FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

دعوت القرآن

 

حصہ ۱۷: پارۂ عم، اول (نباء تا الشمس)

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

 

 

 

 (۷۸) سورۂ اَلنَّبَا

 

(۴۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کا نام النَباَ ہے جس کے معنی اہم خبر کے ہیں۔ مراد قیامت اور دوبارہ اُٹھائے جانے  کی خبر ہے یہ نام اس سورہ کی آیت ؀ ۲  سے  ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

 

سورہ مکی ہے اور ابتدائی آیات  ہی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سورہ اس وقت کی تنزیل ہے جبکہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے  اہل مکہ کو قیامت کے آنے اور جزا و سزا کے واقع ہونے کی خبر دی تھی۔ جس کے نتیجہ میں اس موضوع پر ایک بحث اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور قیامت کو ناممکن قرار دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔ ظاہر ہے یہ حالات دعوت کے پہلے مرحلہ ہی میں پیش آئے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ کا مرکزی مضمون قیامت کے دن عدالت خداوندی کا برپا ہونا اور انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ؀ ۱     تا ؀ ۵   میں ان لوگوں کو سرزنش کی گئ ہے جو قیامت کے عظیم اور ہولناک واقعہ کی خبر سن کر  اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ گویا قیامت کی خبر ان کے نزدیک کسی سنجیدہ غور و فکر کی مستحق نہیں ہے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جبکہ قیامت واقعہ کی صورت میں ان کے سامنے آ نمودار  ہو گی اور فرمانروائے کائنات کے حضور جوابدہی کے لئے حاضر ہوں گے۔

آیت  ۶   تا  ۱۶   میں اﷲ کی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی نشانیاں بیان کی گئ ہیں۔ جو زندگی اور موت کے نہ صرف ممکن الوقوع ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ اس بات کی بھی شہادت دیتی ہیں کہ روز جزا ضروری ہے کیونکہ یہ اﷲ کی ربوبیت اور حکمت کا عین تقاضا ہے۔

آیت  ۱۷   تا  ۲۰   میں بتایا گیا ہے کہ روز جزا کا ظہور مقررہ وقت پر ہو گا۔  اور تمام انسان زندہ ہو کر عدالت خداوندی کی طرف چل پڑیں گے۔  آیت  ۲۱   تا  ۳۰   میں سرکشوں کا انجام بیان کیا گیا ہے اور آیت  ۳۱  تا  ۳۶  میں خدا خوفی کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کا۔

آیت  ۳۷  تا  ۴۰  خاتمہ کلام ہے جس میں عدالت خداوندی میں حاضری کی تصویر کھینچی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ لوگ باطل شفاعت کے بل پر جوابدہی سے نہیں بچ سکتے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ کس چیز کے  بارے میں  پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس بڑی خبر *۱ کے بارے میں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے متعلق یہ مختلف باتیں کر رہے ہیں *۲

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی باتیں غلط ہیں انھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سن لو انکے خیالات باطل ہیں وہ جلد ہی جان لینگے*۳۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ *۴۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑوں کو میخیں؟ *۵

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا تم کو جوڑوں کی شکل میں پیدا نہیں کیا؟ *۶

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا تمھاری نیند کو باعث سکون؟ *۷

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  رات کو لباس۔*۸

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دن کو وقت معاش نہیں بنایا؟ *۹

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان نہیں بنائے۔  *۱۰

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  ایک روشن چراغ پیدا نہیں کیا؟ *۱۱

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا ہم نے بادلوں سے موسلا دھار پانی نہیں برسایا؟ *۱۲

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تا کہ اُُگائیں اس کے ذریعہ غلہ اور  نباتات۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گھنے باغ۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ بیشک فیصلہ کا دن ایک  مقرر وقت ہے۔ *۱۳

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم آؤ گے فوج در فوج۔ *۱۴

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اسمیں دروازے ہی دروازے ہو جائیں گے۔ *۱۵

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب بن کر رہ جائیں گے۔*۱۶

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک ! جہنم گھات میں ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ سر کشوں کا ٹھکانہ۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں وہ مدّتوں  پڑے رہیں گے۔  *۱۸

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں وہ نہ کسی قسم کی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ پینے کی چیز کا۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بجز گرم پانی اور پیپ کے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے کرتوتوں کا ٹھیک ٹھیک بدلہ۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حساب کی امید نہ رکھتے تھے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہماری آیتوں کو یکسر جھٹلا دیا تھا۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ درانحالیکہ ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا تھا۔ *۱۹

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تو چکھو ! اب ہم تمھارے عذاب ہی میں اضافہ کریں گے۔

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یقیناً متقیوں *۲۰ کے لئے  کامیابی ہے۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ باغ اور انگور،

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نو خیز ہمسن لڑکیاں،

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چھلکتے جام ،*۲۱

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں وہ نہ کو لغو بات سنیں گے اور نہ  جھوٹی بات۔*۲۲

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ  تمھارے رب کی طرف سے جزا ہو گی اور کافی انعام۔ *۲۳

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی ساری چیزوں کا مالک ہے۔ رحٰمن۔

جس سے بات کرنے کا کسی کو یارا  نہیں۔*۲۴

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن روح ۲۵ *(الامین) اور فرشتے صف بستہ کھڑے  ہوں گے. کوئ بات نہ کر سکے گا سوائے اس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور وہ بالکل درست بات کہے گا۔ *۲۶

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن بر حق *۲۷ ہے۔ تو جو چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانہ بنا لے۔

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تمھیں ایک ایسے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے جو قریب آ لگا ہے۔*۲۸

جس دن آدمی دیکھ لے گا کہ اس نے آگے کیلئے کیا کیا ہے *۲۹ اور کافر کہے گا  کاش میں مٹی ہوتا۔ *۳۰

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  بڑی خبر سے مراد قیامت اور  روز جزا کے  واقع ہونے کی خبر ہے۔  قرآن نے جب یہ خبر سنائی تاکہ لوگ متنبہ ہو کر ذمہ دارانہ زندگی گزاریں تو مشرکین مکہ اس کا مذاق اُڑانے اور اس کے خلاف آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ آیت کا اشارہ ان کی انہی چہ میگوئیوں کی طرف ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مشرکین مکہ کے خیالات روز جزا اور آخرت کے بارے میں مختلف تھے۔  وہ انسان کے دوبارہ اُٹھائے جانے کو سرے سے ممکن ہی نہیں سمجھتے تھے۔  وہ کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟  کچھ لوگوں کے نزدیک آخرت کا تصور کوئی معقول بات  نہیں تھی.  وہ کہتے تھے ” زندگی تو بس دنیا کی زندگی ہے مرنے کے بعد ہمیں اُٹھایا نہیں جائے گا "۔  اور کچھ لوگ آخرت کے بارے میں شک اور تذبذب میں مبتلا تھے۔  اُن کے یہ خیالات کسی دلیل پر مبنی نہیں تھے بلکہ یہ محض اٹکل پچو باتیں تھیں۔

واضح  رہے کہ قیامت اور روز جزا سے انکار کے معاملہ میں مشرکین عرب منفرد نہ تھے بلکہ جہاں تک دیگر مشرکانہ مذاہب کا تعلق ہے وہ بھی نہایت اُلجھی ہوئی باتیں پیش کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ درج ذیل اقتباسات سے ہو گا:ّ

Extract From The Encyclopaedia Of Religion And Ethics, Volume V:

Hindu:  “Although in the Rigveda the clear statement of Judgment is found and Yama appears mainly as King of the region of bliss, yet he is to some extent an object of terror, and dark underground hell is spoken of the fate of evil-doers (iv 5.5 vii 104.3  ix 73.8)…. the later views differ widely from this thought.  The gradual introduction of the belief  in transmigration while Yama is now the judge of the dead. . . . .  In Upanishads re-birth in various conditions, in heaven, on earth appears as the result of ignorance of the true end of existence. . . . . Hinduism in all its forms endorses this view.  All go to Yama over a dreadful road in which the pious fare better than the wicked.  Yama or Dharma judges and allots the fate.  Through endless existences and re-birth in human, animal, or plant forms- alternated with lives in the heavens or hells, the soul must pass.

Buddhist:  In Buddhism the idea of karma afforded an automatic principle of judgment, whereby the person after death entered upon an existence, higher or lower, according to his actions.  At death, the force resulting from actions combined with clinging to existence causes creation of the five skandhas or constituent elements of being.  This is so swift that there is hardly any break in the continuity or personality, which is thus re-created in one of the six states – Gods, man, asuras, animals, plants, pretas or inhabitants of one of the hells. (p. 375)

لیکن ان  تمام اُلجھی ہوئی باتوں کے باوجود یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس دنیا کا ایک دن خاتمہ ہونا ہے اور موجودہ سائنس اس کی تائید کرتی  ہے چنانچہ انسائیکلوُپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگار آگے چل کر لکھتا ہے :۔

Conclusion:  The ideas regarding the end of the world which are found in most eschatologies may be regarded as mythical speculation prompted by knowledge of actual catastrophes in Nature and of its phenomena.  The world as science teaches and as the speculations of men suggested must have an end;  but they pictured that end in lurid colours, while generally anticipating after it a new order.” (p. 391)

قرآن جزائے عمل کے لئے ایک نئے  نظام عمل کے ساتھ نئے عالم کے برپا کئے جانے کی خبر کو محض اندھے عقیدہ  (Dogma) کے طور پر نہیں بلکہ آفاق و انفس کی نشانیوں (عقلی دلائل) کے ساتھ اتنے دلنشیں پیرایہ میں پیش کرتا ہے کہ کسی قسم کے شک ، شبہ اور اختلاف کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں اور  ضمیر پکار اُٹھتا ہے کہ روز جزا کا برپا کیا جانا نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ہے اور قرآن آگے بڑھ کر پوری قطعیت کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ یوم جزا لازما برپا ہو گا۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ وقت دور نہیں جب اُنھیں معلوم ہو جائے گا کہ روز جزا کے بارے میں ان کی قیاس آرائیاں غلط تھیں۔ یہ حقیقت موت کے آتے ہی عالم  برزخ میں جو قیامت تک کے لئے روحوں کا ٹھکانہ ہے ان پر کھل جائے گی اور پھر قیامت کے دن جب کہ تمام انسانوں کو جسم سمیت دوبارہ اُٹھا کھڑا کیا جائے گا وہ اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کریں گے  کَلا سَیَعلَمُونَ (انھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا) کی تکرار ان دو مواقع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  کرہَ زمین اگرچہ کہ فضا میں معلق ہے  اور سورج کے گرد گردش بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب نہیں ہے نیز اس کی سطح کو اس طرح پھیلا دیا گیا ہے کہ اس پر آبادی ممکن ہوئی۔  بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص انسان کو بسانے ہی کے لئے زمین کو فرش بنا کر ان تمام چیزوں کا انتظام کیا گیا ہے جو انسانی زندگی کے لئے مطلوب ہے۔ گویا زمین پر انسان کو بسانے کا کام ایک منصوبہ کے تحت عمل میں آیا ہے۔ کیا اسمیں اﷲ کی ربوبیت اور حکمت کی کھلی نشانی موجود نہیں ہے ؟

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دینے سے اس کی رفتار اور گردش میں توازن پیدا ہو گیا ہے اور اضطراب کی کیفیت نہیں رہی۔  مزید براں پہاڑوں سے انسانوں کو طرح طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً دریاؤں کی شکل میں پانی کے ذخائر  وغیرہ۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  ایسا نہیں ہوا کہ صرف مرد پیدا کر دیئے گئے ہوں یا عورتیں ہی عورتیں پیدا کر دی گئی ہوں۔  بلکہ مرد اور عورت کے جوڑے  کی شکل میں انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ اس جوڑے کا ہر فرد اپنی جسمانی اور نفسانی خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہے لیکن یہ اختلاف ان میں تضاد اور مخالفت نہیں بلکہ توافق اور مودّت پیدا کر دیتا ہے گویا وہ ایک دوسرے سے مِل کر مکمل ہو جاتے ہیں۔ کیا انسنا کی تکمیل کا یہ سامان اپنے اندر اﷲ کی ربوبیت اور حکمت کی کوئی نشائی نہیں رکھتا ؟

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  نیند انسان کی تکان کو دور کرتی ہے اور اس کے بعد تازہ دم ہو جاتا ہے۔  اگر نیند کا داعیہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر نہ رکھا ہوتا تو مسلسل محنت کرنے سے اس کے قویٰ جواب دیے دیتے اور وہ پُر سکون زندگی گزارنے کے قابل نہ رہتا۔ انسان کو آرام اور سکون بہم پہنچانے کا یہ انتظام کس قدر حیرت انگیز ہے۔ کیا یہ بھی کسی اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے یا ایک مدبّر کا حکیمانہ منصوبہ ؟

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  اگر زمین پر دن ہی دن ہوتا تو انسان کے تحفظ اور راحت کا سامان نہیں ہو سکتا تھا۔ آفتاب کی مسلسل تمازت انسان کو سکون و راحت سے محروم کر دیتی۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے زمین کو ایک ایسے قانون میں جکڑ ہے کہ وہ اپنے محور پر برابر گردش کرتی رہتی ہے جس سے رات اور دن کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔  اس طرح رات کی چادرانسان کو اپنے اندر اسی طرح چھپا لیتی ہے جس طرح کہ لباس۔ کیا زمین کے پیچھے جو اس عظیم مقصد کو لئے ہوئے ہے کسی مدبّر کا ہاتھ کارفرما نہیں ہے ؟

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  اگر زمین پر رات ہی رات ہوتی تو معاشی دوڑ دھوپ اور گزر بسر کے لئے وہ سازگاری انسان کو ہرگز میسّر نہ آتی جس کی بنا پر وہ ایک بہترین مخلوق کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہے اور اقتصادی ترقی کے لئے بےشمار راہیں اس پر کھل گئی ہیں۔ کیا یہ اﷲ کی ربوبیت کا کرشمہ نہیں ہے ؟

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی  اﷲ کی پیدا کردا کائنات  کی وسعت کا اندازہ اس سے کر سکتے ہو کہ حدّ نظر تک دکھائی دینے والا آسمان صرف آسمانِ اوّل ہے۔ ایسے سات آسمان اﷲ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں، اور اجرام سماوی کو مستحکم بنایا ہے کہ ایک طویل زمانہ گزر جانے کے باوجود ان میں شکست و ریخت کے کوئی آثار پیدا نہیں ہوئے  اور  اس کے حسن و جمال میں ذرہ برابر فرق واقع نہیں ہوا۔  نیز قوانین قدرت کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کہیں سے  کوئی رخنہ پیدا نہیں ہو سکتا۔  اگر آسمان کا نظام مضبوط نہ بنایا گیا ہوتا تو زمین کا نظام ہرگز قائم نہیں رہ سکتا تھا۔  کیا اس میں اﷲ کی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی عظیم نشانیاں موجود نہیں ہیں ؟

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  سورج کو ایسا روشن بنایا گیا ہے کہ اس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ موجودہ سائنس کی روشنی میں سورج کو دیکھئے تو  کمالات خداوندی کے پہلو اور روشن ہو کر سامنے آئیں گے سورج کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ وہ زمین سے ایک سو گنا سے زائد بڑا ہے۔ اسے زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلے پر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے زمین پر نہ بے انتہا گرمی ہوتی ہے نہ بے انتہا سردی۔ بلکہ زندہ مخلوق کے لئے جو درجہ حرارت مطلوب ہے ٹھیک وہی درجہ حرارت یہاں رہتا ہے اور سورج کی اسی حرارت سے بارش بھی ہوتی ہے اور فصلیں بھی پکتی ہیں۔ پھر کیا تمھیں اس روشن چراغ سے بھی اﷲ کی قدرت اور ربوبیت کے بارے میں کوئی روشنی نہیں ملتی ؟

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  بادلوں کے ذریعہ انسانی آبادیوں کو وافر پانی مہیا کرنے کا انتظام اور اس کے ذریعہ غلّہ اور سبزی کی پیداوار اور گھنے باغوں کا اُگ جانا جس سے انسان کی رزق رسانی کا سامان ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے۔  کیا انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی نہیں ہے؟  کیا اس کے پیچھے ایک ایسی ہستی کا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا جو اس کی پروش کا پورا پورا انتظام کر رہی ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ہے وہ بات جس پر اوپر کے مضمون آیت  ۶   تا  ۱۶    میں استدلال کیا گیا ہے۔  استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ فیصلہ کا دن (Day of Judgment   (  ایک  امر قطعی ہے اور اس کے وقوع کا وقت بھی بالکل مقرر ہے۔ مشرکین مکہ اس کو ماننے سے اس بناء  پر انکار کر رہے تھے کہ اس سے انسان کا دوبارہ اُٹھایا جانا لازم آتا ہے جو ان کے نزدیک ایک ناممکن بات تھی۔ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ انسان جب مر کر مٹی میں مل گیا تو اسے دوبارہ کس طرح زندہ کیا جا سکتا ہے۔  وہ اپنی تنگ ذہنیت کی بنا پر  اﷲ کی قدرت و حکمت کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر تھے۔  اس لئے عقل کو اپیل کرنے والا انداز اختیار کیا گیا۔  اور فیصلہ کے دن پر اﷲ کی قدرت اور اس کی ربوبیت و حکمت سے استدلال کیا گیا۔  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ زمین  یہ آسمان اور یہ طرح طرح کی نعمتیں جن سے تمھاری زندگی وابستہ ہے کس بات کی شہادت دے رہی ہیں؟  کیا اس بات کی کہ ان کا خالق نہایت محدود قدرت والا ہے اور اس کے کاموں میں مقصدیت کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں چلتا اور اس کائنات کے اجزا بالکل بے ترتیب ہیں اور یہ پورا کارخانہ (Un systematic )  معلوم ہوتا ہے ؟

یا یہ کہ آفاق و انفس کے  یہ آثار اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ تمھارا خالق زبردست  قدرت کا مالک ہے اور نہ صرف زبردست قدرت کا مالک ہے بلکہ ساتھ ہی وہ ربوبیت اور حکمت کی صفات سے بھی متصف ہے۔  اﷲ کو ان صفات سے متصف مان لینے کے بعد روز جزا کو مان لینے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا بلکہ ان صفات کا لازمی تقاضا قرار پاتا ہے کہ روز جزا برپا ہو۔ جب یہ واضح ہوا کہ اﷲ زبردست قدرت کا مالک ہے پھر اس کے لئے مردہ کو زندہ کرنا نہایت آسان بات ہے اس کے ناممکن ہونے کا کیا سوال ؟  اور پھر جو ہستی انسان کو ربوبیت کا سامان اس اہتمام کے ساتھ کر رہی ہو اور جس نے ان گنت نعمتوں سے اسے نوازا ہو وہ اپنی ان نعمتوں کا حساب اس سے کیوں نہ لے گی اور اپنے وفادار بندوں کو انعام کا مستحق اور سرکشوں کو مستحق سزا کیوں نہ ٹھہرائے گی ؟   اس کی حکمت کا ظہور اس کائنات کی ایک ایک چیز سے ہو رہا ہے۔ اس کا ہر کام دانائی پر مبنی اور منصوبہ بند ہے۔ پھر کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انسان ہی کی تخلیق بے مقصد ہوئی ہے۔ اسے مر کر مٹی میں مل جانا ہے اور اس کے بعد کچھ نہیں، نیک و بد میں کوئی تمیز  نہیں۔  اﷲ تعالیٰ کو ماننے والے اور اس سے  کفر کرنے والے  اس کے اطاعت شعار اور اس کے نافرمان سب برابر ہیں۔  نہ کسی کو انعام  ملنا ہے اور نہ کسی کو سزا۔ اﷲ کی عدالت کوئی عدالت ہی نہیں جہاں جوابدہی کے لئے  حاضری کا سوال ہو کیا اس قسم کی باتیں تمھاری عقل میں سماتی ہیں اور اس کی صفت حکمت سے کوئی مناسبت رکھتی ہیں۔  واقعہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی جس حکمت کا مشاہدہ انسان اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی دنیا میں کرتا ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ یوم جزا برپا ہو۔ اس سے قرآن کی اس خبر کی بھی مکمل تائید ہوتی ہے کہ جزا کا ایک دن مقرر ہے۔  اس روز تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے فرمانروائے کائنات کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن بگل بجاتے ہی سارے مردہ انسان زندہ ہو کر عدالت خداوندی میں حاضر ہونے کے لئے نکل پڑیں گے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  عالم بالا کی حقیقتیں آج انسان کی نظروں سے چھپی ہوئی ہیں لیکن قیامت کے دن انسان آسمان کے کھل جانے سے ان کا مشاہدہ کرے گا۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ قیامت کے دن اس دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ یہ زمین ایک چٹیل میدان کی شکل اختیار کر لے گی۔ جہاں تمام لوگوں کو اکھٹا کر کے عدالت برپا کی جائے گی۔ بڑے بڑے پہاڑ فضا میں اُڑ رہے ہوں گے اور ان کی جگہ ریت کا میدان ہو گا میدان حشر میں ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس سے قیامت کے دن کی ہولناکی، زمین کی ساخت میں عظیم تبدیلیوں کے رونما ہو جانے اور میدان حشر کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  خدا کے سرکش بندے دنیا میں خداسے بے خوف ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے عذاب اور خطرہ کی کوئی بات نہیں ہے۔  لیکن قیامت کے دن جہنم اس طرح ظاہر ہو گی جیسے وہہ گھات ہی میں تھی اور وہ اس میں ایسے پھنسیں گے کہ پھر کبھی اس سے نکل نہ سکیں گے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایک دور کے بعد دوسرا دور اس طرح وہ مسلسل عذاب ہی میں رہیں گے۔ اتنی سخت سزا اس لئے کہ انھوں نے اﷲ کی بندگی کی جگہ اﷲ سے سرکشی کا رویّہ اختیار کیا۔  اپنے محسن حقیقی کی ناشکری کرتے رہے  اور روز جزا کو ماننے اور اس کے مطابق ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لئے کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے۔  لہذا جو بیج انھوں نے بویا تھا اسی کے پھل وہ کاٹتے رہیں گے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے اعمال کا ریکارڈ ہم تیار کر رہے تھے۔  گویا ہر شخص کی زندگی کی مکمل بولتی فلم تیار  کی جا رہی تھی جس میں اقوال و افعال ہی نہیں نیتوں تک کو ریکارڈ کیا جا رہا تھا اور یہ اس خام خیالی میں مبتلا رہے کہ اپنی من مانی کرنے کے لئے بالکل آزاد ہیں اور ان کے اعمال کا کوئی ریکارڈ تیار  نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ انھیں نہ کوئی ایسا کیمرہ  دکھائی دیتا تھا جو ان کی عملی زندگی کی تصویر کھینچ رہا ہو اور نہ کوئی ٹیپ ریکارڈر جو ان کی باتوں کے کیسٹ کر رہا ہو۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں متقین کا لفظ طاغین (سرکش) کے مقابلہ میں استعمال کیا گیا ہے۔  یعنی وہ لوگ جو اﷲ اور یوم پر ایمان رکھتے ہیں اس کی آیات کو مانتے ہیں اور اسی طور سے زندگی گزارتے ہیں کہ انھیں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد شراب طہور کے جام ہیں۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔   یعنی جنت کا ماحول نہایت پاکیزہ ہو گا۔ سوسائٹی بھی پاک اور کھانے پینے کی تمام اشیاء بھی پاک۔ یہاں تک کہ وہاں کی شراب بھی دنیوی شراب کی طرح نہیں ہو گی کہ آدمی پی کر بکواس کرنے لگے۔ بلکہ وہ نہایت پاکیزہ ہو گی اور اس سے ایسے سرور کی کیفیت پیدا ہو گی جس میں بیہودگی کا کوئی عنصر نہ ہو گا۔ اسی طرح وہاں دوسری لغویات اور تماشے بھی نہیں ہوں گے اور نہ جھوٹ و افتراء پردازیوں کا وجود ہو گا۔ بلکہ وہ ایک سنجیدہ اور پُر مسرت ماحول ہو گا جہاں ہر طرف اخلاق اور شرافت ہی کے نمونے دکھائی دیں گے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  متقیوں کو ان کے نیک اعمال کی صرف جزا دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اﷲ تعالیٰ انھیں اپنی طرف سے کافی انعامات سے بھی نوازے گا۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن جب خداوند کائنات اپنی عدالت برپا کرے گا تو اس عدالت کے رعب کا عالم یہ ہو گا کہ کوئی اس کے حضور زبان کھولنے کی جرأت نہ کر سکے گا۔ اس سے مشرکین کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ ان کے دیوی دیوتا جو چاہیں خدا سے منوا سکیں گے۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  روح سے مراد روح الامین یعنی جبریل ہیں۔  فرشتوں کے سردار ہونے کی حیثیت سے ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے اور بتلانا یہ مقصود ہے کہ روز قیامت جب اﷲ عدالت برپا فرمائے گا تو فرشتے حتی کہ جبریل بھی صف بستہ کھڑے ہوں گے۔  سب پر ہیبت طاری ہو گی اور کسی کی یہ مجال نہو گی کہ بلا اجازت بول سکے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  مقصود سفارش کے غلط تصور  کی تردید ہے جس میں اہل مذاہب گرفتار ہیں۔  جہاں تک مشرکین کا تعلق ہے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر قیامت آ ہی گئی اور اعمال کی جوابدہی کے لئے خدا کی عدالت میں حاضر ہونا پڑا تو یہ دیوی دیوتا جن کی پوجا کرتے رہے ہیں ہمارے سفارشی بن کر کھڑے ہوں گے اور ہمیں عذاب سے نجات دلوا کے رہیں گے۔  لیکن قرآن بتلاتا ہے کہ اول تو کسی "دیوی دیوتا” کا آخرت میں وجود ہی نہیں ہو گا سب اﷲ کے عاجز بندے کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور سارے اختیارات اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے اور عدالت خداوندی کے رعب کا عالم یہ ہو گا کہ مقرب ترین فرشتے بات کرنے کی جرأت نہ کریں گے۔ اگر سفارش کے لئے کوئی زبان کھول سکے گا تو وہی جس کو اﷲ اجازت دے اور اس صورت میں وہ ٹھیک اور  درست بات ہی کہے گا اور مشرکین کے لئے سفارش کوئی بھی نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے حق میں سفارش کرنا اﷲ کے اس فیصلے کی بناء پر کہ جو ناقابل معافی  جرم کے مرتکب ہی ہوئے درست بات نہ ہو گی۔ اﷲ کی اجازت کے بعد کسی کی سفارش کے لئے کوئی زبان کھولے گا بھی تو صرف ایسے گنہگار بندوں کے لئے جو  اہل ایمان ہوں اور جن کے حق میں اﷲ سفارش قبول کرنا  پسند فرمائے۔ لہذا کوئی شخص اس خام خیالی میں مبتلا نہ رہے کہ وہ خواہ شرک و کفر کا مرتکب کیوں نہ ہوا ہو اور خواہ اس نے ایک سرکش کی حیثیت سے زندگی کیوں نہ گزاری ہو اور خواہ اس نے ایک سرکش کی حیثیت سے زندگی کیوں نہ گزاری ہو کسی نہ کسی کے طفیل اس کی نجات ہو جائیگی۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جزا کا دن قیاس و اٹکل کی بات نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت اور واقعہ ہے جس کی خبر پوری صداقت کے ساتھ تمھیں دی جا رہی ہے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  قریب اس اعتبار سے کہ دنیا کی بیشتر عمر گزر چکی ہے اب قیامت کے آنے میں جو وقت باقی رہ گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے ویسے بھی وقت ایک اضافی چیز ہے۔ قیامت کے دن جب کہ زمان و مکان کے پیمانے بدل جائیں گے۔ انسان نے جو وقت دنیا میں گزارا تھا اسے بہت تھوڑا معلوم ہو گا۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  انسان دنیا میں اچھے بُرے جو کام بھی کرتا ہے اس کا لازماً ایک اثر اور ایک نتیجہ ہے جو دوسری زندگی (آخرت) میں مرتب ہو گا۔  اس حقیقت کو  مَا قَدَّمَت یَدَاہُ ( جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ انساں کا ہر عمل اس کے اپنے ہاتھوں بیج بونے کے مترادف ہے جس کے پھل وہ آنے والی زندگی میں کاٹے گا۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جو لوگ روز جزا کو ماننے اور اس کی بنیاد پر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے سے انکار کر رہے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ یوم جزا برپا ہو گا اور انسان اپنے کرتوت اپنے سامنے دیکھ لے گا۔ تو ایسے لوگوں کے حصہ میں سواءے حسرت اور پچھتاوے کے کچھ نہیں آئے گا۔ اس وقت ہر منکر آخرت کو احساس ہو گا کہ کاش وہ مر کر مٹی میں مل گیا ہوتا اور حساب دینے کی نوبت ہی نہ آتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۷۹)۔سورہ اَلنّازعات

 

( ۴۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز والنازعات سے ہوا ہے جس کی مناسبت سے اس سورہ کا نام النازعات رکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ہواؤں کی  صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

 

زمانۂ  نزول

 

یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ نبا کے متصلاً بعد نازل ہوئی ہو گی

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ کا موضوع قیامت کا وقوع اور جزائے عمل کے لئے  انسان کا دوبارہ اُٹھایا جانا ہے۔  پس منظر خاص طور سے وہ سرکش اور فرعون صفت لوگ ہیں جو اپنی دنیا بنانے میں مست رہتے ہیں۔

 

نظم کلام

 

آیت  ۱  تا  ۵ میں روز جزا پر ہواؤں کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے۔ آیت ۶ تا ۱۴  میں حادثہ قیامت کی تصویر پیش کرتے ہوئے منکرین کے اعتراض کا ذکر کیا گیا ہے۔  آیت  ۱۵  تا  ۲۶  میں حضرت موسیٰ کا مختصراً بیان ہوا ہے کہ کس طرح فرعون ان کی دعوت کو رد کرنے کے نتیجہ میں عبرتناک انجام سے دوچار ہوا۔  یہ گویا مکافات عمل پر تاریخ سے استشہاد ہے۔

آیت  ۳۴  تا ۴۱  میں واضح کیا گیا ہے کہ جس دن قیامت کا حادثہ پیش آئے گا ،  سرکشوں اور دنیا پرستوں کا انجام کیسا برا ہو گا۔  اور اﷲ سے ڈرنے والوں کا انجام کتنا خوشگوار ہو گا۔

آیت  ۴۲  تا  ۴۶  میں منکرین قیامت کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ آخر قیامت آئے گی کب ؟

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم ۱*ہے ان  ( ہواؤں) کی جو (بادلوں کو ) شدت کے ساتھ گھسیٹتی ہیں۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور ان کی جو نرم نرم چلتی ہیں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور ان کی جو سبک رفتار ہیں۔ ۲*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جو ( تعمیل حکم میں) بازی لے جاتی ہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  ایک کام ( بارش ) کا انتظام کرتی ہیں۔ ۳*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن زلزلہ کا شدید جھٹکا لگے گا۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے پیچھے دوسرا جھٹکا آئے گا۔ ۴*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنے دل اس دن دھڑک رہے ہوں گے۔ ۵*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔نگاہیں ان کی پست ہوں گی۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں کیا ہم پھر پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے ؟ ۶*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس وقت جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی ؟ ۷*

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں یہ لوٹنا بڑے خسارہ کا ہو گا۔ ۸*

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو بس ایک ڈانٹ ہو گی۔ ۹*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ وہ یکایک میدان میں آ موجود ہوں گے۔ ۱۰*

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تمھیں موسیٰ کے واقعہ کی خبر پہنچی ہے۔  ۱۱*

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب کہ اس کے رب نے اسے  طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا۔ ۱۲*

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہو گیا ہے۔ ۱۳*

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے کہو کیا تو چاہتا ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے۔ ۱۴*

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں کہ تو  اس سے  ڈرنے لگے۔ ۱۵*

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر (موسیٰ نے ) اس کو بڑی نشانی دکھائی۔ ۱۶*

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر اس نے جھٹلایا اور نہ مانا۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر  پلٹا اور مخالفت میں سرگرم ہو گیا۔ ۱۷*

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  لوگوں کو جمع کر کے اعلان کیا۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کہا کہ میں ہوں تمہارا سب بے بڑا رب۔ ۱۸*

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالآخر اﷲ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب  میں پکڑ لیا۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک اس میں بڑی عبرت ہے ہر اس شخص کے لئے جو ڈرے۔ ۱۹*

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ دشوار ہے یا آسمان کی ؟ اس نے اس کو  بنایا۔ ۲۰*

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی چھت بلند کی ۲۱* اور اس کو درست اور ہموار کیا۔ ۲۲*

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی رات ڈھانک دی اور اس کا دن نکالا۔ ۲۳*

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد زمین کو بچھایا۔ ۲۴*

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  پہاڑ اس میں گاڑ دئے۔

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ تمہاری اور تمہارے مویشیوں کی زندگی کا سامان ہو۔ ۲۵*

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر  جب وہ عظیم ہنگامہ برپا ہو گا۔ ۲۶*

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن انسان اپنے کئے کو یاد کرے گا۔ ۲۷*

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے لئے بے نقاب کر دی جائے گی۔

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو جس نے سرکشی کی ہو گی۔ ۲۸*

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی ہو گی۔ ۲۹*

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوزخ  ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے  سے  ڈرا ہو گا ۳۰* اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکا ہو گا۔

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنت اس کا ٹھکانا ہو گی۔

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) یہ لوگ  تم سے قیامت کے بارے  میں پوچھتے ہیں کہ وہ گھڑی کب آ ٹھہرے گی۔

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا  وقت بتانے سے تمہیں کیا واسطہ۔ ۳۱*

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا علم تو تمہارے رب ہی کو ہے۔

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا کام صرف ان لوگوں کو خبردار  کرنا ہے جو اس سے ڈریں۔

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس  روز وہ اُسے دیکھ لیں گے تو انہیں ایسا محسوس ہو گا کہ وہ (دنیا میں ) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے۔ ۳۲*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  ابتدائی پانچ آیتوں میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کی صرف صفات  بیان کی گئی ہیں موصوف کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔  اور نہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم سے اس بارے میں کوئی حدیث منقول ہے۔ رَہے تفسیری اقوال تو وہ متعدد ہیں بعض نے فرشتے مراد لئے ہیں اور بعض نے ستارے کسی کے نزدیک گھوڑے مراد ہیں اور کسی کے نزدیک بادل ان میں زیادہ مشہور قول جس کو عام طور سے مفسرین نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ فرشتے مراد ہیں۔  ہم نے درج ذیل وجوہ کی بنا پر ہوائیں مراد لی ہیں۔

اولاً :  قرآن کریم میں جہاں اس طرح کی قسمیں کھائی گئی ہیں ان کی نوعیت استدلال یا استشہاد کی ہے۔  یہاں انسان کے دوبارہ زندہ کئے جانے پر استدلال مقصود ہے جو ظاہر ہے محسوس چیز ہی سے ہو سکتا ہے اور ہوائیں ایک محسوس چیز  ہیں جبکہ فرشتے غیر محسوس۔

ثانیاً :  بیان کردہ صفات فرشتوں اور ستاروں وغیرہ کے مقابلہ میں ہواؤں سے زیادہ مناسبت رکھتی ہیں۔

ثالثاً :  عربی میں "نزائع” خاص قسم کی ہواؤں کو کہتے ہیں (لسان العرب لفظ نزع ) نازعات اِس سے ملتا جلتا لفظ ہے۔ قرآن میں لفظ ” تَنزِعُ ” ہوا کے لئے استعمال ہوا ہے۔    تَنزِعُ النّاسَ کَاَنَّھُم اَعجَازُ نَخلٍ مُنقَعِر (القمر۔ ۲۰)  وہ  ہوا لوگوں کو اس طرح اکھاڑ پھینکتی تھی جیسے جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے۔

رابعاً :  قرآن میں دوسرے مقامات پر ہواؤں کی قسم قیامت اور  روز جزا پر استدلال کے طور پر  کھائی گئی ہے۔ ( ملاحظہ ہو سورہ ذاریات اور سورہ مرسلات ) اس لئے  یہاں بھی جبکہ مدلول روز جزا ہے ہوائیں مراد لینا قرآن کے بیان سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

خامساً :  یہاں صفات مونث استعمال ہوئی  ہیں اور ہواؤں کے لئے مونث صفات کا استعمال عربی میں معروف ہے

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اَلسَّٓابِحَات ” (سبک رفتار ) اصل میں گھوڑوں کا  وصف ہے۔  یہاں ہواؤں کو گھوڑوں سے ان کے تیز رفتار ہونے کی بنا پر تشبیہہ دی گئی ہے گویا بادل ہواؤں کے دوش پر سوار ہیں اور وہ بگ ٹٹ اپنی منزل کی طرف رَواں دَواں ہیں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  ان آیات میں ہواؤں کی کیفیات اور ان کے تصرفات  بیان کئے گئے ہیں، جس سے بارش کا نظام وجود میں آتا ہے یہ ہوائیں ہی ہیں جو بادلوں کو ہزاروں میل سے گھسیٹ کر لاتی ہیں اور جب کسی علاقہ میں بادل جمع  ہو جاتے ہیں تو ہوائیں نرم نرم چلنے لگتی ہیں جس سے فضا خوشگوار ہو جاتی ہے۔

یہ ہوائیں جو لاکھوں اور کروڑوں لیٹر پانی کا وزن اُٹھائے ہوئے چلتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سبک رفتار  گھوڑے جو کسی مہم کے لئے دوڑا دئے گئے ہوں اور جس طرح بعض گھوڑے بعض پر سبقت لے جاتے ہیں اسی طرح بعض ہوائیں بعض پر بازی لے جاتی ہیں۔  فضا میں ہواؤں کی اس یورش کو سابقات سے تعبیر کیا گیا ہے۔  بارش کا یہ انتظام ہواؤں ہی کے ذریعہ عمل میں آتا ہے اس لئے مجازاً     ۔۔  اَلمُدَبِرَّاَتِ اَمرًا  (ایک کام یعنی بارش کو تقسیم کرنے والی ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ان ہواؤں کو شہادت میں پیش کر کے جس بات پر استدلال کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ روز جزا کا پیش آنا اور انسانوں کا دوبارہ اُٹھایا  جانا بر حق ہے۔  استدلال کی نوعیت یہ ہے کہ  ہواؤں کا یہ نظام اﷲ تعالیٰ کی قدرت  و حکمت، اس کی ربوبیت اور اس کی عظمت و جلال کی زبردست نشانیاں پیش کرتا ہے اور ان پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔  بارانی ہوائیں جب چلتی ہیں تو وہ  اپنی مختلف کیفیات کے ذریعہ غفلت میں پڑے ہوئے  انسان کو چونکا دینے کا سامان کرتی ہیں مثلاً بادلوں کو گھسیٹنے کا عمل جس کے ساتھ کڑک اور بجلی بھی ہوتی ہے اور جو فضا کو خوشگوار بنائے ہوئے، نرم نرم چلتی ہیں اور کبھی سبک رفتار ہو جاتی ہیں۔  اسی طرح ہواؤں کے مختلف گروپ جب یورش کرتے ہیں تو حکم الٰہی کی تعمیل و تنفیذ میں ان کے بازی لے جانے کا وصف بالکل نمایاں ہو جاتا ہے۔  رہا تدبیر امر کا پہلو تو یہ ہوائیں کسی علاقہ میں ابر کرم برساتی ہیں اور کسی علاقہ کو بارش سے محروم رکھ کر بادل آگے نکل جاتے ہیں۔  کہیں یہ طوفان لاتی ہیں اور درختوں اور مکانوں کو اکھاڑ پھینکتی ہیں، تو کہیں خوشگوار چلتی ہیں کبھی گرم لُو ، کی صورت اختیار کر  جاتی ہیں تو کبھی نسیم سحر کے روپ میں ظاہر ہوتی ہیں۔  پس یہ ہوائیں یوں ہی نہیں چلتیں بلکہ دلوں کو مس کرتے ہوئے چلتی ہیں اور  ہر اُس شخص کے اندر  جو غور و فکر کرتا اور حقیقت کو بے لاگ طور پر قبول کرنے کے لئے آمادہ رہتا ہے یہ یقین پیدا کرتی ہیں کہ اس کائنات کا خالق زبردست قدرت کا مالک ہے اور وہ نہایت حکمت کے ساتھ اس پر فرمانروائی کر رہا ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس دنیا کی بھی کوئی غایت اور اس کا کوئی مقصد ہو اور  انسان کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا گویا ہواؤں کا یہ نظام جزائے عمل کی شہادت پیش کرتا ہے اور انسان کی دوسری پیدائش کو نہ صرف ممکن بلکہ  اس کی حکمت کا مقتضیٰ قرار دیتا ہے جو اس نظام میں کار فرما ہے۔  غرض یہ کہ ہواؤں کے تصرف اور ان کی کیفیات میں قانون جزا کی نشانیاں بالکل نمایاں ہیں اور  ان کی شہادت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو ہستی بارانی ہواؤں کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کرتی ہے وہ یقیناً مردوں کو زندہ کر دینے والی ” ہوائیں ” بھی چلا سکتا ہے اور جس طرح ہوائیں سمندر سے پانی کے قطروں کو بخارات کی شکل میں آسمان پر  پھیلا دیتی ہیں اور  پھر  ان منتشر بخارات کو سمیٹ کر پانی کی شکل میں برسا دیتی ہیں اسی طرح مردہ انسان کے منتشر  اجزاء کو سمیٹ کر اسے دوبارہ زندہ  کرنے کا عمل بھی ممکن ہے اور جب اس کی خبر خود اﷲ تعالیٰ دے رہا ہے تو پھر اس میں شک کا کیا سوال ؟  در حقیقت قیامت سے انکار خدا کی صفت قدرت و حکمت سے انکار کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  پہلا جھٹکا وہ ہے جب زمین کا موجودہ نظام درہم برہم ہو گا اور تمام انسان مر جائیں گے اور دوسرا  جھٹکا وہ ہے جب تمام مردے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئیں گے۔  اس وقت  زمین کی ساخت بدل چکی ہو گی اور اسے ایک نئے نظام کے ساتھ قائم کر دیا گیا ہو گا۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  دل قیامت کی ہولناکی اور باز پرس کے ڈر سے دھڑک رہے ہوں گے۔  یہ حال کافروں اور فاسقوں کا ہو گا۔  رہے مومنین صالحین تو  انہیں کوئی پریشانی لا حق نہیں ہو گی۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی  کیا مرنے  کے بعد پھر  ہمیں زندہ کیا جائے گا ؟

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ تھا منکرین قیامت کا اشکال کہ جب انسان کا مادی وجود نہیں رہے گا تو پھر  وہ کس طرح وجود میں آ سکے گا۔  اور جب اس کا وجود  ہی محال ہے تو  حشر  اور جزا و سزا کا سوال پیدا  ہی نہیں ہوتا  ان کا یہ  اشکال بہ آسانی رفع ہو سکتا تھا  اگر  وہ صاف ذہن (unprejudiced mind) سے اس کائنات کے نظام  کا مطالعہ کرتے جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔  یہ مطالعہ خالق کائنات کے بارے میں انہیں صحیح معرفت عطا کرتا اور انہیں محسوس ہوتا کہ زمین سے لے کر آسمان تک  اور ہواؤں  سے  لے کر بارش تک کائنات  کی ہر  چیز قرآن کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  اس طرح وہ آخرت کا مذاق اڑاتے تھے  کہ  اگر  واقعی ہمیں دوسری زندگی عطا ہوئی جس کی اطلاع یہ نبی دے رہا ہے تو وہ زندگی ہمارے لئے بڑی خسارہ کی ہو گی کیونکہ ہم اس کا  انکار کرتے رہے  اور اس کے لئے  ہم نے کوئی تیاری نہیں کی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کو کوئی خاص تیاری نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اس کا صرف ایک حکم اس کے لئے کافی  ہو گا اور یہ حکم ڈانٹ کی شکل میں ہو گا جسے پوری زمین پر بیک وقت نشر کیا جائے گا۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اسی گوشت پوست کے ساتھ انسان سطح  زمین پر آ موجود ہو گا۔ بالفاظ دیگر  انسان مرنے کے بعد نہ جانور کا روپ دھارے گا  اور نہ کسی اور مخلوق کا بلکہ قیامت کے دن وہ اپنی پہلی حالت ہی میں قبر سے نکل کھڑا ہو گا۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ تاریخ سے استشہاد ہے کہ رسولوں کو جھٹلانے  اور سرکشی اور بغاوت کا رویہ اختیار کرنے والوں پر اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں عذاب کا کوڑا  برساتا رہا ہے جس کی نمایاں مثال فرعون اور اس کا لشکر ہے جو تباہی سے دوچار  ہوا۔ اس میں جزائے عمل کے اس قانون کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو قیامت کے دن حرکت میں آئے گا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  ” طُویٰ ”  اس وادی کا نام ہے جو کوہ سینا میں ہے اُسے مقدس اس لئے فرمایا کہ اﷲ نے یہاں تجلی فرمائی تھی۔  اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  فرعون  (Pharaoh)  مصر کے قدیم بادشاہوں کا لقب ہے اور جس فرعون سے  حضرت موسیٰ کو سابقہ پیش آیا تھا وہ تقریباً  ؁۱۴۰۰  قبل مسیح مصر میں حکمراں تھا۔  فرعون کی سرکشی یہ تھی کہ وہ اپنے کو خدا کا بندہ سمجھنے کے بجائے ، آزاد اور خود مختار سمجھتا تھا اپنے رب اعلیٰ ہونے کا مدعی تھا  اور حکومت و فرمانروائی کے سارے کام اﷲ سے کفر اور اس سے بغاوت کی بنیاد پر انجام دیتا تھا۔  اس نے اپنی خودسری کی بنا پر بندگان خدا  کے ساتھ ظلم و جور کا رویہ اختیار کر رکھا تھا چنانچہ وہ اس وقت کی مسلم قوم ” بنی اسرائیل ”  پر سخت ظلم ڈھا رہا تھا۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  پاکیزگی اختیار کرنے کا مطلب اسلام قبول کرنا ہے جو انسان کو کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک کرتا اور ایمان اور حُسن عمل سے سنوارتا ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  عقائد و اعمال کی پاکیزگی کا انحصار خدا خوفی پر ہے اور خدا خوفی اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب کہ انسان کو خدا کی صحیح معرفت حاصل ہو جائے۔  ”  رب کی راہ دکھاؤں ” سے اشارہ اسی معرفت الہیٰ  (خدا کی پہچان ) کی طرف ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  بڑی نشانی سے مراد لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ  ہے جو موسی علیہ السلام کو دیا گیا تھا اور جو اس بات کی واضح علامت تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  تا کہ لوگ حضرت موسیٰ پر  ایمان نہ لائیں اور ان کی دعوت قبول کریں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  قدیم زمانہ کے بادشاہ صرف حکومت ہی کے دعویدار نہیں ہوتے تھے بلکہ رعایا سے اپنی پوجا بھی کراتے تھے تا کہ لوگوں کو ان کے ساتھ گرویدگی ہو، انکی حکومت مضبوط ہو اور وہ پوری ” شان خدائی ” کے ساتھ حکومت کر سکیں۔  اپنے  اس تقدس کو منوانے کے لئے وہ اپنا رشتہ ستاروں اور دیوی دیوتاؤں سے  بھی جوڑتے تھے  اور ان کے اوتار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔  فرعون بھی اپنی پرستش لوگوں سے  کراتا تھا اور اس مفہوم میں اپنے  رب اعلیٰ ہونے کا مدعی تھا۔ اس وقت مصر میں بت پرستی رائج تھی اور فرعون نے اپنے علاوہ کسی بت کی پرستش کو قانوناً ممنوع نہیں ٹھہرایا تھا۔  اس سے ظاہر ہے کہ اس کا اپنی اُلُوہیت اور اپنے رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت توحید کے مقابلہ میں تھا وہ دوسرے  خداؤں کی جو نفی کرتا تھا وہ محض موسیٰ علیہ السلام کو زچ کرنے کے لئے تھی۔

فرعون کے اس دعوے کا مطلب یہ لینا صحیح نہ ہو گا کہ وہ خالق کائنات ہونے کا مدعی تھا کیونکہ یہ دعویٰ تو کوئی احمق ہی کر سکتا ہے، اسی طرح اس کا یہ مطلب لینا بھی صحیح  نہ ہو گا کہ وہ سیاسی معنیٰ میں اپنے آپ کو الٰہ اور رب اعلیٰ کہتا تھا اگر فرعون کا یہ  دعویٰ محض سیاسی معنیٰ میں ہوتا تو وہ لوگوں سے یہ نہ کہتا کہ  ”  اِنّیْ اَخَافُ اَنْ یَّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ  ” ( مجھے اندیشہ ہے کہ موسیٰ تمہارا دین بدل نہ ڈالیں ) (المومن ۲۶)  کیونکہ محض سیاسی حاکمیت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو اس سے کیا مطلب کہ لوگوں کا مذہب برقرار رہتا ہے یا تبدیل ہو جاتا ہے؟  اسی طرح فرعون حضرت موسیٰ سے یہ بھی نہ کہتا کہ اَجِئتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاءَنَا  (کیا تو اس لئے آیا ہے کہ ہمیں اپنے آبائی مذہب سے ہٹا دے ؟  یونس : ۷۸ )

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جن لوگوں کے اندر خدا کا کچھ خوف ہے ان کے لئے اس واقعہ میں بڑا سبق ہے سبق اس بات کا یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اﷲ اپنے قانون عدل کے ساتھ اس پر فرمانروائی کر رہا ہے۔  فرعون جیسے جابر  پر شکوہ بادشاہ پر بھی اس کا تازیانہ عبرت برسا ہے اس لئے نافرمانوں کو اس دنیا میں بظاہر جو  ڈھیل ملتی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ انسان کو اﷲ کے حضور اپنے طرز عمل کے سلسلہ میں جوابدہی کرنا نہیں ہے اور نہ ہی قانون مکافات عمل کی کوئی حقیقت ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آسمان کی تخلیق جو  بےشمار ستاروں، محیرالعقول کہکشاؤں، عظیم الشان سیاروں اور زبردست نطام شمسی پر مشتمل ہے اور جن کے درمیان کمال درجہ کا نظم پایا جاتا ہے کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن جب اﷲ تعالیٰ کے لئے اس عظیم الشان عالم کی تخلیق آسان ہوئی تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لئے کیوں مشکل ہو ؟  کیا اتنی واضح بات بھی تمہاری عقل میں نہیں سماتی ؟

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  آسمان کی بلندی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بعض ستارے اتنی دوری پر ہیں کہ ان کی روشنی زمین پر پہنچنے میں کئی نوری سال لگ جاتے ہیں۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آسمان کا صرف مادہ پیدا کر کے نہیں چھوڑا بلکہ اس کا مادہ پیدا کرنے کے بعد اس سے ایک عظیم الشان کائنات تشکیل دی ، اسے باہم مربوط کیا۔  اور ایسا آراستہ کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ عالم بالا ایک سجی سجائی اور  پر رونق بزم ہے جو ہر دیکھنے والے کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  دن اور رات کو آسمان کی طرف منسوب کرنا اس اعتبار سے ہے کہ انسان کو رات اور دن کے آثار آسمان پر ظاہر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے آسمان کو پیدا کیا اور اس کے بعد زمین کو بلکہ مطلب یہ ہے کہ آسمان کے علاوہ زمین کو بھی پیدا کیا اور اسے بچھایا۔  آسمان کے کمالات اور زمین کی نعمتیں دونوں لائق غور ہیں۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  زمین کا یہ مربّیانہ اور حکیمانہ نظام ایک عظیم منصوبہ کی نشاندہی کرتا ہے اور قرآن اس منصوبہ کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ حیات بعد الموت اور جزائے عمل ہے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت جو اس کائنات کا سب سے بڑا ہنگامہ ہے۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  انسان جو کچھ دنیا میں کرتا ہے وہ سب اس کے ذہن کے پردوں پر نقش ہو جاتا ہے اسی بنا پر وہ اپنی زندگی کے گزشتہ سالہا سال کے واقعات اپنے  حافظہ کی مدد سے یاد کرتا ہے۔  یہ بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے اعمال کا ریکارڈ خود انسان کا ذہن تیار کر رہا ہے۔  قیامت کے دن اس کا حافظہ اتنا تیز ہو گا کہ اس کے اعمال کے سارے نقوش اس کے ذہن پر ابھر آئیں گے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی خدا کا وفادار بندہ بن کر رہنے کے بجائے کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کیا ہو گا اوپر فرعون کی سرکشی کی مثال گزر چکی۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو مقصود بنایا ہو گا اور اس کے مفاد کو مقدم رکھا ہو گا۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جو دنیا میں اس تصور سے کانپتے رہے کہ  اﷲ  کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہے۔  ظاہر ہے جس کے اندر جوابدہی کا یہ تصور ہو گا وہ اﷲ کے وفادار بندے ہی کی حیثیت سے زندگی گزارے گا۔

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی رسول کو قیامت کا وقت بتانے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اسے متنبہ کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔  قیامت تو  اپنے وقت پر  آ کر رہے گی جس طرح موت کہ اپنے وقت پر  آ کر رہتی ہے گو انسان کو اس کا وقت پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس وقت قیامت کے لئے وہ جلدی مچا رہے ہیں لیکن جب آئے گی تو انہیں محسوس ہو گا کہ بہت جلد آ گئی اور انہیں دنیا میں جو مہلت ملی تھی وہ بہت تھوڑی تھی۔  وقت ایک اضافی چیز ہے گھنٹوں کے مقابلہ میں منٹ وقت کا نہایت قلیل حصہ معلوم ہوتے ہیں اسی طرح دنوں کے مقابلہ میں گھنٹے اور مہینوں اور سالوں کے مقابلہ میں دن۔  قیامت کے دن جب زمان و مکان بدل جائیں گے اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار سال کا ہو گا تو جو وقت انسان نے دنیا میں گزارا تھا وہ اسے وہاں کے زمان کی نسبت سے بہت تھوڑا معلوم ہو گا اور اس وقت یہ احساس ابھرے گا کہ کاش اپنے یہ قیمتی لمحات اپنی آخرت بنانے میں صرف کئے ہوتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸۰) سورۂ عبس

 

(۴۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز لفظ عبس (تیوری چڑھائی ) سے ہوا ہے جو ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام عبس رکھا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس زمانہ میں نازل ہوئی ہو گی جب کہ اہل مکّہ کے سامنے دعوت پیش ہو چکی تھی اور سرداران قریش نے اسے رد کر دیا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

اِنذار یعنی جزا کے دن سے انسان کو خبردار کرنا ہے تاکہ وہ عقیدہ و عمل میں صحیح رویّہ اختیار کرے۔  سابق سورہ کے ساتھ اس کی مناسبت بالکل ظاہر ہے۔ اس کے اخیر میں یہ فرمایا گیا تھا کہ تم ان ہی لوگوں کو  قیامت سے خبردار کر سکتے ہو جو اس سے ڈرنے کے لئے آمادہ ہوں۔   اس سورہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ قیامت کے انکار پر مصر ہوں اور انہیں اپنے انجام کی کوئی پروا نہ ہو ان کے پیچھے جوش تبلیغ میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔

 

نظم کلام

 

آیت  ۱   تا  ۱۰ میں ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کو متوجہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ کبر و غرور اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف  توجہ دیں جو طَالب حق ہیں اور اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔

آیت  ۱۱  تا  ۱۶  میں قرآن کی عظمت و رفعت بیان کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ جس چیز کو قبول کرنے  کی دعوت نبی صلی اﷲ علیہ و سلم دے رہے ہیں وہ کتنے بلند مرتبہ کی چیز ہے۔ لہذا جو اس کی ناقدری کریں گے وہ اپنے ہی کو بہت بڑے  خیر سے  محروم رکھیں گے۔  اس با عظمت کلام کو پیش کر نے کے لئے پر وقار طریقہ ہی اختیار کیا جانا چاہئے۔

آیت  ۱۷  تا  ۳۲  میں قیامت کا انکار کرنے والوں کو تنبیہ اور انسان کے دوبارہ اُٹھانے جانے پر اﷲ کی ربوبیت سے استدلال کیا گیا ہے۔

آیت  ۳۳  تا  ۴۲  میں قیامت کی  ہولناکی کی تصویر  پیش کرتے ہوئے نیک کردار اور بد کردار لوگوں کا الگ الگ انجام بیان کیا گیا ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

۱۔۔۔۔۔۔۔  تیوری چڑھائی ۱* اور  منہ پھیر لیا۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔  اس بات پر کہ اس کے پاس نابینا  آیا ۲*۔

۳۔۔۔۔۔۔۔  (اے پیغمبر!) تمھیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا۔

۴۔۔۔۔۔۔۔  یا نصیحت پر دھیان دیتا اور نصیحت اس کے حق میں مفید ہوتی۔

۵۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص بے پرواہی برتتا ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔  اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو۔

۷۔۔۔۔۔۔۔  حالانکہ اس کے اصلاح قبول نہ کرنے کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

۸۔۔۔۔۔۔۔  اور جو تمہارے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اﷲ سے ڈرتا بھی ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔  اس سے تم بے پرواہی برتتے ہو ۳*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔  ہرگز نہیں ۴*  یہ تو ایک یاد دہانی ہے ۵*۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔  تو جو چاہے اسے قبول کرے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔  یہ ایسے صحیفوں اوراق* میں ہے جو نہایت قابل احترام ہیں ۶*۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔  بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں ۷*۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں ۸*۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔  جو معزز اور وفا شعار ہیں ۹*۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔  غارت ۱۰* ہو انسان کیسا نا شکرا ہے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔  اسے  اﷲ نے کس چیز سے پیدا کیا ؟ ۱۱*۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔  ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کی منصوبہ بندی کی ۱۲*۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس کے لئے راہ آسان کر دی ۱۳*۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس کو موت دی ۱۴* اور قبر میں دفن کرایا ۱۵*۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔  پھر جب وہ چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۱۶*۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔  ہرگز نہیں۔ اس نے اس حکم کی تعمیل ۱۷* نہیں کی جو اﷲ نے اسے دیا تھا۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔  انسان ذرا اپنی غذا کو دیکھے۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔  کہ ہم نے خوب پانی برسایا ۱۹*۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔  پھر زمین کو اچھی طرح پھاڑا ۲۰*۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس میں اگائے غلے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔  اور انگور اور ترکاریاں۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔  اور زیتون اور کھجور۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔  اور گھنے باغ۔

۳۱۔۔۔۔۔۔۔  اور میوے اور چارہ۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔  تمہاری اور تمہارے مویشیوں کی منفعت کے لئے ۲۱*۔

۳۳۔۔۔۔۔۔۔  پھر جب وہ کانوں کو بہرا کر دینے والی آواز  گرجے گی ۲۲*۔

۳۴۔۔۔۔۔۔۔  اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے۔

۳۵۔۔۔۔۔۔۔  اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔

۳۶۔۔۔۔۔۔۔  اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے۔

۳۷۔  اس روز ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہو گی ۲۳*۔

۳۸۔  کتنے ہی چہرے اس روز روشن  ہوں گے  ۲۴*۔

۳۹۔  خنداں و شاداں ۲۵*۔

۴۰۔  اور کتنے ہی چہرے اس روز  غبار آلود  ہوں گے۔

۴۱۔  ان پر سیاہی چھائی ہو گی ۲۶*۔

۴۲۔  یہ ہوں گے وہی کافر اور فاجر لوگ۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  تیوری چڑھانے کا فعل جیسا کہ آگے کے مضمون سے واضح ہے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم سے صادر ہوا تھا۔ لیکن یہاں مخاطب کے بجائے غائب کا صیغہ استعمال کیا گیا متنبہ کرنے کا یہ حکیمانہ انداز ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد عبد اﷲ ابن اُم مکتومؓ ہیں جو نابینا تھے۔ یہ حضرت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی اور نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے برادر نسبتی تھے۔

نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے انہیں حقیر جان کر تیوری نہیں چڑھائی تھی کیونکہ آپ غریبوں ، ناداروں ، اور معذوروں کی سب سے زیادہ قدر فرمانے والے تھے۔ بلکہ ان کا آنا اس بنا پر آپ کو ناگوار ہوا تھا کہ آپ کی مجلس میں اس وقت قریش کے بڑے بڑے سردار موجود تھے جن کے سامنے  آپ بڑے انہماک کے ساتھ اسلام کی دعوت پیش کر رہے تھے اس موقع پر عبد اﷲ ابن اُم مکتومؓ کی طرف توجہ کرنے سے سرداران قریش کی طرف التفات میں کمی ہوتی اس لئے آپ نے سرداران قریش سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا اور عبد اﷲ ابن اُم مکتومؓ  کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔  نبی صلی اﷲ علیہ و سلم سے یہ چوک کسی غلط جذبہ کے تحت نہیں ہوئی تھی بلکہ جوش دعوت میں ہوئی تھی لیکن چونکہ یہ ایک ناپسندیدہ بات تھی اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس پر گرفت فرمائی۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  ان آیات میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی مجلس میں ابو جہل امیہ بن خلف، عتبہ وغیرہ سرداران قریش موجود تھے جنہیں آپ قبول اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ اس اثنا میں ابن اُم مکتومؓ جو نابینا تھے تشریف لائے۔ وہ اپنی اصلاح کی غرض سے اور نصیحت سننے کی طلب میں تشریف لائے تھے ان کی طرف توجہ کرنے کے بجائے آپ سرداران قریش ہی کی طرف متوجہ رہے جو نصیحت پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ یہ بات شان نبوت اور وقار دعوت کے خلاف تھی۔  اس لئے اس پر تنبیہ نازل ہوئی۔  اس تنبیہ کا رخ بظاہر نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی طرف ہے۔ لیکن اصل میں اس کی زد منکرین دعوت پر پڑ رہی ہے اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جن لوگوں پر دعوت حق واضح ہو چکی اور وہ دیدہ و دانستہ انکار پر مصر ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنی توجہ ان بندگان خدا کی طرف مبذول کرو جو ہدایت کے طالب اور قرآن کے قدر داں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں پاکیزگی آ جائے۔  دوسری طرف منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری اصلاح کے سلسلہ میں پیغمبر کے اس اضطراب اور انتھک کوشش کے باوجود اگر تم اس پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں ہو تو جس کتاب کی طرف تمھیں دعوت دی جا رہی ہے اس کی وقعت اس سے کم ہونے والی نہیں بلکہ تم خود ہی بے وقعت ہو گے۔  یہ کتاب تو نہایت بلند  اور عالی مرتبت ہے اس کی ناقدری کرنے والوں کے حصہ میں سوائے محرومی کے کچھ نہیں آ سکتا۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایسے ناقدروں کے پیچھے پڑنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قرآن ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں قرآن کی عظمت بیان کی گئی ہے اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جو لوگ اس کلام کی ناقدری کرتے ہیں وہ اپنی ہی قدر گھٹاتے ہیں۔  ورنہ اس کی جو قدر و منزلت آسمانوں میں ہے اس کا اگر انہیں اندازہ ہوتا تو وہ ہرگز ناقدری نہ کرتے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  قرآن شیطان کی دخل اندازیوں سے بالکل پاک ہے اس میں باطل کی آمیزش ممکن ہی نہیں کیونکہ شیاطین کی رسائی اس کتاب تک ہو ہی نہیں سکتی انہیں اس سے بہت دور رکھا گیا ہے لہذا قرآن از اول تا آخر خالص کلام الہیٰ پر مشتمل اور ہر قسم کی آمیزشوں سے پاک ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد فرشتے ہیں جو قرآن کو لکھ رہے تھے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ان فرشتوں کی صفات ہیں جو قرآن کو آسمان پر لکھ رہے تھے اور اسے بحفاظت نبی صلی اﷲ علیہ و سلم تک پہنچا رہے تھے۔  اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن جن فرشتوں کے ذریعہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم تک پہنچایا جا رہا ہے وہ ایسے ذی شان بلند پایہ اور امانتدار ہیں کہ ان سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں اور نہ وہ شیطان کو کسی قسم کی مداخلت کا موقع دے سکتے ہیں اس لئے اس میں شک کی ذرہ برابر گنجائش نہیں کہ وہ اس خدائی امانت کو جوں کا توں نبی صلی اﷲ علیہ و سلم تک پہنچا رہے ہیں۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں سے کلام کا رخ کفار کی طرف پھرتا ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان اپنی حقیقت پر غور کرے کہ اس کی زندگی کا آغاز پانی کے ایک حقیر قطرے سے ہوا پھر اس میں یہ گھمنڈ کہاں سے پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے کو کچھ سمجھنے لگے اور  اس کے اس احسان کو کہ اسے ایک بہترین مخلوق کی حیثیت دی فراموش کر دے۔

یہاں قیامت کے دن انسان کے اُٹھائے جانے پر بھی استدلال ہے ،  یعنی جس ہستی کی کرشمہ سازیوں کا یہ حال ہو کہ وہ پانی کی ایک حقیر بوند سے انسان جیسی عظیم مخلوق کو اٹھا کھڑا کر سکتی ہے اس کے لئے آخر یہ کیوں ناممکن سمجھا جائے کہ وہ قیامت کے دن اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گی ؟

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ہر انسان کی تخلیق ایک منصوبہ کے ساتھ ہوئی  ہے۔ مثلاً اس کی شکل و صورت، جسامت، ذہنی صلاحیت کام کرنے کی استعداد ، قوت و طاقت ، مقام پیدائش اور موت کا وقت وغیرہ ، اس خدائی منصوبہ کے مطابق ہی انسان زندگی گزارتا ہے اور اس سے آزاد ہونا اس کے لئے ناممکن ہے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی تخلیق کی ایک غایت ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد زندگی کی راہ ہے جس کے نشیب و فراز کو انسان بآسانی طے کرتا ہے۔  اس کے وجود کو برقرار رکھنے اور اس کی نشو نما کے لئے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب مہیا کر دئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بچہ جبلّی طور پر ماں کی چھاتیوں کو چوستا ہے اور اس کے لئے غذا کی فراہمی آسان ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عمل تنفس ایک مشکل کام ہے لیکن انسان مرتے دم تک اس طرح تسلسل کے ساتھ سانس لیتا اور خارج کرتا رہتا ہے کہ اسے ذرا بھی تکان لاحق نہیں ہوتی۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی موت ہر شخص کے لئے مقدر ہے اس سے کسی کو مفر نہیں۔  اور جب انسان کی بے بسی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی موت کو ایک لمحہ کے لئے بھی ٹال نہیں سکتا تو پھر وہ کس بل بوتے پر اپنے خالق سے کفر کرتا ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  معلوم ہوا کہ مردوں کو قبر میں دفن کرنا طریقہ فطرت ہے  بخلاف جلانے کے کہ یہ طریقہ نہ الہامی ہے اور نہ مطابق شرع۔

اسلام چونکہ مہد سے لے کر لحد تک کا دین ہے اس لئے اس نے جہاں جینے کا صحیح طریقہ بتلایا ہے وہاں مرنے کا بھی صحیح طریقہ بتلایا ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرنا اﷲ کی مشیّت پر موقوف ہے یہ کام اس کے لئے نہ مشکل ہے اور نہ اس کی مشیّت میں کوئی چیز مانع ہو سکتی ہے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  حکم سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو انسان کی فطرت میں اﷲ تعالیٰ نے ودیعت فرمائے ہیں مثلاً ایک  خدا کی پرستش کرنا ، سچ بولنا ، انصاف کرنا ، ظلم نہ کرنا وغیرہ اور وہ احکام بھی جو اس نے اپنے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ نازل فرمائے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی زندگی بعد موت پر دلائل بہ کثرت ہیں۔ انسان جس غذا سے روزانہ فائدہ اُٹھاتا ہے اور اسے معمولی خیال کرتا ہے۔ذرا اسی پر غور کر کے دیکھے کہ وہ پیدا کیسے ہوتی ہے ؟  اگر اﷲ اسے پیدا نہ کرتا تو انسان کو غذا کہاں سے میسر آتی ؟  اس کی پرورش کا یہ سامان اور ربوبیت کا یہ اہتمام اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس ہو کہ اس نے اپنے رب کی ان نعمتوں کو پا کر  اس کی شکر گزاری کا طریقہ اختیار کیا یا ناشکری کی۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  بارش کا کوئی الگ دیوتا نہیں ہے بلکہ اﷲ ہی ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے انسان کو پینے کے لئے بھی پانی میسر آتا ہے اور زمین کی روئیدگی کا بھی سامان ہوتا ہے۔  اگر وہ بارش کا انتظام نہ کرتا تو کیا انسان کے لئے زندہ رہنا ممکن ہوتا ؟

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اﷲ ہی کا کرشمہ قدرت ہے کہ وہ مینہہ برساتا اور زمین کو پھاڑ کر اس کے اندر سے کونپلیں نکالتا اور نباتات اگاتا ہے۔  یہ سب دیکھتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کس طرح کرتے ہو کہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ قیامت کے دن زمین پھاڑ کر مردوں کو جلا اُٹھائے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کیا یہ نعمتیں جن سے تم رات دن فائدہ اٹھاتے ہو اپنے ساتھ ذمہ داری کا کوئی تصور نہیں لاتیں ؟  جس خدا نے تم پر یہ احسانات کئے ہیں کیا وہ تم سے باز پرس نہیں کرے گا کہ تم اس کے شکر گزار بندے بن کر رہے ، یا کفرانِ نعمت کیا ؟

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قیامت کی ہولناک آواز ہے۔  جب آخری صور پھونکا جائے گا تو اس کی ہولناک آواز تمام مرے ہوئے انسانوں کو اٹھا کھڑا کرے گی۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ دنیا میں انسان اپنے  قریبی عزیزوں کی خاطر قبول حق سے  گریز کرتا ہے لیکن قیامت کے دن کی مصیبت ایسی ہو گی کہ نہ یہ ان کے کام آ سکے گا ، اور نہ وہ اس کے کام آ سکیں گے۔ ہر شخص کو اپنی نجات کی فکر لگی ہو گی اور کسی کا ہوش نہ ہو گا۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ مخلص مومنین کے چہرے ہوں گے جو ایمان کی روشنی سے دمک رہے ہوں گے۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  خوشی اس بات کی کہ وہ دنیا کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور ان کی محنت ٹھکانے لگی۔  چہروں کی شگفتگی ان کی نیک روی کا نتیجہ ہو گی اور جنت کا پروانہ پا کر وہ شاداں و فرحاں ہوں گے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ کافروں کے چہرے ہوں گے جن پر کفر کی سیاہی چھائی ہوئی ہو گی اور ان کی بد عملی ان کے چہروں کو خاک آلود کر رہی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸۱)سورۃ التکویر

 

(۲۹ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کی پہلی آیت میں خبردار کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔  لپیٹنے کے لئے لفظ کُوِّرَتْ استعمال ہوا ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام التکویر ہے یعنی وہ سورہ جس میں لپیٹنے کا ذکر ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو روزِ جزا سے خبردار کرنا ہے  اور یہ واضح کرنا ہے کہ پیغمبر اور قرآن اس کی جو خبر دے رہے ہیں وہ ہر قسم کے شبہہ سے بالاتر ہے۔  سابق سورہ میں قیامت کی ہولناکی کا ذکر تھا اس سورہ میں اس کی ہولناکی کی تصویر کھینچی گئی ہے کہ آدمی قیامت کو اپنے سامنے دیکھنے لگتا ہے گویا یہ سورہ قیامت کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔  چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو شخص روز قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہو وہ سورہ تکویر ، سورہ انفطار اور سورہ انشقاق کو پڑھ لے۔  ( تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۴۷۴بحوالہ احمد و ترمذی )

 

نظم کلام

 

آیت ؀ ۱  تا ؀ ۶  میں قیامت کے پہلے حادثہ ( نفخ اول )  کی تصویر کھینچی گئی ہے اور آیت ؀ ۷  تا ؀ ۱۴  میں دوسرے حادثہ (نفخ ثانی ) کی۔

آیت  ؀ ۱۵  تا ؀ ۲۵  قرآن اور پیغمبر قرآن کے بارے میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اور خبر دے رہے ہیں وہ حق و صداقت پر مبنی ہے۔

آیت ؀ ۲۶  تا ؀ ۲۹  میں منکرین کو تنبیہ ہے کہ قرآن کی راہ کو چھوڑنا حق و صداقت کی راہ کو چھوڑنا ہے اس لئے وہ سوچیں کہ اس سے انکار کر کے کس گڑھے میں گرنا چاہتے ہیں ؟

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  جب سورج لپیٹ دیا جائے گا ۱*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے ۲*۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۳*۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بے کار  چھوڑ دی جائیں گی ۴*۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب  وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے  ۵*۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور سمندر بھڑکا دئے جائیں گے ۶*۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب لوگوں کو مختلف گروہوں میں * بانٹ دیا جائے گا ۷*۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ۸*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب اعمال نامے کھول دئے جائیں گے ۹*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی ۱۰*۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب جہّنم بھڑکائی جائے گی۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب جنت قریب لائی جائے گی ۱۱*۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر حاضر ہوا ہے ۱۲*۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔   پس نہیں ۱۳* ، میں قسم کھاتا ہوں ۱۴* غروب ہونے والے ۱۵*۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔  چلنے والے ۱۶* ، اور چھپ جانے والے ۱۷* ستاروں کی ۱۸*۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہو۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور صبح کی جب کہ وہ سانس لے ۱۹*۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کہ یقیناً یہ ایک معزز پیغامبر کا لایا ہوا * کلام ہے ۲۰*۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔   جو قوت والا ہے ۲۱* اور مالک عرش کے  ہاں بلند مرتبہ ۲۲* ہے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وہاں اس کا حکم مانا ۲۳* جاتا ہے اور وہ امانت دار ۲۴* ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے ۲۵*۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس نے اس فرشتہ کو کھلے افق پر دیکھا ہے  ۲۶*۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اور وہ غیب کی باتیں بتانے کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے ۲۷*۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے ۲۸*۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پھر تم لوگ کدھر چلے جا رہے ہو ؟

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ تو دنیا والوں کے لئے ایک  یاد دہانی ہے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو سیدھی راہ اختیار کرنا چاہے ۲۹*۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور تم نہیں چاہ سکتے جب تک کہ اللہ ربُّ العالمین نہ چاہے ۳۰*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔    سورج ہو لپیٹ دئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمانی چراغ جس کی روشنی کروڑہا میل تک پھیلی ہوئی ہے اور جس سے پورا عالم جگمگا رہا ہے قیامت کا دھماکہ ہوتے ہی گل ہو جائے گا اور جب سورج ہی تاریک ہو جائے گا تو یہ دنیا جس عظیم حادثہ سے دوچار ہو گی اس کے تصور ہی سے انسان کانپ اُٹھتا ہے۔

سورج اس کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہے اور جدید سائنسی اکتشافات کے  مطابق زمین کی سطح سورج سے طاقت کی جو مقدار حاصل کرتی ہے  چار ملین ہارس پاور فی مربع میل ہے۔  گویا سورج  زمین کے لئے پاور ہاوس کی حیثیت رکھتا ہے۔  قرآن یہ خبر دیتا ہے کہ ایک روز آئے گا جب کہ سورج یہ عظیم طاقت کھو چکا ہو گا اور وہ قیامت کا دن ہو گا۔  یہ خبر خود اللہ دے رہا ہے  جو سورج سمیت  پوری کائنات کا خالق و مالک ہے تو یقین کرنے کے لئے یہ بات بالکل کافی ہے۔  تاہم جہاں تک سائنس کا تعلق ہے وہ بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے کہ سورج کو بالا آخر  تاریک ہونا ہے

"and eventually, the sun will become a black dwarf, a very dense, no luminous object of degenerate matter. “  (The New Encyclopedia Britannica Vol. 17 P 808)

ایک  زمانہ میں انسان سورج کو دیوتا سمجھ کر اس کی پوجا کرتا رہا ہے اور آج بھی جدید سائنسی اکتشافات کے باوجود سورج کے پرستاروں کی کمی نہیں ہے لیکن قرآن کا یہ بیان کہ سورج خدا نہیں بلکہ خدا کی پیدا کردہ کائنات کا ایک جز اور اس کا محکوم ہے اور اسی وقت تک روشنی دیتا رہے گا جب تک ال کا وہ حکم نہیں آ جاتا جو کائنات کی بساط کو الٹ کر رکھ دے گا۔  جس دن وہ حکم آ جائے گا سورج اپنی تمام توانائی کھو دے گا اور اس کی روشنی بالکل ختم ہو جائے گی۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔    آفتاب عالمتاب اور جگمگاتے ہوئے تاروں کو دیکھ کر انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ یہ دنیا سدا بہار ہے اور اس کی رونق کبھی ختم ہونے والی نہیں لیکن قرآن دو ٹوک انداز میں انسان کو آگاہ کرتا ہے کہ یہ فریب خیال ہے۔ حقیقت میں ایک ایسا وقت آنے والا ہے اور وہ بہت قریب ہے جب کہ سارے چراغ بجھا دئے جائیں گے اور  یہ دنیا تاریکی کی نذر ہو جائے گی تاکہ توڑ پھوڑ کے اس عمل سے ایک نیا وجود میں لایا جا سکے جس میں نتائج عمل کا ظہور ہو۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔    معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا جھٹکا لگتے ہی زمین اپنی کشش کھو دے گی۔  اس سے جو ہولناک کیفیت پیدا ہو گی اس کا ہلکا سا تصّور ہی انسان کو چونکا دینے کے لئے کافی ہے اسی لئے پہاڑوں کے اڑائے جانے کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر ہوا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔    قرآن جس دور اور ماحول میں نازل ہوا اس میں ، دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں جو جننے کے قریب ہوتی تھیں سب سے زیادہ قیمتی چیز خیال کی جاتی تھی اور اہل عرب کی نظر میں یہ محبوب مال تھا۔  اس محبوب مال کا ذکر بطور مثال کے کیا گیا ہے۔  مقصود اس سے یہ واضح کرنا ہے کہ قیامت کا دھماکہ ہوتے ہے انسان اپنے عزیز ترین مال کو بھول جائے گا۔ دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں جو آج اس کے مالک کے نزدیک قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں اس طرح بے قیمت ہو کر آوارہ پھرنے لگیں گی کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا کیونکہ قیامت کا آغاز ہوتے ہی انسان کو کسی بھی چیز کا ہوش نہیں رہے گا۔

واضح رہے کہ اونٹنی کا یہ ذکر اس وقت کی عربوں کی معیشت کے پیش نظر گویا ان کے قیمتی سرمایہ پر انگلی رکھ کر اس کے بے وقعت ہو جانے کو ظاہر کرنے کے مُترادف تھا ، جس نے کلام میں زبردست تاثیر پیدا کر دی اس مثال سے اصلاً یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قیامت کا بگل بجتے ہی مال و دولت کے یہ ڈھیر جس کے حصول کو انسان اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہے اور اس بنا پر حقیقی مقصدِ زندگی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا سب بیکار اور فنا ہو جائیں گے خواہ وہ محبوب اونٹنی کی شکل میں ہوں یا قیمتی کاروں ، بڑے بڑے کارخانوں اور شاندار عمارتوں کی شکل میں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔    یعنی قیامت کا ظہور ہوتے ہی ایسی خوفناک صورت پیدا ہو گی کہ انسان تو انسان  وحشی جانوروں پر بھی سراسیمگی کی حالت طاری ہو گی اور جنگلوں سے بھاگ کر دوسرے جانوروں اور انسانوں کے ساتھ اکٹھا ہونے لگیں گے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔    بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سمندر میں آگ لگ جائے گی ، لیکن قیامت کا حادثہ بذات خود عجیب تر ہے۔  اس کا پہلا جھٹکا ہی تمام عجیب باتوں کو ختم کر کے رکھ دے گا۔  کیونکہ قیامت کا مطلب ہی یہ ہے کہ کائنات کی ساخت میں زبردست تبدیلی ہو گی اور عظیم انقلاب رونما ہو گا ویسے بھی پانی آکسیجن اور ہائیڈوجن گیسوں سے مرکب ہے ، اور اللہ کا ایک اشارہ اس کی اس کیمیاوی ترکیب کو جدا کرنے کے لئے کافی ہے جس کے نتیجہ میں یہ گیسیں بھڑکنے اور بھڑکانے کا کام کر سکتی ہیں۔

قرآن کے بیان کے مطابق حشر کے لئے زمین کو چٹیل میدان کی شکل کی جائے گی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سمندروں کو پاٹ دیا گیا ہو گا اور اس سے پہلے اس کے پانی کو بھڑکا کر ختم کر دیا گیا ہو گا۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔    یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلہ کا ذکر شروع ہوتا ہے جب کہ تمام انسانوں کو جسم سمیت دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔

گروہوں میں تقسیم کرنے سے مراد عقائد و اعمال کی بنیاد پر لوگوں کی گروہ بندی اور درجہ بندی ہے دنیا میں وہ مومن و کافر ، مسلم و مجرم ، نیک  و بد اور ظالم و مظلوم سب مخلوط رہتے ہیں۔ لیکن قیامت کا جھٹکا لگتے ہی انسانی سوسائٹی کا موجودہ ڈھانچہ چکنا چور ہو جائے گا اور میدان حشر میں ایمان و اخلاق کی بنیاد پر لوگوں کے الگ الگ گروہ بنائے جائیں گے  (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ،  سورہ واقعہ آیت ۷ تا ۴۴ )۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔    زندہ درگور کرنے کا طریقہ عربوں کے بعض قبائل میں رائج تھا۔  اس کا ایک سبب تو فقر کا اندیشہ ہوتا اور معاشی خستہ حالی کے پیش نظر وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو ، اس لئے تحدید نسل اور فیملی پلاننگ (Family Planning )  کا جو جاہلانہ اور ظالمانہ طریقہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا وہ بچوں کے پیدا ہوتے ہی ان کو دفن کر دینے کا تھا۔  اس کا دوسرا سبب یہ تھا کہ وہ لڑکیوں کی پیدائش کو اپنے لئے عار سمجھتے تھے۔  اور جھوٹی غیرت انہیں اس قبیح اور سنگدلانہ حرکت پر آمادہ کرتی تھی۔  قرآن نے ان کی اس حرکت پر سخت گرفت کی اور بتلایا کہ قیامت کے دن عدالت خُداوندی میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔

زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے یہ سوال کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ، اس کے بے گناہ مارے جانے اور مارنے والے کی جرم کی سنگینی پر دلالت کرتی ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کا یہ بیان اصلاح کے معاملہ میں اس قدر موثّر ثابت ہوا کہ اس ظالمانہ رواج کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔    دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے خواہ وہ اچھا ہو  یا برا اور خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا اعمال سے افکار و نظریات سے ہو یا تحریک و جدوجہد سے ، قول ہو یا فعل ، تقریر ہو یا تحریر حتی کہ حرکات و سکنات اور چال ڈھال کا بھی ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے۔  یہ ریکارڈ دنیا میں خفیہ طریقہ پر اللہ کے فرشتے تیار کر رہے ہو تے ہیں جو ہر فرد کے ساتھ الگ الگ لگے ہوتے ہیں اس ریکارڈ کو قرآن کی زبان میں "صحیفہ ” یا ” کتاب ” اور اردو میں ” نامئہ اعمال ”  کہا جاتا ہے۔  انسان  کے مرنے پر یہ ریکارڈ تہہ کر کے محفوظ کر دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں پیشی کے موقع پر اس کو کھول کر ہر شخص کے سامنے رکھا جائے گا تاکہ وہ اپنا ریکارڈ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔

آدمی کا زندگی بھر کا ریکارڈ ایک ورق ( Sheet ) کی شکل میں پیش کیا جانا نزول قرآن کے دور  میں عام انسان کے لئے حیرت انگیز بات تھی لیکن سائنسی ترقی کے موجودہ دور میں جب کہ کتابوں کی مائیکرو فلمیں ( Micro Films ) تیار کی جانے لگی ہیں کچھ بھی حیرت کی بات نہیں رہی۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔    مراد آسمان سے اوپر کی دنیا کا بے نقاب کیا جانا ہے۔  آج تو ہماری نگاہیں نیلگوں آسمان تک جا کر رک جاتی ہیں لیکن قیامت کے دن ہم اس دنیا کا بھی مشاہدہ کر سکیں گے جو آسمان سے اوپر ہے اور ان غیبی حقائق کو بھی دیکھ سکیں گے جو آج ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔  لیکن ان کی خبر قرآن دے رہا ہے۔  اس روز انسان کو خدا کی خدائی اور کائنات کی وسعت کا صحیح اندازہ ہو سکے گا آج انسان دنیا کے جس خول میں بند ہے اسی خول کو پوری کائنات  سمجھ بیٹھا ہے اور اس سے آگے جن حقائق کی اسے خبر دی جا رہی ہے اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا جس طرح مرغی کا بچہ جب تک انڈے کے خول کے اندر بند رہتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ یہی کچھ دنیا ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔    قیامت کے دن زمان و مکان کے پیمانے بالکل بدل چکے ہوں گے۔  اس روز انسان جان لے گا کہ جنت میدانِ حشر سے بہت قریب ہے اور جو لوگ اس کے اہل قرار پائیں گے ان کو اس تک پہنچنے کے لئے نہ انتظار کرنا پڑے گا اور نہ طویل مسافت کی مشقت برداشت کرنا ہو گی بلکہ وہ خود آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کرے گی۔  اس کی تفصیلی نوعیت قیامت کے دن ہی واضح ہوسکے گی۔  آج ہم محدود علم کی بنا پر اسے سمجھ نہیں سکتے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔    یہ ہے ان آیات کا مرکزی مضمون۔  مطلب یہ ہے کہ جب قیامت ان تمام ہولناکیوں کے ساتھ رونما ہو گی جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو وہ دن عدالت خداوندی میں پیشی کا ہو گا۔  اس روز انسان اپنی زندگی بھر کا کچّا چٹھا لے کر حاضر ہو گا تاکہ اپنے پروردگار کے حضور جوابدہی کر سکے۔  وہ دن بڑا ہولناک ہو گا اور وہ گھڑی بڑی سخت ہو گی۔

؀       یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔    یہ منکرین کے اس خیال کی تردید ہے کہ یہ قرآن جو قیامت کی خبر دے رہا ہے کسی دیوانہ کی بڑ یا القائے شیطانی ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔    اس طرح کی جو قسمیں کھائی جاتی ہیں ان کا مطلب ان چیزوں کے تقدس اور عظمت کو بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کو شہادت اور دلیل کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے  یہ عربی کا اسلوب کلام ہے جس میں زور کلام ہی ہے اور بلاغت بھی ، غیر عربی داں اس اسلوب کلام سے نا آشنا ہونے کی بنا پر ان قسموں کا جو قرآن میں  مختلف مقامات پر کھائی گئی ہیں صحیح محل اور ان کے اشارات و مضمرات سمجھنے سے قاصر ہیں۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔    متن میں لفظ ” الخُنَّسْ ” استعمال ہوا ہے ، جس سے مراد غروب ہونے والے ستارے ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ ستاروں کے جگمگاہٹ سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے بلکہ ان کے غروب ہونے کے پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہئے جس سے ظاہر  ہوتا ہے کہ وہ قانون خداوندی کے آگے بالکل بے بس ہیں۔  اس پہلو کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے ستاروں کے چلتے رہنے کی صفت سے پہلے ان کے غروب ہونے کی صفت کا ذکر کیا گیا ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔    متن میں لفظ ” الجوارِ ”  استعمال ہوا ہے جس سے مراد چلتے رہنے والے ستارے ہیں۔  ستاروں کا چلنا اس معنیٰ میں بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کا عام مشاہدہ یہی ہے قطع نظر  اس سے کہ ان میں سے کون سے ستارے سیارے ہیں اور کون سے ثوابت اور اپنی اس حقیقت کے اعتبار سے بھی ہو سکتا ہے جس کا انکشاف جدید سائنس نے کیا ہے کہ ستارے خلا میں متحرک ہیں۔

The stars themselves are moving through space – some at tremendous speeds – but so vast is our distance from them that their positions do not appear to the naked eye to alter, even in a century.  (The Marvels & Mysteries of Science – P. 82)۸مہموش کر دے۔

ئے ہوں اور جس طرٖ)

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔    متن میں لفظ ” الکُنَّس ” استعمال ہوا ہے جس سے مراد چھپنے والے اور غائب ہو جانے والے ستارے ہیں۔  دن میں ستارے غائب رہتے ہیں نیز  چلتے چلتے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔  اس مناسبت سے ان کی یہ صفت بیان ہوئی ہے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔    یہاں ستاروں کی رفتار اور ان کے طلوع و غروب کو اس بات کی شہادت میں پیش کیا گیا  ہے کہ قرآن وحی الٰہی ہے نہ کہ القائے شیطانی۔  ان کا مقررہ وقت پر طلوع و غروب اور ان کی رفتار میں باقاعدگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ قانون الٰہی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور اس سے سرمو  انحراف نہیں کرسکتے  کروڑ ہا میل کی بسیط فضاء میں ستاروں کا ایک نامعلوم زمانہ سے معلق رہنا اور  ایک حیرت انگیز نظم کا پابند ہو کر رہنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ کائنات کا نظام ایک حکیمانہ نظام ہے۔  جس کے پیچھے ایک علیم و خبیر ہستی کا مُدبّرانہ منصوبہ کار فرما ہے۔  قرآن اس منصوبہ کی تشریح کرتا ہے اور خالق کائنات کی جن صفات کی طرف ستاروں کا یہ نظام اشارہ کرتا ہے ان کو وہ کھول کر پیش کرتا ہے۔  گویا قرآن کا عکس اس کائنات کے آئینہ میں دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی صداقت کو آثار کائنات کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔

ستارے اور سیارے اپنے حیرت انگیز طبعی کوائف  کی بنا پر انسان کو دعوت فکر دیتے ہیں۔  لیکن انسان کے غور و فکر کا انداز یہ رہا ہے کہ ان کو وہ متصرف بالذات مان کر ان کی پوجا کرتا اور ان سے شگون لیتا رہا ہے جس کی بنا پر علم جوتش ( Astrology )  کو فروغ حاصل ہوا اور کہانت ( Soothsaying) کی گرم بازاری ہوئی اس طرح انسان کے بھٹکنے کا سامان ہوتا رہا۔  پھر انسان ان کی ساخت اور انکے فاصلے وغیرہ کے بارے میں معلومات کے ڈھیر لگاتا ہے جس کی بنا پر علم فلکیات ( Astronomy ) کو فروغ ہوا اور سائنس نے خوب  ترقی کی۔ یہ صورت انسان کے لئے مفید ہوئی تو بس اس کی معلومات میں اضافہ کی حد تک۔  اس سے انسان اپنی اور کائنات کی اصل غایت معلوم کرنے کے تعلق سے کوئی رہنمائی حاصل نہ کر سکا۔  قرآن غور و فکر کا انداز اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان ان کے مشاہدہ سے ان کے خالق کی معرفت ( پہچان ) حاصل کرے کیونکہ یہ ستارے اپنے خالق کی عظیم الشان صفات کا مظہر ہیں۔  جس طرح ایک حسین ترین تصویر کو دیکھ کر اس کے مصور ( Artist) کی فن تصویر میں مہارت کا اندازہ ہوتا ہے اسی طرح ان درخشاں ستاروں کی صنّاعی اور ان کے حیرت انگیز نظام کو دیکھ کر خالق کائنات کی صفت قدرت ، صفت ربوبیت ، صفت علم ، صفت فرمانروائی ، صفت عدل ، صفت حکمت ، اور اس طرح کی دوسری صفات کی ابتدائی معرفت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے۔  بالفاظ دیگر ستارے اپنے خالق کا جو تعارف اپنی خاموش زبان سے کراتے ہیں وہ قرآن کے بیان سے جو خالق کائنات کا مکمل اور تفصیلی تعارف پیش کرتا ہے کامل درجہ ہم آہنگ ہے اور یہ اس کی حقانیت کا بیّن ثبوت ہے۔  پھر کمال درجہ کے اس حکیمانہ کلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ انسانی تصنیف ہے  یا شیطانی وساوس کا نتیجہ ہے یا اس بنا پر کہ وہ قیامت کی آمد کی خبر دے رہا ہے اسے کہانت پر محمول کرنا حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کیسی مذموم کوشش اور کتنی بڑی نا انصافی ہے ؟

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔    رات کے رخصت ہونے اور صبح کے نمودار ہونے کا وقت بھی عجائبات قدرت میں سے ہے اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا رات کی تاریکی کو چیر کر صبح نے جنم لیا ہے اور جب نسیم سحر چلتی ہے تو یہ احساس کروٹیں لینے لگتا ہے کہ گویا صبح سانس لے رہی ہے۔  یہاں ان کیفیات کو شہادت میں پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس ہستی نے رات اور دن کے آمدورفت کا یہ عجیب و غریب نظام قائم کیا ہے وہ اس نظام کے بطن سے ایک عجیب تر نظام نو بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس کی حکمت اس کی متقاضی ہے کہ ایسا کیا جائے اس لئے قرآن قیامت کی آمد اور ایک نئے نظام کی تشکیل جس میں جزائے عمل کا معاملہ پیش آئے گا۔۔۔ کہ جو خبر دے رہا ہے وہ خلاف عقل نہیں بلکہ موجودہ نظام کائنات کا ایک ابھرتا ہوا تقاضا ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔    یہ وہ بات ہے جس پر اوپر کی آیات میں استشہاد کیا گیا ہے یعنی قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر۔  معزّز پیغامبر سے مراد جبریل ہیں جو خدا کے معزّز فرشتے ہیں۔  وہ خدا کا کلام لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتے تھے اور ٹھیک ٹھیک ان ہی الفاظ میں آپ کو پہنچاتے تھے۔

چونکہ یہ کلام القائے ملکوتی ہوتا تھا نہ کہ القائے شیطانی اس لئے آیت میں کلام کو خدا کے فرستادہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔    یہ وحی لانے والے فرشتہ جبریل علیہ السلام کی صفت ہے۔  ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت عطا فرمائی ہے اس لئے شیاطین ان کے کام میں مخل نہیں ہو سکتے۔  ان کی پرواز آسمان سے پرے ہے اور وہ اللہ کا پیغام اس کے رسول تک بحفاظت پہنچانے پر پوری طرح قادر ہیں۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔    یہ حضرت جبریل کی دوسری صفت بیان ہوئی ہے یعنی ان کی رسائی براہ راست فرمانروائے کائنات تک ہے اور وہ اس کے حضور مقّرب اور عالی مقام ہیں۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔    یعنی جبریل فرشتوں کے سردار ہیں۔  وہ اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں۔  لہذا جس کے ماتحت فرشتوں کی فوج ہو اور جس کے اشارہ پر وہ حرکت میں آتے ہوں اس کے کام میں شیطانی قوتوں کے دخل انداز ہونے کا کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے ؟

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔    حضرت جبریل علیہ السلام کی صفت امانت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کلام الٰہی کو جوں کا توں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچا رہے ہیں۔  ان کی طرف سے کسی کمی و بیشی کا ہرگز احتمال نہیں ہے۔

قرآن کے لانے والے فرشتہ کا یہاں جو تعارف کرایا گیا ہے اس سے یہ مقصود واضح کرنا ہے کہ یہ کلام لفظاً لفظاً ارشاد الٰہی Word of God ہے جس کو نہایت اہتمام کے ساتھ اور نہایت پاکیزہ ذریعہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا جا رہا ہے۔ اس میں کسی قسم کی آمیزش کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔    ساتھی سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور خطاب اہل مکہ سے ہے جن کے درمیان آپ نے ساری زندگی بسر کی اور ایک دانش مند انسان ہی کی حیثیت سے آپ متعارف رہے۔  ایسی شخصیت کو دیوانہ قرار دینا ایک بے تکی بات تھی لیکن منکرینِ قرآن آپ کی مخالفت میں ایسے اندھے ہو گئے تھے کہ اس قسم کی بے تکی باتیں کہتے ہوئے ان کو ذرا تامّل نہیں ہوتا تھا۔  آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آپ کے دعوائے رسالت کو دیوانگی سے تعبیر  کرتے ہیں لیکن ان عقلمندوں کی سمجھ میں اتنی بات نہیں آتی کہ آپ کی پیش کردہ کتاب ایسی حکیمانہ باتوں سے پُر اور ایسی پاکیزہ تعلیمات پر مشتمل ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔  پھر کیا کوئی دیوانہ آج تک حکیمانہ باتیں پیش کر سکا ہے یا کسی مجنون نے لوگوں کے اخلاق سنوارے ہیں ؟  سچ ہے

؏     خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔      یعنی وحی لانے والے فرشتہ کو اپنی اصل شکل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کے کھلے کنارہ پر دیکھا تھا اس لئے اس میں شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔  حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پَر تھے اور ان کے عظیم وجود سے آسمان و زمین کے درمیان کی فضا بھر گئی تھی (مسلم کتاب الایمان ) اس سے ان کی زبردست طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔      یعنی جو وحی نبی صلی اللہ پر کی جا رہی ہے اس میں ملأ  أعلیٰ کے حقائق کا بھی انکشاف ہے اور قیامت کی آمد کی خبر بھی۔  ان باتوں سے لوگوں کو باخبر کرنے میں آپ کسی بخل اور تنگی سے کام نہیں لے رہے ہیں بلکہ اپنا فرض منصبی سمجھ کر اسے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچانے میں سرگرم ہیں تاکہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنے رب کی ہدایت کو قبول کریں۔

گویا وحی الٰہی کا یہ پورا سلسلہ آسمان سے لے کر زمین تک  سِلْسِلَۃُ الذَّھَبِ (سونے کے زنجیر ) ہے جس کی کوئی کڑی بھی ناقص نہیں ہے کہ آدمی کے لئے شبہہ کرنے کی کوئی گنجائش ہو۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔      نزول قرآن کے زمانہ میں کہانت کا رواج تھا کاہن (Sooth sayers) غیب کی خبریں جاننے کے دعویدار ہوتے اور شیاطین جن کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ آسمان میں پرواز کر کے غیب کی خبریں لاتے ہیں۔  جھوٹی خبریں ان پر القاء کرتے اور وہ ان میں مزید جھوٹ ملا کر بیان کرتے۔ وہ چونکہ مستقبل کا حال بیان کرنے کے دعویدار ہوتے تھے اس لئے انہیں لوگوں سے نذرانے وصول کرنے اور اپنی دوکان چمکانے کا خوب موقع ملتا۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے وحی الٰہی اور قیامت کی آمد کی خبر سن کر منکرین قرآن نے آپ پر کہانت کا الزام لگا کر وحی الٰہی کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ القائے شیطانی ہے یہاں ان کے اسی الزام کی تردید کی گئی ہے اور ظاہر ہے شیطان کو اس کلام پاک سے کیا نسبت ہو سکتی ہے

؏  چہ نسبت خاک را  با عالم پاک

کیا کسی شیطانی کلام کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ انسان کو خدا سے جوڑے ، اس میں بصیرت کی روشنی پیدا کرے اس کے اخلاق کو سنوارے ، اس کے خیالات میں پاکیزگی پیدا کرے اس کے کردار کو بلند کرے اور سماج میں بھلائیوں کو پروش کے لئے اسے آمادہ کرے۔  اگر شیطانی کلام کی یہ خصوصیات ہوسکتی ہیں تو ماننا پڑے گا سب سے بڑا نیک صفت اور مصلح شیطان ہی ہے جب کہ کوئی شخص بھی اس کا نام اس پر لعنت بھیجے بغیر نہیں لیتا۔  ورنہ یہ تسلیم کرنا پرے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر القائے شیطان کا الزام لگانے والے بجائے خود القائے شیطانی کا شکار ہیں اس لئے اتنی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔      یعنی قرآن یاد دہانی اور نصیحت تو ہے سارے انسانوں کے لئے لیکن اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو راہ راست اختیار کرنا چاہیں جو طالب حق نہ ہو وہ اس چشمۂ ہدایت سے فیضیاب نہیں ہو سکتا۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔      یعنی گو نصیحت حاصل کرنے اور ہدایت پانے کے لئے انسان کا چاہنا شرط اوّل ہے لیکن یہ کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا اللہ کی مشیئت انسان کی مشیئت پر غالب ہے اس لئے انسان  اس گھمنڈ میں مبتلا نہ رہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸۲)۔سورہ الانفطار

 

(۱۹ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی ہی آیت میں آسمان کے انفطار (پھٹ جانے ) کی خبر دی گئی ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام الانفطار ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

سورہ بالاتفاق مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اور سورہ تکویر کا زمانہ نزول قریب قریب ایک ہی رہا ہو گا یعنی مکہ کا ابتدائی دور۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ کا بھی مرکزی مضمون جزائے عمل ہی ہے لیکن استدلال ایک دوسرے پہلو سے کیا گیا ہے اور اس اہتمام سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے جو ہر شخص کی عملی زندگی کو ریکارڈ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کر رکھا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ؀ ۱   تا   ؀ ۵   میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جب یہ حادثہ عظیم رونما ہو گا تو انسان کا کیا دھرا سب اس کے سامنے آ جائے گا۔

آیت ؀ ۶    تا  ؀  ۸  میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس خدا نے انسان کو بہترین قالب میں ڈھالا اور اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا اسے کیا من مانی کرنے کے لئے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟  اس کی اپنے خدا کے ساتھ وفاداری اور غیر وفاداری کا امتحان نہیں ہو گا ؟  اور کیا وہ اس کے حضور اپنے طرز عمل کے لئے جوابدہ نہیں قرار پائے گا ؟

آیت ؀  ۹   تا ؀  ۱۲  میں اس اہتمام کا ذکر ہے جو اللہ نے ہر شخص کے اعمال کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے کر رکھا ہے۔

آیت ؀  ۱۳  تا ؀  ۱۹  میں مختصر الفاظ میں نیکو کاروں اور بدکاروں کا انجام سامنے لایا گیا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ پیشی کے دن کسی کے بس میں کچھ نہ ہو گا اور سارے اختیارات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے۔

ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آسمان پھٹ جائے گا ۱*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تارے بکھر جائیں گے ۲*۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب سمندر بہا دئے جائیں گے ۳*۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی ۴*۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے ؟

اور پیچھے کیا چھوڑا ہے ؟ ۵*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے انسان ! تجھے کس چیز نے  اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے ؟ ۶*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے تجھے بنایا، اور ٹھیک ٹھیک  انسان * بنایا اور تیری بناوٹ میں اعتدال رکھا۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا ۷*۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۸*  مگر تم جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو ۹*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں ۱۰*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرامی قدر کاتب ۱۱*۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں ۱۲*۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقیناً نیکو کار ۱۳* عیش و نشاط میں ہوں گے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بدکار ۱۴* جہنّم میں۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس میں جزا کے دن داخل ہوں گے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے غائب نہ ہو سکیں گے ۱۵*۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے ؟

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر (سن لو !) تمھیں کیا خبر کہ جزا کا دن کیا ہے ؟ ۱۶*

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دن جب کوئی شخص کسی کے لئے کچھ نہ کر سکے گا اور معاملات صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہوں گے ۱۷*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  اس مادی دنیا کو دیکھ کر انسان ماضی میں یہ خیال کرتا رہا ہے کہ اس کے لیل و نہار ہمیشہ یہی رہیں گے اور وہ کبھی کسی حادثہ سے دوچار ہونے والی نہیں۔  اور جہاں تک موجودہ سائنس کا تعلق ہے اس کی ترقی نے انسان کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سورج کی طاقت بھی زائل ہو سکتی ہے اور یہ کائنات عظیم حادثہ سے دوچار ہو سکتی ہے البتہ سائنس دانوں کے اندازہ کے مطابق یہ صورت اربوں سال بعد پیش آئے گی۔

لیکن قرآن جو کلام الٰہی ہے صرف امکان ہی کی بات نہیں کرتا بلکہ مثبت طور پر اور واشگاف الفاظ میں یہ خبر دیتا ہے کہ عنقریب یہ کائنات عظیم حادثہ سے دوچار ہو گی اور زمین تو زمین آسمان کا نظام بھی درہم برہم ہو جائے گا  تاکہ ایک نئی دنیا ایک نئے نظام کے ساتھ وجود میں لائی جائے ظاہر ہے نئی تعمیر کے لئے تخریب ضروری ہوتی ہے اس لئے جہان نو کی تعمیر کے لئے اس دنیا کی شکست و ریخت کچھ بھی تعجب خیز نہیں۔

قیامت کے دن آسمان و زمین کے درہم برہم ہو جانے کے ذکر سے بائبل بھی خالی نہیں ہے۔

”  اس دن آسمان بڑے شور و غل کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اجرام فلک حرارت کی شدت سے پگھل جائیں گے اور زمین اور اس پر کے کام جل جائیں گے۔ ” (۲۔ پطرس ۳ :  ۱۰)

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن جس حادثہ عظیم کی خبر دے رہا ہے وہ کوئی نئی خبر نہیں ہے جو قرآن نے پہلی مرتبہ دی ہو ، بلکہ نوع انسانی کو وحی الٰہی کے ذریعہ برابر آگاہ کیا جاتا رہا ہے البتہ قرآن جتنے موثر پیرایہ میں اور جس تفصیل کے ساتھ قیامت کی تصویر کشی کر رہا ہے اس کی نظیر ان تحریف شدہ آسمانی کتابوں میں سے کسی کتاب میں بھی ملنا مشکل ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ قرآن کے اس بیان سے قیامت کے بارے میں زبردست یقین پیدا ہو جاتا ہے اور دل و دماغ کو ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ دنیا کے بارے میں انسان کے زاویہ نظر میں عظیم تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  ستارے بزم جہاں کی رونق ہیں لیکن جب یہ بزم ہی ختم کر دی جائے گی تو ان قمقموں کے باقی رہنے کا کیا سوال ؟  جس قانون کشش نے ان کو خلا میں منظّم کر رکھا ہے اس میں ذرا سا اختلال ان کو منتشر کرنے کے لئے کا فی ہے۔

ستاروں  کے گرنے کا ذکر انجیل میں بھی موجود ہے

"سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائینگی۔ ” ( متی ۲۴  :  ۲۹  )

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی سمندر جوش میں آ کر اپنے حدود کو توڑ کر بہہ پڑیں گے اور ساتھ ہی۔  جیسا کہ سورہ تکویر میں بیان ہوا۔ بھڑک اُٹھیں گے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  قبروں کے اکھیڑ دئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جوں ہی قیامت کا دوسرا صور پھونک دیا جائے گا زمین کے اندر سے مردے اس طرح باہر نکل پڑیں گے جیسے قبریں اکھیڑ کر مردوں کو باہر نکالا گیا ہو۔  قیامت تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے اور مر گئے ان سب کو زمین اُگل دے گی خواہ کوئی قبر میں دفن ہوا ہو یا سمندر میں غرق ہوا ہو اور خواہ کسی کی لاش جلا دی گئی ہو یا خلا میں اس کے اجزاء منتشر ہو گئے ہوں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  آگے بھیجنے ( مَا قَدَّمَتْ) سے مراد آدمی کا اچھا یا برا عمل ہے۔  جو اس نے اخروی زندگی کے لئے کیا۔ گویا انسان روزانہ اپنے اعمال کا پارسل نئی دنیا کو بھیجتا ہے جہاں قیامت کے دن وہ پہنچنے والا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص صدا بہار پھولوں کا پارسل بھیجتا ہے تاکہ اس کے لئے جنت کی بہار بن جائیں۔  اور کوئی شخص آتشگیر مادہ کا پارسل بھیجتا ہے تاکہ اس کو جلانے کے لئے ایندھن کا کام دے۔

پیچھے چھوڑنے ( مَا اَخَّرَتْ ) سے مراد تقویٰ اور نیکی کے وہ کام ہیں جو انسان کے کرنے کے تھے لیکن اس نے نہیں کئے اس طرح قیامت کے دن ہر شخص کو اس کی کار کر دگی اور اس کی کوتاہیاں  Commission & Omission             اچھی طرح معلوم ہو جائیں گی۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں خدا کی صفت کریمی کا حوالہ دینے سے مقصود اس کے محسن ہونے کا احساس دلانا ہے تاکہ آدمی کے اندر احساس ذمہ داری ابھرے۔  خدا کے محسن اور مہربان ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ آدمی اس کی طرف لپکتا اور اس کا شکر گزار اور وفادار بندہ بن کر رہتا ، لیکن وہ اس سے بے نیازی اختیار کرتا ہے اور اس کے حضور اپنے کو جوابدہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔  یہ سراسر دھوکا ہے جو میں انسان مبتلا رہتا ہے۔ لیکن اس دھوکہ میں پڑنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف خواہش پرستی ہے جو اسے اپنے مہربان رب سے بغاوت پر آمادہ کرتی ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  انسان دنیا کی ممتاز ترین مخلوق ہے اور اس کی تخلیق میں خالق کی صناعی پوری طرح نمایاں ہے انسان کا پہلے ہیولیٰ ( لوتھڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ تیار ہوتا ہے اس کے بعد اسے اس طرح درست کیا جاتا ہے کہ وہ متناسب اعضاء کی شکل میں مشکّل  ہو جاتا ہے۔  پھر اس کے قویٰ میں ایسا توازن رکھا جاتا ہے کہ اس کا وجود دنیا کی سب سے معتدل مخلوق ہونے کی گواہی دیتا ہے۔  مزید یہ کہ نوعِ انسانی کا ہر فرد شکل و صورت میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔  دنیا میں اربوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور ان سب کا موڈل ایک نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کا موڈل الگ ہو تا ہے تاکہ اس کی انفرادیت اور اس کا تشخص برقرار رہے۔  غرض یہ کہ انسان کی ساخت اور اس کی شکل و صورت کے مشاہدہ سے اس کے خالق کے کمال قدرت اور حیرت انگیز صناعی کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان کے  حق میں وہ کتنا بڑا محسن ہے جس نے اس کو دنیا کی بہترین مخلوق بنا کر اُٹھایا !

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تمہارا یہ گمان صحیح نہیں کہ دنیا یونہی چلتی رہے گی نہ قیامت آئے گی اور نہ خدا کے حضور تمہاری پیشی ہو گی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کی آمد کی جو خبر قرآن دے رہا ہے اس کو جھٹلانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم جزا و سزا کی حقیقت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اس کو تسلیم کرنے کے بعد انسان کو خواہشات نفسانی کے علی الرغم ایک ذمہ دارانہ زندگی گزارنی پرتی ہے۔

آج بھی انسان نے جزا و سزا کے مذہبی تصوّر سے بچنے کے لئے کائنات کی ایسی ” سائنٹیفک ”  توجیہ کی ہے کہ ذہن نہ خدا کی طرف منتقل ہوتا ہے اور نہ قیامت کی طرف۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تم جزا و سزا کو جھٹلانا چاہو تو جھٹلاؤ  اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔  حقیقت یہ ہے کہ جزا و سزا کا معاملہ لازماً پیش آنا ہے اور اس کے لئے اللہ نے یہ اہتمام کیا ہے کہ تمہارے اعمال کو ریکارڈ کیا جائے۔

نگراں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کے قول و فعل کو ریکارڈ کرنے کے لئے اللہ کی طرف سے مقرر  ہیں ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے لگے ہوتے ہیں ، ایک  دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قول و عمل کو ریکارڈ کرنے والے فرشتے ہیں۔  ان کی صفت ” کراماً ”  (گرامی قدر ، معزز)بیان کی گئی ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یہ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔  ان کے بارے میں نہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نیکی کرے اور یہ لکھیں نہیں اور نہ یہ اندیشہ ہو سکتا ہے کہ ایک  کی بدی دوسرے کے کھاتہ میں جمع کر دیں۔  یہ خفیہ طریقہ پر مگر با وقار انداز میں نہایت ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض انجام دیتے رہتے ہیں لہذا ان کو دنیوی حکومتوں کی سی ، آئی ، ڈی  پر قیاس کرنا صحیح نہ ہو گا جس کے علم کا دائرہ بھی محدود ہوتا ہے۔  اور جو نا فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے الٹی سیدھی رپورٹ پیش کرتی رہتی ہے۔  البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس خفیَہ پولس پر بھی اللہ کی  ” خفیہ پولس ”  مقرر ہے  جو ان کی ساری حرکتوں کو ضبط تحریر میں لا رہی ہے۔

فرشتوں کی کتابت کی نوعیت تو اللہ ہی کو معلوم ہے البتہ موجودہ سائنس اور ٹیکنولوجی کے دور میں یہ سمجھنا ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں رہا کہ انسان کی تمام حرکات و سکنات کو اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔  فلم ، ریڈیو ، فوٹو ، ٹیلیویژن اور ٹیپ رکارڈنگ اس کی نمایاں مثالیں ہیں اور اب تو یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ زمین پر بیٹھ کر ہم لاکھوں اور کروڑوں میل دور چاند ، مریخ ، اور زحل جیسے سیاروں کی تصویریں منگائیں ،۔  اصل میں موجودہ سائنس نے دو اہم قوانین قدرت کا انکشاف کیا ہے جس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت کچھ رہنمائی کا سامان موجود ہے۔  ایک یہ کہ ہماری تصویر ہر لمحہ فضا میں بنتی رہتی ہے۔  اسی تصویر کو محفوظ کرنے کی تکنیک  (Technique )   سائنس نے اختیار کی ہے۔

اسی طرح ہماری آواز ہوا میں لہریں پیدا کرتی ہے۔  ان لہروں کو کیسیٹ میں محفوظ کر کے اسی آواز کو پھر سنا جا سکتا ہے۔  یہ سب کچھ جب انسان کے لئے ممکن ہوا ہے اور ممکن بھی ایسا کہ اسی پر موجودہ تمدن کی عمارت کھڑی ہوئی ہے تو پھر انسان کے لئے یہ باور کرنا کیا مشکل ہے کہ جس خدا نے یہ قانون قدرت بنایا ہے اس نے اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ ہر شخص کی پوری زندگی کو فلمایا جائے اور قیامت کے دن ہماری بولتی فلم ہمارے سامنے پیش کر دی جائے۔  اس وقت اپنی بولتی فلم کو دیکھ کر انسان کے ہوش ٹھکانے نہیں رہیں گے۔  مگر انسان آج ہی یہ یقین کر لے کہ اس کی پوری زندگی کو فلمایا جا رہا ہے اور اس کی بولتی فلم اسے دکھائی جانے والی ہے تو انسان اپنے رویّہ میں بڑا محتاط اور ذمہ دار ہو گا۔  اور کبھی ایسا کام کرنے یا ایسی بات زبان سے نکالنے کے لئے آمادہ نہیں ہو گا جو کل آخرت کے ٹیلیویژن پر وہ دیکھنا اور سننا پسند نہیں کرے گا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں افعال کا ذکر ہے اور سورہ ق میں صراحت ہے کہ جو لفظ بھی انسان اپنی زبان سے نکالتا ہے اس کو نوٹ کرنے کے لئے ایک فرشتہ موجود ہوتا ہے اور یہ وضاحت بھی ہے کہ یہ فرشتے دو ہوتے ہیں جو دائیں اور بائیں جانب بیٹھے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔

اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَاْلِ قَعِیْدُ۔  مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلِ إلّا لَدَیْہِ رَقِیْبُ عَتِیْدُ ( ق ۱۷۔ ۱۸)

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔‏  سورہ کا مضمون اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نیکو کار وہ لوگ ہیں جن کا بنیادی وصف رب کریم کے حضور جوابدہی کا احساس ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  جو لوگ رب کریم کے حضور جوابدہی کے قائل نہ ہوں اور آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلائیں وہ قرآن کی اصطلاح میں فاجر ( بدکار )ہیں کیونکہ جہاں خدا کے حضور پیشی کا تصور نہ ہو وہاں پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ جہنم میں لازماً داخل ہوں گے اور داخل ہونے کے بعد اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔  وہ ہمیشہ کے لئے اسی میں پڑے رہیں گے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  سوال کو اس لئے دہرایا گیا ہے تا کہ جزا کے دن کی اہمیت واضح ہو جائے اور عدالت خداوندی میں حاضری کے تصور سے انسان لرز اٹھے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی دنیا میں انسان جو با اختیار نظر آتا ہے قیامت کے دن بالکل بے اختیار ہو گا خواہ دنیا میں وہ شاہ رہ چکا ہو یا گدا۔  اس روز انسان کی بے بسی کا یہ حال ہو گا کہ وہ اپنے ہی لئے کچھ کر نہ سکے گا کُجا یہ کہ دوسروں کے لئے کرے۔  اختیار اور اقتدار سب کچھ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہو گا اور معاملات کے فیصلے وہ خود فرمائے  گا۔

یہ ہے  عدالتِ خداوندی میں پیشی کا وہ تصور جو قرآن پیش کرتا ہے اور جو عقیدہ آخرت کا لازمی جزء ہے بخلاف اس کے عقیدہ تناسخ ایک چکّر ہے جس میں عدالت خداوندی میں پیشی کا کوئی مرحلہ پیش آنے والا ہی نہیں ہے۔  اس سے اسلام کے عقیدہ آخرت اور مشرکین کے عقیدہ تناسخ کے بنیادی فرق کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸۳)  سورۃ المطففین

 

(۳۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سُورہ کے آغاز ہی میں مطففین ( ناپ تول میں کمی کرنے والوں ) کو وعید سنائی گئی ہے۔  اس مناسبت سے اس سورہ کا نام (المُطَفِّفِیْنَ) ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی تنزیل ہے جب کہ قرآن کی دعوت اہل مکہ کے سامنے پیش ہو چکی تھی وہ یوم جزا کا انکار کر رہے تھے اور اہل ایمان کا مذاق اڑا رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

رب العالمین کے حضور پیشی اور جزائے عمل ہے۔  اس کا احساس دلانے کے لئے معاملات کی اس خرابی پر گرفت کی گئی ہے جس میں آخرت کا احساس نہ رکھنے والے لوگ عام طور سے مبتلا ہوتے ہیں۔

 

نظم کلام

 

سورہ انفطار سے اس کا ربط بالکل واضح ہے۔  اس میں آگاہ کیا گیا تھا کہ اعمال کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے فرشتے مقرر ہیں۔  اس سورہ میں اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ انسان کی عملی زندگی کا ریکارڈ اس کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں محفوظ رکھنے کا انتظام اﷲ تعالیٰ نے کر رکھا ہے۔

آیت ؀ ۱   تا ؀ ۶   میں کاروباری معاملات میں بد دیانتی اور فریب کاری پر گرفت کرتے ہوئے خدا کے حضور جوابدہی کا احساس دلایا گیا ہے۔

آیت ؀ ۷   تا ؀   ۱۷  میں اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ بدکاروں کا نامہ اعمال ان کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں ایک  دفتر میں جو مجرمین ہی کے لئے مخصوص ہے۔  اور قیامت کے دن اس ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا اور اس روز ان کا انجام بڑا ہی حسرتناک ہو گا۔

آیت ؀ ۱۸  تا ؀ ۲۸  میں نیک کردار لوگوں کو خوشخبری دی گئی ہے کہ ان کا نامہ اعمال ان کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں اعلیٰ درجہ کے دفتر میں جو نیکو کاروں کے لئے مخصوص ہے محفوظ کیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اس ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا ، اور اس روز وہ فائز المرام ہوں گے۔

آیت ؀ ۲۹  تا ؀ ۳۶  میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ منکرین کے طنز و تشنیع سے کبیدہ خاطر نہ ہوں۔  آج وہ تم پر ہنس رہے ہیں مگر کل تم ان پر ہنسوگے۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں اٹھایا جائے گا ۱*۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بڑے دن ۲*۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن سب لوگ ربُّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے ۳*۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ان کا گمان صحیح ) نہیں ۴*۔  یقین جانو بدکاروں کا نامہ عمل سِجّین میں ہو گا۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے  ؟

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک ریکارڈ آفس ہے  ۵*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔تباہی ہے اس دن انکار کرنے والوں کے لئے !

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو روز جزا کا انکار کرتے ہیں۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو حد سے گزرنے ۶* والے گنہگار ۷* ہوتے ہیں۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے شخص کو جب ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے فسانے ہیں ۸*۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۹* بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد* کا زنگ چڑھ گیا ہے ۱۰*۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہرگز نہیں ۱۱* اس دن وہ اپنے رب سے دور رکھے جائیں گے ۱۲*۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت ان سے کہا جائے گا  کہ یہ وہی چیز ہے جس کا تم انکار کرتے رہے ہو۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ان کا دعوی صحیح) نہیں ۱۳* یقیناً نیک کردار لوگوں کا نامہ اعمال علییّن میں ہو گا۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں کیا معلوم کہ علییّن کیا ہے ؟

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک ریکارڈ آفس ہے ۱۴*۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں مقربین (بارگاہ الٰہی) کی حضوری ہوتی ہے ۱۵*۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک نیکوکار عیش میں ہوں گے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاندار تختوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے ۱۶*۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے چہروں پر تم دیکھو گے کہ خوشحالی کی بشاشت جھلک رہی ہے ۱۷*۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کو ایسی شراب پلائی جائے گی جو خالص اور سر بہ مہر ہو گی۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مہر مشک کی ہو گی ۱۸* اور رغبت کرنے والوں کو چاہیے  کہ بڑھ چڑھ کر اس کی رغبت کریں ۱۹*۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی ۲۰*۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک چشمہ ہو گا جس میں سے مقرب ( بندے ) پئیں گے ۲۱*۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ مجرم بنے ہوئے تھے وہ اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے ۲۲*۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں سے اشارہ کرتے  ۲۳*۔

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب اپنے گھر والوں میں لوٹتے تو خوش خوش لوٹتے ۲۴*۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں ۲۵*۔

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے  گئے تھے  ۲۶*۔

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو آج اہل ایمان کُفّار پر ہنسیں گے ۲۷*۔

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔تختوں پر بیٹھے (ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے ۲۸*۔

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔مل گیا نا کافروں کو ان کے کئے کا بدلہ !

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  ان ابتدائی آیات میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں پر سخت گرفت کی گئی ہے۔  یہ گرفت اگرچہ کہ ڈنڈی مارنے اور ناپ  گھٹا کر دینے پر کی گئی ہے تاہم اس کے مفہوم میں لین دین کے معاملہ میں کی جانے والی ہر قسم کی بد دیانتی اور فریب دہی شامل ہے۔  مثال کے طور پر اشیاء میں ملاوٹ کرنے Adulteration   پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ ملاوٹ کی صورت میں اصل شیء کو مقدار سے کم دیا جاتا ہے۔  چنانچہ دودھ میں پانی ملانے کا مطلب خالص دودھ کی مقدار کو گھٹا دینا ہے اور  چونکہ گھٹا دینے کا یہ عمل خریدار سے چھپا کر کیا جاتا ہے اس لئے یہ فریب دہی بھی ہے اور خِسّت بھی۔

اس خرابی کی اصل وجہ قرآن نے یہ بتلائی ہے کہ ایسے لوگ خدا کے حضور پیشی کا کوئی تصّور نہیں رکھتے حالانکہ ان کا ضمیر خود اس بات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور جوابدہ ہیں کیونکہ اس مجرمانہ طرز عمل کو اختیار کرنے والے لوگ جب دوسروں سے لیتے ہیں تو ناپ بھر کر لیتے ہیں اور کوئی شخص بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جائے اور اس کو مقدار سے کم دیا جائے بالفاظ دیگر انسانی فطرت عدل ہی کو پسند کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا جائے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا خالق عدل ہی کو پسند کرتا ہے لہذا جو لوگ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت عدل کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ دراصل اپنے رب کی مرضی اور اس کے اس حکم کے خلاف کام کرتے ہیں جو ان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے پھر ان کا رب ان کی ان مجرمانہ حرکتوں پر گرفت کیوں نہیں کرے گا ؟  کیا ڈنڈی مارنے والے اور انصاف کی ترازو قائم کرنے والے دونوں یکساں ہو سکتے ہیں اور کیا دونوں کا انجام یکساں ہو گا ؟  انسان کی فطرت اور اس کا وجدان اس کو یکساں تسلیم نہیں کرتا۔  یہیں سے قرآن کے بیان کی صداقت روشن ہو جاتی ہے کہ انسان کو ایک دن جی اٹھنا ہے اور اپنے رب کے حضور اپنے طرز عمل کے سلسلہ میں جوابدہی کرنی ہے اور اس کے مطابق جزا یا سزا پانا ہے۔

اس سے واضح ہوا کہ انسان جب خدا کے حضور جوابدہی کا تصور نہیں رکھتا تو اس کے لینے کے پیمانے اور ہوتے ہیں اور دینے کے اور۔  وہ نہ صرف اپنا حق پورا پورا وصول کرنا چاہتا ہے بلکہ چاہتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالے۔  اس ذہنیت کی اصلاح کا صحیح اور موثّر ذریعہ خدا کے حضور جوابدہی کا تصور ہی ہے اس لئے معاشی خرابیوں کو دور کرنے کا مسئلہ ہو یا سماجی بگاڑ کے سدھار کا مسئلہ ، افراد میں یہ شعور بیدار کئے بغیر حقیقی اصلاح ممکن نہیں ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قیامت کا دن ہے جو نہایت سخت ہو گا۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  عدالت خداوندی میں حاضری کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ آدمی اس پر سے سرسری طور سے گزر جائے بلکہ یہ نہایت سخت اور کٹھن مرحلہ ہو گا جو ہر شخص کو لازماً پیش آنا ہے لہذا اگر وہ چاہتا ہے سلامتی کے ساتھ اس مرحلہ سے گزر جائے تو اسے اپنے دل و دماغ میں اس تصور کو بسانا ہو گا اور اسی بنیاد پر زندگی گزارنا ہو گی۔

ذرا تصور کیجیے عدالت خداوندی کا جب کہ سارے انسان زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہو چکے ہوں گے۔ فرمانروائے کائنات عدالت برپا فرمائے گا۔ ہر شخص کی اس کے حضور پیشی ہو گی اور اسے اپنی پوری زندگی کا حساب پیش کرنا ہو گا۔ فرشتے اس بات کے منتظر ہوں گے کہ کس کے حق میں کیا فیصلہ ہوتا ہے تاکہ اس کا نفاذ عمل میں لائیں۔ اس وقت انسان بالکل بے بس ہو گا۔ اگر انسان آج اس بے بسی کا تصور کر لے، تو خوف خداوندی سے کانپ اٹھے اور اس کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ حدیث نبوی میں قیامت کے موقف کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے :۔

یَومَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَ بِّ العَالَمِیْنَ حَتَّی یَغِیْبَ اَحَدُھُمْ فِیْ رَشْحِہٖ اِلیٰ اءَ نْصَافِ اُذْ یْنَہِ۔

جس روز لوگ رب العالمین کے حضور پیشی کے لیے کھڑے ہوں گے تو وہ پسینہ میں اس طرح شرابور ہوں گے کہ بعض لوگوں کے کان کے نصف حصہ تک کا جسم پسینہ میں ڈوب رہا ہو گا۔‘‘ (مسلم کتابُ الجنۃ)۔

اللہ اکبر ! کیسا شدید مرحلہ ہو گا جس سے اللہ کے رسول نے انسان کو پیشگی با خبر کر دیا ہے! کاش کہ لوگ قیامت کے موقف کے تصور سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوتے !

۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ان کا یہ گمان غلط ہے کہ نہ دوبارہ جی اٹھنا ہے اور نہ خدا کے حضور جوابدہی کرنا ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’سجین‘‘ سجن سے بنا ہے جس کے معنیٰ قید خانہ کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ قرآن نے اپنی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کی خود ہی یہ تشریح کی ہے کہ وہ ’’کتابٌ مرقوم‘‘ ہے یعنی ’’ ریکارڈ آفس‘‘

یہ علم برزخ کی ایک بڑی حقیقت ہے جس سے انسان کو باخبر کیا گیا ہے۔ ہر ہر فرد کی عملی زندگی کا ریکارڈ تیار کرنے پر فرشتوں کو جو مامور کیا گیا ہے اس کا سلسلہ اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔ موت کے بعد اس کا نامہ عمل برزخ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ بد کار تھا تو اس کے نامہ عمل کا اندراج ’’سجین‘‘ نامی ریکارڈ آفس میں کیا جاتا ہے اور اگر وہ نیکو کار تھا تو جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے اس کا اندراج ’’علییّن ‘‘ میں ہوتا ہے۔ اس سے اصلاً یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ہر ہر شخص کے نامہ عمل کو اس کے مرنے کے بعد محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے اہتمام کر رکھا ہے اور قیامت کے دن اس کو کھول دیا جائے گا اور اسی کی بنیاد پر عدالت خداوندی میں فیصلہ ہو گا۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حد سے گزر جانے والے سے مراد حدود بندگی سے تجاوز کرنے والے لوگ ہیں یعنی جو اپنے کو اللہ کا بندہ نہیں سمجھتے بلکہ خود مختار سمجھ کر من مانی کرتے رہتے ہیں۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گنہگار سے مراد معصیت میں مبتلا ہونے والے لوگ ہیں۔ جب انسان خدا کا بندہ بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر اس کی پوری زندگی گناہ، برائی، جرم ، اور معصیت کی زندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسا شخص روز جزا کو کیوں ماننے لگے؟

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن میں کافر قوموں پر عذاب خداوندی کے جو تاریخی واقعات بیان ہوئے ہیں ان سے سبق لینے کے بجائے یہ لوگ ان کو افسانے اور کہانیاں قرار دیتے ہیں موجودہ زمانہ کے منکرین بھی اسی طرح کی الزام تراشی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ’’دقیانوسیت‘‘ ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تردید ہے منکرین کے اس الزام کی جو اوپر بیان ہوا۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ قرآن کے بارے میں اتنی غلط بات کہنے کی جسارت اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ ان کے اعمال بد نے ان کو ڈھیٹ بنا دیا ہے ورنہ ایک سلیم الفطرت انسان قرآن کے بارے میں ایسی نا معقول بات ہر گز نہیں کہہ سکتا۔

دلپر زنگ چڑھ جانے کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے :

اِنَّ الْعَبْدَ اذَا اَخطَأ خطِیْئَۃً نَلِتَۃٌ سَوْرَاءُ فَاِذَا ھُوَ نَزَعَ وَ اسْتَغْفَرَوَتَابَ صُفِلَ قَلْبُہٗ وَاِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّیٰ تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الران الذی ذکر للہ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ مَا کَانُو ا یَکْسِبُونَ۔ (ترمذی ابواب التفسیر)

’’بندہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ اس سے باز آرا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے لیکن گر وہ پھر گناہ کرتا ہے یہ دھبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کَلَّا بِلْ رَانَ عَلیٰ قَلُوْبِھِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ میں کیا ہے۔‘‘

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی یہ آرزو بھی باطل ہے کہ اگر آخرت برپا ہو ہی گئی تو ہمیں جس طرح دنیا میں ’’ عزت کا مقام‘‘ حاصل ہوا ہے خدا کے ہاں شرف بار یابی حاصل ہو گا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ خدا کے ہاں شرف بار یابی کیا حاصل کر سکیں گے انہیں تو اس روز اپنے رب سے دور رکھا جائے گا۔ وہ اس کی عنایات سے بھی محروم ہوں گے اور اس کی شان کے جلوے دیکھنے سے بھی۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ اللہ کے ہاں نیک و بد میں کوئی تمیز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے بد کاروں کا نامہ عمل الگ محفوظ رکھنے کے لیے الگ الگ ریکارڈ آفس قائم کر رکھے ہیں۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’علّییّن ‘‘ کے لفظی معنیٰ اعلیٰ مقامات کے ہیں۔ یہاں اس لفظ کو قرآن نے اپنی خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کی تشریح خود ہی کر دی ہے کہ وہ ’’ کتاب مرقوم‘‘ ہے یعنی وہ ایک ’’ریکارڈ آفس‘‘ ہے جہاں نیک لوگوں کے نامہ عمل کا اندراج ہوتا ہے۔ یہ اندراج ان کے مرنے کے بعد ہوتا ہے اور یہ عالم برزخ کا ریکارڈ آفس ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مقرب فرشتوں کی حضوری ہے۔ نیکو کاروں کے ریکارڈ آفس پر مقرب فرشتوں کی حضوری گویا مقرب فرشتوں کی طرف سے نیکو کاروں کے حق میں خراج تحسین ہے اور یہ بہت بڑا شرف اور بہت بڑا اعزاز ہے جو عالم برزخ میں نیک بندوں کو حاصل ہوتا ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شاہانہ انداز میں شاندار تخت پر بیٹھے جنت کی وسیع اور پر بہار فضاء میں اپنے رب کی نعمتوں اور اس کی شان کے جلوے دیکھ رہے ہوں گے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیک کردار لوگوں کو جنت میں جو زندگی میسر آئے گی وہ ایسی آسائش کی ہو گی کہ ان کے چہرے ہمیشہ تر و تازہ اور شگفتہ ہی رہیں گے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں طنز ہے دنیا کی شراب پر جو گندہ ہوتی ہے اور ڈھکن کھلتے ہی اس کے بر خلاف جنت کی شراب کی خصوصیت یہ ہو گی کہ وہ ہر قسم کی آلودگی ے پاک مئے ناب ہو گی اور وہ جن بوتلوں یا برتنوں میں بند ہو گی ان پر مشک کی مہر لگی ہو گی۔ اس لیے اس کی خوشبو سے دماغ معطر ہو گا اور پینے میں لذت محسوس ہو گی۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ اس کی رغبت کریں‘‘ سے مراد جنت کی نعمتوں کی رغبت کرنا ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو ادنیٰ کے بجائے اعلیٰ چیز کا اور ختم ہونے والی چیز کے مقابلہ میں ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اور اس لحاظ سے آدمی غور کرے تو دنیا کا عیش اور اس کی لذتیں آخرت کے عیش اور اس کی لذتوں کے مقابلہ میں بالکل بے وقعت اور بے حقیقت قرار پائیں گی اور دانشمندی کا تقاضہ یہی ہو گا کہ آدمی ان کا حریص بننے اور مادہ پرستی میں غرق ہونے کے بجائے اخروی نعمتوں کا طلب گار بنے اور اس میدان میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرے۔

قرآن نے یہاں جنت کی نعمتوں کے طلب گار بننے کی جو ترغیب دی ہے اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوتی ہے جو ’’ادب برائے ادب ‘‘ کے طرز پر ’’ نیکی برائے نیکی Virtue for the sake virtue کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنت اور اس کی نعمتوں کی تمنا کرتے ہوئے نیکی کرنا ایک فرو تر بات ہے۔ بظاہر یہ بات اونچی سطح کی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً یہ محض تخیل کی پرواز ہے۔ اس کو نہ انسان کی نفسیات سے کوئی مناسبت ہے اور نہ ہی یہ کوئی قابل عمل بات ہے۔ نیز یہ قرآن و سنت کے نصوص صریحہ کے بھی خلاف ہے۔ اسلام کی تعلیم نہ تفلسف کی ہے اور نہ تخیلات کی  دنیا میں پرواز کرنے کی بلکہ اس کی تعلیم واقعیت پسندانہ، انسانی نفسیات کے ٹھیک ٹھیک مطابق اور اس کو عمل پر آمادہ کرنے والی ہیں۔ وہ شاعری کرنے نہیں آیا ہے بلکہ مٹی ے بنے ہوئے انسان کو جنت کا باشندہ بنانے کے لیے آیا ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسنیم کے معنی بلند کرنے کے ہیں یہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے اور غالباً یہ نام اس کی اس خصوصیت کے بنا پر رکھا گیا ہے کہ اس میں سے نوش کرنے والوں کی رفعت میں مزید اضافہ ہو گا۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسنیم اہل جنت کا سب سے اعلیٰ مشروب ہو گا۔ نیک لوگوں کو جو شراب پلائی جائے گی۔ اس میں اس اعلیٰ مشروب کی آمیزش ہو گی تاکہ اس کے کیف میں اضافہ ہو جائے لیکن جو لوگ مقربین کے درجہ کے ہوں گے وہ براہ راست اس چشمہ سے نوش کریں گے۔گویا لطف اندوزی اور کیف و سرور میں ان کا حصہ اتنا ہی وافر ہو گا، جتنا وافر حصہ کہ ان کا ایمان، عمل صالح اور اللہ کے لیے قربانیاں دینے کے معاملہ میں رہا ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اہل ایمان کا مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں کستے۔

اہل ایمان کا مذاق اڑانے کا سلسلہ تو موجودہ زمانہ میں بھی جاری ہے البتہ کچھ نئے فقروں کے ساتھ۔ چنانچہ آج کے ’’ موڈرن‘‘ لوگ اسلام کی صحیح پیروی کرنے والوں پر ملائیت Orthodoxy اور ’’ قدامت پسندی‘‘ Conservationism کے فقرے جست کرتے ہیں۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہوں نے اہل ایمان کی تذلیل و تحقیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ یہاں تک کہ جب ان کا گزر اہل ایمان کےپاس سے ہوتا تو وہ آپس میں ان کے خلاف کن اکھیوں سے اشارے کرتے۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں مخالفین کے اس رویہ کی تصویر کھینچی گئی ہے جو اہل ایمان کے خلاف وہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد گھر واپس لوٹتے تو بجائے اس کے کہ انہیں اپنی ان حرکتوں پر ندامت ہو وہ خوش ہوتے اور فخریہ انداز میں اس کا ذکر اپنے گھر والوں سے کرتے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ حق کو ٹھکرا دیتے ہیں ان کی نفسیات اہل حق کے بارے میں کیا ہوتی ہیں۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ اسلام کو دیگر مذاہب پر قیاس کر کے اسے بھی افیون قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی دعوت کو لے کر اٹھنے والوں کے بارے میں یہ باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ عقل کے کورے ہیں۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے عمال کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا نہ کہ دوسروں کے اعمال کا لیکن یہ اپنی ذات کو بھلا کر اہل ایمان کے پیچھے پڑ گئے کہ انہیں اذیت دے دے کر اپنی بات زبردستی ان سے منوائیں گویا خدا نے انہیں دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ وہ اپنا صالح ہونا ثابت کر دکھائیں بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ داروغہ بن کر اہل ایمان کی خوب خبر لیں۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کفار اہل ایمان پر ہنستے رہے ہیں لیکن آخرت میں اہل ایمان کفار پر ہنسیں گے۔ اس طرح ان کو اپنی اس حرکت کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملے گا اور چونکہ کفار پر دنیا میں اللہ کی حجت قائم ہو چکی تھی اس کے باوجود انہوں نے قبول حق کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ سرکش بن کر رہے اس لیے وہ آخرت میں کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اگر وہ کسی ہمدردی کے مستحق ہوتے تو اللہ تعالیٰ خود ان پر رحم فرماتا۔ اس بناء پر اہل ایمان کا ان کے حال پر ہنسنا بالکل صحیح اور بر محل ہو گا۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں کفار کا جو حال ہو رہا ہو گا اسے اہل ایمان جنت میں اپنے تخت پر بیٹھے بیٹھے ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ قرآن کی اس بات کو بھی آج کے سائنسی دور میں سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا۔ جب کہ ہم اپنے گھروں ہی میں بیٹھے بیٹھے میلوں دور کی چیزیں ٹیلیویژن پر دیکھ لیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸۴)۔ سورہ الانشقاق

 

 (۱۹ آیات)

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کے آغاز میں قیامت کے دن آسمان کے پھٹنے کی خبر دی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الانشقاق ہے یعنی وہ سورہ جس میں (آسمان) کے پھٹنے کا ذکر ہوا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوت کا آغاز فرمایا تھا اور قیامت سے لوگوں کو خبر دار کر رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

یوم جزا اور اچھا اور برا انجام ہے۔

سابق سورہ میں بیان کیا گیا تھا کہ انسان کا نامہ عمل اس کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں ایک ریکارڈ آفس (سجین یا عِلیین) میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس سورہ میں اس بات سے باخبر کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن پیشی سے پہلے ہر شخص کو اس کا نامہ عمل اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔

 

نظم کلام

 

آیت۔ ۱ تا ۵ میں اس انقلاب کا مجملاً ذکر ہے جو قیامت کے ظاہر ہوتے ہی آسمان و زمین میں بر پا ہو گا۔

آیت ۶ تا ۱۵ میں انسان کے عدالت خداوندی کی طرف بڑھنے ، نامہ عمل ہاتھ میں دیے جانے اور اپنے انجام کو پہنچنے کا ذکر ہے۔

آیت ۱۶ تا ۱۹ میں آثار کائنات سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان کو موت کے بعد مختلف مراحل سے گزرنا ہو گا۔

آیت ۲۰ تا ۲۵ میں ان لوگوں کو وعید سنائی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکتے نہیں ہیں بلکہ اس کی تکذیب کرتے ہیں اور ان لوگوں کو کبھی نہ ختم ہونے والے اجر کی خوش خبری دی گئی ہے جو ایمان لا کر عمل صالح کرتے ہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آسمان پھٹ جائے گا۔۱ *

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اس کو لازماً تعمیل کرنا چاہیے۔ ۲ *

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب زمین پھیلا دی جائے گی ۳ *

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے اگل کر خالی ہو جائے گی ۴ *

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کو لازماً تعمیل کرنا چاہیے۔ ۵ *

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب ہی کی طرف جا رہا ہے اور بالآخر اس سے ملنے والا ہے ۶ *

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جس کا نامہ عمل اس کے دہنے ہاتھ میں دیا گیا۔۷ *

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔۸ *

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اپنے متعلقین ۹ * کے پاس خوش خوش لوٹے گا۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس کا نامہ عمل اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا گیا ۱۰ *

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ موت کو پکارے گا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بھڑکتی آگ میں داخل ہو گا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے گھر والوں میں مست تھا،۱۱ *

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سمجھ رکھا تھا کہ اس کو کبھی لوٹنا نہیں ہے ۱۲ *

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں ! اس کا رب تو اس کو خوب دیکھ رہا تھا ،

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۱۳ *، میں قسم کھاتا  ۱۴ * ہوں شفق کی ۱۵ *

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کی اور جو کچھ وہ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اس کی ۱۶ *

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چاند کی جب کہ وہ مہِ کامل ہو جاتا ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ تم کو لازماً ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں پہنچنا ہے ۱۷ *

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے ۱۸ *

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ ۱۹ *

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ کافر الٹا جھٹلا رہے ہیں۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ خوب جانتا ہے۔۲۰ *

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم ان کو ایک درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔۲۱ *

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔۲۲ *۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ آسمان محض حد نظر کا نام ہے اور اس کی کوئی مادی حقیقت نہیں۔ اور جب اس کی کوئی مادی حقیقت نہیں تو اس کے پھٹنے کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ سائینس کے نام پر یہ بات ذہن کو محض مرعوب کرنے کے لیے کہی جاتی ہے ورنہ یہ نہ کوئی سائینسی اکتشاف ہے اور نہ اس خیال کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد ہی ہے۔جہاں تک موجودہ سائینس کا تعلق ہے واقعہ یہ ہے کہ اس کی رسائی ابھی آسمان تک ہو ہی نہیں سکی ہے۔ وہ کائنات کی پہنائیوں کو ناپنے سے بالکل قاصر ہے۔ علم فلکیات کے مطالعہ سے واضح اندازہ نہیں کر سکے ہیں چنانچہ ماہر فلکیات W . Bartky اپنی کتاب میں کائنات کی حیرت انگیز وسعت کو بیان کرنے کے بعد صاف صاف اعتراف کرتا ہے :

"What Ties beyond no man knows. Whether the stars continue end or whether the universe has a definite boundary remains, and perhaps will always remain, a topic for speculative argument”.

اور جب سائنس یہ بتانے سے اپنے کو عاجز پاتی ہے کہ اس کائنات کی کوئی سرحد ہے یا نہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کائنات کے ’’ حدود اربعہ‘‘ ابھی معلوم نہیں کر سکی ہے ایسی صورت میں یہ دعویٰ کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ آسمان کا کوئی مادی وجود ہے ہی نہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ فلکیات Astronomy  کی کتابوں میں صرف ان باتوں کے بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا جاتا جو سائنسی تجربات و مشاہدات کے ذریعہ علم میں آئی ہیں بلکہ ان کے ساتھ قیاسی باتوں کو بھی جوڑ دیا جاتا ہے اور لوگ اس پورے ’’مخلو طے ‘‘ کو ’’ سائنس کے نام سے پیش کر کے غلط باتوں کو بھی صحیح باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آسمان کے بارے میں قرآن کا بیان بہت واضح ہے مثلاً یہ کہ اس نے آسمان کو اپنے ہاتھ  سے بنایا (وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَا ھَا بِاَیْدِ (الذاریات،۴) اسے بلند کیا (وَ السَّمَاءَ رَفَعَھَا۔ (الرحمٰن،۷) اسے محفوظ چھت بنایا (سَقْفاً مَحْفُوْظاً (انبیاء ۳۲ ) اسے ستاروں  سے مزیّن کیا (وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بمَصَا بیحَ (فصلت۱۲) ساتھ ہی قرآن خبر دیتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا (اِذَالسَّمَاءُ اِنْشَقَّت۔ انشقاق ۱۰) اور اس میں دروازے ہی دروازے ہو جائیں گے (فَکَانَتْ اَنْوَاباً۔ النّبا ٍ۔ )

قرآن کے اس بیان سے آسمان کے ایک مادی شئے ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کی کوئی ایسی تاویل کرنا صحیح نہ ہو گا جو اس کے ظاہری الفاظ سے متبادر ہونے والے مفہوم کے بالکل خلاف ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفطار نوٹ۔۱ )

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ خیال نہ کرو کہ آسمان خدا کے حکم سے سرتابی کر سکتا ہے۔ نہیں بلکہ لازماً اس کو حکم خداوندی کی تعمیل کرنا ہے کیونکہ وہ اس کا خالق و مالک ہے اور اس کی فرمانروائی اس پر پوری طرح قائم ہے لہٰذا جب قیامت کے دن وہ اسے پھٹنے کا حکم دے گا تو وہ یہ حکم سنتے ہی پاش پاش ہو جائے گا۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین اپنی موجودہ شکل میں باقی نہیں رہے گی بلکہ اسے  تان کر وسیع کر دیا جائے گا تاکہ وہ بہت بڑے ہموار میدان کی شکل اختیار کر  لے جس پر خدا کے حضور پیشی کے لیے پوری نوع انسانی کے افراد کو جگہ مل جائے جو اول سے قیامت تک پیدا ہوتے رہے ہیں۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ زمین مردوں کو اگل کر ان کے بوجھ سے اس طرح خالی ہو جائے گی جیسے حاملہ عورت بچہ جننے کے بعد بوجھ سے فارغ ہوتی ہے۔ گویا زمین مردوں سے بوجھل ہو رہی ہے اور ان کو اگلنے ہی کو ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل اشارہ پاتے ہی کرے گی۔ قیامت کے واقع ہونے میں کوئی چیز بھی رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کو اپنے سفر زندگی کا شعور ہو یا نہ ہو وہ جا رہا ہے اپنے رب ہی کی طرف تاکہ عدالت خداوندی میں حاضر ہو۔ جس طرح زمین کے ساتھ ہم بھی گردش کرتے رہتے ہیں خواہ ہم گردش کرنا چاہیں یا نہ چاہیں اور خواہ ہمیں اس گردش کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح زندگی کا یہ سفینہ ہمیں لیے ہوئے رب العالمین کی عدالت کی طرف رواں ہے اور ہماری آخری منزل آخرت ہے لیکن نادان لوگ دنیا ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہیں اس لیے انہیں آخرت کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔

اربوں انسان دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں مگر کتنے ہیں جنہوں نے اس اہم ترین سوال پر سنجیدگی سے غور کیا ہو کہ ہمارے سفر زندگی کا آغاز  کہاں سے ہوا ہے اور سفر کی آخری منزل کیا ہے ؟ اگر ہمیں راستہ میں کوئی شخص ملے اور ہم اس سے پوچھیں کہ تم کہاں سے آ رہے ہو اور وہ جواب دے کہ مجھے نہیں معلوم اور اس کے بعد ہمارے یہ سوال کرنے پر کہ تم کہاں جا رہے ہو وہ یہ جواب دے کہ مجھے نہیں معلوم تو کیا اس کے اس جواب پر ہمیں تعجب نہ ہو گا اور کیا ہم اسے نادان نہیں کہیں گے ؟ مگر دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جن سے ان کے سفر زندگی کے بارے میں سوال کیجیے تو یہی جواب ملے گا کہ ہمیں نہ اس سفر کی ابتداء معلوم ہے اور نہ انتہا، نہ آغاز کا ہمیں کچھ پتہ ہے اور نہ انجام کا۔ اپنی منزل متعین کیے بغیر ہم اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ جو انجام سے بے پروا ہو کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مار رہے ہیں۔ کاش انہیں شعور ہوتا کہ وہ اسی طرح عدالت خداوندی کی طرف کھینچے چلے جا رہے ہیں جس طرح کہ سوئی مقناطیس کی طرف کِھینچی جاتی ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے داہنے ہاتھ کو یہ امتیاز بخشا ہے کہ وہ خیر کی علامت قرار پایا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو آداب سکھائے ہیں ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمام اچھے کام مثلاً کھانا ، پینا، وضو کرنا، خیرات کرنا وغیرہ اپنے داہنے ہاتھ سے انجام دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے اسی شرف کی بنا پر نیکو کاروں کا داہنا ہاتھ قیامت کے دن اس بات کا اہل ہو گا کہ ان کا نامہ عمل ان کے اس ہاتھ میں دیا جائے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیکو کاروں سے آسان حساب لیا جائے گا! آسمان حساب سے مراد جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تشریح فرمائی ہے خدا کے حضور جواب دہی کے لیے صرف پیشی ہے۔ اس پیشی کے موقع پر سخت باز پرس نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ در گزر فرمائے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’قیامت کے دن جس سے حساب لیا گیا وہ عذاب میں پڑ گیا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَباً یَّسِیْراً(اس سے آسان حساب لیا جائے گا) فرمایا اس کا مطلب سخت باز پرس کرنا نہیں ہے بلکہ صرف پیشی ہے۔ سخت باز پرس جس سے بھی قیامت کے دن کی گئی وہ عذاب میں مبتلا ہوا۔‘‘ (مسلم کتاب الجنۃ )

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے متعلقین سے مراد اس کے اہل و عیال ہیں جو صاحب ایمان ہوں گے اور جن کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے در گزر کا معاملہ کیا ہو گا۔ وہ جنت میں ایک ساتھ جمع ہوں گے اور انہیں ایک دوسرے کی رفاقت میسر آئے گی۔ نیز اس مقصد کے لیے ان میں سے کسی کا درجہ گھٹایا نہیں جائے گا بلکہ بلند ک دیا جائے گا۔ (ملاحظہ ہو سورہ طور آیت ۲۱ )۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے جو خدا کے حضور پیشی پر یقین نہیں رکھتے۔ اور اس سے  بغاوت کی بنیاد پر زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے لوگ عدالت خداوندی میں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔ اس لیے ان کا نامہ عمل پیچھے کی طرف سے ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑا دیا جائے گا۔ انہوں نے کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا تھا اس لیے بجا طور پر وہ اس کے مستحق ہوں گے کہ ان کا نامہ عمل انہیں پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنی اور اپنے بال بچوں کی عاقبت سے بے پروا ہو کر اپنی اور ان کی دنیا بنانے ہی میں مست تھا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب خدا اسے دیکھ رہا تھا تو وہ اپنے حضور پیشی کے لیے بلاتا کیسے نہیں ؟ اس کے بصیر ہونے کی صفت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اپنے حضور جو اب دہی کے لیے بلائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو مرنے کے بعد اٹھائے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تر دید ہے منکرین کے اس خیال کی کہ مرنے کے بعد نہ پھر زندہ ہونا ہے اور نہ خدا کی طرف لوٹنا ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کھانے کا مطلب ان چیزوں کو جن کی قسم کھائی گئی ہے بطور دلیل یا شہادت کے پیش کرنا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان پر ظاہر ہوتی ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمیٹنے سے مراد رات کا اپنے دامن میں ستاروں کو سمیٹ لینا ہے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ بات جس کی تائید میں آثار کائنات کے کچھ احوال کو پیش کیا گیا ہے۔بالفاظ دیگر انسان کو ان احوال پر اس پہلو سے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ ان کے مشاہدہ سے قرآن کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے یا نہیں کہ انسان کو لازماً ایک ایسے مرحلہ سے دو چار ہونا ہے جہاں پہنچ کر اسے اپنے رب کے سامنے اپنے طرز عمل کے بارے میں جواب دہی کرنا ہو گی۔

سورج کے غروب ہوتے ہی شفق کی سرخی کا نمو دار ہونا، دن کے رخصت ہونے ہی رات کا اپنی بزم کو ستاروں سے آراستہ کرنا اور چاند کا ہلال سے بتدریج بدر کامل بن جانا اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ اس کائنات میں تدریج پائی جاتی ہے اور اس کے خالق نے مرحلہ مقرر کیے ہیں چنانچہ چاند مرحلہ بہ مرحلہ گزر کر ہی کامل بن جانا ہے۔ پھر اس نے انسان کے لیے جس کی خاطر اس بزم کا سجایا گیا ہے آگے کے مراحل کیسے نہیں رکھے ہوں گے اور دنیوی زندگی کے اس ایک مرحلہ ہی میں اس کا خاتمہ کس طرح ہو جائے گا؟ پس قرآن یہ جو خبر پیغمبر کی زبانی سنا رہا ہے کہ انسان کو موت کے بعد پھر زندگی کے مرحلہ میں داخل ہونا ہے اور پھر اپنے رب کے حضور پیشی کے مرحلہ سے لازماً دو چار ہونا ہے اور ان مرحلوں سے گزر کر اپنی آخری منزل جنت یا دوزخ میں پہنچ کر رہنا ہے تو اس کی پوری پوری تائید آثار کائنات کے ان احوال سے ہوتی ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اگر انسان اس پلو سے ان احوال کا مشاہدہ کرے تو اس کی فکر و نظر کے زاویئے بدل جائیں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی لوگوں کا حال عجیب ہے کہ ان واضح شہادتوں کے بعد بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انسان کو جواب دہی کے مرحلہ سے دو چار ہونا ہے بلکہ اپنے اس خیال پر مصر ہے کہ زندگی اسی دنیا تک ہے اور مرنے کے بعد کوئی مرحلہ پیش آنا نہیں ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہونا تو یہ  چاہیے تھا کہ قرآن کا یہ حقیقت افروز بیان سن کر وہ اس کی صداقت کا اعتراف کرتے اور اس کی عظمت سے متاثر ہو کر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے لیکن انہوں نے اس کے بر خلاف جھٹلانے اور اکڑنے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سجدہ کرنا ثابت ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی اور آپؐ نے اس مقام پر سجدہ کیا اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔(مسلم)۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حق سے عناد اور اسلام دشمنی کے جذبات اور بے قید اور مفاد پرستانہ زندگی گزرنے کی خواہش جس کو وہ اپنے سینہ میں چھپائے ہوئے ہیں اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب کی خبر کو خوش خبری سے تعبیر کرنے ایک لطیف طنز ہے کہ جب تم جنت کی خوش خبری سننے اور اپنے کو اس کا  ستحق بنانے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر جہنم ہی کی خوش خبری سن لو۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نیکو کاروں کو جو اجر آخرت میں ملے گا وہ وقتی اور عارضی نہ ہو گا بلکہ مستقل اور دائمی ہو گا جس کا سلسلہ کبھی منقطع ہونے والا نہیں۔ گویا یہ ایک بہتا ہوا دریا ہے جو ہمیشہ رواں دواں رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸۵)۔ سورہ البروج

 

 (۲۲ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں برجوں والے آسمان کا ذکر ہوا ہے۔اس مناسبت سے اس سورہ کا نام علامت کے طور پر ’’ البروج‘‘ رکھا گیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہو گی جب کہ کفار ایمان لانے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے تھے تاکہ وہ اپنے ایمان سے پھر جائیں۔

 

مرکزی مضمون

 

قیامت اور جزا و سزا ہی ہے البتہ اس کے اس پہلو کو خاص طور سے نمایا کیا گیا ہے کہ وہ ان مظلوم اہل ایمان کی داد رسی کا دن ہو گا۔ جو لوگ اہل ایمان کو محض ان کے ایمان لانے کی بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں قیامت کے دن ان کی سخت پکڑ ہو گی اور جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں وہ کامیاب اور با مراد ہوں گے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں روز جزا کے قطعی ہونے کا دعویٰ ایک نا قابل انکار حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۴۔ ۱۱ میں ان  لوگوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو مسلمانوں پر محض اس لیے ڈھاتے ہیں کہ وہ ایک خدا پر ایمان  لائے ہیں۔ اور ان مسلمانوں کو جو ان مظالم کے باوجود اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں گے جنت کی بشارت سنائی گئی ہے۔

آیت ۱۲ تا ۱۶ میں ظالموں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے ساتھ ہی اس کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جن سے اس کا خوف بھی پیدا ہوتا ہے اور توبہ وہ انابت کی طرف رغبت بھی ہوتی ہے۔

آیت ۱۷ تا ۲۰ میں بعض سرکش اور ظالم قوموں کے عبرتناک انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ خدا تمہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

آیت ۲۱ ، ۲۲ خاتمہ کلام ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ قرآن جو روز جزا کی آمد کی خبر دے رہا ہے کیسی بلند پایہ کتاب ہے اور اس کا سر چشمہ کتنا پاکیزہ اور محفوظ ہے لہٰذا اس کی کوئی بات بھی غلط نہیں ہو سکتی۔ لازماً اس کی ہر بات اٹل ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم ۱*  ہے برجوں ۲*  والے آسمان کی۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حاضر ۴*  ہونے والے کی اور اس چیز کی جو حاضر ۵*  کی جائے گی۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک ہوئے خندق والے ۶*

۵۔ جو خوب ایندھن والی آگ سے بھری تھی۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ وہ اس (آگ)  کے پاس بیٹھے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ اہل ایمان کے ساتھ کر رہے تھے اس کا تماشا دیکھ رہے تھے ۷*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے ساتھ یہ تشدد محض اس وجہ سے کیا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان لائے تھے ۸*  ، جو زبردست ہے اور لائق ستائش بھی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی بادشاہت ہے آسمانوں اور زمین میں ۹*۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ۱۰*

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے مؤمن عورتوں پر ظلم دھایا اور پھر توبہ نہیں کی ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ۱۱*  ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لائے  ۱۲*  اور جنہوں نے نیک عمل کیے یقیناً ان کے لیے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ یہ ہے بڑی کامیابی ۱۳*۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ۱۴*۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا ۱۵*۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بخشنے والا ۱۶*  ، محبت کرنے والا ہے  ۱۷*۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرش کا مالک  ۱۸* ، صاحب عظمت ۱۹*

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو چاہے کر ڈالنے والا  ۲۰*۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے ؟

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرعون ۲۱*  اور ثمود ۲۲*  کے لشکروں کی ؟

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کافر جھٹلانے ہی میں لگے ہوئے ہیں۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ان کو آگے پیچھے سے گھیرے ۲۳*  ہوئے ہے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یہ کلام افتراء نہیں ) بلکہ یہ عظیم قرآن ہے

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوح محفوظ  ۲۴*  میں (ثبت) ہے۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بروج کے مراد ستاروں کی وہ بارہ فرضی شکلیں SIGNS OF ZODIAC یا سورج کی بارہ منزلیں نہیں ہیں جو قدیم علم ہیئت کی مخصوص اصطلاح ہے بلکہ اس سے مراد روشن ستاروں کے جھرمٹ CONSTELLATIONS ہیں جو آسمان کی زینت بنے ہوئے ہیں اور جن کی جلوہ ریزیاں انسان کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔

’’برج‘‘ کے لغوی معنیٰ ظہور و نمائش او قلعہ و محل کے ہیں۔ آسمان میں ستاروں کے جھرمٹ اس طرح درخشاں نظر آتے ہیں کہ گویا بلند محل ہیں جو سجائے گئے ہیں۔ ان کی اس طرح قلعہ بندی کی گئی ہے کہ جب شیطانی طاقتیں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگتی ہیں تو ان قلعوں سے ان پر شہاب ثاقب (Meteor) کے لے داغے جاتے ہیں اس لیے ستاروں کے ان جھرمٹ (Constellations) کو ’’بروج‘‘ کہا گیا ہے۔

یہاں برجوں والے آسمان کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان میں درخشاں نظر آنے والے ستاروں کے یہ جھرمٹ اس بات کی واضح شہادت دیتے ہیں کہ جس ہستی نے اس کائنات کی بزم سجائی ہے اس کے ہاں ادھیر نگری نہیں ہے بلکہ وہ اپنی صفت جلال و جمال کے ساتھ اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے لہٰذا ہو نہیں سکتا کہ جو لوگ اس کے وفادار بندوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ، ان سے باز پرس نہ ہو اور اس کے وفادار مظلوم بندوں کو جو اس کی خاطر ستائے گئے انعام و اکرام سے نہ نوازا جائے۔

شیطانی طاقتوں کی آسمان پر پرواز کو روکنے کے لیے شہاب ثاقب کے گولے برسائے جاتے ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے خدا کے ہاں سزا کا قانون ہے پھر وہ سرکشوں کو سزا کیسے نہیں دے گا؟۔ گویا برجوں والے آسمان پر غور کرنے سے جزا و سزا کا تقاضا ابھرتا ہے اور اس سے روز جزا کی تصدیق و تائید ہوتی ہے جس کی خبر قرآن دے رہا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے اور اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمایا ہے تاکہ وہ عدالت بر پا کرے اور مؤمن و کافر، نیک و بد اور ظالم و مظلوم کے درمیان انصاف ہو۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے دن حاضر ہو گا۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ چیزیں ہیں جو قیامت کے دن حاضر کی جائیں گی اور وہ ہولناک مناظر ہیں جن کو ہر شخص دیکھ لے گا۔

یہاں یوم موعود (جس دن کا کہ وعدہ ے   ) ، شاہد (حاضر ہونے والا)، اور مشہود (جو چیزیں کہ حاضر کی جائیں گی یا جو مناظر کہ سامنے لائے جائیں گے ) کی قسمیں کلام کو مؤکد کرنے اور ان باتوں کا یقین پیدا کرنے کے لیے کھائی گئی ہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصحاب الاخدود (خندق والے ) سے اشارہ ایک مخصوص واقعہ کی طرف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو محض ان کے ایمان لانے کی بنا پر آگ سے بھری ہوئی خندق میں جھونک دیا گیا تھا اور ظالم اس خندق کے پاس بیٹھ کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اس کی تفصیل قرآن نے نہیں بتلائی کیونکہ سبق آموزی کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے۔ رہا تاریخی ثبوت تو تاریخ اہل ایمان کے نذر آتش کیے جانے کے واقعات سے بھری پڑی ہے جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آتش نمرود میں جھونک دیے جانے سے ہوتا ہے اور مظالم کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ چنانچہ محض اس بنا پر کہ فلاں گروہ کا دین اسلام ہے اس کے افراد کو نذر آتش کیا جاتا ہے یا انہیں گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی جاتی ہے۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اس مقصد کے لیے اب خندقیں کھودنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ لکڑیوں کا ایندھن جمع کرنا پڑتا ہے بلکہ پٹرول اور اس قسم کی دوسری چیزیں ہی کافی ہو جاتی ہیں۔

جہاں تک روایات کا تعلق ہے اتنی بات تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یمن کے یہودی بادشاہ ذونُو اس نے غالباً ۵۲۳ ء میں نجران پر حملہ کر کے وہاں کے لوگوں کو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور سچے مؤمن تھے یہودی مذہب قبول کرنے کا حکم دیا۔ اور ان کے انکار کرنے پر انہیں خندقیں کھود کر آگ میں چھونک دیا گیا۔

(سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۳۵)۔ اسٹینڈرڈ جیوش انسائیکلو پیڈیا  میں بھی مختصراً اس کا ذکر موجود ہے۔

Standard Jewish Encyclopedia. P.554)   (The

نجران مکہ سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ قصہ عربوں میں مشہور رہا ہو گا اور عجب نہیں کہ قرآن نے اصحاب الاخدود کہ کر اس واقعہ کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا ہو۔ لیکن روایات میں غلام اور راہب وغیرہ کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں بڑی نکارت ہے۔ اس قصہ میں غلام کے تعلق سے ایسی عجیب و غریب باتیں بیان کی گئی ہیں جو ایک نبی کے معجزے سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اس روایت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف صحیح نہیں چنانچہ ابن کثیر فرماتے ہیں :

قال شیخنا الحافظ ابو الحجاج المزّی فیحتمل ان یکون من کلام صہیب الرومی فانہ کان عندہٗ من اخبار النصاریٰ

’’ہمارے شیخ حافظ ابو الحجاج مزّی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ یہ قصہ صہیب رومی کے کلام کا جزء ہو اس لیے کہ انہیں نصاریٰ کے قصوں کا علم تھا۔‘‘(تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۴۹۴)۔ اور قفال کہتے ہیں :

’’اصحاب الاخدود کے سلسلہ میں (مفسرین نے ) مختلف روایت بیان کی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے بجز اس کے کہ یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ مؤمنین کے ایک گروہ نے اپنی قوم یا کافر بادشاہ کی جو ان پر حکمراں تھا مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے اس نے ان کو خندق میں ڈال دیا تھا۔ ‘‘(التفسیر الکبیر للرٓازی مطبوعہ طہران ج ۳۱ ص ۱۱۷)۔

افسوس کہ ایسی بے سر و پا روایتیں بڑی بڑی تفسیروں میں جگہ پا گئیں۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ڈھٹائی اور سنگدلی کی حد ہے کہ اہل ایمان پر ایسا انسانیت سوز ظلم ڈھاتے ہوئے انہیں ذرا تامل نہیں ہوا بلکہ ان کی اخلاقی حس اتنی مردہ ہو گئی تھی کہ وہ بڑی بے شرمی کے ساتھ ان کے چلنے کا تماشا دیکھتے رہے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان کا اگر کوئی قصور تھا تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ پر صحیح معنیٰ میں ایمان لائے تھے گویا جو سب سے بڑی نیکی تھی وہی ان ظالموں کی نظر میں جرم قرار پائی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ وہی ہستی اس کی مستحق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور اس سے تعلق استوار کیا جائے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ظالموں کے لیے تنبیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے تو تمہارا ظلم تابہ کے۔ ایک دن تمہاری گرفت ہونا ہے اور تمہیں عدالت خداوندی کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سخت وعید ان لوگوں کو سنائی گئی ہے جو مؤمن مردوں اور عورتوں پر محض اس لیے ظلم ڈھائیں تاکہ ان کو اسلام سے پھیرا جا سکے۔ جلنے کے عذاب کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے کیونکہ ان ظالموں نے مؤمنین کو آگ میں زندہ جلا یا تھا۔ ایسے لوگوں کو جہنم میں دوسرے عذابوں کے ساتھ خاص طور سے سخت قسم کی آگ میں چلنے کے عذاب کا مزا بھی چکھنا پڑے گا۔

اس آیت سے ضمناً یہ بھی واضح ہوا کہ اتنے بڑے جرم کا مرتکب بھی اگر توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو اس کے لیے بخشش کے دروازے کھلے ہیں۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ظلم و ستم کے باوجود لوگ اپنے ایمان میں ثابت قدم رہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بڑی کامیابی دنیا حاصل کرنا نہیں بلکہ جنت حاصل کرنا ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ظالم اس مغالطہ میں نہ رہیں کہ وہ اللہ کی پکڑ سے بچ سکیں گے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس ہستی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بخشنے والا ہے لہٰذا اگر تم توبہ کرو اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لو تو اس بات کے مستحق ہو سکتے ہو کہ بخشے جاؤ۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے بندوں سے نفرت نہیں بلکہ محبت رکھتا ہے بشرطیکہ وہ اس کے وفادار بندے بن کر رہیں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’عرش‘‘ کے معنی تخت کے ہیں۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا تخت سلطنت ہے جس کی کیفیت ہمیں نہیں معلوم۔

یہاں عرش کا مالک کہ کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پوری کائنات پر اسی کا اقتدار قائم ہے اور تنہا وہی فرمانروائی کر رہا ہے لہٰذا اس سے سرکشی کرنے والے اور اس کے وفادار بندوں پر ظلم ڈھانے والے اس کی گرفت سے ہر گز نہیں بچ سکتے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عظمت و جلالت  Majesty اس کی صفت ہے اور اس عظمت و جلالت میں کوئی اس کا شریک نہیں لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ اس کی جلالت شان کے تصور سے لرزاں ہوں۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے کام اور منصوبہ میں مزاحم ہو سک۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو سورہ نازعات نوٹ۔۱۳۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ثمود‘‘ ایک قوم کا نام ہے جو ’’حجر ‘‘ (مدینہ اور تبوک کے درمیان کا علاقہ ) میں آباد تھی۔ اس کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے اور اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا مگر اس نے سرکشی کی جس کے نتیجہ میں اس پر سخت عذاب نازل ہوا۔ اس کے تباہ شدہ کھنڈرات آج بھی ’’حجر ‘‘ کے علاقہ میں موجود ہیں اور صدا دے رہے ہیں کہ  ؏     دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔

فرعون اور ثمود کو دنیوی شان و شوکت اور اقتدار حاصل تھا مگر  وہ اقتدار کے نشہ میں سرکشی اور ظلم پر اتر آئے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا تو وہ بہت بڑے انجام سے دوچار ہوئے۔ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن اپنے مخاطبین سے کہہ رہا ہے کہ کیا تم بھی ان کی سی روش اختیار کر کے اسی انجام سے دو چار ہونا چاہتے ہو۔ ؟

۲۳۔ یعنی یہ جھٹلانا چاہتے ہیں تو جھٹلائیں اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔ وہ پوری طرح اللہ کی گرفت میں ہیں۔اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔

۲۴۔ ’’ لوح محفوظ‘‘ کے معنیٰ محفوظ تختی کے ہیں اور اس سے مراد ملاء اعلیٰ کی وہ مقدس تختی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمات لکھ دئے ہیں۔اس کا لکھا بالکل اٹل ہے اور اس تک کسی جن و انس کی رسائی نہیں ہے۔ قرآن کوئی خیالی اور نظریاتی چیز نہیں اور نہ کسی کاہن کا کلام ہے بلکہ اس کا منبع وہ چشمہ صافی ہے جسے لوح محفوظ کہتے ہیں اس لیے اس کی ہر بات حق ہے اور پوری ہو کر رہنے والی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸۶)۔ سورہ الطارق

 

 

(۱۹ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۱ میں الطارق (رات میں نمودار ہونے والے ستاروں ) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الطارق رکھا گیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

سورہ مکی ہے اور اس وقت کی نازل شدہ ہے جب کہ اہل مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پہنچ چکی تھی مگر وہ اس کو مذاق قرار دے کر اس کے خلاف چالیں چلنے لگے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

محاسبہ کے لیے انسان کا دو بارہ پیدا کیا جانا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ میں آسمان اور ستاروں کی شہادت اس بات پر کہ ہر شخص کی نگرانی ہو رہی ہے اور ایک روز آنا ہے جب کہ اسے حساب کے لیے طلب کیا جائے گا۔

آیت ۵ تا ۸ انسان کی خلقت سے اس کے دوبارہ پیدا کیے جانے پر استدلال۔

آیت ۹۔۱۰ میں اس حقیقت کا اظہار کہ اس دن سارے راز پرکھے جائیں گے اور انسان بالکل بے بس ہو گا۔ اسے کہیں سے کوئی مدد مل نہ سکے گی۔

آیت ۱۱ تا ۱۴ میں آسمان و زمین کی شہادت اس بات پر پیش کی گئی ہے کہ قرآن یوم جزا کی جو خبر دے رہا ہے وہ ایک فیصل شدہ اور قطعی بات ہے۔

آیت ۱۵ تا ۱۷ میں خاتمہ کلام ہے جس میں کفار کو متنبہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کی چالیں الٹی پڑیں گی البتہ انہیں تھوڑی مہلت دے دو۔ ان کا انجام بس سامنے آنے ہی کو ہے۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱*  ہے آسمان ۲*  کی اور رات میں نمودار ہونے والے کی

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ رات میں نمودار ہونے والا کیا ہے  ۳*  ؟

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دمکتا ستارہ  ۴*۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی شخص ایسا نہیں جس پر ایک نگہبان نہ ہو  ۵*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان ذرا غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ۶*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھلتے پانی سے  ۷*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ریڑھ اور پسلیوں کے درمان سے نکلتا ہے ۸*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یقیناً وہ (اللہ)  اس کے لوٹانے  ۹*  پر قادر ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن چھپی باتیں پرکھی جائیں گی  ۱۰*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت اس کے پاس نہ کوئی قوت ہو گی ور نہ کوئی اس کا مدد گر ہو گا ۱۱*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے آسمان کی جو بارش برساتا ہے ۱۲*

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین کی جو پھٹ جاتی ہے  ۱۳*

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے  ۱۴*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنسی مذاق نہیں  ۱۵*

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ایک تدبیر کر رہے ہیں  ۱۶*

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں ۱۷*

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کافروں کو مہلت دو۔ بس تھوڑی مہلت ۱۸*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انشقاق نوٹ ۱۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال ’’رات نمودار ہونے والے ‘‘ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ یعنی رات میں نمودار ہونے والی چیز ایسی نہیں ہے کہ اس پر اسے یونہی گزر جاؤ بلکہ وہ تمہیں دعوت فکر دیتی ہے لہٰذا اس پر سنجیدگی سے غور کرو اور اس غور و فکر کا مقصد خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنا ہو نہ کہ محض ’’معلومات ‘‘ میں اضافہ کرنا۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ النجم الثاقب(دمکتا ستارہ) سے مراد کوئی خاص ستارہ نہیں ہے بلکہ یہ ستاروں کی جنس کے  مفہوم میں ہے۔ یعنی وہ تمام ستارے جو خوب روشن اور درخشاں نظر آتے ہیں اور جن کو ہر شخص کھلی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔

آسمان میں بکھرے ہوئے تارے اس کثرت سے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد معلوم کرنے سے موجودہ علم فلکیات (Astronomy) بھی باوجود اپنی تمام تر سائنسی ترقیوں کے قاصر ہے۔ جدید ماہرین فلکیات کے اندازہ کے مطابق جس کہکشاں میں ہماری زمین واقع ہے اس میں کوئی ایک بلین (One Billion)  ستارے ہوں گے  (The Cambridge Ency of astronomy P.313)  اس سے آسمان کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کو اس سورہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ان گنت ستاروں میں سے دمکتے ستاروں کو یہاں شہادت کے طور پر اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ یہ اپنی چمک دمک کی وجہ سے ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ’’منزل ‘‘ کا پتہ بتا دیتے ہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بات ہے جس پر آسمان اور دمکتے ستاروں کی شہادت پیش کی گئی ہے یہ شہادت اس مفہوم میں ہے کہ آسمان پر ستاروں کی جگمگاہٹ انسان کو دعوت نظارہ ہی نہیں دعوت فکر بھی دیتی ہے۔ رات کے آتے ہی آسمان کو قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور قمقمے بھی  ایسے روشن کہ ان کی تابناکی عقل کو حیرت میں ڈال دیتی ہے اور موجودہ فلکیاتی اکتشافات نے جس کی رُو سے بعض ستارے تو اتنی دوری پر واقع ہیں کہ ان کی روشنی زمین تک پہنچنے کے لیے کئی نوری سال لگ جاتے ہیں انسان کو اور زیادہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیا یہ مشاہدہ اپنے خالق کے کمال قدرت کا اور کائنات کی عظیم سلطنت کے فرمانروا ہونے کا پتہ نہیں دیتا اور انسان میں یہ احساس پیدا نہیں کرتا کہ اس فرمانروائے عظیم کی سلطنت میں انسان کی یہ حیثیت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہو اور فرمانروائے کائنات کے حضور جوابدہ نہ قرار پائے ؟ یہ مشاہدہ بشرط یہ کہ وہ غیر متعصبانہ اور معروضی نوعیت کا ہو انسان کے اندر ذمہ داری کا احساس لازماً پیدا کرتا ہے اور یہیں سے خدا کے حضور جواب دہی اور جز او سزا کا تصور ابھرتا ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جس سے پیغمبر انسان کو خبردار کرنا چاہتا ہے اور یہی وہ دعوت ہے جس کو قرآن دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

اور جب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان ایک ذمہ دار مخلوق ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کی عملی زندگی کا ریکارڈ تیار کیا جائے تاکہ خدا کے حضور پیشی کے دن اس کی بنیاد پر جزا یا سزا کا فیصلہ ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پورا پورا انتظام کیا ہے چنانچہ ہر شخص کے ساتھ نگراں فرشتے لگا دئے گئے ہیں جواس کے ہر قول و فعل کو ضبط تحریر میں لاتے اور اس کی عملی زندگی کا پورا ریکارڈ تیار کرتے رہتے ہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منکرین آخرت کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن نہیں ، ان کے اس اعتراض کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ منکرین، خدا کو قادر مطلق نہیں سمجھتے اسی لیے ان کے نزدیک انسان کو اس کے مرنے کے بعد اٹھا کھڑا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن خدا کی قدرت کا یہ تصور سراسر باطل ہے کیونکہ یہ کسی بھی دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ اور اس کی تردید کائنات کی ہر چیز کرتی ہے۔ اسی سلسلہ میں انسان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ ذرا وہ اپنی خلقت ہی پر غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آئے گی کہ جس ہستی نے انسان کو پہلی بار پیدا کیا وہ اسے دوسری بار بھی پیدا کر سکتا ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مادہ تولید ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریڑھ اور پسلیوں کے درمیان سے نکلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریڑھ اور پسلیوں کے اندر سے مادہ تولید خارج ہوتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم کے اس جوف میں جس کے ایک طرف ریڑھ کی ہڈی اور دوسری طرف پسلیاں ہیں ایک رقیق مادہ تیار ہوتا ہے اور وہاں سے اس طرح خارج ہوتا ہے جیسے پچکاری کا عمل۔

مِنْ بَیْنِ (درمیان سے ) کے الفاظ اسی مفہوم میں قرآن میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ سورہ نحل آیت ۶۶ میں ہے :

نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُو نِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ، لَبْناً خَالِصاً سَائِغاً لِلشَّارِبِیْنَ۔

’’ہم ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے نہایت خوش گوار چیز ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے اس آیت میں بھی مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَ دَمٍ (گوبر اور خون کے درمیان سے ) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خالص دودھ گوبر اور خون کے اندر سے نکلتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس جسم کے اندر گوبر اور خون جیسی کثافتیں پیدا ہوتی ہیں اسی جسم میں خالص دودھ، جیسی لطیف چیز بھی تیار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور اس کی عظیم حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں بھی کہنے کا منشاء یہ ہے کہ انسانی ڈھانچہ کے اندر سے بڑے عجیب طریقہ سے وہ مادہ خارج ہوا ہے ، جو ہوتا تو ہے بے وقعت لین اس سے انسان جیسی عظیم مخلوق پیدا ہوتی ہے کیا یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور اس کی عظیم صناعی کی دلیل نہیں ؟ پھر اس کے بارے میں یہ گمان کرنے کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن نہیں۔؟

واضح رہے کہ ریڑھ اور پسلیوں کے درمیان سے مادہ منویہ کے خارج ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ مادہ منویہ کیسۂ منویہ  (Seminal Vesicles) سے خرج ہوتا ہے کیونکہ کیسۂ منویہ  جوفِ شکم) (Abdominal میں ہوتا ہے جو آخری پسلی کا زیریں حصہ ہے اور جس کی دوسری طرف پشت یعنی ریڑھ کی ہڈیاں ہیں اس لیے وسیع تر مفہوم میں یہ اس ڈھانچہ کے درمیان ہی سے خارج ہوتا ہے جس کا اگلا حصہ پسلیاں ہیں تو پچھلا حصہ ریڑھ۔ اور قرآن جب تذکیر کے لیے کوئی بات کہتا ہے تو وہ عام اور وسیع تر مفہوم میں ہوتی ہے نہ کہ فنی زبان میں اس لیے قرآن نے مادہ تولید کے اخراج کے سلسلہ میں یہاں جو کچھ بیان کیا ہے اس علم تشریح الاعضاء (Anatomy)  کی اصطلاحات میں سوچنا صحیح نہ ہو گا۔

انسان کی تخلیق جس مادہ منویہ سے ہوتی ہے قرآن نے اس پر غور کرنے کی دعوت دی ہے اور جب ہم جدید تحقیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اپنے خالق کے کرشمہ قدرت کو دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں۔ جدید تحقیقات کی رو سے ایک وقت میں جو مادہ منویہ  (Semen) خارج ہوتا ہے اس کی مقدار ۲ تا ۵ ملی لیٹر (2 to 5 ml) ہوتی ہے اور ہر ملی لیٹر (ml)  تولید کے جراثیم(Spermatozoa)  ۴۰ تا ۱۰۰ ملین (40 to  100  millions) ہوتے ہیں  (Text Book of Physiology by George Bell . Edinburgh P.643)۔ گویا مرد کے ایک وقت کے خارج شدہ مادہ منویہ میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ پاس کروڑ انسان پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے خالق نے ان جراثیم کے بارور(Fertilize)ہونے کا ایسا نظام بنایا ہے کہ بیک وقت ایک یا دو سے زیادہ جرثومے بارور ہو نہیں سکتے۔ اس طرح انسانی پیدائش کی شرح حد سے تجاوز نہیں کر پاتی۔ خدا کے کرشمہ قدرت کا یہ مشاہدہ کیا انسان کے اندر اس کی بے پناہ قدرت کا یقین پیدا نہیں کرتا اور کیا اسے اس بات کا قائل نہیں کرتا کہ اس کے ی مرے ہوئے انسان کو دو بارہ اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں ؟

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوٹا نے سے مراد انسان کو جسم سمیت دوسری مرتبہ پیدا کرنا ہے اور یہ قیامت کے دن ہو گا۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس روز کوئی راز راز نہیں رہے گا۔ انسان کی باطنی کیفیت کا حال کھل کر سامنے آ جائے گا۔ اس کی نیت ، اس کے ارادے ، اس کے عمل کے محرکات اور وہ اغراض و مقاصد جو اس کے اعمال کی پشت پر رہے ہیں سب بے نقاب ہو کر سامنے آ جائیں گے۔ گویا اس کے باطن کی پوری طرح اسکریننگ(Screening) کی جائے گی۔ اور نیت کا جہاں کہیں کھوٹ ہو گا بالکل نمایاں ہو کر سامنے آ جائے گا۔ اس روز انسان کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ حق کو باطل قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا جو زور لگاتا رہا اس کے پیچھے اس کی کیا اغراض تھیں جن کو اس نے اپنے دل میں چھپائے رکھا تھا۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ نہ وہ خود اپنی مدافعت کر سکے گا اور نہ دوسرا کوئی اس کا حمایتی بن کر کھڑا ہو گا کہ اس کی مدد کر سکے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’آسمان سے بارش کا برسنا‘‘ اوپر سے بارش برسنے کے معنیٰ میں ایک عام محاورہ ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بارش کے برستے ہی زمین کے مسامات کھل جاتے ہیں اور وہ شق ہو کر نباتات اگاتی ہے۔ گویا جو زمین مردہ پڑی تھی، بارش کے ہوتے ہی زندہ ہو کر لہلہانے لگی۔ یہ مشاہدہ جو انسان رات دن کرتا ہے اسی کو یہاں زندگی بعد موت کی تائید میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یعنی جو خد مردہ زمین کو زندہ کر سکتا ہے وہ مردوں کو کیوں نہیں جِلا اٹھا سکتا؟ کیا اس مشاہدہ سے یہ یقین پیدا نہیں ہوتا کہ جو زمین بارش کی صورت میں خدا کے حکم سے نباتات کو اگل دیتی ہے وہ اس کے حکم سے بناتا کو اگل دیتی ہے وہ اس کے حکم سے مُردوں کو کیوں نہیں اگل سکتی؟۔

ضمناً یہاں توحید کا پہلو بھی ابھر کر سامنے آ گیا ہے کیونکہ آسمان کا بارش برسانا اور زمین کا پانی اپنے اندر جذب کر کے نباتات اگانا اس کے  بغیر نہیں ہو سکتا  کہ دونوں کا نظم ایک خدا کے ہاتھ میں ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو خدا زمین کا ہے وہی آسمان کا بھی ہے ورنہ آسمان و زمین میں اس درجہ تو افق اور سازگاری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سے اس مشرکانہ تصور کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ آسمان کا دیوتا الگ ہے اور زمین کا دیوتا الگ۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن جس آنے والے دن کی خبر دے رہا ہے وہ ایک فیصل شدہ قطعی اور اٹل بات ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اتنی اہم خبر اور اتنی سنجیدہ بات کو ہنسی مذاق قرار دینا ان ہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو حقیقت پسند بننا نہیں چاہتے۔ ۱۶۔ یعنی یہ منکرین پیغمبر کی آواز کو دبانے اور حق کو شکست دینے کے لیے ایک نہ ایک چال چل رہے ہیں۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرین کی چال کو توڑ میں بھی کر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منکرین کی چالوں کو ناکام بنانے اور ان کو ان کے دم میں پھنسا نے کی تدبیر ایسے طریقہ سے کر رہا ہے کہ انہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں۔

اور واقعہ یہ ہے کہ جن کافروں نے قرآن اور پیغمبر کے خلاف چالیں چلی تھیں وہ سب انہیں کے خلاف پڑیں اور وہ بری طرح ناکامی اور ذلت سے دوچار ہوئے۔ یہ تو ہوا دنیا میں حق کے خلاف چال چلنے کا انجام اور آخرت میں تو وہ عیاناً  دیکھ لیں گے کہ انہوں نے جو کلہاڑی چلائی تھی وہ اپنے ہی پاؤں پر چلائی تھی اور جو قبر کھو دی تھی اس میں ان ہی کو دفن ہونا ہے ، اور دفن بھی آگ کے کفن کے ساتھ ہونا ہے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو اپنا پیمانہ بھر لینے دو۔ ان کے انجام کے سلسلہ میں جلدی نہ کرو بلکہ صبر کے ساتھ اپنا فرض انجام دئے چلے جاؤ۔ جو مہلت ان کافروں کو دی جا رہی ہے وہ جلد ہی ختم ہو جائے گی اور عنقریب ان کی گرفت ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸۷۔) سورہ الاعلیٰ

 

(۱۹ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں خدا کی صفت الاعلیٰ بیان ہوئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام الاعلیٰ رکھا گیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی نازل شدہ ہے جب کہ نزول وحی کا آغاز ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے اور آپؐ قرآن کو اخذ کرنے میں یہ اندیشہ محسوس کر رہے تھے کہ کہیں کوئی آیت بھول نہ جائیں۔ اسی طرح دعوت و تذکیر کا کام بھی بالکل ابتدائی مرحلہ میں تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

فلاح آخرت ہے اور اس کا دارو مدار ہدایت خداوندی کو قبول کرنے پر ہے جو قرآن کی شکل میں پیغمبر پر نازل ہو رہی ہے۔

اس سورہ میں خطاب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور بالواسطہ قرآن کے ہر پڑھنے والے سے البتہ آگے چل کر خطاب کا رخ دنیا پرستوں کی طرف ہو گیا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ میں خدا کی پاکیزگی بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کی صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ انسان صحیح معنیٰ میں خدا شناس بن جائے۔

آیت ۶ تا ۸ میں وحی الٰہی کے پیغمبر کے حافظہ میں محفوظ کیے جانے کا یقین دلایا گیا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تسلی اور ہر طالب حق کے لیے اطمینان کا سامان ہے۔

آیت ۹  تا ۱۵ میں تذکیر کی ہدایت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس سے کس قسم کے لوگ فائدہ اٹھائیں گے اور کس قسم کے لوگ دور رہیں گے اور پھر ان میں سے ہر ایک کے رویہ کا نتیجہ آخرت میں کیا نکلے گا۔

آیت ۱۶ تا ۱۹ خاتمہ کلام ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینا وہ بنیادی غلطی ہے جس کی بنا پر انسان وحی کی رہنمائی سے محروم رہتا ہے اور برے انجام سے دو چار ہوتا ہے۔ قرآن ہی میں نہیں اگلے صحیفوں میں بھی یہی بات بتلائی گئی تھی۔

 

فضیلت

 

یہ سورہ مختصر ہونے کے باوجود توحید ، رسالت اور آخرت تینوں مضامین پر مشتمل ہے اور تذکیر کا پہلو بھی مؤثر انداز میں آ گیا ہے اس لیے جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں قرأت کے لیے زیادہ موزوں قرار پائی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین اور جمعہ میں سَبّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ اور ھَلْ اَتَاکَ حَدِیثُ الغاَشِیَۃِ۔ (یعنی سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ ) پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الجمعہ)

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب اعلیٰ۱ * کے نام کی تسبیح کرو۲ *

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے پیدا کیا اور متناسب بنایا ۳ *

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے منصوبہ بنایا۴ * اور رہنمائی کی ۵ *

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے چارہ اگایا۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو سیاہ کوڑا کر کٹ بنایا ۶ *

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے  نبی !) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم نہیں بھولو گے ۷ *

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جو اللہ چاہے ۸ *۔ وہ کھلی بات کو بھی جانتا ہے اور چھپی بات کو بھی ۹ *

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم تمہارے لیے آسانی کی راہ ہموار کر دیں گے ۱۰ *

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت کرنا مفید ہو ۱۱ *

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت قبول کرے گا وہ جو ڈرتا ہو گا ۱۲ *

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے گریز کرے گا وہ جو بڑا بد بخت ہو گا

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بڑی آگ میں داخل ہو گا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جئے  گا ۱۳ *

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی ۱۴ *

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کا نام ۱۵ * لیا اور نماز پڑھی ۱۶ *

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۱۷ *

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ آخرت بدرجہا بہتر اور پائدار ہے ۱۸ *

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں بھی دی گئی تھی

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۱۹*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رب کی تشریح سورہ فاتحہ نوٹ ۴ میں گزر چکی۔

یہاں رب کی صفت اعلیٰ بیان ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا جو تمام انسانوں اور ساری مخلوقات کا پروردگار و آقا ہے ایک برتر اور ابالا تر ہستی ہے اس کی شان اور اس کا رتبہ بہت بلند ہے۔ انسان فطرۃً اس کو جانتا ہے اور عقل اس کو پہچانتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اس بلند و بالا ہستی کی  کُنہ معلوم کرنے اور اس کو اپنی عقل کی گرفت میں لینے کی کوشش بالکل بے سود ہے۔

جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا

عقل سے جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا

جو لوگ اس کی معرفت حاصل کرنے کے بجائے اس کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے پیچھے پڑ گئے وہ فلسفیانہ باتوں میں الجھ کر بالکل بھٹک گئے۔ مثال کے طور پر جنہوں نے اسے ’’آتما‘‘ قرار دیا وہ ساری موجودات میں اس کے حلول کے قائل ہو گئے۔

"The sage sees all beings in the Atman and the Atman in all being. (The Essence of Principal Upnishads p. 5)

خدا کا یہ نہایت گھٹیا تصور ہے جو شرک کی بنیاد ہے۔ قرآن اس بنیاد ہی کو ڈھا دیتا ہے اور خدا کی ذات کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے اور فلسفیانہ بحثیں کھڑی کرنے سے یکسر روکتا ہے۔ وہ اس کی ایسی معرفت عطاء کرتا ہے جو عقل کو جِلا بخشنے والی، قلب کو مطمئن کرنے والی اور انسان کو صحیح معنیٰ میں خدا شناس بنانے والی ہے یہ معرفت خدا کی صفات پر غور کرنے سے حاصل ہوتی ہے س لیے قرآن خدا کی صفات کا تفصیل سے اور بہ کثرت ذکر کرتا ہے۔

رب کے اعلیٰ ہونے کی صفت اس مشرکانہ تصور کو باطل قرار دیتی ہے کہ خداؤں میں کوئی چھوٹا ہے تو کوئی بڑا اور کوئی دیو ہے تو کوئی مہا دیو۔ ساتھ ہی وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ خدا صرف ایک ہے اور وہی اعلیٰ و بر تر ہے۔ اس کے سوا کوئی خد ہے ہی نہیں پھر کسی کے برتر ہونے کا کیا سوال؟ اور سرے سے کوئی دیو ہے ہی نہیں پھر کسی کے مہا دیو ہونے کا کیا مطلب ؟

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حکم میں تین اہم ہدایتیں مضمر ہیں۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اپنے معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے پاک اور اس کی شان اور اس کے رتبہ کے لحاظ سے بالکل موزوں اور مناسب ہوں۔ ضروری نہیں کہ وہ عربی زبان ہی کے الفاظ ہوں بلکہ وہ کسی بھی زبان کے الفاظ ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس میں شرک کا تصور مضمر نہ ہو۔ نیز نقص یا بے ادبی کا بھی کوئی پہلو نکلتا نہ ہو اسی بنا پر ہم اردو میں اللہ کو ’’خدا‘‘ اور ’’پروردگار ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مرہٹی زبان پر مشرکانہ مذہب کا کافی اثر ہے اس لیے اس زبان میں اللہ کے لیے کوئی نام تجویز کرتے وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ’رام‘ ایک مذہبی شخصیت کا نام ہے جن کو وشنو کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو

(Nikes Worth’s Marathi English Dictionary p. 693 )

اس لیے اس لفظ کو رحیم کے ہم معنیٰ سمجھ کر اللہ کے لیے ہر گز استعمال نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیو مشرکانہ مذہب میں تین خداؤں (تری مورتی) میں سے ایک خدا کا نام ہے ساتھ ہی اس کے معنی مرد کے عضو مخصوص کے بھی ہیں ملاحظہ ہو (Students Sanskrit English Dictionary by Apte. P. 556) شیو لنگ کی پوجا بھی کی جاتی ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مشرکوں نے اپنے خداؤں کا نام رکھنے میں کس ذہنیت کا ثبوت دیا ہے (نعوذ باللہ من ذٰلک)

دوسری ہدایت یہ ہے کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو یعنی اس کو ہر قسم کے نقص ، عیب اور شرک سے منزہ قرار دو اور تیسری ہدایت یہ ہے کہ اس کی تنزیہ کے تصور کے ساتھ اس کا نام جپتے رہو کہ اسی کا نام جپنے کے لائق ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت کی بنا پر سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ (پاک ہے میرا رب اعلیٰ ) پڑھنے کا حکم دیا تھا (ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ) گویا سجدہ کی یہ تسبیح اس حکم کی تعمیل میں ہے جو اس آیت میں دیا گیا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر انسان اتفاقی حادثہ کے طور پر وجود میں آ گیا ہوتا تو اس کے اندر تناسب ، موزونیت اور حسن و جمال نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔ یہ صریح نشانی ہے ، اس بات کی کہ اسے خدائے  برتر نے پیدا کیا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی پیدائش بغیر کسی منصوبہ کے نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی خالق نے اس کا ایک منصوبہ بایا ہے جس کے مطابق اسے دنیا میں ایک مقررہ مدت تک کام کرنا ہے۔ یہ منصوبہ مختصراً یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی آزمائشی ہو گی  اور ہر شخص کو آزمائش کے جن مراحل سے گزرنا ہو گا اور اس کو جو قوتیں اور صلاحیتیں عطاء کی جائیں گی اور جو وسائل اور مواقع فراہم کر دیئے جائیں گے وہ سب ایک طے شدہ فیصلہ  کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی کا نام قرآن کی اصطلاح میں ’’ تقدیر‘‘ ہے یعنی خدا کا پیشگی تیار کردہ منصوبہ۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منصوبہ سے انسان کو بے خبر نہیں رکھا ہے بلکہ اجمالاً اس کا شعور اس کی فطرت ہی میں رکھ دیا ہے جن کی بناء پر اس کا ضمیر اسے برائی پر ٹوکتا ہے اور اچھائی پر مطمئن ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا اچھا انجام دیکھنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ برا انجام اس کے سامنے آئے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو انسان فطرۃً اپنے کو امتحان گاہ ہی میں محسوس کرتا ہے۔ اس احساس کو جو چیز تازہ کرتی ہے اور خدائی منصوبہ سے اسے اچھی طرح با خبر کرتی ہے وہ وحی الٰہی ہے جسکا ذکر آگے کی آیات میں آ رہا ہے۔ گویا انسان کے خالق نے اس کے لیے خفی اور جلی دونوں طرح کی رہنمائی کا سامان کر دیا ہے۔ اگر فطرت کی آواز ہدایت خفی ہے تو وحی الٰہی ہدایت جلی۔ اس کے بعد انسان اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے اور اس کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں کہ میرے رب نے میری ہدایت و رہنمائی کا سامان نہیں کیا۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب چارہ اگتا ہے تو سر سبز ہوتا ہے  لیکن ایک وقت آتا ہے کہ سیاہ کوڑا کرکٹ بن کے رہ جاتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے خد کے منصوبہ کی جو اس دنیا میں کرا فرما ہے اور جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ پوری دنیا کے لیے بھی خدا کا ایک منصوبہ ہے اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ اس پر خزاں کو لازماً آنا ہے تاکہ اس کے بعد آخرت کا ظہور ہو۔ لہٰذا انسان اس دنیا کو سر سبز دیکھ کر اس خام خیالی میں مبتلا نہ رہے کہ یہ ہمیشہ پُر بہار رہے گی اور اس پر کبھی خزاں آنے والی نہیں۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور فرمایا یہ جا رہا ہے کہ قرآن کی شکل میں جو وحی ہم نازل کر رہے ہیں اس کو آپ کے ذہن میں محفوظ کر دینے کی ذمہ داری ہم نے لی ہے لہٰذا اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی حصہ تم بھول جاؤ۔ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شروع شروع میں اس اندیشہ سے کہ کہیں کوئی آیت یا لفظ بھول نہ جائیں جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو اس کو اخذ  کرنے میں جلدی فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ قرآن اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ پورا قرآن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح یاد ہو گیا کہ آپ اس کا یک لفظ بھی نہیں بھولے ، اور آپ نے پوری صحت کے ساتھ مکمل قرآن کو امت کی طرف منتقل کیا اور آج ہمارے سامنے اس کے لاکھوں اور کروڑوں نسخے اپنی اصل شکل میں اس طرح موجود ہیں کہ قیامت تک کے لیے اس کے محفوظ ہونے کا سامان ہو گیا ہے۔ گویا قرآن ایک مستقل اور دائمی معجزہ ہے جس کا مشاہدہ ہر دور کے لوگ کر سکتے ہیں۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر اللہ ہی بھلانا چاہے تو اور بات ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اے نبی قرآن کو یاد رکھنے کے سلسلہ میں جو اندیشہ تم اپنے دل میں محسوس کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے مگر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن کا سبق تمہیں وہ ہستی دے رہی ہے جس کا علم تمام باتوں کو محیط ہے اور اس نے اسے تمہارے حافظہ میں ٹھیک ٹھیک محفوظ کر دینے کا فیصلہ فرمایا ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم مزید اطمینان کا سامان کیا گیا ہے کہ قرآن کا جوں کا توں لوگوں تک پہنچانا گو دشوار ترین کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان تمام دشواریوں کے درمیان سے تمہارے لیے آسان راہ نکالے گا۔

قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ امی تھی لیکن نہ صرف پورے قرآن کو حفظ کرنا آپ کے لیے آسان ہو گیا بلکہ اس کے ساتھ اس کو لوگوں تک پہنچانا، اس کا درس دینا، اس کے ذریعہ تذکیر کرنا، اس کی تشریح و توضیح کرنا ، اس کے غامض نکات اور اس کی پُر حکمت باتوں کو بیان کرنا ، اس سے استنباط کرنا اور اس کے احکام کو نافذ کرنا بھی آسان ہو گیا اور آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسے ساتھی عشاء فرمائے جو قرآن کی کتابت کا کام بحسن و خوبی انجام دیتے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے قرآن کی حفاظت کا سامان ہو۔ اسی طرح آپؐ کو کتنے ہی ایسے ساتھی مل گئے جنہوں نے قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا۔ یہ حفاظ اور قرّاء کہلائے اور انہوں نے قرآن کو پھیلانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کا کام نہ لٹھ چلانے کا کام ہے اور نہ اندھے کے ریوڑی بانٹنے جیسا کام بلکہ یہ ایک حکیمانہ کام ہے جس کے لیے موقع و محل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بے موقع وعظ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ اندھوں اور بہروں کو نصیحت کرنے کا کچھ فائدہ ہے اس لیے جہاں داعی یہ محسوس کرے کہ لوگ نصیحت کے سننے کے موڈ میں نہیں ہیں وہاں زبردستی انہیں سنانے کی کوشش نہ کرے۔

اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ عام بگاڑ کو دیکھ کر آدمی پیشگی یہ فیصلہ کر کے بیٹھ جائے کہ دعوت و تبلیغ یا تذکیر و نصیحت کچھ سود مند ہونے والی نہیں لہٰذا یہ کام سرے سے کیا ہی نہ جائے۔ یہ ایسی ہی بات جیسے کوئی ڈاکٹر لوگوں کی بد پرہیز یوں کو دیکھ کر اپنا مطب بند کر دے اور گھر میں بیٹھ جائے یا محکمہ حفظان صحت یہ دیکھ کر کہ صحت کے معاملہ میں عام طور سے لوگ بے پروا واقع ہوئے ہیں اور مضر صحت اشیاء کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے سرے سے اپنے فرائض ہی تک کر دے۔ جن لوگوں کی نظر انبیاء علیہم السلام کے طریقہ دعوت پر ہو وہ اس طرح کا فیصلہ ہر گز نہیں کر سکتے اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ دعوت میں حکمت اور موقع محل کی رعایت کی نشاندہی تو ضرور کی جا سکتی ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکتا کہ عام بگاڑ کے پیش نظر انہوں نے دعوت و اصلاح کا کام ہی موقوف کر دیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ مخالفتوں کے طوفان سے گزرتے رہے ہیں اور اصلاح کا جو کام بھی انجام پا سکتا ہے موجوں کے تھپیڑے کھا کر ہی انجام دیا جا سکا ہے۔

یہاں سیاق کلام سے بھی واضح ہے کہ تذکیر عام تو ہونی چاہیے۔ اسی صورت میں اس کو قبول کرنے والے بھی نکل آئیں گے اور اس سے گریز کرنے والے بھی۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس شخص کے دل میں خدا کا خوف ہو گا وہ پیغمبر کی بات ضرور توجہ سے سنے گا اور اس نصیحت کو قبول کرے گا جو پیغمبر پر خدا کی طرف سے قرآن کی شکل میں نازل ہوئی ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں نہ وہ جینے کا لطف اٹھا سکے گا اور نہ موت ہی آئے گی کہ ساری کلفتوں کا خاتمہ کر دے بلکہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے گا جس کا انسان تصور ہی کرے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور وہ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے۔

واضح رہے کہ یہاں ان لوگوں کی سزا کا حال بیان ہوا ہے جو پیغمبر کی نصیحت سے گریز کریں اور آخر وقت تک اس ’’ تذکیر‘‘ کو قبول نہ کریں جو پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزگی اختیار کرنے سے مراد قلب و ذہن کی پاکیزگی بھی ہے اور اخلاق و اعمال کی پاکیزگی بھی، قلب و ذہن کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی شرک اور کفر و الحاد کی آلودگی سے اپنے کو پاک کر لے اور خدا و آخرت پر ایمان لے آئے اور اخلاق و عمل کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی برائیوں کو چھوڑ دے اور نیک کام کرے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کا نام لینے سے مراد محض رسماً نام لینا نہیں ہے کیونکہ اس طرح کا نام تو مشرک بھی لیتے ہیں اور کافر بھی بلکہ نام لینے سے مراد خدا کو دل سے اور حقیقی طور سے یاد کرنا نیز زبان سے صحیح نام کے ساتھ اس کا ذکر کرنا ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی‘‘ سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ نماز کا اصل محرک اللہ کی یاد ہے۔ یہ یاد ہی بندہ کو اس کی عبادت کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ یہیں سے حقیقی نماز اور رسمی نماز کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ حقیقی نماز اللہ کی یاد کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کے اندر روح کی طرح سموئی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا اپنے رب کی یاد اسے عبادت کے لیے بے ین کرتی ہے اور وہ نماز ہی میں سکون پاتا ہے۔ بخلاف اس کے رسمی نماز ایک بوجھ اتارنے کا کام ہے اسی لیے اس میں دل نہیں لگتا۔

نماز کا ذکر یہاں جس انداز ہوا ہے اس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کا کیا مقام ہے یہ سورہ مکہ کے ابتدائی دور کی تنزیل ہے اور اس میں آخرت کی کامیابی کے لیے جو اوصاف ضروری قرار دیے گئے ہیں ان میں نماز بھی شامل ہے اور شرعی احکام میں اسے اولیت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ نماز (صلوٰۃ) کو یوگا (Yoga) سے کوئی مناسبت نہیں ہے کیونکہ نماز خالصۃً اللہ کی عبادت ہے جبکہ یوگا مشرکانہ طرز کی ریاضت۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فلاح آخرت کی یہ راہ جس پر چل کر آدمی اپنے ظاہر و باطن کو سنوارتا ہے محض اس لیے تم لوگ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو کہ اصل اہمیت تمہاری نگاہ میں دنیا کی ہے نہ کہ آخرت کی۔ تم کو فکر ہے تو دنیا کی اور آسائش چاہتے ہو تو دنیا ہی میں۔ دنیا کا کوئی مفاد قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہو اور سمجھتے ہو کہ یہاں کے ’’ نقد‘‘ فائدے حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کے مقابلہ میں آخرت اس لیے قابل ترجیح ہے کہ وہاں کی زندگی ہر لحاظ سے بہتر اور وہاں کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہیں مزید برآں آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے جب کہ دنیا فانی ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی توحید و آخرت کی یہ تعلیم جو قرآن پیش کر رہا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے جو پہلی مرتبہ پیش ہوئی ہو بلکہ اللہ کی طرف سے ہمیشہ یہی ہدایت نازل ہوتی رہی ہے اور قدیم سے قدیم صحیفوں (آسمانی کتابوں ) میں بے کم و کاست یہی تعلیم موجود رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے پیرو اس تعلیم کو یا تو بھلا چکے یا اس میں انہوں نے بڑی حد تک تحریف کی اس لیے قرآن کے ذریعہ پھر اس تعلیم کی تجدید جا رہی ہے۔

آسمانی کتابوں میں سب سے قدیم صحیفہ ابراہیم علیہ السلام کا ہے لیکن وہ محفوظ نہیں رہا ہے موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے تو ان سے مراد تورات ہے جو اپنی اصل شکل میں توس موجود نہیں ہے البتہ اس کے کچھ اجزاء عہد نامہ عتیق Old Testament  کی پانچ کتابوں میں جو پیدائش ، خروج، احبار، گنتی، اور استثناء کے نام سے پائی جاتی ہیں دیکھے جا سکتے ہیں خاص طور سے توحید کی تعلیم اب بھی ان میں واضح طور پر موجود ہے مثلاً

’’میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا ‘‘۔ (خروج ۲۰ : ۳،۴)۔

’’پھر خداوند تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ میں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں ……………….  تم بتوں کی طرف رجوع نہ ہونا اور نہ اپنے لیے ڈھالے ہوئے دیوتا بنانا‘‘ (احبار ۱۹ : ۱ تا ۴ )

’’ تو خداوند اپنے خد کا خوف ماننا۔ اس کی بندگی کرنا ، اور اس سے لپٹے رہنا اور اسی کے نام کی قسم کھانا ، وہی تیری حمد کا سزاوار ہے اور وہی تیرا خدا ہے۔ (استثناء ۱۰ : ۲۰، ۲۱ )

اور موسیٰ علیہ السلام نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو گیت سنایا اس کا ایک اقتباس یہ ہے ’’کان لگاؤ اے آسمانو ! اور میں بولوں گا۔ اور زمین میرے منہ کی باتیں سنے۔ میری تعلیم مینہ کی طرح برسے گی۔ میری تقریر شبنم کی مانند ٹپکے گی جیسے نرم گھاس پر پھوار پڑتی ہو اور سبزی پر جھڑیاں کیونکہ میں خداوند کے نام کا اشتہار دوں گا تم ہمارے خدا کی تعظیم کرو۔ …………..، وہ وہی چٹان ہے۔ اس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اس کی سب راہیں انصاف کی ہیں وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔ ‘‘(استثناء ۳۲ : ۱ تا ۴)۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸۸)۔ سورہ الغاشیۃ

 

(۲۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کی پہلی آیت میں قیامت کی عام اور ہمہ گیر مصیبت کے لیے غاشیہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی مناسبت سے اس کا نام ’’الغاشیہ‘‘ ہے۔

 

زمانہ نزول

 

سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہو گی جبکہ دعوت و تبلیغ کا کام ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

جزا و سزا ہی ہے لیکن چھوٹے چھوٹے فقروں میں جنت و دوزخ کی تصویر کشی ایسے مؤثر پیرایہ میں کی گئی ہے کہ پڑھنے والا بشرط یہ کہ آنکھیں رکھتا ہو اسی دنیا میں ان کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے۔

یہ سورہ سابق سورہ کا تکملہ ہے۔ اس میں جنت و دوزخ کا ذکر اجمالاً تھا لیکن اس سورہ میں دونوں کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے اسی لیے نماز میں سورہ الاعلیٰ کے ساتھ سورہ الغاشیہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ اور عیدین کی پہلی رکعت میں سورہ الاعلیٰ پڑھتے تو دوری رکعت میں سورہ الغاشیہ (مسلم کتاب الجمعہ)

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۷ میں ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے منکر ہیں اور خدا کے حضور جوابدہی کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔

آیت ۸ تا  ۱۶ میں ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جو قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور خدا کے حجور جوابدہی کے تصور کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔

آیت ۱۷تا ۲۰ میں آفاق کی بعض نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو خدا کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور ان پر غور کرنے سے قرآن کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے کہ وہ خدا قیامت کے برپا کرنے اور جنت و دوزخ والی دنیا پیدا کرنے پر قادر ہے اور ضروری ہے کہ جزا و سزا کا معاملہ پیش آئے۔

آیت ۲۱ تا ۲۶ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ کا کام صرف یاد دہانی اور نصیحت کرنا ہے۔ حق کو زبردستی منوانے کی ذمہ داری آپؐ پر نہیں ڈالی گئی ہے لہٰذا جو لوگ آپؐ کی نصیحت سننے کے لیے تیار نہیں ہیں انکا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو۔ آخر کار ان کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اس وقت وہاں سے حساب لے لے گا۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں ۱*  چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے ؟ ۲*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے چہرے ۳*  اس روز رسوا ہوں گے ۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشقت کرنے والے تھکے ماندے ہوں گے ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہکتی آگ میں داخل ہوں گے ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھولتے چشمہ کا پانی انہیں پلایا جائے گا ۷*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے جھاڑ کانٹے کے سوا کوئی کھانا نہیں ہو گا ۸*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک ہی کو دفع کرے گا ۹*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے چہرے اس روز با رونق ہوں گے ۱۰*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی کوششوں پر شاداں ۱۱*

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند پایہ جنت میں ۱۲*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے ۱۳*

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں چشمے بہہ رہے ہوں گے ۱۴*

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اندر اونچے تخت ہوں گے ۱۵*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پیالے ہوں گے قرینہ سے رکھے ہوئے ۱۶*

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گاؤ تکیے قطار کی شکل میں لگے ہوئے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور قالین بچھے ہوئے ۱۷*

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان کو کہ کیسا بلند کیا گیا ہے ؟

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑوں کو کہ کس طرح کھڑے کر دئے گئے ہیں ؟

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین کو کہ کس طرح بچھائی گئی ہے ۱۸*

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (اے پیغمبر!)  تم نصیحت کرو کہ تمہارا کام بس نصیحت کرنا ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر جبر کرنا نہیں ہے ۱۹*

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جو منہ موڑے گا ۲۰*  اور کفر کرے گا ۲۱*

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔ ۲۲*

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک ہماری ہی طرف ہے ان کی واپسی ۲۳*

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے ان سے حساب لینا ۲۴*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن مقصود عام انسانوں کو آگاہ کرنا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھا جانے والی آفت (الغاشیہ) سے مراد قیامت ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کا ظہور ایک ہمہ گیر آفت کی شکل میں ہو گا جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہاں اس بات کو سوالیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ سننے والے چونک جائیں اور آگے جو احوال قیامت پیش کیے جا رہے ہیں ان کو بغور سنیں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چہرے (وجوہ) سے مراد اشخاص ہیں۔ چونکہ انسان کی اندرونی کیفیت کا اظہار چہرے سے ہوتا ہے اور اس کی شخصیت بھی اسی سے پہنچانی جاتی ہے اس لیے یہاں اشخاص کے لیے چہروں (وجوہ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کے حال کا بیان ہے جو جزا و سزا کا انکار کرتے رہے اور اس تصور کے تحت زندگی گزارتے رہے کہ نہ انہیں خدا کے حجور حاضر ہونا ہے اور نہ اپنے کیے کا حساب پیش کرنا ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن منکرین کو سخت مشقت کے  کام کرنا پڑیں گے جن سے تھک کر وہ نڈھال ہو جائیں گے۔ مثلاً قبروں سے اٹھتے ہیں اپنے موقف تک دوڑنے ، پیشی کے انظار میں سالہا سال تک سخت گرمی میں بھوکے پیاسے کھڑے ہونے ، طوق پہننے اور زنجیریں گھسیٹنے جیسے کام۔ جن لوگوں نے دنیا میں شرعی پابندیوں سے اپنے  کو آزاد کر رکھا تھا اور نماز جیسی عبادت کو وہ بوجھل خیال کرتے رہے  ان کی اس سہولت پسندی اور تن آسانی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ یہی ہو گا کہ وہ قیمات کے  دن تھکا دینے والے کام کریں اور ’’ قید با مشقت ‘‘ کی سزا بھگتیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیمات کے  موقف سے جب یہ منکرین لوٹیں گے تو سیدھے جہنم رسید ہوں گے جس کی آگ بھڑک رہی ہو گی۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھولتا ہوا پانی اس لیے کہ جب انہوں نے خدا اور آخرت سے بے نیاز ہو کر زندگی گزاری اور اس کے انعام کا اپنے کو امیدوار نہیں بنایا تو وہ بجا طور پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان کی تواضع آخرت میں کھولتے ہوئے پانی سے کی جائے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی  کھانے کے لیے انہیں غذائیت رکھنے والی اور ذائقہ دار کوئی چیز نہیں ملے گی البتہ جھاڑ کانٹے اور اسی طرح زقوم اور پیپ وغیرہ انہیں ضرور کھانا پڑیں گے جو ظاہر ہے غذا کا کام نہیں دے سکتے۔

یہ بدلہ بھی ٹھیک ان کے عمل کے مطابق ہو گا کیونکہ انہوں نے خدا سے ملنے کا نکار کر کے دنیا میں کانٹے ہی بوئے تھے اس لیے انہوں نے جو بویا تھا وہی انہیں کھانے کے لیے ملے گا۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان جھاڑ کانٹوں میں سرے سے غذائیت ہی نہیں ہو گی اس لیے جسم نہ توانائی حاصل ہو سکے گی اور نہ بھوک ہی مٹ سکے گی۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسم کو تقویت پہنچانے اور بھوک کو مٹانے کے لیے طرح طرح کی ذائقہ دار غذائیں بخشی تھیں لیکن جب انہوں نے ان نعمتوں کو پانے کے  بعد بھی اپنے رب کی نا شکری کی تو وہ اسی لائق ٹھہرے کہ جھاڑ کانٹے کھائیں۔

واضح رہے کہ متن میں لفظ ’’ضریع‘‘ استعمال ہوا ہے جو ایک خار دار اور زہریلی جھاڑی کا نام ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ان لوگوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو آخرت پر ایمان لائے اور خدا کے حضور جواب دہی کے اندیشہ سے ذمہ دارانہ زندگی گزارتے رہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنی کوششوں کے بہترین نتائج دیکھ کر وہ خود ہوں گے کہ اچھا ہوا انہوں نے آخرت کو مقصود بنا کر زندگی بسر کی اور دنیا پرستی میں مبتلا نہیں ہوئے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ایسے باغ میں ہوں گے جو بلندی پر بھی ہو گا اور اعلیٰ درجہ کا بھی۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی سوسائٹی اس قدر پاکیزہ اور وہاں کی مجلسیں اتنی شائستہ ہوں گی کہ نہ تو کوئی شخص ناشائستہ بات اپنی زبان سے نکالے گا اور نہ کسی کو بیہودہ بات سننے کے لیے سمع خراشی کرنا ہو گی۔ دنیا کے موجودہ ماحول سے جہاں فحش باتوں اور لغو گانوں سے اپنے کانوں کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہا ہے جنت کا ماحول بالکل مختلف اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ہو گا اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہو گی جو پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو نصیب ہو گی۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت میں چشموں کا رواں ہونا ایک تو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی سر سبزی و شادابی کبھی ختم ہونے والی نہیں اور دوسرے اس بات کی طرف کہ پانی اور دوسرے اعلیٰ قسم کے مشروبات وہاں وافر مقدار میں مہیّا ہوں گے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اونچے اور شاندار تخت شاہانہ زندگی کی علامت ہیں اور اہل جنت کو ایسی ہی زندگی نصیب ہوتی۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پیالے یا گلاس سامنے رکھے ہوئے ہوں گے۔ انہیں جنت کے مشروبات پینے کے لیے کوئی زحمت کرنا نہیں ہو گی۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل جنت کی زندگی کیسی آسائش کی زندگی ہو گی۔ اور ان کے لیے کیسا وافر اور نفیس سامان آرائش وہاں موجود ہو گا۔

اوپر کی آیات میں جنت کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اس سے جنت کا صحیح اور صاف ستھرا تصور کرنے کے لیے کافی ہے۔ رہی اس کی اصل حقیقت تو عالم آخرت کی چیزوں کو ہم مادی پیمانوں سے ناپ نہیں سکتے اس لیے اس پر بحثیں کھڑی کرنا بالکل نے سود ہے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر قیمات اور جنت و دوزخ کا جو ذکر ہوا اس کا انکار کرنے والوں کی یہاں دعوت فکر دی گئی ہے۔ اور اس سلسلہ میں گرد و پیش کی چیزوں کی طرف انہیں متوجہ کیا گیا ہے۔ صحرائے عرب میں دورانِ سفر ان کی نگاہ سب سے پہلے اونٹ پر پڑتی تھی اس لیے انہیں سب سے پہلے اس پر غور کرنے کی دوت دی گئی ہے کہ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ یہ جانور کن خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔؟ جن خصوصیات کی صحرائی زندگی کے لیے ضرورت تھی ٹھیک ان خصوصیات کے ساتھ اونٹوں کا پیدا کیا جاتا کیا اللہ کی صفت قدرت ، ربوبیت اور حکمت پر دلالت نہیں کرتا ؟

صحرا میں اونٹ پر سفر کرنے والوں کو آسمان ، پہاڑ ، اور زمین نظر آتے ہیں اس لیے ان سے کہا گیا کہ ان ہی چیزوں پر غور کریں کہ کیا یہ بلند آسمان اللہ کی عظیم قدرت کی شہادت نہیں دیتا اور کیا یہ پہاڑ جو زمین پر کھڑے کر دیے گئے ہیں اس کی محکم کاریگری اور صناعی کا نشان نہیں ہیں اور کیا یہ زمین جسے اس طرح بچھا دیا گیا ہے کہ وہ اربوں انسانوں کے بسنے کے قابل ہو گئی اس کی ربوبیت اور حکمت پر دلالت نہیں کرتی ؟ اگر یہ سب کچھ صحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  عقل کہتی ہے کہ یہی بات صحیح ہے۔ تو پھر اس خدا کے لیے قیامت کو برپا کرنا ، انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور جنت و دوزخ والی دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے ؟ اور کیا اس کی ربوبیت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ایک دن ایسا لائے جس میں وہ اپنے بندوں سے حساب لے کہ انہوں نے اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اس کی شکر گزاری کی یا نا شکری ؟ اور کیا یہ بات اس کی حکمت کے خلاف نہ ہو گی کہ انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کی کوئی غایت نہ ہو اور اس کی تخلیق کے پیچھے سرے سے کوئی منصوبہ اور کوئی اسکیم ہی نہ ہو ؟

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پیغمبر کا کام تذکیر و دعوت اور انداز و تبلیغ ہے۔ لوگوں سے زبردستی بات منوا لینے کا کام پیغمبر کے سپرد نہیں کیا گیا ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ موڑنا یہ ہے کہ آدمی نصیحت کی بات سننا پسند نہ کرے ، قرآن کی تذکیر اس پر گراں ہو اور جب یاد دھانی کی کوئی بات اس کے سامنے آ جائے تو وہ اس سے عدم دلچسپی کا اظہار کرے یا کترا کر نکل جائے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفر یہ ہے کہ آدمی قرآن کی تذکیر کو قبول نہ کرے اور اس کی ہدایت اور تعلیات کو ماننے سے انکار کر دے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرین پر آخرت میں اللہ کا عذاب ایسا زبردست ہو گا کہ اس کا مقابلہ دنیا کی بڑی سے بڑی سزا سے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر قرآن کی اس واضح تنبیہ کے باوجود جو لوگ کفر کی راہ اختیار کریں انہیں اس انجام کو پہنچنے سے کون بچا سکتا ہے !

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی طرف واپسی کا مطلب یہ ہے کہ سب کو ایک دن اسی کے حضور حاضر ہونا ہے کسی اور کے حضور نہیں پھر یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ آدمی اس فکر ہی سے بے نیاز ہو جائے کہ اسے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن جب اللہ کے حضور تمام لوگوں کی حاضری ہو گی تو وہ ہر ایک سے حساب لے گا۔ اس  وقت ان لوگوں کو جنہوں نے پیغمبر کی نصیحت پر کان نہیں دھرا اور قرآن کی رہنمائی کو قبول کنے سے انکار کرتے رہے سخت جواب دہی کرنا ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸۹)۔ سورہ الْفَجْرِ

 

(۳۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز وَالْفَجْرِ (قسم ہے فجر کی) سے ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الفجر ہے۔

 

زمانہ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی تنزیل ہے جبکہ اہل مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تذکیر کا اثر قبول کرنے کے بجائے سرکشی اور ظلم و فساد کا رویہ اختیار کیا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

جزا و سزا ہے خاص طور سے سزا کے پہلو کو نمایاں طور سے پیش کیا گیا ہے تاکہ جو لوگ دنیا پرستی میں مگن ہیں وہ ہوش میں آئیں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ میں رات اور دن کے طبعی احوال کو روز جزا کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۶ تا ۱۴ میں تاریخ کی بعض عظیم قوموں کے عبرت ناک انجام کو اس بات کی تائید میں پیش کیا گا ہے کہ اس کائنات کا فرمانروا افراد اور قوموں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ ایک دن ضرور ان سے محاسبہ کرے گا۔

آیت ۱۵ تا ۲۰  میں انسان کے غلط طرز عمل خاص طور سے کمزوروں کے حقوق غصب کرنے پر سخت گرفت کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ طرز عمل نتیجہ ہے انکار آخرت کا۔

آیت ۲۱ تا ۳۰ میں عدالت خداوندی کی تصویر پیش کرتے ہوئے منکرین و مؤمنین کا انجام بیان کیا گیا ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱*  ہے فجر کی ۲*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دس راتوں کی ۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جفت اور طاق کی ۴*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہو رہی ہو ۵*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس میں ایک عقلمند کے لیے کوئی قسم نہیں ۶*  ہے ؟

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے نہیں دیکھا ۷*  کہ تمہارے رب جے کیا معاملہ کیا عاد ۸*  کے ساتھ !

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند عمارتوں والے ۹*  ارم ۱۰*  کے ساتھ۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کے مانند کوئی (قوم)  کسی ملک میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔ ۱۱*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ثمود ۱۲*  کے ساتھ جو وادی ۱۳*  میں چٹانیں تراشا کرتے تھے ۱۴*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ ۱۵*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے ملکوں میں سر اٹھا رکھا تھا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں بہت فساد مچا رکھا تھا ۱۶*

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۱۷*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی تمہارا رب گھات میں رہتا ہے ۱۸*

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کی آزمائیش اس طرح کرتا ہے کہ اس کو عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت بخشی ۱۹*

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب اس کی آزمائش اس طور سے کرتا ہے کہ اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کیا۲۰*

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۲۱*  بلکہ تم لوگ یتیموں کی قدر نہیں کرتے ۲۲*

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔ ۲۳*۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میراث کا مال سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو ۲۴*۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مال کی محبت میں مست رہتے ہو ۲۵*

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں !۲۶*  جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کر دی جائے  گی ۲۷*۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا رب آئے گا صف در صف فرشتوں کے جلو میں ۲۸*۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جہنم اس روز حاضر کر دی جائے گی ۲۹*۔ اس روز انسان ہوش میں آئے گا مگر اس وقت اس کے ہوش میں آنے کا کیا فائدہ ؟ ۳۰*

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے پہلے سے کچھ کر رکھا ہوتا ! (۳۱)۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن اس کے عذاب جیسا کوئی عذاب دیتے والا نہ ہو گا(۳۲)۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ اس کے باندھنے جیسا کوئی باندھنے والا ہو گا۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے نفس مطمئنہ ! (۳۳)۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چل اپنے رب کی طرف، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی (۳۴)۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شامل ہو جا میرے بندوں میں (۳۵)

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور داخل ہو جا میرے جنت میں (۳۶)۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فجر سے مراد وہ وقت ہے جب رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی مشرقی افق پ نمودار ہوتی ہے۔ اس کا دورا نام صبح صادق ہے جسے اردو میں ہم پَو پھٹنا کہتے ہیں۔

فجر کا وقت طلوع آفتاب تک رہتا ہے جب کہ صبح کا اطلاق طلوع آفتاب کے بعد کے وقت پر بھی ہوتا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دس راتوں سے مرد قمری ماہ کی دس راتیں ہیں اور فجر کی مناسبت سے درمیانی دس راتیں یعنی گیارہویں تا بیسویں شب مراد لینا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ راتیں چاند سے روشن رہتی ہیں۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلسلہ کلام کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہاں جفت ور طاق سے مراد جفت ور طاق راتیں ہی لی جا سکتی ہیں کیونکہ رات کا ذکر اس سے پہلے بھی ہوا ہے اور اس کے بعد بھی۔ راتیں کسی مہینہ میں جفت عدد ہوتی ہیں اور کسی میں طاق عدد یعنی کوئی مہینہ ۳۰ راتوں کا ہوتا ہے اور کوئی ۲۹ راتوں کا۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے رخصت ہونے سے مراد وہ وقت ہے جب تاریکی ختم ہونے اور پَو پھٹنے کو ہوتی ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا ان چیزوں میں رہنمائی کا کوئی سامان موجود نہیں ہے اور کی ایک آدمی پر جو عقل و ہوش سے کام لے آسمان پر ظاہر ہونے والے ان آثار سے قرآن کے بیان کی صداقت روشن نہیں ہوتی ؟ یہ سوال اثبات کے لیے اور بات کو مؤکد کرنے کے لیے۔ یہاں شب و روز کے نظام پر غور فکر کی دعوت دی گئی ہے جس کا مشاہدہ انسان روزانہ کرتا ہے۔ اس کا آغاز فجر سے ہوتا ہے اور اختتام رات کے رخصت ہو جانے پر۔ فجر رات کی تاریکی کو چاک کر کے نمودار ہوتی ہے جس وقت صبح کی سفید دھاری افق پر نمایا ہو جاتی ہے تو وہ منظر بہت عجیب ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر ماہ کی درمیانی دس راتیں جو چاند کے نور  سے روشن کے قلب و ذہن خاص اثر ڈالتی ہیں۔ پھر ہر مہینہ کا اختتام یا تو ۳۰ راتوں پر ہوتا ہے یا انتیس راتوں پر۔ اس میں کبھی کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اور رات کے جب رخصت ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو وہ خاموشی کے ساتھ اپنی بساط لپیٹ دیتی ہے اور اس طرح رخصت ہو جاتی ہے کہ گویا وہ رخصت ہونے ہی کے لیے آئی تھی ور اس کے رخصت ہوتے ہی وہ نرم بھی بے رونق ہو جاتی ہے جو ا نے سنائی تھی۔

رات دن مشاہدہ میں آنے والے یہ آثار کیا کسی مدبّر ہستی کا پتہ نہیں دیتے ؟ شب و روز کا یہ عجیب و غریب نظام اور اس میں کمال درجہ کی باقاعدگی کس طرح پیدا ہو سکتی تھی اگر اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت اور حکمت رکھنے والی ہستی کا ہاتھ نہ ہوتا ؟  پس یہ مشاہدہ انسان کو جس نتیجہ پر پہنچاتا ہے وہ یہ ہے کہ یقیناً ایک مدبر ہستی ہے جس کے اشارہ پر کائنات کا یہ سارا نظام کمال درجہ کی باقاعدگی کے ساتھ نہایت محکم طریقہ پر چل رہا ہے اور جب وہ ہستی مدبر ہستی ہے جس کے اشارہ پر کائنات کا یہ سارا نظام کمال درجہ کی باقاعدگی کے ساتھ نہایت محکم طریقہ پر چل رہا ہے اور جب وہ ہستی مدبر ہے تو اس کی بنائی ہوئی دنیا نے غایت کیسے ہو سکتی ہے اور اس کا پیدا کردہ انسان شتر نے مہار کس طرح ہو سکتا ہے۔ ؟ ضروری ہے کہ اس دنیا کی ایک غایت ہو اور انسان کی تخلیق کے پیچھے کوئی منصوبہ ہو۔ قرآن اس غایت کی نشاندہی کرتا اور خدائی منصوبہ کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس کے بیان کے مطابق دنیا کی غایت آخرت ہے اور انسانی زندگی کے لیے خدائی منصوبہ یہ ہے کہ اسے امتحان سے گزارا جائے اور جواس امتحان میں کھرا ثابت ہو اسے آخرت کی لازوال نعمتوں سے نوازا جائے اور جو کھوٹا ثابت ہو اسے آگ میں جھونک دیا جائے۔ قرآن کا یہ بیان در اصل اس حقیقت کی شرح ہے جو شب و روز کے نظام میں اور پوری کائنات میں اشارے کنایہ کی زبان میں بول رہی ہے۔ اور قرآن کے بیان کا اس حقیقت سے جو کائنات میں کار فرما ہے اس درجہ ہم آہنگ ہونا اس کی صداقت کا بین ثبوت ہے۔

فجر کی قَسم کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ فجر کا وقت روزانہ ظہور قیامت کی یاد دہانی کراتا ہے جس طرح رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے فجر نمودار ہوتی ہے اسی طرح دنیا پر چھائی ہوئی تاریکی کا پردہ چاک کر کے قیمات کی فجر نمودار ہو گی اور جس طرح انسان صبح نیند سے پیدار ہوتا ہے اسی طرح قیامت کی صبح کا ظہور ہوتے ہی اٹھ پیٹھے گا اور محسوس کرے گا کہ ابھی سویا تھا اور ابھی جاگ گیا۔ اسی حقیقت کی طرف وہ مسنون دعا متوجہ کرتی ہے جس کو صبح بیدار ہوتے ہی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَحْیَا نَا بَعْدَ مَا اَمَا تَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (مسلم کتاب الذکر) ’’ شکر اللہ کا جس نے موت کے بعد ہمیں زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کھڑے ہونا ہے ’’۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’تم نے نہیں دیکھا‘‘ کیا تم نے غور نہیں کیا؟ ‘‘ کے مفہوم میں ہے جس طرح ہم بولتے ہیں ’’ تم نے نہیں دیکھا ہٹلر کا کیا انجام ہوا‘‘ جب کہ ہٹلر کے انجام کے ہم عینی شاہد نہیں ہوتے بلکہ اس کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر جانتے ہیں ایسے موقع پر کہنے والے کا منشا یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو تاریخی طور پر ثابت ہے تمہارے لیے لائق غور ہے اور اس سے تمہیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد ایک قوم کا نام ہے جو جنوبی عرب کے ریگستانی صحرا ربع خالی میں احقاف کے علاقہ میں جو یمن اور حضر موت کے درمیان ہے آباد تھی۔ اس کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد اور ابراہیم علیہ السلام سے پہلے  کا ہے یعنی تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کا۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ذات العماد‘‘ اس لیے کہا گیا کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں تعمیر کرتے تھے اور یہ طریقہ انہوں نے کسی حقیقی تمدنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض قومی یادگار کھڑی کرنے اور شوق نمائش پور کرنے کی غض سے اختیار کیا تھا ان کے اس آرٹ میں اسراف بھی تھا اور دنیا پرستی کی جڑیں مضبوط کرنے کا سامان بھی۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کو اِرم کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل (Semitic Race) کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو اِرم بن سام بن نوح سے چلی۔ اِرم کا ذکر بائیبل میں موجود ہے :

’’بنی سِم(سام) یہ ہیں۔۔۔۔۔ اور اِرام اور بنی اِرام یہ ہیں۔ عُوض ……..‘‘(پیدائش ۱۰: ۲۲ )

بائبل کے اس بیان میں لفظ اِرام اِرم ہی کا تلفظ ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی  زور و قوت اور شان و شوکت کے لحاظ سے ان کے زمانہ میں کوئی قوم ان کی برابری کی نہیں تھی اور ان سے پہلے بھی اس شان کی کوئی قوم نہیں گزری تھی۔

عاد سر زمین عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو طوفان نوح کے بعد اپنی تعمیری ترقی اور قوت و اقتدار کے ساتھ ابھری تھی اور اپنی ان مادی خصوصیات کی بنا پر دنیا کی ایک ممتاز اور بے نظیر قوم تھی۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کے بعد مادی ترقی اور دنیوی شان و شوکت کے لحاظ سے جو قوم ابھری اس کا نام ثمود تھا اس کا بھی زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کاہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جو حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے۔ اس وادی کا اہم ترین مقام ’’حِجْر‘‘ تھا جس کو اب مداین صالح کہتے ہیں اور جو مدینہ سے شمال میں تقریباً ۱۸۰ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ علاقہ ثمود کا مسکن تھا۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود چٹانوں کو تراش کر گھر بنا لیتے تھے۔ اس فن تعمیر میں انہیں بڑی مہارت تھی اور اس میں ان کا انہماک شوق تعمیر کو پورا کرنے کے لیے تھا۔ اس طرح انہوں نے تعمیرات کے میدان میں شاندار ترقی کی تھی اور اس ترقی کے زیر اثر یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ دنیا میں ہر طرح سے محفوظ ہیں۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میخوں والا سے مراد لاؤ لشکر والا ہے۔ فرعون نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے مستقل فوج قائم کی تھی جب کہ اس زمانہ میں مستقل طور سے فوج رکھنے کا رواج نہ تھا بلکہ جب جنگ کی ضرورت پیش آ جاتی، وقتی طور سے اس کا انتظام کر لیا جاتا۔ فوج چونکہ خیموں میں رہتی تھی اور خیمہ میخیں ٹھونک کر قائم کیا جاتا ہے اس لیے اس مناسبت سے یہ الفاظ لاؤ لشکر والا کے معنی میں کنایۃً استعمال ہوئے ہیں۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان قوموں نے ایک شاندار تمدن کے وسائل اور اقتدار پا کر بہت غلط روش اختیار کی۔ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا ہو کر وہ گھمنڈ میں مبتلا ہو گئیں اور انہوں نے سر کشی کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں ان میں ہر طرح کا بگاڑ پیدا ہوا۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب یہ قومیں سرکشی اور بگاڑ کی راہ پر چل پڑیں اور پیغمبروں کی تنبیہات کے باوجود اصلاح کے لیے آمادہ نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا قانون تعذیب حرکت میں آیا اور اس نے اس طرح ان کو گرفت میں لیا کہ ساری مادی ترقی اور ان کی ساری شان و شوکت مٹی میں مل گئی۔ نہ بلند عمارتیں انہیں ذلت کی موت مرنے سے بچا سکیں اور نہ چٹانوں میں تراشے ہوئے مکانات ان کی حفاظت کرسکے۔ اسی طرح فرعون کا لاؤ لشکر اس کو سمندر میں غرق ہونے سے نہیں بچا سکا بلکہ وہ لشکر سمیت ڈوب مرا ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ؏

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے

ان قوموں پر جو عذاب آیا  اس کی تفصیلات سورہ اعراف، سورہ یونس، سورہ ہود، سورہ حجر ، اور دیگر صورتوں میں بیان ہوئی ہیں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جن تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا وہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے اور انسان کا خالق اس کو پیدا کر کے اس سے بے تعلق نہیں ہوا ہے بلکہ وہ ہر شخص اور ہر قوم کی نگرانی کر رہا ہے اور ان سب کی باگ اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سرکش ور مفسد قوموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے تاکہ وہ سنبھلنا چاہیں تو سنبھلیں لیکن یہ ڈھیل ایک وقت خاص تک کے لیے ہی ہوتی ہے اس کے بعد اچانک خدا کے عذاب کا کوڑا اُن پر برستا ہے اور وہ بُرے انجام سے دو چار ہو جاتی ہیں۔

تاریخ کی یہ شہادت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ دنیا کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک امتحان گاہ ہے جس میں افراد کا بھی امتحان ہو رہا ہے اور قوموں کا بھی اور ان کا رب ان کے ساتھ عدل و حکمت کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے اور وہ مجرموں کو سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے۔، اور جب دنیا امتحان گاہ قرار پائی تو لازم آتا ہے کہ ایک روز جزا و سزا کا آئے۔ پس قرآن کا یہ دعویٰ کہ قیامت کا ظہور اور جزا و سزا کا وقوع ایک ناقابل انکار حقیقت ہے تاریخ کی شہادت سے بھی ثابت ہ۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں انسان کا جو حال بیان کیا گیا ہے اس سے اس مغالطہ کو دور کرنا مقصود ہے جس میں دنیا پرست لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ مال و دولت ، جاہ و اقتدار اور مادی نعمتوں کا ملنا ان کے نزدیک معیار عزت ہے اور جس کو مادی نعمتوں کی فراخی حاصل ہوتی ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی نظر میں وہ اچھا ہے اسی لیے وہ اس کی عزت افزائی کا سامان کر رہا ہے اور یہ خام خیالی اسے سرکشی پر آمادہ کرتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی یہ چیزیں عطا کرتا ہے آزمائش کے لیے عطا کرتا ہے کہ دیکھے وہ ان نعمتوں کو پا کر اپنے رب کا شکر گزار اور فرمانبردار بنتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرتا ہے یا اس کا نا شکر، مغرور اور بندوں کے حقوق کو ٹھکرانے والا بنتا  ہے۔ رہ حقیقی عزت و سر فرازی تو وہ امتحان میں کامیابی کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔  دنیا پرستانہ نقطۂ نظر کو اختیار کرنے والوں کے نزدیک تنگ حال ہونا باعثِ ذلت ہے۔ گویا جن کو مال و دولت کی فراوانی نصیب نہیں ہوئی وہ اللہ کی نظر میں حقیر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس حالت سے انسان کو اس لیے گزارتا ہے تاکہ اس کی آزمائش ہو کر وہ اپنے کو صابر ثابت کر دکھاتا ہے یا نہیں اور اپنے رب کے فیصلہ پر مطمئن ہوتا ہے یا اس کے خلاف شکوہ شکایت کرنے لگتا ہے۔ تنگ حالی انسان کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا کرتا ہے اور اس کے کردار کو مضبوط بناتی ہے اور انسان ا مرحلہ سے گزر کر عزت و سرفرازی کا مقام حاصل کر سکتا ہے ، بشرطیکہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دے۔ خدا کی یہ عظیم حکمت ہے جو تنگ حالی کے پیچھے کار فرما ہوتی ہے لیکن سطح بیں نگاہیں اس کو نہیں پاتیں اور مغالطہ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس آیت نے صراحت کے ساتھ اس مغالطہ کو دور کرنے کا سامان کیا ہے اس کے بعد بھی اگر انسان اس مغالطہ میں رہتا ہے تو اس کے لیے اس امتحان میں ناکامی مقدر ہے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی عزت و ذلت کا یہ معیار صحیح نہیں جو دنیا پرستوں نے قائم کر رکھا ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں دنیا پرستوں اور بالخصوص مالداروں کو براہ راست خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس آزمائشی زندگی میں دولت پا کر تم بندگان خدا کے حقوق ادا کرتے۔ بے سہارا بچوں اور محتاجوں کی مدد کرتے لیکن تمہارے اندر دولت کا ایسا گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ یتیموں کی مدد کرتے ان کی ناقدری کرنے لگتے ہو اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو۔

اس سے واضح ہوا کہ قرآن یتیموں کی نہ صرف مدد کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ ان کی قدر کرنے کا بھی۔ بالفاظ دیگر قرآن غریب اور کمزور طبقہ کو سماج میں عزت کا مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اور ایک صحیح مسلم سوسائٹی وہ ہے جس میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غریبوں کو کھانا کھلانا اور اس کی ایک دوسرے کو ترغیب دینا بنیادی اخلاقیات میں سے ہے جس کی ذمہ داری انسان پر فطرۃً عائد ہوتی ہے۔ شریعت نے اس کو مزید مؤکد کر دیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں تفصیلی احکام بھی دیئے ہیں۔

یہاں قرآن نے جاہلیت کے اس سماج پر سخت گرفت کی ہے جس میں لوگ نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی فکر کرتے اور نہ دوسروں کے اندر جذبۂ خیر پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ اس سے واضح ہے کہ قرآن انسانی سوسائٹی کو جس وصف کا حامل دیکھنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے افراد خود بھی غریبوں کی مدد کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ اس طرز عمل سے بخیلی اور زرپرستی کا خاتمہ ہوتا ہے اور ہمدردی اور فیاضی کے جذبات پرورش پانے لگتے ہیں۔

فقر و فاقہ کے خاتمہ کے لیے یہ وصف بمنزلہ بنیاد کے ہے۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  زمانۂ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور زور آور مرد میراث پر قابض ہو جاتے تھے ، جس کے نتیجہ میں یتیم بچے اور بچیاں تک اپنے باپ کے ترکہ میں حصہ پانے سے محروم رہ جاتیں۔ اس آیت میں اہلِ جاہلیت کے اسی رویہ کو باطل اور مذموم قرار دیا گیا ہے۔

(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء نوٹ ۱۹)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وراثت کی تقسیم کا قرآنی ضابطہ تو مدینہ میں اواخر ۳ھ میں نازل ہوا جو سورۂ نساء میں شامل ہے جبکہ سورۂ فجر مکی ہے جس میں میراث کا مال سمیٹ کر کھانے کی مذمت کی گئی ہے تو پھر یہ گرفت میراث کے کس حکم کی خلاف ورزی کرنے پر کی گئی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وراثت کا قرآنی ضابطہ گو بعد میں نازل ہوا لیکن اس اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب تک یہ ضابطہ نازل نہیں ہوا تھا اس وقت تک یہ لوگ کہ وراثت کا حقدار کون ہے۔ کم از کم یہ بات تو بد یہی ہے کہ باپ کی میراث کا حقدار اس کی اولاد ہے اور خاص طور سے جب وہ یتیم ہو تو اس کے حق کی حرمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اتنی موٹی بات سمجھنے کے لیے عقل عام کافی ہے اور عقل و انصاف کے اس صریح تقاضے کو رد کر کے زور آور رشتہ داروں کا میراث پر قابض ہو جانا قابل مواخذہ کیوں نہ ہو گا؟ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مکہ کے عرب شریعت الٰہی سے بالکل ناآشنا نہیں تھے بلکہ وہ ابراہیمی شریعت کے وارث تھے یہ اور بات ہے کہ اس کے کچھ اجزاء ہی ان کے پاس باقی رہ گئے تھے مثلاً حج کے مناسب وغیرہ اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہ ہو گا کہ وہ میراث کے سلسلہ میں اتنی بات بھی نہیں جانتے تھے کہ اولاد باپ کی میراث کی حقدار ہے مگر یتیم بچوں اور بچیوں کو ان کے باپ کی میراث سے محروم رکھ کر ان کا چچا پوری میراث پر قابض ہو جاتا تھا۔ آخر اس صریح حق تلفی کے لیے کیا وجہ جواز تھی؟ اور جہاں تک تورات کا تعلق ہے اس میں میراث کا ضابطہ موجود تھا۔ بائبل میں ہے ’’ اور بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث اس کی بیٹی کو دینا۔ اگر اس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اس کے بھائیوں کو اس کی میراث دینا‘‘۔ (گنتی ۲۷:۸،۹)

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ چوٹ ہے ان کی زر پرستی پر جس نے ان کے اندر اخلاقی گراوٹ پیدا کی تھی۔

مال و دولت کو جہاں اللہ تعالیٰ نے معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے وہاں اس میں انسان کا بہت بڑا امتحان بھی رکھا ہے۔ یہ امتحان ایک تو اس پہلو سے ہے کہ انسان آخرت کو مقصود بناتا ہے یا دنیوی مال و دولت کو۔ دوسرے اس پہلو سے کہ مال جاز طریقہ سے حاصل کر کے جائز راہوں میں صرف کرتا ہے یا ناجائز طریقہ سے حاصل کر کے ناجائز راہوں میں صرف کرتا ہے۔ تیسرے اس پہلو سے کہ وہ اللہ کی خاطر مالی قربانیاں دیتا اور بندگان خدا کے حقوق ادا کرتا ہے یا بخل سے کام لیتا اور بندگان خدا کے حقوق غصب کرتا ہے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہارے اس طرز عمل پر گرفت نہیں ہو گی۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قیامت کے دن جو زلزلہ آئے گا اور جو دھماکے ہوں گے وہ پوری زمین کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیں گے۔ عمارتیں اور محلات تو کیا پہاڑ تک ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور زمین ایک صاف میدان کی شکل اختیار کرے گی جس میں تمام انسانوں کو خدا کے حضور جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہو گا۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن خود عدالت برپا کرے گا اور وہ بنفس نفیس باز پرس بھی کرے گا اور فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس کے حل کی تکمیل اور اس کے فیصلہ کے نفاذ کے لیے فرشتے موجود ہوں گے۔

اس سے عدالت خداوندی کی پر ہیبت تصویر سامنے آتی ہے اور یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ آج تو اللہ تعالیٰ پس پردہ انسان کا امتحان لے رہا ہے لیکن قیامت کے دن یہ پردہ اٹھا دیا جائے گا اور حقیقت بالکل بے نقاب ہو کر اس کے سامنے آ جائے گی۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب عدالت خداوندی برپا ہو گی تو جہنم بالکل سامنے موجود ہو گی۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی عدالت خداوندی میں اپنے محصور اور جہنم کو سامنے موجود پا کر انسان کو ہوش آئے گا کہ آخرت سے بے پروا ہو کر وہ کتنے زبردست گھاٹے میں پڑا ہے۔ اس وقت اسے یاد آئے گا کہ اللہ کے پیغمبروں کا اس دن سے متنبہ کرنا بالکل بجا  تھا اور  جو راستہ وہ بتاتے تھے وہی صحیح تھا۔ ان کی نصیحت کو نہ مان کر اس نے بڑی حمایت کی۔ مگر اس روز ہوش میں آنا اور نصیحت پکڑنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی طالب علم امتحان گاہ میں تو پرچہ حل کرنے کے بجائے ہنسی دل لگی میں وقت گزار دے اور جب نتیجہ کا اعلان ہو اور وہ ناکام ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ ظاہر ہے بعد از وقت اس کا احساس اس کی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل نہیں کر سکتا البتہ اس کو یاس اور حسرت کے حوالہ ضرور کر دیتا ہے۔

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس روز انسان محسوس کرے گا کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور میں دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتا رہا۔ کاش کہ میں نے اپنی اس زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتا رہا۔ کاش کہ میں نے اپنی اس زندگی کے لیے دنیا میں کچھ سامان کر لیا ہوتا۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کی سزا کو ان سزاؤں پر قیاس نہ کرو جو دنیا کی حکومتیں مجرمین کو دیتی ہیں۔ اللہ کا عذاب ایسا شدید ہو گا کہ اس طرح کا عذاب نہ کبھی کسی نے دیا ہو گا اور نہ کوئی دے سکتا ہے۔

اس سے آگاہ کرنے کے بعد جو لوگ اللہ کے عذاب کی پرواہ نہ کریں اور مجرم اور سرکش بنے رہیں ان کو اس کے عذاب کا اندازہ اسی وقت ہو گا جب کہ وہ اس کا مزہ چکھیں گے۔

عذاب کی یہ شدت جرم کی شدت کی وجہ سے ہو گی۔ جو لوگ اپنے خالق و مالک اور فرمانروائے کائنات کے خلاف سرکشانہ رویہ اختیار کرتے ہیں وہ زبردست ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہیں اس لیے وہ شدید ترین عذاب کے مستحق ہیں۔

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نفس مطمئنہ سے مراد وہ انسان ہے جس نے اطمینانِ قلب کے ساتھ توحید کا اقرار کیا تھا جس کو آخرت پر یقین تھا اور فراخی اور تنگی ہر طرح کے حالات میں وہ اپنے رب سے راضی و مطمئن رہا کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔

جس شخص نے دنیا میں اطمینان قلب کی یہ صفت پیدا کر لی وہ خدا کے ہاں اس کا مستحق ہو گا کہ اسے ہمیشہ کے لیے چین اور راحت و سکون نصیب ہو۔

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ بڑے پیارے اور رحمت بھرے الفاظ ہیں جن میں نفس مطمئنہ کو فیصلہ کے دن کامیابی کا مژدۂ جاں فزا سنایا جائے گا۔ اور کامیابی بھی ایسی کہ آدمی خدا کو پالے جس کے بعد پانے کے لیے کیا چیز باقی رہ جاتی ہے ؟ بندہ اپنے خدا سے خوش اور خدا اپنے بندے سے خوش۔ عزت و سرفرازی کے اس مقام کو پہنچنے کے بعد کون سی بلندی باقی رہ جاتی ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور کر سکتا ہے ؟

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔  میرے بندے سے مراد خدا کے نیک بندے ہیں۔ جنت کی سوسائٹی ان نیک بندوں ہی پر مشتمل ہو گی۔

نیک لوگوں کے زمرہ میں شمولیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہو گی لیکن یہ نعمت ان ہی لوگوں کو میسر آئے گی جو واقعی اس کے قدرداں ہیں۔ جو نیک لوگوں سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ، بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں نیک لوگوں سے نفرت کرتے اور ان سے دور بھاگتے رہے اور ان کو ساری دلچسپی خدا بیزار لوگوں سے رہی ان کا حشر بھی خدا بیزار لوگوں ہی کے ساتھ ہو گا۔

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے (میری جنت)۔ یہ نسبت جنت کے شرف کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے اور اس بات کی طرف بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مظہر ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۹۰)۔سورہ البلد

 

(۲۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں البلد (شہر) کا لفظ آیا ہے جس سے مراد شہر مکہ ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’البلد‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے یہ مکہ کے ابتدائی دور کی تنزیل ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ سورہ سابق سورہ کا تکملہ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود رکھنے والی مخلوق ہے جسے دار الامتحان میں کھڑا کر دیا گیا ہے لہذا اس کا یہ سمجھنا کہ میں من مانی کرنے کے لیے آزاد ہوں اور مجھے خدا کے حضور جوابدہی کے لیے حاضر ہونا نہیں ہے وہ بنیادی غلطی ہے جو انسان کے پورے رویہ کو غلط بنا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے بعد نہ اس میں فرض شناسی پیدا ہوتی ہے اور نہ حقوق کی ادائیگی کا احساس ابھرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ انسان جہنم کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ میں جو شہادتیں میں پیش کی گئی ہیں ان سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یہ دنیا عشرت کدہ نہیں ہے اور نہ انسان کو یہاں عیش و عشرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے بلکہ اس کی تخلیق ایک خاص مقصد کے تحت ہوئی ہے اس لیے اسے پیدا ہی مشقت کی حالت میں کیا گیا ہے۔

آیت ۵، تا ۷ میں انسان کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پر گرفت کرتے ہوئے اس کے ضمیر کو  جھنجھوڑا گیا ہے کہ کیا وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے اوپر کوئی بالا تر طاقت نہیں ہے جو اس کے طرز عمل کی نگرانی کرنے والے ہو؟

آیت ۸ تا ۱۷ میں واضح کیا گیا ہے کہ انسان کے لیے اخلاق و عمل کی بلندی کی راہ بھی کھول دی گئی ہے اور پستی کی راہ بھی۔ بلندی کی راہ کٹھن ضروری ہے مگر اس چڑھائی پر چڑھ کر آدمی اخلاقی ارتقاء کی منزلیں طے کر لیتا ہے اور بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

آیت ۱۸ تا ۲۰ میں بتایا گیا ہے کہ ایمان کے ساتھ اخلاقی بلندی کی راہ اختیار کرنے کا انجام یہ ہے کہ آدمی خوش بختی اور سعادت کی منزل کو پہنچ جاتا ہے بخلاف اس کے کفر کی راہ اختیار کرنے والے جہنم کے گڑھے میں جا گرتے ہیں جس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت نہ ہو گی۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱— نہیں *۱میں قسم کھاتا ہوں *۲اس شہر کی*۳۔

۲— اور تم اس کے رہنے والے ہو*۴

۳— اور جننے والے کی*۵ ور اس کی جس نے اے جنا *۶۔

۴— فی الواقع ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے *۷

۵— کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا*۸

۶— کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا *۹

۷— کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں؟*۱۰

۸— کیا ہم نے اس کو نہیں دیں دو آنکھیں *۱۱

۹— اور زبان اور دو ہونٹ *۱۲

۱۰— ور اسے دونوں راستے نہیں دکھائے؟ *۱۳

۱۱— مگر اس نے گھاٹی عبور نہیں کی۔ *۱۴

۱۲— اور تم نے کیا سمجھا کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ *۱۵

۱۳— گردن چھڑانا*۱۶

۱۴— یا فاقے کے دن کھانا کھانا *۱۷

۱۵— قرابت دار یتیم کو *۱۸

۱۶— یا خاک نشین مسکین کو *۱۹

۱۷۔ پھر وہ شامل ہوتا ان لوگوں میں جو ایمان لائے *۲۰

۱۸— اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور ہمدردی کی تلقین کی *۲۱

۱۸—  یہی لوگ ہیں سعادت مند *۲۲

۱۹—  اور جنہوں نے ہماری آیت کا انکار کیا، وہ بد بخت لوگ ہیں۔

۲۰—  ان پر آگ چھائی ہوئی ہو گی جس کو بند کر دیا جائے گا *۲۳

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا یہ خیال صحیح نہیں کہ دنیا کی زندگی مزے اڑانے کے لیے ہے۔ یہاں نہ کوئی آزمائش ہو رہی ہے اور نہ کبھی جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم کی تشریح کے لے ملاحظہ ہو سورۂ تکویر نوٹ ۱۴۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس شہر سے مراد مکہ ہے جہاں یہ سورہ نازل ہوئی۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خطاب اہل مکہ سے ہے جو اس سورہ کے اولین مخاطب تھے۔ ضمیر مخاطب واحد (اَنتَ) استعمال ہوئی ہے۔ کیونکہ یہاں مخاطب مکہ کا ہر فرد ہے۔ گویا مکہ کے رہنے والوں کو فرداً فرداً دعوت فکر دی گئی ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد ماں ہے جو بچہ کو تکلیف سے جنتی ہے۔ والد لفظ مذکر استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ لفظ جس طرح باپ کے لیے بولا جاتا ، اسی طرح ماں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو لسان العرب لفظ ولد) اس کی نظیر لفظ حامل ہے جو حاملہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ ان مذکر الفاظ کا استعمال مونث کے لیے اس وقت کیا جاتا ہے جبکہ بات مبہم انداز سے کہنا ہو اور مرد یا عورت کی صراحت بلاغت کی روسے نامناسب ہو۔

موقع کلام کے لحاظ سے یہاں ماں مراد لینا ہی صحیح ہے کیونکہ بعد والی آیت میں انسان کے مشقت میں پیدا کئے جانے کا ذکر ہے ظاہر ہے جننے کی مشقت ماں کو ہوتی ہے نہ کہ باپ کو۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد ہر وہ بچہ جو ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے اور بچہ کا جنم لینا تکلیف کے ساتھ ہوتا ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ وہ دعویٰ ہے جس پر مذکورہ قسمیں بطور شہادت کے کھائی گئی ہیں۔ انسان کا مشقت کی حالت میں پیدا ہونا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اس حقیقت کی تائید میں چند باتوں کو پیش کر کے اسے مزید موکد کر دیا گیا ہے۔ مکہ کی سرزمین پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک بے آب و گیا وادی ہے، ریگستان ہونے کی وجہ سے یہاں کا موسم بڑا سخت ہوتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں یہاں کی زندگی عام طور پر سے جفا کشی کی زندگی تھی۔ مکہ کے اس قدرتی ماحول کی طرف قرآن نے اس کے باشندگان کی توجہ مبذول کرائی کہ تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ یہ ماحول پر مشقت کیوں بنایا گیا ہے؟ اگر یہ دنیا عشرت کدہ ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جو شہر ام القریٰ قرار پایا وہ مشقتوں سے گھرا ہوا ہوتا۔ تم نہ صرف یہ کہ اس کے ماحول کا مشاہدہ کرتے ہو۔ بلکہ اس کی تاریخ سے بھی خوب واقف ہو کہ کن دشواریوں سے گزر کر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔ الغرض اس شہر کے جغرافیائی اور تاریخی حالات دونوں اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ دنیا تفریح گاہ نہیں ہے بلکہ محنت و مشقت کی جگہ ہے، اور اس میں انسان کا امتحان ہے۔ اسی طرح انسان کی اپنی پیدائش بھی اس حقیقت کا ناقابلِ انکار ثبوت ہے۔ بچہ جب ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے تو یہ مرحلہ ماں کے لیے کتنا مشکل اور تکلیف وہ ہوتا ہی اور جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو مشقتوں ے گھرا ہوا اور روتے ہوئے ہی آتا ہے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ انسان دنیا میں مزے اڑانے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ تکلیف اور مشقت کو ساتھ لے کر آزمائش کی بھٹی سے گزرنے کے لیے آیا ہے۔ پس انسان کے مشقت کی حالت میں پیدا ہونے کی حقیقت ایک دوسری بہت بڑی حقیقت کا پتہ دیتی ہے اور وہ ہے جزا و سزا کا معاملہ جس سے انسان کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے کیونکہ یہ زندگی جب ابتلاء و آزمائش کی زندگی ٹھہری تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ یوم حساب برپا ہو اور امتحان میں کامیابی  وہ ناکامی کے نتائج سامنے آئیں۔

یہ ہے وہ استدلال جو ان آیات میں مضمر ہے۔ ساتھ ہی ایک اہم پہلو کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشقتوں میںانسان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ شہر مکہ کو جس شخص نے بسایا اسے کیسی کیسی مشقتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی زندگی کس قدر صبر آزما رہی لیکن ان حالات سے گزر کر ہی اس کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیر کا عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام پا سکا اور اس کے بعد ہی وہ امامت کے منصب پر فائز ہوا۔ معلوم ہوا کہ اس دنیا میں جو تکلیفیں اور مشقتیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ در حقیقت انسان کو تکلیف میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ اس کو اوپر اٹھانے کے لیے ہیں۔ انسان اگر اپنا حوصلہ پست نہ رکھے اور خدائی رہنمائی کو قبول کر کے پیش آمدہ تکلیفوں میں فرض شناسی کا ثبوت دے تو اس کے اندر انسانیت کا جو جوہر ہے وہ کھلنے لگتا ہے اور وہ بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

آدمی بنتا ہے انساں ٹھو کریں کھانے کے بعد

اللہ تعالیٰ  نے اپنے گھر کی تعمیر کے لیے کسی ایسے خطہ کا انتخاب نہیں فرمایا جہاں باغ و بہار ہو بلکہ پہاڑوں سے گھری ہوئی ریگستانی زمین کا انتخاب فرمایا اس انتخاب کے پیچھے یہ عظیم حکمت کار فرما ہے کہ اس کے گھر کی زیارت کرنے والوں کے لیے باطنی کشش کا سامان ہو نہ کہ ظاہری کشش کا اور اس سے انسان کو یہ رہنمائی ملے کہ خدا تک پہنچنے کی راہ آسائشوں سے ہو کر نہیں بلکہ دشواری اور کٹھنائیوں سے ہو کر گزرتی ہے۔

اس واضح حقیقت کے بعد ور ان روشن دلائل کی موجودگی میں انسان تکلیف پہنچنے پر کیوں بِلبِلا اٹھتا ہے اور پست ہمتی کا کیوں شکار ہو جاتا ہے ؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے جہ انسان اپنی حیثیت اور اس دنیا کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اختیار نہیں کرتا۔ وہ دنیا کو آرام گاہ خیال کرتا ہے اور اس سے آسائش ہی کی امیدیں رکھتا ہے لیکن جب اس کے ان جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور تکلیف اور پھر فرض شناسی کا ثبوت دینے اور حوصلے کے کام کرنے سے قاصر رہتا ہے اس طرح انسان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے اور امتحان میں ناکام ہو جانے کی بنا پر وہ سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان جو مشقتوں میں گھرا ہوا پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد اسے زندگی کی پر خطر راہوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ معلوم نہیں کس وقت اسے کس حادثہ سے دوچار ہونا پڑے اور کس مصیبت کا اس پر نزول ہو  وہ اس غرور نفس میں کس طرح مبتلا ہو جاتا ہے کہ کوئی بالا تر طاقت اس کو پکڑنے والی نہیں ہے اور وہ جو چاہے کرے اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا؟ انسان کا مشقت سے گھرا ہونا تو اس کی اپنی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر ایک بالا تر ہستی کا اقتدار قائم ہے جس کے فیصلے اس پر نافذ ہو کر رہتے ہیں۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ایک مثال ہے اس بات کی کہ دنیا کو تفریح گاہ خیال کرنے کے نتیجہ میں انسان کا رویہ کتنا غیر ذمہ دارانہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ مثال ان مال داروں  کی ہے جو دولت کو بے جا خرچ کرتے ہیں اور پھر اپنے ان نمائشی اخراجات پر فخر کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مال اس لیے عطا کیا تھا کہ وہ اس کو جائز اور خیر کی راہوں میں خرچ کرتے ، اپنی جائز ضرورتیں بھی پوری کرتے اور بندگان خدا کے حقوق بھی ادا کرتے مگر انہوں نے اسے نمائشی اور مسرفانہ اخراجات کا ذریعہ بنا لیا اس طرح امتحان کے اس اہم پرچے کو حل کرنے میں وہ بری طرح ناکام رہے۔

مال کو اڑانا خواہ وہ مشرکانہ مراسم ادا کرنے کے لیے ہو خواہ جاہلی رسومات کو پوا کرنے کے لیے دعوتوں اور تقریبات کی شان بڑھانے کے لیے ہو یا آرٹ اور فن کے نام پر نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے کے لیے ، نام و نمود حاصل کرنے کے لیے ہو یا شان و شوکت کے اظہار کے لیے نہ صرف کھلے گناہ کا کام ہے بلکہ اس سے غریبوں اور محتاجوں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کیا فضول خرچی کر کے اس پر فخر کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے اور اس کو دولت اس لیے ملی ہے کہ وہ گل چھرّے اڑائے یا اپنے لیے عیش پرستی کا سامان کرے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ سب سے بڑی حماقت ہے خدا تو انسان کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور جب دیکھ رہا ہے تو باز پرس بھی کرے گا۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی خدا نے اسے دیکھنے کی صلاحیت بخشی تھی تاکہ وہ کائنات کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ ابھری ہوئی حقیقت کا مشاہدہ کرے مگر اس نے اسی کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ سب کچھ دیکھتا رہا مگر اسے ایک قدیر ہستی کا ہاتھ کہیں نظر نہیں آیا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ تعالیٰ نے زبان اور دو ہونٹ دے کر انسان کو گویائی کی صلاحیت بخشی ہے اور یہ صلاحیت اس لیے بخشی ہے تاکہ وہ اپنے رب کے گن گائے اور حق  و انصاف کی باتیں کرے مگر انسان کا حال عجیب ہے۔ اس نعمت کو پا لینے کے باوجود اس میں شکر کا جذبہ نہیں ابھرتا۔ وہ باتیں خوب بناتا ہے مگر اس کی زبان نہیں کھلتی تو اپنے رب کے گن گانے کے لیے اور وہ لفاظی سے خوب کام لیتا ہے مگر حق و انصاف کے لیے اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی اور خیر اور شر کے دونوں راستے اسے  دکھا دیے۔ یہ فطرت کی رہنمائی ہے جو انسان کو عطا کی گئی ہے چنانچہ بھلائی اور برائی میں انسان فطرۃً تمیز کرتا ہے (مزید تشریح سورہ الشمس میں آ رہی ہے۔ انشاء اللہ )

خیر اور شر کی دونوں راہیں اس لیے دکھائیں تاکہ انسان اپنی ذمہ داری پر جس راستہ کو چاہے اختیار کر لے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  متن میں لفظ ’’عَقَبَۃ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ گھاٹی کے ہیں یعنی وہ دشوار گزار راستہ جو پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہے اور جس کو طے کرنے کے لیے آدمی کو چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔ یہاں اس سے مراد نیکی کا راستہ ہے جو دشوار گزار اور مشقت طلب ہے لیکن یہ چڑھائی چڑھ کر آدمی بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔

نیکی کے کاموں میں چونکہ لذت محسوس نہیں ہوتی اور خواہشات کے علی الرغم یہ کام انجام دینا پڑتا ہے اس لیے وہ نفس پر شاق گزرتے ہیں بخلاف اس کے بدی اور گناہ کے کام لذت بخش ہوتے ہیں اور خواہشات بھی ان پر اُبھارتی ہیں۔ اس لیے نفس اس کی طرف آسانی سے چل پڑتا ہے اس حقیقت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

حُحِبَتِ النَّرُ بَالشَّھَوَاتِ وَ حُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمکَارِہِ۔ ’’ جہنم خواہشات نفس سے ڈھانپ دی گئی ہے اور جنت ایسی باتوں سے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘ (بخاری کتاب الرقاق)

اور حضرت عیسیٰ علیہ والسلام نے بھی اس کو تمثیلی انداز میں بیان فرمایا ہے چنانچہ انجیل متی میں ہے :

’’ تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ جو ہلاکت کو پہنچتا ہے اور اس سے دخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں ‘‘۔ (متی ۷ : ۱۳ ،۱۴ )

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ سوال گھاٹی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اچھی طرح سمجھ  لو نیکی کی راہ کٹھن راہ ہے جس سے گزرے بغیر آدمی کامیابی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس راہ میں مال کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں لیکن جن لوگوں نے مال کو عیش پرستی کا ذریعہ بنایا ہو وہ اس راہ میں کیا قدم رکھ سکیں گے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غلام کو آزاد کرنا یا اس کو آزاد کرانے میں مالی تعاون کرنا اس سورہ میں جو ایک مکی سورہ ہے اور ابتدائی دور کی نازل شدہ ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی اس حد تک تاکید کہ نیکی کے دشوار گزار راستہ پہلی سیڑھی ہی یہ عمل قرار پائے نہ صرف اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے بلکہ اس سے غلامی کے مسئلہ میں قرآن کا اصل نقطہ نظر بھی نمایاں  ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ جب غلام کو آزاد کرنا سب سے بڑی نیکی قرار پائی تو کسی آزاد کو غلام بنانے کے لیے اسلام میں کیا  گنجائش ہو سکتی ہے۔ اسی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت باز پرس کرے گا جس نے کسی آزاد کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھائی (رَجُلٌ بَاعَ ھُرّاً ثُمَّ اََلَ تَمَنَہٗ ، بخاری )

(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۶۴ )

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محتاجوں کو کھانا کھلانا ہر حال میں نیکی کا کام ہے لیکن بھوک کی حالت میں اور قحط کے زمانہ میں اس کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر یتیم مدد کا مستحق ہے لیکن اگر وہ قربت دار ہو تو اور زیادہ مدد کا مستحق ہو جاتا ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکین بھی ہر حال میں مدد کا مستحق ہے لیکن جب اسے غربت نے خاک آلود کر دیا ہو یا افلاس اور بد حالی نے اسے زمین پر پڑے رہنے ( اور موجودہ زمانہ میں یوں کہیے کہ فٹ پاتھ پر گزر بسر کرنے) کے لیے مجبور کردا ہو تو وہ اور زیادہ مدد کا مستحق ہو جاتا ہے۔

ان آیتوں میں نیکی کے کاموں کی چند مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ مقصود یہ واضح کرتا ہے کہ مال کا صحیح اور بہترین مصرف یہ ہے اور اس قسم کے کام کر کے ہی آدمی اخلاق و کردار کی بلندی کی طرف جا سکتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو شہرت کی خاطر فضول خرچی کرتے ہیں تو ان کے حصہ میں سائے محرومی کے کچھ نہیں آتا۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان نیک کاموں کو انجام دینے کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی ایمان لا کر زمرہ مؤمنین میں شامل ہو کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہو گی۔ قرآن نے دوسرے مقامات پربی اس کی صراحت کی ہے۔ اور ایمان معتبر نہیں ہے جب تک کہ آدمی قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان نہ لے آئے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں اہل ایمان کی دو اہم صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کرتے ہیں معلوم ہوا کہ ایک مومن کا اپنے طور سے صبر کرنا اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں باتوں کی دوسروں کو تلقین کی جائے یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اہل ایمان کو باہم مربوط اور ایک دوسرے کا ہمدرد اور بہی خواہ ہونا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل ایمان کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد ان پر معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئی ہیں۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ کامیاب و با مراد ہونے والے لوگ ہیں کیونکہ یہ امتحان میں پورے اترے اور انہوں نے وہ صفات اپنے اندر پیدا کر لیں جو کامیابی کی ضمانت تھیں۔ یہ سعید روحیں ہیں جو ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوں گی۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ان کو آگ میں ڈالنے کے بعد اوپر سے دروازے بند کر دیے جائیں گے اور وہ آگ میں اس طرح گھرے رہیں گے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ پا سکیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۹۱)۔ سورہ الشمس

 

(۱۵ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں اَلشّمْسُ (سورج) کی قسم کھائی گعٰ ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الشمس ہے۔

 

زمانہ نزول

 

مکی ہے و مضمون اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپؐ کی مخالفت کا آغاز ہو چکا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

انسان کو سرکشی کے انجام بد سے آگاہ کرنا ہے اور اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ نفس کی پاکیزگی اور اس کی صحیح نشو و نما کامیابی کی ضمانت ہے بخلاف اس کے نفس کرتی ہیں اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہ۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۱۰ میں آفتاب و ماہتاب، شب و روز اور زمین و آسمان کی ان عظیم نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اس کائنات کے خالق کے کمال قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔ مزید برآں نفس انسانی کی شہادت کو جزا و سزا کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۱۱ تا ۱۵  میں تاریخی شہادت پیش کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قوم ثمود کا واقعہ مختصراً بیان کیا گیا ہے تاکہ ان کی سرکشی کا جو انجام ہوا اس سے لوگ عبرت حاصل کریں اور قرآن اور پیغمبر اسلام کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے سے باز رہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسم(۱) ہے سورج اور اس کی روشنی کی (۲)

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چاند کی جب کہ اس کے پیچھے آئے(۳)

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دن کی جب اسے بے نقاب کرے (۴)

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور رات کی جب اس کو ڈھانک لے۔ (۵)

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آسمان کی اور اس ہستی کی جس نے اسے بنایا  (۶)

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور زمین کی اور اس ہستی کی جس نے اسے بچھایا

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نفس کی اور اس ہستی کی جس نے اسے درست بنایا(۷)

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی بدی اور پرہیز گاری اس پر الہام کر دی(۸)

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے اس کا تزکیہ کیا (۹)

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔ (۱۰)

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلایا (۱۱)۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب ان کا سب سے بڑا بد بخت اٹھ کھڑا ہوا (۱۲)

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اللہ کے رسول(۱۳) نے ان لوگوں سے کہا کہ خبر دار اللہ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری (سے تعرض نہ کرنا)(۱۴)

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر انہوں نے اس کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں (۱۵)۔ بالآخر اللہ نے ان کے گناہ کی پاداش میں ان پر عذاب نازل کیا اور ان کو (زمین کے) برابر کر دیا (۱۶)۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کو ان کے انجام سے کوئی اندیشہ نہیں (۱۷)

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسم کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب سورج طلوع ہوتا ہے تو چار دانگ عالم میں روشنی پھیل جاتی ہے اور جوں جوں سورج چڑھنے لگتا ہے اس کی تمازت بڑھنے لگتی ہے۔ یہ کیفیت اس بات کی روشن دلیل ہے کہ سورج کی باگ ڈور اس کے خالق کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہ اس کے مقرر کردہ ، وقت ہی پر طلوع ہوتا اور اوپر چڑھتا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اگر سورج کی ضیاء پاشیاں دن میں ہوتی ہیں تو چاند کی جلوہ آفرینیاں رات میں۔ سورج دن کا بادشاہ ہے تو چاند ، رات کی ملکہ چنانچہ وہ اپنی بزم رات ہی میں سجاتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر چاند کو سورج کے پیچھے آنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ تعبیر اس لحاظ سےبھی صحیح ہے کہ چاند سورج ہی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح چاند کا سورج کے تابع ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سورج کی طرح چاند کی باگ ڈور بھی اس کے خالق ہی کے ہاتھ میں ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورج کی ساری چمک دمک دن کے اوقات میں ہوتی ہے گویا وہ دن ہی ہے جو سورج کو بے نقاب کرتا ہے۔ اور سورج کی مجال نہیں کہ وہ وقت سے پہلے نمودار ہو۔

گو سورج کا طلوع زمین کی گردش کے  نتیجہ میں ہوتا ہے لیکن یہاں صورت واقعہ کا جغرافیائی یا فلکیاتی پہلو زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود اس اہم حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ جو کیفیات دنیا پر طاری ہوتی ہیں وہ ایک باقاعدہ نظام کے تحت ظہور میں آتی ہیں۔ قدرت کے اس نظام میں ہر چیز حتی کہ سورج بھی جس سے یہ دنیا چمک اٹھتی ہے ایسی جکڑی ہوئی ہے کہ کسی کے لیے سرمو انحراف کی گنجائش نہیں ورنہ عالم کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمین کے جس حصہ پر رات طاری ہوتی ہے وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا رات نے آ کر سورج کو ڈھانک لیا ہے۔ یہ انداز بیان مشاہدہ کے اعتبار سے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں کہنے کا منشاء یہ ہے کہ دنیا کے جس حصہ پر رات طاری ہوتی ہے وہاں سورج نمودار نہیں ہو سکتا۔ بہ الفاظ دیگر وہ رات کے وقت اپنا چہرہ چھپانے کے لیے مجبور ہے اور اس کی یہ مجبوری اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی سے سر مو تجاوز نہیں کر سکتا جو اس کے خالق نے اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ اس سے ضمناً نظریہ الحاد کی بھی تردید ہوتی ہے اور مشرکانہ عقیدہ کی بھی کیونکہ اگر سورج اتفاقی حادثہ کے طور پر وجود میں آ گیا ہوتا تو وہ ایک محکم نظام کا پابند نہیں ہو سکتا تھا اور اگر وہ دیوتا ہوتا تو قانون قدرت میں جکڑ کر نہیں رہتا، اور رات کے بس کی بات نہیں تھی کہ اس کے چہرہ کو چھپا لیتی بلکہ وہ اپنے زور پر رات کو بھی نمودار ہوتا۔ مگر اس پورے نظام شمسی میں جو جکڑ بندیاں پائی جاتی ہیں وہ سوریہ دیوتا کے مشرکانہ تصور کی سراسر نفی کرتی ہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔آسمان کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عظیم الشان بناوٹ اور اس کی بلندی انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس کی چوٹی بھی اس کے خالق ہی کے ہاتھ میں ہے۔

’’ اس ہستی کی قسم جس نے اسے بنایا‘‘ سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ آسمان کا خالق ایک قادر مطلق ہستی ہ اور اس کا وجود ایک ایسی حقیقت ہے جو شبہہ سے بالاتر ہے۔ قسم جہاں شہادت کے مفہوم میں آتی ہے وہاں وہ کسی بات کے محقق ، اور یقینی ہونے کے پہلو کو واضح کرنے کے لیے بھی آتی ہے چنانچہ یہاں اور بعد کی دو آیتوں میں ’’ اس ہستی کی قسم‘‘ جو کھائی گئی ہے وہ اسی مفہوم میں ہے یعنی یہ قسم بطور تاکید کے ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔نفس کو درست بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو سیدھی فطرت پر پیدا کیا اور اس میں اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت فرمائیں۔ اسے پیدائشی گنہگار نہیں بنایا اور نہ اسے جبلی طور پر مفسد اور شر پسند بنایا کہ خدا سے سر کشی کرنے اور شیطانی خصلتیں اختیار کرنے پر مجبور ہو اس نے اسے صحیح الفطرت بنایا ہے اور اس کے باطن میں فساد کا کوئی عنصر نہیں رکھا کہ وہ راہ راست کو اختیار کرنا چاہے اور نہ کر سکے اور گمراہی کو اختیار کرنے پر مجبور ہو۔ اس حقیقت کو قرآن نے دوسری جگہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔

فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا (سورہ روم۔۳) ’’اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا :’’

اور اس کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں اس طرح فرمائی ہے :

مامن مولود الا یلد علی الفطرۃ۔ فابَوَاہ یہوّد انہ و ینصّر انہ و یشرّ کانِہٖ (مسلم کتاب القدر) ’’ کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہ ہوتا ہو۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مشرک بنا دیتے ہیں ‘‘۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی وہ بدی کا شعور عطاء کیا ہے جس کی بنا پر وہ خیر و شر میں امتیاز کرتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ کام اچھے ہیں اور وہ کام برے۔ چنانچہ انسان جھوٹ ، ظلم و زیادتی اور بے حیائی کو فطرۃً برا سمجھتا ہے اور اس قسم کے اخلاق و اعمال سے نفرت کرتا ہے اور سچائی انصاف، انسانی ہمدردی اور شرم و حیا کی پاسداری کو اچھا سمجھتا ہے اور اس قسم کے اخلاق و اعمال کو پسند کرتا ہے۔ یہ شعور در حقیقت فطرت کی رہنمائی ہے اور یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ ہی نے ہر نفس کے اندر ودیعت فرمائی ہے جسے یہاں الہام سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ شعور انسان کے اپنے نفس کی شہادت ہے کہ وہ اخلاقی وجود رکھنے والی ذمہ دار مخلوق ہے اور جب اس کی حیثیت یہ ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے سلسلہ میں اپنے رب کے حضور جواب دہ قرار پائے اور اس کے عمل کے نتائج اس کے سامنے آئیں۔ نفس کی اس شہادت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ انسان کی فطرت غلط، اس کا شعور باطل اور اس کا وجود عبث ہے لیکن یہ بات کوئی شخص بھی کہنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر کروڑ ہا انسان پھر بھی اپنے نفس کی شہادت کے خلاف زندگی گزارتے ہیں اور اس خام خیالی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ من مانی کرنے کے لیے آزاد ہیں اور اس کے نتائج کا کبھی انہیں سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔

واضح رہے کہ بد کرداری اور پرہیز گاری کا یہ الہام ایک درجہ میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی ہے رہی مکمل رہنمائی تو اس کا سامان اللہ تعالیٰ نے آسمانی ہدایت کے ذریعہ کیا ہے۔ یہ آسمانی ہدایت۔ جو اب قرآن کی شکل میں موجود ہے۔ اس فطری شعور کو جو انسان کے نفس میں ودیعت ہوا ہے پختہ کرتی اور جلا بخشتی ہے۔ اور یہاں سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں تک آسمانی ہدایت نہ پہنچی ہو وہ بھی اپنے فطری شعور کی حد تک اپنے اچھے اور برے اعمال کے ضرور ذمہ دار ہیں اور اس سلسلہ میں انہیں بھی خدا کے حضور جواب دہی کرنا ہو گی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔متن میں لفظ زَکّٰہَا استعمال ہوا ہے جو تزکیہ سے ہے اور جس کے معنی پاک کرنے اور نشو نما دینے کے ہیں۔ اوپر کی آیت میں نفس پر فجور اور تقویٰ کے الہام کیے جانے کا جو ذکر ہوا ہے اس سے تزکیہ نفس کا مفہوم بھی واضح ہوتا ہے یعنی نفس کو فجور (برائیوں) سے پاک کرنا اور تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیز گاری کی باتوں) سے اس کو نشو  و نما دینا۔ بالفاظ دیگر اس کی اس طرح تربیت یا پرورش کرنا کہ اس میں خیر ابھرے اور نیکیاں پروان چڑھیں۔

نفس کا حقیقی ارتقاء اور روح کی بالیدگی اسی وصف کے پیدا کرنے میں ہے۔ اس حقیقت کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک پودا اسی صورت میں نشو نما پاتا ہے جب کہ اسے سازگار ماحول مل جائے اور اس کی آبپاری کی جاتی رہے ورنہ تیز ہوا کا ایک جھونکا ہی اس کو خاک میں ملا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

اس سورہ میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس سے تزکیہ نفس کا جو اہم ترین پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنے آپ کو کفر اور سرکشی سے پاک کر لے اور ہدایت خداوندی کو قبول کر کے اپنے کو اطاعت کی راہ پر ڈال دے۔ یہ اطاعت کی راہ شریعت کی راہ ہے جس پر چل کر آدمی نیک کردار اور صالح بن جاتا ہے۔

یہ ہے تزکیہ نفس کا صف، سیدھا سادہ اور قرآنی مفہوم۔ اس میں نہ کوئی اشکال ہے اور نہ ابہام اور اس کے لیے نہ کسی فلسفیانہ بحث کی ضرورت ہے اور نہ غیر ضروری باتوں میں الجھنے کی۔ قرآن نے تزکیہ نفس کے لیے جو بہترین اور نہایت مؤثر نسخہ تجویز کیا ہے وہ ہے خدا کی اعلیٰ و اکمل شریعت جس پر نہ ’’طریقت ‘‘ کے اضافہ کی ضرورت ہے اور نہ ریاضتوں کی۔ نہ مراقبوں کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے اور نہ سلوک کی منزلوں سے گزرنے کی بلکہ ایمان و یقین اور خلوص و لِلہیّت کے ساتھ شریعت پرکار بند ہو جاتا کافی ہے۔

تزکیہ نفس کے اس صحیح طریقہ کی طرف رہنمائی کر کے قرآن نے انسان کو ان تمام غیر فطری اور بوجھل طور طریقوں سے نجات دلائی ہے جو مذاہب کے پرستاروں نے روح اور آتما کو پاک کرنے (Purification) کے لیے ایجاد کر کے رکھے ہیں مثلاً ، یوگا، تپسیا، نفس کشی، رہبانیت وغیرہ۔

اور اس سلسلہ کی آخری بات یہ ہے کہ تزکیہ نفس کا کام اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کی تعلیم دی ہے کہ :

اللّھُمَّ  آتِ نَفْسِیْ تَقْوا ھَا ، وَزَکّھَا اءَنْتَ خَیْرُمَنْ زَکّٰھَا۔ اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْ لَآ ھَا۔ (مسلم ، کتاب الذکر)

’’خدایا میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطاء فرما اور اس کا تزکیہ کر کہ تو بہترین تزکیہ کرنے والا ہے اور اس کا سرپرست اور مدد گار ہے۔ ‘‘

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی بجائے اس کے کہ تقویٰ اختیار کر کے نفس کا تزکیہ کرتا اس نے فجور(بدی ) کی راہ اختیار کر کے نفس کو برائیوں اور گناہوں سے آلودہ کر دیا۔ اس طرح نیکی کے رجحانات کو دبانے اور بدی کے رجحانات کو اپنے اوپر غالب کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفس کا یہ غنچہ جو کھل کر پھول بن سکتا تھا اور جس کی مہک اس کے پورے وجود کو مہکا سکتی تھی دب کر اندر ہی اندر مُرجھا گیا اور بقول کَسے۔۔ ؏

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مُرجھا گئے

آیت ۱ تا ۷ میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں اور اس کے بعد جو دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے سورج سے لے کر نفس انسانی تک سب کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ان سب چیزوں کا وجود اور ان سے پیدا ہونے والی کیفیات زبان حال سے اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ ان کا خالق زبردست قدرت کا مالک اور بڑا حکیم و دانا ہے اور جب اس کی قدرت کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں اور اس کی حکمت نے انسان کو ایک باشعور اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے والی مخلوق بنا کر اٹھایا ہے تو اس کے لیے صحیح رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے اور اس احساس کے ساتھ ذمہ دارانہ زندگی گزارے کہ اسے اپنے رب کے حضور جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے اور پھر اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پانا ہے۔ قرآن اسی حقیقت پر انسان کی نگاہوں کو مرکوز کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارے اور جب دنیا کے اس امتحان گاہ سے لوٹے تو کامیابی کی منزل اس سامنے ہو۔

اس حقیقت کی تائید اگرچہ کہ زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز سے ہو رہی ہے اور خود نفس انسانی کی بھی شہادت یہی ہے تا ہم انسان مشکل ہی سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتا ہ۔ وہ خدائی ہدایت سے بے نیاز رہنا چاہتا ہے اس لیے وہ نافرمانی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کے اندر غیر ذمہ دارانہ پن پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ نیکی و بدی میں کوئی تمیز نہیں کر پاتا۔

یہ نہایت ہی اہم اور وسیع مضمون ہے جو اوپر کی آیات کے اندر سمو دیا گیا ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جو دعویٰ پیش کیا گیا اس کی تائید میں یہ تاریخی شہادت پیش کی جا رہی ہے کہ سرکشی کا کیسا عبرتناک انجام دنیا کے سامنے آتا رہا ہے۔

قوم ثمود کا واقعہ قرآن میں متعدد مقامات پر تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس سورہ میں اس کا ذکر مختصراً کیا گیا ہے۔ جھٹلانے سے مراد پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانا ہے جو ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ثمود کے مسکن وغیرہ کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو : سورہ فجر نوٹ ۱۳۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بد بخت قوم ثمود کا سردار تھا اور اس کا نام قدار تھا۔ چنانچہ عرب جاہلیت کے اشعار میں اس کا ذکر ملتا ہے۔

اس کو سب سے بڑا بد بخت اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ نہایت سرکش تھا اور اس نے اپنی قوم کو گمراہ کر کے سرکشی کی بہت بڑی مثال قائم کی اور نتیجۃً خود بھی تباہ ہوا اور قوم کو بھی تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرد حضرت صالح علیہ السلام ہیں جو اس قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوم ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر واقعی وہ خدا کے رسول ہیں تو کوئی معجزہ (نشانی) پیش کریں۔ ان کے اس مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے اونٹنی کو معجزہ کے طور پر پیش کر دیا۔ چونکہ یہ اونٹنی معجزہ کے طور پر پیش کی گئی تھی اس لیے اسے ’’ناقۃ اللہ‘‘ اللہ کی اونٹنی کہا گیا۔

اس معجزہ نے جہاں ان کا مطالبہ پورا کر دیا وہاں ان کو آزمائش میں بھی ڈال دیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت صالح نے کہا ایک دن اس کے پانی پینے کے  لیے مخصوص ہو گا اور دوسرا دن تمہارے لیے اور  تمہارے جانوروں کے پانی پینے کے لیے ہو گا اور متنبہ کیا کہ اونٹنی کو گزند نہ پہنچانا ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں آ لے گا۔ لیکن قوم نے اپنے سرکش سردار کو اس بات پر اکسایا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ تمام کر دے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اونٹ کو جب مارنا ہوتا تو اس کی کوچیں کاٹ ڈالی جاتی تھیں جس کے بعد وہ مر جاتا تھا۔ یہی طریقہ ثمود کے لوگوں نے اللہ کی اونٹنی کو مارنے کے لیے اختیار کیا اور اس غرض کے لیے سب نے مل کر اپنے بد ترین سردار کو آگے کیا تھا اس لیے پوری قوم اس کی مجرم قرار پائی۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کو دنیا کے حکمرانوں پر قیاس نہ کرو جو کسی مجرم گروہ کو سزا دیتے وقت اندیشہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور اس سے کہیں ان کا اقتدار تو خطرہ میں نہیں پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اقتدار سب سے بالا تر ہے اور وہ سب پر غالب ہے اس لیے جب وہ کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو اسے کسی قسم کا اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔

٭٭٭

ای بک: اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید