FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

دو ڈرامے

 

 

               اطہر پرویز

سابق لکچر ر۔ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی

 

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘،  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

 

 

محلے کی ہولی

 

 

ڈرامے میں کام کرنے والے

 

سوتر دھار:

نٹی:

لالہ تیج رام ، شہباز خان:دو دوست

سوشیلا:لالہ تیج رام کی بیٹی

خالدہ:شہباز خان کی بیٹی

لالہ جی کی بیوی:

خالدہ کی امی:

ننھا بچہ:لالہ تیج رام کا سب سے چھوٹا بیٹا

میر صاحب:شہباز خاں کے مخالف

حافظ جی:شہباز خاں کے درپردہ مخالف

پنڈت جی:

ٹھا کر گوبند رام، پنڈت رام سرن، محمود میاں

ایک لڑکا  اور بوڑھا دادا حلوائی

ایک تماشائی، ایک لڑکا

 

 

 

 

پہلا سین

 

(پردہ کھلتا ہے۔ سوتر دھار بیٹھے ہوئے پنڈت نہرو کی وصیت پڑھ رہے ہیں۔)

 

سوتر دھار:گنگا تو خاص بھارت کی ندی ہے۔ جنتا کی پیاری ہے۔ ہندوستان میں مختلف نسلوں کا آباد ہونا، ان کی امیدیں  اور  ان کے اندیشے ، ان کی ہار  اور  جیت کی کہانی، گنگا کے سینے میں چھپی ہوئی ہے۔ گنگا تو ہندوستان کی پرانی تہذیب کی نشانی ہے سدا بدلتی، سدا بہتی، پھر وہی گنگا کی گنا۔۔۔  وہ مجھے یاد دلاتی ہے۔ ہمالیہ کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں کی، گہری وادیوں کی، جن سے مجھے پیا رہے۔ ان کے نیچے زرخیز میدانوں کی ، جہاں کام کرتے میری زندگی گزر رہی ہے۔ میں نے صبح کی روشنی میں گنگا کو مسکراتے ، اچھلتے کودتے دیکھا ہے  اور دیکھا ہے شام کے سائے میں اداس، کالی سی چادر اوڑھے ہوئے ، جاڑوں میں سمٹی ہوئی آہستہ آہستہ بہتی سندر دھارا،  اور برسات میں دوڑتی ہوئی، سمندر کی طرح چوڑا سینہ لئے  اور سمندروں کی سی برباد کرنے کی طاقت لئے ہوئے۔ یہی گنگا، میرے لئے نشانی ہے ، بھارت کی قدیم تہذیب کی، جو آج تک بہتی ہوئی آئی ہے  اور جو زمانۂ حال میں سے گزرتی ہوئی مستقبل کے مہان ساگر  کی طرف بہتی چلی جا رہی ہے۔

(نٹی تیزی سے داخل ہوتی ہے۔)

نٹی:ارے یہ کیا گیتا کا پاٹھ ہو رہا ہے۔

سوتر دھار:یہ گیتا کا پاٹھ ہے یا پنڈت نہرو کی وصیت ہے۔ کبھی پڑھی ہو تو جانو بھی۔ تمہیں تو لڑنے سے ہی فرصت نہیں۔

نٹی:جی ہاں۔ پڑھے لکھے تو بس تم ہی ہو میں تو جاہل ہوں۔۔۔ مہمان ڈراما دیکھنے آ رہے ہیں  اور تم وصیت کا پاٹھ کر رہے ہو۔

سوتر دھار:مہمان!مہمان!!

نٹی:جی، ڈراما دیکھنے آ رہے ہیں ، جس کا آپ نے اشتہار کیا ہے۔

سوتر دھار:یہ تم بھی کیا بات کر رہی ہو۔ کیسا ڈراما؟

نٹی:تم اپنے دماغ کا علاج کراؤ۔

سوتر دھار:پھر وہی جھگڑے کی بات۔

نٹی:خیر اب اس بحث کو چھوڑو۔ڈرامے کا فیصلہ کرو۔

سوتر دھار:کون سا؟

نٹی:کوئی تاریخی ڈراما کرو اپنے دیش کے بار ے میں۔

سوتر دھار:تاریخی ڈرامے میں تو دقت ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ خاں صاحب  اور  لالہ جی کی دوستی کا ناٹک کریں۔

نٹی:اچھا تم ذرا دیکھنے والوں سے کچھ باتیں کرو۔ میں ایکٹروں کو جمع کرتی ہوں۔

سوتر دھار:ایکٹروں کو جمع کرو گی!!

نٹی:جی ہاں ایکٹروں کو جمع کروں گی۔ تم تو جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ میں نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ بڑوں کے لئے ڈراما کھیلا کرو۔ مگر تم بھلا ماننے والے ہو۔ بچوں کے ڈرامے میں کتنی مصیبت ہوتی ہے۔ ایک بچے کو پکڑ کر لاؤ تو دوسرا نکل جاتا ہے۔

سوتر دھار: اور پھر  ذرا ذرا سی بات پر رونے بھی تو لگتے ہیں۔

نٹی: اور کیا اب انھیں مناؤ۔ ہر ڈرامے میں انھیں منانے کے لئے کھلونے  اور  مٹھائی پر اور روپیہ خرچ کرو۔

سوتر دھار: اور کیا !

نٹی: اور کیا !۔۔۔ مزے میں کہتے ہو، لیکن ڈراما کرو گے بچوں کاہی۔پنڈت نہرو نے بچوں سے محبت کی، کہ سب ہی کو شوق ہو گیا۔

سوتر دھار:۔۔۔ چاہے سارے دن بچوں کو پیٹیں ، انھیں ننگا پھرائیں ، ا سکولوں میں انھیں اچھی تعلیم نہ دیں ، لیکن جلسے میں دیکھو، تقریر سنو تو گویا سارا دیش بچوں سے پریم کرتا ہے۔

نٹی:خیر چھوڑو تمہیں کون سمجھائے۔ میں تواب بچوں کو گھیرنے جاتی ہوں۔

(نٹی چلی جاتی ہے۔)

سوتر دھار:(حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے) آپ نے ٹیگور کا نام سنا ہے۔

ایک تماشائی:جی ہاں۔

سوتر دھار:شاعر اعظم ٹیگور نے اپنی کتاب ’’گریٹر انڈیا‘‘ میں بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ صرف ہندوؤں کی تاریخ نہیں ہے۔ صدیوں پہلے مسلمان اپنی مذہبی  اور  تہذیبی میراث لے کر آئے۔(اس درمیان میں کچھ عورتیں آ کر بیٹھ جاتی ہیں) اور یہاں کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اب انگریز اپنا سرمایہ لے کر آئے ہیں  اور اس کا جزو بن رہے ہیں۔ نیا ہندوستان کسی ایک مذہب یا نسل کے لوگوں کی جاگیر نہیں ہے۔ یہاں مختلف مذہبوں  اور تہذیبوں کو مل کر امن  اور  محبت کی زندگی بسر کرنا ہے۔

نٹی:ہٹ جاؤ۔ خاں صاحب کے گھرکی عورتیں آ رہی ہیں لالہ جی کے یہاں کی عورتوں سے ملنے۔

(نٹی  اور سوتر دھار ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ لالہ جی کے گھرکی عورتیں کھڑی ہو کر استقبال کرتی ہیں۔ خاں صاحب کے یہاں کی عورتیں برقع اتارتی ہیں۔)

سوشیلا:آؤ خالدہ!آؤ۔ دو دن سے تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔ آنکھیں پتھرا گئیں ڈیوڑھی دیکھتے دیکھتے۔

خالدہ:ارے کیا بتاؤں۔ دو روز سے اس سویٹر میں لگی ہوئی ہوں۔ اسی لئے نکلنا نہیں ہوا۔

سوشیلا:کس کا سویٹر؟

خالدہ:اس وقت بھی میں تو اسی کام سے آئی ہوں۔ کہاں ہیں لالہ چچا۔

لالہ جی:(اندر سے نکلتے ہوئے) ارے بھائی یہ کس کی آواز آ رہی ہے۔ کہیں خالدہ تو نہیں؟

خالدہ کی امی:ہاں آپ ہی کا ذکر تھا۔ آپ کی بڑی عمر ہو۔ ابھی خالدہ آپ کو یاد کر رہی تھی۔

خالدہ:جی چچا!میں سویٹر کا ناپ دیکھنے آئی ہوں۔

(خالدہ سویٹر کے ایک پلے کو لالہ جی کے پاس آ کر ناپتی ہے۔)

لالہ جی:ارے بیٹی!یہ کیا کر رہی ہو۔ ہم تو روئی کی بنڈی پہننے والے ہیں۔

خالدہ:کل سے آپ روئی کی بنڈی نہیں پہنیں گے۔

لالہ جی کی بیوی:ارے جس کی بھتیجی اتنا اچھا سویٹر بنتی ہو۔ وہ پھر روئی کی بنڈی کیوں پہنے۔

خالدہ کی امی: اور کیا !بڑے شوق سے بن رہی ہے۔ کہہ رہی ہے کہ اسی رنگ کا ابا کا سویٹر بھی بنوں گی تا کہ دونوں بھائیوں کے سویٹر ایک رنگ کے ہو جائیں۔

لالہ جی:اچھا یہ بات ہے۔ جیسے بیلوں کی جوڑی پر ایک ہی رنگ کی جھول ڈالی جاتی ہے۔

خالدہ کی امی: بھائی صاحب! آج وہ کہہ رہے تھے۔

لالہ جی کی بیوی:وہ کون؟بھابی!

خالدہ کی امی:تمہارے بھیا۔

(سب ہنستے ہیں۔)

لالہ جی:ہاں تو شہباز خاں کیا کہہ رہے تھے؟

خالدہ کی امی:کل اتوار ہے۔ نہر پر پکنک کے لئے جانا ہے۔ تیار ہو جائیے گا۔

لالہ جی:یہ شہباز خاں کی اتوار والی پکنک بھی خوب ہے۔ آندھی آئے ، طوفان آئے ، اس کی پکنک کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ مجھے تو کام ہے۔ اس بار میرا جانا تو مشکل ہے۔

لالہ جی کی بیوی:ارے بس اپنے نخرے چھوڑو۔ بڑا کام ہے۔ اب بھیا تمہارے کام کی وجہ سے پکنک پربھی اکیلے جائیں گے۔ خالدہ کہہ دینا بھیا سے کہ تمہارے چچا ضرور جائیں گے۔

لالہ جی:اچھا اگر بھیجنا ہے تو پوری ترکاری ضرور تیار کر دینا۔

لالہ جی کی بیوی:وہ تو تیار ہوہی جائے گی، مجھے خود خیال ہے۔

خالدہ:ابا کو آپ کے ہاتھ کی ترکاری اتنی  پسند ہے کہ جب آپ بھیج دیتی ہیں تو وہ  اور کچھ کھاتے ہی نہیں۔

خالدہ کی امی:بھابی کے ہاتھ کی ترکاری تو خیر اچھی ہوتی ہی ہے لیکن سب سے مزے کی چیز تو اچار ہے۔ ہاں ہم لوگوں نے اس ترکیب سے کتنی بار اچار ڈالا۔ پروہ مزا نہ آیا۔

سوشیلا:بس بس خالدہ رہنے بھی دو۔ اتنا رائی کا پربت نہیں بناتے۔

ننھا بچہ:(توتلاتے ہوئے) اچال میں لائی تو پلتی ہی ہے۔

(سب لوگ ہنستے ہیں۔۔۔ خالدہ بچے کو گود میں اٹھا کر پیار کرتی ہے۔)

پردہ گرتا ہے

 

 

 

 

دوسرا سین

 

(پردہ کھلتا ہے۔لالہ تیج رام کا گھر ہے۔)

 

لالہ تیج رام:ارے سوشیلا۔ وہ میرا سویٹر نہیں ملا۔

سوشیلا:یہاں تو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

لالہ تیج رام:ارے تجھے کیوں ملنے لگا۔ ارے بھئی سنتی ہونا۔ ذرا دیکھنا میرا سویٹر کہاں رکھا ہے؟

لالہ جی کی بیوی:اے لو۔۔۔ وہ تو یہ سامنے پڑا ہے۔ تمہاری آنکھیں ہیں کہ بٹن۔ ٹھیک سے دیکھو تو ملے بھی۔

لالہ جی:اچھالو۔ تم تو بھاشن دینے لگیں۔یہاں کام سے جانا ہے۔

(لالہ جی سوئیٹر پہنتے ہیں۔۔۔ اس درمیان میں کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔)

لالہ جی:(باہر نکلتے ہوئے)ارے سنتی ہو، میں آج ذرا دیر سے لوٹوں گا۔ ارے میر صاحب تم کہاں !مجھ سے کچھ کام ہے؟اس وقت کہاں نکل پڑے۔

میر صاحب:ارے لالہ جی! کیا بتاؤں۔ تمہارے لنگوٹیا یار شہباز خاں سے ٹھن گئی ہے اس کو بھیک نہ منگوا دی تو میرا نام بھی میر فراست علی نہیں ہے۔ بڑا پٹھان بنا پھر تا ہے۔

لالہ جی:ارے بھئی، چھوڑو اس جھگڑے کو۔ آپس کے تعلقات ٹھیک کر لو۔

میر صاحب:اب تو معاملہ عدالت میں طے ہو گا۔ کہہ دینا شہباز خاں سے۔

لالہ جی:ارے بھائی، شہباز خاں سے ہمارے بڑے گہرے تعلقات ہیں۔ وہ آدمی بڑا شریف ہے۔ تم بلاوجہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔

میر صاحب:یہ تومیں ہی کیا سارا محلہ جانتا ہے کہ آپ کے اس سے بڑے گہرے تعلقات ہیں  اور شہباز خاں نے آپ کو شیشے میں اتار لیا ہے  اور  لالہ جی ٹھہرے سیدھے سادے آدمی۔ اس کی گھات سے واقف نہیں۔ اب یہ حافظ جی آ رہے ہیں۔ ان سے پوچھ لیجئے۔

(حافظ جی داخل ہوتے ہیں۔)

حافظ جی:کیا بات ہے؟لالہ جی بڑا زوردار سوئیٹر نکالا ہے۔

لالہ جی:ارے بھائی۔ وہ ہماری بچی خالدہ ہے نا۔ شہباز خاں کی لڑکی۔اسی نے بنا ہے بچی کا شوق ہے  اور اس کی ضد ہے کہ قمیض کے اوپر پہنوں۔ اب تم جانتے ہو بچوں کی ضد تو رکھنا ہی پڑتی ہیں۔

حافظ جی:ہاں کیوں نہیں۔ لیکن میر صاحب سے کیا باتیں ہو رہی ہیں۔

میر صاحب:حافظ صاحب!سچ سچ کہنا کہ شہباز خاں کیسا آدمی ہے۔

حافظ صاحب: بھائی میں تم دونوں کے معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا۔

لالہ جی:بھئی میر صاحب!میں شہباز خاں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سننا چاہتا۔

میر صاحب:ہاں ہاں کیوں سننے لگے۔ وہ بھی تمہارے خلاف کب سنتا ہے یہ  اور  بات ہے کہ پان والے سے تمہارے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔

لالہ جی:پان والے سے کہہ رہا تھا!کیا کہہ رہا تھا؟

میر صاحب:اب چھوڑو بھی۔ تمہارا دوست ٹھہرا۔ تمہارے بارے میں جوجی چاہے کہے۔

لالہ جی:تمہیں بتانا پڑے گا میر صاحب!

حافظ جی:اماں چھوڑو۔ تم جاؤ اپنے کام پر لالہ جی۔

لالہ جی:نہیں ، میں سننا چاہتا ہوں ، کیا کہتے ہیں شہباز خاں۔

میر صاحب:بتا دوں۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ۔۔۔ لالہ جی! تم ہی ہو، جو برداشت کرتے ہو، ہم تو ایک دن میں مزا  چکھا دیں۔

لالہ جی:ارے بتاؤ گے بھی یا پہلیاں ہی بجھاؤ گے۔

میر صاحب:وہ کہتا ہے کہ لالہ تیج رام کے گھر کا آدھا خرچ برداشت کرتا ہوں۔

لالہ جی:میرے گھر کا  خرچ۔

میر صاحب: اور کیا !اس کے تعلقات میرے گھر سے ہیں۔ میرے یہاں سے عورتیں اس کے گھر جاتی ہیں۔ میں ان کے گھر میں اچار کے گھڑے بھجواتا ہوں  اور میں سوئیٹر۔۔۔ خیر چھوڑو بھی۔۔۔  مجھے کیا پڑی ہے کہ تمہارے معاملات میں دخل دوں۔

لالہ جی:ارے یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟

میر صاحب:ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ یاد رکھو۔ زیادہ میٹھے میں کیڑے پڑتے ہیں  اور  پھر وہ آدمی اچھا نہیں۔

لالہ جی:مجھے شہباز خاں سے یہ امید نہ تھی۔ میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کیا ہے۔

میر صاحب:یہی تو کہتا ہوں لالہ!تم گائے ہو گائے۔۔۔ ورنہ مجال ہے کہ وہ کسی  اور  کو کوئی بات کہہ کر نکل جائے  اور یہ بھی ہماری بیوقوفی ہے جو کہہ دیا ہے۔ ورنہ محلے میں کسے دلچسپی ہے جوتم سے کہنے جائے گا  اور  پھر تم بھی کیوں یقین کرنے لگے۔

لالہ جی:اگر بات سچی ہو گی تو کیسے یقین نہ کروں گا۔

میر صاحب:لالہ جی!تمہارا چپ رہنا ہی تو ہمارے حق میں زہر کا کام کرتا ہے۔تم بولتے نہیں  اور لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں گڑھا ہوتا ہے ، وہیں پانی مرتا ہے۔

لالہ جی:مجھے آج بہت دکھ ہوا۔ میں شہباز خاں کو ایسا دشٹ آدمی نہیں سمجھتا تھا۔ اب حافظ جی!تم ہی کہو۔ برسوں کا ساتھ ہے۔ تم نے کبھی ہماری زبان سے شہباز خاں کے خلاف ایک لفظ بھی سنا۔

حافظ جی:لالہ جی!مجھے اسی لئے تو اور بھی حیرت ہے۔ اس محلے میں آپ کی  اور  خاں صاحب کی دوستی تو ایک مثال ہے۔

میر صاحب:ارے حافظ جی، آپ کو کیا خبر۔۔۔ شہباز خاں تو مل کر گلا کاٹنے والوں میں سے ہے۔

لالہ جی:تو بھائی میں آج کہیں نہیں جاؤنگا۔

(لالہ جی گھرکے اندر چلے جاتے ہیں۔)

میر صاحب:(قہقہہ لگاتے ہوئے) اب معلوم ہو گا شہباز خاں کو۔۔۔ وہ ابھی میر فراست علی کے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں۔

حافظ جی:میر صاحب!ذرا میں جلدی میں ہوں۔ پھر ملوں گا۔

پردہ گرتا ہے

 

 

 

 

تیسرا سین

 

(پردہ کھلتا ہے۔لالہ جی کے گھر کا منظر۔۔۔ لالہ جی غصے میں ٹہل رہے ہیں ، چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی ہے۔ گھر میں سناٹا ہے۔)

 

لالہ جی کی بیوی:ارے کیا بات ہے؟کیسی طبیعت ہے۔

لالہ جی:کچھ نہیں !

لالہ جی کی بیوی:تم تو کام سے جا رہے تھے۔

لالہ جی:آج نہیں جاؤں گا۔

لالہ جی کی بیوی:کیا بات ہے ، کچھ طبیعت خراب ہے؟

لالہ جی:ہاں خراب ہی سمجھو(کچھ ٹھہر کر) سوشیلا کی ماں !بڑے دکھ کی بات ہے کیا بتاؤں؟

لالہ جی کی بیوی:ارے جلدی بتاؤ۔ تم تو اور دہلائے دے رہے ہو۔

لالہ جی:ارے کیا بتاؤں۔ شہباز خاں نے ایسی بات کہہ دی کہ بس کچھ نہیں کہہ سکتا۔

لالہ جی کی بیوی:ارے کہتے بھی ہو یا یوں ہی پہیلیاں بجھاؤ گے۔ ابھی انھوں نے کچھ کہا ہے کیا؟

لالہ جی:مجھ سے کیا کہے گا!مجھ سے کہتا تو میں منھ دہرا کر دیتا۔ سارے محلے میں کہتا پھر تا ہے کہ لالہ جی کے گھر کا آدھا خرچ میں برداشت کرتا ہوں۔

لالہ جی کی بیوی:اونھوں۔۔۔ تواب وہ ہمارے گھر کا خرچ بھی برداشت کریں گے۔

سوشیلا:اماں۔۔۔ چاچا ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ مجھے تو کسی کی لگائی بجھائی معلوم ہوتی ہے۔

لالہ جی:بس تو چپ رہ۔ ہم نے تو اپنے کان سے سنا ہے۔ میں نے بھی اسے محلے بھرمیں ذلیل نہ کیا تو میرا نام بھی تیج رام نہیں ہے۔(دروازے پر کسی کے کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے) ارے بھائی آیا۔ ذرا دیکھنا تو باہر کون ہے۔ کہیں پنڈت جی تو نہیں آ گئے۔ صبح آنے والے تھے۔

(سوشیلا سر جھکائے جاتی ہے۔)

سوشیلا:(باہر سے آتی ہے) ہاں پنڈت جی ہی آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر  وقت ہو تو آج ہولی کے چندے کے سلسلے میں دو چار جگہ ہولیں۔

لالہ جی:اچھا بھئی۔۔۔ یہ ہولی کمیٹی کا سکریٹری ہونا بھی مصیبت ہو گیا۔ پانچ سال سے کہہ رہا ہوں کہ کسی دوسرے کو  چن لو۔ مگر لوگ مانتے ہی نہیں۔

(لالہ جی باہر آتے ہیں۔)

پنڈت جی:لالہ رام رام۔ بھئی اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو ذرا دو چار آدمیوں سے مل لیں۔

لالہ جی:ہاں ہاں ضرور۔۔۔ تم اچھا ہوا آ گئے۔۔۔ تم سے کچھ بات بھی کرنا ہے۔

پنڈت جی:لالہ جی۔ تم ذرا دیر ٹھہرو۔ میں اتنے میں خاں صاحب کو بلا لاؤں پھر تینوں ساتھ چلیں گے۔

لالہ جی:خاں صاحب کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے بغیر کوئی کام نہیں رکتا۔ بڑا آیا سیٹھ ساہوکار کہیں کا۔ میرے گھرکا خرچ برداشت کرتا ہے۔اس کو مزا نہ چکھا دوں تو لالہ شیو رام کی اولاد نہیں۔

پنڈت جی:کیا بات ہو گئی، لالہ جی۔

(پنڈت جی کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔)

لالہ جی:چلو ابھی سب بتائے دیتا ہوں۔

پردہ گرتا ہے

 

 

 

 

چوتھا سین

 

(پردہ اٹھتا ہے۔۔۔  اسٹیج پر لکڑیوں  کا ڈھیر ہے۔۔۔  سوتر دھار گھبرایا ہوا آتا ہے۔)

 

سوتر دھار:یہ نٹی کہاں گئی۔ نٹی نٹی۔ ارے بھئی سنتی ہو۔

نٹی:(دوڑتی ہوئی آتی ہے)کیا بات ہے کیوں پریشان ہو۔ مجھے بھی پریشان کرتے ہو۔ تمہاری چیخ سن کر میک اپ روم سے آ رہی ہوں۔

سوتر دھار:گڑبڑ ہو گیا۔۔۔ سارا کھیل گڑبڑ ہو گیا۔

نٹی:کیا بات ہے۔ کیا کوئی ایکٹر ناراض ہو کر چلا گیا۔

سوتر دھار:اجی نہیں۔۔۔ ایکٹر ناراض ہو کر کیا جائے گا۔ یہاں تو بنا بنایا تماشا خراب ہو گیا۔ تم سے کہا تھا کہ قومی یک جہتی کا ڈراما مت کرو مگر تم ٹھہریں پنڈت نہرو کی چیلی۔

نٹی:آخر کیا بات ہوئی۔

سوتر دھار:تمہیں پتہ ہی نہیں۔۔۔ کھیل کی فکر ہو تو معلوم بھی ہو۔

نٹی:بات بتاتے نہیں ، اپنی لگائے ہوئے ہو۔

سوتر دھار:کچھ سنا بھی تم نے۔ لالہ جی  اور  خاں صاحب میں بڑے زور کا جھگڑا ہوا  اور یہی ہمارے اصل ایکٹر ہیں۔

نٹی:تم پاگل تو نہیں ہو گئے۔

سوتر دھار:ابھی تک تو نہیں ہوا، لیکن اب ہو جاؤں گا۔ شہباز خاں نے لالہ جی کو کچھ کہہ دیا۔ اس پر انھوں نے نہ صرف یہ کہ انھیں ہولی کمیٹی سے الگ کر دیا۔ بلکہ اس سال ہولی کا چندا بھی نہیں لیا۔

(اس درمیان میں اسٹیج کے پیچھے داہنے کونے سے شہباز خاں کی گھر کی عورتیں برقعہ پہن کر خاموشی سے آہستہ آہستہ گزرتی ہیں  اور  بائیں راستے سے لالہ جی کے گھرکی عورتیں اسی خاموشی کے ساتھ داہنے راستے کی طرف چلی جاتی ہیں۔ بیج اسٹیج پر دونوں  کا  آمنا سامنا ہوتا ہے لیکن وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر منھ پھیر کر چلی جاتی ہے۔)

نٹی:ارے یہ کہاں جا رہی ہیں۔

سوتر دھار:جاتی کہاں۔۔۔ یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ان کے تعلقات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ عورتوں نے بھی ایک دوسرے سے بات چیت بند کر دی ہے۔

نٹی:(سر پیٹ کر) میں کہتی ہوں تم کوئی دوسرا کام کرو۔ یہ ناٹک تمہارے بس کا روگ نہیں۔ بس تم مونگ پھلی بیچو۔ اتنی سی بات نہیں سمجھتے۔۔۔  یہ ناٹک ہے ناٹک۔۔۔ اچھا تو اب اسٹیج چھوڑو۔(سوتر دھار کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو نٹی  کان پکڑ کر پردے کے پاس لے جا کر بٹھا دیتی ہے  اور اس کے ہاتھ میں رسی دے دیتی ہے۔)اب چپ چاپ یہاں بیٹھے رہو۔ ہلنا مت یہاں سے  اور  ایسے بیٹھو کہ تماشا دکھنے والے تمہیں نہ دیکھ سکیں۔

(نٹی چلی جاتی ہے  اور فوراً ہی اسٹیج پر لوگ چیختے ہوئے آتے ہیں۔ سب کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے ہیں  اور چلا رہے ہیں۔۔۔  ’’ہولی ہے۔۔۔ ہولی ہے ‘‘ اتنے میں میر صاحب  اور لالہ تیج رام داخل ہوتے ہیں۔)

میر صاحب:ہاں بھئی لالہ! ہولی جلانے کا کیا سمے طے ہوا ہے۔

لالہ جی:بس اب آگ دیتے ہیں۔۔۔ کیوں میر صاحب دیکھا تم نے ، کیسا خاں صاحب کو چت کر دیا، یاد کرے گا۔

میر صاحب:لالہ جی!کمال کیا ہے۔ سنا ہے کہ مرزا صاحب کے سامنے رو  گا رہے تھے کہ مجھ سے ہولی کا چندا نہیں لیا گیا۔

لالہ جی:چلواس بہانے ان کے آٹھ آنے بچے۔

(لالہ ہنستے ہیں۔)

میر صاحب: اور تم  کو خوب گالیاں دے رہے تھے۔

لالہ جی:میر صاحب!تم  کو معلوم نہیں۔ ان کے چندے کے لئے میرے اوپر کتنا زور پڑا ہے۔ لیکن میں نے کہہ دیا ہے کہ جب تک لالہ تیج رام سکریٹری ہیں ، ہولی کا چندا شہباز خان سے نہیں لیا جائے گا۔اگر پیسہ کم پڑا تومیں اپنی جیب سے دوں گا۔

میر صاحب:اس سے چندا لینے کے لئے کس کس نے زور دیا۔

لالہ جی:ارے یہی محمود میاں ، ٹھا کر گوبند سنگھ، پنڈت رام سرن۔۔۔ غرض اس زمانے میں شہباز خاں کے بہت سے حمایتی نکل آئے۔ کہتے تھے کہ باپ دادا سے ہوتا آیا ہے کہ تیوہار میں محلے کا ہر آدمی شریک ہوتا ہے۔ شہباز خاں کو الگ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

(شہباز خان غصے میں بپھر ے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔)

شہباز خاں :ہولی نہیں جلے گی۔

ایک آدمی:کیوں خان صاحب کیا بات ہے؟

شہباز خاں :بات مجھ سے پوچھتے ہو۔ تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے لالہ تیج رام سے پوچھو۔

حافظ جی:ارے خاں صاحب!بات تو بتاؤ۔

شہباز خاں :میں پوچھتا ہوں کہ یہ محلے کی ہولی ہے یا لالہ تیج رام کے گھرکی۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:محلے کی ہولی ہے خاں صاحب۔

شہباز خاں :تو پھر میرا چندا کیوں نہیں لیا گیا۔(مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے) اسی لئے تو ہولی نہیں جلنے دوں گا پہلے یہ قصہ طے کرو۔

ٹھا کر گوبند سنگھ:بھئی خاں صاحب بات تو ٹھیک کہتے ہو۔

شہباز خاں :ٹھا کر صاحب!تم خود انصاف کرو۔ آج تک کبھی ایسا ہوا ہے؟

میر صاحب:کیسے نہیں جلے گی۔۔۔ اب تک تمہارے ہی پیسے سے تو جلتی تھی۔۔۔  بڑے آئے رستم کہیں کے۔

(خاں صاحب غصے میں آگے بڑھتے ہیں  اور  جوتا اٹھا کر میر صاحب کو مارنا ہی چاہتے ہیں کہ لالہ تیج رام شہباز خاں کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔)

لالہ جی:کمزور پر ہاتھ اٹھاتے ہو شہباز خاں۔۔۔ مجھ سے بات کرو۔ یہ میرا معاملہ ہے میر صاحب کا اس سے کیا سمبندھ۔۔۔ ہولی جلے گی  اور  ضرور جلے گی۔

شہباز خاں :آگ  ڈالو تو دیکھیں۔۔۔ لالہ جی تمہارے کہنے پر اگر ہولی جلے گی تو اس کے ساتھ میری لاش بھی جلے گی۔میرے جیتے جی تو کسی میں اتنا دم نہیں کہ اس میں چنگاری بھی ڈال دے۔

ٹھاکر گوبند سنگھ: بھائی سنو۔۔۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سنو۔ اس جھگڑے کا کچھ فیصلہ ہونا چاہئے۔

میر صاحب:اس کا فیصلہ یہ ہو گا کہ خاں صاحب اپنی اٹھنی سے اپنے گھر میں ہولی جلائیں۔ محلے کی ہولی تو ابھی جلے گی۔

حافظ جی:جی  اور کیا۔۔۔ ایک آدمی کے چندا نہ دینے سے بھلا کہیں ہولی کی ساعت ٹالی جائے گی۔

میر صاحب: اور کیا۔۔۔ لالہ جی تم ہولی جلاؤ۔

شہباز خاں :ذرا ہم بھی تو دیکھیں کیسے جلاتے ہو۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:تھوڑی دیر کے لئے سب خاموش ہو جاؤ۔ میں ایک بات پوچھتا ہوں کہ لالہ تیج رام  اور  شہباز خاں کے آپسی جھگڑے سے محلے کی ہولی کا کیا تعلق ہے۔

میر صاحب:جی ہاں تعلق ہے۔ لالہ تیج رام ہولی کمیٹی کے سکریٹری ہیں۔

شہباز خاں :سکریٹری ہیں تو اٹھنی لیں۔

(جیب سے اٹھنی نکالتے ہیں۔)

میر صاحب:تو ڈال  دو اپنی اٹھنی ہولی کی آگ میں۔

(شہباز خاں اک دم گھبرا جاتے ہے۔)

شہباز خاں :میرا مطلب ہے کہ اس اٹھنی کی لکڑی لاؤ۔

پنڈت رام سرن:ہاں بھئی اس کی ایک  اور شکل ہے کہ شہباز خاں اپنی اٹھنی کے بجائے لکڑی کا انتظام کریں۔

محمود میاں :لیکن اتنی رات گئے لکڑی کہاں ملے گی۔

میر صاحب:ملے چاہے نہ ملے لیکن اٹھنی تو نہیں جلے گی۔

(شہباز خاں چپ چاپ سر  جھکائے چلے جاتے ہیں۔ آوازیں آتی ہیں۔۔۔ ہولی ہے ، ہولی ہے۔)

ایک آدمی:شہباز خاں کہاں گئے ہیں۔

دوسرا آدمی:رات زیادہ ہو گئی ہے۔ سونے گئے ہیں۔

میر صاحب:بڑے پٹھان بنتے ہیں !

لالہ تیج رام:میر صاحب!ابھی خاں صاحب لالہ تیج رام کی گھاتوں سے واقف نہیں ہیں۔ دیکھا کیسی پٹخنی دی ہے۔

میر صاحب:ہاں بھائی لالہ جی!ہم بھی تمہارے قائل ہو گئے۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:اب یہ سوچو، کرنا کیا چاہئے۔

میر صاحب:کرنا کیا ہے۔ ہولی میں آگ دینا چاہئے۔

پنڈت رام سرن:مگر یہ بات کچھ اچھی نہیں معلوم ہوئی۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:ہاں پنڈت جی۔ اس ہولی میں بغیر شہباز خاں کے کیا مزا۔

ایک لڑکا:ٹھا کر صاحب!کیا خاں صاحب اس بار رنگ بھی نہ کھیلیں گے۔

(میر صاحب لڑکے کو چپت لگاتے ہیں۔)

میر صاحب:بس بس چپ رہ بڑا آیا ہولی کھیلنے والا۔

(سہم کر لڑکا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

لالہ جی:ہاں تو میر صاحب اب کیا کرنا چاہئے۔

میر صاحب:کرنا کیا ہے۔ اب دیر ہی کس بات کی۔ آگ کا انتظام کرو۔

(شہباز خاں اسٹیج پر داخل ہوتے ہیں۔ سر پر لکڑی  کا بوجھ ہے جس میں دروازوں کی توڑی ہوئی جوڑی ہے۔ کرسیاں  اور میز کے ٹکڑے ہیں۔۔۔ گھریلو استعمال کا لکڑی کا سامان۔)

ٹھاکر گوبند سنگھ:ارے یہ کیا۔۔۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ خاں صاحب گھر کا سامان توڑ کر لا رہے ہیں۔

لالہ جی:ارے یہ تو نئی کرسیاں توڑ لائے۔

پنڈت جی:دروازے کی جوڑی بھی توہے۔

لالہ جی:(آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ پونچھتے ہیں) ارے اس میں تو خالدہ کا جھولا بھی ہے۔۔۔ (بھرائی ہوئی آواز میں) یہ کیا کیا تم نے۔

(شہباز خاں اس گٹھر کو ہولی کی لکڑیوں میں ڈال دیتے ہیں۔)

شہباز خاں :(لالہ جی کے ہاتھ میں ماچس دیتے ہوئے) لالہ!اب جلاؤ ہولی۔ میرا چندا ادا ہو گیا۔

(لالہ تیج رام کے ہاتھ سے ماچس گر پڑتی ہے۔ شہباز خاں مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔ محلے کا بوڑھا حلوائی لٹھیا ٹیکتا ہوا آتا ہے۔)

بوڑھا حلوائی:بس ہو چکا جھگڑا۔ اب دونوں ہاتھ ملاؤ۔ آپس کی لڑائی اچھی نہیں۔ (دونوں کا ہاتھ ملا دیتا ہے۔ دونوں گلے ملتے ہیں  اور  رونے لگتے ہیں) میر صاحب! تم بھی آ جاؤ۔۔۔  اور آج تک کے تمام جھگڑے  اور  کپٹ ہولی کی آگ میں جلاؤ۔

(میر صاحب، خاں صاحب سے گلے ملتے ہیں۔۔۔ تالیوں کی آواز ’’ہولی ہے۔۔۔ ہولی ہے ‘‘ کا شور)

پردہ گرتا ہے

 

 

 

 

پانچواں سین

 

(لالہ جی  اور شہباز خاں کے گھرکی عورتیں ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہیں۔ خالدہ  اور سوشیلا ایک دوسرے کے آنسو پونچھتی ہیں۔ لالہ جی دروازے سے باہر نکلتے ہیں کہ ٹھاکر گوبند سنگھ ملتے ہیں۔)

 

ٹھا کر گوبند سنگھ:ارے لالہ جی!بڑا رنگین سویٹر نکالا ہے  اور وہ بھی اس گرمی میں۔

لالہ جی:ارے بھائی، وہ ہماری بھتیجی ہے نا خالدہ۔۔۔ اسی نے بنا ہے کہتی ہے آج تو پہنو چاہے کل اتار دینا۔۔۔ تم جانتے ہو کہ بچوں کی ضد تو رکھنا ہی پڑتی ہے۔

ٹھا کر گوبند سنگھ: اور کیا۔۔۔ بچوں کا معاملہ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

لالہ جی:ٹھا کر صاحب!آج ہم لوگ پکنک پرجا رہے ہیں۔ تمہیں بھی چلنا ہو گا۔

ٹھا کر گوبند سنگھ:ارے بھائی۔ میں کہاں پکنک پرجاؤں گا۔ مجھے اتنی فرصت کہاں۔

لالہ جی:آج تو تمہیں چلنا ہی ہو گا۔(گھر میں آواز دیتے ہیں)ارے سوشیلا کی ماں ذرا کھانا جلدی تیار کر  دینا پکنک پر جانا ہے  اور اچار رکھنا نہ بھولنا میں ابھی شہباز کے پاس سے ہو کر آتا ہوں۔(شہباز خان بھی آ جاتے ہیں اسی رنگ کا سوئیٹر پہنے ہوئے) لو میں تو تمہارے یہاں جا رہا تھا  اور  تم یہاں چلے آئے۔

(دونوں گلے ملتے ہیں۔)

سوتر دھار:(داخل ہوتا ہے گھبرایا ہوا) بس بس ہو گئی دوستی۔ اب تماشا ختم ہوتا ہے۔ آپ لوگ جا سکتے ہیں۔

نٹی:تم پردہ گراتے ہویا تماشا دیکھنے والوں کو بھگا رہے ہو۔۔۔  جلدی گراؤ پردہ۔

(سوتر دھار دوڑ کر پردہ گراتا ہے۔)

***

ماخذ: ’’ہولی  اور  چراغ‘‘، اردو گھر، علی گڑھ

٭٭٭

مشمولہ ’اردو پلے‘ مرتبہ معز الدین فاروق

 

 

 

 

 

 

 

شرابی

 

 

 

ڈرامے میں کام کرنے والے

 

کلو:ایک شرابی  اور  جواری۔۔اشفاق محمد خاں

شیام لال:پڑوسی  اور  ایک دوسرے۔۔عبدالستار صدیقی

رام چرن: کے گہر ے دوست۔۔نعمان لطیف

تارو:شیام لال کی بیوی۔۔۔موہنی

پیاری:رام چرن کی بیوی۔۔تارا دیوی

گنپت:رام چرن کا بوڑھا باپ۔۔راج کمار

رانی:پڑوس کی ایک لڑکی۔۔چندرا

نورو:ایک بوڑھا پڑوسی۔۔اطہر پرویز

پاگل:                ۔۔جمن

چند راہ گیر اور  گانے والے: إرام سرن، رام سروپ، چیت رام، معصوم علی، جمن

 

 

 

پہلا منظر

 

 (پردہ کھلتا ہے اسٹیج پر دو جھونپڑیاں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف چوپال ہے۔ جس میں آگ رکھی ہے۔ ایک کھری چارپائی پڑی ہے۔ صبح کا وقت ہے، اسٹیج پر آہستہ آہستہ روشنی بڑھتی جاتی ہے جب ذرا کچھ روشنی زیادہ ہوتی ہے تو کلو اسٹیج پر داخل ہوتا ہے۔ گنگناتا ہوا، ٹہلتا ہے

کیسے کھیلن جیؤ ساون میں کجریا، بدریا گھر آئی گوریا

کیسے جیئے تو اکیلی، کوئی سنگ نہ سہیلی

گنڈا گھیر لیئھیں توری ڈگریا، بدریا گھر آئی گوریا

          گنگناتے گنگناتے کلو اسٹیج کے بیچو بیچ فٹ لائٹ کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے  اور  ایک لمحہ سوچنے کے بعد چونک پڑتا ہے۔ جیسے کوئی نئی بات سوجھ گئی ہو۔ )

 

 

کلو     : (چٹکی بجا کر) یہ ٹھیک رہے گا۔ ہاں بس یہی۔ ابھی لو(رام چرن کی جھونپڑی کی طرف بڑھ کر) ارے رام چرن بھیا ہوت۔ ۔ ۔  ارے رام چرن بھیا!

رام چرن       :اوے۔ ۔ ۔ کون ہے ؟(جھونپڑی میں سے) کیا بات ہے۔ کلو، جو سویرے سویرے ادھر آ دھمکے۔ معلوم ہوتا ہے رات پینے کو نہیں ملی۔

کلو     :ارے پینے پلانے کی چھوڑ، کام کی بات کرکام کی۔

رام چرن       : (حیرت سے)کام کی بات کریں  اور  تم سے!

کلو     :ابے تیری عقل بڑی موٹی ہے۔ باڑھ سے جتنا نقصان ہوا ہے وہ سب ابھی پورا کئے دیتا ہوں۔

رام چرن       : (حیرت سے) باڑھ کا نقصان  اور  تم پورا کرو گے !(کلو کی طرف ہاتھ بڑھا کر)ارے کلوبھیا!معلوم ہوتا ہے کہ آج آدھ سیر زیادہ پیٹ میں انڈیل لی ہے۔ وہی بول رہی ہے۔

کلو     :تم میری بات تو سنتے نہیں، اپنی ہی کہے جاتے ہو۔ (ذرا الگ لے جا کر بڑے اطمینان کے ساتھ)بیٹا رام چرن!اگر روپیہ کمانا چاہتے ہو، تو میری بات مان جاؤ۔

رام چرن       :ارے بھیا پہلے بات تو بتاؤ پھر منوانا۔

کلو     : (جھجکتے ہوئے) کچھ نہیں یہی ذرا جوا کھیلنے کھلانے کا معاملہ۔

رام چرن       :جوا!!ہے رام!!!

کلو     :ابے پہلے سن تو۔ ۔ ۔ (بڑے بھروسے سے) تیرے گھر پر جوا جمے گا۔ رات بھرمیں دس بارہ روپے کی بچت ہو گی۔ آدھا تیرا آدھا میرا۔

رام چرن       :جوا!!ارے باپ رے باپ، نا کلو بھیا۔ میری تو ہمت نہیں پڑتی ایسا کام کرنے کی۔

کلو     :ہمت کی کیا بات ہے۔ اس میں کوئی خطرہ تھوڑے ہی ہے۔

رام چرن       :اچھا تو میں شیام لال سے پوچھ لوں۔ وہ جیسا کہے گا، ویسا کروں گا۔

کلو     :اس میں شیام لال سے پوچھنے کی کیا بات ہے۔ مکان تیرا ہے یا شیام لال کا۔

رام چرن       :کلو بھیا۔ شیام لال کا میرا بچپن کا ساتھ ہے۔ میں شیام لال سے پوچھے بنا کوئی کام نہیں کرونگا۔ تم جانتے ہو میرا اس کا باپ دادا سے سمبندھ ہے۔

کلو     :اچھا تو اس میں جاتا ہی کیا ہے۔ شیام لال سے پوچھ لے۔ تیری مرضی۔

رام چرن       : (وہیں سے کھڑے کھڑے آواز دیتا ہے) شیام لال بھیا! شیام لال بھیا!! ذرا یہاں تو آنا۔

شیام لال       :کیا بات ہے ؟ابھی آتا ہوں۔

(تیزی سے کرتا پہنتا ہوا نکلتا ہے  اور رام چرن کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ )

رام چرن       :کلو تم سمجھا دو، شیام لال بھیا کو، کیا بات ہے۔

شیام لال       :کیا بات ہے کلو؟

کلو     :ارے شیام لال بھیا۔ ۔ ۔ یہ بات تم سے چھپی نہیں ہے کہ اس مرتبہ باڑھ نے فصل کا ناس کر دیا ہے۔

شیام لال       :ناس تو کر دیا ہے پراس میں تو کیا کرے گا؟

کلو     :اسی نقصان کو پورا کرنے کے لیے تومیں نے ایک ترکیب سوچی ہے۔

شیام لال       :وہ کون سی ترکیب ہے ذرا ہمیں بھی تو بتا۔

کلو     :میں رام چرن سے کہہ رہا تھا کہ اگر یہ اپنے گھر میں جوا کھلانے کا کچھ پربندھ کر دے تو جواری لانا میرے ذمے۔ بارہ پندرہ روپیہ روز کی آمدنی ہے۔ سو پچاس روپیہ مہینہ دردی والے کا(ہاتھ سے پولیس کے لیے اشارہ کرتا ہے)  اور  باقی میں آدھا آدھا ساجھا، چلو ایک حصہ تمہارا بھی۔ کون سی بات ہے۔

شیام لال       :کلو!کیا کہہ رہے ہو، سمجھ سوچ کر بات کرو۔ اب ہم لوگ اتنے گر گئے کہ اپنے گھر میں جوا کھلائیں گے۔ کلو تمہیں کہتے ہوئے لاج بھی نہ آئی۔

کلو     :اس میں لاج کی کیا بات ہے۔

شیام لال       : (غصہ میں) لاج کی کیوں نہیں (کلو ڈر کے پیچھے ہٹ جاتا ہے) باپ دادا کی عزت بیچ کر روپیہ کمائیں گے۔ کلو ایسی کھوٹی بات کہنے سے پہلے سوچ تولیا ہوتا۔ کسان گاڑھے پسینے کی کمائی کھاتا ہے پتے کی نہیں۔ ہماری رگوں میں ہمارے کھیتوں کی کمائی کا خون دوڑتا ہے  اور   یہ خون ہمیں باپ دادا سے ملا ہے۔ باپ دادا نے ہمارے لیے کوئی دولت نہیں چھوڑی۔ بس ذرا سی عزت چھوڑی ہے  اور  آج تو اس عزت کا بھی سودا کرنے چلا ہے۔ لیکن رام چرن!تیری ہمت کیسے پڑی، یہ سوچنے کی ایسی مصیبت پڑی تو مل جل کر مقابلہ کر لیں گے۔ پرانے گھر کو جواریوں کا اڈا نہیں بنائیں گے۔ ابھی اپنے ہاتھ پیروں میں بڑی شکتی ہے۔

رام چرن       : (چڑھ کر کلو کی طرف دیکھتا ہے) کلو!شیام لال بھیا ٹھیک کہتا ہے۔ تم یہ جوا اپنے دورا ہے پرہی کھلاؤ۔ ہمارا دھن تو ہمارا کھیت ہے۔

(کلو غصے سے منہ بنا کر نکلتا ہے  اور  جاتے ہوئے رام چرن  اور   شیام لال کی طرف غصے سے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو تمہاری دوستی ختم نہ کی تو کہنا۔ اس عرصے میں شیام لال کی بیوی چولھے پر کھیر کی ہانڈی رکھ کر رام چرن کے گھر میں داخل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ جیسے ہی کلو اسٹیج کے باہر نکلنا چاہتا ہے، راستے میں ایک پاگل ملتا ہے جو کلو کی طرف گھور کر دیکھتا ہے۔ )

پاگل   :ذرا بھیا ٹھہرنا تو۔ (کلو بے خیالی میں رک جاتا ہے  اور  پاگل اپنی جیب میں کچھ ڈھونڈتا ہے۔ ذرا سی دیر میں ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی کوئی چیز اندر کی جیب سے نکالتا ہے۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا بڑی احتیاط سے تہہ بہ تہہ رکھا ہے۔ اس کے نکالنے میں اسے دو ایک منٹ لگ جاتے ہیں)بھیا یہ خط تو پڑھ دینا۔

کلو     : (کافی دیر پڑھنے کی کوشش کرتا ہے) مگر  بھیا یہ تو ہندی میں لکھا ہے  اور   میں ہندی نہیں جانتا۔

پاگل   :اتنی بڑی پگڑی باندھ رکھی ہے  اور  ہندی نہیں آتی۔

کلو     : (پگڑی اتار کر پاگل کے سرپر رکھ دیتا ہے) اگر پگڑی پہننے سے ہی ہندی آ جاتی ہے تو تم خود ہی پڑھ کر دکھاؤ۔

(پاگل زور کا قہقہہ لگاتا ہے  اور  پگڑی کلو کو واپس کر دیتا ہے  اور   پھر اس کاغذ کو اسی طرح کپڑوں میں تہہ بہ تہہ لپیٹ کر رکھ لیتا ہے  اور  دوسرے راستے سے چلا جاتا ہے۔ ۔ ۔ فوراً ہی تارو(شیام لال کی بیوی)  اور   پیاری ایک ساتھ نکلتی ہیں  اور  دانے کی ایک ٹوکری لا کر چکی کے پاس رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں  اور  گانا شروع کر دیتی ہیں۔ ۔ ۔  اور  چکی چلانے لگتی ہیں۔ )

پیاری   : (اک دم چونک کر) ارے تارو! دیکھنا یہ کا ہے کی بو ہے۔ کچھ تیرے گھر میں تو نہیں جل رہا ہے۔

تارو    :اے لو، میں گانے کی دھن میں بھول ہی گئی کہ کھیر کی ہانڈی چڑھا کر آئی تھی۔ (تیزی سے اٹھ کر آنچل سے ہانڈی اتارتی ہے) لو کھیر تیار ہو گئی بس اب جاؤ۔

شیام لال       : (اندر سے نکلتا ہے) ذرا ٹھہر جا ابھی آتا ہوں۔

تارو    :اچھا تو میں ذرا پیاری کے یہاں ہوتی آؤں، اتنے میں کھیر بھی ٹھنڈی ہو جائے۔

(تارو پیاری کے یہاں چلی جاتی ہے۔ شیام لال اس کے جانے کے ذرا دیر بعد نکلتا ہے  اور  ہانڈی کے پاس آ کر ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ تارو نہیں ہے تو ہانڈی میں سے ذرا سی کھیر نکال کر چکھتا ہے۔ )

شیام لال       :ارے باپ رے باپ۔ بڑی مزیدار ہے۔ واہ رے تارو واہ، جگ جگ جیو، میں اپنا حصہ کھا لیتا ہوں۔ (آدھی کھیر جلدی جلدی منھ میں بھر لیا ہے) کھیر تو مزیدار ہے۔ لیکن شیام لال چودھری!یہ طے ہے کہ تارو تجھے کھلائے بنا خود کھانے سے رہی اب اس میں سے آدھی ضرور کھلائے گی۔ تب پھر اس کا آدھا کیوں نہ کھالوں۔ (اس کا آدھا بھی کھا لیا ہے)۔ ۔ ۔  مگر  اب تو ذرا سا رہ گیا۔ تارو آئے گی تو کہہ دوں گا کہ کتے نے کھا لی۔ میں کیا جانوں۔ تم چھوڑ کر کیوں چلی گئی تھیں۔

(ذرا اکڑ کر کہتا ہے  اور  ساری کھیر کھا کر دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ تارو داخل ہوتی ہے۔ )

تارو    :ارے یہ ہانڈی تو خالی رکھی ہے۔ تم نے کھیر کھائی ہے ؟

شیام لال       :میں نے کھائی؟ یا تم خود کھا کر چلی گئیں۔ کیوں جھوٹ بولتی ہو؟

تارو    :میں جھوٹ بولتی ہوں۔ ابھی آ رہی ہوں۔ سوائے تمہارے  اور   گھر میں سے کون نکال کر کھا سکتا ہے۔

شیام لال       : (اطمینان سے) جب سے میں یہیں بیٹھا ہوں ذرا سی دیر کو بھی نہیں ہلا (تیزی سے) یہ کھیر تم نے ہی کھائی ہے۔ اب مجھے پاگل بناتی ہو۔ میں انتظار میں بیٹھا ہوں کہ تم آؤ تو کھانے کو ملے۔

تارو    :گنگا مائی کی قسم۔ میں نے نہیں کھائی کھیر۔ تم نے خود کھائی ہو گی اب جھوٹ بولتے ہو۔

شیا م لال       :الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ خود کھا کر میرا نام لگاتی ہے۔

تارو    :دیکھو اگر میرے اوپر دوش لگاؤ گے تو اپنے میکے چلی جاؤں گی۔

(رام چرن اپنے گھر میں سے نکلتا ہے۔ )

رام چرن       :ارے یہ کیسا شور مچا رکھا ہے۔ کیوں دونوں جھگڑ رہے ہو۔

تارو    :بھیا میں کھیر اتار کر ابھی تمہارے یہاں گئی تھی وہاں سے جو آئی تو ہانڈی صاف۔

رام چرن       :کس نے کھا لی پھر؟

شیام لال       :ارے بھیا کون کھاتا۔ کوئی گھر میں تو آیا نہیں مجھے توپکا یقین ہے کہ یہ خود کھیر چٹ کر کے تمہارے یہاں گئی تھی۔

تارو    :دیکھو میرے اوپر پھر لگایا الزام۔ میں نے چکھی تک نہیں۔ خود کھا کر میرے اوپر الزام لگاتے ہو!شرم آنی چاہئے کہ ذرا سی کھیر کے لیے جھوٹ بول رہے ہو۔

شیام لال       :میں جھوٹ بولتا ہوں کہ تو جھوٹ بولتی ہے اسی لیے تو مجھ سے کہہ گئی تھی کہ ٹھنڈی ہو جائے تو کھانا۔

تارو    :کیوں میرا نام لگاتے ہو، جھوٹے کہیں کے۔

شیام لال       :تو خود جھوٹی ہے۔

رام چرن       :اچھا بھائی دونوں چپ رہو۔ میں ترکیب بتاتا ہوں تم دونوں مون کا برت رکھو۔ جو پہلے بولے سمجھو اسی نے کھائی ہے۔

شیام لال       :میں کیوں کھاتا!اسی نے کھائی ہے یہی بولے گی۔

تارو    :میں کیوں بولوں گی۔ تم نے کھائی ہے تم بولو گے۔

رام چرن       :اچھا بس ا ب دونوں چپ رہو۔ اب جو پہلے بولے سمجھو اسی نے کھائی ہے۔

(دو راہ گیر داخل ہوتے ہیں جیسے کسی کی تلاش میں ہوں)

ایک راہگیر      : (تارو سے) کیوں جی تم بتا سکتی ہو کہ نمبردار  کا گھر کون سا ہے۔

(تارو اشارے سے بتاتی ہے  اور  شیام لال جھانک کر دیکھتا ہے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ تارو بولتی ہے یا نہیں۔ )

دوسرا راہگیر    :یہ گونگی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے گھر میں کوئی مرد ہو تو اس سے پوچھو۔

پہلا راہگیر       : (شیام لال باہر آتا ہے)کیوں بھیا ذرا بتانا تو، گاؤں کے نمبردار کا گھر کون سا ہے۔ (شیام لال بھی اشارے سے بتاتا ہے) اے لو، یہ بھی گونگا نکلا۔

دوسرا  راہگیر    :یار ہم بھی کن گونگے بہروں میں پھنس گئے۔ دونوں کے دونوں اشاروں میں بات کرتے ہیں۔ چلو کسی  اور  سے پوچھیں۔

(دونوں راہگیر آگے بڑھتے ہیں، جب دو چار قدم آگے چلے جاتے ہیں تو تارو بڑی تیزی سے لپکتی ہے کیونکہ اسے برا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے شوہر کو گونگا سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ اشارے سے کہتی ہے کہ چلو میں بتائے دیتی ہوں کہ نمبردار کا گھر کہاں ہے۔ اس اشارے کو حاضرین سمجھ جاتے ہیں لیکن شیام لال نہیں دیکھتا وہ سمجھتا ہے کہ تارو ناراض ہو کر چلی گئی ہے۔ )

شیام لال       : (چیخ کر) تارو!تارو!آ جاؤ۔ وہ کھیر میں نے کھائی ہے اب کبھی نہ لڑوں گا آ جاؤ۔

(تارو دونوں راہ گیروں کو چھوڑ کر چلی آتی ہے۔ دونوں راہ گیر بھونچکا رہ جاتے ہیں کہ کیا ماجرا ہے ؟)

تارو    :اب کیسے مان گئے ؟

شیام لال       :تو بھی تو ذرا ذرا سی بات پر اینٹھ جاتی ہے۔

(دونوں کٹیا میں چلے جاتے ہیں۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی کلو داہنی طرف سے داخل ہوتا ہے۔ گنگناتا ہوا شراب کے نشے میں دھت ہے۔ بار بار شیام لال  اور رام چرن کی کٹیا کی طرف دیکھتا ہے۔ )

کلو     :بڑے دوست بنتے ہیں سالے۔ بدمعاش کہیں کے۔ ان کو مزا نہ چکھایا تو اپنا نام بھی پھر کلو نہیں ہے (اک دم لہجہ بدل کر) پر یار،  یہ ہمارے ماں باپ نام ہمارا نام کلو کیوں رکھ دیا ہے۔ سالا اپنا رنگ بھی تو کالا نہیں اچھا خاصا گورا ہے (جیب میں سے آئینہ نکال کر غور سے دیکھتا ہے  اور   پھر چوپال میں آ کر بیٹھ جاتا ہے  اور  گانا شروع کر دیتا ہے :

۔ ۔ ۔ گانا۔ ۔ ۔

چلو ری نہیں جائے ہم سے پیاں پیاں

پہلی پٹھونی، دور مورے آئے، سسر مورے آئے

سسر کے ساتھ مورا ٹھینگا جائے۔        ہم سے۔ ۔ ۔

دسری پٹھونی، دور مورے آئے، دور مورے آئے

دور کے ساتھ موری جوتی جائے۔        ہم سے۔ ۔ ۔

تسری پٹھونی سیاں مورے آئے، سیاں مورے آئے

سیاں کے ساتھ مورا جیرا جائے ہم سے پیاں پیاں۔ ۔ ۔

(ذرا سی دیر میں پیاری اپنی کٹیا میں سے نکلتی ہے۔ کوئی چیز تلاش کرتی ہوئی  اور  اسٹیج پر بڑبڑاتی ہوئی دو تین منٹ تک تلاش کرتی ہے۔ )

پیاری   :نہ جانے کون لے گیا میرے لال کی گلی؟

کلو     : (ذرا سنبھل کر بولتا ہے)کیا ڈھونڈ رہی ہو دیدی۔ ۔ ۔ ؟گلی تو نہیں ؟

پیاری   :ہاں گلی ہی۔ تم نے دیکھی ہے، کہیں بھیا؟

کلو     :ارے ابھی ابھی تمہارے آنے سے پہلے شیام لال کی گھر والی ایک گلی چھپا کر لے گئی ہے۔ تمہاری ہی ہو گی۔

پیاری   :شیام لال کی گھر والی!!۔ ۔ ۔ اچھا۔ ۔ ۔ یہ بات ہے۔

کلو     :ہاں ہاں وہی تارو۔ میرے سامنے سے لے گئی ہے۔

پیاری   :اچھا آج گلی اٹھا کر لے گئی ہے۔ کل کچھ  اور  لے جائے گی یہ ہے پڑوس میں رہنے کا پھل۔

(کلو ایک آنکھ مار مڑ کر دیکھتا ہے  اور  مسکراتا ہوا چلا جاتا ہے۔ )

پیاری   :بڑی آئی کہیں کی۔ نہ جانے کس کے بل پر پھول رہی ہے۔

(جھونپڑی میں سے تارو نکلتی ہے۔ )

تارو    :کیا بات ہے دیدی؟کسے کہہ رہی ہو۔ سویرے سویرے۔

پیاری   :ارے جو میرے بیٹے کی گلی کے گیا ہو۔ اس کا گھربار تباہ ہو جائے۔

تارو    :دیدی!ایک گلی کے پیچھے کیوں کسی کا گھربار تباہ کر رہی ہو۔

پیاری   :ایک گلی!ابھی تو ایک گلی گئی ہے۔ کل گھر کا سارا سامان چلا جائے گا۔ اب چورنے گھر دیکھ لیا ہے۔ ہم لحاظ کے مارے کچھ کہتے نہیں  اور   تمہیں اتنا خیال نہیں۔

تارو    :تو تم سمجھ رہی ہو۔ میں نے اٹھائی ہے گلی۔

پیاری   : اور  کس نے اٹھائی ہے، تم نے نہیں اٹھائی تو۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

تارو    :دیدی!زبان سنبھال کر بات کرو۔ میں بھی گونگی نہیں ہوں۔

پیاری   :تو کیا کہو گی۔ چوری اس پہ سینہ زوری۔

تارو    :اچھا بس اب چپ رہو، نہیں تو ٹھیک نہ ہو گا۔

(شیام لال یہ جھگڑا سن کر گھر میں سے نکلتا ہے۔ )

شیام لال       :یہ کیا بک بک لگائی ہے۔ جاؤ جاؤ اپنے اپنے گھر میں بیٹھو۔

پیاری   :ہمارا مال جائے  اور  ہم ہی بک بک لگائیں۔ آ گئے بس بیوی کی طرفداری کرنے۔

شیام لال       :طرف داری کی بات نہیں تمہیں ایسی بات نہ کرنی چاہئے بس ختم کرو اس جھگڑے کو۔

تارو    :ہاں بہن! کبھی ہم نے تمہارے گھرکی کوئی چیز اٹھائی ہے جو آج گلی ہی اٹھائیں گے۔

پیاری   :کوئی چیز اٹھائی ہو یا نہ اٹھائی ہو۔ پریہ گلی ضرور اٹھائی ہے۔

تارو    :میں نے!

پیاری   :ہاں ہاں تم نے !تم نے۔

شیام لال       : (غصہ ضبط کرتے ہوئے) بس بس ختم کرو، یہ قصہ۔ ۔ ۔  بے بات کی بات بڑھا رہی ہو۔

پیاری   :یہ بے بات کی بات ہے ؟

تارو    :دیدی!جتنا ہم تمہارا لحاظ کرتے ہیں اتنا ہی سر پر چڑھی جاتی ہو  اور   مجھے چور بنانے آ گئی۔

پیاری   : (منھ بنا کر) چور بنانے آ گئی۔ (پھر تیزی سے) بڑی شاہ بنتی ہے۔

تارو    :میں تو شاہ نہیں بنتی،  لیکن تم بڑی سادھو سنت ہو۔ جیسے میں اتنا نہیں جانتی ہوں کہ جو خود چور ہوتا ہے۔ وہ دوسرے کو بھی چور سمجھتا ہے۔

پیاری   :میری گلی اٹھائی ہے  اور  مجھی کو چور بنا رہی ہے۔ ڈائن کہیں کی۔

(کلو اسٹیج کے بائیں طرف سے آہستہ آہستہ داخل ہوتا ہے  اور  پھر مسکراتا ہوا مونچھیں اینٹھتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔ )

تارو    :ڈائن ہو گی تو، ایک ذرا سی گلی کے لیے دوسرے کو چور بنا رہی ہے۔

پیاری   :بس اب زیادہ بڑھ بڑھ کر باتیں مت بنا۔ چوری اس پر سینہ زوری۔

( اور  یہ کہہ پیاری تیزی سے تارو کی چٹیا پکڑ لیتی ہے۔ رام چرن اپنے گھر میں سے نکلتا ہے۔ )

رام چرن       :پیاری!تو کیوں  بڑ کے چھتے میں ہاتھ دے رہی ہے۔

(نورو چپ چاپ آ کر چوپال کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے  اور  غور سے سنتا ہے۔ )

شیام لال       :رام چرن! تو کیوں عورتوں کے جھگڑے میں پڑ رہا ہے  اور  پھر ایسی کچی بات زبان سے نکالتا ہے ابھی ٹھیک کر دوں گا۔

(یہ سن کر رام چرن اس کے منھ پر چانٹا مارتا ہے  اور  دونوں میں ہا تھا پائی ہونے لگتی ہے۔ )

نورو    : (چوپال سے چیخ کر) رام چرن!(آگے بڑھتا ہے) یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو۔ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھاتے ہو۔

(رانی بھی دوڑتی ہوئی آتی ہے۔ )

رانی    :کیا بات ہے بابا، یہ کیسا جھگڑا ہو گیا؟

نورو    :بس بس ٹھیک ہے۔ بڑی بری بات ہے، آپس میں لڑتے ہو۔ میں نے اس سے پہلے تمہیں کبھی لڑتے نہیں دیکھا۔

رانی    :کیوں دیدی!(تارو سے) یہ کیا بات ہوئی۔ یہ رام چرن بھیا  اور   شیام لال بھیا میں کچھ کہا سنی ہو گئی کیا۔

تارو    :ہاں بہن!ذرا سی بات تھی، نہ جانے کون ان کی گلی لے گیا ہے  اور  یہ مجھے دوش دے رہی ہیں۔

رانی    :بھلا تم لے جا کر کیا کرتیں  اور  پھر گلی بھی کوئی اٹھانے کی چیز تھی۔

نورو    :رانی بیٹا! تو کیوں قصے کو پھر سے شروع کر رہی ہے جوہو گیا۔ سو ہو گیا۔ اب تو بیچ میں بول کر  اور  بات کو بڑھائے گی۔

(رانی پیاری کے یہاں جاتی ہے  اور  نورو یہ کہتا ہوا باہر چلا جاتا ہے۔ )

رانی    :دیدی یہ بے بات کا جھگڑا، سچ مچ بھگوان کی قسم، میں تو دہل گئی تھی میرے سپنے میں بھی کبھی خیال نہ آیا تھا کہ دونوں میں کبھی جھگڑا ہو سکتا ہے۔

(پیاری خاموش ہے۔ )

(گنپت بابا اندر سے نکلتے ہیں۔ )

گنپت بابا       :رانی! بٹیا یہ کیا ہو گیا۔ کس میں جھگڑا ہو گیا؟

رانی    :کسی میں نہیں بابا۔ ۔ ۔ آپس کی بات ہے، جہاں چار برتن ہوتے ہیں، آپس میں کھنکتے ہیں،  اور رام چرن بھیا  اور  شیام لال بھیا کی دوستی تو پکے تاگے کی ہے۔

گنپت بابا       :رانی!۔ ۔ ۔ پر کوئی بات تو ضرور ہوئی ہے۔

رانی    :تم آرام کرو بابا۔ کوئی بات نہیں۔ بس ذرا سی کہا سنی ہو گئی۔ جب ساتھ رہیں گے تو کیسے نہ ہو گی۔

گنپت بابا       :رانی بٹیا!مجھے کیوں بہلا رہی ہو، میں بچہ نہیں ہوں میں نے ساری بات سن لی ہے۔ (گنپت حقہ لے کر چوپال میں چلا جاتا ہے) رام چرن!یہ کیسا جھگڑا ہو گیا ہے۔ تم نے شیام لال پر ہاتھ اٹھایا؟

رام چرن       :کچی بات زبان سے اسی نے پہلے نکالی تھی۔ میں کیا کرتا۔ کسی کی زبان چلتی ہے تو کسی کا ہاتھ چلتا ہے۔

گنپت بابا       :یہ تم نے کیا کیا بیٹا۔ آج تو اپنے بڑے بھائی پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ بڑا بھائی باپ کے برابر ہوتا ہے رام چرن  اور  پھر کوئی بات بھی تو ہو۔ ایک گلی کے لیے تو اندھا ہو گیا  اور  یہ بھول گیا کہ یہی شیام لال بھا جس نے پیچھے پھاگن میں تیری بیماری پر تین بیسی روپیہ خرچ کیا تھا  اور  حکیم وید کے چکر لگائے سو الگ۔ وہ شیام لال آج تیری گلی اٹھا کر لے جاتا۔

(ایک اجنبی داخل ہوتا ہے  اور  وہی پاگل پھر داخل ہوتا ہے اس کے پیچھے کچھ لڑکے ہیں۔ )

پاگل   :بھیا!یہ ذرا میری چٹھی تو پڑھ دو۔

(سب اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں  اور   پاگل سمجھ کر کچھ نہیں کہتے۔ )

اجنبی   :لاؤ نکالو۔  پڑھ دوں۔

(پاگل ایک کپڑا نکالتا ہے  اور  کپڑے کی تہیں کھولتا ہے تو ایک کاغذ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکلتی ہے۔ جب اسے کھولتا ہے تو اس میں سے ایک  اور   لپٹی ہوئی چیز نکلتی ہے۔ غرض چھ سات کاغذ نکالنے کے بعد خط نکالتا ہے۔ )

اجنبی   : (خط نکالنے کے دوران میں) ابے جلدی نکال۔ کوئی خط کو ایسے بھی لپیٹ کر رکھتا ہے۔

پاگل   :نکالتا ہوں بھیا نکالتا ہوں۔ یہ لو۔

(اجنبی چڑھ کر چلا جاتا ہے  اور  جب پاگل نظر اٹھا کر دیکھتا ہے کہ وہاں کوئی نہیں ہے تو پھر اپنا خط اسی طرح کاغذوں  اور  کپڑوں میں لپیٹنے لگتا ہے  اور  دوسری طرف رام چرن  اور  گنپت بابا گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ )

رام چرن       :بابا۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ تین بیسی روپے اس نے معاف کر دئیے میں نے ایک اک کوڑی ادا کی ہے۔ رہی حکیم، وید کے چکر لگانے کی بات تو سنو جب شیام لال کی  گھر والی بیمار ہوئی تھی تو تمہاری بہو بھی تورات رات بھر اس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہتی۔ ۔ ۔  اور  دن بھر گھر کا پکانا ریندھنا کرتی۔ اس کے پیچھے اسے اپنے گھربار کی سدھ نہیں تھی  اور  آج شیام لال کی گھر والی نے اس کا یہ بدلا دیا ہے۔

گنپت بابا       :بیٹا میں یہ نہیں کہتا کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اس نے جو کچھ کیا وہ اس کا فرض تھا  اور  تم نے کیا وہ تمہارا فرض۔ پراس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہا تھا پائی کرو۔ تمام کئے کرائے پر پانی پھیر دو اور   محلہ پڑوس کے آدمی تماشا دیکھیں۔

رام چرن       :مگر  میں تو بعد میں نکلا ہوں وہ تو پہلے سے گلی میں کھڑا جھگڑا کر رہا تھا۔ اس کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ اس کے پڑوس میں آدمی رہتے ہیں ڈھور ڈنگر نہیں۔ ابھی اس نے رام چرن کو نہیں دیکھا۔

گنپت بابا       :رام چرن بیٹا!!

رام چرن       :ہاں بابا!ہم نے بہت برداشت کیا۔ پر اب میں بتاؤں گا۔ شیام لال کو، وہ کس بھول میں ہے۔

گنپت بابا       :خیر اب قصہ ختم کرو۔ سچ پوچھو تو تم دونوں ایک دوسرے کے بھائی ہو۔ ایک کھلونے سے کھیلتے ہو۔

(کلو داخل ہوتا ہے۔ )

کلو     :کہو چاچا کیا ہو رہا ہے۔

گنپت بابا       :کیا بتائیں بیٹا۔ ایک ذرا سی گلی پراس میں  اور  شیام لال میں جھگڑا ہو گیا۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنی غلطی مان لے  اور  شیام لال سے جا کر معافی مانگ لے۔

کلو     :پر چاچا اس میں قصور شیام لال ہی کا ہے۔ ارے رام چرن اگر اس وقت نہ پہنچ جاتا تو شیام لال عورت ذات پر ہاتھ چھوڑ دیتا۔ میں پہلے ہی سمجھا تھا کہ آپس کی بات ہے لیکن شیام لال کی یہ بات مجھے بہت بری لگی۔ سچ تو یہ ہے کہ چاچا۔ رام چرن نے بڑے ضبط سے کام لیا۔

گنپت بابا       :خیر اسی کی زیادتی سہی، پراس وقت تو رام چرن ہی کو جھکنا چاہئے۔

رام چرن       :ہاں کیوں نہیں بابا، تم کو تو جب خوشی ہو گی جب رام چرن شیام لال کے پاؤں چھوئے گا۔ بابا تمہیں نہیں معلوم اب وہ پہلا شیام لال نہیں رہا۔ اب اس کی کوٹھی میں ناج بھرا ہے۔

کلو     :رام چرن!اب شیام لال نہیں بولتا۔ یہی کوٹھی کا ناج بولتا ہے۔ ناج۔ ناج کی گرمی بہت ہوتی ہے۔

رام چرن       : اور  بھیا کلو!وہ جانتا ہے کہ اس باڑھ نے میری کمر توڑ دی ہے۔

کلو     : (ذرا ہنس کر) تب ہی تو اس نے ٹوٹی ہوئی کمر پر ایک  اور  لات ماری ہے  اور  ابھی کیا ہے۔ رام چرن، بس اب دیکھتے جاؤ۔

رام چرن       :تم سمجھتے ہو کہ میں ایسے ہی دیکھتا رہوں گا۔ میں نے اس پر نالس نہ کی تو میرا نام بھی رام چرن نہیں ہے۔ مونچھ منڈوا دوں گا مونچھ۔

گنپت بابا       :بس بس کیوں بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہا ہے۔ اب میں اس میں عدالت مقدمے کی کون سی بات ہے۔

رام چرن       :بات کیوں نہیں۔ اس نے مجھے سمجھا کیا ہے۔ میں بھی دو روٹی کھاتا ہوں۔

کلو     :سچ کہتے ہو رام چرن!وہ اپنے روپئے کے نشے میں مست ہے۔ ابھی جب میں تمہارے یہاں آ رہا تھا تو اپنی عورت سے کہہ رہا تھا کہ بھیک نہ منگوا  دی رام چرن سے تو میرا نام شیام لال نہیں ہے۔

رام چرن       :دیکھو وہ مانگتا ہے بھیک یا میں۔

گنپت بابا       :کلو!تم خواہ مخواہ با ت بڑھا رہے ہو، اگر اس نے کہہ لیا تو کسی غیر کو کہا۔ رام چرن  اور  شیام لال کوئی دو دو ہیں۔

رام چرن       :بابا۔ ۔ ۔ بس کرو اب ہم ایک نہیں دو ہیں۔ بڑی اپنی عزت لیے پھرتا ہے۔

گنپت بابا       :اچھا اب ختم کرو بات کو۔ تم اگر اس کی عزت لو گے تمہاری عزت کیا رہ جائے گی۔

(پاگل پھر بڑبڑاتا ہوا اسٹیج پرسے گزر جاتا ہے)’’میرا  خط کوئی نہیں پڑھتا۔ ‘‘

کلو     :اس کو خط کیا مل گیا ہے۔ بس ہر ایک سے پڑھوا تا رہتا ہے۔

رام چرن       :اچھا خاصا تھا۔ جوان بیٹے کی موت نے یہ حال کر دیا۔ بھگوان دیا کرے۔

کلو     :ہاں تو بھیا رام چرن کیا ارادہ ہے ؟

رام چرن       :ارادہ کیا ہے۔ ۔ ۔ کلو تمہیں کیا معلوم، میں شیام لال کو مزا چکھاؤں گا۔ چھٹی کا دودھ یاد نہ آ جائے شیام لال کو اسے معلوم نہیں کہ رام چرن سے پالا پڑا ہے۔

گنپت بابا       :ہوش کی دوا کر، ہوش کی۔ اب تو شیام لال کو عدالت میں پیش کرے گا۔ رام چرن ایسا کرنے سے پہلے چلو بھر پانی میں ڈوب مر۔

رام چرن       : (غصے سے اٹھ جاتا ہے)بابا!تم سمجھتے ہو کہ سارا قصور میرا ہے  اور   شیام لال بے چارا بے قصور ہے۔ ۔ ۔ تم اب بوڑھے ہو گئے ہو اور  کائر کی سی بات کرتے ہو۔ تم کیا جانو، شیام لال نے سارے گاؤں میں مجھے ذلیل کیا  اور   خود بے گناہ بنا پھرتا ہے۔ سمجھتا ہے کہ ایسے دو چارگواہ مل جائیں گے۔

کلو     :تیرا کیا کرے گا۔ معاملہ تیری طرف ہے۔ شیام لال کو تیرے خلاف گاؤں میں ایک گواہی نہیں مل سکتی۔

رامو    : (غصہ سے) کلو ذرا کھال میں رہ کھال میں۔ کیوں آپے سے باہر ہوا جاتا ہے۔ یہ ہمارا آپس کا جھگڑا ہے، تو اس میں کیوں ٹانگ اڑا رہا ہے۔ جا اپنے گھرکا راستہ لے۔

کلو     : (اٹھ جاتا ہے منہ بناتا ہوا، کچھ کچھ  جھینپتا سا  اور  اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہوئے چوپال سے نکلتا ہے۔ پھر منہ پھیر کر) میں کیا کہہ رہا ہوں تم جوتے کھاؤ  اور  مست رہو۔ میرا کیا جاتا ہے۔

(گنپت کلو کو غصے سے گھورتا ہوا گھر میں چلا جاتا ہے  اور رام چرن بائیں راستے سے باہر چلا جاتا ہے۔ جب کلو نکڑ پر پہنچتا ہے تو شیام لال داہنے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ )

کلو     :کہو شیام لال کہاں سے آ رہے ہو۔

شیام لال       :کھیت سے آ رہا ہوں بھیا۔

کلو     : (ذرا آہستہ سے)سنا ہے، رام چرن تیرے خلاف عدالت میں نالش کرنے جا رہا ہے  اور  تو کھیت کے چکر میں ہے۔

شیام لال       :عدالت میں !سچ کہہ رہے ہو، کلو پر قصور تو اسی کا تھا۔ اسی نے میرے اوپر ہاتھ اٹھایا تھا۔ کلو یہ  دیکھو رام چرن کا مارا ہوا چانٹا ابھی تک میرے گال پر معلوم ہوتا ہے۔

کلو     :ارے میں نے بہت سمجھایا کہ آپس کی بات کو کیوں عدالت تک لے جا رہے ہو۔ پروہ ایسی کچی بات زبان سے نکالتا ہے کہ کہنے کی نہیں۔

شیام لال       :کیا کہتا ہے ذرا میں بھی توسنوں۔

کلو     :خیر چھوڑو بھی۔

شیام لال       :نہیں نہیں، تم بتاؤ، تمہارا نام بیچ میں نہیں آئے گا۔

کلو     :ارے بھیا میں نام سے نہیں ڈرتا۔ میں تو تیرے لیے گواہ تک اکٹھا کر دوں گا ا ور تو تو جانتا ہے کہ اپنا وردی والوں سے کیسا میل جول ہے۔ اگر آج کے دن بھی کام نہ آئے تو پھر کب آئیں گے۔ سالا کہتا ہے بھیک منگوا دوں  گا شیام لال کو۔

شیام لال       :اچھا رام چرن کی یہ مجال۔ لیکن میں اس کو ایسا نہ جانتا تھا میں نے اب تک اس کو اپنا بھائی سمجھا کلو تم سمجھتے ہو،  میں رام چرن سے کمزور پڑتا۔ نہیں یہ بات نہیں ہے پرمیرا ہاتھ نہیں اٹھا۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے کسی نے میرا ہاتھ باندھ دیا ہو۔ برسوں کے رشتے ناتے کا سمبندھ بڑا مضبوط ہوتا ہے کلو!

کلو     :شیام لال!تم بڑے سیدھے ہو۔ وہ تمہیں جیل میں ڈالنے کی بات کرتا ہے  اور  تم اسے اپنا بھائی سمجھتے ہو اور رشتے ناتے کا سمبندھ لیے پھرتے ہو۔ اب بھی وقت ہے شیام لال۔

شیام لال       :خیر کوئی بات نہیں۔ میں بھی دیکھوں گا وہ کیا کرتا ہے۔

کلو     :گواہوں کی ضرورت پڑے تو یاد رکھنا کلو کو،  دس گواہ دے سکتا ہوں۔

(کہتے ہوئے چل پڑتا ہے۔ )

گنیش   : (اداس ہو کر کہتا ہے)اچھی بات ہے۔

(پردہ گرتا ہے۔ )

 

 

 

دوسرا منظر

 

 (کئی دن بعد۔ ۔ ۔ شام کا وقت ہے۔ اسٹیج پر ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی ہے۔ دونوں جھونپڑوں  اور  چوپال کے سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ صرف چکی الٹی پڑی ہے۔ جواس بات کی علامت ہے کہ دونوں پڑوسیوں میں جھگڑا ہو گیا ہے۔ جھونپڑوں کے سامنے پہلی سی صفائی بھی نہیں ہے۔ چوپال میں گنپت، نورو، کلو اور   دو تین آدمی بیٹھے حقہ پی رہے ہیں۔ پاس الاؤ میں آگ جل رہی ہے۔ )

 

 

کلو     :ابھی تک رام چرن نہیں آیا۔ نہ جانے مقدمے کا کیا ہوا۔ اب تک تو آ جانا چاہئے تھا۔

(شیام لال کی بیوی اپنی جھونپڑی میں سے نکل کر دیکھتی ہے۔ شیام لال کو انتظار کر رہی ہے۔ )

نورو    :آتا ہی ہو گا۔ شہر سے گاؤں تک آنے میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک لگ ہی جاتا ہے۔

گنپت بابا       :مجھے تو نورو، اب اپنے گھرکے بڑے برے دن دکھائی دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ بھلا یہ بھی کوئی بات تھی جھگڑے کی۔

کلو     :پر آج تو فیصلہ ہوہی جائے گا۔ ادھر یا ادھر۔

(رام چرن بڑے شان سے اسٹیج پر آتا ہے۔ کپڑے معمول سے زیادہ صاف پہنے ہے  اور  بہت خوش ہے۔ مونچھیں اینٹھتا ہوا آتا ہے سگریٹ کے کش پر کش لگاتا ہوا۔ شیام لال کی بیوی بڑے غور سے دیکھتی ہے  اور   چلی جاتی ہے۔ )

گنپت  :اکیلا ہی آیا ہے شیام لال کہاں رہ گیا۔ اس کی گھر والی بے چاری پریشان ہے۔

رام چرن       :میں کیا جانوں کہاں رہ گیا۔ رہ گیا ہو گا کہیں۔ میں اس کے پیچھے پیچھے پھرتا ہوں۔

کلو     :ارے رام چرن!تیرے مقدمے کا کیا ہوا۔

رام چرن       :وہی تو سنانے والا تھا۔ بیچ میں بابا نے ٹوک دیا۔ ۔ ۔ (اک دم سے لہجہ بدل کر)بابا!کچھ سنا تم نے، مقدمے کا فیصلہ ہو گیا میں جیت گیا  اور   شیام لال پر دنگا کرانے کے الزام میں پانسو روپیہ جریبانہ ہو گیا۔

(شیام لال کی بیوی کی جھلک کٹیا میں سے نظر آتی ہے۔ یہ بات سن کر وہ اندر چلی جاتی ہے۔)

گنپت  :پانسو روپیہ، بے چارا مرگیا۔ کہاں سے لائے گا؟

رام چرن       :بابا!تم بھی کیا بات کرتے ہو(منھ بنا کر) بے چارا مرگیا کہاں سے لائے گا۔ آخر ہمارا بھی تو روپیہ لگا تھا۔ ہم کہاں سے لائے تھے۔

گنپت  :تیری تو عقل پر پردہ پڑ گیا ہے (لہجہ بدل کر) یہ تو بتا اس مقدمے میں تیرا کتنا خرچ ہوا ہے۔

رام چرن       :قرض ادھار لے کر یہی کوئی بارہ سو روپیہ۔ ۔ ۔ لیکن مزا تو چکھا دیا۔ اب دیکھتا ہوں بیٹا کیسے سر اٹھاتے ہیں۔

گنپت  :بارہ سو روپیہ۔ ۔ ۔  اور  وہ بھی قرض ادھار لے کر۔ یہ بارہ سو روپیہ ایک گیا۔ ۔ ۔  اور  میل ملاپ الگ ختم ہو۔ ۔ ۔ بیٹا یہ سودا اچھا نہیں رہا۔ تمہاری یہ جیت گھاٹے کا بیوپار ہے۔ ۔ ۔  اور  گھاٹے کا سودا بیوپاری کی کمر توڑ دیتا ہے۔ ۔ ۔ تم کھیتی باڑی کرنے والے کسان، ماتھے کے پسینے کی کمائی کھانے والے۔ آج بارہ سو روپیہ خرچ کر کے بھائی چارہ بیچ کر آ رہے ہو تم نے رام چرن اپنے باپ دادا کی عزت آبرو کا سودا کیا ہے  اور   اس پر یہ کہتے ہو مزا چکھا دیا اس کو۔ رام چرن!اب تیرے مرنے کے لیے چلو  بھر پانی بھی بہت ہے۔

رام چرن       : (اس گفتگو سے عاجز آ کر) بابا تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔

کلو     : (الگ لے جا کر) یار آج تم اس خوشی میں کچھ کھلا پلا دو نا۔ ایسے دن روز روز نہیں آتے رام چرن۔ فکر مت کر جب تک کلو زندہ ہے بیٹا! پیسا تو ہاتھ کی میل ہے۔ ذرا رگڑنے سے ہی چھوٹتا ہے  اور  مٹی میں مل جاتا ہے  اور  پھر تو نے تو اس کے بدلے میں عزت خریدی ہے۔ آج نہیں تو کل یہ پیسا پھر  آ جائے گا۔ گئی ہوئی عزت برسوں نہیں ہاتھ آتی۔ ۔ ۔  بس بیٹا اس وقت تو کچھ کھلا پلا دو نا۔ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ رام چرن نے مقدمہ جیتا ہے۔

رام چرن       :لو دو روپیہ، پی لو(وہ روپیہ دیتا ہے) آج میں نے کمر توڑ دی شیام لال کی۔ یاد رکھے گا۔ رام چرن سے پالا پڑا تھا۔

کلو     : اور  کیا۔ کیا بڑھ بڑھ کر باتیں بناتا تھا۔ پر یار تو نے چت کر دیا بیچ رستے میں۔ میں نے کہا تھا شیام لال بڑا بول بولنا ٹھیک نہیں ہے۔ پرنہ مانا آج دیکھ لیا۔ بہت سر اٹھا کر چلتا تھا۔

(رام چرن  اور  کلو ایک ہی راستے سے یعنی اسٹیج کے دائیں طرف سے چلے جاتے ہیں۔ )

کلو     :کیوں رام چرن بھیا کچھ ناچ رنگ بھی رہے گا۔

رام چرن       :ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ضرور ضرور چلو۔

(چلے جاتے ہیں)

گنپت  :سچ پوچھو تو بھیا نورو!مجھے اس سارے جھگڑے میں اسی کلو کا ہاتھ معلوم پڑتا ہے۔ اس روز اس نے رام چرن کو خوب چڑھایا تھا آخر میں نے ڈپٹ کر اٹھا دیا چوپال سے۔

نورو    :ہو سکتا ہے بھیا، کچھ کام کاج تو کرتا نہیں بس یہی پینے پلانے کے چکر میں رہتا ہے۔

گنپت  :میں کہتا ہوں یہ روپیہ پیسہ آتا کہاں سے ہے اس کے پاس۔

نورو    :ایسے ہی آتا ہے جیسے ابھی رام چرن سے اینٹھا ہے۔

گنپت  :رام چرن سے!

نورو    :ہاں ہاں، ابھی میرے سامنے لے کر چمپت ہوا ہے۔

گنپت  :یہ باتیں اپنے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتیں۔ پاگل ہو گیا ہے رام چرن۔ اسے ذرا بھی تو آگے پیچھے کا خیال نہیں ہے۔

نورو    :مجھے تو گنپت بھیا، کلو کا یہاں آنا جانا ایک آنکھ نہیں بھاتا  اور   آج کل یہ حال ہے کہ جہاں کلو وہاں رام چرن  اور  جہاں رام چرن وہاں کلو۔

گنپت  :کیا بتاؤں نورو بھیا۔ ۔ ۔ تم سمجھتے ہو مجھے یہ اچھا لگتا ہے۔ لیکن ہوہی کیا سکتا ہے۔ میرے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

(پیاری داخل ہوتی ہے۔ )

پیاری   : (بہت اداس ہے) بابا!چلو بھوجن تیا رہے۔

گنپت  : (اٹھتے ہوئے) اچھا بھیا نورو اب چلیں سلام۔

نورو    :سلام بھیا سلام۔

(اٹھ کر بائیں راستے سے باہر چلا جاتا ہے۔ )

(کلو اور رام چرن داخل ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ناچنے گانے والے ہیں۔ آ کر چوپال میں جم جاتے ہیں۔ کلو اور رام دونوں شراب کے نشے میں ہیں۔ )

کلو     : (ناچنے والوں سے) کوئی اچھا ناچ دکھاؤ۔

ناچنے والے     :اچھا۔

(ناچ شروع ہوتا ہے۔ )

۔ ۔ ۔ دو گیت۔ ۔ ۔

میں تو دمٹری تین سودے کر لائی

دیکھی بلم موری چترائی

دوڑی دوڑی میں تو گئی بنیا کے

اپنے لینے سری، بلم کے لیے بورا، چھوری کو شکر دوا لائی

دیکھی بلم موری چترائی

دوڑی دوڑی میں تو گئی سنرا

اپنے لیے ہنسلی، بلم کے لیے کھنڈوے، چھورے کو چھلا دوا لائی

دیکھی بلم موری چترائی۔ ۔ ۔ دیکھی بلم موری چترائی

دیکھی بلم موری چترائی

دوڑی دوڑی میں تو گئی کمہرا کے

اپنے لیے ہنڈیا، بلم کے لیے مٹکا، چھورے کو کلہڑ دوا لائی

دیکھی بم موری چترائی

ہے میری پتری کمریا، جھبے دار ناڑا لایو جھبے دار لایو، کریلی دار لایو

ہے میری پتری کمریا

تو شہر بنارس جایو، اچھی سی ساڑی لایو، پہنایو اپنے ہاتھ

جھبے دار ناڑا لایو

تو شہر بریلی جابو، اچھا سا سرما لایو، لگایو اپنے ہاتھ

ہے میری پتری کمریا، جھبے دار ٹارالایو

تو شہر آگرہ جایو، اچھا سا جو تالایو، پہنایو اپنے ہاتھ

اچھا سا جوتا لایو

(ناچ ختم ہو جاتا ہے سب لوگ چلے جاتے ہیں تو شیام لال بائیں راستے سے سر جھکائے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ بے حد اداس و غمگین ہے۔ قدم لڑکھڑانے سے لگتے ہیں۔ اسٹیج پر ہلکے ہلکے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اپنی کٹیا کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے۔ )

شیام لال       :تارو، اری اوتارو۔ کہاں چلی گئی۔

تارو    : (خاموشی سے سر جھکائے ہوئے نکلتی ہے  اور  کنکھیوں سے رام چرن کے گھر کی طرف دیکھتی ہے  اور  بے حد اداس ہے) کہو کیا ہوا مقدمے کا۔

شیام لال       :رانی!(رکتا ہے) مقدمہ تو ہار گیا۔ رام چرن نے گوا ہوں پر پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ میں باپ دادا کا برسوں کا ناتا لیے بیٹھا رہا  اور رام چرن نے آ کر پیچھے سے چھرا بھونک دیا  اور  تارو میں عدالت میں رام چرن سے آنکھ نہ ملا سکا۔ لیکن اب تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، اینٹ کا جواب(رک جاتا ہے، جیسے پتھر کہنا چاہتا تھا لیکن پھر ٹھہر کر کہتا ہے۔ ) پ۔ پ اینٹ سے تو دینا ہی پڑے گا۔ رام چرن نے میری عزت پر حملہ کیا ہے۔

تارو    :بڑی بری بات ہے۔ اب جو ہوا سو ہوا۔ نہ جانے کون سی گھڑی تھی۔ اگر میں ہی چپ ہو جاتی تو اتنی بات کیوں بڑھتی۔ مجھی سے غلطی ہوئی۔

شیام لال       :غلطی کسی کی بھی ہو۔ لیکن رام چرن نے میرے پیٹ پر لات ماری ہے۔ میں بھی ٹھا کر بیٹا ہوں اس کا بدلہ ضرور لوں گا۔

(کلو شراب کے نشے میں داخل ہوتا ہے۔ اسے نشے میں دیکھ کر تارو اندر چلی جاتی ہے۔ )

کلو     :شیام لال بھیا پرنام۔

شیام لال       : (اداس لہجے میں) پرنام بھیا پرنام۔

کلو     :بھیا بڑا دکھ ہوا لیکن اگر تم چپ ہو گئے تو بڑے کائر نکلے کائر۔

شیام لال       :اب اتنا بڑا دھکا کھا کر بھی چپ ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔  کلو۔ ۔ ۔  تو مجھے نہیں جانتا۔

کلو     :ارے پانسو تو میں تین دن میں نکال دوں گا، تین دن میں۔

شیام لال       :وہ کیسے ؟

کلو     :ارے وہی جوا کا کاروبار۔ ۔ ۔ لیکن پہلے رام چرن کی کٹیا یہاں سے صاف کرنی ہو گی۔

شیام لال       :جوئے کا کاروبار!(ایک سکنڈ خاموش رہتا ہے) نہیں نہیں یہ مجھ سے نہ ہو گا۔ یہ میرے بس کی بات نہیں۔ ۔ ۔ نہیں نہیں کلو، یہ میرے بس کی بات نہیں۔

کلو     :ہاں شیام لال یہ تیرے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے تو پتھر کا کلیجہ چاہئے پتھر کا۔ ۔ ۔  اور   تو سمجھتا ہے کہ رام چرن چپ بیٹھے گا۔ ارے شیام لال، تجھے کچھ نہیں معلوم۔ ابھی تو رام چرن تیرے گھرکو صاف کرے گا۔ تو نے دیکھا کیا ہے۔ اس کی نظر  تیری کٹیا پر ہے۔

شیام لال       :کلو!تم چپ رہو۔ ۔ ۔ میں سب سمجھتا ہوں۔ کیا میں اتنی بے عزتی کو بھول سکتا ہوں۔ ارے کبھی نہیں۔ رام چرن نے ایک تو میرے اوپر ہاتھ اٹھایا  اور  پھر جھوٹی گواہی دلا کر مجھے مقدمے میں ہرایا  اور  میں باپ دادا کی عزت لیے اب تک پھرتا رہا  اور  کچھ نہ کر سکا۔ اگر وہ میری کٹیا میں آگ لگانے کی سوچ سکتا ہے تو کیا میں بے وقوف ہوں۔ چپ چاپ آگ لگوا لوں گا۔

(شیام لال کی اس بات کے دوران میں کلو اشارہ کرتا ہے جیسے خوش ہو رہا ہے لیکن یہ اشارہ شیام لال نہیں دیکھتا۔ )

کلو     :ارے شیام لال بیٹا!۔ ۔ ۔ تیری باپ دادا کی عزت اس کے سامنے تین کوڑی کی نہیں  اور  اس کا یہ بڈھا باپ تو اسے  اور   اکساتا ہے  اور  یہی تیرے گھر میں آگ لگوانا چاہتا ہے۔ میں نے اس کی بات چیت سن لی ہے۔

شیام لال       : (حیرت سے)بابا!۔ ۔ ۔ سچ کہہ رہے ہو کلو؟مجھے بابا سے ایسی امید نہ تھی۔

کلو     :ارے گنپت بابا۔ ۔ ۔ بھیا یہ بڈھا دیکھنے ہی میں سیدھا معلوم ہوتا ہے۔ پر شہر کا راستہ اسی نے دکھایا ہے رام چرن کو اسی لیے تو کہتا ہوں۔

شیام لال       :اچھی بات ہے دیکھوں گا۔

(شیام لال اپنی کٹیا میں چلا جاتا ہے  اور  کلو اسٹیج پر فاتحانہ انداز سے چلتا ہے  اور  ایک زوردار قہقہہ لگاتا ہے۔ )

کلو     :ہاہا۔ ۔ ۔ ہاہا۔ ۔ ۔ ہاہا۔ ۔ ۔ وہ مارا۔ ۔ ۔ اب یاد رکھیں گے زندگی بھر۔ ۔ ۔  سالا کہتا تھا ’’میں شیام لال سے پوچھے بنا کوئی کام نہیں کروں گا۔ ‘‘(قہقہہ لگاتا ہے) دیکھ لیا باپ دادا کا سمبندھ (نشہ بڑھتا جاتا ہے) کیا کرایا ہے جھگڑا دونوں میں۔ ہمارا نام بھی کلو ہے کلو۔ (آئینہ نکال کر دیکھتا ہے۔ ) جس کو جب چاہیں لڑا دیں۔ دونوں بڑے دوست بنتے تھے۔ لیکن اب تو کایا پلٹ گئی۔ (قہقہہ لگاتا ہے  اور  سنجیدہ ہو کر کہتا ہے) سویرے راکھ کا ڈھیر ہو گا۔ (قہقہہ لگاتا ہے، نشہ بڑھتا جاتا ہے جھک کر شیام لال کا گھر دیکھتا ہے) ٹھیک ہے جوا کے لیے، اب ٹھاٹ ہو گئے۔

(یہ کہتے ہوئے چوپال میں چارپائی پر گر پڑتا ہے اس اثناء میں رانی دائیں دروازے سے داخل ہوتی ہے لیکن کلو کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے  اور  اسٹیج کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر کلو کا سارا مکالمہ سن لیتی ہے۔ اس کا دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ رام چرن  اور   شیام لال میں کلو ہی نے جھگڑا کرایا ہے۔ )

کلو     : (رانی کی طرف دیکھتا ہے)رانی!کہاں جا رہی ہو؟

رانی    :کلو بھیا یہ جھگڑا تم نے کرایا ہے کیا؟

کلو     : (نشہ  اور  بڑھ جاتا ہے کہ جملے بھی ٹھیک سے ادا نہیں ہوتے) ہاں ہاں۔ ۔ ۔ میں نے۔ ۔ ۔ میں نے۔ ۔ ۔ کلو سیٹھ نے۔ ۔ ۔ کلو۔ ۔ ۔  سیٹھ نے (جیب سے آئینہ نکال کر دیکھتا ہے)سالا۔ ۔ ۔ ہوں سالا کہتا۔ ۔ ۔  ہم شیام لال سے ہاں۔ ۔ ۔ اس سے پوچھ کر کام کریں گے۔ میں نے پیاری سے کہہ دیا کہ ہاں۔ ۔ ۔ تیری گلی تارو اٹھا لے گئی ہے بس دونوں لڑ پڑیں۔

رانی    :پر کلو یہ تم نے برا کیا۔ دو پڑوسیوں کو لڑا دیا۔ گنپت بابا بڑے دکھی ہیں۔

کلو     :گنپت بابا!ہوں۔ ۔ ۔ اس نے اس روز مجھے چوپال سے اٹھا دیا تھا۔ میں اپنی بے عزتی کبھی بھول سکتا ہوں۔ میں نے بھی وہ بدلا لیا ہے کہ زندگی بھر یاد کرے گا۔

رانی    :کلو!یہ تم نے پاپ کیا۔ ۔ ۔ مہا پاپ۔ ۔ ۔ اس شراب نے تم کو کہیں کا نہیں رکھا۔

(کلو بولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بولا نہیں جاتا  اور  وہ لڑکھڑاتا ہوا چلا جاتا ہے۔ رانی تھوڑی دیر سوچتی ہوئی داہنی طرف سے چلی جاتی ہے، ان کے جاتے ہی گنپت بابا  اور رام چرن جھونپڑی میں سے نکلتے ہیں۔ رام چرن، گنپت کو سہارا دیئے ہوئے چوپال کی طرف لا رہا ہے۔ گنپت بابا کافی کمزور ہو گئے ہیں۔ ان سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا ہے۔ رام چرن اس کو سہارا دے کر چوپال کی چارپائی پر لٹا دیتا ہے  اور   اس کے پیر دبانے لگتا ہے۔ )

گنپت بابا       :رام چرن!اب میرے بدن میں طاقت نہیں رہی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب میرے چل چلاؤ کے دن قریب آ گئے۔

رام چرن       :نہیں بابا!ایسی بات نہیں کرتے۔

گنپت بابا       :بات کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن بات سچ ہے پر ایک بات کا دکھ ضرور لے جاؤں گا۔

رام چرن       :وہ کس بات کا؟

گنپت بابا       :بیٹا یہی جو میرے چلتے چلاتے تجھ میں  اور   شیام میں جھگڑا ہو گیا۔ (آواز میں ذرا  اور   نقاہت  اور  درد پیدا ہو جاتا ہے) رام چرن! میں آج تین دن سے ٹھیک سے سویا نہیں تجھے نہیں معلوم کہ شیام لال کے باپ نے مرتے سمئے شیام لال کا ہاتھ میرے میں دیا تھا۔

رام چرن       :نہیں بابا۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم۔

گنپت بابا       :تو کیا جانتا ہے کہ آج تین روز سے اس کی مورت میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ (گنپت اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)  اور  کہتی ہے گنپت بھیا! میں نے اسی دن کے لیے شیام لال کا ہاتھ تیرے ہاتھ میں دیا تھا ایک دن تیرا بیٹا اس کے ہاتھ پکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دے۔

رام چرن       :بابا یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔

گنپت بابا       :میں سچ کہہ رہا ہوں (بدھے کی کھانسی  اور  تیز ہو جاتی ہے) شیام لال بھی میری گود میں اسی طرح کھیلا ہے جیسے تو۔ ۔ ۔ اب تک میں نے اپنے بھائی کی بات کا پاس رکھا۔ شیام لال کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا۔ لیکن رام چرن!لکڑی کی ایک گلی نے میری کمرتوڑ دی بالشت بھرکی گلی نے پچاسوں سال کے رشتے ناتے کو ختم کر دیا۔

(شیام لال آگ لگاتا ہے۔ )

رام چرن       : (چیخ کر) بابا!!!

گنپت  : (غصے سے کھڑا ہو جاتا ہے) مجھے یہ گلی مل جائے تومیں اس کا برادہ بنا دوں جس نے تجھے  اور  شیام لال کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ مجھے بتا دے رام چرن!میں شیام لال کے باپ کی مورت کو کیا جواب دوں گا۔ وہ دیکھو وہ سامنے چلا جا رہا ہے۔ وہ یہی سوال پوچھے ’’بھیا تم نے ایک گلی کے لیے شیام لال کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ بتا دے رام چرن ! میں اسے کیا جواب دوں۔

(آگ لگ چکی ہے۔ شیام لال آگے بڑھتا ہے۔ گنپت بابا  اور رام چرن کا مکالمہ سنتا ہے۔ جوں جوں مکالمہ آگے بڑھتا ہے گاؤں میں سے آگ آگ کا شور بلند ہوتا ہے۔ شیام لال کی الجھن  اور  بڑھتی ہے کبھی ایک طرف بھاگتا ہے تو کبھی دوسری طرف۔ اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے  اور  وہ آگ بجھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ )

رام چرن       :بابا!مجھے معاف کرو۔ میں ابھی جاتا ہوں  اور  شیام لال کے پاؤں پڑتا ہوں۔ شیام لال مجھے ضرور معاف کر دے گا۔

(آگ لگ جاتی ہے  اور  شعلے اوپر اٹھنے لگتے ہیں۔ شیام لال جلدی سے بالٹی لا کر آگ بجھاتا ہے دھواں دیکھتے ہی سب دوڑ پڑتے ہیں  اور   شیام لال، گنپت بابا کے پاؤں پر گر پڑتا ہے۔ )

شیام لال       : (رام چرن کی طرف بڑھ کر) مجھے معاف کرو رام چرن۔ میں بڑا برا ہوں۔ مجھ سے بھول ہوئی۔ لیکن اب ہم دونوں بھائی ہیں۔

رام چرن       :بھیا تمہاری غلطی نہیں میری ہے۔

شیام لال       : (بابا کے پاؤں پر گر پڑتا ہے)بابا! مجھے معاف کرو۔ میں کلو کے بہکائے میں آ گیا تھا۔ میں نے تمہاری ساری بات سن لی ہے۔

گنپت  :کلو نے تجھے اکسایا تھا؟

شیام لال       :ہاں کلو نے!

رام چرن       :بابا!کلو ہی نے مجھے بھی چڑھایا تھا۔

(کلو شراب کے نشے میں جھومتا چلا آ رہا ہے۔ نورو بابا اسے پکڑے ہوئے لا کر گنپت کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ رانی بھی پیچھے پیچھے آتی ہے۔ )

نورو    :بھیا گنپت!یہ ہے تمہارے یہاں جھگڑے کی جڑ۔ میں نے اس کی ساری باتیں سن لی ہیں۔ یہ تمہارے یہاں جوا کھلانا چاہتا تھا  اور   اسی لیے اس نے دونوں پڑوسیوں کو آپس میں لڑایا ہے۔ اس نے ساری بات قبول دی ہے۔

رانی    :رام چرن بھیا!یہیں تمہارے گھرکے سامنے اس نے مجھ کہا تھا کہ میں نے ہی ان میں جھگڑا کرایا ہے۔ میں نے ہی پیاری سے کہا تھا کہ تیری گلی تارو نے چرائی ہے۔

(رام چرن  اور   شیام لال کلو پر جھپٹتے ہیں۔ شیام لال کلو کو زور سے دھکا دیتا ہے۔ کلو اسٹیج پر فٹ لائٹ کے پاس گرتا ہے۔ )

گنپت  :جانے دو اس کی یہی سزا کافی ہے۔ تم دونوں الگ الگ تھے تو یہ زندہ تھا، اب تو یہ مردے سے بھی گیا گزرا ہے۔ شرابی۔ ۔ ۔ جواری۔

(اس درمیان میں پیاری  اور  تارو بھی آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں  اور   ایک دوسرے سے گلے ملتی ہیں۔ )

(پردہ گرتا ہے)

ماخذ: ’’اردو گھر‘‘، علی گڑھ

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘،  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

٭٭٭

فائل کے لئے تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید