FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

عام آدمی کی تذکیر عام لوگوں کے لئے

 

حکمت و معرفت

 

 

ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 ورڈ فائل

 ای پب فائل

 کنڈل فائل

 

یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَن یَّشَاءُ ۚ وَمَن یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا ط

وَ ما یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ

وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور  جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کر دیا گیا اور  اس بات کو صاحبانِ عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے

(البقرہ ۲۶۹)

 

 

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

 

 

 

 

انتساب

 

میرے مُرشد و مرّبی

مولانا ریاض احمد خاں صاحب

کے نام

جو انگلی پکڑ کر مجھے تحریک میں لے آئے

 

 

 

 

 

سلسلۂ شب و روز

 

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ صریر خامہ نوائے سروش بن جائے، ادیب کا کف دست کف گل فروش ہو جائے، شاعری ساحری میں تبدیل ہو جائے، جذبات کو زبان مل جائے، خیالات کو ہم نوا مل جائے، اور  نثری عبارتیں بھی انا الحق کی صدائیں بلند کرنے لگیں لیکن ایسا ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے کم از کم میرے علم کے مطابق ڈاکٹر سلیم خان کے یہاں تو ہوتا ہی ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران بے شمار مواقع ایسے آئے جب عربی ادیب مصطفیٰ صادق رافعی کا فلسفیانہ اسلوب یاد آیا اور  بارہا ایسا بھی ہوا کہ سیدقطب شہیدؒ کا ایمان پرور لہجہ دل کے بند دروازوں پردستک دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

ڈاکٹرسلیم خاں حکیم الامت حضرت اقبال کے فلسفہ ’’جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘‘ پر کامل یقین رکھتے ہیں، وہ ماضی کی پُر شکوہ اور  بلند و بالا عمارتوں کے ملبے پر آنسو بہانے کے بجائے امید و حوصلوں کا نیا تاج محل تعمیر کرنے کا حوصلہ بخشتے ہیں، وہ عظمت رفتہ کے مرثیہ خواں نہیں بلکہ اپنی سرشاری میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے والے حدی خواں ہیں۔ ان کی نگاہیں وہاں سے آگے بھی کام کرتی ہیں جہاں دوسروں کی آنکھیں تھک کر بیٹھ جاتی ہیں، ان کی تحریروں میں یہی پیغام پوشیدہ ہے کہ اگر رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھئے، بے خطر آتش نمرود میں کود پڑئیے، اور  عقل کو محو تماشا رہنے دیجئے، جہل کی تاریکی سے نکلئے اور  تنگ نظری کی چٹانوں کو پھلانگتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جائیے اس لئے کہ روایتوں کو جب کوئی طبقہ پاؤں کی زنجیر بنا لیتا ہے تو پھر جمود  و تعطل کا آسیب اسے گھیر لیتا ہے، کسی بھی عہد کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے جو تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکا وہ باقی نہیں رہا۔

عالم اسلام اور  امت مسلمہ کی زبوں حالی پر سلیم صاحب کا کرب اور  اضطراب اس طرح امڈ امڈ کر سامنے آیا ہے کہ ان کی تحریریں خون جگر سے لکھی معلوم ہوتی ہیں، ایک زخم ہے جو ہر دم تازہ ہے اور  ناسور بن کر رستا رہتا ہے۔ طنز و مزاح لکھنے میں بھی سلیم صاحب کو ایک منفرد لب و لہجہ اور  جاذب انداز میں لکھنے میں ایسی مہارت حاصل ہے جو صرف ان کے لئے خاص کی جا سکتی ہے۔ اس نوعیت کے مضامین سلیم صاحب کی تحریری و قلمی بلندیوں اور   عظمتوں کے گواہ ہیں۔ ان کے یہاں ہنسی کے فواروں اور  قہقہوں کی جھنکار کے مقابلہ میں معصوم تبسم اور  شرارت آمیزمسکراہٹ کی روشنی زیادہ ہے۔ جہاں تک میں نے محسوس کیا وہ طنزیہ ادب کے سہارے Cryptogrophyکی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آئے۔ الفاظ کا انتخاب، جملوں کا دروبست، عبارت و اشارت ہر  چیز ڈاکٹرسلیم خان صاحب کے بلند پایہ ادیب و مفکر ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ موضوع کی مناسبت سے اشعار کا انتخاب اتنا برمحل اور  برجستہ ہے کہ عبد الماجد دریابادیؒ کی زبان میں کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے نثر میں اشعار اس طرح پیوست کر دئیے ہیں جیسے گوشت میں ناخن۔

مولانا اَحسن ایّوبی

(روزنامہ اودھ نامہ لکھنو)

کا سلسلۂ روز و شب پر تبصرہ

(اِقتباس)

٭٭٭

 

 

سلامِ محبت

 

فرمانِ نبیﷺ ’’تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ۔ اور  اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم نے اسے اپنا لیا تو آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ اور  رواج دو‘‘۔

اس حدیثِ مبارکہ میں جہاں جنت کے داخلے کے لیے ایمان ضروری ہے۔ وہیں ایمان کیلئے باہمی محبت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص نعمتِ ایمانی کی بدولت جنت میں جانا چاہتا ہے وہ محبت کی افزائش کیسے کرے؟ اس گتھی کا حل بھی مذکورہ حدیث میں موجود ہے فرمایا کہ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ اور  رواج دو۔ گویا ترتیب یہ بنی کہ جنت میں داخلہ کی اولین شرط تو ایمان ہے۔ ایمان کا بنیادی تقاضہ باہمی محبت ہے اور  محبت بڑھانے کا بہترین وسیلہ سلام کو رواج دینا ہے۔

بظاہر یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس میں زائد ہے روپیہ خرچ ہوتا ہے نہ وقت لیکن کسی اجنبی کی خدمت میں اخلاص کے ساتھ بے لوث سلام کا نذرانہ پیش کر دینا بہت آسان بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں بڑی بخیلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مراتب کا بیجا خیال کر کے پہل نہیں کی جاتی حالانکہ اس بابت اصول یہ نہیں ہے کہ ادنیٰ اعلیٰ کو یا چھوٹا بڑے کو سلام کرے بلکہ آنے والا (جو بھی ہو) موجود لوگوں پر سلامتی بھیجے۔ اس لئے کہ جذبۂ محبت اعلیٰ و ادنیٰ یا چھوٹے اور  بڑے سے مشروط نہیں ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اس کے بغیر نہ ایمان معتبر ہو گا اور  نہ جنت میں داخلے کا پروانہ ملے گا۔

علم و حکمت کے ان لعل و گہر میں عالم انسانیت کو محبت و اخوت کے نسخۂ کیمیا سے سرفراز کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کیلئے اس حدیث میں جنت کی بشارت دی گئی ہے اور  اس کے حصول کے لوازمات سے آگاہ کیا گیا۔ دنیوی اعتبار سے بھی اگر کوئی کافر یا ملحد اگر اس قاعدۂ کلیہ پر عمل کرے تو وہ اس کا فائدہ محسوس کرے گا۔ محبت میں اضافہ کی جانچ پڑتال آسان کام نہیں ہے۔ اس میں پہلی مشکل تو یہ ہے کہ محبت کوئی مادی شئے نہیں ہے کہ جسے ناپا یا تولا جا سکے۔ کسی تجربہ گاہ میں اس کا نمونہ بھیج کر جانچ کروانا بھی ممکن نہیں ہے۔ محبت کے نہایت لطیف جذبہ کو تو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس احساس کی تحقیق و تفتیش کے لئے لازم ہے کہ کوئی جنابِ محقق کو سلام کرے اور  اس کے بعد وہ حضرت اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھیں کہ ان کے قلب میں سلام کرنے والے کے تئیں جذبہ محبت پروان چڑھا یا نہیں۔ لیکن کسی اور  کا سلام کرنا بھلا انسان کے بس میں کب ہے؟ اب اگر کوئی سلام ہی نہ کرے تو کیا کیا جائے؟ اس مسئلہ کا سہل ترین حل یہ ہے کہ انسان خود پہل کر کے دوسروں کی خدمت میں سلام عرض کرے اور  پھر یہ جاننے کی کوشش کرے کہ آیا اس عمل سے مخاطب کے دل میں اس کے تئیں محبت پیدا ہوئی یا نہیں؟

انسان کیلئے کسی اور  دل میں براہ راست جھانک کر دیکھنا تو نا ممکن ہے مگر اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ اس لئے کہ اگر سلام کے رد عمل میں مخاطب کے اندر محبت پیدا ہو گی تو وہ نہ صرف جواب دے گا بلکہ اگلی مرتبہ آگے بڑھ کر سلام بھی کرے گا۔ اس طرح کسی کے سلام کرنے کا مسئلہ حل ہو گیا اب انسان جواب دینے کہ بعد اپنے دل کی کیفیت کا جائزہ لے کر دیکھے کہ اس کے قلب میں مخاطب کیلئے محبت پیدا ہوئی یا نہیں؟ اخلاص کے ساتھ سلام کا لین دین جذبۂ محبت کو یقیناً پروان چڑھائے گا۔ ہر فردِ بشر از خود تجربہ کر کے اس آفاقی حقیقت کی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

منصبِ بلند

 

انتقال پر ملال پر عام طور سے یہ تعزیتی مصرع دوہرایا جاتا ہے ’’اک چراغ اور  بجھا اور  بڑھی تاریکی‘‘ لیکن جب کوئی خوشی خوشی جامِ شہادت نوش فرمائے تو ایسے موقع پر یہ مصرع ترمیم کا محتاج ہو جاتا ہے اس لئے کہ شہادت بھی تو عام وفات سے بدرجہا فائق و ممتاز ہے۔ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے ’’اور  جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کو یہ پسند نہیں ہے کہ اس کی راہ میں اپنی جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کرنے والی عظیم ہستیوں کو مردہ کہا جائے۔ حق تو یہ ہے کہ وہی زندہ کہلانے کے حقدار ہیں۔ ایسے لوگوں کی شان میں تو یہ کہا جانا چاہئے کہ ’’اک چراغ اور  جلا، نور کی برسات ہوئی‘‘۔

سورۂ واقعہ میں قیامت کی منظر نگاری کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ’’جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہو گا‘‘۔ اس دارِ فانی میں فساد کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے باغی اور  طاغی بندے اس دن کے منکر ہو گئے ہیں۔ ان لوگوں نے اس دنیا کے جاہ و اقتدار کو دائمی سمجھ لیا ہے۔ جس کسی سے ان کو خطرہ نظر آتا ہے وہ اسے اپنی راہ سے ہٹا دیتے ہیں اور  بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ان کو یہ سب پیچھے چھوڑ کر وہیں حاضر ہونا ہے جہاں انہوں نے اپنے خودساختہ دشمنوں کو بھیجا ہے۔ اقتدار کے بل بوتے پر دنیا کی عدالت میں اپنی مرضی کا فیصلہ نافذ کیا جا سکتا ہے لیکن دربارِ الٰہی میں کسی کی ایک نہ چلے گی۔ ارشاد ہو گا ’’بادشاہ تو میں ہوں دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟‘‘اور ظالم کیفر کردار کو پہنچا دئیے جائیں گے۔

اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ ایک اور  منظر پیش فرماتا ہے۔ ’’تم لوگ اُس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے، دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا اور  بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بد نصیبی کا) کا کیا ٹھکانا۔ آخرت کے نتائج چونکہ دنیوی عقائد و اعمال پر منحصر ہیں اس لئے دنیا ہی میں مذکورہ تقسیم ہو جاتی ہے۔ شاہراہ زندگی دو طرفہ سڑک ہے۔ اس کی دائیں سمت کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے والی ہے اور  اس کے مخالف دوسری جانب تباہی و بربادی کی گہری کھائی ہے۔ درمیان میں انسان بغرض آزمائش بھیجا گیا ہے۔ اس کو سمت سفر کے اختیار کی آزادی سے نوازہ گیا ہے۔ نوع انسانی اسی اختیار و آزادی کے سبب اپنے انجام کیلئے خود ذمہ دار ہے۔

قیامت کے اس منظر میں ایک تیسرے گروہ کا بھی ذکر ہے ’’اور  آگے والے تو پھر آگے وا لے ہی ہیں، وہی تو مقرب لوگ ہیں‘‘۔ انسانوں کو چونکہ سمت سفر کے ساتھ ساتھ رفتار کار کے طے کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے اس لئے دائیں بازو والوں میں کچھ اپنی تیز گامی کے سبب اعلیٰ و ارفع درجات پر فائز ہوں گے۔ وہ انبیاء، صدیقین، صالحین اور  شہداء کا طبقہ ہو گا۔ ان مقربین کے بارے میں بشارتِ ربانی ہے وہ نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے، اگلوں میں سے بہت ہوں گے، اور  پچھلوں میں سے کم، مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے‘‘۔ جنت کے اس مقام بلند کی آرزو ہر مومن کے دل میں ہے لیکن ہر کس و ناکس کا یہ مقدر نہیں۔

مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کی اس آرزو کو رب کائنات نے شرف قبولیت سے نوازہ۔ اسی لئے انہوں نے طاغوت وقت کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے معافی کی درخواست یہ کہہ کر نہیں دی کہ معاف کرنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے اور موت و حیات اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے نیز اس دعا کے ساتھ رخصت ہوئے کہ رب کائنات میری شہادت کو قبول فرما لے تو اس سے بڑی خوشی کیا ہو گی؟ مولانا مطیع الرحمٰن نظامی ان سعید روحوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ جو اگلوں میں زیادہ اور  پچھلوں میں کم ہوں گے۔ بقول محمد علی خاں رشکی ؎

یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

حرم کے درد کا درماں

 

میں نے خانۂ کعبہ کے صحن (مطاف) میں دیکھا کہ ایک شخص حرم پاک کی جانب پیر کر کے سویا ہوا ہے۔ اس کی یہ حرکت طبیعت پر گراں گذری۔ ہم لوگ کعبۃ اللہ سے ہزاروں میل دور ہندوستان میں بھی اسے بے ادبی شمار کرتے ہیں جبکہ یہ بد بخت بالکل سامنے لیٹا پڑا تھا۔ اس کے جسم پر احرام اور  چہرے پر تھکن کے اثرات نمایاں تھے۔ کسی دور دراز مقام سے آ کر عمرہ کے بعد کمر سیدھی کرنے کی خاطر پسر گیا تھا۔ میں بھی اس کی جگہ ہوتا تو یہی کرتا لیکن نہیں میں ایسی بے ادبی کیسے کر سکتا تھا؟ کیا یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ میرا سرتو حرم شریف کی جانب اور  پیر مخالف سمت میں ہوتا۔ مجھے اس سے ہمدردی ہونے لگی تھی۔ کاش کے وہ کعبۃ اللہ کی جانب سر کو رکھتا اور  میرے دل میں اس کے تئیں کدورت نہ پیدا ہوتی۔

دعا درود سے فارغ ہو کر باہر آتے ہوئے مجھے اچانک نبی کریمﷺ کا فرمان یاد آ گیا ’’تین قسم کے لوگ اللہ کے مہمان ہیں۔ جہاد کرنے والا، حج کا فریضہ ادا کرنے والا اور عمرہ کرنے والا‘‘۔ اس شخص کی مشکل میری سمجھ میں آ گئی۔ اس کے ایک طرف اللہ کا گھر اور دوسری جانب اس گھر کے مہمان تھے۔ اس نازک صورتحال میں اسے کسی ایک کو فوقیت دینی تھی سو اس نے گھر پر مہمانوں کے احترام کو مقدم رکھا۔ اگر وہ میری طرح سوتا تو اس کا سر ضرور بیت اللہ کی جانب ہوتا لیکن پیر؟ یقیناً دیگر نمازیوں کے چہروں کی طرف۰۰۰۔ پیروں کا پشت کی جانب ہونا بہتر ہے یا چہرے کی طرف؟ کیا اسے اپنی ترجیح کو بدل دینا چاہئے تھا؟ ان دونوں متبادل میں افضل کیا تھا؟ اس سوالوں میں پیچاں و غلطاں میں حرم سے باہر آ گیا۔

حسب عادت حرم کے سامنے بوفیہ سے شاورما خرید کر کھاتے ہوئے خیال آیا کیوں نہ بچوں سے فون پر بات کر لی جائے؟ فون جیب سے نکالا تو دیکھا بہت سارے واٹس ایپ پیغامات میرے منتظر ہیں۔ میں ان کا اصرار ٹال نہ سکا اور  فون کرنے کا ارادہ مؤخر کر کے انہیں پڑھنے لگا۔ اتفاق سے کسی صاحب نے ایک گروپ میں حدیث روانہ کر دی تھی۔ انہیں علم نہیں تھا کہ میں عمرہ کر رہا ہوں۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ مجھے کون سی خلش پریشان کئے ہوئے ہے اس کے باوجود مذکورہ حدیث میں میرا دل دھڑک رہا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے نبی اکرمﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور  یہ فرماتے سنا: ’’(اے کعبہ! ) تو کتنا عمدہ ہے اور  تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور  تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے!  مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘

اس حدیث نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس شخص سے میری ناراضگی بیجا تھی۔ حدیث کے آخری حصے کی تلقین نے میرے قلب و ذہن میں ہلچل مچا دی۔ ’’ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان رکھنا چاہئے۔‘‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ حضور اکرمﷺ بذات خود میری تنبیہ فرما رہے ہیں کہ تم اپنے مومن بھائی کے بارے میں بدگمانی کا شکار کیوں ہو؟ تم اس کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ لوگ تمہارے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔ اگر تم اپنے لئے یہ پسند کرتے ہو تو اپنے مومن بھائی کیلئے یہی کیوں نہیں پسند کرتے؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ: ’’بندہ ایمان دار نہیں ہو گا یہاں تک کہ پسند کرے اپنے بھائی کے لئے وہی چیز جو پسند کرتا ہے اپنی ذات کے لئے۔‘‘(حدیث نبویﷺ)۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا؎

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لا ہوتی

حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہولی کے رنگ

 

ہولی کے موقع پر اگر کوئی وارث شاہ کا صوفیانہ کلام ’’ہوری کھیلوں گی کہہ بسم اللہ‘‘ سنانے بیٹھ جائے تو لوگ اسے قومی یکجہتی کی مثال اور  گنگا جمنی تہذیب کا اہم ترین تقاضہ قرار دیں گے اس لیے کہ اس میں ایک مسلمان صوفی وارث شاہ بسم اللہ کہہ کر ہولی کھیلنے کی ترغیب دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس طرح کا مطلب وہی لوگ نکال سکتے ہیں جنہوں نے اس پوری نظم کو نہیں پڑھا اور  پڑھا بھی ہے تو سمجھ نہیں سکے۔ نیز ایسے کم فہم حضرات جو ہولی کی تمثیل میں پوشیدہ فصاحت و بلاغت سے ناواقف ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ہولی تو خون سے بھی کھیلی جاتی ہے بقول مجاز لکھنوی ؎

خون کی ہولی کی جنگل سے ہوائیں آئیں گی

خوں ہی خوں ہو گا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی

وارث شاہ المعروف بلھے  شاہ ہولی سے کیا مراد لیتے ہیں یہ جاننے کیلئے ان کی پنجابی نظم کو سمجھنا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں ؎

نام نبی کی رتن چڑھی بوند پڑی اللہ اللہ

رنگ رنگیلی اوہی کھلاوے جو سکھی ہووے فنا فی اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ بسم اللہ

بلھے  شاہ کی ہولی نامِ نبیﷺ کے اوصاف( جواہرات) سے متصف ہونے کے بعد کھیلی جاتی ہے اور  اس کی بوند بوند میں اللہ کا رنگ ہوتا۔ جو شخص فنا فی اللہ ہو جائے یعنی اپنا سب کچھ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر داروں پر لگا دے وہی اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ سکتا ہے۔ اگر یہ مفہوم کسی کو بہت دور کی کوڑی لگتا ہے تو وہ نظم کا آخری بند ملاحظہ فرمائے جس میں خود بابا بلھے شاہ نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے ؎

صبعۃ اللہ کی بھر پچکاری اللہ الصمد پیا مُنہ پر ماری

نُور نبی دا حق سے جاری نُور محمد صلی اللہ

بُلھّا شاہ دی دھُوم مچی ہے لا الہ الا اللہ

فرماتے ہیں اس پچکاری میں صبغۃ اللہ یعنی اللہ کا رنگ بھرا ہوا ہے۔ یہ اللہ الصمد یعنی خدائے بے نیاز کی عطا ہے جو نبی برحق محمدﷺ کا نور جاری کرتا ہے۔ اس کے بعد بھی شک شبہ کی کوئی گنجائش ہو تو ہولی سے متعلق ہی یہ مصرعہ دیکھیں جو ذکر و شکر کی قرآنی اصطلاحات سے لبریز ہے۔ ’’فاذ کرونی کی ہوری بناؤں وشکرولی، پیا کو رجھاؤں‘‘۔ (فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ)۔ سچ تو یہ ہے اس نظم کے اندر جس قدر قرآنی آیات کے حوالے دئیے گئے ہیں کسی ایک مقام پر کم ہی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک اور  بند دیکھیں ؎

’الست بربکم‘ پتیم بولے سب سکھیاں نے گھونگھٹ کھولے

’قالُو بلیٰ‘ ہی یُوں کر بولے ’لَا الٰہ اِلَّا اللہ‘

ہوری کھیلوں گی کہہ بسم اللہ

ان شواہد سے ظاہر ہے کہ یہ نظم ہولی کا تہوار منانے کی ترغیب نہیں بلکہ سورہ بقرہ کی آیت صِبْغَةَ اللّہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَةً یعنی ’’اللہ کا رنگ، اللہ کے رنگ سے اور  کس کا رنگ بہتر ہے‘‘ کی منظوم تفسیر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ابدی محبت کا لازوال رشتہ

 

ماہِ رمضان کے تین عشروں کی مانند کچھ لوگوں کی زندگی بھی رحمت، مغفرت اور جہنم سے خلاصی میں تقسیم ہوتی ہے سراپا رحمت بھائی امین الہدیٰ جب تک جئے خوشیاں بکھیرتے رہے اور  پھر ایسی آزمائشوں سے گذرے کے ساری خطائیں معاف ہو جائیں بالآخر جہنم سے خلاصی پا کر اپنے مالک حقیقی کے پاس لوٹ گئے۔ فروری میں ریاض آمد کے موقع پر ہر دلعزیز امین الہدیٰ صاحب کنگ ڈم اسپتال میں زیر علاج تھے۔ انتہائی نگہداشت کے کمرے میں سیماب صفت امین کو نہایت نحیف و لاغر دیکھ کر دل غمزدہ ہو گیا تو خواجہ مسیح الدین صاحب نے بتایا ان کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔ وہ تقریباً ۹ دنوں تک غنودگی کے عالم میں بے حس حرکت صاحب فراش تھے۔ اس دوران امید کی کرنیں بس نبض اور  سانسیں تھیں۔ اب وہ پہچاننے لگے ہیں۔ باغ و بہار شخصیت کے مالک امین بھائی ہماری باتوں کے جواب میں دلکش مسکراہٹ بکھیر رہے ہیں۔ زندگی کی رمق لوٹ آئی تھی اور سبھی پر امید ہو گئے تھے۔ آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں منتقل ہونے کے بعد وہ ماضی کی حسین یادیں تازہ کرنے لگے تھے۔ مرض کو یادداشت نے شکست دے دی تھی۔

ریاض جانے کا منصوبہ جب دوبارہ بنا تو خوش و خرم امین الہدیٰ صاحب سے ملنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی لیکن میں رخت سفر باندھ ہی رہا تھا کہ ان کے وفات کی اندوہناک خبر آن پہنچی۔ ممبئی سے ریاض کا فاصلہ مختصر ہو گیا اس لئے کہ میرا عزیز دوست ایک ہی جست میں طویل مسافت طے کر کے اپنے آقا کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو گیا تھا۔ ریاض پہنچنے کے بعد جب میں ان کی تدفین میں شریک ہوا تو محمد علی صاحب نے بتایا کہ سلیم تم خوش قسمت ہو جو پہنچ گئے۔ میں نے سوال کیا خوش قسمت؟ ن کا جواب تھا تمہیں امین الہدیٰ کی محبت کھینچ لائی ہے۔ اگر کل آتے تو کس قدر افسوس ہوتا؟ میں سوچنے لگا یہ کیسی محبت ہے جس پر حیات و ممات کے فاصلے بھی اثر انداز نہیں ہو سکے۔

امین الہدیٰ صاحب کی تدفین سے ایک روزقبل مغرب کے وقت ریاض میں جھما جھم برسات ہونے لگی۔ مغرب کی نماز پڑھ کر لوٹنے والے بارش کے پانی میں شرابور ہو گئے۔ اگلے دن جس وقت جنازہ قبرستان کے قریب مسجد میں پہنچا تو پھر سے آسمان آنسو بہانے لگا۔ سارا عالم سوگوار تھا لیکن ہلکی بوندا باندی تدفین میں خلل اندازی نہیں کر رہی تھی۔ ا س دوران میں امین بھائی کے ساتھ اس ملاقات کے بارے میں سوچ رہا تھا جو ہوئی بھی اور  نہیں بھی ہوئی کہ مجھے رسول اکرمﷺ کی ایک حدیث یاد آ گئی:

’’ا نسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرے‘‘۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر دو اشخاص اللہ عز و جل کیلئے آپس میں محبت کریں گے (یعنی اس رفاقت سے کوئی دنیاوی غرض وابستہ نہ ہو) تو ان میں سے ایک مشرق میں اور  دوسرا مغرب میں ہو تب بھی اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا۔ ایسا کرنا رب کائنات کیلئے کس قدر آسان ہے اس کی ایک جھلک تو میں نے دیکھ لی تھی۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ یہ نامکمل ملاقات ایک دن ضرور پوری ہو گی۔ رب کائنات ابدی محبت کے رشتوں کو قائم کرنے کیلئے ہمیں اس دنیائے فانی میں بھیجتا ہے اور  پھر اپنے فضل و کرم سے انہیں لازوال بنا دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ہم نہیں ڈرتے زمانہ ڈرتا ہے

 

جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا مگر جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ لوگوں سے ڈرتا رہتا ہے۔ لوگوں کا اللہ سے ڈرنا اور  ایک دوسرے خوف کھانا ایک عام سی حقیقت ہے مگر اس کی آخر وجہ کیا ہے؟ اس ڈرنے ڈرانے کے معمہ کو حل کیا تو پتہ چلا کہ انسان اپنے نقصان سے ڈرتا ہے اور  اپنے فائدہ کیلئے ڈراتا ہے۔ مگر پھر اللہ کے ڈر کی کیا وجہ ہے؟ اللہ کا بندوں سے نہ تو مفادوابستہ ہے اور  نہ انسان اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چونکہ اللہ کو کسی سے کوئی اندیشہ یا خطرہ نہیں ہے اس لئے وہ ڈرانے دھمکانے کی ضرورت سے یکسر بے نیاز ہے۔

انسانی وجود سرتاپا پروردگارِ عالم کے لطف و کرم کا محتاج ہے۔ ساری کی ساری رحمتوں اور  برکتوں کا مرجع اور  منبع وہی ذاتِ اقدس ہے۔ اس لئے حضرتِ انسان کا آسمانی نعمتوں کی محرومی سے خوف کھانا ایک فطری امر ہے۔ بات صرف حاصل شدہ عنایات تک محدود نہیں بلکہ جو لازوال جنت رب کائنات نے اپنے بندوں کیلئے تیار کر کے رکھی ہوئی ہے اس سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو جانے کا اندیشہ بھی لاحق رہتا ہے اور  اس پر اللہ کا غیض و غضب اور  عذاب الٰہی اپنی جگہ ہے۔

اللہ سے ڈرنے والوں سے لوگ اس لئے نہیں ڈرتے کہ انہیں اس سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ وہ عالمِ انسانیت کا سچاخیر خواہ ہوتا ہے۔ وہ چونکہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اس لئے لوگ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا دوسروں سے نہیں ڈرتا کیوں کہ وہ جانتا ہے اگر اللہ بچانا چاہے تو کوئی اسے ایذا نہیں پہنچا سکتا اور  نہ چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا۔ وہ راہِ خدا میں دوسروں کی جانب سے آنے والی ایذا رسانی کو آزمائش گردانتا ہے اور  اس میں کامیابی حاصل کر کے بلند تر درجات پر فائز ہو جاتا ہے۔ بقول صادق حسین کاظمی ؎

تندیِ باد مخالف پہ نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو بہتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے

اہل ایمان دیگر انسانوں کی محدودیت سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ جہان فانی میں اللہ کے دشمن جو کچھ چھین سکتے اس کے ایک دن چھن جانے کا ادراک انہیں ہوتا ہے اور  یقین بھی کہ راہ خدا میں کھوئی جانے والی ہر شئے کے عوض ملنے والا اجر لازوال ہے۔ یہی یقین اس کو دنیا بھر کے ظالموں اور  جابروں سے بے خوف کر دیتا ہے۔ اس مصرع پر یقین رکھنے والا کہ ’جان دی دی ہوئی اسی کی تھی ‘ بھلا کسی اور سے کیسے ڈر سکتا ہے؟ اصل مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو اللہ سے نہیں ڈرتے۔ انہیں ہمیشہ اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے جبرو استحصال سے حاصل کر رکھا ہے۔ وہ سب کہیں واپس نہ کرنا پڑ جائے۔

یہ خوف انہیں ڈرانے دھمکانے پر مجبور کرتا ہے۔ ظالم حکمراں حق کے علمبرداروں کو خوف و اندیشے کا شکار کر کے اپنے چاپلوس مصاحبین کو نوازتے ہیں۔ ابن الوقت درباری شاہی نوازشوں کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہو کر ظالموں کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور  عام لوگوں پر عتاب کا کوڑا برساتے ہیں۔ اسی سبب سے خدا بیزار حکمرانوں کے تئیں خدا فراموش عوام کے قلب و ذہن میں خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈرنے ڈرانے کے اس کھیل میں خدا فراموشی اور  خدا بیزاری سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

٭٭٭

 

Y

 

 

 

فضائے بدر پیدا کر ۰۰۰۰۰

 

اللہ رب العزت اہل ایمان کو یاد دلاتا ہے ’’یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور  تمہیں اچھا رزق پہنچایا، تا کہ تم شکر گزار بنو‘‘۔ اب سردار ان مکہ کی پارلیمان دار الندوہ کا قرآنی منظر ملاحظہ فرمائیں ’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ کافر آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور  اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور  اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ اس وقت کسی کے وہم گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہجرت کے بعد دوسال کے اندر کیا ہونے والا ہے؟

میدان بدر میں نبی کریمﷺ اپنے ۳۱۳ جانبازوں کے ساتھ دست بہ دعا ہیں ’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما، اے اللہ…. اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔ اس کے مقابلے مشرکین کے لشکر جرار کا سردار ابو جہل دعا کر رہا ہے ’’اے اللہ!  ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور  غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے تو آج توڑ دے۔ اے اللہ!  ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور  زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما‘‘۔ اب دعا کا جواب دیکھیں ’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔

غزوہ بدر میں معاذ نامی دو نوجوانوں نے ابو جہل کو قتل کر دیا۔ اس کے ساتھ ۷۰ سرداران قریش مارے گئے۔ ان کی لاشوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ واپسی سے قبل آپﷺ کنویں کی باڑ پر کھڑے ہو گئے۔ پھر انہیں ان کا اور  ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارا۔ اے فلاں بن فلاں اور  اے فلاں بن فلاں!  کاش کہ تم نے اللہ اور  اس کے رسولﷺ اطاعت کی ہوتی کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا؟ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ ایسے جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں ہے؟ نبیﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے!  میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ ایک اور  روایت میں ہے کہ تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے‘‘۔

کفار مکہ اس انجام بد سے اس لیے دوچار ہوئے کہ انہوں نے رب کائنات کی تنبیہ سے روگردانی کی ’’اور یہ لوگ اس بات پر بھی تُلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور  تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے۔ یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور  ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے‘‘۔ آج بھی اہل ایمان اگر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اٹھیں تو یہ معجزہ رونما ہو سکتا ہے۔ بقول شاعر ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں عنبر سے قطار اندر قطار اب بھی

٭٭٭

 

 

 

 

امن و انسانیت کی مہم

 

ملک و ملت کی توجہات کو اہم اور  ضروری کاموں کی جانب مبذول کرانے کی خاطر مختلف مہمات کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ مہم کے آغاز میں افہام و تفہیم کے ذریعہ تحریکی کارکنان کو اس کیلئے آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں مہم کی ضرورت اور  اہمیت کی وضاحت کرنے اور  اغراض و مقاصد کو ذہن نشین کرانے میں اچھا خاصہ وقت اور  تو انائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ امن و انسانیت مہم کا یہ امتیاز تھا کہ اس کی غرض و غایت حالات نے بیان کر دی تھی۔

مہم کے آغاز میں جب کارکنان سے مشورہ کیا گیا کہ اس کام کو کیسے کریں؟ تو دل باغ باغ کر دینے والی نادر تجاویز سامنے آئیں۔ امت کو اس جد و جہد میں شامل کرنے کا مرحلہ آیا یہ حال تھا کہ ہر کسی نے اسے وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیتے ہوئے حتی المقدوردست تعاون دراز کر دیا۔ برادران وطن تک رسائی ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بھی کسی کے آگے بڑھنے کے منتظر ہیں تا کہ اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس طرح گویا چہار جانب ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ کی کیفیت تھی۔

منصوبہ بندی کے دوران کارکنان کا قابل رشک جوش و خروش دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر روکنے سے احتراز کیا گیا کہ کہیں حوصلہ شکنی نہ ہو۔ اندیشہ تھا کہ اہداف کی عدم تکمیل آگے چل کر مایوسی کا سبب نہ بن جائے۔ وقت کے ساتھ حسین خوابوں میں عشق و جنون کا رنگ بھرنے لگا اور  رحمتِ خداوندی انہیں شرمندۂ تعبیر کرنے لگی۔ اس دوران غزوہ تبوک کی تیاری کے مناظر کہ کوئی قوت و تو انائی کے خزانے لٹا رہا ہے۔ کوئی اپنا نصف سرمایہ لے آیا ہے اور  کسی نے اللہ اور  اس کے رسولﷺ کے سوا گھر پر کچھ بھی نہیں چھوڑا کے مناظر کئی بار دکھائی دیئے اور  سب سے الگ تھلگ مٹھی میں چند کھجوریں لئے لجائے شرمائے لوگ بھی نظر آئے۔ رب کائنات نے سب کو اپنی نوازشوں سے مالامال کر دیا۔

اس حقیقت کا انکار غیر ممکن ہے کہ مہم کے اہتمام کیلئے موسم اور  ماحول دونوں سازگارنہیں تھے۔ ایک ایسی مسموم فضا میں جہاں ہر طرف نفرت و عناد کے شعلے لپک رہے تھے تحریک نے قدم بڑھایا اور  پھر اللہ کی مدد و نصرت کچھ ایسے شاملِ حال ہو گئی کہ نہ سیاست کی سخت دھوپ اس پر اثر انداز ہو سکی اور  نہ برسات کے تند و تیز جھکڑ اس کی راہ روک سکے۔ دیکھتے دیکھتے امن و انسانیت کی یہ مہم امت کے دل کی دھڑکن بن گئی اور  اس کی دھمک برادران وطن کے دل پر دستک دینے لگی۔ یہ صرف اور  صرف اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان تھا۔ مہم کے بعد بھی رضائے الٰہی کے طالب کارکنانِ تحریک سرگرمِ عمل ہیں۔ اس لئے کہ چمن زار ابھی گل گلزار نہیں ہوا ہے مگر عشق برہنہ پا کو یقین ہے کہ وقت کے ساتھ اس راہ کے سنگ گراں گھِس گھِس کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے بقول قابل اجمیری ؎

عشق برہنہ پا چلتا تھا اور  رستے پتھریلے تھے

گھستے گھستے گھس گئے آخر جو پتھر نوکیلے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

طبعی اور  شعوری زندگی

 

انسانی تخلیق کا عمل پیدائش سے قبل شروع ہو جاتا ہے اور  تحلیل موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ قرآن حکیم ان مراحل حیات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ’’۰۰۰ اور  ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور  بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دیئے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے۔ ۰۰۰‘‘۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کی طبعی اور  شعوری عمر یکساں نہیں ہوتی۔ عالمِ وجود میں آنے کے بہت بعد انسان شعور سے ہمکنار ہوتا ہے اور  کافی پہلے بے نیاز بھی ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سورج کے طلوع اور  غروب کا منظر تمام تر یکسانیت کے باوجود اپنے انجام کے لحاظ سے مختلف و متضاد ہوتا ہے اسی طرح بچپن اور  بڑھاپے کی بے شعوری میں بڑا واضح فرق ہے۔ یہی فرق انسان کے رویہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور  دوسروں کے سلوک کو متاثر کرتا ہے۔

بچہ ماضی سے محروم اور  سن رسیدہ مستقبل سے مایوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خواہشات، مطالبات اور  توقعات یکساں نہیں ہوتے۔ بچے کی خواہش اور  مطالبہ مختصر ہوتا ہے وہ اس پر بہت زیادہ اصرار نہیں کرتا اور  تھوڑا بہت رو پیٹ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ اس کی محدود یادداشت اسے کچھ دیر میں غافل کر دیتی ہے۔ اس کو کسی اور  شئے سے بہلا دینا سہل تر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بزرگوں کی توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ آسانی سے اپنے کسی مطالبے کو بھول نہیں پاتے اور  ان کو کسی اور  شئے سے پھسلا دینا نا ممکن ہوتا ہے۔

بچپن اور  کبر سنی کی نفسیات میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ بچے کو جو کچھ مل جاتا ہے وہ اس سے شاد باد رہتا ہے۔ اسے کسی چیز کے نہیں ملنے کا ملال نہیں ہوتا جبکہ بزرگ حضرات لا حاصل اشیاء کے غم میں گھلے جاتے ہیں اور  حاصل شدہ چیزوں کی شادمانی و مسرت سے از خود اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں۔ اسی لیے بزرگوں کے شکوے شکایت سے بچے بے نیاز ہوتے ہیں۔

اکثر و بیشتر بچے اور  بوڑھے اپنی طبعی کمزوری اور  معاشی تنگ دامانی کے سبب جوانوں پر منحصر ہوتے ہیں لیکن جوانوں کی توقعات دونوں سے یکساں نہیں ہوتیں۔ بچوں کی بابت چونکہ یہ حقیقت ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ وہ شعور سے نابلد ہیں اس لیے ان کے تئیں درگذر کا معاملہ بڑا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس بزرگ حضرات خود اپنے بارے میں بڑی خوش فہمیوں کا شکار ہوتے اور  دوسروں کو بھی ان کے تئیں بڑی غلط فہمیاں ہوتی ہیں جس کے سبب ان سے بیجا توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ بچوں کی کوتاہیوں سے جس طرح صرفِ نظر کیا جاتا ہے بزرگوں سے نہیں کیا جاتا حالانکہ شعوری و طبعی مماثلت کے سبب دونوں یکساں سلوک کے مستحق ہوتے ہیں بلکہ بزرگوں کا معاملہ زیادہ نازک ہوتا ہے۔

بچوں کا اپنے بڑوں سے لڑ جھگڑ کر مطالبات منوانا معقول ہے جبکہ بزرگوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے قرآن حکیم کی یہ تلقین بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ ’’ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا‘‘ یعنی چھوٹوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے بھی بات نہیں بگڑتی لیکن بزرگوں کو اُف بھی گراں گزرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کبرسنی انسانی زندگی کا نازک ترین مرحلہ ہے جسے قرآن حکیم ’’أَرْذَلِ الْعُمُرِ‘‘ یعنی پست ترین یا بدترین عمر قرار دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عادت اور  معرفت کا شعور

 

فضل اللہ اپنے ننھے سے چار سالہ بیٹے عبد اللہ کے ساتھ مسجد جا رہا تھا۔ عبداللہ کو اس نے پہلی صف میں اپنے پاس کھڑا کر دیا اور  دوسری جانب خود کھڑا ہو گیا۔ بڑے بڑے لوگوں کے درمیان عبد اللہ بہت خوش تھا۔ اس نے دیگر لوگوں کی مانند اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر ناف پر باندھ لیا اور  اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ سامنے اور  اغل بغل دیکھنے کے بعد جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا تو تکبیر کہہ کر امام صاحب رکوع میں جھک گئے۔ عبد اللہ بھی سارے لوگوں کے ساتھ رکوع کی حالت میں چلا گیا۔ اس کے بعد وہ نمازیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور  پھر سجدے میں چلا گیا۔ عبداللہ نے دیکھا دیکھی وہ سب کیا جو دوسروں نے کیا۔ میں یہ منظر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کیا عب داللہ نے واقعی نماز دوگانہ ادا کی؟

مسجد سے واپس ہوتے ہوئے میں نے فضل اللہ سے پوچھا اس ننھی سی جان پر ابھی تو نماز بھی فرض نہیں ہوئی۔ اسے کیوں زحمت دیتے ہو؟

فضل اللہ حیرت سے بولا زحمت! کیسی باتیں کرتے ہو؟ عبادت تو باعثِ رحمت ہوتی ہے زحمت نہیں۔

لیکن اس مشقت سے اس کو کیا ملتا ہے؟

یہ مشقت نہیں تربیت ہے؟ فضل اللہ نے جواب دیا۔ اس عمر سے مسجدآنے لگے گا تو نماز اس کی عادت ثانیہ بن جائے گی۔

چند سال بعد عبداللہ کو ساتھ لے جاتے فضل اللہ سے میں نے پوچھا اب تو یہ از خود مسجد میں آنے جانے لگا ہے اب تم اسے کہاں لے جا رہے ہو؟

میں اسے مدرسہ لے جا رہا ہوں تاکہ اس کو پتہ چلے کہ نماز میں کس وقت کیا پڑھا جاتا ہے؟

یہ تو تم گھر پر بھی رٹا سکتے ہو؟ میرے ساتھ گھر والوں نے یہی کیا تھا۔

یہی میرے ساتھ بھی ہوا تھا لیکن میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ وہ پڑھے اس کی سمجھ میں بھی آئے اس لئے مدرسے میں لے کر جا رہا ہوں۔

کیا یہ ضروری ہے اور  اس سے کیا ہو گا؟

اس سے وہ عادتاً نہیں بلکہ شعوری طور پر نماز پڑھے گا۔ وہ اِ دھر اُدھر دیکھنے کے بجائے جو کچھ پڑھ یا سن رہا ہے اس پر غور کرے گا۔

میں نے تائید کی جی ہاں عبداللہ اب ہوش سنبھالنے لگا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ وہ سمجھ بوجھ کر نماز پڑھے ورنہ بلا شعور عبادت تو بس ایک عادت ہے۔

فضل اللہ بولا جی ہاں اسلام سے آگے ایمان کا درجہ ہے جس میں انسان طبعی سطح سے اوپر اٹھ کر عقل و شعور کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے۔

فضل اللہ کا جواب سن کر میں چونک پڑا اور  سوال کیا دوست کیا اس ایمانی نماز کے آگے بھی کوئی مقام ہے؟

جی ہاں کیوں نہیں؟ جس طرح اسلام کے بعد ایمان کا مرحلہ ہے اسی طرح ایمان کے آگے احسان کی منزل ہے۔

احسان کی منزل میں کیا ہوتا ہے؟

شعور کے ساتھ خشوع و خضوع شاملِ حال ہو جائے تو انسان کی فکر و نظر یکسو ہو جاتی ہے۔ سوچ بھی نہیں بھٹکتی۔ اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ نماز ایسے پڑھتا ہے گویا اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔

فضل اللہ کی باتیں سن کر میں سوچنے لگا کہ آخر میری نماز کس مقام پر ہے؟ جہاں عبداللہ کل تھا یا جہاں وہ آج ہے یا کہ جہاں کل وہ ہو گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

رمضان اور  سانتا کلاز

 

ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب مہمان بنا بلائے بنا بتائے آ دھمکتے تھے اور  یقین جانئے میزبان خوش ہو جاتا تھا۔ مہمان کا آنا باعثِ خیرو برکت سمجھا جاتا تھا۔ گھر کا ہر بچہ بڑا مہمان کی خاطر داری میں لگ جاتا تھا لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ مہمان بلائے جانے کا منتظر رہتا ہے اور  بلا دعوت جانے کو کسرِ شان سمجھتا ہے۔ بحالتِ مجبوری جانا پڑے تو بتائے بغیرجانے کی جرأت نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ خلاف آداب شمار ہوتا ہے۔ بنا بتائے آنے والے کو میزبان اپنے معمولات حیات میں خلل گردانتا ہے کیونکہ لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں۔ کسی کے پاس کسی کیلئے فرصت نہیں ہے؟ اپنے اہل خانہ کیلئے وقت نہیں نکال پانے والوں سے غیروں کیلئے کیا توقع کی جائے؟ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فون پر ملنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے بے شمار کام یاد آنے لگتے ہیں اور  اکثر بعد میں بتانے کا وعدہ کر کے ٹال دیا جاتا ہے۔ آج کا انسان اپنی ذات کے خول میں سمٹ چکا ہے۔

اس صورتحال کے باوجود وقت کے دوش پر سوار ایک مہمان نہ اپنے آنے کی اطلاع دیتا ہے اور  نہ اجازت لیتا ہے اس لئے کہ اسے نہ کوئی روک سکتا ہے اور  نہ ٹال سکتا ہے۔ شعبان کا ڈھلتا چاند اور  تاریک سے تاریک تر ہوتی راتیں ایک نئی صبح کا مژدہ سناتی ہیں۔ استقبالِ رمضان کے خصوصی اجتماعات کا اہتمام شروع ہو جاتا ہے۔ اسلامی دنیا اور  مسلم محلوں میں ماہ مبارک کیلئے دوکانیں اور  مآل سجنے لگتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل خصوصی رمضانی نشریات کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔ اخبارات خاص شماروں کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ واٹس ایپ پر مبارک سلامت کے پیغامات کا سیلاب آ جاتا ہے اور  فیس بک کی دیواریں نت نئے طغروں سے مزین ہونے لگتی ہیں لیکن اس تجارتی و میکانکی ہنگامہ آرائی کے درمیان نئے مہمان کے آمد کی خوشی کہیں غائب ہو جاتی ہے۔

شعبان معظم کے خاتمہ پر شاید ہی کوئی چھت پر جا کر رمضان کے چاند کو تلاش کرتا ہے۔ جو چاند کو خود نہیں دیکھتا وہ بھلا اپنے آس پاس کے لوگوں کو نیا چاند کیسے دکھائے اور  نیچے آ کر خوشی خوشی ماہِ نو کے رونق افروز ہونے کا اعلان کیسے کرے؟ رفتار زمانہ نے ہم سے دیدارِ چاند کی خوشی چھین لی ہے۔ معززو مکرم مہمان کے آمد کی خوشخبری سے محروم کر دیا ہے۔

بفرض محال اگر یہ مہمان کسی سال نہ آئے تو ہم لوگ تقویٰ اور تزکیہ نفس کے موسمِ بہار سے محروم ہو جائیں گے۔ فرض روزوں کی عظیم سعادت ہم سے چھن جائے گی۔ سحر و افطار کی لذتوں سے لطف اندوز نہ ہو سکیں گے۔ فاقہ کشوں کی بھوک اور  پیاس کا احساس، ان کی ہمدردی اور  غمگساری کا جذبہ عود کر نہیں آئے گا۔ صدقہ و خیرات کا سمندر جوش نہیں مارے گا۔ زکوٰۃ نکال کر اپنے مال کو پاک صاف کرنے کا جو فریضہ اس ماہ میں ادا کیا جاتا ہے اس سے بھی غفلت ہو جائے گی۔ قرآن مجید کی بہ کثرت تلاوت، تراویح میں قیام، سحر خیزی و تہجد اور قیام الیل و اعتکاف ان سب سے محرومی ہمارا مقدر بن جائے گی؟ رمضان مبارک کے یہ بے شمار تحفہ تحائف ہم سے چھن جائیں گے۔

رحمت و عبادت کی یہ بہار تو گزشتہ سال بھی آئی تھی مگر ان سدا بہار پھولوں کے ساتھ ہم نے کیا معاملہ کیا؟ عید کی رات کو ہم نے انہیں کوڑے دان میں کیوں جھونک دیا؟ مغربی تہذیب میں سانتا کلاز کو گذرے سال کی علامت سمجھا جاتا ہے جو جاتے جاتے تحفہ تحائف تقسیم کرتا جاتا ہے۔ سرِ شام اس کا استقبال کرنے والے نوجوان صبح دم نئے سال کی خوشی میں بوڑھے سانتا کلاز کا پتلا نذرِ آتش کر دیتے ہیں۔ کیا ہم بھی رمضان کے ساتھ سانتا کلاز کا سا سلوک نہیں کرتے؟ کیا ہم بھی اس کے بیش بہا تحفوں کے ساتھ وہی معاملہ نہیں کرتے جو سانتا کلاز کے ساتھ کیا جاتا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

عام آدمی کے خاص کام

 

مالیگاؤں یوں تو پاور لوم کی صنعت کیلئے مشہور ہے لیکن یہ علم و ادب کا گہوارہ بھی ہے۔ عرصۂ دراز کے بعد ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کیلئے وہاں جانے موقع ملا۔ دانشوروں، ادباء اور  شعراء سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ علمی موضوعات و ملی مسائل پر گفت و شنید کا موقع ملا۔ اسی گہما گہمی میں ایک عام آدمی سے بھی ملاقات ہو گئی جو نہ مفکر ہے اور  نہ دانشور، نہ شاعر نہ ادیب۔ اس کا کسی دینی، ملی یا سماجی تنظیم سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ سلیم انصاری نامی یہ سیدھا سادہ آدمی ایک نیم سرکاری تعلیمی ادارے میں ملازم ہے۔

دوران گفتگو سلیم انصاری نے بتایا کہ پنیہ نگری نامی مقامی مراٹھی اخبار اکثر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز خبریں شائع کرتا تھا۔ اخبار کی اس حرکت سے پریشان ہو کر ایک دن اس نے ایک وکیل کے ذریعہ نوٹس روانہ کر کے متنبہ کیا کہ اگر وہ نفرت پھیلانی والی حرکت سے باز نہیں آئے گا تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ سلیم کے مطابق اس نوٹس کے بعد اخبار کے رویہ میں تبدیلی آئی اور  اس نے اپنا لب و لہجہ بدل دیا۔

سلیم نے ایک اور  چونکا دینے والے واقعہ کا ذکر کیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے مسلمانوں کا ایک بڑا مجمع جامع مسجد پہنچ گیا تھا تاکہ اس بابت علماء کے موقف سے واقفیت حاصل کر سکے۔ اس وجہ سے بہت سارے مصلیان کو باہر سڑک پر نماز ادا کرنی پڑی۔ دوسرے دن مراٹھی کے کثیر الاشاعت اخبار لوک مت نے یہ سرخی لگائی کہ مالیگاؤں کے مسلمانوں نے جامع مسجد کے باہر سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا۔ اس خبر کی تردید میں سلیم انصاری نے لوک مت کو مراسلہ لکھ کر وضاحت کی کہ مسلمان نماز جمعہ ادا کرنے کی خاطر آئے تھے۔ مسجد چونکہ بھر گئی تھی اس لئے مجبوراً کچھ لوگوں کو باہر نماز پڑھنی پڑی۔ دوسرے دن لوک مت نے اس مراسلے کو پہلے صفحہ پر شائع کیا اور  معذرت بھی طلب کی۔

ان واقعات میں کئی نشان عبرت ہیں۔ ہم لوگ عام طور پر اپنے خول میں بند رہتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ باہر کی دنیا میں ہمارے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے۔ نیز پتہ چل بھی جائے تو ہم آپس میں ماتم کر کے یا ایک دوسرے کے سامنے غم و غصہ کا اظہار کر کے اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ اگر کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو شیطان ورغلاتا ہے کہ تم اکیلے کیا کر سکتے ہو؟ تمہارے کچھ کرنے سے کیا ہو گا؟ لیکن جو لوگ شیطان کے بہکاوے میں آ کر مایوس نہیں ہوتے اور  حتی المقدور کوشش کر ڈالتے ہیں اور  ان کی محنت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔

پنیہ نگری جیسے اخبار عدالتی چارہ جوئی کے نقصان سے بچنے کی خاطر اپنا رویہ تبدیل کرتے ہیں۔ لوک مت اپنے مسلمان قارئین کی خوشنودی کی خاطر نہ صرف تردید شائع کرتا ہے بلکہ معافی بھی مانگتا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آخر کس چیز نے انہیں ان اقدامات پر آمادہ کیا سلیم انصاری کا جواب تھا میں نے اپنے اندر بے چینی محسوس کی اور  اسے کم کرنے کیلئے یہ کیا۔ اس طرح نہ صرف ان کو چین و سکون میسر آیا بلکہ امت کی بے چینی بھی دور ہو گئی۔ اگر امت کا ہر عام آدمی اس طرح کا کوئی نہ کوئی خاص کام کرتا رہے تو بظاہر ان معمولی نظر آنے والی سرگرمیوں کے قابلِ لحاظ مجموعی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اقبال کی نظم گلہری اور  پہاڑ کا یہی پیغام ہے ؎

ہر اک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

امت کا ایک درخشاں ستارہ

 

اسلامی تہذیب کے افق پر جہاں علماء و فضلاء، مفکر ین و دانشور، شعراء و ادباء، اور  مجاہدین وسپہ سالار نظر آتے ہیں وہیں عام لوگ بھی جگمگاتے ہیں۔ ان میں سے ایک خاص آدمی غلام محمد تھاجو گاما پہلوان کے نام سے مشہور ہوا۔ ۱۸۷۸ء  میں امرتسر کے اندر پیدا ہونے والا گاما پہلوان رستم زماں کے خطاب سے نوازہ گیا۔ اپنے والد نامور پہلوان عزیز بخش کی وفات کے بعد پانچ سالہ گاما اپنے ماموں بوٹا کے پاس پہلوانی کی تربیت حاصل کرنے لگا۔ ۹سال کی عمر میں گاما نے ریاست جودھ پور کے راجہ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ورزشی مقابلہ میں شرکت کی ضد پکڑ لی۔

یتیم بھانجے کو رنجیدہ ہونے سے بچانے کیلئے بوٹا نے گاما کو شریک کرنے کی سفارش کی تو درباری ہنس پڑے۔ مقابلہ کی شرط تھی کہ جو پہلوان سب سے زیادہ ’’بیٹھک‘‘ لگائے گا جیت جائے گا۔ ۴۰۰ پہلوانوں نے قسمت آزمائی کی اور  ایک ایک کر کے نکلتے چلے گئے لیکن گاما ڈٹا رہا جب صرف ۱۵ بچ گئے تو راجہ نے مقابلہ رکوا کر گاما کو سینے سے لگایا اور  رستم ہند کے خطاب سے نواز دیا- اس مقابلہ کے بعد حوصلہ مند نو عمر گاما کے جسم کے تمام پٹھے اور  رگیں ایسے اکڑ گئیں کہ وہ کئی ہفتے چارپائی سے نہ اُٹھ سکا مگر اُٹھا تو ایسے کہ فن کشتی کی تاریخ میں ۵۰ سال تک ایک بار بھی شکست سے دوچار نہیں ہوا۔

۱۹ سال کی عمر میں گاما نے رستم ہند رحیم بخش سلطانی والا کو چیلنج کر دیا یہ واحد مقابلہ تھا جو برابر پر چھوٹا ورنہ۱۹۱۰ء  تک وہ متحدہ ہندوستان کے تمام نامی گرامی پہلوانوں کو شکست دے چکا تھا۔ بعد ازاں مغربی پہلوانوں کا مقابلہ کرنے وہ اپنے بھائی کے ساتھ بحری جہاز میں انگلستان پہنچا تو وزن کی کمی کے سبب اسے ہیوی ویٹ چمپئن شپ کیلئے نا اہل قرار دیا گیا لیکن جب نجی مقابلوں میں گاما نے ۲۰۰ سے زیادہ پہلوانوں میں سے ہر ایک کو ۵ منٹ کے اندر چت کر دیا تو استثنائی طور پر گاما کو مقابلے میں شریک کیا گیا۔

اس کا پہلا مقابلہ امریکی پہلوان بنجامین رولرسے ہوا جسے دو بار شکست دینے کے بعد ورلڈ چیمپئن اسٹینی سیلس زبسکو کو ہرا کر گاما پہلوان رستم زماں بن گیا۔ اس موقع پر ملکہ الزبیتھ نے فخریہ انداز میں کہا تھا جو بھی ہو آخر ہماری نو آبادیات کا شہری ہے۔ گاما کو غلام بخش سے برابری کا دکھ تھا اس لئے کئی سال بعد دوبارہ ان دونوں کی کشتی ہوئی۔ گاما نے اس بار غلام بخش کو ہرا دیا مگر فخر جتانے کے بجائے انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ ان کے اتران کے دن (ڈھلتی عمر) اور  ہماری اٹھان کے سبب ممکن ہو سکا۔ گاما پہلوان کا یہ بیان اس عظیم پہلوان کے اعلیٰ ظرفی کا نمونہ ہے۔

گاما پہلوان کے حوالے سے مشہور ہے کہ ایک دن وہ اپنے بھائی امام بخش کے ساتھ راجہ پٹیالہ کے دربار میں براجمان تھا۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ کو نشہ چڑھا تو اس نے گاما سے شراب پینے کی فرمائش کی۔ گاما نے جواب دیا ہمارے مذہب میں حرام ہے اس لئے میں نہیں پی سکتا۔ راجہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ صرف ایک گھونٹ پی لے میں تجھے ایک لاکھ روپئے دوں گا۔ اس ایک لاکھ کی قیمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۴۷ء  میں سونا ۵۰ روپئے تولہ تھا یعنی آج سے ۶۰۰ گنا کم گویا موجودہ زمانے کے مطابق تقریباً ۶ کروڑ روپئے کی پیشکش۔

یہ سن کر گاما وہاں سے چل دیا اور  امام بخش بھی نکل پڑا۔ راجہ نے پوچھا امام بخش تو کدھر جا رہا ہے؟ امام بخش بولا جہاں میرا بھائی وہاں میں۔ یہ واقعہ اکھاڑے کے بے تاج بادشاہ کے ایمانی کیفیت کا غماز ہے۔ اس اعلیٰ ظرفی اور اخلاص و ایمان کے عوض اللہ تعالیٰ نے گاما کو خوب نوازہ۔ اس کی نرینہ اولاد نہیں تھی لیکن نواسی بیگم کلثوم کو وزیر اعظم نواز شریف کی زوجیت کا شرف حاصل ہے۔ گاما پہلوان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ انسان کسی بھی میدان میں یکسوئی اور  محنت و لگن سے اپنا اور  اپنی قوم کا نام روشن کر سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

شریعت اور  طریقت: سکہ ایک پہلو دو

 

دارالخلافہ دہلی میں مسلمانوں کے دو عظیم الشان اجتماعات کا انعقاد ہوا۔ جمیعۃ العلماء (ہند) کے زیر اہتمام قومی یکجہتی کانفرنس اور  علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے عالمی صوفی کانفرنس۔ ان میں سے ایک میں چونکہ وزیر اعظم کی تعریف و توصیف ہوئی اور  دوسرے میں ان پر تنقید کی گئی تو بظاہر ایسا لگنے لگا کہ شریعت اور  طریقت کے علمبردار ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں حالانکہ اگر سیاست کو الگ کر دیا جائے تو یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ایک مرتبہ امام احمد بن حنبلؒ کے شاگردوں نے سوال کیا کہ آپ بشر حانیؓ کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم و محدث نہیں ہیں؟ امام صاحب نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ سے واقف ہوں مگر بشر اللہ سے واقف ہیں۔ معرفت کیلئے اللہ اور  کتاب اللہ دونوں کا استحضارلازمی ہیں بقول شاعر ؎

قرآن رہے پیش نظر، یہ ہے شریعت

اللہ رہے پیش نظر، یہ ہے طریقت

تصوف دل کی نگہبانی کا اصطلاحی نام ہے۔ تصوف انسانی روح کا اپنے مطلوبِ حقیقی سے ملاقات کا شدید اشتیاق ہے۔ یہ اخلاق کی جان اور  ایمان کا کمال بھی ہے۔ امام غزالیؒ سے کسی نے پوچھا تصوف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تصوف دو خصلتوں کا نام ہے۔ پہلی یہ کہ بندہ اللہ کا وفادار ہو، یعنی شریعت پر عمل پیرا ہو۔ اور  دوسری یہ کہ اللہ کی مخلوق سے ہمدردی و بھلائی کرنے والا ہو۔ جس میں شریعت پر ثابت قدمی اور  انسانیت کی فلاح کی خوبیاں موجود ہوں وہ صوفی ہے۔ اللہ سے وفاداری یہ ہے کہ اپنی خوشی کو اللہ عز و جل کی خاطر قربان کر دے۔ اور  لوگوں سے بھلائی یہ ہے کہ ان سے اپنی غرض کی خاطر تعلقات نہ رکھے بلکہ اپنے آپ کو لوگوں کی بھلائی کے لئے وقف کر دے بشرطیکہ یہ بھلائی شریعت کی تابع ہو۔

سید الطائفہ شیخ جنید بغدادیؒ کا قول ہے کہ تصوف کی راہ وہی پا سکتا ہے جس کے داہنے ہاتھ میں کتاب اللہ اور  بائیں ہاتھ میں سنت رسول ہو۔ وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے تاکہ گمراہی اور  بدعت کی تاریکی میں نہ گھرے۔ صوفیاء میں امتیازی مقام و مرتبہ کے حامل حضرت سہل تستریؒ فرماتے ہیں، ہمارے سات اصول ہیں کتاب اللہ پر مکمل عمل، سنت رسول کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ واستغفار، اور  حقوق العباد کی ادائیگی۔

وطن عزیز میں جہاں دیگر افکار و نظریات پراگندہ ہوئے وہیں تصوف کا فلسفہ بھی رہبانیت، تجارت اور  سیاست کی آمیزش کا شکار ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ صوفیاء نے اپنی عملی جد و جہد کے ذریعہ اسلام کے اخلاقی و روحانی نظام کو قائم کر کے تبلیغ اور  تعمیرسیرت کا فریضہ انجام دیا۔ جہاں علماء اور  حکماء نے دماغ کی آبیاری کی تو وہیں صوفیائے عظام نے دل کی تربیت اور اصلاح کا کام کیا۔

عالموں اور  دانشوروں نے علمی و نظری دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جب کہ صوفیائے کرام نے اخلاق و سیرت سے اسلام کی صداقت کا نور پھیلایا۔ اس لیے طریقت اور  شریعت باہم متصادم نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے رفیق و دمساز ہیں۔ حقیقی تصوف اسلام کا عطر اور  اس کی روح ہے بشرطیکہ اس کو بغض و عناد، حرص و ہوس، دنیا پرستی، قوم پرستی، فرقہ پرستی اور  فسطائیت جیسے فاسد نظریات سے پاک صاف رکھا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دانے دانے پہ نام

 

الہ باد سے آنے والی ڈورانٹو کا مسئلہ یہ ہے کہ بھساول سے لے کر ممبئی تک یعنی صبح ۹ بجے سے ۳ بجے تک اس کو کہیں رکنا ہی نہیں ہوتا ہے اس لیے لازماً سارے مسافروں کو کھانا، پینا، چائے، ناشتہ اور  بستر ریلوے کو مہیا کرنا پڑتا ہے۔ بستر کے ساتھ کمبل اس لیے کہ اے سی بھی کبھی ٹرین کی مانند رک جاتا ہے اور  کبھی ایسا تیز چلتا ہے کہ کمبل کے بغیر مسافر بیمار ہو جائیں۔ ابھی گاڑی پلیٹ فارم سے نکلی بھی نہیں تھی ایک خوش مزاج بیرا اخبار لے کر حاضر ہو گیا اور  اپنی دلنشین آواز میں بولا کہیے صاحب کھانے میں کیا لیں گے؟ ویج، نان ویج اور  ناشتہ کٹلیٹ، املیٹ بولیے۔ میں نے کہا بھائی شکریہ میرا روزہ ہے ایسا کرو کہ ٹائمز آف انڈیا دے دو بس۔ وہ بولا اچھا اچھا معاف کرنا صاحب۔ آج آپ کی سیوا کا موقع نہیں ملے گا خیر دانے دانے پہ لکھا ہوتا ہے کھانے والے کا نام۔

اس نے میرے پڑوس میں بیٹھے میاں بیوی سے سوال کیا تو وہ بولے ناشتہ تو ہم گھر سے کر کے آئے ہیں ہاں کھانے میں ایک ویج ایک نان ویج لے آنا۔ یہی سوال اس نے سامنے بیٹھی ایک خاتون سے کیا تو وہ بولی کیوں بھائی نان ویج میں کیا ملے گا؟ بیرہ بولا مرغی، روٹی، چاول سلاد وغیرہ۔ اس خاتون نے پھر پوچھا ٹھیک ٹھاک ہے نا پچھلی مرتبہ میری طبیعت ہی خراب ہو گئی تھی۔ بیرہ بولا آنٹی جی میں بنا کر تو نہیں لاتا جو ریلوے والے دیتے ہیں لے آتا ہوں۔ آپ چنتا نہ کریں کھانا اچھا ہو گا آپ کا سیٹ نمبر کیا ہے؟ وہ بولی مجھے نہیں پتہ ٹی ٹی سے پوچھ لو۔ بیرے نے اندازے ایک نمبر لکھا اور  اوپر بیٹھے مسافر سے دریافت کیا تو وہ بولا میرے لیے ویج لانا طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ویٹر آرڈر تولے گیا مگر میرے لیے دانے دانے والا ڈائیلاگ چھوڑ گیا۔

بیرے کے چلے جانے کے بعد سامنے بیٹھی خاتون نے پوچھا آج کون سا روزہ ہے؟ میں نے کہا ۲۴ واں ہے عید ایک ہفتہ بعد ہے۔ وہ بولی ہاں مجھے اندازہ تھا میں ۱۵ واں اور  ۲۵ واں روزہ پابندی سے رکھتی ہوں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کیوں؟ وہ بولی۳۰ سال قبل میں ایک بڑی مشکل میں پھنس گئی تھی۔ ایک سجن پوروش کو میں نے اپنی سمسّیا بتائی تو وہ بولے رمضان چل رہا ہے تم ۱۵ واں اور  ۲۵ واں روزہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک ماہ بعد بہت اچھی رپورٹ آئی سب ٹھیک ہو گیا۔ سامنے بیٹھے مسافر نے کہا میری بھانجی بھی ہرسال پہلا اور  ۲۵ واں روزہ رکھتی ہے۔ میں نے سوچا یہ لوگ ایمان تو نہیں لائے لیکن کم از کم اسلام اور  مسلمانوں سے نفرت نہیں کر سکتے۔

ساڑھے بارہ بجے ایک مسافر ویٹر سے بولا بھائی کھانا کھلاؤ گے یا بھوکا ماردو گے۔ بیرے نے ہنس کر جواب دیا صاحب ابھی اگتپوری آنے والا ہے۔ ہم وہاں سے کھانا لیں گے اور  پھر آپ لوگوں کو دیں گے۔ اس میں ڈیڑھ بج جائے گا۔ مسافر نے کہا لیکن موبائل کے مطابق تو یہ اگتپوری نہیں رکتی۔ بیرہ بولا ارے صاحب گوگل بابا تو کہتے ہیں الہ باد سے ممبئی تک صرف ۵ مرتبہ رکے گی لیکن اسے ۱۵ مرتبہ رکنا پڑتا ہے۔ یہ انڈین ریلوے ہے کیا سمجھے؟ اس کے بعد میں نے دیکھا پڑوس والے مسافروں نے ناشتہ دان نکال کر کھانا کھا لیا۔ اگتپوری کے آنے سے پہلے وہ سو چکے تھے۔ گاڑی جب اگتپوری پہونچی تو ساتھ والے دو مسافر پلیٹ فارم سے وڈا پاؤ لے آئے۔ اوپر والی سواری نے پوچھا یہ کیا ابھی تو کھانا آنے والا ہے وہ بولے کیا کریں اسے دیکھ لیا تو دل نہیں مانتا۔ وہ بولا اب کھانا کیا خاک کھائیں گے؟

بیرے نے دیکھا دو مسافر تو سو رہے اور  اوپر والی نشست پر ایک شخص اکڑوں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ بولا یہ لیجیے صاحب آپ کا ویج۔ مسافر نے کہا نہیں بھائی سر میں بہت درد ہے ہم نہیں کھا سکتے۔ بیرے نے کہا صاحب پیٹ میں تو درد نہیں نا ہے۔ دوچار لقمہ کھا لیجیے سر کا درد بھی چلا جائے گا۔ مسافر منہ بنا کر بولا نہیں بھائی تم نہیں جانتے اگر کھانا کھا لیا تو حالت خراب ہو جائے گی۔ بیرہ ایک مسافر کو کھانا دے کر آگے بڑھا تو میں بولا دیکھو بھائی وہ سامنے بیٹھی سواریاں بھی وڈا پاؤ کھا رہی ہیں اس لیے تمہارا کھانا نہیں کھا سکیں گی۔ بیرے نے جواب دیا ہاں صاحب ہم ان کے آرڈر کا کھانا لا تو سکتے ہیں لیکن کسی دانے پرکھانے والے کا نام نہیں لکھ سکتے!

٭٭٭

 

 

 

 

حادثے سے بڑا سانحہ ۰۰۰۰۰۰

 

قابل اجمیری نے جب عوامی بے حسی کو حادثے سے بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا ’’لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر‘‘ تو شعر ضرب المثل بن گیا۔ لیکن آج کل کے لوگ جب حادثے کو دیکھ کر ٹھہرتے ہیں تو فوراً ان کا ہاتھ اپنے موبائل پر جاتا ہے۔ وہ فون سے کسی ایمبولنس وغیرہ کی مدد نہیں طلب کرتے بلکہ زخموں سے کراہتے فرد کی تصویر یا ویڈیو بنانے لگتے ہیں تاکہ اسے فیس بک یا واٹس ایپ کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلا سکیں۔ نشر و اشاعت کے اس کھیل میں حادثہ زدہ شخص ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتا ہے۔ ساری دنیا میں اس پر افسوس تو ہوتا ہے لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ اس عظیم تر سانحہ کی وجہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں نمود و نمائش نے اعلیٰ انسانی اقدار کو یرغمال بنا لیا ہے۔

ہمدردی، غمخواری اور  ایثار و قربانی جیسے صفات عالیہ کے حامل انسان کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو انہیں پروان چڑھائے یا پامال کر دے۔ اگر کسی معاشرے کے لوگ ان قدروں سے محروم ہو جائیں تو ان کی تعلیم و تربیت، دولت و ثروت، حکمت و ذکاوت جیسی تمام خوبیاں بے سود ہو جاتی ہیں۔ انسانیت سے بے بہرہ افراد کا سماج درندوں کے جنگل سے ابتر ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ درندوں میں حرص و ہوس، دھوکہ فریب، ظلم و ستم اور  جبرواستحصال جیسے اوصاف رذیلہ نہیں ہوتے۔ جنگل میں فطرت کی مجبوری خون بہاتی ہے مگرانسانی سماج میں اقتدار و دنیا پرستی کی حرص وہوس خونریزی کا سبب بنتی ہے۔ درندہ صفت انسانوں کی سفّاکی سے برپا ہونے والی تباہی جانوروں کی محدود ضرورت کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ قتل عام بیابانوں کا  نہیں شہروں کا خاصہ ہے۔

مثالی معاشرہ حقوق و ذمہ داریوں کے توازن سے وجود میں آتا ہے۔ اس میں کمزور کی پشت پر انتظامیہ، مقننہ اور  عدلیہ کے علاوہ باشعورسماج کا اخلاقی دباؤ ظالموں کو استحصال سے باز رکھتا ہے۔ عدل ومساوات ہی انسانی سماج میں امن و آشتی کی ضمانت ہے لیکن اگر انسانیت سے عاری افراد مذکورہ اداروں پر قابض ہو جائیں تو معاشرے کا امن و امان غارت ہو جاتا ہے۔ فی زمانہ چونکہ انفرادی سطح پر انسانیت دم توڑ چکی ہے اور  اجتماعی حیثیت سے امن کا جنازہ اٹھ چکا ہے اس لئے انسانی سماج درندوں کے مسکن میں تبدیل ہو گیا ہے۔

امن و انسانیت کے باہمی تعلق کو موبائل فون کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں طرح طرح کے فون مختلف ناموں سے بنتے ہیں لیکن ان سب میں کچھ خصوصیات (ایپس) مشترک ہوتی ہیں یعنی فون اور  پیغام کا آنا جانا وغیرہ۔ اسی طرح انسانیت ساری دنیا کے انسانوں کی مشترک میراث ہے۔ اب اگر کوئی ان بنیادی اور  لازمی اوصاف کو اپنے موبائل سے نکال دے یا کسی وائرس کے سبب وہ تعطل کا شکار ہو جائیں تو ایسافون ایک نمائشی کھلونا بن جاتا ہے۔ اسی طرح انسانیت سے محروم افراد بھی دو پیروں والے درندے بن جاتے ہیں۔

دنیا کا قیمتی سے قیمتی فون نیٹ ورک کے بغیر بیکار ہو جاتا ہے۔ انسانی سماج میں یہی مقام امن کا ہے کہ اس کے بغیر بہترین انسانی گروہ بھی اپنا فرض منصبی نہیں ادا کر پاتا۔ امت وسط کی یہ ذمہ داری ہے کہ بنی نوع انسانی کے اندر انسانیت کا چراغ روشن کرے نیز تعاون علی البر و التقویٰ کی بنیاد پر امن و امان بحال کرنے کی جد و جہد میں جٹ جائے۔ انسانوں کے درمیان محبت و اخوت کا رشتہ اسی نیٹ ورک سے بحال ہو سکتا ہے۔ اس جہانِ فانی کو جنت نشاں بنا کر اہل ایمان اپنے آپ کو بہشتِ حقیقی کا سزاوار بنا سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

معراجِ مصطفیٰﷺ

 

حضور اکرمﷺ نے بچپن میں شام کا تجارتی سفر کیا تو ایک مسیحی راہب نے آپ کو دیکھ کر نبوت کی بشارت دی۔ اس کے بعد دعوت کی راہ میں طائف کی پر آشوب گھاٹی بھی آئی۔ ہجرت مدینہ ایک ایسا یادگار سفر تھا جس نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ جہاد کیلئے میدانِ بدر سے لے کر تبوک تک کا قصد کیا گیا اور  اسی کے ساتھ جزیرۃ العرب میں اسلام کا غلبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ نبیِ کریمﷺ کا حج و عمرہ کا سفر بھی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا کہ جہاں اس میں صلح حدیبیہ ہوئی وہیں تکمیل دین کی بشارت سے بھی نوازے گئے۔ ان میں سب سے ممتازو منفرد سفر اسراء و معراج کا ہے کہ جس میں خالق کائنات نے اپنے حبیب پاکﷺ سے انبیاء کی امامت کرائی اور  آسمانِ دنیا کی سیر پر بلا کربہ نفسِ نفیس ملاقات کا شرف بخشا۔ عالم انسانیت میں یہ مرتبہ اور  اعزاز صرف اور  صرف آپﷺ کا مقدر بنا۔ یہی وجہ ہے کہ معراج مصطفیٰﷺ کی تکذیب کرنے والے بے نام و نشان ہو گئے اور  تصدیق کرنے والا صدیق اکبرؓ کہلایا۔

حبیب و محبوب کے وصال کا پر مسرت لمحہ سب کچھ بھلا دینے والا ہوتا ہے لیکن ایسے مواقع پر دل و جان سے عزیز یادیں اپنے آپ دبے پاؤں چلی آتی ہیں۔ نبی پاکﷺ رب کائنات کے دربار میں عرض کرتے ہیں ’’تسبیح و تکریم اور  نماز و پاکیزگی اللہ کیلئے ہے‘‘ جواب ملتا ہے ’’سلام ہو تم پر اے نبیﷺ۔ اور  اللہ کی رحمتیں و برکتیں‘‘۔ رسول کریمﷺ اس موقع پر بھی اپنی امت کو نہیں بھولتے اور  ارشاد فرماتے ہیں ’’سلامتی ہو ہم پر اور  نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سے خوش ہو کر فرماتا ہے ’’اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس(اللہ)کے بندے اور  رسول ہیں‘‘۔ بندے اور  خدا کے درمیان کی یہ گفت و شنید نماز کا حصہ قرار پائی۔ ہر دو رکعت کے بعد مومنین اس کا اعادہ کرتے ہیں۔

انسان جب کسی یادگار سفر سے لوٹ کر آتا ہے تو اپنے لواحقین کیلئے تحفہ تحائف لاتا ہے لیکن حضور اکرمﷺ تو اپنے ساتھ مومنین کی معراج لے آئے۔ معراج سے پیغمبرﷺ خدا نماز کا تحفہ لے کر آئے اور  اسے معراج المومن قرار دیا۔ فرمایا سجدے کی حالت میں مومن اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا ہے۔ کسی کے کان میں رازو نیاز کرتے وقت اپنے سامع سے قربت کا اندازہ ہر فردو بشر کر سکتا ہے۔ حدیث قدسی ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ نماز میرے اور  میرے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم ہے۔ نماز میں سورہ فاتحہ کی ہر آیت کا جواب اللہ کی طرف سے آتا ہے۔ بندے اور  خدا کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔

بندہ: ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنہار ہے‘‘۔

اللہ: میرے بندے نے میری حمد کی‘‘۔

بندہ: ’’بڑا مہربان نہایت رحم والا‘‘۔

اللہ: ’’میرے بندے نے میری ثنا بیان کی‘‘۔

بندہ: ’’جزا کے دن کا مالک۔

اللہ: ’’میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اظہار کیا‘‘۔

بندہ: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور  تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔

اللہ: ’’یہ میرے اور  بندہ کے درمیان مشترک ہے میرے بندے کو وہی چیز ملے گی جس کی اس نے درخواست کی‘‘۔

بندہ: ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا نہ ان کا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور  نہ گمراہوں کا‘‘۔

اللہ: ’’یہ میرے بندے کیلئے ہے اور  میرے بندے کو وہ چیز حاصل ہو گی جس کی اس نے درخواست کی‘‘۔

کائنات ہستی میں ایسا کون ہے جو اپنے غلاموں کی ہر بات کا جواب دے؟

کیا ہم معراج النبیﷺ کے اس بیش بہا تحفہ کی کماحقہٗ قدر دانی کرتے ہیں؟

٭٭٭

 

 

 

عشرۂ رمضان اور  مراحلِ حیات

 

انسانی زندگی تین مراحل میں منقسم ہے۔ بچپن، جوانی اور  بڑھاپا۔ حضور پاکﷺ نے ماہِ رمضان کو بھی صفات کے لحاظ سے تین عشروں میں تقسیم فرمایا۔ رحمت، مغفرت اور  جہنم کی آگ سے خلاصی۔ ان مراحل اور  صفات میں بلاکی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ بچہ طبعی اور  شعوری سطح پر نہایت کمزور اور  محتاج ہونے کے باوجود بہت ہی پرکشش ہوتا ہے۔ اسے دیکھتے ہی ہر کس ناکس کے دل میں محبت و شفقت کا دریا موجزن ہو جاتا ہے۔ بچے کے لئے بڑوں کے اندر اگر شدید جذبۂ رحم نہ پایا جائے تو اس کی پرورش و پرداخت نا ممکن ہو جائے۔ وہ ننھی سی حسین کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جائے۔ رمضان کے روزے ہمارے اندر عالم انسانیت کے تئیں اسی جذبۂ رحمت کو بیدار کرتے ہیں۔ روزہ دار فاقہ کشوں کی بھوک کو محسوس کر کے اس کو دور کرنے کی جد و جہد کرتا ہے۔ پریشان حال لوگوں کا شراکت دار بن کر مصائب کے ازالہ کی کوشش کرتا ہے۔

جوانی طاقت اور  قوت کا سرچشمہ ہے۔ اس میں ہوائے نفس کی پر زور آندھی ہر شئے کو اپنے ساتھ اڑا کر لے جانا چاہتی ہے۔ اس موقع پر ضبط نفس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کیا جائے: عمر کہاں گزاری؟ جوانی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا اور  کہاں خرچ کیا؟ حاصل شدہ علم پر کتنا عمل کیا؟ ان سوالات میں سے ایک تو براہِ راست جوانی سے متعلق ہے لیکن بقیہ بھی بلاواسطہ جوانی کے مرحلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جوانی عمر کی باغ و بہار ہے، مال کمانا، خرچ کرنا، علم کا حصول اور  عمل درآمد اسی مرحلے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں روزوں سے حاصل شدہ ضبط نفس سب سے عظیم نعمت ہے۔

جوانی میں انسان شیطان کا سب سے محبوب شکار ہوتا ہے اور  لاکھ کوشش کے باوجود اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ قدم قدم پر جانے انجانے لغزشوں کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے درمیان کے اس نازک ترین مرحلے میں حضرتِ انسان کیلئے مغفرت سے عمدہ ڈھال اور  کون سی ہو سکتی ہے؟ رمضان کے مہینے میں روزے دار کاسحری کیلئے علیٰ الصبح بیدار ہو جانا ہے اور  اس کیلئے تہجد کی ادائیگی سہل تر ہو جاتی ہے۔ اس سعادت کا فائدہ اٹھا کر توبہ اور  استغفار کو اپنی عادت ثانیہ بنا لینے والے خوش بخت لوگوں کے بارے میں رسول مقبولﷺ نے بشارت فرمائی ’’سات ا( قسم کے ) افراد کو اللہ تعالیٰ اس دن سایہ نصیب فرمائے گا، جس دن اس کے سائے کے سوا کسی کا سایہ نہیں ہو گا، ان میں سے ایک وہ نوجوان بھی ہو گا جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھے‘‘۔

حدیث میں آتا ہے پانچ چیزوں کو پانچ سے قبل غنیمت سمجھو۔ ان پانچ نعمتوں میں سے ایک جوانی ہے جسے بڑھاپے سے قبل غنیمت جاننے کی تلقین کی گئی ہے۔ کبر سنی میں انسان بچے کی مانند طبعی کمزوری کا شکار ضرور ہو جاتا ہے لیکن زندگی کے شعور سے بے بہرہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک بچے کی مانند دنیا کے فریب میں مبتلا ہو کر اس کے حصول کو اپنا مقصد حیات نہیں سمجھتا۔ وہ جہان فانی کی بے ثباتی کا ادراک کر چکا ہوتا ہے۔ اس عمر میں ابن آدم سے بہت کچھ حاصل کرنے کی ہوس تو کجا جو کچھ پاس ہے اس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کی سکت تک چھن جاتی ہے۔ وہ قبر کے اندر پیر لٹکائے اپنے انجام کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے اپنے اعمال سے اس کی اپنی ذات سے زیادہ خدائے برحق واقف ہے۔ اپنے عرصۂ حیات کے آخری پڑاؤ میں رمضان کے تیسرے عشرے کی بشارت یعنی جہنم کی آگ سے خلاصی بندۂ مومن کے دل کی آواز بن جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فتح مبین

 

۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسولﷺ نے دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ مکے کا رخ کیا۔ مکہ کے قریب مراء الظہران میں آپﷺ نے دریافت کیا: اے ابو سفیان! تم پر افسوس، کیا اب بھی تمہارے لیے وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا، میں اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی اور  بھی الٰہ ہوتا تو اب تک میرے کچھ کام آیا ہوتا۔ آپﷺ نے فرمایا: ابو سفیان تم پر افسوس!  کیا تمہارے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابو سفیان نے کہا: اس بات کے متعلق تو اب بھی دل میں کچھ نہ کچھ کھٹک ہے۔ اس پر حضرت عباسؓ نے کہا: ارے!  گردن مارے جانے کی نوبت آنے سے قبل اسلام قبول کر لو! اور اقرار کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور  محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا اور  حق کی شہادت دی۔

اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادؓ نے اعلان کیا ’’آج خونریزی کا دن ہے۔ آج حرمت حلال کر لی جائے گی اللہ نے آج قریش کی ذلت مقدر کر دی ہے۔ یہ سن کر رسول اکرمﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ آج کعبہ کی تعظیم کا دن ہے۔ آج کے دن اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔ اور حضرت سعدؓ سے پرچم لے کران کے صاحبزادے قیسؓ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد ابو سفیان نے مکہ میں اعلان کیا: قریش کے لوگو! یہ محمدﷺ ہیں۔ تمہارے پاس اتنا لشکر لے کر آئے ہیں کہ مقابلے کی تاب نہیں، لہٰذا جو ابو سفیان کے گھر گھس جائے اسے امان ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ تجھے مارے، تیرا گھر ہمارے کتنے آدمیوں کے کام آ سکتا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: اور  جو اپنا دروازہ اندر سے بند کر لے اسے بھی امان ہے۔ اور  جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے۔ یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں اور  مسجد حرام کی طرف بھاگے۔

انصار و مہاجرین کے ہمراہ نبی کریمﷺ نے مسجد حرام کے اندر آ کر حجرِ اسود کو چوما اور  بیت اللہ کا طواف کیا اور  ایک کمان سے بیت اللہ کے گرد اور  اس کی چھت پر موجود ۳۶۰ بُتوں کو ڈھا کر اعلان کر دیا: ’’حق آ گیا اور  باطل گیا، باطل جانے کے لیے ہے‘‘۔ خانہ کعبہ سے رسول اللہﷺ نے قریش کو مخاطب کر کے فرمایا: اللہ کے سواکوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور  تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔ سنو!  بیت اللہ کی کلید برداری اور  حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ سارا اعزاز یا کمال یا خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور  باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا۔ سارے لوگ آدم سے ہیں اور  آدم مٹی سے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور  ایک عورت سے پیدا کیا اور  تمہیں قوموں اور  قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے با عزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ بیشک اللہ جاننے والا اور  خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

آج کو ئی سرزنش نہیں: اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے۔ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟ انہوں نے کہا: اچھا۔ آپ کریم بھائی ہیں۔ اور  کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ۱۷ رمضان ۲ھ کو غزوۂ بدر کے ساتھ شروع ہونے والی مہم ۲۰ رمضان ۸ ھ کو اختتام پر پہنچی اور  عالم انسانیت کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلا کر عظیم ترین آزادی سے شرفیاب کر گئی۔ فکر و عمل کا وہ عظیم انقلاب برپا ہو گیا جس کی بابت علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎

موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے

نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں

٭٭٭

 

 

 

 

پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ

 

 

قانون فطرت کے مطابق بیج سے پیڑ، پیڑ سے پھل اور  پھل میں بیج کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ چمن کا مالی جانتا ہے کہ شجر کے بار آور ہونے کیلئے آب و ہوا کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور  موسم کی تبدیلی رب کائنات کے قبضۂ قدرت میں ہے فرمان خداوندی ہے ’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور  درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور  کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور  انگور، زیتون اور  انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور  پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔

مشیتِ ایزدی ہی خزاں کو بہار میں بدلتی ہے اور  اسی کی مرضی سے گلستاں چمن لہلہاتا ہے۔ اس جہانِ رنگ بو میں اگر بہار عارضی ہے تو خزاں بھی دائمی نہیں ہے۔ گردش زمانہ کا واسطہ کبھی آندھی طوفان سے پڑتا ہے اور  کبھی قحط سالی دامن گیر ہوتی ہے مگر باغبانِ چمن مایوس نہیں ہوتا۔ توکل علی اللہ کے بھروسے وہ صبر و سکون کے ساتھ آزمائش کے مرحلے سے گذر جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ہر دشواری کے ساتھ آسانی بھی ہے یقیناً ہر تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔ خالق کائنات کی اس بشارت پر چمن کے مالی کو کامل یقین ہوتا ہے۔

باغبان یہ بھی جانتا ہے کہ کوئی درخت از خود ثمر آور نہیں ہوتا۔ بیج کا درخت بن جانا اور  درخت کا پھلوں سے لد جانا اذنِ الٰہی پر موقوف ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے ’’دانے اور  گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے‘‘۔ یہ تبدیلیاں نہ تو باغبان کی مرضی پر منحصر ہیں اور  نہ وہ اس کیلئے عند اللہ مسؤل ہے۔ اس کی ذمہ داری تو بس زمین کو نرم کر کے صحیح وقت پر بیج بو دینا ہے۔

عوامی بیداری در اصل زمین کو نرم کرنے کی کوشش کے سوا کچھ اور  نہیں ہے۔ مقاصد جلیل کے حصول کی خاطر عوامی بیداری بیج کے مانند اہم ہے لیکن ان کی ثمر آوری عزم و استقلال کے ساتھ ایک طویل جد و جہد کا تقاضہ کرتی ہے۔ تحریکی کونپلوں کے تحفظ اور  آبیاری کے بغیر تناور اجتماعیت کا تصور محال ہے۔ کسی بھی درخت کا پھلنا پھولنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے مگر امت کے با شعور افراد عزم و حوصلے کے ساتھ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے سزاوار ضرور ہیں۔

بیج اور  پھل کے درمیان اجتماعیت وہ شجرِسایہ دار ہے جس کے بغیر یہ سلسلہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ عوامی بیداری کے بیج سے نکلنے والے درخت میں پھل کے علاوہ پھول، پتے، شاخیں، تنا، سایہ اور  بہت کچھ ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر وسعت و حرکت کے باوجود بیداری کی مہم بیج بونے کا محدود اور عارضی مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تحریک یعنی پھل کو اپنے اندر چھپے بیج کے سبب دوام حاصل ہوتا ہے۔ بیداری کی کوششوں میں اجتماعیت کی تخم ریزی اپنے آپ ہو جاتی ہے۔ زمین کی زر خیزی کے لحاظ سے جو بیج بار آور ہوتے ہیں اور  ان کی کونپل نکل آتی ہے وہ خصوصی توجہ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ انہیں سے توقع ہوتی ہے کہ وہ مستقبل قریب یا بعید میں اجتماعیت کا پیڑ بن کر لہلہائیں گے اور  ان کے پھل خوشبو اور  ذائقہ لٹائیں گے۔ امید تو یہی ہے کہ تحریک اسلامی کے شجر طیبہ ہی اس خزاں رسیدہ چمن میں بہار کی امید ہے بقول شاعر ؎

چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شعار اب بھی

چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی

٭٭٭

 

 

 

حکمت و بلاغت

 

حضرت عمرؓ ایک مکتوب میں اپنے فرزند عبد اللہؓ سے فرماتے ہیں: ’’میں تمہیں پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں۔ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اسے بدلہ دیتا ہے۔ جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اللہ اسے زیادہ نعمت عطا کرتا ہے‘‘۔ گویا جذبۂ شکر کو تقویٰ پر فضیلت ہے۔ تقویٰ میں حساب برابر ہے مگر شکر اضافی منافع کا سبب ہے۔ خوف انسان کو نافرمانی سے روک تو دیتا ہے مگر فرمانبرداری کیلئے شوق درکار ہے۔ ذوق و شوق کا مرجع و منبع ذکر و شکر ہے۔ مومن جس قدر شکر کے جذبے سے مالامال ہوتا ہے اس کیلئے راہِ عشق کی منازل اسی قدر آسان اور  سہل ہو جاتی ہیں اور  وہ رضائے الٰہی کے بلند تر مقامات پر فائز ہوتا چلا جاتا ہے۔

آگے فرماتے ہیں: ’’تمہیں چاہیے کہ پرہیز گاری کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور  دل کی روشنی بناؤ‘‘۔ آنکھوں کی ٹھنڈک در اصل دل کا سکون ہے۔ ارشاد ربانی ہے: دلوں کا اطمینان تو صرف اور  صرف اللہ کے ذکر(یاد) میں ہے۔ لیکن دل کو قرار کہاں۔ ’ دلِ تر‘ کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ دل کی بابت حدیث شریف میں آتا ہے ’’اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک بیابان میں کسی پرندے کا پر کسی درخت کے تنے کے ساتھ لٹکا ہوا ہو اور  ہوا اسے اوپر نیچے یا آگے پیچھے کرتی رہے‘‘۔

گویا قلب کے معنیٰ الٹنے پلٹنے والا ہے یہی وجہ ہے کہ جب دنیا کا نظام الٹ پلٹ جائے تو اسے انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ہر انقلاب کی ابتداء قلب کی تبدیلی سے ہوتی ہے مگر حقیقی اور  پائیدار تبدیلی نورِ ہدایت کی محتاج ہے۔ اس کے بغیر انقلاباتِ زمانہ گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ پرہیزگاری کو قلب کی روشنی بناؤ تاکہ اس کے اندر برپا ہونے والا انقلاب فتنہ و فساد کا نہیں امن و امان کا علمبردار ہو۔

مزید رقمطراز ہیں: ’’جان لو کہ جب تک نیت نہ ہو، عمل کا کوئی ثمر نہیں۔ جس کی نیکی نہیں، اس کے پاس اجر نہیں‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ نیکی در اصل اخلاص نیت اور  عمل صالح کا حسین ترین امتزاج ہے۔ ان دونوں میں سے اگر کوئی ایک بھی مفقود ہو تو نیکی عالمِ وجود میں نہیں آ سکتی۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ” قلب سلیم ایسا دل ہے جس میں شک و نفسانی خواہشات نہ ہوں اور  ایسا عمل ہے جس میں شہرت طلبی اور  ریا نہ ہو”۔ آخرت کے تجارت کا راس المال نیکی ہی ہے۔ وہاں جو اس سرمایۂ حیات سے محروم ہو گا وہ بھلا اجر کا مستحق کیوں کر ہو سکتا ہے؟

آخری نصیحت: ’’جو شخص نرمی نہیں کرتا، وہ مفلس ہے اور  جس کے پاس اخلاق نہیں، وہ بے نصیب ہے‘‘۔ یہ تلقین ’’مفلس کون‘‘ والی حدیث کی جانب اشارہ کرتی ہے جس میں حق تلفی کا انجام بیان ہوا ہے۔ دلآزاری اور  ہتک عزت بھی اس میں شامل ہے اس کا تعلق تلخی و ترش روی سے ہے۔ یہی خرابی متقی کو اس کی نیکیوں کے اجر سے محروم کر دیتی ہے یہاں تک کہ وہ نہ صرف قلاش بلکہ مقروض ہو جاتا ہے۔ اس بدقسمت کے میزان عمل میں چونکہ دوسروں کی بدی ڈال دی جاتی ہے اس لئے وہ نا کردہ گناہوں کی سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔ حسن اخلاق ہی اس عبرتناک انجام کے خلاف بہترین ڈھال ہے لیکن جو اسے توڑ ڈالے اس کو حضرت عمرؓ بے نصیب قرار دیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

فری ہوم ڈیلیوری

 

ہمارے محلے میں ایک نئی اناج کی دوکان کے اشتہار پر لکھا تھا فری ہوم ڈیلیوری اور  بڑے بڑے حروف میں فون نمبر بھی درج تھا۔ ہم نے سوچا یہ اچھا ہے گاہکوں کو پھنسانے کے لیے ایک دن مفت میں سامان دو اور  پھر آگے چل کر خوب لوٹو۔ مختصر پوسٹر میں چونکہ ایک دن کی وضاحت نہیں تھی اس لیے سوچا فون کر کے پوچھ لیا جائے کہ کیا چکر ہے؟ یہ دوکان ہے یا کوئی خیراتی ادارہ؟ جبکہ وہ بھی کام کرنے سے قبل مجبور کے دس چکر لگواتے ہیں۔ اپنی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ہم نے فون کر کے پوچھا بھائی یہ ہوم ڈیلیوری فری کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔

سامنے سے خوش مگیں لہجے میں جواب ملا ہم سمجھ گئے کہ آپ کیا سمجھے؟

ہمیں یکلخت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا احساس ہوا۔ اپنی خفت  مٹانے کے لیے سوال کر دیا یہ آپ کیسے سمجھ گئے؟ آپ انتر یامی ہیں کیا؟

جی نہیں ایسی بات نہیں۔ آپ سے پہلے کئی فون آ چکے ہیں۔ در اصل فری ہوم ڈیلیوری کا مطلب آپ دوکان پر آ کر کوئی شئے خریدیں یا گھر بیٹھے منگوائیں آپ کو یکساں قیمت چکانی پڑے گی۔ (اس جملے میں قیمت چکانے پر خاصہ زور تھا)۔ ہم آپ سے پہچانے کا اضافی خرچ نہیں لیں گے۔

تب تو آپ بغیر مول بھاؤ کے من مانی قیمت وصول کر لیں گے۔

جی نہیں ہم تاجر ہیں لٹیرے نہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو کوئی دوسری بار ہم سے سودہ سلف نہیں منگائے گا۔

لیکن آپ پہلی ہی بار میں خوب کما لیں گے۔

دیکھیے جناب ہمیں اس دوکان کو بند نہیں کرنا بلکہ ہم لوگ تو دوکان کھولنے جا رہے ہیں اس لیے ایسی حماقت نہیں کر سکتے۔

فون بند کرنے کے بعد میرا ذہن اسلام کی فری ہوم ڈیلیوری کی جانب نکل گیا۔ ہم نمازیوں کی یاددہانی کے لیے اذان دیتے ہیں جس کے سبب نیند یا کام میں غافل مسلمان کی توجہ اس اہم ترین فریضے کی جانب مبذول ہو جاتی ہے وہ مسجد میں آ کر اپنے خالق و مالک کے آگے سر بسجود ہو جاتا ہے۔ اذان کے بعد نماز کی تلاوت و تکبیر تو مصلیانِ مسجد کے لیے ہوتی ہے اس کے لیے باہر والے لاوڈ اسپیکر کا استعمال چہ معنی دارد؟ جس مسلمان نے اللہ کی پکار کو نظر انداز کر دیا۔ اذان کی ناقدری کی ایسے انسان کو زبردستی نماز کی تلاوت سنانے سے کیا حاصل؟

یہ جو فری میں اسلام کی ہوم ڈیلیوری ہے اس سے مسلمانوں کے اندر دین بیزاری پیدا ہو سکتی ہے اور  غیرمسلم کے اندر نفرت و عناد جنم لے سکتا ہے۔ کیا اس جوش ایمانی کے اظہار سے عوام الناس کو دین سے قریب کرنے کے بجائے دور نہیں بھگایا جاتا؟ اس سوال کا جواب ہمیں سونو نگم جیسے فتین سے معلوم کرنے کے بجائے خود تلاش کرنا ہو گا۔ اگر یہ اصلاح برضا و رغبت نہیں ہو گی تو مشیت ہمیں چار و ناچار اس کے لیے مجبور کر دے گی۔ بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؎

فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

(یہ جواز درست نہیں ہے کہ لوگ گھر بیٹھے تلاوت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔

خلل اندازی کی شکایت کرنے والوں کی تعداد ان سے بہت زیادہ ہے )

٭٭٭

 

 

پگار کا دن (دکنی)

 

مرزا اظہار بیگ عرف اجو میاں نے میر صفیان علی عرف صیفو میاں سے کہا کیوں باوا! تمہاری تو گنگا چا لٹی بھیتی۔

صیفو میاں بولے کم میں کم عید کے دن تو جلی کٹی چھوڑ کو اچھی باتاں کرو

سارے لوگاں عید گاہ سے گھراں کو جاریں تو تمیں عید گاہ کو آریں بول کے چپچ بولیا آپ برا نکو مانو۔

ارے ہاں یہ تمہارے امام صاب عید کے دن بھی چین سے سونے نئیں دیتے۔

ہاں ہمنا مالوم ہے تمے روز صبا پانچ بجے اٹھ کو کاماں شروع کر دیتیں کتے

نئیں بھئی صبا پانچ بجے ہمیں دکان کھول کو بیٹھے تو بھی آپ کچھ لینے کو آتیں کیا؟ ۰۰۰ کچھ بھی بولتیں۔

دکانچ بند تو کیسے آئیں گے۔ تمے دکان کھول کو بیٹھو تو دیکھو صبا فجر کے باد کیسی لائن لگتی۔

چھوڑو بھئی ہمنا سوب مالوم۔ فجر میں مسجد کے اندر ایک لائن تو بھرتی نئیں میری دوکان میں کون سی لائن لگے گی منجے مالوم ہے۔

اجو ّمیاں شرمندہ ہو کر بولے تمے میری بائیک پے بیٹھو میں درگاہ کی مسجد کو چھوڑتوں نماز مل جائیں گی۔ ( درگاہ پہنچ کر) جاؤ جلدی سے بھرتی ہو جاؤ۔

دو منٹ رکتے نئیں کیا باوا؟ بھاگ کو جاتوں دوڑ کو آتوں۔ رکو نا باوا ہاتھ پاؤں جوڑتوں۔

نئیں بھئی پھر تمے خطبہ سنیں گا تو میں کیا کروں گا؟ بار بار ووچ ووچ سننے کا کیا؟ تم کسی کے ہور ساتھ آ جانا میں جاتوں۔

کیا بھئی عید کے دن بھی مروت چھوڑ دییے سو لوگاں۔ لگے تو میں سلام پھیر کو جھٹ سے آتوں تم منجے رستے میں خطبہ بتا دینا۔ تو سنیا میں سنیا ایکچ بات ہے

نہیں بھئی ایسا کیسا ہوتا تو کھایا میں کھایا ایکچ کیا؟

نئیں رکتے تو نکو رکو میں بھی تُمنا دیکھوں گا شعر سنو اور  جاو:

بیوفائی نہ کر خدا سوں ڈر

جگ ہنسائی نہ کر خدا سوں ڈر

لاکو چھوڑے اتآچ بھوت، بھاگتوں۔

ایسا نکو بولو باوا یہ لو اگلا شعر سنو:

ہے جدائی میں زندگی مشکل

آ جدائی نہ کر خدا سوں ڈر

ادھر ٹھہرا سو ہوں۔ جلدی آو، کیا بولتوں؟

واپسی میں صیفو میاں نے بائیک پر بیٹھ کر کہا میں بولتوں یہ مولانا کو کون سی گاڑی پکڑنے کا رہتائے جو اتی جلدی کرتیں؟ آرام سے نماز پڑھانا نئیں؟

گاڑی نئیں بھئی نیند پکڑنے کا رہتا ئے۔ صبح نماز کے لیے اٹھنا تو پڑتائچ ہے۔ عید پڑھائے کی شیر خورمہ کھا کو ظہر تک فرصت، لمبی تان کو سو جاتے کتے۔

یہ باتاں ہمنا سمجھ میں نئیں آتی بابا پن ماننا پڑے گا بیان تو زوردار کرتیں۔ آج کونسا نیا پوائنٹ لائے بولو۔ درگاہ کی لاسٹ رکاتچ ملی بیان نئیں کیا بھی نئیں

کیا بولوں آج تو انوں آخری پوائنٹ لائے بولے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: رمضان کی آخری یعنی عید کی رات کو میری امت کی مغفرت ہو جاتی ہے۔

اچھا یہ تو بھوتچ بڑی بات ہے ہور کیا بولے؟

وہ بولے یہ بات سن کر صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ کیا یہی وہ لیلۃ القدر ہے؟

ہاں بھئی یہ بھی تو ہو سکتا ہے نا۔ میں تو چپچ ۲۷ کی رات جا گیا سو۔

نئیں صیفو میاں حضور اکرمﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اپنا کام مکمل کر لیتا ہے مطلب پگار کے دن۔

یہ بھی صحیح ہے لیکن کل رات تو میں اپنا کام ختم کر کے باہو بلی دیکھنے کے لیے نکل گیا تھا۰۰۰۰ میری مزدوری کا کیا ہوئینگا؟

میرے کو نکو پوچھو تم جانو تماری مزدوری جانے۔ میری طرف سے تم کو اور  تمہارے باہوبلی کو عید مبارک۔، میں جاتوں ۰۰۰۰۰تمُنا بھی عید مبارک۔     ٭٭٭

 

 

سنسکار: موروثی اقدار

 

ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور  اللہ کے نزدیک سب سے پیارا وہ ہے، جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ حدیث کو سمجھانے کیلئے اس لیے صحابہ کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ عصر حاضر میں ہمدردی کرنے والے ناپید ہوتے جا رہے ہیں یا ہماری نظر میں اپنے غمگسار وں کی وقعت نہیں ہے۔ ریاض میں قیام کے دوران مولانا انعام الرحمٰن صاحب کے صاحبزادے حبیب الرحمٰن صاحب سے ملاقات ہوئی تو قلبی مسرت ہوئی۔ آگے چل کر حبیب صاحب اپنا کاروبار بیٹے اقبال حبیب کے حوالے کر کے دہلی لوٹ گئے مگر دوست و احباب سے ملاقات کیلئے ریاض آنا جانارہتا تھا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں انہوں نے اپنے بیٹے کو تلقین کی کہ میرے دوستوں کا خیال رکھنا۔ یہ نصیحت اس حدیث کا حصہ ہے جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا والدین کے ساتھ بعد از وفات نیکی کرنے کیلئے ان کے دوستوں کا احترام کرو اور ان کے رشتوں کو قائم رکھو۔ حبیب الرحمٰن صاحب ماہِ دسمبر میں انتقال فرما گئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)

اپنے والد ماجد سے کئے گئے وعدے کا حق اقبال حبیب نے ان کے دوست امین الہدیٰ صاحب کی تیمار داری میں ادا کر دیا۔ اقبال میاں کی دردمندی کے بارے میں ہمارے مشترک دوست حفیظ اللہ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے تیمار داری ایسے کی کہ گویا خون کی رشتے داری ہو۔ یہ سن کر بھائی حسین ذوالقرنین بولے جی نہیں اس نفسا نفسی کے دور میں رشتے دار بھی ان کی برابری نہیں کر سکتے۔ وہ ہر روز امین الہدیٰ صاحب کے اہل خانہ کو لے کر ۴ بجے شام اسپتال جاتے اور  ۷ بجے کے بعد لوٹتے۔ یہ سلسلہ بلا ناغہ تقریباً تین ماہ جاری رہا۔ اقبال حبیب کی اس سعادتمندانہ رحمدلی پر میں سوچنے لگا کہ کیا آج کی مادہ پرست دنیا میں بھی کوئی اپنے والدین کی ایسی اطاعت کر سکتا ہے؟ کیا حدیث نبویﷺ پر اس طرح بھی عمل ہوتا ہے؟ اپنے والد کے دوست کا ایسے بھی خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پس از مرگ والدین سے اظہار عقیدت کا یہی بہترین طریقہ ہے لیکن ایسے خوش بخت کتنے ہیں کہ جن کے حصے میں یہ سعادت آتی ہے۔ اقبال حبیب نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یاد تازہ کر دی کہ آپؓ نے ایک مرتبہ اپنے احباب کے ساتھ گدھے پر سوار ہو کر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک بزرگ ملے تو انہیں پہلے اپنی پگڑی اتار کر دے دی اور  بعد ازاں گدھا بھی دے دیا اور  خود پیدل چل پڑے۔ ساتھیوں نے حیرانگی سے استفسار کیا تو فرمایا کہ یہ میرے والد گرامی حضرت عمرؓ کے دوست تھے اور  رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ سو اولاد کو چاہیے کہ وہ والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں کا احترام کرے۔

میرے چہرے پر حیرت و استعجاب دیکھ کر حفیظ اللہ صاحب نے کئی سال پرانا ایک واقعہ سنا دیا۔ وہ بولے ’’کالج کے زمانے میں مجھے کسی دوست نے اسلامک سینٹر ویلور کے اجتماع میں چلنے کی دعوت دی۔ بنگلور سے ویلور کی طویل مسافت طے کر کے میں بہت تھک چکا تھا۔ زمین پر بیٹھنے کی عادت کے نہ ہونے کے سبب اجتماع میں دن بھر بیٹھنا مزید باعثِ پریشانی تھا۔ دورانِ اجتماع میں نے محسوس کیا کہ ہم سایہ شریک اجتماع میرے پیر دبا رہا ہے۔ مجھے آرام بھی مل رہا تھا اور  مزہ آ رہا تھا اس لئے میں اپنے خدمتگار کی جانب دیکھنے سے نظر بچاتا رہا۔

لیکن جب اعلان ہوا کہ اب امیر حلقہ مدھیہ پردیش اور  معزز رکن شوریٰ انعام الرحمٰن خاں صاحب اظہار خیال فرمائیں گے تو میں نے دیکھا میرا سیوک مائک کی جانب چلا جا رہا ہے۔ حفیظ اللہ صاحب نے بتایا ’’یہ دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا‘‘۔ حسین بھائی نے اس پر یہ اضافہ کیا کہ اقبال میاں کے نانا جان محمد مسلم صاحب کا حسن اخلاق اور وضعداری بھی تو مشہور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا موروثی اقدار یعنی سنسکار اس طرح نسل در نسل آگے بڑھتے ہیں؟

٭٭٭

 

 

 

سبحان اللہ، اللہ اکبر

 

اذکارِمسنونہ قلب و ذہن کی معرفت کے نئے باب کھولتے ہیں۔ زینے سے نیچے اترنے کی دعا سبحان اللہ ہے اور  اوپر چڑھتے وقت اللہ اکبر کی تلقین ہے۔ آج کل لفٹ کے اندر یا باہر بھی یہ دعائیں لکھی ہوتی ہیں جنہیں لوگ بلا شعور پڑھتے ہیں۔ یہ عمل یقیناً باعثِ اجر و ثواب ہے لیکن اگر اس میں غور و خوض شامل ہو جائے تو خیر و برکت میں بیش بہا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بظاہر نیچے اترتے وقت سبحان اللہ کہنے یا اوپر جاتے وقت اللہ اکبر کا ورد بے ربط سا لگتا ہے لیکن اگر اس اتار چڑھاؤ کو زندگی کے نشیب و فراز پر پھیلا کر اس عمل کے دوران کی نفسیاتی کیفیت سے جوڑ دیا جائے تو معنیٰ و مفہوم کی کئی جہتیں منکشف ہوتی ہیں۔

بقول اقبال ’’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانہ میں‘‘۔ یہاں پر ہر شئے تغیر پذیر ہے اور تبدیلی کا لامتناہی سلسلہ بے تکان جاری رہتا ہے۔ حالات زندگی مختلف رفتارسے بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی تندی و تیزی اپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلاتی ہے مگر جب ماند پڑ جائے تو ہر شئے کے ٹھہر جانے کا گمان ہوتا ہے حالانکہ یہ محض خوش گمانی ہے۔ گھڑی کے کانٹے کبھی نہیں رکتے۔ حضرت انسان کو مشیت کبھی سیکنڈ کے کانٹے پر سوار کر دیتی ہے تو وہ ایک منٹ میں اپنا چکر پورا کر لیتا لیکن جب اسے منٹ کے کانٹے پر سوار کر دیا جاتا ہے تو اسے ایک گھنٹے میں اپنا طواف مکمل کرنا پڑتا ہے اور  گھنٹے والے کانٹے سے لٹکے ہوئے فردِ بشر کو اسی دائرے کی تکمیل میں بارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سارے جھُولے اور  ان پر سوار شائقین اپنی اپنی رفتار سے اس وقت تک محوِ گردش رہتے ہیں جب تک کہ ان کی کوک یا بیٹری ختم نہیں ہو جاتی۔

نشیب و فراز راہِ حیات کے نشانِ منزل ہیں۔ جب انسان نیچے کو جا رہا ہو تو اس کے اندر حزن و ملال کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ کیفیت مایوسی میں بدل کر احساس جرم بن جاتی ہے۔ انسان اپنی ناکامی کیلئے خود کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے آپ کو کوستا ہے۔ یہ حالت قوتِ کار کو سلب کرتی ہے۔ تھک کر بیٹھ جانے والا خود اپنی نظر میں گر جاتا ہے۔ ایسے میں سبحان اللہ کا ذکراس کی ڈھارس بندھاتا ہے کہ تمام عیوب سے پاک تو صرف صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ احساس مایوسی کو خود اعتمادی بدل دیتا ہے۔ اللہ پر توکل کر کے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی جد و جہد کو آگے بڑھانا اس کیلئے سہل تر ہو جاتا ہے۔

حالات کی تبدیلی انسانی زندگی کا رخ بدل دیتی ہے۔ جب وہ اونچائی کی جانب رواں دواں ہوتا ہے اور یکے بعد دیگرے کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں تو کبر و غرور کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ نادان سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف اس کی صلاحیتوں اور  قوت بازو کا نتیجہ ہے۔ اس میں کسی نادیدہ ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ایسے میں وہ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ خدا کی ذات سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ کامیابی کی بلند منزلوں پر احساسِ برتری کا شکار ہو کروہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ایسے میں کلمۂ اللہ اکبر کاورداسے یاد دلاتا ہے کہ بڑا تو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے آگے تیری کوئی حیثیت نہیں۔ ’’برتری زیبا تو بس اس ذات بے ہمتا کو ہے‘‘ اس لئے کسی کو اپنے سے کم تر نہ سمجھ۔

حیاتِ زندگانی میں جب خوشی و مسرت ہاتھ آ جائے تو دعا سکھائی گئی ’’سبحان اللہ، اللہ اکبر‘‘ یعنی نشیب و فراز کی متضاد کیفیتوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا۔ عروج و کامیابی کے لمحات میں اللہ کی پاکی اور  تکبیر و توصیف کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ زوال و پستی میں اپنے خالق و مالک کو کوئی نہیں بھولتا بلکہ زیادہ ہی یاد کرتا ہے۔ غفلت کی آندھی تو بلندی کی سہیلی ہے اسی لئے بقول افتخار راغب ؎

خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے

گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھِل جانے کے بعد

٭٭٭

 

 

 

شب قدر کا بے حساب ثواب

 

وراٹ کوہلی اگر سیاستداں ہوتا تو اس کے ۳۴ کروڑ والے مکان پرکسی کو حیرت نہ ہوتی۔ اس خطیر رقم میں تو وراٹ کے چوکوں اور  چھکوں پر تالیاں بجانے والے سیکڑوں لوگ سرچھپانے کا سامان کر سکتے ہیں لیکن ان میں اور  وراٹ میں بڑا فرق ہے۔ وراٹ گھر بسا رہا ہے اور  وجئے ملیا کی دو کوٹھیاں نیلام ہو رہی ہیں جن میں ایک کی کم از کم قیمت ۱۵۰ کروڑ اور  دوسری کی ۹۰ کروڑ یعنی جملہ ۲۳۰ کروڑ مقرر کی گئی ہے۔ ملیا کے آگے وراٹ بھی بونا ہے لیکن اس ملک میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو کرائے کے مکانوں میں چین کی نیند سوتے ہیں اور  پھر ایسے بھی ہیں کہ جو کروڑوں کے مکانوں کو چھوڑ کر گرفتاری کے خوف سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ یعنی جس طرح مکانوں کی قدر و قیمت مختلف ہے اسی طرح مکینوں کی تقدیر بھی یکساں نہیں ہے۔

دن اور  رات کا معاملہ مکانوں اور  مکینوں جیسا ہے۔ ہر ملک میں قومی دن عام دنوں سے ممیز و ممتاز ہوتا ہے۔ بالعموم اس کی فضیلت کسی عظیم نعمت کے حصول سے وابستہ ہوتی ہے مثلاً ۱۵ اگست کو ہندوستان کا انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو جانا یا ۲ دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے مختلف ممالک کا ایک وفاقی اتحاد قائم کر لینا وغیرہ۔ ایک قدیم نعمتِ عظمیٰ کو یاد کر کے ہرسال خوشی منائی جاتی ہے لیکن جس رات میں رب کائنات نے عالم انسانیت کو اپنی معرفت سے سرفراز کیا اور  نجات کے نسخۂ کیمیا عطا کر کے فرمایا ’’ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور  تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ اس قدر و منزلت والی بیش قیمت رات کی قدر دانی ہدایت کا طالب جوہری ہی کر سکتا ہے۔

لیلتہ القدر کے بارے میں جب یہ آیت نظر سے گذری کہ ’’فرشتے اور  روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں‘‘ تو قومی بجٹ کا دن یاد آیا گیا کہ جب سال بھر کا معاشی منصوبہ پیش کر دیا جاتا ہے اور  مختلف سرکاری محکموں کو ان کی حدود و قیود سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ ان فیصلوں کے اثرات سارے سال کے کام کاج پر پڑتے ہیں لیکن حصص بازار اسی دن سے چڑھنے اترنے لگتا ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی جمہوریت کے بسنے والے آزاد ترین عوام بھی حکومتوں کے ان فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو کس کی مجال ہے کہ اس مقتدرِ اعلیٰ کی روگردانی کرے کہ جو ’’۰۰۰(حقیقی) بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور  بڑا ہی ہو کر رہنے والا۰۰۰‘‘۔ (الحشر۲۳)۔ شب قدر یقیناً طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے۔ بقول ذوالفقار نقوی ؎

آج رحمت کے جام بٹتے ہیں، ہر سیہ کار اب شتاب آئے

میرے حصے میں بھی ثواب آئے، ہے شب قدر بے حساب آئے

شب قدرسے استفادہ کرنے والے سارے رندوں کے جام یکساں نہیں بھرتے۔ سکوّں کی قدر و قیمت کی مانند نیکیوں کا اجرو ثواب بھی مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بحرینی دینار کے عوض تین ڈالر ملتے ہیں جبکہ ایک ڈالر کی خاطر ۳۰ ہزار ایرانی ریال ادا کرنے پڑتے ہیں اور  اگر کسی کے پاس زمبابوئے کا ڈالر ہو تو کئی کروڑ۔ پچھلے دنوں وہاں ایک انڈے کی قیمت ساڑھے ۳ کروڑ زمبابوئے ڈالر تھی۔ شبِ قدر کے ہر لمحہ کی عبادت کے عوض کوئی دینار کماتا ہے، کسی کو ڈالر ملتے ہیں تو کوئی روپیہ پیسے کا حقدار بنتا ہے۔ اس خیر و برکت والی رات سے ہر بندۂ مومن اپنے اخلاص و عمل کے مطابق فیضیاب ہوتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے اس رات بخشش کی یہ دعا فرمائی کہ اس سے بہتر کوئی انعام نہیں ’’اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ( اے اللہ بیشک تو بخشنے والا ہے اور بخشش کوپسندکرتا ہے۔ پس میری بخشش فرما دے)‘‘۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

صلح حدیبیہ

 

غزوۂ بدر کی شکست کو بھلا دینا مشرکین مکہ کے لیے نا ممکن تھا اس لیے اگلے سال انہوں نے بڑے لشکر کے ساتھ انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ احد کے میدان میں مسلمانوں سے مقابلہ ہوا۔ ابتداء میں کفارکوشکست ہوئی مگر آگے چل کر وہ فتح میں بدل گئی۔ اس جنگ سے لوٹتے ہوئے انہوں نے آئندہ سال بدر کے میدان میں ملنے کا چیلنج کیا جسے محمدﷺ نے قبول کر لیا۔ اگلے سال نبی کریمﷺ اپنے لشکر کے ساتھ بدر کے میدان میں تشریف لے گئے لیکن وہ درمیان سے لوٹ گئے اور  گویا جنگ کے بغیر شکست تسلیم کر لی۔ اب ان لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ تنہا مسلمانوں کوشکست نہیں دے سکتے اس لئے ۵ ھ میں سارے قبائل کے ساتھ مل کر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کیا اس لئے وہ جنگ احزاب کہلائی۔ نبی کریمﷺ نے منفرد انداز میں خندق کھود کر اپنا دفاع کیا اور  اللہ تعالیٰ نے دورانِ محاصرہ ایک ایسی آندھی بھیجی کے زبردست فوجی تیاری کے باوجود دشمنانِ اسلام کو بے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔

اس کے بعد والے سال میں مسلمانوں نے عمرہ کا قصد کیا جو صلح حدیبیہ پر منتج ہوا۔ صلح کا معاہدہ لکھوا کر فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے فرمایا: اٹھو!  اور  اپنے اپنے جانور قربان کر دو، لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ پھر نبی کریمﷺ نے اپنا جانور ذبح کر کے سرمنڈوا لیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ نے بھی اپنے اپنے جانور ذبح کر کے باہم ایک دوسرے کا سر مونڈ دیا۔ صلح حدیبیہ کی دو شرائط سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا آپﷺ نے قریش کے دباؤ میں صلح کی ہے جس کے باعث اہل ایمان حُزن و غم کا شکار تھے چنانچہ حضرت عمر بن خطابؓ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!  کیا ہم لوگ حق پر اور  وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا: کیا ہمارے مقتولین جنتی اور  ان کے مقتولین جہنمی نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں؟ اور  ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور  ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: خطاب کے بیٹے!  میں اللہ کا رسول ہوں اور  اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور  مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا۔

اس موقع پر سورہ فتح کی پہلی آیت نازل ہوئی ’’بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے‘‘۔ ان حالات میں اس آیت کے اسرارو رموز کی رسائی نا ممکن تھی مگر بعد میں پیش آنے والے واقعات اس کی حقانیت کے شاہد و مفسربن گئے۔ بنو بکر اور  بنو خزاعہ کے درمیان قدیم عداوت تھی۔ صلح حدیبیہ کے تحت بنو خُزاعہ نے رسول اللہﷺ سے عہد و پیمان باندھ لیا اور  بنو بکر قریش کے ساتھ ہو گئے۔ بنو بکر نے بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا نے کی غرض سے رات کی تاریکی میں حملہ کیاجس میں کئی لوگ مارے گئے۔ قریش نے بدعہدی کر کے بنو خزاعہ کی پشت پناہی کی اور  انہیں کھدیڑ کر حرم تک لے آئے۔ حرم کعبہ میں بنو بکر نے فریاد کی کہ: اے نوفل، اب تو ہم حرم میں داخل ہو گئے۔ تمہارا الٰہ!  … تمہارا الٰہ!  … اس کے جواب میں نوفل نے رعونت سے جواب دیا: بنو بکر! آج کوئی الٰہ نہیں۔ اپنا بدلہ چکا لو۔ میری عمر کی قسم!  تم لوگ حرم میں چوری کرتے ہو تو کیا حرم میں ہم اپنا بدلہ نہیں لے سکتے۔

اس سانحہ کے بعد عمرو بن سالم خزاعی نے دربار رسالتماب میں حاضر ہو کر اس طرح دہائی دی: ’’اے پروردگار!  میں محمدﷺ سے ان کے عہد اور  ان کے والد کے قدیم عہد کی دہائی دے رہا ہوں۔ ہم نے تابعداری اختیار کی اور  کبھی دست کش نہ ہوئے۔ اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آپ پُر زور مدد کیجیے اور  اللہ کے بندوں کو پکارئیے، وہ مدد کو آئیں گے۔ آپ ایک ایسے لشکر جرار کے اندر تشریف لائیں گے جو جھاگ بھرے سمندر کی طرح تلاطم خیز ہو گا۔ یقیناً قریش نے آپ کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور  آپ کا پُختہ پیمان توڑ دیا ہے۔ انہوں نے رات میں حملہ کیا اور  ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا‘‘۔ اس طرح کفار قریش کی یہ بد عہدی بالآخر فتح مکہ کا پیش خیمہ بن گئی۔

٭٭٭

 

 

 

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا

 

حکومت نے شریعت کے چھتے میں تین طلاق کے پتھر مار دئیے اور  امت پھر ایک بار بیدار ہو گئی۔ ایسے میں ملت کے ایک ہمدرد نے واٹس ایپ پر یہ پیغام بھیجا کہ جس قدر محنت ہم شریعت کے تحفظ کی خاطر کرتے ہیں اگر اس کا عشر عشیر بھی عمل درآمد کیلئے کریں تو شاید کوئی مداخلت کی جرأت ہی نہیں کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ جتنی فکر ہمیں شریعت بچانے کی ہوتی ویسی گرمجوشی پیروی میں نہیں نظر آتی۔ شریعت سے روگردانی کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قانون تبدیل کر دینا یا اسے تبدیل ہونے سے روک دینا جس قدر سہل ہے خود اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لینا اتنا آسان نہیں ہے بقول اقبال؎

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

دوسری وجہ یہ ہے کہ احتجاج کی شکلیں بہت واضح ہوتی ہیں مثلاً کوئی مضمون لکھنا یا سوشیل میڈیا کیلئے کوئی مختصر فکاہیہ لکھ کر پھیلا دینا وغیرہ۔ ان میں زیادہ تر تحریریں اردو میں ہوتی ہیں جس کو صرف مسلمان پڑھتے ہیں۔ ہندی اور  انگریزی میں جو لکھا جاتا ہے اُن کا لب و لہجہ مخالفین کی دلآزاری کرنے والا زیادہ اور  دل جیتنے والا کم ہوتا ہے ( الّا ماشا اللہ)۔ ہم بھول جاتے ہیں کے سارے غیر مسلم ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ جتنے ہمارے خلاف ہیں اتنے ہی سنگھ کے بھی خلاف ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک معتدل طبقہ نہ کسی کا مواقف ہے نہ مخالف۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پیغامات سے یہ معتدل گروہ ہمارا حامی بن جاتا ہے یا مخالفت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ شریعت پر لگائے جانے والے اوٹ پٹانگ الزامات کے جواب میں مخاطب کی عیب جوئی کرنے سے یہ تاثر تو جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کی پامالی میں دوسرے ہم سے آگے ہیں لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شریعت اسلامی مبنی بر انصاف ہے۔ اس طرح اسلام کی دعوت پیش کرنے کا ایک نادر موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ تحفظ شریعت تحریک میں عملی شرکت بہت واضح ہوتی ہے مثلاً کسی احتجاجی جلسے میں شریک ہو کر تقریر سننا یا کرنا۔ کسی مظاہرے میں شامل ہو کر نعرے لگانا یا دستخطی مہم چلانا وغیرہ۔ اس میں شک نہیں کہ ان سرگرمیوں کا دنیا اور  آخرت میں فائدہ مسلّم ہے۔ ان کیلئے درکار وقت اور  محنت کا اندازہ لگا کر برضا و رغبت قربانی پیش کر دینا مشکل نہیں ہے لیکن عمل درآمد میں آمادگی کی کمی کے سبب شرعی احکامات کی ضروری معلومات حاصل کر کے اسے اپنی زندگی پر نافذ کرنا مشکل لگتا ہے۔ جلسے جلوس میں دوسروں کے دیکھا دیکھی وہی سب دوہرانا سہل ہوتا ہے لیکن اپنے منفرد مسائل کو حل کرنے کے لئے شریعت سے رجوع کر کے متعلقہ احکامات کی بجا آوری آسان نہیں۔

آخری وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا دھارا شریعت کے خلاف بہہ رہا ہے اس لئے شریعت سے محبت کرنے والا بھی ہوا کے رخ پر اس کے مخالف سمت میں چل پڑتا ہے۔ عام آدمی دریا کے بہاؤ کے خلاف تیرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ بہاؤ کے ساتھ بہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہوا کے رخ کو موڑ کر ایسا ماحول بنانے کی ہے کہ جس میں شریعت کی روگردانی مشکل ہو جائے اور  یہ ہدف نا ممکن نہیں ہے۔ ہماری نسل گواہ ہے کہ جب نماز کی جانب توجہ کی گئی تو مساجد آباد ہو گئیں۔ یہی کامیابی حجاب کے محاذ پر بھی ملی پہلے اعلیٰ تعلیم گاہوں میں شاذونادر ہی کوئی طالبہ برقع میں نظر آتی تھی لیکن اب مسلم طالبات نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے شعائر و لباس کا لوہا منوا لیا ہے۔ یہ محدود کامیابی اگر مکمل شریعت کے نفاذ تک وسیع ہو جائے تو وقت کا دھارا بدل سکتا ہے ۰۰۰۰۰ اور  بدلے گا ۰۰۰۰۰ان شاء اللہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

جشنِ عید

 

غریب الوطن کی عید سب سے وحشت ناک ہوتی ہے اس لئے کہ اس کے پاس عید کی خوشی میں شریک کرنے کیلئے کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید مناتے ہیں اور  پھر اعزہ و اقرباء، پاس پڑوس، گلی محلہ، مسجد کے ساتھی، جماعت کے دوست اور  عمائدین شہر گویا یہ دائرہ جس قدر وسیع ہوتا ہے خوشیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تصور کریں کہ اگر اس جشن میں حق باری تعالیٰ اور  اس کے فرشتے بھی شامل ہو جائیں؟ آپ اگر سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے تو ایک حدیث قدسی ملاحظہ فرمائیں جس کے تین باب ہیں۔ پہلے میں فرشتوں کا بندوں سے مکالمہ، دوسرے میں اللہ کی فرشتوں سے گفتگو اور  بالآخر رب کائنات کا اپنے بندوں سے خطاب۔

نبیﷺ نے فرمایا: جب عید کی صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور  ہر بستی کی طرف روانہ کر دیتا ہے۔ فرشتے زمین میں اُتر کر گلیوں اور  راستوں کے موڑ پر کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے محمدﷺ کی اُمت کے لوگو! گھروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چلو! تمھارا پروردگار بہت ہی زیادہ دینے والا اور  بڑے سے بڑے قصور معاف کرنے والا ہے۔ فرشتوں کا راستے میں کھڑے ہو کر استقبال کرنے کا ادراک ہی غریب الوطن کی عید کو خوشیوں سے مالا مال کرنے کیلئے کافی ہے۔

اہل ایمان جب عیدگاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خدائے عز و جل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے: میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا؟ فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دے دی جائے۔ اس پر ارشاد ہوتا ہے: فرشتو! تم سب گواہ ہو جاؤ کہ میں نے رمضان میں صیام و قیام کرنے والے بندوں کو اس کے صلے میں اپنی خوشنودی سے نواز دیا اور  ان کی مغفرت فرما دی۔ رضائے الٰہی اور  گناہوں کی معافی سے بڑھ کر ایمان والوں کے لئے کون سی خوشخبری ہو سکتی ہے؟

تیسرے اور  آخری مرحلے میں رب کائنات براہِ راست اپنے بندوں سے خطاب فرماتا ہے۔ خدا اپنے بندوں سے کہتا ہے: میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو۔ مجھے میری عزت و جلال کی قسم! آج عید کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور  اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے، اس میں بھی تمھاری بھلائی پیش نظر رکھوں گا۔ جب تک تم میرا دھیان رکھو گے، میں تمھارے قصوروں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ بندے کے اوپر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ عالم الغیب و الشہادۃ اس کے گناہوں کی پردہ پوشی فرما دے۔ مزید فرمانِ خداوندی ہے: مجھے میری عزت و جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل اور  رسوا نہ کروں گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اہل ایمان لاکھ ابتلاء و آزمائش کے باوجود رسوائی سے بچا لئے جاتے۔ آج بھی ساری دنیا کے انصاف پسند ڈاکٹر محمد مورسی کا احترام کرتے ہیں اور جنرل السیسی پر لعنت بھیجتے ہے۔

عید گاہ سے واپسی پر بھی انعام و اکرام کی برسات جاری رہتی ہے۔ فرمانِ ربانی ہے: جاؤ تم اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے ہو، میں تم سے راضی ہو گیا۔ فرشتے اس بشارت پر خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں۔ اُس بخشش اور  نوازش پر خوشیاں مناتے ہیں جو رمضان بھر کے روزے رکھنے اور عید کے دن روزہ کھولنے والوں کا مقدر بنتا ہے۔ ان خوش کن اور  دلچسپ مناظر میں بشارت، بخشش اور  نوازش تو بندوں کیلئے ہے لیکن اس کا جشن فرشتے منا رہے ہیں۔ جی ہاں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ فرشتے اپنے سجدۂ تعظیمی کے حق بجانب ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ہمارے جشن عید کی رونق بڑھا تے ہیں۔ کتنے خوش بخت ہیں وہ اہل ایمان جو ملائکہ کے ساتھ عید مناتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

یہ اک شجر کہ جس پہ ۰۰۰

 

 

بیج اور  پھل کا تعلق بھی مرغی اور  انڈے جیسا ہے۔ اس امر کا فیصلہ نہایت مشکل ہے کہ ان میں کون پہلے آیا؟ جب لوگ لاجواب ہو جاتے ہیں تو ٹالنے کیلئے کہہ دیا جاتا ہے مرغا سب سے پہلے آیا۔ گمان غالب یہ ہے کہ اولین مرغے کی دائیں پسلی سے مرغی وجود میں آئی ہو گی اور  پھراس نے انڈوں اور  چوزوں سے جہانِ رنگ و بو میں رونق بخشی ہو گی یہاں تک کہ علامہ اقبال کو اعتراف کرنا پڑا ’’وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔ بیج اور  پھل کا بھی یہی معاملہ ہے کہ ان کے درمیان مرغے کی مانند درخت پایا جاتا ہے۔ بیج سے پیڑ، پیڑ سے پھل اور  پھل میں بیج اس طرح مرغی سے انڈا اور  انڈے سے مرغی والا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ ممکن ہے اذنِ کن سے شجر پہلے وجود میں آیا ہو اور  اس مبارک و مفید سلسلے کی ابتداء ہو گئی ہو۔ واللہ أعلم بالصواب وإلیہ المرجع و المآب۔

ابو ظبی کی خلیفہ مسجد کے سامنے ایک درخت کے نیچے میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ ایسے میں عزیزم حسرت خان نے سوال کیا سلیم جانتے ہو یہ کون سا درخت ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کم مائے گی کا اعتراف کر لیا۔ حسرت خان نے بتایا کہ یہ زیتون کا درخت ہے۔ عراق کے اندر شام کی سرحد پر موسم بہار کے آتے ہی زیتون کے گھٹنوں اونچے پودے پھلوں سے لد جایا کرتے تھے مگر یہ ہے کہ سر سے اونچا برسوں سے یوں ہی بے ثمر کھڑا ہے۔ موسم کے آنے جانے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اس پر ہمارے دانشور دوست عقیل نے کہا ’’بھائی پھل کیلئے موسم اور  آب و ہوا کی بڑی اہمیت ہے۔ بلاد الشام کی بہار یہاں کا رخ نہیں کرتی اس لئے یہ خوشنما درخت سایہ تو دیتے ہیں مگر پھلدار نہیں ہوتے‘‘۔ اس کے جواب میں ایک عالم فاضل دوست علیم گویا ہوا۔ ’’بیج کا درخت بن جانا اور  درختوں میں پھلوں کا لگنا یہ سب اذنِ الٰہی پر موقوف ہے۔ ارشاد ربانی ہے کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم بوتے ہو، اِن سے کھیتیاں تم اگاتے ہو اُن کے اگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور  تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ‘‘۔ عدم اطمینان کے شکار عقیل کا اعتراض تھا تو کیا اسباب و علل کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

علیم نے مسکرا کر جواب دیا میں نے کب ان کا انکار کیا ہے لیکن وہ سب بھی تو خالق کائنات کے تابع فرمان ہیں۔ مشیتِ ایزدی کے ایک اشارے سے خزاں کا موسم بہار میں بدل جاتا ہے اور  گلستان و بوستان لہلہانے لگتے ہیں۔ اس تبدیلی پر نہ باغبان کا اختیار ہے اور  نہ وہ عند اللہ مسؤل ہے۔ مالی کی ذمہ داری تو بس زمین کو نرم کر کے صحیح وقت پر بیج کا بو دینا ہے۔

عقیل نے پھر سوال کیا اچھا تو کیا بیج کے بونے کے بعد مالی کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور پھر اسے پیر پسارکے سو جانا چاہئے؟ علیم کا جواب تھا میرا خیال ہے کہ آپ نے کبھی باغبانی نہیں کی ہے ورنہ یہ سوال نہیں کرتے۔ مالی تو پودے کو اولاد سے عزیز رکھتا ہے۔ اس کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ان کی حفاظت و آبیاری کرنا اور  کھاد پانی ڈالنا بھی اس کا کام ہے؟ اس فرض منصبی سے اسے روکنا نا ممکن ہے۔ اس جواب نے سب کو لاجواب کر دیا مگر عقیل بھائی مان کر نہیں دیتے تھے انہوں نے تضحیک آمیز انداز سے کہا آپ تو پیدائشی مالی لگتے ہیں؟ بات کو بڑھتا دیکھ کر حسرت میاں نے مداخلت کی بھائیو شہر یار کا یہ شعر سنو اور  گھر چلو؎

یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے

سائے میں اس کے بیٹھ الجھنا فضول ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عدل و قسط کی میزان

 

عدل کے لیے ’’قسط‘‘ کے لفظ کا مترادف قرآن کریم میں ۲۲ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ انصاف کرنے والا عادل اور  مقسط بھی کہلاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد نظامِ عدل قائم کرنا تھا۔ حضرت داؤدؑ کو خلافت عطا کرتے ہوئے تلقین کی گئی کہ "اے داؤدؑ!  ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے پس حق و انصاف کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کیا کرو اور  خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی اور  جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے اس لئے انہوں نے یوم الحساب (قیامت) کو بھلا دیا۔

انبیاء کے فرائض اور  ذمہ داریوں میں چونکہ عدل کا قیام بنیادی اہمیت کا حامل تھا اس لئے نبی کریمﷺ سے یہ منادی سنا ئی گئی ’’مجھے حکم دیا گیا ہے میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور  تمہارا رب بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور  تمہارے اعمال تمہارے لیے، ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور  اسی کی طرف سب کو جانا ہے "۔ اس آیت کا سیاق و سباق مومن و منکر دونوں کو عدل کا مستحق ٹھہراتا ہے۔

مکی زندگی کے اندر آپﷺ نے لوگوں کو عقائد کی سطح پر عدل کی جانب متوجہ کیا لیکن ان نامساعد حالات میں بھی جب شرارتاً کفار مکہ نے ایک ایسے شخص کو آپ کی خدمت میں بھیج دیا کہ جس کا مال ابو جہل نے غصب کر رکھا تو آپ نے حالات کی دہائی دے کر معذرت کرنے پر اکتفاء کرنے کی بجائے عملاً ابو جہل سے اس کا حق دلوایا۔ مدنی زندگی کی ابتداء سے کہ جب اسلامی ریاست صرف ۴ مربع میل پر محیط تھی اور  اس وقت تک کہ جب وہ ۱۲ لاکھ مربع میل تک پھیل گئی تھی آپﷺ نے قیامِ حق اور  نفاذِ عدل کی سعی جاری و ساری رکھی۔ نبیِ آخرالزماں کے بعد خدائے بزرگ و برتر نے آپﷺ کی امت کو پوری دنیا میں عدل قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ ارشادِ ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور  انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہی خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔ سورہ مائدہ کی یہ آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اے مسلمانو! تم دوست تو کجا، دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرو اور  یہی تقویٰ اور  خدا ترسی کے قریب تر ہے۔

قرآن مجید اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور ہماری مخلوق میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا راستہ بتاتے ہیں اور  اس کے مطابق انصاف بھی کرتے ہیں‘‘۔ خطبۂ جمعہ میں مختلف پند و نصائح کے بعد اس اہم ترین ذمہ داری کی یاددہانی ہر مرتبہ کرائی جاتی ہے ’’اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور  صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور  برائی، بے حیائی اور  ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو‘‘۔

ہم نہ اس آیت کو سمجھتے ہیں اور  نہ اس کے تقاضوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ سرور عالمﷺ سے ہماری عقیدت و محبت کا یہ اولین تقاضہ ہے کہ جس نظام عدل وقسط کو قائم کر کے آپﷺ نے اس دنیا سے ظلم و جبر کا خاتمہ فرمایا ہے ہم بھی اس کے قیام کیلئے کمر بستہ ہو جائیں اس لئے کہ یہ امت وسط دنیا و آخرت میں میزان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے حکیم الامت فرماتے ہیں ؎

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

٭٭٭

 

 

 

 

رزق، امن اور  نجات

 

انسانی تاریخ کے ایک اہم باب کا ذکر قرآن حکیم میں کچھ اس طرح ہے کہ ’’یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور  وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘ ابراہیمؑ نے عرض کیا: ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے‘‘ جواب ملا ’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ عالم انسانیت کی امامت کے منصب عالیہ پر فائز کرنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ کو یہ مژدہ سنایا گیا ’’اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور  امن کی جگہ قرار دیا تھا اور  لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور  ابراہیمؑ اور  اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور  اعتکاف اور  رکوع اور  سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘۔ اس آیت میں عالمی مرکز عبادت کا جائے امن ہونا، امن و آشتی اور  عبادت و ریاضت کا گہرا تعلق ظاہر کرتا ہے۔ اجتماعیت کی اولین ضرورت مرکزیت ہے۔ امن و امان انسانی نفس کے چین و سکون کی خاطر ناگزیر ہے اور  عبادت روحِ انسانی کیلئے آبِ حیات ہے۔

فطرت انسانی کے تین اہم ترین اجزائے ترکیبی انسان کا مادی وجود یعنی جسم، فکر و شعور کا محرک نفس اور زندگی کی علامت روح ہے۔ خدائے واحد کے مقدس ترین گھر کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں مادی ضرورت یعنی رزق اور  نفسیاتی حاجت بمعنیٰ امن دونوں شامل ہیں۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور  یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور  اس کے باشندوں میں جو اللہ اور  آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے‘‘۔ حضرت ابراہیمؑ نے تو احتیاطاً امن و رزق کی طلب کو اہل ایمان تک محدود رکھا لیکن رب کائنات نے اسے لامحدود فرما دیا ’’جواب میں اس کے رب نے فرمایا: اور  جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور  وہ بدترین ٹھکانا ہے‘‘۔ گویا دنیوی زندگی کا انحصار رزق و امن پر ہے مگر اخروی نجات یعنی روحانی کامیابی کیلئے اللہ کی بندگی شرطِ اولیٰ ہے۔

مکہ مکرمہ میں نہ تو زراعت تھی اور  نہ صنعت و حرفت۔ اس علاقہ کے لوگ تاجر پیشہ تھے۔ وہ جنوب میں یمن کی صنعتوں کا مال شمال میں بلاد الشام تک لے جاتے تھے اور شمالی علاقوں کی زرعی پیداوار کو جنوب تک پہنچا کر اپنی معیشت چلاتے تھے۔ تجارتی سفر کیلئے گرمی و سردی سے مانوسیت لازمی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فضل و کرم فرمایا ’’چونکہ قریش کو مانوس کر دیا۔ یعنی جاڑے اور  گرمی کے تجارتی سفر سے مانوس کر دیا ہے۔‘‘ اس لئے ’’ان کو چاہیے کہ اس گھر (خانۂ کعبہ) کے پروردگار کی عبادت کریں۔ جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور  خوف میں امن عطا کیا‘‘۔

تجارتی سفر میں سخت جانی اور  جانفشانی جتنی ضروری ہے امن و امان بھی لازمی ہے۔ ان دونوں نعمتوں کو بندگی سے جوڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان شکر گذار بندہ بن کر اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں جٹ جائے تو یہ عبادت گذاری اس کے اخروی فلاح و نجات کا سبب بن جائے گی۔ گویا جسم، نفس اور  روح کی مانند رزق، امن اور  نجات بھی باہم مربوط ہیں۔ امن و آشتی اور  فلاح نجات کی بہ نسبت مادی ضرورتوں کی اہمیت اس لئے کم ہے کہ رزق کا ذمہ اللہ نے خود اپنے سرلے رکھا ہے اور  امن و نجات کو انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ رزق کو مقدر کر کے امن و نجات کو انسان کا اپنا کسب یعنی اس کے اپنے ہاتھ کی کمائی قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’ہر شخص اُن (اَعمال) کے بدلے جو اُس نے کما رکھے ہیں گروی ہے‘‘۔ اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے آنے والے یقینی کل کے لیے کیا کمائی کر کے رکھی ہے؟

٭٭٭

 

 

 

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ۰۰۰۰۰۰

 

عصر حاضر کا عظیم ترین المیہ یہ ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر کے لوگ اسلام کو جاننے کیلئے داعش کی غیر اسلامی حرکات کی جانب دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی ساری تو انائی یہ بتانے میں صرف ہو جاتی ہے کہ کہ اسلام کیا نہیں ہے۔ اسلام کی دعوت پیش کرنے کا موقع ہی نہیں آتا۔ داعش کا نہ تو اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور  نہ ہی کسی مسلم ملک یا گروہ نے اس کو اپنا نمائندہ تسلیم کیا ہے اس کے باوجود ان کی سفاکی و درندگی کو دین اسلام سے جوڑ کر امت سے اعلان برأت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے علماء و دانشور آئے دن یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ داعش کا اسلام اور  مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا ظلم و جور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

اے ٹی ایس نے محکمہ قانون سے مطالبہ کیا ہے کہ داعش کے نام پر جعلی شکایت کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ گزشتہ ۸ ماہ میں مختلف لوگوں کی داعش کے حوالے سے ۳۰۰ شکایتیں موصول ہوئیں اور  تفتیش کے بعد وہ سب بے بنیاد پائی گئیں۔ اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ شکایت کنندگان میں بیشتر پرائے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہیں۔ مثلاً ممبئی کے ایک ۸۰ سالہ امام مسجد پر داعش کا آدمی ہونے کا الزام لگایا گیا جو گزشتہ ۲۰ سالوں سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ مسجد کے ٹرسٹ میں آپسی چپقلش تھی۔ ان میں ایک گروہ نے محسوس کیا کہ امام صاحب دوسرے دھڑے کے ساتھ ہیں تو اس نے امام صاحب کو داعش کا طرفدار بنا دیا۔ مساجد کے متولی مسلمان ہوتے ہیں یا غیر مسلم یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔

ممبئی کے علاقہ کر لا میں سڑک پر کباب بیچنے والے ایک شخص کے خلاف اسی قسم کی شکایت کی گئی۔ پولس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کی وجہ سے ایک سبزی فروش کا کاروباری نقصان ہو رہا تھا اس نے کباب والے کا کانٹا نکالنے کیلئے اسے داعش کے کانٹے میں پھنسا دیا۔ دفتری رقابت نے بھی ایک شخص کو داعش کا آدمی بنوا دیا۔ کسی خاتون کو اپنے دفتر میں ساتھ کام کرنے والے ایک مرد میں دلچسپی تھی جب اس نے دیکھا کہ وہ مرد کسی اور  کی جانب متوجہ ہے تو انتقام کے جذبے سے اس نامراد خاتون نے پرائے مرد پر داعش سے تعلق کا الزام لگوا دیا۔ یہاں تک کہ جب ایک خاندان نے شادی کے رشتے نا منظور کر دیا تو اس کا رشتہ داعش سے جوڑ دیا گیا۔ پولس کی فراہم کردہ ان معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان فرضی شکایتوں کے پس پشت کہیں ذاتی دشمنی، کہیں کاروباری مسابقت تو کہیں حسدوہمسائے گی کی مخاصمت کارفرما ہوتی ہے۔

یہ تو خیر انفرادی معاملات ہیں جو بہ آسانی بے نقاب کر دئیے جاتے ہیں لیکن اگر ان شکایتوں سے سیاسی مفاد وابستہ ہو جائے۔ حکومت وقت اس کا استعمال اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے کیلئے یا اپنی ناکامیوں کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کرنے لگے تو معاملہ سنگین ہو جاتا ہے۔ مثلاً کیرالہ کے ایک شخص ایبن جیکب نے شکایت کی اس کی بہن میرین جیکب جس کا نیا نام مریم ہے اور  اس کے شوہر بیکسٹن ونسنٹ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام یحییٰ رکھ لیا ہے لاپتہ ہے اس لئے ضرور داعش سے جا کر مل گئے ہوں گے۔

حیرت تو اس پر ہے کہ سرکاری اہلکار اس اوٹ پٹانگ الزام پر یقین کر کے اس داعی اسلام کو گرفتار کرنے کے لئے ممبئی پہنچ گئے جس سے وہ دونوں رابطے میں تھے۔ جس طرح کی سفاکی کا مظاہرہ داعش کی جانب سے آئے دن ہوتا رہتا ہے اس کی تائید کوئی دین پسند تو دور اسلام دشمن روشن خیال مسلمان بھی نہیں کرتا اس لئے کہ دین اسلام اس طرح کے قتل و غارتگری اور  فتنہ انگیزی کو سخت ناپسند کرتا ہے اور  اسے ایک جارحانہ اور  وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ داعش سے تعلق کے نام پر آئے دن مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور  ملک کا وزیر داخلہ اپنے گائے بھکتوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

 

 

دولت و اقتدار نہ صرف نعمت بلکہ آزمائش بھی ہے۔ یہ کم ظرف کے ہاتھ لگ جائے تو اس کو اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ اقتدار کا عاشق ہر ایسی شئے سے نفرت کرتا جس سے معشوق کو خطرہ لاحق ہو۔ خطرات غیروں اور  اپنوں دونوں سے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کہ دشمن بھی اقتدار سے محروم کر سکتے ہیں اور  دوست بھی۔ یہی وجہ ہے کرسی کو بچانے کے لیے کبھی دوستوں سے دشمنی کی جاتی ہے اور  کبھی دشمنوں کو دوست بنا لیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی حرکات و سکنات کے پسِ پشت صرف اور  صرف اقتدار محبت کارفرما ہوتی ہے۔ وراثت یا انتخابی عمل کے نتیجے میں ہاتھ آنے والے حکمرانی کے لوازمات تو مختلف ہوتے ہیں لیکن نفسیات یکساں ہوتی ہے۔ اقتدار بہر صورت حکمراں اور  رعایا کے درمیان ایک حد فاصل ڈال دیتا ہے۔ اس صورتحال میں رعایا کی ترجیحات حکمرانوں سے مختلف ہوتی ہیں اور  یہ حقیقت ہے کہ بیشتر حکمراں عوام کا نمائندے ہونے کے باوجود ان کے حقیقی ترجمان نہیں ہوتے۔

اس فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں عوام حکمرانوں کی سازشوں کا بہ آسانی شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے دشمنوں کو اپنا دشمن اور  ان کے دوستوں کو اپنا دوست سمجھ لیتے ہیں جبکہ حقیقت اس سے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ متضاد صورتحال میں حکمرانوں کا بھلا کرنے کی خاطر رعایا اپنا خسارہ کر بیٹھتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام الناس کو باور کرایا جاتا ہے کہ ان کا مفاد حکمرانوں سے وابستہ ہے حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو اندھی تقلید کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ حکومت کی حمایت یا مخالفت سے قبل اس کے اقدامات کو حق و باطل کی کسوٹی پر جانچنا اور  پرکھنا ضروری ہے۔ ورنہ جذبات کی رو میں وہ کسی اور کا آلۂ کار بن کر اپنا اور  اپنی ملت کا نقصان کر سکتے ہیں۔ کئی بار حکمرانوں کی ناکامی کو پوری قوم کی شکست قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ ان کے فیصلوں میں عوام کی کوئی حصے داری نہیں ہوتی اور  حکمران کی کامیابی کو ملت کی فتح بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

امت کی بے وزنی کی ایک وجہ ’ وہن‘ ہے۔ وہن دنیا کی محبت اور  موت کا خوف ہے۔ حکمرانوں کے اندر دنیا بمعنیٰ اقتدار کی محبت گھر کر جائے تو وہ حق و باطل کی تمیز گنوا بیٹھتے ہیں۔ اسی سبب سے دولت و ثروت کی فراوانی کے باوجود وہ بے وزن ہو جاتے ہیں اور ان کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ موت کا خوف انہیں دشمنوں سے پنجہ آزمائی کی اجازت نہیں دیتا اور  دنیا کی محبت ان کو اپنے عوام تک کا دشمن بنا دیتی ہے۔ اقتدار کو بچانے کے لیے کی جانے والی خفیہ ریشہ دوانیاں کا پردہ فاش ہو جانا انہیں بے چین کر دیتا ہے۔ خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ اگراسلام کے دشمنوں کے ساتھ ان کے تعلقات طشت از بام ہو گئے تو عوام کے اعتمادکوٹھیس پہنچے گی اور اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔

اماراتی سفیر اور  اسرائیل نواز تھنک ٹینک کے درمیان جو خط و کتابت (ای میل) کے منظر عام پر آنے سے خلیجی حکمرانوں کی نیند حرام ہو گئی اور  السیسی کو موقع مل گیا۔ قطر کے الجزیرہ چینل نے چونکہ یہ راز فاش کیا اس لیے سارا نزلہ اس پر گرا، ورنہ کیا وجہ ہے کہ دو ہفتہ قبل تک جو منظور نظر تھا وہ اچانک آنکھوں کا کانٹا بن گیا۔ قطر پر جن لوگوں سے تعلق رکھنے اور  پشت پناہی کرنے کے الزامات ہیں وہ نئے نہیں قدیم ہیں۔ اس پر اچانک ہنگامہ آرائی کی وجہ وہ ای میل ہیں جن کو اپنی عوام کے سامنے آنے سے روکنے کے لیے الجزیرہ پر پابندی نیز قطر کا مقاطعہ لازم ہو گیا۔ اس کے لیے ٹرمپ کے دورے کو موردِ الزام ٹھہرانا حقائق سے چشم پوشی ہے۔ یہ ٹرمپ کا کمال نہیں بلکہ اقتدار کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی پردہ پوشی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

اختلاف اور  انتشار کا فرق

 

امت کے اندر پائے جانے والے خلفشار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اختلاف اور  انتشار کے درمیان کا فرق نہیں جانتے۔ اتحاد و اختلاف کا تعلق اور  اختلاف و انتشار کے فرق کی معرفت کے بغیر کی جانے والی اتحاد کی مخلصانہ کوششوں کے درمیان ہی افتراق کا نادانستہ بیج پڑ جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ اختلاف ناگزیر ہے۔ اس کی بدولت پیدا ہونے والے تنوع کو اگر یکسانیت سے بدل دیا جائے تو کائنات ہستی کا حسن ختم ہو جائے گا اور  انسانی تہذیب کا ارتقاء رک جائے گا۔ انفرادی جبلت سے لے کر اجتماعی معاملات تک اختلاف ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ دوستوں کے درمیان، افراد خانہ کے اندر، دفترو بازار غرض کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں یہ موجود نہ ہو لیکن اس کے باوجود نہ رفاقت ختم ہوتی ہے نہ خاندان منتشر ہوتے ہیں۔ اختلاف کے سبب نہ کوئی ملازمت ترک کرتا ہے اور  نہ خریدو فروخت کا سلسلہ بند ہوتا ہے۔ جماعتوں کے اندر اور  گروہوں کے درمیان بھی اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے اور اس انتشار کا خلفشار بن جانا ضروری نہیں ہے۔

اختلاف ایک آزمائش ہے۔ دنیوی زندگی کی آزمائش میں صبر و شکر کا رویہ اختیار کرنا کامیابی و خوش بختی اور  کفر و شرک کی راہوں پر چل پڑنا ناکامی و بدبختی ہے۔ اختلاف، اتحاد اور  انتشار کے فرق و تعلق کو دنیوی زندگی اور  جنت و دوزخ کے موازنہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جس طرح دنیوی زندگی ایک ناگزیر حقیقت آزمائش ہے اسی طرح باہمی اختلاف بھی لوازم فطرت میں سے ایک ہے۔ اگر اختلاف نہ ہو تو نہ ہی اتحاد کی ضرورت پیش آئے گی اور  نہ انتشار کا امکان ہو گا۔ اختلاف کے تئیں اختیار کیا جانے والا رویہ کامیابی و ناکامی کا سبب بنتا ہے۔

افراد یا جماعتوں کا اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا تعاون کرنا کامیابی و کامرانی ہے اور  اختلاف کے سبب بغض و عناد کا شکار ہو جا ناکامی و نامرادی ہے۔ اختلاف کی بیخ کنی چونکہ نا ممکن ہے اس لئے اس سعیِٔ لاحاصل میں اپنی تو انائی صرف کرنا دانشمندی نہیں ہے بلکہ اختلاف کے باوجود تعاون واعلی البر و التقویٰ کی بنیاد پر مل جل کر کام کرنا مطلوب و مقصود ہے۔

امت کے اندر تمام تر احتیاط اور  دانشمندی کے باوجود ایک ساتھ کام کرنے والوں کے درمیان ناچاقی کا امکان باقی رہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں الہامی ہدایت یہ ہے کہ ’’اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ‘‘۔ نہایت اخلاص اور  غیر جانبداری کے ساتھ صلح صفائی کی کوشش کے کامیاب ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر دونوں فریق اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور  ایک دوسرے کے ساتھ انصاف سے آگے بڑھ کر احسان کا معاملہ کریں تو ممکن ہے نزع ٹل جائے اور  پھر سے خیر سگالی کی فضا قائم ہو جائے لیکن یہ لازمی نہیں ہے۔

مصالحت کی سعی اسی وقت ناکام ہوتی ہے جب فریقین میں سے ایک زیادتی پر اتر آئے یعنی اپنے طاقت و قوت کے گھمنڈ میں اللہ کی کتاب کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے ایسے میں حکم دیا گیا ہے کہ ’’اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور  انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ صلح و آشتی اس قدر اہم ضرورت ہے کہ اس کی خاطر جنگ بھی مباح ہے۔

یہاں پر ایک گروہ کے ساتھ جنگ کا حکم دیا جا رہا ہے لیکن اسی کے ساتھ مقصد بھی واضح کر دیا گیا ہے۔ اس جنگ کا مقصود کسی گروہ کی تذلیل یا انتقام نہیں بلکہ اس کو اللہ کے حکم کی جانب لوٹانا ہے۔ اگر جنگ کے بعد وہ اپنے موقف سے رجوع کر لے تو پھر سے وہ انصاف کا مستحق ہو جائے گا۔ اس موقع پر یہ ہدایت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ عدل و انصاف قائم کرتے وقت اپنی پسندو ناپسند کا خیال کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تحریک و تنظیم کے مراحل

 

تنظیم در اصل افراد کو جوڑنے اور  کام کو بانٹنے کا نام ہے۔ انسانی زندگی کی مانند زندہ تحریکیں بھی مختلف مراحل سے گزرتی ہیں۔ ابتدائی مرحلہ بچپن کی طرح ہوتا ہے شعور بہت زیادہ پختہ نہیں ہوتا۔ سیکھنے کا عمل بہت زور شور سے جاری و ساری رہتا ہے۔ انا وسازش کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ اخلاص کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہوتا ہے۔ باہمی اعتماد کی ایسی فضا ہوتی ہے کہ بلا تکلف کام آپس میں تقسیم کر دئیے جاتے ہیں۔ تحریک سرعت کے ساتھ پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اس مرحلے میں توسیع کا عمل بہت تیزی سے ہوتا ہے اور  گھٹنوں کے بل چلنے والا نونہال دیکھتے دیکھتے گبرو جوان بن کر کھڑا ہو جاتا۔

اس کے بعد تحریک و تنظیم جوانی کے مرحلے میں قدم رکھتی ہے۔ شعور میں پختگی آ چکی ہوتی ہے۔ اب پھیلے ہوئے کام کو سمیٹنے کا خیال جنم لیتا ہے۔ مختلف سرگرمیوں کی ضرورت اور  افادیت پر غور و خوض ہونے لگتا ہے۔ اہداف کے تعین کا خیال آتا ہے اور  ان کے حصول کی خاطر منصوبہ بندی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جائزہ اور  احتساب کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔ تنقید برائے اصلاح و ارتقاء کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اجتماعی خامیوں اور  انفرادی کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے تربیت و تزکیہ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ تنظیم کے اندر ایک خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور  باہر کی دنیا میں اس کا وقار بحال ہونے لگتا ہے۔ تحریک کا عہد شباب یہی ہے کہ جس میں اس کے خدوخال پوری طرح نکھر کر منصۂ شہود پر آ جاتے ہیں۔

عالم پیری میں ہر شئے لڑکپن کے متضاد ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت میں فرد کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کے مدارج کا بھی اشارہ ہے ’’پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور  تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور  کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے‘‘۔ جوانی کے بعد بڑھاپے کی جانب مراجعت بچپن کی طرح خوشگوار مرحلہ نہیں بلکہ حیات انسانی کا بدترین حصہ ہے اس کا ترجمہ مختلف مترجمین نے پست ترین، ناکارہ، نکمہ اور  بے غرض (یعنی جس کی افادیت و ضرورت نہ ہو )بھی کیا ہے۔ اس مرحلے میں تحریک کے اندر افراد کے جڑنے کا عمل ماند پڑ جاتا ہے اور  ٹوٹنے کا سلسلہ تیز ہو جاتا ہے۔ کام تقسیم ہونے کے بجائے مرتکز ہونے لگتے ہیں۔ شعور کی حد درجہ پختگی لچک اور  رواداری کو متاثر کرتی ہے۔ خود پسندی اور  بے جا خوداعتمادی کے سبب سیکھنے کا مزاج ختم ہو جاتا ہے۔ روایت کا غلو ندرت کو بدعت قرار دے دیتا ہے۔ باہمی اعتماد میں کمی کے باعث افراد منقسم ہوتے ہیں اور اسی کے ساتھ تحریک زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ تحریک کشادگی کے بجائے تنگی کا شکار ہو کر انتشار فکرمیں مبتلاء ہو جاتی ہے۔ چکبست کے اس شعر میں عناصر کو فکروفرد سے بدل دیا جائے تو وہ اجتماعیت پر صادق آتا ہے ؎

زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا

یہ جہان فانی ہے اور  یہاں ہر شئے آنی جانی ہے۔ کوئی عروج ایسا نہیں ہے جس کا مقدر زوال نہ ہو دورِ شباب کو لامحالہ عالمِ پیری سے معانقہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ فطری عمل آفاقی ہے اس کا اطلاق ہر خاص و عام تحریک یا تنظیم پر ہوتا ہے کوئی اس سے مبراء نہیں رہ پاتا۔ تحریک کی نشو و نما کو اندر والے پہلے اور  باہر والے بعد میں محسوس کرتے ہیں لیکن تحریک کے انحطاط کا احساس باہر والوں کو بہت جلد ہو جاتا ہے مگر اندر والے اس کو بہت دیر بعد محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تنظیم سے وابستہ افراد کو دیگر تحریکات کے ز وال و انحطاط کا اندازہ بڑی آسانی سے ہو جاتا ہے لیکن خود اپنی بابت وہ غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔ ایسے میں مختلف لوگ اپنے اپنے ظرف کے مطابق الگ الگ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کوئی افسوس پر قناعت کر لیتا ہے تو کوئی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ کچھ لوگ پردہ پوشی کو کافی سمجھتے ہیں مگر کچھ اور  اصلاح حال کی سعی کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ بدبختی ان کے حصے میں آتی ہے جو اسے اچھال کر اپنی عصبیت کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

امتیازِ رنگ و خوں ۰۰۰۰۰

 

عصر جدید میں دستوری اعتبار سے سارے شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں لیکن عملاً اس دعویٰ کی دلیل ناپید ہے۔ ایک عام آدمی کیلئے انصاف کا حصول تو درکنار رشوت کے بغیر پولس تھانے میں شکایت درج کروانا تک نا ممکن ہے۔ عدالت اور وکلاء کی فیس کا تو عام شہری تصور بھی نہیں کر سکتا اس لئے عدالت سے دور رہتا ہے۔ عدل کا تقاضہ ہے کہ حاکم یا قاضی ہر مظلوم کی فریاد رسی کرے۔ ہر مدعی کو سفارش یا رشوت کے بغیر انصاف ملے۔ کسی کی غربت حصول انصاف میں رکاوٹ نہ بنے۔ کوئی شخص اپنے منصب یا دولت کے سبب عدلیہ پر اثر انداز نہ ہو لیکن یہ سب اگلے وقتوں کی باتیں ہیں اس کے عملی مظاہر سیرتﷺ و خلافت میں ملتے ہیں۔

قریش میں قبیلہ بنی مخزوم بڑے عزت و احترام کا حامل تھا۔ اس کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی جس سے سماج میں ہیجان برپا ہو گیا۔ ہمارے معاشرے میں بھی جب سلمان خان کا مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے تو سارا میڈیا اور  عوام و خواص اس کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں حالانکہ روزانہ نہ جانے کتنے بے قصور لوگ حوالات میں ٹھونس دئیے جاتے ہیں اور  ان کی خبر گیری کوئی نہیں کرتا۔ لوگ چاہتے تھے کہ کسی طرح وہ عورت سزا سے بچ جائے لیکن کوئی سفارش کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا۔ لوگوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓسے معافی کی سفارش کروائی۔

اس پر نبی کریمﷺ نے ناراض ہو کر فرمایا، ’’بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہو گئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کر دیتے تھے اور  امراء سے درگزر کرتے تھے، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے ) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتیں تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالتا۔‘‘

عدل و انصاف کیلئے تفریق و امتیاز سمِ قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے دین اسلام اس کی مکمل بیخ کنی کرتا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓبھی گرفتار ہو کر آئے۔ قیدیوں کو زرِ فدیہ لے کر آزاد کیا گیا۔ فدیہ کی عام رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امراء سے زیادہ فدیہ لیا جاتا تھا، بعض انصار نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ!  اجازت دیجیے کہ ہم عباس کا زرِ فدیہ معاف کر دیں، یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا، ’’ہر گز نہیں، ایک درہم بھی معاف نہیں ہو گا بلکہ حضرت عباس کی آسودگی کے سبب ان سے چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کئے جائیں گے۔‘‘ اپنے پرائے کا فرق مٹا کر عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے سے انصاف قائم ہوتا ہے۔

فی زمانہ عدلیہ اور  مقننہ کی آزادی کا نعرہ ہر کوئی بلند کرتا ہے لیکن جب حکمرانوں پر عدالتی شکنجہ کستا ہے تو مختلف مراعات و پابندیاں ملزم کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً اگرکسی معمولی وزیر کے خلاف بھی معاملہ اٹھانا ہو تو گورنر کی اجازت جیسی پخ لگا کر بلاواسطہ شکایت کنندہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ دین اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں قاضیِ شہر بلا تکلف حسبِ ضرورت حاکم وقت کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے۔ حضرت علیؓ کی زرہ دورانِ خلافت چوری ہو گئی۔ خلیفۂ وقت اپنے بیٹے کے علاوہ کوئی اور گواہ نہیں پیش کر سکا۔ عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے قاضی ٔ شریعت نے نواسۂ رسولﷺ کی گواہی مسترد کر دی اور  ایک یہودی چور کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ عدل و مساوات کی اس روحانی کیفیت کو علامہ اقبال نے ایک اور  تمثیل کے ذریعہ کیا خوب بیان کیا ہے ؎

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنت کا پھول

 

 

جنت کے معصوم سے پھول کو دنیا میں کھلتا ہوا دیکھ کر ساری کائنات خوشی سے جھوم اٹھی مگر وہ خود رو رہا تھا۔ باپ نے دائی سے پوچھا یہ کیوں رو رہا ہے؟ اسے کون سا غم ستا رہا ہے؟ دائی نے کہا یہ اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ اس ماں کوجس نے نو ماہ اپنے، خونِ جگر سے بطن کے اندر پرورش کی اور  لمحہ بہ لمحہ بڑی بے چینی کے ساتھ اس کے استقبال میں محبت کے چراغ روشن کرتی رہی۔ اس کی چھاتی میں جمع پیار ہی اب اس ننھی سی جان کیلئے آبِ حیات ہے۔ جبری ہجرت کی اس نازک گھڑی میں طفلِ شیرخوار کا اپنی ماں کو تلاش کرنا ایک فطری عمل ہے۔ اس کے دامنِ رحمت میں جگہ پانے کیلئے ہاتھ پیر چلانے کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟

باپ کو اطمینان نہیں ہوا وہ بولا یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ اس میں رونے بسورنے کی کیا بات؟ دائی بولی صاحب آپ کیلئے تو کوئی بات نہیں مگر یہ ننھی سی جان رحم مادر کی کال کوٹھری کو کل کائنات سمجھتی تھی۔ وہاں ایک نلی کے ذریعہ اسے رزق پہنچا یا جاتا تھا، ہاتھ پیر ہلائے بغیر پیٹ بھر جاتا تھا۔ اس وسیلے کو منقطع کر کے جب میں نے گرہ کس دی تو اسے یوں لگا ہو گا کہ اب رزق کے دروازے پر درد کی مہر لگ گئی ہے۔ اپنی اور  کائنات کی حقیقت سے نابلد طفلِ ناداں رحمِ مادر میں اپنے آپ کو بے حد محفوظ و مامون سمجھتا تھا۔ اس محدود کائنات سے نکلتے ہوئے بچے کو یوں محسوس ہوا ہو گا کہ وہ موت کے منہ میں جا رہا ہے حالانکہ اس نے زندگی کی جانب پیش قدمی کی ہے۔ وسیع و عریض دنیا میں موجود امکانات و مواقع سے بے خبر اندیشوں کا شکار بچہ فریاد کر رہا ہے۔ اپنے خالق و پالنہار کی جانب سے کئے گئے پرورش کے انتظام سے ناواقف ہونے کے سبب روتا ہے۔

اپنے خاوند کے فکر و فہم سے بے نیاز بچے کی ماں کو اپنے جگر گوشے کی کشمکش حیات نے باغ باغ کر دیا۔ وہ اسے سینے سے لگا کر اطمینان دلاتی ہے کہ حزن و ملال نہ کر یہ موت نہیں حیات ہے۔ اُس تنگ و تاریک کوٹھری کے برعکس یہ ایک روشن کائنات ہے۔ وہ بے حس و حرکت زندگی تکمیلِ حیات نہیں بلکہ اس کی ادنیٰ سی ابتداء تھی۔ لامتناہی منزلوں کا خوشگوار سفر تو اب شروع ہوا ہے۔ زبان حال سے ہر ماں اپنی اولاد سے کہتی ہے اے ننھے فرشتے! اس کارگہ ہستی میں بہت جلد تجھے نہ صرف خود کفیل ہو نا ہے بلکہ دوسروں کی کفالت بھی کرنی ہے۔ زندگی کی علامت سکون نہیں کشمکش ہے، جمود نہیں حرکت ہے۔ تعمیر ہے، ارتقا ہے، عروج ہے۔

شعورِحیات کا یہ اولین درس معصوم سے بچے کو اپنی عظمت کی معرفت کراتا ہے اور  وہ اپنی ماں کی یقین دہانی پر رونا بند کر دیتا ہے لیکن افسوس کے بڑے بڑے دانشور بے پناہ فہم و فراست اور  حکمت و دانائی کے باوجود اس بنیادی حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں ابدی عیش و آرام کیلئے ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے روتے چلاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے اور  الہامی سر چشمۂ نورسے نظر چرا کر اندھیرے کی جانب بگ ٹٹ دوڑے چلے جاتے ہیں۔ ان کی حالت اس نومولود طفل شیرخوار سے مختلف نہیں ہوتی جو اپنے پروردگار کی یقین دہانی اور  فضل و کرم سے بے بہرہ ہو۔ توکل علی اللہ سے محروم ان بزرگوں کو دیکھ کر بچہ بڑا ہونا نہیں چاہتا بقول شاعر ؎

میرے دل کے کسی کونے اک معصوم سا بچہ

بڑوں کی دیکھ کر دنیا، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

 

بادشاہ بہادر شاہ ظفر ایک اچھے انسان، تیر انداز اور  شہ سواری میں ماہر بہترین شاعر تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیگم زینت محل کے ساتھ رنگون بھیج دیا۔ آخری مغل کو رنگون میں آرام و آسائش سے رکھا گیا۔ ان کی دیکھ بھال کے کے لیے ایک ڈاکٹر تھا ملازم تھے لیکن لکھنے پڑھنے اور  ملنے جلنے کی آزادی نہیں تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے پیش رو بادشاہوں کی طرح مہرولی میں ظفر محل کے اندر اپنی قبر کی جگہ متعین کر رکھی تھی جو خالی پڑی ہے۔ ظفر محل اکبر شاہ ثانی نے تعمیر کرایا تھا، لیکن ان کے پوتے بہادر شاہ ظفر نے اس محل میں ایک بلند دروازے کا اضافہ کر کے اس پر’ باب ظفر‘ لکھوا دیا تھا۔ وہ ہر برس گرمی کے دنوں میں تین ماہ اس محل میں گزارتے تھے اور  چاہتے تھے کہ موت کے بعد وہیں آرام فرمائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا اس لیے جاتے جاتے فرماگئے ؎

کتنا ہے بدنصیب ظفر، دفن کے لئے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

ایک بد نصیب شاعر و بادشاہ کا یہ شعر خوب چلا کیوں کہ اس دور کا عکاس تھا۔ حالاتِ حاضرہ کی شاعری خوب چلتی ہے۔ ماضی کے اشعار بھی کسی قدر سرا ہے جاتے ہیں مگر مستقبل کی شاعر کو دادِ تحسین کم ہی ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ جب حال ماضی میں بدل جاتا ہے تو گزرے ہوئے کل کا سکہ رائج الوقت اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے اور آنے والے کل کی شاعری قابلِ قدر ہو جاتی ہے۔ غالب کے ساتھ یہی ہوا کہ اپنے زمانے میں وہ غالب نہیں ہو سکا؟ غالب کی شاعری میں اگر پائیداری و تہداری نہ ہوتی تو آگے چل کر بھی اسے غلبہ نصیب نہ ہوتا۔ غالب کا المیہ یہ تھا کہ جب لوگ گل و گلزار اور  رخ و رخسار کی باتیں کر رہے تھے وہ غم روزگار کا فسانہ چھیڑ بیٹھا۔ اس نے حقیقت بیانی میں فلسفہ کا رنگ شامل کر کے کہا ؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

غالب کی بازیافت ان کی موت کے بعد ہوئی اس لیے کہ وہ مستقبل کا شاعر تھا لیکن اگر کوئی شاعر ماضی کی مدد سے آفاقی حقائق کا انطباق حالاتِ حاضرہ پر کر دے تو اس کی پذیرائی اس کے اپنے دور میں بھی ہوتی ہے اور  مستقبل میں بھی اس کا کلام زندہ و تابندہ رہتا ہے۔ اقبال نے طارق بن زیاد کے اسپین کی فتح سے زندگی اور  موت کا فلسفہ اخذ کر لیا۔ شہادت اور  ہلاکت کا فرق واضح فرما کر مخلوق کو اپنے خالق سے جوڑ دیا۔ امت کے سامنے ان اسرارو رموز کو پیش کیا کہ جن سے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں اور  پھر سے اس میں اپنا مقام بلند پانے کا حوصلہ پیدا ہو۔ یہ شاعری چونکہ ماضی، حال اور  مستقبل تینوں ادوار پر محیط ہے اس لیے گردشِ زمانہ کی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ و مامون ہو کر صدا بہار ہو گئی ملاحظہ فرمائیں اسی غزل کا ایک شعر۔

طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو

وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں

٭٭٭

 

 

 

امن و انسانیت اور  دین رحمت

 

ایمان کا مصدر امن ہے اور  اسلام کا مادہ سِلم یعنی سلامتی ہے۔ حدیث جبریل کے اندر ایمان کی تعریف میں عقائد کا ذکر ملتا ہے مثلاً اللہ، رسول، کتابیں، فرشتے، قیامت اور  تقدیر۔ ان سب کا تعلق فرد اور عالمِ غیب سے ہے۔ اسلام کی تفصیل میں ارکان اسلام کا بیان ہے جن میں اجتماعیت کا پہلو غالب ہے مثلاً ایمان کی شہادت مجمع میں دی جاتی ہے۔ نماز با جماعت فرض ہے۔ ماہ رمضان کے روزے سب مل کر رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ کا اجتماعی نظم لازم ہے اور  حج تو خیر دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہی ہے۔ دین حنیف عقیدہ اور  عمل کے ساتھ انفرادی و اجتماعی زندگی کا حسین ترین امتزاج ہے۔

اسلام دین رحمت ہے۔ اس کا مظہر رحمت و رأفت اور احترام انسانیت سے ماخوذ ہے۔ ان صفات سے آراستہ دین ہی عالم انسانیت کو امن و سلامتی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس دین حق میں بلا تفریق مذہب و ملت تمام انسانوں کے حقوق کی رعایت کی گئی ہے۔ یہ مظلومین کو عدل و انصاف سے ہمکنار کر کے ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ وجود میں لاتا ہے جہاں بنی نوع آدم امن و سکون اور  طمانیت کے ساتھ زندگی گذارے۔ ایک مہذب انسانی معاشرے کی تعمیر کے پیش نظر قرآن و حدیث میں حقوق انسانی، عدل و مساوات، نرمی و شفقت، رحمت و محبت، انسانیت کا احترام، اور  تخریب و فساد سے گریز کا درس دیا گیا ہے۔

دین فطرت نہ صرف انسانوں پر چیرہ دستی کرنے والے کی مخالفت کرتا ہے بلکہ ظلم و جور کی بیخ کنی بھی کرتا ہے۔ دیگر ادیان کے بہ نسبت اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت اور  احترام بہت نمایاں ہے۔ اب یہ اہل اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دین رحمت کی قولی اور  عملی شہادت پیش کریں۔ اس دین رحمت کی برکات وحسنات سے عوام الناس کو فیضیاب کرنے کیلئے میدانِ عمل میں آئیں۔ نبی مکرمﷺ کے اسوۂ حسنہ میں اس کا بہترین نمونہ موجود ہے۔ بعثت سے قبل آپﷺ نے بنفس نفیس ظالم پر قدغن لگا کر مظلومین کی مدد کرنے والے ’’حلف الفضول‘‘ نامی معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ بعد کے زمانے میں اس کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اب بھی اس طرح کی کوشش ہو گی تو میں اس میں شمولیت اختیار کروں گا۔

امن و بھائی چارہ حضور اکرمﷺ کی مجبوری نہیں بلکہ پسند اور  خواہش تھی یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں بھی نبی کریمﷺ اس کو فروغ دیتے رہے۔ آپﷺ نے ہر زمانے میں قرآن مجید کے اصول ’’نیکی اور  پرہیز گاری میں ایک دوسرے کا تعاون کیا کرو اور  گناہ و زیادتی میں کسی کی مدد نہ کرو‘‘ کی فضا کو مستحکم فرمایا۔ یہودیوں اور  دیگر قبائل کے ساتھ امن و امان کا معاہدہ کیا جس میں مل جل کر ہر خارجی حملہ کے مشترکہ دفاع کی شق موجود تھی۔

بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام کی غرض سے دنیا کے مختلف بادشاہوں کو اسلام کی دعوت کے ساتھ امن عالم کا پیغام دیا گیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اقوال و تعلیمات اور  اخلاق و کردار کے ذریعے معاشرے کے اندر پائے جانے والی بدامنی و خونریزی کے مستقل اسباب مثلاً شہنشاہیت، سرمایہ داری، قومی عصبیت، مذہبی منافرت اور انتقام در انتقام کی روایت کا سدِّ باب فرمایا۔ اب یہ عاشقانِ رسولﷺ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبیﷺ کے مشن کو جاری و ساری رکھیں۔ بقول شاعر؎

اُٹھو کہ لکھیں وہ عہد نامہ،

جو امن کی فاختہ کے نغموں سے گونجتا ہو

لکھو کہ دھرتی اجاڑنے والے مجرموں کا حساب ہو گا

لکھو کہ بارود کا دھواں خود بشر پہ اپنا عذاب ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

حواس قبضے میں رکھنے کا نام روزہ ہے

 

ماہِ صیام و قیامِ رمضان کی مثال ایک ایسی تیز رفتار بگھی کی سی ہے جس کے دو پہیے ایمان اور  احتساب ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک بھی ناکارہ ہو جائے تو یہ سواری رک جاتی ہے۔ اگر ایمان ہو مگر احتساب نہ ہو، حقیقی شعور کے بغیر بس عادتاً بھوکا پیاسا رہا جائے یا علم و شعور تو ہو لیکن ایمان و یقین سے خالی فرد شرما حضوری میں مروتاً فاقہ کشی کیا کرے۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا نبی کریمﷺ نے فرمایا جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور  قیام اللیل کیا اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

یہ شرط ہے کہ ہو ایمان و احتساب کی خو

ہے دن کا روزہ تو شب کا قیام روزہ ہے

اس بگھی  میں بندۂ مومن جب اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتا ہے تو صیام و قیام اس کے سفارشی بن جاتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے بشارت دی ہے کہ: روزہ اور  قرآن روز محشر سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا ‘‘اے میرے رب! میں نے تیرے اس بندے کو کھانے پینے اور  خواہشاتِ نفس کی تسکین سے روکے رکھا تھا، آج میں اس کے حق میں سفارش کرتا ہوں تُو اسے قبول فرما لے۔ اسی طرح قرآن بھی عرض کرے گا۔ میں نے تیرے اس بندے کو رات کے وقت نیند اور  آرام سے روکے رکھا تھا۔ اس کے حق میری سفارش قبول فرما۔ اللہ روزے اور  قرآن کی سفارش قبول فرما لے گا اور  روزے دار کو جنت کے ایک خاص دروازے باب الریآن سے داخل ہونے کی سعادت سے نوازے گا۔

حقیر دنیا سے بے نظیر جنت کی جانب رواں دواں بگھی  کے سوار یعنی روزے دار کے بائیں ہاتھ میں صیام کی لگام ہوتی ہے اور  دائیں ہاتھ میں قیام یعنی تراویح و تہجد کا چابک ہوتا ہے۔ اس سفر میں جہاں چابک سرعت کی علامت ہے وہیں لگام حفاظت کی ضمانت ہے۔

جو اپنی حد سے گزرتا ہے سرکشی میں کوئی

تو ایسے نفس کی خاطر لگام روزہ ہے

جنت کے جملہ آٹھ دروازوں میں سے صائم کے لئے مخصوص باب الریان کی خوبی یہ ہے کہ اس کا نام عمل پر نہیں بلکہ اس کے اجر و ثواب پر ہے جبکہ جنت کے دیگر دروازے اعمال سے منسوب ہیں مثلاً نمازیوں کے لئے باب الصلواۃ یا مجاہدین کے لیے باب الجہاد وغیرہ۔ الریان کے معنیٰ چونکہ سیراب کرنے کے آتے ہیں۔ یہ روزے کا صلہ ہے۔ دنیا میں روزہ دار پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں، لہٰذا بروز قیامت جنت میں جب ان کا داخلہ ریان نامی دروازے سے ہو جائے گا تو اس کے بعد وہ کبھی بھی پیاس کی شدت کے شکار نہیں ہوں گے۔

رمضان کے خوش نصیب مسافروں کا قلبِ سلیم بیم و رجا کے ملے جلے احساسات و جذبات کا مسکن ہوتا ہے۔ دن میں صیام کے لگام سے وہ اپنے نفس کو بہکنے سے روکتا ہے اور شب کا قیام اس کو تیزی کے ساتھ سرگرم سفر رکھتا ہے۔ روزہ سے صائم کے قلب میں اپنے خالق و مالک کی خشیت پیدا ہوتی ہے اور  تہجد اور  تراویح میں قرآن کی تلاوت و سماعت سے اس کے دل میں پاک پروردگار کی محبت کا دریا موجزن ہو جاتا ہے۔ اسی ملی جلی کیفیت کا نام تقویٰ ہے جو روزے کی غرض و غایت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’مومنوں تم پر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ بقول شاعر؎

یہ ماہِ صبر و تحمل ہے دھیان میں رکھنا

حصول تقویٰ کا راحل نظام روزہ ہے

یہ اہل ایمان کی زندگی کا کیسا مبارک سفر ہے کہ جس کی ابتداء اس جہانِ فانی میں ہوتی ہے اور  اختتام ابدی جنت میں ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

اتحاد امت کی قرآنی تدبیر

 

دنیا دار لوگ اتحاد کے قیام کی خاطر بیرونی خطرات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کا خوف دلا کر ملت کو متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نسخہ اس وقت تک تو کارگر ثابت ہوتا ہے جب تک کہ خطرہ شدید ہو لیکن جیسے جیسے حالات معمول پر آتے جاتے ہیں یہ بنیاد کمزور پڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ جب خوف و ہراس کا ماحول ختم ہو جاتا ہے تو اتحاد اتفاق کی ضرورت و اہمیت کابھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ دیندار حضرات قرآن مجید کی آیت کے ایک ٹکڑے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس کے سہارے اتحاد قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ جزوی بنیاد پر تعمیر کیا جانے والا قلعہ کیونکر کامل اور  مضبوط ہو سکتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتحاد امت کی خاطر صرف ایک آیت نہیں بلکہ پورا رکوع نازل فرمایا ہے جس کے قلب میں ’’اعتصمو بحبل اللہ‘‘ کی گونج دھڑکن کی مانند سنائی دیتی۔ انسان جس طرح حرکتِ قلب بند ہو جانے پر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح دل کو باقی جسم سے الگ کر دیئے جانے پر بھی ہلاک ہو جاتا ہے۔

مذکورہ آیت سے قبل ارشاد ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اتحاد سے قبل تقویٰ کی تلقین اتحاد کی(pre requisite) یعنی شرط لازم ہے۔ تقویٰ ایک انفرادی صفت ہے۔ جو لوگ اتحاد کے خواہش مند ہیں ان کا اس سے متصف ہونا امرِ لازم ہے وگرنہ لاکھ خواہش یا کوشش کے باوجود وہ متحد نہیں ہو سکتے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوطی ملتی ہے۔‘‘ اللہ کی محبت اور  اللہ کا ڈر ہی ان اینٹوں کو خوشنما اور  مضبوط بناتا ہے۔ اگر اینٹیں کمزور اور  بدنما ہوں تو ان کی مدد سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی تعمیر غیر ممکن ہے؟ اس آیت میں موت تک تقویٰ اور  مستقل مزاجی کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ استقلال دیوارِ اتحاد کو پائیداری بخشتا ہے اور  اس کا فقدان اتحاد امت کو عارضی اور  نا پائیدار بنا دیتا ہے۔

اس مرحلے سے گزرنے کے بعد متقیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ سب اللہ کی رسی کو مل کر تھام لیں۔ قرآن مجید کا اسلوب یہ نہیں کہ اینٹیں باہم ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں بلکہ وہ اپنی بنیاد سے چمٹ جائیں۔ اہل ایمان کا کتاب اللہ سے وابستہ ہو جانا از خود انہیں باہم منسلک کر دیتا ہے۔ اتحاد کی بنیاد اعتصام باللہ ہے۔ اگر کسی دیوار کی بنیاد ناہموار ہو تو اس میں لگنے والی اینٹوں کا معیار چاہے جتنا اونچا ہو۔ اس دیوار کا نقشہ کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا کیوں نہ ہو۔ اس کو تعمیر کرنے والوں کی مہارت جیسی بھی ہو۔ دیوار جیسے جیسے بلند ہو گی اس کا ٹیڑھا پن واضح تر ہوتا چلا جائے گا اور  دشمن کی زحمت کے بغیر وہ اپنے ہی بوجھ سے ڈھے جائے گی۔ اگر بنیاد میں ہی ٹیڑھا پن ہو تو اُس پر بننے والی عمارت ٹیڑھی ہی رہے گی۔

کتاب اللہ ہی اہل ایمان کے درمیان قدر مشترک ہے اور  اسی کے توسط سے باہمی اختلافات کو بخیر و خوبی نمٹایا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے بجائے طاقت و قوت یا سازش و فریب کے مدد سے تفرقہ تو پھیلایا جا سکتا ہے مگر اتحاد قائم نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ درمیان میں تفرقہ سے اجتناب کی سخت تاکید ہے۔ اتحاد امت کے آب حیات کو تفرقہ بازی کا ایک بوند بھی زہر ہلاہل میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اتحاد امت کا تعلق فکر و عمل دونوں سے ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹیں بھی فکری و عملی دونوں نوعیت کی ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے فکرو عمل کے دونوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خوشی کا راز

 

عرب دنیا میں دینی اجتماعات اور  تفریحی تقریبات کے درمیان کی صنف کو ’’اصلاحی پکنک‘‘ کے نام دیا جاتا ہے۔ اس تقریب میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوتے ہیں لیکن اختلاط مرد و زن نہیں ہوتا۔ بھاری بھرکم کھانا پینا کے ساتھ ہلکی پھلکی تذکیر اور ، کھیل کود و دینی کوئز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک محفل میں اعلان ہوا کہ کوئز میں حصہ لینے والے سارے بچے انعام حاصل کرنے کیلئے قطار بنا کر کھڑے ہو جائیں۔

میں نے ناظم پکنک نظام بھائی سے دریافت کیا کہ یار یہ عجیب معاملہ ہے کوئز تو ہم جیتیں اور  انعام ان بچوں کو ملے جو اس میں شریک ہی نہیں تھے۔

نظام بھائی نے مسکرا کر سوال کر دیا: اچھا تو اب بھی انعام کا ارمان باقی ہے؟

جی ہاں جب مقابلے کا حوصلہ ہے تو انعام کی خواہش کیوں نہیں؟

نظام بھائی بولے بزرگوں سے استدعا ہے صرف آخرت کے انعام و اکرام پر توجہ مرکوز رکھیں۔ دنیا کے معاملات بعد والوں کے حوالے کر دیں۔ نظام بھائی کی سنگدلی کے جواب میں ہنس کر میں نے جوش کا شعر سنا دیا؎

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

شعرسمجھے بغیر پر جوش نظام بھائی نے کمال سعادتمندی سے کہا۔ زہے نصیب۔ شکریہ۔ اچھا تو میں جاؤں؟

آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ چلے گئے تو طعام کا اہتمام کون کرے گا؟

میں وہی انتظام کرنے جا رہا تھا لیکن آپ چھوڑیں تب نا؟

جی نہیں آپ میرے سوال کا جواب دئیے بغیر نہیں جا سکتے پہلے یہ بتائیے کہ جن بچوں نے کوئز میں شرکت نہیں کی انہیں کس کام کا انعام دیا جا رہا ہے؟

نظام بھائی بولے یہ بچے آپ لوگوں کے ساتھ نہیں تھے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان کا مقابلہ ہی نہیں ہوا؟ اور  بڑوں کے ساتھ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟

غلط فہمی دور کرنے کا شکریہ لیکن یہ تمام شرکاء کو انعام کیا مطلب؟

کیوں اس میں کیا حرج ہے؟ جیسے ایک کو ویسے سب کو؟ کیا فرق پڑتا ہے؟ دو درہم والی دوکان سے ہم لوگ ڈھیر سارے انعامات خرید لائے ہیں۔

میرا مطلب ہے اس معمولی انعام میں ان کو کیا لطف آئے گا بھلا؟

یہ تو بڑوں کی حرص و ہوس ہے کہ جو انہیں کامیابی کے بعد بھی اداس رکھتی ہے۔ جہاں تک بچوں کا معاملہ ہے ان کیلئے ہر انعام بیش قیمت ہے۔

تو گویا ان کی معصومیت کا استحصال ہو رہا ہے؟ لیکن اگر سارے ہی شرکاء کو انعام سے نواز دیا جائے تو اس کی ناقدری نہیں ہوتی؟

یہ بھی بڑوں کی بیماری ہے جنہیں اپنی جیت سے زیادہ حریف کی ہار مرغوب ہوتی ہے۔ بچوں کو تو اپنے انعام سے مطلب دوسروں سے کیا سروکار؟

نظام بھائی کی گفتگو نے میری ایک گتھی سلجھا دی کہ بچے اتنے خوش کیوں رہتے ہیں؟ انہیں اپنی ذات سے مطلب ہوتا ہے۔ جو کچھ ان کو مل گیا اسی پر پھولے نہیں سماتے لیکن بڑے اس فکر میں پریشان رہتے ہیں کہ دوسروں کیا ملا اور  کیوں ملا؟ حسد کی آگ خوشیوں کے خرمن کو نذرِ آتش کر دیتی ہے۔

میں نے اس بیماری کا علاج نظام بھائی سے پوچھا تو وہ بولے اس کیلئے ضروری ہے انسان دنیا کے معاملے میں اپنے سے کم تر کو دیکھے تاکہ جذبۂ شکر پیدا ہو۔

کیا ایسا کرنے کا نتیجہ حوصلہ شکنی اور مایوسی نہیں ہو گا؟

نظام بھائی نے اعتماد سے کہا: جی نہیں جذبۂ عمل پیدا کرنے کیلئے حدیث کے دوسرے حصے پر توجہ فرمائیے کہ آخرت کے معاملے میں اپنے سے برتر کو دیکھو۔ ایسا کرنے سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور  انسان ہمیشہ سرگرم عمل رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دعوت سے عداوت تک ۰۰۰

 

ارشاد ربانی ہے۔ دعوت دو اپنے رب کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ اور  جدال کرو احسن طریقے پر۔ قرآن مجید میں دین کی تبلیغ و اشاعت کیلئے جو حکمت، موعظت اور  جدالِ احسن کی شرط لگائی گئی ہے ان میں سے ایک کا تعلق داعی، دوسرے کا مدعو اور تیسرے کا ان حالات سے ہے جن میں دعوت کا کام کیا جاتا ہے۔ مدعو چاہے جو بھی ہو داعی کے اندر موعظت حسنہ کی صفت لازم ہے۔ دعوت جو کوئی بھی دے اسے اپنی حکمت عملی مدعو کی نفسیات اور  ضرورت کے لحاظ سے وضع کرنی چاہئے۔ اسی طرح حالات کی تبدیلی سے حاصل ہونے والے امکانات و مواقع نیز خطرات و اندیشوں کا پاس و لحاظ مجادلہ کو احسن بناتا ہے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ دعوت کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں یہ ہدایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

داعی اور  مدعو کی مثال سائیکل کے دو پہیوں کی سی ہے اور حالات اس سڑک کی مانند ہیں جس پر سائیکل چلتی ہے۔ داعی یعنی سائیکل کا پچھلا پہیہ خود بھی گھومتا ہے اور  آگے والے کو بھی گھماتا ہے اس کے باوجود مدعو ہمیشہ اس کے آگے یعنی پیش نظر ہوتا ہے۔ سائیکل کی سواری میں تو انائی پچھلے پہیے پر صرف ہوتی ہے اس لئے کہ پیڈل والی چرخی اسی سے جڑی ہوتی ہے۔ بریک بھی پچھلے پہیے پر نصب ہوتا ہے اس لئے چلنے، رکنے اور  رفتار کا تعین داعی کرتا ہے لیکن چونکہ ہینڈل اگلے پہیہ یعنی مدعو سے منسلک ہوتا ہے اس لئے سمت سفر وہ طے کرتا ہے۔ اس انوکھے سفر میں داعی کے پیچھے مدعو نہیں آتا بلکہ داعی تعاقب کرتا ہے۔ دعوت کا جسم و روح تو نہیں مگرلباس یعنی زبان مدعو کی پسند و ضرورت کے لحاظ سے ہونی چاہیے۔

دعوت کا سفر راستے کی الفتوں اور  کلفتوں سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ راہوں کے نشیب و فراز کبھی رفتار میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں تو کبھی رفتار کار کو کم کر دیتے ہیں۔ سائیکل کے اس سہانے سفر میں پیڈل کو تیز یا دھیمے چلانے کا تعلق اور  بریک مارنے کا عمل صرف مدعو کے رد عمل یا داعی کی قوت کار پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ راستے کی مشکلات اور  آسانیاں بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ دعوت کاسدابہار جھرنا کبھی خشک نہیں ہوتا وہ اپنا راستہ بناتا رہتا ہے۔ واٹس ایپ یا فیس بک جیسے ذرائع ابلاغ پر برپا دعوت و تبلیغ کا طغیان دعوت کے اجزائے ترکیبی حکمت، موعظت اور  جدال احسن سے بے نیاز نظر آتا ہے (الا ماشا اللہ)۔ دعوت کے مواد کی بابت احتیاط کا فقدان عام ہے۔ سوشیل میڈیا میں مدعو کی نفسیات کا پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ یہ بات خیالِ خام ہے۔

داعیانِ واٹس ایپ شوق دعوت سے لبریز ضرور ہیں مگر موعظت حسنہ یعنی دلسوزی کی اہم ترین صفت سے محروم ہیں۔ تمام لوگوں کو بیک جنبش بھیجا جانے والا پیغام مدعو کی ذہنیت اور  ضرورت کا پاس و لحاظ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ سوچ عام ہے کہ اگر کسی محنت اور  اضافی خرچ کے بغیر دعوت و تبلیغ کا اہم ترین فریضہ ادا ہو سکتا ہے تو اس میں کوتاہی کیوں کی جائے؟ یہ بہت بڑی نادانی ہے۔

دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے یہ برقی داعی خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت شاذو نادر ہی گوارہ کرتے ہیں۔ جن برائیوں کی جانب وہ دوسروں کی توجہ مبذول کراتے ہیں خود اپنے آپ کو ان سے بچانے کا خیال کم ہی آتا ہے۔ جس خیر کو اپنانے کی دعوت غیروں کو دی جاتی اس کو خود اپنی ذات پر نافذ کرنے کی سعی کم ہی کی جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو پورا پیغام پڑھے یا سمجھے بغیر ہی اسے آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی جلد بازی سائیکل کو حادثے کا شکار کر سکتی ہے۔ اس سے پہیے بھی ٹوٹ سکتے ہیں اور  دیگر راہ گیر بھی زخمی ہو سکتے ہیں۔ ایسے پر جوش داعیان کرام کی کج فہمی دعوتی سرگرمی کونادانستہ عداوت میں بدل دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

عصبیت کا فتنہ

 

حضرت واثلہؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا، ’’یارسول اللہﷺ!  تعصب کیا ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ، ’’(تعصب یہ ہے کہ) تم ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرو۔‘‘ایک مرتبہ آپﷺ نے عصیبت کے مضرات کو اس طرح ذہن نشین کرایا کہ ’’جس شخص نے کسی ناحق (ناجائز) معاملے میں اپنی قوم کی مدد کی، پس اُس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور  وہ اسے (نکالنے کے لیے ) دُم سے پکڑ کر کھینچتا ہو (نتیجتاً وہ خود بھی اس میں جا گرے گا)۔‘‘

اس دورِ پر فتن میں قوم پرستی اور  فسطائیت کے ذریعہ تعصب کا جنون عوام کے اعصاب پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ اس فتنہ نے ملک و قوم کا امن و امان غارت کر رکھا ہے۔ حدیث نبویﷺ میں اس زہر کا تریاق دیکھیں، ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی طرف بلائے اور  وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی بنیاد پر جنگ کرے اور  وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی حالت میں مرے۔‘‘

ایک غزوہ سے لوٹتے ہوئے کسی نے آواز لگائی کہ انصار صحابہ نے اس پر ظلم کیا ہے اور  اس طرح پکارنے لگا ’یاللمہاجرین‘ مہاجرین کی (ناموس) کیلئے!  اور  دوسری طرف سے ایک اور  شخص نے چیخ کر کہا ’یا للانصار‘ انصار کی (ناموس) کیلئے!  آپﷺ نے جب دیکھا کہ مہاجر اور  انصار کی اصطلاح کو عصبیت کے فروغ کی خاطر استعمال کیا جا رہا تو انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’میرے جیتے جی تم ایک دوسرے کو جاہلی نعروں کے ساتھ دہائی دینے لگے ہو‘۔

یہ تھا حضور اکرمﷺ کا اسوہ اور  اس کے برخلاف آج کل کے روشن خیال رہنما دیدہ دانستہ عصبیت کو ہوا دیتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد طائف کا محاصرہ پندرہ بیس روز تک رہا لیکن کامیابی ہاتھ نہیں آئی۔ اس کے بعد صخرؓ نامی ایک ذی حیثیت صحابی نے طائف کی حصار بندی کر کے ایسا دباؤ بنایا کہ وہ مصالحت پر راضی ہو گئے۔ نبی کریمﷺ کی خدمت میں کامیابی کی اطلاع بھی صخرؓ نے ہی بھجوائی تھی۔ طائف کی فتح کے بعد مغیرہ بن شعبہ ثقفیؓ رسول رحمتﷺ کی خدمت میں آئے اور  کہا کہ صخرؓ نے میری پھوپھی کو قبضے میں لے رکھا ہے۔ آپﷺ نے صخرؓ کو بلایا اور  حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو۔ اس کے بعد بنو سلیمؓ آئے اور  عرض کیا کہ جس زمانہ میں ہم کافر تھے، صخرؓ نے ہمارے چشمے پر قبضہ کر لیا تھا اب ہم اسلام قبول کر چکے ہیں۔ اس لئے ہمارا چشمہ ہمیں واپس دلایا جائے۔

آپﷺ نے صخرؓ کو بلایا اور  فرمایا کہ جب کوئی قوم اسلام قبول کرتی تو اپنے جان و مال کی مالک ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان کا چشمہ انہیں واپس دے دو۔ صخرؓ کو بارگاہ مصطفیٰﷺ کی بے لاگ عدالت کا یہ فیصلہ بھی منظور کرنا پڑا۔ فاتح طائف حضرت صخرؓ کو دونوں معاملات میں شکست ہوئی اور  طائف کی فتح کا کوئی دنیوی صلہ نہیں ملا لیکن جن کو آخرت عزیز ہوتی ہے انہیں دنیا کا غم نہیں ہوتا۔

غزوۂ احد کے بعد حضرت عائشہؓ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا سخت ترین دن کون سا تھا۔ نبی رحمتﷺ نے فرمایا طائف کا دن۔ طائف سے واپسی میں پہاڑوں کے فرشتے نے جب استفسار کیا کہ کیا ان دونوں پہاڑیوں کو ملا کر اس بستی کو تباہ و تاراج کر دیا جائے تو اس موقع پرجس لطف و کرم کا مظاہرہ آپﷺ نے کیا اس کا ذکر تو بہت ہوتا ہے لیکن طائف کی فتح کے بعد عصبیت کے فتنہ کی سرکوبی کی بات نہیں ہوتی۔ سرورِ کائناتﷺ نے تو عدل و انصاف کو پامال کرنے والے سب سے توانا محرک عصبیت کو اپنے قدموں تلے روند کر اس کا سر کچل دیا لیکن افسوس کہ ہم نے اسے اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور  شیخ و سید کے خانوں میں بنٹ گئے بقول اقبال؎

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

میں روزے سے ہوں

 

للن نے کلن سے پوچھا کیوں بھائی ابھی تو افطاری میں دو گھنٹے باقی ہیں تم ابھی سے منہ لٹکائے کیوں گھوم رہے ہو؟

بھائی کیا بتاؤں آج اذان سے پہلے جمعہ پڑھنے پہنچ گیا تھا پھر بھی مسجد کے اندر جگہ نہیں ملی۔

اچھا!  مجھے پتہ ہے آج تو غضب کی گرمی تھی۔

آپ کو پتہ ہے لیکن اپنے ملّا جی کو نہیں پتہ۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کو تو سب پتہ ہوتا ہے۔

اچھا اگر انہیں معلوم تھا تو اپنی تقریر مختصر نہیں کر سکتے تھے۔ سر سر چلنے والے پنکھے کے نیچے فر فر بے تکان بولتے رہے۔

لیکن تمہیں اندر جگہ نہیں ملی تو اس میں مولانا کی کیا غلطی؟

جی ہاں انتظامیہ کمیٹی کی غلطی ہے جو چندہ جمع کر کے کھا جاتی ہے۔

کلن بولا لگتا ہے روزہ کچھ زیادہ ہی لگ گیا ہے۔ تم نے کبھی مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ دیا ہے اور  ویسے بھی تم جیسے سال میں دوچار بار آنے والوں کے لیے مسجد کی توسیع کہاں کی دانشمندی ہے؟ عام دنوں میں تو دوچار صف بھی نہیں بھرتی ہاں جمعہ کی بات اور  ہے۔

جی ہاں سارا قصور ہمارا ہے۔ دانش مندی تو یہ ہے کہ لمبی لمبی تقریریں ہوں اور  ہم جیسے لوگ دھوپ میں جھلس کر اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ کاش کہ میں مر جاتا کم از کم اتنی پیاس تو نہیں لگتی۔

نہیں دل چھوٹا نہیں کرتے مولانا کہہ رہے تھے نبیِ کریمﷺ نے فرمایا ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور  صبر کا ثواب جنت ہے‘‘۔

وہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ اگر میں مر جاتا تو سیدھے جنت میں چلا جاتا اور  کیا کہہ رہے تھے؟ گرمی کے مارے میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔

وہ کہہ رہے تھے کہ نبی مکرمﷺ کا فرمان ہے ’’اس مہینہ کا آغاز رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور  آخر میں دوزخ سے رہائی ہے‘‘۔

کلن بولا ایسا کیوں؟ کبھی کچھ تو کبھی کچھ میری سمجھ میں تو یہ منطق نہیں آتی۔

کسان کے بیٹے ہو کر اتنی آسان سی بات نہیں سمجھتے۔ سال بھر میں موسم کیسے بدلتا ہے کبھی کچھ تو کبھی کچھ اور  دیکھو پہلا عشرہ بیج کی طرح ہے جو اللہ کی رحمت کے بغیر پھل پھول نہیں سکتا۔ دوسرے عشرے میں وہ پودا بن جاتا جس پر مغفرت کے خوبصورت پھول کھلتے ہیں اور  سارا چمن مہکنے لگتا ہے۔ تیسرے کے آتے آتے یہ پودا تناور درخت بن جاتا ہے اور  پھول جنت سے خلاصی کی بشارت سے پھل بن جاتے ہیں۔ نیکیوں کی فصل لہلہانے لگتی ہے۔

کلن بولا سمجھ گیا بھائی سمجھ گیا اب یہ بتاؤ کہ افطاری کے لیے اور  کتنا وقت باقی ہے؟

للن نے کہا ویسے وقت تو زیادہ نہیں ہے پھر بھی تیرا موڈ دیکھ کر میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر کوئی تجھ سے آ کر الجھے تو کہہ دینا ؎

مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں

ہو نہ جائے پھر وہی تکرار، میں روزے سے ہوں

٭٭٭

 

 

 

استحصال اور  فسطائیت

 

سرمایہ داری کا اولین ہدف فرد کو حرص و ہوس کا شکار کر کے خودغرض حیوان بنا دینا ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر عوام کو لوٹ کھسوٹ کے گھناؤنے کھیل میں برضا و رغبت شامل کیا جاتا ہے اور اخلاقی دیوالیہ پن کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ معاشی استحصال میں چونکہ لوگوں کا خون چوسا جاتا ہے اس لئے اس کے اثرات محسوس ہوتے ہیں جمہوری سیاسی استحصال ایک ایسا اجتماعی گورکھ دھندہ ہے کہ جس کا شکار پانی نہیں مانگتا۔ اقتدار کے حصول کی خاطر یا اسے برقرار رکھنے کیلئے معاشرے کے اندر نفرت و عناد کا بازار گرم کر کے اسے بانٹا اور  کاٹا جاتا ہے۔ فسطائیت کا زہر گھول کر معصوموں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور اقلیتوں کے سروں کو ترشول پر سجا کر اکثریت سے ووٹ کے انعام کی گہار لگائی جاتی ہے۔

انسانی سماج کو فی زمانہ دو طبقات میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک حکمراں طبقہ ہے جس میں لالچی سرمایہ دار، بدعنوان اعلیٰ افسران اور مفاد پرست سیاستداں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقات، اقلیتی سماج اور  غریب عوام ہیں۔ ان دونوں طبقات کے مقاصد متضاد، مسائل مختلف اور  ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ ایک کا مقصد اپنی سیاسی برتری قائم و دائم رکھنا اور  دوسرے کا اسے نیست و نابود کرنا ہے۔ ایک کی ضرورت عوام کو تقسیم کرنا ہے تاکہ ان کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائی جا سکے دوسرے کی ضرورت متحد ہو کر جد و جہد کرنا ہے تاکہ بنیادی حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ اس کے بغیر جبر و استحصال سے نجات نا ممکن ہے۔ معاشی استحصال اور  فسطائیت کا قلع قمع کرنے کی خاطر اخوت و محبت کی بنیاد پر ایک مشترکہ جد و جہد ناگزیر ہے۔

تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مغرب کی چنگیزی امن و سلامتی کو حماقت، رحمت و شفقت کو بے بسی اور عدل و انصاف کو کمزوری سمجھتی ہے۔ جائز ذرائع سے اپنے حقوق کی جد و جہد کرنے والوں کو نادان اور  جبرو استحصال کے بغیر خوش حالی اور  ترقی کے امیدوار کو لاغرو کمزور قرار دیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر ذرائع ابلاغ کی مدد سے ظلم کو عدل اور  جنگ و جدال کو امن و امان کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ مادہ پرستی کی ساری تو انائی انسان کواحسن تقویم کے مقامِ بلند سے گرا کر اسفل سافلین بنا دینے پر صرف ہوتی ہے۔ مغرب کے نزدیک انسان محض ایک سماجی جانور ہے۔ جس طرز فکر کو اس قبیح تعریف پر فخر ہو وہ بھلا انسانی سماج کو جنگل میں بدلنے سے کیونکر احتراز کر سکتی ہے۔

آج کا انسان مادہ پرستی اور  فرقہ پرستی کی چکی میں پس رہا ہے۔ انفرادی سطح پر اس کو نفسانیت کے آسیب نے دھر دبوچا ہے اور  اجتماعی حیثیت سے فسطائیت نے اس کو اغواء کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ نہ صرف اندر سے ٹوٹ پھوٹ رہا ہے بلکہ سماجی تانا بانا بھی بکھرنے لگا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مادی و سائنسی ترقی بامِ عروج پر ہے لیکن مغربی نظریات نے مسلح اقوام کے اندر کبر و رعونت اور انسان دشمنی بھر دی ہے۔ ہر طاقتور قوم کے سر میں زمین پر اپنی برتری قائم کرنے کا سودہ سمایا ہوا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کی خاطر جانی و مالی تباہی کے سارے حربے استعمال کر رہی ہے۔ باغی و سرکش حکمراں اس حقیقت سے غافل ہیں کہ اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کو ناپسند کرتا ہے۔ فاسدلادینی نظریات نے انسانی سماج کو امن و سکون، عدل و انصاف اور  ایثار و قربانی کی اعلیٰ صفات سے محروم کر دیا ہے۔ مسلم دنیا کے مغرب زدہ حکمراں بھی اس دام فریب میں گرفتار ہیں بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؎

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

٭٭٭

 

 

 

 

اتحاد زندگی ہے، انتشار موت ہے

 

قرآن کریم میں ملت کے اتحاد کو اللہ کا احسان قرار دیتا ہے ارشادِ ربانی ہے ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور  تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور  اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ اللہ کا فضل و کرم ہی مومنین کے دلوں کو جوڑ کر انہیں بھائی بھائی بنا سکتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے بے نیاز ہو کر محض ذہانت کی مدد سے امت کو خلفشار کی آگ سے بچا لینا غیر ممکن ہے۔

امت کے اندر اگر اتحاد و اتفاق کے بجائے افتراق و انتشار کا دور دورہ ہو جائے تو نہ صرف دنیا جہنم زار بن جاتی ہے بلکہ دوزخ کی آگ کا ایندھن بھی فراہم ہو جاتا ہے۔ ’’تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا‘‘ قرآن حکیم میں تمثیل اور  تاریخ کی مثال سے صراطِ مستقیم کی معرفت کرائی گئی ہے فرمایا ’’اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے‘‘۔

رسول کریمﷺ کے ارشادات میں اتحاد ملت کی نہایت موثر اور عملی تدبیر موجود ہیں۔ فرمایا ’’اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اپنی پسند دوسروں پر تھوپو بلکہ جس طرح کوئی ذی نفس یہ نہیں چاہتا کہ اس پر زور زبردستی کی جائے اسی طرح ہر ایک کو چاہئے کہ وہ کسی اور  پر جبر نہ کرے۔ جیسے ہر شخص کو اپنی عزت نفس کا خیال ہوتا ہے اسی طرح وہ دوسروں کا احترام و تکریم کرے بلکہ فرمایا ’’اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دو‘‘۔ صحابہ کی مانند ’’کفار پر سخت اور  آپس میں رحم و کرم کا پیکر بن جاؤ۔‘‘ بقول اقبال

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ان تقاضوں کو پورا کرنا خاصہ مشکل ہے۔ حدیث میں امت کیلئے دیوار اور  اینٹوں کی مثال دی گئی ہے۔ دیوار میں اینٹوں کے درمیان اگر سیمنٹ موجود نہ ہو تو ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا اسے زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہے۔ امت کی بنیان المرصوص کے سیمنٹ کا بیان حدیث رسولﷺ میں دیکھیں ’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کھانے اور  شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور  بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ اس نسخۂ کیمیا کو نظر انداز کر کے اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنا نا ممکن ہے۔ اخوت، محبت، شفقت، ہمدردی اور  غم گساری کے بغیر اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ملی اتحاد کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتا دوں جس کے ثواب کا درجہ روزے، صدقے اور  نماز کے ثواب سے زیادہ ہے ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سن کر عرض کیا ہاں ضرور بتا دیں آپ نے فرمایا آپس میں دشمنی رکھنے والے دو اشخاص کے درمیان صلح کرانا۔ اور  دو آدمیوں کے درمیان فساد و نفاق پیدا کرنا ایک ایسی خصلت ہے جو مونڈنے والی ہے یعنی اس خصلت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات اور  دین میں نقصان و خلل پیدا ہوتا ہے‘‘ اخلاص نیت اور  حکمت و دانائی کے ساتھ اگر باہمی صلح صفائی کا کام ہوتا رہے تو انتشار کی خرابی اپنے آپ مٹ جائے گی اور  ملت اسلامیہ امت واحدہ بن جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

ملتیں جب مٹ گئیں۰۰۰۰

 

امریکہ میں سیلیکون وادی کمپیوٹر کی دنیا کا سرتاج ہے۔ اس میں موجود مسلمانوں کے وسیع و عریض اسلامی مرکز میں مسجد کے علاوہ اسکول، ہال اور  ورزش گاہ اور  وہ سب ہے جو مسلمانوں کی ضرورت ہے ان کا تعلق کسی مسلک، ملک، نسل یا زبان سے نہیں ہے۔ یہاں پر عرب بھی ہیں اور  عجمی بھی، سنی بھی اس سے منسلک ہیں اور  شیعہ بھی، حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی اور  جعفری کی کوئی تفریق نہیں۔ اس مسجد کے امام صاحب شمالی افریقہ کے رہنے والے ہیں عربی زبان بولتے ہیں اور  شلوار قمیض بھی پہنتے ہیں۔ جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا کہ یہ آرام دہ لباس ہے۔ مرکز میں بزرگوں کے لیے مختلف اجتماعات نیز نوجوانوں اور  بچوں کے لیے الگ الگ پروگرام ہو رہے تھے۔ امت کے اس مرکز نے سبھی فرقوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔

مسجد کے اندر مردو خواتین کے الگ الگ حصے ہیں مگر ساتھ ہی بہت چھوٹے بچے والی خواتین کے لیے ایک اضافی ہال بھی مختص ہے تاکہ بچوں کی موجودگی سے دیگر مصلیان کی نماز میں خلل نہ ہو اور  ان کی مائیں کسی احساس جرم کا شکار ہو کر مسجد میں آنے سے نہ رُکیں۔ اس مرکز میں جمعہ کی تین جماعتیں ہوتی ہیں میں نے اپنے دوست سے پوچھا پہلی والی تو بہت جلد ہو جاتی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حنبلی مسلک میں اس کی گنجائش ہے۔ جب میں نے پوچھا تب تو غیر حنبلی اس میں شریک نہیں ہوتے ہوں گے تو اس کا جواب تھا ایسا نہیں ہے جب مسجد میں نماز ہوتی ہے تو لوگ اپنی سہولت سے شریک ہو جاتے ہیں یہاں صوفی اور  سلفی کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ جمعہ کے خطبے میں جہاں امریکہ کے ورجینیا شہر میں شہید ہونے والی نبرہ حسنین کا ذکر ہوا وہیں ہندوستان کے حافظ جنید کی شہادت کو بھی یاد کیا گیا۔

اس حقیقت کا مظاہرہ شکاگو کے اندر اِسنا کانفرنس کے دوران دو مواقع پر ہوا۔ ہندوستان کے اندر فلاح و بہبود کے کام کرنے والی ایک تنظیم نے اعانت جمع کرنے کے لیے ایک ظہرانہ کا اہتمام کیا جس میں مختلف ممالک کے لوگوں نے سرگرمیوں کا تعارف کرایا اور  سراہا بالآخر چندے کیلئے ترغیب دینے کی ذمہ داری ایک افریقی نوجوان کے حوالے کی گئی اس طرح نصف گھنٹے کے اندر ۶۰ لاکھ ڈالر یعنی تقریباً ۴ کروڑ روپیہ کی خطیر رقم جمع ہو گئی۔ ایک اور  نشست میں ریاستِ مشیگن سے انتخاب لڑنے والے ایک مصری نژاد نوجوان کا تعارف پاکستانی بزرگ نے کرایا اور  شرکائے محفل سے تعاون کی اپیل کی۔

اس عظیم تبدیلی نے سرزمین امریکہ میں ایک نئی لہر چلا دی ہے۔ ایک طرف غیر مسلمین کے اندر اباحیت پسندی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور  اس کے نتیجے میں خواتین کا لباس مختصر سے مختصر ہوتا چلا جا رہا وہیں دنیا کے مختلف حصوں سے یہاں آ کر بسنے والے بے دین مسلمان اپنے مذہب سے جڑ رہے ہیں۔ بے پردہ خواتین کے اندر حجاب اوڑھنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ عیسائی معاشرت میں ضم ہو جانے کے اندیشے نے مسلمانوں کو اپنے دین کے حوالے سنجیدہ کر دیا ہے۔ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے اندر اسلامی عقائد و اقدار منتقل کرنے کی خاطر فکر مند ہو گئے ہیں۔

امت کے اندر پیدا ہونے والی دینی بیداری نے افرادِ ملت میں نہ صرف دعوت دین کی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا بلکہ امریکی معاشرے کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا تعاون پیش کرنے لگے۔ یہ عملی مظاہر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ امریکہ میں موجود اہل ایمان اس قدر اختلافات کے باوجود کیونکر ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں؟ اور  بے شمار اشتراک کے باوجود ہم کیوں نہیں مل پاتے؟ شاید اس لیے کہ وہ توحید کی بنیاد پر ایمانی رشتے میں ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں اور  ہم نے رسوم و رواج پر اصرار کر کے اپنے آپ کو منقسم کر لیا ہے۔ کاش کہ دیارِ غیر امریکہ میں چچا غالب بھی اپنے اس شعر کی عملی تفسیر ملاحظہ فرماتے ؎

ہم مؤحد ہیں ہمارا کام ہے ترک رسوم

ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

٭٭٭

 

 

 

اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم

 

علم کے چراغ کی روشنی زندگی کے سفر کو سہانا بنا دیتی ہے ورنہ یہ راہگذر ڈراؤنی لگتی ہے۔ علم اگر اجالا ہے تو اس کی ضد جہالت اندھیرا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’کہہ دیجیے، کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا(جاہل) اور  دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہو سکتا ہے اندھیرا اور  اجالا؟‘‘ دو اور  مقامات پر اس فرق کی وجہ بھی واضح کر دی گئی فرمایا ’’کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے (عالم) اور  علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہو سکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘ علم کے بغیر عقل کا استعمال نہ صرف خطرناک بلکہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ علم کی روشنی میں انسان کو اپنی منزل کا پتہ معلوم ہوتا ہے اس لئے وہ راستے میں لاپتہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔ زندگی کے سفر میں صراطِ مستقیم سے بھٹک کر پگڈنڈیوں میں کھو جانا سراسرگمراہی ہے؟

اجالے کا سفر اعتماد کے ساتھ کیا جاتا ہے جو کامیابی کی ضمانت ہے اس کے برخلاف اندھیرے کا مسافر خوف و تذبذب کا شکار رہتا ہے جو ناکامی کا پیش خیمہ ہے۔ دنیا کی زندگی چٹیل میدان نہیں ہے۔ اس راہ میں نشیب فراز آتے رہتے ہیں۔ جس کے پاس علم کی روشنی ہوتی ہے وہ ان کا لحاظ کر کے اپنی رفتار کار تیز یا دھیمی کرتا ہے اور  محفوظ و مامون سفر کرتا ہے۔ جہالت کے اندھیرے میں انسان یا تو تیز رفتاری کے سبب حادثے کا شکار ہو جاتا ہے یا سست روی کے باعث مسابقین سے پچھڑ جاتا ہے۔ رب کائنات نے اپنے بندوں کے سفر کو آسان بنانے کی غرض سے آفاق وانفس میں جو نشانیاں پھیلا رکھی ہیں۔ ان سے استفادے کیلئے علم کی ضرورت و اہمیت مسلم ہے۔

آج کل لوگ تعلیم اور  علم یا شکشا اور گیان کے درمیان کا فرق نہیں کرتے۔ عصری مدارس کے لئے جو نصاب تعلیم ترتیب دیا گیا ہے بدقسمتی سے اس کے اندر علم حقیقی کا فقدان ہے۔ اس لئے اسکولوں اور  کالجوں سے فارغ ہونے والے اکثر و بیشتر طلباء کے پاس معلومات تو ہوتی ہے مگر علم نہیں ہوتا۔ اساتذہ کی ساری توجہ اپنے طلباء کی مادی ترقی پر مرکوز ہوتی ہے اس لئے وہ علم نہیں سکھایا جاتا کہ جس کے متعلق قرآن پاک میں فرمایا گیا ’’اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کر دے گا جو ایمان لائے، اور  جنھوں نے علم حاصل کیا۔‘‘ ویسے تو قرآن حکیم میں کئی مقامات پر ایمان کے ساتھ عمل کا ذکر ملتا ہے لیکن یہاں ایمان کو علم سے جوڑ دیا گیا۔ اس لئے کہ الہامی علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کرنا اور  اس کی ناراضگی سے بچنا نا ممکن ہے؟ فرمانِ خداوندی ہے ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘۔

علم و فضل اور  دولتِ دنیا کے درمیان کا فرق پایا جاتا ہے اسے قرآنی دعاؤں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرمایا ’’اور یہ دعا کیجئے کہ پروردگار!  میرا علم بڑھا‘‘، مگر مال میں برکت کی دعا سکھائی گئی ’’اے اللہ!  جو تو نے مجھے دیا اس میں برکت عطا فرما‘‘۔ چونکہ رزق تو مقدر کر دیا گیا اس لئے اس میں اضافہ نہیں کیا جائے گا مگر اس میں خیرو برکت ہو سکے گی یعنی انسان کم رزق سے بھی زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا جبکہ علم میں اضافہ کی دعا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کے معاملے میں کوئی تحدید نہیں ہے۔ انسان جتنا مانگے اور  اس کیلئے سعی کرے اسے اسی قدر علم سے نوازا جائے گا۔

انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ جو محدود ہے اس کے حصول کی خاطر ساری حدود و قیود کو پھلانگ جاتا ہے مگر جو لامحدود ہے اس کی جانب توجہ ہی نہیں کرتا۔ اہل ایمان کو چاہئے کہ اس حدیث کو ہمیشہ ہی اپنے پیش نظر رکھیں ’’اللہ تعالیٰ سے نفع بخش علم طلب کرو، غیر نفع بخش علم سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہر علم فائدہ مند نہیں ہوتا۔ علم نہ صرف بے فائدہ بلکہ نقصان دہ بھی ہوتا ہے اس لئے علم کا منافع بخش ہونا طالب علم کی فلاح و بہبود کیلئے ضروری ہے۔

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

٭٭٭

 

 

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 ورڈ فائل

 ای پب فائل

 کنڈل فائل