابھی، لمبی سی گٹکری کے بعد، عجیب سا منھ بنائے، اسے پپول پپول کے دیکھ رہے تھے اور اپنی ہی لذّت سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھے۔ ذرا دیر میں اس کی ہڈی تک چچوڑ کے طبلہ نواز کے سامنے پھینک دی کہ استاد، اب کچھ دیر جگل بندی ہو جائے۔ کبھی حرفِ سادہ کے راگ انگ جی بھر کے جھنجھوڑنے کے بعد اس کی چھاتی پہ اپنے ریشمی کُرتے، زرین واسکٹ اور ہارمونیم سمیت چڑھ جاتے ہیں۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو چوم چاٹ کے واپس لِٹال دیتے ہیں:

چمٹے رہو سینے سے ابھی رات پڑی ہے

پھر وہ ساعتِ نایاب بھی آتی ہے جب یہ راگ بھو گی، اس کے منھ میں اپنی زبان اس طرح رکھ دیتا ہے کہ راگنی چیخ اٹھتی ہے:

تم اپنی زبان مرے منھ میں رکھے، جیسے پاتال سے مری جان کھینچتے ہو

بالآخر گھنٹوں رگیدنے کے بعد اسے تھپڑ مار کے چھوڑ دیتے ہیں کہ ” جا! اب کے چھوڑ دیا۔ آئندہ یاروں کے سامنے اس طرح نہ آئیو۔

جس کو ہو دِین و دل عزیز مرے گلے میں آئے کیوں

 

اچھا! آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں

بشارت کا تقرر تو بحیثیت اردو ٹیچر ہوا تھا، لیکن انہیں ٹیچروں کی کمی کے سبب تقریباً سبھی مضامین پڑھانے پڑتے تھے، سوائے دینیات کے۔ جامع مسجد دھیرج گنج کے پیش امام نے فتویٰ دیا تھا کہ جس شخص کے گھر کتّا ہو، وہ دینیات پڑھائے تو پڑھنے والوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے بشارت کی ریاضی، جیومیٹری اور انگریزی بہت کمزور تھی، لیکن وہ اس ہینڈی کیپ سے ذرا جو پریشان ہوتے ہوں۔ پڑھانے کا گُر انھوں نے اپنے استاد ماسٹر فاخر حسین سے سیکھا تھا۔ ماسٹر فاخر حسین کا اپنا مضمون ( بزعمِ خود) تاریخ تھا۔ لیکن انہیں اکثر ماسٹر مینڈی لال، انگلش ٹیچر کی کلاس بھی لینی پڑتی تھی۔ ماسٹر مینڈی لال کا گُردہ اور گریمر دونوں جواب دے چکے تھے۔ اکثر دیکھا کہ جس دن نویں دسویں کلاس کی گریمر کی کلاس ہوتی، وہ گھر بیٹھ جاتا۔ اس کے گردے میں گریمر کا درد اُٹھتا تھا۔ سب ٹیچر اپنے مضمون کے علاوہ کوئی اور مضمون پڑھانے سے کچیاتے تھے۔ ماسٹر فاخر حسین واحد استاد تھے جو ہر مضمون پڑھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، حالانکہ انہوں نے بی اے ” وایا بھٹنڈہ ” کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پہلے منشی فاضِل کیا۔ انگلش گریمر انہیں بالکل نہیں آتی تھی۔ وہ چاہتے تو انگریزی کا سارا گھنٹا ہنس بول کر یا پند و نصائح میں گزار سکتے تھے۔ لیکن ان کا ضمیرایسی دفعہ الوقتی کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ دوسرے استادوں کی طرح لڑکوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے وہ املا بھی لکھوا سکتے تھے۔ مگر اس حیلے کو وہ اپنے تبحرِ علمی اور منصبِ عالمانہ کے خلاف سمجھتے تھے۔ چنانچہ جس بھاری پتھر کو سب چوم کر چھوڑ دیتے، اسے یہ گلے میں ڈال کر بحرِ علوم میں کود پڑتے۔ پہلے گریمر کی اہمیت پر لکچر دیتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان کرتے کہ ہماری گائیکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔۔ اسی طرح انگریزی کی اساس گریمر ہے۔ اگر کمال حاصل کرنا ہے تو پہلے بنیاد مضبوط کرو۔ ماسٹر فاخر حسین کی اپنی انگریزی کی عمارت فنِ تعمیر کے کمال کا نادر نمونہ اور یکے از ہفت عجائباتِ عالم تھی۔ مطلب یہ کہ بغیر نیو کی تھی۔ بیشتر جگہ تو چھت بھی نہیں تھی۔ اور جہاں تھی، اسے چمگادڑ کی طرح اپنے پیروں کی اَڑواڑ× سے تھام رکھا تھا۔ اس زمانے میں انگریزی بھی اردو میں پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا کچھ گرتی ہوئی دیواروں کو اردو اشعار کے بر محل پشتے تھامے ہوئے تھے۔ بہت ہی منجھے اور گھِسے ہوئے ماسٹر تھے۔ سخت سے سخت مقام سے آسان گزر جاتے تھے۔ مثلاً parsing کروا رہے ہیں۔ اپنی دانست میں نہایت آسان سوال سے ابتدا کرتے۔ بلیک بورڈ پر To go لکھتے اور لڑکوں سے پوچھتے، اچھا بتاؤ یہ کیا ہے؟ ایک لڑکا ہاتھ اٹھا کر جواب دیتا،! simple infinitive، اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے فرماتے، بالکل ٹھیک۔ لیکن دیکھتے کہ دوسرا اٹھا ہوا ہاتھ ابھی نہیں گرا۔ اس سے پوچھتے، آپ کو کیا تکلیف ہے؟ وہ کہتا، نہیں سر! noun infinitive ہے! فرماتے، اچھا آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ کلاس کا سب سے ذہین لڑکا ابھی تک ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے کہتے، آپ کا سگنل ابھی تک ڈاؤن نہیں ہوا۔ کہیے، کہیے! وہ کہتا یہ Gerundial infinitive ہے جو reflexive verb سے مختلف ہوتا ہے۔ Nesfield گریمر میں لکھا ہے۔ اس مرحلے پر ماسٹر فاخر حسین پر واضح ہو جاتا کہ

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

لیکن بہت سہج اور نکتہ فہم انداز میں فرماتے، اچھا! تو گویا آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! اتنے میں نظر اس لڑکے کے اٹھے ہوئے ہاتھ پر پڑی جو ایک کانوینٹ سے آیا تھا اور فر فر انگریزی بولتا تھا۔ اس سے پوچھا

Well! Well! Well!

اس نے جواب دیا:

Sir! I am afraid, this is an intransitive verb.

فرمایا، اچھا! تو گویا آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! پھر آئی ایم افریڈ کے محاورے سے نا واقفیت کے سبب بڑے مشفقانہ انداز میں پوچھا، عزیز من! اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟

موصوف اکثر فرماتے کہ انسان کو علمی تحقیق و تفحص کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ خود انھوں نے ساری عمر بارہ دری میں گزاری۔ اب ایسے استاد کہاں سے لائیں جن کی لاعلمی پر بھی پیار آتا تھا۔

ماسٹر فاخر حسین سادہ دلانِ سلف اور اساتذہ پیشین کی حاضر جوابی کا آخری نمونہ تھے۔ ہر چند کہ ان کا علم مستحضر نہیں تھا، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ طبیعت حاضر نہ ہو۔

بشارت اکثر کہتے ہیں ” ماسٹر فاخر حسین کا مبلغ علم مجھ جیسے نالائق شاگردوں تک سے پوشیدہ نہ تھا۔ میں زندگی میں بڑے بڑے پروفیسروں اور جید عالموں سے ملا ہوں۔ لیکن مجھے آج بھی چوائس دی جائے تو میں ماسٹر فاخر حسین ہی سے پڑھنا پسند کروں گا۔ صاحب، وہ آدمی تھا۔ کتاب نہیں، زندگی پڑھاتا تھا۔ ”

 

سیّد سیّد کہیں ہیں، سیّد کیا تم سا ہو گا؟

اب اس خاکے میں خواری کے مختلف شیڈ اور جزئیات بھرنا ہم آپ کے قیاس و تخیل پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان حالات میں جیسا وقت گزر سکتا تھا، ویسا گزر رہا تھا۔ دسمبر میں اسکول کا سالانہ جلسہ ہونے والا تھا، جس کی اتنے زور شور سے تیاریاں ہو رہی تھیں کہ مولی مجّن کو اتنی بھی فرصت نہ تھی کہ استادوں کی چڑھی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی تو درکنار، اس موضوع پر جھوٹ بھی بول سکیں۔ دسمبر کا مہینہ سالانہ قومی جلسوں، مرغابی کے شکار، بڑے دن پر ” صاحب لوگوں ” کو ڈالیاں بھیجنے، پتنگ اڑانے اور ماءاللحم سہ آتشہ، معجونیں اور کُشتے کھانے اور ان کے نتائج سے مایوس ہونے کا زمانہ ہوتا تھا۔ 30 نومبر کو مولوی مجّن نے بشارت کو بلوایا تو وہ یہ سمجھے کہ شاید دستِ خاص سے تخلیے میں تنخواہ دیں گے تاکہ اور ٹیچروں کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ مگر وہ چھوٹتے ہی بولے کہ برخوردار، آپ اپنے اشعار میں پرائی بہو بیٹیوں کے بارے میں اپنے منصوبوں کا اظہار کرنے کے بجائے قومی جذبہ کیوں نہیں ابھارتے؟ اپنے مولانا حالی پانی پتی[5] نے کیا کہا ہے ایسی شاعری کے بارے میں (چٹکی بجاتے ہوئے) کیا ہے وہ شعر؟ اماں، وہی سنڈاس والی بات؟

بشارت نے مری مری آواز میں شعر پڑھا:

وہ شعر اور قصائد کا نا پاک دفتر

عفونت میں سنڈاس ہے جس سے بہتر

 

ان کی اہلیہ اور مولانا حالی کی مشترک غلطیاں

شعر سن کر فرمایا ” جزاک اللہ! آپ کے ہاتھ میں اللہ نے شعر گھڑنے کا ہنر دیا ہے۔ اسے کام میں لائیے۔ سالانہ جلسے کے لیے یتیموں پر ایک زور دار نظم لکھیے۔ مسلم قوم کی بے حسی، سائنس پر مسلمانوں کے احسانات، سر سید کی قربانیاں، سلطنتِ انگلشیہ میں امن چین کا دور دورہ، چندے کی اہمیت، فتح اندلس اور تحصیل دار صاحب کی کار کردگی کا ذکر ہونا چاہیے۔

پہلے مجھے سنادیجیے گا۔ وقت کم ہے۔ ”

بشارت نے کہا ” معاف کیجیے۔ میں غزل کا شاعر ہوں۔ غزل میں یہ مضامین نہیں باندھے جا سکتے۔ ”

غضب ناک ہو کر بولے ” معاف کیجیے۔ کیا غزل میں صرف پرائی بہو بیٹیاں باندھی جا سکتی ہیں؟ تو پھر سُنیے۔ پچھلے سال جو اردو ٹیچر تھا وہ ڈسمس اسی بات پر ہوا۔ وہ بھی آپ کی طرح شاعری کرتا تھا۔ میں نے کہا تقسیمِ انعامات کے جلسے میں بڑے بڑے لوگ آویں گے۔ ہر معطّی اور بڑے آدمی کی آمد پر پانچ منٹ تک یتیم خانے کا بینڈ بجے گا۔ اب ذرا یتیموں کی حالتِ زار اور یتیم خانے کے فوائد اور خدمات پر ایک پھڑکتی ہوئی چیز ہو جائے۔ تمہاری آواز اچھی ہے۔ گا کے پڑھنا۔ عین جلسے والے دن منمناتا ہوا آیا۔ کہنے لگا، بہت سر مارا پر بات نہیں بنی۔ ان دنوں استحضار نہیں ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا بَلا ہوتی ہے؟ بولا طبیعت حاضر نہیں ہے۔ میں نے کہا اماں، حد ہو گئی۔ گویا اب ہر چپڑ قنات ملازم کی طبیعت کے لیے علاحدہ سے رجسٹرِ حاضری رکھنا پڑے گا۔ کہنے لگا، بہت شرمندہ ہوں۔ ایک دوسرے شاعر کی نظم، حسبِ حال، ترنم سے پڑھ دوں گا۔ میں نے کہا چلو، کوئی بات نہیں، وہ بھی چلے گی۔ باپ رے باپ! اس نے تو حد کر دی۔ بھرے جلسے میں اپنے مولانا حالی پانی پتی کی ” مناجاتِ بیوہ” کے بند کے بند پڑھ ڈالے۔ ڈائس پر میرے پاس ہی کھڑا تھا۔ میں نے آنکھ سے، کہنی کے ٹہوکے سے، کھنکھار کے، بہتیرے اشارے کیے کہ بندہ خدا! اب تو بس کر۔ حد یہ کہ میں نے دائیں کولھے پر چٹکی لی تو بایاں بھی میری طرف کر کے کھڑا ہو گیا۔ اسکول کی بڑی بھد ہوئی۔ سب منھ پر رو مال رکھے ہنستے رہے، مگر وہ آسمان کی طرف منھ کر کے رانڈ بیواؤں کی جان کو روتا رہا۔ ایک میراثی نے جس کے ذریعے میں نے رقعے تقسیم کروائے تھے، مجھے بتایا کہ ” مناجاتِ بیوہ ” میں اس بے حیا نے دو تین سُر راگ مالکونس کے بھی لگا دیے۔ ان لوگوں نے دل میں کہا ہو گا کہ شاید میں مولانا حالی کی آڑ میں وِدھوا آشرم یا بیوہ خانہ کھولنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہوں۔ بعد کو میں نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا، سب دیوان کھنگال ڈالے، یتیموں پر کوئی نظم نہیں ملی۔ ستم یہ کہ میر تقی میر جو خود بچپنے میں یتیم ہو گئے تھے، مثنوی در تعریف مادہ سگ اور موہنی بلّی پر تو نظم لکھ گئے، مگر معصوم یتیموں پر پھوٹے منھ سے ایک مصرع کہہ کے نہ دیا۔ اسی طرح مرزا غالب نے قصیدے لکھے، سہرے لکھے، بیسنی روٹی، ڈومنی اور چھالیا کی مدح میں پے در پے شعر کہے۔ حد یہ کہ دو کوڑی کی سپاری کو "سرِ پستان پریزاد” سے بھڑا دیا، مگر یتیمی کے بارے میں کم از کم نسخہ حمیدیہ میں تو مجھے ایک شعر نہیں ملا۔ جب ہر دیوان سے مایوس ہو گیا تو اچانک خیال آیا کہ یتیموں اور بیواؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مضمون واحد، مظلومیت مشترک۔ اندریں حالت، فدوی نے "مناجاتِ بیوہ” پڑھ دی۔ شاہکار نظم ہے۔ تین سال سے انٹرنس کے امتحان میں اس پر برابر سوال آ رہے ہیں۔ ” چنانچہ اندریں حالات میں نے بھی فدوی کو اس کے شاہکار اور چولی دامن سمیت کھڑے کھڑے ڈسمس کر دیا۔ کچھ دن بعد اس حرام خور نے میرے خلاف انسپکٹر آف اسکولز کو عرضداشت جڑ دی کہ میں مولانا حالی کے کلام کو فحش سمجھتا ہوں! نیز، میں نے اس سے اپنے غسل کے لیے پانچ مرتبہ بالٹی میں پانی منگوایا۔ سراسر جھوٹ بولا۔ میں نے پندرہ بیس دفعہ منگوایا تھا۔ یہ بھی جھوٹ کہ بالٹی میں منگوایا تھا۔ گھڑے میں بھر کر چھلکاتا لایا تھا۔ وجہ غسل کے بارے میں بھی رکیک اور حاسدانہ حملے کیے۔ خیر، ایسی سناری چوٹوں سے تو یاروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ پر محکمہ تعلیمات نے اب مجھ سے تحریری جواب طلب کیا ہے کہ ” آپ کو مولانا حالی کی مسّدس اور مناجاتِ بیوہ پر کیا اعتراض ہے، جب کہ سرکار نے اسے کورس میں بھی داخل کر رکھا ہے۔ ان حصوں کی نشاندہی کیجیے جن کو آپ قابلِ اعتراض گر دانتے ہیں۔ اب آپ میری کمک پر آ گئے ہیں تو اس کا جواب بھی لکھ دیجیے۔ مگر اعتراض ایسے ہونے چاہییں کہ منھ پھر جائے۔ اٹھائے نہ اٹھیں۔ دو چار غلطیاں زبان کی بھی نکال دیجیے گا۔ آخر کو پانی پت کے تھے۔ پانی پت پن نہیں جاتا۔ میرے گھر میں سے بھی وہیں کی ہیں۔ ان سے گفتگو کر کے آپ پر مولانا کی زباں دانی کا سارا بھرم کھل جائے گا۔

 

ٹیڑھی انگلی والے لوگ

مولوی مظفّر کی خامیاں بالکل آشکارا، مگر خوبیاں نگاہوں سے پوشیدہ تھیں۔ وہ بشارت کے اندازے اور اندیشے سے کہیں زیادہ ذہین کائیاں نکلے۔ ایسے ٹھوٹ جاہل بھی نہیں تھے جیسا کہ ان کے دشمنوں نے مشہور کر رکھا تھا۔ جہاں دیدہ، مزاج شناس، حکّام رس، سخت گیر۔ رہن سہن میں ایک سادگی اور سادگی میں ایک ٹیڑھ۔ عقدِ ثانی کے علاوہ اور کوئی کبیرہ بد پرہیزی ان سے منسوب نہ تھی۔ کانوں اور قول کے کچے، مگر دھُن کے پکے تھے۔ انھی کا حوصلہ تھا کہ دس بارہ سال سے وسائل کے بغیر لشتم پشتم اسکول کو چلا رہے تھے۔ اسے چلانے کے لیے ان کے ضابطہ اخلاق میں ہر قسم کی دھاندلی روا تھی۔ ان کے طریقِ کار میں عیب نکالنے کے لیے زیادہ عالم الغیب بلکہ عالم العیب ہونے کی شرط نہ تھی کہ وہ بالکل عیاں تھے، مگر جو کام وہ کر گئے وہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ اکثر فرماتے کہ ” صاحب زادے، سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلتا۔ ” مگر ایسے لوگوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ گھی نکال چکنے کے بعد بھی ان کی انگلیاں ٹیڑھی ہی رہتی ہیں۔ اور انگلیاں ٹیڑھی رکھنے میں جو مزا انہیں آتا ہے وہ سچ پوچھیے تو گھی نکال کر کھانے میں بھی نہیں آتا۔ یہ حضرات التحیات کے دوران اشہد ان لا الہ الا اللہ پڑھتے وقت اللہ کے وجود اور وحدانیت کی شہادت بھی ٹیڑھی انگلی ہی سے دیتے ہیں!

 

رانڈ کڑھی

اسکول کی مالی حالت خراب بتائی جاتی تھی۔ ماسٹروں سے آئے دن دردمندانہ اپیل کی جاتی کہ آپ دل کھول کر چندہ اور عطیات دیں تاکہ آپ کو تنخواہیں دی جا سکیں۔ پانچ چھ مہینے کی ملازمت کے دوران میں انھیں علی الحساب کل ساٹھ روپے ملے تھے جو اسکول کی اکاؤنٹ کی کتابوں میں ان کے نام بطور قرضِ حسنہ دکھائے گئے تھے۔ اب انھیں تنخواہ کا تقاضا کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا، اسلیے کہ قرضِ حسنہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ادھر تنخواہ جتنی چڑھتی جاتی ادھر مولی مجّن کا لہجہ ریشم اور باتیں لچھے دار ہوتی جاتیں۔ ایک دن بشارت نے دبے الفاظ میں تقاضا کیا تو کہنے لگے ” برخوردار ” میں مثل تمہارے باپ کے ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، تم اس کوردہ میں اتنے روپے کا کیا کرو گے؟ چھڑے چھٹانک آدمی ہو۔ اکیلے گھر میں بے تحاشا نقدی رکھنا جوکھم کا کام ہے۔ رات کو تمہاری طرف سے مجھے ڈر ہی لگا رہتا ہے۔ سلطانہ ڈاکو نے تباہی مچا رکھی ہے۔ ”

بہرحال، اس تقاضے کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ دوسرے دن سے انھوں نے ان کے گھر ایک مٹکی چھاچھ روزانہ بھیجنی شروع کر دی۔

تحصیل دار نے روپے پیسے سے تو کبھی سلوک نہیں کیا، البتہ ایک دو چنگیر پالک یا چنے کا ساگ، کبھی ہرن کی ران کبھی ایک گھڑا رساول یا دوچار بھیلیاں تازہ گُڑ کی ساتھ کر دیتا تھا۔ عید پر ایک ہانڈی سندیلے کے لڈوؤں کی اور بقر عید پر ایک بوک بکرے کی سری بھی دی۔ اُترتی گرمیوں میں چار تربوز پھٹی بوری میں ڈلوا کر ساتھ کر دیے۔ ہر قدم پر نکل نکل پڑتے تھے۔ ایک کو پکڑتے تو دوسرا لڑھک کر کسی اور سمت بد راہ ہو جاتا۔ جب باری باری سب تڑخ گئے تو آدھے رستے میں ہی بوری ایک پیاؤ کے پاس پٹک کے چلے آئے۔ ان کے بہتے شیرے کو ایک پیاسا سانڈ جو پنڈت جگل کشور نے اپنے والد کی یاد میں چھوڑ رکھا تھا اس وقت تک انہماک سے چاٹتا رہا جب تک کہ ایک الھڑ بچھیا نے اس کی توجہ کو خوب سے خوب تر کی طرف منعطف نہ کر دیا۔

جنوری کی مہاوٹ میں ان کے خس پوش مکان کا چھپر ٹپکنے لگا تو تحصیل دار نے دو گاڑی پنی کے پولے اور اَستر کے لیے سِرکیاں مفت ڈلوا دیں۔ اور چار چھپر بند بیگار میں پکڑ کر لگا دیے۔ قصبے کے تمام چھپر بارش، دھوپ اور دھوئیں سے سیاہ پڑ گئے تھے۔ اب صرف ان کا چھپر سنہرا تھا۔ بارش کے بعد چمکیلی دھوپ نکلتی تو اس پر کرن کرن اشرفیوں کی بوچھار ہونے لگتی۔ اس کے علاوہ تحصیل دار نے لحاف کے لیے باریک دھُنکی ہوئی روئی کی ایک بوری اور مرغابی کے پروں کا ایک تکیہ بھی بھیجا جس کے غلاف پر نازو نے ایک گلاب کا پھول کاڑھا تھا۔ ( بشارت اس تکیے پر الٹے یعنی پیٹ کے بل سوتے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھول پر ناک اور ہونٹ رکھ کر) تحصیل کے دواب خانے (کانجی ہاؤس) میں ایکشورہ پشت چودھری کی دودھیل بکری کو آوارہ اور لا وارث قرار دے کر دو ہفتے سے بند کر رکھا تھا۔ جب اس کے دانے اور چارے کا سرکاری خرچ اس کی قیمت سے تجاوز کر گیا تو اس کی زنجیر بشارت کے ہاتھ میں پکڑا دی کہ آج سے تمہاری ہوئی۔ مگر انھوں نے دو وجہوں سے قبول نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی چھاچھ پی پی کے اور رانڈ کڑھی[6] کھا کھا کے میری تو آنکھیں پیلی اور شاعری پتلی پڑ گئی ہے۔ اب مزید کسی رقیق شے کی گنجائش نہیں۔ دوم، میں خود تو روپے اور روٹی کے بغیر بھی شاعری اور ڈیوٹی انجام دے سکتا ہوں، لیکن بکری ان حالات میں دودھ تو درکنار مینگنی بھی نہیں دے سکتی۔

 

لارڈ لجلجی

بشارت نے ایک دفعہ یہ شکایت کی کہ مجھے روزانہ دھوپ میں تین میل پیدل چل کر آنا پڑتا ہے تو تحصیل دار نے اسی وقت ایک خچر ان کی سواری میں لگانے کا حکم صادر کیا۔ یہ اَڑیل خچر اس نے نیلام میں آرمی ٹرانسپورٹ سے خریدا تھا۔ اب بڑھاپے میں صرف اس لائق رہ گیا تھا کہ شورہ پشت جاٹوں، بیگار سے بچنے والے چماروں اور لگان اور مفت دودھ نہ دینے والے کاشتکاروں کا منھ کالا کر کے اس پر قصبے میں گشت لگوائی جاتی تھی۔ پیچھے ڈھول تاشے اور مجیرے بجوائے جاتے تاکہ خچر بدکتا رہے۔ اس پر سے گر کر ایک معتوب گھسیارے کی، جس نے مفت گھاس دینے میں پس و پیش کیا تھا، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی، جس سے وہ بالکل مفلوج ہو گیا۔ سواری کی بہ نسبت بشارت کو پیدل چلنا کہیں زیادہ پر وقار و پر عافیت نظر آیا۔ یہ ضرور ہے کہ اگر لارڈ ولزلی ہمرکاب نہ ہوتا تو تین میل کی مسافت بہت کھَلتی۔ وہ راستے بھر اس سے باتیں کرتے جاتے۔ اس کی طرف سے جواب اور ہنکارہ بھی خود ہی بھرتے۔ پھر جیسے ہی نازو کا خیال آتا ان کی ساری تھکن اور کوفت دور ہو جاتی۔ ڈگ کی لمبائی آپ ہی آپ بڑھ جاتی۔ وہ تحصیل دار کے نٹ کھٹ لڑکوں کو اس وقت تک پڑھاتے رہے جب تک کہ وہ واقعہ پیش نہ آیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ قصبے میں وہ اتالیق صاحب کہلاتے تھے۔ اور اس حیثیت سے ہر جگہ ان کی آؤ بھگت ہوتی تھی۔ اہلِ معاملہ کو تحصیل دار سے سفارش کروانی ہوتی تو لارڈ ولزلی تک سے لاڈ کرتے۔ وہ رشوت کی دودھ جلیبی کھا کھا کے اتنا موٹا اور کاہل ہو گیا کہ صرف دُم ہلاتا تھا۔ بھونکنے میں اب اسے آلکس اور خوف آنے لگا تھا۔ اس کا ” کوٹ” ایسے چمکنے لگا جیسا ریس کے گھوڑوں کا ہوتا ہے۔ قصبے میں وہ لاٹ لجلجی کہلاتا تھا۔ جلنے والے البتہ بشارت کو تحصیل دار کا ٹیپو کہتے تھے۔ نازو نے جاڑے میں ولزلی کو اپنی پرانی صدری قطع و برید کر کے پہنا دی تو لوگ اُترن پر ہاتھ پھیر پھیر کر کتّے سے شفقت فرمانے لگے۔ مولی مجّن کو ایک بری عادت یہ تھی کہ استاد پڑھا رہے ہوتے تو درّانا کلاس روم میں داخل ہو جاتے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ ٹھیک پڑھا رہے ہیں یا نہیں لیکن بشارت کی کلاس میں کبھی نہیں آتے تھے اس لیے کہ ان کے دروازے پر ولزلی پہرہ دیتا رہتا تھا۔

واقفیت بڑھی اور بشارت شکار میں تحصیل دار کی اردلی میں رہنے لگا تو ولزلی جھیل میں تیر کر زخمی مرغابی پکڑنا سیکھ گیا۔ تحصیل دار نے کئی مرتبہ فرمائش کی، یہ کتّا مجھے دے دو۔ بشارت ہر دفعہ اپنی طرف اشارہ کر کے ٹال جاتے کہ یہ سگ حضوری، مع اپنے کتے کے، آپ کا غلام ہے۔ آپ کہاں کی ٹہل سیوا، ہگنے موتنے کی کھکھیڑ میں پڑیں گے۔ جس دن سے تحصیل دار نے ایک قیمتی کالر لکھنؤ سے منگوا کر اسے پہنایا تو اس کا شمار شہ کے مصاحبوں میں ہونے لگا اور بشارت شہر میں اتراتے پھرنے لگے۔ لیکن اس کے شریف النسل ہونے میں کوئی کلام نہ تھا کہ اس کا pointer جَدٹیپو (کلاں) الہ آباد ہائی کورٹ کے انگریز جج کا پروردہ تھا۔ وہ جب انگلستان جانے لگا تو اسے اپنے ریڈر کو بخش دیا۔ ولزلی اسی کی اولاد تھا جو دھیرج گنج آ کر یوں گلی گلی خراب و خوار ہو رہا تھا۔

مولی مجّن کو ولزلی زہر لگتا تھا۔ فرماتے تھے کہ ” اوّل تو کتّے کی ذات ہے۔ کتّا اصحابِ کہف کا ہو تب ہی کتّا رہتا ہے۔ پھر اسے تو ایسا ٹرین کیا کہ واللہ صرف اشرافوں کو کاٹتا ہے! ” اس میں شک نہیں کہ جب وہ مولی مجّن پر بھونکتا تو بہت ہی پیارا لگتا تھا۔ اب وہ واقعی اتنا ٹرینڈ ہو گیا تھا کہ بشارت حکم دیتے تو اسٹاف روم سے ان کا رولر منھ میں دبا کر لے آتا۔ مولی مجّن کا بیان تھا کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اس پلید کو رجسٹرحاضری لے جاتے دیکھا (لیکن تحصیل دار اور rabies کے ڈر سے کچھ نہ بولے۔ ایک چینی دانا کا قول ہے کہ کتّے پر ڈھیلا کھینچ کر مارنے سے پہلے یہ ضرور تحقیق کر لو کہ اس کا مالک کون ہے)

اطوار و طریقہ واردات کے لحاظ سے ولزلی دوسرے کتّوں سے بالکل مختلف تھا۔ گھر میں کوئی اجنبی داخل ہو تو کچھ نہیں کہتا تھا۔ لیکن جب وہ واپس جانا چاہتا تو کسی طرح نہیں جانے دیتا تھا۔ اس کی ٹانگ اپنی زنبور میں پھنسا کر کھڑا ہو جاتا۔

 

ٹیچر حضرات یتیم خانے کو کھا گئے!

رفتہ رفتہ مولی مجّن نے قرضِ حسنہ سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ اور خود بھی کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ ایک دن بشارت چاک میں لت پت، ڈسٹر ہاتھ میں اور رجسٹر بغل میں دبائے کلاس روم سے نکل رہے تھے کہ مولی مجّن انھیں آستین پکڑ کے اپنے دفتر میں لے گئے اور الٹے سر ہو گئے۔ غالباً ” حملہ کرنے میں پہل بہترین دفاع ہے ” والی پالیسی پر عمل کر رہے تھے۔ کہنے لگے ” بشارت میاں، ایک مدّت سے آپ کی تنخواہ چڑھی ہوئی ہے۔ اور آپ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ اسکول ان حالوں کو پہنچ گیا۔ کچھ اُپائے کیجیے۔ یتیم خانے کے چندے کی مد سے ٹیچروں کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ ٹیچر حضرات یتیم خانے کو کھا گئے! ڈرتا ہوں آپ صاحبان کو یتیموں کی آہ نہ لگ جائے۔ ” بشارت یہ سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئے۔ کہنے لگے ” سات آٹھ مہینے ہونے کو آئے۔ کُل ساٹھ ستّر روپے ملے ہیں۔ دو دفعہ گھر سے منی آرڈر منگوا چکا ہوں۔ اگر اس پر بھی یتیموں کی آہ لگنے کا اندیشہ ہے تو اپنی نوکری تہ کر کے رکھیے۔ ” یہ کہہ کر انھوں نے وہیں چارج دے دیا۔ مطلب یہ کہ ڈسٹر اور رجسٹر حاضری مولی مجّن کو پکڑا دیا۔

مولی مجّن نے یکلخت پینترا بدلا اور ڈسٹر ان کی تحویل میں واپس دے کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولے ” آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، برخوردار؟ قسم ہے وحدہ لا شریک کی! وہ رقم جسے آپ اپنے حسابوں ساٹھ ستّر بتا رہے ہیں، وہ بھی یتیموں کا پیٹ کاٹ کر، زکات اور صدقات کی مد سے نکال کر آپ کی نذر کی تھی۔ اس کا آپ یہ صلہ دے رہے ہیں! سر سیّد کو بھی آخری عمر ایسے ہی صدمے اٹھانے پڑے تھے جن سے وہ جاں بر نہ ہو سکے۔ میں سخت جان ہوں۔ خیر۔ ذرا صبر سے کام لیجیے۔ اللہ نے چاہا تو بقر عید کی کھالوں سے سارا حساب یک مشت بے باق کر دوں گا۔ یتیموں کا حال آپ پر روشن ہے۔ غریب کندھوں پر چڑھ چڑھ کے میونسپلٹی کی لالٹینوں سے پلی دو پلی تیل نکالتے ہیں تب کہیں رات کو پڑھ پاتے ہیں۔ میونسپلٹی والوں نے تاڑ کے برابر اونچی بلیوں پہ لالٹینیں لٹکا دی ہیں تاکہ ان کے نیچے کوئی پڑھ نہ سکے۔ اب کوئی ان الہ دین چراغ کی اولادوں سے پوچھے کہ تم نے لالٹین لٹکائی ہے یا اپنے بھانویں سوا نیزے پر آفتاب ٹانگا ہے۔ معصوم بچّے اس کی اندھی روشنی میں کیا تمھارے باپ کا کفن سییں گے۔ آپ کے آنے سے تین چار سال پہلے ایک یتیم لونڈا بلّی پر سے ایسا گرا کہ ہاتھ اور ٹانگ کی ہڈی کچی ککڑی کی طرح ٹوٹ گئی۔ عبدالسلام کمنگر نے جوڑنے کی بہتیری کوشش کی، مگر پیپ پڑ گئی۔ کانپور لے جا کر، دست بخیر، یہاں سے (گھٹنے کے اوپر سے) ٹانگ کٹوانی پڑی۔ سیدھا ہاتھ جُڑنے کو تو جُڑ گیا، مگر اس طرح جیسے قرابت داروں میں ناچاقی کے بعد ٹوٹا ہوا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ ہاتھ کی کمان سی بن گئی۔ دونوں سِروں پر تار باندھ دیں تو اس گز سے سارنگی بجا سکتا تھا۔ لولا لنگڑا لونڈا رفتہ رفتہ بری صحبت میں پڑ گیا۔ میں نے لنگڑ دین کو کان پکڑ کے نکال باہر کیا تو کانپور میں فقیروں کی ٹولی میں جا شامل ہوا۔ اور دوسرے لونڈوں کو بھی بہکانے لگا کہ ” یار تم بھی بلّی پر سے چھلانگ لگا کے ادھر آ جاؤ۔ بڑے مزے ہیں۔ یہاں برتن نہیں مانجھنے پڑتے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کے آموختہ نہیں سنانا پڑتا۔ رات کو کسی کے پیر نہیں دابنے پڑتے۔ روز روز سویم کے چنے پڑھ پڑھ کے خود ہی کھانے نہیں پڑتے۔ صبح کوئلے سے دانت نہیں مانجھنے پڑتے۔ بیڑی پینے کے لیے بار بار لوٹا لے کے پاخانے نہیں جانا پڑتا۔ جے دفعہ (جتنی دفعہ) چاہو دھڑ لے سے پیو اور دھوئیں کی گاڑی (ریل) کی طرح بھک بھک کرتے پھرو۔ غرض کہ یہاں عیش ہی عیش ہیں۔ کچھ بھی حرمزدگی کرو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ” بزرگوں نے کہا ہے کہ یہ اطوار ولد الزنا کی پہچان ہیں۔ تو میں کہہ یہ رہا تھا، برخوردار، کہ یہ آپ کا اسکول ہے۔ آپ کا اپنا یتیم خانہ۔ میں اندھا نہیں ہوں۔ آپ جس لگن اور تندہی سے کام کر رہے ہیں وہ اندھے کو بھی نظر آتی ہے۔ آپ زندگی میں بہت آگے جائیں گے۔ اگر اسی طرح کام کرتے رہے تو انشاءاللہ العزیز بیس پچیس برس میں اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہو جائیں گے۔ میں ٹھہرا جاہل آدمی۔ میں تو ہیڈ ماسٹر بننے سے رہا۔ اسکول کا احوال آپ کے سامنے ہے۔ چندہ دینے والوں کی تعداد گھٹ کر اتنی رہ گئی ہے کہ سر سیّد بھی ہوتے تو نواب محسن الملک کا اور اپنا سر پیٹ لیتے۔ مگر آپ سب مجھی پر غصّہ اتارتے ہیں۔ میں تن تنہا کیا کر سکتا ہوں۔ اکیلا چنا بھاڑ تو کیا خود کو بھی نہیں پھوڑ سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکول اور یتیم خانے کو امرا، رؤسا، تعلقہ داروں اور آس پاس کے شہروں میں روشناس کرایا جائے۔ لوگوں کو کسی بہانے بلایا جائے۔ ایک یتیم کا چہرہ دکھانا ہزار وعظوں اور لاکھ اشتہاروں سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔

یہ تو کارِ خیر ہے۔ کوئی سرکس یا آغا حشر کا کھیل تو ہے نہیں کہ اشتہار دیکھتے ہی آدمی ٹوٹ پڑیں۔ یقین جانیے جب سے ٹیچر صاحبان کی تنخواہیں رکی ہیں، میری نیند اُڑ گئی ہے۔ برابر صلاح مشورے کر رہا ہوں۔ آپ کو بھی کئی بار تاکید کر چکا ہوں کہ للہ اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کی کوئی ترکیب جلد از جلد نکالیے۔ بہت غور و خوض کے بعد اب آپ ہی کی تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکول کی مشہوری کے لیے ایک شاندار مشاعرہ ہونا از حد ضروری ہے۔ لوگ آج بھی دھیرج گنج کو گاؤں سمجھتے ہیں۔ ابھی کل ہی ایک پوسٹ کارڈ ملا۔ پتے میں بمقام موضع دھیرج گنج لکھا تھا۔ موضع دھیرج گنج! و اللہ خون کھولنے لگا۔ لوگ عرصے تک علی گڑھ کو بھی گاؤں سمجھتے رہے، تاوقتیکہ وہاں بائیسکوپ شروع نہیں ہوا اور موٹر کار کے ایکسی ڈنٹ میں پہلا آدمی نہ مرا۔

تقسیم کار کے باب میں انھوں نے وضاحت فرما دی کہ بشارت کے ذمّے صرف شاعروں کو لانا، لے جانا، قیام و طعام کا بندوبست، مشاعرے کی پبلسٹی اور مشاعرہ گاہ کا انتظام ہو گا۔ بقیہ تمام کام وہ تن تنہا انجام دے لیں گے۔ اس سے ان کی مراد صدارت تھی!

 

دھیرج گنج کا پہلا اور آخری مشاعرہ

مشاعرے کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ عمائدینِ دھیرج گنج کو مدعو کرنا، مصرع طرح اور شعرا کا انتخاب، شاعروں کو کانپور سے آخری ٹرین سے بصد احترام لانا اور مشاعرے کے بعد پہلی ٹرین سے دفان کرنا، مشاعرے سے پہلے اور مفت غزل پڑھنے تک ان کی خاطر مدارات کسی اور سے کروانا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اسی قسم کے فرائض جو سزا کا درجہ رکھتے تھے بشارت کے ذمے کیے گئے۔ شاعروں اور ان کے اپنے آنے جانے کا ریل اور اکّے کا کرایہ اور دھیرج گنج میں قیام و طعام، پان سگریٹ اور متفرق اخراجات کے لیے مولی مجّن نے بشارت کو دس روپے دیے اور تاکید کی کہ آخر میں خرچ سے جو رقم بچ رہے اس کو مشاعرے کے دوسرے روز مع رسیدات و گوشوارہ اخراجات واپس کر دی جائے۔ انہوں نے سختی سے یہ ہدایت بھی کی کہ شاعروں کو آٹھ آنے کا ٹکٹ خرید کر خود دینا۔ نقد کرایہ ہرگز نہ دینا۔ بشارت یہ پوچھنے ہی والے تھے کہ شاعروں کے ہاتھ خرچ، نذر نذرانے کا کیا ہو گا کہ مولی مجّن نے از خود یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ فرمایا شعرائے کرام سے یتیم خانے اور اسکول کے چندے کے لیے اپیل ضرور کیجیے گا۔ انہیں شعر سنانے میں ذرا حجاب نہیں آتا تو آپ کو کارِ خیر میں کا ہے کی شرم۔ اگر آپ نے پھوہڑ پن سے کام نہ لیا تو ہر شاعر سے کچھ نہ کچھ وصول ہو سکتا ہے۔ مگر جو کچھ بھی وصول کرنا ہے مشاعرے سے پہلے ہی دھر وا لینا۔ غزل پڑھنے کے بعد ہر گز قابو میں نہیں آئیں گے۔ رات گئی بات گئی والا مضمون ہے۔ اور جو شاعر یہ کہے کہ وہ اٹھنی بھی نہیں دے سکتا تو واللہ اسے تو ہمارے یتیم خانے میں ہونا چاہیے۔ کانپور میں بیکار پڑا کیا کر رہا ہے؟

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام انتظامی امور کے سلسلے میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ سو اس کی ایک نہایت معقول وجہ تھی۔ ہیڈ ماسٹر کو ملازم رکھتے وقت مولی مجّن نے صرف ایک شرط لگائی تھی۔ وہ یہ کہ ہیڈ ماسٹر اسکول کے معاملات میں قطعی دخل نہیں دے گا۔

اسے خود نمائی کہیے یا نا تجربہ کاری، بشارت نے مشاعرے کے لیے جو مصرع طرح انتخاب کیا وہ اپنی ہی تازہ غزل سے لیا گیا تھا۔ اس میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ نظر آیا کہ مفت میں شہرت ہو جائے گی۔ دوسرے، انھیں مشاعرے کے لیے علاحدہ غزل پر مغز ماری نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ سوچ سوچ کر ان کے دل میں گُدگُدی ہوتی رہی کہ اچھے اچھے شاعر ان کے مصرعے پر گرہ لگائیں گے۔ بہت زور ماریں گے۔ گھنٹوں فکرِسخن میں کبھی پیر پٹخیں گے۔ کبھی دل کو، کبھی سر کو پکڑیں گے اور شعر ہوتے ہی ایک دوسرے کو پکڑ کے بیٹھ جائیں گے۔ انھوں نے اٹھارہ شاعروں کو شرکت کے لیے آمادہ کر لیا، جن میں جوہر چغتائی الہ آبادی، کاشف کانپوری اور نشور واحدی بھی شامل تھے جو از راہِ شفقت اور خورد نوازی رضامند ہو گئے تھے کہ بشارت کی نوکری کا سوال تھا، نشور واحدی اور جوہر الہ آبادی تو ان کے استاد بھی رہ چکے تھے۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنا مصرع طرح نہیں دیا، بلکہ غیر طرحی غزلیں پڑھنے کی درخواست کی۔ ایسا لگتا تھا کہ باقی ماندہ شعرا کے انتخاب میں انھوں نے صرف یہ التزام رکھا ہے کہ کوئی شاعر ایسا نہ آنے پائے جس کے بارے میں انہیں ذرا سا بھی اندیشہ ہو کہ ان سے بہتر شعر کہہ سکتا ہے۔

 

اکّا کس نے ایجاد کیا؟

ان سب شاعروں کو دو اکّوں میں بٹھا کر وہ کانپور کے ریلوے اسٹیشن پر لائے۔ جن قارئین کو دو اکوں میں اٹھارہ شاعروں کی ” سارڈینز” بنانے میں زیادتی یا مبالغہ نظر آئے، انہوں نے غالباً نہ اکّے دیکھے ہیں نہ شاعر۔ یہ تو کانپور تھا، ورنہ علیگڑھ ہوتا تو ایک ہی اکّا کافی تھا۔ قارئین کی آسانی کے لیے ہم اس نادر الوجود اور محیّر العقول سواری کا سرسری خاکہ کھینچے دیتے ہیں۔ پہلے غسلِ میت کے تختے کو کاٹ کے چوکور اور چورس کر لیں۔ پھر اس میں دو مختلف سائز کے بالکل چوکور پہیے اس یقین کے ساتھ لگا دیں کہ ان کے چلنے کے ساتھ علیگڑھ کی سڑکیں ہموار ہو جائیں گی اور اس عمل سے یہ خود بھی گول ہو جائیں گے۔ تختہ سڑک کے گڑھوں کی بالائی سطح سے چھ ساڑھے چھ فٹ اونچا ہونا چاہیے تاکہ سواریوں کے لٹکے ہوئے پیروں اور پیدل چلنے والوں ‌کے سروں کی سطح ایک ہو جائے۔ چھوٹے پہیے کا قطر کم از کم پانچ فٹ ہو۔ پہیے میں سورج کی شعاعوں کی مانند جو لکڑیاں لگی ہوتی ہیں وہ اتنی مضبوط ہونی چاہییں کہ نئی سواری ان پر پاؤں رکھ کر تختے تک ہائی جمپ کر سکے۔ ہاؤن کے دھکے سے پہیے کو بھی اسٹارٹ ملے گا۔ اس کے بعد تختے میں دو بانسوں کے بم[7] لگا کر اس میں ایک لاغر گھوڑا کو لٹکا دیں، جس کی پسلیاں دور سے گن کر سواریاں یہ اطمینان کر لیں کہ پوری ہیں۔ لیجیے اکّا تیار ہے۔ اس کے مذکورہ بالا چار اجزائے تخریبی کا ذکر آگے آئے گا۔

نہاری، رساول، جلی اور دھواں لگی فیرنی، محاورے، ساون کے پکوان، امریوں میں جھولے، ارہر کی دال، ریشمی دُلائی، غرارے، دوپلی ٹوپی، آلھا اودل اور زبان کے شعر کی طرح اکّا بھی یوپی کے خاصے کی چیزوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1943 سے 1935 تک اپنے قیامِ علی گڑھ کے دوران ہم بھی اکّے میں ذلیل و خوار ہو چکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اکّا کسی گھوڑے نے ایجاد کیا تھا۔ اسی لیے اس کے ڈیزائن میں یہ حکمت پوشیدہ رکھی کہ گھوڑے سے زیادہ مشقت سواری کو اٹھانی پڑے۔ اکّے کی خوبی یہ تھی کہ زائد سواریوں کا بوجھ گھوڑے پر نہیں پڑتا تھا، بلکہ ان سواریوں پر پڑتا تھا جن کی گود میں وہ آ آ کر بیٹھتی جاتی تھیں۔[8]

آپ نے دیکھا ہو گا مغربی "بیلے ” میں بعض ایسے نازک مقام آتے ہیں کہ ڈانسر صرف پاؤں کے انگوٹھے کے بل کھڑی ہو کر ناچتی چلی جاتی ہے۔ سارے جسم کا بوجھ انگوٹھے پر ہوتا ہے اور چہرے پر کرب کے آثار کے بجائے مسکراہٹ کھیلتی ہے۔ ایسی ہی مسرت بھری مہارت اور مہارت بھری مسرت کا مظاہرہ علی گڑھ میں دیکھا جہاں یونیورسٹی کے لڑکے اکّ کے تختے سے باہر نکلی ہوئی بے پردہ کیل پر صرف ہاتھ کے انگوٹھے کے بل ادھَر بیٹھے گرلز کالج اور نمائش کا طواف کرتے تھے۔ زندگی میں کامیابی کا گُر بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ جہاں انگوٹھا دھرنے کو جگہ مل جائے، وہاں خود کو سموچا دھانس دو۔

غیر متوازن طرزِ بیان سے قطع نظر قابلِ غور نکتہ یہ کہ تحقیر کے آخری درجے پر نہ رنڈی فائز ہے نہ بھڑوا، دیہاتی ہے!

سڑک کوٹنے کے انجن سے تصادم

سواریاں ایک دوسرے کے جسم کے curves میں کنڈلی مار کے بیٹھ جاتی تھیں۔ اکّا جب گھوڑے اور سواریوں سمیت کسی کھلے میں ہول کے اندر داخل ہونے میں ناکام رہتا تو، بقول دلّی والوں کے، جامنیں سی گھل جاتیں۔ سواریوں کے ہاتھ پاؤں اس طرح گتھے اور ایک دوسرے میں پروئے ہوئے ہوتے تھے جیسے دھُلائی کے بعد واشنگ مشین میں کپڑوں کی آستینیں ‌اور ازار بند۔ اگر کسی ایک کو اترنا ہوتا تھا تو سب سواریوں کو اپنی اپنی گرہ اور قینچی کھولنی پڑتی تھی، جب کہیں جا کے وہ اس استخوانی شکنجے سے آزاد ہو کر چھ فٹ کی بلندی سے اکڑوں حالت میں چھلانگ لگاتا۔ اعضا باہم دگر خلط ملط ہونے کے علاوہ ایسے سُن ہو جاتے تھے کہ اگر کسی کے پنڈلی میں خارش ہو تو کھجا کھجا کے خونم خون کر دیتا مگر خارش مٹنے کا نام نہ لیتی۔ اس لیے کہ کھجائی ہوئی پنڈلی کسی اور کی ہوتی تھی۔ اکّے کا اگر ایکسی ڈنٹ ہو جاتا تو اسے یا بالا نشین سواریوں کو کبھی گزند نہیں پہنچتا تھا۔ اس لیے کہ اول تو اکّے میں ایسی کوئی چیز یا کل پرزہ نہیں ہوتا کہ اس کے ٹوٹ جانے یا نہ ہونے سے اکّے کی کار کردگی میں مزید فرق آئے۔ دوم ٹکرانے والی کار یا سائیکل اس کے تختے کے نیچے سے ایسی رسان سے نکل جاتی کہ گھوڑے تک کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ گرہ گیر سواریوں کا گپھے کا گپھا جوں کا توں زمین پر گد سے رگبی کے scrum کی طرح آن پڑتا کہ مجال ہے ایک بھی سواری علیحدہ ہو جائے۔ ایسا ہی ایک منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے 1944 میں علی گڑھ میں دیکھا۔ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا۔ ہم ایک عدد بلیڈ خریدنے نکلے تھے جو ان دنوں نایاب تھا۔ ایک ایک دکان پر پوچھتے پھر رہے تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ بیچ سڑک پر سات آٹھ سیاہ پیراشوٹ پرا باندھ کر اتر رہے ہیں۔ ہمیں ‌بتایا گیا کہ ایک اکّے کا، جس میں گرلز کالج کی لڑکیاں سوار تھیں، سڑک کوٹنے کے انجن سے ہیڈ آن کولیژن ہو گیا ہے اور لڑکیاں ہوا بھرے برقعوں کی مدد سے اِکّے کی بلندیوں سے با جماعت لینڈ کر رہی ہیں۔ اور لڑکے ترکی ٹوپیاں پہنے، سیاہ شیروانیوں کے بٹن نرخرے تک بند کیے، زخمیوں کو اٹھانے اور ابتدائی غیر طبی امداد، انسانی ہمدردی، دکھی انسانیت کی خدمت اور معاشقے کے لیے تیار و اُمیدوار کھڑے ہیں۔

سو ہارس پاور کی گالی سے اسٹارٹ

اِکّے کے پچھلے حصّے میں اتنی سواریاں لدی، ٹنگی، اٹکی ہوئی ہوتی تھیں کہ اگر گھوڑے کو ٹھوکر لگ جائے یا نقاہت سے بیہوش ہو جائے، تب بھی زمین پر نہیں گر سکتا تھا، اس لیے کہ پچھلی سواریاں اپنی اُلار سے اسے بے ہوش ہونے کے بعد بھی کھڑی حالت میں رکھتی تھیں۔ تختے پر گدی کا دستور نہیں تھا۔ جیسی چمک اس تختے پر نظر آئی ویسی آج تک قیمتی سے قیمتی لکڑی پر بھی نہیں دیکھی۔ وجہ یہ کہ پالش کا طریقہ قدرے مختلف تھا۔ اس پر روزانہ، کم از کم دس گیارہ گھنٹے مسلسل، پوسٹ گریجویٹ کولھوں سے پالش کی جاتی تھی۔ (جونیئر انڈر گریجویٹ کو تو سینئر پوسٹ گریجویٹ کی گود میں جگہ ملتی تھی) اتنے چکنے اور پھسلنے تختے پر اگر گدی بچھا دی جاتی تو پہلے ہی جھٹکے میں سواریاں اڑن گدیلے پر slide کر کے glide کرتی ہوئی راہ گیروں کے سروں پر لینڈ کرتیں۔ سواری کو اِکّے کا ڈنڈا پکڑ کر سڑک پر گھسٹتے ہوئے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس سے اکّے کی رفتار سست پڑنے کا احتمال تھا۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ اِکّا گھوڑے کی طاقت سے چلتا تھا، کیوں کہ ہوتا یہ تھا کہ اِکّے والا نیچے اتر کر اسے ایک دھکے اور سو ہارس پاور کی گالی سے اسٹارٹ کرتا اور اسی کے زور سے یہ لڑھکتا رہتا تھا۔ گھوڑے میں اتنی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ اِکّے کو آگے لڑھکنے سے روک سکے۔

 

"خوشامدید! "۔۔۔ صحیح املا

دھیرج گنج کے پلیٹ فارم کو اسکول کے بچّوں نے رنگ برنگی جھنڈیوں سے اسطرح سجایا تھا جیسے پھوہڑ ماں، بچّی کا منھ دھُلائے بغیر بالوں میں شوخ ربن باندھ دیتی ہے۔ ٹرین سے اترتے ہی ہر شاعر کو گیندے کا ہار پہنا کر گلاب کا ایک ایک پھول اور اونٹتے دودھ کا گلاس پیش کیا گیا جسے ہاتھ میں لیتے ہی وہ بِلبلا کر پوچھتا، کہاں رکھوں؟ استقبال کرنے والوں نے پچیس میل اور ایک گھنٹے دور کانپور سے آنے والوں سے پوچھا، ” سفر کیسا رہا؟ کانپور کا موسم کیسا ہے؟ ہاتھ منھ دھو کے تین چار گھنٹے سو لیں تو سفر کی تکان اتر جائے گی۔ ” جواباً مہمانوں نے دریافت کیا ” یہاں مغرب کس وقت ہوتی ہے؟ دھیرج گنج والے تو مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں؟ یہاں کی کونسی سوغات مشہور ہے؟ روپے میں کَے مرغیئیں آتی ہیں؟ کیا یہاں کے مسلمان اتنے ہی پسماندہ ہیں جتنے باقی ماندہ ہندوستان کے؟ ”

اٹھارہ شاعر اور پانچ مصرعہ اٹھانے والے جو ایک شاعر اپنے ہمراہ لایا تھا، دو بجے کی ٹرین سے دھیرج گنج پہنچے۔ ٹرین کی آمد سے تین گھنٹے پہلے ہی پلیٹ فارم پر یتیم خانہ شعاع الاسلام کا بینڈ بجنا شروع ہو گیا۔ لیکن جیسے ہی وہ آن کر رکی تو کبھی ڈھول، کبھی بانسری اور کبھی ہاتھی کی سونڈ جیسا باجا (ٹرمپٹ) بند ہو ہو جاتا۔ اور کبھی تینوں ہی خاموش ہو جاتے۔ صرف بینڈ ماسٹر چھڑی ہلاتا رہ جاتا۔ وجہ یہ کہ ان سازوں کو بجانے والے لڑکوں نے اس سے پہلے انجن کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اسے دیکھنے میں بار بار اتنے محو ہو جاتے کہ بجانے کی سُدھ نہ رہتی۔ انجن ان کے اتنے قریب آ کر رکا تھا کہ ایک ایک پُراسرار پُرزہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سیٹی بجانے والا آلہ، کوئلے جھونکنے کا بیلچہ، بائلر کے دہکتے چٹختے کوئلوں کا تیز اور انگریزی دواؤں کی بو جیسا بھبھکتا جھونکا۔ شعلوں کی آنچ سے اینگلو انڈین ڈرائیور کا تمتماتا لال چقندر چہرہ اور کلائی پر گُدی ہوئی نیلی میم۔ مسلمان خلاصی کے سر پر بندھا ہوا سیاہ رو مال اور چہرے پر کوئلے کی زیبرا دھاریاں۔ پہیے سے جڑی ہوئی لمبی سلاخ جو بالکل ان کے ہاتھ کی طرح چلتی جسے وہ آگے پیچھے ہلاتے ہوئے چھک چھک کرتے ریل چلاتے تھے۔ انجن کی ٹونٹی سے اُبلتی، شور مچاتی اسٹیم کا چہرے پر اسپرے۔ ان بچّوں نے دھوئیں کے مرغولوں کو مٹیالے سے ہلکا سُرمئی اور سُرمئی سے گاڑھا گاڑھا سیاہ ہوتے دیکھا۔ گلے میں اس کی کڑواہٹ انہیں اچھی لگ رہی تھی۔ گھنگھریالے دھوئیں کا سیاہ اژدھا پھنکاریں مارتا آخری ڈبّے سے بھی آگے نکل کر اب پیچ و تاب کھاتا آسمان کی طرف اٹھ رہا تھا۔ بینڈ بجانے والے بچّے خاموش، بالکل خاموش ہو کر، قریب، بالکل قریب سے انجن کی سیٹی کو بجتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا بس چلتا تو جاتے وقت اپنی آنکھیں وہیں چھوڑ جاتے، اگر ان بچوں سے بینڈ ہی بجوانا تھا تو بغیر انجن کی ٹرین لانی چاہیے تھی۔

شعرائے کرام اسٹیشن سے بیل تانگوں اور بہلیوں میں قصبے لائے گئے۔ وہ ہر دس منٹ بعد گاڑی بان سے پوچھتے کہ قصبہ اتنی دور کیوں بنایا گیا ہے؟ بیلوں کے سینگوں پر نئی سنگوٹیاں اور گلے میں گھنگھرو پڑے تھے۔ ایک بیل کے پٹھے پر مہندی سے ” خوشامدید” لکھا تھا۔ غلط املا کی سزا بیل کو مل رہی تھی۔ مطلب یہ کہ گاڑی بان بار بار، خ، کے نقطے میں آر[9] چبھو رہا تھا۔ ویسے ہمارے خیال میں وزیروں اور بڑے آدمیوں کے استقبال کے لیے جو بینر، خیر مقدمی دروازے اور محرابیں بنائی جاتی ہیں، ان پر خوش آمدید کا یہی املا (خوشامدید) ہونا چاہیے کہ سارے کھٹ راگ کا اصل مقصد و مدعا یہی تو ہے۔ بیل تانگوں کے پیچھے ڈرل ماسٹر کی قیادت میں اسکول کے تمام اساتذہ اور ان کے پیچھے قدم ملائے لڑکوں کے والد صاحبان۔ آگے آگے بینڈ بجتا جا رہا تھا۔ بینڈ کے آگے ایک لڑکا چل رہا تھا جس کے ہاتھ میں یتیم خانہ شمع الاسلام کا سیاہ پرچم تھا، جس پر آسمان کو دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کر کے باطل سے نہ دبنے کے الٹی میٹم کے بعد اہلِ زمین کو اپنے انجام سے ڈرنے اور یتیم خانے کو دل کھول کر چندہ دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ پرچموں کی تاریخ میں یہ پہلا پرچم تھا جس پر لعن طعن اور کچھ کرنے کی بھی تلقین کی گئی تھی۔ ورنہ نادان چند رنگ برنگی پٹیوں اور دھاریوں پر قناعت کر لیتے ہیں۔ جلوس کے پیچھے پیچھے لارڈ ولزلی کی سر براہی میں سارے قصبے کی ننگ دھڑنگ بچے اور کتّے دوڑ رہے تھے۔ کچھ ثقہ شاعروں نے بینڈ پر اعتراض کیا تو ڈرل ماسٹر نے انہیں یہ کہہ کر چپکا کر دیا کہ اگر اب بینڈ بجنا بند ہوا تو کتّے آ لیں گے۔

 

انہی پتھروں پہ چل کر۔۔۔۔

اٹھارہ شاعروں کا جلوس اسکول کے سامنے سے گزرا تو ایک رہکلے سے 18 توپوں کی سلامی اُتاری گئی۔ یہ ایک چھوٹی سی پنچایتی توپ تھی جو نارمل حالات میں پیدائش اور خَتنوں کے موقعے پر چلائی جاتی تھی۔ اس کے چلتے ہی سارے قصبے کے کتے، بچے کوے، مرغیاں اور مور کورس میں چنگھاڑنے لگے۔ بڑی بوڑھیوں نے گھبرا کر ” دین جاگے، کفر بھاگے ” کہا۔ خود وہ منی توپ بھی اپنے چلنے پر اتنی متعجب اور وحشت زدہ تھی کہ دیر تک ناچی ناچی پھری۔ شاعروں کو حیثیت دار کاشتکاروں کے ہاں ٹھہرایا گیا، جو اپنے اپنے مہمان اسکول سے گھر لے گئے۔ ایک کاشتکار تو اپنے حصے کے مہمان کی سواری کے لیے ٹٹو اور راستے کے شغل کے لیے ناریل کی گڑگڑی بھی لایا تھا۔ قصبے میں جو گِنے چُنے آسودہ حال مسلمان گھرانے تھے ان سے مولی مجّن کی نہیں بنتی تھی۔ لہٰذا شاعروں کے قیام و طعام کا بندوبست کاشتکاروں اور چودھریوں کے ہاں کیا گیا، جس کا تصّور ہی شاعروں کی نیند اُڑانے کے لیے کافی تھا۔ شعر و شاعری اور ناولوں میں دیہاتی زندگی کو romanticise کر کے اس کے خلوص، سادگی، قناعت اور مناظرِ قدرت پر سر دھُننا اور دھُننوانا اور بات ہے، لیکن سچ مچ کسی کسان کے نیم پختہ یا مٹی گارے کے گھر میں ٹھہرنا کسی شہری انٹلکچوئل کے بس کا روگ نہیں۔ کسان سے بغل گیر ہونے سے پہلے اس کے ڈھور ڈنگر، گھی کے فنگر پرنٹ والے دھات کے گلاس، جن ہاتھوں نے اُپلے تھا ہے انھی ہاتھوں سے پکائی ہوئی روٹی، ہل، درانتی اور مٹی سے کھُردرائے ہوئے ہاتھ، باتوں میں پیار اور پیاز کی مہک، اور مکھن پلائی ہوئی مونچھ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ان سب سے بیک وقت گلے ملنا پڑتا ہے۔ انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ۔

 

رسالہ در مدح و مذمّتِ طوائف

یعنی

در دِفاعِ خود

 

کلام اور اولاد کی شانِ نزول

اس قصباتی مشاعرے میں جو دھیرج گنج کا آخری یادگار مشاعرہ ثابت ہوا، 18 بیرونی شاعروں کے علاوہ 33 مقامی اور مضافاتی شعرا شرکت کے لیے بلائے گئے یا بن بلائے آئے۔ باہر سے آنے والوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو اس لالچ میں آئے تھے کہ نقد معاوضہ نہ سہی، گاؤں ہے، کچھ نہیں تو سبزیاں، فصل کے میوے، پھل پھلاری کے ٹوکرے، پانچ چھ مرغیوں کا جھابہ تو منتظمینِ مشاعرہ ضرور ساتھ کر دیں گے۔ دھیرج گنج میں کچھ متفنی نوجوان ایسے بھی تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ گرد و نواح میں تین چار مشاعرے درہم برہم کر چکے ہیں۔ ان کی مشکیں بشارت نے عجیب انداز سے کسیں۔ ان کے ایک پرانے لنگوٹیے تھے، جنہوں نے میٹرک میں چار پانچ دفعہ فیل ہونے کے بعد ممتحنوں کی ہٹ دھرمی اور جوہر ناشناسی سے عاجز آ کر محکمہ چنگی میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ موصوف کو اس سے اپنے تزکیہ نفس کے علاوہ اس بدنام محکمے کو بھی سزا دینی مقصود تھی۔ چنگی کی فضا کو انہوں نے شاعری کے لیے نہایت موزوں و سازگار پایا۔ موجودہ صورتحال سے اس درجہ مطمئن و مسرور تھے کہ اسی پوسٹ سے ریٹائر ہونے کے آرزو مند تھے۔ کثیر العیال تھے۔ نہایت بسیار و بدیہہ گو۔ جو اشعار کی شانِ نزول تھی وہی اولاد کی۔ مطلب یہ کہ دونوں کے ورود و بہتات کا بہتان مبدءِ فیاض پر لگاتے تھے۔ عام سا جملہ بھی ان پر ردیف قافیے کے ساتھ اترتا تھا۔ نثر بولنے اور لکھنے میں ان کو اتنی ہی تکلیف ہوتی تھی جتنی ہما شما کو شعر کہنے میں۔

وہ شاعری کرتے تھے مگر شاعروں سے بیزار و متنفر۔ فرماتے تھے ” آج کل جسطرح شعر کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح داد دی جاتی ہے۔ یعنی مطلب سمجھے بغیر۔ صحیح داد دینا تو درکنار، اب تو لوگوں کو ڈھنگ سے ہوٹ کرنا بھی نہیں آتا۔ شعر مشاعرے میں سننے سنانے کی چیز نہیں۔ تنہائی میں پڑھنے، سمجھنے، سننے اور سہنے کی چیز ہے۔ کلام کتابی شکل میں ہو تو لوگ شاعر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں میر کے کلیات میں سے ایک دو نہیں، سو دو سو اشعار ایسے نکال کر دکھاسکتا ہوں جو وہ کسی مشاعرے میں پڑھ دیتے تو عزّتِ سادات اور دستار ہی نہیں، سر بھی سلامت لے کے نہ لوٹتے۔ ” انہیں ‌میر کے صرف یہی اشعار یاد تھے۔ دیگر اساتذہ کے بھی صرف وہ اشعار یاد کر رکھے تھے جن میں ان کے نزدیک کوئی سقم تھا۔ ان صاحب سے بشارت پانچ چھ غیر طرحی غزلیں کہلوا کے لے آئے اور ان مشاعرہ بگاڑ نوجوانوں میں تقسیم کر دیں کہ تم بھی پڑھنا۔ اور یہ ترکیب کارگر رہی۔ دیکھا گیا ہے کہ جس شاعر کو دوسرے نالائق شاعروں سے داد لینے کی توقع ہو وہ انہیں ہوٹ نہیں کیا کرتا۔ چوریاں بند کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ چور کو تھانیدار مقرر کر دو۔ ہمیں اس میں اس فائدے کے علاوہ کہ وہ دوسروں کو چوری نہیں کرنے دے گا، ایک اور فرق نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ پہلے جو مال وہ اندھیری راتوں میں نقب لگا کے بڑی مصیبتوں سے حاصل کرتا تھا وہ اب مالکان خود تھانے میں رشوت کی شکل میں لا کر برضا و رغبت پیش کر دیں گے۔

 

بین السّطور سے بین الستّور تک

اسی پروگرام کے تحت پانچ تازہ غیر طرحی غزلیں حکیم احسان اللہ تسلیم سے اس وعدے پر لکھوا لائے کہ جاڑے میں ان کے (حکیم صاحب کے) ماء اللحم کے لیے پچاس تلیر، بیس تیتر، پانچ ہریل اور دو قازیں نذر کریں گے۔ اور بقر عید پر پانچ خصی بکرے آدھے داموں دھیرج گنج سے خرید کر حلوہ کنجشک کے لیے ایک سو ایک نہایت بد چلن چڑوں کے مغز اور ایک درجن سیاہ ریگستانی بچھو (زندہ) خود پکڑ کر رؤسا و والیانِ ریاست کی مبہی ادویات کے لیے بھجوائیں گے۔[10] حکیم احسان اللہ تسلیم مول گنج کی طوائفوں کے طبیب خاص تو تھے ہی، گانے کے لیے انہیں فرمائشی غزلیں ‌بھی لکھ کر دیتے تھے۔ کسی طوائف کے پیر بھاری ہوتے تو اس کے لیے بطور خاص بہت چھوٹی بحر میں رَواں غزل کہتے، تاکہ ٹھیکا اور ٹھُمکا نہ لگانا پڑے۔ ویسے اس زمانے میں طوائفیں عموماً داغ اور فقیر، بہادر شاہ ظفر کا کلام گاتے تھے۔ حکیم صاحب کسی طوائف پر مائل بہ کرم ہوتے تو مقطعے میں اس کا نام ڈال کر غزل اسی کو بخش دیتے۔ بعض طوائفیں مثلاً مشتری، دُلاری، زہرہ معتبر شاعروں سے غزلیں کہلواتیں اور نہ صرف گانے کی بلکہ غزل کہنے کی بھی داد پاتیں۔ حکیم تسلیم طوائفوں کے تلفّظ کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ بقیہ چیزیں ماورائے اصلاح تھیں۔ مطلب یہ کہ گو اصلاح طلب تھیں، لیکن ناقابلِ اصلاح۔ تاہم اس زمانے میں طوائفوں اور ان کے پرستاروں کی اصلاح کرنا ادبی فیشن میں داخل تھا۔ حقیقت میں یہ سماجی سے زیادہ خود مصنف کا نفسیاتی مسئلہ ہوتا تھا، جس کا catharsis (تطہیر) ممکن ہو یا نہ ہو، اس کا بیان خالی از علّت و لذت نہ تھا۔ ذکرِ گناہ، عملِ گناہ سے کہیں زیادہ لذیذ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ طویل ہو اور راوی جسمانی اور معنوی دونوں لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایمی زولا کی Nana، رسوا کی امراؤ جان ادا، ٹولوز لا ٹریک ( Toulouse Lautrec) اور دیگا ( Degas) کی کسبیوں اور قحبہ خانوں کی تصویریں جنسی حقیقت نگاری کے سلسلے کی پہلی کڑی ہیں، جب کہ قاری سرفراز حسین کی ” شاہدِ رعنا ” سے ناصحانہ رنگینی کے ایک دوسرے مرصع و ملذذ سلسلے کا آغاز ہوتا ہے، جس کی کڑیاں قاضی عبدالغفار کے لیلیٰ کے خطوط کی خطیبانہ رومانیت اور زیرِ بحث زندگی سے عالمانہ لاعلمی، غلام عباس کی "آنندی” کی پُرکار سادگی اور منٹو[11] کی بظاہر کھردری حقیقت نگاری لیکن اصلاً inverted romanticism (معکوس رومانیت) سے جا ملتی ہیں۔ ہمارے یہاں طوائف سے متعلق رومانی کہانیوں کی نوعیت بالعموم تحفتہ الطّوائف کی سی ہوتی ہے۔ اس میں طوائف سے متعلق تمام طِفلانہ حیرتوں، خوش گمانیوں، سنی سنائی باتوں اور رومانی تصورات۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ جس سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ سب کا انبارِ گراں اس طور لگایا جاتا ہے کہ ہر طرف الفاظ کے طوطا مینا پھُدکتے چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔ زندہ طوائف کہیں نظر نہیں آتی۔ رومانی ملبے تلے اس کے گھنگھرو کی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ اس طوائف کا خمیر عنفوانِ شباب کی مہاسوں بھری ادھ کچری جذباتیت سے اٹھا ہے، جس کی مہک ریسرچ اسکالروں کی رگوں میں دوڑتی پھِرتی روشنائی کو مدتوں گرماتی رہے گی۔ اس شہرِ آرزو نژاد طوائف نے اپنی chastity belt کی چابی دریا میں پھینک دی ہے اور اب اسے کسی سے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ حد یہ کہ خود مصنف اور اپنے آپ سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔

 

وہ سر سے ہے تا ناخنِ پا، نامِ خدا، برف

بات ساٹھ ستّر سال پرانی لگتی ہے، مگر آج بھی اتنی ہی سچ ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ طوائف کو ذلیل اور قابلِ نفریں گر دانتے تھے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے ذکر و تصّور میں ایک نیابتی لذّت (vacarius pleasure) بھی محسوس کیے بغیر نہ رہتے۔ معاشرے اور طوائف کی اصلاح کے بہانے اس کی زندگی کی تصویر کشی میں ان دونوں متناقض بورژوا جذبوں کی تسکین ہو جاتی تھی۔ اس صدی کے پہلے نصف حصے کا شعر و ادب، بالخصوص فکشن، طوائف کے ساتھ اسی love۔ hate دُلار دھُتکار کے ادلتے بدلتے تعلق کا عکس ہے۔ اس نے ایک ذو بیانی کو جنم دیا جس میں مذّمت بھی مزے لینے کا حیلہ بن جاتی ہے۔ حقیقت نگاری کے پردے میں جتنی داد طوائف کو اردو فکشن لکھنے والوں سے ملی اتنی اپنے شبینہ گاہکوں سے بھی نہ ملی ہو گی۔ البتہ انگریزی فکشن پچھلے تیس برسوں میں بین السّطور کا گھونگٹ اٹھا کر کھلم کھُلا بین الستّور پر اتر آئی۔

 

قبلہ چوں پیر شود۔۔۔۔

مُول گنج میں وحیدن بائی کے کوٹھے پر ایک بزرگ جو ہل ہل کر سِل پر مسالا پیستے ہوئے دیکھے گئے، ان کے بارے میں یار لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ تیس برس پہلے جمعے کی نماز کے بعد وحیدن بائی کے چال چلن کی اصلاح کی نیت سے کوٹھے کے زینے پر چڑھے تھے۔ مگر اس وقت اس قتالہ عالم کی بھری جوانی تھی۔ لہٰذا ان کا مشن بہت طول کھینچ گیا:

کارِ جواں دراز ہے، اب مِرا انتظار کر

وحیدن بائی جب فرسٹ کلاس کرکٹ سے رٹائر ہوئی اور اس مذمّن گناہ سے توبہ کرنے کا تَکلف کیا جس کے لائق اب وہ ویسے بھی نہیں رہی تھی تو قبلہ عالم کی ڈاڑھی سفید ہو کر ناف تک آ گئی تھی۔ اب وہ اس کی بیٹیوں کے باورچی خانے کے انتظام اور غزلوں اور گاہکوں کے انتخاب میں مدد دیتے تھے۔ قبلہ چوں پیر شود۔۔۔۔ الخ۔ 1931 میں وہ حجِ بیت اللہ کو گئی تو یہ نو سو چوہوں کے واحد نمائندے کے حیثیت سے اس کے ہم رکاب تھے۔

 

جو پیدا کسی گھر میں ہوتی تھی دختر

حکیم احسان اللہ تسلیم کا دعویٰ تھا کہ امارت، طبابت اور شاعری انہیں ورثے میں ملی ہے۔ البتہ اوّل الذکر میں نمایاں کمی کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔ ان کے دادا حکیم احتشام حسین رعنا کی قنوج میں اتنی بڑی زمینداری تھی کہ ایک نقشے میں نہیں آتی تھی! اس کا ذکر بڑے فخر و غلو سے کرتے تھے۔ اب نقشے ان کے، اور متعلقہ زمینیں مہاجن کے قبضے میں تھیں۔ حکیم احسان اللہ تسلیم رنگین مزاج رؤسا کا بھی علاج کرتے تھے۔ فقط قارورہ دیکھ کر رئیس کا نام بتا دیتے۔ اور رئیس کی نبض پہ انگلی رکھتے ہی یہ نشان دہی کر دیتے کہ مرض کے جراثیم کس کوٹھے کے آوردہ و پر وردہ ہیں۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کسی طوائف کے ہاں لڑکا پیدا ہو جائے تو رونا پیٹنا مچ جاتا ہے۔ حکیم تسلیم کے پاس خاندانی بیاض کا ایک ایسا مجرّب نسخہ تھا کہ شرطیہ لڑکی پیدا ہوتی تھی۔ یہ سفوف اس رات کے راجہ یا تماش بینِ خصوصی کو چُپکے سے پان میں ڈال کر کھلا دیا جاتا تھا۔ نسخے کے تیر بہدف ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانپور میں کسی کی ذاتی بیوی کے ہاں بھی لڑکی پیدا ہوتی تو وہ میاں کے سر ہو جاتی کہ ہو نہ ہو، تم وہیں سے پان کھا کر آئے تھے!

طوائف کتنی بھی حسین و جمیل اور دشمنِ ایمان و ہوش ہو، حکیم صاحب کی نیت صرف اس کے پیسے پر بگڑتی تھی۔ طوائفیں ان سے بڑی عقیدت رکھتی تھیں۔ اور کہنے والے یہاں تک کہتے تھے کہ ان کے مرنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں تا کہ سنگِ مر مر کا مزار بنوائیں اور برس کے برس دھوم دھام سے عرس منائیں۔

 

بھکشوؤں کی فینٹسی

مول گنج کا ذکر اوپر کی سطور اور کانپور سے متعلق خاکوں میں جا بجا، بلکہ جا و بے جا آیا ہے۔ اس محلے میں طوائفیں رہتی تھیں۔ لہٰذا تھوڑی سی معذرتی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ بشارت کا دلپسند موضوع ہے، جس سے ہمارے قارئین واقف و منغص ہو چکے ہوں گے۔ وہ ہِر پھر کے اس کے ذکر اذکار سے اپنی سنجیدہ گفتگو میں کھنڈت ڈالتے رہتے ہیں، حالاں کہ بے شک و شبہ وہ دوسرے زمرے کے آدمی ہیں:

بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

جیسے بعض الرجک لوگوں کو پِتّی اچھل آتی ہے، اسی طرح ان کی گفتگو میں طوائف۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ موقع دیکھے نہ محل۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ چھم سے آن کھڑی ہوتی ہے۔ تہجد گزار ہیں۔ کبھی کے نانا دادا بن گئے، مگر طوائف ہے کہ کسی طور ان کے سسٹم سے نکلنے کے لیے راضی نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ہم نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ہم نے کہا، حضرت، پرانی داستانوں میں ہیرو اور دیو کی جان کسی طوطے میں ہوتی ہے۔ مگر آپ کی ہر طوطا کہانی میں طوطے کی جان طوائف میں اٹکی ہوتی ہے! کہنے لگے، ارے صاحب! میری داستان پر خاک ڈالیے۔ یہ دیکھیے کہ آج کل کی فکشن اور فلموں میں ہیرو اور ہیروئن سے کون سے نفل پڑھائے جا رہے ہیں۔ جس نسخے کے مطابق پہلے طوائف کہانی میں ڈالی جاتی تھی، اب اس ضمن میں شریف گھرانوں کی بہو بیٹیوں کو زحمت دی جاتی ہے۔ پڑھنے والے اور فلم دیکھنے والے آج بھی طوائف کو اسطرح اچک لیتے ہیں جیسے مریض حکیموں کے نسخے میں سے منقیٰ!

عرض کیا یہ طبّی تشریح تو طوائف سے بھی زیادہ ancient (پراچین/ قدیم) ہے۔ کون سمجھے گا؟ فرمایا، طوائف کو سمجھنے کے لیے طبِ یونانی سے واقفیت ضروری ہے۔ اور اس کی الٹ بھی درست ہے۔ طب اور طوائف ہمارے ہاں بد قسمتی سے لازم و۔۔۔ ملزمہ ہیں۔

اور بشارت کچھ غلط نہیں کہتے۔ شاید آج اس کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل ہو۔ طوائف اس ڈگمگاتے ہوئے معاشرے کے آسودہ حال طبقے کے اعصاب پر ممنوعہ لذّت کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ اور یہ کچھ اس دور ہی سے مختص نہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے دنیا کے سب سے قدیم پیشے کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک فرمان جاری کیا تھا کہ ایک مقر رہ تاریخ تک تمام طوائفیں نکاح کر لیں، ورنہ ان سب کو کشتی میں بھر کر جمنا میں ڈبو دیا جائے گا۔ بیشتر طوائفیں غرقابی کو ہانڈی چولھے پر اور مگر مچھ کے جبڑے کو ایسے شوہر پر ترجیح دیتی تھیں جو پیار بھی کرتے ہیں تو فرض عبادت کی طرح۔ یعنی بڑی پابندی کے ساتھ اور بڑی بے دلی اور بے رغبتی کے ساتھ! معدودے چند طوائفوں نے اس دھندے کو خیر باد کہہ کر بہ کراہت نکاح کر لیے:

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک عقدِ ناگہانی اور ہے

اب ذرا اس کے دوسو برس بعد کی ایک جھلک "تذکرہ غوثیہ” میں ملاحظہ فرمائیے۔ اس کے مؤلف مولوی محمد اسماعیل میرٹھی اپنے لائقِ صد احترام پیرو مرشد کے بارے میں ایک معتبر روایت نقل کرتے ہیں: ” ایک روز ارشاد ہوا کہ جب ہم دہلی کی زینت مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے، ہمارے دوست کمبل پوش (یوسف خاں کمبل پوش، مصنّف تاریخِ یوسفی/ عجائباتِ فرنگ جو اردو کا اولین سفر نامہ انگلستان ہے) نے ہماری دعوت کی۔ مغرب کے بعد ہم کو لے کر چلے۔ چاندنی چوک میں پہنچ کر ایک طوائف کے کوٹھے پر ہم کو بٹھا دیا اور آپ چنپت ہو گئے۔ پہلے تو ہم نے خیال کیا کہ شاید کھانا اسی جگہ پکوایا ہو گا۔ مگر پھر معلوم ہوا کہ یوں ہی بٹھا کر چل دیا ہے۔ ہم بہت گھبرائے کہ بھلا ایسی جگہ کمبخت کیوں لایا۔ دو گھڑی بعد ہنستا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میاں صاحب! کہ میں آپ کی بھڑک مٹانے ہیاں بٹھا گیا تھا۔ بعدہ اپنی قیام گاہ پر لے گیا اور کھانا کھلایا۔ ”

یاد رہے کہ کمبل پوش ایک آزاد منش، من موجی آدمی تھا۔ یہ قصّہ اس وقت کا ہے جب پیر و مرشد کی صحبت میں اس کی قلبِ ماہیت ہو چکی تھی۔ قیاس کیجیے، جس کی خزاں کا یہ رنگ ہو اس کی بہار کیسی رہی ہو گی!

اخیر میں، اس لطیفے کے تخمیناً ڈیڑھ سو سال بعد کے ایک ناخنی نقش[12] پر بھی اچٹتی سی نگاہ ڈالتے چلیں۔ جوش جیسا قادر الکلام، عالی نسب، خوش ذوق اور نفاست پسند شاعر جب نشاطِ ہستی اور مسرتِ بے نہایت کی تصویر کھینچتا ہے تو دیکھیے اس کا قلم غمزہ رقم کیا گل کھلاتا ہے:

کولھے پہ ہاتھ رکھ کے تھرکنے لگی حیات

کولھے پر ہاتھ رکھ کر تھرکنے میں چنداں مضائقہ نہیں، بشرطیکہ کولھا اپنا ہی ہو۔ دوم، تھرکنا شیشہ ورانہ فرائض میں داخل ہو۔ شوقیہ یا اضطراری نہ ہو۔ مطلب یہ کہ کوئی کولھے پر ہاتھ رکھ کر تھرکنے لگے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر اس سے ذات پہچانی جاتی ہے۔

تو خدا آپ کا بھلا کرے۔۔۔۔ ۔ اور مجھے معاف کرے۔۔۔۔ ۔۔ مول گنج بیسواؤں کا چکلہ تھا۔ اس زمانے میں بھی لوگوں کا چال چلن اتنا ہی خراب تھا جتنا اب ہے، مگر بینائی ابھی اتنی خراب نہیں ہوئی تھی کہ کسبیوں کی بستی کو آج کل کی طرح ” بازارِ حسن” کہنے لگیں۔ چکلے کو چکلہ ہی کہتے تھے۔ دنیا میں کہیں اور بد صورت رنڈیوں کے کوٹھوں اور بے ڈول بے ہنگم جسم کے ساتھ جنسی امراض بیچنے والیوں کی چکٹ کوٹھریوں کو اس طرح گلیمرائز نہیں کیا گیا۔ ” بازارِ حسن ” کی رومانی اصطلاح آگے چل کر ان ادیبوں نے عام کی جو کبھی زنانِ زود یاب کی بکر منڈی کے پاس سے بھی نہیں گزرے تھے۔ لیکن ذاتی تجربہ غالباً اتنا ضروری بھی نہیں۔ ریاض خیر آبادی ساری عمر شراب کی تعریف میں شعر کہتے رہے، جب کہ ان کی مشروباتی بد پرہیزی بھی شربت اور سکنج بین سے آگے نہیں بڑھی۔ دور کیوں جائیں خود ہمارے ہم عصر شعراء مقتل، پھانسی گھاٹ، جلّاد اور رسّی کے بارے میں للچانے والی باتیں کرتے رہے ہیں۔ اس کے لیے پھانسی یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ دادِ عیش دینے اور کوچہ شب فروشاں کے طواف کی ہمت یا استطاعت نہ ہو تو "ہوس سینوں میں چھُپ چھُپ کر بنا لیتی ہے تصویریں۔ ”

اور سچ یہ ہے کہ ایسی ہی تصویروں کے رنگ زیادہ چوکھے اور خطوط کہیں زیادہ دلکش ہوتے ہیں۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ خیالی ہوتے ہیں اجنتا اور ایلورا کے frescoes (دیواری تصویریں) اور مجسّمے اس کی کلاسیکی مثال ہیں۔ کیسے بھرے پُرے بدن بنائے ہیں بنانے والوں نے۔ اور بنانے پر آئے تو بناتے ہی چلے گئے۔ گداز پیکر تراشنے چلے تو ہر sensuous لکیر بل کھاتی، گدراتی چلی گئی۔ سیدھی سُبک لکیریں آپ کو مشکل ہی سے نظر آئیں گی۔ حد یہ کہ ناک تک سیدھی نہیں۔ بھاری بدن کی ان عورتوں اور اپسراؤں کے نقوش اپنے نقاش کے آشوبِ تخیل کی چغلی کھاتے ہیں: نارنگی کی قاش ایسے ہونٹ۔ سہار سے زیادہ بھری بھری چھاتیاں جو خود سنگتراش سے بھی سنبھالے نہیں سنبھلتیں۔ باہر کو نکلے ہوئے بھاری کولھے جن پر گاگر رکھ دیں تو ہر قدم پر پانی، دیکھنے والوں کے دل کی طرح بانسوں اچھلتا جائے۔ ان گولائیوں کے خم و پیچ کے بیچ بل کھاتی کمر۔ اور پیٹ جیسے جوار بھاٹے میں پیچھے ہٹتی لہر۔ پھر وہ ٹانگیں جن کی تشبیہ کے لیے سنسکرت شاعر کو کیلے کے تنے کا سہارا لینا پڑا۔۔۔۔ ۔ اس وصل آشنا اور نا محجوب بدن کو اس کے حدِ آرزو تک exaggerated خطوط اور کھُل کھیلتے اُبھاروں کو ان ترسے ہوئے برہمچاریوں اور بھکشوؤں نے بنایا اور بنوایا ہے جن پر بھوگ بلاس حرام تھا اور جنھوں نے عورت کو صرف فینٹسی اور سپنے میں دیکھا تھا۔ اور جب کبھی وہ سپنے میں اتنے قریب آ جاتی کہ اس کے بدن کی آنچ سے اپنے لہو میں الاؤ بھڑک اٹھتا تو فوراً آنکھ کھل جاتی اور وہ ہتھیلی سے آنکھیں ملتے ہوئے سنگلاخ چٹانوں پر اپنے اپنے خواب لکھنے شروع کر دیتے۔

 

وہ صورت گر کچھ خوابوں کے

مغرب کا سارا porn اور Erotic Art بھکشو اور راہب کی فینٹسی کے آگے بالکل بچکانہ اور پتلی چھاچھ لگتا ہے۔ ایسے چھتنار بدن اور شاخِ نہالِ آرزو کے یہ دھیان دھوپ میں پکے نار پھل[13] صرف اور صرف وہ تیاگی اور بھکشو بناسکتے تھے جو اپنی اپنی یشودھرا کو سوتا چھوڑ کر حقیقت اور نروان کی تلاش میں نکلے تھے، پر ساری زندگی بھیگی سیلی تاریک گپھاؤں میں جہاں خواب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، پہاڑ کا سینہ کاٹ کاٹ کے اپنا خواب یعنی عورت برآمد کرتے رہے! برس دو برس، جُگ دو جُگ کی بات نہیں، ان گیانیوں نے پورے ایک ہزار برس اسی مِتھُن کلا[14] میں بِتا دیے۔ پھر جب ساری چٹانیں ختم ہو گئیں اور ایک ایک پتھر نے ان کے جیون سوپن کا روپ دھار لیا اور وہ نشچنت ہو کے اندھیری گپھاؤں سے باہر نکلے تو دیکھا کہ دھرم اور ستیہ کا سورج تو کب کا ڈوب چکا اور باہر اب ان کے لیے جنم جنم کا اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ سو وہ باہر کے اندھیرے اور ہا ہا کار سے دہشت کھا کے آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھے پھر سے بھیتر کے جانے پہچانے اندھیرے میں چلے گئے۔

صدیوں رُوپ سُروپ اور شر نگار رَس کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے تپسّوی تو مٹّی تھے، سو مٹّی میں جا ملے۔ ان کے خواب باقی رہ گئے۔ ایسے خواب دیکھنے والے، ایسے بھٹکنے اور بھٹکانے والے اب کہاں آئیں گے:

کوئی نہیں ہے اب ایسا جہان میں غالب

جو جاگنے کو مِلا دیوے آ کے خواب کے ساتھ

دیکھیے بات میں بات بلکہ خرافات نکل آئی۔ مطلب یہ کہ بات حکیم احسان اللہ تسلیم سے شروع ہوئی اور کوٹھے کوٹھے چڑھتی اُترتی، اجنتا اور ایلورا تک پہنچ گئی۔ کیا کیجیے، ہمارے یارِ طرح دار کا یہی اندازِ گفتگو ہے۔ چاند اور سورج کی کرنوں سے چادر بن کر رکھ دیتے ہیں۔

ہم نے اس بات میں ان کے خیالات کو حتیٰ الوسع انھی کے الفاظ اور توجہ بھٹکانے والے انداز میں یکجا کر دیا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی حک و اضافہ نہیں کیا۔ وہ اکثر کہتے ہیں ” آپ میرے زمانے کے گھٹے گھٹے ماحول، پاکیزہ محرومیوں اور آرزو مند پاکیزگی کا اندازہ نہیں ‌لگا سکتے۔ ”

” آپ کی اور میری عمر میں ایک نسل کا۔۔۔۔ ۔ بیس سال کا۔۔۔۔ تفاوت ہے۔ ”

بجا کہتے ہیں ان کی اور ہماری نسل کے درمیان طوائف حائل ہے۔

 

مشاعرہ کس نے لُوٹا؟

جوہر الہ آبادی، کاشف کانپوری اور نشور واحدی کو چھوڑ کر، باقی ماندہ مقامی اور مہمان شاعروں کو تقدیم و تاخیر سے پڑھوانے کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا نکلا، کیوں کہ سبھی ایک دوسرے کے ہم پلّہ تھے اور ایسی برابر کی ٹکر تھی کہ یہ کہنا مشکل تھا کہ ان میں کم لغو شعر کون کہتا ہے، تاکہ اس کو بعد میں پڑھوایا جائے۔ بہرحال اس مسئلہ کو اس طرح حل کیا گیا کہ شعرا کو حروفِ تہجی کی الٹی ترتیب سے پڑھوایا گیا، یعنی پہلے یاور نگینوی کو اپنی ہوٹنگ کروانے کی دعوت دی گئی۔ سیدھی ترتیب میں یہ قباحت تھی کہ ان کے استاد محترم جوہر الہ آبادی کو اِن سے بھی پہلے پڑھنا پڑتا۔

مشاعرہ گاہ میں ایک ہڑبونگ مچی تھی۔ خلافِ توقع و تخمینہ گرد و نواح کے دیہات سے لوگ جوق در جوق آئے۔ دریاں اور پانی کم پڑ گیا۔ سننے میں آیا کہ مولی مجّن کے مخالفوں نے یہ اشغلا چھوڑا ہے کہ محفل کے اختتام پر لڈوؤں اور کھجوروں کا تبرک اور ملیریا اور رانی کھیت (مرغیوں کی مہلک بیماری) کی دوا کی پڑیاں تقسیم ہوں گی۔ ایک دیہاتی اپنی دس بارہ بیمار مرغیاں جھابے میں ڈال کے لے آیا تھا کہ صبح تک بچنے کی آس نہیں تھی۔ اسی طرح ایک کاشتکار اپنی جوان بھینس کو نہلا دھُلا کر بڑی امیدوں سے ہمراہ لایا تھا۔ اس کے کٹّے ہی کٹّے ہوتے تھے۔ مادہ بچہ نہیں ہوتا تھا۔ اسے کسی نے اطلاع دی تھی کہ شاعروں کے میلے میں طوائفوں والے حکیم احسان اللہ تسلیم آنے والے ہیں۔ سامعین کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل تھی جنھوں نے اس سے قبل مشاعرہ اور شاعر نہیں دیکھے تھے۔ مشاعرہ خاصی دیر سے یعنی دس بجے شروع ہوا جو دیہات کے دو بجے کے عمل کے برابر تھا۔ جو نوجوان والنٹئیر (جنھیں دھیرج گنج والے بالم بٹیر کہتے تھے) روشنی کے انتظام کے انچارج تھے، انھوں نے مارے جوش کے چھ بجے ہی ہنڈے روشن کر دیے، جو نو بجے تک اپنی بہارِ جان افزا دکھا کے گُل ہو گئے۔ ان میں دوبارہ تیل اور ہوا بھرنے اور اس عمل کے دوران آوارہ لونڈوں کو حسبِ مراتب و شرارت گاؤ دُم گالیاں دے دے کر پرے ہٹانے میں ایک گھنٹا لگ گیا۔ ایسا شور و غُل تھا کہ کان پڑی گالی سنائی نہیں دیتی تھی۔ تحصیل دار کو اسی دن کلکٹر نے طلب کر لیا۔ اس کی غیر موجودگی سے لونڈوں لہاڑیوں کو اور شہ ملی۔ رات کے بارہ بجے تک صرف ستائیس شاعروں کا بھگتان ہوا۔ صدرِ مشاعرہ مولی مجّن کو کسی ظالم نے داد دینے کا انوکھا طریقہ سکھایا تھا۔ وہ ” سبحان اللہ! واہ! وا! ” کہنے کے بجائے ہر شعر پر ” مکرر ارشاد ” کہتے۔ نتیجہ یہ کہ 27 شاعر 54 کے برابر ہو گئے! ہوٹنگ بھی دو سے ضرب ہو گئی۔ قادر بارہ بنکوی کے تو مطلعے پر ہی سامعین نے تمبو سر پر اٹھا لیا۔ وہ عاجز آ کر کہنے لگا ” حضرات! سنیے تو! شعر پڑھا ہے۔ گالی تو نہیں دی! ” اس پر حاضرین اور بے قابو ہو گئے۔ قادر بارہ بنکوی نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ایک شخص سے بیڑی مانگ کر بڑے اطمینان سے سلگائی اور با آوازِ بلند کہا ” آپ حضرات کو ذری قرار آئے تو دوسرا شعر عرض کروں۔ ” بقول مرزا اردو شاعری کی تاریخ میں یہ پہلا مشاعرہ تھا جو سامعین نے لُوٹ لیا۔

 

ساغر جالونوی

رات کے بارہ کا عمل ہو گا۔ چارسو سامعین کا طوطی بول رہا تھا۔ مشاعرے کے شور و شغب سے سہم کر گاؤں کی سرحد پر گیڈروں تک نے بولنا بند کر دیا۔ ایک مقامی شاعر خود کو ہر شعر پر ہوٹ کروا کے گردن ڈالے جا رہا تھا کہ ایک صاحب چاندنی پر گھنٹوں کے بل چلتے صدرِ مشاعرہ تک پہنچے۔ دائیں ہاتھ سے آداب کیا اور بائیں سے اپنی مٹن چانپ مونچھ کو، جو کھچڑی ہو چلی تھی، تاؤ دیتے رہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں ایک غریب، غریب الدیار آدمی ہوں[15]  مجھے بھی کلامِ ناقص سنانے کی اجازت دی جائے۔ (ایک آواز آئی، ناقص صاحب کا کلام سنوائیے) موصوف نے خبر دار کیا کہ اگر پڑھوانے میں دیر کی گئی تو ان کے مدارج خود بخود بلند ہوتے چلے جائیں گے اور وہ استادوں سے پہلو مارنے لگیں گے۔ انہیں اجازت مل گئی، جس پر انہوں نے کھڑے ہو کر حاضرین کو، دائیں بائیں اور سامنے گھوم کر تین دفعہ آداب کیا۔ ان کی کریم رنگ کی ٹسر کی اچکن اتنی لمبی تھی کہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ انہوں نے پاجامہ پہن رکھا ہے یا نہیں۔ سیاہ مخمل کی ٹیڑھی ٹوپی بھیڑ بھڑ کے میں سیدھی ہو گئی تو انہوں نے اسے اتار کر اس میں پھونک ماری اور تھتکار کر اور بھی ٹیڑھے زاویے سے سر پر جمالی۔

مشاعرے کے دوران یہ صاحب چھٹی صف میں بیٹھے عجیب انداز سے ” ای سبحان اللہ! اے سبحان اللہ! ” کہہ کر داد دے رہے تھے۔ جب سب تالی بجانی بند کر دیتے تو یہ شروع ہو جاتے۔ اور اس انداز سے بجاتے گویا روٹی پکا رہے ہیں۔ فرشی آداب و تسلیمات کے بعد وہ اپنی بیاض لانے کے لیے اچکن اس طرح اٹھائے اپنی نشست تک واپس گئے جیسے خود بین و خود آرا خواتین بھری برسات اور چبھتی نظروں کی سہتی سہتی بوچھار میں صرف اتنے گہرے پانی سے بچنے کے لیے جس میں چیونٹی بھی نہ ڈوب سکے، اپنے پائنچے دو دو بالشت اوپر اٹھائے ایک گوارا ناگواری کے ساتھ چلتی ہیں اور دیکھنے والے قدم قدم پہ دعائیں کرتے ہیں کہ

الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے

اپنی نشست سے انھوں نے بیاض اٹھائی جو در اصل اسکول کا ایک پرانا رجسٹر حاضری تھا جس میں امتحان کی پرانی کاپیوں کے خالی اوراق پر لکھی ہوئی غزلیات رکھ لی تھیں۔ اسے سینے سے لگائے وہ صاحب واپس صدرِ مشاعرہ کے پہلو میں اپنا کلام سنانے پہنچے۔ ہوٹنگ تھی کہ کسی طرح بند ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایسی ہوٹنگ نہیں دیکھی کہ شاعر کے آنے سے پہلے اور جانے کے بعد زوروں سے جاری رہے۔ انھوں نے اپنی از کارِ رفتہ جیبی گھڑی ایک دفعہ بیٹھنے سے پہلے اور ایک دفعہ بیٹھنے کے بعد بغور دیکھی۔ پھر اسے ڈگڈگی کی طرح ہلایا اور کان سے لگا کر دیکھا کہ اب بھی بند ہے یا دھکم پیل سے چل پڑی۔ اس سے فراغت پائی تو حاضرین کو مخاطب فرمایا، حضرات! آپ کے چیخنے سے تو میرے گلے میں خراش پڑ گئی!

ان صاحب نے صدر اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک خاص وجہ سے غیر طرحی غزل پڑھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ مگر بوجوہ وہ وجہ بتانا نہیں چاہتا! اس پر حاضرین نے شور مچایا، وجہ بتاؤ، وجہ بتاؤ، نہیں تو بدھو گھر کو جاؤ! اصرار بڑھا تو ان صاحب نے اپنی اچکن کے بٹن کھولتے ہوئے غیر طرحی غزل پڑھنے کی یہ وجہ بتائی کہ جو مصرعِ طرح دیا گیا، اس میں سکتہ پڑتا ہے۔ ثبوت میں انہوں نے تقطیع کر کے دکھا دی۔ مرض کو بر وزن فرض باندھا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ مشاعرہ یادگار رہے گا کہ آج کی رات شعرائے کانپور نے غلط العام تلفّظ کو شہرتِ عام اور بقائے دوام بخش دی۔ سامعین کی آخری صف سے ایک باریش بزرگ نے اٹھ کر نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ یہ مزید چنگاری چھوڑی کہ الف بھی گرتا ہے!

یہ سننا تھا کہ شاعروں پر الف ایسے گرا جیسے فالج گرتا ہے۔ سکتے میں آ گئے۔ سامعین نے آسمان، مصرعِ طرح اور شاعروں کو اپنے سینگوں پر اٹھا لیا۔ مولی مجّن نے انگلی کے اشارے سے مولوی بادل(فارسی ٹیچر)کو بلا کر کان میں پوچھا کہ الف کیسے گرتا ہے؟ وہ پہلے تو چکرائے، پھر مثال میں مصرعِ طرح پڑھ کر سنا دیا کہ یوں! ایک ہلڑ مچا ہوا تھا۔ جوہر الہ آبادی کچھ کہنا چاہتے تھے، مگر شاعروں کے کہنے کی باری اب ختم ہو چکی تھی۔ پھبتیوں، ٹھٹھوں اور گالیوں کے سوا اور کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسا عالم تھا کہ اگر اس وقت زمین پھٹ جاتی تو بشارت خود کو مع شعرائے دبستانِ کانپور اور مولی مجّن گاؤ تکیے سمیت اس میں سما جانے کے لیے بخوشی آفر کر دیتے۔ اس شاعر اور معترض نے اپنا تخلص ساغر جالونوی بتایا۔

 

مشاعرہ کیسے لُوٹا گیا

لوگ بڑی دیر سے اُکتائے بیٹھے تھے۔ ساغر جالونوی کے دھماکا خیز اعتراض سے اونگھتے مشاعرے میں جان ہی نہیں، ہیجان آ گیا۔ اس وقت کسے ہوش تھا کہ اعتراض کی صحت پر غور کرتا۔ ہمارے ہاں ناچ گانا، حکمرانی اور مشاعرہ اکل کھرے فن ہیں۔ ان کا سارا مزہ اور بنیاد ہی solo performance پر ہے۔ اسی لیے سیاست میں نعرے اور جلوس اور مشاعرے میں داد اور ہوٹنگ ہماری ضرورت، روایت اور سیفٹی والوو بن گئے۔ ہمارے ہاں شرکتِ سامعین ( audience participation) کی لے دے کے یہی ایک قابلِ قبول صورت ہے جس پر قدغن نہیں۔

دو ہنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہو چکا تھا۔ کچھ ہنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بُجھ گئے۔ ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈوں کو جھڑ جھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہو گیا۔ اب مار پیٹ شروع ہوئی۔ لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی، بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم صاحب کی بھینس رسّی تڑا گئی ہے! یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگڈر پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دی، لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ دیہاتی سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دھُنائی کی۔ لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے۔۔ اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چُرائی جا سکتی تھی چُرا لی گئی۔۔۔۔ ۔ پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، ساغر جالونوی کی دُگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا، ایک جازم، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدرِ مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی، خواجہ قمر الدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رو مال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط[16]۔۔۔۔ ۔۔ حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی ازار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ہنڈا سر پر اٹھا کے لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا، مگر ہنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بر وقت چیخ سے ناکام بنا دیا۔ غرض کہ قطعہ نظر اس کے کہ کار آمد ہے یا نہیں، جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا، اسے اُٹھا کے، اُتار کے، نوچ کے، پھاڑ کے، اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیرِ استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے، وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں۔

باہر سے آئے ہوئے دیہاتیوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ بھی مشاعرے کے اختتامیہ آداب میں داخل ہے، مار پیٹ اور لوٹ کھسوٹ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور بعد کو بہت دن تک ہر آئے گئے سے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے کہ اب دوسرا مشاعرہ کب ہو گا۔

 

کئی پشتوں کی نالائقی کا نچوڑ

یہ شاعر جو بھونچال لایا، بلکہ جس نے سارا مشاعرہ اپنی مونچھوں پر اٹھا لیا، بشارت کا خانساماں نکلا* پرانی ٹوپی اور اُترن کی اچکن کا خلعت اسے گزشتہ عید پر ملا تھا۔ راہ چلتوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا کلام سناتا۔ سننے والا داد دیتا تو اسے کھینچ کر لپٹا لیتا۔ داد نہ دیتا تو خود آگے بڑھ کر لپٹ جاتا۔ اپنے کلام کے الہامی ہونے میں اسے کوئی شبہ نہ تھا۔ شبہ اوروں کو بھی نہیں تھا، کیوں کہ محض عقل یا خالی خولی علم کے زور سے کوئی شخص ایسے تمام و کمال خراب شعر نہیں کہہ سکتا تھا۔ دو مصرعوں میں اتنے سارے فنّی نقائص و اسقام کو اتنی آسانی سے سمو دینا تائیدِ غیبی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ فکرِ سخن میں اکثر یہ بھی ہوا کہ ابھی مصرعے پر ٹھیک سے گرہ بھی نہیں لگی تھی کہ ہنڈیا دھواں دینے لگی۔ سالن کے بھٹّے لگ گئے۔ پانچویں جماعت تک تعلیم پائی تھی، جو اس کی ذاتی ضروریات اور سہار سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ اپنی مختصر سی انگریزی لفظیات اور تازہ شعر کو ضبط نہیں کر سکتا تھا۔ اگر آپ اس سے دس منٹ بھی بات کریں تو اسے انگریزی کے جتنے بھی الفاظ آتے تھے وہ سب آپ پر داغ دیتا۔ باہر اپنے تئیں ساغر صاحب کہلواتا، لیکن گھر میں جب خانساماں کے فرائض انجام دے رہا ہوتا تو اپنے نام عبدالقیوم سے پکارا جانا پسند کرتا۔ ساغر کہہ کر بلائیں تو بہت برا مانتا تھا۔ کہتا تھا، نوکری میں ہاتھ بیچا ہے، تخلص نہیں بیچا۔ خانساماں گیری میں بھی تعّلی شاعرانہ سے باز نہ آتا۔ خود کو واجد علی شاہ، تاجدارِ اودھ، کا خاندانی رکاب دار بتاتا تھا۔ کہتا تھا کہ فارسی میں لکھی ڈیڑھ سو سالہ پرانی خاندانی بیاض دیکھ دیکھ کر کھانا پکاتا ہوں۔ اسی کے ہاتھ کا بد مزہ سالن در حقیقت کئی پشتوں کی جمع شدہ نالائقی کا نچوڑ ہوتا تھا۔[17]

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

اس کا دعویٰ تھا کہ ایک سو ایک قسم کے پلاؤ پکا سکتا ہوں۔ اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ بشارت ہر اتوار کو پلاؤ پکواتے تھے۔ سال بھر میں کم از کم باون مرتبہ تو ضرور پکایا ہو گا۔ ہر دفعہ ایک مختلف طریقے سے خراب کرتا تھا۔ صرف وہ کھانے ٹھیک پکاتا تھا جن کو مزید خراب کرنا معمولی قابلیت رکھنے آدمی کے بس کا کام نہیں۔ یا ایسے کھانے جو پہلے ہی کسی کھانے کی بگڑی ہوئی شکل ہیں۔ مثلاً کھچڑی، آلو کا بھُرتا، لگی ہوئی فیرنی، شب دیگ، کھچڑا، ارہر کی دال، اور متنجن جس میں میٹھے چاولوں کے ساتھ گوشت اور نیبو کی ترشی ڈالی جاتی ہے۔ پھوہڑ عورتوں کی طرح کھانے کی تمام خرابیوں کو مرچ سے اور کلام کی جملہ خامیوں کو ترنم سے دور کر دیتا تھا۔ میٹھا بالکل نہیں پکا سکتا تھا، اس لیے کہ اس میں مرچ ڈالنے کا رواج نہیں۔ اکثر چاندنی راتوں میں جغرافیہ ٹیچر کو اسی کے بینجو پر اپنی غزلیں گا کے سناتا، جنھیں سن کر وہ اپنی محبوبہ کو جس کی شادی مراد آباد کے ایک پیتل کے اگالدان بنانے والے سے ہو گئی تھی، یاد کر کے کھرج میں روتا تھا۔ گانے کی جو طرز ساغر نے بغیر کسی کاوش کے ایجاد کی تھی، اس سے گریہ کرنے میں بہت مدد ملتی تھی۔

بشارت نے ایک دن چھیڑا کہ بھئی، تم ایسی مشکل زمینوں میں ایسے اچھے شعر نکالتے ہو۔ پھر خانساماں گیری کا ہے کو کرتے ہو؟ کہنے لگا، آپ نے میرے دل کی بات پوچھ لی۔ اچھا کھانا پکانے کے بعد جو روحانی انشراح ہوتا ہے وہ شعر کے بعد نہیں ہوتا۔ کس واسطے کہ کھانا پکانے میں اوزان کا کہیں زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کھانے والا جسے برا کہہ دے اسے برا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ کھانا پکانے میں محنت بھی زیادہ پڑتی ہے۔ اسی لیے تو آج تک کسی شاعر نے باورچی کا پیشہ اختیار نہیں کیا۔

شاعری کو ساغر جالونوی نے کبھی ذریعہ عزّت نہیں سمجھا، جس کی ایک وجہ تو غالباً یہ تھی کہ شاعری کی وجہ سے اکثر اس کی بے عزّتی ہوتی رہتی تھی۔ فنِ طبّاخی میں جتنا دماغ دار تھا، شاعری کے باب میں اتنی ہی کسرِ نفسی سے کام لیتا تھا۔ اکثر بڑے کھلے دل سے اعتراف کرتا کہ غالب اردو میں فارسی شعر مجھ سے بہتر کہہ لیتا تھا۔ میر کو مجھ سے کہیں زیادہ تنخواہ اور داد ملی۔ دیانت داری سے اتنا تسلیم کرنے کے بعد یہ اضافہ ضرور کرتا، حضور! وہ زمانے اور تھے۔ اساتذہ صرف شعر کہتے اور شاگردوں کی غزلیں بناتے تھے، کوئی ان سے چپاتی نہیں بنواتا تھا۔

یہ کون حضرتِ آتش کا ہم زبان نکلا

اس میں شک نہیں کہ بعضا بعضا شعر بڑا دَم پُخت نکالتا تھا۔ کچھ شعر تو واقعی ایسے تھے کہ میر و آتش بھی ان پر ناز کرتے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ انھیں کے تھے! خود کو یکے از تلامیذ الرحمان اور اپنے کلام کو الہامی بتاتا تھا۔ چنانچہ ایک عرصے تک اس کے نیازمند اسی خوش گمانی میں رہے کہ سرقہ نہیں الہام میں توارد ہو جاتا ہے۔ ردولی میں ایک دفعہ اپنی تازہ غزل پڑھ رہا تھا کہ کسی گستاخ نے بھرے مشاعرے میں ٹوک دیا کہ یہ شعر تو ناسخ کا ہے۔ سرقہ ہے، سرقہ! ذرا جو گھبرایا ہو۔ اُلٹا مسکرایا۔ کہنے لگا” غلط! بالکل غلط! آتش کا ہے!”

پھر اپنی بیاض صدرِ مشاعرہ کی ناک کے نیچے بڑھاتے ہوئے بولا ” حضور! ملاحظہ فرما لیجیے۔ ” یہ شعر بیاض میں inverted commas (الٹے واوین) میں لکھا ہے۔ اور آگے آتش کا نام بھی دیا ہے ” صدرِ مشاعرہ نے اس کی تصدیق کی اور اعتراض کرنے والا اپنا سا منھ لے کے رہ گیا۔

ساغر اپنے وطنِ مالوف جالون خورد کی نسبت پیار میں ساغرِ خورد کہلاتا تھا۔ مگر وہ خود اپنا رشتہ لکھنؤ کے دبستان سے جوڑتا اور زبان کے معاملے میں دِلّی والوں اور اہلِ پنجاب سے انتہائی تعصب برتتا تھا۔ چنانچہ صرف شعرائے لکھنؤ کے کلام سے سرقہ کرتا تھا۔

 

ترے کوچے سے ہم نکلے

ہنگامے کے بعد کسی کو مہمان شاعروں کا ہوش نہ رہا۔ جس کے جہاں سینگ سمائے وہیں چلا گیا۔ اور جو خود اس لائق نہ تھا اسے دوسرے سینگوں پر اُٹھا کے لے گئے۔ کچھ رات کی ہڑبونگ کی خفت، کچھ روپیہ نہ ہونے کے سبب بد انتظامی، بشارت اس لائق نہ رہے کہ صبح شاعروں کو منھ دکھا سکیں۔ مولی مجّن کے "علی الحساب” دیے گئے دس روپے کبھی کے چٹنی ہو چکے تھے۔ بلکہ وہ اپنی گرہ سے بہتر روپے خرچ کر چکے تھے اور اب اتنی استطاعت نہیں رہی تھی کہ شاعروں کو واپسی کے ٹکٹ دلواسکیں۔ منھ پر انگوچھا ڈال کر چھُپتے چھُپاتے دینیات ٹیچر کے خالی گھر گئے۔ ولزلی ان کے دَم کے ساتھ لگا تھا۔ تالا توڑ کر گھر میں داخل ہوئے اور دن بھر منھ چھپائے پڑے رہے۔ سہ پہر کو ولزلی کو زنجیر اُتار کر باہر کر دیا کہ بیٹا جا۔ آج خود ہی جہاں جی چاہے فراغت کر آ۔ بپھرے ہوئے شعرائے کانپور کا غول پہلے تو ان کی تلاش میں گھر گھر جھانکتا پھرا۔ آخر تھک ہار کر پا پیادہ اسٹیشن کے لیے روانہ ہوا۔ سو دو سو قدم چلے ہوں گے کہ لوگ ساتھ آتے گئے اور باقاعدہ جلوس بن گیا۔ قصبے کے تمام نیم برہنہ بچّے، ایک مکمل برہنہ پاگل (جسے زمانے کے عام عقیدے کے مطابق لوگ مجذوب سمجھ کر سٹے کا نمبر اور قسمت کا حال پوچھتے تھے) اور میونسپل حدود میں کاٹنے والے تمام کتّے انھیں اسٹیشن چھوڑنے گئے۔ جلوس کے آخر میں ایک سادھو بھبوت رَمائے، بھنگ پیے اور تین کٹ کھنی بطخیں بھی اکڑے ہوئے فوجیوں کی ceremonial چال یعنی اپنی ہی چال۔۔۔۔ ۔۔۔۔ goose step۔۔۔۔ ۔۔۔۔ چلتی شریکِ ہنگامہ تھیں۔ راستے میں گھروں میں آٹا گوندھتی، سانی بناتی، روتے ہوئے بچے کا منھ غذائی غدود سے بند کرتی ہوئی عورتیں اپنا اپنا کام چھوڑ کر، سَنے ہوئے ہاتھوں کے طوطے بنائے جلوس دیکھنے کھڑی ہو گئیں۔ ایک بندر والا بھی اپنے بندر اور بندریا کی رسّی پکڑے یہ تماشا دیکھنے کھڑا ہو گیا۔ بندر اور لڑکے بار بار طرح طرح کے منھ بنا کر ایک دوسرے پر خوخیاتے ہوئے لپکتے تھے۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ کون کس کی نقل اُتار رہا ہے۔

آتے وقت جن نازک مزاجوں نے اس پر ناک بھوں چڑھائی تھی کہ ہمیں بیل گاڑیوں میں لاد کر لایا گیا، انہیں اب جاتے وقت یہ شکایت تھی کہ پیدل کھدیڑے گئے۔ چلتی ٹرین میں چڑھتے چڑھتے حیرت کانپوری ایک قلی سے یہ کہہ گئے کہ اس نابکار، ناہنجار (بشارت) سے یہ کہہ دینا کہ ذرا دھیرج گنج سے باہر نکل۔ تجھ سے کانپور میں نمٹ لیں گے۔ سب شاعروں نے اپنی جیب سے واپسی کے ٹکٹ خریدے، سوائے اس شاعر کے جو اپنے ساتھ پانچ مصرعے اٹھانے والا لایا تھا۔ یہ صاحب اپنے مصرعہ برداروں سمیت آدھے راستے ہی میں بلا ٹکٹ سفر کرنے کے جرم میں اتار لیے گئے۔ پلیٹ فارم پر چند درد مند مسلمانوں نے چندہ کر کے ٹکٹ چیکر کو رشوت دی، تب کہیں ان کو رہائی ملی۔ ٹکٹ چیکر مسلمان تھا، ورنہ کوئی اور ہوتا تو چھؤں کے ہتھکڑی ڈلوا دیتا۔

 

بات اک رات کی

صرف بے "عزّت شدہ” شعرا ہی نہیں، کانپور کی ساری شاعر برادری بشارت کے خون کی پیاسی تھی۔ ان شاعروں نے ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ چند ایک نثر نگار بھی ان کو کچا چبا جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ کانپور میں ہر جگہ اس مشاعرے کے چرچے تھے۔ دھیرج گنج جانے والے شاعروں نے اپنی ذلّت و خواری کی جو داستانیں بڑھا چڑھا کر بیان کیں وہ اسی سلوک کے مستحق تھے۔ لوگ کُرید کُرید کر تفصیلات سنتے۔ ایک شکایت ہو تو بیان کریں۔ اب کھانے ہی کو لیجیے۔ ہر شاعر کو شکایت تھی کہ رات کا کھانا ہمیں دن دھاڑے چار بجے اسی کاشتکار کے ہاں کھلوایا گیا جس کے ہاں سُلوایا گیا۔ ظاہر ہے کہ ہر کاشتکار نے مختلف قسم کا کھانا کھلایا۔ چنانچہ جتنی اقسام کے کھانے تھے اتنی ہی قسم کے امراضِ معدہ میں شاعروں نے خود کو مبتلا بتلایا۔

حیرت کانپوری نے شکایت کی کہ میں نے غسل کے لیے گرم پانی مانگا تو چودھرائن نے گھونگٹ اٹھا کے مجھے نزدیک ترین کنویں کا راستہ بتا دیا۔ اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اس میں سے گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم پانی نکلتا ہے! چودھری نے میری گود میں اپنا ننگ دھڑنگ فرزند دے کر زبردستی تصدیق چاہی کہ نومولود اپنے باپ پر پڑا ہے۔ میرا کیا جاتا تھا۔ میں نے کہہ دیا، ہاں! اور بڑی شفقت سے بچّے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار کیا، جس سے مشتعل ہو کر اس نے میری اچکن پر پیشاب کر دیا۔ اسی اچکن کو پہنے پہنے میں نے مقامی شعرا کو گلے لگایا۔

پھر فرمایا کہ بندہ آبرو ہتھیلی پہ رکھے، ایک بجے مشاعرے سے لوٹا۔ تین بجے تک چار پائی کے اوپر کھٹمل اور نیچے چوہے کلیلیں کرتے رہے۔ تین بجتے ہی گھر میں ” صبح ہو گئی! صبح ہو گئی! ” کا شور مچ گیا۔ اور شکایت تو سب نے کی کہ صبح چار بجے ہی ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھایا اور ایک ایک لوٹا ہاتھ میں پکڑا کے جھڑ بیری کی جھاڑیوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ حیرت کانپوری نے پروٹسٹ کیا تو انھیں نو مولود کے پوتڑے کے نیچے سے ایک چادر گھسیٹ کر پکڑا دی گئی کہ ایسا ہی ہے تو یہ اوڑھ لینا شاعروں کا دعویٰ تھا کہ اس دن ہم نے گاؤں کے مرغوں کو کچی نیند اُٹھا کر اذانیں دلوائیں!

کچھ نے شکایت کی کہ ہمیں ” ٹھوس ناشتہ ” نہیں دیا گیا۔ نہار منھ فٹ بھر لمبے گلاس میں نمکین چھاچھ پلا کر رخصت کر دیا۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ ان کی کھاٹ کے پائے سے بندھی ہوئی ایک بکری ساری رات مینگنی کرتی رہی۔ منھ اندھیرے اسی کا دودھ دوہ کر انہیں پیش کر دیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سلوک تو کوئی بکرا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ خروش شاہجہاں پوری نے کہا کہ ان کے سرھانے رات کے ڈھائی بجے سے چکّی چلنی شروع ہوئی۔ چکّی پیسنے والی دونوں لڑکیاں ہنس ہنس کے جو گیت گا رہی تھیں وہ دیور بھاوج اور نندوئی اور سلہج کی چھیڑ چھاڑ سے متعلق تھا، جس سے ان کی نیند اور نیت میں خلل واقع ہوا۔ اعجاز امروہی نے کہا کہ بھانت بھانت کے پرندوں نے صبح چار بجے سے ہی شور مچانا شروع کر دیا۔ ایسے میں کوئی شریف آدمی سو ہی نہیں سکتا۔

مجذوب متھراوی کو شکایت تھی کہ انھیں کچے صحن میں جامن کے پیڑ تلے مچھروں کی چھاؤں میں سُلادیا۔ پُروا کے ہر فرحت بخش جھونکے کے ساتھ رات بھر ان کے سر پر جامنیں ٹپکتیں رہیں۔ صبح اٹھ کر انھوں نے شکایت کی تو صاحبِ خانہ کے میٹرک فیل لونڈے نے کہا، غلط! جامنیں نہیں۔ پھلیندے تھے۔ میں نے خود لکھنؤ والوں کو پھلیندے کہتے سنا ہے۔ مجذوب متھراوی کے بیان کے مطابق ان کی چارپائی کے پاس کھونٹے سے بندھی ہوئی بھینس رات بھر ڈکراتی رہی۔ گجر دَم ایک بچّہ دیا جو سیدھا ان کی چھاتی پر آن کر گرتا اگر وہ کمالِ چابکدستی سے بیچ میں ہی کیچ نہ لے لیتے۔ شیدا جارچوی نے اپنی بے عزّتی میں بھی یکتائی اور فخر و مباہات کا پہلو نکال لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیسی بمثال بے عزّتی ان کی ہوئی ایسی تو ایشیا بھر میں کبھی کسی شاعر کی نہیں ہوئی۔ رعنا سیتا پوری ثم کاکوروی نے شگوفہ چھوڑا کہ جس گھر میں مجھے سُلایا گیا، بلکہ یوں کہیے کہ رات بھر جگا یا گیا، اس میں ایک ضدی بچّہ ساری رات شیرِ مادر کے لیے اور اس کا باپ موخر الذکر کے لیے مچلتا رہا۔ اخگر کانپوری جانشین مائل دہلوی بولے ان کا کاشتکار میزبان ہر آدھے گھنٹے بعد اُٹھ اُٹھ کر ان سے یہ پوچھتا رہا کہ ” جنابِ عالی، کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ نیند تو ٹھیک آ رہی ہے نا؟ ”

غرض کہ جتنے منھ ان سے دُگنی تگنی شکایتیں۔ ہر شاعر اس طرح شکایت کر رہا تھا گویا اس کے ساتھ کسی منظّم سازش کے تحت ذاتی ظلم ہوا ہے۔ حالانکہ ہوا ہوایا کچھ نہیں۔ ہوا صرف یہ کہ ان شہری تلامیذ الرحمٰن نے دیہات کی زندگی کو پہلی مرتبہ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ذرا قریب سے دیکھ لیا اور بِلبِلا اُٹھے۔ ان پر پہلی مرتبہ یہ کھُلا کہ شہر سے صرف چند میل کی اوٹ میں انسان کیوں کر جیتے ہیں۔ اور اب ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ یہی کچھ ہے تو کا ہے کو جیتے ہیں۔

 

سکتے نکلوا لو!

کچھ دن بعد یہ سننے میں آیا کہ جن طرحی غزل پڑھنے والوں کی بے عزّتی تھی انہوں نے تہّیہ کیا ہے کہ آئندہ جب تک کسی استاد کے دیوان میں خود اپنی آنکھ سے مصرع نہ دیکھ لیں، ہرگز ہرگز اس زمین میں شعر نہیں نکالیں گے۔ ان میں سے دو شاعروں نے ساغر جالونوی سے اصلاح لینی اور غزلیں بنوانی شروع کر دیں۔ ادھر استاد اخگر کانپوری جانشین مائل دہلوی کی دکان خوب چمکی۔ ان کے سامنے اب روزانہ درجنوں نئے شاگرد زانوئے تلمذ تہ کرنے لگے کہ انھوں نے اصلاح کی ایک مخصوص صنف میں اسپیشلائز کر لیا تھا۔ وہ صرف سکتے نکالتے تھے اور اسطرح نکالتے تھے جیسے پہلوان لات مار کر کمر کی چُک نکال دیتے ہیں۔ یا جس طرح بارش میں بھیگنے سے بان کی اکڑی ہوئی چارپائی پر محلّے بھر کے لونڈوں کو کدوا کر اس کی کان نکالی جاتی ہے۔ اِس طرح کان تو نکل جاتی ہے، لیکن لونڈوں کو پرائی چارپائی پر کودنے کا چسکا پڑ جاتا ہے۔

 

ڈیر مولوی مجّن!

دن تو جوں توں کاٹا، لیکن شام پڑتے ہی بشارت ایک قریبی گاؤں سٹک گئے۔ وہاں اپنے ایک واقف کار کے ہاں ( جس چند ماہ بیشتر ایک یتیم تلاش کرنے میں مدد دی تھی) انڈر گراؤنڈ چلے گئے۔ ابھی جوتوں کے تسمے بھی نہیں کھولے تھے کہ اپنے ہر جاننے والے کو مختلف ذرائع سے اپنے انتہائی خفیہ زیرِ زمین محلِ وقوع سے آگاہ کرنے کا انتظام کیا۔ انھوں نے دھیرج گنج میں سوا سال رو رو کے گزارا تھا۔ دیہات میں وقت بھی بیل گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے۔ انھیں اپنی قوتِ برداشت پر تعجب ہونے لگا۔ رزق کی سب راہیں مسدود نظر آئیں تو نا گوارا رفتہ رفتہ گوارا ہو جاتا ہے۔ شمالی ہندوستان کا کوئی اسکول ایسا نہیں بچا جس کا نام انھیں معلوم ہو اور جہاں انھوں نے درخواست نہ دی ہو۔ آسام کے ایک مسلم اسکول میں انھیں جمناسٹک ماسٹر تک کی ملازمت نہ ملی۔ چار پانچ جگہ اپنے خرچ پر جا کر انٹرویو میں بھی ناکام ہو چکے تھے۔ ہر ناکامی کے بعد انھیں معاشرے میں ایک نئی خرابی نظر آنے لگی جسے صرف خونیں انقلاب سے دور کیا جا سکتا تھا، لیکن جب کچھ دن بعد ایک دوست کے توّسط سے سندیلہ کے ہائی اسکول میں تقرر کا خط ملا تو دل نے بے اختیار کہا کہ میاں!

ایسا کہاں خرابِ جہاں خراب ہے

دس بارہ مرتبہ خط پڑھنے اور ہر بار نئی مسّرت کشید کرنے کے بعد انھوں نے چار لائن والے کاغذ پر خطِ شکست میں استعفیٰ لکھ کر مولوی مجّن کو بھجوا دیا۔ ایک ہی جھٹکے میں بیڑی اتار پھینکی۔ اسے رقم کرتے ہوئے وہ آزادی کے ایک بھَک سے اُڑا دینے والے نشے سے سرشار ہو گئے۔ چنانچہ "عرض” کی ر کی دُم رعونت سے بل کھا کر ض کی آنکھ میں گھس گئی اور "استعفیٰ” کی ی نے ہیکڑی سے پیر پسار دیے۔ بی اے کا نتیجہ نکلنے کے بعد وہ انگریزی میں اپنے دستخط کی جلیبی سی بنانے لگے تھی۔ آج بفضلِ مولا سے وہ جلیبی، امرتی بن گئی مولی مجّن کو خط کا مضمون پڑھنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کہ سوادِ خط کے ہر شوشے سے سر کشی، ہر مرکز سے تکبّر اور ایک ایک دائرے سے استعفیٰ ٹپک رہا تھا۔ بشارت نے لفافے کو حقارت میں لعابِ دہن ملا کر اس طرح بند کیا گویا مولوی مجّن کے منھ پر تھوک رہے ہوں۔ دستخط کرنے کے بعد سرکاری ہولڈر کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اپنے آقائے ولی نعمت مولوی سید محمد مظفّر کو حضور فیض گنجور یا مکرمی معظمی لکھنے کے بجائے جب انھوں نے اردو خط میں مائی ڈیر مولوی مجّن لکھا تو وہ کانٹا جو سواسال میں ان کے تلوے کو چھیدتا ہوا تالو تک پہنچ چکا تھا، یکلخت نکل گیا۔ اور اب انھیں اس پر تعجب ہو رہا تھا کہ ایسے پھٹیچر آدمی سے وہ سوا سال تک اس طرح اپنی اوقات خراب کرواتے رہے انھیں ہو کیا گیا تھا؟ خود مولوی مجّن کو بھی غالباً اس کا احساس تھا۔ اسلیے کہ جب بشارت انھیں خدا کے حوالے کرنے گئے، مطلب یہ کہ خدا حافظ کہنے گئے تو موصوف نے ہاتھ تو ملایا، آنکھیں نہ ملا سکے، جب کہ بشارت کا یہ حال تھا کہ "آداب عرض” بھی اس طرح کہا کہ لہجے میں ہزار گالیوں کا غبار بھرا تھا۔

بشارت نے بہت سوچا۔ نازو کو تحفے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی تو نہ تھا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو وقتِ رخصت اپنی سونے کی انگوٹھی اُتار کر اسے دے دی۔ اس نے کہا، اللہ میں اس کا کیا کروں گی؟ پھر وہ اپنی کوٹھری میں گئی اور چند منٹ بعد واپس آئی۔ اس نے انگوٹھی میں اپنی گھنگرالے بالوں کی ایک لٹ باندھ کر انھیں لوٹا دی۔ وہ دبی دبی سسکیوں سے رو رہی تھی۔

 

تم تو اتنے بھی نہیں جتنا ہے قد تلوار کا!

سندیلہ ہائی اسکول میں تو سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن میٹرک میں تین چار پرابلم لڑکے عمر میں ان سے بھی تین چار برس بڑے نکلے۔ یہ لڑکے جو ہر کلاس میں دو دو تین تین سال دَم لیتے میٹرک تک پہنچے تھے، اپنی عمر سے اتنے محجوب نہیں تھے جتنے خود بشارت۔ جیسے ہی وہ گولا جو اس کلاس میں قدم رکھتے ہی ان کے حلق میں پھنس جاتا تھا، تحلیل ہوا اور اسکول میں ان کے پیر جمے، انھوں نے اپنے ایک دوست سے جو لکھنؤ سے تازہ تازہ ایل ایل بی کر کے آیا تھا، مولوی مظفّر کو ایک قانونی نوٹس بھجوایا کہ میرے موکل کی دس مہینے کی چڑھی ہوئی تنخواہ بذریعہ منی آرڈر ارسال کر دیجیے، ورنہ آپ کے خلاف قانونی کار وائی کی جائے گی جس سے اسکول کی جملہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کا طشت از بام ہونا نا گزیر ہو جائے گا۔

اس کے جواب میں دو ہفتے بعد مولوی مظفّر کی جانب سے ان کے وکیل کا رجسٹرڈ نوٹس آیا کہ مشاعرے کے سلسلے میں جو "رقومات” آپ کو وقتاً فوقتاً علی الحساب دست گرداں دی گئیں، ان کا حساب دیے بغیر آپ فرار ہو گئے۔ آپ اس واجب الادا رقم میں سے اپنے واجبات وضع کر کے، بقیہ رقم فوراً بذریعہ منی آرڈر میرے موکل کو بھیج دیجیے۔ مشاعرے کے اخراجات کا گوشوارہ مع اصل رسیدات بواپسی ڈاک ارسال کریں۔ شاعروں کو جو معاوضہ، بہتّا اور سفر خرچ دیا گیا اس کی رسیدات منسلک کریں۔ بصورت دیگر وجہ ظاہر کریں کہ کیوں نہ آپ کے خلاف عدالتِ مجاز میں چارہ جوئی کی جائے۔ ہرجہ و خرچہ اپ کے ذمے ہو گا۔ نیز شاعروں کے استقبال کے دوران آپ نے یتیم خانے کے بینڈ سے اپنی ایک غزل بجوائی جس کے ایک سے زائد اشعار فحش تھے۔ مزید بر آں، وزن سے گرے ہوئے مصرعے دینے سے اسکول کی تعلیمی شہرت اور اہلیانِ دھیرج گنج کی املاکِ منقولہ کو جو نقصان پہنچا اس کا ہرجانہ قرار واقعی وصول کرنے کا حق مجلسِ منتظمہ محفوظ رکھتی ہے۔ نوٹس میں دھمکی بھی دی گئی تھی کہ اگر رقم واپس نہ کی گئی تو بدرجہ مجبوری خیانتِ مجرمانہ کے کیس کی پوری تفصیلات سے سندیلہ اسکول کے منتظمین اور گورنمنٹ کے محکمہ تعلیمات کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

نوٹس سے تین دن پہلے مولی مجّن نے ایک ٹیچر کی زبانی بشارت کو کہلا بھیجا کہ برخوردار! تم ابھی بچے ہو۔ گرو گھنٹال سے کا ہے کو الجھتے ہو۔ ابھی تو نامِ خدا تمہارے گولیاں اور گلی ڈنڈا کھیلنے اور ہماری گود میں ‌بیٹھ کر عیدی مانگنے کے دن ہیں۔ اگر ٹکر لی تو پرخچے اڑا دوں گا۔

 

سگِ مردم گزیدہ

بشارت کی رہی سہی مدافعت کا لڑکھڑاتا قلعہ ڈھانے کے لیے مولی مجّن نے نوٹس کے آخری پیرا گراف میں ایک ٹائم بم رکھوا دیا۔ لکھا تھا کہ جہاں آپ نے محکمہ تعلیمات کو اپنے خط کی نقل ارسال کی، وہاں اس کے علم میں یہ بات بھی لانی چاہیے تھی کہ آپ نے اپنے کتّے کا نام سرکارِ برطانیہ کے گورنر جنرل کی تذلیل کے لیے لارڈ ولزلی رکھا۔ آپ کو بار ہا وارننگ دی گئی مگر آپ حکومت کے خلاف ایک لینڈی کتّے کے ذریعے نفرت اور بغاوت کے جذبات کو ہوا دینے پر مُصر رہے جس کی شہادت قصبے کا بچّہ بچّہ دینے کو تیار ہے۔ نیز بغاوت اور انگریز دشمنی کے جنون میں آپ اپنے تئیں فخریہ اور اعلانیہ ٹیپو کہلواتے تھے!

بشارت سکتے میں آ گئے۔ یا اللہ! اب کیا ہو گا؟

وہ دیر تک اداس اور فکر مند بیٹھے رہے۔ وِلزلی ان کے پیروں پر اپنا سر رکھے آنکھیں موندے پڑا تھا۔ وقفے وقفے سے آنکھ کھول کر انھیں دیکھ لیتا تھا۔ ان کا جی ذرا ہلکا ہوا تو وہ دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ پیار سے زیادہ احساسِ تشکر کے ساتھ۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں پتھر کی چوٹ کا نشان نہ ہو۔

 

لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ "یہ بے ننگ و نام ہے! ”

مولوی مجّن نے اس نوٹس کی کاپی اطلاعاً ان تمام شعرا کو بھیجی جنھوں نے اس یادگار مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ تین چار کو چھوڑ کر سب کے سب شاعر بشارت کے پیچھے پڑ گئے کہ لاؤ ہمارے حصّے کی رقم۔ ایک خستہ حال شاعر تو کوسنوں پر اُتر آیا۔ کہنے لگا جو دوسرے شاعر بھائیوں کے گلے پہ چھری پھیر کے معاوضہ ہڑپ کر جائے، اللہ کرے اس کی قبر میں کیڑے اور شعر میں سکتے پڑیں۔ اب وہ کس کس کو سمجھانے جاتے کہ مشاعرے کی مد میں انھیں کل دس روپے دیے گئے تھے۔ ایک دل جلے نے تو حد کر دی۔ اسی زمین میں ان کی ہجو لکھ کر ان کے سابق خانساماں ساغر جالونوی کے پاس بغرضِ اصلاح بھیجی، جو اس نمک حلال نے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ ہم تاجدارِ اودھ جانِ عالم شاہ پیا کے خاندانی رکاب دار ہیں۔ ہمارا اصول ہے ایک دفعہ جس کا نمک کھا لیا، اس کے خلاف کبھی ہماری زبان اور قلم سے ایک لفظ نہیں نکل سکتا، خواہ وہ کتنا بڑا غبن کیوں نہ کر لے۔

تپش ڈبائیوی نے اُڑا دیا کہ بشارت کے والد نے اسی پیسے سے نیا ہارمونیم خریدا ہے، جس کی آواز دوسرے محلّے تک سنائی دیتی ہے۔ اسی ساز کے پردے میں غبن بول رہا ہے! بشارت کے استاد حضرت جوہر الہ آبادی نے کھل کر خیانتِ مجرمانہ کا الزام تو نہیں لگایا، لیکن انھیں ایک گھنٹے تک ایمان داری کے فضائل پر لیکچر دیتے رہے۔

 

نصیحت میں فضیحت!

سچ پوچھیے تو انھیں ایمان داری کا پہلا سبق، لغوی اور معنوی دونوں اعتبار سے، جوہر الہ آبادی نے ہی پڑھایا تھا۔ ہمارا اشارہ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی نظم ” ایمان دار لڑکا” کی طرف ہے۔ یہ نظم در اصل ایک ایمان دار لڑکے کا قصیدہ ہے جو ہمیں بھی پڑھایا گیا تھا۔ اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک دن اس لڑکے نے پڑوسی کے خالی گھر میں تازہ تازہ بیر ڈلیا میں رکھے دیکھے۔ کھانے کو بے تحاشا جی چاہا لیکن بڑوں کی نصیحت اور ایمان داری کا جذبہ بیر چُرا کر کھانے کی خواہش پر غالب آیا۔ بہادر لڑکے نے بیروں کو چھوا تک نہیں۔ نظم کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے:

واہ وا شاباش لڑکے واہ وا!

تو جواں مَردوں سے بازی لے گیا!

ہائے! کیسے اچھے زمانے اور کیسے بھلے اور بھولے لوگ تھے کہ چوری بدنیتی کی مثال دینے کے لیے بیروں کی ڈلیا سے زیادہ قیمتی اور لذیذ شے کا تصّور بھی نہیں کر سکتے تھے! کھٹ مٹھے بیروں سے زیادہ بڑی اور بُری Temptation ہماری دُکھیاری نسل کے لڑکوں کو اس زمانے میں دستیاب بھی نہ تھی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ہمیں یوں ہی خیال آیا کہ اگر اب ہمیں نئی پود کے لڑکوں کو نیک چلنی کی تلقین کرنی ہو تو چوری اور بدنیتی کی کونسی مثال دیں گے جس سے بات ان کے دل میں اُتر جائے۔ معاً ایک ماڈرن مثال ذہن میں آئی جس پر ہم یہ داستان ختم کرتے ہیں:

مثال: ایمان دار لڑکے نے ایک الماری میں بلو فلم اور Cannabis کے سگریٹ رکھے دیکھے۔ وہ انہیں اچھی طرح پہچانتا تھا۔ اس لیے کہ کئی مرتبہ گریمر اسکول میں اپنی کلاس کے لڑکوں کے بستوں میں دیکھ چکا تھا۔ ان کی لذّت کا اسے بخوبی اندازہ تھا۔ مگر وہ اس وقت نشہ نصیحتِ پدری سے سرشار تھا۔ سونگھ کر چھوڑ دیے۔

وضاحت: در حقیقت اس کی تین وجہیں تھیں۔ اوّل، اس کے ڈیڈی کی نصیحت تھی کہ کبھی چوری نہ کرنا۔ دوم، ڈیڈی نے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ بیٹا فسق و فجور کے قریب نہ جانا۔ نظر ہمیشہ نیچی رکھنا۔ سب سے باؤلا نشہ آنکھ کا نشہ ہوتا ہے۔ اور سب سے گندہ گناہ آنکھ کا گناہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ واحد گناہ ہے جس میں بزدلی اور نامَردی بھی شامل ہوتی ہے۔ کبھی کوئی برا خیال دل میں آ بھی جائے تو فوراً اپنے پیر و مرشد کا اور اگر تم بے پیرے ہو تو خاندان کے کسی بزرگ کی صورت کا تصّور باندھ لینا؛ چنانچہ ایمان دار لڑکے کی چشمِ تصّور کے سامنے اس وقت اپنے ڈیڈی کی شبیہ تھی۔

اور تیسری وجہ یہ کہ مذکورہ بالا دونوں ممنوعہ اشیا اس کے ڈیڈی کی الماری میں رکھی تھیں!

واہ وا شاباش لڑکے واہ وا!

تو بزرگوں سے بھی بازی لے گیا!

٭٭٭

 

 

٭٭٭

ٹائپنگ: رضوان نور

ماخذ:

http: //www.urduweb.org/mehfil/threads/آبِ۔ گم۔ دھیرج۔ گنج۔ کا۔ پہلا۔ یادگار۔ مشاعرہ.1671

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

[1] جنگم فقیر: جس کے سر پر جٹائیں، ہاتھ میں سونٹا اور پاؤں میں زنجیر ہوتی تھی۔ ہاتھ میں ایک گھنٹی ہوتی تھی، جسے بجاتا پھرتا تھا۔

[2] یہ جواب سن کر کھاٹ پر بیٹھے ہوئے ممبران معنی خیز انداز میں مسکراتے ہیں۔ تحصیل دار بشارت کو آنکھ مارتا ہے۔ مولوی مجن کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا ہے۔ سبب؟ کچھ عرصے پہلے مولوی مجن نے حساب کے ٹیچر کی بیوہ بہن سے دوسری شادی رچائی تھی اور سالے کی تنخواہ میں چار روپے کا اضافہ کیا تھا، جس سے ان سینئر ٹیچروں کی بڑی حق تلفی ہوئی تھی جن کی کوئی بیوہ بہن نہیں تھی۔ قصبے میں ان کے نکاحِ صغیرہ و کبیرہ اور سالے کی ترقی کے بڑے چرچے تھے۔ لیکن سالا چار روپے سے مطمئن نہیں تھا۔ ہر وقت شاکی ہی رہتا اور بار بار طعنے دیتا تھا:

ہم سے کب پیار ہے، ہمشیر تمہیں پیاری ہے

[3] اجورہ دار: وہ ہرکارہ جس کی اُجرت، آمد و رفت اور قیام و طعام کا خرچ اس ماتحت کو برداشت کرنا پڑتا تھا جس کے نام وہ سرکاری احکام لے کر آتا تھا۔ یہ ایک نوع کی سزا ہوتی تھی۔ کچھ علاقوں میں یاد دہانیوں (reminders) کی ترسیل اجورہ دار ہی کے ذریعے ہوتی تھی تاکہ آئندہ کو سبق ہو۔

[4] اسطوخودوس: اس کے لغوی معنی تو ظاہر ہے کچھ اور ہیں۔ مرزا یہ لفظ اس کے صوتیاتی کڈھب پن کے سبب اکثر استعمال کیا کرتے ہیں۔ جس کا مفہوم یہاں ادا کرنا مقصود ہے وہ کسی اور لفظ سے ادا نہیں ہو سکتا۔ یقین نہ آئے تو آپ اس کی جگہ کوئی اور لفظ جڑ کر دیکھ لیں۔ ویسے لغت میں اس کے معنی ہیں: نزلے اور پاگل پَن کی ایک دوا جسے اطبّا دماغ کی جھاڑو کہتے ہیں!

[5] اپنے مولانا حالی: حالی اور سر سیّد احمد خان کو بوجوہ اپنے مولانا حالی اور اپنے سر سیّد کہتے تھے۔ سر سیّد کا تلفظ اضافت کے ساتھ یعنی ” سرے سیّد ” فرماتے۔ حالی کو تو وہ ایک لحاظ سے اپنا "گرائیں ” سمجھتے، لیکن سر سیّد کو اپنا ہم پیشہ اور ہمسر گردانتے تھے۔ اساتذہ اور اہل غرض انھیں دھیرج گنج کا سر سیّد کہتے تو مولوی مجّن اسے سر سیّد کے لیے باعثِ افتخار سمجھتے۔ سر سیّد پر انہیں یہ فضیلت بھی حاصل تھی کہ ان کے یعنی سر سیّد کے کالج فنڈ میں تو ان کی لاپروائی کے سبب ایک خزانچی نے غبن کر لیا تھا، جب کہ مولوی مجّن کا کنٹرول اتنا سخت تھا کہ خود ان کے سوا کسی اور کو غبن کرنے کا سلیقہ و اختیار نہ تھا۔ ادھر مولانا حالی سے انھوں نے تین رشتے نکالے تھے۔ اول، حالی بھی انھی کی طرح گلے میں مفلر ڈالے رہتے تھے۔ دوم، حالی بھی انھی کی طرح اپنے دل میں قوم کا درد رکھتے تھے۔ سوم، حالی سے ان کا ایک ازار بندی رشتہ یہ نکلا کہ ان کی پہلی بیوی پانی پت کی تھیں۔ یہ دعویٰ یوں بھی درست معلوم ہوتا تھا کہ دوسری شادی کے بعد (اہل) خانہ جنگی کے سبب ان کی زندگی پانی پت کا میدان بن کر رہ گئی تھی، جس میں فتح ہمیشہ ہتھنیوں کی ہوتی تھی۔ اپنے مولانا حالی: حالی اور سر سیّد احمد خان کو بوجوہ اپنے مولانا حالی اور اپنے سر سیّد کہتے تھے۔ سر سیّد کا تلفظ اضافت کے ساتھ یعنی ” سرے سیّد ” فرماتے۔ حالی کو تو وہ ایک لحاظ سے اپنا "گرائیں ” سمجھتے، لیکن سر سیّد کو اپنا ہم پیشہ اور ہمسر گردانتے تھے۔ اساتذہ اور اہل غرض انھیں دھیرج گنج کا سر سیّد کہتے تو مولوی مجّن اسے سر سیّد کے لیے باعثِ افتخار سمجھتے۔ سر سیّد پر انہیں یہ فضیلت بھی حاصل تھی کہ ان کے یعنی سر سیّد کے کالج فنڈ میں تو ان کی لاپروائی کے سبب ایک خزانچی نے غبن کر لیا تھا، جب کہ مولوی مجّن کا کنٹرول اتنا سخت تھا کہ خود ان کے سوا کسی اور کو غبن کرنے کا سلیقہ و اختیار نہ تھا۔ ادھر مولانا حالی سے انھوں نے تین رشتے نکالے تھے۔ اول، حالی بھی انھی کی طرح گلے میں مفلر ڈالے رہتے تھے۔ دوم، حالی بھی انھی کی طرح اپنے دل میں قوم کا درد رکھتے تھے۔ سوم، حالی سے ان کا ایک ازار بندی رشتہ یہ نکلا کہ ان کی پہلی بیوی پانی پت کی تھیں۔ یہ دعویٰ یوں بھی درست معلوم ہوتا تھا کہ دوسری شادی کے بعد (اہل) خانہ جنگی کے سبب ان کی زندگی پانی پت کا میدان بن کر رہ گئی تھی، جس میں فتح ہمیشہ ہتھنیوں کی ہوتی تھی۔

[6] رانڈ کڑھی: وہ کڑھی جو اپنے خصم کو کھا جائے یعنی جس میں پھلکیاں نہ ہوں۔

[7] بم: اکّے اور تانگے میں لگانے والی لکڑی جس میں گھوڑا جوتتے ہیں۔

[8] حضرت جوش ملیح آبادی ایسے اکّوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” وہ تمام اس قدر ذلیل ہیں کہ ان پر اگر سکندرِ اعظم تک کو بٹھا دیا جائے تو وہ بھی کسی دیہاتی رنڈی کا بھڑوا نظر آنے لگے۔ ”

[9] آر: وہ نوکیلی کیل جو بیلوں کو ہانکنے کی لکڑی کے آگے لگی ہوتی ہے۔

[10] ہم نے بشارت سے پوچھا، بھائی، تم نے اتنے سارے چرندے پرندے اور گزندے زندہ پکڑ کر مہیا کرنے کی حامی کیسے بھر لی؟ بولے، جب مجھے سرے سے کچھ سپلائی نہیں کرنا تھا تو پھر! the more the merrier پھر انھوں نے ہمیں تسلی دی کہ یہ جھوٹ انہوں نے غلطی سے نہیں بولا، عادتاً بولا تھا!

[11] منٹو تو خیر ” الکحلک ” بھی تھا۔ کوئے ملامت کے طواف کی اس غریب کو نہ فرصت اور طاقت تھی، نہ استطاعت اور ہوش۔ اسے اس کوچے کا اتنا ہی ذاتی تجربہ تھا جتنا ریاض خیر آبادی کو شراب خانے کا۔ ہمارے یہاں شاید یہ اتنا ضروری بھی نہیں۔

[12] ناخنی نقش: Thumb۔ nail sketch

[13] نارپھل: گات، چھب تختی اور چھاتیوں کے لیے قدیم اردو میں یہ لفظ بہت عام تھا۔ افسوس کہ بہت سے اور خوب صورت لفظوں کی طرح یہ بھی لسانی وہابیت (Puritanism) اور نک چڑھی ناسخیت کی نذر ہو گیا۔

[14] مِتھُن کلا: قارئین مِتھُن کے معنی لغت میں تلاش کرنے کی بجائے راجندر سنگھ بیدی کی، اسی عنوان کی شاہکار کہانی "مِتھُن ” ملاحظہ فرمائیں۔ بیدی نے سنگِ خارا کا پورا پہاڑ کاٹ کر ایک بت تراشا ہے۔ اور اس قوت اور ضربت کاری سے تراشا ہے کہ مجال ہے تیشہ ایک ہی جگہ دوبارہ لگ تو جائے۔ Erotic Art کا اردو مترادف مجھے معلوم نہیں۔ اس لیے سرِ دست یہ اصطلاح وضع کرنی پڑی۔

[15] ہرچند کہ ان کا وطن جالون(خورد) وہاں سے کل اٹھارہ میل دور تھا مگر اگلے وقتوں میں آدمی اپنی میونسپلٹی کی حدود سے باہر قدم رکھتے ہی خود کو غریب الوطن کہنے لگتا تھا۔ اور وطن سے مراد صرف شہر یا قصبہ ہوتی تھی۔ صوبے یا ضلعے کو کوئی بھی اپنا وطن نہیں کہتا تھا۔

[16] چھینی اور چُرائی ہوئی اشیا میں فقط یہی چیز تھی جو دوسرے دن برآمد ہوئی۔ یہی نہیں، اس کی نقول قصبے میں گھر گھر تقسیم ہوئیں۔

[17] ممکن ہے ہمارے بعض قارئین کو اس میں غلو کا شائبہ نظر آئے کہ اس کتاب کا ہر تیسرا کردار شاعر ہے یا کم از کم تخلص کا دُم چھلا ضرور لگائے پھرتا ہے۔ اس کی وضاحت اور دفاع میں ہم حضرت رئیس امروہی کا قولِ فیصل نقل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں "ہمارے معاشرے میں تخلص رکھنا اور تک بندی کرنا لازمہ تصّور کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے تخلص کے خاندانی شخص کو دُم کٹا بھینسا یا بے سینگوں کے بیل تصّور کیا جاتا تھا۔ امارت، فارغ البالی اور اقبال مندی کا دور کبھی کا ختم ہو چکا تھا۔ اب ہمارے بزرگوں کے لیے لطیف معاشرت اور لطافتِ معاشرہ صرف شطرنج بازی اور شعر طرازی میں رہ گئی تھی۔”