فہرست مضامین
- دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں
- انتخاب اور دیوناگری سے اردو اسکرپٹ: عامرصدیقی
- ان بْجھی پیاس، روح کی ہے غزل
- اپنی پہچان پا گئی، یارو
- ان بن اینٹوں میں کچھ ہوئی ہو گی
- آئینے پر پڑی جو نظر، ہم تو رو پڑے
- آدھی رات ادھورا چاند
- آئی ہو تم یہاں کیوں ہاتھوں میں لے کے پتھّر
- آمد آمد ہوئی گھٹاؤں کی
- آدمی کو کہاں خود کی پہچان ہے
- آگ میں جلتی بستیاں دیکھیں
- آؤ ہم تم ایسی نگری میں نیا اک گھر بنائیں
- آندھیوں کے بھی پر کترتے ہیں
- اِندردھنش سا رنگ برنگا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
- اس دیش سے غریبی ہٹ کر نہ ہٹ سکے گی
- اک سودابن کے رہ گئے ہو بار بار تم
- اک نشہ سا تو بے خودی میں ہو
- اینٹ گارے کا مکاں تھا نام امبر رکھ دیا
- انگلی تو دوستوں پہ اٹھایا نہ کیجیے
- اس پہ گذری ہے کیا، ڈوبیں جب کشتیاں
- بھلے ہی عمر میں تم سے بڑا ہوں
- اڑ گئے بال وپر اڑانوں میں
- اسے، عشق کیا ہے پتا نہیں
- اجڑا ہوا ہے میرا چمن، یا مرے خدا
- ایک صورت، ایک سیرت، اس کی بھی اور میری بھی
- ایسے لوگوں کے بیچ رہتی ہوں
- ایسے بھی غدّار جس میں ہوں سمن
- اوڑھے شبد لباس رے جو گی
- اوہ، ہوا آکے پتّے اڑا لے گئی
- اندھیرے نا امیدی کے جو چھائے ہیں مٹائیں گے
- اندھیری گلی میں میرا گھر رہا ہے
- آنسوؤں کی کہکشاں پر ناچتی مسکان ہے
- کہکشاں میں کہکشاں ہیں اور بھی
- کر گئی لودردِدل کی اس طرح روشن جہاں
- کیسی ہوا چلی ہے موسم بدل رہے ہیں
- کچھ نہ کہہ کر بھی سب کہا مجھ سے
- کتنے پئے ہیں درد کے آنسو بتاؤں کیا
- قسمت ہماری ہم سے ہی مانگے ہے اب حساب
- کھلے ہیں زخم پھولوں کی طرح ہر بار چٹکی میں
- خطا اب بنی ہے سزا کا فسانہ
- گفتگو ہم سے وہ کرے جیسے
- غم کے ماروں میں ملے گا، تم کو میرا نام بھی
- گھر میں وہ جب آیا ہو گا
- گھر سے تنہا جو آپ نکلیں گے
- چولھا ٹھنڈا پڑا ہے جس گھر کا
- چمن میں خود کو خاروں سے بچانا ہے بہت مشکل
- چراغوں نے اپنے ہی گھر کو جلایا
- چوٹ تازہ کبھی جو کھاتے ہیں
- چھوڑ آسانیاں گئیں جب سے
- جڑ پرانی سبھیتا کی، ہے ابھی تک گاؤں میں
- Related
- انتخاب اور دیوناگری سے اردو اسکرپٹ: عامرصدیقی
دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں
انتخاب اور دیوناگری سے اردو اسکرپٹ: عامرصدیقی
ان بْجھی پیاس، روح کی ہے غزل
خشک ہونٹوں کی تشنگی ہے غزل
نرم احساس مجھ کو دیتی ہے
دھوپ میں چاندنی لگی ہے غزل
اک عبادت سے کم نہِیں ہرگز
بندگی سی مجھے لگی ہے غزل
بولتا ہے ہر ایک لفظ اس کا
گفتگو یوں بھی کر رہی ہے غزل
مہرباں اس قدر ہوئی مجھ پر
میری پہچان بن گئی ہے غزل
اس میں ہِندوستاں کی خوشبو ہے
اپنی دھرتی سے جب جڑی ہے غزل
اس کا شرنگار کیا کروں دیوی
سادگی میں بھی سج رہی ہے غزل
اپنی پہچان پا گئی، یارو
میری ہستی ہی جب مٹی، یارو
ساتھ میں تھا ہجوم سوچوں کا
بھیڑ سے میں گھری رہی، یارو
بن گئی ایک خوشنما ٹیکا
دھول ماتھے سے جب لگی، یارو
میں جو ڈوبی کبھی خیالوں میں
اک غزل مجھ سے ہو گئی، یارو
بادلوں میں چھپا لیا چہرہ
شرم سی چاند کو لگی، یارو
دیکھ کرعکس، آئینہ چونکا
تھی یہ دیوی کہاں چھپی، یارو
ان بن اینٹوں میں کچھ ہوئی ہو گی
یوں نہ دیوار وہ گری ہو گی
پختہ ہوں گی کہاں سے دیواریں
کچھ ملاوٹ کہیں رہی ہو گی
بیتے کل کی تھی ایک حصہ جو
آج اتہاس وہ بنی ہو گی
گھر بکھرتا ہے تو یہی جانو
ٹوٹی پختہ کڑی کوئی ہو گی
تیور اس کے کئی رہے ہوں گے
انگلی جب اور پہ اٹھی ہو گی
درد سے وہ تڑپ اٹھا، دیوی
دل پہ چوٹ ایسی کچھ لگی ہو گی
آئینے پر پڑی جو نظر، ہم تو رو پڑے
بگڑا ہوا تھا عکس مگر، ہم تو رو پڑے
سودا کیا تو داؤ پہ خود کو ہی رکھ دیا
تم نے نہ چھوڑی کوئی کسر، ہم تو رو پڑے
ٹھہراؤ کی تلاش میں بھٹکا کئے بہت
اب زندگی گئی جو ٹھہر، ہم تو رو پڑے
دی دستکیں ہزار، پکارا کئے مگر
اس پر ہوا نہ کچھ بھی اثر، ہم تو رو پڑے
دیوی گیا وہ چھوڑ کے اک ایسے موڑ پر
سوجھا نہ ہم کو جائیں کدھر، ہم تو رو پڑے
آدھی رات ادھورا چاند
میں تنہا اور تنہا چاند!
روشن ہو گئی دل کی بستی
میری گلی جب آیا چاند!
چھلول کر کے چھپ جاتا ہے
آنکھ سے آنکھ چراتا چاند!
جھیل میں اترا چاند سا چہرا
دیکھ اسے شرمایا چاند!
دل کے تال پہ دھڑکن ناچی
چھم چھم چھم چمکا جب چاند!
بے موسم وہ ڈوب گیا تھا
پانی میں جب اترا چاند
خوابوں کے صحرا میں کھویا
پچھلے پہر جب سویا چاند
آئی ہو تم یہاں کیوں ہاتھوں میں لے کے پتھّر
بستی ہے مفلسوں کی، شیشے کے یہ نہیں گھر
پابندیاں یہاں ہیں رسموں روایتوں کی
چلتی ہوں اس لئے میں تیری ڈگر سے ہٹ کر
صحرا کی دھوپ سر پر، تلوؤں میں بھی ہیں چھالے
شدّت ہے تشنگی کی، چھلتے سراب اس پر
زندہ ضمیر جن کا، ڈرتے نہیں وہ سچ سے
چلتے ہیں کھوٹے من کے، تو آئینوں سے بچ کر
رہبر بنا کسی کو منزل کہاں ملی ہے
ہم کب سے چل رہے ہیں راہیں بدل بدل کر
محفل میں سب سے دیوی ہنس کر ملی ہے لیکن
تنہائیوں میں روئی خود سے لپٹ لپٹ کر
آمد آمد ہوئی گھٹاؤں کی
ٹھنڈک اچھّی لگی ہواؤں کی
لوگ نکلے ہیں سرخرو ہو کر
سر پہ جن کے دعا ہے ماؤں کی
ڈر سے پیلے ہوئے سبھی پتّے
آہٹیں جب سنی خزاؤں کی
بے گناہی تو میری ثابت ہے
پھر سزائیں ہیں کن خطاؤں کی
کہہ کے دیوی مجھے پکارا ہے
گونج اب تک ہے ان صداؤں کی
آدمی کو کہاں خود کی پہچان ہے
اپنے فن سے، ہنر سے بھی انجان ہے
بن نہ پایا ہے وہ ایک انسان تک
آدمی ہیں کہاں وہ تو شیطان ہے
وہ جو انسان تھا اک فرشتہ بنا
آدمیّت کا اب وہ نگہبان ہے
اپنے منہ کا نوالہ مجھے دے دیا
وہ خدا ہے، غریبوں کا رحمان ہے
لڑکھڑا کر اٹھا، گر گیا، پھر اٹھا
ہاں یہی آگے بڑھنے کی پہچان ہے
جاں کی پروا نہ کی، سرحدوں پر لڑا
دیش کی آن سے بڑھ کے کیا جان ہے ؟
پیٹ پر لات دیوی نہ مارو کبھی
چھینتا ہے جو روٹی وہ شیطان ہے
آگ میں جلتی بستیاں دیکھیں
جو بھی دیکھی وہ جھگّیاں دیکھیں
فاصلوں سے جوپاس پاس لگیں
جاکے نزدیک دوریاں دیکھیں
جھانکتے جن سے تھے حسیں چہرے
آج وہ بند کھڑکیاں دیکھیں
ہم نے محفل میں رہنے والوں میں
چھوٹے دل والی ہستیاں دیکھیں
اٹھتی کندھوں پہ بے یقینی کے
کچھ یقینوں کی ار تھیاں دیکھیں
روز اخبار میں چھپی’ دیوی’
خون آلودہ سرخیاں دیکھیں
آؤ ہم تم ایسی نگری میں نیا اک گھر بنائیں
ہوں جہاں کے لوگ زندہ، زندہ ان کی بھاونائیں
تھرتھراتے ہونٹ میرے کچھ کہیں، کچھ کہہ نہ پائیں
سنتے آئے ہم تو لوگوں سے کئی ایسی کتھائیں
دل ہی دل میں آزمانے کی تمنّا چھوڑ کر بھی
آئینے سے اصلیت چہروں کی ہم کیسے چھپائیں
کیوں لگایا بے بسوں کی ان قطاروں میں مجھے بھی
سہہ نہیں پاتا ہے دل دیکھوں جو ان کی ویدنائیں
گیت جو گہرائیوں میں میں نے کھوکر پا لیا تھا
گونج اس کی گھیرے مجھ کو ایسے جیسے ارچنائیں
دور تک غم کے گھروندے دیکھ کر گھبرا گیا دل
اب خوشی کے ہیرے موتی ہم کہاں سے ڈھونڈھ لائیں
کر دیا مایوس کیوں دیوی کو تو نے زندگی سے
تیری چوکھٹ پر نہ جانے کتنی کی ہیں پرارتھنائیں
آندھیوں کے بھی پر کترتے ہیں
حوصلے جب اڑان بھرتے ہیں
غیر توغیر ہیں چلو چھوڑو
ہم تو بس دوستوں سے ڈرتے ہیں
زندگی اک حسین دھوکا ہے
پھر بھی ہنس کر سلوک کرتے ہیں
راہ روشن ہو آنے والوں کی
ہم چراغوں میں خون بھرتے ہیں
خوف طاری ہے جن کی دہشت کا
لوگ انہیں کو سلام کرتے ہیں
کل تلک سچ کے راستوں پر تھے
جھوٹ کی رہ سے اب گذرتے ہیں
ہم بھلا کس طرح سے بھٹکیں گے
ہم تو روشن ضمیر رکھتے ہیں
آدمی دیوتا نہیں پھر بھی
بن کے شیطان کیوں وچرتے ہیں
اِندردھنش سا رنگ برنگا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
پہنے جھینی چنری لہنگا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
کھیتوں میں چاروں ہی جانب فصل پکی تھی سونے جیسی
اس جیسا ہی لہراتا سا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
پھولوں کے زیور پہنے جب شوخ جوانی ناچ رہی تھی
درپن میں خودکو جو دیکھا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
کجراری ان آنکھوں سے جب میں نے چور کی چوری پکڑی
ترچھے نینوں سے جو دیکھا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
انگلی تھامے بابا کی میں، میلوں دور نکل آئی جب
ہاتھ تھا چھوٹا، دل تھا دھڑکا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
تاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے نت نت میں تکتی تھی
شرم وحیا سے ٹم ٹم کرتا، یاد آیا ہے بچپن مجھ کو
اس دیش سے غریبی ہٹ کر نہ ہٹ سکے گی
مضبوط اس کی جڑ ہے، ہل کر نہ وہ ہلے گی
دھنوان اور بھی کچھ دھنوان ہو رہا ہے
مفلس کی زندگانی، غربت میں ہی کٹے گی
چاروں طرف سے شعلے نفرت کے اٹھ رہے ہیں
اس آگ میں یقیناً، انسانیت جلے گی
نعروں کا دیش ہے یہ، ا ک شور سا مچا ہے
فریاد جو بھی ہو گی، وہ ان سنی رہے گی
ساون کا لینا دینا دیوی نہیں ہیں اس سے
صحرا کی پیاس ہیں یہ، بجھ کر نہ بجھ سکے گی
اک سودابن کے رہ گئے ہو بار بار تم
ایمان اپنا بیچتے ہو بار بار تم
ناکامیوں کی تم نے بنا لی ہے عادتیں
پاپڑ ابھی بھی بیلتے ہو بار بار تم
گھر تک تمھارے آگ یہ پہنچے گی دیکھنا
گھر مفلسوں کا پھونکتے ہو بار بار تم
کوزہ گری کے فن سے تمھیں واسطہ نہیں
مٹّی سے پھر بھی کھیلتے ہو بار بار تم
حیران ہوں کہ تم کو ذرا بھی نہیں ملال
دل سے ہمارے کھیلتے ہو بار بار تم
میں نے انا کی آگ میں خودکو جلا لیا
گھی مسکراکے ڈالتے ہو بار بار تم
دیوی سمیٹ لو کبھی، خود کو سنبھال لو
بکھرا وجود دیکھتے ہو بار بار تم
اک نشہ سا تو بے خودی میں ہو
حسن ایسا بھی سادگی میں ہو
دے سکے جو خلوص کا سایہ
ایسی خوبی تو آدمی میں ہو
شک کی بنیاد پر محل کیسا
کچھ تو ایمان دوستی میں ہو
دکھ کے ساگر کو خشک جو کر دے
ایسا کچھ تو اثر خوشی میں ہو
خودبخود آ ملے خدا مجھ سے
کچھ تو احساس بندگی میں ہو
اپنی منزل کو پا نہیں سکتا
وو جو گمراہ روشنی میں ہو
سارے مطلب پرست ہیں دیوی
کچھ مروّت بھی تو کسی میں ہو
اینٹ گارے کا مکاں تھا نام امبر رکھ دیا
رشتوں کے تنکوں سے میں نے گھر کو بھر کر رکھ دیا
میں ہوئی قائل اسی دن سے نئے اس نام کی
’’جب سے تم نے رہزنوں کا نام رہبر رکھ دیا‘‘
جانے کیا امّید لے کر سامنے وہ آ گئی
پاس میرے کچھ نہ تھا، بس ہاتھ سر پر رکھ دیا
زندگی سے مات کھاتا ہی رہا ہر موڑ پر
نام جس کا پیار سے ماں نے سکندر رکھ دیا
مسکراتی ڈال پر کچھ پھول ہنس کر کھل اٹھے
میں نے چھو چھو کر ادھر سے پیار ان پر رکھ دیا
تھا کوئی بے نام شاطر، جرم سے واقف بہت
جرم کا الزام اس نے میرے سر پر رکھ دیا
بھوک بھی کیا کیا کراتی ہے، نہیں تم جانتے
ہر کسی رہزن کا اس نے سر کچل کر رکھ دیا
درد کا جب باندھ ٹوٹا اشک بہتے ہی رہے
نام ان دھاراؤں کادیوی سمندر رکھ دیا
انگلی تو دوستوں پہ اٹھایا نہ کیجیے
یہ دوستی ہے، ایسے نبھایا نہ کیجیے
ڈر ہے کہ روٹھ جائیں نہ سب آپ سے کہیں
آئینہ دوستوں کو دکھایا نہ کیجیے
جو راکھ کے تلے ہیں، مگر دے رہے ہیں آنچ
وہ زندگی کی آنچ بجھایا نہ کیجیے
جو چھوڑ کر گئے ہیں تمھیں راہِ درد پر
یوں ان کا جشن آپ منایا نہ کیجیے
مدّت کے بعد زخم کی، لگ جائے جب بھی آنکھ
آہٹ سے اپنی اس کو جگایا نہ کیجیے
گلشن اجڑ گیا ہے جوفصلِ بہار میں
تہمت خزاں پہ آپ لگایا نہ کیجیے
موجوں میں ڈوب جائیں تو دیوی نہیں ملال
ساحل پہ آکے ہاتھ چھڑایا نہ کیجیے
اس پہ گذری ہے کیا، ڈوبیں جب کشتیاں
کون سمجھے گا مانجھی کی مجبوریاں
ٹکڑے ٹکڑے ہوا آدمی ٹوٹ کر
حوصلہ ٹوٹ کر رہ گیا ہے جہاں
زندگی کو سمجھنا تو آساں نہیں
کھیل بچّوں کا سمجھو نہ اس کو میاں
کانپتے ہاتھ میں ہوں گی پتوار جب
کیا بچا پائے گا ناخدا کشتیاں
سانپ سمجھے جوبھولے سے رسّی کو ہم
کھلکھلا کر ہنسا ہے اندھیرا وہاں
اک نظر کا ہے دھوکا، نہیں اور کچھ
جس کو سمجھا کئے آج تک آسماں
کچے دھاگوں کے رشتے میں دیوی بندھے
سنیہ کے ہیں یہ بندھن، نہیں بیڑیاں
بھلے ہی عمر میں تم سے بڑا ہوں
ہے قد اونچا تمہارا جانتا ہوں
اسی سے روبرو میں ہو رہا ہوں
وہ جس کے سائے سے گھبرا گیا ہوں
اڑ گئے بال وپر اڑانوں میں
سر پٹکتے ہیں آشیانوں میں
جل اٹھیں گے چراغ پل بھر میں
شدتیں چاہیں ترانوں میں
نذرِ بازار ہو گئے رشتے
گھر بدلنے لگے دکانوں میں
دھرم کے نام پر ہوا پاکھنڈ
لوگ جیتے ہیں کن گمانوں میں
کٹ گئے بال و پر، مگر ہم نے
نقش چھوڑے ہیں آسمانوں میں
ولولے سو گئے جوانی کے
جوش باقی نہیں جوانوں میں
بڑھ گئے سوارتھ اس قدردیوی
ایک گھر بٹ گیا گھرانوں میں
اسے، عشق کیا ہے پتا نہیں
کبھی شمع پر جو جلا نہیں
وو جو ہار کر بھی ہے جیتتا
اسے کہتے ہیں، وہ جوانہیں
ہے ادھوری سی مری زندگی
مرا کچھ تو پورا ہوا نہیں
نہ بجھا سکیں گی یہ آندھیاں
یہ چراغِ دل ہے دیا نہیں
مرے ہاتھ آئیں برائیاں
مری نیکیوں کو گلہ نہیں
میں جوعکس دل میں اتار لوں
مجھے آئینہ وہ ملا نہیں
جو مٹا دے دیوی اداسیاں
کبھی سازِدل یوں بجا نہیں
اجڑا ہوا ہے میرا چمن، یا مرے خدا
مرجھائے یاد کے ہیں سمن، یا مرے خدا
جلتا ہے آگ میں یہ بدن، یا مرے خدا
اوڑھے بنا ہی اب تو کفن، یا مرے خدا
منظور وہ خوشی سے کیا جو ملا مجھے
آیا ہے بخشنے کا چلن، یا مرے خدا
اپنے وطن سے دور میرا رو رہا ہے دل
اٹکا ہوا اسی میں ہے من، یا مرے خدا
دیوی ہے دریا آگ کا دل میں مرے رواں
محسوس کر رہی ہوں جلن، یا مرے خدا
ایک صورت، ایک سیرت، اس کی بھی اور میری بھی
اور اک جیسی ہے قسمت، اس کی بھی اور میری بھی
کچھ خیانت گھل گئی ہے، آجکل ہم دونوں میں
اب نہیں پہلی سی نیّت، اس کی بھی اور میری بھی
جب ستمگر میرا منصف بن کے آیا سامنے
دیکھنے لائق تھی حالت، اس کی بھی اور میری بھی
لیجیے سازش میں شامل ہو گئی ہے زندگی
یوں کہاں بگڑی تھی قسمت، اس کی بھی اور میری بھی
موقع پا کر ہم نہ چوکے وار کرنے سے کبھی
سچ ہے یہ، وہ تھی شرارت، اس کی بھی اور میری بھی
مٹ گئے وہ سارے شکوے کل تلک حائل تھے جو
زندگی ہے اب توجنّت، اس کی بھی اور میری بھی
کر رہے ہیں مل کے روشن دیپ عبادت گاہ کے
خوب ہے یوی عبادت، اس کی بھی اور میری بھی
ایسے لوگوں کے بیچ رہتی ہوں
زخم کھاکر نہ آہ بھرتی ہوں
جب سے دیکھی ہے پیار کی شدّت
دور میں نفرتوں سے رہتی ہوں
پیار کی تشنگی غضب کی ہے
خوب پی کر بھی پیاسی رہتی ہوں
آشیانے بنا کے تنکوں سے
آندھیوں سے بچا کے رکھتی ہوں
کیوں تڑپتا ہے وہ، خدا جانے
دل کا میں حال جب بھی کہتی ہوں
دھوپ میں خود کا دیکھ کر سایہ
اپنی اوقات یاد رکھتی ہوں
دیوی رشتہ ہے کیا نہیں معلوم
جب وہ جلتا ہے میں بھی جلتی ہوں
ایسے بھی غدّار جس میں ہوں سمن
وو کبھی خوشبونہیں دیتا چمن
مل کے بہتی ہیں جہاں گنگ و جمن
حامیِ امن واماں میرا وطن
اب تو بندوقیں کھلونا بن گئیں
ہو گیا ویران بچپن کا چمن
دہشتیں رقصاں ہیں روزو شب یہاں
کب سکوں پائیں گے میرے ہم وطن
دیش کی خاطر جو ہو جائیں شہید
ایسے جانبازوں کو دیوی کا نمن
اوڑھے شبد لباس رے جو گی
آئی غزل ہے راس رے جو گی
دھوپ میں پاس رہے پرچھائیں
شام کو لے سنیاس رے جو گی
آیا نظر جو چھل سے جل میں
چاند لگا تھا پاس رے جو گی
ہمّت ٹوٹی، دل بھی ٹوٹا
ٹوٹا جب وشواس رے جو گی
صحرا کے لب سے جا پوچھو
ہوتی ہے کیا پیاس رے جو گی
زیست نے جب گیسو بکھرائے
کھویا ہوش و حواس رے جو گی
شبدوں کے اس شور کو سن کر
پھٹکے ارتھ نہ پاس رے جو گی
دیوی، ویرتھ گنواؤ نہ اس کو
پونجی اک اک سواس رے جو گی
اوہ، ہوا آکے پتّے اڑا لے گئی
شاخِ گل کو بھی آخر دغا دے گئی
کس قدر منتظر بزم میں تھے سبھی
ہر نظر دستکوں کی صدا دے گئی
صاف انکار کرنا تواچھا نہ تھا
کچھ امّیدوں کا وہ سلسلہ دے گئی
جو سمجھتی رہی وہ نہیں تُو رہا
تیری پہچان تیری جفا دے گئی
موج گھبراکے ساحل سے ٹکرائی یوں
آنے والا ہے طوفاں، پتا دے گئی
شوخیوں کا ارادہ دھرا رہ گیا
میری مسکان مجھ کو دغا دے گئی
ہجر کی آگ میں دل سلگتا رہا
یاد رہ رہ کے دیوی ہوا دے گئی
اندھیرے نا امیدی کے جو چھائے ہیں مٹائیں گے
امّیدوں کے چراغوں سے جہاں کو جگمگائیں گے
پرندوں کے دلوں میں جذبۂ تعمیر ہے زندہ
جلائیں بجلیاں تو کیا، نشیمن پھر بنائیں گے
دھماکوں سے دراڑیں جوزمینِ دل پہ آئی ہیں
انھیں پھر سے بھریں گے ہم، کرشمہ کر دکھائیں گے
جلے ہیں دل، جلے ہیں گھر، فقط اب راکھ باقی ہے
کہاں تک آگ پھیلی ہے، یہ دنیا کو بتائیں گے
جہاں آبادیاں تھیں کل، وہیں ویرانیاں اب ہیں
انھیں آباد کر کے پھر نئی دنیا بسائیں گے
گزارے جھوم کر، گاکر جو ساون ساتھ دیوی کے
قسم ان ساونوں کی ہے، نہ ہم آنسو بہائیں گے
اندھیری گلی میں میرا گھر رہا ہے
جہاں تیل باتی بنا اک دیا ہے
جو روشن میری آرزو کا دیا ہے
میرے ساتھ وہ میری ماں کی دعا ہے
عجب ہے، اسی کے تلے ہے اندھیرا
دیا ہر طرف روشنی بانٹتا ہے
یہاں میں بھی مہمان ہوں اورتُو بھی
یہاں تیرا کیا ہے، یہاں میرا کیا ہے
کھلی آنکھ میں خواہشوں کا سمندر
نہ انجام جن کا کوئی جانتا ہے
جہاں دیکھ پائی نہ اپنی خودی میں
نہ جانے وہیں میرا سر کیوں جھکا ہے
تجھے وہ کہاں دیوی باہر ملے گا
دھڑکتے ہوئے دل کے اندرخدا ہے
آنسوؤں کی کہکشاں پر ناچتی مسکان ہے
دیدنی ہے یہ نظارہ، کیا خدا کی شان ہے
کانچ کا میرا بھی گھر ہے، پتھّروں کے شہر میں
اس پہ آنچ آئے نہ کوئی، اس کا اب بھگوان ہے
اس کی خاطر ہیں کھلے، دل کے دریچے آج بھی
بیتا کل، یادوں کے آنگن میں میرا مہمان ہے
درد سانجھا ہے سبھی کا، تیرا، میرا، غیر کا
کون غم سے کس کے ایسا ہے کہ جو انجان ہے
کھینچتا ہے کیوں گناہوں کی ہمیں دلدل میں پھر
دوست، پہلے ہی تیرا ہم پر بڑا احسان ہے
کون سا ڈر ہے دلوں میں، سہمے سہمے ہیں سبھی
دم ہیں سب سادھے ہوئے، خطرے میں سب کی جان ہے
کڑوے سچ کی گھونٹ پی کر دل ہوادیوی دھواں
یہ گھٹن دل میں دبا رکھنا کہاں آسان ہے
کہکشاں میں کہکشاں ہیں اور بھی
ان میں پوشیدہ جہاں ہیں اور بھی
ہے بھراخوشیوں سے دامن پھر بھی کیوں
درد لیتی سسکیاں ہیں اور بھی
سن رہے ہو غیب کی آوازکیا؟
راز ہستی کے عیاں ہیں اور بھی
جاکے ان کی ترجمانی کیجیے
مجھ سے بڑھ کر بے زباں ہیں اور بھی
ہم یقیں کی راہ پر آگے بڑھیں
راستے تو بے نشاں ہیں اور بھی
ایک ہو تو ہم اسے سلجھا بھی لیں
الجھی الجھی گتھّیاں ہیں اور بھی
ایک دو دینے سے چھٹکارا کہاں
زندگی کے امتحاں ہیں اور بھی
ان کی دولت کی اکیلے تم نہیں
اسکے دیوی راز داں ہیں اور بھی
کر گئی لودردِدل کی اس طرح روشن جہاں
کوندتی ہے بادلوں میں جس طرح برقِ تپاں
سانس کا ایندھن جلایا، تب کہیں وہ لو جلی
دیکھ کر جس کو تڑپتی رات کی بے چینیاں
وہ جلی، جل کر بجھی، پھر خودبخود ہی جل اٹھی
بجھ نہ پائی شمع دل کی، آئیں کتنی آندھیاں
اتنی ہی گہرائی میں وہ گرتا ہے خود ایک دن
کھودتا جتنا جو اوروں کیلئے گہرا کنواں
کھو گیا تھا کل جو بچپن، آج پھر لوٹ آیا ہے
گونج اٹھیں آنگن میں میرے، پھر وہی کلکاریاں
بے زباں کیا کہہ رہا ہے کچھ سنو، سمجھو ذرا
ان سنا کر کے نہ لادو اس پہ ذمے داریاں
میں نے موسم کی پڑھی اخبار میں دیوی خبر
تھی خبریہ، باڑھ میں محفوظ تھا میرا مکاں
کیسی ہوا چلی ہے موسم بدل رہے ہیں
سر سبز پیڑ جن کے سائے میں جل رہے ہیں
وعدہ کیا تھا ہم سے، ہر موڑ پر ملیں گے
رسوائیوں کے ڈر سے اب رخ بدل رہے ہیں
چاہت، وفا، محبت کی ہو رہی تجارت
رشتے تمام آخر سکّوں میں ڈھل رہے ہیں
شادی کی محفلیں ہوں یا جنم دن کسی کا
سب کے خوشی سے، دل کے ارماں نکل رہے ہیں
شہروں کی بھیڑ میں ہم تنہا کھڑے ہیں دیوی
بے چہرہ لوگ سارے خودکو ہی چھل رہے ہیں
کچھ نہ کہہ کر بھی سب کہا مجھ سے
جانے کیا تھا اسے گلا مجھ سے
دیکھ کر بھی کیا تھا ان دیکھا
وہ سرِراہ جو ملا مجھ سے
کیا لکیروں کی کوئی سازش تھی
رکھ رہی ہیں تجھے جدا مجھ سے
خود تو ڈھاتا ہے وہ جفا مجھ پر
چاہتا پھر بھی ہے وفا مجھ سے
چند سانسوں کی دے کے مہلت یوں
زندگی چاہتی ہے کیا مجھ سے
خامشی دیوی کتنی ظالم تھی
پتھّروں کو گئی ملا مجھ سے
کتنے پئے ہیں درد کے آنسو بتاؤں کیا
یہ داستانِ غم بھی کسی کو سناؤں کیا؟
رشتوں کے آئینے میں دراڑیں ہیں پڑ گئیں
اب آئینے سے اپنا ہی چہرا چھپاؤں کیا؟
دشمن جو آج بن گئے، کل تک تو بھائی تھے
مجبوریاں ہیں میری، میں ان سے چھپاؤں کیا؟
چاروں طرف سے تیز ہواؤں میں ہوں گھری
ان آندھیوں کے بیچ میں دیپک جلاؤں کیا؟
دیوانگی میں کٹ گئی موسم بہار کے
اب پت جھڑوں کے خوف سے دامن بچاؤں کیا؟
سازش مرے خلاف مرے دوستوں کی تھی
الزام دشمنوں پہ میں دیوی لگاؤں کیا؟
قسمت ہماری ہم سے ہی مانگے ہے اب حساب
ایسے میں تم بتاؤ کہ ہم دیں بھی کیا جواب
اچھائیاں، برائیاں دونوں ہیں ساتھ ساتھ
اس واسطے حیات کی رنگین ہے کتاب
گھر بار بھی یہیں ہے، تو پریوار بھی یہیں
گھر سے نکل کے دیکھا تو دنیا ملی خراب
پوچھوں گی ان سے اتنے زمانے کہاں رہے
مجھ کو اگر ملیں گے کہیں بھی وہ بے نقاب
مسکاتے مند مند ہیں ہر اک سوال پر
ہر اک ادا جواب کی ان کی ہے لاجواب
پگھلے جو درد دل کے، سیلاب بن بہے
آنکھوں کے اشک بن گئے میرے لئے شراب
دیوی سروں کو رکھ دیا میں نے سنبھال کر
جب دل نے میرے سن لیا بجتا ہوا رباب
کھلے ہیں زخم پھولوں کی طرح ہر بار چٹکی میں
لہو رسنے لگا تو یاد آیا خار چٹکی میں
ہوا کرتا ہے راحت کا یہاں بیوپار چٹکی میں
مگر ہوتی سرِ بازار ہے تکرار چٹکی میں
سجا کر شامیانے خواب میں، میں نے رکھے اکثر
کھلی جو نیند میری تو ہوئی مسمار چٹکی میں
عجب ہے کھیل شطرنجی، ہنساتا ہے، رلاتا ہے
کسی کی جیت چٹکی میں، کسی کی ہار چٹکی میں
سجائی سیج شبدوں نے، میری سوچوں کے سینے پر
رچا شبدوں کا یہ کیسا نیا سنسار چٹکی میں
کڑی سی دھوپ میں تپ کر جو لو بن کر تڑپ اٹھی
بڑھی صحرا کے لب کی پیاس سو سو بار چٹکی میں
میرا ہمدردبن کر آ گیا جو سامنے دیوی
کیا مجھ پر فریبی نے یہ کیسا وار چٹکی میں
خطا اب بنی ہے سزا کا فسانہ
بتاؤں تمھیں کیا ہے دل کا لگانا
ہوا میں نہ جانے یہ کیسا نشہ ہے
پئے بن ہی جھومے ہے سارا زمانہ
یہاں روز سجتی ہے خوشیوں کی محفل
مچلتا ہے لب پرخوشی کا ترانہ
سدا گھومتے ہیں سرِعام خطرے
بہت ہی ہے دشوارخود کو بچانا
کریں کیسے اپنے پرائے کی باتیں
دلوں نے اگر دل سے رشتہ نہ مانا
گفتگو ہم سے وہ کرے جیسے
خامشی کے ہیں لب کھلے جیسے
تجھ سے ملنے کی یہ سزا پائی
چاندنی دھوپ سی لگے جیسے
توڑتا دم ہے جب بھی پروانہ
شمع کی لو بھی رو پڑے جیسے
یوں خیالوں میں پختگی آئی
بیج سے پیڑ بن گئی جیسے
یہ تو نادانی میرے دل نے کی
اور سزا مل گئی مجھے جیسے
یاد دیوی کو ان کی کیا آئی
زخم تازہ کوئی لگے جیسے
غم کے ماروں میں ملے گا، تم کو میرا نام بھی
دل شکستوں میں ملے گا تم کو میرا نام بھی
جو خبر رکھتے ہیں سب کی خود سے لیکن بے خبر
ان ادیبوں میں ملے گاتم کو میرا نام بھی
بھیشم بن کر سو رہے ہیں سیج پر کانٹوں کی جو
ان صلیبوں میں ملے گاتم کو میرا نام بھی
دھن کی دولت کی بدولت رہ گئے کنگال جو
ان غریبوں میں ملے گاتم کومیرا نام بھی
انتہائی ظلم پر بھی ضبط سے سیتے ہے لب
ان شریفوں میں ملے گاتم کو میرا نام بھی
ہارسے پہلے یقیں تھا جن کو اپنی جیت کا
ان یقینوں میں ملے گاتم کو میرا نام بھی
ہاتھ پھیلاتے نہیں دیوی جو در پرغیر کے
ان فقیروں میں ملے گا تم کو میرا نام بھی
گھر میں وہ جب آیا ہو گا
خوشبو سے گھر مہکا ہو گا
اس نے زلف کو جھٹکا ہو گا
پیار کا ساون برسا ہو گا
سانسوں میں ہے اس کی خوشبو
اس جانب وہ گذرا ہو گا
کلیاں ساری مسکاتی ہیں
ان پہ یوون آیا ہو گا
جھن جھن جھن جھنکار کرے دل
اس نے ساز بجایا ہو گا
مجھ کو سنورتا دیکھ کے درپن
من ہی من شرمایا ہو گا
دل کے درپن میں اے دیوی
عکس نرالا آیا ہو گا
گھر سے تنہا جو آپ نکلیں گے
حادثے ساتھ ساتھ چل دیں گے
حوصلوں کو نہ میرے للکارو
آندھیوں کو بھی پست کر دیں گے
ہر طرف حادثوں کا ہے جمگھٹ
موت کے گھاٹ کب وہ اتریں گے
ان پہ پتھر جو پھینکیں اپنے ہی
کیوں نہ شیشے یقیں کے ٹوٹیں گے
ہو گا جب صاف آئینہ دل کا
لوگ تب خود کو جان پائیں گے
جو مکمّل ہو آشیاں دل کا
پھر تو ہم بے در نہ بھٹکیں گے
ریت پر گھر بنے ہیں رشتوں کے
تیز جھونکوں سے وہ تو بکھریں گے
تب کلیجہ پھٹے گا آدم کا
خون انسانیت کا دیکھیں گے
چولھا ٹھنڈا پڑا ہے جس گھر کا
سمجھو غربت کا ہے وہاں پہرا
سوچ بدلے نہ کیوں لباس اپنا
ہے نظریہ جدا جدا سب کا
ناری ہوتی ہے مان گھر گھر کا
وہ مکاں کو بنائے گھر جیسا
ہے کھلے عام بکتی مجبوری
آج کچھ چاہیے تو بس پیسا
دیوی بے دردزندگی تو نہیں
ہے کرم اس کا سب یہ اک جیسا
چمن میں خود کو خاروں سے بچانا ہے بہت مشکل
بنا الجھے گلوں کی بو کو پانا ہے بہت مشکل
کسی بھی ماہ رُو پر دل کا آنا ہے بہت آساں
کسی کے ناز نخروں کو اٹھانا ہے بہت مشکل
نہ چھوڑی چور نے چوری، نہ چھوڑا سانپ نے ڈسنا
یہ فطرت ہے توفطرت کو بدلنا ہے بہت مشکل
کسی کو کر کے وہ برباد خود آباد ہو کیسے
چرا کر چین اوروں کا تو جینا ہے بہت مشکل
گلے میں جھوٹ کا پتھّر کچھ اٹکا اس طرح دیوی
نگلنا ہے بہت مشکل، اگلنا ہے بہت مشکل
چراغوں نے اپنے ہی گھر کو جلایا
کہ حیراں ہے اس حادثے پر پرایا
کسی کو بھلا کیسے ہم آزماتے
مقدّر نے ہم کو بہت آزمایا
دیا جو میرے ساتھ جلتا رہا ہے
اندھیرا اسی روشنی کا ہے سایہ
رہی راحتوں کی بڑی منتظر میں
مگر چین دنیا میں ہرگز نہ پایا
سنبھل جاؤ اب بھی سمے ہے اے دیوی
قیامت کا اب وقت نزدیک آیا
چوٹ تازہ کبھی جو کھاتے ہیں
زخم دل اور مسکراتے ہیں
مے کشی سے غرض نہیں ہم کو
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتے ہیں
جن کو ویرانیوں ہی راس آئیں
کب نئی بستیاں بساتے ہیں
شام ہوتے ہی تیری یادوں کے
دیپ آنکھوں میں جھلملاتے ہیں
کچھ تو گستاخیوں کو مہلت دو
اپنی پلکوں کو ہم جھکاتے ہیں
تم توطوفاں سے بچ گئیں دیوی
لوگ ساحل پہ ڈوب جاتے ہیں
چھوڑ آسانیاں گئیں جب سے
ساتھ دشواریاں رہیں تب سے
لطف جینے کا پا لیا تب سے
درد سانسیں ہے لے رہا جب سے
اتنی گہری گھٹن میرے من کی
حرف نکلا نہ ایک بھی لب سے
رات بھر ایک پل نہ سو پائی
صبح کا انتظار تھا شب سے
جو میری سانس میں سمایا تھا
میں اسے مانگتی رہی رب سے
آہ بن کے ٹپک پڑے تارے
جن کا رشتہ رہا نہیں شب سے
غالب ومیر کتنے آئے گئے
شعر اب وہ نہیں رہے تب سے
اتنا ایمان تجھ پہ ہے دیوی
توڑ بیٹھی ہوں واسطہ سب سے
جڑ پرانی سبھیتا کی، ہے ابھی تک گاؤں میں
صبح ماں چکّی چلاتی، ہے ابھی تک گاؤں میں
ساگ روٹی، ساتھ میں مرچی ہری کا سواد، واہ!
جس کی خوشبو پیٹ بھرتی، ہے ابھی تک گاؤں میں
اس کے نیچے آج بھی چوپال لگتی ہے جہاں
اک پرانا پیڑ باقی، ہے ابھی تک گاؤں میں
آپادھاپی ہر جگہ، ہر شہر میں ہے آجکل
کچھ سکوں کچھ سادگی بھی، ہے ابھی تک گاؤں میں
شہر میں بدلے ہیں دیوی ارتھ مانوتا کے اب
آدمیّت پوجی جاتی، ہے ابھی تک گاؤں میں
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید